کلام مختار
1۔ نعت سرور کائنات فخر موجودات حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ اللہ شان ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم عرشِ عظیم ایوانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش نظر ہے شانِ محمد،ذہن میں ہیں احسان محمد کیوں نہ ہوں پھر قربان محمد صلی اللہ علیہ وسلم دل شیدائے آنِ محمد،روح فدائے شانِ محمد وجد میں ہیں مستانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے تعداد احسانِ محمد،بے پایاں فیضا نِ محمد رحمتِ حق قربا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ازآدم تاحضرت عیسیٰ سب عالی رتبہ ہیں لیکن اور ہی کچھ ہے شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر سب سے اعلیٰ ،سب اعجاز رسل سے بالا معجزۂ قرآ نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عاقل پر کرتا ہے ہویدا ان ھو الا وحی یوحی توقیر فرما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے پرسانِ شانِ محمد ، جویائے فیضانِ محمد دیکھ ذرا قرآ نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عین عنایت ،چشمۂ رحمت، بحرِحقیقت،حسنِ رسالت خُلقِ عالی شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آدم ولوط وابراہیم وداودوعیسیٰ وموسیٰ سب ہیں ثنا گویا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صدیوں کے مردوں کو جلایا،پیغام توحید سنایا روحِ رواں قربا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لرزاں تھے شاہانِ زمانہ، حیرت میں ہر اک فرزانہ کیا تھی شوکت وشا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم امن جہاں قائم فرمایا،جس جس کا حق تھا دلوایا قربانِ فرما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سارے بد افعال چھڑائے سب عمدہ اخلاق سکھائے جانِ جہاں قربا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم راحت پر راحت دیتا ہے کیا دلکش موجیں لیتا ہے دریائے فیضا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صبحِ روزِ ازل سے لیکر ختم نہیں تا شامِ حشر سلسلۂ احسا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ کیا کہنا ہے سینوں سے دل کھینچ رہا ہے جذبِ بے پایا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم گو کیسا ہی سحر بیاں ہو لیکن ناممکن جو بیاں ہو تفصیلِ فیضا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا ثانی ہو،نہ ہوا ہے،دنگ ہے جس نے دیکھ لیا ہے کچھ حسن و احسا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرقِ وحدت۔مہررسالت،آیہ قدرت،سایہ رحمت ذاتِ عالی شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہوں یا بیگانے ہوں،مسلم ہوں یا نا مسلم سب پرہے احسا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگو! اس درجہ حق پوشی ،یہ سختی،یہ ناحق کوشی یہ توہینِ شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے اہل انصاف بتاؤ،صاف کہو تم صاف بتاؤ کیا ہے یہی شایا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگو!شرم وحیابھی کچھ ہے آخرخوفِ خدا بھی کچھ ہے یہ تحقیر ِشا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون محمد؟ہادئِ اعظم،کون محمد؟محسن ِعالم ہرمسلم قربا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون محمد؟ماہِ مروت،کون محمد؟چشمۂ رحمت فہم سے برترشا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اس جوروجفا کی حد بھی ،ظلم زلزلہ زا کی حد بھی اے بدخواہ ِشا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم زہریلی گفتار کہاں تک اور اسکی تکرار کہاں تک حیف!اے بدخواہا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ آزاررسانی تاکے،تاکے تلخ بیانی تاکے شرم!اے بدگویا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بارشِ تیرِ ظلم وستم نے سینے کردئیے چھلنی لیکن ضبط!اے جانبازا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ متجاوز ہو نہیں سکتے دائرۂ آئینِ وفا سے جوہیں رضا جویا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم گوباقی نہ ہو ضبط کا یارالیکن مطلب کیا ہے تمہارا تعمیلِ فرما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرمانِ آنحضرت کیا ہے،کیا ہے حکمِ شریعت کیا ہے غور کر اے خواہا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جونہ سنے احکام شریعت،جو نہ کرے قانون کی عزت وہ ہے نافرما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم گردوغبارِحرص وہوا سےصاف ہے بالکل فضلِ خدا سے آئینۂ داما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہرشجر آخر اپنے پھلوں سے ہی پہچانا جاتا ہے دیکھ سوئے غلما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا صدیق مکرم،سیدنا فاروقِ اعظم سرخیل ِیارا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عثمان معظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ خواہانِ رضوا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسداللہ الغالب، سیدنا اابن ابو طالب سرتاج ِ اخوا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جامع درویشی وشاہی،نافع مخلوقاتِ الہٰی کون؟ یہی یارا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم حامی مہرو صدق وصفا تھے،ماحی ظلم وجوروجفا تھے اصحابِ ذی شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کانِ صفا تھے،باغِ وفا تھے،ابرِ سخاتھے،بحرِ عطا تھے انصارواعوا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خوش اطوارونیک طبیعت،پاک دل وپاکیزہ فطرت جملہ مقبولا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسنین کی حالت کردیتی ہے محو حیرت یہ ہیں فرزندا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کامل تھے تسلیم ورضا میں ،جانیں دیدیں راہ خدا میں لیکن رکھ لی آ نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس درجہ رکھتے تھے لطافت،کیسی رنگت کیسی نکہت گلہائے بستا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی ہوں یا عیسیٰ ایک کے یاروں نے بھی پایا اخلاصِ یارا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے گل ایمان ڈھونڈنے والے کانٹوں سے دامن کو بچا لے کر سیرِ بستا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نفسِ دنی پر غالب آجا،آجا حق کے طالب آجا واہے درِفیضا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم توڑ علائق کی زنجیرں،چھوڑ تصنع کی تقریریں آزیرِ فرما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نقشِ دوئی کو دل سے مٹا دے،نعرہ الااللہ لگادے آذیلِ مستا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ سا ہادی،آپ سا محسن،ناممکن بالکل ناممکن سب سے اعلیٰ شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہیں آقا آپ ہیں مولا،آپ ہیں ملجاء آپ ہیں ماوٰی قربانِ ہر شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نگہتِ گل ہیں شمع سُبل ہیں،ہادی کل ہیں،ختم رسل ہیں کیا ہوبیانِ شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے مکرم،سب سے معظم،ہادی اعظم۔محسنِ عالم سبحان اللہ شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہیں آقاآپ ہیں مولا،آپ ہیں ملجاء ، آپ ہیں ماویٰ موجبِ حیرتِ شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم حد شرک سے باہر رہیئے،پھر جو کچھ جی چاہے کہئے سب شایانِ شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے کے جسے لاحق ہے سراسرخوف ِتابِ مہرِ محشر آزیرِ داما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ فدائے خلقِ خدا ہیں ،آپ شفیع روزِ جزا ہیں مژدہ اے خواہا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جملہ اصولوں سے ہے نرالا،فہمِ بشر سے ارفع اعلیٰ ہرہرجلوہ شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سب پر شفقت کی ہے،سب کو دین کی دعوت دی ہے عالم ہے مہما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے جویائے ہدایت آجا،آجا طالب ِ جنت آجا جنت ہے بستا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمت والو نیک جوانو،شمع رسالت کے پروانو دیکھو تو فرما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیداری کا وقت یہی ہے،تیاری کا وقت یہی ہے ہشیار اے شیرا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود جاگو اوروں کو جگا دو،عالم میں ایک دھوم مچا دو اے غیرت مندا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم موقع ہے یہی نصرتِ دیں کا،وقت نہیں واللہ نہیں کا ہاں اے شیدایا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دشت وجبل میں بحر رواں میں سارے عرض و طولِ جہاں میں پہنچا دو فرما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرق کو مغرب سے ملا دو ،کونے کونے میں پہنچا دو تذکرۂ احسا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو جو مقابل سارا جہاں،ہے لو یہ گوہے یہ چوگان ہے ہمت اے مردا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ہو لیکن آن نہ جائے ہاتھ سے یہ میدان نہ جائے ہمت اے مردا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بات تو جب ہے دیکھ لیں یکسر،دنیا کہ سب اسودواحمر جلوۂ حسنِ شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالم کو سرمست بنا دو،سب کو تا امکان چکھا دو صہبائے عرفا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بخت رسا پر نازاں ہوں میں ،فضلِ خدا پر نازاں ہوں میں پایا ہے فیضا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ناممکن ہے ناممکن ہےمجھ سے ادا ہو کیا ممکن ہے کچھ شکرِ احسا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اور احسانِ محمد۔لطفِ بے یایان محمد دستِ من و داما نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شور، صلی اللہ ہر سو ہے،کیوں نہ ہو اےمختار کے تو ہے نغمہ خوانِ شا نِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم(اخبار الفضل قادیان دارالامان 31مئی1929ء،حیات حضرت مختار صفحہ 227-231)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 2۔ قصیدہ در شان حضرت امام الزماں مسیح موعود ومہدئ دوراںحضرت حافظ صاحب نے یہ قصیدہ اپنے پیرو مرشدحضرت اقدس بانئ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شان میں رقم فرمایا۔جو حضرت مولاناسید محمد احسن صاحب امروہی کے رسالہ مسک العارف کے آخری حصہ میں شائع ہوا۔بعد ازاں "مدیر الحکم"حضرت یعقوب علی عرفانی نے اسے 27مارچ1898ءکے الحکم میں پانچویں پرچہ کے صفحۂ اول پر شائع کیا۔ (اس قصیدہ کے پہلے 18اشعار 27مارچ1898ء کے الحکم کے صفحۂاول پر چھپے ہیں اوربقیہ38اشعار 7اپریل1898ء کے الحکم کے صفحہ 4پر )
اے چشمۂ جودوکرم،بحرفیوضات اتم عالی ہمم والاحشم،محبوب رب ذوالکرم اے مصدرِ لطف وعطا، اے معدنِ جودوسخا اے منبعِ مہرووفا،اے مخزنِ فیضِ اتم اے حامیِ دینِ متیں،اے خادمِ شرعِ مبین اے عالمِ علمِ یقیں،اے عاشقِ شاہِ امم اے چارۂ بیچارگاں ، اے رہنمائے گمرہاں اے مرہمِ آزارِ جان،اے مظہرِلطف وکرم اے مظہرِ شان خدا،محبوب خاصانِ خدا پابندِ فرمانِ خدا،سرتابہ پالطف وکرم اے ہادئِ باعزوشاں،اے مہدئِ آخر زماں اے باعثِ آرامِ جاں،اے دافعِ رنج والم اے موردِ انعامِ حق،اے باعثِ اکرامِ حق اے مہبطِ الہامِ حق،اے ذی حشم اے محترم اے مہد ئِ عالی ہمم،اے ہاد ئِ والا حشم اے عیسٰئِ فرخ شیم، اے راہبر راہِ ارم اے عشق تُو ایمانِ من، اے الفت تُو جانِ من اے دردتُو درمانِ من،اکنون بمطلب آمدم تُو ہے ہمارا پیشوا،تُو ہے ہمارا رہنما تُو ہے ہمارا مقتدا،اک چاکرِ کمتر ہیں ہم گورنج وغم سہتے ہیں ہم،مشقِ ستم رہتے ہیں ہم لیکن یہی کہتے ہیں ہم،تجھ پرفدا ہوجائیں ہم ہوتے ہیں ظلم ناروا،لیکن ہمیں پروا ہے کیا جب تیرے آگے کردیا،ہم نے سرِ تسلیم خم ہم سب کو ہےاے نیک خُو،تیرے لقا کی آرزو کرتے ہیں تیری گفتگو،لحظہ بہ لحظہ دمبدم جو عالمانِ باخدا،رکھتے ہیں علمِ باصفاء دل تجھ پہ کرتے ہیں فدا،پیتے ہیں دھو دھو کر قدم باقی ہیں جو ناآشنا،وہ تجھ کو کہتے ہیں برا تیرے غلام اے پیشوا،کہتے ہیں اُن سے دمبدم دیکھوتم اے اہلِ ریا،دیکھو تم اے اہلِ جفاء دیکھو تم اے اہلِ دغا،دیکھو تم اے اہلِ ستم وہ پہلوان باخدا،وہ شہسوارِباصفاء تم سب کو ہے للکارتا،آجاؤ سب ہو کربہم دکھلا کے فرمانِ خدایا قولِ شاہ ِانبیاء ثابت کرو یہ مسئلہ،اے بانئ جوروستم یعنی مسیحِ ناصری،اللہ کے پیارے نبی باایں حیاتِ دنیوی،ہیں ساکنِ چرخِ دوم بے وجہ اے اہلِ ریا،کرتے ہو تم جوروجفا کیوں دور تم نے کردیا،خوفِ خدائے اکبرم ہیں حضرتِ عیسیٰ ؑکہاں،جو واپس آئیں گے یہاں ہے بے سروپا یہ گماں،خلّاق ِ عالم کی قسم خالق نے فرمایا نہیں،قرآن میں آیا نہیں حضرت نے فرمایا نہیں،پھر مان لیں کس طرح ہم قرآن نے کیا کچھ دور ہے،دیکھے جسےمنظور ہے جینے کا کچھ مذکور ہےیا فوت ہونا ہے رقم علامۂ شیخ علی1،لکھیں وفات عیسوی لیکن نہ مانیں مولوی،تو کیا کریں عاجز ہیں ہم لوگو کروخالق کا ڈر،پھولو نہ اپنے علم پر کہتے ہیں کیا اہلِ نظر،دیکھو اسے ہو کر بہم مالک 2نے فرمایا ہے کیا،کیا ابنِ قیم3 نے لکھا کیا ہے محمد4 نے کہا،کیا کہتے ہیں ابنِ حزم فرزندِ5 عمِ مصطفیٰ،ارشاد فرماتے ہیں کیا دیکھو جسے ہو شک ذرا،کیا ہے بخاری میں رقم قولِ جنابِ عائشہ،طبرانی میں ہے یوں لکھا یعنی مسیحِ باصفا،راہی ہوئے سوئے عدم ان سب کا ہے یہ قول جب،لازم ہے پھر انکار کب کیا کرتے ہو لوگو غضب،یہ کرتے ہو تم کیا ستم باز آؤ ان عادات سے،ناخوش نہ ہو اس بات سے ثابت ہے 30تیس آیات سے،موتِ مسیح ِ ذی حشم جب ہے یہ فرمانِ خدا،جب ہے یہ قولِ مصطفیٰ پھر ماننے میں عذر کیا،کرودوسرِ تسلیم خم باز آؤظلم و جور سے،کیا فائدہ اس طور سے دیکھو نگاہ ِغور سے،حالِ غلامِ احمدم قولِ شہہ جن و بشر، صادق ہیں اس پر سربسر انصاف سے دیکھو اگر،پاؤ نہ مطلق بیش وکم شمس وقمر کا واقعہ،تھا جو کہ قول مصطفیٰ وہ بھی تو پورا ہوگیا،پھر کس طرح مانیں نہ ہم میدان میں وہ شیرِ نر،تنہا کھڑا ہے بےخطر آجائے جو خم ٹھونک کر،ہے کون ایسا تازہ دم عیسائی ہوں یا آریا،یا نیچری یا دہریا یااور اس کے ماسوا،برہمو ہو ں یا ہندودھرم المختصرکل اشقیاء،اس کے مقابل آئیں کیا بے جان سب کو کردیا،حجت نے اس کی یک قلم وہ حامئ اسلام ہے،اس کا یہی اک کام ہے مصروف صبح و شام ہے،اس کام میں وہ ذی حشم وہ عزوجاہ قوم ہے،وہ بادشاہِ قوم ہے وہ خیر خواہِ قوم ہے،قوم اس پہ کرتی ہے ستم اے قوم اب بہرِ خدا،تو اپنی ضد سے باز آ کر اپنی حالت پر ذراتو آپ ہی لطف وکرم اے امّتِ شاہ ِ عرب،کافر دیا کس کو لقب یہ کیا کیا تونے غضب،یہ کیا کیا تو نے ستم وہ مہدئ مسعود ہے،وہ عیسٰئِ موعود ہے اس کا عدو مردود ہے،نزد خدائے اکبرم ہاں ہے وہ منظورِ خدا،ہاں ہے وہ مامورِ خدا ہاں ہے وہ پرنورِ خدا،لاریب سلطان القلم عالم میں اس کی خوبیاں،ہیں جلوہ گرخورشید ساں معروف ہے اس کی زباں،مشہور ہے اس کا قلم کیا لب ہیں کیا تقریر ہے،کیا بات ہے کیا تاثیر ہے کیا ہاتھ کیا تحریرہے،پُرزور ہے کتنا قلم اس کے مقابل ذی ادب،کب کھولتے ہیں اپنے لب جملہ فصیحانِ عرب،خاموش ہیں مثلِ عجم وہ شاہسوار نامور،مائل اگر ہو جنگ پر بھاگیں عدوئے بد گہر،ٹھہریں نہ ہر گز ایکدم ترساں ہیں جمع دشمناں ،لرزاں ہے انبوہ گراں ہے اسکی کلک دوزباں،گویا کہ شمشیرِ دودم جو عزتِ دیں اس نے کی،جو عظمتِ دیں اس نے کی جو خدمتِ دیں اس نے کی،عاجز ہے لکھنے سے قلم یہ آسمانِ پیر اگر،بے مشعلِ شمس و قمر چکر لگائے دربدر،گاہے عرب ،گاہے عجم لیکن اِسے کوئی بشر،اِس کا نظیر آئے نظر ہے غیر ممکن سربسر،ایمان سے کہتے ہیں ہم پھر اُس کی توصیف وثنا کیاکرسکے کوئی ادا اے دل تو اب یہ کر دعا،آمین کہتے جائیں ہم اے خالق ارض و سماء،اے مالک ِ ہر دوسرا دے تو انہیں فہم و ذکاء،تا مان لیں اہلِ ستم آپس کے جھگڑے دور ہوں،مل جل کے سب مسرور ہوں بغض و حسد مفرور ہوں،مفقود ہوں رنج والم دجال بد اطور پر،عیسیٰ کو دے فتح و ظفر خدام کے دل شاد کر،اے ذوالجلال و ذوالکرم کر ختم اب یہ داستاں،کیا تو ہے کیا تیرا بیاں مختار روک اپنی زباں،مختار تھام اپنا قلم6 1۔علی بن احمد دیکھو سراج منیر 2۔دیکھو مجمع بحار الانوارجلد اول 3۔مدارج السالکین ملاحظہ کریں 4۔(محمد بن اسماعیل)صحیح بخاری شریف دیکھئے۔کتاب التفسیر 5۔صحیح بخاری شریف زیر آیت6.منقول از رسالہ مسک العارف صفحہ 62-64 مصنفہ محمد احسن صاحب امروہوی
(حیات حضرت مختار صفحہ 239-245) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 3۔ قصیدہ در شان حضرت امام الزماں مسیح موعود ومہدئ دوراںبعض خدمات سلسلہ بجا لانے کی غرض سے جن دنوں حضرت حافظ صاحب قادیان میں سکونت پذیر تھے توحضرت یعقوب علی عرفانی ایڈیٹر "الحکم"نے حضرت حافظ صاحب کو حضرت اقدس بانی سلسلۂ عالیہ احمدیہ کی شان میں قصیدہ لکھنے کی طرف توجہ دلائی جس کے جوب میں یہ لاجواب قصیدہ منظر عام پر آیا۔یہاں ایڈیٹر صاحب "الحکم"کے نوٹ کے ساتھ شامل کتاب کیا جاتا ہے۔
قصیدہ دشمنوں کی یہ خواہش مجھے دیکھیں ابتر ازجناب حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوریاس موضوع کو حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری نے "الحکم"کے خاص نمبر کے لئے نظم کیا ہے اور بتلایا ہے کہ دشمن کیا چاہتے تھے اور خدا نے کیا کیا۔چونکہ حافظ صاحب نےاپنی گونا گوں مصروفیتوں اور بیماری کے باوجود یہ قصیدہ ہماری درخواست پر تصنیف فرما کر مرحمت فرمایا ہے اس لئے خاص شکریہ کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔مدت ہوئی کہ حافظ صاحب بعض خدمات سلسلہ انجام دینے کی غرض سے یہیں (قادیان میں )مقیم ہیں اور چند روزاوریہیں قیام رہے گا۔(ایڈیٹر)
قطعہ اخویم حضرت یعقوب علی عرفانی خیراندیش وفا کیش ومحبت پرور آپ نے مجھ سے کئی بار جو فرمائش کی اُسی اخلاص و توجہ کا ہے یہ خاص اثر ورنہ میرے لئے فی الحال یہ موقع کب تھا آپ کو بھی مری مصروفیتوں کی ہے خبر اور پھر شیب کے عالم میں کہاں رنگِ شباب نہ وہ تیزی ہے نہ وہ سیف ِ زباں میں جوہر ضعف سے دل ہی ٹھکانے ہے نہ قابو میں دماغ طائرِ فکر ہے ڈالے ہوئے گویا شہپر بحرِ ذخار مضامین سے ہو کس طرح عبور کشتئ طبع ِرواں جب ہو گستہ لنگر طائرِذہنِ رساسیرِ فلک بھول گیا کہ وہ ہے اورنگہبانی جائے بستر میں کہاں اور کہاں مشغلۂ شعروسخن فقط ارشاد کی تعمیل ہے اے نیک سیر اب سے اڑتیس برس پہلے کی ہو گی یہ بات اپنے لفظوں میں سناتا ہے جسے آج احقر اللہ اللہ وہ اعجاز لب جاں پرور کلمہ پڑھنے لگیں جس سے بتانِ آذر خوش ترآں وقت کے تھا حاضرِ خدمت میں بھی آہ وہ مجلس پاک آج بھی ہے پیشِ نظر حسن الفاظ ومعانی سبب ِ راحتِ روح دل نشیں طرزِ سخن،لطف بیاں وجد آور اللہ اللہ وہ اندازِوقارِ مجلس اللہ اللہ وہ دلچسپ وہ دلکش منظر اس طرح حلقۂ خدام میں تھے مہدئ دین جلوہ گر محفلِ انجم میں ہو جس طرح قمر اللہ اللہ وہ نزول ِبرکات وانوار اللہ اللہ وہ کشوددرچرخ اخضر اللہ اللہ وہ حقائق وہ معارف ،وہ نکات اللہ اللہ وہ دہنِ شستہ حوضِ کوثر فرحتِ قلب سےحُضّار کی نظریں روشن صورتیں فرطِ مسرت سے برنگِ گل تر سن رہے تھے ہمہ تن گوش بنے وہ تقریر جس کے الفاظ تھے گل اور معانی گوہر کون تھا صاحبِ تقریر ؟مسیح موعود ؑ مہبطِ روح امین ،موردِ فضل ِ داور آپ نے اپنی صداقت کےدئیے ایسے ثبوت جن کو سن کر علماء و فضلاء ہوں ششدر فقرے فقرے میں وہ تاثیر کہ سبحان اللہ روح سامع سے صد ااٹھتی تھی بہتربہتر بات یہ بھی اسی تقریر میں پھر فرمادی دشمنوں کی ہے یہ خواہش مجھے دیکھیں ابتر مشورے ہوتے ہیں آپس میں یہی اُن سب کے کہ مری راہ میں برپا کریں کچھ فتنہ وشر مفتری کوئی سمجھتا ہے تو کوئی مجنون کوئی ساحر مجھے کہتا ہے کو ئی شعبدہ گر آرزو ہےانہیں ہردم مری بربادی کی اسی کوشش میں اسی فکر میں ہیں شام وسحر لیکن اُن کی یہ تمنا نہ برآئے گی کبھی بلکہ وہ میری جگہ خود ہی اٹھائیں گے ضرر اس میں کچھ شک نہیں یہ بات ہےلاریب درست یہی قرآن میں ہے قولِ خدائے برتر فضل کرتا ہے خدااورتوسب پر لیکن مفتری کا نہیں ہوتا نہیں ہوتا یاور مفتری کا کبھی ہوتا نہیں انجام بہ خیر مرگ ناکامی وحسرت سے نہیں اُ س کو مفر مفتری کے لیے راحت کا نہیں کوئی مقام نارِحسرت یہاں اور وہاں نارِسقر اورجو ملہم ِصادق ہوپائےگا فلاح آخراُس کے لئے واہوں گے درِفتح وظفر اُس کو اندیشہ ء شمشیرمکذب کیا ہے کہ ہے صادق کے لئے ذاتِ الہیٰ مغفر میں جو کاذب ہوں تو پھر کذب کی پاؤں گا سزا اور صادق ہوں تو منکر کا ہے انجام ابتر کبھی مامور من اللہ نہ ہوگا ناکام یادرکھیں ،اسے لکھ رکھیں عدوئے خودسر یہ تو سچ ہے کہ ابھی میری جماعت ہے قلیل اور اُس پر ہے طرہ غرباء ہیں اکثر اس کے افراد کوا غیار سے نسبت ہی نہیں کہ نہ یہ صاحب طاقت ہیں نہ یہ صاحبِ زر اپنے ہی ضعف سے ہے اک توسنبھلنا دشوار اورپھردرپے تخریب ہے دنیا یکسر نت نئے فتنے اٹھاتا ہے گروہِ علماء ہرطرف آتشِ تکفیر کے اڑتے ہیں شرر مجھ سے برگشتہ وبرہم اُمراء وروساء مشتعل عامۃ الناس،مخالف لیڈر اِس طرف میرے موافق کہیں دو ہیں کہیں ایک اُس طرف دشمن خونخوارہیں لشکر لشکر حال ظاہر ہو جو ملحوظ تو صورت یہ ہے صیدِ لاغر ہو اِدھر اور اُدھ شیرببر باوجویکہ تناسب نہیں باہم کچھ بھی باوجویکہ بڑا فرق ہے دونوں میں مگر وقت آتا ہے کہ دی جائے گی شہرت مجھ کو وقت آتا ہے کہ دنیا کا بنوں گا رہبر ہرطرف میرے خیالات کوغلبہ ہوگا زیر ہوجائیں گے وہ جو نظر آتے ہیں زبر میں ہوں اک شمع تہ سایۂ دستِ قدرت مجھ کو گُل کر نہیں سکتی کبھی بادِ صرصر میں وہ ذرہ ہوں کہ خورشید ہے جس میں پنہاں میں وہ قطرہ ہوں کہ رکھتا ہے جو دریا دربر وہ ترقی مجھے ملنی ہے کہ اللہ غنی آج اک تخم ہوں کل میں نظر آؤں گا شجر میرے ہی سایہ میں خلقت کو ملے گا آرام حیف اُس پر مری جانب جو اٹھاتا ہے تبر چند ہی روز میں پستی ہے مبدل بہ عروج دیکھتے دیکھتے بن جائے گا ذرہ نیر ہے یقینی مرے اقوال کا پورا ہونا کہ یہ ہیں وحی الہٰی سے نہ ازرمل وجفر سن لیا سب نے یہ ارشادمسیحائے زماں اب وہ سوچیں جنہیں ہو خطرۂ روزِ محشر مفتری پر کبھی کہیں فضلِ خدا ہوتا ہے کہیں اُس پر بھی کُھلا کرتے ہیں الطاف کےدر قولِ صادق یہ نہیں تھا تو ہوا کیوں پورا شاخ جو خشک ہو وہ بھی کہیں لاتی ہے ثمر تخم تھا سلسلۂ احمدیہ اب ہے درخت پہلے اصغر تھا تو اب فضلِ خدا سے اکبر پہلے قطرہ تھا تو یہ آج ہے بحرِموّاج پہلے ذرہ تھا تو اب صورتِ مہر ِ انور احمدی خدمتِ اسلام میں رہتے ہیں دوان سرعتِ سیر سے گویا ہیں طلسمی پیکر بہرِ تبلیغ کبھی روندتے ہیں پشتِ زمیں کبھی یہ چیرتے ہیں پھرتے ہیں سمندرکا جگر ایشیا میں یہ کبھی ہیں کبھی ا مریکا میں کبھی درپیش انھیں افریقہ ویورپ کا سفر کہہ رہی ہےیہ پکارکے روش مستانہ "شیر قالین ہے دگر شیر نیستان دیگر" یہ بہرکیف ہیں مستِ مئے عشقِ توحید گو وہ کوئی سی بھی حالت ہو سفر ہوکہ حذر غیر ملکوں میں بھی اب انجمنیں ہیں قائم اس سے قطع نظر اسود ہوں کہ ہوں وہ احمر یہ حقیقت ہے کسی سے بھی جو چھپنے کی نہیں خواہ وہ مولوی صاحب ہوں کہ مسٹر ہوں کہ سَر احمدی عرصۂ توحید میں ہیں بےہمتا آج اُن کا کوئی ثانی ہے نہ کوئی ہمسر نہیں اس میں کوئی گنجائش تکرار نہیں کہ زمانے میں ہے یہ بات من الشمس اظہر الغرض احمدیت پھیل چکی ہے ہر سمت لیکن اس پر بھی کسی کو جو نہ آئے باور تو پھر اس کے لیے اک سہل سی تجویز یہ ہے جو ہے بہر خس و خاشاک ِ توہم اخگر کہ وہ انصاف و خدا ترسی وحق جوئی سے اک ذرا دیکھ لے قول ظفر سعد اختر آپ بھی بادل ناخواستہ فرماتے ہیں آپ کو بھی ہے اقراربصد خوف وخطر ہند ہی تک نہ رہا سلسلۂ احمدیہ بلکہ اب غیر ممالک میں بھی ہے اس کاگزر ہیں اِدھر چین میں شاخیں تو اُدھریوروپ میں ہر طرف پھیل گیا احمدیت کا شجر چشمِ حیرت سے بحیرت نگراں ہوں ہرسو رگِ جاں کے لئے یہ بات ہے گویا نشتر آہ!پاتا تھا جنہیں عاقل و دانا وفریس صاحبِ فہم وذکا و خرد و علم وہنر وائے قسمت جو نظر آتے تھے سرمایۂ ناز اب وہ ہیں اور مئے احمدیت کے ساغر احمدی ہوکوئی اس کی نہیں مجھ کو برداشت یہ تو ہے میرے جگر کے لئے اک تیر دوسر کردیا ہے انہیں تیروں نے کلیجہ چھلنی آہ کچھ بن نہیں پڑتی مجھے میں ہوں مضطر جل گئے سوزدروں سے جگر ودل دونوں آتش غم نے بنا رکھا ہے سینہ مجمر اور چندے یہی حالت ہے تو پھر خیر نہیں کہ بنا دے گی مجھے نارِ حسدخاکستر اب ذرا سن لیں توجہ سے مرے معروضات وہ جو اس راہ میں ہیں سربکف و سینہ سپر احمدیت کی ترقی جو نہ روکی ہم نے امن سے کر نہ سکیں گے کہیں اوقات بسر یہ ہمارے لیے گویا ہے جگر کا ناسور یا بجھایا ہو ازہر آب میں بُرانِ خنجر ہوشیار اے مرے یارانِ طریقت ہشیار حذر اس خنجرِخونخوارسے سو بارحذر احمدیت کے تو سایہ سے بھی لازم ہے فرار ورنہ کھا لے گی ہمیں اس کی تو ہے جوعِ بقر اللہ اللہ وہی پیکرِ کبرونخوت وہی حاسد،وہی بدگو وہی بد بیں واشر جوشِ بدگوئی اڑائے لئے پھرتا ہے جسے لکھنؤ میں جو کبھی ہےتو کبھی امرتسر احمدیت کی ترقی سے جو ہے یوں نالاں جس طرح چیختی پھرتی ہو زنِ بے شوہر اور اس طرح جو ہوتا ہے کبھی گرمِ فغاں جس طرح مرگ ِپسرپر کوئی بیوہ مادر آتشِ بغض سے جس کا دل بریاں ہے کباب دے رہا ہے یہ شہادت وہی ناکام ظفر اے ذرا گور کریں وہ شرفائے عالم جو ہیں اہلِ خردو اہلِ دل و اہل ِ بصر یہ شہادت ہے ترقی کا ثبوت ِ کامل یا ابھی اس میں کسی قسم کی باقی کا کسر حق پسندوں کے لئے ہے یہ دعائے مختار دمبدم فضلِ الہٰی رہے سایہ گستر (حیات حضرت مختار صفحہ 232-238) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 4۔ قصیدہ در مدح و توصیف قادیان دارالامان اللہ اللہ زورِ تاثیرِ ہوائے قادیاں گونجتی ہے سارے عالَم میں صدائے قادیاں وسعتِ فرصت میسر ہو تو موجیں دیکھئے دل نہیں ہے سینے میں بحرِ ثنائے قادیاں دورِ اول ہی میں دل مستانۂ حق بن گیا اے جزاک اللہ صہبائے ولا ئے قادیاں اب کہاں ہوتا ہے مزعوماتِ واعظ کا اثر نقشِ لوحِ دل ہے برہانِ ہدائے قادیاں کیا خطر کیا خوف سحر اندازئ دجال کا دل میں ہے یا دِ لبِ معجز نمائے قادیاں حضرتِ واعظ اُدھر محو ِ لغاتِ نو بہ نو اور اِدھر میں مستِ صہبائے ثنائے قادیاں تاکجا یہ بانگ ِ بے ہنگام آخرتاکجا اب ذرا سننے دے ناصح نغمہا ئے قادیاں سربکف پھرتے ہیں عالم میں پئے ابلاغِ حق دست وپا والو یہ ہیں بے دست و پا ئے قادیاں قصۂ منصور اک افسانۂ پارینہ ہے دیکھئے رنگِ شہیدانِ وفا ئے قادیاں اے خواتین اپنی اپنی انگلیوں سے ہوشیار مصر میں ہے آمد یوسف لقا ئے قادیاں مژدہ ہے اہل فرنگ ، اے تشنگان آبِ حق موج زن ہےبحرِ طبع رہنما ئے قادیاں کیوں نہ دیکھے مصر لندن کو نگاہِ رشک سے رونق افزاہےوہاں یوسف ادا ئے قادیاں دھوم ہے لندن میں بزم آرائیوں کی دھوم ہے نغمہ زن ہیں ہر طرف شیریں نوا ئے قادیاں عرصۂ محشر سے واعظ کیا ڈراتا ہے مجھے مدتوں چھانا ہے میدانِ وفا ئے قادیاں کر لئے ہیں کوثر وتسنیم پرقائم حقوق پی چکا ہوں جام صہبائے قادیاں بزم جنت کی حقیقت مجھ سے پوچھا چاہیے میں نے لوٹی ہے بہار جانفزا ئے قادیاں گل سے باہر رہ کے بھی رہتی ہے جیسے گل میں بُو یوں بسی ہے غنچۂ دل میں فضا ئے قادیاں کب تک آشفتہ خیالی اے دل شوریدہ حال عرض کر اب یہ حضورِپیشوا ئے قادیاں اے امام العصر،اے فرمانروائے قادیاں حکمرانِ قادیان،شاہ ہدا ئے قادیاں یہ گذارش خدمت اقدس میں ہے بعد سلام وہ جو ملک ہند میں ہے اک فدا ئے قادیاں نام کا مختار ؔلیکن عاجزوبےاختیار بیکس و ناچار لیکن باوفا ئے قادیاں خوشہ چیں خرمنِ فیضِ امیرِؔ لکھنوی کمترینِ خادمانِ پیشوا ئے قادیاں اس دعا میں محو رہتا ہے بصد عجزونیاز کاش سن لے جلد اسے حاجت روا ئے قادیاں مطلع دوم نورافشاں یوں ہوخورشید ِہدا ئے قادیاں پھیل جائے سارے یورپ میں ضیا ئے قادیاں غرب سے اٹھ اٹھ کر پہنچے شرق میں یہ غلغلہ ہر صدا پر غالب آئی ہے صدا ئے قادیاں دل ہوئے روشن وفورِانتشارِ نور سے خوب چمکا مہرِ تاباں ہدا ئے قادیاں عزت وعظمت کا سکہ سب کے دل پر بیٹھ جائے روز افزوں ہو وقارِ رہنما ئے قادیاں فتح چومے پاؤں،چمکے مہر اقبال ِ حضور منتہائے اوج پر پہنچے لوا ئے قادیاں ہم سفر خدام پر بھی ہو نزولِ فضل و رحم جو ہیں آج آئینۂ شانِ صفا ئے قادیاں داہنے سکرٹری یعنی جناب ذوالفقار1 خان والا شاں فدا ئے ہر ادائےقادیاں طالبِ دیں،حامئ دیں،والہ وشیدائے دیں گوہرِ شہسوارِدریائےوفا ئے قادیاں زیرک وفرزانہ ونازک خیال و خوش مزاج ماہرِ آئینِ اخلاص ووفا ئے قادیاں طوطئ شیریں مقالِ گلشنِ صدق و صفا ہم صفیرِ عندلیبِ خوش نوا ئے قادیاں سرفروشِ بے عدیل وجاں نثارِبے نظیر موردِ الطافِ خاص رہ نما ئے قادیاں سید الحفاظ حضرت مولوی روشن علی انجمن آرائے تسلیم ورضا ئے قادیاں فاضل العصر ،افقہ الناس،اعلم العلام ادیب مخزنِ سرّو رموزونکتہ ہا ئے قادیاں فخرِ فرّاءُ خلیل و اسمعی و سیبویہ بحرِ ذخّار علوم دل کشا ئے قادیاں رازئ دوراں ، بخاری زماں، شبلئ عصر خوش مقال وباکمال وباوفا ئے قادیاں رشکِ سبحان وکلیم طورسینائےسخن ماہر طرزِبیاں مدعا ئے قادیاں نکتہ داں و نکتہ پرور،نکتہ فہم و نکتہ رس نکتہ سنجِ علم ِ قرآں نکتہ زا ئے قادیاں آشنائے باکمالِ قلزمِ حلم وحیا یکّہ تازِ عرصۂ صدق وصفا ئے قادیاں غازۂ رخسارِ عقل وفہم وادراک وذکا طرّۂ دستارِزہدو اتقا ئے قادیاں ازپئے مردانِ حق بیں آیۃ اللہ العلیم برسر اعدائے دیں برقِ سما ئے قادیاں چوہدری فتح محمد ایم اے عالی منزلت سرخوش وسرمست صہبا ئے ولائے قادیاں یادگارِعظمت وشانِ سیال ذی وقار دم بہ دم سرگرم ذکر جان فزا ئے قادیاں نرم دل ہنگام طاعت مثلِ طفلِ شیر خوار وقت ہیحامردِ میدانِ دغا ئے قادیاں شہسوارِ عرصۂ ابلاغ دینِ مصطفےٰؐ پہلوانِ نامدارِرہ نما ئے قادیاں قرۃ العین ِ مسیح و مہدئ دینِ متیں گوہرتاج سر اہل صفا ئے قادیاں زوربازوے بشیر الدین امام المتقین افتخار اہل دین زینت فرا ئے قادیاں حامی انصار ،صاحبزادہ عالی تبار حضرت مرزاشریف احمد ضیا ئے قادیاں صورتش مثلِ گل ِتر،سیرتش چوں آئینہ راحتِ روح ودل اہل صفا ئے قادیاں قرقِ خوردی وبزرگی کہہ رہا ہے ناز سے آپ ماہِ قادیاں ہیں وہ سہا ئے قادیاں مولوی عبد الرحیم ایم اے پسندیدہ خصال درد مند ملت ودرد آشنا ئے قادیاں ذی لیاقت ذی فراست ذی مروت ذی شعور حق شناس و حق پسند و حق نوا ئے قادیاں عاقل و دانا وطباّع وخرد مند و فریس رونمائے شاہد صدق وصفا ئے قادیاں جوہرِ کانِ علوم وگوہر بحرِ عمل محوِ مشقِ درس تسلیم ورضا ئے قادیاں حضرت یعقوب عرفانی "مدیر الحکم" بحرِ عشق قادیاں ، کوہ وفا ئے قادیاں پیردانائے جواں ہمت،وسیع الحوصلہ جان نثارِ قادیان،وقفِ ثنا ئے قادیاں صاحبِ عقلِ رسا،فہمِ رسا،ذہنِ رسا مظہرِ حسنِ نگارِمدعا ئے قادیاں ناشرِ ذکر جری اللہ امام المتقیں شائقِ افزائشِ حسنِ فضا ئے قادیاں افتخارِ ملکِ بنگالہ مبارک خوش صفات حق رسانِ جرمن وحق آشنا ئے قادیاں صاحب ِعلم وحیا،پابندِ قانونِ رضا مست صہبائےو فا محو ادا ئے قادیاں ڈاکٹر صاحب جنابِ حشمت اللہ باکمال جوہیں اک طبی مشیر مقتدائے قادیاں جو ہیں اخلاقِ مجسم مجو ہیں سرتا پا کرم جوہیں شیداؤ فدائے رہنما ئے قادیاں ہوشیار وتجربہ کار وحلیم وبردبار وقف بہرِخدمتِ شاہ وگدا ئے قادیاں چودہری صاحب شریف الطبع ،پاکیزہ خیال جرعہ نوش بادۂ لطف و عطا ئے قادیاں نیک فطرت ،نیک طینت،نیک نیت،نیک رائے نونہالِ گلشنِ صدق وصفا ئے قادیاں عبد رحمٰن قادیانی بھائی جی پاکیزہ خو افتخاراہلِ تسلیم ورضا ئے قادیاں خیر اندیش واطاعت کیش وفرخندہ شعار خادمِ خاص جنابِ پیشوا ئے قادیاں وہ علی قبلِ محمدؐ،وہ سراپا اعتقاد وہ علمبردارِہمت وہ فدا ئے قادیاں وہ کہ دل سوزی میں مردبے نظیرو لاجواب وہ کہ ہیں پروانۂ شمع ہدا ئے قادیاں وہ کہ اپنے بار کے حامل بنے خود شوق سے وہ کہ ہیں مست مے مہرو وفا ئے قادیاں وہ جواں نیک نیت،نیک خصلت رحم دیں باعثِ آرام ارباب ِ صفا ئے قادیاں وہ مطیع حکم،وہ خدمت گزارقافلہ وہ کمر بستہ پئے اہلِ وفا ئے قادیاں جن کی یہ تعریف یہ توصیف ہے اُن کے سوا اور بھی لندن میں ہیں جو باوفا ئے قادیاں وہ ظفر اللہ خان بار ایٹ لا عالی دماغ موجب تزئین ِ بزمِ ازکیا ئے قادیاں خوش سلیقہ ، خوش زباں، خوش لہجہ ،خوش خو،خوش مقال حجتِ روشن پئے سرمدعا ئے قادیاں یک در تابندہ ازعمان ادراک وشعور یک گلِ رعنا زگلزارِذکا ئے قادیاں نکتہ سنج بے بدل،معنی طرازِلاجواب ترجمانِ حضرت فرماں روا ئے قادیاں ازپئے خدماتِ ملت،بادل وجان مستعد سربکف آمادہ بہر کارہا ئے قادیاں نیّربرج سعادت،مولوی عبد الرحیم بادیہ پیمائے افریقہ فدائے قادیاں مستحق ِمرحباوآفرینِ بے شمار کاشفِ شانِ طریق حق نما ئے قادیاں لائقِ اکرام بے پایانِ دانایانِ عرب قابلِ تحسینِ اربابِ صفا ئے قادیاں وہ محمد دین بی اے خوش صفات وخوش خصال وہ مجسم خلق ،وہ کوۂِ وفا ئے قادیاں معدنِ اخلاص ولطف و حلم وعجز وانکسار والہ وشیدائے اندازو ادا ئے قادیاں نیک عادت بامروت ذی ہمم فرخ شمیم رہنمائے ملک ِامریکہ ندا ئے قادیاں مثل مفتی صاحب امریکہ کے طول وعرض میں شوق سے پھیلا رہے ہیں جو ضیا ئے قادیاں کوئی مفتی وہ محمد صادق ِذی مرتبت جو ہیں اہلِ تسلیم ورضا ئے قادیاں خوش زباں وخوش بیاں وخوش خصال وخوش جمال عاشقِ دیں و فدائے رہ نما ئے قادیاں ایک عالم جن کی تعریفوں میں ہے رطب اللسان شہرۂ آفا ق ہیں جو خوشنوا ئے قادیاں زینتِ ایوان علم وحسنِ گلزارعمل زیب بزم عاشقانِ پیشوا ئے قادیاں جن کے علم وفضل کی امریکہ و یورپ میں دھوم جن کا حصہ ہے بیانِ ماجرا ئے قادیاں جو ہیں عبرانی وکلدانی و سریانی میں طاق جو ہیں آگاہِ نکاتِ دل کشا ئے قادیاں وہ قوی ہمت فرید ایم اے دلاور جاں نثار وہ جری شیر نیستان وفا ئے قادیاں نیک فطرت صاف باطن پاک دل شیریں مقال خوش سیر،عالی نظرحق آشنا ئے قادیاں وہ سراپا اتقاؤپیکر ِحلم وحیا وہ جوانِ باصفا وہ خوش ادا ئے قادیاں گونج اٹھے جس کے نغموں سے جبال وبروبحر ہرطرف جرمن میں جا پہنچی صدا ئے قادیاں مولوی فضل رحمٰن جامع علم و عمل باوفائے قادیاں وباصفا ئے قادیاں عاشقِ تصدیق ِ حق تائید حق ،ابلاغِ حق راحت افزائے دل اہل وفا ئے قادیاں خان ذی شان ورفیع المرتبت عبدالرحیم شاہدِصدقِ مسیح باصفا ئے قادیاں وہ تقی الدین خواہش مندِ تحصیلِ علم نوجوانِ خوش زبان وخوش ادا ئے قادیاں وہ عزیزالدین احمد ذی خرد عالی خیال وہ ترقی خواہ حسنِ کارہا ئے قادیاں شائقِ تحقیقِ ادیان و ملل نواب دین حامی ِ صدقِ جناب مقتدا ئے قادیاں خوش دماغ وخوش طبیعت ،خوش زبان وخوش مزاج نغزگوئے قادیاں ونکتہ زا ئے قادیاں بہر فرض منصب آمادہ بصد جوش وخروش حسبِ حکمِ حضرتِ فرماں روا ئے قادیاں مرد میدانِ فراست دوربین وزودبین نغمہ سنجِ گلشنِ فہم و ذکا ئے قادیاں وہ جوان ذی خرد مصباح دین روشن خیال وہ طلبگارِ ضیائےدل کشا ئے قادیاں صوفی پاکیزہ طینت،فلسفی وحق پرست سربسر پابندِآئینِ وفا ئے قادیاں روزوشب سرمست وسرشارِمے ذکرِ حبیب دم بہ دم محو ثنائے مقتدا ئے قادیاں خیرخواہِ خلق ونیک اطوار وخوش طبع وخلیق تابعِ حکم جنابِ رہنما ئے قادیاں سب علی قدر مراتب صاحبِ اخلاص ہیں سب طلبگار رضائے پیشوا ئے قادیاں سب رہیں شاداں وفرحاں سب کی برآئے مراد خوب یورپ کو سنائیں نکتہ ہا ئے قادیاں پھیل جائے رعب ان کا بیٹھ جائے ان کی دھاک گلشنِ یوروپ میں چل جائے ہوا ئے قادیاں یہ اثر الفاظ میں ہو یہ کشش آواز میں کھینچ لیں سینوں سے دل شیریں نوا ئے قادیاں ہر صدا پر بول اٹھیں بے ساختہ یہ سامعین ایسے ایسے گل کھلاتی ہے فضا ئے قادیاں یہ دعا تھی بہر خدام سفر مختار ؔکی اور اب آگے ہے بیانِ ماجرائے قادیاں جس کی نگہت سے مہکتی تھی فضائے قادیاں ڈھونڈتی ہے اب اسی گل کو ہوا ئے قادیاں کام تو جاری ہیں حسب الحکم لیکن اے حضور قالبِ بے جان سے ہیں اہلِ وفا ئے قادیاں اک اداسی ہے کہ ہےچاروں طرف چھائی ہوئی آج کل بدلی ہوئی ہے ہرادا ئے قادیاں اب کہاں وہ تازگی وہ دل کشئ سبزہ زار اب کہاں وہ رونق وحسن فضا ئے قادیاں اب کہاں وہ رنگِ وجد نونہالان چمن اب کہاں وہ طرز رفتارصبا ئے قادیاں اب کہاں وہ صحن ِگلشن میں عنادل کا ہجوم اب کہاں وہ زمزمے زیر سما ئے قادیاں اب کہاں وہ ولولے،وہ شوق وہ جوش وخروش اب کہاں وہ اانبساطِ جاں فزا ئے قادیاں اب کہاں وہ جوش گل وہ نغمہ سنجی ہزار اب کہاں وہ لطفِ باغِ دلکشا ئے قادیاں اب کہاں وہ انتشارنکہتِ گل چارسو اب کہاں وہ عطر بیزی ہوا ئے قادیاں اب کہاں وہ رنگ،وہ افراطِ سامانِ بہار اب کہاں وہ کثرتِ گل وہ فضا ئے قادیاں اب کہاں وہ تابش انوار شام دل فروز اب کہاں وہ جلوۂ صبح صفا ئے قادیاں اب کہاں وہ لطف ِ اظہار نکات نو بہ نو اب کہاں وہ فرحتِ اہل صفا ئے قادیاں اب تو بس یہ ورد ہے یہ فکر ہے یہ ذکر ہے جلد سے جلد آئے یارب رہنما ئے قادیاں لیجئے وہ مطلع برجستہ اب پڑھتا ہوں میں جس کو سن کو جھوم جائیں با وفا ئے قادیاں مطلع چہارم جاکے یہ کہہ دے کسی سے اے ہوائے قادیاں اب نگاہِ لطف ہو سوئے فضا ئے قادیاں دم بہ دم تڑپا رہی ہے شدتِ سوزِفراق ماہئ بے آب ہیں اہلِ صفا ئے قادیاں چٹکیاں لیتا ہے رہ رہ کردلوں میں شوقِ دید مضطرب رہتے ہیں ارباب وفا ئے قادیاں عرض وطول و ہند میں ہرسودعائیں ہیں وہی گونجتی ہے رات دن جن سے فضا ئے قادیاں سب کی خواہش ہے یہی سب کی تمنا ہے یہی آئے سوئے قادیاں راحت فزا ئے قادیاں ذرہ ذرہ ہے سراپا چشم شوقِ دید میں راستہ تکتے ہیں سارے کوچہ ہا ئے قادیاں دیکھئے جس کو وہ ہے مشتاقِ دیدارِجمال دن گنے جاتے ہیں بہر رہ نما ئے قادیاں کھینچ سکتا اس کا نقشہ کاش میں الفاظ میں آج کل جس دھن میں ہیں اہلِ صفا ئے قادیاں چین کی نیندیں جو تھیں وہ ہوگئیں خواب وخیال ہے یہ جوش انتظارِ پیشوا ئے قادیاں سب سے بڑھ کر منتظر ہیں حضرت نصرت جہاں جوسراسررحمتِ حق ہیں برائے قادیاں اپنے رب سے اب ہے یہ اُن کی دعا و التجا رونق افزا جلد ہورونق فزا ئے قادیاں وہ ترا محبوب اے مولا وہ تیرا مہ لقا جس سے تاریکی مٹی پھیلی ضیا ئے قادیاں وہ مری آنکھوں کی راحت،وہ مرے دل کا سرور وہ سراپا نور،وہ یوسف لقا ئے قادیاں تو مع الخدام خیریت سے واپس لا اسے تو دکھا مجھ کوجمال دل ربا ئے قادیاں الغرض چھوٹے بڑے سب ہیں سراپا اشتیاق ہیں تلاش مہر میں ارض وسما ئے قادیاں اب تو دور شربت دیدار چلنا چاہیے مضطرب ہیں تشنگانِ باوفا ئے قادیاں کاش جلد آکر یہ مژدہ دے کوئی مختاؔر کو لو مبارک آگئے فرماں روا ئے قادیاں مطلع پنجم اللہ اللہ رنگ لائی پھر فضائے قادیاں پھر وہی عالم ہوا زیرسما ئے قادیاں شکر للہ اے فدایانِ ادائے قادیاں لو وہ بدلا رنگ وہ پلٹی ہوا ئے قادیاں پھر گل و بلبل وہی ہیں پھر وہی رازونیاز پھر وہی لطف ِبہار ِجانفزا ئے قادیاں پھر وہی محفل ،وہی ساقی،وہی مستِ الست پھر وہی دورِ مے فرحت فزا ئے قادیاں پھروہی جوشِ طرب ہے ،پھر وہی کیف وسرور پھر وہی نغمے ،وہی لطفِ نوا ئے قادیاں ہمصفیرو کھل گیا ہے پھر بوستانِ آرزو پھر ہوئی عنبر فشاں موجِ ہوا ئے قادیاں جیتے جی کرنا ہو جس کو سیر جنّٰت النعیم دیکھ لے لطف ِ بہارِ جاں فزا ئے قادیاں کیا ہوا میں نے جو اس کو باغِ جنت کہہ دیا دیکھ لیں اہلِ نظرشانِ ادا ئے قادیاں یہ چمن بندی ،یہ جوشِ لالہ وگل،یہ بہار یہ پھلا پھولا گلستانِ وفا ئے قادیاں یہ طراوت،یہ نفاست،یہ لطافت،یہ نمو یہ ادا،یہ شان ،یہ رنگِ ہوا ئے قادیاں اور ہی عالم ہے باغِ قادیاں میں آج کل اور ہی عالم میں ہے باغِ وفا ئے قادیاں وجد میں آتے ہیں ہیں رہ رہ کر جوانانِ چمن جھومتی پھرتی ہے بادِ جانفزا ئے قادیاں غنچہ ہائے ناشگفتہ کا تبسم ہائے ہائے اور اس پر جنبش ِ موجِ ہوا ئے قادیاں کھل گئے غنچے،نقاب خندہ گل اٹھ گئی واہ کیا کہنا ہےاے موجِ ہوا ئے قادیاں شاہدِ گل نے الٹ دی ہنس کے چہرے سے نقاب جانے کیا کہتی ہوئی گزری ہوا ئے قادیاں دیکھ کر حسن جمال شاہدطنّاز گل وجد کرتی ہے بہارِ جانفزا ئے قادیاں طائرانِ خوش نوا ہیں شاخِ گل پر نغمہ زن گونجتی ہے لحنِ دلکش سے فضا ئے قادیاں نغمۂ بلبل میں ہے رنگینئ گل کی بہار واہ رے جوشِ نموئے جانفزا ئے قادیاں خندۂ گل اک طرف ہے لحنِ بلبل اک طرف رنگ پر ہے بوستان دلکشائے قادیاں کیوں نہ ہوجائے نظر محو ِطلسمِ بے خودی یہ کشش،یہ جذب،یہ حسن ِفضا ئے قادیاں آتشِ گلہائے رنگیں سے دہکتا ہے چمن خوب آنکھیں سینک لیں اہلِ وفا ئے قادیاں بے عجب،بےرونق درودیواروسقف و بام پر صاف مثلِ آئینہ ہیں کوچہ ہا ئے قادیاں آج لہریں لے رہا ہے ہرطرف عمّانِ نور تیرتے پھرتے ہیں اربابِ صفا ئے قادیاں اس قدر آرائش و پیرائش اللہ غنی یہ عروس آراستہ ہے بافضا ئے قادیاں بحرِ دل میں اٹھ رہے ہیں دم بدم امواجِ عشق آج ہیں جوشِ مجسم آشنا ئے قادیاں منزلِ دل بن گئی کاشانۂ عیش و نشاط ہورہے ہیں باغ باغ اہلِ وفا ئے قادیاں حضرتِ اختر2کسی بے مہر کا اب ذکر کیا آئیے مختاؔرسے سنیے ثنائے قادیاں مطلع ششم اللہ اللہ یہ بہارِ دل کشائے قادیاں گھر کئے لیتی ہے آنکھوں میں فضا ئے قادیاں موجبِ بالیدگی روح شائق مرگ برگ ذرہ ذرہ نور چشم ہر فدا ئے قادیاں گل سے باہر ہو کے بھی رہتی ہے جیسے گل میں بُو یوں بسی ہے خانۂ دل میں فضا ئے قادیاں کارِ دین میں آج کل کس کو ہےایسا انہماک منہمک ہیں کس طرح اہلِ صفا ئے قادیاں کس جگہ ایسا ہے جوش ِخدمتِ دینِ متیں کس جگہ ہے اب یہ طرزِ جانفزا ئے قادیاں کس جگہ ہے شوق ِ ابلاغ واشاعت کایہ رنگ کس جگہ ہے اہتمام ایسا سوا ئے قادیاں کس جگہ ہوتا ہے ایسا درسِ قرآن وحدیث کس جگہ نغمے ہیں مثلِ نغمہا ئے قادیاں کس جگہ ہے یہ لحاظِ شرع ختم الانبیاءؐ کس جگہ یہ شوق طاعت ہے سوا ئے قادیاں لُوٹ سکتا ہے وہی باغ مدینہ کی بہار جس کی نظروں میں سمائی ہو فضا ئے قادیاں لانبی الانبیاء الّا محمد مصطفےٰ لامسیح الوقت الّا میرزا ئے قادیاں تشنہ کامانِ محبت کوئی دم کی بات ہے اب چلا دورمےلطف وعطا ئے قادیاں وہ چلی ٹھنڈی ہوا ،وہ آئی متوالی گھٹا وہ ہوئے گرم ترنم خوش نوا ئے قادیاں ساقی دریا دل آیا چاہتا ہے سوئے بزم ہوشیار اے بادہ نوشانِ ولا ئے قادیاں اے طلبگارانِ حسن جانفزا بشری لکم اب ہوا رونق فزا مہرِ ہدا ئے قادیاں فرّحو اطوبیٰ لکم یا معشر الجن والانس آگیا ہے وقتِ دید دل ربا ئے قادیاں تاکجا سربستگی ِغنچۂ نخلِ مراد المدد اے جنبشِ موجِ ہوا ئے قادیاں مژدہ باد اے تسلیم ورضائے قادیاں شکر للہ دیدنی ہے اب ادا ئے قادیاں مطلع ہفتم پو پھٹی،تڑکا ہوا،نکلا وہ قرص آفتاب وہ اٹھا پردہ ،وہ آیا دل ربا ئے قادیاں دیکھ لی شانِ جنابِ حق تعالیٰ دیکھ لی باغِ جنت بن گیا باغِ وفا ئے قادیاں گونج اٹھی ہے فضا شورِ مبارکباد سے جارہے ہیں عرش تک یہ نعرہ ہا ئے قادیاں مطلع ہشتم للہ الحمد آگیافرماں روا ئے قادیاں للہ الحمد آگیا راحت فزا ئے قادیاں آگیا وہ جس کی آمد کے لئے بیتاب تھے عاشقانِ قادیان صبر آزما ئے قادیاں مطلع نہم السلام اے زینتِ حسن و ادائے قادیاں السلام اے رہنما ومقتدا ئے قادیاں السلام اے گوہر درج ِ صفا و اصطفا السلام اے جوہرِ کانِ وفا ئے قادیاں السلام اے ماہ تابانِ کمالات السلام السلام اے مہرِ رخشانِ ہدا ئے قادیاں السلام اے نخلبندِ گلشنِ دین السلام السلام اے رونق افزائے فضا ئے قادیاں السلام اے ابن مہدی و مسیح ِ دینِ پناہ السلام اے جانشینِ پیشوا ئے قادیاں السلام اے عاشقِ دینِ محمدؐمصطفےٰ السلام اے یادگارِ میرزا ئے قادیاں السلام اے سید ومولائے مختاؔرالسلام السلام اے سرور ہر باوفا ئے قادیاں مطلع دہم مدح حاضرین اب ایسا مطلع روشن پڑھوں شور اَحسنتَ سے گونج اٹھے فضا ئے قادیاں تو ہوا رخشاں جو اے مہر ہدائے قادیاں اللہ اللہ جگمگا اٹھی فضا ئے قادیاں تُو حقائق آشنا ہے تُو دقائق دستگاہ تُو معارف داں ہے تُو نکتہ نما ئے قادیاں مخزنِ رازِ شریعت مامن اسرارِحق معدنِ رمزِ طریقت رہنما ئے قادیاں عالمِ رازِ نہاں،تاجِ سرِدانشوراں پیشوائے عارفاں شاہ ہدا ئے قادیاں مسند آرائے ہدیٰ،سرخیل اربابِ صفا تاجِ دارِ اتقاء فرماں روا ئے قادیاں جانب مرکز مبارک ہو تجھے یہ بازگشت اے شہ دیں ،اے امام ومقتدا ئے قادیاں تیری تشریف آوری نے پھونک دی مردوں میں روح جی اٹھے گویا دوبارہ باوفا ئے قادیاں فیض نفخِ روح افزا سے تصاویر ِ گلی بن گئی ہیں طائرانِ خوش نوا ئے قادیاں یہ امنگیں ، یہ ترنگیں،یہ وفورِذوق وشوق یہ ہجومِ عاشقاں باوفا ئے قادیاں آج تو کوشش سے بھی ملتا نہیں ان کا مزاج کتنے اونچے اڑ رہے ہیں خوشنوا ئے قادیاں لٹ رہی ہے دولتِ حسن و جمال دلفروز گرم ہے ہنگامۂ لطف و عطا ئے قادیاں اے امام المتقیں ، اے ہادئ راہ یقیں اے رئیس العارفیں ،اے مقتدا ئے قادیاں اے دُرتابندۂ دریائے عرفان ویقیں اے گلِ رعنائے ِ باغِ اتقا ئے قادیاں اے حقیقت آشناء و حق شناس و حق نما اے سبق آموز ِ تسلیم ورضا ئے قادیاں اے اولی العزم ، اے بشیر الدین ، اے فضلِ عمر مرزا محمود احمد مقتدا ئے قادیاں مخزنِ لطف و کرم ،سر چشمۂ خُلقِ اتم معدنِ فیض ِاتم کانِ صفا ئے قادیاں رہنمائے گمرہاں ۔آرام جان ِ طالبان مرہم دل خستگان راحت فزا ئے قادیاں زینت و زیبِ چمن زار محمد مصطفےٰؐ رونق افزائے رخِ صدق وصفا ئے قادیاں آج تو ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں ان کا مزاج کتنے اونچے اڑ رہے ہیں خوش نوا ئے قادیاں لُٹ رہی ہے دولتِ حسن وجمالِ دلفروز گرم ہے ہنگامۂ لطف و عطا ئے قادیاں ولولے اٹھتے ہیں دل میں رنگ ِ محفل دیکھ کر چاہیے کچھ خاطرِ اہلِ صفا ئے قادیاں اک غزل بھی اب وہ پڑھ دوں جس کو سنکر وجد آئے سر دھنیں ہر شعر پر اہلِ وفا ئے قادیاں غزل اول للہ الحمد آج ہیں محو لقا ئے قادیاں وہ نگاہیں تھیں جو مشتاق فضا ئے قادیاں بزم جنت کی حقیقت مجھ سے پوچھا چاہیئے میں نے لوٹی ہے بہارِ جاں فزا ئے قادیاں اب تو صرف اتنے ہی کی محتاج ہے کشتِ امید ایک چھینٹا اور اے ابرِسخا ئے قادیاں لحنِ داودی کا لطفِ جانفزا معلوم ہے بارہا میں نے سنے ہیں نغمہ ہا ئے قادیاں رکھ چکا ہوں دل میں پڑھ پڑھ کر نکات احمدی میں نظروں سے چنے ہیں میوہ ہا ئے قادیاں بس یہ ہے واعظ کے طومارِ ملامت کا جواب دیکھ اے ظالم ادائے دل ربا ئے قادیاں اکمؔل3 و ثاقؔب 4کو ہے مختاؔر ابھی اور اشتیاق پھر چہک اے عندلیبِ خوش نوا ئے قادیاں غزل دوم میری آنکھوں سے کوئی دیکھے ادائے قادیاں مجھ سے پوچھے کوئی مجھ ماجرا ئے قادیاں رنگ لائی ہے میری طبع رواں مدت کے بعد جوش پر ہے بحرِ موآج ثنا ئے قادیاں کیوں نہ ہو موجِ تبسم میرے ہونٹوں پر نثار گدگداتا ہے مجھے شوقِ ثنا ئے قادیاں کیوں نہ آجائے ہنسی واعظ کی قیل وقال پر دیکھتا ہوں رنگ و انداز ہوا ئے قادیاں اب کہاں وہ چاند میں بڑھیا کا چرخہ کاتنا دور تک جانے لگے ہیں نغمہ ہا ئے قادیاں کب تک انبارِ خس وخاشاک اقوال الرجال اور ہی کچھ کہہ رہی ہے اب ہوا ئے قادیاں ظلمتِ تکفیر کے اڑتے ہیں رہ رہ کر دھوئیں پھیلتی جاتی ہے عالم میں ضیا ئے قادیاں محتسب کہتے ہیں کس کواور کیسا احتساب اور ساقی اور صہبائے دلا ئے قادیاں میں بھی دریا نوش ہوں ساقی جو دریا دل ہے تُو خُم کے خُم دے بادۂ فرحت فزا ئے قادیاں گوہرؔ وبسمل ؔنہ ہوں مختاؔر تجھ سے شکوہ سنج اوراک موج اور اے اک بحرِثنا ئے قادیاں غزل دوم اللہ اللہ جوش حسن دل کشائے قادیاں اب توہیں حسّادبھی محو ثنا ئے قادیاں یہ عروج اللہ اکبر،یہ صفا ئے قادیاں برق کو دھوکا ہے میں ہوں یا ضیا ئے قادیاں عرش سے تا فرش پھیلا ہے یہ نو ردلفروز یا گلے ملتے ہیں آج ارض و سما ئے قادیاں یہ زمینِ قادیاں ہے یا سہ پہر پرفضا چودھویں کا چاند ہے یا دلربا ئے قادیاں شاہد گردوں نے الٹی ہےنقابِ زرنگار یا ہے نور افشاں رخ یوسف لقا ئے قادیاں اس جبینِ ناز سے کرنے لگی کسبِ ضیاء کس طرح نازاں نہ ہو صبح صفا ئے قادیاں کس سے ہیں سرگوشیاں اس زلف ِ عنبر یز سے کیوں نہ اترائےنسیم جانفزا ئے قادیاں آسمانِ حسن پر یہ کوندتی ہے برق ِناز یا تبسم ہے نثار مہ لقا ئے قادیاں کس کو یارائے تکلم ،کس کو تاب ِ دم زدن جب گل افشاں ہوں لب معجزنما ئے قادیاں محو حیرت ہیں شرافتؔ،وجد میں روحِ ادبؔ کیوں نہ ہو مختاؔرہے محوثنا ئے قادیاں پھر چلا خامہ قصیدے کی طرف بعد غزل کروٹیں لیتا ہے دریائے ثنا ئے قادیاں مظہر شان ِ جناب حق تعالیٰ شانہٗ سید الآفاق خورشید ہدا ئے قادیاں تجھ کو خالق نے بنایا اپنے فضل ورحم سے حسن و احساں میں نظیر میرزا ئے قادیاں دھوم ہے چاروں طرف تیری اولوالعزمی کی دھوم خوب ہی پہنچائی عالم میں ضیا ئے قادیاں کون ہے تیرے سوا اے میرے آقا کون ہے موجبِ افزائشِ حسن وادا ئے قادیاں شکل ماہ ِنیم ماہ و مثل ِ مہر نیم روز رات دن پھیلا رہا ہے تو ضیا ئے قادیاں ختم ہے تجھ پر اولی العزمی و عالی ہمتی اے رئیس قادیاں اے رہنما ئے قادیاں خوب ہی اونچا کیا دنیا میں نام اسلام کا واہ اے ابن امام و رہنما ئے قادیاں کس میں ہے یہ حسن ِدلکش، کس میں ہے یہ آن بان کس میں ہےانداز شانِ دلربا ئے قادیاں لافتیٰ الاّ علی لا سیف الاّذوالفقار لاامام الوقت الا مقتدا ئے قادیاں ماہِ برجِ فضل و رحم وحسن واحسان ِاتم آفتابِ مطلع صدق وصفا ئے قادیاں قابلِ عبرت ہے اب حالت ترے حسّاد کی دن دہاڑے جن سے پنہاں ہے ضیا ئے قادیاں کاروبار صادقاں ہرگز نہ ماند ناتمام دیکھ لیں ہاں دیکھ لیں نا آشنا ئے قادیاں واہ کیا کہنا ہے جذبِ حسن و احسان واہ وا دل کھینچے آتے ہیں سوئے دلربا ئے قادیاں ہے وہی اگلی سی رونق جلوہ گاہِ ناز میں سربکف ہیں غٹ کے غٹ اہلِ وفا ئے قادیاں ہر طرف پھیلا ہوا ہے سرخرو ہونے کا جوش ہرطرف ہے موجزن بحر وفا ئے قادیاں تَک رہے ہیں تیری صورت تشنہ کامانِ فراق اک نگاہِ دل نوازاے دلربا ئے قادیاں 1۔ذالفقار۔حضرت مولوی ذوالفقار علی خان گوہر 2۔اخترؔ۔جناب غلام محمد صاحب اختر اوچ شریف 3۔اکملؔ۔قاضی محمد اکمل صاحب 4۔ثاقب ؔ۔جناب محمد نواب خاں صاحب مرزا خانی (مالیر کوٹلہ) (حیات حضرت مختار صفحہ 261-278) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 5۔ قصیدہ۔ اللہ اللہ جوشِ تاثیرِ ہوائے قادیاں(حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ معرکۃالآراء قصیدہ ہدیہ ء قارئین کیا جاتاہے جو آپ ؓ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت جوبلی کے موقع پر تحریر فرمایا تھا۔علم وادب کے شاہکار اس قصیدہ کا ایک ایک لفظ حق وصداقت پرمبنی ہے۔ الفضل انٹرنیشنل 13جنوری 2006)
اللہ اللہ جوشِ تاثیرِ ہوائے قادیاں گونجتی ہے سارے عالَم میں صدائے قادیاں کیا طرب انگیز ہے موجِ ہوائے قادیاں بن گیا لطفِ مجسّم ہر فدائے قادیاں جذب ہوجاتی ہیں نظریں حسنِ منظر دیکھ کر دامنِ دل کھینچتی ہے ہر ادائے قادیاں جیتے جی نظارہ ءجنت اگر مطلوب ہو چاہئے سیرِ بہار دل کشائے قادیاں کیا غضب ڈھایا جو مَیں نے اس کو جنت کہہ دیا دیکھ لیں اہلِ نظر شانِ ادائے قادیاں یہ چمن بندی ، یہ جوشِ لالہ ؤ گُل ،یہ بہار یہ پھلا پھولا گلستان، یہ فضائے قادیاں یہ طراوت ،یہ نفاست، یہ لطافت ،یہ نمو یہ ادا ، یہ شان ، یہ رنگِ ہوائے قادیاں اَور ہی عالَم ہے باغِ قادیاں میں آج کل اَور ہی عالَم میں ہے باغِ وفائے قادیاں وجد میں آتے ہیں رہ رہ کرجوانانِ چمن جھومتی پھرتی ہے بادِ جاں فزائے قادیاں لَو حش اللہ غنچہائے ناشگفتہ کی مہک اَور اُس پر جنبشِ موجِ فضائے قادیاں کھِل گئے غنچے نقابِ خندہ ء گُل اُٹھ گئی اُف رے اندازِ نسیم دل کشائے قادیاں شاہدِ گُل نے اُلٹ دی ہنس کے چہرہ سے نقاب جانے کیا کہتی ہوئی گزری ہوائے قادیاں کہدیاکیاجانے کیا بُلبل نے جھک کرکان میں خندہ ء گُل سے مہک اُٹھی فضائے قادیاں دیکھ کرحسنِ جمالِ شاہدِ طنّازِگُل وجد کرتی ہے بہارِ جاں فزائے قادیاں طائرانِ خوش نوا ہیں شاخِ گُل پر نغمہ زن گونجتی ہے لحنِ دل کش سے فضائے قادیاں نغمہ ءبلبل میں ہے رنگینی ء گُل کی بہار وائے رے جوشِ نموئے جانفزائے قادیاں خندہ ء گُل اک طرف ہے لحنِ بلبل اک طرف رنگ پرہے بوستانِ دل کشائے قادیاں کیوں نہ ہوجائے نظر محوِ طلسم ِ بے خودی یہ کشش ، یہ جذب ، یہ حُسنِ فضائے قادیاں آتشِ گُل ہائے رنگیں سے دہکتا ہے چمن خوب آنکھیں سینک لیں اہل وفائے قادیاں ہے یہ ارشاد جناب مولوی عبدالرحیم1 اور مختار اور صہبائے ثنائے قادیاں اللہ اللہ یہ بہارِدلکشا ئے قادیاں گھر کئے لیتی ہیں آنکھوں میں فضائے قادیاں غیرسے کیا پوچھنا ہے وہ تواب تک غیرہے مجھ سے سُن اے میرے دانا ماجرائے قادیاں رنگ لائی ہے مری طبعِ رواں مدّت کے بعد جوش پر ہے بحرِ موّاجِ ثنائے قادیاں ہرصفت بے مثل، ہرانداز اس کا لاجواب دل نشین و دل رُبا ایک ایک ادائے قادیاں کس جگہ ہے؟ خدمت ِ اسلام کا یہ ذوق شوق کس جگہ ہے؟ اب یہ اندازے فضائے قادیاں کس جگہ ہے؟ یہ نظامِ درسِ قرآن وحدیث کس جگہ ہے؟ یہ نوائے جاں فزائے قادیاں کس جگہ ہے؟ آج یہ بحرِ معانی موج زن کس جگہ ؟ لٹتے ہیں دُرِّ بے بہا ئے قادیاں کس جگہ ہیں؟ یہ حقائق ،یہ معارف ،یہ نکات کس جگہ ہیں؟ یہ فیوض دل کشائے قادیاں کس جگہ؟ رخشاں ہے ایسا آفتاب معرفت کس جگہ ہے؟ یہ ضیائے ذرّہ ہائے قادیاں کس جگہ ہے؟ یہ لحاظِ شرعِ ختم الانبیاء کس جگہ ہے؟ یہ ادائے اَتقیائے قادیاں کس جگہ ہے؟ امرِ حق پریوں سرتسلیمِ خم کس جگہ ہے؟ یہ خُدا خواہی سوائے قادیاں کس جگہ ہے؟ آج یہ پابندیء آئین و دین کس جگہ ہے؟ یہ خلوص و اَتقائے قادیاں کس جگہ ہے؟ یہ خیال ِ خدمت ِ دینِ متیں کس جگہ ہے؟ یہ طریقِ حق نمائے قادیاں کس جگہ ہے؟ روزوشب تبلیغ کا زوروشور کس جگہ ہے؟ اب یہ رنگ ِ جذبہائے قادیاں کس جگہ؟ سامان ہیں یہ غلبہ ء اسلام کے کس جگہ ؟ عزم راسخ ہے سوائے قادیاں شاد ہوتی ہیں طبائع مست ہو جاتے ہیں دل وجد میں لاتی ہے روحوں کوصدائے قادیاں سر بکف پھرتے ہیں عالَم میں پئے تبلیغ حق دست وپا والو! یہ ہیں دست و پائے قادیاں ڈال دی جس پر نگاہ ِ مست ،بے خود کر دیا مرحبا اے بادہ ء نوشانِ ولائے قادیاں ما ل کیاہے چیز زادِ دین میں کیا تو قیرِ مال؟ جان کی پرواہ نہیں کرتے فدائے قادیاں بارش بارانِ سنگ و خشت کی پرواہ کسے جانے کس دُھن میں ہیں شیدا ؤ فدائے قادیاں جان دے دی مُنہ مگر پھیرا نہ راہ ِعشق سے زندہ باد اے سرفروشانِ رضائے قادیاں قصّہ ء دار و رسن افسانہ ء پارینہ ہے دیکھئے رنگِ شہیدانِ وفائے قادیاں گوش بر آواز ہیں محمود عرفانی2 ابھی اور اے مُختار حال ارتقائے قادیاں محو حیرت بن گیا پیشِ فضائے قادیاں مَیں کہ ہوں دیرینہ شیدا ؤ فدائے قادیاں ہے عجب رونق در و دیوار و سقف و بام پر صاف مثل آئینہ ہیں کوچہ ہائے قادیاں آج لہریں لے رہا ہے ہرطرف عُمّانِ نور تیرتے پھرتے ہیں اربابِ صفائے قادیاں اس قدر آرائش و پیرائش اللہ غنی یہ عروسِ آراستہ ہے یا فضائے قادیاں واہ کیا کہناہے جذبِ حُسن و احسان واہ واہ دل کھچے آتے ہیں سُوئے دل رُبائے قادیاں منزلِ دل بن گئی کاشانہ ء عیش و نشاط ہورہے ہیں باغ باغ اہلِ وفائے قادیاں اے تری قدرت یہ عالم جلوہ گاہِ ناز کا سر بکف ہیں صف بہ صف اہل ولائے قادیاں ا ِس سرے سے اُس سرے تک ہے عجب جوش وخروش ہرطرف ہے موجزن بحرِوفائے قادیاں دلولے یہ اٹھ رہے ہیں رنگ محفل دیکھ کر چاہئے کچھ خاطرِ اہل صفائے قادیاں اک غزل بھی اب وہ پڑھ دوں جس کو سن کروجد آئے شاد ہوں ہر شعر پر اہلِ ذکائے قادیاں دھوم ہو صَلِّ عَلٰی، صَلِّ عَلٰی کی دھوم ہو چرخ سے ٹکرائے شورِ مرحبائے قادیاں صورت گُل ہوں شگفتہ اکملؔ3 وصادق4ؔ کے دل شور أَحْسَنْتَ سے گونج اٹھے سمائے قادیاں لِلّٰہِ الْحَمْد ،آج ہیں محوِ ادائے قادیاں وہ نگاہیں تھیں جو مشتاقِ لقائے قادیاں اس جبینِ ناز سے کرنے لگی کسبِ ضیاء کس طرح نازاں نہ ہو صبح صفائے قادیاں کس سے ہیں سرگوشیاں ؟ اس زلفِ عنبر بیزسے کیوں نہ اِترائے نسیمِ جاں فزائے قادیاں وسعت فرصت میسر ہو تو موجیں دیکھئے دل نہیں ،سینے میں ہے بحرِ ثنائے قادیاں گُل سے باہرہوکے بھی رہتی ہے جیسے گُل میں بُو یوں بسی ہے غنچہ ءدل میں فضائے قادیاں حضرتِ واعظ بڑے دانا مگرمشکل یہ ہے آپ ہیں ناآشنا ، مَیں آشنائے قادیاں اے کہ جنت کی حقیقت پوچھتاہے مجھ سے پوچھ مَیں نے لُوٹی ہے بہارِ جاں فزائے قادیاں دورِ اوّل میں ہی دل مستانہء حق بن گیا اے جَزَاکَ اللّٰہ صہبائے و لائے قادیاں اے نگاہ ِ عاقبت بیں آفریں صد آفریں ابتدا سے دیکھتا ہوں انتہائے قادیاں خلد کوجاتی ہے ،اے واعظ !انہیں میں ہوکے راہ کیوں نہیں پھرتجھ کوعشقِ کوچہائے قادیاں بس کھِلا ہی چاہتاہے غنچہء نخلِ مراد اورہلکی سی کوئی موج اے صہبائے قادیاں اب تو صرف اتنے ہی کی محتاج ہے کشتِ اُ مّید ایک چھینٹا اور اے ابرِ سخائے قادیاں لحنِ داؤدی کا لطفِ جاں فزا معلوم ہے بارہا مَیں نے سُنے ہیں نغمہ ہائے قادیاں رکھ چکاہوں دل میں ،پڑھ پڑھ کر نکاتِ احمدی مَیں نے نظروں سے چنے ہیں میوہ ہائے قادیاں خوب نکلی ساقی ء کوثر سے ملنے کی سبیل لگ گئی ہے منہ سے صہبائے وفائے قادیاں محتسب کہتے ہیں کس کو؟ اور کیسا احتساب میرے ساقی اورصہبائے ولائے قادیاں مَیں بھی دریانوش ہوں پیارے جودریا دل ہے تُو خم کے خم دے بادہ ءفرحت فزائے قادیاں حضرت ِواعظ سے کہنا ہے سرِمحشر مجھے میرے حضرت ایسے ہوتے ہیں فدائے قادیاں کرلئے ہیں کوثر و تسنیم پرقائم حقوق پی چکا ہوں بادہ ءنابِ وفائے قادیاں موج میں آ آ کے اے مختاؔر یہ کہتے ہیں موج5 اَور اک موج اور اے بحرِ ثنائے قادیاں حضرت گوہر6 کو بھی مختار ہے اور اشتیاق پھر چہک اے عندلیب خوش نوائے قادیاں میری نظروں سے کوئی دیکھے ادائے قادیاں مجھ سے پوچھے کوئی مجھ سے ماجرائے قادیاں ڈھونڈتی ہے میری نظروں کو بہارِ خلد بھی واہ رے نظارہ ء حسنِ فضائے قادیاں کر گئی بے خود کسی کی اک نگاہِ کیف ریز بے پئے ہی جھک گئے اہل وفائے قادیاں حضرتِ واعظ اِدھر محو لغاتِ نو بنو اور اِدھر مَیں مستِ صہبائے ثنائے قادیاں کیوں نہ ہوموجِ تبسّم میرے ہونٹوں پر نثار گدگداتا ہے مجھے شوق ثنائے قادیاں کیوں نہ آ جائے ہنسی واعظ کی قیل وقال پر دیکھتا ہوں رنگ و اندازِ ہوائے قادیاں اب کہاں وہ چاندمیں بڑھیا کا چرخا کاتنا دور تک جانے لگے ہیں نغمہائے قادیاں کب تک انبارِ خس و خاشاکِ اقوال الرجال اور ہی کچھ کہہ رہی ہے اب ہوائے قادیاں دَورِ موجودہ ہے دَورِ حکم قرآن و حدیث اب یہی آثار ہیں زیر سمائے قادیاں ظلمتِ تکفیر کے اڑتے ہیں رہ ر ہ کردھوئیں پھیلتی جاتی ہے عالَم میں ضیائے قادیاں بس یہ ہے واعظ کے طومارِ ملامت کا جواب دیکھ اے ظالم ذرا سُوئے سمائے قادیاں یہ خوارق ، یہ نشانِ صدق ، یہ تائیدِ ربّ اور یہ انکارِ شانِ مقتدائے قادیاں مست ادب7 ، سرمست مظہر8، روح بسمل9 وجد میں کیوں نہ ہو مختار ہے محوِ ثنائے قادیاں پھرچلا خامہ قصیدے کی طرف غزلوں کے بعد کروٹیں لیتا ہے دریائے ثنائے قادیاں مژدہ باد اے اہل تسلیم و رضائے قادیاں اب ہُوا نظارہ ءرونق فزائے قادیاں تشنہ کامانِ محبت کوئی دم کی بات ہے اب چلا دورِ مئے لطف و عطائے قادیاں ساقی ءدریا دل آیا چاہتا ہے سوئے بزم اب چَھکے بادہ گساران ولائے قادیاں اے طلب گاران حسن جانفراء بُشْرٰی لَکُمْ اب ہوا رونق فزا ماہ ہدائے قادیاں وہ صدائے ساز دل پھیلی وہ عالم گونج اٹھا وہ ہُوئے گرمِ ترنم خوش نوائے قادیاں وہ پھٹی لَو ، وہ ہوا تڑکا ، وہ نکلا آفتاب وہ اٹھا پردہ ، وہ آیا دل ربائے قادیاں دیکھ لی شانِ جنابِ حق تعالیٰ شانہ اور ہی کچھ بن گئے ارض وسمائے قادیاں یہ عروج اللہ اکبر ، یہ صفائے قادیاں برق کو دھوکہ ہے ''مَیں ہوں یا ضیائے قادیاں'' عرش سے تا فرش پھیلاہے یہ نورِ دل فروز یا گلے ملتے ہیں آج ارض وسمائے قادیاں یہ زمینِ قادیاں ہے یا سپہرِ پُرضیاء چودھویں کا چاند ہے یا دل ربائے قادیاں شاہد گِردوں نے اُلٹی ہے نقابِ زرنگار یا ہے نور افشاں رُخِ یوسف لقائے قادیاں آسمانِ حُسن پر یہ کوندتی ہے برق طور یا تبسم ہے نثار خوش ادائے قادیاں پھررہی ہے ساری نظروں میں وہ چشمِ نیم باز دَورمیں ہے جام صہبائے ولائے قادیاں لُٹ رہی ہے دولتِ حُسن وجمالِ دل نواز گرم ہے ہنگامہ ء لطف و عطائے قادیاں بحرِ دل میں اُٹھ رہی ہیں پیہم امواجِ سرور بن گئے جوشِ مجسّم آشنائے قادیاں مثلِ گُل فرطِ مسرّت نے شگفتہ کردیا محوِ شکرِ حق ہیں اربابِ صفائے قادیاں لِلّٰہِ الْحَمْد اے فدایانِ ادائے قادیاں پھر نظر افروز ہے حسنِ فضائے قادیان پھر وہی منظر ہے فردوسِ نگاہِ حق شناس شُکْرلِلّٰہ رنگ لائی پھر دعائے قادیاں پھرانہیں افضال کا مورد بنا روئے زمیں پھر وہی عالَم ہوا زیرِ سمائے قادیاں پھر وہی بحرِ زمرد ہر طرف ہے موجزن پھر وہی لعل و گہر زیبِ فضائے قادیاں پھر وہی صحن چمن ہے پھروہی فصل بہار پھر وہی جوشِ نموئے غنچہائے قادیاں پھر مہک اٹھی فضائے بوستانِ آرزو پھر ہوئی عنبر فشاں موجِ ہوائے قادیاں پھر وہی لطفِ سامانِ نشاط و انبساط پھر وہی انداز جشنِ دل کشائے قادیاں پھر وہی گُل ریزیاں ہیں پھر وہی کیف و سرور پھر وہی نغمے وہی لطفِ نوائے قادیاں پھر وہی جوش طرب ہے پھر وہی شوقِ طلب پھر وہی انداز حسنِ جاں فزائے قادیاں پھر وہی گُل ہے ، وہی بُلبل، وہی راز و نیاز پھر وہی کیفِ بہارِ دل کشائے قادیاں پھر وہی محفل ، وہی ساقی،وہی مستِ الست پھر وہی دَور مئے فرحت فزائے قادیاں گونج اٹھی ہے فضا شور مبارک باد سے جارہے ہیں عرش تک یہ نعرہائے قادیاں بَارَکَ اللّٰہ آ گیا فرماں روائے قادیاں بَارَکَ اللّٰہ آگیا راحت فزائے قادیاں آ گیا نجم الہدیٰ ، شمس الضحیٰ ، بدرالدجیٰ آ گیا نورِ رخِ صبح و مسائے قادیاں آ گیا وہ جس کی آمد کے لئے بیتاب تھے باوفائے قادیاں صبر آزمائے قادیاں ناز ہے مختار اس بختِ رسا پر نازہے مل گیا وقتِ سلامِ رہنمائے قادیاں اَلسّلام اے زینتِ حُسن و ضیائے قادیاں اَلسّلام اے رونقِ شانِ صفائے قادیاں اَلسّلام اے گوہرِ دُرجِ صفا و اصطفاء اَلسّلام اے جوہرِ کانِ وفائے قادیاں اَلسّلام اے ماہ تابانِ کمالات ، اَلسّلام اَلسّلام اے مہرِ رخشانِ ہدائے قادیاں اَلسّلام اے نخلِ بندِ باغِ اسلام ، السّلام اَلسّلام اے رہنما و پیشوائے قادیاں اَلسّلام اے عاشقِ دینِ محمد مصطفی ؐ اَلسّلام اے جانشین مقتدائے قادیاں اَلسّلام اے نورِ عینِ مہدی ء دین ، اَلسّلام اَلسّلام اے یادگارِ میرزائے قادیاں اَلسّلام اے سید و مولا ئے مختار السّلام اَلسّلام اے سرور ہر باوفائے قادیاں مدح حاضر میں اب ایسا مطلع روشن پڑھوں نور ہو لفظوں میں معنی میں ضیائے قادیاں توُ ہوا رخشاں جو اے مِہرِ ہدائے قادیاں شرق سے تا غرب جا پہنچی ضیائے قادیاں اے امیر المومنین! اے ہادی ء دینِ متین! اے رئیس المتقین ! اے پیشوائے قادیاں ! اے دُرِّ تابندہ ء دریائے عرفان و یقین! اے گُلِ رعنائے باغِ اتقائے قادیاں! اے حقیقت آشنا و حق شناس و حق نما! اے سبق آموزِ تسلیم و رضائے قادیاں! اے اولو العزم ،اے بشیرالدین ،اے فضل عمر! میرزا محمود احمد رہنمائے قادیاں! مصدرِ لطف و کرم ، سرچشمہ ء علم و حِکَم منبعِ فیضِ اتم ، کانِ صفائے قادیاں! رہنمائے گم رہاں ،آرامِ جانِ طالباں مرہمِ دل خستگاں ، راحت فزائے قادیاں مخزنِ رازِ شریعت ، مہبطِ انوارِ حق معدنِ رمزِ طریقت ، رہنمائے قادیاں عالم رازِ نہاں ، تاج سرِ دانشوراں پیشوائے عارفاں ، شاہ ہدائے قادیاں بزم آرائے ہدیٰ ،سرخیلِ اربابِ صفاء تاج دارِ اتّقا ، فرما ں روائے قادیاں موجب آرائشِ باغ محمد مصطفےٰؐ نخلِ بندِ گُلشنِ مہرِ وفائے قادیاں مسند آرائے سریرِ سنّتِ ختم الرسلؐ رونق افزائے رخِ صدق و صفائے قادیاں مظہرِ شانِ جناب حق تعالیٰ شانہ سید الآفاق ، خورشید ہدائے قادیاں تجھ کوخالق نے بنایا اپنے فضل و رحم سے حُسن و احساں میں نظیر میرزائے قادیاں ہر تنِ بے جان میں تُو نے پھونک دی روحِ حیات ازسرِ نو جی اُٹھے اہلِ وفائے قادیاں تیرے فیضِ روح افزا سے تصاویر گِلی بن گئی ہیں طائرانِ خوش نوائے قادیاں یہ اُمنگیں ، یہ ترنگیں ، یہ وفورِ ذوق و شوق یہ ہجومِ عاشقانِ باوفا ئے قادیاں آج تو ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں ان کا مزاج کتنے اونچے اڑ رہے ہیں یہ ہمائے قادیاں کاروبارِ صادقاں ہرگز نہ ماند ناتمام دیکھ لیں ناآشنا و آشنائے قادیاں دھوم ہے آفاق پر تیری اولوالعزمی کی دھوم تو نے پہنچا دی ہے عالم میں صدائے قادیاں فتح نے تیرے قدم چومے ہیں ہرمیدان میں تیرے ہاتھوں سے ہوا اونچا لوائے قادیاں دنگ ہیں انسان تیرے کارنامے دیکھ کر تو نے پیدا کی عجب عظمت برائے قادیاں خوب ہی اونچا کیا دنیا میں نام اسلام کا واہ اے ابن المسیح اے رہنمائے قادیاں شکل و ماہِ نیم ماہ و مثل مہر نیم روز رات دن پھیلا رہا ہے تو ضیائے قادیاں سراٹھایا جس نے تیرے آگے اوندھے منہ گِرا کوئی بیرونی ہو یا وہ ناسزائے قادیاں سر کئے ہیں تُو نے ایسے ایسے مشکل معرکے دنگ ہیں ناآشنا کیا آشنائے قادیاں تیرے منہ سے لفظ جو نکلا وہ پورا ہوگیا خواہ اعدا کے لئے ہو یا برائے قادیاں کیسی اس کے پاؤں کے نیچے سے نکلی ہے زمیں جس نے کی ترچھی نظر سوئے سمائے قادیاں تیرے آگے جو پہاڑ آیا دھواں بن کر اڑا جہل کی ظلمت مٹی پھیلی ضیائے قادیاں گرپڑے وہ منہ کے بَل تیرے سہام اللیل سے بد ارادے سے جو اُٹھے تھے برائے قادیاں کون ہے تیرے سوا ا ے میرے آقا کون ہے موجب اظہارِ شانِ ارتقائے قادیاں کس کوحاصل ہے یہ عظمت ، یہ تقدس ، یہ وقار کس میں ہے شانِ کمالِ پیشوائے قادیاں کس کو یارا ئے تکلم کس کوتابِ دم زدن جب گُل افشاں ہو لبِ معجز نمائے قادیاں لاَ فَتٰی اِلَّا عَلِی لَا سَیْف اِلَّا ذُوالْفِقَار نیست امامِ وقت لیکن رہنمائے قادیاں ماہِ برجِ فضل و لطف و حُسن احسانِ اتم آفتابِ مطلعِ صدق و صفائے قادیاں ہرطرف جاری ہیں تیری ذات عالی کے فیوض توُ ہے عین جود و دریائے سخائے قادیاں تیری صورت تک رہے ہیں تشنہ کامانِ فراق ایک جامِ بادہ ءِ مہروولائے قادیاں تُو ہی ہے ملجا و ماوائے من و مولائے سخن عدل پرور دادگر شاہ ہدائے قادیاں اور مَیں اک جوہریِّ دُرِّ تابانِ سخن سر بسر محتاج انوارِ سمائے قادیان بہر نذرِ شاہِ دیں کیا پیش کرسکتا تھا آج ایک دل از دستِ دادہ اک گدائے قادیاں اس لئے لایا ہوں یہ سلکِ درِ شہوار نظم جوہے قدرے مظہرِ حسنِ ضیائے قادیاں قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری اِک نگاہِ لطفا اے فرماں روائے قادیاں ختم تک پہنچا قصیدہ اب دعا کا وقت ہے ہاں ذرا آمین اے اہل وفائے قادیاں اے خدا بہرِ محمد مصطفی ختم الرسلؐ جن کے نور ِفیض سے ہے یہ ضیائے قادیاں میرے آقا کو عطا فرما اقبال و وقار جس کے خواہاں تھے جناب مقتدائے قادیاں مدتوں تک تو سلامت باکرامت رکھ اسے مدتوں تک رہنما ہو رہ نمائے قادیاں ہو مبارک اس کویہ پچیس سالہ جوبلی اور ان سب کو بھی جوہیں باوفائے قادیاں1۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ؓ سابق مبلغ انگلستان و امام مسجد لندن۔
2۔مکرم محمود احمد صاحب عرفانی ،مدیر الحکم۔ 3۔ حضرت قاضی ظہورالدین صاحب اکملؓ۔ 4۔حضرت سید صادق حسین صاحب اٹاوی۔ 5۔ خادم المسیح حضرت سید مہدی حسین صاحب موج ؓ۔ 6۔ حضرت خان ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ۔ 7۔ مکرم حاجی عبدالقدیر صاحب ادب شاہجہانپوری۔ 8۔ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہرؓ۔ 9۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب بسملؓ۔ (الفضل انٹرنیشنل 13جنوری 2006) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 6۔ نذر۔ کیوں پریشان پئے حجت وبرہاں ہوں میںذیل کے اشعار حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری جو سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے قدیمی رفیق اور جماعت کے اہل علم حضرات میں ایک خاص مقام رکھنے والے بزرگ ہیں، ان کی لاہور میں لکھی ہوئی ایک طویل نظم کا حصہ ہیں۔حضرت حافظ صاحب آج کل علیل ہیں اس لئے ان کے سینکڑوں اشعار پنسل سے لکھے ہوئے مسودہ سے جو دراصل کئی جگہوں سے پڑھا بھی نہیں جاتا ۔اُن کی اجازت سے یہ اشعار حاصل کئے گئے ہیں اور اس اعتراف میں ہمیں قطعًا کوئی تامل نہیں کہ اِن کا انتخاب حضرت حافظ صاحب کی مرضی کے مطابق ہواا ورنہ ہی ترتیب۔تاہم اسے ہی غنیمت اور تبرک سمجھ کر حضرت حافظ صاحب کا منظوم کلام ہدیۂ قارئین ہے۔احباب سے درخواست ہے کہ وہ حضرت حافظ صاحب کی صحت کاملہ و عاجلہ کے لئے دعا کرتے رہیں تا وہ شمعیں جنہوں نے براہ راست اپنی زندگیوں میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اکتسابِ نور کیا ہے ،اُن کی ضیا باریوں سے ہم زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوتے رہیں۔ادارہ
کیوں پریشان پئے حجت وبرہاں ہوں میں فرصتم باد کہ مستِ مئے عرفاں ہوں میں ہمہ تن آرزو ؤحسرت وارماں ہوں میں خوشتر آں روز کہ خاکِ در ِ جاناں ہوں میں یہ تو کس منہ سے کہوں تابع فرماں ہوں میں ہاں یہ عرض ہے کہ لذت کش احساں ہوں میں جلوۂ حسن سے معمور ہے کاشانۂ دل یعنی اس طرز سے بھی حافظِ قرآں ہوں میں قمر اس روئے ضیا بار کا ثانی ۔توبہ شمس کہتا ہے چراغِ تہِ داما ں ہوں میں حق پسندوں سےیہ کہتا ہے نظارہ ان کا اس زمانے کے لئے آیۂ رحما ں ہوں میں لاجواب ان کا ہر انداز عجب حیرت ہے کس کا مداح نہ ہوں کس کا ثناخوا ں ہوں میں میں کہاں اور مقامِ درِ دلدار کہاں رخصت اے ضبط کے جی کھول کے رقصاں ہوں میں لے گئی کس قدر اونچا مجھے قسمت میری واہ رے میں کہ فدائے شہِ عرفا ں ہوں میں مجھ سے ناچیز پہ ایسی نگہ روح نواز اتنے الطاف وعنایات کہ نازاں ہوں میں سامنے ہے وہ رتن باغ کامنظر اب تک روح بشاش ہے ۔دل شاد ہے خندا ں ہوں میں وہ دمِ پرسشِ احباب یہ کہنا میرا کچھ تعجب نہ کریں آپ جو گریا ں ہوں میں یہ وہ حالت ہے جو ہوتی ہے خوشی سے پیدا اس خوشی کامتمنی بدل وجا ں ہوں میں سن کے الفاظِ نوازش نکل آئے ہیں یہ اشک اُن کودیکھا جو گل افشاں گہرِ افشا ں ہوں میں امتحاں گاہِ وفا میں جبل استقلال ہیں اہل ورنہ اک ذرۂ خاک درِ جانا ں ہوں میں قصۂ آدم وشیطاں نے دیا ہے یہ سبق کس سے وابستہ رہوں کس سے گریزا ں ہوں میں اُن کی نظروں سے گرے کوئی مگر میں نادم ناقضِ عہدِ وفاکوئی ہو لرزا ں ہوں میں رنگِ نیرنگئ آفاق عیاذًا باللہ کبھی ششدر کبھی خنداں کبھی گریا ں ہوں میں اے تری شان یہ نخوت یہ رعونت یہ غرور پرِپروانہ کہے شمعِ شبستا ں ہوں میں ایک نکلے گا جماعت سے تو آئیں گے ہزار یہ یقینی ہے اگر صاحبِ ایما ں ہوں میں کچھ سروکار نہیں چون وچراسے مختاؔر شکر صد شکر کہ ہم مشرب مستا ں ہوں میںنوٹ : حضرت حافظ صاحب کی یہ نظم ماہنامہ خالد ربوہ ماہ ستمبر۔اکتوبر1957ء ایڈیٹر صاحب کے نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی۔
(حیات حضرت مختار صفحہ 279-280) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 7۔ رنج و الم کا اظہار بدرگاہِ کردگار اے آہِ رسا غنچۂ مقصد کو ہوا دے سینے سے نکل عرشِ الٰہی کو ہلا دے اک صدمۂ جانکاہ سے ہوں مضطرب الحال وہ صدمۂ جانکاہ جو دیوانہ بنا دے سینہ ہے تپاں کانپ رہے ہیں جگر ودل وہ کشمکش غیظ ہے جو ہوش اڑا دے قابو میں نہیں جوش ِ غضب سے دلِ بریاں وہ جوشِ غضب سینے میں جو آگ لگا دے ہوں ہوش میں لیکن مجھے کچھ ہوش نہیں ہے وہ حال ہے جو دیکھنے والوں کو رُلا دے آنکھیں ہیں کھلی اور نظر کچھ نہیں آتا گویا کہ یہ ارض و فلک اوراق ہیں سادے زندہ ہوں مگر زیست کی اب تاب نہیں ہے روٹھے ہوئے ہیں مجھ سے مرے دل کے ارادے اے خون!بہت کَھول چکا بس اب ابل جا سوزِ تب اندوہ کی شدت کا پتا دے اے دیدۂ خوں بار!وہ طوفان بپا کر جو نوح کے طوفان کو نظروں سے گرا دے اے دل ! تو لہو بن کے مری آنکھ سے بہ جا اے جان!تو کس دن کیلئے ہے یہ بتا دے حملہ ہو شریف احمد ذی جاہ پر افسوس بے وجہ عدو ہم کو غمِ ہوش رُبا دے دل دل ہی تو ہیں برف کی قاشیں تو نہیں ہیں اتنا کوئی انصاف کے پتلوں کو بتا دے کیوں خنجر ِغم سے نہ ہو ٹکڑے دلِ بیتاب کیوں دیدۂ تر خون کا دریا نہ بہا دے کچھ حد بھی ہے ضبطِ الم ودرد کہاں تک یہ درد تو وہ ہے جو تہِ خاک سلا دے اس درد سے تاریک ہے نظروں میں زمانہ اس درد کی وہ جاننے والا ہی دوا دے اے قادروقدوس کہاں ہے تری نصرت دل درد سے بےچین ہیں اک ہاتھ دکھا دے اے غیرتِ حق وقت ہے فریاد رسی کا اعد اکو ستم گارئ اعدا کی سزا دے انسان تو بن بیٹھے ہیں بیگانۂ انصاف اب تو ہی جواب ِستم و جوروجفا دے سب کثرت وقوت کے طرفدار ہیں یارب ہے تیرے سوا کون جو دادِ ضعفا دے تو بارشِ رحمت سے ہمیں کردے شرابور وہ آگ جو رہ رہ کے بھڑکتی ہے بجھا دے روکے جو رہ عشق سے دنیا نہ رکیں ہم یہ شوقِ رضا دے ہمیں یہ جوشِ وفا دے عالم میں شرافت ہے اک انعام خداداد یہ شے وہ نہیں جو کوئی بازار سے لادے دشوار ہے تبدیلئ اطوار اراذل ہر چند کوئی درسِ طریقِ شرفا دے اظہارِ رذالت پر اترآئے ہیں اشرار تو شرم حیا دے انہیں یا ان کو مٹا دے مختاربڑی دیر سے کچھ مانگ رہا ہے احباب کدا کے لیے کہہ دیں کہ خدا دے (حیات حضرت مختار صفحہ 281-282) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 8۔ درویشانِ قادیان جو قادیان کو مسکن بنائے بیٹھے ہیں وہ اپنے خون میں گویا نہائے بیٹھے ہیں یہ داروگیر ،یہ ہنگامہ ہائے غارت وقتل مگر وفا انہیں لائی ہے آئے بیٹھے ہیں نہ ہمنوا ہے نہ ہمدرد کوئی کوسوں تک جو گردوپیش ہیں سب خار کھائے بیٹھے ہیں محافظیں ہوں یا ساکنینِ قرب وجوار سب ان کے قتل کا بیڑا اٹھا ئے بیٹھے ہیں جہاں یقینِ ہلاکت ہو کون جاتا ہے یہ حوصلہ ہے انہیں کاکہ آ ئے بیٹھے ہیں طرح طرح کے حوادث سے ہورہے ہیں دوچار طرح طرح کے مصائب اٹھا ئے بیٹھے ہیں جلا وطن ہوئے لاکھوں ہی جبرِ اعداء سے یہ سن کے حلقۂ اعداء میں آ ئے بیٹھے ہیں بٹھائیں لاکھ نہ بیٹھی کسی کی دھاک ان پر کہ یہ تو جان سے بھی ہاتھ اٹھا ئے بیٹھے ہیں نہ موت کا کوئی کھٹکا نہ زیست کی پروا کہ موت و زیست کا جھگڑا چکا ئے بیٹھے ہیں لگے ہوئے ہیں مٹانے پہ ان کے اہلِ زمیں یہ آسمان سے آنکھیں لگا ئے بیٹھے ہیں عدو نہال کہ محصور کرلیا ہے انھیں یہ خوش کہ ہم درِجنت ہی آ ئے بیٹھے ہیں جفائے غیر سے اُٹھ جائیں یہ معاذاللہ مقدر اب انھیں جو کچھ دکھا ئے بیٹھے ہیں انھیں تو ہے یہیں رہنا رہے کہ سر نہ رہے جو پیش آنی ہے وہ پیش آ ئے بیٹھے ہیں درِ حبیب سے اٹھے ہیں یہ نہ اٹھیں گے اب اس میں جان بھی جائے تو جائے ، بیٹھے ہیں الگ تھلگ ہیں ۔کسی سے نہ لاگ ہے نہ لگاؤ تو کس لئے انھیں کوئی اٹھا ئے ،بیٹھے ہیں نہ ماسوا سے تمنا،نہ التجا نہ غرض بس ایک ذات سے یہ لَو لگا ئے بیٹھے ہیں اُسی سے مانگ رہے ہیں جو مانگنا ہے انہیں کسی کی راہ میں آنکھیں بچھا ئے بیٹھے ہیں درِ کریم سے پھرتا نہیں کوئی محروم مرے کریم تیرے در پر آ ئے بیٹھے ہیں ہمیشہ سایۂ رحمت میں ہیں رہیں مختاؔر جو قادیان کو مسکن بنا ئے بیٹھے ہیں (حیات حضرت مختار صفحہ299-300) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 9۔ نمازچند قلم برداشتہ اشعار جو حضرت حافظ صاحب نے مولانا محمد شریف صاحب سابق مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ بلاد عربیہ کی کتاب بعنوان"اسلام کی دوسری کتاب"کے لئے فی البدیہہ تحریر کئے۔یہ کتاب جو فلسفہ نما زپر مشتمل تھی ،شائع ہونے سے قبل حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں برائے نظر ثانی پبلشر صاحب خود لے کرحاضر ہوئے۔حضرت حافظ صاحب نے کتاب پر نظر ثانی بھی فرمائی اور یہ چند اشعار بھی کتاب میں شامل کرنے کے لیے عنایت فرمائے۔
اللہ کیا عجیب یہ نعمت نماز ہے دنیا و دین میں باعثِ راحت نمازہے حکمِ خدا یہ ہے کہ پڑھو مل کے پانچ وقت افضل عبادتوں میں عبادت نماز ہے پھریہ بھی حکم ہے کہ جماعت کے ساتھ ہو اس طرح اور جاذبِ رحمت نمازہو بہرِنمازِ جمعہ یہ ہو اہتمامِ خاص سب جان لیں کہ وجہِ مسرّت نماز ہے لازم ہے ذوق و شوق برائے نماز ِ عید یہ مومنوں کی مظہرِ شوکت نماز ہے جو ظلمتِ گناہ کو آنے نہ دے قریب وہ نورِ حق ، وہ شمعِ ہدایت نماز ہے بیمار کو مزہ نہیں ملتا طعام کا دل صاف ہو تو موجبِ لذت نماز ہے پھیلا ہوا ہے اس کا اثر دو جہان میں جس کو نہیں زوال وہ دولت نماز ہے اس کے سوا اب اور ذریعہ کوئی نہیں قُربِ خدا کی ایک ہی صورت نمازہے کافی ہے بہر امت عاصی بس اتنی بات تسکینِ قلب شافع امت نماز ہے صحت ہو یا مرض ہو حضر ہو کہ ہو سفر مومن کی روح کے لئے فرحت نمازہے لازم ہے یہ ادا ہو خشوع و خضوع سے بے شبہ اِک وسیلۂ جنت نمازہے جرم و سزا سے ہم کو بچاتی ہے روزو شب فضلِ خدا سے دافعِ زحمت نمازہے ظاہر ہے اس سے دوستو رُتبہ نماز کا آرامِ جانِ ختمِ رسالت نماز ہے (بحوالہ اسلام کی دوسری کتاب) (الفضل انٹرنیشنل 03جولائی 1998) (حیات حضرت مختار صفحہ 306-307) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 10۔ الٰہی کیا کروں بتخانے پر بت خانہ آتا ہے نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے بڑی مشکل ہے وہ بھی منحرف ہیں دل بھی برگشتہ نہ وہ آتے ہیں قابو میں نہ یہ دیوانہ آتا ہے یہ میری خفتہ بختی خواب میں بھی وہ نہیں آتے اورآتے ہیں تو یوں جیسے کوئی بیگا نہ آتا ہے کہاں رکتا ہے ذکرِ بادۂ ومینا و ساغرسے جہاں بھی واعظ آجائے وہیں میخا نہ آتا ہے وہی کھنچنا،وہی ملنا،وہی چلنا،وہی رکنا مگر خنجر کو بھی اندازِ معشوقا نہ آتا ہے حرم کی راہ بھی خالی نہیں خطراتِ پیہم سے الٰہی کیا کروں بتخانے پر بتخا نہ آتا ہے مرے دل سے گئی ہے آرزو اُن کی نہ جائے گی مگر میرا خیال اُن کونہ آئے گا نہ آتا ہے زیارت گاہ بن بیٹھا ہے اُن کا دیکھنے والا کہ اک عالم کا عالم روز مشتاقا نہ آتا ہے فقط اس آس پر جیتا رہا میں ناتواں برسوں کہ اک ساعت میں وہ مغرورمحجوبا نہ آتا ہے یہ فیضِ خاص ہے مختاؔر ابنِ شاہِ مینا1 کا کہ لب پر شعر بن کر نعرۂ مستا نہ آتا ہے 1۔اشارہ ہے حضرت امیر مینائی ؔمرحوم کی طرفنوٹ ۔یہ نظم ماہنامہ "خالد"ربوہ میں ماہ تبلیغ 1348ھش (بمطابق فروری 1969ء)میں شائع ہو چکی ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ 313-314) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 11۔ نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہےمندرجہ ذیل اشعار اخبارات کے ایک پرانے ذخیرہ کی مدد سے اکٹھے کر کے مجلۃ الجامعہ شمارہ نمبر2مطبوعہ 1964ءمیں شائع کیے گئےاور آج ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے نکل آیا ہے موقعہ آپ بیتی کیوں نہ کہہ ڈالوں یہ پرسش ہو رہی ہے کیا کوئی افسانہ آتا ہے بڑی مشکل ہے وہ بھی منحرف ہیں دل بھی برگشتہ نہ وہ آتے ہیں قابو میں نہ یہ دیوانہ آتا ہے کوئی وحشت زدہ کیا جانے آدابِ گلستاں کو بجائے نغمہ لب پہ نعرۂ مستانہ آتا ہے دل اُس در پرجو مچلا ہے تو اے مونس مچلنے دے کہ دھن میں ہو تو قابو میں کہاں دیوانہ آتا ہے یہ میری خفتہ بختی خواب میں بھی وہ نہیں آتے اورآتے ہیں تو یوں جیسے کوئی بیگا نہ آتا ہے کہاں رکتا ہے ذکرِ بادۂ ومینا و ساغرسے جہاں بھی واعظ آتا ہےوہیں میخا نہ آتا ہے سخن سازی یہ شوریدہ سرانِ عشق کیا جانیں جو دل میں ہے وہی لب پر آزادانہ آتا ہے سنا دیتا ہے ساری داستانِ شمع وپروانہ جب اڑ کر سامنے کوئی پر پروانہ آتا ہے مجھی سے وعدہ چشم عنایت بارہا ساقی مرے ہی سامنے ٹوٹا ہوا پیمانہ آتا ہے ملی یہ داد انھیں حالِ غم ِفرقت سنانے کی کہ اس کم بخت کو بھی ہائے کیا افسا نہ آتا ہے بڑی رنگینیاں ہیں یوں تو واعظ کی طبیعت میں مگر منبر پہ آتا ہے تو معصوما نہ آتا ہے وہی کھنچنا،وہی ملنا،وہی چلنا،وہی رکنا مگر خنجر کو بھی اندازِ معشوقا نہ آتا ہے مرے دل سے گئی ہے آرزو ان کی نہ جائے گی مگر میرا خیال اُن کو نہ آئے گا نہ آتا ہے حرم کی راہ بھی خالی نہیں خطراتِ پیہم سے الٰہی کیا کروں بت خانے پر بتخا نہ آتا ہے تیری دھن میں چلا ہے لے کے دل لاکھوں تمنائیں بڑے پریوں کے جھرمٹ میں ترادیوا نہ آتا ہے وہ میری اپنے دل سے گفتگو سن کر یہ بول اٹھے کہ اس دیوانے کے پاس اوراک دیوانہ آتا ہے زمانہ کروٹیں رہ رہ کے لیتا ہے تو لینے دو مجھے انداز مایوساں نہ آئے گا نہ آتا ہے وفورِ ضعف سےجنبش کی بھی طاقت کہاں لیکن اچھل پڑتا ہوں جب ذکر مے ومیخا نہ آتا ہے چلے آتے ہیں بے پر کی اڑاتے حضرتِ ناصح معاذاللہ میں سمجھا کوئی دیوا نہ آتا ہے وہ وحشی ہوں کہ جائے سوئے ویرانہ بلا میری جہاں بھی ایک" ہو" کہہ دوں وہیں ویرا نہ آتا ہے یہ موجیں لے رہی ہیں زلفِ میگوں کس کے شانے پر یہ کس کے ساتھ ساتھ اڑتا ہوا میخا نہ آتا ہے نگاہِ دوربیں میں سرد ہے ہنگامۂ عالم جدھر جاتا ہوں استقبال کو ویرا نہ آتا ہے زیارت گاہ بن بیٹھا ہے اُن کا دیکھنے والا کہ اک عالم کا عالم روز مشتاقا نہ آتا ہے دل وارفتہ اپنی دھن سے باز آجائے ناممکن جدھر آتا ہے آندھی کی طرح دیوا نہ آتا ہے غضب تھی شرح غم،وہ سنگدل بھی سن کے بول اٹھا اُسے آتا ہے افسوں جس کو یہ افسا نہ آتا ہے نہ چھوڑے گا مجھے تو اے غم ہردوجہاں کب تک ارے ہٹ جا خیال جلوۂ مستانہ آتا ہے یہ حسرت لے گئی ہے مجھ کو سوبار ان کے کوچے میں کہ وہ اک بار کہہ دیں مرا دیوا نہ آتا ہے فقط اس آس پر جیتا رہا میں ناتواں برسوں کہ اک ساعت میں وہ مغرورمحجوبا نہ آتا ہے یہ فیضِ خاص ہے مختاؔر ابنِ شاہِ مینا1 کا کہ لب پر شعر بن کر نعرۂ مستا نہ آتا ہے1۔ حضرت امیر مینائی ؔ کی طرف اشارہ ہےجوحضرت حافظ صاحب کے شاعری میں استاد تھے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ 315-318) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 12۔ تبرکات۔ نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے کبھی ممکن نہیں گن گن کے اک اک دانہ آتا ہے مری قسمت کا روزینہ مجھے روزانہ آتاہے کوئی وحشت زدہ کیا جانے آدابِ گلستاں کو بجائے نغمہ ۔لب پر نعرۂ مستا نہ آتاہے جب آنے والے آتے ہیں تو کھو جاتا ہوں اس دھن میں کہ دیوانے سے ملنے کیا کوئی فرزانہ آتاہے دل اُس در پرجو مچلا ہے تو اے مونس مچلنے دے کہ دھن میں ہو تو قابو میں کہاں دیوانہ آتا ہے خد کے گھر بھی کوئی بے بلا ئے جا نہیں سکتا وہی جاتا ہے جس کے نام کا پروانہ آتاہے وہ رازِ دل بہر حالت جسے دل میں ہی رہنا تھا قیامت ہے کہ لب پر آج مجبورانہ آتا ہے زمانہ کروٹیں رہ رہ کے لیتا ہے تو لینے دو مجھے انداز مایوساں نہ آئے گا نہ آتا ہے سمجھ میں آگیا ذرے کا رشکِ مہر ہوجانا کہ اس لب پر بھی اب ذکرِدلِ دیوانہ آتا ہے خیال اچھا ارادہ نیک نیت نیک ترلیکن حرم کے جانے والو راہ میں بت خانہ آتا ہے دل وارفتہ اپنی دھن سے باز آجائے ناممکن جدھر آتا ہے آندھی کی طرح دیوانہ آتا ہے مسافر خانۂ عالم بھی اک مے خانہ ہے گویا یہاں لبریز ہونے ہی کو ہر پیمانہ آتا ہے یہ کھو جاتا ہوں خود اپنا پتہ پہروں نہیں ملتا مجھے جب یاد اک بھولا ہوا افسانہ آتا ہے سنا دیتا ہے ساری سرگزشت شمع وپروانہ جب اڑ کر سامنے کوئی پر پروانہ آتا ہے کسی کے مست ٹوٹے بوریے پر وجد کرتے ہیں کہاں اُن کو خیال مسندِ شاہانہ آتا ہے زیارت گاہ بن بیٹھا ہے اُن کا دیکھنے والا کہ اک عالم کا عالم روز مشتاقا نہ آتا ہے نگاۂِ دوربیں میں ہیچ ہے ہنگامۂ عالم جدھر جاتا ہوں استقبال کو ویرانہ آتا ہے یہی اندازِ عالم ہے تو عالم کا خدا حافظ حرم کو جا رہا ہوں سامنے بت خانہ آتا ہے مجھے مختاؔر اگلی صحبتیں جب یاد آتی ہیں تو قابو میں کہاں پہروں دلِ دیوانہ آتا ہےحضرت حافظ صاحب کا یہ منظوم کلام"خالد"ربوہ میں جنوری 1960ءمیں شائع ہوچکا ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ 319-321) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 13۔ مخمس برقصیدہ جناب منشی سید شکیل احمد صاحب سہسوانی (مطبوعہ الحکم 22دسمبر1898ءجلد2نمبر30 صفحہ 5۔6) اللہ اللہ یہ کیا ظلم کیا جاتا ہے جو ہیں دیندار اُنہیں بے دین کہا جاتا ہے دل مسلمانوں کا اس غم سے پھٹا جاتا ہے دین احمد کا زمانہ سے مٹا جاتا ہے قہر ہے اے مرےاللہ یہ ہوتا کیا ہے؟ جو کہ اسلام کے ہیں صبح و مسا خیر طلب ہر طرح تابع فرمانِ شہنشاہِ عرب اُن کو کافر یہ کہیں ہائے ستم!ہائے غضب دیکھتے ہیں جو دکھاتا ہے تُو ہم کو یارب سنتے ہیں جو سناتاہےبس اپنا کیا ہے مولوی کوئی کہے یا کوئی کچھ نذر کرے لوگ نکلے ہیں اسی دھن میں پہن کر جبےّ دین وایمان سے کیا کام ،رہے یا نہ رہے فکر بے دینوں کو بس یہ ہے کہ ہر پہلوسے مال دنیا کا ملے دولتِ عقبیٰ کیا ہے؟ اب مخالف ہیں وہی جو نظر آتے تھے رفیق سخت بدخلق ہیں وہ ہم جنہیں سمجھے تھے خلیق بدلیاقت وہی نکلے ہیں جو بنتے تھے لئیق حائل منزل مقصود ہیں قظّاع ِطریق نقد ایماں کے تحفظ کا طریقا کیا ہے؟ جو قوی ہے اسے سمجھے ہیں یہ نادان ضعیف ہوتا جاتا ہے اسی وجہ سے ایمان ضعیف کیوں نہ بے دین کہیں پھر اُسے ہر آن ضعیف مضمحل ملتِ بیضا ہے مسلمان ضعیف ملحدوں کی جو بن آئے تواچنبہا کیا ہے ہائے اس حد کو مسلمان کی پہنچی نوبت چھوڑ دی پیروئ قولِ شفیعِ امت کہتے ہیں حضرتِ عیسیٰ نے نہیں کی رفعت شغل یاروں کا ہے تحریف ِ کتاب و سنت دین جاتا ہے تو جائے انہیں پروا کیا ہے جو کہ بنتے ہیں موحد یہ انہیں کا ہے خیال آکے مُردوں کو جِلائے گا مسیح الدجال اس عقیدہ کے مخالف سے وہ رکھتے ہیں ملال عالم الغیب ہے آئینہ ہے تجھ پرسب حال کیا کہوں ملتؐ اسلام کا نقشا کیا ہے زندہ گردانتے ہیں حضرت عیسیٰ کو ابھی اللہ اللہ یہ حق پوشی و یہ بے ادبی اس عقیدے سے جو روکےاُسے کہتے ہیں شقی عافیت تنگ ہے بے دینوں سے دینداروں کی قائم اب تک ہے یہ دنیا سبب اس کا کیا ہے زندہ عیسیٰ کو بتانے سے فضیلت ہے غرض شیخ بطال میں ہر طرح بطالت ہے غرض فتوئ کفر سے اُن کی یہی نیت ہے غرض صرف تحصیل ِ زرومال ووجاہت ہے غرض اس اس دعوے سے باطل کا نتیجا کیا ہے دے کے اک مردِ مجاہد پہ گواہی جھوٹی زک پہ زک اور اذیت پہ اذیت پائی باز آیا نہ مگر مولوی ِ بطّالی حوصلہ اس کا بمعنی یہی کہتا ہے ابھی دیکھتے جائیں ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے جبکہ قرآن سے ثابت ہےوفاتِ عیسیٰ اورحضرت نے بھی ارشاد یہی فرمایا منصفی شرط ہے پرتو نے یہ کس منہ سے کہا قادیانی نے نیا فتنہ کیا ہے برپا میں مسیحا ہوں وہ کہتا ہے مسیحا کیا ہے ہے ہمیں مخبرِ صادق نے خبردار کیا یعنی عیسیٰ ہے اما م ایک اِسی امت کا پھر یہ کس واسطے کہتا ہے تو اے یاوہ سرا یک قلم زندگی ورفع ونزولِ عیسیٰ سب کا منکر ہے اس آفت کا ٹھکانا کیا ہے ذکر دجال لعیں واقعہ ء قحط و بلا حالت زلزلۂ ارض ونشاناتِ سما کینہ و بغض ونفاق ِ حضراتِ علماء جاوہنگام وعلاماتِ نزولِ عیسیٰ سب احادیث میں مرقوم ہیں جھوٹا کیا ہے سہسوانی کی ذرایا وہ سرائی تو سنو اُس کا دعویٰ ہے کہ زندہ ہیں مسیح خوشخو اور کہتا ہے کہ اتریں گے وہی اے لوگو! کوئی انصاف سے دیکھے اگر اس نامہ کو ابھی کھل جائے وہ سچا ہے کہ جھوٹا کیاہے مرحبا صل علیٰ صل علیٰ صل علیٰ حضرت عیسیٰ موعود ہوئے جلوہ نما ہائے بے دین سمجھتے ہیں انہیں یاوہ سرا نفخ میں صور کے یارب ہے تامل کیسا اب قیامت کے بپا ہونے میں وقفا کیا ہے لوگ کہتے ہیں کہ کافر ہے یہ بے شبہہ وشک حضرت مہدی معہود کی کرتے ہیں ہتک کیا عجب ہے جو کہیں سن کے اسے حوروملک ٹوٹ پڑتا نہیں کس واسطے یارب یہ فلک کیوں زمیں شق نہیں ہوتی یہ تماشا کیا ہے مہدی و عیسیٰ موعود نمودار ہوئے مرحبا دین کی تائید میں کیا کام کیئے حیف اس شخص کی حالت پہ جو پھر بھی یہ کہے کس لئے مہدی برحق نہیں ظاہر ہوتے دیرعیسیٰ کے اترنے میں خدایا کیا ہے پہلے دوچار کو مہدی نے بنایا بسمل پھر کیا تیغِ براہیں سے جہاں کو گھائل اب تو حسّاد بھی کہنے لگے ہو ہوکے خجل کی ہے کیا جلد ترقی پہ ترقی حاصل واہ اے ہمت عالی ترا کہنا کیا ہے؟ شک نہیں اس میں وہ ہے ملہم باصدق وصفا مہدی و عیسیٰ موعود بھی بافضلِ خدا تو مگر حشر میں اس کہنے کا پائے گا مزا پہلے ملّا تھا ۔پھر الہامی بنا پھر عیسیٰ قابلِ دید تماشا ہے یہ مرزا کیا ہے؟ ہر طرح ہوگیا یہ مسئلہ ثابت بدلیل کہ یہی عیسیٰ ء امت ہیں باوصاف ِ جمیل پھر خدا جانے یہ کس برتے پہ کہتا ہے شکیل1 نہ سمجھ بیٹھنا اس کو کہیں عیسیٰ کا مثیل دیکھو قرآن واحادیث کا منشا کیا ہے ؟ قول ِمہدی جسے سمجھا ہے تو اے شوخ قبیح وہ تو انجیل کے اک قول کی ہے نقلِ صحیح تونے پھر کس لئے باندھا ہے یہ بہتانِ صریح صاف کہتا ہے کہ نجّارکے بیٹے تھے مسیح ہوئے بے باپ کے پیدا یہ عقیدا کیا ہے ؟ مہدئ پاک کی موجود ہے تصنیف ِ فصیح دیکھ لے گا جو کوئی شخص اسے بالتصریح تیرے اس کذب کو کیاخاک وہ سمجھے گا صحیح صاف کہتا ہے کہ نجّارکے بیٹے تھے مسیح ہوئے بے باپ کے پیدا یہ عقیدا کیا ہے حیی و قیوم مسیحا کو سمجھتا ہے تو آہ اور کہتا ہے ہوئے فوت رسول ذی جاہ کیوں نہ اس قول سے بندے کو ہو رنجِ جانکاہ کی ہے وہ ہرزہ درائی کہ عیاذًاباللہ ٹکڑے ٹکڑےہوا دل سن کے کلیجا کیا ہے شیخ جی!اب تو خداکے لئے شرماؤذرا دیکھ لو ضد کا تمہاری یہ نتیجہ نکلا یعنی کہنے لگے عیسائی بھی بااستہزا ہوا قرآن سے اثبات ِ حیاتِ عیسیٰ یہ کرامت ہے کہ اعجازِ مسیحا کیا ہے زندہ اب حضرت عیسیٰ کوسمجھنا نہ کوئی یادرکھنا اسے سب راہ یہی ہے سیدھی لاکھ بہکائے تمہیں مولوی بطالی مومنو!ابلہ فریبی میں نہ آنا اُس کی ایک ہی فتنہ ہے تم نے اسے سمجھا کیا ہے ؟ آج کل فکر میں دجالِ لعیں ہے ہرآں چاہیے پیروی مہدی باعزت وشاں اورپھر یہ بھی رہے صبح و مسا وردِ زباں یارب!اس دورِ پرُآشوب میں قائم ایماں توہی رکھے تو رہے ورنہ بھروسہ کیا ہے ؟ مہدئ پاک سے جلتا ہے کوئی ناہنجار اورکرتا ہے کوئی کفر کے فتوے تیار سارے عالم میں تہلکہ ہے خدائے غفّار رات دن فتنوں کی بارش کی طرح ہے بوچھار گرنہ ہو تیری صیانت تو ٹھکانا کیا ہے ؟ مہدئ پاک پہ ہو فضل ِخدائے بیچوں وہ مضامین لکھے جن پہ ہوا دل مفتوں کیوں نہ سیراب ہوں اب تشنہ لبانِ محزوں موجزن اس میں ہیں حقّیت ِحق کے مضموں یہ رسالہ ہےخدا جانے کہ دریا کیا ہے؟ واہ کیا خوب مضامین پسندیدہ لکھے طالبِ صدق جنہیں دیکھ کے مسرورہوئے سہسوانی 2بھی اسے دیکھ کے انصاف کرے رہنما ہے یہ کتاب اہل سعادت کے لئے جو ازل کے ہیں شقی تذکرہ ان کا کیا ہے؟ راستی سے جنہیں نفرت ہے ہوئے وہ محزوں کینہ و بغض وعداوت نے کیا اُن کو زبوں اُن کے سینوں میں ہوا ان کی تمناؤں کا خوں کٹ گئے دشمن ِدین دیکھ کےاس کے مضموں سیفِ مسلول کہوں اس کو تو بیجا کیا ہے ؟ ہوگیا دشمنِ مختاؔر زمانہ یارب! تواسے دامنِ رحمت میں چھپانا یارب ! رو زبد بہر محمد ؐنہ دکھانا یارب ! آخری وقت کے فتنوں سے بچانا یارب ! ہے یہی دل کی مراد اور تمنا کیا ہے 1۔شکیل تخلص ہے صاحبِ قصیدہ کا جو سہسوان کا باشندہ ہے۔ 2۔مولوی محمد بشیر سہسوانی 3۔یہ مخمس اخبار "الحکم"قادیان میں دسمبر 1898کو شائع ہوئی (حیات حضرت مختار صفحہ246-251) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 14۔ مخمس۔ مسلمانوں کو کہتے کس لئے ناحق برا تم ہو(پہلے چار بند الحکم 09دسمبر1899ء جلد3 شمارہ نمبر32صفحہ 6پر چھپے ہیں صفحہ نمبر 7اور8اب تک کہیں سے نہیں مل سکا )
مسلمانوں کو کہتے کس لئے ناحق برا تم ہو ڈرو اللہ سے کس خوئے بدمیں مبتلا تم ہو ابھی سے اس قدرکس واسطے ہم سے خفا تم ہو سمجھ لو پہلے اتنا برسر حق ہم ہیں یا تم ہو یونہی تکفیر میں سرگرم کیوں بے فائدہ تم ہو خلائق سے نہیں ہےشرم خالق سے تو شرماؤ کرونا منصفی کو ترک ہٹ دھرمی سے باز آؤ کہیں ایسا نہ ہو مل کر کفِ افسوس پچھتاؤ یہ کس پر کفر کا لکھتے ہو فتوٰ ٰی کچھ تو فرماؤ یہ کس کے واسطے سوچو تو سرگرم جفا تم ہو محبت جو کہ رکھتے ہیں کلام ِ پاک سبحاں سے تعشق ہے دلوں کو جن کے شاہنشاہِ ذیشاں سے رہا کرتے ہیں فکرِ دین میں جو ہر وقت قرآں سے تدابیر رہ اسلام میں ہردم دل وجاں سے انہیں کو ہائے بے ایماں کہتے برملا تم ہو نہیں ہوتے ہیں لوگ آیات قرآن دیکھ کر قائل دلوں سے آہ کیسا نورِ ایماں ہوگیا زائل جہالت سے لبوں پر رہتی ہے تقریر لا طائل کلامِ حق سے روگرداں ،بیانِ خلق پر مائل تمہیں انصاف سے کہدوکہ ایسے ہم ہیں یا تم ہو کہو تم کس سے سیکھا تم نے نیکوں کو برا کہنا کسی کو ناسزا کہنا کسی کو ناروا کہنا بنایا خوب ہٹ دھرمی کو تم نے واہ کیا کہنا مگر اب مان لو اتنا مرا بہرِ خدا کہنا اجی انصاف کی جانب بھی مائل اک ذرا تم ہو جو شوق ِاتباعِ سیدِ ابرارہے تم کو تو موتِ حضرتِ عیسیٰ سے کیوں انکار ہے تم کو یہ کیوں ہے اس قدر ضد کس لئے تکرار ہے تم کو یہ کیسے امرِ حق کے ماننے میں عار ہے تم کو ہم اہلِ حق ہیں کہنے کو یہ کہتے بارہا تم ہو رسولِ حق ؐسے جب کم ہیں صفاتِ حضرتِ عیسیٰ نہیں افضل جب آنحضرت ؐسے ذاتِ حضرتِ عیسیٰ بھلا تسلیم ہو پھر کیوں حیاتِ حضرتِ عیسیٰ ہوئی قرآن سے ثابت وفاتِ حضرتِ عیسیٰ کہو اب پیرو فرمانِ خالق ہم ہیں یا تم ہو نزول ان کا جو تم سمجھے ہوئے ہو تم کو دھوکا ہے یہ سوچو تو ہوا جو فوت وہ واپس بھی آیا ہے احادیث نبی ؐمیں بھی یہی مرقوم ہرجا ہے کلام اللہ میں بھی فوت ہونا ان کا لکھا ہے نہ واقف ہوتے اس سے ایسے ناواقف بھی کیا تم ہو جو آیا اس جہاں میں اُسکولازم موت آنی ہے یہ ثابت ہوگیاآنا ہی جانے کی نشانی ہے نہیں منکر کوئی ہر شخص نے یہ بات مانی ہے مسلّم ہو گیا یہ مسئلہ انسان فانی ہے سمجھتے ہونہ اس کو ناسمجھ ایسے بھی کیا تم ہو کوئی کل ہوگیا رخصت ،کسی کی آج ہےباری کسی کی آج ہے نوبت کسی کی کل ہےتیار ی غرض سب پریونہی ہو جائے گی اک دن فنا طاری سمجھ لینے میں پھر اس بات کے کیوں ہے یہ دشواری خدا کے فضل سے جب صاحبِ ذہنِ رسا تم ہو نہ اب جو لوگ ہٹ دھرمی سے اپنی باز آئیں گے کفِ افسوس مل مل کربہت آنسو بہائیں گے جواُن کے منتظر ہیں یاد رکھیں منھ کی کھائیں گے کہاں ہیں حضرتِ عیسیٰ جو اب تشریف لائیں گے عبث اس قصۂ باطل پہ کیوں ایسے فدا تم ہو یہی قولِ رسول اللہ بھی لکھا ہوا پایا یہی قرآن میں خالق نے بھی ارشاد فرمایا درست اس کا عقیدہ کب رہا جو اس میں شک لایا ہواجو فوت دنیا میں وہ پھر واپس نہیں آیا اسے تو مدتوں سے دیکھتے صبح و مسا تم ہو نہ ہو اس قصۂ باطل سے مومن خشمگیں کیونکر یہ باتیں مان کر کھو دے کوئی ایمان ودیں کیونکر مسلمان ہیں ہمیں ہو ان فسانوں پر یقیں کیونکر بھلاآئیں گے عیسیٰ بعد ختم المرسلیںؐ کیونکر بتاؤ تو سہی اس وہم میں کیوں مبتلا تم ہو علاجِ دردِ پنہاں وعیاں ہیں میرزا صاحب شفا بخشندۂ آزارِ جاں ہیں میرزا صاحب خدا کے مرسل باعزوشاں ہیں میرزا صاحب امام الوقت ،مہدئ زماں ہیں میرزا صاحب معاذاللہ معاذ اللہ انہیں کہتے برا تم ہو بنایا ہے خدا نے اُن کو مورد لطفِ بیحد کا ہوا ہے بول بالا اُن کے باعث دینِ احمدؐ کا بڑا ہے مرتبہ نزدِ خدااُن کے مویّد کا یہی ہیں وہ زمانہ منتظر تھا جن کی آمد کا یہی ہیں وہ یہی ہیں اب بدل ان پر فدا تم ہو یہی ہیں مدتوں سے تک رہے تھے راستہ جن کا یہی ہیں قبل بعث بھی زمانہ تھا فدا جن کا یہی ہیں وہ ہوا کرتا تھا چرچا جابجا جن کا یہی ہیں ذکر فرماتے تھےشاہِ دوسرا جن کا یہی ہیں وہ یہی ہیں طالبِ عفوِ خطا تم ہو حق آگاہ وامیں ومتقی ومرسلِ رحماں شفیق وغم گسار وباعثِ تسکیں غمِ ناکاں غلامِ احمؐد ختم الرسل،شاہنشۂ ذیشاں امام الوقت مہدئ زماں وعیسئِٰ دوراں یہی ہیں ہاں یہی ہیں شک میں اب کیوں مبتلا تم ہو یہی ہیں ہورہے ہیں جن سے اب عالم میں سب عاجز فصیحانِ عجم عاجز بلیغانِ عرب عاجز کسی سے یہ زمانے میں ہوئےکس وقت کب عاجز مخالف ہوتے جاتے ہیں انہیں سے روزوشب عاجز یہی ہیں آج جن کا شور سنتے جابجا تم ہو یہی ہیں وہ لقب جن کا ہے مہدئ کرم گستر مصدق ہیں انہیں کے قول کے اقوالِ پیغمبر کلام اللہ بھی کرتا ہے تائید ان کی سرتاسر شہادت دے چکے ہیں مہر ومہ بھی ان کے دعویٰ پر بتاؤ چاہتے اب کیا ثبوت اس کے سوا تم ہو خدا کے واسطے باز آؤ اب شیخی ونخوت سے کرو اس ضد کو تم فی الفور دور اپنی طبیعت سے دل اپنا صاف کرلو مرسلِ حق کی کدورت سے نصیحت کررہا ہوں میں نہایت جوش ِالفت سے نہیں منظور مجھ کو سرگروہِ اشقیا تم ہو یہ حکم امت پرصادر کر گئے ہیں سرورِ امت کہ جس کے سامنے ہو جلوہ گر مہدئ با عظمت سلام اُن کو ہمارا بھی وہ پہنچا کر بصد شفقت ادب سے پھر کرے یہ عرض خوداُن سے کہ آنحضرت ہمارے رہنما تم ہو ہمارے پیشوا تم ہو بیاں ہو ہائے کیا طوفان ِبحرِ کفر کی حالت جھکولے دے رہی ہے ہر طرف سے موج پر آفت بچالے ڈوبنے سے اس کو ہے کون ایسا باہمت طلاطم میں پڑی ہے کشتئ دینِ شہ امت مسیح ِ وقت اس کے ناخدا بہر خدا تم ہو اگر یہ چاہتے ہو خوش ہو تم سے خالقِ اکبر توہے ہروقت لازم پیروئ ِ قولِ پیغمبرؐ مٹا کر دل سے نقشِ اتباعِ نفس سرتا سر کرو بیعت امام الوقت کے دستِ مبارک پر اگر پابندِفرمانِ محمدؐ مصطفیٰ تم ہو خدا ہے بخشنے والا اگر تم اب بھی باز آؤ یہ مایوس اتنے ہو لاتقنطوا کو یاد فرماؤ نصیحت ہے یہی مختاؔرکی اس کو بجا لاؤ ادب کے ساتھ پیچھے پیچھے مہدی کے چلے آؤ جو ڈھونڈا چاہتے جنت کا سیدھا راستہ تم ہو (حیات حضرت مختار صفحہ252-256) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 15۔ نظم۔ بڑا آج فضلِ خدا ہورہا ہے (یہ نظم بر موقعہ جلسہ سالانہ پڑھی گئی ) بڑا آج فضلِ خدا ہورہا ہے کہ حاصل مرا مدعا ہورہا ہے اِدھر احمدی ہیں اُدھر احمدی ہیں اُولوالعزم جلوہ نما ہورہا ہے ستاروں میں جس طرح ہو ماہ روشن یہ رنگ آج صل علیٰ ہورہا ہے یہ انبوہِ خلقت یہ جوشِ عقیدت نہایت ہی راحت فز ا ہورہا ہے مزے سے مزے لوٹتی ہیں نگاہیں کہ منظر بہت خوشنما ہورہا ہے اٹھیں کیوں نہ رہ رہ کے دل میں امنگیں تماشائے شانِ خد ا ہورہا ہے ہے ایک ایک محمود احمد کا شیدا جسے دیکھتا ہوں فد ا ہورہا ہے پھرے ہیں نہ عہدِ وفا سے پھریں گے یہی تذکرہ جابجا ہورہا ہے سوا اس کے ہے اور کچھ جس کے دل میں وہ پابندِ حرص وہوا ہورہا ہے کوئی جا کہ کہہ دے یہ اس خود نما سے جو اپنی ادا پہ فدا ہورہا ہے کہیں منہ کی پھونکوں سے بجھتا ہے سورج ارے میرے دانا یہ کیا ہورہا ہے کدھر آج تیرِ ستم چل رہے ہیں کدھر وارِ تیغِ جفا ہورہا ہے جو ہونا تھا بالقصداس کو بھُلایا جو بھولے سے ہونا نہ تھا ہورہا ہے جو جائز نہ تھا ہوگیا آج جائز جو تھا ناروا وہ روا ہورہا ہے وہ محمود احمد جو ہے ابنِ مہدی اُسی پر ستم برملا ہورہا ہے وہ کس کو سنائیں وہ کیونکر دکھائیں جو حالِ دلِ مبتلا ہورہا ہے نتیجہ یہ غیروں سے ملنے کا نکلا کہ بھائی سے بھائی جدا ہورہا ہے بلاتے ہیں کس واسطے اب وہ ہم کو مگراُن کو کچھ وہم سا ہورہا ہے ہوئی ہے نہ ہوگی امید اُن کی پوری کہ اب ان کا راز آئینہ ہورہا ہے بس اب امن اسی میں ہے مختاؔر احمد اسے چھوڑ دو جو جدا ہورہا ہے (حیات حضرت مختار صفحہ257-258) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 16۔ نظم۔ رنج پر رنج وہ ہروقت دئیے جاتے ہیں رنج پر رنج وہ ہروقت دئیے جاتے ہیں اللہ!اللہ!ہم اس پر بھی جئے جاتے ہیں خود تو جو کام نہ کرنا تھا کئے جاتے ہیں اور اُلٹے ہمیں الزام دئیے جاتے ہیں کون سی بات کہی میں نے خلافِ مسلک کس خطا پر مرے ہونٹ سئے جاتے ہیں واسطہ کیا ہے غرض کیا ہے تعلق کیا ہے کیوں وہ طعنے ہمیں رہ رہ کے دئیے جاتے ہیں سر جو میرا نہ جدا ہوتو خطا کیا اُن کی وہ تو ہر وقت چھری تیز کئے جاتے ہیں یہ تو فرمائیں وہاں جانے کا حاصل کیا ہے کس لئے وہ مجھے لاہور لئے جاتے ہیں حق پسندوں کو تو ہر حال میں آنا ہے ادھر اُس طرف آج تو خودمطلبئے جاتے ہیں اُس طرف شعلہ فشانی شرر انگیزی ہے اِس طرف جام مئے لطف پئے جاتے ہیں مل کے اغیار سے یہ حال ہوا یاروں کا کہ عقائد سے بھی انکار کئے جاتے ہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ احمد تو نہ تھے مہدئ پاک احمدیت کابھی پھر نام لئے جاتے ہیں چھوڑتے ہی درِ دلدارکہیں کے نہ رہے کیا وہ اب بھی اُسی عزت سے لئے جاتے ہیں جس گلی کوچہ سے اب اُن کا گذر ہوتا ہے لوگ کہتے ہیں وہ خود مطلبئے جاتے ہیں نہ تو اپنوں سے تامل ہے نہ بیگانوں سے جس کسی سے بھی ملے مال لئے جاتے ہیں واسطہ آخرکار ان سے کہاں تک کب تک؟ ایسے جو ہوتے ہیں وہ چھوڑ دئیے جاتے ہیں وسعتِ حوصلۂ فضلِ عمرکے قرباں آج تک کام تحمل سے لئے جاتے ہیں پوچھنی چاہیے یارانِ طریقت سے یہ بات کہ وہ کیا کیا عملِ نیک کئے جاتے ہیں نظر غور کریں معنیِ بیعت کی طرف عمر غفلت میں عبث صرف کئے جاتے ہیں سوچ لیں پہلے ہی پرواز سے مرغانِ حرم کیا دئیے جاتے ہیں کیا ساتھ لئے جاتے ہیں درِ جاناں سے ٹلا ہوں نہ ٹلوں گا مختاؔر کیوں پیامی مجھے پیغام دئیے جاتے ہیں نوٹ : یہ نظم اخبار "الفضل"قادیان شمارہ 3جلد 4 میں شائع ہوئی۔ (حیات حضرت مختار صفحہ259-260) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 17۔ گریۂ بے اختیاربیاد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبمکرم چوہدری عبد الواحد صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد تحریر کرتے ہیں کہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب وفات پاگئے۔جنازہ مقبرہ بہشتی کی طرف لے جایا جا رہا تھا ۔حضرت حافظ صاحب اپنے کمرے سے نکل کر باہر برآمدے میں کھڑے رہے تا آنکہ حضرت میاں صاحب کی تدفین ہوگئی۔بعد تدفین لوگ واپس ہونا شروع ہوئے ۔حافظ صاحب اُسی حالت غمزدگی میں کمرے میں آکر بستر پر لیٹ گئے۔رات بھر نیند نہیں آئی۔صبح تک تین سو اشعار کہہ ڈالے۔صبح کو جب حضرت حافظ صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی ساری کیفیت سنائی اور کہا کہ صبح ثاقبؔ زیروی صاحب آئے تھے ،کچھ اشعار طلب کیے میں نے کہاان اشعار میں سے چن لو۔
کھلا کر بن جو کھلے ہیں چمن میں لالہ وگل ہوا کرے جو نسیم بہار باقی ہے کیا کریں سرشمشاد قمریاں کُو کُو رہا کرے جو نوائے بہار باقی ہے کسے دماغ سنے کون ذکر بلبل وگل کہاں سکونِ دل داغدا ر باقی ہے مری نگاہ میں تاریک ہو گیا عالم نظر سے چھپ گئی ہر شے غبا ر باقی ہے نہ تاب ضبط الم ہے نہ طاقتِ فریاد نہ سر میں ہوش نہ دل میں قرارباقی ہے نہ میرے بس میں رہی میری چشم اشک فشاں نہ دل پہ آج مجھے اختیا رباقی ہے فدائے دین قمر الانبیاء نے پائی وفات جہانِ عشق میں جن کا وقار باقی ہے ہزار حیف کے راہی ہوئے وہ سوئے عدم ہزار حیف کہ یہ اشکبا رباقی ہے جو کل تھے باعث ِ تسکین غم کثان نہ رہے یہ بے قراریہ ہزارو نزا رباقی ہے وہ چل دئیے جنہیں تھا دردخستہ حالوں کا یہ دل فگار یہ غم کا شکا رباقی ہے جو محو خدمت ِ دین تھے وہ محوخواب ہیں آج یہ شرمساریہ غفلت شعا رباقی ہے نگاہیں ڈھونڈ رہی ہیں وہ شہسوار کہاں غبار ہے کہ پس راہوار باقی ہے یہ کوہِ صدمہ و غم اور یہ ضعیف و نحیف قضا کو آنے میں کیا انتظار باقی ہے یہ ابتلائے مقدر تو آچکا لیکن نزولِ رحمتِ آمرز گا رباقی ہے یہ درد جس نے دیا ہے وہی دوا دے گا یہی یقین،یہی انتظا رباقی ہے یہ فکر تھی کہ انہیں پر تھا بارِ خدمت دیں اُسے اُٹھائے گا کون اب جو با رباقی ہے ندائے غیب یکایک یہ دل میں گونج اٹھی کہ وہ مسبّب ِ ذوالاقتدا رباقی ہے اسی کے ہاتھ کا یہ سلسلہ تھا اک پودہ جو صورت ِشجر سایہ دا رباقی ہے اُسی نے اس کو بڑھایا وہی بڑھائے گا اُسی کے لطف سے اِسکی بہا رباقی ہے سمجھ رہی تھی جسے خلق ایک ذرہِ خاک وہ مثل نیرِ نصف النہا رباقی ہے اُسی کے فضل سے اس کو عطا ہوا ہے وقار اُسی کے فضل سے اس کا وقا رباقی ہے اُسی نے اس کو نوازا،وہی نوازے گا کہ وہ جوچاہے کرے اختیا رباقی ہے خدا کے کام کا بندے پہ انحصار نہیں کہاں یہ ہستی ناپائیدارباقی ہے بقا کسی کو نہیں ساری خلق ہے فانی بس ایک خالق وپروردگا رباقی ہے ازل سے ہے یہی حال اس سرائے دنیا کا کوئی گیا تو کوئی سوگوا رباقی ہے یہاں نہ کوئی رہا ہے نہ رہ سکے گا کوئی غلط کہ زندگی مستعا رباقی ہے جو لوگ اگلے زمانوں میں تھے کہاں ہیں وہ آج کوئی نبی نہ کوئی شہریا رباقی ہے اسی طرح روشِ روزگار تھی پہلے اسی طرح روشِ روزگا رباقی ہے ہزار جائیں یہاں سے تو لاکھ آتے ہیں نہ اُن کی حد ہے نہ ان کا شما رباقی ہے اِس آنے جانے میں کوئی بھی روک ٹوک نہیں یہ دورِ مثل خزاں وبہا رباقی ہے یہ طرزِ آمدورفت ابتدا سے آخر تک بحکم حضرت پروردگا رباقی ہے جو اُس جہان سے آتے ہیں وہ تو جاتے ہیں نہ اِس میں شک نہ کوئی اعتذا رباقی ہے نہ آج تک کوئی آیا نہ کوئی آئے گا نہ تھا کسی کو نہ یہ اختیا رباقی ہے سوائے صبر نہیں اور کوئی چارہ کار یہی علاج ِدلِ بے قرا رباقی ہے یہ مانتا ہوں مگر مطمئن نہیں دل زار یہ مانتا ہوں مگر اضطرا رباقی ہے کسی طرح نہیں جاتی خلش نہیں جاتی وہی تڑپ ہے وہی انتشا رباقی ہے جب اُن کا ذکر ہو اسیل اشک امنڈ آیا یہ سلسلہ ہے کہ لیل و نہا رباقی ہے میں روکتا تو ہوں رکتے نہیں مگر آنسو رکیں بھی کیا کہ دل بے قرا رباقی ہے شکیب و ضبط و تحمل سب اُن کے ساتھ گئے یہاں تو گریۂ بے اختیا رباقی ہے (حیات حضرت مختار صفحہ283-285) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 18۔ نالۂ خاموش اے نالۂ خاموش خدا تجھ کو جزا دے افلاک سے بڑھ کر عرشِ معلیٰ کو ہلا دے اےچشمِ ستم دیدہ وہ طوفان بپا کر جو دیدۂ سفاک کو بھی خون رُلا دے اے دل تو لہو بن کے مری آنکھ سے ڈھل جا چمکا ہوا رنگ رخِ آفاق اُڑا دے اے خونِ جگر سینے میں کھول اور اُبل جا اک جوشِ جنوں خیز رگ و پے میں رچا دے اے عقلِ رسا اور تیرا اب نہیں کچھ کام دیوانوں کی فہرست میں اک نام بڑھا دے گزرا ہے جو نظروں سے وہ بھولی نہیں نظریں گزری ہے جو دل پر اسے دل کیسے بھلا دے خود میرے محافظ نے ہی چھینی مری دولت یہ طرفہ ستم کیوں نہ مری جان جلا دے رگ رگ میں تپِ غم سے لہو کھول رہا ہے منہ تکتے ہیں حسرت سے میرے دل کے ارادے مخلوق نے انصاف کی توقیر گھٹا دی اللہ مرا حوصلۂ ضبط بڑھا دے صد حیف کہ کمزور کو بے وجہ زبردست اک تختۂ مشق ِستم وجَوربنا دے کیا جرم ہے کیا میں نے بگاڑا ہے کسی کا کچھ میری خطا بھی تو کوئی مجھ کو بتا دے اک میں ہی تو دیوانۂ آئینِ وفا تھا اللہ مجھی کو وہ غم ہوش ربا دے آتے ہی مرا نام بدل جاتی ہے تیوری اب کیا کہوں اللہ ان آنکھوں کو حیا دے حق کا تو زبردست گھلا گھونٹ چکا ہے کمزور کو برداشت کی توفیق خدا دے پاکیزگئ نفس ہے اک نعمت عظمےٰ لیکن یہ اسی کے لئے ہے جس کو خدا دے کل تھا تو میں وہ تھا جو ہے مشہور۔ مگر آج جو چاہے وہ اس کا لبِ الزام بنا دے تقصیر بھی کچھ ہے کہ نہیں اس سے غرض کیا شائق جو سزا دینے کا ہو کیوں نہ سزا دے یونہی سہی میں فاتحۂ خیر تو پڑھ دوں انصاف کو گاڑا ہے کہاں کوئی بتا دے خالی نہیں جاتیں کبھی مظلوم کی آہیں کوئی یہ اُس انصاف کے پتلے کو بتا دے یوسف تو اسیری میں بھی یوسف ہی رہے گا لیکن اسے کیا کہیے جو یوسف کو سزا دے ہے بہر سزا جرم کا اثبات بھی لازم الزام تو جس پر بھی جو چاہے وہ لگا دے اے وہ کہ نظر بندئ یوسف سے ہے شاداں دنیا کو ذرا دامنِ یوسف بھی دکھا دے رہتا ہے عیاں ہو کے ہی فرق حق و ناحق گر کوئی اُسے کتنے ہی پردوں میں چھپا دے اللہ رہے پاکیزگئ دامنِ یوسف شرمندہ زلیخا ہو عزیز آنکھ جھکا دے اے دل یہ تیری نظم تو احباب نے سن لی اک نظم اسی دھن میں خدا کو بھی سنا دے جو دیکھنے والے ہیں وہ یہ دیکھ لیں مختاؔر تُو نظم پڑھے۔داد تجھے تیرا خدا دےنوٹ ۔یہ نظم ہفت روزہ "لاہور"بابت 26دسمبر1992ءمیں شائع ہوئی۔الفضل انٹرنیشنل 3نومبر1995ء
(حیات حضرت مختار صفحہ286-287) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 19۔ بیانِ اہلِ درد 1 کیا کوئی بیدرد سمجھے گا بیانِ اہلِ درد پوچھ اہلِ درد سے لطفِ زبانِ اہلِ درد وہ تو ہیں بیدرداُنہیں کیا قدر جانِ اہلِ درد جانِ اہلِ دردپر صبر فغاں اہلِ درد دیکھئے رہتا ہے کب تک یہ مصائب کا ہجوم دیکھئے ہوتا ہے کب تک امتحانِ اہلِ درد بدگماں بھی جانتے تھے اور انہیں بیدرد بھی لیکن اس حد تک نہ پہنچا تھا گما نِ اہلِ درد کچھ اثر ہوتا نہ ہوتا یہ تو تھی قسمت کی بات سن تو لیتے وہ مگر اک دن بیا نِ اہلِ درد دیکھئے ہوتی ہیں اب کیا کیا ستم آرائیاں کہہ چکے ہیں وہ کہ ہم ہیں اور جا نِ اہلِ درد ہے تصور میں کسی بیدرد سے یہ گفتگو چشمِ بددور آپ ہی ہیں مہربا نِ اہلِ درد آپ ہی کے خلق بے پایاں سے دل ہیں شاد کام آپ ہی ہیں خیر سے راحت رسا نِ اہلِ درد آپ ہی کے سر ہے سہرا عدل اور انصاف کا اللہ اللہ آپ ہی ہیں قدردا نِ اہلِ درد اب تو صاحب حد سے گزریں آپکی بیدردیاں آپ کچھ دن آکے بیٹھیں درمیا نِ اہلِ درد شکر للہ آج تو مختاؔروہ بھی بول اٹھے سنئے اہلِ درد ہی سے داستا نِ اہلِ درد 2 اللہ اللہ کس ترقی پر ہے شا نِ اہلِ درد کانپتا ہے عرش بھی سنکر فغا نِ اہلِ درد سن نہ بیدردوں سےظالم داستا نِ اہلِ درد ان کی باتوں میں کہاں لطفِ زبا نِ اہلِ درد ڈھالتی رہتی ہے مخلوق اپنے اپنے رنگ میں کس کشاکش میں پڑی ہے داستا نِ اہلِ درد چاہیئے اغیار سے بھی پاس ِ آئینِ وفا کس قدر نازک ہے شرطِ امتحانِ اہلِ درد جان سے بھی بڑھ کے پیاری کیوں نہ ہو امید ِلطف اب یہی لے دے کے ہے راحت رسانِ اہلِ درد اُس تغافل کیش کو درد آشنا ہونے تو دو درد ہی بن جائے گا آرامِ جا نِ اہلِ درد روزوشب اِس دھن میں ہیں دیوانگانِ کوئے دوست جان جائے یا رہے رہ جائے آ نِ اہلِ درد فرش سے آہوں کا اک تانتا لگا ہے عرش تک سوئے منزل جا رہا ہے کاروا نِ اہلِ درد سن چکے ہیں یہ کہ اس کو آہ وزاری ہے پسند اب کہاں تالو سے لگتی ہے زبا نِ اہلِ درد جوشِ بارانِ سہام اللیل طوفان خیز ہے کاش جائے امن ڈھونڈیں دشمنا نِ اہلِ درد کوئی بیدردوں سےاے مختاؔرکہہ دے مژدہ باد رنگ لانے ہی کو ہے سوزِ فغا نِ اہلِ درد نوٹ مطبوعہ روزنامہ الفضل قادیان 4اکتوبر1935ء 3 اللہ اللہ کیا ہی دلکش ہے بیا نِ اہلِ درد طرزِ اہلِ درد سے ظاہر ہے شا نِ اہلِ درد اے دعائے نیم شب اے روحِ جا نِ اہلِ درد مونہہ ترا تکتی ہے چشمِ خونچکا نِ اہلِ درد اپنی بیدردی پر ان کا ناز حد سے بڑھ گیا کیا میں ان کو اب سنادوں داستا نِ اہلِ درد داغ ہائے دل سے سینہ ہے برنگِ لالہ زار ساتھ اہلِ دل کے ہے بوستا نِ اہلِ درد یہ الم یہ رنج یہ تکلیف یہ ایذا یہ غم دل پھٹا جاتا ہے سن سن کر بیا نِ اہلِ درد اشک بن کر کیوں رواں ہیں لختِ دل لختِ جگر ڈھونڈنے نکلا ہے کس کو کاروا نِ اہلِ درد چھپ رہا ہے انصاف گم گشتہ خدا جانے کہاں جارہی ہے عرش تک آہ وفغا نِ اہلِ درد یہ تو اے چشمِ مروت پوچھ لینے دے مجھے ! کب تک او بے درد کب تک امتحا نِ اہلِ درد وہ تو ہیں نامِ خدا آرامِ دل آرامِ جان لوگ کہتے ہیں یونہیں ایذارسا نِ اہلِ درد ہوگیا افسانہ ذکر وامق و فرہاد و قیس اب ہے اپنے دوش پر بارِگرا نِ اہلِ درد دنگ ہوجاتا ہوں ان کا روئے زیبا دیکھ کر جب وہ کہتے ہیں مٹادیں گےنشا نِ اہلِ درد اے فلک کیا جی چراتے بھی نظر آیا کوئی بارہا دیکھا ہے تُونےامتحا نِ اہلِ درد خوفِ عالم زیرِپابالائے سرِ فضل ِ خدا دیکھئے یہ ہیں زمین و آسما نِ اہلِ درد اہلِ جوہر زندگی پاتے ہیں جوہر کے طفیل درد ہی کے دم سےہے نام ونشا نِ اہلِ درد مجمع اغیار کب تک کوچۂ دلدار میں اور ہیں بیدرد چند ے میہما نِ اہلِ درد ہے یہ میری خوش نگاری یا فسونِ چشمِ ناز ورنہ اس بیدرد عالم سے بیا نِ اہلِ درد وہ دل آزاری کے شائق اور میں شیدائے ضبط ان سے نامِ جور قائم مجھ سے شا نِ اہلِ درد تیری عمر اے شوقِ شرحِ داستانِ دل دراز ہاتھ بھر کی ہوگئی گویا زبا نِ اہلِ درد مظہر 1و گوہر2 کہاں ہیں صادق3 و بسمل4 کہاں آج پھر مختاؔر ہے محوِبیا نِ اہلِ درد 1۔مولوی محمد احمدبی اے ایل ایل بی کپورتھلہ 2خان محمد ذوالفقارعلی خان صاحب گوہر رام پور 3۔مولوی سید صادق حسین صاحب اٹاوہ 4۔حضرت مولانامولوی عبید اللہ صاحب قادیان مطبوعہ الفضل قادیان 1935ء 4 اس ادا سے سن رہے ہیں داستانِ اہل ِدرد وہ سمجھتے ہی نہیں گویا زبا نِ اہل ِدرد وہ ہیں بے پروا نہیں پروائے جانِ اہلِ درد رفتہ رفتہ ہوچلا ہے یہ گما نِ اہل ِدرد لفظ لفظ اس کا ہے گویا مستقل دنیائے غم دل تڑپ اٹھتے ہیں سنکر داستا نِ اہل ِدرد چشمِ تر دیتی ہے ایذائے دل و جاں کا ثبوت ہیں گواہِ اہلِ درد اشکِ روا نِ اہل ِدرد ناخدا کیسا خدا کی مہربانی چاہیئے ہے بھنور میں کشتئ تاب و توا نِ اہل ِدرد گوزمانے میں زباں زد ہو چکی اُن کی وفا لیکن اب تک ہورہا ہے امتحا نِ اہل ِدرد چھینے لیتے ہیں کھلے بندوں وہ صبر و ضبط و ہوش دن دہاڑے لٹ رہا ہے کاروا نِ اہل ِدرد وہ معاذاللہ کیوں ایذا رساں ہونے لگے لطف آتا ہے مگر سن کر فغا نِ اہل ِدرد بے وفائی یا وفا کیا شے ہے وجہ التفات اب یہ بحثیں چھڑ گئی ہیں درمیا نِ اہل ِدرد سینکڑوں تیر ِستم کھا کر بھی دم خم ہیں وہی بارک اللہ تھایہی شایان شا نِ اہل ِدرد شانِ غیرت ان سے یہ کب کہنے دیتی ہے ہمیں آپ تو بنتے تھے صاحب قدردا نِ اہل ِدرد تاکجا آخر یہ شغلِ جورِبے جا تا کجا تاکجا یہ کوشش ایذائے جا نِ اہل ِدرد دل ستاں یا جاں ستاں ہے انکی بیدردی تو ہو مٹ نہیں سکتا مگر نام ونشا نِ اہل ِدرد کہہ چکے کہنا تھا بیدردوں سے جوحالاتِ غم اب خدا ہی سننے والا ہے بیا نِ اہل ِدرد عہدِ پیری اور اے مختاؔریہ رنگِ شباب اس کو وہ سمجھیں گے جو ہیں رازدا نِ اہل ِدرد مطبوعہ الفضل قادیان 21اگست1935ء 5 کیا کسی بیدرد کو دردِ فغا نِ اہل ِدرد جانِ اہلِ دردپر ہے صبرِجا نِ اہل ِدرد اس سے فرصت ہو تو پھر کچھ اور دیکھا جائے گا اب تو وہ ہیں اور شوقِ امتحا نِ اہل ِدرد ہے قیامت لغویاتِ غیر کی تاثیربھی وہ یہ کہتے ہیں غلط ہے داستا نِ اہل ِدرد بھول جائیں پند گو صاحب بھی ساری قیل و قال کچھ دنوں بیٹھیں جوحضرت درمیا نِ اہل ِدرد ہے یہ حیرت کیوں نہیں وہ دیکھ لیتے آئینہ پوچھتے ہیں کون ہے ایذا رسا نِ اہل ِدرد چھاؤنی چھائے پڑے ہیں دل میں فکرورنج وغم بھر گیا ہے میہمانوں سے مکا نِ اہل ِدرد اس کے یہ معنی کہ حالِ دردِ دل یکسرغلط مسکرا دیتے ہیں وہ سنکر بیا نِ اہل ِدرد ان کی طرزِ جور کچھ کہتی ہے ان کا ذوق کچھ آج کل یہ کشمکش ہےاورجا نِ اہل ِدرد وہ بگڑ کر کہہ گئے مختاؔرضبطِ جور پر دیکھنا ہے اب ہمیں تاب وتوا نِ اہل ِدرد 6 قطع کرتے ہیں تو کر دیں وہ زبا نِ اہل ِدرد اشکِ خوں بن بن کے ٹپکے گا بیا نِ اہل ِدرد بات وہ کرتا ہے جس سے دل جگر ہوں پاش پاش چارہ گر بھی بن گیا ایذارسا نِ اہل ِدرد آپ بھی بے مثل ہیں اور آپ کا انصاف بھی آپ کھلواتے ہیں صاحب کیوں زبا نِ اہل ِدرد سارے عالم سے جدا ہے آپ کا حسنِ سلوک کیوں نہ ہوں ممنونِ منت حامیا نِ اہل ِدرد مدتوں سے سلسلہ جاری ہے ظلم وجور کا مدتوں سے ہورہا ہے امتحا نِ اہل ِدرد اس سے بے مہری و بیدردی تو فرضِ خاص ہے جس کی صورت پر بھی ہوجائےگما نِ اہل ِدرد ہوتی رہتی ہیں صلاحیں آتے جاتے ہیں عدو ہے بڑی لے دے پئے ایذائے جا نِ اہل ِدرد مشورے بے سود ساری کوششیں ہیں رائیگاں اب مٹا سکتا نہیں کوئی نشانِ اہلِ درد خط میں پہنچی ہے یہ فرمائش ِمظہرؔ مجھے اور اے مختاؔرچندے داستا نِ اہل ِدرد مطبوعہ الفضل قادیان6دسمبر1935ء 7 حضرتِ بسمل نے دی دادِبیا نِ اہل ِدرد دردوالے ہی سمجھتے ہیں زبا نِ اہل ِدرد جانے کیا کیا رنگ لائے داستا نِ اہل ِدرد گوشِ دل سے وہ اگر سن لیں بیا نِ اہل ِدرد دنگ ہوں بیدرد بھی سن کر بیا نِ اہل ِدرد درد میں ڈوبی ہوئی ہے داستا نِ اہل ِدرد دردمندوں کے کبھی ہمدرد ہوں گے وہ مگر آج تو مشہور ہیں ایذارسا نِ اہل ِدرد روتے روتے کھوگئے ہوش و خرد صبروقرار گم ہوا بحری سفر میں کاروا نِ اہل ِدرد رفتہ رفتہ دل نشیں ہوجائیں یہ سب تو سہی اور کچھ دن آپ بیٹھیں درمیا نِ اہل ِدرد دیکھنا ہے حاسدِ بد بیں اگر اپنا مآل اک ذرا میری نظر سے دیکھ شا نِ اہل ِدرد ان کی بیدردی کوئی تازہ ستم ڈھانے کو ہے ہوشیار اے قوتِ ضبط ِفغا نِ اہل ِدرد کیا زباں بندی سے چھپ جائیں گے آثارِستم آہِ سردوچشمِ تر ہیں ترجما نِ اہل ِدرد مژدہ باداے شائقین ِدرسِ آئینِ وفا لیجئے مختاؔرپھر ہے مدح خوا نِ اہل ِدرد 8 اے تری قدرت یہ تاثیرِبیا نِ اہل ِدرد دل پکڑ کر رہ گئے ایذارسا نِ اہل ِدرد چٹکیاں لیتے ہیں الفاظِ بیانِ اہلِ درد چونک چونک اٹھتے ہیں وہ سنکر فغا نِ اہل ِدرد چاہے جتنا بھی ستائیں دشمنا نِ اہل ِدرد یہ نرالی شان کا ہے امتحا نِ اہل ِدرد اس کو سمجھے ہیں مگر افسانۂ فرہادو قیس آپ سنئے تو کسی دن داستا نِ اہل ِدرد سچ ہے اور ان کی غرض ہی کیا جفاوجور سے دیکھتے ہیں قوتِ ضبطِ فغا نِ اہل ِدرد پھر عدو پھیلا رہےہیں جوش ِغیظ واشتعال پھر بھڑک اے شعلۂ سوزِ نہا نِ اہل ِدرد اشک گلگوں سے ہیں بیدردوں کے بھی رخسار تر رنگ لائی ہے یہ چشمِ خوں فشا نِ اہل ِدرد اوچھے اوچھے وار ہیں تحقیرِسر بازانِ عشق چشمِ بددور آپ تو ہیں قدردا نِ اہل ِدرد مئے دیا کرتے ہیں ظرفِ مئے گساراں دیکھ کر جَور بھی جب ہو تو ہو شایا نِ شانِ اہل ِدرد حیف بیدردوں سے ایسا اتحادوارتباط کس قدر نامہرباں ہیں مہربا نِ اہل ِدرد آپ تو رحمِ مجسم ہیں مگر حیرت یہ ہے کوششیں کیسی پئے ایذائے جا نِ اہل ِدرد دل تصدق سرفدا جاں اسکے قدموں پر نثار فضلِ حق سے جو ہے فخرِ خاندا نِ اہل ِدرد قولِ بسملؔ ہے یہ اے مختاؔر جس کی شان میں پیرِ ماگردیدیاران ِنوجوا نِ اہل ِدرد مطبوعہ روزنامہ الفضل قادیان 6دسمبر1935ء (حیات حضرت مختار صفحہ288-294) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 20۔ وارداتِ قلب وقت آتا ہے جب ایسا کہ ہراساں ہوں میں کوئی کہتا ہے کہ نزدیکِ رگِ جاں ہوں میں آپ کا آپ کا صرف آپ کا خواہا ں ہوں میں سوچئے تو سہی منت کشِ دربا ں ہوں میں او مرے آنسوؤں سے آنکھ چرانے والے! اس کے معنی تو یہ ہیں دست بداما ں ہوں میں اُدھر اغیار ہیں ،وہ خندہ زن وقہقہہ زن اِدھر احباب میں حیران وپریشا ں ہوں میں یہ سمجھ کر کہ تکلم کی بھی طاقت نہ رہی مجھ سے وہ کہتے ہیں تم ہو کہ گریزا ں ہوں میں وہ پریشاں ہیں جو نالوں سے تو اچھا نہ سہی مگر اتنی تو اجازت ہو کہ گریا ں ہوں میں ساتھ ہوں واعظ وناصح بھی تو جنت کیسی یہ تو دوزخ ہے کہ ہمراہ ِسفیہا ں ہوں میں زلزے سینکڑوں آئے نہ ہلا پائے ثبات جس جگہ تھا وہیں اے گردشِ دورا ں ہوں میں قیسؔ ملتا تو یہ کہتا ترے دیوانے سے آپ کے سامنے اک طفلِ دبستا ں ہوں میں اے کہ جس کو ہے مری تلخ نوائی کا گلہ تجھ سے یہ کس نے کہا تھا خوش الحا ں ہوں میں نہ سہی لطف کی خو جور کی عادت ہی سہی جس میں وہ خوش ہوں اُسی بات کا خواہا ں ہوں میں "بوریا جائے من و جائے تونگر قالیں " شیر قالیں ہو کوئی شیر نیستا ں ہوں میں خون سینے میں ہوا سینکڑوں ارمانوں کا آدمی کیا ہوں کوئی گنجِ شہیدا ں ہوں میں نت نئے رنج سے او مجھ کو رلانے والے کوئی بات ایسی بھی آتی ہے کہ خندا ں ہوں میں "کون ہوتا ہے حریف ِمئےمرد افگن ِعشق" قیسؔ وفرہادکہاں ہیں سرمیدا ں ہوں میں زلف وچشم و رخ و لب کی جو سنیں تشبیہیں مسکرا کر یہ کہا پھرتو گلستا ں ہوں میں غم کسی کا نہیں دیکھا نہیں دیکھا جاتا چشمِ دشمن میں بھی سوزش ہو تو گریا ں ہوں میں میں ہو ں مست مئے عشق اور وہ مست مئے حسن برق ہے ان کی نظر سوختہ ساما ں ہوں میں آج تک حضرت ِناصح کی نہ سمجھا کوئی بات باوجودیکہ سخن سنج و سخن دا ں ہوں میں کھوٹے داموں بھی تو گاہک نہیں وہ شوخ نگاہ اس گرانی میں بھی اللہ یہ ارزا ں ہوں میں اُس نگاہِ غلط انداز کا عالم توبہ! بے خود وبے خبر و بے دل وبے جا ں ہوں میں میرے کاٹے نہ کٹی شب تو یہ آواز آئی آپ کیا سمجھے تھے صاحب شبِ ہجرا ں ہوں میں آگیا ہے پئے گلگشت جو وہ جانِ بہار مہک اٹھا ہے گلستاں کہ گلستا ں ہوں میں اور کچھ دن یہی عالم ہے توپھر میں ہوں نہ تُو تجھ سے اب تنگ بہت اے دل نالا ں ہوں میں غیر کیا پائیں گے اپنے بھی مجھے پا نہ سکے اُن سے کیا اپنی نگاہوں سے بھی پنہا ں ہوں میں قصۂ عشق کے شائق یہ خلاصہ سن لیں کہ ملامت زدۂ گبرومسلما ں ہوں میں کیا بتاؤں کہ ابھی پیش ِنظر تھا کیا کیا کھل گئی آنکھ تو اک خوابِ پریشا ں ہوں میں اب کہاں جائے مجھے چھوڑ کے تنہا یہ غریب ایک مدت سے انیس ِشبِ ہجرا ں ہوں میں سننے والا ہے کہاں کس کو سناؤں مختاؔر کیوں پریشاں ہوں کیوں اشک بداما ں ہوں میںنوٹ۔حضرت حافظ صاحب کی یہ نظم ماہنامہ"الفرقان"ربوہ بابت فروری1961میں شائع ہوچکی ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ295-296) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 21۔ وارداتِ قلب کچھ عجب حال سے آشفتۂو حیراں ہوں میں کوئی ہنس کر بھی جو پرُساں ہوتو گریاں ہوں میں جان ہے تن ہیں مگر پھر تن ِبے جاں ہوں میں نئے انداز کا صیدِ غم ہجراں ہوں میں دل ہے سینے میں مگر ولولۂ دل مفقود! سینہ کہتاہے کوئی شہر خموشاں ہوں میں سرد ہیں جوش و خروش ،آرزوئیں افسردہ! دل کاایما ں ہے کہ اک خانۂ ویراں ہوںمیں جوش غم ،نرغہ ءامراض،فراقِ رُفَقَا ایک مجموعۂ حالات پریشاں ہوں میں زِیست میں جان تھی جن سے وہ اَحِبّانہ رہے اب اگر ہوں بھی تو گویا تن ِبے جاں ہوں میں کل کوئی دوست سدھارا ،تو کوئی آج گیا کبھی اِس کے کبھی اُس کیلئے گریاں ہوں میں عہدِا ول کے وہ احباب ِکرام آج کہاں پیکرِ رنج و غم و حسرت و حرماں ہوں میں دیکھتے دیکھتے ایک ایک نے لی راہ ِجناں داغ پر داغ وہ کھایا ہے کہ لرزاں ہوں میں صبح وشام اب وہ کہاں مجلس ِیارانِ قدیم دل تڑپتا ہے کہ جی کھول کے نالاں ہوں میں رنگِ نیرنگئ آفاق کا عالم توبہ!! کبھی بے خود کبھی انگشت بدنداں ہوں میں یاتو تھا نغمہ زنِ صحبتِ یاران کُہن یا اب اک نوحہ گر فرِقت یاراں ہوں میں کیسے کیسے مرے غمخوار چھٹے ہیں مجھ سے جانے کس کس کے لئے اشک بداماں ہوں میں اُن کے اوصاف ہیں پیش نظر ورد ِزباں اُن کے الطاف کا مداح و ثناء خواں ہوں میں اُن کی ہر طرز سے ہوتی تھی نئی شان عیاں اُن کی ہر شان یہ کہتی تھی نمایاں ہوں میں اللہ اللہ وہ اُلفت، وہ محبت اُن کی اللہ اللہ وہ اخلاص کہ نازاں ہوں میں زیست کیا زیست ہے جب ایسے اَحِبّا اُٹھ جائیں اسی طوفانِ غم وفکر میں غلطاں ہوں میں جانے والے تو نہ لوٹے ہیں نہ لوٹیں گے کبھی لاکھ اُن کیلئے گریاں ہوں کہ نالاں ہوں میں اب دُعا ہےکہ رہے فضل کی بارش اُن پر فضل والے سے اس انعام کا خواہاں ہوں میں دوست کیا پوچھ رہے ہیں مری حالت مجھ سے نہ تو پنہاں مری حالت ہے نہ پنہاں ہوں میں جھلملاتی ہوئی شمع ِدرِ ایوانِ حیات یا لرزتا ہوا اشکِ سرِ مثرگاں ہوں میں اب گیا، آج گیا، صبح گیا، شام گیا، یوں ہی اب چند گھڑی صورتِ مہماں ہوں میں تیلیاں ہو گئیں کم زور قفس ناکارہ طائر ِروح ہے تیار کہ پرّاں ہوں میں بیٹریاں توڑ کے چلتے ہوئے یاران ِکہن اب اسی دھن میں قریب ِدرِزنداں ہوں میں مجھے یاروں ہی کا غم ہے نہیں اپنا غم کوئی غم اور غم کیا ہو کہ وقفِ غم ِیاراں ہوں میں جاں بلب ہو کےبھی راضی برضا ہوں مختاؔر للہ الحمد کہ ترساں ہوں نہ لرزاں ہوں میںنوٹ۔حضرت حافظ صاحب کی یہ نظم ماہنامہ"الفرقان"ربوہ بابت مارچ1961میں شائع پذیرہوچکی ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ297-298) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 22۔ قصیدہ در تہنیت عطائے خطاب خان بہادربمکرم ومحترم ذی شان عالی جناب عظمت مآب مولوی محمد منسوب حسن صاحب سلمہ المنان
آج کیا ہے کہ کچھ اور ہی رنگ ِگلزار آج کیا ہے کہ ہے بدلا اندازِ بہار آج کیا ہے کہ خوشی پھرتی ہے اترائی ہوئی آج کیا ہے کہ ہوا رنج زمانے سے فرار آج کیا ہے کہ ہےاس درجہ وفو رِراحت آج کیا ہے کہ ہے عشاق کو بھی صبر وقرار آج کیا ہے کہ ہے آرام دلوں کو حاصل آج کیا ہے کہ ہے روحوں کوتسلی وقرار آج کیا ہے کہ نظر آتی ہیں شکلیں بشاش آج کیا ہے کہ مسرت سے ہیں چہرے گلنار آج کیا ہے کہ ہے اک اک روشن آئینہ سان آج کیا ہے کہ ہے نظروں سے نہاں گردوغبار آج کیا ہے کہ ہے سبزے کی لہک روح افزا آج کیا ہے کہ ہے مستانہ صبا کی رفتار آج کیا ہے کہ ہے یہ جوشِ گل خندۂ گل آج کیا ہے کہ ہے یوں زمزمہ زن فوجِ ہزار آج کیا ہے کہ ہے رقصاں بصد انداز زمیں آج کیا ہے کہ ہے اس گنبد گردوں کو قرار آج کیا ہے کہ جفا جوہیں جفا سے روکش آج کیا ہے کہ ستمگر ہیں ستم سے بیزار آج کیا ہے کہ ہے یہ عیش وطرب کا سامان آج کیا ہے کہ ہے یہ مجمع خاصان وکبار آج کیا ہے کہ ہیں اک نشے میں سب پیرو جواں آج کیا ہے کہ ہیں اک رنگ میں سارے حُضّار آج ہر شے میں ہےافزونی رونق کیسی سقف و بام ودردیوارہیں کیوں پُر انوار چہچہا اٹھتے ہیں کس جوش سے مرغانِ چمن کس لئے وجد میں ہیں صورت صوفی اشجار آج کیوں چھوٹ گیاگوشۂ خلوت مجھ سے آج کیوں ہوگئی تبدیل قدیمی رفتار صورت غنچہ کھلا جاتا ہےکیوں دل میرا کیا ہو اآج وہ انبوہ و ہجوم افکار مجھ سا آزاد کہاں اور یہ ہنگامہ کہاں لوگ کس طرح تعجب نہ کریں سو سو بار اب رخِ شاہدِ معنی سے الٹتا ہوں نقاب کہ بڑی دیر سے یاروں کو ہے شوقِ دیدار وہ جو ہیں میرےکرم گستر باشوکت فر وہ جو ہیں نیک سیر،وہ جو ہیں فرخندہ شعار وہ جو ہیں جان وفا،وہ جو ہیں ایمان عطا وہ جو ہیں کان سخا،وہ جو ہیں سیلِ ایثار وہ جو ہیں بحرِ کرم،معدنِ فیضانِ اتم وہ جو ہیں ماہ چشم،وہ جو ہیں خورشید وقار مخزن صدق و صفا و کرم و جود ونوال صاحب ِ عظمت و فیض و اثر و عزو وقار خوبیاں جب کی بیاں ہو نہیں سکتیں ہر گز جن کے اوصاف کا ممکن ہی نہیں حصروشمار سب سمجھتے ہیں کہ ہےروئے سخن کس کی طرف سب کو معلوم ہے منسوب ہے حسن خاں کا وقار کوئی تعریف کرے،کوئی سراہے ان کو فی الحقیقت انہیں اسکی نہیں حاجت زنہار سب انہیں جانتے ہیں ،سب انہیں پہچانتے ہیں سب انہیں مانتے ہیں ،چشمۂ فیض و ایثار دوست رکھتے ہیں انہیں مسلم و ہندو دونوں مے اخلاص و محبت سے ہیں دونوں سرشار اکثر افراد کا اپنوں پہ اثر ہوتا ہے اُمراء ہوتے ہیں ہر شہر میں ایسے دوچار لیکن ان کا اثر اپنوں میں ہی محدود نہیں بلکہ ہے عامۃ الناس میں حاصل یہ وقار رائے عالی میں جو آجائے وہ سب کو تسلیم پھرکسی کو کوئی عذر نہ کوئی انکار آپ کے قول میں گو کیسی ہی دقت ہو مگر بسروچشم اسے منظور کریں اہلِ دیار آپ کی طرزِ تکلم ہے بلا کی دلکش کر سکے حکم سے کس طرح کوئی پھر انکار اور تو اور ہیں عاشق بھی جو ایما پاجائے اپنے معشوق کی صورت سے معًا ہو بیزار میرے دعوٰی کی صداقت کاہے اک تازہ ثبوت وہ دسہرہ جو محرم میں ہوا ہے اس بار آپ نے کام کیا ہے جو کچھ اس موقع پر وہ کسی اور سے ہونا تھا نہایت دشوار طے کیا ایسی صفائی سے یہ نازک قصہ کہ فریقین تہِ دل سے ہوئے شکر گزار یہ انہیں کے اثر عام کی تھی برکت خاص کہ نہ بکھری کوئی تسبیح نہ ٹوٹا زنّار آج کل بااثر اس شان کا انسان کہاں جس کو حاصل ہو یہ اعزازیہ عظمت یہ وقار کوئی تعریف کرے کوئی سراہے ان کو فی الحقیقت انہیں اسکی نہیں حاجت زنہار حسنِ اخلاق اسے کہتے ہیں اللہ اللہ کہ جسے دیکھئے وہ آپ کا ہے شکر گزار میں کہ پُر گوئی میں آج آپ ہی ہوں اپنی نظیر میں کہ سحباؔں بھی مرے سامنے ناواقف کار میں کہ ہر شعر مرا ایک مہکتا ہوا گل میں کہ شرمندہ مری زمزمہ سنجی سے ہزار میں اک ابر گہر بار مرا ذہن ِرسا میں کہ اک بحر رواں یہ مری طبع طرّار میں کہ ہر سمت بپا میرے کمالات کا شور میں کہ ہر سو ہے مری دھوم میان امصار میں کہ آفاق میں تسلیم مری یکتائی میں کہ مجھ سا نہیں شیریں سخن و خوش گفتار میں کہ میرے فضائل کا زمانہ قائل میں کہ عالم کو مرے علم وہنر کا اقرار میں کہ ہوں ایک ہی فرزانہ و دانا وادیب میں کہ ہے میرے کمالوں کا سمجھنا دشوار میں کہ اک لفظ سے میرے دل ِحاسدچورنگ میں کہ شمشیر دودم میری زبانِ طرّار پھول جھڑتے ہیں مرے منھ سے دم جوش سخن چار باتوں میں کھلا سکتا ہوں سولہ گلزار میرے الفاظ درخشندہ و تاباں کے حضور ذکردرّ عدن و لعل بدخشاں بیکار طرفۃ العین میں لاتی ہے مری فکر رسا وہ مضامین جو ہوں چرخ کہن کے اس پار وہ مجھے سہل جو عرفؔی کو نہایت مشکل وہ مجھے سہل جو فیضؔی کو بغایت دشوار پوچھ دیکھے دل ؔو بیباؔک سے جا کر کوئی کہ مری شان میں کیا کہتے ہیں وہ سحر نگار لیکن اس پر بھی پکارے ہوئے کہتا ہوں بفخر مدح ممدوح کی مجھ میں نہیں قدرت زنہار اور باالفرض جو حاصل ہو یہ قدرت بھی مجھے تو یہ سو بات کی اک بات کہوں گا سو بار زلفِ محبوب کو مشاطہ کی حاجت کیا ہے حسنِ ذاتی ہو تو کیا شے ہے بناؤ اور سنگار الغرض مدح سرائی نہیں میرا مقصود بلکہ مطلوب ہے اک تازہ خوشی کا اظہار بارک اللہ کہ ممدوح نے پایا ہے خطاب ہوگئے "خان بہادر"وہ خجستہ اطوار خاندانی تو بہت عزوشرف تھا لیکن حسنِ ذاتی کا تقاضہ تھا بڑھے اور وقار ذاتِ عالی سے ہوئے یوں تو بہت کارِرفاہ اس قدر وقت کہاں ہے کہ جو کروں انکا شمار خاص کر میونسپلٹی کی جو خدمت کی ہے یہ گورنمنٹ کی جانب سے ہے اُس کا اقرار قدر دان دولتِ برطانیۂ عظمیٰ سا نہیں دیکھا نہیں دیکھا تہ چرخ دوّار حسن خدمات کا دیتی ہے صلہ خوب سے خوب کہ یہ دولت ہے بڑی نکتہ شناس و ہشیار اس حکومت کے تہ دل سے دعاگو ہیں ہم اس حکومت کے بڑے جوش سے ہیں شکر گزار اس سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اب قدر شناس اس سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں عادل زنہار خان صاحب کو دیا خان بہادر کاخطاب مستحق اسکے حقیقت میں تھے وہ کوہِ وقار اس نوازش سے مسرت جو ہوئی ہے ہم کو ہم کریں کون سے الفاظ میں اُس کا اظہار اللہ اللہ یہ لطف و کرم شاہانہ ہم سے شکر اس کا ادا ہونہیں سکتا زنہار اشک افراط ِ مسرت سے امنڈ آئے ہیں وہ مسرت نہیں جس کاکوئی پایان و شمار یہی موتی ہیں جو نکلے ہیں نچھاور کے لئے اور کیا پاس غریبوں کے بھلا بہر نثار اب یہ لازم ہے کہ میں بہر دعا ہاتھ اٹھاؤں اور آمین پر آمین کہیں سب حُضّار اے وہ اللہ جو ہے رب ،مژدہ ہزار عالم کا اے وہ اللہ جو ہے رحمان و رحیم و غفار مالک الملک بھی ہے ۔مالک یوم الدین بھی اورسب عاجز و مجبور ہیں تو ہے مختار توغنی ہے ترے محتاج امراء و روسا تو ہے حاکم ترے محکوم سلاطین ِکبار التجائیں ہیں یہ تجھ سے،یہ دعائیں تجھ سے دم بہ دم خان بہادر کو دکھا تازہ بہار آج سے بڑھ کے ہو کل آپ کا اقبال بلند کل سے پرسوں ہو سوا دبدبہ و عزووقار پس و پیش آٹھ پہر جلوۂ شان و شوکت داہنے بائیں ہوں سامان طرب کے انبار روزوشب جام مے لطف کا چلتا رہے دور شاہد عیش سے ہمدوش رہیں لیل ونہار لیکن اس پر بھی ترا نام رہے وردِ زباں دل تری یاد سے غافل نہ ہو یارب زنہار تیرے احکام کی تکمیل ہو عین مقصود بہرِ طاعت رہے ہر لحظہ طبیعت تیار کوئی صورت ہو مگر تیری خوشی ہو مطلوب کوئی حالت ہو مگر تیری رضا ہو درکار ہر گھڑی روبہ ترقی ہوں یہ اوصافِ جمیل تجھ سے ہو خاص تعلق ،تری مخلوق سے پیار اور بھی خاص ہو لطف و کرم عام جناب بحر مواج بنے چشمہ فیض و ایثار (حیات حضرت مختار صفحہ322-326) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 23۔ نوحہ اللہ اللہ جواں مرگ یہ ہمت تیری جان دینے سے بھی جھجکی نہ طبیعت تیری ہر طرف گریہ و زاری سے محمد مختار دل پھٹے جاتے ہیں سن سن کے حکایت تیری آہ وہ حسن کے سانچے میں ڈھلا ہرانداز آہ وہ خوبی ورعنائی فطرت تیری آہ وہ نوک پلک ،شکل شمائل،خوبو آہ وہ دلکشیء شان وجاہت تیری وہ چمکتا ہوا چہرہ،وہ دمکتا ہوا رنگ وہ ملاحت سے ہم آغوش صباحت تیری وہ پسندیدہ خصائل، وہ دل آویز اخلاق ملتی جلتی ہوئی صورت سے وہ سیر ت تیری آہ وہ شستہ زباں،آہ وہ شائستہ بیاں آہ وہ چہرہ وہ سنجیدہ طبیعت تیری لفظ لفظ ایسا فرح بخش کہ سبحان اللہ فقرےفقرے سے عیاں خوبی ء طینت تیری دل کو بے ساختہ جوموہ لیں ایسی باتیں اورہراک بات سے ظاہر وہ فراست تیری آہ وہ لفظِ خطاب اور وہ حسِّ آداب آہ وہ عہد ِشباب اور وہ طینت تیری اپنے چھوٹوں کا لحاظ اور بڑوں کی توقیر جھک کے پیش آنے کی احباب سے عادت تیری سب سے اخلاق علیٰ قدر مراتب تیرا سب سے شیریں سخنی حسب ضرورت تیری نہ کہیں گردِ کدورت نہ کہیں زنگِ ملال ایک آئینۂ شفاف طبیعت تیری جوسمائے معًا آنکھوں میں وہ انداز ترا گھر کرے دل میں جو فی الفور وہ خصلت تیری ہلکی ہلکی وہ ظرافت بھی متانت سے عیاں وہ سموئی ہوئی دونوں سے ذہانت تیری آہ وہ چین کے دن ،لطف کے دن،عیش کے دن آہ وہ رنگ پر آئی ہوئی فرحت تیری آہ وہ دل میں امنگیں ،وہ امنگوں میں بہار پھول کی طرح شگفتہ وہ طبیعت تیری آہ وہ آرزوئے شاہد رعنائے مراد پر لگائے ہوئے وہ شوق کے ہمت تیری اپنے حلقے میں لئے دل کو ہجوم ارماں وہ تمناؤں کے جھرمٹ میں طبیعت تیری گدگداتی ہوئی امید کی لہریں دل کو مسکراتی ہوئی ہنستی ہوئی راحت تیری وہ امنڈتا ہوا جوش اوروہ بڑھتا ہوا شوق چہلیں کرتی ہوئی چہرے سے مسرت تیری بس اب آنے کو ہے باغ محبت میں بہار یہ سناتی ہوئی بڑھ بڑھ کے بشاشت تیری علم برگشتگی ء بخت مگر تھا کس کو کیا خبر تھی کہ پلٹ جائے گی قسمت تیری واقفیت تھی کسے کیا ہے پسِ پردۂ غیب کون سمجھا تھا چھپی بیٹھی ہے کلفت تیری آہ طاری تھا اسی بے خبری کا عالم کہ یکایک متغیر ہوئی حالت تیری رنگ نیرنگئ آفاق الہٰی توبہ بن گئی شامِ الم صبح ِ مسرت تیری چشمِ امید تھی جن سے وہ نظر پھیر گئے دیکھتی رہ گئی اتری ہوئی صورت تیری آہ بگڑا بھی تو کس وقت مقدر تیرا آہ روٹھی بھی تو کس عمر میں قسمت تیری اپنے وعدوں کا عزیزوں نے کیا کچھ بھی نہ پاس لاکھ سمجھاتی بجھاتی رہی حالت تیری منحرف ہوگئے امید دلانے والے آڑےآئی نہ رعایت نہ مروت تیری نوبہ نو تازہ بہ تازہ دئے غم کھانے کو یہ ہوئی جلوہ گہہ حسن میں دعوت تیری ولولے ہوگئے گلدستہ ءطاق نسیاں اڑگئی حرفِ غلط بن کے مسرت تیری آہ بگڑا تو نہ بننا تھا مقدر نہ بنا آہ پلٹی تو نہ سیدھی ہوئی قسمت تیری راحت دل کو نہ ملنا تھا ذریعہ نہ ملا نہ نکلتی تھی نہ نکلی کوئی حسرت تیری ہوگئے افسردہ شگفتہ نہ ہوا دل تیرا ہوکے پژمردہ کھلی پھر نہ طبیعت تیری خشک ہوکر نہ ہوا نخل تمنا سرسبز پانی دیتی رہی گو چشمِ محبت تیری اشک خوں بن کے جلا قافلۂعیش ونشاط رہ گئی خاک اڑاتی ہوئی حسرت تیری ہوتی آئی ہے قرابت کی بڑی قدر مگر نام کو بھی نہ ہوئی قدر قرابت تیری جو یگانے تھے وہ کچھ ایسے بنے بیگانے آہ جیسے کبھی دیکھی نہ ہوصورت تیری درہم داغ محبت کی ہوئی کچھ بھی نہ قدر یوسفستاں میں نہ کام آئی یہ دولت تیری توڑنے والوں نے پیمان وفا توڑ دیا اور منہ تکتی ہوئی رہ گئی حسرت تیری کھا کے یہ چوٹ ہوا شیشہ ء دل چکنا چور اشک بن بن کے بہی گرمئ الفت تیری دل کسی کا نہ پسیجا،نہ پسیجا،افسوس گوبھڑکتی ہی رہی آتش فرقت تیری کوششیں ہوگئیں برباد،امنگیں پامال مل گئی خاک میں سب مہرومحبت تیری آخرکار انہیں اتنا بھی تعلق نہ رہا کہ رہے یا نہ رہے جان سلامت تیری تجھ سے جس امر کا اقرار تھا،انکار ہوا آہ یہ شومی ومحرومئ قسمت تیری حرف انکار کا سننا تھا کہ جو چھوٹ گیا اڑگئے ہوش ہوا ہوگئی رنگت تیری ہوگئے جمع خیالات پریشاں دل میں بن گئی خواب فراموش سکینت تیری بڑھتے بڑھتے یہ بڑھی شدت ایذائے فراق کہ نہ قابو میں رہا دل نہ طبیعت تیری دن خموشی میں بسر ہونے لگا مشکل سے رات کٹنے لگی روروکے بدقت تیری جب ہوئی صبح تو آغوش میں تھا روزِ فراق اور تھی شام کے پیچھے شبِ فرقت تیری شبِ فرقت جوٹلی ہجر کا دن تھا موجود دن جو گذرا تو پھر آئی شبِ فرقت تیری آہ یہ سلسلۂ کشمکش لیل ونہار آہ پیہم بہ اذیت ،یہ اذیت تیری تاب ضبط ستم حوصلہ فرسا کب تک چھپ سکی تیرے چھپائے نہ مصیبت تیری دل کا جو حال تھا چہرے سے عیاں ہونے لگا آئینہ بن گئی اتری ہوئی صورت تیری جان لینے کو یہ آلام ہی کیا کم تھے مگر لے چلی ان سے بھی آگے تجھے قسمت تیری بخت واژوں نے وہ سامان کیا پیش نگاہ متحمل ہونہ سکی جس کی طبیعت تیری دل بنا گردشِ اوہام سے فانوس خیال رنگ پر رنگ بدلنے لگی نیت تیری سوز رنج وتعب عشق نے بھڑکائی اک آگ بن گئی شعلۂ جوالہ طبیعت تیری غم سے دل خون ہوا،خوں رگوں میں کھولا کھولتے خون سے گرما گئی غیرت تیری رنگ پر آگئی خوں گرمئ سودائے دماغ گھٹ گئی تاب ستم بڑھ گئی وحشت تیری نہ رہا ضبط غم ودرد کا یارا نہ رہا چھوڑ دی صبر وتحمل نے رفاقت تیری واہ رے درد کے شرمندۂ درماں نہ رہا واہ رے عزم کہ بدلی نہ طبیعت تیری بن گیا حسن وفا جرعہء صہبائےفنا دم بہ خود ہو گئی منہ دیکھ کہ حسرت تیری ایک رنگ آنے لگا چہرے پہ اک جانے لگا ہوگئی کشمکش کرب سے یہ گت تیری سینہ چھلنی،جگر ودل ہوئے ٹکڑے ٹکڑے نہ رہی حد تصورمیں اذیت تیری نہ لیا ہائے طبیعت نے سنبھالا نہ لیا تھک گئی،تھک گئی،شل ہوگئی قوت تیری پڑگئی حسرت وارماں میں بلا کی ہلچل سحرحشر بنی شام مصیبت تیری آرزوؤں میں ہوا شورِ قیامت برپا بے کسی لوٹ گئی دیکھ کے حالت تیری اف وہ رہ رہ کے سرخاک تڑپنا تیرا سانس اکھڑی ہوئی بگڑی ہوئی رنگت تیری کچھ تما شا تو نہ تھا خاک پہ غلطاں ہونا اک طرف ہو گئی منہ ڈھانپ کے طاقت تیری پتلیاں پھر گئیں پتھرا گئیں آنکھیں افسوس آخر ان سے بھی نہ دیکھی گئی حالت تیری موت کے دن تھے کہاں اے مرے مرنے والے بھیس بدلے ہوئے تھی موت کا غیرت تیری شہد سے بھی کہیں شیریں ہے محبت لیکن بن گئی زہر ترے حق میں محبت تیری آہ چھلکا ہے عجب رنگ سے پیمانۂ عمر آہ آئی ہے عجب حال میں ساعت تیری وہ سرشام، وہ تاریکی ء شب کا آغاز اف وہ تنہائی ومایوسی وحسرت تیری اُف وہ طغیان ہجوم غم و حرماں اُف اُف اُف وہ نرغے میں پریشان طبیعت تیری اُف وہ ماحول اداس،اُف وہ پراگندہ حواس آہ وہ عالم یاس،اُف وہ اذیت تیری اُف وہ بے تابی ء دل ،اُف وہ پریشانی ء دل اُف وہ نکلی ہوئی قابو سے طبیعت تیری دیکھتے دیکھتے وہ خونِ تمنا ہونا وہ نگاہوں سے ٹپکتی ہوئی حسرت تیری کوئی مونس سرِ بالیں،نہ کوئی محرمِ راز کس مپرسی کی وہ حالت ،وہ مصیبت تیری ہر رگ و پے میں کشاکش،جگرودل مجروع سانس کی آمد وشد سے وہ اذیت تیری آہ وہ پیاس،وہ کانٹوں سے بھری خشک زباں حلق سوکھا ہوا، بےتاب طبیعت تیری آہ وہ تاب شکن کشمکش قالب وروح ضعف بڑھتا ہوا،گھٹتی ہوئی طاقت تیری آمد آمد وہ قضا کی ،وہ بھیانک منظر وہ سسکتی ہوئی لاش اور وہ رحلت تیری شہد کیسا کہ میسر نہ ہوا قطرۂآب دل کےٹکڑے کیے دیتی ہے صعوبت تیری آہ یہ حسرت دیدار و امید دیدار کہ کھلی رہ گئیں آنکھیں دمِ رحلت تیری دارفانی میں بقا کس کو ہے انا للہ کل ہماری ہے اگر آج تھی ساعت تیری اس تصور سے تڑپ اٹھتی ہے بیساختہ روح کوئی خدمت نہ ہوئی حسب ضرورت تیری تیرے ماں باپ،بہن بھائی جو تجھ پر تھے فدا کرسکے کوئی اعانت نہ حفاظت تیری اسی تقریب میں شامل تھے وہ برگشتہ نصیب جان سی چیز گئی جس کی بدولت تیری وہ ابھی حال طبیعت سے بھی واقف نہ ہوئے اور ادھر چھوڑ گئی تجھ کو طبیعت تیری دیر لگتی جو ذرا بھی تو وہ ہوتے آگاہ باعث بے خبری بن گئی عجلت تیری بات اتنی ہی تو تھی دیر کا موقع کیا تھا آگیا پیک اجل،ہوگئی رحلت تیری دم بہ دم رنگ بدلتا ہے زمانہ کیاکیا ابھی کیا تھی ،ابھی کیا ہوگئی حالت تیری وہ ابھی چھوڑ گئے تھے تجھے چلتا پھرتا اور ابھی آکے جو دیکھی تو یہ صورت تیری پیشِ دروازہ ترا جسم پڑا ہے بے روح گود میں سر کولئے بیٹھی ہے حسرت تیری آہ بیتی ہے جو ان پر وہی جانیں اس کو آہ ماں باپ کا دل اور یہ حالت تیری میں تو میں ہوں مرے خامے کا جگر بھی ہے دونیم کون حال ان کا لکھے کون حکایت تیری تاب تفصیل کہاں مجھ میں خلاصہ یہ ہے زندہ درگور انھیں کر گئی رحلت تیری نہ تو نالے کی کوئی نے ہے نہ فریاد کی لے ہے اسی ذیل میں یہ ساری حکایت تیری لے گیا دل میں گل داغ محبت کیا کیا تو لحد میں ترے سینے میں ہے جنت تیری چمنِ عشق میں تو ایک نرالا گل تھا تیز ترہوگئی مرجھانے سے نکہت تیری بیٹھنا تھا ترے دل کا کہ اٹھا پردۂ راز تیرا چھپنا،تھا کہ ظاہر ہوئی حالت تیری سن لیا سب نے لب گور سے افسانۂعشق بن گئی آئینہء حسن حکایت تیری حسن سلمیٰ بھی سرمنظر عام آہی گیا لائی جلوت میں اسے کھینچ کے خلوت تیری ہرطرف ذکر ہے اس کا بھی ترے ذکر کے ساتھ جلوۂحسن بہ آغو ش ہے شہرت تیری نہ کہیں قصۂ فرہاد نہ افسانۂقیس اب ہے دنیا کی زباں اور حکایت تیری یوں نہ ہونے کو ہزاروں ہیں محبت والے سچ تو یہ ہےکہ محبت تھی محبت تیری "کون ہوتا ہے حریف مئے مردِ افگن عشق" اب تیرا دور ہے اب آئی ہے نوبت تیری توتو خاموش ہے لیکن تری باتیں گھر گھر جابہ جاتجھ کو لئے پھرتی ہے شہرت تیری جان دی اور غم ِ رشک گوارا نہ کیا بوسے لیتی ہے تری قبر کے غیرت تیری چھوڑ کر اس کو کہاں جائے،کدھر جائے غریب تیری تربت کو لئے بیٹھی ہے حسرت تیری دل پکڑ لیتے ہیں جب دیکھتے ہیں اہل نظر ایک عبرت کا مرقع ہے کہ تربت تیری تیری غیرت پہ نثار اے مرے غیرت والے لے گئی ملک عدم کو تجھے غیرت تیری جس کو پالا تھا کلیجے سے لگا کر تونے ڈھونڈتی پھرتی ہے تجھ کو وہ محبت تیری کل بنی بیٹھی تھی جو زینت کاشانۂ دل آج سر پیٹتی پھرتی ہے وہ الفت تیری تیرے حالات جو سنتا ہے وہ سردھنتا ہے ڈال دیتی ہے مصیبت میں مصیبت تیری دل سے آہی نہ سکی آرزوئے دل لب تک بن گئی حلق کا دربان متانت تیری جل بجھے سوزدروں سے جگر ودل دونوں اُف نہ کی تونے یہ خودداری وہمت تیری مرمٹا راز محبت مگر افشا نہ کیا میرے جاں باز یہ غیرت یہ مروت تیری جان پر بیت گئی وا لب شکوہ نہ ہوا دیکھ لی دیکھنے والوں نےشرافت تیری دل اسے دیکھ کے ہوجاتے ہیں دنیا سے اداس ڈھیر ہے تیری تمناؤں کا تربت تیری اب ترا دل ہے،نہ وہ ولولہ ء دل ہے نہ تو رہ گئی صرف حکایت ہی حکایت تیری قول مشہور جو تھا شادی وغم ہیں توام شرح تازہ ہے اسی کی یہ حکایت تیری اُس طرف طنطنہ وشوکت و فرسربہ فلک اِس طرف خاک بسر خدمت و منت تیری اُس طرف گلشن عیش اور ہوا خواہ اُس کے اِس طرف عزم ترا اور طبیعت تیری اُس طرف تیغ بکف حوصلۂ جوروجفا اِس طرف خون میں ڈوبی ہوئی حسرت تیری اُس طرف سلسلۂ مشق ستم روزافزوں اِس طرف سینہ سپر خوئے اطاعت تیری اُس طرف محفل شادی کے مسلسل ساماں اِس طرف رنج و پریشانی وزحمت تیری اُس طرف زیر لب امواج تبسم رقصاں اِس طرف اشک فشاں چشم محبت تیری اُس طرف زینت و زیبائش ِ سقف ودروبام اِس طرف رنج سے بگڑی ہوئی حالت تیری اُس طرف فرط مسرت سے شگفتہ چہرے اِس طرف جوش میں آئی ہوئی وحشت تیری اُس طرف زینتِ ساماں طرب روح افزا اِس طرف زیست سے بیزار طبیعت تیری اُس طرف اور ہی دھن اورہی رنگ اور ہی ڈھنگ اِس طرف اور ہی شکل اور ہی صورت تیری اُس طرف شام کو یہ دھوم کہ کل رخصت اِس طرف آہ اُسی رات میں رحلت تیری اُس طرف شاہد مقصود سے دل دست بغل اِس طرف لاش سے لپٹی ہوئی غیرت تیری اُس طرف شان جہیز اِس طرف آن تجہیز اِس طرف اور،اُدھر اور،حکایت تیری اُس طرف گھی کے چراغوں کا چمکنا سربزم اِس طرف زیر زمیں چاند سی صورت تیری اُس طرف زیور وساماں کی نمائش بہ نشاط اِ س طرف تجھ کو سمیٹے ہوئے غربت تیری اِس طرف تار کفن بھی ابھی میلا نہ ہوا اُدھر افسوس لٹادی گئی دولت تیری پیش آیا وہی لکھا تھا جو پیشانی میں کام آئی کوئی خدمت نہ اطاعت تیری کھا گیا غم تجھے جس کا وہ رہے شاد سدا اُس سے ممکن ہی نہ تھی کوئی اعانت تیری اب وہ پہنا کرے جامہ جو ہو بیدار نصیب سوگئی چادر غم اوڑھ کے قسمت تیری غلبۂ درد میں بے ساختہ آہیں تھیں یہ چند اور آخر میں ہے تجھ سے یہ شکایت تیری کیا سمجھ کر مرے نادان لٹا دی تونے جان تو ایک امانت تھی،نہ دولت تیری التجا ہے کہ خداوند تعالیٰ بخشے یہ خطا تیری ہوئی جس سے ہلاکت تیری نوحہ گر بھی ترا غم خوار بھی ہوں میں مختار باوجود اس کے کہ دیکھی نہیں صورت تیری (حیات حضرت مختار صفحہ327-333) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ24۔ ۔ بروفات حضرت سیدمحمد حسین شاہ صاحب رفیق حضرت بانئ سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت سیدمحمد حسین شاہ صاحب رفیق حضرت بانئ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا انتقال 24اپریل1964ءکو ہوا۔حضرت حافظ صاحب نے ایہ اشعار اُن کی وفات پر کہے۔
اللہ نے کسی کو نہیں دی ہمیشگی درویش دلق پوش ہو یا شاہ کجکلاہ اِس کے لئے بھی موت ہے اُ س کیلئے بھی موت ہیں اس معاملہ میں برابر گدا و شاہ اوروں کا ذکر کیا ہے نبی بھی نہیں رہے آخر یہی زمین بنی سب کی خواب گاہ تانتا لگا ہوا ہے چلی جارہی ہے خلق ہوکوئی وقت بند نہیں ہے عدم کی راہ واحسرتا!وہ مخلص ِملت بھی چل دئیے جن کو ہزار جان سے تھی سلسلہ کی چاہ اب تک وہ لطف خیز تبسم ہے سامنے اب تک نگاہ میں ہے وہ کیف آفریں نگاہ جھڑتے تھے پھول منھ سے یہ تھا رنگِ گفتگو پائی تھی وہ شگفتہ طبیعت کہ واہ واہ دل غم سے بیقرارہے آنکھیں ہیں اشکبار بے اختیار آتی ہے رہ رہ کے لب پہ آہ ہے اب تو امر باعث تسکیں تو بس یہی دستِ اجل سے پا نہیں سکتا کو ئی پناہ جو فوت ہو چکے ہیں وہ آئے نہ آئیں گے قرآن پاک وختم رسل اس کے ہیں گواہ میری یہ التجا ہے بصد عجزوانکسار مولا بہشت پائیں محمد حسین شاہ11۔ آخری مصرعہ سے حضرت محمد حسین شاہ صاحب کی تاریخ وفات1383ھ نکلتی ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ305) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 25۔ غزل۔ جلوہ دکھا دیا ہے جنابِ مثیل کا جلوہ دکھا دیا ہے جنابِ مثیل کا کس منھ سے شکر ادا ہو خدائے جلیل کا اے منکر پیام سروش و ندائے حق کچھ تو خیال چاہیے یوم ثقیل کا کیوں منقبض ہے مژدۂ جاء المسیح سے کفران کیوں ہے نعمت ِ ربِ جلیل سے وہ ہیں اگر کثیرتو ہوں مطمئن ہوں میں حامی قوی ہے اپنے گروۂِ قلیل کا اس کو جلائے آتش ِ نمرود یاں محال پروانہ ہو جو شمع دعائے خلیل کا فرعونیوں کے ظلم وستم سے ہو کیا ہراس احوال آئینہ ہے خداوندِ نیل کا راہِ وفا میں جس نے جھیلی ہوں سختیاں وہ مستحق نہیں کسی اجرِ جزیل کا کرنا ہے جو بس آپ اسے کر دکھائیے اے مہربان وقت نہیں قال وقیل کا مختاؔر اٹھارہا ہوں وہ صدمے کہ الاماں دے حوصلہ خدا مجھے صبرِ جمیل کا (حیات حضرت مختار صفحہ310) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 26۔ نظر میں نشہء تمکینِ یار باقی ہے نہ پوچھئے تجھے کیوں اعتبار باقی ہے حضور !گردشِ لیل ونہار باقی ہے جناب حسن کی جب تک بہا ر باقی ہے امیدوار پر امیدوا ر باقی ہے مرا مزار نہ خاکِ مزا ر باقی ہے مگر وہ ہیں کہ ابھی تک غبا ر باقی ہے کبھی کسی سے جھکے میری آنکھ ناممکن نظر میں نشہء تمکینِ یا ر باقی ہے سلا چکے ہو جسے قبر میں وطن والو! سنو!ابھی وہ غریب الدیا ر باقی ہے تمام اہلِ جہاں کی عنایتیں فانی مگر عنایتِ پروردگا ر باقی ہے اب ایک رنگ میں ہیں مست ومحتسب دونوں دماغ ختم،سرِافتخا ر باقی ہے دراز حضرتِ پیرِ مغاں کی عمر دراز انہیں کے دم سے امیر بہا ر باقی ہے کہاں جلیلؔ1وریاضؔ2اب کہاں خیالؔ 3وشررؔ4 وہ گل تو ہوگئے رخصت یہ خا ر باقی ہے جو خادمانِ جنابِ امیر 5تھے مختاؔر بس ایک اب ان میں سے یہ خاکسا ر باقی ہے 1۔استاد نظام دکن حضرت جلیل مانکپوری جانشین حضرت امیر مینائیؔ 2۔حضرت ریاض خیر آبادی تلمیذ حضرت امیر مینائیؔ 3۔جناب محمد علی میاں خیالؔ شاہجہانپوری تلمیذ حضرت امیر مینائیؔ 4۔مولانا عبد الحلیم شررؔ 5۔حضرت منشی امیر احمد مینائی ؔنوٹ ۔حضرت حافظ صاحب کی یہ نظم ماہنامہ "خالد"ربوہ میں بھی ماہ تبلیغ 1348ء(بمطابق فروری 1969ء)کو شائع ہوچکی ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ311-312) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 27 غزل۔ وہ تنکے نام جن کا آشیاں ہے وہ تنکے نام جن کا آشیاں ہے انہیں پر اب نگاہِ آسماں ہے جگر کی ٹیس یا دل کی خلش ہو وہ اپنا ہاتھ رکھ دیں پھر کہاں ہے لیے پھرتا ہوں دل سی شے بغل میں جہاں میں ہوں وہیں کوئے بتاں ہے علاجِ درد کرتے یا نہ کرتے مگر وہ پوچھ تو لیتے کہاں ہے پھریں وہ عہد سے تو میں بھی پھر جاؤں مرے منھ میں بھی کیا اُن کی زباں ہے تم اب مجھ پر سمجھ کر وار کرنا خدا میرے تمہارے درمیاں ہے درازیِ شبِ غم اللہ اللہ کہ جو تارہ جہاں تھا وہ وہاں ہے پڑا ہے گوشۂ خلوت میں مختاؔر قفس میں عندلیبِ خوش بیاں ہے (حیات حضرت مختار صفحہ309) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 28۔ غزل۔ کیوں نہ ہو حیران تجھ کو دیکھ کر ہر آئینہ کیوں نہ ہو حیران تجھ کو دیکھ کر ہر آئینہ توسراپانور کی تصویر ہے ہر آئینہ آئینے میں عکس عارض اور رخ پر آئینہ آئینہ بر آئینہ ،ہے آئینہ در آئینہ سقف و بام آئینہ ،دیوار آئینہ،درآئینہ بن گیا عکس ِ رخِ محبوب سے گھر آئینہ تیرے رخ کے روبر جب ہے مکدر آئینہ پھر پسند آئے ہمیں کیا خاک پتھر آئینہ جب سے دیکھی ہے کسی کے روئے روشن کی جھلک مہرومہ حیرت زدہ ہیں اورششدر آئینہ یوں مرے آئینہ دل میں ہے یاد ِروئےیار جلوہ گر جس طرح آئینے کے اندرآئینہ سامنے انکے رخ روشن کے سب بے آب وتاب شمع محفل ،ماہ انور،مہر خاور،آئینہ پوچھئے مجھ سے صفا ؤ برش تیغ نگاہ اہلِ جوہر پر ہے حال اہلِ جوہر آئینہ جب سے اے مختاؔر یوسف چاہ میں ڈالے گئے بھائیوں کا ہوگیا احوال ہم پر آئینہپندرہ روزہ المصلح 16تا30ستمبر،یکم تا 15اکتوبر 1991ء۔الفضل انٹرنیشنل7-13اپریل 1995ء
(حیات حضرت مختار صفحہ308) حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ کلامِ مختار ؔ 29۔ واسوخت تحسین کلام حضرت مختار شاہجہانپوری منجانب استادحضرت داغ دہلوی"میں آپ کو اس نومشقی میں ایک کہنہ مشق شاعر ہونے کی داد دیتا ہوں"
حضرت داغ دہلوی حضرت داغ کے قطعہ تاریخ کا ایک مصرعہ "عجب لکھا جلا کے جل کے واسوخت" مرتب کتاب ہذا بسم اللہ الرحمان الرحیم نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریماکناف عالم میں جو قومیں بسی ہوئی ہیں اُن میں زردرنگ والے اور چھوٹی اوراندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں والے جاپانی اور چینی اقوام کے لوگ بھی ہیں اورسفید اورسانولے رنگ اورخوبصورت خدوخال والی ایشیائی قومیں بھی عظیم الجثہ اور قوی ہیکل ا فغانی بھی ہیں اورحسین اورخوبصورت ایرانی اورترک نسل کے باشندے بھی ،مشرق وسطٰی میں عرب اقوام بسی ہوئی ہیں اورمغرب میں سفیدفام انگریز اورفرانسیسی ورسرخ رنگ والے جرمن آبادہیں اوریہی حال یورپ کے دیگر ممالک اورامریکہ اورآسٹریلیا اورنیوزی لینڈ کا ہے۔لیکن افریقی ممالک میں سیاہ فام ا ورموٹےہونٹوں والے لوگ آباد ہیں۔دنیا کے ہرخطے میں بسنے والی اِن اقوام کے نہ صرف رنگ اورنسلیں ہی مختلف ہیں بلکہ اِن کی بولیوں میں بھی بعدالمشرقین کا فاصلہ ہے۔ان اقوام میں سینکڑوں زبانیں رائج ہیں ۔قدیم زبانوں میں عربی،عبرانی،کلدانی،سریانی،یونانی اورسنسکرت وغیرہ شامل ہیں۔ان تمام قدیم زبانوں کے مقابلہ میں "اردو"زبان ایک نوزائیدہ بچہ کی مانند ہےلیکن آپ یہ جان کر ضرورورطۂ حیرت میں پڑجائیں گے کہ اگران تمام قدیمی السنہ مشرقیہ ومغربیہ کی ہمہ گیری اورمقبولیت کا جائزہ لیا جائے تو جو نتیجہ برآمد ہوگاوہ ماہرلسانیات کے لیئے ایک محیر العقول کارنامے سے کم ہرگزنہ ہوگااورآپ بھی یہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اس نوزائیدہ زبان یعنی"اردو"کا چوتھا نمبر ہے۔
ایں سعادت بزوربازو نیست تانہ بخشدخدائے بخشندہاللہ تعالیٰ نے اس نوزائیدہ زبان میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ یہ السنہ عالم کے الفاظ کو بجنسہ یا ادنیٰ تغیر کے ساتھ اپنے دامن میں اس طرح سمیٹ لیتی ہے کہ اُن پر غیر زبان ہونے کا گمان تک نہیں ہوتا۔ہندی زبان کے تمام مصادر اس نے اپنا لیئے ہیں جو اس کی بنیاد بن کر اس کی مضبوطی اوراس کی حسین تعمیراتی نظام کو مزید مستحکم اورحسین تربنانے میں اورہم کردارداکرتے ہیں۔ جہاں تک عربی اورفارسی زبانوں کاتعلق ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان دونوں زبانوں کے خوبصورت اورمعنی نگرالفاظ اورمحاورات سے "اردو"زبان کا دامن سبدِگُل کا منظر پیش کرتاہے۔ عربی،فارسی،ترکی،انگریزی وغیرہ زبانوں کے لاتعدادالفاظ اردو زبان میں ایسے رچ بچ گئے ہیں کہ اگر ان کو اردوکے دامن سے نوچ لیا جائے تویہ تہی دامن ہوکرعبرت کا نشان بن جائے۔ جہاں تک نظم کا تعلق ہے تو اس کی بنیادیں بھی عربی زبان کی بحوراوراوزان پراستوارنظر آتی ہیں۔اصناف شعرمیں بھی عربی اورفارسی زبانوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔مثنوی ہویاقصیدہ یاغزل کا میدان اردونےہرجگہ جھنڈےگاڑے ہیں اوروہ کرنامے انجام دیئے ہیں کہ اہلِ زبان حیرت زدہ ہوکررہگئے ہیں۔میر حسن کی مثنوی سحرالبیان ہو یا نواب مرزاشوق کی مثنویات "زہرعشق"وغیرہ اپنی سحربیانی اورجذبات نگاری میں اپنا نظیرنہیں رکھتیں۔پھرمسدس کی طرف آئیے تو میر انیس اورمرزادبیر اوران کے ہمعصرشعراء نے منظرنگاری کا حق اداکردیاہے۔صفحہ قرطاس پرفن ِحرب وضرب کے وہ معرکے کئے کہ سہراب ورستم کی داستانیں تازہ ہوگئیں۔ہمارے دورمیں جوش ملیح آبادی نے بھی مرثیہ نگاری میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔ طنزومزاح کی طرف آئیے تو اکبر الہ آبادی نے وہ مقام حاصل کیا کہ اردوکے ارتقائی مراحل سامنے آگئے اورآج تک اس صنف میں کوئی اُن کی گرد کو بھی نہیں پہنچا۔ہاں اس دور میں رئیس امروہوی کے قطعات میں کچھ جھلکیاں نظر آجاتی ہیں۔ غزل کے میدان میں غالب نے وہ کارنامہ انجام دیا کہ جہاں ان کا مرغ تخیل پرواز کرتا ہے وہاں اردوکے کسی شاعرکو پرمارنے کی گنجائش نہیں۔کچھ شعراء نے ان کے مرغ تخیل کودامِ تحریرمیں لانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ہمارے زمانہ میں اصغرگونڈوی کے یہاں کچھ نمونے مل جاتے ہیں۔ اس تمہید کے بعد ہم اپنے مقصد کی طرف آتے ہیں اوراس بات کا اظہاراقرارضورری سمجھتے ہیں کہ موجودہ دورمیں غزل کے علاوہ دیگر اصناف النادرکاالمعدوم کا منظر پیش کرہی ہیں۔مثنوی کی صنف متروک تونہیں ہوگئی لیکن غزل کےسامنے اُس کا چراغ بھی جلتا نظرنہیں آتا۔ہاں"واسوخت"کی صنف ضرورمتروک ہوچکی ہےلیکن دورآمیرؔوداغؔ میں اس صنف کا طوطی بھی بول رہا تھا اورکئی اعلیٰ درجہ کے"واسوخت "ظہور میں آئے۔اُسی زمانہ کی بات ہے کہ حضرت امیرؔ مینائی کے ایک شاگردرشید حضرت حافظ سیدمختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری نے اپنی جودت طبع سے کام لیتے ہوئے اس صنف کےمیدان میں قدم رکھا اورروانی طبع اورفصاحت بیانی کے وہ جوہر دکھائےکہ جہاں استادحضرت داغؔ کوبھی ان الفاظ میں خراج تحسین ادا کرنا پڑا: "میں آپ کو اس نومشقی میں ایک کہنہ مشق شاعرہونے کی داددیتا ہوں"
پھرایک تاریخی قطعہ بھی عنایت فرمایا جس کا تاریخی مصرعہ یہ تھا:۔ "عجب لکھا جلا کے جل کے واسوخت"یہ واسوخت حضرت حافظ سیدمختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری کو بہت عزیز تھا اوروہ اس کو اپنے وسیع و عریض کتب خانے کی ایک مقفل الماری میں محفوظ رکھتے تھے۔اس واسوخت کا ابتدائی حصہ ماہنامہ "مرقع"میں جو حضرت مختار ؔ کے ایک شاگردفاضل شاہجہانپوری نکالتے تھے،قسط وارشائع ہوتا رہاجسے رقم الحروف نے رسالے سے جدا کرکے اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا اورجووقت ضرورت بہت اہم ثابت ہوا۔ حضرت مختار ؔ شاہجہانپوری جنہوں نے راقم الحروف کو اپنا منھ بولا بیٹا اورجانشین بنایاہواتھا۔اکثرہندوستان کے مختلف شہروں کے سفر پر نکل جاتے تھے اوراپنے استادحضرت امیر مینائی لکھنوی کی خدمت میں رام پورحاضری دیتے تھے۔جہاں ان کے محترم استادنواب رام پورکے دربار میں معززعہدہ پرممتازاور"امیر اللغات"کی تدوین میں مصروف رہتے تھے۔غیر حاضری کے دوران راقم الحروف اُن کے مکان اوراُس کے مختصر باغیچہ کی نگہداشت کرتا تھا۔ایک مرتبہ حضرت مختار ؔ اُس الماری کوقفل لگانابھول گئے اورراقم الحروف کو اُس کی واسوخت کا مسودہ ہاتھ آگیا،جسے راقم الحروف نے نقل کرکے اپنے پاس محفوظ کرلیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت حافظ صاحب کو میرا نقل کردہ مسودہ ہاتھ آگیا اورانہوں نے اسے بھی مقفل کردیا۔میرے نقل کردہ مسودے پر 30جولائی1942تاریخ درج ہے۔بعد ازاں تقسیم ملک سے قبل حضرت حافظ صاحب پنجاب چلے گئے اوروہاں عمر کے آخری ایام میں اپنے بھانجہ سید محمد ہاشم بخاری کے داماد سید عبد الباسط کے یہاں قیام پذیر رہے اوروہیں انتقال کیا۔ اُن کے انتقال کے بعد راقم الحروف سید عبد الباسط مرحوم کی بیوہ سے ملا اورواسوخت کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ انہیں حافظ صاحب کے کاغذات اورمسودات کا کچھ علم نہیں۔البتہ میرا بیٹا عبدالسلام باسط جو آج کل جہلم کے کسی پوسٹ آفس میں ملازم ہے،کچھ بتا سکتا ہے۔میں نے ان کے بتائے ہوئےپتہ پر عبد السلام باسط کو خط لکھا لیکن کوئی جواب موصول نہ ہوااوراس بات پر لمبا عرصہ گذرگیا۔اس عرص ہمیں راقم الحروف نے "حیات حضرت مختار"کے نام سے حضرت حافظ صاحب کے سوانح حیات اورنایاب کلام شایع کیا تواخبار میں اشتہار پڑھ کر انہیں عبد السلام باسط کا آرڈر ملا۔میں نے مطلوبہ کتب ان کو روانہ کردیں اورانہیں لکھا کہ آپ تو پاکستان چپ بورڈ جہلم میں خدمات انجام دے رہے ہیں ،میں نے آپ کی والدہ کے بتلائے ہوئے پتہ پر آپ کو خط لکھا تھا جو آپ کی نقل مکانی کے باعث آپ تک نہ پہنچ سکا۔اگر آپ کے پاس حضرت حافظ صاحب کے واسوخت کی کاپی ہو تو میں ہر قیمت پر اُس کا سوداکرنا چاہتا ہوں،لیکن حسبِ سابق مجھے اس خط کا جواب بھی نہ ملا۔اس پر بھی ایک زمانہ گذرگیا۔ایک روزاسی پاکستان چپ بورڈ جہلم سے مجھے ایک عزیزکا خط ملا جس سے معلوم ہوا کہ وہ بھی تبدیل ہوکر جہلم آگئے ہیں۔میں نے ان کو تمام حالات لکھ کر درخواست کی کہ وہ عبد السلام باسط کو آمادہ کرکے مطلوبہ مسودہ یا اس کی بقل حاصل کرلیں۔اس سلسلہ میں ان کا جو مطالبہ ہو گا میں اس کو پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔
خدا کا کرنا ایسا ہو اکہ میرے عزیز کی سعی مسلسل سے عبد السلام باسط نے ایک مسودہ ان کے سپرد کیا جو میرے ہاتھ کا لکھا ہواتھااورجس پر 30جون1942ءکی تاریخ درج ہے۔یہ مسودہ اس حالت میں ملا کہ اُس کے تمام اوراق کا ابتدائی اوپروالاحصہ بارش کی نذرہوچکا ہے۔میرے عزیز نے اعلیٰ درجہ کی مشین پرفوٹواسٹیٹ نکلوا کر مجھے روانہ کردی۔میں نے مسودہ کی یہ گت دیکھ کراپنا سرپیٹ لیا لیکن یترحسبۃ ازکمان بازنمی آید بہرحال میں نے ایک رجسٹر پر اس کی نقل شروع کردی اورخدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے میری مشل ان اوراق کے ذریعہ بڑی حد تک آسان کردی جومیں نے ماہنامہ "مرقع"شاہجہانپور سے علیحدہ کرکےمحفوظ کرلیئے تھے۔بعض جگہ اپنی جودت طبع سے بھی کام لینا پڑا۔فالحمدللہ اب آخر میں راقم الحروف یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ بیشک صنف "واسوخت"متروک ہوچکی ہےلیکن تاریخ ادب اردو سے تو کوئی اس کو محو نہیں کرسکتا۔اردو زبان کی یہ صنف اپنے دورمیں مقبول اورمشہور تھی اور لوگ مشاہیر شعراءکے واسوختوں کو مزے لے لے کرپڑھتے اورسردہنتے تھے۔ میں نے جب اس تباہ شدہ مسودہ کی نقل مکمل کرلی تو ایک صاحب علم وفضل بزرگ سے اسے شایع کرنے یا نہ کرنے کے متعلق مشورہ طلب کیا تو انہوں نے ان الفاظ میں مجھے واسوخت طبع کرانے کی رغبت دلائی:۔ بیشک اردو زبان کی شعری اصناف سے یہ صنف یعنی واسوخت فی زمانہ متروک ہوچکی ہے لیکن نصاب اردوسے تو کوئی ذی ہوش اسے محو نہیں کرسکتا۔آئیندہ کا کوئی مورخ جب اردو زبان کی تاریخ مرتب کرے گا تووہ لامحالہ اس صنف کا نہ صرف ذکر کرے گا بلکہ اس دور کے ان شعراء کا بھی ذکر ضرور کرے گا جنہوں نے اپنے عہد میں اس صنف میں کئی اعلیٰ درجہ کے واسوخت لکھے۔ "واسوخت "لفظ سوختن سے نکلا ہے جس کا معنی جلنے اور جلانے کے ہیں۔لیکن عروضی زبان میں "واسوخت"اس نظم کو کہتے ہیں جس میں شاعر اپنے محبوب سے کبھی محبت کا اظہارکرتا ہےاورکبھی اس سے تنگ آکرجلی کٹی باتیں کرتا اوراپنے ظالم محبوب پر طعن وتشنیع کے تیر برساتا نظر آتاہے۔کبھی عشق حقیقی کے مراتب کا ذکر کرتا ہے اورکہیں عشقِ مجازی کے صبر آزما مراحل کا تذکرہ چھیڑ دیتا ہے۔وہ اپنی چابک دستی کےبل پر موسم بہارکی رعنائیوں کو اس تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ گویا وہ ایک ہرے بھرے باغ میں پھولوں کا نظارہ کرہا ہو اورکہیں خزاں کی تاراجی کا ذکر کرکے ایک اجڑے ہوئے باغ کا نظارہ پیش کردیتاہے۔وعلیٰ ہذا القیاس قارئین جب اس نئے"واسوخت "کا مطالعہ کریں گے تو ہمارے مندرجہ بالا بیان کی تصدیق پرمجبور ہوجائیں گے۔ اب ہم زیادہ دیر تک قارئین اور واسوخت کے درمیاں دیواربن کر کھڑے ہونے کےبجائے قارئین کرام کو موقع دیں گے کہ وہ خود واسوخت کی سلاست زبان ،حسن بیان اورمنظر نگاری اورجذبات نگاری کے متعلق فیصلہ کریں اور ہمیں اپنی قیمتی رائے سے آگاہی بخشیں۔شکریہ
ابو العارف سلیم ؔ شاہجہانپوری 22اپریل2003 للہ الحمد کے پھر فصل بہار آپہنچی امنڈتی جھومتی مانند نگار آپہنچی رند سوجان سے جس پر ہیں نثار آپہنچی یہی غل ہے یہی رندوں میں پکار آپہنچی رنگ میخانہ گلستاں میں جماجاتا ہے ساغرِ گل کفِ بلبل پہ نظر آتا ہے ہورہی ہے صفت ِشاہد رعنائے بہار آگے سوسن کے کھلی رکھی ہے انشائے بہار چشم نرگس میں ہے کیفیت صہبائے بہار آج مدہوش نظر آتے ہیں شیدائے بہار ایک سے ایک ہم آغوش کہیں مستی میں لب پہ لب ہے کوئی مینوش کہیں مستی میں بہکی بہکی ہے کسی مست کے لب پر تقریر فرط حیرت نے بنایا ہے کسی کو تصویر اپنے دلبر سےبغل گیر کوئی خوش تقدیر مثل بلبل کسی گل روکا کوئی دامنگیر جھومتا ہے کوئی اشجار گلستاں کی طرح وجد میں ہے کوئی مرغان ِ خوش الحاں کی طرح اللہ اللہ عجب وقت ہے فرحت افزاء جھومتی چلتی ہے مستوں کی طرح سرد ہوا دیکھ ساقی وہ اٹھی قبلہ کی جانب سے گھٹا ابرِ رحمت کا کسی دم میں پڑے گا چھینٹا بادۂ ناب سے مینا وصراحی بھردے رند پیاسے ہیں انہیں اتنی پلا جی بھردے لا مجھے بھی وہ مئے ہوشربا دے ساقی جوزمانے کااَلم دل سے بھلا دے ساقی جام دیتے ہیں تامل نہ کرآدے ساقی واسطہ ساقی ِکوثر لا چھکا دے ساقی کم نہ ہودل ،سرمیں خیالات کا اک جوش رہے دل مرا شاہدِ مضمون سے ہم آغوش رہے جام پر جام بصد لطف دئے جا ساقی مست ہوں مست دعا مجھے سے لیئے جا ساقی نام میخانہ عالم میں کئیے جا ساقی آج مجھ کو بھی پلا توبھی پئے جا ساقی کم نہ ہو کیف محبت میں مری جوش رہے دل مرا شاہدِ مضمون سے ہم آغوش رہے خامۂ فکر سے کھینچوں وہ سراپائے سخن محو ہوجائیں جسے دیکھ کے شیدائے سخن روشِ مہر مبیں ہو رخ زیبائے سخن غیرتِ سروجناں قامتِ رعنائے سخن ہو وہ انداز کہ عالم متحیر ہوجائے دیکھ لے حاسد ِ بدبیں بھی تو ششدر ہوجائے طبع رنگیں ہے میری روحِ سخن،جان سخن تروتازہ ہے میرے دم سے گلستان سخن اب میری طرح کہاں ہے کوئی خواہانِ سخن عاشقِ آنِ سخن شیفتہ شانِ سخن وجد کرتا ہے جو سنتا ہے ترانہ میرا ہرسخن سنج کے لب پر ہے فسانہ میرا جمع ہے گوہر معنی کا خزانہ دل میں حسنِ محبوب فصاحت کا ہے جلوہ دل میں شاہد نظم معلی ہے دل آرادل میں موجزن تازہ مضامین کا دریا دل میں موجِ تسنیم سے بڑھ کر ہے روانی میری حوضِ کوثر کے لبوں پر ہے کہانی میری گرم کرتا ہے دلوں کو سخن تر میرا سرد ہوتا ہے مرے خوف سے ہمسر میرا شوراقلیم فصاحت میں ہے گھرگھر میرا آج صحباں ہے کہاں دیکھ لے جوہر میرا ہےزمانے سے جدا طبع گہر بار کا رنگ نہیں ملتا ہے کسی سے مرے اشعار کا رنگ ہو جو محتاجِ سندوہ نہیں میری تحریر جومیرے منھ سے نکل جائے وہ پتھر کی لکیر غیرتِ ،سلک گہر میری مسلسل تقریر کیوں نہ ہو پائی ہے کس مہر مبیں سے تنویر نشہ کیوں کر نہ ہو سر میں سخن آرائی کا نام لیوا ہوں امیر احمد مینائی کا آج ہے معرکۂ شعروسخن کا ساماں آج ہے دن کہ کھلیں جوہر شمشیر زباں اے مری طبع سخن سنج یہی وقت ہے ہاں ہاں خبردار یہی گوہے یہی ہے چوگاں بات تو جب ہے کوئی پڑھ کے نہ چلنے پائے دیکھ میدان نہ قبضہ سے نکلنے پائے تو سہی سب کہیں سیف زبانی یہ ہے ہاں روانی اسے کہتے ہیں روانی یہ ہے دھوم ہوجائے کہ اعجاز زبانی یہ ہے اورقصے تو فسانہ ہیں کہانی یہ ہے راز اب تک جو نہاں تھا وہ عیاں ہوجائے حال نیرنگی عشق آ ج بیاں ہوجائے کہیں بخود،کہیں غافل، کہیں ہشیار ہے عشق کہیں غم ِدوست، کہیں دشمن ِآزار ہے عشق کہیں عشاق کا ہمدم ،کہیں خونخوار ہے عشق کہیں مجبور ومقید،کہیں مختار ہے عشق گھر کے گھر ہوگئے ویران اسی کے ہاتھوں ایک عالم ہے پریشاں اسی کے ہاتھوں سوزِغم سے کہیں سینے کو جلا دیتا ہے سرد مہری سے کبھی دل کو دکھا دیتا ہے دھمکیوں سے کبھی عاشق کو ڈرا دیتا ہے کبھی فریادکی اک دھوم مچا دیتا ہے یہی موجد ہے جفا کاری و خونخواری کا یہی بانی ہے ستم کاری وعیاری کا اس کی ہر طرز سے پیدا ہے عجب باریکی اس کی غفلت میں بھی اک شان ہے ہشیار ی کی روشیں یاد ہیں کیا کیا اسے عیاری کی بن گیا نور کہیں اور کہیں ۔۔۔تاریکی صبح صادق ہے کہیں اور شب تار کہیں رخِ روشن ہے کہیں کَا کُلِ خمدار کہیں چارہ گر ہے یہ کہیں ہجر کے بیماروں کا نازبردارکہیں ہے یہ طرحداروں کا ستم آموزکہیں ہے یہ ستم کاروں کا آئینہ ہے یہ کہیں آئینہ رخساروں کا مثل لیلیٰ کہیں محمل کا طلب گار ہے یہ قیس کی طرح کہیں طالب دیدار ہے یہ دانۂ سبحہ کہیں،رشتہءزنارکہیں کفر مشرب ہے کہیں،مومن دیندار کہیں موجب عیش کہیں،موجدآزارکہیں سبب صلح کہیں،باعثِ پیکار کہیں کہیں مطلوب ،کہیں طالب جاں ہوتا ہے نئے انداز سے ہوتا ہے ،جہاں ہوتاہے کہیں رنگِ رخ عاشق سے عیاں ہوتاہے کہیں معشوق کے سینے میں نہاں ہوتاہے کہیں خاموش،کہیں گرم فغاں ہوتا ہے کہیں آنکھوں سے لہو بن کے رواں ہوتا ہے کہیں خنجر،کہیں زخم ِتنِ بسمل پایا کہیں مقتول اسے دیکھا،کہیں قاتل پایا کہیں یہ شمع شبستاں ہے کہیں پروانہ کہیں محبوب پری زاد ،کہیں دیوانہ کہیں مہمان معزز،کہیں صاحب خانہ کہیں دمساز یگانہ ہے کہیں بیگانہ کہیں یہ قرب کا طالب ہے کہیں دوری کا کہیں راحت کا سبب ہے کہیں زنجوری کا کہیں یہ صبروتحمل ہے ،کہیں آہ وبکا کہیں ارمان، کہیں شوق،کہیں شرم وحیا کہیں الطاف وعنایات،کہیں جوروجفا کہیں مظلوم،کہیں ظالمِ مظلوم نما شانِ معشوق کہیں ہے،کہیں آن عاشق کہیں معشوق کا دل ہے کہیں جان عاشق جلوۂ موسیٰ کو سرطور دکھایا اس نے راستہ خضر سے رہبر کو بتایا اس نے ہجرِیوسف میں زلیخا کو رلایا اس نے شکم حوت میں یونس کو بچایا اس نے میر ساماں ہے کہیں بے سروسامانی کا کہیں تنہائی میں مونس کسی زندانی کا شام ماتم یہ کہیں ہے،کہیں صبحِ خزاں کہیں امید وتمنا،کہیں یاس وحرماں ظلمتِ کفرکہیں ہے،کہیں نورایماں الغرض دونوں سے ہے اس کا تعلق یکساں ربط دونوں سے ہی رکھتا ہے وہ عیار ہے عشق ورنہ دراصل نہ کافر ہے نہ دیندار ہے عشق آرزومند ہے اس کا بدل وجاں کوئی ذکرسن سن کے ہوا جاتا ہے حیراں کوئی خانہ بربادکوئی،چاک گریباں کوئی فرطِ حیرت سے ہے انگشت بدنداں کوئی کوئی مجبور اِدھر ہے ،کوئی ناچاراُدھر خستہ دل خستہ جگرچار اِدھرچار اُدھر نوحۂ غم کوئی بیتاب وتواں کرتا ہے کوئی روروکے مصیبت کا بیاں کرتا ہے کوئی ساکت ہے کوئی آہ وفغاں کرتا ہے حال دل کوئی نہاں کوئی عیاں کرتا ہے خفقانی ہے کوئی آپ سے باہر کوئی مبتلا ہے کسی آفت میں غرض ہرکوئی روشِ جور حسینوں کو سکھاتا ہے یہی خون عشاق کو فرقت میں رلاتا ہے یہی فتنے عالم میں جو اٹھتے ہیں اٹھاتا ہے یہی قصہ کوتاہ ستم سینکڑوں ڈھاتا ہے یہی ہم تو حیرت میں ہیں کہ کیا عشق کا عالم لکھیں دل کی آفت کہیں یا جان کا ماتم لکھیں وہ بھی دن یاد ہیں جب ہم کو یہ آزار نہ تھا دل کسی نرگس بیمار کا بیمار نہ تھا چین کرتے تھے ہمیں غم سےسروکار نہ تھا چاہ ان زہرہ جبینوں کی نہ تھی پیارنہ تھا رات دن عیش کے سامان رہا کرتے تھے عجب آرام سے ہر آن رہا کرتے تھے ہم نہ تھے عشق کی شوریدہ سری سے واقف دل نہ تھے لذتِ زخم جگری سے واقف لب نہ تھے آہ وفغانِ سحری سےواقف دست بیکار نہ تھے جامہ دری سے واقف وہم میں بھی نہ گذرتا تھاپریشاں ہونا ہم تھے اور آٹھ پہر شوق سے خنداں ہونا کسی مہوش کی ہمیں منتظری کاہے کو تھی مثل گیسو کوئی آشفتہ سری کاہے کو تھی دمبدم شدت درد جگری کاہے کو تھی لب کہاں خشک تھے آنکھوں میں تری کاہے کو تھی چشم بیدار سے کب اشک رواں رہتے تھے ہم تپاں صورتِ سیماب کہاں رہتے تھے ہم سمجھتے ہی نہ تھے غم کی حقیقت کیا ہے عشق کہتے ہیں کسے دردِ محبت کیا ہے حسن کیا شے ہے ادا کیا ہے نزاکت کیاہے کس طرح آتا ہے دل آنے کی صورت کیا ہے کس طرح ہجر میں بیتاب رہا کرتے ہیں کس طرح دردوغم ورنج سہا کرتے ہیں اس سے غافل تھے دل آزار کسے کہتے ہیں دام الفت کا گرفتار کسے کہتے ہیں طالبِ لذت آزار کسے کہتے ہیں بیوفا کس کو وفادار کسے کہتے ہیں ان بتوں سے بخدا ہم کوکوئی کام نہ تھا رخ و گیسو کا تصور سحروشام نہ تھا جانتے ہی نہ تھے ہو جاتے ہیں شیدا کیونکر رنج اٹھاتے ہیں ،سہا کرتے ہیں ایذا کیونکر آتش عشق جلاتی ہے کلیجا کیونکر خاک ہوجاتے ہیں ارمان وتمنا کیونکر کس طرح دل ہدف تیر ِادا ہوتا ہے کس طرح دل تہ شمشیر جفا ہوتا ہے چاک کیوں کرتے ہیں عشاق گریبانوں کو بستیاں چھوڑ کے کیوں جاتے ہیں ویرانوں کو کیا مزا ملتا ہے ان باتوں میں دیوانوں کو مفت برباد کیا کرتے ہیں کیوں جانوں کو کیوں ستم سہتے ہیں ،کیوں وقف جفا رہتے ہیں کس لیے جینے سے کمبخت خفا رہتے ہیں میں کروں میل بتوں سے مری عادت ہی نہ تھی ٹوٹ کر آئے کسی پر وہ طبیعت ہی نہ تھی خوش جمالوں میں کسی سے مجھے الفت ہی نہ تھی مختصر یہ ہے کہ ان باتوں سے رغبت ہی نہ تھی گلشنِ دہر میں مجھ سا کوئی آزاد نہ تھا باب پنجم بھی گلستاں کا مجھے یاد نہ تھا مگر افسوس کہ تقدیر میں تھی اک ٹھوکر ناگہاں میں پئے تفریح اٹھا وقتِ سحر لطف نظارہ کی حویا تھی جو اس وقت نظر ایک گلزا رملا مجھ کو سر راہگذر مائل سیرشدم با دل شاداں رفتم بہ تماشائے گل و لالہ وریحان رفتم اللہ اللہ وہ صفا ،وہ جوروشوں کا جوبن وقت وہ صبح کا ،وہ نغمۂ مرغان چمن وہ لہکتا ہوا سبزہ،وہ مہکتا گلشن اور چلنا وہ نسیم سحری کا سَن سَن دہن غنچہ کا بیساختہ خنداں ہونا نکہتِ گل کا ہوا سے وہ پریشاں ہونا قابل دید وہ آزادی سرو لب جو قمریوں کی وہ دل آویز صدائے کوکو فرحت افزا ئے دل وجاں وہ چمن کی خوشبو شاخ گل پر وہ عنا دل کے ترانے ہرسو وہ ہنسی طوطی خوشگو کی شکر بار کہیں رقصِ مستانہ وہ طاؤس کا ہربار کہیں بھینی بھینی وہ مہک ،غنچہ وگل کی وہ بہار بلبلوں کا وہ چہکنا،وہ پپیہوں کی پکار نوجوانانِ چمن کی وہ قرینے سے قطار جھومنا سروکا مستوں کی طرح وہ ہربار طائروں کا وہ ہوا کھاکے کہیں گرمانا اڑکے اِس شاخ سے ُس شاخ پر آجانا فرحت انگیز وہ شادابی گلہائے چمن جس کے نظارے سے ہوتی تھیں نگاہیں روشن کہیں گل ہائے شگفتہ سے مہکتا گلشن کہیں سوسن،کہیں نرگس،کہیں نسرین وسمن اوربھی ان کے علاوہ تھے کئی قسم کے پھول نئےانداز،نئے رنگ ،نئی قسم کے پھول پھوٹتے تھے کسی گوشہ میں کہیں فوارے اڑتے پھرتے تھے پرندے کہیں پیارےپیارے صحنِ گلشن میں شجر جھوم رہے تھے سارے جامے میں گل نہ سماتے تھے خوشی کے مارے دل اڑائےلیئے جاتی تھی ہوا گلشن کی گھیر لیتی تھی آنکھوں میں فضاگلشن کی جس طرف شوق سے اٹھ جاتی تھیں نظریں اک بار لوٹنا چاہتی تھیں وہ نہ اُدھر سے زنہار صحنِ گلزار تھے یا دامن فیضان ِبہار کہ جدھر دیکھیئےپھولوں کے لگے تھے انبار گیت مرغان چمن مل کے بہم گاتے تھے ہرطرف گل ہمہ تن گوش نظر آتے تھے میں بڑے شوق سے پھرتا تھا چمن کے اندر دیکھتا بھالتا ہراک شے کو اِدھر اوراُدھر جا پہنچتا تھا ٹہلتا روشِ گلشن پر لطف اٹھاتی تھی ،مزے لوٹتی تھی میری نظر کبھی یہ اور کبھی وہ گل تر دیکھ لیا مل گیا ایک نیا لطف جدھر دیکھ لیا غرض اس قصر کے نزدیک کہیں جاپہنچا سامنے وسطِ چمن میں جو نظر آنا تھا دیکھ کر اس کی وہ رفعت وہ بنائے زیبا جوشِ فرحت سے یہ بیساختہ لب پرآیا واہ کیا قطع ہے کیا شان ہے اللہ اللہ خوش نما کیسا یہ ایوان ہے اللہ اللہ اسی ایوان کی جانب تھا ابھی میں نگراں کہ دریچے سے برآمد ہوئے چند آفتِ جاں حسن ایساکہ جو دیکھے ہو وہ حیراں دیکھتا ہی رہے حیرت سے برابر انساں نازوانداز وہ آفت کہ عیاذًا باللہ چتونوں میں وہ شررات کہ عیاذًا باللہ دلربا برق ادا ،شوخ نظر ،بانئ شر فتنہ خو،عربدہ جو،سحرنما،شعبدہ گر خوش نما یہ اگر اُس سے تو وہ اس سے خوشتر مثل اس کا نہ زمانے میں، نہ اس کا ہمسر بادۂ حسن کا پُرجوش خمار آنکھوں میں عشوہ آنکھوں میں پیار آنکھوں میں کان کا وصف ہے امکانِ بشر سے باہر غیرتِ کانِ جواہر انہیں کہئے کیونکر دونوں رخسار وہ تابندہ کہ خیرہ ہو نظر روشن ایسا رخِ روشن کہ خجل شمس وقمر اللہ اللہ وہ رخشدہ جمال عارض ماہ دو ہفتہ اک ادنیٰ ہے مثال عارض روئے روشن میں وہ بیٹی کی ضیاء صلی علیٰ شمع رخسار کی لو سے الف ماہ بنا درمیاں آنکھوں کےاس طرح تھا جلوہ اس کا ہاتھ میں مردم بیمار کے جس طرح عصا لب خوش رنگ عقیق یمنی سے بڑھ کر دردنداں بھی تھے درعدنی سے بڑھ کر نرم وخوش رنگ تھا وہ سبب زنخداں اُن کا جس کے نظارے سے ہر دل میں ہو رغبت پیدا شمع کا فورسا روشن وہ گلوئے زیبا مثل پروانہ ہوجس پر دل بیتاب فدا یوں بھی پر نور بنائے تھے خدا نے شانے اورچمکا دئے گردوں کی ضیاء نے شانے وصف کیااور سردست ہواُن ہاتھوں کا کہئے ان کو شجر حسن کی شاخ ِزیبا روکش پنجہ خورشید کلائی کی ضیاء پنجہ وہ پنجہ سرجاں سے جو خوشرنگ ہوا وہ ہتھیلی کہ جو تابش میں قمر سے بڑھ کر نازک اس طرح کہ برگ ِگل تر سے بڑھ کر کس کی تشبیہہ سے تحریر ہو حال انگشت صورت خامۂ مالی ہے مثال انگشت اس سے بڑھ کر نہیں کچھ اور کمال انگشت چٹکیاں لے دل ِ عاشق میں خیالِ انگشت ماہ نو سے کہیں تابندہ سوا ہرناخن حسن میں شکل میں ابرو کے برابر ناخن سینہ وہ نور سے معمورکہ شرمندہ ہو ماہ شکم اس طرح مصفا کہ پھسل جائے نگاہ موشگافی تو مری فکر نے کی خاطر خواہ اس نزاکت کی مگر حد بھی ہے اللہ اللہ اُس کا زانوئے مصفا تھا وہ نرم و خوشتر لوٹ ہی جائے جو عشاق کو آجائے نظر شاخ بلور سے ساقوں کی صفائی بڑھ کر جن سے شرمندہ ہو رنگِ شفق و نور سحر پائے رنگیں سے ہو رخسار پری شرمندہ طرز رفتار سے ہو کبک دری شرمندہ جلوہ افروز جدھر تھا وہ مصفا پیکر اُسی جانب نگراں میں بھی تھا لیکن ششدر لڑگئی اتنے میں اک بار نظر سے جونظر آئی سینے سے ند اہائے دل وہائے جگر مضطرب از اثر صدمۂ جانکاہ شدم ہدف ناوک دلدوز بناگاہ شدم یک بیک اُس نے جو آنکھوں سے ملائیں آنکھیں دیکھتے دیکھتے آنکھوں میں سمائیں آنکھیں کچھ اس انداز سے ظالم نے دکھائیں آنکھیں کہ مری آنکھوں سے دل میں اتر آئیں آنکھیں یوں ہوا تیر نظر آکے ترازو دل میں دل ہی قابو میں رہا اور نہ قابو دل میں اڑگئے ہوش تڑپ کر جو گری برنگاہ خردوتاب ونواں جل کے ہوئے خاک سیاہ دل نے جب زور سے اک درد بھری کھینچی آہ میں بھی بیدم ہوا کہتا ہوا انا للہ نازک اس درجہ نظر آئی جو حالت میری ہاتھ ملنے لگی سرپیٹ کے حسرت میری نگراں تھا کبھی میں اپنے جگر کی جانب کبھی اس شوخ کی دزدیدہ نظر کی جانب دیکھتا کیا کسی رشکِ گل تر کی جانب ٹکٹکی بند ھ گئی اُس بانی شر کی جانب تھی عجب کشمکش عشق سے حالت میری دمبدم رنگ بدلتی تھی طبیعت میری اُڑ گیا دیکھ کے یہ رنگ وہ پریوں کا پرا ہوش میں آکے جو دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا ہوگیا آنکھوں سے اوجھل جو وہ خورشید لقا چھاگئی رنج کی دل پر میرے گھنگھورگھٹا دردسینے میں اٹھا ضبط کی طاقت نہ رہی دل گیا ہاتھ سے قابو میں طبیعت نہ رہی آہ باقی نہ رہے صبروقراروآرام غم واندوہ نے آآکے کیا دل میں قیام نظر آیا نہ مجھے جب وہ بت حشر خرام میں بھی راہی ہواکرتا ہوا یہ دل سے کلام حیف درچشم زدن صحبت یارآخر شد روئے گل سیر ندیدم و بہار آخرشد گھر میں داخل ہوا جس وقت کہ میں سینہ فگار ہوگیا اور بھی مضطر دل بے صبروقرار لاکھ چاہا مگر آرام نہ آیا زنہار پھرروانہ ہوا دل تھام کے سوئے گلزار اب جو پہنچا تو عجب طرح کا عالم دیکھا سارا سامانِ طرب درہم وبرہم دیکھا وحشت آتی تھی ،وہ سنسان پڑا تھا گلزار نہ وہ پہلی سی فضا تھی ،نہ وہ رونق نہ بہار قمریوں کی نہ وہ "کوکو"نہ پپیہوں کی پکار نہ وہاں حوروں کا جھرمٹ تھا نہ پریوں کا اتار شاخِ گل خشک تھی ،منھ زرد تھا ہر اک گل کا چہچہے کیسے پتہ بھی تونہ تھابلبل کا گلِ گلزار نہ تھا لطف مجھے کیا ملتا سیرتوجب بھی تھی کہ وہ غنچہ دہن آ ملتا مجھ سے ہرچند نہ وہ جانِ تمنا ملتا میں مگر بڑھ کہ بصد شوق اسے جا ملتا میرے دل ہی میں رہی دل کی یہ حسرت افسوس دیکھنے کو نہ ملی مجھ کو وہ صورت افسوس آمدورفت یونہی شام وسحر جاری تھی اس پری چہرہ کی ہرلحظہ طلبگاری تھی لاکھ ملنے میں نہ دقت تھی نہ دشواری تھی لیکن اس شوخ کو منظوردل آزاری تھی وہ بت آئینہ وہ شکل دکھاتا ہی نہ تھا کبھی گلگشت چمن کے لیئے آتا ہی نہ تھا مضطرب تھی تپ فرقت سے طبیعت میری دمبدم بڑھتی ہی جاتی تھی مصیبت میری آخر کار ہوئی غم سے یہ نوبت میری اڑگئے ہوش توفق ہو گئی رنگت میری بحرغم شدت گریہ سے رواں ہونے لگا دل کا تو حال تھا آنکھوں سے عیاں ہونے لگا کیا کہوں میں جو گذرتی تھی مصیبت مجھ پر کیا بتاؤں کہ ہوا کرتی تھی کس طرح بسر جان تنگ آگئی تھی ظلم وستم سہہ سہہ کر رات بھر ہجر میں نالےتھے تو آہیں دن بھر دل بیتاب سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہ تھا کچھ پریشان تھا ایسا کہ بہلتا ہی نہ تھا کامیابی تو بظاہر تھی بہت ہی دشوار نظر آتی تھی نہ اس کی کوئی صورت زنہار یہ کرم رحمت باری نے کیا آخر کار کہ ہو اطالع خوابیدہ یکایک بیدار غیب سے میری مسرت کا سرانجام ہوا دل کو جس کام کی حسرت تھی وہی کام ہوا اُسی گلزار میں اک دن جو ہوامیرا گذر اور پھر بیٹھ گیا ضعف سے میں زیر شجر آئی ہوں گی ابھی دوچار ہی آہیں لب پر کہ یکایک وہی سفاک،وہی غارتگر مثل ِخورشید اُسی قصر کےدرسے نکلا دل پکارا وہ قمر برج قمر سے نکلا پہلے خوب اُس نے اِدھراوراُدھر دیکھ لیا ہرطرف دیکھ کے آہستہ مری سمت بڑھا خوش خرامی کا وہ انداز کہ دیکھا نہ سنا مختصر یہ ہے کہ بیساختہ دل لوٹ گیا ایک تو چلنا بڑی شوخی سے پھر اٹھلانا کبھی شرم کے ساتھ وہ بڑھتا بھی جھجک جانا بھی راست ہےا س قدموزوں کو جو طوبیٰ کہیئے سچ ہے عارض کواگر چاند کا ٹکڑا کہیئے زلف کو مارسیہ کہیئے چلیپا کہیئے دہن تنگ کو نکتہ کہ معما کہیئے کاکلیں دور سے پرپیچ نظر آتی تھیں بحر ظلمات کی لہریں تھیں کہ لہراتی تھیں قد وہ بوٹا سا قیامت سے بڑا ہائے ستم تاکمر آئی ہو زلفِ روتا ہائے ستم لب میں وہ نیم تبسم کی ادا ہائے ستم اوراُس پر دُردنداں کی ضیا ہائے ستم جلوہ فرما تھا اس انداز سے وہ گلشن میں کوند کر برق گرے جیسے کسی خرمن میں حسن میں مہر منور سے زیادہ تھا وہ بت سرسےتا ناخن پاحسن کا پتلا تھا وہ بت اور اب اس کے سوا کیا کہوں میں کیا تھا وہ بت قدرت خالق یکتا کا نمونا تھا وہ بت قدقیامت کا الف فتنہ نژادآنکھیں تھیں لائق دید تھارخ، قابل صاد آنکھیں تھیں بال اڑتے ہوئے چہرے یہ ادھر اور اُدھر دونوں رخسارچمکتے ہوئے مانند قمر دیکھنا اپنی ادا آپ کبھی رہ رہ کر گاہ سینے کی طرف گاہ نظرسوئے کمر نازوانداز سے چلنا کبھی دو چار قدم روک لینا کبھی کچھ سوچ کے اکبار قدم وہ جبیں ہنستی ہوئی مثل سحر ہائے غضب دونوں لب غیرتِ برگ گل تر ہائے غضب مار زیف ایک ادھر،ایک اُدھر ہائے غضب وہ لچکتی ہوئی باریک کمر ہائے غضب قہر اس پرستم ایجاد کی دھانی پوشاک اورپھرمظہر آغاز جوانی پوشاک جنگجو چشم بڑی ملحد،نہایت سفاک جس سے لڑجائے وہ بیچارہ ہو بے موت ہلاک دل اڑا لینے میں وہ پنجہ مژگاں چالاک ناوک افگن وہ نگہ،رحم سے خالی بیباک سینہ عاشق کاپاجائے توچھلنی کردے سینکڑوں تیروں سے ترکش کی طرح گھر بھردے آخرکاروہ بت میرے قریں آپہنچا ماہرہ،سیم بدن،غارت دیں آپہنچا جان کا راحت ِ جاں دل کا مکیں آپہنچا میں جہاں تھا وہ ستمگر بھی وہیں آپہنچا کچھ اس انداز سے وہ آئینہ رخسار آیا دل کی حیرت یہ پکار اٹھی کہ ہشیار ،آیا آکے چپ چاپ کھڑا ہوگیا وہ ماہ لقا بات چیت اُس سے ہی کی اور نہ مہیں کچھ بولا چند لمحہ تو خموشی کا یہی حال رہا نہ اُدھر کوئی صدا تھی نہ ادھر کوئی صدا جذبہ عشق نے تاثیر دکھائی آخر لب پہ اس شوخ کے تقریر یہ آئی آخر کچھ کہو تو سہی یہ حال یہ نقشا کیا ہے کیوں پریشان سے ہو دل کی تمنا کیا ہے رنگ چہرے کا اڑا جاتا ہے صدما کیا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ معما کیا ہے آخر اس باغ میں کیوں آئے ہو آنے کا سبب آہیں کرنے کا سبب ،اشک بہانے کا سبب کون سی فکر ہے کس بات کا ہے تم کو الم رنگ کیوں زرد ہے کیوں بہتے ہیں آنسو پیہم بیٹھے بیٹھے تڑپ اٹھتے ہو یہ ہے کیا عالم کس لیئے کرتے ہو دل تھام کے آہیں پیہم کیوں رہا کرتے ہو بے حال بتاؤ تو سہی دل کا کیا حال ہے کچھ ہم کو سناؤتوسہی کیا ہوا کس لیئے ہےآ پ کو غم ہم تو سنیں آپ پر کس نے کیئے جوروستم ہم تو سنیں باعثِ صدمہ واندوہ و الم ہم تو سنیں کس لیئے ہوش وخرد کرگئے رم ہم تو سنیں کچھ تو فرمائیے یہ گریہ و زاری کیوں ہے کیوں ہے یہ جامہ دری سینہ فگاری کیوں ہے حال اس بت نے باصرارجو پوچھا ہم سے نہ چھپا ہو ہی گیا رازدل افشا ہم سے کہدیا ہم نے یہ کیسا ہے تقاضا ہم سے تم تو خود جانتے ہو پوچھتے ہو کیا ہم سے اور اس میں بھی تجاہل ہے تو پھر بسم اللہ لوسنو کان لگا کر سبب ِ نالہ و آہ مبتلائے الم و رنج ہوں ہم شام وپگاہ اورتم کو کوئی پرواہی نہ ہو واہ جی واہ کیایہی ہوتی ہے الطاف وترحم کی نگاہ واہ کیا بات ہے ،کیا بات ہے سبحان اللہ ہم تمہارا ہی کریں ذکرخدا کی قدرت اورتم کو نہ ہو کچھ فکرخدا کی قدرت تم ہمیں دھیان میں لاتے نہیں اللہ اللہ ہم بلاتے ہیں تم آتے نہیں اللہ اللہ روئے پرنوردکھاتے نہیں اللہ اللہ بلکہ آوازسناتے نہیں اللہ اللہ یہ غرور اور یہ نخوت تمہیں اللہ کی شان ہم سے بے وجہ نفرت تمہیں اللہ کی شان پھر یہ تاکید کہ حال دل بیمار کہو کون سا عارضہ ہے کون سا آزار کہو جان ہے کون سی آفت میں گرفتار کہو کس لیئے کھینچتے ہو آہ شرربار کہو سبب رنج والم کیا ہے بتادوہم کو اپنا گذراہو افسانہ سنادوہم کو کس سے سیکھا ہے بتاؤ تو یہ قضا کہنا سارے عالم سے جدا سب سے نرالا کہنا واہ کیا خوب یہ فقرہ ہے نیا کیا کہنا اک ذراپھر اُسی انداز سے کہنا کہنا ہاں مجھے پھر وہی تاکید دوبارہ ہوجائے ہاں پھراحوال سنانے کا تقاضا ہوجائے جھوٹ سچ حال سنانے کی بھی کیا خوب کہی میں بھی قربان ،مرادل بھی فداخوب کہی بات مطلب کی ہےاے ماہ لقا خوب کہی مجھ کو ناچاریہ کہنا پڑ اکیا خوب کہی آپ ہی تو غم فرقت سے ستانا کیا خوب اورپھر آپ ہی باتوں میں اڑانا کیا خوب زندگی ہے ہمیں بھاری تمہیں پرواہی نہیں دل کو ہے چاہ تمہاری تمہیں پروا ہی نہیں کرتے ہیں گریہ وزاری تمہیں پروا ہی نہیں ہائے افسوس ہماری تمہیں پروا ہی نہیں دل پریشان ہے گھٹتی ہے طبیعت اس سے تمہیں منصف ہو کریں اس کی شکایت کس سے سن چکا میری یہ تقریر تو رہ غنچہ دہن بول اٹھا شان تجاہل سے بدل کرچتون کیا کہوں دل کو جواس وقت ہوئی ہے الجھن یہ نئی طرز کی باتیں ہیں نئی طرزِ سخن صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں کھلتا کہنا بات کہنا بھی تمہارا ہے معما کہنا جنبشِ لعل لب یار کا اللہ رے اثر زندگی حسرت ِ مردہ کو ملی باردگر نگہ ناز میں اخلاص کےتیو رپا کر یہ بڑھا ولولۂ شوق کہ بے خوف وخطر میں نے بےساختہ لپٹا ہی لیا سینے سے دیر تک اس کو جدا پھر نہ کیا سینے سے اس طرح ملنے سے ہنسنے لگی قسمت میری کھل گئی پھول کے مانند طبیعت میری قابل دید تھی اس وقت مسرت میری کیاکہوں میں جوخوشی سے ہوئی حالت میری بخت نے شکر خدا کرکے کہا واہ رے میں حسرت وصل پکار اٹھی کہ اللہ رے میں یوں یکایک جو موافق ہوئی قسمت آخر اُن کے دل میں بھی اثرکرگئی الفت آخر بڑھتے بڑھتے یہ بڑھی پھرتو محبت آخر کہ انہیں شاق گذرنے لگی فرقت آخر بہرگلگشت چمن شام وسحر آنے لگے نخل امید وتمنا میں ثمر آنے لگے دیر ہو مجھ کوکسی دن تو خفا ہوجانا روٹھنا باب شکایات کا واہوجانا غضب وغیظ سے سو حشربپا ہوجانا ترک سب مشغلۂ مہرووفاہوجانا غصہ غصہ میں پھر اظہار محبت مجھ سے آپ ہی آپ پھر اقرارِ محبت مجھ سے نشۂ عشق ومحبت سے اُدھر وہ سرشار اوراِدھرمیری یہ حالت کہ دل وجاں سے نثار بے ملے چین نہ اُن کو نہ مرے دل کو قرار دونوں سمت ایک سا اُنس ،ایک سی چاہ،ایک سا پیار میں یہ کہتا تھا فدائے رخِ تاباں ہوں میں وہ یہ کہتے تھے ترا تابع فرماں ہوں میں الغرض یونہی رہا ربط محبت دن رات مجھ میں اُن میں نہ ہوئی رنجش وغم کی کوئی بات حیرت انگیز تھے جتنے تھے میسر حالات کیا کہوں کیسے گزرتے تھے ہمارے اوقات مجھ سے ہرروز وہ چھپ چھپ کے ملاکرتے تھے وعدہ ملنے کا بہرطوراداکرتے تھے ایک دن میں نے یہ کی عرض کہ اے راحت جاں میرا ویرانہ بھی بن جائے کبھی رشک جہاں ہنس پڑا پہلے تو منھ پھیر کے وہ غنچہ دہاں پھربڑے نازوادا سے یہ کہا اُس نے کہ ہاں اب یہ مطلب ہے کہ مخلوق میں چرچا ہوجائے سب سے پوشیدہ ہے جو راز وہ افشاہوجائے چاہتے یہ ہو کہ رسوا سربازار ہوں ہم خوب ذلت ہمیں مخلوق میں ہو خوار ہوں ہم دام تشنیع خلائق میں گرفتار ہوں ہم زیست سے تنگ ہوں ہم،جان سے بیزار ہوں ہم خیر صاحب جو خوشی آپ کی ہو کیجئے آپ لیکن اس کی کوئی صورت توبتادیجئے آپ آپ ہی کیئے کہ گھر آپ کے آئیں کیونکر سرپہ آفت جو یہ لائیں بھی تو لائیں کیونکر خوف کی بات ہے یہ ،خوف نہ کھائیں کیونکر بھید کھلنے کو ہو جس دم تو چھپائیں کیونکر رازافشا جو ہوا خواری وذلت ہوگی ایک ہم اورزمانے کی ملامت ہوگی سن چکا میں جو یہ تقریر،یہ حجت یہ بیاں فرطِ حیرت سے کہا میں نے کہ مجھ پریہ گماں جودل و جاں سے ہوایک ایک اداپرقرباں وہی کمبخت کرے گا تمہیں رسوائے جہاں مجھے حیرت ہے مری جان یہ کیا کہتے ہو میں کروں گا تمہیں بدنام بجا کہتے ہو خوف افشا نہیں تقریرِ جفا کاری ہے تم سے نادان کی درپردہ یہ ہشیاری ہے مجھ میں تم میں اگر آئینِ وفاجاری ہے دل سے چاہو تو نہ مشکل ہے نہ دشواری ہے تم یہی کیوں نہیں کہتے ہمیں منظور نہیں صاف ظاہر ہے کہ مختار ہو مجبور نہیں عذر موقع کے نہ ملنے کا اگر ہے اے ماہ تووہ ایسا نہیں جو دورنہ ہو خاطر خواہ سن کے ہوجاؤ گے خوش تم بھی اسی دم واللہ مجھ سے اقرار یہ کرلو کہ چلیں گےہمراہ پھر ابھی سہل سی تدبیر بتادوں تم کو میں نے تجویز جو کی ہے وہ سنادوں تم کو مجھ سے یہ سن کے وہ کچھ کہہ نہ سکے اس کے سوا کہ ذراآپ بتائیں کہ وہ تدبیرہے کیا جب بتا دی انہیں تدبیر تو ہنس کر یہ کہا خیرمعلوم ہوا حافظ وناصر ہے خدا لیجیئے آئیں گے کل آپ کے گھر آئیں گے گوہمارے لیئے مشکل ہے مگر آئیں گے روز موعود کا کس رنگ سے کھینچوں نقشا کیا بتاؤں کہ وہ دن کیسی خوشی کا دن تھا میری آنکھوں نےجواُس روزتماشا دیکھا نہ توبھولا ہے نہ بھولے گاکبھی اُس کا مزا میرے گھر چھپ کے وہ پہلی پہل آنا اُن کا ہائے وہ نیچی نگاہیں،وہ لجانا ان کا وہ خموشی کی ا داہائے وہ نیچی گردن سرمگیں چشم سے ظاہر تھی وہ دل کی الجھن ترپسینے سے وہ پیشانی وروئے روشن بےخبر کام سے اپنے ستم آرا چتون نہ اشارہ کوئی مجھ سے نہ لگاوٹ دل سے نیچی نظریں بھی اٹھانا تو بڑی مشکل سے وہ ادائیں نہ وہ بیساختہ پن تھا اُن کا نہ وہ شوخی نہ شرارت کا چلن تھا اُن کا نہ وہ غمزے نہ وہ اندازسخن تھااُن کا لاجواب اپنی خموشی سے دہن تھا اُن کا یونہی کچھ دیر توبیٹھے رہے گھبرائے ہوئے سرجھکائے ہوئے،جھینپے ہوئے شرمائے ہوئے یونہی کچھ دیر تو بیٹھے رہے آشفتہ نظر پھر یکایک یہ ترددسے کہا گھبرا کر ہوگیا ہم کو یہاں آئے ہوئے ایک پہر آپ کی باتوں میں لیکن نہ ہوئی کچھ بھی خبر دیکھئے اس سےزیادہ نہیں مہلت ہم کو اب خدا کے لیئے کردیجیئے رخصت ہم کو کچھ توقف سےدیا مجھ کو پیام رخصت اڑگئے ہوش مرے سن کے کلام رخصت عرض کی میں نے یہ ہنگام ِسلام ِرخصت کہ نہ لو بہر خدا تم ابھی نامِ رخصت متغیر ہے غمِ ہجر سے حالت میری واجب الرحم ہوں میں دیکھ لو صورت میری ہاں اگر مجھ کو ستانا ہے تو جاؤ صاحب ہاں مرے دل کو دکھانا ہے تو جاؤ صاحب ہاں مصیبت میں پھنسانا ہے تو جاؤ صاحب ہاں رلا کر مجھے جانا ہے تو جاؤ صاحب نہ سہی دل میں مرے دردکی پروا نہ سہی رنج کی میرے تمہیں فکر دل آرانہ سہی ہم جو مرنے کو ہیں تیار تمہیں کیا مطلب دل ہے بے چین توسرکار تمہیں کیا مطلب ہم ہیں جو غم میں گرفتار تمہیں کیا مطلب کہ یہ باتیں تو ہیں بیکار تمہیں کیا مطلب تم کو کیا ہجر کا غم ہوگا تو ہوگا ہم کو سفرملک عدم ہوگا تو ہوگا ہم کو سن چکے ہم سے وہ جس وقت ہماری باتیں اس طرح کرنے لگے پیار سے پیاری باتیں دل کو ہوتا ہے قلق سن کے تمہاری باتیں میرے شکوے ہیں حقیقت میں یہ ساری باتیں بات جو منھ سے نکلتی ہے ستم ڈھاتی ہے مجھ کو شرماتی ہے دل کو مرے تڑپاتی ہے میں ہوں مجبور یقیں اس کا مگر تم کو نہیں میری مجبوریوں پرکچھ بھی نظر تم کونہیں مجھ کو جس بات کا ہے خوف وخطر تم کو نہیں کیاکروں میں کہ میرے دل کی خبر تم کو نہیں کس طرح تم کو یقیں اس کا دلائے کوئی دل دکھانے کا اگر ہو تم دکھائے کوئی نہیں منظور فرقت میں جلائیں تم کو نہیں منظور کہ بے وجہ ستائیں تم کو نہیں منظور کہ ہم چھوڑ کے جائیں تم کو نہیں منظور کہ اس وقت رلائیں تم کو بھید کھل جائے گا اس واسطے ہم جاتے ہیں بس اسی خوف سے خالق کی قسم کھاتے ہیں کیوں پریشان نہ ہوں،کیوں نہ ہو وحشت ہم کو کہ توقف میں نظر آتی ہے دقت ہم کو مضطرب کرتی ہے رہ رہ کے یہ دہشت ہم کو کہ اٹھانا نہ پڑے کوئی ندامت ہم کو وقت پر چاہیئے ہردرد کا درماں ہونا کہ توقف کا نتیجہ ہے پریشاں ہونا چل دیا اٹھ کر وہ بالآخر وہ بت غنچہ دہن رہ گیا دیکھ کے میں جانب چرخ پرفن ہوئی سوزش میرے سینے میں تو پہلو میں جلن دل میں دردآنکھوں میں آنسو تھے لبوں پر یہ سخن جف در چشم زوں صحبت یار آخر شد روئے گل سیرندیدم وبہار آخرشد کشش حسن بھی کیا چیز ہے اللہ اللہ نگۂ شوق گئی دردتک اس کے ہمراہ پھرجو اوجھل ہوا آنکھوں سے بت غیرتِ ماہ ہوگیا خانہ عشرت مری نظروں میں سیاہ اُدھر اس مہر منور نے چھپائی صورت اورادھرشامِ شب غم نے دکھائی صورت دل مرا تیرگئ بخت سے گھبراتا تھا دیکھتا تھاجدھر اندھیرا نظر آتا تھا لاکھ اپنے دل بیتاب کو بہلاتا تھا دمبدم حال مگر غیرہوا جاتا تھا میں بدلتا تھا جو بیتابی دل سے پہلو شمع روتی تھی میرے حال پہ آٹھ اٹھ آنسو کچھ عجب طرح کی وحشت رہی طاری شب ہجر لب پر آہیں تھیں تو اشک آنکھوں سے جاری شب ہجر کثرت غم سے ہوئی زیست بھی بھاری شب ہجر کبھی زاری تھی کبھی نجم شماری شب بھر کیا کہوں کیسی مصیبت میں بسر کی میں نے مختصر یہ ہے کہ مرمر کے سحر کی میں نے ہوگیا درد جدائی سے مرا حال نزار چین آتا تھا نہ دل کو نہ طبیعت کو قرار زندگی اپنی نظر آتی تھی مجھ کو دشوار آخر الامر ہوا فضل خدائے غفار شب غم ختم ہوئی صبح مسرت آئی مضطرب جس کے لیئے دل تھا وہ ساعت آئی حسب عادت جو صبح دم گیا اٹھ کے اُدھر اُسی گلشن میں ملا مجھ کو وہ رشک ِ گلِ تر رنگ افسردگی دل تھا میرے چہرے پر میں قرب اُس کے جو پہنچا تو وہ بولا ہنس کر رات بھر ہجر میں روتے رہے رونے والے اب تک آرام سے سوتے رہے سونے والے سن چکامیں تو کہا میں نے کہ اےرشکِ قمر جتنے شکوے ہیں ترے وہ میرے سر آنکھوں پر لیکن افسوس کہ خودہی تو نہ ٹھہرے مرے گھر پھر یہ طرہ کہ میں ملزم بھی بنوں سرتاسر ایسا انصاف نہ دیکھا نہ سنا عالم میں جوسنے گا وہ کہے گا تمہیں کیا عالم میں شکوے ہوتے رہے کچھ دیر غرض یونہی بہم پھرہوئے دونوں میں پیمان وفا کھا کے قسم وہ بھی خوش ہوگئے اقرارسےمیں بھی خرم نہ رہا ان کو کوئی غم نہ مجھے کوئی الم ان کو شکوہ نہ رہا مجھ کوشکایت نہ رہی آئینہ ہوگئے دل گردِ کدورت نہ رہی کیا کہوں پھر تویہ حالت ہوئی رفتہ رفتہ پھر انہیں قدرمحبت ہوئی رفتہ رفتہ واقف اس راز سے خلقت ہوئی رفتہ رفتہ آخرکار یہ شہرت ہوئی رفتہ رفتہ وہ پری زاد تھا میں حسن کا دیوانہ تھا شمع تھا روئے منور تو میں پروانہ تھا سوجگہ عاشق ومعشوق میں الفت دیکھی یوسف مصروزلیخا کی بھی چاہت دیکھی لیکن ایسی کہیں دنیا میں نہ حالت دیکھی دل نہ اس کا سا نہ اُس کی سی طبیعت دیکھی فردہےعشق میں معشوق تویکتا عاشق ہےنئی طرز کا معشوق نرالا عاشق مجھ سے جو وعدہ وہ کرتے تھے وفا کرتے تھے حق محبت کا محبت سے ادا کرتے تھے بس اسی فکر میں دن رات رہا کرتے تھے جس سے میں خوش ہوں وہی کام کیا کرتے تھے باغ میں آتے تھے وہ صبح کو بھی شام کو بھی رخ کو دیکھتا تھا زلفِ سیہ نام کو بھی ملنے جلنے کا طریقہ جو یہ تھا شام وسحر میرے گھر بھی کبھی آجاتے تھے موقع پاکر عیش ہی عیش میں ہوتی تھی میری عمر بسر محورہتا تھا کچھ ایسا کہ نہ تھی کچھ بھی خبر ظلم کیا شے ہے کسےجوروستم کہتے ہیں غم کدھر،صدمے جدائی کے کہاں رہتے ہیں اِس طرف مدنظر مجھ کو رضائے دلبر اُس طرف میری اطاعت اُسے منظورِ نظر اس طرف ورد بہت خوب کا ہردم لب پر اُس طرف روئے سخن اُن کا نہایت بہتر روح و قالب کا جو رکھتے تھے علاقا دونوں میری بات ان کی زباں ایک تھے گویا دونوں میری آسائش وراحت کی اسے فکر کمال مجھ کو اس شوخ کے خوش رکھنے کا ہروقت خیال اِس طرف میری یہ حالت اُدھر اس کا وہ حال باغ باغ اُس سے طبیعت مری،وہ مجھ سے نہال مستعد وہ اُدھر الطاف وعطا کرنے پر میں ادھر دل کی طرح جان فدا کرنے پر دشمنِ عِش ہے لیکن فلک شعبدہ گر فکر رہتی ہے ستمگر کو یہی شام وسحر نہ رہے چین سے کوئی متنفس دم بھر مبتلائے الم ورنج ہوہرفردبشر دیکھ لیتا جومسرورتوجل جاتا ہے رنگ اس دشمن راحت کابدل جاتا ہے یہی کرتا ہے ستم عشق کےبیماروں پر یہی عشاق کو رکھ لیتا ہے تلواروں پر منکشف اس کی یہ حالت ہے دل افگاروں پر کہ لٹاتا ہے یہی ہجر میں انگاروں پر ٹھنڈے سینوں میں یہی آگ لگا دیتا ہے پھر بھڑک اٹھتی ہے جب وہ تو ہوا دیتا ہے فتنہ پروازودل آزاروستمکار ہے یہ زورچلتا نہیں جس پر وہی مکار ہے یہ قتل عشاق سے غافل نہیں ہشیار ہے یہ بانی جوروجفا درپئے آزار ہے یہ سینہ مجروح وجگر چاک کیا ظالم نے نوجوانوں کو تہ خاک کیا ظالم نے کبھی راحت میں کبھی رنج ومحن میں مارا کبھی غربت میں کبھی اس نے وطن میں مارا شہر میں جان نکالی ،کبھی بن میں مارا مرنے والوں کو غرض چشمِ زدن میں مارا زیست کا لطف سب ایک آن میں کھویا اس نے چاہ میں رہنے والوں کو ڈبویا اس نے دشمن جاں ستم ایجاد کی سفاکی ہے قہر آفت کا قیامت کی غضبناکی ہے چال ہربات میں،ہرحال میں چالاکی ہے اس کی بیداد کا ہرفردبشرشاکی ہے زخم خوردہ ہیں دل افگار اسی کے ہاتھوں پاشکستہ ہیں طلبگار اسی کے ہاتھوں آہ مجھ کو بھی کیا غم میں گرفتار اس نے آہ کر دی ستم وجورکی بھرمار اس نے سینکڑوں رنج دئیےسینکڑوں آزاراس نے کردیا مجھ کو میری جان سے بیزار اس نے خوب جی کھول کے ظالم نے ستایا مجھ کو روزبد مثل شب تیرہ دکھایا مجھ کو حیف ظلم کو پسند آئی نہ راحت میری آہ دیکھی نہ گئی اس سے مسرت میری روزکلفت سے بدل دی شب عشرت میری محو کردی دلِ معشوق سے الفت میری مائل جور ہوا چرخ کہن ہائےغضب پھرگئی چشم ِگلِ رشک چمن ہائے غضب یاتووہ شکل کہ تھے وہ میرے فرمانبردار یایہ صورت کہ ہوئے مائل جنگ و پیکار ہوگئی پھرتو مجھے بات بھی کرنی دشوار ایک کہتا تھا تو وہ مجھ کو سناتے تھے ہزار الفت و مہر ومحبت کی اداہی نہ رہی دل رخسار میں وہ بوئے وفا ہی نہ رہی مجھ سے پیدا ہو ارنج ان کی طبیعت بدلی پھرگیا دل نظر ِلطف وعنایت بدلی چھاگئی ایسی سرمہرومحبت بدلی کہ یہ محسوس ہواشرط عداوت بدلی قہرڈھانے لگے وہ چیں بجبیں رہنے لگے بڑ ھ گیا جوشِ غضب برسرکیں رہنے لگے انقلاب ان کی طبیعت میں ہواکچھ ا یسا کہ انہیں نام کوبھی پاس مروت نہ رہا ہوگئے غیر وہ ایسے کہ تعلق ہی نہ تھا نہ وہ الفت ،نہ محبت،نہ مروت نہ وفا پیار کرنے سے میرے بڑھتی تھی نفرت اُن کی ہائے وہ شکل میری اوریہ صورت اُن کی حسرت و شوق اِدھر نخوت پندار اُدھر چشمِ امید اِدھر،نفرت وانکار اُدھر طلب ِ صلح اِدھر،خواہش پیکار اُدھر سرِ تسلیم اِدھر،خنجرخونخواراُدھر خندۂعیش انہیں،گریہ ماتم مجھ کو عید ہرروز انہیں اورمحرم مجھ کو جان لینے کے لئے وہ مجھے دم دینے لگے بے رخی کرنے لگے صدمہ وغم دینے لگے دردوایذا عوض لطف و کرم دینے لگے قند ومصری کی جگہ شوق سے سم دینے لگے وہ روزوشب جب آنکھوں سے نہاں رہنے لگے ہم بھی دل تھام کے سرگرم فغاں رہنے لگے سوزش عشق سے ہرلحظہ تپاں رہنے لگے خستہ تن رہنے لگے ،سوختہ جاں رہنے لگے شدت درد سے دل سینے میں گھبرانے لگا اپنا جینا ہمیں دشوار نظر آنے لگا گذرے اس طرح کئی روزجو باگریہ وآہ ایک دن مل گئے گلشن میں وہ مجھ کو ناگاہ منتیں کرکے کہا میں نےکہ اے غیرت ماہ دفعۃً پھر گئی کیوں مجھ سے محبت کی نگاہ کیا سبب اس کایکایک جوخفا ہوگئے تم ہے تعجب ابھی کیا تھے ،ابھی کیا ہوگئے تم کل کا ہے ذکرکہ محبت کا تھا دعویٰ تم کو کوئی محبوب نہ تھامجھ سے زیادہ تم کو متحیر ہوں یکایک یہ ہوا کیا تم کو کہ ذرا بھی نہ رہی اب میری پرواتم کو کیوں وفا کہتے ہیں اس کو کہ جفا کہتے ہیں تمہیں انصاف سے کہدو اسے کیا کہتے ہیں کچھ مرا جرم بھی ہے میری خطا بھی کچھ ہے کیوں خفا ہو سببِ ترکِ وفا بھی کچھ ہے موجب جوروستم ،وجہ بھی کچھ ہے خیر یہ کچھ نہ سہی خوفِ خدا بھی کچھ ہے کسی بیکس کو ستانے کا نتیجہ آخر جانِ من دل کے جلانے کا نتیجہ آخر میں وہی ہوں کہ جسے کہتے تھے تم عاشق زار میں وہی ہوں کہ جسے دل سے کیا کرتے تھے پیار میں وہی ہوں کہ نہ تھاحکم سے جس کے انکار میں وہی ہوں کہ سمجھتے تھے جسے تم مختار میں وہی ہوں کہ میرے عشق کا دم بھرتے تھے تم وہی ہو کہ جو کہتا تھا وہی کرتے تھے تیور اپنے کبھی مجھ پر نہ کڑے رہتے تھے روٹھے رہتے تھے نہ بے وجہ لڑے رہتے تھے ہاتھ گردن میں محبت میں پڑے رہتے تھے سوکی اک بات ہے یہ لطف بڑے رہتے تھے بیٹھے بیٹھے یہ الجھ پڑنے کی خو کاہیکو تھی عادت ایسی کبھی اے عریدہ جو کاہیکو تھی نہ سمجھتے تھے سوا میری کسی کو دمساز میں ہی مونس تھا فقط میں ہی تھا اک محرم راز کیوں نہ اس بات ک غم ہو مجھے اے مایہ ناز یاتووہ حال تھا یا اب ہے یہ طرفہ انداز صلح کا نام جو لیتا ہوں تو لڑجاتے ہو جتنا بنتے ہو تم اتنا ہی بگڑ جاتے ہو پیشترظلم کے یہ طورکہاں آتے تھے کیجئے دل میں ذرا غورکہاں آتے تھے سوچیئے یہ ستم وجور کہاں آتے تھے اس طرح غیظ میں فی الفور کہاں آتے تھے واہ جی واہ نئے خوب نکالے انداز چشم بددورنئی وضع نرالے انداز لاکھ ہم باتیں بناتے تھےتمہارے آگے تم مگر ایسے بگڑتے نہ تھے پیارے آگے لب نہ کھلتے تھے کبھی شرم کے مارے آگے نہ بھرا کرتے تھے اس طرح طرارے آگے رنگ ہی اب تو مگر اور نظر آتے ہیں عجب انداز عجب طور نظر آتے ہیں آنکھ پہلے بھی نڈر تھی مگر ایسی تونہ تھی نگۂ گرم شررتھی مگر ایسی تونہ تھی گفتگو برق اثر تھی مگر ایسی تو نہ تھی عادت فتنہ وشرتھی مگر ایسی تو نہ تھی روٹھ جاتے تھے مگر میرے منانے کے لیئے مجھ سے کھنچتے تھے مگر پاس بٹھانے کے لیئے منتیں کرتے ہیں ہم اور تم آتے ہی نہیں دن گذر جاتے ہیں دن شکل دکھاتے ہی نہیں تشنۂ وصل کی پیاس آکےبجھاتے ہی نہیں شربتِ دید کے دوگھونٹ پلاتے ہی نہیں اللہ اللہ یہ نفرت یہ کدورت ہم سے اے تری شان یہ رنج اتنی عداوت ہم سے میں وہی ہوں کہ تمہیں جس کی رہا کرتی تھی چاہ میرے ہی گرد پھرا کرتے تھے تم شام ویگاہ اب یہ کس سے کہوں کیونکر کہوں اے غیرتِ ماہ کہ اُس آغاز کا انجام یہ ہے آہ وصد آہ مشق جاری ہے شب و روز دل آزاری کی گل ہوئی شمع ِوفا پھیل گئی تاریکی کیا یہی عہد کیئے تھے یہی ہم سے اقرار کیا یہی قول ِ وفا تھا یہی تم تھے دلدار کیا ہوا کرتی تھی ہم سے یہی بیجا گفتار کیا اسی طرح رہا کرتی تھی ہردن تکرار کیا یونہیں مائل پیکار رہا کرتے تھے کیا یونہیں درپے آزاررہا کرتے تھے یہی پیمان تھے ہم سے یہی اقرار تھے کیوں یونہیں ہربات پر انکار پر انکارتھے کیوں کیا تم ایسے ہی جفاکارودل آزارتھے کیوں یہی اندازتھے پہلے،یہی اطوارتھے کیوں تم اسی طرح خفاہوکے برستے تھے کہو ہم یونہی پیار کی باتوں کو ترستے تھے کہو یوں زباں آپ کی طرار کہاں تھی پہلے اس قدر گرمئ گفتا ر کہاں تھی پہلے بے سبب عادات پیکار کہاں تھی پہلے اب جو حالت ہے وہ سرکارکہاں تھی پہلے مجھ سے اس طرح خفا آپ کہاں رہتے تھے جھوٹ کہتا ہوں کہدیجئے ہاں رہتے تھے اتنی برگشتہ طبیعت کہو آگے کب تھی یہ بگڑ جانے کی عادت کہو آگے کب تھی ستم وجور کی رغبت کہو آگے کب تھی اب جو نفرت ہے یہ نفرت کہوآگے کب تھی مجھ سے اس طرح جدا رہنے کا یارا کب تھا اب جو انداز ہے یہ اے ستم آرا کب تھا آگے ہربات میں پہلو یہ نکلتے کب تھے نئے افسوں جو چلا کرتے ہیں چلتے کب تھے فقرے جس طرح کے اب ڈھلتے ہیں ڈھلتے کب تھے اس طرح جوش میں آآکے ابلتے کب تھے کب زباں آپ کی قینچی سی چلا کرتی تھی قطع امید یہ کس روزکیا کرتی تھی رنگ پررنگ بدلنا تمہیں آتا ہی نہ تھا زہر باتوں سے اگلنا تمہیں آتا ہی نہ تھا نئے انداز سے چلنا تمہیں آتا ہی نہ تھا دل کو تلووں سے مسلنا تمہیں آتا ہی نہ تھا رخ پہ اس طرح کبھی زلف نہ لہراتی تھی تھی تو ناگن مگر اتنے تو نہ بل کھاتی تھی اب تو بے وجہ جھگڑنے لگے اللہ اللہ مثل طاؤس اکڑنے لگے اللہ اللہ اپنے سائے سے بگڑنے لگے اللہ اللہ تم ہوا سے بھی تو لڑنے لگے اللہ اللہ گرم ہوجاتے ہو آنچل کے سرک جانے پر سرخ ہوجاتا ہے منھ زلف کے لہرانے پر اب وہ پہلی سی محبت ہے نہ پیاری باتیں رنج آمیز غم انگیز ہیں ساری باتیں خوں کرتی ہیں میرے دل کو تمہاری باتیں نہیں معلوم چھری ہیں کہ کٹاری باتیں تیغ کے گھاٹ مجھے تم نے اتارا ہوتا طعن وتشنیع کے تیروں سے نہ مارا ہوتا پہلے ڈھنگ نہ تھے پہلے یہ اطوار نہ تھے بےوفائی کے جو انداز ہیں زنہارنہ تھے مستعد جنگ پہ ایسے کبھی اے یارنہ تھے اتنےسفاک نہ تھے اتنے دل آزارنہ تھے برہمی اتنی طبیعت میں کہاں تھی کہیئے یہ گفتار تھی،ایسی ہی زباں تھی کہیئے ایسے جورآتے تھےتم کو نہ جفا آتی تھی نہ کرشمے نہ بناوٹ نہ ادا آتی تھی آنکھ شوخی سے نہ اس طرح لڑا آتی تھی آئینہ سامنے آتا تو حیا آتی تھی نیچی ہی رہتی تھی ہروقت تمہاری آنکھیں شرم کے بوجھ سے اٹھتی نہ تھی پیاری آنکھیں وو قدم چل کے ٹھٹھک جانے کی عدت ہی نہ تھی اپنے سائے سے جھجک جانے کی عادت ہی نہ تھی آپ ہی آپ بھڑک جانے کی عادت ہی نہ تھی برق کی طرح چمک جانے کی عادت ہی نہ تھی سخت الفاظ کبھی منھ سے نکلتے ہی نہ تھے تلخ کاموں کے لیئے زہر اگلتے ہی نہ تھے مجھ سے ان بن کے بگڑنا تمہیں آتا ہی نہ تھا صلح ہی رکھتے تھے لڑنا تمہیں آتا ہی نہ تھا فقرے ہربات میں گھڑنا تمہیں آتا ہی نہ تھا سیدھے سادھے تھے اکڑنا تمہیں آتا ہی نہ تھا عجب وپندار کے انداز نکالے تم نے کس سے یہ سیکھ لیئےڈھنگ نرالے تم نے مثل بلبل کے چہکنے لگے ماشاء اللہ شاخ کی طرح لچکنے لگے ماشاء اللہ صورت غنچہ چٹکنے لگا ماشاء اللہ پھول کی طرح مہکنے لگا ماشاء اللہ قہقہے آپ کے یوں تا بہ فلک جاتے ہیں آہیں کیسی مرے نالے بھی تو شرماتے ہیں کیا ہوئی شان وہ محبوبی و دلداری کی کس سے سیکھی یہ نئی طرزجفا کاری کی انتہا بھی کوئی اے یارستم گاری کی حد بھی آخر کوئی اس نفرت وبیزاری کی جان جاتی ہے ہماری تمہیں پرواہی نہیں ہوگئے ایسے کہ جیسے کبھی کچھ تھا ہی نہیں اے ستم گر ہمہ تن ناز سراپاانداز اک ذرا دیکھ توانصاف سے اپنا انداز نہ وہ اگلی ہے اداتیری نہ پہلا انداز قاعدہ وضع،چلن ،طرز طریقہ ،انداز سب نئے ہوگئےسب اورنظر آتے ہیں پہلے کچھ اورتھے اب اورنظر آتے ہیں سیکھ لی طرز جفا،شرط وفا بھول گئی ہائے کیا یاد کیاآپ نے کیا بھول گئے وہ مسرت وہ محبت کی ادا بھول گئے کس طرح ملتےتھےکچھ یاد ہے یا بھول گئے دیکھتے ہی ہمیں کھل جاتا تھا دل گل کی طرح ہم بھی قربان ہواکرتے تھے بلبل کی طرح روٹھ جاتے تھے ہم تو مناتے تھے ہمیں منتیں کرتے تھے پاس اپنے بٹھاتے تھے ہمیں نئے نداز محبت کے دکھاتے تھے ہمیں نہ خفا ہوتے تھے ہم نہ ستاتے تھے ہمیں سارے عالم سے زیادہ تمہیں پیارے ہم تھے مختصر یہ ہے کہ مختار تمہارے ۔۔۔ہم تھے یاتوہم پر وہ کرم یا یہ ستم واہ جی واہ ہوگئے محو وہ سب قول وقسم واہ جی واہ اب نہ ہے انس نہ وہ لطف وکرم واہ جی واہ اس تلون سے تو حیرت میں ہیں ہم واہ جی واہ تم ابھی چاہ ابھی رسم وفا بھول گئے اچھی عادت ہے کہ جو یادکیا بھول گئے بےوفا ہم تو جفا کو بھی وفا ہی سمجھے نار وابات بھی سن لو تورواہی سمجھے تیرے ہر غمزۂ بیجا کو بجا ہی سمجھے توجب اس پر بھی نہ سمجھا تو خدا ہی سمجھے جس طرح ہم ہیں یونہی تو بھی پریشان رہے یونہی ششدر رہے ،بےخودرہے حیران رہے مجھ سے غم خوارپر افسوس یہ غصہ یہ ستم میری تکلیف کی پروانہ میرے غم کاالم اب نہ مجھ پر وہ عنایت ہے نہ وہ لطف وکرم کیا ہواہوگئے کس بات پر اتنے برہم کون سی مجھ سے یہ فرمائیے تقصیر ہوئی اب نہ غم دیجئے ،مل جائیے ،تقصیر ہوئی نفرت انصاف سے کب تک تجھے اوناانصاف ہے یہ انصاف کا موقع ستم آراء انصاف توہی منصف ہو ذراظلم ہے یہ یا انصاف توہی انصاف سے کہدے کہ ہے یہ کیا انصاف درفراقت ہدف طعنہء اغیارشدم خاک گردیدم ورسواسربازارشدم منتیں کرتے ہیں لومان لوکہنا من جاؤ ہم سے اتنا نہ خفا ہو، ہمیں اتنا نہ ستاؤ ہجر کا روز سیہ ہم کو خدارا نہ د کھاؤ کس طرف دھیان ہے ،کیا کرتے ہو پیارے باز آؤ یوں صفائی میں کدورت نہیں زیبا دیکھو تم پر آئینہ ہے سب حال ہمارا دیکھو ہاں فقط شوقِ جفا ہو تویہ سرحاضر ہے دل ہے تیرے لیے موجود ،جگر حاضرہے جومیرے پاس ہے اے رشک قمر حاضرہے جان بھی ہو تجھے مطلوب اگر حاضرہے ظلم جتنے ہوں خوشی سے ہیں گوارا مجھ کو ہاں نہیں ہے تو تیرے ہجر کا یارا مجھ کو سن کے پھر ہوگئے پہلے سے زیادہ برہم بولے جھنجھلا کے غرض کیا جو کرے کوئی ستم رونی صورت سے کسی اور کو اب دیجئےغم ایسی باتوں سے ہے نفرت مجھے خالق کی قسم آج تو آپ عجب سوانگ نیا لے آئے واہ کیا خوب بڑے چاہنے والے آئے کس نے درخواست یہ کی تھی ہمیں چاہو صاحب آرزو کس کی یہ تھی ہم سے نباہو صاحب تم تو بے وجہ ہو برہم پہ خفا ہو صاحب کہدیں ہم بھی جو کوئی بات تو کیاہو صاحب خیر اسی میں ہے کہ اب شرنہ بڑھاؤ دیکھو ہم کو تم اس سے زیادہ نہ ستاؤ دیکھو تم کو صدمہ ہے تو میری بلا سے مجھے ۔۔۔کیا رنج کرتے ہوکرو میری بلا سے مجھے ۔۔۔کیا جان دیتے ہو تو دومیری بلا سے مجھے ۔۔۔کیا تم جیو یا نہ جیو میری بلا سے مجھے ۔۔۔کیا نہ رہی ہاں نہ رہی مجھ کو محبت تم کون اپنادل،اپنی خوشی ،اپنی طبیعت تم کون ہاں ستم کار ہوں میں اور وفادار ہیں آپ سچ ہے بدعہد ہوں میں صادق اقرار ہیں آپ اتنے بے چین مرے واسطے بیکار ہیں آپ جس سے دل چاہے ملا کیجئے مختار ہیں آپ دورہی دورمیرے سامنے سے رہیئے گا میں شکایت جو کروں کوئی توپھر کہیئے گا نفع جس میں نہ ہو اس بات سے کیا حاصل ہے آپ کو میری شکایات سے کیا حاصل ہے بے وفاؤں کی ملاقات سے کیا حاصل ہے آخر اس حرف حکایات سے کیا حاصل ہے جب طبیعت نہ کرے میل تو ملنا معلوم غنچۂ خاطر ناشاد کا کھلنا معلوم مجھ سے یہ کہہ کے جو اٹھاوہ بت گل رخسار لاکھ روکا اسے لیکن نہ رکا وہ زنہار کردیاخار جدائی نے مرا سینہ فگار آگئی باغ ِ مسرت میں خزاں آخر کار دامن دل کو گل زخم جگر ملنے لگے گلشن عشق سے مجھ کوثمر ملنے لگے چل گیا ہائے غم ورنج والم کا آرا دل جگر دونوں کے دونوں ہوئے پاراپارا نہ رہا ضبط وتحمل کا مجھے جب یارا وحشتِ دل نے طبیعت کو کیا آوارا گاہ اِدھر پھرنے لگا گاہ اُدھر پھرنے لگ دل کو تھامے ہوئے بادیدۂ تر پھرنے لگا بڑھ گیا حدسےسوا ولولۂ جوشِ جنوں نہ رہے تاب و تحمل، نہ رہے صبروسکوں کردیا صدمۂ فرقت نے بہت حالِ زبوں روز کے رنج سے گھبرا گئی جانِ محزوں خوف کچھ بھی نہ رہا ذلت ورسوائی کا لے اڑا جوش مجھے بادیہ پیمائی کا نالہ و آہ سے اک شور مچایا میں نے کثرت گریہ سے اوروں کو ہنسایا میں نے حال وارفتگئ عشق دکھایا میں نے دھجیاں کرکے گریبان اڑایا میں نے دشتِ غربت کی ہوادل کو پسند آنے لگی سانس بھی سینہ پُرداغ میں گھبرانے لگی لائق عبرت و افسوس مرا ڈھنگ ہوا اک نظر جس نے مجھے دیکھ لیا دنگ ہوا پاسِ غیرت نہ رہا ننگ سے جی تنگ ہوا جوشِ وحشت میں عجب حال عجب رنگ ہوا کبھی بیتاب کبھی اشک فشاں ہوجانا کبھی دل تھام کے مصروف فغاں ہوجانا مضطرب غمزدہ حیران پریشان اداس حسرت آلود نگاہوں سے ٹپکتی ہوئی یاس چھکے چھوٹے ہوئے امید کی ٹوٹی ہوئی آس اپنی عزت کا خیال اورنہ کچھ وضع کا پاس دن تو سب خاک اڑانے میں بسر کردینا شام سے اشک بہانا تو سحر کردینا کبھی مسرور کبھی غم سے پریشاں ہونا کبھی کچھ سوچ کے انگشت بدنداں ہونا کبھی گریباں کبھی بیساختہ خنداں ہونا کبھی گھبرا کے رواں سوئے بیاباں ہونا لب پر افسوس کبھی آہ شرربار کبھی گلۂ وقت کبھی،شکوۂ دلدارکبھی دم گریہ کبھی دریا کی طرح بہ جانا دل کی حالت کبھی بے ساختہ سب کہ جانا بارِاندوہ جوپڑتا تو اسے سہ جانا دیکھ کرسوئے فلک یاس سے چپ رہ جانا تارہاتھوں میں کبھی جیب کبھی دامن کے اورٹکڑے لیئے پھرنا کبھی پیراہن کے میرے احباب نے جو پایا یہ بدلا ہوا رنگ کوئی مغموم ہوا کوئی فسردہ کوئی دنگ کوئی سمجھانے لگا کوئی دلانے لگا ننگ کوئی یوں کہنے لگا پا کے مجھے جان سے تنگ تم کسی کے لیئے کیوں جان فدا کرتےہو عاقلوں کا تو یہ شیوہ نہیں کیا کرتے ہو الحذر باعثِ ایذا ومصیبت ہے عشق الاماں موجب رسوائی وذلت ہے عشق وجہ بدنامی وناکامی وحسرت ہے عشق قہر ہے فتنہ ہے آفت ہے قیامت ہے عشق گھر کے گھر ہوگئے ویران اسی کے ہاتھوں ایک عالم ہے پریشان اسی کے ہاتھوں عشق کی طرح کوئی ظالم و خونخوار نہیں کوئی ایسا ستم ایجاد ودل آزار نہیں دل دکھانے میں تامل سے زنہار نہیں جان لینے میں بھی ظالم کو کوئی عار نہیں یہ وہ پرفن ہے کہ شاکی ہے زمانہ اس کا وہی عاقل ہے کہا جس نے نہ مانا اس کا آتشِ ہجر سے وامق کو جلایا اس نے جانِ عذرا کو شب و روز ستایا اس نے نل کو ایذائے محبت سے رلایا اس نے دل دمن کا غم فرقت سے جلایا اس نے کوہکن کا غم شیریں میں جگر چاک کیا اورلیلیٰ کے لیئے قیس کو غمناک کیا خوبرو اس نے کیئے خاک میں پنہاں کتنے اس نے دل چھین کے مٹی کیئے ارماں کتنے اس کے ہاتھوں میں ہوئے پامال گلستاں کتنے مٹ گئے گل بدن وسروخراماں کتنے نوحہء گلشنِ بلبل ہے اسی کے باعث فاختہ طوق بہ گردن ہےاسی کے باعث یہی سفاک مصیبت میں پھنسا دیتا ہے یہی اک آن میں ہنستوں کو رلا دیتا ہے یہی معشوق کو عاشق سے چھڑادیتا ہے یہی عشاق کو پیغامِ قضا دیتا ہے آدمی بھول کے بھی لے نہ کبھی نام اس کا غور سے سوچ لے آغاز میں انجام اس کا اس ستم کیش سے بچتا ہی رہے لیل ونہار تا بہ مقدورکبھی اس سے نہ رکھئے سروکار چاہ کیا شے ہے حسینوں کی کسے کہتے ہیں پیار آنکھ اٹھا کر بھی کوئی ان کو نہ دیکھے زنہار بے وفا ہوتے ہیں یہ لوگ وفا ان میں نہیں سب ادائیں ہیں محبت کی ادا ان میں نہیں خوبرو جتنے ہیں سب جوروجفا کرتے ہیں چٹکیوں میں دل عاشق کو ملا کرتے ہیں چلتےپھرتے ستم ایجاد کیا کرتے ہیں اک نہ اک فتنہ نیا روز بپا کرتے ہیں رحم کا نام بھی لیتے نہیں یہ تا امکان ان سے دلجوئی عاشق ہوکبھی کیا امکان کون معشوق ہے ایسا جو ستم کار نہیں کون بے رحم نہیں ،کون دل آزارنہیں کون سفاک نہیں،کون دل آزار نہیں کون ظالم نہیں،بدخو نہیں ،عیار نہیں ایک کو بھی تو کبھی رحم نہ کرتے دیکھا میں نے دیکھا جسے دل لے کے مکرتے دیکھا جب یہ حالت ہے تو امید ِعنایت کیسی عشق کیسا کسی معشوق سے الفت کیسی بے وفاؤں سے وفا کیسی ،مروت کیسی سب کے سب قابل نفرت ہیں محبت کیسی بات تو جب ہے کہ کچھ ان سے فرض ہی نہ رہے اب ہو پرہیز بھی ایسا کہ مرض ہی نہ رہے غم سے بیتاب نہ ہو اتنے ذرا صبر کرو نہ کرو نالہ وفریاد وبکا صبر کرو فائدہ اب قلق ورنج سے کیا صبر کرو جو مقدور میں لکھا تھا وہ ہوا صبر کرو اس قدر مضطرب الحال ہوکیوں کیا حاصل آخر اس گریہ زاری کا نتیجہ،حاصل کس لیئے ہوتے ہو تم اپنے ہی ہاتھوں مطعون کیوں کلیجے کا کیے دیتے ہو بے فائدہ خون بارہا ہم تمہیں سمجھا چکے ہیں یہ مضمون اب تم پربھی نہ سمجھو توہے پھرتم کو جنون کسی عاقل سے تو یہ کام نہیں ہونے کا جان سی چیز وہ اس طرح نہیں کھونے کا صدمہ و رنج و الم ہجر میں سہنا کیسا خون زخموں کی طرح آنکھوں سے بہنا کیسا مضطرب آٹھ پہر درد سے رہنا کیسا خامشی کس لیئے کچھ منھ سے نہ کہنا کیسا سرجھکائے ہوئے رونے کی ضرورت آخر جان بے فائدہ کھونے کی ضرورت آخر نیک دیدکوتو نہ سمجھے وہی جو ہو نادان آپ تو فضل الٰہی سے ہیں عاقل انسان نہیں معلوم دئیے دیتے ہیں پھر کس لئیے جان سارے عالم میں ہے مشہور کہ جی ہے تو جہان نہ ہوئے آپ ہی دنیا میں تو کیسی دنیا کسی کو دنیا میں پسند آتی ہے ایسی دنیا آپ روکر نہ عزیزوں کو رلاؤ دیکھو مفت میں اپنی جوانی نہ گنواؤ دیکھو تم ہمیں اپنی یہ حالت نہ دکھاؤ ،دیکھو تاکجا رنج والم،ہوش میں آؤ دیکھو جاں کو جان کے آفت میں نہ ڈالو صاحب دل بیتاب کو للہ۔۔۔۔۔سنبھالو صاحب دشت کی سیر کبھی ہو ،کبھی گلگشت چمن کبھی احباب کی صحبت ہو ،کبھی شغلِ سخن دورہوجائیں طبیعت سے غم ورجن نہ رہے سینے میں سوزش نہ رہے دل میں جلن سوچئے اور کوئی عیش کا پہلو دل میں بھول کرآئے نہ یا دبت بدخو دل میں جبکہ اُس دوست نے اس طرح کیا مجھ سے خطاب ہوگیااوربھی حال دل بیتاب خراب سن کے تقریر یہ اس کی نہ رہی جب تجھے تاب ہوکہ برداشتہ خاطر یہ دیا میں نے جواب بات کوئی تو ٹھکانے کی کیا کرناصح کس کو،مجھ کو ہے جنوں اپنی دوا کرناصح کیوں دئیے جاتاہےبے فائدہ تقریر کوطول اس سے حاصل نہیں کچھ بھی یہ تمنا ہے فضول میں کروں ترک ملاقات کی درخواست قبول مجھ کو اوراس ستم ایجاد سے نفرت،معقول کبھی دل آ کے بھی نادان لگا کرتا ہے کہیں روکے سے یہ طوفان رکا کرتا ہے ہے یہ بیزار نصیحت سے طبیعت میری کہ جوذکر آئے تواڑجاتی ہے رنگت میری کیا شکایت جو سنبھلتی نہیں حالت میری کیا کیا جائے مقدر میرا قسمت میری غم ہی کیا اس کو جو کتنی ہےپریشانی میں پیش آیا وہی لکھا تھا جو پیشانی میں یہ تو مانا کہ اس الفت کا ہے انجام برا یہ بھی تسلیم کہ بداچھا ہے بدنام برا واقعی شوقِ لقائے رخ گلفام برا بے شک وشبہ خیال بت خودکام برا مگراتنا تو ذرا ہم کو بتادے کوئی خط تقدیر کوکس طرح مٹادے کوئی بندۂ زلفِ سید فام نہ ہونا تھا ہوا عاشق روئے گل اندام نہ ہونا تھا ہوا کُوبہ کُوعشق میں بدنام نہ ہونا تھا ہوا مختصر یہ ہے کہ ناکام نہ ہونا تھا ہوا الفت ا س بت سے نہ ہوئی تھی مگرہوہی گئی پارسینےسے میرے اُس کی نظرہوہی گئی لاکھ چاہا کہ نہ ہو خیر سےشر ہوہی گیا کوششیں کیں کہ نہ ہو رنج مگرہوہی گیا میری قسمت میں لکھا تھا جوضررہوہی گیا مجھ سے آزردہ مرارشکِ قمر ہوہی گیا شدنی امر میں دیکھی نہیں تاخیر کبھی آگےتقدیرکےچلتی نہیں تدبیر کبھی اپنی اپنی عبث احباب سناتے ہیں مجھے کیا سمجھتے ہیں یہ کیوں چھیڑنے آتے ہیں مجھے مغزکیوں کھاتے ہیں،کیوں آکےستاتے ہیں مجھے ہیں بڑے خیر طلب ،کیوں یہ جتاتے ہیں مجھے مجھ پر ایسی ہی عنایت ہے تو میں درگذرا یہی اندازِ نصیحت ہے تو میں درگذرا دیکھتے ہیں میرے احباب سب اس بات کی راہ درددل سے میرے اُسے غیرت یوسف کی ہو چاہ واہ اس خام خیالی کی بھی کیا بات ہے واہ توبہ،لاحول ولاقوۃ اللہ باللہ بھر چکی پندونصیحت سے طبیعت میری تادم نزع رہے گی یہی حالت میری اُس کی فرقت میں جو حالت ہے بتائیں کیونکر دلِ مضطر کی جو صورت ہے دکھائیں کیونکر محو ہوں دل سے وہ عشوے وہ ادائیں کیوں کر بھول جائیں ہمیں اُس بت کی وفائیں کیوں کر کس طرح داغِ محبت کو مٹادیں دل سے کس طرح اُس کے تصور کو بھلادیں دل سے دل میں ہروقت خیال اس کا ہے حسرت اس کی رات دن پیش نظر رہتی ہے صورت اس کی جیتے جی دل سے نہ جائے گی محبت اس کی ساتھ لے جائیں گے ہم قبر میں الفت اس کی خواہش دید جدا ہوگی نہ اصلا دل سے نہ مٹے گی نہ مٹے گی یہ تمنا دل سے خوش رہوں میں کہ پریشان کسی کو کیا کام نفع ہو یامجھے نقصان کسی کو کیا کام میں اگر عشق میں دوں جان کسی کو کیا کام خاک ہوں میرے سب ارمان کسی کوکیا کام بن کے ناصح مجھے کیوں چھیڑنے آئے کوئی کیوں مرے دکھتے ہوئے دل کو دکھائے کوئی اپنی بدنامی ورسوائی کا ڈر ہے کس کو خواہش نفع کسے،خوفِ ضرر ہے کس کو نیک نامی ہو یہ منظورنظرہے کس کو شوق عزت کسے ذلت سے حزر ہے کس کو کون ہے آبرو ونام ونشاں کا طالب دل اگر ہے تو اسی الفت ِجاں کا طالب میری جانب سے جو اس جوش کا دیکھا اظہار چل دئیے دوست میرے پاس سے اٹھ کر ناچار جب غم عشق سے باقی نہ رہے صبروقرار لب پہ آہی گیا بیساختہ یوں شکوۂ یار بامنِ خستہ جگر آہ چہ کردی ظالم بامنِ خاک بسرآہ چہ کردی ظالم ہائے بے رحم تجھے رحم نہ آیا افسوس جونہ دیکھا تھا وہ غم تونے دکھایا افسوس مجھ سے جو قول کیا تھا وہ بھلایا افسوس رنج فرقت کی مصیبت میں پھنسایا افسوس آہ یہ غیظ وغضب اے ستم آرا مجھ پر آہ اتنی خفگی،آہ یہ غصا مجھ پر ہائے میں اور یہ جوروستم اے عہد شکن ہائے میں اور یہ تکلیف،یہ اندوہ ومحن ہائے میں اوریہ ایذا،یہ خلش ،یہ الجھن ہائے میں اور یہ سوزش ،یہ حرارت یہ جلن آہ ہر لحظہ تپِ غم سے یہ جلنا مجھ کو آہ یہ دردوقلق ، آہ یہ ایذا مجھ کو یک بیک ہوگئی کیوں مجھ سے طبیعت بدظن کیا ہواپھرگئی کیوں مجھ سے پیاری چتون اوستم پیشہ،جفا دوست مروت دشمن اوبتِ سنگدل اودل شکن اوعہد شکن انتہا بھی کوئی،اس جوروجفا کی حد بھی حدبھی آخرستم ہوش ربا کی حد بھی غم سہوں ہجر میں ہر آن کہاں تک کب تک زلف کی طرح پریشان کہاں تک کب تک پرزے پرزے ہوں گریباں کہاں تک کب تک منصفی شرط ہے اے جان کہاں تک کب تک درغمت طعنہ اغیارشنیدن تاچند ازتقاضائے جنون سینہ دریدن تاچند ایک دو دن کا جو صدمہ ہو تو جھیلا جائے روزکا رنج و الم کس سے اٹھایا جائے اب تو جو سامنے آنا ہے وہ جلد آجائے میرے اللہ یہ ہر روز کا جھگڑا جائے دل میں طاقت ستم عشق اٹھانے کی نہیں جان ہی جائے جو فرصت انہیں آنے کی نہیں کردیا روز کے صدموں نے طبیعت کا یہ رنگ فکر ناموس ہی باقی ہے نہ اندیشۂ ننگ چین لینے نہیں دیتی دل وحشی کی ترنگ چٹکیاں لیتی ہے رہ رہ کے جگر میں یہ امنگ آہ یہ کشمکش حسرت وحرماں کب تک آہ یہ شکوۂ بے مہری جاناں کب تک سختیاں اب غم ہجراں کی گواراہی نہیں زندگی تلخ ہے بے موت گذارا ہی نہیں ضبط کیا خاک ہو جب ضبط کا یارا ہی نہیں جان کس طرح نہ دوں جب کوئی چارا ہی نہیں بخوشی ہے مجھے اب جان سے جانا منظور نہیں لیکن یہ غم ہجر ۔۔۔اٹھانا منظور یہی باتیں ہوں یہی ذکر ستمگاروں میں یہی قصے،یہی چرچے ہوں طرحداروں میں دھوم ہوجائے محبت کی دل آزاروں میں ہرطرف نام ہو مشہور وفاداروں میں لے کےاس جوش میں قرطاس وذوات و خامہ اس طرح اُس بت بے رحم کو لکھا نامہ اے وہ خورشید مرے دل میں ہے پرتوجس کا اے وہ مہ داغِ الم جس نے میرے دل کو دیا اے وہ گل جس میں ذرابھی نہ رہی بوئے وفا اے وہ مطلوب نہیں جس کو مری کچھ پروا اے وہ خوش چشم مجھے خون رلایا جس نے اے وہ سفاک مرے دل کودکھایا جس نے اے فسوں سازودل آزاروستمگردلبر اے جفا کارو وفا دشمن وخودسردلبر باعثِ رنج وغم ِعاشق مضطر دلبر بانی جوروجفا ؤ ستم وشردلبر برق وش،ہوش رباآفتِ جانِ عاشق وجہ افسردگی روح وروانِ عاشق اے میرے موجب رنج وسبب آہ وبکا اے مرے تارک لطف وکرم ومہروفا اے میرے ماہ جبیں ،مہرلقا ء حورادا زیداللہ بک لطف وحجال حسَنَا اے مری چشم کی میرے دل وجان کی رونق میرے دیوار ودروصحن مکاں کی رونق عرض کرتا ہوں کہ شدت سے ہے شوقِ بیدار آپ آجائیں توآجائے مرے دل کو قرار انتہا بھی کوئی بیدادکی اے گل رخسار دیکھ تو بہرِخدا آکے مری حالتِ زار سوزغم نے مجھے بیتاب بنا رکھا ہے دل کو اس آگ نے سیماب بنا رکھا ہے لطف کھانے ہی میں کچھ ہے نہ مزہ پینے میں یہ بھی جینا ہے میری جان کسی جینے میں شعلے رہ رہ کے بھڑکتے ہیں میرےسینے میں دنگ رہ جاتا ہوں منھ دیکھ کے آئینے میں حیرت آجاتی ہے اب دیکھ کے حالت اپنی اپنی آنکھوں میں سماتی نہیں صورت اپنی قابل رحم ہے اب حال پریشاں میرا میری صورت سے عیاں ہے غم پنہاں میرا تنگ ہے دستِ جنوں سے دلِ نالاں میرا مل گیا ہے میرے دامن سے گریباں میرا مضطرب ہے دل بیتاب کو آرام نہیں اب بجز جامہ دری اورکوئی کام نہیں بیقراری ہی میں کٹتی ہے میری شام وپگاہ کردیا ہے غمِ ہجراں نے مرا حال تباہ کیا کہوں شغل ہے کس بات کا اے غیرتِ ماہ اشک باری ہے کبھی اور کبھی نالۂو آہ شام ہوتی ہے یہیں،یوں ہی سحر ہوتی ہے عمر میری اسی حالت میں بسر ہوتی ہے دمبدم مشغلہ نوحہ گری بڑھتا ہے ساتھ ہی ساتھ اثر بے اثری بڑھتا ہے اب تو اس زور سے دردِ جگری بڑھتا ہے جنگ کے واسطے جس طرح جری بڑھتا ہے اشک بہتے ہوئے آنکھوں سے چلے آتے ہیں دل میں اک ہوک سی اُٹھتی ہے نکل جاتے ہیں اب نہ ہے مجمع ا حباب نہ وہ سیر چمن وہ امنگیں ہیں طبیعت میں ،نہ شوخی کا چلن نہ گریباں سلامت ہے نہ ثابت دامن لب پہ اے جان رہا کرتے ہیں وحشت کے سخن کچھ عجب طرح کا دل کو خفقاں رہتا ہے ایک دریا ہے کہ آنکھوں سے رواں رہتا ہے میں ترے واسطے اپنوں سے ہوابیگانہ صحبتیں ہیں نہ وہ اگلی سی نہ وہ یارانہ اب ہیں مخلوق کے لب اورمرا افسانہ کوئی وحشی مجھے کہتا ہے کوئی دیوانہ تنکے چن چن کے مری جان بسرکرتا ہوں تارے گن گن کے شبِ غم میں سحر کرتا ہوں دل غم ہجر سے بیتاب ہے اک رشکِ قمر صفتِ ماہی بے آب تڑپتا ہے جگر نالہ وآہ سے ملتی نہیں فرصت دم بھر بے قراری کے سوا کام نہیں شام وسحر کیوں نہ ہو جینے سے بیزارتری فرقت میں چین ملتا نہیں زنہار تری فرقت میں ہے یہ وحشت مجھے اے جانِ جہاں تیرے بغیر مثل صحرا نظر آتا ہے مکاں تیرے بغیر آئے دل میں مرے کیا تاب وتواں تیرے بغیر روح بے چین ہے آرام کہاں تیرے بغیر میں ترے واسطے سہتا ہوں یہ غم ہائے غضب تجھ کو پروا نہیں کچھ ہائے ستم ہائے غضب یہ تغافل،یہ جفا اے ستم آرا کب تک گردشوں میں مری قسمت کا ستارا کب تک ہائے یہ صدمۂ دوری ہو گوارا کب تک کب تک اے آفتِ جاں ضبط کا یارا کب تک دردل این آتش جاں سوزنہفتن تاکے سوختم سوختم این سوزنہ گفتن تاکے پی لیا خونِ غمِ ہجرنے رخسار ہیں زرد ہاتھ ہیں سینےپہ،اشک آنکھوں میں لب ہیں مرے سرد ہرطرف سے مجھے گھیرے ہوئے ہیں صدمہ ودرد جم گئی آئینہ دل میں غم ورنج کی گرد جل رہا ہے تپِ فرقت سے تن زارمرا لب پہ آتا ہے کلیجہ دم گفتار مرا اب نہیں صدمہ وغم کا متحمل تن زار استخواں تک میں اثر کرگئی ظالم تپ حار لب پہ آہیں ہیں تو آنکھوں سے نکلتے ہیں شرار خاک سر پر ہے تو ہاتھوں میں گریباں کے تار جل رہا ہے تپ ِفرقت سے تنِ زارمرا منھ پر آتا ہے کلیجہ دم گفتار مرا تپِ فرقت کی وہ شدت کہ الٰہی توبہ سوزِ غم کی وہ حرار ت کہ الٰہی توبہ ناتوانی کی وہ قو ت کہ الٰہی توبہ اس قد زور نحافت کہ الٰہی توبہ آہ کو سینے سے آنا ہے گراں ہونٹوں تک سوجگہ بیٹھ کے آتی ہے فغاں ہونٹوں تک ایک تو زار نحیف ا ورپھر اس پریہ غضب رات دن صدمۂ وغم ،آٹھ پہر رنج وتعب دردِ دل ،سوزِجگر،زردی رخ،خشکی لب زیست کی شکل کہاں ،موت کے آثار ہیں سب اوربھی اس کے علاوہ ہیں غم ورنج و محن الحذر نرغہ ء اعدا میں ہے ،تنہا دلِ من اس کسی سے مجھے دنیا میں سروکار کہاں تیرا ہی نام ہے ہروقت جو ہے وردِزباں کس طرح غیر کو دیکھے مری چشمِ حیراں روبروتیری ہی تصویر ہے اے آفتِ جاں پتلیاں مجھ کو دکھاتی ہیں تماشا تیرا پھررہاہے مری آنکھوں میں سراپا تیرا جاگزیں دل میں ہے پیشانی انور کا خیال غم نے اس بدر کے کاہیدہ کیا مثلِ بلال ہوگیا گیسوئے پرخم کے تصور میں یہ حال کہ مری زیست بھی میرے لئے اب تو ہے وبال چٹکیاں لیتی ہے یوں جنبشِ ابرودل میں جس طرح نیش زنی کرتے ہوں بچھو دل میں ہےتصور میں جو وہ آنکھ ،وہ شوخیِ نظر اسی باعث سے رہا کرتا ہے دل زیروزبر یادبینی نے المناک کیا اے دلبر دھیان میں گوش ودہن کے ہے یہ حال آٹھ پہر میں کوئی بات نہ سنتا ہوں نہ کچھ کہتا ہوں منھ چھپائے ہوئے چپ چاپ پڑارہتا ہوں محو آئینہ رخسار ہوں حیراں ہوں میں اپنے ہی حال پہ انگشت بدنداں ہوں میں ہمہ تن آرزو حسرت وارماں ہوں میں فکر لعل ِلب جان بخش میں بے جاں ہوں میں یاد دندانِ مصفا کی بڑی رہتی ہے موتیوں سے نظر ِشوق لڑی رہتی ہے دورہے میری نگاہوں سے جو وہ سیب ذقن گھیرے رہتے ہیں مجھے ہر گھڑی آسیب محن بھرگئی سر میں جنون خیز ہوائے گلشن ٹکڑے ٹکڑے ہے گریباں مراتادامن جوتِ رنگیں کا مجھے دھیاں جو آجاتا ہے خون پہروں دل ناشاد کو رلواتا ہے یاد میں سینۂ شفاف کی اے رشکِ قمر کفِ افسوس ملا کرتا ہوں میں رورو کر شکم صاف کا رہتا ہےخیال آٹھ پہر کس طرح پھر نہ ہوں آئینہ کی صورت ششدر دمبدم دل کو مرے یادکمر رہتی ہے اس لیئے راہ عدم پیشِ نظر رہتی ہے سربہ زانو مجھے زانو کے تصور نے کیا مل رہی ہے دل بیتاب کو یاد کفِ پا کسی کروٹ کسی پہلونہیں آرام ذرا دمبدم صدمہ ء دوری کی ترقی ہے سدا کیوں نہ پھر جان سے تنگ اے ستم آراہوں میں سینکڑوں رنج والم ہیں تن تنہا ہوں میں ختم کرتا ہوں یہ تحریر بصدرنج و الم غیر ممکن ہے کہ ہو ختم مراقصہء غم اب نگارش کی نہیں تاب ترے سرکی قسم تھرتھراتے ہیں نحافت سے مرے دست وقلم ریخت خوں از لب تقدیروشکایت باقیست قلم نوک ِ زباں سوخت و حکایت باقیست میں جو یہ نامہ ء غم بھیج چکا جانبِ یار ہوگئی اور بھی جینے سے طبیعت بیزار نہ رہی ضبطِ غم ہجر کی طاقت زنہار نہ ہوا مجھ سے تحمل نہ ہوا آخرکار پھرتورنگت مرے چہرے کی ہوا ہونے لگی دمبدم حالت دل ہوشربا ہونے لگی اک پہر بھی نہیں گذراتھا کہ دل گھبرایا تھرتھراہٹ سی بدن میں ہوئی کانپے اعضا اوریہ شدت ِ تکلیف میں معلوم ہوا منھ کو آتا ہے کوئی دم میں کلیجہ میرا کشش روح تشنج سے سوا ہونے لگی میرے قالب سے مری جان جدا ہونے لگی میرے احباب کو اس امر کی پہنچی جو خبر بے تامل مرے گھر آگئے سب گھبرا کر جس کی ان سب میں زیادہ تھی عنایت کی نظر اُس نے آہستہ سے کہا مجھ سے یہ بادیدۂ تر سرسے پاتک ہے یہ چھائی ہوئی حسرت کیسی کہیئے کیسا ہے مزاج اورطبیعت کیسی یہ جواب اس کودیا میں نے بہ یاس وحرماں ہائے کیا پوچھتے ہو مجھ سے عیاں راچہ بیاں اشک آنکھوں میں ،لب خشک پرآہ سوزاں زردرخسار کی رنگت صفتِ برگ خزاں ناتوانی سے دلِ زار کی حالت ابتر جانِ محزوں دلِ بیمارکی حالت ابتر پھر رہی ہیں پئے نظارۂ دلبر آنکھیں یہ سبب ہے جو جھپکتی نہیں دم بھر آنکھیں متصل اشک شب وروزبہا کر آنکھیں ہوگئی ہیں غم جاناں میں سمندر آنکھیں دل یہ کہتا ہے کہ دلبرسے ملادو ہم کو اورآنکھوں کو یہ ضدہے کہ دکھادوہم کو اس طرف حسرت دیدار بڑی مشکل ہے اُس طرف نفرت وانکار بڑی مشکل ہے اس طرف موت کے آثار بڑی مشکل ہے اُس طرف ہے وہی رفتار بڑی مشکل ہے ازغمش سربگریبا تم وتدبیرے نیست خونِ دل رفتہ زدامانم وتدبیرے رفتہ غم دنیا ہے نہ اندیشہء عقبیٰ دل میں نہ طلب ہے نہ کسی بات کی پروا دل میں ہے فقط خواہشِ دیداردل آرادل میں یہی حسرت ہے،یہی ایک تمنا دل میں آرزو ہے یہی مشتاق اسی کا میں ہوں جلوہ افروزہوں وہ،دیکھنے والا میں ہوں اک ستمگر کا طلبگار ہمارا دل ہے محو یادِ بت دلدار ہمارا دل ہے رنج فرقت میں گرفتار ہمارا دل ہے اس لیئے جینے سے بیزارہمارا دل ہے موت آجائے تو یہ ساری مصیبت جائے گھر سے کمبخت بلائے شبِ فرقت جائے گومرے سینے میں اب زیست کا دم کوئی نہیں ہمنشیں اس کا بھی لیکن مجھے غم کوئی نہیں ہاں سوا اس کے مجھے رنج والم کوئی نہیں پاس اس وقت مرے ہائے ستم کوئی نہیں دل طلبگار ہے جس کا وہ جدا ہے مجھ سے جان قربان ہے جس پر وہ خفا ہے مجھ سے مجھ کو ہردم ہے اُسی ذوق ِملاقات کی یاد نازواندازکی ایما واشارات کی یاد یوں تو تڑپاتی ہے سفاک کی ہربات کی یاد اورپھر خاص کرالطاف وعنایات کی یاد ہرشب انداز ہم آغوشی اویادکنم خویش راتنگ بروگیرم وفریاد کنم ہائے وہ اس کی محبت وہ عنایات وہ پیار نازوانداز سے وہ مہر ووفاکا اظہار ڈال دینا مری گردن میں وہ بانہیں ہربار اورہنس ہنس کے پھر اقرارکہ تم ہو مختار پھیرنا چاہو جدھرصورت پرکار پھریں حکم دیدو جو ہمیں اس سے نہ زنہار پھریں یادآئیں جو یہ غمزے،یہ ادائیں مجھ کو زیست سے کیوں متنفر نہ بنائیں مجھ کو کیوں نہ دیں رنج مجھے کیوں نہ ستائیں مجھ کو کیوں نہ بے چین کریں،کیوں نہ رلائیں مجھ کو کیوں نہ رہ رہ کے مجھے نوبت فریاد آئے کیوں نہ کھینچ کھینچ کے لبوں پردل ناشادآئے اب مجھے تاب تحمل نہیں اصلا باقی دل میں کچھ صدمہ ء فرقت نے نہ چھوڑا باقی خردوہوش کے جانے سے رہا کیا باقی ہاں فقط سیرعدم کی ہے تمنا باقی وقت آنست کزیں دارفنا درگذریم کارواں رفتہ ومانیز براہ سفریم لائق دید نحافت سے تنِ زار نہیں دست و پا ضعف سے جنبش کے روادار نہیں دم رکا جاتا ہے اب قوتِ گفتار نہیں مختصر یہ ہے نہیں زیست کے آثار نہیں طائرجاں قفس جسم میں گھبراتا ہے کھل چکے ہیں پرپروازاڑا جاتا ہے شکرصدشکرکوئی مجھ سے برائی نہ ہوئی جو ہوئی وہ اُسی جانب سے ہر آئینہ ہوئی جائے حیرت ہے اگر اب بھی صفائی نہ ہوئی کیونکہ حالت جو تھی میری وہ سب آئینہ ہوئی کھل گیا خوب کہ کتنا انہیں چاہا میں نے عہد جو اُن سے کیا تھا وہ نباہا میں نے کررہا تھا یہی باتیں کہ مرادم الجھا سنسناہٹ سی بدن میں ہوئی کانپے اعضا اوریہ شدت تکلیف میں معلوم ہوا کہ اب آتا ہے مرے منھ کو کلیجہ میرا مردنی چھا گئی اک بارجھپک کر آنکھیں ہائے پتھرا گئیں دم بھر میں تَرآنکھیں دیکھ کر غش مجھے سرپیٹ لیایاروں نے پیرہن چاک کیا غم کے گفتاروں نے کی بہت آہ وبکا جب مرے غمخواروں میں ایک عاقل کا سنا قول یہ بیچاروں نے یادرکھوکہ جو یہ شوروبکاکرتے ہو تم یہ اچھا نہیں کرتے ہوں براکرتےہو اب ضرورت تو ہے اس کی کہ طبیبوں کو بلاؤ ڈاکٹر کو بھی اسی دم کوئی جا کر لے آؤ فائدہ ہی نہیں جب اس سے تو کیوں شورمچاؤ نہ پریشان ہو للہ نہ اتنا گھبراؤ جوکیا جائے کروجلد نہ تاخیر کرو جس سے بیمار کو صحت ہو وہ تدبیر کرو اُس نے جس کام کو پھر جس سے کہا کرلایا جس قدر چاہیئے تھا اس سےسواکرلایا ڈاکٹر کو کوئی بگھی میں بیٹھا کرلایا کوئی ہشیارطبیبوں کو بھی جاکرلایا کوئی حیران تھا اندر کوئی مضطرباہر دوست گھبرائے ہوئے پھرتے تھے اندرباہر آکے تشخیص کی ڈالی جو اطیانے نظر پہلے سوچا کیے کچھ دیراٹھائے ہوئے سر منکشف ہوگئی جب ساری حقیقت اُن پر ایک نے ایک کو دیکھا متحیر ہوکر مشورہ کرکے پھرآپس میں دواکرنے لگے ذہن میں آئی جوتدبیرِشفا کرنے لگے حسب دلخواہ دواکا جو اثر دیکھ لیا مطمئن ہوکے یہ ہمرازسےپھرسب نے کہا کیجئے شکرکہ باقی نہ رہا کچھ کھٹکا اب یقیناً کوئی دم میں ہوئی جاتی ہےشفا ہوگئی خیر کہ تاخیرنہ ہونے پائی جس کی دہشت تھی وہ تاثیر نہ ہونے پائی پھرکہا چپکے سے مجمع نہ کروہوش میں آؤ اب یہاں سے کسی ترکیب سے سب کو لے جاؤ دیکھنے کے لیئے جو آئے الگ اُس کوبٹھاؤ وقت نازک ہے ذرا عقل کو بھی کام میں لاؤ ایسی بے سمجھی کا انجام براہوتا ہے پھرجوپچھتائےبھی انسان کو کیا ہوتا ہے میرے ہمدم نے طبیبوں کا جویہ قول سنا اوراحباب کو بھی اس سے خبردارکیا چونکہ یہ رائے حقیقت میں تھی عمدہ بجا اس لیئے کی نہ کسی ایک نے بھی چون وچرا اُٹھ کے سب چل دئیے فورًا وہ مکان چھوڑ دیا اُسی ہمراز کو میرا۔۔۔نگراں چھوڑ دیا فکرصحت میں تھے مصروف ادھرسب احباب اوراُدھرہوگئے خط پڑھ کےوہ فورًا بیتاب کردیا گرمئ الفت نے دل ایسا سیماب کہ چلے آئے مرے پاس وہ باچشم پرآب خط کے مضمون سے احوال مطابق پاکر دونوں ہاتھوں سے جگرتھام لیا گھبراکر کردیا میری تڑپ نے انہیں بےتاب وتواں رنگ اڑا چہرے کا،آنکھوں سے ہوئے اشک رواں دل میں باقی نہ رہاحوصلہ ضبطِ فغاں بےقراری میں یہ کہہ کہہ کےہوئے وہ گریاں ایسا دل رکھتے ہو اللہ ہم آگاہ نہ تھے اس مصیبت میں ہو تم آہ ہم آگاہ نہ تھے تم کو اتنی مری الفت ہے یہ معلوم نہ تھا اس قدر جوشِ محبت ہے یہ معلوم نہ تھا اتنی بےچین طبیعت ہے یہ معلوم نہ تھا زندگی سے تمہیں نفرت ہے یہ معلوم نہ تھا ضبط کی تاب نہ لاؤگےیہ کیا جانتے تھے آہ تم جان سے جاؤگےیہ کیا جانتےتھے کوئی بیتاب ہے تم ایک نظر دیکھو تو کوئی ہے خستہ جگرخاک بسردیکھو تو منتیں کرتے ہیں للہ ادھر دیکھو تو نہیں کرتے نہ کروبات مگردیکھو تو مختصر اب تو اسی پر ہے تسلی دل کی دیکھو لو پیارسے ہوجائے تشفی دل کی ہم رضامندہیں ،ناراض کہاں ہیں دیکھو ہم تو اب خوش ہیں خفاتم سے کہاں ہیں ،دیکھو غم واندوہ سے بے تاب وتواں ہیں دیکھو اشک حسرت ہیں کہ آنکھوں سے رواں ہیں دیکھو خون روتی ہیں محبت میں ہماری آنکھیں آئی جاتی ہیں دم گریہ وزاری آنکھیں لوخفاہوتے ہیں ہم اُٹھ کے منالو ہم کو اپنے پہلو میں محبت سے بیٹھا لو ہم کو ضبط کی تاب نہیں ہم میں سنبھالوہم کو پیار کرلوہمیں،چھاتی سے لگا لو ہم کو پھروہی لطف ہوں پھرہوں وہی سازآپس میں پھراسی طرح کے ہوں رازونیاز آپس میں کیا تمہیں پہلے یہی چاہ یہی الفت تھی کیا یہی پیار،یہی انس یہی رغبت تھی کیا یہی تم کو محبت تھی،یہی حالت تھی کیا یہی رنگ،یہی حال ،یہی حالت تھی ہم یہ کہتے ہیں کہ کچھ ہم سے کہو اورسنو تم مگر بات بھی کرتے نہیں لواورسنو کررہا تھا یونہی افسوس ابھی وہ غیرتِ ماہ کہ مرے حال پہ اتنے میں ہوا فضلِ اللہ ہوش قائم ہوئے،جاتی رہی غفلت ناگاہ روپا اصلاح ہواپھرتو مرا حال تباہ قلق وکرب سے تھی دل کی جو حالت نہ رہی جان پر جس سے بنی تھی وہ مصیبت نہ رہی ہوش آتے ہی مگر رنگِ طبیعت بدلا وہ مرا بھولنے والا مجھے پھر یاد آیا پھر مجھے رنج وغم ہجر نے بے چین کیا پھر لبوں پرمرے آنے لگی فریادوبکا پھر مرے ہاتھ بڑھے میرے گریباں کی طرف پھر ہو اپاؤوں کا قصوربیاباں کی طرف پھر ہوا آرزوئے دید کا آزارمجھے پھرستانے لگی یادِ رخِ دلدار مجھے پھرکیا خنجر الفت نے دل افگار مجھے پھر نظر آنے لگے موت کے آثار مجھے پھر جدا جاں سے مری تاب وتواں ہونے لگی پھر اداسی مرے چہرے سے عیاں ہونے لگی پھر ہوئے سر میں خیالات پریشاں پیدا پھر ہوا سینے میں سوزِ تپِ ہجراں پیدا پھرہوئی آرزوئے سیربیاباں پیدا پھروہی شوق،وہی حسرت وارماں پیدا پھرہوئی خاک اڑانے کی تمنا مجھ کو پھروہی جوشِ جنون، پھروہی سودا مجھ کو ہوش آیا تو ستاتا ہوا آیا مجھ کو ہوش نے آکے عجب رنگ دکھایا مجھ کو میرے ہمراز نے بیتاب جو پایا مجھ کو ہنس کے یہ مژدۂ جاں بخش سنایا مجھ کو آپ مشتاق ہیں جن کے وہ یہ کیا بیٹھے ہیں نامۂ شوق پہنچتے ہی تو آبیٹھے ہیں ظلم سے اپنے پشیماں ہیں شرماتے ہیں ہاتھ ملتے ہیں،پریشان ہیں پچھتاتے ہیں آپ کے واسطے بے چین ہیں گھبراتے ہیں اب کریں گے نہ کبھی ظلم قسم کھاتے ہیں بہ دل وجاں یہی پیمان لیئے بیٹھے ہیں دیکھئے ہاتھ میں قرآن لیئے بیٹھے ہیں میں نے ہمراز سے یہ سن کے اٹھائی جو نظر دیکھتا کیا ہوں کہ بیٹھے ہیں وہ بادیدۂ تر چار آنکھیں جو ہوئیں بول اٹھے گھبرا کر اب خدا کے لیئے زنہار نہ ہونا مضطر دیکھو دیکھو کہیں پھر حال نہ ابتر ہوجائے پھرطبیعت نہ کہیں آپ سے باہر ہوجائے واقعی ہے تمہیں ہم سے وہ محبت وہ پیار سارے عالم میں نہیں جس کی ضمیر اب زنہار تم نے جھیلے ہیں وہ صدمے وہ سہے ہیں آزار جس کی گنتی ہے کوئی اورنہ حد ہے نہ شمار آج تم سا کوئی دنیا میں وفادار نہیں جاں نثارایسا نہیں ہے کوئی زنہار نہیں آج کل ہے یہ محبت،یہ مروت کس کو اس قدر انس کسے اس قدر الفت کس کو جو رہہ سہہ کے بھی چپ رہنے کی عادت کس کو صبر کی تاب کسے ضبط کی طاقت کس کو کس کو اس درجہ تحمل ہے دل آزاری کا کس کو رہتا ہے خیال اتنا وفاداری کا سچ یہ ہے تم نے بڑی سخت اٹھائی تکلیف سارے عالم سے کڑی،سب سے سوائی تکلیف عشق میں یوں تو اٹھاتی ہے خدائی تکلیف لیکن ایسی توکسی نے بھی نہ پائی تکلیف کون اس طرح کسی کے لیئے غم سہتا ہے کون ایسا ہے کسے پاسِ وفا رہتا ہے بس جو ہونا تھا ہوا اب یہ الم دورکرو دل جو بیتاب ہے غم سے اسے مسرور کرو التجا کرتے ہیں جو ہم اے منظور کرو پیارجیسا ہمیں کرتے تھے بدستور کرو ہم بھی مانیں گے اسے تم جو کہو گے ہم سے اب کسی بات میں ناخوش نہ رہو گے ہم سے سن کے اس شوخ سے یہ مژ دۂراحت افزا ہوگیا خوش محبت سے عجب حال مرا میں نے لیکن نہ کیا رازدل اُس پر افشا بلکہ ظاہر میں بناوٹ سے بگڑ کر یہ کہا کس کو عاشق،کسے پابندِ وفا کہتے ہو پھرکہو میں ابھی سمجھا نہیں کیا کہتےہو چشم امید ہے اب آپ سے سرکارکسے شوقِ دیدارکسے،خواہشِ گفتار کسے آپ سمجھے ہوئے ہیں اپنا طلبگار کسے آپ سے انس کسے،عشق کسے،پیارکسے کس کو سمجھاتے ہوئے دیتے ہو دلاسا کس کو آپ سے ملنے کی باقی ہے تمنا کس کو کون ہے ہجر کا بیمار بتاؤ تو سہی کون ہے زیست سے بیزار بتاؤ تو سہی کس کو ہے عشق کا آزار بتاؤ تو سہی کس کو کہتے ہیں طلبگار بتاؤ تو سہی رنج پررنج جدائی میں اٹھائے کس نے داغ پر داغ غمِ ہجر میں کھائے کس نے اشک حسرت سے بھرا ِدیدۂ تر کس کا ہے دل پریشان ہے،بیتاب جگر کس کا ہے کس لیئے آپ بتاتے نہیں ڈرکس کا ہے ذکرا س وقت یہ اے رشکِ قمر کس کا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتاہمیں سمجھائیے تو تذکرہ کس کا یہ فرمایا ہے فرمائیے تو یہ حسرت ،یہی ارمان وتمنا ہے مجھے وہ نہ سمجھیں مجھے جو آپ نے سمجھا ہےمجھے آپ کیاچیز ہیں،کیا آپ کی پروا ہے مجھے سوپریزاد ہیں موجود،کمی کیا ہے مجھے ہاں مگرآپ نہ پائیں گے طلبگار ایسا نہ ملے گا نہ ملے گا کوئی زنہار ایسا اب خدا کے لیئے مجھ کو نہ ستاؤ جاؤ میرے دکھتے ہوئے دل کو نہ دکھاؤ جاؤ اس قدر مہر ومحبت نہ جتاؤ جاؤ دل ہے بیزارمرے پاس سے جاؤ جاؤ جاؤ مجھ سے نہ اڑوجان گیا ہوں تم کو کتنے پانی میں ہو پہچان گیا ہوں تم کو تم کو الفت نہیں ہم سے تو ہمیں بھی نہیں چاہ جاؤ وہ راہ تمہاری توہماری ہے،یہ راہ ہم کسی حال میں دب کر نہ رہیں گے واللہ تم کو اک مرتبہ نفرت،ہمیں سوبار اکراہ بدبلا تم ہو تو آفت کے بلا کش ہم بھی برق وش تم ہو تو پرکالۂ آتش ہم بھی مجھ کو تم سے محبت اجی لاحول ولا میں کروں ملنے کی رغبت اجی لا حول ولا ہوچکی صاف کدورت اجی لا حول ولا اب تو ہے شکل سے نفرت اجی لا حول ولا صاف کہتا ہوں ملاقات کے قابل نہیں تم سوکی اک بات ہے یہ بات کے قابل نہیں تم اب مجھے تم سے وہ رغبت نہیں نفرت نفرت اب وہ اگلی سی طبیعت نہیں نفرت نفرت اب مرے دل کی وہ حالت نہیں نفرت نفرت اب وہ الفت وہ محبت نہیں نفرت نفرت اب تو حد ہوگئی اب تو نہ ستاؤ مجھ کو اپنی آواز ِمبارک نہ سناؤ مجھ کو آپ شعلہ ہیں تو آتش سے سوا ہوں میں بھی یاد رکھیئے تپ ِہجراں میں جلا ہوں میں بھی ایک ہی قول کا پورا بخدا ہوں میں بھی جائیے آپ خفا ہیں توخفاہوں میں بھی نہیں کہتا کہ یہ کام آپ نے معیوب کیا پھیرلی مجھ سے عنایت کی نظرخوب کیا کیئے بے وجہ ہزاروں ہی ستم تم ہووہی یک قلم بھول گئےقول وقسم تم ہو وہی خوب معلوم ہے کیوں دیتے ہودم تم ہو وہی آنے والے نہیں اب دھوکے میں ہم تم ہو وہی کیں وہ باتیں کہ کلیجے میں چبھوئے کانٹے میرے حق میں توغضب خوب ہی بوئے کانٹے آپ کا روٹھ کے جانا ہے ابھی یاد مجھے وہ بلانے سے نہ آنا ہے ابھی یاد مجھے دمبدم اشک بہانا ہے ابھی یاد مجھے قصہ اپنا وہ پرانا ہے ابھی یاد مجھے مجھ کو سب یاد ہے جوطرز تھی غمخواری کی بھول سکتا نہیں اندازدل آزاری کا رنج پررنج دیئے تم نے ستایا تم نے کیں کچھ اس درجہ جفائیں کہ رُلایا تم نے تختہ مشق ستم ہم کو بنایا تم نے روزبداپنی جدائی کادکھایا تم نے اب ہمیں تم سے کدورت نہ رہے کیا ممکن صاف ہوجائے پھر آئینہ دل ناممکن بے سبب ہم ستم وجورجفادیکھ چکے تم میں دیکھی نہ مروت بخدا دیکھ چکے پیارکا،لطف ومحبت کا مزا دیکھ چکے بلکہ ہم اپنے مقدر کا لکھا دیکھ چکے اس قدر تم نے ستایا ہے کہ جی جانتا ہے ہم نے صدمہ وہ اٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے خوب آزاردئیے ،خوب جفا کی تم نے خوب دردعاشق کی دوا کی تم نے ظلم کرنے کی جگہ خوب ہی تاکی تم نے واہ واشرط وفا خوب ادا کی تم نے خوب ہی تم نے مرے ساتھ نباہی الفت تم کو بھی کس قدراخلاص ہے کیا ہی الفت آزما کرتجھے اے بت بخدا دیکھ لیا خوب پہچان لیا،جان لیا،دیکھ لیا آدمیت نہیں اے حورلقادیکھ لیا گل عارض میں نہیں بوئے وفا دیکھ لیا حال اپنا تجھے ہر چند سنایا نہ سنا بیوفا تجھ ساتومیں نے کہیں دیکھا نہ سنا خیر اب شکوۂ ایذاوستم سےچھوٹے غم سے آزادہوئے قیدِ الم سے چھوٹے جوخرابی کے تھے اطواروہ ہم سے چھوٹے دغدغہ دورہوا فکرِ الم سے چھوٹے تم کوپروا نہ رہی مجھ کوبھی مطلب نہ رہا پہلے باہم جوسروکارتھاوہ اب نہ رہا رسن ودارہیں زلف وقدبالا مجھ کو خلشِ خاربہار رخ ِزیبا مجھ کو زہرہربات تری اے ستم آرامجھ کو گرمئ حسن جہنم کا شرارا مجھ کو دیکھتے ہی تجھے اٹھتے ہیں شرارے دل میں آتشِ غیظ بھڑک اٹھتی ہےسارے دل میں ہم نہ کہتے تھے کہ ہم کو نہ ستاؤ دیکھو نہ رلاؤ، نہ رلاؤ، نہ رلاؤدیکھو رنج پر رنج نہ دو،ہوش میں آؤدیکھو اب ذرا شرم سے آنکھیں نہ جھکاؤ دیکھو نہ کرو تم یہ ستم کیوں نہ کہا تھا ہم نے کیا غلط کہتے ہیں ہم کیوں نہ کہا تھا ہم نے تم ستم کو بھی مگر مہرووفاسمجھے تھے قہر کو لطف وکرم سے بھی سوا سمجھے تھے قابلِ جوروسزاوارجفا سمجھے تھے متحیر ہوں کہ آخرمجھے کیا سمجھے تھے کوئی تقصیر بھی،کیوں ظلم کیئے تھے تم نے کیا خطا تھی مری ،کیوں رنج دئیے تھے تم نے ہٹ گیا جی مجھے تم سے وہ محبت نہ رہی اب ملے گا نہ کبھی دل کہ وہ رغبت نہ رہی جو نکلنے کی تھی مشتاق وہ حسرت نہ رہی جس سے ہو شکل صفائی کی وہ صورت نہ رہی ہوچکی گرد الم دورمرے سینے سے بال آکر کہیں جاتابھی ہے آئینے سے تم جوہوماہ جبیں ،مہرلقا پھرمجھے کیا تم کو آتے ہیں جو اندازواداپھر مجھے کیا تم حسینوں میں جو ہوسب سے جداپھر مجھے کیا تم جو ہو حسن میں حوروں سے سواپھر مجھے کیا کچھ بھی ہو تم مگراب مجھ کو سروکار نہیں کھوٹے داموں بھی بکو تم تو خریدار نہیں تم کرو جو روستم،میں تمہیں چاہوں،کیا خوب تم ستاؤمجھے،میں تم کو سراہوں کیا خوب بے سبب زخمی شمشیرجفا ہوں،کیا خوب اورپھریہ بھی کہ میں تم سے نباہوں کیا خوب واہ اس رسم کی کیا بات ہے سبحان اللہ یہ نئی طرزِملاقات ہے۔۔۔ سبحان اللہ تم یہ کہتے ہو ہمارانہیں ہمسرکوئی باغ عالم میں نہیں ایسا گل ترکوئی میں یہ کہتا ہوں اسے مان لےکیونکرکوئی کہ یہ ظاہرہے سمجھتا ہے اسے ہرکوئی ایک پرختم کہاں خوبی ورعنائی ہے جس کو یکتائی کا دعوٰی ہووہ سودائی ہے تم کو دعوٰ ی ہے کہ دنیا میں ہمیں اچھے ہیں اوراچھے بھی جو ہیں ہم سے نہیں اچھے ہیں میں یہ کہتا ہوں بہت ماہ جبیں اچھے ہیں تم توکیا تم سے بھی اچھے ہیں، کہیں اچھے ہیں دل سلامت ہوتو موجودہیں دلدار بہت چاہئیے مال زمانے میں خریدار بہت تم یہ کہتے ہو کہ بے مثل ہوں،یکتا ہوں میں آج میرا کوئی ثانی نہیں ایسا ہوں میں خوب سن رکھوبڑی دورکی کہتا ہوں میں تم سے بڑھ کر ابھی ممکن ہے اگرچاہوں میں ایک سے ایک سواماہ لقاملتا ہے یہ تو انسان ہیں ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے خلق میں لالہ رخ وغنچہ دہن بہترے نرگسیں چشم بہت،رشک چمن بہترے جن کا پھولوں سے بھی نازک ہے بدن بہترے سیب سے بڑھ کرجورکھتے ہیں ذقن بہترے راست قدصورت شمشادوصنوبرلاکھوں جستجوشرط ہے، لاکھوں ہیں گل ترلاکھوں تم جو آؤ گے تو رخ اپنا اُدھرکرلیں گے منھ نہ دیکھیں گے کبھی نیچی نظر کرلیں گے اب علاجِ مرضِ دردِ جگر کرلیں گے اس کے معنی یہ ہیں ہم بھی کہیں گھرکرلیں گے ہرپری زادکوہم پیش نظررکھتے ہیں گوضرورت نہ ہو پرواز کے پر رکھتے ہیں دل میں ٹھانی ہے کہ اب میں بھی ستاؤں تم کو منھ لگاؤں نہ محبت سے بٹھاؤں تم کو آتش رشک سے سیماب بناؤں تم کو حورفردوس کی تصویر دکھاؤں تم کو ہو وہ معشوق اگر سامنااُس کا ہوجائے دیکھنے والا بھی حیرت کا تماشا ہوجائے ایسا معشوق جو ہو ماہوش ومہر ولقا ایسا معشوق نہ نکلے کوئی ہمسرجس کا ایسا معشوق جو دیکھے وہ کہے صلّ علیٰ ایسا معشوق جو ہو نازوادا میں یکتا جس کی تصویر بھی کہتی ہو کہ اللہ رے میں ہرادا سے یہ جھلکتا ہوارےواہ رے میں مہررخسار وہ معشوق، وہ مہوش معشوق وہ پری زادوہ پرکالۂ آتش معشوق رشک برق جبل طوروہ دلکش معشوق کتنے عشاق اُسے دیکھ کے ہوں غش،معشوق دلبرے،حورقدرے،غنچہ دہانے عجبے خوش قدرے،گل بدنے،سروروانے عجبے وہ طرحدار،وہ آرامِ دل وراحتِ جاں وہ قمر چہرہ وہ زہّاد کا دبن وایماں جلوہ آرا ہو اگر پیشِ حسینانِ جہاں سب کے سب بول اٹھیں کیا شانِ خداہے قربان چشم جادو،لبِ نازک قدرعناواری آنچہ خوباں ہم دارند تو تنہا داری برق رخساروقمر طلعت وگوہر دنداں کم سخن،سیم تن ولعل لب وسحر بیان حشر رفتاروکماں ابرووشمشیر زباں بول اٹھے دیکھ کے اس کو جو کوئی حور جناں واہ کیا آن ہے،کیا شان ہے اللہ اللہ حسن کی جان یہ انسان ہے اللہ اللہ نیک خو،نیک سیر،نیک شیم،نیک شعار مہروش،مہرلقا،مہرادا،مہرفگار صادق وصادق الاقراروصداقت آثار خوش دل وخوش نظروخوش روش وخوش گفتار نازواندازمیں بے مثل ادا میں یکتا لطف وجودوکرم ومہروفا میں یکتا حسن کا اس کے یہ عالم ہے کہ عالم قرباں چارسودھوم ہے اُس کی وہ ہےیکتائے زماں نام اُس کا جو سنے پیر ہو یا کوئی جواں بول اٹھے کھینچ کے بے ساختہ اک آہ کہ ہاں داردآں آفتِ جاں حسن وجمالے عجبے چشم مستے عجبے داردوخالے عجبے گل رخ وگل بدن وسروغنچہ دہاں عشوہ گر،شوخ نظر،عشرت دل،راحتِ جاں جانِ خوبانِ جہاں،غیرتِ حورانِ جناں جس سے شرمندہ پری ،حورخجل وہ انساں گھرکرے چشم فلک میں قدزیبااُس کا دنگ ہو دیکھ کے رضواں بھی سراپا اُس کا اُس کے گیسوئے سیہ تاب نظر آئیں اگر پھر نہ چھوٹے کبھی تو دامِ بلامیں پھنس کر مطلع مہراُس کی وہ جبینِ انور رشک سے کس کے ترے دل کوملے داغِ قمر سامنے آئیں جو اُس شوخ کے خمدار ابرو تجھ کو سر بھی نہ اٹھانے دیں کریں وارابرو روبروہوکےوہ ہرچندکرے چار آنکھیں توملائے نہ مگر شرم سے زنہار آنکھیں تجھ کو بیمار کریں اُس کی وہ بیمار آنکھیں صدمۂ رشک سے ہردم رہیں خونبار آنکھیں دل کو بے چین کریں اُ س کی ستمگرپلکیں کھٹکیں آنکھوں میں تری صورتِ نشتر پلکیں اُس کو مسرور کروں اورستاؤں تجھ کو گدگداؤں اسے اتنا کہ رلاؤں تجھ کو حسرت ورنج کی تصویر دکھاؤں تجھ کو اُس کو پہلو میں ،بہت دوربٹھاؤں تجھ کو منھ تکے دورسے بیٹھاہوا میرا اُس کا پاس آنے دے تجھے رعب نہ اصلا اُس کا میری باتوں سے وہ دیوانہ ہو مجھ پرشیدا بہ سروچشم اسے منظورہو کہنا میرا ناروا بھی جو کہوں میں اسے سمجھے وہ روا ہو مخالف نہ کسی حال میں وہ ماہ لقا بات نکلے جو مرے منھ سے وہی بات کہے دن کہوں دن وہ کہے،رات کہوں رات کہے مجھ کو خواہش ہو اسی کی تری پروانہ رہے دل اسی شمع دل افروز کا پروانہ رہے تجھ سے نفرت ہو،اُس شوخ سے یارانہ رہے توسہی،تجھ کو پھرضبط کا یارانہ رہے اُٹھ کے آجائے مگر پاس بٹھاؤں نہ تجھے گرپڑے پاؤں پر آکر تواٹھاؤں نہ تجھے وہ مرے سامنے ہنس ہنس کے رلائے تجھ کو خوب حیران کرے،خوب ستائے تجھ کو اس طرح حسن کا اندازدکھائے تجھ کو کوئی تدبیر نہ اُس وقت بن آئے تجھ کو اُس کی شوخی سخن بند کرے دم تیرا شکل تصویر زمانے میں ہو ۔۔۔عالم تیرا تو بھی دل تھام کے رہ جائے کرے ناز ایسا حیرت آجائے دکھائے تجھے انداز ایسا تجھ کو دیوانہ کرے ہو وہ فسوں ساز ایسا خوبرویوں میں نظر آئے نہ طناز ایسا تواسے دیکھ کے بیتاب نہ ہو کیا ممکن دل ترا پھرترے قابو میں رہے ناممکن بیٹھنے کی وہ مرےپاس نہ جادے تجھ کو اوراگر بیٹھ بھی جائے تو اٹھا دے تجھ کو جوربے جا کا نتیجہ وہ دکھادے تجھ کو الغرض خوب تغافل کی سزادے تجھ کو بات پھر تیری یہ بگڑے کہ بنائے نہ بنے منھ چھپائے نہ بنے شکل دکھائے نہ بنے اک تومغموم تھا پہلے ہی سے وہ گل رخسار میری گفتار سے باقی نہ رہی تاب وقرار میری باتوں سے کچھ ایسا ہوا وہ زارونزار ہچکیاں لگ گئیں یہ حال ہواآخرکار خلشِ خار غم رشک سے دل تنگ ہوا صورت برگ خزاں چہرہ گل دنگ ہوا اس طرح مجھ سے وہ کہنے لگے پھر روروکر آہ خوش ہوتے ہو تم دیکھ کے ہم کو مضطر دفعۃً پھر گئی ہم وہ محبت کی نظر کیوں نہ آئے ہمیں رہ رہ کے تعجب اس پر یاتووہ پیارتھایا اب ہے یہ اکراہ کی شان گرگئے ایسے نگاہوں سے ہم اللہ کی شان اتنا غصہ نہ ذرا کیجئے تقصیر ہوئی عفوللہ خطا کیجئے تقصیر ہوئی درگذربہر خداکیجئے تقصیر ہوئی خود ہی شرمندہ ہیں کیا کیجئے تقصیر ہوئی اس میں شک نہیں بے شبہ خطاوار ہیں ہم جوسزادیجئے اب اس کے سزاوار ہیں ہم اس قدر حال پریشاں جو پایا میں نے پونچھ کر شک انہیں چھاتی سے لگایا میں نے اپنے پہلو میں تسلی سے بیٹھایا میں نے پھر یہ راز اُن کو محبت سے جتایا میں نے کہدیا تھا یونہی میں نے کہ خفا ہوں تم سے غیر ممکن ہے کہ اک لحظہ جدا ہوں تم سے مجھ کو باقی نہ رہےچاہ یہ ممکن ہی نہیں میں محبت نہ کروں آہ یہ ممکن ہی نہیں بھول جاؤں تجھے میں واہ یہ ممکن ہی نہیں میں ملوں غیر سے واللہ یہ ممکن ہی نہیں حوربھی ہو تو کبھی اُس سے محبت نہ کروں تیرے کوچے کے سوا خواہش جنت نہ کروں بخدا تم سے ابھی تک مجھے رغبت ہے وہی حالتِ دل ہے وہی،طرزِ طبیعت ہے وہی اُنس کی شکل وہی،پیار کی صورت ہے وہی عشق والفت ہے وہی ،مہر ومحبت ہے وہی وہی مشتاق، وہی چاہنے والا میں ہوں وہی دلدادہ و وارفتہ وشیدا میں ہوں قصہ کوتاہ کو کچھ دیر انہیں سمجھایا میں جو کہتا تھا وہ اُن کو بھی باور آیا مثلِ سابق جو مجھے گرم محبت پایا عجب اندوہ بھرے لہجےمیں یہ فرمایا غیر کے عشق کا اقرارہمارے آگے اللہ اللہ یہ گفتار ہمارے آگے کیوں نہ ہو خیر سےاب ہے نئی دنیا دیکھی پھر یہ طرہ ہے کہ اک صورت زیبا دیکھی اب تو ان کو بھی ہوا لگ گئی دیکھا دیکھی ہم نے دیکھی نگۂ چشم تمنا دیکھی ہم کو الفت ہے مگر تم کو ہے نفرت کیا خوب اسی منھ پرتمھیں تھا دعوٰی الفت کیا خوب خیر چاہے وہ تمہیں ،تم اسے چاہو ہم کون تم کرو پیار اسے تم پر وہ فداہو ہم کون وہ نباہے تمہیں،تم اُس کو نباہو ہم کون دونوں جانب سے ادا رسم وفاہو ہم کون تم کو اس سے ہواُسے تم سے محبت ہمیں کیا خوب آپس میں بڑھے لطف وعنایت ہمیں کیا غیر کو آپ کریں پیارخدا کی قدرت ہم سے اس درجہ ہوں بےزارخدا کی قدرت پھر ہمیں الٹے گنہگار خدا کی قدرت اُدھراقرار،اِدھر انکارخدا کی قدرت اب تو ہم پر نظر رحم ہی فرمائیے آپ نازبیجا کسی مزدور سےاٹھوائیے گا اب گلے سے اُسی کافر کو لگاؤ صاحب اوراُسی کو یہ کرشمے بھی دکھاؤ صاحب ہم کو یہ فکر نہیں ہوش میں آؤ صاحب اب کسی اور کو بھی بیچ میں لاؤ صاحب اب کسی اور سےبھی نامۂ وپیغام کرو اب کسی اورکوبھی مفت میں بدنام کرو اب تمہیں ہم سے وہ الفت نہیں،اچھا نہ سہی صاف اگر دل کی کدورت نہیں، اچھا نہ سہی نظر لطف وعنایات نہیں، اچھا نہ سہی وہ مروت ،وہ طبیعت نہیں، اچھا نہ سہی تم اسے چھوڑ کے کیوں ہم سے ملو کیا حاصل واقعی ہےیہ ملاقات عبث لا حاصل طول اس ذکر کوکس واسطے دو،جانےدو ہم سےبے فائدہ بحثیں نہ کرو،جانے دو تم کو ملنا نہیں منظورہے تو جانے دو نہیں رکھنی ہے اگر رسم چلو جانے دو سچ تو یہ ہے تم ہمیں کیوں پیار کرو کیا مطلب کس لئیے چاہ کا اقرار کرو کیا مطلب مل گیا ہے تمہیں ،معشوق نیا اورکوئی رکھتے ہو پیشِ نظر ماہ لقا اورکوئی گلبدن،غنچہ دہن،نازک ادااورکوئی ہم ہیں کیا ۔ہم سے بھی سودرجہ سوا اور کوئی سب حسینوں سے طریقے ہی جدا ہیں جس کے نازواندازغضب ہوشربا ہیں جس کے صادق القول ہے وہ صادق الاقرارہے وہ نیک کردار ،طرحدار،خوش اطوار ہے وہ سحرگرفتار ہے وہ،آئینہ ِ رخسار ہے وہ اورسب پر ہے یہ طرہ کہ وفادار ہے وہ اس زمانے میں کہاں ایسے حسیں ہوتے ہیں جھوٹ کہتا ہوں تو کہدو کہ نہیں ہوتے ہیں یہ تو سب راست،کوئی شک نہیں اس میں زنہار فی الحقیقت تمہیں ایسا ہی ملا ہے دلدار لیکن اتنا تو بتادوہمیں تم آخرکار ہم سے کس منھ سے محبت کا کیا تھااقرار واہ جی واہ یہی تھی تمہیں رغبت ہم سے تھی یہی چاہ تمہیں،تھی یہی الفت ہم سے کس لیئے ہو گئے خاموش،بتاؤ تو سہی کچھ خموشی کا سبب ہم کو بتاؤ تو سہی سراٹھاؤتو سہی،آنکھ ملاؤ تو سہی ہم یہ سننے کے ہیں مشتاق سناؤ تو سہی کیا تمہیں کہتے تھے ہم جان فدا کرتے ہیں کیا تمہارا یہی دعوٰی تھا کہ ہم مرتے ہیں جاؤ بھی ہم نے دکھانے کی محبت دیکھی رنج دینے کی ،ستانے کی محبت دیکھی جھوٹ سچ بات بنانے کی محبت دیکھی ایک تم کیا ہو زمانے کی محبت دیکھی دوست ہم نے تو کسی کو نہ کسی کا دیکھا جس کو دیکھا اُسے مطلب ہی کا شیدا دیکھا اُس کا شکوہ جو ہو اختم تو میں نے یہ کہا خفگی اتنی ہے بے فائدہ،غصہ بے جا آزمائش ہی مجھے مدنظرتھی بخدا ورنہ انسان توانسان ہے اے ماہ لقا ہوپری بھی تونہ پہلومیں بٹھاؤں واللہ حور بھی آئے تو میں منھ نہ لگاؤں واللہ غیر اور اوراُس کی مجھے چاہ عیاذًاباللہ تم سے،تم سے مجھے اکراہ عیاذًابا للہ اورمعشوق ہو دلخواہ عیاذًاباللہ کس طرف دھیان ہے اے ماہ عیاذًاباللہ میں ملوں اورکسی ماہ جبیں سے توبہ مجھ کو الفت ہو کسی اورحسیں سے توبہ چھیڑنا مدنظرتھا مجھے اے غیرتِ ماہ ورنہ میں اورسواتیرے کسی ورکی چاہ ان حسینوں کی طرف اوراٹھے میری نگاہ توبہ ،لاحول ولا قوۃ الا باللہ حورپرآنکھ نہ ڈالے کبھی شیداتیرا سب سے بیگانہ ہے اے دوست شناسا تیرا سن چکا جب مری باتیں وہ بت گل رخسار بول اٹھا کہ بجا ہے یہ تمہاری گفتار اب کسی بات میں مجھ کونہ رہا شک زنہار اک دوبارکا کیا ہے میں یہ کہہ دوں سوبار واقعی تم ساطلب گار نہیں دنیا میں ایسا با وضع نہ نکلے گا کہیں دنیا میں ہاں مروت اسے کہتے ہیں محبت یہ ہے جس سے دل ملتا ہے وہ انس وہ الفت یہ ہے واقعی عشق یہ ہے،حسنِ طبیعت یہ ہے تم ہزاروں میں ہوبے مثل حقیقت یہ ہے جو رسہہ سہہ کے بھی کی تم نے وفا کیا کہنا واہ واصل علیٰ صل علیٰ ۔۔۔کیا کہنا ہم بھی لو اب نہ جدا ہوں گے قسم کھاتے ہیں بھول کربھی نہ خفاہوں گے قسم کھاتے ہیں دمبدم لطف سوا ہوں گے قسم کھاتے ہیں پچھلے وعدے بھی وفا ہوں گے قسم کھاتے ہیں اب ہٹیں گے رہِ الفت سے نہ زنہارقدم اوراگر شک ہو تو مسجد بھی ہے دوچار قدم نئے سرسے ہوئے آپس میں غرض قول وقسم اُن کا دل صاف ہوا،دورہواہم سے الم اب کوئی رنج و قلق ہے۔نہ کوئی صدمۂ وغم پھرمزے کرتے ہیں پھررہتے ہیں مسروربہم پھر میسر ہے ہمیں لطفِ ملاقات وہی پھر وہی رسم ہے پھر حرف وشکایات وہی اب کسی بات میں کرتے نہیں جھگڑا ہم سے اب نہ ہم کو ہے نہ اُن کو کوئی شکوہ ہم سے بڑھ کے ہوگاکوئی قسمت کا دھنی کیا ہم سے شادومسرورہیں لطف وکرم باہم ہم سے شکرصدشکرکہ پھرعیش کے آئے یہ دن پھرخداونددوعالم نے دکھائے یہ دن مثل سابق ہوئی پھراُن کی عنایت مجھ پر کرلیا عہد کہ ہوں گا نہ خفاباردگر میری راحت ہے بہرحال انہیں مدنظر اُن کے آرام کی ہے فکرمجھے شام وسحر آج کل خوب ہے چمکی ہوئی قسمت میری پیار ہے اُن سے مجھے،اُن کو محبت میری شکرصد شکرکہ شاداں دل رنجور ہوا بشکر صدشکردوری کا الم دور ہوا شکرصدشکرکہ میل اُس سے بدستورہوا شکرصدشکرکہ تابع بتِ مغرور ہوا شکرصدشکرتمنائے دلی برآئی شکرصدشکرشب وصل مرے گھر آئی شکرصدشکرکہ خرم ہوئی جان ناشاد دلِ بیتاب ہوا قید الم سے آزاد سینکڑوں رنج والم سہہ کے ملی دل کی مراد سچ ہے مختاریہ ارشادجناب استاد پاک دامن ہوتوارمانِ وصال اچھا ہے اچھی نیت ہو تو اچھوں کا خیال اچھا ہے حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ