کلام محمود

کلام محمود صفحہ1 1۔ اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے بیمارِ عشق ہوں ترا دے تو شفا مجھے جب تک کہ دم میں دم ہے اسی دین پر رہوں اسلام پر ہی آئے جب آئے قضا مجھے بے کس نواز ذات ہے تیری ہی اے خدا آتا نظر نہیں کوئی تیرے سوا مجھے منجملہ تیرے فضل و کرم کے ہے یہ بھی ایک عیسیٰ ؑمسیح  سا ہے دیا رہنما مجھے تیری رضا کا ہوں میں طلب گار ہر گھڑی گر یہ ملے تو جانوں کہ سب کچھ ملا مجھے ہاں ہاں نگاہِ رحم ذرا اس طرف بھی ہو بحر گنہ میں ڈوب رہاہوں بچا مجھے موسیٰ ؑکے ساتھ تیری رہیں لن ترانیاں زنہار میں نہ مانوں گا چہرہ دکھا مجھے احساں نہ تیرا بھولوں گا تازیست اے مسیح ؑ پہنچا دے گر تو یار کے در پر ذرا مجھے سجدہ کناں ہوں در پہ ترے اے مرے خدا اٹھوں گا جب اٹھائے گی یاں سے قضا مجھے ڈوبا ہوں بحرِ عشقِ الٰہی میں شاد میں کیا دے گا خاک فائدہ آبِ بقا مجھے یہ نظم 1903ء کی ہے جب آپ شاد تخلص رکھتے تھے۔ رسالہ تشحیذ الاذہان ماہ اگست 1916ء کلام محمود صفحہ2 2۔ پڑھ لیا قرآن عبد الحیٔ نے پڑھ لیا قرآن عبد الحیٔ نے خوش بہت ہیں آج سب چھوٹے بڑے ایسی چھوٹی عمر میں ختمِ قرآں کم نظیریں ایسی ملتی ہیں یہاں مولوی صاحب مبارک آپ کو اور عبد الحیٔ کے استاد کو جس نے محنت کی شب و روز اسکے ساتھ اور پڑھایا اس کو قرآں ہاتھوں ہاتھ صد مبارک مہدی ءمسعود کو کیوں خوشی سب سے نہ بڑھ کر اس کو ہو جس کی سچائی کا ہے یہ اک نشاں جانتا ہے بات یہ سارا جہاں اے خدا تُو نے جو یہ لڑکا دیا کر اسے سب خوبیاں بھی اب عطا یا الھٰی ! عمر طبعی اس کو دے رکھ اسے محفوظ رنج و درد سے ہو یہ سرشار الفتِ دیں میں مدام رکھ اسے کونین میں تو شاد کام خوف سے تیرے رہے دل پر خطر پہنچے اس کو اھلِ دنیا سے نہ شر مہربانی کی تُو اس پہ رکھ نظر کر عنایت اس پہ تُو شام و سحر دین و دنیا میں بڑا ہو مرتبہ عمر و صحت بھی اسے کر تو عطا تیرا دلدادہ ہو دیں پر ہو فدا ہو یہ عاشق احمد ؐمختار کا غیرت دینی ہو اس میں اس قدر واسطے دیں کے ہو یہ سینہ سپر ہے مری آخر میں یہ، یا رب دعا سایہ رکھ اس پر تو اپنے فضل کا

یہ نظم حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ میاں عبد الحی کی تقریب ختمِ قرآن کے موقع پر لکھی گئی۔

اخبار الحکم جلد 9 ۔ 30جون 1905ء کلام محمود صفحہ3 3۔ میاں اسحٰق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو میاں اسحٰق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو ہر اک منہ سے یہی آواز آتی ہے مبارک ہو دعا کرتا ہوں میں بھی ہاتھ اُٹھا کر حق تعالیٰ سے کہ اپنی خاص رحمت سے وہ اس شادی میں برکت دے خدایا اس بَنی پر اور بَنے پر فضل کر اپنا اور انکے دل میں پیدا  کردے جوش دیں کی خدمت کا کلامِ پاک کی الفت کا انکے دل میں گھر کردے نبیؐ سے ہو محبت اور تعشّق ان کو ہو تجھ سے ہر اک دشمن کے شر سے تُو بچانا اے خدا ان کو ہمیشہ کے لئے رحمت کا تیری ان پہ سایہ ہو ہمیشہ کیلئے ان پر ہوں یا رب برکتیں تیری دعا کرتا ہوں یہ تجھ سے خدایا سن دعا میری انہیں صبح و مسا ، دیں اور دنیا میں ترقی دے نہ انکو کوئی چھوٹا سا بھی آزار اور دکھ پہنچے عطا کر انکو اپنے فضل سے صحت بھی اے مولیٰ ہمیشہ ان پہ برسا اَبر اپنے فضل و رحمت کا میں اگلے شعر پر کرتا ہوں ختم اس نظم کو یارو اب اِنکے واسطے تم بھی خدا سے کچھ دعا مانگو بہت بھایا ہے اے محمود یہ مصرعہ مرے دل کو مبارَک ہو یہ شادی خانہ آبادی مبارک ہو

یہ نظم حضرت میر محمد اسحٰق ابن حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہما کی تقریب شادی پر کہی گئی۔

اخبار بد رجلد 5 ۔ 16فروری1906ء کلام محمود صفحہ4۔7 4۔ یادایام کہ تھے ہند پہ اندھیر کے سال یادایام کہ تھے ہند پہ اندھیر کے سال ہر گلی کوچہ پہ ہر شہر پہ آیا تھا وبال روزِ روشن میں لُٹا کرتے تھے لوگوں کے مال دل میں اللہ کا تھا خوف نہ حاکم کا خیال ہر طرف شور و فغاں کی ہی صدا آتی تھی سخت سے سخت دلوں کو بھی جو تڑپاتی تھی رحم کرنا تو کجا ظلم ہوا تھا پیشہ لوگ بھولے تھے کہ ہے نام مروت کس کا چار سُو ملک میں تھا ہورہا شور و غوغا بلکہ سچ ہے کہ وہ نمونہ قیامت کا تھا کبھی آتا نہ کوئی دوست کسی دوست کے کام دل سے تھا محو ہوا مہر و محبت کا نام سلطنت میں بھی تزلزل کے نمایاں تھے نشاں صاف ظاہر تھا کہ ہے چند دنوں کی مہماں قاضی و مفتی بھی کھو بیٹھے تھے اپنا ایماں رحم و انصاف کے وہ نام سے بھی تھے انجاں ایسے لوگوں سے تھا انصاف کا پانا معلوم خیال انصاف کا تھا جن کے دلوں سے معدوم افسرِ فوج لڑائی کے فنوں میں چوپٹ منہ سے جو بات نکل جائے پھر اس پر تھی ہٹ رہتی آپس میں بھی ہر وقت تھی ان کی کھٹ پٹ تھے وہ بتلاتے ہر اک دوسرے کو ڈانٹ ڈپٹ پر کوئی موقع لڑائی کا جو آجاتا تھا ہر کوئی صاف وہاں آنکھیں چرا جاتا تھا سلطنت کچھ تو انہی باتوں سے بے جان ہوئی کچھ لٹیروں نے غضب کردیا آفت ڈھائی اک طرف مرہٹوں کی فوج ہے لڑنے کو کھڑی دوسری جا پہ ہے سکھوں نے بھی شورش کر دی چاروں اطراف میں پھیلا تھا غرض اندھیرا لشکرِ یاس نے ہر سمت سے تھا آگھیرا لڑتے بھڑتے رہیں آپس میں امیر اور وزیر کیوں پسیں گھن کی طرح ساتھ غریب اور فقیر مدعا ان کا تولڑنے  سے ہے بس سرتاج و سریر ہاتھ میں یاروں کے رہ جائے گی خالی کفگیر ان غریبوں کو امیروں نے ڈبویا افسوس بات جو بِیت چکی اس پر کریں کیا افسوس الغرض چین کلیجے کو نہ دل کو آرام رات کا فکر لگا رہتا تھا سب کو سرِ شام صبح کو خوف کہ ہو آج کا کیسا انجام رات دن کاٹتے اس طرح سے تھے وہ ناکام دل سے انکے یہ نکلتی تھیں دعائیں دن رات یا الٰہی تیرے فضلوں کی ہو ہم پر برسات ان پہ ڈالی گئی آخر کو تلطف کی نظر مثل ِکافور اڑا دل سے جو تھا خوف و خطر یک قلم ملک سے موقوف ہوئے شورش و شر نہ تو رہزن کا رہا کھٹکا نہ چوروں کا ڈر پھائے رکھے گئے واں مرہم ِکافوری کے دیئے جاتے تھے جہاں زخم ِجگر کے چرکے قومِ انگلش نے دیا آکے سہارا ہم کو بحرِ افکار کے ہے پار اُتارا ہم کو ورنہ صدموں نے تو تھا جان سے مارا ہم کو آگے مشکل تھا بہت کرنا گذارا ہم کو ہند کی ڈوبی ہوئی کشتی ترائی اس نے ملک کی بگڑی ہوئی بات بنائی اس نے رحم وہ ہم پہ کئے جن کی نہیں کچھ گنتی جن میں سے سب سے بڑی ہے مذہبی آزادی ساتھ لائے یہ ہزاروں نئی ایجادیں بھی جو نہ کانوں تھیں سنی اور نہ آنکھوں دیکھی عدل و انصاف میں وہ نام کیا ہے پیدا آج ہر ملک میں جس کا کہ بجا ہے ڈنکا شیر و بکری بھی ہیں اک گھاٹ پہ پانی پیتے نہیں ممکن کہ کوئی ترچھی نظر سے دیکھے ایک ہی جا پہ ہیں سب رہتے برے اور بھلے کیا مجال ان سے کسی کو بھی جو صدمہ پہنچے سب جو آپس میں ہیں یوں ہورہے ہیں شیر و شکر اس لیے ہے کہ نظر سب پہ ہے ان کی یکسر ہند میں ریل انھوں نے ہی تو جاری کی ہے آمد و رفت میں جس سے بہت آسانی ہے صیغۂ ڈاک کو انھوں نے ہی ترقی دی ہے ملک میں چاروں طرف تار بھی پھیلائی ہے تاکہ انصاف کے پانے میں نہ ہو کچھ دقّت منصفوں اور ججوں تک کی بھی کی ہے کثرت علم کا نام و نشاں یاں سے مٹا جاتا تھا شوق پڑھنے کا دلوں میں سے اٹھا جاتا تھا کوئی عالِم کبھی اس ملک میں آجاتا تھا دیکھ کر اس کا یہ حال اشک بہا جاتا تھا یہ وہ بیمار تھا جس کو سبھی رو بیٹھے تھے ہاتھ سب اس کی شفا یابی سے دھو بیٹھے تھے پر وہ رب جس نے کہ سب کچھ ہی کیا ہے پیدا نہ تو ہے باپ کسی کا نہ کسی کا بیٹا سارے گندوں سے ہے پاک اور ہے واحد یکتا نہ وہ تھکتا ہے نہ سوتا ہے نہ کھاتا پیتا رحم کرتا ہے ہمیشہ ہی وہ ہم بندوں پر کرسیٔ عدل پہ بیٹھے گا جو روزِ محشر جو کہ قادر ہے جسے کچھ بھی نہیں ہے پروا ٹھیک کردے اسے دم میں کہ ہو جو کچھ بگڑا دیکھ کر اپنی یہ حالت جب اسے رحم آیا دیکھو انگلینڈ سے اس قوم کو یاں لے آیا جس نے آتے ہی وہ نقشہ ہی بدل ڈالا ہے جس جگہ خار تھا اب واں پہ گلِ لالہ ہے سلسلے ہر جگہ تعلیم کے جاری ہیں کئے شہروں اور گاؤں میں اسکول بکثرت کھولے کالجوں کے بھی ہیں شہروں میں کھلے دروازے ہر جگہ ہوتے ہیں اب علم و ہنر کے چرچے کام وہ کرکے دکھایا کہ جو ناممکن تھا آئے جب ہند میں وہ کیا ہی مبارک دن تھا قومِ انگلش! تیری ہر فرقے پہ ہے ایک نظر اس لیے تجھ پہ ہمیں ناز ہے سب سے بڑھ کر تھا مسیحا بھی تو پیدائش وقتِ قیصر زندگی چھوٹے بڑے چین سے کرتے تھے بسر اب مکرر جو ہے پھر وقتِ مسیحا آیا قیصرِ روم کا کیوں ثانی نہ پیدا ہوتا ابنِ مریمؑ سے ہے جس طرح یہ عالی رتبہ قیصر ہند بھی ہے قیصر روما سے بڑا مصطفیٰ کا یہ غلام اور وہ غلامِ موسیٰؑ دیکھ لو کس کا ہے دونوں میں سے درجہ بالا قیصر روم کے محکوم تھے اک دو صوبے تاجِ انگلشیہ پہ ممکن نہیں سورج ڈوبے حق سے محمود بس اب اتنی دعا ہے میری جس نے ہم کو کیا خوش، رکھے اسے وہ راضی فتح و نصرت کی انہیں روز نئی پہنچے خوشی دور ہو دین میں ہے ان کی جو یہ گمراہی دین اسلام بس اب ان کی سمجھ میں آجائے بات یہ کچھ بھی نہیں رحم اگر وہ فرمائے اخبار بدر 5 ۔14جون 1906ء کلام محمود صفحہ8۔9 5۔ مثلِ ہوش اڑ جائیں گے اس زلزلہ آنے کے دن مثلِ ہوش اڑ جائیں گے اس زلزلہ آنیکے دن باغِ احمدؐ پر جو آئے ہیں یہ مرجھانے کے دن یوں نہیں ہیں جھوٹی باتوں پہ یہ اترانے کے دن ہوش کر غافل کہ یہ دن تو ہیں گھبرانے کے دن سختیوں سے ہی جو جاگے گی تو جاگے گی یہ قوم اے غبی ہرگز نہیں یہ تلوے سہلانے کے دن مہدیء آخر زماں کا ہوچکا ہے اب ظہور ہیں بہت جلد آنیوالے دیں کے پھیلانے کے دن یہ شرارت سب دھری رہ جائے گی جب وہ خدا ہوش میں لائے گا تم کو ہوش میں لانے کے دن طوطے اڑ جائیں گے ہاتھوں کے تمہارے غافلو اُس خدائے مقتدر کے چہرہ دکھلانے کے دن اک جہاں مانے گا اس دن ملتِ خیر الرسلؐ اب تو تھوڑے رہ گئے اس دیں کے جھٹلانے کے دن چھوڑ دو سب عیش یارو اور فکرِ دیں کرو آج کل ہرگز نہیں ہیں پاؤں پھیلانے کے دن کچھ صلاحیّت جو رکھتے ہو تو حق کو مان لو یاد رکھو دوستو یہ پھر نہیں آنے کے دن کبر و نخوت سے خدارا باز آؤ تم کہ اب جلد آنے والے ہیں وہ آگ بھڑکانے کے دن نام لکھوا کر مسلمانوں میں تُو خوش ہے عزیز پر میں سچ کہتا ہوں ہیں یہ خونِ دل کھانے کے دن جس لیے یہ نام پایا تھا ،نہیں باقی وہ کام اب تو اپنے حال پر ہیں خود ہی شرمانے کے دن لوگوں کو غفلت کی تو ترغیب دیتا ہے مگر بھول جائیگا یہ سب کچھ تو سزا پانے کے دن کس لیے خوش ہے یہ تجھ کو بات ہاتھ آئی ہے کیا یہ نہ خوش ہونے کے دن ہیں بلکہ تھرّانے کے دن مہدیٔ آخر زماں کا کس طرح ہوگا ظہور جب نہ آئیں گے کبھی اس دیں کے اُٹھ جانے کے دن دینِ احمد ؐ پر اگر آیا زمانہ ضُعف کا آچکے تب تو مسیحِ وقت کے آنے کے دن کچھ بھی گر عقل و خرد سے کام تُو لیتا تو یہ دیں میں جو ہیں بل پڑے ہیں ان کو سلجھانیکے دن تُو تو ہنستا ہے مگر روتا ہوں میں اس فکر میں وہ ہیں اس دنیا سے اک دنیا کے اٹھ جانے کے دن جلد کر توبہ کہ پچھتانا بھی پھر ہوگا فضول ہاتھ سے جاتے رہیں گے جبکہ پچھتانے کے دن اک قیامت کا سماں ہوگا کہ جب آئینگے وہ مال کی ویرانی کے اور جان کے کھانے کے دن گو کہ اُس دن پھیل جائے گی تباہی چار سو جب کہ پھر آئیں گے یارو زلزلہ آنے کے دن پھر بھی مژدہ ہے اُنہیں جو دین کے غمخوار ہیں کیونکہ وہ دن ہیں یقینا ًدیں کے پھیلانے کے دن یَا مَسیحَ الخَلقِ عَدوَانَا پکار اٹھیں گے لوگ خود ہی منوائے گا سب سے یار منوانے کے دن اے عزیزِ دہلوی سن رکھ یہ گوشِ ہوش سے پھر بہار آئی تو آئے زلزلہ آنے کے دن ہے دعا محمود کی تجھ سے مرے پیارے خدا ہو محافظ تُو ھمارا خونِ دل کھانے کے دن

نوٹ۔جہاں چند آدمی مل کر بیٹھیں گے ضروری ہے کہ ان میں کوئی بد روح بھی ہو کیونکہ جیسے نیکی کا اثرخدا کی طرف سے بندہ پر پڑتا ہے ویسا ہی کچھ خبیث اثر بدروحوں کا بھی ہونا ضروری ہے۔بلکہ یہ زیادہ ہوتا ہےکیونکہ انسان کی فطرت کمزور ہے۔اس لئے جب اسے کچھ سبز باغ دکھائے جائیں توظن غالب ہے کہ وہ اپنے جامہء عقل وخرد کو چاک کرکے اُس آواز کی طرف کہ جو اُس کو ایک تاریک گڑھے کی طرف بلاتی ہےچلا جائے۔مگر جس کو خدا توفیق دے ۔اور مشاہدہ ایسا ہی ثابت کرتا ہے،کیونکہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں منافق اور فاسق فاجر زیادہ ہوتے ہیں اور خدا کی پرستش کرنے والےاور بری باتوں سے بچنے والےبہت ہی کم ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی جن کی قوت قدسیہ سب سے بڑھی ہوئی ہے صرف ایک لاکھ چوبیس ہزار آدمی ہی ایسے نکلے جنہوں نے کہ خدا کی آواز کو سنااور قبول کیا۔ہاں!یہ ضروری  امر ہے کہ جب خدائی آوازآئے تو اس کے مقابل میں ایک شیطانی آواز بھی آئے جو کہ انسان کواُس نیک کام کی طرف جس کو وہ اختیار کرنے والاہو،روکنے کی کوشش کرتی ہے۔اس وقت اس کا تازہ نمونہ ہمارےسامنے پیش ہےکیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک عظیم الشان زلزلہ کی خبر خدائے علیم و خبیر سے پاکر دنیا میں شائع کی تا کہ پیشتر اس کے کہ عذاب آئے حجت قائم کر دی جائےتاکہ کفارکا قیامت کے دن یہ عذر نہ رہے کہ ہم نے وہ آوازہی نہیں سنی،جس نے ہمیں نیکی کی طرف بلایا ہواورتاکہ شاید کو ئی نیک روح اس سے متاثر ہو کر اُس عذاب عظیم سے بچ جائے۔لیکن اس غم خواری ودل سوزی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس روحانی آواز کے مقابل میں ایک شیطانی آوازبھی اٹھی جس نے چاند پر غبار ڈالنے کی بہت کوشش کی لیکن کیا یہ ممکن ہے۔کیا کبھی اس سے پہلے ایسا ہوا۔ہاں کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس سےکیا کرنا چاہتے ہیں یا کریں گےیا جنہوں نے اس زمانہ میں ایسا کیا ہےضرورضرور اپنے کئے کو پہنچ گئےاور وہ خداجس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے ان کو سزا دئیے بغیر نہیں رہے گا۔کیونکہ انہوں نے اس کے ماموروں کی مخالفت کی ۔پس وہ غیورخدا اپنے دوستوں کی ہتک گوارا نہیں کرے گا۔میرا مطلب اس وقت اُس شخص سے ہے جس نے پچھلے دنوں زلزلہ کی پیش گوئی کی مخالفت میں اُسی طرح پر کہ جس پر حضرت صاحب نے شعر کہے تھےاور اس زلزلہ کی پیش گوئی کا اعلان کیا تھااور لوگوں کو اس عذاب کے دن سے بچنے کے لئے نصیحت کی تھی،ایک غزل زلزلہ کی مخالفت میں پیسہ اخبار میں شائع کرائی اور بڑے زور کے ساتھ اس نے چاہا کہ یہ امت جو کہ کبھی بڑے بڑے انعاموں کی مستحق رہ چکی ہے،اب اس عذاب کو بھی بھگتے اور ایسا نہ ہو کہ اس دن سے پہلے یہ بیدار ہوجائے۔خدااُن کے ارادے کو پورا نہ ہونے دے۔میرے چند دوستوں نے اس کا جواب لکھا ہےاورخوب لکھا ہے۔میں نے بھی چند اشعار اس کی غزل کی ردّ میں کہے ہیں اورا س لئےکہ شاید کسی کو ان سےفائدہ پہنچے۔شائع کرتاہوں۔بہتر ہو کہ پیسہ اخباربھی اس کو اپنے اخبارمیں شائع کردے ۔

اخبار الحکم جلد10۔ 24 جون 1906ء کلام محمود صفحہ10۔12 6۔ وہ قصیدہ میں کروں وصفِ مسیحا میں رقم وہ قصیدہ میں کروں وصفِ مسیحا میں رقم فخر سمجھیں جسے لکھنا بھی مرے دست و قلم میں وہ کامل ہوں کہ سن لے مرے اشعار کو گر پھینک دے جام کو اور چومے مرے پاؤں کو جم میں کسی بحر میں دکھلاؤں جو اپنی تیزی عرفی و ذوق کے بھی دست و زباں ہوویں قلم کھولتا ہوں میں زباں وصف میں اس کے یارو جس کے اوصاف حمیدہ نہیں ہوسکتے رقم جان ہے سارے جہاں کی وہ شہ ِوالا جاہ منبع ِجود وسخا ہے وہ مرا  ابر کرم وہ نصیبا  ہے ترا اے مرے پیارے عیسیٰؑ فخر سمجھیں تری تقلید کو ابن مریمؑ فیض پہنچانے کا ہے تو نے اٹھایا بیڑا لوگ بھولے ہیں ترے وقت میں نامِ حاتم تاج اقبال کا سر پر ہے مزین تیرے نصرت و فتح کا اڑتا ہے ہوا میں پرچم شان و شوکت کو تری دیکھ کے حساد و شریر خون دل پیتے ہیں اور کھاتے ہیں وہ غصہ و غم کونسا مولوی ہے جو نہیں دشمن تیرا کون ہے جو کہ یہودی علماء سے ہے کم کونسا چھوڑا ہے حیلہ تیرا رسوائی کا ہر جگہ کرتے ہیں یہ حق میں ترے سبّ و شتم پر تری پشت پہ وہ ہے جسے کہتے ہیں خدا جس کے آگے ہے ملائک کا بھی ہوتا سر خم جب کیا تجھ پہ کوئی حملہ تو کھائی ہے شکست مار وہ ان کو پڑی ہے کہ نہیں باقی دم مٹ گیا تیری عداوت کے سبب سے پیارے کوئی لیتا نہیں اب دہر میں نام ِآتھم بھنبھناہٹ جو اُنھوں نے یہ لگا رکھی ہے چیز کیا ہیں یہ مخالف تو ہیں پشہ سے بھی کم کر نہیں سکتے یہ کچھ بھی ترا اے شاہ جہاں ہفت خواں بھی جو یہ بن جائیں تو تُو ہے رستم چرخِ نیلی کی کمر بھی ترے آگے ہے خم فیل کیا چیز ہیں اور کس کو ہیں کہتے ہیں ضیغم جس کا جی چاہے مقابل پہ ترے آدیکھے دیکھنا چاہتا ہے کوئی اگر ملکِ عدم حیف ہے قوم ترے فعلوں پر اور عقلوں پر دوست ہیں جو کہ ترے اُن پہ تو کرتی ہے ستم ہائے اُس شخص سے تو بغض و عداوت رکھے رات دن جس کو لگا رہتا ہے تیرا ہی غم نام تک اُس کا مٹا دینے میں ہے تُو کوشاں اس کا ہر بار مگر آگے ہی پڑتا ہے قدم دیکھ کر تیرے نشانات کو اے مہدیٔ وقت آج انگشت بدنداں ہے سارا عالم مال کیا چیز ہے اور جاں کی حقیقت کیا ہے آبرو تجھ پہ فدا کرنے کو تیار ہیں ہم غرق ہیں بحر ِمعاصی میں ہم اے پیارے مسیح ؑ پار ہوجائیں اگر تُو کرے کچھ ہم پہ کرم آج دنیا میں ہر اک سُو ہے شرارت پھیلی پھنس گئی پنجۂ شیطاں میں ہے نسلِ آدم اب ہنسی کرتے ہیں احکام الہٰی سے لوگ نہ تو اللہ ہی کا ڈر ہے نہ عقبیٰ کا غم کوئی اتنا تو بتائے یہ اکڑتے کیوں ہیں؟ بات کیا ہے کہ یہ پھرتے ہیں نہایت خرّم بات یہ ہے کہ یہ شیطاں کے فسوں خوردہ ہیں ان کے دل میں نہیں کچھ خوفِ خدائے عالم اپنی کم علمی کا بھی علم ہے کامل اُن کو ڈالتے ہیں انہیں دھوکے میں مگر دام و درم صاف ظاہر ہے جو آتی ہے یہ  آواز ِصریر ان کے حالات کو لکھتے ہوئے روتا ہے قلم یاں تو اسلام کی قوموں کا ہے یہ حالِ ضعیف اور واں کفر کا لہراتا ہے اونچا پرچم لاکھوں انسان ہوئے دین سے بے دیں ہیہات آج اسلام کا گھر گھر میں پڑا ہے ماتم کفر نے کردیا اسلام کو پامال غضب شرک نے گھیر لی توحید کی جا۔وائے ستم ایسی حالت میں بھی نازل نہ ہو گر فضلِ خدا کفر کے جبکہ ہوں اسلام پہ حملے پیہم جس طرف دیکھئے دشمن ہی نظر آتے ہیں کوئی مونس نہیں دنیا میں نہ کوئی ہمدم دین ِاسلام کی ہر بات کو جھٹلا ئیں غوی احمد ؐ ِپاک کے حق میں کریں سبّ و شتم عاشق احمدؐ و دلدادۂ مولائے کریم حسرت و یاس سے مرجائیں بہ چشمِ پُر نم پر وہ غیور خدا کب اسے کرتا ہے پسند دینِ احمدؐ ہو تباہ اور ہو دشمن خرّم اپنے وعدے کے مطابق تجھے بھیجا اس نے امتِ خیرِ رسل پر ہے کیا اُس نے کرم تیرے ہاتھوں سے ہی دجال کی ٹوٹے گی کمر شرک کے ہاتھ ترے ہاتھ سے ہی ہووینگے قلم دَجل کا نام و نشاں دہر سے مٹ جائے گا ظلِ اسلام میں آجائے گا سارا عالم جو کہ ہیں تابع ِشیطاں نہیں اُن کی پروا ایک ہی حملے میں مٹ جائیگا سب اُن کا بھرم جبکہ وہ زلزلہ جس کا ہوا ہے وعدہ ڈال دے گا تیرے اعداء کے گھروں میں ماتم تب انہیں ہوگی خبر اور کہیں گے ہیہات ہم تو کرتےرہے ہیں اپنی ہی جانوں پہ ستم تیری سچائی کا دنیا میں بجے گا ڈنکا بادشاہوں کے ترے سامنے ہونگے سَر خم تیرے اعداء جو ہیں دوزخ میں جگہ پائیں گے پر جگہ تیرے مریدوں کی تو ہے باغِ ارم التجا ہے میری آخر میں یہ اے پیارے مسیحؑ حشر کے روز تو محمود کا بنیو ہمدم اخبار بدر ۔ جلد 5۔ 6ستمبر1906ء کلام محمود صفحہ13۔14 7۔ غصہ میں بھرا ہوا خدا ہے غصہ میں بھرا ہوا خدا ہے جاگو ابھی فرصتِ دعا ہے تم کہتے ہو امن میں ہیں ہم ،اور منہ کھولے ہوئے کھڑی بلا ہے ڈرتی نہیں کچھ بھی تو خدا سے اے قوم! یہ تجھ کو کیا ہوا ہے مامور خدا سے دشمنی ہے کیا اس کا ہی نام اتقا ہے گمراہ ہوئے ہو باز آؤ کیا عقل تمہاری کو ہوا ہے موسیٰ ؑکے غلام تھے مسیحاؑ ہاں ان سے ہمارا کام کیا ہے اب رہبرِ راہ کوئے دلبر واللہ غلامِ مصطفیٰ ہے کس راہ سے ابن مریمؑ آئے مدت ہوئی وہ تو مرچکا ہے اب اور کا انتظار چھوڑو آنا تھا جسے وہ تو آچکا ہے جس کو کیا ہے خدا نے مامور اس سے بھلا تم کو کیا گلہ ہے کیوں بھولے ہو دوستو ادھر آؤ اک مردِ خدا پکارتا ہے باز آؤ شرارتوں سےاپنی کچھ تم میں اگر بوئے وفا ہے ورنہ ابھی غافلو تمہارے آئے گا وہ آگے جو کیا ہے تقدیر سے ہوچکا مقدر قسمت میں تمھاری زلزلہ ہے وہ دن کہ جب آئے گی مصیبت آنکھوں میں ہماری گھومتاہے حیرانی میں ایک دوسرے سے اُس دن یہ کہے گا ہیں یہ کیا ہے؟ چکھیں گے مزا عذاب کا جب جانیں گے کہ ہاں کوئی خدا ہے پتھر بھی پکار کر کہیں گے ان کافروں کی یہی سزا ہے اے قوم خدا کے واسطے تُو بتلا کہ جو تیرا مدعا ہے حق نے جسے کردیا ہے مامور تسلیم میں اس کی عذر کیا ہے اللہ سے چاہو عفوِ تقصیر دیتا ہے اسے جو مانگتا ہے محمود خدائے لم یزل سے ہر وقت یہی مری دعا ہے اُس شخص کو شاد رکھے ہر دم جو دین ِقویم پر فدا ہے اور اس کو نکالے ظلمتوں سے جو شرک میں کفر میں پھنسا ہے اخبار بدر ۔ جلد 5۔20ستمبر1906ء کلام محمود صفحہ15۔16 8۔ جدھر دیکھو ابرِ گنہ چھا رہا ہے جدھر دیکھو ابرِ گنہ چھا رہا ہے گناہوں میں چھوٹا بڑا مبتلا ہے مرے دوستو شرک کو چھوڑ دو تم کہ یہ سب بلاؤں سے بڑھ کر بلا ہے یہ دم ہے غنیمت کوئی کام کرلو کہ اس زندگی کا بھروسہ ہی کیا ہے محمد پہ ہو جان قرباں ھماری کہ وہ کوئے دلدار کا رہنما ہے غضب ہے کہ یوں شرک دنیا میں پھیلے مرا سینہ جلتا ہے دل پھُنک رہا ہے خدا کے لئے مردِ میداں بنو تم کہ اسلام چاروں طرف سے گھرا ہے تم اب بھی نہ آگے بڑھو تو غضب ہے کہ دشمن ہے بے کس، تمھارا خدا ہے بجالاؤ احکامِ احمدؐ خدارا ذرا سی بھی گر تم میں بوئے وفا ہے صداقت کو اب بھی نہ جانا تو پھر کب کہ موجود اک ہم میں مردِ خدا ہے تری عقل کو قوم کیا ہوگیا ہے اسی کی ہے بدخواہ جو رہنما ہے وہ اسلام دنیا کا  تھا جو محافظ وہ خود آج محتاج امداد کا ہے بپا کیوں ہوا ہے یہ طوفاں یکایک بتاؤ تو اس بات کی وجہ کیا ہے یہی ہے کہ گمراہ تم ہوگئے ہو نہ پہلا سا علم اور نہ وہ اتقا ہے اگر رہنما اب بھی کوئی نہ آئے تو سمجھو کہ وقت آخری آگیا ہے ہمیں ہے اسی وقت ہادی کی حاجت یہی وقت اک رہنما چاہتا ہے یہ ہے دوسری بات مانو نہ مانو مگر حق تو یہ ہے کہ وہ آگیا ہے اٹھو اس کی امداد کے واسطے تم حمیّت کا یارو یہی مقتضا ہے اٹھو دیکھو اسلام کے دن پھرے ہیں کہ نائب محمدؐ کا پیدا ہوا ہے محبت سے کہتا ہے وہ تم کو ہردم اُٹھو سونے والو کہ وقت آگیا ہے دم و خم اگر ہو کسی کو تو آئے وہ میداں میں ہر اِک للکارتا ہے ہر اک دشمنِ دیں کو ہے وہ بلاتا کہ آؤ اگر تم میں کچھ بھی حیا ہے مقابل میں اس کے اگر کوئی آئے نہ آگے بچے گا نہ اب تک بچا ہے مسیحا و مہدیٔ دورانِ آخر وہ جس کے تھے تم منتظر آگیا ہے قدم اس کے ہیں شرک کے سر کے اوپر علم ہر طرف اس کا لہرا رہا ہے خدا ایک ہے اس کا ثانی نہیں ہے کوئی اس کا ہمسر بنانا خطا ہے نہ باقی رہے شرک کا نام تک بھی خدا سے یہ محمود میری دعا ہے اخبار بدر ۔ جلد 5۔14 اکتوبر1906ء کلام محمود صفحہ17۔20 9۔ گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے یہی ہے خضرِ رہِ طریقت یہی ہے ساغر جو حق نما ہے ہر اک مخالف کےزور و طاقت کو توڑنے کا یہی ہے حربہ یہی ہے تلوار جس سے ہر ایک دیں کا بدخواہ کانپتا ہے تمام دنیا میں تھا اندھیرا کیا تھا ظلمت نے یاں بسیرا ہوا ہے جس سے جہان روشن وہ معرفت کا یہی دیا ہے نگاہ جن کی زمین پر تھی نہ آسماں کی جنہیں خبر تھی خدا سے اُن کو بھی جا ملایا دکھائی ایسی رہِ ھدیٰ ہے بھٹکتے پھرتےہیں راہ سے جو، انہیں یہ ہے یار سے ملاتا جواں کے واسطے یہ خضرِ رہ ہے، تو پیر کے واسطے عصا ہے مصیبتوں سے نکالتا ہے بلاؤں کو سر سے ٹالتا ہے گلے کا تعویذ اسے بناؤ، ہمیں یہی حکمِ مصطفیٰ ہے یہ ایک دریائے معرفت ہے لگائے اس میں جو ایک غوطہ تو اس کی نظروں میں ساری دنیا فریب ہے جھوٹ ہے دغا ہے مگر مسلمانوں پر ہے حیرت جنھوں نے پائی ہے ایسی نعمت دلوں پہ چھائی ہے پھر بھی غفلت نہ یادِ عقبیٰ ہے نے خدا ہے نہیں ہے کچھ دیں سے کام ان کا یونہی مسلماں ہے نام ان کا ہے سخت گندہ کلام ان کا ہر ایک کام ان کا فتنہ زا ہے زمیں سے جھگڑا فلک سے قضیہ یہاں ہے شور اور وہاں شرابا نہیں ہے اک دم بھی چین آتا خبر نہیں ان کو کیا ہوا ہے یہ چلتے ہیں یوں اکڑ اکڑ کر کہ گویا ان کے ہیں بحر اور بر پڑے ہیں ایسے سمجھ پہ پتھر۔ کہ شرم ہے کچھ نہ کچھ حیا ہے لڑیں گے آپس میں بھائی باہم نہ ہوگا کوئی کسی کا ہمدم مرا پیارا رسولِ اکرمؐ ۔یہ بات پہلے سے کہہ گیا ہے نہ دل میں خوفِ خدا رہے گا نہ دین کا کوئی نام لے گا فلک پہ ایمان جاچڑھے گا یہی ازل سے لکّھا ہوا ہے مگر خدائے رحیم و رحماں جو اپنے بندوں کا ہے نگہباں جو ہے شہنشاہِ جنّ و انساں جو ذرّہ ذرّہ کو دیکھتا ہے کرے گا قدرت سے اپنی پیدا وہ شخص جس کا کیا ہے وعدہ مسیح ِؑدوراں مثیلِ عیسیٰ ؑ جو میری امت کا رہنما ہے سو ساری باتیں ہوئی ہیں پوری نہیں کوئی بھی رہی ادھوری دلوں میں اب بھی رہے جو دُوری تو اس میں اپنا قصور کیا ہے پڑا عجب شور جابجا ہے جو ہے وہ دنیا پہ ہی فدا ہے نہ دل میں خوفِ خدا رہا ہے نہ آنکھ میں ہی رہی حیا ہے مسیؑحِ دوراں مثیل ِعیسیٰ ؑ بجا ہے دنیا میں جس کا ڈنکا خدا سے ہے پاکے حکم آیا ۔ملا اسے منصبِ ھدیٰ ہے ہے چاند سورج نے دی گواہی ، پڑی ہے طاعون کی تباہی بچائے ایسے سے پھر خدا ہی ، جو اب بھی انکار کررہا ہے وہ مطلع آبدار لکھوں، کہ جس سے حساد کا ہودل خوں حروف کی جا گہر پروؤں، کہ مجھ کو کرنا یہی روا ہے مسیؑح دنیا کا رہنما ہے ، غلامِ احمدؐ ہے مصطفیٰ  ؐ ہے برُوزِ اقطاب و انبیاء ہے، خدا نہیں ہے خدا نما ہے جہاں سے ایمان اٹھ گیا تھا فریب و مکاری کا تھا چرچا فساد نے تھا جمایا ڈیرا ، وہ نقشہ اس نے الٹ دیا ہے اسی کے دم سے مرا تھا آتھم ،اسی نے لیکھو کا سر کیا خم اسی کا د نیا میں آج پرچم ہما کے بازو پہ اُڑ رہا ہے اسی کی شمشیرِ خونچکاں نے کیا قصوری کو ٹکڑے ٹکڑے یہ زلزلہ بار بار آکے ،اسی کی تصدیق کررہا ہے جمایا طاعوں نے ایسا ڈیرا، ستوں اس کا نہ پھر اکھیڑا دیا ہے خلقت کو وہ تریڑا ،کہ اپنی جاں سے ہوئی خفا ہے مقابلہ میں جو تیرے آیا ،نہ خالی بچ کر کبھی بھی لوٹا یہ دبدبہ دیکھ کر مسیحاؑ ، جو کوئی حاسد ہے جل رہا ہے خدا نے لاکھوں نشاں دکھائے، نہ پھر بھی ایمان لوگ لائے عذاب کے منتظر ہیں ہائے ، نہیں جو بدبختی یہ تو کیا ہے صبا ترا  گر وہاں گذرہو تو اتنا پیغام میرا دیجو اگرچہ تکلیف ہوگی تجھ کو پہ کام یہ بھی ثواب کا ہے کہ اے مثیلِ مسیحؑ و عیسیٰؑ ! ہوں سخت محتاج میں دعا کا خدا تری ہے قبول کرتا کہ تُو اس امت کا ناخدا ہے خدا سے میری یہ کر شفاعت کہ علم و نور و ھدیٰ کی دولت مجھے بھی اب وہ کرے عنایت یہی مری اُس سے التجا ہے رہِ خدا میں ہی جاں فدا ہو ، دل عشقِ احمدؐ میں مبتلا ہو اسی پہ ہی میرا خاتمہ ہو، یہی مرے دل کا مدعا ہے نہیں ہے محمود فکر اس کا ، کہ یہ اثر کس قدر کرے گا سخن کہ جو دل سے ہے نکلتا ، وہ دل میں ہی جا کے بیٹھتا ہے اخبار بدر ۔ جلد 6۔21 فروری1907ء کلام محمود صفحہ21 10۔ دوستو ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دن دوستو ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دن مشرق و مغرب میں ہیں یہ دیں کے پھیلانے کے دن اس چمن پر جبکہ تھا دورِ خزاں وہ دن گئے اب تو ہیں اسلام پر یارو بہار آنے کے دن ظلمت و تاریکی و ضد و تعصب مٹ چلے آگئے ہیں اب خدا کے چہرہ دکھلانے کے دن جاہ و حشمت کا زمانہ آنے کو ہے عنقریب رہ گئے تھوڑے سے ہیں اب گالیاں کھانے کے دن ہے بہت افسوس اب بھی گر نہ ایماں لائیں لوگ جبکہ ہر ملک و وطن پر ہیں عذاب آنے کے دن پیشگوئی ہوگئی پوری مسیحِ وقت کی "پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن" ان دنوں کیا ایسی ہی بارش ہوا کرتی تھی یاں سچ کہو کیا تھے یہ سردی سے ٹھٹھر جانے کے دن دوستو اب بھی کرو توبہ اگر کچھ عقل ہے ورنہ خود سمجھائے گا وہ یار سمجھانے کے دن درد و دکھ سے آگئی تھی تنگ اے محمود قوم اب مگر جاتے رہے ہیں رنج و غم کھانے کے دن اخبار بدر ۔ جلد6۔28 فروری1907ء کلام محمود صفحہ22۔23 11۔ ہر چار سُو ہے شہرہ ہوا قادیان کا ہر چار سُو ہے شہرہ ہوا قادیان کا مسکن ہے جو کہ مہدیٔ آخر زمان کا آئیں گے اب مسیؑح دوبارہ زمیں پہ کیوں نظارہ بھا گیا ہے انہیں آسمان کا عیسیٰ ؑ تو تھا خلیفۂ موسیٰؑ او جاہلو! تم سے بتاؤ کام ہے کیا اُس جوان کا تم امتِ محمدؐ خیر الرسلؐ سےہو ہے لطف و فضل تم پہ اسی مہربان کا کہتے ہیں وہ امام تمھارا تمہیں سے ہے جو ہے بڑی ہی شوکت و جبروت و شان کا پہنچے گا جلد اپنے کیے کی سزا کو وہ اب بھی گماں جو بد ہے کسی بد گمان کا ہاں جو نہ مانے احمدؐمرسل کی بات بھی کیا اعتبار ایسے شقی کی زبان کا سچ سچ کہو خدا سے ذرا ڈر کے دو جواب کیا تم کو انتظار نہ تھا پاسبان کا اب آگیا تو آنکھیں چراتے ہو کس لیے کیوں راستہ ہو دیکھ رہے آسمان کا جس نے خدا کے پاس سے آنا تھا آچکا لو آکے بوسہ سنگِ درِ آستان کا اسلام کو اسی نے کیا آکے پھر درست ہو شکر کس طرح سے ادا مہربان کا سینہ سپر ہوا یہ مقابل میں کفر کے خطرہ نہ مال کا ہی کیا اور نہ جان کا توحید کا سبق ہی جو تعلیمِ شرک ہے ہاں کفر ہے بتانا اگر حق بیان کا تو ایسے شرک پر ہوں فدا مال و آبرو اور ایسا کفر روگ بنے میری جان کا اے قوم کچھ تو عقل و خرد سے بھی کام لے لڑتی ہے جس سے مرد وہ  ہےکیسی شان کا گو لاکھ تو مقابلہ اس کا کرےمگر بیکا نہ بال ہوگا کوئی اس جوان کا اے دوستو! جو حق کے لئے رنج سہتے ہو یہ رنج و درد و غم ہے فقط درمیان کا کچھ یاس و ناامیدی کو دل میں جگہ نہ دو اب جلد ہوچکے گا یہ موسم خزان کا اب اس کے پورا ہوتے ہی آجائے گی بہار وعدہ دیا ہے حق نے تمہیں جس نشان کا چاہا اگر خدا نے تو دیکھو گے جلد ہی چاروں طرف ہے شور بپا الامان کا کافر بھی کہہ اٹھیں گے سچا ہے وہ بزرگ دعویٰ کیا ہے جس نے مسیح الزّمان کا محمود کیا بعید ہے دل پر جو قوم کے نالہ اثر کرے یہ کسی نوحہ خوان کا اخبار بدر ۔ جلد6۔14مارچ 1907ء کلام محمود صفحہ24 12۔ اے مولویو! کچھ تو کرو خوف خدا کا اے مولویو! کچھ تو کرو خوف خدا کا کیا تم نے سنا تک بھی نہیں نام حیا کا کیا تم کو نہیں خوف رہا روزِ جزا کا یوں سامنا کرتے ہو جو محبوبِ خدا کا ہر جنگ میں کفار کو ہے پیٹھ دکھائی تم لوگوں نے ہی نام ڈبویا ہے وفا کا ٹھہراتے ہیں کافر اسے جو ہادیٔ دیں ہے یہ خوب نمونہ ہے یہاں کے علماء کا بیٹھا ہے فلک پر جو اسے اب تو بلاؤ چپ بیٹھے ہو کیوں تم ہے یہی وقت دعا کا پر حشر تلک بھی جو رہو اشک فشاں تم ہرگز نہ پتا پاؤ گے کچھ آہِ رسا کا وہ شاہ جہاں جس کے لئے چشم بَرَہ ہو وہ قادیاں میں بیٹھا ہے محبوب خدا کا وحشی کو بھی دم بھر میں مہذب ہے بناتی دیکھو تو اثر آکے ذرا اس کی دعا کا وہ قوّتِ اعجاز ہے اس شخص نے پائی دم بھر میں اسے مار گرایا جسے تاکا محمود نہ کیوں اس کے مخالف ہوں پریشاں نائب ہے نبیؐ کا وہ فرستادہ خدا کا اخبار بدر ۔ جلد6۔14مارچ 1907ء کلام محمود صفحہ25۔26 13۔ یوں الگ گوشۂ ویراں میں جو چھوڑا ہم کو یوں الگ گوشۂ ویراں میں جو چھوڑا ہم کو نہیں معلوم کہ کیا قوم نے سمجھا ہم کو کل تلک تو یہ نہ چھوڑے گا کہیں کا ہم کو آج ہی سے جو لگا ہے غم ِفردا ہم کو ہے خدا کی ہی عنایت پہ بھروسہ ہم کو نہ عبادت کا نہ ہے زہد کا دعویٰ ہم کو دردِ الفت میں مزہ آتا ہے ایسا ہم کو کہ شفایابی کی خواہش نہیں اصلاہم کو تجھ پہ رحمت ہو خدا کی کہ مسیؑحا تو نے رشتۂ الفت و وحدت میں ہے باندھا ہم کو اپنا چہرہ کہیں دکھلائے وہ رب العزت مدتوں سے ہے یہی دل میں تمنا ہم کو گالیاں دشمنِ دیں ہم کو جو دیتے ہیں تو دیں کام لیں صبر و تحمل سے ہے زیبا ہم کو کچھ نہیں فکر ، لگائی ہے خدا سےجب لَو گو سمجھتا ہے برا اپنا پرایا ہم کو ایک تسمہ کی بھی حاجت ہو تو مانگو مجھ سے ہے ہمیشہ سے اس یار کا ایما ہم کو زخم ِدل زخمِ جگر ہنستے ہیں کِھل کِھل کر کیوں حالتِ قوم پہ آتا ہے جو رونا ہم کو کہیں موسیٰ ؑ کی طرح حشر میں بیہوش نہ ہوں لگ رہا ہے اسی عالَم میں یہ دھڑکا ہم کو ایک دم کے لیے بھی یاد سے کیوں تُو اُترے اور محبوب کہاں تجھ سا ملے گا ہم کو تجھ پہ ہم کیوں نہ مریں اے مرے پیارے کہ ہے تُو دولت و آبرو و جان سے پیارا ہم کو آدمی کیا ہے تواضع کی نہ عادت ہو جسے سخت لگتا ہے برا کِبر کا پُتلا ہم کو دشمنِ دین درندوں سے ہیں بڑھ کر خونخوار چھوڑیو مت مِرے مولیٰ کبھی تنہا ہم کو دیکھ کر حالتِ دیں خونِ جگر کھاتے ہیں مر ہی جائیں جو نہ ہو تیرا سہارا ہم کو دل میں آ آ کے تیری یاد نے اے رب ِوَدُود بارہا پہروں تلک خون رُلایا ہم کو چونکہ توحید پہ ہے زور دیا ہم نے آج اپنے بیگانے نے چھوڑا ہے اکیلا ہم کو حق کو کڑواہی بتاتے چلے آئے ہیں لوگ یہ نئی بات ہے لگتا ہے وہ میٹھا ہم کو جوشِ الفت میں یہ لکھی ہے غزل اے محمود کچھ ستائیش کی تمنا نہیں اصلا ہم کو اخبار بدر ۔ جلد6۔23مئی 1907ء کلام محمود صفحہ27۔29 14۔ کیوں ہورہا ہے خرّم و خوش آج کل جہاں کیوں ہورہا ہے خرّم و خوش آج کل جہاں کیوں ہردیار و شہر ہؤا رشکِ بوستاں چہرہ پہ اس مریض کے کیوں رونق آگئی جو کل تلک تھا سخت ضعیف اور ناتواں ان بے کسوں کی ہمتیں کیوں ہوگئیں بلند جن کا کل جہاں میں نہ تھا کوئی پاسباں وہ لوگ جو کہ راہ سے بے راہ تھے ہوئے کیوں ان کے چہروں پر ہے خوشی کا اثر عیاں تاریکی و جہالت و ظلمت کدھر گئی دنیا سے آج ان کا ہوا کیوں ہے گم نشاں مجھ سے سنو کہ اتنا تغیر ہے کیوں ہوا جو بات کل نہاں تھی ہوئی آج کیوں عیاں یہی وقت وقتِ حضرت عیسیٰ ہے دوستو جو نائب خدا ہیں جو ہیں مہدیٔ زماں ہوکرغلامِ احمد مرسل کے آئے ہیں قربان جن کے نام پہ ہوتے ہیں انس و جاں سب دشمنادِ دیں کو انھوں نے کیا ذلیل بخشی ہے ربّ ِعزّ و جل نے وہ عِزّ و شاں جو ان سے لڑنے آئے وہ دنیا سے اٹھ گئے باقی کوئی بچا بھی تو ہے وہ اب نیم جاں ان کو ذلیل کرنے کا جس نے کیا خیال ایسا ہوا ذلیل کہ جینا ہوا محال رنج و غم و ملال کو دل سے بھلا دیا جو داغ دل پہ اپنے لگا تھا مٹا دیا ہم بھُولے پھر رہے تھے کہیں کے کہیں مگر جو راہِ راست تھا ہمیں اس نے بتادیا اک جام معرفت کا جو ہم کو پلا دیا جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا دکھلا کے ہم کو تازہ نشانات و معجزات چہرہ خدائے عزّو جل کا دکھا دیا ہم کیوں کریں نہ اس پہ فدا جان و آبرو روشن کیا ہے دین کا جس نے بُجھا دِیَا وہ دل جو بغض و کینہ سے تھے کورہو رہے دیں کا کمال ان کو بھی اس نے دکھا دیا اس نے ہی آکے ہم کو اٹھایا زمین سے تھا دشمنوں نے خاک میں ہم کو ملادیا ڈوئی۔ قصوری۔ دھلوی۔ لیکھو و سومراج ساروں کو ایک وار میں اس نے گرادیا ایسے نشاں دکھائے کہ میں کیا کہوں تمہیں کفار نے بھی اپنے سروں کو جھکا دیا احسان اس کے ہم پہ ہیں بے حد و بیکراں جو گن سکے انہیں نہیں ایسی کوئی زباں برطانیہ جو تم پہ حکومت ہے کررہا تم جانتے نہیں ہو کہ ہے بھید اس میں کیا یہ بھی اُسی کے دم سے ہے نعمت تمہیں ملی تا شکر جان و دل سے خدا کا کرو ادا نازل ہوئے تھے عیسیٰ ؑ مریم جہاں وہاں اس وقت جاری قیصرِ روما کا حکم تھا گو تھی یہودیوں کی نہ وہ اپنی سلطنت پر اپنی سلطنت سے بھی آرام تھا سوا ویسی ہی سلطنت تمھیں اللہ نے ہے دی تا اپنی قسمتوں کا نہ تم کو رہے گلہ پر جیسے اس مسیؑح سے بڑھ کر ہے یہ مسیؑح یہ سلطنت بھی پہلی سے ہے امن میں سوا یہ رعب اور شان بھلا اُس میں تھی کہاں یہ دبدبہ تھا قیصرِ روما کو کب ملا ہے ایسی شان قیصرِ ہندوستان کی ہے دشمن اس کی خنجرِ بُرّاں سے کانپتا اس سلطنت کی تم کو بتاؤں وہ خوبیاں جن سے کہ اس کی مہروعنایات ہو عیاں اس کے سبب سے ہند میں امن و امان ہے نے شور و شر کہیں ہے نہ آہ و فغان ہے ہندوستاں میں ایسا کیا ہے انہوں نے عدل ہر شورہ پُشت جس سے ہوا نیم جان ہے وہ جا جہاں پہ ہوتی تھی ہر روز لوٹ مار ہر طرح اس جگہ پہ اب امن و امان ہے خفیہ ہو کوئی بات تو بتلاؤں میں تمہیں طرزِ حکومت ان کی ہر اک پر عیان ہے ہندوستاں میں چاروں طرف ریل جاری کی ان کا ہی کام ہے یہ،یہ ان کی ہی شا ن ہے چیزیں ہزاروں ڈاک میں بھیجو تم آج کل نقصان اس میں کوئی، نہ کوئی زیان ہے پھیلایا تار ملک میں آرام کے لیے یہ سلطنت ہی ہم پہ بہت مہربان ہے چھوٹوں بڑوں کی چین سے ہوتی ہے یاں بسر نے مال کا خطر ہے نہ نقصانِ جان ہے پیتے ہیں ایک گھاٹ پہ شیر اور گو سپند اس سلطنت میں یاں تلک امن و امان ہے پھر بھی کوئی نہ مانے جو احساں تو کیا کریں ایسے کو بے خرد کہیں یا بے حیا کہیں ہندوستاں سے اٹھ گیا تھا علم اور ہنر یاں آتاتھا نہ عالمِ و فاضل کوئی نظر پھیلا تھا ہر چہار طرف جہل ملک پر کوئی نہ تھا جو آکے ھمارا ہو چارہ گر اپنے پرائے چھوڑ کر سب ہوگئے الگ ہم بے کسوں پہ آخر انہوں نے ہی کی نظر انگریزوں نے ہی بے کس و بد حال دیکھ کر کھولے ہیں علم و فضل کے ہم پر ہزار دَر مذہب میں ہر طرح ہمیں آزاد کردیا چلتا نہیں سروں پہ کوئی جبر کا تَبَر پوجا کرے نماز پڑھے کوئی کچھ کرے آزاد کردیا ہے انھوں نے ہر اک بشر القصہ سلطنت یہ بڑی مہربان ہے آتی نہیں جہان میں ایسی کوئی نظر فضل خدا سے ہم کو ملی ہے یہ سلطنت جو نفع دینے والی ہے اور ہے بھی بے ضرر اور اس سے بڑھ کے رحم خدا کا یہ ہم پہ ہے عیسیٰ مسیؑح سا ہے دیا ہم کو راہبر محمود دردِ دل سے یہ ہے اب مِری دعا قیصر کو بھی ہدایت ِاسلام ہو عطا اخبار بدر ۔ جلد6۔30مئی 1907ء کلام محمود صفحہ30 15۔ نہ کچھ قوت رہی ہے جسم و جاں میں نہ کچھ قوت رہی ہے جسم و جاں میں نہ باقی ہے اثر میری زباں میں ہے تیاری سفر کی کارواں میں مرا دل ہے ابھی خوابِ گراں میں نہیں چھٹتی نظر آتی مری جاں پھنسا ہوں اس طرح قیدِ گراں میں مزا جو یار پر مرنے میں ہے وہ نہیں لذت حیاتِ جاوداں میں ہر اک عارف کے دل پر ہے وہ ظاہر خدا مخفی نہیں ہے آسماں میں خدایا دردِ دل سے ہے یہ خواہش مِرا تُو ساتھ دے دونوں جہاں میں نظر میں کاملوں کی ہے وہ کامل اترتا ہے جو پورا امتحاں میں یہی جی ہے کہ پہنچے یار کے پاس ہے مرغِ دل تڑپتا آشیاں میں جو سنتا ہے پکڑ لیتا ہے دل کو تڑپ ایسی ہے میری داستاں میں ندائے دوست آئی کان میں کیا کہ پھر جاں آگئی اک نیم جاں میں کریں کیونکہ نہ تیرا شکر یارب کہ تو نے لے لیا ہم کو اَماں میں ہر اک رنج و بلا سے ہم ہیں محفوظ مصیبت پڑ رہی ہے گو جہاں میں ہر اک جانُور سے تیرے منور ترا ہی جلوہ ہے کون و مکاں میں کہاں ہے لالہ و گل میں وہ ملتی جو خوبی ہے مرے اس دلستاں میں ہے اک مخلوق ربِ ذو المنن کی بھلا طاقت ہی کیا ہے آسماں میں خدا کا رحم ہونے کو ہے محمود تغیر ہورہا ہے آسماں میں اخبار بدر جلد 6۔ 26 ستمبر 1907ء کلام محمود صفحہ31۔32 16۔ نشاں ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں نشاں ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں ہمارے دین کا قصوں پہ ہی مدار نہیں وہ دل نہیں جو جدائی میں بے قرار نہیں نہیں وہ آنکھ جو فرقت میں اشکبار نہیں وہ ہم کہ فکر میں دیں کے ہمیں قرار نہیں وہ تم کہ دینِ محمدؐ سے کچھ بھی پیار نہیں وہ لوگ درگہ ِعالی میں جن کو بار نہیں انہیں فریب و دغا، مکر سے بھی عار نہیں ہے خوف مجھ کو بہت اس کی طبع ِنازک سے نہیں ہے یہ کہ مجھے آرزوئے یار نہیں تڑپ رہی ہے مری روح جسم خاکی میں ترے سوا مجھے اک دم بھی اب قرار نہیں نہ طعنہ زن ہو مری بےخودی پہ اے ناصح میئں کیا کہوں کہ مرا اس میں اختیار نہیں مثالِ آئینہ ہے دل کہ یار کا گھر ہے مجھے کسی سے بھی اس دہر میں غبار نہیں جو دل میں آئے سو کہہ لو کہ اس میں بھی ہے لطف خدا کے علم میں گر ہم ذلیل و خوار نہیں ہوا وہ پاک جو قدوس کا ہوا شیدا پلید ہے جسے حاصل یہ افتخار نہیں وہ ہم کہ عشق میں پائے ہیں لطفِ یکتائی ہمارا دوست نہیں کوئی غمگسار نہیں چڑھے ہیں سینکڑوں ہی سولیوں پہ ہم منصور ہمارے عشق کا اک دار پر مدار نہیں یونہی کہو نہ ہمیں لوگو! کافر و مرتد ہمارے دل کی خبر تم پہ آشکار نہیں امامِ وقت کا لوگو کرو نہ تم انکار جو جھوٹے ہوتے ہیں وہ پاتے اقتدار نہیں دل و جگر کے پرخچے اڑے ہوئے ہیں یاں اگرچہ دیکھنے میں اپنا حال زار نہیں جگا رہے ہیں مسیؑحا کبھی سے دنیا کو مگر غضب ہے کہ ہوتی وہ ہوشیار نہیں مقابلہ میں مسیؑحِ زماں کے جوا ٓئے وہ لوگ وہ ہیں جنہیں حق سے کچھ بھی پیار نہیں کلامِ پاک بھی موجود ہے اسے پڑھ لے ہمارا تجھ کو جو اے قوم اعتبار نہیں کبھی تو دل پہ بھی جاکر اثر کرے گی بات سنائے جائیں گے ہم، تم کہو ہزار" نہیں" کروڑ جاں ہو تو کردوں فدا محمد ؐ پر کہ اس کے لطف و عنایات کا شمار نہیں اخبار بدر جلد 6۔ 7 اکتوبر 1907ء کلام محمود صفحہ33۔34 17۔ ظہور مھدیٔ آخر زماں ہے ظہور مھدیٔ آخر زماں ہے سنبھل جاؤ کہ وقتِ امتحاں ہے محمدؐ میرے تن میں مثلِ جاں ہے یہ ہے مشہور جاں ہے تو جہاں ہے گیا اسلام سے وقتِ خزاں ہے ہوئی پیدا بہارِ جاوداں ہے اگر پوچھے کوئی عیسیٰؑ کہاں ہے تو کہدو اس کا مسکن قادیاں ہے ہر اک دشمن بھی اب رطب اللّساں ہے مرے احمد کی وہ شیریں زباں ہے مقدر اپنے حق میں عزّ و شاں ہے جو ذلت ہے نصیبِ دشمناں ہے مسیحاؑئے زما ں کا یاں مکاں ہے زمینِ قادیان دارالاماں ہے فدا تجھ پہ مسیؑحا میری جاں ہے کہ تو ہم بے کسوں کا پاسباں ہے مسیؑحا سے کوئی کہہ دو یہ جاکر مریضِ عشق تیرا نیم جاں ہے نہ پھولو دوستو دنیائے دوں پر کہ اس کہ دوستی میں بھی زیاں ہے دورنگی سے ہمیں ہے سخت نفرت جو دل میں ہے جبیں سے بھی عیاں ہے ترے اس حال بد کو دیکھ کر قوم جگر ٹکڑے ہے اور دل خوں فشاں ہے جسے کہتی ہے دنیا سنگِ پارس مسیؑحا کا وہ سنگِ آستاں ہے دیا ہے رہنما بڑھ کر خضرؑ سے خدا بھی ہم پہ کیسا مہرباں ہے فلک سے تامنارہ آئیں عیسیٰؑ مگر آگے تلاشِ نرد باں ہے ترقی احمدی فرقہ کی دیکھے بٹالہ میں جو اک پیرِ مغاں ہے نہ یوں حملہ کریں اسلام پر لوگ ہمارے منہ میں بھی آخر زباں ہے مخالف اپنے ہیں گو زور پر آج مگر ان سے قوی تر پاسباں ہے مَرا ڈوئی دمِ معجز نما سے یہ عیسیٰؑ کی صداقت کا نشاں ہے مسلمانوں کی بدحالی کے غم میں دھرا سینہ پر اک سنگِ گراں ہے پریشاں کیوں نہ ہوں دشمن، مسیحا! ظفر کی تیرے ہاتھوں میں عناں ہے نہیں دنیا میں جس کا جوڑ کوئی ھمارا پیشوا وہ پہلواں ہے کرے قرآن پر چشمک حسد سے کہاں دشمن میں یہ تاب و تواں ہے نہیں دنیا کی خواہش ہم کو ہرگز فدا دیں پر ہی اپنا مال و جاں ہے نہیں اسلام کو کچھ خوف محمود کہ اس گلشن کا احمدؐ باغباں ہے اخبار بدر جلد 6۔ 26دسمبر 1907ء کلام محمود صفحہ35۔37 18۔ محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے مرا دل اس نے روشن کردیا ہے اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے خبر لے اے مسیؑحا دردِ دل کی ترے بیماری کا دم گھٹ رہا ہے دل آفت زدہ کا دیکھ کر حال مرا زخم جگر بھی ہنس رہا ہے کس کو بھی نہیں مذہب کی پروا ہر اک دنیاکا ہی شیدا ہوا ہے بھنور میں پھنس رہی ہے کشتیٔ دیں تلاطم بحرِ ہستی میں بپا ہے سروں پر چھا رہا ہے ابرِ ظلمت اُسی سے جنگ ہے جو ناخدا ہے خدایا اک نظر اس تفتہ دل پر کہ یہ بھی تیرے در کا اک گدا ہے غمِ اسلام میں جاں بلب ہوں کلیجہ میرا منہ کو آرہا ہے ہمارے حال پر ہنستی ہے گو قوم ہمیں پر اس پہ رونا آرہا ہے مسیؑحا کو نہیں خوف و خطر کچھ حمایت تلا اس کی خدا ہے ہوئے ہیں لوگ دشمن امرِ حق کے اسی کا نام کیا صدق و صفا ہے حیاتِ جاوداں ملتی ہے اس سے کلامِ پاک ہی آب بقا ہے دم عیسیٰ سے مردے جی اٹھے ہیں جو اندھے تھے انہیں اب سوجھتا ہے ذرا آنکھیں تو کھولو سونے والو! تمھارے سر پہ سورج آگیا ہے زمین و آسماں ہیں اس پہ شاھد جہاں میں ہر طرف پھیلی وبا ہے مرا ہر ذرہ ہو قربانِ احمدؐ مرے دل کا یہی اک مدعا ہے اسی کے عشق میں نکلے مری جاں کہ یادِ یار میں بھی اک مزا ہے مجھے اس بات پر ہے فخر محمود مرا معشوق محبوبِ خدا ہے سنو اے دشمنانِ دینِ احمدؐ نتیجہ بد زبانی کا برا ہے کساں کو اک نظر دیکھو خدا را جو بوتا ہے اسی کو کاٹتا ہے نہیں لگتے کبھی کیکر کو انگور نہ حنظل میں کبھی خرما لگا ہے لگیں گو سینکڑوں تلوار کے زخم زباں کا ایک زخم اُن سے برا ہے شفا پاجاتے ہیں وہ رفتہ رفتہ کہ آخر ہر مرض کی اک دوا ہے خزاں آتی نہیں زخمِ زباں پر یہ رہتا آخری دم تک ہرا ہے ہمارے انبیاء کو گالیاں دو پھر اس کے ساتھ دعویٰ صلح کا ہے گریبانوں میں اپنے منہ تو ڈالو ذرا سو چو اگر کچھ بھی حیا ہے ہماری صلح تم سے ہوگی کیونکر تمھارے دل میں جب یہ کچھ بھرا ہے محمدؐ کو برا کہتے ہو تم لوگ ہماری جان و دل جس پر فدا ہے محمدؐ جو ہمارا پیشوا ہے محمد ؐ جو کہ محبوبِ خدا ہے ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ کہ وہ شاہنشہ ہر دوسرا ہے اسی سی میرا دل پاتا ہے تسکیں وہی آرام میری روح کا ہے خدا کو اس سےمل کر ہم نے پایا وہی اک راہِ دیں کا رہنما ہے پس اس کی شان میں جو کچھ ہو کہتے ہمارے دل جگر کو چھیدتا ہے مزہ دوبار پہلے چکھ چکے ہو مگر پھر بھی وہی طرزِ ادا ہے خدا کا قہر اب تم پر پڑے گا کہ ہونا تھا جو کچھ اب ہوچکا ہے چکھائے گی تمہیں غیرت خدا کی جو کچھ اس بدزبانی کا مزا ہے ابھی طاعون نے چھوڑا نہیں ملک نئی اور آنے والی اک وبا ہے شرارت اور بدی سے باز آؤ دلوں میں کچھ بھی گر خوفِ خدا ہے بزرگوں کو ادب سے یاد کرنا یہی اکسیر ہے اور کیمیا ہے اخبار بدر جلد 7۔ 6فروری 1908ء کلام محمود صفحہ38۔39 19۔ بابِ رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا بابِ رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا جب تمھارا قادرِ مطلق خدا ہوجائےگا دشمنِ جانی جو ہوگا آشنا ہوجائے گا بوم بھی ہوگا اگر گھر میں ہما ہوجائے گا آدمی تقویٰ سے آخر کیمیا ہو جائے گا جس مسِ دل سے چھوئے گا وہ طلا ہوجائے گا جو کہ شمع روئے دلبر پر فدا ہوجائے گا خاک بھی ہوگا تو پھر خاکِ شفا ہوجائے گا جو کوئی اس یار کے در کا گدا ہوجائے گا ملکِ روحانی کا وہ فرمانروا ہوجائے گا جس کو تم کہتے ہو یارو یہ فنا ہوجائے گا ایک دن سارے جہاں کا پیشوا ہوجائے گا کفر مٹ جائے گا زور اسلام کا ہوجائے گا ایک دن حاصل ہمارا مدعا ہوجائے گا مہدیٔ دوران کا جو خاکِ پا ہوجائے گا مہرِ عالمتاب سے روشن سوا ہوجائے گا جوکوئی تقوٰی کرے گا پیشوا ہوجائے گا قبلہ رخ ہوتے ہوئے قبلہ نما ہوجائے گا جس ک مسلک زھد و ذکر و اتقا ہوجائے گا پنجۂ شیطاں سے وہ بالکل رہا ہوجائے گا دیکھ لینا ایک دن خواہش بر آئے گی مری میرا ہر ذرہ محمدؐ پر فدا ہوجائے گا نقشِ پا پر جو محمدؐ کے چلے گا ایک دن پیروی سے اس کی محبوب ِ خدا ہوجائے گا دیر کرتے ہیں جو نیکی میں ہے کیا ان کا خیال موت کی ساعت میں بھی کچھ التوا ہوجائے گا دشمنِ اسلام جب دیکھیں گے اک قہری نشاں جاں نکل جائے گی ان کی دَم فنا ہوجائے گا نائبِ خیر الرسل ہو کر کرے گا کام یہ وارثِ تخت محمدؐ میرزا ہوجائے گا حکمِ ربی سے یہ ہے پیچھے پڑا شیطان کے اس کے ہاتھوں سے اب اس کا فیصلہ ہوجائے گا اس کی باتوں سے ہی ٹوٹے گا یہ دجالی طلسم اس کا ہر ہر لفظ موسیٰؑ کا عصا ہوجائے گا خاک میں ملکر ملیں گے تجھ سے یارب ایکدن درد جب حد سے بڑھے گا تو دوا ہوجائے گا آبِ روحانی سے جب سیراب ہوگا کل جہاں پانی پانی شرم سے اک بے حیا ہوجائے گا ہیں درِ مالک پہ بیٹھے ہم لگائے ٹکٹکی ہاں کبھی تو اپنا نالہ بھی رسا ہو جائے گا بلبلہ پانی کا ہے انساں نہیں کرتا خیال ایک ہی صدمہ اٹھا کر وہ ہوا ہوجائے گا سختیوں سے قوم کی گھبرا نہ ہرگز اے عزیز کھا کے یہ پتھر تو لعلِ بے بہا ہو جائے گا جو کوئی دریائے فکر دیں میں ہوگا غوطہ زن میل اتر جائیگی اس کی دل صفا ہوجائے گا قوم کے بغض و عداوت کی نہیں پروا ہمیں وقت یہ کٹ جائے گا ،فضلِ خدا ہو جائے گا چھوڑ دو اعمالِ بد کے ساتھ بد صحبت بھی تم زخم سے انگور مل کر پھر ہرا ہوجائے گا حق پہ ہم ہیں یا کہ یہ حساد ہیں جھگڑا ہے کیا فیصلہ اس بات کا روزِ جزا ہوجائے گا تیرا ہر ہر لفظ اے پیارے مسیؑحائے زماں حق کے پیاسوں کے لیے آب بقا ہوجائے گا کیوں نہ گرد اب ِہلاکت سے نکل آئے گی قوم کشتیٔ دیں کا خدا جب نا خدا ہوجائے گا کرلو جو کچھ موت کےآنے سے پہلے ہوسکے تیر چھٹ کر موت کا پھر کیا خطا ہوجائے گا عشقِ مولیٰ دل میں جب محمود ہوگا موجزن یاد کر اس دن کو تو پھر کیا سے کیا ہوجائے گا اخبار بدر جلد 7۔ 25جون 1908ء کلام محمود صفحہ40 20۔ یا الٰہی رحم کر اپنا کہ میں بیمار ہوں یا الٰہی رحم کر اپنا کہ میں بیمار ہوں دل سے تنگ آیا ہوں اپنی جان سے بیزار ہوں بس نہیں چلتا تو پھر میں کیا کروں لاچار ہوں ہر مصیبت کے اٹھانے کے لیے تیار ہوں ہوگئی ہیں انتظارِ یار میں آنکھیں سپید اک بتِ سمیں بدن کا طالب دیدار ہوں کرمِ خاکی ہوں ، نہیں رکھتا کوئی پروا مری دشمنوں پر میں گراں ہوں دوستوں پر بار ہوں کچھ نہیں حالِ کلیساو صنم خانہ کا علم نشۂ جامِ مئے وحدت میں مَیں سر شار ہوں اس کی دوری کو بھی پاتا ہوں مقامِ قرب میں خواب میں جیسے کوئی سمجھے کہ میں بیدار ہوں کیا کروں جا کر حرم میں مجھ کو ہے تیری تلاش دار کا طالب نہیں ہوں طالبِ دیدار ہوں صبر و تمکیں تو الگ دل تک نہیں باقی رہا راہِ الفت میں اُلٹا ایسا کہ اب نادار ہوں اب تو جو کچھ تھا حوالے کرچکا دلدار کے وہ گئے دن جبکہ کہتا تھا کہ میں دل دار ہوں اخبار بدر جلد 7۔ 9جولائی  1908ء کلام محمود صفحہ41 21۔ اے مرے مولیٰ مرے مالک مری جاں کی سپر اے مرے مولیٰ مرے مالک مری جاں کی سپر مبتلائے رنج و غم ہوں جلد لے میری خبر دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے اب کسی پر تیرے بن پڑتی نہیں میری نظر امن کی کوئی نہیں جا خوف دامن گیر ہے سانپ کی مانند مجھ کو کاٹتے ہیں بحر و بر ہاتھ جوڑوں یا پڑوں پاؤں کیا کروں دل میں بیٹھا ہے مگر آتا نہیں مجھ کو نظر جبکہ ہر شے مِلک ہے تیری مرے مولیٰ تو پھر جس سے تو جاتا رہے بتلا کہ وہ جائے کدھر کام دیتی ہے عصا کا آیت لَا تَقنَطُوا ورنہ عصیاں نے تو میری توڑ ڈالی ہے کمر بے کسی میں رھزنِ رنج و مصیبت آپڑا سب متاعِ صبر و طاقت ہوگئی زیرو زبر اخبار بدر جلد 7۔ 3 ستمبر 1908ء کلام محمود صفحہ42۔43 22۔ کوئی گیسو مرے دل سے پریشاں ہو نہیں سکتا کوئی گیسو مرے دل سے پریشاں ہو نہیں سکتا                           کوئی آئینہ مجھ سے بڑھ کر حیراں ہو نہیں سکتا     کوئی یادِ خدا سے بڑھ کر مہماں ہو نہیں سکتا وہ ہو جس سے خانہ ِٔ دل میں وہ ویراں ہو نہیں سکتا الھٰی پھر سبب کیا ہے کہ درماں ہو نہیں سکتا ہمارا دردِ دل جب تجھ سے پنہاں ہو نہیں سکتا کوئی مجھ سا گنا ہوں پر پشیماں ہونہیں سکتا کوئی یوں غفلتوں پر اپنی گریاں ہو نہیں سکتا چھپا ہے ابر کے پیچھے نظر آتا نہیں مجھ کو میں اس کے چاند سے چہرہ پر قرباں ہو نہیں سکتا خداراخواب میں ہی آکے اپنی شکل دکھلا دے بس اب تو صبر مجھ سے اے مری جاں ہونہیں سکتا وہاں ہم جا نہیں سکتے یہاں وہ آ نہیں سکتے ہمارے درد کا کوئی بھی دَرماں ہو نہیں سکتا چھپیں وہ لاکھ پردوں میں ہم انکو دیکھ لیتے ہیں خیالِ روئے جاناں ہم سے پنہاں ہو نہیں سکتا زرِ خالص سے بڑھ کر صاف ہونا چاہیئے دل کو ذرا بھی کھوٹ ہو جس میں مسلماں ہو نہیں سکتا ہوا آخر نکل جاتی ہے آزارِ محبت کی چھپاؤ لاکھ تم اس کو وہ پنہاں ہو نہیں سکتا نظر آتے تھے میرے حال پر وہ بھی پریشاں سے یہ میرا خواب تو خوابِ پریشاں ہو نہیں سکتا خدایا مدتیں گذریں تڑپتے تیری فرقت میں ترے ملنے کا کیا کوئی بھی ساماں ہونہیں سکتا بھلاؤں یاد سے کیونکر کلامِ پاک دلبر ہے جدا مجھ سے تو اک دم کو بھی قرآں ہونہیں سکتا مکانِ دل میں لا کر میں غمِ دلبر رکھوں گا مبارک اس سے بڑھ کر کوئی مہماں ہو نہیں سکتا وہ ہیں فردوس میں شاداں گرفتار بلا ہوں میں وہ غمگیں ہو نہیں سکتے میں خنداں ہونہیں سکتا معافی دے نہ جبتک وہ مرے سارے گناہوں کی جدا ہاتھوں سے میرے اس کا داماں ہو نہیں سکتا ہر اک دم اپنی قدرت کے انہیں جلوے دکھاتا ہے جو اس کے ہورہیں ہیں پھر ان سے پنہاں ہونہیں سکتا ہزاروں حسرتوں کا روز دل میں خون ہوتا ہے کبھی ویران یہ گنجِ شھیداں ہونہیں سکتا مثالِ کوہ ِآتشبار کرتا ہوں فغاں ہر دم کسی کا مجھ سے بڑھ کے سینہ بریاں ہو نہیں سکتا ہوں اتنا منفعل اس سے کہ بولا تک نہیں جاتا میں اس سے مغفرت کا بھی تو خواہاں ہونہیں سکتا کِیا تھا پہلے دل کا خون اب جاں لے کے چھوڑینگے دیت کا بھی تو میں اس ڈر سے خواہاں ہونہیں سکتا اخبار بدر جلد 7۔ 22اکتوبر 1908ء کلام محمود صفحہ44 23۔ وہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو خوب تھا وہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو خوب تھا مرتے ہوئے کو آکے جِلاتے تو خوب تھا اس بے وفا سے دل نہ لگاتے تو خوب تھا مٹی میں آبرو نہ ملاتے تو خوب تھا دلبر سے رابطہ جو بڑھاتے تو خوب تھا یوں عمر رائیگاں نہ گنواتے تو خوب تھا اک غمزدہ کو چہرہ دکھاتے تو خوب تھا روتے ہوئے کو آکے ہنساتے تو خوب تھا اک لفظ بھی زباں پہ نہ لاتے تو خوب تھا دنیا سے اپنا عشق چھپاتے تو خوب تھا نظروں سے اپنی تم نہ گراتے تو خوب تھا پہلے ہی ہم کو منہ نہ لگاتے تو خوب تھا محمود دل خدا سے لگاتے تو خوب تھا شیطاں سے دامن اپنا چھڑاتے تو خوب تھا یونہی پڑے نہ باتیں بناتے تو خوب تھا کچھ کام کرکے ہم بھی دکھاتے تو خوب تھا دنیائے دُوں کو آگ لگاتے تو خوب تھا کوچہ میں اس کے دھونی رماتے تو خوب تھا آبِ حیات پی کے خضرؑ تم نے کیا لیا تم اُس کی راہ میں خون لنڈھاتے تو خوب تھا اے کاش! عقل عشق میں دیتی ہمیں جواب دیوانہ وار شور مچاتے تو خوب تھا مدت سے ہیں بھٹک رہے وادی میں عشق کی وہ خود ہی آکے راہ دکھاتے تو خوب تھا عزت بھی اس کی دوری میں بے آبروئی ہے کوچہ میں اس کے خاک اڑاتے تو خوب تھا بحرِ گنہ میں پھر کبھی کشتی نہ ڈوبتی ہم نا خدا خدا کو بناتے تو خوب تھا فرقت میں اپنا حال ہوا ہے یہاں جو غیر احباب ان کو جاکے سناتے تو خوب تھا اخبار بدر جلد 8۔14جنوری  1909ء کلام محمود صفحہ45 24۔ میں نے جس دن سے ہے پیارے ترا چہرہ دیکھا میں نے جس دن سے ہے پیارے ترا چہرہ دیکھا پھر نہیں اور کسی کا رخِ زیبا دیکھا سچ کہوں گا کہ نہیں دیکھی یہ خوبی ان میں چہرۂ یوسف و اندازِ زلیخا دیکھا خاک کے پتلے تو دنیا میں بہت دیکھے تھے پر کبھی ایسا نہ تھا نور کا پُتلا دیکھا جب کبھی دیکھی ہیں یہ تیری غزالی آنکھیں میں نے دنیا میں ہی فردوس کا نقشہ دیکھا تیرے جاتے ہی ترا خیال چلا آتا ہے تیرے جانے میں بھی آنے کا تماشہ دیکھا تیری آنکھوں میں ہے دیکھی ملک الموت کی آنکھ ہم نے ہاتھوں میں ترے قبضہ قضا کا دیکھا مشتری بھی ہے ترا مشتری اے جانِ جہاں اس نے جس دن سے ہے تیرا رخ ِ زیبا دیکھا اپنی آنکھوں سے کئی بار ہے سورج کا بھی پِتّہ الفت میں تری میں نے پگھلتا دیکھا دیکھ کر اس کو ہیں دنیا کے حسیں دیکھ لئے کیا بتاؤں کہ ترے چہرہ میں ہے کیا دیکھا تیری غصہ بھری آنکھوں کو جو دیکھا میں نئے حورکی آنکھ میں دوزخ کا نظارا دیکھا ہلتے دیکھا جو کبھی تیرا ہلال ِابرو پارہ ہائے جگرِ شمس کو اڑتا دیکھا ظلم کرتے ہو جو کہتے ہو شفق پھولی ہے تم نے عاشق کا ہے یہ خونِ تمنا دیکھا اخبار بدر جلد 8۔ 25فروری 1909ء کلام محمود صفحہ46۔48 25۔ کیاجانئے کہ دل کو مرے آج کیا ہوا کیاجانئے کہ دل کو مرے آج کیا ہؤا کس بات کا ہے اس کو یہ دھڑکا لگا ہؤا کیوں اس قدر یہ رنج و مصیبت میں چُور ہے کیوں اس سے امن وعیش ہے بالکل چُھٹا ہؤا وہ جوش اور خروش کہاں اب چلے گئے رہتا ہے اس قدر یہ بھلا کیوں دبا ہؤا خالی ہے فرحت اور مسرت سے، کیا سبب رہتا ہے آبلہ کی طرح کیوں بھرا ہؤا چھائی ہوئی ہے اس پہ بھلا مردنی یہ کیوں؟ جیسے کہ وقتِ صبح دیا ہو بجھا ہؤا بادِ سموم نے اسے مرجھا دیا ہے کیوں؟ رہتا ہے کوئلہ کی طرح کیوں بجھا ہؤا کیوں اس کی آب و تاب وہ مٹی میں مل گئی؟ جیسے ہو خاک میں کوئی موتی ملا ہؤا کیا غم ہے اور درد ہے کس بات کا اسے کس رنج اور عذاب میں ہے مبتلا ہؤا مجھ پر بھی اس کی فکر میں آرام ہے حرام میں اس کے غم میں خورد ہوں شکارِ بَلا ہؤا سب شعر و شاعری کے خیالات اڑ گئے سب لطف ایک بات میں ہی کِرکِرا ہؤا آہ و فغان کرتے ہوئے تھک گیا ہوں میں نالہ کہ جو رسا تھا مِرا نارسا ہؤا ہر اک نے ساتھ چھوڑ دیا ایسے حال میں سمجھے تھے باوفا جسے وہ بے وفا ہؤا اس درد وغم میں آنکھیں تلک دے گئیں جواب آنسو تلک بہانا انہیں ناروا ہؤا سارا جہاں مرے لئے تاریک ہوگیا جو تھا مثالِ سایہ وہ مجھ سے جدا ہؤا رہتی ہے چاک جیبِ شکیبائی ہر گھڑی دامانِ صبر رہتا ہے ہر دم پھٹا ہؤا اک عرصہ ہوگیا ہے کہ میں سو گوار ہوں بیداد ہائے دہر سے زار و نزار ہوں مدت سے پارہ ہائے جگر کھا رہا ہوں میں رنج ومحن کے قبضہ میں آیا ہوا ہوں میں میری کمر کو قوم کے غم نے دیا ہے توڑ کس ابتلا میں ہائے ہوا مبتلا ہوں میں کوشاں حصولِ مطلبِ دل میں ہوں اس قدر کہتا ہوں تم کو سچ ہمہ تن التجا ہوں میں کچھ اپنے تن کا فکر ہے مجھ کو نہ جان کا دینِ محمدؐی کے لیے مرر رہا ہوں میں میں رو رہا ہوں قوم کے مرجھائے پھول پر بلبل تو کیا ہے اس سے کہیں خوشنوا ہوں میں بیمار روح کے لیے خاک شفا ہوں میں ہاں کیوں نہ ہو کہ خاکِ درِ مصطفےٰ  ؐ ہوں میں پھر کیوں نہ مجھ کو مذہبِ اسلام کا ہو فکر جب جان و دل سے معتقدِ میرزا ہوں  میں دل اور جگر میں گھاؤ ہوئے جاتے ہیں کہ جب چاروں طرف فساد پڑے دیکھتا ہوں میں مرگِ پسر پہ پیٹتی ہے جیسے ماں کوئی حالت پہ اپنی قوم کی یوں پیٹتا ہوں میں دل میرا ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہے خدا گواہ غم دور کرنے کے لیے گو ہنس رہا ہوں میں تسکین وہ مرے لیے بس اک وجود تھا تم جانتے ہو اس سے بھی اب تو جدا ہوں میں برکت ہے سب کی سب اسی جانِ جہان کی ورنہ مری بساط ہے کیا اور کیا ہوں میں شیطاں سے جنگ کرنے میں جاں تک لڑاؤنگا یہ عہد ذاتِ باری سے اب کرچکا ہوں میں افسوس ہے کہ اس کو ذرا بھی خبر نہیں جس سنگ دل کے واسطے یاں مر مِٹا ہوں میں کہتا ہوں سچ کہ فکر میں تیری ہی غرق ہوں اے قوم سن کہ تیرے لیے مَررہا ہوں میں کیا جانے تُو کہ کیسا مجھے اضطراب ہے کیسا تپاں ہے سینہ کہ دل تک کباب ہے حالات پر زمانے کے کچھ تو دھیاں کرو بے فائدہ نہ عمر کو یوں رائیگاں کرو شیطاں ہے اک عرصہ سے دنیا پہ حکمران اٹھو اور اٹھ کے خاک میں اس کو نہاں کرو دکھلاؤ پھر صحابہؓ سا جوش و خروش تم دنیا پہ اپنی قوتِ بازو عیاں کرو پھر آزماؤ اپنے ارادوں کی پختگی پھر تم دلوں کی طاقتوں کا امتحاں کرو دل پھر مخالفانِ محمد کے توڑ دو پھر دشمنانِ دین کو تم بے زباں کرو پھر ریزہ ریزہ کردو بتِ شرک و کفر کو کفّار و مشرکین کو پھر نیم جاں کرو پھر خاک میں ملادویہ سب قصر ِشیطنت نام و نشاں مٹا کے انہیں بے نشاں کرو پہنچا کے چھوڑو جھوٹوں کو پھر انکے گھر تلک ہاں پھر سمندِطبع کی جولانیاں کرو ہاں پھر یَلانِ فوج ِلعیں کو پچھاڑ دو میدانِ کارزار میں پھر سرگرمیاں کرو پھر تم اٹھاؤ رنج و تعب دیں کے واسطے قربان راہِ دین محمدؐ میں جاں کرو پھر اپنے ساتھ اور خلائق کو لو ملا نامہربان جو ہیں انہیں مہرباں کرو پھر دشمنوں کو حلقۂ الفت میں باندھ لو جو تم سے لڑ رہے ہیں اُنہیں ہم زباں کرو سینہ سے اپنے پھر اسی مَہ رو کو لو لگا پھر دل میں اپنے یادِ خدا میہماں کرو پھر اس پہ اپنے حالِ زبوں کو عیاں کرو پھر اس کے آگے نالہ و آہ و فغاں کرو ہاں پھر اسی صنم سے تعلق بڑھاؤ تم پھر کاروانِ دل کو اُدھر ہی رواں کرو پھر راتیں کاٹو جاگ کے یادِ حبیبؐ میں پھر آنسوؤں کا آنکھ سے دریا رواں کرو پھر اس کی میٹھی میٹھی صداؤں کو تم سنو پھر اپنے دل کو وصل سے تم شادماں کرو ہاں ہاں اسی حبیبؐ سے پھر دل لگاؤ تم پھر منعمین لوگوں کے انعام پاؤ تم کیا جانئے کہ دل کو مرے آج کیا ہوا

یہ وہ نظم ہے کہ جو میری طرف سے ڈاکٹر احمد حسین صاحب لائل پوری نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر پڑھی ۔ میں نے اس وقت بھی حاضرین جلسہ کی خدمت میں عرض کر دی تھی کہ میں شاعری کے شوق میں نظم نہیں کہتا بلکہ ایک خاص جوش جب تک پیدا نہ ہو نظم کہنا مکروہ سمجھتا ہوں اس لئے سامعین اسے شعر سمجھ کر نہیں بلکہ دردِ دل سے نکلی ہوئی نصیحت سمجھ کر سنیں اور اب بھی میں کل ناظرین کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ وہ اسے غور سے پڑھیں اور پھر اس کے مطالب پر غور کریں اور حتّی الوسع اس پر عملہ کرنے کی کوشش کریں ۔ وما توفیقی الا باللہ۔

رسالہ تشحیذ الاذہان ۔ ماہ فروری 1909ء کلام محمود صفحہ49 26۔ قصۂ ہجر ذرا ہوش میں آلوں تو کہوں قصۂ ہجر ذرا ہوش میں آلوں تو کہوں بات لمبی ہے یہ سر پیر جو پالوں تو کہوں عشق میں اک گلِ نازک کے ہوا ہوں مجنوں دھجیاں جامۂ تن کی میں اڑا لوں تو کہوں حالِ دل کہنے نہیں دیتی یہ بے تابیٔ ِدل آؤ سینہ سے تمھیں اپنے لگا لوں تو کہوں حال یوں ان سے کہوں جس سے وہ بیخود ہوجائیں کوئی چبھتی ہومیں بات بنالوں تو کہوں شرم آتی ہے یہ کہتے کہ نہیں ملتا تو تیری تصویر کو میں دل سے مٹالوں تو کہوں وہ مزا ہے غم دلبر میں کہ میں کہتا ہوں رنجِ فرقت کوئی دن اور اٹھالوں تو کہوں رازداں اس کی شکایت ہو اسی کے آگے اس کی تصویر کو آنکھوں سے ہٹالوں تو کہوں سخت ڈرتا ہوں میں اظہارِ محبت کرتے پہلے اس شوخ سے میں عہدِ وفا لوں تو کہوں وہ خفا ہیں کہ بلا پوچھے چلا آیا کیوں یاں یہ ہے فکر کوئی بات بنالوں تو کہوں تیرے یوسف کا مجھے خوب پتہ ہے اے دل کوئی دن اور کنوئیں تجھ کو جُھنکا لوں تو کہوں دل نہیں ہے یہ تو لعلِ دہن ِافعی ہے دل کو اس زلفِ سیہ سے جو چھڑالوں تو کہوں جان جائے گی پہ چھوٹے گا نہ دامن تیرا پتے تلسی کے میں دو چار چبالوں تو کہوں یا الھٰی تری الفت میں ہوا ہوں مجنوں خواب میں ہی کبھی میں تجھ کو پالُوں تو کہوں اخبار بدر جلد 8۔ 11 مارچ1909ء کلام محمود صفحہ50۔52 27۔ وہ چہرہ ہر روز ہیں دکھاتے رقیب کو تو چھپا چھپا کر وہ چہرہ ہر روز ہیں دکھاتے رقیب کو تو چھپا چھپا کر وہ ہم ہی آفت زدہ ہیں جن سے چھپاتے ہیں منہ دکھا دکھا کر ہے مارا اک کو رلا رلا کر تو دوسرے کو ہنسا ہنسا کر جگر کے ٹکڑے کئے ہیں کس نے یہ دل کی حالت دُکھا دُکھا کر اڑائیے گا نہ ہوش میرے غزالی آنکھی دکھا دکھا کر چھری ہے چلتی دل و جگر پر نہ کیجئے باتیں چبا چبا کر کوئی وہ دن تھا کہ پاس اپنے وہ تھے بٹھاتے بلا بلا کر نکالتے ہیں مگر وہاں سے دھتا مجھے اب بتا بتا کر فراقِ جاناں نے دل کو دوزخ بنا دیا ہے جلا جلا کر یہ آگ بجھتی نہیں ہے مجھ سے میں تھک گیا ہوں بجھا بجھا کر جو ہے رقیبوں سے تم کو الفت تو دل میں پوشیدہ رکھو اس کو مجھے ہے دیوانہ کیوں بناتے بتا بتا کر جتا جتا کر مجھے سمجھتے ہو کیا قلی تم کہ نت نئے بوجھ لادتے ہو بس اب تو جانے دو تھک گیا ہوں غم و مصیبت اٹھا اٹھا کر پڑے بلا جس کے سر پہ آکر اسے وہی خوب جانتا ہے تماشہ کیا دیکھتے ہو صاحب ہمارے دل کو دُکھا دُکھا کر کبھی جو تعریف کیجئے تو وہ کہتے ہیں یوں بگڑ بگڑ کر مزاج میرا بگاڑتے ہیں بنا بنا کر بنا بنا کر رہا الگ وہ ہمارا یوسف نہ اس کا دامن بھی چھوسکے ہم یونہی عبث میں گنوائیں آنکھیں ہیں اشک ِخونیں بہا بہا کر جو کوئی ہے بن بلائے آیا تو اس کو تم کیوں نکالتے ہو ہیں ایسے لاکھوں کہ بزم میں ہو انہیں بٹھاتے بلا بلا کر ہیں چاندنی راتیں لاکھوں گذریں کھلی نہ دل کی کلی کبھی بھی وہ عہد جو مجھ سے کرچکا ہے کبھی تو اے بے وفا! وفا کر جدائی ہم میں ہے کس نے ڈالی خضر تمہیں اس کا کچھ پتہ ہے؟ وہ کون تھا جو کہ لے گیا دل ہے مجھ سے آنکھیں ملا ملا کر فراقِ جاناں میں ساتھ چھوڑا ہر ایک چھوٹے بڑے نے میرا تھی دل پہ امید سو اسے بھی وہ لے گیا ہے لُبھا لُبھا کر ہزار کوشش کرے کوئی پروہ مجھ سے عہدہ برآنہ ہوگا جسے ہو کچھ زعم آزمالے ہوں کہتا ڈنکا بجا بجا کر یہ چھپ کے کیوں چٹکیاں ہے لیتا تجھے بھلا کس کا ڈر پڑا ہے جو شوق ہو دل کو چھیڑنے کا تو شوق سے بَر مَلا مِلا کر یہی ہے دن رات میری خواہش کہ کاش مل جائے وہ پری رُو مٹاؤں پھر بے قراریِٔ دل گلے سے اس کو لگا لگا کر جو مارنا ہے تو تیر مژگاں سے چھید ڈالو دل و جگر کو نہ مجھ کو تڑپاؤ اب زیادہ تم آئے دن یوں ستا ستا کر خدا پہ الزام بے وفائی یہ بات محمود پھر نہ کہیؤ ہوا تجھے بندۂ خدا کیا ، خدا خدا کر، خدا خدا کر جو کوچۂ عشق کی خبر ہو تو سب کریں ایسی بے حیائی یہ اھلِ ظاہر جو مجھے سے کہتے ہیں کچھ تو اے بے حیا! حیا کر اخبار بدر جلد 8 ۔ 18 مارچ 1909ء کلام محمود صفحہ53 28۔ آؤ محمود ذرا حال پریشاں کردیں آؤ محمود ذرا حال پریشاں کردیں اور اس پردے میں دشمن کو پشیماں کردیں خنجرِ ناز پہ ہم جان کو قرباں کردیں اور لوگوں کے لئے راستہ آساں کردیں کھینچ کر پردہ رخ ِیار کو عریاں کردیں وہ ہمیں کرتے ہیں ہم ان کو پریشاں کردیں وہ کہیں ہم کہ گداگر کو سلیماں کردیں وہ کریں کام کہ شیطاں کو مسلماں کردیں پہلے ان آرزوؤں کا کوئی ساماں کردیں دل میں پھر اس شہ خوباں کو مہماں کردیں ایک ہی وقت میں چھپتے نہیں سورج اور چاند یا تو رخسار کو یا اَبرو کو عریاں کردیں آج بے طرح چڑھی آتی ہے لعلِ لب پر ان کو کہدو کہ وہ زلفوں کو پریشاں کردیں آدمی ہوکے تڑپتا ہوں چکوروں کی طرح کبھی بے پردہ اگر وہ رخِ تاباں کردیں اک دفعہ دیکھ چکے موسیٰ ؑتو پردہ کیسا ان سے کہدو کہ وہ اب چہرہ کو عریاں کردیں دل میں آتا ہے کہ دل بیچ دیں دلدار کے ہاتھ اور پھر جان کو ہم ہدیۂ جاناں کردیں وہ کریں دم کہ مسیؑحا کو بھی حیرت ہوجائے شیرِ قالیں کو بھی ہم شیر ِِنیستاں کردیں اخبار بدر جلد 8۔ 29 اپریل 1909ء کلام محمود صفحہ53 28۔ آؤ محمود ذرا حال پریشاں کردیں آؤ محمود ذرا حال پریشاں کردیں اور اس پردے میں دشمن کو پشیماں کردیں خنجرِ ناز پہ ہم جان کو قرباں کردیں اور لوگوں کے لئے راستہ آساں کردیں کھینچ کر پردہ رخ ِیار کو عریاں کردیں وہ ہمیں کرتے ہیں ہم ان کو پریشاں کردیں وہ کہیں ہم کہ گداگر کو سلیماں کردیں وہ کریں کام کہ شیطاں کو مسلماں کردیں پہلے ان آرزوؤں کا کوئی ساماں کردیں دل میں پھر اس شہ خوباں کو مہماں کردیں ایک ہی وقت میں چھپتے نہیں سورج اور چاند یا تو رخسار کو یا اَبرو کو عریاں کردیں آج بے طرح چڑھی آتی ہے لعلِ لب پر ان کو کہدو کہ وہ زلفوں کو پریشاں کردیں آدمی ہوکے تڑپتا ہوں چکوروں کی طرح کبھی بے پردہ اگر وہ رخِ تاباں کردیں اک دفعہ دیکھ چکے موسیٰ ؑتو پردہ کیسا ان سے کہدو کہ وہ اب چہرہ کو عریاں کردیں دل میں آتا ہے کہ دل بیچ دیں دلدار کے ہاتھ اور پھر جان کو ہم ہدیۂ جاناں کردیں وہ کریں دم کہ مسیؑحا کو بھی حیرت ہوجائے شیرِ قالیں کو بھی ہم شیر ِِنیستاں کردیں اخبار بدر جلد 8۔ 29 اپریل 1909ء کلام محمود صفحہ54۔55 29۔ مجھ سا نہ اس جہاں میں کوئی دلفگار ہو مجھ سا نہ اس جہاں میں کوئی دلفگار ہو جس کا نہ یار ہو نہ کوئی غمگسار ہو کتنی ہی پُل صراط کی گو تیز دھار ہو یا رب مرا وہاں بھی قدم استوار ہو دل چاہتا ہے طور کا وہ لالہ زار ہو اور آسماں پہ جلوہ کناں میرا یار ہو ساقی ہو مے ہوجام ہو ابر ِبہار ہو اتنی پیوں کہ حشر کے دن بھی خمار ہو جس سر پہ بھوت عشقِ صنم کا سوار ہو قسمت یہی ہے اس کی کہ دنیا میں خوار ہو تقویٰ کی جڑھ یہی ہے کہ خالق سے پیار ہو گو ہاتھ کام میں ہوں مگر دل میں یار ہو دنیا کے عیش اس پہ سراسر ہیں پھر حرام پہلو میں جس کے ایک دل بے قرار ہو وہ لطف ہے خلش میں کہ آرام میں نہیں تیرِ نگاہ کیوں مرے سینہ کے پار ہو رنج فراق گل نہ کبھی ہوسکے بیاں میرے مقابلہ میں ہزاروں ہزار ہو جاں چاہتی ہے تجھ پہ نکلنا اے میری جاں دل کی یہ آرزو ہے کہ تجھ پہ نثار ہو کیسا فقیر ہے وہ جو دل کا نہ ہو غنی وہ زار کیا جو رنج و مصیبت سے زار ہو خضرؑ و مسیؑح بھی نہ بچے جبکہ موت سے پھر زندگی کا اور کسے اعتبار ہو سنتے ہیں بعد مرگ ہی ملتا ہے وہ صنم مرنے کے بعد ہو جو ہمارا سنگار ہو میں کیوں پھروں کہ خالی نہیں آجتک پھرا جو تیرے فضل و رحم کا امّیدوار ہو موسیٰؑ سے تو نے طور پر جو کچھ کیا سلوک مجھ سے بھی اب وہی مرے پروردگار ہو معشوق گر نہیں ہوں تو عاشق ہی جان لو اِن میں نہیں تو اُن میں ہمارا شمار ہو چیونٹی پہ بوجھ اونٹ کا ہے کون لادتا اس جاں پہ اور یہ ستم ِروزگار ہو بتلاؤ کس جگہ پہ اسے جاکے ڈھونڈیں ہم جس کی تمام ارض و سما میں پکار ہو قربان کرکے جان دوئی کا مٹاؤں نام وہ خواب میں ہی آکے جو مجھ سے دو چار ہو شاہ و گدا کی آنکھ میں سرمہ کا کام دے وہ جان جو کہ راہ خدا میں غبار ہو اخبار بدر جلد 8 ۔ 13 مئی 1909ء کلام محمود صفحہ56 30۔ ہائے وہ دل کہ جسے طرزِ وفا یاد نہیں ہائے وہ دل کہ جسے طرزِ وفا یاد نہیں وائے وہ روح جسے قول بلیٰ یاد نہیں بے حسابی نے گناہوں کی مجھے پاک کیا میں سراپا ہوں خطا مجھ کو خطا یاد نہیں جب سے دیکھا ہے اُسے اُس کا ہی رہتا ہے خیال اور کچھ بھی مجھے اب اُس کے سوا یاد نہیں دردِ دل سوزِ جگر اشک رواں تھے مرے دوست یار سے مل کے کوئی بھی تو رہا یاد نہیں ایک دن تھا کہ محبت کے تھے مجھ سے اقرار مجھ کو تو یاد ہیں سب آپ کو کیا یاد نہیں بے وفائی کا لگاتے ہیں وہ کس پر الزام میں تو وہ ہوں کہ مجھے لفظِ دغا یاد نہیں میں وہ بیخود ہوں کہ تھے جس نے اڑائے مرے ہوش مجھ کو خود وہ نگہ ہوش ربا یاد نہیں کوچہ یار سے ہے مجھ کو نکلنا دو بھر کیا تجھے وعدہ ترا لغزشِ پا یاد نہیں ہائے بدبختیِ قسمت کہ لگا ہے مجھ کو وہ مرض جس کی مسیؑحا کو دوا یاد نہیں وہ جو رہتا ہے ہر اک وقت مری آنکھوں میں ہائے کم بختی مجھے اس کا پتہ یاد نہیں ہم وہ ہیں پیار کا بدلہ جنھیں ملتا ہے پیار بھولے ہیں روزِ جزا اور جزا یاد نہیں اخبار بدر جلد 8 ۔ 20مئی 1909ء کلام محمود صفحہ57۔58 31۔ وہ نکات معرفت بتلائے کون وہ نکات معرفت بتلائے کون جام ِو صلِ دلربا پلوائے کون ڈھونڈتی ہے جلوۂ جاناں کو آنکھ چاند سا چہرہ ہمیں دکھلائے کون کون دے دل کو تسلی ہر گھڑی اب اڑے وقتوں میں آڑے آئے کون کون دکھلائے ہمیں راہِ ھدیٰ حضرت باری سے اب ملوائے کون سرد مہری سے جہاں کی دل ہے سرد گرمیٔ تاثیر سے گرمائے کون کون دنیا سے کرے ظلمت کو دور راہ پر بھولے ہوؤں کو لائے کون یاس و نومیدی نے گھیرا ہے مجھے اس کے پنجے سے مجھے چھڑوائے کون کون میرے واسطے زاری کرے درگۂ ربی میں میرا جائے کون وہ گلِ رعنا ہی جب مرجھا گیا پھر بہار جانفزا دکھلائے کون کَل نہیں پڑتی اسے اس کے سوا اس دل غمگیں کو اب سمجھائے کون کس کی تقریروں سے اب دل شاد ہو اپنی تحریروں سے اب پھڑکائے کون کس کے کہنے پر ملے دل کو غذا ہم کو آبِ زندگی پلوائے کون گرمیٔ الفت سے ہے یہ زخم دل مرہم ِکافور سے کَل پائے کون اے مسیؑحا تیرے سودائی جو ہیں ہوش میں بتلا کہ ان کو لائے کون تُو تو واں جنت میں خوش اور شاد ہے ان غریبوں کی خبر کو آئے کون اے مسیؑحا ہم سے گر تُو چھٹ گیا دل سے پر الفت تری چھڑوائے کون جانتا ہوں صبر کرنا ہے ثواب اس دلِ نادان کو سمجھائے کون تجھ سے تھی ہم کو تسلی ہر گھڑی ترے مرنے پر ہمیں بہلائے کون کون دے دل کو مرے صبر و قرار اشکِ خونیں آنکھ سے پنچھوائے کون اخبار الفضل جلد 8 ۔27مئی 1909ء کلام محمود صفحہ59 32۔ مئےعشقِ خدا میں سخت ہی مخمور رہتا ہوں مئےعشقِ خدا میں سخت ہی مخمور رہتا ہوں یہ ایسا نشہ ہے جس میں کہ ہر دم چُور رہتا ہوں وہ ہےمجھ میں نہاں غیروں سے پردہ ہے اسے لازم تبھی تو چشم ِبدبیناں سے میں مستور رہتا ہوں قیامت ہے کہ وصلِ یار میں بھی رنجِ فرقت ہے میں اس کے پاس رہ کر بھی ہمیشہ دور رہتا ہوں لیا کیوں ورثۂ پدری وفاداری نہ کیوں چھوڑی نگاہ دوستاں میں مَیں تبھی مقہور رہتا ہوں مجھے اس کی نہیں پروا کوئی ناراض ہو بیشک میں غداری کی سرحد سے بہت ہی دور رہتا ہوں مجھے فکرِ معاش و پوشش و خور کا الم کیوں ہو میں عشقِ حضرت یزداں میں جب مخمور رہتا ہوں تڑپ ہے دین کی مجھ کو اسے دنیا کی لالچ ہے مخالف پر ہمیشہ میں تبھی منصور رہتا ہوں اسے ہے قوم کا غم اور میں دنیا سے بچتا ہوں میں اب اس دل کے ہاتھوں سے بہت مجبور رہتا ہوں اخبار بدر جلد 8 ۔8جولائی 1909ء کلام محمود صفحہ60 33۔ جگہ دیتے ہیں جب ہم ان کو اپنے سینہ و دل میں جگہ دیتے ہیں جب ہم ان کو اپنے سینہ و دل میں ہمیں وہ بیٹھنے دیتے نہیں کیوں اپنی محفل میں بڑے چھوٹے سبھی کعبہ کو بیت اللہ کہتے ہیں تو پھر تشریف کیوں لاتے نہیں وہ کعبہ دل میں کرے گا نعرۂ اللہ اکبر کوئے قاتل میں ابھی تک کچھ نہ کچھ باقی ہے دم اس مرغ ِبسمل میں اسی کے جلوہ ہائے مختلف پر مرتے ہیں عاشق وہی گل میں وہی مُل میں وہی ہے شمع محفل میں وہی ہے طرزِ دلداری وہی رنگ ِستم گاری تجسس کیوں کروں اس کا کہ ہے یہ کون محمل میں بلاتے ہیں مجھے وہ پر جو میں اٹھوں تو کہتے ہیں کدھر جاتا ہے او غافل میں بیٹھا ہوں تیرے دل میں ہزاروں دامنوں پر خون کے دھبے چمکتے ہیں مرے آنے پہ کیا ہولی ہوئی ہے کوئے قاتل میں میں سمجھا تھا کہ اس کو دیکھ کر پڑ جائیگی ٹھنڈک خبر کیا تھی کہ پھنک جاؤں گا جا کر اس کی محفل میں گلوں پر پڑگئی کیا اوس دیدِ روئے جاناں سے کوئی دیکھو تو کیسا شور برپا ہے عنادل میں مصیبت راہِ الفت کے کٹے گی کس طرح یارب مرے پاؤں تو بالکل رہ گئے ہیں پہلی منزل میں اخبار الفضل جلد 8 ۔29جولائی 1909ء کلام محمود صفحہ61 34۔ یہیں سے اگلا جہاں بھی دکھادیا مجھ کو یہیں سے اگلا جہاں بھی دکھادیا مجھ کو ہے ساغر مئے الفت پلادیا مجھ کو بتاؤں کیا کہ مسیؑحا نے کیا دیامجھ کو میں کرمِ خاکی تھا انساں بنا دیا مجھ کو کسی کی موت نے سب کچھ بھلادیا مجھ کو اس ایک چوٹ نے ہی سٹپٹا دیا مجھ کو کسی نے ثانی ٔ شیطاں بنادیا مجھ کو کسی نے لے کے فرشتہ بنادیا مجھ کو نہ اِس کے بغض نے پیچھے ہٹا دیا مجھ کو نہ اُس کے پیار نے آگے بڑھا دیا مجھ کو یہی دونوں میری حقیقت سے دور ہیں محمود خدا نےجو تھا بنانا بنادیا مجھ کو کبھی جو طالبِ دیدِ رخ نگار ہوا تو آئینہ میں مرا منہ دکھا دیا مجھ کو جفائے اہل جہاں کا ہوا جو میں شاکی تھپک کےگود میں اپنی سلادیا مجھ کو جہاں حسد کا گذر ہے نہ دخل بد بیں ہے ہے ایسے ملک کا وارث بنادیا مجھ کو مرے تو دل میں تھا کہ بڑھ کر نثار ہوجاؤں پر اُس کے تیرِ نگہ نے ڈرا دیا مجھ کو مرا قدم تھا کبھی عرش پر نظر آتا الھٰی خاک میں کس نے ملا دیا مجھ کو غمِ جماعت احمد ؐ نہیں سہا جاتا یہ آگ وہ ہے کہ جس نے جلادیا مجھ کو اخبار بدر جلد 8 ۔16ستمبر 1909ء کلام محمود صفحہ62 35۔ دل پھٹا جاتا ہے مثلِ ماہیٔ بے آب کیوں دل پھٹا جاتا ہے مثلِ ماہیٔ بے آب کیوں ہورہا ہوں کس کے پیچھے اس قدر بیتاب کیوں خالقِ اسباب ہی جب ہوں کسی پر خشمگیں پھر بھلا اس آدمی کا ساتھ دیں اسباب کیوں مجھ کو یہ سمجھیں کہ ہوں الفت میں مرفوع القلم میرے پیچھے پڑ رہے ہیں سب مرے احباب کیوں جب کلیدِ معرفت ہاتھوں میں میرے آگئی تیرے انعاموں کا مجھ پر بند ہے پھر باب کیوں اس میں ہوتی ہے مجھے دیدِ رخ جاناں نصیب میری بیداری سے بڑھ کر ہو نہ میرا خواب کیوں امت احمدؐ نے چھوڑی ہے صراطِ مستقیم کیوں نہ گھبراؤں نہ کھاؤں دل میں پیچ و تاب کیوں جبکہ وہ یارِ یگانہ ہر گھڑی مجھ کو بلائے پھر بتاؤ تو کہ آئے میرے دل کو تاب کیوں جبکہ رونا ہے تو پھر دل کھول کر روئیں گے ہم نہر چل سکتی ہو تو بنوائیں ہم تالاب کیوں چھوڑ دو جانے بھی دو سنتا ہوں یہ بھی ہے علاج ڈالتے ہو میرے زخم دل پہ تم تیزاب کیوں گفتگوئے عاشقاں سن سن کے آخر یہ کہا بات تو چھوٹی سے تھی اتنا اِطناب کیوں اخبار بدرجلد 8 ۔4نومبر 1909ء کلام محمود صفحہ63 36۔ عہدشکنی نہ کرو اہل وفا ہوجاؤ عہدشکنی نہ کرو اہل وفا ہوجاؤ اہل شیطاں نہ بنو اہلِ خدا ہوجاؤ گرتے پڑتے درِ مولیٰ پہ رسا ہوجاؤ اور پروانے کی مانند فدا ہوجاؤ جو ہیں خالق سے خفا ان سے خفا ہوجاؤ جو ہیں اس در سے جدا ان سے جدا ہوجاؤ حق کے پیاسوں کے لیے آبِ بقا ہوجاؤ خشک کھیتوں کے لیے کالی گھٹا ہوجاؤ غنچۂ دیں کے لیے بادِ صبا ہوجاؤ کفر و بدعت کے لیے دستِ قضا ہوجاؤ سرخرو رو بروئے داور محشر جاؤ کاش تم حشر کے دن عہدہ برآ ہوجاؤ بادشاہی کی تمنا نہ کرو ہرگز تم کوچۂ یارِ یگانہ کے گدا ہوجاؤ بحر عرفان میں تم غوطے لگاؤ ہر دم بانیٔ کعبہ کی تم کاش دعا ہوجاؤ وصلِ مولیٰ کے جو بھوکے ہیں انہیں سیر کرو وہ کرو کام کہ تم خوانِ ہدیٰ ہوجاؤ قطب کا کام دو تم ظلمت و تاریکی میں بھولے بھٹکوں کے لئے راہ نما ہوجاؤ پنبۂ مرہم کافور ہو تم زخموں پر دل ِبیمار کے درمان و دوا ہوجاؤ طالبانِ رخِ جاناں کو دکھاؤ دلبر عاشقوں کے لیے تم قبلہ نما ہوجاؤ امر ِمعروف کو تعویذ بناؤ جاں کا بے کسوں کے لیے تم عقدہ کشا ہوجاؤ دمِ عیسیٰ سے بھی بڑھ کر ہو دعاؤں میں اثر یدِ بیضا بنو موسیٰ ؑ کا عصا ہوجاؤ راہِ مولیٰ میں جو مرتے ہیں وہی جیتے ہیں موت کے آنے سے پہلے ہی فنا ہوجاؤ موردِ فضل و کرم وارثِ ایمان و ھدیٰ عاشقِ احمدؐ و محبوب خدا ہوجاؤ اخبار بدر جلد 9 ۔31مارچ 1910ء کلام محمود صفحہ64 37۔ وہ قیدِ نفس ِدنی سے مجھے چھڑائیں گے کب وہ قیدِ نفس ِدنی سے مجھے چھڑائیں گے کب رہائی پنجۂ غم سے مجھے دلائیں گے کب یہ صدماہائے جدائی اٹھائیں گے کب دل اور جان مرے اُن کی تاب لائینگے کب وہ میرے چاکِ جگر کا کریں گے کب درماں جو دل پہ داغ لگے ہیں انہیں مٹائینگے کب یونہی تڑپتے تڑپتے نہ دم نکل جائے کوئی یہ پوچھ تو آؤ مجھے بلائیں گے کب خوشی انہی کو ہے زیبا جو صاحبِ دل ہیں جو دل ہیں دب چکے پھر وہ ہنسیں ہنسائینگے کب وفا طریق ہے ان کو وہ ہیں بڑے محسن لگا کے منہ نظروں سے مجھے گرائینگے کب جو تم نے ان کو ملانا ہو دل وسیع کرو بڑے وسیع ہیں وہ اس جگہ سمائینگے کب نہیں یہ ہوش کہ خود ان کے گھرمیں رہتا ہوں یہ رٹ لگی ہے کہ وہ میرے گھر پہ آئینگے کب یہ میں نے مانا کہ ہے ان کی ذات بے پایاں مگر وہ چہرۂ زیبا مجھے دکھائیں گے کب مُمِیت بن چکے مُحیِیٖ بنیں گے کب میرے وہ مجھ کو مار تو بیٹھے ہیں اب جلائینگے کب نگاہ چہرۂ جاناں پہ جا پڑی جن کی پھر اور لوگوں کے انداز ان کو بھائینگے کب جو خود ہوں نور جنھیں نور سے محبت ہو غریقِ بحرِ ضلالت سے دل ملائیں گے کب الٰہی آپ کی درگہ سے گر پھرا خالی تو پھر جو دشمنِ جاں ہیں وہ منہ لگائینگے کب سنا ہے خواب میں ممکن ہے رویتِ جاناں میں منتظر ہوں کہ وہ اب مجھے سلائینگے کب اخبار بدر جلد 9 ۔9جون 1910ء کلام محمود صفحہ65۔66 38۔ درد ہے دل میں مرے یا خار ہے درد ہے دل میں مرے یا خار ہے کیا ہے آخر اس کو کیا آزار ہے اف گناہوں کا بڑا انبار ہے اور میری جاں نحیف و زار ہے جلوۂ جانان و دیدِ یار ہے خواب میں جو ہے وہی بیدار ہے اپنی شوکت کا وہاں اظہار ہے اپنی کمزوری کا یاں اقرار ہے گو مجھے مدت سے یہ اصرار ہے منہ دکھانے سے انہیں انکار ہے کوئی خوش ہے شاد ہے سرشار ہے کوئی اپنی جان سے بیزار ہے میرے دل پر رنج و غم کا بار ہے ہاں خبر لیجے کہ حالت زار ہے میرے دشمن کیوں ہوئے جاتے ہیں لوگ مجھ سے پہنچا اُن کو کیا آزار ہے میری غمخواری سے ہیں سب بے خبر جو ہے میرے دل پئے آزار ہے فکر دیں میں گھل گیا ہے میرا جسم دل مرا اک کوہِ آتشبار ہے کیا ڈراتے ہیں مجھے خنجر سے وہ جن کے سر پر کِھنچ رہی تلوار ہے میری کمزوری کو مت دیکھیں کہ میں جس کا بندہ ہوں بڑی سرکار ہے بادشاہوں کو غرض پردہ سے کیا ہم نے کھینچی آپ ہی دیوار ہے وہ تو بے پردہ ہےپر آنکھیں ہیں بند کام آساں ہے مگر دشوار ہے چھوڑتے ہیں غیر سے مل کر تجھے یا الٰہی اس میں کیا اسرار ہے خدمتِ اسلام سے دل سرد ہیں گرم کیا ہی کفر کا بازار ہے پارہ ہائے دل اُڑے جاتے ہیں کیوں یہ جگر کا زخم کیوں خونبار ہے تنگ ہوں اس بے وفا دنیا سے میں مجھ کو یارب خواہشِ دیدار ہے اخبار بدر جلد 7 ۔27اپریل 1911ء کلام محمود صفحہ67۔72 39۔ آمین حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ آمین حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ خدا سے چاہیئے ہے لو لگانی کہ سب فانی ہیں پر وہ غیر فانی وہی ہے راحت و آرام دل کا اسی سے روح کو ہے شادمانی وہی ہے چارۂ آلامِ ظاھر وہی تسکیں دہِ دردِ نہانی سِپَر بنتا ہے وہ ہر ناتواں کی وہی کرتا ہے اس کی پاسبانی بچاتا ہے ہر اک آفت سے ان کو ٹلاتا ہے بلائے ناگہانی جسے اس پاک سے رشتہ نہیں ہے زمینی ہے ،نہیں وہ آسمانی اسی کو پاکے سب کچھ ہم نے پایا کھلا ہے ہم پہ یہ رازِ نہانی خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی ہمارے گھر میں اس نے بھر دیا نور ہر اک ظلمت کو ہم سے کردیادور ملایا خاک میں سب دشمنوں کو کیا ہر مرحلہ میں ہم کو منصور حقیقت کھول دی ان پر ہماری مگر تاریکیٔ دل سے ہیں مجبور ہماری فتح و نصرت دیکھ کر وہ غم و رنج و مصیبت سے ہوئے چور ہماری رات بھی ہے نور افشاں ہماری صبح خوش ہے شام مسرور خدا نے ہم کو وہ جلوہ دکھایا جو موسیٰؑ کو دکھایا تھا سرِ طور ملے ہم کو وہ استاد و خلیفہ کہ سارے کہہ اٹھے نورٌ علیٰ نور خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی خدا کا اس قدر ہے ہم پہ احساں کہ جس کو دیکھ کر ہوں سخت حیراں نہیں معلوم کیا خدمت ہوئی تھی کہ سکھلایا کلامِ پاک یزداں ہزاروں ہیں کہ ہیں محروم اس سے نظر سے جن کی ہے وہ نور پنہاں جسے اس نور سے حصہ نہیں ہے نہیں زندوں میں ہے وہ جسم بے جاں یہی دل کی تسلی کا ہے موجب اِسی سے ہو میسر دیدِ جاناں اِسی میں مردہ دل کی زندگی ہے یہی کرتا ہے ہر مشکل کو آساں یہ ہے دنیا میں کرتا رہنمائی یہ عقبیٰ میں کرے گا شاد و فرحاں یہی ہر کامیابی کا ہے باعث یہی کرتا ہے ہر مشکل کو آساں ملاتا ہے یہی اُس دلربا سے یہی کرتا ہے زائل دردِ ہجراں یہ نعمت ہم کو بے خدمت ملی ہے سکھایا ہے ہمیں مولیٰ نے قرآں خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی کلام اللہ میں سب کچھ بھرا ہے یہ سب بیماریوں کی اک دوا ہے یہی اک پاک دل کی آرزو ہے یہی ہر متقی کا مدعا ہے یہ جامع کیوں نہ ہو سب خوبیوں کا کہ اس کا بھیجنے والا خدا ہے مٹا دیتا ہے سب زنگوں کو دل سے اسی سے قلب کو ملتی جلا ہے یہ ہے تسکیں دہِ عشاق مضطر مریضان محبت کو شفا ہے خضر اس کے سوا کوئی نہیں ہے یہی بھولے ہوؤں کا رہنما ہے جو اس کی دید میں آتی ہے لذت وہ سب دنیا کی خوشیوں سے سوا ہے جو ہے اس سے الگ حق سے الگ ہے جو ہے اس سے جدا حق سے جدا ہے یہ ہے بے عیب ہر نقص و کمی سے کرے جو حرف گیری بے حیا ہے ہمیں حاصل ہے اس سے دیدِ جاناں کہ قرآں مظہر شانِ خدا ہے خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی ہیں اس دنیا میں جتنے لوگ حق بیں سچائی سے جنہیں کوئی نہیں کیں وہ دل سے مانتے ہیں اس کی خوبی وہ پاتے ہیں اسی میں دل کی تسکیں خدا نے فضل سے اپنے ہمیں بھی کھلائے اِس کے ہیں اثمارِ شیریں حفیظہ جو مری چھوٹی بہن ہے نہ اب تک وہ ہوئی تھی اس میں رنگیں ہوئی جب ہفت سالہ تو خدا نے یہ پہنایا اسے بھی تاجِ زریں کلام اللہ سب اس کو پڑھایا بنایا گلشنِ قرآں کا گل چیں زباں نے اس کو پڑھ کر پائی برکت ہوئیں آنکھیں بھی اس سے نور آگیں اکٹھے ہورہے ہیں آج احباب منائیں تاکہ مل کر روزِ آمیں ہوئے چھوٹے بڑے ہیں آج شاداں نظر آتا نہیں کوئی بھی غمگیں خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی الٰہی جیسی یہ دولت عطا کی ہمیں توفیق دے صدق و وفا کی ترے چاکر ہوں ہم پانچوں الٰہی ہمیں طاقت عطا کر تُو وفا کی تری خدمت میں پائیں جان و دل کو گھڑی جب چاہے آجائے قضا کی رہیں ہم دور ہر بد کیش و بد سے رہے صحبت ہمیں اہلِ وفا کی بنائیں دل کو گلزارِ حقیقت لگائیں شاخ زھد و اتقا کی شفا ہوں ہر مریض روح کی ہم دوا بن جائیں دردِ لا دوا کی نہ زور و ظلم کے خوگر ہوں یا رب نہ عادت ہم میں ہو جور و جفا کی محبت تیری دل میں جاگزیں ہو لگی ہو لو ہمیں یادِ خدا کی ہمارے کام سب تیرے لیے ہوں اطاعت ہو غرض ہر مدعا کی رسول اللہ ہمارے پیشوا ہوں ملے توفیق ان کی اقتدا کی خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی الٰہی تو ہمارا پاسباں ہو ہمیں ہر وقت تو راحت رساں ہو ترے بن زندگی کا کچھ نہیں لطف ہمارے ساتھ پیارے ہر زماں ہو مصیبت میں ہمارا ہو مددگار ہمارے دردِ دل کا راز داں ہو ہمیں اپنے لیے مخصوص کرلے ہمارے دل میں آکر میہماں ہو تجھے جس راہ سے لوگوں نے پایا وہ رازِ معرفت ہم پر عیا ں ہو ہماری موت ہے فرقت میں تیری ہمیشہ ہم پہ تو جلوہ کُناں ہو ہمارا حافظ و ناصر ہوہر دم ہمارے باغ کا تو باغباں ہو کرے اس کی اگر تو آبپاشی تو پھر ممکن نہیں بیمِ خزاں ہو ذلیل و خوار و رسوا ہو جہاں میں جو حاسد ہو عدو ہو بد گماں ہو عبادت میں کٹیں دن رات اپنے ہمارا سر ہو تیرا آستاں ہو خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی ہماری اے خدا کردے وہ تقدیر کہ جس کو دیکھ کر حیراں ہو تدبیر وہ ہم میں قوت قدسی ہو پیدا جسے چھوویں وہی ہو جائے اکسیر زباں مرہم بنے پیاروں کے حق میں مگر اعداء کو کاٹے مثلِ شمشیر وہ جذبہ ہم میں پیدا ہو الٰہی جو دشمن ہیں کریں ان کی بھی تسخیر دلوں کی ظلمتوں کو دور کردیں ہماری بات میں ایسی ہو تاثیر گناہوں سے بچالے ہم کو یارب نہ ہونے پائے کوئی ہم سے تقصیر خضر بن جائیں ان کے واسطے ہم جو ہیں بھولے ہوئے رستہ کے رہ گیر وہی بولیں جو دل میں ہو ہمارے خلافِ فعل ہو اپنی نہ تقریر خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی عطا کرجاہ و عزت دو جہاں میں ملے عظمت زمین و آسماں میں بنیں ہم بلبل بستانِ احمدؐ رہے برکت ہمارے آشیاں میں ہمارا گھر ہو مثلِ باغِ جنت ہو آبادی ہمیشہ اس مکاں میں ہماری نسل کو یارب بڑھادے ہمیں آباد کر کون و مکاں میں ہماری بات میں برکت ہو ایسی کہ ڈالے روح مردہ اُستخواں میں الٰہی نور تیرا جاگزیں ہو زباں میں سینہ میں دل میں دِہاں میں غم و رنج و مصیبت سے بچا کر ہمیشہ رکھ ہمیں اپنی اماں میں بنیں ہم سب کے سب خدامِ احمدؐ کلام اللہ پھیلائیں جہاں میں عطا کر عمر و صحت ہم کو یارب ہمیں مت ڈال پیارے امتحاں میں یہ ہوں میری دعائیں ساری مقبول ملے عزت ہمیں دونوں جہاں میں ترا وہ فضل ہو نازل الٰہی کہ ہو یہ شور ہر کون و مکاں میں خدا نے ہم کو دی ہے کامرانی فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِی اخبار الحکم جلد 5 ۔12جولائی 1911ء خدا سے چاہیئے ہے لَو لگانی

میری اور عزیزان بشیر احمد ، شریف احمد ، مبارکہ کی آمین بنانے کے بعد حضرت صاحب کا ارادہ تھا کہ آئندہ آمین کا مصرع فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْامَانِیہو لیکن منشائے الٰہی کے ماتحت آپ تو اس کام کو نہ کر سکے اب امۃ الحفیظ میری چھوٹی ہمشیرہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قرآن شریف ختم کیا ہے ۔ا س  کے لئے میں نے یہ آمین تیار کی ہے اور حضرت صاحب کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے اسی مصرع کومصرعہ آمین رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کام کو بابرکت کرے۔ آمین !

اخبار الحکم 14جولائی 1911ء کلام محمود صفحہ73۔77 40۔ کیاسبب میں ہوگیا ہوں اس طرح زار و نزار کیاسبب میں ہوگیا ہوں اس طرح زار و نزار کس مصیبت نے بنایا ہے مجھے نقشِ جدار کیوں پھٹا جاتا ہے سینہ جیب عاشق کی مثال روز و شب  صبح و مسا رہتا ہوں میں کیوں دلفگار کیوں تسلی اس دل ِبے تاب کو ہوتی نہیں کیا سبب اس کا کہ رہتا ہے یہ ہر دم بے قرار صحبتِ عیش و طرب اس کو نہیں ہوتی نصیب درد و غم رنج و الم یاس و قَلَق سے ہے دو چار کیا سبب جو خون ہوکر بہہ گیا میرا جگر بھید کیا ہے میری آنکھیں جو رواں ہیں سیل وار زرد ہے چہرہ تو آنکھیں گھس گئیں حلقوں میں ہیں جسم میرا ہوگیا ہے خشک ہو کر مثلِ خار سوچتا رہتا ہوں کیا دل میں مجھے کیا فکر ہے جستجو میں کس کی چلاتا ہوں میں دیوانہ وار چھوڑے جاتے ہیں مجھے ہوش و حواس و عقل کیوں کیوں نہیں باقی رہا دل پر مجھے کچھ اختیار کون ہے صیاد میرا کس کے پھندے میں ہوں مَیں کس کی افسونی نگاہ نے کر لیا مجھ کو شکار مرغِ دل میرا پھنسا ہے کس کے دامِ عشق میں کس کے نقشِ پا کے پیچھے اُڑ گیا میرا غبار صفحۂ دل سے مٹایا کیوں مجھے احباب نے کیوں مرے دشمن ہوئے کیوں مجھ سے ہے کین و نقار جو کوئی بھی ہے وہ مجھے سے برسرِ پُرخاش ہے ہر کوئی ہوتا ہے آکر میری چھاتی پر سوار سر نگوں ہوں مَیں مثالِ سایۂ دیوار کیوں پشت کیوں خم ہے ہوا ہوں اس قدر کیوں زیر بار ہے بہارِ باغ و گل مثلِ خزاں افسردہ کُن ہے جہاں میری نظر میں مثلِ شب تاریک و تار ابر باراں کی طرح آنکھیں ہیں میری اشک بار ہے گریباں چاک گر میرا تو دامن تار تار میں جو ہنستا ہوں تو ہے میری ہنسی بھی برق وش جس کے پیچھے پھر مجھے پڑتا ہے رونا بار بار مات کرتا ہے مرا دن بھی اندھیری رات کو میری شب کو دیکھ کر زلفِ حسیناں شرمسار میری ساری آرزوئیں دل ہی دل میں مر گئیں میرا سینہ کیا ہے لاکھوں حسرتوں کا ہے مزار ہوگیا میری تمناؤں کا پودا خشک کیوں کیا بلا اس پر پڑی  جس ہوا بے برگ وبار کیوں میں میدانِ تفکر میں برہنہ پا ہوا کیوں چلے آتے ہیں دوڑے میری پا بوسی کو خار اپنے ہم چشموں کی آنکھوں میں سبک کیوں  ہوگیا دیدۂ اغیار میں ٹھہرا ہوں کیوں بے اعتبار دشتِ غربت ہوں تنہا رہ گیا باحالِ زار چھوڑ کر مجھ کو کہاں کو چل دئیے اغیار و یار کچھ خبر بھی ہے تمہیں مجھ سے یہ سب کچھ کیوں ہوا کیوں ہوئے اتنے مصائب مجھ سے آکر ہمکنار کیا قصور ایسا ہوا جس سے ہوا معتوب میں کیا کیا جس پر ہوئے چاروں طرف سے مجھے پہ وار اک رخِ تاباں کی الفت میں پھنسا بیٹھا ہوں دل اپنے دل سے اور جاں سے اس سے میں کرتا ہوں پیار وہ مری آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کا نور ہے ہے فدا اس شعلہ رو پر میری جاں پروانہ وار اُس کا اک اک لفظ میرے واسطے ہےجانفزا اُس کے اک اک قول سے گھٹیا ہے درِّ شاہوار ایک کُن کہنے سے پیدا کردئیے اس نے تمام یہ زمیں یہ آسماں یہ دورۂ  لیل و نہار یہ چمن یہ باغ یہ بُستاں یہ گل یہ پھول سب کرتے ہیں اس ماہ رُو کی قدرتوں کو آشکار ذرّہ ذرّہ میں نظر آتی ہیں اس کی طاقتیں ہر مکان و ہر زماں میں جلوہ گاہ ِحسنِ یار ہر حسیں کو حسن بخشا ہے اُسی دلدار نے ہر گل و گلزار نے پائی اُسی سے ہے بہار ہر نگاہ فتنہ گرنے اُس سے پائی ہے جِلا ورنہ ہوتی بختِ عاشق کی طرح تاریک و تار نور اس کا جلوہ گر ہے ہر در و دیوار میں ہے جہاں کے آئنہ  میں منعکس تصویر ِیار اس کی الفت نے بنایا ہے مکاں ہر نفس میں ہر دلِ دیندار اس کے رخ پہ ہوتا ہے نثار بلبلیں بھی سر پٹکتی ہیں اُسی کی یاد میں گل بھی رہتے ہیں اُسی کی چاہ میں سینہ فگار سرو بھی ہیں سروقد رہتے  اُسی کے سامنے قُمریاں بھی ہیں محبت میں اُسی کی بے قرار سب حسینانِ جہاں اُس کے مقابل ہیچ ہیں ساری دنیا سے نرالا ہے وہ میرا شہریار اب  تو سمجھے کس کے پیچھے ہے مجھے یہ اضطرار یاد میں کس ماہ رُو کی ہوں میں رہتا اشکبار کس کی فرقت میں ہوا ہوں رنج و غم سے ہمکنار ہجر میں کس کی تڑپتا رہتا ہوں لیل و نہار کس کے لعلِ لب نے چھینا سب شکیب و اصطبار کس کی دُزیدہ نگاہ نے لے لیا میرا قرار کس کے نازوں نے بنایا ہے مجھے اپنا شکار کس کے غمزہ نے کیا ہے مثلِ باراں اشکبار ہائے پر اسکے مقابل میں نہیں مَیں کوئی چیز وہ سرا پا نور ہے میں مضغہءتاریک و تار اس کی شاں کو عقلِ انسانی سمجھ سکتی نہیں ذرہ ذرہ پر ہے اس کو مالکانہ اقتدار وہ اگر خالق ہے میں ناچیز سی مخلوق ہوں ہر گھڑی محتاج ہوں اُس کا وہ ہے پروردگار پاک ہے ہر طرح کی کمزوریوں سے اس کی ذات اور مجھ میں پائے جاتے ہیں نقائص صد ہزار منبع ہر خوبی و ہر حسن و ہر نیکی ہے وہ میں ہوں میں اپنے نفس کے ہاتھوں سے مغلوب اور خوار وہ ہے آ       قا میں ہوں خادم وہ ہے مالک میں غلام میں ہوں اک ادنیٰ رعایا اور وہ ہے تاجدار علمِ کامل کا وہ مالک اور میں محرومِ علم وہ سراسر نور ہے لیکن ہوں میں تاریک و تار اس کی قدرت کی کوئی بھی انتہا پاتا نہیں اور پوشیدہ نہیں ہے تم سے میرا حالِ زار اپنی مرضی کا ہے وہ مالک تو میں محکوم ہوں میری کیا طاقت کہ پاؤں زور سے درگاہ میں بار عزت افزائی ہے میری گر کوئی ارشاد ہو فخر ہے میرا جو پاؤں رتبۂ خدمت گذار طالبِ دنیا نہیں ہوں طالبِ دیدار ہوں تب جگر ٹھنڈا ہو جب دیکھو رُخِ تابانِ یار کہتے ہیں بہر خریدِ ہوسفؑ ِفرخندہ فال ایک بڑھیا آئی تھی باحالتِ زار و نزار ایک گالا روئی کا لائی تھی اپنے ساتھ وہ اور یوسف ؑکی خریداری کی تھی امیدوار وہ تو کچھ رکھتی بھی تھی پر میں تو خالی ہاتھ ہوں بے عمل ہوتے ہوئے ہے جستجوئے دستِ یار ہوں غلامی میں مگر ہے عشق کا دعویٰ مجھے چاکروں میں ہوں مگر ہے خواہشِ قرب و جوار پر وہ عالی بارگہ ہے منبع فضل و کرم کیا تعجب ہے جو مجھ کو بھی بنادے کامگار بات کیا ہے گر وہ میری آرزو پوری کرے دے مری جاں کو تسلی دے میرے دل کو قرار ہو کے بے پردہ وہ میرے سامنے آئے نکل میرے دل سے دور کردے ہجر و فرقت کا غبار جس قدر رستہ میں روکیں ہیں ہٹادے وہ انہیں جس قدر حامل ہیں پردے ان کو کردے تار تار بے ملے اس کے تو جینا بھی ہے بدتر موت سے ہے وہی زندہ جسے اس کا ملے قرب و جوار کور ہیں آنکھیں جنھوں نے شکل وہ دیکھی نہیں گوش کَر ہیں جو نہیں سنتے کبھی گفتارِ یار آرزو ہے گر فلاح و کامیابی کی تمھیں اس شہ خوباں پہ کردو بے تامل جاں نثار کھول کر قرآں پڑھو اس کے کلامِ پاک کو دل کے آئینہ پہ تم اک کھینچ لو تصویر یار شوق ہو دل میں اگر کوئی تو اس کی دید کا کان میں کوئی صدا ٓئے نہ جز گفتارِ یار ہر رگ و ریشہ میں ہو اس کی محبت جاگزیں ہر کہیں آئے نظر نقشہ وہی منصور وار اپنی مرضی چھوڑ دو تم اس کی مرضی کے لیے جو ارادہ وہ کرے تم بھی کرو وہ اختیار عشق میں اس کے نہ ہو کوئی ملونی جھوٹ کی جو زباں پر ہو وہی اعمال سے ہو آشکار پاک ہو جاؤ کہ وہ شاہِ جہاں بھی پاک ہے جو کہ ہو ناپاک دل اس سے نہیں کرتا وہ پیار چھوڑ دو رنج و عداوت ترک کردو بغض و کیں پیار و الفت کو کرو تم جان و دل سے اختیار چھوڑ دو غیبت کی عادت بھی کہ یہ اک زہر ہے روحِ انسانی کو ڈس جاتی ہے یہ مانندِ مار کبر کی عادت بھلاؤ انکساری سیکھ لو جہل کی عادت کو چھوڑو علم کر لو اختیار دونوں ہاتھوں سے پکڑ لو دامنِ تقویٰ کو تم ایک ساعت میں کرادیتا ہے یہ دیدارِ یار کہتے ہیں پیاروں کا جو کچھ ہو وہ آتا ہے پسند اِس لیے جو کوئی اُس کا ہو کرو تم اس سے پیار اُس کے ماموروں کو رکھو تم دل و جاں سے عزیز اُس کے نبیوں کے رہو تم چاکر و خدمت گذار اُس کے حکموں کو نہ ٹالو ایک دم کے واسطے مال و دولت جان و دل ہر شے کرو اُس پر نثار ساری دنیا میں کرو تم مشتہر اُس کی کتاب تاکہ ہوں بیدار وہ بندے جو ہیں غفلت شعار ابتداء میں لوگ گو پاگل پکاریں گے تمھیں اور ہوں گے در پئے ایذا دہی دیوانہ وار گالیاں دیں گے تمھیں کافر بتائیں گے تمھیں جس طرح ہوگا کریں گے وہ تمھیں رسوا وخوار سنگ باری سے بھی اُن کو کچھ نہ ہوگا اجتناب بے جھجک دکھلائیں گے وہ تم کو تیغِ آبدار پر خدا ہوگا تمہارا ہر مصیبت    میں معین شر سے دشمن کے بچائے گا تمہیں لیل ونہار اُس کی الفت میں کبھی نقصاں اٹھاؤ گے نہ تم اُس کی الفت میں کبھی ہو گے نہ تم رسوا و خوار امتحاں میں پورے اترے گر تو پھر انعام میں جامِ وصل یار پینے کو ملیں گے بار بار تم پہ کھولے جائیں گے جنت کے دروازے یہیں تم پہ ہو جائیں گے سب اسرارِ قدرت آشکار درد میں لذت ملے گی دکھ میں پاؤ گے سرور بے قراری بھی اگر ہوگی تو آئے گا قرار سرنگوں ہوجائیں گے دشمن تمہارے سامنے ملتجی ہوں گے  برائے عفو وُہ باحالِ زار الغرض یہ عشقِ مولیٰ بھی عجب اک چیز ہے جو گداگر کو بنا دیتا ہے دم میں شہر یار بس یہی اک راہ ہے جس سے کہ ملتی ہے نجات بس یہی ہے اک طریقہ جس سے ہو عزّ و وقار اخبار الحکم جلد 16 ۔7جنوری 1912ء کلام محمود صفحہ78۔79 41۔ دوڑے جاتے ہیں بامید تمنا سوئے باب دوڑے جاتے ہیں بامید تمنا سوئے باب شاید آجائے نظر روئے دل آرا بے نقاب غافلو کیوں ہورہے ہوعاشق چنگ در باب آسماں پر کھل رہے ہیں آج سب عرفاں کے باب مست ہو کیوں اس قدر اغیار کے اقوال پر اس شہِ خوباں کی تم کیوں چھوڑ بیٹھے ہو کتاب کیا ہوا کیوں عقل پر ان سب کے پتھر پڑگئے چھوڑ کر دیں عاشق دنیا ہوئے ہیں شیخ و شباب اپنے پیچھے چھوڑے جاتے ہیں یہ اک حصن حصیں بھاگے جاتے ہیں یہ احمق کیوں بھلا سوئے حُباب امر بالمعروف کا بیڑا اٹھاتے ہیں جو لوگ ان کو دینا چاہتے ہیں ہر طرح کا یہ عذاب پر جو مولیٰ کی رضا کے واسطے کرتے ہیں کام اور ہی ہوتی ہے ان کی عز و شان و آب و تاب وہ شجر ہیں سنگباروں کو بھی جو دیتے ہیں  پھل ساری دنیا سے نرالا اُن کا ہوتا ہے جواب لوگ ان کے لاکھ دشمن ہوں وہ سب کے دوست ہیں خاک کے بدلے میں ہیں وہ پھینکتے مشک و گلاب یا الٰہی آپ ہی اب میری نصرت کیجیئے کام ہیں لاکھوں مگر ہے زندگی مثلِ حباب کیا بتاؤں جس قدر کمزوریوں میں ہوں پھنسا سب جہاں بیزار ہوجائے جو ہُوں مَیں بے نقاب میں ہوں خالی ہاتھ مجھ کو یونہی جانے دیجئے شاہ ہو کر آپ کیا لیں گے فقیروں سے حساب تشنگی بڑھتی گئی جتنا کیا دنیا سے پیار پانی سمجھے تھے جسے وہ تھا حقیقت میں سراب میری خواہش ہے کہ دیکھوں اس مقام پاک کو جس جگہ نازل ہوئی مولیٰ تری امّ الکتاب ابن ابراہیم ؑ آئے تھے جہاں با تشنہ لب کردیا خشکی کو تُو نے ان کی خاطر آب آب میرے والد کو بھی ابراہیم ؑ ہے تُو نے کہا جس کوجو چاہے بنائے تیری ہے عالی جناب ابن ابراہیم ؑ بھی ہوں اور تشنہ لب بھی ہوں اس لیے جاتا ہوں میں مکہ کو باُمّید آب اک رخ روشن سدا رہتا ہے آنکھوں کے تلے ہیں نظر آتے مجھے تاریک ماہ و آفتاب اس قدر بھی بے رخی اچھی نہیں عشاق سے ہاں کبھی تو اپنا چہرہ کیجیئے گا بے نقاب چشمۂ انوار میرے دل میں جاری کیجیئے پھر دکھا دیجے مجھے عنوانِ روئے آفتاب رسالہ تشحیذالاذہان ماہ فروری  1913ء کلام محمود صفحہ80۔81 42۔ اے چشمۂ علم و ھدیٰ، اے صاحب فہم و ذکا اے چشمۂ علم و ھدیٰ ،اے صاحب فہم و ذکا اے نیک دل ،اے با صفا ،اے پاک طینت ،با حیا اے مقتدا ،اے پیشوا ،اے میرزا ،اے راہنما اے مجتبےٰ ،اے مصطفےٰ ،اے نائبِ رب الوریٰ کچھ یاد تو کیجے ذراک  ہم سے کوئی اقرار ہے دیتے تھے تم جس کی خبر ،بندھتی تھی جس سے یاں کمر مٹ جائیگا سب شور و شر، موت آئیگی شیطان پر پاؤ گے تم فتح و ظفر، ہوں گے تمہارے بحر و بر آرام سے ہوگی بسر ،ہوگا خدا مدّ نظر واں یہ تھے  وعدے خوب ترو یاں حالتِ ادبار ہے ہردل میں پُر ہے بغض و کیں، ہر نفس شیطاں کار ہیں جو ہو فدائے نور دیں، کوئی نہیں کوئی نہیں ہر ایک کے ہے سر میں کیں ،ہے کبر کا دیو لعیں اک دم کو یاد آتی نہیں، درگاہِ رب العالمیں بے چین ہے جانِ حزیںب  حالت ہماری زار ہے کہنے کو سب تیار ہیں، چالاک ہیں ہشیار ہیں منہ سے تو سو اقرار ہیں، پر کام سے بیزار ہیں ظاہر میں سب ابرار ہیں، باطن میں سب اشرار ہیں مصلح ہیں پر بدکار ہیں، ہیں ڈاکٹر پر زار ہیں حالات پر اسرار ہیںح دل مسکن افکار ہے چھینے گئے ہیں ملک سب، باقی ہیں اب شام و عرب پیچھے پڑا ہے ان کے اب ،دشمن لگائے تا نقب ہم ہورہے ہیں جاں بلب، بنتا نہیں کوئی سبب ہیں منتظر اس کے کہ کب، آئے ہمیں امدادِ رب پیالہ بھرا ہے لب بلبپ ٹھوکر ہی اک در کار ہے کیا آپ پر الزام ہے، یہ خود ہمارا کام ہے غفلت کا یہ انجام ہے ،سستی کا یہ انعام ہے قسمت یونہی بدنام ہے، دل خود اسیرِ دام ہے اب کس جگہ اسلام ہے، باقی فقط اک نام ہے ملتی نہیں مے جام ہےم بس اک یہی آزار ہے رسالہ تشحیذالاذہان ماہ مارچ  1913ء کلام محمود صفحہ82 43۔ محمود بحالِ زارکیوں ہو محمود بحالِ زارکیوں ہو کیا رنج ہے بےقرار کیوں ہو کس بات سے تم کو پہنچی تکلیف کیا صدمہ ہے دل فگا ر کیوں ہو ہاں سوکھ گیا ہے کونسا کھیت کچھ بولو تو اشکبا ر کیوں ہو جب تک نہ ہو کوئی باعثِ درد بے وجہ پھر اضطرا ر کیوں ہو میں باعثِ رنج کیا بتاؤں کیا کہتے ہو بےقرا ر کیوں ہو دل ہی نہ رہا ہوجس کے بس میں وہ صبر سے شرمسا ر کیوں ہو سب جس کی امیدیں مر چکی ہوں زندوں میں وہ پھر شما ر کیوں ہو دولہا نہ رہا ہوجب دلہن کا بیچاری کاپھرسنگا ر کیوں ہو کاٹے گئے جب تمام پودے گلشن میں مرے بہا ر کیوں ہو آنکھوں میں رہی نہ جب بصارت دیدارِ رخ ِنگار کیوں ہو جس شخص کا لٹ رہا ہو گھر بار خوشیوں سے بھلا دوچا ر کیوں ہو اسلام گھرا ہے دشمنوں میں مسلم کا نہ دل فگا ر کیوں ہو ماضی نے کیا ہے جب پریشان آ ئیندہ کا اعتبا ر کیوں ہو کیا نفع اٹھایا ترکِ دیں سے؟ دنیا پہ ہی جاں نثا ر کیوں ہو رسالہ تشحیذ الاذہان ماہ جون  1913ء  کلام محمود صفحہ83 44۔ نہ مے رہے نہ رہے خُم نہ یہ سبو باقی نہ مے رہے نہ رہے خُم نہ یہ سبو باقی بس ایک دل میں رہے تیری آرزو باقی پڑی ہے کیسی مصیبت یہ غنچۂ دیں پر رہی وہ شکل وشباہت نہ رنگ وبوباقی کہاں وہ مجلس ِعیش و طرب وہ رازونیاز بس اب تو رہ گئی ہے ایک گفتگو باقی جو پوچھ لو کبھی اتنا کہ آرزو کیا ہے رہے نہ دل میں مرے کوئی آرزو باقی ملا ہوں خاک میں باقی رہا نہیں کچھ بھی مگر ہے دل میں مرے اُن کی جستجو باقی وہ گاؤں گا تری تعریف میں ترانۂ حمد رہے گا ساز ہی باقی نہ پھر گلُو باقی گیا ہوں سوکھ غمِ ملت ِمحمدؐ میں رہا نہیں ہے مرے جسم میں لہو باقی قُرونِ اولیٰ کے مسلم کا نام باقی ہے نہ اُس کے کام ہیں باقی نہ اس کی خو باقی خدا کے واسطےمُسلم ذرا تو ہوش میں آ نہیں تو تیری رہے گی نہ آبروباقی شکائتیں تھیں ہزاروں بھری پڑی دل میں رہی نہ ایک بھی پر اُن کے روبرو باقی اخبار الفضل جلد 1 ۔27اگست 1913ء کلام محمود صفحہ84 45۔ ملتِ احمد ؐکے ہمدردوں میں غمخواروں میں ہوں ملتِ احمد ؐکے ہمدردوں میں غمخواروں میں ہوں بے وفاؤں میں نہیں ہوں مَیں وفاداروں میں ہوں فخر ہے مجھ کو کہ ہوں مَیں خدمت ِسرکار میں ناز ہے مجھکو کہ اس کےناز برداروں میں ہوں سر میں ہے جوشِ جنوں دل میں بھرا ہےنُوروعلم میں نہ دیوانوں میں شامل ہوں نہ ہشیاروں میں ہوں پوچھتا ہے مجھ سے وہ کیونکر تراآناہوا کیا کہوں اُس سے کہ میں تیرےطلبگاروں میں ہوں میں نے مانا تونے لاکھوں نعمتیں کی ہیں عطا پر میں اُن کوکیاکروں تیرے طلبگاروں میں ہوں شاہدوں کی کیا ضرورت ہے کسے انکار ہے میں تو خود کہتا ہوں مولامیں گنہگا روں میں ہوں حملہ کرتا ہےاگر دشمن تو کرنے دو اسے وہ  ہےاغیاروں میں مَیں اُس یار کے یا روں میں ہوں ظلمتیں کافور ہوجائیں گی اک دن دیکھنا میں بھی اک نورانی چہرہ کے پرستا روں میں ہوں اہلِ دنیا کی نظر میں خوابِ غفلت میں ہوں مَیں اہلِ دل پر جانتے ہیں یہ کہ بیدا روں میں ہوں ہوں تو دیوانہ مگر بہتوں سے عاقل تَر ہوں مَیں ہوں تو بیماروں میں لیکن تیرے بیما روں میں ہوں مدتوں سے مرچکاہوتا غم واندوہ سے گر نہ یہ معلوم ہوتا میں ترے پیا روں میں ہوں جانتا ہے کس پہ تیرا وار پڑتا ہے عدو کیا تجھے معلوم ہے کس کے جگر پا روں میں ہوں ساری دنیا چھوڑ دے پر مَیں نہ چھوڑوں گا تجھے دردکہتا ہے کہ مَیں تیرے وفادا روں میں ہوں ہورہا ہوں مست دیدِ چشمِ مستِ یارمیں لوگ یہ سمجھے ہوئے بیٹھے ہیں مے خوا روں میں ہوں عشق میں کھوئے گئے ہوش و حواس و فکر وعقل اب سوال ِ دید جائز ہے کہ نادا روں میں ہوں گر مِرا دل مخزنِ تیرِ نگاہِ یار ہے پر یہ کیا کم ہے کہ اس کے تیر بردا روں میں ہوں اخبار الفضل جلد 1 ۔27اگست 1913ء کلام محمود صفحہ85۔86 46۔ محمدؐ عربی کی ہو آل میں برکت محمد ؐعربی کی ہو آل میں برکت ہو اس کے حسن میں برکت جمال میں برکت ہو اس کی قدر میں برکت کمال میں برکت ہو اس کی شان میں برکت جلال میں برکت حلال کھا کہ ہے رزقِ حلال میں برکت زکوٰۃ دے کہ بڑھے تیرے مال میں برکت ملے گی سالک ِرہ ! تجھ کو حال میں برکت کبھی بھی ہوگی میسر نہ قال میں برکت جہاں پہ کل تھے وہیں آج تم نہ رک رہنا قدم بڑھاؤ کہ ہے انتقال میں برکت لگائیو نہ درختِ شکوک دل میں کبھی نہ اس کے پھل میں ہے برکت نہ ڈا ل میں برکت یقین سی نہیں نعمت کوئی زمانے میں نہ شک میں خیر ہے نَے احتمال میں برکت جو چاہے خیر تو کر استخارۂ مسنون عبث تلاش نہ کر تیرو فال میں برکت ہر ایک کام کو تو سوچ کر بچار کے کر ہمیشہ پائے گا اس دیکھ بھال میں برکت خدا کی راہ میں دے جس قدر بھی ممکن ہو کہ اس کے فضل سے ہو تیرے مال میں برکت ہے عیش و عشرتِ دنیا تو ایک فانی شے خدا کرے کہ ہو تیرے مال میں برکت قلوبِ صافیہ ہوتے ہیں مہبطِ انوار کبھی بھی دیکھی ہے رنج و ملا ل میں برکت نہ چپ رہو کہ خموشی دلیل نخوت ہے دعائیں مانگو کہ ہے عرضِ حال میں برکت گنہ کے بعد ہو توبہ سے بابِ رحمت وا خطا کے بعد ملے اِنفعال میں برکت رہ ِسداد نہ تفریط ہے نہ ہے افراط خدا نے رکھی ہے بس اعتدال میں برکت اسی کے دم سے فقط ہے بقائے موجودات خدا نے رکھی ہے وہ اتّصال میں برکت ہو ماند چودھویں کا چاند بھی مقابل پر خدا وہ بخشے ہمارے ہلال میں برکت روئیں روئیں میں سما جائے عشقِ خالقِ حسن ظہور جس سے کرے بال بال میں برکت چڑھے تو نام نہ لے ڈوبنے کا پھر وہ کبھی کچھی ایسی ہو میرے یوم الوصال میں برکت اخبار الفضل جلد 5 ۔8جنوری 1918ء کلام محمود صفحہ87۔89 47۔ آہ دنیا پہ کیا پڑی افتاد آہ دنیا پہ کیا پڑی افتاد دین و ایمان ہوگئے برباد مہر اسلام ہوگیا مخفی سارے عالم پہ چھا گیا ہے سواد آج مسلم ہیں رنج و غم سے چور اور کافر ہیں خندہ زن دلشاد روح اسلام ہوگئی محصور کفر کا دیو ہوگیا آزاد جو بھی ہے دشمنِ صداقت ہے دین حق سے ہے اسکو بغض و عناد جھوٹ نے خوب سر نکالا ہے ہے صداقت کی ہل گئی بنیاد دشمنانِ شریعتِ حقہ چاہتے ہیں تغلّب و افساد اس ارادے پہ گھر سے نکلے ہیں دین اسلام کو کریں برباد ہے ہمارے علاج کا دعویٰ کہتے ہیں اپنے آپ کو فصّاد مگر اس فصد کے بہانے سے کر رہے ہیں وہ کارِ صد جلّاد ستم و جَور بڑھ گیا حد سے انتہا سےنکل گئی ہے داد ہے غضب ہیں وہ شائق بیداد پھر ستم یہ کہ ہیں ستم ایجاد پھر یہ ہے قہر ظلم کرکے وہ خود ہمیں سے ہیں ہوتے طالبِ داد اے خدا اے شہِ مکین و مکاں قادر و کارساز و ربّ عباد دین احمد کا تو ہی ہے بانی پس تجھی سے ہماری ہے فریاد تیرا در چھوڑ کر کہاں جائیں کس سے جاکر طلب کریں امداد چاروں اطراف سے گھرے ہیں ہم آگے پیچھے ہمارے ہیں حُسّاد ہے اِدھر پا شکستگی کی قید اور اُدھر سر پہ آگیا صیاد زلزلوں سے ہماری ہستی کی ہل گئی سر سے پا تلک بنیاد کچھ تو فرمائیے کریں اب کیا کچھ تو اب کیجئے ہمیں ارشاد کب تلک بے گناہ رہیں گے ہم تختۂ مشق ِ بازوئے جلّاد کب طلسمِ فریب ٹوٹے گا کب گرے گا وہ پنجۂ فولاد ان دکھوں سے نجات پائیں گے کب ہوں گے کب ان غموں سے ہم آزاد کب رہا ہوگی قید سے فطرت دور کب ہوگا دَورِ استبداد شانِ اسلام ہوگی کب ظاہر کب مسلماں ہوگے خرم و شاد پوری ہوگی یہ آرزو کس وقت کب بَر آئے گی یہ ہماری مراد میں بھی کہتا ہوں آج تجھ سے وہی جو ہیں پہلے سے کہہ گئے استاد نام لیوا رہے گا تیرا کون ہم اگر ہوگئے یونہی برباد کون ہوگا فدا ترے رخ پر کون کہلائے گا ترا فرہاد کون رکھے گا پھر امانتِ عشق کس کے دل میں رہے گی تیری یاد احمدی اٹھ کہ وقت خدمت ہے یاد کرتا ہے تجھ کو ربّ ِعباد شکر کر شکر یاد کرتا ہے گد گداتی تھی دل کو جس کی یاد خدمتِ دیں ہوئی ہے تیرے سپرد دور کرنا ہے تو نے شر و فساد تجھ پہ ہے فرض نصرتِ اسلام تجھ پہ واجب ہے دعوت و ارشاد خدمتِ دیں کے واسطے ہوجا ساری قیدوں کو توڑ کر آزاد دشمن حق ہیں گو بہت لیکن کام دے گی انہیں نہ کچھ تعداد کفر و الحاد کے مٹانے کی حق نے رکھی ہے تجھ میں استعداد فتح تیرے لئے مقدر ہے تیری تائید میں ہے ربّ عباد قصر ِکفر و ضلالت و بدعت تیرے ہاتھوں سے ہوگا اب برباد ہاں تری رہ میں ایک دوزخ ہے جس میں بھڑکی ہے نارِ بغض و عناد انکے شعلوں کی زد میں جو آجائے دیکھتے دیکھتے ہو جل کے رماد پر نہ لا خوف دل میں تُو کوئی کیونکہ ہے ساتھ تیرے رب عباد بے دھڑک اور بے خطر اس میں کودجا کہہ کے ہر چہ بادا باد اخبار الفضل جلد 7 ۔5جنوری 1920ء کلام محمود صفحہ90 48۔ ہے دستِ قبلہ نما لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ہے دستِ قبلہ نما لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ہے دردِ دل کی دوا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کسی کی چشمِ فسوں ساز نے کیا جادو تو دل سے نکلی صدا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ جو پھونکا جائیگا کانوں میں دل کے مُردوں کے کرے گا حشر بپا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ قریب تھا کہ میں گر جاؤں بارِ عصیاں سے بنا ہے لیک عصا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ گرہ نہیں رہی باقی کوئی مرے دل کی ہوا ہے عقدہ کشا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ عقیدۂ ثنویت ہو یا کہ ہو تثلیث ہے کذب بحث و خطا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ہے گاتی نغمۂ توحید نےَ نیتاں میں ہے کہتی باد صبا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ترا تو دل ہے صنم خانہ پھر تجھے کیا نفع اگر زباں سے کہا ں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ حضورِ حضرتِ دیّاں شفاعتِ نادم کرے گا روزِ جزا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ زمیں سے ظلمتِ شرک ایک دم میں ہوگی دور ہوا جو جلوہ نما لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ہزاروں ہوں گے حسیں لیک قابل الفت وہی ہے میرا پیا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ دھوکا کھائیو ناداں کہ کشش جہات میں بس وہی ہے چہرہ نما لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ چھپی نہیں کبھی رہ سکتی وہ نگہ جس نے ہے مجھ کو قتل کیا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ بروزِ حشر سبھی تیرا ساتھ چھوڑیں گے کرے گا ایک وفا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ ہزاروں بلکہ ہیں لاکھوں علاج روحانی مگر ہے روحِ شفا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ گلدستہ ءاحمد۔حصہ دوم ۔15فروری 1920ء کلام محمود صفحہ91 49۔ غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں اغیار کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے ہمیں اس زندگی سے موت ہی بہتر ہے اےخدا جس میں کہ تیرا نام چھپانا پڑے ہمیں منبر پہ چڑھ کہ غیر کہے اپنا مدعا سینہ میں اپنے جوش دبا نا پڑے ہمیں کیا کیسا عدل ہےکہ کریں اور، ہم بھریں اغیار کا بھی قضیہ چکا نا پڑے ہمیں سن مدعی نہ بات بڑھا تا نہ ہو یہ بات کوچہ میں اس کے شور مچا نا پڑے ہمیں اتنا نہ دور کر کہ کٹے رشتہءوداد سینہ سے اپنے غیر لگا نا پڑے ہمیں پھلائیں گے صداقتِ اسلام کچھ بھی ہو جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جا نا پڑے ہمیں پروا نہیں جو ہاتھ سے اپنے ہی اپنا آپ حرفِ غلط کی طرح مٹا نا پڑے ہمیں محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار روئے زمیں کو خواہ ہلا نا پڑے ہمیں اخبار الفضل جلد 7 ۔29اپریل  1920ء کلام محمود صفحہ92۔93 50۔ مری تدبیر جب مجھ کو مصیبت میں پھنساتی ہے مری تدبیر جب مجھ کو مصیبت میں پھنساتی ہے تو تقدیرِ الہٰی آن کر اس سے چھڑاتی ہے جدائی دیکھتا ہوں جن تو مجھ کو موت آتی ہے امیدِ وصل لیکن آکے پھر مجھ کو جِلاتی ہے نگاہِ مہر سالوں کی خصومت کوبھلاتی ہے خوشی کی اک گھڑی برسوں کی کُلفت کو مٹاتی ہے محبت تو وفا ہوکر وفا جی چراتی ہے ہماری بن کے اے ظالم ہماری خاک اڑاتی ہے محبت کیا ہے کچھ تم کوخبربھی ہے سنو مجھ سے یہ ہے وہ آگ جوخود گھر کے مالک کو جلاتی ہے کہاں یہ خانۂ ویراں کہاں وہ حضرتِ ذی شاں کشش لیکن ہمارے دل کی انکو کھینچ لاتی ہے ہوئی ہے بے سبب کیوں عاشقوں کی جان کی دشمن نسیمِ صبح ان کے منہ سے کیوں آنچل اٹھاتی ہے مٹائیگا ہمیں کیا،تُواے اپنی جان کا دشمن ارے ناداں کبھی عشاق کو بھی موت آتی ہے نہ اپنی ہی خبر رہتی ہے نَے یادِاعزہ ہی جب اس کی یاد آتی ہے تو پھر سب کو بھلاتی ہے خدا کو چھوڑنا اے مسلمو!کیا کھیل سمجھے تھے تمہاری تیرہ بختی دیکھئے کیا رنگ لاتی ہے محبت کی جھلک چھپتی کہاں ہےلاکھ ہوں پردے نگاہِ زیر بیں مجھ سے بھلا تو کیا چھپاتی ہے معاذاللہ مرا دل اور ترکِ عشق کیا ممکن   میں ہوں وہ باوفا جس سے وفا کو شرم آتی ہے وہ کیسا سر ہے جوجھکتا ہے آگے ہر کہ ومہ کے وہ کیسی آنکھ ہے جو ہر جگہ دریا بہاتی ہے تغافل ہوچکاصاحب خبر لیجے نہیں تو پھر کوئی دم میں یہ سن لو گے فلاں کی نعش جاتی ہے طریقِ عشق میں اے دل سیادت کیا غلامی کیا محبت خادم و  آقا کو اک حلقہ میں لاتی ہے بلائے ناگہاں بیٹھے ہیں ہم آغوشِ دلبر میں خبر بھی ہے تجھے کچھ تُوکنہیں آنکھیں دکھاتی ہے تری رہ میں بچھائےبیٹھے ہیں دل مدتوں سے ہم سواری دیکھئے اب دلربا کب تیری آتی ہے ہمارا امتحاں لے تمھیں کیا فائدہ ہوگا؟ ہماری جان تو بے امتحاں ہی نکلی جاتی ہے گِھراہوں حلقۂ احباب میں گو میں مگر تجھ بن مرے یارِ ازل تنہائی پھر بھی کاٹے کھاتی ہے ہماری خاک تک بھی اڑچکی ہے اسکے رستہ میں ہلاکت تُوبھلا کس بات سے ہم کو ڈراتی ہے غمِ دل لوگ کہتے ہیں نہایت تلخ ہوتی ہے مگر میں کیا کروں اس کو غذا یہ مجھ کو بھاتی ہے مری جاں تیرے جامِ وصل کی خواہش میں اے پیارے مثالِ ماہئ بے آب ہر دم تلملاتی ہے مرے دل میں تو آتا ہے کہ سب احوال کہہ ڈالوں نہ شکوہ جان لیں،اس سے طبیعت ہچکچاتی ہے کبھی جو روتے روتے یاد میں مَیں اس کی سوجاؤں شبیہِ یار آکر مجھ کو سینے سے لگاتی ہے انانیت پرے ہٹ جا مجھے مت منہ دکھا اپنا میں اپنے حال سے واقف ہوں تو کس کو بناتی ہے کبھی کا ہوچکا ہوتاشکارِیاس ونومیدی مگر یہ بات اے محمود میرا دل بڑھاتی ہے جوہوں خدامِ دیں ان کوخداسے نصرت آتی ہے "جب آتی ہے تو پھر عالَم کو اک عالَم دکھاتی ہے"   اخبار الفضل جلد 7 ۔16اگست 1920ء کلام محمود صفحہ94۔95 51۔تری محبت میں میرے پیارے ہرا ک مصیبت اٹھائیں گے ہم تری محبت میں میرے پیارے ہرا ک مصیبت اٹھائیں گے ہم مگر نہ چھوڑیں گے تجھ کو ہر گز نہ تیرے در پر سے جائیں گے ہم تری محبت کے جرم میں ہاں جو پیس بھی ڈالے جائیں گے ہم تو اس کو جانیں گے عین راحت نہ دل میں کچھ خیال لائیں گے ہم سنیں گے ہر گز نہ غیر کی ہم نہ اس کے دھوکے میں آئیں گے ہم بس ایک تیرے حضور میں ہی سرِاطاعت جھکائیں گے ہم جو کوئی ٹھوکر بھی مار لے گا اس کو سہہ لیں گے ہم خوشی سے کہیں گے اپنی سزا یہی تھی زباں پہ شکوہ نہ لائیں گے ہم ہمارے حالِ  خراب پر گو ہنسی انہیں آج   آ رہی ہے مگر کسی دن تمام دنیا کو ساتھ اپنے رُلائیں گے ہم ہوا ہے سارا زمانہ دشمن، ہیں اپنے بیگانے خوں کے پیاسے جو تو نے بھی ہم سے بے رُخی کی تو پھر تو بس مر ہی جائیں گے ہم یقیں دلاتے رہے ہیں دنیا کو تیری الفت کا مدتوں سے جو آج تو نے نہ کی رفاقت کسی کو کیا منہ دکھائیں گے ہم پڑے ہیں پیچھے جو فلسفے کے انہیں خبر کیاہے کہ عشق کیا ہے مگر ہیں ہم رَہرَوِ طریقت ثمارِ الفت ہی کھائیں گے ہم سمجھتے کیا ہو کہ عشق کیا ہے یہ عشق پیار و کٹھن بلا ہے جو اس کی فرقت میں ہم پہ گذری کبھی وہ قصہ سنائیں گے ہم ہمیں نہیں عطر کی ضرورت کہ اس کی خوشبو ہے چند روزہ بوئے محبت سے اس کی اپنے دماغ و دل کو بسائیں گے ہم ہمیں بھی ہے نسبتِ تلمذ کسی مسیحاؑ نفس سے حاصل ہوا ہے بے جان گو  کہ مسلم مگر اب اس کو جِلائیں گے ہم مٹا کے نقش و نگارِ دیں کو یونہی ہے خوش دشمنِ حقیقت جو پھر کبھی بھی نہ مٹ سکے گااب ایسا نقشہ بنائیں گے ہم خدا نے ہے خضرِ رَہ بنایا ہمیں طریقِ محمدؐی کا جو بھولے بھٹکے ہوئے ہیں ان کو صنم سے لاکر ملائیں گے ہم ہماری ان خاکساریوں پر نہ کھائیں دھوکا ہمارے دشمن جو دیں کو ترچھی نظر سے دیکھا تو خاک ان کی اُڑائیں گے ہم مٹا کے کفر و ضلال و بدعت کریں گے آثارِ دیں کو تازہ خدا نے چاہا تو کوئی دن  میں ظفر کے پرچم اُڑائیں گے ہم خبر بھی ہے کچھ تجھے او ناداں! کہ مردُمِ چشمِ یار ہیں ہم اگر ہمیں کج نظر سے دیکھا تو تجھ پہ بجلی گرائیں گے ہم وہ شہر جو کفر کا ہے مرکز ہے جس پہ دینِ مسیح نازاں خدائے واحد کے نام پر اک اب اس میں مسجد بنائیں گے ہم پھر اس کے مینار پر سے دنیا کو حق کی جانب بلائیں گے ہم کلامِ ربِ رحیم و رحماں ببانگِ بالا سنائیں گے ہم اخبار الفضل جلد 7 ۔19ستمبر 1920ء  کلام محمود صفحہ96۔97 52۔ نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع مرا پیغام نہ ہو چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو تاکہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو جب گزر جائیں گے ہم تم پہ پڑے گا سب بار سستیاں ترک کرو طالبِ آرام نہ ہو خدمتِ دین کو اک فضلِ الٰہی جانو اس کے بدلہ میں کبھی طالبِ انعام نہ ہو دل میں ہو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ ہو سر میں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ ہو برقِ غضب دل میں کینہ نہ ہو لب پہ کبھی دشنام نہ ہو خیراندیشئ احباب رہے مدنظر عیب چینی کرو مفسد و نمام نہ ہو چھوڑ دو حرص کرو زہد و قناعت پیدا زِر نہ محبوب بنے سیم دل آرام نہ ہو رغبتِ دل سے ہو پابند نمازو روزہ نظرانداز کوئی حصۂ احکام نہ ہو پاس ہو مال تو دواس سے زکوٰۃ و صدقہ فکرِ مسکیں رہے تم کو غمِ ایام نہ ہو حس اس کا نہیں کھلتا تمہیں یہ یاد رہے دوش مسلم پراگر چادرِ احرام نہ ہو عادتِ ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل  میں ہو عشقِ صنم لب پہ مگر نام نہ ہو عقل کو دین پہ حاکم نہ بناؤ ہر گز یہ تو خود اندھی ہے گر نیرِ الہام نہ ہو جو صداقت بھی ہو تم شوق سے مانو اس کو علم کے نام سے پرتابعِ اوہام نہ ہو دشمنی ہو نہ محبان محمدؐ سے تمہیں جو معاند ہیں تمہیں ان سے کوئی کام نہ ہو امن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مت لو باعثِ فکرو پریشانئ حُکام نہ ہو اپنی اس عمر کو ا ک نعمتِ عظمیٰ سمجھو بعد  میں تاکہ تمہیں شکوۂ ایام نہ ہو حسن ہر رنگ میں اچھا ہے مگر خیال رہے دانہ سمجھے ہو جسے تم وہ کہیں دام نہ ہو تم مدبر ہو کہ جرنیل ہو یا عالم ہو ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گر اسلام نہ ہو سیلف 1رسپکٹ کا بھی خیال رکھو تم بے شک یہ نہ ہو پَرکہ کسی شخص کا اکرام نہ ہو عسر ہو یسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا نفسِ وحشی و جفاکیش اگر رام نہ ہو من و احسان سے اعمال کو کرنا نہ خراب رشتۂ وصل کہیں قطع سرِ بام نہ ہو بھولیو مت کہ نزاکت ہے نصیبِ نسواں مرد وہ ہے جو جفاکش ہو گل اندام نہ ہو شکلِ مے دیکھ کے گرنا نہ مگس کی مانند دیکھ لینا کہ کہیں دُرد تہِ جام نہ ہو یاد رکھنا کہ کبھی بھی نہیں پاتا عزت یار کی راہ میں جب تک کوئی بدنام نہ ہو کام مشکل ہے بہت منزلِ مقصود ہے دور اے مرے اہلِ وفا سست کبھی گام نہ ہو گامزن ہو گے رہِ صدق و صفا پر گر تم کوئی مشکل نہ رہے گی جو سرانجام نہ ہو حشر کے روز نہ کرنا ہمیں رُسوا و خراب پیار و آموختہ ءدرسِ وفا خام نہ ہو ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو میری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو سر پہ اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو ظلمتِ رنج و غم ودرد سے محفوظ رہو مہرِ انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو 1۔SELF RESPECT اخبار الحکم جلد 22 ۔17اکتوبر 1920ء نوٹ از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے اے نوجوانانِ جماعت احمدیہ

ہر قوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے کس قدر ہی محنت سے کوئی کام چلایا جائے اگر آگے اس کے جاری رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو سب محنت غارت جاتی ہے اور اس کام کا انجام ناکامی ہوتا ہے ۔ گو ہمارا سلسلہ روحانی ہے مگر چونکہ مذکورہ بالا قانون بھی الٰہی ہے اس لئے وہ بھی اس کی زَد سے بچ نہیں سکتا۔پس اس کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے ۔ ہم پر واجب ہے کہ آپ لوگوں کو ان فرائض پر آگاہ کردیں جو آپ پر عائد ہونے والے ہیں اور ان راہوں سے واقف کردیں جن پر چل کر آپ منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہیں اور آپ پر فرض ہے کہ آپ گوشِ ہوش سے ہماری باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو امانت ہم لوگوں کے سپرد ہوئی ہے اس کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ملے۔ اس غرض کو مدّ نظر رکھتے ہوئے میں نے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے جس میں حتی الوسع وہ تمام نصیحتیں جمع کردی ہیں جن پر عمل کرنا سلسلہ کی ترقی کے لئے ضروری ہے گو نظم میں اختصار ہوتا ہے مگر یہ اختصار ہی میرے مدعا کے لئے مفید ہے کیونکہ اگر رسالہ لکھا جاتا تو اس کو بار بار پڑھنا وقت چاہتا   جو ہر شخص کو میسر نہ ہوسکتا۔ مگر نظم میں لمبا مضمون تھوڑی عبارت میں آجانے کے باعث ہر ایک شخص آسانی سے اس کا روزانہ مطالعہ بھی کرسکتا ہے اور اس کو ایسی جگہ بھی  لٹکا سکتا ہے جہاں اس کی نظر اکثر اوقات پڑتی رہے اور اس طرح اپنی یاد کو تازہ رکھ سکتا ہے ۔ خوب یاد رکھو کہ بعض باتیں چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کے اثر بڑے ہوتے ہیں ۔ پس اس میں لکھی ہوئی کوئی بات چھوٹی نہ سمجھو اور ہر ایک بات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ تھوڑے ہی دن میں اپنے اندر تبدیلی محسوس کرو گے اور کچھ ہی عرصہ کے بعداپنے آپ میں اس کام کی اہلیت پیدا ہوتی دیکھو گے جو ایک دن تمہارے سپرد ہونے والا ہے۔ یہ بھی یاد رکھو کہ تمہارا یہی فرض نہیں کہ اپنی اصلاح کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ اپنے بعد میں آنے والی نسلوں کی بھی اصلاح کی فکر رکھو اور ان کو نصیحت کرو کہ وہ اگلوں کی فکر رکھیں اور اسی طرح یہ سلسلہ ادائے امانت کا ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتا چلا جاوے تاکہ یہ دریائے فیض جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا ہے ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس کام کے پورا کرنے والے ہوں جس کے لئے آدمؑ اور اس کی اولاد پیدا کی گئی ہے ۔ خدا تمھارے ساتھ ہو۔ اللھم آمین

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو تاکہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو جب گزر جائیں گے ہم تم پہ پڑے گا سب بار سستیاں ترک کرو طالبِ آرام نہ ہو

جب تک انسان کسی کام کا عادی اپنے آپ کو نہ بنا لے اس کا کرنا دو بھر ہوجاتا ہے۔ پس یہ غلط خیال ہے کہ جب ذمہ داری پڑے گی دیکھا جائے گا آج ہی سے اپنے آپ کو خدمتِ دین کی عادت ڈالنی چاہیئے۔

خدمتِ دین کو اک فضل الٰہی جانو اس کے بدلے میں کبھی طالبِ انعام نہ ہو

کبھی خدمتِ دین کرکے اس پر فخر نہیں کرنا چاہیئے یہ خدا کا فضل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو خدمتِ دین کی توفیق دے نہ بندہ کا احسان کہ وہ خدمتِ دین کرتا ہے ۔ اور یہ تو حد درجہ کی بیوقوفی ہے کہ خدمتِ دین کرکے کسی بندہ پر احسان رکھے یا اس سے کسی خاصل سلوک کی امید رکھے۔

دل میں ہو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو مغز ، فقط نام نہ ہو سر میں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ ہو برقِ غضب دل میں کینہ نہ ہو لب پہ کبھی دشنام نہ ہو

اس زمانہ کا اثر اس قسم کا ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز کرنے کو بھی وضع کے خلاف سمجھتے ہیں اور خدا کے حضور میں ماتھے خاک آلود ہونا انہیں ذلت معلوم ہوتا ہے حالانکہ اس کے حضور میں تذلل ہی اصل عزت ہے۔

خیر اندیشیٔ احباب رہے مدّ نظر عیب چینی نہ کرو مفسد و نمام نہ ہو چھوڑ دو حرص کرو زہد و قناعت پیدا زر نہ محبوب بنے سیم دل  آرام نہ ہو

اس زمانہ میں مادی ترقی کے اثر سے روپے کی محبت بہت بڑھ گئی ہے اور لوگوں کو ہر ایک معاملہ میں روپے کا خیال زیادہ رہتا ہے ۔ روپے کمانا برا نہیں لیکن اس کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتی ۔ جو شخص رات دن اپنی تنخواہ کی زیادتی اور آمد کی ترقی کی فکر میں لگا رہتا ہے اس کو خدا تعالیٰ کے قرب کے حاصل کرنے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کا موقع کب مل سکتا ہے۔مومن کا دل قانع ہونا چاہیئے۔ ایک حد تک کوشش کرے پھر جو کچھ ملتا ہے اس پر خوش ہو کر خدا تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرے۔ اس بڑھی ہوئی حرص کا نتیجہ اب یہ نکل رہا ہے کہ لوگ خدمتِ دین کی طرف بھی پوری توجہ نہیں کرسکتے  اور دینی کاموں کے متعلق بھی ان کا یہی سوال رہتا ہے کہ ہمیں کیا ملے گا اور مقابلہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر فلاں دنیا کا کام کریں تو یہ ملتا ہے ۔اس دینی کام پر یہ ملتا ہے ہمارا کس میں فائدہ ہے ۔ گویا وہ دینی کام کسی کا ذاتی کام ہے جس کے بدلہ میں یہ معاوضہ کے خواہاں ہیں۔حالانکہ وہ کام ان کا بھی کام ہے اور جو کچھ ان کو مل جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ہے اور اس مال کی محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کا امن اٹھ رہا ہے ۔ ضروریات ایسی شے ہیں کہ ان کو جس قدر بڑھاؤ بڑھتی جاتی ہیں ۔ پس قناعت کی حد بندی توڑ کر پھر کوئی جگہ نہیں رہتی جہاں انسان کا قدم ٹکا سکے۔ کروڑوں کے مالک بھی تنگی کے شاکی نظر آتے ہیں ۔جس کے ہاتھ سے قناعت گئی اور مال کی محبت اس کے دل میں پیدا ہوئی وہ خود بھی دکھ میں رہتا ہے اور دوسروں کو بھی دکھ دیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تو اس کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔

رغبتِ دل سے ہو پابند نماز و روزہ نظر انداز کوئی حصۂ احکام نہ ہو پاس ہو مال تو دو اس سے زکوٰۃ و صدقہ فکر مسکیں رہے تم کو غمِ ایام نہ ہو

فکر مسکیں رہے یعنی یہ غم نہ ہو کہ اگر غریب کی مدد کریں گے تو ہمارا روپیہ کم ہوجائیگا پھر ضرورت کے وقت کیا کریں گے جو اس وقت محتاج ہے اس کی دستگیری کرو اور آئندہ ضروریات کو خدا پر چھوڑ دو۔

حسن اس کا نہیں کھلتا تمہیں یہ یاد رہے دوشِ مسلم پہ اگر چادرِ احرام نہ ہو

حج ایک نہایت ضروری فرض ہے ۔ نئی تعلیم کے دلدادہ اس کی طرف سے بہت غافل ہیں حالانکہ اسلام کی ترقی کے اسباب میں سے یہ ایک بڑا سبب ہے ۔ طاقتِ حج سے یہ مراد نہیں کہ کروڑوں روپیہ پاس ہو ۔ ایک معمولی حیثیت کا آدمی بھی اگر اخلاص سے کام لے تو حج کے سامان مہیا کرسکتا ہے ۔

عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل میں ہو عشقِ صنم لب پہ مگر نام نہ ہو

نماز کے علاوہ ایک جگہ بیٹھ کر تسبیح و تحمید و تکبیر کرنا  یا کاموں سے فراغت کے وقت تسبیح و تحمید و تکبیر کرنا دل کو روشن کردیتا ہے۔ اس میں آج کل لوگ بہت سستی کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روحانی صفائی بھی حاصل نہیں ہوتی۔ نمازوں کے پہلے یا بعد اس کا خاص موقع ہے۔

عقل کو دین پہ حاکم نہ بناؤ ہرگز یہ تو خود اندھی ہے گر نیر الہام نہ ہو

ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ مذہب کو سچا سمجھ کر مانے یوں ہی اگر سچے دین کو بھی مان لیا جائے تو کچھ فائدہ نہیں لیکن جب پوری طرح یقین کرکے ایک بات کو مانا جائے تو پھر کسی کا حق نہیں کہ اس کی تفصیلات اگر اس کی عقل کے مطابق نہ ہوں تو ان پر حجت کرے ۔ روحانیات کا سلسلہ تو خداتعالیٰ کی طرف سے قائم ہے ۔ پس عقل اور مذہب کا مقابلہ نہیں بلکہ عقل کو مذہب پر حاکم بنانے سے یہ مطلب ہوگا کہ آیا ہماری عقل زیادہ معتبر ہے یا خداتعالیٰ کا علم ۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔ ہاں یہ بات دریافت کرنی بھی ضروری ہے کہ جس چیز کو ہم مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ مذہب کا حصہ ہے بھی یا نہیں۔

جو صداقت بھی ہو تم شوق سے مانو اس کو علم کے نام سے پر تابع اوہام نہ ہو

آج کل یورپ سے جو آواز آوے اور وہ کسی فلاسفر اور سائنس دان کی طرف منسوب ہو تو جھٹ اس کا نام علم رکھ لیا جاتا ہے اور ا س کے خلاف کہنے والوں کو علم کا دشمن کہا جاتا ہے ۔ یہ نادانی ہے ۔جو بات مشاہدوں سے ثابت ہو اس کا انکار کرنا جہالت ہے ۔ لیکن بلا ثبوت صرف بعض فلسفیوں کی تھیوریوں کو علم سمجھ کر قبول کرنا بھی کم عقلی ہے ۔ اس وقت بہت سے یورپ کے نو ایجاد علوم تھیوریوں (قیاسات) سے بڑھ کر حقیقت نہیں رکھتے ان کے اجزاء ثابت ہیں لیکن ان کو ملا کر جو نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہوتا ہے۔ لیکن علوم جدیدہ کے شیدائی اس امر پر غور کئے بغیر ان وہموں کی اتباع کرنے لگ جاتے ہیں۔

دشمنی ہو نہ محبان محمدؐ سے تمہیں جو معاند ہیں تمہیں ان سے کوئی کام نہ ہو

مومن کا فرض ہے کہ بجائے حقارت اور نفرت سے کام لینے کی محبت سے کام لے اور امن کو پھیلائے ۔مومن کا وطن سب دنیا ہے اس سے جہاں تک ممکن ہو تمام فریقوں میں جائز طور پر صلح کرانے کی کوشش کرے اور قانون کی پابندی کرے۔

امن کے ساتھ رہو فتنوں میں حصہ مت لو باعث فکر و پریشانی ٔ حکام نہ ہو اپنی اس عمر کو اک نعتِ عظمیٰ سمجھو بعد میں تاکہ تمہیں شکوۂ ایام نہ ہو حسن ہر رنگ میں اچھا ہے مگر خیال رہے دانہ سمجھے ہو جسے تم وہ کہیں دام نہ ہو

اچھی بات خواہ دین کے متعلق ہو خواہ دنیا کے متعلق ہو اچھی ہی ہوتی ہے مگر بہت دفعہ بری باتیں اچھی شکل میں پیش کی جاتی ہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیئے۔ انگریزی کی مثل ہےALL THAT GLITTERS IS NOT GOLD ۔

تم مدبر ہو کہ جرنیل ہو یا عالم ہو ہم نہ خوش ہوں گے کبھی تم میں گر اسلام نہ ہو

دنیاوی ترقی کے ساتھ اگر دین نہیں تو ہمیں کچھ خوشی نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر یہ اصل مقصد ہوتی تو پھر ہمیں اسلام اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی پھر مسیحیت جو اس وقت ہر قسم کے دنیاوی سامان رکھتی ہے اس کو کیوں نہ قبول کرلیتے۔

سیلف رسپکٹ کا بھی خیال رکھو تم بیشک یہ نہ ہو پر کہ کسی شخص کا اکرام نہ ہو

آج کل لوگ سیلف رسپکٹ کے نام سے بزرگوں کا ادب چھوڑ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ صحیح عزت کے لئے ادب کا قائم رکھنا ضروری ہے ۔ اگر ادب نہ ہو تو تربیت بھی درست نہیں ہو سکتی ۔ سیلف رسپکٹ کے تو یہ معنی ہیں کہ انسان کمینہ نہ بنے نہ کہ بے ادب ہوجائے۔

عسر ہو یسر ہو تنگی ہو کہ آسائش ہو کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو

کسی زمانہ کس وقت ،کسی حالت میں اسلام کی تبلیغ کو نہ چھوڑو ۔ ایک دفعہ اس کے خطرناک نتائج دیکھ چکے ہیں ۔ نہ تنگی تمھاری کوششوں کو سست کرے کہ ہر تکلیف سے نجات اسی کام سے وابستہ ہے  اور نہ ترقی تم کو سست کردے کیونکہ جب تک ایک آدمی بھی اسلام سے باہر ہے تمہارا فرض ادا نہیں ہوا اور ممکن ہے کہ وہ ایک آدمی کفر کا بیج بن کر ایک درخت اور درخت سے جنگل بن جائے۔

تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا نفسِ وحشی و جفا کیش اگر رام نہ ہو

سب سے پہلا فرض اصلاحِ نفس ہے اگر اس کے ظلم ہوتے رہیں اور ان کی اصلاح نہ ہو تو دوسروں کی اصلاح تم کو اس قدر نفع نہیں پہنچا سکتی۔

منّ و احسان سے اعمال کو کرنا نہ خراب رشتۂ وصل کہیں قطع سرِ بام نہ ہو

انسان نیکی کرتے کرتے کبھی خدا تعالیٰ کا پیارا بننے والا ہوتا ہے کہ احسان جتا کر پھر وہیں آگرتا ہے جہاں سے ترقی شروع کی تھی اور چوٹی پر پہنچ کر گر جاتا ہے اس کی ہمیشہ احتیاط رکھنی چاہیئے کیونکہ وہ محنت جو ضائع ہو جاتی ہے حوصلہ پست کردیتی ہے۔

بھولیو مت کہ نزاکت ہے نصیبِ نسواں مرد وہ ہے جو جفا کش ہو گل اندام نہ ہو

صفائی اچھی چیز ہے مگر نازک بدنی اور جسم کے سنگار میں مشغول رہنا اور حسنِ ظاہری کی فکر میں رہنا یہ مرد کا کام نہیں ۔ عورتوں کو خداتعالیٰ نے اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ علاوہ دوسرے فرائض کی ادائیگی کے جو بحیثیت انسان ہونے کے ان کے ذمہ ہیں مرد کی اس خواہش کو بھی پورا کریں ۔ مرد کے ذمہ جو کام لگائے گئے ہیں وہ جفا کشی اور محنت کی برداشت کی عادت چاہتے ہیں ۔ پس جسم کو سختی برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے اور چونکہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے اس لئے زینت اور سنگار میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔

شکل مے دیکھ کر گرنا نہ مگس کی مانند دیکھ لینا کہ کہیں دُرد تہ جام نہ ہو

جس طرح بری چیز اچھی شکل میں پیش ہوجائے تو دھوکا لگ جاتا ہے اس طرح کبھی اچھی چیز کے اندر بری مل جاتی ہے اور اس کے اثر کو خراب کردیتی ہے۔ پس ہر ایک کام کو کرتے وقت اور ہر ایک خیال کو قبول کرتے وقت یہ بھی سوچ لینا چاہیئے کہ اس کا کوئی پہلو برا تو نہیں ۔ اگر مخفی طور پر اس میں برائی ملی ہو تو اس سے بچنا چاہیئے۔

یاد رکھنا کہ کبھی بھی نہیں پاتا عزت یار کی راہ میں جب تک کوئی بدنام نہ ہو

بعض لوگ دینی کاموں میں حصہ لینے سے اس خیال سے ڈرتے ہیں کہ لوگ برا کہیں گے یا ہنسی کریں گے حالانکہ خداتعالیٰ کی راہ میں بدنام ہونا ہی اصل عزت ہے ۔ اور کبھی کسی نے دینی عزت حاصل نہیں کی جب تک دنیا میں پاگل اور قابلِ ہنسی نہیں سمجھا گیا۔

کام مشکل ہے بہت منزل مقصود ہے دور اے مرے اہل وفا سست کبھی گام نہ ہو گامزن ہوگے رہ صدق و صفا پر گر تم کوئی مشکل نہ رہے گی جو سر انجام نہ ہو حشر کے روز نہ کرنا ہمیں رسواؤ خراب پیار و آموختۂ درسِ وفا خام نہ ہو

یعنی جو کچھ دین کی محبت اور خداتعالیٰ سے عشق کے متعلق ہم سے سیکھ چکے ہو اس کو خوب یاد کرو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ سبق کچا رہے اور قیامت کے دن سنا نہ سکو اور ہمیں، جنہیں اس سبق کے پڑھانے کا کام سپرد کیا ہے ،شرمندگی اٹھانی پڑے ۔ دوسروں کے شاگرد فر فر سنا جاویں اور تم یوں ہی رہ جاؤ۔ والسلام مع الاکرام

ہم تو جس طرح بنے کام کیے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو میری تو حق میں تمھارے یہ دعا ہے پیارو سر پہ اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو ظلمتِ رنج و غم و درد سے محفوظ رہو مہر انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو خاکسار مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی لوح الہدیٰ ۔ انوار العلوم جلد5صفحات 189 تا 194 کلام محمود صفحہ98۔99 53۔ یاد جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو یاد جس دل میں ہو اس کی وہ پریشان نہ ہو ذکر جس گھر میں اس کا کبھی ویران نہ ہو حیف اُس سر پہ کہ جو تابعِ فرمان نہ ہو تُف ہے اس دل پہ کہ جو بندۂ احسان نہ ہو مسلمِ سوختہ دل! یونہی پریشان نہ ہو تجھ پہ اللہ کا سایہ ہے ہِراسان نہ ہو وقت ِحسرت نہیں یہ ہمت و کوشش کا ہے وقت عقل و دانائی سے کچھ کام لے نادان نہ ہو ربِ افواج خود آتا ہے تری نصرت کو باندھ لے اپنی کمر بندۂ حرمان نہ ہو اُٹھ کے دشمن کے مقابل پہ کھڑا ہو جا تُو اپنے احباب سے ہی دست و گریبان نہ ہو یاد رکھ لیک کہ غلبہ نہ ملے گا جب تک دل میں ایمان نہ ہو ہاتھ میں قرآن نہ ہو اپنے الہام پہ نازاں نہ ہو اے طفلِ سلوک تیرے بہکانے کو آیا کہیں شیطان نہ ہو کیا یہ ممکن ہے نازل ہو کلامِ قادر ظاہر اس سے مگر اللہ کی کچھ شان نہ ہو تم نے منہ پھیر لیا ان کے الٹتے ہی نقاب کیا یہ ممکن ہے کہ دلبر کی بھی پہچان نہ ہو اس میں جو بھول گیا دونوں جہانوں سے گیا کوچۂ عشق میں داخل کوئی انجان نہ ہو ہجر کے درد کا درماں نہیں ممکن جب تک برگِ اعمال نہ ہوں شربتِ ایمان نہ ہو نہ تو ہے زاد، نہ ہمت نہ ہی طاقت نہ رفیق میرے جیسا بھی کوئی بے سروسامان نہ ہو کس طرح جانیں کہ ہے عشقِ حقیقی تم کو جیب پارہ نہ ہو گر چاک گریبان نہ ہو خانۂ دل کبھی آباد نہ ہو گا جب تک میزباں میں  نے بنوں اور وہ مہمان نہ ہو رندِ مجلس نظر آئیں نہ کبھی یوں مخمور جامِ اسلام میں گر بادۂ عرفان نہ ہو کس طرح مانوں کہ سب کچھ ہے خزانہ میں ترے پر ترے پاس مرے درد کا درمان  نہ ہو میں تو بھوکا ہوں فقط دیدِ رُخِ جاناں کا باغِ فردوس نہ ہو روضۂ رضوان نہ ہو یہ جو معشوق لیے پھرتی ہے اندھی دنیا میرے محبوب سی ہی اُن میں کہیں آن نہ ہو عشق وہ ہے کہ جو تن من کو جلا کر رکھ دے دردِ فرقت وہ ہے جس کا کوئی درمان نہ ہو کام وہ ہے کہ ہو جس کام کا انجام اچھا بات وہ ہے کہ جسے کہہ کے پشیمان نہ ہو وہ بھی کچھ یار ہے جو یار سے یکجاں نہ کرے وہ بھی کیا یار ہے جو خوبیوں کی کان نہ ہو عشق کا لطف ہی جاتا رہے اے اَبلہ طبیب درد گر دل میں  نہ ہو درد بھی پنہان نہ ہو طعنے دیتا ہے مجھے بات تو تب ہے واعظ اس کو تو دیکھ کے انگشت بدندان نہ ہو اے عدو مکر ترے کیوں نہ ضرر پہنچائیں ہاں اگر سر پہ مرے سایۂ رحمان نہ ہو ہے یہ آئینِ سماوی کے منافی محمودؔ عشق ہو وصل کا لیکن کوئی سامان نہ ہو اخبار الفضل جلد 7 ۔21اکتوبر 1920ء کلام محمود صفحہ100۔101 54۔ آریوں کو میری جانب سے سنائے کوئی آریوں کو میری جانب سے سنائے کوئی ہو جو ہمت تو میرے سامنے آئے کوئی مردِ میدان بنے اپنے دلائل لائے گھر میں بیٹھا ہوا باتیں نہ بنائے کوئی آسمانی جو شھادت ہو اسے پیش کرے یونہی بے ہودہ نہ بے پر کی اُڑائے کوئی سچا مذہب بھی ہے پر ساتھ دلائل ہی نہیں ایسی باتیں کسی احمق کو سنائے کوئی ہے وہ صیاد جسے صید سمجھ بیٹھے ہیں ان کی عقلوں سے یہ پردہ تو اُٹھائے کوئی بیٹھ کر شیش محل میں نہ کرے نادانی ساکنِ قلعہ پہ پتھر نہ چلائے کوئی تاک میں لشکرِ محمودؔ ابھی بیٹھا ہے یاں سمجھ کر ذرا ناقوس بجائے کوئی ہم ہیں تیار بتانے کو کمالِ قرآں خوبیاں وید کی بھی ہم کو بتائے کوئی کس طرح مانیں کہ مولیٰ کی ہدایت ہے وہ وید کو جب نہ پڑھے اور نہ پڑھائے کوئی ایسی ویسی جو کوئی بات نہ ہو ویدوں میں ان کو اس طرح سے کیوں گھر  میں چھپائے کوئی خود ہی جب وید  کےپڑھنے سے وہ محروم رہے پھر کسی غیر کو کس طرح سکھائے کوئی

یہ نظم اندازًا 1920ء کی ہے ۔مجلۃ الجامعۃ ربوہ  مصلح موعود نمبر جلد4نمبر2صفحہ136

کلام محمود صفحہ102 55۔ ساغرِ حسن تو پُر ہے کوئی مَے خوار بھی ہو ساغرِ حسن تو پُر ہے کوئی مَے خوار بھی ہو ہے وہ بے پردہ کوئی طالبِ دیدار بھی ہو وصل کا لطف تبھی ہے کہ رہیں ہوش بجا دل بھی قبضہ میں رہے پہلو میں دلدار بھی ہو رسمِ مخفی بھی رہے اُلفتِ ظاہر بھی رہے ایک ہی وقت میں اخفا بھی ہو اظہار بھی ہو عشق کی راہ میں دیکھے گا وہی روئے فلاح جو کہ دیوانہ بھی ہو عاقل و ہشیار بھی ہو اس کا در چھوڑ کے کیوں جاؤں کہاں جاؤں میں اور دنیا میں کوئی اس کی سی سرکار بھی ہو ہمسری مجھ سے تجھے کس طرح حاصل ہو عدو حال پر تیرے او ناداں! نظرِ یار بھی ہو بات کیسے ہو مُؤثر جو نہ ہو دل میں سوز روشنی کیسے ہو دل مہبطِ انوار بھی ہو یونہی بے فائدہ سر مارتے ہیں وید و طبیب اُن کے ہاتھوں سے جو اچھا ہو آزار بھی ہو درد کا میرے تو اے جان فقط تم ہوعلاج چارۂ کار بھی ہو محرمِ اَسرار بھی ہو دل میں اک درد ہے پر کس سے کہوں میں جا کر کوئی دنیا میں مرا مونس و غم خوار بھی ہو سالکِ راہ یہی ایک ہے منہاجِ وصول عشق دلدار بھی ہو صحبتِ ابرار بھی ہو اخبار الفضل جلد 8 ۔6جنوری 1921ء کلام محمود صفحہ103 56۔ مجھ سے ملنے میں انہیں عذر نہیں ہے کوئی مجھ سے ملنے میں انہیں عذر نہیں ہے کوئی دل پہ قابو نہیں اپنا یہی دشواری ہے پیاس میری نہ بجھی گر تو مجھے کیا اس سے چشمۂ فیض و عنایات اگر جاری ہے چاک کر دیجئے۔ ہیں بیچ میں جتنے یہ حجاب میری منظور اگر آپ کو دلداری ہے مر کے بھی دیکھ لو شاید کہ میسر ہو وصال لوگ کہتے ہیں یہ تدبیر بڑی کاری ہے میری یہ آنکھیں کجا رؤیتِ دلدار کجا حالتِ خواب میں ہوں مَیں کہ یہ بیداری ہے دل کے زنگوں نے ہی محجوب کیا ہے اس سے شاہد اس بات پہ اک پردۂ زنگاری ہے دشمنِ دین ترے حملے تو سب مَیں نے سہے اب ذرا ہوش سے رہیو کہ مری باری ہے نخلِ اسلام پہ رکھا ہے مخالف نے تَبَر وا غیاثاہ کہ ساعت یہ بڑی بھاری ہے عشق کہتا ہے کہ محمودؔ لپٹ جا اُٹھ کر رُعب کہتا ہے پرے ہٹ بڑی لاچاری ہے اخبار الفضل جلد 9 ۔یکم اگست 1921ء کلام محمود صفحہ104 57۔ مَیں ترا در چھوڑ کر جاؤں کہاں مَیں ترا در چھوڑ کر جاؤں کہاں چینِ دل آرامِ جاں پاؤں کہاں یاں نہ گر روؤں کہاں روؤں بتا یاں نہ چِلّاؤں تو چِلّاؤں کہاں تیرے آگے ہاتھ پھیلاؤں نہ گر کس کے آگے اور پھیلاؤں کہاں جاں تو تیرے در پہ قرباں ہو گئی سر کو پھر مَیں اور ٹکراؤں کہاں کون غم خواری کرے تیرے سوا بارِ فکر و حزن لے جاؤں کہاں دل ہی تھا سو وہ بھی تجھ کو دے دیا اب میں اُمیدوں کو دفناؤں کہاں بڑھ رہی ہے خارشِ زخمِ نہاں کس طرح کجھلاؤں ۔کجھلاؤں کہاں کثرتِ عصیاں سے دامن تر ہوا ابر اشکِ توبہ برساؤں کہاں احمدی جنتری 1922ء ۔دسمبر 1921ء کلام محمود صفحہ105 58۔ طور پہ جلوہ کناں ہے وہ ذرا دیکھو تو طور پہ جلوہ کناں ہے وہ ذرا دیکھو تو حسن کا باب کھلا ہے بخدا دیکھو تو رُعبِ حسن شہِ خوباں کو ذرا دیکھو تو ہاتھ باندھے ہیں کھڑے شاہ و گدا دیکھو تو اپنے بیگانوں نے جب چھوڑ دیا ساتھ مرا وہ مرے ساتھ رہا اس کی وفا دیکھو تو عاقلو! عقل پہ اپنی نہ ابھی نازاں ہو پہلے تم وہ نگہِ ہوش رُبا دیکھو تو غیرممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفیو! زورِ دعا دیکھو تو ہیں تو معشوق مگر ناز اُٹھاتے ہیں مرے جمع ہیں ایک  ہی جا حسن و وفا دیکھو تو عاشقو! دیکھ چکے عشقِ مجازی کے کمال اب مرے یار سے بھی دل کو لگا دیکھو تو ہے کبھی رؤیتِ دلدار کبھی وصلِ حبیب کیسی عُشَّاق کی ہے صبح و مسا دیکھو تو چاروں اطراف میں مجنوں ہی نظر آتے ہیں نہ ہوا ہو وہ کہیں جلوہ نما دیکھو تو ہے کہیں جنگ کہیں زلزلہ طاعون کہیں لے گِرپ1 کا ہے کہیں شور پڑا دیکھو تو کس نے اپنے رُخِ زیبا پہ سے اُلٹی ہے نقاب جس سے عالم میں ہے یہ حشر بپا دیکھو تو جلوۂ یار ہے کچھ کھیل نہیں ہے لوگو! احمدیت کا بھلا نقش مٹا دیکھو تو کیا ہوا تم سے جو ناراض ہے دنیا محمودؔ کس قدر تم پہ ہیں الطافِ خدا دیکھو تو 1۔ انفلوئنزا اخبار الفضل جلد 9 ۔2جنوری 1922ء کلام محمود صفحہ106 59۔ حقیقی عشق گر ہوتا تو سچی جستجو ہوتی حقیقی عشق گر ہوتا تو سچی جستجو ہوتی تلاشِ یار ہر ہر دِہ میں ہوتی کو بَکُو ہوتی مئے وصلِ حبیب لا یَزال و لَم یَزََل ہوتی تو دل کیا میری جاں بھی بڑھ کے قربانِ سُبُو ہوتی جو تم سے کوئی خواہش تھی تو بس اتنی ہی خواہش تھی تمھارا رنگ چڑھ جاتا تمہاری مجھ میں بُو ہوتی وفا! تجھ سے مری شہرت نہیں برعکس ہےقصہ تری ہستی تو مجھ سے ہے نہ  میں ہوتا نہ تُو ہوتی جہاں جاتا ہوں اُن کا خیال مجھ کو ڈھونڈ لیتا ہے نہ ہوتا پیار گر مجھ سے تو کیا یُوں جُستجُو ہوتی نہ رہتی آرزو دل میں کوئی جُز دیدِ جاناناں کبھی پوری الھٰی! یہ ہماری آرزُو ہوتی اگر تم دامنِ رحمت میں اپنے مجھ کو لے لیتے تمھارا کچھ نہ جاتا لیک میری آبرُو ہوتی نہ بنتے تم جو بیگانے تو پھر پردہ ہی کیوں ہوتا شبیہِ یار آکر خود بخود ہی رُو برُو ہوتی درِمے خانۂ اُلفت اگر میں وا کبھی پاتا تو بس کرتا نہ گھونٹوں پر صراحی ہی سبُو ہوتی مری جنت تو یہ تھی مَیں ترے سایہ تلے رہتا رواں دل میں مرے عرفانِ بے پایاں کی جُو ہوتی تسلی پا گیا تو کس طرح؟ تب لطف تھا سالک کہ آنکھیں چار ہوتیں اور باہم گُفتگُو ہوتی ہوئی ہے پارہ پارہ چادرِ تقوٰی مسلماں کی ترےہاتھوں سے ہو سکتی تھی مولیٰ گر رفُو ہوتی اخبار الفضل جلد 9 ۔5جنوری 1922ء ^ کلام محمود صفحہ107 60۔ مَلَک بھی رشک کرتے ہیں وہ خوش نصیب ہوںمَیں مَلَک بھی رشک کرتے ہیں وہ خوش نصیب ہوںمَیں وہ آپ مجھ سے ہے کہتا نہ ڈر قریب ہوں مَیں غضب ہے شاہ بلائے غلام منہ موڑے ستم ہے چُپ رہےیہ، وہ کہے مجیب ہوں مَیں وہ بوجھ اُٹھا سکے نہ جس کو آسمان و زمیں اُسے اُٹھانے کو آیا ہوں کیا عجیب ہوں مَیں مقابلہ پہ عدو کے نہ گالیاں دوں گا کہ وہ تو ہے وہی جو کچھ کہ ہے، نجیب ہوں مَیں ہے گالیوں کے سوا اس کے پاس کیا رکھا غریب کیا کرے مُخطی ہے وہ، مصیب ہوں مَیں کرے گا فاصلہ کیا جب کہ دل اکٹھے ہوں ہزار دور رہوں اس سے پھر قریب ہوں مَیں ہے عقل نفس سے کہتی کہ ہوش کر ناداں مرا رقیب ہے تُو اور تری رقیب ہوں مَیں کر اپنے فضل سے تُو میرے ہم سفر پیدا کہ اس دیار میں اے جانِ من غریب ہوں مَیں مرے پکڑنے پہ قدرت کہاں تجھے صیاد کہ باغِ حسنِ محمدؐ کی عندلیب ہوں مَیں نہ سلطنت کی تمنا نہ خواہشِ اکرام یہی ہے کافی کہ مولیٰ کا اک نقیب ہوں مَیں مری طرف چلے آئیں مریضِ روحانی کہ اُن کے دردوں دُکھوں کے لیے طبیب ہوں مَیں اخبار الفضل جلد 10 ۔2اکتوبر 1922ء کلام محمود صفحہ108 61۔ میرے مولیٰ مری بگڑی کے بنانے والے میرے مولیٰ مری بگڑی کے بنانیوالے میرے پیارے مجھے فتنوں سے بچانیوالے جلوہ دکھلا مجھے وہ چہرہ چھپانے والے رحم کر مجھ پہ او مُنہ پھیر کے جانے والے مَیں تو بدنام ہوں جس دم سے ہواہوں عاشق کہہ لیں جو دل میں ہو الزام لگانے والے تشنہ لب ہوں بڑی مدت سے خدا شاہد ہے بھر دے اک جام تُو کوثر کے لُٹانےوالے ڈالتا جا نظرِ مِہر بھی اس غم گیں پر نظرِ قہر سے مٹی میں ملانے والے کبھی تو جلوۂ بے پردہ سے ٹھنڈک پہنچا سینہ و دل میں مرے آگ لگانے والے تجھ کو تیری ہی قسم کیا یہ وفاداری ہے دوستی کر کے مجھے دل سے بھُلانے والے کیا نہیں آنکھوں میں اب کچھ بھی مروت باقی مجھ مصیبت زدہ کو آنکھیں دکھانے والے مجھ کو دکھلاتے ہوئے آپ بھی رہ کھو بیٹھے اے خضرکیسے ہو تم راہ دکھانے والے ڈھونڈتی ہیں مگر آنکھیں نہیں پاتیں اُن کو ہیں کہاں وہ مجھے روتے کو ہنسانے والے ساتھ ہی چھوڑ دیا سب نے شبِ ظلمت میں ایک آنسو ہیں لگی دل کی بجھانے والے تا قیامت رہے جاری یہ سخاوت تیری او مرے گنجِ معارف کے لٹانے والے رہ گئے منہ ہی ترا دیکھتے وقتِ رحلت ہم پسینہ کی جگہ خون بہانے والے ہو نہ تجھ کو بھی خوشی دونوں جہانوں میں نصیب کوچۂ یارکے رستہ کے بھلانے والے ہم تو ہیں صبح و مسا رنج اُٹھانے والے کوئی ہوں گے کہ جو ہیں عیش منانے والے مجھ سے بڑھ کر مرا فکر تجھے دامن گیر تیرے قربان مرا بوجھ اُٹھانے والے اخبار الفضل جلد 10 ۔27نومبر 1922ء کلام محمود صفحہ109 62۔ پیٹھ میدانِ وغا میں نہ دکھائے کوئی پیٹھ میدانِ وغا میں نہ دکھائے کوئی منہ پہ یا عشق کا پھرنام نہ لائے کوئی حسنِ فانی سے نہ دل کاش لگائے کوئی اپنے ہاتھوں سے نہ خاک اپنی اُڑائے کوئی کون کہتا ہے کہ لگی دل کی بجھائے کوئی عشق کی آگ مرے دل میں لگائے کوئی صدمۂ درد و غم و ہم سے بچائے کوئی اس گرفتارِ مصیبت کو چھڑائے کوئی رہ سے شیطان کو جب تک نہ ہٹائے کوئی اس کے ملنے کے لیے کس طرح آئے کوئی اپنے کوچے میں تو کتے بھی ہیں بن جاتے شیر بات تب ہے کہ مرے سامنے آئے کوئی دعوٰئ حسنِ بیاں ہیچ ہے مَیں تب جانوں مجھ سے جو بات نہ بن آئے بنائے کوئی ہجر کی آگ ہی کیا کم ہے جلانے کو مرے غیر سے مل کے مرا دل نہ دُکھائے کوئی دیدۂ شوق اُسے ڈھونڈ ہی لے گا آخر لاکھ پردوں میں بھی گو خود کو چھپائے کوئی گزر و مُگدر کے اُٹھانے سے بھلا کیا حاصل خاک آلودہ برادر کو اُٹھائے کوئی خفگی دو چار دنوں کی تو ہوئی پر یہ کیا سالہا سال مجھے منہ نہ دکھائے کوئی جرعۂ بادۂ اُلفت جو کبھی مل جائے  دختِ رز کو نہ کبھی منہ سے لگائے کوئی تشنگی میری نہ پیالوں سے بجھے گی ہرگز خُم کا خُم لے کے مرے منہ سے لگائے کوئی خلق و تکوینِ جہاں راست، یہ سچ پوچھو تو بات تب ہے کہ مری بگڑی بنائے کوئی دے دیا دل تو بھلا شرم رہی کیا باقی ہم تو جائیں گے بلائے نہ بلائے کوئی قرب اس کا نہیں پاتا نہیں پاتا محمودؔ نفس کو خاک میں جب تک نہ ملائے کوئی اخبار الفضل جلد 10 ۔4جنوری 1923ء کلام محمود صفحہ110۔111 63۔ پردۂ زلفِ دوتارُخ سے ہٹا لے پیارے پردۂ زلفِ دوتارُخ سے ہٹا لے پیارے ہجر کی موت سے لِلہ بچا لے پیارے چادرِ فضل و عنایت میں چھپا لے پیارے مجھ گنہ گار کو اپنا ہی بنا لےپیارے نفس کی قید میں ہوں مجھ کو چھڑا لے پیارے غرق ہوں بحرِ معاصی میں بچا لے پیارے تُو کہے اور نہ مانے مرا دل ناممکن کس کی طاقت ہے ترے حکم کو ٹالے پیارے جلد آ جلد کہ ہوں لشکرِ اَعداء میں گھرا پڑ رہے ہیں مجھے اب جان کے لالے پیارے فضل کر فضل کہ میں یکہ و تنہا جاں ہوں ہیں مقابل پہ حوادث کے رِسالے پیارے رہ چکے پاؤں، نہیں جسم میں باقی طاقت رحم کر گود میں اب مجھ کو اُٹھا لے پیارے غیر کو سونپ نہ دیجو کہ کوئی خادمِ در کر گیا تھا ہمیں تیرےہی حوالے پیارے دشت و کوہسار میں جب آئے نظر جلوۂ حسن تیرے دیوانے کو پھر کون سنبھالے پیارے کیوں کروں فرق یونہی دونوں مجھے یکساں ہیں سب ترےبندے ہیں گورے ہوں کہ کالے پیارے ہو کے کنگال جو عاشق ہو رُخِ سلطاں پر حوصلے دل کے وہ پھر کیسے نکالے پیارے مجھ سے بڑھ کر میری حالت کو یہ کرتے ہیں بیاں منہ سے گو چپ ہیں مرے پاؤں کے چھالے پیارے ظاہری دکھ ہو تو لاکھوں ہیں فدائی موجود دل کے کانٹوں کو مگر کون نکالے پیارے ہم کو اک گھونٹ  ہی دے صدقہ میں میخانہ کے پی گئے لوگ مئے وصل کے پیالے پیارے گر نہ دیدار میسر ہو نہ گفتار نصیب کوچۂ عشق میں جا کر کوئی کیا لے پیارے فضل سے تیرے جماعت تو ہوئی ہے تیار حزبِ شیطان کہیں رخنہ نہ ڈالے پیارے قوم کے دل پہ کوئی بات نہیں کرتی اثر تو ہی کھولے گا تو کھولے گا یہ تالے پیارے پردۂ غیب سےامداد کے ساماں کر دے سب کے سب بوجھ مرے آپ اُٹھا لے پیارے نام کی طرح مرے کام بھی کر دے محمودؔ مجھ کو ہر قسم کے عیبوں سے بچالےپیارے اخبار الفضل جلد 10 ۔8جنوری 1923ء کلام محمود صفحہ112۔113 64۔ کیوں غلامی کروں شیطاں کی خدا کا ہو کر کیوں غلامی کروں شیطاں کی خدا کا ہو کر اپنے ہاتھوں سے برا کیوں بنوں اچھا ہو کر مدعا تو ہے وہی جو رہے پورا ہو کر التجا ہے وہی جو لَوٹے پذیرا ہو کر درد سے ذکر ہوا پیدا ،ہوا ذکر سے جذب میری بیماری لگی مجھ کو مسیحا ہو کر رہ گیا سایہ سے محروم ہوا بے برکت سرو نے کیا لیا احباب سے اونچا ہوکر جب نظر میری پڑی ماضی پہ دل خون ہوا جان بھی تن سے مری نکلی پسینہ ہوکر چاہیے کوئی تو تقریب ترحم کے لیے میں نے کیا لینا ہے اسے دوستواچھا ہوکر نہ ملیں تو بھی دھڑکتا ہے ملیں تو بھی اے دل تجھ کو کیا بیٹھنا آتا نہیں نچلا ہوکر حسنِ ظاہرپہ نہ تُوبھول کہ سو حسرت و غم چھوڑجائے گا بس آخر یہ تماشا ہوکر اس کی ہر جنبش ِلب کرتی ہے مردے زندہ حشر دکھلائے گا اب کیا ہمیں برپا ہوکر دل کو گھبرا نہ سکے لشکرِ افکار و ہموم بارک اللہ !لڑاخوب ہی تنہا ہو کر ہائے وہ شخص کہ جو کام بھی کرنا چاہے دل میں رہ جائے وہی اس کے تمنا ہوکر ایسے بیمار کا پھر اور ٹھکانا معلوم دےسکےتم نہ شفا جس کو مسیحاؑ ہوکر وہ غنی ہے پہ نہیں اس کو یہ ہرگز بھی پسند غیر سے تیرا تعلق رہے اس کا ہوکر ذلت ونکبت وخواری ہوئی مسلم کےنصیب دیکھئے اور ابھی رہتا ہے کیاکیاہوکر داغِ بدنامی اٹھائے گا وہ جو حق کی خاطر آسماں پروہی چمکے گا ستاراہوکر غیر ممکن ہے کہ تُو مائدہ سلطاں پر کھاسکے گا خوانِ ھدایت سگِ دنیا ہوکر قلبِ عاصی جو بدل جائے تو کیوں پاک نہ ہو مے اگر طیّب وصافی بنے سرکہ ہوکر حق نے محمود ترا نام ہے رکھا محمود چاہیے تجھ کو چمکنایدِبیضا ہوکر اخبار الفضل جلد 11 ۔4جنوری 1924ء کلام محمود صفحہ114 65۔ ہے رضائے ذاتِ باری اب رضائے قادیاں ہے رضائے ذاتِ باری اب رضائے قادیاں مدّعائے حق تعالیٰ مدّعائے قادیاں وہ ہے خوش اموال پر ،یہ طالبِ دیدار ہے بادشاہوں سے بھی افضل ہے گدا ئے قادیاں گر نہیں عرشِ معلیٰ سے یہ ٹکراتی تو پھر سب جہاں میں گونجتی ہے کیوں صدا ئے قادیاں دعوٰ ئ طاعت بھی ہوگااِدّعائے پیار بھی تم نہ دیکھو گے کہیں لیکن وفا ئے قادیاں میرے پیارے دوستوتم دم نہ لینا جب تلک ساری دنیا میں نہ لہرائے لوا ئے قادیاں بن کے سورج ہے چمکتا آسماں پر روزوشب کیا عجب معجزنُما ہے رہنما ئے قادیاں غیر کا افسون اس پہ چل نہیں سکتا کبھی لے اڑی ہو جس کا دل زلفِ دوتا ئے قادیاں اےبتو!اب جستجو اُس کی ہے امیدِ محال لے چکا ہےدل مرا تو دلربا ئے قادیاں یا تو ہم پھرتےتھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچۂ ہا ئے قادیاں خیال رہتا ہے ہمیشہ اس مقام پاک کا سوتے سوتے بھی یہ کہہ اٹھتا ہوں ہا ئے قادیاں آہ کیسی خوش گھڑی ہوگی کہ با نَیل ِمرام باندھیں گےرختِ سفر کو ہم برا ئے قادیاں پہلی اینٹوں پر ہی رکھتے ہیں نئی اینٹیں ہمیش ہے تبھی چرخِ چہارم پر بنا ئے قادیاں صبر کر اے ناقۂ  راہِ ھدیٰ ہمت نہ ہار دور کر دے گی اندھیروں کو ضیائے قادیاں ایشیا و یورپ و امریکہ و افریقہ سب دیکھ ڈالے پر کہاں وہ رنگ ہا ئے قادیاں منہ سے جو کچھ چاہے بن جائے کوئی پر حق یہ ہے ہے بہااللہ فقط حسن و بہا ئے قادیاں گلشنِ احمد ؐکے پھولوں کی اڑا لائی جو بو زخم تازہ کر گئی بادِ صبا ئے قادیاں جب کبھی تم کو ملے موقع دعائے خاص کا یاد کر لینا ہمیں بھی اہلِ وفا ئے قادیاں یہ نظم حضور نے 1924میں سفرِ یورپ کے دوران کہی۔

اس نظم میں کئی جگہ قادیان سے مراد خود قادیان یا قادیان کے احمدی نہیں ہیں ۔ بلکہ زیادہ تر قادیان سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ۔یعنی احمدی ہیں خواہ کہیں کے رہنے والے ہوں ۔ قصبہ قادیان صرف اس جگہ مراد لینا چاہیئے جہاں عبارت سے ظاہر ہو کہ قصبہ مراد ہے ۔

اخبار الفضل جلد 12 ۔25جولائی 1924ء کلام محمود صفحہ115 66۔ میں تو کمزور تھا اس واسطے آیا نہ گیا میں تو کمزور تھا اس واسطے آیا نہ گیا کس طرح مانوں کہ تم سے بھی بلایا نہ گیا نفس کو بھولنا چاہا پہ بھلایا نہ گیا جان جاتی رہی پر اپنا پرایا نہ گیا عشق اک راز ہے اور راز بھی اک پیارے کا مجھ سے یہ راز صدافسوس چھپایا نہ گیا دیکھ کر ارض وسما بارِ گرانِ تشریع رہ گئے ششدر و حیران اٹھا یا نہ گیا ہم بھی کمزور تھےطاقت نہ تھی ہم میں بھی کچھ قول آقا کا مگر ہم سے ہٹا یا نہ گیا کس طرح تجھ کو گناہوں پہ ہوئی یوں جرأت اپنے ہاتھوں سے کبھی زہر تو کھا یا نہ گیا کفر نے لاکھ تدابیر کیں لیکن پھر بھی صفحۂ دہر سے اسلام مٹا یا نہ گیا ملتا کس طرح کہ تدبیر ہی صائب نہ ہوئی دل میں ڈھونڈانہ گیا غیر میں پا یا نہ گیا اس کے جلوے کی بتاؤں تمہیں کیا کیفیت مجھ سے دیکھا نہ گیا تم کو دکھا یا نہ گیا جاہ وعزت تو گئے،کبر نہ چھوٹامسلم! بھوت تو چھوڑ گیا تجھ کوپہ سایہ  نہ گیا چین سے بیٹھتے تو بیٹھتے کس طرح سے ہم دوربیٹھا نہ گیا پاس بٹھا یا نہ گیا جانِ محمود ترا حسن ہے اک حسن کی کان لاکھ چاہا پہ ترا نقش اڑا یا نہ گیا اخبار الفضل جلد 12 ۔17اگست 1924ء کلام محمود صفحہ116 67۔ صیدوشکار ِغم ہے تُو مُسلمِ خستہ جان کیوں صیدوشکار ِغم ہے تُو مُسلمِ خستہ جان کیوں اُٹھ گئی سب جہاں سے تیرے لیے امان کیوں بیٹھنے کا تو ذکر کیا،بھاگنے کو جگہ نہیں ہوکے فراخ اس قدر تنگ ہوا جہا ن کیوں ڈھونڈتے ہیں تجھی کو کیوں سارے جہاں کے ابتلا پیستی ہے تجھی کو ہاں گردشِ آسما ن کیوں کیوں بنیں پہلی رات کا خواب تری بڑائیاں قصہ مامضیٰ ہوئی تیری وہ آن با ن کیوں ہاتھ میں کیوں نہیں ،وہ زور،بات میں کیوں نہیں اثر چھینی گئی  ہے سیف کیوں کاٹی گئی زبان کیوں ؟ واسطہ جہل سے پڑا وہم ہوا رفیقِ دہر علم کدھر کو چل دیا،جاتا رہا بیان کیوں رہتی ہیں بے ثمار کیوں تیری تمام محنتیں تیری تمام کوششیں جاتی ہیں رائیگان کیوں سارے جہان کے ظلم کیوں ٹوٹتے ہیں تجھی پہ آج بڑھ گیا حد صبر سے عرصۂ امتحا ن کیوں تیری زمیں ہے رہن کیوں ہاتھ میں گبرِ سخت کے تیری تجارتوں میں ہے صبح و مسا زیا ن کیوں کسبِ معاش کی رہیں تیری ہر اک گھڑی ہے جب تیرے عزیز پھر بھی ہیں فاقوں سے نیم جا ن کیوں کیوں ہیں یہ تیرے قلب پر کفر کی چیرہ دستیاں دل سے ہوئی ہے تیرے محو خصلت ِ امتنا ن کیوں خُلق ترے کدھر گئے خَلق کو جن پہ ناز تھا دل تیرا کیوں بدل گیا بگڑی تری زبا ن کیوں تجھ کو اگر خبر نہیں اس کے سبب کی مجھ سے سن تجھ کو بتاؤں میں کہ برگشتہ ہوا جہا ن کیوں منبعِ امن کو جو تُو چھوڑ کے دور چل دیا تیرے لیے جہان میں امن ہو کیوں اما ن کیوں ہو کہ غلام تُو نے جب رسمِ وِداد قطع کی اسکے غلام در جو ہیں تجھ پہ ہوں مہربا ن کیوں اخبار الفضل جلد 12 ۔23اگست 1924ء کلام محمود صفحہ117 68۔ وہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا اہل ِ پیغام ! یہ معلوم ہوا ہے مجھ کو بعض احباب ِ وفا کیش کی تحریروں سے میرے آتے ہی اِدھرتم پہ کھلا ہے یہ راز تم بھی میدان ِ دلائل کے ہو رَن بیر وں سے تم میں وہ زور وہ طاقت ہے اگر چاہو تو چھلنی کر سکتے ہو تم پشتِ عدو تیر وں سے آزمائش کے لیے تم نے چنا ہے مجھ کو پشت پرٹوٹے پڑے ہو مری شمشیر وں سے مجھ کو کیا شکوہ ہو تم سے کہ مرے دشمن ہو تم یونہی کرتے چلے آئے ہو جب پیر وں سے حق تعالےٰ کی حفاظت میں ہوں میں یاد رہے وہ بچائے گا مجھے سارے خطا گیر وں سے میری غیبت میں لگا لو جو لگانا ہو زور تیر بھی پھینکو کرو حملے بھی شمشیر وں سے پھیر لو جتنی جماعت ہے مری بیعت میں باندھ لو ساروں کو تم مکروں کی زنجیر وں سے پھر بھی مغلوب رہو گے مرے تا یوم البعث ہے یہ تقدیر خداوندکی تقدیر وں سے مانے والے مرے بڑھ کے رہیں گے تم سے یہ قضاوہ ہے جو بدلے گی نہ تدبیر وں سے مجھ کو حاصل نہ اگر ہو تی خدا کی امداد کب کے تم چھید چکے ہوتے مجھے تیر وں سے ایک تنکے سے بھی بدترتھی حقیقت میری فضل نے اس کے بنایا مجھے شہتیر وں سے تم بھی گر چاہتے ہوکچھ تو جھکو اس کی طرف فائدہ کیا تمھیں اس قسم کی تدبیر وں سے نفسِ طامع بھی کبھی دیکھتاہے روئے نجات فتح ہوتے ہیں کبھی ملک بھی کف گیر وں سے تم مرے قتل کو نکلے تو ہو پر غور کرو! شیشے کے ٹکڑوں کو نسبت بھلا کیا ہیر وں سے جن کی تائید میں مولیٰ ہو انھیں کس کا ڈر کبھی صیاد بھی ڈر سکتے ہیں نخچیر وں سے حضور نے یہ نظم 1924ءکے سفرِ یورپ کےدوران کہی تھی (ناشر) اخبار الفضل جلد 12 ۔11ستمبر 1924ء کلام محمود صفحہ118 69۔ نہیں ممکن کہ میں زندہ رہوں تم سے جدا ہو کر نہیں ممکن کہ میں زندہ رہوں تم سے جدا ہو کر رہوں گا تیرے قدموں میں ہمیشہ خاک ِپا ہوکر جو اپنی جان سے بیزارہو پہلے ہی اے جاناں تمھیں کیا فائدہ ہوگابھلا اُ سے خفا ہوکر ہمیشہ نفسِ امارہ کی باگیں تھام کر رکھیو گرادے گا یہ سرکش ورنہ تم کو سیخ پا ہوکر علاجِ عاشقِ مضطر نہیں ہے کوئی دنیا میں اسے ہو گی اگر راحت میسر توفنا ہوکر خدا شاہد ہے اس کی راہ میں مرنے کی خواہش میں مرا ہر ذرۂِ تن جھک رہا ہے التجا ہو کر پھر ایسی کچھ نہیں پروا کہ دکھ ہویا کہ راحت ہو رہو دل میں مرے گر عمر بھر تم مدّعا ہوکر مری حالت پہ جاناں رحم آئے گا نہ کیا تم کو اکیلا چھوڑ دو گے مجھ کو کیا تم باوفا ہوکر کہاں ہیں مانی و بہزاد دیکھیں فنّ ِاحمدؑ کو دکھایا کیسی خوبی سے مثیل ِ مصطفےٰؐ ہوکر اخبار الفضل جلد 12 ۔ 9دسمبر 1924ء کلام محمود صفحہ119 70۔ سیّدہ مریم صدّیقہ کی آمین سیّدہ مریم صدّیقہ کی آمین مریم نے کیا ختم قرآں اللہ کام ہے یہ اس پہ احساں الفاظ تو پڑھ لیے ہیں سارے اب باقی ہے مطلب اور عرفاں اللہ سے یہ مری دعا ہے ان کو بھی کرے وہ اس پہ آساں۔آمین توفیق ملے اسے عمل کی کامل ہو ہرا ک جہت سے ایما ں۔آمین مولی ٰ کی عنایت وکرم کا سایہ رہے اس کے سر پہ ہرآ ں۔آمین حلقہ میں ملائکہ کے کھیلے ہردم رہے دور اس سے شیطا ں۔آمین ہوفضلِ خداکی اس پہ بارش پھیلا رہے خوب اس کا داما ں۔آمین ہرمرہمِ زخم ِ دلِ شکستہ ہوعادت ِ مہرولطف واحسا ں۔آمین سروقفِ خیالِ یار ِ ازلی دل نورِ وفا سے مہرِ تابا ں۔آمین ہوعرصہ ء فکر رشکِ گلشن میدانِ خیال صد گلستا ں۔آمین آنکھوں میں حیا چمک رہی ہو منہ حکمت وعلم سے دُرّافشا ں۔آمین فکروں سے خدا اسے بچائے پیدا کرے خرمی کے ساما ں۔آمین ہودونوں جہاں میں معزز ہوں چھوٹے سبھی ثنا خوا ں۔آمین مرضی ہو خدا کی اس کی مرضی مولیٰ کی رضا کی ہو یہ جویا ں۔آمین سب عمر بسر ہو اتّقا میں ہر لحظہ رہے یہ زیرِ فرما ں۔آمین آمین۔کہیں میری دعا پر بیٹھے ہیں تمام لوگ جو یا ں۔آمین مولیٰ سے دعا ہے پیاری بہنو! تم کو بھی دکھائے وہ یہ خوشیا ں۔آمین اخبار الفضل جلد 12 ۔14مئی 1925ء کلام محمود صفحہ120 71۔ دل مرا بے قرار رہتا ہے دل مرا بے قرار رہتا ہے سینہ میرا فگار رہتا ہے نیک وبد کا نہیں  مجھے کچھ ہوش سرمیں ہردم خمار رہتا ہے تیرے عاشق کا کیا بتائیں حال رات دن اشکبار رہتا ہے اس کی شب کا نہ پوچھ تُو جس کا دین بھی تاریک وتار رہتا ہے دل مرا توڑتے ہو کیوں جانی آپ کا اس میں پیار رہتا ہے کیا نرالی یہ رسم ہےعاشق دے کے دل بے قرار رہتا ہے المدد! ورنہ لوگ سمجھیں گے تیرا بندہ بھی خوار رہتا ہے مجھ کو گندہ سمجھ کے مت دھتکار قربِ گل میں ہی خا ر رہتا ہے ہے دلِ سوختہ کی بھاپ طبیب تُویہ سمجھا بخا ر رہتا ہے وحشتِ عارضی ہے ورنہ حضور کہیں بندہ فرا ر رہتا ہے بابِ رحمت نہ بند کیجے گا ایک امّیدوا ر رہتا ہے اس کو بھی پھینک دیجئے گا کہیں اک مٹھی غبا ر رہتا ہے فکر میں جس کی گھل رہے ہیں ہم ان کو ہم سے نقا ر رہتا ہے برکتیں دینا گالیاں سننا اب یہی کاروبا ر رہتا ہے فربہ تن کس  طرح سے ہو محمود رنج ِ وغم کا شکا ر رہتا ہے اخبار الفضل جلد 12 ۔6جون 1925ء کلام محمود صفحہ121 72۔ یارو مسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار یارو مسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار رہ تکتے تکتے جنکی کروڑوں ہی مر گئے آئے بھی اور آ کے چلے بھی گئے وہ آہ! ایام ِسعد اُن کے بسرعت گذر گئے آمد تھی اُن کی یا کہ خدا کا نزول تھا صدیوں کاکام تھوڑےسے عرصہ میں کرگئے وہ پیڑ ہورہے تھے جو مدت سے چوبِ خشک پڑتے ہی ایک چھینٹا دلہن سے نکھر گئے پل بھر میں مَیل سینکڑوں برسوں کی دُھل گئی صدیوں کے بگڑے ایک نظر میں سدھر گئے پُر کر گئے فلاح سے جھولی مُراد کی دامانِ آرزو کو سعادت سے بھر گئے پرتم یُونہی پڑے رہے غفلت میں خواب کی دیکھا نہ آنکھ کھول کے ساتھی کدھر گئے صد حیف ایسے وقت کو ہاتھوں سے کھو دیا واحسرتا!کہ جیتے ہی جی تم تو مر گئے سونگھی نہ بوئے خوش نہ ہوئی دیدِ گل نصیب افسوس دن بہار کے یونہی گزر گئے اخبار الفضل جلد 12 ۔ 9جون 1925ء کلام محمود صفحہ122۔123 73۔ کون سا دل ہے جو شرمندۂ احسان نہ ہو کون سا دل ہے جو شرمندۂ احسان نہ ہو کونسی روح ہے جو خائف وترسان نہ ہو میرے ہاتھوں سے جدا یا رکادامان نہ ہو میری آنکھوں سے وہ اوجھل کبھی اک آ ن نہ ہو مضغہ ء گوشت ہےوہ دل میں جو ایمان نہ ہو خاک سی خاک ہے وہ جسم میں گرجا ن نہ ہو اپنی حالت پہ یونہی خرم وشادان نہ ہو یہ سکوں پیش رَوِ آمدِ طوفا ن نہ ہو مبتلائے غم و آلام پہ خندان نہ ہو یہ کہیں تیری تباہی کا ہی ساما ن نہ ہو اپنے اعمال پہ غرّہ ارے نادان نہ ہو توبھلا چیز ہے کیا اُس کا جو احسا ن نہ ہو نہ ٹلیں گے نہ ٹلیں گے نہ ٹلیں گے ہم بھی جب تلک سر بدع و کفر کا میدا ن نہ ہو رنگ بھی روپ بھی ہوحسن بھی ہولیکن پھر فائدہ کیا ہے اگر سیرتِ انسا ن نہ ہو نہ سہی جودپہ وہ کام تو کرتُو جس میں غیر کا نفع ہو تیرا کوئی نقصا ن نہ ہو عشق کا دعوٰی ہے تو عشق کے آثار دکھا دعوٰی باطل ہے وہ جس دعوٰ ی پہ برہان نہ ہو مرحبا! وحشتِ دل تیرے سبب سے یہ سنا میں ترے پاس ہوں سرگشتہ وحیران نہ ہو بادہ نوشی میں کوئی لطف نہیں ہے جبتک صحبت ِ یار نہ ہو مجلسِ رندا ن نہ ہو بلبلِ زار تو مرجائے تڑپ کر فورًا گرگلِ تازہ نہ ہو بوئے گلستا ن نہ ہو تیری خدمت یہ ہےعرض بصد عجزونیاز قبضۂ غیر میں اے جاں مری جا ن نہ ہو تُو ہے مقبول ِ الٰہی بھی تو یہ بات نہ بھول سامنے تیرے کوئی موسٰئ ؑعمرا ن نہ ہو ابنِ آدم ہے نہ کچھ اور تجھے خیال رہے حدِّ نسیان سے بڑھ کر کہیں عصیا ن نہ ہو تجھ میں ہمت ہے تو کچھ کر کے دکھا دنیا کو اپنے اجداد کے اعمال پہ نازا ن نہ ہو اپنے ہاتھوں سے ہی خود اپنی عمارت نہ گرا مُخربِ دین نہ بن دشمنِ ایما ن نہ ہو جودواحسانِ شہنشہ پہ نظر رکھ اپنی جورِ اغیار پہ افسردہ ونالا ن نہ ہو اپنے اوقات کو اے نفسِ حریص و طامع شکرِمنت میں لگا،طالبِ احسا ن نہ ہو آگ ہوگی تو دھواں اس سے اٹھے گا محمود غیر ممکن ہے ہو عشق پہ اعلا ن نہ ہو اخبار الفضل جلد 12 ۔ 16جون 1925ء کلام محمود صفحہ124۔125 74۔ ہوتا تھا کبھی میں بھی کسی آنکھ کا تارا ہوتا تھا کبھی میں بھی کسی آنکھ کا تارا بتلاتے تھے اک قیمتی دل کا مجھے پارہ دنیا کی نگہ پڑتی تھی جن ماہ وشوں پر وہ بھی مجھے رکھتے تھے دل وجان سے پیارا ہوجاتی تھی موجود ہر اک نعمتِ دنیا بس چاہیے ہوتا تھا مِراا یک اشارہ محبوبوں کا محبوب تھا دلداروں کا دلدار معشوقوں کا معشوق دلاروں کا دلارا تھوڑی سی بھی تکلیف مری ان پہ گراں تھی کرتے نہ تھے اک کانٹے کا چبھنا بھی گوارا یا آج مرے حال پہ روتا ہے فلک بھی سورج کا جگر بھی ہے غم ورنج سے پارا یا غیر بھی آکرمری کرتے تھے خوشامد یا اپنوں نےبھی ذہن سے اپنے ہے اتارا یا میری ہنسی بھی تھی عبادت میں ہی  داخل یا زہد وتعبد میں بھی پاتا ہوں خسارا یا کند چھری ہاتھ میں دیتا تھا نہ کوئی یا زخموں سے اب جسم مرا چور ہے سارا یا زانوئے دلدار مرا تکیہ تھا یا اب سررکھنے کو ملتا نہیں پتھر کا سہارا جو گھنٹوں محبت سے کیا کرتے تھے باتیں اب سامنے آنے سے بھی کرتے ہیں کنارہ جس پر مجھے امید تھی شافع مرا ہوگا اس ساعتِ عسرت میں ہے اس نے بھی بسارا ہے صبر جو جاں سوز تو فریاد حیا سوز بے تاب خموشی ہے نہ گویائی کاچارہ قوت تو مجھے چھوڑ چکی ہی تھی کب کی اب صبر بھی کیا جانے کدھر کو ہے سدھارا اب نکلوں تو کس طرح ان آفات سے نکلوں یہ ایسا سمندر ہے نہیں جس کا کنارہ سالک تھا اسی فکروغم ورنج میں ڈوبا ناگاہ اسے ہاتفِ غیبی نے پکارا اے صیدِ مصائب نگہ یار کے کشتے جس نے تجھے مارا ہے وہی ہے ترا چارہ تکلیف میں ہوتا نہیں کوئی بھی کسی کا احباب بھی کرجاتے ہیں اس وقت کنارہ مرنا ہے تو اس در پہ ہی مر، جی تو وہیں جی ہوگا وہیں ہوگا ترے درد کا چارہ مانا کہ ترے پاس نہیں دولتِ اعمال مانا ترا دنیا میں نہیں کوئی سہارا پر صورتِ احوال انہیں جا کے بتا تُو شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا اخبار الفضل جلد 13 ۔ 9جولائی 1925ء کلام محمود صفحہ126 75۔ عشق ووفا کے افسانے عشق ووفا کے افسانے پوچھو جو ان سےزلف کے دیوانے کیا ہوئے فرماتے ہیں کہ میری بلا جانے کیا ہوئے اے شمع رو بتا ترے پروانے کیا ہوئے جل جل کے مر رہے تھے جو دیوانے کیا ہوئے خم خانہ دیکھتے تھے جو آنکھوں میں یار کی تھے بے پئے کے مست جو مستانے کیا ہوئے جن پر ہر اک حقیقت تھی منکشف وہ واقفانِ راز وہ فرزانے کیا ہوئے سب لوگ کیا سبب ہے کہ بے کیف ہوگئے ساقی کدھر کو چل دئیے میخانے کیا ہوئے ابوابِ بغض و غدروشقاوت ہیں کھل رہے عشق ووفا و مہرکے افسانے کیا ہوئے امیدِ وصل حسرت و غم سے بدل گئی نقشِ قدوم ِ یار خدا جانے کیا ہوئے 1۔اس نظم میں پہلا شعر حضور کی حرم محترمہ حضرت امۃ الحئ کا منتخب کردہ ہے باقی شعر حضور کے اپنے ہیں۔ اخبار الفضل جلد 13 ۔ 12اگست  1925ء کلام محمود صفحہ127 76۔ فضل الٰہی کے غیبی سامان فضل الٰہی کے غیبی سامان ہم انہیں دیکھ کے حیران ہوئے جاتے ہیں خود بخود چاک گریبان ہوئے جاتے ہیں دشمن آدم کے جو نادان ہوئے جاتے ہیں ہائے انسان سے شیطان ہوئے جاتے ہیں گیسوئے یار پریشان ہوئے جاتے ہیں اب تو واعظ بھی پشیمان ہوئے جاتے ہیں غیب سے فضل کے سامان ہوئے جاتے ہیں مرحلے سارے ہی آسان ہوئے جاتے ہیں حسن ہے دادطلب، عشق تماشائی ہے لاکھ پردوں میں وہ عریان ہوئے جاتے ہیں تیری تعلیم میں کیا جادو بھرا ہے مرزا جس سے حیوان بھی انسان ہوئے جاتے ہیں سینکڑوں عیب نظر آتے تھے جن کو اس میں وہ بھی اب عاشقِ قرآن ہوئے جاتے ہیں گورے کالے کی اٹھی جاتی ہے دنیا سے تمیز سب ترے تابعِ فرمان ہوئے جاتے ہیں سبحۂ اشک پروئی ہے وہ تُو نے واللہ گبر بھی اب تو مسلمان ہوئے جاتے ہیں مردو زن  عشق میں تیرے ہیں برابر سرشار ہر ادا پر تری قربان ہوئے جاتے ہیں ہے ترقی پہ مرا جوشِ جنوں ہر ساعت تنگ سب دشت و بیابان ہوئے جاتے ہیں بیٹھ جاؤ ذرا پہلو میں مرے آکے آج سب ارادے مرے ارمان ہوئے جاتے ہیں جوشِ گریہ سے پھٹا جاتا ہے دِل پھر محمودؔ اشک پھر قطرہ سے طوفان ہوئے جاتے ہیں اخبار الفضل جلد 13 ۔ 8جنوری 1926ء کلام محمود صفحہ128 77۔ بخش دو رحم کروشکوے گلے جانے دو بخش دو رحم کروشکوے گلے جانے دو مر گیا ہجر میں مَیں پاس مجھے جانے دو دوستو! کچھ نہ کہو مجھ سے مجھے جانے دو خنجرِ ناز سے تم سر مجھے کٹوانے دو پڑ گئی جس پہ نظر ہو گیا مدہوش میرے دلدار کی آنکھیں ہیں کہ خمخانے دو دوستو رحم کرو کھول دو زنجیروں کو جا کے جنگل میں مجھے دل ذرا بہلانے دو سر ہے پر فکر نہیں ،دل ہے پر امید نہیں اب ہیں بس شہر کے باقی یہی ویرانےدو تمھیں تریاق مبارک ہو مجھے زہر کے گھونٹ غم ہی اچھاہے مجھے تم مجھے غم کھانے دو دوستو! سمجھو تو زندگی ہے اس موت کانام یار کی راہ میں اب تم مجھے مر جانے دو دل کی دل جانے مجھے کام نہیں کچھ اس سے اپنی ڈالی ہوئی گتھی اسے سُلجھانے دو نفس پر بوجھ ہی ڈالو گے تو ہو گی اصلاح اونٹ لدتے ہیں یونہی چیخنے چلانے دو فکر پر فکر تو غم پر ہے غموں کی بوچھاڑ سانس تو لینے دو تھوڑا سا تو سستانے دو اک طرف عقل کے شیطان ہے تو اک جانب نفس ایک دانا کو ہیں گھیرے ہوئے دیوانے دو کبھی غیرت کے بھی دکھلانے کا موقع ہو گا یا یونہی کہتے چلے جاؤ گے تم جانے دو کٹ گئی عمر رگڑتے ہوئے ماتھا در پر کاش تُم کہتے کبھی تو کہ اسے جانے دو مجھ سے ہے اور تو غیروں سے ہے کچھ اور سلوک دلبرا آپ بھی کیا رکھتے ہیں پیمانے دو تن سے کیا جان جُدا رہتی ہے یا جان سے تن راستہ چھوڑ دودَربانو مجھےجانے دو اخبار الفضل جلد 14 ۔ 24اگست 1927ء کلام محمود صفحہ129 78۔ تُو وہ قادر ہے کہ تیرا کوئی ہم سر ہی نہیں تُو وہ قادر ہے کہ تیرا کوئی ہم سر ہی نہیں میں وہ بے بس ہوں کہ بے در بھی ہوں بے پر ہی نہیں لذّتِ جہل سے محروم کیا علم نے آہ! خواہش اُڑنے کی تو رکھتا ہوں مگر پر ہی نہیں گھونسلے چڑیوں کے ہیں ماندیں ہیں شیروں کے لیے پر مرے واسطے دنیا میں کوئی گھر ہی نہیں خوف اگر ہے تو یہ ہے تجھ کو نہ پاؤں ناراض جان جانے کا تو اے جانِ جہاں ڈر ہی نہیں عشق بھی کھیل ہے ان کا کہ جو دل رکھتے ہیں ہو جو سودا تو کہاں ہو کہ یہاں سر ہی نہیں آنکھیں پُر نم ہیں جگر ٹکڑے ہے سینہ  ہے چاک یاد میں تیری تڑپتا دلِ مضطر ہی نہیں ذرّہ  ذرّہ   مجھے عالم کا یہ کہتا ہے کہ دیکھ میں بھی ہوں آئنہ اس کا مہ و اختر ہی نہیں دل کے بہہ جانے کی نالے بھی خبر دیتے ہیں شاہد اس بات پہ نوکِ مژۂ تر ہی نہیں خواہشِ وصل کروں بھی تو کروں کیونکر میں کیا کہوں ان سے کہ مجھ میں کوئی جوہر ہی نہیں دِل سے ہے وسعتِ ترحیبِ محبت مفقود ساقی اِ ستادہ ہے مینا لیے ساغر ہی نہیں قربِ دلدار کی راہیں تو کھلی ہیں لیکن کیا کروں میں جسے اسباب میسّر ہی نہیں ہے غم نفس اِدھر فکر اُدھر عالَم کا چین ممکن ہی نہیں ،امن مقدّر ہی نہیں اخبار الفضل جلد 14 ۔ 31اگست 1926ء کلام محمود صفحہ130۔131 79۔ مرے ہمراز بے شک دل محبت کا ہے پیمانہ مرے ہمراز بے شک دل محبت کا ہے پیمانہ ہے اس کا حال رندانہ تواس کی چال مستانہ مئے جاں بخش بٹتی ہے جہاں ہے یہ وہ میخانہ مگر وہ کیا کرے جس کا دل ہو جائے ویرانہ نظر آئیں تمنّاؤں کی چاروں سمت میں قبریں مرے ہمراز کہتے ہیں کہ اک شے نور ہوتی ہے جب آتی ہے تو تاریکی معاً کافور ہوتی ہے علاجِ رنج و غم ہائے دلِ رنجور ہوتی ہے طبیعت کتنی ہی افسردہ ہو مسرور ہوتی ہے مگر ہم کیا کریں جن کے کہ دن بھی ہو گئے راتیں مرے ہم راز آنکھیں بھی خدا کی ایک نعمت ہیں ہزاروں دولتیں قربان ہوں جس پر وہ دولت ہیں بِنائے جسم میں سچ ہے بابِ علم و حکمت ہیں مثالِ خضر ہم راہِ طلب گارِ زیارت ہیں مگر وہ منہ نہ دکھلائیں تو پھر ہم کیا کریں آنکھیں وہ خوش قسمت ہیں جو گر پڑ کے اس مجلس میں جا پہنچے کبھی پاؤں پہ سر رکھا کبھی دامن سے جا لپٹے غرض جس طرح بن آیا مطالب اُن سے منوائے مرے ہم راز !پر وہ پر شکستہ کیا کریں جن کے ہوا میں اڑ گئے نالے ،گئیں بیکار فریادیں بجا ہے ساری دنیا میں اک لفظِ میں کا ہے نشہ جدھر دیکھو چمک اس کی جدھر دیکھو ظہور اس کا مرے ہم راز سب دنیا کا کام اس" مَیں" پہ ہے چلتا مگر مَیں بھی تبھی ہوتی ہے جب ہو سامنا تُو کا بھلا وہ کیا کریں" میں "کو جو ان کی یاد سے اُتریں دلِ مایوس سینہ میں اندھیرا چاروں جانب میں نہ آنکھیں ہیں کہ رہ پائیں نہ پَر ہیں جن سے اُڑ جائیں نہ احساسِ انانیت کہ اس کے زور سے پہنچیں مرے دِلدار ہم پر بند ہیں سب وصل کی راہیں سِوااس کے کہ اب خود آپ ہی کچھ لُطف فرمائیں ہمارے بے کسوں کا آپ کے بِن کون ہے پیارے نظر آتے ہیں مارے غم کے اب تو دِن کو بھی تارے نہیں دِل اپنے سینوں میں دھرے ہیں بلکہ انگارے پُھنکے جاتے ہیں سَر سے پاؤں تک ہم ہجر کے مارے بس اب تو رحم فرمائیں چلے آئیں چلے آئیں اخبار الفضل جلد 14 ۔ 28ستمبر1926ء کلام محمود صفحہ132۔133 80۔ پہنچائیں در پہ یار کے وہ بال و پَر کہاں پہنچائیں در پہ یار کے وہ بال و پَر کہاں دیکھیں جمال ِیار جو ایسی نظر کہاں کر دے رسا دُعا کو مِری وہ اثر کہاں دھو دے جو سب گُنہ مرے وہ چشمِ تَر کہاں ہر شب اِسی امید میں سوتا ہوں دوستو! شاید ہو وصلِ یار میسّر ،مگر کہاں سجدہ کا اِذن دے کے مجھے تاجور کیا پاؤں تِرے کہاں مرا نا چیز سَر کہاں میری طرح ہر اِک ہے یہاں مُبتلائے عشق حیران ہوں کہ ڈھونڈوں میں اب نامہ بَر کہاں از بس کہ انفعال سے دِل آب آب تھا آنکھوں سے بہہ گیا مرِانورِ نظر کہاں فرقت میں تیری ہر جگہ ویرانہ بن گئی اَب زندگی کے دِن یہ کروں میں بسر کہاں ہر لحظہ انتظار ہے ہر لحظہ جُستجو رہتا ہے اب تو منہ پہ مرے بس کدھر کہاں جب نقدِ جان سونپ دیا تُجھ کو جانِ من پاس آسکے بھلا مرے خوف و خطر کہاں کُچھ بھی خبر نہیں کہ کہاں ہوں کہاں نہیں جب جان کی خبر نہیں تن کی خبر کہاں حیران ہوں کہ دِن کسے کہتے ہیں دوستو! سُورج ہی جب طلوع نہ ہو تو سحر کہاں عاشق کے آنسوؤں کی ذرا آب دیکھ لیں ہیرے کہاں ہیں لعل کہاں ہیں  گہر کہاں درد آشنائیِ غمِ ہجراں میں مَیں کہاں فرقت نصیب مادرو فاقِد پِدر کہاں اے دل اُسی کے درپہ اب جا کے بیٹھ جا مارا پِھروں گا ساتھ تِرے در بدر کہاں تیری نِگاہِ لُطف اُتارے گی مُجھ کو پار کہتے ہیں مُجھ سے عشق کے یہ بحر و بَر کہاں ہچکولے کھا رہی ہے مری ناؤ دیر سے دیکھوں کہ پھینکتی ہے قضا و قدر کہاں دیکھو کہ دِل نے ڈالی ہے جا کے کہاں کمند کُودا تو ہے یہ بحرِ محبت میں پر کہاں ممکن کہاں کہ غیر کرے مجھ سے ہمسری وہ دِل کہاں وہ گُردے کہاںوہ جِگر کہاں اخبار الفضل جلد 14 ۔ 19اکتوبر1926ء کلام محمود صفحہ134 81۔ سعیٔ پیہم میری ناکام ہوئی جاتی ہے سعیٔ پیہم میری ناکام ہوئی جاتی ہے صبح آتی ہی نہیں شام ہوئی جاتی ہے وہ لبِ سُرخ ہیں گویائی پہ آمادہ پھر سخت ارزاں مئے گُلفام ہوئی جاتی ہے لُطفِ خلوت جو اُٹھانا ہو اُٹھا لو یارو دعوتِ پیرِ مُغاں عام ہوئی جاتی ہے مضطرب ہوکے چلے آتے ہیں میری جانب موت ہی وصل کا پیغام ہوئی جاتی ہے ان کو اظہارِ محبت سے ہے نفرت محمودؔ آہ میری یونہی بدنام ہوئی جاتی ہے عشق ہے جلوہ فگن فطرتِ وحشی پہ مری دیکھ لینا کہ ابھی رام ہوئی جاتی ہے جرأتِ زُلف تو دیکھو کہ بروزِ روشن درپۓ قتل سرِبام ہوئی جاتی ہے خود سری تیری گر اسلام ہوئی جاتی ہے ان کی رنجش بھی تو انعام ہوئی جاتی ہے لذّتِ عیش جہاں دیکھ کے بھُولا مسلم دانہ سمجھا تھا جسے دام ہوئی جاتی ہے کیا سبب ہے کہ تُجھے دے کے دِل اے چشمۂ فیض میری جاں معرضِ الزام ہوئی جاتی ہے پھر مٹے جاتے ہیں ہر قسم کے دُنیا سے فساد عقل پھر تابعِ الہام ہوئی جاتی ہے ازاحمدیہ جنتری 1928ء مطبوعہ 1927ء کلام محمود صفحہ135 82۔ یہ خاکسار نابکار دِلبرا وہی تو ہے یہ خاکسار نابکار دِلبرا وہی تو ہے کہ جس کو آپ کہتے تھے ہے با وفا وہی تو ہے جو پہلے دِن سے کہہ چُکا ہوں مدّعا وہی تو ہے میرے طلب وہی تو ہے میری دُعا وہی تو ہے جو غیر پر نِگہ نہ ڈالے آشنا وہی تو ہے جو خیر کے سِوا نہ دیکھے چشمِ واوہی تو ہے نظر تھی جس پہ رحم کی جو خوشہ چینِ فضل تھا دِلی غلامِ جاں نثار آپ کا وہی تو ہے یہ بے رُخی ہے کس سبب سے میں وہی ہوں جو کہ تھا میرے گُنہ وہی تو ہیں میری خطا وہی تو ہے سزائے عشق ہجر ہے جزائے صبر وصل ہے میری سزا وہی تو ہے میری جَزا وہی تو ہے نہیں ہیں میرے قلب پہ کوئی نئی تجلّیاں حِرا میں تھا جو جلوہ گر مرا خُدا وہی تو ہے نہیں ہے جس کے ہاتھ میں کوئی بھی شے وہی تو ہوں جو ہے قدیرِ خیر و شر میرا خُدا وہی تو ہے بھنور میں پھنس رہی ہے گو نہیں ہے خوف ناؤ کو بچایا جس نے نوحؑ کو تھا ناخُدا وہی تو ہے ہے جس کا پھول خوش نُما ہے جس کی چال جانفزا میرا چمن وہی تو ہے میری صبا وہی تو ہے ازاحمدیہ جنتری 1928ء مطبوعہ 1927ء کلام محمود صفحہ136 83۔ تیرے در پر ہی میری جان نکلے تیرے در پر ہی میری جان نکلے خدایا یہ مِرا ارمان نکلے نکل جائے مِری جاں خواہ تن سے نہ دل سے پَر مِرے ایمان نکلے ہوں اک عرصہ سے خواہانِ اجازت مِرے بارے میں بھی فرمان نکلے مِرے پاس آکے للہ بیٹھ جاؤ کہ پہلو سے مِرے شیطان نکلے سمجھتا تھا ارادے ساتھ دیں گے مگر وُہ بھی یونہی مہمان نکلے مجھے سب رنج و کلفت بھول جائے جو تیری دید کا ارمان نکلے گنوا دی قِشر کی خواہش میں سب عمر دریغا!ہم بہت نادان نکلے ہؤا کیا سیرِ عالم کا نتیجہ پریشاں آئے تھے حیران نکلے تِرے ہاتھوں سے اے نفسِ دَنِی سن جنھیں دیکھا وہی نالان نکلے لُٹا دوں جان و مال و آبرو سب جو میرے گھر کبھی تُو آن نکلے نکلتی ہے مِری جاں تو نِکل جائے نہ دل سے پر تِرا پیکان نکلے نہ پایا دوسرا تجھ سا کوئی بھی زمین و آسماں سب چھان نکلے غضب کا ہے تِرا یہ حسنِ مخفی جنھیں دیکھا ترے خواہان نکلے تری نسبت سنے تھے جس قدر عیب وہ سارے جھوٹ اور بہتان نکلے کبھی نکلے نہ دل سے یاد تیری کبھی سرسے نہ تیرا دھیان نکلے نہ کی ہم نے کمی کچھ مانگنے میں مگر تم بخششوں کی کان نکلے سمجھتا تھا کہ ہوں صیدِ مصائب مگر سوچا تو سب احسان نکلے ازاحمدیہ جنتری 1928ء مطبوعہ 1927ء کلام محمود صفحہ137 84۔ ہے زمیں پرسرمِرا لیکن وہی مسجود ہے ہے زمیں پرسرمِرا لیکن وہی مسجود ہے آنکھ سے اوجھل ہے گو دل میں وہی موجود ہے مطلقاً غیر ازفنا راہِ بقا مسدود ہے مٹ گیا جو راہ میں اس کی وہی موجود ہے سوچتا کوئی نہیں فردوس کیوں مقصود ہے آرزو باقی ہے لیکن مدعا مفقود ہے شاید اس کے دل میں آیا میری جانب سے غبار آسماں چاروں طرف سے کیوں غبارآلود ہے وہ مرا تا ابد میں ہوں اسی کا از ازل مجھ کو کیا حور و جناں سے وہ مرامقصود ہے احتیاج اک نقص ہے جلوہ گری ہےاک کمال مقتضائے حسن سر ِّشاہد و مشہود ہے بے ہنر کو پوچھتا ہی کون ہے دنیا میں آج ہے کوئی تو تجھ میں جوہر تو اگر محسود ہے مانگ پر ہوتی ہے پیداوار چونکہ وہ نہیں جنسِ تقویٰ اس لئے دنیا سے اب مفقود ہے کیوں نہ پاؤں اُس کی درگہ سے جزائے بے حساب ہے مری نیت تو بے حد گو عمل محدود ہے دل کی حالت پر کسی بندے کو ہو کیا اطلاع بس وہی محمود ہے جو اس کے ہاں محمود ہے مدعا ہے میری ہستی کا کہ مانگوں باربار مقتضا اُن کی طبیعت کا سخا و جُودہے باپ کی سنت کو چھوڑا ہو گیا صیدِ ہوا ابنِ آدم بارگہ سے اس لئے مَطرود ہے جب تلک تدبیر پنجہ کش نہ ہو تقدیر سے آرزو بے فائدہ ہے التجا بے سود ہے عشق وبیکاری اکٹھے ہو نہیں سکتے کبھی عرصۂ سعیِ محباں تا ابد ممدودہے ازاحمد جنتری 1928ء مطبوعہ 1927ء کلام محمود صفحہ138۔140 85۔ میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمہیں جانے نہ دوں گا اہل وفا کی زندگی کا ایک پہلو

ذیل میں ایک نظم ہے جس کی محرک ایک انگریزی نظم ہوئی ہے اس میں وفا کے اس پہلو کو جو ذیل میں بیان کیا گیا ہے ۔نہایت لطیف پیرایہ میں بیان کیا گیا تھا ۔ اس نظم کا میرے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ اسی وقت مغرب و عشاء کے درمیان کے عرصہ میں یہ نظم کہی گئی ۔ گو اس نظم کا طریق اردو کے عام متداول طریقوں کے خلاف ہے ۔ لیکن اب چونکہ اس کی رَو چل گئی ہے۔ اس لئے میں نے بھی خیالات کی رَو کے ماتحت اسے معیوب نہیں سمجھا ۔ اس میں بتایا یہ گیا ہے کہ کس طرح مخالف حالات میں وفادار محب اپنے محبوب کی ناراضگی کو برداشت کرتا ہے اور اس کی ناراضگی سے چڑ کر علیحدہ نہیں ہوتا ۔ بلکہ محبت کی باریک در باریک راہوں سے چل کر اس کے دل تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ میرا رب مجھ سے ناراض نہیں ہوسکتا ۔ اور پہلے اس کی ناراضگی کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں دیکھتا لیکن پھر اس کا دل عاشقانہ بے اعتباری سے کام لیتا ہے اور سنجیدگی سے اس امر کو ظاہر کرنے لگتا ہے کہ اس کے تعلقات ہی ایسے ہیں کہ وہ جدا نہیں ہوسکتا۔مگر اس اصرار کی حالت میں پھر اس کے دل میں اپنی محبت کے جذبات ترقی کرکے اسے شبہ میں ڈال دیتے ہیں اور وہ اپنی خیالی جنت میں کھڑا ہو کر ناراضگی کو صرف بناوٹ خیال کرنے لگتا ہے ۔مگر عاشقانہ بیتابی اسے اس حالت پر بھی کھڑا رہنے نہیں دیتی اور پھر ناراضگی کو حقیقی سمجھنے لگتا ہے اسی طرح اس کے خیالات کئی پلٹے کھاتے ہیں اور آخر وہ والہانہ طور پر معشوق سے اپیل کرتا ہے کہ اگر کچھ وجہ بھی ہے تو جانے دو اور اپنے قرب سے مجھے محروم نہ کرو ۔ کیا خدا تعالیٰ کی سی رحیم ہستی اس التجا کا انکار کرسکتی ہے ؟ہر گز نہیں۔

میں تمھیں جانے نہ دوں گا کیا محبت جائے گی یوں کیا پڑا روؤں گا میں خوں یاد کر کے چشم مے گوں میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا خواہ تم کتنا ہی ڈانٹو خواہ تم کتنا ہی کوسو خواہ تم کتنا بھی جھڑکو میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا کیا ہوئی الفت ہماری کیا ہوئی چاہت تمہاری کھا چکا ہوں زخم کاری میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا مجھ سے تم نفرت کرو گے سامنے میرے نہ ہوگے ساتھ میرا چھوڑ دو گے میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا دل میں رکھوں گا چھپا کر آنکھ کی پتلی بنا کر اپنے سینے سے لگا کر میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا اس قدر محنت اٹھا کر دولتِ راحت لٹا کر تم کو پایا جاں گنوا کر اب تو میں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا آسماں شاھد نہیں کیا میرے اقرار وفا کا اے مری جاں میرے مولیٰ میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا تم ہومیری راحتِ جاں تم سے وابستہ ہے ارماں زور سے پکڑوں گا داماں میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا کیا سناتے ہو مجھے تم کیوں ستاتے ہو مجھےتم بس بناتے ہو مجھے تم میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا سر کو پاؤں پر دھروں گا آنکھیں تلووں سے ملوں گا نقشِ پا کو چوم لوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا کیا ملاقاتوں کی راتیں تھیں جو مجھ کو شب براتیں یوں ہی ہو جائیں گی باتیں میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا میری حالت پر نظر کر عیب سے غضِ بصر کر ڈھیر ہو جاؤں گا مر کر پر تجھے جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا ٹوٹ جائیں کس طرح سے عہد کے مضبوط رشتے اس لیے ہم کیا ملے تھے میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا خواہ مجھ سے روٹھ جاؤ منہ نہ سالوں تک دکھاؤ یاد سے اپنی بھلاؤ میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا تم تو میرے ہو چکے ہو تم مرے گھر کے دیے ہو میرے دل میں بس رہے ہو میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا آؤ آؤ مان جاؤ مجھ کو سینے سے لگاؤ دل سے سب شکوے مٹاؤ میں تمھیں جانے نہ دوں گا میں تمھیں جانے نہ دوں گا اخبار الفضل جلد 15 ۔ 10فروری 1938ء کلام محمود صفحہ141 86۔ اک عمر گذر گئی ہےروتے روتے اک عمر گذر گئی ہےروتے روتے دامانِ عمل کا داغ دھوتے دھوتے یارانِ وطن! یہ خواب ِجنت کس کام دوزخ میں پہنچ چکے ہو سوتے سوتے آتا ہے تواب گنہ میں لطف آتا ہے نوبت یہ پہنچ گئی ہے ہوتے ہوتے کیا کعبہ کو جاؤ گے تبھی تم جس وقت تھک جاؤ گے کشتِ ظلم بوتے بوتے چھانا کئے سب جہاں کو ان کی خاطر جب دیکھا تو دیکھا ان کو سوتے سوتے دیکھا نہ نگاہِ یار پا لی ہم نے فرقت میں حواس و ہوش کھوتے کھوتے اخبار الفضل جلد 16 ۔ 6جولائی 1928ء کلام محمود صفحہ142۔143 87۔ میں اپنے پیاروں کی نسبت میں اپنے پیاروں کی نسبت ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی وہ چھوٹے درجہ پہ راضی ہوں اور اُن کی نگاہ رہے نیچی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شیروں کی طرح غراتے ہوں ادنیٰ سا قصور اگر دیکھیں تو منہ میں کف بھر لاتے ہوں وہ ادنیٰ ادنیٰ خواہش کو مقصود بنائے بیٹھے ہوں شمشیرِ زباں سے گھر بیٹھے دشمن کو مارے جاتے ہوں میدانِ عمل کا نام بھی لو تو جھینپتے ہوں گھبراتے ہوں گیدڑ کی طرح وہ تاک میں ہوں شیروں کے شکار پہ جانے کی اور بیٹھے خوابیں دیکھتے ہوں وہ ان کا جوٹھا کھانے کی اے میری الفت کے طالب! یہ میرے دل کا نقشہ ہے اب اپنے نفس کو دیکھ لے تُو وہ ان باتوں میں کیسا ہے گر تیری ہمت چھوٹی ہے گر تیرے ارادے مردہ ہیں گر تیری امنگیں کوتہ ہیں گر تیرے خیال افسردہ ہیں کیا تیرے ساتھ لگا کر دل میں خود بھی کمینہ بن جاؤں ہوں جنت کا مینار،مگر دوزخ کا زینہ بن جاؤں ہے خواہش  میری الفت کی تو اپنی نگاہیں اونچی کر تدبیر کے جالوں میں مت پھنس کر قبضہ جا کے مقدر پر میں واحد کا ہوں دل دادہ اور واحد میرا پیارا ہے گر تُو بھی واحد بن جائے تو میری آنکھ کا تارا ہے تُو ایک ہو ساری دنیا میں کوئی ساجھی اور شریک نہ ہو تُو سب دنیا کو دے لیکن خود تیرے ہاتھ میں بھیک نہ ہو اخبار الفضل جلد 17 ۔ 10جولائی 1930ء کلام محمود صفحہ144 88۔ خدایا اے مرے پیارے خدایا خدایا اے مرے پیارے خدایا الٰہ العالمیں ربّ البرایا ملیک و مالک و خلّاقِ عالم رحیم و راحم و بحرالعطایا تری درگہ میں اک امید لے کر  ترا اِک بندۂ عاصی ہے آیا وہ خالی ہاتھ ہے ہر پیشکش سے نہیں لایا وہ ساتھ اپنے ھدایا جو تو نے دی تھی اس کو طاقتِ خیر وہ کر بیٹھا ہے اس کا بھی صفایا وہ حیوانوں سے بدتر ہو رہا ہے نہیں تقویٰ میں حاصل کوئی پایا سمٹ کر بن گئی نیکی سویدا افق پر چھا گئیں اس کی خطایا بتاؤں کیا کہ شیطاں نے کہاں سے کہاں لے جا کے ہے اس کو گرایا نہیں آرام پل بھر بھی میسر ہے اس ظالم نے کچھ ایسا ستایا جہاں کا چپہ چپہ دیکھ ڈالا مگر کوئی ٹھکانا بھی نہ پایا ہوا مایوس جب چاروں طرف سے نہ جب کوشش  نے اس کا کچھ بنایا تو ہر پِھر کر یہی تدبیر سوجھی تری تقدیر کا در کھٹکھٹایا یہی ہے آرزو اس کی الہٰی یہی ہے التجا اسکی خدایا کہ مشرق اور مغرب دیکھ ڈالے سکوں لیکن کہیں اس نے نہ پایا تری درگاہ میں وہ آخرالامر تمنا دل میں لے کر ہے یہ آیا تری رحمت کی دیواروں کے اندر کلام اللہ کامل جائے سایا تو وہ دُھونی محبت کی رما کر جلا دے سب جہالت اور مایا اخبار الفضل جلد 17 ۔ 17جنوری 1930ء کلام محمود صفحہ145۔147 89۔ مرا دل ہوگیا خوشیوں سے معمور آمین

عزیزان امۃ السلام بیگم۔مرزاناصر احمد۔ناصرہ بیگم۔مرزا مبارک احمد۔امۃ القیوم بیگم۔ مرزامنور احمد۔امۃ الرشید بیگم۔امۃ العزیز بیگم۔سلمہم اللہ و بارک لھم

مرا دل ہوگیا خوشیوں سے معمور

الحمدللہ کہ اس وقت میرے سات بچے قرآن کریم ختم کرچکے ہیں  اور ایک اللہ تعالیٰ کے فضل سے حافظِ قرآن بھی ہے ۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور میں اس کے فضل سے امید کرتا ہوں کہ دوسرے بچوں کو بھی اس نعمت عظمیٰ سے حصہ لینے کی توفیق دے گا اور خدمت دین کا موقع دے کر اور اپنے قرب کی نعمت بخش کر اپنے احسانوں کی زنجیر کو مکمل کرے گا۔ میں نے کچھ شعر اسی خوشی میں بطور شکریہ و دعا کہے ہیں اور عزیزہ امۃ السلام بیگم کو بھی ، جو ہم سب بہن بھائیوں کی اولاد میں صرف ایک ہی یادگار حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو ) کے زمانہ کی ہے اس آمین میں شامل کرلیا ہے۔ اشعار درج ذیل ہیں۔

مرادل ہو گیا خوشیوں سے معمور ہوئے ہیں آج سب رنج و الم دور نویدِ راحت افزا آرہی ہے بشارت ساتھ اپنے لارہی ہے سلام ۔اللہ کی پہلی عنایت مسیحاؑ نے جسے بخشی تھی برکت مرا ناصر۔مرا فرزند اکبر ملا ہے جس کو حق سے تاج و افسر1 وہ میری ناصرہ وہ نیک اختر عقیلہ باسعادت پاک جوھر مبارک جو کہ بیٹا دوسرا ہے خدا نے اپنی رحمت سے دیا ہے مری قیوم ۔میرے دل کی راحت خدا نے جس کو بخشی ہے سعادت منور جو کہ مولیٰ کی عطا ہے بشارت سے خدا کی جو ملا ہے رشیدہ جس کو حق نے رشد بخشا بنایا نیک طینت اور اچھا عزیزہ سب سے چھوٹی نیک فطرت بہت خاموش پائی ہے طبیعت یہ سارے ختم قرآں کر چکے ہیں دلوں کو نورِ حق   سے   بھر چکے ہیں خدا کا فضل ان پر ہو گیا ہے کلام اللہ کا خلعت ملا ہے یہ نعمت سارے انعاموں کی جاں ہے جو سچ پوچھویہی باغِ جناں ہے ملی ہے ہم کو یہ فضلِ خدا سے حبیبِ پاک حضرت مصطفیٰؐ سے شہِ لَولاکؐ یہ نعمت نہ پاتے تو اس دنیا سے ہم اندھے ہی جاتے کجا ہم اور کجا مولیٰ کی باتیں کجا دن اور کجا تاریک راتیں رسائی کب تھی ہم کو آسماں تک جو اُڑتے بھی تو ہم اُڑتےکہاں تک خدا ہی تھا کہ جس نے دی یہ نعمت محمدؐ ہی تھے جو لائے یہ خلعت پس اے میرے عزیزو میرے بچو! دل و جاں سے اسے محبوب رکھو یہی ہے دین و دنیا کی بھلائی اسی سے دور رہتی ہے برائی اسی سے ہوتی ہے راحت میسر اسی میں دیکھتے ہیں روئے دلبر یہی لے جاتی ہے مولیٰ کے در تک یہی پہنچاتی ہے مومن کو گھر تک خدایا اے مرے پیارے خدایا الٰہ العالمیں رب البرایا ہو سب میرے عزیزوں پر عنایت ملے تجھ سے انہیں تقویٰ کی خلعت کلام اللہ پر ہوں سب وہ عامل نگاہوں میں تری ہوں نفس کامل بس اک تیری ہی ان کے دل میں جا ہو نہ دیکھیں غیر کو کوئی ہو کیا ہو محبت تیری اُن کے دل میں رچ جائے ہر اک شیطان کے پنجے سے بچ جائے علومِ آسمانی ان کو مل جائیں دلوں کی اُن کے کلیاں خوب کھل جائیں ترا الہام بھی ہو اِن پہ نازل ترا اکرام بھی ہو ان کے شامل کریں تیرے فرشتےان سے باتیں معارف کی بہیں سینوں میں نہریں ہر اک ان میں سے ہو شمعِ ہدایت بتائے اک جہاں کو رازِ قدرت دلوں کو نور سے ہوں بھرنے والے ہوں تیری رہ میں ہر دم مرنے والے برائی دشمنوں کی بھی نہ چاہیں ہمیشہ خیر ہی دیکھیں نگاہیں لڑائی اور جھگڑے دور کر دیں دلوں کو پیار سے معمور کر دیں جو بیکس ہوں یہ ان کے یار ہو جائیں سرِ ظالم پہ اک تلوار ہو جائیں بنیں ابلیس نافرماں کے قاتل لوائے احمدیت کے ہوں حامل یہ میدانِ دغا میں جب کبھی آئیں تو دل اعداء کے سینوں میں دَہَل جائیں بِنائے شرک کو جڑ سے ہلا دیں نشانِ کفر و بدعت کو مٹا دیں خدا کا نور چمکے ہر نظر میں مَلک آئیں نظرچشم بشر میں بڑھیں اور ساتھ دنیا کو بڑھائیں پڑھیں اور ایک عالم کو پڑھائیں الہٰی دور ہوں ان کی بلائیں پڑیں دشمن پہ ہی اس کی جفائیں الہٰی تیز ہوں ان کی نگاہیں نظر آئیں سبھی تقویٰ کی راہیں ہوں بحرِ معرفت کے یہ شناور سمائے علم کے ہوں مہرِ انور یہ قصرِ احمدی کے پاسباں ہوں یہ ہر میداں کے یا رب پہلواں ہوں ثریا سے یہ پھر ایمان لائیں یہ پھر واپس ترا قرآن لائیں 1۔حفظِ قرآن اخبار الفضل جلد 19 ۔ 7جولائی 1931ء کلام محمود صفحہ148 90۔ چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ کسی کی یاد میں مَیں ہو رہا ہوں دیوانہ زمانہ گذرا کہ دیکھیں نہیں وہ مست آنکھیں کہ جن کو دیکھ کے میں ہو گیا تھا مستانہ وہ شمع رو کہ جسے دیکھ کر ہزاروں شمع بھڑک اٹھی تھیں بسوزِ ہزار پروانہ وہ جس کے چہرہ سے ظاہر تھا نورِربانی مَلک کو بھی جو بناتا تھا اپنا دیوانہ کہاں ہے وہ کہ ملوں آنکھیں اسکے تلووں سے کہاں ہے وہ کہ گروں اس پہ مثلِ پروانہ وہ صحبتیں کہ نئی زندگی دلاتی تھیں وہ آج میرے لئے کیوں بنی ہیں افسانہ وہ یار جس کی محبت پہ ناز تھا مجھ کو کوئی بتاؤ کہ کیوں ہو رہا ہے بیگانہ جو کوئی روک تھی اس کو یہاں پہ آنے کی بلا لیا نہ وہیں کیوں نہ اپنا دیوانہ نہ چھیڑ دشمنِ ناداں نہ چھیڑ کہتا ہوں چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ تری نصیحتیں بے کار تیرے مکر فضول یہ چھیڑ جا کے کسی اور جا پہ افسانہ چھڑائے گا بھلا کیا دل سے میرے یاد اُس کی تُو اور مجھ کو بناتا ہے اُس کا دیوانہ نہ تیرے ظلم سے ٹوٹے گا رشتہ الفت نہ حرص مجھ کو بنائے گی اس سے بیگانہ ہے تیری سعی دلیلِ حماقتِ مطلق ہے تیری جدوجہد ایک فعلِ طفلانہ ترا خیال کدھر ہے یہ سوچ اے ناداں رہا ہےدور کبھی شمع سے بھی پروانہ حدیثِ مدرسہ و خانقاہ مگو بخدا فتاد برسرِ حافظ ہوائے میخانہ اخبار الفضل جلد 20 ۔ یکم جنوری 1933ء کلام محمود صفحہ149 91۔ حضرت سیدہ سارہ بیگم کی وفات پر کر رحم اے رحیم مرے حالِ زار پر

ذیل میں چند اشعار دعائیہ و اظہار حال درج ہیں ۔ اس کےآخر میں جس احساس کا ذکر ہے اس کے متعلق اس نظم کے بعد ایک رویاء دیکھی جس سے دل کو ایک حد تک تسلی ہوئی ۔ گو رویاء اس رنگ میں نہ تھی کہ اس سے لیطمئن قلبی کا مفہوم پورا ہوتا ہو۔ لیکن پھر بھی دعا کی قبولیت کا ایک ظاہری نشان ضرور تھی۔ مگر میں رویاء کےمعاملہ کو اپنے مضمون کے تتمہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔ جسے نمبر ۲ کی صورت میں انشاء اللہ بعد میں کسی وقت شائع کروں گا ۔ اس وقت صرف اس مختصر نوٹ کے ساتھ اس دعائیہ نظم کو شائع کرتا ہوں ۔

الفضل 9 جولائی 1933ء حضرت سیدہ سارہ بیگم کی وفات پر کر رحم اے رحیم مرے حالِ زار پر زخمِ جگر پہ دردِ دلِ بے قرار پر مجھ پر کہ ہوں عزیزوں کے حلقہ میں مثلِ غیر اِس بے کس و نحیف و غریب الدیار پر جس کی حیات اِک ورقِ سوز و ساز تھی جیتی تھی جو غذائے تمنائے یار پر مقصود جس کا علم و تقٰی کا حصول تھا رکھتی تھی جو نگہ نگہ لطفِ یار پر تھی ماحصل حیات کا اک سعئ نا تمام کاٹی گئی غریب حوادث  کی دھار پر دل کی امیدیں دل ہی میں سب دفن ہو گئیں پائے امید ثبت رہا انتظار پر ہاں اے مغیث سن لے مری التجا کو آج کر رحم اس وجودِ محبت شعار پر اس مے گسار ِبادۂ الفت کی روح پر اُس بوستانِ عشق و وفا کی مزار پر ہاں اُس شھیدِ علم کی تُربت پہ کر نزول خوشیوں کا باب کھول غموں کی شکار پر میری طرف سے اس کو جزا ہائے نیک دے کر رحم اے رحیم دلِ سوگوار پر حاضر نہ تھا وفات کے وقت اے  مرے خدا بھاری ہے یہ خیال دلِ ریش و زار پر ڈرتا ہوں وہ مجھے نہ کہے بازبانِ حال جاؤں کبھی دعا کو جو اس کے مزار پر جب مرگئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر حضور کی حرمِ محترمہ جنہوں نے 1933میں وفات پائی۔اناللہ و انا الیہ راجعون اخبار الفضل جلد 21 ۔ 19جولائی 1934ء کلام محمود صفحہ150۔152 92۔ آہ پھر موسم بہار آیا آہ پھر موسم بہار آیا دل میں میرے خیال ِیار آیا لالہ و گل کو دیکھ کر محمود یاد مجھ کو وہ گلعذار آیا زخمِ دل ہو گئے ہرے میرے ہر چمن سے میں اشکبار آیا خوں رلاتا تھا لالہ زار کا رنگ مجلسِ یار کی بہار کا رنگ تازہ کرتے تھے یاد اس کی پھول یاد آتا تھا گلعذار کا رنگ لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا سبزۂ گیاہ کا کہوں کیا حال چپہ چپہ پہ ڈالتا تھا جال مستِ نظارۂ جمال تھے سب آنکھیں دنیا کی ہورہی تھیں لال زخم دل ہو گئے ہرے میرے ہر چمن سے میں اشکبار آیا میں وہاں ایک اور خیال میں تھا کیا کہوں میں نرالے حال میں تھا سبزہ اک عکسِ زلفِ جاناں ہے یہ تصور ہی بال بال میں تھا لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا ندیاں ہر طرف کو بہتی تھیں قلبِ صافی کا حال کہتی تھیں آبشاروں کی شکل میں گر کر صدمۂ افتراق سہتی تھیں زخمِ دل ہو گئے ہرے میرے ہر چمن سے میں اشکبار آیا دیوداروں کی ہر طرف تھی قطار یاد کرتا تھا دیکھ کر قدِیار لوگ دل کر رہے تھے ان پہ نثار جان سے ہو رہا تھا میں بیزار لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا اَبر آتے تھے اور جاتے تھے دل کو ہر اک کے خوب بھاتے تھے بجلیوں کی چمک میں مجھ کو نظر جلوے اس کی ہنسی کے آتے تھے زخم دل ہو گئے ہرے میرے ہر چمن سے میں اشکبار آیا شاخِ گل پر ھزار بیٹھی تھی کانپتی بے قرار بیٹھی تھی نغمہ سن سن کے اسکے سب خوش تھے وہ مگر دل فگار بیٹھی تھی لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا کیسی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں ناز و رعنائی سے مچلتی تھیں اُن کی رفتار کی دلا کر یاد دل مرا چٹکیوں میں مَلتی تھیں زخمِ دل ہوگئے ہرے میرے ہر چمن سے میں اشکبار آیا تھے طَرَب سے درخت بھی رقصاں گویا قسمت پہ اپنی تھے نازاں پتے پتے کے پاس جا کر میں سونگھتا تھا بوئے مَہِ کِنعاں لوگ سب شادمان و خوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا جلوے اس کے نمایاں ہر شے میں سُر اسی کی تھی پیدا ہر لَے میں رنگ اُسی کا چھلک رہا تھا آہ کفِ ساقی میں ساغرِ مے میں زخمِ دل ہوگئے ہرے میرے ہر چمن سے میں اشکبار آیا اس کے نزدیک ہو کے دور بھی تھا دلِ اُمیدوار چور بھی تھا نارِ فرقت میں جل رہا تھا میں گو پسِ پردہ اِک ظہور بھی تھا لوگ سب شادمان وخوش آئے ایک میں تھا کہ سوگوار آیا دیکھئے کب وہ منہ دکھاتا ہے پردہ چہرہ سے کب اٹھاتا ہے کب مرے غم کو دور کرتا ہے پاس اپنے مجھے بلاتا ہے ہنس کے کہتا ہے دیکھ کر مجھ کو دیکھو وہ میرا دل فگار آیا میں یونہی اس کو آزماتا تھا پاک کرنے کو دل جلاتا تھا عشق کی آگ تیز کرنے کو منہ چھپاتا کبھی دکھاتا تھا میری خاطر اگر یہ تھا بے چین کب مجھے اس کے بِن قرار آیا آہ پھر موسم بہار آیا

کئی سال ہوئے پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے ایک کاغذ پر کچھ مصرعے اور شعر امۃ الحیٔ مرحومہ کے لکھے ہوئے ملے تھے۔ نہ معلوم ان کے تھے یا کسی کے شعر پسند کرکے نقل کئے تھے ۔ ان میں سے ایک شعر پر میں نے ایک نظم کہی تھی جو شائع ہوچکی ہے ۔ ایک اور شعر پر چار بند کہے تھے لیکن وہ نظم نامکمل پڑی رہی۔ 1929ء کے ڈلہوزی کے سفر میں وہ بند لکھے گئے اور اس کے بعد طبیعت اس طرف سے ہٹ گئی ۔ کئی دفعہ کوشش کی لیکن مضمون بالکل بند معلوم ہوتا تھا ۔ اس دفعہ پالم پور میں اس طرف طبیعت میں رغبت پیدا ہوئی ۔ اور میں نے اس نظم کو پورا کیا۔

اب مجھے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ کون سا شعر یا مصرع تھا ۔جو امۃ الحیٔ مرحومہ کا لکھا ہوا مجھے ملا تھا ۔ نہ یہ کہ اسے میں نے پورا نقل کیا ہے یا تصرف کے ساتھ اسے استعمال کیا ہے۔ بہر حال اس قدر یقینی بات ہے کہ ان کا منتخب شدہ یا کہا ہوا شعر غالباً بہ تصرف اس نظم کے پہلے بند میں موجود ہے اور وہی اس نظم کا محرک ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اس مرنے والی پر اور اپنے قرب میں جگہ دے ۔ اس نظم میں سالک کے قرب کی اس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔ جب اسے معشوق کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا ۔ جب ہر ذرہ اسے اپنی طرف متوجہ کرتا اور پھر اس توجہ کو حسنِ ازل کی طرف منتقل کردیتا ہے جب ہر اچھی چیز اسے دردِ ہجر سے آشنا کرتی اور ہر جلوۂ حسن جدائی کی تکلیف کو تیز کردیتا ہے۔ جب آرام اس کے لئے مصیبت اور خوش اس کے لئے افسردگی پیدا کرنے کا موجب ہوجاتی ہے ۔ وہ ہر شے میں خدا تعالےٰ کو دیکھتا ۔ لیکن پھر اس سے اپنے کو دور پاتا ہے۔ درحقیقت یہی اس کی پہلی منزل کی آخری گھڑیاں ہوتی ہیں ۔ اس حالت کو لمبا اس کے دل کی صفائی کے لئے کیا جاتا ہے  ورنہ دراصل اس وقت دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی ہوتی ہے ۔ خدا کی محبت اس کے بندہ کے دل پر گرنے کے لئے اسی طرح بے چین ہورہی ہوتی ہے جس طرح کہ بندہ کا عشق اس کے دل کو بے تاب کررہا ہوتا ہے۔

اخبار الفضل جلد21 ۔25جولائی 1934ء کلام محمود صفحہ153 93۔ اے چاند تجھ میں نورِ خدا ہے چمک رہا اے چاند تجھ میں نورِ خدا ہے چمک رہا جس سے کہ جامِ حسن ترا ہے چھلک رہا تیری زمین پاک ہے لوثِ گناہ سے محفوظ خاک ہے تری ہرروسیاہ سے تو زیرِ تابش ِ رخِ انور ہے روزوشب ظلمت کدہ میں لوٹ رہا ہوں میں دم بہ لب قرآن پاک میں بھی ترا نام نور ہے کیفِ وصال سے ترا دل پرسرور ہے گم گشتہ راہ کے لیے توخضرِ راہ ہے تیری ضیاء رفیق ِ ازل کی نگاہ ہے تجھ میں جمالِ یار کی پاتا ہوں میں جھلک اٹھتی ہے جس کو دیکھ کے دل میں مرے کسک دوری کو اپنی دیکھ کے میں شرمسار ہوں عاشق تو ہوں پہ حرص وہوا کا شکار ہوں آاک شعاع ِ نور کی مجھ پر بھی ڈال دے تاریکئِ گناہ سے باہر نکال دے اخبار الفضل جلد 23 ۔ 13جولائی 1935ء کلام محمود صفحہ154 94۔ دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل بَر مانے دو دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل بَر مانے دو یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو وقت آنے دو یہ عشق ووفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر نہ پنپیں گے اس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطراتِ محبت ٹپکیں گے بادل آفات ومصائب کے چھاتےہیں اگر تو چھانے دو صادق ہے اگر تو صدق دکھا قربانی کر ہرخواہش کی ہی جنسِ وفا کے ماپنے کے دنیا میں یہی پیمانے دو جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں جل جانے دو عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو وہ اپنا سر ہی پھوڑے گا وہ اپنا خون ہی بِیٹے گا دشمن حق کے پہاڑ سے گر ٹکراتا ہے ٹکرانے دو یہ زخم تمھارے سینوں کے بن جائیں گے رشکِ چمن اس دن ہے قادرِ مطلق یار مرا ،تم میرے یار کو آنے دو جو سچے مومن بن جاتے ہیں موت بھی ان سے ڈرتی ہے تم سچے مومن بن جاؤاورخوف کو پاس نہ آنے دو یا صدقِ محمدؐ عربی ہےیا احمد ِ ہندی کی ہے وفا باقی تو پرانے قصے ہیں زندہ ہیں یہی افسانے دو وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو میخانہ وہی،ساقی بھی وہی،پھر اس میں کہاں غیرت کامحل ہے دشمن  خودبھینگاجس کو آتے ہیں نظر خمخانے دو محمود اگر منزل ہے کٹھن تو راہ نما بھی کامل ہے تم اس پر توکّل کر کے چلو،آفات کا خیال ہی جانے دو اخبار الفضل جلد 23 ۔14جولائی 1935ء کلام محمود صفحہ155 95۔ پڑھ چکے احرار بس اپنی کتاب ِزندگی پڑھ چکے احرار بس اپنی کتاب ِزندگی ہو گیا پھٹ کر ہوا ان کا حبُا ب ِزندگی لوٹنے نکلے تھےوہ امن و سکونِ بیکساں خود انہی کے لٹ گئے حسن و شبا ب ِزندگی دیکھ لینا ان کی امیدیں بنیں گی حسرتیں اک پریشاں خواب نکلے گا یہ خوا ب ِزندگی فتنہ و افساد و سبّ وشتم و ہزل وابتذال اس جماعت کا ہے یہ لُبِّ لبا ب ِزندگی پڑ رہی ہیں انگلیاں اربابِ حلّ وعقد کی بج رہا ہے اس طرح ان کا رُبا ب ِزندگی کیا خبر ان کو ہے کیا جام ِ شہادت کا مزا دیکھ کر خوش ہورہے ہیں جو سرا ب ِزندگی ہے حیاتِ شمع کا سب ماحصل سوزوگداز اک دلِ پر خون ہے یہ اکتسا ب ِزندگی دلبرا الزام تو دیتے ہیں چھپنے کا تجھے اوڑھے بیٹھے ہیں مگر ہم خود نقا ب ِزندگی دستِ عزرائیل میں مخفی ہے سب رازِ حیات موت کے پیالوں میں بٹتی ہے شرا ب ِزندگی غفلتِ خوابِ حیاتِ عارضی کو دور کر ہے تجھے گر خواہش ِ تعبیر ِ خوا ب ِزندگی اخبار الفضل جلد 23 ۔ 6ستمبر 1935ء کلام محمود صفحہ156 96۔ میری نہیں زبان جو اس کی زباں نہیں میری نہیں زبان جو اس کی زباں نہیں میرا نہیں وہ دل کہ جو اس کا مکاں نہیں ہے دل میں عشق پرمرے منہ میں زباں نہیں نالے نہیں ہیں،آہیں نہیں ہیں ،فغاں نہیں فرقت میں تیری حالِ دل زار کیا کہیں وہ آگ لگ رہی ہے کہ جس میں دھواں نہیں قرباں ہوں زخم دل پہ کہ سب حال کہہ دیا شکوہ کا حرف کوئی  مگردرمیاں نہیں کیوں چھوڑتا ہے دل مجھے اس کی تلاش میں آوارگی سے فائدہ کیا ،وہ کہاں نہیں مطلوب ہے فقط مجھے خوشنودئِ مزاج امید حوروخواہشِ باغِ جناں نہیں جلوہ ہے ذرہ ذرہ میں دلبرکے حسن کا سارے مکاں اسی کے ہیں وہ لا مکاں نہیں مشتاق ہے جہاں کہ سنے معرفت کی بات لیکن حیا وشرم سے چلتی زباں نہیں یارب تری مدد ہوتو اصلاح ِ خَلق ہو اٹھنے کا ورنہ  مجھ سے یہ بارِ گراں نہیں کھویا گیا  خود آپ کسی کی تلاش میں کچھ بھی خبر نہیں کہ کہاں ہوں کہاں نہیں اے دوست تیرا عشق ہی کچھ خام ہوتوہو یہ تو نہیں کہ یار ترا مہرباں نہیں ایمان جس کے ساتھ نہ  ہوقوتِ عمل کشتی ہے جس کہ ساتھ کوئی بادباں نہیں اخبار الفضل جلد 24 ۔ 31دسمبر 1936ء کلام محمود صفحہ157 97۔ موت اس کی رہ میں گر تمھیں منظور ہی نہیں موت اس کی رہ میں گر تمھیں منظور ہی نہیں کہہ دو کہ عشق کا ہمیں مقدور ہی نہیں کیوں جُرمِ نقضِ عہد کے ہوں مرتکب جناب جب آپ عہد کرنے پہ مجبور ہی نہیں مومن تو جانتے ہی نہیں بُزدلی ہے کیا اس قوم میں فرار کا دستور ہی نہیں ڈر کا اثر ہو ان پہ نہ لالچ کا ہو اثر ہوش آئیں جن کو ایسے یہ مخمور ہی نہیں دل دے چُکے تو ختم ہوا قصۂ حساب معشوق سے حساب کا دستور ہی نہیں بحرِ فنا میں غوطہ لگا نے کی دیر ہے منزل قریب تر ہے وہ کچھ دور ہی نہیں دشمن کی چیرہ دستیوں پہ اے خدا گواہ ہیں زخم ِ دل بھی سینے کے ناسور ہی نہیں اس مھرِ نیم روز کو دیکھیں تو کس طرح آنکھوں میں ظالموں کے اگر نُور ہی نہیں اخبار الفضل جلد 26 ۔ 29دسمبر 1938ء کلام محمود صفحہ158 98۔ ذرادل  تھام لو اپنا کہ اک دیوانہ آتا ہے ذرادل  تھام لو اپنا کہ اک دیوانہ آتا ہے شرارِ حسن کا جلتا ہوا پروانہ آتا ہے کمالِ جرأت ِ انسانیت  عاشق دکھاتا ہے کہ میدانِ بلا میں بس وہی مردانہ آتا ہے نگاہِ لطف میری جستجو میں بڑھتی آتی ہے ہوں وہ میخوار جس کے پاس خودمیخانہ آتا ہے مجھے کیا اس سے گر دنیا مجھے فرزانہ کہتی ہے تمنا ہے کہ تم کہہ دو "مرادیوانہ آتا ہے" بھڑک اٹھتی ہے پھر شمع ِ جہاں کی روشنی یکدم عدم سے سوئے ہستی جب کوئی پروانہ آتا ہے مری تو زندگی کٹتی ہے تیری یاد میں پیارے کبھی تیری زباں پر بھی مرا فسانہ آتا ہے ہزاروں حسرتیں جل کر فنا ہونے کی رکھتا ہے ہٹا بھی دیں ذرا فانوس اک پروانہ آتا ہے اخبار الفضل جلد 26 ۔ 31دسمبر 1938ء کلام محمود صفحہ159۔160 99۔ صاحبزادی امۃ القیوم کی تقریبِ رخصتانہ کے موقع پر صاحبزادی امۃ القیوم کی تقریبِ رخصتانہ کے موقع پر کل دوپہر کو ہم جب تم سے ہوئے تھے رخصت ظاہر میں چپ تھے لیکن دل خون ہو رہا تھا افسردہ ہورہا تھا محزون ہورہا تھا اے میری پیاری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا میری کمر کی پیٹی تم یاد آرہی ہو دل کو ستا رہی ہو میں کیا کروں کہ ہردم تم دور جا رہی ہو ٹوٹی ہوئی کمر کا اللہ ہی ہے سہارا اللہ ہی ہے ہمارا اللہ ہی ہے تمھارا اللہ کی تم پہ رحمت اللہ کی تم پہ برکت اللہ کی مہربانی اللہ کی ہو عنایت وہ ہم سفر تمھارا آنکھوں کا میری تارا اللہ کا صفی ہو اللہ کا ہو پیارا لومیری پیاری بچی تم کو خدا کو سونپا اس مہربان آقا اس باوفا کو سونپا کرنا خدا سے الفت رہنا تم اس سے ڈر کر تم اس سے پیار رکھنا بس اس کو یاد کرنا سُوفارِ عشق اس کا تم دل کےپار رکھنا دلبر ہے وہ ہمارا تم اس سے چاہ رکھنا مشکل کے وقت دونوں اُ س پر نگاہ رکھنا الفت نہ اُس کی کم ہو رشتہ نہ اس کا ٹوٹے چُھٹ جائےخواہ کوئی دامن نہ اس کا چھوٹے اخبار الفضل جلد 27 ۔ 28دسمبر 1939ء کلام محمود صفحہ161 100۔ نہیں کوئی بھی تو مناسبت رہ شیخ وطرزِ ایاز میں نہیں کوئی بھی تو مناسبت رہ شیخ وطرزِ ایاز میں اسے ایک آہ میں مل گیا نہ ملا جو اِس کو نماز میں جو ادب کے حسن کی بجلیاں ہوں چمک رہی کفِ ناز میں تونگاہِ  حسن کو کچھ نہ پھر نظر آئے روئے نیاز میں تجھے اس جہان کے آئنہ میں جمال ِ یار کی جستجو مجھے سو جہان دکھائی دیتا ہے چشمِ آئنہ ساز میں نظر آرہا ہے وہ جلوہ حسن ازل کا شمعِ حجاز میں کہ کوئی بھی اب تو مزا نہیں رہا قیس عشقِ مجاز میں مرا عشق دامنِ یار سے ہے کبھی کا جا کے لپٹ رہا تری عقل ہے کہ بھٹک رہی ہے ابھی نشیب و فراز میں ترے جام کو مرے خون سے ہی ملا ہے رنگ یہ دلفریب ہے یہ اضطراب یہ زیروبم مرے سوز سے ترے ساز سے اخبار الفضل جلد 28 ۔ 3جنوری 1940ء کلام محمود صفحہ162 101۔ ہم کس کی محبت میں دوڑے چلے آئے تھے ہم کس کی محبت میں دوڑے چلے آئے تھے وہ کون سے رشتے تھے جوکھینچ کے لائے تھے آخروہ ہوئےثابت پیغام ہلاکت کا جو غمزے مرے دل کو بے حدترے بھا ئے تھے جن باتوں کو سمجھے تھے بنیاد ترقی کی جب غورسے دیکھا تومٹتے ہوئے سائے تھے اکسیر کا دیتے ہیں اب کام وہ دنیا میں خون ِدلِ عاشق میں جوتیر بجھا ئے تھے تھا غرق ِ گنہ لیکن پڑتے ہی نگہ ان کی اشک آنکھوں میں اور ہاتھوں میں عرش کے پا ئے تھے یہ جسم مرا سر سے پاتک جومعطر ہے راز اس میں ہے یہ زاہدوہ خواب میں آ ئے تھے اس مرہمِ فردوسی میں حق ہے ہمارا بھی کچھ زخم تری خاطر ہم نے بھی تو کھائے تھے اخبار الفضل جلد 28 ۔ 3جنوری 1940ء کلام محمود صفحہ163۔164 102۔ بادۂ عرفاں پلا دے ہاں پلا دے آج تُو بادۂ عرفاں پلا دے ہاں پلا دے آج تُو چہرۂ زیبا دکھا دے ہاں دکھا دے آج تُو خوابِ غفلت میں پڑا سویا کروں گا کب تلک داورِمحشر جگا دےہاں جگا دے آج تُو جس کے پڑھ لینے سے کھل جاتا ہے رازِ کائنات وہ سبق مجھ کو پڑھا ہاں پڑھا دے آج تُو مجھ کو سینہ سے لگا لے ہاں لگا لے پھر مجھے حسرتیں دل کی مٹا دے ہاں مٹا دے آج تُو ناامید ی اور مایوسی کے بادل پھاڑ دے حوصلہ میرا بڑھا دے ہاں بڑھا دے آج تُو کب تلک رستا رہے گا جانِ من ناسورِ دل زخم پر مرہم لگا دے ہاں لگا دے آج تُو یامرے پہلو میں آکر بیٹھ جا،پھر بیٹھ جا یا مری خواہش مٹا دے ہاں مٹا دے آج تُو جس سے جل جائیں خیالات ِ من و مائی تمام آگ وہ دل میں لگا دے ہاں لگا دے آج تُو دامنِ دل پھیلتا جاتا ہے بے حدوحساب دھجیاں اس کی اڑا دے ہاں اڑا دے آج تُو جس سے سب چھوٹے بڑے شاداب ہوں سیراب ہوں دل سے وہ چشمہ بہا دےہاں بہا دے آج تُو میرے تیرے درمیاں حائل ہوا ہے اک عدو خاک میں اس کو ملا دے ہاں ملا دے آج تُو کب تلک پہنا کروں اوراقِ جنت کا لباس چادرِ تقویٰ اوڑھا دے ہاں اوڑھا دے آج تُو پھر مری خوش قسمتی سے جمع ہیں ابروبہار جام اک بھر کر پلا دے ہاں پلا دے آج تُو ساکنانِ جنت فردوس بھی ہوجائیں مست دل میں وہ خوشبو بسا دے ہاں بسا دے آج تُو ارتباطِ عاشق و معشوق کے سامان کر پھر مری بگڑی بنادے ہاں بنا دے آج تُو مطربِ عشق ومحبت گوش برآواز ہوں نغمۂ شیریں سنا دے ہاں سنا دے آج تُو یامحمدؐ دلبرم ازعاشقانِ روئے تُست مجھ کوبھی اس سے ملا دے ہاں ملا دے آج تُو دستِ کوتاہم کجا اثمارِ فردوسی کجا شاخِ طوبیٰ کو ہلا دے ہاں ہلا دے آج تُو درسِ الفت ہی نہ گر پایا توکیا پایا بتا گُر محبت کے سکھا دے ہاں سکھا دے آج تُو اخبار الفضل جلد 28 ۔4جنوری 1940ء کلام محمود صفحہ165 103۔ یوں اندھیر ی رات میں اے چاند تُو چمکا نہ کر یوں اندھیر ی رات میں اے چاند تُو چمکا نہ کر حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر کیا لبِ دریا مری بے تابیاں کافی نہیں تُوجگر کوچاک کر کےاپنے یوں تڑپا نہ کر دور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے زیب آسماں پر بیٹھ کرتُو یوں مجھے دیکھا نہ کر عکس تیرا چاند میں گر دیکھ لوں کیا عیب ہے اس طرح تُو چاند سے اے میری جاں پردہ نہ کر بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے پاس آگے آگے چاند کی مانند تُو بھاگا نہ کر اے شعاع ِ نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا نہ کر ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز! عشق کی عزت ہے واجب عشق سے کھیلا نہ کر ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا نہ کر یُوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا نہ کر

سمندرکے کنارے چاند کی سیر نہایت پر لطف ہوتی ہے ۔ اس سفر کراچی میں ایک دن ہم رات کو کلفٹن کی سیر کے لئے گئے ۔ میری چھوٹی بیوی صدیقہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ ، میری تینوں لڑکیاں ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ ، امۃ الرشید بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ ، امۃ العزیز سلمہا اللہ تعالیٰ ، امۃ الودود مرحومہ اور عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ تھے۔رات کے گیارہ بجے چاند سمندر کی لہروں میں ہلتا ہوا بہت ہی بھلا معلوم دیتا تھا اور اوپر آسمان پر وہ اور بھی اچھا معلوم دیتا تھا ۔ جُوں جُوں ریت کے ہموار کنارہ پر ہم پھرتے تھے لطف بڑھتا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نظر آتی تھی ۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر ٹہلنے کے بعد ناصرہ بیگم سلمہا اللہ اور صدیقہ بیگم جن دونوں کی طبیعت خراب تھی تھک کر ایک طرف ان چٹائیوں پر بیٹھ گئیں جو ہم ساتھ لے گئے تھے۔ ان کے ساتھ عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ بھی جاکھڑے ہوئے اور پھر عزیزہ امۃ العزیز بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ بھی وہاں چلی گئی ۔ اب  صرف میں ،عزیزہ امۃ الرشید بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ اور عزیزہ امۃ الودود مرحومہ پانی کے کنارے پر کھڑے رہ گئے ۔ میری نظر ایک بار پھر آسمان کی طرف اٹھی اور میں نے چاند کو دیکھا جو رات کی تاریکی میں عجیب انداز سے اپنی چمک دکھا رہا تھا ۔ اس وقت قریباً پچاس سال پہلے کی ایک رات میری آنکھوں میں پھر گئی جب ایک عارف باللہ محبوب ربانی نے چاند کو دیکھ کر ایک سرد آہ کھینچی تھی اور پھر اس کی یاد میں دوسرے دن دنیا کو یہ پیغام سنایا تھا۔

چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہوگیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا

پہلے تو تھوڑی دیر میں یہ شعر پڑھتا رہا پھر میں نے چاند کو مخاطب کرکے اسی جمالِ یار والے محبوب کی یاد میں کچھ شعر خود کہے جو یہ ہیں :۔

یوں اندھیری رات میں اے چاند تو چمکا نہ کر حشر اک سیمیں بدن کی یاد میں برپا نہ کر کیا لبِ دریا مری بے تابیاں کافی نہیں تو جگر کو چاک کرکے اپنے یوں تڑپا نہ کر

اس کے بعد میری توجہ براہ راست اس محبوب حقیقی کی طرف پھر گئی جس کے حسن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر میں اشارہ کیا گیا ہے اور میں نے اسے مخاطب کرکے چند شعر کہے جو یہ ہیں:۔

دور رہنا اپنے عاشق سے نہیں دیتا ہے زیب آسمان پر بیٹھ کر تو یوں مجھے دیکھا نہ کر

بے شک چاند میں سے کسی وقت اللہ تعالیٰ کا حسن نظر آتا ہے مگر ایک عاشق کے لئے وہ کافی نہیں ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب چاند میں سے اسے نہ جھانکے بلکہ اس کے دل میں آئے اس کے عرفان کی آنکھوں کے سامنے قریب سے جلوہ دکھائے ، اس کے زخمی دل پر مرہم لگائے اور ا س کے دکھ کی دوا خود ہی بن جائے کہ اس دواکے سوا اس کا کوئی علاج نہیں مگر کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس محبوب حقیقی کا عاشق چاند بھی اس کا جلوہ نہیں دیکھتا ۔ چاند میں ایک پھیکی ٹکیہ سے زیادہ کچھ بھی تو نظر نہیں آتا ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس محبوب نے اپنا چہرہ اس سے بھی چھپا رکھا ہے کہ کہیں اس میں سے اس کا عاشق اس کا چہرہ نہ دیکھ لے اور وہ کہتا ہے کہ کاش چاند کے پردہ پر ہی اس کا عکس نظر آجائے اور میں نے کہا۔

عکس تیرا چاند میں گر دیکھ لوں کیا عیب ہے اس طرح تو چاند سے اے میری جاں پردہ نہ کر

پھر میری نظر سمندر کی لہروں پر پڑی جن میں چاند کا عکس نظر آتا تھا اور میں اس کے قریب ہوا اور چاند کا عکس اور پرے ہوگیا ۔ میں اور بڑھا اور عکس اور دور ہوگیا اور میرے دل میں ایک درد اٹھا اور میں نے کہا ۔ بالکل اسی طرح کبھی سالک سے سلوک ہوتا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے کوشش کرتا ہے مگر بظاہر اس کی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھتی ہیں ، اس کی عبادتیں ، اس کی قربانیاں ، اس کا ذکر ، اس کی آہیں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں کیونکہ اللہ تعالےٰاس کے استقلال کا امتحان لیتا ہے اور سالک اپنی کوششوں کو بے اثر پاتا ہے ۔ کئی تھوڑے دل والے مایوس ہوجاتے ہیں اور کئی ہمّت والے کوشش میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کی مراد پوری ہوجاتی ہے مگر یہ دن بڑے ابتلاء کے دن ہوتے ہیں اور سالک کا دل ہر لحظہ مرجھایا رہتا ہے اور اس کا حوصلہ پست ہوجاتا ہے ۔ چونکہ چاند کے عکس کا اس طرح آگے آگے دوڑتے چلے جانے کا بہترین نظارہ کشتی میں بیٹھ کر نظر آتا ہے جو میلوں کا فاصلہ طے کرتی جاتی ہے مگر چاند کا عکس آگے ہی آگے بھاگا چلا جاتا ہے۔ اس لئے میں نے کہا۔

بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آؤں تیرے پاس آگے آگے چاند کی مانند تو بھاگا نہ کر

میں نے اس شعر کا مفہوم دونوں بچیوں کو سمجھانے کے لئے ان سے کہا کہ آؤ ذرا میرے ساتھ سمندر کے پانی میں چلو اور میں انہیں لے کر کوئی پچاس ساٹھ گز سمندر کے پانی میں گیا اور میں نے کہا دیکھو چاند کا عکس کس طرح آگے آگے بھاگا جاتا ہے اسی طرح کبھی کبھی بندہ کی کوششیں اللہ تعالےٰ کی ملاقات کے لئے بیکار جاتی ہیں اور وہ جتنا بڑھتا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اس وقت سوائے اس کے کوئی علاج نہیں ہوتا کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی سے رحم کی درخواست کرے اور اسی کے کرم کو چاہے تاکہ وہ اس ابتلاء کے سلسلہ کو بند کردے اور اپنی ملاقات کاشرف اسے عطا کرے۔

ا س کے بعد میری نظر چاند کی روشنی پر پڑی، کچھ اور لوگ اس وقت کہ رات کے بارہ بجے تھے سیر کے لئے سمندر پر آگئے ، ہوا تیز چل رہی تھی لڑکیوں کے برقعوں کی ٹوپیاں ہوا سے اڑی جارہی تھیں اور وہ زور سے ان کو پکڑ کر اپنی جگہ پر رکھ رہی تھیں ۔ وہ لوگ گو ہم سے دور تھے مگر میں لڑکیوں کو لے کر اور دور ہوگیا اور مجھے خیال آیا کہ چاند کی روشنی جہاں دلکشی کے سامان رکھتی ہے وہاں پردہ بھی اٹھا دیتی ہے اور میرا خیال اس طرف گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کبھی بندہ کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کردیتے ہیں اور دشمن انہیں دیکھ کر ہنستا ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہا

اے شعاعِ نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوا نہ کر

اس کے بعد میری نظر بندوں کی طرف اٹھ گئی اور میں نے سوچا کہ محبت جو ایک نہایت پاکیزہ جذبہ ہے اسے کس طرح بعض لوگ ضائع کردیتے ہیں اور اس کی بے پناہ طاقت کو محبوبِ حقیقی کی ملاقات کے لئے خرچ کرنے کی جگہ اپنے لئے وبالِ جان بنالیتے ہیں اور میں نے اپنے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

ہے محبت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز عشق کی عزت ہے واجب عشق سے کھیلا نہ کر

پھر میری نگاہ سمندی کی لہروں کی طرف اٹھی جو چاند کی روشنی میں پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی نظر آتی تھیں اور میری نظر سمندر کے اس پار ان لوگوں کی طرف اٹھی جو فرانس کے میدان میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہر روز اپنی جانیں دے رہے تھے اورمیں نے خیال کیا کہ ایک وہ بہادر ہیں جو اپنے ملکوں کی عزت کے لئے یہ قربانیاں کررہے ہیں ،ایک ہندوستانی ہیں جن کو اپنی تن آسانیوں سے ہی فرصت نہیں اور مجھے اپنی مستورات کا خیال آیا کہ وہ کس طرح قوم کا بے کار عضو بن رہی ہیں اور حقیقی کوشش اور سعی سے محروم ہوچکی ہیں ۔ کاش کہ ہمارے مردوں اور عورتوں میں بھی جوشِ عمل پیدا ہو اور نہیں یہ احساس ہو کہ آخر وہ بھی تو انسان ہیں جو سمندر کی لہروں پر کودتے پھرتے ہیں اور اپنی قوم کی ترقی کے لئے جانیں دے رہے ہیں جو میدانوں کو اپنے خون سے رنگ رہے ہیں اور ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارے مرجانے سے ہمارے پسماندگان کا کیا حال ہوگا اور میں نے کہا۔

ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پرواہ نہ کر

جب میں نے یہ شعر پڑھا میری لڑکی امۃ الرشید نے کہا ابا جان دیکھیں آپا دُودی کو کیا ہوگیا ہے ۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے ۔ اس نے کہا اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگ گیا ہے ۔ میں نے پوچھا دُودی تم کو کیا ہوا ہے اس نے جیسے بچیاں کہا کرتی ہیں کہا کچھ نہیں اور ہم سمندر کے پانی کے پاس سے ہٹ کر باقی ساتھیوں کے پاس آگئے اور وہاں سے گھر واپس چل پڑے ۔

امۃ الودود کی وفات کے بعد میں یہی شعر پڑھ رہا تھا کہ صدیقہ بیگم نے مجھے بتایا کہ امۃ الودود نے مجھ سے ذکر کیا کہ شاید چچا ابا نے یہ شعرمیرے متعلق کہا تھا تب میں نے مرحومہ کے کانپنے کی وجہ کو سمجھ لیا ۔ وہ امتحان دے چکی تھی اور تعلیم کا زمانہ ہونے کے بعد اس کے عمل کا زمانہ شروع ہوتا تھا ۔ اس کی نیک فطرت نے اس شعر سے سمجھ لیا کہ میں اسے کہہ رہا ہوں کہ اب تم کو عملی زندگی میں قدم رکھنا چاہیئے اور ہر طرح کے خطرات برداشت کرکے اسلام کے لئے کچھ کرکے دکھانا چاہیے۔ خدا کی قدرت عمل میں کامیابی کا منہ دیکھنا اس کے مقدر میں نہ تھا۔ موت میں زندگی اللہ تعالیٰ نے اسے دے دی وہ قادر ہے جس طرح چاہے اسے زندگی بخش دیتا ہے ۔

ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی جا لپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پروا نہ کر

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اُذکُرُوا مَوتٰکُم بالخَیر(ابوداؤد کتاب الادب باب فی النھی عن سَبِّ الموتیٰ میں یہ الفاظ آئے ہیں ۔"اُذْکُرُوْا مَحَاسِنِ مَوْتَاکُمْ وَ کُفُّوْا عَنْ مَسَاوِیْھِم" ) مُردوں کا نیک ذکر قائم رکھو اسی لئے میں نے اس واقعہ کا ذکر کردیا ہے کہ اس سے مرحومہ کی سعید طبیعت کا اظہار ہوتا ہے کس طرح اس نے اس شعر کا اپنے آپ کو مخاطب سمجھا حالانکہ بہت ہیں جو نصیحت کو سنتے ہیں اور اندھوں کی طرح اس پر سے گزر جاتے ہیں اور کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اس موقع پر ایک اور واقعہ مرحومہ کا مجھے یاد آگیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کس طرح نصیحت پر فوراً عمل کرنے کا احساس تھا اور میرے لفظوں پر وہ کس طرح کان رکھتی تھی ۔ میں نے سفر میں دیکھا کہ عزیز منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ جرمن ریڈیو کی خبریں شوق سے سنا کرتے تھے مجھ پر یہ اثر ہوا کہ شاید وہ ان خبروں کو زیادہ درست اور زیادہ سچا سمجھتے ہیں ۔ مجھے یہ بات کچھ بری معلوم ہوئی ۔ میری بیوی اور لڑکیاں ایک کمرہ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں وہاں آیا اور میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم مگر اس وقت تک جو ہمارا علم ہے وہ یہی ہے کہ انگریزوں کی کامیابی میں دنیا کی بھلائی ہے ۔ پس جب تک ہمارا علم یہ کہتا ہے ہمیں ان سے ہمدردی ہونی چاہیئے اور ان کی تکلیف سے تکلیف اور ان کی کامیابی سے خوشی ہوئی چاہیئے۔ پھر نہ معلوم ہمارے بچے کیوں خوشی سے جرمن خبروں کی طرف دوڑتے ہیں ۔ میں بات کر رہا تھا کہ امۃ الودود مرحومہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں مجھے حیرت ہوئی کہ بات کے درمیان میں یہ کیوں اٹھ گئیں اور مجھے خیال ہوا کہ شاید اپنے بھائی کے متعلق بات سن کر وہ برداشت نہیں کر سکیں ۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ واپس آئیں اور کہا کہ میں نے بھائی سے کہا ہے کہ جب ابا اس امر کو پسند نہیں کرتے تو آپ کیوں اس طرح خبریں سنتے ہیں ۔ بھائی نے جواب دیا کہ اگر وہ منع کریں تو میں کبھی یہ بات نہ کروں ۔ میں نے کہا بی بی منع کرنے کی کیا ضرورت ہے میرے خیال کا اظہار کیا کافی نہیں ؟ اس پر اس نے کہا کہ میں نے بھائی سے یہی کہا ہے کہ منع کرنے کا کیوں انتظار کرتے ہو ان کی مرضی معلوم ہونے پر وہی کرو جس طرح وہ کہتے ہیں (اس کے یہ معنی نہیں کہ عزیزم منصور احمد اطاعت میں کمزور ہے ایسے امور میں لڑکیاں لڑکوں سے طبعاً زیادہ زکی ہوتی ہیں ورنہ عزیز  کا معاملہ میری لڑکی سے ایسا عمدہ ہے کہ میرا دل اس سے نہایت خوش ہے اور کبھی بھی وہ میری لڑکی کے ذریعہ میرے لئے تکلیف کا باعث نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ میرا دل ان دونوں کے معاملہ پر مطمئن رہا ہے اور یہ کوئی معمولی نیکی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق سے ہی ایسے عمل کی توفیق ملتی ہے) میرے دل میں یہ سن کر اپنی اس بچی کی قدر کئی گنے بڑھ گئی کہ کس طرح اُس نے میری بات سن کر فوراً میرے منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کی اور بات ختم ہونے سے بھی پہلے اس پر عمل کروانے کے لئے دوڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں اس پر ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کی خوشی کے سامان ہمیشہ پیدا کرتا رہے۔

میرزا محمود احمد اخبار الفضل جلد 28 ۔6 جولائی 1940ء کلام محمود صفحہ166 104۔ یہ نور کے شعلے اٹھتے ہیں میرا ہی دل گرمانے کو یہ نور کے شعلے اٹھتے ہیں میرا ہی دل گرمانے کو جو بجلی افق پر چمکی ہے چمکی ہے مرے تڑپانے کو یا بزمِ طرب کے خواب نہ تُو دکھلا اپنے دیوانے کو یا جام کو حرکت دے لیلیٰ اور چکر دے پیمانے کو پھر عقل کا دامن چھٹتا ہے پھر وحشت جوش میں آتی ہے جب کہتے ہیں وہ دنیا سے چھیڑو نہ مرے دیوانے کو کچھ لوگ وہ ہیں جو ڈھونڈتے ہیں آرام کو ٹھنڈے سایوں میں پر ملتی ہے تسکینِ دل جلنے میں ترے پروانےکو یہ میری حیات کی الجھن تو ہرروز ہی بڑھتی جاتی ہے وہ نازک ہاتھ ہی چاہیے ہٰن اس گتھی کے سلجھانے کو عرفان کے رازوں سے جاہل تسلیم کی راہوں سے غافل جب آپ بھٹکتے پھرتے ہیں آئے ہیں مرے سمجھانے کو اخبار الفضل جلد 32 ۔ 30دسمبر 1944ء کلام محمود صفحہ167 105۔ اک دن جو آہ دل سے ہمارے نکل گئی اک دن جو آہ دل سے ہمارے نکل گئی غیرت کی اور عشق کی آپس میں چل گئی لے ہی چلی تھی خلد سےمیری خطا مجھے ان کی نگاہ ِمہر سے تقدیر ٹل گئی شاید کے پھر امید کی پیدا ہوئی جھلک نتھنوں سے آکے روح ہماری مچل گئی آ ئنیۂ خیال میں صورت دکھا گئے یوں گرتے گرتے میری طبیعت سنبھل گئی احوالِ عشق پوچھتے ہو مجھ سے کیا ندیم طبعِ بشر پھسلنے پہ آئی پھسل گئی محمود رازِ حسن کو ہم جانتے ہیں خوب صورت کسی کی نور کے سانچے میں ڈھل گئی اخبار الفضل جلد 28 ۔ 29اکتوبر 1940ء کلام محمود صفحہ168۔169 106۔ مری رات دن بس یہی اک صدا ہے مری رات دن بس یہی اک صدا ہے کہ اس عالمِ کون کا اک خدا ہے اسی نے ہے پیدا کیا اس جہاں کو ستاروں کو سورج کو اور آسماں کو وہ ہے ایک اس کا نہیں کوئی ہمسر وہ مالک ہے سب کا وہ حاکم ہے سب پر نہ ہے باپ اس کا نہ ہے کوئی بیٹا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا نہیں اس کو حاجت کوئی بیویوں کی ضروت نہیں اس کو کچھ ساتھیوں کی ہر اک چیز پر اس کو قدرت ہے حاصل ہر اک کام کی اس کو طاقت ہے حاصل پہاڑوں کو اس نے ہی اونچا کیا ہے سمند رکواس نے ہی پانی دیا ہے یہ دریا جوچاروں طرف بہہ رہے ہیں اسی نے تو قدرت سے پیدا کیے ہیں سمندرکی مچھلی ہوا کے پرندے گھریلوچرندے بنوں کے درندے سبھی کو وہی رزق پہنچا رہا ہے ہراک اپنےمطلب کی شے کھا رہا ہے ہر ایک شے کوروزی وہ دیتا ہے ہردم خزانے کبھی اس کے ہوتے نہیں کم وہ زندہ ہے اور زندگی بخشتا ہے وہ قائم ہے ہر ایک کا آسرا ہے کوئی شے نظر سے نہیں اس کے مخفی بڑی سے بڑی ہو کہ چھوٹی سے چھوٹی دلوں کی چھپی بات بھی جانتا ہے بدوں اور نیکوں کو پہچانتا ہے وہ دیتا ہے بندوں کو اپنے ہدایت دکھاتا ہے ہاتھوں پہ ان کے کرامت ہے فریاد مظلوم کی سننے والا صداقت کا کرتا ہے وہ بول بالا گناہوں کو بخشش سے ہے ڈھانپ دیتا غریبوں کو رحمت سے ہے تھام لیتا ہی رات دن اب تو میری صدا ہے یہ میرا خدا ہے یہ میرا خدا ہے اخبار الفضل جلد 29 ۔ یکم جنوری 1941ء کلام محمود صفحہ170 107۔ زخمِ دل جو ہو چکا تھا مدتوں سے مندمل زخمِ دل جو ہو چکا تھا مدتوں سے مندمل پھر ہرا ہونے کو ہےوہ پھر ہرا ہونے کو ہے پھر مرے سر میں لگے اٹھنے خیالاتِ جنوں فتنۂ محشر مرے دل میں بپا ہونے کو ہے پھر مری شامت کہیں لے جا رہی ہے کھینچ کر کیا کوئی پھر مائل ِجوروجفا ہونے کو ہے پھر کسی کی تیغِ ابرو اٹھ رہی ہے باربار پھر مرا گھر موردِکرب وبلا ہونے کو ہے پھر بہا جاتا ہےآنکھوں سے مری اک سیلِ اشک پھر مرے سینہ میں اک طوفاں بپا ہونے کو ہے پھر چھٹا جاتا ہے ہاتھوں سے مرے دامان ِصبر نالۂ آہ وفغاں کا باب وا ہونے کو ہے عمر گزرے گی مری کیا یونہی ان کی یاد میں کیا نہ رکھیں گے قدم وہ اس دل ناشاد میں اخبار الفضل جلد 30 ۔یکم جنوری 1942ء کلام محمود صفحہ171 108۔ ایمان مجھ کو دے دے عرفان مجھ کو دےدے ایمان مجھ کو دے دے عرفان مجھ کو دےدے قربان جاؤں تیرے قرآن مجھ کو دے دے دل پاک کر دے میرا دنیا کی چاہتوں سے سُبُّوحیّت سے حصہ سبحان مجھ کو دےدے دل جل رہا ہے میرافرقت سے تیری ہردم جامِ وصال اپنا اے جان مجھ کو دےدے کردے جو حق وباطل میں امتیازِ کام اے میرے پیارے ایسا فرقان مجھ کو دےدے ہم کو تری رفاقت حاصل رہے ہمیشہ ایسا نہ ہو کہ دھوکہ شیطا ن مجھ کو دےدے وہ دل مجھے عطا کرجو ہونثار ِجاناں جو ہوفدائے دلبر وہ جا ن مجھ کو دےدے دنیائے کفر و بدعت کو اس میں غرق کردوں طوفانِ نوحؑ سا اک طوفا ن مجھ کو دےدے جن پر پڑیں فرشتوں کی رشک سے نگاہیں اے میرے محسن ایسے انسا ن مجھ کو دےدے دھل جائیں دل بدی سے سینے ہوں نُورسےپُر امراض ِروح کا وہ دَرما ن مجھ کو دےدے دجال کی بڑائی کو خاک میں ملا دوں قوت مجھے عطا کر سلطا ن مجھ کو دےدے ہوجائیں جس سے ڈھیلی سب فلسفہ کی چُولیں میرے حکیم ایسا برہا ن مجھ کو دےدے اخبار الفضل جلد 32 ۔ 21مئی 1944ء کلام محمود صفحہ172 109۔ میری مریم میری مریم گھر سے میرے وہ گلعذار گیا دل کاسکھ چین اورقرارگیا مسکراتے ہوئے ہوا رخصت ساتھ اس کے میں اشکبار گیا باغ سونا ہوامرا جب سے شجرِسبز و باردار گیا اب تو ہم ہیں ،خزاں ہے،نالے ہیں بلبلو!موسم ِبہار گیا ہوگیا گُل دیا مرے گھر کا امن اور چین کا حصار گیا نغمہ ہائے چمن ہوئے خاموش کیاہوا،کس طرف ہزار گیا آہوئے عشق رہ گیا باقی عنبریں مُوومُشک بار گیا دُردہی دُرد رہ گئی اب عیشِ دنیا کا سب خمار گیا وہ گئے تھے تو خیر جانا تھا دل پہ کیوں میرااختیار گیا ہرطرف سے رہا مجھے گھاٹا دل گیا دل کا اعتبار گیا اے خدا اس کا چارہ کیا جس کا غم کے بڑھتے ہی غمگسار گیا سانس رکتے ہی اس کا اے محمود تیر اک دل کے آرپار گیا حضرت سیدہ مریم بیگم مرحومہ(اُمِّ طاہر) اخبار الفضل جلد32۔24مئی 1944ء کلام محمود صفحہ173 110۔ بحضور ربِّ ودود بحضور ربِّ ودود با دل ِ ریش وحالِ زار گیا اس کی درگہ میں باربارگیا دل ِاندوہگیں کولے کر ساتھ چاک دامان واشکبار گیا آہیں بھرتاہوا،ہوا حاضر سینہ کوبان وسوگوارگیا ساری عرضوں کا پر ملا یہ جواب ہم نے مانا تراقرارگیا پرتجھے کیا محلِ شکوہ ہے یارکے پاس اُس کا یار گیا اخبار الفضل جلد24مئی 1944ء کلام محمود صفحہ173 111۔ سیدہ مریم بیگم مرحومہ کی روح کو خطاب سیدہ مریم بیگم مرحومہ کی روح کو خطاب اے میری جاں ہم بندے ہیں اک آقا کے آزاد نہیں اورسچے بندے مالک کے ہر حکم پہ قرباں جاتے ہیں ہے حکم تمھیں گھر جانے کا اورہم کو ابھی ٹھہرنے کا تم ٹھنڈے ٹھنڈے گھر جاؤہم پیچھے پیچھے آتے ہیں اخبار الفضل جلد24مئی 1944ء کلام محمود صفحہ173 112۔ بحضور ربِّ غفور بحضور ربِّ غفور وہ میرے دل کو چٹکیوں میں مل مل کو یوں فرماتے ہیں کیا عاشق بھی معشوق کا شکوہ اپنی زباں پر لاتے ہیں میں ان کے پاؤں چھوتا ہوں اوردامن چوم کے کہتا ہوں دل آپ کا ہے جاں آپ کی ہے پھر آپ یہ کیا فرماتے ہیں اخبار الفضل جلد24مئی 1944ء کلام محمود صفحہ174 113۔ مرثیہ حضرت سیدہ اُمِّ طاہر مرثیہ حضرت سیدہ اُمِّ طاہر اَبْکِیْ عَلَیْک ِکُلَّ یَوْمٍ وَ لَیْلَۃٍ اَرْثِیْکِ یَا زَوْجِی بِقَلْبٍ دَامِی

میری بیوی میں تجھ پر ہردن رات روتا ہوں۔میں خون آلودہ دل سے تیرا مرثیہ کہتا ہوں۔

صِرْتُ کَصَیْدٍ صِیْدَ فِیْ الْقُبْحِ غَیْلَۃً قَدْ غَابَ عَنِّی مَقْصَدِیْ وَ مَرَامِی

میں اس شکارکی طرح ہو گیا ہوں جو صبح ہی اس کی غفلت کی وجہ سے پھانس لیاجاتا ہے۔میرا اصل مقصد میری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔

لَوْ لَمْ یَکُنْ تَائِیْدُ رَبِّیْ مُسَاعِدِی لَاَصْبَحْتُ مَیْتًا عُرْضَۃً لِسِھَامِی

اگر خدا تعالی ٰکی تائید میری مدد پر نہ ہوتی تو میں اپنے دل کے تیروں کا نشانہ بن کر مردہ کی طرح ہوجاتا۔

وَلٰکِنَّ فَضْلَ اللہِ جَآءَ لِنَجْدَتِیْ وَانْقَذَنِیْ مِنْ زَلَّۃِ الْاَقْدَامِ

مگر اللہ تعالیٰ کا فضل میری مدد کے لیے آگیااوراس نے مجھے قدموں کے پھسلنے سے محفوظ رکھا۔

یَا رَبِّ سَتِّرْنِیْ  بِجُنَّۃِ عَفْوِکَ کُنْ نَاصِرِیْ وَ مُصَاحِبِیْ وَ مُحَامِی

اے میرے رب!مجھے اپنی بخشش کی ڈھال سے ڈھانپ لے۔میرا ساتھی مددگار اور میرا محافظ بن جا۔

اَلْغَمُّ کَاالضِّرْغَامِ  یَأْکُلُ لَحْمَنَا لَا تَجْعَلْنِیْ لُقْمَۃَ الضِّرْغَامٖ

غم شیر کی طرح ہمارا گوشت کھا رہا ہے۔اے خد اتعالیٰ  مجھے اس شیر کا لقمہ نہ بننے دیجیو۔

یَا رَبِّ صَاحِبْھَا بِلُطْفِکَ دَائِمًا وَاجْعَلْ لَّہَا مَأْوٰی بِقَبْرٍسَامِيْ

اے میرے رب اس پر ہمیشہ لطف کرتے رہنااور اس کا ٹھکانہ ایک بلند شان قبر میں بنانا۔

یَا رَبِّ اَنْعِمْھَا بِقُرْبِ مُحَمَّدٍ ذِیْ الْمَجْدِ وَ الْاِحْسَانِ وَالْاِکْرَامٖ

اے میرے رب۔اس کو قرب محمد ؐکی نعمت عطا فرما جو بڑی بزرگی اور احسان کرنے والے ہیں،جن کو تونے عزت بخشی ہے۔

اَبْکِیْ عَلَیْک ِکُلَّ یَوْمٍ وَ لَیْلَۃٍ ساری جماعت کے لئے جامع دعا

اے میرے رب تو کتنا  پیارا ہے ۔ نہ معلوم میری موت کب آنےوالی ہے ۔ اس لئے میں آج ہی اپنی ساری اولاد اور اپنے سارے عزیز و اقارب اور ساری احمدیہ جماعت تیرے سپرد کرتا ہوں۔ اے میرے رب تو ان کا ہو جا اور یہ تیرے ہوجائیں ۔ میری آنکھیں اور میری روح ان کی تکلیف نہ دیکھیں ۔ یہ بڑھیں اور پھلیں اور پھُولیں اور تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کردیں ۔ اور نیک نسلیں چھوڑ کر جو ان سے کم دین کی خادم نہ ہوں تیرے پاس واپس آئیں ۔ خدایا صدیوں تک تو مجھے ان کا دکھ نہ دکھائیو اور میری رفوح کو ان کے لئے غمگین نہ کیجیو۔ اور اے میرے رب میری امۃ الحٔی اور میری سارہ اور میری مریم پر بھی اپنے فضل کر اور ان کا حافظ و ناصر ہوجا ۔ اور ان کی ارواح کو اگلے جہان کی ہر وحشت سے محفوظ رکھ ۔ اللھم آمین

آخری درد بھرا پیغام

اے مریم کی روح اگر خدا تعالیٰ تم تک میری آواز پہنچا دے ۔ تو لو یہ میرا   آخری درد بھرا پیغام سن لو ۔ اور جاؤ خداتعالیٰ کی رحمتوں میں جہاں غم کا نام کوئی نہیں جانتا ۔ جہاں درد  کا لفظ کسی کی زبان پر نہیں آتا۔ جہاں ہم ساکنانِ ارض کی یاد کسی کو نہیں ستاتی۔والسلام ۔ وآخر دعونا و دعوکم ان الحمد للہ رب العالمین

اس دنیا کی سب محبتیں عارضی ہیں اور صدمے بھی ۔ اصل محبت اللہ تعالےٰکی ہے ۔ اس میں ہو کر ہم اپنےمادی عزیزوں سے مل سکتے ہیں ۔ اور اس سے جدا ہو کر ہم سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں ۔ ہماری ناقص عقلیں جن امور کو اپنے لئے تکلیف کا موجب سمجھتی ہیں بسا اوقات ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان پوشیدہ ہوتا ہے پس میں تو یہی کہتا ہوں کہ میرا دل جھوٹا ہے اور میرا خدا سچا ہے ۔ والحمد للہ علیٰ کل حال خدا تعالیٰ کے فضل کا طالب

مرزا محمود احمد اخبار الفضل جلد 32 ۔ 12جولائی 1944ء کلام محمود صفحہ175 114۔ وہ یار کیا جو یار کو دل سے اتار دے وہ یار کیا جو یار کو دل سے اتار دے وہ دل ہی کیا جو خوف سے میدان ہار دے اک پاک صاف دل مجھے پروردگار دے اور اس میں عکس حسنِ ازل کا اتار دے وہ سیم تن جو خواب میں ہی مجھ کو پیار دے دل کیا ہے بندہ جان کی بازی بھی ہار دے افسردگی سے دل مرا مرجھا رہا ہےآج اے چشمۂ فیوض نئی اک بہار دے دنیا کا غم اِدھر ہےاُدھرآخرت کا غم یہ بوجھ میرے دل سے الٰہی اتاردے مسند کی آرزو نہیں بس جوتیوں کے پاس درگہ میں اپنی مجھ کو بھی اک بار،بَار دے گزری ہے ساری عمرگناہوں میں اے خدا کیا پیشکش حضور میں یہ شرمساردے وحشت سے پھٹ رہا ہے مراسرمرے خدا اس بے قرار دل کوذرا توقراردے  توبارگاہ حسن ہے میں ہوں گدائے حسن مانگوں کا باربار میں،تو بار بار دے دن بھی اسی کے راتیں بھی اس کی جوخوش نصیب آقا کے در پہ عمر کو اپنی گزار دے دل چاہتا ہے جان ہو اسلام پر نثار توفیق ا س کی اے مرے پروردگار دے میرے دل و دماغ پہ چھا جا او خوبرو اورماسوا کا خیال بھی دل سے اتار دے ممکن نہیں کہ چین ملے وصل کے سوا فرقت میں کوئی دل کو تسلی ہزار دے کیسے اٹھے وہ بوجھ جو لاکھوں پہ بار ہو جب غم دیا ہے ساتھ کوئی غمگسار دے ہے سب جہاں سے جنگ سہیڑی تیرے لیے اب یہ نہ ہو کہ تُوہمیں دل سے اتار دے تنگ آگیا ہوں نفس کے ہاتھوں سے میری جاں جلدآ اورآکے اس مرے دشمن کو مار دے بچھڑے ہوؤں کوجنت ِفردوس میں ملا جسرِصراط سے بہ سہولت گزار دے اخبار الفضل جلد 32 ۔ 27جولائی 1944ء کلام محمود صفحہ176 115۔ کبھی حضور میں اپنے جو بار دیتے ہیں کبھی حضور میں اپنے جو بار دیتے ہیں ہواوحرص کی دنیا کو مار دیتے ہیں وہ عاشقوں کے لیے بیقرار ہیں خود بھی وہ بے قراردلوں کو قرار دیتے ہیں کسی کا قرض نہیں رکھتے اپنے سر پر وہ جو ایک دے انہیں ،اس کو ہزار دیتے ہیں عطاء وبخشش و انعام کی کوئی حد ہے جسے بھی دیتے ہیں وہ بیشمار دیتے ہیں جوان کے واسطےادنیٰ سا کام کرتا ہے وہ دین ودنیا کو اس کی سدھار دیتے ہیں جودن میں آہ بھرے ان کی یاد میں اک بار وہ رات پہلو میں اس کے گذار دیتے ہیں بگاڑ لے کوئی ان کے لیے جودنیا سے وہ سات پشت کو اس کی سنوار دیتے ہیں وہ جیتنے پہ ہوں مائل توعاشقِ صادق خوشی سے جان کی بازی بھی ہار دیتے ہیں وہی فلک پہ چمکتے ہیں بن کے شمس وقمر جو در پہ یار کے عمریں گذار دیتے ہیں وہ ایک آہ سے بےتاب ہوکے آتے ہیں ہم اک نگاہ پہ سوجان ہار دیتے ہیں جو تیرے عشق میں دل کو لگے ہیں زخم اے جاں ادھر تو دیکھ وہ کیسی بہار دیتے ہیں اخبار الفضل جلد 32 ۔ 2اگست 1944ء کلام محمود صفحہ177 116۔ ذرہ ذرہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار کا ذرہ ذرہ میں نشاں ملتا ہے اس دلدار کا اس سے بڑھ کر کیا ذریعہ چاہیے اظہار کا فلسفی ہے فلسفہ سے رازِقدرت ڈھونڈتا عاشقِ صادق ہے جویاں یار کےدیدار کا عقل پر کیا طالب ِ دنیا کی ہیں پردے پڑے ہےعمارت پرفدامنکرمگرمعمار کا تیری رہ میں موت سے بڑھ کر نہیں عزت کوئی دار پر سے ہے گزرتا راہ تیرے دار کا غیر کیوں آگاہ ہورازِمحبت سے مرے دشمنوں کو کیا پتہ ہو میرے تیرے پیارکا ڈھونڈتا پھرتا ہے کوناکونامیں گھر گھر میں کیوں اس طرف آئیں میں پتہ دوں تجھ کو تیرے یار کا اے خدا کردے منور سینہ و دل کو مرے سرسے پا تک میں بنوں مخزن ترے انوار کا سیرکروادےمجھے تُوعالمِ لاہوت کی کھول دے تو باب مجھ پر روح کے اسرار کا قید وبندِحرص میں گردن پھنسائی آپ نے اس حماقت پر ہے دعویٰ فاعلِ مختار کا رشتہ ء الفت میں باندھے جارہے ہیں آج لوگ  توڑ بھی کیا فائدہ ہے اس ترے زُنّار کا فلسہ بھی،رازِقدرت بھی ،رموزِ عشق بھی کیا نرالاڈھنگ  ہے پیارے تری گفتار کا بن رہی ہے آسماں پر ایک پوشاکِ جدید تاناباناٹوٹنے والا ہےاب کفار کا ان کے ہاتھوں سے تو جامِ زہر بھی تریاق ہے وہ پلائیں گر تو پھر زَہرہ کسے انکار کا چھٹ گیا ہاتھوں سے میرے دامنِ صبر وشکیب چل گیا دل پر مرے جادو تری رفتار کا اخبار الفضل جلد 32 ۔3نومبر 1944ء کلام محمود صفحہ178 117۔ دستِ کوتاہ کو پھر درازی بخش دستِ کوتاہ کو پھر درازی بخش خاکساروں کو سرفرا زی بخش جیت لوں تیرے واسطے سب دل وہ اداہائے جاں نوا زی بخش پانی کردے علوم ِقرآں کو گاؤں گاؤں میں ایک رازی بخش روح فاقوں سے ہورہی ہے نڈھال ہم کو پھر نعمت ِ حجازی بخش بتِ مغرب ہے ناز پر مائل اپنے بندوں کو بے نیا زی بخش جھوٹ کو چاروں شانے چت کردیں مومنوں کو وہ راستبا زی بخش روحِ اقدام ودوربین نگاہ قلبِ شیر ونگاہِ با زی بخش پائے اقدس کو چوم لوں بڑھ کر مجھ کو تُو ایسی پاک با زی بخش سرگرانی میں عمر گزری ہے سروری بخش،سرفرا زی بخش کفر کی چیرہ دستیوں کو مٹا دستِ اسلام کودرا زی بخش سید الانبیاء ؐکی امت کو جوہوں غازی بھی وہ نما زی بخش ہوں جہاں گرد ہم میں وہ پیدا سند باد وپھر جہا زی بخش میرے محمود بن مرا محمود مجھ کو تُوسیرتِ ایا زی بخش اخبار الفضل جلد 32 ۔ 30دسمبر 1944ء کلام محمود صفحہ179 118۔ اے حسن کے جادو مجھے دیوانہ بنا دے اے حسن کے جادو مجھے دیوانہ بنا دے اے شمعِ رخ اپنا مجھے پروانہ بنا دے ہروقت مئےعشق یہاں سے رہے بٹتی ویرانۂ دل کومرے میخانہ بنا دے مجھ کو تری مخمور نگاہوں کی قسم ہے اک بار ادھردیکھ کےمستانہ بنا دے کردے مجھےاسرارِمحبت سے شناسا دیوانہ بنا کرمجھے فرزانہ بنا دے اُس الفت ِناقص کی تمنا نہیں مجھ کو جو دل کو مرے گوھر یکتا نہ بنادے لیں جائزۂِ عشق مرے عشق سے عاشق دل کو مرے عُشّاق کا پیمانہ بنا دے جو ختم نہ ہوایسا دکھاجلوۂ تاباں جو مر نہ سکےمجھ کو وہ پروانہ بنا دے دل میں مرے کوئی نہ بسے تیرے سوااور گرتُو نہیں بستااسے ویرانہ بنا دے ابلیس کا سرپاؤں  سے تو اپنے مسل دے ایسا نہ ہو پھر کعبہ کو بت خانہ بنا دے اخبار الفضل جلد 32 ۔ 30دسمبر 1944ء کلام محمود صفحہ180 119۔ کَمْ نَوَّرَ وَجْہَ النَّبِیِّ صَحَابُہٗ کَمْ نَوَّرَ وَجْہَ النَّبِیِّ صَحَابُہٗ کَالْفُلْکِ ضَآءَ سَطْحُھَا بِنُجُوْمِھَا آپؐ کے صحابہنے نبی کریم ؐ کا چہرہ کس قدر منور کردیا۔جیسے سطح سماوی اپنے ستاروں سے روشن ہوجاتی ہے۔ کَمْ تَنْفَعُ الثَّقَلَیْنِ تَعْلِیْمَاتُہٗ قَدْ خُصَّ دِیْنُ مُحَمَّدٍ بِعُمُوْمِھَا آپؐ کےعلوم جن وانس کو کس قدر نفع دے رہے ہیں۔یہ علوم سارے کے سارے  دین ِمحمدیؐ سے ہی خاص ہیں۔ ظَھَرَتْ ھِدَایَۃُ رَبِّنَا بِقُدُوْمِہٖ زَالَتْ ظَلَامُ الدَّھْرِ عِنْدَ قُدُوْمِھَا ہمارے رب کی ہدایت آپ ؐکے آنے سے ظاہر ہوئی۔ہدایت کے آنے سے زمانہ بھر کا اندھیرا دورہوگیا۔ جَآءَ بِتِرْیَاقٍ مُّزِیْلٍ سِقَامَنَا غَابَتْ غَوَایَتُنَا بِکُلِّ سُمُوْمِھَا ایسا تریاق لائے جو ہماری بیماریاں دور کرنے والا تھا۔ہماری گمراہی اپنے تمام زہروں سمیت چھپ گئی۔ نَزَلَتْ مَلٰئِکَۃُ السَّمَآءِ لِنَصْرِہٖ قَدْ فَاقَتِ الْاَرْضُ سمًی بِظُلُوْمِھَا آپؐ کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے اترے۔اپنی چمک دمک سے زمین آسمان پر فوقیت لے گئی۔ رَدَّ عَلَی الْاَرْضِ کَنُوْزًا صِحَابُہٗ فُتِنَ الْیَھُوْدُ بِبَقْلِھَا وَ بِفُوْمِھَا آپؐ کے صحابہ نے زمین کو اس کے خزانے واپس کردئیے۔مگر یہود اپنی ترکاریوں اور لہسن کے فتنہ  میں پڑگئے۔ رُفِعَتْ بُیُوْتُ الْمُؤْمِنِیْنَ رَفَاعَۃً خُسِفَ الْبِلَادُ بِفُرْسِھَا وَ بِرُوْمِھَا مرتبہ میں مومنوں کے گھر بلند ہوگئے ۔فارس اور روم کے شہروں کے شہر ذلیل ہوگئے۔ دَخَلَتْ صُفُوْفَ عِدًی بِغَیْرِ رَوَیَّۃٍ فَازَتْ جَمَاعَۃُ صَحْبِہٖ بِقُحُوْ مِھَا دشمنوں کی صفوں میں بے دھڑک جا گھسے۔آپؐ کے صحابہ کی جماعت باوجود کمزور ہونے کے کامیاب ہوگئی۔ مُنِحَ الْعُلُوْمَ صَغِیْرَھَا وَ کَبِیْرَھَا صَبَّتْ سَمَآءَ الْعِلْمِ مَآءَ غُیُوْمِھَا چھوٹے بڑے سب ہی کو علوم بخشے۔علم کے آسمان نے علم کے بادلوں کا پانی بہا دیا۔ فَاضَتْ ضَفُوْفُ الْکَوْثَرِ شَوْقًا لَّہٗ وَعَدَتْ اِلَیْہِ الْجَنَّۃُ بِکُرُوْمِھَا کوثر کے پانی بہہ پڑے ۔ان کے اشتیاق کی وجہ سے ،جنت دوڑی آپؐ کی طرف انگوروں کو لےکر۔ اخبار الفضل جلد 33۔ 4 جنوری 1945ء کلام محمود صفحہ181 120۔ تعریف کے قابل ہیں یارب تیرے دیوانے تعریف کے قابل ہیں یارب ترے دیوانے آباد ہوئے جن سے دنیا کے ہیں ویرانے کب پیٹ کے دھندوں سے مسلم کو بھلافرصت ہے دین کی کیا حالت یہ اس کی بلا جانے جو جاننے کی باتیں تھیں اُن کو بھلایا ہے جب پوچھیں سبب کیا ہے کہتے ہیں خدا جانے سرمستی سے خالی ہے دل عشق سے عاری ہے بیکار گئے ان کے سب ساغروپیمامنے خاموشی سی طاری ہے مجلس کی فضاؤں پر فانوس ہی اندھا ہے یا اندھے ہیں پروانے فرزانوں نے دنیا کے شہروں کو اجاڑا ہے آباد کریں گےاب دیوانے یہ ویرانے ہوتی نہ اگرروشن وہ شمعِ رخِ انور کیوں جمع یہاں ہوتے سب دنیا کے پروانے ہے ساعتِ سعد آئی اسلام کی جنگوں کی آغاز تو میں کردوں انجام خدا جانے اخبار الفضل جلد 34 ۔ 2جنوری 1946ء کلام محمود صفحہ182 121۔ معصیت و گناہ سے دل مرا داغ دار تھا معصیت و گناہ سے دل مرا داغدار تھا  پھر بھی کسی کے وصل کے شوق میں بیقرار تھا بے عمل وبے خطا شعار، بیکس و بےوقار تھا پر میری جان یہ تو سوچ کن میں مرا شمار تھا ہجر میں وصل کا مزا پالیا میں نے ہمنشیں لب پہ تو تھا نہیں ،مگر آنکھ میں اُن کی پیار تھا سوؤں تو تجھ کو دیکھ کر جاگوں تو تجھ پہ ہو نظر موت سے تھا کسےدریغ اس کا ہی انتظار تھا آہِ غریب کم نہیں غیظِ شہ جہاں سےکچھ جس سے ہوا جہاں تباہ دل کا مرے غبار تھا شکوہ کا کیا سوال ہےان کاعتاب بھی ہے بے مہر منہ سے میں دادخواہ تھادل میں مَیں شرمسار تھا دیر کے بعد وہ ملےاٹھ کے ملے کسے سکت دل میں خوشی کی لہر تھی آنکھ سے اشکبار تھا شکرِخد اگزر گئی نازونیاز میں ہی عمر مجھ کو بھی ان سے عشق تھا ان کو بھی مجھ سے پیار تھا اخبار الفضل جلد 34۔3جنوری1946ء کلام محمود صفحہ183 122۔ ہم نشیں تجھ کو ہے اک پرامن منزل کی تلاش ہمنشیں تجھ کو ہے اک پرامن منزل کی تلاش مجھ کو اک آتش فشاں پرولولہ د ل کی تلاش سعئ پیہم اور کنج ِعافیت کا جوڑ کیا مجھ کوہے منزل سے نفرت تجھ کو منزل کی تلاش ڈھونڈتی پھرتی تھی شمعِ نور کو محفل کبھی اب تو ہے خود شمع کودنیا میں محفل کی تلاش یا تو سرگردا ن تھادل جستجوئے یار میں یا ہے اس یارِ ازل کو خود مرے د ل کی تلاش میں وہ مجنوں ہوں کہ جس کے دل میں ہے گھر یار کا اورہوگا وہ کوئی جس کوہے مَحمَل کی تلاش گلشنِ عالم کی رونق ہے فقط انسان سے گل بنانے ہوں اگر تُونے توکرگِل کی تلاش اس رخِ روشن سے مٹ جاتی ہیں سب تاریکیاں عاشقِ سفلی کو ہے کیوں اس میں اک تل کی تلاش آسمانی میں ،عدو میرا زمینی ،اس لیے میں فلک پر اڑ رہا ہوں اس کو ہے بل کی تلاش اخبار الفضل جلد34۔27اپریل1946ء کلام محمود صفحہ184 123۔ اللہ کے پیاروں کو تم کیسے برا سمجھے اللہ کے پیاروں کو تم کیسے برا سمجھے خاک ایسی سمجھ پر ہے سمجھے بھی تو کیا سمجھے شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمدؐکو محمدؐسے تم کیسے جدا سمجھے دشمن کو بھی  جومومن کہتا نہیں وہ باتیں تم اپنے کرم فرماکے حق میں روا سمجھے جوچال چلے ٹیڑھی جو بات کہی الٹی بیماری اگر آئی تم اس کو شفا سمجھے لعنت کوپکڑ بیٹھے انعام سمجھ کرتم حق نے جو ردا بھیجی تم اس کوردٰی سمجھے کیوں قعر مذلت میں گرتےنہ چلے جاتے  تم بوم کے سائے کو جب ظلِ ہما سمجھے انصاف کی کیا اس سے امید کرے کوئی بےدادجو ظالمِ آئینِ وفا سمجھے غفلت تری اے مسلم کب تک چلی جائے گی یا فرض کو تُوسمجھے یا تجھ سے خدا سمجھے اخبار الفضل جلد34۔28دسمبر1946ء کلام محمود صفحہ185 124۔ دردِ نہاں کا حال کسی کو سنائیں کیا دردِ نہاں کا حال کسی کو سنائیں کیا طوفان اٹھ رہا ہے جو دل میں بتائیں کیا کچھ لوگ کھا رہے ہیں غمِ قوم صبح وشام کچھ صبح و شام سوچتے رہتے ہیں کھائیں کیا جس پیار کی نگہ سے ہمیں دیکھتا ہے وہ اس پیار کی نگاہ سے دیکھیں گی مائیں کیا جام ِشراب و سازِ طرب رقصِ پُرخروش دنیا میں دیکھتا ہوں میں یہ دائیں بائیں کیا دنیا ہے ایک زالِ عمرخوردہ و ضعیف اس زال زِشت رو سے بھلا دل لگائیں کیا دامن تہی ہے،فکر مشوش ،نگہ غلط آئیں توتیرے در پہ مگرساتھ لائیں کیا حرص وہواوکبروتغلب کی خواہشات چمٹی ہوئی ہیں دامنِ دل سے بلائیں کیا اپنا ہی سب قصور ہے اپنی ہی سب خطا الزام اُن پہ ظلم و جفا کا لگائیں کیا اخبار الفضل جلد 1۔28دسمبر1947ء کلام محمود صفحہ186۔187 125۔ یَارَازِقَ الثَّقَلَینِ اَینَ جَنَاکَ یَارَازِقَ الثَّقَلَینِ اَینَ جَنَاکَ جِئنَاکَ رَاجِینَ لِبَعضِ نَدَاکَ اے جنّ و انس کے رازق تیرا پھل کہاں ہے۔ہم تیری بخشش سے کچھ حصہ لینے کے امیدوار بن کر تیرے پاس آئےہیں۔ نَشْکُرُ اَمَامَ النَّاسِ غَصَّ جَفَاکَ وَالْحَقُّ لَیْسَ وَفَاءُنَا کَوَفَاکَ ہم لوگوں کے سامنے تیری جفا کا شکوہ توکرتے ہیں مگر یہ بات ہے کہ ہماری  وفا تیری وفا جیسی نہیں ہے۔ کُنْتَ تَنَحِّیْ عَنْہُ کُلَّ تَنْحِیّ یَا قَلْبِیَ الْمَجْرُوْحَ کَیْفَ رَمَاکَ اے میرے زخمی دل!تُو تو اس سے بہت کنارہ کش رہتا تھا۔اب جو تو اُس کی محبت کا شکار ہوگیا ہے تُو یہ تیر اس نے تجھ پر کیسے چلایا۔ لَمَّا یَئِسْتُ وَ قُلْتُ اَیْنَ نَجَاتِیْ قَالَتْ عِنَایَتُہٗ ھِنَاکَ ھِنَاکَ جب میں مایوس ہوگیااور کہا کہ میری نجات کہاں گئی؟تو اللہ تعالےٰ کی عنایت نے کہایہاں یہاں میرے پاس۔ یَا ھَادِیَ الْاَرْوَاحِ کَاشِفَ ھَمِّھَا جِئْنَا بِبَابِکَ طَالِبِیْنَ ھُدَاکَ اے روحوں کے ہادی اور اُن کے غم کو دور کرنے والے ۔ہم تیری رہنمائی کے طلب گار بن کر تیرے پاس آئے ہیں۔ یَا اَیُّھَا الْمَنَّانُ مُنُّ بِرَحْمَۃٍ وَارْزُقْ قُلُوْبَ عِبَادِکَ تَقوٰکَ اے منّان  اپنی رحمت اور اپنے فضل سے احسان کر اور اپنے بندوں کے دلوں کو تقوٰی عطا کر۔ اَحْیَیْتَ نَفْسِیْ بِابْتِسَامٍ وَ نَظْرَۃٍ غَطَّتْ وُجُوْدِیْ کُلَّہٗ نَعْمَاکَ تُو نے ایک مسکراہٹ اور نظرِ محبت کے ساتھ مجھے زندہ کر دیااور تیری نعمتوں نے میرے سراپا کو ڈھانک لیا۔ مَنْ یُّخْجِلُ الْوَرْدَ الطَّرِیَّ بِلَوْنِہٖ عَیْنَايَ دَامِیَتَانِ اَوْ خَدَّاکَ اپنے سرخ رنگ سے تروتازہ گلِ گلاب کو کون شرما رہا ہے،میری دونوں خونبار آنکھیں یا تیرے سرخ رخسار۔ مِنْکَ السُّکُوْنُ وَ کُلَّ رَوْحٍ وَ رَوَاحَۃٍ مَنْ ذَالَّذِیْ لَا یَبْتَغِیْ لُقْیَاکَ سکون اور ہر قسم کا آرام اور راحت تجھی سے (ملتا)ہے(توپھر)وہ کون ہے جو تیرے دیدار کا طالب نہ ہو۔ یَا مَنْ تَخَافُ عَدُوَّکَ مُتَزَحْزِھًا عِنْدَ الْمَلِیْکِ الْمُقْتَدِرِ مَثْوَاکَ اے وہ شخص جو دشمن سے گھبراتا اور ڈرتا ہے۔تجھے ڈرنے کی کیا وجہ ہے،تو خدائے ملیک و مقتدر کے پاس بیٹھا ہے۔ عَطِشَتْ قُلُوْبُ الْعَاشِقِیْنَ لِرَاحِکَ فَأَدْرِ کُؤُسَکَ وَاسْقِ مِنْ سُقْیَاکَ عاشقوں کے دل تیری شراب کے لیے تڑپ رہے ہیں۔پس تو ان کی مجلس میں اپنے پیالوں کا دور چلا اور شراب ِمحبت کی تقسیم سے ان کو حصہ دے۔ اخبار الفضل جلد 2 ۔ 5جنوری 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ188۔189 126۔ شاخ طوبیٰ پہ آشیانہ بنا شاخ طوبیٰ پہ آشیانہ بنا تا ابد جو رہے فسانہ بنا عرش بھی جس سے مرتعش ہوجائے سوزش دل سے وہ ترانہ بنا فلسفی! زندگی سے کیا پایا؟ حیف ہے گر ترا خدا نہ بنا لذت وصل ہی میں سب کچھ ہے اس سے ملنے کا کچھ بہانہ بنا چھوڑنا ہے جو نقش عالم پر! کس کمر عزم ِمُقبلانہ بنا وہ تو بے پردہ ہوگئے تھے مگر حیف یہ دل ہی آئنہ نہ بنا دل کو لے کر میں کیا کروں پیارے تو اگر میرا دلربا نہ بنا خاک کردے ملادے مٹی میں پر مرے دل کو بے وفا نہ بنا گر کے قدموں پہ ہوگیا میں ڈھیر وقت پر خوب ہی بہانہ بنا چال عشاق کی چلوں میں بھی تو بھی انداز دلبرانہ بنا نعمت وصل بے سوال ہی دے اپنے عاشق کو بے حیا نہ بنا جو بھی دینا ہے آپ ہی دیدے مجھ کو اغیار کاگدا نہ بنا تجھ سے مل کر نہ غیر کو دیکھوں غیر کا مجھ کو مبتلانہ بنا جس کے نیچے ہوں سب جمع عشاق اپنی رحمت کا شامیانہ بنا بخششِ حق نے پالیا مجھ کو کیا ہوا میں اگر بھلا نہ بنا مجھ سے لاکھوں ہیں تیری دنیا میں تجھ سا پر کوئی دوسرا نہ بنا تیری صنعت پہ حرف آتا ہے توڑدے پر مجھے برا نہ بنا دل و دلبر میں چھیڑ جاری ہے ہے یہ اک طرفہ شاخسانہ بنا دیکھ کر آدمی میں دانہ کی حرص آج ابلیس خود ہے دانہ بنا اخبار الفضل جلد 2۔23اپریل 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ190 127۔ بٹھا نہ مسند پہ پاس  اپنے نہ دے جگہ اپنی انجمن میں بٹھا نہ مسند پہ پاس  اپنے نہ دے جگہ اپنی انجمن میں یہ میرا دل تو مرا ہی دل ہے اسے تو رہنے دو میرے تن میں نہ ہو میسر جو حریت تو ہے بے وطن آدمی بے وطن میں قفس قفس ہی رہیگا پھر بھی ہزار رکھو اسے چمن میں جو دل سلامت رہے تو عالم کا ذرہ ذرہ ہے مسکراتا ہزار انجم نظر میں آتے ہزار پیوند پیرہن میں جسے نوازے خدا کی رحمت اسی میں سب خوبیاں ہوں پیدا غزال لاکھوں ہیں اور بھی تو ہے بات کیا آہوئے خُتَن میں ہوا جو مکہ میں نور پیدا اسی کو مکہ نے دور پھینکا کبھی ملی ہے نبی کو عزت بتا تو اے معترض وطن میں ہیں رنگ رلیاں منا رہے لوگ ساغر مے چھلک رہے ہیں وہ لطف انکو کہاں میسر ملا جو مجھ کو تری لگن میں تری محبت ہے میرے دل میں مری محبت ہے تیرے دل میں زبان میری ترے تصرف میں بات تیری مرے دہن میں مقابلہ دینِ  مصطفیؐ کا یہ دیگر ادیان کیا کریں گے ہیں مردہ نبیوں کے مردہ مذہب لپیٹ رکھوں انہیں کفن میں نظر بظاہر ہے عاشقوں اور مالداروں کا حال یکساں وہ مست رہتے ہیں اپنی دھن میں  یہ مست رہتے ہیں اپنے دھن میں ہزاروں کلیاں چٹک رہی ہیں ہزاروں غنچے مہک رہے ہیں نسیم رحمت کی چل رہی ہے چمن چمن میں چمن چمن میں اخبار الفضل جلد 2 ۔ 28اپریل 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ191 128۔ نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسا فسوں ساقی یہ غزل جو درحقیقیت پندرہ سولہ سال پہلے لکھی گئی تھی مگر کہیں گم ہو گئی۔ اب یاد سے کام لے کر کچھ نئے شعر کہہ کر مکمل ہوئی ہے۔       (مرزا محمود احمد) نگاہوں نے تری مجھ پر کیا ایسا فسوں ساقی کہ دل میں جوش وحشت ہے تو سر میں ہے جنوں ساقی جیوں  تو تیری خوشنودی کی خاطر ہی جیوں ساقی مروں تو تیرے دروازے کے آگے ہی مروں ساقی پلائے تو اگر مجھ کو تو میں اتنی پیوں ساقی رہوں تا حشر قدموں پر ترے میں سر نگوں ساقی تری دنیا میں فرزا نے بہت سے پائے جاتے ہیں مجھے تو بخش دے اپنی محبت کا جنوں ساقی سوا اک تیرے میخانے کے سب مے خانے خالی ہیں پلائے گر نہ تو مجھ کو تو پھر میں کیا کروں ساقی تجھے معلوم ہے کہ جو کچھ مرے دل کی تمنا ہے مرا ہر ذرہ گویا ہے زباں سے کیا کہوں ساقی وہ کیا صورت ہے جس سے میں نگاہ ِلطف کو پاؤں چھوؤں دامن کو تیرے یاترے پاؤں پڑوں ساقی مجھے قیدِ محبت لاکھ آزادی سے اچھی ہے کچھ ایسا کر کہ پابند سلاسل ہی رہوں ساقی ترے در کی گدائی سے بڑا ہے کونسا درجہ مجھے گر بادشاہت بھی ملے تو میں نہ لوں ساقی فدا ہوتے ہیں پروانے اگر شمع ِمنور پر تو تیرے روئے روشن پر نہ میں کیوں جان دوں ساقی نہ صورت امن کی مسجد میں پیدا ہے نہ مندر میں زمانہ میں یہ کیسا ہو رہا ہے کشت و خوں ساقی شھیدان محبت سے ہی میخانے کی رونق ہے چھلکتا ہے  ترے پیمانہ میں ان کا ہی خون ساقی اخبار الفضل جلد 2 ۔ 5مئی 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ192-193 129۔ مرادیں لوٹ لیں دیوانگی نے مرادیں لوٹ لیں دیوانگی نے نہ دیکھی کامیابی آگہی نے مری جانب یونہی دیکھا کسی نے نظر آنے لگے ہرجا دفینے مزاجِ یار کو برہم کیا ہے مری الفت ،مری دلبستگی نے زمین وآسماں کی بادشاہت عطا کی مجھ کو تیری بندگی نے جدائی کا خیال آیا جو دل میں لگے آنے پسینوں پر پسینے کنارہ آہی جائے گا کبھی تو چلائے جارہےہیں ہم سفینے اسی کےدرپہ اب دھونی رمادوں کیا ہےفیصلہ یہ میرے جی نے جو میرا تھا اب اس کا ہوگیا ہے مرے دل سے کِیا یہ کیا کسی نے جدائی میں تری تڑپا ہوں برسوں یونہی گزرے ہیں ہفتے اور مہینے وہ مہ رخ آگیا خود پاس میرے لگائے چاند مجھ کو بے بسی نے وہ آنکھیں  جو ہوئیں الفت میں بے نور بنیں وہ اُس کی الفت کے نگینے اُسی کا فضل ڈھانپے گا مرا ستر نہ کام آئیں گے پشمینے مرینے پرستاران زر یہ تو بتاؤ غریبوں کو بھی پوچھا ہے کسی نے؟ کنوئیں جھانکا کیا ہوں عمر بھر میں ڈبویا مجھ کو دل کی دوستی نے انھیں ٹوٹا ہی سمجھو ہر گھڑی تم وہ دل جو بن رہے ہیں آبگینے خدا را اس کو رہنے دیں سلامت یہ دل مجھ کو دیا تھا آپ ہی نے علامت کفر کی ہے تنگئی نفس مگر اسلام سے کھلتے ہیں سینے وہی ہیں غوطہ خور بحر ہستی دُرَر سے ہیں بھرے جن کے سفینے مہاجر بننے والو یہ بھی سوچا کہ پیچھے چھوڑے جاتے  ہو مدینے اخبار الفضل جلد 2 ۔ 12مئی  1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ194 130۔ عشق و وفا کی راہ دکھایا کرے کوئی عشق و وفا کی راہ دکھایا کرے کوئی رازِ وصال ِیار بتایا کرے کوئی آنکھوں میں نور بن کے سمایا کرے کوئی میرے دل و دماغ پہ چھایا کرے کوئی سالوں تک اپنا منہ نہ دکھایا کرے کوئی یوں تو نہ اپنے دل سے بھلایا کرے کوئی دنیا کو کیا غرض کہ سنے داستانِ عشق یہ قصہ اپنے دل کوسنایاکرے کوئی میں اس کے ناز روز اٹھاتا ہوں جان پر میرے کبھی تو ناز اٹھا یا کرے کوئی چہرہ مرے حبیب کا ہے مہر ِنیم روز اس آفتاب کو نہ چھپایا کرے کوئی ہے دعوتِ نظر تری طرزِحجاب میں ڈھونڈاکرے کوئی تجھے پایا کرے کوئی محفل میں قصے عشق کے ہوتے ہیں صبح و شام حُسن اپنی بات بھی تو سنایا کرے کوئی پیدائشِ جہاں کی غرض بس یہی تو ہے بگڑا کرے کوئی تو بنایا کرے کوئی اخبار الفضل جلد 2 ۔ 23مئی 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ195 131۔ مردوں کی طرح باہر نکلو اور نازوادا کو جانےدو

اترسوں خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص ہے اور وہ میری ایک نظم خوش الحانی سے بلند آواز میں پڑھ رہا ہے۔آنکھ کھلی تو شعر تو کوئی یاد نہ رہا مگر وزن اورقافیہ ردیف خوب اچھی طرح یادرہے۔اسی وقت ایک مصرع بنایا کہ وزن ردیف یاد رہ جائیں۔صبح اس پر غزل کہی جو چھپنے کے لیےارسال ہے۔  (مرزا محمود احمد)

مردوں کی طرح باہر نکلو اور نازوادا کو جانےدو سل رکھ لو اپنے سینوں پر اور آہ وبکا کو رہنے دو اب تیر نظر کو پھینک کے تم اک خنجر ِ آہن ہاتھ میں لو یہ فولادی پنجوں کے ہیں دن اب دستِ حنا کو رہنے دو کیا جنگوں سے مومن کو ہےڈروہ موت سے کھیلا کرتا ہے تم اس کے سر کرنے کے لیے میدانِ وغا کو رہنے دو ایام ِطرب میں ساتھ رہےجب غم آیا تو بھاگ اٹھے ہے دیکھی ہوئی اپنی یہ وفا تم اپنی وفا کو رہنے دو مسلم جو خدا کا بندہ تھا افسوس کہ اب یوں کہتا ہے اسباب کرو کوئی پیدا جبریل وخدا کو رہنے دو خود کام کو چوپٹ کرکے تم اللہ کے سر منڈھ دیتے ہو تم اپنے کاموں کو دیکھو اور اس کی قضاء کو رہنے دو جو اس کے پیچھے چلتے ہیں ہرقسم کی عزت پاتے ہیں لگ جاؤ اسی کی طاعت میں چون وچراکو رہنے دو وہ اس کی تیکھی چَتون میں جنت کا نظارہ دیکھتا ہے اس جوروجفا کے واسطے تم پابندِوفا کو رہنے دو اخبار الفضل جلد 2 ۔ 3جون 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ196 132۔ ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے مری نگاہ تو بس جا کے تجھ پہ پڑتی ہے بدل کے بھیس معالج کا خودوہ آتے ہیں زمانہ کی جو طبیعت کبھی بگڑتی ہے زبان میری تو رہتی ہے ان کے آگے گنگ نگاہ میری نگاہوں سے ان کی لڑتی ہے الجھ الجھ کے میں گرتا ہوں دامن تر سے مری امیدوں کی بستی یونہی اجڑتی ہے منٹ منٹ پہ مرا امتحان لیتے ہیں قدم قدم پہ مصیبت یہ آن پڑتی ہے اخبار الفضل جلد 2 ۔ 6جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ197 133۔ ذکر خدا پہ زور دے ظلمتِ دل مٹائے جا ذکر خدا پہ زور دے ظلمتِ دل مٹائے جا گوہر ِشب چراغ بن دنیا میں جگمگائے جا دوستوں دشمنوں میں فرق دابِ سلوک یہ نہیں آپ بھی جامِ مے اڑا غیر کو بھی پلائے جا خالی امید ہے فضول  سعئِ عمل بھی چاہیے ہاتھ بھی تو ہلائے جا ،آس کو بھی بڑھائے جا جو لگے تیرے ہاتھ سے زخم نہیں علاج ہے میرا نہ کچھ خیال کر زخم یونہی لگائے جا مانے نہ مانے اس سے کیا بات تو ہوگی دو گھڑی قصۂ دل طویل کر بات کو تو بڑھائے جا کشورِدل کو چھوڑ کر جائیں گے وہ بھلا کہاں؟ آئیں گے وہ یہاں ضرور تو انہیں بس بلائے جا منزلِ عشق ہے کٹھن راہ میں راہزن بھی ہیں پیچھے نہ مڑ کے دیکھ تُوآگے قدم بڑھائے جا عشق کی سوزشیں بڑھا جنگ کے شعلوں کو دبا پانی بھی سب طرف چھڑک آگ بھی تو لگائے جا اخبار الفضل جلد 2 ۔ 9جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ198 134۔ مسحور کردیامجھے دیوانہ کر دیا مسحور کردیامجھے دیوانہ کر دیا تیری نگاہ ِلطف نے کیا کیا نہ کردیا جادوبھرا ہوا ہے وہ آنکھوں میں آپ کی اچھے بھلے کو دیکھ کے دیوانہ کردیا سوزِدروں نے جوش  جوماراتودیکھنا خودشمع بن گئے مجھے پروانہ کردیا آنکھوں میں گھس کے وہ مرے دل میں سماگئے مسجد کو اک نگاہ میں بت خانہ کردیا خم کی طرف نگاہ کی ساقی نے جب کبھی میں نے بھی اس کے سامنے پیمانہ کردیا ہیں ناخدائے قوم بنے صاحبانِ عقل ہے اس خیال نے مجھے دیوانہ کردیا ہر جلوۂ جدید نے تختہ الٹ دیا خود مجھ کو اپنے آپ سے بیگانہ کر دیا میری شکایتوں کو ہنسی میں اڑا دیا لایا تھا جو میں سنگ اسے دانہ کردیا کہتے ہیں میرے ساتھ رقیبوں کوبھی تو چاہ لواور مجھ غریب پہ جرمانہ کردیا ناصح وہ اعتراض ترےکیا ہوئے بتا یکتا کے پیار نے مجھے یکتا نہ کردیا؟ اخبار الفضل جلد 2 ۔ 13جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ199 135۔ ہوچکا ہے ختم اب چکر تری تقدیر کا ہوچکا ہے ختم اب چکر تری تقدیر کا سونے والے اٹھ کہ وقت آیا ہے اب تدبیر کا شکوۂ جور ِفلک کب تک رہے گا برزباں دیکھ تو اب دوسرا رخ بھی ذرا تصویر کا کاغذی جامہ کو پھینک اور آہنی زرہیں پہن وقت اب جاتا رہا ہے شوخئ تحر یر کا نیزۂ دشمن ترے سینہ میں پیوستہ نہ ہو اس کے دل کے پار ہو سوفار تیرے تیر کا اپنی خوش اخلاقیوں سے موہ لے دشمن کا دل دلبری کر،چھوڑ سودا نالۂ دلگیر کا مدتوں کھیلا کیا ہے لعل وگہر سے عدو اب دکھا دے توذر اجوہر اسے شمشیر کا پیٹ کے دھندوں کو چھوڑ اور قوم کے فکروں میں پڑ ہاتھ میں شمشیر لے عاشق نہ بن کف گیر کا ملک کے چھوٹے بڑے کووعظ کر پھر وعظ کر وعظ کرتا جا ،نہ کچھ بھی فکر کر تاثیر کا کل کے کاموں کوبھی جو ممکن ہو اگر تو آج کر اے مری جاں وقت یہ ہر گز نہیں تاخیر کا ہوچکی مشقِ ستم اپنوں کے سینوں پر بہت اب ہو دشمن کی طرف رخ خنجروشمشیر کا اے مرے فرہاد رکھ کاٹ کر کوہ وجبل تیرا فرضِ اولیں لانا ہے جوئے شیر کا ہورہا ہے کیا جہاں میں کھول کر آنکھیں تو دیکھ وقت آپہنچا ہے تیرے خواب کی تعبیر کا اخبار الفضل جلد 2 ۔ 14جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ200 136۔  چھوڑ کر چل دئے میدان کو دوماتوں سے چھوڑ کر چل دئے میدان کو دوماتوں سے مردبھی چھوڑ تے ہیں دل کبھی ان باتوں سے میں دل و جاں بخوشی ان کی نذر کر دیتا ماننے والے اگر ہوتے وہ سوغا توں سے دن ہی چڑھتا نہیں قسمت کا مری اے افسوس منتظر ہوں تری آمد کا کئی راتوں سے رنگ آجاتا ہے الفت کا نگاہوں میں تری ورنہ کیا کام ترے رندوں کا برسا توں سے میرا مقدور کہاں شکوہ کروں ان کے حضور مجھ کوفرصت ہی کہاں ان کی مناجا توں سے کامیابی کی تمنا ہے تو کر کوہ کنی یہ پری شیشے میں اتری ہے کہیں با توں سے بار مل جاتا ہے مجلس میں کسی کی دوپہر دن ہوئے جاتے ہیں روشن مرے اب راتوں سے ناز سے غمزہ سے عشوہ سےفسوں سازی سے لے گئے دل کو اڑاکرمرے کن گھا توں سے کبھی گریہ کبھی آہ وفغاں ہے اے دل تنگ آیا ہوں بہت میں تری باتوں سے تومری جاں کی غذاہےمرے دل کی راحت پیٹ بھرتا ہی نہیں تیری ملاقاتوں سے اخبار الفضل جلد 2 ۔ 25جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ201 137۔ آنکھوں میں وہ ہماری رہے ابتدا یہ ہے آنکھوں میں وہ ہماری رہے ابتدا یہ ہے ہم اس کے دل میں بسنے لگیں انتہا یہ ہے روزہ نماز میں کبھی کٹتی تھی زندگی اب تم خدا کو بھول گئے،انتہا یہ ہے لاکھوں خطائیں کرکے جو جھکتا ہوں اُس طرف پھیلا کے ہاتھ ملتے ہیں مجھ سے وفا یہ ہے راتوں کو آکے دیتا ہے مجھ کو تسلیاں مردہ خدا کو کیا کروں میرا خدا یہ ہے کیا حرج ہے جوہم کوپہنچ جائے کوئی شر پہنچے کسی کو ہم سے اگرشر برا یہ ہے اس کی وفا ومہر میں کوئی کمی نہیں تم اس کو چھوڑ بیٹھے ہو ظلم وجفا یہ ہے مارے جلائے کچھ بھی کرےمجھ کو اس سے کیا مجلس میں اس کے پاس رہوں مدعا یہ ہے بوئے چمن اڑائے پھرےجو،وہ کیا صبا لائی ہے بوئے دوست اڑا کر صبا یہ ہے اخبار الفضل جلد 2 ۔ 28جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ202 138۔ عاشق تو وہ ہے جوکہ کہے اور سنے تری عاشق تو وہ ہے جوکہ کہے اور سنے تری دنیا سے آنکھ پھیر کے مرضی کرے تری جو کام تجھ سے لینا تھا وہ کام لے چکے پرواہ رہ گئی ہے یہاں اب کسے تری امیدِکامیابی وشغلِ سرودورقص یہ بیل چڑھ سکے گی نہ ہرگزمنڈھے تری ہو روحِ عشق تیری مرے دل میں جاگزیں تصویر میری آنکھ میں آکر بسے تری مٹ جائے میرا نام تو اس میں حرج نہیں قائم جہاں میں عزت و شوکت رہے تری میداں میں شیرِنرکی طرح لڑ کے جان دے گردن کبھی نہ غیر کے آگے جھکے تری دل مانگ ،جان مانگ کسے عذر ہے یہاں منظور ہے ہمیشہ سے خاطر مجھے تری نکلے گی وصل کی کوئی صورت کبھی ضرور چاہت تجھے مری ہے تو چاہت مجھے تری یکتا ہےتُو،تو میں بھی ہوں اک منفرد وجود میرے سوا ہے آج محبت کسے تری اخبار الفضل جلد 2 ۔ 31جولائی  1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ203 139۔ وہ گلِ رعنا کبھی دل میں جو مہماں ہوگیا وہ گلِ رعنا کبھی دل میں جو مہماں ہوگیا گوشہ گوشہ خانۂ دل کا گلستاں ہو گیا محسنِ بد بیں کی صحبت حق کی خاطر چھوڑ دی کافرِنعمت بنا لیکن مسلماں ہو گیا دل کو ہے وہ قوت وطاقت عطا کی ضبط نے نالہ جو دل سے اٹھا میرے وہ طوفاں ہوگیا کم نہیں کچھ کیمیا سے سوزِالفت کا اثر اشک ِ خوں جو بھی بہا لعلِ بدخشاں ہوگیا آپ ہی وہ آگئے بیتاب ہوکر میرے پاس دردجب دل کا بڑھا تو خود ہی درماں ہوگیا سامنے آنے سے میرے جس کو ہوتا تھا گریز دل میں میرے آچھپا غیروں سے پنہا ں ہوگیا میں دکھانا چاہتا تھا ان کو حالِ دل ،مگر وہ ہوئے ظاہر تو دل کادردپنہاں ہوگیا پہلے تو دل نے دکھائی خودسری بے انتہا رفتہ رفتہ پھر یہ سرکش بھی مسلماں ہوگیا عشق کی سوزش نےآخر کر دیا دونوں کو ایک وہ بھی حیراں رہ گیا اور میں بھی حیراں ہوگیا اس دلِ نازک کے صدقے جو مری لغزش کے وقت دیکھ کر میری پریشانی پریشاں ہوگیا اک مکمل گلستاں ہے وہ مرا غنچہ دہن جب ہوا وہ خندہ زن میں گل بداماں ہو گیا آگیا غیرت میں فورًا ہی مرا عیسٰی نفس مرتے ہی پھر زندگی کا میری ساماں ہوگیا میں بڑھا اک گز تو وہ سو گز بڑھے میری طرف کام مشکل تھا مگر اس طرح آساں ہوگیا حیف اس پر جس کو ردی جان کر پھینکا گیا ورنہ ہرہرگل چمن کا نذرِجاناں ہوگیا اخبار الفضل جلد 2 ۔ 11اگست  1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ204 140۔ وہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا وہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا یہ انقلاب کوئی کم تو انقلاب نہ تھا مرے ہی پاؤں اٹھائے نہ اٹھ سکے افسوس انھیں تو سامنے آنے میں کچھ حجاب نہ تھا تھا یادگار تری کیوں ہٹا دی ا س نے مرا یہ دردِمحبت کوئی عذاب نہ تھا جو دل پہ ہجر میں گذری بتاؤں کیا پیارے عذاب تھا وہ مرے دل کاضطراب نہ تھا ہوئے نہ انجمن آرا ء اگر تو کیا کرتے کہ ان کے حسن کا کوئی بھی تو جواب نہ تھا بلا رہے تھے اشاروں سے باربارمجھے مراد میں ہی تھا مجھ سے مگر خطاب نہ تھا وفورِحسن سے آنکھیں جہاں کی خیرہ تھیں نظر نہ آتے تھے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا عطائیں ان کی بھی بے انتہا تھیں مجھ پہ مگر مطالبوں کا مرے بھی کوئی حساب نہ تھا جھڑک دیا جو فضاؤں پہ عفو کا پانی وہ کونسا تھا بدن جو کہ آب آب نہ تھا بس ایک ٹھیس سے ہی پھٹ کے رہ گیا اے شیخ یہ کیا ہوا ترادل تھا کوئی حباب نہ تھا ضیاء ِمہر ہے ادنیٰ سی اک جھلک اس کی نہ جس کو میں دیکھ سکا میں وہ آفتاب نہ تھا جو پورا کرتے اسے آپ کیا خرابی تھی مرا خیال کوئی بوالہوس کا خواب نہ تھا اخبار الفضل جلد 2 ۔ 13نومبر 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ205 141۔ دل دے کہ ہم نے ان کی محبت کو پالیا دل دے کہ ہم نے ان کی محبت کو پالیا بے کار چیز دے کے دُرِبے بہا لیا میں مانگنے گیا تھا کوئی ان کی یادگار لیکن وہاں انھوں نے مرا دل اڑا لیا کہتے ہیں لوگ کھاتے ہیں ہم صبح و شام غم ہم ان سے کیا کہیں کہ ہمیں غم نے کھا لیا گر کرگڑھے میں عرش کے پائے کو جا چھوا کھوئے گئے جہاں سے مگر ان کو پا لیا نکلا تھا میں کہ بوجھ اٹھاوں گا ان کا میں لیکن انھوں نے گود میں مجھ کواٹھا لیا بھاگا تھا ان کو چھوڑ کے یونس ؑ کی طرح میں لیکن انھوں نے بھاگ کے پیچھے سے آلیا ہنستے ہی ہنستے روٹھ گئے تھے وہ ایک دن ہم نے بھی روٹھ روٹھ کے ان کو منا لیا جاجاکے ان کے در پہ  تھکے پاؤں جب مرے وہ چال کی کہ ان کو ہی دل میں بسا لیا یہ دیکھ کر کے دل کو لیے جارہے ہیں وہ میں  نے بھی ان کے حسن کا نقشہ اڑا لیا ناراضگی سے آپ کی آئی ہے لب پہ جاں اب تھوک دیجے غصہ بہت کچھ ستا لیا کیا دامِ عشق سے کبھی نکلا ہے صید بھی کیا بات تھی کہ آپ نے عہد ِوفا لیا نقصاں اگر ہو اتوفقط آپ کا ہوا دل کوستا کے اے مرے دلدار کیا لیا میں صاف دل ہوں مجھ سے خطا جب کبھی ہوئی آبِ خجال سے میں اسی دَم نہا لیا ہونے دی ان کی بات نہ ظاہر کسی پہ بھی جوزخم بھی لگا اسے دل میں چھپا لیا عشق ووفا کا کام نہیں نالہ وفغاں بھر آیا دل تو چپکے سے آنسو بہا لیا اخبار الفضل جلد 2 ۔ 28دسمبر 1948ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ206 142۔ کھلےجو آنکھ تو لوگ اس کو خواب کہتے ہیں کھلےجو آنکھ تو لوگ اس کو خواب کہتے ہیں ہو عقل اندھی تو اس کو شباب کہتے ہیں کسی کے حسن کی ہے اس میں آب کہتے ہیں بنی ہے طین اسی سے تُراب کہتے ہیں وہ عمر جس میں کہ پاتی ہے عقل نوروجلا تم اس کو شیب کہو ہم شباب کہتے ہیں سرود ِروح جو چاہے تو دل کی سن آواز کہ تارِ دل ہی کو چنگ ورباب کہتے ہیں وہ سلسبیل کا چشمہ کہ جس سے ہو سیراب حسد سے اس کو عدو کیوں سراب کہتے ہیں نگاہِ یار سےہوتے ہیں سب طبق روشن رموزِعشق کی اس کو کتاب کہتے ہیں ہمیں بھی تجھ سے ہے نسبت اَورندِبادہ نوش نگاہِ یار کو ہم بھی شراب کہتے ہیں جو چاہے تُو تو وہی غیر فانی بن جائے وہ زندگی کے جسے سب حباب کہتے ہیں یہ فخر کم نہیں کہ مجھ کو کہ دل مسل کے مرا وہ پیار سے مجھے خانہ خراب کہتے ہیں بڑھا کے نیکیاں میری خطائیں کرکے معاف وہ اس ظہور ِکرم کو حساب کہتے ہیں فراق میں جو مری آنکھ سے بہے تھے اشک انہی سے حسن نے پائی ہے آب کہتے ہیں قدم بڑھا کہ ہے دیدار ِیار کی ساعت الٹنے والاہے منہ سے نقاب کہتے ہیں اخبار الفضل جلد3 ۔31دسمبر 1949ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ207 143۔ آآکہ تری راہ میں ہم آنکھیں بچھائیں آآکہ تری راہ میں ہم آنکھیں بچھائیں آآ کہ تجھے سینہ سے ہم اپنے لگائیں تُوآئے تو ہم تجھ کو سر آنکھوں پہ بٹھائیں جاں نذر کریں تجھ کو تجھے دل میں بسائیں آپ آکے محمدؐکی عمارت کو بنائیں ہم کفر کے آثار کو دنیا سے مٹائیں ہیں مغرب و مشرق کے تو معشوق ہزاروں بھائی ہیں مگر آپ کی ہی مجھ کو ادائیں رحمت کی طرف اپنی نگہ کیجئے آقا جانے بھی دیں کیا چیز ہیں یہ میری خطائیں میں جانتا ہوں آپ کے اندازِ تلطف مانوں گا نہ جب تک کہ مری مان نہ جائیں ہے چیز تو چھوٹی سی مگرکام کی ہے چیز دل کو بھی مرے اپنی اداؤں سے لبھائیں دے ہم کو یہ توفیق کہ ہم جان لڑا کر اسلام کے سرپر سے کر یں دوربلائیں ربوہ کو ترا مرکز توحید بنا کر اک نعرۂ تکبیر فلک بوس لگائیں پھر ناف میں دنیا کی ترا گاڑ دیں نیزہ پھر پرچم اسلام کو عالم میں اڑائیں جس شان سے آپ آئے تھے مکہ میں مری جاں اک بار اسی شان سے ربوہ میں بھی آئیں ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعاگو کعبہ کی پہنچتی رہیں ربوہ کو دعائیں اخبار الفضل جلد 4 ۔ 19جنوری 1950ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ208 144۔ سنانے والے افسانے ہما کے سنانے والے افسانے ہما کے کبھی دیکھے بھی ہیں بندے خدا کے نہ واپس آیادل اس در پہ جا کے وہیں بیٹھا رہا دھونی رما کے بھٹکتے پھر رہے ہو سب جہاں میں لیا کیا تم نے دلبر کو بُھلا کے درِمے خانہ پا کر بند اے شیخ ! چلے ہیں آپ بھی گھر کو خداکے یہ تم کو ہوگیا کیا اہل ملت نہیں کیا یاد وہ وعدے خداکے کیا کرتے ہیں ہم سیر دو عالم کسی کو پہلو میں اپنے بٹھا کے خدا ہی نے لگائی پار کشتی اٹھائے یونہی احساں ناخداکے مجھے دلگیر جب بھی دیکھتے ہیں بٹھا لیتے ہیں پاس اپنے بلا کے کسی دن لے کے چھوڑیں گے وہ یہ مال بھلا رکھو کے کب تک دل چھپا کے جو پھرنکلو تو جو چاہو سو کہنا ذرا دیکھو تو اس محفل میں آکے جنھوں نے ہوش مہ خانہ میں کھوئے وہ کیا لیں گے بھلا مسجد میں جا کے یزیدی شان کے مالک ادھر آ مناظر دیکھتا جا کربلا کے مرے کانوں میں آوازیں خد کی ترے کانوں میں ایچ بم کے دہماکے مری امید وابستہ فلک سے تری نظروں میں اس دنیا کے خاکے ملا تجھ کو نہ کچھ دنیا میں آکے نہ تُو دیکھے گا راحت یاں سے جا کے اخبار الفضل جلد 4 ۔ 10مئی 1950ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ209 145۔ بتاؤں تمھیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں بتاؤں تمھیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں میں اپنے سیاہ خانۂ دل کی خاطر وفاؤں کے خالق !وفا چاہتا ہوں جو پھر سے ہرا کردے ہر خشک پودا چمن کے لیے وہ صبا چاہتا ہوں مجھے بیر ہرگزنہیں ہے کسی سے میں دنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں وہی خاک جس سے بنا میرا پتلا میں اس خاک کو دیکھنا چاہتا ہوں نکالا مجھے جس نے میرے چمن سے میں اس کا بھی دل سے بھلا چاہتا ہوں مرے بال وپر میں وہ ہمت ہے پیدا کہ لے کر قفس کو اڑا چاہتا ہوں کبھی جس کو رشیوں نے منہ سے لگایا وہی جام اب میں پیا چاہتا ہوں رقیبوں کو آرام وراحت کی خواہش مگر میں تو کرب و بلا چاہتا ہوں دکھائے جو ہر دم ترا حسن مجھ کو مری جاں !میں وہ آئنہ چاہتا ہوں رسالہ مصباح ۔ماہ جنوری 1951ء کلام محمود صفحہ210 146۔ عشق نے کر دیا خراب مجھے عشق نے کر دیا خراب مجھے ورنہ کہتے تھے لاجواب مجھے کچھ امنگیں‌تھیں‌کچھ امیدیں‌تھیں یاد آتے ہیں اب وہ خواب مجھے میں‌تو بیٹھا ہوں‌ بر لب جو کیا دیکھاتا ہےتُو سراب مجھے مست ہوں میں تو روز اوّل سے فائدہ دے گی کیا شراب مجھے زشت رو میں ہوں آپ مالک ِحسن چھوڑئیے دیجئے نقاب مجھے داروئے ہر مرض شفائے جہاں حق نے بخشی ہے وہ کتاب مجھے جس میں حصہ نہ ہو مرے دیں کا کیسے بھائے وہ آب وتاب مجھے میرا باجا ہے تیغ کی جھنکار زہر لگتا ہے یہ رباب مجھے دشمنوں‌سے تو رکھ مرا پردہ اس طرح کرنہ بے حجاب مجھے بے حد و بے شمار میرے گناہ کس طرح دیں‌گے وہ حساب مجھے عزم بھی ان کا ہاتھ بھی ان کے وہ کریں کام دیں ثواب مجھے بس کے آنکھوں‌میں دل میں ‌گھر کر گئے کر گئےیوں‌ وہ لاجواب مجھے دل میں‌ بیداریاں ہیں ‌پھرپیدا پھر دکھا چشم نیم خواب مجھے اخبار الفضل جلد 5 ۔ 24مارچ 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ211 147۔ اے بے یاروں کے یار نگاہ ِلطف غریب مسلماں پر اے بے یاروں کے یار نگاہ ِلطف غریب مسلماں پر اس بیچارے کا ہندوستاں میں اب کوئی بھی یار نہیں اے ہند کے مسلم صبر بھی کر ہمت بھی کر شکوہ بھی کر فریادیں گو الفاظ ہی ہیں پر پھر بھی وہ بے کار نہیں ہر ظلم بھی سہہ ہر بات بھی سن پر دین کا دامن تھامے رہ غدار نہ بن بزدل بھی نہ بن یہ مومن کا کردار نہیں تو ہندستان میں روتا ہے میں پاکستان میں کڑھتا ہوں ہے میرا دل بھی زار فقط تیرا ہی حالِ زار نہیں آگر جائیں ہم سجدہ میں اور سجادوں کو تر کردیں اللہ کے در پر سر پٹکیں جس سا کوئی دربار نہیں اخبار الفضل جلد 5 ۔ 27مارچ 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ212۔213 148۔ عقبیٰ کو بھلایا ہے تُونے،تُواحمق ہے ہشیار نہیں عقبیٰ کو بھلایا ہے تُونے،تُواحمق ہے ہشیار نہیں یہ تیری ساری لساّنی بےکار ہے گر کردار نہیں اس یار کے درپر جانا کچھ مشکل نہیں کچھ دشوار نہیں اس طرف جو راہیں جاتی ہیں وہ ہرگز ناہموار نہیں میں اس کا ہاتھ پکڑ کر نہُ افلاک سے اونچا اڑتا ہوں یہ میرے دشمن کا کوئی دربار نہیں سرکار نہیں وہ خاک سے پیدا کرتا ہے وہ مردے زندہ کرتا ہے جو اس کی راہ میں مرتا ہے وہ زندہ ہے مردار نہیں تم انسانوں کے چیلے ہو میں اس کے در کا ریزہ ہوں میں عالم ہوں میں فاضل ہوں پر سر پہ مرے دستار نہیں جادو ہے میری نظروں میں تاثیر ہے میری باتوں میں میں سب دنیا کا فاتح ہوں ہاتھوں میں گر تلوار نہیں میں تیز قدم ہوں کاموں میں بجلی ہے مری رفتار نہیں میں مظلوموں کی ڈھارس ہوں مرہم ہے مری گفتار نہیں ہوں صدر کے شاہ کوئی بھی ہوں میں ان سے دب کر کیوں بیٹھوں سرکار مری ہے مدینہ میں یہ لوگ مری سرکار نہیں  تو اس کے پیارے ہاتھوں کو اپنی گردن کا طوق بنا کیا تونے گلے میں ڈالا ہےذوالنار ہے یہ زنار نہیں اسلام پہ آفت آئی ہے لیکن تو غافل بیٹھا ہے اٹھ دشمن پر یہ ثابت کر تو زندہ ہے مردار نہیں جن معنوں میں وہ کہتا ہےقہاّر بھی ہے جباّر بھی ہے جن معنوں میں تم کہتے ہو قہاّر نہیں  جباّر نہیں دوزخ میں جلنا سخت برا پر یہ بھی کوئی بات نہ تھی سو عیب کا اس میں عیب ہے یہ گفتار نہیں دیدار نہیں کچھ اس میں کشش ہی ایسی ہے دل ہاتھ سے نکلا جاتا ہے ورنہ میں اپنی جان سے کچھ ایسا بھی تو بیزار نہیں جاں میری گھٹتی جاتی ہے دل پارہ پارہ ہوتا ہے تم بیٹھے ہو چپ چاپ جو یوں کیا تم میرے دلدار نہیں میں تیرے فن کا شاہد ہوں تُومیری کمزوری کا گواہ تجھ سا بھی طبیب نہیں کوئی مجھ سا بھی کوئی بیمار نہیں وہ جو کچھ مجھ سے کہتا ہے پھر میں جو اس سے کہتا ہوں اک راز محبت ہے جس کا اعلان نہیں اظہار نہیں میں ہر صورت سے اچھا ہوں اک دل میں سوزش رہتی ہے گرعشق کوئی آزار نہیں ،مجھ کو کوئی بھی آزار نہیں کیا اس سے بڑھ کر راحت ہے جاں نکلے تیرے ہاتھوں میں تو جان کا لینے والابن مجھ کو تو کوئی انکار نہیں اخبار الفضل جلد 5 ۔ 3اپریل 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ214 149۔ حریم قدس کے ساکن کو نام سے کیا کام حریم قدس کے ساکن کو نام سے کیا کام ہواوحرص کے بندہ کو کام سے کیا کام ہو لا مکان تو قصر ِرُخام سے کیا کام جوہرجگہ ہو اسے اک مقام سے کیا کام رہینِ عشق کوکیف مدام سے کیا کام پلائیے مجھے آنکھوں سے جام سے کیا کام سبوئے دل کو ڈبوتا ہوں جوئے رحمت میں مجھے ہے ساغرو مینا وجام سے کیا کام ہے میرے دل میں محمد ؐتو اس کے دل میں مَیں مجھے پیامبروں کے پیام سے کیا کام مجھے پلانی ہو ساقی تو ابر رحمت بھیج بغیر ابر کے صہباءو جام سے کیا کام مراحبیب ؐتو بستا ہے میری آنکھوں میں مجھے حسینوں کے دراوربام سے کیا کام جو اس کی ذات میں کھو بیٹھے اپنی ہستی کو اسے ہو اپنے پرایوں کے نام سے کیا کام کبھی بھی عشق میں سودے ہوا نہیں کرتے جو جاں ہی دینے پہ آئے تودام سے کیا کام سمندِعزم پہ جو ہو گیا سوارتوپھر اے رکاب سے مطلب لگام سے کیا کام اسے تو موت کے سایہ میں مل چکی ہے حیات شہیدِعشق کو عیش دوام سے کیا کام مجھے خدا نے سکھایا ہے علم ربانی مجھے ہے فلسفہ،منطق،کلام سے کیا کام جوہولی کھیلتے رہتے ہیں خونِ مسلم سے انہیں وفاووفاق و نظام سے کیا کام بغل میں بیٹھے ہوئے دستکوں کی کیا حاجت ہوں پختہ کارتو پھر عشق ِخام سے کیا کام بچھے ہیں دام تو ان کے لیے جو اڑتے ہیں اسیر عشق ہوں میں،مجھ کو دام سے کیا کام اخبار الفضل جلد 5 ۔ 19اپریل 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ215 150۔ چاند چمکا ہے گال  ہیں ایسے چاند چمکا ہے گال  ہیں ایسے تاج ہو جیسے بال  ہیں ایسے تن پہ کمخواب پیٹ میں حلوان جاں پہ ان کی وبال  ہیں ایسے جن کو عقبیٰ کا فکررہتا ہو ہیں مگر خال خال  ہیں ایسے لوٹنے سے انھیں کہاں فرصت وہ پریشان حال  ہیں ایسے لیڈرقوم بھی ہیں ڈاکو بھی ان کے اندرکمال  ہیں ایسے مے کےپھندے میں جو پھنسا سو پھنسا اس کے مضبوط جال  ہیں ایسے جل کے رہ جاتے ہیں تمام افکار دل نے اندرابال  ہیں ایسے جو کہ شرمندۂ جواب نہیں ان کے دل میں سوال  ہیں ایسے ان کو فرصت ہی صلح کی کب ہے؟ وقف جنگ وجدال  ہیں ایسے وہ کریں بے وفائی! اے توبہ آپ کے ہی خیال  ہیں ایسے قوم کے مال پھر خیانت سے کون چھوڑے یہ مال  ہیں ایسے سجدۂ بارگہ بھی بوجھل ہے کیا کریں وہ ہیں نڈھال  ہیں ایسے گالیاں تکیۂ کلام ان کا یہ عدو خوش خصال ہیں ایسے دین ودنیا کی سدھ نہیں ان کو محو ِحسن وجمال  ہیں ایسے توڑنے کو بھی دل نہیں کرتا یہ محبت کے جال  ہیں ایسے ساری دنیا میں مشک پھینکیں گے میرے بھی کچھ غزال ہیں ایسے اخبار الفضل جلد 5 ۔ 24اپریل 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ216 151۔ جو دل پہ زخم لگے ہیں مجھے دکھا تو سہی جو دل پہ زخم لگے ہیں مجھے دکھا تو سہی ہوا ہے حال ترا کیا مجھے سنا تو سہی ثمارِ عشق ہیں کیسے! کبھی تو چکھ کر دیکھ یہ بیج باغ میں اپنے کبھی لگا تو سہی لگاؤں سینہ سے دل میں بٹھاؤں میں تجھ کو نہ دور بھاگ یونہی ۔میرے پاس آ تو سہی وہ منہ چھپائے ہوئے مجھ سے ہَمکلام ہوئے وِصال گو نہ ہوا خیر کچھ ہوا تو سہی فریب خوردۂ الفت فریب خوردہ ہے مگر تو سامنے اس کو کبھی بُلا تو سہی وہ آپ خود چلے آئیں گے تیری مجلس میں خودی کے نقش ذرا دل سے تُو مٹا تو سہی بُرا جما کہ بھلا اپنی اپنی قسمت ہے ہمارے دل پہ ترا نقش کچھ جما تو سہی زمانہ دشمنِ جاں ہے نہ اس کی جانب پھر تو اُس کو اپنی مدد کے لیے بُلا تو سہی نظر نہ آئے وہ تجھ کو یہ کیسے ممکن ہے حجاب آنکھوں کے آگے سے تو ہٹا سہی نکلتے ہیں کہ نہیں روح میں پرِ پرواز تو اپنی جان کو اس شمع میں جلا تو سہی جو دشت و کوہ بھی رقصاں نہ ہوں مجھے کہیو تُو اس کی سُر میں ذرا اپنی سُر ملا تو سہی اخبار الفضل جلد 5 ۔ 10 مئی 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ217 152۔ نکل گئے جو ترے دل سے خار کیسے ہیں نکل گئے جو ترے دل سے خار کیسے ہیں جو تجھ کو چھوڑ گئے وہ نگار کیسے ہیں نہ آرزوئے ترقی نہ صدمۂ ذلت خدا بچائے یہ لیل و نہار کیسے ہیں کبھی نہ خانۂ خمار کا کھلا ہے در جو چپکے بیٹھے ہیں وہ بادہ خوار کیسے ہیں نہ حسنِ خُلق ہے تجھ میں نہ حسنِ سیرت ہے توہی بتا کہ یہ نقش و نگار کیسے ہیں خدا کی بات کوئی بے سبب نہیں ہوتی نہیں ہے ساقی تو ابر و بہار کیسے ہیں نہ غم سے غم نہ خوشی سے مری تجھے ہے خوشی خدا کی مار یہ قرب و جوار کیسے ہیں نہ دل کو چین نہ سر پر ہے سایۂ رحمت ستم ظریف! یہ باغ و بہار کیسے ہیں نہ وصل کی کوئی کوشش نہ دید کی تدبیر خبر نہیں کہ وہ پھر بے قرار کیسے ہیں وہی ہے چال وہی راہ ہے وہی ہے رَوِش ستم وہی ہیں تو پھر شرمسار کیسے ہیں وہ لالہ رُخ ہی یہاں پر نظر نہیں آتا تو اس جہاں کے یہ لالہ زار کیسے ہیں وہ حسرتیں ہیں جو پوری نہ ہو سکیں افسوس بتاؤں کیا  مرے دل میں مزار کیسے ہیں مصیبتوں میں تعاون نہیں تو کچھ بھی نہیں جو غم شریک نہیں غمگسار کیسے ہیں اخبار الفضل جلد5 ۔23مئی 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ218 153۔ تم نظر آتے ہو ذرہ میں غائب بھی ہو تم تم نظر آتے ہو ذرہ میں غائب بھی ہو تم سب خطاؤں سے بھی ہو تم پاک تائب بھی ہو تم فہم سے بالا بھی ہو فہمِ مجسم بھی ہو تم عام سے عام بھی ہو سِرِ غرائب بھی ہو تم تم ہی آقا ہو مرے تم ہی مرے مالک ہو میرے ساعاتِ غم و رنج میں نائب بھی ہو تم غیر کی نُصرت و تائید سے ہو مستغنی اور پھر صاحبِ اجناد و کتائب بھی ہو تم منبعِ خلق تم ہی ہو میرے خالق باری صُلب بھی تم ہو مری جان ترائب بھی ہو تم اخبار الفضل جلد 5 ۔11جولائی1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ219 154۔ خطاب بہ رسول کریم ﷺ خطاب بہ رسول کریم ﷺ اے شاہِ معالی آ بھی جا اے ضوءِ لاٰلی آ بھی جا اے شاہِ جلالی آ بھی جا اے روحِ جمالی آ بھی جا تو میرے دل میں دل تجھ میں قصدی و مَنَالی آ بھی جا دشمن نے گھیرا ہے مجھ کو صبری و بَسَالی آ بھی جا سب کام مرے تجھ بِن اے جاں ہیں لطف سے خالی آ بھی جا کلام محمود صفحہ220 155۔ ارادے غیر کے ناگفتنی ہیں ارادے غیر کے ناگفتنی ہیں نگاہیں زہر میں ڈوبی ہوئی ہیں حقارت کی نگاہیں ہیں سکڑتی محبت کی نگاہیں پھیلتی ہیں امیدوں کو نہ مار اے دشمنِ جاں امیدیں ہی تو مغزِ زندگی ہیں محبت سے تجھے ہے روکتا کون محبت کی شرائط پر کڑی ہیں کوئی ملتا نہیں دنیا کو رہبر نگاہیں آ کے مجھ پر ہی ٹکی ہیں اخبار الفضل جلد5 ۔18 جولائی 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ221 156۔ زمیں کا بوجھ وہ سر پر  اُٹھائے پھرتے ہیں زمیں کا بوجھ وہ سر پر  اُٹھائے پھرتے ہیں اک آگ سینہ میں اپنے دبائےپھرتے ہیں وہ جس نے ہم کو کیا برسرِ جہاں رُسوا اُسی کی یاد کو دل میں چھپائے پھرتے ہیں وہ پھول ہونٹوں سے ان کے جھڑے تھے جو اک بار اُنہی کو سینہ سے اپنے لگائے پھرتے ہیں ہماری جان تو ہاتھوں میں اس کے ہے لٹو جدھر بھی جب بھی وہ اس کو پھرائے پھرتے ہیں وہ دیکھ لے تو ہر ایک ذرہ پھول بن جائے وہ موڑے منہ تو سب اپنے پرائے پھرتے ہیں خدا تو عرش سے اُترا ہے منہ دکھانے کو پر آدمی ہیں کہ بس منہ بنائے پھرتے ہیں اخبار الفضل جلد 5 ۔19جولائی 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ222 157۔ یہ کیسی ہےتقدیر جو مٹتے نہیں مٹتی

نوٹ: اُردو میں عام طورپر مٹائےنہیں مٹتی، بولا جاتا ہے اور وہاں یہ مراد ہوتا ہے کہ انسان مٹانا چاہتا ہے مگر نشان نہیں مٹتا۔ اس کے برخلاف ایک نقش ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خود اسے مٹانا نہیں چاہتا لیکن مرورِ زمانہ سے وہ کمزور پڑ جاتا ہے، چونکہ میں نے اسی مضمون کو لیا ہے۔اس لیے بجائے "مٹائے نہیں مٹتی" کے "مٹتےنہیں مٹتی" استعمال کیا ہے۔ جاہل ادیبوں کے نزدیک یہ بات ناجائز تصرف معلوم ہو گا، مگر واقفوں کے نزدیک مفید اضافہ۔مرزامحموداحمد (28جولائی1951ء)

یہ کیسی ہےتقدیر جو مٹتے نہیں مٹتی پتھر کی ہے تحریر جو مٹتے نہیں مٹتی سب اور تصور تو مرے دل سے مٹے ہیں ہے اک تری تصویر جو مٹتے نہیں مٹتی اب تک ہے مرے قلب کے ہر گوشہ میں موجود اُن لفظوں کی تاثیر جو مٹتے نہیں مٹتی کس زور سے کعبہ میں کہی تم نے مری جاں اک گونجتی تکبیر جو مٹتے نہیں مٹتی انسان کی تدبیر پہ غالب ہے ہمیشہ اللہ کی تدبیر جو مٹتے نہیں مٹتی ڈلہوزی و شملہ کی تو ہے یاد ہوئی محو ہے خواہشِ کشمیر جو مٹتے نہیں مٹتی اسلام کو ہے نور ملا نورِ خدا سے ہے ایسی یہ تنویر جو مٹتے نہیں مٹتی کُن کہہ کے نیا باب بلاغت کا ہے کھولا ہے چھوٹی سی تقریر جو مٹتے نہیں مٹتی اخبار الفضل جلد 5۔ 31 جولائی 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ223 158۔ آنکھ گر مشتاق ہے جلوہ بھی تو بے تاب ہے آنکھ گر مشتاق ہے جلوہ بھی تو بے تاب ہے دل دھڑکتا ہے مرا آنکھ اُن کی بھی پُرآب ہے سر میں ہیں افکار یا اک بادلوں کا ہے ہجوم دل مرا سینہ میں ہے یا قطرۂ سیماب ہے ظلمتوں نے گھیر رکھا ہے مجھے پَر غم نہیں دُور اُفق میں جگمگاتا چہرۂ مہتاب ہے حق کی جانب سے ملا ہو جس کو تقوٰی کا لباس جسم پر اس کے اگر گاڑھا بھی ہو کمخواب ہے جسمِ ایماں سعی و کوشش سے ہی پاتا ہے نمو آرزوئے بے عمل کچھ بھی نہیں اک خواب ہے عشقِ صادق میں ترا رونا ہے اک آب حیات بے غرض رونا ترا اک بے پَنَہ سیلاب ہے اخبار الفضل جلد5۔ 4 اگست 1951ء۔لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ224 159۔ قید کافی ہے فقط اس حسنِ عالم گیر کی قید کافی ہے فقط اس حسنِ عالم گیر کی تیرے عاشق کو بھلا حاجت ہی کیا زنجیر کی وہ کہاں اور ہم کہاں پر رحم آڑے آگیا رہ گئی عزت ہمارے نالۂ دل گیر کی تب کہیں جا کر ہوا حاصل وِصالِ ذاتِ پاک مُدتوں میں نے پرستش کی تری تصویر کی مجھ کو لڑنا ہی پڑا اَعداءِ کینہ توز سے جنگ آخر ہو گئی تدبیر سے تقدیر کی جن کے سینوں میں نہ دل ہوں بلکہ پتھر ہوں دھرے کیاپہنچ ان تک ہمارے نالۂ دل گیر کی صیدِ زخمی کی تڑپ میں تم نے پایا ہے مزہ ہے مرا دل جانتا لذت تمہارے تیر کی مجھ کو رہتی ہے ہمیشہ اس کے ہاتھوں کی تلاش فکر رہتی ہے تجھے صبح و مسا کف گیر کی جستجوئے خس نہ کر تو دوسرے کی آنکھ میں فکر کر نادان اپنی آنکھ کے شہتیر کی اخبار الفضل جلد 5 9اگست1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ225 160۔ توبہ کی بیل منڈحے چڑھنے لگی ہے آج توبہ کی بیل منڈحے چڑھنے لگی ہے آج اے درد! میری آنکھ کا فوارہ چھوڑ دے رحمت کے چھینٹے دینے پہ صد شکر و امتنان دل کے لیے بھی پَر کوئی انگارہ چھوڑ دے جنت میں ایسی جنس کا جانا حرام ہے اپنے ذُنُوب کا یہیں پُشتارہ چھوڑ دے لعنت خدا کے بندوں پہ حاشا! کبھی نہیں بچنا ہے گر تو لعنتِ کفارہ چھوڑ دے اسلام کھانے پینے پہننے کے حق میں ہے پَر یہ نہیں کہ نفس کو آوارہ چھوڑ دے اخبار الفضل جلد5۔ 16 اگست 1951ء۔ لاہور پاکستان کلام محمود صفحہ226 161۔ سر پہ حاوی وہ حماقت ہے کہ جاتی ہی نہیں سر پہ حاوی وہ حماقت ہے کہ جاتی ہی نہیں کفرو بدعت سے وہ رغبت ہے کہ جاتی ہی نہیں نہ خدا سے ہے محبت نہ محمدؐ سے ہے پیار تم کو وہ دیں سے  عداوت ہے کہ جاتی ہی نہیں نام اسلام کا ہے کفر کے ہیں کام تمام اس پہ پھر ایسی رعونت ہے کہ جاتی ہی نہیں تم نے سوبار مجھے نیچا دکھانا چاہا پر مرے دل کی مروت ہے کہ جاتی ہی نہیں تم کو مجھ سے ہے عداوت تو مجھے تم سے ہے پیار میری یہ کیسی محبت ہے کہ جاتی ہی نہیں ہر مصیبت میں دیا ساتھ تمہارا لیکن تم کو کچھ ایسی شکایت ہے کہ جاتی ہی نہیں توبہ بھی ہو گئی مقبول حضوری بھی ہوئی پر مرے دل کی ندامت ہے کہ جاتی ہی نہیں گالیاں کھائیں،پٹے،خوب ہی رسوا بھی ہوئے عشق کی ایسی حلاوت ہے کہ جاتی ہی نہیں کیا ہوا ہاتھ سے اسلام کے نکلی جو زمیں دل پہ وہ اس کی حکومت ہے کہ جاتی ہی نہیں وسوسے غیر نے ڈالے ،کئے اپنوں نے فساد میری تیری وہ رفاقت ہے کہ جاتی ہی نہیں غیر بھی بیٹھے ہیں اپنے بھی ہیں گھیرا ڈالے مجھ میں اور تجھ میں وہ خلوت ہے کہ جاتی ہی نہیں پھینکتے رہتے ہیں اعداء میرے کپڑوں پر گند تونے دی مجھ کو  وہ نکہت ہے کہ جاتی ہی نہیں رنج ہو غم ہو کوئی حال ہو خوش رہتا ہوں دل میں کچھ ایسی طراوت ہے کہ جاتی ہی نہیں صدیوں سے لوٹ رہا ہے تیری دولت دجال دلبرا تیری وہ ثروت ہے کہ جاتی ہی نہیں کفر نے تیرے گرانے کے کئے لاکھ جتن تیری وہ شان وشوکت ہے کہ جاتی ہی نہیں میں تری راہ میں مرمر کے جیا ہوں سوبار موت سے مجھ کو وہ رغبت ہے کہ جاتی ہی نہیں اخبار الفضل جلد 5۔6نومبر  1951ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ227 162۔ ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے ٹھیس لگ جائے ذرا سی توصدا کرتا ہے میں بھی کمزور مرے دوست بھی کمزور تمام کامیرے تو سبھی میرا خدا کرتا ہے ہوش کر دشمن ِناداں یہ توکیا کرتا ہے ساتھ ہے جس کے خدا اس پہ جفا کرتا ہے زندگی اس کی ہے دن اس کے ہیں راتیں اس کی وہ جو محبوب کی صحبت میں رہا کرتا ہے قلب مومن پہ ہے انوار ِسماوی کا نزول روشن اس جگ کو یہ اللہ کا دیا کرتا ہے  1946ء۔کراچی کے سفر میں اخبار الفضل جلد 5۔11نومبر  1951ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ228 163۔ جو کچھ بھی دیکھتے ہو فقط اس کا نور ہے جو کچھ بھی دیکھتے ہو فقط اس کا نور ہے ورنہ جمال ذات تو کوسوں ہی دور ہے ہے ہر گھڑی کرامت و ہر لمحہ معجزہ یہ میری زندگی ہے کہ حق کا ظہور ہے دکھا نہ تو نے آئینہ خانہ میں بھی جمال تیری تو عقل میں کوئی آیا فتور ہے مردہ دلوں کے واسطےہر لفظ ہے حیات میری صدا نہیں یہ فرشتوں کا صور ہے ہے زندگی میں دخل نہ کچھ موت پر ہے زور تو چیز کیا ہے ایک سر پر غرور ہے وہ زشت رو کہ جس سے چڑیلیں بھی خوف کھائیں اس کو بھی دیکھئے کہ تمنائے حور ہے جولائی 1948ء۔سندھ اخبار الفضل جلد 5۔11نومبر  1951ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ229 164۔ اس کی رعنائی مرے قلب حزیں سے پوچھئے اس کی رعنائی مرے قلب حزیں سے پوچھئے حوروغلماں کی خبر خلد بریں سے پوچھئے استجابت کے مزے عرش بریں سے پوچھئے سجدہ کی کیفیتیں میری جبیں سے پوچھئے نسخہء وصل خدا ہے بس مری دکان پر ہر جگہ پر دیکھ لیجے گا کہیں سے پوچھئے کوچہ ء دلبر کے رستہ سے ہے دنیا بے خبر پوچھنا ہو آپ نے گر تو ہمیں سے پوچھئے آسمانی بادشاہت کی خبر احمدؐ کو ہے کس کی ملکیت ہے خاتم یہ نگیں سے پوچھئے ابتدائے عشق سے دل کھو چکا ہے عقل وہوش سرّ الفت اس نگاہ شرمگیں سے پوچھئے دوسروں کی خوبیاں اس کی نظر میں عیب ہیں تجھ کو اپنی بھی خبر ہے ؟نکتہ چیں سے پوچھئے آسماں کی رازجوئی عقل سے ممکن نہیں رازِخانہ پوچھنا ہو تو مکیں سے پوچھئے فقر نے بخشا ہے لاکھوں کو شہنشاہی کا تاج کیا ہوا ہے سحریہ نان جویں سے پوچھئے کس قدر توبائیں توڑی ہیں یہ ہے دل کوخبر کس قدر پونچھے ہیں آنسو آستیں سے پوچھئے کس قدر صدمے اٹھائے ہیں ہمارے واسطے قلب ِپاکِ رحمۃ للعالمیںؐ سے پوچھئے اکتوبر1951ء۔لاہور اخبار الفضل جلد 5۔24نومبر  1951ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ230 165۔ جونہی دیکھا انہیں چشمہ محبت کاا بل آیا جونہی دیکھا انہیں چشمہ محبت کاا بل آیا درختِ عشق میں مایوسیوں کے بعد پھل آیا خطائیں کیں جفائیں کیں ہراک ناکردنی کرلی کیا سب کچھ مگر پیشانی پر ان کے نہ بل آیا ملمع ساز اس کوڈھونڈتے پھرتے ہیں دنیا میں مگر وہ عاشق صادق کے پہلو سے نکل آیا امیدیں روز ہی ہوتی تھیں پیدا شکل نو لے کر مگر قلب حزیں کو صبر آج آیا نہ کل آیا نہیں بیچارگی وجبر کادخل ان کی محفل میں جو آیا ان کی محفل میں وہ چل کے سر کے بل آیا 11جولائی1951ءدوران سفر سکیسر اخبار الفضل جلد 5۔28نومبر  1951ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ231 166۔ آؤ تمھیں بتائیں محبت کے راز ہم آؤ تمھیں بتائیں محبت کے راز ہم چھیڑیں تمھاری روح کے خوابیدہ ساز ہم میدان عشق میں ہیں رہے پیش پیش وہ محمود بن گئے وہ، بنے جب ایاز ہم بطحا سے نکلے وہ کبھی سینا سے آئے وہ جدت طراز وہ ہیں کہ جدت طراز ہم ایسی وفا ملے گی ہمیں اورکس جگہ آئیں گے ان کے عشق سے ہزگزنہ باز ہم وہ آئے اورعشق کا اظہار کردیا پڑھتے رہے اندھیرے میں چھپ کر نماز ہم عشق صنم سے عشق خدا غیر چیز ہے اس رہ کے جانتے ہیں نشیب وفراز ہم اک ذرہءحقیرکی قیمت ہی کیا بھلا کرتے ہیں ان کے لطف کے بل پر ہی ناز ہم گاتے ہیں جب فرشتے کوئی نغمہ ء توحید ہاتھوں میں تھام لیتے ہیں فورًا ہی ساز ہم اخبار الفضل جلد 5۔6دسمبر  1951ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ232 167۔ جب وہ بیٹھے ہوئے ہوں پاس مرے جب وہ بیٹھے ہوئے ہوں پاس مرے پاس آئے ہی کیوں ہراس مرے ساعت وصل آرہی ہے قریب ہورہے ہیں بجا حواس مرے میرے پہلو سے اٹھ گئے گر تم گرد گھوما کرے گی یاس مرے خاک کر دے گی کفر کا خاشاک دل سے نکلی ہے جو بھڑاس مرے دے گئے تھے جواب تاب و تواں کام آئی ہے ایک آس مرے اخبار الفضل جلد 5۔9دسمبر  1951ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ233 168۔ عاشق کا شوق قربانی تو دیکھ عاشق کا شوق قربانی تو دیکھ خون کی اس راہ میں ارزانی تو دیکھ بڑھ رہا ہے حد سے کیوں تقریر میں ہوش کر کچھ ان کی پیشانی تو دیکھ طعن پاکاں شغل صبح و شام ہے مولوی صاحب کی لسّانی تو دیکھ صدیوں اس نے ہے ترا پہرہ دیا اس نگہباں کی نگہبانی تو دیکھ وعظ قرآں پر کبھی تو کان دھر علم کی اس  راہ میں فراوانی تو دیکھ شکوہء قسمت کے چکر میں نہ پھنس اپنی غفلت اورنادانی تو دیکھ خوردہ گیری آسماں کی چھوڑ بھی ابنِ آدم!اپنی عریانی تو دیکھ اپنے دل تک سے ہے انساں بے خبر پھر یہ دعوائے ہمہ دانی تو دیکھ فرش سے جا کر لیا دم عرش پر مصطفٰےؐکی سیر روحانی تو دیکھ ابررحمت پر تعجب کس لیے کفر کی دنیا میں طغیانی تو دیکھ دامن ِرحمت وہ پھیلائے نہ کیوں مومنوں کی تنگ دامانی تو دیکھ آسماں سے کیوں نہ اتریں اب مَلک کفر کی افواج طوفانی تو دیکھ اب نہ باندھیں گے تو کب باندھیں گے بند کفر کا بڑھتا ہو پانی تو دیکھ کفر کے چشمے سے کیا نسبت اسے میرے چشمہ کاذرا پانی تو دیکھ ہے اکیلا کفر سے زورآزما احمدی کی روح ایمانی تو دیکھ اخبار الفضل جلد 6۔ یکم جنوری  1952ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ234 169۔ کیا آپ ہی کونیزہ چبھونا نہیں آتا؟ کیا آپ ہی کونیزہ چبھونا نہیں آتا؟ یا مجھ کو ہی تکلیف میں رونا نہیں آتا حاصل ہو سکوں چھولوں اگر دامنِ دلبر دامن کا مگر ہاتھ میں کونا نہیں آتا بھڑجاؤں تو اٹھتے ہوئے طوفانوں سے لیکن کشتی کو سمندر میں ڈبونا نہیں آتا جوکام کا تھا وقت وہ روروکے گذارا اب رونے کا ہے وقت تو رونا نہیں آتا کہتے ہیں کہ مٹ جاتا ہے دھونے سے ہر اک داغ  اے وائے مجھے داغ کا دھونا نہیں آتا آجاتے ہو تم یاد تو لگتا ہوں تڑپنے ورنہ کے آرام سے سونا نہیں آتا دامن بھی ہے غفراں کا سمندر بھی ہے موجود دامن کو سمندر میں ڈبونا نہیں آتا موتی تو ہیں پر ان کو پرونا نہیں آتا آنسو تو ہیں آنکھوں میں پہ رونانہیں آتا میں لاکھ جتن کرتا ہوں دل دینے کی خاطر پر ان کی نگہ میں یہ کھلونا نہیں آتا کیا فائدہ اس در پہ تجھے جانے کا اے دل دامن کو جو اشکوں سے بھگونا نہیں آتا کس برتے پہ امید رکھوں اس سے جزا کی کاٹوں گا میں کیا خاک کہ بونا نہیں آتا اخبار الفضل جلد 6۔ 3جنوری  1952ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ235 170۔ لگ رہی ہے جہاں بھر میں آگ لگ رہی ہے جہان بھر میں آگ گھر میں ہے آگ رہ گذر میں آگ بھائی بھائی کی جان کا بیری لب پہ ہے صلح اور بر میں آگ دشمنی کی چلی ہوئی ہے رو بات میٹھی ہے پر نظر میں  آگ کس پہ انسان اعتبار کرے زور میں آگ ہے تو زر میں آگ مٹی پانی کا ایک پتلا تھا بھر گئی پھر کیسے بشر میں آگ ابن آدم کو لگ گیا کیاروگ آگ ہے دل میں اور سر میں آگ کیسے نکلی ہے نور سے یہ نار باپ میں نور تھا پسر میں آگ کھا رہی ہے جحیم دنیا کو شہر میں اگ ہے نگر میں آگ ان کو جنت سے واسطہ ہی کیا ہو لگی جن کے بام ودر میں آگ بن نہ بد خواہ تو کسی کا بھی خیر میں ثلج ہے تو شر میں آگ ابر رحمت خدا ہی برسائے ہے بھڑک اٹھی بحروبرمیں آگ اخبار الفضل جلد 6۔ یکم اگست  1952ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ236 171۔ دنیا میں یہ کیا فتنہ اٹھا ہے مرے پیارے دنیا میں یہ کیا فتنہ اٹھا ہے مرے پیارے ہر آنکھ کے اند رسے نکلتے ہیں شرارے یہ منہ ہیں کہ آہنگروں کی دھونکنیاں ہیں دل سینوں میں ہیں یا کہ سپیروں کے پٹارے راتیں تو ہوا کرتی ہیں راتیں ہی ہمیشہ پر ہم کو نظر آتے ہیں اب دن کو بھی تارے ہے امن کا داروغہ بنایا جنھیں تو نے خود کررہے ہیں فتنوں کو آنکھوں سے اشارے اسلام کے شیدائی ہیں خونریزی پہ مائل ہاتھوں میں جو خنجر ہیں تو پہلو میں کٹارے سچ بیٹھا ہے اک کونہ میں منہ اپنا جھکا کر اور جھوٹ کے اڑتے ہیں فضاؤں میں غبارے ظلم و ستم و جور بڑھے جاتے ہیں حد سے ان لوگوں کو اب تو ہی سنوارے تو سنوارے طوفان کے بعد اٹھتے چلے آتے ہیں طوفاں لگنے نہیں آتی ہے مری کشتی کنارے گر زندگی دینی ہے تو دے ہاتھ سے اپنے کیا جینا ہے یہ جیتے ہیں غیروں کے سہارے اخبار الفضل جلد 6۔ 5اگست  1952ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ237 172۔ کفر کی طاقتوں کا توڑ ہیں ہم کفر کی طاقتوں کا توڑ ہیں ہم روحِ اسلام کا نچوڑ ہیں ہم گنتیوں سے مقام بالا ہے ایک بھی ہوں اگر، کروڑ ہیں ہم ان سے ملنا ہے گر تو ہم سے مل وصل کی وادیوں کے موڑ ہیں ہم تم میں ہم میں مناسبت کیسی ؟ تم مفاصل ہو اور جوڑ ہیں ہم ہم امیدوں سے پر ہیں تم مایوس رونی صورت ہو تم ،ہنسوڑ ہیں ہم 13 جولائی 1951ء برمقام سکیسر  اخبار الفضل جلد 6۔ 16اگست 1952ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ238 173۔ وہ دل کو جوڑتا ہے تو ہیں دلفگار ہم وہ دل کو جوڑتا ہے تو ہیں دلفگار ہم وہ جان بخشتا ہے تو ہیں جاں نثار ہم دولہا ہمارا زندہ جاوید ہے جناب کیا بے وقوف ہیں کہ بنیں سوگوار ہم در اس کا آج گر نہ کھلا خیر کل سہی جائیں گے اس کے در پہ یونہی باربار ہم تدبیر ایک پر دہ ہے تقدیر اصل ہے ہوں  گے بس اس کے فضل سے ہی کامگار ہم کوئی عمل بھی کر نہ سکے اس کی راہ میں رہتے ہیں اس خیال سے ہی شرمسار ہم دنیا کی منتوں سے تو کوئی بنا نہ کام روئیں گے اس کے سامنے اب زار زار ہم اٹھ کر رہے گا پر وہ کسی دن تو دیکھنا باندھے کھڑے ہیں سامنے اس کے قطار ہم دشمن ہے خوش کہ نعمتِ دنیا ملی اسے لوٹیں گے اس کی گود میں جاکر بہار ہم قسمت نے کیسا جوڑ ملایا ہے دیکھنا وہ خالقِ جہاں ہے تو مشتِ غبار ہم اخبار الفضل جلد 6۔ 31دسمبر 1952ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ239 174۔ الفت  الفت کہتے ہیں پر دل الفت سے خالی ہے الفت  الفت کہتے ہیں پر دل الفت سے خالی ہے ہے دل میں کچھ اور منہ پر کچھ دنیا کی ریت نرالی ہے کہتے ہیں آؤدنیا کو دیکھ ،ہیں اس میں کیسے نظارے میں کہتا ہوں بس چپ بھی رہو یہ میری دیکھی بھالی ہے یاں عالم انکو کہتے ہیں جو دیں سے کورے ہوتے ہیں جب دیکھو بھیڑیا نکلے گا جو بھیڑوں کا رکھوالی ہے تقویٰ کا جھنڈا جھکتا ہے پر کفر کی گڈی چڑھتی ہے اس دنیا میں اب نیکوں کا کوئی تو اللہ والی ہے اندھیاری راتوں میں سجدے کرنا تو پہلی باتیں تھیں اب دن اک مجلس عیش کی ہے اور رات جو ہے دیوالی ہے اب صوفے کوچیں گرجا میں اک شان سے رکھے رہتے ہیں مسجد میں چٹائی ہوتی تھی سو ظالم نے سرکالی ہے کافر کے ہاتھ میں بندوقیں مومن کےہاتھ سلاسل میں کافر کا ہاتھ خزانوں پر مومن کی پیالی خالی ہے اخبار الفضل جلد7۔ 3جنوری1953ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ240۔241 175۔ ارے مسلم طبیعت تیری کیسی لا ابالی ہے ارے مسلم طبیعت تیری کیسی لا ابالی ہے ترے اعمال دنیا سے جدا فطرت نرالی ہے خدا کو دیکھ کر بھی تو کبھی خاموش رہتا ہے کبھی اس زشت رو کو دیکھ کر اے واہ کہتا ہے کبھی اس چشمۂ صافی کے ہمسائے میں بستا ہے کبھی اک قطرۂ آب مقطر کو ترستا ہے کبھی خروار غلّے کے اٹھا کر پھینک دیتا ہے کبھی چیونٹی کے ہاتھوں سے بھی دانہ چھین لیتا ہے کبھی آفاتِ ارضی و سماوی سے ہے ٹکراتا کبھی لُو بھی جو لگ جائے تو تیرا منہ ہے مرجھاتا کبھی کہتا ہے تو اللہ کو کس نے بنایا ہے ؟ کبھی کہتا ہے رازِ خلقِ دنیا کس نے پایا ہے ؟ کبھی اللہ کی قدرت کا بھی انکار ہے تجھ کو کبھی انسان کی رفعت پہ بھی اصرار ہے تجھ کو کمالِ ذات انسانی پہ سو سو ناز کرتا ہے کبھی شانِ خداوندی پہ سو سو حرف دھرتا ہے جو راحت ہو تو منہ راحت رساں سے موڑ لیتا ہے مصیبت ہو تو اس کے در پہ سر تک پھوڑ لیتا ہے جہانِ فلسفہ کی علتوں کو چارہ گر ہے تو مگر جو آنکھ کے آگے ہے اس سے بے خبر ہے تو تو مشرق کی بھی کہتا ہے تو مغرب کی بھی کہتا ہے مگر راز درون خانہ پوشیدہ ہی رہتا ہے سرود سازو رقص و جامِ انگوری و مے خواری پھر اس کے ساتھ تکبیریں بھی ہیں کیسی ہے خودداری؟ اگر چاہے تو بندے کو خدا سے بھی بڑھادے تو اگر چاہے تو کروبی کو دوزخ میں گرادے تو غلامی روس کی ہو یا غلامی مغربیت کی کوئی بھی نام رکھ لے تو وہ ہے زنجیر لعنت کی تو آزادی کا ٹھپہ کیوں غلامی پر لگاتا ہے غلافِ فَو ضَوِیَّت لے کے قرآں پر چڑھاتا ہے یہ کھیل اضداد کی عرصہ سے تیرے گھر میں جاری ہے کبھی ہے مارکس کا چرچا کبھی درسِ بخاری ہے مسلمانی ہے پر اسلام سےنا آشنائی ہے نہیں ایمان کسبی ، باپ دادوں کی کمائی ہے کبھی نعروں پہ تو قرباں کبھی گفتار پر قرباں مرے بھولے صنم میں اس ترے کردار پر قرباں اخبار المصلح جلد 6۔ 25ستمبر1953ء۔ کراچی۔ پاکستان کلام محمود صفحہ242 176۔ دل کعبہ کو چلا مرا بت خانہ چھوڑ کر دل کعبہ کو چلا مرا بت خانہ چھوڑ کر زمزم کی ہے تلاش اسے میخانہ چھوڑ کر کیوں چل دیا ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر جاتا ہے کوئی یوں کبھی کاشانہ چھوڑ کر منجدھار میں ہے کشتی ڈبوئی خرد نے آہ کیا پایا میں نے خصلتِ رندانہ چھوڑ کر اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے کیوں کر جیوں گا ہاتھ سے پیمانہ چھوڑ کر سچ ہے کہ فرق دوزخ و جنت میں ہے خفیف پائی نجات دام سے اک دانہ چھوڑ کر ہے لذت ِ سماع بھی لطفِ نگاہ بھی کیوں جارہے ہو صحبت جانا نہ چھوڑ کر ملک و بلاد سونپ دئیے دشمنوں کو سب بیٹھے ہو گھر میں خصلتِ مردانہ چھوڑ کر ہے گنجِ عرش ہاتھ میں قرآن طاق پر مینا کے ہورہے ہیں وہ میخانہ چھوڑ کر دل دے رہا ہوں آپ کو لیتے تو جائیے کیوں جارہے ہیں آپ یہ نذرانہ چھوڑ کر اخبار الفضل جلد 8۔ 26ستمبر1954ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ243 177۔ ہے مدت سے شیطاں کے ہاتھ آئی ہے مدت سے شیطاں کے ہاتھ آئی حکومت جہاں کی خدا کی خدائی ہر اک چیز الٹی نظر آرہی ہے بھلائی برائی۔ برائی بھلائی یہ گنگا تو الٹی بہے جارہی ہے جو مسلم کی دولت تھی کافر نے کھائی میں خود اپنے گھر کا بھی مالک نہیں ہوں ہے غیروں کے ہاتھوں میں میری بڑائی فرائڈ کا ہے ذکر ہر اک زباں پر ہیں بھولے ہوئے اب بخاری نسائی شجر کفر کا کاٹنا ہے مصیبت ہے دمڑی کی بڑھیا ٹکا سرمنڈائی ترے باپ دادوں کے مخزن مقفل ترے دل کو بھائی ہے دولت پرائی ہیں مدح و ثناء حصۂ گبرو ترسا یہ مسلم کی قسمت میں ہے جگ ہنسائی شیاطیں کا قبضہ ہے مسلم کے دل پر خدا کی دہائی خدا کی دہائی تو اک بار مجلس میں مجھکو بلا تو کروں گا نہ تجھ سے کبھی بے وفائی خدا میرا بدلہ ہے لیتا ہمیشہ جو گذری مرے دل پہ دنیا پہ آئی سنا کرتے ہیں دل کی حالت ہمیشہ کبھی آپ نے بھی ہے اپنی سنائی مرا کام جلتی پہ پانی چھڑکنا رقیبوں کا حصہ لگائی بجھائی محمد کی امت مسیؑحا کا لشکر پہیلی یہ میری سمجھ میں نہ آئی نبوت سے منکر وراثت کا دعویٰ ذرا دیکھنا مولوی کی ڈھٹائی رہی ہے نہ تیری نہ شیطاں کی وہ کچھ ایسی ہے بگڑی خدایا خدائی اخبار الفضل جلد 8۔ 7اکتوبر1954ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ244 178۔ دلبر کے در پہ جیسے ہوجانا ہی چاہیئے دلبر کے در پہ جیسے ہوجانا ہی چاہیئے گر ہوسکے تو حال سنانا ہی چاہیئے بیکار رکھ کے سینہ میں دل کیا کرونگا میں آخر کسی کے کام تو آنا ہی چاہیئے رنگِ وفا دکھاتے ہیں ادنیٰ وحوش بھی غم دوستوں کا کچھ تمھیں کھانا ہی چاہیئے اس سیہ روئی پہ شوقِ ملاقات ہے عبث اس ماہ رو کا رنگ چڑھانا ہی چاہیئے بے عیب چیز لیتے ہیں تحفہ میں خوبرو داغ دل اثیم مٹانا ہی چاہیئے شر و فساد ِ دہر بڑھا جارہا ہے آج اس کے مٹانے کو کوئی دانا ہی چاہیئے ساتھی بڑھیں گے تب کہ بڑھاؤ گے دوستی دلِ غیر کا بھی تم کو لبھانا چاہیئے تعمیر کعبہ کے لیےکوئی جگہ تو ہو پہلے صنم کدہ کو گرانا ہی چاہیئے رونق مکاں کی ہوتی ہے اس کے مکین سے اس دلربا کو دل میں بسانا ہی چاہیئے دل ہے شکارِ حرص و ہوا و ہوس ہوا پنجہ سے ان کے اس کو چھڑانا ہی چاہیئے اگست 1954ء ۔ ناصرآباد۔ سندھ  اخبار الفضل جلد 8۔ 12اکتوبر1954ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ245 179۔ ہے تاروں کی دنیا بہت دور ہم سے ہے تاروں کی دنیا بہت دور ہم سے ہم ان سے ہیں اور وہ ہیں مہجور ہم سے خدا جانے ان کو ہے آزادی حاصل کہ ہیں وہ بھی معذور و مجبور ہم سے زمانہ کو حاصل ہو نورِ نبوت جو سیکھے قوانین و دستور ہم سے خدا جانے دونوں میں کیا رس بھرا ہے ہم ان سے ہیں اور وہ ہیں مخمور ہم سے ہم ان سے نگاہیں لڑائیں گے پیہم وہ باتیں کریں گے سرِ طور ہم سے ادھر ہم بضد ہیں ادھر دل بضدہے ہم اس سے ہیں اور وہ ہے مجبور ہم سے رقیبوں سے بھی چھیڑ جاری رہے گی تعلق رہے گا بدستور ہم سے دل دوستاں کو نہ توڑیں گے ہرگز نہ ٹوٹے گا ہرگز یہ بلّور ہم سے دھرا ہم پہ بارِ شریعت تو پھر کیوں فرشتوں پہ ظاہر ہو مستور ہم سے مبارک ہو یہ ڈارون کو ہی رشتہ قرابت نہیں رکھتے لنگور ہم سے ناصر آباد۔ سندھ اخبار الفضل جلد 8۔ 21اکتوبر1954ء۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ246 180۔ آدم سے لیکر آج تک پیچھا ترا چھوڑا نہیں آدم سے لیکر آج تک پیچھا ترا چھوڑا نہیں شیطان ساتھی ہےترا لیکن وہ ہے بئس القریں گو بارہا دیکھا انہیں لیکن وہ لذت اور تھی دل سے کوئی پوچھے ذرا لطفِ نگاہِ اولیں ان سے اسے نسبت ہی کیا وہ نور ہیں یہ نار ہے گر وہ ملائے تو ملیں ان کے قدم میری جبیں سو بار توبہ توڑ کر جھکتی نہیں میری نظر جھکتی ہے نا کردہ گنہ ان کی نگاہ شرمگیں آنے کو وہ تیار تھے میں خود ہی کچھ شرما گیا ان کو بٹھاؤں میں کہاں دل میں صفائی تک نہیں ابدال کیا ،اقطاب کیا ، جبریل کیا ، میکال کیا جب تو خدا کا ہوگیا سب ہوگئے زیرِ نگیں اس پر ہوئے ظاہر محمد مصطفیٰ ؐحب الوری بالا ہے نہ افلاک سے کروبیو ! میری زمیں کھولا ہے کس تدبیر سے باب لقائے دلربا آئے ہیں کس انداز سے اوڑھے رداء المرسلیں آدوست دامن تھام لیں ہم مصطفیٰؐ کا زور سے ہے اک یہی بچنے کی رہ ہے اک یہی حبل المتیں کیا فکر ہے تجھ کو اگر شیطاں ہے بازی لے گیا دنیا خدا کی مِلک ہے تیری نہیں میری نہیں اخبار الفضل جلد 8۔ 23نومبر  1954ء ۔ لاہور ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ247 181۔ میں نے مانا مرے دلبر تری تصویر نہیں میں نے مانا مرے دلبر تری تصویر نہیں تیرے دیدار کی کیا کوئی بھی تدبیر نہیں سب ہی ہو جائیں مسلماں تری تقدیر نہیں یا دعاؤں میں ہی میری کوئی تاثیر نہیں دل میں بیٹھےکہ سمائے میری آنکھوں میں تو میری تعظیم ہے اس میں تری تحقیر نہیں دل رُبا کیسا ہے جو دل نہ لبھائے میرا سینے کے پارنہ ہوجائے تو وہ تیر نہیں ہے قیادت سے بھی پُرلُطف اطاعت مجھ کو ہوں تو مَیں پِیر مگر شکر ہے بے پِیر نہیں صاف ہو جائے دلِ کافر و منکر جس سے تیری تقدیر میں ایسی کوئی تدبیر نہیں اس کی آواز پہ پھر کیوں نہیں کہتے لبیک طوق گردن میں نہیں پاؤں میں زنجیر نہیں مجھ سے وحشی کو کیا ایک اشارے میں رام کیا یہ جادو نہیں کیا روح کی تسخیر نہیں سبق آزادی کا دیتے ہیں دلِ عاشق کو ان کی زُلفوں میں کوئی زُلفِ گرہ گیر نہیں کوئی دشمن اسے کر سکتا نہیں مجھ سے جدا ہے تصور ترا دل میں کوئی تصویر نہیں ان کی جادو بھری باتوں پہ مرا جاتا ہوں قتل کرتے ہیں مگر ہاتھ میں شمشیر نہیں جس کی تھی چیز اسی کے ہی حوالے کر دی دے کے دل خوش ہوں میں اس بات پہ دل گیر نہیں جس پہ عاشق ہوا ہوں میں وہ اسی قابل تھا خود ہی تم دیکھ لو اس میں مری تقصیر نہیں روحِ انسانی کو جو بخشے جِلا ہے اکسیر مِس کو چھو کر جو طِلا کر دے وہ اکسیر نہیں اخبار الفضل جلد8 ۔17 دسمبر 1954ء لاہور ۔پاکستان کلام محمود صفحہ248۔251 182۔ مر رہا ہے بھوک کی شدت سے بیچارہ غریب تصویر کا پہلا رُخ مر رہا ہے بھوک کی شدت سے بیچارہ غریب ڈھانکنے کو تن کے گاڑھا تک نہیں اس کو نصیب کھاتے ہیں زردہ پلاؤ قورما و شیر مال مخملی دوشالے اوڑھے پھرتے ہیں اس کے رقیب تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں اصطبل میں گھوڑے ہیں بھینسیں بھی ہیں کچھ شِیردار سبزے کی کثرت سے گھر بھی بن رہا ہے مرغزار لب پہ ان کے قہقہے ہیں ان کی آنکھوں میں  بہار روحِ انسانی ہے پَر خاموش بیٹھی سوگوار تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں جب وبا آئے تو پہلے اس سے مرتے ہیں غریب مال داروں کو مگر لگتے ہیں ٹیکے، ہے عجیب موت جس کے پاس ہے ہے وہ تومحرومِ دوا اور جو محفوظ ہیں ان کو دوائیں ہیں نصیب تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں نورِ قرآں کی تجلی ہے زمانہ بھر میں آج احمدِ ثانی نے رکھ لی احمدِ اول کی لاج کفر نے بت توڑ ڈالے دَیر کو ویراں کیا پر مسلمانوں کے گھر میں ہے جہالت ہی کا راج تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں وِرثۂ نبوی کے ڈر سے مولوی کا احترام اُلفتِ پدری کی خاطر سیدوں کے ہیں غلام جو بھی کچھ ہے غیر کا ہے ان کی حالت ہے تو یہ دولتِ عقبیٰ سے خالی نعمتِ دنیا حرام تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں یاد ہیں قرآن کے الفاظ تو ان کو تمام اور پوچھیں تو ہیں کہتے یہ ہے اللہ کا کلام پر یقیں مفقود ہے ایمان ہے بالکل ہی خام علم و عرفاں کی غذا ان پر ہے قطعًا ہی حرام تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں مال سے ہے جیب خالی علم سے خالی ہے سر یادِ خالق سے ہے غفلت رہتی ہے فکرِ دگر مالِ خود برباد ویراں مالِ دیگر پر نظر منزلِ آخر سے غافل پھر رہے ہیں در بدر تیرے بند ے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں ہے قدم دنیا کا ہر دم آگے آگے جا رہا تیز تر گردش میں ہیں پہلے سے اب ارض و سما آج کوئی بھی نظر آتا نہیں ساکن ہمیں ایک مسلم ہے کہ ہے آرام سے بیٹھا ہوا تیرے بند ے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں فکرِ انسانی فلک پر اُڑ رہا ہے آج کل فلسفہ دکھلا رہا ہے خوب اپنا زور و بَل پر مسلماں راستہ پر محوِ حیرت ہے کھڑا کہہ رہا ہے اس کو مُلا اک قدم آگے نہ چل تیرے بند ے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں شمعِ نورِ آسمانی کو دیا جس نے بجھا باب وحیِ حق کا جس نے بند بالکل کر دیا جس نے فضلِ ایزدی کی راہیں سب مسدود کیں ہے اُسی مُلا کو مسلم نے بنایا راہ نما تیرے بند ے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں تصویر کا دوسرا رُخ وہ بھی ہیں کچھ جو کہ تیرے عشق  میں مخمور ہیں دنیوی آلائشوں سے پاک ہیں اور دور ہیں دنیا والوں نے انھیں بے گھر کیا بے در کیا پھر بھی ان کے قلب حُبِّ خلق سے معمور ہیں تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں ڈھانپتے رہتے ہیں ہر دم دوسروں کے عیب کو ہیں چھپاتے رہتے وہ دنیا جہاں کے عیب کو ان کا شیوہ نیک ظنی نیک خواہی ہے سدا آنے دیتے ہی نہیں دل میں کبھی بھی ریب کو تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں روز و شب قرآن میں فکر و تدبر مشغلہ ان پہ دروازہ کھلا ہے دین کے اسرار کا تجھ میں ان میں غیریت کوئی نظر آتی نہیں ہیں اگر وہ مال تیرا تُو بھی ان کا ہے صلہ تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں اک طرف تیری محبت اک طرف دنیا کا درد دل پھٹا جاتا ہے سینے میں ہے چہرہ زرد زرد ہیں لگے رہتے دعاؤں میں وہ دن بھی رات بھی ہیں زمین و آسماں میں پھر رہے وہ رَہ نَوَرد تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں جن کو بیماری لگی ہے وہ ہیں غافل سو رہے پر یہ ان کی فکر میں ہیں سخت بے کل ہو رہے ایک بیماری سے گھائل ایک فکروں کا شکار دیکھئے دنیا میں باقی یہ رہے یا وہ رہے تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں بادۂ عرفاں سے تیری ان کے سر مخمور ہیں جذبۂ الفت سے تیرے ان کے دل معمور ہیں ان کے سینوں میں اُٹھا کرتے ہیں طوفاں رات دن وہ زمانہ بھر  میں دیوانے ترے مشہور ہیں تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں طاقت و قوت کے مالک ان کامنہ کرتے ہیں بند دین کی گدی کے وارث پھینکتے ہیں ان پہ گند وہ ہر اک صیاد کے تیروں کا بنتے ہیں ہدف جس کا بس چلتا ہے پہنچاتا ہے وہ ان کو گزند تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں فکرِ خود سے فکرِ دنیا کے لیے آزاد ہیں شاد کرتے ہیں زمانہ بھر کو خود ناشاد ہیں دنیا والوں کی نظر میں پھر بھی ٹحہرے ہیں حقیر ہیں گنہ لازم مگر سب نیکیاں برباد ہیں تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں بند کر کے آنکھ دنیا کی طرف سے آج وہ رکھ رہے ہیں تیرے دیں کی سب جہاں میں لاج وہ تیری خاطر سہہ رہے ہیں ہر طرح کی ذلتیں پر ادا کرتے نہیں شیطاں کو ہر گز باج وہ تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں ساری دنیا سے ہے بڑھ کر حوصلہ ان کا بلند پھینکتے ہیں عرش کے کنگوروں پر اپنی کمند کیوں نہ ہو وہ صاحبِ معراج کے شاگرد ہیں آسماں پر اُڑ رہا ہے اس لیے ان کا سمند تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں جن کو سمجھی تھی برا دنیا وہی تیرے ہوئے شیر کی مانند اُٹھے ہیں وہ اب بپھرے ہوئے نام تیرا کر رہے ہیں ساری دنیا میں بلند جاں ہتھیلی پر دھرے سر پر کفن باندھے ہوئے تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں اخبار الفضل جلد 8۔ 31 دسمبر1954ء ۔ ربوہ ۔پاکستان کلام محمود صفحہ252۔253 183۔ بڑھتی رہے خدا کی محبت خداکرے بڑھتی رہے خدا کی محبت خداکرے حاصل ہو تم کو دید کی لذت خداکرے توحید کی ہو لب پہ شہادت خداکرے ایمان کی ہو دل میں حلاوت خداکرے پڑ جائے ایسی نیکی کی عادت خداکرے سرزد نہ ہو کوئی بھی شرارت خداکرے حاکم رہے دلوں پہ شریعت خداکرے حاصل ہو مصطفےٰؐ  کی رفاقت خداکرے مٹ جائے دل سے زنگِ رذالت خداکرے آجائے پھر سے دورِ شرافت خداکرے مل جائیں تم کو زہد و امانت خداکرے مشہور ہو تمہاری دیانت خداکرے بڑھتی رہے ہمیشہ ہی طاقت خداکرے جسموں کو چھو نہ جائے نقاہت خداکرے مل جائے تم کو دین کی دولت خداکرے چمکے فلک پہ تارۂ قسمت خداکرے ٹل جائے جو بھی آئے مصیبت خداکرے پہنچے نہ  تم کوکوئی اذیت خداکرے منظور ہو تمہاری اطاعت خداکرے مقبول ہو تمہاری عبادت خداکرے سن لے ندائے حق کو یہ اُمت خداکرے پکڑے بزور دامنِ ملت خداکرے چھوٹے کبھی نہ جامِ سخاوت خداکرے ٹوٹے کبھی نہ پائے صداقت خدا کرے راضی رہو خدا کی قضا پر ہمیش تم لب پر نہ آئے حرفِ شکایت خداکرے احسان و لطف عام رہے سب جہان پر کرتے رہو ہر اک سے مروت خداکرے گہوارۂ علوم تمہارے بنیں قلوب پھٹکے نہ پاس تک بھی جہالت خداکرے بدیوں سے پہلو اپنا بچاتے رہو مدام تقوٰی کی راہیں طے ہوں بَعُجلت خداکرے سننے لگے وہ بات تمہاری بذو ق و شوق دنیا کے دل سے دور ہو نفرت خداکرے اخلاص کا درخت بڑے آسمان تک بڑھتی رہے تمہاری ارادت خداکرے پھیلاؤ سب جہان میں قولِ رسولؐ  کو حاصل ہو شرق و غرب میں سَطوَت خداکرے پایاب ہو تمھارے لیے بحرِ معرفت کھل جائے تم پہ رازِ حقیقت خداکرےرہے اُٹھتارہے ترقی کی جانب قدم ہمیش ٹوٹے کبھی تمھاری نہ ہمت خدا کرے تبلیغِ دین و نشرِ ہدایت کے کام پر مائل رہے تمھاری طبیعت خدا کرے سایہ فِگن رہے وہ تمھارے وجود پر شامل رہے خدا کی عنایت خدا کرے زندہ رہیں علوم تمھارے جہان میں پایندہ ہو تمھاری لیاقت خدا کرے سو سو حجاب میں بھی نظر آئے اُس کی شان تم کو عطا ہو ایسی بصیرت خدا کرے ہر گام پر فرشتوں کا لشکر ہو ساتھ ساتھ ہر ملک میں تمھاری حفاظت خدا کرے قرآن پاک ہاتھ میں ہو دل میں نور ہو مل جائے مومنوں کی فراست خدا کرے دجال کے بچھائے ہوئے جال توڑ دو حاصل ہو تم کو ایسی ذِہانت خدا کرے پرواز ہو تمھاری نُہ افلاک سے بلند پیدا ہو بازوؤں میں وہ قوت خدا کرے بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب بڑھتا رہے وہ نورِ نبوت خدا کرے قائم ہو پھر سے حکمِ محمدؐ جہان پر ضائع نہ ہو تمھاری یہ محنت خدا کرے تم ہو خدا کے ساتھ خدا ہو تمھارے ساتھ ہوں تم سے ایسے وقت میں رُخصت خدا کرے اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے اخبار الفضل جلد9۔یکم جنوری 1955ء ربوہ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ254 184۔ دید کی راہ بتائی تھی ہے تیرا احساں دید کی راہ بتائی تھی ہے تیرا احساں اس کی تدبیر سجھائی تھی ہے تیرا احساں تم سے ملنے کی خدا کو بھی ہے خواہش یہ خبر مصطفےٰؐ  ! تُو نے سنائی تھی ہے تیرا احساں ہفت اقلیم کو جو راکھ کیے دیتی تھی تُو نے وہ آگ بجھائی تھی ہے تیرا احساں راہ گیروں کو بچانے کے لیے ظلمت میں شمع اک تو نے جلائی تھی ہے تیرا احساں جس نے ویرانوں کو دنیا کے کیا ہے آباد بستی وہ تُو نے بسائی تھی ہے تیرا احساں جس کی گرمی سے مری روح ہوئی ہے پختہ تو نے وہ آگ جلائی تھی ہے تیرا احساں عرش سے کھینچ کے لے آئی خدا کو جو چیز تیری بروقت دوہائی تھی ہے تیرا احساں آج مسلم کو جو ملتی ہے ولایت واللہ! سب ترے حصہ میں آئی تھی ہے تیرا احساں قیدِ شیطاں سے چھڑانے کے لیےعاصی کو کس نے تکلیف اُٹھائی تھی ہے تیرا احساں تو نے انسان کو انسان بنایا پھر سے ورنہ شیطاں کی بن آئی تھی ہے تیرا احساں اخبار الفضل جلد9۔ 10فروری 1955ء ربوہ ۔پاکستان کلام محمود صفحہ255 185۔ کرو جان قربان راہِ خدا میں کرو جان قربان راہِ خدا میں بڑھاؤ قدم تم طریقِ وفا میں فرشتوں سے مل کر اُڑو تم ہوا میں مہک جائے خوشبوئے ایماں فضا میں ہوا کیا کہ دشمن ہے ابلیس پیارو خدا نے نوازا ہے ہر دو سرا میں ہے قرآن میں جو سرور اور لذت نہ ہے مثنوی میں نہ بانگِ درا میں محبت رہے زندہ تیرے ہی دم سے تو مشہورِ عالم ہو مھرو وفا میں خدا کی نظر میں رہے تُو ہمیشہ ہو مشغول دل تیرا ذکرِ خدا میں تجھے غیر کے غم میں مرنے کی عادت مہارت ہے غیروں کو جوروجفا میں مساواتِ اسلام قائم کرو تم رہے فرق باقی نہ شاہ و گدا میں اخبار الفضل جلد10۔ 30 دسمبر 1956ء ربوہ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ256۔257 186۔ اے خدا دل کو مرے مزرعِ تقوٰی کر دیں

کچھ دن کی بات ہے کہ بارہ بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو زبان پر یہ اشعار جاری تھے۔ گویا یہ غزل القائی ہے۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ پہلا شعر تو لفظ بلفظ یاد رہا ہے اور باقی اشعار میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے بعض لفظ تو بھول گئے اور جاگنے پر خود اس کمی کو پورا کیا گیا اور دو تین شعر ایسے ہیں جو سارے کے سارے جاگنے پر بنائے گئے۔ اب یہ سب اشعار اشاعت کے لیے الفضل کو بھجوائے جاتے ہیں۔ (مرزامحمود احمد)

اے خدا دل کو مرے مزرعِ تقوٰی کر دیں ہوں اگر بد بھی تو تو بھی مجھے اچھا کر دیں میری آنکھیں نہ ہٹیں آپ کے چہرہ سے کبھی دل کو وارفتہ کریں محوِ تماشا کر دیں دانۂ سبحہ1 پراگندہ ہیں چاروں جانب ہاتھ پر میرے انہیں آپ اکٹھا کر دیں ساری دنیا کے پیاسوں کو کروں میں سیراب چشمۂ شور بھی ہوں گر مجھے میٹھا کر دیں میں بھی اس سیدِ بطحاؐ کا غلامِ در ہوں دم سے روشن مرے بھی وادئ بطحا کر دیں ٹیڑھے رستہ پہ چلے جاتے ہیں تیرے بندے پھیر لائیں انھیں اور راہ کو سیدھا کر دیں منتظر بیٹھے ہیں دروازہ پہ عاشق اے رب تھوک دیں غصہ کو دروازہ کو پھر وَا کر دیں احمدی لوگ ہیں دنیا کی نگاہوں میں ذلیل ان کی عزت کو بڑھائیں انہیں اونچا کر دیں میرے قدموں پہ کھڑے ہو کے تجھے دیکھیں لوگ ربِ ابرام2 مجھے اس کا مصلٰے کر دیں مجھ سے کھویا ہوا ایمان مسلماں پالیں ہوں تو سفلی پہ مجھے آپ ثریا کر دیں لوگ بے تاب ہیں بے حد کہ نمونہ دیکھیں سالکِ رہ کے لیے مجھ کو نمونہ کر دیں مقصدِ خلق بر آئے گا یہی تو ہو گا اندھی دنیا کو اگر فضل سے بینا کر دیں ظلمتیں آپ کو سجتی نہیں میرے پیارے پردے سب چاک کریں چہرہ کو ننگا کر دیں اپنے ہاتھوں سے ہوئی ہے مری صحت برباد میری بیماری کا اب آپ مداوٰی کر دیں بارآور ہو جو ایسا کہ جہاں بھر کھائے دل  میں میرے وہ شجر خیر کا پیدا کر دیں میں تہی دست ہوں رکھتا نہیں کچھ راسِ عمل جو نہیں پاس مرے آپ مہیا کر دیں 1: مراد مسلمان ہیں 2: ابراہیم علیہ السلام اخبار الفضل جلد 11۔ 6 فروری 1957ء۔ ربوہ ۔پاکستان کلام محمود صفحہ258 187۔ میرے آقا! پیش ہے یہ حاصلِ شام و سحر میرے آقا! پیش ہے یہ حاصلِ شام و سحر سینۂ صافی کی آہیں آنکھ کے لعل و گُہر مَیں نے سمجھا تھا جوانی میں گزر جاؤں گا پار اب جو دیکھا سامنے ہیں پھر وہی خوف و خطر کثرتِ آثام سے ہے خم ہوئی میری کمر اب یہی اس کا مداوا ہے کہ کر دیں درگزر آپ تو ہیں مالکِ ارض و سما اے میری جاں آپ کا خادم مگر پھرتا ہے کیوں یوں در بدر بے سروساماں ہوں اس دنیا میں اے میرے خدا اپنی جنت میں بنا دیں آپ میرا ایک گھر آدمِ اول سے لے کر وہ ہے زندہ آج تک ایسی طاقت دے کچل ڈالوں میں اب شیطاں کا سر مومنِ کامل کا گھر ہے جنتِ اعراف میں اور دوزخ کا مکیں ہے جو بنا ہے مَن کَفَر وہ بھی اوجھل ہے مری آنکھوں سے جو ہے سامنے ہے ترے علمِ ازل میں جو ہے غائب مستَتر میرے ہاتھوں میں نہیں ہے نیک ہو یا بد ہو وہ مِلک میں تیری ہے یا رب خیر ہو وہ یا کہ شر آج سب مسلم خواتیں کی ہیں عریاں زینتیں تُو نے فرمایا تھا ہے پردے سے باہر مَا ظَھَر سایۂ کفار سے رکھیو مجھے باہر ہمیش اے مرے قدوس! اے میرے ملیکِ بحرو بر لاکھ حملہ کن ہو مجھ پر فتنۂ زندیقیت بیچ میں آ جائیو بن جائیو میری سِپر ہیں ترے بندے مگر ہاتھوں کی طاقت سلب ہے کفر کا خیمہ لگا ہے قریہ قریہ گھر بہ گھر جن کو حاصل تھا تقرب وہ ہیں اب معتوبِ دہر اور ہیں مسند پہ بیٹھے جو ہیں خچر اور خر اخبار الفضل جلد11۔ 31 دسمبر 1957ء ربوہ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ259۔260 188۔ ہوئی طے آدم و حوا کی منزل اُنس و قربت سے ہوئی طے آدم و حوا کی منزل اُنس و قربت سے مگر ابلیس اندھا تھا کہ چمٹا حق کی لعنت سے خدا کا قرب پائے گا نہ راحت سے نہ غفلت سے یہ درجہ گر ملے گا تو فقط ایثار و محنت سے الٰہی تُو بچا لے سب مسلمانوں کو ذلت سے کہ جو کچھ کر رہے ہیں کر رہے ہیں وہ جہالت سے عزیزو! دل  رہیں آباد بس اس کی محبت سے بنو زاہد، کرو الفت نہ ہر گز مال و دولت سے خدا سے پیار کر دل سے اگر رہنا ہو عزت سے کہ ابراہیم ؑ کی عزت تھی سب مولیٰ کی خُلت سے اگر رہنا ہو راحت سے تو رہ کامل قناعت سے کبھی بھی تر نہ ہو تیری زباں حرفِ شکایت سے تعلق کوئی بھی رکھنا نہ تم بغض و عداوت سے کہ مومن کو ترقی ملتی ہے مہر و محبت سے تری یہ عاجزی بالا ہے سب دنیا کی عزت سے تجھے کیا کام ہے دنیا کی رفعت اور شوکت سے ترا دشمن بڑائی چاہتا ہے گر شرارت سے تو اس کا توڑ دے منہ تُو محبت سے مروت سے ملا ہے علم سے مجھ کو نہ کچھ اپنی لیاقت سے ملا ہے مجھ کو جو کچھ بھی سو مولیٰ کی عنایت سے بسرکر عمر تُو اپنی نہ سو سو کر نہ غفلت سے کہ ملتی ہے ہر اک عزت اطاعت سے عبادت سے گئی ابلیس کی تدبیر ضائع سب بہ فضلِ اللہ ملی ہے آدم و حوا کو جنت حق کی رحمت سے کلیم اللہ کے پیرو بنے ہیں پیروِ شیطاں دکھایا سامری نے کیا تماشا اپنی لُعبت سے جنھوں نے پائی ہے اللہ کی کوئی شریعت بھی انھیں تُو ٹھیک کر سکتا نہیں، پرحق و حکمت سے مرے ہاتھوں تو پیدا ہو گئی ہیں اُلجھنیں لاکھوں جو سلجھیں گی تو سلجھیں گی ترے دستِ مروت سے مرا سردارِ کوثر بانٹنے بیٹھا ہے جب پانی تو دل میں خیال تک مت لا کہ وہ بانٹے گا خِست سے مسیحاؑکے لیے لکھا ہے وہ شیطاں کو مارے گا نہ مارے گا وہ آہن سے کرے گا قتل حجت سے مری بخشش تو وابستہ ہے تیری چشم پوشی سے الٰہی رحم کر مجھ پر مرا جاتا ہوں خِفت سے مجھے تو اے خدا دنیا میں ہی تو بخش دے جنت تسلی پا نہیں سکتا قیامت کی زیارت سے ترے در کے سوا دیکھوں نہ دروازہ کسی گھر کا کبھی مت کھینچیو ہاتھ اپنا تو میری کفالت کا نہ بھول اے ابن آدمؑ اپنے دادا کی حِکایت کو نکالا تھا اُسے ابلیس نے دھوکہ سے جنت سے خدا سے بڑھ کے تم کو چاہنے والا نہیں کوئی کسی کا پیار بڑھ سکتا نہیں ہے اس کی چاہت سے کرو دجال کو تم سرنگوں اطرافِ عالم میں کہ ہے لبریز دل اُس کا محمد کی عداوت سے کبھی مغرب کی باتوں  میں نہ آنا اے مرے پیارو! نہیں کوئی ثقافت بڑھ کے اسلامی ثقافت سے یہ ظاہر میں غلامی ہے مگر باطن میں آزادی نہ ہونا منحرف ہرگز محمد ؐکی حکومت سے کہا تھا طورپر موسٰیؑ کو اس نے لَن تَرَانِی پر محمد پر ہوا جلوہ تَدَلّٰی کا عنایت سے ترے دشمن تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ جائیں گے نہ ڈر ان سے کھڑا ہو سامنے تو ان کے جرات سے ہے کرنا زیر شیطاں کا بہت مشکل مگر سمجھو کہ حل ہوتی ہے یہ مشکل دعاؤں کی اجابت سے خدایا دور کر دے ساری بدیاں تُو مرے دل سے ہوا برباد ہے میراسکوں عقبیٰ کی دہشت سے اخبار الفضل جلد 12۔ 21دسمبر 1958ء ربوہ ۔پاکستان کلام محمود صفحہ261-262 189۔ بلا کی آگ برستی ہے آسماں سے آج بلا کی آگ برستی ہے آسماں سے آج ہیں تیر چھُٹ رہے تقدیر کی کماں سے آج اُٹھ اور اُٹھ کے دکھا زور حُبِ ملت کا یہ التجا ہےمری پِیر اور جواں سے آج وہ چاہتا ہے کہ ظاہر کرے زمانہ پر ہمارے دل کے ارادے اس امتحاں سے آج جو دل کو چھید دے جا کر عدوِ مسلم کے وہ تیر نکلے الٰہی مری کماں سے آج خدا ہماری مدد پر ہے جو کہ ہیں مظلوم مٹائے گا وہ عدُو کو مرے جہاں سے آج جلا کے چھوڑیں گے اعدائے کینہ پرور کو نکل رہے ہیں جو شعلے دلِ تپاں سے آج ہزار سال مسلماں نے تجھ کو پالا ہے یہ غیظ تجھ میں اُبھر آیا ہے کہاں سے آج جو قلبِ مؤمنِ صادق سے اُٹھ رہی ہے دعا اُتر رہے ہیں فرشتے بھی کہکشاں سے آج ہمارے نیک ارادوں پر اس قدر شبہات؟ خدا ضرور ہی نپٹے گا بدگماں سے آج عدُو یہ چاہتا ہے ہم کو لامکاں کر دے ہمیں بھی آئے گی امداد لامکاں سے آج فرشتے بھر رہے ہیں اس کو اپنے دامن میں نکل رہی ہے دعا جو مری زباں سے آج پڑے گی رُوح نئی جسمِ زارِ مسلم میں وہ کام ہو گا مرے جسم نیم جاں سے آج دعائیں شعلۂ جوالا بن کے اُتریں گی جلا کے رکھ دیں گے اعداء کو ہم فغاں سے آج جیوشِ ابرہہ کو تہس نہس کر دے گی اُڑے گی فوجِ طیور اپنے آشیاں سے آج شہید ہوں گے جو اسلام کی حفاظت میں مُلاقی ہوں گے وہی اپنے دلستاں سے آج انہیں کے نام سے زندہ رہے گا نامِ وطن گھروں سے نکلیں گے جو ہاتھ دھو کے جاں سے آج ہمیں وہ دامنِ رحمت سے ڈھانپ لیں گے ضرور بھریں گے گھر کو ہمارے وہ ارمغاں سے آج مُشامِ جان معطر کرے گی جو خوشبو مہک رہی ہے وہی میرے بوستاں میں آج اخبار الفضل جلد 19/54۔ 15ستمبر1965ء ربوہ ۔پاکستان کلام محمود صفحہ263 190۔ ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے

یہ نظم بہت پرانی ہے۔ غالباً 1924 ء کے لگ بھگ کی۔ کھو گئی تھی۔ صرف حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مطلع یاد رہ گیا تھا اور حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1946 ء میں دوبارہ اس مطلع پر نظم کہی تھی جو 9نومبر1951ء کے "الفضل "میں شائع ہوئی۔ اب کاغذات دیکھتے ہوئے پہلی نظم حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی مل گئی ہے جو ذیل میں شائع کی جا رہی ہے۔

(مریم صدیقہ) ایک دل شیشہ کی مانند ہوا کرتا ہے ٹھیس لگ جائے ذرا سی تو صدا کرتا ہے مَیں نے پوچھا جو ہو کیوں چُپ تو تنک  کر بولے ہم بھرے بیٹھے ہیں جانے بھی دے کیا کرتا ہے دوستی اور وفاداری ہے سب عیش کے وقت آڑے وقتوں میں بھلا کون وفا کرتا ہے چلتے کاموں میں مدد دینے کو سب حاضر ہیں جب بگڑ جائیں فقط ایک خدا کرتا ہے کیا بتاؤں تجھے کیا باعثِ خاموشی ہے میرے سینہ میں یونہی درد ہوا کرتا ہے مَیں تو بیداری میں رکھتا ہوں سنبھالے دل کو جب میں سو جاؤں تو یہ آہ و بُکا کرتا ہے تم نے بھی آگ بجھائی نہ کبھی آ کے مری میری آنکھوں سے مرا دل یہ گلہ کرتا ہے درد تو اور ہی کرتا ہے تقاضا دل سے پر وہ اظہارِ محبت سے دبا کرتا ہے ہجر میں زیست مجھے موت نظر آتی ہے کوئی ایسا بھی ہے  عاشق جو جیا کرتا ہے بیٹھ جاتا ہوں وہیں تھام کے اپنے سر کو جب کبھی دل میں مرے درد اٹھا کرتا ہے اخبار الفضل جلد 20/55۔ 26 مارچ 1966ء کلام محمود صفحہ264 191۔ آمد کا تیری پیارے ہواانتظارکب تک قبل از ہجرت قادیاں میں آمد کا تیری پیارے ہواانتظارکب تک ترسے گا تیرےمنہ کو یہ دلفگار کب تک کرتا رہے گا وعدے اے گلعذار کب تک چبھتا رہے گا دل میں حسرت کا خار کب تک کھولے گا مجھ پہ کب تک یہ راز خلق و خالق دیکھوں گا تیری جانب آئینہ وار کب تک ہر چیز س جہاں کی ڈھلتا ہوا ہے سایہ روزشباب کب تک لطف بہار کب تک ان وادیوں کی رونق کب تک رہے گی قائم یہ ابروبادوباراں یہ سبزہ زار کب تک یہ خدوخال کب تک یہ چال ڈھال کب تک اس حسن عارضی میں آخر نکھار کب تک بیٹھیں گے ابن آدم کب کنج عافیت میں شوروشغب یہ کب تک یہ خرخشار کب تک بعد ہجرت سندھ کےسفر میں تری تدبیر جب تقدیر سے لڑتی ہے اے ناداں تو اک نقصان کے بدلے ترے ہوتے ہیں سو نقصاں وہ خود دیتے ہیں جب مجھ کوبھلا انکار ممکن ہے میں کیوں فاقے رہوں جب شاہ کے گھر میں ہوا مہماں بٹھا کر مائدہ پر لاکھ وہ خاطر کریں میری گداپھربھی گداہےاور سلطاں پھر بھی ہے سلطاں جب آئے دل میں آؤاورجوچاہو کہو اس سے یہ وہ در ہے جس کا کوئی حاجب ہے نہ درباں ہے اخبار الفضل جلد20/55۔26مارچ 1966ء کلام محمود صفحہ265۔267 192۔ جناب مولوی تشریف لائیں گے تو کیا ہوگا جناب مولوی تشریف لائیں گے تو کیا ہوگا وہ بھڑکائیں گے لوگوں کو مگر اپنا خدا ہوگا یہی ہوگا نا غصہ میں وہ ہم کو گالیاں دیں گے سنائیں گے وہ کچھ پہلے نہ جو ہم نے سنا ہوگا ہم ان کی تلخ گفتاری پہ ہرگزکچھ نہ بولیں گے جوبگڑے گاتوان کا منہ۔ہماراہرج کیا ہوگا وہ کافر اور ملحد ہم کو بتلائیں گے منبرپر ہمارے زندقہ کا فتویٰ سب میں برملا ہوگا کہیں گے قتل کرنا اس کا جائز بلکہ واجب ہے جو اس کو قتل کردے گا وہ محبوب خدا ہوگا جو اس کا مال لوٹے گا وہ ہوگا داخل جنت جو حملہ اس کی عزت پر کرے گا باصفا ہوگا جو اس کے ساتھ چھو جائےاچھوتوں کی طرح ہوگا جو اس سے بات کر لے گا وہ شیطاں سے برا ہوگا ہراک جاہل یہ باتیں سن کے بھر جائے گا غصہ سے ہمارے قتل پر آمادہ ہرچھوٹا بڑا ہوگا وہ جن کے پیارو الفت کی قسم کھاتے تھے ہم اب تک ہر اک ان میں سے کل پیاسا ہمارے خون کا ہوگا تعلق چھوڑ دیں گے باپ ماں بھائی برادر سب ہو اب تک یار جانی تھا وہ کل ناآشنا ہوگا وہ جس کی صحبت و مجلس میں دن اپنے گزرتے تھے ہمارے ساتھ اس کا کل سلوک ناروا ہوگا ہماری سنگ باری کے لیے پتھر چنیں گےسب کمر میں ہر کس وناکس کے اک خنجر بندھا ہوگا اکابر جمع ہو کر بھنگیوں کے گھر بھی جائیں گے کہیں گے گر کرو گے کام ان کا تو برا ہوگا اگر سودے کی خاطر ہم کبھی بازار جائیں گے ہر اک تاجرکہے گاجا میاں !ورنہ برا ہوگا ہمارے واسطے دنیا بنے گی ایک ویرانہ ہو اس یار جانی کے نہ کوئی دوسرا ہوگا ہمیں وہ ہر طرف سےڈھانپ لے گا اپنی رحمت سے جوآنکھوں میں بسا ہوگاتودل میں وہ چھپا ہوگا تبھی توحید کا بھی لطف آئے گاہمیں صاحب زمیں پر بھی خداہوگافلک پر بھی خدا ہوگا سمجھتے ہو کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ کیوں ہوگا؟ یہ ظلم نارواکس وجہ سےہم پر روا ہوگا؟ ہمارا جرم بس یہ ہےکہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ جب ہوگااسی امت سے پیدا رہنما ہوگا نہ آئے گا مسلمانوں کا رہبر کوئی باہر سے جو ہوگا خودمسلمانوں کے اندرسے کھڑا ہوگا ہمارے سید و مولانہیں محتاج غیروں کے قیامت تک بس اب دورہ انہی کے فیض کاہوگا  جواپنی زندگی ان کی غلامی میں گزارے گا بنے گا رہنمائے قوم فخر الانبیاء ہوگا اخبار الفضل ربوہ 20جون 1966ء کلام محمود صفحہ268 193۔ خدا کی رحمت سے مہر عالم افق کی جانب سے اٹھا رہا ہے خد اکی رحمت سے مہر عالم افق کی جانب سے اٹھا رہا ہے رگ محبت پھڑک رہی ہےدل ایک شعلہ بنا ہوا ہے تمھارے گھٹتے ہوئے ہیں سائے ،ہمارے بڑھتے ہوئے ہیں سائے ہماری قسمت میں یہ لکھا ہے تمہاری قسمت میں وہ لکھا ہے ادھر بھی دیکھو ادھر بھی دیکھو،زمیں کو دیکھو فلک کو دیکھو تورازکھل جائے گا یہ تم پر کہ بندہ بندہ ،خدا خد اہے وہ شمس دنیائے معرفت جو چمک رہا تھا کبھی فلک پر خدا کے بندوں کی غفلتوں سے وہ دلدلوں میں پھنسا ہوا ہے کلام یزداں پہ آج ملّانے ڈھیروں کپڑے چڑھا رکھے ہیں کبھی جو تھا زندگی کا چشمہ وہ آج جوہڑ بنا ہوا ہے نگاہ کافر زمیں سے نیچے نگاہ مومن فلک سے اوپر وہ قعر دوزخ میں جل رہا ہے یہ اپنے مولی ٰ سے جا ملا ہے تلاش اس کی عبث ہے واعظ کجا ترا دل کجا وہ دلبر وہ تیرے دل سے نکل چکا ہے نگاہ مومن میں بس رہا ہے ہیں مجھ میں لاکھوں ہی عیب پھر بھی نگاہ دلبر پر چڑھ گیا ہوں جو بات سچی ہے کہ رہا ہوں نہ کچھ خِفا ہے نہ کچھ ریا ہے یہ اشعار جون1950ءمیں سندھ کےسفر میں کہے گئے تھے۔ اخبار الفضل ربوہ 11جنوری 1968ء کلام محمود صفحہ269 194۔ قدموں میں اپنے آپ کو مولا کے ڈال دو قدموں میں اپنے آپ کو مولا کے ڈال دو خوف وہراس غیر کادل سے نکال تو لعل وگہر کے عشق میں دنیا ہے پھنس رہی تو اس سے آنکھ موڑ،ہےمولا کا لال تو سایہ ہے تیرے سر پہ خدائے جلیل کا دشمن کے جور وظلم سے ہےکیوں نڈھال تو اے میرے مہربان خدا!اک نگاہ مھر کانٹا جو میرے دل میں چبھا ہےنکال تو اس لالہ رخ کے عشق میں ،میں مست حال ہوں آنکھیں دکھا رہا ہے مجھے لال لال تو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا ہوا ہےگند ہرہرقدم پہ ہوش سے دامن سنبھال تو تیرا جہان وہم ہے میرا جہاں عمل میں مست حال ہوں تو ہےمست خیال تو نومبر1951 اخبار الفضل 31دسمبر 1968ء کلام محمود صفحہ270 195۔ دل دے کے مشت خاک کودلدار ہوگئے دل دے کے مشت خاک کودلدار ہوگئے اپنی عطاء کے آپ خریدار ہوگئے پہلے تو ساحروں کے عصا نارہوگئے لیکن عصاسئے موسیٰ سے بیکار ہوگئے اس عشق میں گلاب بھی اب خار ہوگئے دل کے پھپھولے جل اٹھے انگار ہوگئے تیری عنایتوں نے دکھایا ہے یہ کمال اعداء ِسخت آج نگوں سار ہوگئے میرے مسیح!تیرا تقدس کما ل ہے بے دین تھے جو آج وہ دیندار ہوگئے کیوں کانپتا ہے دشمن جاں تیرے پیار سے جو دوست تھے وہ طالب آزار ہوگئے ان کو سزا بھی دی تو بڑائی ہےاس میں کیا جوخودہی اپنے نفس سے بیزار ہوگئے اللہ کے فرشتوں کی طاقت تو دیکھ تو جوہم کو مارتے تھے گرفتار ہوگئے جھوٹوں کو حق نے کر دکھایا ہے سربلند جوتھے ذلیل قوم کے سردار ہوگئے بھائی!زمانہ کا یہ تغیرتود یکھنا جو صاحب جلال تھے بے کار ہوگئے مولا کی مہربانی تو دیکھو کے کس طرح جو تابع فرنگ تھے سرکار ہوگئے سستی نے خون قوم کا چوسا ہے اس طرح جو سربراہ کارتھے بے کار ہوگئے عشق خدا نے خول چڑھایا تھا اس کے گرد انگار بھی خلیلؑ پہ گلزار ہوگئے از رسالہ الفضل جلد24۔26دسمبر 1970ء کلام محمود صفحہ271 196۔ روتے روتے ہی کٹ گئیں راتیں حضوررضی اللہ عنہ کی یہ نظم ہمیں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مد ظلہا العالی  نےعطا فرمائی ہے۔ روتےروتے ہی کٹ گئیں راتیں ذکرمیں ہی بسرہوئیں راتیں جن میں ہوتا ہے وصل یار نصیب ایسی بھی ہوتی ہیں کہیں راتیں ایسی راتوں کو یاد کرتا ہوں دل مکاں ہے تو ہیں مکیں راتیں جن کو ہوتا ہے یار کا دیدار ہیں انہیں کے لیے بنی راتیں لاکھ دن ان کے نام پرقرباں نگہتیں راتیں عنبریں راتیں عاشقوں کے لیے ہیں اک رحمت نازبردارنازنیں راتیں دن کی تاریکیا ں ہیں کرتی دور مہ نما ہیں یہ مہ جبیں راتیں جن میں موقع ملے تہجد کا ہوتی ہیں بس وہ بہتریں راتیں شمع پروانوں کونصیب ہو جب دن کہو ان کو وہ نہیں راتیں سوتےسوتے میں جوگزرجائیں وہی راتیں ہیں بدتریں راتیں کلام محمود صفحہ272 197۔ اس کی چشم نیم وا کے میں بھی سرشاروں میں ہوں اس کی چشم نیم وا کے میں بھی سرشاروں میں ہوں درمیاں میں ہوں نہ سوتوں میں نہ بیداروں میں ہوں گرداس کے گھومتا ہوں روزوشب دیوانہ وار لوگ گر سمجھیں توبس اک میں ہی ہشیاروں میں ہوں ہمسفرسنبھلے ہوئے آنا کہ رستہ ہے خراب پرقدم ڈھیلا نہ ہومیں تیزرفتاروں میں ہوں خود پلائی ہے مجھے اس نے مئے عرفان خاص معترض!نازاں ہوں میں اس پرکہ میخواروں میں ہوں پائی جاتی ہےوفا جو اس میں مجھ میں وہ کہاں میں کہوں کس منہ سےاس کو میں وفاداروں میں ہوں از رسالہ الفضل جلد12۔22نومبر 1924ء کلام محمود صفحہ272 198۔یافاتح روح ناز ہوجا یا فاتح روح ناز ہوجا یا تو ہمہ تن نیاز ہوجا خدمت میں ہی عشق کا مزا ہے محمودنہ بن ایاز ہوجا کرخانہ فکر کو مقفل ہاتھوں میں کسی کے ساز ہوجا ہےجسرصراط پر ترا قدم وادیدہوگوش باز ہوجا کوتاہ نگاہیاں یہ کب تک گیسو کی طرح دراز ہوجا جادھونی رما دے اس کے در پر انجام سے بےنیاز ہوجا پیارے تجھے غیر سے ہے کیا کام آآمرےدل کا راز ہوجا از رسالہ الفضل جلد20۔3جنوری 1933ء کلام محمود صفحہ273 199۔ گو بحر گنہ میں بے بس ہو کر گو بحر گنہ میں بے بس ہو کر پیہم غوطے کھاتے جاؤ دل مت چھوڑو پیارو اپنا سر لہروں میں اٹھاتے جاؤ جس ذات سے پالا پڑتا ہے وہ دل کو دیکھنے والی ہے مایوس نہ ہو تم جتنا ڈوبو اتنی امید بڑھاتے جاؤ از رسالہ الفضل جلد20۔3جنوری 1933ء کلام محمود صفحہ273 200۔ ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو مٹ جاؤں میں تو اس کی پروا نہیں ہے کچھ بھی میری فنا سے حاصل گر دین کو بقا ہو سینہ میں جوشِ غیرت اور آنکھ میں حیا ہو لب پر ہو ذکر تیرا دل میں تری وفا ہو شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفےٰؐ ہو محمودؔ عمر میری کٹ جائے کاش یونہی ہو روح میری سجدہ میں اور سامنے خدا ہو از رسالہ فرقان ماہ اپریل 1944ء کلام محمود صفحہ273 201۔ نکال دے مرے دل سے خیال غیروں کا نکال دے مرے دل سے خیال غیروں کا محبت اپنی مرے دل میں ڈال دے پیارے یہ گھر تو تُو نےبنایا تھا اپنے رہنے کو بتوں کو کعبۂ دل سے نکال دے پیارے اچھل چکا ہے بہت نام لاتؔ و عزٰیؔ کا اب اپنا نام جہاں میں اُچھال دے پیارے حیات بخش وہ جس پہ فنا نہ آئے کبھی نہ ہو سکے جو تَبَہ ایسا مال دے پیارے بجھا دے آگ مرے دل کی آبِ رحمت سے مصائب اور مَکارِہ کو ٹال دے پیارے اخبارالفضل جلد 32۔ 17 مئی 1944ء کلام محمود صفحہ274 202۔ پڑے سو رہے ہیں جگا دے ہمیں پڑے سو رہے ہیں جگا دے ہمیں مرے جا رہے ہیں جِلا دے ہمیں اِرادت کی راہیں دکھا دے ہمیں محبت کی گھاتیں سکھا دے ہمیں جو پیاروں کے کانوں میں کہتے ہیں لوگ وہ میٹھی سی باتیں سنا دے ہمیں وہ کثرت پہ اپنی ہیں رکھتے گھمنڈ تُو اپنے کرم سے بڑھا دے ہمیں ہیں رو رو کے آنکھیں بھی جاتی رہیں مری جان اب تو ہنسا دے ہمیں (ناصر آباد سندھ) اخبارالفضل جلد 8۔5ستمبر1954ء لاہور۔ پاکستان کلام محمود صفحہ274 203۔ عشقِ خدا کی مَے سے بھرا جام لائے ہیں عشقِ خدا کی مَے سے بھرا جام لائے ہیں ہم مصطفےٰ ؐکے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں عاشق بھی گھر سے نکلے ہیں جاں دینے  کے لئے تشریف آج وہ بھی سرِ بام لائے ہیں تم غیر کو دکھا کے ہمیں قتل کیوں کرو ہم کب زباں پہ شکوہ سرِ عام لائے ہیں ہم اپنے دل کا خون انہیں پیش کرتے ہیں گُلرُو کے واسطے مئے گُل فام لائے ہیں دنیا میں اس کے عشق کا چرچا ہے چار سُو تحفہ کے طورپر دلِ بدنام لائے ہیں قرآں سے ہم نے سیکھی ہے تدبیرِ بے خطا صید ہما کے واسطے اک دام لائے  ہیں (کنجیجی(سندھ) اور ربوہ کے سفر کے دوران) اخبارالفضل جلد8۔ 12 ستمبر 1954ء۔ لاہور ۔پاکستان کلام محمود صفحہ275 204۔ ہے بھاگتی دنیا مجھے دیوانہ سمجھ کر ہے بھاگتی دنیا مجھے دیوانہ سمجھ کر ہے شمع قریب آ رہی پروانہ سمجھ کر دیکھا تو ہر اک جام میں تھا زہرِ ہلاہل ہم آئے تھے اس دنیا کو مَیخانہ سمجھ کر میں تم سے ہوں تم مجھ سے ہو تن ایک ہے جاں ایک کیوں چھوڑتے ہو تم مجھے بیگانہ سمجھ کر کہتے رہے ہم ان سے دلِ زار کی حالت سنتے رہے وہ غیر کا افسانہ سمجھ کر لٹکی ہے ہر ایک گوشہ میں تصویر کسی کی دل کو نہ مرے چھوڑئیے ویرانہ سمجھ کر اخبار الفضل جلد 8۔ 26 اکتوبر1954ء لاہور۔ پاکستان کلام محمود صفحہ275 205۔ لاکھ دوزخ سے بھی بدتر ہے جدائی آپ کی لاکھ دوزخ سے بھی بدتر ہے جدائی آپ کی بادشاہی سے ہے بڑھ کر آشنائی آپ کی اک نگہ میں زالِ دنیا چھین کر دل لے گئی رہ گئی بے کار ہو کر دل رُبائی آپ کی مسلم بے چارہ قیدِ عیسوی میں ہے پھنسا یہ خدائی کفر کی ہے یا خدائی آپ کی حسن و احساں میں نہیں ہے آپ کا کوئی نظیر آپ اندھا ہے جو کرتا ہے برائی آپ کی اس کا ہر قول حجت ہے زمانہ بھر پہ آج میرزا ؑمیں جلوہ گر ہے میرزائی آپ کی اخبار الفضل جلد 8۔ 14 نومبر 1954ء۔ لاہور ۔پاکستان کلام محمود صفحہ276 206۔ اے محمد! اے حبیبِ کردگار اے محمد! اے حبیبِ کردگار! میں ترا عاشق، ترا دلدادہ ہوں گو ہیں قالب دو مگر ہے جان ایک کیوں نہ ہو ایسا کہ خادم زادہ ہوں اے مرے پیارے! سہارا دو مجھے بیکس و بے بس ہوں خاک اُفتادہ ہوں جنتِ فردوس سے آیا ہوں میں تشنہ لب آئیں کہ جامِ بادہ ہوں میری اُلفت بڑھ کے ہر اُلفت سے ہے تیری رہ میں مرنے پر آمادہ ہوں اخبار الفضل جلد 12۔ 16جولائی 1958ء ربوہ۔پاکستان کلام محمود صفحہ276 207۔ میرے تیرےپیار کا ہو رازداں کوئی نہ اور روک مجھ میں اور تجھ میں نہ کچھ باقی رہے ایک میں ہوں پینے والا ایک تو ساقی رہے کاش تو پہلو میں میرے خود ہی آ کر بیٹھ جائے عشق سے مخمور ہو کر وصل کا ساغر پلائے ایک بے کس نیم جاں کو آزمانا چھوڑ دے نارِ فرقت سے مرے دل کو جلانا چھوڑ دے اخبار الفضل جلد 16۔25 دسمبر1962ء ربوہ۔ پاکستان کلام محمود صفحہ277 208۔ صبح اپنی دانہ چیں ہے شام اپنی ملک گیر صبح اپنی دانہ چیں ہے شام اپنی ملک گیر ہاں بڑھائے جا قدم  سستی نہ کر اے ہم صفیر اپنی تدبیر و تفکر سے نہ ہر گز کام لے راہ نما ہے تیرا کامل راہِ اُومحکم بِگیر آسماں کے راستوں سے ایک تُو ہے باخبر ورنہ بھٹکے پھر رہے ہیں آج سب برناؤ پیر ذرہ ذرہ ہے جہاں کا تابعِ فرمانِ حق تم ترقی چاہتے ہو تو بنو اس کے اسیر مجلہ جامعہ احمدیہ بابت ماہ اکتوبر نومبردسمبر1965ء کلام محمود صفحہ277 209۔ وہ علم دے جو کتابوں سے بے نیاز کرے وہ علم دے جو کتابوں سے بے نیاز کرے وہ عقل دے کہ دو عالم میں سرفراز کرے وہ بھر دے جوشِ جنوں میرے سر میں اے مولیٰ جو آگے بڑھ کے درِ وصل پھر سے باز کرے مجھے تو اس سے غرض ہے کہ راضی ہو دلبر یہ کام قیسؔ کرے یا کوئی ایازؔ کرے نہ آئیں اس کے بلانے پہ وہ ہے ناممکن جو شخص عشق کی راہوں میں دل گداز کرے خدا کرے اُسے دنیا و آخرت میں تباہ جو دشمنانِ محمد سے ساز باز کرے تری ہتھیلی پہ میں اپنے جان و دل دھر دوں گر اپنا ہاتھ مری سمت تو دراز کرے خدا کرے مری سب عمر یوں گزر جائے میں اس کے ناز اُٹھاؤں وہ مجھ پہ ناز کرے رسالہ مصباح ربوہ بابت ماہ نومبر، دسمبر1965ء کلام محمود صفحہ278 210۔ گناہوں سے بھری دنیا میں پیدا کر دیا مجھ کو گناہوں سے بھری دنیا میں پیدا کر دیا مجھ کو مرے خالق مرے مالک یہ کیسا گھر دیا مجھ کو تقدس کی تڑپ دل میں تو آنکھوں میں حیا رکھی مگر ان خواہشوں کے ساتھ دامن تَر دیا مجھ کو اِنہیں اَضداد میں گر زندگی میری گزرنی تھی نہ کیوں اک عقل و دانائی سے خالی کر دیا مجھ کو مثالِ سنگ بحرِ سعئ پیہم میں پڑا رہتا نہ کچھ پروا ہ ہوتی پاس رہتا یا جدا رہتا لُڑکھنا ہی تھا قسمت میں تو بے ہوشی بھی دی ہوتی نہ احساسِ وفا رہتا نہ پاسِ آشنا رہتا مگر یہ کیا کہ میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر تُو نے لگا دی آگ اور وقفِ تمنا کر دیا مجھ کو کلام محمود صفحہ278 211۔خم ہو رہی ہے میری کمر جسم چور ہے خم ہو رہی ہے میری کمر جسم چور ہے منزل خدا ہی جانے ابھی کتنی دور ہے میرا تو کچھ نہیں ہے اُسی کا ظہور ہے فانوس ہوں مِیں اور خدا اس کا نور ہے کھڑکی جمالِ یار کی ہیں "عجز و انکسار" سب سے بڑا حجاب سرِ پُر غرور ہے ہمت نہ ہاراس کے کرم پر نگاہ رکھ مایوسیوں کو چھوڑ وہ ربِ غفور ہے اخبار الفضل ربوہ جلد نمبر9۔19دسمبر1965ء سوانح فضل عمر جلد پنجم  صفحہ392 01۔ چُوں چُوں کرتی آئی چڑیا

حضرت چھوٹی آپا ام متین صاحبہ کا لکھتی ہیں کہ ''عزیزہ امۃ المتین چھوٹی سی تھی میں نے کہا آپ اس کے لئے کوئی بچوں والی نظم کہہ دیں،میں اسے یاد کروا دوں ۔آپ نے بالکل ہی بچوں والی نظم کہہ دی(عزیزہ کی عمر غالبًا چارسال تھی)وہ نظم یہ تھی۔                               

چُوں چُوں کرتی چڑیا آئی چونچ میں اپنی تنکا لائی تنکوں سے اس نے گھونسلا بنایا پتوں سے پھر اس کو سجایا  پھر اس میں انڈے دینے بیٹھی انڈے دے کر سینے بیٹھی کچھ انڈے تو کچے نکلے باقی میں سے بچے نکلے بچوں نے وہ شور مچایا سارے گھر کو سر پہ اٹھایا کوئی کہتا اماں کھانا کوئی کہتا پانی پلانا چڑیا بولی پیارے بچو غل نہ مچاؤ صبر سے بیٹھو ابا کام سے آتے ہوں گے دانہ دنکا لاتے ہوں گے تم سب بیٹھ کے کھانا کھانا پھر سب مل کے سیر کو جانا کلام محمود صفحہ 279۔286 212۔قطعات ֍ باغِ کفار سے ہم نت نئے پھل کھاتے ہیں دل ہی دل میں وہ جسے دیکھ کے جل جاتے ہیں یہ نہ سمجھو کہ وہ بن کھائے پئے جیتے ہیں وہ بھی کھاتے ہیں مگر نیزوں کے پھل کھاتے ہیں بدر 18فروری 1905ء ֍ لیکھو ؔسے کہا تھا جو ہوا وہ پورا کیا تم نے وہ دیکھی نہیں مرزاؑ کی دعا اب بھی کرو انکار تو حیرت کیا ہے مشہور ہے بے شرم کی ہے دور بلا بدر 6 مارچ 1907ء ֍ چھ مارچ کو لیکھو ؔنے اٹھایا لنگر دنیا سے کیا کوچ سوئے نار سقر تھی موت کے وقت اس کی یہ طرفہ حالت لب پہ تھی اگر آہ تو تن میں خنجر یہ آریہ کہتے ہیں کہ لیکھو ؔہے شہید ایسی تو نہ تھی ہم کو بھی ان سے امید تھی موت وہ ذلت کی شہادت کیسی کیا جن پہ پڑے قہرِ خدا ہیں وہ شہید بدر 21مارچ 1907ء ֍ کہتا ہے زاھد کہ میں فرمانروائی چھوڑدوں اگر خدا مجھ کو ملے ساری خدائی چھوڑ دوں دانۂ تسبیح اور اشکوں کا مطلب ہے اگر آب و دانہ کے لیے سب پارسائی چھوڑ دوں بدر 18 فروری 1909ء ֍ ہائے کثرت مرے گناہوں کی وائے کوتاہی میری آہوں کی اس پہ یہ فضل یہ کرم یہ رحم کیا طبیعت ہے بادشاہوں کی بدر30 جون1910ء ֍ ہائے اس غفلت میں ہم یاروں سے پیچھے رہ گئے یہ بھی کیسا پیار ہے پیاروں سے پیچھے رہ گئے بڑھ گئے ہم سے صحابہؓ توڑ کر ہر روک کو ہم سبک ہو کر گر انباروں سے پیچھے رہ گئے بدر20 جولائی 1910ء ֍ عابد کو عبادت میں مزا آتا ہے قاری کو تلاوت میں مزا آتا ہے میں بندۂ عشق ہوں مجھے تو صاحب دلبر کی محبت میں مزا آتا ہے الفضل9 اگست 1910ء ֍ مرکزِ شرک سے آوازۂ توحید اٹھا دیکھنا دیکھنا مغرب سے ہے خورشید اٹھا نور کے سامنے ظلمت بھلا کیا ٹھہرے گی جان لو جلد ہی اب ظلمِ صنادید اٹھا 21ستمبر 1920ء ֍ اٹھی آواز جب آذاں کی اللہ کے گھر سے تو گونج اٹھے گا لندن نعرۂ اللہ اکبر سے اڑے گا پرچم توحید پھر سقف معلیٰ پر ملینگے دھکے دیو شرک کو گھر گھر سے در در سے الفضل 11 اکتوبر 1920ء ֍ مرے جان و دل کے مالک مری جاں نکل رہی ہے تیری یاد چٹکیوں میں مرے دل کو مل رہی ہے نہیں جز دعائے یونس ؑ کے رہا کوئی بھی چارہ کہ غم و الم کی مچھلی مجھے اب نگل رہی ہے کبھی وہ گھڑی بھی ہوگی کہ کہوں گا یا الٰہی! مری عرض تو نےسن لی وہ مجھے اگل رہی ہے اخبار الفضل 22 نومبر 1920ء ֍ عبث ہیں باغ احمد کی تباہی کی یہ تدبیریں چھپی بیٹھی ہیں تیری راہ میں مولیٰ کی تقدیریں بھلا مومن کو قاتل ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے نگاہیں اس کی بجلی ہیں تو آہیں اس کی شمشیریں تری تقصیریں خود ہی تجھ کو لے ڈوبیں گی اے ظالم لپٹ جائینگی تیرے پاؤں میں وہ بن کے زنجیریں اخبار الفضل 30دسمبر 1937ء ֍ نظر آرہی ہے وہ چمک وہ حسنِ ازل کی شمع حجاز میں کہ کوئی بھی اب تو مزا نہیں رہا قیس عشقِ مجاز میں   ֍ سمندر سے ہوائیں آرہی ہیں مرے دل کو بہت گرما رہی ہیں عرب جو ہے مرے دلبر کا مسکن بوئے خوش اس کی لے کر آرہی ہیں بشارت دینے سب خورد و کلاں کو اچھلتی کودتی وہ آرہی ہیں بتقریب جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم منعقدہ مورخہ 11 دسمبر 1938ء مسجد اقصیٰ میں بعد نمازِ عصر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تقریر میں خود یہ اشعار بیان فرمائے۔ناشر ֍ اے مسیحا کبھی پوچھو گے بھی بیمار کا حال کون ہے جس سے کہے جاکے دلِ زار کا حال آنکھ کاکام نکل سکتا ہے کب کانوں سے دل کے اندھوں ست کہوں کیا ترے دیدار کا حال اندازاً 1938ءیا 1939ء اخبار الفضل 31 دسمبر 1968ء ֍ رہے حسرتوں کا پیارے میری جاں شکار کب تک؟ ترے دیکھنے کو ترسے دل بے قرار کب تک؟ شب ہجر ختم ہوگی کہ نہ ہوگی یا الٰہی ؟ مجھے اتنا تو بتا دے کروں انتظار کب تک؟ کبھی پوچھو گے بھی آکر کہ بتا تو حال کیا ہے یوں ہی خوں بہائے جائے دلِ داغدار کب تک؟ اندازاً 1938ءیا 1939ء اخبار الفضل 31 دسمبر 1968ء ֍ گل ہیں پر ان میں پہلی سی اب بو نہیں رہی صوفی تو مل ہی جاتے ہیں پر ھو نہیں رہی مغرب کا ہے بچھونا تو مغرب کا اوڑھنا اسلام کی تو کوئی بھی اب خو نہیں رہی رسالہ ریویو آف ریلجنز اردو ماہ جولائی 1944ء ֍ اس زمانہ میں اماموں کی بڑی کثرت ہے مقتدی ملتے نہیں ان کی بڑی قلت ہے اس پہ یہ اور ہے آفت کہ ہیں باغی پیر اور لیڈر کو جو دیکھو تو وہ کم ہمت ہے ازرسالہ ریویو آف ریلجنز اردو ماہ جولائی 1944ء ֍ یہ متاع ہوش دینداری کبھی لٹنا بھی ہے اس جہاں کی قید و بندش سے کبھی چھٹنا بھی ہے کر توکل جس قدر چاہے کہ اک نعمت ہے یہ یہ بتاوے باندھ رکھا اونٹ کا گھٹنا بھی ہے 20جولائی 1950ء نوشہرہ ֍ اپنا لیا عدو نے ہر ایک غیر قوم کو تقسیم ہو کے رہ گئے ہو تم شعوب میں سالک! تجھے نویدِ خوشی دینے کے لئے پھرتا ہوں شرق و غرب و شمال و جنوب میں فقہی سے اس سوال کا حل ہو نہیں سکا ہیں تجھ میں ہی قلوب کہ تو ہے قلوب میں 20 جولائی 1951ء ֍ قرض سے دور رہو بڑی آفت ہے قرض لیکر جو اکڑتا ہے وہ بے غیرت ہے اپنے محسن پہ ستم اس سے بڑا کیا ہوگا قرض لیکر جو نہ دے سخت ہی بد فطرت ہے اخبار المصلح جلد7۔23جنوری1954۔کراچی۔پاکستان ֍ فاقوں مر جائے پہ جائے نہ دیانت تیری دور و نزدیک ہو مشہور امانت تیری جان بھی دینی پڑے گر تو نہ ہو اس سے دریغ کسی حالت میں نہ جھوٹی ہو ضمانت تیری ֍ غضب خدا کا کہ مال حرام کھاتا ہے نہیں ہے حرص کی حد صبح و شام کھاتا ہے نماز چھوٹے تو چھٹ جائے کچھ نہیں پروا مگر حرام کی روٹی مدام کھاتا ہے ֍ حرام مال پہ تو جان و دل سے مرتا ہے وہ جس طرح سے بھی ہاتھ آئے کر گذرتا ہے یہ کیسا پیار ہے اھل و عیال سے تیرا شکمِ غریبوں کا انگاروں سے جو بھرتا ہے ֍ وقف ہے جاں بہر مال و سیم و زر مال دینے والے سے ہے بے خبر ایسے اندھے کا کریں ہم کیا علاج مغز سے غافل ہے چھلکے پر نظر ֍ وقف کرنا جاں کا ہے کسبِ کمال جو ہو صادق وقف میں ہے بیمثال چمکیں گے واقف کبھی مانند بدر آج دنیاکی نظر میں ہیں ھلال ֍ دھیرے دھیرے ہوتا ہے کسبِ کمال بوبکرؓ کو بننا پڑتا ہے بلالؓ شمس پہلے دن سے کہلاتا ہے شمس بدر ہوتا ہے مگر پہلے ھلال ֍ آکہ پھر ظاہر کریں الفت کے راز یار میں ہوجائیں گم ،عمرت دراز میرے پیچھے پیچھے چلتا آکہ میں بندۂ محمودؔ ہوں اور تو ایازؔ ֍ تیری الفت کا جو شکار ہوا مر کے پھر زندہ لاکھ بار ہوا سر کو سینہ پہ رکھ لیا میرے غم سے جب بھی میں اشکبار ہوا 31 جنوری 1957ء ֍ تیری خوشی گیاہ میں میری خوشی نگاہ میں میرا جہان اور ہے تیرا جہان اور ہے ہیں اسی بحر کے گہر ہے اسی حبیب کا یہ نور ظالمو! بات ہے وہی لیک زبان اور ہے رسالہ جامعہ النصرت میگزین جلد 4نمبر 1 بابت ماہ جون 1966ء کلام محمود صفحہ 287 213۔الہامی قطعہ

آج 22جنوری کی رات کو میں نے دیکھا کہ کراچی کا کوئی اخبار ہے جو کسی دوست نے مجھے بھیجا ہےاور اس میں کچھ باتیں احمدیت کی تائید میں لکھی ہوئی ہیں۔اس اخبار میں سیاہی سے اس دوست نے نشان کردیاہےتاکہ میں اس کو پڑھ سکوں۔اس کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ اخبار کے اوپر کے حصہ میں چار کالموں میں چار قطعات دودوشعر کے چھپے ہوئے ہیں ا ور اچھے اچھے موٹے حروف میں لکھے ہوئے ہیں۔مضمون تو میرے ذہن میں نہیں مگر مجھے وہ پسند آیا اور میں نے چاہا کہ میں بھی ایک قطعہ لکھوں ۔اس پر میں نے رؤیامیں ایک قطعہ کہنا شروع کیا جو یہ ہے ۔

֍ میں آپؐ سے کہتا ہوں کہ اے حضرت لولاک ہوتے نہ اگر آپؐ تو بنتے نہ یہ افلاک جو آپؐ کی خاطر ہے بنا آپؐ کی شے ہے میرا تو نہیں کچھ بھی یہ ہیں آپؐ کے املاک ֍

یوں معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں یہ شعر کہتا جاتا ہوں گویا ا س جگہ یعنی اس اخبارمیں بہت ہی خوبصورت طور پر ساتھ ہی لکھے بھی جاتے ہیں۔میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ الفاظ بعینہ سارے کے سارے اسی طرز پر تھے لیکن مضمون اور اکثر الفاظ یہی تھے۔پھر رؤیا کی حالت بدل جانے کے بعدغنودگی میں میں یہ شعر پڑھتا رہاہوں۔اس لیے ممکن ہے کہ بعض الفاظ اس میں بدل کر آگئے ہوں۔

کلام محمود صفحہ 288 214۔متفرق اشعار اک طرف تقدیر مبرم اک طرف عرض و دعا فضل کا پلڑا جھکا دےاے مرے مشکل کشا ֍ روزجزا قریب ہے اور رہ بعید ہے اخبار الفضل  بابت 1945ء ֍ رہے وفا وصداقت پہ میرا پاؤں مدام ہو میرے سرپہ مری جان!تیری چھاؤں مدام اخبار الفضل   جلد25۔4نومبر 1946ء ֍ جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے مرے پانی بہا دیا دارالہجرت ربوہ کے متعلق الہامی شعر اندازًااپریل 1949ء ֍ سوانح فضل عمر جلد پنجم  صفحہ393 02۔ درخت پر طوطا اور گاؤں کے بچے

"چڑیا" والی نظم تو کھڑے کھڑے شاید پانچ منٹ میں آپ نے کہی تھی اورمتین کو یاد کروا کے سنی بھی۔کچھ عرصے کے بعد ایک دن آئے تو ایک کاغذ پر اپنے ہاتھ سے "طوطے"پر ایک نظم لکھی ہوئی تھی۔کہنے لگے لو میں تمھارے لیے نظم لکھ کر لایا ہوں یاد کر لو۔متین کو طوطا پالنے کا بچپن میں بہت شوق تھا۔یہ نظم بھی درج ذیل کرتی ہوں۔یہ حضور کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی میرے پاس محفوظ ہے۔

پیارے طوطےبھولے بھالے ہم ہیں تیرے چاہنے والے تیرا سبز لباس غضب ہے کیا ہی پھبن ہے،کیسی چھب ہے اوپر لال سی جاکٹ ہے سج کر بیٹھا ہے بن گہنے جب بیٹھا ہو پیڑ کے اوپر کھیل رہے ہو پر پھیلا کر اس کی سبزی تجھ کو چھپائے رنگ ترا اس سے مل جائے کیوں بیٹھا ہے پیڑ پہ جا کر بیٹھ ہمارے پاس تو آکر تجھ کو ہم چوری ڈالیں گے پیارومحبت سے پالیں گے بیر اورگنے لائیں گےہم تجھ کو خوب کھلائیں گے ہم پنجرہ اک اچھا سا بنا کر رکھیں گے تجھے اس میں چھپا کر میٹھے بول سکھائیں گے ہم تجھ کو خوب پڑھائیں گے ہم بیٹھ کے تیری باتیں سنیں گے تجھ سے کوئی کام نہ لیں گے اچھے طوطے گر نہیں آتا اپنا نام تو ہم کو بتا جا طوطا بولا نام ہمارا میٹھوہے،کیوں ہے ناں پیارا؟ یہ کہتے ہی پر پھیلا کر تول کے دم اور چونچ دبا کر اڑگیا طوطا شور مچا کر چھپ گیا وہ بادل میں جاکر