کلام چودھری محمد علی عارفی صاحب
آپ1917ء کو ضلع فیروز پور (مشرقی) پنجاب میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہورسے ایم۔ اے کیا۔ چھوٹی عمر میں احمدیت سے تعارف ہوا۔ زمانہ طالبعلمی میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب بخارا کے اسلام کے دفاع میں ایک پنڈت سے کیے گئے مناظرے سے آپ پر احمدیت کا اچھا اثر پڑا۔گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران محترم قاضی محمد اسلم صاحب جو وہاں پروفیسر تھے صدر شعبہ فلاسفی بھی تھے ان کی شخصیت اور اوصاف حمیدہ اور دعوت الی اللہ کی وجہ سے 1941ء میں نوجوانی میں احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔ آپ نے 9اپریل 1944ء کو وقف زندگی کی درخواست دی ۔اسی سال جب قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کا قیام ہوا تو آپ کو اس موقر تعلیمی ادارے کے بانی اساتذہ میں شامل ہونے کی سعادت ملی اور کالج میں فلسفہ، نفسیات اور انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر رہے۔ بعد میں اسی کالج کے پرنسپل ہو کر ریٹائر ہوئے۔
آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی طرح آپ حضور کے غیرممالک کے سفروں میں بھی ساتھ رہے۔ 1984ء میں آپ کا تقرر جامعہ احمدیہ میں بطور انگریزی کے پروفیسر کے ہوا جہاں آپ نے شعبہ انگریزی کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ اسی طرح اس دوران میں بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتب کے تراجم کی سعادت بھی آپ کو ملی۔ جب شعبہ وقف نو وکالت وقف نو کا قیام ہوا تو چوہدری محمد علی صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلا وکیل وقف نو مقرر فرمایا پھر 1998ء میں تراجم کے کام کی وسعت کے پیش نظر آپ کو وکیل التصنیف مقرر فرمایا گیا۔ آخر دم تک آپ اس خدمت پر مامور رہے۔ آپ نے سلسلے کی بہت سی کتب کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی توفیق پائی۔ اسی طرح آپ کو تقریباً 71سال سلسلے کی خدمات کی توفیق ملی۔
آپ ایک طویل عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کی Senate اکیڈیمک کونسل اور بورڈ آف سٹڈیز (نفسیات) کے ممبر رہے۔ کالج میں ہوسٹل کے علاوہ تیراکی، کشتی رانی، کوہ پیمائی، باسکٹ بال، یو۔ٹی۔ سی اور آئی۔اے۔ٹی۔سی کے شعبوں کے انچارج اور پاکستان کی قومی باسکٹ بال کے سینئر وائس پریذیڈنٹ رہے۔بڑے محنتی منتظم ، ہمدرد استاد اورمشفق نگران تھے ۔خلافت کے سچے مطیع اور فرمانبردار تھے۔ نظام جماعت کے ساتھ اخلاص ووفا کا تعلق رکھنے والے بزرگ تھے۔ ریاء کاری سے پاک، نرم خو، نرم زبان،انسانیت کے ہمدرد اور نیک انسان تھے۔ 13اگست2015 کو بھی آپ دفتر تشریف لائے اور تمام وقت دفتری امور کی انجام دہی کے بعد گھر گئے، جہاں ان کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور 13اور 14اگست 2015ء کی درمیانی شب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا کرے اور ان جیسے مخلص اور فدائی جماعت کو ہمیشہ عطا کرتا چلا جائے۔ آمین آپ اردو ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اردو اور پنجابی زبان کے بلند پایہ قادر الکلام شاعر تھے۔آپ کا کلام جماعت اور ملک کے ادبی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔آپ نے زیادہ شاعری اردو زبان میں کی اور آپ کا واحد مجموعہ کلام اشکوں کے چراغ ہے۔اس ویب سائیٹ پر آپ کا کلام اسی کتاب کی ترتیب کے مطابق پیش کیا جا رہا ہے۔
اشکوں کے چراغ اشکوں کے چراغ اشکوں کے چراغ چوہدری محمدعلی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ13۔15 سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللّٰہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاپیغام بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللّٰہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاپیغام لندن/30.5.2006 پیارے مکرم چوہدری محمد علی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہآپ کی طرف سے آپ کے شعری مجموعہ کے لیے پیغام کا کہا گیا ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو ربوہ میں ایک دو دفعہ آپ سے عرض کی تھی اپنا شعری مجموعہ شائع کروائیں لیکن آپ طبعی عاجزی کی وجہ سے کچھ نہ کچھ عذر پیش فرما دیا کرتے تھے۔الحمد للّٰہ کہ اب آپ کسی طرح مانے تو سہی۔کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔اللّٰہ تعالیٰ آپ کا کلام پڑھنے والوں کواس میں ڈوب کر اعلیٰ خیالات کے موتی تلاش کرنے کی توفیق دے۔ آپ کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللّٰہ نے جو تبصرہ فرما دیا وہ یقینا آپ کی شاعری پر مہر ہے کہ: ـ''آپ آپ ہی ہیں۔ہزاروں لاکھوں نے یہ مضمون باندھے ہوں گے مگر آپ کی تو ادا ہی الگ ہے۔ ماشاء اللّٰہ چشمِ بددور۔'' جن شعروں پر یہ تبصرہ تھا اُن میں سے دو شعر یہ تھے۔
جانتا ہوں دعا کے موسم میں وہ اکیلا کدھر گیا ہو گا اس کی آواز کی صداقت پر لفظ لذّت سے بھر گیا ہو گااِس وقت ذہن اَورمسائل میں اُلجھا ہؤا ہے اور دوسری مصروفیت ہے کہ لمباپیغام تو نہیں لکھ سکتا۔جیسا کہ مَیں نے کہا آپ کے شعروں میں ڈوب کر اپنے اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق حکمت اور عرفان کی تلاش ہر پڑھنے سننے والا کرتا ہے۔ اللّٰہ کرے پڑھنے والے آپ کے اس مجموعے سے استفادہ کریں۔آپ کی شاعری برائے شاعری نہیں ہوتی بلکہ آپ کاہر شعر، ہر مصرع، ہر لفظ گہرے معنی لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ وَ بَارِکْ۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی عطا فرمائے تاکہ یہ دل سے نکلی حکمت و عرفان کی باتیں ہمیں پڑھنے سننے کو ملتی رہیں۔ آمین
والسلام خاکسار مرزا مسرور احمد(دستخط) خلیفۃ المسیح الخامس بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لندن 25-05-2006 مکرم صدر صاحب مجلس انصاراللّٰہ پاکستان السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہآپ کی طرف سے فیکس موصول ہوئی جس میں آپ نے مکرم چوہدری محمدعلی صاحب کے مجموعہ کلام کے لیے نام تجویز کرنے کے لیے لکھا ہے۔ اس کانام ''اشکوں کے چراغ'' رکھ لیں۔ علاوہ ازیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جو خطوط آپ نے ساتھ شائع کرنے کے لیے بھجوائے ہیں۔ ان کی اشاعت کی بھی اجازت ہے۔ بے شک وہ سارے شائع کرلیں۔ اللّٰہ کرے کہ یہ مجموعہ کلام ہر لحاظ سے بابرکت اور مفید ثابت ہو اور علمی و ادبی حلقوں میں اسے ایک خاص مقام حاصل ہو۔ آمین
والسلام خاکسار مرزامسروراحمد (دستخط) خلیفۃ المسیح الخامس اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ13۔15 لوحِ دیباچۂ کتابِ سخن١٩٩١ء کے جلسۂ سالانہ انگلستان کے دن تھے۔ میرے محبوب اور مخدوم امام و آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللّٰہ تعالیٰ علی الصبح سیر پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔عاجز کو بھی چند مرتبہ شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس دوران عاجز غلام سے ارشاد فرماتے کہ اپنے اشعار سناؤں۔ نیز فرمایا یہ سب اشعار مجھے لکھ کر دے جاؤ اور باقی اکٹھے کرو اور مجھے بجھواؤ ،مَیں خود چھپواؤں گا۔ حضور رحمہ اللّٰہ کی بے پایاں شفقتوں کا ذکر کرنے لگوں تو بات لمبی ہو جائے گی۔ خلاصہ کلام یہ کہ مَیں نے کچھ دوستوں عزیزوں کی مدد سے بچا کھچا رطب ویابس اکٹھاکیا۔ پھر یوں ہؤا کہ
مشکل کے بعد مشکلیں آتی چلی گئیں یہ امتحاں کا دور بہت مختصر نہ تھاافسوس کہ حضور انوررحمہ اللّٰہ کی زندگی میں یہ مجموعہ چھپ نہ سکا۔ الحمدللّٰہ کہ اب یہ اُس کے فضل اور رحم کے ساتھ قدرتِ ثانیہ کے پانچویں مقدس مظہر حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللّٰہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے عہدِ سعادت مہد میں چھپ کر آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ سکول اور کالج کے زمانے کے اساتذہ کرام اور دوست احباب یاد آرہے ہیں جن کی وجہ سے طبیعت شعرگوئی کی طرف مائل ہوئی۔ پرائمری کی تیسری جماعت تھی۔ مرحوم ماسٹر عبدالمجید صاحب فارسی پڑھاتے اور اپنے فارسی اشعار سنایا کرتے تھے۔ ہائی سکول میں مرحوم سید رضا حیدر زیدی لکھنوی کی شفقتوں سے حصہ ملااور اِنھی کی وجہ سے فسانۂ آزاد کی چاروں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ کچھ سمجھ میں آیا کچھ نہ آیا، لیکن اُردو زبان سے ایک شغف ضرور پیدا ہو گیا۔ ١٩٣٥ء میں سید صاحب ہی کے ایما پر میٹرک کے امتحان کے فارم میں اپنا نام محمد علی جناح لکھا۔ اسی زمانے میں یہ نظم ہو گئی ،جو فیروزپور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ زمیندار میں شائع ہوئی۔یہ نظم کسی نہ کسی بہانے ہر آنے والے مہمان کو پڑھنی پڑتی تھی۔
چاندنی چھٹکی ہوئی تھی، تھا بہت اُجلا سماں محفلِ انجم سے تھا معمور سارا آسماں کیا چرندے، کیا پرندے، محو تھے سب خواب میں واللّٰہ اعلم کس طرح مَیں جاگ اُٹھّا ناگہاں تھا سماں ایسا کہ جس سے نیند کو آجائے نیند خامشی کے بحر میں ڈوبا ہؤا تھا سب جہاں دیکھ کر قدرت خدا کی ہو گیا مَیں بے قرار ڈوب گہری سوچ میں کہنے لگا زیرِ زباں چل رہا ہے کارِ قدرت روز وشب بے روک ٹوک یہ پتا چلتا نہیں کہ منتظم خود ہے کہاں پاس سے آواز آئی، اس قدر کیوں یاس ہے بے خبر! جس کا تلاشی تُو ہے تیرے پاس ہےیہ وہ زمانہ تھا جب ماہوار نہیں تو ہر دوسرے مہینے تخلّص تبدیل کیا جاتا تھا۔ مضطرؔ عارفی برادرم عزیزم راجہ غالب احمدصاحب کی عنایت ہے اوریہ تقسیمِ مُلک کے بعد کی بات ہے۔ عارفی ہمارے جدِّامجد محمد عارف کی نسبت سے ہے۔ کالج کا زمانہ بہت ہنگامہ خیز رہا۔ یہ انگریز دشمنی کا زمانہ تھا۔ جوشؔ اور احسان دانشؔ چھائے ہوئے تھے۔کمیونزم کے نعرے لگ رہے تھے۔ ہم بھی اسی کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ یہ داستان لمبی ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ اسی زمانے میں خوش قسمتی سے حضرت قاضی محمد اسلم مرحوم ومغفور سے ملاقات ہو گئی۔ ١٩٣٩ء کے جلسۂ سالانہ میں چُھپ کر شمولیت کا موقع ملا اور زندگی بھر کی سوچ بدل گئی۔ انھی دنوں میں حسنِ مطلق پر ایک طویل نظم لکھی۔استاذی المکرم صوفی غلام مصطفی تبسم مرحوم نے اس میں ایک تبدیلی فرمائی۔ '' اے ُسست رو محبت ! '' کی بجائے ''اے مست رو محبت!'' کر دیا۔ اور حکماً گورنمنٹ کالج کی بزمِ اقبال کے سالانہ جلسے میں پڑھوائی، حالانکہ کوئی شعری پروگرام نہیں رکھا گیا تھا۔ تین شعر یاد رہ گئے ہیں جو یوں تھے۔
اے جانِ حسنِ مطلق! اے حسنِ آسمانی! اے مست رو محبت! اے تیز رو جوانی! مریم کی روح تجھ میں تحلیل ہو رہی ہے انسانیت کی پھر سے تشکیل ہو رہی ہے روح الامیں بھی تیری نظروں کو چومتا ہے سارا جہان تیرے چوگرد گھومتا ہے١٩٤٠ء میں حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین سیدنا مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی نور اللّٰہ مرقدہ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہؤا۔ اس کے بعد کی داستان اسی عشق کی داستان ہے۔ ہر چند کہ بدنام کنندۂ نکونامے چند ہوں،اللّٰہ تعالیٰ کی ستّاری و غفّاری کے کرشمے ہیں کہ مجھ غریب پر میری نا اہلی اور نادانی کے باوصف قدرتِ ثانیہ کے مظہرِثانی، مظہرِ ثالث، مظہرِرابع ( نَوّرَاللّٰہُ مَرْقَدَھُمْ ) اور اب مظہرِخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الطاف کریمانہ کی بے پایاں اور مسلسل بارش ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ۔ پاکستان میں جماعت احمدیہ جن صبرآزما مراحل سے گزری اور گزررہی ہے اور جس طرح جماعت پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا یہاں تک کہ حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کے لیے عظیم فرائضِ منصبی کی ادائیگی ناممکن بنا دی گئی اور آپؒ کو بادلِ نخواستہ اپنے وطنِ عزیز سے ہجرت کرنی پڑی۔ اگر ان صدمات کی صدائے بازگشت ان اشعار میں سنائی دے تو چنداں تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ شعر دراصل ظاہر کا باطنی عکس ہؤا کرتا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ ہو یااظہاروبیان پر قدغن، اشکوں کے چراغ تو جلیں گے۔ یہ مجموعہ جسے یہ فخر حاصل ہے کہ اس کانام عالمی جماعت احمدیہ کے محبوب امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عطا فرمایا ہے وہاں اسے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ جگہ جگہ اسے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اصلاح سے نوازا ہے۔ اس کے علاوہ اسے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، حضرت حافظ سید مختار احمدشاہجہانپوری اور حضرت شیخ محمداحمدمظہر نے بھی اس کے کچھ حصے سنے اور اصلاح سے نوازا۔ ممکن ہے اس مجموعے میں کہیں کہیں ظاہری قواعد سے ا نحراف نظر آئے مثلاً مصرعے کے درمیان میں ''نہ'' کا دو حرفی استعمال وغیرہ۔اسی طرح اگر اس مجموعے میں کوئی اور خامی نظر آئے تو خاکسار اس کے لیے معذرت خواہ ہے اور اگر کوئی خوبی کی بات دکھائی دے تو قاری کا حسنِ نظر ہے۔
دلی افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سا کلام ضائع ہوگیااور کچھ اینٹی احمدیہ آرڈیننس کی کرم فرمائی کے اندیشے کے پیشِ نظر اس مجموعہ میں شامل نہیں کیاجا سکا۔ عملًا اسے کلّیاتِ محمد علی بھی کہا جا سکتا ہے،اگرچہ یہ میری زندگی میں شائع ہو رہا ہے۔ اگر یہ چندباقی ماندہ منتشر اوراق زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے ہیں تو اس کا سہرا دو نہایت پیاروں اور محترم و مخدوم عزیزوں کے سر ہے۔یعنی محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد سلمہ اللّٰہ تعالیٰ ناظرِ اعلیٰ و امیر مقامی (سابق صدر مجلس انصاراللّٰہ پاکستان)اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد سلمہ اللّٰہ تعالیٰ صدر مجلس انصاراللّٰہ پاکستان۔
خاکسار شکر گزار ہے کہ سارے مسودے کو حضرت صاحبزادی سیدہ امۃالقدوس صاحبہ نے دقّتِ نظر سے پڑھااور مناسب اصلاح فرمائی۔ اسی طرح خاکسار عزیز صابر ظفر کا دِلی شکریہ ادا کرتا ہے کہ اُنھوں نے سارا مسودہ پڑھااور مفید مشوروں اور اصلاح سے نوازا۔ خاکسار عزیزان شاہد احمد سعدی ، اسفند یار منیب، طارق محمودطاہر، مقصود احمد منیب اور نورالجمیل نجمی کا شکر گزار ہے جنھوں نے اس مجموعے کی تیاری کے دوران مختلف مراحل میں معاونت فرمائی اور خاص طور پر عزیزمیر انجم پرویز کا جنھوں نے اوّل سے آخر تک بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اسے اشاعت کے قابل بنایا۔اسی طرح خاکسار عزیزم فرید الرحمن احمد کابھی شکرگزارہے جنھوں نے بڑی محبت اور محنت کے ساتھ اس کتاب کی کمپوزنگ کی۔ الحمد للہ کہ اب یہ بچا کھچا رطب و یابس پیشِ خدمت ہے ؎
سپردم بہ تُو مایۂ خویش را تُو دانی حسابِ کم و بیش را اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ23۔39 غلام نوازیاںذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کے مکتوبات گرامی، جو آپؒ نے مکرم محترم چوہدری محمدعلی صاحب کے نام تحریر فرمائے، پیش خدمت ہیں۔
لنڈن17.01.1991/ پیارے برادرم چوہدری محمد علی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہآپ کی کس کس غزل پر کیسے اپنے ہاتھ سے لکھ لکھ کر داد دوں۔ میں تو قلم توڑے بیٹھا ہوں۔
محبت ہو گئی ہے تجھ سے مضطرؔ! تو کس محبوب کا نوکر رہا ہے ٭٭٭ لندن22.6.1369/1990/الفضل 3/جون1990ء کے شمارہ میں آپ کا منظوم کلام ''اپنے اندر کی بھی سیاحت کر'' پڑھا۔ بہت اعلیٰ پائے کی سہل ممتنع غزل ہے۔ آپ کا اپنا ہی رنگ ہے جو کسی اور کو اپنانے کی توفیق نہیںملی کیونکہ یہ رنگ آپ کے مزاج کا رنگ ہے اور عموماً ایک زمانے میں ایک سے زیادہ محمدعلی پیدا نہیں ہؤا کرتے۔ چشمِ بدور۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ وَبَارِکْ۔ اللہ آپ کی عمروصحت میں برکت دے۔ خداحافظ!
٭٭٭ 29-10-90آپ کے منفرد کلام کی تعریف میں دو حرف ڈال دیے تو کون سی قیامت آگئی۔ آپ کی ہر غزل پر اگر ایک الگ خط لکھوں تب بھی حق ادا نہ ہوسکے گا۔ پتہ ہے مجھے آپ کا کلام کیوں پسند ہے۔ شعراء کے کلام سے الگ اس میں ایک اپنی سی دلکشی ہے۔ سردست امتیازی جاذبیت کی صرف تین باتیں بتا دیتا ہوں۔ پتہ تو آپ کو ہوں گی مگر اپنے انکسار کے باعث بھلا خود کب مانیں گے۔
1۔ کھری کھری سنانی اور پتھر مارنے والوں پر پتھر مارنے تو بہتوں کو آتے ہیں مگر شعروادب کی پنکھڑیوں میں لپیٹ کر پتھر مارنے کوئی آپ سے سیکھے۔ پھر لطف یہ کہ پتھراؤ کا مزا بھی آتا ہے اور پنکھڑیوں کی نزاکت اور لطافت بھی مجروح ہوئے بغیر اپنے دلکش رنگ دکھاتی ہےں۔ آپ سر اپنا پتھروں کے حضور پیش کرتے ہیںا ور پتھراؤ مارنے والوں کے سروں پر۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔
2۔سادہ سے لفظوں میں سرِراہے بظاہر یونہی عام سی بات کرجاتے ہیں لیکن ایک دو قدم آگے بڑھ کر پھر مڑنا پڑتا ہے۔ ایک خلش سی پیدا ہوتی ہے کہ کوئی بات تھی جو نظر سے رہ گئی ہے۔ بات بھی پھر ایسی گہری اور پرحکمت نکلتی ہے کہ دوقدم چھوڑ ہزاروں قدم واپس آکر بھی حاصل ہو تو جوازِسفر سے بڑھ کر نکلے۔
3۔ تیسری خاص بات یہ دیکھی ہے کہ مجال ہے جو کسی بھیڑ میں مل جل کر اپنی شخصیت گنوا بیٹھے ہوں۔ شاہوں میں فقیرانہ گدڑی میں اور فقیروںمیں شاہانہ لباس اوڑھے پھرتے ہیں۔ کوئی دور ہی سے دیکھ کر کہے وہ دیکھو محمدعلی کس سج دھج سے جارہا ہے۔ ان کو کتنا مزا آتا ہوگا جو کہہ سکیں یا کہتے ہوں گے کہ یہ میرا محمدعلی ہے۔ ایک پیارا وجود رحمہ اللہ جو بجا طور پر یہ کہہ سکتا تھاوہ اب ہم میں نہیں ہے۔ بیسیوں ایسے ہوں گے جو یہ کہنا چاہتے ہوں گے۔
٭٭٭ لندن /1993/ہش25.2.1372آپ کی ہرغزل ہی ماشاء اللہ آسمانِ شعر پر ایک اَور روشن ستارہ طلوع کرتی ہے مگر بعض ستارے دوسروں سے روشن تر ہوتے ہیں۔ سادگی کے ساتھ پُرکاری کا لفظ تو آپ پر سجتا نہیں۔ کیونکہ پُرکاری میں کچھ فریب کے معنی پائے جاتے ہیں جبکہ نہ آپ کو پُرکاری آتی ہے نہ ادا کاری، ہاں جانکاری ضرور آپ کی غزلوں میں دکھائی دیتی ہے۔چنانچہ 2/فروری 1992ء کے الفضل میں شائع ہونے والی آپ کی غزل ساری ہی بڑی رواں اور اثرانگیز ہے اور یہ شعر تو کیا خوب ہے۔
گلشن کا نہ تھا قصور اس میں موسم ہی نہیں بدل رہا تھاآپ نے کمال کردیا ہے۔ گلشن اور موسم کے تعلق میں ایسا مضمون پہلے کبھی نہیں سنا۔ سب نے بدلتے موسموں کی بات کی ہے ۔موسم نہ بدلنے کا مضمون پہلی دفعہ پیش ہؤا ہے۔ یہ شعر بھی بہت عمدہ ہے۔
جنت کا شجر تھا اور اس کے سائے میں گناہ پَل رہا تھادرخت کے سائے بیٹھے ہوئے ہیولے دکھائی دینے لگے۔اسی طرح یہ شعر پڑھ کر بھی بڑا لطف آیا۔ اس میں آپ نے ایک عام تجربہ کی بات کی ہے لیکن شاید ہی کسی نے اس کو اس رنگ میں بیان کیا ہو۔
رونا تو وہ چاہتا تھا لیکن آنسو ہی نہیں نکل رہا تھاجس طرح بعض دفعہ صدمہ آنسوؤں میں نہیں ڈھلتا۔ اسی طرح یہ مضمون کسی سے شعر میں نہیں ڈھل سکا۔ جو آنسو صدمہ پر نہیں نکل سکا وہ اتنا خوبصورت شعر کا موتی بن کر نکلا ہے تو پھر آپ کو کیا شکوہ ہے۔ شعروں کے آئینہ میں آپ سے جو ملاقات ہوتی ہے وہ بہت پرلطف ہوتی ہے۔ اسی لیے بڑے شوق سے آپ کی نظموں کا مطالعہ کرتا ہوں اور انہیں پڑھنے کا انتظار رہتاہے۔ گزشتہ دنوں جب الفضل میں اوپر تلے آپ کی کئی نظمیں شائع ہوئیں تو انہیں پڑھ کر بہت لطف آیا اور کئی پسندیدہ شعروں میں قلم سے نشان لگا کر غائبانہ داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ اللہ آپ کی صلاحیتوں کو مزید نکھار عطا فرمائے اور خوشیوں سے معمور فعال لمبی زندگی عطا فرمائے۔ خداحافظ وناصر ہو۔
٭٭٭ لندن29.5.98/آپ کی سب نظمیں ماشاء اللہ آسمانِ ادب کی رفعتوں کو چھوتی ہیں اور ایک آپ ہیں کہ جن کا شاید ہی کوئی ایسا کلام ہو جس میں مجھے کوئی نہ کوئی خاص بات دکھائی نہ دیتی ہو ورنہ چوٹی کے شعراء کے کلام میں سے بھی مجھے رطب ویابس کے انبار سے اچھا کلام ڈھونڈنا پڑتاہے۔ الفضل کے 19/مئی کے شمارہ میں آپ کی جو پنجابی نظم چھپی ہے اس کا معیار بھی بہت اعلیٰ ہے۔ پنجابی نظمیں پڑھنے میں کچھ دشواریاں ہوتی ہیں جو بعض دفعہ یہ احساس دلاتی ہیں کہ وزن ٹوٹ گیا ہے جبکہ شاعر خود پڑھنے کے انداز سے ہی اس سُقم کو دور کر دیا کرتے ہیں۔ اس نظم میں بھی ایسی کئی جگہیں میرے لیے دشواری کا موجب بنی ہیں اور کچھ پنجابی محاوروں سے اپنی لاعلمی کا اعتراف بھی کرنا پڑا مثلاً آخری سے پہلے جو شعر ہیں۔
تینوں ٹھرک مکان دا سانوں ویل زمین تیری روزی شہر وچ تے ساڈے دانے پنڈاس میں یا دونوں جگہ ''تے'' داخل ہونا چاہیے کہ اس سے سلاست پیدا ہوتی ہے یا پھر دونوں جگہ سے ''تے'' نکال دینی چاہیے اور اگر پہلے مصرعہ میں ''تے'' داخل نہیں کرنی تو پھر دوسرے مصرعے سے ''وچ'' نکال دیں۔ عین مصرعہ کے ''وچ'' جو وچ آیا ہؤا ہے وہ کچھ اوپرا سا لگ رہا ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ بھی انہی جگہوں میں سے ہوجن کے متعلق میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار پہلے ہی کر دیا ہے۔ بہرحال نظم خوب کہی ہے ۔ ماشاء اللہ چشم ِ بددُور۔ اللہ آپ کے زورِ قلم کو اور بڑھائے اور صحت وسلامتی سے رکھے۔
٭٭٭ لندن8.5.89/الفضل کے 24/اپریل کے شمارہ میںآپ کی نظم پڑھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو جو قدرتِ کلام عطا ہوئی ہے، اس کے چرچے تو مدتوں پہلے کالج کے زمانے کی شعروں کی محافل سے نکل کر عام ہوگئے اور کالج کے طلباء میں ہی نہیں بلکہ ربوہ کے دوسرے نوجوانوں میں جن کو کچھ ادبی ذوق تھا، بہت ہی ہر دلعزیز ہوئے۔ آپ کے کلام میں انفرادیت اور اپنی خاص منفرد شخصیت کی چھاپ ہمیشہ نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن یہ کلام جو الفضل میں شائع ہؤا ہے، معلوم ہوتاہے کہ خاص طبیعت کی لہر میں کہا گیا ہے اور عام کلام سے بلند قامت ہے۔ اس کلام کو دیکھ کر مجھے وہ سفر یاد آگیا جو آپ کے ساتھ غالباً1945ء میں تبّت کی سرحد کی جانب اختیار کیا تھا۔ لائنگ پاس سے گزر کر لاہول کی وادی میں آپ کی قیادت میںکالج کے طلباء کے ساتھ مَیں بھی شامل تھا۔ وہ علاقہ سطح مرتفع ہے جس کی بلندی کم از کم 10ہزار فٹ بلند ہے لیکن سطح مرتفع سے بھی بلند تر پہاڑوں کی چوٹیاں نکلی ہوئی ایک عجیب رعبناک منظر پیدا کرتی تھیں۔ پس آپ کا کلام بالعموم سطح مرتفع ہے لیکن یہ نظم اس سطح مرتفع سے بلند ہونے والی ایک چوٹی ہے۔ کس کس شعر یا مصرعے کا حوالہ دوں۔ ''جنگل میں جس طرح ہوں گوالے پڑے ہوئے'' یا ''جیسے سمندروں میں ہمالے پڑے ہوئے۔'' یا پھر اچانک قافیے کا ایک چونکا دینے والا استعمال جو اس مصرعہ میں ملتا ہے۔ ''جو غم بھی راہ میں ہوں اٹھالے پڑے ہوئے'' ۔یہ مصرعے خود اپنی ذات میں ویسا ہی منظر پیدا کررہے ہیں کیونکہ پہلا مصرعہ اگر سطح مرتفع ہے تو یہ مصرعے اس سے نکلی ہوئی چوٹیاں ہیں۔ آپ نے تو سمندروں میں بھی ہمالے ڈال دیئے لیکن ان سب میں جو غیر معمولی طور پر پیارا شعر ہے مجھے لگا، وہ یہ ہے کہ
اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئےخداتعالیٰ کے فرستادہ بندوں کی آمد کے بعد حقیقت میں بالکل یہی منظر مدتوں دکھائی دیتا رہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آئے ہوئے ایک صدی بیت گئی لیکن آج تک ہمارے آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے ہیں۔ ماشاء اللہ چشمِ بددور۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ عمروصحت میں برکت دے اور اس قادر الکلامی کو مزید تقویت اور جِلا بخش دے۔ عید مبارک ہو۔
٭٭٭ لندن22.6.1990/روزنامہ الفضل کے شمارہ 3/فروری میں آپ کی نظم ''تضمین'' بہت اعلیٰ پایہ کی نظم ہے اور قابل داد ہے۔ ماشاء اللہ چشمِ بدور۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت عمدہ ملکہ عطا فرمایا ہے۔ اس نظم کا ہر شعر قابلِ ستائش ہے۔ لیکن اس شعر کا کیا کہنا۔
تاج ہم نے پہن کے کانٹوں کا بر سرِ دار استراحت کیاللہ تعالیٰ آپ کو صحت وسلامتی عطا فرمائے اوراپنا عبد بنائے اور حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭ 10.6.1989آپ کا دلچسپ اور اداس خط ملا جس پر عبدالسلام اختر مرحوم کا یہ شعر صادق آرہا تھا۔
دیکھ اُفق پر گھٹا جو ہے اس میں کچھ اندھیرے ہیں، کچھ اجالے ہیںجو شعر آپ نے طبع نہیں کروائے اُن میں سے پہلے کو چھپا رکھنے کا تو کوئی جواز ہی نہیں سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے''سالے'' کا ایسا انوکھا اور برمحل استعمال پہلے کبھی اردو ادب میں نہیں ہؤا۔ جن پریشانیوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے وہ میرے دل کو بھی لاحق ہوگئی ہیں۔ انشاء اللہ مقدور بھر کوشش بھی کروںگا اور دعابھی۔آپ سب کے حوصلے اور صبر پر حیرت زدہ ہوں۔ یہاں الفاظ کی دلداری کام نہیں آتی۔ دعا ہی ہے جو مقبول ہوجائے تو اعجاز دکھاتی ہے۔ ورنہ دوا کی حد سے بھی بات بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ گذشتہ خط میں یاد نہیں بطور خاص ایک شعر کا ذکر کیا تھا یانہیں۔ اس کی چاندنی اب تک میرے دل کے آنگن پر پھیلی پڑی ہے۔ شاعری ایسے حسن کی مایہ میں شاذ شاذ ہی دھلا کرتی ہے۔
اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے ٭٭٭ لندن/1993/ ہش7.5.1372آپ کا سارا کلام ہی ماشاء اللہ ایک خاص اپنا سا انداز رکھتاہے اور جس میں امتیازی رنگ پایا جاتا ہے لیکن آ پ کے کلام میں بھی پھر بعض شعربعض شعروں پر سبقت لے جاتے ہیں۔2/فروری کے الفضل میں شائع ہونے والی نظم کے حسب ذیل چار شعر تو مجھے بہت ہی پسند آئے ہیں ۔ماشاء اللہ۔ اللہ آپ کے کلام کا حسن اور بھی بڑھائے اور اپنی جناب سے نور عطا کرے ۔آ پ کو آئینوں کا بہت شوق ہے ۔میری آنکھوں کے آئینے میں ذرا اپنے کلام کا چہرہ دیکھیں۔
گلشن کا نہ تھا قصور اس میں موسم ہی نہیں بدل رہا تھا اس شور زمیں میں پیڑ غم کا جیسا بھی تھا پھول پھل رہا تھا جنت کا شجر تھا اور اس کے سائے میں گناہ پل رہا تھا رونا تو وہ چاہتا تھا لیکن آنسو ہی نہیں نکل رہا تھا24جنوری کے الفضل میں چھپنے والی نظم کا یہ پہلا شعر بھی بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ہے۔
تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے نظر کی بھیک بھی تجھ سے پکار کر لیتے واہ واہ سبحان اللہمیرے علم میں کسی نے نظر پر اعتبار کے مضمون کو اس طرح نہیں باندھا جس طرح آپ نے باندھا ہے۔اسی نظم کے حسب ذیل شعر بھی ماشاء اللہ بہت عمدہ ہیں اور انھیں پڑھ کر بہت محظوظ ہؤا ہوں۔
وہ راہ چلتوں سے قول و قرار کرلیتے وفا کا عہد تو ان سے سنوار کر لیتے (اللہ اکبر) یہ قافلے جو کھڑے ہیں انا کی سرحد پر کسی بہانے سے سرحد کو پار کر لیتے نظر نہ آتے بگولے کبھی سرِ صحرا ہوا کے رخ کو اگر اختیار کرلیتےاللہ آپ کو صحت وعافیت والی فعّال اور بامراد لمبی عمر عطافرمائے اور ہمیشہ اس کے پیار کی نظریں آپ پر پڑ تی رہیں۔خداحافظ وناصرہو۔
٭٭٭ لندن /1993/ہش5.2.1372الفضل کے 19دسمبر 1992ء اور 24جنوری1993ء کے شمارہ میں آپ کی جو نظمیں شائع ہوئی ہیں ان میں بعض تو بہت ہی چوٹی کے اشعار ہیں۔ویسے تو آپ کا سارا کلام ہی ایک امتیازی شان لیے ہوتاہے اور ہمیشہ دل پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے لیکن ان شعروں کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔پر اثر ، دل نشیںاور روح پر وجد کی سی کیفیت پیدا کرنے والے۔ماشاء اللہ ۔چشم بد دور۔کیا خوب فرمایا ہے ؎
عہد کا کرب مکمل نہیں ہونے پاتا یہ دھؤاں وہ ہے جو کاجل نہیں ہونے پاتا''تری نظر کا اگر اعتبار کرلیتے'' بھی بہت خوب ہے۔ بڑی مشکل بحر میں آپ نے حیرت انگیز مضمون باندھا ہے ۔ اسی طرح '' وفا کا عہد تو ان سے سنوار کرلیتے '' والا بھی خوب مصرع ہے۔اور اس شعر میں تو آپ نے کمال ہی کردیاہے۔
نظر نہ آتے بگولے کبھی سرِ صحرا ہوا کے رخ کو اگر اختیار کر لیتےماشاء اللہ بہت ہی عمدہ مضمون ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ساری نظم ہی بڑی بلند پایہ ہے۔ جزاکم اللہ احسن الجزائ۔اللہ آپ کی ذہنی وقلبی صلاحیتوں کو مزید صیقل فرمائے۔خدا حافظ وناصر ہو۔
٭٭٭ 24.4.91آپ کا دل تو درد میں ڈوبا ہؤا ہمیشہ سے تھا ہی اب جسم بھی دردوں سے کراہنے لگا ۔
حیراں ہوں دل سنبھالوں کہ تھپکوں بدن کو میںصلیبِ عشق پرچڑھے ہوئے آپ کو عمر گزرگئی، نہ پھو ل برسے نہ گڑھے پڑے۔ لیکن انسانوں کے پھول برسانے سے بنتا بھی کیا ہے ۔ میری دعاہے کہ اللہ آپ پر اپنی رحمت کے پھول برسائے، اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی ۔ایک غم تو نہیں جو آپ سینے سے لگائے پھرتے ہیں ۔عزیزوں نے تو اپنی اپنی صلیب اٹھارکھی ہے۔آپ نے سب عزیزوں کی صلیبیں اٹھائی ہوئی ہیں۔پھول بھی تو اتنے ہی برسنے چاہئیں۔ آپ کاکلام دن بدن زیادہ بلند اور زیادہ گہرا ہوتا چلا جاتاہے۔دل کے بخارات رفعتوں سے گہرے پانیوں پر پانی برساتے ہیں۔سطحی نظر سے دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ گہرے پانی پُر سکون ہوتے ہیں۔کبھی اتر کر دیکھیں تو دیکھیں کہ طوفان نے آفت مچا رکھی ہے۔ اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے اور سمندر دل کو گہری سکینت سے بھر دے جو پاتال تک اتر جائے اور قرار پکڑ جائے۔
خوشا کہ تم سے ملاقات ہو گی جلسے پر خوشا کہ آؤ گے تم.................سب عزیزوں کو محبت بھر اسلام۔میری اور آپ کی عاجزانہ دعائیں انہیں ماؤں کے دودھ کی طرح لگیں۔ ٭٭٭ آپ کا پنجابی کلام احمدیہ گزٹ کینیڈا میں پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے۔دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کے لیے دعا اور تحسین کے کلمات نکلے ہیں۔بہت پیارے خیالات ہیں جن کو پنجابی لفظوں میں پرو کرایک خوبصورت مالا بنادیاہے۔جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزائ آپ ماشاء اللہ اردو ،انگریزی اور پنجابی میں قادر الکلام ہیں۔اپنی ان خداداد صلاحیتوں کو کاغذوں میں محفوظ کرتے چلے جائیں۔اللہ تعالیٰ توفیق دے اورزندگی بابرکت ہو۔سب کو محبت بھرا سلام اور عید مبارک۔
٭٭٭ لنڈن6.2.92/پیار اور خلوص کا جو تحفہ آپ قادیان میرے لیے چھوڑ گئے تھے وہ لنڈن آکرملا، آپ نے لطف کے کوزوں میں کتنے ہی دریا بند کرکے بھیجے ہیں جو منالی سے کُلّو تک کی سٹرک کے ساتھ ساتھ بہتے ہوئے دریائے بیاس کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ آپ بھولے تو نہیں ہوں گے ۔ بھول سکتے بھی نہیں۔ کروٹ کروٹ وہ نئی نئی جنت دکھاتا تھا۔ اب بھی دکھاتا ہوگا مگر ہمیں کیا۔ قادیان میں کئی بار خیال آیا کہ آپ ساتھ چلیں تو ایک بار پھر وہاں ہو آئیں۔ آپ کی شاعری کو ایک نیا جنم مل جائے۔ ویسے نئے جنم کی اسے کوئی ضرورت تو نہیں ہے۔ماشاء اللہ سدابہار۔ بڑھاپے کی عقل اور جوانی کے ولولوں کو مدغم کئے ہوئے۔ فقیری میں شاہی کرتی ہوئی۔ کبھی خاموشی کو صدا بناتی ہوئی، کبھی صداؤں کو بے آواز کرتی ہوئی کیٹس(Keats) کے گریشن ارن (Greecion Urn) کی تمثال دار۔ صاف گوئی میں اپنی مثال آپ۔ مبالغہ بھی کرے تو حقیقت کا گمان گزرے۔ کواکب کی طرح بازی گر۔ میرے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا اگر اپنے متعلق ہی سمجھ کر پڑھتا تو آپ کے شعروں کا کیا خاک لطف اٹھاتا۔ میں توغالبؔ ہی کے اس مصرعہ میں ڈوبا رہتا: اور میں وہ ہوں کہ گرجی میں کبھی غور کروں ''ونڈوشاپنگ'' کرتے ہوئے ان ملبوسات ہی سے لطف اندوز ہوتا رہا جوبے جان پیکروں کو بھی زینت بخشتے ہیں۔ اسی تمنا میں جیتا اور مرتا ہوں اور یہی آپ میرے لیے دعا کیا کریں کہ دم نکلنے سے پہلے نفخِ روح ہوجائے۔ وہ دم نکلے جو پیش کرنے کے لائق ہو۔
٭٭٭ 11.11.1989چند ہفتے پہلے سہیل شوق صاحب کا وہ مقالہ پڑھنے کا لطف میسر آیا جو آپ کے بارہ میں تھا۔ مختصر مگر جی لگتا تھا۔ گو تمہید انہوں نے کچھ زیادہ ہی لمبی باندھی۔ آپ کو کلاسیکی اساتذہ سے ملانے کے لیے اتنے پرپیچ راستہ کی کیا ضرورت تھی۔ آپ کو تو لوگ گلی گلی جانتے ہیں گو پوری طرح نہ سہی۔ ''خطاکار بے ہنر'' کے طور پر نہ سہی ''خوددار غم شناس'' کے طور پر تو سبھی آپ کے شناسا ہیں۔ آپ کا کلام ہمیشہ سے اچھا ہے مگر اب کچھ اور بھی اچھا ہوگیا ہے۔
یہ وہ زمین تھی جو آسماں سے اتری تھی یہ وہ حوالہ تھا جو باربار دینا تھا وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا تم اپنے آپ سے ملتے اگر اکیلے تھے کڑا تھا وقت تو ہنس کر گزار دینا تھا وہ برگذیدہ شجر لڑ رہا تھا موسم سے کہ پھولنا تھا اسے، برگ وبار دینا تھا اٹھائے پھرتے ہو مضطرؔ اجاڑ گلیوں میں یہ سر کا بوجھ تو سر سے اتار دینا تھاایک بہت اعلیٰ پائے کی غزل میں یہ چند اشعار جو اوپر لکھے ہیںبہت زیادہ اچھے لگے۔ ہاں ایک دو جگہ دوسری قراء ت کی گنجائش بھی پائی۔ حسینوں کو تو سبھی 'کافر' قرار دیتے ہیں، ورنہ اکثر۔ 'کسی نے تو کافر قرار دینا تھا' میں ایک اپنی شان اور قوت ہے اور بڑا چست مصرعہ ہے مگر اقتضائے حال کے مطابق نہیں۔ ''اسے تو لاکھوں نے کافر قرار دینا تھا'' اپنی ذات میں ویسا بانکا مصرعہ نہیں مگر اقتضائے حال کے زیادہ مطابق ہے بلکہ ''اسے کروڑوں نے کافر قرار دینا تھا۔'' مقطع بھی بہت بلندہے لیکن اگر میری بات کو سخن گسترانہ خیال نہ فرمائیں تو اس کے دوسرے مصرعہ کو میں کچھ اس طرح پڑھ لیا کروں۔ یہ سر تھا بوجھ، تو یہ بوجھ اتار دینا تھا آپ کی اس غزل کا مزاج بہت انوکھا اور پیارا ہے۔ وہ دن یاد آگئے جب لاھول کوہ پیمائی کے لیے آپ کے ساتھ گئے تھے۔ جس طرح آپ ان دنوں ہمیں ڈانٹا کرتے تھے اسی ادا سے اس غزل میں اپنے آپ کو ڈانٹا ہے۔ قصور آپ کا نہیں ہمارا ہی تھا کیونکہ اس سفر میں مجھے یاد ہے۔ جھگڑے تھے پھول پھول، لڑے تھی کلی کلی
٭٭٭ لندن /1990/ہش26.6.1369ہمیشہ کی طرح آپ کا کلام آپ کی اس ذات کا آئینہ دار ہوتاہے جو سرسری نظر سے دکھائی نہیں دیتی مگر قریب رہ کر گہری نظر کے مطالعہ سے متعارف ہوتی ہے۔ اگر اس کلام کا وسیلہ نہ ہوتا توآپ مجہول حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوجاتے۔ سوائے ان چند لوگوں کے جن میں مَیں بھی شامل ہوں آپ کے حسنِ مستور سے کوئی واقف نہ ہوتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں خالدؔ میں شائع ہونے والی آپ کی نظم بعنوان ''ہرگلی کوچے میں اجلاس شبینہ ہوگا'' بہت ہی خوبصورت اور خوب سیرت ہے۔ یہ دل پر گہرا اثر کرنے والی نظم ہے۔ اسے پڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی خاص طور پر دعا کی تحریک ہوتی ہے اور آپ کے لیے بھی۔ اس کا ہر شعر اپنے رنگ میں ایک دلربائی رکھتا ہے لیکن مقطع ایک نئے زاویہئ نگاہ سے ایک ایسی حقیقت کو دکھانے کا مطلع بن گیا ہے جو اس خوبصورت زاویے سے پہلے کسی نے شاید لوگوں کو نہ دکھائی ہو ؎
کشتیئ نوح میں بیٹھے تو ہو لیکن مضطرؔ شرط یہ ہے یہیں مرنا یہیں جینا ہوگاوفا اور ثبات قدم کا مضمون خوب باندھا ہے۔ ماشاء اللہ ۔ چشمِ بددُور۔ خداحافظ!
٭٭٭ لندن30.3.95/''الفضل انٹرنیشنل'' کے 17/فروری اور 10/مارچ کے شماروں میں آپ کی نظمیں پڑھ کر بے حد محظوظ ہؤا ہوں۔ ماشاء اللہ آپ آپ ہی ہیں۔ ہزاروں لاکھوں نے یہ مضمون باندھے ہوں گے مگر آپ کی تو ادا ہی الگ ہے۔ماشاء اللہ۔ چشمِ بددُور۔ یہ شعر تو بہت ہی پسند آئے ہیں۔
دار پر شب گزر گئی ہو گی لوٹ کر کون گھر گیا ہو گا جانتا ہوں دعا کے موسم میں وہ اکیلا کدھر گیا ہو گا اس کی آواز کی صداقت پر لفظ لذّت سے بھر گیا ہو گا آؤ دریا کی سیر کر آئیں اب تو پانی اُتر گیا ہو گابہت ہی خوب اور تروتازہ کلام ہے۔ واہ واہ! کیا بات ہے آپ کی۔ اللہ آپ کے عرفان کو اور بھی بڑھائے۔۔۔۔۔۔٭؎۔ اس وقت جماعت کے شعراء میں خداتعالیٰ نے آپ دونوں کو جو امتیازی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں وہ دوسرے شعراء خواہ مانےں یا نہ مانےں مگر میں چونکہ شعراء میں سے نہیں ہوں، میں مانتا ہوں۔ اپنی اپنی طرز میں آپ دونوں بعض دفعہ ایسی شان سے ابھرتے ہیں کہ لکھنے والوں کے قلم ٹوٹ جاتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ زِدْوَبَارِکْ۔
٭٭٭٭۔۔۔۔۔۔یہاں پر حضوررحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرم عبیداللہ علیم مرحوم کا ذکر فرمایا ۔
فرانس23.5.89/آپ کی غزل ماہنامہ مصباح میں پڑھی ہے ۔بہت اچھی غزل ہے۔دل پر گہرا اثر کیا ہے،مگر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ہاں اس میں مقطع سے پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں یعنی ع اے ربِّ ذوالجلال والمیزان بول بھی، کی بجائے ''اے ر بِّ ذوالجلال والاکرام ۔۔۔۔۔۔'' ہوتا تو بہتر ہوتا۔ لیکن چونکہ آپ نے انصاف کا مضمون باندھا ہے ،اس لیے اندازہ ہو گیا کہ میزان پر کیوں آپ کا دل اٹکا اور کیوں قرآن کریم کے پر شوکت کلام اور عارفانہ محاورہ سے اک ذرا سا ہٹنا پڑا۔ مقطع میں لفظ ''دھل گئیں'' چاہیے ۔ غلطی سے ''ڈھل گئیں''لکھا گیا ہے۔الفضل میں شائع ہونے والے آپ کے کلام نے میرے لیے یادوں کے دریچے کھول دیے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے قلب و ذہن کو جِلا بخشے اور لا زوال رحمتوں سے نوازے۔سب عزیزوں کو میرا سلام دیں۔
٭٭٭حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللّٰہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مکتوبِ گرامی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم پیارے مکرم محترم چوہدری محمدعلی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہامیدہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہوں گے۔ کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ دفتری خط وکتابت سے ہٹ کر بھی آپ کو خط لکھوں۔ آپ سے ایک پرانا تعلق بھی ہے اس حوالے سے دعا کے لیے بھی کہوں۔ چند دن ہوئے آپ کا پرانی یادوںکا پروگرام سنا۔ چند منٹ ہی گو سنا لیکن احساس ہؤا کہ آپ بزرگوں کو اپنی پرانی یادداشتیں ضرور ریکارڈ کروانی چاہئیں۔ پھر کل ایک مشاعرہ میں آپ کا خاص انداز کے ساتھ اپنا کلام پڑھنا سنا۔ ماشاء اللہ آواز سے تونہیں لگتا کہ چوراسی پچاسی سال کا بوڑھا ہے۔ پھر جو کام آپ کررہے ہیں اس عمر میں اور بعض عوارض کے باوجود اس سے آپ کی قدر اور بڑھتی ہے۔ کچھ بوجھ دوسروں پر بھی ڈالیں اور خود نگران بنےں۔ زیادہ پریشان نہ ہؤا کریں۔ ہمیں ابھی آپ کی بہت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور صحت میں بے انتہا برکت ڈالے۔ دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔ کل انشاء اللہ کینیڈا کے سفر پر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔
والسلام خاکسار مرزامسروراحمد (دستخط) 20/6/04 ٭٭٭ اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ41۔43 حرف وحکایت ۔ مکرم احمدندیم قاسمی صاحبسنا ہے کہ تلاش گم شدہ کے بعض اشتہارات بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً مشہور ہے کہ ایک شخص کا بریف کیس چوری ہوگیا۔ اس نے پولیس میں رپٹ لکھوانے کی بجائے اخبار میں ایک اشتہار دیا جس کا مضمون کچھ اس طرح کا تھا۔ محترم چور صاحب قبلہ! السلام علیکم آپ نے میرا بریف کیس چرایا ہے، اس میں میرے پاسپورٹ کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ بریف کیس سمیت اپنے پاس رکھیے مگر کسی طرح یہ پاسپورٹ مجھے بھجوا دیجیے۔ چند اور کاغذات بھی ہیں۔ ان کاغذات میں سوسوکے چھ نوٹ بھی شامل ہیں۔ یہ بھی اپنے کام میںلائیے۔ بریف کیس پراناہے اس لیے آپ کو اٹھاتے ہوئے شرم آئے گی کیونکہ جب آپ چوری سے اتنا کچھ کمالیتے ہیں تو سوسائٹی میں آپ ماشاء اللہ بڑے معزز ہوں گے۔ چنانچہ اگر آپ کا کوئی برخودار پرائمری میں پڑھتا ہے تو بریف کیس میری دعا اور پیار کے ؤساتھ اسے دے دیجیے۔ مجھے صرف میرا پاسپورٹ درکار ہے! اور سنا ہے کہ دوسرے ہی روز اس شخص کو اس کا پاسپورٹ رجسٹرڈ پارسل کے ذریعے موصول ہوگیا تھا۔ البتہ جب ہم مطالعے کی عینک بروقت رکشا حاصل کرنے کی خوشی میں، رکشا ہی میں چھوڑ کر اتر گئے تھے تو ہم نے رکشاڈرائیور کو مخاطب کرکے متعدد کالم لکھے۔ پھر ان سواریوں کو مخاطب کیا جو ہمارے بعداس رکشا میں بیٹھی ہوں گی۔ ہم نے ان کی شرافت و نجابت کے قصیدے پڑھے اور انہیں یہ بھی سمجھایا کہ اگر وہ ہماری عینک کو اپنے استعمال میںلائے تو انہیں اپنی آنکھوں کا نمبر بدلوانے کا تردّد کرنا پڑے گا۔ مگر افسوس کہ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ہم اپنی اس یادگار عینک سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ اب ہمارے ایک کرم فرما جناب محمدعلی چودھری نے، جو ایف سی کالج لاہور میں شعبہ فلسفہ کے صدر ہیں ہمیں مطلع کیاہے کہ دوماہ سے زیادہ عرصہ گزرا ان کا بریف کیس ایک دوست کی بظاہر مقفّل گاڑی میں سے پولیس چوکی سمن آباد سے تین چار فرلانگ کے فاصلے پر چوری ہوگیا۔ اخبارات میں اشتہارات دیے، انعامات کا بھی اعلان کیا لیکن بریف کیس نہ ملا۔ چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ بریف کیس میں نہایت قیمتی کاغذات تھے۔ اگر یہ کاغذات ہی کسی طرح انھیں واپس مل جاتے تو چوری کے دکھ میں معتدبہ افاقہ ہوجاتا۔ ان کی خواہش پر ہم محترمی چور صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ بریف کیس بے شک اپنے پاس رکھیے مگر چودھری صاحب کے کاغذات واپس فرمادیجیے۔ آپ عنداللہ ماجور ہوں گے ۔ ہمیں یقین ہے کہ جب چور صاحب ان کاغذات کی تفصیل سنیں گے توان کی واپسی کے لیے بے چین ہوجائیں گے۔ بات یہ ہے کہ جناب محمدعلی چودھری شاعر بھی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی ان تقریباً تین درجن غزلوں کو بھی قیمتی کاغذات میں شامل فرماتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ سبھی غزلیں غیرمطبوعہ ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ شاعر کے ذہن سے یہ غزلیں محو ہوچکی ہیں۔ چنانچہ ان کا وجود اگر کہیں ہے تو اس بریف کیس میں ہے جو شاعر صاحب سے چور صاحب کو منتقل ہوچکا ہے۔ ہم اس اپیل میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کرناچاہتے ہیں کہ اگر چور اتفاق سے شاعر بھی ہے تو مقطع میں اپنا تخلص داخل کرکے انہیں کم سے کم چھپوا ہی دے تا کہ چودھری صاحب کو یہ تسلی تو ہو کہ ان کی کاوش مکمل طور پر غارت نہیں ہوگئی۔ البتہ چور کو اپنا تخلص داخل کرتے ہوئے عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے جیسے ایک شاعر متخلص بہ ''گنہگاؔر'' نے لیا تھا کہ ایک پرانے شاعر مصحفی ؔکی غزل چُرائی اوراپنا تخلص یوں شامل کیا کہ مصرع بحر سے خارج ہوکر ساحل پر جاپڑا۔ مصحفیؔ کا مصرع تھا:-
مصحفیؔ! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم آپ نے اسے یوں اپنایا:- گنہگاؔر!ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخمجناب محمدعلی چودھری فلسفی ہیں اس لیے بہت سادہ مزاج ہیں۔ سو فرماتے ہیں کہ ممکن ہے چور صاحب نے یہ کاغذات بریف کیس میں سے نکال کر پھینک دیے ہوں اور کسی راہ چلتے کو مل گئے ہوں، چنانچہ ان راہ چلتے صاحب سے بھی گزارش ہے کہ اگر وہ یہ کاغذات اور مسودات چودھری صاحب کو واپس کردیں تو وہ ان انعامات کے مستحق ہوں گے جن کا اس سے قبل چوری کے اشتہار میں اعلان کیا جاچکا ہے۔
کچھ کر لو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں (امروز۔28/ستمبر،1977 اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ1۔2 1۔ سمت ہے اس کی نہ حد سمت ہے اس کی نہ حد قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور سب محتاج ہیں ذات ہے اس کی صمد یکّہ و تنہا ہے وہ اس کا والد نہ ولد لَا کا ہے اِثبات وہ نفْی ہے اس کی نہ رد اس کے در کے ہیں فقیر پست و بالا، نیک و بد کون ہے اس کے سوا معتبر اور مستند اس کے حرف و صوت و لفظ زیر و پیش، مدّ و شد اس کے سارے انقلاب جذْر سارے، سارے مد سب حساب اس کے حساب ہر عدد اس کا عدد وقت ہے اس کا غلام ہر ازل اور ہر ابد عشق اس کا معجزہ عقل اس کے خال و خد وہ علیم اور ہے خبیر مَیں ہوں ناداں، نابلد اے مری جاں کی پنہ! اَلْغِیَاث و اَلْمَدَدْ ! چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ3۔4 2۔ آؤ حسنِ یار کی باتیں کریں آؤ حسنِ یار کی باتیں کریں یار کی، دلدار کی باتیں کریں اک مجسّم خُلق کے قصّے کہیں احمدِؐ مختار کی باتیں کریں جس کو سب سرکارِ دو عالم کہیں ہم اسی سرکار کی باتیں کریں اک گلِ خوبی کا چھیڑیں تذکرہ حسنِ خوشبودار کی باتیں کریں غم غلط ہو جائیں سب کونین کے جب بھی اس غمخوار کی باتیں کریں جس کی ستّاری پہ دل قربان ہے ہم اسی ستّار کی باتیں کریں پھر غمِ جاناں کی چادر اوڑھ کر غم کے کاروبار کی باتیں کریں حسن سے حسنِ طلب کی داد لیں عشق کی، تکرار کی باتیں کریں یار ہے آمادۂ لطف و کرم کیوں عبث انکار کی باتیں کریں پھر بہار آئی ہے اک مدّت کے بعد پھر گل و گلزار کی باتیں کریں غیر کو جلنے دیں اس کی آگ میں مسکرائیں، پیار کی باتیں کریں پی لیا دریا کا پانی ریت نے آؤ دریا پار کی باتیں کریں شب گزیدو! آؤمل کر صبح تک صبح کے آثار کی باتیں کریں صبح ہونے کو ہے مضطرؔ! آیئے مطلعِ انوار کی باتیں کریں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ5۔6 3۔ جاگ اے شرمسار! آدھی رات جاگ اے شرمسار! آدھی رات اپنی بگڑی سنوار آدھی رات یہ گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی باخبر ، ہوشیار! آدھی رات وہ جو بستا ہے ذرّے ذرّے میں کبھی اس کو پکار آدھی رات اس کے دربارِ عام میں جا بیٹھ سب لبادے اتار آدھی رات دو گھڑی عرضِ مدّعا کر لے وقت ہے سازگار آدھی رات بابِ رحمت کو کھٹکھٹانے دے میرے پروردگار! آدھی رات شدّتِ غم میں کچھ کمی کر دے اب تو اے غمگسار! آدھی رات کھلتے کھلتے کُھلے گا بابِ قبول عرض کر بار بار آدھی رات اپنے داتا کے در پہ آیا ہے ایک اُمّیدوار آدھی رات ہوش و صبر و قرار کا دامن ہو گیا تار تار آدھی رات میری فریاد کا جواب تو دے بول اے کِردگار! آدھی رات بے کسوں کو تری کریمی کا آ گیا اعتبار آدھی رات اشک در اشک جھلملانے لگا میرا قرب و جوار آدھی رات کس لیے بے قرار ہے مضطرؔ کس کا ہے انتظار آدھی رات ٭…آدھی کو پنجابی لفظ ادّھی کے معنوں میں سمجھا جائے۔ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ7۔8 4۔ گھِراہوا تھا مَیں جس روز نکتہ چینوں میں گھِراہوا تھا مَیں جس روز نکتہ چینوں میں وہ بے لحاظ کھڑا تھا تماش بینوں میں وہ کش مکش ہوئی انکار کے قرینوں میں رہا نہ فرق شریفوں میں اور کمینوں میں مری خبر سرِ اخبار چھاپنے والا ملا تو ڈوب گیا شرم سے پسینوں میں وہ اپنے عہد کی آواز کا ڈرایا ہوا کھڑا تھا صورتِ دیوار ہم نشینوں میں نحیف روح بلکتی رہی کنارے پر بدن کا بوجھ بہا لے گئے سفینوں میں ق یہ کس کے عکس کی آہٹ مکان میں آئی یہ کون ہولے سے اترا ہے دل کے زینوں میں وہی لباس، وہی خدّوخال ہیں اس کے وہ ایک پھول ہے خوشبو کے آبگینوں میں کبھی تو اس سے ملاقات ہو گی جلسے پر کبھی تو آئے گا وہ وصل کے مہینوں میں صلیبِ عشق پہ چڑھنے کی دیر تھی مضطر!ؔ وہ پھول برسے، گڑھے پڑ گئے زمینوں میں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ9۔10 5۔ مصروف ہے سینوں میں اک آذرِ پوشیدہ مصروف ہے سینوں میں اک آذرِ پوشیدہ کچھ بت ہیں تراشیدہ، کچھ غیر تراشیدہ ان عقل کے اندھوں کو اللّٰہ ہدایت دے جو کام کیا الٹا، جو بات کی پیچیدہ ڈر ہے تو یہی ان کو، بیدار نہ ہو جائے مخلوق خدا کی جو مدّت سے ہے خوابیدہ ق اس حسنِ مجسّم نے مسحور کیا سب کو اپنے بھی غلام اس کے، بیگانے بھی گرویدہ اس جانِ تمنّا کو، اس غیرتِ محفل کو چاہا بھی تو درپردہ، دیکھا بھی تو دزدیدہ تعریف سے بالا ہے، توصیف سے مستغنی ہر بات حسیں اس کی، ہر کام پسندیدہ تھا شور بپا اتنا کل بزمِ نگاراں میں جب ذکر چھڑا اس کا سب ہو گئے سنجیدہ ان سرخ ستاروں کو پلکوں میں پِرو لیں گے سجدوں میں سمو لیں گے ہم اے دلِ شوریدہ! ہم پہ جو گزرتی ہے معلوم ہے سب اس کو حالات ہمارے تو اس سے نہیں پوشیدہ پوچھیں تو دکھا دینا جو داغ ہیں فرقت کے یا پڑھ کے سنا دینا مکتوبِ دل و دیدہ ہم بھی کبھی جائیں گے دربارِ محبت میں ترسیدہ و لرزیدہ، غلطیدہ و لغزیدہ با ایں ہمہ دلداری، با ایں ہمہ ستّاری مضطرؔ! وہ کہیں تم سے ہو جائیں نہ رنجیدہ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ11۔12 6۔ کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے پیاسوں کے درمیاں ہیں پیالے پڑے ہوئے آندھی بھی ہے چڑھی ہوئی، نازک ہے ڈور بھی کچھ پیچ بھی ہیں اب کے نرالے پڑے ہوئے یہ مقبرے نہیں ہیں شہیدانِ عشق کے ایفائے عہد کے ہیں حوالے پڑے ہوئے اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے رہزن کو بھی فرار کا رستہ نہ مل سکا چاروں طرف تھے قافلے والے پڑے ہوئے تیرے لیے ہی اترے ہیں یہ آسمان سے جو غم بھی راہ میں ہوں اٹھا لے پڑے ہوئے آمادگی کا نور غزل خواں ہے آنکھ میں فرطِ حیا سے لب پہ ہیں تالے پڑے ہوئے اشکوں میں ہیں اَنا کی چٹانیں چھپی ہوئی جیسے سمندروں میں ہمالے پڑے ہوئے رہزن کا یوں پڑاؤ ہے رادھا کے کنڈ پر جنگل میں جس طرح ہوں گوالے پڑے ہوئے دل سربہ مُہر، کانوں میں روئی بھری ہوئی آنکھوں میں اختلاف کے جالے پڑے ہوئے باہر اٹھا کے پھینک دیے بت غرور کے کب سے تھے یہ مکان میں سالے پڑے ہوئے تجدیدِ عہد کے لیے پڑھتا ہوں بار بار گھر میں ہیں کچھ پرانے رسالے پڑے ہوئے مضطرؔ کو فکرِ عصمتِ ایمان و آگہی یاروں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ13۔14 7۔ صلہ کوئی تو سرِ اوجِ دار دینا تھا صلہ کوئی تو سرِ اوجِ دار دینا تھا نہیں تھا پھول تو پتھر ہی مار دینا تھا حریفِ دار بھی پروردگار! دینا تھا دیا تھا غم تو کوئی غمگسار دینا تھا یہ وہ زمین تھی جو آسماں سے اتری تھی یہ وہ حوالہ تھا جو بار بار دینا تھا وہ اِک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا مَیں اپنی تنگیٔ داماں کا عذر کیا کرتا وہ دے رہا تھا، اُسے بے شمار دینا تھا تم اپنے آپ سے ملتے اگر اکیلے تھے کڑا تھا وقت تو ہنس کر گزار دینا تھا نہیں بتانا تھا لوگوں کو اپنا نام پتا سرِ صلیب کوئی اشتہار دینا تھا وہ بے لحاظ بھی کہتا کبھی خدا لگتی اسے بھی زخم کوئی مستعار دینا تھا وہ برگزیدہ شجر لڑ رہا تھا موسم سے کہ پھولنا تھا اسے برگ و بار دینا تھا ہمیں بھی عہد کے انجام سے تھی دلچسپی کہ ہم فقیروں کا اس نے ادھار دینا تھا اٹھائے پھرتے ہو مضطرؔ! اجاڑ گلیوں میں یہ سر کا بوجھ تو سر سے اُتار دینا تھا٭٭…حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللّٰہ تعالیٰ نے از راہِ شفقت اس کی اصلاح یوں فرمائی:
یہ سر تھا بوجھ تو یہ بوجھ اتار دینا تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ15۔16 8۔ اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے ڈھل گئے آفتاب چہروں کے ہم سے پوچھو عذاب چہروں کے ہم بھی تھے ہمرکاب چہروں کے ہم ہیں قاری صحیفۂ رخ کے ہم ہیں اہلِ کتاب چہروں کے ہم نے دیکھے ہیں جاگتی آنکھوں خواب در خواب خواب چہروں کے ذہن کے پار تک ہیں پھیلے ہوئے سلسلے بے حساب چہروں کے ہو گئے لقمۂ نہنگِ نظر کیسے کیسے گلاب چہروں کے شیخ پکڑے گئے سرِ بازار منتظر تھے جناب چہروں کے رنگ لا کر رہیں گے بالآخر یہ سوال و جواب چہروں کے بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی دیکھ کر اضطراب چہروں کے ان کو آزردہ دیکھ کر مضطرؔ! رنگ بدلے شتاب چہروں کے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ17 9۔ تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا دم اگر گھٹنے لگا تو ہاتھ سے پنکھا کیا کھٹکھٹانے پر بھی دل کا وا نہ دروازہ کیا ہم نے ہر حالت میں اپنے آپ سے پردہ کیا مشتعل چہرے اندھیری رات میں جلتے رہے بوند پانی کی نہ برسی، شہر نے فاقہ کیا لوگ دیواروں کے رستے انجمن میں آ گئے خود بھی رسوا ہو گئے، اَوروں کو بھی رسوا کیا تیری دنیا دائرہ در دائرہ در دائرہ دائروں کے دیس میں ہم نے سفر تنہا کیا رات کو شیشہ دکھا کر شہر کی تصویر لی دور تک کھڑکی کے رستے چاند کا پیچھا کیا تم تو اک پتھّر گرا کر مسکرا کر چل دیے وقت کا ویران سینہ مدّتوں گونجا کیا آہٹیں درّانہ در آئیں سسکتی ہانپتی مَیں نے جب سنسان کمرے میں ترا چرچا کیا رات غم کی داستاں ہم بھی نہ مضطرؔ! سن سکے بات لمبی ہو گئی تھی، نیند نے غلبہ کیا ۵۹۔۱۹۵۸ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ18 10۔ ہری بھری گلفام ہیں نیلی پیلی ہیں ہری بھری گلفام ہیں نیلی پیلی ہیں دل کے دیس کی پریاں رنگ رنگیلی ہیں بھنورے بن باسی کیوں بن کو چھوڑ گئے پھولوں کے خیمے چاک، طنابیں ڈھیلی ہیں خواہش کے خاموش پہاڑو! سانس نہ لو بادل کا دل بوجھل، پلکیں گیلی ہیں پت جھڑ کے جاسوس چمن میں پھیل گئے چاند کا چہرہ زرد ہے، کلیاں پیلی ہیں چاند کھلے، خورشید جلے،دل خون ہوئے منزل اوجھل ہے، راہیں چمکیلی ہیں کس کس کی تعمیل کروں،کس کی نہ کروں آنکھوں کے احکام بہت تفصیلی ہیں موت کے بعد تو لوگو! چین سے سونے دو خاک میں جا لیٹے ہیں، آنکھیں سی لی ہیں ساقی! صاف بتا دے کون سا جام پیوں آنکھیں امرت ہیں، زلفیں زہریلی ہیں مضطرؔ! اب طوفان میں جیسے جان نہیں دریا دھیما ہے، لہریں شرمیلی ہیں ۵۲،۱۹۵۱ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ19 11۔ چاند نگر کے چشمے خون اگلتے ہیں چاند نگر کے چشمے خون اگلتے ہیں دریا سوکھ گئے ہیں، ساحل جلتے ہیں جھیلوں کے پردیسی بھیگی راتوں میں رک رک کر رسّے کے پلوں پر چلتے ہیں بارش ہو تو دھو لیتے ہیں چہروں کو دھوپ کِھلے تو بھوک کا غازہ ملتے ہیں جاگنے والے! اشکوں کی آواز نہ سن آنکھ کے سورج ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتے ہیں یاروں نے تو کب کا ملنا چھوڑ دیا دشمن ہفتے عشرے آن نکلتے ہیں جا رہنے کو شہر بھی ہیں، ویرانے بھی ان کی گلی میں جائو تو ہم بھی چلتے ہیں دل کے ہاتھوں کس نے سکھ کا سانس لیا دوست پریشاں حال ہیں، دشمن جلتے ہیں ہم سیلانی، تم مالک ہو شہروں کے عیش کرو، آرام کرو ۔ ہم چلتے ہیں اپنے بیگانے حیران ہیں مدّت سے حضرتِ مضطرؔ گرتے ہیں نہ سنبھلتے ہیں ۱۹۵۵ ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ20۔22 12۔ تنہائی تنہائی دیدہ و دل میں کَھول رہے ہیں درد کے اوقیانوس مجبوروں کے ایشیا اور مزدوروں کے رُوس تنہائی میں جل اُ ّٹھے ہیں یادوں کے فانوس یاد کی جوت جگائی تنہائی ، تنہائی بنجر ٹیلوں میں اُگ آئے خواہش کے شہتوت حال کے گلشن میں لا رکھا ماضی کا تابوت بزمِ طرب میں ڈرتے ڈرتے آیا ایک اچھوت کیوں ڈرتے ہو بھائی! تنہائی ، تنہائی پت جھڑ کے طوفان میں پیلے ّپتے ہیں مجبور وقت کا سینہ کھود رہے ہیں لمحوں کے مزدور تنہائی میں چاند نے چوسے اشکوں کے انگور آگ سے آگ بجھائی تنہائی ، تنہائی دھیان کی ٹہنی ٹہنی پر رقصاں ہیں من کے مور لفظوں کے دروازے توڑ رہے ہیں گونگے چور دشت کے سینے میں برپا ہے تنہائی کا شور قیس نے ٹھوکر کھائی تنہائی ، تنہائی شعر کے گورے گال پہ نکلا تنہائی کا تل لفظوں کے درویش کھڑے ہیں اُٹھ عزّت سے مل یاد کی گت پر ناچ رہے ہیں دروازوں کے دل چیختی ہے شہنائی تنہائی ، تنہائی یہ کس کی تصویر کو جھک کر چوم رہے ہیں چاند نیند کی نیّا ڈول رہی ہے جھوم رہے ہیں چاند پانی کے پردیس میں تنہا گھوم رہے ہیں چاند پار پون لہرائی تنہائی ، تنہائی کوٹھوں پر یوں سیر کو نکلی ہیں کس کی آشائیں نچلی منزل والوں سے کہہ دو اوپر مت آئیں تھک جائیں تو بھیگی آنکھوں سے تلوے سہلائیں گھورتی ہے گہرائی تنہائی ، تنہائی روما کی دیواروں سے رِستی ہے خون کی مَے سیزر کو جب مار چکو، بولو سیزر کی جَے مصر کے مردہ خانوں میں اک ممّی بول رہی ہے ہنستا ہے سودائی تنہائی ، تنہائی وقت کی نیلی جھیل میں اُٹھّا لمحوں کا طوفان انسانوں سے آن ملیں گے پھر واپس انسان صحرا کے سینے میں جاگے آس کے نخلستان دشت میں آندھی آئی تنہائی ، تنہائی ۵۲۔۱۹۵۱ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ23 13۔ چراغِ دشت کی لو ہِل گئی ہے چراغِ دشت کی لو ہِل گئی ہے سواری دل کی بے منزل گئی ہے بڑی بے کیف تھی شامِ غریباں تم آئے ہو تو جیسے ِکھل گئی ہے جو اُٹھّی ہے کبھی مجبور ہو کر صدائوں میں صدا گُھل مِل گئی ہے تری محفل میں میری نگہِ گستاخ جھگڑنے آئی تھی قائل گئی ہے اسے اس کی شہنشاہی مبارک مجھے میری فقیری مل گئی ہے کوئی ڈوبا نہ ہو دریا میں مضطرؔ! بڑی خلقت سوئے ساحل گئی ہے ۱۹۵۴ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ24 14۔ ہجومِ رنگ سے گھبرا گئی ہے ہجومِ رنگ سے گھبرا گئی ہے صبا گلشن سے باہر آ گئی ہے بھنور سے پڑ گئے خاموشیوں میں صداؤں سے صدا ٹکرا گئی ہے غمِ دوراں کے دھندلے غمکدوں میں تری تصویر بھی دھندلا گئی ہے ستاروں کے کنارے گِھس گئے ہیں اُجالوں کی نظر پتھرا گئی ہے گوالے رک گئے ہیں راستوں میں یہ کس سے روٹھ کر رادھا گئی ہے غریبِ شہر نے کس کو پکارا بڑی گہری خموشی چھا گئی ہے تمنّا کی پری سپنے میں مضطرؔ! سہاروں کی جبیں سہلا گئی ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ25۔26 15۔ وہ بولتا ہے تو سارا جہان بولتا ہے وہ بولتا ہے تو سارا جہان بولتا ہے زمین بولتی ہے، آسمان بولتا ہے رِہائی ملتی ہے آواز کو اسیری سے ہزار سال کے بعد آسمان بولتا ہے صدا اسی کی ہے لیکن ازل کے گنبد میں کبھی مکان، کبھی لامکان بولتا ہے وہ ایسے بول رہا ہے وجود میں میرے کہ جیسے مالکِ کون و مکان بولتا ہے دل و نگاہ کے عیسیٰ ہیں گوش بر آواز سرِ صلیب کوئی ہم زبان بولتا ہے خموش بیٹھے ہیں دونوں اُجاڑ کمرے میں نہ میزبان نہ کچھ میہمان بولتا ہے جھگڑ رہے ہیں ہوا سے کواڑ کمروں کے مکین جاگ رہے ہیں، مکان بولتا ہے کوئی تو ہے جو کھڑا ہے صدا کے پہلو میں مَیں بولتا ہوں تو یہ درمیان بولتا ہے عدو سے کرتا ہوں اب گفتگو اشاروں میں مَیں اس کی اور وہ میری زبان بولتا ہے تمام شہر ہے قائل تری صداقت کا یہ اور بات ہے اک بدگمان بولتا ہے سفر پہ جب بھی نکلتا ہے باوضو ہو کر نماز پڑھتا ہے لمحہ، اذان بولتا ہے یہ کون گزرا ہے صحرا پہ منکشف ہو کر قدم قدم پہ قدم کا نشان بولتا ہے ازل کی دھوپ کو سر پر سجا تو لوں مضطرؔ! مگر وجود کا یہ سائبان بولتا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ27 16۔ مضطرؔ جی! اک کام کرو نا مضطرؔ جی! اک کام کرو نا صبح کو رو رو شام کرو نا دل کو بھی سمجھاؤ نا٭، اس سے تفہیم و افہام کرو نا آپ ہی اپنے خط کو پڑھ کر اپنی نیند حرام کرو نا دوست نہیں دشمن بن جاؤ اتنا تو اکرام کرو نا مجھ کو تو کافر ٹھہرایا خود ترکِ اسلام کرو نا میرا نام چرانے والو! واپس میرا نام کرو نا لفظ اپنا منصب پہچانیں لفظوں کو الہام کرو نا آنکھیں دیں، آئینے بخشے چہرے بھی انعام کرو نا شہر پناہ کو ڈھانے والو! مَلبہ بھی نیلام کرو نا عیب تراشو! غیب شناسو! تم بھی کبھی آرام کرو نا ہم مجبوروں کا بھی مضطرؔ! ذکر برائے نام کرو نا ٭…صوتی مجبوری چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ28 17۔ اتنی مجبوریوں کے موسم میں اتنی مجبوریوں کے موسم میں جشن برپا ہے دیدۂ نم میں منسلک بھی ہیں رشتۂ غم میں فاصلے بھی ہیں کس قدر ہم میں آسمان اور زمین کا ہے فرق درد میں اور دردِ پیہم میں ہجر کی شب ہی وصل کی شب ہے یعنی رمضان ہے محرَّم میں ایک ترتیب ہے پسِ پردہ پیچ در پیچ زلفِ برہم میں رنگ و بو اور دل کشی کے سوا پھول کا خون بھی ہے شبنم میں دمِ عیسیٰ ہے معجزہ کس کا کس کی پاکیزگی ہے مریم میں بھول جاؤں مَیں راستہ اے کاش! زلف ِجاناں کے پیچ اور خم میں زخم بھرنے لگے ہیں، یاروں نے کچھ ملا نہ دیا ہو مرہم میں ہو گیا کون زندۂ جاوید خون کس کا ہے ساغرِ جم میں جس سے پوچھو وہی فرشتہ ہے کیا کوئی آدمی نہیں ہم میں! میرے مالک! کوئی بشارت دے دل کی تبدیلیوں کے موسم میں یہ رہِ مستقیم ہے مضطرؔ! دائرہ ہے جو زلف کے خم میں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ29۔30 18۔ ہم نے جب دو چار غزلیں گائیاں ہم نے جب دو چار غزلیں گائیاں اَور گہری ہو گئیں گہرائیاں ہجر کی شب کیسی کیسی صورتیں ہم سے تنہائی میں ملنے آئیاں رات پروانوں کو جلتا دیکھ کر شمع خود لینے لگی انگڑائیاں دل جلے اچھے بھلے خاموش تھے بات کی تو بڑھ گئیں تنہائیاں کوچہ و بازار میں برسا لہو بادلوں کی رُت میں آنکھیں آئیاں افتاں و خیزاں چلے تیری طرف راستے میں ٹھوکریں بھی کھائیاں دشمنوں سے دشمنی بھی چھوڑ دی دوستوں کی گالیاں بھی کھائیاں ہم پہ ہیں سایہ فگن اس دھوپ میں اب بھی تیرے پیار کی پرچھائیاں اب بھی تیریؐ یاد سے آباد ہیں شہرِ جسم و جان کی پہنائیاں تیریؐ سچائی کی ہیں حلقہ بگوش سب پرانی اور نئی سچائیاں کیسی کیسی عزّتوں میں ڈھل گئیں کیسی کیسی ذلّتیں، رُسوائیاں ہم نے دیکھا ظلم بھی، انصاف بھی ہم نے ہر حالت میں غزلیں گائیاں ہم کو جنّت سے نہ دوزخ سے غرض ہم ہیں تیرے نام کی سودائیاں اب کوئی حسرت نہیں، تیری قسم! ہم نے منہ مانگی مرادیں پائیاں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ31 19۔ زیرِ لب کہیے، برملا کہیے زیرِ لب کہیے، برملا کہیے کہیے کہیے مجھے برا کہیے اب تقاضا ہے مصلحت کا یہی واعظِ شہر کو خدا کہیے دیکھیے مت قریب سے مجھ کو دُور سے تکیے، پارسا کہیے میرا اپنا کوئی وجود نہیں عکس مجھ کو وجود کا کہیے لفظ لڑنے کو اب بھی ہیں تیار اس سے کیا ہو گا فائدہ، کہیے وہ جو آ کر چلا گیا لمحہ اس کو صدیوں کا خوں بہا کہیے عکس بن کر اُتر رہا ہوں مَیں میری آہٹ کو زلزلہ کہیے قاتلِ شہر میرے قتل کے بعد مجھ کو اپنا کہے تو کیا کہیے بر سرِ دار بھی خموش رہا اس کو مضطرؔ کا حوصلہ کہیے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ32 20۔ بچّہ سچا کیوں لگتا ہے بچّہ سچا کیوں لگتا ہے اتنا اچھّا کیوں لگتا ہے سورج ڈوبنے لگتا ہے جب سایہ لمبا کیوں لگتا ہے کیوں آواز نہیں سنتا ہے گنبد بہرا کیوں لگتا ہے بوڑھا تو بوڑھا ہے لیکن بچہ بوڑھا کیوں لگتا ہے تیرا نام لکھوں تو کاغذ اُجلا اُجلا کیوں لگتا ہے تن کر چلتا ہے جب انساں اتنا چھوٹا کیوں لگتا ہے مر جاتا ہے مرنے والا پھر بھی زندہ کیوں لگتا ہے اتنے تاروں کے جھرمٹ میں چاند اکیلا کیوں لگتا ہے منزل تو آباد ہے لیکن رستہ سُونا کیوں لگتا ہے اتنی مہنگائی کی رُت میں انساں سستا کیوں لگتا ہے اپنا تو اپنا ہے مضطرؔ! غیر بھی اپنا کیوں لگتا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ33 21۔ اندھیرا روشنی سے ڈر رہا ہے اندھیرا روشنی سے ڈر رہا ہے مگر سورج کا چرچا کر رہا ہے تمھارے نام کا تھا ذکر جس میں وہ مضموں سب سے بالا تر رہا ہے مبارک ہو ہمیں الفت کا الزام یہ سہرا بھی ہمارے سر رہا ہے صدی کے سر پہ جو ابھرا ہے دُھل کر وہ چہرہ آنسوؤں سے تر رہا ہے وہی زندہ رہے گا درحقیقت جو لمحہ مسکرا کر مر رہا ہے دلِ ناداں کو بھی اب قتل کر دو یہی اک شہر میں کافر رہا ہے عدو جو بن رہا ہے آج اپنا یہ کل تک غیر کا دلبر رہا ہے علیُّ المرتضیٰؓ کے شہسوارو! وہ دیکھو سامنے خیبر رہا ہے چھلک جائے گا وقت آنے پہ مضطرؔ! یہ برتن قطرہ قطرہ بھر رہا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ34 22۔ زمیں کا زخم بھی اب بھر رہا ہے زمیں کا زخم بھی اب بھر رہا ہے نہ دلّی ہے، نہ امرتسر رہا ہے رہا ہے تو ہمارے قتل کے بعد ہمارا ذکر ہی اکثر رہا ہے یہ کمرہ جس سے خوشبو آ رہی ہے ہمارے یار کا دفتر رہا ہے صداقت سامنے عریاں کھڑی ہے وہ آئینے سے جھگڑا کر رہا ہے پگھلنے کی اسے فرصت نہیں ہے یہ پتھر عمر بھر پتھر رہا ہے اسے چالاکیاں آتی نہیں ہیں وہ اکثر شہر سے باہر رہا ہے وہؐ پیاسوں کی اذیّت کا ہے محرم وہ صحراؤں سے ہم بستر رہا ہے اسے معلوم ہے ردّی کا بھاؤ وہ اخباروں کا سوداگر رہا ہے کسی کو اب شکایت ہے نہ شکوہ ہم اپنے گھر، وہ اپنے گھر رہا ہے یہ آنسو جس کو آنسو کہہ رہے ہو یہی تو آنکھ کا زیور رہا ہے محبت ہو گئی ہے تجھ سے مضطرؔ! تو کس محبوب کا نوکر رہا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ35۔36 23۔ گھر کے کواڑ زیرِ زباں بولنے لگے گھر کے کواڑ زیرِ زباں بولنے لگے مالک چلے گئے تو مکاں بولنے لگے دشمن اگر ہماری زباں بولنے لگے بجھ جائے آگ اور دھؤاں بولنے لگے سورج چلا گیا تو اُتر آئی چاندنی پلکوں پہ روشنی کے نشاں بولنے لگے وہ سنگدل بھی کوئے ندامت میں جا بسا پتھر بھی پانیوں کی زَباں بولنے لگے پہلے خلائے جاں میں خموشی رہی مگر پھر یوں ہؤا کہ کون و مکاں بولنے لگے نمرود نے جلائی تھی جو آگ، بجھ گئی آزردگانِ آذرِ جاں بولنے لگے پانی اُتر گیا تو نظر آئے فاصلے ساحل سمندروں کی زباں بولنے لگے دشتِ جنوں میں عقل کا سیلاب آ گیا اندیشہ ہائے سود و زیاں بولنے لگے بیتے ہوئے دنوں سے نہ سرگوشیاں کرو ایسا نہ ہو کہ عمرِ رواں بولنے لگے کس کی مجال تھی کہ سرِ دار بولتا بولے ہیں ہم تو تم بھی میاں! بولنے لگے مضطرؔ! ضمیرِ لفظ کے سُونے مکان میں وہ حبس تھا کہ وہم و گماں بولنے لگے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ37 24۔ تیرے کوچے میں بکھر جاؤں اگر! تیرے کوچے میں بکھر جاؤں اگر! حادثہ اک یہ بھی کر جاؤں اگر! اپنی غزلوں کو سجا کر طشت میں تیرے دروازے پہ دھر جاؤں اگر! عہد کی تصویر کو کر کے خفا اس میں کوئی رنگ بھر جاؤں اگر! مَیں ترا ہی عکس ہوں لیکن ترے پاس سے ہو کر گزر جاؤں اگر! واپس آ جاؤں مَیں اپنے آپ میں اپنی آہٹ سے نہ ڈر جاؤں اگر! کیوں بُلا بھیجا تھا اتنے پیار سے اب کبھی واپس نہ گھر جاؤں اگر! تجھ سے ملنا تو انوکھی بات ہے خود سے مل کر بھی مُکر جاؤں اگر! حادثہ ہو جائے شہرِ ذات میں اس ٹریفک میں ٹھہر جاؤں اگر! کوئی سمجھے گا نہ اب میری زباں لَوٹ کر بارِ دگر جاؤں اگر! عقل کے میدان میں کھا کر شکست عشق کی بازی بھی ہر جاؤں اگر! جی اُٹھوں مضطرؔ! ہمیشہ کے لیے مسکرا کر آج مر جاؤں اگر! چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ38 25۔ اپنے اندر کی بھی سیاحت کر اپنے اندر کی بھی سیاحت کر کبھی اپنی طرف بھی ہجرت کر اپنے اندر کے آدمی سے مِل اس ملاقات کی بھی صورت کر بوریت کچھ تو دُور ہو جائے میرے دشمن! کوئی شرارت کر دل میں محسوس کر اسے، لیکن دیکھنے کی کبھی نہ جرأت کر منطقُ الطَّیر بخشنے والے! پرِ پرواز بھی عنایت کر بول اے معترض! خموش ہے کیوں کوئی خود ساختہ روایت کر ہر کسی کو نظر نہ آیا کرے اپنی تصویر کو نصیحت کر موت کے بعد بھی نہ بھول ہمیں قبر میں بھی نہ استراحت کر اپنی صورت سے باخبر بھی رہ آئنہ دیکھنے کی عادت کر تیرا مسلک اگر محبت ہے اپنے دشمن سے بھی محبت کر عشق میں مصلحت نہیں ہوتی عشق کر اور بے ضرورت کر جا رہا ہوں سفیرِ دل بن کر مجھ کو عزّت کے ساتھ رخصت کر اشک در اشک روح کوبھی کھنگال اُٹھ کے راتوں کو غسلِ صحّت کر بخش دے تو مجھے بغیرِ حساب مَیں نہیں کہہ رہا رعایت کر عقل کے ہاتھوں تنگ ہے مضطرؔ دلِ ناداں! کوئی حماقت کر چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ39۔40 26۔ تلاشِ منزل تلاشِ منزل سرابِ ریگِ رواں کے سینے پہ چند ٹوٹے ہوئے سفینے ضمیر کی الجھنوں کی رت میں جہاں پہ روکا تھا چاندنی نے نظر کے دامن کی آڑلے کر سکوتِ صحرا میں چھپ گئے ہیں صداؤں کے ساز پر کسی نے ہزار لفظوں کے بند باندھے ڈھلک گئے ریتلے کنارے چھلک گئے غم کے آبگینے سرکتے،کروٹ بدلتے صحرا کے رخ پہ پھیلی ہوئی لکیریں زمیں کے ماتھے پہ جھرّیاں ہیں کہ ذہنِ ماضی ضمیرِ صحر ا پہ وقت کے پاؤں کے نشاں ہیں یہی نشاں ہیں کہ جن کے بل پر دلوں کے آذر نظر کے زرگر ازل کے بے کار غم کے فن کار فرطِ غم سے فنا کے مندر میں ریت کے بت بنارہے ہیں نہ بت بنے ہیں نہ بت پرستی صنم تراشی سے رک سکے بت بنانے والے ہزاروں رہزن کروڑوں راہی تلاشِ منزل میں بت کدوں کے کواڑوں کو کھٹکھٹا رہے ہیں تھلوں میں جذبات کے بگولے ہوس کے جھکّڑ چلے عبادت گزار بن کر بدن کے رہزن بھی ڈرتے ڈرتے پجاریوں کا لباس اوڑھے صنم کدوں سے کسی بہانے بتوں کے زیور لہو کے دانے نہ جانے کیسے اتار لائے غبارِ فردا کے سائے میں آرزو کی مورت غموں کی دیوی اسی پجاری کی منتظر ہے کہ جس کے غم میں نگاہِ گردابِ گردِ ماضی کفِ تمنا کے بھوج پترّ پہ زائچے سے بنا رہی ہے یہ ان گنت باوقار ٹیلے دُھلی ہوئی ریت کے سپاہی ہوا وصحرا کے نیک راہب خموش ساحر ذہین بوڑھے خیال کے سارباں ازل کے امیں ستاروں کے رازداں یوں ٹھٹک گئے ہیں کہ جیسے حیران ہوگئے ہوں جمال کی نیلگوں فضا میں نظر کے طائر کئی مہینوں سے تک رہے ہیں اداس تنہا امید کی کہکشاں پہ زینے لگاؤ شاید دکھائی دے دیں سرابِ ریگِ رواں کے سینے پہ چند ٹوٹے ہوئے سفینے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ41 27۔ مجھ کو مرے روبرو نہ کرنا مجھ کو مرے روبرو نہ کرنا اتنا بے آبرو نہ کرنا پہچان نہیں سکو گے چہرے آئینوں کی آرزو نہ کرنا خواہش کے قفس میں رہنے والو! تزئینِ قفس کی خو نہ کرنا جس بات پہ عقل کا ہو اِصرار اے دل! اسے ہُوبہو نہ کرنا معلوم ہیں اس کو راز سارے دیوار سے گفتگو نہ کرنا آنسو ہوں اگر تمھیں میسّر پانی سے کبھی وضو نہ کرنا یوسف کی قمیض کا ہوں مَیں چاک لِلّٰہ! مجھے رفو نہ کرنا آنکھوں کا تو فرض ہے کہ دیکھیں آنکھوں کا گلہ کبھو نہ کرنا فرقت میں یہ حال ہو گیا ہے کرنا کبھی گفتگو نہ کرنا رو رو کے فراقِ والدہ میں دامن کو لہو لہو نہ کرنا مَیں اپنی تلاش کو چلا ہوں مضطرؔ! مری جستجو نہ کرنا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ42 28۔ فرقت کو وصال کر دیا ہے فرقت کو وصال کر دیا ہے تو نے تو نہال کر دیا ہے آنسو ہی نہیں مریضِ دل کو ہر زہر اُبال کر دیا ہے یہ دین ہے تیری دینے والے! جو غم بھی ہے پال کر دیا ہے اتنا تو کیا ہے تو نے قاتل! اظہارِ مَلال کر دیا ہے دشنام بھی دی ہے مسکرا کر پتھّر بھی اُچھال کر دیا ہے اس کو مرے راستے میں رکھ دو کانٹا جو نکال کر دیا ہے فرہاد کا رک گیا ہے تیشہ پتھّر نے سوال کر دیا ہے ہم نے سرِ دار مسکرا کر مشکل کو محال کر دیا ہے چپکے سے چلا گیا بچھڑ کر مضطرؔؔ نے کمال کر دیا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ43۔44 29۔ دل دیا ہے تو اب اتنا کر دے دل دیا ہے تو اب اتنا کر دے اس کو کچھ اَور کشادہ کر دے بھر نہ جائے کہیں سہلانے سے زخم کو اَور بھی گہرا کر دے کہیں ایسا نہ ہو میرا سایہ تیری تصویر کو دھندلا کر دے پھر پسِ پردۂ گردِ ایّام کوئی لمحہ نہ اشارہ کر دے مَیں ہوں شرمندۂ خوابِ غفلت مر چکا ہوں، مجھے زندہ کر دے بھول جائے نہ مرا نام مجھے اس کو الزام پہ کندہ کر دے فرطِ حیرت سے کہیں آئینہ تیری صورت کو نہ سجدہ کر دے چڑھ بھی اے آنکھ کے سچّے سورج! اب تو پلکوں پہ اُجالا کر دے مل نہ جائے کہیں آوازوں میں میری آواز کو رُسوا کر دے مجھ کو ڈر ہے کہ یہ میرا آنسو تیرے دامن کو نہ مَیلا کر دے مَیں تجھے دل تو دکھا دوں مضطرؔ! تو اگر اس کا نہ چرچا کر دے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ45۔46 30۔ پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے مَیں برا ہوں مجھے ا ّچھا کر دے کہیں ایسا نہ ہو کوئی لمحہ تجھ کو ُچھو کر تجھے تنہا کر دے لفظ مر جائے اگر بچپن میں اس کا وارث کوئی پیدا کر دے بخش دے میری علامت مجھ کو میرے سر پر مرا سایہ کر دے رنگ و بو بانٹ دے اس سے لے کر پھول کے بوجھ کو ہلکا کر دے مَیں ہوں آلودۂ گردِ غفلت مجھ کو چُھو کر مجھے اُجلا کر دے مَیں بکھر جاؤں تو مجھ کو چن کر اپنے آنگن میں اکٹھا کر دے مجھ کو ڈر ہے کہ مری خاموشی کوئی تجھ سے نہ تقاضا کر دے آج کی صبح ہے صبحِ صادق آج ہر خواب کو ّسچا کر دے مَیں بھی پہچان لوں خود کو شاید میری جانب مرا چہرہ کر دے چھین کر اشک سے اس کی آواز اور بھی اس کو ّنہتا کر دے مجھ کو ڈر ہے کہ سرِ بزمِ ’’ادب‘‘ تو کہیں ذکر نہ میرا کر دے آئنے ٹوٹ نہ جائیں مضطر!ؔ دل کی دیوار کو سیدھا کر دے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ47۔48 31۔ گلشن سے وہ جب نکل رہا تھا گلشن سے وہ جب نکل رہا تھا جو پیڑ تھا ہاتھ مل رہا تھا پروا تھی نہ اس کو ڈر کسی کا سورج سرِ عام ڈھل رہا تھا غصّے کو تو پی چکا تھا پاگل اشکوں کو بھی اب نگل رہا تھا نادان تھا اس قدر کہ اب بھی ماضی کے لیے مچل رہا تھا آیا تھا سمندروں سے مل کر ساحل کی طرح سنبھل رہا تھا منزل بھی قریب آ گئی تھی رستہ بھی لہو اُگل رہا تھا چہرے تو بدل چکے تھے سارے منظر ہی نہیں بدل رہا تھا آیا تھا پہاڑ سے اُتر کر صحرا میں جو پھول جل رہا تھا اس کو بھی وہ لے گیا چُرا کر دھرتی پہ یہی کنول رہا تھا اوپر سے وہ ہو رہا تھا ناراض اندر سے مگر پگھل رہا تھا اس درد سے دے رہا تھا دستک دروازوں کے دل بدل رہا تھا اک آگ لگی ہوئی تھی دل میں کب سے یہ مکان جل رہا تھا مضطرؔ کو وہ یاد کیسے رہتا خطرہ بھی تو صاف ٹل رہا تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ49۔50 32۔ مَیں ہی تو نہیں پگھل رہا تھا مَیں ہی تو نہیں پگھل رہا تھا اس کا بھی لباس جل رہا تھا وہ جا بھی چکا تھا مجھ سے مل کر مَیں تھا کہ ابھی سنبھل رہا تھا گلشن کا نہ تھا قصور اس میں موسم ہی نہیں بدل رہا تھا اس شور زمیں میں پیڑ غم کا جیسا بھی تھا پھول پھل رہا تھا فرقت کا نہیں تھا داغ دل میں صحرا میں چراغ جل رہا تھا دریا کو تھا پی چکا سمندر ساحل کو بھی اب نگل رہا تھا جنت کا شجر تھا اور اس کے سائے میں گناہ پل رہا تھا مَیں ہی تو نہیں تھا اپنے ہمراہ تو بھی مرے ساتھ چل رہا تھا آیا تھا میں آئنوں سے مل کر زخمی تھا مگر سنبھل رہا تھا دل تھا کہ اسے قریب پا کر بچّوں کی طرح مچل رہا تھا رونا تو وہ چاہتا تھا لیکن آنسو ہی نہیں نکل رہا تھا سردی تھی کہ بڑھ رہی تھی مضطرؔ! سورج تھا کہ پھر بھی ڈھل رہا تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ51 33۔ آدھی رات کے آنسو! ڈھل آدھی رات کے آنسو! ڈھل ڈھل، میری تقدیر بدل کھل کے َبرس اے دَل بادل! دُھل جانے دے نین کنول سوہنا،سُچا اور شیتل آنسو ہے یا گنگاجل عمر کے سورج! ہولی چل ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتے ڈھل حسنِ ازل! لہرا آنچل گیسوئے جاناں! پنکھا جھل ہٹ جا میرے رستے سے ٹل تقدیرِ مبرم! ٹل انگارے بن جائیں پھول جلنا ہے تو اتنا جل ان کی ضد بھی پکّی ہے فیصلہ میرا بھی ہے اٹل جاگ اٹھے ہیں کشمیری جلنے لاگا حضرت بل چشمِ زدن میں راکھ ہوئے کیسے کیسے خواب محل اچھے بھلے انسانوں کے ہوش حواس ہوئے مختل حشر بپا ہے گلیوں میں ایسے میں گھر سے نہ نکل سنّاٹا یہ کہتا ہے لب سی لے اور اشک نگل لگتا ہے اَن ہونی بھی ہو کے رہے گی آج یا کل فیض ہے جاناں کا ورنہ کیا مضطرؔ، کیا اس کی غزل ۱۱؍دسمبر،۱۹۹۷ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ52 34۔ روح کے جھروکوں سے اذنِ خودنمائی دے روح کے جھروکوں سے اذنِ خودنمائی دے مجھ کو بھی تماشا کر، آپ بھی دکھائی دے اشک ہُوں تو گرتے ہی ٹوٹ کر بکھر جاؤں شور میرے گرنے کا دُور تک سنائی دے تونے دردِ دل دے کر میری سرفرازی کی تو ہی درد کے داتا! درد سے رہائی دے لخت لخت ہو کر مَیں منتشر نہ ہو جاؤں ایک ذات کے مالک! ذات کی اکائی دے پور پور تنہائی، انگ انگ سنّاٹا جس طرف نظر اُٹھّے فاصلہ دکھائی دے بولنے کی ہمت دے بے صدا مکانوں کو اب تو بے زبانوں کو اذنِ لب کشائی دے یا نہ کھٹکھٹانے دے اَور کوئی دروازہ یا نہ ہم فقیروں کو کاسہء گدائی دے اپنی بے نگاہی پر عرق عرق ہوں مضطرؔ! روح بھی ہے شرمندہ، جسم بھی دہائی دے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ53 35۔ وہ اسم اگر تحریر کروں وہ اسم اگر تحریر کروں اسے پلکوں سے تصویر کروں چڑھ جاؤں ستم کی سولی پر کوئی جینے کی تدبیر کروں مَیں اندر باہر سے دُھل کر جس کو چھو دوں، اکسیر کروں صدیوں کی ہجر حکایت کو دل دامن پر تحریر کروں جب صدیاں لمحے بن جائیں مَیں لمحوں کو زنجیر کروں وہ میرا ہے، مَیں اس کا ہوں کیوں فکر کو دامن گیر کروں سچا ہوں اگر تو خوف ہے کیا کوئی ’’جرم‘‘ ، کوئی ’’تقصیر‘‘ کروں آیت کی طرح اس چہرے کو پڑھ لوں تو کوئی تفسیر کروں اسی صورتِ زیبا کو چاہوں اس زلف کی آنکھ اسیر کروں اس پھول کے رنگ اعلان کروں اور خوشبو کی تشہیر کروں وہ خواب جو اُس نے دیکھا تھا اس خواب کی کیا تعبیر کروں اس خواب کے پورا ہونے تک کوئی خواب محل تعمیر کروں ممکن ہے کہ پردہ اٹھنے تک دوچار گھڑی تاخیر کروں ہو اذن تو اپنی غزلوں کو مستقبل کی جاگیر کروں مَیں پیار کی دولت بانٹتا ہوں مجھے حکم ہے دل تسخیر کروں شاید کوئی سننے والا ہو صحرا میں کھڑا تقریر کروں وہ رہبرِ کامل عہد کا ہے مضطرؔ! مَیں جس کو پیر کروں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ54 36۔ اشک چشمِ تر میں رہنے دیجیے اشک چشمِ تر میں رہنے دیجیے گھر کی دولت گھر میں رہنے دیجیے رِیت کی خوشبو، روایت کی مہک راہ کے پتھر میں رہنے دیجیے کوئی نامحرم نہ اس کو دیکھ لے چاند کو چادر میں رہنے دیجیے گھر کی تصویریں نہ ہو جائیں اداس آئینوں کو گھر میں رہنے دیجیے مَیں اگر سقراط ہوں، میرے لیے زہر کچھ ساغر میں رہنے دیجیے راہ میں کانٹے بچھا دیجے، مگر پھول پس منظر میں رہنے دیجیے کچھ نہ کچھ تو فرق بہرِ امتیاز پھول اور پتھر میں رہنے دیجیے آپ مضطرؔ! جایئے لیکن ہمیں کوچۂ دلبر میں رہنے دیجیے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ55 37۔ بات سنتے نہ بات کرتے ہو بات سنتے نہ بات کرتے ہو کس قدر احتیاط کرتے ہو سچ کہو! انتظار کس کا ہے صبح کرتے نہ رات کرتے ہو عقل کے بھی ہو زر خرید غلام عشق بھی ساتھ ساتھ کرتے ہو ہاتھ جاناں کے ہاتھ میں دے کر کیوں غمِ پُل صراط کرتے ہو چاہتے کیا ہو؟ کھل کے بات کرو کیوں اشاروں میں بات کرتے ہو اب وہ پہلی سی نوک جھونک نہیں اب نہ وہ التفات کرتے ہو پہلے اس کا جواز ڈھونڈتے ہو پھر کوئی واردات کرتے ہو جب بھی کرتے ہو قتل مضطرؔ کا سرِ نہرِ فرات کرتے ہو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ56 38۔ موت ہے نہ حیات ہے یارو! موت ہے نہ حیات ہے یارو! ایک مولیٰ کی ذات ہے یارو! ہاتھ میں جس کے ہاتھ ہے یارو! وہ بڑا خوش صفات ہے یارو! جا رہی ہے جو شہرِ جاناں کو یہی راہِ نجات ہے یارو! آج بھی دشت کے مسافر پر بند نہرِ فرات ہے یارو! چن لیا اس نے ہم فقیروں کو ’’اپنی اپنی برات ہے یارو!‘‘ پھر وہی دن ہیں اور وہی راتیں "پھر وہی التفات ہے یارو"! آج کا دن ہے وصلِ یار کا دن آج کی رات، رات ہے یارو! چھٹنے والے ہیں ظلم کے بادل ایک دو دن کی بات ہے یارو! ہر قدم احتیاط سے رکھنا ہر قدم پل صراط ہے یارو! کس لیے موت سے ڈراتے ہو موت بھی تو حیات ہے یارو! اپنے بیگانے سب خلاف سہی یار تو اپنے ساتھ ہے یارو! عشق کی جیت ہونے والی ہے عقل کی بازی مات ہے یارو! عقل کیا زیست کی خبر دے گی یہ تو خود بے ثبات ہے یارو! آؤ مضطرؔ کا ذکرِ خیر کریں مر کے بھی جو حیات ہے یارو! چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ57۔58 39۔ کانٹا سا کھڑا ہے کوئی بن میں کانٹا سا کھڑا ہے کوئی بن میں "کاٹو تو لہو نہیں بدن میں" آہستہ خرام بلکہ مخرام پھولوں کے ہیں مقبرے چمن میں سولی پہ سوار ہے زمانہ گل ہیں کہ مگن ہیں اپنے من میں پرچم ہے یہ دل کی مملکت کا تیشہ نہیں دستِ کوہکن میں آنسو کو سجا لیا مژہ پر پتھر کو پرو لیا کرن میں صدیوں کی صلیب بھی اٹھا لی لمحوں کو لپیٹ کر کفن میں چہروں کی لیے اجاڑ چادر آئے ہیں اسیر انجمن میں زخموں کے کواڑ بند کر لیں اتنی بھی سکت نہیں بدن میں مطرب سے کہو غزل سنائے تلخی ہے نہ کیف ہے سخن میں ہم بھی کبھی فاتحانہ مضطرؔ! جائیں گے دیارِ برہمن میں (سقوطِ ڈھاکہ) چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ59۔60 40۔ بات رانجھے کی نہ قصّہ ہیر کا بات رانجھے کی نہ قصّہ ہیر کا ذکر ہے اک خواب کی تعبیر کا پیرہن جلنے لگا تصویر کا ہر طرف ہے شور دار و گیر کا کس نے دستک دی درِ انصاف پر سلسلہ ہلنے لگا زنجیر کا آئنہ در آئنہ در آئنہ جمگھٹا ہے ایک ہی تصویر کا پھر قسم زیتون کی کھائی گئی ذکر پھر ہونے لگا انجیر کا آئنے کی طرح چکنا چور ہے کوئی رُخ ثابت نہیں تصویر کا گھر کی باہر سے سفیدی ہو گئی فائدہ اتنا ہؤا تعزیر کا مجھ کو سولی دی گئی آواز کی مَیں شہیدِ وقت ہوں تقریر کا مجھ کو بھی کچھ تجربہ ہے عشق کا مَیں بھی زخمی ہوں نظر کے تیر کا مجھ سے بھی کر لیجیے گا مشورہ آئنہ بردار ہوں تقدیر کا اس کو میرا کفر لوٹایا گیا وہ جو شائق تھا مری تکفیر کا ناقۃُ اللّٰہ کو ستایا بے سبب کاٹنا چاہا شجر انجیر کا آئینے کا بال رہنے دیجیے فکر کیجے آنکھ کے شہتیر کا تھوڑے ہو کر بھی نہ ہم تھوڑے لگے معجزہ ہم کو ملا تکثیر کا دی جگہ مجھ کو فرازِ دار پر معترف ہوں دل سے اس توقیر کا میرا قاتل بچ کے جا سکتا نہیں مجھ سے وعدہ ہے یہ میرے پیر کا میرے کاٹے کا نہیں کوئی علاج مجھ کو آتا ہے عمل تسخیر کا مَیں تمھیں کر کے تہِ دل سے معاف تم سے بدلہ لوں گا اس تحقیر کا ٹوٹ ہی جائے گا مضطرؔ! ایک دن سلسلہ اس جرمِ بے تقصیر کا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ61۔62 41۔ عشق اس کے عہد میں بے دست و پا ہو جائے گا عشق اس کے عہد میں بے دست و پا ہو جائے گا آنکھ استنبول، سینہ قرطبہ ہو جائے گا میری قسمت کی لکیریں دیکھ کر کہنے لگا یہ لکیریں مل گئیں تو حادثہ ہو جائے گا ایک ہی بسترمیں ہیں سوئے ہوئے بستی کے لوگ صبح جاگیں گے تو باہم فاصلہ ہو جائے گا وہ گئے دن کا مسافر ہے، اسے ملتے رہو ذکرِ منزل بر سبیلِ تذکرہ ہو جائے گا رات لمبی ہے تو باہم گفتگو کرتے رہو بات چل نکلی تو بہتوں کا بھلا ہو جائے گا کس لیے شرما رہے ہو آزما کر دیکھ لو وہ بڑا زود آشنا ہے، آشنا ہو جائے گا ہر طرف آنکھیں ہیں اس کی راہ میں لیٹی ہوئی آئے گا تو آئنہ در آئنہ ہو جائے گا سربریدہ لفظ ہم سے رات یہ کہنے لگے اب نہ بولو گے تو کاغذ کربلا ہو جائے گا ان بھری گلیوں میں پھرتا رَہ، اسی میں خیر ہے اپنے اندر جا چھپا تو لاپتا ہو جائے گا جب سرِ عہدِ وفا صدیاں جھنجھوڑی جائیں گی وقت کی زنجیر سے لمحہ رِہا ہو جائے گا دامنِ آواز بھر جائے گا میرے خون سے آستیں خوش رنگ، چہرہ خوش نما ہو جائے گا عشق تولا جائے گا جب موت کی میزان میں حسنِ بے پروا بھی مصروفِ دعا ہو جائے گا مَیں صلیبِ لفظ پہ چڑھ جاؤں گا ہنستا ہؤا یہ پرانا قرض بھی آخر ادا ہو جائے گا وہ مری آواز کا قاتل بھی ہے، مقتول بھی میرا اس کا آج کل میں فیصلہ ہو جائے گا کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا عہدِ بے آواز میں ہم جدا ہو جائیں گے یا وہ جدا ہو جائے گا پھر خدائی کا کیا دعویٰ کسی فرعون نے پھر سرِ دربار کوئی معجزہ ہو جائے گا اکثریت کا جو تم نے سانپ تھا پالا ہؤا کیا خبر تھی بڑھتے بڑھتے اژدہا ہو جائے گا بیچ کر عزّت کو نکلا تھا وہ جس کے پھیر سے پھر اسی چکّر میں مضطرؔ! مبتلا ہو جائے گا (۸۵ ۔ ۱۹۸۴ء) چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ63۔64 42۔ وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا وہ ہنسنے کو تو ہنس رہا ہوئے گا مگر حال اس کا بُرا ہوئے گا مرا اس سے جو فاصلہ ہوئے گا مجھے بھی نہ اس کا پتا ہوئے گا وہ لمحہ جو امسال رُک کر ملا خدا جانے کب کا چلا ہوئے گا جسے میرے ایماں کا بھی علم ہے وہ جھوٹا نہیں تو خدا ہوئے گا جمائی ہے سرخی جو اخبار نے سنا اِس کو، تیرا بھلا ہوئے گا وہ آئے گا اخبار اوڑھے ہوئے عجب کاغذی سلسلہ ہوئے گا بھری بزم میں مسکرانے لگا بڑا ہی کوئی من چلا ہوئے گا وہ چپ ہو گیا عمر بھر کے لیے اسے کچھ تو مَیں نے کہا ہوئے گا خبر جس میں چھاپی گئی تھی مری وہ اخبار اب بِک گیا ہوئے گا اٹھا لیجیے آپ بھی سنگِ صوت جلوس اب قریب آ گیا ہوئے گا ابھی سے ہے مضطرؔ! تمھارا یہ حال وہ جانے لگے گا تو کیا ہوئے گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ65۔66 43۔ برف برف کتنی خاموشی ہے تنہائی ہے رات لمبی ہے کوئی بات کرو دور مت بیٹھو ، قریب آجاؤ شام کی گود میں پھر رونے لگی بادِ شمال جم گیا برف کے انفاس سے بادل کا ضمیر چاند کی شمع ہے دھندلائی ہوئی رات مدہوش، کفن پوش، خموش برف کے گالے زمستاں کے سفیر دودھیا جسم، تمنّا کے اسیر پہنے ہوئے اُجلے سماوی ملبوس بے صدا خوف کے گھوڑوں پہ سوار یوں دبے پاؤں گریزاں، ترساں غول کے غول فضا سے اُترے جیسے تنہائی میں آہٹ کی صدا وادیٔ قاف میں پریوں کا نزول یادِ ایّام کے کمخواب پہ لمحوں کا خرام قُلّۂ کوہ پہ اُترا ہے کہستاں کا غرور سرما کا سرور جیسے کافور کی شمع کا شفّاف دھؤاں وادیٔ نور کے اجلے سائے چاندنی رات کے گورے سپنے صلح کے ایلچی، سرما کے سوار قطب شمالی کے کنول کوہساروں کی کنواری کلیاں خندۂ ماہ کے پھول چاند کے ٹکڑے، گھٹا کے فانوس سدرہ و طوبیٰ کے خاموش طیور بالِ جبریل کے پاکیزہ خطوط جیسے برّاق کے پَر بادل کے بھنور ابر کی ریشِ دراز پیرِ فرتوت کی ڈھیلی دستار یادکے بگلے،تصوّر کے پرند ِچشم تحیُّر کے سوال جیسے بچپن کے خیال ٹھہری ہوئی، ٹھٹھری ہوئی منجمدنیند کی جھیل مرمریں رات کی دوشیزہ ہنسی ُطورِ اُ ّمید کے ٹھنڈے شعلے جیسے مجبور کے چہرے پہ تبسّم کا غلاف لفظوں کا لحاف باغِ فردوس میں نغموں کی گھٹا برسی ہے شدّتِ غم سے گرا نبارہے آغوشِ سحاب تھک گئے نور کے احساس سے اشجار کے ننگے بازو سوگئے برف کے پردوں میں اداسی کے ہجوم خواہش کے پہاڑ منجمد ہونٹوں سے اب روک دوسیلابِ سکوت شورِ گمنام میں کھو جائیں من وتو کے سوال سایۂ ماہ میں پروان چڑھے صبحِ سفید وقت کا احساس مٹے رات کٹے کتنی خاموشی ہے،تنہائی ہے بس وہی کوششِ گفتار وہی جنبشِ لب رات لمبی ہے کوئی بات کرو دور مت بیٹھو قریب آجاؤ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ67۔68 44۔ پروفیسرسیّدعباس بن عبدالقادر مرحوم کی شہادت پر جھگڑے ہے پھول پھول، لڑے ہے کلی کلی ہوتا ہے ان دنوں یہ تماشا گلی گلی آیت کی طرح یاد ہےّحفاظِ شہر کو چہرہ وہ بھولا بھالا، وہ باتیں بھلی بھلی یادش بخیر کتنی حسیں غم کی رات تھی یہ دو گھڑی کی بات تھی جب تک چلی، چلی بارش ہوئی تو اور بھی جلنے لگی زمیں خاکِ نجف پکار اُٹھی، مَیں جلی جلی چہروں کے زرد چاند پڑے ہیں زمین پر مٹی میں مل رہا ہے یہ سونا ڈلی ڈلی لیٹے ہوئے ہیں کبر کے سائے زمین پر جیسے ہو دوپہر بھی ستم کی ڈھلی ڈھلی وہ بے نیاز چاہے تو ساری انڈیل دے یوں جوڑنے کو جوڑے ہے بندہ پلی پلی سر پر خیالِ یار کی چادر کو تان کر چرچا کیا ہے یار کا گھر گھر، گلی گلی مقتل میں تیغ تیغ ہمِیں نے اذان دی ہم ہی نے دار دار پکارا علی علی٭ کرتے رہے ’’جھروکۂ درشن‘‘ سے گفتگو پرجا کے پاس چل کے نہ آئے مہابلی کیا چاند رات کا اسے مطلق پتا نہ تھا اس نے جو اپنی مانگ میں یہ چاندنی ملی اُتری جب آسمان سے شبنم گلاب پر خوشبو نے مسکرا کے کہا مَیں بکھر چلی خوددار، غم شناس، خطاکار، بے ہنر سب جانتے ہیں آپ کو مضطرؔ! گلی گلی ٭ … مراد اللّٰہ تعالیٰ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ69۔70 45۔ پروفیسرسیّدعباس بن عبدالقادر مرحوم کی شہادت پر احساس کو بھی جانچ، نظر کو ٹٹول بھی ماحول جل رہا ہے تو کچھ منہ سے بول بھی یوں تو ازل سے روح تھی اس کی سحر سپید وہ سروقد تھا جسم کا سُچا سڈول بھی مَیں روحِ عصر ہوں، نہ مجھے موت سے ڈرا میری ادا کو جان، مجھے ماپ تول بھی تُو کیوں تکلّفات کی سُولی پہ چڑھ گیا کافی تھے مجھ کو پیار کے دو چار بول بھی مَیں اسم ہوں تو اسم کا کچھ احترام کر سُولی پہ بھی سجا مجھےمٹی میں رول بھی دار و رسن سے ماپ مرے قد کو لاکھ بار اک بار خود کو میرے ترازو میں تول بھی چہرے تو میرِ ملک نے نیلام کر دیے کیا دیکھتا ہے، بیچ دے چہروں کے خول بھی تُو فیصلہ تو کر مگر اتنا نہ مسکرا ایسا نہ ہو کہ ڈھول کا ُکھل جائے پول بھی ہو گا اک اور فیصلہ اس فیصلے کے بعد اِترا نہ اس قدر کہ یہ دُنیا ہے گول بھی انصاف اٹھ گیا ہے، ترا خوف مٹ گیا اے ربِّ ذوالجلال و الاکرام! بول بھی مضطرؔ! لہو سے دُھل گئیں دل کی سیاہیاں سورج چڑھا ہؤا ہے، ذرا آنکھ کھول بھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ71۔72 46۔ مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا کیجیے کچھ علاج کانٹوں کا گل بھی کچھ مسکرا رہے ہیں بہت کچھ ہے برہم مزاج کانٹوں کا اک طرف مملکت ہے پھولوں کی اک طرف سامراج کانٹوں کا اک طرف پھول کی روایت ہے اک طرف ہے رواج کانٹوں کا درمیاں میں کھڑی ہے خلقِ خدا گل ہیں اور احتجاج کانٹوں کا سب ادا کر دیا ہے قادر نے جس قدر تھا خراج کانٹوں کا اپنی سچائی کی گواہی دی پہن کر اس نے تاج کانٹوں کا بھر گیا اس کے خونِ ناحق سے کاسۂ احتیاج کانٹوں کا اُس گلِ منتخب کے ِکھلتے ہی بڑھ گیا احتجاج کانٹوں کا اب بھی دل پہ ہے راج پھولوں کا راج کل تھا نہ آج کانٹوں کا آبلوں سے بہت پرانا ہے رشتۂ ازدواج کانٹوں کا اوس تو اوس ہے بہر صورت اشک بھی ہے اناج کانٹوں کا ’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘ ہے مرض لا علاج کانٹوں کا اب تو کانٹے بھی کہتے ہیں مضطرؔ! کیجیے کچھ علاج کانٹوں کا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ73۔74 47۔ انتخابِ خلافتِ خامسہ کے بعد جس حسن کی تم کو جستجو ہے وہ حسنِ ازل سے باوضو ہے خوش رنگ ہے اور خوبرو ہے لگتا ہے وہ پھول ہو بہو ہے تاریخ کا سانس رک گیا ہے آئینہ سا کوئی روبرو ہے اُترا ہے جو آج آسماں سے عزّت ہے ہماری آبرو ہے جو دل بھی ہے یقیں سے پُر ہے جو آنکھ بھی ہے وہ باوضو ہے ہم ہنس بھی رہے ہیں صدقِ دل سے ہر چند کہ دل لہو لہو ہے اے قدرتِ ثانیہ کے مظہر! تو کتنا حسیں ہے، خوبرو ہے اللّٰہ کے اور رسول کے بعد واللّٰہ کہ آج تُو ہی تُو ہے سرشار ہے جو ہے تیرا خادم شرمندہ ہے جو ترا عدو ہے خاموش! مقام ہے ادب کا آقا مرا محوِ گفتگو ہے سرشار ہوں پی کے مَیں بھی مضطرؔ! پھر سے وہی جام ہے، سبو ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ75۔76 48۔ شرم سی کچھ، حجاب سا کچھ ہے شرم سی کچھ، حجاب سا کچھ ہے قرب بھی بے حساب سا کچھ ہے ماہ سا، ماہتاب سا کچھ ہے ہو بہو آنجناب سا کچھ ہے مسکراتا ہؤا، حسین و جمیل ایک چہرہ گلاب سا کچھ ہے اس کو دیکھا تو یوں لگا جیسے عشق کارِ ثواب سا کچھ ہے اس میں آنکھوں کا کچھ قصور نہیں حسن خود بے نقاب سا کچھ ہے اس نے دیکھا نہ ہو رُخِ انور آئنہ آفتاب سا کچھ ہے ہم اکیلے نہیں ہیں گرمِ سفر آسماں ہمرکاب سا کچھ ہے کون شائستۂ صلیب ہے آج عرش پر انتخاب سا کچھ ہے آج پھر آسمان بولا ہے عشق پھر کامیاب سا کچھ ہے ہم فقیروں کا، ہم اسیروں کا یہ جواب الجواب سا کچھ ہے لفظ لفظ آسماں سے اُترا ہے یہ جو حسنِ خطاب سا کچھ ہے ہو رہا ہے حریف شرمندہ معترض لاجواب سا کچھ ہے دشمنِ جاں سے زیرِ لب ہی سہی اک سوال و جواب سا کچھ ہے آسماں سے برس رہی ہے آگ ایک ’’عالم کباب‘‘ سا کچھ ہے تم نے کابل میں جو کیا تھا ستم اس ستم کا حساب سا کچھ ہے تم نے کی تھی جو التجا مضطرؔ! اس کا یہ استجاب سا کچھ ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ77۔78 49۔ بے وفا سے وفا طلب کی ہے بے وفا سے وفا طلب کی ہے تم نے جو بات کی عجب کی ہے یہ شکایت جو زیرِ لب کی ہے ہم نے اک بات بے سبب کی ہے روزِ اوّل سے کرتے آئے ہیں یہ گزارش جو ہم نے اب کی ہے آج کا دن طویل تھا کتنا آج برسوں کے بعد شب کی ہے گھر میں بیٹھے رہو خدا کے لیے شہر میں تیرگی غضب کی ہے رنگ لا کر رہے گی بالآخر جو صدا ہم نے زیرِ لب کی ہے کون ہے جو نہیں اسیر اس کا عشق تقصیر ہے تو سب کی ہے اس کی آواز کے گلے لگ کر اپنی آواز بھی طلب کی ہے اس کی کس کس ادا کا ذکر کریں اس کی ہر اِک ادا غضب کی ہے ذکر ہے تو کسی کے قد کا ہے گفتگو ہے تو چشم و لب کی ہے وہی محبوب ہے، وہی مقصود بات کی ہے اسی کی جب کی ہے جب بھی چاہا اسی کو چاہا ہے اک یہی بات ہم میں ڈھب کی ہے وہی ہو گا جو اس کو ہے منظور یعنی مرضی جو میرے رب کی ہے کاش سب کو نصیب ہو جائے موت جو ہم نے منتخب٭کی ہے تم بھی مضطرؔ! اُٹھو کہ یار نے آج جسم مانگا ہے، جاں طلب کی ہے ٭…ضرورتِ شعری چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ79۔80 50۔ بادہ خواروں کو اذنِ بادہ ہے بادہ خواروں کو اذنِ بادہ ہے حُسن معصوم، عشق سادہ ہے مسکراتا پھرے ہے صحرا میں قیس کا جانے کیا ارادہ ہے زندگی ہے تو درد ہے پیارے! زندگی درد کا لبادہ ہے سارا حسنِ نظر کا ہے اعجاز حسن عیّار ہے نہ سادہ ہے گل بھی ہیں، خار بھی ہیں، گلچیں بھی صحنِ گلشن بہت کشادہ ہے کھا رہا ہے چمن کو سنّاٹا سرو خاموش ایستادہ ہے پتے ّپتےّ میں منتظر ہے خزاں کانٹا کانٹا بہار زادہ ہے ذرّے ذرّے میں دشت ہیں آباد قطرے قطرے میں رقصِ بادہ ہے پھول میں جل رہا ہے خونِ بہار چاندنی چاند کا برادہ ہے عقل گردوں سوار ہے اب تک دل بدستور پاپیادہ ہے رقصِ کون و مکاں تمام ہؤا کوئی منزل رہی نہ جادہ ہے تو نے جو کچھ دیا ہے مضطرؔ کو اس کی اُمّید سے زیادہ ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ81 51۔ پھر تیر تبسّم کا نشانے پہ لگا ہے پھر تیر تبسّم کا نشانے پہ لگا ہے لگتا ہے اُسی زخم پرانے پہ لگا ہے ساحل کے نشانات مٹانے پہ لگا ہے یہ بند جو دریا کے دہانے پہ لگا ہے رکھ لینا اسے عشق کا انعام سمجھ کر پتھّر جو مرے آئینہ خانے پہ لگا ہے اب آج سے اِس شہر کا ہر شخص ہے مجرم نوٹس یہ کھلے شہر کے تھانے پہ لگا ہے ہر لمحۂ تازہ ہے نئی شان کا حامل دل ہے کہ اسی اگلے زمانے پہ لگا ہے تھکتا ہی نہیں، مفت کی مَے بانٹ رہا ہے یہ کون ہے جو پینے پلانے پہ لگا ہے خوشبو کو، تبسّم کو چھپا کر نہیں رکھتے الزام یہ پھولوں کے گھرانے پہ لگا ہے گرتی ہوئی دیوار تو گرنے کو تھی مضطرؔ! سیلاب کا ریلا بھی ٹھکانے پہ لگا ہے ٭ … ’’ پہ ‘‘ کی پنجابیت پہ معذرت کے ساتھ۔ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ82 52۔ یادوں کی بارات لیے پھرتا ہوں مَیں یادوں کی بارات لیے پھرتا ہوں مَیں صدیاں اپنے ساتھ لیے پھرتا ہوں مَیں فرقت کے لمحات لیے پھرتا ہوں مَیں کتنی لمبی رات لیے پھرتا ہوں مَیں سوچ رہا ہوں آئینہ در آئینہ ذات کے اندر ذات لیے پھرتا ہوں مَیں تیرا نام سجا کر اپنے ماتھے پر ساری ساری رات لیے پھرتا ہوں مَیں مجھ کو بھی معلوم نہیں وہ بات ہے کیا سینے میں جو بات لیے پھرتا ہوں مَیں برسوں گا تو مضطرؔ! کُھل کر برسوں گا بادل ہوں، برسات لیے پھرتا ہوں مَیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ83۔84 53۔ اشکوں نے دل کی دیوار گرا دی ہے اشکوں نے دل کی دیوار گرا دی ہے گھومنے پھرنے کی اِمشب آزادی ہے کس نے زخموں کی زنجیر ہلا دی ہے درباں! دیکھ کوئی باہر فریادی ہے پھول نے ہنس کر بگڑی بات بنا دی ہے جینا بھی شادی، مرنا بھی شادی ہے دشت نے چاہا تھا اس کو تسلیم کرے قیس نے اس کی یہ خواہش ٹھکرا دی ہے جس کی خاطر رو رو جی ہلکان کیا عہد نے وہ آواز ہمیں لوٹا دی ہے فرصت ہو تو اب اس کی پہچان کرو ہم نے پانی پر تصویر بنا دی ہے دل کی دِلّی کے کھنڈرات ہیں مقتل تک اس سے پرے آبادی ہی آبادی ہے کل کو آج کے آئینے میں دیکھا ہے حال نے ماضی کو اِمسال سزا دی ہے آنکھ سمندر، سینہ اک پیاسا صحرا ان دونوں کا روگ بہت بنیادی ہے ’’ ّ سچی باتوں‘‘ سے ناحق بدنام ہؤا عشق بھی عبدالماجد دریابادی ہے مضطرؔ! تم بھی جاؤنا٭؎ اس سے مل آؤ سچائی اس دھرتی کی شہزادی ہے ٭…صوتی مجبوری چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ85۔88 54۔ قصیدہ لامیہ اے احتیاط کے ُپتلے! ابھی نہ بھیس بدل ابھی اُجالا ہے باہر، ابھی نہ گھر سے نکل وہ التفات کے برسے ہیں رات بھر بادل زمین جاگ اٹھی، سبز ہو گئے جنگل ستارے اس میں فروکش ہیں، چاند رہتا ہے بھری ہوئی ہے اُجالوں سے جھیل اک شیتل یہ اشک آنکھ کا گہنا ہیں، روح کی زینت رکیں تو نارِ ّجہنم، بہیں تو گنگاجل کبھی نہ شعر کے فنکار کی ہوئی تسکیں بنا بنا کے گرائے غزل کے تاج محل تمام خار حسیں ہیں، تمام گل محبوب نہیں ہے فرق کوئی طور ہو کہ ِبندھیا َچل اس التزام سے ذکرِ جمالِ یار ہؤا تمام شہر کے بیمار ہو گئے پاگل دریچے کھول کے در آئے آہٹوں کے ہجوم مکین کانپ رہے ہیں، مکاں ہیں متزلزل اداس کب سے کھڑے ہیں صدا کے سنگم پر یہ انتظار کے صحرا، یہ ہجرِ یار کے تھل ابھی نہ چہرہ دکھائیں، یہ راستوں سے کہو غبارِ کوچۂ جاناں کا اوڑھ لیں آنچل بھڑک کے شعلہ نہ بن جائیں داغ سینے کے خیالِ زلفِ پریشاں نہ اور پنکھا جھل کبھی جو وقت کے سینے کو چیر کر دیکھا نہ کوئی شامِ ابد تھی، نہ کوئی صبحِ ازل اسی کا عکس ہیں دیروز و فردا و امروز وہ خود زمانہ ہے، اس کے لیے نہ آج نہ کل وہ بزمِ کُن کا ہے مالک بھی اور خالق بھی اسی کے اذن سے پھوٹی وجود کی کونپل مَیں اس کی بزمِ تحیّر میں بار بار گیا کبھی بدن کے سہارے، کبھی نگاہ کے بل مَیں ایک جست میں اس کے حضور جا پہنچا ہزار راہ میں حائل تھی عقل کی دلدل وہ مشرقی ہے نہ وہ مغربی مگر بخدا وہی ہے مشرق و مغرب کی مشکلات کا حل بنامِ شامِ غریباں بفیضِ کرب و بلا اجڑ اجڑ گئے رخسار، دُھل گئے کاجل یہ کس کے سامنے دشتِ نجف ہے شرمندہ شہید ملنے گئے ہیں کسے سرِ مقتل نقاب رخ سے اٹھائے، مجال کس کی ہے خرد ہے سربگریبان، عشق خوار و خجل یہی تو ہے کہ جو قوسین کا ہے وترِ جمیل سجا ہؤا ہے جو کاندھے پہ نور کا کمبل قریب رہ کے بھی محفل میں بار پا نہ سکا مرے حبیب! مقدر کے فیصلے ہیں اٹل یہ داغ کیسے ہیں دامن پہ خون کس کا ہے یہ کس کے قتل سے کس کا ضمیر ہے بوجھل پھرا کریں ہیں بگولے تلاش میں کس کی رہا کریں ہیں یہ کس کے فراق میں بے کل یہ کس کا ذکر ہؤا آرزو کے آنگن میں یہ کس کی زلف کی خوشبو میں بس گئی ہے غزل بلا رہا ہے نہ جانے کسے اشاروں سے نظر سے دور لبِ دل حسین اک چنچل سکھی ری کرشن مراری دوارکا سے چلے چناب پار سرِ شام بس گئے گو کل جہاں پہ بیٹھ گئے شہر ہو گئے آباد جہاں رکے وہیں جنگل میں ہو گیا منگل نگر میں آئی ہے پھر بن سے بنسری کی صدا لطیف اس کے ہیں سُرتال، اس کی لَے کومل قدم قدم پہ فروزاں ہیں شمعیں کافوری سلگ رہے ہیں محبت کےعود اور صندل لرز رہی ہیں ستاروں کی سرخ دیواریں یہ آفتاب مرے سانس سے نہ جائیں پگھل قفس کو آگ نہ لگ جائے میری آہوں سے مری پکار سے سینوں میں دل نہ جائیں دہل ہوس کی تند ہواؤں سے بجھ نہ جائیں کہیں سلگ رہے ہیں جوپلکوں پہ آنسوؤں کے کنول ابھی تو خوابِ تحیّر سے جاگنا ہے مجھے شتاب اتنا تو اے آفتابِ عمر! نہ ڈھل نہ زادِ راہ ہے کوئی، نہ سہل ہے رستہ سفر طویل ہے اے عمر! میرے ساتھ نہ چل نہ چھیڑ خاک نشینوں کو اس قدر مضطرؔ! چھلک نہ جائے فقیروں کے صبر کی چھاگل ۱۹۶۲ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ89۔90 55۔ جاں بکف اشک بجام آئے گی جاں بکف اشک بجام آئے گی نالہ کرتی ہوئی شام آئے گی دربدر روتی پھرے گی خلقت کوئی تدبیر نہ کام آئے گی شور رک جائے گا آوازوں کا اک صدا بر سرِ عام آئے گی سائے چھپ جائیں گے دیواروں میں منزلِ ماہِ تمام آئے گی داغ در داغ جلیں گے سینے یاد یاروں کی مدام آئے گی عمر بھر دل کے گلی کوچوں سے اک صدا نام بنام آئے گی پھر سرِ دار ہنسے گا منصور زندگی پھر کسی کام آئے گی پھر وہی جشنِ شہیداں ہو گا زندگی بہرِ سلام آئے گی دن چڑھے نکلیں گے راہی گھر سے دل کے چوراہے میں شام آئے گی شب گزر جائے گی آخر مضطرؔ! صبحِ آہستہ خرام آئے گی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ91 56۔ وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا عشق تھا اور غائبانہ تھا جس حسیں سے تمھیں محبت تھی اس سے اپنا بھی عاشقانہ تھا وہ کہیں دل کے پار رہتا تھا وہ فقط دل کا واہمہ نہ تھا اس کی ہر ایک سے لڑائی تھی اس کا ہر اک سے دوستانہ تھا اس کے آنے پہ کس لیے ہو خفا اس نے آخر کبھی تو آنا تھا اس میں انوار تھے خدائی کے ہم نے مانا کہ وہ خدا نہ تھا وہ اسی کا تھا خاص بھیجا ہؤا اس کا آنا خدا کا آنا تھا وہ شجر تھا گھنا محبت کا اس کے سائے میں بیٹھ جانا تھا بھول کر بھی نہ اس کو بھول سکے یہ تعلق بہت پرانا تھا معتکف تھے قفس میں ہم مضطرؔ! کہیں آنا کہیں نہ جانا تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ92 57۔ اس کو اتنا نہ آزمانا تھا اس کو اتنا نہ آزمانا تھا وہ حقیقت نہیں فسانہ تھا شہرِ مسحور کے مسافر کا ٹھور تھا نہ کوئی ٹھکانہ تھا ترجمے اس کے چھپ چکے تھے کئی دل کا قصّہ بہت پرانا تھا عہد کو نیند آ گئی تھی اگر جھنجھوڑنا تھا اسے جگانا تھا سب مسافر تھے اپنے اندر کے جو تھا اپنی طرف روانہ تھا تو نے واعظ سے دوستی کر لی ورنہ تو اس قدر برا نہ تھا آنکھ کے اجنبی پرندے کو منہ اندھیرے ہی لوٹ جانا تھا ایک دو روز کی یہ بات نہ تھی عمر بھر اس کو مسکرانا تھا کیوں اکیلے الجھ گئے خود سے تم نے مضطرؔ! ہمیں بتانا تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ93۔94 58۔ جلا کر مرا پہلے گھر احتیاطاً جلا کر مرا پہلے گھر احتیاطاً اب آیا ہے وہ بام پر احتیاطاً نہ شیخی بگھار اپنی کرسی کی اتنی مکافات سے کچھ تو ڈر احتیاطاً جو کل تک تھے بدنام چھوٹوں بڑوں میں وہ اب بن گئے معتبر احتیاطاً پتا تھا اگرچہ اسے اپنے گھر کا وہ پھرتا رہا دربدر احتیاطاً کھلے شہر میں ہم سے ملنے کی خاطر بہت لوگ آئے، مگر احتیاطاً اگرچہ ضرورت تو اس کی نہیں تھی وہ ہنستا رہا عمر بھر احتیاطاً نکل جائے بچ کر اگر میرا قاتل مجھے بھیج دینا خبر احتیاطاً سفر کی صعوبت سے گھبرا کے آخر جدا ہو گئے ہمسفر احتیاطاً تو ُسن لے جو خلقِ خدا کہہ رہی ہے مگر اس کو کر یا نہ کر احتیاطاً کریں نہ کریں وہ تمھیں قتل مضطرؔ! جھکا دینا تم اپنا سر احتیاطاً چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ95۔96 59۔ چلی مشین چلی چلی مشین چلی ٹوٹ گیا آشا کا تاگا جی بھر آیا، سینہ جاگا رات گئی، اب اُڑ جا کاگا گھر گھر، گلی گلی شیام نگر کے راگ رنگ میں نیل، چناب، جمن گنگ میں جوڑ جوڑ میں، انگ انگ میں غم کی آگ جلی دل میں آگ، نظر میں شعلے اُٹھ پردیسی! دم بھر رو لے لوگ ہنسیں، یہ منہ سے نہ بولے انگ بھبھوت ملی ظلم اٹھا دے، رخ نہیں موڑے دُکھڑوں کے دن رہ گئے تھوڑے رام لنڈھاوے کُپّا، جوڑے بندہ پلی پلی ظلم ترا مرے آڑے آیا پتھّر سے پتھّر ٹکرایا رووے شہروں میں ہمسایہ بن میں کلی کلی لفظوں کی چھائی اندھیاری پاس بلا لو کرشن مراری شور کرے بپتا کی ماری پہنچو مہابلی بِن تیرے اب کون سہارا اپنوں نے اپنوں کو مارا مولا! یہ جیتے، مَیں ہارا جیت سے ہار بھلی تنہائی سے مت گھبراؤ کوچۂ جاناں سے ہو آؤ اچھلو، کُودو، ناچو، گاؤ بولو علی علی٭ شاہوں کی سرکار تمھی ہو بے یاروں کے یار تمھی ہو کشتی تم، پتوار تمھی ہو تم مضطرؔ کے ولی ۱۹۵۳ء ٭۔۔۔۔’’علی‘‘ اللّٰہ تعالیٰ کا نام ہے۔ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ97۔98 60۔ وصل کے دن ہیں، رُت ہے الفت کی وصل کے دن ہیں، رُت ہے الفت کی عشق کی، پیار کی، محبت کی تیرے کہلائے، تجھ سے نسبت کی ہم نے کیا کیا نہیں جسارت کی تجھ کو چاہا، تری عبادت کی تیری جانب کی جب بھی ہجرت کی یہ امانت جو ہے امامت کی حسنِ سیرت کی، حسنِ صورت کی یہ علامت ہے تیری قدرت کی ہم مریضوں کے غسلِ صحّت کی مصحفِ رُخ کی بھی تلاوت کی سیر کی ایک ایک آیت کی آنسوؤں نے اگر رفاقت کی دُھل ہی جائے گی گرد غفلت کی مَیں کہ ہوں اک پرانا ناشکرا مجھ پہ برسیں گھٹائیں شفقت کی چاند نے رات چاندنی بخشی اپنی تصویر بھی عنایت کی ق تم بھی آئے ہو اپنے مطلب سے بات ہم نے بھی کی ہے مطلب کی سچ کو سچ جانا اور جھوٹ کو جھوٹ ہم نے کی بھی تو یہ سیاست کی تاج ہم نے پہن کے کانٹوں کا بر سرِ دار استراحت کی تم نے اس کو بھی کاٹنا چاہا یہ جو انگشت ہے شہادت کی گُپ اندھیرا ہے اور غضب کا ہے روشنی بھی ہے اور قیامت کی آسماں سے برس رہی ہے آگ دھوپ بھی پڑ رہی ہے شدّت کی پھر کہیں دل میں ہُوک سی اُٹھی پھر کسی آرزو نے رحلت کی بارہا دل کے فیصلے بدلے یعنی توہین کی عدالت کی دل ہی دل میں ہوں اِس سے شرمندہ یہ جو افتاد ہے طبیعت کی رات گزری پلک جھپکتے میں مسکرائی سحر صداقت کی کھل رہے ہیں قفس کے دروازے ڈَھے رہی ہے فصیل نفرت کی فوج در فوج آ رہے ہیں لوگ اوڑھ کر چادریں محبت کی ہر طرف کھِل رہے ہیں پھول ہی پھول "چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیجیے قبول ہے آج" یکم فروری، ۱۹۹۸ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ99 61۔ درد دے، درد کے خزانے دے درد دے، درد کے خزانے دے دینے والے! کسی بہانے دے کچھ نئے رنج، کچھ پرانے دے مجھ کو لمحے نہیں زمانے دے بر سرِ دار آشیانے دے بے ٹھکانوں کو بھی ٹھکانے دے یا مرا مجھ سے فاصلہ کر دے یا نہ احساس کے خزانے دے اَن کہی بات کو چھپا کر رکھ اس کو لب پر کبھی نہ آنے دے تو اگر مسکرا نہیں سکتا دوسروں کو تو مسکرانے دے مجھ کو اشکوں کا آئنہ لے کر شہرِ مسحور میں نہ جانے دے عشق کا اندلس ملے نہ ملے کشتیاں تو مجھے جلانے دے شاخِ اُمّید بھی ہری ہو جائے اس کو پت جھڑ کے تازیانے دے رنگ بھر لینا بعد میں مضطرؔ! مجھ کو تصویر تو بنانے دے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ100 62۔ کشتۂ تیغِ انا لگتا ہے کشتۂ تیغِ انا لگتا ہے واعظِ شہر خدا لگتا ہے کوئی چہرہ نہیں لگتا چہرہ آئینہ ٹوٹ گیا لگتا ہے اس کے اندر ہے بلا کی وسعت یہ کھلا شہر کھلا لگتا ہے پھر کہیں سوچ کے سنّاٹے میں برگِ آواز گرا لگتا ہے پھر پھرا کر وہیں آ جاتا ہے وقت گنبد کی صدا لگتا ہے یا اخی کہہ کے بلاتے ہیں لوگ کوہِ غم کوہِ ندا لگتا ہے ماہ لگتا ہے ترا دستِ دعا مہر نقشِ کفِ پا لگتا ہے تو اگر بول رہا ہو پیارے! "کوئی بولے تو برا لگتا ہے"٭ باغِ جنت سے نکلنے والا راستہ بھول گیا لگتا ہے مجھ سے ہمدردی جتانے والے! تو مرا کون ہے، کیا لگتا ہے جب ہوا چلتی ہے ٹھنڈی مضطرؔ! شہر دیوار سے جا لگتا ہے ٭…محترمی جناب احمدندیم قاسمی مرحوم کا مشہور شعر ہے ۔ اتنا مانوس ہوں سنّاٹے سے کوئی بولے تو ُبرا لگتا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ101۔102 63۔ دیں جدا دینے لگے، دنیا جدا دینے لگے دیں جدا دینے لگے، دنیا جدا دینے لگے جس قدر مانگا تھا اس سے کچھ سوا دینے لگے جاں کا غم،جاناں کا غم،دنیا کا غم،عقبیٰ کاغم کیا نہیں دیتا ہے جب میرا خدا دینے لگے شاعری چھوڑو، قلم توڑو، کرو ترکِ وطن ہم کو یہ احباب مل کر مشورہ دینے لگے چاند بھی کھڑکی کے رستے آ گیا دالان میں آہٹوں کو گھر کے آئینے صدا دینے لگے پھول تھا تو پھول کے جذبات کا رکھتے خیال تم اسے گلدان میں رکھ کر بھلا دینے لگے جیتے جی کوئی کسی کا پوچھنے والا نہ تھا مر گئے تو اپنے بیگانے دعا دینے لگے ہاتھ رنگیں کر لیے پہلے ہمارے خون سے پھر اِنھی ہاتھوں سے ہم کو خوں بہا دینے لگے ساحلوں کے تشنہ لب بارش کی پہلی بوند کو دیکھتی آنکھوں سمندر میں گرا دینے لگے راستوں کے بے تکے پن کا نہیں کوئی علاج دشت میں جا کر حوالہ شہر کا دینے لگے قافیوں سے لڑ پڑے تو پھاڑ دی ساری غزل جرم دیواروں کا تھا، گھر کو سزا دینے لگے ہجر کے بیمار کو مضطرؔ! قرار آ ہی گیا زخم پھر بھی زخم تھے، آخر مزا دینے لگے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ103۔10664۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ُپر معارف فارسی منظوم کلام پر تضمین
مجھ سے کہتے ہیں یہ عاشق، بانورے! تُو بھلا توصیف اسؐ کی کیا کرے مرتبہ جس کا گماں سے ہو پرے روح کانپے، ذہن لرزے، دل ڈرے "در دِلم جوشد ثنائے سرورے آنکہ در خوبی ندارد ہمسرے" مَیں کروں کیا عرض، کیا میری مجال وہ ہے محبوبِ خدائے ذوالجلال حسن کا اس کے تصوّر ہے محال وہ مکمل ہے، نہیں اس کی مثال "ختم شد بر نفسِ پاکش ہر کمال لاجرم شد ختم ہر پیغمبرے'' اس کا عالم میں نہیں کوئی مثیل ہے محمدؐ ہی محمدؐ کی دلیل اس کے خادم ّجن و انساں، جبرئیل صاحبِ تسنیم و کوثر، سلسبیل ''پہلوانِ حضرتِ ربِّ جلیل بر میاں بستہ زِ شوکت خنجرے'' نور سے اس کے منوّر ہے جہاں اس سے ہیں آباد دل کی بستیاں اس سے وابستہ ہیں سب سچائیاں ہے ثناء خواں اس کی ارضِ قادیاں ''آفتابِ ہر زمین و ہر زماں رہبرِ ہر اسود و ہر احمرے'' اس کا ہر ارشاد ّسچا برمحل مجھ کو سودا ہے اسی کا آجکل ٹھیر بھی اے عمر کے سورج! نہ ڈھل دل گیا اس کی محبت میں پگھل ''آنکہ جانش عاشقِ یارِ ازل آنکہ روحش واصلِ آں دلبرے'' مَیں غلاموں کے غلاموں کا غلام مَیں بھلا کس منہ سے لوں احمدؐ کا نام میم کے پردے میں ہے جس کا مقام اس پہ ہوں لاکھوں درود، اربوں سلام ''سالکاں را نیست غیر از وَے اِمام رہرواں را نیست جُز وَے رہبرے'' قافلہ سالارِ خیلِ صادقاں کعبۂ اُمّیدِ شہرِ عاشقاں مجھ سے لاچاروں حقیروں کی اماں اہلِ ربوہ ہیں اسی کے نعت خواں ''اے خدا! بر وَے سلامِ ما رساں ہم بر اِخوانش زِ ہر پیغمبرے'' سَیِّدُالْکَوْنَیْن، خَتْمُ الْاَنْبِیَاء مظہرِ کامل ہے جو اللّٰہ کا راستہ جس کا خدا کا راستہ عرش سے آگے ہے جس کا مرتبہ ''جائے اُو جائے کہ طیرِ قدس را سوزد از انوارِ آں بال و پرے'' کامران و کامگار و کامیاب خوبیاں اس کی ہیں بے ّحد و حساب اس کا خالق نے کیا خود انتخاب وہ محمدؐ ہے، نہیں اس کا جواب ''حسنِ رویش بِہ زِ ماہ و آفتاب خاکِ کویش بِہ زِ مشک و عنبرے'' کائنات اس کی محبت میں ہے مست اس کی خاطر ہے یہ ساری بود و ہست حاصلِ تخلیق اس کی سرگزشت وسعتِ کونین اس کی سلطنت ''مَجْمَعُ الْبَحْرَیْنِ علم و معرفت جَامِعُ الاِْسْمَیْنِ ابر و خاورے'' اس کا سینہ خلق کے غم میں گداز زندگی اس کی َمحبت کی نماز مہدیٔ موعود ہے اس کا ایاز دو جہانوں میں ہؤا جو سرفراز ''او چہ می دارد بمدحِ کس نیاز مدحِ او خود فخرِ ہر مدحت گرے'' مہدیٔ موعودؑ نے برحق کہا سلسلہ میرا ہے اُس کا سلسلہ ''مَا مسلمانیم از فضلِ خدا مصطفیؐ مارا امام و پیشوا لالہ و ریحاں چہ کار آید مرا من سرے دارم بآں روے و سرے'' ''ہست اُو خیرالرسلؐ، خیرالانامؐ ہر نبوّت را برو شد اختتام حسن و خلق و دلبری بر اُو تمام صحبتے بعد از لقائے اُو حرام مے پریدم سوئے کوئے اُو مدام من اگر می داشتم بال و پرے'' چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ107۔10965۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ُپر معارف فارسی منظوم کلام پر تضمین
لائی ہے بادِ صبا اُس پار سے خبرِ عظیم وہ خدائے لَمْ یزل جو عرشِ کن پر ہے مقیم ہے اسی کو علم سارا، ہے وہی تنہا علیم ''شانِ احمدؐ را کہ داند جز خداوندِ کریم آنچناں از خود جدا شد کز میاں افتاد میم'' ہمسرِ اُو در زمین و آسماں مادر نہ زاد دیکھ کر اس کو پکار اٹھّے فرشتے زندہ باد خوش جمال وخوش خیال وخوش خصال وخوش نہاد ''زاں نمط شد محوِ دلبر کز کمالِ اتحاد پیکرِ اوؐ شد سراسر صورتِ ربِّ رحیم'' اس کی آہِ نیم شب سے رات کا سینہ ہے چاک اس کا چہرہ چاند اور سورج سے بڑھ کر تابناک سُرمۂ چشمِ بصیرت اس کے نقشِ پا کی خاک ''بوئے محبوبِ حقیقی می دمد زاں روئےؐ پاک ذاتِ حقّانی صفاتش، مظہرِ ذاتِ قدیم'' کیا بتاؤں تم کو اس کا مرتبہ، اس کا کمال ایک ہی دل میں لگن ہے ،ایک ہی دل میں خیال گالیاں بھی دو اگر مجھ کو، نہیں اس کا ملال ''گرچہ منسوبم کند کس سوئے الحاد و ضلال چوں دلِ احمدؐ نمی بینم دگر عرشِ عظیم'' ُتونے یارب! دی مجھے اس کی غلامی کی سند وہ غلامی جس کی لذّت کی نہایت ہے نہ حد مان لے یہ التجا بھی، الغیاث و المدد! ''در رہِ عشقِ محمدؐ ایں سر و جانم رود ایں تمنّا، ایں دُعا، ایں در دلم عزمِ صمیم'' عشق کی منزل کٹھن ہے، راستہ ہے صَعب ناک مجھ کو ڈر ہے تم نہ ہوجاؤ کہیں رہ میں ہلاک آؤ کر لو مجھ سے مل کر اس سفر میں اشتراک ''از عنایاتِ خدا وز فضلِ آں دادارِ پاک دشمنِ فرعونیانم بہرِ عشقِ آں کلیم'' ''گرچہ ہوں مَیں بس ضعیف و ناتوان ودل فگار ہیں درندے ہرطرف، مَیں عافیت کا ہوں حصار مَیں ہوں وہ نورِ خدا جس سے ہؤا دن آشکار'' ''منّت ایزد را کہ مَن بر رغمِ اہلِ روزگار صد بلارا می خَرم از ذوقِ آں عَین النعیم'' مَیں غلامِ احمدِؐ مرسل ہوں اے کرّوبیاں! دے رہا ہوں اپنے خالق کی بڑائی کی اذاں قریہ قریہ، ربوہ ربوہ، قادیاں در قادیاں ''ٓں مقام و رتبتِ خا صشؐ کہ بر من شد عیاں گفتمے گردیدمے طبعے دریں راہِ سلیم'' (جون۱۹۸۸ء) چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ110 66۔ تم کو بھی آتشِ نمرود میں جلتا دیکھوں تم کو بھی آتشِ نمرود میں جلتا دیکھوں چاہتا ہوں کہ تمھیں پھولتا پھلتا دیکھوں مَیں تو پتھر ہوں پگھل جائوں گا آنسو بن کر تم کو بھی برف کی مانند پگھلتا دیکھوں اپنی گستاخ نگاہی پہ خجل ہو جاؤں اس کا محفل میں اگر رنگ بدلتا دیکھوں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ111۔11667۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پُر معارف فارسی منظوم کلام پر تضمین
نادان! اپنے جَہل پر مجھ کو نہ کر قیاس میرا وجود ہی مرے دعوے کی ہے اساس آیا ہوں عین وقت پر اے قومِ ناشناس! ''ایں مَقدمم نہ جائے شکوک ست و التباس سیّدؐ جدا کُنَد زِ مسیحاؑئے احمرم'' آشوبِ اختلاف کا منظر ہے دلخراش ایمان و آگہی کا سفینہ ہے پاش پاش تجھ کو اگر ہے مہدیٔ موعود کی تلاش ''اے قومِ من! بگفتۂ من تنگ دل مباش ز اوّل چنیں مجوش ببیں تا بآخرم'' رَجلِ رشید کوئی تو ہو، کوئی مردِ قوم کوئی گروہ، کوئی جماعت یا فردِ قوم محسوس کر سکے جو کوئی گرم و سردِ قوم ''ہر شب ہزار غم بمن آید زِ دردِ قوم یارب! نجات بخش ازیں روزِ پرشرم'' نقدِ عمل نہ دولتِ ایمان ان کے پاس دن رات ان کا مشغلہ تکفیر و التباس دنیا ہی ان کو راس نہ عقبیٰ ہی ان کو راس ''دل خوں شداست از غمِ ایں قومِ ناشناس واز عالمانِ کج کہ گرفتند چنبرم'' مٹ جائے گی جہان سے تفریقِ نیک و بد مَیں ہوں گا اور حاسدوں کی آتشِ حسد ہو گی مخالفت کی نہایت نہ کوئی حد ''جائیکہ از مسیح و نزولش سخن رَوَد گویم سخن اگرچہ ندارد باورم'' مُلّائے بدزبان کی بازی ہوئی ہے مات دل میں ہے اس کے گند، زباں پر مغلّظات سورج چڑھا ہؤا ہے مگر قوم پر ہے رات ''یارب! کجاست محرمِ رازِ مکاشفات تا نورِ باطنش خبر آرد زِ مخبرم'' واللّٰہ! مَیں غلام ہوں احمدؐ کا زر خرید میرے مرید اصل میں احمدؐ کے ہیں مرید مُلاّ کا غم نہیں ہے کہ مُلاّ تو ہے پلید ''اے حسرت ایں گروہِ عزیزاں مرا ندید وقتے بہ بیندم کہ ازیں خاک بِگْذرم'' یہ آستیں کا سانپ، یہ کرسی کا سُوسمار کب سے غریب قوم کی گردن پہ ہے سوار اس کے ڈسے ہوئوں کے نہ کر زخم ہی شمار ''اے دل! تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار کاخر کنند دعو اٰیٔ حبِّ پیمبرم'' اٹھّے تھے لوگ پہلے بھی کثرت کے نام پر کثرت تھی ان کے زعم میں معیارِ خیر و شر تنہا تھے آں حضوؐر بھی، اتنا تو غور کر ''اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغباں بترس کہ من شاخِ مثمرم'' مکر و فریب کا یہ ضرورت کا فلسفہ تجھ پر ہے اقتدار کا نشّہ چڑھا ہؤا نشّے میں کیا کسی کو تو رستہ دکھائے گا ''خواہی کہ روشنت شود احوالِ صدقِ ما روشن دلی بخواہ ازاں ذاتِ ذوالکرم'' طاقت سے کرنا چاہتا ہے مجھ کو لاجواب اللّٰہ کی زمین کو اتنا نہ کر خراب قرآں مری کتاب ہے، سنّت مرا نصاب ''من نیستم رسول و نیاوردہ ام کتاب ہاں ملہم استم وز خداوند مُنذِرم'' ہے کس قدر طویل ترا مجھ سے فاصلہ مَیں آسماں کا نور، ُتو کیڑا زمین کا ہر آن خیمہ زن ہوں سرِ دشتِ کربلا ''جانم فدا شود برہِ دینِ مصطفیٰؐ این است کامِ دل اگر آید میسّرم'' میری زَبان بند ہے، میری اذان بند جتنی غلیظ گالیاں اور جس قدر ہے گند مجھ پر اچھالنے کو چلے دیں کے درد مند ''بد گفتنم زِ نوعِ عبادت شمردہ اند در چشمِ شاں پلید تر از ہر مزوّرم'' حاکم کا فیصلہ ہو کہ مُلاّ کا فکر و فن میرے خلاف ملّتِ واحد ہیں مرد و زن تکفیر کی لپیٹ میں ہیں شہر ہوں کہ بن ''امروز قومِ من نشناسَد مقامِ من روزے بگریہ یاد کند وقتِ خوشترم'' جب تک یہ راز منبر و محراب کا ہو فاش کرسی پہ بیٹھ کر کوئی الزام ہی تراش اللّٰہ کے غضب کو ہے کب سے تری تلاش ''اے معترض! بخوفِ الٰہی صبور باش تا خود خدا عیاں کند آں نورِ اخترم'' سوچا بھی ہے کبھی کہ اے سرخیلِ دشمناں! مَیں ہوں مسیحِ وقت، مَیں ہوں مہدیٔ زماں ڈر میری آہ سے کہ ہوں مرزائے قادیاں ''بر من چِرا َکشی تو چنیں خنجرِ زَباں از خود نیم زِ قادرِ ذوالمجدِ اکبرم'' قرآن کے چمن سے ہدایت کے پھول چُن کچھ کام آئے گی نہ یہ خالی ادھیڑ بُن میری نہ سن اے بے خبر! اللّٰہ کی تو سُن ''رَو یک نظر بہ جانبِ فرقاں زِ غور کن تا بر تو منکشف شود ایں رازِ مضمرم'' غم ہے اگر مجھے تو فقط دین کا ہے غم اس غم سے سینہ چاک ہے، دل تنگ، آنکھ نم مہدی بھی ہوں مسیح بھی، کچھ بیش ہوں نہ کم ''موعودم و بحلیۂ ماثور آمدم حیف است گر بدیدہ نہ بینند منظرم'' طوفان معجزات کا اُٹھّا ہے یم بہ یم مَیں عہد کا کلیم ہوں، مَیں صاحبِ قلم تُو جس کا منتظر تھا وہی ہوں برادرم! ''اینک منم کہ حسبِ بشارات آمدم عیسیٰؑ کجاست تا بنہد پا بہ منبرم'' ہے محترم اگر تو محمدؐ ہے محترم نقشِ قدم پہ اس کے رواں ہوں قدم قدم اس کا بروزِ تام ہوں اللّٰہ کی قسم ''بعد از خدا بعشقِ محمدؐ ّ مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم''' (۱۹۸۷ء) چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ117۔119 68۔ نذرِغالبؔ نااُمیدانہ سوچتا کیا ہے زندگی درد کے سوا کیا ہے رو رہا کیوں ہے، ہنس رہا کیا ہے ''دلِ ناداں! تجھے ہؤا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے'' تیرا احسان ہے اے فرقتِ یار! ہم خطاکار بھی ہیں شب بیدار کوئی سمجھائے عشق کے اسرار ''ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار یا الٰہی! یہ ماجرا کیا ہے'' جسم رکھتا ہوں، جان رکھتا ہوں دل بھی اے مہربان! رکھتا ہوں ایک طرزِ بیان رکھتا ہوں ''مَیں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے'' راستے گم ہیں، منزلیں مفقود ایک دھوکا ہے شورِ ہست و بود عکسِ باہم ہیں شاہد و مشہود ''جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا! کیا ہے'' پاس اعمال ہیں نہ پیسے ہیں پھر بھی مخمور غم کی مَے سے ہیں سب سمجھتے ہیں ہم تو جیسے ہیں ''یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے'' اس کے لب پر نہیں نہیں کیوں ہے دل میں ہے درد اور یہیں کیوں ہے ہر حسیں اس قدر حسیں کیوں ہے ''شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے'' خواہشوں نے پرے جمائے ہیں دور تک حسرتوں کے سائے ہیں ہم نے یہ بت تو خود بنائے ہیں ''سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے، ہَوا کیا ہے'' بند جب سے ہوئی ہے گفت و شنید خطرۂ ہجر ہے نہ خواہشِ دید دو حریفوں کو جا کے اب یہ نوید ''ہم کو ان سے وفا کی ہے اُمّید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے'' حادثہ دل کا جب ہؤا ہو گا تُو بھی حیران رہ گیا ہو گا اب پشیمانیوں سے کیا ہو گا ''ہاں بھلا کر، ترا بھلا ہو گا اور درویش کی صدا کیا ہے'' دشمنوں سے بھی پیار کرتا ہوں شکرِ پروردگار کرتا ہوں کچھ تو اے میرے یار! کرتا ہوں ''جان تم پر نثار کرتا ہوں مَیں نہیں جانتا دعا کیا ہے'' تم ہو منجملہ اہلِ دیں غالب عابد و زاہد و متیں غالب شیخ کے بھی ہو ہم نشیں غالب ''ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب مفت ہاتھ آئے تو کیا برا کیا ہے'' چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ120 69۔ گفتگو کب کی بند ہے اب تو گفتگو کب کی بند ہے اب تو وہ بڑا عقل مند ہے اب تو پہلے اک دل رُبا تبسّم تھی زندگی زہر خند ہے اب تو پھر سرِ شاخ لہلہانے لگا گل کا پرچم بلند ہے اب تو وہ جو کل تک تھے جان کے دشمن ان کو مضطرؔ پسند ہے اب تو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ121۔122 70۔ ہے سارا سوز ، سارا ساز تیرا ہے سارا سوز ، سارا ساز تیرا پسِ پردہ ہے سب اعجاز تیرا اگرچہ تُو ہی اوّل، تُو ہی آخر کوئی انجام نہ آغاز تیرا تُو ہر اک کا ہے محرم اور ہمراز نہیں کوئی مگر ہم راز تیرا کروں تو مَیں کروں تجھ سے محبت اٹھاؤں تو اٹھاؤں ناز تیرا نہیں مظہر نہیں ہے میرے غم کا یہ آنسو ہے فقط ّغمازاتیرا نہیں ہے یہ صدا مجھ بے صدا کی ہے سب پیش و پسِ آواز تیرا مری پرواز بھی پرواز تیری کہ مَیں تیرا، پرِ پرواز تیرا نہ اِتراؤں مَیں کیوں سولی پہ چڑھ کر عطاکردہ ہے یہ اعزاز تیرا سمجھتا کیوں نہیں ہے میرا قاتل غضب کتنا ہے بے آواز تیرا کہاں جائے گا آدھی رات مضطرؔ! اگر ہو گا نہیں در باز تیرا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ123 71۔ سب مومن تھے، تُو کافر تھا سب مومن تھے، تُو کافر تھا یہ بھی اک طرفہ چکّر تھا گھر کے اندر بھی اک گھر تھا جس کے ڈَھے جانے کا ڈر تھا تُو ہی تھا گھر کا دروازہ تُو ہی کونے کا پتھر تھا تُو ہی تھا آواز کا مہبط تُو الفاظ کا نامہ بر تھا ڈھونڈنے نکلے تھے ہم جس کو نام پتا اس کا ازبر تھا ہم نے پھینک دیا تھا باہر عقل کا جو مَیلا بستر تھا اندر صدیاں سوچ رہی تھیں باہر لمحوں کا لشکر تھا اپنے بھی تھے، بیگانے بھی جو بھی تھا مجھ سے بہتر تھا جیسا بھی تھا، جتنا بھی تھا آخر میں تیرا مظہر تھا اونچے محل مناروں والا اپنے گھر میں بھی بے گھر تھا شہرِ ذات کا رہنے والا اپنی ذات سے ہم بستر تھا لفظوں کے لب سوکھ گئے تھے کاغذ کا سینہ بنجر تھا دشتِ نجف تھا اور سنّاٹا اک لاشہ تھا اور بے سر تھا اتنا ہنسنے والے کو جب چھو کر دیکھا تو پتھّر تھا رات ملا تھا جو مضطرؔ سے نام تو اس کا بھی مضطرؔ تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ124 72۔ میرا گھر بھی تیرا گھر تھا میرا گھر بھی تیرا گھر تھا تُو اندر تھا، تُو باہر تھا تیرے پیار کا جو منظر تھا وہ الفاظ سے بالاتر تھا پلکوں پر جو نورِ سحر تھا اس سے تاریکی کو ڈر تھا مجھ کو تھا کچھ فکر نہ فاقہ میرا سر تھا، تیرا در تھا تُو مرکز تھا میری جاں کا میری ذات کا تُو محور تھا مَیں اک بھوکا پیاسا راہی تُو میرا حوضِ کوثر تھا تیری یاد میں بہنے والا ہر آنسو گھر کا زیور تھا تُو محرم تھا میرے غم کا تُو اس عہد کا دیدہ ور تھا بے قامت تھے تیرے دشمن تُو ہی تھا جو قدآور تھا سب نے آنسو روک لیے تھے بستی کو بارش کا ڈر تھا اپنوں پر موقوف نہیں ہے تُو غیروں کا بھی دلبر تھا تیرا ہر دعویٰ تھا ّسچا تُو ّسچائی کا پیکر تھا تُو نے سب سے پیار کیا تھا یہ الزام بھی تیرے سر تھا سینہ لہولہان تھا تیرا چہرہ بھی اشکوں سے تر تھا حشر کا دن تھا گھر کے اندر باہر بھی روزِ محشر تھا خلقت ملنے کو آئی تھی لیکن تُو سر گرمِ سفر تھا باہر سورج ڈوب رہا تھا اندر برفانی بستر تھا تُو نے پیار کیا تھا جس سے وہ ناچیز ترا مضطرؔ تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ125۔126 73۔ تیل کے تالاب میں مچھلی کامنظر دیکھتے تیل کے تالاب میں مچھلی کامنظر دیکھتے رام راجا تھے تو پرجا کا سوئمبر دیکھتے آئنے لے کر نکل آئے کھلی سڑکوں پہ لوگ آئنہ در آئنہ پتھر پہ پتھر دیکھتے تجربہ تم کو بھی ہو جاتا عذابِ دید کا تم اگر ان فاصلوں کو اپنے اندر دیکھتے روزنِ گل سے اسے اب عمر بھر دیکھا کرو تم نے چاہا تھا کہ رنگ و بو کا پیکر دیکھتے وہ سراسر لمس کی لذّت سے تھا ناآشنا لفظ کوچھونے سے پہلے اس کےتیور دیکھتے کیسے کیسے خوبرویوں سے ملاقاتیں رہیں آنکھ کھل جاتی تو ان چہروں کو کیونکر دیکھتے تم بھی دامن خون سے رنگین کر لیتے اگر کتنا آتش رنگ ہے خونِ کبوتر دیکھتے پہلے اپنا نام کھدواتے فصیلِ شہر پر پھر گزرتے موسموں کا چور چکّر دیکھتے تم کو بھی للکارتا دیوار کالکھا ہؤا تم بھی آپے سے اگر باہر نکل کر دیکھتے خون کی پیاسی تھی گر شہرِ نگاراں کی زمیں کوئی باغی ڈھونڈ لاتے، کوئی کافر دیکھتے بید جی کرسی کے کاٹے کا بھی کچھ کرتے علاج کوئی پوتھی کھول لیتے، کوئی منتر دیکھتے ہر کوئی اپنا نظر آتا تمھیں بھی عشق میں اُٹھ کے سینے سے لگاتے جس کو مضطرؔ دیکھتے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ127۔128 74۔ جسم اب بھی ہے، جان اب بھی ہے جسم اب بھی ہے، جان اب بھی ہے عشق کا امتحان اب بھی ہے اس پہ روح القدس اترتا ہے وہ سراپا نشان اب بھی ہے اب بھی پیاسی ہے سر زمینِ نجف دھوپ کا سائبان اب بھی ہے وہ اگر ہے تو ہم بھی ہیں یعنی جان ہے تو جہان اب بھی ہے مجھ کو پروا نہیں زمانے کی وہ اگر مہربان اب بھی ہے جا چکا وہ مگر کفِ جاں پر نقشِ پا کا نشان اب بھی ہے ڈَھے چکا کب کا قصرِ استبداد میرا ّکچا مکان اب بھی ہے بول سکتا ہوں مَیں اگر چاہوں میرے منہ میں زبان اب بھی ہے لاکھ سمجھایا، لاکھ دھمکایا دل مگر بدگمان اب بھی ہے خاکِ پا اس کا، جاں نثار اس کا مضطرِؔ ناتوان اب بھی ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ129۔130 75۔ کوئی آواز کا بھوکا، کوئی پیاسا نکلے کوئی آواز کا بھوکا، کوئی پیاسا نکلے شہرِ مسحور میں کوئی تو شناسا نکلے رات دن جس کو برا کہتی ہیں تیری آنکھیں کیا عجب ہے وہ برا شخص بھی اچھّا نکلے شہر میں دھوم تھی اس شوخ کی عیاری کی دیکھیے! دشت میں آیا ہے تو کیسا نکلے ہم نے مانا کہ بہت سادہ و پرکار تھا وہ چاہنے والے تو کچھ اور بھی سادہ نکلے شہرِ مسحور میں جاؤ تو خبردار رہو کہیں ایسا نہ ہو سایہ بھی نہ سایہ نکلے دیکھنے والوں کی آنکھیں نہ کہیں تھک جائیں پردۂ غیب سے جب تک ترا چہرہ نکلے دو قدم اور سہی اے تھکے ماندے راہی! کیا عجب ہے کہ یہیں سے کو ئی رستہ نکلے اس کے آنے کی خبر سنتے ہی بچّے بوڑھے اپنی پلکوں پہ لیے دل کا تقاضا نکلے آبلے پاؤں کے واقف تھے پرانے لیکن روح کے روگ بھی کانٹوں کے شناسا نکلے تُو کبھی پی تو سہی اشکِ ندامت چھپ کر عین ممکن ہے کہ یہ زہر گوارا نکلے تم بھی آ جانا ملاقات کی خاطر مضطرؔ! جب سرِ دار مقدّر کا ستارہ نکلے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ131۔132 76۔ نذرِ غالب۔ بصد ادب اور معذرت مَیں خطا کار بھی تھا، لائقِ تعزیر بھی تھا تُو وہ سورج جو زمینوں سے بغلگیر بھی تھا دُور سے برف کے تودے کی طرح یخ بستہ پاس سے جلتی ہوئی آگ کی تصویر بھی تھا اے نہ بھولے سے کبھی خواب میں آنے والے! تُو مرا خواب بھی تھا، خواب کی تعبیر بھی تھا تھے گلوگیر نہ تنہا غمِ جاں کے بندھن گیسوئے یار ترا حلقۂ زنجیر بھی تھا طائرِ سدرہ نشیں بر سرِ شاخِ الہام رات کے پچھلے پہر مائلِ تقریر بھی تھا نیلگوں نتھرے ہوئے گہرے سمندر کی طرح جتنا شفّاف تھا وہ اتنا ہی گھمبیر بھی تھا عشق میں اس کے ملوّث تھے سبھی چھوٹے بڑے ہر کفِ دست پہ یہ ماجرا تحریر بھی تھا اس کے سو چہرے تھے، ہر چہرے کے لاکھوں منظر ایک ہی وقت میں وہ رانجھا بھی تھا، ہیر بھی تھا کرسیاں کتنی ہی خالی تھیں سرِ بزمِ سخن یوں تو غالبؔ بھی تھا، اقبالؔ بھی تھا، میرؔ بھی تھا یوں تو ہونے کو وہ خاموش تھا لیکن مضطرؔ! خوش بھی تھا، تیرے چلے جانے سے دلگیر بھی تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ133۔134 77۔ ورائے اشک اسے عمر بھر پکارا تھا ورائے اشک اسے عمر بھر پکارا تھا وہی سکون تھا دل کا، وہی سہارا تھا گلِ مراد کھلا تھا ہزار سال کے بعد چمن کا ورنہ روایات پر گزارہ تھا تمام عمر کٹی اور فیصلہ نہ ہؤا کہ جرم عشق کا اس کا تھا یا ہمارا تھا جو ایک بار اسے دیکھا تو دیکھتے ہی رہے کوئی علاج تھا اس کا نہ کوئی چارہ تھا شبِ وصال میں فرقت کے فاصلے نہ گئے کہ وصلِ یار بھی فرقت کا استعارہ تھا یہ کس کا عکس اتر آیا تھا رگِ جاں میں کہ لاکھ پردوں میں چھپ کر بھی آشکارا تھا میں اپنی ذات سے آگے سفر پہ کیا جاتا کہ اس جزیرے کے چاروں طرف کنارہ تھا میں عہدِ عشق کا منصور تو نہ تھا لیکن کسی نے سنگ، کسی نے تو پھول مارا تھا میں اشک اشک ستارے تراشتا کیسے پگھل گیا تھا وہ منظر جو سنگِ خارا تھا تم آسماں سے بچھڑ کر اُداس کیا ہوتے زمین زہر تھی اور زہر بھی گوارا تھا یہ اور بات ہے منزل جدا جدا تھی مگر جو راستہ تھا ہمارا وہی تمھارا تھا شبِ فراق کو آباد کر گیا مضطرؔ! وہ اشک جو کبھی صورت، کبھی ستارہ تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ135۔136 78۔ اندھیرا اب ادھر شاید نہ آئے اندھیرا اب ادھر شاید نہ آئے اسے رستہ نظر شاید نہ آئے وہ نااُمّید ہے اتنا کہ اس کی دعاؤں میں اثر شاید نہ آئے دلِ نادان کو تم جانتے ہو یہ باغی راہ پر شاید نہ آئے چلا ہے ڈھونڈنے تصویر اپنی اسے کچھ بھی نظر شاید نہ آئے بڑی مدّت کے بعد آیا ہے واپس یہ لمحہ لوٹ کر شاید نہ آئے وہ جا کر بھی کبھی جاتا نہیں ہے مگر بارِ دگر شاید نہ آئے ستاروں ہی پہ کر لینا قناعت کہ وہ رشکِ قمر شاید نہ آئے کھلے رکھّو دریچے گھر کے، شاید وہ آ جائے مگر شاید نہ آئے تم اپنے سائے میں آرام کر لو کہ رستے میں شجر شاید نہ آئے وہ دریا پار کا ہے رہنے والا اسے پانی سے ڈر شاید نہ آئے کسی ٹہنی پہ کر لے گا بسیرا پرندہ اب ادھر شاید نہ آئے کہیں زیرِ زمیں کر لے گا آرام مسافر اب کے گھر شاید نہ آئے کنارے توڑ کر نکلا ہے سیلاب کناروں کی خبر شاید نہ آئے جسے تم ڈھونڈتے پھرتے ہو مضطرؔ! وہ منزل عمر بھر شاید نہ آئے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ138 80۔ تم عہد کے حالات رقم کیوں نہیں کرتے تم عہد کے حالات رقم کیوں نہیں کرتے تصویر کے ٹکڑوں کو بہم کیوں نہیں کرتے چہروں کے کھنڈر بھی ہیں بہت دید کے قابل سیر ان کی بھی دو چار قدم کیوں نہیں کرتے تم کس لیے معیار کی سولی پہ چڑھے ہو دانا ہو تو معیار کو کم کیوں نہیں کرتے کیوں چھوڑ نہیں دیتے ہمیں حال پہ اپنے اے اہلِ کرم! اتنا کرم کیوں نہیں کرتے کیوں اتنے خداؤں کی پر ستش میں لگے ہو سر ایک کی دہلیز پہ خم کیوں نہیں کرتے صحرائے تحیّر میں کھڑے سوچ رہے ہو رَم خوردہ ہو تم لوگ تو رم کیوں نہیں کرتے میں بھی تو حسینؓ ابنِ علیؓ کا ہوں ثنا خواں سر میرا سرِ عام قلم کیوں نہیں کرتے دم توڑ نہ دے آپ کا بیمارِ محبت عیسیٰ ہو تو بیمار پہ دم کیوں نہیں کرتے حیراں ہیں صنم خانے بھی اس بات پہ مضطرؔ! جو کہتے ہیں وہ بات صنم کیوں نہیں کرتے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ139۔140 81۔ وہ بے ادب حدود سے باہر نکل گیا وہ بے ادب حدود سے باہر نکل گیا سورج کو اس نے ٹوکنا چاہا تھا جل گیا میرے لیے جلائی تھی اس نے چِتا مگر شعلے ہوئے بلند تو موسم بدل گیا میں سنگِ رہگزر تھا اکیلا پڑا رہا طوفاں مرے قریب سے ہو کر نکل گیا دھرتی کو کھا کے ساحلوں کو چاٹتا ہؤا نفرت کا سانپ کتنے سمندر نگل گیا کس طرح اپنے آپ سے لڑتا مَیں چو مکھی غصّہ کیا جو ضبط تو آنسو نکل گیا نکلے تھے لوگ عہد کا یوسف خریدنے بازار میں گئے تو ارادہ بدل گیا ایوانِ شہرِ یار میں پھسلن تھی اس قدر جو شخص بھی قریب سے گزرا پھسل گیا گر وہ نہیں تو اس سے کئی اور بھی تو ہیں کالک جبینِ شہر پہ کوئی تو مل گیا کچھ دشتِ نینوائے ہوس بھی تھا ناشناس کچھ تیر بھی شہادتِ عظمیٰ کا چل گیا پھر یوں ہؤا کہ دفعۃً بدلا ہوا کا رُخ جس حادثے کا لوگوں کو خدشہ تھا، ٹل گیا صوت و صدا کا سلسلہ کچھ تو ہؤا بحال صد شکر ہے کہ روح کا پتھر پگھل گیا ''آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی'' موسم بھی سازگار ہے، سورج بھی ڈھل گیا مضطرؔ! تم آدمی ہو تو ہے وہ بھی آدمی دیکھو گے ایک دن کہ وہ گر کر سنبھل گیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ141۔142 82۔ نہ میں اس سے، نہ وہ مجھ سے ملا ہے نہ میں اس سے، نہ وہ مجھ سے ملا ہے مگر دل ہے کہ اس کو جانتا ہے یہ کیسی صبح کا چرچا ہؤا ہے اندھیرے میں نظر آنے لگا ہے میں اپنے سامنے ہوں بھی، نہیں بھی نظارہ آئنہ در آئنہ ہے یونہی ُبھولے سے آ جاؤ کسی دن کہ اس گھر کا تو دروازہ کھلا ہے کوئی آہٹ تو آئی ہے قفس میں کہیں اُمّید کا پردہ ہلا ہے لرز اُٹھّا ہے آدھی رات کا دل اندھیرے میں کوئی آنسو گرا ہے خدا رکھّے سلامت تجھ کو قاتل! کہ تُو اپنا پرانا آشنا ہے اندھیرا صبح کو جھٹلا رہا تھا اسے بھی اب یقیں آنے لگا ہے ہمہ تن گوش ہے ساری خدائی پسِ پردہ کوئی تو بولتا ہے کھڑا ہوں دم بخود ان کی گلی میں بڑی مدّت کے بعد آنا ہؤا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ143۔144 83۔ شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو اے لمحۂ فراق! کبھی مختصر بھی ہو کس طرح سے کٹے گی یہ کالی پہاڑ رات کوئی تو اس سفر میں ترا ہمسفر بھی ہو اس کو سرِ صفات پکارا کرو، مگر لازم نہیں کہ مرحلۂ شوق سر بھی ہو وہ رنگ ہے تو اس کا بھی کوئی لباس ہو خوشبو ہے وہ اگر تو کوئی اس کا گھر بھی ہو اتنا تو ہو کہ اس کی ملاقات کے لیے سینہ بھی ہو دُھلا ہؤا اور آنکھ تر بھی ہو وہ چاہتا ہے جب مرے خط کا جواب دے مَیں بھی ہوں اور ساتھ مرا نامہ بر بھی ہو بیٹھے ہیں انتظار میں چہروں کے چوک میں شاید کہ دل کا حادثہ بارِ دگر بھی ہو پت جھڑ کی آنکھ ڈھونڈ تو لے گی ہمیں، مگر اس شاخِ سبز پر کوئی لمحہ بسر بھی ہو بیٹھے رہو اذیّتوں کی پُل صراط پر ممکن ہے اس طرف سے کسی کا گزر بھی ہو دوشِ صبا پہ سیر کو نکلی ہے چاندنی ایسا نہ ہو کہ راہ میں گل کا بھنور بھی ہو مضطرؔ نے اپنے آپ سے کر لی مفاہمت پر یوں نہیں کہ اس کی کسی کو خبر بھی ہو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ137 79۔ اندر آنکھیں، باہر آنکھیں اندر آنکھیں، باہر آنکھیں جاگ رہی ہیں گھر گھر آنکھیں بھیگ گیا صحرا کا سینہ برسیں سوکھے امبر آنکھیں جانے والے کب آئیں گے پوچھتی ہےں یہ اکثر آنکھیں ان کو بینائی بھی دے دے آیا ہوں میں لے کر آنکھیں حیرت ہے اس اندھیارے میں دیکھ رہی ہیں کیونکر آنکھیں عہد کے ماتھے پر اُگ آئیں کیسی کیسی بنجر آنکھیں آوازوں پر چسپاں کر دو لفظوں کی بے منظر آنکھیں رہ چلتوں کو تکتے تکتے ہو جاتی ہیں پتھّر آنکھیں ٹوٹ رہا ہے عہد کا انساں دل دلّی، امرتسر آنکھیں مضطرؔ سے ملنے آئی ہیں کیسی کیسی کافر آنکھیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ145۔146 84۔ آنکھ میں جو آنسو لرزا تھا آنکھ میں جو آنسو لرزا تھا اس پر تیراؐ نام لکھا تھا صدی تھی یا شاید لمحہ تھا رک کر جو ملنے آیا تھا مجھ پر جو بادل برسا تھا بارش کا پہلا قطرہ تھا سب تیرے تھے، تُو سب کا تھا پھر بھی تُو کتنا تنہا تھا! میرے اندر جوبچہ تھا مَیں جھوٹا تھا، وہ سچا تھا عہد نے جو پتھر پھینکا تھا مَیں نے اس کو چوم لیا تھا آنسو بھی دُھل کر نکلا تھا بادل بھی ُکھل کر برسا تھا سولی تھی مجھ سے بھی اُونچی مَیں سولی سے بھی اونچا تھا مَیں نے جو چہرہ دیکھا تھا وہ تجھ سے ملتا جلتا تھا جس دن تو ناراض ہؤا تھا وہ دن بھی کتنا لمبا تھا تاریکی ہی تاریکی تھی سنّاٹا ہی سنّاٹا تھا آئینہ حیران کھڑا تھا اس نے تجھ کو دیکھ لیا تھا منزل کے اندر منزل تھی رستوں کے اندر رستہ تھا سب صدیاں تیری صدیاں تھیں ہر لمحہ تیرا لمحہ تھا اور بھی تھے دُنیا میں اچھّے لیکن تُو سب سے اچھّا تھا تُو ہی تھا مفہوم کا مالک لفظ تری خاطر اُترا تھا تیرے ہی چاکر تھے لمحے تُو ہی صدیوں کا آقا تھا سب دروازے بند تھے لیکن اک تیرا در تھا جو کھلا تھا دُنیا تجھ کو ڈھونڈ رہی تھی تُو سب کے ہمراہ کھڑا تھا سب کچھ کھو کر تجھ کو پایا یہ سودا کتنا سستا تھا خوشبو بھی بے تاب تھی مضطرؔ! پھول بھی خوشبو کا رسیا تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ147۔148 85۔ مَیں تھا یا میرا سایہ تھا مَیں تھا یا میرا سایہ تھا سورج جب ملنے آیا تھا مَیں نے جب پتھر کھایا تھا تُو نے چوٹ کو سہلایا تھا دیواریں ہی دیواریں تھیں در تھا نہ کوئی دروازہ تھا دھوپ تھی اور تپتا صحرا تھا پیڑ تھا نہ کوئی سایہ تھا مَیں ہمسائے سے کیا لڑتا ہمسایہ تو ماں جایا تھا چوٹ لگی تھی میرے دل پر تو کیوں آنسو بھر لایا تھا صدیوں کی پیاسی تھی دھرتی تو بارش بن کر آیا تھا تو تھا آدھی رات کا آنسو تو دھرتی کا سرمایہ تھا صدیوں نے پہچان لیا تھا لمحوں نے بھی اپنایا تھا چاند کا چہرہ ماند ہؤا تھا سورج کا رُخ گہنایا تھا تیری آنکھوں میں تھے آنسو میرا بھی جی بھر آیا تھا اس کی چوٹ لگی تھی تجھ کو مَیں نے جو پتھر کھایا تھا ماضی، حال اور مستقبل پر چاروں اور٭؎ ترا سایہ تھا تو آئینہ در آئینہ آئینوں سے ٹکرایا تھا پتھر آئینے سے اُلجھ کر دل ہی دل میں پچھتایا تھا سورج تھا بچپن کا ساتھی چاند پرانا ہمسایہ تھا شہروں میں تھیں ننگی سڑکیں بن میں سایہ ہی سایہ تھا شجرِ ممنوعہ سے مل کر میرا بھی جی للچایا تھا مَیں تو شاید گم ہو جاتا تُو تھا جو آڑے آیا تھا اک لمحہ لمحوں سے کٹ کر مضطرؔ سے ملنے آیا تھا اگست، ١٩٨٨ء ٭۔۔۔۔اوربروزن شور بمعنیٰ طرف چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ149 86۔ خدمت کے مقام پر کھڑا ہوں خدمت کے مقام پر کھڑا ہوں چھوٹا ہوں مگر بہت بڑا ہوں تیری ہی نہیں تلاش مجھ کو خود کو بھی تلاش کر رہا ہوں منسوخ نہ ہو سکوں گا ہرگز قدرت کا اٹوٹ فیصلہ ہوں ایسا نہ ہو ٹوٹ پھوٹ جاؤں آئینہ ترے وجود کا ہوں مالک ہے تُو میرے جسم و جاں کا چاہوں نہ تجھے تو کس کو چاہوں بولوں تو ہوں عہد کی علامت خاموش رہوں تو معجزہ ہوں جس شوخ کی بات کر رہے ہو اس کو تو ازل سے جانتا ہوں وہ میرے وجود کا مخالف میں اس کے بھلے کی سوچتا ہوں طوفاں کو بھی ہو چلا ہے احساس ساحل کے قریب آ گیا ہوں منزل ہوں تو معتبر ہوں مضطرؔ! رستہ ہوں تو سیدھا راستہ ہوں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ150 87۔ بال جب آئنے میں آنے لگا بال جب آئنے میں آنے لگا عکس اندر سے ٹوٹ جانے لگا آنکھ باقی رہی نہ تصویریں آئنہ آئنے کو کھانے لگا تھک نہ جائیں مری نحیف آنکھیں آتے آتے نہ اب زمانے لگا ہم نے صدیوں کو سَہہ لیا ہنس کر اب نہ لمحوں کے تازیانے لگا منزلوں کو اُجالنے والے! قافلوں کو کسی ٹھکانے لگا آنکھ، آئینہ، عکس، سب تیرے کون یہ درمیاں میں آنے لگا لاَ اِلٰہ کا ہو یا اَ نَا الْحَقْ کا کوئی نعرہ کسی بہانے لگا معترض! کچھ تو پوچھ مضطرؔ سے کوئی الزام ہی پرانے لگا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ151۔152 88۔ پھر مجھے اندلس بلانے لگا پھر مجھے اندلس بلانے لگا مَیں بھری کشتیاں جلانے لگا کُھل رہے ہیں قفس کے دروازے کون آیا ہے، کون جانے لگا اپنی طاقت کے بل پہ اک ناداں ہم فقیروں کو آزمانے لگا پہلے پوچھا ہمارا نام پتا پھر ہمیں گالیاں سنانے لگا ہم نے اُس کو پیامِ زیست دیا وہ ہمیں موت سے ڈرانے لگا اس کو چین آ سکا نہ کرسی پر مَیں سرِ دار مسکرانے لگا اس نے گل کر دیے چراغ تو مَیں اشک در اشک جھلملانے لگا آنکھ سے آنکھ تک چراغ جلے شہر کا شہر جگمگانے لگا جو مسلّط رہا تھا سال ہا سال نام تک اس کا بھول جانے لگا دل تشکّر کے جشن میں مضطرؔ! فرطِ لذّت سے جھوم جانے لگا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ153 89۔ تم کو بھی کوئی بددعا لگتی تم کو بھی کوئی بددعا لگتی تم بھی کہتے کبھی خدا لگتی حسرتوں کا شمار بھی ہوتا یہ نمائش بھی اے خدا! لگتی بات کرتے اگر حوالے سے ہر نئی بات آشنا لگتی کس قدر حبس ہے سرِ مقتل! اَبر ُکھلتا تو کچھ ہوا لگتی ناخدا! اس میں تیرا کیا جاتا میری کشتی کنارے جا لگتی دل کی دِلّی اُجڑ گئی مضطرؔ! پھول والوں کی کیا صدا لگتی ١٩٨٣ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ154 90۔ اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا اسے یہ ڈر ہے زمین پر آسماں گرے گا بدل کے رکھ دے گا شکل و صورت جہاں گرے گا تم اپنی بانہوں میں اس کو بڑھ کر سنبھال لینا ہوا کے رخ پر جہاز کا بادباں گرے گا نجات مل جائے گی سفر کی صعوبتوں سے سمندروں میں سرابِ عمرِ رواں گرے گا کبھی تو دیکھے گا اپنی صورت کو آئنے میں کبھی تو اپنی نظر میں وہ بدگماں گرے گا خدا کرے آسماں کا خیمہ رہے سلامت مکین بھی اب تو کہہ رہے ہیں مکاں گرے گا بس ایک ہلکا سا لمس درکار ہے نظر کا منافرت کا مجسّمہ ناگہاں گرے گا بدن کی اس آگ کو جلاتے رہو عزیزو! تمھارے اوپر ہی پھر پھرا کر دُھواں گرے گا پکڑنے والے بھی منتظر ہیں چھتوں پہ مضطرؔ! کہ یہ پرندہ گرا تو اب نیم جاں گرے گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ155۔156 91۔ ہر ایک سے گلے ملا، ہنس کر جدا ہؤا ہر ایک سے گلے ملا، ہنس کر جدا ہؤا وہ جا چکا تو شہر میں محشر بپا ہؤا جاناں کا اس طرح سے ہے چہرہ جلا ہؤا جس طرح ہو گلاب پہ کندن مَلا ہؤا گل چیں اداس، پھول پریشاں، چمن خموش عہدِ غمِ فراق میں کس کا بھلا ہؤا نکلا ہے آج اپنی انا کی حدود سے ورنہ تھا اپنی سمت وہ کب کا چلا ہؤا لہروں کے لمس سے تھے کنارے تھکے ہوئے پانی اُتر گیا تو ذرا حوصلہ ہؤا دریا کو پی کے اور بھی بے تاب ہو گیا دھرتی کے درد سے تھا سمندر بھرا ہؤا نہرِ فراتِ دیدہ و دل خشک ہو گئی اب کے برس وہ معرکۂ کربلا ہؤا پھر داغ ہائے دل کا نظارہ ہے دیدنی پھر گلشنِ فراغ ہے پھولا پھلا ہؤا دینے لگا دکھائی کنارہ وجود کا مدّت کے بعد پیڑ نظر کا ہرا ہؤا مٹّی میں مل کے بھی نہ کسی کام آ سکا رستے کا روگ بن گیا پتھر پڑا ہؤا مَیں جس کو ڈھونڈتا رہا آبادیوں کے بیچ وہ مسکرا رہا تھا اکیلا کھڑا ہؤا میرا وجود اس کے تصوّر میں کھو گیا وہ خود اگر نہ سامنے آیا تو کیا ہؤا مضطرؔ! بڑے طویل ہیں فرقت کے فاصلے راہی تھکا تھکا ہؤا اور دن ڈھلا ہؤا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ157 92۔ مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی بھی مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی بھی کیا ابھی اَور کوئی رہتی ہے قربانی بھی شکل اس شوخ کی تھی ہم نے تو پہچانی بھی وہ جو اس عہد کے انکار کا تھا بانی بھی اب تو کہتے ہیں یہ غولانِ بیابانی بھی عشق اس شہر کی عادت بھی ہے عریانی بھی خوں بہا دے نہ سکا میرے لہو کا قاتل یوں تو اس عہد میں تھی خون کی ارزانی بھی یہ الگ بات کہ ہو جاتی ہیں نظریں زخمی ورنہ منظر سے لپٹنے میں ہے آسانی بھی حسن خود مائلِ گفتار ہے لیکن مضطرؔ! کچھ تو ہو اس کے لیے سلسلہ جنبانی بھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ158 93۔ اگر آتا نہ ہو انکار پڑھنا اگر آتا نہ ہو انکار پڑھنا کبھی اس عہد کے اخبار پڑھنا تم اپنا جھوٹ خود پڑھ کر سنا دو ہمیں آتا نہیں سرکار پڑھنا وفا کے جرم میں اہلِ وفا کو کبھی باغی، کبھی غدّار پڑھنا خدائی کا اگر دعویٰ کیا ہے دلوں کو بھی بتِ عیّار! پڑھنا یہی تو ہے جھلک صبحِ ازل کی کسی چہرے کو پہلی بار پڑھنا میں مل کر آ رہا ہوں اک حسیں سے مجھے اے آئنہ بردار! پڑھنا مرا غم بن گیا ہے شہر کا غم مرے غم کو مرے غمخوار! پڑھنا مری فردِ عمل سب سے چھپا کر مرے سیّد، مرے ستّار! پڑھنا تمھی چاروں طرف لکھے ہوئے ہو مرے دل کے در و دیوار پڑھنا بدل جائے گا مضطر!ؔ میرا مفہوم کبھی مجھ کو نہ اتنی بار پڑھنا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ159 94۔ اپنوں کو بھی پکارے، غیروں کا دم بھرے بھی اپنوں کو بھی پکارے، غیروں کا دم بھرے بھی سائے سے ڈرنے والا دیوار سے ڈرے بھی نیلام گھر کی بولی جیتے بھی اور ہرے بھی میرے وطن کے سکّے کھوٹے بھی تھے، کھرے بھی آواز کے کنارے کوئی تو بولتا ہے کوئی تو بولتا ہے آواز سے پرے بھی موسم بھی معتدل تھا، مٹی میں بھی نمی تھی کچھ زخم بھرگئے تھے، کچھ زخم تھے ہرے بھی چکّر میں آ گیا تھا آواز کا پرندہ حائل تھے راستے میں موسم کے مشورے بھی سنگلاخ راستوں میں گم ہو گئے مسافر ایک ایک کر کے ٹوٹے منزل کے آسرے بھی آشوبِ آرزو کے اس عہدِ بے نظر میں متروک ہو گئے تھے دل کے محاورے بھی اس شوخ کو ہے یوں تو وعدے کا پاس لیکن پورا نہیں کرے گا وعدہ اگر کرے بھی وہ پھول جا چکا تھا گلشن سے دُور مضطرؔ! پر مانتے نہیں تھے بھنورے تھے بانورے بھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ160 95۔ حدِ ادراک تک پھیلی ہوئی ہیں رنگ کی گلیاں حدِ ادراک تک پھیلی ہوئی ہیں رنگ کی گلیاں ترے انفاس کی خوشبو، ترے آہنگ کی گلیاں جبینِ شب بتا کس مہ جبیں کی آمد آمد ہے سراپا شوق بن کر منتظر ہیں جھنگ کی گلیاں در و دیوار کو مہکا رہے ہیں زلف کے سائے غزل میں ڈھل گئی ہیں حسنِ شوخ وشنگ کی گلیاں وہ اُجلے اُجلے، نکھرے نکھرے غم کے آئینہ خانے وہ گدرائی ہوئی رخسار و رقص و رنگ کی گلیاں ذرا سے زلزلے سے ڈَھے گئیں فرقت کی دیواریں غرورِ عشق کے بازار، نام و ننگ کی گلیاں ڈبو کر خون میں نکھری ہوئی رنگیں ردا لاؤ کہ شہرِ ہجر میں ننگی ہیں خشت و سنگ کی گلیاں حریف اتنا پریشاں ہو رہا ہے کس لیے مضطرؔ! جو ہمّت ہے بسا لے وہ بھی اپنے ڈھنگ کی گلیاں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ161 96۔ یادوں کی گزر گئیں سپاہیں یادوں کی گزر گئیں سپاہیں تکتی رہیں دور سے نگاہیں فرقت کے برس رہے ہیں پتھر خطرے میں ہیں انتظار گاہیں پت جھڑ سے حساب مانگتی ہیں پیڑوں کی خزاں رسیدہ بانہیں پھولوں کا سکڑ گیا ہے سینہ خوشبوؤں کی چھن گئیں پناہیں تاریخ سے محوِ گفتگو ہوں اِمکان پہ نصب ہیں نگاہیں صحرائے نجف ہے اَور میں ہوں اللّٰہ! کہاں ہیں میری بانہیں شہروں نے نگل لیا زمیں کو راہوں سے بچھڑ گئی ہیں راہیں حیرت سے قلم کو تک رہی ہیں کاغذ کی پھٹی ہوئی نگاہیں ہونا تھا جو ہو چکا ہے مضطرؔ! اب چین سے عمر بھر کراہیں ١٩٨٨ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ162 97۔ کہتی ہیں یہ منتظر نگاہیں کہتی ہیں یہ منتظر نگاہیں اُتریں گی زمین پر پناہیں حالات سے کس طرح نباہیں جینا بھی اگر نہ لوگ چاہیں منظر کی نہ تاب لا سکیں گی بھولے سے اگر ملیں نگاہیں سینے ہیں مزار خواہشوں کے چہرے ہیں ہوس کی خانقاہیں خیموں میں ہیں بے وطن مسافر خیموں کی کٹی ہوئی ہیں بانہیں شاید انھیں مل گئے کھلونے بچّوں کی بدل گئیں نگاہیں آئے گا جواب آسماں سے بولیں گی ضرور سجدہ گاہیں اچھی بھی ہے عقل اور بُری بھی اتنا بھی نہ عقل کو سراہیں چھوڑیں بھی ہمیں، ہمارا کیا ہے اللّٰہ سے اپنی خیر چاہیں ہم سا بھی نہ ہو گا کوئی ناداں تجھ سے بھی اگر نہ ہم نباہیں پتّوں پہ لکھی ہوئی ہیں مضطرؔ! پَت جھڑ کی تمام اصطلاحیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ163 98۔ روکے سے نہ رک سکیں گی آہیں روکے سے نہ رک سکیں گی آہیں لمبی ہیں محبتوں کی بانہیں خوشبو کے خرید کر جزیرے پھولوں نے تراش لیں پناہیں پھولوں کا لباس جل گیا ہے غنچوں کی جھلس گئیں کلاہیں یہ صوت و صدا ، یہ حرف و معنیٰ ناقص ہیں تمام اصطلاحیں لگتا ہے نماز پڑھ رہے ہیں لفظوں کی کٹی ہوئی ہیں بانہیں یا رب! کوئی آبرو کا آنسو پانی کو ترس گئیں نگاہیں پت جھڑ کے شہید سو رہے ہیں تا حدِّ نظر ہیں خانقاہیں تصویر کو اِذن دے سخن کا آئینے کو بخش دے نگاہیں یادوں میں گھری ہوئی ہیں مضطرؔ! ماضی کی تمام سیر گاہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ159۔160 99۔ دھرتی کو نہ آگ سے بیاہیں دھرتی کو نہ آگ سے بیاہیں ہو جائیں بھَسَم نہ خواب گاہیں موڑے سے نہ مڑ سکیں گے دریا روکے سے نہ رک سکیں گی راہیں شہروں سے نکل کے راستوں نے کھنڈرات میں ڈھونڈ لیں پناہیں تصویر کو آ گیا پسینہ آئینے کی تھک گئیں نگاہیں ہے ایک سے اک حسین بڑھ کر چاہیں بھی تو کس حسیں کو چاہیں بارش نہ ہوئی تو آنسوؤں سے دھو لیں گے وفا کی شاہراہیں دیوار پہ بولتے ہیں کوّے آنگن میں گڑی ہوئی ہیں بانہیں مولا! اسے سایہ دار کر دے ننگی ہیں مرے وطن کی راہیں مضطرؔ ہے جہان بھر کا ضدّی چاہے گا وہی جو آپ چاہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ165۔166 100۔ حادثہ یوں تو ٹل گیا ہے بہت حادثہ یوں تو ٹل گیا ہے بہت گھر کا نقشہ بدل گیا ہے بہت اپنے اندر سے جل گیا ہے بہت آگ بھی وہ نگل گیا ہے بہت کچھ تو ماحول بھی تھا آلودہ زہر بھی وہ اُگل گیا ہے بہت اس کو پی لیجیے تسلّی سے اب یہ آنسو اُبل گیا ہے بہت عہد یوں بھی سفید پوش نہ تھا کوئی کالک بھی مل گیا ہے بہت زندگی رہ گئی ہے رستے میں وقت آگے نکل گیا ہے بہت کھڑکیاں کھول دو مکانوں کی اب تو سورج بھی ڈھل گیا ہے بہت اب کوئی حادثہ نہیں ہو گا دلِ ناداں سنبھل گیا ہے بہت سرحدوں میں سما نہیں سکتا یہ نظارہ پگھل گیا ہے بہت اس نے جب سے مکان بدلا ہے اس کا لہجہ بدل گیا ہے بہت خواہشوں کی پھوار میں کوئی چلتے چلتے پھسل گیا ہے بہت اس کی شاخیں تراش دو مضطرؔ! یہ شجر پھول پھل گیا ہے بہت چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ167۔168 101۔ مَیں بُرا اَور وہ بھلا ہے بہت مَیں بُرا اَور وہ بھلا ہے بہت میرے اللّٰہ! فاصلہ ہے بہت ا چھا اچھا، بُرا بُرا ہے بہت اب تو آسان فیصلہ ہے بہت دیکھیے! جیت کس کی ہوتی ہے میرا مجھ سے مقابلہ ہے بہت اجنبی اجنبی سا لگتا ہے یہ نیا گھر ابھی نیا ہے بہت ٹوٹ جائے نہ فرطِ لذّت سے آئنہ مسکرا رہا ہے بہت ''کوئی صورت نظر نہیں آتی'' سر سے پانی گزر گیا ہے بہت ہم ترے عہد میں ہوئے پیدا ہم کو اتنا بھی واسطہ ہے بہت غم دیا، غم کا احترام دیا تُو نے جو بھی دیا، دیا ہے بہت پھر کوئی حادثہ نہ ہو جائے آرزوؤں کا جمگھٹا ہے بہت یار! اتنے بھی ہم حقیر نہیں ہم نے مانا کہ تو بڑا ہے بہت عقل ناراض ہو گئی مضطرؔ! دلِ نادان بولتا ہے بہت چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ169 102۔ چھوڑ کر عقل کی باتیں ساری چھوڑ کر عقل کی باتیں ساری عشق سے مانگ زکوٰتیں ساری اسؐ کی توصیف مکمل نہ ہوئی ہو گئیں ختم لغاتیں ساری توڑ کر پھینک دے اسؐ کے در پر یہ قلم اور دواتیں ساری اسؐ کی نظروں سے چھپا کر رکھنا صوم اپنے یہ صلاتیں ساری اسؐ سے ہی ملتے ہیں سارے انعام سارے اکرام، نجاتیں ساری دیکھنا ان کو چھپا کر رکھنا کام آئیں گی یہ راتیں ساری ہے فقط عشق نجیب الطرفین اَور کم ذات ہیں ذاتیں ساری تن کی مٹی ہو کہ من کا سونا ایک ہی دھات ہیں دھاتیں ساری سامنا انؐ سے ہؤا جب مضطرؔ! خود گرا دو گے قناتیں ساری چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ170 103۔ شور ہونے لگا پتنگوں میں شور ہونے لگا پتنگوں میں روشنی بٹ گئی ہے رنگوں میں کیسے کیسے جوان مارے گئے حرف و صوت و صدا کی جنگوں میں اس میں کچھ آنکھ کا قصور نہیں رنگ ہی مل گئے ہیں رنگوں میں رات جب روشنی قریب آئی فاصلے بڑھ گئے پتنگوں میں ان کو ایفائے عہد کا ہے خیال ہے شرافت ابھی لفنگوں میں آنکھ لڑتی، زباں جھگڑتی ہے زندگی گھر گئی تلنگوں میں کیا ملا تھا معاوضہ اے دل! تُو بھی زخمی ہؤا تھا جنگوں میں آندھیاں بھی نہ ان کو کھول سکیں ایسی گِرہیں پڑیں پتنگوں میں کاش اپنا شمار ہو جائے تیری درگاہ کے ملنگوں میں ان کو ڈر ہے کہ اب کے مضطرؔ بھی ِگھر نہ جائے کہیں اُمنگوں میں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ170 103۔ شور ہونے لگا پتنگوں میں شور ہونے لگا پتنگوں میں روشنی بٹ گئی ہے رنگوں میں کیسے کیسے جوان مارے گئے حرف و صوت و صدا کی جنگوں میں اس میں کچھ آنکھ کا قصور نہیں رنگ ہی مل گئے ہیں رنگوں میں رات جب روشنی قریب آئی فاصلے بڑھ گئے پتنگوں میں ان کو ایفائے عہد کا ہے خیال ہے شرافت ابھی لفنگوں میں آنکھ لڑتی، زباں جھگڑتی ہے زندگی گھر گئی تلنگوں میں کیا ملا تھا معاوضہ اے دل! تُو بھی زخمی ہؤا تھا جنگوں میں آندھیاں بھی نہ ان کو کھول سکیں ایسی گِرہیں پڑیں پتنگوں میں کاش اپنا شمار ہو جائے تیری درگاہ کے ملنگوں میں ان کو ڈر ہے کہ اب کے مضطرؔ بھی ِگھر نہ جائے کہیں اُمنگوں میں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ171 104۔ تھک کے واپس آ گئی چشمِ سوال تھک کے واپس آ گئی چشمِ سوال ہر طرف حائل ہے دیوارِ خیال وہ نگاہوں کا مقامِ اِتّصال ہنس کے ملتے ہیں جہاں عجز و کمال مہرِ عالم تاب کے دربار میں اب بھی ذرّے بولتے ہیں خال خال جسم و جاں دونوں معطّر ہو گئے کتنا خوشبودار ہے تیرا خیال اب نظر آئیں گے دل کے فاصلے چاند نکلا ہے سرِ غارِ خیال باغ میں پت جھڑ کا ننگا ناچ ہے گا رہی ہے ماہیا بادِ شمال دیکھنے والے بھی مضطرؔ! آئیں گے حسن کو جب ہو گا احساسِ جمال چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ172 105۔ یار خود آ گیا قریب مرے یار خود آ گیا قریب مرے دیکھتے رہ گئے رقیب مرے چاہتا ہوں، پکارتا ہوں تجھے بولتے کیوں نہیں مجیب مرے! ابھی دل کے صنم نہیں ٹوٹے بت شکن، کاسرِ صلیب مرے تم تو آؤ سرورِ جاں بن کر آگے قسمت مری، نصیب مرے چادرِ عفو میں چھپا لیجے اور آ جایئے قریب مرے تیرے محبوبؐ کا غلام ہوں مَیں زہے قسمت مری، نصیب مرے "موت کیا زندگی نہیں ہوتی'' کیوں پریشان ہیں طبیب مرے کچھ تو مضمون بھی نرالا ہے کچھ ہیں عنوان بھی عجیب مرے نام بدنام ان کے فیض سے ہے میرے احباب ہیں نقیب مرے ذکر ہو گا مری وفاؤں کا زخم بولیں گے عنقریب مرے ٹوٹ کر بھی ابھی نہیں ٹوٹے بت نرالے، صنم عجیب مرے رات جب فاصلے بڑھے مضطرؔ! شمع اور آ گئی قریب مرے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ173 106۔ کچھ تو دنیا بھی آنی جانی لگی کچھ تو دنیا بھی آنی جانی لگی کچھ گلی یار کی سہانی لگی ان کی ہر بات کا یقیں آیا ان کی ہر بات آسمانی لگی ان کا غصّہ ہے پیار سے بڑھ کر ان کی سختی بھی مہربانی لگی ان سے مل کر بدل گئی ہر چیز عمرِ فانی بھی جاودانی لگی اک قیامت گزر گئی دل پر سننے والوں کو اک کہانی لگی سر جھکا کر جو غور سے دیکھا ہر نئی آرزو پرانی لگی تیرے غم کے بغیر مضطرؔ کو کتنی بے کار زندگانی لگی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ174 107۔ مرا بیاں ہے بہت مختصر بھی، سادہ بھی مرا بیاں ہے بہت مختصر بھی، سادہ بھی جو سننا چاہو تو اس کا کروں اعادہ بھی میں اپنے آپ سے بھی کھل کے مِل نہیں سکتا اگرچہ اس کا کِیا بارہا ارادہ بھی عجب نہیں کہ اچانک پرانا ہو جائے عروسِ عہد کا تازہ تریں لبادہ بھی مَیں ایک ہوں، کبھی تقسیم ہو نہیں سکتا اگرچہ بانٹ لو تم مل کے آدھا آدھا بھی وہ دل کی بات تھی کھل کر زباں پہ آنہ سکی اگرچہ اس نے کیا بار بار وعدہ بھی اسے اکیلے اُٹھاؤ گے کس طرح مضطرؔ! بدن کا بوجھ ہے اور بوجھ ہے زیادہ بھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ176 109۔ ارمغاں ہے یہ پیرِ کامل کا ارمغاں ہے یہ پیرِ کامل کا داغ ہے یا چراغ ہے دل کا وار اوچھا پڑا ہے قاتل کا دیدنی ہو گا رقص بسمل کا گر گئی اس کے ہاتھ سے تلوار جاگ اُٹھّا ضمیر قاتل کا آپ طوفاں سے ڈر رہے ہوں گے مجھ کو کھٹکا لگا ہے ساحل کا جس قدر تھا قصور آنکھ کا تھا نام بدنام ہو گیا دل کا اب کے گزرا کچھ اس طرح طوفاں مٹ گیا ہے نشان ساحل کا منزلوں سے گزر رہے ہیں لوگ پوچھتے ہیں نشان منزل کا تیرے چہرے کی چاندنی کی قسم راستہ جگمگا اٹھا دل کا عقل کیا، عقل کی حقیقت کیا جمگھٹا سا ہے اک دلائل کا راستے پاس آ گئے مضطرؔ! رات قصّہ چھڑا تھا منزل کا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ177 110۔ دل کی منزل بھی سر نہ ہو جائے دل کی منزل بھی سر نہ ہو جائے بے صدا گھر کا گھر نہ ہو جائے میری فریاد کو نہ غور سے سن تیرے دل پر اثر نہ ہو جائے پھر کوئی آ رہا ہے جانبِ دل کہیں دل کو خبر نہ ہو جائے شبِ فرقت! ہو تیری عمر دراز تُو کہیں مختصر نہ ہو جائے غمِ دُنیا بھی خوب ہے پیارے! اس کی عادت اگر نہ ہو جائے حسن کی شان میں کوئی تقصیر تجھ سے اے بے نظر! نہ ہو جائے شبِ غم کے قرار! آ جاؤ آ بھی جاؤ، سحر نہ ہو جائے تھام لے اب زبان کو مضطرؔ! گفتگو بے اثر نہ ہو جائے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ178 111۔ صبحِ عہدِ شباب ہو جیسے صبحِ عہدِ شباب ہو جیسے فرصتِ بے حساب ہو جیسے چاندنی ہو، چناب ہو جیسے زندگی محوِ خواب ہو جیسے اتنی ناکامیابیوں کے بیچ زندگی کامیاب ہو جیسے آرزوؤں کی دھوپ چھاؤں میں آرزو محوِ خواب ہو جیسے میری کشتی کے ڈوبنے کے بعد مطمئن سطحِ آب ہو جیسے سوچتا ہوں کہ اپنے آپ سے بھی ایک گونہ حجاب ہو جیسے ان کو دیکھا تو یوں ہؤا محسوس عشق کارِ ثواب ہو جیسے دیکھتے ہیں وہ اس طرح مضطرؔ! کوئی ان کا جواب ہو جیسے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ179 112۔ یوں سوالات سر میں رہتے ہیں یوں سوالات سر میں رہتے ہیں جیسے مجبور گھر میں رہتے ہیں آنسوؤں کو نہ روکیے صاحب! یہ مسافر سفر میں رہتے ہیں دشت در دشت آہوانِ خیال انتظارِ سحر میں رہتے ہیں فصلِ وحشت میں احتیاطاً لوگ پا بہ زنجیر گھر میں رہتے ہیں ہو کے مستور لاکھ پردوں میں دل میں بستے، نظر میں رہتے ہیں کس لیے ٹوکتے ہو مضطرؔ کو کیا یہی شہر بھر میں رہتے ہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ180 113۔ حادثہ وہ جو اب کے سال ہؤا حادثہ وہ جو اب کے سال ہؤا حسبِ اُمّید، حسبِ حال ہؤا سن کے کہنے لگے مرا احوال ''ہم کو صدمہ ہؤا، ملال ہؤا'' ایک تجھ سے وفا کی تھی اُمّید تو بھی لوگوں کا ہم خیال ہؤا تیرے بے وجہ مسکرانے پر ہم کو کیا کیا نہ احتمال ہؤا جس سے پوچھو وہی فرشتہ ہے آدمی کوئی خال خال ہؤا ایک بندہ، ہزار بندہ نواز بندگی کیا ہوئی، وبال ہؤا دلِ مرحوم کو خدا بخشے ایک ہی صاحبِ کمال ہؤا کچھ تو دل کو قرار آئے گا تو ہؤا یا ترا خیال ہؤا عشق کی دار و گیر میں مضطرؔ! ایک دل تھا جو پائمال ہؤا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ181 114۔ کبھی بہار کو ترسے، کبھی خزاں سے ڈرے کبھی بہار کو ترسے، کبھی خزاں سے ڈرے یہ پھول کھلنے سے پہلے ہزار موت مرے یہ اشک ہیں کہ حسینوں کے ہیں پرے کے پرے دُھلے دھلائے ہوئے بانورے بنے سنورے نقاب پوش کھڑے ہیں صدا کی سرحد پر فصیلِ شہرِ خموشاں ہے آہٹوں سے پرے غروب ہو گئے چہرے، اُجڑ گئی محفل نہ حسنِ جلوہ نمائے، نہ عشقِ خوش نظرے صنم فروش، صنم گر، صنم پرست ہے دل یہ اور بات ہے کہتے ہوئے زباں سے ڈرے کبھی جو عہدِ گزشتہ کو لوٹ کر دیکھا دل و نگاہ نے کیا کیا نہ اس میں رنگ بھرے اِنھی کے فیض سے قائم ہے زندگی کی بہار خدا کرے کہ رہیں زندگی کے زخم ہرے خدا کرے کہ مری یاد بھول جائے اُسے مَیں اُس کو بھول سکوں، یہ کبھی خدا نہ کرے پھرا کرے ہے اکیلا اُداس کیوں مضطرؔ! نہ مسکرائے، نہ بولے کبھی، نہ آہ بھرے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ182 115۔ وہ چاہتا تھا کہ دو چار روز ہنس کے رہے وہ چاہتا تھا کہ دو چار روز ہنس کے رہے یہ اور بات ہے سونے کے سانپ ڈس کے رہے مَیں جان دے کے بھی امسال مطمئن نہ ہؤا سرِ صلیب بھی چرچے مری ہوس کے رہے فقیہِ شہر نے قدغن لگا دی موسم پر جمالِ یار کے بادل مگر برس کے رہے ہزار بے وطنی تھی، ہزار بے بدنی گلِ مراد کی خوشبو میں شہر بس کے رہے نہ گل رہا ہے، نہ گل چیں، نہ رسمِ گل چینی رہی تو لمس کی لذّت، نظر کے چسکے رہے ہؤا نہ ہو گا کبھی یہ ستم زمانے میں کہ گوجرے میں رہے یار، آپ ڈسکے رہے بدن سے مل کے بدن اور ہو گئے تنہا جو فاصلے تھے وہی فاصلے ہوس کے رہے مجھے جلا دے، مری آہ کو اسیر کرے اسے کہو کہ نہ درپے مرے قفس کے رہے کچھ ایسے بدلا ہے آئینِ گلستاں مضطرؔ! کہ تابِ برق نہ اب حوصلے قفس کے رہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ183 116۔ نہ ہم فقیروں کی خاطر، نہ آشنا کے لیے نہ ہم فقیروں کی خاطر، نہ آشنا کے لیے ''تو اپنی جان کی مت کھا قسم خدا کے لیے'' روش روش پہ ہیں بے تاب منزلوں کے ہجوم قدم قدم پہ ہیں خطرات رہنما کے لیے طفیل جس کے غمِ دوجہاں قبول کیا ترس گئے ہیں اسی چشمِ آشنا کے لیے نہ اپنی مانے، نہ اَوروں کا اعتبار کرے مقامِ خوف ہے عقلِ گریز پا کے لیے ہزار آنکھ میں اشکوں کے جل رہے تھے چراغ دیے بھی ساتھ تری یاد کے جلا کے لیے سحر تو سر پہ کھڑی ہے، سحر کا نام نہ لو سحر سحر نہ کرو قاتلو! خدا کے لیے ستارے شامِ غریباں کے چاند بن کے چڑھے یہ اہتمام مقدّر تھا کربلا کے لیے سب اس کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہوئے وفا کی رسم چلی ایک باوفا کے لیے کرم کی ان کے ہے مضطرؔ! جہان بھر میں دھوم چلو نہ تم بھی کبھی عرضِ مدّعا کے لیے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ184 117۔ اس شہرِ انتخاب کےپتھر اٹھا لیے اس شہرِ انتخاب کےپتھر اٹھا لیے واللّٰہ ہم نے لعل و جواہر اٹھا لیے گھر سے چلے تو خاکِ وطن سر پہ ڈال لی پلکوں پہ جیتے جاگتے منظر اٹھا لیے پت جھڑ کے زرد شور میں بادِ شمال نے افتادگانِ ماہِ دسمبر اٹھا لیے بزمِ شعورِ ذات کے مسند نشین ہیں وہ غم جو لاشعور سے لے کر اٹھا لیے اس شہرِ بے قرار کے حالات دیکھ کر آسودگانِ شہر نے بستر اٹھا لیے چہرے کی تیز دھوپ میں چہرہ لپیٹ کر زلفِ سیاہِ یار کے اژدر اٹھا لیے تن کی چِتا سے عقل کی عیّار آنکھ نے جلتے ہوئے جمال کے پیکر اٹھا لیے دار و رسن کے مذہب و آئین کے خلاف ہم جا چکے تو آپ نے پتھر اٹھا لیے صدمے جو بھول کر بھی اٹھائے نہ تھے کبھی عہدِ غمِ فراق میں مضطرؔ! اٹھا لیے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ185۔186 118۔ آنسو اُبل کے دیدۂ مضطرؔ میں آ گئے آنسو اُبل کے دیدۂ مضطرؔ میں آ گئے دستک دیے بغیر بھرے گھر میں آ گئے لذّت ہمیں نصیب ہوئی انتظار کی انعام سب ہمارے مقدّر میں آ گئے آنسو گرا تو سوچ کا سینہ لرز گیا طوفان آہٹوں کے سمندر میں آ گئے ہنگامِ ذبح عمرِ گزشتہ کے واقعات ایک ایک کر کے ذہنِ کبوتر میں آ گئے خوابِ سحر سے جاگ بھی نادان! آنکھ کھول سورج پگھل کے جامِ گلِ تر میں آ گئے پردہ اُٹھا تو عقل کا چہرہ اُتر گیا لاکھوں شگاف ذہن کی چادر میں آ گئے "اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے'' تم کیوں مشاہدات کے چکّر میں آ گئے کچھ لوگ رہنِ چشمۂ آبِ بقا ہوئے اَور کچھ فریبِ بادہ و ساغر میں آ گئے ''ہر روز روزِ عید ہے، ہر شب شبِ برات'' محفل سے اُٹھّے کوچۂ دلبر میں آ گئے ذرّات کی برہنگی کی تاب تھی کسے ذرّے جلے تو چاند بھی چکّر میں آ گئے چہرہ دکھا دے شاہدِ معنٰی! قریب آ الفاظ دامِ زلفِ معنبر میں آ گئے اب بوالہوس غریب کرے بھی توکیا کرے جو حادثے تھے دامنِ مضطرؔ میں آ گئے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ187۔188 119۔ یار کو دیکھنے اغیار کا لشکر نکلا یار کو دیکھنے اغیار کا لشکر نکلا یار وہ شوخ نہ گھر سے کبھی باہر نکلا پاس مقتل کے مرے کوچۂ دلبر نکلا دار سمجھے تھے جسے یار کا دفتر نکلا دشت پیمائی کی تکلیف اُٹھائی نہ گئی دشت پیمائی کا ساماں تو ّمیسر نکلا ذرّے ذرّے میں ملے گھومتے پھرتے سورج قطرے قطرے کو جو چیرا تو سمندر نکلا اس میں لذّت بھی ہے، تلخی بھی ہے،تنہائی بھی ہجر کا دن تو شبِ وصل سے بہتر نکلا جیسے یہ آپ ہی خود اپنا تماشائی ہو چاند یوں رات سرِ شاخِ صنوبر نکلا منزلوں پھیل گئی تیرے بدن کی نکہت راستہ تیری ہی خوشبو سے معطّر نکلا کون یہ آخرِ شب کر گیا مجھ کو بے تاب کون یہ گھر کو مرے آگ لگا کر نکلا اپنوں بے گانوں میں رہنے لگے چرچے ہر دم اتنا احسان تو احباب کا ہم پر نکلا ہر طرف پھیل گئی ہجر کی زردی مضطرؔ! چاند چہرے پہ لیے درد کی چادر نکلا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ189 120۔ کچھ وہی لوگ سرفروش رہے کچھ وہی لوگ سرفروش رہے موت کا ڈر نہ جن کو ہوش رہے آپ نے بات بات پر ٹوکا ہم سرِدار بھی خموش رہے کس قدر وضعدار ہیں ہم لوگ قبر میں بھی سفید پوش رہے ہم خطاکار تھے بہر صورت وہ بہر حال عیب پوش رہے بیٹھے بیٹھے وہ انقلاب آیا رِند باقی نہ مے فروش رہے ہم نے اک بات سرسری کی تھی آپ کیوں عمر بھر خموش رہے ڈھل چکا دن، اُتر گئے دریا ولولے ہیں نہ اب وہ جوش رہے ان کے ہو جاؤ تم اگر مضطرؔ! فکرِ فردا نہ فکرِ دوش رہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ190 121۔ شیشے میں جو ہو جائے سفارش کی پری بند شیشے میں جو ہو جائے سفارش کی پری بند پھر شہر نہ دیہات نہ پنڈی نہ مری بند کچھ حبس بھی بڑھ جائے، اندھیرا بھی سوا ہو کر دینا دریچوں کو مری جان! ذری بند اب لوگ سرِ عام لیے پھرتے ہیں شیشے شیشہ شکنی بند ہے نَے شیشہ گری بند منزل کی ہو خواہش تو نکل آتے ہیں رستے نیّت ہو اگر نیک تو خشکی نہ تری بند طرفین میں ہے اب بھی محبت کاتعلق ہو گی نہ کبھی رسم و رہِ نامہ بری بند ہے عشق کا آزار نہ آشوب جنوں کا اک عقل کی آواز تھی سو تم نے کری بند لگتا ہے کہ مضطرؔ پہ کوئی ہو گی عنایت نکلے ہو پہن کر جو سیاست کے پری بند چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ191۔192 122۔ عقل کا اندھا ہے دیوانہ نہیں عقل کا اندھا ہے دیوانہ نہیں تم نے دیوانے کو پہچانا نہیں عاشقِ صادق ہوں فرزانہ نہیں میرے اندر عقل کا خانہ نہیں مَیں گیا موسم نہیں ہوں، وقت ہوں مجھ کو واپس لوٹ کر آنا نہیں نیک ہونے کا ہے نیّت پر مدار نیکیوں کا کوئی پیمانہ نہیں چین آ سکتا نہیں اس دور میں اور آ جائے تو گھبرانا نہیں کوئی منزل ہے نہ کوئی راستہ اب کہیں آنا نہیں جانا نہیں پیش و پس کا کیا تجھے ادراک ہو تُو کسی تسبیح کا دانہ نہیں زندہ رہنے کی سزا ہے زندگی کوئی مرنے کا بھی جرمانہ نہیں دل پہ دستک دے رہے ہو کس لیے گھر میں کوئی صاحبِ خانہ نہیں جاؤ لے آؤ شرافت کی َسند کیا تمھارے شہر میں تھانہ نہیں تُو ہے مضطرؔ! ایک ہی در کا غلام تیری قسمت ٹھوکریں کھانا نہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ193۔194 123۔ عرش پر جب اثر گیا ہو گا عرش پر جب اثر گیا ہو گا نالہ بھی تا سحر گیا ہو گا ''مشکل آسان ہو گئی ہو گی'' درد حد سے گزر گیا ہو گا جانتا ہوں دعا کے موسم میں وہ اکیلا کدھر گیا ہو گا نارِ نمرود بجھ گئی ہو گی صحن پھولوں سے بھر گیا ہو گا دار پر شب گزر گئی ہو گی لوٹ کر کون گھر گیا ہو گا آرزو کے محاذ پر کوئی ضبط کی بازی ہَر گیا ہو گا اس کی آواز کی صداقت پر لفظ ّلذت سے بھر گیا ہو گا روزناموں کا نامۂ اعمال میری خبروں سے بھر گیا ہو گا عہدِ غم میں نہ جانے کس کس کی جاں گئی ہو گی، سر گیا ہو گا اس میں خنجر کا کچھ کمال نہیں زخم خود بن سنور گیا ہو گا آؤ دریا کی سیر کر آئیں اب تو پانی اُتر گیا ہو گا کہیں ایسا نہ ہو چھلک جائے صبر کا جام بھر گیا ہو گا منہ سے بولا نہیں اگر مضطرؔ کچھ اشارہ تو کر گیا ہو گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ197۔198 125۔ اٹھتے اٹھتے اُٹھے نقاب بہت اٹھتے اٹھتے اُٹھے نقاب بہت ہو گیا کوئی بے حجاب بہت شرم سے ہے وہ آب آب بہت اس کو اتنا بھی ہے عذاب بہت بخش دے تو مجھے بغیرِ حساب مجھ کو اتنا بھی ہے حساب بہت خوابِ غفلت سے جاگ ،آنکھیں کھول آ گیا سر پہ آفتاب بہت ایک دل تھا کہ مطمئن نہ ہؤا یوں تو میں نے دیے جواب بہت کچھ تمھارا سوال بھی تھا غلط ہو گیا وہ بھی لاجواب بہت میرے ہمزاد نے کہا مجھ سے ''میں کروں گا تجھے خراب بہت'' ایک عیّار ہے دلِ ناداں بھیس ہیں اس کے بے حساب بہت مسکرا کر ملا کرو ہم سے اس کا ہو گا تمھیں ثواب بہت اَور بھی پھول ہوں گے دنیا میں ہم کو ہے ایک ہی گلاب بہت مسکرانے بھی دے انھیں مضطرؔ! کر نہ زخموں کا احتساب بہت چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ199۔200 126۔ تصدیق چاہتا ہے اگر، آفتاب لا تصدیق چاہتا ہے اگر، آفتاب لا منہ بولتا ثبوت کوئی ہمرکاب لا اظہار کی چتا میں سلگنے کی تاب لا شب ماہتاب بانٹ، سحر آفتاب لا اتنا تو ہو تُو اُس کے لیے بے قرار ہو تُو چاند ہے تو چاندنی کا اضطراب لا جس کا عدالتوں میں حوالہ دیا گیا وہ اقتباس مَیں بھی پڑھوں لا کتاب لا خلقت کھڑی ہے کاسۂ حیرت لیے ہوئے اے حسنِ تام! حسن کو زیرِ نقاب لا اتنا تو دیکھ آ رہا ہوں کتنی دور سے اے بے مقام! میرے سفر کا ثواب لا تحفہ تو پیش کر کوئی منصورِ وقت کو پتھر اگر نہیں ہے تو برگِ گلاب لا کب سے گھرا ہؤ ا ہوں صدا کے حصار میں میرے مجیب! میری فغاں کا جواب لا پیاسا ہوں، مجھ کو بخش دے نہرِ فراتِ غم اس دشتِ بے سحاب میں کوئی سحاب لا پاؤں میں اس کو روندتا پھرتا رہا ہے تُو اللّٰہ کی زمین کا مضطرؔ! حساب لا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ201 127۔ ہر دید حضوری تو نہ ہووے ہر دید حضوری تو نہ ہووے اور دوری بھی دوری تو نہ ہووے کر سکتے ہیں بات مختصر بھی تمہید ضروری تو نہ ہووے کس طرح ادا ہو حرفِ مطلب تمہید ہی پوری تو نہ ہووے سیکھا نہیں جاتا عشق کا فن یہ بات شعوری تو نہ ہووے مل جاتی ہے بے سبب بھی عزّت ''تقصیر'' ضروری تو نہ ہووے اُلفت ہے خود آپ اپنی منزل یہ چیز عبوری تو نہ ہووے کھل کر کرو بات ان سے مضطرؔ! فریاد ادھوری تو نہ ہووے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ202 128۔ زخم کریدو، شور کرو، فریاد کرو زخم کریدو، شور کرو، فریاد کرو بنجر راتیں رو رو کر آباد کرو سرخ سنہری آگ جلاؤ اشکوں کی گھر بیٹھے سیرِ اسلام آباد کرو قاتل ہوں، مقتول بھی ہوں، مقتل بھی ہوں کس حیثیت سے بولوں، ارشاد کرو ہم بھی پیارے! تیرے چاہنے والے ہیں آنکھ سے آنکھ ملاؤ، روح کو شاد کرو ناداں، نالائق ہے، عقل سے عاری ہے عقل کے اندھو! مضطرؔ کو استاد کرو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ203 129۔ اس فیصلے میں میرا اگر نام آئے گا اس فیصلے میں میرا اگر نام آئے گا تہمت لگے گی تم پہ بھی الزام آئے گا اس کو علامتوں کی ضرورت نہیں رہی اب کے وہ آئے گا تو سرِ عام آئے گا کب تک رہے گی خلقِ خدا اس کی منتظر کوئی تو آسمان سے پیغام آئے گا سائے کی طرح ہر کوئی دیوار گیر ہے وہ جائے گا تو خلق کو آرام آئے گا خوشبو پہن کے نکلی ہے آواز عہد کی لگتا ہے کوئی صاحبِ الہام آئے گا آواز آ رہی ہے یہی آسمان سے اب طائرِ زمیں نہ تہِ دام آئے گا مجھ ہی سے اس کی خط و کتابت ہے آجکل آئے گا اس کا خط تو مرے نام آئے گا مضطرؔ کو جلنے دیجیے فرقت کی آگ میں پتھر پگھل گیا تو کسی کام آئے گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ204 130۔ قصّہ یہ ہے کہ جس کو بھی دیکھا قریب سے قصّہ یہ ہے کہ جس کو بھی دیکھا قریب سے لپٹا ہؤا تھا آپ ہی اپنی صلیب سے مَیں خود بھی اپنے آپ کو پہچانتا نہ تھا ناحق گزر رہا تھا وہ میرے قریب سے اے اہل شہر! شہر کے دُکھڑوں کی داستاں لکھوا لیا کرو کسی اچھّے ادیب سے آئیں خبر فروش تو ان سے ملاؤ ہاتھ مقتل میں جا کے صلح بھی کر لو رقیب سے! اب آئنوں میں شہر کی قسمت پڑھا کرو ہیں صورتیں نئی نئی، چہرے عجیب سے اب کر سکو تو آپ ہی اس کا کرو علاج درماں کی کچھ امید نہ رکھو طبیب سے لکھا گیا ہے دار پہ جس باوفا کا نام اس کے نصیب پوچھ کسی خوش نصیب سے کافر لکھا ہے نام ہمارا سرِ صلیب ملتا ہے ایسا مرتبہ مضطرؔ! نصیب سے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ205۔206 131۔ یہ اک اور قیامت ڈھائی لوگوں نے یہ اک اور قیامت ڈھائی لوگوں نے یار سے جا کر چغلی کھائی لوگوں نے تیرے نام کی دے کے دُہائی لوگوں نے بستی بستی آگ لگائی لوگوں نے جیتے جی مرنے کے لیے بے چین رہے مر کے بھی تسکین نہ پائی لوگوں نے لین دین کے صاف ،گرہ کے پورے ہیں ایک سنی تو لاکھ سنائی لوگوں نے اپنوں کے گاہک بھی ہیں، بیوپاری بھی بیچ دیا یوسف سا بھائی لوگوں نے ہجر کی رُت میں اشک بہائے، نیر ِپیے یونہی آگ سے آگ بجھائی لوگوں نے ایک ہی دن میں رو رو کر بے حال ہوئے کب دیکھی تھی ایسی جدائی لوگوں نے چہرے نوچ کے پھینک دیے آوازوں کے لفظوں کی دیوار گرائی لوگوں نے کرنے کو تو ایک اشارہ کافی تھا ناحق شور کیا سودائی لوگوں نے اپنے بیگانے سب آئے ملنے کو چھین لی مضطرؔ کی تنہائی لوگوں نے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ207 132۔ پھر کسی سوچ نے گھونگھٹ کھولا پھر کسی سوچ نے گھونگھٹ کھولا دور اندھیرے میں کوئی پھر بولا پھر وہی دھیان کی منزل آئی روح رونے لگی، سینہ ڈولا کچھ فرشتے تھے جو آڑے آئے آدمی کوئی نہ ہنس کر بولا ہم نے میزانِ عدالت دیکھی عشق تولا گیا تولہ تولہ یوں نہ دُھل پائے گا دل کا دامن آنکھ کے پانی میں جا کر دھو لا رہ گئیں دل ہی میں دل کی باتیں زخم چلّائے نہ آنسو بولا رات بھر روتا رہا ہے مضطرؔ اس کو سینے سے لگا لے ڈھولا! چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ208 133۔ میں جب بھی سرِ دیدۂ تر گیا میں جب بھی سرِ دیدۂ تر گیا نہاں خانۂ دل سے ہو کر گیا ہوئے جب سے ہم آہٹوں کے اسیر وہ سننے سنانے کا چکر گیا اندھیروں کے انجام کو دیکھنے سرِ چشم تاروں کا لشکر گیا ستارے ستاروں سے ٹکرا گئے خلاؤں کا دل شور سے بھر گیا سبھی راستے دشت میں رہ گئے مَیں خود دشت کے پار اکثر گیا سرِ دار کوئی صدا تھی نہ شور تو کیوں اپنی آواز سے ڈر گیا میں بیٹھا رہا دل کی دہلیز پر نہ باہر رُکا مَیں، نہ اندر گیا وہ صدیوں سے اس گھر میں آباد ہے ابھی چاند کھڑکی سے باہر گیا ازل آرزوؤں کی دیوار پر جو بیٹھا ہؤا تھا کبوتر گیا وہ پھر آ گئی زندگی راہ پر وہ پھر ان کے ہاں آج مضطرؔ گیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ209۔210 134۔ مِل ہی جائے گی دل کی منزل بھی مِل ہی جائے گی دل کی منزل بھی کچھ تو اپنی جگہ سے تُو ہِل بھی ہم فقیروں سے بے نواؤں سے مسکرا کر کبھی گلے مل بھی اس سے سارا جہان ہے ناراض جو ہے سارے جہان کا دل بھی ریزہ در ریزہ، لمحہ در لمحہ ٹوٹ جائے گی وقت کی سل بھی عہد ہے اس کے درپئے آزار عہد کا ہے جو پیرِ کامل بھی کوئی طوفان بھیج دے یا رب! اب تو پاس آ گیا ہے ساحل بھی کبھی ملتا کبھی نہیں ملتا سہل بھی اس کا ملنا مشکل بھی مسکراہٹ کو دیکھ کر میری اب تو گھبرا گیا ہے قاتل بھی جن کو دعویٰ ہے دوستی کا آج کل مرے قتل میں تھے شامل بھی کبھی اس پر بھی غور کر مضطرؔ! تیرا دل ہے تو اس کا ہے دل بھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ211۔212 135۔ کسی کے روکنے سے کم رکے گا کسی کے روکنے سے کم رکے گا یہ طوفاں خودبخود یک دم رکے گا طلوعِ صبح تک ہے شورِ محشر گھڑی بھر میں یہ زیر و بم رکے گا ہوس کی آگ ہے جلتی رہے گی دھواں اُٹھتا رہے گا، دم رکے گا تم آ جاؤ تو کچھ تسکین ہو گی یہ دردِ دل ذرا باہم رکے گا ہماری یاد تڑپایا کرے گی زمانہ روئے گا جب دم رُکے گا بتا اے کاروبارِ غم کے خالق! کبھی یہ کاروبارِ غم رکے گا؟ کہیں گل بھی نہ ہنسنا بند کر دیں سنا ہے گریۂ شبنم رکے گا یہ چلتا چوک ہے چہرے چھپا لو یہاں ہر ایک نامحرم رکے گا یہ شہرِ غم ہے، وہ شہرِ طلب ہے کہیں تو چاند کا پرچم رکے گا عدم کی سرزمیں بھی آن پہنچی پرائے دیس کا ماتم رکے گا یہی رودِ چنابِ آرزو ہے یہیں تو چاند کا پرچم رکے گا زمانہ آئے گا ملنے کو مضطرؔ! سرِ مرقد بچشمِ نم رکے گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ213 136۔ میں بچھڑ تو گیا، جدا نہ ہؤا میں بچھڑ تو گیا، جدا نہ ہؤا مجھ کو فرقت کا غم ذرا نہ ہؤا اشک آنسو تھا جب روانہ ہؤا پھیلتے پھیلتے فسانہ ہؤا اب عروسِ خرد کی بات کرو دل کا قصّہ بہت پرانا ہؤا دل کی چالوں سے بچ سکو تو بچو ایک عیّار ہے یہ مانا ہؤا لاکھ سمجھایا، لاکھ دھمکایا یہ گنہگار پارسا نہ ہؤا نِگّھروں کے غریب خانے پر آپ ہی کہیے کیسے آنا ہؤا لاکھ دعوے کیے خدائی کے بندہ بندہ رہا خدا نہ ہؤا اس کی ستاریوں کے صدقے میں میں بُرا ہو کے بھی بُرا نہ ہؤا ہوگئی کائنات زیر و زبر رات کا تیر تھا خطا نہ ہؤا اس کا احساں ہے اس سے مل کر بھی جس کا ڈر تھا وہ حادثہ نہ ہؤا دشمنوں سے بھی دشمنی نہ ہوئی دوستوں کا بھی حق ادا نہ ہؤا یہ رِہائی نہیں اسیری ہے مَیں رِہا ہو کے بھی رِہا نہ ہؤا اس کے احسان کیسے گِنواؤں جو خفا ہو کے بھی خفا نہ ہؤا زندگی ہنس کے وار دی اس پر شکر کا پھر بھی حق ادا نہ ہؤا دل کی دنیا بدل گئی مضطرؔ! ان کے ہاں جب سے آنا جانا ہؤا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ214 137۔ نذرِغالبؔ طائرِ غم جو کبھی نغمہ سرا ہوتا ہے دل کا ہر سوکھا ہؤا زخم ہرا ہوتا ہے رات بھر ہوتی ہیں دل کھول کے دل کی باتیں ایک مَیں ہوتا ہوں، اک میرا خدا ہوتا ہے ریت کے سینے پہ جب ہوتا ہے لہروں کاخرام دشت در دشت کوئی سوچ رہا ہوتا ہے رقص فرماتے ہیں جس وقت غزالانِ خیال تُو بھی خاموش کہیں پاس کھڑا ہوتا ہے پاسِ آدابِ نظر چاہیے اے محوِ جمال! آنکھ کیا ہوتی ہے اک شہرِ حیا ہوتاہے پیاس تو پیاس ہے، بجھتی ہے یہ بجھتے بجھتے سینکڑوں کانٹوں میں اک آبلہ پا ہوتا ہے مضطرِ ؔسوختہ جاں! بات سنبھل کر کیجو شعر بن جاتا ہے جو تیرا کہا ہوتا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ215 138۔ مت بھٹکتا پھرا کرے کوئی مت بھٹکتا پھرا کرے کوئی شہرِ دل میں رہا کرے کوئی دین و دنیا کے غم غلط ہو جائیں ہم کہیں اور سنا کرے کوئی اب غمِ ہجر بھی گوارا ہے اب نہ آئے خدا کرے کوئی رسمِ آہ و بکا بھی عام ہوئی اب نہ آہ و بکا کرے کوئی کیوں غرض درمیان میں آئے جب کسی سے وفا کرے کوئی ایک گونہ عذاب ہے یہ بھی دل دریچہ نہ وا کرے کوئی اب تمھارا بھی انتظار نہیں تم نہ آؤ تو کیا کرے کوئی عشق کی رسم مٹ گئی مضطرؔ! اب نہ ایسی خطا کرے کوئی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ216 139۔ ہم ہوئے، ِچشم باطنی نہ ہوئی ہم ہوئے، ِچشم باطنی نہ ہوئی دن چڑھا بھی تو روشنی نہ ہوئی غمِ جاناں بھی ناتمام رہا زلف چھائی مگر گھنی نہ ہوئی دوستوں کا بھی حق ادا نہ ہؤا دشمنوں سے بھی دشمنی نہ ہوئی آہ تاریکئ شبِ فرقت چاند نکلا تو چاندنی نہ ہوئی جان دے کر مریض لیٹ گیا مرگِ اُلفت میں جاں کنی نہ ہوئی مجھ کو میرا سراغ مل جاتا تیرے چہرے کی چاندنی نہ ہوئی حیف ایسے سرور پر مضطرؔ! درد کی جس میں چاشنی نہ ہوئی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ217 140۔ نے بہ تائیدِ تمنّا، نے بہ تکمیلِ طلب نے بہ تائیدِ تمنّا، نے بہ تکمیلِ طلب شہر بھر میں کوئی بھی نہ سوسکا فرقت کی شب دشت پیمائی کی فرصت تھی نہ رستے کا شعور قافلے بڑھتے رہے منزل کی جانب بے سبب حسن کو جب بھی خود آرائی سے کچھ فرصت نہ تھی عشق کا بیمار اب بھی منتظر ہے جاں بلب آئنہ در آئنہ ہم بھی بہت بے تاب تھے کچھ تری تصویر بھی لَودے اُٹھی فرقت کی شب دوستو! اے دوستو! اے دوستو! اے دوستو! کوئی ہنگامہ! کوئی نعرہ! کوئی رقصِ طلب! یہ تری آواز تھی یا میرے دل کا شور تھا سنتے ہی جس کو گوارا ہو گئی بزمِ طرب اب کوئی مرنے میں لذّت ہے نہ جینے میں مزہ ان کی خوشیاں بے تمنّا، ان کے نالے بے طلب صوفی و واعظ، فقیہِ شہر، پیرِ خانقاہ اب بھی مضطرؔ حسبِ سابق بے نظر ہیں سب کے سب چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ218 141۔ چراغِ شام مرجھایا تو ہو گا چراغِ شام مرجھایا تو ہو گا سحر کا رنگ گدرایا تو ہو گا ابھی تک پتّیاں بکھری پڑی ہیں گلوں کا قافلہ آیا تو ہو گا اچانک کھل گیا دل کا معمّہ خردمندوں نے الجھایا تو ہو گا پرائے دیس کی آبادیوں میں غریبِ شہر گھبرایا تو ہو گا سنا ہے دل کی وحشت میں کمی ہے یہ باغی راہ پر آیا تو ہو گا چلو دل کے خرابے ہی میں گُھومیں کہیں دیوار کا سایہ تو ہو گا وہ مضطرؔ! ان کے ہاں پھر جا رہا ہے اسے یاروں نے سمجھایا تو ہو گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ219۔220 142۔ سحر نصیب ہے، سچی دعاؤں جیسا ہے سحر نصیب ہے، سچی دعاؤں جیسا ہے وہ دیوتا تو نہیں، دیوتاؤں جیسا ہے ملا تو کرتا ہے تصویر بن کے خوابوں میں وہ اجنبی ہے مگر آشناؤں جیسا ہے نہ پان بیڑی، نہ سگرٹ، نہ جھوٹ کی عادت یہ شخص شہر میں رہ کر بھی گاؤں جیسا ہے رُکے تو عین اذیّت، چلے تو بادِ مراد ہمارا اس کا تعلق ہواؤں جیسا ہے خدا کرے کہ سلامت رہیں حسینؓ اس کے یہ شہر جیسا بھی ہے کربلاؤں جیسا ہے بنامِ ترکِ تعلق، بہ فیضِ شامِ فراق نہ شہر شہر، نہ اب گاؤں گاؤں جیسا ہے عجب نہیں کہ تجھے چھوڑ کر چلا جائے وہ باوفا ہے مگر بے وفاؤں جیسا ہے زہے نصیب کہ اب خیمہ زن ہے پلکوں پر وہ ایک اشک جو ماں کی دعاؤں جیساہے جھگڑ رہا ہے صداؤں سے گھر کا سنّاٹا یہ بے صداہے پہ لاکھوں صداؤں جیساہے کیا ہے خار نے بھی احتجاج گلشن سے یہ احتجاج مگر التجاؤں جیسا ہے اگر بُرے ہو تو گھبرا رہے ہو کیوں مضطرؔ! سلوک اس کا بُروں سے بھی ماؤں جیسا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ221 143۔ گل یہ کرتا ہؤا فریاد آیا گل یہ کرتا ہؤا فریاد آیا کوئی گُلچیں ہے نہ صیاد آیا کھنچ سکی پھر بھی نہ تیری تصویر کبھی مانی، کبھی بہزاد آیا اب نہ تیشے کی غلامی ہو گی نالہ کرتا ہؤا فرہاد آیا پھر سرِ شام ستارے ٹوٹے پھر کوئی صاحبِ ایجاد آیا پھر سرِ شاخ پکاری بلبل پھر وہی موسمِ فریاد آیا ہم نے اِک عمر گنوا کر دیکھی ہم سا کب خانماں برباد آیا سینکڑوں لوگ نظر سے گزرے کوئی ہم سا نہ ہمیں یاد آیا کوئی مضطرؔ سا نہ ہو گا ناداں شاد ہو کر بھی جو ناشاد آیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ222 144۔ خود صنم اٹھ کے چلے آئے صنم خانے سے خود صنم اٹھ کے چلے آئے صنم خانے سے کھوئے کھوئے سے، پریشان سے، بیگانے سے چاند نکلے گا ابھی بن میں اُجالا ہو گا قیس گھبرا کے نکل جائے گا ویرانے سے اجنبی چہروں کے سیلابِ مسلسل میں کہیں اور بھی لوگ ہیں کچھ جانے سے، پہچانے سے کوئی مقصد نہ کوئی زیست کا حاصل مضطرؔ! دشت در دشت پڑے پھرتے ہیں دیوانے سے (ابتدائی) چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ223 145۔ ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی ہجر کی رات مختصر نہ ہوئی نالہ کرتے رہے، سحر نہ ہوئی ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے لوگ دن چڑھا بھی تو کچھ خبر نہ ہوئی ہم اسے آدمی نہیں کہتے جس کی انجام پر نظر نہ ہوئی اڑ گئے خاک ہو کے راہوں میں منزلِ شوق پھر بھی سر نہ ہوئی کبھی غیروں سے بھی نباہ کیا کبھی اپنوں میں بھی بسر نہ ہوئی سَو بہانے کیے، ہزار جتن دن گزارا تو شب بسر نہ ہوئی تیرے ہو کر کسی کے کہلاتے اک یہی بات عمر بھر نہ ہوئی آخر ان کو بھی پیار آ ہی گیا میری فریاد بے اثر نہ ہوئی تجھ سے مل کر بھی تیری فرقت میں کون سی آنکھ تھی جو تر نہ ہوئی کبھی رویا، کبھی ہنسا مضطرؔ! کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ224 146۔ پیرانِ مے کدہ ہوئے، اہلِ حرم ہوئے پیرانِ مے کدہ ہوئے، اہلِ حرم ہوئے سب کے سرِ نیاز ترے در پہ خم ہوئے ملنے کی حسرتیں ہوئیں، فرقت کے غم ہوئے کیا کیا نہ حسنِ یار کے قصّے رقم ہوئے وہ کونسی عطا ہے جو احباب نے نہ کی کیا کیا نہ میرے حال پہ ان کے کرم ہوئے باہم شبِ فراق بڑی صحبتیں رہیں حیران وہ ہوئے کبھی حیران ہم ہوئے مضطرؔ! اگرچہ یار سا محسن نہیں کوئی تم سے خطا شعار بھی دُنیا میں کم ہوئے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ225۔226 147۔ تم نہ ٹالے سے بھی ٹلے صاحب! تم نہ ٹالے سے بھی ٹلے صاحب! کیوں مری آگ میں جلے صاحب! مَیں بُرا، تم ہو گر بھلے صاحب! میرے ہمراہ کیوں چلے صاحب! آپ کو کیا خبر کہ دھوپ ہے کیا آپ آئے ہیں دن ڈھلے صاحب! چھین کر چین ہم فقیروں کا اب اکیلے کہاں چلے صاحب! تم کو پروا نہیں ہے اپنی بھی تم بھی ہو ایک منچلے صاحب! تم بھی تھے جل رہے ہمارے ساتھ ہم اکیلے نہیں جلے صاحب! دار سے یار تک پہنچنے کے اور کتنے ہیں مرحلے صاحب! مسئلہ تھا تو جب بھی دل کا تھا اب بھی دل کے ہیں مسئلے صاحب! ایک دو روز کی نہیں ہے بات جلتے جلتے ہی گھر جلے صاحب! خون آلودہ زرد چہروں پر خاک بھی اب کوئی ملے صاحب! ان کو سکھلائیے گا استعمال لفظ ہیں کچھ برے بھلے صاحب! ان کی پہچان ہے فقط خوشبو لفظ گورے نہ سانولے صاحب! بات ہو مختصر، ارادہ نیک بول بھی ہوں بھلے بھلے صاحب! حسن و احسان، لطف و جود و کرم اس حسیں کے ہیں مشغلے صاحب! جسم اس کا ہے، جان اس کی ہے اس کے ٹکڑوں پہ ہیں پلے صاحب! ہم نشیں کب کے جا چکے مضطرؔ! لیجیے! ہم بھی اب چلے صاحب! (مارچ،١٩٩٥) چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ227 148۔ آہٹ کا اژدہام بھی زنداں صدا کا ہے آہٹ کا اژدہام بھی زنداں صدا کا ہے آواز ایک سلسلہ کرب و بلا کا ہے یادوں میں ہے اٹا ہؤا آنگن خیال کا ماضی کے اس مزار پہ پہرہ ہوا کا ہے فرقت کی اُس فصیل کو کس نے گرا دیا اعجاز ہے اگر تو یہ کس کی دعا کا ہے مَیں اس کے غم کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا خطرہ نہ اب ملال غمِ ماسوا کا ہے آنسو ازل بدوش ہے، شبنم ابد مقام تُو کیوں اسیر چشمۂ آبِ بقا کا ہے سقراط ہو، حُسیں ہو، عبداللطیف ہو صدیوں پرانا سلسلہ اہلِ وفا کا ہے مَیں ہی متاعِ عشق کا وارث ہوں، تُو نہیں اے معترض! یہ فیصلہ میرے خدا کا ہے کچھ میرے کام آ گیا میرا عذابِ دید کچھ ازدحامِ حسن بھی مضطرؔ! بلا کا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ228 149۔ مضطرؔ سے تو کس لیے خفا ہے مضطرؔ سے تو کس لیے خفا ہے اس نے تو تجھے خدا کہا ہے رستوں سے پرے جو راستہ ہے تیری ہی طرف تو جا رہا ہے بیٹھا ہے یہ کون راکھ مل کر ہنستا ہے نہ منہ سے بولتا ہے زنجیرِ صدا کا شور سن کر آہٹ کا اسیر کانپتا ہے پتھر پہ برس رہے ہیں پتھر ایسے میں کسے پکارتا ہے سوہنی٭؎ کا ہے منتظر مہینوال دریا بھی غضب چڑھا ہؤا ہے منزل ہے نہ اس کا کوئی مسکن انساں کا قدم اکھڑ گیا ہے کشتی کو ہے ڈوبنے کی خواہش ساحل بھی قریب آ گیا ہے چہروں سے سجی ہوئی ہے سولی مضطرؔ ہے کہ دم بخود کھڑا ہے ٭۔۔۔۔۔۔پنجابی تلفّظ کے ساتھ پڑھا جائے۔ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ229 150۔ محفل ضبطِ فغاں کی اب بھی قائل ہے محفل ضبطِ فغاں کی اب بھی قائل ہے دل کو کون سنبھالے، دل کی مشکل ہے پینے پلانے پر اب کیسی پابندی اپنا ساقی ہے، اپنی ہی محفل ہے ہنس کے بلانے، پیار سے پاس بٹھانے میں کون سی مشکل ہے جو راہ میں حائل ہے عزّت سے جینا اور عزّت سے مرنا پہلے بھی مشکل تھا، اب بھی مشکل ہے کہنے کو تو نہ جانے کیا کچھ کہہ گزریں ایک لحاظ سا ہے جو راہ میں حائل ہے جاؤ مضطر!ؔ تم بھی دامن پھیلاؤ کہتے ہیں اب یار کرم پر مائل ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ230 151۔ ہم ہوئے یا کوئی رقیب ہؤا ہم ہوئے یا کوئی رقیب ہؤا تجھ سے ملنا کسے نصیب ہؤا ہم کو خلعت ملی فقیری کی کوئی ہم سا نہ خوش نصیب ہؤا عشق ہے یا خلل دماغ کا ہے کچھ تو مجھ کو مرے طبیب! ہؤا فاصلے اور بڑھ گئے مضطرؔ! جسم جب جسم کے قریب ہؤا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ231۔232 152۔ کس لیے تُو سامنے آیا نہ تھا کس لیے تُو سامنے آیا نہ تھا تجھ کو چاہا تھا، فقط سوچا نہ تھا تیری خاطر میری رسوائی ہوئی تُو نے میرا حال تک پوچھا نہ تھا مجھ کو سولی دی گئی بازار میں تُو نے مجھ پر پھول تک پھینکا نہ تھا دار پر خواہش کی دیواریں نہ تھیں دور تک آواز کا پہرہ نہ تھا تیری منزل کے سوا منزل نہ تھی تیرے رستے کے سوا رستہ نہ تھا میرا سایہ بھی تھا میرے ساتھ ساتھ مَیں اکیلا تھا مگر تنہا نہ تھا منزلیں لیٹی ہوئی تھیں راہ میں راہرو کوئی ادھر آیا نہ تھا ایک تُو تھا، اک تری تصویر تھی درمیاں حائل کوئی پردہ نہ تھا مجھ کو خطرہ تھا تو اپنے آپ سے غیر سے مجھ کو کوئی خطرہ نہ تھا منتظر بیٹھے تھے سب چھوٹے بڑے چاند چہرے کا ابھی نکلا نہ تھا اوڑھ لی تھی ہم نے چادر ذات کی عشق میں اس کے سوا چارہ نہ تھا تجھ کو ساری کیفیت معلوم تھی تُو اگرچہ مُنہ سے کچھ کہتا نہ تھا مجھ کو تیری بندگی مطلوب تھی مَیں کسی انعام کا بھوکا نہ تھا تم تو مضطرؔ! آپ رسوا ہو گئے اس قدر اصرار بھی اچھّا نہ تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ233 153۔ ہوس کی وہ آندھی چلی شہر میں ہوس کی وہ آندھی چلی شہر میں بجھی عشق کی آگ دوپہر میں برہنہ بدن ہیں سبھی شہر میں نہیں فرق کچھ مَلْک اور مَہر میں فقیروں کے چھپّر سلامت رہے محل بَہ گئے ایک ہی لہر میں مَیں سقراطِ َنو ہوں، مرے واسطے ملا دیجیے انگبیں زہر میں ضرورت ہے آج اس کی اخبار کو اُڑا دیجیے یہ خبر شہر میں زمانے کی پہنائیوں سے نہ ڈر خدا آپ آباد ہے دہر میں بہت زور ماریں گے مضطرؔ! رقیب غزل ہو سکے گی نہ اس بحر میں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ234 154۔ تُو کہیں اس سے ڈر رہا تو نہیں تُو کہیں اس سے ڈر رہا تو نہیں واعظِ شہر ہے، خدا تو نہیں ایک ہی خاندان کے ہیں فرد آئنہ آنکھ سے جدا تو نہیں اپنی مرضی سے بات کرتا ہے اشک ہر وقت بولتا تو نہیں جی میں جو آئے کر گزرتا ہے دلِ نادان سوچتا تو نہیں اس بُرے سے بھی کوئی بات کرو یہ بُرا اِس قدر بُرا تو نہیں اس سے آگے ہے وقت کی سرحد اس سے آگے کوئی گیا تو نہیں یہ عنایت ہے آپ کی، ورنہ ذکر اس میں ہمارا تھا تو نہیں عیب ہیں مجھ میں سینکڑوں مضطرؔ! آدمی ہوں مَیں دیوتا تو نہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ235۔236 155۔ ذکرِ رُخسار و چشم و لب کیا ہے ذکرِ رُخسار و چشم و لب کیا ہے آخر اس ذکر کا سبب کیا ہے خود فروشی ہے خود فراموشی خواہشِ دیدِ بے طلب کیا ہے تیرےؐ حسنِ تمام کا ہے ذکر شعر کیا چیز ہے، ادب کیا ہے چاہتا ہے، پکارتا ہے تجھےؐ دل کا بیمار جاں بلب کیا ہے آج انسان بے قرار ہے کیوں بے کلی سی یہ بے سبب کیا ہے یہ نتیجہ ہے تجھؐ سے دُوری کا ورنہ کیا ہے عجم، عرب کیا ہے مکّیؐ، مدنیؐ٭؎ ، قریشیؐ، مُطَّلَبیؐ کیا حسب ہے ترا، نسب کیا ہے! غیر بھی اب تو ہو گئے قائل گر ہیں اپنے خموش تب کیا ہے آگ سی ہے لگی ہوئی دل میں تیرے دیدار کی طلب کیا ہے دین مِل جائے اور دُنیا بھی ساتھ تو بھی ملے عجب کیا ہے تیری رحمت غضب پہ حاوی ہے تیرے آگے ترا غضب کیا ہے چادرِ عفو میں چھپا لیجے دیر اس میں شہِؐ عرب کیا ہے چاند نکلا، اندھیرے بھاگ گئے فرق اب بَینِ روز و شب کیا ہے نام مضطرؔ ہے، عشق ہے مذہب ہم نہیں جانتے لقب کیا ہے ٭۔۔۔۔۔۔''مَدْنی'' پڑھا جائے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ237۔238 156۔ التفاتِ نگاہِ یار تو ہے التفاتِ نگاہِ یار تو ہے تیر اِک دل کے آر پار تو ہے سینہ غم سے مرا فگار تو ہے اپنے ہونے کا اعتبار تو ہے پھر کوئی آ رہا ہے جانبِ دل دُور اُفُق سے پرے غبار تو ہے یہ الگ بات درگزر نہ کریں آپ کو اس کا اختیار تو ہے یہ بھی کیا کم ہے بلبلِ ناداں! موسمِ گل تو ہے، بہار تو ہے دوستی کے اگر نہیں قابل دشمنوں میں مرا شمار تو ہے غمِ جاناں ہو یا غمِ دنیا آدمی غم سے ہمکنار تو ہے میرا ہو جائے کچھ بعید نہیں مجھ پہ مائل وہ گل عذار تو ہے کیا عجب ہے معاف بھی کر دے دل ہی دل میں وہ شرمسار تو ہے غم پہ قابو اگر نہیں مضطرؔ! اس میں لذّت تو ہے، خمار تو ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ239 157۔ عرش سے فرش تک، پھول سے خار تک عرش سے فرش تک، پھول سے خار تک تُو ہی آباد ہے دشت کے پار تک ہم خطاکار تیرے وفادار ہیں تُو خفا ہو کے ہم کو نہ اے یار! تک تیری ایک اک ادا ہم کو مرغوب ہے ہم کو محبوب ہے تیرا انکار تک تُو نہاں خانۂ دل میں بیٹھا رہا لوگ ڈھونڈا کیے عرش کے پار تک تیری فرقت میں اب حال بے حال ہے میرے دلدار! آ، میرے غمخوار! تک تُو جواب اس کا کیا دے گا اے بے خبر! بات پہنچی اگر میرے دلدار تک شہرِ جاناں کے حالات کو بھی سمجھ کسی چہرے کو پڑھ، کوئی اخبار تک اب نہ شکوہ شکایت نہ شورِ طلب سلسلے تھے یہ سب مضطرِؔ زار تک چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ240 158۔ عقل تنہا، دلِ ناداں تنہا عقل تنہا، دلِ ناداں تنہا جس کو دیکھو، ہے پریشاں تنہا اشک در اشک پکارا ان کو رات کی سیرِ چراغاں تنہا پھر کسی یاد کے چوراہے پر رُک گئی عمرِ گریزاں تنہا کوئی ساتھی ہے نہ کوئی محرم کیسے گزرے گی مری جاں! تنہا تُو نہاں خانۂ دل میں مستور میں بھری بزم میں عریاں تنہا اتنے شائستہء منزل ہو کر پھر بھی رہتے ہیں غزالاں تنہا اس کا مفہوم بدل جاتا ہے زندگی یوں تو ہے آساں تنہا راستے محوِ تلاشِ منزل منزلیں سربگریباں تنہا وہ بھی مضطر ہیں ہماری خاطر ہم ہی ان پر نہیں قرباں تنہا ہم تو کافر ہیں بجا ہے صاحب ہو تو اک تم ہو مسلماں تنہا شیخ بے ذوق ہے، واعظ غافل ایک مضطرؔ ہے غزل خواں تنہا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ241۔242 159۔ روح زخمی، جسم گھائل ہو گئے روح زخمی، جسم گھائل ہو گئے ہر طرف پیدا مسائل ہو گئے آئنہ دیکھا تو قائل ہو گئے اپنے ہاتھوں آپ گھائل ہو گئے جس قدر ٹکڑے تھے میرے جسم کے میرے ہی رستے میں حائل ہو گئے ہم نے مانگا ہے انھیں اللّٰہ سے ان کی خاطر ہم بھی سائل ہو گئے میرے حصّے کے تھے جو رنج و الم حد سے گزرے تو وسائل ہو گئے جب کبھی ٹوٹے ہوئے بازو اُٹھے ان کی گردن میں حمائل ہو گئے آتے آتے اعتبار آ ہی گیا ہوتے ہوتے وہ بھی قائل ہو گئے اُنگلیاں بھی اب ڈبو لو خون میں خونِ ناحق پر تو مائل ہو گئے فیصلہ اب عقل کے ہاتھوں میں ہے دل کی جانب سے دلائل ہو گئے اب تو مضطرؔ سے کوئی جھگڑا نہیں جو گلے شکوے تھے زائل ہو گئے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ243۔244 160۔ آہٹوں سے ہے سارا گھر آباد آہٹوں سے ہے سارا گھر آباد اس خرابے کے ہیں کھنڈر آباد ایک پل بھی ہمیں سکوں نہ ملا لوگ رہتے ہیں عمر بھر آباد کون محوِ خرام ہے دل میں یہ خرابہ ہے کس قدر آباد گھورتی ہیں ہزارہا آنکھیں کہیں چہرے، کہیں بھنور آباد منتظر ہیں روش روش یادیں ٹہنی ٹہنی، شجر شجر آباد شدّتِ غم سے داغ داغ ہے دل ایک گھر میں ہیں لاکھ گھر آباد کوئی اپنا رہے نہ بے گانہ دل میں ہو جاؤ تم اگر آباد حدِّ فاصل کو پار کون کرے ہم ادھر اور تم ادھر آباد سارا ہنگامہ تیرے فیض سے ہے تُو رہے شاد ، نامہ بر! آباد کون مضطرؔ ادھر سے گزرا ہے ہو گئی ساری رہ گزر آباد چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ245 161۔ حیرت سے ہے خود کو تک رہا کیا حیرت سے ہے خود کو تک رہا کیا اپنا بھی نہیں تجھے پتا کیا کیا جانیے مجھ کو ہو گیا کیا کہنا تھا کچھ اور کہہ دیا کیا اشکوں کے چراغ جل رہے ہیں گھر گھر ہے یہ آج رتجگا کیا زندانئ زلف و چشم و رخسار کوئی بھی نہیں مرے سوا کیا پتّھر سے سوال کرنے والے! پتّھر کو ہے تُو پکارتا کیا قاتل! ُتو رہے سدا سلامت ہم کیا ہیں، ہمارا خوں بہا کیا تھا تیرے بغیر کون اپنا تُو ہی نہ رہا تو پھر رہا کیا بھُولے سے کیا ہے یاد کس نے سینے میں یہ درد سا اٹھا کیا سائے سے جھگڑ رہا ہے ناداں مضطرؔ کو نہ جانے ہو گیا کیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ246 162۔ تُو قریبِ رگِ جاں تھا پہلے تُو قریبِ رگِ جاں تھا پہلے فاصلہ اتنا کہاں تھا پہلے غم باندازۂ جاں تھا پہلے غم کا یہ حال کہاں تھا پہلے راز جو دل میں لیے پھرتے ہیں صاف چہروں سے عیاں تھا پہلے یوں کھلونوں سے بہل جائے گا دل پہ ایسا نہ گماں تھا پہلے لمس کی چوٹ سے باہر نکلا راز پتھر میں نہاں تھا پہلے اب کہاں دل پہ بھروسہ مضطرؔ! جو بھروسہ مری جاں! تھا پہلے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ247 163۔ بے سبب بھی، کسی بہانے بھی بے سبب بھی، کسی بہانے بھی کبھی مانے، کبھی نہ مانے بھی حادثہ تھا کہ شامتِ اعمال تم انھیں جان کر نہ جانے بھی اپنے وعدوں کو کر دیا پورا صادقُ الْوعد کبریا نے بھی قدرتِ ثانیہ کو دیکھ لیا جاں نثارانِ باوفا نے بھی ساتھ بھیجی سکون کی بارش آسماں سے مرے خدا نے بھی ساتھ توفیق صبر کی بھی دی بخش کر درد کے خزانے بھی پھر سے عہدِ قدیم دُہرایا قافلے نے بھی، رہنما نے بھی بخشوا لے گئے خطاؤں کو یہ خطاکار تھے سیانے بھی واقعہ بھی تھا اور حقیقت بھی تم نے کچھ گھڑ لیے فسانے بھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ248164۔ حضر ت مصلح موعودکی یورپ سے تشریف آوری پرجشنِ صحّت کے موقع پر
آنسوؤں کی بھری بہار کے بعد چاند نکلا ہے انتظار کے بعد پھول ہیں یا کسی کے نقشِ قدم اِک بہار آئی ہے بہار کے بعد گول بازار میں چراغاں ہے داغ لَو دے اٹھے شمار کے بعد عظمتوں کو عظیم تر پایا سر اٹھایا جو انکسار کے بعد بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی یار آیا تھا انتظار کے بعد حال مضطرؔ کا غیر تھا کب سے آج بہتر ہے وصلِ یار کے بعد چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ249۔250 165۔ حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمدصاحب کی وفات پر تُومے کا ذکر کر اے مَے گُسار! آہستہ آہستہ پری کو یار شیشے میں اتار آہستہ آہستہ زمانہ ہو رہا ہے بے قرار آہستہ آہستہ تُو زلفوں کو نہ اب جاناں! سنوار آہستہ آہستہ محبت کا چڑھے گا جب خمار آہستہ آہستہ تو مل جائیں گے سارے اختیار آہستہ آہستہ دھواں سا اٹھ رہا ہے دل کے پار آہستہ آہستہ نہ جل جائیں کہیں قرب و جوار آہستہ آہستہ گلوں سے کہہ رہے تھے رات خار آہستہ آہستہ گزر جائے گی پھر اب کے بہار آہستہ آہستہ جو چاہے لُوٹ لے دل کا قرار آہستہ آہستہ مگر آہستہ لُوٹ اے شہر یار! آہستہ آہستہ نہ چھیڑ اس ذکر کو اب بار بار آہستہ آہستہ کہ محفل ہو گئی کیوں اشکبار آہستہ آہستہ نہ کھول اس راز کو اے رازدار! آہستہ آہستہ خفا کیوں ہو گیا وہ گلعذار آہستہ آہستہ تُو کر اک ایک لمحے کا شمار آہستہ آہستہ یہ غم کی رات ہے اس کو گزار آہستہ آہستہ لحد میں اس ستارے کو اتار آہستہ آہستہ چراغِ زندگی کو پھونک مار آہستہ آہستہ اُٹھا ساغر پلا پھر ایک بار آہستہ آہستہ کہ اٹھتے جاتے ہیں سب بادہ خوار آہستہ آہستہ نہ ان کو بھول جا اے بزم یار! آہستہ آہستہ بچھڑ کر جانے والوں کو پکار آہستہ آہستہ وہ خود رہنے لگیں گے بے قرار آہستہ آہستہ انھیں ہو جائے گا مضطرؔ سے پیار آہستہ آہستہ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ251۔252 166۔ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحب ایم۔اے کی وفات پر روٹھ کر جب وہ گل عذار گیا تیر اک دل کے آر پار گیا ابنِ احمد، برادرِ محمود اور یارِ ازل کا یار گیا قَمَرُ الْاَنْبِیَاء، حلیم و حکیم پیکرِ عجز و انکسار گیا حسن و احسان میں نظیرِ پدر آدمیت کا شاہکار گیا بے نواؤں کا، بے سہاروں کا چین جاتا رہا، قرار گیا اس کا اُٹھنا، جہان کا اُٹھنا علم رخصت ہؤا، وقار گیا عشق کے، درد کے، محبت کے قرض جتنے تھے سب اُتار گیا اپنے اک دلربا تبسّم سے میری بگڑی ہوئی سنوار گیا زہے اس کی حیات، اس کی ممات کامیاب آیا، کامگار گیا اپنے بھائی کو چھوڑ کر تنہا اپنے بھائی کا غمگسار گیا وہ بغیرِ حساب کا مصداق مغفرت کا اُمیدوار گیا وقتِ رخصت بصد ہزار درود لے کر اشکوں کا مَیں بھی ہار گیا فرطِ غم سے نہ جانے کیوں مضطرؔ! اس کے در پر مَیں بار بار گیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ253۔254167۔ حضرت صاحبزدہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزاناصر احمدصاحب (بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ)کی بلا جرم وجواز اسیری پر
اپنوں ہی کا جھگڑا ہے نہ دشمن سے ہے کچھ کام ہے ہم پہ فقط تیری وفاداری کا الزام اے عشق! مجھے گھیر کے میدان میں مت لا گمنام ہی اچھا ہوں، مجھے رہنے دے گمنام دیکھا ہے ضرور اس نے جلالِ رخِ تاباں کیوں عہد ہؤا جاتا ہے یوں لرزہ بر اندام اب دودھ سے پانی کو جدا کر کے رہے گا یہ فتنۂ تازہ کہ جو ا ّٹھا ہے سرِ بام اِترا نہ اس آغاز کو انجام سمجھ کر دیکھا ہی نہیں تو نے اس آغاز کا انجام ناکام نہیں ہوتا محبت میں کبھی عشق وہ عشق ہی ناقص ہے جو ہو جاتا ہے ناکام اک درد سا ہے دل میں، چھپائے لیے پھرتے خاموش نظر آتے ہیں کچھ روز سے خدّام بڑھ جاتا ہے مجبوری و مہجوری کا احساس جب ذہن میں آ جاتے ہیں کچھ لوگ سرِ شام یہ کون سا انصاف ہے تم خود ہی بتاؤ ''ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا'' چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ255۔256 168۔ بروفات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ پھر وہی ذکر سرِ وادئ سینا ہو گا وہی ساقی، وہی بادہ، وہی مینا ہو گا اب اسی دُھن میں بھرے شہر کو جینا ہو گا تجھ سے ملنے کا بھی کوئی تو قرینہ ہو گا اشک در اشک تجھے ڈھونڈنے نکلیں گے لوگ وصل کے عہد میں فرقت کا مہینہ ہو گا ہجر کی رات ہے رو رو کے گزاریں گے اسے ہر گلی کوچے میں اجلاسِ شبینہ ہو گا صبحِ تقدیر جدھر چاہے گی لے جائے گی ہم نہیں ہوں گے، مقدّر کا سفینہ ہو گا جم کے رہ جائیں گی عشّاق کی نظریں اس پر تیرے کوچے میں جو اُمّیدکا زینہ ہو گا تیری ہر ایک ادا رستہ دکھائے گی ہمیں تُو نہیں ہو گا، ترا دیدہئ بینا ہو گا تجھ سے ملنے کی فقط اس کو اجازت ہو گی جس کے اندر نہ انا ہو گی، نہ کینہ ہو گا جس کی پلکوں پہ سجے ہوں گے وفا کے موتی جس کے سینے میں محبت کا خزینہ ہو گا آنے والے کے گلے لگ کے بلکنے والے! جانے والے نے ترا چین تو چھینا ہو گا تیری کرنوں کو اب اے عہد کے سچے سورج! ہجر کی رات کا یہ چاک بھی سینا ہو گا شربتِ وصل میں شامل ہے جو زہرِ فرقت ہے اگر عشق تو یہ زہر بھی پینا ہو گا ارضِ ربوہ! اسے سینے سے لگا کر رکھنا آبگینوں سے بھی نازک یہ دفینہ ہو گا حسن پھر اُترا ہے روحوں پہ سکینت بن کر قافلہ پھر سے رواں سوئے مدینہ ہو گا یوں چڑھا ہے جو نئے عہد کا سورج بن کر خاتمِ یار کا یہ چوتھا نگینہ ہو گا اس کے دربار میں جاؤں گا خطائیں لے کر میرے ہمراہ ندامت کا پسینہ ہو گا کشتیء نوح میں بیٹھے تو ہو لیکن مضطرؔ! شرط یہ ہے یہیں مرنا، یہیں جینا ہو گا ٩جون،١٩٨٢ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ257۔259169۔ صاحبزادہ مرزاغلام قادر صاحب کے راہِ مولیٰ میں قربان ہونے پراُن کے والدِ گرامی صاحبزادہ مرزا مجید احمدصاحب سَلَّمَہُ ﷲ تَعَالٰی کی زبان سے
ڈھل گئی رات کوئی بات کرو تجھ سے ملنے کے لیے آیا ہوں کاسۂ جاں کو لیے اشک بکف دست بہ دل چند لمحے جو ہیں تنہائی کے ان کو غنیمت جانو دن چڑھے جوق در جوق چلے آئیں گے سوگواروں کے ہجوم بچے اور بوڑھے غریب اور امیر چاہنے والے تیرے تیری الفت کے اسیر بانٹنے آئیں گے میرے غم کو پونچھنا چاہیں گے چشمِ نم کو دینے آئیں گے محبت کا صلہ کرنے آئیں گے گلہ کہ تجھے جانے کی اتنی بھی جلدی کیا تھی اور ان سب کے احسان تلے اور بھی جھک جائیں گے ناتواں کاندھے مرے ایسے محسوس کروں گا جیسے میں ہی زخمی نہیں زخمی سب ہیں اور پھر کس کو نہیں ہے معلوم نرم گفتار تھا تو صاحبِ کردار بھی تھا آہنی عزم وارادے کا دھنی تھا کتنا مسکراتا ہؤا، ہنستا ہؤا واپس آیا اتنی فتوحات کے بعد وقف کاعہد نبھانے کے لیے خدمت ِدین کی، درویشی کی خلعت پہنے بصد عجز ونیاز بخدا بیٹے ہی نہیں ہو میرے میرے محبوب بھی ہو نہیں میرے محبوب نہیں میرے محبوب کے محبوب کے بھی ہو زہے قسمت تیری زہے قسمت تیری زہے قسمت تیری یہ سعادت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے لیکن اے جانِ پدر! یہ حقیقت ہے اگر، یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ یہ تنہائی کے لمحات کتنے لمبے ہیں کٹھن بھی ہیں بہت کیسے گزریں گے مجھے معلوم نہیں لِلّٰہ الحمد کہ مالک کی رضا کے آگے سرتسلیم ہے خم وہ اگر خوش ہے تو مَیں بھی خوش ہوں اور یہ مرحلہ محرومی کا آخر کار گزر جائے گا لیکن اے جانِ پدر! اک کٹھن مرحلہ اور بھی ہے یعنی وہ مادرِ مشفق تیری صبروتسلیم کی چادر اوڑھے یادسینے سے لگائے، خاموش دم بخود، مہر بلب بیٹھی ہے اور پھر وہ عفیفہ، مری بیٹی، مری عزّت تری جیون ساتھی لٹ گیا جس کا سہاگ اور وہ ننھے فرشتے چاروں ہوبہو باپ کی تصویر ان کھلے غنچے مرے باغ کے پھول جگر کے ٹکڑے مرے نورِ نظر سطوت اور کرشن مفلح اور نورالدّین ان کو کچھ علم نہیں حشربرپا ہؤا کیسی قیامت ٹوٹی ان کو سمجھاؤں تو کیسے سمجھاؤں نہ مرے پاس کوئی لفظ، نہ کوئی لہجہ ان کو کیا علم کہ یہ ایک دو پل کی نہیں بات کہ یہ بات زمانے کی ہے لوٹ کر نہ آنے کی ہے اس لیے جانِ پدر! مری تنہائی غنیمت جانو ڈھل گئی رات کوئی بات کرو اورکوئی لفظ، کوئی لہجہ ہی سوغات کرو پھرکسی یاد کی برسات کرو کشت ویراں ہے مری میرا سینہ ہے اجاڑ اور یہ فرقت کا پہاڑ خشک، بے آب وگیاہ مسکرا کر اسے جل تھل کردو فرطِ لذّت سے مجھے پاگل کردو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ260 170۔ عزیزان کلیم شاہ اور نسیم شاہ کی وفات پر سیّد کلیم شہ ہو کہ سیّد نسیم شاہ اک دوسرے سے بڑھ کے تھے دونوں عظیم شاہ دونوں ہی خوش خرام تھے، شیریں کلام تھے دونوں ''نسیم'' شاہ تھے، دونوں ''کلیم'' شاہ دونوں ہی خاکسار تھے، دونوں عظیم تھے دونوں ہی بادشاہ تھے، دونوں ''گلیم'' شاہ دونوں سے پیار تھا مجھے، دونوں عزیز تھے یہ بھی بہت عزیز ہے یعنی نعیم شاہ خوش فکر، خوش خیال ہے اور خوش کلام ہے بے شک نعیم شہ ہے ذہین و فہیم شاہ اللّٰہ اپنے فضل سے صحّت کے ساتھ اسے عمرِ دراز دے کے بنا دے قدیم شاہ بھولے سے بھی بھلائی نہ جائے ہے ان کی یاد تینوں کے تینوں دل میں ہیں میرے مقیم شاہ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ261 171۔ اچانک جھنگ کی تقدیر جاگی اچانک جھنگ کی تقدیر جاگی ہؤا بیدار رانجھا، ہیر جاگی بغاوت ہو گئی تیری گلی میں مری سوئی ہوئی تقدیر جاگی مصوّر کے قلم سے خون ٹپکا خروشِ رنگ سے تصویر جاگی یہ کیسا شور ہے زندانیوں میں درِ زنداں ہلا، زنجیر جاگی غزل بن کر بہا خونِ شہیداں کفن پہ شوخئ تحریر جاگی نہ آنسو ہیں، نہ اب آہیں ہیں مضطرؔؔ! یونہی کچھ روز سے تاثیر جاگی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ262 172۔ دیوارِ رنگ ہر کہیں حائل ہے راہ میں دیوارِ رنگ ہر کہیں حائل ہے راہ میں ہے پھول پھول حسن کے زنداں لیے ہوئے یہ کیسا دور اُفق سے اٹھا ہے غبار سا آثارِ بے قرارئ انساں لیے ہوئے وہ چاند آ کے جا بھی چکا، صبح ہو چکی اب آ گئے ہو دیدۂ گریاں لیے ہوئے نرگس کی آنکھ میں بھی ہے آمادگی کا نور حیرت ہے اس کی لذّتِ پنہاں لیے ہوئے یہ کون پھر رہا ہے گلِ تر کے آس پاس پلکوں پہ اپنی آتشِ عریاں لیے ہوئے رک جاؤ دو گھڑی کے لیے تم بھی دوستو! ہم آ رہے ہیں عمرِ گریزاں لیے ہوئے یوسف کے انتظار میں مضطرؔ غریب بھی بیٹھا ہے کب سے نقدِ دل و جاں لیے ہوئے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ263 173۔ جن کے لیے تُو خوار ہؤا شہر شہر میں جن کے لیے تُو خوار ہؤا شہر شہر میں وہ تیرا نام بھول گئے آٹھ پہر میں دیوار و در غضب میں، خدائی ہے قہر میں پتھر برس رہے ہیں شہیدوں کے شہر میں پھر قربتوں کی آنچ سے پتھر پگھل گئے آبِ حیات گھل گیا زخموں کے زہر میں پھر زیرِ آب آگئیں پھولوں کی بستیاں سورج غروب ہو گئے شبنم کے شہر میں سوچو تو دور دور کوئی آدمی نہیں دیکھو تو ہم سے سینکڑوں پاگل ہیں دہر میں گھر گھر یہاں صلیب ہے، سولی گلی گلی عیسیٰ کا انتظار ہے مدّت سے شہر میں پگھلی جو برف کُلّۂ کوہِ سفید پر پتھر پگھل کے ہو گئے آباد نہر میں مضطرؔ تلاشِ آب میں گھر سے نکل گیا اس چلچلاتی جاگتی جیتی دوپہر٭؎ میں ٭۔۔۔۔۔۔ ضرورتِ شعری چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ264 174۔ صلح ہو گی نہ لڑائی ہو گی صلح ہو گی نہ لڑائی ہو گی وصل در وصل جدائی ہو گی اشک میں اشک پروئے ہوں گے آگ سے آگ بجھائی ہو گی ہم کو بے چین بنا کر پیارے! تجھ کو بھی نیند نہ آئی ہو گی عشق بدنام ہے اوّل دن سے کوئی تو اس میں برائی ہو گی ہم فقیروں میں بھی آ کر بیٹھو بوریا ہو گا، چٹائی ہو گی حشر کے روز بقولِ غالبؔ ''کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی'' اک طرف ہو گا وہ جانِ خوبی اک طرف ساری خدائی ہو گی پھر گیا جانبِ صحرا مضطرؔ پھر کوئی جی میں سمائی ہو گی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ265 175۔ صبا نے شکوہ کیا ہے قفس نشینوں سے صبا نے شکوہ کیا ہے قفس نشینوں سے خبر ملی نہ کوئی خط کئی مہینوں سے گرا نہ دیں در و دیوار کو مشینوں سے مکان روٹھ نہ جائیں کہیں مکینوں سے ترا جمال تو نظروں سے ہو گیا اوجھل نکل نہ جائے تری آرزو بھی سینوں سے دل و نگاہ نے ہر گام پر دیے دھوکے کسی نے فیض نہ پایا کبھی کمینوں سے شبِ ستائشِ باہم ہے، ہوشیار رہو نکل نہ آئیں کہیں سانپ آستینوں سے مقامِ حسن کی تعیین ہونے والی ہے حسین ملنے کو آئیں گے اب حسینوں سے فرازِ دار پہ سب فرق مٹ گئے مضطرؔ! فلک نشین ملے بوریا نشینوں سے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ266 176۔ فرصتِ شامِ الم پوچھتے ہیں فرصتِ شامِ الم پوچھتے ہیں یعنی اندازۂ غم پوچھتے ہیں ہم پہ الفاظ نے یورش کر دی آپ آدابِ قلم پوچھتے ہیں ہم سے کیا صلح نہیں ہو سکتی؟ لفظ بادیدۂ نم پوچھتے ہیں دشت میں کوئی تو دروازہ ہو کس طرف جائیں، قدم پوچھتے ہیں بات جو پوچھی ہے تم نے مضطرؔ! یوں بھری بزم میں کم پوچھتے ہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ267 177۔ یہ رستے پوچھتے ہیں کارواں سے یہ رستے پوچھتے ہیں کارواں سے کدھر جاتے ہو، آئے ہو کہاں سے بچھڑنے والو! یہ سوچا تو ہوتا کہاں جاؤ گے کٹ کر کارواں سے طلوعِ صبح سے ہے تجھ کو نسبت تجھے اے شامِ غم! لاؤں کہاں سے وہیں پر روشنی ہو جائے آباد مرا سورج گزر جائے جہاں سے کہاں مضطرؔ، کہاں وہ جانِ خوبی ہے نسبت خاک کو کیا آسماں سے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ268 178۔ کبھی ان کا لطف و کرم دیکھتے ہیں کبھی ان کا لطف و کرم دیکھتے ہیں کبھی اپنی حالت کو ہم دیکھتے ہیں ہم اپنی طرف کم سے کم دیکھتے ہیں جو دیکھیں تو باچشمِ نم دیکھتے ہیں یہاں عشق معیارِ قامت نہیں ہے یہاں لوگ دام و درم دیکھتے ہیں چلو چودھویں رات کی چاندنی میں ازل آرزوؤں کا رم دیکھتے ہیں وہ بخشش پہ مائل ہیں، مانیں نہ مانیں ہم آواز کا زیر و بم دیکھتے ہیں ہمی ہیں جو اُن کے لیے جی رہے ہیں خوشی دیکھتے ہیں نہ غم دیکھتے ہیں یہ واعظ سے کہہ دو کہ آہستہ بولے صنم سوئے اہلِ حرم دیکھتے ہیں محبت کا انجام کیا ہو گا مضطرؔ! نہ وہ دیکھتے ہیں، نہ ہم دیکھتے ہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ269 179۔ ذکرِ شبنم نہ فکرِ خار کرو ذکرِ شبنم نہ فکرِ خار کرو گل کو چھوڑو، چمن سے پیار کرو آدمی آدمی کا دشمن ہے آدمی کا نہ اعتبار کرو مفت کی مے ہے، پی سکو تو پیو فصلِ گل کا نہ انتظار کرو ہر کوئی تم سے پیار کرتا ہے تم بھی پھولو! کسی سے پیار کرو اگلی پچھلی خطائیں کر کے معاف شرمساروں کو شرمسار کرو اب نہ آئے گا بزم میں کوئی اب کسی کا نہ انتظار کرو اور بھی لوگ ہیں زمانے میں ذکرِ مضطرؔ نہ بار بار کرو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ270 180۔ کچھ یہاں اور کچھ وہاں گزری کچھ یہاں اور کچھ وہاں گزری خوب گزری جہاں جہاں گزری حالِ دل سن کے ہو گئے خاموش بات سچّی تھی، کچھ گراں گزری ان کا غصّہ تھا، پیار تھا، کیا تھا! اک قیامت تھی ناگہاں گزری پنکھا جھلتی ہوئی وفاؤں کا یادِ یارانِ مہرباں گزری نور میں ڈھل کے آنسوؤں کی پری دیدۂ تر سے پرفشاں گزری چاند نکلا نہ ہم نشیں آئے شامِ فرقت دھواں دھواں گزری دن گزارا خدا خدا کر کے رات کانٹوں کے درمیاں گزری یہ قیامت جو ہم پہ گزری ہے تجھ پہ اے بے خبر! کہاں گزری چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ271 181۔ ترے لب پہ بھول کر بھی مرا نام تک نہ آیا ترے لب پہ بھول کر بھی مرا نام تک نہ آیا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ سلام تک نہ آیا زہے منزلِ محبت، زہے رہنما ؐئے کامل یہ سفر تھا تیز اتنا کہ مقام تک نہ آیا ترے تشنگانِ غم کی یہی خوش نصیبیاں ہیں کبھی مل گئے سمندر، کبھی جام تک نہ آیا یہی ڈر ہے تھک نہ جائیں مری منتظر نگاہیں مجھے اس کا غم نہیں ہے کہ تُو بام تک نہ آیا جو بھٹک گئے تھے آئے سبھی لوٹ کر مسافر کوئی صبح تک نہ آیا، کوئی شام تک نہ آیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ272 182۔ کس لیے سائے سے ڈرتے ہو میاں! کس لیے سائے سے ڈرتے ہو میاں! کیوں نہیں کہتے جو کرتے ہو میاں! کوئی تم کو دیکھنے والا نہیں کس لیے بنتے سنورتے ہو میاں! تم نے دل کی بات کیوں مانی نہ تھی اب نہ جیتے ہو، نہ مرتے ہو میاں! اس سے کچھ عزّت نہیں بڑھ جائے گی چوٹ کھا کر کیوں مکرتے ہو میاں! بے ہنر، خوددار، دیوانہ، حقیر کس لیے مضطرؔ پہ مرتے ہو میاں! چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ273 183۔ کہہ رہا تھا نہ سن رہا کوئی کہہ رہا تھا نہ سن رہا کوئی عمر بھر بولتا رہا کوئی بات کے موڑ پر کھڑا کوئی جانے کیا سوچتا رہا کوئی اشک یوں رک گئے سرِ مژگاں جیسے گر کر سنبھل گیا کوئی سنگدل تھے تمام چھوٹے بڑے کوئی پتھر تھا، آئنہ کوئی گھر میں آیا تو اپنے آپ سے بھی اجنبی کی طرح ملا کوئی اپنی تصویر سے لڑائی ہے آئنے سے نہیں گلہ کوئی موت کے بعد یوں لگا مضطرؔ! جیسے پیدا ہؤا نہ تھا کوئی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ274 184۔ اشک در اشک سیاحت کی ہے اشک در اشک سیاحت کی ہے گھومنے پھرنے کی عادت کی ہے بر سرِ دار محبت کی ہے ہر کہیں تیری حکایت کی ہے تجھ کو سوچا ہے، تجھے چاہا ہے جب بھی کی تجھ سے محبت کی ہے ہم نے اظہار کی راہیں کھولیں ہم نے لفظوں سے بغاوت کی ہے پاس آ جاؤ تو سجدہ کر لوں یہ گھڑی یوں بھی عبادت کی ہے منہ نہ کھلواؤ کہ ہم نے مضطرؔ! اب سے چپ رہنے کی نیّت کی ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ275 185۔ آئنے کا دل نہ اب چیریں بہت آئنے کا دل نہ اب چیریں بہت اس میں آسودہ ہیں تصویریں بہت دل کی دیواروں پہ جو لکھّی گئیں ہم کو اتنی بھی ہیں تحریریں بہت جو لکھا ہے اس کو دُہرایا کرو مت کرو اب اس کی تفسیریں بہت جاؤ گے کس منہ سے ان کے سامنے نیکیاں کم اور تقصیریں بہت اب مجھے پڑھنے کی کوشش بھی کرو پڑھ چکے ہو میری تحریریں بہت آرزو ہے آرزوؤں کی اسیر اس کے پاؤں میں ہیں زنجیریں بہت اک دلِ ناداں نہ آیا راہ پر ہم نے کیں کرنے کو تسخیریں بہت خوبیاں اُن کی مبارک ہوں اُنھیں مجھ کو مضطرؔ! میری تقصیریں بہت چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ276 186۔ وہ یہیں آس پاس ہے اب بھی وہ یہیں آس پاس ہے اب بھی اس سے ملنے کی آس ہے اب بھی ایک آنسو گرا تھا پچھلے سال شہر بھر میں ہراس ہے اب بھی آنسوؤں کی زباں سمجھتا ہے وہ ستارہ شناس ہے اب بھی وہ لہو میں نہا کے نکلا ہے اس کا اجلا لباس ہے اب بھی وہ گئے موسموں کی خوشبو ہے اس کی پھولوں میں باس ہے اب بھی کہیں ننگے بدن نہ جایا کرے ُگل سے یہ التماس ہے اب بھی تیرا فردوس سے نکالا ہؤا آدمی بے لباس ہے اب بھی عقل کو اب بھی ہے گلہ مضطرؔ! دل سراپا سپاس ہے اب بھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ277۔278 187۔ نہ ذکرِ دورئ منزل، نہ فکرِ جادہ کریں نہ ذکرِ دورئ منزل، نہ فکرِ جادہ کریں یہ راہِ عشق ہے، طے اس کو پا پیادہ کریں بفیضِ ساقئ کوثر مئے طہور پئیں نہ شیخِ شہر سے اُلجھیں، نہ ترکِ بادہ کریں سفر طویل ہے، اہلِ سفر نہ گھبرائیں نظر بلند، قدم تیز، دل کشادہ کریں ہیں جس سے آج بھی اغیار لرزہ بر اندام اسی روایتِ ُکہنہ کا پھر اعادہ کریں یہ درس جس نے دیا تھا 'شہید زندہ ہیں' اسی مدرّسِ اعلیٰ سے استفادہ کریں بلا کشانِ محبت یہ بندگانِ حقیر پہاڑ پیس کے رکھ دیں اگر ارادہ کریں حدیث ان کے مقامِ بلند پر ہے گواہ حدیث جس کی روایت ابوقتادہؓ کریں نہیں پسند انھیں ڈھنگ اہلِ دنیا کے یہ وار سخت کریں اور بات سادہ کریں سلام بھیجا ہے کشمیر کے اسیروں نے قدم بڑھائیں، توقُّف نہ اب زیادہ کریں یہ مسجدیں، یہ مقابر، یہ بے کفن مقتول حضورِ داورِ محشر گلہ مبادا کریں نہ ہاتھ اٹھانے کی جرأت ہو پھر کبھی اس کو کچھ اس ارادے سے دشمن کو بے ارادہ کریں بیادِ اہلِ وفائے چونڈہ و لاہور قدم قدم پہ لڑیں، رقص جادہ جادہ کریں حضورِ خواجۂؐ بدر و حنین بہرِ سلام لہو میں بھیگا ہؤا زیبِ تن لبادہ کریں گزر رہے ہیں شہیدوں کے قافلے مضطرؔ! کریں تو ان سے ملاقات کا ارادہ کریں ١٩٦٥ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ279۔280 188۔ اپنے سائے سے ڈر رہے ہیں لوگ اپنے سائے سے ڈر رہے ہیں لوگ جی رہے ہیں نہ مر رہے ہیں لوگ آج خود سے ملے ہیں پہلی بار جانے اب تک کدھر رہے ہیں لوگ اپنی تصویر دیکھنے کے لیے پانیوں میں اُتر رہے ہیں لوگ یہ جو سورج چڑھا ہے آدھی رات اس کا انکار کر رہے ہیں لوگ ق ان کو چاہو، انھیں سلام کرو چاند کے ہمسفر رہے ہیں لوگ جانتے ہیں پتے حسینوں کے عمر بھر نامہ بر رہے ہیں لوگ ہو رہے ہیں یہ زندۂ جاوید مر رہے ہیں نہ ڈر رہے ہیں لوگ عین ازل اور ابد کے سنگم پر لمحہ لمحہ گزر رہے ہیں لوگ جس حقیقت کو کھو دیا تم نے اس کو دریافت کر رہے ہیں لوگ آ گئے ہیں نکل کے سڑکوں پر زینتِ بام و در رہے ہیں لوگ تم بھی مضطرؔ! اسے بغور سنو یہ جو اعلان کر رہے ہیں لوگ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ281۔282 189۔ مَیں جب بھی اس کی محبتوں کی، صداقتوں کی کتاب لکھّوں مَیں جب بھی اس کی محبتوں کی، صداقتوں کی کتاب لکھّوں تو سب سے پہلے اسے محمدؐ کہوں، رسالت مآب لکھّوں کروں تلاوت صحیفۂ رُخ کی اور اسے الکتاب لکھوں جو خواب میں اس کو دیکھ پاؤں تو خواب کو کیسے خواب لکھوں مرے خدا! اپنی طبعِ مشکل پسند کا کیا جواب لکھّوں وہ کام جس کے نہیں ہوں قابل اسی کو کارِ ثواب لکھوں صبا نہاؤں، گلاب پہنوں تو سوچنے کی کروں جسارت وضو کروں پہلے آنسوؤں سے تو اسمِ عالی جناب لکھوں ٹھہر بھی جا اشکِ شامِ ہجراں! ذرا اجازت دے سوچنے کی جو خط ابھی تک لکھا نہیں ہے کوئی تو اس کا جواب لکھّوں اسی کو چاہوں، اسی کو سوچوں، اسی کی کرتا رہوں تلاوت جو اذن لکھنے کا پا سکوں تو اسی کو میں بے حساب لکھّوں سرِ مژہ جو لرز رہے ہیں درود اور نعت کے ستارے انھیں شفاعت کے پھول لکھّوں کہ مغفرت کے گلاب لکھّوں وہی تو ہے جو الوہیت کی صفات کا مظہرِ اتم ہے لکھوں تو اس کو نقاب اندر نقاب اندر نقاب لکھّوں تمام ّسچائیوں کا حامل، وہی ہے کامل، وہی ہے اکمل اسی کو لوح و قلم، اسی کو کتاب اندر کتاب لکھّوں جو حرف اب بھی اُتر رہے ہیں، جو اَب بھی الفاظ بولتے ہیں اسی کا حسنِ بیان، حسنِ کلام، حسنِ خطاب لکھّوں وہی ہے نیّت، وہی ارادہ؛ وہی ہے منزل، وہی ہے جادہ وہ راہبر ہو اگر سفر میں تو ہر سفر کامیاب لکھّوں دل و نظر اشک اشک دھوؤں تو اسؐ پہ بھیجوں درود مضطرؔ! سجاؤں پلکوں کو آنسوؤں سے تو نعت کو آب آب لکھّوں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ283۔284 190۔ دل و جاں پہ اس کی حکومت تو ہے دل و جاں پہ اس کی حکومت تو ہے حکومت یہ اب تا قیامت تو ہے اسے دیکھنے سر کے بل جاؤں گا اسے دیکھ لینے کی حسرت تو ہے تمھیں بھی خوشی ہو گی مل کر اسے وہ ''کافر'' سہی خوبصورت تو ہے میں اس کے غلاموں کا ادنیٰ غلام میں جیسا بھی ہوں اس سے نسبت تو ہے اگر کچھ نہیں پاس نقدِ عمل مرے دل میں اس کی محبت تو ہے مَیں ممنون ہوں اپنی تکفیر پر کہ یک گونہ یہ ایک عزّت تو ہے مَیں کیسے کروں ہجر کا تذکرہ کہ یہ میری اپنی ہی غفلت تو ہے دعا کیجیے گا شفا کے لیے مریض آپ کا رُوبصحّت تو ہے ابھی آئے گا مسکراتا ہؤا اسے مسکرانے کی عادت تو ہے عجب کیا کہ آجائے وہ خواب میں اسے شوقِ سیر و سیاحت تو ہے عجب کیا کہ اپنا بنا لے مجھے اگرچہ یہ کہنا جسارت تو ہے محمدؐ کی، احمد کی، محمود کی سپرد آج اس کے نیابت تو ہے وہی تو ہے زندوں میں جو نیک ہے کہ نیکی اب اس سے عبارت تو ہے وہی ایک ہے آج کوہِ وقار وہی صاحبِ عزم و ہمّت تو ہے حسین و جمیل و حلیم و کریم سراسر وہ شفقت ہی شفقت تو ہے وہ صادق بھی ہے اور صدّیق بھی وہ معیارِ حق و صداقت تو ہے وہی آج ہے معرفت کا امیں وہی حاملِ علم و حکمت تو ہے وجود اس کا اللّٰہ کی دین ہے اسی کی وہ ہم پر عنایت تو ہے وہ ہے مظہرِ قدرتِ ثانیہ وہ اللّٰہ کی ایک آیت تو ہے وہ سچا ہے سچوں کا سردار بھی کہ ساتھ اس کےسچی جماعت تو ہے جو کہتا ہے اس کو وہ کرتا بھی ہے کہ سچوں کی یہ اک علامت تو ہے وہی تو ہے مہدیؑ کا فرزندِ خاص وہی ہُوبہو شکل و صورت تو ہے خلافت کی دستار ہے زیبِ سر امانت کی کاندھوں پہ خلعت تو ہے اٹھایا ہؤا ہے جو بہرِ خدا یہی بار بارِ امانت تو ہے اسے غم اگر ہے تو اسلام کا اسے ہے اگر تو یہ حسرت تو ہے فتوحات اس کی گنوں کس طرح کہ ہر کام میں اس کے برکت تو ہے پہاڑوں سے بھی ہنس کے ٹکرا گیا اگر سوچیے یہ کرامت تو ہے بچا لے گیا ہم کو طوفان سے اسی کا یہ فہم و فراست تو ہے وہی ڈھال ہے میرے تیرے لیے جماعت اسی سے جماعت تو ہے وہ تعویذ ہے آج سب کے لیے اسی سے ہماری حفاظت تو ہے ہے باطل میں جس سے سراسیمگی اسی کا یہ زورِ خطابت تو ہے زباں پر کھلے ہیں محبت کے پھول بیاں میں عجیب ایک لذّت تو ہے مدرّس،مربی، مزکی وہی وہ سرچشمۂ رشد و حکمت تو ہے اگر مل سکے تو اسے جا کے مل کہ تسکینِ جاں کی یہ صورت تو ہے سدا جاری ساری رہے سلسلہ کہ یہ سلسلہ تاقیامت تو ہے وہی آج کوثر، وہی سلسبیل وہی وارثِ باغِ جنت تو ہے وہی آج ہے مہبطِ جبرئیل اُسی پر اُترتا ہے ربِّ جلیل چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ285۔286 191۔ جس نے دیکھا اسے، دیکھتا رہ گیا جس نے دیکھا اسے، دیکھتا رہ گیا دیکھ کر اس کو پھر اور کیا رہ گیا لوگ آئے، رکے اور چلے بھی گئے مَیں جہاں تھا کھڑے کا کھڑا رہ گیا ہاتھ جب بھی اُٹھائے دُعا کے لیے ایک مَیں، ایک میرا خدا رہ گیا مٹ گیا نقطۂ مرکزی کا نشاں ایک موہوم سا دائرہ رہ گیا یوں تو شہ رگ سے بھی وہ قریب آ گئے پھر بھی کچھ درمیاں فاصلہ رہ گیا مسکرائے تو تھے وہ مری بات پر کچھ بھرم تو مری بات کا رہ گیا چاند نکلا تو چھوٹے بڑے ہو گئے نہ رہے،وہ جو تھے،جو نہ تھا رہ گیا دوستی نہ سہی، دشمنی ہی سہی کوئی تو باہمی واسطہ رہ گیا اور پھر یوں ہؤا دیکھتے دیکھتے شکل گم ہو گئی، آئنہ رہ گیا یوں سمجھ لیجیے گا کہ مضطرؔ نہیں راہ میں ایک پتھر پڑا رہ گیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ287 192۔ گرنے کو ہے مکان، مگر تم کو اس سے کیا گرنے کو ہے مکان، مگر تم کو اس سے کیا سر ہے نہ سائبان، مگر تم کو اس سے کیا اس شہرِ بے امان کے شعلوں کے درمیاں میرا بھی ہے مکان، مگر تم کو اس سے کیا انسان ہوں مَیں اور مرے سینے میں دل بھی ہے منہ میں بھی ہے زبان، مگر تم کو اس سے کیا وہ بھی تھا امتحان سرِ دشتِ نینوا یہ بھی ہے امتحان، مگر تم کو اس سے کیا کیا جانتے ہو کس نے اجاڑا بہشت کو تم ہی نے میری جان! مگر تم کو اس سے کیا کرتب تمھارے دیکھ کے حیرت میں ہے زمیں ششدر ہے آسمان، مگر تم کو اس سے کیا اب ڈھونڈتے پھرو ہو عبث اپنے آپ کو ہے جان نہ جہان، مگر تم کو اس سے کیا جاگو کہ رات ختم ہوئی، صبح ہو چکی ہونے کو ہے اذان، مگر تم کو اس سے کیا مضطرؔ تمھارے سائے سے بچ کر نکل گیا اللّٰہ کی ہے شان، مگر تم کو اس سے کیا مئی،١٩٩٥ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ288 193۔ چاہنے والوں کو ڈسنے والا چاہنے والوں کو ڈسنے والا آ گیا ابر برسنے والا کتنا مرعوب ہے سنّاٹے سے میری آواز پہ ہنسنے والا بن گیا آپ ہی اپنی زنجیر میری زنجیر کو کسنے والا بانٹتا پھرتا ہے دریاؤں کو قطرے قطرے کو ترسنے والا تنگ آ جائے گا ہنستے ہنستے کبھی روئے گا یہ ہنسنے والا اب گرجتے ہوئے گھبراتا ہے راہ چلتوں پہ برسنے والا اس کو پرواز کا فن آتا ہے یہ پرندہ نہیں پھنسنے والا بس گرجتا ہی چلا جاتا ہے یہ نہیں ابر برسنے والا سامنے کیوں نہیں آتا کھل کر جسم اور جان میں بسنے والا کس قدر دور ہے مجھ سے مضطرؔ! میرے ہمسائے میں بسنے والا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ289۔290 194۔ شعورِ غم طبق اندر طبق ہے شعورِ غم طبق اندر طبق ہے اسی غم سے زمیں کا سینہ شق ہے یہ تیری دین ہے اے غم کے خالق! دلوں میں روشنی کی جو رمق ہے سنایا ہے جسے سولی پہ چڑھ کر کتابِ عشق کا پہلا ورق ہے عطا کر دے مجھے بھی خلعتِ غم اگرچہ کوئی دعویٰ ہے نہ حق ہے کوئی آیا نہ ہو دارالاماں میں یہ کیا غوغائے شَرٍّ مَّا خَلَقْ ہے نہ اب زیتون کو خطرہ خزاں کا نہ اب رنگِ رخِ انجیر فق ہے یہی تو ہے مقامِ قَابَ قَوْسَیْن اِدھر تُو ہے، اُدھر ربِّ فلک ہے ترے دشمن بھی کہنے پر ہیں مجبور تو ّسچا ہے، تو صادق ہے، تو حق ہے بھرم قائم ہے جس سے زندگی کا وہ تیری مسکراہٹ کی شفق ہے شعورِ غم تجھی سے مانگتا ہوں کہ نازک مسئلہ ہے اور اَدق ہے نہیں یہ قطرۂ شبنم نہیں ہے یہ گل ہائے عقیدت کا عرق ہے غلامی کا شرف تجھ کو ہے حاصل تجھے کس بات کا مضطرؔ! قلق ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ291۔292 195۔ سوچتا ہوں کہ کوئی تجھؐ سے بڑا کیا ہو گا سوچتا ہوں کہ کوئی تجھؐ سے بڑا کیا ہو گا تُو اگر تُو ہے تو پھر تیرا خدا کیا ہو گا مَیں غلاموں کے غلاموں کا اک ادنیٰ خادم مجھ سا قسمت کا دھنی کوئی بھلا کیا ہو گا تجھ کو اللّٰہ نے لولاک کی خلعت بخشی مستحق اس کا کوئی تیرے سوا کیا ہو گا میم کے پردے میں مستور ہے تیرا مسکن نامہ لکھّوں تو بتا تیرا پتا کیا ہو گا جب دَنٰی کا فَتَدَلّٰی سے ہؤا ہو گا ملاپ فرق قوسین کے مابین رہا کیا ہو گا جب ملاقات ہوئی ہو گی سرِ عرشِ بریں دوست نے دوست سے کیا جانے کہا کیا ہو گا جس نے مظلوم کی تقدیر بدل کر رکھ دی زلزلہ ہو گا، ترا اشک گرا کیا ہو گا جس کی ہیبت سے پہاڑوں کے بھی دل ہیں لرزاں تجھ پہ اُترا جو سرِ غارِ حرا، کیا ہو گا تو کہ اللّٰہ کا سایہ ہے اے حسنِؐ کامل! جو ترا سایہ ہے وہ تجھ سے جدا کیا ہو گا تُو محمدؐ بھی ہے،احمدؐ بھی ہے، محمودؐ بھی ہے تیری توصیف کا حق ہم سے ادا کیا ہو گا تیرا احساں ہے کہ مَیں نعت لکھوں ، تُوخوش ہو ورنہ مَیں کیا ہوں، مرا ِلکّھا ہؤا کیا ہو گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ293۔294 196۔ روح کی لذّت بن کر برسا مولا! تیری ذات کا نام روح کی لذّت بن کر برسا مولا! تیری ذات کا نام بھول گئے ہم سارے موسم، یاد رہا برسات کا نام ایک صحیفہؐ جس کو تُو نے صبحِ ازل تصنیف کیا یعنی اسمِ محمدؐ جس کا اسم ابد آیات کا نام ہم نادانوں، بے سمجھوں کو اس استادِ کاملؐ نے اپنی ذات پہ لکھ کے سکھایا تیری ذات صفات کانام تُو ہی نورِ مجسّم بن کر اُترا ہم مسکینوں پر تیرے ذکر کا نام محمدؐ، قرآں تیری بات کا نام ایک صحیفہ واپس لایا کتنے اور صحیفوں کو یعنی پھر مذکور ہؤا انجیل کا اور تورات کا نام کعبۂ جسم وجان ہے اب بھی تیرے قبضۂ قدرت میں شرمندہ، سرافگندہ ہے اب بھی لات منات کا نام شہرِ ہجر میں اب بھی تیرے نام کا سکّہ جاری ہے صدیوں پربھاری ہے اب بھی قربت کے لمحات کا نام تُو چاہے تو آپ چھپا لے ستّاری کی چادر میں میری فردِ عمل کا، میرا اور میرے حالات کا نام خالی خیمے آج بھی کوفے والوں سے یہ کہتے ہیں ہمت ہے تو واپس کر دو اب بھی نہرِ فرات کا نام کیا مضطرؔ اور کیا اس کی اوقات کہ تیری محفل میں لے توکس برتے پرلے اشکوں کی اس سوغات کا نام چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ295 197۔ راتوں کو اُٹھ کے آنکھ کا آبِ حیات پی راتوں کو اُٹھ کے آنکھ کا آبِ حیات پی ان خشک سالیوں میں سرِ پل صراط پی زہرِ غمِ حیات بھی پینے کی چیز ہے اس کو بھی آزما، اسے بھی آج رات پی یہ تحفۃ ملی ہے تجھے شہریار سے پی اور اس کو بر سرِ نہرِ فرات پی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ296 198۔ ہو گئے ہم تو پاش پاش بہت ہو گئے ہم تو پاش پاش بہت کر ہماری نہ اب تلاش بہت اک تمھِی تم ہو کیوں زمانے میں اور بھی تم سے ہوویں کاش! بہت بت پرستی کی تھی روایت بھی تم نے بت بھی لیے تراش بہت میری کشتی کے ڈوبنے کے بعد اس قدر بھی ہے ارتِعاش بہت آرزو کو نہ گھور کر دیکھو آ نہ جائے اِسے خراش بہت عقل ہی مستقل مریض نہیں دل بھی ہے صاحبِ فراش بہت شہربیتی نہ پوچھیے مضطرؔ! یہ کہانی ہے دلخراش بہت چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ297 199۔ لفظ مر جائیں تو مفہوم بھی مر جاتے ہیں لفظ مر جائیں تو مفہوم بھی مر جاتے ہیں کتنے کاغذ کے کفن خون سے بھر جاتے ہیں دشت در دشت پھرا کرتے ہیں خنداں فرحاں گھرکے پردیس میں آتے ہیں تو ڈرجاتے ہیں گھورتی رہتی ہیں الفاظ کی آنکھیں ان کو شعر کے رُخ پہ جو نظّارے بکھر جاتے ہیں رات دن دار پہ تانتا سا بندھا رہتا ہے چاہنے والے ترے جانے کدھر جاتے ہیں ڈر نہ انکار کے سیلاب سے اتنا مضطرؔ! یہ وہ دریا ہیں جو چڑھ چڑھ کے اُتر جاتے ہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ298 200۔ کیسے بات کروں ٹھنڈے انسانوں سے کیسے بات کروں ٹھنڈے انسانوں سے خوف آتا ہے بے آباد مکانوں سے جاگ رہی ہیں سُونے گھر کی تصویریں چہرے گھور رہے ہیں روشن دانوں سے تنہا آنسو کیسے بچ کر نکلے گا پلکوں کے ان دو رویہ دربانوں سے تم آئین کی لاش اُٹھائے پھرتے ہو لوگ حکومت کرتے ہیں فرمانوں سے کوہِ ندا کے بن باسی بھی بولیں گے آخر شور اٹھے گا بند مکانوں سے دانش مندو! اس کا استقبال کرو یہ جھونکا جو آیا ہے ویرانوں سے آخر پتھر پگھلا ضبطِ تکلّم سے مضطرؔ! کشتی بچ نکلی طوفانوں سے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ299 201۔ ہماری طرف نہ عدو کی طرف ہماری طرف نہ عدو کی طرف زمانہ ہے اک خوبرو کی طرف تُو ان ابروؤں کے اشارے کو دیکھ نہ تک عزّت و آبرو کی طرف خدا جانے کیوں عہدِ الزام میں ہمِی ہم ہیں جام و سبو کی طرف یہ سب رنگ و بو عارضی چیز ہے نہ جانا کبھی رنگ و بو کی طرف تعجب سے دیکھا کبھی آپ کو کبھی آپ کی گفتگو کی طرف نہیں فرق عشق و ہوس میں کوئی یہ پیاسی طرف ہے، وہ بھوکی طرف زمانے کی رفتار کو روک دے بڑھا ہاتھ جام و سبو کی طرف وہ پھر چاند تاروں کی محفل سجی وہ مضطرؔ گیا آبجو کی طرف چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ300 202۔ ہم اکیلے ہیں بے حضور نہیں ہم اکیلے ہیں بے حضور نہیں دور رہ کر بھی تجھ سے دور نہیں تیرے غم سے نڈھال ہیں ورنہ زندگی کا کسے شعور نہیں میری آنکھیں گناہگار سہی تیرے جلوے بھی بے قصور نہیں ہنس رہے ہیں چمن کی حالت پر پھول کمسِن ہیں بے شعور نہیں جس سے پوچھو وہی فرشتہ ہے آدمی کوئی دور دور نہیں گل و گلشن اداس ہیں مضطرؔ! چشمِ نرگس میں جیسے نور نہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ301 203۔ زلف و رُخ کے اسیر رہنے دے زلف و رُخ کے اسیر رہنے دے مفلسوں کو امیر رہنے دے اک عدو، اک ضمیر رہنے دے دونوں منکر نکیر رہنے دے بادشاہت کا اعتبار نہیں احتیاطاً فقیر رہنے دے راز تیرے نہ فاش ہو جائیں میرے دل کو نہ چیر، رہنے دے عظمتوں کو عظیم تر کر دے پستیوں کو حقیر رہنے دے قصّۂ غم دراز ہے مضطرؔ! رات پہنچی اخیر، رہنے دے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ302 204۔ عاشقی جتنی وفادار ہوئی جاتی ہے عاشقی جتنی وفادار ہوئی جاتی ہے دلبری اتنی ہی دلدار ہوئی جاتی ہے میرے محبوب! مجھے چھوڑ گئے ہو تنہا کیوں خفا بندے سے سرکار ہوئی جاتی ہے عشق مظلوم ہے بے بس ہے نہ جانے کب سے بے بسی عادتِ ابرار ہوئی جاتی ہے آج بھی جلتے ہیں پروانے حضورِ شمع٭؎ حسن سے عشق کی تکرار ہوئی جاتی ہے عاشقو! یار کے دربار میں فریاد کرو عاشقی طعنۂ اغیار ہوئی جاتی ہے آج پھر زور پہ ہے معرکۂ ظلمت و نور منتشر مجلسِ احرار ہوئی جاتی ہے رقصِ ابلیس کو اب روک بھی دے اے مولا! قوم کی قوم گنہگار ہوئی جاتی ہے خود ہی آجاؤ یا مضطرؔ کو بلا لو اے دوست! زندگی حسرتِ دیدار ہوئی جاتی ہے ١٩٥٣ء ٭۔۔۔۔۔۔ بروزن فعلن چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ304 206۔ یہ کون سرِ غارِ حرا بول رہا ہے یہ کون سرِ غارِ حرا بول رہا ہے لگتا ہے کہ خود آپ خدا بول رہا ہے ہو جائے نہ صحرا سے کہیں اس کی لڑائی صحرا میں اکیلا جو کھڑا بول رہا ہے واللّٰہ کہ یہ میم فقط میم نہیں ہے اس میم کے پردے میں خدا بول رہا ہے آواز تو آئی ہے اَنَاالْحَقْ کی کہیں سے کوئی تو سرِ کرب و بلا بول رہا ہے کملی کے چھپانے سے کبھی چھپ نہ سکے گا رُخ پر جو ترے رنگِ حیا بول رہا ہے ہے فرش سے تا عرش چکا چوند کا عالَم کس شوخ کا نقشِ کفِ پا بول رہا ہے کچھ منہ سے توکہنے کی ضرورت نہیں اے دل! آنسو بھی تو ہنگامِ دُعا بول رہا ہے تاثیر نے حل کر دیے آواز کے عقدے جو لفظ کبھی بولا نہ تھا بول رہا ہے مضطرؔ کو بھی لے جانا سرِ کوئے ملامت یہ شوخ بھی امسال بڑا بول رہا ہے (قدیم) چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ305۔306 207۔ قصیدہ تہنیت برموقع آغازنشریات ایم ٹی اے یہ جو ہم اس قدر رہے ہیں ملول اس کا انعام ہوگیا ہے وصول سارے شکوے گلے ہوئے معزول سارے رنج اَور غم گئے ہیں بھول آسماں سے سرِ منارۂ ''شرق'' ١؎ ''ابنِ مریم٢؎ ''کا ہو رہا ہے نزول روز اُترتا ہے مسکراتا ہؤا روز کھلتا ہے وہ گلاب کا پھول روز چڑھتا ہے چاند چہرے کا روز ہوتا ہے چاندنی کا نزول روز للکارتا ہے باطل کو سرِ نہرِ فرات ''ابنِ۔بتول'' اس کی للکار، اس کا زورِ خطاب ایک تیغِ برہنہ و مسلول روز اس کا علاج کرتا ہے قوم کو یہ جو ہو گیا ہے زہول جھوٹ بھی ان کا بن رہا تھا سچ میرا معقول بھی تھا نامعقول غسلِ صحّت کیا ہے ٹی وی نے اس میں شیطان کر گیا تھا حلول فوج در فوج آ رہے ہیں لوگ ہرطرف کھل رہے ہیں پھول ہی پھول چاند چہرے کو دیکھ لو اک بار کیوں عبث دے رہے ہو بحث کو طول آج رُوئے زمیں پہ زندوں میں ایک ہی آسماں پہ ہے مقبول جس صداقت کی دے رہا ہے اذاں وہ تو آثار میں بھی ہے منقول چاند سورج بتا چکے کب کے کون محروم، کون ہے مقبول معترض کا بھی کیا گِلہ کرنا دین مذہب نہ جس کا کوئی اُصول بند کر دے گا سارے دروازے میرے بھولے عدو کی ہے یہ بھُول میری تضحیک مشغلہ اس کا میری تکفیر روز کا معمول اس کو غم ہے تو یہ کہ کیوں میں نے سچ کو سچ جان کر کیا ہے قبول مَیں کہ ہوں ایک ذرّہ ء ناچیز کتنا گمنام، کس قدر مجہول میری منزل ہے نقشِ پا تیرا میرا مقصد تری رضا کا حصول کاش مجھ کو یہ مرتبہ مل جائے کاش ہو جاؤں تیرے پاؤں کی دُھول اپنا دیں ہے بس اس قدر پیارو! ایک اللّٰہ اور ایک رسولؐ اُٹھ رہا ہے جو افترا کا دھواں اُڑ رہی ہے جو اختلاف کی دُھول ایک اک کرکے کاٹنے ہوں گے بو رہے ہو جو نفرتوں کے ببول ہم جو خاموش ہیں سرِ مقتل بُزدلی پر نہ اس کو کر محمول کچھ تو واجب ہے پیار پر بھی زکوٰۃ کچھ تو لگتا ہے عشق پر محصول گالیاں سن کے دے رہے ہیں دعا تم بھی مشغول، ہم بھی ہیں مشغول ہاتھ قاتل کا روک دے یا رب! لفظ گھائل ہے اَور صدا مقتول مانگنے والے! مانگ، دیر نہ کر منتظر ہے دعا کا بابِ قبول١؎ ایم ٹی اے کے زیر استعمال مشرقی یورپ کا سیٹلائیٹ مراد ہے۔ ٢؎ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کی والدہ محترمہ مرحومہؒ کا اسم گرامی بھی مریم ہے۔
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ307۔308 208۔ مفہوم کو لفظوں کا دریچہ نہیں ملتا مفہوم کو لفظوں کا دریچہ نہیں ملتا وہ شور ہے، آواز کو رستہ نہیں ملتا پہچان نہ لے کوئی وہ ڈرتا نہیں ملتا ملتا ہے سرِ عام، اکیلا نہیں ملتا نشتر کی طرح وہ جو رگِ جاں میں ہے پیوست اس کا تو کسی شخص سے حلیہ نہیں ملتا تم نے جو بہم مل کے بنایا ہے عزیزو! اس کا تو مرے شہر سے نقشہ نہیں ملتا خواہش کے پہاڑوں کی یہ بے چہرہ چٹانیں چہروں میں بدل جائیں تو چہرہ نہیں ملتا وہ شوخ جو کل تک تھا محلات کا مالک آج اس کو کرائے پہ بھی کمرہ نہیں ملتا دیکھو تو سنبھل جاتا ہے چالاک ہے اتنا آواز بدل جاتی ہے لہجہ نہیں ملتا سیلاب کو شکوہ کہ مرا ذوق ہے پایاب کشتی کو شکایت کہ کنارہ نہیں ملتا دیکھو تو نظر آتے ہیں یہ لوگ تہی دست سوچو تو سرِدار انھیں کیا نہیں ملتا یہ آگ کا دریا تھا کہ سنگلاخ زمیں تھی مضطرؔ کا کہیں نقشِ کفِ پا نہیں ملتا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ309 209۔ منزلوں کی حکایتیں کرتے منزلوں کی حکایتیں کرتے عمر گزری روایتیں کرتے اذن ہوتا اگر صحیفوں کو آیتوں سے حمایتیں کرتے تم نہ کہتے ہمیں فقط کافر اور بھی کچھ عنایتیں کرتے دن گزرتا کہانیاں کہتے رات کٹتی روایتیں کرتے منزلوں سے جھگڑنے والوں کی راستے کیوں رعایتیں کرتے دل کی دولت سمیٹ لی ہم نے رہ گئے تم روایتیں کرتے آنکھ سے لڑ پڑے، کبھی دل سے عمر گزری شکایتیں کرتے بخشنا ہی پڑا بغیرِ حساب وہ کہاں تک رعایتیں کرتے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ310 210۔ پھسلنے کا اگر امکان ہوتا پھسلنے کا اگر امکان ہوتا سنبھلنے کا بھی کچھ سامان ہوتا فقیہِ شہر اگر انسان ہوتا تو اہلِ شہر پر احسان ہوتا صلیبِ شہر جھک کر بات کرتی اسیروں کو بھی اطمینان ہوتا زمیں پر رات بھر تارے برستے فلک پر جشن کا اعلان ہوتا جو آ جاتا کبھی وہ دشت ِجاں میں یہیں پر مستقل مہمان ہوتا وہ آئینے سے مل کر مسکراتے اگرچہ آئنہ حیران ہوتا اگر پہچان لیتا مجھ کو قاتل مَیں اس کی، وہ مری پہچان ہوتا غمِ دوراں، غمِ جاناں، غمِ جاں کوئی تو زیست کا سامان ہوتا کوئی لہجہ تو ہوتا عرضِ فن کا غزل کا کوئی تو عنوان ہوتا اگر رونق نہ ہوتی منزلوں کی تو رستہ کس قدر ویران ہوتا اگر آسان ہوتا مسکرانا تو جینا کس قدر آسان ہوتا اگر ہوتا یقیں اس بے یقیں کو تو جھگڑا بر سرِ میدان ہوتا کوئی تو بات مضطرؔ کی سمجھتا کوئی تو شہر میں انسان ہوتا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ311 211۔صبح اندیشے، شام اندیشے صبح اندیشے، شام اندیشے بے وطن، بے مقام اندیشے روزمرّہ کے عام اندیشے ہر قدم گام گام اندیشے یہ اگر ہیں تو ہم بھی ہیں، یعنی زندگی کا ہے نام اندیشے کیف اور درد عشق کا انعام عقل کا انتقام اندیشے عمر بھر ساتھ ساتھ چلتے ہیں خوش قدم، خوش خرام اندیشے بے غرض، بے زبان، بے صورت بے حقیقت سے، عام اندیشے کچھ شب و روز مصلحت کے اسیر اور کچھ بے لگام اندیشے بے نشاں، بے زبان، بے آواز آئے بہرِ سلام اندیشے دلِ نادان سے خدا سمجھے کچھ بھی ہو، اس کا کام اندیشے کبھی مضطرؔ غلام ہے ان کا کبھی اس کے غلام اندیشے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 312 212۔کفر کا الزام میرے نام تھا کفر کا الزام میرے نام تھا کون کہتا ہے کہ مَیں ناکام تھا کوئے جاناں اور جاں کے درمیاں فاصلہ تھا بھی تو یک دو گام تھا جانے کیوں خاموش تھے چھوٹے بڑے گفتگو کا یوں تو اذنِ عام تھا اب لیے پھرتا ہوں اپنے آپ کو مجھ کو سولی پر بہت آرام تھا سائے لمبے ہو رہے تھے شہر کے تھک گئے تھے پیڑ، وقتِ شام تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 313-314 213۔یہ خلش سی جو آبلے میں ہے یہ خلش سی جو آبلے میں ہے کس سزا میں ہے، کس صلے میں ہے قصرِ نمرود زلزلے میں ہے بُت شکن کوئی بُت کدے میں ہے زندگی کا طلسمِ ہوش رُبا آج بھی کُن کے مرحلے میں ہے بات ہے ایک بات کے اندر دائرہ ایک دائرے میں ہے وہ مرا اشکِ ناتمام کہیں ایک مدّت سے راستے میں ہے وہ گلِ ناشگفتۂ فردا مسکرانے کے مرحلے میں ہے لاکھ چھپ کر بھی وہ گلِ خوبی عکس در عکس آئنے میں ہے ہمنشیں ہے نہ کوئی ہمسایہ وہ اکیلا ہے اور مزے میں ہے حادثہ ہے کہ خوش نصیب ہوں مَیں میرا گھر اس کے راستے میں ہے فاصلہ بھی ہے قرب کے اندر قرب بھی ایک فاصلے میں ہے حملہ آور ہیں آج آدم خور آدمیّت محاصرے میں ہے کوئی دیوار گرنے والی ہے کوئی طوفان راستے میں ہے چور ہے اک مکان کے اندر ایک جاسوس قافلے میں ہے ایک انبوہِ ناشناساں ہے جو ازل سے مقابلے میں ہے بند کر دے گا سارے دروازے معترض اس مغالطے میں ہے کہہ رہی ہے کتاب مدّت سے ایک انجام راستے میں ہے عقل دل کی غلام تھی مضطرؔ! دل بھی اب عقل کے کہے میں ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 315۔316 214۔اشک جو آنکھ کے قفس میں ہے اشک جو آنکھ کے قفس میں ہے ایک سجدے کی دسترس میں ہے دلِ ناداں! یہ عشق کا الزام تیرے بس میں نہ میرے بس میں ہے صبحِ صادق بھی امتحان ہے ایک ابتلا ایک چاند رس میں ہے رقص ہے ایک دل کی دھڑکن میں ایک دُھرپَد نفس نفس میں ہے ایک گمنام آتشِ خاموش اب بھی موجود خار و خس میں ہے اس کی حد ہے نہ کوئی سرحد ہے تُو نظربند جس قفس میں ہے سامنے ہے قیامتِ صغریٰ اور تُو ہے کہ پیش و پس میں ہے معترض! مجھ کو بھی ہوس ہے ایک فرق لیکن ہوس ہوس میں ہے نہ ترے کام سے ہے مجھ کو کام نہ ترا جھوٹ میرے بس میں ہے آج وہ بھی ہے دَرپئے آزار جو نہ دو چار میں، نہ دس میں ہے مَیں قفس میں تو ہوں مگر مضطرؔ! اک مزہ ہے جو اس قفس میں ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 317۔318 215۔گھر سے نکلے تھے بے ارادہ بھی گھر سے نکلے تھے بے ارادہ بھی بے خبر بھی تھے لوگ سادہ بھی تم نے اوڑھا تھا جو لبادہ بھی وہ لبادہ تھا رہنِ بادہ بھی یاد تو ہو گا، ہم فقیروں سے ایک تم نے کِیا تھا وعدہ بھی تم نے تقسیم کر کے دیکھ لیا جسم کو اپنے آدھا آدھا بھی ایک ہی رنگ میں ہوئے رنگیں شاہ بانو بھی، شاہ زادہ بھی ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے تھے پوتے، پڑپوتے اور دادا بھی بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی لاکھ اس کا کیا ارادہ بھی یوں تو منزل بھی تھی قریب بہت راستہ تھا بہت کشادہ بھی اس کے نقشِ قدم پہ چل نکلے ہم اگرچہ تھے پا پیادہ بھی ہم نے ہنس کر اُٹھا لیا مضطرؔ! جس قدر بوجھ اس نے لادا بھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 319-320 216۔ جلنے کا شوق تھا تو وہ جلتا تمام رات جلنے کا شوق تھا تو وہ جلتا تمام رات پتھر تھا، موم بن کے پگھلتا تمام رات منظور تھا اگر اُسے دھرتی کا احترام پاؤں تلے نہ اس کو کچلتا تمام رات ہوتا اگر نہ چاند نکلنے کا انتظار باہر کوئی نہ گھر سے نکلتا تمام رات ہوتی اگر نہ یاد کی کھڑکی کھلی ہوئی اُمّید کا چراغ نہ جلتا تمام رات در کھٹکھٹاتا رہتا وہ اپنے مکان کا خود سے ملے بغیر نہ ٹلتا تمام رات منزل پہ جا پہنچتا مسافر ضمیر کا گرتا تمام رات، سنبھلتا تمام رات اتنا بھی کیا کہ اپنی ہی آہٹ سے ڈر گیا ڈھلنے لگا تھا اشک تو ڈھلتا تمام رات آواز اور سرحدِ آواز سے پرے صوت و صدا کا سلسلہ چلتا تمام رات پیاسے کو چاہیے تھا کہ پیاسوں کے درمیاں چھپ کر نہ آنسوؤں کو نگلتا تمام رات ق اس کو اگر جلاتی نہ یہ آگ ہجر کی پہلو نہ کرب سے مَیں بدلتا تمام رات نظریں اُٹھا کے دیکھ نہ سکتا اسے مگر دیکھے بِنا بھی دل نہ بہلتا تمام رات مضطرؔ بھی اس کے سائے میں سو جاتا چین سے فرقت کا پیڑ پھولتا پھلتا تمام رات چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ321۔322 217۔ جلنے لگا مکاں تو گلی سوچنے لگی جلنے لگا مکاں تو گلی سوچنے لگی ننگی نکور دھوپ جلی سوچنے لگی آنکھیں اُگی ہوئی تھیں گلی میں، مگر گلی پھر بھی نہ سوچنے سے ٹلی، سوچنے لگی سوئی ہوئی تھی عمرِ گزشتہ کی سیج پر جاگی تو مسکرا کے کلی سوچنے لگی روٹھی ہوئی تھی زندگی سوکھی زمین سے بارش ہوئی تو اچھی بھلی سوچنے لگی واپس کبھی تو آئیں گے مالک مکان کے خالی مکاں کی بند گلی سوچنے لگی ڈھلنے کو رات ہجر کی ڈھل تو گئی مگر اک بار ڈھل کے پھر نہ ڈھلی، سوچنے لگی شبنم جو چھپ کے پھول سے اُتری تھی پھول پر خوشبو کا خون پی کے ٹلی، سوچنے لگی زخموں کو سی رہی تھی گزرتی ہوئی صدی اشکوں نہائی پلکوں پلی سوچنے لگی ان خشک سالیوں کی کوئی انتہا بھی ہو بن میں جہاں جہاں تھی کلی سوچنے لگی مقتل میں بہرِ گفتگو آئی تھی زندگی جب گفتگو نہ آگے چلی، سوچنے لگی سولی بھی اُس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یہ اللّٰہ کا ہے کوئی ولی، سوچنے لگی حیران تھی زمین کہ اہلِ زمین نے چہروں پہ کیوں بھبھوت ملی، سوچنے لگی جب بھی گری زمین پہ بچّے کے ہاتھ سے مٹی کی چُورچُور ڈلی سوچنے لگی صورت جو انتظار کے ماتھے پہ ثبت تھی کیا جانے کیا محمد علی! سوچنے لگی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ218۔219 218۔ بے سبب اور بے صدا ٹوٹا بے سبب اور بے صدا ٹوٹا اشک اندر سے بارہا ٹوٹا حشر آواز کا ہؤا برپا قفل جب بھی سکوت کا ٹوٹا عکس سے عکس کی صداقت تک آئنوں کا نہ سلسلہ ٹوٹا دیکھ کر بھی نہ اس کو دیکھ سکے آنکھ کا جو بھرم بھی تھا، ٹوٹا اور جتنے تھے آسرے ٹوٹے ایک تیرا نہ آسرا ٹوٹا سخت تھا زندگی کا پھیر بہت مشکلوں سے یہ دائرہ ٹوٹا تاب کب لا سکا صداقت کی فرطِ لذّت سے آئنہ ٹوٹا بھول کر بھی نہ اس کو بھول سکے ٹوٹ کر بھی نہ رابطہ ٹوٹا بات ہوتی رہی اِشاروں میں گفتگو کا نہ سلسلہ ٹوٹا کتنے طوفاں گزر گئے سر سے زندگی کا نہ بُلبلا ٹوٹا ہم ہی کچھ سخت جان تھے مضطرؔ! دلِ ناداں تو بارہا ٹوٹا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ219۔220 219۔ آپ کے لب پر پیار ہو، دل میں پیار نہ ہو آپ کے لب پر پیار ہو، دل میں پیار نہ ہو آپ کا لب سرکار کہیں عیّار نہ ہو تیرِ نظر کے گھائل کیونکر قائل ہوں جب تک تیر نظر کا دل کے پار نہ ہو چاند کھڑا ہے مُدّت سے دروازے میں چہرہ بھی پیلا سا ہے، بیمار نہ ہو وہ اس جنگ میں لڑنے کے لیے مت نکلیں جن کے پاس محبت کی تلوار نہ ہو کوئے ملامت میں جانے سے ڈرتا ہے دل دیوانہ اتنا بھی ہُشیار نہ ہو منگتا مانگتا جائے اپنے داتا سے داتا کو بھی دینے سے انکار نہ ہو سورج چاند ستارے سب گہنا جائیں آخرِ شب وہ آنکھ اگر بیدار نہ ہو مانگ تو لوں اس زُلف سے سایہ تھوڑا سا کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے، انکار نہ ہو عشق اگر ہو عشق تو کیونکر ممکن ہے عشق تو ہو لیکن اس کا اظہار نہ ہو سر کے بل جاؤں اس پھول سے ملنے کو راہ میں خوشبو کی رنگیں دیوار نہ ہو ڈرتا ہوں مَیں یار کی طبعِ نازک پر پیار کا یہ اظہار بھی مضطرؔ! بار نہ ہو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ327۔328 220۔ نذرِ آتشؔ بصد ادب در کھٹکھٹا رہا ہے قفس کا زمانہ کیا آہٹ کا جو اسیر تھا وہ بھی نہ مانا کیا پتّا کوئی ہِلا تو پرندہ لرز گیا شاخِ نہالِ غم پہ کِیا آشیانہ کیا مجھ کو یہ ڈر ہے تُو کہیں ناراض ہو نہ جائے ان کو یہ خوف ہے کہ کہے گا زمانہ کیا اب ڈھونڈتے پھرو ہو عبث اپنے آپ کو آئے تھے شہرِ ذات میں تم فاتحانہ کیا جینا اگر محال تھا اس اژدہام میں مرنے کا بھی نہ مل سکا تم کو بہانہ کیا عہدِ غمِ فراق کی جنگِ عظیم میں دل بھی لڑے گا عقل کے شانہ بشانہ کیا فتووں کے لین دین پہ قدغن نہیں رہی حل ہو گیا یہ مسئلہ بھی تاجرانہ کیا جس کے نصیب میں ہو ''کھلے شہر''کی صلیب اس خوش نصیب کی ہو خوشی کا ٹھکانہ کیا اس کو کرو کمال اتاترک کے سپرد مُلاّ کو آزمانے کے بعد آزمانا کیا اک زلزلہ سا آ گیا ایوانِ اشک میں مضطرؔ پہ مہرباں ہؤا دشمن پرانا کیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ329۔330 221۔ سپنوں میں بادلوں کی بارات لے کے آنا سپنوں میں بادلوں کی بارات لے کے آنا ساتوں سمندروں کی خیرات لے کے آنا جب قرب کی قیامت برپا ہو جسم و جاں میں دو چار ہجر کے بھی لمحات لے کے آنا ترتیل سے کریں گے ہر زخم کی تلاوت آنا تو فرقتوں کی تورات لے کے آنا پیاسوں کی التجا ہے اے پانیوں کے مالک! دشتِ نجف میں اب کے برسات لے کے آنا حالات کا ہمالہ ہے ٹوٹ جانے والا موسم جو مستقل ہو وہ ساتھ لے کے آنا اے رات کے مسافر! اس سانولے سفر میں جو دن کی ہمسفر ہو وہ رات لے کے آنا داخل نہ ہو سکو گے سچوں کی سلطنت میں آنا تو کوئی سچی سوغات لے کے آنا فرقت کے فاصلوں میں اس عہد کی ہے عادت وہ دن کو چھین لینا جو رات لے کے آنا جنسِ وفا کو لے کر آئیں جب آنے والے لازم نہیں ہے ان پر کچھ ساتھ لے کے آنا پہچاننے میں مضطرؔ! دقّت نہ ہو کسی کو تاریخ کے پرانے صفحات لے کے آنا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ330 222۔ خدا جانے وہ اب کس حال میں ہیں خدا جانے وہ اب کس حال میں ہیں انھیں دیکھے ہوئے عرصہ ہؤا ہے نہیں ہے بے خبر اتنا بھی مضطرؔ اسے معلوم ہے جو ہو رہا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ331-332 223۔ واویلا کرتا ہؤا راون آیا ہے واویلا کرتا ہؤا راون آیا ہے سیتا کو لینے کیوں لچھمن آیا ہے ارجن کو بلواؤ کرو کھشیتر میں گیتا کے اپدیش کو بھگون آیا ہے دروپدیوں کی عزّت لوٹ کے جوئے میں کس منہ سے واپس دریودھن آیا ہے جنسِ وفا منگوائی تھی مجبوروں نے شہر سے واپس خالی برتن آیا ہے آنکھیں فرش کرو، چہرے دہلیز کرو ساجن سے ملنے کو ساجن آیا ہے چہرے جھانک رہے ہیں روشن دانوں سے لگتا ہے کوئی روزن روزن آیا ہے موسم بھی مدہوش ہے فرطِ لذّت سے دھرتی پر بھی ٹوٹ کے جوبن آیا ہے ساز کا قبضہ ہے آواز کی لہروں پر سوز کو بھی چپ رہنے کا فن آیا ہے خالی ہاتھ کھڑے ہیں لفظ قطاروں میں لگتا ہے آواز کا مدفن آیا ہے حضرتِ یوسف سے کہہ دو محتاط رہیں شہر میں کہتے ہیں اک نِردھن آیا ہے گندم کے مقروض کھڑے ہیں ساحل پر دریا پار سے ایک مہاجن آیا ہے کچھ کرلے سیلاب کا بندوبست میاں! ہاڑ گیا اور سر پر ساون آیا ہے آنکھ اٹھا کر دیکھ ستارہ قسمت کا نیند کے ماتے! جاگ، برہمن آیا ہے مضطرؔ کی خاموشی پر حیران نہ ہو اس نے کیا ہے جو اس سے بن آیا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ333 224۔ تیر جب اس کمان سے نکلا تیر جب اس کمان سے نکلا ایک شعلہ چٹان سے نکلا اپنی آواز لے گیا ہمراہ جب پرندہ مکان سے نکلا کوئی اپنا رہا نہ بے گانہ فاصلہ درمیان سے نکلا راستہ دے دیا سمندر نے اشک اس آن بان سے نکلا مٹ چکا تھا نشان جنگل کا جب شکاری مچان سے نکلا شہرِ مسحور میں سرِ منبر مولوی مرتبان سے نکلا اب زمیں سے لپٹتا پھرتا ہے سایہ کیوں سائبان سے نکلا بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی کام کب ترجمان سے نکلا بے سبب تو خفا نہیں دُنیا کچھ تو میری زَبان سے نکلا خواب ہے یا خیال ہے مضطرؔ! آن کر پھر نہ دھیان سے نکلا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ334 225۔ یہ کرم ہو گیا یا ستم ہو گیا یہ کرم ہو گیا یا ستم ہو گیا دفعۃً ہو گیا، ایک دم ہو گیا گھر سے نکلا تھا جو روکنے کے لیے ساتھ چلنے لگا، ہم قدم ہو گیا بار کچھ تو امانت کا ہلکا ہؤا ہاتھ کاٹے گئے، سر قلم ہو گیا بر سرِ دار ہم بھی بلائے گئے فاصلہ باہمی اور کم ہو گیا بات کی تھی سرِ راہ اک سرسری ذکر اس کا عدم تا عدم ہو گیا یہ گلی کس کی ہے، سنگِ در کس کا ہے کیوں جبیں جُھک گئی، سر بھی خم ہو گیا یہ بھی اچھا ہؤا منصفو! ثالثو! خونِ ناحق سے کچھ شور کم ہو گیا پھر لہو رنگ ہے سرزمینِ وفا پھر یہ خطہ بھی رشکِ ارم ہو گیا تم سمجھتے ہو مضطرؔ! اُتر جائے گا؟ یہ جنوں تم کو جو ایک دم ہو گیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ335 226۔ ہونے کو وہ شوخ بہت مشہور ہؤا ہونے کو وہ شوخ بہت مشہور ہؤا جانے کیوں بالآخر نامنظور ہؤا اشک پہ جب الزام لگا عریانی کا فرطِ حیا سے اور بھی چکنا چور ہؤا مٹتے مٹتے داغ مٹیں گے دامن کے چھینٹوں کا یہ دور بہت بھرپور ہؤا ننگ دھڑنگ اک ٹیلہ پیلے پتھر کا عشق کی آگ میں جل کر کوہِ طور ہؤا دل بھی ایک عجائب گھر ہے یادوں کا جتنا پاس آیا اتنا ہی دور ہؤا آخر پتھر پگھلا ضبطِ تکلُّم سے کوہِ ندا کا بن باسی مجبور ہؤا اپنے جہلِ مرکب میں وہ سمجھتا ہے میرے قتل سے عند اللّٰہ ماجور ہؤا دونوں پر افتاد پڑی محرومی کی ایبٹ آباد ہؤا یا لائل پور ہؤا کٹتے کٹتے رات کٹی مجبوروں کی دیکھتے دیکھتے اندھیارا کافور ہؤا مانگنے والے! مانگ کہ اب بھی ملتا ہے دل کا چین ہؤا، آنکھوں کا نور ہؤا مضطرؔ! ہم بھی عرض کریں گے جاناں سے فرطِ ادب سے دل نہ اگر مجبور ہؤا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ337۔338 227۔ ہو گیا سنسان کمرہ اس کا چہرہ دیکھ کر ہو گیا سنسان کمرہ اس کا چہرہ دیکھ کر ڈر گیا وہ خود بھی آئینوں کو ڈرتا دیکھ کر لکھ رہے ہیں لوگ کیا کیا اس''حسیں٭''کی شان میں ہم بھی کچھ لکھیں گے لیکن ناک نقشہ دیکھ کر شاید اس پر نام لکھا ہو اُسی ''عیّار'' کا رُک گیا ہوں راہ میں کاغذ کا پرزہ دیکھ کر رِس رہا ہے اس کی دیواروں سے یادوں کا لہو آپ کو تکلیف ہو گی میرا کمرہ دیکھ کر منجمد، سنگلاخ، بے حس میرے اندر کا پہاڑ پانی پانی ہو گیا بادل برستا دیکھ کر رات ہم نے احتیاطاً اپنے مٹی کے حصار اور اونچے کر لیے پانی کو چڑھتا دیکھ کر رات کے عفریت دیواروں کے اندر چھپ گئے شہر زندہ ہو گیا سورج نکلتا دیکھ کر یہ کمالِ قرب تھا یا اپنے منصب کا شعور ریت بھی چلنے لگی دریا کو چلتا دیکھ کر ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں جیتی،جلتی،جاگتی ڈر گیا وہ شوخ بھی آنکھوں کا پہرہ دیکھ کر اپنے بنجر ہاتھ پر اتنے نہ گل بوٹے بنا تُو کہیں قائل نہ ہو جائے تماشہ دیکھ کر ہو چکا ہے ٹوٹ کر تقسیم اک انبوہ میں لوگ تنہا جانتے ہیں اس کو تنہا دیکھ کر پھر حسینؓ ابنِ علیؓ پہنچے سرِ نہرِ فرات پھر فلک نیچے اُتر آیا نظارہ دیکھ کر پھر وہی اظہار کی سولی ہے اور مضطرؔ! ہوں میں پھر مجھے لفظوں نے آ گھیرا اکیلا دیکھ کر ٨٠۔ ١٨٧٩ء ٭۔۔۔۔۔۔ ایک آمر چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ339۔340 228۔ یہ پیڑ کیا اُگا ہے امسال گھر کے اندر یہ پیڑ کیا اُگا ہے امسال گھر کے اندر موسم بدل گیا ہے قلب و نظر کے اندر ہیں سینکڑوں دریچے دیوار و در کے اندر مخفی نہیں کسی سے جو کچھ ہے گھر کے اندر یہ آنے جانے والی پگڈنڈیاں نہیں ہیں اُلفت کے راستے ہیں میرے نگر کے اندر اے مسکرانے والے! تُو جانتا نہیں ہے ہم بھی ہیں اک حقیقت شام و سحر کے اندر چندھیا گئی ہیں جس سے میری نحیف آنکھیں یہ کون آ گیا ہے یوں بن سنور کے اندر اندر سے کر سکو گے طوفان کا تماشا آؤ نا بیٹھ جاؤ تم بھی بھنور کے اندر جب بھی کیا ہے ان سے تصویر کا تقاضا خود چل کے آ گئے ہیں وہ چشمِ تر کے اندر اندر کے آدمی کا آساں نہیں ہے مرنا زندہ ہے آد ّمیت اب بھی بشر کے اندر کامل ہو راہبر تو ہر اک قدم ہے منزل یہ تجربہ ہؤا ہے اب کے سفر کے اندر کوئی تو ہو رہا ہے اعلان آسماں پر ہلچل مچی ہوئی ہے شمس و قمر کے اندر ڈر ہے نکل نہ جائے یہ پھاڑ کر چھتوں کو وہ قوتِ نمو ہے، مضطرؔ! شجر کے اندر چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ341 229۔ لذّتِ غم سے بہرہ ور کرنا لذّتِ غم سے بہرہ ور کرنا اتنا احسان چشمِ تر! کرنا ڈھا بھی دو اَب انا کی دیواریں سیکھ لو یہ حصار سر کرنا تجھ سے مل کر تو اے شبِ زندہ! جی نہیں چاہتا سحر کرنا صبحِ صادق ملے گی رستے میں منہ اندھیرے کبھی سفر کرنا نیند آئے اگر نہ سولی پر اس کے سائے میں شب بسر کرنا بھول جانا تو بھول ہی جانا یاد کرنا تو عمربھر کرنا عہدِ غم میں کسی کمینے کو اس قدر بھی نہ معتبر کرنا تنِ تنہا کھڑا ہوں مقتل میں دوستوں کو مرے خبر کرنا ہم فقیروں کے قتل سے پہلے اپنے انجام پر نظر کرنا ایک سچّے کی خاکِ پا ہوں مَیں فکر میرا نہ اس قدر کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ جی اُ ٹھے خاک کو خون سے نہ تر کرنا وہ سمجھتے ہیں سب اشاروں کو بات کرنا تو مختصر کرنا پہلے کر لینا معذرت ان سے ذکر مضطرؔ کا ہو اگر کرنا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ342 230۔ اندر سے اگر نہ مسکراؤں اندر سے اگر نہ مسکراؤں اس شور میں ٹوٹ پھوٹ جاؤں اے حسنِ تمام! تیرے احساں چاہوں بھی تو کس طرح بھلاؤں نسبت ہے مجھے بھی اک حسیں سے گمنام ہوں، نام کیا بتاؤں مدّت سے ہوں منتظر صدا کا تو بولے تو میں بھی گنگناؤں تو آئے جو نور میں نہا کر مَیں راہ میں جسم و جاں بچھاؤں پلکوں میں سمیٹ لوں ستارے آئینوں کو آئنہ دکھاؤں تُو آ تو سہی، مَیں اس خوشی میں جاں وار دوں، تن بدن لٹاؤں اس چاند کی چاندنی میں مضطرـؔ! اشکوں کے چراغ کیا جلاؤں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ343۔344 231۔ نہیں وہ شخص تو ایسا نہیں ہے نہیں وہ شخص تو ایسا نہیں ہے اسے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے نہیں یوں بھی کہ وہ ملتا نہیں ہے مگر مجبور بھی اتنا نہیں ہے رکیں تو آپ رک جاتے ہیں دریا مگر ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے وہ سَچّا بھی ہے، سُچّا بھی، حسیں بھی اسے دیکھو اگر دیکھا نہیں ہے اسے چاہا کرو تنہائیوں میں وہ سب کا ہے فقط میرا نہیں ہے اسے معلوم ہے ساری حقیقت اگرچہ منہ سے کچھ کہتا نہیں ہے وہی زندوں میں ہے اب ایک زندہ وہ مر کر بھی کبھی مرتا نہیں ہے اسے اتنی حقارت سے نہ دیکھو اکیلا ہے، مگر تنہا نہیں ہے اسی کے نام کا سکّہ چلے گا اِسے تم نے کبھی سوچا نہیں ہے بتا دوں گا مَیں سارا حال اس کو کوئی اس کے سوا چارہ نہیں ہے یونہی اک فاصلہ سا ہو گیا ہے وگرنہ تم سے کچھ پردہ نہیں ہے جواب اس خط کا بھی آیا ہے اِمشب جسے ہم نے ابھی لکھا نہیں ہے تماشائی بھی اب تو کہہ رہے ہیں یہ سودا اس قدر سستا نہیں ہے چھپا سکتا نہیں خوشبو کو، مضطر!ؔ یہ تھانے دار نے سوچا نہیں ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ345۔346 232۔ تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے نظر کی بھیک بھی تجھ سے پکار کر لیتے وہ راہ چلتوں سے قول و قرار کر لیتے وفا کا عہد تو ان سے سنوار کر لیتے اگر نصیب میں لکھی تھی منزلِ مقصود تو اپنے ساتھ ہمیں بھی سوار کر لیتے یہ قافلے جو کھڑے ہیں اَنا کی سرحد پر کسی بہانے سے سرحد کو پار کر لیتے نہ کرنا پڑتا کبھی ذکر اور کا ہرگز تمھارا ذکر اگر ایک بار کر لیتے گلِ مراد کو نظروں سے چومنے والے نظر کے زخم تو پہلے شمار کر لیتے نہ جی کا روگ لگاتے امیر بستی میں منافع بخش کوئی کاروبار کر لیتے میں تاج کانٹوں کا خود اپنے سر پہ رکھ لیتا مرے حریف مرا انتظار کر لیتے نظر نہ آتے بگولے کبھی سرِ صحرا ہَوا کے رُخ کو اگر اختیار کر لیتے مَیں ایک ذرّۂ خاکی تھا اور مرے سورج قریب تھا کہ مجھے ہمکنار کر لیتے خدا گواہ، نہ تھے اس کے اہل ہم مضطرؔ! یہ اور بات ہے وہ ہم سے پیار کر لیتے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ347۔348 233۔ قریب رہ کے بھی وہ ہم سے دور اتنا تھا قریب رہ کے بھی وہ ہم سے دور اتنا تھا ہمارا اس کا تعلق ضرور اتنا تھا سوائے اپنے اسے کچھ نظر نہ آتا تھا فقیہِ شہر کے سر میں فتور اتنا تھا اسے تھا دعویٰ کہ اُس کے سوا نہیں کوئی اَڑا ہؤا تھا وہ ضد پر، غرور اتنا تھا نظر نہ آیا اسے اپنی آنکھ کا شہتیر وہ آدمی تھا مگر بے شعور اتنا تھا نشانِ راہ نہ منزل دکھائی دیتی تھی غبار اب کے برس دور دور اتنا تھا ق نظر اٹھا کے اسے دیکھنا تھا ناممکن مرے حسین کے چہرے پہ نور اتنا تھا وہ چاہتا تھا تری عاقبت سنور جائے کسی سے کہتا نہیں تھا، غیور اتنا تھا ہر ایک چھوٹے بڑے کو اسی سے تھا شکوہ وہ بے قصور تھا، اس کا قصور اتنا تھا وہ ملنے آیا تو مَیں اُٹھ کے مل سکا نہ اسے تھکن سے میرا بدن چور چور اتنا تھا مَیں ایک لمس سے ہوش و حواس کھو بیٹھا مَیں جس کو ضبط پہ اپنے غرور اتنا تھا گزر چکا تھا میں گفت و شنید کی حد سے نگاہِ لطف کا مضطرؔ! سرور اتنا تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ349۔350 234۔ جنگل ہوں قدیم خار و خس کا جنگل ہوں قدیم خار و خس کا خمیازہ ہوں باغ کی ہوس کا پھولوں کا لہو ہے اس کی خوراک شبنم ہے نچوڑ چاند رس کا تنہا بھی ہے اور گھرا ہؤا بھی لمحہ ہے اسیر پیش و پس کا واعظ کو بھی بحث کی ہے عادت یاروں کو بھی گفتگو کا چسکا اک غار میں روشنی ہوئی تھی قصّہ ہے یہ سینکڑوں برس کا اشکوں کے چراغ بھی بجھا دو دروازہ بھی کھول دو قفس کا لگتا ہے کہ صبح ہو گئی ہے سورج بھی نیا ہے اس برس کا کرنوں نے جگا دیا زمیں کو محتاج تھا قافلہ جرس کا اندازہ نہیں تھا منزلوں کو آہستہ رووں کی دسترس کا آیات کی ہو رہی ہے بارش نظّارہ ہے دیدنی قفس کا سب شہر تری گرفت میں ہیں پنڈی ہو، لہور ہو کہ ڈسکہ بدلا ہے مکان جب سے مضطرؔ! رستہ ہی بدل گیا ہے بس کا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ351۔352 235۔ مجھ کو بھی شفق شمار کر لے مجھ کو بھی شفق شمار کر لے سورج مجھے ہم کنار کر لے منصور ہوں آخری صدی کا سولی مرا انتظار کر لے صحرا کے سکوت سے نہ گھبرا جو نام بھی لے پکار کر لے یہ خاک اور خون کا سمندر دن ڈھلنے سے پہلے پار کر لے شاید کوئی اس طرف سے گزرے دیوار کو سایہ دار کر لے اتنا بھی بڑھا نہ داستاں کو سچّی ہے تو اختصار کر لے آواز کو چھوڑ دے یہیں پر لفظوں کی خلیج پار کر لے اتنا بھی برس نہ اپنے اندر اشکوں کو نہ آبشار کر لے تصویر کو دیکھ کر سنبھل جا آئینے کا اعتبار کر لے ہے جرمِ عظیم اگر محبت یہ جرم بھی میرے یار! کر لے خوشبو کو ہے اختیار مضطرؔ! جو رنگ بھی اختیار کر لے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ353 236۔ مفہوم سے الجھوں کبھی الفاظ سنبھالوں مفہوم سے الجھوں کبھی الفاظ سنبھالوں اظہار کے آشوب میں آواز سنبھالوں صحرائے ملامت سے گزر جاؤں اکیلا الزام کی سوغات بصد ناز سنبھالوں مَیں خاک نشیں، خاک بسر، خاک بداماں کس طرح ترے قرب کا اعزاز سنبھالوں جاؤں تو کہاں جاؤں ترے ہجر کی رُت میں ہنس ہنس کے نہ فرقت کا اگر راز سنبھالوں دریا ہوں مگر اپنے کناروں سے نہ نکلوں جب عشق کروں عشق کے انداز سنبھالوں اپنوں کو بھی اغیار بنا لوں تری خاطر انجام سے گھبراؤں نہ آغاز سنبھالوں جب لفظ ترے فیض سے اک معجزہ بن جائے کیوں لفظ کو اے صاحبِ اعجاز! سنبھالوں مَیں فرطِ محبت سے اگر گاؤں تو مضطرؔ! سُر تال نہ لَے؛ ساز نہ آواز سنبھالوں ٦جنوری ،١٩٨٦ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ354 237۔ دھوپ میں جو ملنے آیا ہے دھوپ میں جو ملنے آیا ہے میرا اپنا ہی سایہ ہے چوٹ لگی ہے میرے دل پر تُو کیوں آنسو بھر لایا ہے تیرے دکھ کی خاطر ہم نے دھرتی کا دکھ اپنایا ہے اپنوں کے بھی ناز سہے ہیں غیروں کا بھی غم کھایا ہے یہ جو بانٹ رہا ہوں سب میں تیری یاد کا سرمایہ ہے دھوپ کی شدت ہے سولی تک آگے سایہ ہی سایہ ہے ق چھپ کر دل میں کون آیا ہے کس نے زخم کو سہلایا ہے اپنے آپ سے لڑنے والے! تجھ کو کس نے اکسایا ہے تیرا نام لکھا تھا اس پر ہم نے جو پتھر کھایا ہے پہلا پتھر مارنے والے! کیا تُو میرا ہمسایہ ہے؟ ہمسائے سے کیسے جھگڑوں ہمسایہ تو ماں جایا ہے خود بھی تڑپے ہو تم مضطرؔ! اَوروں کو بھی تڑپایا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ355۔356 238۔ زندانِ ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا زندانِ ہجر میں کوئی روزن نہ باب تھا وہ حبس تھا کہ سانس بھی لینا عذاب تھا ہم جی رہے تھے تیری ہی رحمت کی گود میں سایہ فگن ترے ہی کرم کا سحاب تھا تیری عنایتوں کی نہ تھی کوئی انتہا میری خطاؤں کا بھی نہ کوئی حساب تھا تیرے ہی نور سے تھیں منوّر صداقتیں تُو ہی تھا ماہتاب، تُو ہی آفتاب تھا تھی خوشبوؤں میں بھی تری خوشبو ہی دلنواز پھولوں میں پھول تیرے ہی رُخ کا گلاب تھا نیکی ترے بغیر گناہِ عظیم تھی لمحہ جو تیری یاد میں گزرا ثواب تھا تُو ہی تھا وہ سوال جو اکثر کِیا گیا تُو ہی تھا وہ جواب کہ جو لاجواب تھا اے حسنِ تام! علم بھی تُو تھا، عمل بھی تُو لوح و قلم بھی تُو ہی تھا، تُو ہی کتاب تھا صبحِ ازل مشیتِ یزداں تھی دیدنی جس صبح بزمِ کُن میں ترا انتخاب تھا اوّل بھی تُو، اخیر بھی تُو، تُو ہی درمیاں تُو تھا پسِ نقاب، تُو پیشِ نقاب تھا کام آ گئی غریب کے، مِدحت حضورؐ کی مضطرؔ کا آج کہتے ہیں یوم الحساب تھا ١٩٦٧ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ357 239۔ کرسی پہ بیٹھ کر بھی وہ کتنا ملول تھا کرسی پہ بیٹھ کر بھی وہ کتنا ملول تھا مَیں مسکرا رہا تھا، یہ میرا اصول تھا عہدِ غمِ فراق میں اوجِ صلیب پر پتھرجو تیرےؐ نام پہ کھایا تھا پھول تھا آیا تھا میری دنیا و دیں کو سنوارنے آنسو جو تیری یاد میں ٹپکا رسول تھا مجھ کو تھی تیرےؐ نام کی غیرت کہ پھر مجھے تحفہ جو گالیوں کا ملا تھا قبول تھا دامن کے داغ دُھل گئے تھے ایک بوند سے آنسو نہیں تھا ابرِ کرم کا نزول تھا اس کو یہ زعم تھا کہ وہ میرِ سپاہ ہے مجھ کو یہ فخر مَیں ترے پاؤں کی دھول تھا اس کو تھا اقتدار کا نشّہ چڑھا ہؤا اس کا اصول یہ تھا کہ وہ بے اصول تھا اب تیرے بعد تیرا حوالہ دیے بغیر جو حرف بھی زبان پہ آیا فضول تھا تھا شعر و شاعری سے نہ مضطرؔ کا واسطہ مقصود اس کا تیری رضا کا حصول تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ358 240۔ یہ سفر بھی دور کا ہے ،یہ ہے دن بھی ڈھلنے والا یہ سفر بھی دور کا ہے ،یہ ہے دن بھی ڈھلنے والا مرے ساتھ کیا چلے گا مرے ساتھ چلنے والا کبھی یہ تو سوچ لیتے کہ بزعمِ اکثر یت جسے کاٹنے چلے ہو وہ شجر ہے پھلنے والا ہے بھنور بھنورحکایت،ہے یہ موج موج چرچا کہ یہ بیڑا روزِ اوّل سے تھا بچ نکلنے والا دل و جان کے مریضو! یہ خبر سنی تو ہو گی وہ طبیب آ گیا ہے جو ہے دل بدلنے والا لو ہؤا ہے پھر سویرا، وہ گھڑی بھی آن پہنچی وہ جو دن تھا فیصلے کا نہیں آج ٹلنے والا مجھے خوف ہے تو یہ ہے کہیں تم نہ ڈوب جاؤ کہ زمیں کا ذرّہ ذرّہ ہے لہو اُگلنے والا نہ سفر ہے مخلصانہ، نہ ہی راہبر ہے دانا نہ ہی تم سنبھل سکو گے، نہ ہے وہ سنبھلنے والا نہیں ایک تُوہی مضطر!ؔ یہ مکیں بھی جانتے ہیں تری آہِ آتشیں سے یہ مکاں ہے جلنے والا اگست ،١٩٨٨ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ359 241۔ ناداں! ناحق کیوں گھبراتا ہے ناداں! ناحق کیوں گھبراتا ہے یہ رستہ منزل کو جاتا ہے بات بنائے سے نہیں بنتی ہے دل جب آتا ہے آ جاتا ہے مت مایوس ہو اس کی رحمت سے وہ داتا تو سب کا داتا ہے عہد نے جو تصویر بنائی ہے اس کا ہم دونوں سے ناتا ہے ہم سب اس کی کوکھ سے نکلے ہیں یہ دھرتی تو دھرتی ماتا ہے تُو گھبراتا ہے آئینے سے آئینہ تجھ سے گھبراتا ہے سب لمحے زندہ ہو جاتے ہیں وہ لمحہ جب ملنے آتا ہے ہم اس عہد کے اندر رہتے ہیں تُو جس کی تفصیل بتاتا ہے وہ مالک ہے اپنی مرضی کا جب چاہے چہرہ دکھلاتا ہے غربت میں اس گل کے تصور سے خوشبو سے کمرہ بھر جاتا ہے مضطرؔ بھی کتنا خوش قسمت ہے غصّہ پیتا ہے، غم کھاتا ہے اگست، ١٩٨٨ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ360 242۔ پتھر اُٹھائیے ، کوئی دشنام دیجیے پتھر اُٹھائیے ، کوئی دشنام دیجیے مجرم ہوں جرمِ عشق کا، انعام دیجیے یہ کیا کہ چھپ کے عشق کا الزام دیجیے دینی ہے جو سزا بھی سرِ عام دیجیے اتنی بھی احتیاط نہ کیجے سرِ صلیب نعرہ لگایئے، کوئی پیغام دیجیے زہرِ غمِ حیات بھی پینے کی چیز ہے سقراط ہوں تو زندگی کا جام دیجیے مَیں بھی لکھوں فراق کے قصّے کتاب میں بے کار پھر رہا ہوں، کوئی کام دیجیے پہلے دل و دماغ کو پلکوں سے پونچھیے پھر آنسوؤں کا جامۂ اِحرام دیجیے کر دیجیے گا، قتل پہ مضطرؔ کے، دستخط کوئی تو کام آپ بھی انجام دیجیے جون، ١٩٨٨ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ361۔362 243۔ حقیقت ہے یہ استعارہ نہیں ہے حقیقت ہے یہ استعارہ نہیں ہے وہ خود مر گیا، اس کو مارا نہیں ہے یہ سب اس کے اپنے کیے کی سزا ہے قصور اس میں ہرگز ہمارا نہیں ہے وہ قہّار غفّار بھی ہے عزیزو! پکارو اسے گر پکارا نہیں ہے دکھایا ہے ہیبت کے ساتھ اس نے چہرہ سوا اس کے اب کوئی چارہ نہیں ہے کرو عرضِ حال اس سے تنہائیوں میں وہ سب کا ہے تنہا ہمارا نہیں ہے وہی بے سہاروں کا ہے اک سہارا سوا اس کے کوئی سہارا نہیں ہے یہ سارا قصور آپ کی آنکھ کا ہے اگر اب بھی حق آشکارا نہیں ہے جسے آپ حدِّ نظر کہہ رہے ہیں فریبِ نظر ہے، کنارہ نہیں ہے نہیں بولتے ہم، نہیں مسکراتے اگر آپ کو یہ گوارا نہیں ہے یہ سب سرزمیں ''سر'' کے اَجداد کی ہے یہ ٹکڑا زمیں کا ہمارا نہیں ہے نہ اتنا حکومت پہ اِترایئے گا حکومت کسی کا اجارہ نہیں ہے مَیں اپنے خدا کی ثنا کر رہا ہوں یہ اشکِ ثنا ہے، ستارہ نہیں ہے وہ سجدہ نہیں، اَور ہی کوئی شے ہے جسے آنسوؤں نے سنوارا نہیں ہے اشاروں ہی میں گفتگو کیجیے گا اگر بات کرنے کا یارا نہیں ہے ہمیں ہر کسی سے محبت ہے مضطرؔ! کسی سے بھی نفرت گوارا نہیں ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ363 244۔ محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں خموشی سے تکرار تک آ گیا ہوں وہ سورج ہے نکلا ہے مغرب میں جا کر مَیں سایہ ہوں دیوار تک آ گیا ہوں مہک ہوں تو مَیں پھیلتا جا رہا ہوں اگر پھول ہوں خار تک آ گیا ہوں یہ اعجاز ہے ہجر کا اے شبِ غم! کہ فرقت سے دیدار تک آ گیا ہے نہیں اتنی جرأت کہ در کھٹکھٹاؤں اگرچہ درِ یار تک آ گیا ہوں ملاقات کی کوئی صورت تو ہو گی یہی سوچ کر دار تک آ گیا ہوں اگر چپ رہا ہوں تو چرچے ہوئے ہیں ہنسا ہوں تو اخبار تک آ گیا ہوں بگولوں کا ڈر ہے نہ آندھی کا خطرہ مَیں اب دشت کے پار تک آ گیا ہوں ملے نہ ملے، اس کی مرضی ہے مضطرؔ! مَیں داتا کے دربار تک آ گیا ہوں اگست، ١٩٨٨ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ364 245۔ اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں قفس نصیب اسے فاصلہ بھی کہتے ہیں یہ دور دور جو صحرا ہے بے یقینی کا یقین ہو تو اسے کربلا بھی کہتے ہیں وہی تو ہے کہ جو محرم ہے منزلِ غم کا وہ رہنما کہ جسے قافلہ بھی کہتے ہیں گیا بھی ہے تو وہ ہر بار لوٹ آیا ہے بہت قدیم ہے یہ سلسلہ بھی، کہتے ہیں عجیب بات ہے تم نے اسے نہ پہچانا وہ معجزہ جسے دستِ دعا بھی کہتے ہیں وہی تو ہے کہ جو آیا ہے میرے تیرے لیے وہ ایک اچھا کہ جس کو برا بھی کہتے ہیں کبھی تو ہو گا ادا آسمانِ غیرت پر وہ قرضِ خوں کہ جسے خوں بہا بھی کہتے ہیں نظر بھی آتا ہے اور راہ بھی دکھاتا ہے وہ نقشِ پا جسے قبلہ نما بھی کہتے ہیں زہے وہ حرفِ تسلّی، زہے وہ اذنِ سلام جسے وفاؤں کا مضطرؔ! صلہ بھی کہتے ہیں اگست ،١٩٨٨ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ365 246۔ اس قدر مت خموش جان ہمیں اس قدر مت خموش جان ہمیں بے زبانی بھی ہے زبان ہمیں ہم ہیں افراد غم قبیلے کے ہو مبارک یہ خاندان ہمیں قریۂ جاں میں، کوچۂ دل میں کوئی دلوایئے مکان ہمیں ہم مؤذّن ہیں عہد کے لیکن کوئی دینے بھی دے اذان ہمیں پھول خوشبو کے تھے سفیر مگر دے گئے لمس کی تکان ہمیں کس نے آنکھیں بنا کے پھینک دیا اتنے چہروں کے درمیان ہمیں ق اس قدر بدگمانیوں کے بعد کیا کہے گا وہ بدگمان ہمیں کر لیا اس نے شہر پر قبضہ بانٹ کر شہر کے مکان ہمیں چھین کر لے گیا سفر کا شعور دے گیا راہ کی تکان ہمیں ہجر میں ہے وصال کی لذّت ارضِ ربوہ ہے قادیان ہمیں اس کو لکھا ہے ہم نے پلکوں سے حفظ ہے ساری داستان ہمیں ہم بغلگیر ہیں ستاروں سے ہنس کے ملتا ہے آسمان ہمیں دائیں بائیں کا فرق ہے پیارے! تُو اسے مان لے یا مان ہمیں اب تو تن کی خبر نہیں مضطرؔ! کبھی من کا تھا گیان دھیان ہمیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ366 247۔ تم اپنے مرتبے کو کم نہ کرنا تم اپنے مرتبے کو کم نہ کرنا سرِ مقتل بھی گردن خم نہ کرنا وہ آئیں یا نہ آئیں، غم نہ کرنا دیے کی لَو کبھی مدّھم نہ کرنا ستارے کہہ رہے ہیں صبحِ نو سے ہماری موت کا ماتم نہ کرنا مَیں اپنے آپ سے ٹکرا نہ جاؤں مجھے میرا کبھی محرم نہ کرنا اندھیرے میں نظر آنے لگوں گا چراغوں کو ابھی مدّھم نہ کرنا تصوّر سے سدا لڑنا جھگڑنا مگر تصویر کو برہم نہ کرنا کلی ہے اور مسلسل مسکراہٹ اسے راس آ گیا ہے غم نہ کرنا اگر ہے زندگی مطلوب مضطرؔ! صداؤں میں صدا مدغم نہ کرنا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ367۔368 248۔ جسم میں رکھنا، جان میں رکھنا جسم میں رکھنا، جان میں رکھنا اس کی خوشبو مکان میں رکھنا اس سے دیوانہ وار مل کر بھی فاصلہ درمیان میں رکھنا اس نے چوما ہے اُس کے قدموں کو یہ زمیں آسمان میں رکھنا دشت در دشت گھومنا پھرنا دل مگر قادیان میں رکھنا اس قدر بھی نہ ہم فقیروں کو معرضِ امتحان میں رکھنا اشک در اشک، سجدہ در سجدہ تیر کوئی کمان میں رکھنا راستوں سے بھی دوستی کرنا منزلوں کو بھی دھیان میں رکھنا ہم فقیروں کی، بے نواؤں کی لاج ہر دو جہان میں رکھنا دوپہر ہے، برس رہی ہے آگ پھول کو سائبان میں رکھنا جب سمندر سے دوستی کر لی دھیان کیا بادبان میں رکھنا یہ محبت کے پھول ہیں مضطرؔ! ان کو اجلے مکان میں رکھنا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ369۔370 249۔ عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر بیٹھا ہوں عہد ہوں، ایک اذیت اپنے اندر لے کر بیٹھا ہوں رگ رگ میں لاکھوں نوکیلے نشتر لے کر بیٹھا ہوں شورِ قیامت برپا ہے انکار کے عریاں خانوں میں باہر میں ہوں اور اقرار کے محشر لے کر بیٹھا ہوں مجھ سے ملو، مجھ کو پہچانو، مستقبل ہوں دھرتی کا قطرہ ہوں، دامن میں سات سمندر لے کر بیٹھا ہوں اس کو شوق ہے ہر نووارِد لمحے کی توصیف کرے مَیں پلکوں میں ایک پرانا منظر لے کر بیٹھا ہوں تخت و تاج کا شوق نہ مجھ کو خواہش جھوٹی عزت کی خاک نشیں ہوں، خاک میں بوریا بستر لے کر بیٹھا ہوں چاہتا ہوں مَیں ایک نرالا تاج محل تعمیر کروں کتنے آنسو، کتنے لعل جواہر لے کر بیٹھا ہوں ان کو خوف ہے کشتی ڈوب نہ جائے ایک تھپیڑے سے مَیں طوفان میں اطمینان کے لنگر لے کر بیٹھا ہوں مَیں نے کہا تھا شہرِ صلیب میں بارش ہو گی پھولوں کی وہ بولا تھا مَیں رستے میں پتھر لے کر بیٹھا ہوں میرے فرقت خانے کی جانب بھی جاناں ایک نظر کتنی اُمّیدوں کے، پیار کے پیکر لے کر بیٹھا ہوں تپتا صحرا ہے اور بادِ سموم کے جلتے جھکڑ ہیں مَیں ہوں اور تیری پہچان کی چادر لے کر بیٹھا ہوں تیرے لطف کی بارش نے بھی تھمنے کا نہیں نام لیا مَیں بھی تیری حمد و ثنا کے دفتر لے کر بیٹھا ہوں چاہو تو اب پارس کر دو ان کو ایک اشارے سے غفلت کے انبار، عمل کے کنکر لے کر بیٹھا ہوں ٩اگست،١٩٩٧ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ371 250۔ سرِ عام سب کو خفا کر چلے سرِ عام سب کو خفا کر چلے جو کرنا تھا اس سے سوا کر چلے ترے نام کا تذکرہ کر چلے فقیروں سے جو ہو سکا کر چلے نمازِ محبت ادا کر چلے ہم اپنے لہو میں نہا کر چلے جو بارِ امانت اٹھا کر چلے اسے چاہیے مسکرا کر چلے ترے ساتھ چلنا ہے اس کو اگر قدم سے قدم تو ملا کر چلے ہمیں مل گیا دل کا ہسپانیہ کہ ہم کشتیوں کو جلا کر چلے سَوا نیزے پر ہو گئے سر بلند زمینِ وطن کربلا کر چلے بجا حضرتِ میر فرما گئے ''فقیرانہ آئے صدا کر چلے'' جو چھپ کر بھی مضطرؔ! نہ تم سے ہؤا وہی کام ہم برملا کر چلے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ372 251۔ گہرائیوں میں غم کی اُتر جانا چاہیے گہرائیوں میں غم کی اُتر جانا چاہیے یہ مرحلہ بھی سر سے گزر جانا چاہیے سولی پہ چڑھ کے کس لیے ہنستے نہیں ہیں لوگ یہ بے یقینیاں ہیں تو مر جانا چاہیے سب ڈَھے چکی ہیں ساحلِ غم کی عمارتیں اب تو سمندروں کو اُتر جانا چاہیے تاریکیاں نہ قبضہ جما لیں مکان پر اے آفتاب! لوٹ کے گھر جانا چاہیے پت جھڑ کے اژدہام میں خوشبو کے دوش پر پھولوں کو مسکرا کے بکھر جانا چاہیے پلکوں کے پار لاکھوں نکلتے ہیں راستے اے اشکِ ناتمام! کدھر جانا چاہیے ہیں منتظر پرانے مکاں کی خموشیاں کوئی سفیرِ صوت ادھر جانا چاہیے مضطرؔ! حریمِ ذات میں اتنی جسارتیں ڈرنے کا ہو مقام تو ڈر جانا چاہیے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ373۔374 252۔ راہ کی روشنی، منزل کا اُجالا دینا راہ کی روشنی، منزل کا اُجالا دینا کوئی تو ہجر کی شب اپنا حوالہ دینا غم جدا، غم کی علامات جدا لا دینا میری پہچان مجھے بہرِ خدا لا دینا تیری ہر دین پہ ہے تیرا حوالہ دینا جو بھی دینا ہے مجھے ارفع و اعلیٰ دینا لذّتِ وصل سے پُر وصل پیالہ دینا کوئی فرقت کا نہ اب کوہِ ہمالہ دینا میرے بچوں کی بھی خواہش ہے کہ تجھ کو دیکھیں اِن چراغوں کو شبِ ہجر سنبھالا دینا آنکھ دی ہے تو اسے بخش دے بینائی بھی دل اگر دینا ہے تو چاہنے والا دینا مَیں کہ آواز کا سقراط ہوں میرِ مقتل میری آواز کو بھی زہر پیالہ دینا وہ صداقت جو نئی بھی ہے، پرانی بھی ہے اس صداقت کا کوئی تازہ حوالہ دینا ہم فقیروں کو سرِ دار اگر تو مل جائے اس سے بالا نہ کوئی منصبِ بالا دینا چاند چہرے کا کوئی آنکھ کا تارا مضطرؔ! رات کالی ہے تو ماحول نہ کالا دینا ٢٤جون،١٩٨٧ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ375 253۔ رکنے کے بعد بھی مَیں برابر سفر میں تھا رکنے کے بعد بھی مَیں برابر سفر میں تھا اک مستقل جنون تھا جو میرے سر میں تھا ملنے کو بے قرار تھے منزل سے راستے ہر سنگِ میل معرضِ خوف و خطر میں تھا بیٹھے تھے لوگ راستے میں بت بنے ہوئے اک منجمد ہجوم تھا جو رہ گزر میں تھا آبادیوں کو گھور رہی تھی بھنور کی آنکھ ساحل کا احترام بھی اس کی نظر میں تھا تالے پڑے ہوئے تھے پرانے مکان میں یہ اور بات ہے کہ خدا اپنے گھر میں تھا مدّت کے بعد آیا تھا وہ شوخ راہ پر لیکن ابھی چھپا ہؤا گردِ سفر میں تھا ہم نے قبول کر لیا تھا اس کے عذر کو چرچا ہماری سادگی کا شہر بھر میں تھا لکھّا تھا اس نے یوں تو لہو سے کتاب کو مضطرؔ! جو اس کا حاشیہ تھا آبِ زر میں تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ376 254۔ میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ بر ہنسنے لگا میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ بر ہنسنے لگا اور پھر تو یوں ہؤا کہ شہر بھر ہنسنے لگا اس کو ہنسنے کے الم کا کوئی اندازہ نہ تھا مجھ کو ہنستا دیکھ کر وہ بے خبر ہنسنے لگا بے خبر! مجبور کو ہنسنے پہ مت مجبور کر تیرا کیا باقی رہے گا وہ اگر ہنسنے لگا ہنسنے رونے میں بظاہر فاصلہ کوئی نہ تھا رات جو رویا تھا ہنگامِ سحر ہنسنے لگا میرے عرضِ حال پر وہ ہو گیا بے تاب سا اور پھر کیا جانیے کیا سوچ کر ہنسنے لگا کس محبت سے در و دیوار نے دیکھا اسے مسکرائے آئنے اور گھر کا گھر ہنسنے لگا بخش دی مضطرؔکواُس نے جب سے غم کی سلطنت التجائیں مسکرائیں اور اثر ہنسنے لگا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ376 254۔ میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ بر ہنسنے لگا میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ بر ہنسنے لگا اور پھر تو یوں ہؤا کہ شہر بھر ہنسنے لگا اس کو ہنسنے کے الم کا کوئی اندازہ نہ تھا مجھ کو ہنستا دیکھ کر وہ بے خبر ہنسنے لگا بے خبر! مجبور کو ہنسنے پہ مت مجبور کر تیرا کیا باقی رہے گا وہ اگر ہنسنے لگا ہنسنے رونے میں بظاہر فاصلہ کوئی نہ تھا رات جو رویا تھا ہنگامِ سحر ہنسنے لگا میرے عرضِ حال پر وہ ہو گیا بے تاب سا اور پھر کیا جانیے کیا سوچ کر ہنسنے لگا کس محبت سے در و دیوار نے دیکھا اسے مسکرائے آئنے اور گھر کا گھر ہنسنے لگا بخش دی مضطرؔکواُس نے جب سے غم کی سلطنت التجائیں مسکرائیں اور اثر ہنسنے لگا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ377 255۔ اپنا اپنا تھا، پرایا تھا پرایا پھر بھی اپنا اپنا تھا، پرایا تھا پرایا پھر بھی وہ عجب ہے کہ مری اور٭؎ نہ آیا پھر بھی ہمہ تن گوش تھا مَیں سوچ کے سنّاٹے میں اس نے کیوں لفظ کا پتھر نہ گرایا پھر بھی وہ پسِ پردۂ جاں روز ملا کرتا ہے اس نے کھل کر نہ کبھی ہاتھ ملایا پھر بھی مجھ کو معلوم ہے اس شوخ کو صدمہ ہو گا لے کے چھوڑوں گا مَیں کرسی کا کرایہ پھر بھی چاند موجود تھا، تارے بھی تھے رستے میں کھڑے راہ گم کردہ نہ کیوں راہ پر آیا پھر بھی نہ مَیں سورج، نہ ستارہ، نہ مَیں چہرہ مضطرؔ! مجھ سے ڈرتا ہے بھرے شہر کا سایہ پھر بھی ٭۔۔۔۔۔۔''اور'' بر وزن شوربمعنی طرف چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ378 256۔ وہ اپنے حال پہ ہنستا تو ہو گا وہ اپنے حال پہ ہنستا تو ہو گا اسے فرقت کا دن ڈستا تو ہو گا کوئی تو موڑ آئے گا سفر میں کہیں رستے میں چورستہ تو ہو گا بجھے گی پیاس پھر دشتِ نجف کی لہو انسان کا سستا تو ہو گا اگر آباد ہے کون و مکاں میں وہ جسم و جاں میں بھی بستا تو ہو گا اسے معلوم ہے ساری حقیقت وہ ہنسنے والوں پہ ہنستا تو ہو گا مناؤ خیر اب منزل کی مضطرؔ! اگر منزل رہی رستہ تو ہو گا جون،١٩٨٥ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ379۔380 257۔ تیرے سوا تو کوئی مرا راہبر نہ تھا تیرے سوا تو کوئی مرا راہبر نہ تھا یہ اَور بات ہے کہ ترا ہم سفر نہ تھا سب بے قرار تھے ترے دیدار کے لیے وہ کون سا حسین تھا جو بام پر نہ تھا افتاد آ پڑی تھی کچھ ایسی مریض پر لب پر دعا تھی اور دعا میں اثر نہ تھا مشکل کے بعد مشکلیں آتی چلی گئیں یہ امتحاں کا دور بہت مختصر نہ تھا تُو نے کہا تو آنسوؤں کو بولنا پڑا ورنہ کوئی صدا نہ تھی جس میں بھنور نہ تھا صبحِ ازل تھی لمس کی لذّت پہ خندہ زن جنت میں دور دور کوئی بھی شجر نہ تھا اس کو پتا تھا سارے سیاہ و سفید کا بے نور تو ضرور تھا وہ بے خبر نہ تھا لیٹے ہوئے تھے ریتلے سائے زمین پر سوکھے سمندروں سے کسی کو مفر نہ تھا ہم نے لحد میں چین سے بستر بچھا لیے مٹی میں کوئی معرکۂ خیر و شر نہ تھا اس مطلق العنان کا نعرہ بھی تھا غلط جمہور کا یہ فیصلہ بھی معتبر نہ تھا تُو بھی تو آ رہا تھا نظر اس کی اوٹ میں مضطرؔ کا انحصار فقط چاند پر نہ تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ381۔382 258۔ ناداں اُلجھ رہے تھے عبث آفتاب سے ناداں اُلجھ رہے تھے عبث آفتاب سے ہم نے دکھا دیا تھا حوالہ کتاب سے یہ اور بات ہے کہ ابھی مطمئن نہ تھا خاموش تو وہ ہو گیا تھا اس جواب سے آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر دیکھتی نہ تھیں کوئی بڑا عذاب نہ تھا اس عذاب سے لہروں میں چھپ گئے تھے کنارے کٹے ہوئے بچ کر نکل گیا تھا سفینہ سراب سے اللّٰہ بھیج سایۂ ابرِ رواں کوئی سنولا گئے ہیں دھوپ میں چہرے گلاب سے کچھ بند پانیوں سے تعلق نہیں رہا سیراب ہو کے آئے ہیں رودِ چناب سے کچھ تو جواب دیجیے، شبنم ہی رولیے پھولوں نے احتجاج کیا ہے جناب سے کوئی تمیز اچھے برے کی نہیں رہی دھندلا گئی ہیں سرحدیں اس انقلاب سے میلی نگاہ سے انھیں دیکھا نہ ہو کہیں کملا گئے ہیں گُل نِگَہِ انتخاب سے آئینہ میرے کانپتے ہاتھوں سے گر گیا مَیں بال بال بچ گیا یوم الحساب سے مضطرؔ کے نام پر خطِ تنسیخ کھینچ کر خود کو بھی تم نے کر دیا خارج نصاب سے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ383۔384 259۔ دلِ نادان پہ حیران نہ مضطرؔ! ہونا دلِ نادان پہ حیران نہ مضطرؔ! ہونا اس کی فطرت میں ہے مومن کبھی کافر ہونا ہجر کی رات بھی آرام کا خوگر ہونا باور آیا ہمیں مجبور کا پتھر ہونا شہرِ بیدار کی راتوں کا سہارا لے کر جاگنے والے! کبھی گھر سے نہ بے گھر ہونا موم کی طرح پگھل جاتے ہیں پاگل پتھر وصل کے عہد میں ممکن نہیں آذر ہونا تیری محفل سے ترے غم کے خزانے لے کر ہم چلے جائیں تو ناراض نہ ہم پر ہونا اب نہ الفاظ کے کژدم ہیں نہ آواز کے سانپ اب کسی جھوٹ کو آئے گا نہ اژدر ہونا عمر بھر رہتے ہیں وہ لوگ مقدّر بن کر جن کی قسمت میں ہو خاکِ رہِ دلبر ہونا عشق کا ایک ہی چہرہ ہے فقط ایک ہی نام اِس کو آتا نہیں رہزن کبھی رہبر ہونا شہرِ جاناں کے ہے آداب کی لمبی تفصیل مختصر یہ ہے کہ آپے سے نہ باہر ہونا عشرتِ شامِ غریبانِ چمن ہے مضطرؔ! بر سرِ چشم ستاروں کا میسر ہونا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ385۔386 260۔ نذرِ غالب کوئی کلاہ نہ کوئی لبادہ رکھتے ہیں سفر نصیب ہیں، احرامِ سادہ رکھتے ہیں سلگ رہے ہیں جو ان منجمد پہاڑوں پر یہ پھول آگ ہیں،جلنے کا مادہ ٭؎ رکھتے ہیں ہمیں بتاؤ ملاقات کا طریقہ بھی کہ اس سے ملنے کا ہم بھی ارادہ رکھتے ہیں ہمارے ہاں تو حکومت فقط اسی کی ہے نہ کوئی شاہ، نہ ہم شاہزادہ رکھتے ہیں ہم اس کے نام پہ خلقت میں بانٹنے کے لیے قبول ہو تو بدن کا برادہ رکھتے ہیں اگر وہ ہے تو اسے چاہیے کہ بولے بھی اگرچہ ''ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں'' ہمی تو ہیں کہ جو صحرائے بے تمنّا میں شعورِ منزل و تکلیفِ جادہ رکھتے ہیں تُو آزما تو سہی حوصلے فقیروں کے مکان تنگ سہی، دل کشادہ رکھتے ہیں جھگڑ رہے ہو عبث آنسوؤں سے تم مضطرؔ! یہی تو ہیں جو سفر کا ارادہ رکھتے ہیں ٭۔۔۔۔۔۔اصل لفظ ''مادّہ'' ہے۔ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ387 261۔ میرے اس کے درمیاں تو فاصلہ کوئی نہ تھا میرے اس کے درمیاں تو فاصلہ کوئی نہ تھا پھر نہ جانے کیوں مجھے اس سے گلہ کوئی نہ تھا آسماں نیچے اُتر آیا تھا مجھ کو دیکھ کر اس کا اب رمزآشنا میرے سوا کوئی نہ تھا راہرو رفتار کے چکر میں تھے آئے ہوئے منزلیں ہی منزلیں تھیں، راستہ کوئی نہ تھا لفظ ننگے پاؤں، ننگے سر، بھرے بازار میں پھر رہے تھے اور ان کو ٹوکتا کوئی نہ تھا عشق اپنی اوٹ میں سویا ہؤا تھا چین سے اس کا دعویٰ تھا اسے پہچانتا کوئی نہ تھا ایک ہی کشتی میں تھے بیٹھے ہوئے چھوٹے بڑے نوح ؑکے طوفان میں چھوٹا بڑا کوئی نہ تھا آئنہ خانوں پہ اک بحران تھا آیا ہؤا آئنہ بردار گم تھے، آئنہ کوئی نہ تھا پہلے بھی کوئے ملامت سے تھی نسبت دُور کی اَور اب تو شہر میں مجھ سے برا کوئی نہ تھا مجھ کو اپنی بندگی کی شرم دامن گیر تھی وہ سمجھتا تھا کہ مضطرؔ کا خدا کوئی نہ تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ388 262۔ رنگ و بو کا سفر تمام ہؤا رنگ و بو کا سفر تمام ہؤا پھول سے پھول ہم کلام ہؤا تُو ہؤا یا ترا پیام ہؤا وصل کا کچھ تو اہتمام ہؤا مجھ کو خلعت ملی غلامی کی عشق کا ملک میرے نام ہؤا آپؐ آقاؤں کے بھی ہیں آقاؐ مَیں غلاموں کا بھی غلام ہؤا مَیں مقامی ہوں اور کہیں بھی نہیں تُو ہؤا اور بے مقام ہؤا گِر گیا جو تری نظر سے گرا تُوؐ نے جس کو چنا اِمام ہؤا جیسے سچ مچ ہی آ گئے ہوں آپ آہٹوں کا وہ اژدہام ہؤا جب ہؤا، تیرے نام پر ہر بار ہم فقیروں کا قتلِ عام ہؤا کربلا ہے کہیں، کہیں ربوہ یہ تماشا بھی صبح و شام ہؤا ہم بھی جائیں گے سر کے بل مضطرؔ! دید کا جب بھی اذنِ عام ہؤا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ175 108۔ جانے کیا جی میں ٹھان بیٹھے ہیں جانے کیا جی میں ٹھان بیٹھے ہیں تیری محفل میں آن بیٹھے ہیں اس طرف بھی تو یک نظر دیکھو ہم بھی اے مہربان! بیٹھے ہیں اپنی مجبوریاں نہ گِنواؤ ہم تو پہلے ہی مان بیٹھے ہیں سب دلوں کو ٹٹول کر دیکھیں جس قدر صاحبان بیٹھے ہیں ہجر کا غم نہ وصل کی اُمّید جان ہے نہ جہان، بیٹھے ہیں ایک ہم ہیں جو تیری محفل میں بے غرض،بے نشان بیٹھے ہیں اِس طرف آگ، اُس طرف بھی آگ اور ہم درمیان بیٹھے ہیں اشک برسے تو اِس قدر برسے ڈَھے گئے دل، مکان بیٹھے ہیں دوست احباب ہی نہیں مضطرؔ! اَور بھی بدگمان بیٹھے ہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ389۔390 263۔ کس کی یاد آ گئی ناگہاں شہر میں کس کی یاد آ گئی ناگہاں شہر میں رک گئے کرب کے کارواں شہر میں کس کے عاشق ہیں اس بے اماں شہر میں خیمہ زن آگ کے درمیاں شہر میں کون ہے وجہِ تسکینِ جاں شہر میں کس کا سکّہ ہے اب بھی رواں شہر میں کس کا دستِ دعا شہر کی ڈھال ہے کس کے سجدوں کے ہیں سائباں شہر میں لے گیا اپنے ہمراہ سب رونقیں وہ جو تھا اک حسیں نوجواں شہر میں وہ جہاں بھی رہے مسکراتا رہے کہہ رہے ہیں یہ خالی مکاں شہر میں آئے گا ایک دن مسکراتا ہؤا زخم بولیں گے بن کر زَباں شہر میں چاند تاروں سے کنجِ قفس بھر گیا رات مہمان تھا آسماں شہر میں شہر کا ناز تو شہر سے جا چکا کس لیے آئے ہو اب میاں! شہر میں ایسی برسات میں تم ہی مضطرؔ! کہو اٹھ رہا ہے یہ کیسا دھواں شہر میں ١٩٨٤ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ391۔392 264۔ یوں تو کرنے کو احتیاط بھی کی یوں تو کرنے کو احتیاط بھی کی ان کو چاہا بھی، ان سے بات بھی کی سرِ اوجِ سناں حیات بھی کی ان کی بیعت سرِ فرات بھی کی دور اُن سے رہے ہزاروں سال زندگی ان کے ساتھ ساتھ بھی کی لمحہ لمحہ گنا فراق کا دن چاند نکلا تو چاند رات بھی کی سجدہ گاہوں کو کر دیا سیراب اشک در اشک شب برات بھی کی چڑھ گئے مسکرا کے سولی پر جسم اور جاں کی بازی مات بھی کی ان کہی کو بھی کہہ دیا منہ پر ساتھ اُمّیدِ التفات بھی کی ایک دل ہی نہ راہ پر آیا یوں تو تسخیرِ کائنات بھی کی ہم نے سولی کو بڑھ کے چوم لیا دن دِہاڑے یہ واردات بھی کی کیوں خفا ہو رہے ہو مضطرؔ سے کچھ کہا اس نے؟ کوئی بات بھی کی؟ ٢٠جولائی،١٩٩١ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ393۔394 265۔ سر چھپانے کا بندوبست تو ہے سر چھپانے کا بندوبست تو ہے شاخیں ننگی سہی درخت تو ہے کیا عجب خود شناس بھی نکلے قاتلِ شہر خود پرست تو ہے مسکرا کر بٹھا لے پاس اپنے تیرے پہلو میں اک نشست تو ہے راہ چلتوں پہ ِگر نہ جائے کہیں دل کی دیوار لخت لخت تو ہے دوستوں سے یہ دوستوں کا گریز عہد و آئین کی شکست تو ہے تم سناتے ہو بار بار جسے میری اپنی ہی سرگزشت تو ہے جس کو کہتے ہو عالمِ بالا طائرِ جاں کی ایک جست تو ہے ان کے ہاں بھی بقدرِ ظرف و مذاق امتیازِ بلند و پست تو ہے یہ بھی آخر گزر ہی جائے گا مرحلہ زندگی کا سخت تو ہے ایک دن یار تک بھی پہنچے گا ذکر مضطرؔ کا دشت دشت تو ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ395 266۔ کوئی شکوہ، کوئی گلہ کر لیں کوئی شکوہ، کوئی گلہ کر لیں آ غموں کا تبادلہ کر لیں صبح ہونے کو ہے، دعا کر لیں آؤ، مضطرؔ! خدا خدا کر لیں یہ گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی آج سجدوں کی انتہا کر لیں اتنی معصومیت نہیں اچھی شیخ صاحب! کوئی خطا کر لیں جو بغل میں چھپا کے رکھّے ہیں ان بتوں سے بھی مشورہ کر لیں آپ کو اختیار ہے صاحب! جس کو چاہیں اسے خدا کر لیں آپ ہی جس کے ہوں تماشائی کوئی ایسا نہ حادثہ کر لیں راستوں سے کہو کہ منزل کا ہر طرف سے محاصرہ کر لیں آنکھ سے عرضِ مدعا کے لیے مستقل اک معاہدہ کر لیں وہ جو بستا ہے شہرِ پنہاں میں اس کی تصویر گھر بُلا کر لیں وقت بے وقت اس کو یاد کریں اس کوچھیڑیں،اُسے ''خفا'' کر لیں ہم ہیں کوہِ ندا کے بن باسی لفظ ہم سے معانقہ کر لیں منطق الطیر جاننے والے پرِ پرواز کو بھی وا کر لیں شہر میں ہے جو بے صدا مخلوق اس سے مل کر نہ جی برا کر لیں جو بھی دعویٰ کریں، کریں مضطرؔ! پہلے اپنا محاسبہ کر لیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ396 267۔ یوں تو سورج سے تصادم ٹل گیا یوں تو سورج سے تصادم ٹل گیا دھوپ سے دھرتی کا چہرہ جل گیا بر سرِ بازار پھر سولی سجی پھر کوئی منصور سر کے بل گیا پھر نکل آئے گلی کوچوں میں لوگ جلتے جلتے شہر سارا جل گیا ہوتے ہوتے ہو گئی ترکی تمام پھر وہی پہلا سا چکّر چل گیا کوئی تو آیا تھا چھپ کر شہر میں کوئی تو چہروں پہ کالک مل گیا اب نہیں پہلی سی شدّت دھوپ میں آفتابِ عمر مضطرؔ! ڈھل گیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ397 268۔ ذکر اپنا کبھی تمھارا کیا ذکر اپنا کبھی تمھارا کیا جس طرح ہو سکا گزارا کیا بر سرِ دار دی وفا کی اذاں عشق کا جرم آشکارا کیا درد ہی لاعلاج تھا اپنا ورنہ کیا کیا نہ ہم نے چارہ کیا بات دل کی زباں پہ آ نہ سکی یوں تو کرنے کو ذکر سارا کیا ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے ہم لوگ وہ کھڑا زلف کو سنوارا کیا تُو نہ آیا تو درد کا مارا تیری تصویر کو پکارا کیا وہ ''کھلے شہر'' ہی میں رہتا تھا تُو جسے عمر بھر پکارا کیا تیرے غم کے طفیل مضطرؔ نے ساری دنیا کا غم گوارا کیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ398 269۔ تم اگر اتنے بے اُصول نہ ہو تم اگر اتنے بے اُصول نہ ہو مسکراتے رہو، ملول نہ ہو پیش ہم بھی کریں گے ہدیۂ دل یہ الگ بات ہے قبول نہ ہو کبھی روئے، کبھی ہنسے ہم لوگ کوئی ہم سا بھی بے اصول نہ ہو جس کو منزل سمجھ رہے ہو میاں! وہ کہیں قافلے کی دھول نہ ہو قتل کے بعد مسکرا دینا یہ ترے عہد کا اُصول نہ ہو ایسے گزروں قریب سے اپنے مجھ کو میری خبر وصول نہ ہو تُو نے ماتھا سجا لیا جس سے وہ کسی آبرو کا پھول نہ ہو لوگ اتنے خلاف ہیں اُس کے وہ کہیں عہد کا رسول نہ ہو جرم تیرا عظیم ہے مضطرؔ! تُو سرِ دار بھی ملول نہ ہو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ399۔400 270۔ سچّا تو کائنات کو سچّا دکھائی دے سچّا تو کائنات کو سچّا دکھائی دے یہ اور بات ہے تمھیں جھوٹا دکھائی دے اوجِ صلیبِ غم پہ جو بیٹھا دکھائی دے ہم کو تو اپنے عہد کا عیسیٰ دکھائی دے آواز کے اُفق پہ جو چہرہ دکھائی دے آنکھوں میں نور ہو تو ہمیشہ دکھائی دے سب سے جدا ہو، سب سے انوکھا دکھائی دے کوئی تو اس ہجوم میں تم سا دکھائی دے اوڑھے ہوئے نہ ہو اگر آواز کی ردا ہر لفظ بے لباس ہو، ننگا دکھائی دے آشوبِ اختلاف سے دھندلا گئی نظر اپنا دکھائی دے نہ پرایا دکھائی دے تُو بھی کبھی وجود سے باہر نکل کے دیکھ شاید تجھے وجود کا ملبہ دکھائی دے مٹی کا لمس، دھوپ کی لذّت کہیں اسے پانی پہاڑ سے جو اُترتا دکھائی دے اس سے کہو کہ دن کو نہ نکلے مکان سے جو شخص چاند رات میں ہنستا دکھائی دے بالشتیوں کے دیس کی رسمیں عجیب ہیں ہر کوئی اپنے قد سے جھگڑتا دکھائی دے جوشِ نمو نہ لذّتِ آزارِ آرزو اندر ہی کچھ نہ ہو تو اسے کیا دکھائی دے مضطرؔ! فراقِ یار کے یہ معجزات ہیں لمحہ کبھی صدی، کبھی لمحہ دکھائی دے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ401 271۔ عمر بھر اشک کی آواز پہ چلنے والے! عمر بھر اشک کی آواز پہ چلنے والے! فکر مت کر کہ یہ سورج نہیں ڈھلنے والے عمر گزرے گی یونہی آنکھ کی دربانی میں رکنے والے ہیں نہ یہ اشک سنبھلنے والے تم اگر ہنس کے بلا لو تو بہل جائیں گے ہم ہیں نادان کھلونوں سے بہلنے والے اپنی تصویر کا انجام بھی سوچا ہوتا اے مرے شہر کی تصویر بدلنے والے! منجمد چہروں کی خاموش نگاہی پہ نہ جا ایک آہٹ سے یہ پتھر ہیں پگھلنے والے مَیں اکیلا تو ہوں، تنہا نہیں ان گلیوں میں میرے بدخواہ مرے ساتھ ہیں چلنے والے آنکھ کے پانی سے کچھ اس کا مداوا کرلے شہر جلنے کو ہیں، دریا ہیں اُبلنے والے چڑھ بھی اے آنکھ کے سورج!سرِ شاخِ اُمّید صبح ہونے کو ہے، نقشے ہیں بدلنے والے دل بھی بوجھل ہے بہت، آنکھ بھی نم ہے مضطرؔ! گھِر کے آئے ہیں یہ بادل نہیں ٹلنے والے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ402 272۔ اتنا احسان اَور کر دینا اتنا احسان اَور کر دینا اپنے گھر کے قریب گھر دینا ہجر کی رات مختصر دینا وصل کا دن طویل کر دینا تیرے پاؤں کی خاک بن جاؤں اپنی دہلیز، اپنا در دینا کام دینا جو ہو پسند تجھے نام دینا تو معتبر دینا بھول جاؤں نہ اپنے آپ کو مَیں قرب مجھ کو نہ اس قدر دینا جب بھی جانا پڑے پرائے دیس ''اپنے احوال کی خبر دینا'' راستے کا جسے شعور نہ ہو کوئی ایسا نہ ہمسفر دینا جب بچھڑ جاؤں اپنے آپ سے مَیں مجھ کو میرے قریب کر دینا بخش کر اپنے درد کی دولت کیا ہمیں ملک و مال و زر دینا راہ چلتے اگر سوال کریں مت جواب ان کا نامہ بر دینا تیری خاطر چلا تو ہے مضطرؔ اس کی آواز میں اثر دینا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ403۔404 273۔ آنکھیں لے کر نکلے تھے آئینوں کے دلدادہ لوگ آنکھیں لے کر نکلے تھے آئینوں کے دلدادہ لوگ اب تک گھوم رہے ہیں قریہ قریہ، جادہ جادہ لوگ کل تک مرنے کے شائق تھے بھولے بھالے سادہ لوگ ایک ذرا سی بات پہ ہیں اب جینے پر آمادہ لوگ دھلےدھلائے، سیدھےسادے، اجلے، صاف، کشادہ لوگ اتنے ہی نایاب لگیں ہیں جتنے بھی ہوں زیادہ لوگ بات بات پر ٹوکنے والے بوڑھے نیک ارادہ لوگ پوتوں سے بھی بڑھ کر بے آواز ہوئے ہیں دادا لوگ کیا جانیں لفظوں کا بھاؤ، کیا بوجھیں لہجوں کے دام تم شہری آواز کے تاجر، ہم دیہاتی سادہ لوگ تم اک دوجے کی دیواریں اونچی کرتے رہتے ہو ہم سے خواب میں آ کر مل جاتے ہیں دور افتادہ لوگ رہ چلتوں کو تکتے تکتے بالآخر یہ ہوتا ہے پتھر بن کر رہ جاتے ہیں راہوں میں ایستادہ٭؎ لوگ پلکوں سے تعمیر کیے تھے جن لوگوں نے تاج محل اے تختِ طاؤس! بتا وہ کہاں گئے شہزادہ لوگ اس سردی میں چلتے پھرتے رہنا ایک عبادت ہے گرتے پڑتے منزل پا لیتے ہیں پیرپیادہ لوگ عہدِ غمِ فراق میں مضطرؔ! آنا جانا چھوٹ گیا اب فٹ پاتھ پہ باہم مل لیتے ہیں بلاارادہ لوگ ٭۔۔۔۔۔۔ اِستادہ پڑھا جائے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ405 274۔ راہرو رستے میں بیٹھا رہ گیا راہرو رستے میں بیٹھا رہ گیا ڈَھے گئی دیوار سایہ رہ گیا مر کے بھی یہ شخص زندہ رہ گیا عشق کا بیمار اچھا رہ گیا چھپ گئی منزل نظر کی اوٹ میں راستہ کروٹ بدلتا رہ گیا لاکھ برگِ شرم سے ڈھانپا بدن ابنِ آدم پھر بھی ننگا رہ گیا مَیں شہیدِعشق ہوں،میرے لیے ایک ہی جینے کا رستہ رہ گیا رات آدھی رات کو قطبین پر چھپ گیا سورج، اجالا رہ گیا لوگ تصویریں بنا کر لے گئے مَیں لکیروں سے جھگڑتا رہ گیا ہوتے ہوتے پیڑ خالی ہو گئے ایک پانی کا پرندہ رہ گیا آئنوں سے بات کرنے کے لیے آئنہ بردار تنہا رہ گیا روشنی کا ذکر کرنے کے لیے ایک مَیں آنکھوں کا اندھا رہ گیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ406 275۔ وہ دل میں آ کے نہ ٹھہریں ،کبھی گزر تو کریں وہ دل میں آ کے نہ ٹھہریں ،کبھی گزر تو کریں غریبِ شہر کے حالات پر نظر تو کریں بلا سے قافلے والے قدم شناس نہیں علاج دورئ منزل کا راہبر تو کریں تمھارا اسم بھی ہو جائے گا دلوں پر نقش تمھارے اسم کی تکرار عمر بھر تو کریں سحر پکارے گی، تارے کریں گے سرگوشی فصیلِ ہجر کے سائے میں شب بسر تو کریں گھڑی قبول کی بھی آئے گی کبھی نہ کبھی صدائے نالہ و واویلا تا سحر تو کریں وہ ہم سے ملنے کو آئیں گے خود بخود مضطرؔ! حریمِ ناز میں جا کر انھیں خبر تو کریں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ407۔408 276۔ گھومتا پھرتا رہے ہے قیس دن بھر گاؤں میں گھومتا پھرتا رہے ہے قیس دن بھر گاؤں میں اس کا بنگلہ شہر میں ہے اَور دفتر گاؤں میں شہر اس کو دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے وہ چلا جائے گا تصویریں دکھا کر گاؤں میں لڑکیاں ہنسنے لگیں اس کی پھٹی پتلون پر شہر کے لڑکے کا اب جینا ہے دوبھر گاؤں میں رونگٹے جس سے کھڑے ہو جائیں اہلِ شہر کے ہم نے ان آنکھوں سے دیکھا ہے وہ منظر گاؤں میں اب وہ اس چکّر میں ہے کہ ابتدا کس سے کرے ایک کافر شہر میں ہے، ایک کافر گاؤں میں شہر کی سڑکوں پہ جو منڈلا رہے ہیں ان دنوں اُڑ رہے تھے کل یہی اجلے کبوتر گاؤں میں صبح تک ہوتی رہی آواز کی جنگِ عظیم رات بھر لڑتے رہے لفظوں کے لشکر گاؤں میں جا چکا ہے تیرا گاؤں شہر کی آغوش میں اور تُو بیٹھا ہے اب تک گھر کے اندر گاؤں میں مَیں اگر ہمسر نہیں ہوں تیرا ہمسایہ تو ہوں میرا گھر بھی ہے ترے گھر کے برابر گاؤں میں آئنوں کے ٹوٹنے کا اب کوئی خطرہ نہیں آئنے سب شہر میں ہیں اور پتھر گاؤں میں ایک ہی ریلے میں مضطرؔ! بَہ گئے ان کے محل اب بھی ہے زندہ سلامت میرا چھپّر گاؤں میں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ409۔410 277۔ رات ڈھل جائے گی، سورج کا سفر بھی ہو گا رات ڈھل جائے گی، سورج کا سفر بھی ہو گا صبح ہوتے ہی کوئی شہربدر بھی ہو گا پھر سرِ اوجِ سناں عشق کی ہو گی تصدیق حسن خود دیکھنے آئے گا جدھر بھی ہو گا کوئی تو سمجھے گا اس عہد کے آدم کی زباں شہرِ مسحور میں کوئی تو بشر بھی ہو گا تُو ہے وہ خواب جسے عین حقیقت کہیے تُو مرے پہلو میں ہنگامِ سحر بھی ہو گا تیری تصویر کو پلکوں پہ سجانے والا خود ہی تصویر نہ بن جائے، یہ ڈر بھی ہو گا تیرے دیدار کی طاقت تو نہ ہو گی لیکن ہر کوئی تیری طرف محوِ سفر بھی ہو گا عشرتِ سجدہ نہ ہو گی مجھے حاصل کیا کیا تیری دہلیز بھی ہو گی، مرا سر بھی ہو گا تُو کہیں چاند، کہیں پھول، کہیں شبنم ہے حسنِ آوارہ! ترا کوئی تو گھر بھی ہو گا تم سرِ دار کبھی اس کو بلاؤ تو سہی خود چلا آئے گا وہ شوخ جدھر بھی ہو گا ہے ابھی وقت کوئی اس کا مداوا کر لے اب کے سیلاب کی زد میں ترا گھر بھی ہو گا دشت در دشت گئی رُت کا منادی مضطرؔ! دشت میں آیا تو اب دشت بدر بھی ہو گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ411۔412 278۔ تم عہد کی آواز سے ڈر کیوں نہیں جاتے تم عہد کی آواز سے ڈر کیوں نہیں جاتے پندار کی سولی سے اُتر کیوں نہیں جاتے سب کہنے کی باتیں ہیں مری جان! وگرنہ شرمندہ ہو تو شرم سے مر کیوں نہیں جاتے یہ عرقِ خجالت میں شرابور مسافر صحرائے ندامت سے گزر کیوں نہیں جاتے سچّے ہیں ترے ہاتھ تو پھر تیرے قلم سے چہروں کے خدوخال سنور کیوں نہیں جاتے برسات کا موسم ہے نہ پگھلی ہے کہیں برف یہ آنکھ کے تالاب اُتر کیوں نہیں جاتے کیوں محوِ تماشا ہیں سرِ بامِ تحیّر نظّارے ترے رُخ پہ بکھر کیوں نہیں جاتے گھر سے تو نکل آئے ہو زنجیر پہن کر اس شور میں چپکے سے گزر کیوں نہیں جاتے سپنے جو ہمیں ملنے کو آئے تھے سرِ شب گھر لوٹ کے ہنگامِ سحر کیوں نہیں جاتے امکان کی سرحد پہ کھڑے سوچ رہے ہو کیوں ڈرتے ہو تا حدِّ نظر کیوں نہیں جاتے مضطرؔ! یہ گئے دور کے بیدار مسافر اب لوٹ کے آئے ہیں تو گھر کیوں نہیں جاتے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ195۔196 124۔ بَغْتَۃً وہ اگر گیا ہو گا بَغْتَۃً وہ اگر گیا ہو گا راکھ بن کر بکھر گیا ہو گا اپنا انجام دیکھ کر اس کا سب ملمّع اُتر گیا ہو گا مٹ گئے ہوں گے عہد کے آثار وہ ستمگر جدھر گیا ہو گا دیکھ کر میری مسکراہٹ کو اس کا چہرہ اُتر گیا ہو گا اپنے انجام پر نظر کر کے موت سے پہلے مر گیا ہو گا اس نے دیکھا تو ہو گا آئینہ لوٹ کر جب وہ گھر گیا ہو گا مجھ کو خبروں سے مارنے والا سرِ اخبار مر گیا ہو گا زرِ آواز لُوٹنے کے بعد دن دِہاڑے مُکر گیا ہو گا چَین کی بھیک مانگنے کے لیے جانے کس کس کے گھر گیا ہو گا دن چڑھے آنکھ کھل گئی ہو گی سارا نشّہ اُتر گیا ہو گا اس کو دیکھے ہوئے سرِ اخبار اک زمانہ گزر گیا ہو گا لوگ جاتے ہیں اپنی مرضی سے وہ برنگِ دِگر گیا ہو گا جس کڑے دن کا ذکر کرتے ہو وہ بھی آخر گزر گیا ہو گا آؤ مقتل کی سیر کر آئیں کچھ تو موسم نکھر گیا ہو گا خشک پتّوں کی طرح بالآخر وہ خلا میں بکھر گیا ہو گا خونِ ناحق سے ہی سہی مضطرؔ! اس کا دامن تو بھر گیا ہو گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ413 279۔ دین مانگے نہ یہ دنیا مانگے دین مانگے نہ یہ دنیا مانگے دلِ ناداں تجھے تنہا مانگے بات کرنے کا سلیقہ مانگے لفظ تجھ سے ترا لہجہ مانگے ہر نئی رت کا پیمبر تجھ سے سبز پتّوں کا صحیفہ مانگے آئنہ مانگے تو میرا ہمزاد مجھ سے چہرہ بھی پرایا مانگے تیری آیات کا حافظ تجھ سے تیری آواز کا تحفہ مانگے بحرِ ظلمات کا بوڑھا غوّاص ایک گم گشتہ جزیرہ مانگے صاف رہنے کی ہے عادت اس کو پھول ملبوس بھی اُجلا مانگے مَیں کبھی گھر سے نہ باہر نکلا تُو بھرے شہر کا نقشہ مانگے رات کا چور مسافر بن کر گھر کے اندر کوئی کمرہ مانگے رک گیا شہر پنہ کے باہر دشت دیوار سے رستہ مانگے میری آواز کا قاتل مجھ سے قتل کے بعد کرایہ مانگے قتل بھی میرا کرے وہ ناحق مجھ سے انعام بھی اُلٹا مانگے یہ اندھیروں کے پجاری مضطرؔ! تو سرِ چشم اُجالا مانگے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ414 280۔ نظر کے لمس سے دامن نہیں بچائے گا نظر کے لمس سے دامن نہیں بچائے گا وہ آگیا ہے تو اب لوٹ کر نہ جائے گا یہی وفا کا تقاضا ہے، مصلحت ہے یہی وہ باوفا ہے مجھے خود ہی بھول جائے گا زَباں پہ اس کی، حکومت ہے ایک سچّے کی جو بات اس نے سنی ہے وہی سنائے گا تمام کھڑکیاں مشرق کی سمت کھلتی ہیں کتاب کہتی ہے وہ اس طرف سے آئے گا مری نحیف نگاہی کا علم ہے اس کو وہ خوش لباس کبھی سامنے نہ آئے گا کھلیں گے پھول محبت کے اس کے آنگن میں وہ دیکھ دیکھ کے خوش ہو گا مسکرائے گا نہ جانے کیوں اسے مضطرؔ! یقیں نہیں آتا وہ کہہ رہا ہے مجھے پھر بھی آزمائے گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ415۔416 281۔ سحر پسند تو سب ہیں، سحر چشیدہ نہیں سحر پسند تو سب ہیں، سحر چشیدہ نہیں امیر شہر میں کوئی بھی شب گزیدہ نہیں لگے ہو کرنے تو سارے گلے کرو ان سے دو، تین، چار نہیں اور چیدہ چیدہ نہیں اسے یہ زعم کہ مالک ہے وہ خدائی کا خدا کا شکر ہے واعظ خدارسیدہ نہیں ازل سے کہتے چلے آئے ہیں حریف اسے جو بات تم نے کہی ہے وہ ناشنیدہ نہیں یہ وہ کتاب ہے جو عمر بھر اترتی ہے مرا یقین ہے یہ سرسری عقیدہ نہیں تمھارے ہاں بھی تو آیا تھا عہد کا یوسف یہ اور بات ہے تم نے اسے خریدا نہیں جو ملنا چاہو تو اس سے ملا بھی سکتے ہیں ہمارا اس کا تعلق بہت کشیدہ نہیں ہمیں ستایا گیا ہے اگر تو اس کے لیے ستم چشیدہ کہو، ہم ستم رسیدہ نہیں تُو دستِ ناز سے ان کے دلوں پہ دستک دے فضا اگرچہ مکدّر ہے دل کبیدہ نہیں کسی کے بت کو بھی ہم تو برا نہیں کہتے زَباں دراز نہیں ہم دہن دریدہ نہیں مَیں کون ہوں جو کروں دعوئ ثناخوانی غزل کہی ہے تری شان میں، قصیدہ نہیں بغیر اذن کے غم بھی نہ کھائے گا مضطرؔ! ہزار بھوکا سہی وہ مگر ندیدہ نہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ417۔418 282۔ ساز آواز میں ڈھل جاتا ہے ساز آواز میں ڈھل جاتا ہے پھول بن جاتا ہے، پھل جاتا ہے کتنے احساس کے انگاروں کو وقت کا سانپ نگل جاتا ہے چوم لیتا ہے جو پتھر اس کو موم کی طرح پگھل جاتا ہے اشک یوں چہرہ چھپا لیتے ہیں جیسے اک حادثہ ٹل جاتا ہے چور دروازے سے گھر کا سایہ جانبِ دشت نکل جاتا ہے دل میں تصویریں ہی تصویریں ہیں اور دل ہے کہ بہل جاتا ہے عشق ہو جائے تو حیران نہ ہو یہ وہ جادو ہے جو چل جاتا ہے عدم آباد کو جانے والا آج جاتا ہے نہ کل جاتا ہے اس کے انجام سے مایوس نہ ہو آدمی گِر کے سنبھل جاتا ہے رنگ یوں بزم کا بدلا مضطرؔ! جیسے نظّارہ بدل جاتا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ419۔420 283۔ چادر سروں پہ کوئی تو اے آسمان! دے چادر سروں پہ کوئی تو اے آسمان! دے سایہ اگر نہیں ہے تو سورج ہی تان دے بیدار پانیوں کے کنارے مکان دے داتا! نئی زمین، نیا آسمان دے صدیوں کو تو زبان دی، لہجہ عطا کیا لمحہ بھی بولتا ہے، اسے بھی زَبان دے طے ہو سکیں گے ہم سے نہ فرقت کے فاصلے دینا ہے کچھ تو قربتوں کے درمیان دے سورج بکھیر دے مرے اندر صفات کے اس دھند میں بھی روشنی کے سائبان دے کیوں بارِ غم اُٹھا لیا تھا تُو نے عشق کا اس کا جواب بھی اے دلِ ناتوان! دے ایسا نہ ہو کہ پھر کہیں ہو جائیں قلعہ بند ہم لامکانیوں کو نہ کوئی مکان دے اپنی نظر سے بھی کبھی اپنی نظر ملا دعویٰ ہے عشق کا تو کوئی امتحان دے لفظوں کے لب پہ حرفِ تمنا نہ آئے گا اے عہد کے کلیم! انھیں ترجمان دے انکار کے بھنور میں ہے کشتی پھنسی ہوئی بادِ مرادِ عشق! کوئی بادبان دے یہ عہدِ نو جو پیدا ہؤا ہے ابھی ابھی اٹھ اور اس کے کان میں مضطرؔ! اذان دے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ421۔422 284۔ اس کے دل میں اب بھی احساسِ زیاں کوئی نہ تھا اس کے دل میں اب بھی احساسِ زیاں کوئی نہ تھا وہ سمجھتا تھا کہ سر پر آسماں کوئی نہ تھا اس کا دعویٰ تھا کہ عہدِ عشق میں میرے بغیر اس کی تیغِ ناز کے شایانِ شاں کوئی نہ تھا جھونک دی تھیں کشتیاں اس نے انا کی آگ میں اس کو اب اندیشۂ سود و زیاں کوئی نہ تھا جل رہے تھے شہر اور دیہات اس کی آگ میں اس بتِ عیّار سا آتش بیاں کوئی نہ تھا لفظ گونگے ہو گئے تھے آبرو کے خوف سے عفّتِ آواز کا اب پاسباں کوئی نہ تھا روح تھی کانٹوں کی ننگی سیج پر لیٹی ہوئی جسم دھڑ دھڑ جل رہا تھا اور دھواں کوئی نہ تھا لوگ سرکاری مسلماں بن گئے تھے دفعۃً اس نرالے فیصلے پر شادماں کوئی نہ تھا جس کا دعویٰ تھا' مری کُرسی بڑی مضبوط ہے ' ذکر اس کا داستاں در داستاں کوئی نہ تھا جانے کیوں لوگوں نے اس پر کر لیا تھا اعتبار اس کی بزمِ ناز میں کیا بدگماں کوئی نہ تھا کر لیا آخر بسیرا اس نے اوجِ دار پر اس پرندے کا چمن میں آشیاں کوئی نہ تھا آئنے تک تو دبے پاؤں وہ آیا تھا مگر اس سے آگے دور تک اس کا نشاں کوئی نہ تھا اب گئی رت کی کہانی تھی قریب الاختتام پھول اس پت جھڑ میں زیبِ گلستاں کوئی نہ تھا جا چکے تھے سب تماشائی گھروں کو لَوٹ کر ماسوا مقتول کے وقتِ اذاں کوئی نہ تھا شہر میں شاید اُتر آیا ہو دیواروں کے بیچ دشت میں تو سایۂ ابرِ رواں کوئی نہ تھا ایک سوتیلے کو ہے افسوس مضطرؔ! آج تک یوسفِ دوراں کے رستے میں کنواں کوئی نہ تھا ٨٠،١٩٧٩ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ423۔424 285۔ اوّل آئینے سے الفت ہو گئی اوّل آئینے سے الفت ہو گئی غور سے دیکھا تو نفرت ہو گئی اپنے خادم کی خطائیں دیکھ کر اور بھی اس پر عنایت ہو گئی عشق کا الزام ثابت ہو گیا اب تو سچائی بھی تہمت ہو گئی مسکراتا ہی رہا وہ عمر بھر مسکرانا اس کی عادت ہو گئی وہ اکیلا اور اس کے ارد گرد چاہنے والوں کی کثرت ہو گئی جس قدر نزدیک سے دیکھا اسے اتنی ہی اس سے محبت ہو گئی ہوں تو اک ذرّہ مگر حیران ہوں کس طرح سورج سے نسبت ہو گئی رات بھر ہوتا رہا راز و نیاز دن چڑھے تصویر رخصت ہو گئی پابجولاں ہم بھی بلوائے گئے کوئی تو ملنے کی صورت ہو گئی غیر کو مضطرؔ! ہے ناحق اعتراض ہو گئی جس سے محبت ہو گئی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ425۔426 286۔ لمحے بیچ دیے، صدیاں نیلام کرو لمحے بیچ دیے، صدیاں نیلام کرو وقت حسینؓ ہے اس کا قتلِ عام کرو اندر آ جاؤ دل کے دروازے سے راہ میں رک کے ٹریفک کو مت جام کرو جیسے بھی ہو اس کی کوکھ سے نکلے ہو نادانو! دھرتی کا کچھ اکرام کرو آنکھیں ہوں تو اپنی صورت پہچانو آئینوں کو مت زیرِ الزام کرو پردہ اُٹھ جانے دو گھور اندھیروں سے روشنیوں کا چرچا صبح و شام کرو ایسا نہ ہو مَیں گھل مل جاؤں غیروں میں میرے دوست بنو، مجھ کو بدنام کرو عادت نہ پڑ جائے سفر میں جھکنے کی خیمے اونچے رکھّو جہاں مقام کرو عقل پہ قبضہ کر رکھا ہے اَوروں نے اس جاگیر کو اب اپنوں کے نام کرو صُمٌّ ُبکْمٌ عُمْیٌ کی دیواروں سے روزن روزن تفہیم و افہام کرو میری غزلیں گاؤ شہروں گلیوں میں مجھ پر پتھر پھینکو، مجھے سلام کرو پتھر ہوں تو کام لو کوئی پتھر سے چہرہ ہوں تو آئینہ انعام کرو ٹھیس نہ لگ جائے گونگے سنّاٹوں کو صوت و صدا کو خاموشی الہام کرو دامن تھام لو سوہنے سچّے مرشد کا ہر رہ چلتے کو مت پیش امام کرو زندہ رہنے کی اب ایک ہی صورت ہے سوتے جاگتے مضطرؔ! شور مدام کرو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ427۔428 287۔ آئی ہے اس کی یاد یوں سُونے گھروں کے بیچ آئی ہے اس کی یاد یوں سُونے گھروں کے بیچ جیسے کوئی گلاب کھلے پتھروں کے بیچ محصور خیمہ زن ہیں سرِ دشتِ کربلا بیٹھے ہوئے ہیں ہم بھی اِنھی بے گھروں کے بیچ لایا ہوں اوجِ دار سے اس کو اتار کر لپٹا ہؤا ہے سر جو نئی چادروں کے بیچ دیکھا قریب سے تو نظارہ بدل گیا اور اختلاف بڑھ گیا دیدہ وروں کے بیچ آباد ہو رہے ہیں پرانے صنم کدے بت مسکرا رہے ہیں نئے آذروں کے بیچ نکلے ہیں لوگ عمرِ گزشتہ کو ڈھونڈنے انسان کھو گیا ہے کہیں مقبروں کے بیچ سب ڈَھے گئی ہے شہر پنہ شہرِ ذات کی اب دائرے ہی دائرے ہیں دائروں کے بیچ پینا پڑے تو پیجیے گا احتیاط سے زہرِ غمِ حیات ہے ان ساغروں کے بیچ کرنے چلا ہے فیصلہ سانپ اقتدار کا موسٰیؑ کے اور مصر کے جادوگروں کے بیچ مضطرؔ! شبِ فراق کا مرغِ سحر شناس تارے چھپا کے لے گیا اُجلے پروں کے بیچ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ429 288۔ آنکھ کے آسیب جب تک جا نہ لیں آنکھ کے آسیب جب تک جا نہ لیں خوں بہا تصویر کا لیں یا نہ لیں چاند کو ڈر ہے کہ اس آشوب میں آہٹیں آبادیوں کو کھا نہ لیں پوچھتی ہے مجھ سے کم ظرفی مری اس گلِ خوبی سے کیا لیں، کیا نہ لیں ہر کوئی شامل تھا قتلِ عام میں آپ یہ ذمّہ تنِ تنہا نہ لیں یہ تمھارے ساتھ ہیں جیسے بھی ہیں ان اسیروں سے مگر وعدہ نہ لیں جس کے مالک بھی بِکاؤ مال ہوں آپ اس دُکّان سے سودا نہ لیں روح کہتی ہے کہ منزل دور ہے جسم کہتا ہے ذرا سستا نہ لیں؟ اس کی خاطر اس دھوئیں اور دھند میں کوئی بے آواز ٹھوکر کھا نہ لیں واہ مضطرؔ! تم بھی کہتے ہو کہ پھول قتل ہو جائیں مگر بدلہ نہ لیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ430 289۔ سنّاٹوں سے کہہ دو یہ گھر میرا ہے سنّاٹوں سے کہہ دو یہ گھر میرا ہے دل دیواریں میری ہیں، در میرا ہے مَیں خود ہی مدفون ہوں گھر کے آنگن میں نیزے پر جو ر کھا ہے سر میرا ہے مَیں ہی صف بستہ ہوں سوچ سمندر میں ساحل پر بھی پیاس کا لشکر میرا ہے کانٹے ہی کانٹے ہیں دشتِ ملامت میں ان کانٹوں کے اوپر بستر میرا ہے جس کی ضرب سے اندھیارے مسمار ہوئے وہ آنسو، وہ آنکھ کا پتھر میرا ہے میرے نام پہ قدغن ہے اَخباروں میں اور خبروں میں ذکر بھی اکثر میرا ہے مَیں ہی جاگ رہا ہوں عہدِ اذ ّیت میں حدِّ نظر تک سارا منظر میرا ہے اونچے محل منارے چکنا ُچور ہوئے صحیح سلامت اب بھی چھپّر میرا ہے بگڑی بات بنی، جب میرے آقا نے ہولے سے فرمایا: مضطرؔ میرا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ431 290۔ اشک در اشک ابتدا میں کہیں اشک در اشک ابتدا میں کہیں مضطرب تھا کوئی ؐ حرا میں کہیں عشق تھا معرضِ وفا میں کہیں رک گیا جا کے نینوا میں کہیں ہو گئے جمع عہد کے آسیب رقص ہونے لگا گھٹا میں کہیں پھر لہو رنگ ہے زمینِ نجف زخم بولے ہیں کربلا میں کہیں کانپ اُٹھی ہے وسعتِ کونین کوئی آنسو گرا خلا میں کہیں ہو رہی ہے سرِ صلیبِ حیا کشمکش اشک اور انا میں کہیں بند کر دیجیے گا دروازے جی نہ اُٹھوں کھلی ہوا میں کہیں منتظر ہے کسی بہانے کی اس کی بخشش مری خطا میں کہیں وہ مرے ہو گئے تھے، مَیں ان کا مدّتوں پہلے ابتدا میں کہیں میں بھی نازاں ہوں اپنی قسمت پر میں بھی ہوں ان کی خاکِ پا میں کہیں مجھ کو ڈر ہے کہ فرطِ لذّت سے گم نہ ہو جاؤں آشنا میں کہیں ٹوٹ جائے نہ رابطہ مضطرؔ! عہد اور عہد کے خدا میں کہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ432 291۔ سرِ مقتل وفا کے حوصلے بھی سرِ مقتل وفا کے حوصلے بھی محبت کی سزا بھی ہیں، صلے بھی شکایت بھی کرے، شکوے گلے بھی مگر وہ سامنے آ کر ملے بھی زبانوں پر ہیں خاموشی کے پہرے درِ جاں پر صدا کے سلسلے بھی اگر یہ فاصلے ہیں بندگی کے ہمیں منظور ہیں یہ فاصلے بھی زمانہ مندمل کر دے گا ان کو سلے ہوں زخم یا ہوں اَن سلے بھی کسے فرصت تھی رک کر دیکھنے کی یہ غنچے مسکرائے بھی، کھلے بھی ضروری تو نہیں اس طرح ملنا وہ مل سکتا ہے ہم سے بن ملے بھی اُٹھا کر پھینک تو دوں اس کو مضطرؔ! مگر یہ ہجر کا پتھر ہلے بھی؟ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ433۔434 292۔ بس اک اشک سے دھل گئے سارے سینے بس اک اشک سے دھل گئے سارے سینے گلے ہیں نہ شکوے، کدورت نہ کِینے مَیں کس کس کا لوں نام اس سلسلے میں یہ احساں تو مل کر کیا تھا سبھی نے پلٹ کر پڑی منہ پہ جا کر اسی کے دعا کی تھی ہم پر جو اک مولوی نے اسے کام آئی نہ طاقت، نہ کثرت مری لاج رکھ لی مری بے کسی نے کبھی تو گرے گی یہ دیوارِ فرقت کبھی ہم بھی جائیں گے مکّے مدینے اسے زعم میری زَباں بند کر دی مجھے آ گئے گفتگو کے قرینے جسے فخر تھا اپنے زورِ بیاں پر اسے مار ڈالا مری خامشی نے یہ ساری زمیں میرے رب کی زمیں ہے نہ تم بے زمینے، نہ ہم بے زمینے وہ چہرہ نہیں چاند ہے چودھویں کا اُسے بھی کبھی دیکھ اے بے یقینے! یہ فرقت کی راتیں ہیں آباد راتیں مہینے یہی وصل کے ہیں مہینے میں جاناں کی خدمت میں کیا لے کے جاؤں یہ جسم اور جاں تو دیے ہیں اسی نے ہمی مستحق تھے ملامت کے مضطرؔ! محبت کا دعویٰ کیا تھا ہمی نے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ435۔436 293۔ حسنِ نظر سے جب بھی ہؤا حسن کا ملاپ حسنِ نظر سے جب بھی ہؤا حسن کا ملاپ لو دے اُٹھی ہے کاغذی تصویر اپنے آپ گم ہو نہ جائے تُو کہیں اپنی تلاش میں اے خود شناس! روح کی گہرائیاں نہ ماپ ناداں! بدن سمیٹ لے، صحرا کو بھاگ چل جلنے کا خوف ہے تو نہ چہروں کی آگ تاپ مدّت ہوئی کہ ہم تری محفل سے جا چکے اے بے لحاظ! یہ خبر اخبار میں نہ چھاپ اس راگ میں مزہ ہے نہ رونق، نہ روشنی فن کا ہے احترام تو یہ راگ مت الاپ چُھپتا پھرے ہے اپنی خطاؤں کی اوٹ میں بیٹے کے ڈھنگ دیکھ کے شرما گیا ہے باپ روزِ حساب دامنِ رحمت میں چھپ گئیں ان کی تمام لغزشیں، میرے تمام پاپ چھپنے نہ پائی اس کی سرِ شب روانگی پہچانتا تھا ہر کوئی اس کے قدم کی چاپ نالہ نہیں، فغاں نہیں، دل کا دھواں نہیں تم آہ کہہ رہے ہو جسے جسم کی ہے بھاپ مضطرؔ! تم آخرت میں کسے منہ دکھاؤ گے یہ فلم زندگی کی اگر ہو گئی فلاپ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ437۔438 294۔ وہ پل صراطِ صدا پار کر ہی جائے گا وہ پل صراطِ صدا پار کر ہی جائے گا کٹھن ہے مرحلہ لیکن گزر ہی جائے گا وصال رُت میں سما جائے گا دل و جاں میں سمندروں میں یہ دریا اُتر ہی جائے گا اسے کہو کہ نہ تاریخ سے ملے ہرگز اگر ملا تو ندامت سے مر ہی جائے گا پرانے سال کو اب ریزہ ریزہ کر ڈالو کہ جب بھی جائے گا یہ ٹوٹ کر ہی جائے گا یہ شہر نامۂ دل ہے اسے بغور پڑھو کہ دن چڑھے تو نظارہ بکھر ہی جائے گا خدا کرے کہ ترا دل امیر ہو جائے زرِ مراد سے دامن تو بھر ہی جائے گا اندھیری رات میں تنہا کبھی نہ چھوڑے گا سحر مثال ہے وہ تا سحر ہی جائے گا کسے شعورِ سخن ہے، کسے مجالِ نظر حضورِ یار فقط نامہ بر ہی جائے گا اگر وہ آئے تو ہمراہ لائے ہوش و حواس وگرنہ قرب کی لذّت سے مر ہی جائے گا لرز رہا ہے ستارہ جو سرحدِ جاں پر اُجاڑ آنکھ کو آباد کر ہی جائے گا اسے کہو کہ وہ پھرتا رہے خلاؤں میں اگر زمین پہ اترا تو ڈر ہی جائے گا اگر گیا بھی تو جائے گا منقسم ہو کر انا کے دوش پہ کھل کر بکھر ہی جائے گا ہزار آئنے دیکھو، گواہ ٹھہراؤ مکرنے والا تو مضطرؔ! مکر ہی جائے گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ439 295۔ راہ پکارے گی، چورستہ بولے گا راہ پکارے گی، چورستہ بولے گا رستہ زندہ ہے تو رستہ بولے گا وصل میں گھل جائے گی ہجر کی لذت بھی روٹھنے والا ہنستا ہنستا بولے گا منزل آپ پکارے گی رہ چلتوں کو رستوں کے اندر اک رستہ بولے گا جھوٹا بول رہا تھا اتنے عرصے سے سچا بھی اب جستہ جستہ بولے گا اُٹھ جائیں گے پردے اصل حقیقت سے صدیوں کا رازِ سربستہ بولے گا دل کی دِلّی کے کھنڈرات پکاریں گے سایۂ دیوار شکستہ بولے گا نسخہ بن کر پِس جاؤ گے نادانو! جب تقدیر کا ہاون دستہ بولے گا سورج چاند گواہی دیں گے بالآخر وقت آنے پر عہدِ گزشتہ بولے گا مضطرؔ! سینہ بھر جائے گا خوشبو سے گل موسم میں خود گلدستہ بولے گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ440 296۔ مجھ کو اپنے غم کا اندازہ نہ تھا مجھ کو اپنے غم کا اندازہ نہ تھا غم کی دیواریں تھیں، دروازہ نہ تھا یہ صدا تھی میرے دل کے چور کی گنبدِ گردوں کا آوازہ نہ تھا یہ سزا تھی میرے حسنِ ذوق کی عشق کی لذّت کا خمیازہ نہ تھا تھے دریچے بند پھولوں کے ابھی منتشر خوشبو کا شیرازہ نہ تھا جم رہی تھی اس پہ دُھول ایّام کی پھول تھا لیکن تر و تازہ نہ تھا بیربل کیوں شہر کے گھبرا گئے وہ فقط مُلّا تھا، دوپیازہ نہ تھا معجزہ مضطرؔ! تھا یہ کردار کا یہ فقط گفتار کا غازہ نہ تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ441۔442 297۔ موسم کے مراحل سے گزر جائے گا پانی موسم کے مراحل سے گزر جائے گا پانی برسے گا تو کچھ اور اُتر جائے گا پانی لرزے گا سرِ چشم اگر فرطِ حیا سے شبنم کی طرح رُخ پہ بکھر جائے گا پانی انکار کے قطبین پہ سردی ہے بلا کی نفرت کے تبسّم سے ٹھٹھر جائے گا پانی شبنم ہو، ندامت کا پسینہ ہو کہ آنسو جتنا بھی سنوارو گے سنور جائے گا پانی فرقت کی صلیب اُس کو اُٹھانی ہی پڑے گی راتوں کو نہ جاگے گا تو مر جائے گا پانی حیران نگاہوں سے کہو اس کو نہ دیکھیں آئینہ ہے آئینوں سے ڈر جائے گا پانی اس کو تو بچھڑ کر بھی بچھڑنا نہیں آتا مل جائے گا پانی میں جدھر جائے گا پانی ہے مونس و غمخوار یہی اس کی ازل سے دھرتی سے جدا ہو کے کدھر جائے گا پانی یوں جبر و ستم سے اسے رکنا نہیں آتا روکو گے تو کچھ اور بپھر جائے گا پانی برسے گا سرِ بزمِ وفا ٹوٹ کے مضطرؔ! جائے گا تو اس شوخ کے گھر جائے گا پانی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ443۔444 298۔ نہ سہی دوست، کوئی دشمنِ کامل اٹّھے نہ سہی دوست، کوئی دشمنِ کامل اٹّھے کوئی ہنگامہ، کوئی نعرۂ باطل اٹّھے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو گے کب تک درِ زنداں نہ کھلے، شورِ سلاسل اٹّھے دوست احباب، اَعِزّہ و اقارب کے سوا اتنی فرصت ہی کسے میرے مقابل اٹّھے شدّتِ شوق تھی یا قحطِ یقینِ کامل منزل آئی تو نہ پاؤں سُوئے منزل اٹّھے کتنے سوکھے ہوئے آنسو سرِ مژگاں لرزے کتنے سَوئے ہوئے طوفاں سرِ ساحل اٹّھے ہم بھی اظہارِ تمنّا کی اجازت پا کر منہ سے کچھ کہہ نہ سکے صورتِ سائل اٹّھے پھر سرِ بزمِ جنوں عہد کے کچھ فرزانے گھر سے حجت کے لیے آئے تھے، قائل اُٹّھے جب سے اک محسنِ کاملؐ کا ہے چہرہ دیکھا پھر کسی اور کے احسان نہ اے دل! اٹّھے یہ وہ محفل ہے جہاں دیر ہے، اندھیر نہیں کوئی مایوس نہ ہو، کوئی نہ بے دل اٹّھے جس سے پوچھو، ہے اُسے دعویٰ وفا کا مضطرؔ! ''بے وفا'' کوئی تو ہو، کوئی تو ''قاتل'' اٹّھے ١٩٥٠ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ445 299۔ سولی کو جو سجا سکے وہ سر تلاش کر سولی کو جو سجا سکے وہ سر تلاش کر اے شیخِ شہر! پھر کوئی کافر تلاش کر موسم بدل چکا ہے، بدل لے لباس بھی عینک اتار دے، نئے منظر تلاش کر کیوں گر رہا ہے تیرا بدن ٹوٹ ٹوٹ کر اس کا بھی کچھ علاج، برادر! تلاش کر جاناں کا غم، جہان کا غم ہو کہ جان کا کوئی تو اپنی ذات کا محور تلاش کر کچھ کر سکے تو ساحلِ غم کے سبک نشیں! سیلاب میں گھرے ہوؤں کے گھر تلاش کر تھوڑی بہت اِنھی سے توقّع ہے خلق کو غنڈوں کا عہدِ عشق میں دفتر تلاش کر منصورِ عہد ہوں، مرا کر کچھ تو احترام کچھ پھول توڑ لا، کوئی پتھر تلاش کر یہ پیاس بجھ سکے گی نہ آبِ حیات سے اے تشنہ کام! آنکھ کا کوثر تلاش کر دیوارِ وضعدارئ دل کب کی ڈھے چکی مٹتے ہوئے محاذ نہ مضطرؔ! تلاش کر (سقوطِ ڈھاکہ) چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ446 300۔ روح کے پتھر پگھل جانے بھی دے روح کے پتھر پگھل جانے بھی دے سوچ کو سانچوں میں ڈھل جانے بھی دے ان گلی کوچوں کو جل جانے بھی دے شہر کا نقشہ بدل جانے بھی دے اس قدر اکرام کی بارش نہ کر ہم فقیروں کو سنبھل جانے بھی دے آج میرا مجھ سے ہو گا سامنا یہ قیامت سر سے ٹل جانے بھی دے منجمد سورج ہوں آدھی رات کا میری برفوں کو پگھل جانے بھی دے آگ کی تطہیر ہو گی آگ سے خود بھی جل، مضطرؔ کو جل جانے بھی دے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ447۔448 301۔ جو لمحہ بھی اشکوں سے لادا گیا جو لمحہ بھی اشکوں سے لادا گیا وہ آدھا رکا اور آدھا گیا وہ بادل جو گرجا تھا احساس کا برستا ہؤا حسبِ وعدہ گیا وہ مجبور تھا اپنے حالات سے جدھر بھی گیا بے ارادہ گیا نہاں خانۂ دل کا پردہ نشیں بھری بزم میں بے لبادہ گیا سلگتا، سنورتا، سنبھلتا ہؤا یہ کس دیس کا شاہزادہ گیا وہ بیٹھا رہا دل کی دہلیز پر مَیں جس کے لیے جادہ جادہ گیا وہ خود بے حجابانہ آ کر ملا مَیں جب اس کے ہاں پاپیادہ گیا وہی بن گیا مرجعِ خاص و عام جو اس کی گلی میں زیادہ گیا ہوس کی سواری گئی ساتھ ساتھ جہاں تک بدن کا برادہ گیا حسینوں کے انداز بدلے گئے وہ بت اس قدر تھا جو سادہ گیا مَیں خوش ہوں کہ مضطرؔ! قدم دو قدم قفس تک تو رستہ کشادہ گیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ449۔450 302۔ یوں نہ مجبور کو مسند پہ بٹھایا جائے یوں نہ مجبور کو مسند پہ بٹھایا جائے فیصلہ تم نے جو لکّھا ہے سُنایا جائے قتلِ ناحق کا اگر حکم سنایا جائے کچھ تو اس حکم کا مقصد بھی بتایا جائے کی عطا جس نے ہمیں اپنی غلامی کی سَنَد اس کا احسان بھلا کیسے بھلایا جائے یوں سما جاتا ہے وہ روح میں لذّت بن کر جیسے آئینے کے اندر کوئی سایہ جائے روز ہو جاتی ہے دربان سے ٹکر اپنی مقتلِ جاں میں بھی چپکے سے نہ جایا جائے اس کے انجام کو دیوار پہ چسپاں کر دو وہ اگر جاتا ہے تو بارِ خدایا جائے میرے ہمدرد نہ بن جائیں مرے ہمراہی میرے ماتھے پہ مرا غم نہ سجایا جائے چاندنی رات کو پھرنے دیا جائے تنہا چاند کے دودھ میں پانی نہ ملایا جائے چین سے سونے دیا جائے کتابوں میں مجھے مجھ گئے وقت کو واپس نہ بلایا جائے اب تو اپنے بھی یہاں نام پتا پوچھتے ہیں کُوئے الزام میں اپنا نہ پرایا جائے اس کو سمجھانے کی کوشش تومَیں کر لوں مضطرؔ! دلِ ناداں کو مرے سامنے لایا جائے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ451۔452 303۔ ہر پھول انتخاب ہے، خوشبو لباس ہے ہر پھول انتخاب ہے، خوشبو لباس ہے تُو اس ہجومِ حسن میں بھی کیوں اداس ہے جس کو شعورِ ذات کی خلعت نہیں ملی وہ پھول بیچ باغ کے بھی بے لباس ہے مسرور ہو رہا ہے سرِ اوجِ دارِ غم یہ غم شناس بھی بڑا لذّت شناس ہے کس کے لہو سے ہے یہ لبالب بھرا ہؤا قاتل کے دستِ ناز میں کیسا گلاس ہے سب راستے گزرتے ہیں اس کے قریب سے صحرائے نینوا میں جو چیرنگ کراس ہے تم ڈھونڈتے پھرو ہو میاں! جس حسین کو اس کا کوئی بدن ہے نہ کوئی لباس ہے سولی پہ سو رہے ہو سرِ اوجِ احتمال مرنے کا حوصلہ ہے نہ جینے کی آس ہے بستے ہیں اس میں سینکڑوں کژدم، ہزار سانپ غافل!جو تیری عقل کے آنگن میں گھاس ہے دم گھٹ کے مر گیا ترے اندر کا آدمی کیا اس کا خوں بہا بھی ہے؟کوئی قصاص ہے؟ طولِ امل سے کچھ نہیں حاصل ہؤا کبھی یہ وہ محل ہے ریت پہ جس کی اساس ہے چمٹا ہؤا ہے ہر کوئی لمحوں کی لاش سے ماضی کی تلخیوں میں بھی کتنی مٹھاس ہے کوئی فصیلِ شہر کو اب پھاند کر نہ آئے یاروں کا شہریار سے یہ التماس ہے تنہائیوں کو بھی نہیں تنہائیاں نصیب لگتا ہے کوئی دیکھنے والا بھی پاس ہے تُو آئنے سے بات تو کر، سامنے تو آ اس کا نہ کر گلہ کہ وہ چہرہ شناس ہے جایا کروں ہوں بہرِ زیارت کبھی کبھی ماضی کا مقبرہ تو یہیں دل کے پاس ہے غالبؔ کی سرزمین میں رکھّا تھا کیوں قدم؟ مضطرؔ! نہ تو کبیرؔ ہے نے سورداسؔ ہے ١٩٥٨ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ453 304۔ آنسو تھے تو آنکھ کا زیور ہو جاتے آنسو تھے تو آنکھ کا زیور ہو جاتے سینے دھل جاتے، چہرے تر ہو جاتے گھومنے پھرنے والے بے گھر بن باسی اپنے گھر میں رہ کر بے گھر ہو جاتے گھائل ہو جاتیں آوازیں لفظوں سے لفظ بھی ہوتے ہوتے بنجر ہو جاتے آتے جاتے رہتے دل کی محفل میں راہ میں جتنے موڑ تھے ازبر ہو جاتے سن لیتے فریاد اگر تصویروں کی تصویروں کے مومن کافر ہو جاتے آ جاتا سیلاب چمن میں خوشبو کا پھول اگر آپے سے باہر ہو جاتے کانٹوں پر چلنے میں کیا دشواری تھی چلتے تو چلنے کے خوگر ہو جاتے شہروں کی دیواریں خونِ ناحق سے دُھل جاتیں تو شہر پوتّر ہو جاتے مضطرؔ! ان کو نطق و بیاں کا اذن نہ تھا ورنہ آئینے پیغمبر ہو جاتے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ454 305۔ کیوں من و تو کی نہ تفریق مٹا دی جائے کیوں من و تو کی نہ تفریق مٹا دی جائے مَیں اگرمَیں ہو ں تو مجھ کو بھی سزا دی جائے مَیں وہ لمحہ ہوں جو گزرا ہے علامت بن کر مجھ کو آواز نہ اب بہرِ خدا دی جائے اب تو ایمان کو بازار میں لے آئے ہو اس کی قیمت بھی لگے ہاتھوں چکا دی جائے میرا بھی حق ہے کہ دیوار پہ لکھا جاؤں میری تصویر بھی سولی پہ سجا دی جائے بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے لمحہ لمحہ وقت کی دُھول نہ الفاظ پہ لادی جائے کتنا آساں ہے کُھلے شہر میں آنا جانا کوئی دیوار تو رستے میں بنا دی جائے اپنے انجام کی تصویر بھی لیتے جائیں بھاگتے دوڑتے لمحوں کو صدا دی جائے عقل اس عہد میں ہے محوِ تماشا مضطرؔ! کچھ تو اس عہد کی میعاد بڑھا دی جائے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ455 306۔ اپنے اندازے میں اَوروں کا نہ اندازہ ملا اپنے اندازے میں اَوروں کا نہ اندازہ ملا عَین اپنی ذات کے پرزوں کا شیرازہ ملا زندگی کی عمر بھر دلچسپیاں قائم رہیں اس سفر میں ہر قدم پر موڑ اک تازہ ملا ذات میں گم ہو گیا تو واپسی ہو گی محال وصل کے نشّے میں فرقت کا بھی خمیازہ ملا مجھ کو بھی کچھ تجربہ ہے جرمِ بے تقصیر کا اپنے اندازے میں کچھ میرا بھی اندازہ ملا راہ چلتوں سے لڑائی پر کمر باندھے ہوئے راستے میں ہر قدم پہ ملّا دوپیازہ ملا بَہ گئیں ہیں ساری فصلیں آنکھ کے سیلاب میں کتنی آسانی سے اب کے گھر کا دروازہ ملا اپنے منصب کو سمجھ، پہچان اپنے آپ کو عشق ہے تو عشق میں ایمان کا غازہ ملا دیکھتی آنکھوں مرے قاتل کو بھی روزِ حساب مسکراتا، اینڈتا خلقت کا آوازہ ملا زندگی کا زخم بھی مضطرؔ! نرالا پھول تھا جس قدر گہرا لگا اُتنا تر و تازہ ملا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ456 307۔ ہر کوئی شہر بدر لگتا ہے ہر کوئی شہر بدر لگتا ہے اب تو اس شہر سے ڈر لگتا ہے دشت در آیا ہے گھر کے اندر دشت اب دشت نہ گھر لگتا ہے مل کے آیا ہے کسی منزل سے راستہ خاک بسر لگتا ہے غمِ جاں کو بھی اُٹھا لے ہنس کر یہ ترا زادِ سفر لگتا ہے راہ چلتوں سے سنبھل کر ملنا ان پہ منزل کا اثر لگتا ہے صبحِ صادق ہے یا کوئی آنسو کچھ تو اے دیدۂ تر! لگتا ہے کوئی گزرا نہ ہو منزل بن کر راستہ زیر و زبر لگتا ہے اَور بڑھ جاتی ہے لذت اس کی زخم جب بارِ دگر لگتا ہے وہ جدھر ہاتھ اُٹھا دے مضطرؔ! شہر کا شہر ادھر لگتا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ457 308۔ عشق کا جرم مرے نام لگایا جائے عشق کا جرم مرے نام لگایا جائے شرط یہ ہے کہ سرِ عام لگایا جائے کافرِ شہر ہوں، کافی ہے یہ عزّت مجھ کو مجھ پہ اب اور نہ الزام لگایا جائے اپنی تعریف میں اچھی سی عبارت لکھ کر کوئی پتھر ہی سرِ بام لگایا جائے دلِ ناداں کا تقاضا ہے کہ گاہے ماہے اس کے ذمّے بھی کوئی کام لگایا جائے کہیں ایسا نہ ہو تم کو بھی یقیں آ جائے اب یہ نعرہ نہ سرِ عام لگایا جائے مصلحت کا یہ تقاضا ہے کہ دشت ِ جاں میں کوئی خیمہ نہ سرِ شام لگایا جائے اب تو انجام نظر آنے لگا ہے اس کو اب نہ اندازۂ انجام لگایا جائے مَیں اگر عہد کا سقراط نہیں ہوں مضطرؔ! میرے ہونٹوں سے نہ یہ جام لگایا جائے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ458 309۔ خواب چہرے پر سجائے،دل میں تعبیریں لیے خواب چہرے پر سجائے،دل میں تعبیریں لیے آئنہ خانے میں کون آیا ہے تصویریں لیے ریت کے سینے پہ ہے لکّھا ہؤا کس کا کلام دم بخود بیٹھا ہے صحرا کس کی تحریریں لیے دشت کے وحشی بھی ہو جائیں گے پابندِ قیود کوئی تو صحرا میں بھی آئے گا زنجیریں لیے جب بھی اذنِ عام ہو گا ان کے عہدِ حسن میں ہم بھی جائیں گے سرِ دربار تقصیریں لیے آخرِ شب کھٹکھٹائے گا کوئی بابِ قبول التجا جائے گی اپنے ساتھ تاثیریں لیے اپنے آبا ء کی طرح اس عہد کے آشوب میں ہم بھی بیٹھے ہیں تری الفت کی جاگیریں لیے زندگی سوئی ہوئی ہے سایۂ زیتون میں اور تم پھرتے ہو مضطرؔ! غم کی انجیریں لیے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ459 310۔ بن گئی زادِ سفر بے سروسامانی بھی بن گئی زادِ سفر بے سروسامانی بھی منزلیں مات ہوئیں جانی بھی، اَنجانی بھی شکل اس شوخ کی تھی ہم نے تو پہچانی بھی وہ جو اس عہد کے انکار کا تھا بانی بھی یہ الگ بات کہ ہو جاتا ہے پتھر زخمی ورنہ تیشے سے لپٹنے میں ہے آسانی بھی رہ گیا ایک شہادت کا فریضہ باقی ریت بھی روٹھ گئی، بند ہؤا پانی بھی حق ادا کیسے کروں کوئے ملامت! تیرا تُو نے دانائی بنا دی مری نادانی بھی ہم فقط سلطنتِ دل کے محافظ ہی نہیں ہم کو حاصل ہے درِ یار کی دربانی بھی لاکھ ناکارہ ہیں، نادان ہیں، نالائق ہیں ہم ہیں اے حسن!تری زلف کے زندانی بھی ہو گئی مجھ سے بغل گیر صلیبِ فرقت آ گئی کام مرے میری تن آسانی بھی ہر کوئی ہم سے ملا اپنا سمجھ کے مضطرؔ! سلسلہ اپنا ہے جسمانی بھی، روحانی بھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ460 311۔ کبھی یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ گلہ نہ کرے کبھی یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ گلہ نہ کرے یہ اور بات ہے اَوروں سے تذکرہ نہ کرے اسے کہو کہ بڑے شوق سے ملے لیکن مجھے قریب سے دیکھے تو جی برا نہ کرے ہمی نے وقت کی دہلیز پر کھڑے ہو کر اسے کہا تھا کہ جلدی میں فیصلہ نہ کرے زمین سب سے بغل گیر ہو کے پوچھتی ہے وہ کون ہے کہ جو مجھ سے معانقہ نہ کرے نہ اس کی سڑکیں کشادہ، نہ اس کی گلیاں صاف تُو شہرِ ذات میں آئے کبھی خدا نہ کرے وہ اپنے آئنہ خانے میں بیٹھ کر مجھ پر ہنسے ضرور، مگر اس قدر ہنسا نہ کرے جھگڑنا ہو تو جھگڑتا رہے وہ ماضی سے گزر رہا ہے جو لمحہ اسے خفا نہ کرے خدا نے عقل بھی دی ہے اسے، ارادہ بھی جو میری مانے تو ''خوباں'' سے مشورہ نہ کرے نہ تیرے پاؤں میں چھالے نہ راہ میں کانٹے خدا کبھی تجھے مضطرؔ! برہنہ پا نہ کرے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 461۔462 312۔ اوڑھ کر آئین کا جھوٹا لبادہ اس برس اوڑھ کر آئین کا جھوٹا لبادہ اس برس بن گیا مُلّا کا بچّہ شاہزادہ اس برس جھوٹ کے اس عہد میں شوخی سے ٹخنے جوڑ کر ایک جھوٹے نے کیا اک اور وعدہ اس برس دیکھیے کیا غیب سے ظاہر ہو، وہ نکلا تو ہے میرے قتلِ عام کا کر کے ارادہ اس برس جھوٹ بولا ہے جو اس نے مصطفی ؐکے نام پر اس کا اخباروں میں اب ہو گا اعادہ اس برس ہر طرح کے مجھ پہ اب بہتان باندھے جا ئیں گے جھوٹ سے جھوٹے کریں گے استفادہ اس برس قوم کی ناموس کو ظالم نے گروی رکھ دیا بک گیا جتنا بھی تھا غیرت کا مادہ اس برس اِن بھری گلیوں میں ہو گا کوئی تو رجلِ رشید کہہ سکے جو اس کے منہ پر حرفِ سادہ اس برس حسبِ سابق بیچ کھانے کے لیے شاہ و وزیر بانٹ لیں گے ملک کو پھر آدھا آدھا اس برس کیفرِ کردار کو پہنچیں گے سب مذہب فروش کر دیے جائیں گے مجرم بے لبادہ اس برس ق منزلیں کیوں جاگ اُٹھّی ہیں سرِ شامِ فراق کس حسیں کا منتظرہے جادہ جادہ اس برس حیدرِ کرّار کے دیدار کی حسرت لیے ایک خلقت راہ میں ہے ایستادہ اس برس یار اگر واپس نہ آیا جلد شہرِ ہجر میں جائیں گے ملنے کو ہم بھی پاپیادہ اس برس جب بھی وہ گزریں سرِ شہرِ فراقِ آرزو پھینک دیجے راہ میں میرا برادہ اس برس جب دریچے فرش کے مضطرؔ! مقفّل ہو گئے عرش کے در ہو گئے ہم پر کشادہ اس برس ١٩٨٥ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ5۔6 3۔ جاگ اے شرمسار! آدھی رات جاگ اے شرمسار! آدھی رات اپنی بگڑی سنوار آدھی رات یہ گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی باخبر ، ہوشیار! آدھی رات وہ جو بستا ہے ذرّے ذرّے میں کبھی اس کو پکار آدھی رات اس کے دربارِ عام میں جا بیٹھ سب لبادے اتار آدھی رات دو گھڑی عرضِ مدّعا کر لے وقت ہے سازگار آدھی رات بابِ رحمت کو کھٹکھٹانے دے میرے پروردگار! آدھی رات شدّتِ غم میں کچھ کمی کر دے اب تو اے غمگسار! آدھی رات کھلتے کھلتے کُھلے گا بابِ قبول عرض کر بار بار آدھی رات اپنے داتا کے در پہ آیا ہے ایک اُمّیدوار آدھی رات ہوش و صبر و قرار کا دامن ہو گیا تار تار آدھی رات میری فریاد کا جواب تو دے بول اے کِردگار! آدھی رات بے کسوں کو تری کریمی کا آ گیا اعتبار آدھی رات اشک در اشک جھلملانے لگا میرا قرب و جوار آدھی رات کس لیے بے قرار ہے مضطرؔ کس کا ہے انتظار آدھی رات ٭…آدھی کو پنجابی لفظ ادّھی کے معنوں میں سمجھا جائے۔ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 463 313۔ ہمیں ساتھ اے نامہ بر! لیتے جانا ہمیں ساتھ اے نامہ بر! لیتے جانا فقیروں کو بھی اس کے گھر لیتے جانا اگر ہو سکے چشمِ تر لیتے جانا شبِ غم کے شمس و قمر لیتے جانا چلے ہو تو رختِ سفر لیتے جانا تم اللّٰہ کا دل میں ڈر لیتے جانا اگر شوق ہے نور کو دیکھنے کا نظر ساتھ اے بے نظر! لیتے جانا سُن اے یوسفوں کو بچا لینے والے! زلیخاؤں کی بھی خبر لیتے جانا چلے ہو اگر اتنے لمبے سفر پر کوئی ساتھ زادِ سفر لیتے جانا اگر وسعتیں دیکھنی ہوں فلک کی کھلے شہر کے بام و در لیتے جانا اثر اس پہ ہوتا نہیں موسموں کا ازل آرزو کا شجر لیتے جانا اگر کوئی مصرف ہو اس بے ہنر کا تو مضطرؔ کا سر کاٹ کر لیتے جانا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 464 314۔ شیشے نہیں ٹوٹے ہیں کہ پتھر نہیں بولا شیشے نہیں ٹوٹے ہیں کہ پتھر نہیں بولا اس پر بھی یہ شکوہ ہے کہ منظر نہیں بولا دشنام کی بارش بھی ہوئی سنگ بھی برسے واللّٰہ کہ وہ صبر کا پیکر نہیں بولا مضطرؔ کو خوشی ہے کہ کٹی مفت میں گردن گردن کو شکایت ہے کہ خنجر نہیں بولا شبنم میں بھگویا، کبھی اشکوں سے نکھارا موسم سے مگر پھر بھی گلِ تر نہیں بولا رہ جاتا بھرم کچھ تو مرے کچے مکاں کا سیلاب ہی بستی کو نگل کر نہیں بولا ہونے کو درِ لفظ پہ دستک تو ہوئی تھی دیوار کے لب بند رہے، در نہیں بولا کچھ ایسی مٹی رسم و رہِ خارا تراشی پتھر کو تراشا بھی تو پتھر نہیں بولا برپا تو ہوئی بزمِ سخن شہرِ سخن میں افسوس سخن ور سے سخن ور نہیں بولا کیا جانیے کیا صدمہ ہؤا ہے اسے مضطرؔ! امسال بھی ساحل سے سمُندر نہیں بولا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 465 315۔ درود تیرےؐ لیے ہے، سلام تیراؐ ہے درود تیرےؐ لیے ہے، سلام تیراؐ ہے خدا کے بعد مرے لب پہ نام تیرا ہے ترے مقام کی سرحد کو چھو سکا نہ کوئی کہ ہر مقام سے آگے مقام تیرا ہے ترا ہی نطق ہے مَا یَنْطِقُ کا آئینہ خدا کا ہے جو بظاہر کلام تیرا ہے ترے بغیر تو ملتا نہیں ہے مالک بھی کہ اس کی ذات کو بھی احترام تیرا ہے ترے جلال پہ حاوی جمال ہے تیرا تمام عفو ہے جو انتقام تیرا ہے رہے نہ اسود و ابیض، نہ احمر و اصفر یہ کام تُو نے کیا ہے، یہ کام تیرا ہے چھلک رہا ہے جو دن رات جام رحمت کا مرے کریم یہ کأس الکرام تیرا ہے جہاں قرار ملا مجھ سے بے قراروں کو قرارگاہ وہ دارالسلام تیرا ہے سبھی حسین ترے حسن کے بھکاری ہیں کہ ناتمام ہیں اور حسنِ تام تیرا ہے ترا ہی چشمۂ صافی ہے کوثر و تسنیم مئے طہور سے لبریز جام تیرا ہے عجب نہیں کہ خدا مہربان ہو جائے کہ ذکر میری زباں پر مدام تیرا ہے عجب نہیں ہے کہ مضطرؔ کی لاج رہ جائے کہ بے ہنر تو ہے لیکن غلام تیرا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ 467۔468 316۔ تُم نے اگر نہ پھول کی حرمت بحال کی تُم نے اگر نہ پھول کی حرمت بحال کی اُٹھ جائے گی جہان سے خو شبو کی پالکی توصیف کیا کرے گا ترےؐ ماہ و سال کی جس نے کبھی نہ کھائی ہو روزی حلال کی تشبیہ اور حضورؐ کے حسن وجمال کی! یعنی مثال ہی نہ ہو جس بے مثال کی جس کے کمال کو نہیں خطرہ زوال کا ہم بات کر رہے ہیں اسی لازوال کی وہ گل سدا بہار ہے، موسم کوئی بھی ہو فرقت کی ہووے فصل کہ رُت ہو وصال کی واللّٰہ! بے مثال تھا جو کام بھی کیا ـ''جو بات کی، خدا کی قسم! بے مثال کی'' رہ جائیں گے ٹھٹھر کے ترے پاشکستگاں شدّت اگر نہ کم ہوئی بادِ شمال٭؎ کی بچ کر نکل نہ جائے سفینہ مراد کا طوفان کو خلش ہے اسی احتمال کی اس نے تو مجھ کو زندۂ جاوید کر دیا یہ جو خبر اڑی ہے مرے انتقال کی اس میں نہ تھا قصور فقط باغبان کا تقصیر پات پات کی تھی، ڈال ڈال کی مرجھا نہ جائے پیڑ کہیں انتظار کا اس کی نہ جسم و جاں سے اگردیکھ بھال کی تنہائیوں کے اشکِ ندامت کا ذکر ہے ہے بات آدھی رات کے آبِ زلال کی مَیں ہوں تو صرف احمدی ہوں اور محمدی ہوں شافعی نہ حنبلی، حنفی نہ مالکی یہ کیا کہ ملنے آئے ہو مضطرؔ غریب سے صحبت میں جا کے بیٹھو کسی باکمال کی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ469 317۔ زخم بولے تو جیسے بھر سے گئے زخم بولے تو جیسے بھر سے گئے مسکرائے تو بن سنور سے گئے گھر کے اندر بھی دشت تھے آباد گھر میں آئے تو پھر نہ گھر سے گئے ان کو سچ بولنے کی عادت تھی آئنے آئنوں سے ڈر سے گئے آہٹوں کے اسیر سنّاٹے کبھی ٹھہرے، کبھی گزر سے گئے آنسوؤں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا یہ مسافر بھی اب سفر سے گئے یاد کی محفلیں بھی خواب ہوئیں خواب کے رنگ بھی بکھر سے گئے دوست بھی جا چکے رِہا ہو کر اور دشمن بھی جیسے مر سے گئے اشک برسے تو چاہتوں کے چناب لذّتِ تشنگی سے بھر سے گئے ہم بھی کیا آئے محفلِ جاں میں بے خبر آئے بے خبر سے گئے تاب کب لا سکے اذیّت کی آئینے ٹوٹ کر بکھر سے گئے کُوئے الزام! تیری عمر دراز تجھ سے نکلے تو شہر بھر سے گئے رات جب بھیگنے لگی مضطرؔ! چاند چہرے بھی کچھ نکھر سے گئے ٨جولائی،١٩٩٥ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ470 318۔ روشنی اکیلی تھی صبح و شام سے پہلے روشنی اکیلی تھی صبح و شام سے پہلے آنکھ بے تماشہ تھی اژدہام سے پہلے ان کا ہم فقیروں پر یہ بھی ایک احساں ہے مسکرا تو دیتے ہیں قتلِ عام سے پہلے گن رہے ہو کیوں ناحق انتظار کی گھڑیاں لوٹ کر نہ آئیں گے لوگ شام سے پہلے بے ادب کی محرومی، سچ تو یہ ہے مخدومی! مرتبہ یقیں کا ہے احترام سے پہلے آج کون قاتل ہے اور کون ہے مقتول فیصلہ تو کر لیجے اہلِ شام سے پہلے اب تو ہر کسی سے وہ بے سبب بھی ملتے ہیں مشکلوں سے ملتے تھے جو غلام سے پہلے اشک کی صداقت سے محترم ہوئے کتنے آدمی جو لگتے تھے یوں ہی عام سے پہلے مجھ سے تو بہر صورت آپ لوگ بہتر ہیں اپنا نام لکھ لیجے میرے نام سے پہلے ذکر اک حسیں کا بھی نا گزیر ہے مضطرؔ! عشق کی کہانی کے اختتام سے پہلے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ471 319۔ سُن! محوِ گفتگو ہے یہ کون آسمان سے سُن! محوِ گفتگو ہے یہ کون آسمان سے پردے تمام اُٹھ رہے ہیں درمیان سے اتنے وثوق سے جسےجھٹلا رہے ہیں آپ اُترا نہ ہو وہ چاند کہیں آسمان سے خلقت تمام چل رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ مجبور گھر سے نکلا ہے اس آن بان سے وہ امتحاں کا دور تھا، آیا گزر گیا اب معذرت کیا کرو خالی مکان سے اسؐ کی بلند شان کا کیا تذکرہ کروں بالا ہے جس کا مرتبہ وہم و گمان سے واپس اگر گیا بھی تو مشکل سے جائے گا مُلّا کا بھوت نکلا ہے جو مرتبان سے ہے آئنوں میں پہلی سی رونق نہ روشنی آنکھیں چرا کے لے گیا کوئی مکان سے اب اس سے کیا غرض کہ لگا یا خطا گیا جب تیر ہی نکل گیا مضطرؔ! کمان سے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ472 320۔ مَیں ترےؐ عہد میں اگر ہوتا مَیں ترےؐ عہد میں اگر ہوتا تیراؐ در ہوتا، میرا سر ہوتا اگر آواز کا بھی گھر ہوتا کوئی دیوار، کوئی در ہوتا تیرے ؐپاؤں کی خاک بن جاتا مَیں اگر تیراؐ ہمسفر ہوتا فرطِ لذّت سے گنگ ہو جاتا ذکر تیرا نہ مجھ سے کر ہوتا میری پہچان مجھ کو مل جاتی مَیں اگر اتنا معتبر ہوتا رات کٹتی ترےؐ تصور میں دن تریؐ یاد میں بسر ہوتا پوچھتے لوگ مجھ سے تیرؐا حال مَیں اگر تیراؐ نامہ بر ہوتا تکتا رہتا تجھےؐ تحیّر سے اک یہی کام عمربھر ہوتا دار سے یار تک مسافر کا راستہ کتنا مختصر ہوتا زندگی چین سے گزر جاتی خوف ہوتا نہ کوئی ڈر ہوتا دیکھ لیتا اگر تجھےؐ مضطرؔ! اس کی آواز میں اثر ہوتا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ473۔474 321۔ تمہید کی اتنی بھی ضرورت تو نہیں تھی تمہید کی اتنی بھی ضرورت تو نہیں تھی کچھ اور ہی شے تھی یہ وضاحت تو نہیں تھی کہتے ہو کہ یہ کوئی شہادت تو نہیں تھی اور قربِ قیامت کی علامت تو نہیں تھی اتنا تو کِیا، قتل کا فتویٰ دیا تم نے حقًّا کہ تمھیں اس کی بھی فرصت تو نہیں تھی تم کو تو ندامت کا پسینہ بھی نہ آیا کیا جانیے کیا تھی، یہ ندامت تو نہیں تھی مقتول نے لکھّی تھی وہ تقدیر لہو سے لکھنے کی جسے اس کو بھی قدرت تو نہیں تھی ہاں ہاں تمھیں اس روز بڑی داد ملی تھی وہ داد مگر دادِ شجاعت تو نہیں تھی اب قتل کے بعد آئے ہو مقتول سے ملنے اس طرفہ تکلّف کی ضرورت تو نہیں تھی ہم نوکِ سناں پر بھی رہے زندہ سلامت کچھ اس کے سوا جینے کی صورت تو نہیں تھی سولی پہ بصد ناز ترا نام لیا تھا واللّٰہ! ہمیں فخر کی عادت تو نہیں تھی ہم لوگ سرِ دار بھی جی بھر کے ہنسے تھے ہرچند کہ ہنسنے کی اجازت تو نہیں تھی کیا جانیے کس طرح اسے دیکھ لیا تھا اس حسن کی کچھ حدّ و نہایت تو نہیں تھی رو رو کے گزارا تھا تجھے اے شبِ ہجراں! شکوہ تو نہیں تھا یہ شکایت تو نہیں تھی ہم خاک بسر عہدِ اذیّت کے امیں تھے سوچو تو اذیّت بھی اذیّت تو نہیں تھی ہم نے جو تہِ دل سے تمھیں دی تھی معافی احساں تو نہیں تھا وہ عنایت تو نہیں تھی مضطرؔ کی عیادت کے لیے آئے تھے احباب ہر چند عیادت کی اجازت تو نہیں تھی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ475۔476 322۔ آہوں کی بانہیں آہوں کی بانہیں لمبی ہیں ان بانہوں کو مت پھیلاؤ ان بانہوں کی دربانی سے ان آہوں کی عریانی سے اظہار کے رستے بند ہوئے ہم لفظوں کے پابند ہوئے چپ رہنے پر مجبور ہوئے ہم تھک کر چکنا چور ہوئے اظہار کے اوجھل رستوں پر آوازوں کے چورستوں پر مفہوم کہ زخمی رہتے ہیں ہر رہ چلتے سے کہتے ہیں ہم چھپ چھپ کر مہمان گئے سب جان گئے، پہچان گئے اب موڑ دو رُخ آوازوں کے در بند کرو دروازوں کے لب پر نہ فغاں کو آنے دو جاں جلتی ہے جل جانے دو طوفانوں سے مت گھبراؤ تم ساحل ساحل آ جاؤ اظہار کی راہیں لمبی ہیں آہوں کی بانہیں لمبی ہیں ان بانہوں کو مت پھیلاؤ خاموش رہو یا سو جاؤ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ477 323۔ اوّل تو اپنی آنکھ کا پانی لہو کرو اوّل تو اپنی آنکھ کا پانی لہو کرو پھر اس لہو سے رات کو اُٹھ کر وضو کرو لیٹے ہوئے ہو کس لیے سولی کی اوٹ میں تم مر نہیں گئے ہو، اُٹھو گفتگو کرو مجھ کو بھی اپنے آپ سے ملنے کا شوق ہے مجھ کو پکڑ کے لاؤ، مرے روبرو کرو اچھے بُرے کے پھیر میں پڑتے ہوکس لیے جو کچھ کہے حبیب وہی ہوبہو کرو کانٹوں کے تاج،دارورسن،گالیوں کے پھول یہ سارا انتظام سپردِ عدو کرو ''تم لوگ'' اور بارِ امانت اٹھا سکو! اللّٰہ ہُو، تم اللّٰہ ہُو، اللّٰہ ہُو کرو مضطرؔ! غمِ حبیب تو مولا کی دین ہے اس غم کا بھول کر بھی نہ چرچا کبھو کرو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ478 324۔ ریگ زاروں میں چاندنی بوئی ریگ زاروں میں چاندنی بوئی اب نہ بھوکا رہا کرے کوئی ذرّے ذرّے کو خون سے سینچا آنسوؤں سے روش روش دھوئی پھول ہنسنے لگے تو ہنستے رہے اوس روئی تو عمر بھر روئی جب محلاّت میں جگہ نہ ملی زندگی راستوں میں جا سوئی آئنہ دیکھ کر پسِ تصویر ہنس دیا کوئی، رو دیا کوئی اک فسانہ بنی زمانے میں خامشی اس کی، میری کم گوئی عشق کی ساکھ اٹھ گئی مضطرؔ! عشق کرنے لگا ہے ہر کوئی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ479 325۔ کیا کیا نہ تُو ؐنے ہم پر احسان کر دیا ہے کیا کیا نہ تُو ؐنے ہم پر احسان کر دیا ہے ساری صداقتوں کا اعلان کر دیا ہے قول و عمل کو ایسا یکجان کر دیا ہے ہر حرکت و سکوں کو قرآن کر دیا ہے جو کچھ تھا گھرمیں تجھؐ پر قربان کر دیا ہے تُو نے تو زندگی کو آسان کر دیا ہے تیری نظر نہیں تھی، اک معجزہ تھا جس نے حیوان کو اُٹھا کر انسان کر دیا ہے جتنے بھی بت تھے، تُونے سارے گرادیے ہیں سارے صنم کدوں کو ویران کر دیا ہے اس کا معاوضہ تُو لے گا نہیں کسی سے جو کچھ دیا ہے تُو نے یہ جان کر دیا ہے دریا بنا دیا ہے قطرے کو اک نظر سے جس لہر کو چُھؤا ہے طوفان کر دیا ہے چشمِ کرم تو ہو گی مضطرؔ حقیر پر بھی جب دوسروں پہ اتنا احسان کر دیا ہے تُو نے جو بخش دی ہے مِدحت کی یہ سعادت مضطرؔ کی مغفرت کا سامان کر دیا ہے اگست،١٩٨٨ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ480 326۔ اس سفر کا کبھی انجام نہ ہونے پائے اس سفر کا کبھی انجام نہ ہونے پائے ساتھ سورج کے چلو، شام نہ ہونے پائے نہ سہی دوست مگر دشمنِ جاں ہے اپنا قاتلِ شہر ہے، بدنام نہ ہونے پائے سر قلم لفظ کا کرنے تو چلے ہو لیکن قتلِ ناحق ہے، سرِ عام نہ ہونے پائے تم کِیا کرتے ہو تنقید برائے تنقید کام یہ ہے کہ کوئی کام نہ ہونے پائے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ481۔483 327۔ چاند چھپا، تارے مرجھائے، نرگس ہے بیمار چاند چھپا، تارے مرجھائے، نرگس ہے بیمار بوٹا بوٹا جاگ رہا ہے، کلی کلی بیدار ستلج پار سے ایک مداری کھیل دکھانے آیا ہاتھ کی پھرتی، آنکھ کا جادو،بندربانٹ کا سایہ بھیس بنائے، ناچا گایا، سبز باغ دکھلائے اک تھپکی سے بچّے بالے میٹھی نیند سلائے دلّی سے اک آندھی اُ ٹھی،جا پہنچی کشمیر پیر فقیر، بال، نر ناری لٹ گئے بے تقصیر اک کشمیری٭؎ قید ہے اب سری نگر کے پاس کیا جانے کیا سوچ رہا ہے تنہا اور اداس بات بات پہ روٹھنے والے! روٹھ گئی تقدیر اب بن باسی بال بکھیرے بیٹھا ہے دلگیر اب مقتول کی گردن ہے اور قاتل کی تلوار سری نگر کے خون سے لوگو! جہلم ہے گلنار وقت پڑے پر مولوی ملّاں حجروں میں جا سوئے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، دیکھ کبیرا ر وئے کہاں گئے احرار، کدھر ہیں قوم کے ٹھیکیدار جس کا کھائیں اسی کا گائیں یہ ازلی غدار سُن پردیسی! گر تو مانے دل کی بات بتاؤں مرجاؤں پربھیک نہ مانگوں،ہاتھ نہ یوں پھیلاؤں بھِک منگوں کی ٹولی بولی آئے ہو بڑے غیور ان داتا کے دان کو کیسے کر دیں نامنظور عالمگیرؔ کے بیٹے ہیں یہ، ٹیپوؔ کی اولاد لالہ جی کے خوف سے رو رو کرتے ہیں فریاد جان گئی، عزّت لٹوائی، شرم نہ رہ گئی کوئی سکّھوں کو داماد بنایا، ہندو کو بہنوئی غیرت ہی کو چھوڑ چکے جب بے غیرت انسان کس کی بہن اور کہاں کی بیٹی؟ کیسا پاکستان؟ قسمت پھوٹی، ہمت ٹوٹی، ٹوٹ گئی شمشیر بے غیرت کو ناممکن ہے مل جائے کشمیر غور کرو تو موت حیات کے جھگڑے ہیں سب ہیچ ماضی بیچا، حال بھی بیچا، مستقبل مت بیچ جیب ہے خالی، پیٹ ہے خالی، خالی ہے کشکول جان گئی، عزت مت جائے، عزت ہے انمول تم محمود کے بیٹے ہو اور احمد کے فرزند خون کے دھبے خون سے دھوؤ گر ہو غیرت مند بھیک مانگنا چھوڑ، چلا اب غیرت کی تحریک سری نگر بھی دور نہیں، ہے دلّی بھی نزدیک حیدرآباد ہو، جوناگڑھ ہو یا جموں کشمیر 'جان گئی پر آن نہ جائے 'کہہ گئے بھگت کبیر رستم ہو، رنبیر بھی ہو اور بڑے بڑے بلوان عید یہی ہے آن کی خاطر ہو جاؤ قربان یارب! قوم کے رستے میں آیا ہے کیسا موڑ خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں ہیجڑے آٹھ کروڑ٭؎ ٭۔۔۔۔۔۔جناب شیخ عبداللّٰہ ٭۔۔۔۔۔۔ان دنوں ملک کی آبادی آٹھ کروڑ تھی۔(نہرو۔علی گفتگو۔ شیخ عبداللّٰہ کی گرفتاری۔ سری نگر میں فائرنگ۔عید الاضحی۔پنڈت نہرو کراچی آئے۔مسٹر محمد علی سے پاک بھارت جھگڑوں خصوصاً کشمیر کے بارہ میں بات چیت ۔سادہ لوح اہل وطن سمجھے کہ اب پنڈت نہرو ہنسی خوشی کشمیر کو پاکستان کی جھولی میں ڈال دیں گے۔پنڈت نہرو نے جاتے ہی کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے کرشیخ عبداللّٰہ کا کانٹا نکال باہر کیا۔یہ واقعہ عید الاضحی کے دنوں میں پیش آیا۔)
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ484 328۔ فاصلے ان کے ہمارے درمیاں کہنے کو ہیں فاصلے ان کے ہمارے درمیاں کہنے کو ہیں لوگ اس نامہرباں کو مہرباں کہنے کو ہیں گھر کے سنّاٹوں سے محوِ گفتگو ہیں آہٹیں یہ مکاں خالی نہیں، خالی مکاں کہنے کو ہیں منزلیں گُم ہو گئیں، رستے اکیلے رہ گئے یہ جو قدموں کے نشاں سے ہیں، نشاں کہنے کو ہیں کچھ بزرگوں کا ادب باقی نہ چھوٹوں کا لحاظ یہ ادب آداب کی باتیں میاں! کہنے کو ہیں ایک ہی حسرت تھی مضطر!ؔ وہ بھی پوری ہو گئی حسرتوں کے کارواں در کارواں کہنے کو ہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ485۔486 329۔ پسِ لمحہ جو لمحہ سو رہا ہے پسِ لمحہ جو لمحہ سو رہا ہے یہ سب کچھ اس کی خاطر ہو رہا ہے جسے تم کہہ رہے ہو عہدِ رفتہ وہ رفتہ رفتہ زندہ ہو رہا ہے اسی کا نام ہے شاید محبت یونہی جو سانحہ سا ہو رہا ہے گئی ہے ماں کہیں محفل سجانے مگر بچہ اکیلا سو رہا ہے نظر آنے لگے ہیں چاند چہرے قفس میں کوئی تارے بو رہا ہے جو کھویا تھا اسے پانے کی خاطر جو پایا تھا اسے بھی کھو رہا ہے لہو کے داغ ہیں جو آستیں پر انھیں اپنے لہو میں دھو رہا ہے اگرچہ منہ سے کچھ کہتا نہیں ہے اسے معلوم ہے جو ہو رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو بن جائے پتھر کہ ہنستا ہے نہ پاگل رو رہا ہے سَوا نیزے پہ آ پہنچا ہے سورج دلِ نادان پھر بھی سو رہا ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ487 330۔ اوڑھ کر آواز کو تقریر آدھی رہ گئی اوڑھ کر آواز کو تقریر آدھی رہ گئی آئنے میں آن کر تصویر آدھی رہ گئی ہو گئے اہلِ وطن اپنے وطن میں بے وطن عدل اور انصاف کی توقیر آدھی رہ گئی اب اُتر بھی آ فلک سے اے مری جاں کی پناہ! ملک آدھا، وادئ کشمیر آدھی رہ گئی کٹتے کٹتے کٹ گئی تنہائیوں میں زندگی گھٹتے گھٹتے زلف کی زنجیر آدھی رہ گئی اس ستمگر کی ہوئی توقیر اتنی شہر میں شہر بھر کی عزّت و توقیر آدھی رہ گئی لوگ ناموسِ قلم کو بیچ کر بازار میں پوچھتے ہیں کس لیے تاثیر آدھی رہ گئی لٹ گئی عصمت صدا کی، آبرو آواز کی لفظ بونے ہو گئے، تحریر آدھی رہ گئی عزّتِ سادات ہی مضطر!ؔ نہیں اس عشق میں عزّتِ آواز بھی اے میر!ؔ آدھی رہ گئی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ488 331۔ تری چپ نامہ بر! اچھی نہیں ہے تری چپ نامہ بر! اچھی نہیں ہے مجھے ڈر ہے خبر اچھی نہیں ہے بتا پھر اور کیا اچھا ہے واعظ! محبت بھی اگر اچھی نہیں ہے عبث خوش ہو رہے ہو اس کو سن کر خبر اے بے خبر! اچھی نہیں ہے نظر آتا نہیں کیوں چاند چہرہ تری شاید نظر اچھی نہیں ہے لپٹ جا شام سے جا کر لپٹ جا اگر تیری سحر اچھی نہیں ہے قصور اس میں ہو منزل کا بھی شاید اگر یہ رہگزر اچھی نہیں ہے ہیں شب بیداریاں بے کار مضطرؔ! تری نیت اگر اچھی نہیں ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ489۔490 332۔ شہر کے ہوں یا گاؤں کے شہر کے ہوں یا گاؤں کے بیٹے ہیں سب، ماؤں کے پاؤں ہیں یہ ماؤں کے ماؤں ٹھنڈی چھاؤں کے چوم رہے ہیں کانٹوں کو چھالے میرے پاؤں کے کوہِ طور محبت کے یہ ٹیلے صحراؤں کے روک لیے ہیں شہروں نے رستے میرے گاؤں کے تم مالک ہو شہروں کے ہم ہاری ہیں گاؤں کے فتوے کٹھ ملّاؤں کے جوتے میرے پاؤں کے باتیں عقل کے اندھوں کی قصّے نابیناؤں کے سب گھائل ہیں فتووں کے اَور زخمی ملّاؤں کے کچھ آزار اسیری کے کچھ ناسور جفاؤں کے آہیں چند یتیموں کی نالے کچھ بیواؤں کے کچھ آشوب خموشی کا کچھ بحران صداؤں کے کچھ گھپلے نادانوں کے کچھ دھوکے داناؤں کے کچھ ٹھوٹھے مسکینوں کے کچھ کشکول گداؤں کے بھتنے زرد صحافت کے لے پالک آقاؤں کے بھوت پریت جہالت کے جُبّوں اور قباؤں کے دشمن مری اذانوں کے قاتل مری صداؤں کے چشمِ زدن میں خاک ہوئے رجواڑے راجاؤں کے صحنِ وطن میں اُترے ہیں غول کے غول بلاؤں کے نیّت دیکھ کے موسم کی دل ڈولے دریاؤں کے بارے کچھ طوفان رکا ٹوٹے زور ہواؤں کے خوش ہیں پتھر کھا کر بھی عادی نرم غذاؤں کے پھر پردیس سے آئے ہیں جھونکے مست ہواؤں کے یہ سورج اور چاند نہیں نقش ہیں تیرے پاؤں کے میری گلیاں الفت کی میرے شہر وفاؤں کے کل بھی تھے اور آج بھی ہیں ہم محتاج دعاؤں کے ساون ہے ستّاری کا موسم نہیں سزاؤں کے ہم نے پیڑ لگائے ہیں سایہ دار دعاؤں کے ایک نظر اس جانب بھی بخشنہار خطاؤں کے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ491۔492 333۔ اک محب وطن پاکستانی کی نصیحت اپنے بچوں سے ملّا کو کبھی اتنا تنومند نہ کرنا اللّٰہ کی تم سب کو ہے سوگند، نہ کرنا غیرت سے،شرافت سے،سیاست سے،وطن سے جو ہم نے کیا تم مرے فرزند! نہ کرنا پنجاب کو پامال کیا، سندھ اُجاڑا اب قصدِ بخارا و سمرقند نہ کرنا مُلّا کی کبھی نقل نہ کرنا مرے بیٹو! جو کچھ یہ کہے کرنے کو ہرچند نہ کرنا یہ لاکھ سکھائے تمھیں نفرت کے طریقے دروازے محبت کے کبھی بند نہ کرنا اب اور نہ مہلت اسے دینا مرے مالک! اس پر یہ کرم میرے خداوند! نہ کرنا بڑھ جائے ستم حد سے تو پھر آہ و فغاں کو اتنا بھی قوانین کا پابند نہ کرنا گمراہ نہ ہو جائیں کہیں اہلِ خرد بھی معبود! انھیں اتنا خردمند نہ کرنا کعبے کی طرف جانا اگر جانا ہو مضطرؔ! رُخ جانبِ اچھرہ و دیوبند نہ کرنا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ493۔494 334۔ مرے اندر لڑائی ہو رہی ہے مرے اندر لڑائی ہو رہی ہے مری مجھ سے جدائی ہو رہی ہے خدا خوش ہو رہا ہے آسماں پر خفا ساری خدائی ہو رہی ہے یہ کس کی آمد آمد ہے قفس میں جدھر دیکھو صفائی ہو رہی ہے کسے ڈھونڈا کرو ہو آئنے میں یہ کس سے آشنائی ہو رہی ہے اُٹھاؤ بوریا بستر یہاں سے یہ محفل اب پرائی ہو رہی ہے مَعَاذَ اللّٰہ ! قانوناً قفس میں مسلّط پارسائی ہو رہی ہے فصیلِ شہرِ جاں پر ہر طرف سے چڑھائی پر چڑھائی ہو رہی ہے لیا تھا قرض کچھ نادانیوں کا ادا اب پائی پائی ہو رہی ہے مَیں کس منہ سے بتاؤں شہرِ دل کی جو حالت میرے بھائی! ہو رہی ہے حکومت اور ملّائے حزیں میں سنا ہے کتخدائی ہو رہی ہے بہت کچھ ہو رہی ہے بحث و تمحیص اگرچہ جگ ہنسائی ہو رہی ہے بقول ان کے بشکلِ قتلِ ناحق اسیروں کی رِہائی ہو رہی ہے لہو کا رنگ پھیکا پڑ رہا ہے مگر صورت حنائی ہو رہی ہے جہاں مدفون ہیں فتنے پرانے وہیں پر اب کھدائی ہو رہی ہے کبھی مضطرؔ سے کھل کر جنگ ہو گی ابھی تو ہاتھا پائی ہو رہی ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ495۔496 335۔ یہ نشاں ہے جو بے نشان سا ایک یہ نشاں ہے جو بے نشان سا ایک اس میں آباد ہے جہان سا ایک اشک ہے یہ جو بے زبان سا ایک یہی اپنا ہے ترجمان سا ایک اس سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہوں دل کے اندر ہے بدگمان سا ایک حوصلہ کر عطا مجھے یا ارب! میرا دشمن ہے بدزبان سا ایک صبح ہوتے ہی اُڑ نہ جائے کہیں یہ پرندہ ہے میہمان سا ایک شہرِ جاناں! ہو تیری عمر دراز تو زمیں پر ہے آسمان سا ایک ہے اگر تو ہمیں بھی بتلاؤ یار اُس یارِ مہربان سا ایک آج مظہر ہے قدرتِ حق کا وہ جو کل تک تھا نوجوان سا ایک زہے قسمت غلام ہوں اُس کا جو ہے وعدے کا اور زبان کا ایک ایسے لگتا ہے اس کے سائے میں جیسے سر پر ہو سائبان سا ایک وہی لیل و نہار ہیں اُس کے شہرِ ربوہ ہے قادیان سا ایک موڑ کے بعد آ رہا ہے موڑ ہر قدم پر ہے امتحان سا ایک چومکھی لڑ رہا ہے طوفاں سے جنگجو ہے کوئی چٹان سا ایک بھیجنے والے! بھیج بادِ مراد اور بادل بھی بادبان سا ایک تم بھی اے کاش کہہ سکو مضطرؔ! شعر کوئی نصیر خان سا ایک چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ497۔498 336۔ ایک لکنت سی ہے زبان میں کیا! ایک لکنت سی ہے زبان میں کیا! پھر کوئی آ رہا ہے دھیان میں کیا! روشنی سی ہے جسم و جان میں کیا؟ چاند اُترا ہے قادیان میں کیا! ہو رہی ہے زمین زیر و زبر شور برپا ہے آسمان میں کیا دن میں بھی کچھ نظر نہیں آتا کوئی روزن نہیں مکان میں کیا؟ کتنی معصومیت سے پوچھتے ہیں اور بھی لوگ ہیں جہان میں کیا؟ کس کو آواز دے رہے ہو میاں! ''کوئی رہتا ہے اس مکان میں کیا'' روح کے فاصلے ہی کیا کم تھے آ گئے جسم درمیان میں کیا فرق اور فاصلہ نہیں کوئی اس جہان اور اس جہان میں کیا؟ قاتلِ شہر کیوں پریشاں ہے کچھ کہا ہم نے اس کی شان میں کیا یہ لہو کی فرات ہے مضطرؔ! کربلاؤں کے درمیان میں کیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ499 337۔ دل نہیں آج آشنا دل کا دل نہیں آج آشنا دل کا کیا بنے گا مرے خدا! دل کا عشق کے کاروبار میں اے دل! کیا ملا تھا معاوضہ دل کا کر لیے قید چاہنے والے کھینچ کر ہم نے دائرہ دل کا اس کی خدمت میں پیش کیا کرتا ایک دل ہی تو تھا صلہ دل کا دو قدم تک تو دل کا ساتھ رہا پھر نہ کوئی پتا چلا دل کا اس وسیع و عریض دنیا میں کون ہے آپ کے سوا دل کا زندگی کے اُجاڑ رستوں میں مل گیا دل کو راستہ دل کا بات آنے نہ پائی تھی لب پر دل کو پیغام مل گیا دل کا اک زبان، ایک ہی لب و لہجہ ایک ہی تھا محاورہ دل کا ایک جانب ہیں عقل کے فتوے ایک جانب ہے فیصلہ دل کا دیکھیے! جیت کس کی ہوتی ہے عقل سے ہے مقابلہ دل کا صاف، شفّاف، مستند، سچا حرفِ آخر ہے فیصلہ دل کا بڑھ گئے فاصلے مکانوں کے دل سے جب فاصلہ بڑھا دل کا اپنے زخموں کو گنتا رہتا ہے آجکل ہے یہ مشغلہ دل کا عقل کیا راستہ دکھائے گی دل پہ چھوڑو معاملہ دل کا میرے اللّٰہ! کیسے گزرے گا مرحلہ وار مرحلہ دل کا لاسکے گا نہ تاب لذّت کی ٹوٹ جائے گا آئنہ دل کا تہِ دل سے معاف کر دینا جس قدر ہے کہا سنا دل کا نیّت اپنی خراب ہے مضطرؔ! کر رہے ہو عبث گلہ دل کا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ500 338۔ چھیڑ کر ہم نے سلسلہ دل کا چھیڑ کر ہم نے سلسلہ دل کا کر لیا خود ہی حادثہ دل کا دل کے چاروں طرف ہیں دیواریں کوئی رستہ نہیں رہا دل کا اپنا چہرہ بھی ساتھ لے جانا منتظر ہو گا آئنہ دل کا دیکھیے! جیت کس کی ہوتی ہے دل سے ہو گا مقابلہ دل کا دل کی مجبوریاں، معاذ اللّٰہ! اب نہ کرنا کبھی گلہ دل کا اس کا نعم البدل نہیں کوئی ہے تو دل ہے فقط صلہ دل کا عقل منزل کے دھیان میں گم تھی لُٹ گیا رہ میں قافلہ دل کا پی لیا مسکرا کے اشکوں کو دیکھ کر ہم نے حوصلہ دل کا کچھ تو ہے درمیان میں حائل کچھ تو ہے دل سے فاصلہ دل کا درِ دل تک تو دل کا ساتھ رہا پھر نہ کوئی پتا چلا دل کا عقل کیا اس میں مشورہ دے گی دل پہ چھوڑو معاملہ دل کا خیریت سے گزر گیا مضطرؔ! سخت نازک تھا مرحلہ دل کا مئی،١٩٩٥ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ501۔502 339۔ اسے اندیشہ ہے گِر کر سنبھلنے کا اسے اندیشہ ہے گِر کر سنبھلنے کا یہ آنسو اب نہیں باہر نکلنے کا اگر خطرہ تھا موسم کے بدلنے کا ارادہ کیوں کیا تھا ساتھ چلنے کا ذرا سی بات پر طوفاں کی نیّت کو بہانہ مل گیا تھا رُخ بدلنے کا کھلونے پھینک دو باہر دریچے سے کہ یہ بچہ نہیں اب کے بہلنے کا ابھی تو جل رہی ہے آگ سینوں میں ابھی دیکھو گے منظر گھر کے جلنے کا تمھاری موت کا منظر ہے نادانو! یہ نظّارہ نہیں سورج کے ڈھلنے کا دھرے رہ جائیں گے سب عہد اور پیماں نہیں یہ حادثہ امسال ٹلنے کا نہ جانے پھول کا انجام کیا ہو گا کہ اس کا جرم ہے شبنم نگلنے کا غنیمت ہے ابھی رستے میں کانٹے ہیں ابھی موسم ہے ننگے پاؤں چلنے کا میں اپنے آنسوؤں کو پی بھی سکتا ہوں مجھے آتا ہے فن پتھّر نگلنے کا میں اپنی ذات میں محصور ہوں مضطرؔ! کوئی رستہ نہیں باہر نکلنے کا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ503۔504 340۔ سوچتا ہوں تو تنہا تنہا لگتا ہوں سوچتا ہوں تو تنہا تنہا لگتا ہوں کھویا کھویا، بکھرا بکھرا لگتا ہوں گر جاؤں تو بے حیثیت آنسو ہوں رک جاؤں تو بے اندازہ لگتا ہوں ناداں ہوں، نالائق ہوں اور بے ہنرا جانے کیوں مَیں اس کو اچھا لگتا ہوں وہ سچا ہے، کتنا سچا لگتا ہے میں جھوٹا ہوں، کتنا جھوٹا لگتا ہوں جب سے دیکھا ہے وہ اتنا اونچا ہے پہلے سے بھی بڑھ کر چھوٹا لگتا ہوں بِن اس کے اس ہنستی بستی دُنیا میں اپنا لگتا ہوں نہ پرایا لگتا ہوں میرا اس کا ساتھ ہے چولی دامن کا وہ میراہے اور مَیں اس کا لگتا ہوں اس کی خاطر تاج پہن کر کانٹوں کا لذّت کی سولی پر بیٹھا لگتا ہوں مجھ کو بھی دو گھونٹ عطا ہوں شبنم کے صحرا ہوں اور کتنا پیاسا لگتا ہوں لگتا ہے یہ گلیاں دیکھی بھالی ہیں پہلے بھی اس شہر میں آیا لگتا ہوں مضطرؔ! مَیں تخلیق ہوں اپنے خالق کی وہ جانے مَیں اس کو کیسا لگتا ہوں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ505۔506 341۔ کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ لکّھا ہؤا کوئی شکوہ نہ شکایت نہ گلہ لکّھا ہؤا ہے تو چہرے پر ہے اس کے شکریہ لکّھا ہؤا یہ جو اس کے لب پہ ہے حرفِ دعا لکھا ہؤا کاتبِ تقدیر نے ہے معجزہ لکھا ہؤا آسماں پر ہو چکا تھا فیصلہ اس کے خلاف وہ جو تھا اہلِ زمیں نے فیصلہ لکھا ہؤا کوئی تو نازک بدن محوِ خرامِ ناز ہے ذرّے ذرّے پر ہے جس کا نقشِ پا لکھا ہؤا دیکھنے ہم بھی گئے تھے مشہدِ ہجر و فراق ایک ہی عہدِ وفا تھا جا بجا لکھا ہؤا ڈھونڈنے نکلے تھے جس کو شہرِ جسم و جان میں تھا در و دیوار پر اس کا پتا لکھا ہؤا آہ وہ اشکِ ندامت جو اندھیری رات میں ایک آیت کی طرح پلکوں پہ تھا لکھا ہؤا حوصلہ ہے تو اسے پڑھیے گا دل کو تھام کے سامنے دیوار پر ہے فیصلہ لکھا ہؤا مجھ سے لے کر رکھ لیا واپس مرے ستّار نے نامۂ اعمال میں تھا جانے کیا لکھا ہؤا ایک ہی چہرہ ہے مضطر!ؔ ایک ہی حسنِ تمام آئنہ در آئنہ در آئنہ لکھا ہؤا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ507 342۔ اشک برسے تو اس قدر برسے اشک برسے تو اس قدر برسے دُھل گئی ہے زمین اندر سے پُر سکوں ہیں اگرچہ باہر سے ڈَھے رہے ہیں مکان اندر سے ہو کے ناراض دیدۂ تر سے اشک اکیلا نکل گیا گھر سے کوئی خطرہ نہیں سمندر سے ڈر اگر ہے تو دیدۂ تر سے خشک سالی سی خشک سالی ہے آنکھ اور بوند بوند کو ترسے! کوئی اپنا رہا نہ بے گانہ رات پانی گزر گیا سر سے کیا تجھے راستہ دکھائیں گے راہ میں جو پڑے ہیں پتھر سے کچھ تو خوفِ خدا کرو لوگو! اس قدر جھوٹ اور منبر سے! ہے خبر گرم رات مولانا قرض لینے گئے تھے کافر سے اپنے سائے سے ڈرتا پھرتا ہے محتسب احتساب کے ڈر سے آپ کا اس نے کیا بگاڑا ہے کیوں خفا ہو رہے ہو مضطرؔ سے ١٩٨٩ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ508 343۔ اصل کی نقل ہوں، نشانی ہوں اصل کی نقل ہوں، نشانی ہوں اک روایت ہوں اور پرانی ہوں میرا محبوب قادیانی ہے بخدا مَیں بھی قادیانی ہوں نام لیوا ہوں عہدِ رفتہ کا اور اس عہد کا بھی بانی ہوں جس کو لکھّا گیا ہے صدیوں میں مَیں وہ تازہ تریں کہانی ہوں درحقیقت وہی حقیقت ہے جس حقیقت کا دورِ ثانی ہوں کیسے سمجھاؤں تجھ کو اپنی بات تُو زمینی، مَیں آسمانی ہوں آئنہ بھی ہے تجھ سے شرمندہ شرم سے مَیں بھی پانی پانی ہوں جس کو ہر لیکھرام جانتا ہے مَیں وہی مرگِ ناگہانی ہوں موت مجھ سے سنبھل کے بات کرے عشق کی آخری نشانی ہوں کس کو حاصل دوام ہے پیارے! تو بھی فانی ہے، مَیں بھی فانی ہوں لوٹ کر جو کبھی نہیں آتی مَیں وہ گزری ہوئی جوانی ہوں دشمنِ جاں کے حق میں بھی مضطرؔ! مہربانی ہی مہربانی ہوں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ509 344۔ کون کہتا ہے اسے آدھا نگل کون کہتا ہے اسے آدھا نگل زندگی کا زہر ہے، سارا نگل چھوٹنے پائے نہ دامن صبر کا گالیاں کھا، مسکرا، غصّہ نگل عشق ہے تو آزما آواز کو شور کو للکار، سنّاٹا نگل جزوِ جسم و جان بن جائے ترا اشک کو اتنا نگل، اتنا نگل دیکھ آدھی رات کا آنسو ہوں مَیں اے شبِ زندہ! مجھے زندہ نگل تشنگی! اے تشنگی! اے تشنگی! پیاس کے دریا نگل، صحرا نگل ہاتھ دے کر اک حسیں کے ہاتھ میں ماسوا کا خوف اور خطرہ نگل یا نہ کر اے گل! چمن پر تبصرہ یا ہنسی کو روک لے، خندہ نگل ماپ صدیوں کا سفر لمحات میں اور صدیاں لمحہ در لمحہ نگل عشق ہے تو ہر کسی سے پیار کر امتیازِ ادنیٰ و اعلیٰ نگل عہدِ جاناں کا ہے مضطرؔ! فیصلہ عہد کے آزار کو تنہا نگل چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ510 345۔ یہ غزلیں مری، یہ ترانے مرے یہ غزلیں مری، یہ ترانے مرے ملاقات کے ہیں بہانے مرے کھڑے ہیں جو دشمن سرھانے مرے یہ سب مہرباں ہیں پرانے مرے نہ جانے اسے کیوں پسند آ گئے مرے عذر، حیلے بہانے مرے ہے سب آنا جانا اُسی کے لیے نہ آنے مرے ہیں، نہ جانے مرے اُسی کے لیے ہیں اسی کی قسم یہ جتنے بھی ہیں عاشقانے مرے نہیں ہیں فقط ماہ اور سال ہی یہ صدیاں مری ہیں، زمانے مرے ندامت کے آنسو ہیں، چن لیجیے یہ تسبیح کے دانے دانے مرے حقیقت بنے دیکھتے دیکھتے کبھی خواب تھے جو سہانے مرے مجھے ڈر کہیں جل نہ جائے چمن اگر جل گئے آشیانے مرے پرندوں کو بھی ہو گی شرمندگی خطا ہو نہ جائیں نشانے مرے میں کچھ بھی نہیں ہوں مگر بعد میں بنا لیجیے گا فسانے مرے ملاقات اب ہو گی مضطرؔ! وہیں سرِ دار ہیں جو ٹھکانے مرے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ511 346۔ خام ہوں، گمنام ہوں، مستور ہوں خام ہوں، گمنام ہوں، مستور ہوں تیرا کمّی ہوں، ترا مزدور ہوں دور ہے تو اور پھر بھی پاس ہے پاس ہوں مَیں اور پھر بھی دور ہوں آئنہ در آئنہ در آئنہ عکس کی آہٹ سے چکنا چور ہوں پوچھتا ہے اشک آدھی رات کا کون ہوں؟ کس کی نظر کا نور ہوں گالیاں کھاتا ہوں، دیتا ہوں دعا آجکل اس امر پر مامور ہوں چین سے بیٹھا ہوں اَوجِ دار پر کیا بتاؤں کس قدر مسرور ہوں تیغ ہوں اور ہوں بھی سیدھے ہاتھ میں وار ہوں اور کس قدر بھرپور ہوں فیصلوں میں بھی ہیں میرے تذکرے اور خبرناموں میں بھی مذکور ہوں معترض کو ہے فقط یہ اعتراض کس لیے آثار میں مسطور ہوں اس کا دعویٰ ہے وطن میں رہ کے بھی بے وطن ہوں اور نامنظور ہوں میں تو ہر جھوٹے پہ لعنت بھیج کر اور کچھ کہنے سے بھی معذور ہوں ہوں غلام ابنِ غلام ابنِ غلام پھر بھی کہتے ہو کہ کیوں مشہور ہوں جو کبھی منسوخ ہو سکتا نہیں عہد کا مضطرؔ! مَیں وہ منشور ہوں ٣١جنوری،١٩٩٧ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ512 347۔ کہیں گرنا، کہیں سنبھلنا تھا کہیں گرنا، کہیں سنبھلنا تھا کام اپنا مدام چلنا تھا یہ رفاقت تو عمر بھر کی تھی عمر بھر ساتھ ساتھ چلنا تھا ان کے کاٹے کا کچھ علاج نہیں آنسوؤں کو نہیں نگلنا تھا اپنے ہمراہ کس طرح چلتے تیرے ہمراہ بھی تو چلنا تھا لفظ یخ بستہ ہو گئے تھے اگر تم کو لہجہ نہیں بدلنا تھا اشک سے بھی نہیں گلہ کوئی یہ ستارہ کبھی تو ڈھلنا تھا پھول تھا وہ تو اس کو پت جھڑ میں گھر سے باہر نہیں نکلنا تھا یہ جو تازہ ہوا کا جھونکا تھا اس کو طوفاں کا رُخ بدلنا تھا بانجھ تھا وہ درخت نفرت کا پھولنا تھا اسے نہ پھلنا تھا ہم بدلتے تو کوئی بات بھی تھی تم کو مضطرؔ! نہیں بدلنا تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ513 348۔ حسن مجبور ہو گیا ہو گا حسن مجبور ہو گیا ہو گا یعنی مستور ہو گیا ہو گا عشق بدنام ہو گیا ہو گا اور مشہور ہو گیا ہو گا کٹ گئی ہو گی پھول سی گردن وار بھرپور ہو گیا ہو گا کوئی الزام تو لگا ہو گا کچھ تو مشہور ہو گیا ہو گا دور تھا آسمان پہلے ہی اور بھی دور ہو گیا ہو گا وہ پرانا مطالبہ دل کا اب تو منظور ہو گیا ہو گا معجزہ اُن کے لوٹ آنے کا چشمِ بد دور! ہو گیا ہو گا اُن کی ہلکی سی مسکراہٹ سے درد کافور ہو گیا ہو گا گر گیا ہو گا اپنی نظروں میں اشک مغرور ہو گیا ہو گا روح اصرار کر رہی ہو گی جسم مجبور ہو گیا ہو گا بڑھ گیا ہو گا ہجر کا آزار زخم ناسور ہو گیا ہو گا چاند نکلا تو ہر طرف مضطرؔ! نور ہی نور ہو گیا ہو گا نومبر، ١٩٩٦ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ514 349۔ آپ اگر بدگمان اتنے ہیں آپ اگر بدگمان اتنے ہیں کس لیے مہربان اتنے ہیں یہ شریفوں کا شہر ہے پیارے! آپ کیوں بدزبان اتنے ہیں اتنے معصوم ہو تو دامن پر داغ کیوں میری جان! اتنے ہیں بولنا بھی انھیں سکھا دیجے یہ جو اہلِ زبان اتنے ہیں صلح کیسے ہو عقل کی دل سے فاصلے درمیان اتنے ہیں اے زمان و مکان کے مالک! آپ کیوں لامکان اتنے ہیں ختم ہونے میں ہی نہیں آتے عشق کے امتحان اتنے ہیں لطف و جود و کرم کے فرقت کے راہ میں سائبان اتنے ہیں کہیں ربوہ ہے اور کہیں لندن ہر طرف قادیان اتنے ہیں وصل در وصل، ہجر اندر ہجر جان ہے تو جہان اتنے ہیں چَین سے کٹ رہی ہے زیرِ زمیں سر پہ بھی آسمان اتنے ہیں ''چاند چہرہ ستارہ آنکھیں'' لوگ حسن کے ترجمان اتنے ہیں عشق کا ایک ہی قبیلہ ہے عقل کے خاندان اتنے ہیں بولتے کس لیے نہیں مضطرؔ! آپ کیوں بے زبان اتنے ہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ515 350۔ بے نظر بھی ہوں،بے ادب بھی نہیں بے نظر بھی ہوں،بے ادب بھی نہیں دیکھ پاؤں اُسے، عجب بھی نہیں اُس سے مل کر بھی اُس سے ملنے کی پیاس ہے اور بے سبب بھی نہیں چاند نکلا، اندھیرے بھاگ گئے شب بھی ہو جیسے اور شب بھی نہیں کھا رہا ہے قفس کو سنّاٹا کوئی آواز زیرِ لب بھی نہیں وقت کے بیکراں سمندر میں شور بھی وہ نہیں، شغب بھی نہیں موت کا منتظر بھی ہے لیکن دل کا بیمار جاں بلب بھی نہیں میرے اور تیرے درمیاں واعظ! صلح جب بھی نہیں تھی، اب بھی نہیں وہ بضد ہیں کہ کائنات کا رب ان کا رب ہے، ہمارا رب بھی نہیں تجھ سے ملنے کا شوق ہے مضطرؔ! تجھ سے ملنے کی کچھ طلب بھی نہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ516 351۔ وصفِ جمالِ یار پر ختم ہے میری شاعری وصفِ جمالِ یار پر ختم ہے میری شاعری اللّٰہ کرے کہ حسن کی کھیتی رہے ہری بھری شعلہ بغیر سوز کے شعلہ نہیں ہے، رنگ ہے درد بغیر شاعری کیا ہے سِوائے دل لگی منزلِ شوق کے قریب درد کا مارا سو گیا گردِ سفر میں چھپ گئی منزلِ دل کی دلکشی جب بھی دیارِعشق میں ہوش کی بستیاں بسیں درد کے شہر اجڑ گئے، غم کی بساط الٹ گئی تیرے جمال کی حدیں گردِ نظر میں کھو گئیں گردِ نظر کا واسطہ رُخ بھی دکھا کبھی کبھی اُٹھّی، گھری، برس گئی تیرے جمال کی گھٹا دل کا غبار دُھل گیا، تھم گیا شورِ آگہی ہوش کی دُھند چھا گئی ذہن کے آسمان پر تارے غروب ہوگئے، چاند رہا نہ چاندنی مضطرِؔ بے قرار سے کہہ دو کہ شورمت کرے دردِ جگر کا تذکرہ اچھا نہیں گھڑی گھڑی ١٩٤٤ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ517 352۔ اک حسیں پر جسم اور جاں وار کر اک حسیں پر جسم اور جاں وار کر جیت لی تھی ہم نے بازی ہار کر شاید آ جائیں وہ ملنے کے لیے دار پر بیٹھے ہیں دھرنا مار کر بول سکتا ہے تو بول اس حبس میں کر سکے تو جرأتِ اظہار کر جرم ہے گر اعترافِ عشق بھی جرم کر اور بر سرِ دربار کر کر کے دشمن کو تہِ دل سے معاف پھر سے لَا تَثْرِیْبَ کی تکرار کر پیار کے عادی نہ ہو جائیں کہیں ہم حقیروں سے نہ اتنا پیار کر مَیں بھی پیاسا ہوں کسی کی دید کا میرے اندر بھی ہے اک تھر پار کر کون ّسچا اور جھوٹا کون ہے فیصلہ خود ہی، بتِ عیّار! کر کچھ نہیں تو ہم فقیروں کے خلاف کوئی سازش ہی پسِ دیوار کر تاب لائے گا کہاں سے دید کی حدِّ فاصل کو نہ مضطرؔ! پار کر ٤دسمبر،١٩٩٥ء چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ518 353۔ ناز ہے مجھ کو بھی ان کے پیار پر ناز ہے مجھ کو بھی ان کے پیار پر اور اپنے طالعِ بیدار پر شیخ بے کردار کے اصرار پر فیصلہ لکھ دیجیے دیوار پر ٹوٹ کر بازو اگیں گے صحن میں جسم برسیں گے در و دیوار پر کوئی شکوہ ہے نہ اب کوئی گلہ چین سے بیٹھے ہیں اوجِ دار پر جھوٹ لکھیے اور لکھتے جائیے اب کوئی قدغن نہیں اخبار پر اب کہیں دیوار کا سایہ نہیں کس کا سایہ پڑ گیا دیوار پر کیا عجب کوئی خبر سچی بھی ہو ڈال لیجے اک نظر اخبار پر عشق کہتا ہے کہ مَیں تیار ہوں عقل کو انکار ہے انکار پر کیوں اسے مضطرؔ! یقیں آتا نہیں صبح پر اور صبح کے آثار پر چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ519 354۔ حریمِ ہجر میں کیسا چراغ روشن ہے حریمِ ہجر میں کیسا چراغ روشن ہے جدھر اٹھائیں نظر داغ داغ روشن ہے یہ کون شعلہ قدم اس طرف سے گزرا ہے کہ منزلیں ہیں فروزاں، سراغ روشن ہے یہ کس کی یاد میں راتیں سیاہ پوش ہوئیں یہ کس کے فیض سے دن کا چراغ روشن ہے یہ کس کے حسن سے حصّہ ملا ہے پھولوں کو یہ کس کے دم سے چمن داغ داغ روشن ہے یہ کس کی آتشِ رُخ کو شراب کہتے ہیں یہ کس کے نور سے دل کا ایاغ روشن ہے یہ کس کے ہجر میں روتی ہے رات بھر شبنم یہ کس کے وصل سے گل کا چراغ روشن ہے یہ کس نے نام لیا آفتاب کا مضطرؔ! کہ روشنی سی ہے دل میں، دماغ روشن ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ520 355۔ کب سے بیٹھے ہو بے یقینے سے کب سے بیٹھے ہو بے یقینے سے موت بہتر ہے ایسے جینے سے گھر مہکنے لگے پسینے سے کوئی آیا نہ ہو مدینے سے وہ تو داتا ہے دے گا ہر صورت تم بھی مانگو کسی قرینے سے آنکھ کھلتے ہی ٹوٹ جائیں گے آنسوؤں کے یہ آبگینے سے آنے والے! نہ اتنی دیر لگا منتظر ہوں کئی مہینے سے منتظر ہیں اسیر مدّت سے آ بھی جا اب اُتر کے زینے سے عہدِ غم میں یہ معجزہ بھی ہؤا لوگ جی اُٹّھے اشک پینے سے زہے قسمت مری، نصیب مرے وہ مخاطب ہیں مجھ کمینے سے ہم فقیروں کو کر دیا زندہ اس نے مضطرؔ! لگا کے سینے سے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ521۔523 356۔ کیوں اشک آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں کیوں اشک آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں کہ اُس کو دیکھنے والے سنبھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے دید کے قابل ہے اُس کی ہر اک بات ''یہ بات ہے تو چلو ہم بھی چل کے دیکھتے ہیں'' سنا ہے اُس کے لیے آسمان پر ہے شور زمیں پہ سلسلے جنگ و جدل کے دیکھتے ہیں سنا ہے بولے تو الفاظ فرطِ لذّت سے حریمِ صوت سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں سنا ہے جب وہ سرِ بزم مسکراتا ہے تو جھوم جاتے ہیں عاشق، مچل کے دیکھتے ہیں سنا ہے اُس نے کہا تھا یہ ایک آمِر سے کہ ہوشیار! فرشتے اجل کے دیکھتے ہیں سنا ہے ہاتھ اٹھائے اگر دعا کے لیے تو حادثات ارادہ بدل کے دیکھتے ہیں سنا ہے اُس کے غلاموں کی بھی غلام ہے آگ یہ بات ہے تو چلو ہم بھی جل کے دیکھتے ہیں سنا ہے بھیگنے لگتی ہے جب شبِ فرقت تو اشک اشک ستارے پگھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے دل کا بدلنا بہت ضروری ہے اگر یہ بات ہے دل کو بدل کے دیکھتے ہیں سنا ہے سوچیں اگر اس کو باوضو ہو کر تو اختلاف کے پتھر پگھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے اُس کی فتوحات کا شمار نہیں یہ اور بات ہے اغیار جل کے دیکھتے ہیں سنا ہے دین ہیں اک کالی کملی والےؐ کی یہ معجزات جو فکر و عمل کے دیکھتے ہیں سنا ہے عاشقِ صادق وہ اِک حسیںؐ کا ہے کہ اُس کی نثر میں موسم غزل کے دیکھتے ہیں سنا ہے زندوں میں اونچا ہے سب سے قامت میں کیوں پست قد اُسے ناحق اچھل کے دیکھتے ہیں سنا ہے جب وہ ''منالی '' کی سیر کو جائے تو کوہسار کے چشمے اُبل کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کے غلام اس کے عہدِ الفت میں کرشمے آج بھی حسنِ ازل کے دیکھتے ہیں سنا ہے جب بھی وہ جھکتے ہیں اپنے رب کے حضور پکارتے ہی نہیں اُس کو بلکہ دیکھتے ہیں ق سنا ہے عقل کے اندھوں کا کچھ علاج نہیں مگر سنا ہے کہ اب ہلکے ہلکے دیکھتے ہیں سنا ہے آج بھی ارضِ وطن کے فتویٰ فروش ضمیرِ صوت و صدا کو کچل کے دیکھتے ہیں نہ جانے کیوں انھیں منزل نظر نہیں آتی وہ راستہ کبھی رہبر بدل کے دیکھتے ہیں گلہ ہے کس لیے ملّائے شہر کو مضطر!ؔ وفا کے پیڑ اگر پھول پھل کے دیکھتے ہیں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ524 357۔ نذرِ غالبؔ محفل کا دل اداس ہے، ساقی خموش ہے ایسے میں کس کو پینے پلانے کا ہوش ہے نرگس کی آنکھ بیچتی ہے آرزو کے پھول یہ خود فروش بھی بڑی لذّت فروش ہے کس بے ادب نے دستِ تمنّا کِیا دراز بزمِ طلب میں غلغلۂ پوش پوش ہے جوشِ طلب سے سینۂ گل میں لگی ہے آگ گلچیں سمجھ رہا ہے چمن سرخ پوش ہے آبِ حیات، شبنم و گل سے لدی ہوئی ہر شاخ مے بجام ہے، مینا بدوش ہے یہ میرے بس کی بات ہے نہ تیرے بس کی بات مَیں گر خطا شعار ہوں، تو عیب پوش ہے اپنے وطن میں لڑتا جھگڑتا تھا رات دن مضطرؔ دیارِ غیر میں کتنا خموش ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ525۔526 358۔ نذرِ غالبؔ بصد ادب واحترام وہ جلال اور وہ جمال کہاں ہم کہاں، عالمِ مثال کہاں نشّۂ فرقت و وصال کہاں وہ خوشی اور وہ ملال کہاں تنگ دستی میں، فاقہ مستی میں عشرتِ دستِ بے سوال کہاں رُخِ جاناں کو دیکھنے کے لیے چشمِ شائستۂ جمال کہاں ایک لمحہ بسر نہیں ہوتا عزمِ تسخیرِ ماہ و سال کہاں اک نظر دیکھنے کی تاب نہیں جرأتِ لمس کا سوال کہاں بات کرتے زبان کٹتی ہے حرفِ مطلب کا احتمال کہاں آئنہ آرزو کا ٹوٹ گیا خواہشِ دید کی مجال کہاں اب نہ ہم وہ ہیں اور نہ تم وہ ہو اب وہ پہلے سے ماہ و سال کہاں ایک ہی خواب، ایک ہی تھا خیال اب وہ خواب اور وہ خیال کہاں کہیں غالبؔ تھا اور کہیں تھا میرؔ اب وہ پہلے سے باکمال کہاں عشق تو معتدل نہیں ہوتا قلبِ مضطرؔ میں اعتدال کہاں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ527 359۔ غم ہائے روزگار کی نظروں نے کھا لیاں غم ہائے روزگار کی نظروں نے کھا لیاں آنکھوں کی مستیاں، ترے ہونٹوں کی لالیاں وہ گالیاں جو رات عدو نے نکالیاں کیا جانیے کہ کس لیے ہنس ہنس کے کھا لیاں اپنے تو اپنے غیر بھی کب رات سو سکے رو رو کے ہم نے بستیاں سر پر اُٹھا لیاں اوجِ فرازِ دار پہ دیپک جلایئے شمعیں سرِ مژہ تو بہت جگمگا لیاں مٹی میں مل کے زندۂ جاوید ہو گئیں وہ صورتیں جو اشک کے شیشوں میں ڈھالیاں اک شکل چاند سی ہمیں کل خواب میں ملی پوچھا جو ہم نے نام تو نظریں جھکا لیاں سائے سے پھر رہے ہیں، کوئی آدمی نہیں گلیاں پرائے شہر کی ہیں دیکھی بھالیاں دھونی رما کے بیٹھ گیا در پہ یار کے مضطرؔ کے کام آ گئیں بے اِعتدالیاں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ528 360۔ جہاں عشق نے برچھیاں ماریاں جہاں عشق نے برچھیاں ماریاں دھری رہ گئیں شوخیاں ساریاں زمانے میں ضربُ المَثَل بن گئیں مری سُستیاں، اس کی ستّاریاں بس اک لمس سے سربسر مٹ گئیں سبھی دوریاں، ساری بیماریاں مرے چارہ گر، میرے غم خوار کو پسند آ گئیں میری لاچاریاں لہو رنگ ہے سرزمینِ وفا یہ کس شوخ نے کی ہیں گل کاریاں وہ خود آ گیا مسکراتا ہؤا جسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہاریاں تری پارسائی مبارک تجھے مجھے بَس ہیں میری خطاکاریاں مبارک تمھیں عقل کی عزّتیں مجھے مل گئیں عشق کی خواریاں مری سادگی میرے کام آ گئی خجل ہو گئیں تیری عیّاریاں حقیروں کو عزت پہ عزت ملی چھنیں سرفرازوں سے سرداریاں کدھر کے ارادے ہیں مضطرؔ! کہو مری جاں! کہاں کی ہیں تیّاریاں؟ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ529 361۔ صدمۂ رنگ سے جنگل جاگا صدمۂ رنگ سے جنگل جاگا دل میں پھر درد سا ہونے لاگا کوئی ساتھی ہے نہ کوئی محرم پار پردیس کو اُڑ جا کاگا پھر وہی شامِ غریباں آئی پھر سرِ چشم ستارہ جاگا پھر ہوئی دل کی حکومت قائم عشق حاضر ہؤا بھاگا بھاگا پھر کوئی کھوئی ہوئی یاد آئی شہرِ مسحور میں کوئی جاگا پھر سرِ بزمِ نگاراں مضطرؔ! دل کا دامن ہؤا تاگا تاگا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ530 362۔ پھر شبِ دیجور دروازہ کھلا پھر شبِ دیجور دروازہ کھلا روشنی کا باب اک تازہ کھلا کون کافر ہے، مسلماں کون ہے ہو گیا خلقت کو اندازہ کھلا آگ اور پانی گلے ملنے لگے بیربل سے مُلّا دوپیازہ کھلا کھلتے کھلتے اس بتِ عیّار کا ہر قدم پر جھوٹ اک تازہ کھلا پارہ پارہ ہو گئی دل کی کتاب بیچ چوراہے کے شیرازہ کھلا بے خبر پہلے ہی شہرِ عشق کا رات دن رہتا ہے دروازہ کھلا مَیں شہیدِ عشق ہوں، رُخ پر مرے اشک اور الہام کا غازہ کھلا چھپ کے پیتا ہوں فقیہِ شہر سے کر رہا ہوں ذکرِ خمیازہ کھلا آسماں سے بات کرنے کے لیے کوئی تو رہنے دو دروازہ کھلا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ531 363۔ اوڑھ لینے کو بدن بھی ہو گا اوڑھ لینے کو بدن بھی ہو گا قبر بھی ہو گی، کفن بھی ہو گا ہم درختوں سے گلے مل لیں گے ساتھ وہ رشکِ چمن بھی ہو گا ہم سے چھپنے کی بھی کوشش ہو گی ہم سے ملنے کا جتن بھی ہو گا عشق کی کوئی تو منزل ہو گی کوئی تو اس کا وطن بھی ہو گا کیا خبر تھی کہ دلِ آوارہ صاحبِ دار و رسن بھی ہو گا کوئی تو سمجھے گا مضطرؔ کی زباں کوئی تو محرمِ فن بھی ہو گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ532 364۔ آنکھ سے ٹپکا، لہو بن کر جلا آنکھ سے ٹپکا، لہو بن کر جلا اشک آخر اشک تھا، گھر گھر جلا شاہدِ معنٰی کو پا کر روبرو ہم نے دی اظہار کی چادر جلا راستے بھر روشنی ہوتی رہی دل جلا، جل کر بجھا، بجھ کر جلا ننگِ محفل، یادگارِ رفتگاں رہ گیا ہے اک پتنگا پَرجلا معجزہ تھا آنکھ کی برسات کا دل کا دامن بھیگ کر بہتر جلا راہ چلتوں کو بھی ہو گا فائدہ کچھ دیے دیوار کے اوپر جلا بانٹ دے اس آتشِ سیّال کو پھونک دے شہروں کو، گھر کے گھر جلا سحر باطل ہو گیا اک آن میں میرے جلتے ہی وہ جادوگر جلا ہم جلیں یا نہ جلیں اس سے غرض کیوں ہماری آگ میں مضطرؔ جلا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ533 365۔ نعرہ زن بزم میں جب تُو ہو گا نعرہ زن بزم میں جب تُو ہو گا کس کو جذبات پہ قابو ہو گا ہم چلے جائیں گے اُٹھ کر تنہا یہ بھی فریاد کا پہلو ہو گا رات بھر سیرِ چراغاں ہو گی کہیں آنسو، کہیں جگنو ہو گا سب تھکے ماندے کریں گے آرام دُور تک سایۂ گیسو ہو گا زیست کی کوئی تو صورت ہو گی چین کا کوئی تو پہلو ہو گا کس کو حاصل ہے دوام اے قاتل! ہم نہیں ہوں گے تو کیا تُو ہو گا قیس! تنہائی سے ڈرتا کیوں ہے دشت میں کوئی تو آہو ہو گا دم بخود جس سے ہے شہرِ مسحور وہ تری آنکھ کا جادو ہو گا جس نے گِرتوں کو سنبھالا مضطرؔ! وہ مرے یار کا بازو ہو گا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ534 366۔ اپنے سائے سے ڈر رہی ہے رات اپنے سائے سے ڈر رہی ہے رات جی رہی ہے نہ مر رہی ہے رات صبحِ نو سے ملی ہے پہلی بار جانے اب تک کدھر رہی ہے رات اپنی تصویر دیکھنے کے لیے پانیوں میں اُتر رہی ہے رات جانتی ہے پتے ستاروں کے چاند کی ہمسفر رہی ہے رات پھر کسی صبح کے تصور میں لمحہ لمحہ گزر رہی ہے رات یہ جو سورج چڑھا ہے آدھی رات اس کا انکار کر رہی ہے رات پھر ازل اور ابد کے سنگم سے دبے پاؤں گزر رہی ہے رات آ گئی ہے اُتر کے دھرتی پر تنِ تنہا ہے، ڈر رہی ہے رات تم بھی مضطرؔ! اسے بغور سنو یہ جو اعلان کر رہی ہے رات چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ535۔536 367۔ وہ نہ تنہا مجھ سے کوسوں دور تھا وہ نہ تنہا مجھ سے کوسوں دور تھا مَیں بھی ننگے پاؤں تھا، مجبور تھا مَیں غزل خواں تھا فقط تیرے لیے بات کیا تھی اور کیا مشہور تھا اس قدر پھولوں کا پتھراؤ ہؤا شرم سے پتھر بھی چکناچور تھا شیخ بھی آئے تھے چھپ کر دیکھنے پردۂ سیمیں پہ رقصِ حور تھا لمس کی لَو سے تھا گدرایا ہؤا دھیان کی ٹہنی پہ جو انگور تھا چل رہے تھے گٹھڑیاں سر پر لیے اس سفر میں ہر کوئی مزدور تھا وہ بھی اپنی ذات میں تھا قلعہ بند مَیں بھی اپنے آپ میں محصور تھا عشق کے حالات تھے بدلے ہوئے جانے کیا اللّٰہ کو منظور تھا تُو بھی جاتا آگ لینے کے لیے تیرے اندر بھی تو کوہِ طور تھا کوئی تو تجھ پر بھی پتھر پھینکتا تُو اگر اس عہد کا منصور تھا ہر کوئی عاشق ہے اپنے آپ پر اس سے پہلے تو نہ یہ دستور تھا غیر بھی حیراں تھا اس کو دیکھ کر یار کے رُخ پر جو مضطرؔ! نور تھا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ537 368۔ خود سے مل کر ہوئے اداس بہت خود سے مل کر ہوئے اداس بہت خود سے ملنے کی بھی تھی پیاس بہت اس کی ہر ایک سے لڑائی ہے دلِ ناداں ہے ناشناس بہت اس کو برگِ حیا عنایت کر ابنِ آدم ہے بے لباس بہت تیرے لطف و کرم کے قلزم سے مجھ کو ہیں ایک دو گلاس بہت اوڑھ لیں گے ترے ستم کی ردا ہم کو اتنا بھی ہے لباس بہت تجھ کو چاہوں تو کس طرح چاہوں مَیں اکیلا ہوں اور حواس بہت مَیں بھی شاید کہیں نظر آ جاؤں اس ملاقات کی ہے آس بہت داستاں جو لکھی ہے یاروں نے مت سنا اس کے اقتباس بہت کبھی ان سے بھی مل، صحیفوں میں تیرے اجداد ہیں اداس بہت اب یہیں مستقل رہائش ہے دل کی آب و ہوا ہے راس بہت وہ برا مان جائیں گے مضطرؔ! مت کرو ان سے التماس بہت چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ538 369۔ رات پھر آئی امتحاں کی طرح رات پھر آئی امتحاں کی طرح بن بُلائے بَلائے جاں کی طرح آرزوئیں کھڑی ہیں راہوں میں دم بخود گردِ کارواں کی طرح کس کی خوشبو قفس میں پھیل گئی کون گزرا ہے گلستاں کی طرح گھورتی ہیں روش روش آنکھیں نقشِ پائے گزشتگاں کی طرح اُن کو دیکھا تو دیکھتے ہی رہے لٹ گیا دل بھی نقدِ جاں کی طرح ہم کسی کو برا نہیں کہتے اپنے یارانِ مہرباں کی طرح ہم اشاروں میں بات کرتے ہیں ہم نے ڈالی نئی زباں کی طرح اشک برسے تو اس قدر برسے دھل گئے دل بھی آسماں کی طرح عمربھر ہم رہا کےے مضطرؔ! اپنے گھر میں بھی میہماں کی طرح چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ539 370۔ رت بدلی، سب ماند پڑے ہیں غم کے کاروبار رت بدلی، سب ماند پڑے ہیں غم کے کاروبار دل آوارہ، غم کا مارا پھرتا ہے بے کار چاند چھپا، تارے مرجھائے، نرگس ہے بیمار بوٹا بوٹا جاگ رہا ہے، کلی کلی بیدار پھونک پھونک کر پاؤں ر کھے، عقل بڑی ہُشیار من مورکھ ہے بات بات پر مرنے کو تیار نیلی نیلی، نتھری نتھری آس کی شیتل جھیل یاد کی رادھا تیر رہی ہے دور کہیں اس پار شب کی آنکھ میں اوس کے آنسو امڈ امڈ کر آئے چاند کے رس میں بھیگ رہے ہیں شبنم کے اسرار سوکھے پتےّ ناچ رہے ہیں موت کا پاگل ناچ سُونی خلوت گاہوں میں ہے پت جھڑ کی جھنکار حسن کی باتیں، عشق کے قصّے، جھوٹ ہیں یارو!جھوٹ گل جھوٹا، بلبل بھی جھوٹی، جھوٹا سب سنسار ہار اور جیت کے جھگڑوں سے بالا ہے دل کا کھیل عشق کا پانسہ جس نے پھینکا اس کی جیت نہ ہار چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ540 371۔ جسم زخمی ہے اور گیلے پر جسم زخمی ہے اور گیلے پر کون بیٹھا ہے غم کے ٹیلے پر یہ پرندہ کہاں سے آیا ہے اس قدر کیوں ہیں اس کے پیلے پر ہر کسی کو نظر نہیں آتے طائرِ صبح کے سجیلے پر مرغِ آواز اُڑ گیا آخر پھینک کر اپنے نیلے پیلے پر جس نے اپنا لیا ہے ماں بن کر ناز ہے مجھ کو اس قبیلے پر گھِر کے برسی ہے تیرے غم کی گھٹا تن کے جلتے ہوئے فتیلے پر بے سہاروں کو بے وسیلوں کو ہے بھروسہ ترے وسیلے پر رکنے پائے نہ یہ اُڑان کبھی ٹوٹ جائیں تو اَور سی لے پر شہر آباد ہو گیا مضطرؔ! ایک صدیوں پرانے ٹیلے پر چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ541۔542 372۔ اے خطیبِ خوش بیاں! آ دیکھ شانِ امتیاز اے خطیبِ خوش بیاں! آ دیکھ شانِ امتیاز میرا آقا محرمِ حق اور ُتو محرومِ راز تیرے سجدے رمزِ اِلَّا اللّٰہ سے واقف نہیں سردئ کردار سے ہے منجمد تیری نماز گوسفندانِ محمدؐ کا کوئی رہبر نہیں پاس گرگانِ کہن بھی کر رہے ہیں سازباز کس مسیحِ وقت نے پھونکا ہے صورِ اسرفیل قدسیاں نعرہ زناں آئیند از دور و دراز کیا کسی عیسیٰ نفس نے قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ کہا کروٹیں سی لے رہی ہے ساقیا! خاکِ حجاز تیری آہِ صبح گاہی نرم ریز و حشرخیز تیرے پاکیزہ نفس سے سنگ و آہن بھی گداز ساقیا! کچھ روز سے تیری نگاہوں کے طفیل بادہئ مغرب کا عادی پی رہا ہے خانہ ساز آستانِ شوق کے جلوے ہیں فردوسِ نظر ساحلِ اُمّید کے پھولوں کی خوشبو دل نواز شش جہت پر چھا گئے اے حسن! پروانے ترے کر گئی سرمست ان کو تیری چشمِ نیم باز ہر خطاکاری سے پہلے میرے من کے چور نے وقت پر اکثر سجھائی ہے مجھے وجہِ جواز تیری ستّاری پہ عیبوں کو پسینے آ گئے ڈھانپ لے رحمت کی چادر میں مرے بندہ نواز! ١٩٤٤ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ543 373۔ سنائی دے ہے یوں پائل کی آواز سنائی دے ہے یوں پائل کی آواز کہ جیسے ہجر کی شب دل کی آواز عدو آزاد ہے، مانے نہ مانے مری آواز ہے محفل کی آواز صداقت کے سمُندر منتظر ہیں کبھی تو آئے گی ساحل کی آواز یہ کَہ کر بَہ گیا خونِ شہیداں فقط آواز ہے قاتل کی آواز مَیں ضامن ہوں طلوعِ صبحِ نو کا مری آواز مستقبِل کی آواز مہک اُٹھّیں گے پھر آموں کے جنگل سنائی دے گی پھر کوئل کی آواز کدھر جاؤں، مَیں خود حیراں ہوں مضطرؔ! اِدھر دل کی، اُدھر محفل کی آواز چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ544 374۔ خواہشوں نے گھڑی ہیں تصویریں خواہشوں نے گھڑی ہیں تصویریں ہر قدم پر کھڑی ہیں تصویریں میرے شانوں پہ چڑھ کے مل ان سے تیرے قد سے بڑی ہیں تصویریں غمِ جاناں ہے یا غمِ دنیا یا گھڑی دو گھڑی ہیں تصویریں بیچ میں ہے مزار ماضی کا دائیں بائیں پڑی ہیں تصویریں ہر کسی کو نظر نہیں آتیں سامنے جو کھڑی ہیں تصویریں حادثوں کی زباں سمجھتی ہیں چوک میں جو گڑی ہیں تصویریں اور بھی لوگ تھے زمانے میں کیوں ہمی سے لڑی ہیں تصویریں بت شکن بھی ہے، بت فروش بھی ہے دل کی مضطرؔ! بڑی ہیں تصویریں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ545 375۔ گھڑی دو گھڑی تو بھی رولے میاں! گھڑی دو گھڑی تو بھی رولے میاں! کہیں بجھ نہ جائیں یہ شعلے میاں! وہ کھل کھیلنے کا زمانہ گیا یہ دن مشکلوں کے ہیں بھولے میاں! یہ فرصت بھی شاید نہ پھر مل سکے جو کھونا ہے جلدی سے کھو لے میاں! حنا رنگ ہو جائیں گی انگلیاں یہ رقعہ لہو میں ڈبو لے میاں! کوئی تو بتائے یہ قصّہ ہے کیا سرِدار کوئی تو بولے میاں! مجھے کھینچ لینے دے زنجیرِ عدل تو کپڑے لہو میں بھگو لے میاں! اگر ہو سکے تو ہمیں بھی سنا جو تُو نے کہے رات ڈھولے میاں! یہ دامن پہ جو خون کے داغ ہیں اگر دھل سکیں ان کو دھو لے میاں! کہاں گم تھے مضطرؔ، کدھر دھیان تھا بڑی دیر کے بعد بولے میاں! چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ546 376۔ آرزو کے اسیر شہزادو! آرزو کے اسیر شہزادو! مجھ کو میرے وطن میں پہنچا دو جس کو کہتے ہو آدمِ خاکی آگ ہی آگ ہے پَری زادو! مَیں بھی مجبور، تم بھی ہو مجبور میرے آباؤ! میری اولادو! کچھ تو بولو کہ بے اثر کیوں ہو شب کے نالو! سحر کی فریادو! شیخ و واعظ میں ٹھن گئی ہے آج شہر میں اس خبر کو پھیلا دو راستے کی بھی آبرو رہ جائے میری منزل قریب تر لا دو نوچ ڈالو نقاب پھولوں کے رنگ و بو کے صنم کدے ڈھا دو کبھی عقل و خرد کی محفل میں دل کی آواز کو بھی رستہ دو کبھی اجداد کی صدا بھی سنو عہدِ نو کی ذہین اولادو! نسلِ آدم کا کچھ شمار نہیں آدمی کوئی ہوں گے ایک یا دو مَیں شہنشاہِ عشق ہوں مضطرؔ! مجھ کو کانٹوں کا تاج پہنا دو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ547 377۔ بے نواؤں کے یار! آ جاؤ بے نواؤں کے یار! آ جاؤ غمزدوں کے قرار! آ جاؤ آج ارض و سما پہ بوجھل ہے کہکشاں کا غبار، آ جاؤ چاندنی ہے، چناب ہے، مے ہے جمع ہیں بادہ خوار، آ جاؤ قلبِ ویراں کے گوشے گوشے سے اُٹھ رہی ہے پکار، آ جاؤ ہو سکا تو کریں گے مل جل کر کچھ غموں کا شمار، آ جاؤ دور احساس کے کنارے پر چھپ کے بیٹھے ہو، پار آ جاؤ میری تنہائیوں نے چاہا ہے تم کو پھر ایک بار، آ جاؤ مضطرِؔ زار کا تمھارے بغیر کون ہے غمگسار، آ جاؤ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ548 378۔ گناہ گار ہوں مولیٰ! مرے گناہ نہ دیکھ گناہ گار ہوں مولیٰ! مرے گناہ نہ دیکھ نہ دیکھ نامۂ اعمال ہے سیاہ نہ دیکھ ہے عشق میری عبادت، وفا نماز مری مرے گناہوں کو اے شیخِ بے گناہ! نہ دیکھ تُو بے محابا چلا آ کھلے دریچوں سے خدا کے واسطے آدابِ رسم و راہ نہ دیکھ کہیں تجھے بھی سفر کا جنوں نہ ہو جائے تُو پانیوں میں گرفتار عکسِ ماہ نہ دیکھ یہ دیکھ درد سے دل بھی گداز ہے کہ نہیں فروغِ رنگِ رخِ پیرِ خانقاہ نہ دیکھ ان آنسوؤں سے پرے بھی ہیں بستیاں آباد یہ جھلملاتے ستارے، یہ مہر و ماہ نہ دیکھ زمیں ہے جن کے لیے اب بھی گوش بر آواز ان آہٹوں کی، اس آوازِ پا کی راہ نہ دیکھ بُرا ہوں ، اچھّا ہوں، جیسا بھی ہوں مَیں تیرا ہوں تری پسند ہے ،پیارے! تو دیکھ خواہ نہ دیکھ یہ لوگ محرمِ اسرارِ غم نہیں مضطرؔ! تو آہ آہ نہ دیکھ ان کی واہ واہ نہ دیکھ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ549 379۔ یاد کی مَے ہے اور پی سی ہے یاد کی مَے ہے اور پی سی ہے چشمِ ساقی جھکی جھکی سی ہے تم کو پایا تو پا لیا سب کچھ تم کو پا کر بھی کچھ کمی سی ہے ہم بھی احباب سے نہیں ہیں خوش ان کو بھی ہم سے دشمنی سی ہے کہہ دیا کیا صبا نے پھولوں سے رُخ پہ گلچیں کے برہمی سی ہے یاد آئی ہے کوئی بزمِ طرب پھول کی آنکھ شبنمی سی ہے اُٹھیں، ٹکرائیں، جھک گئیں نظریں اک خطا جیسے باہمی سی ہے گُل کے سائے میں سو گئی شبنم نیند کی گود ریشمی سی ہے رات رویا نہ ہو کہیں مضطرؔ ریگِ صحرا میں کچھ نمی سی ہے ١٩٤٠ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ550 380۔ ان آنکھوں میں جو ہلکی سی لالی ہے ان آنکھوں میں جو ہلکی سی لالی ہے موہ کا میلہ ہے، دل کی دیوالی ہے جینا بھی گالی، مرنا بھی گالی ہے ہم نے یہ خلعت خود ہی سلوا لی ہے کثرت کی بندوق کی یہ جو نالی ہے نادانو! تم پر ہی چلنے والی ہے جاگ کہ پیار کا سورج چڑھنے والا ہے دیکھ کہ اب انکار کا ترکش خالی ہے کس نے دستک دی ہے اس سنّاٹے میں باہر جا کر دیکھو کون سوالی ہے ان سے ملے بغیر نہ واپس جاؤں گا مَیں ہوں آج اور اس روضے کی جالی ہے عملوں کی گوں کس کا بیڑا پار ہؤا مضطرؔ! یہ سب تیری خام خیالی ہے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ551 381۔ وہ بے اصول اگر بااصول ہو جائے وہ بے اصول اگر بااصول ہو جائے فقیہِ شہر کا فتویٰ فضول ہو جائے خدا کرے کہ وہ بندہ بنے، خدا نہ بنے خدا کرے کہ کوئی اس سے بھول ہو جائے اسے بھی عکس نظر آئے اپنے چہرے کا اسے بھی آنکھ کی قیمت وصول ہو جائے عجب نہیں ہے کہ میری خطاؤں کے باوصف تری دعا مرے حق میں قبول ہو جائے میں تیری یاد سے بہلا لیا کروں دل کو جو بیٹھے بیٹھے طبیعت ملول ہو جائے اگر ہو اذن تو اس جانِ ناتواں کی طرح مرا بدن بھی ترے در کی دھول ہو جائے ترے خیال کی خوشبو کچھ اس طرح پھیلے یہ خار خار قفس پھول پھول ہو جائے یقیں نہ آئے گا مضطرؔ! ابولہب کو کبھی کہ اس کا اپنا بھتیجا رسول ہو جائے! چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ552 382۔ ایسا نادان تو دیکھا نہ سنا تھا پہلے ایسا نادان تو دیکھا نہ سنا تھا پہلے جو برا بن نہ سکا، بن گیا اچھا پہلے وہ جو انکار کی آیا ہے علامت بن کر ہم نے لکھ رکھّا تھا اس شوخ کا حلیہ پہلے ہم بھی''احباب''سے ملنے کے لیے ہیں بے تاب کوئی تو ان کی طرف سے ہو اشارہ پہلے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی حصہ فارسی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ252۔253 383۔ اے کہ تُو بندۂ خدا شدہ ای اے کہ تُو بندۂ خدا شدہ ای از ہمہ بندہا رِہا شدہ ای شیخ زہدت را خوب می دانم پیر گشتی و پارسا شدہ ای وقتِ جلوہ نقاب می پوشی ''بندہ پرور مگر خدا شدہ ای'' تو زِ روزِ ازل حسین استی تو نہ امروز خوش نما شدہ ای چشمِ بیدار را شبِ فرقت اشک در اشک آئنہ شدہ ای راہ گم کردۂ محبت را دشت در دشت رہنما شدہ ای ہم ربودی قرارِ ما از دل ہم سکون و قرارما شدہ ای تا حسینے دگر پدید آید ہمہ تن شوق کربلا شدہ ای تُو بہ صحرائے اعظمِ جاں را ابر و بارانِ جانفزا شدہ ای من نہ پُرسم چرا محمد علی در تپِ عشق مبتلا شدہ ای٭۔یہ تک بندی زمانہ طالب علمی میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک طرحی مشاعرے میں پڑھی گئی۔ صدارت محترم عبدالمجیدسالک مرحوم نے فرمائی۔
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ556 384۔ دلم از آرزو بیگانہ گردید دلم از آرزو بیگانہ گردید کہ دزدِ عقل صاحب خانہ گردید فروشستم ہمہ وابستگی ہا عیارم خلق را پیمانہ گردید عطا کن رشتہء محکم صفاتے کہ تسبیحِ ما دانہ دانہ گردید نمی دارم گلہ از آہِ خویشم تف آہم چراغِ خانہ گردید سرِ محفل مکن ایں راز را فاش چرا آن آشنا بےگانہ گردید تو یک اشکِ ندامت مرحمت کن کہ تن از تشنگی ویرانہ گردید مپرس از شمع بر روئش نظر کن کہ پروانہ چرا پروانہ گردید بترسد ز آب ہمچو سگ گزیدہ دلِ مضطرؔ مگر دیوانہ گردید چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی حصہ پنجابی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ559 385۔ اکّھاں دی رکھوالی رکھ اکّھاں دی رکھوالی رکھ عینک بھانویں کالی رکھ جیویں رات ہَنیری اے دل دا دِیوا بالی رکھ اُتوں راون نچّن دے وچّوں رام دوالی رکھ غُصّہ، گلّا، کام، کرودھ اینے سپ نہ پالی رکھ اِکّو یار ناں یاری لا دشمن پینتی چالی رکھ چناّں دل دیاں گلّاں نوں گلّیں باتیں ٹالی رکھ مضطرؔ! منزل آ پُجّی جوڑی کھول پنجالی رکھ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ560 386۔ ٹردا جاویں سدّے ہتھ ٹردا جاویں سدّے ہتھ سَو سیانے اکّو متّ شالا اینویں وِ سّ نہ گھول تیری میری اِکّو رتّ سجےّ کھبے ویری تیرے ویری تیرے پنج نہ سَتّ دَھکّا کھا کے سِدّھا ہویا کُبّے نوں راس آ گئی لَتّ ساموریاں توں سَدّا آیا اٹھ دِھیّے ہن سُوت نہ کَتّ چت نہ چیتے وانگ بریتے سُکّے انبر ڈگی چھتّ اوٹھاں والے لاہ کے لے گئے ہری ٹاہنیاں، کچے پتّ دنیا ہنجو رووے مضطرؔ! مَیں روواں اُبّلدی رَتّ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ561۔562 387۔ چناں! وے تیری چاننی، تاریا! وے تیری لو چناں! وے تیری چاننی، تاریا! وے تیری لو چن پکاوے روٹیاں تے تارا لوے کنسو اسیں سائے شِگر دوپہر دے، سانوں کندھاں لیا لکو سانوں یار نے جتھے آکھیا اسیں اوتھے رہے کھڑو میں کراں تے کلی کی کراں؟ کدے ہس پواں،کدے رو کدے چرخہ اُٹھ کے ڈاہ لواں، کدے چکّی دیواں جھو اج لہراں کھاون پیندیاں، اج بھُکّھا گھمن گھیر توں بیڑی ٹھیل مہانیاں! جو رب کرے سو ہو اسیں ہس ہس عمر لنگھا لئی، تینوں شک نہ دِتّا پین جو زخم سی تیرے ہجر دے اوہ تیتھوں لئے لکو سوچاں دے تنبو تان کے اسی ویلا لیا لنگھا یاداں دے تاگے کت کے اسیں ہنجو لئے پرو سبھناں دے سانجھے رانجھناں! توں جانویں کیہڑے راہ ترا عاشق کل جہان اے، ترے عاشق اک نہ دو میں سورج ادھی رات دا، مرے برفاں چار چوفیر مری اگ تاں اَگے بجھ گئی، مرا نور نہ میتھوں کھو کل تاریاں ہیٹھ کھڑو کے مَیں مضطرؔ! اَدھی رات جد کھڑکی کھولی وقت دی آئی صدیاں دی خشبو چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ563 388۔ ہنجواں دی فصل پچھیتی اے ہنجواں دی فصل پچھیتی اے تینوں وڈھن دی کیوں چھیتی اے ایہہ کرماں والی کھیتی اے ایہہ کھیتی خصماں سیتی اے نہ ایہہ تھکدی اے نہ ایہہ جَھکدی اے تیری دَھنّ زبان دی ریتی اے پھر سُفنے دے وچ لُک چھپ کے کوئی آیا اَچّن چیتی اے من مورکھ دا عِتبار نہ کر ایہہ مورکھ گھر دا بھیتی اے گیا ویلا ہسّن کھیڈن دا ہُن عمر وی بتّی تیتی اے فیر مضطرؔ لکدا پھردا اے فیر دل تے پئی ڈکیتی اے ١٩٥٠ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ564 389۔ گولی آں میں تیرے دَر دی گولی آں میں تیرے دَر دی آن کھلوتی ڈردی ڈردی چھوٹے وڈے میہنے مارن نہ میں جیوندی، نہ میں مردی اج میری کوئی قدر نہ قیمت دال برابر مرغی گھر دی جے میں دل دا حال سنانواں مینوں آکھن اینویں کردی ایہہ دنیا اے کرنی بھرنی ناں میں کر دی، ناں میں بھردی اج دشمن نیں میرے سجّن اج بے درد نیں میرے دردی اوڑک قبریں ڈیرا لایا پہن لئی مٹی دی وردی ایہہ مٹی درداں دا دارُو ایہہ مٹی اے تیرے در دی متھّے وٹّ نہ پایا مضطرؔ! ہس کے سَہ لئی گرمی سردی چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ565 390۔ ناں تیرے کجھ ہتھ، ناں پلّے ناں تیرے کجھ ہتھ، ناں پلّے اینویں کرنا ایں بلّے بلّے ساڈے ورگے لکھّاں جھلّے پھرن تھلاں وچ کلّم کلّے دنیا ہو گئی اُپّر تھلّے تسیں ناں اپنی تھاں توں ہلّے اجے نہ سانوں مہنا ماریں ساڈے زخم اجے نیں اَلّے سانوں ہسّ کے آکھن لگّا فیر نہ آؤناں ساڈے محلّے سونا جنّا مہنگا ہویا بندے اونے ہوئے سولّے مالک ڈنگر لَبھّن ٹُر گئے چوراں نے آ ڈیرے ملّے سانوں آن کے متّاں دیون روس تے امریکہ دے دَلّے ڈاہڈے ناں ہن یاری لا کے مضطرؔ جی! تسیں کدّھر چَلّے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ566 391۔ وے توں کول کھلوندیاں َجھکّ گیا وے توں کول کھلوندیاں َجھکّ گیا ساڈی جان گئی، تیرا نکّ گیا اسیں عاجز گلّاں کیہہ کریئے ساڈا گل کرن دا حقّ گیا یاراں دے کوڑے ہاسے نوں میں ہسدیاں ہسدیاں پھکّ گیا اسیں چنّاں اینویں ہسّے ساں تیرے دل وچ کیہہ کیہہ شکّ گیا گل ایتھے آن کے مکدی اے کوئی تھک گیا کوئی اَک گیا اَ ّکھاں دا فرش وچھانواں گے جدوں سوہنا ساڈے چکّ گیا من مورکھ آکھے نئیں لگدا میں کہندیاں کہندیاں تھکّ گیا اِنج مہنا ماریا حاسد نے جویں کُتّا بھانڈا لکّ گیا ''یاراں'' دیاں گلاں سُن سُن کے مضطرؔ دا سینہ پکّ گیا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ567 392۔ آکھاں وی تے ڈھولنا! آکھاں وی تے ڈھولنا! بُوہا کدی نہ کھولنا اینویں ناں وس گھولنا مونہوں وی کُش بولنا آ وی جا ہن ڈھولنا مَیں کلّی، کوئی کول نا رُ سّ کے جاون والیا! تیرے نال کیہہ بولنا کتھے کتھے نہیں لے گیا دل دا اڈن کھٹولنا من وچ ٹھونگے ماردا نِکّا جیہا ممولنا زلفاں وڈّھن پیندیاں وکھو وکھ سپولنا بولی کھا کے غیر دی فیر کیہہ ہَسناں بولنا اترے نیں ایہہ عرش توں ایہہ ہنجو نہ ڈوہلنا دل دا دیوا بال کے اپنا آپ پھرولنا وچوں روناں رات دن اُتّوں ہسناں بولنا چنّاں میں کوئی چور سی توں کیوں لیا اڈول ناں چھڈ وے اَڑیا ڈھولنا تیرے نال کی بولنا جیہنیں پہلاں بولنا اوہنیں کُنڈا کھولنا یار ناں یاری لا کے مضطرؔ فیر کی ڈولنا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ568 393۔ سچ آکھاں تاں بھانبڑ مچّے سچ آکھاں تاں بھانبڑ مچّے مَیں ''جھوٹھا'' ، میرے دشمن ''سچے'' سچیاں نوں جاپن سب سچے سچے سب کنّاں دے کچے ہُم ہما کے ہنجو آئے اکھّاں دے بھر گئے چوبچے چن چڑھیا کُل عالم تکّے تارے ہسّن دیوا نچّے پاگل سوچیں پے گئے مضطرؔ! شکوہ کیتا بچّے بچّے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ569۔570 394۔ چنّاں کیتی اے اجیہی گلّ وے چنّاں کیتی اے اجیہی گلّ وے ساڈے سینے وچ پے گئے نیں سَلّ وے پار لنگناں تاں نال ساڈے چلّ وے چل پتن جھناں دا ملّ وے جے توں منّیں تاں میں دساں اک گلّ وے چن سُورج نیں دونویں ساڈے ولّ وے سانوں ہنجواں نے مار مکایا آ کے ہنجواں نوں پا دے ٹھلّ وے اگ عشقے دی بجھدی جاندی آ زلف دا پکھّا جھلّ وے لوکی آخدے نیں کملی کملی ساڈی پے گئی اے کملی اَلّ وے سوہنا منگے تاں سواں دیئے جتّیاں اسیں پٹھّی لہا کے کھلّ وے مَیں آں کملی تے اوگن ہاری کیہڑے منہ ناں کراں میں گلّ وے بیلے وچ نیں شیاں دے ڈیرے کنڈی اتے گناہاں دے جھلّ وے پینڈا لمّاں اے تے رات ہنیری وے مَیں کلّی آں توں نال میرے چلّ وے ہاڑے پانواں تے پئی کُرلانواں وچ سفنے سنیہڑا گھلّ وے ایتھے بیٹھ کسے نہیں رہنا کوئی اَج گیا کوئی جاوے کلّ وے یاری لا کے ڈاہڈے نال مضطرؔ! ہن سر تے پیّاں نوں جھلّ وے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ571۔572 395۔ وَگ وَگ وے جھنَاں دیا پانیاں! کنڈھے بیٹھ کے اوسیاں پاؤنی آں داغ ہجر وچھوڑے دے کھانی آں کدے ہَسدی آں، کدے کر لانی آں وَگ وَگ وے جھناں دیا پانیاں! ہتھیں بنّھیں ایہہ میرا سوال اے گل کراں کیہہ میری مجال اے جگ کُوڑا کہ میں ای دیوانی آں وَگ وَگ وے جھناں دیا پانیاں! رات ہنیری تے چن میرا دور اے چناں دس کیہہ میرا قصور اے؟ جیویں جیوندیاں رہن جوانیاں وَگ وَگ وے جھناں دیا پانیاں! ماہی پار تے مَیں آں اُرار وے چھڈبھَیڑیا شُوکاں نہ مار وے ٹھِلّ جان دے اساں نمانیاں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں اَج کنڈھا قرار دا ڈَھے گیا پانی وستیاں روہڑ کے لَے گیا غوطے کھانی آں رُہڑدی جانی آں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! گھڑا کچّا تے گُھمّن گھیر اے چناّں آ وی جا ہن کی ڈیر اے آ جا، آ وی جا یار جانیاں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! گُھمّن گھیر چوں جدوں توں بولدا پِنڈا کنبدا، کالجہ ڈولدا کنڈھا دور تے بیڑی پرانی آں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! کلی جندڑی، دور دا راستہ ای آجا دلبرا! رب دا واسطہ ای رکھّاں رکھّ لے اج پرانیاں وگ وگ وے جھناں دیا پانیاں! چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ573۔574 396۔ اَگّے اَگ، پچھے پرچھانواں، کدھر جا نواں اَگّے اَگ، پچھے پرچھانواں، کدھر جا نواں مَیں کَلّی میرا یار اکلا، اُڈ جا کانواں ادّھی راتیں ونجیں ہاتھیں ہنجو لشکن تُلا پرانا، میں اَن تارُو، ڈُب نہ جا نواں سوہنا جا پجّا سرکارے دُھر دربارے اینویں بیٹھی اوسیاں پانواں جی پرچانواں سوہنا جے سُفْنے وچ بُھل کے پھیرا پاوے واری واری جانواں جنڈری گھول گھمانواں نہ کوئی ساتھی نہ کوئی سنگی، کلّم کلّی کیہنوں زخم وکھانواں، کیہنوں حال سنانواں کملیاں وانگر بِٹ بِٹ تکّاں، بول نہ سکاّں کیہہ دسّاں، کیہہ دَسْدیاں جھکاں، کیوں شرمانواں لُک چُھپ کے کوئی کرے اشارے عشق منارے تارا وی پَیَا سینتاں مارے ٹانواں ٹانواں مَیں کملی، کمزور، نمانی، اوگن ہاری در اوہدے تے روندی جانواں، ہسدی آنواں مَیں ڈاہڈے دی گولی، اوہنوں میریاں شرماں ایویں پئی کرلانواں، ایویں پئی گھبرانواں بگّی ریت بریتے بگے سجےّ کھبّے ایدھر محل اُساراں مضطرؔ ایدھر ڈھانواں چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ575۔576 397۔ ننگے پنڈے چاننی گئی بگانے پنڈ ننگے پنڈے چاننی گئی بگانے پنڈ عاشق ُبھکھّے سوں گئے رات پرانے پنڈ کِکّر دے گل لگ کے آکھے جنڈ کریر کلّم کلّے رہ گئے اسیں نمانے پنڈ ہولی ہولی شہر نے مٹی لئی خرید وِکدے وکدے وک گئے آنے آنے پنڈ منڈیاں کُڑیاں پالئے بنگلے شہر لہور ماں پیو موت اُڈیکدے نِمُّو جھانے پنڈ ناں کوئی آنڈھ گوانڈھ اے تے نہ کوئی سجّن ساق توں وسنیک ایں شہر دا توں کی جانے پنڈ پنڈوں آوے پیار دی نِمّی نِمّی وا وسدیاں رہن حویلیاں تے موجاں مانے پنڈ سرگھی ویلے جاگدے ربوے دے وسنیک لوکاں بھانے شہر اے تے ساڈے بھانے پنڈ نِگھّی، نرم، نویکلی پنڈاں دی پرتیت سفنے دے وچ جاوڑاں آنے بہانے پنڈ کچےّ پکّے شہر دی وِنگی ٹیڈھی سوچ ویندیاں ویندیاں آوڑی زور تگھانے پنڈ تینوں ٹھرک پلاٹ دا، سانوں ویل زمین تیری روزی شہر وچ تے ساڈے دانے پنڈ کندھاں دے گل لگ کے کوٹھے دیسی ڈھا جے مضطرؔ نوں لے گیؤں اج پرانے پنڈ چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ577۔578 398۔ تھک گیا سورج چلدا چلدا تھک گیا سورج چلدا چلدا بجھ گیا دیوا بَلدا بَلدا آس دا بوٹا سُک نہ جاوے پُھلدا پُھلدا، پَھلدا پَھلدا تھک نہ جاویں، اَک نہ جاویں پیار دا پکّھا جھلدا جھلدا ویکھیں رستہ بھلّ نہ جاویں کلّم کلّا چلدا چلدا جَھلّا سولی وچ جا وجّا پچّھل پَیریں چلدا چلدا ڈاہڈے دے نال یاری لا کے ہُن پھردا اے ٹلدا ٹلدا وہندیاں وہندیاں بُڈھا ہویا مُنّا اکھّاں ملدا ملدا اشک نمانا یار پرانا سوچیں پے گیا ڈھلدا ڈھلدا شہر دے کندھاں کوٹھے ڈھا کے رک گیا راوی چلدا چلدا دُکھّاں دے دریا نوں پی کے رُڑھ گیا کنڈھا ڈھلدا ڈھلدا ہجر دا پیہن، دُکھّاں دے دانے تھک نہ جاویں دلدا دلدا سوہنا مٹی وچ جا سُتّا پیار دا پکّھا جھلدا جھلدا شالا ویکھیں ڈب نہ جاویں دریانواں نوں ٹھلدا ٹھلدا ہور وی دون سوایا لگے جھلّا طعنے جھلدا جھلدا سوہنا سوں گیا سرگھی ویلے دعوت نامے گھلدا گھلدا ہجر دی سولی تے جا چڑھیا وصل دے ولگن ولدا ولدا دل تے داغ سی بدظنی دا کینسر بن گیا گلدا گلدا دل دا کالا نہ ہو جاویں منہ تے کالک ملدا ملدا مضطرؔ مٹّی وچ جا سُتّا لُکدا چُھپدا، ٹلدا ٹلدا مضطرؔ ورگا کھوٹا سکّہ چل جاندا اے چلدا چلدا چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ552 382۔ ایسا نادان تو دیکھا نہ سنا تھا پہلے ایسا نادان تو دیکھا نہ سنا تھا پہلے جو برا بن نہ سکا، بن گیا اچھا پہلے وہ جو انکار کی آیا ہے علامت بن کر ہم نے لکھ رکھّا تھا اس شوخ کا حلیہ پہلے ہم بھی''احباب''سے ملنے کے لیے ہیں بے تاب کوئی تو ان کی طرف سے ہو اشارہ پہلے چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی