آریہ عورتوں کو ویدک نصائح اور فرائض
۱۔ اے دیور نیوگی(دوسرے خاوند)کی خدمت کرنے والی عورت اور اے بیاہے ہوئے خاوند کی فرمانبردار بیوی(یعنی دو خاوند والی عورت۔مؤلّف)تو نیک اوصاف والی ہو ۔تو گھر کے کاروبار میں عمدہ اصول پر عمل کر اور اپنے پالے ہوئے جانوروں کی حفاظت کر۔اور عمدہ کمال و خوبی اور علم و تربیّت حاصل کر۔ طاقتور اولاد پیدا کر اور ہمیشہ اولاد کی پرورش میں متحد رہ۔اے نیوگ کے ذریعہ سے دوسرے خاوند کی خواہش کرنے والی تو ہمیشہ سُکھ دینے والی ہو کر گھرمیں ہون وغیرہ کی آگ کا استعمال اور تمام خانہ داری کے کاروبار کو دل لگا کر بڑی احتیاط سے کر۔‘‘ ( ستیار تھ ب ۴دفعہ۱۳۶)
تعددازدواج پر اعتراض کرنے والے دو خاوندوں والی بیوی پر غور کریں حالانکہ مرد دَس کو نطفہ دے سکتا ہے مگر عورت دو کا نطفہ نہیں لے سکتی۔ خلاف قدرت و فطرت تعلیم یہ نئی دلہن کو پہلی رات کو منانے کی ہدایت کی گئی ہے ۔کس قدر شرمناک تعلیم ہے۔
۲۔ استقرار حمل کی کارروائی کا وقت ایک پہر رات گزرنے کے بعد ایک پہر رہنے تک ہے۔ جب منی کے رحم میں گرنے کا وقت آئے تب دونوں بے حرکت نہایت خوش دل ۔منہ کے ساتھ منہ ۔ ناک کے سامنے ناک وغیرہ تمام جسم سیدھا رکھیں ۔مرد منی ڈالنے کا کام کرے ۔جب منی عورت کے جسم میں داخل ہو۔اس وقت وہ اپنی مقعد اور جائے مخصوص کو اوپر کھینچے اور منی کو کھینچ کر عورت رحم میں قائم کرے۔
( سنسکار ودھی مع تفسیر از پنڈت دیانند سرسوتی باب گربھادیانی سنسکار صفحہ ۱۸۰ مطبع شہید دھرم مہاشہ راجپال اینڈ سنز مالک آریہ پستکالیہ ہسپتال روڈ انار کلی لاہور مصنّفہ دیانند صفحہ ۷۴و ستیار تھ پرکاش ب ۴دفعہ ۴۳)
کروڑوں مخلوقات اس آسن سے بے خبر ہے۔مگر اولاد خدا کے فضل سے اس آسن پر عمل کرنے والوں سے کہیں زیادہ مضبوط پیدا ہوتی رہتی ہے۔
۳۔ جیون چرترمصنّفہ لیکھرام و آتمارام صفحہ ۳۵۵میں لکھا ہے کہ’’دوسرے دن سوامی دیانند جی نے مورتی پوجا کے کھنڈن (تردیدبت پرستی)پر لیکچر دیا اور مندروں میں عورتوں کے جانے اور وہاں کی دُردشا(بُری حالت)کا برن فرمایا اورفرمایا کہ سال میں ایک ہی بار اپنے پتی (خاوند)کے پاس جاوے یعنی وہچار(زنا نہ کرے)کسی شخص نے مکان کی چھت سے دریافت کیا کہ جس عورت کا پتی طوائف(کنجری)کے پاس جاوے اس کی عورت کیا کرے؟انہوں نے کہا ۔اس کی عورت بھی ایک مضبوط آدمی رکھ لے۔‘‘یہ تعلیم کس قدر ناقابل عمل، اخلاق سوز اور بے حیائی پیدا کرنے والی ہے۔
۴۔ ’’اے بیوہ عورت!اپنے اس مرے ہوئے اصلی خاوند کو چھوڑ کر زندہ دیور یعنی دوسرے خاوند کو قبول کر۔ اس کے ساتھ رہ کر اولاد پیدا کر۔وہ اولاد جو اس طرح پیدا ہوگی تیرے اصلی خاوند کی ہوگی۔‘‘ (ستیار تھ ب ۴دفعہ۱۳۳)
کیونکہ دوسرے خاوند سے نکاح تو نہ ہوگا۔بغیر نکاح کے ہی اولاد پیدا شدہ مردہ خاوند کی ہوگی۔جائز ناجائز کا سوال نہیں صرف اولاد کے حصول کی غرض مدّنظر ہے۔
۵۔’’پُرش کا لِنگ استری کی یونی میں گھسنے پر خصوصیت سے نطفہ چھوڑتا ہے۔مگر پیشاب اس سے علیحدہ چھوڑتا ہے ۔وہ نطفہ جھلّی سے ڈھکا حمل کی شکل ہو کر پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہونے پر اس ڈھکن کو چھوڑ دیتا ہے اور بیرونی ہوا جو جھلّی کو چھوڑتا ہے وہی قسم قسم کی زندگی کے اسباب کی موجودگی یعنی روح کے متعلق دہن اور اس رس کی برابر ناش رہت پر تیکُش وغیرہ گیان کے اسباب آنکھ وغیرہ اعضاؤں سے ملتا ہے یعنی ان کو ترقی دیتا ہے۔مطلب مرد کا آ لۂ تناسل عورت کی اندام نہانی سے ملنے پر نطفہ کو پیشاب سے علیحدہ چھوڑتا ہے۔‘‘ (یجر وید ادھیائے ۱۹ منتر۷۶صفحہ۳۸۸ اردو ترجمہ مطبع نگم پرکاش مسجد سوٹھہ ضلعدہلی)
۶۔’’عورت مرد حمل رکھنے کے وقت بالمقابل اور پریم میں چُور ہوں۔منہ کے مقابل منہ ۔ آنکھ کے سامنے آنکھ۔ دھیان کے سامنے دھیان۔جسم کے سامنے جسم کا انتظار کر۔ حمل قائم کریں جس سے بد شکل یا ٹیڑھے عضوؤں والی اولاد پیدا نہ ہو۔‘‘(کوکا پنڈت کے بھی کان کتر رہے ہیں اور تناسخ کو باطل ٹھہرا رہے ہیں)۔ (یجر وید ادھیائے ۱۹ منتر۸۸صفحہ۳۲۲ اردو ترجمہ مطبع نگم پرکاش مسجد سوٹھہ ضلعدہلی)
۷۔’’اے نیشو!جیسے بیل گایوں کو گیابھن کر کے نسل بڑھاتا ہے ویسے ہی گرہستی لوگ استریوں کو حمل رکھا کر پرجا بڑھاویں۔‘‘ (یجر ویدبھاش حصہ سوم ادھیائے۲۸منتر۳۲صفحہ۲۹۴ اردو ترجمہ مطبع نگم پرکاش مسجد سوٹھہ ضلعدہلی)
کیالطیف مشابہت ہے اور طرزِبیان کا کمال۔بیل گائے ماں بہن کا امتیاز نہیں رکھتے ۔ صرف نسل بڑھانا مقصود ہوتا ہے۔
۸۔نیوگ شہوت مٹانے کا آلہ ہے۔ملاحظہ ہو حوالجات ذیل:۔
مرد عورت کے رنڈوے یا بیوہ ہونے سے قطعِ نسل سے بچنے کا علاج پنڈت دیانند جی مہاراج یوں فرماتے ہیں کہ :۔
’’اگر خاندان کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے کسی اپنی ذات کا لڑکا گود لے لیں گے اس سے خاندان چلے گا اور زنا کاری بھی نہ ہوگی اور اگر برہمچر یہ نہ رکھ سکیں تو نیوگ کرکے اولاد پیدا کرلیں۔ ( ستیار تھ ب ۴دفعہ۱۰)
۹۔ زنا اور نیوگ کا طریق اور قواعد یکساں ہیں۔ملاحظہ ہوں ذیل کے حوالے ۔
’’بیاہ کرنے میں لڑکی اپنے باپ کا گھر چھوڑ کر خاوند کے گھر جاتی ہے اور اس کا باپ سے زیادہ تعلق نہیں رہتا مگر نیوگ کی صورت میں عورت اسی بیاہے خاوند کے گھر میں رہتی ہے۔‘‘
(ستیار تھ ب ۴دفعہ۱۱۱)
یہی زنا میں ہوتا ہے۔اور سنو:۔
۱۰۔ ’’اس بیاہی عورت کے لڑکے اسی بیاہے خاوند کے وارث ہوتے ہیں مگر نیگتاعورت (جس نے نیوگ کیا ہو)کے لڑکے ویرج داتا کے نہ بیٹے کہلاتے ہیں(درانحالیکہ عورت سے نیوگ اپنی اولاد کے لئے کیا ہو)نہ اس کا گوتر ہوتا ہے اور نہ اس کا اختیار ان لڑکوں پر ہوتا ہے بلکہ وے متوفّی خاوند کے بیٹے کہلاتے ہیں۔اسی کا گوتر ذات ہوتا ہے اور اسی کی جائیداد کے وارث ہو کر اسی گھر میں رہتے ہیں۔‘‘ (ستیار تھ ب ۴دفعہ۱۱۹)
زنا میں بھی یہی ہوتا ہے۔اگر کسی کی بیوی سے کسی کا ناجائز تعلق ہو تو اس عورت کی اولاد اپنے خاوند کی اولاد سمجھی جاتی ہے اور اسی کی وارث ہوتی ہے۔حالانکہ قانوناً اور اخلاقاً جس کا نطفہ ہو ۔اسی کی گوتر اور وارث ہوتا ہے۔مگر مخفی یا رانہ کی و جہ سے چونکہ ظاہر نہیں ہوتا اس لئے ایسا واقع ہوتا ہے۔ورنہ دنیا کے کسی خطہ کا قانون ابھی تک اس قسم کے کرایہ کے نطفہ کو جائز قرار نہیں دیتا بلکہ اس کو ناجائز اور حرام کی ولادت قرار دیتا ہے۔اس تعلیم کی رو سے تمام آریوں کی ولادت مشکوک ہو جاتی ہے۔ابھی اور سنو:۔