کلام ناصر
کلام حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ حیات ناصر صفحہ58۔59 01۔ دنیا کے کام بے شک کرتا رہوں گا میں بھی دنیا کے کام بے شک کرتا رہوں گا میں بھی لیکن میں جان و دل سے اس یار کا رہوں گا برقی خیال دل میں، سر میں رہے گا سودا اس یار کو میں بھولوں اتنا نہ محو ہوں گا چمکوں گا میں فلک پر جیسے ہو کوئی تارا بھولوں کو راہ پہ لاوے ایسی میں شمع ہوں گا سورج کی روشنی بھی مدہم ہو جس کے آگے ایساہی نورحاصل اس نور سے کروں گا عالم کو میں معطر کردوں گا اس مہک سے خوشبو سے جس کی ہر دم مدہوش میں رہوں گا اخلاق میں میں افضل،علم وہنر میں اعلیٰ احمدؐکی رہ پہ چل کر بدر الدجیٰ بنوں گا سارے علوم کا ہاں منبع ہے ذات جس کی اس سے میں علم لے کر دنیا کو آگے دوں گا مجھ میں تڑپ وہ ہوگی بجلی بھی جھینپ جائے دل عشق سے بھروں گا اور بے قرار ہوں گا پھر برق میں بنوں گاجل کرمیں خاک ہوں گا اکسیر جو بنادے اکسیر میں وہ ہوں گا جو کچھ کہوں زباں سے ناصر میں کر دکھاؤں ہو رحم اے خدایا!تاتیرے فضل پاؤں ڈائری 14 مارچ 1928ء کلام حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ حیات ناصر صفحہ59۔60 02۔ عیسیٰ کو چرخ پہ نہ بٹھاتے تو خوب تھا عیسیٰ کو چرخ پہ نہ بٹھاتے تو خوب تھا احمدؐ کو خاک میں نہ سلاتے تو خوب تھا زندہ خدا سے دل کو لگاتے تو خوب تھا مردہ بتوں سے جان چھڑاتے تو خوب تھا قصے کہانیاں نہ سناتے تو خوب تھا زندہ نشان کوئی دکھاتے تو خوب تھا اپنے تئیں جو آپ ہی مسلم کہا تو کیا مسلم بنا کے خود کو دکھاتے تو خوب تھا تبلیغ دین میں جو لگادیتے زندگی بے فائدہ نہ وقت گنواتے تو خوب تھا دنیا کی کھیل کود میں ناصر پڑے ہو کیوں یاد خدا میں دل کو لگاتے تو خوب تھا زمانہ طالبعلی کی ایک نظم