کلام بشیر

کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 3۔4 01۔ درمدح حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1908ءیعنی بچپن کی کہی ہوئی نظم تجھے دیکھا تو سارے اولیاء و انبیاء دیکھے ظہورِ اولیاء تُو ہے،بروزِ انبیاء تُوہے کلیم اللہ بننے کا شرف حاصل ہوا تجھ کو خدا بولے نہ کیوں تجھ سے کہ محبوبِ خدا آیا اندھیرا چھا رہا تھا سب،اجالاکردیاجس نے وہی بدر الدجیٰ تُو ہے،وہی شمس الضحٰی تُوہے گنہگاروں کو اپنی اک نظر سے پاک کر ڈالے خدا سے پھر ملائے جو وہ مردِ باصفا تُو ہے وہ خاطی ہیں جو کہتے ہیں ،نہیں ہے کیمیاکچھ شے مِسِ جاں کے لئے دیکھیں وہ آکر کیمیا تُو ہے گئے اسلام کے خطرے کے دن جب سےکہ تُو آیا خدا 1سے کشتئ اسلام کا اب ناخدا تُو ہے گناہ سے پاک کر ہم کو شفا بیماریوں سے دے توہم مردوں کو زندہ کرکہ عیسیٰ سے سوا تُوہے کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 4۔5 02۔ پندونصیحت 1909ء اپنا غمخوارمجھ کو جان اے دوست میرا کہنا کبھی تو مان اے دوست دنیائے دُوں سے مت لگانا دل چند روزہ ہے یہ جہان اے دوست پھول جتنے بھی چن سکے چن لے ہے اجڑنے کو بوستان اے دوست دین سے پھیرتا ہےتُومنہ کیوں؟ اسپہ لگتا نہیں لگا ن اے دوست دین سے جو تجھے کرے غافل بات اس کی کبھی نہ ما ن اے دوست اس سے نکلیں گے بے بہا موتی ایسی اسلام کی ہے کا ن اے دوست لوٹ لے دین کا خزانہ تُو اس سے غافل ہے سب جہا ن اے دوست گرخدا کی طرف جھکے گاتُو وہ بھی خود ہوگامہربا ن اے دوست کرتُو یادِ خدا،کہ پیری میں تجھ کو رکھےگی یہ جو ا ن اے دوست اپنے دل میں جگہ خدا کو دے پائے جنت میں تامکا ن اے دوست کرلے جو کچھ کہ ہوسکےتجھ سے سرپہ آیا ہے امتحا ن اے دوست کھانے پینے میں رہ نہ تو،کہ نجات تجھ کو دینگے نہ قوت ونا ن اے دوست بدگمانی ہے زہرِ قاتل ایک ہوکبھی بھی نہ بدگما ن اے دوست گالیاں سن کے ایساہو خاموش گویا منہ میں نہیں زبا ن اے دوست تجھ کو رکھنا ہے گرنشاں اپنا خودمٹااپنا تُونشا ن اے دوست غم اٹھانے پڑیں گے،گررہنا چاہتا ہے تُوشادما ن اے دوست چاہتا ہے اگر کہ شان بڑھے چھوڑدے اپنی آن با ن اے دوست تجھ پہ اللہ اپنا رحم کرے اور ہو تجھ پہ مہربا ن اے دوست روزوشب ہے دعا یہ احمدؐ کی تیرا جنت میں ہو مکان اے دوست کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 5۔6 03۔ موت 1909ء ہر ایک کو دکھاتی ہے اپنی بہار موت ہر ایک  ہی کےہوتی ہے سرپرسوار موت پنجے سے اُس کے چھوٹ کرجائے کوئی کہاں پھیلائے جال بیٹھی ہے ہرسُوہزار موت جو مرمٹے ہیں مرکے بھی زندہ رہیں گے وہ جتنا نکالنا ہو نکالے بخار موت تیغِ نگاہ ِیار کا کشتہ ہوں مَیں،جبھی ڈرتا نہیں کبھی بھی ڈرائے ہزار موت میری دکھوں میں شدتِ طبع کو دیکھ کر ہوتی ہے دل ہی دل میں بہت شرمسار موت مرنا تووصلِ یار ہےیہ جانتا ہوں میں مجھ کو بھلا ڈراتی ہے کیوں باربارموت مسلم کوو صلِ یارہے،کافر کو وصلِ نار اخبارِ آخرت کا ہے نامہ نگار موت خواہش اگر کوئی ہے تواحمدؐ کی ہے یہی اسلام پر ہی دے مجھے پروردگار موت کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 6۔8 04۔ انقطاع الی اللہ 1910ء سر پر کھڑی ہے موت ذراہوشیار ہو ایسانہ ہو کہ توبہ سے پہلے شکار ہو زندہ خدا سے دل کو لگا اے عزیزِمن کیا اُس سے  فائدہ جو فنا کا شکار ہو کیوں ہو رہا ہے عشقِ بتاں میں خراب تُو تجھ کو تو چاہیئےکہ خدا پر نثار ہو یادِ خدا میں تجھ کو ملے لذت وسرور بس تیری زندگی کا اِسی پر مدار ہو تجھ کو اسی کا شوق ہو ہر وقت ہر گھڑی ہردم اسی کے عشق کا سر میں خمار ہو خالی ہو دل ہوائے متاعِ جہان سے تجھ کو بس اک آرزوئے وصل ِیار ہو یادِحبیبؐ سے نہ ہو غافل کبھی بھی تُو اس بات سے کوئی ترا مانع ہزار ہو سینہ ترا ہو مدفنِ حرص وہواؤآز دل تیرا،تیری آرزوؤں کا مزار ہو جاہ وجلال ِدنیائے فانی پہ لات مار گر تُو یہ چاہتا ہے کہ تُو باوقارہو ہو فکر تجھ کو روزِ جزاکی لگی ہوئی اس اس کے غم میں آنکھ تیری اشکبار ہو تسکینِ دل تو چاہتا ہے گر،توچاہیئے دل کو ترے کبھی بھی نہ اے جاں قرار ہو ایسا نہ ہو کہ تجھ کو گرائے یہ منہ کے بل ہاں ہاں سنبھل کے نفسِ دنی پرسوار ہو آگاہ تجھ کو تیری بدی پر کرے ضمیر ناصح ہودل ترا نہ کہ یہ خاکسار ہو طالب نگاہِ لطف کا ہوں مدتوں سے میں مجھ پر بھی اک نظر مرے پروردگارہو احمدیہی دعا ہے کہ روزِ جزا نصیب تجھ کو نبئ کریمؐ کا قرب وجوارہو کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 8۔9 05۔ آؤ بلبل کہ مل کے نالہ کریں 1920ء مالِ دل دے دیا فقیر ہوئے اس فقیری میں ہم اسیر ہوئے جب سے دیکھا ہے روئے یارِ ازل بت میری آنکھ میں حقیر ہوئے ان نگاہوں نے کردیا گھائل جگرودل کے پار تیر ہوئے زاہدوتم سے دل ملے کیونکر تم ہو آزاد ہم اسیر ہوئے دل غنی ہے متاعِ دنیا سے جب سے اس در کے ہم فقیر ہوئے آؤ بلبل کہ مل کے نالہ کریں ہوگیا عرصہ ہمصفیر ہوئے دل میں کیا جانے کیا خیال آیا آج نغمہ سرا بشیر ہوئے کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 9۔11 06۔ ترانۂ حمد بر موقع خرید اراضی برائے مسجد احمدیہ لندن 1920ء آج دل مسرور ہے اپنا طبیعت شاد ہے مسجدِ لندن کی رکھی جا رہی بنیاد ہے ہے بناء اس کی خدا کے فضل پراوررحم پر جو بناء اس کے مقابل پر ہے وہ برباد ہے نعرۂ اللہ اکبراس سے اب ہوگا بلند شرک کے مرکز میں یہ توحید کی بنیاد ہے چشمِ بد بیں کورہو،دستِ مخالف ٹوٹ جائے دل وہ غارت ہوجواس کو دیکھ کر ناشاد ہو ہوش میں آ!دشمنِ بدخواہ!اپنی فکر کر سراٹھا کردیکھ ربِّ خلق بالمرصادہے اے خدا اب جلد لا وہ دن کہ ہم یہ دیکھ لیں بندِطبعِ مسلمِ ناشاد پھر آزاد ہے ہائے وہ اسلام ،وہ مسلم،کدھر کو چل بسے نَے وہ شیریں ہی رہی باقی،نہ وہ فرہاد ہے  دینِ حق اک صید ہے مقہور زیرِدام کفر ہر طرف آواز وشوروغوغائے صیّادہے اے خدا اسلام کی کشتی کو طوفاں سے بچا ہم غریبوں کی تری درگاہ میں فریاد ہے یاس کا منظر ہے لیکن دل ہیں امیدوں سے پُر یاد ہے ہم کو ترا وعدہ خدایا!یاد ہے  رحم فرمایا خدا نے سن کے بندوں کی پکار آگیا وہ دین کا جو منفرد استاد ہے آگیا مہدی مسیح ِوقت، مامورِخدا دل میں پھر تازہ ہوئی پہلے سمونکی یاد ہے اب گیا وقتِ خزاں اور آگیا وقتِ بہار باغِ احمدؐمیں ہوا پھر سبزۂ نوزاد ہے کرنا مغرب کو پڑے گا اب سرِ تسلیم خم چل رہی مشرق سے بادِ نصرت وامداد ہے ہر طرف پھیلے مبشر خدمت ِ دیں کے لیے ملکِ انگلستاں میں بھی پہنچا ہوامنّاد ہے دل ہے حمد وشکر سےلبریز اور سردرسجود روح ہے مسرور،جاں خوش ہے،طبیعت شادہے  صد مبارک ،صدمبارک،خادمانِ دین حق مسجدِ لندن کی رکھی جا رہی بنیاد ہے اب ترانہ ہوچکا روزِجزابھی یاد کر اے بشیرِخستہ جاں قولِ بلیٰ بھی یاد کر کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 11۔13 07۔ بندہ رحمن کا بن بندۂ شیطان نہ ہو 1920ء ہائے وہ سر جو رِہ یار میں قربان نہ ہو وائے وہ سینہ کہ جو عشق میں بریان نہ ہو حیف اس روح پہ جو مستِ رُخ یار نہیں تف ہے اس آنکھ پہ جو شوق میں گریان نہ ہو دل یہ کہتا ہے اسی در پہ رما دے دُھونی نفس کہتا ہے کہ اُٹھ مفت میں ہلکان نہ ہو زندگی ہیچ ہے انسان کی دنیا میں اگر سینہ میں قلب نہ ہو، قلب میں ایمان نہ ہو آدمی وادئ ظلمت میں بھٹکتا مر جائے راہنمائی کا اگر عرش سے سامان نہ ہو ہاتھ گر کام میں ہو دل میں ہو رب ِارباب کوئی مشکل نہیں دنیا میں کہ آسان نہ ہو واعظا !شرم سے مر جانے کی جا ہے صد حیف لب پہ قرآن ہو، پر سینہ میں قرآن نہ ہو نخلِ ایمان پنپنے کا نہیں زاہد خشک سینچنے کو اسے گر چشمۂ ایمان نہ ہو چھوڑ کر راہِ خدا راہ ِبُتاں پر مت جا عقل دی ہے تجھے اللہ نے نادان نہ ہو نسلِ آدم ہے تُو ابلیس کے پیچھے مت چل بندہ رحمن کا بن، بندۂ شیطان نہ ہو رحم کر، ظلم نہ ڈھا، آہ ِغریباں سے ڈر کام وہ کر، کہ جسے کر کے پشیمان نہ ہو غیر ممکن ہے کٹے راہِ طریقت جب تک جام ِاعمال نہ ہو بادۂِ ایمان نہ ہو سر میں ہو جوش ِجنوں دل میں ہو عشقِ محبوب خوفِ دوزخ نہ رہے خواہشِ رضوان نہ ہو اب تو خواہش ہے وہاں جا کے لگائیں ڈیرا دیکھنے کو بھی جہاں صورتِ انسان نہ ہو دل میں اک آگ ہے اور سینہ مرا غم سے تپاں وائے قسمت ،اگر اس درد کا درمان نہ ہو ہوں گنہگار ولے ہُوں تو ترا ہی بندہ مجھ سے ناراض ،ترے صدقے مری جان نہ ہو یاس اک زہر ہے بچ اس سے بشیرؔ عاصی فضل ہو جائے گا اللہ کا ،پریشان نہ ہو کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 13۔16 08۔ قصیدہ در مدح حضرت مسیح موعود تبلیغ سلسلہ 1920ء دل ہے سر گرم ومحوِیادِیار روح مست ِمحبتِ دلدار میرا ہر ذرہ شکر سے معمور جاں رہینِ عنایت دادار بوئے گل سے ہوا معطر ہے باغِ احمد میں آگئی ہے بہار ہے گلستاں میں وہ مہک پیدا جس سے شرمندہ بوئے مشک ِتتار پھر شگوفہ کھلا ہے بستاں میں نخلِ اسلام پھر ہے لایا ثمار چہچہاتی ہے باغ میں طوطی گارہی ہے خوشی کے راگ ہزار آگیا رونق ِ بہارِ حسن دلبرو دلستان ،اوردلدار بے نظیر و یگانہ اندر خلق منفردزیرِگنبدِ دوّار آگیا مہدی و مسیحِ زماں رہبرِ دین احمدؐ ِمختار آگیا جانشین ِ خیرِ رسل نائبِ پادشاہ ِ ہردودیار آگیا شہر یارِ ملک دیں جیشِ اسلام کا سپہ سالار اب گیا وقتِ ذلت وخواری آگیا وقتِ عزّوجاہ ووقار مسلمِ نیم جان!آنکھیں کھول بختِ خوابیدہ ہوگیا بیدار چل رہی ہے نسیم رحمت کی آج ہے عاصیوں کا بیڑا پار ֍ دشمنِ بدخصال!ہوش میں آ سوچ!پڑتا ہے کس پہ تیرا وار یاد کر جب کہ کفر کا تھا زور دینِ حق چھپ گیا تھا زیرِ غار نورِ ایمان تھا ہوا مفقود پڑگیا تھا دلوں پہ گردوغبار باغِ احمد میں آگئی تھی خزاں پھول تھے کم ہوئے ،بڑھے تھے خار دین پر دار کفر وبدعت کے ہورہے برملا تھے لیل و نہار ہو گیا تھا ہوامیں پیدا زہر اوربگڑسب گئے تھے برّوبحار کس نے پھر آکے رنگ بدلا یہ باغِ احمدؐ میں کون لایا بہار کس نےایمان پھر کیا قائم او ربہادیں یقین کی انہار شانِ اسلام کس نے ظاہر کی کس نے پیدا کیا وہ دیں کا شعار کس نے آکر جمایادنیا میں پھر وہ رنگِ محمدؐی دربار کس نے دیوِضلال و بدعت کو  اپنے حملوں سے کردیا فی النّار کس نے قصرِ عقیدۂ تثلیث کردیا ایک ضرب سے مسمار کس کے دھاووں سے تنگ آآکر کفر کی فوج ہو رہی ہے فرار ہاں کبھی یہ بھی تُو نے غور کیا دشمنِ حق !تجھے خدا کی سنوار کون تھاوہ کہ   واسطے جس کے مہر و مہ ہوگئے تھےتیرہ وتار کون تھا وہ کہ واسطے جس کے خالی طاعوں نے کردئیے تھے دیار کون تھا وہ کہ واسطے جس کے چل گئی تھیں یہ خون کی انہار کون تھا وہ کہ واسطے جس کے زار کا ہوگیاتھا حال ِزار کون تھا وہ کہ واسطے جس کے ہل گئے زلزلوں سے شہرودیار کون تھا وہ کہ واسطے جس کے جو اٹھا وہ ہوا ذلیل و خوار یاد کر تو وہ خصم روبہ مثال ہاویہ میں گرا جو آخرکار یاد کر وہ عدو، کہ تیر ِدعا جالگا تھا جسے سمند رپار یاد کر وہ عنیدِ بد باطن پیٹ میں جس کے گھس گئی تھی کٹار یادکر،وہ  مکفرِ اول خوار کرتا تھا پر ہواخود خوار یاد کر دشمن ِ دراز رسن اپنے ہی دام کا ہوا جو شکار یاد کر پھر وہ ڈاکٹر مرتد جس پہ کھینچی فرشتہ نے تلوار کیا نہیں یہ مقام عبرت کا ہائے تو کر کبھی تو سوچ بچار سوچ،پھرسوچ ،دشمنِ ناداں سوچ،پڑتا ہے کس پہ تیرا وار فرق بیں از کجا ست تابکجا توہے شیطاں کا، وہ خدا کا یار ֍ احمدی !تجھ کو شکر کی جاہے تونے ایماں کے پالئے ہیں ثمار تجھ کو اللہ نے نوازا ہے تجھ کو بخشا ہے اس نے قرب وجوار تجھ پہ اس نے کیا ہے فضل و کرم تجھ پہ کی ہے نگاہ ِ لطف وپیار یہ ہے وہ بار جو نہ اترے گا جان بھی اپنی گر کرے تُو نثار اب کوئی راہ ہے توہے یہی ایک جس سے کچھ اترے شکر کا یہ بار عشقِ مولامیں جل کے ہو جا خاک راہ مولیٰ میں پھر اڑا یہ غبار تازِ شوروفغاں ِعاشقِ زار خلق گرددزِخوابِ خود بیدار کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 17 09۔ اس زمانہ کے مسلمان اور اُن کے لیڈر ترے اسلام پر کیونکر ہوشیدا کوئی اے مسلم جو نقشہ پیش تُوکرتا ہے وہ تصویر الٹی ہے مسلمانو!تمہاری سعی کیسے بارآورہو اِدھرتدبیر الٹی ہے اُدھرتقدیر الٹی ہے مرض بڑھتا ہی جاتا ہے خداراہوش میں آؤ دوا الٹی نہیں ہے گر ،تو کیوں تاثیر الٹی ہے امورِ دین میں کیا موت پڑتی ہے تجھے واعظ کہ سارے کام سیدھے ہیں مگر تفسیر الٹی ہے ترے پند و نصیحت سے مرا دل اور رکتا ہے سمجھ الٹی ہے میری یا تری تقریر الٹی ہے دل وسر جب تلک سیدھے تھے،سیدھی بات تھی تیری اب الٹے ہیں تو الٹا قول ہے،تحریرالٹی ہے خدایا!خواب کی صورت میں یہ نقشہ بدل دے تُو کھلے جب آنکھ تم معلوم ہو تعبیر الٹی ہے کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 18۔19 10۔ خطاب بہ نوجوانانِ جماعتِ احمدیہ حسن اپنا ہی نظر آیاتوکیا آیا نظر غیر کا حسن بھی دیکھے وہ نظر پیدا کر چشمِ احباب میں گر تونے جگہ پائی تو کیا حسن و احساں سے دل ِخصم میں گھر پیدا کر یہ زرومال تو دنیا میں ہی رہ جائیں گے حشر کے روز جو کام آئے وہ زر پیدا کر ہے وہ کس کام کا ،گرخشک ہے نخلِ ایماں سینچ عرفان کے پانی سے،ثمر پیدا کر احمدی!گر تجھے بننا ہے صحابہ ؓ کا مثیل دست وبازو۔وہ دل و سر ،وہ جگر پیدا کر پھر وہی نالہ ،وہی نیم شبی اُن کی دعا پھر وہی گریہ ،وہی دیدۂ تر پیدا کر پھر وہی رنگِ وفا اور وہی شورشِ عشق پھر وہی دز،وہی درد و اثر پیدا کر پھر وہی زہد،وہی تقویٰ،وہی نفس کشی ہاں وہی ضبط،وہی غضِّ بصر پیدا کر وحدت وطاعت وبے نفسی وصدق و اخلاص حکمت ومعرفت و علم و ہنر پیدا کر دین پر مال وتن وجان تھے اُن کے قرباں رنگ یہ ہو سکے تجھ سے بھی اگر،پیدا کر شان اسلام کی قائم جو انہوں نے کی تھی نقشۂ عالم میں وہی بارِدگرپیدا کر سخت مشکل ہے کہ اس چال سے منزل یہ کٹے ہاں اگر ہو سکے پرواز کے پَر پیدا کر کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 19۔20 11۔ خطاب بہ امیرگروہ غیر مبایعین نہیں بیچتےچند پیسوں پہ دیں ہم نہ بنتے ہیں غیروں کے جا کر قریں ہم اگر خفیہ کوشش کی کہتے ہو سن لو کہ ھَمُّوا بِمَالَم یَنَالُوانہیں ہم ایضًا تم جو تدبیر سے چالیس کے بن بیٹھے امیر یہ نہ سمجھے کہ یہ تدبیر نہیں ہے تقدیر اب اگر ہوش میں آئے ہو تو ہے عرض مری مولوی جی!کوئی وحدت کی بھی سوچو تدبیر ایضًا خوب اے دوست ہمیں تُو نے یہ انعام دیا غیر سے صلح ،ہمیں جنگ کا پیغام دیا اچھا قسّام ہے تُو خوب ہے قسمت تیری کفر اپنوں کو دیا،غیر کو اسلام دیا کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 20 12۔ یورُپ کی زندگی ہوش میں آجا تُو اےیورپ،یہ مستی چھوڑ دے کر بلندی کی طرف پرواز ،پستی چھوڑ دے زندہ اپنے آپ کو کہنے سے کچھ بنتا نہیں ہم تو تب مانیں کہ تُو مردہ پرستی چھوڑ دے کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 21 13۔ طریقِ امن رحم ہودل میں ترے،بیجا کوئی تیزی نہ ہو وقت پر سختی بھی ہو،پر آبرو ریزی نہ ہو امن کی گر زندگی تو چاہتا ہے اےبشیر صاف گوئی تجھ میں ہو ،پر فتنہ انگیزی نہ ہو کلام ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 23۔24 14۔ اے مالکِ کون ومکاں آؤ مکیں کو لُوٹ لو

"لوٹ دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک یہ کہ کسی کے مال یا جان پر ظلم کے رنگ میں ڈاکا ڈالا جائے،یہ لوٹ بدترین گناہوں میں سے ہے۔دوسری قسم کی لوٹ یہ ہے کہ پاک محبت کے تاروں میں باندھ کر دوسرے کے مال وجان کو اپنا بنا لیا جائے۔ایسی لوٹ انسانی روح کی جلاء کے لیے ایک بھاری نعمت ہے۔سوذیل کے اشعار میں اسی قسم کی روحانی لوٹ کا ذکر ہے جس میں اپنے آسمانی آقا کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ آئے اور ہمارے جان و مال کو لوٹ لے جو شروع سے اسی کے ہیں لیکن ہم لوگوں نے اپنی کوتاہ نظری یا بیوفائی سے اپنے سمجھ رکھے ہیں۔مگر خیال رہے کہ میں شاعر نہیں ہوں ۔اگر فنِ نظم گوئی کے لحاظ سے کوئی غلطی نظر آئے تو وہ قابلِ معافی سمجھی جائے۔اصل غرض دلی جذبات کا اظہار ہے۔پہلے دو شعروں میں ایک قرآنی آیت کا مفہوم پیشِ نظر ہے۔

خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور48۔01۔30 مری سجدہ گاہ لُوٹ لومیری  جبیں کو لُوٹ لو میرے عمل کولُوٹ لواور میرے دیں کولُوٹ لو میری حیات وموت کا مالک ہو کوئی غیر کیوں تم میری ہاں کو لُوٹ لو،میری نہیں کو لُوٹ کو رنج وطرب میرا سبھی پس ہو تمہارے واسطے روحِ سرور لُوٹ لو ،قلبِ حزیں کو لُوٹ لو جب جاں تمہاری ہوچکی پھرجسم کا جھگڑا ہی کیا مرا آسماں تولٹ چکا اب تم زمیں کو لُوٹ لو نانِ جویں کے ماسوا دل میں میرے ہوس نہیں چاہو تو اے جاں آفریں نانِ جویں کو لُوٹ لو گھر بار یہ میرا نہیں اورمَیں بھی کوئی غیرہوں ! اے مالکِ کون ومکاں آؤ مکیں کو لُوٹ لو ماہنامہ انصاراللہ ربوہ۔ستمبر1963ء حیاتِ قمر الانبیاء ؓ مصنفہ محمد اسماعیل پانی پتی ایڈیشن 1964صفحہ286۔287 15۔ حالِ پریشاں حضرت میاں صاحب کی ایک نایاب نظم

"گلدستہ عرفان"کے نام سے آپ کی نظموں کاایک مجموعہ قادیان سے شائع ہواتھا۔بعد میں کچھ اضافہ کے ساتھ میں آپ کی نظموں کا دوسرا مجموعہ "کلام بشیر"کے نام سے 1963میں شائع کیا تھا۔اس کے شائع ہونے کے بعد برادر محترم مولوی عبدالقادر صاحب دہلوی ناظم جائداد صدر انجمن احمدیہ قادیان نے  کہیں سے تلاش کر کے حضرت میاں صاحب کی ایک نظم مجھے بھیجی  جواب تک کے شائع شدہ کسی مجموعہ میں نہیں ہے۔میں مولوی صاحب محترم کے شکریہ کے ساتھ اس بے نظیر اور پرمعارف نظم کو یہاں نقل کرتا ہوں۔(محمد اسماعیل پانی پتی)

کیوں حال پریشاں رہنے لگا نہیں آتا جی کو چین ذرا؟ میرے سر میں جانے بھرا کیاہے؟ میرے دل کو جانے ہوا کیا ہے؟ اس خواہش میں سب عمر کٹی،پرحسرت دل کی دل میں رہی کوئی آکرپوچھےہم سے کبھی ،"تیرے دردِ نہاں کی دواکیا ہے"؟ ہم رنج سہیں یا غم سے مریں یا عشق میں تیرے آہیں بھریں تجھے کیا پروا،تیری جانے بلا،کیاعشق ہےاوروفا کیا ہے؟ آ،جانے دے،مت اورستا،میرے روٹھنے والے،مان بھی جا میں دکھیا ہوں،لے میری دعا،یایہ توبتاکہ خطا کیا ہے؟ تیرے عشق میں کیا کیا رنج سہے،دکھ درداٹھائے جاں سے گئے تورہتا ہےپھر بھی ہم سے خفا،تقدیر میں جانے لکھا کیا ہے؟ اب جانے دے حد سے نہ گزریہ ظلم یہ جوروجفاکم کر مظلوم کے تیر دعا سے ڈر،اورسوچ کہ آہِ رسا کیا ہے؟ نہیں ہوتی بتوں میں ذرا بھی وفا،نہیں جانتے جوروجفاکے سوا دل اپنا بشیرخدا سے لگااس عشق بتاں میں دھرا کیا ہے