در ثمین
1۔قاعدہ یسرنا القرآن بچوں کے لیے بیشک مفید چیز ہے۔اس سے بہتر اور کوئی طریقہ ء تعلیم خیال میں نہیں۔ 2۔دشمن کے لفظ سے اس جگہ وہ حاسدمرادہیں جو ہر یک طور سے مجھے تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں۔لوگوں کو میری نسبت بدظن کرتے ہیں اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی میں بھی جھوٹی شکایتیں کرتے ہیں اورگورنمنٹ محسنہ کی نسبت جو میرے مخلصانہ جذبات ہیں ان کو چھپاتے ہیں۔منہ
الحکم 10دسمبر1901ء شانِ احمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بخش جامِ احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نامِ احمد ہے لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا سب سے بڑھ کر مقامِ احمد ہے باغِ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلامِ احمد ہے ابنِ مریمؑ کے ذکر کو چھوڑو اُس سے بہتر غُلامِ احمد ہے دافع البلاء صفحہ20مطبوعہ 1902ء لیبلز: درثمین 21۔اشاعتِ دین بزورِ شمشیر حرام ہے اشاعتِ دین بزورِ شمشیر حرام ہے اب چھوڑ دو جہاد1 کا اے دوستو خیال دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبیؐ کی حدیث کو جوچھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو کیوں بھولتے ہو تم یَضَعُ الحَرَب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے سیدِ کونین مصطفٰےؐ عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التوا جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا جنگوں کے سِلسلے کو وہ یکسر مٹائے گا پیویں گے ایک گھاٹ پہ شیر اور گوسپند کھیلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف دبے گزند یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا بُھولیں گے لوگ مشغلہ تیرو تفنگ کا یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا اِک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں کردے گا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی وہ عزمِ مقبلا نہ وہ ہمت نہیں رہی وہ علم وہ صلاح وہ عفت نہیں رہی وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی وہ درد وہ گداز وہ رقت نہیں رہی خلقِ خدا پہ شفقت و رحمت نہیں رہی دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی حالت تمہاری جاذب نصرت نہیں رہی حمق آگیا ہے سر میں وہ فطنت نہیں رہی کسل آگیا ہے دل میں جلادت نہیں رہی وہ علم و معرفت وہ فراست نہیں رہی وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی دُنیاو دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی اب تم کو غیر قوموں پہ سبقت نہیں رہی وہ اُنس و شوق ووجد وہ طاعت نہیں رہی ظلمت کی کچھ بھی حدّو نہایت نہیں رہی ہر وقت جھوٹ۔ سچ کی تو عادت نہیں رہی نورِ خدا کی کچھ بھی علامت نہیں رہی سو سو ہے گند دل میں طہارت نہیں رہی نیکی کے کام کرنے کی رغبت نہیں رہی خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت نہیں رہی دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی دل مر گئے ہیں نیکی کی قدرت نہیں رہی سب پر یہ اِک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی اِک پُھوٹ پڑ رہی ہے مودّت نہیں رہی تم مر گئے تمہاری وہ عظمت نہیں رہی صورت بگڑ گئی ہے وہ صورت نہیں رہی اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی بھید اس میں ہے یہی کہ وہ حاجت نہیں رہی اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے کرتی نہیں ہے منع صلوٰۃ اور صوم سے ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں کی راہ کو عادت میں اپنی کر لیا فسق و گناہ کو اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے مومن نہیں ہو تم کہ قدم کا فرانہ ہے اے قوم !تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں روتے رہو دعاؤں میں بھی وہ اثر نہیں کیونکر ہو وہ نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے وہ دل نہیں تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہو گئے جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہو گئے فاقی جو تھے وہ ظالم و سفّاک ہو گئے اب تم تو خود ہی موردِ خشمِ خدا ہوئے اُس یار سے بشامتِ عصیاں جُدا ہوئے اب غیروں سے لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے تم خود ہی غیرین کے محلِّ سزا ہوئے سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں وہ صدق اور وہ دین و دیانت ہے اب کہاں پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ ایماں نہیں رہا وہ نور مومنانہ وہ عرفاں نہیں رہا پھر اپنے کفر کی خبر اے قوم لیجیئے آیت علیکم انفسکم یاد کیجیئے ایسا گماں کہ مہد ئ خونی بھی آئے گا اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا اے غافلو! یہ باتیں سراسر دروغ ہیں بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا یہ راز تم کوشمس و قمر بھی بتا چکا اب سال سترہ١٧ بھی صدی سے گذر گئے تم میں سے ہائے سوچنے والے کِدھر گئے تھوڑے نہیں نشاں جو دکھائے گئے تمھیں کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمھیں پر تم نے اُن سے کچھ بھی اُٹھایا نہ فائدہ مُنہ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ بخلوں سے یارو باز بھی آؤگے یا نہیں خو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں باطل سے میل دل کی ہٹاؤ گے یا نہیں حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے یا نہیں اب عذر کیا ہے کچھ بھی بتاؤگے یا نہیں مخفی جو دل میں ہے وہ سُناؤ گے یا نہیں آخر خدا کے پاس بھی جاؤ گے یا نہیں اُس وقت اُس کو مُنہ بھی دکھاؤ گے یا نہیں تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل کرکے اُستوار لوگوں کو یہ بتائے کہ وقتِ مسیح ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائیگا خُدا 1۔یہاں جہاد سے مراد اسلام کوبزورشمشیر پھیلانا ہے جو کہ غیر اسلامی نظریہ ہے۔ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ26مطبوعہ 1902ء تعلق باللہ کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو وُہی اُس کے مُقرَّب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں نہیں راہ اُس کی عالی بارگہ تک خود پسندوں کو یہی تدبیر ہے پیارو کہ مانگو اُس سے قربت کو اُسی کے ہاتھ کو ڈھونڈو جلاؤ سب کمندوں کو ضمیمہ تریاق القلوب نمبر 5 صفحہ اول مطبوعہ 1902ء جوشِ صداقت کیوں نہیں لوگو تمھیں حق کا خیال دِل میں آتا ہے مِرے سَو سَو اُبال آنکھ تر ہے دِل میں میرے درد ہے کیوں دِلوں پر اِس قدر یہ گرد ہے دِل ہوا جاتا ہے ہردم بے قرار کِس بیاباں میں نکالوں یہ غبار ہوگئے ہم درد سے زیر و زبر مَر گئے ہم پر نہیں تم کو خبر آسماں پر غافلو اِک جوش ہے کچھ تو دیکھو گر تمھیں کچھ ہوش ہے ہوگیا دیں کفر کے حملوں سے چُور چُپ رہے کب تک خداوندِ غیور اِس صدی کا بیسواں اب سال ہے شرک و بدعت سے جہاں پامال ہے بدگماں کیوں ہو خدا کچھ یاد ہے افترا کی کب تلک بنیاد ہے وہ خدا میرا جو ہے جو ہر شناس اِک جہاں کو لارہا ہے میرے پاس لعنتی ہوتا ہے مَردِ مُفتری لعنتی کو کب ملے یہ سروری اعجاز احمدی صفحہ32مطبوعہ 1902ء نسیمِ دعوت نام اس کا" نسیمِ دعوت "ہے آریوں کے لئے یہ رحمت ہے دِل بیمار کا یہ درماں ہے طالبوں کا یہ یارِ خلوت ہے کفر کے زہر کو یہ ہے تریاق ہر ورق اس کا جامِ صحت ہے غور کر کے اسے پڑھو پیارو یہ خدا کے لئے نصیحت ہے خاکساری سے ہم نے لکھا نہ تو سختی نہ کوئی شدّت ہے قوم سے مت ڈرو خدا سے ڈرو آخر اس کی طرف ہی رحلت ہے سخت دل کیسے ہو گئے ہیں لوگ سر پہ طاعوں ہے پھر بھی غفلت ہے ایک دنیا ہے مر چکی اب تک پھر بھی توبہ نہیں یہ حالت ہے نسیم دعوت ٹائیٹل پیج مطبوعہ 1903ء آریوں کو دعوتِ حق اے آریہ سماج پھنسو مت عذاب میں کیوں مبتلا ہو یار وخیالِ خراب میں اے قوم آریہ تیرے دل کو یہ کیا ہوا تو جاگتی ہے یا تیری باتیں ہیں خواب میں کیا وہ خدا جو ہے تیری جاں کا خدا نہیں ایماں کی بُو نہیں ترے ایسے جواب میں گر عاشقوں کی روح نہیں اُس کے ہاتھ سے پھر غیر کےلئے ہیں وہ کیوں اضطراب میں گر وہ الگ ہے ایسا کہ چھو بھی نہیں گیا پھر کس نے لکھ دیا ہے وہ دل کی کتاب میں جس سوز میں ہیں اُس کےلئے عاشقوں کے دل اتنا تو ہم نے سوز نہ دیکھا کباب میں جامِ وصال دیتا ہے اُس کو جو مر چکا کچھ بھی نہیں ہے فرق یہاں شیخ و شاب میں ملتا ہے وہ اُسی کو جو وہ خاک میں ملا ظاہر کی قیل و قال بھلا کس حساب میں ہوتا ہے وہ اُسی کا جو اُس کا ہی ہوگیا ہے اُس کی گود میں جو گرا اُس جناب میں پھولوں کو جاکے دیکھو اُسی سےوہ آب ہے چمکے اُسی کا نور مہ وآفتاب1 میں خوبوں کے حسن میں بھی اُسی کا وہ نور ہے کیا چیز حسن ہے وہی چمکا حجاب میں اس کی طرف ہے ہاتھ ہر اک تارِ زلف کا ہجراں سے اس کے رہتی ہے وہ پیچ و تاب میں ہر چشم مست دیکھو اُسی کو دکھاتی ہے ہر دل اُسی کے عشق سے ہے التہاب میں جن مورکھوں کو کاموں پہ اُس کے یقیں نہیں پانی کو ڈھونڈتے ہیں عبث وہ سراب میں قدرت سے اُس قدیم کے انکار کرتے ہیں بکتے ہیں جیسے غرق کوئی ہو شراب میں دل میں نہیں کہ دیکھیں وہ اُس پاک ذات کو ڈرتے ہیں قوم سے کہ نہ پکڑیں عتاب میں ہم کو تُو اے عزیز دکھا اپنا وہ جمال کب تک وہ منہ رہے گا حجاب و نقاب میں 1۔ اللَّهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ "خدا ہے نور زمین و آسمان کا"(النور ؛36) سناتن دھرم ٹائیٹل پیج صفحہ2مطبوعہ 1903ء پیشگوئی زلزلہء عظیمہ سونے والو! جلد جاگو یہ نہ وقتِ خواب ہے جو خبر دی وحیءِ حق نے اُس سے دل بیتاب ہے زلزلہ سے دیکھتا ہوں میں زمیں زیر و زبر وقت اب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے ہے سرِ رہ پر کھڑا نیکوں کی وہ مولیٰ کریم نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اِس سَیل سے حِیلے سب جاتے رہے اِک حضرتِ تواب ہے اشتہار النداء من وحی السماء مطبوعہ اخبار بدر مئی 1905ء اِنذار دوستو! جاگو کہ اب پھر زلزلہ آنے کو ہے پھر خدا قدرت کو اپنی جلد دکھلانے کو ہے وہ جو ماہِ فروری میں تُم نے دیکھا زلزلہ تُم یقیں سمجھو کہ وہ اِک زَجر سمجھانے کو ہے آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اِس کا علاج آسماں اَے غافلو اب آگ برسانے کو ہے کیوں نہ آویں زلزلے تقوٰی کی رہ گم ہو گئی اِک مسلماں بھی مسلماں صرف کہلانے کو ہے کس نے مانا مجھ کو ڈر کر کس نے چھوڑا بُغض و کیں زندگی اپنی تو اُن سے گالیاں کھانے کو ہے کافر و دجال اور فاسق ہمیں سب کہتے ہیں کون ایماں صدق اور اِخلاص سے لانے کو ہے جس کو دیکھو بد گمانی میں ہی حد سے بڑھ گیا گر کوئی پوچھے تو سَو سَو عَیب بتلانے کو ہے چھوڑتے ہیں دیں کو اور دنیا سے کرتے ہیں پیار سَو کریں وَعظ و نصیحت کون پچھتانے کو ہے ہاتھ سے جاتا ہے دل دیں کی مصیبت دیکھ کر پر خدا کا ہاتھ اب اس دل کو ٹھہرانے کو ہے اس لیے اب غیرت اُس کی کچھ تمہیں دکھلائے گی ہر طرف یہ آفتِ جاں ہاتھ پھیلانے کو ہے موت کی رہ سے ملے گی اب تو دیں کو کچھ مدد ورنہ دیں اَے دوستو! اِک روز مر جانے کو ہے یا تو اِک عالَم تھا قرباں اُس پہ یا آئے یہ دن ایک عبدالعبد بھی اِس دیں کے جھٹلانے کو ہے چشمہ ء مسیحی ٹائیٹل پیج صفحہ2مطبوعہ 1906ء قادیان کے آریہ آریوں پر ہے صد ہزار افسوس دل میں آتا ہے بار بار افسوس ہوگئے حق کے سخت نافرماں کر دیا دیں کو قوم پر قُرباں وہ نشاں جس کی روشنی سے جہاں ہوکے بیدار ہوگیا لرزاں ان نشانوں سے ہیں یہ انکاری پَر کہاں تک چلے گی طرّاری ان کے باطن میں اِک اندھیرا ہے کین و نخوت نے آکے گھیرا ہے لڑرہے ہیں خدائے یکتا سے باز آتے نہیں ہیں غوغا سے قوم کے خوف سے وہ مرتے ہیں سو نشاں دیکھیں کب وہ ڈرتے ہیں موت لیکھو بڑی کرامت ہے پر سمجھتے نہیں یہ شامت ہے میرے مالک !تو ان کو خود سمجھا آسماں سے پھر اِک نشان دکھلا قادیان کے آریہ اورہم ٹائیٹل پیج صفحہ2مطبوعہ 1907ء شان اسلام اسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ یہی ہے اے سونے والو جاگو! شمس الضحٰی یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے وہ دِلستاں نہاں ہے کِس راہ سے اُس کو دیکھیں اِن مشکلوں کا یارو مشکل کُشا یہی ہے باطن سِیہ ہیں جن کے اِس دیں سے ہیں وہ منکر پر اَے اندھیرے والو! دِل کا دِیا یہی ہے دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں آخر ہوا یہ ثابت دَارُ الشفاء یہی ہے سب خشک ہوگئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف مَیں نے دیکھا بُستاں ہرا یہی ہے دنیا میں اِس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت پی لو تم اِس کو یارو! آبِ بقا یہی ہے اِسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن۔ بَلا یہی ہے جب کُھل گئی سچائی پھر اُس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے جو ہو مفید لینا جو بد ہو اس سے بچنا عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے ملتی ہے بادشاہی اِس دیں سے آسمانی اے طالبانِ دولت ظلِّ ہُما یہی ہے سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں کا آشیانہ اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما یہی ہے سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں کا آشیانہ اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما یہی ہے سَو سَو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بُلا کر مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مدّعا یہی ہے کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے تازہ اے گِرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے کِس کام کا وہ دیں ہے جس میں نشاں نہیں ہے دیں کی میرے پیارو زرّیں قبا یہی ہے افسوس آریوں پر جو ہوگئے ہیں شپّر وہ دیکھ کر ہیں مُنکر ظلم و حِفا یہی ہے معلوم کر کے سب کچھ محروم ہوگئے ہیں کیا اِن نیوگیوں کا ذہنِ رسا یہی ہے اِک ہیں جو پاک بندے اِک ہیں دلوں کے گندے جیتیں گے صادق آخر حق کا مزا یہی ہے اِن آریوں کا پیشہ ہر دم ہے بدزبانی ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا یہی ہے پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں ہیں گالی پر اِن سِیہ دِلوں کا شیوہ سدا یہی ہے افسوس سبّ و توہیں سب کا ہوا ہے پیشہ کس کو کہوں کہ اُن میں ہرزہ درا یہی ہے آخر یہ آدمی تھے پھر کیوں ہوئے درندے کیا جون اِن کی بگڑی یا خود قضا یہی ہے جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے ہے عاری کِس کِس کا نام لیویں ہر سُو وَبا یہی ہے لیکھو کی بدزبانی کا رد ہوئی تھی اُس پر پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و خطا یہی ہے اپنے کئے کا ثمرہ لیکھو نے کیسا پایا آخر خدا کے گھر میں بَد کی سزا یہی ہے نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں بھی دینا کُتّوں سا کھولنا مُنہ تخمِ فنا یہی ہے میٹھے بھی ہو کے آخر نشتر ہی ہیں چلاتے اِن تیرہ باطنوں کے دِل میں دغا یہی ہے جاں بھی اگرچہ دیویں ان کو بطور احساں عادت ہے اِن کی کفراں رنج و عنا یہی ہے ہندو کچھ ایسے بگڑے دِل پُر ہیں بغض و کیں سے ہر بات میں ہے تو ہیں طرزِ ادا یہی ہے جاں بھی ہے اِن پہ قرباں گر دِل سے ہوویں صافی پس ایسے بدکنوں کا مجھ کو گِلا یہی ہے احوال کیا کہوں میں اس غم سے اپنے دل کا گویا کہ ان غموں کا مہماں سرا یہی ہے لیتے ہی جنم اپنا دشمن ہوا یہ فرقہ آخر کی کیا اُمیدیں جب ابتدا یہی ہے دل پھٹ گیا ہمارا تحقیر سُنتے سُنتے غم تو بہت ہیں دِل میں پر جاں گزا یہی ہے دنیا میں گرچہ ہوگی سَو قسم کی بُرائی پاکوں کی ہتک کرنا سب سے بُرا یہی ہے غفلت پہ غافلوں کی روتے رہے ہیں مُرسل پر اِس زماں میں لوگو !نوحہ نیا یہی ہے ہم بد نہیں ہیں کہتے اُن کے مقدسوں کو تعلیم میں ہماری حکمِ خدا یہی ہے ہم کو نہیں سکھاتا وہ پاک بدزبانی تقویٰ کی جڑ یہی ہے صدق و صفا یہی ہے پر آریوں1 کے دیں میں گالی بھی ہے عبادت کہتے ہیں سب کو جھوٹے کیا اتّقا یہی ہے "جتنے نبی تھے آئے موسیٰ ہو یا کہ عیسیٰ مکّار ہیں وہ سارے "اِن کی نِدا یہی ہے "اِک وید ہے جو سچّا باقی کتابیں ساری جھوٹی ہیں اور جعلی اِک رہ نما یہی ہے" یہ ہے خیال اِن کا پَربَتْ بنایا تنکا پر کیا کہیں جب ان کا فہم و ذکا یہی ہے کیڑا جو دَب رہا ہے گوبر کی تہ کے نیچے اُس کے گماں میں اُس کا ارض و سما یہی ہے ویدوں2 کا سب خلاصہ ہم نے نیوگ پایا اِن پُستکوں کی رُو سے کارج بَھلا یہی ہے جس اِستری کو لڑکا پیدا نہ ہو پِیا سے ویدوں کی رُو سے اُس پر واجب ہوا یہی ہے جب ہے یہی اشارہ پھر اُس سے کیا ہے چارہ جب تک نہ ہوویں گیارہ لڑکے رَوا یہی ہے ایشر کے گُن عجب ہیں ویدوں میں اے عزیزو! اُس میں نہیں مروّت ہم نے سُنا یہی ہے دے کر نجات و مکتی پھر چھینتا ہے سب سے کیسا ہے وہ دیالو جس کی عطا یہی ہے ایشر بنا ہے مُنہ سے خالق نہیں کِسی کا رُوحیں ہیں سب انادی پھر کیوں خدا یہی ہے رُوحیں اگر نہ ہوتیں ایشر سے کچھ نہ بنتا اُس کی حکومتوں کی ساری بِنا یہی ہے اُن کا ہی مُنہ ہے تکتا ہر کام میں جو چاہے گویا وہ بادشاہ ہیں اُن کا گدا یہی ہے القصّہ آریوں کے ویدوں کا یہ خدا ہے اُن کا ہے جس پہ تکیہ وہ بے نوا یہی ہے اے آریو کہو اب ایشر کے ہیں یہی گُن جس پر ہو ناز کرتے بولو وہ کیا یہی ہے؟ ویدوں کو شرم کر کے تم نے بہت چھپایا آخر کو راز بستہ اس کا کُھلا یہی ہے قدرت نہیں ہے جس میں وہ خاک ہے ایشر کیا دینِ حق کے آگے زور آزما یہی ہے کچھ کم نہیں بتوں سے یہ ہندوؤں کا ایشر سچ پوچھئے تو واللہ بُت دوسرا یہی ہے ہم نے نہیں بنائیں یہ اپنے دل سے باتیں ویدوں سے اے عزیزو ہم کو مِلا یہی ہے فطرت ہر اِک بشر کی کرتی ہے اِس سے نفرت پھر آریوں کے دِل میں کیونکر بسا یہی ہے یہ حکم وید کے ہیں جن کا ہے یہ نمونہ ویدوں سے آریوں کو حاصل ہوا یہی ہے خوش خوش عمل ہیں کرتے اوباش سارے اِس پر سارے نیوگیوں کا اِک آسرا یہی3 ہے پھر کس طرح وہ مانیں تعلیم پاک فرقاں اُن کے تو دل کا رہبرا اور مقتدا یہی ہے جب ہوگئے ہیں ملزم اُترے ہیں گالیوں پر ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگِ جفا یہی ہے رُکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے ایک دم بھی اِن کا تو شغل و پیشہ صبہ و مسا یہی ہے کہنے کو وید والے پر دل ہیں سب کے کالے پر وہ اُٹھا کے دیکھو اُن میں بھرا 4یہی ہے فطرت کے ہیں درندے مُردار ہیں نہ زندے ہر دم زباں کے گندے قہرِ خدا یہی5 ہے دینِ خدا کے آگے کچھ بَن نہ آئی آخر سب گالیوں پہ اُترے دل میں اُٹھا یہی ہے شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں اُن کی ہرگز وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا یہی ہے ہم نے ہے جس کومانا قادر ہے وہ توانا اُس نے ہے کچھ دکھانا اُس سے رجا یہی ہے اُن سے دو چار ہونا عزّت ہے اپنی کھونا اُن سے ملاپ کرنا راہِ ریا یہی ہے بس اے مرے پیارو! عقبٰی کو مت بسارو اِس دیں کو پاؤ یارو بدر الدّجٰی یہی ہے مَیں ہوں ستم رسیدہ اُن سے جو ہیں رمیدہ شاید ہے آبِ دیدہ واقفِ بڑا یہی ہے مَیں دِل کی کیا سُناؤں کس کو یہ غم بتاؤں دُکھ درد کے ہیں جھگڑے مجھ پر بلا یہی ہے دیں کے غموں نے مارا اَب دل ہے پارہ پارہ دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا یہی ہے ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے ہو ہم سے اُس یار کی نظر میں شرطِ وفا یہی ہے برباد جائیں گے ہم گروہ نہ پائیں گے ہم رونے سے لائیں گے ہم دل میں رجا یہی ہے وہ دن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں کر کے باتیں اَب موت کی ہیں گھاتیں غم کی کتھا یہی ہے جلد آپیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے شکرِ خدائے رحماں جس نے دیا ہے قرآں غنچے تھے سارے پہلے اب گُل کھلا یہی ہے کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف اُس کا گہنا دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوابیں خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ ہدیٰ یہی ہے اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس سے پایا راتیں تھیں جتنی گزریں اَب دن چڑھا یہی ہے اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی بُلائے سوتے ہوئے جگائے بس حق نما یہی ہے پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن خوبی و دِلبری میں سب سے سوا یہی ہے یوسف تو سُن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے اِسلام کے محاسن کےونکر بیاں کروں میں سب خشک باغ دیکھے پھولا پھلا یہی ہے ہر جاز میں کے کیڑے دیں کے ہوئے ہیں دشمن اسلام پر خدا سے آج ابتلا یہی ہے تھم جاتے ہیں کچھ آنسو یہ دیکھ کر کہ ہر سو اِس غم سے صادقوں کا آہ وبکا یہی ہے سب مشرکوں کے سر پر یہ دیں ہے ایک خنجر یہ شرک سے چھڑاوے اُن کو اذیٰ یہی ہے کیوں ہوگئے ہیں اس کے دشمن یہ سارے گمراہ وہ رہنما ئے رازِ چون و چرا یہی ہے دیں غار میں چُھپا ہے اِک شور کفر کا ہے اب تم دُعائیں کر لو غارِ حرا یہی ہے وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے پہلوں سے حوب تر ہے خوبی میں اِک قمر ہے اُس پر ہر ایک نظر ہے بدرالدّجٰی یہی ہے پہلے تو رہ میں ہارے پار اِس نے ہیں اُتارے مَیں جاؤں اِس کے وارے بس ناخدا یہی ہے پَردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے دِل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے وہ یارِ لامکانی۔ وہ دلبرِ نہانی دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما یہی ہے وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاجِ مرسلیں ہے وہ طیّب وامیں ہے اُس کی ثنا یہی ہے حق سے جو حکم آئے اُس نے وہ کر دکھائے جو راز تھے بتائے نعم العطا یہی ہے آنکھ اُس کی دُوربیں ہے دِل یار سے قریں ہے ہاتھوں میں شمع دیں عین الضیا یہی ہے جو راز دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ لقا یہی ہے ہم تھے دِلوں کے اندھے سَو سَو دِلوں پہ پھندے پھر کھولے جس نے جندے6 وہ مجتبٰی یہی ہے اے میرے رب رحماں تیرے ہی ہیں یہ احساں مشکل ہو تجھ سے آساں ہر دم رجا یہی ہے اے میرے یارجانی خود کر تو مہربانی! ورنہ بلائے دنیا اِک اژدھا یہی ہے دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گِرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے مُنہ مت چُھپا پیارے میری دوا یہی ہے کہتے ہیں جوش اُلفت یکساں نہیں ہے رہتا دِل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا یہی ہے ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دلبر جیتا ہوں اِس ہوس سے میری غذا یہی ہے دنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا معشوق ہے تُو میرا عشقِ صفا یہی ہے مشتِ غبار اپنا تیرے لئے اُڑایا جب سے سُنا کہ شرطِ مہر و وفا یہی ہے دلبر کا درد آیا حرفِ خودی مٹایا جب مَیں مرا، جلِایا، جامِ بقا یہی ہے اِس عشق میں مصائب سَو سَو ہیں ہر قدم میں پر کیا کروں کہ اُس نے مجھ کو دیا یہی ہے حرفِ وفا نہ چھوڑوں اِس عہد کو نہ توڑوں اُس دلبرِ ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے جب سے ملا وہ دلبر دشمن ہیں میرے گھر گھر دِل ہوگئے ہیں پتھر قدر و قضا یہی ہے مجھ کو ہیں وہ ڈراتے پھر پھر کے درپہ آتے تیغ و تبر دکھاتے ہر سُو ہوا یہی ہے دلبر کی رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے ہشیار ساری دنیا اِک باؤلا یہی ہے اِس راہ میں اپنے قصّے تم کو مَیں کیا سُناؤں دُکھ درد کے ہیں جھگڑے سب ماجرا یہی ہے دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں اِک نظارہ دےوانہ مت کہو تم عقلِ رسا یہی ہے اے میرے یارجانی کر خود ہی مہربانی مت کہہ کہ لَن تَرَانِیْ تجھ سے رجا یہی ہے فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جانکنی ہے عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا یہی ہے تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے عیب دُوری طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بَلا یہی ہے تجھ میں وفا ہے پیارے سچے ہیں عہد سارے ہم جا پڑے کنارے جائے بُکا یہی ہے ہم نے نہ عہد پالا یاری میں رخنہ ڈالا پر تُو ہے فضل والا ہم پر کُھلا یہی ہے اے میرے دل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں گزا یہی ہے اِک دیں کی آفتوں کا غم کھا گیا ہے مجھ کو سینہ پہ دشمنوں کے پتّھر پڑا یہی ہے کیونکر تبہ وہ ہووے کیونکر فنا وہ ہووے ظالم جو حق کا دشمن وہ سوچتا یہی ہے ایسا زمانہ آیا جس نے غضب ہے ڈھایا جو پیستی ہے دیں کو وہ آسیا یہی ہے شادابی و لطافت اِس دیں کی کیا کہوں مَیں سب خشک ہوگئے ہیں پُھولا پَھلا یہی ہے آنکھیں ہر ایک دیں کی بے نُور ہم نے پائیں سُرمہ سے معرفت کے اِک سرمہ سا یہی ہے لعلِ یمن بھی دیکھے دُرِّ عدن بھی دیکھے سب جوہروں کو دیکھا دل میں جچا یہی ہے انکار کر کے اِس سے پچھتاؤگے بہت تم بنتا ہے جس سے سونا وہ کیمیا یہی ہے پر آریوں کی آنکھیں اندھی ہوئیں ہیں ایسی وہ گالیوں پہ اُترے دل میں پڑا یہی ہے بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزبان ہے جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے گوہیں بہت درندے انسان کے پوستےں میں پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے کِس دیں پہ ناز اُن کو جو وید7کے ہیں حامی مذہب جو پھل سے خالی وہ کھوکھلا یہی ہے اے آریو یہ کیا ہے کیوں دل بگڑ گیا ہے اِن شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا یہی ہے مجھ کو ہو کیوں ستاتے سَو افترا بناتے بہتر تھا باز آتے دُور از بلا یہی ہے جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے اِس دیں کی شان و شوکت یارب مجھے دکھادے سب جھوٹے دیں مٹاوے میری دُعا یہی ہے کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
1۔ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ 2۔اس جگہ وید کے لفظ سے وہ تعلیم مراد ہے جو آریہ سماج والوں نے اپنے زعم میں ویدوں کے حوالہ سے شائع کی ہے۔ ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم وید کی اصل حقیقت کو خدا کے حوالہ کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے اس میں کیا بڑھایا اور کیا گھٹایا جبکہ ہندوستان اور پنجاب میں وید کی پَیروی کا دعویٰ کرنے والے صدہا مذہب ہیں تو ہم کسی خاص فرقہ کی غلطی کو وید پر کیونکر تھوپ سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وید بھی محرف ہو چکا ہے۔ پس بوجہ تحریف اس سے کسی بہتری کی امید بھی لاحاصل ہے۔ منہ
3۔ یاد رہے کہ وید کی تعلیم سے مراد ہماری اس جگہ وہ تعلیمیں اور وہ اصول ہیں جن کو آریہ لوگ اس جگہ ظاہرکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیوگ کی تعلیم وید میں موجود ہےاور بقول ان کے وید بلند آواز سے کہتا ہے کہ جس کے گھر میں کوئی اولاد نہ ہو یا صرف لڑکیاں ہوں تو اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اجازت دے کہ وہ دوسرے سے ہم بستر ہو اور اس طرح اپنی نجات کے لئے لڑکا حاصل کرےاور گیارہ لڑکے حاصل کرنے تک یہ تعلق قائم رہ سکتا ہے اور اگر اس کا خاوند کہیں سفر میں گیا ہوتو خود اس کی بیوی نیوگ کی نیّت سے کسی دوسرے آدمی سے آشنائی کا تعلق پیدا کر سکتی ہے تا اس طریق سے اولاد حاصل کرلے اور پھر خاوند کے سفر سے واپس آنے پر یہ تحفہ اس کے آگے پیش کرے اور اُس کو دکھاوے کہ تُو تو مال حاصل کرنے گیا تھا مگر مَیں نے تیرے پیچھے یہ مال کمایا ہے۔ پس عقل اور انسانی غیرت تجویز نہیں کر سکتی کہ یہ بے شرمی کا طریق جائز ہو سکے اور کیونکر جائز ہو حالانکہ اس بیوی نے اپنے خاوند سے طلاق حاصل نہیں کی اور اس کی قیدِ نکاح سے اس کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ افسوس بلکہ ہزار افسوس کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آریہ لوگ وید کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ درحقیقت یہی تعلیم وید کی ہے ۔ ممکن ہے کہ ہندوؤں کے بعض جوگی جو مجرّد رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفسانی جذبات ان کو مغلوب کرلیتے ہیں۔انہوں نے یہ باتیں خود بنا کر وید کی طرف منسوب کردی ہوں یا تحریف کے طور پر وید میں شامل کر دی ہوں۔ کیونکہ محقق پنڈتوں نے لکھا ہے کہ ایک زمانہ وید پر وہ بھی آیا ہے کہ ان میں بڑی تحریف کی گئی ہے اور اس کے بہت سے پاک مسائل بدلادیئے گئے ہیں۔ ورنہ عقل قبول نہیں کرتی کہ وید نے ایسی تعلیم دی ہواور نہ کوئی فطرت صحیحہ قبول کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی پاک دامن بیوی کو بغیر اس کے کہ اُس کو طلاق دے کر شرعی طور پر اُس سے قطع تعلق کرے یونہی اولاد حاصل کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے اس کو دوسرے سے ہمبستر کراوے کیونکہ یہ تو دیوثوں کا کام ہے۔ ہاں اگر کسی عورت نے طلاق حاصل کرلی ہو اور خاوند سے کوئی اس کا تعلق نہ رہا ہو تو اس صورت میں ایسی عور ت کو جائز ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ اس کی پاک دامنی پر کوئی حرف۔ ورنہ ہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ نیوگ کا نتیجہ اچھا نہیں ہے ۔
جس صورت میں آریہ سماج کے لوگ ایک طرف تو عورتوں کے پردہ کے مخالف ہیں کہ یہ مسلمانوں کی رسم ہے۔ پھر دوسری طرف جبکہ ہر روز نیوگ کا پاک مسئلہ ان عورتوں کے کانوں تک پہنچتا رہتا ہے اور ان عورتوں کے دلوں میں جما ہوا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے بھی ہمبستر ہو سکتی ہیں تو ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی باتوں کے سُننے سے خاص کر جب کہ ویدوں کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہیں کس قدرناپاک شہوات عورتوں کی جوش ماریں گی بلکہ وہ تو دس قدم اور بھی آگے بڑھیں گی اور جبکہ پردہ کا پُل بھی ٹوٹ گیا تو ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ان ناپاک شہوتوں کا سیلاب کہاں تک خانہ خرابی کرے گا۔ چنانچہ جگن ناتھ اور بنارس اور کئی جگہ میں اس کے نمونے بھی موجود ہیں۔ کاش! اس قوم میں کوئی سمجھدار پیدا ہو۔ اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ مکتی حاصل کرنے کے لئے اولاد کی ضرورت کیوں ہے۔ کیا ایسے لوگ جیسے پنڈت دیانند تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ کوئی اولاد ہوئی مکتی سے محروم ہیں؟ اور ایسی مکتی پر تو لعنت بھیجنا چاہئے کہ اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر کراکر اور ایسا فعل اس سے کراکر جو عام دنیا کی نظر میں زنا کی صورت میں ہی حاصل ہو سکتی ہے اور بجز اس ناپاک فعل کے اور کوئی ذریعہ اُس کی مکتی کا نہیں۔ اور یہ بھی ہم سمجھ نہیں سکتے کہ جو ہزاروں طاقتیں اور قوتیں اور خاصیتیں روحوں اور ذرّات اجسام میں ہیں وہ سب قدیم سے خودبخود ہیں۔ پرمیشر سے وہ حاصل نہیں ہوئیں۔پھر ایسا پرمیشر کس کام کا ہے اور اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ اور کیا وجہ کہ اس کو پرمیشر کہاجائے؟ اور کامل اطاعت کا وہ کیونکر مستحق ہے جبکہ اس کی پرورش کامل نہیں اور جن طاقتوں کو اُس نے آپ نہیں بنایا اُن کا علم اس کو کیونکر ہے اور جبکہ وہ ایک رُوح کے پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا تو کن معنوں سے اُس کو سرب شکتی مان کہا جاتا ہے جبکہ اُس کی شکتی صرف جوڑنے تک ہی محدود ہے۔ میرا دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ یہ ناپاک تعلیمیں ویدمیں ہرگز نہیں ہیں۔ پرمیشر تو تبھی پرمیشر رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک فیض کا وہی مبدء ہو۔ بیدانت والوں نے بھی اگرچہ غلطیاں کیں مگر تھوڑی سی اصلاح سے ان کا مذہب قابلِ اعتراض نہیں رہتا مگر دیانند کا مذہب تو سراسر گندہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دیانند نے ان جھوٹے فلسفیوں اور منطقیوں کی پیروی کی ہے جن کو وید سے کچھ بھی تعلق نہ تھا بلکہ وید کے درپردہ پکّے دشمن تھے۔ اِسی وجہ سے اس کے مذہب میں پرمیشر کی وہ تعظیم نہیں جو ہونی چاہئے۔ اور نہ پاک دل جوگیوں کی طرح پرمیشر سے ملنے کے لئے مجاہدات کی تعلیم ہے۔ صرف تعصّب اور خدا کے پاک نبیوں کو کینہ اور گالیاں دینا ہی یہ شخص بدنصیب اپنے چیلوں کو سکھا گیا ہے بلکہ یوں کہوکہ ایک زہر کا پیالہ پلا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا سب اعتراض دیانند کے فرضی ویدوں پر ہے نہ خدا کی کسی کتاب پر۔ واللہ اعلم ۔ منہ
4۔۔ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ 5۔یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اُن آریہ سماج والوں کی نسبت ہے جنہوں نے اپنے اشتہاروں اور رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ سے اپنی گندی طبیعت کا ثبوت دے دیا ہے اور ہزارہا گالیاں خدا کے پاک نبیوں کو دی ہیں۔ جن کی اخبار اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں مگر شریف طبع لوگ اس جگہ ہماری مراد نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے طریق کو پسند کرتے ہیں۔ منہ 6۔جندے سے مراد اس جگہ قفل ہے۔ چونکہ اس جگہ کوئی شاعری دکھلانا منظور نہیں اورنہ میں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں اس لئے بعض جگہ مَیں نے پنجابی الفاظ استعمال کئے ہیں اور ہمیں صرف اردو سے کچھ غرض نہیں اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے۔ شاعری سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ منہ 7۔یاد رہے کہ وید پر ہمارا کوئی حملہ نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کی تفسیر میں کیاکیا تصرف کئے گئے آریہ ورت کے صدہا مذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور باہم اُن کا سخت اختلاف ہے۔ پس ہم اس جگہ وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں۔ منہ نوٹ:۔ ایڈیشن اول میں یہ حاشیہ تو موجود ہے لیکن اس شعرکی نشان دہی نہیں کی گئی جس پر یہ حاشیہ ہے۔ ہم نے مضمون کو دیکھ کر یہ نشان لگایا ہے۔ (ناشر)
قادیان کے آریہ اور ہم مطبوعہ 1907ء آریوں سے خطاب عزیزو! دوستو! بھائیو! سنو بات خدا بخشے تمہیں عالی خیالات ہمیں کچھ کِیں نہیں تم سے پیارو نہ کِیں کی بات ہے تم خود بچارو اگر کھینچے کوئی کینے کی تلوار تو اس سے کب ملے بچھڑا ہوا یار غرض پَند و نصیحت ہے نہ کچھ اور خدا کے واسطے تم خود کرو غور کہ گر ایشر نہیں رکھتا یہ طاقت کہ اک جاں بھی کرے پیدا بقدرت توپھر اُس پر خدائی کا گماں کیا وگر قدرت بھی پھر وہ ناتواں کیا کہاں کرتی ہے عقل اس کو گوارا کہ بِن قدرت ہوا یہ جَگت سارا وگر تم خالِق اس کو مانتے ہو تو پھر اب ناتواں کیوں جانتے ہو بھلا تم خود کہو انصاف سے صاف کہ ایشر کے یہی لائق ہیں اوصاف کہ کر سکتا نہیں اِک جاں کو پیدا نہ اِک ذرّہ ہوا اس سے ہَوَیدا نہ اُن بن چل سکے اس کی خدائی نہ اُن بِن کر سکے زور آزمائی نظر سے اس کے ہوں مَحجوب و َمکتوم نہ ہو تعداد تک بھی اس کو معلوم معاذَ اللہ! یہ سب باطِل گماں ہے وہ خود ایشر نہیں جو ناتواں ہے اگر بھولے رہے اس سے کوئی جاں تو پھر ہو جاوے اس کا ملک ویراں پیارو! یہ روا ہر گز نہیں ہے خدا وہ ہے جو ربّ العالمیں ہے یہ ایسی بات منہ سے مت نکالو خطا کرتے ہو ہوش اپنے سنبھالو اگر ہر ذرّہ اُس بِن خود عیاں ہو تو ہر ذرے کا وہ مالک کہاں ہو اگر خالق نہیں روحوں کی وہ ذات تو پھر کاہے کی ہے قادر وہ ہیہات خدا پر عجز و نقصاں کب روا ہے اگر ہے دیں یہی پھر کُفر کیا ہے؟ اگر اُس بِن بھی ہو سکتی ہیں اشیاء تو پھر اُس ذات کی حاجت رہی کیا؟ اگر سب شئے نہیں اُس نے بنائی تو بس پھر ہو چکی اُس سے خدائی اگر اُس میں بنانے کا نہیں زور تو پھر اتنا خدائی کا ہے کیوں شور وہ نا کامِل خدا ہو گا کہاں سے کہ عاجز ہو بنانے جسم و جاں سے ذرا سوچو کہ وہ کیسا خدا ہے کہ جس سے جَگت روحوں کا جدا ہے سَدا رہتا ہے اُن روحوں کا محتاج اُنہیں سب کے سہارے پر کرے راج جسے حاجت رہے غیروں کی دن رات بھلا اُس کو خدا کہنا ہی کیا بات جب اُس نے اُن کی گنتی بھی نہ جانی کہاں مَن مَن کا ہو انتر گیانی اگر آگے کو پیدائش ہے سب بند تو پھر سوچو ذرا ہو کے خِرد مند کہ جس دم پا گئی مُکتی ہر اک جاں تو پھر کیا رہ گیا ایشر کا ساماں کہاں سے لائے گا وہ دوسری روح کہ تا قدرت کا ہو پھر باب مفتوح غرض جب سب نے اس مُکتی کو پایا تو ایشر کی ہوئی سب خَتم مایا تناسخ اُڑ گیا آئی قیامت کرو کچھ فکر اب حضرت سلامت عزیزو کچھ نہیں اس بات میں جاں اگر کچھ ہے تو دکھلاؤ بہ میداں بہت ہم نے بھی اس میں زور مارا خَیالستاں کو جانچا ہے سارا مگر ملتی نہیں کوئی بھی بُرہاں بھلا سچ کس طرح ہو جائے بُہتاں نہ ہو گا کوئی ایسا مت زمیں پر کہ یہ باتیں کہے جاں آفریں پر دعا کرتے رہو ہر دم پیارو ہدایت کے لیے حق کو پکارو دعا کرنا عجب نعمت ہے پیارے دعا سے آ لگے کشتی کنارے اگر اس نخل کو طالِب لگائے تو اک دن ہو رہے برتھا نہ جائے ہمارا کام تھا وعظ و منادی سو ہم سب کر چکے واللہ ہادی الراقم مرزا غلام احمد رئیس قادیان الثامن من الشہر المبارک المحرم بارکہ اللہ لجمیع المومنین 1295ہجری المقدس علی صاحبہ الصلوٰۃ و السلام (منشور محمدی بنگلور 1875مطابق 15ربیع الثانی 1295ء) (الحکم جلد 7 ۔28مئی 1942ء و الفضل 18جنوری 1963ء) غیرتِ اسلامی کو اپیل کیوں نہیں لوگو۔ تمھیں حق کا خیال دل میں اُٹھتا ہے مرے سَو سَو اُبال اس قدر کِین و تعصُّب بڑھ گیا جس سے کچھ ایماں جو تھا وہ سڑ گیا کیا یہی تقوٰی یہی اسلام تھا جس کے باعث سے تمہارا نام تھا حقیقۃ الوحی صفحہ119مطبوعہ 1907ء توبہ سے عذاب ٹل جاتا ہے کیا تضرُّع اور توبہ سے نہیں ٹلتا عذاب کس کی یہ تعلیم ہے دکھلاؤ تم مجھ کو شِتاب اے عزیزو! اس قدر کیوں ہو گئے تم بے حیا کلمہ گو ہو کچھ تو لازِم ہے تمہیں خوفِ خدا تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ119مطبوعہ 1907ء اللہ تعالیٰ کو خاکساری پسند ہے الٰہی بخش کے کیسے تھے تیر کہ آخر ہو گیا ان کا وہ نخچیر اسی پر اس کی لعنت کی پڑی مار کوئی ہم کو تو سمجھاوے یہ اسرار تکبر سے نہیں ملتا وہ دلدار ملے جو خاک سے اس کو ملے یار کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے پسند آتی ہے اس کو خاکساری تذلل ہی رہِ درگاہِ باری عجب ناداں ہے وہ مغرور و گمراہ کہ اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ115مطبوعہ 1907ء اِتمامِ حجت نشاں کودیکھ کر انکار کب تک پیش جائے گا ارے اک اور جھوٹوں پر قیامت آنے والی ہے یہ کیا عادت ہے کیوں سچی گواہی کو چھپاتا ہے تری اک روز اے گستاخ شامت آنے والی ہے ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے بہت بڑھ کے باتیں کی ہیں تُو نے اور چھپایا حق مگر یہ یاد رکھ اک دن ندامت آنے والی ہے خدا رسوا کرے گا تم کو۔ میں اعزاز پاؤں گا سنو اے منکرو اب یہ کرامت آنے والی ہے خدا ظاہر کرے گا اک نشاں پُر رعب و پُر ہیبت دلوں میں اس نشاں سے استقامت آنے والی ہے خدا کے پاک بندے دوسروں پر ہوتے ہیں غالب مری خاطر خدا سے یہ علامت آنے والی ہے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ157مطبوعہ 1907ء اِنذاروتبشیر پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ کے آنے کے دن زلزلہ کیا ہے اِس جہاں سے کُوچ کر جانے کے دن تُم تو ہو آرام میں ۔پر اپنا قصہ کیا کہیں پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے سخت گھبرانے کے دن کیوں غضب بھڑکا؟ خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو! ہو گئے ہیں اس کا موجب میرے جھٹلانے کے دن غیر کیا جانے کہ غیرت اُس کی کیا دکھلائے گی خود بتائے گا انھیں وہ یار بتلانے کے دن وہ چمک دکھلائے گا اپنے نشان کی پنج بار یہ خدا کا قول ہے سمجھو گے سمجھانے کے دن طالبو! تم کو مبارک ہو کہ اب نزدیک ہیں اُس مرے محبوب کے چہرہ کے دکھلانے کے دن وہ گھڑی آتی ہے جب عیسٰی پکاریں گے مجھے اب تو تھوڑے رہ گئے دجال کہلانے کے دن اے مِرے پیارے! یہی میری دعا ہے روز و شب گود میں تیری ہوں ہم اُس خونِ دِل کھانے کے دن کرمِ خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں فضل کا پانی پلا اس آگ برسانے کے دن اے مرے یارِ یگانہ اے مری جاں کی پناہ کر وُہ دِن اپنے کرم سے دیں کے پھیلانے کے دن پھر بہارِ دیں کو دِکھلا اے مرے پیارے قدیر کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن دن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے اے مِرے سُورج دِکھا اس دیں کے چمکانے کے دن دل گھٹا جاتا ہے ہر دم جاں بھی ہے زیر و زبر اک نظر فرما کہ جلد آئیں ترے آنے کے دن چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجئے غم سے رہا کب تلک لمبے چلے جائیں گے ترسانے کے دن کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے کیا مِرے دلدار تُو آئے گا مَر جانے کے دن ڈوبنے کو ہے یہ کشتی۔ آ مِرے اے ناخُدا آگئے اس باغ پر اے یار مُرجھانے کے دن تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو ورنہ دیں میّت ہے اور یہ دن ہیں دفنانے کے دن اِک نشاں دکھلا کہ اب دِیں ہو گیا ہے بے نشاں دل چلا ہے ہاتھ سے لا جلد ٹھہرانے کے دن میرے دل کی آگ نے آخر دکھایا کچھ اثر آ گئے ہیں اب زمیں پر آگ بھڑکانے کے دن جب سے میرے ہوش غم سے دیں کے ہیں جاتے رہے طور دنیا کے بھی بدلے ایسے دیوانے کے دن چاند اور سورج نے دکھلائے ہیں دو داغِ کسوف پھر زمیں بھی ہو گئی بے تاب تھرّانے کے دن کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا لرزہ آیا اس زمیں پر اس کے چِلّانے کے دن صبر کی طاقت جو تھی مجھ میں وہ پیارے اب نہیں میرے دلبر اب دِکھا اِس دل کے بہلانے کے دن دوستو اُس یار نے دیں کی مصیبت دیکھ لی آئیں گے اِس باغ کے اب جلد لہرانے کے دن اک بڑی مدت سے دِیں کو کُفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر درپیش ہے پر یہی ہیں دوستو اُس یار کے پانے کے دن دیں کی نصرت کے لئے اک آسماں پر شور ہے اب گیا وقتِ خزاں آئے ہیں پھل لانے کے دن چھوڑ دو وہ راگ جس کو آسماں گاتا نہیں اب تو ہیں اے دل کے اندھو! دیں کے گُن گانے کے دن خدمتِ دیں کا تو کھو بیٹھے ہو بُغض و کیں سے وقت اب نہ جائیں ہاتھ سے لوگو! یہ پچھتانے کے دن خاتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ آخرمطبوعہ 1907ء
ایک دفعہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ اُن کے بھائی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد(مرحوم)ان سے ناراض ہوگئے ہیں اور کسی طرح راضی نہیں ہورہے۔حضور نے جو اس وقت ایک کتاب تصنیف فرما رہے تھے مندرجہ ذیل اشعار لکھ کر دیے جو حضرت نواب مبارکہ بیگم نے صاحبزادہ صاحب کے سامنے پڑھ دیے تو وہ خوش ہوگئے۔(روایت حکیم دین محمد صاحب رجسٹر روایات جلد13صفحہ62)
مبارک کو میں نے ستایا نہیں کبھی میرے دل میں یہ آیا نہیں میں بھائی کو کیونکر ستا سکتی ہوں وہ کیا میری امّاں کا جایا نہیں الٰہی خطا کر دے میری معاف کہ تجھ بِن تو ربّ البرایا نہیں! الفضل 7 جولائی 1943ء لوحِ1 مزار میرزا مبارک احمد جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خُو تھا وہ آج ہم جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر کہا کہ ''آئی ہے نیند مجھ کو'' یہی تھا آخر کا قول لیکن کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اُسے بلایا بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فِدا کر ( نوشتہ ماہ ستمبر 1907ء) ''جامبارک تجھے فردوس مبارک ہووے2''
1۔"میں جو غلام احمد نام خدا کا مسیح ہوں ۔مبارک ؔاحمد جس کا اوپر ذکر ہے۔میرا لڑکا تھا۔وہ بتاریخ 07شعبان1325ھ مطابق 16ستمبر1907ء بروز دوشنبہ بوقت نمازِصبح وفات پا کر الہامی پیشگوئی کے موافق اپنے خدا کو جا ملا۔کیونکہ خدا نے میری زبان پر اس کی نسبت فرمایا تھا کہ وہ خدا کے ہاتھ سے دنیا میں آیا اور چھوٹی عمر میں ہی خدا کی طرف واپس جائے گا ۔منہ"
2۔خطبات محمود جلد اول صفحہ 83، خطبہ عید الفطر فرمودہ حضرت مصلح موعود مورخہ 06مئی 1924ءقادیان محاسنِ قرآن کریم ہے شکر ربِّ عزّوجل خارج از بیان جس کی کلام سے ہمیں اُس کا ملا نشاں وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں اُس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہوگیا وہ اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہوگیا اُس نے درختِ دل کو معارف کا پھل دیا ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا اُس سے خدا کا چہرہ نموار ہوگیا شیطاں کا مکرو وسوسہ بیکار ہوگیا وہ رہ ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے وہ رہ جو دل کو پاک و مطہرّ بناتی ہے وہ رہ جو یارگم شدہ کو کھینچ لاتی ہے وہ راہ جو جامِ پاک یقیں کا پلاتی ہے وہ رہ جو اُس کے ہونے پہ محکم دلیل ہے وہ رہ جو اُس کے پانے کی کامل سبیل ہے اُس نے ہر ایک کو وہی رستہ دکھا دیا جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا افسردگی جو سینوں میں تھی دُور ہوگئی ظلمت جو تھی دلوں میں وہ سب نور ہوگئی جو دَور تھا خزاں کا وہ بدلا بہار سے چلنے لگی نسیم عنایات یار سے جاڑے کی رُت ظہور سے اُسکے پلٹ گئی عشقِ خدا کی آگ ہر ایک دل میں اٹ گئی جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے موجوں سے اُس کی پردے وساوس کے پھٹ گئے جو کُفر اور فسق کے ٹیلے تھے کٹ گئے قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اُس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے جو لوگ شک کی سردیوں سے تھرتھراتے ہیں اس آفتاب سے وہ عجب دُھوپ پاتے ہیں دنیا میں جس قدر ہے مذاہب کا شور و شر سب قصہ گو ہیں نور نہیں ایک ذرّہ بھر پر یہ کلام نورِ خدا کو دکھاتا ہے اسکی طرف نشانوں کے جلوہ سے لاتا ہے جس دیں کا صرف قصوّں پہ سارا مدار ہے وہ دیں نہیں ہے ایک فسانہ گزار ہے سچ پوچھئے تو قصوں کا کیا اعتبار ہے قصوں میں جھوٹ اور خطا بے شمار ہے ہے دیں وہی کہ صرف وہ اک قصہ گو نہیں زندہ نشانوں سے ہے دکھاتا رہِ یقیں ہے دیں وہی کہ جس کا خدا آپ ہوعیاں خود اپنی قدرتوں سے دکھاوے کہ ہے کہاں جو معجزات سنتے ہو قصوں کے رنگ میں اُنکو تو پیش کرتے ہیں سب بحث و جنگ میں جتنے ہیں فرقے سب کا یہی کاروبارہے قصوّں میں معجزوں کا بیاں بار بار ہے پر اپنے دیں کا کچھ بھی دکھاتے نہیں نشاں گویا وہ ربِّ ارض و سما اب ہے ناتواں گویا اب اُس میں طاقت و قدرت نہیں رہی وہ سلطنت وہ زور وہ شوکت نہیں رہی یا یہ کہ اب خدا میں وہ رحمت نہیں رہی نیّت بدل گئی ہے وہ شفقت نہیں رہی ایسا گماں خطا ہے کہ وہ ذات پاک ہے ایسے گماں کی نوبت آخر ہلاک ہے سچ ہے یہی کہ ایسے مذاہب ہی مرگئے اَب اُن میں کچھ نہیں ہے کہ جاں سے گذر گئے پابند ایسے دنیوں کے دنیا پرست ہیں غافل ہیں ذوقِ یار سے دنیا میں مست ہیں مقصود اُن کا جینے سے دنیا کمانا ہے مومن نہیں ہیں وہ کہ قدم فاسقانہ ہے تم دیکھتے ہو کیسے دلوں پر ہیں اُن کے زنگ دنیا ہی ہوگئی ہے غرض دین سے آئے تنگ وہ دیں ہی چیز کیا ہے کہ جو رہنما نہیں ایسا خدا ہے اُس کا کہ گویا خدا نہیں پھر اُس سے سچی راہ کی عظمت ہی کیا رہی اور خاص وجہ صفوتِ ملّت ہی کیا رہی نُور خدا کی اُس میں علامت ہی کیارہی توحید خشک رہ گئی نعمت ہی کیا رہی لوگو ! سنو! کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں جس میں ہمیشہ عادتِ قدرت نما نہیں مُردہ پرست ہیں وہ جو قصہ پرست ہیں پس اس لئے وہ موردِ ذِل و شکست ہیں بن دیکھے دل کو دوستو !پڑتی نہیں ہے کل قصوں سے کیسے پاک ہو یہ نفس پرخلل کچھ کم نہیں یہودیوں میں یہ کہانیاں پر دیکھو کیسے ہوگئے شیطاں سے ہم عناں ہر دم نشانِ تازہ کا محتاج ہے بشر قصوں کے معجزات کا ہوتا ہے کب اثر کیونکر ملے فسانوں سے وہ دلبر ازل گر اِک نشاں ہو ملتا ہے سب زندگی کا پھل قصوں کا یہ اثر ہے کہ دل پر فساد ہے ایماں زباں پہ سینہ میں حق سے عناد ہے دُنیا کی حرص و آز میں یہ دل ہیں مرگئے غفلت میں ساری عمر بسر اپنی کر گئے اے سونے والو !جاگو کہ وقتِ بہار ہے اب دیکھو آکے درپہ ہمارے وہ یار ہے کیا زندگی کا ذوق اگر وہ نہیں ملا لعنت ہے ایسے جینے پہ گر اُس سے ہیں جدا اُس رُخ کو دیکھنا ہی تو ہے اصل مدّعا جنّت بھی ہے یہی کہ مل یارِ آشنا اَے حُبِّ جاہ والو یہ رہنے کی جا نہیں اِس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں دیکھو تو جاکے اُن کے مقابر کو اِک نظر سوچو کہ اب سلف ہیں تمہارے گئے کدھر اِک دن وہی مقام تمہارا مقام ہے اِک دن یہ صبح زندگی کی تم پہ شام ہے اِک دن تمہارا لوگ جنازہ اُٹھائیں گے پھر دفن کرکے گھر میں تاسف سے آئیں گے اے لوگو! عیشِ دنیا کو ہرگز وفا نہیں کیا تم کو خوفِ مرگ و خیال فنا نہیں سوچو کہ باپ دادے تمہارے کدھر گئے کس نے بلا لیا وہ سبھی کیوں گذر گئے وہ دن بھی ایک دن تمہیں یارو نصیب ہے خوش مت رہو کہ کوچ کی نوبت قریب ہے ڈھونڈو وہ راہ جس سے دل و سینہ پاک ہو نفس دنی خدا کی اطاعت میں خاک ہو ملتی نہیں عزیزو! فقط قصوّں سے یہ راہ وہ روشنی نشانوں سے آتی ہے گاہ گاہ وہ لغو دیں ہے جس میں فقط قصہ جات ہیں اُن سے رہیں الگ جو سعید الصفات ہیں صد حیف اِس زمانہ میں قصوں پہ ہے مدار قصوں پہ سارا دیں کی سچائی کا انحصار پر نقدِ معجزات کا کچھ بھی نشاں نہیں پس یہ خدائے قصہ خدائے جہاں نہیں دنیا کو ایسے قصوں نے یکسر تبہ کیا مُشرک بناکے کُفر دیا روسیہ کیا جس کو تلاش ہے کہ ملے اُس کو کردگار اُس کیلئے حرام جو قصّوں پہ ہو نثار اُس کا تو فرض ہے کہ وہ ڈھونڈے خدا کا نور تا ہووے شک و شبہ سبھی اُسکے دِل سے دُور تا اُس کے دل پہ نور یقیں کانزول ہو تا وہ جنابِ عزّوجل میں قبول ہو قِصّوں سے پاک ہونا کبھی کیا مجال ہے سچ جانو یہ طریق سراسر محال ہے قِصّوں سے کب نجات ملے ہے گناہ سے ممکن نہیں وصالِ خدا ایسی راہ سے مُردہ سے کب اُمید کہ وہ زندہ کرسکے اُس سے تو خود محال کہ رہ بھی گذرسکے وہ رہ جو ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے وہ رہ جو دل کو پاک و مطہّر بناتی ہے وہ راہ جو یارِ گم شدہ کو ڈھونڈلاتی ہے وہ رہ جو جامِ پاک یقین کا پلاتی ہے وہ تازہ قدرتیں جو خدا پر دلیل ہیں وہ زندہ طاقتیں جو یقیں کی سبیل ہیں ظاہر ہے یہ کہ قصوں میں اُن کا اثر نہیں افسانہ گو کو راہِ خدا کی خبر نہیں اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی نشاں سے ہے سچ ہے کہ سب ثبوت خدائی نشاں سے ہے کوئی بنائے ہم کو کہ غیروں میں یہ کہاں قصوں کی چاشنی میں حلاوت کا کیا نشاں یہ ایسے مذہبوں میں کہاں ہے دکھایئے ورنہ گزاف قصوں پہ ہرگز نہ جایئے جب سے کہ قصےّ ہوگئے مقصود راہ میں آگے قدم ہے قوم کا ہردم گناہ میں تم دیکھتے ہو قوم میں عِفّت نہیں رہی وہ صدق وہ صفا وہ طہارت نہیں رہی مومن کے جو نشاں ہیں وہ حالت نہیں رہی اُس یار بے نشاں کی محبت نہیں رہی اِک سیل چل رہا ہے گناہوں کا زور سے سنتے نہیں ہیں کچھ بھی معاصی کے شور سے کیوں بڑھ گئے زمیں پہ بُرے کام اسقدر کیوں ہوگئے عزیزو! یہ سب لوگ کور وکر کیوں اب تمہارے دل میں وہ صدق و صفا نہیں کیوں اسقدر ہے فسق کہ خوف و حیا نہیں کیوں زندگی کی چال سبھی فاسقانہ ہے کچھ اِک نظر کرو کہ یہ کیسا زمانہ ہے اِس کا سبب یہی ہے کہ غفلت ہی چھاگئی دُنیائے دُوں کی دل میں محبت سما گئی تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہوگئے جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہوگئے ہر دم کے خبث و فسق سے دل پر چڑے حجاب آنکھوں سے اُن کی چھپ گیا ایماں کا آفتاب جس کو خدائے عزوجل پر یقیں نہیں اُس بدنصیب شخص کا کوئی بھی دیں نہیں پر وہ سعید جوکہ نشانوں کو پاتے ہیں وہ اُس سے مل کے دل کو اُسی سے ملاتے ہیں وہ اُس کے ہوگئے ہیں اُسی سے وہ جیتے ہیں ہر دم اُسی کے ہاتھ سے اِک جام پیتے ہیں جس مے کو پی لیا ہے وہ اُس مے سے مست ہیں سب دشمن اُن کے اُن کے مقابل میں پست ہیں جس مے کو پی لیا ہے وہ اُس مے سے مست ہیں سب دشمن اُن کے اُن کے مقابل پر پست ہیں کچھ ایسے مست ہیں وہ رُخ خوبِ یار سے ڈرتے کبھی نہیں ہیں وہ دشمن کے وار سے اُن سے خدا کے کام سبھی معجزانہ ہیں یہ اس لئے کہ عاشقِ یار یگانہ ہیں اُنکو خدانے غیروں سے بخشی ہے امتیاز اُن کیلئے نشاں کو دکھاتا ہے کارساز جس دشمنوں کے ہاتھ سے وہ تنگ آتے ہیں جب بدشعار لوگ اُنہیں کچھ ستاتے ہیں جب اُن کے مارنے کیلئے چال چلتے ہیں جب اُس سے جنگ کرنے کو باہر نکلتے ہیں تب وہ خدائے پاک نشاں کو دکھاتا ہے غیروں پہ اپنا رُعب نشاں سے جماتا ہے کہتا ہے "یہ تو بندہ ءعالی جناب ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے" اُس ذات پاک سے جو کوئی دل لگاتا ہے آخر وہ اُس کے رحم کو ایسا ہی پاتا ہے جن کو نشانِ حضرت باری ہوا نصیب وہ اُس جناب پاک سے ہردم ہوئے قریب کھینچے گئے کچھ ایسے کہ دنیا سے سو گئے کچھ ایسا نور دیکھا کہ اُس کے ہی ہوگئے بن دیکھے کیسے پاک ہو انساں گناہ سے اِس چاہ سے نکلتے ہیں لوگ اُس کی چاہ سے تصویر شیر سے نہ ڈرے کوئی گو سپند نے مارِ مُردہ سے ہے کچھ اندیشہء گزند پھر وہ خدا جو مُردہ کی مانند ہے پڑا پس کیا امید ایسے سے اور خوف اُس سے کیا ایسے خدا کے خوف سے دل کیسے پاک ہو سینہ میں اُسکے عشق سے کیونکر تپاک ہو بن دیکھے کس طرح کسی مہ رُخ پہ آئے دل کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حُسن و جمالِ یار کے آثار ہی سہی جب تک خدائے زندہ کی تم کو خبر نہیں بے قید اور دلیر ہو کچھ دل میں ڈر نہیں سوروگ کی دوا یہی وصلِ الٰہی ہے اِس قید میں ہر ایک گناہ سے رہائی ہے پر جس خدا کے ہونے کا کچھ بھی نہیں نشاں کیونکر نثار ایسے پہ ہو جائے کوئی جاں ہر چیز میں خدا کی ضیاء کا ظہور ہے پر پھر بھی غافلوں سے وہ دلدار دُور ہے جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما عاشق جو ہیں وہ یار کو مرمرکے پاتے ہیں جب مرگئے تو اُسکی طرف کھینچے جاتے ہیں یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے دلب کی مرنے والوں پہ ہردم نگاہ ہے ناپاک زندگی ہے جو دوری میں کٹ گئی دیوار زہد خشک کی آخر کوپھٹ گئی زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں مقبول بن کے اُس کے عزیزو حبیب ہیں وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں ہر دم اسیرِ نخوت و کبرو غرور ہیں تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو کبرو غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اُس یاد کیلئے رہ عشرت کو چھوڑ دو لعنت کی ہے یہ راہ سو لعنت کو چھوڑ دو ورنہ خیالِ حضرتِ عزّت کو چھوڑ دو تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تاتم پہ ہو ملائکہ ءعرش کا نزول اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کیلئے فنا ترکِ رضائے خویش پئے مرضیء خدا جو مرگئے اُنہی کے نصیبوں میں ہے حیات اِس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجزممات شوخی و کبر دیو لعلیں کا شعار ہے آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے اے کرمِ خاک !چھوڑ دے کبروغرور کو زیبا ہے کبر حضرتِ ربِّ غیور کو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی ءمولیٰ اِسی میں ہے تقویٰ کی جڑ خدا کے لئے خاکساری ہے عفّت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے اِک دم میں اُس علیم کو بیزار کرتی ہے اِک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں پھر شوخیوں کا بیج ہر اک وقت بوتے ہیں کچھ ایسے سوگئے ہیں ہمارے یہ ہم وطن اُٹھتے نہیں ہیں ہم نے تو سوسوکئے جتن سب عضو سست ہوگئے غفلت ہی چھاگئی قوت تمام نوکِ زباں میں ہی آگئی یا بدزباں دکھاتے ہیں یا ہیں وہ بدگماں باقی خبر نہیں ہے کہ اسلام ہے کہاں تم دیکھ کر بھی بدکو بچوں بدگمان سے ڈرتے رہو عقابِ خدائے جہان سے شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ بد نہ ہو ۔جو تمھیں ہے وہ بدنما شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو شاید وہ آزمائشِ ربّ غفور ہو پھر تم تو بدگمانی سے اپنی ہوئے ہلاک خود سرپہ اپنے لے لیا خشم خدائے پاک گر ایسے تم دلیریوں میں بے حیا ہوئے پھر اِتّقا کے سوچو کہ معنے ہی کیا ہوئے موسیٰ بھی بدگمانی سے شرمندہ ہوگیا قرآن میں خضر نے جو کیا تھا پڑھو ذرا بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار پس تم تو ایک بات کے کہنے سے مرگئے یہ کیسی عقل تھی کہ براہِ خطر گئے بدبخت تر تمام جہاں سے وہی ہوا جو ایک بات کہہ کے ہی دوزخ میں جاگرا پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے ڈرتے رہو عقوبت ربّ العباد سے "دو عفو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا وہ اِک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا" یہ ہے حدیث سیدنا سید الوریٰ پر وہ جو مجھ کو کاذب و مکارّ کہتے ہیں اور مفتری و کافر و بدکار کہتے ہیں اُن کیلئے تو بس ہے خدا کا یہی نشاں یعنی وہ فضل اُس کے جو مجھ پر ہیں ہرزماں دیکھو !خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا گمنام پاکے شہرہ ءعالم بنا دیا جو کچھ میری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا میں اِک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی جو اُس نے مجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی ایسے بدوں سے اُس کے ہوں ایسے معاملات کیا یہ نہیں کرامت و عادت سے بڑھ کے بات جو مفتری ہے اُس سے یہ کیوں اتحاد ہے کس کو نظیر ایسی عنایت کی یاد ہے مجھ پر ہر اک نے وار کیا اپنے رنگ میں آخر ذلیل ہوگئے انجام جنگ میں اِن کینوں میں کسی کو بھی ارماں نہیں رہا سب کی مراد تھی کہ میں دیکھوں رہِ فنا تھے چاہتے کہ مجھ کو دکھائیں عدم کی راہ یا حاکموں سے پھانسی دلا کر، کریں تباہ یا کم سے کم یہ ہو کہ میں زنداں میں جاپڑوں یا یہ کہ ذلتوں سے میں ہو جاؤں سرنگوں یا مخبری سے ان کی کوئی اور ہی بلا آجائے مجھ پہ یا کوئی مقبول ہو دُعا پس ایسے ہی ارادوں سے کرکے مقدمات چاہا گیا کہ دن مرا ہوجائے مجھ پہ رات کوشش بھی وہ ہوئی کہ جہاں میں نہ ہو کبھی پھر اتفاق وہ کہ پہ وہ سب نیک ہوگئے مجھ کو ہلاک کرنے کو سب ایک ہوگئے سمجھا گیا میں بد،پہ وہ سب نیک ہوگئے آخر کو وہ خدا جو کریم و قدیر ہے جو عالم القلوب و علیم و خبیر ہے اُترا مری مدد کے لئے کرکے عہد یار پس رہ گئے وہ سارے سیہ رُو و نامراد کچھ ایسا فضل حضرتِ ربّ الوریٰ ہوا سب دشمنوں کے دیکھ کے اوساں ہوئے خطا اِک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اُسی نے ثریاّ بنا دیا میں تھا غریب و بیکس و گمنام بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اِس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا اِک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا پر پھر بھی جن کی آنکھ تعصب سے بند ہے اُن کی نظر میں حال مراناپسند ہے میں مفتری ہوں اُن کی نگاہ و خیال میں دنیا کی خیر ہے مری موت وزوال میں لعنت ہے مفتری پہ خدا کی کتاب میں عزّت نہیں ہے ذرّہ بھی اُس کی جناب میں توریت میں بھی نیز کلام مجید میں لکھا گیا ہے رنگِ وعیدِ شدید میں کوئی اگر خدا پہ کرے کچھ بھی افترا ہوگا وہ قتل ہے یہی اس جرم کی سزا پھر یہ عجیب غفلت ربِّ قدیر ہے دیکھے ہے ایک کو کہ وہ ایسا شریر ہے پچیس سال سے ہے وہ مشغولِ افترا ہر دن ہر ایک رات یہی کام ہے رہا ہر روز اپنے دل سے بناتا ہے ایک بات کہتا ہے "یہ خدا نے کہا مجھ کو آج رات" پھر بھی وہ ایسے شوخ کو دیتا نہیں سزا گویا نہیں ہے یاد جو پہلے سے کہہ چکا پھر یہ عجیب تر ہے کہ جب حامیانِ دیں ایسے کے قتل کرنے کو فاعل ہوں یامعیں کرتا نہیں ہے اُن کی مدد وقتِ انتظام تا مفتری کے قتل سے قصہ ہی ہو تمام اپنا تو اُس کا وعدہ رہا سارا طاق پر اوروں کی سعی و جہد پہ بھی کچھ نہیں نظر کیاوہ خدا نہیں ہے جو فرقاں کا ہے خدا پھر کیوں وہ مفتری سے کرے اس قدر وفا آخر یہ بات کیا ہے کہ ہے ایک مفتری کرتا ہے ہر مقام میں اُس کو خدا بری جب دشمن اُس کوپیچ میں کوشش سے لاتے ہیں کوشش بھی اسقدر کہ وہ بس مر ہی جاتے ہیں اِک اتفاق کرکے وہ باتیں بناتے ہیں سو جھوٹ اور فریب کی تہمت لگاتے ہیں پھر بھی وہ نامراد مقاصد میں رہتے ہیں جاتا ہے بے اثر وہ جو سو بار کہتے ہیں ذلّت ہیں چاہتے یہاں اِکرام ہوتا ہے کیا مفتری کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے اے قوم کے سرآمدہ !اے حامیانِ دیں! سوچو کہ کیوں خدا تمہیں دیتا مدد نہیں تم میں نہ رحم ہے نہ عدالت نہ اتقا پس اس سبب سے ساتھ تمہارے نہیں خدا ہوگا تمہیں کلارک کا بھی وقت خوب یاد جب مجھ پہ کی تھی تہمت خوں ازرہِ فساد جب آپ لوگ اُس سے ملے تھے بدیں خیال تا آپ کی مدد سے اُسے سہل ہو جدال پروہ خدا جو عاجز و مسکیں کا ہے خدا حاکم کے دل کو میری طرف اُس نے کردیا تم نے تو مجھ کو قتل کرانے کی ٹھانی تھی یہ بات اپنے دل میں بہت سہل جانی تھی تھے چاہتے صلیب پہ یہ شخص کھینچا جائے تاتم کو ایک فخر سے یہ بات ہاتھ آئے "جھوٹا تھا مفتری تھا تبھی یہ ملی سزا" آخر مری مدد کیلئے خود اُٹھا خدا ڈگلس پہ سارا حال بریت کا کھل گیا عزت کے ساتھ تب میں وہاں سے بری ہوا الزام مجھ پہ قتل کا تھا سخت تھا یہ کام تھا ایک پادری کی طرف سے یہ اتہام جتنے گواہ تھے وہ تھے سب میرے برخلاف اِک مولوی بھی تھا جو یہی مارتا تھا لاف دیکھو یہ شخص اب تو سزا اپنی پائے گا اب بن سزائے سخت یہ بچ کر نہ جائے گا اتنی شہادتیں ہیں کہ اب کھل گیا قصور اب قیدیا صلیب ہے اک بات ہے ضرور بعضوں کو بددُعا میں بھی تھا ایک انہماک اِتنی دُعا کہ گھس گئی سجدے میں اُن کی ناک القصہ جہد کی نہ رہی کچھ بھی انتہا اِک سو تھا مکر ایک طرف سجدہ و دُعا آخر خدا نے دی مجھے اِس آگ سے نجات دُشمن تھے جتنے اُن کی طرف کی نہ اتفات کیسا یہ فضل اُس سے نمودار ہوگیا اِک مفتری کا وہ بھی مددگار ہوگیا اُس کا تو فرض تھا کہ وہ وعدہ کو کرکے یاد خود مارتا وہ گردن کذاّب بدنہاد گر اُس سے رہ گیا تھا کہ وہ خود دکھائے ہاتھ اتنا تو سہل تھا کہ تمہارا بٹائے ہاتھ یہ بات کیا ہوئی کہ وہ تم سے الگ رہا کچھ بھی مدد نہ کی نہ سنی کوئی بھی دُعا جو مفتری تھا اُس کو تو آزاد کردیا سب کام اپنی قوم کا برباد کردیا سب جدوجہد وسعی اکارت چلی گئی کوشش تھی جسقدر وہ بغارت چلی گئی کیا "راستی کی فتح" نہیں وعدہ خدا دیکھو تو کھول کر سخنِ پاک کبریا پھر کیوں یہ بات میری ہی نسبت پلٹ گئی یا خود تمہاری چادرِ تقویٰ ہی پھٹ گئی کیا یہ عجب نہیں ہے کہ جب تم ہی یار ہو پھر میرے فائدہ کا ہی سب کاروبار ہو پھر یہ نہیں کہ ہوگئی ہے صرف ایک بات پاتا ہوں ہر قدم میں خدا کے تفضلات دیکھو وہ بھیں کا شخص کرم دیں ہے جس کا نام لڑنے میں جس نے نیند بھی اپنے پہ کی حرام جس کی مدد کے واسطے لوگوں میں جوش تھا جس کا ہر ایک دشمن حق عیب پوش تھا جس کا رفیق ہوگیا ہر ظالم و غوی جس کی مدد کے واسطے آئے تھے مولوی اُن میں سے ایسے تھے کہ جو بڑھ بڑھ کے آتے تھے اپنا بیاں لکھانے میں کرتب دکھاتے تھے ہشیاری مستغیث بھی اپنی دکھاتا تھا سو سو خلاف واقعہ باتیں بناتا تھا پر اپنے بدعمل کی سزا کو وہ پاگیا ساتھ اُس کے یہ کہ نام بھی کاذب رکھا گیا کذاّب نام اس کادفاتر میں رہ گیا چالاکیوں کا فخر جو رکھتا تھا بہ گیا اے ہوش و عقل والو! یہ عبرت کا ہے مقام چالاکیاں تو ہیچ ہیں تقویٰ سے ہوویں کام جو متقی ہے اُس کا خدا خود نصیر ہے انجام فاسقوں کا عذاب سعیر ہے جڑ ہے ہر ایک خیروسعادت کی اتقا جس کی یہ جڑ رہی ہے عمل اُس کا سب رہا مومن ہی فتح پاتے ہیں انجام کار میں ایسا ہی پاؤگے سخن کردگار میں کوئی بھی مفتری ہمیں دنیا میں اب دکھا جس پر یہ فضل ہو یہ عنایات یہ عطا اِس بدعمل کی قتل سزا ہے نہ یہ کہ پیت پس کس طرح خدا کو پسند آگئی یہ ریت کیا تھا یہی معاملہ پاداشِ افترا کیا مفتری کے بارے میں وعدہ یہی ہوا کیوں ایک مفتری کا وہ ایسا ہے آشنا یا بے خبر ہے عیب سے دھوکے میں آگیا آخر کوئی تو بات ہے جس سے ہوا وہ یار بدکار سے تو کوئی بھی کرتا نہیں ہے پیار تم بدبنا کے پھر بھی گرفتار ہوگئے یہ بھی تو ہیں نشاں جو نمودار ہوگئے تاہم وہ دوسرے بھی نشاں ہیں ہمارے پاس لکھتے ہیں اب خدا کی عنایت سے بے ہراس جس دل میں رچ گیا ہے محبت سے اُس کا نام وہ خود نشاں ہے نیز نشاں سارے اس کے کام کیا کیا نہ ہم نے نام رکھائے زمانہ سے مُردوں سے نیز فرقہ ء ناداں زنانہ سے اُس کے گمان میں ہم بدوبدحال ہوگئے اُن کی نظر میں کافر و دجاّل ہوگئے ہم مفتری بھی بن گئے اُن کی نگاہ میں بے دیں ہوئے فساد کیا حق کی راہ میں پر ایسے کفر پر تو خدا ہے ہماری جاں جس سے ملے خدائے جہان و جہانیاں لعنت ہے ایسے دیں پہ کہ اس کفر سے ہے کم سو شکر ہے کہ ہوگئے غالب کے یار ہم ہوتا ہے کردگار اسی راہ سے دستگیر کیاجانے قدر اس کا جو قصوں میں ہے اسیر وحی خدا اِسی رہِ فرخ سے پاتے ہیں دلبر کا بانکپن بھی اسی سے دکھاتے ہیں اے مدعی نہیں ہے تیرے ساتھ کردگا یہ کُفر تیرے دیں سے ہے بہتر ہزار بار براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ11نصرۃ الحق مطبوعہ 1908ء مُناجات اور تبلیغِ حق اے خدا اے کارساز وعیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار بدگمانوں سے بچایا مجھ کو خود بن کر گواہ کردیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعتِ قرب وجوار کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار یہ سراسر فضل وا حساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمتگذار دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے میرے حاجت برار اے مرے یار یگانہ اے مرے جاں کی پنہ بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار میں تو مرکر خاک ہوتا گرنہ ہوتا تیرا لطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار اے فدا ہو تیری راہ میں میراجسم و جان و دل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثلِ طفل شیر خوار نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہوکر پاگیا درگہ میں بار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم جن کا مشکل ہے کہ تاروزِ قیامت ہوشمار آسماں میرے لئے تو نے بنایا اِک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کیلئے تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار ہوگئے بیکار سب حیلے جب آئی وہ بلا ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثلِ غبار سرزمین ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی جیسے ہووے برق کا اک دم میں ہرجا انتشار پھر دوبارہ ہے اُتارا تو نے آدم کو یہاں تا وہ نخلِ راستی اس ملک میں لاوے ثمار لوگ سو بک بک کریں پر تیرے مقصد اور ہیں تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں راز دار ہاتھ میں تیرے ہے ہر خسران و نفع و عسرویسر تو ہی کرتا ہے کسی کو بےنوا یا بختیار جس کو چاہے تختِ شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو جس کو چاہے تخت سے نیچے گراوے کر کے خوار میں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشاں جس کو تو نے کردیا ہے قوم ودیں کا افتخار فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم برقرار عزت و ذلّت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کردیا کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار تیرے اے میرے مربی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار ابتداء سے گوشہ ءخلوت رہا مجھ کو پسند شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا کون ہوں تاردّ کروں حکم شہ ذی الاقتدار اب تو جو فرماں ملا اُس کا ادا کرنا ہے کام گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتوان و دل فگار دعوتِ ہر ہرزہ گو کچھ خدمتِ آساں نہیں ہر قدم میں کوہِ ماراں ہرگزر میں دشتِ خار چرخ تک پہنچے ہیں میرے نعرہ ہائے روز و شب پر نہیں پہنچی دلوں تک جاہلوں کے یہ پکار قبضہ ء تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا پھیردے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار گر کرے معجز نمائی ایک دم میں نرم ہو وہ دل سنگین جو ہووے مثلِ سنگ کو ہسار ہاے میری قوم نے تکذیب کرکے کیا لیا زلزلوں سے ہوگئے صدہا مساکن مثلِ غار شرط تقویٰ تھی کہ وہ کرتے نظر اس وقت پر شرط یہ بھی تھی کہ کرتے صبر کچھ دن اور قرار کیا وہ سارے مرحلے طے کرچکے تھے علم کے کیا نہ تھی آنکھوں کے آگے کوئی رہ تاریک و تار دل میں جو ارماں تھے وہ دل میں ہمارے رہ گئے دشمن جاں بن گئے جن پر نظر تھی باربار ایسے کچھ بگڑے کہ اب بنتا نظر آتا نہیں آہ کیا سمجھے تھے ہم اور کیا ہوا ہے آشکار کس کے آگے ہم کہیں اس دردِ دل کا ماجرا اُن کو ہے ملنے سے نفرت بات سننا درکنار کیا کروں کیونکر کروں میں اپنی جاں زیرو زبر کس طرح میری طرف دیکھیں جو رکھتے ہیں نقار اِس قدر ظاہر ہوئے ہیں فضل حق سے معجزات دیکھنے سے جن کے شیطاں بھی ہوا ہے دل فگار پر نہیں اکثر مخالف لوگوں کو شرم و حیا دیکھ کر سو سو نشاں پھر بھی ہے تو ہیں کاروبار صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار دن چڑھا ہے دشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرّہ مرا پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شورہے خاک میں ہوگا یہ سرگر تو نہ آیا بن کے یار فضل کے ہاتھوں سے اب اِس وقت کر میری مدد کشتی اسلام تا ہو جائے اس طوفاں سے پار میرے سقم و عیب سے اب کیجئے قطع نظر تا نہ خوش ہو دشمن دیں جس پہ ہے لعنت کی مار میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں میری فریادوں کو سن میں ہوگیا زار و نزاد دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعفِ دینِ مصطفےٰ مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار کیا سلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مراد یہ تو تیرے پر نہیں امید اے میرے حصار یا الٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے چھا رہا ہے ابر یاس اور رات ہے تاریک و تار ایک عالم مرگیا ہے تیرے پانی کے بغیر پھیر دے اب میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار اب نہیں ہیں ہوش اپنے ان مصائب میں بجا رحم کر بندوں پہ اپنے تا وہ ہوویں رستگار کس طرح نپٹیں کوئی تدبیر کچھ بنتی نہیں بے طرح پھیلی ہیں یہ آفات ہر سو ہر کنار ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرے اے ناخدا آگیا اس قوم پر وقتِ خزاں اندر بہار نورِ دل جاتا رہا اور عقل موٹی ہوگئی اپنی کجرائی پہ ہردل کر رہا ہے اعتبار جس کو ہم نے قطرہء صافی تھا سمجھا اور تقی غور سے دیکھا تو کیڑے اُس میں بھی پائے ہزار دوربین معرفت سے گند نکلا ہر طرف اس وبا نے کھالئے ہر شاخِ ایماں کے ثمار اے خدا بن تیرے ہو یہ آبپاشی کس طرح جل گیا ہے باغ تقویٰ دیں کی ہے اب اک مزار تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو ورنہ فتنہ کا قدم بڑھتا ہے ہر دم سیل وار اِک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہوگیاہے بے نشاں اِک نظر کر اس طرف تا کچھ نظر آوے بہار کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سوگئے کس قدر ہے حق سے نفرت اور ناحق سے پیار عقل پر پردے پڑے سوسو نشاں کو دیکھ کر نور سے ہوکر الگ چاہا کہ ہوویں اہلِ نار گرنہ ہوتی بدگمانی کفر بھی ہوتا فنا اُس کا ہووے ستیاناس اِس سے بگڑے ہوشیار بدگمانی سے تورائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ پرکےاک ریشہ سے ہوجاتی ہے کووں کی قطار حد سے کیوں بڑھتے ہو لوگو کچھ کرو خوفِ خدا کیا نہیں تم دیکھتے نصرت خدا کی بار بار کیا خدا نے اتقیاء کی عون و نصرت چھوڑ دی ایک فاسق اور کافر ہے وہ کیوں کرتا ہے پیار ایک بد کردار کی تائید میں اتنے نشاں کیوں دکھاتا ہے وہ کیا ہے بدکنوں کا رشتہ دار کیا بدلتا ہے وہ اب اس سنت و قانون کو جس کا تھا پابند وہ از ابتدائے روزگار آنکھ گر پھوٹی تو کیا کانوں میں بھی کچھ پڑ گیا کیا خدا دھوکے میں ہے اور تم ہو میرے راز دار جس کے دعویٰ کی سراسر افتراء پر ہے بنا اُس کی تائید ہو پھر جھوٹ سچ میں کیا نکھار کیا خدا بھولا رہا تم کو حقیقت مل گئی کیا رہا وہ بے خبر اور تم نے دیکھا حال زار بدگمانی نے تمہیں مجنون و اندھا کردیا ورنہ تھے میری صداقت پر برا ہیں بیشمار جہل کی تاریکیاں اور سوء ظن کی تند باد جب اکٹھے ہوں تو پھر ایماں اُڑے جیسے غبار زہر کے پینے سے کیا انجام جز موت وفنا بدگمانی زہر ہے اس سے بچو اے دیں شعار کانٹے اپنی راہ میں بوتے ہیں ایسے بدگمان جن کی عادت میں نہیں شرم و شکیب و اصطبار یہ غلط کاری بشر کی بدنصیبی کی ہے جڑ پر مقدر کو بدل دینا ہے کس کے اختیار سخت جاں ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں دل قوی رکھتے ہیں ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبہء زار ونزار ہے سرِرہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم پس نہ بیٹھو میری رہ میں اے شریرانِ دیار سنت اللہ ہے کہ وہ خود فرق کو دکھلائے ہے تا عیاں ہو کون پاک اور کون ہے مردار خوار مجھ کو پردے میں نظرآتا ہے اِک میرا معین تیغ کو کھینچے ہوئے اُسپر کہ جو کرتا ہے وار دشمن غافل اگر دیکھے وہ بازو وہ سلاح ہوش ہو جائیں خطا اور بھول جائے سب نقار اس جہاں کا کیا کوئی داور نہیں اور داد گر پھر شریر النفس ظالم کو کہاں جائے فرار کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہوکر مسیح خود مسیحائی کادم بھرتی ہے یہ بادِ بہار آسماں پر دعوتِ حق کیلئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ ءتوحید پراز جاں نثار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اُس کا انتظار ہر طرف ہر ملک میں ہے بت پرستی کا زوال کچھ نہیں انساں پرستی کو کوئی عزو وقار آسماں سے ہے چلی توحیدِ خالق کی ہوا دل ہمارے ساتھ ہیں گو منہ کریں بک بک ہزار اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح نیز بشنو از زمیں آمد امامِ کامگار آسماں بارد نشان الوقت می گوید زمیں ایں دو شاہداز پئے من نعرہ زن چوں بیقرار اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار اے مکذّب کوئی اس تکذیب کا ہے انتہا کب تلک تو خوئے شیطاں کو کرے گا اختیار ملّت احمد کی مالک نے جو ڈالی تھی بِنا آج پوری ہو رہی ہے اے عزیزانِ دیار گلشنِ احمد بنا ہے مسکنِ بادِ صبا جس کی تحریکوں سے سنتا ہے بشر گفتارِ یار ورنہ وہ ملّت وہ رہ وہ رسم وہ دیں چیز کیا سایہ افگن جس پہ نور حق نہیں خورشید وار دیکھ کر لوگوں کے کینے دل مرا خوں ہو گیا قصد کرتے ہیں کہ ہو پامال درِّ شاہوار ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف وہ بلاتے ہیں کہ ہو جائیں نہاں ہم زیرِ غار نُورِ دل جاتا رہا اِک رسم دیں کی رَہ گئی پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلحِ دیں کیا بکار راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلافِ شہریار ہائے مارِ آستیں وہ بن گئے دیں کے لئے وہ تو فربہ ہو گئے پر دیں ہوا زار و نزار اِن غموں سے دوستو خم ہو گئی میری کمر میں تو مرجاتا اگر ہوتا نہ فضل کردگار اِس تپش کو میری وہ جانے کہ رکھتا ہے تپش اِس اَلَم کو میرے وہ سمجھے کہ ہے وہ دِلفگار کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا مہر و ماہ کی آنکھ غم سے ہوگئی تاریک و تار مفتری کہتے ہوئے ان کو حیا آتی نہیں کیسے عالِم ہیں کہ اُس عالَم سے ہیں یہ برکنار غیرکیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اِک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمدؐ جس پہ میرا سب مدار دشمنوں! ہم اس کی رہ میں مر رہے ہیں ہر گھڑی کیا کرو گے تم ہماری نیستی کا انتظار سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار کیا کروں تعریف حُسنِ یار کی اور کیا لکھوں اک ادا سے ہو گیا میں سیلِ نفسِ دوں سے پار اس قدر عرفاں بڑھا میرا کہ کافر ہو گیا آنکھ میں اس کی کہ ہے وہ دور تر از صحنِ یار اُس رُخِ روشن سے میری آنکھ بھی روشن ہوئی ہو گئے اسرار اس دلبر کے مجھ پر آشکار قوم کے لوگو! اِدھر آؤ کہ نکلا آفتاب وادئ ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار کیا تماشا ہے کہ میں کافر ہوں تم مومن ہوئے پھر بھی اس کافر کا حامی ہے وہ مقبولوں کا یار کیا اچنبھی بات ہے کافر کی کرتا ہے مدد وہ خدا جو چاہیئے تھا مومنوں کا دوستدار اہلِ تقویٰ تھا کرم دیں بھی تمہاری آنکھ میں جس نے ناحق ظلم کی رہ سے کیا تھا مجھ پہ وار بے معاون مَیں نہ تھا تھی نُصرتِ حق میرے ساتھ فتح کی دیتی تھی وحیِ حق بشارت بار بار پر مجھے اُس نے نہ دیکھا آنکھ اُس کی بند تھی پھر سزا پاکر لگایا سرمۂ دُنبالہ دار نام بھی کذّاب اس کا دفتروں میں رہ گیا اب مٹا سکتا نہیں یہ نام تا روزِ شمار اب کہو کس کی ہوئی نُصرت جنابِ پاک سے کیوں تمہارا متقی پکڑا گیا ہو کر کے خوار پھر اِدھر بھی کچھ نظر کرنا خدا کے خوف سے کیسے میرے یارنے مجھ کو بچایا باربار قتل کی ٹھانی شریروں نے چلائے تیر مکر بن گئے شیطاں کے چیلے اور نسلِ ہونہار پھر لگایا ناخنوں تک زور بن کر اک گروہ پر نہ آیا کوئی بھی منصوبہ اُن کو ساز وار ہم نگہ میں اُن کی دجاّل اور بے ایماں ہوئے آتش تکفیر کے اُڑتے رہے پیہم شرار اب ذرا سوچو دیانت سے کہ یہ کیا بات ہے ہاتھ کس کا ہے کہ ردّ کرتا ہے وہ دشمن کا وار کیوں نہیں تم سوچتے کیسے ہیں یہ پردے پڑے دل میں اُٹھتا ہے مرے رہ رہ کے اب سوسو بخار یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر ورنہ اُٹھ جائے اماں پھر سچے ہوویں شرمسار اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذاّب کی کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار آفتاب صبح نکلا اب بھی سوتے ہیں یہ لوگ دن سے ہیں بیزار اور راتوں سے وہ کرتے ہیں پیار روشنی سے بغض اور ظلمت پہ وہ قربان ہیں ایسے بھی شپر نہ ہونگے گرچہ تم ڈھونڈو ہزار سر پہ اک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند مرتے ہیں بن آب وہ اور درپہ نہرِ خوشگوار طرفہ کیفیت ہے اُن لوگوں کی جو منکرہوئے یوں تو ہر دم مشغلہ ہے گالیاں لیل و نہار پر اگر پوچھیں کہ ایسے کاذبوں کے نام لو جن کی نصرت سالہا سے کررہا ہو کردگار مردہ ہو جاتے ہیں اس کا کچھ نہیں دیتے جواب زرد ہو جاتا ہے منہ جیسے کوئی ہو سوگوار اُنکی قسمت میں نہیں دیں کے لئے کوئی گھڑی ہوگئے مفتونِ دنیا دیکھ کر اُس کا سنگار جی چرانا راستی سے کیا یہ دیں کا کام ہے کیا یہی ہے زہد و تقویٰ کیا یہی راہ خیار کیا قسم کھائی ہے یا کچھ پیچ قسمت میں پڑا روزِ روشن چھوڑ کر میں عاشقِ شب ہائے تار انبیاء کے طور پر حجت ہوئی اُن پر تمام اُنکے جو حملے ہیں اُن میں سب نبی ہیں حصہ دار میری نسبت جو کہیں کیں سے وہ سب پر آتا ہے چھوڑ دیں گے کیا وہ سب کو کفر کرکے اختیار مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر یہ تو ہے سب شکل اُن کی ہم تو ہیں آئینہ وار ساٹھ سے ہیں کچھ برس میرے زیادہ اس گھڑی سال ہے اب تیسواں دعویٰ پہ از روئے شمار تھا برس چالیس کا میں اس مسافر خانہ میں جبکہ مں نے وحی رباّنی سے پایا افتخار اس قدر یہ زندگی کیا افتراء میں کٹ گئی پھر عجب تر یہ کہ نصرت کے ہوئے جاری بحار ہر قدم میں میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں ہر عدو پر حجّتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار نعمتیں وہ دیں مرے مولیٰ نے اپنے فضل سے جن سے ہیں معنی اتممت علیکم آشکار سایہ بھی ہو جائے ہے اوقاتِ ظلمت میں جدا پر رہا وہ ہر اندھیرے میں رفیق و غمگسار اس قدر نصرت تو کاذب کی نہیں ہوتی کبھی گر نہیں باور نظریں اس کی تم لاؤ دو چار پھر اگر ناچار ہو اس سے کہ دو کوئی نظیر اُس مہمین سے ڈرو جو بادشاہ ہر دو وار یہ کہاں سے سن لیا تم نے کہ تم آزاد ہو کچھ نہیں تم پر عقوبت گو کرو عصیاں ہزار نعرہِء اِنَّا ظلمنا سنتِ ابرارہے زہر منہ کی مت دکھاؤ تم نہیں ہونسلِ مار جسم کومل مل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزدِ کردگار اپنے ایماں کو ذرا پردہ اُٹھاکردیکھنا مجھ کو کافر کہتے کہتے خودنہ ہوں از اہلِ نار گرحیا ہو سوچ کر دیکھیں کہ یہ کیاراز ہے وہ مری ذلّت کو چاہیں پارہا ہوں میں وقار کیا بگاڑا اپنے مکروں سے ہمارا آج تک اژدھا بن بن کے آئے ہوگئے پھر سوسمار اے فقیہو عالمو! مجھ کو سمجھ آتا نہیں یہ نشانِ صدق پاکر پھر یہ کیں اور یہ نقار صدق کو جب پایا اصحابِ رسول اللہ نے اُس پہ مال و جان و تن بڑھ بڑھ کے کرتے تھے نثار پھر عجب یہ علم یہ تنقید آثار وحدیث دیکھ کر سوسو نشاں پھر کررہے ہو تم فرار بحث کرنا تم سے کیا حاصل اگر تم میں نہیں رُوح انصاف و خدا ترسی کہ ہے دیں کامدار کیامجھے تم چھوڑتے ہو جاہِ دنیا کیلئے جاہِ دنیا کب تلک دُنیا ہے خود ناپائیدار کون درپردہ مجھے دیتا ہے ہر میداں میں فتح کون ہے جو تم کو ہر دم کررہا ہے شرمسار تم تو کہتے تھے کہ یہ نابود ہو جائے گا جلد یہ ہمارے ہاتھ کے نیچے ہے اِک ادنیٰ شکار بات پھر یہ کیا ہوئی کس نے مری تائید کی خائب و خاسر ر ہے تم ہوگیا میں کامگار اِک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیر غار کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر جوکہ اب پوری ہوئی بعد از مرورِ روزگار کھول کر دیکھو براہیں جوکہ ہے میری کتاب اُس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لو اُس کو ایک بار اب ذرا سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے اس قدر امرِ نہاں پر کس بشر کو اقتدار قدرتِ رحمان و مکر آدمی میں فرق ہے جو نہ سمجھے وہ غبی از فرق تاپا ہے حمار سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے راہِ حرماں چھوڑو ورحمت کے ہو امیدوار سوچ لو یہ ہاتھ کس کا تھا کہ میرے ساتھ تھا کس کے فرماں سے میں مقصد پاگیا اور تم ہو خوار یہ بھی کچھ ایماں ہے یارو ہم کو سمجھائے کوئی جس کا ہر میداں میں پھل حرماں ہے اور ذلت کی مار غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجاّل ہے میں تو خود رکھتا ہوں اُن کے دیں سے اور ایماں سے عار گریہی دیں ہے جو ہے اُن کی خصائل سے عیاں میں تو اِک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار جان و دل سے ہم نثارِ ملت اسلام ہیں لیک دیں وہ رہ نہیں جس پر چلیں اہلِ نقار واہ رے جوش جہالت خوب دکھلائے ہیں رنگ جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار نازمت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایماں نہیں اس کو ہیرامت گماں کر ہے یہ سنگِ کوہسار پیٹنا ہوگا دو ہاتھوں سے کہ ہے ہے مرگئے جبکہ ایماں کے تمہارے گند ہوں گے آشکار ہے یہ گھر گرنے پہ اے مغرور لے جلدی خبر تانہ دب جائیں ترے اہل و عیال و رشتہ دار یہ عجب بدقسمتی ہے کس قدر دعوت ہوئی پر اُترتا ہی نہیں ہے جامِ غفلت کا خمار ہوش میں آتے نہیں سو سو طرح کوشش ہوئی ایسے کچھ سوئے کہ پھر ہوتے نہیں ہیں ہوشیار دن برے آئے اکٹھے ہوگئے قحط و وبا اب تلک توبہ نہیں اب دیکھئے انجام کار ہے غضب کہتے ہیں اب وحی ء خدا مفقود ہے اب قیامت تک ہے اس اُمت کا قصوں پر مدار یہ عقیدہ برخلاف گفتہء دادار ہے پر اُتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار گوہر وحی خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر اک یہی دیں کیلئے ہے جائے عزو افتخار یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مشک تتار یہ ہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے درکھلیں یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں روئے نگار بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے بس یہی اِک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفان سے پار ہے یہی وحیء خدا عرفانِ مولیٰ کا نشان جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار واہ رے باغِ محبت موت جس کی رہ گذر وصلِ یار اس کا ثمر۔ پر ارد گرد اس کے ہیں خار ایسے دل پر داغ لعنت سے، ازل سے تا ابد جو نہیں اس کی طلب میں بیخود دیوانہ وار پر جو دنیا کے بنے کیڑے وہ کیا ڈھونڈیں اُسے دیں اُسے ملتا ہے جو دیں کے لئے ہو بےقرار ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار یاد وہ دن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں مہدیء موعود حق اب جلد ہوگا آشکار کون تھا جس کی تمنا یہ نہ تھی اک جوش سے کون تھا جس کو نہ تھا اُس آنے والے سے پیار پھر وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی سب سے اوّل ہوگئے منکر یہی دیں کے منار پھر دوبارہ آگئی احبار میں رسم یہود پھر مسیح وقت کے دشمن ہوئے یہ جبہ دار تھا نوشتوں میں یہی از ابتداء تا انتہا پھر مٹے کیونکر کہ ہے تقدیر نے نقش جدار میں تو آیا اس جہاں میں ابن مریم کی طرح میں نہیں مامور از بہر جہاد و کارزار پر اگر آتا کوئی جیسی انہیں امید تھی اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بے شمار ایسے مہدی کیلئے میداں کھلا تھا قوم میں پھر تو اس پر جمع ہوتے ایک دم میں صد ہزار پر یہ تھا رحم خداوندی کہ میں ظاہر ہوا آگ آتی گرنہ میں آتا تو پھر جاتا قرار آگ بھی پھر آگئی جب دیکھ کر اتنے نشاں قوم نے مجھ کو کہا کذاّب ہے اور بدشعار ہے یقیں یہ آگ کچھ مدت تلک جاتی نہیں ہاں مگر توبہ کریں با صد نیاز و انکسار یہ نہیں اِک اتفاقی امر تا ہوتا علاج ہے خدا کے حکم سے یہ سب تباہی اور تبار وہ خدا جس نے بنایا آدمی اور دیں دیا وہ نہیں راضی کہ بے دینی ہو ان کا کاروبار بے خدا بے زہد و تقویٰ بے دیانت بے صفا بن ہے یہ دنیائے دوں طاعوں کرے اُس میں شکار صید طاعوں مت بنو پورے بنو تم متقی یہ جو ایماں ہے زباں کا کچھ نہیں آتا بکار موت سے گر خود ہو بے ڈر کچھ کر و بچوں پہ رحم امن کی رہ پر چلو بن کو کرو مت اختیار بن کے رہنے والو تم ہرگز نہیں ہو آدمی کوئی ہے روبہ کوئی خنزیر اور کوئی ہے مار ان دلوں کو خود بدل دے اے مرے قادر خدا تو تو ربّ العالمین ہے اور سب کا شہریار تیرے آگے محو یا اثبات ناممکن نہیں جوڑنا یا توڑنا یہ کام تیرے اختیار ٹوٹے کاموں کو بنادے جب نگاہِ فضل ہو پھر بناکر توڑ دے اک دم میں کردے تارتار توہی بگڑی کو بناوے توڑدے جب بن چکا تیرے بھیدوں کو نہ پاوے سو کرے کوئی بچار جب کوئی دل ظلمت عصیاں میں ہووے مبتلا تیرے بن روشن نہ ہووے گو چڑھے سورج ہزار اس جہاں میں خواہش آزادگی بے سود ہے اِک تری قید محبت ہے جو کردے رستگار دل جو خالی ہو گداز عشق سے وہ دل ہے کیا دل وہ ہے جس کو نہیں بے دلبر یکتا قرار فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفی وجود پس کرو اس نفس کو زیرو زبر از بہرِ یار تلخ ہوتا ہے ثمر جب تک کہ ہو وہ ناتمام اس طرح ایماں بھی ہے جب تک نہ ہو کامل پیار تیر ےمنہ کی بھوک نے دل کو کیا زیروزبر اے مرے فردوسِ اعلیٰ اب گرا مجھ پر ثمار اے خدا اے چارہ ساز درد ہم کو خود بچا اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے ایسے جینے سے تو بہتر مرکے ہو جانا غبار گر نہ ہو تیری عنایت سب عبادت ہیچ ہے فضل پر تیرے ہے سب جہدوعمل کا انحصار جن پہ ہے تیری عنایت وہ بدی سے دور ہیں رہ میں حق کی قوتیں اُن کی چلیں بن کر قطار چھٹ گئے شیطاں سے جوتھے تیری اُلفت کے اسیر ہو ہووے تیرے لئے بے برگ وبر، پائی بہار سب پیاسوں سے نکوتر تیرے منہ کی ہے پیاس جس کا دل اس سے ہے بریاں پاگیا وہ آبشار جس کو تیری دھن لگی آخر وہ تجھ کو جاملا جس کو بے چینی ہے یہ وہ پاگیا آخر قرار عاشقی کی ہے علامت گریہ ودامانِ دشت کیا مبارک آنکھ جو تیرے لئے ہوا اشکبار تیری درگہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب شرط رہ پر صبر ہے اور ترک نامِ اضطرار میں تو تیرے حکم سے آیا مگر افسوس ہے چل رہی وہ ہوا جو رخنہ اندازِ بہار جیفہء دنیا پہ یکسر گر گئے دنیا کے لوگ زندگی کیاخاک اُن کی جوکہ ہیں مردار خوار دیں کو دے کر ہاتھ سے دنیا بھی آخر جاتی ہے کوئی آسودہ نہیں بن عاشق وشیدائے یار رنگ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار سو چڑھے سورج نہیں بن رُوئے دلبر روشنی یہ جہاں بے وصل دلبر ہے شب تاریک وتار اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اک بے نظیر جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کاکام نقد پالیتے ہیں وہ اور دوسرے امیدوار کون ہے جس کے عمل ہوں پاک بے انوارِ عشق کون کرتا ہے وفا بن اس کے جس کا دِل فگار غیر ہوکر غیر پر مرنا کسی کو کیا غرض کون دیوانہ بنے اس راہ میں لیل و نہار کون چھوڑے خواب شیریں کون چھوڑے اکل و شرب کون لے خار مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر خطر عشق ہے جو سرجھکاوے زیر تیغ آب دار پر ہزار افسوس دنیا کی طرف ہیں جھک گئے وہ جو کہتے تھے کہ ہے یہ خانہ ء ناپائیدار جس کو دیکھو آجکل وہ شوخیوں میں طاق ہے آہ رحلت کر گئے وہ سب جو تھے تقویٰ شعار منبروں پر اُنکے سارا گالیوں کا وعظ ہے مجلسوں میں اُن کی ہردم سب وغیب کاروبار جس طرف دیکھو یہی دُنیا ہی مقصد ہوگئی ہر طرف اس کےلئے رغبت دلائیں بار بار ایک کانٹا بھی اگر دیں کیلئے اُن کو لگے چیخ کر اس سے وہ بھاگیں شیر سے جیسے حمار ہر زماں شکوہ زباں پر ہے اگر ناکام ہیں دیں کی کچھ پروا نہیں دنیا کے غم میں سوگوار لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں میں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار اے میرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہو نیک دن ہوگا وہی جب تجھ پر ہوویں ہم نثار جس طرح تو دُور ہے لوگوں سے میں بھی دُور ہوں ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دل کا راز دار نیک ظن کرنا طریق صالحان قوم ہے لیک سو پردے میں ہوں اُن سے نہیں ہوں آشکار بے خبر دونوں ہیں جو کہتے ہیں بدیا نیک مرد میرے باطن کی نہیں ان کو خبر اک ذرّہ وار ابن مریم ہوں مگر اُترا نہیں میں چرخ سے نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بےکار زار ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا نے دیار تاج و تخت ہند قیصر کو مبارک ہو مدام اُنکی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہِ روزگار مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیاکریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار ملک روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر گو بہت دنیا میں گذرے ہیں امیر و تاجدار داغِ لغت ہے طلب کرنا زمیں کا عزّوجاہ جس کا جی چاہے کرے اس داغ سے وہ تن فگار کام کیاعزت سے ہم کو شہرتوں سے کیاغرض گروہ ذّلت سے ہو راضی اس پہ سو عزّت نثار ہم اُسی کے ہوگئے ہیں جو ہمارا ہوگیا چھوڑ کر دنیائے دوں کو ہم نے پایا وہ نگار دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرشِ ربّ العالمیں قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اُترا مجھ میں یار دوستی بھی ہے عجب جس سے ہوں آخر دو ستی آملی اُلفت سے اُلفت ہوکے دو دل پر سوار دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار کوئی رہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشتِ خار اس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائے گا زر بے شمار تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں تیر اندازو! نہ ہونا سست اس میں زینہار ہے یہی اک آگ تاتم کو بچاوے آگ سے ہے یہی پانی کہ نکلیں جس سے صدہا آبشار اس سے خود آکر ملے گا تم سے وہ یارِ ازل اس سے تم عرفان حق سے پہنو گے پھولوں کے ہار وہ کتاب پاک و برتر جس کا فرقاں نام ہے وہ یہی دیتی ہے طالب کو بشارت بار بار جن کو ہے انکار اس سے سخت ناداں ہیں وہ لوگ آدمی کیونکر کہیں جب اُن میں ہے حمقِ حماد کیا یہی اسلام کا ہے دوسرے دینوں پہ فخر کردیا قصوّں پہ سارا ختم دیں کا کاروبار مغز فرقانِ مطہرکیا یہی ہے زہد خشک کیا یہی چوہا ہے نکلا کھود کر یہ کوہسار گریہی اسلام ہے بس ہوگئی اُمّت ہلاک کس طرح رہ مل سکے جب دیں ہی ہوتاریک و تار منہ کو اپنے کیوں بگاڑناامیدوں کی طرح فیض کے در کھل رہے ہیں اپنے دامن کو پسار کس طرح کے تم بشر ہو دیکھتے ہو صد نشاں پھر وہی ضد و تعصب اور وہی کین و نقار بات سب پوری ہوئی پر تم وہی ناقص رہے باغ میں ہوکر بھی قسمت میں نہیں دیں کے ثمار دیکھ لو وہ ساری باتیں کیسی پوری ہوگئیں جن کا ہونا تھا بعید از عقل و فہم و افتکار اُس زمانہ میں ذرا سوچو کہ میں کیاچیز تھا جس زمانہ میں براہیں کادیا تھا اشتہار پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا مرا کیسا ہوا کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی دوہر دیار جانتا تھا کون کیا عزت تھی پبلک میں مجھے کس جماعت کی تھی مجھ سے کچھ ارادت یا پیار تھے رجوع خلق کے اسباب مال و علم و حکم خاندانِ فقر بھی تھا باعثِ عزّو وقار لیک ان چاروں سے میں محروم تھا او بے نصیب ایک انساں تھا کہ خارج از حساب و از شمار پھر رکھایا نام کافر ہوگیا مطعونِ خلق کُفر کے فتووں نے مجھ کو کردیا بے اعتبار اس پہ بھی میرے خدا نے یاد کرکے اپنا قول مرجع عالم بنایا مجھ کو اور دیں کا مدار سارے منصوبے جو تھے میری تباہی کیلئے کر دیئے اُس نے تبہ جیسے کہ ہو گرد و غبار سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے کوئی بتلائے نظیر اس کی اگر کرنا ہے وار مکر انساں کو مٹا دیتا ہے انسانِ دِگر پر خدا کا کام کب بگڑے کسی سے زینہار مفتری ہوتا ہے آخر اس جہاں میں رُوسیہ جلد تر ہوتا ہے برہم افتراء کا کاروبار افتراء کی ایسی دُم لمبی نہیں ہوتی کبھی جو ہومثلِ مدّت فخر الرسل فخر الخیار حسرتوں سے میرادل پر ہے کہ کیوں منکر ہو تم یہ گھٹا اب جھوم جھوم آتی ہے دل پر بار بار یہ عجب آنکھیں ہیں سورج بھی نظر آتا نہیں کچھ نہیں چھوڑا حسد نے عقل اور سوچ اور بچار قوم کی بدقسمتی اس سرکشی سے کھل گئی پر وہی ہوتا ہے جو تقدیر سے پایا قرار قوم میں ایسے بھی پاتا ہوں جو ہیں دُنیا کے کرم مقصد اُنکی زیست کا ہے شہوت و خمر و قمار مکر کے بل چل رہی ہے اُن کی گاڑی روز و شب نفس و شیطان نے اُٹھایا ہے انہیں جیسے کہار دیں کے کاموں میں تو اُن کے لڑکھڑاتے ہیں قدم لیک دُنیا کے لئے ہیں نوجوان و ہوشیار حلت و حرمت کی کچھ پروا نہیں باقی رہی ٹھونس کر مُردار پٹیوں میں نہیں لیتے ڈکار لافِ زہد و راستی اور پاپ دل میں ہے بھرا ہے زباں میں سب شرف اور نیچ دل جیسے چمار اے عزیزو کب تلک چل سکتی ہے کاغذ کی ناؤ ایک دن ہے غرق ہونا بادو چشم اشکبار جاودانی زندگی ہے موت کے اندر نہاں گلشن دلبرکی راہ ہے وادی ءغربت کے خار اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اُٹھا ناتواں ہم ہیں ہمارا خود اُٹھالے سارا بار تیری عظمت کے کرشمے دیکھتا ہوں ہر گھڑی تیری قدرت دیکھ کر دیکھا جہاں کو مُردہ وار کام دکھلائے جو تو نے میری نصرت کے لئے پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے ہر زماں وہ کاروبار کس طرح تو نے سچائی کو مری ثابت کیا میں ترے قرباں مری جاں تیرے کاموں پر نثار ہے عجب اک خاصیت تیرے جمال و حسن میں جس نے اک چمکار سے مجھ کو کیا دیوانہ وار اے مرے پیارے ضلالت میں پڑی ہے میری قوم تیری قدرت سے نہیں کچھ دُور گر پائیں سدہار مجھ کو کافر کہتے ہیں میں بھی انہیں مومن کہوں گر نہ ہو پرہیز کرنا جھوٹ سے دیں کا شعار مجھ پہ اے واعظ نظر کی یار نے تجھ پر نہ کی حیف اُس ایمان پہ جس سے کفر بہتر لاکھ بار روضہء آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار وہ خدا جس نے نبی کو تھا زر خالص دیا زیور دیں کو بناتا ہے وہ اب مثلِ سنار وہ دکھاتا ہے کہ دیں میں کچھ نہیں اکراہ وجبر دیں تو خود کھینچے ہے دل مثلِ بت سیمیں عذار پس یہی ہے رمز جو اُس نے کیا منع از جہاد تا اٹھا وے دیں کی راہ سے جو اُٹھا تھا اِک غبار تا دکھلاوے منکروں کو دیں کی ذاتی خوبیاں جن سے ہوں شرمندہ جو اسلام پر کرتے ہیں وار کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اِک معجزہ معنیء رازِ نبوت ہے اسی سے آشکار نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیاجائے عار روشنی میں مہرتاباں کی بھلا کیا فرق ہو گرچہ نکلے روم کی سرحد سے یا از زنگ بار اے مرے پیارو شکیب و صبر کی عادت کرو وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مشکِ تتار نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دمار جس نے نفسِ دوں کو ہمت کرکے زیر پاکیا چیز کیا ہیں اُس کے آگے رستم واسفند یار گالیاں سنکر دُعا دوپا کے دکھ آرم دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤانکسار تم نہ گھبراؤاگروہ گالیاں دیں ہرگھڑی چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار چپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں ستم دم نہ مارو گروہ ماریں اور کردیں حالِ زار دیکھ کر لوگوں کا جوش وغیظ مت کچھ غم کرو شدتِ گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار افترا اُن کی نگاہوں میں ہمارا کام ہے یہ خیال اللہ اکبر کس قدر ہے نابکار خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیں سے فرار پاک دل پر بدگمانی ہے یہ شقوت کا نشاں اب تو آنکھیں بند ہیں دیکھیں گے پھر انجام کار جبکہ کہتے ہیں کہ کاذب پھولتے پھلتے نہیں پھر مجھے کہتے ہیں کاذب دیکھ کر میرے ثمار کیا تمہاری آنکھ سب کچھ دیکھکر اندھی ہوئی کچھ تو اُس دن سے ڈرو یارو کہ ہے روزِ شمار آنکھ رکھتے ہو ذرا سوچو کہ یہ کیا راز ہے کس طرح ممکن کہ وہ قدوّس ہو کاذب کا یار یہ کرم مجھ پر ہے کیوں کوئی تو اس میں بات ہے بے سبب ہرگز نہیں یہ کاروبار کردگار مجھ کو خود اُس نے دیا ہے چشمہ ءتوحید پاک تا لگاوے از سر نو باغ دیں میں لالہ زار دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اس یار نے پھر اگر قدرت ہے اے منکر تو یہ چادر اُتار خیرگی سے بدگمانی اس قدر اچھی نہیں اِن دنوں میں جبکہ ہے شورقیامت آشکار ایک طوفان ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہورستگار صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار پشتی ء دیوار دیں اور مامنِ اسلام ہوں نارسا ہے دست ّ دشمن تا بفرق ایں جدار جاہلوں میں اس قدر کیوں بدگمانی بڑھ گئی کچھ برے آئے ہیں دن یا پڑ گئی لعنت کی مار کچھ تو سمجھیں بات کو یہ دل میں ارماں ہی رہا واہ رے شیطاں عجب اُن کو کیا اپنا شکار اے کہ ہر دم بدگمانی تیرا کاروبار ہے دوسری قوت کہاں گم ہوگئی اے ہوشیار میں اگر کاذب ہوں کذّابوں کی دیکھوں گا سزا پر اگر صادق ہوں پھر کیا عذر ہے روزِ شمار اس تعصب پر نظر کرنا کہ میں اسلام پر ہوں فدا پھر بھی مجھے کہتے ہیں کافر باربار میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار ہائے وہ تقویٰ جو کہتے تھے کہاں مخفی ہوئی ساربانِ نفس دوں نے کس طرف پھیری مہار کام جو دکھلائے اُس خلاق نے میرے لئے کیا وہ کرسکتا ہے جو ہو مفتری شیطاں کا یار میں نے روتے روتے دامن کر دیا تر درد سے اب تلک تم میں وہی خشکی رہی باحالِ زار ہائے یہ کیا ہوگیا عقلوں پہ کیا پتھر پڑے ہوگیا آنکھوں کے آگے اُن کے دن تاریک و تار یا کسی مخفی گناہ سے شامتِ اعمال ہے جس سے عقلیں ہوگئیں بیکار اور اک مردہ وار گردنوں پر اُنکی ہے سب عام لوگوں کا گنہ جن کے وعظوں سے جہاں کے آگیا دل میں غبار ایسے کچھ سوئے کہ پھر جاگے نہیں ہیں اب تلک ایسے کچھ بھولے کہ پھر نسیاں ہوا گردن کا ہار نوعِ انساں میں بدی کا تخم بونا ظلم ہے وہ بدی آتی ہے اُسپر جو ہو اُس کا کاشتکار چھوڑ کر فرقاں کو آثارِ مخالف پر جمے سر پہ مسلم اور بخاری کے دیا ناحق کا بار جبکہ ہے امکان کذب و کج روی اخبار میں پھر حماقت ہے کہ رکھیں سب انہیں پر انحصار جبکہ ہم نے نور حق دیکھا ہے اپنی آنکھ سے جبکہ خود وحی ءخدا نے دی خبر یہ بار بار پھر یقیں کو چھوڑ کر ہم کیوں گمانوں پر چلیں خود کہو رویت ہے بہتر یا نقولِ پرغبار تفرقہ اسلام میں نقلوں کی کثرت سے ہوا جس سے ظاہر ہے کہ راہ نقل ہے بے اعتبار نقل کی تھی اک خطا کاری مسیحا کی حیات جس سے دیں نصرانیت کا ہوگیا خدمت گذار صد ہزاراں آفتیں نازل ہوئیں اسلام پر ہوگئے شیطان کے چیلے گردن دیں پر سوار موتِ عیسیٰؑ کی شہادت دی خدا نے صاف صاف پھر احادیث مخالف رکھتی ہیں کیا اعتبار گر گمال صحت کا ہو پھر قابل تاویل ہیں کیاحدیثوں کے لئے فرقاں پہ کرسکتے ہو وار؟ وہ خدا جس نے نشانوں سے مجھے تمغہ دیا اب بھی وہ تائید فرقاں کر رہا ہے بار بار سر کو پیٹو! آسماں سے اب کوئی آتا نہیں عمر دنیا سے بھی اب ہے آگیا ہفتم ہزار1 اس کے آتے آتے دیں کا ہوگیا قصہّ تمام کیا وہ تب آئے گا جب دیکھے گا اس دیں کا مزار کشتیء اسلام بے لطفِ خدا اب غرق ہے اے جنوں کچھ کام کر بیکار ہیں عقلوں کے وار مجھ کو ے اک فوق عادت اے خدا جوش و تپش جس سے ہوجاؤں میں غم میں دیں کے اِک دیوانہ وار وہ لگادے آگ میرے دل میں ملت کیلئے شعلے پہنچیں جس کے ہردم آسماں تک بیشمار اے خدا تیرے لئے ہر ذرّہ ہو میرا فدا مجھ کو دکھلادے بہار دیں کہ میں ہوں اشکبار خاکساری کو ہماری دیکھ اے دانائے راز کام تیرا کام ہے ہم ہوگئے اب بےقرار اِک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے بعد اس کے ظن غالب کو ہیں کرتے اختیار پھر یہ نقلیں بھی اگر میری طرف سے پیش ہوں تنگ ہو جائے مخالف پر مجال کار زار باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار مرہم عیسیٰ نے دی تھی محض عیسیٰ کو شفا میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار جھانکتے تھے نور کو وہ روزنِ دیوار سے لیک جب در کھل گئے پھر ہوگئے شپر شعار وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار پر ہوئے دیں کیلئے یہ لوگ مارِ آستیں دشمنوں کو خوش کیا اور ہوگیا آزردہ یار غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجاّل ہے پاک کو ناپاک سمجھے ہوگئے مردار خوار گو وہ کافر کہہ کے ہم سے دُور تر ہیں جاپڑے اُن کے غم میں ہم تو پھر بھی ہیں حزین و دلفگار ہم نے یہ مانا کہ اُن کے دل ہیں پتھر ہوگئے پھر بھی پتھر سے نکل سکتی ہے دینداری کی نار کیسے ہی وہ سخت دل ہوں ہم نہیں ہیں نا امید آیت لا تیئسوا رکھتی ہے دل کو استوار پیشہ ہے رونا ہمارا پیش ربِّ ذوالمنن یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار جن میں آیا ہے مسیح وقت وہ منکر ہوئے مرگئے تھے اس تمنا میں خواصِ ہر دیار میں نہیں کہتا کہ میری جاں ہے سب سے پاک تر میں نہیں کہتا کہ یہ میرے عمل کے ہیں ثمار میں نہیں رکھتا تھا اس دعوے سے اِک ذرّہ خبر کھول کر دیکھو براہیں کو کہ تا ہو اعتبار گرکہے کوئی کہ یہ منصب تھا شایانِ قریش وہ خدا سے پوچھ لے میرا نہیں یہ کاروبار مجھ کو بس ہے وہ خدا عہدوں کی کچھ پروا نہیں ہوسکے تو خود بنو مہدی بحکم کردگار افترا لعنت ہے اور ہر مفتری ملعون ہے پھر لعیں وہ بھی ہے جو صادق سے رکھتا ہے نقار تشنہ بیٹھے ہو کنارِ جوئے شیریں حیف ہے سرزمین ہند میں چلتی ہے نہر خوشگوار 2ان نشانوں کو ذرہ سوچو کہ کس کے کام ہیں کیا ضرورت ہے کہ دکھلاؤ غضب دیوانہ وار مفت میں ملزم خداکے مت بنو اے منکرو یہ خدا کا ہے نہ ہے یہ مفتری کا کاروبار یہ فتوحاتِ نمایاں یہ تواتر سے نشاں کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکاروں کا کار ایسی سرعت سے یہ شہرت ناگہاں سالوں کے بعد کیا نہیں ثابت یہ کرتی صدقِ قول کردگار کچھ تو سوچو ہوش کرکے کیا یہ معمولی ہے بات جس کا چرچا کر رہا ہے ہر بشر اور ہر دیار مٹ گئے حیلے تمہارے ہوگئی حجت تمام اب کہو کس پر ہوئی اے منکرو لعنت کی مار بندہء درگاہ ہوں اور بندگی سے کام ہے کچھ نہیں ہے فتح سے مطلب نہ دل میں خوف ہار مت کرو بک بک بہت ۔ اُس کی دلوں پر ہے نظر دیکھتا ہے پاکیء دل کو نہ باتوں کی سنوار کیسے پتھر پڑ گئے ہے ہے تمھاری عقل پر دیں ہے منہ میں گرگ کے تم گرگ کے خود پاسدار ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دیں احمدؐ پر تبر کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور اُن کے وہ وار کونسی آنکھیں جو اس کو دیکھ کر روتی نہیں کون سے دل ہیں جو اس غم سے نہیں ہیں بیقرار کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج اِک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار یہ مصیبت کیا نہیں پہنچی خدا کے عرش تک کیا یہ شمس الدین نہاں ہو جائے گا اب زیرغار جنگ روحانی ہے اب اس خادم و شیطان کا دل گھٹا جاتا ہے یارب سخت ہے یہ کارزار ہر نبیء وقت نے اس جنگ کی دی تھی خبر کر گئے وہ سب دعائیں بادو چشم اشکبار اے خدا شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگ روس اور جاپان سے میں غریب اور ہے مقابل پر حریف نامدار دل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر اے مری جاں کی پنہ فوجِ ملائک کو اُتار بستر راحت کہاں ان فکر کے ایاّم میں غم سے ہردن ہو رہا ہے بد تراز شب ہائے تار لشکر شیطاں کے نرغے میں جہاں ہے گھر گیا بات مشکل ہوگئی قدرت دکھا اے میرے یار نسلِ انساں سے مدد اب مانگنا بیکار ہے اب ہماری ہے تری درگاہ میں یاربّ پکار کیوں کریں گے وہ مدد اُن کو مدد سے کیا غرض ہم تو کافر ہوچکے اُن کی نظر میں بار بار پر مجھے رہ رہ کے آتا ہے تعجب قوم سے کیوں نہیں وہ دیکھتے جو ہو رہا ہے آشکار شکر للہ میری بھی آہیں نہیں خالی گئیں کچھ بنیں طاعون کی صورت کچھ زلازل کے بخار اِک طرف طاعون خونی کھا رہا ہے ملک کو ہو رہے ہیں صدہزاراں آدمی اس کا شکار دوسرے منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ جس سے اِک محشر کا عالم تھا بصد شوروپکار ایک ہی دم میں ہزاروں اس جہاں سے چل دیئے جسقدر گھر گر گئے اُن کا کروں کیونکر شمار یا تو وہ عالی مکاں تھے زینت و زیب جلوس یا ہوئے اک ڈھیر اینٹوں کے پراز گردوغبار حشر جس کو کہتے ہیں اِک دم میں برپا ہوگیا ہر طرف میں مرگ کی آواز تھی اور اضطرار دل گئے نیچے پہاڑوں کے کئی دیہات و شہر مرگئے لاکھوں بشر اور ہوگئے دُنیا سے پار اِس نشاں کو دیکھ کر پھر بھی نہیں ہیں نرم دل پس خدا جانے کہ اب کس حشر کاہے انتظار وہ جو کہلاتے تھے صوفی کیں میں سب سے بڑھ گئے کیا یہی عادت تھی شیخ غزنوی کی یادگار کہتے ہیں لوگوں کو" ہم بھی زبدۃ الابرار ہیں پڑتی ہے ہم پر بھی کچھ کچھ وحی رحماں کی پھوار" پر وہی نافہم ملہم اوّل الاعداء ہوئے آگیا چرخ بریں سے اُن کو تکفیروں کا تار سب نشاں بیکار اُن کے بغض کے آگے ہوئے ہوگا تیر تعصب ان کے دل میں وارپار دیکھتے ہرگز نہیں قدرت اُس ستار کی گو سناویں اُن کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار صوفیا اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ آسماں سے آگئی میری شہادت بار بار قدرتِ حق ہے کہ تم بھی میرے دشمن ہوگئے یا محبت کے وہ دن تھے یا ہوا ایسا نقار دھو دیئے دل سے وہ سارے صحبت دیریں کے رنگ پھول بن کر ایک مدت تک ہوئے آخر کو خار جس قدر نقدِ تعارف تھا وہ کھو بیٹھے تمام آہ کیا یہ دل میں گذرا ہوں میں اس سے دلفگار آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گردوغبار اِک3 نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار آئے گا قہر خدا سے خلق پر اِک انقلاب اِک برہنہ سے نہ ہوگا یہ کہ تابندھے ازار یک بیک اِک زلزلہ سے سخت جنبش4 کھائیں گے کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار اِک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیرو زبر نالیاں خوں کی چلیں گی جیسےآب رود بار رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگِ یاسمن صبح کردے گی انہیں مثلِ درختانِ چنار ہوش اُڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی راہ کو بھولیں گے ہوکر مست دبیخود راہوار خون سے مردوں کے کوہستان کے آبِ رواں سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شرابِ انجبار مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن وانس زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحالِ زار اِک نمونہ قہر کا ہوگا وہ رباّنی نشاں آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہ ناشناس اِس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دارومدار وحی حق کی بات ہے ہوکر رہے گی بے خطا کچھ دنوں کر صبر ہوکر متقی اور برد بار یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار
1۔کتب سابقہ اوراحادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ عمردنیا کی حضرت آدم علیہ السلام سے سات ہزاربرس تک ہے۔اسی کی طرف قرآن شریف اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ إِنَّ يَوْماً عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ یعنی خدا کا ایک دن تمھارےہزاربرس کے برابر ہےاورخدا تعالےٰنے میرے دل پریہ الہام کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک حضرت آدم علیہ السلام سے اسی قدرمدت بحساب قمری گذری تھی۔جو اس سورۃ کے حروف کی تعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتی ہےاور اس کی رو سے حضرت آدم علیہ السلام سے اب ساتواں ہزار بحساب قمری ہے جو دنیا کے خاتمہ پردلالت کرتاہےاور یہ حساب جو سورۃ والعصرکے حروف کے اعداد نکالنے سے معلوم ہوتا ہے۔یہود اورنصاریٰ کے حساب سے قریبا بتمام وکمال ملتا ہے۔صرف قمری اورشمسی حساب کوملحوظ رکھ لینا چاہیےاور ان کی کتابوں سے پایا جاتا ہے جو مسیح موعود کاچھٹے ہزارمیں آنا ضروری ہےاورکئی برس ہو گئےکہ چھٹا ہزا ر گذر گیا۔منہ 2۔اب تک کئی ہزار خدا تعالیٰ کے نشان میرے ہاتھ پر ظاہر ہوچکےہیں۔زمین نے بھی میرے لئے نشان دکھلائے اور آسمان نے بھی اور دوستوں میں بھی ظاہر ہوئے اوردشمنوں میں بھی جن کے کئی لاکھ انسان گواہ ہیں اور ان نشانوں کو اگر تفصیلا ً جدا جدا شمارکیا جائے تو قریباً وہ سارے نشان دس لاکھ تک پہنچتے ہیں۔فَاالحَمدُ للہِ علیٰ ذٰلکَ۔
3۔تاریخ امروز 15اپریل1905ء 4۔ خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کابار بار لفظ ہےاورفرمایاکہ ایسا زلزلہ ہوگا جو نمونہ ء قیامت ہوگابلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیے جس کی طرف سورۃإِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَااشارہ کرتی ہے۔لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا۔ممکن ہے کہ معمولی زلزلہ نہ ہوبلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلاوے جس کی نظیر کبھی اس زمانے نے نہ دیکھی ہواور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے۔ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہرنہ ہواور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں میں کاذب ٹھہروں گا ۔مگر میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ شدید آفت جس کو خدا تعالیٰ نے زلزلہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔صرف اختلاف مذہب پر کوئی اثر نہیں رکھتی اور نہ ہندو یاعیسائی ہونے کی وجہ سے کسی پر عذاب آسکتا ہےاور نہ اس وجہ سے آسکتا ہے کہ کوئی میری بیعت میں داخل نہیں۔یہ سب لوگ اس تشویش سے محفوظ ہیں ۔ہاں جو شخص خواہ کسی مذہب کا پابند ہو جرائم پیشہ ہونا اپنی عادت رکھےاور فسق وفجور میں غرق ہواور زانی،چور،ظالم اور ناحق کے طور پر بد اندیش ،بدزبان اور بد چلن ہو ،اس کو اس سے ڈرنا چاہیےاور اگر توبہ کرے تو اس کو بھی کچھ غم نہیں اور مخلوق کے نیک کردار اور نیک چلن ہونے سے یہ عذاب ٹل سکتا ہے۔قطعی نہیں ہے۔منہ
براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ97مطبوعہ 1908ء درسِ توحید وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اُس میں وہ کیا نہیں سورج پہ غور کر کے نہ پائی وہ روشنی جب چاند کو بھی دیکھا تو اُس یار سا نہیں واحِد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے سب موت کا شکار ہیں اُس کو فنا نہیں سب خیر ہے اِسی میں کہ اُس سے لگاؤ دِل ڈھونڈو اُسی کو یارو! بُتوں میں وفا نہیں اِس جائے پُر عذاب سے کیوں دِل لگاتے ہو دوزخ ہے یہ مقام یہ بُستاں سرا نہیں رسالہ تشحیذ الاذہان ماہ دوسمبر1908ء پیشگوئی جنگِ عظیم یہ نشانِ زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن وہ تو اِک لقمہ تھا جو تم کو کھلایا ہے نہار اِک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد جس کی دیتا ہے خبر فُرقاں میں رحماں بار بار فاسقوں اور فاجروں پر وہ گھڑی دُشوار ہے جس سے قیمہ بن کے پھر دیکھیں گے قیمہ کا بگھار خوب کھل جائے گا لوگوں پہ کہ دیں کس کا ہے دیں پاک کر دینے کا تِیرتھ کعبہ ہے یا ہر دوار وحیء حق کے ظاہری لفظوں میں ہے وہ زلزلہ لیک ممکن ہے کہ ہو کچھ اور ہی قِسموں کی مار کچھ ہی ہو پر وہ نہیں رکھتا زمانہ میں نظیر فوقِ عادت ہے کہ سمجھا جائے گا زورِ شمار یہ جو طاعوں ملک میں ہے اس کو کچھ نسبت نہیں اُس بلا سے وہ تو ہے اک حشر کا نقش و نگار وقت ہے توبہ کرو جلدی مگر کچھ رحم ہو سست کیوں بیٹھے ہو جیسے کوئی پی کر کوکنار تم نہیں لوہے کے کیوں ڈرتے نہیں اُس وقت سے جس سے پڑ جائے گی اِک دم میں پہاڑوں میں بغار وہ تباہی آئے گی شہروں پہ اور دیہات پر جس کی دنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار ایک دَم میں غم کدے ہو جائیں گے عشرت کدے شادیاں کرتے تھے جو پیٹیں گے ہو کر سوگوار وہ جو تھے اُونچے محل اور وہ جو تھے قصرِ بریں پست ہو جائیں گے جیسے پست ہو اِک جائے غار ایک ہی گردش سے گھر ہو جائیں گے مٹی کا ڈھیر جس قدر جانیں تَلف ہوں گی نہیں اُن کا شمار پرخدا کا رحم ہے کوئی بھی اُس سے ڈر نہیں اُن کو جو جھکتے ہیں اُس درگہ پہ ہو کر خاکسار یہ خوشی کی بات ہے سب کام اُس کے ہاتھ ہے وہ جو ہے دھیما غضب میں اور ہے آمُرزگار کب یہ ہو گا؟ یہ خدا کو علم ہے، پر اس قدر دی خبر مجھ کو کہ وہ دن ہوں گے ایامِ بہار ''پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی'' یہ خدا کی وحی ہے اب سوچ لو اے ہوشیار یاد کر فُرقاں سے لفظ زُلْزِلَتْ زِلْزَالَھَا ایک دن ہو گا وہی جو غیب سے پایا قرار سخت ماتم کے وہ دن ہوں گے مصیبت کی گھڑی لیک وہ دن ہوں گے نیکوں کیلئے شیریں ثمار آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار انیباء سے بُغض بھی اے غافلو اچھا نہیں دُور تر ہٹ جاؤ اس سے۔ ہے یہ شیروں کی کچھار کیوں نہیں ڈرتے خدا سے کیسے دل اندھے ہوئے بے خدا ہر گز نہیں بد قسمتو کوئی سہار یہ نشانِ آخری ہے کام کر جائے مگر ورنہ اب باقی نہیں ہے تم میں اُمیدِ سدھار آسماں پر اِن دنوں قہرِ خدا کا جوش ہے کیا نہیں تم میں سے کوئی بھی رشید و ہونہار اِس نشاں کے بعد ایماں قابلِ عزت نہیں ایسا جامہ ہے کہ نَو پوشوں کا جیسے ہو اُتار اس میں کیا خوبی کہ پڑ کر آگ میں پھر صاف ہوں خوش نصیبی ہو اگر اب سے کرو دِل کی سنوار اب تو نرمی کے گئے دن اب خدائے خشمگِین کام وہ دکھلائے گا جیسے ہتھوڑے سے لوہار1 اُس گھڑی شیطاں بھی ہو گا سجدہ کرنے کو کھڑا دل میں یہ رکھ کر کہ حکمِ سجدہ ہو پھر ایک بار بے خدا اِس وقت دنیا میں کوئی مامَن نہیں یا اگر ممکن ہو اب سے سوچ لو راہِ فرار تم سے غائب ہے، مگر میں دیکھتا ہوں ہر گھڑی پھرتا ہے آنکھوں کے آگے وہ زماں وہ روزگار گر کرو توبہ تو اب بھی خیر ہے کچھ غم نہیں تم تو خود بنتے ہو قہرِ ذوالمِنَن کے خواستگار وہ خدا حلم و تفضُّل میں نہیں رکھتا نظیر کیوں پھرے جاتے ہو اُس کے حکم سے دیوانہ وار میں نے روتے روتے سجدہ گاہ بھی تر کر دیا پر نہیں اِن خشک دل لوگوں کو خوفِ کردگار یاالٰہی اِک نشاں اپنے کرم سے پھر دکھا گردنیں جھک جائیں جس سے اور مکذّب ہوں خوار اِک کرشمہ سے دکھا اپنی وہ عظمت اے قدیر جس سے دیکھے تیرے چہرے کو ہر اک غفلت شِعار تیری طاقت سے جو مُنکِر ہیں اُنہیں اَب کچھ دِکھا پھر بدل دے گلشن و گلزار سے یہ دشتِ خار زور سے جھٹکے اگر کھاوے زمیں کچھ غم نہیں پر کسی ڈھب سے تزلزُل سے ہو ملت رَستگار دین و تقوٰی گم ہوا جاتا ہے یا رب رحم کر بے بسی سے ہم پڑے ہیں کیا کریں کیا اِختیار میرے آنسو اس غمِ دل سوز سے تھمتے نہیں دیں کا گھر ویراں ہے اور دنیا کے ہیں عالی منار دیں تو اِک ناچیز ہے دنیا ہے جو کچھ چیز ہے آنکھ میں اُن کی جو رکھتے ہیں زر و عزّ و وقار جس طرف دیکھیں وہیں اِک دہریت کا جوش ہے دیں سے ٹھٹھا اور نمازوں روزوں سے رکھتے ہیں عار جاہ و دولت سے یہ زہریلی ہَوا پَیدا ہوئی موجِبِ نَخوت ہوئی رِفعَت کہ تھی اِک زہر مار ہے بُلندی شانِ ایزد گر بَشر ہووے بُلند فخر کی کچھ جا نہیں وہ ہے متاعِ مستعار ایسے مغروروں کی کثرت نے کیا دیں کو تباہ ہے یہی غم میرے دِل میں جس سے ہُوں میں دِلفِگار اے مرے پیارے مجھے اِس سَیلِ غم سے کر رہا ورنہ ہو جائے گی جاں اِس درد سے تجھ پر نثار
1۔یاد رہے کہ جس عذاب کے لئے یہ پیشگوئی ہے اس عذاب کو خدا نے بار بار زلزلہ کے لفظ سے بیان کیا ہے۔اگرچہ بظاہر وہ زلزلہ ہےاور ظاہر الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہوگا۔لیکن چونکہ عادت الہٰی میں استعارات بھی داخل ہیں اس لئے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالباًتووہ زلزلہ ہے ورنہ کوئی اورجانگداز اور فوق العادت عذاب ہےجو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہےاور اس کی بار بارشائع کرنے کی اسی وجہ سے ضرورت پیش آئی ہےجو پہلے زلزلہ کی خبر جواچھی طرح شائع نہیں کی گئی اس سے بہت سی جانوں کا نقصان ہوا۔اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ دوسری پیشگوئی میں جو زلزلہ کے بارے میں ہےجہاں تک میری طاقت ہےلوگوں کو خبر کردوں تا شایدمیری بار بار کی اشاعت سےلوگوں کے دل میں صلاحیت کا خیال پیدا ہوجائےاور اس عذاب کے ٹلنے کے لئے اس بات کی ضرورت نہیں کہ کوئی عیسائی ہو یاہندو یا مسلمان ہو یا کوئی شخص ہماری بیعت کرے۔ہاں یہ ضرورت ہے کہ لوگ نیک چلنی اختیار کریں اور جرائم پیشہ ہونا چھوڑ دیں۔منہ
منقول از نوٹ بک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بدظنی سے بچو اگر دل میں تمہارے شر نہیں ہے تو پھر کیوں ظنِ بد سے ڈر نہیں ہے کوئی جو ظنِ بد رکھتا ہے عادت بدی سے خود وہ رکھتا ہے اِرادت گمانِ بد شیاطیں کا ہے پیشہ نہ اہلِ عفت و دیں کا ہے پیشہ تمہارے دل میں شیطاں دے ہے بچے اسی سے ہیں تمہارے کام کچے وہی کرتا ہے ظنِّ بد بِلا رَیب کہ جو رکھتا ہے پردہ میں وہی عیب وہ فاسِق ہے کہ جس نے رہ گنوایا نظر بازی کو اِک پیشہ بنایا مگر عاشق کو ہر گز بد نہ کہیو! وہاں بدظنیوں سے بچ کے رہیو اگر عشاق کا ہو پاک دامن یقیں سمجھو کہ ہے تریاق دامَن مگر مشکِل یہی ہے درمیاں میں کہ گُل بے خار کم ہیں بوستاں میں تمیں یہ بھی سناؤں اس بیاں میں کہ عاشق کس کو کہتے ہیں جہاں میں وہ عاشق ہے کہ جس کو حسبِ تقدیر مَحبت کی کماں سے آ لگا تِیر نہ شَہوَت ہے نہ ہے کچھ نَفس کا جوش ہوا اُلفت کے پیمانوں سے مدہوش لگی سینہ میں اُس کے آگ غم کی نہیں اس کو خبر کچھ پیچ و خم کی منقول از مسودات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہجومِ مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا طریق
ذیل میں جو نظم درج کی جاتی ہےیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک صاحب شیخ محمد بخش رئیس کڑیانوالہ ضلع گجرات کو لکھ کر عطا فرمائی تھی جبکہ وہ سخت مالی مشکلات میں مبتلا تھے۔خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کے طفیل ان کی تکالیف دور کردیں۔
اِک نہ اِک دن پیش ہو گا تُو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے حکمِ خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا رنج و غم یاس و اَلَم فکر و بلا کے سامنے بارگاہِ ایزدی سے تُو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکِل کشا کے سامنے حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجَت روا کے سامنے چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقشِ دُوئی سر جھکا بس مالِکِ ارض و سما کے سامنے چاہئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی لعلِ بے بہا کے سامنے اخبار الفضل 13جنوری 1928ء متفرق اشعار نہیں محصور ہر گز راستہ قدرت نمائی کا خدا کی قدرتوں کا حصر دعوٰی ہے خدائی کا براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ401مطبوعہ 1884ء قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے اعلان مطبوعہ ریاض ہند امرتسر 22مارچ 1886ء جس نے پیدا کیا وہی جانے دوسرا کیونکر اُس کو پہچانے غیر کو غیر کی خبر کیا ہو نظَر دور کارگر کیا ہو سرمہ چشم آریہ صفحہ184مطبوعہ 1886ء جو ہمارا تھا وہ اب دلبر کا سارا ہو گیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا شکر للہ مل گیا ہم کو وہ لعلِ بے بَدَل کیا ہوا گر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا ہم نے اُلفت میں تری بار اُٹھایا کیا کیا تجھ کو دکھلا کے فلک نے ہے دکھایا کیا کیا ازالہء اوہام حصہ دوم صفحہ665مطبوعہ 1891ء پیش گوئی کا جب انجام ہوَیدا ہو گا! قُدرتِ حق کا عجب ایک تماشا ہو گا جھوٹ اور سچ میں جو ہے فرق وہ پیدا ہو گا کوئی پا جائے گا عزت کوئی رسوا ہو گا آئینہ کمالات اسلام صفحہ281مطبوعہ 1893ء لوگوں کے بغضوں سے اور کینوں سے کیا ہوتا ہے جس کا کوئی بھی نہیں اُس کا خدا ہوتا ہے بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جُدا ہوتا ہے حاشیہ اشتہار مع معیار الاخیاروالاشرارمطبوعہ17مارچ 1894ء جس کی تعلیم یہ خیانت ہے ایسے دیں پر ہزار لعنت ہے آریہ دھرم صفحہ45مطبوعہ 1895ء دوستو اِک نظر خدا کے لئے سیّد الخَلق مصطفیؐ کے لئے اشتہار مستیقنًا لوحی اللہ القھار14جنوری 1897ء کوئی جو مُردوں کے عالم میں جاوے وہ خود ہو مُردہ تب وہ راہ پاوے کہو زندوں کا مُردوں سے ہے کیا جوڑ یہ کیونکر ہو کوئی ہم کو بتاوے ایام الصلح صفحہ143مطبوعہ 1899ء مر گیا بد بخت اپنے دار سے کٹ گیا سر اپنی ہی تلوار سے کھل گئی ساری حقیقت سَیف کی کم کرو اب ناز اِس مردار سے نزول المسیح صفحہ224مطبوعہ 1909ء کیسے کافِر ہیں مانتے ہی نہیں ہم نے سَو سَو طرح سے سمجھایا اِس غرض سے کہ زندہ یہ ہوویں ہم نے مرنا بھی دل میں ٹھہرایا بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے آؤ بُلبل چلیں کہ وقت آیا رسالہ تشحیذ الاذہان ماہ دسمبر 1909ء جب سے اے یار تجھے یار بنایا ہم نے ہر نئے روز نیا نام رکھایا ہم نے کیوں کوئی خَلق کے طعنوں کی ہمیں دے دھمکی یہ تو سب نقش دل اپنے سے مٹایا ہم نے از مسودات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اگر وہ جاں کو طلب کرتے ہیں تو جاں ہی سہی بلا سے کچھ تو نپٹ جائے فیصلہ دِل کا اگر ہزار بلا ہو تو دِل نہیں ڈرتا ذرا تو دیکھئے کیسا ہے حوصلہ دِل کا اخبار الفضل 31دسمبر 1913ء وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا از مسودات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام الہامی اشعار کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اِس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتا دیا حاذِق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا قادِر کے کاروبار نمودار ہو گئے کافِر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے کافر جو کہتے تھے وہ نگوں سار ہو گئے جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہو گئے ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ صفحہ 27مطبوعہ 1902ء دُشمن کا بھی خوب وار نکلا تِس پر بھی وہ آر پار نکلا الحکم 30اکتوبر 1902ء قادر ہے وہ بارگہ۔ ٹُوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اُس کا بھید نہ پاوے اخبار بدر 22نومبر 1906ء بر تر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے اس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے حقیقۃ الوحی صفحہ 274کا حاشیہ مطبوعہ 1907ء کروں گا دُور اُس ماہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا تذکرہ صفحہ 427 چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیجئے قبول ہے آج تذکرہ صفحہ 206 الہامی مصرعے ہے سر راہ پر تمھارے وہ جو ہے مولیٰ کریم اخبار بدر 20اپریل 1905ء پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی اخبار بدر11مئی 1905ء کشَتیاں چلتی ہیں تا ہوں کُشتیاں اخبار بدر 17مئی 1906ء پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن اخبار بدر 10مئی 1906ء پاک محمد مصطفٰے نبیوں کا سردار براہین احمدیہ چہار حصص صفحہ 522 جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو اخبار بدر 25اپریل 1908ء شعق الہٰی وسے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی اخبار بدر 08مئی 1903ء جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے اخبار بدر 16اپریل 1904ء پر خدا کا رحم ہےکوئی بھی اس سےڈرا نہیں اخبار بدر 11مئی 1905ء اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اخبار الحکم 31اگست 1901ء بڑھیں گےجیسے باغوں میں ہوں شمشاد مطبوعہ 1901ءمنقول از بشیر احمد،شریف احمد اور مبارکہ کی آمین چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشاں کی پنج بار تجلیات الہیہ صفحہ 1حقیقۃ الوحی صفحہ 93حاشیہ زار بھی ہو گا تو ہوگا س گھڑی با حال زار براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 120ء قطعہ تاریخ براہین احمدیہ کیا خوب ہے یہ کتاب سبحان اللہ اک دم میں کرے ہے دین حق سے آگاہ ازبس کہ یہ مغفرت کی بتلاتی ہے راہ تاریخ بھی یا غفور 1297نکلی واہ واہ ٹائیٹل پیج براہین احمدیہ