آریوں کے ناقابلِ عمل اصول
ضروری نوٹ:۔ ستیارتھ پرکاش مصنّفہ پنڈت دیانند کے جو حوالے یہاں درج کئے گئے ہیں اُن میں نمبر صفحہ ستیارتھ پرکاش کے نویں ایڈیشن شائع کردہ راجپال مینجر آریہ پستکالیہ انارکلی لاہور کو مدّنظر رکھ کر دیا گیا ہے یہ ستیارتھ پرکاش کا وہ اردو ترجمہ ہے جس کے مترجمین میں سوامی شردھانند پنڈت چموپتی ایم ۔اے اور ماسٹر آتمارام جیسے آریہ پنڈتوں کے نام ہیں اور آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب سندھ (بلوچستان)کی طرف سے یہ ترجمہ شائع کیا گیا ہے اور سرورق پر لکھا ہے۔’’صرف یہی ترجمہ مستند ہے۔‘‘ (خادمؔ)
۱۔’’بچّے از خود اکھنڈ (لامتتھر ازل)برہمچریہ رکھ کر اور تیسرا اعلیٰ درجہ کا برہمچر یہ کر کے مکمل یعنی چارسوسال تک عمر کو بڑھائیں۔‘‘(ستیارتھ پرکاش باب ۳ دفعہ نمبر۳۰ )گویا نیک اور باایمان آریہ کو چاہیے کہ برہم چاری رہ کر چارسوسال کی عمر حاصل کرے۔دیانند سے بڑھ کر تو باایمان اورکامل برہمچاری اور کوئی آریہ نہ ہوگا مگر اس کی عمر بھی ساٹھ سال سے متجاوز نہ ہوئی۔پس ثابت ہوا کہ یہ تعلیم باطل اور ناقابل عمل ہے۔
۲۔بقول دیانند مردہ دفن کرنے میں بہت اقتصادی نقصان ہوتا ہے(حالانکہ قبر کی کھودائی ۸؍ ہوتی ہے۔(خادمؔ)لیکن جلانے میں صندل کی لکڑی ،عود،کستوری اور ڈیڑھ من روغن زرد وغیرہ وغیرہ اشیاء قیمتی سے تقریباً دو سو روپیہ کا زیر بار ہونا ضروری ہے۔اگر میسر نہ آوے تو بھیک مانگے یا گورنمنٹ سے امداد طلب کرے۔ (ستیارتھ ب ۱۳ دفعہ ۲۷ )
مگر جنگ میں جہاں ہزاروں مرتے ہیں یہ عالمگیر اصول دریا بُرد ہوجاتا ہے جیسے مہا بھارت کی جنگ میں ہوا۔کیونکہ وہاں یہ اشیائے قیمتی نہ مل سکیں اور نہ میسر آسکتی تھیں۔
۳۔جس لڑکی کا خاوند مر جائے تو پھر اس کنیّا کو چاہیے کہ کسی شخص واحد سے بیاہ نہ کرے۔وہ عمر بھر ایک کی نہ ہو رہے بلکہ دس بارہ مختلف نوجوانوں سے تادمِ آخر مضبوط اولاد حاصل کرتی رہے۔ (ستیارتھ ب ۴ دفعہ ۱۱۸)
۴۔آریہ عورت کے تیسرے نیوگی خصم کو اگنی کہتے ہیں ۔کیونکہ اس میں حرارت زیادہ ہوتی ہے۔ (ستیارتھ ب ۴ دفعہ ۱۳۶)
پہلے اور دوسرے خصم میں حرارت کیوں کم ہوتی ہے اور پانچویں دسویں وغیرہ میں کیوں کم و بیش نہیں؟اس کی تشریح مطلوب ہے۔
۵۔ بموجب اعتقاد دیانند ی روح و مادہ بمع اپنی تمام قوتوں، حسوں اور خاصیّتوں کے ازلی ابدی خود بخود ہیں۔یعنی اپنے وجود کے آپ خدا ہیں اور پرمیشور کا کام صرف ارواح اور مادہ کو جوڑنے جاڑنے کا ہے لیکن اب معلوم ہوا کہ روحوں میں جوڑنے جاڑنے کی قوت انفصال و اتّصال کی خواہش بھی ازل سے ہے۔(ستیارتھ ب ۷دفعہ ۵۳)آریہ اور دہریہ میں کیا فرق ہوا۔خاک
۶۔ نجات کے طالب اور سچّے آریہ کو چاہیے کہ قریباً پچاس سال کا ہو کر بیاہ کرے یا ۴۴سال کے بعد۔ (ستیارتھ ب ۳دفعہ۳۴)
مگر پچاس سال تک تو انسان بوڑھا ہوجاتاہے۔پھر بیاہ کس لئے اور کس کے لئے ۔مضبوط اولاد کیونکر اورکون پیدا کرے گا۔اس میں کوئی غلطی یا راز ضرور ہے(غالباًاس عرصہ میں بذریعہ نیوگ اولادپیدا کرنے کی مہلت دی ہوگی)ایسا بیاہ کرنے والا دوسو سال سے چار سو سال تک عمر حاصل کر سکتا ہے۔ (ستیارتھ ب ۶دفعہ۳۰)
مگر تجربہ اس اصول کادشمن ہے ۔سوائے دیانند کے جو بجائے پچاس کے ساٹھ سال مجرد رہ کر سفید ریش ہو کر بڑھاپے کے نشان اور آثار دیکھ کر راہی ٔ عالم فنا ہوئے۔چار سو سال کی عمر والے کو تو ستّر سال میں ابھی ڈاڑھی بھی نہیں آنی چاہیے۔اسی لئے سوامی جی منہ سر استرے سے صاف رکھتے تھے۔ ملاحظہ ہو تصویر سوامی جی۔
۷۔ ممالک متوسط کی قسمت چھتیس گڑھ میں بعض قوموں کی عمر تیس سال تک ختم ہوتی ہے۔ پھر وہاں چار سو سال کی عمر حاصل کرنے کے لئے شرط کیا ہوگی اور نیک آریہ پچاس سال کا ہو کر کیونکر بیاہ کرے۔(خوب عالمگیر اصول ہیں )۔
۸۔ ۴۸ سال کے بعد شادی کرے ۔بالکل شادی نہ کرنا اچھا ہے۔ (ستیارتھ ب۳ دفعہ۳۴)
ہندوستان کے آریہ اگر ۴۸ سال کے بعد بیاہ کرنا شروع کردیں تو انشاء اﷲ نصف صدی میں آریوں کا خاتمہ ہی ہوجائے اور ہندو مسلم سوال بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔
۹۔ ہون۔
(۱) ہون کرنا سب پر فرض ہے ورنہ پاپ ہوتا ہے۔ (ستیارتھ پرکاش ب۳دفعہ ۲۰)
(۲) ہون دن میں دو دفعہ صبح و شام کرنا چاہیے۔ (ستیارتھ ب۳ دفعہ ۱۵)
(۳) ایک وقت کے ھون میں سولہ آہوتی فی کس گھی چاہیے۔ (ستیارتھ ب۳دفعہ۲۲)
(۴) ہر آہوتی میں چھ ماشہ گھی کم از کم جلانا چاہیے۔ (ستیارتھ ب۳دفعہ۲۲صفحہ ۸۸ )
گویا ۱۶x۶=۹۶ماشہ =۸تولے۔قریباً 1½چھٹانک گھی ایک وقت آدمی کو جلانا چاہیے اور دو وقت کا کل گھی روزانہ ۵؍۱۔۳چھٹانک ہوا۔ماہوار ۵؍۱۶x۳۰=۹۶ چھٹانک ۔گویا اگر گھی کا نرخ ۴ چھٹانک فی روپیہ ہو تو ماہوار ۲۴روپے کا صرف گھی ہی جلانا پڑے گا۔
آجکل کے نرخ ۱۲۵روپے فی سیر کے حساب سے یہ خرچ بڑھ کر ۶x۱۲۵=۷۵۰روپے ماہوار آئے گا۔ (مرتّب)
(۵) گھی کے ساتھ کیسر۔کستوری۔ خو شبو دار پھول عطر اور چندن ۔اگر تگر وغیرہ بھی جلانا چاہیئے۔ ( ستیار تھ پرکاش ب ۳ دفعہ ۱۷،۱۸)
تو گویا اس حساب سے ہر آریہ کو ہون کرنے کے لئے کم از کم ۔۷۵۰روپے تک ماہوار خرچ کرنا پڑتا ہے۔غریب آدمی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اور مشکل تو یہ ہے کہ اگر نہ کرے تو پاپ ہوتا ہے (جیسا کہ اوپر گزر چکا )مگر اسلام نے اپنے احکام میں بھی حکمت رکھی ہے کہ وہ اُنہی پر فرض کئے ہیں جو اُن کی استطاعت رکھتے ہوں۔پس ویدک تعلیم عالمگیر الہامی نہ رہی۔
۱۰۔ نیک نیت اور مذہبی آریہ کو سندھیا اوپاسنا کرنا اور پانچ مہا یگیوں کا ادا کرنا ایسا ضروری ہے۔جیسا سانس پر سانس لینا ضروری ہے۔ ( ستیارتھ با ب ۳ دفعہ۴۴)
پس جو آریہ سانس پر سانس لیتا مگر سندھیا وغیرہ بطریق مذکورہ بالا نہیں کرتا اور چار سو سال کا نہیں ہوتا کیا وہ نیک آریہ ہے ؟یا وہ شودرہے۔ (بقول ستیار تھ ب۴دفعہ۳۸)
پانچ مہایگیوں(فرائض)میں سے دوسرا فرض ویدوں کو انگوں سمیت باقاعدہ پڑھنااورسندھیااوپاسناکرنا فرض ہے۔
چھ انگ یہ ہیں۔
۱۔سنکشاؔ(علمِ قرأت) ۔
۲۔ کلپؔ(سنسکاروں یعنی رسوم کے متعلق ہدایات اور ہر سنسکار کے متعلق ویدوں سے منتر وں کا انتخاب)
۳۔چھندوؔعلم عروض۔
۴۔دیا کرن(علمِ صرف و نحو)۔
۵۔نرکتؔ(علمِ لغت)۔
۶۔جوتش ؔ(علمِ ہندسہ و ہیئت)
جس میں ریاضی کی تمام شاخیں یعنی حساب ۔مساحت وغیرہ علم طبقات الارض و جیالوجی اور جغرافیہ اور باقی تین فرائض اور ہیں جو ہم بخوف طوالت نہیں لکھ سکتے۔جبکہ یہ لوگ عملاً آریہ ہی نہیں تو پھر ناحق تضیع اوقات ہے۔۲۔ کلپؔ(سنسکاروں یعنی رسوم کے متعلق ہدایات اور ہر سنسکار کے متعلق ویدوں سے منتر وں کا انتخاب)
۳۔چھندوؔعلم عروض۔
۴۔دیا کرن(علمِ صرف و نحو)۔
۵۔نرکتؔ(علمِ لغت)۔
۶۔جوتش ؔ(علمِ ہندسہ و ہیئت)
۱۱۔ جو بطریق مذکورہ بالا سندھیا وغیرہ نہیں کرتا اور چھ سال کے اندر وید ختم نہیں کرتا۔اُس کو گھرسے نکال کر شودروں کے گھروں میں بھیج دینا چاہیے۔ (ستیار تھ ب ۳ دفعہ ۴۷)
۱۲۔ بعد ازاں بوڑھے والدین اپنی خدمت کے لئے غیروں کے لڑکے رکھ لیں اور انہیں بیٹے تصور کرلیں۔ ( ستیار تھ ب ۴ دفعہ ۱۱۰ )
غیروں کے جوان لڑکے اس بوڑھے کے گھر میں رہ کر کیا کچھ نہ کریں گے ۔ناظرین خود سمجھ لیں۔
۱۳۔ ساز بجانا،ناچنا،گیت گانا،سُر لگانا وغیرہ آریوں کو ضرور سیکھناچاہیئے( ستیار تھ ب۳ دفعہ ۱۰۲) مگر اسی ستیارتھ ایڈیشن چہارم میں سوامی جی ب ۳ دفعہ ۴۸ پر ساز بجانے، ناچنے وغیرہ کو شہوانی عادات قرار دیتے ہیں۔
۱۴۔ برہمنوں کے گواہ برہمن اور شودروں کے گواہ شودر اور عورتوں کی گواہ عورتیں ہی ہوا کریں۔ ( ستیار تھ ب ۶ دفعہ ۶۳)
اگر کوئی برہمن یا ویش شودر وں کے محلہ میں جا کر کسی کنیّا کو ناپاک کر نکلے یا کوئی عورت شودر برہمنوں کے محلہ میں کسی کا گلا گھونٹ جائے تو کیا اس کو رہائی دے دیں ۔کیونکہ کوئی عورت یا اس کی ذات کا گواہ میسر نہیں آسکتا ؟خدا اس قانون والوں کو طاقت نہ دے ۔
۱۵۔ جو کوئی وید کو برا سمجھے اور اس کی مذمت کرے یا کم از کم وید کے موافق بنائی ہوئی عابد لوگوں کی تصانیف کی (یعنی ستیارتھ وغیرہ کی)تحقیر کرے اس منکر کو جلاوطن کرکے ملک اورگھر بار سے خارج کر دینا چاہیے۔ ( ستیار تھ ب ۳ دفعہ ۵۲)
۱۶۔ جو دھرم پر قائم نہیں رہتا۔خواہ استاد ہو یا مائی باپ اس کو را جہ بغیر سزا ہر گز نہ چھوڑے۔ یعنی قیدو قتل وغیرہ۔ ( ستیار تھ ب ۶ دفعہ۷۲)