ربیع الثانی 1430, Volume 25, No. 4
الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے تبلیغ اسلام کے مفاسد
محترم ابورفیدہ راشد
اللہ تبارک
وتعالیٰ نے جو شریعت خاتم النبیین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو عنایت فرمائی ہے ، اس میں تا قیامت تمام انسانی طبقات کے لیے ہر دنیاوی شعبے میں بلا تفریق کون ومکان ، زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق مکمل رہبری ورہنمائی موجود ہے اور امت کا متاعِ بے عیب شریعتِ محمدیہ کے اُن ترجمانوں کا مرہون منت ہے ، جنہوں نے ہمیشہ اپنے اسلاف کے طور طریقوں کو زبانی بھی پہنچایا اور عملاً بھی اور شریعت محمدیہ میں کسی بھی نئی بات کو جو صاحبِ شریعت اور خیر القرون کے مزاج کے خلاف ہو، یکسر مسترد کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کی ، مگر آج جہاں ہر طرف فتنوں کا دور دورہ ہے ، ان فتنوں میں ایک بہت ہی خطرناک فتنہ جوکچھ عرصے سے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے ، وہ انہیں سلفِ صالحین پر بے اعتمادی اور جدید تحقیق کا فتنہ ہے ، نام نہاد مذہبی اسکالروں، پروفیسرز اور ڈاکٹرز حضرات بزعمِ خویش محققین علی الاطلاق بن کر نت نئی تحقیقات منظر عام پر لا رہے ہیں ، ان ناعاقبت اندیشوں اور جدیدیت کے علمبرداروں کی ان نئی تحقیقات سے نہ تو قرآن وحدیث محفوظ رہے، بلکہ امت کے چودہ سو سالہ اجماعی مسائل بھی چیلنج کروئیے گئے۔
”عالمی یہودی تنظیمیں“ کے مصنف کے بقول، یہ ( جدید تحقیقات) یہود کے ان مقاصد واہداف کی تکمیل کے لیے ہے ، جن کے ذریعے انہوں نے اسلام اور مسلمان معاشرے میں انتہائی خطرناک اور زہریلے فتنوں کو برپا کرنا ہے ، وہ اسی کتاب میں انہیں لوگوں کے بارے میں رقم طراز ہیں: (1)”چوتھا اور سب سے خطرناک طبقہ ان نام نہاد بزعمِ خود محققین، پروفیسرز، اسکالرز اور ڈاکٹرز حضرات کا ہے۔“، مزید تحریر فرماتے ہیں، ” ان کی دعوت میں اکابر پر بے اعتمادی اور خود نمائی، خود بینی، اپنی رائے پر اصرار اور اپنی جدید تحقیق کی تمام سابق تحقیقات پر ترجیح، بنیادی اور لازمی عنصر کے طور پر شامل ہوتی ہے ، جوان کی سیاہ بختی اور شقاوتِ قلبی کی علامت اور آزاد خیالی وگمراہی کا ذریعہ ہوتی ہے ، جب کہ نبوی طرز پر کام کرنے والے داعیانِ دین اپنی ذات کی نفی کرکے مخلوق کو خود سے جوڑنے کے بجائے الله، اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور سلفِ صالحین سے جوڑتے ہیں ، ہمیشہ سابقہ علمائے راسخین کے علم وتقوی پر غیر متزلزل اعتماد رکھتے اور اپنی رائے کو متہم سمجھتے ہیں، اکابر کی غلطیاں نکال کراپنے قصیدے پڑھنے کے بجائے ان کے دامن سے وابستہ رہنے میں اپنی اور اپنے متعلقین ومریدین کی عافیت سمجھتے ہیں، کیوں کہ ان کے خیال میں اکابر اور سلفِ صالحین کے ذریعے ہی قیامت تک آنے والے مسلمان حضور صلی الله علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہوتے ہیں ، یہ مزاج اور یہ رویہ ان کی سعادت مندی کا ذریعہ اور گمراہی سے حفاظت کی ضمانت بن جاتا ہے، جب کہ متجددین کی آزاد خیالی اور اکابرینِ امت سے ذہنی دوری ان کو عُجب وتکبر میں مبتلا کرتی اور اباحیت ولادینیت کی وادیوں میں بھٹکاتی پھرتی ہے۔“
معرکہ حق وباطل اور علمائے حق کا کردار
حق وباطل کامعرکہ روز اول سے جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا، لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ فتح ہمیشہ حق والوں کو ملی ہے ، فتنے ہر زمانے میں رونما ہوئے ہیں علمائے حق اور مصلحین امت نے فتنوں کا نہ صرف مقابلہ کیا، بلکہ ان کی حقیقت کو طشت ازبام کرنے کے لیے ہر طرف قربانیاں دیں اور عوام کے دین ، ایمان، عقائد، نظریات اور اعمال کی حفاظت کے لیے دن رات صرف کیے، لیکن اس سارے عمل میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے فتنوں کے مقابلے میں اسلامی احکامات واصول کو پس پشت ڈال دیا ہو یا برائی کو مٹانے کے لیے برائی کا راستہ اختیار کیا ہو ، کیوں کہ وہ اس بات کو یقینی طور پر جانتے تھے کہ قوموں کی ہدایت اور ان کو گمراہی سے بچانے کے لیے وہی طریقے کار آمد ہیں ، جو الله کے برگزیدہ بندے انبیاء علیہم الصلاة والسلام اختیار فرماتے رہے ہیں اور امت محمدیہ علی صاحبہا الف الف تحیة وسلام پر بھی روزِ اول سے طرح طرح کی آزمائشیں آتی ر ہی ہیں ، اہل ایمان کو متعدد قسم کے فتنوں سے پالا پڑتا رہا، لیکن ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی، علمائے امت نے مسلمانوں کے عقائد ونظریات کی حفاظت اور ان کی اصلاح کا یہ بے نظیر اصول ”لن یُصلح آخر ھذہ الامة الاما اصلح اولھا“ کبھی فراموش نہیں کیا او راپنی محنتوں اور کوششوں کو جاری رکھا۔ نتیجةً وہ اس طائفہ منصورہ کا مصداق قرار پائے، جس کی خبر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے آج سے چودہ صدی قبل دی تھی۔
علمائے دیوبند کا فتنوں کے مقابلے میں مثالی کردار
اکابر علمائے دیوبند کو الله تبارک وتعالیٰ نے امت کا جو درد عطا فرمایا اس میں وہ اپنی نظیر آپ ہیں، فتنوں کی سرکوبی میں الله نے ان کو ایک خاص ملکہ عطا فرمایا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کفار ، یہود، ہنود، گمراہ فرقے، مبتدعین، جدت پسند اور مغربی افکار سے متاثر مفکرین غرض تمام فتنوں کا تعاقب فرمایا اور رہتی دنیا کے لیے اس حوالے سے ایک مثالی کردار ادا کیا ، موجودہ دور کے تمام فتنوں کے حوالے سے ان حضرات کی تحریریں ایک بہترین رہنما کا کام دیتی ہیں ، اور احساس ہوتا ہے کہ اگر فتنوں کی بارش ہے تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل الله اور رجالِ دین کی بھی کمی نہیں۔
حضرت بنوری اور مفتی محمد شفیع صاحب رحمہما الله نے انہی علمی وعملی فتنوں کے تعاقب کے لیے ” مجلس دعوت واصلاح“ کے نام سے ایک مجلس قائم کی تھی۔ اس موقع پر علماء کے اجتماع میں حضرت مفتی محمد شفیع رحمة الله علیہ کی افتتاحی تقریر سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:” دوسری طرف مسلمانوں کی صفوں میں کچھ ایسے عناصر پیدا کیے گئے ہیں ، جو اصلی اسلام کو مسخ کرکے اپنی اغراض واہواء کے مطابق اسلام کا ” جدید ایڈیشن“ تیار کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اسلامی ریسرچ اور اسلامی ثقافت کے نام پر وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جو مستشرقین کے اسلام دشمن حلقے اب تک نہ کرسکے تھے، شعائر اسلام کو مجروح او راسلام کے اجماع اور متفق علیہ اصول واحکام کو مشکوک بنانے کی سعی پیہم قوم کے لاکھوں روپے کے صرفہ سے جاری ہے۔
اس صورت حال کے نتیجہ میں بے حیائی ، عریانی، رقص وسرود، بے حجابی، اغوا، بدکاری، شراب نوشی، قمار بازی، معاشرتی افراتفری اور خاندانی نظم کی ابتری کا ایک سیلاب ہے ، جو مسلمانوں میں امڈتا چلا آرہا ہے، سود، دھوکا، فریب، جعلسازی اور دوسرے اخلاقی معائب معاشرے کی ایمانی اور اخلاقی حس کو مضمحل سے مضمحل ترکیے جارہے ہیں اور عام نظم ونسق کا تعطل اس حدتک شدید ہو چکا ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے حصولِ انصاف تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
یہ سیلاب مغربی تہذیب کے گہوارے سے شروع ہوا اور اب دین دار مسلمانوں تک کے گھروں میں گھس چکا ہے اور علماء واتقیا کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے اور یہ بات یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ اگر اس سیلاب کو روکنے کی جدوجہد میں اہلِ حق نے اپنے تمام وسائل داؤ پر نہ لگا دیے، تو چند سالوں کے بعد ہلاکت آفریں طوفان کے مقابلے کی سکت ہی باقی نہ رہے گی“۔(بصائر وعبر، ص:103، مکتبہ بنوریہ کراچی)
”فتنے او رامت محمدیہ“ کے عنوان سے حضرت بنوری رحمة الله علیہ نے تحریر فرمایا : ”سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مغربیت کے ان زہریلے اثرات سے حرمین شریفین بھی محفوظ نہیں رہے، لڑکیوں کی تعلیم جبری ہو چکی ہے ، تھیڑ کی بنیاد پڑ چکی ہے ، ٹیلی ویژن جدہ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک آگیا ہے او راس دردناک صورت میں کہ مدینہ منورہ میں ٹیلی ویژن کا افتتاح کسی امریکی فلم سے کیا گیا ہے ، انالله، مسجد نبوی کے بالکل سامنے ٹیلی ویژن لگا ہوا ہے، نماز عشاء کے بعد جب لوگ نماز سے فارغ ہو کر آتے اور صلاة وسلام کا تحفہ بارگاہ اقدس میں پیش کرکے نکلتے ہیں ، تو دلوں میں جو رقت ونور پیدا ہوتا ہے ٹیلی ویژن کی ظلمتیں اس کو یکسر ختم کر دیتی ہیں، اس سے بھی بڑھ کر درد ناک واقعہ یہ ہے کہ ” غزوہٴ بدر کبریٰ کا ڈراما“ خاص مکہ مکرمہ میں حضرت عبدالله بن الزبیر رضی الله عنہ کے نام سے موسوم مدرسہ میں طلبہ کے ذریعہ کھیلا گیا ہے ۔ 17 رمضان المبارک دوشنبہ کی رات اس کا اہتمام کیا گیا ہے ، مکہ مکرمہ کے بہت سے شرفا ومعززین نے یہ ڈراما دیکھا ہے ۔ طلبہ نے حضرت سعد بن معاذ، حضرت مقدادبن الاسود، حضرت عباس بن عبدالمطلب، حضرت حکیم بن حزام رضی الله عنہم ،ابو جہل اور ولید بن المغیرہ کے کردار ادا کیے ہیں، اس ڈرامے میں بار بار حضرت مقداد اور حضرت بلال کو پردے کے پیچھے بھیجا جاتا ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کرکے آئیں کہ ان کی کیا رائے ہے؟
اسلام اور تاریخ اسلام کے خلاف امریکا اور یورپ کے شیاطین جو کام خود نہ کرسکے تھے وہ مسلمانوں سے کروادیا ”فیاغربة الاسلام ویاغربة المسلمین“! حرمین شریفین کے وہ علماء اور نجدوریاض کے وہ مشائخ جن پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مدار ہے اور انہی کے فتاوی کی پورے ملک میں وقعت ہے ، بلکہ دینی ذمہ داری اور شرعی احتساب کا دار ومدار انہی پر ہے ، وہ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ ” حکومت کے سیاسی مصالح اس تمدن وتہذیب کے اپنانے کے مقتضی ہیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے یا کچھ نہیں کرسکتے۔“ (بصائر وعبر، ص:94، مکتبہ بنوریہ، کراچی)
لمثل ھذا یذوب القلب عن کبد
ان کان فی القلب اسلام وایمان
ام الفتن تصویر سازی اور اس کی اباحت کی ابتداء
تصوریر سازی بھی ایک ایسا فتنہ ہے جس نے شرک ، بدعات ، فحاشی، بے حیائی ، بے غیرتی، بے دینی اور نجانے کتنے فتنوں کو جنم دیا ہے۔ یہ ایک ایسا فتنہ ہے جو متعدی ہے ، اس کی جتنی شناعت وقباحت بیان کی جائے، کم ہے ، اسی حوالے سے حضرت بنوری رحمة الله علیہ کا ارشاد ہے کہ” حدیث نبوی میں تصویر سازی پر جو وعید آئی ہے وہ ہر جان دار کی تصویر میں جاری ہے اور تمام امت جان دار اشیاء کی تصویر کی حرمت پر متفق ہے ، لیکن خدا غارت کرے اس مغربی تجدد کو کہ اس نے ایک متفقہ حرام کو حلال ثابت کرنا شروع کر دیا ، اس فتنہٴ اباحیت کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا مرکز مصر اور قاہرہ تھا، چناں چہ آج سے نصف صدی پہلے قاہرہ کے مشہور شیخ محمدبخیت مطیعی نے جو شیخ الازہر تھے ”اباحة الصور الفوتو غرافیہ“ کے نام سے ایک رسالہ تالیف کیا تھا، جس میں انہوں نے کیمرے کے فوٹو کے جواز کا فتوی دیا تھا۔
حق کی پاس داری
اس وقت عام علماء مصر نے ان کے فتوی کی مخالفت کی ، حتی کہ ان کے ایک شاگردِ رشید علامہ شیخ مصطفی حمامی نے اپنی کتاب ”النھضة الاصلاحیة للاسرة الاسلامیة“ میں اس پر شدید تنقیدکی اور اس کتاب میں( ص:260 سے ص:268 اور ص:310 سے ص:328 تک) اس پر بڑا بلیغ رد لکھا۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں : ” تمام امت کے گناہوں کا بارشیخ کی گردن پر ہو گا کہ انہوں نے تمام امت کے لیے شر اور گناہ کا دروازہ کھول دیا۔“ اسی مضمون میں چند سطور کے بعد مزید تحریر فرماتے ہیں ” اورکچھ لوگ تو اس کے جواز کے لیے حیلے بہانے تراشنے لگے ہیں، لیکن کون نہیں جانتا کہ کسی معصیت کے عام ہونے یا عوام میں رائج ہونے سے وہ معصیت ختم نہیں ہو جاتی اور الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے کسی چیز کو جب حرام قرار دے دیا تو اس کے بعد سو بہانے کیے جائیں مگر اس کے جواز کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔“ (بصائر وعبر، ص:32/1، مکتبہ بنوریہ کراچی)
جدید الیکٹرانک میڈیا اور ملی ودینی ضرورت
حال ہی میں تصویر کی جدید شکلوں کو جائز قرار دیتے ہوئے بعض علماء کرام نے جدیدالیکٹرانک میڈیا کے استعمال کو ” ملی اور دینی ضرورت“ کے سبب ناگزیر قرار دیا ہے ، کبھی توٹی وی اور اسکرین کو جائز ثابت کرنے کے لیے یہ فرمایا کہ ” عین حالت جنگ میں الضرورات تبیح المحظورات“ کے تحت جواز وعدم جواز سے چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے “ اور کبھی تصویر کی حرمت کے اجماعی مؤقف اور ایک متفقہ حرام کے بار ے میں چند جزئی مستثنیات اور چند ایک اقوال کو لے کر مسئلے میں یوں اختلاف بیان کیا گیا کہ محسوس ہو، فقہائے متقدمین کے درمیان اس حوالے سے شدید اور واضح اختلاف تھا، جس کی موجودگی میں شدت کا اختیار کرنا اور عدم جواز کے قول پر حرمت قطعیہ کا فیصلہ کرنا گویا ایک غلط اقدام کا مصداق قرار پاتا ہے۔
اکابر کے سائے میں
اس نازک ترین موڑ پہ مناسب یہی ہو گا کہ اکابر ہی کے دامن کو تھام کر، انہی کے اقوال وارشادات سے رہ نمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں ، بے شک اس میں عافیت ہی عافیت ہے ، ہمیں یہ حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ اکابر علماء وسلف صالحین پر بے اعتمادی کتنا خطرناک فتنہ ہے؟ او راس میں کن لوگوں کے مقاصد کی تکمیل ہو رہی ہے؟
چناں چہ تصویر کی حرمت کے حوالے سے حضرت بنوری رحمة الله علیہ ایک طویل بحث میں ارشاد فرماتے ہیں :” یوں تو دنیا میں حق وباطل کو گڈمڈ کرنے کی رسم بہت قدیم زمانے سے چلی آتی ہے او رحقائق اکثر ملتبس رہتے ہیں، لیکن اب تو عقلوں پر ایسا پردہ پڑا ہے کہ کسی صحیح بات کا انکشاف ہی نہیں ہوتا، بلکہ باطل محض کوحق کے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے ، شعائر کفر کو اسلامی شان وشوکت کا ذریعہ بتایا جاتا ہے ، فسق وفواحش کو تقویٰ خیال کیا جاتا ہے،آج کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی توہین اور دین اسلام کی تذلیل ہوتی ہے، مگر بدفہمی کا یہ عالم ہے کہ انہی کو دین اسلام کے احترام کا ذریعہ بتایا جاتا ہے، جن چیزوں کو کل تک اعدائے اسلام رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بغض ونفرت کے اظہار کے لیے استعمال کرتے تھے آج انہی چیزوں کو اسلام کے نادان دوست اسلام سے عقیدت کا مظاہرہ کرنے کے لیے اپناتے ہیں ، ذہن وقلب کے مسخ ہو جانے کا قبیح منظر اس سے بڑھ کر او رکیا ہو سکتا ہے؟
روح سے خالی ڈھانچا
دراصل جب کسی قوم کے اندر سے دین کی حقیقی روح نکل جاتی ہے اور صرف نمائشی ڈراموں پر اس کا مدار رہ جاتا ہے ، تو گھٹیا قسم کے پست اور سطحی مظاہر اس کی فکر وعمل کا محور بن جاتے ہیں، لایعنی حرکات کو حقیقی دین سمجھا جاتا ہے ، فواحش ومنکرات کو دینی قدروں کا نام دیا جاتا ہے ، سنت کی جگہ من گھڑت بدعات سے تسکین حاصل کی جاتی ہے۔“
ذرا غور تو کریں
آج ہم جن معاملات میں اختلاف کا شکار ہیں، کیا ان مسائل میں تمام اکابر سلف کی رائے سے ہٹ کرکوئی نئی رائے اختیار کرکے کوئی تجدیدی کارنامہ سرانجام دینے کی ضرورت ہے؟ کیا کسی نے پہلے اپنے اجتہادات کے ذریعے ان مسائل میں ” ملی ودینی ضرورت“ کے عنوان سے کچھ تجربات کیے ہیں؟ جن لوگوں نے ماضی میں ایسا کیا ، ان کے عبرت ناک انجام سے واقفیت کے باوجود ہم نصیحت نہیں لے رہے، کیا ہم ان لوگوں کے انجام سے واقف نہیں؟
فاعتبروایا اولی الابصار!
آج سے کچھ عرصہ قبل اہل مصر جو مغربی جدت پسندی کا گڑھ ہے، جنہوں نے مختلف معاملات میں توسع سے کام لیتے ہوئے ” دینی وملی ضرورت“ کے تحت بہت سارے تجربات کیے ، کیا وہ اپنے تجربات میں کام یاب ہوگئے؟ کیاان کے میڈیا پر آنے سے مسلمانوں کے عقائد ونظریات کی حفاظت ہوئی ، یا اس کے برعکس نتائج برآمد ہوئے؟ جواب یقینا یہی ہے کہ نتائج اس کے برعکس رہے۔
امت مرحومہ پر کیے گئے ان تجربوں کے پیش نظر یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج دینی اور ملی ضرورت کے تحت تبلیغ اسلام اور حفاظت دین کے عنوان سے الیکٹرانک میڈیا اور چینلز کی اجازت دی گئی ، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے دینی مدارس وجامعات کے طلبہ کے ذریعہ سے قسم ہا قسم کے ڈرامے، اور فلمیں منظر عام پر لائی جائیں گی ، بجائے مسلمانوں کے عقائد ونظریات کی حفاظت کے اور ان کی اصلاح وتعمیرِ کردار کے ، آئے روز ان تجربات کی بدولت مسلمان نہ صرف یہ کہ علمائے دین سے بدظن ہورہے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ دین اور اسلامی اقدار وتہذیب سے بھی دور ہوتے چلے جارہے ہیں اور جو دین دار طبقہ تھا وہ بھی اس سے متاثر ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کا درس دینے والا کلین شیو ہونے کے ساتھ پینٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس نظر آجاتا ہے، خدا نخواستہ اگر یہی مسئلہ پاکستان میں بھی شروع ہوا تو چند ہی برسوں میں سروں سے پگڑیاں اور ٹوپیاں اترنا شروع ہو جائیں گی، داڑھی کے ساتھ وہی معاملہ ہو گا جو مصریوں نے کیا، علماء اور دین دار طبقے کا دینی تشخص مٹ جائے گا، الله تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ، آمین۔
حضرت بنوری رحمة الله علیہ کی دُور رس نگاہیں
عربوں کے انہی تجربات کے حوالے سے حضرت بنوری رحمة الله علیہ کی تحریر کو سامنے رکھ کر ہم رہ نمائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، حضرت فرماتے ہیں :” کسی قوم کی دینی حس ماؤف ہو جانے کا جو نقشہ اوپر پیش کیا گیا ، اس کا سب سے پہلا مظاہرہ عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں ہمیں ملتا ہے ، جب وہ اپنی بدبختی سے اپنے نبی کی تعلیمات کو یکسر فراموش کر بیٹھے ، تو انہیں دین کے مردہ ڈھانچے کو محفوظ رکھنے کے لیے نمائشی تصویروں کا سہارا لینا پڑا، چناں چہ عیسائیوں میں حضرت عیسی ، حضرت مریم اور دیگر اکابر کی فرضی تصویریں بنائی گئیں او ران کی پرستش کو جزودین وایمان بنا لیا گیا، بعد ازاں اس محرف مسیحیت کی ترویج واشاعت کے لیے مصنوعی ڈرامے تیار کیے گئے اوران کی فلموں کی نمائش کی گئی ، مصر کے چند اشخاص نے سوچا کہ ہم عیسائیوں کی نقالی میں کیوں پیچھے رہیں ؟انہوں نے اس کے مقابلے میں جامع ازہر کی مجلس اعلیٰ کے بعض ارکان کی سرپرستی میں ” فجر اسلام“ کے نام سے ایک فلم تیار کی اور عرب اسلامی ممالک میں اس کا خوب چرچا ہوا بیس بائیس ممالک میں اس کی نمائش ہو چکی ہے اور اب وہ سر زمین پاک کو ناپاک کرنے کے لیے کراچی پہنچ گئی ہے ، ریڈیو، ٹیلی ویژن او راخبارات کے ذریعہ اس کی ایسی تشہیر کی گئی گویا مسلمانوں کو تجدید ایمان کے اہم ذریعہ کا انکشاف ہوا ہے ، اخبارات کے مطابق یہاں کے بعض نام نہاد علمائے دین نے بھی اس کی شرعی منظوری دے دی ہے، اور اب فرزندان اسلام پردے (اسکرین) پر اسلام کا تماشا دیکھنے کے لیے جو ق درجوق تشریف لا رہے ہیں۔ انا لله وانا الیہ راجعون ․
بسے نادیدنی رادیدہ ام من
مرا اے کاشکے مادر نزادے
کیا واقعی آس کو یاس سے بدلا جاسکتا ہے؟
چند استفسارات:
آج پھر جس شرم ناک تاریخ کو ” عقائد ونظریات کے تحفظ“ اور ”ملی ودینی ضرورت“ کا نام دے کر دہرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، آیا اس کا اختیار کرنا شریعت کی نگاہ میں جائز بھی ہے یا نہیں؟ اسلام میں کتنی لچک اور ” آدھا تیتر آدھا بٹیر“ کی کس حد تک گنجائش ہے ؟ اگر دشمنان اسلام مختلف محاذوں پر آئے روز نئے نئے بھیس بدلیں تو کیا ہم بھی ان کے مقابلے کے لیے اسلامی احکامات کو پس پشت ڈال کر، بلا تفریقِ جائز وناجائز میدان میں کود پڑیں؟ کیا واقعی تصویر کے ذریعے دشمنان اسلام کا راستہ روکا جاسکتا ہے جب کہ تصویر کو جائز قرار دینا خود اسلام سے دشمنی کے مترادف ہے؟
مسلمان قوم آج جن اخلاقی پستیوں سے دو چار ہے ، اس کی اصلاح وتطہیر اور تصفیہ عقائد کے لیے، علماء کے سال ہا سال پر مشتمل وعظ ونصیحت خطبات و دروس اور دیگر فلاحی کوششوں سے ، کتنی تبدیلیاں رونما ہوئیں؟ اگر اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ وہ محنتیں اور کوششیں جو منہاج نبوت سے ہٹ کر کی گئیں،ان محنتوں اور کوششوں نے کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑا جب کہ نہج نبوت کے مطابق کی گئی کوششیں کارگر ثابت ہوئیں اور ہور ہی ہیں او ران کے ذریعے سے بڑی بڑی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔
اہل مصر کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا کو دینی وملی ضرورت کے نام پر استعمال کرنے سے عوام الناس کے عقائد واعمال کی حفاظت ہو جائے گی؟ اپنی ترجیحات تبدیل کرکے وہ اسلام پسند بن جائیں گے؟ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی تیاری کی فکر لاحق ہو جائے گی ؟ کیا علماء کا ٹی وی پر آجانا ان فتنوں کے لیے سد سکندری کا کام دے گا؟ کہیں اس کے نتیجے میں وہ بے وقعت ہو کر ان فتنوں کے سیلاب میں بہ تو نہیں جائیں گے؟
ضرورت وحاجت کا تعین
یہاں یہ دعویٰ بھی بڑے زور وشور سے کیا جارہا ہے کہ اب میڈیا پر آنا ضرورت وحاجت ہی نہیں بلکہ اضطراری کیفیت میں داخل ہو چکا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا شریعت اسلامی نے ضرورت وحاجت اور اضطرار کی کچھ حدود متعین کی ہیں یا نہیں ؟ اگر اس کی حدود متعین ہیں اور فقہائے کرام نے اس کے اصول وضوابط اور مواقع ضرورت واضطرار کو ان کی تمام شروط کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، تو پھرکیوں ہر ایک، ضرورت واضطرار کے قانون کا سہارا لے کر مجتہدبن بیٹھا ہے کہ جس چیز کو چاہا ضرورت کے دائرہ میں داخل کرکے جائز قرار دے دیا۔
نئے مجتہدین سے ضروری باتیں
حضرت مولانامفتی عاشق الہٰی بلند شہری ایسے ہی مجتہدین سے مخاطب ہو کر” نئے مجتہدین سے ضروری باتیں“ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:” اب جونئے مفتی آتے ہیں انہوں نے فرما دیا کہ ٹیلی ویژن آج کل ضروریات انسان میں داخل ہو چکا ہے ، گویا کہ اگر اس میں کوئی پہلو عدم جواز کا تھا بھی ! تو ”الضرورات تبیح المحظورات“ کے پیش نظر وہ بھی کالمعدوم ہو گیا، کیا یہ بھی کوئی شرعی دلیل ہے کہ انسان معصیت کا اس حد تک خوگربن جائے کہ اسے چھوڑے تو اضطراری کیفیت ہوجائے؟ اور پھر اس معصیت کو حلال کر لے ، ٹی وی کو کسی نے آئینہ بنا دیا اور کسی نے ضرورت میں داخل کر دیا “ حضرت رحمة الله علیہ نے ”الضررلایزال“ اور ”لاضررو لا ضرار“ و”الضرورات تبیح المحظورات“ سے استدلال کے حوالے سے بھی بحث فرمائی ہے کہ کون سا قاعدہ مقید ہے ؟ اور اس سے استدلال کی کیا حیثیت ہے ؟ مزید تفصیل کے لیے حضرت کی کتاب ” تبلیغی واصلاحی مضامین۔“ (ج4 ص:148 سے158 تک) کا مطالعہ فرما لیا جائے، ان شاء الله مزید وضاحت کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے پیدا کیے گئے شکوک وشبہات ختم ہوجائیں گے۔
ضرورت وحاجت کا اعتبار کب ہو گا؟
اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ضرورت وحاجت کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کو ضرورت کا نام دے کر اختیار کیا جارہا ہو اس کا کوئی اور جائز متبادل موجود نہ ہو اور اس کے اختیار کرنے سے اساسیات ومبادیاتِ دین کی مخالفت نہ ہوتی ہو ، اسی طرح یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ جس چیز کو ضرورت کے نام پر جائز کہا جارہا ہے اس سے کہیں بڑے مفاسد تو جنم نہیں لے رہے ؟ یا کسی یقینی اور واقعی ضرر کا اندیشہ تو نہیں ؟
”الضرر لا یزال بالضرر“ کے پیش نظر یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ جس چیز کومجوزین حضرات کے اجتہاد نے جائز قرار دیا ہے ، اس میں ضرر کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں ،جن کا اعتراف دبے چھپے لفظو ں میں انہوں نے خود بھی کیا ہے ، تو پھر ضرر کے ذریعے ضرر کو دفعہ کرنا کہاں کی دانش مندی ہے ؟ جہاں مفاسد اور مصالح کا ٹکراؤ ہو تو مفاسد کا دور کرنا ضروری قرار پاتا ہے اور اسی کو مقدم رکھا جاتا ہے ” اذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدمت دفع المفسدة غالبا“․
ایک نظر اس طرف بھی!
ٹی وی کے جواز وعدم جواز کی اس پرانی بحث کو جب نئے عنوانات کے ذریعہ سامنے لایا گیا تو وہاں یہ اعتراف بھی کیا گیا کہ ایک طرف مسلمانوں کو بے حیائی ، فحاشی، عریانی اور بے دینی جیسے عظیم مفاسد سے بچانے کا پہلو ہے تو دوسری طرف ان کے عقائد ونظریات کی حفاظت کی مصلحت ہے ، تو از راہ کرم! خود ہی فرمائیے کہ اگر ہم نے اکابر کی اتباعمیں ان قواعد کے پیش نظر ٹی وی چینلز اور الیکٹرانک میڈیا کو ناجائز کہا تو کون سا قصور کیا؟ اور کس جرم کے مرتکب ہوئے؟
جب ایسا ہے… تو پھر…؟
اس بات کے تو سب قائل ہیں کہ ” کسی بھی نیک مقصد کے حصول کے لیے ناجائز وسائل وذرائع کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں “ اچھے اور نیک مقصد کے لیے ذریعہ بھی جائز ہی ہونا چاہیے ، کیوں کہ مسلمان جائز حدود کے اندر رہ کر کام کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے ، جو بات اس کے بس سے باہر ہو اور اس میں اس کو جائز طریقے سے انجام دینے کی طاقت نہیں، تو وہ اس کا مکلف نہیں رہتا ﴿ لایکلف الله نفسا الا وسعھا﴾ لہٰذا اگر ہم جائز حدو دمیں رہ کر تبلیغ دین وحفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ، توقطع نظر اس بات سے کہ ہم اپنے اہداف میں کام یاب ہوتے ہیں یا نہیں یقینا عندالله ماجور ہوں گے او راپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آقرار پائیں گے، لیکن اس کے برعکس کوئی حدود شکنی کرتے ہوئے ” اسلام کی تبلیغ اور حفاظت“ کے خوش نما عنوان سے جتنی بھی کوشش کر لے مردود سمجھی جائے گی۔
ہم کس چیز کے مکلف ہیں؟
اس مضمون کو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے حضرت بنوری کے حوالے سے ”نقوش رفتگان“ میں اسلامی مشاورتی کونسل کے اجلاس کے دوران پیش آنے والے ایک واقعے کے ذیل میں ذکر فرمایا:”کونسل کی نشستوں میں ایجنڈے سے باہر کی باتیں بھی بعض اوقات چھڑ جاتی ہیں ، اسی سلسلہ میں دراصل ہوا یہ تھا کہ بعض حضرات نے مولانا (یوسف بنوری ) سے فرمائش کی تھی کہ وہ ٹیلی ویژن پر خطاب فرمائیں ۔ مولانا نے ریڈیو پر خطاب کرنے کی تو ہامی بھر لی، مگر ٹیلی ویژن پر خطاب کرنے سے معذرت فرما دی تھی کہ یہ میرے مزاج کے خلاف ہے۔ اسی دوران غیر رسمی طور پر یہ گفتگو بھی سامنے آئی تھی کہ فلموں کو مخرب اخلاق عناصر سے پاک کرکے تبلیغی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
اس بارے میں مولانا نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا خلاصہ یہ تھا : ”اس سلسلہ میں ایک اصولی بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ہم لوگ الله تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بنا کر چھوڑیں ،ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع ووسائل ہمارے بس میں ہیں ان کو اختیا رکرکے اپنی پوری کوشش صرف کر دیں ، اسلام نے ہمیں جہاں تبلیغ کا حکم دیا ہے وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں ، ہم ان طریقوں اور آداب کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں ، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کام یاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے ۔
لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کام یابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور آداب تبلیغ کو پس پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوابنانے کی کوشش کریں۔ اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آداب تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو بھی دین کا پابند بنا دیں گے تو ہماری تبلیغ کام یاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوابنالیں تو اس کام یابی کی الله کے یہاں کوئی قیمت نہیں ، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کرکے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہو گی ، فلم اپنے مزاج کے لحاظ سے بذات خود اسلام کے احکام کے خلاف ہے ، لہٰذا ہم اس کے ذریعے تبلیغ دین کے مکلف نہیں ہیں ، اگر کوئی شخص جائز اور باوقار طریقوں سے ہماری دعوت قبول کرتا ہے تو ہمارے دیدہ ودل اس کے لیے فرشِ راہ ہیں، لیکن جو شخص فلم دیکھے بغیر دین کی بات سننے کے لیے تیار نہ ہو ، اسے فلم کے ذریعے دعوت دینے سے ہم معذور ہیں اگر ہم یہ موقف اختیار نہ کریں تو آج ہم لوگوں کے مزاج کی رعایت سے فلم کو تبلیغ کے لیے استعمال کریں گے ، کل بے حجاب خواتین کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور رقص وسرود کی محفلوں سے لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی کوشش کی جائے گی اس طرح ہم تبلیغ کے نام پر خود دین کے ایک ایک حکم کو پامال کرنے کے مرتکب ہوں گے ۔“ (نقوش رفتگان،ص :105,104)
حضرت بنوری رحمة الله کے ان الفاظ کو نقل کرنے کے بعد حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں : ” یہ کونسل میں موجود مولانا کی آخری تقریر تھی، اور غور سے دیکھا جائے تو یہ تمام دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لیے مولانا کی آخری وصیت تھی ، جو لوح دل پر نقش کرنے کے لائق ہے۔“
حضرت بنوری کے ارشاد اور پھر آخر میں ان کے بارے میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زیدمجدہ کے تاثر کو بار بار پڑ ھا جائے ، عبرت کی نگاہ سے ، نصیحت حاصل کرنے کی غرض سے او راپنے اکابر کے نقش قدم پر چلنے کی نیت سے پڑھا جائے ،تو اس سے ایک واضح رہ نمائی ملے گی ، صراط مستقیم پر استقامت نصیب ہو گی اور فتنوں سے حفاظت کے لیے ایک مضبوط ڈھال بن جائے گی۔
نتائج کا تعلق اشیا کی ساخت سے
انسانی دنیا کا طریقہ کار ہے کہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے اس کی نوع اورمناسبت سے ایک طریقہ کار اختیار کیاجاتا ہے۔ مقصد اور اس کے طریقہ کار میں نہایت گہرا اور مضبوط تعلق ہوتا ہے۔ کسی بھی ساخت کے اندر کی روح اور اس کی تاثیر کو اس سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ، جیسے کھڑے ہو کر کھانے کی محافل اور کھڑے ہو کر کھانے کے طریقہ کار میں حرص، طمع اور لالچ کے قبیح مناظر ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ یہ خاصہ ہے اس نظام کا جو کھڑے ہو کر کھانے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اسی طرح نماز کی ادائیگی مسجد میں ایک خاص ماحول میں کی جاتی ہے تو اس میں تعلق مع الله اور روحانیت کے مظاہر ہوتے ہیں، یہی نماز مسجد سے باہر، شادی ہالوں اور کمیونٹی سینٹروں میں چلی جاتی ہے تو اس کی روحانیت سلب ہو جاتی ہے ۔ ان مثالوں سے یہ بات بخوبی واضح ہو گئی کہ یہ کوئی بے کار اور غیر مؤثر شئی نہیں، بلکہ ہر ساخت ایک مخصوص مقصد کے حصول کے لیے معاون ومدد گار ہوتی ہے۔
الیکٹرانک ذرائع کی ساخت
آئیے اب ٹی وی اورموجودہ الیکٹرانک ذرائع کی ساخت ومقاصد پر بھی ذرا نظر دوڑائیں، تھوڑے سے غوروفکر سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ٹی وی اور موجودہ میڈیا کا مقصد جہاں علمائے دین کی اہانت، دینی اقدار وروایات کو فرسودہ قرار دینا اور نئی نسل کو دین سے نکال کر بے دین بنانا ہے ، وہاں تمام شعبوں سے متعلقہ افراد کو بے وقوف بنا کر سرمایہ داروں کی مصنوعات کو فروخت کرنا بھی ہے، جس کے لیے اشتہارات کے جائز وناجائز طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، ظاہر سی بات ہے ،اربوں کروڑوں روپے کے سرمایہ سے قائم کیے گئے ان ٹی وی چینلز کے اخراجات کو اشتہارات کے ذریعہ پورا کیا جاتا ہے۔
ٹی وی کے مقاصد کی کہانی، جنرل منیجر کی زبانی
اوپر ٹی وی کا جو حقیقی مقصد ہم نے بیان کیا، یہ وہی مقصد ہے جو پاکستان ٹی وی کے یوم تاسیس سے چند ماہ پیشتر ہونے والی ایک خصوصی نشست میں جو ٹی وی کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالنے کے لیے بلائی گئی تھی، پی ٹی وی کے جنرل منیجر ذوالفقار علی بخاری نے بیان کیے تھے ، جس کو ”ماہنامہ البلاغ“ میں اگست1994ء کو ” اہم تحقیق بابت پروگرام وپالیسی پاکستان ٹی وی“ کے عنوان سے شائع کیا گیا تھا۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا بالکل بھی مشکل نہیں کہ ٹی وی جیسے مجموعہٴ فتن بلکہ ام الفتن سے تبلیغ وحفاظت دین یا تطہیر نفس جیسا مبارک ومقدس عمل انجام دیا جاسکتا ہے۔ اس سے تو دین بیزاری، علماء کی بے وقعتی، نئی نسل میں بے دینی کے زہریلے جراثیم، نفس پرستی، خواہشات کی اتباع، حرص وہوس، طمع ولالچ، بے ہودگی وبے حیائی اور دین کی پابندیوں وقیود سے آزادی کی تاریک وادیوں میں پھینکنے کا گھناؤنا عمل ہی انجام دیا جاسکتا ہے اور ایسا کیا بھی جارہا ہے کیوں کہ یہی ٹی وی کی ساخت اور مقصد کاخاصہ ہے۔
ہمیں اپنی قدامت پسندی پر فخر ہے
یہی وجہ ہے کہ مدارس اور دعوت دین کی محنت کرنے والے حضرات نے آج تک اپنی محنت کا رنگ ڈھنگ روایتی رکھا ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ دین سیکھنے سکھانے کا ایک ہی طریقہ ہے، جسے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور وہ نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آرہا ہے ، اب اس روایتی طریقے کو چھوڑ کر جدید مادی آلات کے ذریعے دین کے علم کا حصول ، اس کی روحانیت کا ادراک، تعلیم وتعلم کا نورانی عمل، پاکیزہ جذبات، احساسات اور خیالات کا حصول اور دین کی تبلیغ نہ صرف منہاج نبوت کے منافی ہے، بلکہ ایک ڈراؤ نے خواب کے سوا کچھ بھی نہیں۔
کیا صرف معلومات ہی کافی ہیں
پھر یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دین اسلام میں صرف معلومات کی فراہمی اور حصول ہی مطلوب نہیں، وگرنہ ابلیس بھی معلومات کا وسیع ذخیرہ رکھتا ہے، لہٰذا جو چیز اپنی وضع سے اپنے تمام تدریجی مراحل اور نت نئی شکلوں میں سراپا شر کے پھیلانے کا باعث ہو، اس سے خیر کے پھیلنے کی توقع بے کار ہے ، کیوں کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ”الخیر لا یأتی إلابالخیر“․
رائے ونڈ میں سالانہ اجتماع کے موقع پر
امسال رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مولانا سعد صاحب زید مجدہم ( نظام الدین انڈیا) نے جو فکر انگیز اور درد آمیز وعظ فرمایا، اس میں یہ بھی فرمایا: ” دعوت کے بارے میں ایک خیال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ دین کی تبلیغ کے مادی آلات اور اسباب بہت کثرت سے ہو گئے ہیں، اس لیے اب دعوت الی الله کے لیے نقل وحرکت اور خروج کی ضرورت نہیں، دعوت پہنچ چکی ہے اور پہنچ رہی ہے، آپ بھی بیٹھے بیٹھے اپنا پیغام جس جس تک اور جہاں جہاں تک پہنچانا چاہتے ہیں پہنچائیں، اب پھر نے پھرانے کی ضرورت نہیں، حالاں کہ حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے جو خطوط بادشاہوں کو لکھے ہیں، وہ بھی بطور دلیل اور علامت کے لیے تھے ، ورنہ آپ علیہ السلام نے اس کے لیے باقاعدہ جماعت کی نقل وحرکت کو اختیار کیا، جب کہ دعوت سے متعلق تفصیل خطوط میں تحریر فرمادی۔
دینی دعوت کا تعلق مسجد سے
اسی بیان میں یہ بھی فرمایا کہ ہماری روزانہ کی کلمہ طیبہ کی دعوت کا مسجد کے ساتھ ایک خاص تعلق یہ ہے کہ لوگوں کو کلمہ طیبہ کی دعوت کے ذریعہ سے غیب کی باتوں کا یقین دلا کر لوگوں کو مادی نقشوں سے نکال کر مسجد کے ماحول میں لا کرایمان کی مجلسوں میں بٹھایا جائے، انہیں سرمایہ کاری، تجارت اور دیگر غفلت کے مادی نقشوں سے نکال نکال کر کلمے والے یقین کے ماحول میں لانا ضروری ہے، ہمیں غیر کی باتوں کی معلومات ہیں ۔ معلومات کو یقین نہیں کہتے، اس لیے کہ یقین کا تاثر ہوتا ہے، جب کہ معلومات کا کوئی تاثر نہیں ہوتا اور قبر میں زبان معلومات کی بنیاد پر نہیں چلے گی، بلکہ یقین کی بنیاد جواب دے گی۔“( الفاروق، صفر المظفر1430ھ، ص:8,7)
غور فرمائیے کہ دین کی محنت سے مقصود لوگوں کے دلوں میں یقین کا پیدا کرنا ہے نہ کہ ان کو صرف معلومات فراہم کرنا اور یہ کام لوگوں کو ایک معین طریقے سے مسجد کے ساتھ جوڑنے سے ہو گا، اس لیے کہ ہماری تمام محنتوں کا محورو مرکز مسجد ہے نہ کہ ٹی وی اور ٹی وی اسٹیشن، اب دینی اور ملی ضرورت کے تحت لوگوں کو ٹی وی سے جوڑنے کے باتیں ہو رہی ہیں، اس سے لوگوں کومعلومات تو فراہم کی جاسکتیں ہیں ، لیکن یقین کی دولت ان کے دلوں میں ٹی وی کے ذریعے نہیں اتر سکتی، جب کہ اصل تو یقین ہی ہے، جس کی بنیاد پر آخرت کی تمام منازل میں کام یابی ملتی ہے۔
تبلیغ دین سے مقصود
پھر اصل مقصد تبلیغ دین سے یقین کا پیدا کرنا، رجوع الی الله، خوف الہٰی، تقوی طہارت اور فکر آخرت پیدا کرنا ہے ، جو آلات لہو ولعب ودیگر آلات شروفتنہ سے ممکن نہیں ، اکابر کی تحریرات کی روشنی میں یہ بات پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ تبلیغ دین کے لیے منہاج نبوت سے ہٹ کر جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے گا، وہ عندالله مقبول نہیں مردود ٹھہرے گا، یہی بات حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید رحمة الله علیہ نے تصویر کی جدید صورتوں پر گفتگو کے دوران فرمائی تھی کہ یہ بھی کہا جاتا ہے ویڈیو فلم اور ٹی وی سے تبلیغ اسلام کا کام لیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ٹی وی پر دینی پروگرام بھی آتے ہیں ، لیکن کیا بڑے ادب سے پوچھ سکتا ہوں کہ ان دینی پروگراموں کو دیکھ کر کتنے غیر مسلم دائرہ اسلام میں د اخل ہو گئے؟ کتنے بے نمازیوں نے نماز شروع کر دی؟ کتنے گناہ گاروں نے گناہوں سے توبہ کر لی؟
یہ محض دھوکا ہے، فواحش کا یہ آلہ جو سرتاسر نجس العین ہے، ملعون ہے او رجس کے بنانے والے دنیا وآخرت میں ملعون ہیں ، وہ تبلیغ اسلام میں کیا کام دے گا۔ آخر میں یہ بھی فرمایا: رہا یہ کہ فلاں فلاں یہ کہتے ہیں اور کرتے ہیں یہ ہمارے لیے جواز کی دلیل نہیں۔ ( تصویر اور سی ڈی کے شرعی احکام، ص:127,126)
عصر حاضر کی دینی جدوجہد اور نہج نبوت
عصر حاضر میں گمراہ کن پروپیگنڈوں اور فتنوں کے مقابلے اور تبلیغ اسلام کے لیے جو نہج اختیار کیا جارہا ہے، کیا عہد نبوی صلی الله علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں بھی اس کی کوئی نظیر ملتی ہے یا نہیں ؟ جب ہم اس مبارک زمانے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کفار مکہ مشرکین ومنافقین اور یہود خاص طور پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس اور عمومی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کرتے تھے، مگر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ تعلیم کبھی نہیں دی کہ وہ کفار کی ان مجالس میں جاکر ان پر تنقید کریں، بحث ومباحثہ کریں، جواب وگفتگو میں انہی کا طرز تخاطب اور انہی کے طور طریقوں کو اپنائیں، بلکہ تعلیم قرآن اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی جاہلوں اور اس طرح کے بے سروپاباتیں کرنے والوں سے واسطہ پڑے تو عباد الرحمن کی طرح”سلاما“ کہہ کر اعراض کرنا چاہیے۔
صحابہ کی محنت کا نتیجہ
چناں چہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کا اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کے مبارک طریقے کے مطابق، کفار ومنافقین کے منفی پروپیگنڈوں کو خاطر میں لائے بغیر دین کی دعوت کو عام کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مادی وسائل کی کمیابی اور عدم دستیابی کے باوجود دین اسلام کچھ ہی عرصے میں نہ صرف جزیرہٴ عرب، بلکہ عالم کے اطرف واکناف میں تیزی سے پھیلنے لگا اور لوگ جوق درجوق اسلام کو قبول کرنے لگے، جب کہ آج ہم مسلمان تعداد اور مادی وسائل واسباب میں اس زمانے سے کئی سو گنا زیادہ اور ترقی یافتہ ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری محنت کا کفار پر تو کجا! مسلمانوں پر بھی کوئی خاطرخواہ اثر نہیں ہو رہا؟
تو پھر یہ فرق کیوں؟
ہماری اور حضرات صحابہ رضی الله عنہم کی محنتوں میں وہ کون سا بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے کام یابی نہیں مل رہی؟ اور وہ کون سی خامیاں ہیں جن کی اصلاح کے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے؟ کیا یہ درست ہو گا کہ ہم ان خامیوں کا پتا لگا کر انہیں دور کرنے کے بجائے یہ کوششیں شروع کر دیں کہ اصلاح امت کے لیے ان اسباب کو اختیار کیا جائے جن سے خامیوں میں مزید اضافہ ہو۔
تعجب ہوتا ہے ان بعض علمی حلقوں کے اس غیرعلمی طرز پر جو انہو ں نے الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے اپنایا ہوا ہے ۔ ان کے نزدیک اجتہاد جدید یہ بتلارہاہے کہ موجودہ دور کے میڈیا خاص کر ” ٹی وی پر آکر تبلیغ دین اور حفاظت دین کا فریضہ سر انجام دینے“ کے معاملے کی نوعیت لاؤڈاسپیکر کے واقعے کی طرح ہے، کہ ابتدا میں لاؤڈاسپیکر پر بھی مختلف اعتراضات کیے گئے اور اس کے استعمال سے روکا گیا، لیکن بعد میں تمام حضرات اس کی افادیت وجواز کے قائل ہو گئے۔
قیاس مع الفارق:
صرف ظاہری مماثلتوں کی بنیاد پر ایک چیز کو دوسری چیز کی طرح قرار دینا اور دونوں میں اختلاف کی نوعیت کو یکساں ظاہر کرنا ایک غیر علمی طرز ہے، کیوں کہ موجودہ آلات، میڈیا اور ٹی وی وغیرہ لاؤڈ اسپیکر کے برخلاف ایک آلہ نہیں ، ایک مکمل نظام ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے، جس کے اپنے مقاصد واہداف ہیں، اور وہ کسی بھی صاحب عقل پر مخفی نہیں۔
اور اگر دونوں کو ایک ہی مان لیا جائے اور ان حضرات کے قیاس کو بلاچوں چرا تسلیم کر لیا جائے ۔ تو پھر ان تمام قیاسوں کو بھی ماننا پڑے گا، جن کا ظہور بعض ناعاقبت اندیشوں کے جدید اجتہادات کامرہون منت ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہو گا جیسے کوئی شخص صحابہ کرام رضی الله عنہم کے جہاد کی تیاری کے سلسلے میں کی گئی گھڑ دوڑ اور نیزہ بازی اور دیگر جنگی مشقوں کی بنیاد پر جدید دور کے اولمپک گیمز اور دیگر عالمی کھیلوں کے مقابلوں کو بھی سند جواز فراہم کرے، یا صحابہ کرام رضی الله عنہم کے میدان جنگ میں پڑھے گئے رجزیہ اشعار ، طبل جنگ اور عام حالات میں پڑھے گئے حمدیہ کلمات اور خوشی کے مواقع پر بچیوں کے دف بجانے اور اشعار کہنے کو بنیاد بنا کر آج کے آرٹ کلب اور موسیقی کو جائز کہنے لگے یا موجودہ کامیڈی کو جائز کہنے کے لیے اس صحابی رضی الله عنہ کا فعل بطور دلیل پیش کرے جو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی فرحت طبع کی خاطر کبھی مزاح کرلیا کرتے تھے۔
ہائے متاع عقل ودانش!
اگر قیاس کا یہ معیار درست قرار پایا تو پھر اس قسم کے نام نہاد متجددین روحِ شریعت کو مسخ کرکے تمام باطل نظریوں، غلط طریقوں اور آج کل کی تمام غلاظتوں کو جواز کی شرعی سند فراہم کرنے کے لیے حضرات صحابہ رضی الله عنہم کے کسی نہ کسی عمل پر قیاس کرنا شروع کر دیں گے تو کیا ہمارے محترم علمائے کرام ان کے اجتہادات بلاکم وکاست قبول فرمالیں گے؟
ایک ضروری سوال
ملی اور دینی ضرورت ومصلحت کے تحت میڈیا کے استعمال کو ناگزیر بتانے والے حضرات ان اسلامی تعلیمات سے بھی یقینا آشنا ہوں گے جن میں مخاطب کو سامع کے احوال کی رعایت رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بالفرض اگر کوئی اس نئے اجتہاد کی بناء پر ٹی وی پر آنے کو جائز بتائے تو کیا وہ سامعین کے مستوائے ذہنی کی رعایت کرپائیں گے؟ تجربہ او رمشاہدہ سے پتا چلتا ہے کہ آج تک اس حوالے سے کیے گئے تجربات سے عوام کے ذہنوں میں شکوک وشبہات کے زہریلے جراثیم نے ہی پرورش پائی ہے، اب بھی اگر اس تجربے کو دہرایا گیا تو غالب گمان یہی ہے کہ بجائے مسلمانوں کے عقائد ونظریات کی حفاظت کے ، ان کو مزید فتنوں میں مبتلا کر دیا جائے گا، وہ مزید الجھنوں کا شکار ہو جائیں گے ، اوٹ پٹانگ مباحثوں میں پڑ کر یقین کی قیمتی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ سنن درامی کی ایک روایت میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے : ” نااہل سے علمی گفتگو نہ کرو، ورنہ وہ تمہیں جاہل کہے گا ، علم ہو یا دولت تم پر دونوں کے حقوق ہیں۔،، مسلم شریف کی ایک روایت میں اس مضمون کو یوں بیان کیاگیا ہے : ” جب تم لوگوں کے سامنے ایسی گفتگو کرو جو اُن کی عقل رسائی سے باہر ہو ، تو وہ کچھ لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گی۔ “ (الصحیح للامام مسلم، باب النہی عن الحدیث بکل ماسمع:11/1، دارالکتب العلمیہ)
اسی طرح بخاری شریف میں ہے : ” عوام کو ان کی عقل کے مطابق مسائل بتاؤ“۔ (الصحیح للامام البخاری کتاب العلم، ص:27، دارالسلام)
پس ان احادیث سے یہ بات خوب واضح ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے مستوائے ذہنی کی رعایت کے بغیر شرعی معاملات میں گفتگو کرنا فکری انتشار اور عوام کو دینیات میں گفتگو کرنے کی اجازت دینے جیسے خطرناک مفاسد کا ذریعہ بنتا ہے۔
ایک اور اندیشہ
ملاعلی قاری رحمة الله علیہ فرماتے ہیں :” نیکی کے جس کام میں نفس کی خواہش شامل ہو جائے وہ اتنا لذیذ ہوتا ہے، جس طرح مکھن کے ساتھ شہد ملا لیا جائے۔“ آج جہاں حب مال وحب جاہ اور اپنی رائے کو حرف آخر سمجھنے کا دور دورہ ہے ، اگر ٹی وی کے ذریعے تبلیغ دین اور حفاظت دین کی اجازت دی گئی تو بجائے فائدے کے نقصان کا غالب اندیشہ ہے کہ کہیں مخاطبین عجب، تکبر، ریا اور اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنے کے باطنی امراض میں مبتلا نہ ہو جائیں اور ممکن ہے کہ ابتداء میں کچھ مخلص لوگ اس طریقے کو اپنے زیر اثر رکھنے کی کوشش کریں ، لیکن ایسے معاملات ومواقع پر عموماً کنٹرول ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جن کو اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی سے بڑھ کر اپنی عزت زیادہ عزیز ہوتی ان کے سینوں میں علم سے بڑھ کر دولت ومادیت ڈیرا ڈال چکی ہوتی ہے ۔ ٹی وی پر تبلیغ دین کے مفاسد میں سے ایک مسلمہ نقصان یہ بھی ہے۔
جب کوئی ٹی وی چینل” اسلامک“ کا لیبل لگا کر اپنی نشریات پیش کرے گا تو غریب عوام یہی سمجھے گی کہ یہاں کوئی دارالافتاء قائم ہے اور فتوی دینے والے ماہر مفتی حضرات تحقیقی جواب دیں گے، جب کہ حقیقت حال اس کے برعکس ہونا عین ممکن ہے ، کیوں کہ ٹی وی پر پیش کیا جانے والا ہر پروگرام برائے استفتا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہاں کسی ماہر مفتی کی موجودگی یقینی ہے ، لہٰذا ”اسلامک“ کے لیبل کی وجہ سے ہر وہ شخص جو علماء کی جماعت کی طر ف منسوب کرکے اس پروگرام میں سامنے لایا جائے گا اس سے عوام طرح طرح کے سوالات براہ راست پوچھنا شروع کریں گے، جب کہ ہر سوال ازروئے قواعدِ افتاء قابل جواب وقابلِ اعتناء نہیں ہوتا اور نہ ہر سوال کا جواب مستحضر ہوتا ہے۔ لیکن کیا ٹی وی پر موجود کوئی بھی مفتی اپنے علمی تبحر کو ” لا ادری“ کی تلوار سے کاٹ سکے گا؟ یا کسی تحقیق طلب سوال کے جواب میں تامل وتردد کا مظاہرہ کرکے اپنے اعتماد کو کھونا گوارا کرسکے گا؟ ہو سکتا ہے وہ کسی ” مصلحت“ کی بنا پر سائل کو مطمئن کرنے کے لیے فوری جواب دے اور پھر اٹکل پچوسے جوابات دینے کا ایک مضحکہ خیز سلسلہ چل پڑے گا، جو تبلیغ تو نہیں البتہ علماء سے عوام کا اعتماد اٹھانے میں کافی معاون ہو گا، مجوزین حضرات اس پہلو پر بھی غور فرمالیں۔
سطحی علم والوں کی طرف سے خطرات وفتنے
یہاں یہ بات بھی یقینی ہے کہ جواز کے فتوے سے وہ تمام حلقے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے جو مضبوط اور ٹھوس علم سے عاری ہیں ، دو چار اردو عربی کی کتابوں سے معدودے چند معلومات کو کل دین کا علم سمجھتے ہیں ۔ وہ اس فتویٰ کی آڑ میں ایسے مسائل ودلائل بیان کریں گے جن سے اصلاح نفس، حفاظت دین اور تصفیہ عقائد کے بجائے افسادو اضلال کا کام ہوتا رہے گا، اس وقت میڈیا کے شور وغوغا کا وہ عالم ہو گا کہ علمائے مخلصین کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز کی طرح سنائی نہ دے گی۔
اس بات کی ضمانت
پھر وہ مفکرین جو ہر مسئلے میں متبادل کی رٹ لگاتے پھر