ملفوظات حکیم الامت جلد 14 - یونیکوڈ |
|
میں فوت ہو جائے اور متوفی کے صرف ایک نا بالغ بچہ ہو اور کسی کو اس نوٹوں کی خبر نہ ہو تو کیا کوئی ایسی قوت ہے جو نا بالغ کی وہ رقم ہزار روپیہ کی اس کو پہنچا سکے ـ کوئی ایسی قوت نہیں بجز دین کے ، اگر دینی قوت ہے تو ساتھی وہ رقم بچہ کے ولی کو حوالہ کر دے گا ـ ایسے وقت اخلاقی قوت بھی کام نہ دے گی ـ دیکھئیے مذہب اتنی تو ضرورت کی چیز اور پھر اس سے لوگ لاپروائی برت رہے ہیں ـ تقوی حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتویؒ : (345) فرمایا مولانا محمد یعقوب صاحبؒ ابتداء میں ڈیڑھ سو روپیہ تنخواہ کے ڈپٹی انسپکٹر مدارس تھے ـ جب ملازم ہوئے تو نوجوان تھے ایک انگریز نے کہا تھا کہ مولوی تو اچھا ہے مگر کم عمر ہے ورنہ ڈپٹی کلکٹری کی منظوری ان کے لئے ہوتی پھر اس نوکری کو بھی چھوڑ دیا تھا کیونکہ ایسوں کی تعظیم کرنا پڑتی تھی جن کی تعظیم جائز نہیں ـ عذر کے ایام میں بے انتظامی کے سبب با قاعدہ چھے مہینے کام نہیں ہوا ـ لیکن تنخواہ پھر بھی دی گئی مگر مولانا نے تنخواہ واپس کر دی گو لینا درست تھا کیونکہ تسلیم نفس تو پایا گیا چاہے کام لیا جائے یا نہیں مولانا متمول نہ تھے اور قرضدار بھی رہا کرتے تھے مگر سب ترک کر کے چالیس روپیہ کی مدرسہ دیوبند میں نوکری کر لی پھر کبھی عمر بھر ترقی کی درخواست بھی نہ کی عسرت اور تنگی سے گذر کیا مگر خوش تھے ـ رفاہ عام کے لئے چندہ :( 346) فرمایا ـ میں اپنی طالب علمی کے وقت یہ خیال کرتا تھا کہ اگر دس روپیہ کی نوکری مل جائے اور اناج گھر کا ہو گا بس کافی ہے اپنی لیاقت پر