عزیز و اقارب کے حقوق |
ہم نوٹ : |
|
جب کوئی خوش قامت سامنے ہو اس وقت اس کو نہ دیکھے،تو سمجھ لو اس کو استقامت حاصل ہے۔ جو شخص احکام تو بجا لاتا ہے لیکن خدا کی نافرمانی سے نہیں بچتا، یہ شخص استقامت کی نعمت سے محروم ہے۔ اس کو فکر کرنی چاہیے۔ مایوس تو نہ ہونا چاہیے لیکن فکر کا حق ادا کرنا چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم فکر کرتے ہیں مگر ہم سے نہیں ہوتا۔ صاحب کیا کریں نظر تو میری بچتی ہی نہیں ہے۔ میں تو حسینوں کو دیکھ کر پاگل ہوجاتا ہوں۔ حکیمُ الامّت فرماتے ہیں کہ اگر اس لڑکی کا باپ ڈنڈا لیے کھڑا ہو پھر اس وقت کہاں سے طاقت آجاتی ہے؟ معلوم ہوا کہ تم ڈنڈے کے آدمی ہو، تمہارے اندر شرافت نہیں ہے۔ اگر کوئی جوتا لیے کھڑا ہو اور اُسی وقت کھوپڑی پر تین چار لگادے تو فوراً نگاہ نیچی ہوجائے گی یا نہیں؟ اس لیے ایسے لوگوں کو اپنی شرافت کے بارے میں نظر ثانی کرنی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شریف بندے ہیں یا نالائق و بے غیرت بندے ہیں۔ جہاں دیکھا کہ ڈنڈے کا خطرہ ہے وہاں نگاہ نیچی کرلی اور ڈنڈے کا خطرہ نہ ہوا تو بے دھڑک دیکھ رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اس شخص کے قلب میں انتہائی قلیل ہے۔ محبت کے دو حق اس لیے کہ حق تعالیٰ کی محبت کے دو حق ہیں: ایک حق تویہ ہے کہ جن کاموں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان فرامینِ الٰہیہ کو بجا لائے جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، قربانی وغیرہ کے احکام کے مطابق عمل کرے، اور دوسرا حق یہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ان باتوں سے رُک جائے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی باتوں سے نہیں بچتا یہ شخص نفس کا غلام ہے اور انتہائی غیر شریفانہ ذوق رکھتا ہے۔ گناہ کرتے کرتے اس کی شرافت و حیا میں آگ لگ چکی ہے، جیسے کسی درخت کے پاس آگ لگادی جائے تو کتنا ہی کھاد پانی ڈالو، مگر اس کی پتیاں جھلسی ہوئی ہوتی ہیں۔ پھر بہت دن تک اس کو آگ سے دور رکھا جائے اور بہت دن تک اس درخت میں کھاد اور پانی دیا جائے تب جاکر وہ پتیاں ہری بھری ہوتی ہیں۔ جو شخص گناہ پر جری ہوتا ہے وہ گویا اپنے ایمان کے ہرے بھرے درخت میں آگ لگاتا ہے۔ جولوگ اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرتے، جھوٹ سے نہیں بچتے، دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، غیبت کرتے ہیں،