بُخارِ دِل
یکے از مطبوعات شعبہ اشاعت لجنہ اماءِ اللہ ضلع کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر
بخار دل صفحہ02 اظہارِ تشکّرمحترم مرزا محمد انور صاحب سان فرانسسکو ۔ امریکہ نے اپنی والدہ محترمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مرزا محمد اسمٰعیل صاحب کی طرف سے اس کتاب کی اشاعت میں مالی معاونت کی ہے۔ ہم محترمہ برکت ناصر ملک صاحبہ کے بھائی کی اس فراخ دلانہ پیشکش پر اُن کے شکر گزار ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی والدہ محترمہ کو صحت و طمانیت والی طویل زندگی سے نوازے اور اہلِ خاندان کو نسلاً بعد نسلٍ اپنی رضا کی راہوں پر چلائے نیز عزیزم بلال احمد ابن مرزا محمد انور صاحب کو نیک، صحت مند، خادمِ دین اور قرۃالعین بنائے۔ آمین اللھم آمین
فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء فی الدارین خیراً شعبہ اشاعت لجنہ اماءِ اللہ ضلع کراچی بخار دل صفحہ03 پیش لفظاللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ لجنہ کراچی صد سالہ جشن تشکر کی خوشی میں کتب شائع کرنے کے منصوبے پر ثابت قدمی سے عمل کر رہی ہے 'بخارِ دِل' جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کا شعری مجموعہ ہے' اس سلسلے کی تراسی ویں 83 کتاب ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذالِک حضرت میرؔ صاحب کی صاحبزادی آپا طیبہ صدیقہ صاحبہ مرحومہ لجنہ کراچی کے اشاعتی پروگرام میں اس بیش بہا خزانہ کے اِضافہ کا باعث بنیں اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین آپ کی تحریک پر ''مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل'' دو ضخیم جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ اب 'بخارِ دِل' پیش خدمت ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بعد 'آپ بیتی، کر نہ کر اور تواریخ بیت فضل لندن' بھی شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری مساعی قبول فرمائے اور جماعت کے تقویٰ میں ترقی کا باعث بنائے۔ یہ کتاب محترم ناظر صاحب اشاعت کی اجازت سے شائع کی جا رہی ہے۔ اسی طرح ''بخارِ دِل'' کے پہلے پبلشر محترم طارق محمود صاحب پانی پتی سے بھی اجازت لی گئی ہے۔ آپ نے اس کی اشاعت کے حقوق لجنہ کراچی کو تفویض کر دیے ہیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ عزیزہ امۃالباری ناصر سیکرٹری اشاعت اور اُن کی معاونات ہماری دُعاؤں کی مستحق ہیں جن کی محنتِ شاقہ سے یہ روحانی مائدہ میسر آ رہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی جزا بن جائے۔ آمین اللّٰھم آمین
خاکسار امۃالحفیظ محمود بھٹی صدر لجنہ اماءِ اللہ ضلع کراچی بخار دل صفحہ04۔06 عرضِ حالحضرت سلطان القلم کے سایۂ عاطفت میں' حضرت سیّدہ نصرت جہاں کی آنکھوں میں' ذوقِ لطیف کے ہمالوں پر علم و عرفان کی نور بار فضاؤں میں پرورش پانے والے خانوادۂ میر دردؔ کی شعری روایات کے پاسدار حضرت میر ناصر نواب صاحب کے صاحبزادے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل جیسے فنا فی اللہ کا وجد آفریں روح پرور عارفانہ کلام شائع کرنے کی سعادت حاصل ہونا محض فضل و احسانِ خداوندی ہے۔
اگر ہر بال ہو جائے سخن ور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہرقبل ازیں 1200 صفحات پر مشتمل ''مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل'' کی ترتیب و تدوین اور اشاعت کے طویل کام میں جو عرصۂ حیات گزرا اُس میں ہر لمحہ اس نابغۂ روزگار کے نئے جوہر کُھلتے گئے۔ دستِ قدرت نے کمال فیاضی سے آپ کو علم الادیان اور علم الابدان سے تو مالامال کیا ہی تھا مستزاد یہ کہ قوّت تحریر و تقریر اور موزونئ طبع پر بھی قدرت عطا فرمائی۔ نثر کے شاہکار یکجا پیش کرنے کے بعد یہ تمنا جاگی کہ حضرت میرؔ صاحب کے شعری مجموعے 'بخارِ دِل' کو بھی اب کمیاب نہ رہنے دیا جائے۔ کام کا آغاز کیا تو اندازہ ہوا کہ اسے بہتر طریق پر پیش کرنے کی کافی گنجائش موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت فرمائے محترم محمد اسمٰعیل صاحب پانی پتی کو جنہوں نے نہایت محبت و عقیدت اور فنّی مہارت سے حضرت میرؔ صاحب کا کلام مرتب فرمایا۔ آپ نے یقینا اُس اعتماد کا خوب حق ادا کیا ہے جو حضرت میرؔ صاحب نے آپ کو اپنی بیاض تھماتے ہوئے کیا تھا۔ آپ نے 'بخارِ دِل' تین مرحلوں میں شائع کی۔ حصہ اوّل 1928ء میں، اس میں حصہ دوم کے اضافے کے ساتھ 1945ء میں اور پھر وفات کے بعد ملنے والے کلام کو شامل کر کے مکمل بخارِ دِل 1970ء میں شائع کی۔ ابتدا میں آپ نے نظموں کو اوقاتِ تصنیف کے مطابق ترتیب دیا۔ لیکن بعد میں یہ ترتیب قائم نہ رہی۔ تمہید میں لکھتے ہیں:۔ ''مَیں نے ان نظموں کی ترتیب اوقاتِ تصنیف کے لحاظ سے رکھی ہے مگر کہیں کہیں تقدیم و تاخیر بھی ہو گئی ہے۔ اگر میری زندگی میں اس کی نَوبت آئی تو کتاب کی دوسری اشاعت کے وقت انشاء اللہ نسبتاً بہتر ترتیب کے ساتھ یہ مجموعہ مرتّب ہو سکے گا۔'' بہتر ترتیب کی خواہش کی تکمیل کے لئے خاکسار نے اب یہ مجموعہ اوقاتِ اِشاعت کے مطابق ترتیب دیا ہے اور اس تبدیلی کی حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز سے اجازت بھی لے لی ہے۔ علاوہ ازیں قطعات و رباعیات حصہ اوّل، حصہ دوم اور وفات کے بعد ملنے والے کلام سے لے کر یکجا کر دیے ہیں۔ اسی طرح آپ کی روایتی خوش طبعی اور مزاح کا رنگ لئے ہوئے نظمیں بھی ایک جگہ کر دی ہیں۔
طرزِ تحریر میں املاء اور سہو کتابت کی بعض اغلاط کو درست کر کے مشکل الفاظ پر اِعراب لگا کر کھلا کھلا لکھوایا ہے۔ دراصل جب یہ مجموعہ ابتدا میں مرتب ہوا کاغذ گراں اور کمیاب تھا اس لئے تحریر بہت گنجان ہے۔ بعض جگہ نظموں کے عنوان پہلو میں لکھے ہوئے ہیں۔ جو نمایاں نہیں ہوتے۔ اب مناسب جگہ پر عنوانات لکھوائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ 'بخارِ دِل' حسین تر ہو کر منظرِ عام پہ آئے۔ اس کا ظاہری حسن اس کے معنوی حسن تک رسائی میں مددگار ہو اور قارئین خدا تعالیٰ کے قریب تر آ جائیں آمین۔ خاکسار اُن سب مہربان ہستیوں کے لئے دعا گو ہے جن کی دعائیں اور حوصلہ افزائی شریک حال رہی۔ اللہ تعالیٰ بیش از پیش مقبول خدماتِ دینیہ کی تادمِ آخر توفیق بڑھاتا چلا جائے آمین اللّٰھم آمین
خاکسار امۃالباری ناصر بخار دل صفحہ07 بُخارِ دِل کا نام بُخارِ دِل رکھا ہے نام اِس کا کہ آتِشدانِ دِل کا یہ دُھواں ہے کسی کے عشق نے جب پھُونک ڈالا تو نکلی مُنہ سے یہ آہ و فُغاں ہے لگاتی آگ ہے لوگوں کے دِل میں ہماری نظم بھی آتِش فِشاں ہے کہیں حکمت کے موتی ہیں بکھرے کہیں عشق و مَحبت کا بَیاں ہے بخار دل صفحہ08 انتساب اے کہ تُو ہے مُنعِمِ آلائے من مَیں تِرا بندہ ہوں اے آقائے مَن لُطف کُن بر من طُفیلِ آنکہ بُود سیّدِ مَن، شیخِ مَن، مرزائے مَن ہوں سَقِیمُ الحال اور مَعذُور، گو اے طبیبِ جُملہ عِلَّتہائے مَن عَرض سُن لے مہربانی سے مِری اے سَمیعِ نالۂ شبہائے مَن شِعرخوش کرنے کو کہتا ہوں تِرے مہرباں ہو، تا، کرم فرمائے مَن فائدہ بندوں کو بھی پہنچے ضرور ہے مِرے مدِّنظر مولائے مَن ہوں یہ میرے باقِیاتُ الصّالِحات اے پناہ و مامَن و مَلجائے مَن لوگ کرتے ہیں عبادت رات دن میری یہ خدمت ہے اے ماوائے مَن نَذر ہیں کچھ قطرہ ہائے خونِ دِل اے بیادت ہی ہی و ہی ہائے مَن الفضل 12نومبر 1943ء بخار دل صفحہ09 تعارفشعر کی تعریف اس سے زیادہ نہیں کہ وہ باوزن ہو۔ اس کے الفاظ عمدہ اور مضمون لطیف ہو۔ میرے بزرگوں کو چونکہ شاعری سے مناسبت تھی اس لئے مجھ میں بھی کچھ حصہ اس ذوق کا فطرتی طور پر آیا ہے مگر اس طرح کہ دس دس بارہ بارہ سال کے عرصہ میں ایک شعر بھی نہیں کہتا پھر کچھ کہہ لیتا ہوں دوسرے یہ کہ میرے اشعار مطلب کے حامِل ہوتے ہیں نہ کہ الفاظ کے۔ میں ایک مضمون ذہن میں رکھ کر شعر کہتا ہوں اور الفاظ اس مضمون کے پابندہوتے ہیں نہ کہ مضمون الفاظ کا اس لئے بجائے تغزل کے یہ اشعار ''نظم'' کی صورت رکھتے ہیں اور بجائے آمد کے ہمیشہ آوُرد کا رنگ ان میں ہوتا ہے۔ میرا اُستاد کوئی نہیں۔ نہ تخلص ہے۔ شروع یعنی 1903ء میں جب یہ شوق پیدا ہوا تو چند دفعہ آشناؔ کا تخلص استعمال کیا مگر پھر ترک کر دیا اور ہمیشہ بے تخلص ہی کے گزارا کیا۔ میرے کلام میں بیشتر اشعار بہ سبب مذہبی ماحول اور دینی تربیت کے متصوّفانہ رنگ کے ہیں اور سلسلہ احمدیہ کے مقاصد سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں کبھی کسی کا عمدہ مصرع یا شعر یا کسی غیر زبان کا لفظ اپنے شعر میں پیوند کر لینے سے نہیں ہچکچاتا تاہم سرقہ نہیں کرتا۔ بہت زیادہ حصہ ان نظموں کا ایسا ہے جو دراصل اپنے لئے کہی گئی ہیں نہ کہ اَوروں کے لئے۔ میری دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ ان اشعار کو ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے لئے بھی مفید بنائے۔ میر محمد اسماعیل الصُّفّہ ۔ قادیان
10جون 1945ء بخار دل صفحہ10۔12 تمہیداستاذی المحترم حضرت ڈاکٹرمیرمحمد اسماعیل ۔۔۔۔۔۔۔نے 1903ء سے شعر کہنے شروع کیے اور آخر وقت تک کچھ نہ کچھ کہتے رہے۔ 44 برس کے اس طویل عرصہ میں آپ نے بہت تھوڑی نظمیں کہیں مگر جو کچھ کہا بالعموم دین کی تائید، احمدیت کی حمایت، اسلامی قدروں کی اشاعت، اصحاب جماعت کی نصیحت، بچوں کی تربیت، نوجوانوں کی اصلاح، اخلاق و موعظت کی تبلیغ اور پند و نصائح کی ترویج کے لئے کہا۔ ان کی نظمیں خدا اور رسولؐ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھیں۔ ان کا ناصحانہ اور صوفیانہ کلام بیحد دِلنشیں اور مؤثر ہوتا تھا اور جب وہ سلسلہ کے اخبارات میں چھپتا تھا تو احمدی احباب نہایت ذوق و شوق سے انہیں پڑھتے تھے۔ حضرت میر صاحب کے پُرکیف کلام کی مقبولیت اور شہرت کو دیکھ کر میں نے ''بُخارِدِل'' کے نام سے آپ کے کلام کا مجموعہ 1928ء میں پانی پت سے شائع کیا جس میں بعض ابتدائی نظموں کو چھوڑ کر اس وقت تک کا کلام جمع تھا، بعد میں حضرت میر صاحب نے اور بہت سی نظمیں کہیں جو احمدی اخباروں میں مسلسل چھپتی رہیں۔ اس عرصہ میں حضرت میر صاحب برابر مجھے لکھتے رہے کہ پانی پت چھوڑ کر قادیان آ جاؤ بالآخر مَیں ان کے اِرشادات کی تعمیل میں 1944ء میں مستقِل طور پر قادیان آ گیا اور حضرت میر صاحب نے انتہائی شفقت کے ساتھ مجھے اپنے ساتھ اپنے مکان میں اپنے انتقال کے وقت تک رکھا اور اگر ہمیں قادیان سے نکلنا نہ پڑتا تو اب تک وہیں رہتا۔
قادیان آنے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیاکہ اس عرصہ میں جس قدر نئی نظمیں حضرت میر صاحب نے لکھی تھیں سب فراہم کیں اور ان کو بُخارِ دِل حصہ دوم کے نام سے 1945ء میں شائع کر دیا، مگر اس مجموعہ کی اشاعت کے بعد بھی حضرت میر صاحب کچھ نہ کچھ کہتے رہے اور بُخارِدِل کے سادہ اوراق پر لکھتے رہے مگر وہ کلام کہیں شائع نہیں ہوا۔ اپنے انتقال 18جولائی 1947ء سے پہلے حضرت میر صاحب نے وصیت کر دی تھی کہ میرے بعد یہ سارا کلام اسماعیل کے سپرد کر دیا جائے، چنانچہ حضرت ممانی جان اللہ آپ سے راضی ہو نے اپنے محترم شوہر کی وفات، حسرت آیات کے تیسرے ہی دن یہ مسوّدہ میرے حوالے کر دیا جس کے فوراً بعد ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا۔ پاکستان آ کر ممانی جان برابر مجھے اس مسوّدہ کی اشاعت کے متعلق لکھتی رہیں مگر مجھے بدقسمتی سے اس ضروری کام کے بجا لانے کی توفیق نہ ملی۔ حضرت ممانی جان کی وفات کے بعد ان کی دختر نیک اختر حضرت اُمّ متین مریم صدیقہ ایم اے حرم محترم حضرت خلیفہ ثانی اللہ آپ سے راضی ہو نے اپنے باپ کے اس مقدس ورثہ کی اشاعت کی طرف مجھے توجہ دلائی۔ میرا وقت بھی اب آخر ہے اور میں بہت ہی سُرعت کے ساتھ موت کی وادی کی طرف جا رہا ہوں۔ اس لئے سوچا کہ مرتے مرتے اگر یہ کام ہو جائے تو میری عین سعادت ہے۔ اس لئے نہایت ضُعف و ناتوانی اور اس بے حد کمزوری و ناطاقتی کے باوجود بیماریوں اور اَفکار کے ہُجوم میں جس طرح بھی بن سکا میں نے اس کام کو انجام دیا اور حضرت میر صاحب کے پُرکیف، اثر انگیز اور پُرمعارف کلام کا یہ مجموعہ مَیں آج حضرت مریم صدیقہ کی خدمت میں ان کے نہایت ہی محترم باپ کی یادگار کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ اللہ پاک میری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے۔ میں نے ان نظموں کی ترتیب اوقاتِ تصنیف کے لحاظ سے رکھی ہے مگر کہیں کہیں تقدیم و تاخیر بھی ہو گئی ہے اگر میری زندگی میں اس کی نَوبت آئی تو کتاب کی دوسری اِشاعت کے وقت انشاء اللہ نسبتاً بہتر ترتیب کے ساتھ یہ مجموعہ مرتب ہو سکے گا۔ میں نے کتاب کے آخر میں حضرت میر صاحب کے وہ غیرمطبوعہ اشعار بھی شامل کر دیے ہیں جو بُخارِ دِل حصہ دوم کی اشاعت کے بعد آپ نے وقتاً فوقتاً کہے۔ اب یہ حضرت میر صاحب کے کلام کا ایک مکمل مجموعہ بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ناظرینِ کرام کو ان دِلآویز نظموں سے پورے طور پر اِس:تِفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی
18۔رام گلی نمبر 3۔ لاہور 8اپریل 1970ء بخار دل صفحہ13۔18 نظموں کی ترتیب نمبر شمار عنوان صفحہ 1 جو راہ تجھے پسند ہے اُس پر چلا مجھے 19 2 یا رَبّ کسی معشوق سے عاشق نہ جدا ہو 20 3 آئے گی مرے بعد تمہیں میری وفا یاد 21 4 چشمِ بینا حسنِ فانی کی تماشائی نہیں 22 5 مُنکرانِ خلافتِ محمود 24 6 پیغامی لیڈروں سے خطاب 27 7 مرکز کفر میں خانہء خدا 30 8 در فراقِ قادیاں 31 9 حالات قادیان دارالامان 32 10 ہم محو نالۂ جرسِ کارواں رہے 37 11 بخارِ دِل 41 12 دُعائے وصل 51 13 تودیع حضرت خلیفۃالمسیح الثانی بر موقع سفرِ یورپ 52 14 خلاصہ خطبہ عید الاضحی 55 15 منظور ہے گزارِشِ احوالِ واقعی 56 16 نعمتُ اللہ نے دکھلا دیا قرباں ہو کر 58 17 مجھ کو کیا بیعت سے حاصل ہو گیا 60 18 محبت کا ایک آنسو 63 19 عاقبت کی کچھ کرو تیاریاں 64 20 خیر مقدم حضرت خلیفۃالمسیح الثانی 67 21 ایک احمدی بچی کی دُعا 70 22 ندائے احمدیت 72 23 احمدی کی تعریف 73 24 نعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 25 میں دُنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا 79 26 نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے 81 27 قصہئ ہجر ۔ ایک مہجور کی زبان سے 83 28 اللہ میاں کا خط میرے نام 85 29 سلام بحضور سَیِّدُ ال:اَنام صلی اللہ علیہ واٰلِہٖ وسلم 87 30 دُعا 89 31 طیّبہ کی آمین 90 32 آنچہ خوباں ہمہ دارَند تو تنہا داری 92 33 دن مدّتوں میں آئے ہیں پھر اہلِ حال کے 93 34 محمدؐ مُصطفیٰ ہے مُجتبیٰ ہے 95 35 کہ جتنے زنگ مخفی ہیں محبت سب کی صَیقل ہے 98 36 خدامِ احمدیت 100 37 رسولِ قادیانیؑ 101 38 وصیّتُ الرسولؐ بر موقع حجۃالوداع 106 39 کلمہ طیّبہ 107 40 دُعائے مَغفِرت 108 41 نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز 110 42 نوائے تلخ 116 43 عملُ التِّرب یعنی علمِ توجہ یا مسمریزم 119 44 قرآن، سُنَّت اور حدیث کے مدارج 121 45 تُم 122 46 ہمارا آفتاب 125 47 ناسخ و منسوخ 128 48 دُعائے سُکھ 130 49 اِنَّ اللّٰہَ اشْتَریٰ 131 50 عاجزانہ دُعا 131 51 اپنا رَنگ 133 52 اُن کا رَنگ 134 53 ہو نہیں سکتا 136 54 دُعائے من 137 55 احمدیت 141 56 عشق و مُشک 149 57 خلیفہ کی شَفقَت اور نِظام کی برکت 152 58 خداداری چہ غم داری 154 59 پنجاب 162 60 درود بر مسیح موعود علیہ السلام 163 61 فطرت 166 62 اللہ ۔ اللہ 167 63 کتبۂ تُربَت 169 64 آئندہ زندگی 171 65 جنت دَجّال یا مغربی تمدن 172 66 قابلِ توجہ خُدام 174 67 میرے خدا 175 68 کچھ دُعا کے متعلق 180 69 دیباچۂ راہِ سلوک 183 70 مسخ کی حقیقت 185 71 نماز 186 72 پنج ارکانِ اسلام 187 73 معرفتِ اِلٰہی 188 74 ترکِ دُنیا 191 75 وصلِ الٰہی 194 76 مال کا منتر 196 77 خدائی جبر 197 78 اس لئے تصویر جاناں ہم نے کھچوائی نہیں 198 79 قادیان میں راشن 200 80 تو کیا آئے 202 81 ہم ڈلہوزی سے بول رہے ہیں 204 82 اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے 205 83 حضرت مولوی برہان الدین جہلمی 207 84 مَحبت 208 85 عقل بغیر الہام کے یقین کے درجہ کو نہیں پہنچا سکتی 208 86 مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات 209 87 کھوٹے معاملات 210 88 قادیان کے آریہ 210 89 اِبنِ آدم بھی آدم ہے 211 90 آ گئی گویا 211 91 دنیاوی تعلقات 212 92 عارضی تکالیف میں بھی خدا نے لذّت رکھی ہے 212 93 طاعون کا شہید احمدی 212 94 روح بغیر جسم کے کسی جگہ بھی نہیں رہ سکتی 213 95 سُن لے میری دُعا خدا کے لئے 213 96 تہجد 215 97 احمدی کیوں ہر اک سے افضل ہے 215 98 لاہور کی دعوتیں 218 99 لذّت 219 100 کھجیار 222 101 عام آدمیوں کی سادہ باتیں اور اہلِ علم کی اصطلاحیں 224 102 مغرب زدہ 225 103 جمعہ کا دِن 227 104 ہم قادیان سے بول رہے ہیں 229 105 فقر اور افلاس کی ایک حکمت 230 106 کیا دیکھا؟ 231 107 اِنَّما اَشْکُوْا بَثِّی وَ حُزْنِیْ اِلَی اللّٰہ 232 108 یاد ہے تجھ کو مرا قصہ مری حالتِ زار 233 109 رنگ پر رنگ 234 110 صورت اور سیرت 236 111 رباعیات و قطعات 237 112 ابیات 279 113 الہامی اشعار اور مصرعے 280 114 میرے اشعار میں دُعا ہائے مستجاب 281 مزاحیہ کلام 115 دکھاوے کی محبتیں 283 116 ایک المناک حادثہ 285 117 واویلا 294 118 مرزا غالب اور اُن کے طرفدار 300 بخار دل صفحہ19 1۔ جوراہ تجھے پسندہے اس پرچلامجھے غالباًسب سے پہلی نظم کیا فائدہ علاج کا بعد از فنا مجھے اے کاش! دردِ دِل کی ملے اب دوامجھے اہلِ جَفا کے ظُلم سے اتنا ہوا ہوں تنگ دوزخ کا اس جہان پر دھوکا ہوا مجھے عِصیاں کی مَے کو پی کے ہوئی کیا نہ بیخودی بھولا ہے کہہ کے یار سے قولِ بلیٰ مجھے بیزار زندگی سے ہوں آئی نہیں ہے راس اس تِیرہ خاندان کی آب و ہوا مجھے لے چل صبا! تو دوست کے در پر کہ کر دیا اس آسیائے چرخ نے اب سرمہ سا مجھے اونچا ہو نُہ فلک سے بھی پایہ وقار کا سمجھے دمِ خِرام جو وہ خاکِ پا مجھے وہ کون؟ یعنی احمد مختار کا حبیب1؎ آتا ہے نام لینے میں جس کے مزا مجھے پابوسی ہو نصیب تو اِکسیر میں بنُوں پڑ جائے گر نظر تو کرے کیمیا مجھے اللہ رے چمک، وہ رُخِ نُور بار کی مُصحف میں آ رہی ہے نظر وَ الضُّحیٰ مجھے اے رحمتِ خدا! تو میر ی دستگیر ہو حِرص و ہوا کے جال سے آ کر چُھڑا مجھے یا ربّ! تو اپنے فضل سے بیڑے کو پار کر کافی ہے میری کشتی کا تو ناخُدا مجھے لُطف و کرم سے بخش دے میرے گناہ تُو شیطان کی گرفت سے کر دے رِہا مجھے ہے تُجھ سے آشناؔ کی الٰہی دُعا یہی جو رہ تجھے پسند ہے اُس پر چلا مجھے آمین 1 ۔یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام 1903ء بخار دل صفحہ2 2۔ یا ربّ کسی معشوق سے عاشِق نہ جُدا ہو کُشتوں پہ اگر آن کے تُو اپنے کھڑا ہو اک شورِ قیامت تیری آمد سے بَپا ہو معشوق کا برتاؤ ہو عاشِق سے تو کیا ہو؟ گہ لُطف ہو، گہ ناز ہو، گہ جَور و جفا ہو کیا جانیئے قسمت میں یہ کیا پھیر ہے اپنی ہم جس کےلئے جان دیں وہ ہم سے خفا ہو کیا تاب زباں کی کہ کرے ہِجر کا مذکور یا ربّ کسی معشوق سے عاشِق نہ جُدا ہو اے ابرو ؤ مِژگانِ صنم! یہ تو بتاؤ؟ گر تُم نہیں جلّاد زمانے کے تو کیا ہو؟ گر قہر پہ ہو جائے کمر بستہ وہ جاناں غوغائے ستم شورش محشر سے سوا ہو 1903ء بخار دل صفحہ21 3۔ آئے گی مِرے بعد تمہیں میری وفا یاد جس دن سے کیا دِل نے میرے قولِ بلیٰ یاد رہتا ہے مجھے دِیدِ بُتاں میں بھی خدا یاد جب تک رہے دَوراں میں تِرا جَور و جفا یاد تب تک رہے دُنیا میں مِری مہر و وفا یاد کچھ شکوۂ بیداد مجھے تُم سے نہیں ہے جو تُم نے کیا مجھ سے ۔ نہیں مجھ کو ذرا یاد پھر پھڑکے ہے کیوں ماہئ بے آب کی مانند رکھتا نہیں گر دِل میں تِری قِبلہ نُما یاد اب گرچہ مِرے دعوئ اُلفت کو نہ مانو آئے گی مِرے بعد تمہیں میری وفا یاد گو ہجر نے ہر نقشِ خوشی دِل سے دیا دھو اب تک ہے تِرے وصل کا پر مجھ کو مزا یاد کیوں ردّ کریں بیمارِ مَحبت کو اطِبّا کیا کوچۂ دلبر کی نہیں خاکِ شِفا یاد؟ اس عالَمِ غفلت میں جو لے بیٹھا غزل کو کیا جانئے آیا ہے مجھے آج یہ کیا یاد 1903ء بخار دل صفحہ22۔23 4۔ چشم بیناحسن فانی کی تماشائی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دِل لگاویں جو صنم سے ہم وہ شیدائی نہیں چَشمِ بِینا حُسن فانی کی تماشائی نہیں! اِک قَدَح پی کر نہ جس کا تا اَبد رہوے خُمار اہلِ دِل اس جامِ صہبا کے تمنائی نہیں! مرغ دل! بچ کر تو رکھیو دامِ اُلفت سے قدم زُلف کے پھندے میں پھنسنا کارِ دانائی نہیں اس جہاں میں دوستوں سے کیا رکھے کوئی اُمید زیرِ گَردُوں پوچھتا بھائی کو یاں بھائی نہیں اپنی نظروں میں اگر کچھ مردِ میداں ہیں تو وہ سچ کے کہہ دینے میں جن کو خوفِ رسوائی نہیں! جوش ہے طاعَت کا دل میں اور عِبادت کےلئے وائے قسمت! پر مُیَسَّر کُنجِ تنہائی نہیں! آشناؔ کچھ عشق کا دھندا خدارا چھیڑیئے صوفیانہ یہ ادا تیری ہمیں بھائی نہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دردِ دِل کی موت نے بھی کی مسیحائی نہیں جاں لبوں تک آ گئی لیکن قضا آئی نہیں شکوۂ بیدادِ جاناں کیا کریں جب ہم میں خود بارِ اُلفت کے اٹھانے کی توانائی نہیں چھیڑئیے مسجد میں جا کر حُرمتِ مَے کا بَیاں محفلِ رِنداں میں زاہِد، تیری شُنوائی نہیں تلخ کامی زندگی کی دیکھنا اے ہم نَفَس ہم مریں جس پر اُسے ہم سے شناسائی نہیں چھوڑ میخانہ1؎، چلیں کیونکر حَرم کو ہم، کہ واں مَے نہیں، ساقی نہیں اور بادہ پیمائی نہیں آ کے تُربت پر مری کہنے لگا وہ شوخ یوں باز آیا اب تُو مرنے سے؟2؎ صَدا آئی ''نہیں'' دیکھتا کیا ہے درختِ عشق کہ ہیں یہ ثَمَر دَشتِ غُربت میں جُنوں کی آبلہ پائی نہیں باغِ عالَم میں حسیں دیکھے مگر تیری قَسَم تیری رنگت، تیرا جلوہ، تیری رعنائی نہیں 1 یعنی قادیان 2 یعنی محبت کرنا بخار دل صفحہ24۔26 5۔ منکرانِ1؎ خلافتِ محمود1914ء میں حضرت خلیفہ اوّل کے وصال اور حضرت محمود کے سریر آر ائے خلافت ہونے پر جماعت میں جو سخت تفرقہ رونما ہوا اس کے استیصال کے لئے میر قاسم علی صاحب کے اخبار ''الحق دہلی'' نے نہایت نمایاں خدمات انجام دیں۔ اس وقت حضرت میرصاحب نے بھی اخبار ''الحق'' میں کچھ نظمیں خلافتِ ثانیہ کی تائیدمیں لکھی تھیں جوذیل میں نقل کی جاتی ہیں۔ خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی
مُنکرانِ خلافتِ محمود کر رہے ہو مُخالِفَت بے سُود کیوں اِطاعت سے پھیرتے ہو سر کیا نہیں یاد آدمِ مَسجُود مان لو بات تُم مَلَک بن کر ہو نہ اِبلیس راندۂ معبود ہر خلیفہ خدا بناتا ہے خواہ آدمؑ ہو ۔ یا کہ وہ داؤدؑ ہو وہ بوبکرؓ یا کہ نورالدین یا ہو فخرِ رُسُل مرا محمود اِتحادِ جماعتِ احمد بس یہی ہے غرض یہی مقصود چارہ جُز طاعَتِ اِمام نہیں جب وہ ثابِت ہے ہر طرح موعود مُنکِر اس کا ہے مُنکِرِ احمدؐ دشمن اُس کا ہے فاسِق اور مَردُود اُس کی تخریب کے جو ہیں در پَے آپ ہو جائیں گے وہی نابُود احمدیت ہی صرف ہے ۔۔۔۔ ہو گئی ہے نَجات یاں محدود اِک طریقہ یہی خدا تک ہے اور سب راہ ہو گئے مسدود جو ہیں توحیدِ خُشک کے قائل یا وہ برھمو ہیں یا مَثیلِ یہود دوستو! حق کی راہ کو پکڑو نہ کرو اِتِّباعِ نام و نُمود خَرمَنِ دِین کو بچاؤ تُم اُن کا ''اعلاں1؎'' ہے شعلۂ بارود یاں مُصَدَّق کا بڑھ رہا ہے یقیں واں مُکَذَّبْ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْد2؎ حق کی نصرت ہے اِس طرف ظاہِر کسمپرسی ہے اُس طرف مَشہُود اب تو پیغامِ3؎صلح میں ہر روز اک عقیدہ جدید ہے موجود تھے مسیحِ محمدؐی نہ رسول اور نہ ایمان اُن پہ تھا مقصود ایک مُصلح تھے مثلِ سر سیّد اس سے بڑھ کر مُبالِغہ بے سُود احمدیت ہے تَفرقہ کی جڑ مل کے ''چندے'' کرو تو ہے بہبود مُثمر اِسلام اصل میں وہ ہے جس میں زَر کا ہو فائدہ اور سُود ہر طرف سے ملے غینمتِ مال فکرِ کَسبِ مَعاش ہو مَفقُود ''کل کا بچہ'' خلافت آرا ہو ہائے رہ جائیں ''مولوی'' مطرود مانیں کیونکر؟ کہ عمر میں کم ہے ''ہم'' سے چھوٹا ہے مصلحِ موعود نہ گرانڈیل ہے نہ توندل ہے اپنی نظروں میں کیا جچے محمودؔ خدمتیں بیشتر ہمِیں نے کِیں اور ہمِیں نے کیا ''کفن4؎'' موجود اب مدینہ نیا بنا لاہور مرکزِ قادیاں ہوا مَفقُود ہجرتِ ثانیہ کی خاطر سے ہجرتِ اوّلیں ہوئی مردود مقبرہ اِک ضِرار بنتا ہے دفن ہوں گے جہاں یہ سب موؤد پڑ گئے پتھر ان کی عقلوں پر کیسی قسمت ہوئی ہے نامسعود ہوئے آزاد ساری قیدوں سے مٹ گئیں دین کی تمام حدود ''اللہ اللہ'' کر لیا بس ہے محض توحیدِ حق سے ہے مَقصُود بِعثَتِ انبیاء سراسر لَغو ہیں برابر یہاں پہ ہودؔ و ثمودؔ دائرہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ جس میں داخل ہیں مسلم اور یہود ہے جہنم بڑا نفیس مقام عارضی چونکہ ہے وہاں کا ورُود کیا ہوا ۔ گر رہیں وہاں احقاب دائمی تووہاں نہیں ہے خَلود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو مبارک تمہیں تمنا یہ ہو مبارک تمہیں ورُود و خَلود یا الٰہی ہمیں بچا اس سے تو ہی بندوں کا ہے غفور و وَدُود حشر ہو ساتھ تیرے احمدؑ کے صد سلام اس پر اور ہزار دَرُود رحمتیں اہل و آل پر اُس کی خاص کر جو کہ ہے پسر موعود آشناؔ بس قلم کو رکھ دے تو وقت ہے تنگ قافیے معدود1 اعلان ضروری مولفہ مولوی محمد علی صاحب مطبوعہ 1914 کی طرف اشارہ ہے۔ 2 یعنی انسان اپنے رب کا نا شکر گزار ہے۔ 3 لاہوری احمدیوں کا اخبار۔ 4 لاہوری احمدیوں نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو کفن ہم نے دیا۔
اخبار الحق دہلی 22مئی 1914ءصفحہ 3 بخار دل صفحہ27۔29 6۔ پیغامی لیڈروں سے خطاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب نہ جھگڑا چلے کمال الدّین آکے مل جا گلے کمال الدّین وا ہوا دامنِ خلافتِ حق آؤ اِس کے تلے کمال الدّین احمدی ہے تو احمدی بن جا تاکہ پھولے پھلے کمال الدّین پاک اموال تجھ پہ ہیں قربان مال گندہ نہ لے کمال الدّین جن کو تو جانتا ہے کانِ طِلا خاک کے ہیں ڈَلے کمال الدّین تجھ کو غیروں کا دیکھ دَست نِگَر دِل نہ کیونکر جلے کمال الدّین اپنے آقا کے اہل پر حملہ ہو بہت منچلے! کمال الدّین احمدیت ہے روک چندے میں گفت، آرے بلے، کمال الدّین اب بھی کر لو رُجوع بہتر ہے آدمی ہو بھلے کمال الدّین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہائے افسوس! گر گیا ایم۔اے اپنے مرشد سے پھر گیا ایم۔اے ہو کے اپنوں کی جان کا دشمن دشمنوں کے گلے ملا ایم۔اے خدمتِ تَفرقہ بجا لا کر سَیِّدُالقَوم بن گیا ایم۔اے ہے حکومت کا دل سے یہ طالِب لے کے ٹولی الگ ہوا ایم۔اے تھے کبھی تُم بھی نیک اور صالِح میرے مُرشِد نے سچ کہا ایم۔اے اب تو حالت مگر خراب ہوئی کِبر میں ہو کے مبتلا ایم۔اے اپنی بدقسمتی کی شامت سے قادیاںؔ سے نِکل گیا ایم۔اے ترجمہ اور کتابیں اور سامان لے کے چلتا بنا مِرا ایم۔اے اب مدینہ نیا بنا لاہورؔ اور مسیحا نیا بنا ایم۔اے اے جماعت! بتا خدا کے لئے گرچہ ہے امتحاں بڑا ایم۔اے مُستَحِقِّ خلافتِ احمدؑ ہے اولوالعزم کوئی یا ایم۔اے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوب دکھلائے رنگ شاہ صاحب رہ گئے ہم تو دَنگ شاہ صاحب تیزیاں، بدزُبانیاں، شوخی کس سے سیکھے یہ ڈھنگ شاہ صاحب حق کی تائید کا تو دَم بھرنا اور حق سے ہی جنگ شاہ صاحب ایک دن بیچ اب لگے دینے ہم کو پیغامِ جنگ1؎ شاہ صاحب آ گئے چند ہی دنوں میں آپ احمدیت سے تنگ شاہ صاحب اہلِ بیتِ مسیحؑ پر پھینکے خوب تِیر و تَفنگ شاہ صاحب اس قدر تو غضب میں مت اُچھلو توڑ دو گے پلنگ شاہ صاحب چھوڑو جھگڑوں کو، اپنا کام کرو کٹ چکی ہے پتنگ شاہ صاحب 1 پیغامِ صلح اخبار کا نام حضرت خلیفۂِ اوّل نے پیغامِ جنگ رکھا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسی ہے قال و قیل مرزا جی ہو گئے کیوں علیل مرزا جی احمدیت کی چھوڑ کر عزّت بنتے ہو کیوں ذلیل مرزا جی آپ کہتے ہیں ''ہم خلیفہ ہیں'' لیک کیا ہے دلیل مرزا جی؟ کیا خدا بھی ملے صنم کے ساتھ ہے غلط یہ سبیل مرزا جی فتنہ گر کے ہوئے ہو پیرَو کیوں تُم تو خود تھے اصیل مرزا جی مردہ اسلام پہ گرے کیونکر باز سے بن کے چِیل مرزا جی آلِ احمد کے تُم عَدُو ہو قدیم ہے یہ قصہ طویل مرزا جی حق تعالیٰ سے کچھ تو شرم کرو عمر ہے اب قلیل مرزا جی گر ہو محمودؔ کے مخالِف تُم حق ہے اس کا کَفِیل مرزا جی اخبار الحق دہلی 4ستمبر 1914ء بخار دل صفحہ30 7۔ مرکزِ کُفر میں خانۂ خدا شکر صد شکر کے لندن سے یہ آئی ہے نَوِید مرکزِ کفر میں بیت کی زمیں لی ہے خرید بِالیقیں وقت یہی ہے کہ مُنَوَّر کر دے وادئ ظُلمَتِ تَثلیث کو نورِ توحید جب مؤذن کہے مینار پہ ''اللہ اکبر'' اُس گھڑی سمجھو کہ بَر آئی ہماری اُمید بانئ بیت لندن ہے مسیحِ موعودؑ ثانئ بیت اقصیٰ ہے یہ مغرب کی کلید ہم نشیں دیکھ! ذرا چَشم بصیرت وا کر کیا یہی تو نہیں ''مغرب سے طُلوعِ خورشید''؟ دقت ہے وقت کہ یورپ کو کرو شِرک سے پاک اُٹھو اے جان نثارانِ لِوَائے توحید جب تلک جان و تن و مال نہ قرباں کر دیں ''مابداں مقصدِ عالی نہ توانیم رسید'' احمدی! تجھ کو ہی سب بوجھ اٹھانا ہو گا ''آسماں بارِ امانت نتوانست کشید'' ''للّٰہِ الحمد ہر آں چیز کہ خاطر میخواست آخر آمد زِ پسِ پردۂ تقدیر پدیدنوٹ: یہ نظم اُس جلسے میں پڑھی گئی جو ڈلہوزی پہاڑ پر 9ستمبر 1920ء کوحضرت خلیفہ المسیح ثانی کی زیرِ صدارت بر تقریب خرید زمین بیت لندن منعقد ہوا اور الفضل 7اکتوبر 1920ء میں چھپی ہے۔
بخار دل صفحہ31 8۔ در فراق قادیان آہ! وہ دارالامانِ قادیاں قادیاں! جنت نِشانِ قادیاں کُھب گئی دِل میں ہر اِک اُس کی اَدا بس گئی آنکھوں میں شانِ قادیاں نعمتِ ایماں مئے عِرفاں ملے عرش سے اُترا ہے خوانِ قادیاں چرخِ چارم اور ثُریّا کے رقیب ہیں زمین و آسمانِ قادیاں عشقِ مولیٰ میں ہر اک رنگین ہے جو بھی ہے پِیر و جوانِ قادیاں تُوتیائے چشم ہے میرے لئے خاکِ پائے ساکِنانِ قادیاں کر رہے ہیں جان و دِل کو بے قرار نغمہ ہائے بُلبُلانِ قادیاں جی کو تڑپاتی ہے اب میرے بہت یادِ یارِ مہربانِ قادیاں پھر وہی رستہ مِری آنکھوں میں ہے جس پہ ہے نہرِ روانِ قادیاں بوئے کُوئے یار پھر آنے لگی ہے مہکتا بوستانِ قادیاں یاد آتا ہے جمالِ رُوئے دوست سرورِ خوبان و جانِ قادیاں وہ بھی دن ہوں گے کبھی مجھ کو نصیب میں ہوں اور ہو آستانِ قادیاں پھر میں دیکھوں کوچۂِ دِلدار کو پھر بنوں میں میہمانِ قادیاں یاد آتا ہے بہشتی مقبرہ سو رہے ہیں عاشِقانِ قادیاں جاں فدا کر دوں مزارِ یار پر گوہرِ شب تاب کانِ قادیاں یعنی وہ جو چودھویں کے چاند تھے مہدئ آخر زمانِ قادیان وارثِ تختِ شہنشاہِ رُسُلؐ مُورِثِ نسلِ شہانِ قادیاں بخار دل صفحہ32۔37 9۔ حالات قادیان دارالامان مرحبا! دارالامانِ قادیاں مرحبا! جنت نِشانِ قادیاں کُھب گئی دِل میں ہر اِک اُس کی اَدا بس گئی آنکھوں میں شانِ قادیاں چرخِ چارم اور ثُریّا کے رقیب ہیں زمین و آسمانِ قادیاں گلشنِ احمدؐ میں آئی ہے بہار ہے مہکتا بوستانِ قادیاں کوچۂ دلدار و دلبر ہے یہی آؤ اے گُم گُشتگانِ قادیاں توتیائے چشمِ عالم بن گئی خاکِ پائے ساکنانِ قادیاں آفتابِ حشر کی ہوگا پناہ روزِ محشر سائبانِ قادیاں دیکھنا چاہو جو دنیا میں بہشت دیکھ لو باغِ جنانِ قادیاں بیعت طے کرا دیتی ہے سب راہِ سلوک بیعتِ پیرِ مُغانِ قادیاں جائے ہجرت ہجرتیں کر کر کے جاتے ہیں وہاں عاشِقاں و شائقانِ قادیاں بی۔اے، ایم۔اے اور فاضِل مولوی بن گئے اب ساکِنانِ قادیاں شور و شر سے دہر کے بھاگے وہاں بھا گیا امن و اَمانِ قادیاں جی نہیں لگتا کہیں اُس کا کبھی دیکھ لے جو آن بانِ قادیاں زخمِ دشمن سے ہی پوچھا چاہیے تیزئ تیغ و سِنانِ قادیاں آبِ حیواں کو کہاں چکھتے ہیں وہ جو کہ ہیں تِشنہ لَبانِ قادیاں اہلِ قادیاں دِل کو کر دیتے ہیں محو یادِ حق نغمہ ہائے بُلبُلانِ قادیاں جاں نِثارِ دینِ احمدؐ ہیں سبھی جتنے ہیں مرد و زَنانِ قادیاں عشقِ مولا میں ہر اک رنگین ہے جو بھی ہے پِیر و جوانِ قادیاں صِدق اور اِخلاص اور ہر دم دعا ہے نِشانِ مومِنانِ قادیاں دوستی ﷲِ پاؤ گے یہیں بے رِیا ہیں مُخلِصانِ قادیاں مُشتری کا فائدہ مدِّنَظَر رکھتے ہیں سب تاجِرانِ قادیاں دیکھنا، یورپ میں جا گُونجی کہاں واہ کیا کہنے اذانِ قادیاں مرحبا تسخیرِ مغرِب کے لئے نکلے ہیں کچھ خالِدانِ قادیاں بہشتی مقبرہ کیا مبارَک ہے بہشتی مقبرہ سو رہے ہیں عاشِقانِ قادیاں جاں فِدا کر دوں مزار یارِ پر گوہر شب تاب کانِ قادیاں یعنی وہ جو چودھویں کے چاند تھے مہدئ آخر زمانِ قادیاں وارِثِ تختِ شہنشاہِ رُسُل مُورِثِ نسلِ شہانِ قادیاں کر گئے تسخیر عالَم کے قُلوب سَروَرِ خوباں و جانِ قادیاں لنگر اُن کے لنگر کا ذرا دیکھو مزا آسمانی ہے یہ نانِ قادیاں نِعمتِ اِیماں مئے عرفاں مِلے عرش سے اُترا ہے خوانِ قادیاں اخبارات آٹھ دس اخبار بھی جاری ہیں واں ہیں وہی تو اَرمَغانِ قادیاں ریویو، تَشحیذ، الفضل و حَکَم درحقیقت ہیں زبانِ قادیاں نُور و فاروق و اَتالیقِ و رَفیق یہ بھی ہیں سب مُخبرانِ قادیاں قابلِ دِید مقامات بورڈنگ اور ہال اور ہائی سکول خوب دکھلاتے ہیں شانِ قادیاں دارِ فضل و رحمت و دارالعلوم کہہ رہے ہیں داستانِ قادیاں بیت نُور و شفاخانہ جدید اور ضعیفوں کا مکانِ قادیاں ہیں ثمر یہ اُن کی کوشش کے جنہیں کہتے ہیں سب ''نانا1؎ جانِ'' قادیاں مدرسہ احمدیہ احمدیہ مدرسہ جو ہے وہاں زیرِ نظمِ فاضِلانِ قادیاں قوم کے لڑکے ہیں اس میں سیکھتے عِلم و خُلقِ عارِفانِ قادیاں ایک دن دنیا کو یہ زیر و زَبَر کر کے چھوڑیں گے یَلانِ قادیاں بیت مبارک یار کے کوچے کی بیت کی نہ پوچھ مرکز و جائے امانِ قادیاں ''سب مبارک کام ہیں اس میں جو ہوں'' کہہ گئے شاہِ جہانِ قادیاں جلسہ سالانہ جلسۂ سالانہ پر آؤ ذرا اے گروہِ دشمنانِ قادیاں رونقِ ارضِ حرم خود دیکھ لو اور خود سن لو بَیانِ قادیاں آپ سے کہہ دے گی آتے ہی یہاں قادیاں خود داستانِ قادیاں مینارۃ المسیح دیکھ وہ مینار ہے اے راہرو! رہنمائے آستانِ قادیاں بیت اقصیٰ میں پہنچا دے گا یہ تا دکھائے بوستانِ قادیاں درسِ قرآن حضرت خلیفۃالمسیح الثانی درسِ قرآں ہو رہا ہو گا وہاں جمع ہوں گے مخلِصانِ قادیاں اک جواں2؎ کو پائے گا اُن میں کھڑا ہے وہی رُوح و روانِ قادیاں یادگارِ صاحبِ کسرِ صلیب نورِ چشمِ دلستانِ قادیاں مصلحِ موعود محبوبِ خدا خضرِ راہِ سالکانِ قادیاں جانشینِ حضرتِ احمدؐ نبی نائبِ صاحبقرانِ قادیاں عرض کرنا ان سے یوں بعد از سلام اے چراغِ خاندانِ قادیاں آپ نے جس طرح قائم کر دیے عزّت و نام و نشانِ قادیاں حق تعالیٰ بھی تمہیں دائم رکھے برسرِ وابستگانِ قادیاں اور کہیں آمین سب مل کر وہاں جتنے ہوں صاحبدلان قادیاں قادیان گائیڈ 113 مطبوعہ نومبر 1920ءالفضل 21اکتوبر 1920ء کی اشاعت میں اس نظم میں درجِ ذیل اشعار بھی شامل ہیں۔
پُھک رہاہے ایک عاشق ہجر میں دِل میں ہے حُبِّ نہانِ قادیاں جی نہیں لگتا کہیں اس کا ذرا جب سے دیکھی آن بانِ قادیاں یہ دعا فرمائیے لائے خدا جلد اس کو درمیانِ قادیاں یار کے قدموں میں نکلے اس کا دم اور بنے مدفن جنانِ قادیاں1 حضرت میر ناصر نواب سے مراد ہے۔ 2 یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی
بخار دل صفحہ37۔40 10۔ ہم محو نالۂ جَرَسِ کارواں رہے جماعتِ احمدیہ جب تک کہ اس جہاں میں مسیحِ زَماں رہے زندہ خدا کے ہم کو دکھاتے نِشاں رہے مُردوں میں جان ڈالتے اِذنِ خدا سے تھے اور زندگی بھی ایسی کہ وہ جاوِداں رہے تِشنہ لَبانِ شربتِ دِیدارِ یار کو دِکھلاتے راہِ کوچۂ جانِ جہاں رہے بُلبُل کو رُوئے گُل سے شناسا کیا کِیے جب تک کہ باغِ دہر میں وہ باغباں رہے اِخلاص و صِدق و عِشق کے اُن کے زمانہ میں مکتب بنے، عُلوم کُھلے، اِمتحاں رہے اہلِ وفا کی ایسی جماعت بنا گئے حق پر فدا رہیں گے وہ' جب تک کہ جاں رہے خواص اے کامیابِ عشق! سنو تو سہی ذرا ہم تُم بھی ساتھ تھے کبھی اے مہرباں رہے تُم نے تو اُڑ کے گوہرِ مقصود پا لیا ہم سُست گام اور وُہی نِیم جاں رہے پابَستہ غفلتوں نے کیا ہم کو اِس قَدَر عمریں گزر گئیں کہ جہاں کے تہاں رہے بے دیدِ روئے یار مزا کیا ہے گر کوئی مکّے رہے، مدینے رہے، قادیاں رہے واحسرتا! کہ کس سے کہیں اپنا حالِ زار کس کو پڑی کہ سُنتا مِری داستاں رہے مَل مَل کے ہاتھ اپنے یہ کہتا ہوں بار بار منزل کہاں تھی اور پڑے ہم کہاں رہے ''یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے'' مجاہدین صد آفرین تُم پہ گروہِ مُجاہدیں! پیچھے سے آئے ۔ پہنچے کہیں سے مگر کہیں وہ نُور قادیان میں نازِل ہوا تھا جو روشن کیا ہے اُس سے ہر اک گوشۂ زمیں پہنچا ہے کوئی لندن و امریکہ کوئی مصر اور ماریشسں میں جا کے ہُوا کوئی جاگُزیں مشعل کو لے کے نُورِ ہِدایت کی ہند میں پھرتی ہے شہر شہر میں فوجِ مُبلَّغِیں تیار ہو رہے ہیں ابھی اور عسکری چھوڑیں گے یہ جوان کسی ملک کو نہیں ہے اک طرف اگرچہ مسرت بھی بے حِساب ازبس کہ کامیاب ہیں یہ فاتِحانِ دِیں پر دوسری طرف ہے یہ حَسرت بھی ساتھ ساتھ کہتا ہوں آہ بھر کے دِل زار کے تئیں ''یارانِ تیزگام نے محمل کو جالیا ہم محوِ نالہ جرسِ کارواں رہے'' عوام اے عامئ جماعتِ احمدؑ زہے نصیب خاصانِ حق کی ذیل میں تیرا شُمار ہے مُفلس ہے یا امیر تجھے عُذر کچھ نہیں کُھلتی اگر یہ جیب تِری بار بار ہے تو سلسلہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے یاد رکھ پڑتا ہے آکے تجھ پہ ہی آخر جو بار ہے دنیا اگرچہ تجھ کو سمجھتی رہے حقیر پر آج تیرے پیسوں پہ دِیں کا مَدار ہے چندے سے تیرے مدرسے اور مسجدیں بنیں اور تیری ہِمّتوں کا نتیجہ مَنار ہے جتنی ہیں شاخہائے نظارات و انجمن اور جتنا سلسلہ کا یہ سب کاروبار ہے فَضلِ خدا سے تیری کمائی کے ہیں ثَمَر یہ خاص تجھ پہ چَشمِ عِنایاتِ یار ہے اولاد و مال و عزّت و اِملاک دے دیے پھر بھی سمجھ رہے ہو کہ باقی اُدہار ہے پر حَیف ہم سے کوئی بھی خدمت نہ ہوسکی اب صرف چَشم پوشی پہ اُس کی مَدار ہے بہتیرا چاہتا ہوں کہ میں چُپ رہوں مگر آتا زباں پہ شعر یہی بار بار ہے ''یارانِ تیزگام نے محمل کو جا لیا ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے'' مرحومین اے ساکِنانِ مقبرہ تُم پر ہو مرحبا مر کر بھی تُم ہوئے نہ درِ یار سے جدا دے دے کے نقد جان خریدا یہ قُربِ خاص سودا ۔ قَسم خدا کی، یہ سستا بہت کیا جنّت ملے گی ایک تو اللہ کے یہاں اور دوسری بہشت یہ پہلو ہے یار کا یاں کچھ خبر نہیں کہ جگہ بھی ہو یہ نصیب یا گر ملے تو حد سے زیادہ ہو فاصلہ خوش قسمتی پہ آپ کی کرتے ہیں رَشک ہم کہتے ہیں دِل ہی دِل میں یہ آنسو بہا بہا ''یارانِ تیزگام نے محمل کو جا لیا ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے'' دعا اے آنکہ میرے واقِفِ اَسرار ہو تُم ہی دلبر تُم ہی نِگار تُم ہی یار ہو تُم ہی کوئی نہیں جو رَنج و اَلَم سے کرے رِہا یاں دِل شِکَن بہت ہیں پہ دلدار ہو تُم ہی دروازہ اور کوئی بھی آتا نہیں نظر جاؤں میں کس طرف کو' جو بیزار ہو تُم ہی تُم سا کسی میں حُسنِ گُلُو سوز ہے کہاں عالَم کی ساری گرمئی بازار ہو تُم ہی لینے کا اس مَتاع کے کس کو ہے حوصلہ لے دے کے میرے دِل کے خریدار ہو تُم ہی اعمال ہیں نہ مال ۔ نہ کوئی شفیع ہے اب بات تب بنے جو مددگار ہو تُم ہی تُم سے نہ گر کہوں تو کہوں کس سے جا کے اور اچھا ہوں یا بُرا ۔ مِری سرکار ہو تُم ہی اب لاج میری آپ کے ہاتھوں میں ہے فقط سَتّار ہو تُم ہی مِرے، غَفّار ہو تُم ہی درماندہ رہ گیا ہوں غَضَب تو یہی ہوا کیجے مدد! کہ چارۂ آزار ہو تُم ہی ''یارانِ تیزگام نے محمل کو جا لیا ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے'' الفضل 4نومبر 1920ء بخار دل صفحہ41۔50 11۔ بُخارِدِلیہ نظم شعر و شاعری کے رنگ میں نہیں لکھی گئی بلکہ واقعی بخارِدِل ہے۔ جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے۔ اس نظم کے لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ احباب کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے اور پھر اس تعلق کو قائم رکھنے کی توجہ پیدا ہو۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نظم میں استعارہ کے طور پر جو بعض الفاظ آئے ہیں ان کو استعارہ ہی سمجھا جائے۔ مؤلف کا ہر گز یہ عقیدہ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات کو نعوذ باللہ محدود یا مخلوق کی طرح مجسم خیال کرتا ہے بلکہ بعض الفاظ محض اِستعارہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں تاکہ ایک قسم کا مفہوم بیان کرنے والے کا ادا ہو جائے یا بعض الفاظ جوشِ مَحبت میں استعمال کئے جاتے ہیں دوسرے مقام پر وہ جائز نہیں ہوتے۔ پس موقع اور محل کے لحاظ سے معانی لینے کا خیال رکھنا چاہئے۔
حصہ اوّل ۔ وصل یادِ ایّام کہ تُم جلوہ دکھا دیتے تھے پردۂ زُلفِ دوتا رُخ سے ہٹا دیتے تھے آپ آجاتے تھے یا ہم کو بُلا لیتے تھے یا لبِ بام ہی دیدار کرا دیتے تھے دن بہت گزرے نہیں جب کہ تھا آنا جانا حاضری آپ کی ہم صبح و مسا دیتے تھے رُوٹھ جاتے جو کبھی جان کے ہم تُم سے ذرا گُد گُدی کر کے معاً آپ ہنسا دیتے تھے نکتہ گیری تھی گہے نکتہ نوازی گا ہے دونوں اَوصاف عجب مل کے مزا دیتے تھے غفلتوں اور گناہوں کی عمارت ہر روز ہم بناتے تھے مگر آپ گرا دیتے تھے ہاتھ خالی نہ پھرے در سے کبھی آپ کے ہم رَبَّنَا رَبَّنَا کہہ کر جو صدا دیتے تھے یہ تو عادت تھی قدیم آپ کی اے ابرِ کرم! مانگتے جتنا تھے ہم' اس سے سِوا دیتے تھے گر بھڑک اُٹھتی کبھی آتِشِ عِصیاں اپنی آبِ رحمت سے لگی آگ بُجھا دیتے تھے رہنمائی کو مِری فوجِ ملائک آتی نفس و شیطان اگر راہ بُھلا دیتے تھے قطر ۂ اشک کے بدلے مئے جامِ اُلفت واہ کیا کہنے کہ کیا لیتے تھے' کیا دیتے تھے مکتبِ عشق میں جب درسِ وفا دیتے تُم وعدۂ ''قول بلیٰ'' یاد کرا دیتے تھے دیکھ کر ترچھی نگاہوں سے مِری حالتِ زار حوصلہ ہم سے غریبوں کا بڑھا دیتے تھے آتِشِ شوق کے بھڑکانے کو گاہے گاہے پردہئ غیب میں ذات اپنی چُھپا دیتے تھے قَبض اور بَسط چلے جاتے تھے دونو پیہم ایک ہی حال میں فُرصت نہ ذرا دیتے تھے دِل کے جُھلسانے کو کافی تھی فقط خاموشی سب سے بڑھ کر یہی طالِب کو سزا دیتے تھے خود پھنساتے تھے بلا میں کہ تماشا دیکھیں خود ہی پھر بِگڑی ہوئی بات بنا دیتے تھے تلخی و آہ و بُکا، سوزِشِ دِل، دردِ نہاں خوب بیمارِ مَحبت کو دَوا دیتے تھے سورج اور چاند سِتاروں کی خصوصیت کیا تُم تو ذرّے میں چمک اپنی دکھا دیتے تھے غیر ممکن ہے کہ تُم بھی ہو ۔ اَنانِیَّت بھی اک 'انا1؎' سے ہی یہ سب قصہ چکا دیتے تھے اُن دنوں سوز کا عالَم تھا یہ اپنا کہ جِدھر آہ کرتے تھے۔ اُدھر آگے لگا دیتے تھے نالۂ نیم شبی اتنا مؤثر تھا مِرا آپ بھی سُن کے کبھی سر کو ہِلا دیتے تھے دوست تو دوست رقیبوں کو رُلاتے تھے ہم اک قِیامت تِرے کوچہ میں مچا دیتے تھے لُطف تھا بھوک کا صد نعمتِ رِضواں سے فُزوں ما حَضَر اپنا مساکیں کو اُٹھا دیتے تھے جب سے یہ سمجھے کہ مخلوق ہے کُل تیری عَیال خدمتِ خَلق میں سب وقت لگا دیتے تھے محبت کعبۂ دِل کو سجاتے تھے تَصَوُّرسے تِرے اور مَحبت کا دِیا اُس میں جَلا دیتے تھے ''مَاسِوی اللہ'' کے خاشاک سے پھر کر کے صفا قلبِ صافی کو تِرا عرش بنا دیتے تھے صدقے کر دیتے تھے یہ جانِ حزیں قدموں پر ہر رَگ و ریشہ کو سجدے میں گرا دیتے تھے پھر خبر کچھ نہیں جاتے تھے کہاں عقل و شُعور آپ آتے تھے کہ سب ہوش بُھلا دیتے تھے اک تجلّی سے مِرے ہوش اُڑا دیتے تھے رُخ دکھاتے تھے تو دیوانہ بنا دیتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب سمجھ میں نہ کبھی آپ کا آتا تھا کلام راستہ عُقدہ کُشائی کا سُجھا دیتے تھے گہ بڑھا دیتے تھے دلداری سے اُمید ِ وصال ہجر و فُرقَت سے گہے مجھ کو ڈرا دیتے تھے سخت دُبدے میں مری جان کو رکھتے تھے مُدام اب میں سمجھا سَبَقِ خوف و رَجا دیتے تھے فاش کر دے نہ کہیں رازِ اَمانت یہ جَہول مُہرِ خاموشی مِرے لب پہ لگا دیتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مزا آپ کو آتا تھا عبادت سے مِری؟ کیوں مجھے پچھلے پہر آپ جگا دیتے تھے؟ کیوں مِرے منہ سے سنا کرتے تھے اپنی تعریف؟ کیوں مرے دِل کو لگن اپنی لگادیتے تھے؟ لُطف کیا تھا کہ پھنساتے تھے مَصائب میں اُدھر اور اِدھر رَغبَتِ تسلیم و رضا دیتے تھے عرفان نورِ عِرفاں سے مِرا سینہ مُنوّر کر کے پتّے پتّے میں مجھے اپنا پتا دیتے تھے مُنعکِس ہوتے تھے آئینۂ عالَم میں تُمہی بُوئے گُل میں بھی مہک اپنی سُنگھا دیتے تھے سالِکِ راہِ مَحبت کی تسلّی کے لئے آپ ہر ساز میں آواز سنا دیتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے تاکہ غبارِ رَہِ جاناں بن جائیں خاک میں اپنے تئیں ہم بھی مِلا دیتے تھے آہ و زاری میں ہماری یہ کَشِش تھی پُر زور آپ خود پینگ مَحبت کے بڑھا دیتے تھے چُھپ کہاں سکتا تھا چہرے سے تِرے عِشق کا نُور لاکھ ہم اس کو رَقیبوں سے چُھپا دیتے تھے یونہی بڑھتے گئے میدانِ مَحبت میں قدم ہم چلے ایک' تو دَس آپ بڑھا دیتے تھے پھر ہوا وہ جو حریفوں سے سنا تھا ہم نے جس کی پہلے سے خبر اہلِ صَفا دیتے تھے بند وہ روزنِ دیوار ہوا جس میں سے رُخ دکھا دیتے تھے آواز سنا دیتے تھے بے رُخی یار نے کی ۔ روتے ہو کیا قسمت کو چُھٹ گئے ہم سے جو قسمت کو بنا دیتے تھے تھا قُصور اپنا ہی سب ورنہ وہ جانِ جاناں طالِبوں کو نہ کبھی اپنے دَغا دیتے تھے اب تو دیوارِ حرم تک ہے پھٹکنا مشکل ایک وہ دن تھے مُکَبِّر پہ نِدا دیتے تھے ''حیف در چشمِ زدن صحبت یار آخر شُد روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شُد'' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ دوم ۔ ہجر قلبِ تاریک کہاں! لُطفِ عبادات کہاں! حسرتِ وصل کہاں! شوقِ ملاقات کہاں! جب سے عِصیان کے پھندے میں پھنسے اپنے قدم یار کی ہم سے رہی پھر وہ مُدارات کہاں! بیقراری نے مجھے کر دیا اتنا مدہوش دن کِدھر کٹتا ہے معلوم نہیں رات کہاں کس طرح حُسنِ مَجازی سے بُجھاؤں یہ آگ قطرہ شبنم کا کہاں' زور کی برسات کہاں درگہِ حضرتِ باری میں رَسائی نہ رہی عرضِ حالات کہاں' اور وہ مُناجات کہاں مَوردِ قہر ہوئے آنکھ میں اُس یار کی ہم اب ہمیں غیروں پہ کچھ فخرو مُباہات کہاں کھو دیا اپنے ہی ہاتھوں سے جو نُورِ باطِن ایسے کافِر پہ رہے چَشمِ عِنایات کہاں کیا گئے ہم سے ۔ کہ لیتے گئے سب فہم و ذَکا اب وہ حالات کہاں اور وہ خیالات کہاں طائرِ وہم بھی تھکتا ہے، یہ وہ دُوری ہے ہم کہاں! یار کہاں! رسمِ مُلاقات کہاں؟ اب تو دن رات بچھی رہتی ہے صف ماتم کی دن کہاں عید کے اور شب' شبِ بارات کہاں مجھ سے کہتے ہیں یہ دربان کہ ''جاتے ہو کدھر راندۂ در ہو' شرف یابِ مُلاقات کہاں'' اُن کی آنکھوں سے گرے' خَلق نے آنکھیں پھیریں اب کسی سے ہمیں اُمّیدِ مُراعات کہاں دوست ہی کہتے ہیں ''بلعم ہے نکالو اس کو'' جا کے اب دِل کے نکالوں میں بُخارات کہاں روزِ روشن میں نکالا جو گیا ہو ۔ اُس کو پھر شبِ تار کی وہ خفیہ ملاقات کہاں اُن کے جاتے ہی نہ معلوم کہ مجھ میں سے گئے حُسنِ اَخلاق کہاں ؟ خوبئ عادات کہاں؟؟ رہ گیا قِشر فَقط' مَغز ہوا سب برباد اپنے اَعمال میں اِخلاص کی وہ بات کہاں جب کہ خالِق سے ہی مَفرور ہوا بندہ' تو پھر خدمتِ خَلق کہاں' صدقہ و خیرات کہاں سب تَصَنُّع کا یہ رونا ہے غزل میں اب تو نالۂِ عشق کہاں اور یہ خُرافات کہاں وہ خَلِش دِل کی کہاں؟ سوزِ نہانی وہ کدھر وہ نمک پاشئِ لب ہائے جراحات کہاں؟ ہے یہ بے فائدہ سب آہ و فغاں ۔ واویلا سنتے ہیں عالَمِ بالا میں مِری بات کہاں اتنا ﷲِ بتا دو کہ ملیں گے مجھ کو اب وہ عرفان کہاں؟ لذّت طاعات کہاں طالِبِ کَشف سے کہہ دو کہ بنے طالِبِ یار وصلِ دلدار کہاں ۔ کشف و اِشارات کہاں جس سے مخمور رہا کرتے تھے دن رات کبھی ڈھونڈوں اُس مَے کو' بتا پیرِ خرابات! کہاں؟ دستِ بیعت تو دیا تھا کہ وہ کھینچیں اُوپر چُھٹ گیا حَیف' لبِ بام' مرا ہات کہاں اب وہ اعمال کہاں اور وہ نِیّات کہاں دستِ نُصرت وہ کسی کا تہِ آفات کہاں ناخَلَف وہ ہوں کہ اَسلاف کو بد نام کیا ورنہ ذِلَّت یہ کہاں زُمرۂِ سادات کہاں ق بارگاہِ اَحَدِیَّت کو پُکاروں کیونکر ایک درویش کہاں! قاضئ حاجات کہاں! اُن کی خدمت میں یہ کہنا ہے جو مل جائیں کبھی وقت پھر ایسا ملے گا مجھے ہیہات کہاں اپنے ہاں سے جو نِکالا ہے تو دو یہ تو بتا جاؤں اس در سے بھلا قبلۂ حاجات کہاں مجھ کو دعویٰ ہے کریمی پہ تمہاری' ورنہ ذرۂ خاک کہاں اور تِری ذات کہاں! دوستاں حالِ دِل زار نگُفتَن تاکےَ سوختم سوختم ۔ ایں سوز نہفتن تاکےَ حصہ سوم ۔ مناجات و دُعا اب تمنا ہے یہی دِل میں بُلا لے کوئی آرزو ہے کہ گلے اپنے لگا لے کوئی اب نہ ہے یار نہ دلدار، نہ غمخوار کوئی اتنی حسرت ہے کہ پھر پاس بٹھالے کوئی ہے کوئی صاحبِ دِل میری شَفَاعَت جو کرے میں جگر سوختہ ہوں ۔ میری دعا لے کوئی در پہ آیا ہے یہ توبہ کے لئے ایک فقیر دو گھڑی بیٹھ کے سُن لے مِرے نالے کوئی ہوتی ہے کشتئ ایماں کوئی دم میں غرقاب وَرطۂ بحرِ ضَلالت سے بچا لے کوئی ہے نہ طاقت نہ سَکَت اور نہ ہمّت باقی اب مُناسِب ہے یہی مجھ کو سنبھالے کوئی دَشتِ فُرقت میں بہت آبلہ پائی کر لی اب بھی شک ہو تو مِرے دیکھ لے چھالے کوئی کھینچ کر مجھ کو لیے جاتا ہے نَفسِ ظالِم قیدِ زَنجیرِ مَعاصی سے چُھڑا لے کوئی شرم سے گرچہ نظر اُٹھ نہیں سکتی میری پر تمنّا ہے کہ آنکھوں میں بٹھالے کوئی رُتبہ اپنا ہو ملائک سے کہیں بڑھ کے سِوا دامنِ عَفو کے نیچے جو چُھپا لے کوئی ہاتھ میں دِل کو لئے پھرتا ہوں اپنے زخمی کاش کہ پھانس مِرے دِل کی نکالے کوئی صدقے ہو جاؤں اگر ہاتھ پکڑ کر میرے اپنے چَرنوں میں مرا سِیس نِوا لے کوئی مِہر سے اُس کی، سیہ بختی ہو اپنی کافور زُلف کو گر رُخِ زیبا سے ہٹا لے کوئی میں بھی بیٹھا ہوں کسی در پہ با اُمید قبول پھر غلامِ درِ جانانہ بنا لے کوئی جس طرح اپنی حُضوری سے کیا تھا مہجور رحم فرما کے اسی طرح بُلا لے کوئی نبض کیوں دیکھ کے گھبرا گیا نادان طبیب دم نہیں نکلے گا جب تک کہ نہ آ لے کوئی جتنا چاہے مجھے مٹی میں مِلا دے کوئی پھر نہ کوچے سے مگر اپنے نکالے کوئی جو مخاطِب ہیں مِرے خود ہیں وہ عَلّامِ غُیوب اب مُناسب نہیں کچھ منہ سے نکالے کوئی ہے دُعا اپنی یہ درگاہِ خداوندی سے موت تب آئے کہ جب چہرہ دِکھا لے کوئی ایں دعا از من و از جملہ جہاں آ میں باد یار باز آید و لُطفش بہ ہماں آئیں باد حصہ چہارم ۔ ملاقات اے خوشا وقت کہ پھر وصل کا ساماں ہے وہی دستِ عاشق ہے وہی یار کا داماں ہے وہی دِل کے آئینہ میں عکسِ رُخِ جاناں ہے وہی مَر دُمِ چَشم میں نَقشِ شہِ خُوباں ہے وہی ہو گئی دُور غمِ ہجر کی کُلفت ساری شکر صد شکر کہ اللہ کا اِحساں ہے وہی مُژدہ اے جان و دِلم! پھر وہی ساقی آیا مَے وہی' بزم وہی' ساغرِ گرداں ہے وہی مِل گئے طالِب و مطلوب گلے آپس میں رَبِّ مُحسِن ہے وہی بندۂ اِحساں ہے وہی پھر وہی جنّتِ فردوس ہے حاصِل مجھ کو نَخلِ ایماں ہے وہی چَشمۂِ عِرفاں ہے وہی ذرّے ذرّے میں مِرے رچ گیا دلدارِ اَزَل ذکر میں لب پہ وہی' فِکر میں پِنہاں ہے وہی آتِشِ عشق و مَحبت کا وہی زور ہے پھر قلب بِریاں ہے وہی دیدۂ گِریاں ہے وہی دیکھئے کیا ہو کہ اب ایک ہوئے ہیں دونوں چاکِ داماں ہے وہی' چاکِ گریباں ہے وہی پھر اُسی تیغِ نَظَر سے یہ جگر ہے گھائِل طائرِ دِل کے لئے ناوِکِ مِژگاں ہے وہی روئے تاباں کو مِرے یار کے دیکھے تو کوئی مسکراہٹ ہے وہی' چہرۂِ خَنداں ہے وہی وسیلۂِ درگاہ الٰہی دوستو! مُژدہ کہ اک خِضرِ طریقت کے طُفیل پھر مِرے دِل میں رواں چَشمہ حیواں ہے وہی اس وسیلہ کے سوا وصل کی صورت ہی نہ تھی قاصدِ بارگہِ حضرتِ ذیشاں ہے وہی میرا کیا منہ ہے کہ تعریف کروں اُس کی بیاں مہدئؑ وقت ہے وہ، عیسٰؑئ دَوراں ہے وہی اُس کے ملنے سے ہمیں شاہدِ گُم گشتہ ملا آستانے کا شہِ حُسن کے دَرباں ہے وہی حمد ذات باری تعالیٰ میرا محبوب ہے وہ جانِ جہانِ عُشّاق اُس سے جو دُور رہا قالِب بے جاں ہے وہی عالَمِ کون و مکاں نُور سے اُس کے رَوشن نغمۂ ساز وہی، بوئے گُلِستاں ہے وہی ذرّے ذرّے میں کشِش عشق کی جس نے رکھی مالکِ جسم وہی' رُوح کا سُلطاں ہے وہی رنگ سے اُس کے ہے نیرنگیءِ عالَم کا ظُہور گرمی و رَونَقِ بازارِ حَسِیناں ہے وہی دِل جو انساں کو دیا، دردِ محبت دِل کو قبلۂِ دِل ہے وہی درد کا درماں ہے وہی جس نے آواز سُنی ۔ ہو گیا اُس کا شَیدا دیکھ لے جلوہ تو سَو جان سے قُرباں ہے وہی خود تو جو کچھ ہے سو ہے، نام بھی اُس کے پیارے حیّ و قیوم و صمد ۔ ہادی و رحماں ہے وہی عشق میں جس کے رَقابت نہیں وہ یار ہے یہ جس پہ بِن دیکھے مَریں لوگ یہ جاناں ہے وہی لاکھ خوشیاں ہوں مگر خاک ہیں بے وصلِ نِگار قُرب حاصِل ہے جسے خُرَّم و شاداں ہے وہی حُبِّ دنیا بھی نہ ہو خواہشِ عُقبیٰ بھی نہ ہو جُز خدا کچھ بھی نہ ہو طالِبِ جاناں ہے وہی ٹھوکر سے بچو نفسِ امّارہ جسے کہتے ہیں اَرباب نَظَر راہِ اُلفت میں بس اِک خارِمُغیلاں ہے وہی جس سے یہ رَہزن و سَفّاک بھی مَغلُوب نہ ہو یار کی راہ سے گُم گشتہ و حیراں1؎ ہے وہی دعا اب تو دِل میں ہے فَقَط ایک تمنّا باقی آرزو صرف وہی خواہش و اَرماں ہے وہی درگہِ قُدس سے قائم رہے رِشتہ اپنا لیکن اس کا بھی' اگر ہے ۔ تو نگہباں ہے وہی تِشنۂ جامِ مَحبت کی دُعا ہے اس سے ساقئ میکدۂِ محفلِ مَستاں ہے وہی ق آپ دیتے نہ تھکیں اور میں پیتے نہ تھکوں میرے شایاں ہے یہی آپ کے شایاں ہے وہی ہاتھ پکڑا ہے تو اب چھوڑ نہ دینا لِلّٰہْ مدتوں دُور رہا جو یہ پشیماں ہے وہی سچ تو یہ ہے کہ سبھی میری خطا تھی ورنہ اپنے بندوں پہ کرم آپ کا ہر آں ہے وہی ہم تو کمزور ہیں پر آپ میں سب طاقت ہے جو بھی مشکل ہے ہمیں آپ کو آساں ہے وہی لِلّٰہِ الْحَمْد میانِ من و اُو صلح فتاد حوریاں رقص کناں ساغَرِ شکرانہ زَدند 1؎ کالذی استھوتہُ الشیٰطین فی الارض حیرانمطبوعہ رسالہ رفیق حیات جلد 4 نمبر 3 بابت مارچ1921ء صفحہ 5 تا 10
بخار دل صفحہ51 12۔ دعائے وصل عرض یوں کرتاہے محبوبِ اَزَل سے خاکسار اے شہنشاہِ زمین و آسمان و ہر دو وار جوبھی خوبی ہے جہاں میں سب تمہارا فیض ہے کانِ حُسن و چَشمۂ اِحساں تُم ہی ہو اے نِگار اک نظر فَضل و کرم کی اس طرف بھی پھیر دو ٹِکٹِکی باندھے کھڑاہے در پہ اک اُمیدوار اے مِرے سورج! دکھا دو پھر اُسی اندازسے وہ چمک اور وہ دَمَک اور وہ جَھمک اور وہ بہار پھر خِرام نازسے دیجے وُہی جلوہ دکھا پھر اُسی لُطف و اَدا سے کیجئے دِل کو شکار اُس شب تاریک پر صد مہر و مہ قُرباں کروں جس کی ظُلمت میں جھلک اپنی دکھا دے وہ نِگار آئینہ حائِل تھامجھ میں اور رُخِ دلدار میں1؎ ورنہ کب کا راکھ ہو چُکتا یہ تن پروانہ وار اے مِرے دِلبر' مرے جاناں' مِرے دِل کے سُرور ایک ہے تُم سے دُعا میری یہ باصد اِنکِسار کُشتۂ حسن و ادا ؤ ناز پر ہو اِک نظر مُدّتوں سے یہ پڑا ہے بے کفن اوربے مزار زندگی میں تو ترستا رہ گیا آغوش کو مر گیا ہے ۔ اب توکرلیجے ذرا اِس سے پیار چادرِ مِہر و مُروّت میں اسے دیجے لپیٹ گوشۂ چشمِ مَحبت میں اسے لیجے اُتار ایک نَفْخِ رُوح کر کے اُس کو پھر زندہ کریں اور بسر یہ زندگی ہو ازپئے رضوانِ یار وَصل کی گھڑیاں مُیَسَّرہوں ہمیں ہر روز و شب دُور ہوں فضلوں سے تیرے ہجر کی شب ہائے تار آمین1؎ ایک کشف کی طرف اشارہ ہے جو الفضل 3نومبر 1936ء میں شائع ہوا۔
1921ء بخار دل صفحہ52۔5413۔ تودیع حضرت خلیفۃ المسیح ثانی برموقع سفر یورپ ۔از جانب اہل قادیان دار الامان
اے شہِ لَولاک کے لَختِ جگر! اور ہماری آنکھ کے نورِ نظر اے کہ تُم ہو جان و دِل روحِ رواں چھوڑ کر ہم کو چلے ہو خود کدھر ہم نہیں واقِف فِراقِ یار سے ہجر کے دن کس طرح ہوں گے بسر دِل پھٹے جاتے ہیں سب احباب کے دیکھ کر تیارئ رَختِ سفر حال اپنا کیا بتائیں آپ کو کیا دکھائیں کھول کر قلب و جگر کاش خاموشی ذرا ہوتی فصیح کاش رکھتیں کچھ اثر چَشمانِ تر کاش سوزِ اَندروں دیتا دھواں کاش دُودِ آہ آ سکتا نظر کاش آدم زاد ہوتا غیب داں کاش دِل کو دِل کی کچھ ہوتی خبر کاش ہوتے ہِجر کے درد آشنا وصل میں جن کی کٹی شام و سحر آہ کیا جانیں وہ حالِ عاشِقی شانِ محبوبی میں جن کی ہو بسر لیک مرضی حق کی جب دیکھی یہی کر لیا ہم نے بھی پتّھر کا جگر آپ کے دِل پر بھی ہے فرمائیے کیا جدائی کا ہماری کچھ اثر؟ سروِ سِیمینا! بدریا مَے رَوی نیک بے مہری! کہ بے مامے روی سلسلے کے پیشرو ، مرکز کی جاں جانشینِ مہدئ آخر زَماں جا رہے ہیں سوئے یورپ اس لئے تاکہ پورے ہوں مسیحا کے نِشاں مِنبرِ لندن پہ پکڑیں کچھ طیور اور مَنارِ مشرقی پر دیں اذاں مشرق و مغرب کو کر دیں مُتَّحِد اَسوَد و اَحمر کو کر دیں ایک جاں مُنضَبِط تبلیغ کا کر دیں نِظام تا نہ ہو محنت ہماری رائیگاں کچھ کریں لینے کا ان کے بندوبست زار کا سونٹا ۔ بُخارا کی کماں حَبَّذا اے اہلِ یورپ حَبَّذا میزباں آتا ہے بن کر میہماں تِشنہ آتا ہے کوئیں کے پاس خود یاں پیاسے پاس جاتا ہے کنواں تیرے جذبِ حق سے اے فضلِ عمر ایک دنیا آ رہی ہے قادیاں اے تماشا گاہِ عالَم روئے تُو تو کُجا بہرِ تماشا مے رَوی فی اَمانِ اللہ اے پیارے امام حَسبُکَ اللہ اسے شہِ والا مقام تِشنہ لَب ہیں اہلِ مغرب دین کے مَعرِفت کا جا پِلاؤ اُن کو جام اُٹھو اُٹھو اے بنی فارس! اُٹھو کام یہ ہو گا تُم ہی سے اِنصِرام گاڑ دو جا کر َعلَم توحید کا قصر تثلیثی کا کر کے اِنہِدام حق تعالیٰ کی حِفاظت ساتھ ہو اور ملائک کا رہے سایہ مُدام نصرتیں اللہ کی ہوں ہم رِکاب اور زیادہ ہو عُروج و اِحترام بحر و بر کے ہر سفر میں آپ کے خِضر راہ ہوں حضرتِ خیرُالاَنامؐ ہو دعائیں احمدِ مرسَل کی ساتھ اِستجابت کا جنہیں وعدہ تھا عام کامیابی ہر جگہ ہو ہم قَریں عافِیَت سے ہو سفر کا اِختتام کر دیا اللہ کے تُم کو سپرد ہو وہی حافظ تمہارا ۔ والسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سفر احباب پر ہوں رحمتیں دست و بازو ہیں جو شہ کے لاکلام کر لیا کرنا کبھی ہم کو بھی یاد ہیں پرانے ہم بھی اُس در کے غلام کچھ توجہ خاص ہو خُدّام پر اور دعا کا بھی رہے کچھ اِلتزام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی حالت ہے دِگرگوں آج کل ہے ہُجوم غم کا دِل پر اِژدہام گو حیا سے منہ پہ کچھ لائیں نہ ہم پر نہیں اس بات میں ذرّہ کلام دیدئہ عُشاق و دِل ہمراہِ تُست تا نہ پِنداری کہ تنہا مَے رویسفرِ یورپ کی روانگی کے موقعہ پر 12جولائی 1924ء کو جبکہ بیت اقصیٰ میں ایک کثیر مجمع کے ساتھ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی اور آپ کے رفقائے سفر کا فوٹو لیا گیا۔ یہ نظم اُس وقت حضور کے روبرو سنائی گئی تھی۔ اور 15جولائی 1924ء کے الفضل میں شائع ہوئی۔
بخار دل صفحہ56۔57 14۔ خلاصہ خطبہ عیدالاضحیٰ1924ء میں جبکہ حضورخلیفۃ المسیح ولایت تشریف لئے گئے تھے تو قادیان میں عیدالاضحی کاخطبہ حضرت مولوی شیرعلی صاحب نے پڑھا تھا۔ یہ اشعار اُس خطبے کے ہیں جو میر صاحب نے بطور خطبہ کے خلاصہ کے تحریر فرمائے تھے۔
ایکہ داری عزمِ تائیداتِ دیں یاد رکھ اس بات کو تُو بالیقیں کوئی قُربانی بجز تقویٰ نہیں اور بِلا قُربانی کچھ مِلتا نہیں بے مَحبت جُملہ قُربانی فُضول مُتَّقی کی صرف ہوتی ہے قَبول اِمتحانِ عشق ہیں قُربانیاں پر وہی جن میں ہو تقویٰ کا نِشاں متقی اللہ کا محبوب ہے اس کا تھوڑا بھی بہت مرغُوب ہے ہر عمل میں اپنے اے جانِ پدر لَنْ یَّنالَ اللّٰہ پر رکھیو نظر گوشت کا اور خون کا ہے کام کیا یاں تو بس تقویٰ سے حاصل ہو رضا تو وفا کو سیکھ ابراہیمؑ سے جس نے بیٹا رکھ دیا خنجر تلے عشق کے کوچے کا ہے پہلا سوال ''لائیے ناموس و عزّت جان و مال'' گر ذرا بھی ہو تأمُّل سے جواب مُدَّعی کا ہو گیا خانہ خراب عشق و تقویٰ کا نہ تھا باقی نِشاں لائے اُن کو احمدؑ آخِر زَماں گر تجھے ہے چاشنی اس راہ کی داخلِ حزبِ خدا ہو جا ابھی چاہتا ہے قُرب گر، قُربان ہو تاکہ تو حیوان سے اِنسان ہو چند چند از حکمتِ یونانیاں؟ حکمتِ ایمانیاں را ہم بخواں الفضل 31جولائی 1924ء بخار دل صفحہ56۔58 15۔ منظور ہے گزارِشِ اَحوالِ واقعی ۔ اپنابیان حُسنِ طبیعت نہیں مجھے جامِ جہاں نُما ہے شہنشاہ کا ضمیر نام اور پتا بتانے کی حاجَت نہیں مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے مُرشِد نے سرِ مجلسِ احباب اِک دن میرے بارے میں کچھ اس طرح سے اِرشاد کیا ''اس کی باتوںسے ٹپکتی ہے مَحبت ایسی ہم سمجھتے ہیں کہ ہے آدمی یہ بھی اچھا'' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی سُنتا تھا کہیں پاس کھڑا یہ تقریر کیا بتاؤں جو مرا حال نَدامت سے ہوا دِل کو دیکھا تو نہ تھی اس میں ذرا بھی گرمی ایک رَتی بھی مَحبت جو ہو، حاشا کلاّ سارے خانے تھے بھرے کُفر سے اور عِصیاں سے کوئی تقویٰ نہ تھا' اِخلاص نہ تھا' نُور نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ کو خود اپنے سے آنے لگی عار اور نفرت دیکھ کر ظاہِر و باطِن کو خراب اور گندا آہ! کرتا رہا میں کیسی مُلَمَّع سازی جِنس کھوٹی تھی جسے کر کے دکھایا اچھا تجھ پہ افسوس ہے اے َنَفسِ دَنی و ظالِم تو نے دھوکا بھی کیا جا کے تو مُرشِد سے کیا؟ یہ تِرا مکر، یہ تَلبِیس، خدا خیر کرے نفسِ اَمّارہ مِرے تونے یہ اچھا نہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب مناسب ہے کہ کر دے تو ابھی گوش گُزار میرے آقا! مرے ظاہِر پہ نہ جانا اَصلا اپنی تاریکئ باطِن پہ ہوں مَیں آپ گواہ عالِمُ الغیب ہے یا واقِفِ اَسرار مِرا پاس پھٹکیں نہ مِرے دوست بھی گِھن کے مارے گر حقیقت کا ذرا ان کو دکھا دوں چہرہ نِیَّت و خُلق و عَمَل اور یقین و ایماں منہ پہ لانے سے ان الفاظ کو آتی ہے حیا کاتِبِ قول و عمل ہیں جو فرشتے، وہ بھی کُفر و شوخی کو مِری دیکھ کے اُٹھے تَھرّا حسن ظنّی کا لیا آپ نے لارَیب ثواب لیکن اس دِل پہ لگایا ہے یہ کیسا چرکا چین دن کو ہے مجھے اور نہ شب کو آرام تُم نے سمجھا مجھے کیا اور میں نِکلا کیسا ہے یہ آدابِ اِرادت کے مُخالِف بالکل ایسی باتوں میں رہے آپ کا میرا پردہ سَیِّدی اَنْتَ حبیبی و طبِیبِ قَلَبی سخت لاچار ہوں لِلّٰہ مداوا میرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے مِرے مُرشدِ کامِل، اے مِرے راہ نما آپ کو حق کی قسم، کیجئے حق سے یہ دُعا نیک ظنّی کو مُبَدَّل بہ حقیقت کر دے لاج رکھتاہے پیاروں کے کہے کی مولا ما سِوَی اللہ سے کر دے مرا سینہ خالی حُبِّ دنیا کو مِرے نَفس پہ کر دے ٹھنڈا معرِفت دِل کو ملے رُوح کو نورِ ایماں ذرّے ذرّے میں مِرے عشق رَچا دے اپنا کِرم خاکی کو اگر چاہے تو انساں کر دے میرا مولیٰ مِری بگڑی کا بنانے والا مُستَحِق گرچہ نہ ہوں لُطف و کرم کا' لیکن کچھ بھی ہوں، کوئی بھی ہوں، ہوں تو اُسی کا بندہ حشر میرا شہِ خُوباں کی رفاقت میں ہو اور دائم رہے اِس ہاتھ میں دامن اُن کا مابدیں مقصدِ عالی نتوا نیم رسید ہاں مگر لُطفِ شما پیش نہد گامے چند مطبوعہ الفضل 14اگست 1924ء بخار دل صفحہ58۔59 16۔ نعمت اللہ نے دِکھلا دیا قرباں ہو کربرموقعہ شہادت مولوی نعمت اللہ خان جو احمدی ہونے کی وجہ سے 31اگست 1924ء کو کابل میں سنگسار کئے گئے۔
زندۂ عشق ہوئے داخلِ زِنداں ہو کر قُربِ دلدار ملا یار پہ قُرباں ہو کر سنگ ساری نے کیا حسن دوبالا تیرا خوب تر ہو گئی یہ زُلف پریشاں ہو کر کِشتِ اسلام کو سینچا ہے لَہو سے اپنے تو نے مَخمورِ خُمِ بادۂ عِرفاں ہو کر دیکھنا! کُشتہِ محبوب چلا مَقتَل کو پابَجَولاں، بسرِ شوق خِراماں ہو کر سنگ باری سے ترا نُور بُجھایا نہ گیا ذرّہ ذرّہ چمک اُٹھا خور تاباں1؎ ہو کر حرف آنے نہ دیا صدق و وفا پر اپنے جَور اَعداء کا سہا خُرَّم و خَنداں ہو کر مذہبِ عشق کی دنیاسے نِرالی ہیں رُسوم زندگی ملتی ہے اس راہ میں بے جاں ہو کر سُرخرو دونو جہانوں میں ہوئے تم' واللہ داخلِ میکدۂِ بزمِ شہیداں ہو کر لوگ کہتے تھے 'رہِ قُربِ الٰہی کیا ہے؟' نعمت اللہ نے بتلا دیا قُرباں ہو کر وائے برحالِ تُو اَے شاہِ امانُ اللہ خاں جس نے یہ رَجم کیا تابِعِ شیطاں ہو کر حق بھی مٹتا ہے تَعَدّی سے کہیں اے ظالِم خود ہی مٹ جائے گا تُو دست و گریباں ہو کر2؎ تو نے کہلا کے مسلمان وہ غدّاری کی! رہ گئے گبر بھی اَنگُشت بَدنداں ہو کر ہر گز اِس حِزبِ الٰہی سے نہ رکھنا اُمید ترک کر دیں گے یہ تبلیغ ہِراساں ہو کر سالکِ راہِ مَحبت سے یہ ممکن ہی نہیں جان دینے سے ڈرے، عاشقِ جاناں ہو کر آ رہی ہے یہ ہمیں خونِ شہیداں کی صدا ''آئے اِمدادِ خدا ہمتِ3؎ مرداں ہو کر'' وہ بھی دن آتے ہیں جب ڈھونڈیں گے شاہانِ جہاں برکتیں رَختِ مسیحا سے مسلماں ہو کر4؎1؎ خورِ تاباں یعنی چمکتا ہوا سورج 2؎ ظلم کی سزا امان اللہ کو بہت سخت ملی۔ اُس کو سلطنت چھوڑ کر بحالِ تباہ افغانستان سے نکلنا پڑا۔ اور ایک لمبا عرصہ اٹلی میں گمنامی اور لاچاری و بے کسی کی حالت میں گزار کر 3اپریل1960ء کو مر گیا۔ محمد اسمٰعیل پانی پتی 3؎ یعنی ہمارے قائم مقام رضا کار پیدا ہوں۔ 4؎ حضرت مسیح موعودؑ کی یہ پیش گوئی کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ نہایت شان سے پہلی مرتبہ اس وقت پوری ہوئی جب ہِز ایکسیلینسی ایف۔ایم سنگھاٹے گورنر جنرل گمبیا مغربی افریقہ نے 1966ء میں حضرت خلیفۃ المسیح ثالث کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ مجھے حضرت مسیح موعود کا کوئی کپڑا تبرکاً مرحمت فرمائیں۔ حضرت صاحب نے یہ درخواست قبول فرمائی اور حضرت اقدس کے کپڑے کا ایک ٹکڑا انہیں بھیج دیا۔ مفصل حالات رسالہ تحریک جدیدِ ربوہ ماہ نومبر 1969ء میں ملاحظہ فرمائیں۔ محمد اسمٰعیل پانی پتی
الفضل 28ستمبر 1924ء بخار دل صفحہ60۔62 17۔ مجھ کو کیا بیعت سے حاصل ہوگیا؟ جب سے میں بیعت میں داخِل ہو گیا تارکِ جُملہ رَذائل ہو گیا اِک سپاہی بن گیا اِسلام کا کُفر سے لڑنے کے قابِل ہو گیا توڑ ڈالے بُتکَدے کے سب صَنَم جب سے اُن مِژگاں کا گھائِل ہو گیا اِک نظر تِرچھی پڑی صیّاد کی طائرِ دِل نِیم بِسمِل ہو گیا ہو گئی آنکھوں میں یہ دنیا ذلیل اور مُقَدَّم دینِ کامِل ہو گیا مال اور اِملاک وَقفِ دیں ہوئے شوقِ جاہ و مال زائِل ہو گیا جَہل کی تاریکیوں میں تھا اَسِیر احمدی ہوتے ہی فاضِل ہو گیا پہلے مُنکِر دین کا تھا، اور اب قائِل جملہ مسائِل ہو گیا ہر عمل میں روحِ تقویٰ مُستتَرَ ہر عقیدہ با دَلائِل ہو گیا کیا عجب اس سلسلہ کا حال ہے کل کا جاہِل آج عاقِل ہو گیا پہلے ڈر جاتا تھا ابجد خوان سے اب میں 'مَولانا' کے قابِل ہو گیا تھا کبھی جو تارکِ فَرض و سُنَن اب وہ پابَندِ نَوافِلِ ہو گیا کُشتَۂ لَذّاتِ دنیا اَلعَجَب نَفسِ اَمّارہ کا قاتِل ہو گیا ہو گیا شیطان مجھ سے نااُمید سِحر اس کافِر کا باطِل ہو گیا زَمزَمہ اپنا پئے تبلیغِ حق باعثِ رَشکِ عَنادِل ہو گیا جنگ ہے باطِل سے میری ہر گھڑی اس قدر میں حق میں واصِل ہو گیا ہو کے مَخمورِ مئے حُسنِ اَزَل مجھ سا نالائِق بھی قابِل ہو گیا عادت و اَخلاق دِلکش ہو گئے جامِعِ حُسن و فَضائِل ہو گیا نورِ عِرفاں ہو گیا مجھ کو نصیب کور دِل تھا ۔ صاحبِ دِل ہو گیا طاعَت و اِخلاص و اِستِغفَار سے قَلبِ مُظلِم شمعِ محفِل ہو گیا ہو گیا مَشہود جو مَسموع تھا جب سے فیضِ شیخِ کامِل ہو گیا لذَّتِ طاعات میں رہتا ہوں محو یار بِن اک لحظہ مشکل ہو گیا اب دعائیں بھی لگیں ہونے قبول فَضلِ رَبیّ جب سے شامِل ہو گیا حُبِ قرآں عشقِ خَتمُ المُرسلینؐ ہر رگ و ریشے میں داخِل ہو گیا دوست سے باتیں بھی کچھ ہونے لگیں پردہ اُٹھا ۔ گھر میں داخِل ہو گیا رنگ مجھ پر چڑھ گیا دِلدار کا کیا کہوں کیا مجھ کو حاصِل ہو گیا مَظہرِ اَخلاقِ یزداں بن گیا مَہبطِ انوارِ آئل1؎ ہو گیا دوستو! کیا کیا بتاؤں نعمتیں اب تو گِننا ان کا مشکل ہو گیا ہے ترقی ہر گھڑی اِنعام میں خُلد دنیا ہی میں حاصِل ہو گیا اے عَدُو! تو بھی تو ان فضلوں کو دیکھ کیا ہوا کیوں حق سے بے دِل ہو گیا اب بھی کےا کچھ شک کی گُنجائِش رہی جب ظُہورِ بدرِ کامِل ہو گیا خاتمہ بِالخیر کر دے اب خدا راستہ سیدھا تو حاصل ہو گیا ''اے خدا! اے طالِباں را رہ نما اےکہ مِہر تُو حیاتِ رُوحِ ما بر رضائے خویش کُن انجامِ ما تا برآید در دو عالَم کامِ ما'' آمین 1 آئل بمعنی روح القدس ۔ جبریل الفضل 11اکتوبر 1924ء بخار دل صفحہ63 18۔محبت کا ایک آنسوآنحضرت صلی اللہ علےہ وسلم کی حدیث ہے کہ قیامت کے دن سات قسم کے آدمی عرش کے سایہ میں ہوں گے ۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس کے متعلق آنحضوؐر فرماتے ہیں۔ کہ رَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہِ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ۔'' یہ پرکیف نظم اسی تنہائی کے آنسوکی تعریف میں لکھی گئی ہے ۔
مہزار علم و عمل سے ہے بالیقیں بہتر وہ ایک اشکِ مَحبت جو آنکھ سے ٹپکا خراجِ حُسن میں ہر جِنس سے گِراں مایہ نُذُورِ عشق میں کیا خوب گوہرِ یکتا خلاصۂ ہمہ عالَم ہے قَلب مومِن کا خلاصۂ دِل مومِن یہ اشک کا قطرہ نہ اِنفِعال، نہ حسرت، نہ خوف و غم باعِث وہ ایک اور ہی مَنبع ہے جس سے یہ نکلا نہ اس کے راز کو دو کے سوا کوئی جانے نہ یہ کسی کو خبر کب بنا ۔ کہاں ڈَھلکا جو جھلکے آنکھ میں تو مست و بے خبر کر دے گرے تو لیویں ملائک اُسے لپک کے اٹھا نہیں زمانہ میں اس سا کوئی فَصیح و بلیغ جو دِل کا حال ہو دِلبر سے اس طرح کہتا عرق ہے خونِ دلِ عاشِقاں کا یہ آنسو یہی ہے نارِ مَحبت سے جو کشِید ہوا یہ تحفہ وہ ہے جو خالِص خدا کی خاطِر ہے نہیں ہے اس میں رِیا اور نِفا ق کا شُعبہ پناہِ تیزئ خورشیدِ روزِ محشر ہے ملے گا اشک کی برکت سے عرش کا سایہ جو ـ''عین جاریہ'' درکار ہے اے زاہِدِ خشک تو ''عین جاریہ'' اپنی بھی کچھ بہا کے دکھا میں کیا سر شکِ محبت تِری کروں تعریف کہ ذات باری نے خود تجھ کو دوست فرمایا الفضل 23اکتوبر 1924ء بخار دل صفحہ64۔66 19۔ عاقبت کی کچھ کرو تیاریاں چل رہی ہیں زندگی پر آریاں ہو رہی ہیں موت کی تیاریاں اَتقیا اور اشقیا سب چل بسے اپنی اپنی یاں بُھگت کر باریاں خاتَمہ کا فکر کر لے اے مریض پیشرو ہیں مرگ کی بیماریاں جب فرشتہ موت کا گھر میں گُھسا ہو گئیں بے سود آہ و زاریاں زندگی تک کے ہیں یہ سب جاں نِثار سانس چلنے تک کی ہیں سب یاریاں جیتے جی جتنا کوئی چاہے بنے بعد مُردن ختم ہیں عیاریاں حَشر میں پُرسِش ہے بس اَعمال کی کام آئیں گی نہ رِشتہ داریاں کس نشے میں جھومتا پھرتا ہے تُو رنگ لائیں گی یہ سب مَے خواریاں کھینچ کر لے جائیں گی سوئے سَقَر نَفسِ اَمّارہ کی بد کرداریاں طائرِ جاں جب قَفَس سے اُڑ گیا ساتھ ہی اُڑ جائیں گی طرّاریاں چاہیئے فکرِ حسابِ آخِرت عاقِبَت کی کچھ کرو تیّاریاں ہے یہ دنیا دشمنِ ایمان و دِیں یاد ہیں اس کو بہت مکّاریاں جب تلک باطِن نہ تیرا پاک ہو کام کیا آئیں گی ظاہِر داریاں کچھ کما لے نیکیاں اے جانِ مَن تا نہ ہوں اگلے جہاں میں خواریاں کچھ اُٹھا دے دِل سے غفلت کے حِجاب کچھ دکھا دے کر کے شب بیداریاں کچھ عمل اِخلاص کے دَرکار ہیں ہو چکیں بے حد مُلَمَّع کاریاں تجھ کو مُسلم پائے جب آئے اجل ہیں اسی میں جملہ برخورداریاں خاک میں ملنے سے پہلے خاک ہو روکتی نیکی سے ہیں خود داریاں خدمتِ اِسلام میں خود کو لگا چھوڑ دے ﷲِ اب بیکاریاں خادمِ دینِ متیں ضائِع نہ ہو ایسی خدمت سے ملیں سرداریاں کر توجہ عادت و اَخلاق پر ترک کر دے سختیاں، خونخواریاں رِفق کو اپنا بنا لے تو رفیق چھوڑ دے خَلقَت کی دِل آزاریاں رُوح کو کر دے مُبادا تو ہلاک کرتے کرتے تن کی خاطِرداریاں ہم نَشیں اُن کا نہ ہوگا نامُراد صادِقوں سے کچھ لگا لے یاریاں ہوں بدی سے پاک نِیَّت اور عمل خود بخود صادِر ہوں نیکو کاریاں چاہتا ہے گر اَبَد کی زندگی کر فنا کے واسطے تیّاریاں یار کے کوچے کی ہو جا خاکِ راہ اُس کی چَوکَھٹ پر ہوں آہ و زاریاں کر قَبول اپنے لئے دیوانہ پن چھوڑ کر چالاکیاں، ہُشیاریاں دِل سے راضی ہو ہر اک ذِلَّت پہ تُو ہوں نہ تجھ کو عار خدمت گاریاں جاہ اور اولاد و عزّت ۔ جان و مال توڑ دے ان سے تَعلُّقْ داریاں آتِشِ دوزخ ہوئی اُس پر حرام عشق کی جس دِل میں ہوں چِنگاریاں رنگ میں احمدؐ کے ہو رنگیں تُو اور دِکھا اُس قِسم کی گُلکاریاں تب کہیں جا کر وہ محبوبِ اَزَل خاکساروں کی کریں دِلداریاں جَنَّتِی ہو جائے تیری زندگی جب وہی کرنے لگیں غم خواریاں موت کا دن پھر بنے یوم التَّلاق1؎ اور جنازہ وصل کی تیاریاں بے عِنایاتِ خدا کارست خام پختہ داَند ایں سُخَن را والسلام 1؎ یوم التَّلاق وصل خداوندی کا دن ریویو آف ریلیجنز نومبر 1924ء بخار دل صفحہ67۔69 20۔ خیر مقدم حضرت خلیفۃالمسیح الثانیبرموقع واپسی از سفر یورپ جب 24دسمبر 1924ء دو شنبہ کے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سفر یورپ سے نہایت کا میابی کے ساتھ واپس قادیان میں تشریف لائے تو بعد نماز عصر ایک عظیم الشان مجمع کی موجودگی میں بیت اقصیٰ کے اندر اہلِ قادیان کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا گیا۔ یہ نظم اسی موقع کے لئے کہی گئی تھی اور سیّد عبدالغفور ابن میر مہدی حسن صاحب نے ایڈریس کے پیش ہونے سے پہلے نہایت خوش اِلحانی کے ساتھ حاضرین کو پڑھ کر سنائی تھی ۔ محمد اسمٰعیل پانی پتی
شکر صد شکر! جماعت کا اِمام آتا ہے ﷲِ الحمد! کہ بانیلِ مَرام آتا ہے زیبِ دستار کیے فتح و ظَفَر کا سہرا ولیم کنکرر1؎ اور فاتِحِ شام آتا ہے مَغرِبُ الشَّمس کے ملکوں کو مُنَوَّر کر کے اپنے مرکز کی طرف ماہ تَمام آتا ہے پاس مینارِ دمشقی کے بصد جاہ و جَلال ہو کے نازل یہ مسیحا کا غلام2؎ آتا ہے مرحبا! ہو گئی لندن میں وہ بیت تعمیر جس کی دیوار پہ محمودؔ کا نام آتا ہے سچ بتانا تُم ہی اے مُدَّعیانِ ایماں کون ہے آج جو اِسلام کے کام آتا ہے عَظمَتِ سِلسلہ قائم ہوئی اس کے دَم سے خوب پُہنچانا اُسے حق کا پیام آتا ہے آج سُورج نکل آیا یہ کِدھر مَغرب سے ہم سمجھتے تھے کہ مَشرق سے مُدام آتا ہے مُژدہ اے دِل کہ مسیحا نفسے می آید کہ زِ انفاسِ خوشش بوئے کَسے می آید اے خوشا وقت کہ پھر وصل کا ساماں ہے وہی دستِ عاشق ہے وہی' یار کا داماں ہے وہی ہو گئی دُور غمِ ہجر کی کُلفَت ساری ﷲِ الحمد کہ اللہ کا احساں ہے وہی پھر مِرے بادہ گسارو! وہی ساقی آیا مے وہی' جام وہی' محفل رِنداں ہے وہی کارِ سرکار کیا خواب و خورش کر کے حرام دیکھ لو پھر بھی بہارِ رُخِ تاباں ہے وہی سامنے بیٹھے ہیں اس بزم کے میخوار قدیم بیعتِ دِل ہے وہی' قلب میں ایماں ہے وہی قادیاں! تجھ کو مبارک ہو وُرُودِ محمود دیکھ لے! دیکھ لے! شاہنشہِ خُوباں ہے وہی آج رونق ہے عجب کوچہ و برزن میں ترے بادہ خواروں کے لئے عیش کا ساماں ہے وہی رشک تجھ پر نہ کرے چرخ چہارم کیونکر طُورِ سَینا پہ تِرے جلوۂ فاراں ہے وہی آمدِ فَخرِ رُسُل3؎ حضرت احمد کا نُزول دونوں آئینوں میں عکس رُخِ جاناں ہے وہی زآتِشِ وادئ ایمن نہ منم خرم و بس موسیٰ ایں جا باُمیدِ قَبسے می آید آپ وہ ہیں جنہیں سب راہ نما کہتے ہیں اہلِ دِل کہتے ہیں اور اہلِ دعا کہتے ہیں آپ کو حق نے کہا ''سخت ذکی'' اور ''فہیم'' ''مظہرِ حق و عُلیٰ ۔ ظِلِّ خدا'' کہتے ہیں رَستگاری کا سبب آپ ہیں قوموں کےلئے ہر مصیبت کی تمہیں لوگ دوا کہتے ہیں آپ وہ ہیں کہ جنہیں ''فخر رُسل'' کا ہے خِطاب دیکھنے والے جب ہی صَلِّ علیٰ کہتے ہیں اِستجابت کے کرشمے ہوئے مشہورِ جہاں آپ کے دَرکو دَرِ فیض و عطا کہتے ہیں کوئی آتا ہے یہاں سائِلِ دُنیا بن کر مطلب اپنا وہ زَر و مال و غِنا کہتے ہیں رِزق اور عزّت و اولاد کے گاہک ہیں کئی بخشوانے کو کوئی اپنی خطا کہتے ہیں کوئی دربار میں آتا ہے کہ مِل جائیں عُلوم کوئی اپنے کو طلبگارِ شِفا کہتے ہیں نیک بننے کےلئے سینکڑوں در پر ہیں پڑے خود کو مشتاقِ رَہِ زُہد و تُقیٰ کہتے ہیں طالبِ جَنّتِ فردوس ہیں اکثر عاقِل دارِ فانی کو فقط ''ایک سَرا'' کہتے ہیں میں بھی سائِل ہوں طلبگار ہوں اک مطلب کا کوئے احمدؐ کا مجھے لوگ گدا کہتے ہیں میری اک عرض ہے اور عرض بھی مشکل ہے بہت دیکھئے آپ بھی سُن کر اسے کیا کہتے ہیں جس کی فُرقت میں تڑپتا ہوں' وہ کچھ رحم کرے یعنی مِل جائے مجھے جس کو خدا کہتے ہیں ہیچکس نیست کہ در کوئے تو اش کارے نیست ہرکس ایں جا باُمیدِ ہَوَسے می آید1؎ William Conqueror ولےم اوّل جس نے انگلستان کو فتح کیا تھا۔ 2؎ غلام یعنی پسر 3؎ ''فخر رُسل'' حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کا الہامی نام ہے۔
الفضل 25نومبر 1924ء بخار دل صفحہ70۔71 21۔ ایک احمدی بچی کی دُعامریم صدیقہ حضرت میر صاحب کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں۔ دسمبر1924ء میں جبکہ ان کی عمر چھ برس کی تھی یہ بے نظیر دُعا حضرت میر صاحب نے اُنہیں لکھ کر دی تھی اور اُنہوں نے مستورات کے سالانہ جلسہ منعقدہ قادیان میں پڑھ کر سنائی تھی ۔ اس دلکش نظم میں دین سے محبت ، مذہب سے اُلفت آپس کی ہمدردی اور سب سے اخلاق و ادب سے پیش آنے کی جیسی اعلیٰ تعلیم سلیس اور دِل نشین پیرایہ میں دی گئی ہے ، واقعہ یہ ہے کہ بچوں کے لئے لکھی ہوئی نظموں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ محمد اسمٰعیل پانی پتی
الٰہی مجھے سیدھا رستہ دکھا دے مِری زندگی پاک و طیِّب بنا دے مجھ دین و دنیا کی خُوبی عطا کر ہر اک درد اور دُکھ سے مجھ کو شفا دے زباں پر مِری جھوٹ آئے نہ ہرگز کچھ ایسا سبق راستی کا پڑھا دے گناہوں سے نفرت، بدی سے عداوت ہمیشہ رہیں دِل میں اچھے اِرادے ہر اک کی کروں خدمت اور خیر خواہی جو دیکھے وہ خوش ہو کے مجھ کو دعا دے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پہ شفقت سراسر محبت کی پُتلی بنا دے بنوں نیک اور دوسروں کو بناؤں مجھے دِین کا عِلم اتنا سِکھا دے خوشی تیری ہو جائے مَقصود میرا کچھ ایسی لگن دن میں اپنی لگادے جو بہنیں ہیں میری وَ یا ہیں سہیلی یہی رنگ نیکی کا سب پر چڑھا دے غِنا دے ، سخا دے ، حیا دے ، وفا دے ہُدیٰ دے، تُقیٰ دے ، لِقا دے، رَضا دے مِرا نام اَبّا نے رکھا ہے مریم خدایا تو صِدِّیقہ مجھ کو بنا دے الفضل 6جنوری 1925ء بخار دل صفحہ72 22۔ ندائے احمدیت دَرکار ہیں کچھ ایسے جوانمرد، کہ جن کی فِطرت میں وَدِیعت ہو مَحبت کا شرارا بے عشق نہیں حسن کے بازار میں رونق وہ اس کا طلبگار ۔ تو یہ اُس کا سہارا آئیں وہ اِدھر ، رکھ کہ ہتھےلی پہ سر اپنا ''لبیک''! کہ دِلبرنے ہے عاشِق کو پکارا ہر ایک میں ہو عزم وہ ثابِت قَدَمی کا جِھجکا نہ ہو خطر ے سے، نہ ہِمّت کبھی ہارا پروا نہ ہو ذرّہ بھی محبت کے نَشے میں شمشےر ہو گردن پر کہ ہو فَرق پہ آرا اِک آگ ہو سینے میں نِہاں' کام کی خاطِر ہر رنگ نیا، بات کا ہر ڈھنگ نِیارا فرہادؔ کے اور قیسؔ کے قِصّوں کو بُھلا دیں دِکھلا کے جُنوں اور مَحبت کا نظارا بے زَرہوں، پہ ہو جائیں وہ امریکہ روانہ بے پرہوں توپیدل ہی پہنچ جائیں بُخارا سامان کے محتاج، نہ آفات سے خائِف گر زاد نہ ہو ۔ کر سکیں پتّوں پہ گزارا برپا ہو قیامت جو وہ تبلیغ کو نکلیں عِفَّت ہو جو بے داغ تو اَخلاق دِل آرا اموال کمائیں، تو کریں نَذرِ 'اِشاعت' اَملاک بنائیں تو کریں وَقف خدارا بس ایک ہی دُھن ہو کہ کریں خود کو تَصَدُّق راضی ہو کسی طرح سے محبوب ہمارا وہ دِین جو مُحتاج ہے خِدمت کا ہماری ہو جائے اگر ہو سکے ۔ ا س کا کوئی چارہ قُربان ہو ہر چیز اسی بات کی خاطِر اِسلام کا اُونچا ہو زمانہ میں منارا اب عشقِ مَجازی کی نُمائِش کو مِٹا کر ہم عشقِ حقیقی کا دکھائیں گے نظارا عمر یست کہ آوازۂ منصور کہن شد مَن از سرِ نَو جلوہ و ہم صدق و وفا را الفضل 10جنوری 1925ء بخار دل صفحہ73۔74 23۔ احمدی کی تعریف ہوں اللہ کا بندہ محمدؐ کی اُمَّت ہے احمدؑ سے بیعت خلیفہ سے طاعت مِرا نام پوچھو تو مَیں احمدی ہوں خدا کی عِبادت رسولوں کی نُصرت قیامِ شریعت ہُدیٰ کی اِشاعت مِرا کام پوچھو تو مَیں احمدی ہوں زمانہ سے اَن بَن سبھی میرے دشمن لہُو کے ہیں پیاسے مسلماں ۔ برہمن گر اِلزام پوچھو تو مَیں احمدی ہوں سیہ کار اَسود رِیا کار احمر جو مغضوب اَبیَض تو دَجّال اصفر پہ بدنام پوچھو تو مَیں احمدی ہوں طَلَب میں خدا کی بہت خاک چھانی ہر اک دین دیکھا ہر اک جا دُعا کی پھر انجام پوچھو تو مَیں احمدی ہوں وَساوس، رَزائل ہوئے مجھ سے زائِل یقیں میرا کامِل ہُوں جنت میں داخِل بآرام پوچھو تو مَیں احمدی ہوں ہیں اَثمارِ ایماں نَجات اور عِرفاں مَقاماتِ مَرداں مُلاقاتِ یَزداں جو قَسّام پوچھو تو مَیں احمدی ہوں مَیں کعبہ ہوں سب کا حَرَم اپنے رَبّ کا جو مَلجا عَجم کا تو ماویٰ عرب کا اب اسلام پوچھو تو مَیں احمدی ہوں الفضل 9مئی 1925ء بخار دل صفحہ75۔78 24۔ نعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صَلِّ عَلٰی اِمَامِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی حَبِیْبِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی شَفِیْعِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مَسِیْحِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی وَلِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ اُس کی نگاہِ جانفَزا، اُس کا نَفَس حَیات زا اُس کا کلامِ بے بَہا، اُس کی دُعا فلک رَسا ختمِ نگینِ اَولِیا، ظِلِّ مِہینِ انبیا ساری ادائیں دِلربا، نورِخدا خدا نُما صَلِّ عَلٰی حَبِیْبِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ مَرجَعِ عام تخت گاہ، مَنبعِ فیض بارگاہ لشکرِ 'آخریں' سِپاہ، آل میں اس کی پادشاہ شہرِ صیام و مہر و ماہ، صِدق پہ اس کے ہیں گواہ دَم سے ہوئے عَدُو تباہ، زورِ قلم پناہ پناہ صَلِّ عَلٰی مَسِیْحِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ مَہبَطِ وحِئ ذُوالجَلال ماحئ دَجلِ پُرضلال قاتِل خُوکِ بدخصال، فاتِح جنگِ اِبتہال کسرِ صلیب بے مثال، غلبۂ دینِ لازوال خوب لٹائے گنج ومال، کر دیا خَلق کو نِہال صَلِّ عَلٰی مَسِیْحِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی اِمَامِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَصف ہوں اُس کے کیا رَقَم، ٹوٹ گیا یہاں قَلَم امن و امان کا َعلَم، عَدل و حَکَم، شہِ اُمَم عِلم کے آگے سر ہیں خَم، گُنگ ہوئے عرب عَجم کثرتِ غیب دَمبَدَم نُصرتِ حق قدم قدم صَلِّ عَلٰی اِمَامِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ آیا نذیر فتح یاب، لاکھوں نِشاں ہیں ہمرِکاب تِیرہ ہیں مہر و ماہتاب، ارض وسما میں اِضطِراب قحط و مرض، وبا،عذاب، خَسفِ زمین وسیلِ آب جنگِ عظیم و اِنقِلاب، سارا جہاں ہوا کباب صَلِّ عَلٰی رَسُوْلِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلِّ عَلٰی مَسِیْحِنَا صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ دَورِ جِبالِ سُیِّرَتْ، عہدِ عِشارِ عُطِّلَتْ زورِ بِحارِ فُجِّرَتْ، شورِ قُبورِ بُعْثِرَتْ نارِ جَحِیْمِ سُعِّرَتْ، بُوئے نسیمِ اُزْلِفَتْ وَصلِ نُفُوْسِ زُوِّجَتْ، وقتِ ظُہورِ اُقِّتَتْ صَلِّ عَلٰی رَسُوْلِنَا صَلِّ عَلٰی مُحمّدٍ صَلِّ عَلٰی مَسِیْحِنَا صَلِّ عَلٰی مُحمّدٍ حُسن و جمالِ یوسُفی، شانِ جلالِ مُوسَوی نَفْخِ مسیحِ ناصری، خُلق و شِیَم محمدؐی مُلہِم و نیز مَنطِقی، عاشِق و نیز فلسفی رنگِ کمالِ ہر نبی، سِحرِ قلم ادا نئی صَلِّ عَلٰی حَبِیْبِنَا صَلِّ عَلٰی مُحمّدٍ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحمّدٍ جائے سلامِ اوّلیں، ماہِ تَمامِ آخریں پادشہِ مجدّدیں، شہنشہِ مبلّغیں خیراُمَم ہیں ہمنشیں، فخر رُسُل ہیں جانَشیں روضۂ پاک و عنبریں، خُلدِ بریں ۔ بر ایں زمیں صَلِّ عَلٰی مَسِیْحِنَا صَلِّ عَلٰی مُحمّدٍ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّنَا صَلِّ عَلٰی مُحمّدٍیہ نعت سالانہ جلسہ دسمبر 1926ء کے موقع پر حاضرینِ جلسہ کو سنائی گئی۔
الفضل 4جنوری 1927ء بخار دل صفحہ46۔48 25۔ میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا '' میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا'' اسی عہد پر اپنے قائم رہوں گا گِروں گا پڑوں گا جےوں گا مَرُوں گا مگر قَول دے کر نہ ہر گز پِھروں گا میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا مُلَمَّع ہے احوالِ دُنیائے فانی مَحبت زُبانی، عَداوت نِہانی خوشی اس کی کوئی نہیں جاوِدانی مَکدَّر ہے ہر عیش اور زِندگانی میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا بُرائی، نِفاق اور جھوٹی سَتائِش غَلاظَت نَجاست کی زَرّیں نُمائِش دِلوں میں جَلَن اور سینوں میں کاوِش جہنُّم ہے دُنیا کی یارو رہائِش میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا اگر دین کو اپنے کر لوں میں قائِم تو فَضلوں کا وارِث رہوں گا میں دائم نہ گُزرے گی یہ عُمر مِثلِ بَہائم نہ مالِک کی خفگی نہ کچھ لَومِ لائِم میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا یہ اہلِ جہاں، خاص ہوں یا کہ عامی زن و مال کی کر رہے ہیں غُلامی حکومت کے' عزّت کے' سب ہیں سلامی نہیں دینِ بے کس کا کوئی بھی حامی میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا خدا کا ادب اور خَلقَت پہ شَفقَت خُلوص و نصیحت نبیؐ کی مَحبت ''تَخَلُّقْ بہ اَخلاقِ باری'' بغائت عزیزو یہی دین کی ہے حقیقت میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا مجھے زالِ دُنیا سے کیا ہو گا حاصل طَمَع اور حَسَد اور جُملہ رَذائِل مرا علم باطِل مِری عقل زائِل خدا اور بندے میں پردہ ہو حائِل میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا اسے کوئی مَل ڈالے پیروں کے نیچے تو چلتی ہے پھر آپ یہ اُس کے پیچھے جو دَب جائے چڑھتی ہے سر پر اُسی کے مگر میں چلوں گا کہے پر نبیؐ کے میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا اُدھر مال و دولت اِدھر علم و حکمت اُدھر بے لگامی اِدھر حق سے بیعت وہاں حُبِّ فرزند و زَن ۔ جاہ و حشمت یہاں معرِفَت' مَغفِرَت اور جنت میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا جو دنیا پہ دِیں کو کروں گا مُقَدَّم تو وہ میرا دِلبر وہ جانانِ عالَم وہ مَقصود و مَطلوبِ اَبنائے آدم اُٹھادے گا چہرے سے پردہ اُسی دَم میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا مجھے نَفس و شیطاں سے یا رَبّ بچانا نہیں اپنا ورنہ کہیں بھی ٹِھکانا جو کمزور ہو ۔ اُس کو کیا آزمانا مِرا عہد یہ ۔ خود ہی پورا کرانا کہ '' میں دنیا پہ دِیں کو مُقَدَّم کروں گا '' الفضل7جنوری 1927ء بخار دل صفحہ81۔82 26۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہےجو شخص دین کو دنیا پر مُقَدَّم کرنے کا عہد کرکے پھر بھی منزلِ مقصود کو نہ پہنچے تو اس سے زیادہ افسوسناک کس کی حالت ہوسکتی ہے۔ ذیل کے اشعار میں بعض وجوہ اس ناکامی کی درج کی گئی ہیں۔ مثلاً بعض گناہوں کا ترک نہ کرنا، یکسوئی کی کمی، استقلال کی کمی، دین کے ساتھ دنیا کی مِلَونی، قُربانیوں کی کمی، دُعا کی کمی وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان ٹھوکروں سے محفوظ رکھے آمین۔
فریاد مِرا دِل ہے کباب خدا کی قسم مِرا حال کہے ۔ نہیں تابِ قَلَم مجھے کھا گئی ہائے یہ آتِشِ غم نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے گناہ گیا اُس کی تلاش میں سُوئے حَرَم رہِ شوق میں سر کو بنا کے قَدَم مِرے بارِ گُنہ نے کِیا یہ سِتَم نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے عدم یکسوئی مِرا اپنا ہی پائے ثبات ہے خَم کبھی ذوقِ دَھرم، کبھی شوق دِرَم کبھی عشقِ خدا، کبھی عشقِ صنم نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں نہ ہوئے ہیں نہ ہوں گے کبھی یہ َبہَم مگر ان کی تَلاش تھی ایک ہی دَم دَھرے کشتیوں دو میں جو ہم نے قَدَم نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ترکِ اِستِقامت وہی ہوتا ہے مَورِدِ لُطف و کرم جو نِگار کے کوچے میں جاتا ہے جَم مِرا صدق و وفا مِرا عزم تھا کم نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے قربانی کی کمی نہ ہوا تھا کسی کے نِثارِ قَدَم مِرا تن ۔ مِرا من ۔ مِرا دَھن ۔ مِرا دَم رہِ وصل تھی راہِ فنا و عَدَم نہ خدا ہی مِلا ۔ نہ وِصال صَنَم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے دعا کی کمی مِرے رَبّ! مِرے رَبّ کرو مجھ پہ کرم مِرے تم ہی خدا ۔ مِرے تم ہی صنم مددے! مددے!! چہ کُنَم! چہ کُنَم نہ پِلاؤ گے شربتِ وَصل ۔ تو ہم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے الفضل 14جنوری 1927ء بخار دل صفحہ83۔85 27۔ قصہ ہجر ۔ ایک مہجور کی زبان سے قادیان کی زندگی اور بیرونی دنیا کے حالات کامقابلہ ایّامِ سکونتِ قادیان فراقِ کوچۂ جاناں نے کر دیا افسوس جلا جلا کے مِرے دِل کو ایک اَنگارا کبھی وہ دن تھے کہ ہم بھی شریکِ محفل تھے اِدھر تھا جام ۔ اُدھر ساقئ جہاں آرا کہاں وہ مجلسِ عُشّاقِ حسنِ لاثانی کدھر وہ صحبتِ بزمِ نگارِ مہ پارہ ہُمائے اَوجِ سعادت بدامِ ما بودہ شرابِ وصل و تلاقی نصیب شُد ما را خیال تک بھی نہ آتا تھا دِل میں فُرقت کا چڑھا تھا اتنا خُمارِ جمالِ دِل آرا گھڑی گھڑی میں ترقی تھی عِلم کو میرے قَدَم قَدَم پہ عمل بھر رہا تھا طرّارا مجھے نصیب تھا وہ بُعد نَفس و شیطاں سے کہ جیسے دُور ہے دنیا سے قُطب کا تارا نہ گِرد میرے گلے کے تھا طَوقِ مکروہات نہ مجھ کو رَنج و مَحن نے کیا تھا ناکارہ گناہ پاس پھٹکتا نہ تھا مِرے دِل کے خدا کے رحم سے مَغلُوب نَفسِ اَمّارہ سُرورِ صُحبتِ اَبرار ہر زَماں حاصِل کلامِ پاک کا ہر چار سمت نقّارا نِہاں تھا گنجِ قناعت خزانۂ دِل میں تھے میرے سامنے مُفلس سِکندر و دارا مری خوشی کی کوئی اِنتہا بتائے تو میں پیارا اپنے خدا کا، خدا مرا پیارا جدائی پڑے تھے ہم یونہی سرشار بزمِ جاناں میں کہ پِیر چرخ نے اِک تِیر تاک کر مارا نہ وہ زمیں ہی رہی پھر نہ آسماں وہ رہا بس اک خیال رہا یہ کہ خواب تھا سارا ہزار حیف کہ اَیّام کامرانی کے گئے اور ایسے اُڑے جیسے آگ سے پارا اُٹھا کے گردشِ اَیّام نے چمن میں سے بھنور میں قُلزُمِ دنیا کے مجھ کو دے مارا نِکل کے خُلد سے دیکھا تھا جو کہ آدم نے دکھا دیا وہی قسمت نے ہم کو نظّارہ غَریقِ بحرِ مَحبت تھا پر ہزار افسوس ہوا سرابِ جہاں میں خراب و آوارہ نہ پوچھیں یا تو مِرا حال قُدسیانِ حرم جو پوچھتے ہیں تو لِلّٰہ کچھ کریں چارہ کِدھر گیا وہ زمانہ کہاں گئے وہ دن؟ بنا ہوا تھا دلِ زار عرش کا تارا نگاہیں ڈھونڈتی پھرتی ہیں بزمِ دو شینہ تڑپ ہے دِل میں کہ دیکھے وہ لُطف دوبارہ بجھی ہے آگ' پڑی رہ گئی ہے خاکِستَر متاع کھو کے لُٹا رہ گیا ہے بنجارا بیرونی دُنیا کی حالت اے ساکنانِ حرم یعنی! قادیاں والو سُنو کہ رَشکِ اِرَم ہے تمہارا گہوارہ تمہیں بھی علم ہے امن و امان کا اپنے؟ تمہیں خبر ہے کہ عالَم کباب ہے سارا ہے چپہّ چپہّ اندھیرا ۔ قدم قدم ٹھوکر مگر گھروں میں ہے روشن تمہارے ''مینارہ'' ہلاک ہو گئی دنیا پیاس کے مارے تمہارے باغ میں پر چل رہا ہے فوّارہ مِری زبان سے سُنے کوئی اس مصیبت کو کہ تُم سے ہو کہ جدا کس قدر ہوں دُکھیارا گناہ و نَفس و شیاطین و صُحبتِ بَدنے درختِ نیکی و تقویٰ پہ رَکھ دیا آرا نہ کوئی ناصِحِ مُشفِق نہ خَیر خواہِ دِلی ہمیشہ گھات میں دنیا کی زالِ مکّارہ بندھا ہے قیدِ مَصائب میں بال بال مِرا نہ تابِ شور و فُغاں ہے، نہ ضبط کا یارا تو اے کبوترِ بامِ حرم چہ میدانی طپیدنِ دِلِ مرغانِ رشتہ بر پارا الفضل 28جنوری 1920ء بخار دل صفحہ85۔86 28۔ اللہ میاں کا خط میرے نامایک چھوٹی بچی کے خیالات مریم صدیقہ کو حضرت میر صاحب محترم نے نظم بنا کر دی تو ان کی چھوٹی بہن 'امۃ اللہ' نے بھی کہا کہ ابا میرے لئے بھی ایک نظم بنا دو۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے 'امۃاللہ' کے لئے جو نظم بنائی وہ ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ یہ نظم 29دسمبر 1924ء کو کہی گئی تھی۔
قرآن سب سے اچھا قرآن سب سے پیارا قرآن دِل کی قُوّت قرآن ہے سہارا اللہ میاں کا خط ہے جو میرے نام آیا اُستانی جی پڑھاؤ جلدی مجھے سپارہ پہلے تو ناظِرے سے آنکھیں کروں گی رَوشن پھر ترجمہ سکھانا جب پڑھ چکوں میں سارا مطلب نہ آئے جب تک کیونکر عمل ہے ممکن بے ترجمے کے ہر گز اپنا نہیں گزارا یا رَبّ تو رحم کر کے ہم کو سِکھا دے قرآں ہر دُکھ کی یہ دوا ہو ہر درد کا ہو چارہ دِل میں ہو میرے ایماں سینے میں نورِ فُرقاں بن جاؤں پھر تو سَچ مُچ میں آسماں کا تارا عیسیٰؑ مسیح آئے ایمان ساتھ لائے قرآنِ گُم شدہ بھی نازِل ہوا دوبارہ اب وقت آ گیا ہے اِسلام کا ہو غلبہ گر تو نَمی پسندی تَغیِیر کُن قَضا را مصباح یکم اپریل 1927ء خار دل صفحہ87۔88 29۔ سلام بحضور سیّدالانام صلی اللہ علیہ وسلم بہ دَرگاہِ ذی شانِ خیرُ الاَنامؐ شَفیعُ الوَریٰ، مَرجَعِ خاص و عام بَصَدعِجز و مِنَّت بَصَد اِحتِرام یہ کرتا ہے عرض آپؐ کا اِک غُلام کہ اے شاہِ کونَین عالی مُقام علیک الصلوۃُ علیک السلام حَسینانِ عالَم ہوئے شرمگیں جو دیکھا وہ حُسن اور وہ نُورِ جبیں پھر اس پر وہ اَخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے ۔ آفریں زہے خُلقِ کامِل ۔ زہے حُسن تام علیک الصلوۃُ علیک السلام خَلائِق کے دِل تھے یقیں سے تہی بُتوں نے تھی حَق کی جگہ گھیر لی ضَلالت تھی دُنیا پہ وہ چھا رہی کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی ہوا آپؐ کے دم سے اُس کا قیام علیک الصلوۃُ علیک السلام مَحبت سے گھائِل کیا آپؐ نے دلائِل سے قائِل کیا آپؐ نے جَہالت کو زائِل کیا آپؐ نے شریعت کو کامِل کیا آپؐ نے بیان کر دیے سب حلال و حرام علیک الصلوۃُ علیک السلام نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب جمع ہیں آپؐ میں لامَحال صِفاتِ جَمال اور صِفاتِ جَلال ہر اِک رنگ ہے بس عَدیمُ المِثال لیا ظُلم کا عَفو سے اِنتِقام علیک الصلوۃُ علیک السلام مُقَدَّس حَیات اور مُطَہَّر مَذاق اِطاعَت میں یکتا، عِبادت میں طاق سوارِ جہانگیرِ یکراں بُراق کہ بگُزَشت اَز قَصرِ نیلی رَواق محمدؐ ہی نام اور محمدؐ ہی کام علیک الصلوۃُ علیک السلام عَلَمدارِ عُشّاقِ ذاتِ یگاں سپہدارِ افواجِ قُدُّوسیاں معارِف کا اِک قُلزُمِ بیکراں اِفاضات میں زندۂ جاوداں پلا ساقیا آبِ کوثر کا جام علیک الصلوٰۃُ علیک السلام الفضل 12جون 1928ء بخار دل صفحہ89 30۔ دعا دُعا کےجئے کہ حق دے اِستِقامَت کہ سب برکت وفا پر مُنحَصِر ہے بہت اچھا عمل ہے جو ہو اَدوَم1؎ مگر ےہ بھی دُعا پر مُنحَصِر ہے دُعا بھی وہ کہ ہو مَقبولِ باری سو یہ فَضلِ خدا پر مُنحَصِر ہے تُو اے دِل چھوڑ دے حِرص و تمنا کہ اب سب کچھ خدا پر مُنحَصِر ہے 1؎ یعنی وہ کام جو مسلسل کیا جائے اور اُس میں ناغہ نہ ہو۔ بخار دل صفحہ90۔91 31۔ میری تیسری لڑکی طیّبہ کی آمین طیّبہ جی نے پڑھ لیا قرآن ہے یہ اللہ کا بڑا اِحسان اے خدا، اے رحیم، اے رحمان کس قدرہیں تِرے کرم ہر آن تو نے تَوفیق اور ہِمّت دی اور پڑھنے کے سب دیے سامان قاعدے، پارے اور کلامِ مجید پِیرؔ جی نے بنا دیے آسان یا تو پڑھتی تھی کل الف، بے، تے یا سنا آج ختم ہے قرآن شکر کیونکر ادا کریں مولیٰ اَن گِنَت ہو گئے تِرے اِحسان نِعمتیں تیری دیکھ کر بے حد ہوش پَرّاں ہیں عقل ہے حیران جس طرح تو نے لفظ سِکھلا کر کر دیا ہم کو خُرَّم و شادان بس سِکھا دے اسی طرح یا ربّ ترجمہ اور مطالِبِ فُرقان قلب میں طیّبہ کے بھر دے تُو نورِ قرآں حَلاوتِ ایمان کھول دے اس کے بھائی بہنوں پر راہِ مِہر و مَحبت و عِرفان اور جماعت کے سارے بچوں پر فَضل سے اپنے کر یہی احسان اے عزیزو! سنو کے بے قرآن حق کو ملتا نہیں کبھی انسان اس لئے شوق سے اسے سیکھو تا بنو تُم مُقَرَّبِ یزدان میرے پیارو پڑھو اسے ہر روز صبح دم اُٹھ کے بادِلِ شادان محض اَلفاظ میں بھی بَرَکَت ہے پر معانی سے آئے گا عِرفان ترجمہ اور حقیقت اور مَطلَب دِینِ اِسلام کی یہی ہیں جان جب تلک آئیں گے نہ سب معنی مشکلیں ہوں گی کس طرح آسان کام کرنے کے اور نہ کرنے کے کیونکر معلوم ہوں گے میری جان ہے ملاقات نصف یہ مکتوب پورے کرتا ہے وصل کے ارمان حُسن و احسانِ حضرتِ باری آئینہ ان کا ہے فَقَط قرآن عشق ہو گا بھلا کہاں پیدا خوبیاں اس کی گر رہیں پنہان اپنے مالِک کی یہ کتاب پڑھو اس کی مرضی کے ہو اگر جویان عقل آتی ہے اس کے پڑھنے سے علم بڑھتا ہے ہر گھڑی ہر آن پاک کرتی ہے سب گناہوں سے دور کرتی ہے کُفر اور عِصیان اس سے حیوان بن گئے انسان اور انسان، باخدا انسان اس سے وابستہ ہے نَجات و فَلاح مُنحَصِراس پہ جنت و رِضوان یار جانی کے منہ کی باتیں ہیں ہِجر کے دَرد کا ہیں یہ دَرمان یا الٰہی بنا دے ہم سب کو فضل سے اپنے ماہرِ قرآن فَیض سے اپنے خاص کر ہم کو تاکہ ہم دوسروں کو دیں فیضان آمین الفضل13دسمبر1929ء بخار دل صفحہ92۔93 32۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری شَرق سے غَرب تلک آپ کی ہَیبت طاری عَرش سے فَرش تلک آپ کا سِکّہ جاری نَیِرِّ راہِ ہُدیٰ، شافِعِ روزِ محشر یاں ہے دُنیا کو ہِدایت، تو وہاں غمخواری ہاتھ کوجس کے کہیں حضرتِ حق اپنا ہاتھ جان کی جس کی قَسَم کھائیں حُضورِ باری جس کے احسان کے بوجھوں سے دبے جاتے ہیں جِنّ و حیوان و مَلِک، آدمی، نوری، ناری جس کی پاکیزہ توجہ نے مِٹا دی بالکل قوم کی قوم سے اِک آن میں ہر بدکاری جس نے اَخلاق کی تکمیل دکھا دی کر کے جُملہ اَدیان تھے اِتمام سے جس کے عاری جس کی اِک جُنبِشِ لَب نے وہ دکھایا اِعجاز پُشت ہا پُشت کے رِندوں کی چُھٹی مَیخواری صُحبتِ پاک کا اَدنیٰ سا کرِشمہ یہ تھا بزمِ اَفلاک میں داخل ہیں سبھی درباری ہو گئی خَلقِ خدا مدح سے اُس کی عاجِز قَابَ قَوسَین کے درجہ سے بڑھی جب یاری مُلک کا، قوم کا، رنگت کا قضیہ ِنپٹا آ گئی حلقۂ تبلیغ میں دنیا ساری اس کے آنے سے ہوئیں نَسخ شرائِع پہلی آگے سورج کے چمکتی ہے کہاں چِنگاری عِلم و عِرفانِ حقائِق کا وہ بحرِ ذَخّار ہر بُن مُو سے ہوا چشمۂ حکمت جاری اُس کے صدقے میں وہ قرآن ملا جس سے مُدام رَزم اور بَزم میں اپنا رہا پلّہ بھاری جس کے فیضان سے اُمت میں رہے گا دائِم چشمۂ وحی و کِرامات و نَبُوَّت جاری جَذب و توحید و تَوَکُّل ہو کہ ہو قَلبِ سلیم عقلِ صافی ہو کہ اِعجاز کی قدرت کاری1؎ کامیابی ہو کہ ہو قوتِ قُدسی کا ظُہور دَفعِ نُقصان و ضَرر رَغبتِ نیکو کاری حُسن و احسان و فتوحات و کمالِ تعلیم خدمتِ خَلق ہو یا عشقِ جنابِ باری اَلغرض جو بھی ہوں مِعیارِ کمالاتِ بَشَر میرے آقاؐ کی مُسلَّم ہے وہاں سرداری تِری ایک ایک اَدا صَلِّ علیٰ' صَلِّ علیٰ تیری ہر آن پہ سو جان سے جاؤں واری حُسنِ یوسُفؑ دمِ عیسیٰؑ ید بیضا داری وانچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری 1؎ یعنی اقتداری معجزات الفضل خاتم النبیین نمبر 1929ء بخار دل صفحہ93۔94 33۔ دِن مُدّتوں میں آئے ہیں پھراہلِ حال کے طالِب ہیں مجھ سے بڑھ کے وہ میرے وِصال کے شَیدا میں اُن کے قال کا، وہ میرے حال کے کیاکہنے اُس نِگار کے حسن و جمال کے! ناز و ادا کے، آن کے، شوخی کے، چال کے مِہر و وَفا کے' رحم کے' احسان و لُطف کے شوکت کے' عِزّ و شان کے' جاہ و جلال کے برسوں سے زیرِ مَشقِ اَطِبّا ہے زخمِ دل! وہ آئیں گے تو آئیں گے دن اِندمال لِلّٰہ کچھ تو بولئے یا رُخ کو کھولیے اک تو خموشی دوسرے یوں پردہ ڈال کے بے درد و سوز و عشق اگر وصل ہو کوئی لے جاؤ ایسے وصل کو واپس سنبھال کے شوقِ دُعا و ذوقِ رَضا جمع کر کہ یاں مِلتا ہے کچھ سوال پہ کچھ بے سوال کے راہِ وِصالِ یار نہیں پُل صراط ہے ہر اک قدم یہاں پہ خدارا سنبھال کے بن جائے گا کبھی نہ کبھی خود بھی بے نظیر در پر پڑا رہے گا جو اُس بے مِثال کے آگے بڑھے کہ پیچھے ہٹے کیا کرے غرِیب جلوے جو دیکھتا ہو جَمال و جَلال کے کیا پھونکنے کو آئے تھے تُم آشیانِ دِل چلتے بنے جو آگ مَحبت کی ڈال کے رِندی کی اپنے مُنہ سے اُٹھا دوں اگر نِقاب اَبدال آئیں کھولنے تَسمے نِعال کے تیغِ نگاہِ یار نے بس کھیل کھیل میں ٹکڑے اُڑا دیے دلِ آشُفتہ حال کے اب دیکھیں آ کے عِشق کی قُربانیاں ذرا دِکھلا چکے حسین تَماشے جَمال کے جی چاہتا ہے آپ کے قدموں میں ڈال دوں ہاتھوں سے اپنے اپنا کلیجہ نِکال کے کہہ دو ان اہلِ قال سے دفتر لپیٹ لیں دِن مُدتوں میں آئے ہیں پھر اہلِ حال کے پیرے کہ دم ز عشق زَنَد بس غنیمت است دِل تو جواں ہے خواہ یہ دن ہوں زَوال کے اے شاہِ حُسن تُم پہ نہیں کیا زکوٰۃِ حُسن یا لُطف آ رہا ہے فقیروں کو ٹال کے بس اِتنی اِلتجا تھی کہ تُم بخش دو مجھے دامانِ مَغفِرَت کو مَعاصی پہ ڈال کے مِل جائے ایک قبر جوارِ مسیح میں اور حشر اپنا ساتھ ہو احمدؑ کی آل کے آمین الفضل25اکتوبر1932ء بخار دل صفحہ95۔97 34۔ محمدؐ مصطفےٰ ہے مجتبےٰ ہے6نومبر1932ء کو قادیان میں جلسہ سیرۃالنبیؐ کے موقع پر ایک مشاعرہ ہوا۔ جس میں مصرع تھا ''محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے'' وہاں ایک طالب علم نے نہایت خوش الحانی سے یہ نظم پڑھی۔ سامعین پراس کا اس قدر اثر ہوا کہ بے ساختہ سب کی زبانوں پر درُود شریف جاری ہو گیا اور بعض آبدیدہ ہو کر جھومنے لگے۔
محمدؐ مصطفےٰ ہے مجتبےٰ ہے محمدؐ مہ لِقا ہے دِل رُبا ہے محمدؐ جامِعِ حُسن و شمائِل محمدؐ مُحسنِ ارض و سَما ہے کمالاتِ نبوت کا خزانہ اگر پوچھو تو ختم الانبیاؐء ہے شریعت اُس کی کامِل اور مُدَلَّل غذا ہے اور دُعا ہے اور شفا ہے مبارَک ہے یہ آنحضرؐت کی اُمَّت کہ عالِم اس کا مِثلِ انبیاء ہے وہ سنگِ گوشۂ قَصرِ رِسالت یہی 'تورات' نے اس کو لکھا ہے گِرا جس پر ہُوا وہ چُورا چُورا گِرا جو اس پہ خود ٹکڑے ہوا ہے کہا ہے سچ مسیحؑ ناصری نے نُزول اس کا نُزولِ کِبریا ہے نہیں دیکھا ہے ان آنکھوں نے اس کو مگر دیکھا مَثِیلِ مصطفےٰؐ ہے مِرے تو ظِلّ سے ہی جب اُڑ گئے ہوش تو پھر اصلی خدا جانے کہ کیا ہے کروں کیا وصف اُس شَمسُ الضُّحیٰ کا کہ جس کا چاند یہ بَدرُالدُّجےٰ1؎ ہے محمدؐ نَیّرِ راہِ ہُدےٰ ہے محمدؐ شافِعِ روزِ جزا ہے محمدؐ فَخرِ شانِ آدمیت محمدؐ مظہرِ ذاتِ خدا ہے محمدؐ باعثِ تکوینِ عالَم جسے لَولاک خالِق نے کہا ہے محمدؐ مالکِ مُہرِ نبوت 'نبی گر' اس لئے کہنا روا ہے محمدؐ پیکرِ عِصمت سراسر کہ ہر بات اُس کی وحئ بے خطا ہے محمدؐ قابَ قَوسَینِ مَحبت شفیعِ وصلِ انسان و خدا ہے محمدؐ رحمۃٌ لِّلعالَمِیں ہے عَدُو تک جس کے اِحساں سے دَبا ہے محمدؐ حاملِ توحیدِ باری جو عالَم کے لئے رازِ بقا ہے محمدؐ صاحبِ اَخلاقِ کامِل جمالی اور جلالی ایک جا ہے ہر اِک حالت سے گزرا جب کہ وہ خود تو ہر اک خُلق بھی دِکھلا دیا ہے محمدؐ راز دانِ علمِ یزداں کہ باطِل جس سے سِحرِ فلسفہ ہے محمدؐ قاسِمِ اِنعامِ کوثر ہر اِک نِعمت جہاں بے انتہا ہے ثنا کیا ہو سکے اس پیشوا کی کہ پَیرَو جس کا محبوبِ خدا ہے ہُدیٰ اور دِینِ حق کا لے کے ہتھیار ہر اک مِلَّت پہ وہ غالِب ہوا ہے علَمبردارِ آئینِ مُساوات بڑا اِحسان دُنیا پر کیا ہے اُٹھایا خاک سے رَوندے ہوؤں کو ہر اک جانِب سے شورِ مرحبا ہے ہوا قرآن اُس کے دِل پہ نازِل وہ دِل کیا ہے کہ عرشِ کبریا ہے وہی زندہ نبی ہے تا قیامت کہ لنگر فیض کا جاری سدا ہے اِمامِ سالِکانِ برق رَفتار کہ سِدرہ ایک شب کی مُنتہیٰ ہے درندے بن گئے انسانِ کامِل اثر صُحبت کا خود اک معجزہ ہے یتیمی سے شہنشاہی پہ پہنچا مگر پھر بھی وہی عجز و دُعا ہے غرض سچ مچ محمدؐ ہے محمدؐ جبھی تو چار سُو صَلِّ عَلیٰ ہے صَلّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم 1؎ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اخبار فاروق 14نومبر1932ء بخار دل صفحہ98۔99 35۔ کہ جتنے زَنگ مخفی ہیں مَحبت سب کی صَیقل ہیں کلیجہ ہے کہ آتِش ہے یہ آنکھیں ہے کہ بادَل ہے نہ اِس پہلو مجھے کل ہے نہ اُس پہلو مجھے کل ہے گریباں چاک کر ڈالا اسی جوشِ مَحبت میں ہزاروں حرکتیں ایسی کہ گویا عقل مُختل ہے طوافِ قصرِ جاناں1؎ میں کبھی کٹتی تھیں یہ راتیں ہراک زینے پہ اک سجدہ کہ یہ دلبرکی ہیکل ہے ہن;سا کرتے تھے سُن کر عشق کے رَستے کی سختی ہم مگر جب خود چلے دیکھا کہ سَر تا سَر ہی دَلدَل ہے بجائے نیند برسوں سے مُقَدَّر میں ہے بے خوابی عجب بسترہے کانٹوں کا بظاہر گرچہ مخمل ہے کسے دیکھیں؟ کہاں دیکھیں؟ جدھر دیکھا وہ ہی وہ ہے جو ظاہِر ہے جو باطن ہے جو آخِر ہے جو اوّل ہے ہم اُس سے ہیں،وہ ہم میں ہے، جُدائی ہونہیں سکتی نظر آئی دُوئی جس کو، وہ خود نااہل و اَحول ہے غُبارِ خاکِ پائے شہسوارِ عشق ہیں ہم بھی ہماری گَرد کو بھی پا نہیں سکتا جو پیدل ہے یہ ہے پیغام مالک کاکوئی سالِک کو پہنچادے کے میرے غیر سے لذّت تجھے زہرِ ہِلاہل ہے کہاں تک درپئے راحت طلب کر منبِع راحت کہ جس کو مل گیا وہ' اُس کو جنگل میں ہی منگل ہے یہ جان و مال اور عِزّت اُنہی قدموں پہ جا ڈالو سوالِ وصلِ جاناں کا مرے پیارو! یہی حل ہے نہیں کچھ چند روزہ ہاؤہو کی قدر اُن کے ہاں پسند اُن کو وہ اُلفت ہے جو دائم ہے مسلسل ہے نہ ہو توفیق کرنے کی تو دل میں تو اِرادہ ہو کہ نیّت نیک مومن کی، عمل سے اُس کے افضل ہے زَبورِعشق میں آیت عجب یہ اِک نظر آئی کہ شب بھرسوکے لافِ عشق جو مارے وہ پاگل2؎ ہے1؎ یعنی مسجدمبارک قادیان 2؎ یعنی قُربِ الٰہی کے لئے تہجد پڑھنا ضروری ہے۔
الفضل 3جنوری1933ء بخار دل صفحہ100 36۔ خُدّامِ احمدیت خُدّامِ احمدیت نعرے لگا رہے ہیں اے سونے والو جاگو! طُوفان آ رہے ہیں اُٹھو! نمازیں پڑھ لو اور کچھ دُعائیں کر لو ہم فائدے کی باتیں تُم کو بتا رہے ہیں کَس لو کمر، اگر تُم خادِم ہو سلسلے کے یہ دن جوانیوں کے سُرعَت سے جا رہے ہیں فَضلِ عمر ہیں رہبر، جو نُور ہیں سراسر تاریکیوں میں ہم کو رستہ دکھا رہے ہیں خِدمت ہو اور صداقت محنت ہو اور دِیانَت ان خَصلَتوں کو حضرت ہم میں رَچا رہے ہیں پروردگارِ اکبر! اِک لُطف کی نظر کر ہم تیرے آستاں پر سر کو جُھکا رہے ہیں ہر لب پہ یہ صدا ہو جب ہم گھروں سے نِکلیں خدام احمدِیَّت خدمت کو جا رہے ہیں 1938ء بخار دل صفحہ101۔105 37۔ رسولِ قادیانی مِرے ہادی! رسولِ قادیانی مِرے مہدی! رسولِ قادیانی تِری دعوت پیام زندگی ہے مِرے مُحيٖ رسولِ قادیانی جزاک اللّٰہ فی الدارین خیرا مِرے ساقی! رسولِ قادیانی بھٹکتوں کو خدا تک کھینچ لایا مِرے داعی! رسولِ قادیانی یہی ہر دم دعا رہتی ہے لب پر مِرے قُدسی! رسولِ قادیانی تِرے کوچے میں گزرے زِندگانی مِرے جانی رسولِ قادیانی تِرے انوار سے روشن جہاں ہے ترا فیضان بحرِ بیکراں ہے تِری تعلیم کی حکمتِ عیاں ہے تِری تبلیغ مشہورِ زَماں ہے تِرا روضہ ہے یا باغِ جناں ہے تِرا مرکز ہے یا دارُالاَماں ہے تِری اولاد رحمت کا نِشاں ہے کوئی ساقی کوئی پِیر مُغاں ہے تِرا مدّاح خَلّاقِ جہاں ہے کہ تُو اِسلام کی رُوح و رواں ہے ہر اک جانب یہی شور و فُغاں ہے ''خبر لے اَے مسیحا تو کہاں ہے'' تجھے حق نے عطا کی کامرانی بنی جاتی ہے دُنیا قادیانی اُٹھا لے کر محمدؐ کے َعلَم کو کلامُ اللہ کی شانِ اَتَم کو دَلائِل سے دعا سے معجزوں سے ہِلا ڈالا عرب کو اور عجم کو قلم کر دِیں حریفوں کی زُبانیں چلایا تو نے جب سَیفِ قلم کو اثر کیسا تھا تیرے نَبْتَھِلْ میں گئے دشمن سب ہی مُلک عَدَم کو ہزاروں رحمتیں تجھ پر خدا کی نِشاں کیا کیا دکھائے تُو نے ہم کو تِرے صدقے اِمامِ آسمانی غلام احمدؐ نبئ قادیانی ''صبا روضے رسول اللہؐ دے جائِیں مِرا احوال رو رو کے سنائِیں2؎ '' خبر تُم نے نہ لی ہم غمزدوں کی بھلا کیا ہے یہی اُلفت کا آئیں؟ وہ مکھڑا چاند سا آتا ہے جب یاد تڑپتے پھرتے ہیں تیرے مجانیں فراقِ یار کے ان دِل جَلوں کو وِصال یار بِن کیونکر ہو تسکیں بہت کم رہ گئے اب تو صحابی اُڑے جاتے ہیں دنیا سے یہ شاہیں ہوا کرتا تھا وہ بھی کیا زمانہ کہ آتے تھے تمہیں حق سے فرامیں تِرے عاشق تِری پیاری زُباں سے سُنا کرتے تھے اُلفت کے مضامیں لگا کرتیں مجالِس پنجگانہ ہوا کرتیں دُعائیں اور آمیں اُترتا تھا کلامِ حق شب و روز نہ وہ باتیں کسی نے پھر سُنائیں کہاں وہ بزم ہائے بلبل و گل کہاں وہ حلقہ ہائے ماہ و پرویں کہاں وہ قصۂ مجنوں و لیلیٰ کہاں وہ نقشۂ فرہاد و شیریں نشہ اُن کا ہے اب تک سَرمیں باقی جو ہم نے صُحبتیں تیری اُٹھائیں یہ جان و مال سب قُربان تجھ پر کہ راہیں تو نے مولا کی دِکھائیں کہاں ملتا ہمیں وہ یار جانی! نہ ہوتا گر رسولِ قادیانی! تِرے قدموں میں اے بَدرِ مُنَوَّر جگہ تھوڑی سی آ جائے مُیَسَّر تمہارے پَیر ہوں اور میرا سر ہو اگر قسمت ذرا ہو جائے یاوَر تِری کرنوں سے ہو جاؤں میں روشن تِری خوشبو سے ہوجاؤں مُعَطَّر جمالِ ہم نَشیں مجھ کو بنا دے مُنَوَّر اور مُطَہَّر اور مُعَنبر سُرورِ قُربِ رُوحانی کے ہمراہ خدایا! قُربِ جِسمانی عطا کر فرشتے بھی کہیں پھر ہو کے حیراں اُٹھوں میں قبر سے جب روزِ محشر ''مسیحا کی شفاعت کی نِشانی کھڑا ہے دیکھ لو یہ قادیانی'' صدی گزری ہے فُرقت میں تہائی بھلا اتنی بھی کیا لمبی جدائی مِرے آقا مِری ایک عرض سُن لو نہیں رُکتی ہے مُنہ پر بات آئی ہوئے بدنام اُلفت میں تمہاری رکھایا نام اپنا 'میرزائی' ہزاروں آفتیں اس راہ میں دیکھیں مگر لَب پر شکایت تک نہ آئی یہی بدلہ تھا کیا مِہر و وفا کا! کہ اتنی ہو گئی بے اِعتنائی وہ صورت دیکھتے تھے جس کو ہر روز کچھ ایسی آپ نے ہم سے چھپائی کہ آنا خواب تک میں بھی قَسَم ہے نہ تھی گویا کبھی بھی آشنائی تَرَحُّم یا نبی اللہ! تَرَحُّم دُہائی یا رسولَ اللہ! دُہائی درونم خون شُد در یادِ جاناں زُبانم سوخت از ذکرِ جدائی کہیں ہم کس سے یہ دردِ نہانی بجز تیرے مسیحِ قادیانی مسیحا معجزہ اپنا دِکھا دو دعا دو اور مریضوں کو شِفا دو میرے دِل کی لگی اب تو بُجھا دو پس پردہ ہی اک جلوہ دِکھا دو3؎ غمِ روزِ حساب و دردِ اَمراض یہی اب رہ گئے ہیں آشنا دو سفارش سے وَاِنْ تَغْفِرْلَھُم کی گنہ میرے خدا سے بخشوا دو کرو کچھ نَفخِ دَم رُوحُ القُدُس کا اور اک بگڑی ہوئی قِسمت بنا دو تمہاری جُنبِشِ لَب پر نظر ہے سنا کہ قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ جِلا دو کرو لِلّٰہْ ! اتنی مہربانی مِرے مُحسِن مسیحِ قادیانی خدایا لُطف کی ہم پر نَظَر کر خطاؤں سے ہماری دَرگُزَر کر ملائک بھیج نُصرت کے اِلٰہی ہماری کوششوں کو باروَر کر بہت کمزور ہم بندے ہیں تیرے ہماری سب مُہِمّیں آپ سَر کر دِلوں کی سب کَدُورت پاک کر کے ہمیں آپس میں تو شِیر و شکر کر ہمارے دُشمنوں کو دے ہدایت نصیبِ دوستاں فَتح و ظَفَر کر ہماری نَسل کو ہم سے بھی بڑھ کر فدائے مِلَّتِ خیرالبشرؐ کر خلیفہ کی ہماری تو سِپَر ہو خلیفہ کو ہماری تُو سِپَر کر اِلٰہی عاقِبَتِ محمود کر دے اور اپنی مِغفِرَت سے بہرہ وَر کر ملے ہم کو نعیمِ جاودانی طُفَیلِ میرزائے قادیانی آمین1؎ یعنی اقتداری معجزات 2؎ پنجابی 3؎ یہ نظم لکھ کر میں نے حضرت مسیح موعود کو خواب میں دیکھا آپ نے مجھے ایک چھڑی دستی عطا فرمائی اور کہا کہ تُم ان کو یعنی حضرت اماں جان۔ ناقل کو آج سیر کرا لاؤ تین دن تک تو میں ان کے ساتھ سیر کو جاتا رہا آج تُم ساتھ جاؤ اور شاید یہ کہا کہ مجھے فرصت نہیں ہے۔
الفضل 22مارچ 1939ء بخار دل صفحہ106 38۔ وصیّت الرسولؐ برموقع حجۃالوداع ''مسلمان کا خون تُم پر حرام اسی طرح جیسے کے عُرفہ حرام مسلمان کا مال تُم پر حرام ہے جیسے کہ حج کا مہینہ حرام مسلمان کی تُم پہ عِزَّت حرام اِسی طرح جیسے کے مکّہ حرام مسلمان کی عِزَّت و جان و مال سدا اُن کا کرتے رہو اِحتِرام'' وصیّت یہ اُمَّت کو حضرؐت نے کی کہ پہنچا دو سب کو یہ میرا پیام حُقُوقُ العِباد اس میں سب آ گئے جو عامِل ہوں اُن پر خدا کا سلام الفضل جنوری1940ء بخار دل صفحہ107 39۔ کلمۂ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ نہیں کوئی محبوب تیرے سِوا نہیں کوئی مطلوب تیرے سِوا نہیں کوئی مَقصُود تیرے سِوا نہیں کوئی مَعبود تیرے سِوا پیارے تِرا نام اللہ ہے خلائِق کا تُو ہی شہنشاہ ہے ہر اِک عیب سے پاک ہے تیری ذات ستائِش کے قابِل ہیں جُملہ صِفات کریں تاکہ بندے سعادت حُصُول محمدؐ کو بھیجا بنا کر رَسول الفضل 17دسمبر 1942ء بخار دل صفحہ108۔110 40۔ دُعائے مغفرت اے خدائے پاک، ربُّ العٰلمیں اے کہ تو میرا بھی ربّ ہے بِالیقیں اے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ، ہے تو ہی رَزّاق و ذُوالقُوّۃ متین جو بھی چاہے جس کو دے دے بے حساب کچھ کمی تیرے خزانوں میں نہیں ابنِ آدم کے مُسَخَّرکر دیے چاند اور سورج ستارے اور زمیں دُودھ کو پَستان میں پیدا کیا پیشتر اس سے کہ پیدا ہو جَنِیں نِعمتیں تیری گِنے کیونکر بَشَر یاں تو عاجِز ہیں خَیارُالمُرسَلین1؎ میں بھی دَر پر اک سوالی ہوں کھڑا ہاتھ خالی یاں سے ٹلنے کا نہیں دے بِشارت عاقِبَتْ بِالْخَیر کی مُطمَئِن ہو، تا مِرا قلبِ حزیں خوف سے اور حُزن سے آزاد کر خاکساروں کو نہ رکھ اندوہ گیں تُو اَزَل سے تا اَبَدقُدُّوس ہے میں ہوں گندہ بلکہ ہوں گندہ تریں کیا شِکایت غیر کی تجھ سے کروں نَفس ہی اپنا ہے مارِ آستیں آتِشِ دوزخ سے مل جائے اَماں اُس کے سہنے کی مجھے طاقت نہیں ہو عذابِ قبر، یا حَشر و صِراط سب مصائِب سے بچا میرے تئیں میری ذِلَّت اور تباہی دیکھ کر خوش نہ ہو کم بخت شیطانِ لَعِیں رُوح میری اے مُزَکّی پاک کر چشم پوشی یا غَفُورَ المُذنِبِیں دَر گُزر، نرمی بوقتِ اِحتِساب از برائے رحمۃٌ لِّلعَالَمیںؐ فَضل سے اپنے وہ جنت کر عطا جس کو سب کہتے ہیں فِردوسِ بریں ہو جوارِ حضرتِ احمدؑ نصیب2؎ ہیں ہمارے تو وہی نِعمُ القَریں عہد اَلْحَقْنَابِھمْ کا پاس کر کچھ مزا اُن سے الگ رہ کر نہیں پردہ پوشی دونوں عالَم میں رہے تیری ستّاری پہ رکھتا ہوں یقیں بے عمل اور طالبِ خُلدِ بریں! آفریں اے جانِ مَن صَدآفریں اور کیا دِکھلاؤں گا اپنے عمل مانگنا تک تو مجھے آتا نہیں کیا کہوں اور کیا کروں میرے خدا آ گیا نزدیک وقتِ واپسیں خیر جو مرضی میں آئے کر سلوک چھوڑتا ہوں تجھ پہ سب دُنیا و دِیں ہر کہ سر تا سَربُوَد اِحسان و جُود جُز بہ نیکی ہیچ ناید زاں حسیں تُو تو خود واقف ہے میرے حال کا میرے مولا میں کسی قابِل نہیں کیا نہ رحم آئے گا تیرا جوش میں؟ کیا پُکاریں اپنی جائیں گی یُونہیں مَغفِرت اے میرے مالِک مَغفِرت المدد! اے میرے خیرُالنّاصِرِیں میرے اِن اَلفاظ میں تاثِیر ڈال اور اجابت سے انہیں کردے قَریں یا الٰہی! جو بھی مانگے یہ دُعا اُس پہ نازِل کر قبولیت وہیں آمین1؎ خیارالمرسلین کے معنی ہیں بڑے بڑے پیغمبر، نہ کہ حضور اکرم حضرت محمد مصطفیؐ 2؎ حضرت میر صاحب کی یہ دُعا قبول ہو گئی اور آپ 18جولائی 1947ء کو انتقال فرما کر جوارِ حضرتِ احمدؑ میں دفن ہوئے۔ محمد اسمٰعیل پانی پتی
الفضل 23دسمبر 1942ء بخار دل صفحہ110۔115 41۔ نرخ بالاکن کے ارزانی ہنوز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حُسنِ لاثانی کا جلوہ دیکھ کر عشقِ فانی کی نہ کچھ عِزَّت رہی لاکھ پردے ہوں، چُھپا سکتے نہیں اِس رُخِ زیبا کی تیرے روشنی کیا ہوئے یہ جان و دل ہوش و حواس وائے تیری زُلف کی غارَت گری وحی و اِلہام و کُشوف و معرِفت ہیں یہ سب رنگینیاں گُفتار کی کس قدر مَخمور تو نے کر دیا! اے کلامِ یار کی اَفسوں گری وَقت پر، ہر قوم میں پیغامبر کتنی شَفقَت ہے مِرے جاناں تری جس نے جو مانگا عطا اُس کو کیا کون ہے عالَم میں تجھ جیسا سخی کَنزِ مخفی تھیں تِری عالی صِفات اُن کی عارِف پر حقیقت کھول دی عِلم و دَانِش، اِتِّقا، صبر و دُعا معرِفت، محنت، تفکُّر، عاجِزی کُھل گیا اِن کُنجیوں سے جب وہ گنج فائدوں کی پھر نہ کوئی حد رہی بر کسے چُوں مہربانی مے کُنی از زمینی آسمانی مے کُنی تیرے اِحسانوں کا اَنداز و شُمار جانتا ہوں یا تو کچھ مَیں یا تُو ہی قدرِ جوہر، قیمتِ لعل و گہر شاہ دَاند یا بداند جوہری کیا یہ سچ ہے یا فَقَط ہے دِل لگی؟ ہر دو عالَم قیمتِ خود گفتۂٖ نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہُنُوز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تِری شوخی یہ اندازِ خِرام یہ تِرے ناز و ادا یہ دُھوم دھام اس قدر جُود و سَخا لُطف و کرم اس قدر عَقل و خِرد حِکمت کے کام عرش سے تا فرش ظاہر ہیں تِرے دبدبہ، صَولَت، حکُومت اِنتظام من اگر می داشتم بال و پرے می پریدم سوئے کوئے تو مُدام علمِ کامِل نکتے نکتے پر مُحیط ذرّے ذرّے پر ہے قدرت کی لَگام اک طرف نِعمت، تو اک جانِب عِلاج کس قدر اِنعام! کتنا اِنتقام حسن و خوبی، دلبری بر تُو تمام صُحبتے بعد از لِقائے تُو حرام کہہ رہی ہے دِلبری سے عاشقی ہر دو عالَم قیمتِ خود گفتۂٖ نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہُنُوز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرہ ذرہ خَلق کا تجھ پر فنا لیک انساں سب سے بڑھ کر ہے فدا کر دیا اپنے وطن کو خیرباد سب عزیزوں کو خدا حافِظ کہا تیری خاطر بیبیاں بھی ترک کیں اور بچوں تک کو قرباں کر دیا سلطنت پر لات ماری بے دھڑک دِل میں تیرا عِشق جب داخل ہوا دولت و اِملاک و عِزَّت چھوڑ کر بن گئے دَر کے فقط تیرے گدا کوئی سمجھاتا تو فرماتے تھے یوں ما نمی خواہیم ننگ و نام را سر دیے لاکھوں نے تیرے نام پر کس خوشی سے جان تک کر دی فِدا تو نمک ہا ریختی در جانِ ما جانِ جانِ ماستی جانانِ ما مرحبا! حق کے شہیدو! مرحبا خود کو بھیڑوں کی طرح کٹوا دیا ذکرِ شاں ہم می دہد یاد از خدا صدق و رزاں در جنابِ کبریا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حبَّذا! شہزادۂ عبداللطیف جس نے آئینِ وفا زندہ کیا ظالموں نے ہڈیاں بھی توڑ دیں لیکن آخر تک یہی کہتا رہا ''شادباش اے عشقِ خوش سودائے ما اے طبیبِ جُملہ علت ہائے ما'' نعمت اللہ، نُور علی، عبدالحلیم1؎ کر گئے حقِ مَحبت بس ادا عاشِقاں را صبر و آرامے کُجا توبہ از رُوئے دلآرا ما کُجا قتل سے محفوظ تھے جو راستباز آفتیں اُن پر تھیں مرنے سے سوا زندگی گویا کہ قیمے کی مشین رات دن تلخی، مصیبت، اِبتلا جُرمِ اُلفت میں تِرے اے جانِ جاں ہر طرح کا دکھ شیاطیں نے دیا خونِ دِل کھاتے تھے روٹی کی جگہ سیر بھی گر تھی تو سیرِ کربلا پر یہ سب سہتے رہے تیرے لئے مرحبا، صَلِّ عَلیٰ، صَلِّ عَلیٰ1؎ ان تینوں کو امان اللہ خان، امیرِ کابل نے سنگسار کیا تھا، بوجہ احمدیت کے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گر قضا را عاشقے گردَد اسیر بوسد آں زنجیر را کز آشنا1؎ میں نے بھی دیکھا ہے اک ایسا عزیز2؎ تیری خاطر ہتھکڑی تھا چومتا سچ بتا دے جانِ من ! کیا بات ہے؟ اس قدر کیوں وصل مشکل کر دیا؟ دیکھ کر عاشق کی عالی ہمّتی ہر دو عالَم قیمتِ خود گُفتۂٖ نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہُنُوز 1؎ الہام حضرت مسیح موعودؑ 2؎ شیخ عبدالرحمان مہر سنگھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یُوسُفِ کِنعاں کی گاہک پیر زال اس سے بڑھ کر ہے عجب یاروں کا حال روئی کا گالا جو اک لائی تھی وہ کچھ تو اُس کے پاس تھا کہنے کو مال لیک ہم تو اپنے یُوسُف کے لئے ہاتھ خالی کر رہے ہیں قِیل و قال ایک دِل بس کُلُّھُمْ اپنی مَتاع اور ہے بدلے میں یوسُفؑ کا سوال ساتھ ہی یہ خبط بھی ہے مَوجزن ہم سے بڑھ کر کون ہے اہلِ منال وہ اگر ہے صاحبِ حُسنِ و جمال ہم بھی اپنے گھر کے ہیں اہلِ کمال ہر دو عالَم قیمتِ خود گفتۂٖ نقد دِل دونوں سے ہے پر قیمتی نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہُنُوز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مبارَک یہ زمیں اور یہ زَماں آئے ان میں احمدِ والا نِشاں برکتیں ہمراہ لائے بے شُمار عاشِقوں نے حُسن کا پایا نِشاں ہو گئی تیری رضا اَرزاں بہت باغ اُلفت سے اُڑی ساری خزاں عُشر اپنے مال کا دے جو کوئی نیک نیّت سے ہوں گر قُربانیاں مُتَّقی، مردِ مسلماں، سادہ دِل احمدی از مخلصانِ قادیاں اُن کو ملتا ہے بہشتی مقبرہ ہے فَقَط اتنا ہی یارو امتحاں منزلِ شاں برتر از عرشِ بریں بس نِہاں اندر نِہاں، اندر نِہاں وعدۂ وصل و رضا اُن سے ہوا از جنابِ حضرتِ ذی عِزّو شاں تیری قیمت چند درہم! العیاذ عقل سے بالا ہیں یہ نیرنگیاں یا تو خود مطلُوب طالِب بن گیا یا ہے کوئی راز پھر اس میں نِہاں ہر دو عالم قیمت خود گفتۂٖ اس قدر پھر کیوں رِعایت ہو گئی نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہُنُوز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے مِرے اللہ! اے میری سِپَر کون ہے جو تُجھ سے ہو گا خُوب تر ایکہ میداری تو بر دِلہا نظر ایکہ از تُو نیست چیزے مُسْتَتَرْ سارے عالَم کو تو ہی ہے پالتا فضل سے اپنے ہمیں کر بہرہ وَر رحمتیں کثرت سے ہوں اور بار بار اے مِرے مالک جزا دے بیشتر سب جہاں جگمگ تِرے اَنوار سے نُور کے پرتَو فگن شمس و قمر حُسن سے تیرے ہے سب جوش و خروش عِشق کا تیرے تَمامی شور و شر ہیں تَصَرُّف: میں ملائک جِنّ و اِنس حکم پر آقا کے ہے سب کے نظر ماچَساں بندِیم از دلبر نظر ہمچو روئے تو کُجا روئے دِگر تو ہے گر، سب کچھ ہے، ورنہ کچھ نہیں بات کُل اتنی ہے قِصہ مختصر خالِق و باری مُصَوِّر تیری ذات ظاہِر و باہَر خفی و مُسْتَتَرْ سر اُٹھا سکتے نہیں اس بوجھ سے ہم پہ اِحساں ہیں مسلسل اس قدر حَییُّ و قیومُ و صَمَدبرّ و کریم با جَلال و با جَمال و با خبر بخش دے میرے گناہ میرے غَفور ظاہِری ہوں' خُفیہ ہوں یا خُفیہ تر عاقِبت محمود از لُطف و کرم جسم و جاں محفوظ از نارِ سَقَر تیرے اِحسانوں سے رہتے ہیں مُدام جان قُرباں، دِل گُداز اور چشم تر شکر تیری نعمتوں کے کیونکر ہوں ہوگئی اس بوجھ سے دُہری کمر کس طرح میں جان و دل قُرباں کروں تاکہ پاؤں مِہربانی کی نظر جلوہ گر کر آگ اپنے عشق کی جس سے پُھک جائیں مِرے قلب و جگر احمدیت عاشقی ہے عاشقی آہِ سرد و رنگ زرد و چشم تر کم خور و کم گُفتَن و خُفتَن حرام جاں بہ یار و نَفسِ دُوں زیر و زبر احمدی جو حُسن کا ہے جوہری کہہ رہا ہے بَرمَلا اور بے خَطَر ہر دو عالم قیمت خود گفتۂٖ جانِ من از قدرِ خود واقف نۂٖ؟ نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہُنُوز الفضل0 3دسمبر 1942ء بخار دل صفحہ116۔118 42۔ نوائے تلخ تبلیغ مُبلّغ میرے بھائی، میرے پیارے بات اِک سُننا توجہ گر نہیں کرتی تیری تبلیغ پر دنیا نہ دِل اپنا برا کرنا نہ کوشس اپنی کم کرنا کہے جانا کہے جانا' لگے رہنا لگے رہنا مُقَدَّر ہے تِرے حق میں خدا کی نُصرتیں پانا ہمیشہ ذِہن میں اپنے مگر مضمون یہ رکھنا نوا را تلخ ترمے زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حُدِی را تیز تَر می خواں چو محمل را گراں بینی عبادات اگر قاری کو قرآں سے نہ ہوتی ہو کوئی رَغبَت نمازوں میں نہ وارد ہو سُرور و کَیف کی حالت اگر طالِب کو علمِ دین سے کچھ بھی نہ ہو نِسبت تو جی چاہے نہ چاہے پر نہ چھوڑے مشق کی عادت علاج اس کا یہی ہے بس لگے رہنا بصد شِدّت خدا چاہے ضرور آنے لگے گی ایک دن لذّت نوا را تلخ ترمے زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حُدِی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی دُعا دُعا مانگو ہر اک حاجت پہ اللہ سے دعا مانگو ضرورت ہو جو مشکل تر تو محنت سخت تر کر دو اگر مطلب بہت اعلیٰ ہے اُونچے تُم بھی ہو جاؤ غرض جتنا بڑا مقصد ہے اُتنی ہی دعا بھی ہو اگر ہوں راستے میں دِقَّتیں' روکیں' نہ گھبراؤ یہی کہتے چلے جاؤ' یہی کہتے بڑھے جاؤ نوارا تلخ ترمے زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حُدِی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی مالی خدمت کمی بیشی کی فکروں میں پڑے کیوں آدمی زادہ کبھی فیلؔ و رُخؔ و فرزیںؔ سے بڑھ جاتا ہے اِک پیادہ1؎ وہی مالوں کی قُربانی پہ ہوسکتے ہیں آمادہ ہیں جن کی ہمتیں عالی ہے جن کی زندگی سادہ مئے عشق و محبت کے ہوں جو احباب دِلدادہ اگر توفیق دس10 کی ہو تو دے دیں بیس20 یا زیادہ نوارا تلخ ترمے زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حُدِی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی 1؎ فیل، رُخ، فرزین اور پیادہ شطرنج کے مہروں کے نام ہیں۔ توحید مِرے اللہ، مِرے آقا، مِرے مالک، مِرے رہبر نہ چھوڑیں گے تِرا دامن کہ تجھ سے کون ہے بہتر فقط تجھ سے ہی مانگیں گے پڑے ہیں بس تِرے در پر کہ دنیا میں گنہ کوئی نہیں ہے شرک سے بدتر مِرے اُستاد نے ہم کو کرایا تھا یہی اَزبر کہ شُنوائی نہ ہو یاں گر تو چیخو اور بڑھ بڑھ کر نوارا تلخ ترمے زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حُدِی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی الفضل 3جنوری 1943ء بخار دل صفحہ119۔120 43۔ عَملُ التِّرب یعنی علمِ توجہ یا مِسمریزمحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کاالہام اس عمل کی بابت ''ازالۂ اوہام'' میں یہ موجودہے کہ ھٰذَاھُوَ التِّرْبُ الَّذِیْ لَایَعْلَمُوْنَ اس الہام اور اس کے ساتھ جو مضمون ہے اس کی روشنی میں یہ نظم کہی گئی ہے۔ اس نظم کے وزن میں اگر کہیں ٹھوکر لگے تو یاد رکھیں کہ ہر مصرع کاوزن مُسْتَفْعِلُنْ مُسْتَفْعِلُنْ مُسْتَفْعِلُنْ یا اُردو میں ''جادوگری، جادوگری، جادوگری''ہے۔
گدی نشیں، چشتی، نظامی، قادری صوفی، مشائخ پیر اور جوگی سبھی دیتے توجہ سے شفا تھے وہ کبھی ظاہر کبھی کرتے تھے کچھ جلوہ گری کہتے ہیں اس کو ''مسمریزم'' مغربی یا ''طِبِّ روحانی'' ہمارے مشرقی الہام شُد از کردگار بیچگوں ھٰذَاھُوَ التِّرْبُ الَّذِیْ لَایَعْلَمُوْن قوت نہیں یہ رُوح کے اَنوار کی طاقت ہے سب انسان کے اعصاب کی رُوحانیت اس میں نہیں ہرگز کوئی ملتی نہیں کچھ وصلِ حق کی چاشنی عیسائی، بدھ، برہمو، ہریجن، مولوی ہندو، یہودی، دہریہ، سکھ، احمدی جو بھی کرے گا مشق بن کر محنتی اُس کو ملے گی کامیابی، برتری الہام شُد از کردگار بیچگوں ھٰذَاھُوَ التِّرْبُ الَّذِیْ لَایَعْلَمُوْن برکات ہیں اسلام کے کچھ اور ہی عرفانِ حق، عشقِ خدا، خُلقِ نبیؐ اِلہام، غلبہ، اِستجابت، یاوری عامِل کی یاں مردُود ہے سب ساحِری ہو جیسے پیشہ علم و طاقت کا کوئی تقریر بازی، پہلوانی، زرگری ویسا ہی پیشہ یہ بھی ہے اک دُنیوی جس میں نہیں کچھ رُوح کی پاکیزگی الہام شُد از کردگار بیچگوں ھٰذَاھُوَ التِّرْبُ الَّذِیْ لَایَعْلَمُوْن خَیرُالقروں میں سِحر کی بِدعَت نہ تھی پر فِیج اَعوَج نے یہ گڑ بڑ ڈال دی بنتا نہیں اس رہ سے کوئی مُتَّقی ہے یاں نَحوست ۔ زَرپرستی تِیرگی اُستاد بن سکتا ہے اک اوباش بھی مذہب بَری اس سے، یہ مذہب سے بَری حاصِل نہ ہو جب آسمانی روشنی سِفلی عمل پھر کیوں کرے مومن کوئی الہام شُد از کِردگار بیچگوں ھٰذَاھُوَ التِّرْبُ الَّذِیْ لَایَعْلَمُوْن کہتے ہیں اس بارے میں یُوں احمدؑ نبی اِسلام نے اس کی نہیں تائید کی حق نے ہمیں اِک وحی کی، اور ساتھ ہی دِل میں مِرے اس کی کراہت ڈال دی احمدؐ کے آگے چل سکے کب ساحری قرآں کے آگے نِبھ سکے کیا شاعری الہام شُد از کردگار بیچگوں ھٰذَاھُوَ التِّرْبُ الَّذِیْ لَایَعْلَمُوْن الفضل 27جنوری 1943ء بخار دل صفحہ121 44۔ قرآن، سُنَّت اور حدیث کے مدارجاسلام کی بنیاد تین چیزیں ہیں قرآن، سنت اور حدیث۔ حضرت مسیح موعودؑ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سُنَّت کے اصلی معنی ظاہر کر کے اور اُسے حدیث پر فوقیت دے کر اُس کانیا معیار قائم کیا، ورنہ پہلے لوگ حدیث اور سنت کو ہم مطلب چیزیں ہی سمجھتے تھے۔ دیکھو ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی
اِک سُناتا ہوں نکتۂ حکمت جس سے احمدؑ کی تجھ کو ہو عظمت جو خدا نے کہا ہے قرآں میں اس کو حاصِل ہے سب پہ فَوقیت دوسرا مرتبہ ہے سُنَّت کا فِعلِ حضرتؑ، تَعَاملِ اُمّت تیسرا درجہ ہے حدیثوں کا کہ حدیثیں ہیں قولِ آنحضرؐت تین ہیں یہ سُتُون مذہب کے جن پہ قائم ہے دین اور مِلَّت ان مراتِب کا گر رکھو گے خیال گمرہی سے نہ پاؤ گے زحمت حق تعالیٰ تمہیں ہِدایت دے اور مِلے تُم کو عِلم اور حِکمت ہے یہ تجدیدِ حضرتِ مہدیؑ اُن پہ لاکھوں سلام اور رحمت الفضل 31جنوری 1943ء بخار دل صفحہ122۔124 45۔ تُم علاج دردِ دِل تُم ہو، ہمارے دِلرُبا تُم ہو تمہارا مُدَّعا ہم ہیں، ہمارا مُدَّعا تُم ہو مِری خوشبو، مرا نغمہ، مِرے دِل کی غِذا تُم ہو مِری لَذَّت، مِری راحت، مِری جَنَّت، شہا تُم ہو مِرے دلبر، مرے دلدار، گنجِ بے بہا تُم ہو صنم تو سب ہی ناقِص ہیں فقط کامِل خدا تُم ہو مِرے ہر درد کی، دُکھ کی، مُصیبت کی، دوا تُم ہو رَجا تُم ہو، غِنا تُم ہو، شِفا تُم ہو، رَضا تُم ہو جَفا مَیں ہوں، وَفا تُم ہو، دُعا مَیں ہوں، عَطاتم ہو طَلَب مَیں ہوں، سَخا تُم ہو، غرض میرے پِیا تُم ہو مِرا دِن تُم سے جگمگ ہے، مِری شب تُم سے ہے جھم جھم مِرے شمسُ الضُّحیٰ تُم ہو، مِرے بَدْرُالدُّجےٰ تُم ہو سُجھائی کچھ نہیں دیتا، تمہارا گر نہ ہو جلوہ کہ دِل کی روشنی تُم ہو، اور آنکھوں کی ضِیا تُم ہو ''ملائک جس کی حضرت میں کریں اِقرارِ لاعلمی'' وہ عَلَّامُ الغَیُوب اور واقِفِ سِرّ و خَفا تُم ہو بہت صَیقل کیا ہم نے جِلا دیتے رہے ہر دَم کہ تا اس دِل کے آئینے میں میرے رُونُما تُم ہو کہاں جائیں؟ کدھر دوڑیں کسے پوچھیں کہاں پہنچیں بھٹکتوں کو سنبھالو، ہادئ راہِ ہُدیٰ تُم ہو تُم ہی مخفی ہو ہر لَے میں، تُم ہی ظاہر ہو ہرلَے میں اَزَل کی اِبتدا تُم ہو، اَبَد کی اِنتہا تُم ہو اَلَستُ پُشتِ آدم میں کہا تھا جس کو' وہ مَیں تھا سنا قولِ بَلیٰ جس نے وہ میرے ربَّنا تُم ہو تباہی سے بچا کر گود میں اپنی مجھے لے لو کہ فانی ہے یہ سب دنیا، بس اک رُوحِ بقا تُم ہو میں شاکر گر ہوں نعمت کا، توصابِر بھی مصیبت پر کہ اُلفت کی جزا تُم ہو، مَحبت کی سزا تُم ہو ہر اِک خُوبی مِری فیضِ خداوندی کا پرتَو ہے خِرد حکمت، بصیرت، معرِفت، ذِہن رَسا تُم ہو ''مِرا ہر جا کہ مے بینم، رُخِ جاناں نظر آید'' حیاتِ جسم، نورِ رُوح، عالَم کی ضِیا تُم ہو لگایا عشق ہم سے خود تو پھر ہم بھی لگے مرنے تمہارے مُبتَدا ہم تھے، ہمارے مُنتَہا تُم ہو عنایت کی نظر ہو کچھ کہ اپنی ہے حقیقت کیا تمہاری خاکِ پا ہم ہیں، ہماری کیمیا تُم ہو بھنور میں میری کشتی ہے بچا لو غَرق ہونے سے حوالے یہ خدا کے ہے اب اِس کے ناخدا تُم ہو ''شبِ تاریک و بیمِ مَوج و گردابے چُنیں ہائل'' مصائِب خواہ کتنے ہوں ہمارا آسرا تُم ہو ہر اِک ذرّے میں جلوہ دیکھ کر کہتی ہیں یہ آنکھیں تُم ہی تُم ہو، تُم ہی تُم ہو، خدا جانے کہ کیا تُم ہو1؎ نہ تُم اس ہاتھ کو چھوڑو، نہ ہم چھوڑیں گے یہ دامن غلامِ میرزاؑ ہم ہیں، خدا ئے میرزاؑ تُم ہو اِلٰہی بَخش دو میری خطائیں میری تَقصِیریں کہ غَفّارُ الذُّنوب اور ماحیئ جرم و خطا تُم ہو مناجاتیں تو لاکھوں تھیں مگر اک جُنبِشِ سر سے پسند اس کو کیا جس نے وہ میرے کِبریا تُم ہو1؎ یہ مناجات بنا کر میں ایک دن آدھی رات کو اسے پڑھ رہا تھا جب اس شعر پر پہنچا تو مجھے انوار و برکات اور قبولیت کا بشدت احساس ہوا۔ اس پر میں نے اُسی وقت آخری شعر میں اس کا ذکر کر کے مناجات کو مکمل کر دیا اور اسے الفضل میں چھپنے کے لئے بھیج دیا۔
الفضل 2فروری 1943ء بخار دل صفحہ125۔127 46۔ ہماراآفتاب 26مئی 1908کی یادمیںاس نظم میں قرآن مجید کی ایک آیت حتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَاب ص:33 باربار آتی ہے، اس کے معنی ہیں ''یہاں تک کہ وہ سورج چھپ گیا'' یہاں ہر بند میں یہ آیت حضرت مسیح موعودؑ کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ سوائے نمبر 7 اور نمبر 9 والے بند کے۔ جہاں یہ نفس اور دُنیا کے لئے ہے۔ آفتاب شمس اور نفس اور دنیا تینوں عربی زبان میں مؤنث استعمال ہوتے ہیں ۔
افسوس! میرا آفتاب، وہ مہدئ والا خطاب روشن کیا جس نے جہاں، با صد ہزاراں آب و تاب ہم عشق میں سمجھا کئے، یا پڑ گئے دِل پر حِجاب زندہ رہے گا تااَبد، چمکے گا تا یومُ الحِساب دھوکا رہا آخر تلک ۔ حتیّٰ تَوَارَتْ بِالْحجاب مُحسن وہ میرا آفتاب وہ عیسٰؑئ عالی جناب ہر دم قلم اُس کا رہا مصروفِ تَصنِیفِ کتاب تجدید کی اسلام کی بتلا دیا جو تھا خراب عیسائی' برہمو' آریہ سب اُس کے آگے لاجواب لڑتا رہا وہ چَومُکھا ۔ حتیّٰ تَوَارَتْ بِالْحجاب میرا پیارا آفتاب یا چودھویں کا ماہتاب اسلام کے دکھ درد سے ہوتا تھا دِل جس کا کباب تبلیغِ حق' عشقِ خدا ۔ تعلیم کا لُبِّ لُباب بنتے تھے پیکر نُور کے صُحبت میں جس کی شیخ و شاب فیضان تھے جاری یہ سب ۔ حتیّٰ تَوَارَتْ بِالْحجاب شمسُ الضُّحیٰ وہ آفتاب ۔ وہ صاحبِ فَصلُ الخِطاب دِکھلا گیا زندہ خدا' زندہ نبی' زندہ کتاب ذہنیتیں تبدیل کیں کر دی حقیقت بے نقاب سیراب سب کو کر گیا وہ خیرو برکت کا سَحاب چلتا رہا یونہی حساب ۔ حتیّٰ تَوَارَتْ بِالْحجاب نُورِ نظر وہ آفتاب وہ طوطئ حاضِر جواب اِک نغمۂ مَسحور کُن گویا ملائک کا رُباب خوشبو کی لَپٹیں چار سُو جیسے کہ جنت کا گلاب ہم مست تھے اور بے خبر ۔ ساقی تھا یا جامِ شراب پیتے گئے بس بے حساب ۔ حتیّٰ تَوَارَتْ بِالْحجاب روحانیت کا آفتاب دُنیا میں چمکا بے حجاب وہ حُسن جس کے سامنے سارے حسیں تھے آب آب آئی اجل اتنی شتاب گویا کہ اک دیکھا تھا خواب ہم کو بھلا تھی کیا خبر ہیں وہ کھڑے پا دَر رِکاب بے فکریوں میں ہم رہے ۔ حتیّٰ تَوَارَتْ بِالْحجاب وہ آسمانی آفتاب وہ مظہرِ ختمی مآبؐ جب آ گیا حُکمِ قضا بس ہوگیا زیرِ تُراب دنیائے فانی ہے سَراب اور زندگی مِثلِ حُباب یاں آئے ہیں سب اس لئے تا کچھ کما لیں دیں' ثواب کچھ پاک کر لیں نَفس کو ۔ حتیّٰ تَوَارَتْ بِالْحجاب یا رَبّ ہمارا آفتاب صلِّ علیہِ بے حساب مجلس میں تھے جو بار یاب' تھے بامراد و کامیاب تقویٰ کی تھی منہ پر نقاب دِل عشق میں تیرے کباب مخمور تھے مدہوش تھے ۔ قُربانیاں تھیں لاجواب چلتا رہا دورِ شراب ۔ حتیّٰ تَوَارَتْ بِالْحجاب احمدؐ نبی تھا آفتاب کیسی دَمَک کیا آب و تاب اے دوستو ہمّت کرو' خدمت کرو' لے لو ثواب نُصرت کرو محمودؔ کی برپا کرو اک اِنقلاب اسلام تا زندہ رہے روشن رہے یہ آفتاب دنیا کے آخر دن تلک ۔ حتیّٰ تَوَارَتْ بِالْحجاب آمین الفضل 6فروری 1943ء بخار دل صفحہ128۔129 47۔ ناسخ و منسوخ جس قدرقرآن ہے ہاتھوں میں تیرے اے عزیز! وہ عمل کرنے کے قابل ہے ہمارے سب کا سب نَسخ ہو احکامِ وقتی میں تو ہے جائز جناب لیکن ایسا نَسخ فُرقاں میں نہیں موجود اب ناسِخِ جُملہ کُتَب، وہ آخری کامِل کتاب اُس کو تُو منسوخ کہہ دے! شرم کر اَے بے ادب اور اگر پوچھو کہ قرآں میں کہاں ہے یوں لکھا پھر تو ہو جاتا ہے تُو سنتے ہی مَغلُوبُ الغَضَب آیتیں مُصحَف کی ردّی ہیں اگر اے بے نصیب تب تو تُو نے کر دیا اسلام کو ہی جاں بَلَب پانچ سو ہیں، تین سو ہیں، سو ہیں یا ہیں پانچ سات کتنی کُل منسوخ ہیں؟ یہ بات بھی ہے حل طَلَب کیا اسی بِرتے پہ ہو تُم مُدّعی ایمان کے دین کو لہو و لعب تُم نے بنایا ہے عجب ایک فُرقاں ہے جو شک اور رَیب سے وہ پاک ہے بعد اس کے جو بھی ہے ۔ہے ظَنِّ غالِب سب کا سب ہے اگر ہِمّت دکھا دے ایک ہی آیت فَقَط جس پہ ہوسکتا نہ ہو بالکل عمل ۔ اے بُو العَجَب کچھ کلامُ اللہ کے حصہ کو سمجھا ہے تُو لَغو پھر وہی لوگوں کو ہے خود ہی سناتا روز و شب پھر یہ مشکل ہے کہ اس کا بھی پتہ چلتا نہیں کون سی آیت ہے ناسِخ کون سی مَنسوخ اب دو مُخالِف آیتوں میں کس کا تھا پہلے نُزُول کون سی پچھلی ہے؟ ہو سکتا ہے یہ معلوم کب؟ ایک شوشہ بھی نہیں منسوخ اس قرآن کا کہہ گئے دیں کے مُجَدَّدمہدیؑ و عیسیٰؑ لَقَب حضرت احمدؑ نبی نے خوب یہ تجدید کی ورنہ خود مشکوک ہو جاتا تھا مُصحَف سب کا سب مولوی صاحب! شکایت مُنکِروں کی کیا کریں جب لگا دی آپ نے اسلام میں خود ہی نَقَب ان عقائد سے سراسر پاک تھے خَیرُالقُروں فیجِ اَعوَج نے ہمارے سر پہ یہ ڈھایا غضب گھر کا بھیدی ڈھائے لنکا ۔ ہیں ہمارے یہ بزرگ دے ہدایت ان کو تُو اور رحم کر اے میرے ربّ الفضل 13فروری 1943ء بخار دل صفحہ130 48۔ دُعائے سُکھ دنیامیں دُکھ، عُقبیٰ میں دُکھ، دُنیا میں سُکھ، عُقبیٰ میں سُکھ دنیامیں دُکھ، عُقبیٰ میں سُکھ، دُنیا میں سُکھ، عُقبیٰ میں دُکھ ہیں چار قِسمیں خَلق کی ۔ تقسیم ہے تقدیر کی پر اصل دُکھ عُقبیٰ میں دُکھ اور اصل سُکھ عُقبیٰ میں سُکھ مخلوق ہے وہ بدترین، دُکھ میں جو ہو دونوں جگہ قسمت ہے ان کی خوش ترین' جن کو ہو دونوں جا میں سُکھ اکثر مگر ایسے ہیں لوگ، جن کو ہے یاں دُکھ یا وہاں مومِن کو کچھ دنیا میں دُکھ، کافر کو ہے عُقبیٰ میں دُکھ ایسے بھی ہیں جن کوہے سُکھ یا اِس جگہ یا اُس جگہ کافر کو ہے دُنیا میں سُکھ، مومن کو ہے عُقبیٰ میں سُکھ یا ربّ! ہر اِک دُکھ سے بچا اور کر عطا ہر جا میں سُکھ دُنیا میں اور عُقبیٰ میں سُکھ، اِمروز اور فردا میں سُکھ کر فضل و احساں اس قدر دُکھ سے رہیں محفوظ ہم دے برزخ و محشر میں سُکھ اور جنت الماویٰ میں سُکھ آمین خار دل صفحہ13149۔إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبة 111)
قتل کیوں کرتے ہو دُز دِیدہ نِگاہوں سے مجھے حکم فرماؤ تو سر کاٹ کے رکھ دُوں اپنا یا اجازت ہو تو خود اپنے ہی سینہ سے نِکال دِل ہی قدموں میں تمہارے جو گِرا دوں اپنا لُطف آ جائے، اگر اس جیب کو خالی کر کے مال سرکار کے سَر پر سے لُٹا دوں اپنا بخار دل صفحہ131۔132 50۔ عاجزانہ دُعا اے خدا، اے میرے ربّ، رَبُّ الوَریٰ میں ہوں بےکار اور تُو ہے کِبریا ظاہِری حرفوں میں ہے گو اِشتراک فرق ہے معنوں میں پر بے انتہا رَبَّنَا! کرتا ہوں تُجھ سے ہی دُعا مُشتَرِک ہونے کی عِزّت کو نِبھا اپنے گھر جنت میں کر مجھ کو شریک اور جدائی کے جَہَنُّم سے بچا گرچہ ہوں بیکار پر کر دے مجھے جیسے قالُوا کا اَلِف مُوسیٰ کی یا1؎ ہو بہشتی مقبرہ میں میری قبر قُرب پاؤں مہدئ موعودؑ کا رَبَّنَا! رحمت سے بیڑا پار کر از طفیلِ حضرتِ خیرالوریؐ1؎ چند روز ہوئے میں سو رہا تھا کہ یکدم نیم خوابی اور نیم بیداری کی سی حالت طاری ہو گئی۔ اور میں نے معلوم کیا کہ میں یہ مصرع بار بار پڑھ رہا ہوں ع ''میں ہوں بیکار اور تُو ہے کبریا''۔ ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ بیکار اور کبریا میں بھلا کیا جوڑ ہے؟ اس سوال کا جواب بھی معاًدل میں آ گیا یعنی یہ کہ وہی ب، ی، ک، ا، ر پانچ حروف ہیں جن سے یہ دونوں لفظ بنے ہیں اس لئے یہ دونوں لفظ مشترک الحروف ہیں اگرچہ معنوں میں کس قدر بھاری اختلاف ہے۔ ایک ترکیب ان حروف کی انسان کی ادنیٰ ترین حالت کا اظہار کرتی ہے اور دوسری ترکیب اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ ترین مقام کا، پھر میں نے اسی نیم خوابیدہ حالت میں سوال کیا کہ واقعی جب میں بیکار بے مصرف اور نالائق ہوں تو ایسے انسان کی نجات اور مغفرت کی کیا اُمید اور کیا سبیل ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب میں فوراً ایک دوسرا مصرع زبان پر بشدت جاری ہوگیا جیسے قالوا کا الف موسیٰ کی یا یعنی قالوا کا الف اور موسیٰ کی یا بھی تو بالکل بےکار ہیں اور بولنے میں نہیں آتے۔ مگر غور کر کے دیکھو تو معلوم ہوگا کہ بغیر ان کے یہ لفظ صحیح لکھے بھی نہیں جا سکتے اور اگر لکھے جائیں تو غلط ہے پس اگرچہ یہ سچ ہے کہ تو واقعی بیکار اور بے مصرف وجود ہے مگر ہماری بادشاہت میں رحم اور مغفرت کے اظہار کے لئے تیرے جیسے آدمیوں کی بھی ضرورت ہے جن پرہم بِلا کسی عمل اور کام کے فضل کریں اورنِکمّے بادشاہی احمدیوں کی طرح اُن کی شکم پروری کیا کریں اوراُنہیں دوسرے لائق، کامی اورمحنتی کارکنان کے ساتھ وابستہ کر کے محض اپنے فضل سے ہی نجات دیں باقی حصہ نظم کامیں نے اُٹھ کر اُسی وقت نظم کردیا۔
الفضل 16 فروری 1943ء بخار دل صفحہ133۔134 51۔ اپنارنگ پہلے مِرے کلام میں تھا عاشِقانہ رنگ پر اب بَدَل کے ہو گیاکچھ ناصِحانہ رنگ یعنی بنا شراب سے مِکسچر کونین کا ساقی پہ یا چڑھا ہے نیا واعظانہ رنگ ِپِیری کے اور شباب کے گُل تو کھِلا چکے جنّت میں اے خدا! مجھے دے والہانہ رنگ صوفی وہ ہے کہ علم بھی ہو اور خِرَد بھی ساتھ کچھ زاہِدانہ رنگ ہو کچھ عاقِلانہ رنگ عادت تھی اِک گُناہ کی ۔ دِل ہو گیا سیاہ صابونِ توبہ خوب مَلا پر گیا نہ رنگ اے نُورِ مَغفِرَت! تِرے قُربان جائیے تو نے کیا وہ صاف جو ہم سے چُھٹا نہ رنگ 'خنساؔ' کا کچھ سُنا تھا مگر وہ بھی دنگ ہو ''نُصرت جہاں'' کا دیکھے اگر خواہِرانہ رنگ1؎ جو ''معجزات سُنتے ہو، قِصوں کے رنگ میں'' زندہ یقیں کا اُن سے ہو پیدا ذرا نہ رنگ دُنیا کے ناچ رنگ تو سب رنگ میں ہیں بھنگ خوش رنگ سب میں رنگ ہے بس مومِنانہ رنگ یک رنگ باصفا ہو مِری جاں ۔کہ خوب تر قوسِ قُزَح کے رنگ سے ہے صُوفیانہ رنگ بے رنگ و شکل جسم و مکاں تیری ذات تھی پر جلوۂ صفات سے کیا کیا کھلا نہ رنگ جبروت سے تمہاری نکلتا ہے دم یونہی پھر کیوں مجھے دکھاتے ہو یہ قاہِرانہ رنگ رنگ خودی جو چھوڑا تو ہمرنگِ حق بنے تیرا چڑھا ہے رنگ ۔جب اپنا رہا یہ رنگ بہتر ہے ہر ادا سے تِری رحم کی ادا ہر رنگ سے ہے خوب مِرا عاجِزانہ رنگ یہ جبر و اختیار کے جھگڑے فُضول ہیں عالَم پہ چھا رہا ہے تِرا مالِکانہ رنگ رنگت کو اپنی تجھ سے مِلایا کئے مُدام افسوس تیرے رنگ سے پر مِل سکا نہ رنگ یا ربّ! دکھا دے فَضل سے رنگینئ جمال کچھ دِلبرانہ حُسن ۔ تو کچھ مُحسِنانہ رنگ جب دِل عطا کیا ہے تو کر رنگ بھی نصیب رچ جائے جان و دِل میں مِرے عارِفانہ رنگ1؎ خنساء حضرت عمرؓ کے زمانہ کی ایک عرب خاتون تھیں جنہوں نے اپنے بھائیوں کے پُر اثر مرثیے لکھ کر اُن کو عربی بولنے والی قوموں میں زندہ جاوید بنا دیا ہے لیکن حضرت امّاں جان نصرت جہان کا تعلق اُن کے بھائیوں کے نام کو آئندہ زمانہ میں عرب اور عجم میں تاقیامت زندہ رکھے گا۔ انشاء اللہ
بخار دل صفحہ134۔135 52۔ اُن کارنگ دِکھلایا قادیان نے جب مُعجِزانہ رنگ لاہور نے بھی پیش کیا ساحِرانہ رنگ صالح تھے اور نیک تھے جو بعض آشنا افسوس! ان پہ چڑھ گیا اب باغیانہ رنگ پیدا ہوئے ہیں مُصلِحِ موعود گو کئی لیکن ''میاں1؎'' کے آگے کسی کا جما نہ رنگ اے ہم نشیں! بتا وہ مُجَدّد تھا یا رسول دکھلاتا جو ہمیشہ رہا مرسَلانہ رنگ برتر گمان و وہم سے احمدؐ کی شان تھی اس کا تو اے عزیز! تھا شاہنشہانہ رنگ ''الحاج'' خود کو کتنا ہی کہتا پھرے کوئی مجرم ہے پھر بھی اس میں ہو گر فاسقانہ2؎ رنگ کیونکر بناؤں پِیر مَیں اپنا اُسے، کہ جو چلتا بنا دکھا کے ہمیں سارِقانہ رنگ رکھ کر کتابیں سامنے، تصنیفیں خوب کِیں اچھا ہے میرے دوست، ترا مُنشِیانہ رنگ غصہ تو ہم پہ، گالیاں مُرشِد کو اپنے دیں حیف، ایک احمدی کا ہو یہ سُوقیانہ رنگ تُو، اور ہم کو پِیر پرستی کا طعنہ دے! جا دیکھ اپنے بُت کا ذرا آمِرانہ رنگ کہتے تھے ہم تو لاکھوں ہیں اب اُڑ گئے کہاں بگڑے کسی کا یوں تو، مرے اے خدا، نہ رنگ غیروں سے جا ملے کہ ملے عزّت اور مال اگلا بھی رنگ کھویا نہ چندہ ملا نہ رنگ پوری ہوئیں مسیح کی سب پیشگوئیاں جو جو دکھا رہا ہے تمھیں اب زمانہ رنگ ''کب تک رہو گے ضد و تعصب میں ڈوبتے'' کب تک چلے گا آپ کا یہ حاسِدانہ رنگ ''دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا'' محمودؔ کا تو کافی ہے یہ معجزانہ رنگ پھر آ کے پاس بیٹھو ہمارے حبیبؐ کے جس نے تمہیں دیا تھا کبھی صالحانہ رنگ 1؎ یعنی حضرت خلیفہ ثانی میاں بشیرالدین محموداحمد 2؎ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (النور 56)۔ الفضل 24فروری1943ء بخار دل صفحہ136۔137 53۔ ہونہیں سکتا ''علاج دردِ دِل تُم سے مسیحا1؎ ہو نہیں سکتا تُم اچھا کر نہیں سکتے، میں اچھا ہو نہیں سکتا'' مرض پیدا کیاجس نے وہی اپنا معالج ہے نظر وہ لُطف کی کر دے، تو پھر کیا ہو نہیں سکتا؟ ''نہیں محصور ہرگز راستہ قُدرت نُمائی کا'' نہ کہہ سکتاہے یہ کوئی کہ ''ایسا ہو نہیں سکتا'' خدا سے عشق کو مانگا کرو دائم کہ یہ نعمت سماوی نُور ہے دُنیا میں پیدا ہو نہیں سکتا کرم فرماؤ ۔ آ جاؤ تُم ہی اس خانۂ دِل میں کہ قبل از مرگ واں آنا ہمارا ہو نہیں سکتا رَقیبوں کی نہ ہو محفل تو جی اپنا نہیں لگتا کہ جو تیرا نہ ہو جاناں، وہ میرا ہو نہیں سکتا جو خود کو عبد کہتا ہو فقط منہ سے وہ کاذِب ہے نہ ہو قُربان جو اُس پر وہ بندہ ہو نہیں سکتا عجب لذّت ہے نیکی میں عجب شیرینی تقویٰ میں کہ ان کا کوئی بھی پہلو ہو، پھیکا ہو نہیں سکتا یہ مرضی اُس کی اپنی ہے - نظر گر مِہر کی کر دے کہ دِلبر سے مَحبت کا تقاضا ہو نہیں سکتا ارے عیسائیو! اَب2؎ کی جگہ تُم رَبّ کہو اس کو نہ ہو امّاں کا جو شوہر وہ ابّا ہو نہیں سکتا نِشانوں کو بھی دیکھے پر نہ مانے احمدیت کو مُخالِف اس قدر کوئی بھی اَندھا ہو نہیں سکتا بنی فارس کے آگے، آپ ہیں کس باغ کی مُولی سوا محمودؔ کے کوئی خلیفہ ہو نہیں سکتا شقی اَزَلی نہیں بنتا سعید اے دوست کوشش سے جو سہ شنبہ3؎ ہے وہ ہر گز دو شنبہ4؎ ہو نہیں سکتا نہیں جائز، زُباں کھولے تُو کُنہِ ذاتِ باری میں خدا کیسا ہے؟ کیا ہے؟ کیوں وہ ایسا ہو نہیں سکتا؟ اَنَاالمَوجُود سے اپنا پتہ دیتا ہے خود مولیٰ خدا وہ ہو نہیں سکتا، جو ''خود آ'' ہو نہیں سکتا ذرا سی پُھونک، کر دیتی ہے مَیلا شیشۂ دِل کو پر اِستِغفار دائم ہو، تو دُھندلا ہو نہیں سکتا کرو تبلیغ، دو چندے، دُعا ہو غلبۂ دیں کی کہ احمدؐ کا سپاہی تو نِکمّا ہو نہیں سکتا الٰہی! فضل کر، تا احمدیت کی ترقی ہو بغیر اس کے اندھیرا ہے، گزارا ہو نہیں سکتا1؎ یہاں مسیحا سے مراد طبیبِ حاذق ہے یعنی جسمانی طبیب 2؎ اَب بمعنی باپ۔ 3؎ سہ شنبہ یعنی منگل کا دن، مراد منحوس آدمی اور وہ انسان جو ''مبارک دو شنبہ'' یعنی مصلح موعود کا مقابلہ کرتا ہے۔ 4؎ دو شنبہ یعنی ''مبارک دو شنبہ'' اس سے مصلح موعود مراد ہے یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الثانی۔
الفضل 9مارچ 1943ء بخار دل صفحہ137۔141 54۔ دُعائے مَنیہ دُعا صرف انفرادی ہی نہیں بلکہ جماعتی رنگ میں بھی مانگی گئی ہے۔ اِس کا وزن بھی غیرمعمولی ہے یعنی ہر مصرع کا وزن مَفَاعِلُن: مَفَاعِلُن یا اُردو میں ''کہاں گیا، کہاں گیا''۔
خدائے من' خدائے من، دوائے من' شِفائے من قبائے من' رِدائے من، رَجائے من' ضِیائے من قبول کُن دُعائے من، دُعائے من' نِدائے من نِدائے من' نَوائے من، نَوائے من' صدائے من میں بندہ ہوں تِرا غریب، تُوہے مِراخدا عجیب مَیں دُور ہوں تُو ہے قریب، مَیں مانگتا ہوں اَے مُجیب توہی دوا، توہی طبیب، تُو ہی مُحِبّ تُو ہی حبیب خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من زمین و آسماں کا نُور، مکاں و لامکاں سے دُور ہمہ صِفَت، ہمہ سُرور، خدائے ذُوالجلالِ طُور قبول کر دُعا ضرور، مِرے خدا، مِرے غَفور خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من معاف کر سزا مِری، گناہ مِرے جفا مِری قبول کر دُعا مِری، صدا و اِلتِجا مِری کہ بخشتا نہیں کوئی، سِوا ترے خطا مِری خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من ہماری تو پُکار سُن، صدائے اَشکبار سُن نوائے بیقرار سُن، نِدائے اِضطِرار سُن دُعائے شرمسار سُن، اَے میرے غمگسار سُن خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من گناہ سے ہم کو دُور رکھ، دِلوں کو پُرزِ نُور رکھ نشے میں اپنے چُور رکھ، ہمیشہ پُرسُرور رکھ نظر کرم کی ہم پہ تُو، ضرور رکھ، ضرور رکھ خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من پڑھیں کلامِ حق بشَوق، عبادتوں میں آئے ذَوق اُتار غفلتوں کے طَوق، اُڑیں فضا میں فَوق فَوق یہ مسجدیں ہیں تیرے گھر، ہم ان میں جائیں جَوق جَوق خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من ترقیاں مُدام دے، مسرّتوں کا جام دے نَجات کا پیام دے، کَشُوف دے، کلام دے حَیات دے، دَوام دے، فَلاح دے، مَرام دے خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من ہِدائتیں، کَرامتیں، حُکومتیں، خِلافتیں شَہادتیں، صَداقتیں، نَبوتیں وِلایتیں بَصیرتیں، دَرایتیں، لِیاقتیں، سَعادتیں مِلیں ہمیں خدائے من، قبول کُن دُعائے من بلندیاں خیال کی، ترقیاں کمال کی تجلّیاں جمال کی، فراخیاں نَوال کی بڑھوتیاں عیال کی، شُجاعتیں رجال کی بدہ1؎ بہ ما، خدائے من، قبول کُن دُعائے من دوائے دِل شفائے دِل، جِلائے دِل، صفائے دِل وفائے دِل، سخائے دِل، ہُدائے دِل، ضیائے دِل مرا بدہ، خدائے دِل، مُراد و مُدعائے دِل خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من فُنون دے، عُلوم دے، فتوح دے، رُقوم دے جو نَسل بالعموم دے، وہ مہر و مہ، نُجوم دے نئے مبائعین کا، ہر ایک جا ہُجوم دے خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من نَوا، صَدا، دُعا، بُکا، حیا، وَفا، غِنا، سَخا عَطا، جَزا، ہُدیٰ، تُقیٰ، فَنا، بَقا، لِقا، رَضا مِرے خدا، مِرے خدا، بدِہ بما، بدِہ بما خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من تِرے وہ دیں کی خدمتیں، تِری وہ خاص برکتیں تِری عجیب نُصرتیں، تِری لذیذ نِعمتیں تِری لطیف جَنَّتیں، غرض تِری محبتیں نصیب ہوں خدائے من، قبول کُن دُعائے من الٰہی عَفو و مَغفرت، خدایا قُرب و مَعرِفت مناسِبَت، مشابِہَت، مکالِمَت، مخاطِبَت مطابِقَت، موانِسَت، ملیں ہمیں بعافیت خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من یہ قلب پُر اُمید ہے، مُسرتیں ہیں، عید ہے بِشارت و نَوِید ہے، کہ خاتمہ سعید ہے نہیں یہ کچھ عجب، کہ تو، حمید ہے، مجید ہے خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من بَیا بَیا، نِگارِ من، نِگہ نِگہ، بہارِ من پنہ پنہ، حِصارِ من، مدد مدد، اے یارِ من برِ بہشتی مقبرہ، بِنائے کُن مَزارِ من خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من درُود مصطفیؐ پہ ہو، صلوٰۃ میرزاؑ پہ ہو سلام مُقتَدا پہ ہو، دُعا ہر آشنا پہ ہو جو اپنا کارساز ہے، تَوکُّل اُس خدا پہ ہو خدائے من' خدائے من، قبول کُن دُعائے من آمین 1؎ ہمیں دے۔ الفضل 12مارچ 1943ء بخار دل صفحہ141۔149 55۔ احمدیت1؎ مِل گئی جس کو احمدیت ہے اُس پہ حق کی کمال رحمت ہے دِل میں تیری اگر مَحبت ہے ساتھ ہی رُعب کی بھی ہیبت ہے ذات ہے ایک بے حساب صِفات تیری وَحدت میں رنگِ کثرت ہے اتنی مخلوق ۔سب میں تیرا نُور یعنی کثرت میں شانِ وَحدت ہے ہر طرف ہے تُو ہی نظر آتا جلوۂِ حُسن کی وہ شِدّت ہے خوان پر تیرے دوست اور دُشمن کھا رہا ہر طرح کی نعمت ہے کفر و عِصیاں کی مجھ میں ہے عِلَّت عفو غُفران تیری عادت ہے ساری خوشیاں ہیں وصلِ جاناں میں ورنہ دوزخ ہے اور حسرت ہے ہے ہدایت اُسی کی جانِب سے ورنہ چاروں طرف ضَلالت ہے کُن کہا اور بَپا ہوا عالَم یہ اِرادے کی اُس کی قُدرت ہے ہے وُجودِ حکیم یوں ثابِت کہ نِظام جہاں میں حِکمت ہے ایسے معبود سے خدا کی پناہ جس کا بیٹا ہے اور عورت ہے جب وہ مصروفِ عیش و عشرت ہو پھر ہمارے لئے قِیامت ہے اُس کو کیونکر کہیں گے پرمیشر خَلق تک کی نہ جس میں طاقت ہے جان سے مار دیں جسے دشمن کیا خدائی کی یہ عَلامَت ہے ہو جو مُحتاج روح و مادہ کا یہ بڑائی نہیں ہے ذِلَّت ہے جو نہ ہو اِک کُمہار سے بڑھ کر ایسے ایشرؔ کی کیا ضرورت ہے1 پہلے ایڈیشن میں اس نظم کا عنوان تھا ''ہے''۔ مگر حضرت میر صاحب نے بعد میں اس عنوان کو بدل کر ''احمدیت'' رکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حق تعالیٰ کی دوستی کا نِشاں اُس کی تائید اور نُصرت ہے ہمکلامی ہو اپنے مالِک سے یہ غُلامی کی اپنی غائِت ہے ہو کے معشوق بات تک نہ کرے یہ تو بالکل خلافِ فِطرت ہے اُس کی کرسی کا، عرش کا مطلب علم ہے اُس کا اور حکومت ہے شرکِ اسباب ترک کر اے یار! سب سے مخفی یہی نَجاست ہے جس کا کھانا اُسی پہ غُرّانا کفر سَو لعنتوں کی لعنت ہے میں جو ہو جاؤں تجھ سے خود راضی یہ رَضا کی تِری عَلامَت ہے میری بد عملیوں میں سب سے بُری میرے محسن! تِری شِکایت ہے مجھ کو کیا عُذر واپسی میں ہے میری ہر شَے تِری اَمانَت ہے ہے زباں ایک ۔شکر ہو کیونکر چار سُو یاں ہُجومِ نِعمت ہے بے دُعا کے ہیں کام سب پِھیکے مانگنے میں عجب حَلاوت ہے مانگنا اپنے رَبّ سے ہے عزّت مانگنا آدمی سے ذِلّت ہے اصل مذہب خدا شناسی ہے نہ کہ اخلاق اور مُرَوَّت ہے جو نہ تازہ نِشان دکھلائے ایسے مذہب کی کیا ضرورت ہے ایسے ایمان کا خدا حافِظ جس کی قِصّوں پہ سب عمارت ہے عیشِ دنیائے دُوں دَمے چند است عیشِ عُقبیٰ ہی بے کدُورت ہے دِل رہے گرم عشقِ مولیٰ سے سب سے بڑھ کر یہی ولایت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَبّ کا منوانا، وحی پہنچانا نام اس بات کا رِسالَت ہے کثرتِ غیب کثرتِ اِلہام بس یہی چیز تو نَبُوَّت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ تھوڑا بہت تو ہر انسان پاتا اس چاشنی کی لذّت ہے اِنتظامِ جماعتِ نَبَوِی نام اس کام کا خلافت ہے آسمانی کرنٹ CURRENT مل جائے اس لئے فرض ہم پہ بیعت ہے رنگ میں مصطفےٰؐ کے ہو رنگین تب ہی تُو لائقِ شَفاعت ہے کشتئِ نوحؑ میں جو ہے تعلیم بس وہی مَغزِ احمدیت ہے جو جماعت کہ ہو فنا فیِ الشّیخ در حقیقت وہی ''جماعت'' ہے کیوں نہ مُشتاق ہُوں میں جنت کا وہ مِرے باپ کی وِراثَت ہے آدمی کیوں کیا گیا پیدا اس کا مقصد فقط عِبادت ہے شکل کو دیکھ کر نہ ہنسنا تُم وہ تو اللہ میاں کی صَنعَت ہے رُوح کا حُسن جس پہ ہے مَوقُوف وہ حقیقت میں تیری سیرت ہے اَبْشِرُوا قبلِ مرگ جو نہ سُنے زندگی اُس کی سب اَکارَت ہے کیا مبارَک وہ قَلب ہے جس میں درد ہے، عشق ہے، محبت ہے آگے آگے بڑھے چلو پیارو! حَرَکَت ہی میں ساری بَرَکَت ہے ہے مُعَزَّز وہی حقیقت میں آسمانوں پہ جس کی عِزَّت ہے آدمی ہر طرح سے ہے کمزور اس پہ شاہِد ہماری فِطرت ہے خاکساری بھی ہے جِبِلَّت گو پر طبعیت میں سخت عُجلَت ہے گرچہ تقویٰ کی ہیں بہت شاخیں سب سے بڑھ کر جو ہے وہ عِفَّت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسئلہ ہے یہ اک' شریعت کا جملہ اشیاء کی اصل حِلَّت ہے ہو زِیاں جس میں فائدے سے سِوا اُس پہ فتوٰئ اِثم و حُرمَت ہے جب کسی کا بُرُوز آ جائے جان لو یہ اُسی کی رَجعَت ہے ہے اَقِیْمُو الصَّلوٰۃ کا مطلب کہ فریضہ یہ باجماعت ہے احمدیت کا اَوّلین اُصول ترکِ دنیا ہے، دیں کی خدمت ہے جب مُقَدَّم ہو دین، دنیا پر پھر تو دنیا ہی بے حَلاوَت ہے مر گئی روح ایسی اُمت کی جس میں باقی نہیں نَبُوَّت ہے جس میں فیضان یہ رہا جاری نام اُس کا ہی ''خیرِ اُمَّت'' ہے رسم کو توڑ - رسم ہے باطِل تیرا لیڈر فقط شریعت ہے رَنج اور خوف سے ہوئے آزاد مومنوں کو یہاں بھی جَنَّت ہے ساری قُربانیاں ہیں ایماں سے اس میں مخفی عجیب قُوَّت ہے نیکی جب ہے کہ ساتھ ہو نِیَّت ورنہ وہ صرف رسم و عادت ہے دِل کی سب حالتوں میں ہے اَفضَل رِقَّتِ قلب کی جو حالت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سے ایک بڑھ کے ہیں اَخلاق صِدق کو سب پہ اک فضلیت ہے لَغو گوئی اگر حماقت ہے خامشی بھی دلیل نَخوت ہے تُرشروئی بھی اِک تَکَبُّر ہے مسکرانا بھی اک سَخاوَت ہے حد سے زیادہ جو ہووے سنجیدہ یہ تو بیمارئ یَبُوسَت ہے جو کہے کچھ ۔مگر کرے کچھ اور یہ شَقاوَت کی اک عَلامَت ہے بات سادہ ہو یہ فَصاحت ہے دِل میں گُھس جائے یہ بَلاغَت ہے کر مصیبت میں بھی خدا کا شکر گر تجھے حق سے کچھ مَحبت ہے پہلے نِیَّت دَرُست کر اپنی کہ مُقَدَّم عمل پہ نِیَّت ہے حق کے تُجھ پر ہیں جس قدر اِنعام اُن کا گِننا بھی اک عِبادت ہے اپنے ہر دُکھ کو تُو سزا نہ سمجھ بعض زَحمت ہے بعض رَحمت ہے رُوح ہر جا ہے جسم کی مُحتاج یہ نہ ہو گر تو پھر وہ مَیتَت ہے قبر ہو، حشر ہو، کہ ہو جنت ہر جگہ جسم کی ضرورت ہے جسم کے ساتھ ہیں یہ جملہ حواس ورنہ پھر درد ہے، نہ راحت ہے میری فطرت ہے طالِبِ لَذَّت اس لئے میرا اجر جنت ہے بات سچ ہو ۔ مگر ہو دِل آزار پیٹھ پیچھے کہو تو غیبت ہے لوگ کہتے ہیں پر جسے غِیبت وہ تو بُہتان اور تُہمت ہے جو مُنافِق ہو، اُس کی باتوں سے آتی مومن کو اک عَفُونَت ہے ہوں ہزاروں کِرامتیں بےشک سب سے مقبول اِستِقامت ہے ہے مُساواتِ مرد و زَن دھوکا مرد کو ہر طرح فَضِیلَت ہے کثرتِ ازدواج ہے لازِم ورنہ پھر ووٹروں کی قِلَّت ہے کیمیائے سَعادتِ اَرواح انبیاء اولیاء کی صُحبت ہے ہر جماعت میں ہوتی ہے اک رُوح نام جس کا دلوں کی وحدت ہے جونہی وحدت گئی، شکست آئی پھر نہ ہے رُعب اور نہ طاقت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھ کے قرآن جو نہ روتا ہو اُس کے دِل میں بہت قَساوَت ہے روح کی جان ہے خوشی دِل کی جسم کی جان اُس کی صحت ہے پیٹ خالی ہو جس کا، وہ پاتا کشف و الہام کی حَلاوَت ہے پیشگوئی ہو جس سے اک پوری سب میں سچی وہی رَوایَت ہے صرف لوگوں کے ڈر سے ترکِ گناہ دہریت کی یہ اک عَلامت ہے جیسے پیسے روپے کی ہے چوری ویسے ہی آنکھ کی خِیانَت ہے کار آمد ہیں علم دو ہی فَقَط ایک مذہب دُوُم طبابت ہے مہدئؑ وقت و عیسٰئؑ دَوراں اُس سے وابستہ اب ہدایت ہے ہو چکی تھی خدا شناسی گُم مل گئی پھر، یہ اُس کی بَرَکت ہے جس حکومت کی ہو رعایا تُو اُس کی لازِم تجھے اِطاعت ہے احمدی ہی اِمام ہو تیرا ورنہ ضائِع تیری عِبادت ہے اپنی لڑکی نہ غیر کو دیجو گر تجھے کچھ بھی دِیں کی غیرت ہے جو جنازہ پڑھے مُخالف کا اُس پہ افسوس اور حسرت ہے تیرے اِیمان کا جو ہے معیار جانِ من! وہ تری وصیت1؎ ہے بعد مرنے کے گر نہ ہو فردوس زندگی ساری بے حقیقت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نَو برس میں ضرور پیدا ہو یہ خدا کی بتائی مُدَّت ہے تین صدیوں میں مُصلِح موعود یہ محمد علی کی جِدَّت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنگ طاعون زلزلے دیکھے پھر بھی عبرت نہیں ہے غفلت ہے بُغضِ احمدؑ ۔عدواتِ محمودؔ یا شرارت ہے، یا حَماقت ہے جنگِ یاجُوج حملۂ ماجُوج ایک برپا ہوئی قِیامت ہے آگ، گو لگ رہی ہے دُنیا میں قادیاں میں نُزولِ رحمت ہے مر کے جوہر کُھلیں گے انساں کے موت کی اس لئے ضرورت ہے موت کا دن ہے یومِ قُرب و وِصال جیسے ہوتی عُروس رُخصت ہے سارے جاڑے کمر میں ہے زُناّر2؎ یہ مِرے کُفر کی عَلامت ہے کیوں ابھی سے نہ حق کے ہوجائیں آخر اُس کی طرف ہی رِحلت ہے اے خداوندِ من، گناہم بخش ورنہ اپنے لئے ہلاکت ہے سوئے درگاہِ خویش راہم بخش یہ ترا فضل اور کِرامت ہے دِلستانی و دِلربائی کُن دِلبروں کی یہی عَلامت ہے بہ نگاہے گرہ کُشائی کُن لُطف فرما ۔ تِری عِنایت ہے روشنی بخش در دِل و جانم ورنہ اندھیر اور ظُلمت ہے پاک کُن از گناہِ پِنہانم میرے آقا! بہت نَدامت ہے در دو عالَم مرا عزیز تُوئی بس کہ اِحسان بے نِہایت ہے وانچہ می خواہم از تو نیز توئی تاکہ جاری رہے ۔ جو نعمت ہے رحم کر، رحم کر، مِرے پیارے تُو ہی جانی ہے، تُو ہی جنت ہے1؎ یعنی بہشتی مقبرہ کی وصیت۔ 2؎ میں جاڑے بھر ایک گرم جُبّہ پہنتا ہوں جس میں بجائے بٹنوں کے ایک رسی ہوتی ہے جس سے وہ بندھا رہتا ہے۔ اسے Night gown بھی کہتے ہیں۔ اس رسّی کو میں نے زُناّر کہا ہے۔
اخبار الفضل جلد 8 ۔6جنوری 1921ء بخار دل صفحہ149۔151 56۔ عِشق و مُشک مُحسِن جو میرا خاص ہو اوروں کا بِالعُموم پھرکیوں نہ اُس سے عشق کی پوری کروں رُسوم مشفق بھی تم، شفیق بھی تم، دلُربا بھی تُم قُرباں میں پھر نہ کیوں ہوں، تَصَدُّق سے گُھوم گُھوم کاٹیں اگر چُھری سے مِرا بند بند آپ فُزْتُ وَ رَبِّ کَعْبَہ کہوں، ہاتھ چُوم چُوم کرتا ہوں اک حسین کے ہاتھوں قَبول موت خوشیوں سے شاد شاد مُسَرَّت سے جُھوم جُھوم ''ہر گز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق'' کو شُد شہید ۔و کرد بجانِ جہاں لزُوم زندہ ست نامِ گنبدِ خِضرا زِ عشقِ یار ؑؑنوبت زَنَد بہ گنبد افراسیاب بُوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واجب ہے آفتابِ نبوت کا انتظار گِرتے ہوں جب شہاب مُکَدَّر ہوں جب نُجوم احمدؐ ''جری'' نے جملہ مذاہب کے پہلوان اس طرح سے بھگائے کہ پسپا ہوا ہُجوم دیکھا یہ ہم نے بزمِ مسیحا میں عمر بھر آہ و بُکا کا شور تھا یا رَبَّنَا کی دُھوم اک آگ سی لگا گیا بس رات1؎ رات میں اُس یار کا قُدوم کہ تھا مَیمَنَت لُزوم تُو ہِند میں بھی اُس کےلئے ہے دُعا میں سُست جس پر دُرُود پڑھتے ہیں ابدالِ شام و رُوم 1؎ رات سے مراد حضرت مسیح موعودؑ کی لیلۃ القدر یعنی آپ کا زمانہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوزخ ہے ہجرِ یار تو دنیا ہے بے ثَبات جنت ہے کوئے یار ۔ مِری اصل زاد بُوم قُربانیوں کے جوش میں تَن کا نہیں ہے ہوش کہتا ہے کوئی ہم کو جَہول اور کوئی ظَلوم اَعدا کی مسجدوں سے نکل آئے خود ہی ہم واں لَغو کچھ رُسُوم تھیں، یا وَقف کی رُقوم ایمان و عشق دیکھ کہ ہیں جمع ایک جا وہ ثلجِ قلب اگر ہے ۔ تو یہ آتِشِ سُموم ساماں ہم اپنا لائے جو تُلنے کو حشر میں کچھ ذِکر و فکرِ عشق تھا - کچھ درد ادر ہُموم اُلفت کی برکتیں تھیں کہ صد گونہ بڑھ گئے زُہاّد کے فُنون سے عُشّاق کے عُلوم یا رَبّ مِری دُعائیں ہمیشہ قبول ہوں اور حشر میں نہ کیجیو شرمندہ اور مَلُوم آمین الفضل 24مارچ1943ء بخار دل صفحہ152۔153 57۔ خلیفہ کی شفقت اورنظام کی برکتاس نظم میں واوین والے مصرعے حافظ علیہ الرحمتہ کے ہیں۔ سوائے ایک کے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کا ہے۔ 1943ء میں دو ماہ تک پنجاب کے شہروں کی مسلسل ہڑتال اور اس کے بعد کنٹرول کے نتیجہ میں جن تکالیف اور مشکلات سے اہلِ ملک اور شہروں کے رہنے والوں کو سامنا ہوا ہے وہ خدا کے فضل سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کی پیش بینی اور جدوجہد کی وجہ سے اہلِ قادیان کو پیش نہیں آئیں۔ فالحمدللہ
ہوئی تھی قحط کی صورت نہ قادیاں میں ابھی کہ یُوسُفم1؎ شکر و روغن و غِذا آوُرد بپا تھے ملک میں جب کنٹرول اور ہڑتال زِ ہر مکان غرض مند اِلتجا آوُرد نیا نِظام تھا حیران ہو کے کہتے تھے کہ کیست حاتم و ایں گندم از کُجا آوُرد ہر ایک گُرسِنَہ سُنتا تھا یہ صدا ہر روز ''بر آر سَر کہ طبیب آمد و دوا آوُرد'' ''مُریدِ پیرِ مُغانم زِمن مرنج اے شیخ چرا کہ وعدہ تو کر دی و اُو بجا آوُرد'' تُو شعر جوش سے کہتا ہے سوچ سوچ کے میں میّسرست تُرا ''آمد'' و مَرا ''آوُرد'' اُسی کے شعریہاں ہو سکیں گے اب مَقبُول کہ درمیانِ غزل قَولِ آشنا آوُرد ''برآں1؎ سرم کہ دِل و جاں فدائے تُو بکنم'' چہ مستی است نَدانَم کے رُوبَما آوُرد اِلٰہی ڈال دے دامانِ مَغفِرَت اُس پر ''کہ اِلتجا بہ درِ دولَتِ شُما آوُرد'' یہ کاک2؎ ٹیل جو چکھا تو بولا اِک مَے خوار کہ بُود ساقی و اِیں بادہ از کجا آوُرد! بگُفْتَمَش قَدَنی ہست و مَیفروش اُو را بہ قَند حافِظ و خوشبوئے میرزاؑ آوُرد1؎ یوسف حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کا نام ہے۔ 2؎کاک ٹیل Cock Tail وہ شراب جو کئی طرح کی شرابوں کو ملا کر بنائی جاتی ہے جس طرح یہ نظم اُردو اور فارسی کے اِمتزاج اور حافظ علیہ الرحمۃ کے مصرعوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے کلام کی چاشنی سے مرکب ہے۔
الفضل 7جولائی1943ء بخار دل صفحہ154۔161 58۔خداداری چہ غم داری ۔ اہل خانہ کو وصیّتیہ وصیّت اگرچہ بظاہر ایک ذاتی معاملہ نظر آتا ہے تاہم اس کا مرکزی نُقطہ یعنی خدا تعالیٰ پر ہر مصیبت اور ہر حالت میں توکُّل رکھنا، اس سے ہر شخص فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اس کے لکھنے کی یہ وجہ پیش آئی کہ اس جاڑے میں میرے دمہ کی تکلیف غیرمعمولی طور پر لمبی اور سخت تر ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ اس قدر ضُعفِ قَلب اُس کے سبب سے لاحق ہو گیا کہ کئی دفعہ فوری طور پر موت کا خطرہ محسوس ہوتا تھا اور بہت سی راتیں میں نے ساری کی ساری بیٹھ کر کاٹی ہیں۔ اسی شِدَّتِ مرض کی حالت میں یہ نظم کہی گئی تھی۔ الحکمۃ ضالۃ المومن اخذھا حیث وجدھا
نہ رونامیرے مرنے پرنہ کرناآہ اور زاری نہ ہوناصبرسے عاری مِری بیگم' مِری پیاری جُدائی عارضی ہے یہ' ملیں گے اب توجنت میں جدائی پھر نہیں ہو گی ۔ نہ ٹوٹے گی کبھی یاری خدا سے لَو لگی رکھنا کہ جس پر مہرباں وہ ہو اُسے کہتا ہے ''خوش ہو جا خداداری چہ غم داری'' مِرے کمرے کوخالی دیکھ کرجی مت بُراکرنا نہ لب کانپیں نہ دِل دھڑکے نہ آنسوہوں بہت جاری نہ باتیں رنج کی نِکلیں ۔ نہ کھانا ترک ہوجائے نہ ٹانگیں لڑکھڑا جائیں۔ نہ ہوجائے غَشی طاری کلیجے کو پکڑ لینا، خدا کو یاد کر لینا کہ سچ فرما گیا کوئی ''خدا داری چہ غم داری'' وہی رَبّ ہے ہمیشہ سے وہی ہم سب کا مالِک ہے وہی ہم سب کا مُحسِن ہے وہی ہے خالِق و یاری وہی تکیہ ہمارا ہے، وہی اپنا سہارا ہے نہ چھوڑیں گے قدم اُس کے چلے سر پر اگر آری جب ایسا دوست ہو اپنا تو پھر کیوں فکر ہو ہم کو کہ خود کہتا ہے وہ مجھ کو ''مرا داری چہ غم داری'' نہ بھولیں گی کبھی ہر گز نہ بھولیں گی کبھی ہرگز تمہاری چاہتیں مخفی تمہاری خِدمتیں بھاری تمہاری صبر و خاموشی تمہاری شکر و خود داری تمہاری محنتیں' قربانیاں' طاعات و غم خواری ہمیشہ یاد آؤ گی ۔کہیں ہم ہوں جہاں بھی ہوں یہی پیغام بھیجیں گے ''خدا داری چہ غم داری'' نہیں بندے میں یہ طاقت کہ غم کر دے کسی کا کم خدا ہی ہے کرے گا جو تمہارے دِل کی دِلداری کرو رُخصت خوشی سے تُم خطائیں بخش کر میری مُجَسَّم ہو وفاداری۔ سراپا ہو نِکو کاری جو ایسی نیک دِل خود ہو، اُسے کہنے کی کیا حاجت مگر کہنا ہی پڑتا ہے ''خدا داری چہ غم داری'' وقار اپنا بنا رکھنا نہ ضائِع جائے خودداری کوئی کہنے نہ یہ پائے کہ ہے آفت میں بیچاری خدا محفوظ ہی رکھے خوشامد سے لجاجَت سے مطاعن سے' مصائب سے، نہ آئے پیش دُشواری وہی دیتا ہے سب عِزَّت اسی کے ہاتھ ہے ذِلَّت مگر نیکوں کو کیا ڈر ہے ''خدا داری چہ غم داری'' یہی مرضی ہے مولیٰ کی، یہی اُس کا طریقہ ہے زمیں پر رہ چکے اتنا ہے اب زیرِ زمیں باری جنازہ جا رہا ہے ساتھ ہیں افسردہ دِل بھائی یہی ہے رِیت دُنیا کی ہمیشہ سے یونہی جاری زمینی ساری تکلیفیں پرِ پَشّہ سے کمتر ہیں نوائے آسماں گر ہو ''خدا داری چہ غم داری'' کبھی خیرات کر دینا بڑھاتی ہے یہ درجوں کو کبھی صدقہ بھی دے دینا کہ صدقہ ہے بہت کاری ہمیشہ قبر پر آنا مِری خاطر دعا کرنا کہ باقی رہ گئی ہے بس یہی خدمت یہی یاری بِشارت تُم مجھے دینا 'خدا دارم چہ غم داری' جواب اندر سے میں دوں گا 'خدا دارم چہ غم داری' اگر تقویٰ نہ چھوڑو گی فرشتے پیر دھوئیں گے کرے گا میرا آقا بھی تمہاری نازبرداری مِرے اللہ کا وعدہ ہے تُم کو رِزق دینے کا نہ کرنا شک ذرا اِس میں نہ کرنا اُس سے غدّاری مجھے کیا غم ہو مرنے کا ۔ تمہیں کیا غم بچھڑنے کا خدادارم چہ غم دارم خدا داری چہ غم داری کسی کی مَوت پر دعوت ضرورت ہو تو جائز ہے اِجازت ہے شریعت میں ۔ نہیں ہے فرض سرکاری دُعائے مَغفِرَت بس ہے عزیزوں کی عزا داری طعامِ پُرتَکَلُّف سے نہ ہو میری دِل آزاری نہ غم کے عُذر سے زردے پلاؤ فِرنیاں آئیں سبق مت بھولنا اپنا ''خدا داری چہ غم داری'' یہاں مشرِک یہ کہتے ہیں تکبر سے تبختر سے ''پدر دارم چہ غم دارم، پسرداری چہ غم داری غِنا دارم چہ غم درام، خرد داری چہ غم داری، صنم دارم، چہ غم دارم' درم داری، چہ غم داری'' مگر مومن یہ کہتے ہیں وہ جب ملتے ہیں آپس میں ''خدا دارم چہ غم دارم'' ۔ ''خدا داری چہ غم داری'' خداوندا عجب جلوہ ہے مجھ پر رحم وشفقت کا کہاں تک مَیں کروں سجدے کہاں تک جاؤں مَیں واری تمہارے لُطف کا پَرتَو مِری امّاں' مِری آپا تمہاری مِہر کی مظہر مِری بیوی مِری پیاری ''ندائے رحمت از درگاہِ باری بِشنَوَمہر َدم'' خدا داری چہ غم داری خدا داری چہ غم داری اجل آتی ہے دھوکے سے خدا جانے کہ کب آئے ہمیشہ آخرت کی اپنی رکھنا خوب تیاری دعا مانگو' دعا مانگو' ہمیشہ یہ دعا مانگو کہ دنیا میں نہ ہو ذِلَّت، کہ عُقبیٰ میں نہ ہو خواری اُلُوہِیَّت، رَبوبِیَّت، رحیمِیَّت یہ کہتی ہیں ''خدا داری چہ غم داری خدا داری چہ غم داری'' دعائیں میرے بچّوں کے لئے مَعمول کر لینا پناہ میں بس خدا کی ہو بسر یہ زندگی ساری نمازوں میں نہ ہو غفلت یہی تاکید تُم رکھنا کہ یہ ہے بندگی سچّی یہی ہے اصل دِیں داری جو بندہ اُس کا بن جائے وہ گھاٹے میں نہیں رہتا ملائک تک بھی کہتے ہیں ''خدا داری چہ غم داری'' بنا دے سادہ دِل مومن بُلَند اَخلاق تُو اُن کو الٰہی تیری ستّاری خدایا تیری غفّاری ہمی خواہد نگارِ من تہید ستان عشرت را نمی خواہد زِ یارانش، تن آسانی دِل آزاری دُعا کو ہاتھ اُٹھاتا ہوں تو کہتا ہے کوئی فوراً میں زندہ ہوں میں قادر ہوں، مراداری چہ غم داری خداوندا! بچانا تو مِرے پیاروں کو ان سب سے زیاں کاری و ناداری و بیکاری و لاچاری کرم سے ڈال دے اُن کی طبعیت میں ہر اک نیکی نِکوکاری و غم خواری و بیداری و دِیں داری کبھی ضائع نہیں کرتا تُو اپنے نیک بندوں کو جب ہی تو سب یہ کہتے ہیں ''خداداری چہ غم داری'' بیاہنا بیٹیوں کو اِذن سے حضرت خلیفہ کے تمہاری دُختریں چاروں ابھی چھوٹی ہیں جو کواری مُقَدَّم دِین ہو سب سے شرافَت، علم و دانِش پھر مؤخر ہو تجارت، نوکری، ٹھیکہ، زمینداری سپرد اللہ کے میں نے کیا سب کو بصد رِقَّت یقیں اس بات پر رکھ کر ''خدا داری چہ غم داری'' نصیحت گوش کُن جاناں کہ فانی ہے یہ سب عالَم بنو عُقبیٰ کی تُم طالِب، رہے دنیا سے بیزاری حُضوری گرہمی خواہی ازوغافل مشو ہر گز خدا دِل میں تمہارے ہو ہمیشہ اے مِری پیاری سخن کز دِل بروں آید نشیند لا جرم بر دل تہِ دِل سے یہی نکلے ''خدا داری چہ غم داری'' جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے بس کمر کس لو اُٹھاؤ دِل کو' لو رخصت' کرو چلنے کی تیاری الٰہی روشنی ہو قبر میں سایہ ہو محشر میں ٹَلے دوزخ' ملے جنت' بنیں نُوری نہ ہوں ناری بِشارت یہ خداوندی مجھے بھی ہو تمہیں بھی ہو خداداری چہ غم داری خداداری چہ غم داری وصیت کے ادا ہونے میں یارب کچھ نہ ہودِقَّت نہ بعد جاں سِپُردَن ہو جنازے کی مِرے خواری بہشتی مقبرے میں دفن ہونے کی اجازت ہو سراپا گرچہ مُجرم ہوں دِکھا دے اپنی غفّاری سہولت اپنے بندوں کو تو ہی دیتا ہے اے مولیٰ جب ہی تو ہم یہ کہتے ہیں ''خدا داری چہ غم داری'' تڑپتی روح ہے میری کہ جلدی ہو نصیب اپنے ملاقات شہِ خوباں لِقائے حضرت باری کھِنچا جاتا ہے دِل میرا بسُوئے کوچۂ جاناں سُرودِ عاشِقاں سُن کر بھڑک اُٹھی ہے چِنگاری یہ نغمہ ہے بزرگوں کا''خدادارم چہ غم دارم'' فرشتے بھی یہ گاتے ہیں''خداداری چہ غم داری'' الٰہی! عاقِبت نیک و جَوارِ حضرتِ احمدؑ شہِ یثربؐ کی مہمانی ۔ جوئے کوثرکی میخواری خداجن کے صنم ہیں وہ بھی یاں پھرتے ہیں اِتراتے توپھرجن کے خداتم ہواُنہیں ہوکس لئے خواری بنو تُم سنگِ پارس، کیمیا، ظِلِ ہُما جس کے کہے وہ کیا سوا اِس کے ''خدا داری چہ غم داری'' الفضل 9اپریل 1943ء بخار دل صفحہ162۔163 59۔ پنجاب چہ پنجاب، اِنتخابِ ہَفت کِشور کہ ہے تہذیب یاں کی سب سے بہتر اگر صورت کی دیکھو شان و شوکت تو سب صوبوں سے حُسن اس کا ہے خوشتر غریبوں تک کا کھانا گندم اور گھی ہر اِک دہقاں کے گھر ہے شِیر و شکر زمیں اچھی ہے اور نہروں کی کثرت غِذا ملتی ہے سب کو پیٹ بھر کر سبھی یاں چارپائی پر ہیں سوتے نہ تختوں پر، نہ مٹّی پر ہے بِستر پہنتے جوتیاں، گُرگابیاں ہیں برہنہ پا نہیں پِھرتے زمیں پر جو ہیں روحانیت میں سب سے اعلیٰ تو جسمانی قویٰ میں سب سے بڑھ کر نہیں جامِد مُقَلَّد اولڈ فیشن1؎ ہر اک تحریک کو لیتے ہیں سر پر اگر باشندے اس کے زندہ دِل2؎ ہیں تو خود یہ ہند کا ہے دستِ خَنجر3؎ خدا نے چُن لیا پنجاب کو خود کہ دُنیا کی ہدایت کو ہو سنٹر4؎ مسیحِ پاکؑ کو مَبعوث کر کے بنایا اُس کو سب ملکوں کا لیڈر اَکھاڑا ہے مذاہِب کا یہی مُلک نبی کا تھا یہیں آنا مُقَدَّر ہے رَا میٹریل5؎ بھی خوب موجود مسلمانوں کی آبادی ہے اکثر ''یہ کیا احساں ہے تیرا بندہ پروَر کریں کس منہ سے شکر اے میرے داور اگر ہر بال ہو جائے سُخن وَر تو پھر بھی شکر ہے اِمکاں سے باہر'' مبارَک ہو تجھے یہ فَضلِ رَبیّ زہے پنجاب تیرا بختِ برتر1؎ اولڈ فیشن : پرانی طرز کے۔ 2؎ سرسیّد احمد خان نے یہاں کے لوگوں کو ''زندہ دلان پنجاب'' کا خطاب دیا تھا۔ 3؎ دستِ خنجر یعنی ہندوستان کا بازوئے شمشیر زَن 4؎ سنٹر Centre یعنی مرکز۔ 5؎ را میٹریل Raw Material یعنی خام مال
الفضل 24اپریل1943ء بخار دل صفحہ163۔165 60۔ دُرُود بر مسیح موعود الٰہی! احمد مُرسَل کی آل میں بَرَکَت اور اُس کی نسل میں برکت عیال میں برکت حضور ختمِ رُسُلؐ کا جلال بالا ہو بُروزِ ختمِ رُسل کے جمال میں برکت شِفا و خَلقِ طُیُور و دَمِ مسیحائی مسیحِ وقتؑ کے ہو ہر کمال میں برکت طُفیلِ حضرت احمدؐ رِجالِ فارس کے رُوئیں رُوئیں میں ہو اور بال بال میں برکت مقامِ مہدیؑ1؎ و عیسیٰؑ پہ رحمتیں بے حد امان و رونق و مال و منال میں برکت خدایا! کوثر و تسنیم کی طرح کر دے ہمارے چشمۂِ آبِ زُلال میں برکت بڑھے اور ایسی بڑھے شان احمدیت کی کہ بے نظیر ہو جاہ و جلال میں برکت ''چُنیں زمانہ، چُنیں دور، اینچنیں برکات'' نہ کیوں ہو اَصل ہی جیسی ظلال میں برکت تِری رضا کی بشارت ہو نُصرتوں کا نُزول دُعا قَبول ہو اور اِتّکال میں برکت لِقائے حضرتِ باری ہو زندگی کی مُراد ہماری موت میں لذّت وِصال میں برکت جبیں پہ ثَبت نُقوشِ اِمام مہدیؑ ہوں زبان پاک ہو اور چال ڈھال میں برکت قدم قدم پہ ترقی ہو رَبِّ زِدْنی میں عُلُوم و معرِفتِ بیمثال میں برکت بڑھے چلیں یہ محبت، یہ عشق، یہ انوار ہو اپنے دردِ دلِ لازوال میں برکت کچھ ایسے فَضل ہوں ہم پر کہ اب تلک ایسی نہ ہو کسی کے بھی خواب و خیال میں برکت صفائے ظاہِر و باطِن حکومت و حِکمَت اگر ہو قال میں عظمت تو حال میں برکت عمل میں خَلق میں خُلق و خِصال میں قُوت بنین و اہل و نساء و رِجال میں برکت سلام و فضل و صلوٰۃ و فلاح و غُفراں کی شبانہ روز ہو ہر ماہ و سال میں برکت چلا چلے ہے قیامت تلک تِرا جلوہ ہر ایک حال میں رحمت مآل میں برکت الٰہی! شجرۂ احمد بڑھے، پھلے پھولے ہو پتّا پتّا میں اور ڈال ڈال میں برکت بحقِ آلِ محمدؐ طُفیلِ آلِ مسیحؑ خداےا! بخش ہماری بھی آل میں برکت آمین 1؎ یعنی قادیان الفضل 16مئی1943ء بخار دل صفحہ166 61۔ فطرت کسی نے ایک دن پوچھا عمرؓ سے یوں کہ ''اے حضرت بھلا تھا جاہلیت میں جو غصہ کیا وہ اب بھی ہے؟'' جواباً ہنس کے فرمایا ''کہیں فِطرت بھی بدلی ہے؟ اَزَل سے جو ملا تھا خُلق کا حصہ وہ اب بھی ہے بدل ڈالا ہے رُخ اُس کا مگر اب کُفر کی جانِب جلالِ فطرتی ورنہ جوپہلے تھا وہ اب بھی ہے'' بخار دل صفحہ167۔168 62۔ اللہ ۔ اللہیہ نظم ایک عزیزدوست کاخط آنے پر لکھی گئی تھی۔انہوں نے خواب میں ایک تحریردیکھی جس کاآخری فقرہ یہ تھا ''یُسْر ہے فالْحَمدُ لِلّٰہ'' باقی تحریراُن کے ذہن سے محوہوگئی تھی ۔ میں نے اپنے اندازہ سے اُس کی تکمیل کردی۔
اللہ، اللہ، رَبُنَا اللہ ڈال دِل میں خشیتہُ اللہ نَفس ہو یہ فانی فی اللہ روح ہو یہ باقی باللہ یا الٰہی! حَسبِیَ اللہ فضل سے دے جَنَّتُ اللہ ہے اُمیدِ رحمتُ اللہ مانگتا ہوں نِعمتُ اللہ میرے پیارے، میرے اللہ ٹھیک کر دے فِطرتُ اللہ دل ہے پڑھتا قُلْ ہُوَ اللّٰہ شِرک سے اَعُوذُ باللہ تو ہے خالِق سب کا واللہ ثُمَّ باللہ ثُمَّ باللہ ربیّ اللہ، ربیّ اللہ! مومنوں سے حُبّ فِی اللہ دین ہو، اَلدِّینُ لِلّٰہ! ابتلا پر صبر لِلّٰہْ متقی کو بارَک اللہ زندگی ہو سیر فی اللہ رَبُّنَا اللہ، حَسبُنَا اللہ یہ بھی ہے اک سُنتَّہُ اللہ کاذبوں پر لعنتُ اللہ کافروں سے بُغض لِلّٰہْ گاندھی جی، اَلْمُلکُ لِلّٰہ مونجے جی! اَلارْضُ لِلّٰہْ آ گیا جب داعی اللہ مان لو تُم دعوت اللّٰہ دوستو! اَلْحُکْمُ لِلّٰہ منکرو! اَلامرُ لِلّٰہْ اے خدا، اے میرے اللہ رنگِ جاں ہو صبغۃُ اللّٰہ ہم ہیں تیرے اِنَّا لِلّٰہ تو ہے اپنا، شکر لِلّٰہْ عُسر تھا، اَستَغفِرُاللہ ''یُسْر ہے فالْحَمدُ لِلّٰہ'' 7مئی1943ء بخار دل صفحہ169۔170 63۔ کتبۂ تُربت بہشتی مقبرہ میں جا کر ہُجومِ جذبات ''جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا'' جان و دِل اور مال و زَرّ سب کچھ تمہارا ہو گیا شکر لِلّٰہْ مل گئی ہم کو جہنم سے نَجات قبر کی کھڑکی سے جنت کا نظارہ ہو گیا فکر بس اتنی ہی تھی، دل کو، نہ ہوں مہجور ہم تیرے صدقے جانِ من، اس کا تو چارہ ہو گیا کوئے جاناں1؎ میں رہیں گے اب مزے سے تا بہ حشر پار پھر بیڑا ہے جب تیرا اشارہ ہو گیا جو جوانی میں دَبا رکھی تھی آتِش عشق کی وقتِ پِیری وہ بھڑک کر اِک شرارا ہو گیا ایک طوفانِ مَحبت تھا کہ جس کے زور میں راز میرا دوستو! سب آشکارا ہو گیا یوں نظر آتی ہے اب اپنی گزشتہ زندگی ''جس طرح پانی کنوئیں کی تہ میں تارا ہو گیا'' ہم نے دِل کو جب بھرا نُورِ کلامِ پاک سے بھر گیا، بھر کر پھٹا، پھٹ کر سپارہ ہو گیا شاذ و نادر خواب میں آتے تھے عزرائیل یاں اب تو معمول2؎ اُن کا روزانہ نظارہ ہو گیا کاش اپنی موت ہی ہو جاذِبِ غُفرانِ یار کہتے ہیں مُردے کو سب ''حق کا پیارا ہو گیا'' ایک پَل بھی اب گزر سکتا نہیں تیرے بغیر اب تلک تو ہو سکا جیسے گزارا ہو گیا بعدِ مُردن قبر کے کَتبے پہ یہ لکھنا مِرے ''آج ہم دِلبر کے اور دِلبر ہمارا ہو گیا'' یااللہ ایساہی کر 1؎ یعنی بہشتی مقبرہ2؎ مطلب یہ ہے کہ اب اپنی موت کے خواب کثرت سے آتے ہیں۔
الفضل 8مئی 1943ء بخار دل صفحہ171 64۔ آئندہ زندگی مَوت تو ہے نام بس نقلِ مکانِ رُوح کا قبر مٹی کی نہیں، اِک اور ہی ہے مُسْتَقَرْ پُل صِراطِ حشر ہے یاں کی صراطِ مستقیم تاکہ ہو معلوم ۔ راہ چلتا رہا کیسی بَشَر؟ جلوہ گاہِ لُطف و احساں نام ہے فِردَوس کا اور تجلّی گاہِ اوصافِ جَلالی ہے سَقَر ہیں تَمَثُّل سب پہ تیرے اپنے ہی اَفعال کے کر عمل اَچھے، کہ تا مارا نہ جائے بے خبر جو کمی ہو، وہ دُعا سے پوری کرتا رہ مُدام ''اے خدا جنت عطا کر، اور سَقَر سے الحذر'' الفضل 9مئی 1943ء بخار دل صفحہ172۔173 65۔ جنتِ دجّال یا مغربی تمدُّن جنت جو ہے دَجّال نے دنیا میں بنائی شدّاد نَمَط اس کی ہی چَوکھَٹ پہ مرے گا یہ مغربی تہذیب و تَمَدُّن ہے وہ جنت تکمیل نہ پائے گی کہ خود کُوچ کرے گا دہلیز میں اِک پَیر ہو اور دوسرا باہر یوں خَلق کی عِبرت کا وہ سامان بنے گا فِردوس1؎ کی غیرت ہے خداوند کو اتنی دُنیا میں ہی پس جائے گا جو نَقل کرے گا ہے جنتِ دَجّال فنا ہونے کو تیار اُڑ جائے گا سب ٹھاٹھ جونہی بمب پڑے گا اسلامی تَمَدُّن کو خدا کر دے گا غالِب تب جا کے کہیں درد یہ دُنیا کا مِٹے گا بَرَکَت ہے مسیحا کی کہ پلٹے گا زمانہ اور برف کی مانند یہ شیطان گلے گا آثار تو ظاہر ہیں ابھی سے کہ زمیں پر عیسیٰؑ ہی رہے گا نہ کہ دجّال رہے گا 1؎ فردوس یعنی اصل جنت جو آخرت میں ملے گی۔نوٹ : مغربی تہذیب کا یہ مطلب ہے کہ مغربی اقوام اپنے لئے اِسی دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کئے بغیر ایک ایسی جنت اور آرام کی جگہ بنا رہی ہےں جس میں عیش ہی عیش ہو۔ مال و دولت، گانا، ناچنا، عیاشی، شراب، جؤا، رزق وافر، ہر طرح کے آرام، غلبۂ حکومت، نعمتیں اور لذّتیں حاصل ہوں اور اُن کے سوا دُوسری اقوام گویا اس بہشت سے نکالی جا کر جہنّمی زندگی بسر کرتی رہیں برخلاف اس کے اسلامی تمدّن اور مساوات یعنی ہمہ یاراں در جنت کا سبق دیتا ہے اور عُقبیٰ میں ایک دائمی جنت اور غیر مکدّر عیش کا وعدہ کرتا ہے بشرطیکہ بندہ دُنیا کی جنت میں منہمک نہ ہو اور خدا کی رضا حاصل کر لے اور رضا حال کر لینے کا مقام وہ ہے کہ وہ اِعملوا ما شِئْتم والوں کے درجہ میں داخل ہو جائے۔۔
الفضل 13مئی 1943ء بخار دل صفحہ174 66۔ قابلِ توجہ خُدّام تکلیف دہ چیزوں کا راستوں سے ہٹانا ایمان کی علامت ہے جب شہروں کے بازاروں میں خربوزوں کے چِھلکے بُڈھوں کو گراتے ہوں تو بچوں کو ہنساتے لازم تھا جوانوں کو دکھا کر ذرا ہِمَّت اس دُکھ کو' اَذِیّت کو' سڑک پر سے ہٹاتے اِیمان کے' اور خدمتِ مخلوق کے دعوے نگرانی سے اس کام کی سچے نظر آتے خربوزوں کے موسم میں مناسب تھا کہ خُدّام ایک بیلچہ اور ٹوکری بازار میں لاتے الفضل 3جون 1943ء بخار دل صفحہ175۔179 67۔ میرے خدا پاک تیرا نام ہے میرے خدا رحم تیرا کام ہے میرے خدا جو بُلاتا ہے تجھے شاہا! وہ خود عاجِز و گُمنام ہے، میرے خدا تیرے اِحساں دیکھ کر، ہر عقلمند بندۂ بے دام ہے، میرے خدا رحمتیں دُنیا پہ تیری چھا گئیں فَضل بر ہر گام ہے، میرے خدا چاشنی دی عشق کی انسان کو واہ کیا اِکرام ہے، میرے خدا ''حُسن و خوبی، دِلبری بر تُو تمام'' یہ تِرا اِلہام ہے میرے خدا ''صجتے بعد از لِقائے تُو حرام'' ورنہ اُلفت خام ہے میرے خدا ایکہ تو ہے خالقِ ارواح و نیز مالکِ اَجسام ہے، میرے خدا قادِر و مُنعِم غفور و ذُوالجلال تیرا کیا کیا نام ہے، میرے خدا رُعبِ حُسنِ یار کی ہَیبت نہ پوچھ نَفسِ سرکش رام ہے میرے خدا آج تک بھی وہ اَلَستُ وہ بَلیٰ قلب پر اِرقام ہے، میرے خدا میری ہر خواہش کو پورا کر دیا واہ کیا اِنعام ہے، میرے خدا تجھ کو چاہیں ساتھ ہی دنیا کو بھی یہ خیالِ خام ہے، میرے خدا بے بقا، دنیائے فانی، بے وفا کس کے آتی کام ہے، میرے خدا ''در جہان و باز بیروں از جہاں'' یہ تَبتُّل تام ہے، میرے خدا دِل جو ہو لبریز اُلفت سے تِری مہبطِ اِلہام ہے، میرے خدا مانگنا پیشہ ہے اپنا ۔ اے کریم جُود تیرا کام ہے، میرے خدا نبی اور خلیفہ اک نبی تو نے ہمیں دِکھلا دیا کس قدر اِنعام ہے، میرے خدا ''پہلوانِ حضرتِ ربِّ جلیل'' جس کا احمدؑ نام ہے، میرے خدا اَلف سالہ تِیرگی کے بعد اب نِکلا بدرِ تام ہے، میرے خدا کافِر و دَجّال کو نَفخِ مسیحؑ موت کا پیغام ہے، میرے خدا اور دمِ عیسیٰؑ مسلماں کے لئے زندگی کا جام ہے، میرے خدا بیعتِ پیرِ مُغانِ قادیاں ماحیئ آثام ہے، میرے خدا وہ نظیرِ حضرت احمدؐ نبی شاہدِ گُلفام ہے، میرے خدا مُصلحِ موعود جُزمحمودؔ کے مرغِ بے ہنگام ہے، میرے خدا جو ترِا طالِب ہو آئے قادیاں یہ صلائے عام ہے، میرے خدا احمدی نعمتِ خوانِ ہُدیٰ کا آج کل احمدی قساّم ہے، میرے خدا شکر ہے تیرا کہ اب اُس کے سِپُرد خدمتِ اسلام ہے، میرے خدا بے سبب دشمن ہوا سارا جہاں مُف:ت میں بدنام ہے، میرے خدا مومنوں پر کُفر کا کرنا گُماں قتل کا اِقدام ہے، میرے خدا اپنا دیں ہر دین سے آسان ہے کس قدر آرام ہے، میرے خدا ماسِوا کو چھوڑ کر پکڑا تجھے ہم پہ یہ الزام ہے، میرے خدا میرے دِل کی لَوح پر جتنے ہیں نام پہلے تیرا نام ہے، میرے خدا خدمتِ دِیں کے لئے ہو عمر وَقف سب سے اعلیٰ کام ہے، میرے خدا متفرقات جوہرِ اِنسانیت یا نُورِ قَلب عینؔ و قافؔ و لامؔ ہے، میرے خدا سرکشی اور معصِیّت جس دِل میں ہو مَوردِ آلام ہے، میرے خدا جُرم ہے تفریح اپنی رات دن عَفو تیرا کام ہے، میرے خدا تیرا تقویٰ اور توکُّل بے گُماں رزقِ کا اسٹام ہے، میرے خدا تھوپنا تقدیر پر اپنا گناہ ظالموں کا کام ہے میرے خدا ایسی جنت جو کہ جسمانی نہ ہو داخل اوہام ہے، میرے خدا جو حقیقی ہے اُسی اسلام کا احمدیت نام ہے، میرے خدا سلطنت مقصد نہیں پر دین کا اس سے اِستحکام ہے، میرے خدا علم تو مُشرک کا تھا بےکار ہی عقل بھی نیلام ہے، میرے خدا کثرتِ زر، قِلَّتِ اشیائے رِزق گردشِ ایاّم ہے، میرے خدا اتنی دنیا ہے ہمیں جائز، کہ جو دِیں کے آتی کام ہے، میرے خدا ''کشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کُشتیاں'' کیا ہی سچ الہام ہے، میرے خدا تجھ پہ احساں کر کے کرنا نیکیاں کفر اس کا نام ہے میرے خدا قومیت پر فخر ہٹلر کی طرح لعنتِ اقوام ہے، میرے خدا حقیقت حال اے خدا، مُنعِم خدا، مُحسِن خدا لُطف تیرا عام ہے، میرے خدا تیرا اِک بندہ ہے بداخلاق و بد اُس کا بدخُو نام ہے ، میرے خدا بدلگام و بدمزاج و بددماغ بس بدی ہی کام ہے ، میرے خدا بدتمیز و بدترین و بدعناں سیرتِ اَنعام ہے، میرے خدا بدخصال و بدلیاقت بدکلام مُوجِبِ آلام ہے، میرے خدا بد عمل، بد نِیّت، و بد اِعتِقاد قابلِ اِلزام ہے، میرے خدا بدتر و بدخواہ و بداندیش ہے کیسا بد انجام ہے، میرے خدا بدمزہ، بد رنگ، بد رُو، بدمَذاق کس قدر بدنام ہے، میرے خدا بدحواس و بدشگون و بدشِعار کیا ہی بے ہنگام ہے، میرے خدا بدطبیعت، بدسگال و بدگماں مُف:سِد و نَمّام ہے، میرے خدا بدنُما، بدراہ، بدکردار ہے عبدِ نافرجام ہے ، میرے خدا بد کُن و بدحال و بدپرہیز ہے عقل اُس کی خام ہے، میرے خدا بدخبر، بدعہد، بدگو، بدزباں تِیغ خوں آشام ہے ، میرے خدا بددیانت، بدشمائل، بدشِیَم مجمع الآثام ہے، میرے خدا بددِل و بدزیب، و بداطوار ہے جاہِل و ظلاّم ہے، میرے خدا بدرَوِش، بدشوق، بدظن، بدلحاظ یعنی کاالاَنعام ہے، میرے خدا ظاہر و باطن بدی ہی اُس کا شغل صبح سے تا شام ہے، میرے خدا گرچہ کہتا ہے مسلماں آپ کو پر برائے نام ہے، میرے خدا اَلعَجَب پھر بھی وہ ظالِم مانگتا ہر گھڑی اِنعام ہے، میرے خدا دعا آہ! وہ بندہ ہوں میں خود اے کریم جس کا یہ اِعلام ہے میرے خدا ''کِرم کہ بُو دَم مِرا کر دی بشر'' پھر بھی یہ اِقدام ہے، میرے خدا کیا سناؤں کھول کر اپنے گناہ تُو تو خود عَلّام ہے، میرے خدا کس قدر بدبوئے عِصیاں تیز ہے تن بدن نماّم ہے ، میرے خدا غیر تو ہیں غیر، یاں مجھ سے نُفُور ہر اُولُوالاَرحام ہے، میرے خدا عمر آخر ہو گئی سب کُفر میں یہ مِرا اسلام ہے، میرے خدا جائے حیرت ہے کہ مجھ سا نابکار داخلِ خدّام ہے، میرے خدا اب رہا غمخوار اس عاصی کا کون کون آتا کام ہے، میرے خدا تو ہی بتلا کیا کروں، میرے غَفور تیرا ہادی نام ہے، میرے خدا قطعِ زنجیرِ معاصی کے لئے کون سی صمصام ہے، میرے خدا قعرِ ذِلَّت: میں پڑا ہوں منہ کے بَل آہ! کیا انجام ہے، میرے خدا میں تو چڑھ سکتا نہیں تُو خود ہی کھنیچ بس کہ اُونچا بام ہے، میرے خدا اے خدا! اے برّ و رحمان و رحیم رحم تیرا عام ہے، میرے خدا نااُمیدی تجھ سے کیوں ہو؟ جب تِرا مَغفِرَت ہی کام ہے، میرے خدا تجھ پہ قرباں، کاش تو کہہ دے مجھے ''تیرا نیک انجام ہے''، میرے خدا ختم میری تو دعائیں ہو چکیں اب تو تیرا کام ہے، میرے خدا آمین الفضل 9جون 1943ء بخار دل صفحہ180۔182 68۔ کچھ دُعاکے متعلقدُعائیں چھ (6) طرح قبول ہوتی ہیں اور اس طرح کوئی دُعا بھی ضائع نہیں جاتی (1) یا تو وہ لفظاً یہیں قبول ہو جاتی ہے (2) یا اُس کی جگہ آخرت کا درجہ اور نعمت مل جاتی ہے (3) یا اتنی ہی مقدار میں کوئی بُری تقدیر دُور ہو جاتی ہے (4) یا بطور عبادت محسوب ہو جاتی ہے (5) یا دُنیا ہی میں ایک کی جگہ دوسری بہتر چیز مل جاتی ہے (6) یا اگر وہ دُعا بندہ کے لئے مُضر ہو تو منسوخ کر دی جاتی ہے۔ یہ نامنظوری بھی اجابت اور رحمت کا رنگ رکھتی ہے یعنی بندہ ضرر اور تکلیف سے بچ جاتا ہے۔
ہمارا فرض ہے کرنا دُعا کا پھر آگے چاہے وہ مانے نہ مانے اگر مانے، کَرم اُس کا ہے ورنہ وہ جانے اور اُس کا کام جانے خدا ہے غیب داں اور جانتا ہے کہ کیا ہیں نعمتیں کیا تازیانے مگر انساں کہ دارد علمِ ناقص نمی دانَد مَفادش از زِیانے اگر ہر اِک دُعا لفظاً ہو مَقبول لگیں پھر مُدَّعی تو دندنانے ملے داعی کو کُنجی خیر و شر کی خدائی سونپ دی گویا خدا نے بنے جنّت یہی دنیائے فانی لگیں دشمن، مخالِف سب ٹھکانے جو احمق ہے سمجھتا ہے کہ واہ وا لگیں گے اب تو ہم موجیں اُڑانے ملے گا جو بھی مانگیں گے، دعا سے یہ راہِ عیش کھولی ہے قضا نے مگر ہر گز نہ ہو گا کامراں وہ لگے گا جو خدا کو آزمانے دعائیں گو سب ہی ہوتی ہیں منظور یہ فرمایا حُضورِ مصطفیؐ نے مگر مل جائے جو مانگا ہے تو نے نہیں ٹھیکا لیا اس کا خدا نے کبھی ملتا ہے دنیا میں جو مانگو کبھی عُقبیٰ کے کُھلتے ہیں خزانے کبھی کوئی مصیبت دُور ہو کر بدل جاتے ہیں تلخی کے زمانے عِبادت بن کے رہ جاتی ہیں اکثر خُدا اور اُس کے بندے کو ملانے کبھی مقصد بدل جاتا ہے مثلاً بجائے زَر۔ پسر بھیجا خدا نے فراخی کی جگہ ملتی ہے عِزَّت خطابوں کی جگہ آتے ہیں دانے مکاں بنتا نہیں ۔پر عُمر بڑھ کر بھرے جاتے ہیں عملوں کے خزانے مگر نُقصان دِہ جو ہوں دعائیں کَرَم اُس کا ہے گر اُن کو نہ مانے نہیں محروم اُس درگاہ سے کوئی کہ بخشِش کے ہزاروں ہیں بہانے غرض یہ ہیں اَجابت کے طریقے قَبولیت کے ہیں سب کارخانے نہیں آساں مگر کرنا دعا کا چنے لوہے کے پڑتے ہیں چبانے دعا کرنا ہے خونِ دِل کا پینا زبانی لفظ تو ہیں بس بہانے نہ جب تک متقی بن جاؤ پورے قَبولیت کے ہیں دعوے، فسانے عِبادت، بلکہ ہے مغزِ عِبادت دُعا کی گر حقیقت کوئی جانے توجہ ہو، تَضَرُّع ہو، یقیں ہو سَحَر ہو اور تہِ دِل کے ترانے قضا کو ٹال دیتی ہیں دُعائیں اگر لگ جائیں پَے در پَے نِشانے قَبولیت کے قِصّے کیا سناؤں دکھائے تھے ہمیں جو میرزاؔ نے خدا سے مانگ لائی ایک محمودؔ کِیا یہ کام احمدؔ کی دُعا نے نِشاں جتنے دکھائے اُس نے ہم کو وہ اکثر تھے دُعا کے شاخسانے قسم حق کی نظر آیا وہ جلوہ کہ بس دکھلا دیا چہرہ خدا نے کروں تعریف میں کیونکر دُعا کی کہ ہست اُو بر وُجودِ حق نِشانے اگر ہر موئے مَن گردَدزُبانے بدُد رانم زِ ہر یک داستانے خداوندا! مِری بھی اِک دُعا ہے کہ جس کو مانگتے گزرے زمانے رضا تیری ہمیں حاصل ہو دائم رضا ہی کے تو ہیں سب کارخانے حیاتِ طیّبہ دونوں جہاں میں خدا خوش ہو موافِق ہوں زمانے آمین الفضل 18جون 1943ء بخار دل صفحہ183۔184 69۔ دیباچۂ راہِ سلوک جو مانتا خدا کو نہ ہو اُس کو اے عزیز! عقلی دلیلیں ہستیء باری کی دے سُنا اِتنا وہ مان لے گا دلائِل سے بِالضَّرور عالَم کے کارخانہ کا اِک چاہئے خدا اگلا قدم یہ ہے کہ ہو ایمان بھی نصیب اِس کے لئے کلامِ خدا کی مدد بُلا قرآں کی روشنی میں نظر آئے گا اُسے موجود ہے وہ ذات جو ہے سب کا مُبتدا مخلوق بن گئی ہے' وہ کہتا ہے' خود بخود بے مِثل جو کلام ہے ۔وہ کیونکر خود بنا انسان غیب دانی سے عاری ہے گر، تو پھر صدیوں کے غیب کا اُسے کیونکر پتہ لگا؟ تازہ نِشان حضرت مہدیؑ کے پیش کر مومِن کو معرِفَت کی ذرا چاشنی چکھا سارا جہاں ہو جس کا مُخالِف وہ کس طرح؟ غالِب: ہر ایک جنگ میں ہوتا ہے بَرمَلا اب آگے ہے یقین کا درجہ، مرے عزیز ذاتی مشاہدہ سے خدا کا ملے پتا یعنی کہو یہ اُس سے کہ اب آ گیا ہے وقت گر وصل چاہتے ہو تو خود کو کرو فنا ''جوخاک میں ملے اُسے ملتاہے آشنا اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما'' الفضل 25جون1943ء بخار دل صفحہ185 70۔ مسخ کی حقیقت مسخ کی لعنت کے نیچے جو یہودی آ گیا اُن میں جو بندر بنا، مجلوق تھا، نقّال تھا لالچی، لُوطی، غلیظ، احمق جو تھے خنزیر تھے مُشرِک اور زانی و طاغی عبدِ شیطاں بن گیا بندر اور خنزیر اور شیطاں کا بندہ ہو کے بھی پھر جو دیکھا اُس کو وہ انساں کا انساں ہی رہا اِن قرائن سے یہی ثابت ہوا، اے مولوی مسخ روحانی ہی تھا وہ، مسخ جسمانی نہ تھا الفضل 3جولائی1943ء بخار دل صفحہ185 70۔ مسخ کی حقیقت مسخ کی لعنت کے نیچے جو یہودی آ گیا اُن میں جو بندر بنا، مجلوق تھا، نقّال تھا لالچی، لُوطی، غلیظ، احمق جو تھے خنزیر تھے مُشرِک اور زانی و طاغی عبدِ شیطاں بن گیا بندر اور خنزیر اور شیطاں کا بندہ ہو کے بھی پھر جو دیکھا اُس کو وہ انساں کا انساں ہی رہا اِن قرائن سے یہی ثابت ہوا، اے مولوی مسخ روحانی ہی تھا وہ، مسخ جسمانی نہ تھا الفضل 3جولائی1943ء بخار دل صفحہ186۔187 71۔ نَماز مُنکِر و فَحشَا سے انساں کو بچاتی ہے نماز رحمتیں اور برکتیں ہمراہ لاتی ہے نماز اِبتدا سے اِنتہا تک ہے سراسر یہ دُعا آدمی کو حق تعالیٰ سے مِلاتی ہے نماز ذِکر و شکر اللہ کا ہے ۔ مومن کا ہے معراج یہ پنج وقتہ وصل کے ساغَر پِلاتی ہے نماز قصرِ جاناں سے اذاں کی جونہی آتی ہے نِدا عاشِقوں کو یار کی چَوکھٹ پہ لاتی ہے نماز جُھک گئے ہیں' دست بستہ ہیں' جبیں ہے خاک پر عاجِزی کس کس طرح اُن سے کراتی ہے نماز ہے توجہ اور تَضَرُّع اور تَبتُّل اور خُشوع رنگ کیا کیا طالِبِ حق پر چڑھاتی ہے نماز ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں محمودؔ و ایازؔ یہ سُلوک اور یہ مُساواتیں سکھاتی ہے نماز پاکبازی اور طہارت وقت کی پابندیاں قدر دانوں کو سبق ایسے پڑھاتی ہے نماز ہے ذریعہ روز شب آپس میں ملنے کا عجیب اِتِّحادُ المُسلِمیں اَزبَر کراتی ہے نماز امتیازِ کافر و مُسلم یہی اک چیز ہے کون نوری؟ کون ناری؟ یہ بتاتی ہے نماز ہر عبادت ختم ہو جاتی ہے دنیا میں یہیں اہلِ جنّت کے لئے پر واں بھی جاتی ہے نماز جو نمازوں میں دعا ہو ۔ ہے اَجابَت کے قریب اُس دعا کو تو نِشانہ پر بِٹھاتی ہے نماز دِل نمازی کا گرفتارِ گُنہ کیونکر ہو جب اُس میں ہر دم یاد مولیٰ کی رَچاتی ہے نماز رِقّتِ دِل چونکہ پِنہاں اس کے اَرکانوں میں ہے کیسی کیسی گریہ و زاری کراتی ہے نماز حشر کے دن سب سے پہلے آئے گی میزان پر دیکھنا پھر کس طرح سے بخشواتی ہے نماز ہے صفائے جسم بھی اور جِلائے رُوح بھی جان و تن کی مَیل ہر لحظہ چُھٹاتی ہے نماز حضرتِ باری کو ''پہلے آسماں'' پر ہر سَحَر عرش سے وقتِ تہجد کھینچ لاتی ہے نماز رُوح جب ہوتی ہے حاضر پیشِ رَبُّ العالَمِیں کیسی کیسی پھر مُناجاتیں سکھاتی ہے نماز عیدگاہ میں' عید کے دن، دِل پہ غیر اَقوام کے اِمپریشن1؎ اپنا کیا اچھا بِٹھاتی ہے نماز زندگی ہے ۔نَخلِ ایماں کی یہی آبِ حیات مَوت ہے، ضائِع اگر کوئی بھی جاتی ہے نماز اے خدا ہم کو عطا کر اور ہماری نَسل کو نعمتیں اور بخششیں جو جو بھی لاتی ہے نماز 1؎ Impression الفضل 7جولائی 1943ء بخار دل صفحہ187۔188 72۔ پنج ارکانِ اسلام اَلَستُ اور بَلیٰ کے دن ہوا تھا عہد جو باہم نہ ہو اِعلان گر اُس کا تو ایماں نامکمل ہے توجہ ہو، تَضَرُّع ہو، تَذَلُّل ہو، تَبتُّل ہو نمازِ عشق اِن اَرکان سے ہوتی مکمل ہے زکوٰۃِ مال سے گر تزکیہ حاصِل نہ ہو دل کا تو گویا دے کے سونے کو لیا بدلے میں پیتل ہے نہ دیں وہ داد روزے کی اگر ''اَلصَّوْمُ لِیْ'' کہہ کر تو اِنعامِ ''اَنَا اَجْزِیْ بِہٖ'' اُمیدِ مُہمَل ہے نہ جانا صرف ظاہِر پر اَدائے حج میں اے مُسلم! کہ رازِ عشق ہرہررُکن میں اس کے مُقَفَّل ہے کبھی پھرتے ہیں کوچے میں کبھی چاروں طرف گھر کے صفامروہ پہ چین اُن کونہ کعبے میں اُنہیں کَل ہے یہاں کیاکام دیوانوں کا ۔ بستی سے نکل جائیں جو ہیں بیتاب مرنے کو ٹھکانا اُن کا جنگل1؎ ہے کفن اِحرام اور لَبَّیک نعرہ ہے شہادت کا حَرَم لیلیٰ کا محمِل ہے، مِنیٰ عاشق کا مَقتَل ہے مبارکباد اے طالِب! کہ ظُلمت گاہِ عالَم میں حبیبِؐ یار رہبر ہے، کلامِ یار مَشعَل ہے مَشو مَغمُوم ازفکرِ صفائے باطِن اے زاہد! کہ جتنے زنگ مخفی ہیں محبت سب کی صَیقل ہے 1؎ میدانِ عرفات بخار دل صفحہ188۔191 73۔ معرفتِ الٰہی1۔ خدا شناسی اور معرفت کا حاصل کرنا ہر مومن کا فرضِ مُقَدَّم ہے چھ سات سال کا ذکر ہے کہ ایک دن میں بیت الفکر میں لیٹا ہوا اُونگھ رہا تھا اور یہ نظارہ دیکھ رہا تھا کہ کوئی آدمی عُہدوں کی بابت ذکر کر رہا ہے۔ اتنے میں کسی نے زور سے میری چارپائی ہلائی اور میں یہ الفاظ کہتا ہوا بیدار ہوگیا کہ ''میں تو ان باتوں کو نہ چاہوں نہ مانگوں'' (یعنی عُہدے) اس پر میں نے یہ شعر لکھے ہیں۔ مدِّنظر یہ خیال ہے کہ معرفتِ الٰہی اور خدا شناسی ہر مومن کا پہلا فرض ہے۔ کیونکہ بغیر معرِفت کے محبت اور تعلق پیدا نہیں ہوسکتے بلکہ ایسا خیال ہی لَغ:و ہے۔ اور بغیر خدا شناسی کے آدمی کسی عہدے پر پہنچ بھی جائے تو وہ اُس کے لئے اِبتلا ہے نہ کہ اِنعام اور مجھے تو اس دن سے اس لفظ سے ہی نفرت ہوگئی ہے۔
میں تو عُہدوں کو نہ مانگوں اور نہ چاہوں اے عزیز مجھ کو کیا عُہدوں سے میرا کام ہے عرفانِ یار معرِفت بُنیاد ہے عشقِ و مَحبت کی مُدام اور مَحبت کھینچتی ہے نعمتِ رِضوانِ یار جب رضا ہم کو ملی سمجھو کہ سب کچھ مل گیا قُربِ یار و وصلِ یار و لُطفِ بے پایانِ یار2- دنیا میں دِیدار اِلٰہی آنکھوں سے نہیں بلکہ کسی قدر عقل سےاور زیادہ تر نِشانات کے ذریعہ ہوتا ہے
جس پہ بے دیکھے مریں وہ آپ کی سرکار ہے آنکھ ہے لاچار' یاں' گو عقل کچھ بیدار ہے عقل سے ممکن ہے اِدراکِ صفاتِ ذُوالجلال ورنہ ہر حِس جسمِ انسانی کی یاں بیکار ہے انبیاء کے ہاتھ پر ہوتا ہے لیکن جو ظُہور اس قدر پُر زور ہے - گویا کہ وہ دیدار ہے ذرّے ذرّے میں نظر آتا ہے وہ زندہ خدا نُصرتوں اور غیب کی ہوتی عجب بھرمار ہے ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھا مسیحِ پاکؑ کو یوں نِشاں آتے تھے جیسے اک مسلسل دھار ہے اَلغَرَض ہوتا ہے آلہ حق شناسی کا رسول نُور ہے مرسِل تو مرسَل مَطلَعُ الاَنوار ہے 3- دِیدارِ اِلٰہی معرفت ہی کا دوسرا نام ہے تو جسم ہے وہ رُوح ہے ۔ آئے گا نہ ہرگز آنکھوں سے نظر تجھ کو وہ سرکارِ الٰہی دُنیا ہو کہ عُقبیٰ ہو صِفات اُس کے ہیں ظاہِر عرفانِ خدا ہی تو ہے دیدارِ الٰہی 4- مَیں نے خدا کو نشانوں سے پہچانا نہ کہ عقل سے5 نومبر 1936ء جمعرات صبح 5 بجے کا ذکر ہے کہ اوپر والا فقرہ میری زبان پر جاری ہوا۔ اتفاقاً آج ایک کاپی میں مجھے اس تاریخ کا یہ نوٹ مل گیا جس پر میں نے اس کا مضمون نظم کر دیا۔
کہہ دو یہ نکتہ طالبِ عرفان و وصل سے مِلتی خدا شناسی ہے محض اُس کے فضل سے آتی ہے معرِفت بھی نِشانوں کی معرِفت پاتا نہیں خدا کو کوئی صرف عقل سے 5- دُعا برائے معرفت آنکھیں جو کھلیں دِل کی، تو دِیدار ہے ہر جا اور بند ہوں توعرش کے آگے بھی ہے اندھا عِرفان سے کر میرے خدا دل کو مُنَوَّر دُنیا میں اور عُقبیٰ میں ہے بے اس کے اندھیرا الفضل 9جولائی1943ء بخار دل صفحہ191۔193 74۔ ترکِ دنیا نصیحت از الوصیّت ارے سننے والو! ذرا کان کھولو خدا تُم سے کیا چاہتا ہے؟ یہ سُن لو یہی بس کہ اُس کے ہی ہو جاؤ بالکل نہ ہرگز شریک اُس کا جانو کسی کو بشارت از الوصیّت سبھی دنیا پہ ہیں مَفتوں خدا گویا خیالی ہے کسی کو ڈر نہیں اک دن قیامت آنے والی ہے دکھا اے احمدی جَوہَر کہ خاص اِنعام مل جائیں مبارَک ہو ابھی تک قُرب کا میدان خالی ہے دُنیا مَتاعُ الغُرور ہے کبھی اس کے بھرّوں سے اے میرے یار نہ دھوکے میں پھنس جانا تُم زِینہار بھروسے کے قابل یہ دُنیا نہیں کہ 'کاتک کی کُتیا کا کیا اعتبار' ترک دنیا کی تفصیل از الوصیّت ترکِ مرضی، ترکِ عِزَّت، ترکِ جاں ترکِ زرّ اور ترکِ لذّت بیگُماں ترک اتنے ہوں تو ملتا ہے خدا ہیں یہ سب مُترادِفِ ''ترکِ جہاں'' ترکِ دنیا کے معنی ترکِ فُضول ہیں فُضول کو ترک کر' اے طائر! کہ اُڑ سکے تو پروں سے اپنے نہیں تو دنیا میں یوں پھن;سے گا، فلائی1؎ پیپر پہ جیسے مکّھی حلال میں سے بھی صرف وہ لے جو فرض ہو تجھ پہ اور لازِم حرام کر لے فُضول گوئی، فضول خوری، فُضول خرچی(1) فلائی پیپر وہ کاغذ جس پر سریش کی وجہ سے مکھی بیٹھتے ہی چپک کر رہ جاتی ہے۔
دنیاہے جائے فانی، دِل سے اِسے اُتارو (ورثمین) رشتہ اس دنیاسے اپنا اے مِری جاں توڑ دے دِل خداسے جوڑلے اور رُخ اُدھر کو موڑ دے عقلمندی بھی یہی ہے - حکم بھی ایسا ہی ہے جو ہے آخر چھوڑنی، پہلے ہی اُس کو چھوڑ دے دُنیاکاانجام تندرستی اور جوانی میں عجب اک جان تھی آن تھی اور بان تھی اور تان تھی اور شان تھی پھر گزر کر وہ زمانہ، ہو گیا جس دم ضعیف ''ہائے ہائے'' رات دن اور مَوت کی گردان تھی چھوڑ کر سب کچھ، چلا جب ہاتھ خالی اُس طرف گھر الگ ویران تھا، بیوی الگ حیران تھی کام سارے تھے اَدھورے، بندھ گیا رَختِ سَفَر دِل بھی مصروفِ فُغاں تھا، آنکھ بھی گِریان تھی وائے حسرت، مالک و مُحسن سے لاپروا رہا تب پتا اُس کو لگا، جب سامنے میزان تھی بخار دل صفحہ194۔195 75۔ وصل الٰہی دُنیا میں وصلِ الٰہی خدا کی جن پہ ہوتی ہیں عِنایات اُنہیں وہ بخشتا ہے ۔ یہ کمالات مدو، نُصرت، قَبولیت دُعا کی تسلّی، پیشگوئی اور نِشانات کشُوفِ صادِقہ، اِلہام و رُؤیا جو ہیں رُوحانیت کے پاک ثَمرات عطا ہوتے ہیں اُس درگاہ سے اُن کو معارِف اور حقائِق اور فُتوحات خدا کے عِشق میں رہتے ہیں سَرشار جب آتے ہیں مَصائِب اور آفات رِہا کرتا ہے اُن کو خوف و غم سے فرشتے لاکے دیتے ہیں بشارات تَعَیُّشْ میں نہیں پڑتے وہ ہرگِز اُسی کے ذکر میں پاتے ہیں لذّات خدا کا اُن سے رہتا ہے بکثرت سُلوکِ مُعجزانہ یا کرامات دَرُست اَخلاق کر دیتا ہے اُن کے اور اپنے دین کی لیتا ہے خِدمات اُنہیں مِلتا ہے غَلَبہ دُشمنوں پر اَحِبّا پر ہوا کرتی ہیں برکات یہ ہیں دُنیا میں آثارِ وِلایت یہی واصِل کی ہیں یارو عَلامات عُقبیٰ میں وصل الٰہی اندھا کیا چاہے دو آنکھیں بھوکا کیا مانگے دو روٹی مومِن کیا چاہے عُقبیٰ میں کھانا پینا بچے بیوی باتیں گھاتیں اور دِل لگیاں حُوریں، نوکر باغ اور کوٹھی خالق خوش ہو مالِک راضی کوئی نہ ہووے تنگی تُرشی جسم کے سارے عیش و تَنَعُّمْ رَوح1؎ کی ساری طرب و گلوری2؎ جو بھی مانگے وہ ہو حاضر اور مل جائے جو چاہے جی عشق کی لہریں، عِلم کی نہریں ہر بُنِ مُو سے اُس کے جاری غیر مُکدَّردِل کی خوشیاں لذّت دائِم، جنت اَبَدی سامنے دِلبر، دِلبر مُحسِن ہر نعمت ہو آگے رکھی پہلے دن سے پچھلا بڑھ کر اور ترقّی اور ترقّی وصل خدا کا اس سے زیادہ چاہتے کیا ہو میرے بھائی؟ 1؎ خوشی و خرمی 2؎ شان' عظمت' رونق الفضل یکم اگست 1943ء بخار دل صفحہ196 76۔ مال کامنتر نوٹ اور اشرفی تو بِچھُّو ہیں ہاتھ ان پر نہ ڈال بڑھ بڑھ کر ہاں اگر سیکھ لے تُو وہ مَنتر زہر جس سے نہ چڑھ سکے تجھ پر یعنی کسبِ حلال کا ہو مال حق کے رستے میں خرچ ہو وہ زر تب نہیں ڈر کسی ہَلاکت کا کہ وہ ہے فَضلِ رازقِ اکبر ورنہ پھر آخرت میں یہ بِچھُّو ڈنک ماریں گے تیری رَگ رَگ پر الفضل 6 اگست 1943ء بخار دل صفحہ197 77۔ خدائی جبر اپنی پیدائش ۔زمانہ اور نَسَب دِلبرِ من! تیرے ہی ہاتھوں سے تھے اِک عجب عالَم نظر آیا یہاں قادیاں، دہلی سے جب ہم آ گئے زندگی، اُستاد، ہم صُحبت، عزیز دین و دنیا اور وطن سب تھے نئے سرگُزَشتِ ما زِ دستِ خود نَوِشت جو ہو خوش خط کس طرح بدخط لکھے مل گیا تقدیر سے خَیرُالقُرون اہلِ جنت سے عَلائِق ہو گئے تھے مسیحِ وقتؑ کے زیرِنَظَر حضرتِ مہدیؑ کے قدموں میں پَلے عمر بھر دیکھا کئے حق کے نِشاں اہلِ باطِن کی مجالِس میں رہے دو خلیفہ، جیسے سورج اور چاند یک نبی بہتر زِ ماہ و خاورے تربیت، تعلیم اور ماحول سب بے عمل، یہ فضل تُو نے کر دیے از کرم ایں لُطف کر دی، ورنہ من ہمچو خاکم، بلکہ زاں ہم کمترے حُسن کی اپنے دکھا دی اِک جھلک ''دِل دواں ہر لحظہ در کوئے کسے'' طائرِ دِل تیرِ مِژگاں کا شِکار ''سوختہ جانے زِ عشقِ دِلبرے'' جُود و اِحساں نے تِرے گھائِل کیا وَصل کے آنے لگے پیہم مزے جس کو تو ہی خود نہ چھوڑے وہ بھلا تیرے قابو سے نکل کیونکر سکے ''جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار'' ''مُو کشانم مے بَرَد زور آورے'' الفضل 13اگست 1943ء بخار دل صفحہ198۔199 78۔ اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھنچوائی نہیںبُت پرست لوگ بُتوں کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ ''یہ تو پرمیشر کا رُوپ یعنی محبوب حقیقی کی تصویریں ہیں۔ ہم شرک نہیں کرتے بلکہ اُسی کو پوجتے ہیں صرف توجہ کے قیام کے لئے معشوق کی فرضی تصویر بنا کر سامنے رکھ لیتے ہیں''۔ ان اشعارمیں اُن کا ردّ ہے کہ ایسی نقلیں اور بُت کسی رنگ میں بھی معبود حقیقی کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔
بت پرستی دینِ احمدؐ میں کہیں آئی نہیں وہ تو یکتا ہے مگر نَقلوں میں یکتائی نہیں ''عشق میخواہد کلام'' اور اِس میں گویائی نہیں آشنائی، کبریائی، جلوہ آرائی نہیں ''اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھچوائی نہیں'' دِل میں اور آنکھوں میں بستا ہے جمالِ رُوئے یار ہر جگہ ہر لحظ ہے عَنبر فَشاں خوشبوئے یار زندگی قائم ہے اپنی برسرِ نیروئے یار ہے کہاں تصویر میں وہ قوتِ بازوئے یار ''اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھچوائی نہیں'' قطرے قطرے پر ربوبِیّت نے پھیلایا ہے جال نکتے نکتے پر نوازِش ہو رہی ہے بے مِثال ذرّے ذرّے پر ہے فیضانِ صِفاتِ ذُوالجلال حاجتِ تصویر کیا، حاصل ہے جب ہر دم وصال ''اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھچوائی نہیں'' حُسن گو اَظہر من الشمس اُس کا ہے با آب و تاب پھر بھی لاکھوں ہیں نقابیں اور ہزاروں ہیں حجاب رنگ و جسم وشکل سے ہے پاک وہ عالی جناب کس طرح فوٹوگرافر ہوسکے یاں کامیاب ''اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھچوائی نہیں'' خواب تک میں جب نہ دیکھا ہو تو کیا تعبیر ہو؟ جب نہ ہو بنیاد ہی کچھ پھر کہاں تعمیر ہو؟ مَتَن ہی ہو عقل سے بالا تو کیا تفسیر ہو جو تصور میں نہ آئے ۔ اُس کی کیا تصویر ہو ''اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھچوائی نہیں'' بُت پرستوں نے دکھائیں گو بہت عیّاریاں پھر بھی قسمت میں رہیں ان کے سدا نا کامیاں وصل کے رشتے کی رہزن ہے ہر اِک تصویر یاں اصل کی تو ایک بھی خوبی نہیں اس میں عیاں ''اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھچوائی نہیں'' حُسن کہتے ہیں صفاتِ حضرت باری کو ہی حُسن جسمانی مراد اس سے نہیں ہرگز کبھی مُصحَفِ جاناں1؎ میں ہے تصویر جو معشوق کی کیسی اعلیٰ ہے ''ذرا گردن جھکائی دیکھ لی'' ''اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھچوائی نہیں'' حُسن کے فیضان کو احسان کہتے ہیں سبھی لابُدی ہے عشق جب اِحساں کی ہو جلوہ گری چھوڑ کر محسن کو جس نے کی صنم کی پیروی اُس پہ شرک وکفر وظلم و فِسق کی لعنت پڑی ''اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھچوائی نہیں'' اپنے جاناں سے تو کر لیتے ہیں عرضِ مدعا فانی تصویریں کریں گی کیا مِری حاجت روا سامنے میرے ہے میرا قادر و زندہ خدا جو اَزَل سے تا اَبَدیکساں رہے گا اور رَہا ''اس لئے تصویرِ جاناں ہم نے کھچوائی نہیں'' (1) یعنی قرآن شریف الفضل یکم ستمبر1943ء بخار دل صفحہ200۔20179۔ قادیان میں 1943ء کے رَمضان میں ایک تولہ شکر کا راشن
دودھ میں لسّی میں اور چائے میں پڑتا ہے نمک ہے یہ روزوں کا مہینہ یا کہ خالی1؎ کی جھلک ان دنوں میں ایک تولہ راشنِ شکر جو ہو ڈر ہے آہِ روزہ داراں پھونک ڈالے گی فلک روزہ میں گرمی کے مارے لگ رہی ہے ایک آگ کھانڈہے ڈیپومیں بند اور دِل رہا ہے یاں بِلک چار تولے کھانڈ سے بنتا ہے شربت کا گلاس اور کئی ایسے ہوں تب تسکین پاتا ہے دِلک2؎ اور سب شہروں میں ہے اِک سیر سے راشن مزید اور یہاں رَمضان میں ہے چھ چھٹنکی یہ گزک صرف یہ کہناکہ سرکاری یہی مِقدار ہے کیسے مانیں ہم کہ ہر جا تو نہیں ہے یہ کھٹک ملک میں سارے یہی مقدارہوتی تب توخیر ڈیڑھ پا یاں ہو تو واں3؎ ہو پانچ پا یہ ہے کسک ذائِقہ کا اور تَنَعُّم کا نہیں ہر گز سوال بلکہ لازم ہے شکر یوں جیسے پانی اور نمک شیشی پینے والے بچوں کے لئے تو اوسطاً پانچ تولہ روز ہو، دو سال کی مُدَّت تَلَک زچہ اور لڑکوں' مریضوں' روزہ داروں کے لئے چاہئے ہے آدھ پاتک فالتو بے ریب و شک تاکہ راشن ہو زیادہ دُور ہو ساری کمی اہل حل و عقد کو لازم ہے کوشش بے دھڑک چاہئے کرنا ڈپو کا بھی تو احسن انتظام صبر کا پیالہ ہے جاتا اکثروں کا واں چھلک جبکہ کھلتی ہیں دُ کانیں صبح سے تا شام سب پھر ڈپو کیوں خاص کر کھلتا ہے گھنٹے تین تک دیکھئے تلخی زدوں کی کون فریادیں سُنے؟ جو بھی ہو اُس کو دُعا ہم دیں گے ''اَللّٰہُ مَعَکْ'' 1؎ خالی، شوال کے بعد کا مہینہ 2؎ دل کی تصغیر 3؎ مثلاًفیروزپور الفضل 16ستمبر 1943ء بخار دل صفحہ202۔203 80۔ توکیاآئے تُم آئے اور گلے ملنے سے کترائے تو کیا آئے ہم آئیں اور تمہارا دل نہ گرمائے تو کیا آئے مزا آنے کا ہے تب ہی کہ ہنستے بولتے آؤ اگر چہرے پہ اپنے بے رُخی لائے تو کیا آئے نہیں ہے بے سبب بے رَونقی مسجد کے مولانا تمہارے ہاں کے فتوے سُن کے جو جائے تو کیا آئے سبھی مذہب بلاتے ہیں ہمیں پھر نَقد جنت کو بَجُز اِسلام کے انساں نہ گر پائے تو کیا آئے مسیحِ ناصریؑ کی آمدِ ثانی پہ کیا جھگڑا جو اپنی عمر پوری کر کے مر جائے تو کیا آئے؟ مصیبت قحط کی آئی تو کون آتا ہے کس کے ہاں نہ ہو شربت' نہ ہو کھانا' نہ ہو چائے تو کیا آئے جو صالح نیک کہلا کر بھی آقا کی کرے چوری بپاسِ شرم و غیرت پھر چلا جائے تو کیا آئے حقیقی حُسن کا جلوہ تو احمدؑ ہی ہے ۔اے صوفی! تِرے دِل میں مجازی نقش کچھ آئے تو کیا آئے بہشتی مقبرہ تو کہہ رہا ہے ''آؤ جنت میں'' وصیت ہی سے پر جو شخص گھبرائے تو کیا آئے سرِ بالینِ بیمارِ مَحبت تھا تمہیں آنا سرِ بالینِ مَرقد اب اگر آئے تو کیا آئے جو آئیں احمدیت میں وہ آئیں سر بَکَف ہو کر کریں ہر امتحاں پر ہائے اور وائے تو کیاآئے دمِ مُردن نہ انجکشن1؎ مِرے بازو میں کرنا تُم کہ مرتے وقت زیادہ سانس کچھ آئے تو کیا آئے1؎ انجکشن، وہ ٹیکہ جو طاقت کے لئے ڈاکٹر لوگ لگایا کرتے ہیں۔
الفضل 5 اکتوبر 1943ء بخار دل صفحہ204 81۔ ہم ڈلہوزی سے بول رہے ہیں THIS IS DALHOUSIE CALLING مُژدہ باد! اے ساکنِ اَرضِ حَرَم بر زمینَت آسماں آید ہمے غم مخور، اے تِشنۂِ آبِ حیات خضرِ راہِ سالِکاں آید ہمے خاک برسرکُن غمِ ایّام را کز سفر آں جانِ جاں آیدہمے جام در دست و صُراحی در بغل ساقیء بادہ کَشاں آید ہمے مَا اَیازستیم و ایں محمودِ ما جاں نثارِ خادماں آید1؎ ہمے سَروَرِ خوباں و جانِ قادیاں باز سُوئے قادیاں آید ہمے سیرِ ڈلہوزی چہ می ماند بدو در نَظَر دَارُالاَماں آید ہمے قافلہ سالارِ ما فَضلِ عُمَر یعنی میرِ کارواں آید ہمے بَرق وَش بر توسنِ نیلو فری1؎ جانبِ مرکز دَواں آید ہمے گلّہ بیتاب ست در شوقِ حُدی2؎ گلّۂ را سارباں آید ہمے بہرِ عید و جمعہ و درس و دُعا غمگسارِ دوستاں آید ہمے عاشقِ بے صبر! چندے صبر کُن تا بہ وَے تاب و تواں آید ہمے شور آمیں بر دُعائے صحتش از برِ کرّوبیاں آید ہمے1؎ یعنی ہے۔ 2؎ حضور کی موٹر کار نیلے رنگ کی ہے۔ 3؎ وہ گیت جس کوسُن کراُونٹ تیز چلنے لگتے ہیں۔
الفضل 22ستمبر1943ء بخار دل صفحہ205۔206 82۔ اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے عمر رواں کے سال کہاں اور کدھر گئے کچھ بے عمل چلے گئے، کچھ بے ثَمَرگئے جوبَن اُڑا، جوانی لُٹی، بال و پر گئے کی توبہ ہر خزاں میں مگر پھر مُکر گئے اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے کچھ شعر و شاعری کا بجایا کئے رُباب کچھ دردِ سر نے اور دمہ نے کیا خراب بے خوابیوں میں کٹ گئیں شب ہائے بے حساب اعمال پھر بھی کرتے رہے ہائے نا صواب اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے غُنچے کھِلے، خزاں گئی، گُل خندہ زن ہوئے گلشن بھرے، ہوا چلی، تازہ چمن ہوئے نرگس، گلاب، یاسمن و نَسترَن ہوئے دِل کی کلی مگر نہ کھِلی ۔بے سَجن ہوئے اب کے بھی دن بہارکے یونہی گزر گئے تُم نے توہربہارمیں پوری کی اپنی بات1؎ فرمایا جو زبان سے اُس کو دیا ثَبات گو سر پٹکتے ہم بھی رہے ازپئے نَجات پر گوہر مُراد نہ آیا ہمارے ہات اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے پچھلا حساب گرچہ نہ بیباق تھا ہوا اِمسال پھر بھی عہد یہ تھا ہم نے کر لیا بعد از خزاں یہ قرض کریں گے سبھی ادا افسوس پر، کہ بار یہ بڑھتا چلا گیا اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے اس جنگ نے کیا ہے بغایت سبھی کو تنگ ہر موسم بہار میں کھلتا نیا ہے رنگ ہے انتظارِ ''ثلجِ بہار2؎'' اب تو بے دِرَنگ پر صُلح کا نظر نہیں آیا کوئی بھی ڈھنگ اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے کیا پوچھتے ہو حال دِل پائمال کا دلبر نے ہم سے وعدہ کیا تھا وصال کا پر رُعبِ حُسن دیکھا جو اُس ذُوالجلال کا پھر حوصلہ ہی پڑ نہ سکا اس سوال کا اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے1؎ پھربہارآئی خداکی بات پھر پوری ہوئی(الہام حضرت مسیح موعودؑ) 2؎ ''پھربہارآئی توآئے ثلج کے آنے کے دن'' (الہام حضرت مسیح موعود)۔ثلج یعنی صلح، امن اورعافیت کے دن، چنانچہ 7/مئی1945ء کو بہار کے ایام میں ہی جرمنی نے ہتھیارڈال دیے ۔
الفضل 13 اکتوبر 1943ء بخار دل صفحہ207 83۔ حضرت مولوی بُرھان الدین جہلمی ایک تھے جہلم میں رہتے مولوی برہان دین جو حواری ابتدائی حضرت احمدؑ کے تھے1؎ ایک دن جب سیر سے حضرت ہوئے واپس تو وہ احمدیہ چوک میں یوں آپ سے کہنے لگے ''اپنی حالت ہے عجب کمزور اے میرے حضور احمدی بن کر بھی ہم ''جُھڈو2؎ کے جُھڈو'' ہی رہے'' کہہ کہ پنجابی میں یہ الفاظ پھر وہ رو دیے حضرت مہدی تسلّی اُن کی گو کرتے رہے تھے اگرچہ سلسلہ کے سابِقُونُ لْاَوَّلُونْ پر ہمیشہ وہ ترقی کے رہے پیچھے پڑے وحئ حق نے اُن کو ''شہتیرِ جماعت3؎'' تھا کہا پھر بھی اپنے حال پر نادِم تھے اور حیران تھے جائے عبرت ہے کہ مجھ سا بے عمل اور نابکار جو کہے کچھ اور کرے کچھ ۔ مطمئن پھر بھی رہے اُن کو تھی ہر دم تڑپ، قُربِ الٰہی کی لگی اور ہم بسترمیں لیٹے کروٹیں ہیں لے رہے آگ تھی دِل میں، نہ تھااُن کوکہیں آرام و چین جان جائے حق کی راہ میں بس یہی تھے چاہتے ''اے خدا، بَر تُربَتِ اُو ابرِ رحمت ہا ببار'' آنکہ بود از جان و دل قربان رُوئے دِلبرے مرحبا! کیسے تھے احمدؑ کے یہ اصحابِ کُبار احمدیت کےلئے سب کچھ ہی قُرباں کر گئے جَنّتُ الفِردوس میں اعلیٰ مدارج ہوں نصیب حق تعالیٰ اُن سے خوش ہو، مَغفِرت اُن کی کرے1؎ مولوی صاحب 1886ء سے بھی پہلے کے تعلق رکھنے والوں میں تھے۔ (تذکرہ صفحہ137) 2؎ قریباً اصل الفاظ 3؎ دوشہتیروں کے ٹوٹنے کا الہام ان کے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے لئے مشہورتھا۔
الفضل 17اکتوبر1943ء بخار دل صفحہ208 84۔ محبت مجھ پہ اے جان! چھا گئے ہو تُم دِل میں میرے سما گئے ہو تُم پھرتے رہتے ہو میری آنکھوں میں جب سے جلوہ دکھا گئے ہو تُم قلبِ ویراں میں میہماں رہ کر اُس کو کعبہ بنا گئے ہو تُم کان ہیں جن سے اب تلک مَسحور ایسے نغمے سُنا گئے ہو تُم پھول جھڑتے تھے منہ سے باتوں میں کیسی نکہت اُڑا گئے ہو تُم ہو کے فکر و خیال پر حاوی دین و دُنیا بُھلا گئے ہو تُم ذہن سے جو کبھی اُتر نہ سکے ایسا نَقشہ جما گئے ہو تُم آبِ رحمت کے ایک چھینٹے سے میرا دوزخ بُجھا گئے ہو تُم نَقشِ شِرک و دوئی مِرے دِل سے اپنے ہاتھوں مِٹا گئے ہو تُم عشق شاید اسی کو کہتے ہیں اک لگن جو لگا گئے ہو تُم ڈال کر اِک نظر محبت کی مجھ سا بگڑا بنا گئے ہو تُم الفضل 18 نومبر1943ء بخار دل صفحہ208 85۔ عقل بغیرالہام کے یقین کے درجہ کو نہیں پہنچاسکتی فقط اتنا کہتی ہے عقلِ سلیم کہ دُنیا کا کوئی خدا چاہئے مگر یہ کہ موجود ہے وہ ضرور سو اُس کو تو وحیء خدا چاہئے یقیں کے لئے عقل کافی نہیں یہاں تو کلامِ خُدا چاہئے یہ اِلہام ہی نے تو ثابِت کیا خدا ہے ۔ نہ یہ کہ خُدا چاہئے 1943ء بخار دل صفحہ209 86۔ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات میں رَبّ نہیں ہوں کیا ترا؟ یعنی اَلَستُ جب سنا قُلنَا بَلیٰ، قُلنَا بَلیٰ، قُلنَا بَلیٰ، قُلنَا بَلیٰ یعنی اکیلا ہی نہیں، مالِک ہے تُوسب خَلق کا رَبُّ الوَریٰ، رَبُّ الوَریٰ، رَبُّ الوَریٰ، رَبُّ الوَریٰ مُحسِن، حسیں، دِلدار، من موہن، پیارا ہے تو ہی میرے خدا، میرے خدا، میرے خدا، میرے خدا گندے ہیں ہم بندے تِرے، سر تا بہ پا غرقِ گناہ فَاغْفِرْلَنَا، فَاغْفِرْلَنَا، فَاغْفِرْلَنَا، فَاغْفِرْلَنَا اے ربّ ہمارے رحم کر، دُکھ دور کر، مَسرُور کر آقائے ما، مولائے ما، ملجائے ما، ماوائے ما اسلام کو اِکنافِ عالَم میں ترقّی ہو نصیب سُن لے دُعا، سُن لے دُعا، سُن لے دُعا، سُن لے دُعا تیرے محمدؐ پر درُود اور تیرے احمدؑ پر سلام صَلِّ علیٰ، صَلِّ علیٰ، صَلِّ علیٰ، صَلِّ علیٰ سجدے کروں گا شکر کے، سرکار فرمائیں گے جب ''راضی میں تجھ سے ہو گیا، بندے مِرے جنت میں آ'' آمین بخار دل صفحہ210 87۔ کھوٹے معاملات قرض لے کر کیوں تُو بنتا ہے یہود کیوں تجھے اُن کا چَلَن اچھا لگا؟ قِسط ہو، یا نفع ہو، یا وعدہ ہو جس نے جو چاہا، وہ تُو نے لکھ دیا نام دینے کا مگر لیتا نہیں لے کے قرضہ، جیسے کوئی مر گیا وقت لینے کے مسلماں دیندار وقت دینے کے یہودی بن گیا خود بخود کرنا ادا گویا حرام اِلاَّ مَادُمْتَ عَلَیْہِ قَائِمَا عہد سارے فسخ ہوتے ہیں معًا جب ادا کرنے کا وعدہ آ گیا کیا یہی ہے حکم اَوْفُوْا بِالْعُقُوْد کیا یہی تعلیمِ فُرقاں ہے بھلا؟ تنگ کیوں کرتا ہے تو مخلُوق کو کچھ تو آخر چاہئے خوفِ خدا بخار دل صفحہ210 88۔ قادیان کے آریہ نہ کی تصدیق تُم نے، گو نشانوں پر نشاں دیکھے نہ لوگوں کو ہدایت دی نہ خود ایمان ہی لائے رہے حق کو چُھپاتے قادیاں کے یہ مہاشے جب تو پھر مجبور ہو کر اُن کو قَسمیں دی مسیحاؑ نے ملاوامَل وغیرہ شرم پت چُپ رہ گئے سارے ہوئیں فق رنگتیں اُن کی' رہے خاموش پھر ایسے ''خموشی معنئ دارد کہ درگُفتن نمی آید'' 1943ء بخار دل صفحہ211 89۔ ابنِ آدم بھی آدم ہی ہے پاک ہم پیدا ہوئے تھے پر تھا شیطاں تاک میں کب وہ دن ہو نِکلے اس جنت سے یہ آدم کہیں آخر اِک دن مجھ کو دھوکا دے دیا ملعون نے اپنی عِصمت کا رہا باقی نہ وہ عالَم کہیں ہم بھی جب جنّت سے نکلے ہو گئے تُم سے جُدا ''خاک ایسی زندگی پر تُم کہیں اورہم کہیں'' کس قدر خوشیاں ہوں اے پیارے کہ پھر ہجراں کے بعد طالِب و مطلوب مل جائیں گلے باہم کہیں 1943ء بخار دل صفحہ211۔212 90۔ آگئی گویا رُوح کو گر نصیب تقویٰ ہو زیرِ فرمان آ گئی گویا ترکِ دُنیا کو مان لے گر عقل قابُو آسان ہو گئی گویا جب توکُّل مِلا تو رِزق آیا گھر میں دُکاّن آ گئی گویا ذِکر کی جس کو مل گئی لَذت ضَوءِ عِرفان آ گئی گویا ہے تَطَہُّرسے عِلم وابستہ رُوحِ فُرقان آ گئی گویا نَفس کی خواہِشوں پہ قابُو ہو مرگِ شیطان آ گئی گویا احمدیؔ کو ملے دَلائِل کیا تیغِ بُراّن آ گئی گویا بخار دل صفحہ213 91۔ دنیاوی تعلقات مُنقَطع اتنا ہوا پبلک سے میں لوگ یہ سمجھے کہ شاید مر گیا مُدّتوں سے جو نظر آیا نہ ہو کیا لگے گا اُس کے مَرنے کا پتا اِنقِطاعِ خَلق ہے اَز بَس مُفید جو پھنسا دُنیا میں، دَلدَل میں دَھنسا بخار دل صفحہ212 92۔ عارضی تکالیف میں بھی خدا نے لذّت رکھی ہے ہجر میں ہے وصل سے بڑھ کر مزا لُطف ہے رونے میں ہنسنے سے سِوا جَہل کی لذّت کے آگے عِلم کیا! بُھوک کا سیری سے بڑھ کر ذائِقہ شرط پر یہ ہے کہ ہوں سب عارضی بخار دل صفحہ212۔213 93۔ طاعون کاشہیداحمدی نہ سمجھو بُرا کیونکہ ہے وہ شہید جو ہو احمدی فوت، طاعوں کے ساتھ کہ جب بد بکثرت ہوں اور نیک کم تو پِس جاتاہے گھُن بھی گیہوں کے ساتھ مگر آخرت میں اُٹھیں گے الگ وہ قارُوں کے ساتھ اور یہ ہارُوں کے ساتھ بخار دل صفحہ213 94۔ روح بغیرجسم کے کسی جگہ بھی نہیں رہ سکتی رُوح تو بے جان ہے جب تک نہ ہو اُس پر لباس جسم سے ہے زندگی اور جسم پر ہے سب اَساس عِلم اس کا جسم سے ہے لُطف اُس کا جسم سے جسم میں ہیں آلہ ہائے جُملہ لذّات و حَواس خواب و برزخ ۔قبر و دوزخ ۔حشر و فردوسِ بریں ہر جگہ ہے لابُدی اک جسم از رُوئے قیاس بخار دل صفحہ213۔214 95۔ سُن لے مِری دُعاخداکے لئے لوگ لکھتے ہیں خط دُعا کے لئے اپنے تکمیلِ مُدَّعا کے لئے میں یہ کہتا ہوں رو کے' اے مالِک سُن لے میری دُعا خدا کے لئے ورنہ بندے تِرے کہیں گے یوں حشر جب ہو بَپا جزا کے لئے ''کیا یہی تو نہیں ہے وہ ظالِم! جس کو کہتے تھے ہم دُعا کے لئے اب ہُوا آ کے یاں ہمیں معلوم اس کے سب کام تھے رِیا کے لئے یہ جو صاحب ہیں خوب پِھرتے تھے کپڑے مصنوعی اِتّقا کے لئے چاہئے کچھ سزا ضرور یہاں ایسے گمراہ خود نُما کے لئے'' تو ہی بتلا کہ عُذر کیا ہو گا؟ مجھ گنہگار ناسزا کے لئے کس سے جا کر کہوں میں تیرے سوا اپنے اس دَرد کی دَوا کے لئے کون بنتاہے بے کسوں کا رَفیق؟ کون روتا ہے بے نَوا کے لئے بس تُو ہی ہے جو کام آتا ہے ہر جَفا کار پُرخطا کے لئے بخش میرے گناہ اے غَفّار! ''سَیِّدُالخَلق مصطفےٰؐ کے لئے'' دونوں عالَم میں پردہ پوشی کر اپنے محبوب میرزا کے لئے ہائے افسوس! مجھ سے نِبھ نہ سکے عہد تجھ سے تھے جو وَفا کے لئے مارے رِقّت کے لب نہیں کُھلتے ہے زُباں بند مُدعا کے لئے بات منہ میں ۔ نہ ذِہن میں الفاظ کیا کروں عرض التجا کے لئے؟ ہاتھ بس رہ گئے ہیں اک باقی ہوں اُٹھاتا اُنہیں دُعا کے لئے آمین الفضل 21جنوری 1944ءء بخار دل صفحہ215 96۔ تہجد اُٹھ بھیّا دو رکعت پڑھ لے اب رَین چلی دن آوے گا پِچھلے کو ہے دولت بٹتی خود سیّاں آن لُٹاوے گا نیند کے ماتو، اُٹھو جلدی وقت گیا پھر ہاتھ نہ آوے گا جو سووے گا، سو کھووے گا جو جاگے گا، سو پاوے گا 25 جنوری 1944ء بخار دل صفحہ215۔218 97۔ احمدی کیوں ہراِک سے افضل ہے؟ احمدی کیوں ہر اک سے افضل ہے؟ غیر ناقِص ہے اور وہ اکمل ہے اس کی تَفْصِیل اب میں کرتا ہوں کس لئے اور کیوں وہ اَجمَل ہے مجھ میں ہے جوش اور یقیں اور صدق اُن میں جو کچھ ہے نامکمل ہے دُوربیں اپنی آنکھ ہے لارَیب چشمِ دُشمن سراسر اَحوَل ہے میرا ایمان صادِقوں والا اُن کا دعویٰ تلک بھی مُہمَل ہے ہم ہیں لارَیب کُندنِ خالِص اور عَدُو بے گُمان پِیتل ہے پھول اور پھل پہ ہے مرا قبضہ اُن کے ہاتھوں میں صرف ڈنٹھل ہے ہم پہ وَا ہیں حقائقِ قُرآں اُن پہ یہ راز سب مُقَفَّل ہے وہ اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے ہاتھ میں میرے حق کی مشعل ہے زَنگ ہے اُن کی عَقل پر' دِل پر شیشۂ دِل پہ میرے صَیقَل ہے احمدی شہسوارِ راہِ ہُدیٰ ست غیر اَعرَج ہے اور پَیدل ہے غیر تبلیغِ حق سے ہے غافِل وہ ہے فَعّال بلکہ اَفعَل ہے وہ ہے عِلمِ کلام کا رَہبَر اور مُقابِل میں جو ہے اَجہَل ہے اپنے بچے بھی مولوی فاضِل اُن کا فاضل بھی پست و زَٹیَل ہے اِتَّحاد اپنا ظاہِر و باہَر اُن میں ہر روز سر پُھٹَوَّل ہے ہم تو ہیں مِثلِ مِہر و مہ روشن وہ ہے خَر مُہرہ بلکہ خَردَل ہے مل گیا نفسِ مُطمَئِنہ ہمیں اُن کا اَمّارہ اور بےکل ہے اپنی جَولانیاں فلک پر ہیں اُن کے پیروں کے نیچے دَلدَل ہے بڑھ رہا ہوں میں، ہٹ رہے ہیں وہ میں ذہین' اُن کی عَقل مُخْتَلْ ہے وہ تو ہیں ریت کے فقط تودے احمدی بارشوں کا بادَل ہے باغِ تقویٰ میں رُوح ہے میری اُن کے ہاں خواہشوں کا جنگل ہے اپنی ہر رات ہے شبِ اَوَّل اُن کا ہر روز روزِ اَوَّل ہے اُن کا اِمروز ماتمِ دِیروز آج سے خوب تر مرا کل ہے نہ تو رہبر، نہ کوئی ہے لیڈر نہ کوئی لائحہ مکمل ہے ہیں سیاست میں بے سُرے اتنے کہ نہ قائد کوئی، نہ جنرل ہے پا بہ گِل خر ہیں عالِمان بَد پُشت پر پُستکوں کا بنڈل ہے حق کے مامُور کا جو ہو مُنکِر بس سمجھ لو کہ عَقل مُخْتَلْ ہے ہم مُصَدِّق امام مہدیؑ کے وہ مُکَذِّب ہے کیونکہ اَجہَل ہے ہو اِمامُ الزَّماںؑ سے مُستَغنِی اُس کی سیدھی نہیں کوئی کَل ہے اُن کے اَفعال قابلِ اِلزام قوتِ فیصلہ ہوئی شَل ہے نہ تو اَخلاق ہیں کوئی دِلکش نہ عقیدہ کوئی مُدَلَّل ہے قَعرِ ذِلَّت میں ہیں پڑے بے ہوش جیسے مدہوش کوئی پاگل ہے ہے شریعت فَقَط دکھانے کو ہر طرح سے رِواج اَفضَل ہے غیرتِ دین اُڑ گئی بالکل عُذ:ر یہ ہے کہ ''ہم تو سوشل ہے'' چھوڑنا چاہتے ہیں کمبل کو پر نہیں چھوڑتا یہ کمبل ہے ہم کو تقویٰ نصیب اللہ کا ان کا سب کاروبار چھل بل ہے ہر قدم اپنا ہے دُعا سے تیز اُن کی جو چال ہے سو مَریَل ہے گم ہوئی سب حَلاوتِ ایماں ہر طرف تلخیاں ہیں حَنظَل ہے وحی و الہام ہو گئے مَسدُود بابِ رحمت پڑا مُقَفَّل ہے دین سے اُن کو کچھ نہیں ہے مَس روئے دلبر نظر سے اوجھل ہے ہو گئے حق کے سخت نافرمان اس لئے عقل بھی مُعَطَّل ہے غیر قوموں نے پِیس ڈالا ہے ہر قدم زندگی کا بوجھل ہے خوف اور حُزن' دِل پہ ہے طاری ہر گھڑی غم کی ایک ہل چل ہے تھا خِلافَت کا جو عجیب نِظام اُن کے نزدیک وہ بھی مُہمَل ہے سب نَشے ہیں حلال یاروں کو خواہ ہے وہ چَرَس کہ بوتل ہے جھوٹ، چوری، دَغا، جُؤا، دَنگا قوم اُن کی ہی سب میں اَوَّل ہے اُن کی گُڈّی بھلا چڑھے گی خاک ہاتھ میں روز جن کے تُکَّل ہے اَلغَرض پانچوں عَیب ہیں شرعی پیپ سے بھر گیا یہ دُنبل ہے یہ وجوہات ہیں مصیبت کے ایسے اعمال کا یہی پھل ہے جس کی تائید میں کھڑا ہو خدا اُس کی جانِب ہی قولِ فیصل ہے ''ابنِ مریمؑ کے ذکر کو چھوڑو'' احمدِؑ پاک اُس سے اَفضل ہے ہم مُریدِ حضور احمدؑ ہیں جو نبی ہے' جری ہے' مُرسَل ہے نُور کا اس کے ہے یہ سب فیضان ورنہ یاں کس کو اس قدر بَل ہے گرچہ خوردیم نسبتے ست بزرگ اس پہیلی کابس یہی حل ہے بخار دل صفحہ218 98۔ لاہورکی دعوتیں دِل پر تھا جو کہ پالِش برسوں سے قادیاں کا دو دن میں زنگ لایا لاہور کی فضا میں اب واپسی پہ آ کر' معلوم یہ ہوا ہے نَے ذکر میں ہے لذّت نَے لُطف ہے دُعا میں اعلیٰ ترین کھانے، مہمانیوں کے کھا کر تاریکیاں ہیں دِل پر فرق آ گیا ضِیا میں ماحول کی تھی برکت دارُالاَماں کی طَلعَت رہتے تھے ہم سَما پر اُڑتے تھے ہم ہوا میں چکھا طعامِ شاہی مرغ و کباب ماہی یوں چڑھ گئی سیاہی مُجرم ہو جُوں سزا میں 1944ء بخار دل صفحہ219۔221 99۔ لذّتاس نظم میں حسب ذیل حقیقتیں واضح کی گئیں ہیں۔ (1) انسان کی فطرت طالبِ لذّتِ جسمانی بنائی گئی ہے۔ (2) اس کی ساری کوششیں اسی مطلب کے لئے ہوتی ہیں۔ (3) بغیر مسلسل لذّتِ حواسِ خمسہ کے اس کی زندگی تلخ رہتی ہے۔ (4) چونکہ وہ جسمانی لذّت کا ہر وقت طالب ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے آخرت میں اُس کے لئے ایک لذّت دائمی کا گھر تیار کیا ہے۔ (5) اس گھر کا نام جنت ہے کیونکہ اس کی فطرت اسی کی طالب تھی۔ (6) اس جنت کے ملنے کے لئے دو شرائط رکھی ہیں اور اُن ہی کو انسان کے لئے دین اور مجاہدات اور سلوک کا راستہ قرار دیا ہے۔ (7) پہلی شرط یہ ہے کہ اس دنیا کی لذّتیں جو عارضی اور مکدّر ہیں اُن کو اُسے حَتَی المقدور ترک کرنا پڑے گا کہ وہ صرف بقدر ضرورت اور بطور نمونہ ہیں۔ (8) دوسرے خدا تعالیٰ جو منعمِ حقیقی اور معطئ لذّات ہے اُس کی رضا حاصل کرنی پڑے گی اور شرک چھوڑ کر بکلّی اُس کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ (9) جب یہ دونوں باتیں حاصل ہو جائیں گی یعنی ترکِ دُنیا اور عشقِ الٰہی تو پھر اس کے لئے اَبَدی اور غیر مکدّر جنت کا راستہ صاف ہے، جہاں رضائے الٰہی اور کلام الٰہی تمام نعمائے جسمانی کے ساتھ حسبِ خواہش ملیں گی اور انہی سب باتوں کانام وصلِ الٰہی ہے۔ (10) یاد رکھنا چاہئے کہ بغیر منعم کی محبت اور رضا کے اُس کی نعمتیں اُڑانا چوری ہے۔ (11) اسی طرح بغیر دائمی جسمانی نعمتوں کے محض عشقِ الٰہی بھی بے معنی چیز ہے کیونکہ خدا سے محبت ہی کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ جب تک نعمتوں کے احسانات انسان کو محبت کرنے پر مجبور نہ کر دیں۔ آدمی کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرتا ہے اور کسی سے نہیں اور جہاں بھی محبت دیکھو گے۔ یہی پاؤ گے۔ کہ اس کی اصل وجہ کوئی نہ کوئی احسان ہے۔ (12) صرف ''روحانی جنّت'' یعنی محض آنند میں رہنا ایک فرضی چیز ہے یا شاید موت اور مٹی ہو جانے کا دوسرا نام۔
سُن! غور سے اَے جان تو افسانۂ لذّت مطلب ہے تِری زیست کا میخانۂ لذّت انسان حقیقت میں ہے دیوانۂ لذّت یا شمعِ تَنَعُّم کا ہے پروانۂ لذّت دنیا تو ہے بازیچۂ طِفلانۂ لذّت فردوس ہی ہے اصل میں خُمخانۂ لذّت لذّات تو دُنیا میں نمونہ کے لئے ہیں جنت کا بنے تاکہ تو مستانۂ لذّت اُس صوفئ احمق کی ذرا عقل تو دیکھو مذہب کو بتاتا ہے جو بیگانۂ لذّت معشوق ہے انسان کا گو خالِقِ نعمت مَقصود مگر اُس کا ہے میخانۂ لذّت فطرت میں خمیر اُس کے ہے لذّت ہی کی خواہش جسمانی مزوں کا ہے یہ مَستانۂ لذّت لذّت کے سوا تلخ ہے سب زندگی اس کی مر جائے نہ گر پائے یہ ۔نذرانۂ لذّت ہر وقت سرِشت اس کی ہے مائل بہ لذائذ کوشش ہے پئے ساغَر و پیمانۂ لذّت دُنیا کے مگر لُطف ہیں فانی و مُکَدَّر ہے عارِضی اور تَلخ یہ کاشانۂ لذّت لذّات کو دنیا کی تو کر ترک اے طالِب! عُقبیٰ کا ملے تا تجھے خُم خانۂ لذّت بھولے گا تو ساقی کو' اگر ان میں پڑے گا گم ہو گی کلیدِ در میخانۂ لذّت ہے خالقِ نُعمات خداوندِ دو عالَم مانگ اُس سے دُعا تا ملے خُم خانۂ لذّت اس ترک سے مولیٰ کی رَضا تجھ کو ملے گی دُنیا کا یہی ترک ہے، بیعانۂ لذّت ہم عاشقِ ساقی ہیں، وہ مُنعِم ہے ہمارا محسن ہے مِرا ساقئ میخانۂ لذّت اِحسان کا مطلب ہے فراوانۂ نِعمت نِعمت ہی ہے گر سوچو تو پیمانۂ لذّت ہے دائمی اور غیر مکّدر وہی بادہ پلوائے گا جو ساقئ خُم خانۂ لذّت جنت میں تو ہے یار بھی اور وصل و رضا بھی ہے خانۂ دلدار ہی کاشانۂ لذّت اے ساقئ میخانہ! خُدارا یہ کرم کر دے ہم کو سراَفرازئ شاہانۂ لذّت جنت ہے تِرے فضل کی اِک کانِ تَنَعُّمْ دوزخ ہے تِرے قہر سے ویرانۂ لذّت اے مُنْعَمِ جاں بخش! عطا عشق ہو تیرا جنت میں ملے جلوۂ جانانۂ لذّت دنیا میں نہ ہو حِرص سفیہانہ مزوں کی عُقبیٰ کا مِلے ذوقِ فقیہانۂ لذّت اِسلام نے فردوس کی نعمت جو عطا کی آ، پیش کریں سب کو یہ شکرانۂ لذّت بخار دل صفحہ222۔223 100۔ کھجیارکھجیار ڈلہوزی سے چندمیل کے فاصلہ پرریاست چنبہ میں ایک نہایت ہی پُرفضامیدان کانام ہے جس کے چاروں طرف پہاڑہیں اوراُس پر دیودار کے درخت آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔میدان کے بیچ میں ایک چھوٹی سے جھیل بنی ہوئی ہے جس میں ایک چھوٹاساجزیرہ تیرتاپھر رہاہے۔میدان کے کنارے پردو تین ڈاک بنگلے مسافروں کے قیام کے لئے بنے ہوئے ہیں۔ایک مندر اور ایک دُکان بھی ہے۔کھجیارکا منظر اتنادلفریب،خوشنمااوردِل لبھانے والاہے کہ اُس کی تصویرقلم سے نہیں کھینچی جاسکتی۔انسان دیکھ کرہی اُس کا پورالطف اُٹھاسکتاہے۔اسی قدرتی منظر سے متاثر ہو کر یہ نظم لکھی گئی ہے۔ نظم کا چوتھا شعر ایک دلچسپ قصہ سے متعلق ہے جو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ قدیم زمانہ میں ایک جوگی کھجیار میں آکر جھیل کے کنارے بیٹھا۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ جھیل کتنی گہری ہے اُس نے رسّی بٹ بٹ کر پانی میں ڈالنی شروع کی۔ بارہ برس تک وہ رسی بٹ بٹ کر جھیل میں ڈالتا رہا۔ مگر اُس کا تھاہ نہ ملی۔ آخر جوگی نے یہ کہہ کر 'واہ بے اَنت' جھیل میں چھلانگ لگائی اور اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔
بس گیا دِل میں مِرے ماہِ لِقائے کھجیار سامنے پھرتی ہے آنکھوں کے فضائے کھجیار وادئ عشق کے اَفسُردہ دلوں سے کہہ دو رُوح پرور ہے عجب آب و ہوائے کھجیار آزمائیں جو کبھی اس کو اَطِبّائے زَماں سب دوا چھوڑ دیں جُزخاکِ شفائے کھجیار حُسنِ 'بے اَنت' میں کیا جانے کشِش کیسی تھی ''جوگی جی'' ہو گئے تَن مَن سے فدائے کھجیار گوشۂ چشم میں عاشِق کو جگہ دی اس نے سیکھ لے بزمِ حسیناں! یہ وفائے کھجیار مَردُمِ1؎ چَشم جو ہلتی ہے اِدھر اور اُدھر ناوِکِ صیدِ جگر ہے یہ ادائے کھجیار سرو آزاد2؎ ہوئے عشق میں اُس کے پابند منہ سے خاموش ہیں پر سر میں ہوائے کھجیار واں تو وہ قحطِ رَسَد اور یہاں یہ اَفراط شاہِ چنبہ3؎ سے تو بہتر ہے گدائے کھجیار شوخیاں وصل کی شب کی نہیں بھولیں اب تک4؎ یاد ہیں ہم کو وہ سب جَور و جفائے کھجیار ہم نے پہلے بھی دیاکوچہ میں اس کے پہرا5؎ آج پھر قندِ مکررّ6؎ ہے سرائے7؎ کھجیار چنبہ و کُنڈؔ گئے، ٹوپؔ بھی دیکھا کالا پر نہ پائے کہیں، یہ ناز و ادائے کھجیار زندگی اس کی بھی کیا خاک ہے اس دنیا میں جو کہ ہوتے ہوئے وُسعت کے نہ آئے کھجیار جس کی مخلوق میں یہ حُسن و دِلآویزی ہو کس قدر خود وہ حسیں ہو گا خدائے کھجیار1؎ مردم چشم یعنی وہ چھوٹا سا جزیرہ جو جھیل میں تیرتا پھر رہا ہے۔ 2؎ دیودار کے اُونچے اُونچے درخت جو میدان کے چاروں طرف کھڑے ہیں۔ 3؎ اس زمانہ سخت قحط پڑا ہوا تھا چنبہ میں روپیہ کا تین سیر آتا ملتا تھا اور وہ بھی مکئی کا۔ اور بنتا بھی مشکل سے تھا۔ مگر کھجیارمیں گیہوں کا آٹا حسبِ ضرورت مل گیا اور ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ 4؎ یہ نظم چنبہ سے واپسی پر جب دوبارہ کھجیار میں ٹھہرے اُس وقت لکھی گئی تھی۔ 5؎ جب ہم ڈاک بنگلے میں جا کر ٹھہرے تولوگوں نے کہاکہ''یہاں رات کوریچھ نکلتاہے ہوشیارسوئیں'' ہم حضرت صاحب کی حفاظت کے لئے باری باری ساری رات بندوق ہاتھ میں لئے پہرا دیتے رہے اور آگ روشن رکھی۔اس شعرمیں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ 6؎ ایک مرتبہ یہاں ہم چنبہ جاتے ہوئے ٹھہرے تھے۔دوسری مرتبہ آتے ہوئے قیام کیا۔ 7؎ سرائے کھجیارڈاک بنگلہ
الفضل 3 جون 1943ء بخار دل صفحہ224۔225 101۔ عام آدمیوں کی سادہ باتیں اوراہل علم کی اصطلاحیںاہل علم نے اکثر مذہبی اصطلاحیں ایسی مشکل اور ناقابل فہم بنا دی ہیں کہ محض الفاظ ہی کے ڈر اور رُعب سے غیر عربی دان عوام الناس اُن کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ خوف کھاتے ہیں کہ خدا جانے یہ کیا مصیبت ہے جو ہمیں در پیش ہے۔ مثلاًعرفانِ اِلٰہی، اِلہامِ خداوندی، محبت الٰہی، وصل الٰہی، تقویٰ اللہ، ذکر و تسبیح، انعاماتِ خداوندی، نصرتُ اللہ اور تائیدِاِلٰہیہ وغیرہ وغیرہ۔ جب علمائے کرام اپنی تقریروں میں ایسے الفاظ کا ذکر کرتے ہیں تو بچارے کم علم دیہاتی لوگ حسرت سے اُن کے منہ کو تکتے ہیں۔ اگر انہی الفاظ کو عوام کے لئے سادہ عبارت میں اُن کی اپنی زبان میں بیان کیا جائے تو دین کے متعلق لوگوں کی بعض مشکلات دُور ہو جائیں اوراُن کومذہب کا شوق بھی پیدا ہو جائے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں ہر شعر کے ایک مصرع میں مذہبی اِصطِلاح اور دوسرے مصرع میں اس کا عام فہم اُردو مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لوگ ان اِصطِلاحات کی اَصلِیَّت سے کسی حد تک واقف ہو جائیں۔
جان پہچان تُم سے ہو جائے معرِفَت سے بھلا ہمیں کیا کام بات سُننے کو میں ترستا ہوں مجھ کو اِلہام چاہیے نہ کلام تُم پہ مرتے ہیں اے مِرے پیارے عشق کا دے رہے ہو کیا اِلزام یونہی چھپ چھپ کے ملتے رہنا تُم وصل کا تو خیال ہی ہے خام زاہدو! کیا کریں دعاؤں کو مانگنا بھیک ہے ہمارا کام مجھ سے تقویٰ کا کرتے ہو کیا ذکر ڈرتا رہتا ہوں جب میں تُم سے مُدام ذکر و تسبیح سے تعلق کیا اپنے دِلبر کا جَپ رہے ہیں نام واسطہ کیا مجھے عبادت سے ہوں تمہارا میں بندۂ بے دام ہم تو تیرے ہیں خاکِ پا اے دوست عُجب اور کِبر سے ہمیں کیا کام جس کی آنکھوں میں رات کٹتی ہو وہ تہجد میں کیا کرے گا قیام چیز کیا ہیں یہ نُصرت و تائید تُم ہی آؤ گے وقت پر کچھ کام ہم فقیروں کو دیجئے خیرات اور کچھ چاہتے نہیں انعام الفضل 17 دسمبر 1944ء بخار دل صفحہ225۔227 102۔ مغرب زدہ صفائی مرحبا! یورپ زدہ، فیشن پرست خوب ہے تیری صفائی اے حسیں! داڑھی مونچھیں صبح دم ہوتی ہیں صاف اور بنا کرتی ہے زُلفِ عنبریں مَیل اور صابُن کے اندر بیٹھ کر ایک ٹب میں غسل ہوتا ہے وہیں مُوئے زیرِ ناف اور مُوئے بغل بن گئے ہیں تیرے مارِ آستیں مُوتنا ہو کر کھڑے اس طرز سے جس سے بَیل اور اُونٹ تک ہوں شرمگیں پُرزہ لے کر ردّی اِک اخبار کا بعدِ حاجَت صاف کرتا ہے سُریں تیرے ناخُن پنجۂ سگ سے غلیظ ہے چُھری کانٹے میں سب ایمان و دِیں تازہ کھانا منع ہے تیرے لئے ہیں غذائیں امریکہ و یورپ کے ٹیں دانت تیرے مَیل سے ہر دم بَھرے کھا کے کُلّی تک نہیں ۔ صد آفریں! جوتیوں سے فرش پر پھرتا ہے یُوں تو ہے گویا ساکنِ چرخِ بریں پھر بھی تو کہتا ہے ''کالا لوگ'' کو ''کچھ صفائی آپ لوگوں میں نہیں'' اہلِ مغرب کی تو فِطرت مَسخ ہے ساری باتیں ''فطرتی'' گم ہو گئیں تیرے آبا کا عمل ان سب پہ تھا وائے حسرت! تو نے ساری چھوڑ دیں عقائد جو خدا مانے، وہ احمق ہے نِرا اور اگر ہے وہ تو دکھلاؤ کہیں نام مذہب کا نہ لاؤ مُنہ پہ تُم اس سے سب پیدا ہوئے ہیں بُغض وکیں ہے تمیزِ حِلَّت و حُرمَت فُضول آدمی آزاد ہے قیدی نہیں مر کے مٹی میں سب ہی مل جائیں گے کیا کبھی مُردے بھی اُٹھے ہیں کہیں کافی ہے قانونِ تعزیراتِ ہند اس سے بڑھ کر لَغو ہے قانونِ دیں زِینت سرخی اور پوڈر ہے چہرے پر لگا مرد سے عورت بنا ہے نازنیں ناک سے اور منہ سے سگرٹ کا دھواں یوں ہے جیسے چل رہی ہو اک مشیں کٹ گئے ٹانسل1؎ اپنڈکس2؎ شوق میں پر ہے ختنہ پر ہمیشہ نکتہ چیں کچھ جو بچّے ہیں وہ بابا لوگ ہیں ہِندی کہلانے سے ہیں چیں بر جبیں میم صاحب محرمِ نا محرماں ناچنے گانے لگی مَحْمَلْ نَشیں دو بجے تک جاگتے رہنا فُضول سوتے رہنا نَو بجے دن تک یونہیں چھوڑ ایسی زندگی کو اے عزیز یہ تو ہے تہذیبِ دجّالِ لَعِیں 1؎ Tonsil 2؎ Appendix بندہ تجھ کو مالِک نے جو تھا پیدا کیا تاکہ بندہ اُس کا تو بن کر رہے پس تجھے کھانے کو جو دے ۔ کھا اُسے اور جو پہنائے تجھ کو، پہن لے کام جو ذمّے ہیں تیرے، کر اُنہیں تھک گیا جب ۔ حُکم ہے ۔آرام لے تو غُلام، ابنِ غُلام، ابنِ غُلام کام کیا مرضی سے اپنی پھر تجھے؟ گر تو بندہ ہے تو بندہ بن کے رہ ورنہ دعویٰ بندگی کا چھوڑ دے نفع تیرا بھی اسی میں ہے کہ تو عبد بن کر فائدے حاصل کرے اس غُلامی میں ہیں سب آزادیں سخت دُکھ میں ہے جو بھاگے قید سے الفضل 13فروری1944ء بخار دل صفحہ227۔228 103۔ جمعہ کا دِن (28ماہ صلح 1323 ہش) مصلحِ موعودنے دعویٰ کیا جمعہ کے دن اور جماعت نے بھی اٰمَنَّا کہا جمعہ کے دن تھا مہینہ صلح1؎ کا تاریخ اٹھائیسویں (28) جب حریفوں کاسبھی جھگڑا مٹا جمعہ کے دن جن کے دِل میں تھی ابھی باقی ذرا سی بھی خَلِش شک و شبہ اُن کا سب جاتا رہا جمعہ کے دن سر مِرا کھاتے تھے پیغامی کے دعویٰ ہے کہاں؟ اب تو اُن کا عُذر بھی جاتا رہا جمعہ کے دن وہ جو رکھتے تھے ارادہ نیک اور صالح بھی تھے پاس آ بیٹھیں ہمارے اب ذرا جمعہ کے دن دیکھ کر اپنا جُمود اور اپنے مُرشِد کا عُروج دِل میں مَیں خوش تھا مگر روتا رہا جمعہ کے دن وہ کرے اِصلاح دُنیا کی تو ہم اِصلاحِ نَفس تب کہیں پورا ہو اپنا مُدَّعا جمعہ کے دِن2؎ ''مُفسدِ3؎ موعود'' کی سمجھو کہ شامت آ گئی یونہی بے مطلب نہیں دعویٰ ہوا جمعہ کے دن پھر سمندر پار جائے گا َعلَم تَوحِید کا اِک سفر ہو گا نیا، اِعلان تھا جمعہ کے دن یا مسیحُ الْخَلْقِ عَدْوانا کہیں گی دُلہنیں جب یہ دیکھیں گی کہ دُولہا آ چکا جمعہ کے دن ''میں تِری تبلیغ کو پہنچاؤں گا آفاق تک'' میرے کانوں نے تو یہ مضموں سُنا جمعہ کے دن گو خصوصیت رہی جمعوں کی اب کے سال بھر لیکن اب تو ہو گئی بس انتہا جمعہ کے دن مصلحِ موعودکہتے تھے جسے پہلے ہی سب شکر ہے وہ مُتَّفِق ہم سے ہوا جمعہ کے دن 1؎ 28جنوری1943ء 2۔زمانہ مسیح موعود ؑ 3۔دجّال الفضل 20 مارچ 1944ء بخار دل صفحہ229۔230 104۔ ہم قادیان سے بول رہے ہیں THIS IS QADIAN CALLING1943ء میں حضرت خلیفۃالمسیح ثانی بہت بیمار ہو گئے اور بیماری لمبی ہو گئی۔ پھر طِبّی مشورہ کے بعد چند ماہ کے لئے ڈلہوزی تشریف لے گئے۔ قادیان والوں کے لئے اتنی لمبی جدائی نہایت غیر معمولی تھی۔ چنانچہ جب عید اور رَمضان کی آخری دُعا کا موقع آیا تو لوگ بہت بیتاب نظر آتے تھے۔ اُن احساسات کے ماتحت دونوں نظمیں لکھی گئی تھیں۔ پھر حضور عید اور دُعا کے موقع پر قادیان تشریف لے آئے اور لوگوں نے خوشی کی عید منائی۔
بُوئے سوزِ عاشِقاں آید ہمے دُودِ آہِ قادیاں آید ہمے خاکِ پائے شہر یارِ دِلبراں در دو چشمِ سُرمہ ساں آید ہمے قادیاں جسم ست و مَحمودش رواں1؎ باز کَے در تَن: رَواں آید ہمے شُد تہی ازمَے خُمِ بادہ کشاں تا بہ کَے پیرِ مُغاں آید ہمے یار در کُہسار و یاراں در وطن عیدِ رَمضاں رائِگاں آید ہمے عیدِ یاراں کَے شَوَددر قادیاں تا نہ ماہِ قادیاں آید ہمے تا بکَے اُمّیدِ آں روزِ وصال؟ جاں بہ تن یا تن بجاں آید ہمے زِ آتِشِ فُرقَت جگر ہا سوختند کز سخن بُوئے دُخاں آید ہمے کَے شَوَد یا ربّ! کہ بینم رُوئے دوست کَے بُوَدکاں دِلستاں آید ہمے بہرِ صحت یار شد در مَرغزار تا بہ جسم و جاں، تواں2؎ آید ہمے اے صبا! از بُلبلاں مُژدہ بیار کاں گُلے در گُلستاں آید ہمے دردِ3؎ ما شِعرم بخواں پیشِ شَہم کِیں فُغاں از قادیاں آید ہمے 1۔ رُوح 2۔طاقت 3۔مولوی عبدالرحیم صاحب دردؔ الفضل 22ستمبر 1945ء بخار دل صفحہ230 105۔ فقر اور افلاس کی ایک حکمت اگر سب غریبوں کو دے دو امارت تو دنیا کا کل اَمن کر دیں گے غارت یہ اہلِ دَوَل اور یہ اہلِ حُکومت نہ کرنا بلا وجہ اِن کی حَقارت کہ یہ اُن غریبوں سے بہتر ہیں بے شک نظر آ رہے ہیں جو 'اہلِ وِلایت' اگر ان مساکیں کو مل جاتی دَولت تو دکھلاتے اُن سے بھی بڑھ کر شَقاوت خدا نے مَصائب میں ہے اُن کو جکڑا کے ظاہر نہ ہو اُن کی مخفی بغاوت غریبی بھی اُن کی خدا کا کرم ہے ہر اِک کام میں اُس کی ہوتی ہے حکمت یہاں اُن کا ہمدرد سارا جہاں ہے وہاں جا کے مل جائے گی اُن کوجنّت بخار دل صفحہ231۔232 106۔ کیادیکھا؟ ہم نے دُنیا میں آ کے کیا دیکھا اِک نبی دیکھا، اِک خدا دیکھا باغ اگلوں نے جو لگائے تھے ہم نے سب کو نُچا کُھچا دیکھا باپ بیٹے کو بھائی بھائی کو ایک کو ایک سے جُدا دیکھا آخرت کے ہیں یاں جو نمبردار جب بھی دیکھا، اُنہیں خَفا دیکھ دین کے نام پر اُنہیں دائِم پیٹ کے غم میں مُبتلا دیکھا نَظَرِ لُطف کے سِوا تیرے درد کو اپنے لا دَوا دیکھا سگِ دُنیا کو چیختے ہی سُنا خوش فقط مردِ باخدا دیکھا عالِم بے عَمَل مُعلِّم کو اِک کتابوں لَدا گدھا دیکھا سدِّ اسکندری تھی صحتِ جسم خود ہی پھر اُس کو ٹوٹتا دیکھا ہارتے پایا اہلِ باطِل کو راستبازوں کو جیتتا دیکھا نفسِ امّارہ، تیرے دَر کو چھوڑ دربدر بھیک مانگتا دیکھا وقتِ پیری ہوا جو حافِظہ گُم سب برابر ہوا سُنا، دیکھا تاک میں ہے، مگر نہیں آتی ہر طرح مَوت کو بُلا دیکھا گوشت خوروں کی تُندیاں دیکھیں دال خوروں کا حافِظہ دیکھا قادیاں کا جو ایک قصبہ ہے دین کا اُس کو مورچہ دیکھا ''کل کے بچے'' کو آج دُنیا نے مَظہرُ الحَقِّ و العُلا دیکھا اہلِ سائنس کا وہ سُوپر مَین جب بھی سوچا، تو مصطفیؐ دیکھا ساری دُنیا میں سب سے بے مَصرف ہم نے تجھ کو، اے آشناؔ دیکھا بخار دل صفحہ232-233 107۔ اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اللّٰہ دو مِرے بازو تھے، دونو کٹ گئے ایک اُن میں بھائی مِیر اسحٰق تھے دُوسرے تھے حضرتِ مرزا شفیع خُسر ہو کر، کارکُن تھے بن گئے چھوڑ کر اس عالمِ فانی کو، آہ! سال کے اندر ہی دونوں چل بَسے ہو گیا بے دَست و پا اُن کے بغیر کون میرے کام، اے مولا! کرے کوئی اُن جیسا نظر آتا نہیں ناز برداری جو میری کر سکے وہ تَعَاوُن اور وہ خدمت اب کہاں چل دیے جب سے یہ دو مُحسن مِرے زِندگانی کا مزا اُس کی ہے کیا؟ جس کے مُخلص ہی نہ ہوں باقی رہے تھے وصی1؎ میرے وہ دونوں، لیک حیف! میں تو جیتا رہ گیا، وہ مر گئے ہوں مدارج اُن بزرگوں کے بُلند حق تعالیٰ مَغفِرت اُن کی کرے وہ تو آ سکتے نہیں دُنیا میں پھر اب تو مجھ کو ہی خدا واں لے چلے نیز جب تک ہے حیاتِ مُستَعار اک جماعت خیر خواہوں کی مِلے اَے خدا، اے چارۂ آزارِ ما عرض ہے تُجھ سے، اگر تُو مان لے عُمر پہلی کی، نہ کریو باز پُرس عُمر باقی، تیری طاعَت میں کٹے 1؎ ٹرسٹی بخار دل صفحہ233۔234 108۔ یاد ہے تجھ کو مِرا قِصّہ! میری حالتِ زار؟حضرت میر صاحب کی ذیل کی یہ غیرمطبوعہ نظم اُن کے فرزند سیّد محمد امین صاحب نے فروری 1960ء کے خالدؔ ربوہ میں چھپوائی تھی۔ حضرت سیدہ مریم صدیقہ بنت حضرت میر صاحب حرم محترم حضرت خلیفۃالمسیح ثانی نے اسے خالد کے پُرانے فائلوں میں سے تلاش کر کے اس مجموعہ میں شامل کرنے کے لئے مجھے ربوہ سے بھجوائی جس کے لئے میں محترمہ کانہایت ممنون ہوں۔ (محمداسماعیل پانی پتی)
ساقیا! کس لئے رونق نہیں مَے خانے میں کیا ابھی دیر ہے مَے خواروں کے یاں آنے میں مہربانی سے میرے واسطے شیشہ وہ لا یعنی جو تیز ہو سب سے تیرے مَے خانے میں اِک خبر آج خوشی کی میں سناتا ہوں تجھے ڈال اس بادۂ رنگین کو پیمانے میں یاد ہے تجھ کو مِرا قصّہ! میری حالتِ زار کچھ کسر باقی تھی بتلا میرے مر جانے میں کون سے دُکھ تھے وہ فُرقت کے جو ہم نے نہ سہے کچھ تمیزاپنے میں باقی تھی نہ بیگانے میں عقل تھی اپنی کہاں، فہم کہاں، ہوش کہاں فرق تھامجھ میں کہاں اورکسی دیوانے میں بخار دل صفحہ234۔236 109۔ رنگ پررنگ''پیغامِ صلح'' میں ایک نظم چھپی تھی۔ مندرجہ ذیل نظم اُس کے جواب میں الفضل 18مارچ 1943ء میں شائع ہوئی۔
ظاہر ہوا ہے آپ کا لاہوریانہ رنگ کھیلاہے خوب آپ نے یہ ہولیانہ رنگ1؎ ناموں پہ تُم نہ جاناکہ دعوے توہیچ ہیں صادق بھی بعض رکھتے ہیں کچھ کاذِبانہ رنگ بے وزن تین شعر ہیں اس نظم میں جناب اچھا ہے میرے دوست ترا ماعرانہ رنگ انیسواں' اٹھارواں اور آخری ہیں شعر واضح ہے جن میں آپ کا یہ قاتلانہ رنگ اللہ رے تیری شیخیاں اور لَن تَرانیاں پِیری ہے اور پِیری میں یہ مومِنانہ رنگ چھ ماہ پہلے گالیاں، اب یوں خوشامدیں رنگت ہے یہ پولیس کی؟ یا تائبانہ رنگ ''صالح'' تو ہے درست مگر ''تھے'' پہ غور کر کیوں ماضیانہ رنگ بنا حالیانہ رنگ؟ مُنشی کو مُنشی گر کہا، کیا حرج ہو گیا! جب معرِفت کا اُس نے دِکھایا ذرا نہ رنگ تصنیفوں میں دکھاؤ حقائِق اگر جدید تب بندہ مان لے گا، کہ ہے عارِفانہ رنگ بتلاؤ تو بنائے نئے کتنے احمدی؟ یا بیچنا کتابیں ہے بس غازیانہ رنگ مذہب ہی یاں عداوتِ محمودؔ جس کا ہو بھیڑوں کا اُس کی پھر نہ ہو کیوں بھیڑیانہ رنگ بُہتان اور طَعن ہے پیغامیت کی جڑ کچھ فاخرانہ رنگ ہے کچھ عامِیانہ رنگ تُم کو زہے نصیب بِشَپ کا قلم ملا جس میں ہوائے نَفس نے کیا کیا بھرا نہ رنگ دجّال کا ایجنٹ چلاتا ہے جس سے کام دکھلایا تُم نے اُس سے وہی ساحِرانہ رنگ مارا ہے حُبِّ جاہ نے تیرے صنم کو بھی بچ جاتا گر وہ رکھتا ذرا عاشِقانہ رنگ دُشمن تھا اہلِ بیت کا، مشہور تھا یزید اس کا تو آ رہا تھا نظر کوفیانہ رنگ کچھ دوست بھی بُلا لئے اور حاوی ہو گئے جتلانے انجمن پہ لگے مالِکانہ رنگ پر قادیاں نے خوب نکالا یزید کو حق نے عطا کیا ہے جسے مُخرِجانہ رنگ بلوے کئے، فساد کئے، شورشیں بھی کیں دکھلاتے ''نور دِیں'' کو رہے باغیانہ رنگ شرمندہ ہو کہ توبہ بھی کی بیعتیں بھی کیں مخفی کیا نِفاق کو لیکن گیا نہ رنگ آخر کو چودہ مارچ کو بھانڈا گیا وہ پُھوٹ! اُس دن سے پھر نہ رُوپ ہی باقی رہا نہ رنگ1؎ ان ایام میں ہولی کاتہوارمنایا جا رہاتھاجس میں ہندوایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔
(2) جس بزم میں ہو بیعت و جنت کا لین دین کیا حرج ہے کہ اُس کو کہیں تاجِرانہ رنگ صدیوں تلک تو اُونچے ہی اُونچے اُڑیں گے ہم بدلے گا اتنا جلد نہ ہر گز زمانہ رنگ آنکھوں کو کھول، دیکھ ذرا اے میرے عزیز اب تک ہے قادیاںؔ کا وہی فاتحانہ رنگ باقی جو گالیاں ہیں، نہیں اُن کا کچھ جواب ہم پر تو یار! کھلتا نہیں سُوقیانہ رنگ ''اَے دل! تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار'' احمدؑ کا چونکہ ان میں ہے کچھ ناقِلانہ رنگ بخار دل صفحہ236 110۔ صورت اور سیرت حسنِ صورت ہے موجب شہوت حسن سیرت ہے باعثِ اُلفت خَلق اور خُلق میں ہے کتنا فرق! ایک دوزخ ہے، دوسرا جنت ایک فانی ہے، ایک ہے دائم ایک فتنہ ہے، ایک ہے رحمت حُسنِ صورت پہ ہو نہ تُو نازاں اور جوانی کی مت دکھا نخوت نورِ ایماں، محاسنِ اَخلاق بس یہی دو ہیں قابلِ عزّت بخار دل صفحہ236 110۔ صورت اور سیرت حسنِ صورت ہے موجب شہوت حسن سیرت ہے باعثِ اُلفت خَلق اور خُلق میں ہے کتنا فرق! ایک دوزخ ہے، دوسرا جنت ایک فانی ہے، ایک ہے دائم ایک فتنہ ہے، ایک ہے رحمت حُسنِ صورت پہ ہو نہ تُو نازاں اور جوانی کی مت دکھا نخوت نورِ ایماں، محاسنِ اَخلاق بس یہی دو ہیں قابلِ عزّت بخارِدل صفحہ279 112۔ ابیات 1 کوئے جاناں کا پتا ملتا نہ تھا اک نبی آیا تو رستہ مل گیا 2 دُعا ہے خدا کے خزانوں کی کنجی ہر اک قفل کی ہے یہی ماسٹر کی1؎ 3 دِل سے نکال کر بخل کو اور خوفِ مرگ کو اس کے سوا مقام محبت عطا نہ ہو 4 ایک تھی دونوں کی منزل فرق پر رستوں کا تھا شیخ سیدھا' گبر دوزخ ہو کے پہنچا خُلد میں 5 سارا جہاں بہشت میں ہو تب بھی مجھ کو کیا جب تک کہ خود میں داخل خُلدِ بریں نہ ہوں 6 جلوے کی تیرے دنیا قرنوں سے منتظر تھی چہرہ دکھا دے اب تو، اے آسمان والے! 7 اے میرے دِل کے مالک! من کو درست رکھیو کر پاک روح میری تن تندرست رکھیو 8 کیا ٹھکانا ہے دل کی وُسعت کا جس میں واسع بھی ہے سما جاتا 9 شیخِ کامل سے فقط عشقِ مجازی چاہئے ورنہ امرو تو جہنم میں تجھے لے جائے گا 10 بے دلائل، بے حوالہ، بے سند درج سب باتیں ہیں، پر ہیں مستند 11 کعبۂ دل میں میرے مثلِ حرم تِن سو ساٹھ بُت تھے اک خدا کے ساتھ 12 انا الحق کہہ نہیں سکتا، سوا نبیوں کے کوئی بھی ذرا منصور بولا تھا کہ سُولی پہ گیا کھینچا 13 در پہ تیرے، اے شہِ والا خصال ہر سوالی کا نیا ہے اِک سوال 1؎ Key لیبلز: بخارِدل 113۔ الہامی اشعاراورمصرعے بخارِدل صفحہ280 113۔ الہامی اشعاراورمصرعے 1 سُرخ پوشے بلبِ بام نظر می آید نہ بہ زاری نہ بزور و نہ بہ زر می آید اُم طاہرکی بیماری میں یکم دسمبر1943ء کواُن کے لئے 2 ما بروں را ننگریم و قال را ما دروں را بِنگریم و دَجّال را 3 اولیا را ہست طاقت از اِلٰہ تیر جستہ باز گرداند زِ راہ 4 حسن وخوبی و دلبری بر تو تمام صحبتے بعد از لِقائے تو حرام 5 ''میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اُڑاؤں'' 6 نہانی راز ہوں گے اُس پہ باہر (یعنی روشن) (مبارکہ بیگم صاحبہ کے لئے) 7 نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں 8 میں ہوں بیکار اور تُو ہے کبریا 9 جیسے قالوا کا اَلِف موسیٰ کی یا 10 ہندوستان کی فتح ہوئی اور وہ بھی حق بخارِدل صفحہ281۔282 114۔ میرے اشعار میں دُعا ہائے مستجاب 1 یہ دُعا فرمائیے، لائے خدا جلد اس کو درمیانِ قادیاں1؎ 2 حق بھی مٹتا ہے تعدّی سے کہیں اے ظالم خود ہی مٹ جائے گا تُو دست و گریباں2؎ ہو کر 3 مال اور املاک وقفِ دِیں ہوئے شوقِ جاہ و مال زائل ہو گیا3؎ 4 مرا نام ابّا نے رکھا ہے مریم خدایا! تو صدیقہ مجھ کو بنا دے4؎ 5 ع وصیت کے ادا ہونے میں یا ربّ! کچھ نہ ہو دِقّت5؎ 6 مریم، امولا، طیبہ بشریٰ، نصیرہ، سیّدہ اتنے نفر درکار ہیں1۔؎ حضرت میر صاحب 1936ء میں ریٹائر ہونے کے بعد مستقل طور پر قادیان میں مقیم ہو گئے۔ 2۔؎ امان اللہ خان امیرِ کابل نہایت گمنامی کی حالت میں اٹلی میں مر گیا۔ 3۔؎ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کی تحریک وقفِ مال و املاک پر حضرت میر صاحب نے بڑی خوشی سے لبیک کہا ۔ 4۔؎ حضرت مریم صدیقہ (اُمّ متین) حرم محترم کے متعلق پورا ہوا۔ 5۔؎ اپنی زندگی میں ہی حصہئ وصیت ادا کر دیا تھا۔
6۔یہ دُعا میں نے 1924ء میں مانگی تھی۔ سو آج 1945ء میں اپنی زندگی میں اسے پورا ہوتا دیکھتا ہوں۔ الحمدللہ۔ یہ دُعا میری اور میر اسحٰق صاحب کی لڑکیوں کی شادی کے متعلق تھی۔ جو اس وقت موجود تھیں۔ امۃاللہ کو بچپن میں پیار سے امولا کہتے تھے۔ (میر محمد اسمٰعیل)
7۔ع روپے دے، کارکن دے اور اشیاءسو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس کتاب (طبع اوّل) کے سارے انتظام 1945ء میں شیخ اسمٰعیل پانی پتی کو کارکن بنا کر اور قادیان میں پریس کی سہولتیں مہیا کر کے اور کاغذ محض اپنے فضل سے عنایت کر کے بہم پہنچا دیئے۔ (میر محمد اسمٰعیل) (اس زمانہ میں کاغذ نہایت نایاب تھا اور پرمٹ پر بھی بہت مشکل سے ملتا تھا۔) (محمد اسمٰعیل)
بخارِدل صفحہ283۔284 115۔ مزاحیہ کلام ۔ دکھاوے کی محبتیں قاضی صاحب کی جب مَری لونڈی شہر کا شہر پُوچھنے آیا قاضی صاحب مگر مَرے جس دن نظر آئی کہیں نہ بزمِ عزا ہے مَحبت فَقَط دِکھاوے کی اہلِ دُنیا کا ہے یہی شیوہ قاضی صاحب کی ایک تھی بیٹی اپنی گُڑیا کا اُس نے بیاہ کیا لڑکی والوں کے ہاں تھا آدھا شہر باقی آدھا براتیوں میں تھا آخر اِک دن قضائے ربیّ سے قاضی صاحب کا اِنتِقال ہوا بعد کچھ دن کے اُن کی بیٹی کا ایک مُفلِس سے ہو گیا رِشتہ آدمی ایک بھی نہ موجود کسمپرسی میں ایسا عَقد ہوا ہے مَحبت فَقَط دِکھاوے کی اہلِ دُنیا کا ہے یہی شیوہ قاضی صاحب کی ایک کُتیا تھی پَیر میں اُس کے چُبھ گیا کانٹا پھر تو بیمار پُرس خَلقَت کا تین دن تک بندھا رہا تانتا چِھن گیا عُہدۂِ قضا، افسوس کچھ دنوں بعد قاضی صاحب کا ''اُترا شحنہ'' کہا گیا اُن کو نام ''مردک'' رکھا گیا اُن کا ایک چھکڑے سے اتفاقاً پھر پاؤں کُچلا گیا بچارے کا لاد کر لے گئے شِفا خانے فرض اپنا کیا پولس نے ادا ماجرا اب وہاں کا بھی سنئے قاضی صاحب پہ حال جو گزرا پاس پیسہ نہ تھا جو دینے کو منہ کسی کا نہ کر سکے میٹھا ناغہ ہوتی تھیں پَٹّیاں اکثر نہ دوا تھی نہ رُوئی اور کپڑا جاں بحق ہوگئے وہ گل سڑ کر قصہ یوں آپ کا تَمام ہوا ہے مَحبت فَقَط دِکھاوے کی اہلِ دنیا کا ہے یہی شیوہ قاضی صاحب کا ایک بیٹا تھا بن گیا وہ پولس کا داروغہ ہو گیا وہ امیر رِشوت سے مَقبَرہ باپ کا بنا ڈالا ختم کروا دیے کئی قرآں اور فقیروں کو خوب کھِلوایا جتنے مُلّا تھے شہر میں سب کو جوڑا اور نقد تحفۃً بھیجا پھر بڑے اِہتِمام سے ہر سال قاضی صاحب کا عُرس ہونے لگا قبر پر ٹُوٹنے لگی خَلقَت ''پیر قاضی'' کا نام چل نکلا بن گئے مُفت میں وہ قُطب اور غَوث اور کرامت کا بج گیا ڈنکا قبر پُجنے لگی بجوش و خروش بن گئے شہر کے خدا گویا نصف شب کو مگر مِزار میں سے سنتے ہیں سب کہ کوئی ہے گاتا ہے مَحبت فَقَط دِکھاوے کی اہلِ دنیا کا ہے یہی شیوہ رہنمائے تعلیم نومبر 1943ء بخارِدل صفحہ285۔294 116۔ المناک حادثہمندرجہ ذیل سچا واقعہ میرے بچپن کے زمانہ کا ہے۔ ایک مہترانی جس کا نام نہالی تھا اور جو جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ ہمارے ہاں قادیان میں کمایا کرتی تھی۔ ایک دن ایک حلال خور نے جس کا نام پیڑا تھا عین دن کے وقت برسرِراہ اُسے پکڑا اور زمین پر گرا کر اُس کی ناک دانتوں سے چبا ڈالی یہ ''المناک حادثہ'' 15ستمبر1903ء کو واقع ہوا تھا۔ مجھے اپنی مہترانی کی اس بدحالی کا بڑا رنج ہوا۔ اور میں نے سارے واقعہ کی ٹوہ لگانے کی بڑی کوشش کی اور جو واقعات معلوم ہوئے ان کو ایک مرثیہ کے طور پر نظم میں لکھا، اس نظم کا قادیان کے بچوں میں بڑا چرچا ہوااور بچے قادیان کی گلیوں میں ان اشعار کو گاتے پھرے۔ مرثیہ ذیل میں لکھاجاتا ہے:-
رَنج و اَلَم کا حَیف مَیں کیا ماجرا لِکھوں دردِ نہاں کو کیونکر مَیں اب بَرمَلا لِکھوں سینہ قَلَم کا شَق ہے یہ کہتی ہے کیا لِکھوں اشکِ سیہ بہاؤں کے یہ سانِحہ لِکھوں ہوش و حواس پراگندہ سب کے ہیں آثار منہ پہ لوگوں کے رَنج و تَعَب کے ہیں کیسی یہ ناگہانی مصیبت پڑی ہے ہائے کیونکر یہ جھیلی جائے کہ آفت کڑی ہے ہائے مَنحوس کیسی درد و اَلم کی گھڑی ہے ہائے ہر سمت اشکِ غم کی لگی اک جھڑی ہے ہائے آہ و فُغاں کا چار طرف ایک شور ہے جوشِ وُفُورِ گِریہ سے ہر چشم کور ہے اب کیا بتاؤں حالِ دلِ ناتوان و زار ہے جی میں یہ کہ کر دوں حقیقت کو آشکار وہ واقعہ کہ جس کے سبب جاں ہے بیقرار وہ سانحہ کہ سُن کے جسے سب ہیں سوگوار تَفصِیل اس کی ساری میں زیبِ رَقَم کروں جو کچھ ہوا ہے لکھ دوں نہ کچھ بیش و کم کروں تھی ایک مِہترانی، نِہالی تھا جس کا نام ٹٹی کا صاف کرنا ہمیشہ تھا اُس کا کام نازُک تھی اتنی عطر سے ہوتا اُسے زُکام پر اپنے کام میں وہ لگی رہتی صبح و شام عورت تو تھی پہ ہِمّتِ مردانہ اُس میں تھی ظاہرمیں کوئی حرکتِ بیجا نہ اُس میں تھی آرام ظاہری کسی صورت کا کم نہ تھا فکرِ معاش و پوشِش و خور کا اَلَم نہ تھا کچھ فَقر و مُفلِسی کا اسے رَنج و غم نہ تھا اندیشہء نوشتہء لَوح و قَلَم نہ تھا معلوم کیا تھا یہ کہ زمانہ ستائے گا یوں بیٹھے بیٹھے خون کے آنسو رُلائے گا مہتر تھی اِک زمانہ میں سب مہتروں پہ وہ عزّت سے اُس کے پاؤں کو رکھتے سروں پہ وہ کرتی تھی چودھراہٹیں ان کے گھروں پہ وہ پانی کبھی بھی پڑنے نہ دیتی پَروں پہ وہ پر حَیف آج خود ہی مَصائب میں غرق ہے سیلاب آفتوں کا زِ پا تا بِفَرق ہے تھا رشکِ بوستانِ اِرَم پہلے اُس کا گھر شوہر کا اپنے سر پہ وہ رکھتی تھی تاجِ سر گر ساس تھی تو ماں سے بھی کچھ مہربان تر سُسر نے دی تھی دِل سے بُھلا شفقت پِدَر اِفلاس کی ہوا بھی کہیں چار سُو نہ تھی اتنی کُشادگی کہ کچھ آرزُو نہ تھی کٹتی تھی زندگی اسی عیش و بہار سے سب بے خبر تھے لیک زمانے کے وار سے منہ موڑ اپنا ہستیء ناپائیدار سے ساس اور سسرا چل دئے اس رُوزگار سے سر تاج جو کہ تھا سو وہ سر سے گزر گیا داغِ فراق و صدمۂ غم دِل پہ دَھر گیا اُوپر تلے کی موت سے بدحال ہو گئی آفت پڑی کہ بے پَر و بے بال ہو گئی ظُلم و سِتم سے دہر کے پامال ہو گئی اپنی ہی زندگی اُسے جَنجال ہو گئی آنکھوں میں ایک قطرۂ آنسو نہیں رہا سر کو گھسوٹا اتنا کہ اِک مُو نہیں رہا آخر کو روتے روتے ذرا دل سنبھل گیا دُنیائے دُوں کے شغل میں کچھ کچھ بہل گیا سَر پر جو تھا پہاڑ اَلَم کا سو ٹَل گیا دُودِ فُغاں کی راہ سے سب غم نکل گیا پھر صبر آ گیا دلِ آشُفتہ حال میں رَنج و اَلَم چلے گئے خواب و خیال میں بچوں کے ساتھ اپنے وہ رہتی اکیلی تھی ہمدرد و دوست کوئی، نہ کوئی سہیلی تھی آرام و عیش اُس کے لئے اِک پہیلی تھی بختِ رسا کے نَقش سے خالی ہتھیلی تھی یہ کَسمپرس حال نہ آیا اُسے پسند بامِ نِشاط پر لگی وہ ڈالنے کمند اک آدمی پہاڑ کا پِیرو تھا جس کا نام نالی کا صاف کرنا تھا کام اُس کا صبح و شام پڑتا تھا چونکہ دونوں کو اک دوسرے سے کام ہونے لگا کلام کبھی کچھ' کبھی سلام آخر کو ہوتے ہوتے ملاقات ہو گئی جس بات کی تھی آرزو وہ بات ہو گئی پِیرو کی سرپرستی میں سب غم گئی وہ بھول پھر کھِل گیا وہ دل کا جو مُرجھا گیا تھا پھول پھر راحتِ دل از سرِ نَو ہوئی حُصول اِس نے اُسے اور اُس نے اِسے کر لیا قبول بیوی میاں کی طرح لگی ہونے پھر بسر اپنوں کا کچھ نہ خوف نہ غیروں سے کچھ خطر یہ اُس پہ شیفتہ تھی وہ تھا اس پہ مہرباں پیسے روپے سے اس کی مدد کرتا تھا نہاں بدلے میں یہ بھی اس کو کِھلاتی مِٹھائیاں ہر روز میٹھے ٹکڑوں کی لاتی رکابیاں بڑھنے لگے یہ پِینگ محبت کے رات دن اُس کو نہ چَین اِس سوا اِس کو نہ اُس کے بِن پیرِ فلک نے یاں بھی نہ چھوڑا ہزار حَیف عیش و خوشی کے بند کو توڑا ہزار حَیف طاعوں سے سر کو پِیرو کے پھوڑا ہزار حَیف اٹکایا چلتی گاڑی میں روڑا ہزار حَیف آنکھوں میں جائے اشک بھر آیا تھا لہو دیوانہ وار پھرتی تھی قَصبہ میں کُو بکُو آہ و فغاں سے دل کا دُھواں جب نکل چُکا مَوقَوف رَفتہ رَفتہ ہوا گِریہ و بُکا چَشمانِ تَر کو صبر کے دامن سے پھر سُکا اپنے تئیں اک اور کے ہاتھوں دیا چُکا اگلی سی پھر وہ صحبتیں تیار ہو گئیں خوابیدہ خواہشیں جو تھیں بیدار ہو گئیں اب کے نصیب جس کے کھلے وہ تھا ایک چور پیڑاؔتھا اُس کا نام مگر تھا حلال خور تھا شورشوں سے اُس کی زمانہ میں ایک شور ٹکر کا اُس کی مِلتا نہ تھا کوئی شاہ زور لاٹھی اُٹھا کے مارے تو بھینسا ہو اَدھ مُؤا دن رات یا شراب تھی، چوری تھی، یا جُؤا لا لا کے اس نے خُوب ہی اِس کو کھِلایا مال پورا کیا ہر ایک جو اس نے کیا سوال پوشیدہ دل میں جتنے تھے اَرماں دیے نِکال آخر گزر گیا اِسی حالت میں ایک سال افسوس پر کہ دہر کو آیا نہ خوش یہ طَور کرنے لگا رقیبوں کی مانند ظُلم و جَور ایک روز کا سناؤں تمہیں میں یہ ماجرا پیڑےؔ میاں کو ایک سفر پیش آ گیا جاتے ہوئے وہ مِل کے نہالی سے کہہ گیا مجھ کو نہ اپنی یاد سے دیجو ذرا بھُلا اور عہد لے لیا کہ میں واپس جب آؤں گا تیرے ہی ساتھ آن کے شادی رچاؤں گا القصہ وہ تو چھوڑ کے اس کو چلا گیا دل اس بیچاری غمزدہ کا یاں جلا کِیا مدت تک نہ اس کا لگا کچھ بھی جب پتا آخر کو تنگ ہو، اُسے دل سے بھُلا دیا چاہا کہ اور کوئی لگے ہاتھ اب شکار موچی ہو، نائی ہو، کہ وہ چُوڑھا ہو یا چمار وہ اپنی دُھن میں تھی کہ اِدھر یہ غَضَب ہوا اک دن برادری نے بُلا کر اُسے کہا کس طرح بیوگی یہ کٹے گی تِری بھلا؟ بہتر ہے تیرے واسطے گھر اپنا تُو بسا دیور تیرا کماؤ ہے اور نوجوان ہے خاوندِ مردہ کا ترے وہ اِک نِشان ہے اِصرار سے وہ کُنبے کے مجبور ہو گئی تجویز اس بیاہ کی منظور ہو گئی جتنی برادری تھی وہ مَسرُور ہو گئی کُلفَتِ فِراق پیڑے کی سب دُور ہو گئی شادی کا پھر تو ہونے لگا خوب اِہتمام دُلہن بھی خوش تھی اور تھا دولہا بھی شاد کام شادی میں ایک ماہ کا جب فاصلہ رہا سامان سب بیاہ کا تیار ہو چکا مشہور اس کا شُہرہ ہوا جبکہ جا بجا اتنے میں آ کے غُلّہ یہ کُریال میں لگا لڈو بٹے نہ تھے کہ میاں پیڑے آ گئے آتے ہی طَور بدلے ہوئے یاں کے پا گئے گھر آ کے سب ہی بگڑے ہوئے دیکھے اُس نے ڈھنگ اس بیوفا نے پیچھے کھلائے تھے جو کہ رنگ ہونے کو ہے بیاہ یہاں ایک اور سنگ اس بے مروّتی و بد عہدی سے ہو کے تنگ کھائی قسم کہ ہونے نہ دوں بیاہ تو سہی کی تُو نے جیسی مجھ سے ۔کروں گا میں تُجھ سے بھی اک دن اکیلا پا کے نہالی سے یوں کہا اے نیک بخت میری حقیقت کو سُن ذرا رخصت مَیں تجھ سے ہو کے سفر پر تھا جب گیا جاتے ہی اِک امیر کے ہاں سیندھ دی لگا افسوس پر کہ ہاتھ لگا کچھ نہ سِیم و زَر اُلٹا سپاہیوں نے لیا مجھ کو واں پہ دَھر چھ ماہ تک مَیں بند رہا قید خانے میں اس واسطے مجھے ہوئی یاں دیر آنے میں ایک رتی بھر بھی جھوٹ نہیں اس فسانے میں پر تجھ سا بےوفا بھی نہ ہو گا زمانے میں جو عہد تو نے مجھ سے کیے تھے گئی وہ بُھول اک اور مَرد پیچھے مِرے کر لیا قُبول پیڑے میاں کا سُن کے یہ افسوس اور ملال کہنے لگی غرور سے اپنے پھُلا کے گال ''چل دُور ہو زُبان کو اپنی ذرا سنبھال ایسے لگے ہیں کون سے تجھ کلموہے میں لال چور اور قیدیوں سے مجھے واسطہ نہیں ایسوں کی دوستی میں کوئی فائدہ نہیں'' سُن کر یہ بات گرچہ وہاں سے گیا وہ ٹَل جاتے ہوئے یہ کہہ گیا ''رہیو ذرا سنبھل دو چار دِن میں سارا نکل جائے گا یہ بَل تو بھی رکھے گی یاد کہ تھا کوئی پیڑا مل کر دُوں تجھے مَیں ایسا کہ سب شادی جائے بھُول دیور تو کیا ہے، کُتے نہ ہر گز کریں قُبول'' پیڑا تو کہہ کے یہ کسی جانِب کو چل دیا اور اِنتقام لینے کی تدبیر میں لگا اور یاں بیاہ شادی کا چرچا تھا جا بجا یاں تک کہ صرف ایک ہی دن باقی رہ گیا اور اِنتظار تھا کہ سرِ شام کل کی رات آئے گی گھر نہالیؔ کے اک دُھوم کی برات افسوس پر کہ شادی یہ تقدیر میں نہ تھی قِسمت میں بدنصیبی تھی ایسی لکھی ہوئی دُنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی سچ پوچھئے تو جیتے ہی جی گویا مر گئی گزرا وہ اس کے ساتھ کہ تابِ رَقَم نہیں صدمہ ہے دل کو ایسا کہ اب دَم میں دَم نہیں اُس شام کو کہ شادی میں اک دن تھا درمیاں سر پر تھا اُس کے ٹوکرا جھولی میں روٹیاں بھُولی ہوئی تھی دُنیا کا سب سُود اور زِیاں تھی دل میں خوش کہ کل کو ملے گا مجھے ۔ میاں گھر کی طرف قدم کو بڑھائے وہ جاتی تھی بدقسمتی بھی آگے سے ملنے کو آتی تھی تنہا وہ گھر کو جاتی تھی بے خوف و بے خطر سقّوں کے کوچہ میں سے لگی کرنے جب گُزر دو مرد آ کھڑے ہوئے رستے کو روک کر گھبرا کے منہ کو دونوں کے دیکھا جو غور کر چہرے پہ اُڑنے لگ گئیں ڈر سے ہوائیاں سر پر سے ٹوکرا گرا، جھولی سے روٹیاں دہشت کے مارے دونوں کے وہ چیخنے کو تھی پیڑے اور اس کے بھائی نے فُرصت مگر نہ دی دھکے سے اُن کے دَھم سے زمیں پر وہ آ پڑی چھاتی پہ پھر وہ چڑھ گیا اور اُس کا بھائی بھی وہ ظُلم اُس کے ساتھ کیا اُس پلید نے جتنا کیا نہ تھا کبھی شِمر و یزید نے دانتوں سے اُس کی ناک پکڑ کر جھنجھوڑ دی دائیں طرف کبھی، کبھی بائیں مروڑ دی آخر بزور کھینچ کے وہ جڑ سے توڑ دی کیا کاٹی اُس کی ناک کہ قسمت ہی پھوڑ دی پھر یہ غضب کیا کہ اسے وہ چبا گیا کیا جانے کیا مزا تھا کہ کچی ہی کھا گیا کاٹے تھا ناک اور وہ کہتا تھا اُس سے یوں ''لے جتنے چاہے اُتنے خَسم اب میں تجھ کو دُوں تو نے مِری اُمید کا جیسے کیا تھا خُوں ویسے ہی عمر بھر نہ کراؤں جو غاؤں غوں؟ تو جانیو کہ باپ کا اپنے نہیں میں پُوت سَو ماریو اُٹھا کے مِرے سر پہ اپنے جُوت'' یہ کہہ کے وہ اور اس کا برادر چلے گئے پر عمر بھر کے واسطے اک تحفہ دے گئے نتھنوں سے اُس کے خون کے نالے بہے گئے لوگوں کو جب خبر ہوئی تب گھر کو لے گئے بیہوش ساری رات وہاں وہ پڑی رہی جب دن چڑھا تو ساری حقیقت بیان کی افسوس رنج و غم کی کوئی اِنتہا نہیں ہمدرد ہائے کوئی بھی اپنا رہا نہیں منہ کو چھپائے ایسی کوئی مِلتی جا نہیں اب چارہ' سوزِ دل کا' سوائے فَنا نہیں محروم ایسی عمر میں ہو جائے ناک سے ہے ہے، ملے جوانی بچاری کی خاک سےنوٹ: اس نئے جرم کی سزا میں پیڑے کو دو سال قید با مشقت کی سزا ہوئی جب وہ قید سے واپس آیا تو فقیر بن گیا۔ پہلے تو عشقِ مجازی کے زور میں نہالیؔ کا نام جپتا پھرا۔ پھر عشقِ حقیقی کا مُدّعی بن بیٹھا۔ چند سال کے بعد اُس نے ایک باغیچہ اور تکیہ بنا کر اُس میں درویشانہ زندگی بسر کرنی شروع کی اور حلال خوروں کا پیر بن گیا۔ کئی سال ہوئے وہ فوت ہو چکا ہے اُس کا جانشین اُس کی قبر پر گدی نشین ہے۔ مگر نہالیؔ زندہ ہے۔ اس کی عمر ستّر (70) سال سے متجاوز ہے۔ نابینا ہو گئی ہے اور چراغِ سحری ہے۔
(30دسمبر 1944ء) بخارِدل صفحہ294۔299 117۔ (2) واویلا1905ء کا واقعہ ہے۔ میں میڈیکل کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور موری دروازہ کے اندر اکیلا ایک مکان میں رہتا تھا۔ میرے پاس باغؔ نام ایک جولاہے کا لڑکا کھانا پکانے پر نوکر تھا۔ وہ اتفاقاً بیمار ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔ میں نے اگرچہ اس کے ہاتھ قادیان نہایت تاکیدی خط لکھ دیا تھا کہ کسی اور ملازم کو اُس کی جگہ بھیج دیں۔ مگر تین دن تک کوئی نہ پہنچا۔ 21جنوری 1905ء کی تاریخ تھی اور سخت سردی کا موسم تھا۔ بارش ہو رہی تھی کہ میں نے یہ شکایت نامہ لکھ کر اپنے ایک ''عزیز محترم''(یہ ''عزیز محترم'' صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد تھے جو بعد میں ''خلیفۃالمسیح الثانی'' کے نام سے تمام دنیا میں مشہور ہوئے۔ بچپن میں دونوں آپس میں نہایت ہی گہرے دوست تھے اور یہ اُلفت و محبت آخر تک قائم رہی۔ محمد اسمٰعیل پانی پتی) کے نام ڈاک میں روانہ کیا اور آج چالیس سال کے بعد 1944ء میں اسے شائع کرنے کی نوبت آئی۔ لیجئے سُنیے:-
دوستو کیا سناؤں اپنا حال سہہ رہا ہوں مَیں کیسا رَنج و مَلال باغ جب سے اُجڑ گیا میرا بس مصیبت نے مجھ کو آ گھیرا ایک نوکر کے یاں نہ ہونے سے کتنی تکلیف ہو رہی ہے مجھے گرچہ تاکیدی ایک خط لکھا تھا اُس کی تُم نے مگر نہ کی پروا تُم سے اب رکھے کیا کوئی اُمید ہم ہیں روزے سے تُم مناؤ عید کیا سناؤں کہ کیا گزرتی ہے زندگی مرتے جیتے کٹتی ہے جس گھڑی سے ہوا ہے 'باغؔ' رواں گُل کھِلاہے عجب طرح کا یاں! پہلے دن شام کو جو آیا گھر فاقہ مستی کی کچھ نہیں تھی خبر سیدھا پہنچا مَیں ایک دوست کے ہاں تاکہ روٹی کا کچھ بنے ساماں جب تلک آدمی کوئی آوے کھانا تب تک مجھے وہ پہنچاوے اُن کے ہاں جا کے یہ ہوا معلوم کہ یہاں بھی اُمید ہے مَوہُوم گھر میں اُن کے ہے سخت بیماری اس سبب سے اُنہیں ہے لاچاری الغرض واں سے جب پھرا ناکام ضُعف سے ہو رہا تھا کام تَمام دل نے آخر کہا کہ ہو ہُشیار گھر میں سامان تو ہے سب تیاّر فائدہ کیا کہ یوں پِھرے گھر گھر خود پکا لے تو اس سے کیا بہتر اُٹھ کے ہِمّت سے پھر گیا بازار انڈے لایا مَیں دے کے پیسے چار1؎ لوہے کی ایک انگیٹھی گھر میں تھی اور قدرے پڑا ہوا تھا گھی کوئلوں کا لگا ہوا تھا ڈھیر اور چاول بھی رکھے تھے دو سیر آدھی بوتل جو تیل کی پھونکی تب کہیں گھنٹہ بھر میں آگ جلی بھر گیا گھر دُھوئیں سے سر تا سر ہو گیا آنسوؤں سے چہرہ تر آنکھ تھی سُرخ ناک تھی جاری تیل کی بُو نے عقل تھی ماری جس گھڑی مانجنے پڑے برتن آ گئیں یاد مادرِ شَفیَن ہاتھ مُنہ کپڑے سب ہوئے کالے جیسے ہوتے ہیں کوئلے والے دو گھڑوں کا لُنڈھا دیا پانی تب ہوئی صاف جا کے اک ہانڈی چاولوں کو جو مَیں لگا دھونے دھوتے دھوتے میں بہہ گئے آدھے اَلغرض بعد قصۂِ بِسیار! کر دیا دیگچی کو چولہے سوار! گزرے ہوں گے ابھی نہ پانچ منٹ کہ لگی ہونے دَر پہ کَھٹ کَھٹ کَھٹ ایک صاحب یکایک آ دھمکے اور آتے ہی کان کھانے لگے ظاہر اگرچہ اُن سے تھیں باتیں دل مگر لگ رہا تھا ہانڈی میں مُشکلوں سے اُنہیں کیا رُخصت پر نہ پوچھو برنج کی حالت نیچے کُھرچن کی بن گئی پپڑی اُوپر اُوپر کے بن گئی لیٹی بعد اُس کے جو انڈے رکھے تھے اِک رکابی میں لے کے بھُون لئے حق نے جو کچھ دِیا لِیا میں نے کھا کے شکرِ خدا کیا میں نے باقی چاول بچے سو رکھ چھوڑے صبح کو دُودھ سے وہ کھائے گئے شام کو پھر وہی تھا فکرِ طَعام لیک ہِمّت نہ تھی کہ کرتا کام انتڑیاں پڑھ رہی تھیں یا حق ہُو اور اندھیرا بھی چھا گیا ہر سُو اوڑھ چادر گیا انارکلی لے کے پہلو میں کاسۂ خالی شوربا چربی دار اور پھُلکے سب سے چُھپ کے چُھپا کے مُول لئے نصف سالن رکھا برائے سحر نصف باقی سے کی وہ رات بسر لے لئے فجر کو خمیری نان اور دن بھر کا یوں کیا سامان شام کو پانچ جب بجے ٹن ٹن چڑھ کے ٹمٹم پہ پہنچا اسٹیشن ایک خریدا پلیٹ فارم ٹکٹ اور ہوٹل میں جا گُھسا جھٹ پٹ اتنا کھایا کہ اِشتِہا نہ رہی اِشتِہا کیا کہ اِنتِہا نہ رہی آج تو خوب مینہہ برستا ہے دانت سے دانت میرا بجتا ہے لا کے کھائی کچوریاں ہیں سرد فَمِ معدہ میں ہو گیا ہے درد پاس کوئی نہیں جو لائے دوا یا کہ دے سینکنے کو آگ جلا کوئی تکلیف رات کو ہو اگر کوئی ایسا نہیں جو لیوے خبر ہُو کا عالَم ہے آج کا دن رات ایک میں ہوں یا خدا کی ذات میں تو آیا یہاں تھا پڑھنے کو نہ کہ کھانے کا فکر کرنے کو ایسی تعلیم چولہے میں جائے جبکہ چولہے کا فکر سر کھائے حلوہ سوہن بھی کل سے ختم ہوا ورنہ اُس کا بھی کچھ سہارا تھا تیل مٹی کا لینے جائے کون؟ کپڑے دھوبی کے ہاں سے لائے کون؟ کون کُوڑے کو گھر سے صاف کرے؟ کون تہہ بستر و لحاف کرے؟ کون گھر کی کرے نگہبانی؟ کون تازہ وضو کو دے پانی؟ کون بازار جا کے سودا لائے ڈاک میں خط کو کون ڈال آئے؟ بس خدا کے لئے کرو جلدی باغؔ ہو یا چراغؔ یا سندھیؔ آدمی ہو وہ یا کہ ہو حیوان لیک رکھتا ہو صورتِ انسان ہاتھ رکھتا ہو وہ پکانے کو پَیر رکھتا ہو آنے جانے کو آنکھ منہ پر ہو دیکھنے کے لئے کان ہوں تاکہ بات سُن لیوے عقل کچھ ہو، تو اور بھی اچھا گونگا بیشک ہو کچھ نہیں پروا منہ میں ہوں دانت سب یا کچھ کم اس سے مطلب نہیں ہیں رکھتے ہم سر سے گنجا ہو یا ہوں سر پر بال خواہ آنکھوں میں ہو پڑے پڑبال خواہ نائی ہو ڈوم، یا گوجر ہو جُلاہا تو اور بھی بہتر غالباً ہے کہ باغِ بافندہ ہو گیا ہو گا اب تلک اچھا بھیج دو اُس کو ڈاک کے رستے سیدھا یاں آن کر کے وہ دم لے یہ مصیبت جو لکھ کے ہے بھیجی اس پہ ہر گز کرے نہ کوئی ہنسی بے وطن آدمی جو ہوتا ہے اُس کو سب کچھ ہی کرنا پڑتا ہے اس لئے ہی تو یہ مثل ہے بنی ''آدھی گھر کی نہ ساری باہر کی'' مطلب اتنا ہے اس کہانی سے ہُوں بہت تنگ دانے پانی سے آشناؔ2؎ کی خبر نہ لے محمودؔ3؎ پھر تو یہ مرثیہ گیا بے سُود اس خط کے قادیان پہنچنے کی دیرتھی کہ تیسرے دن آدمی آگیا۔(1)۔ عجب زمانہ تھا، اُس وقت ایک پیسہ کا انڈہ آیا کرتا تھا۔ آج 31 پیسے کا ایک آتا ہے۔ (محمد اسمٰعیل پانی پتی) (2)۔ شروع شروع میں، مَیں نے اپنا تخلص آشناؔ رکھا تھا مگر بعد میں اُسے کبھی استعمال نہیں کیا۔ (میر محمد اسمٰعیل) (3) ۔ محمود سے مراد یہاں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہیں جو بعدمیں خلیفۃالمسیح الثانی ہوئے جن کو حضرت میر صاحب نے یہ مزاحیہ نظم لاہور سے لکھ کر قادیان بھیجی تھی۔ افسوس! آج دونوں مقدس اور محترم وجود ہم میں نہیں ہیں۔ اللہ پاک قادیان اور ربوہ میں اُن دونوں کی تربتوں پر شب و روز نُور کی بارش برسائے۔ آمین (اسمٰعیل پانی پتی)
بخارِدل صفحہ300۔303 118۔ مرزاغالب اوراُن کے طرفدار (ایک غزل غالبؔ کے رنگ میں)مرزا غالبؔ مشکل گو شاعر بھی تھے اور فلاسفر بھی، لیکن جب جامِ دو آتشہ کے نشہ میں شعر کہتے تھے۔ تو کبھی کبھی کوئی لفظ یا فقرہ شعر میں سے محذوف بھی ہو جاتا تھا۔ اگرچہ کھینچ تان کر اُس شعر کے معنی تو نکل سکتے تھے مگر اس کھینچا تانی کے لئے بھی ماڈرن دماغ ہی چاہئے تھا۔ شاعر پرستی بھی ایک فیشن ہے۔ اس موجودہ زمانے میں جب غالبؔ بے حد ہر دلعزیز ہو گئے ہیں تو ہر شخص خواہ لائق ہو یا نالائق اُن کی تائید کرنے لگا ہے۔ بے معنی اشعار کے معنی نکلنے لگے ہیں اور ٹٹ پونجیئے بھی ''غالب دان'' بن گئے ہیں جو باتیں مومنؔ، ذوقؔ، اور دیگرآئمۃ الشعراء کی سمجھ میں نہ آئی تھیں وہ آج کل کے سینما بین نوجوانوں کو نظر آنے لگی ہیں۔ اُس زمانہ کے ایک مشاعرہ میں ایک بڑے قادرالکلام شاعر نے خود مرزا غالبؔ کو مجلس میں مخاطب کرکے یہ کہا تھا کہ
کلامِ میرؔ سمجھے اور کلامِ میرزاؔ سمجھے مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھےاور غالبؔ آپ بھی اپنے اِس نَقص کے معترِف تھے کہ میرے بعض اشعار بے معنی ہوتے ہیں، چنانچہ خود اُن کا ہی کلام ہے کہ
نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہیمیرا یہ مطلب نہیں کہ غالبؔ معمولی شاعر تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ گو وہ نہایت اعلیٰ اور فلسفیانہ اشعار کہتے تھے مگر بعض اشعار اُن کے مشکل اور دقیق اور بعض واقعی بے معنی ہوا کرتے تھے، اور سب اہل الرائے ادیبوں اور شاعروں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مگر آج کل ایک فرقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو اُن کو ناواجب طور پر آسمان پر چڑھا رہا ہے۔ اِنہی میں سے ہمارے ایک دوست محمدؔ جی صاحب بھی تھے وہ کہا کرتے تھے ''واہ غالب، ظالم غالب تیرا کلام کیسا عجیب ہے۔ میرے نزدیک تو تیرا ایک شعر بھی بے معنی نہیں ہے! ایک بندش بھی بغیر خوبی کے نہیں ہے! وہ لوگ بدتمیز، بے علم اور احمق ہیں جو تیرے اشعار کو مشکل یا بے معنی کہتے ہیں! مجھ سے پوچھیں تو میں اُن کو تیرے اشعار آبدار کی تفسیر کر کے بتاؤں'' وغیرہ وغیرہ۔ جولائی 1906ء کا زمانہ تھا کہ اک دن جب میں ایسے فقرے سنتے سنتے تھک گیا تو اُن سے عرض کیا کہ ''بھائی محمد جی صاحب! ہمارے پاس بھی آپ کے مکرم محترم غالبؔ کی ایک غیر مطبوعہ غزل ہے۔ جب جانیں تُم اس کے صحیح معنی کر دو۔ ورنہ شیخی بگھارنا تو کوئی خوبی نہیں کہنے لگے ''ابھی لایئے، ابھی'' میں نے عرض کیا ''کل پیش کروں گا'' چنانچہ رات کو ہماری پارٹی نے ''غالب'' بن کر اُن کی طرز کی ایک غزل بنائی۔ اس ''سازش'' میں تین چار آدمی شریک تھے۔ دوسرے دن جب محمدؔجی صاحب تشریف لائے تو ہم نے وہ غزل پیش کی۔ پہلے تو دیر تک اُسے پڑھتے رہے، پھر فرمانے لگے ''بے شک ہے تو یہ غالب ہی کی'' پھر جھومنے لگے ''واہ کیا کلام ہے! کیا باریک نکات ہیں، کیا الفاظ کی بندش ہے، کیا گہرائیاں ہیں۔ کیا معنی ہیں۔ بس قربان ہونے کو جی چاہتا ہے''
یہ کہہ کراُنہوں نے ایک ایک شعر کی باریکیاں اور معنی بیان کرنے شروع کئے جب آخری شعر کی تفسیر سے فارغ ہوئے تو حاضرین نے ایک قہقہہ لگایا، پھر تالیاں پیٹیں اور آخر میں تین دفعہ ہِپ ہِپ ہُرّے کا نعرہ بلند کیا۔ محمد جی بیچارے پریشان سے ہو گئے کہنے لگے ''کیا بات ہے؟'' آخر جب اصل بات معلوم ہوئی تو شرمندگی کے مارے اُن کی یہ حالت ہو گئی کہ جیسے گھڑوں پانی سر پر پڑ گیا ہو۔ بار بار پوچھتے کہ ''سچ بتاؤ، واقعی یہ غزل غالب کی نہیں ہے؟ کہیں مجھے بنا تو نہیں رہے؟'' مگر جب اُنہیں یقین آ گیا تو پھر ایسے فَفِرُّو ہوئے کے مدتوں تک اُن کی زیارت نصیب نہ ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی ملے تو اُکھڑے اُکھڑے اور اس واقعہ کے بعد تو انہوں نے غالبؔ کا نام ہی لینے کی گویا قسم کھا لی۔ ناظرین کے تفنّن طبع کے لئے وہ غزل درج ذیل ہے۔ (واضح ہو کہ اس واقعہ سے غالبؔ مرحوم کے کمال اور اُن کی شاعری کی سُبکی یا توہین ہر گز مقصود نہیں بلکہ موجودہ زمانے کے بعض ''غالب شناسوں'' کی حالت کا دکھانا مقصود ہے۔ محمد اسمٰعیل)
سوزشِ دِل تو کہاں اس حال میں جان و تن ہیں سوزنِ جنجال میں کیوں نہیں آفت مجھے آتی نظر غیر ہے گر اُس سے قِیل و قال میں خاطرِ بُت خاطرِ حسرت بنے گر صنم کو چھوڑ دوں اس حال میں قبضِ خاطر آسماں بھی کیا کرے فائدہ ہرگز نہ ہو اسہال میں چشمِ دِل کیوں اِبنِ آدم بن گئی دانۂ گندم کہاں اس کال میں موت کی ساعت کہ شاید آ گئی طنطنہ خنجر کا ہے گھڑیال میں ہوں سُبک سر یاں تلک میں اے قضا بال سر پر اور سر ہے بال میں کوہ کُن شیریں ادا میں محو تھا ناگہاں غلّہ لگا کریال میں چشمِ بینا چشمۂ مِنقار ہے دقّتِ افعال ہے اقوال میں مُشتِ پَر اور تِیرگی انداز کی شاہدانِ نُور کے اِک بال میں پہلے تھا ہمدم سے مِل کر نیشکر تلخ دارُو ہے مگر اِمسال میں دشتِ غربت! ہم سفر کیونکر چلے اس صنم کی ظالمانہ چال میں جانبِ ادبار کیوں قسمت چلی ہے تلاطم آج کل اقبال میں چاشنی اُس تیرِ مِژگاں کی نہ پوچھ خندۂ دِل ہو گیا سُو فال میں قیسؔ کو مجنوںؔ سمجھنا ہے غلط عقلِ کُل ہے عشق کے افعال میں حُقّۂ غم گر نہ بولے بے صدا آتشِ غم نقرئی مہنال میں نُور کا عالم پری ہو یا کہ حُور ہے صفائی سیم تن کی کھال میں گردشِ پیر فلک صد حیف ہے پھینکنا تھا کیا ہمیں پاتال میں خالِ رُخ ہے مر غِ دِل سے یوں نہاں آ گیا رمضان ہے شوّال میں نحس بختی کو نجومی دیکھ کر مشتری رکھتا ہے میری فال میں تن برہنہ نجد میں مجنوں پھرے ناقۂ لیلا نہ ہو گر شال میں خرّمی! آسائشِ دِل کیا ہوئی نقص ہے گر حُسن کے اِکمال میں ہم نفس کہتا غلط ہے گاؤ میش روغنِ گُل بیضۂ گھڑیال میں غالبؔ تیرہ دروں بیروں سیاہ زُلفِ مُشکیں پنجۂ خلخال میں