ملفوظات حکیم الامت جلد 14 - یونیکوڈ |
|
پھر اس یکسوئی سے توجہ الی اللہ کی استعداد ہو جاتی ہے پھر اس استعداد کو مقصود میں صرف کرنا اور جب مقصود حاصل ہو جاوے تو پھر ان ہیئیات ( 1) وقیود کی ضرورت نہیں رہتی اور محض ذکر قلبی پر اکتفا کرنے سے دھوکہ ہو جاتا ہے - بعض وقت غفلت اور بھول ہو جانے پر بھی غافل اپنے کو ذاکر سمجھتا ہے - بخلاف ذکر لسانی کے کہ قلب اگر نہ بھی حاضر ہو تو ذکر لسانی پر اجر ملتا ہے - تصور شیخ بالذات مقصود نہیں : ( 4 ) فرمایا ( 2 ) تصور شیخ کوئی بالذات مطلوب نہیں ـ صرف توجہ الی اللہ کے وقت جو وساوس مجرد کل ہجوم ہوتا ہے وہ قطع وساوس کے لئے ہے ـ حکایت مولوی منور علی صاحب در بھنگویؒ : ( 5 ) فرمایا مولوی منور علی صاحب در بھنگوی آ ئے تو انہوں نے حضرت گنگوہی سے اپنی باطنی شکایت فرمائی اور وہ حضرت حاجی صاحب 1 ـ اس خاکسار راقم الحروف نے جب حضرت والا کی خدمت میں تحریر کیا کہ تصور شیخ سے طبیعت میں ایک فہم کا انتشار پیدا ہوتا ہے تو حضرت والا نے اس پر تحریر فرمایا دست بوسی چوں رسید از فضل شاہ پائے بوسی اندر آں دم شد گناہ - 2 ـ ( تصور شیخ کے متعلق ذکر کرتے ہوئے ) بتایا کہ اصل مقصود تو توجہ الی اللہ ہے اور یہ توجہ الی اللہ یکسوئی کے بغیر کامل ہوتی نہیں ـ یوں اگر کسی کو اللہ تعالی کا تصور دائمی طور پر خود بخود ( یعنی شیخ وغیرہ کے بغیر ہی ) حاصل ہو جائے تو کافی ہے مگر چونکہ اللہ تعالی غائب ہیں - اشیاء حاضرہ ان کے تصور سے تابع ہیں اس لئے مشاہدات میں سے شیخ ہی کو یکسوئی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور اللہ تعالی کی ذات میں تفکر کرنا ممنوع ہے 12 منہ