آریہ ہندو کا عقیدہ تناسخ
تناسخ کے معنے ہیں گناہوں اور نیکیوں کے باعث باربار جنم لینا۔آریوں کی طرف سے اثباتِ تناسخ کی بڑی اور ایک ہی دلیل انسانوں میں اختلاف کا پایا جانا ہے۔اس پر مندرجہ ذیل سوال پڑتے ہیں:۔
۱۔ ویدوں سے اس کا ثبوت دو کہ تناسخ کا مسئلہ برحق ہے۔نیز یہ کہ اس کی دلیل اختلاف ہے۔
۲۔ یہ دلیل دلیل نہیں ہوسکتی۔اس لئے کہ اختلاف کو دیکھ کر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ پہلے جنم کے اعمال ہیں مثلاً رات کو اگر کوئی جاتاہو تو اس کے متعلق خیال کیا جائے کہ اس وقت دفاتر، ڈاکخانہ جات، مدارس اور شفا خانے سب بند ہیں تو یہ شخص اس وقت سوائے چوری کرنے کے اور کہیں نہیں جا رہا۔تو جیسے یہ خیال باطل ہے کیونکہ ناممکن ہے کہ وہ کسی اور ضروری کام سے جارہا ہو۔اسی طرح یہ خیال بھی باطل ہے کہ اختلاف دنیا کا باعث پچھلے جنم کے اعمال ہی ہیں۔
۳۔ اگر اختلاف کو دلیل مانا جائے تو پھر چاہیے کہ جہاں دلیل پائی جائے وہاں دعویٰ بھی پایا جائے اور جہاں اختلاف پایا جائے وہاں پچھلے جنم کے اعمال کا اُسے نتیجہ مانا جائے۔مثلاً ہم کہتے ہیں کہ خدا میں تین صفتیں پائی جاتی ہیں(سَت۔چِت۔انند)اور روح میں (سَت۔چِت)اور مادہ میں (سَت)ہے۔کیا ان کا اختلاف بھی پچھلے جنم کے اعمال کی و جہ سے ہے۔کیا و جہ ہے کہ خدا ہمیشہ حاکم اور روح ہمیشہ محکوم رہتی ہے۔
دوسری مثال:۔ پھر دیکھو فلکی اجرام میں کوئی سورج،کوئی ستارہ،کوئی چاند،کوئی سیارہ،کیا ان کا اختلاف بھی وہی و جہ رکھتا ہے؟یا کوئی اور۔
تیسری مثال:۔ بعض بعض ایسی زمینیں ہیں کہ ان سے ہیرا اور لعل نکلتا ہے اور کسی سے سنگ خارا اور بعض سے کچھ بھی نہیں ۔کیا اس اختلاف کا باعث بھی پچھلے جنم کے اعمال ہیں۔
۴۔ جونوں کی نوع میں جو اختلاف پایا جاتا ہے ۔مثلاًپھلدار درختوں آم،کھجور اور بمبئی کے آم وغیرہ ۔پھر عرب کے گھوڑے اور ہندوستان کی گھوڑیاں۔کشمیر کے سیب ۔یوپی کے آم وغیرہ کیا مختلف شہروں کے آموں وغیرہ میں مختلف ذائقہ اور خوبی اسی تناسخ کی و جہ سے ہے یا کسی اور و جہ سے۔پھر پتھروں کی مختلف قسمیں۔بعض بہت قیمتی اور بعض بالکل ردّی پتھروں میں جونیں جاتی ہیں۔ (ستیارتھ پرکاش باب۹۔ ۳۳۔۳۱؍۹)
۵۔ آریہ کہتے ہیں کہ مکتی خانہ میں سنسکرت بولی جاتی ہے بلکہ وید کنٹھ ہوتے ہیں مگر جب دنیا میں آتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں۔سوال اس پر یہ ہے کہ اگر وہاں ایسے ازبر ہوتے ہیں تو کیا و جہ ہے کہ یہاں آکر بالکل بھول جاتے اور عقل پر ایسے پتھر پڑ جاتے ہیں کہ کوئی حرف بھی یاد نہیں رہتا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات ہی غلط ہے۔
۶۔علمِ طبّ رائیگاں جاتا ہے کیونکہ اگر تمام امراض وغیرہ خدا کی طرف سے ہیں اور لُولا، لنگڑا، اندھا ،کانا ہونا کسی پچھلے جنم کے اعمال کے نتیجہ میں ہے تو ہمیں ان کا علاج نہیں کرنا چاہیے۔اگر علاج کریں تو اس میں خدا کا مقابلہ ہوگا کیونکہ خدا تو انہیں سزا دینا چاہتا ہے مگر ہم اس سزا کو دور کرنا چاہتے ہیں۔
۷۔ آریہ لوگ تناسخ کے مسئلہ کے اس لئے قائل ہیں کہ اگر وہ اسے نہ مانیں تو وہ جانتے ہیں کہ ہمارا خدا ارواح کو پیدا تو کر سکتا نہیں۔پس جب روحیں محدود اورپرمیشور پیدا کرنے سے عاجز ہے۔پھر اگر وہ مکتی یافتہ روحوں کو باربار جونوں کے چکّر میں نہ لائے تو دنیا کیونکر چلے۔اس طرح توآہستہ آہستہ تمام ارواح اس کے ہاتھ سے چلے جائیں گے اور وہ خالی ہاتھ ہو بیٹھے گا۔
(دیکھوستیارتھ پرکاش ب۹دفعہ ۲۳،۲۴ )
۸۔مکتی خانہ سے کروڑہا سال کے بعد نکالا جاتا ہے۔اگر یہ مسئلہ سچّا ہوتا تو ہم کہتے ہیں کہ زمین بڑی ہونی چاہیے تھی ورنہ اتنے عرصہ کے لوگ اس پر آہی نہیں سکتے۔
۹۔ دنیا کا کارخانہ جو انواع و اقسام کا بہت بڑے تناسب سے قائم ہے اگر اسے کرموں کا نتیجہ خیال کیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ ممکن ہے کہ کسی وقت میں تمام مرد عورتیں ہوجائیں تا تمام عورتیں مرد ہوجائیں۔مگر ایسا ہوتا نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تناسخ باطل ہے۔
۱۰۔ اگر تناسخ برحق ہے تو آریوں کا یہ دعویٰ کہ پرمیشور بڑا دیالو کرپالو ہے باطل ہے کیونکہ انسان کو جو کچھ مل رہا ہے وہ اس کے پہلے کرموں کا نتیجہ ہے۔خدا اُسے کچھ دے نہیں سکتا مگر وہی جو اس نے پچھلے اعمال کئے اور اس کا بدلہ اگر وہ کرم نہ کرتے تو وہ کچھ بھی نہ دیتا۔پس پرمیشور کا ان پر کوئی احسان نہیں اور نہ ہی وہ دیالو اور کرپالو ہے بلکہ مجبور ہے۔
۱۱۔ تناسخ کے ماننے سے دنیا سے پیار محبّت اور اخلاقِ فاضلہ اُڑ جاتے ہیں۔کیونکہ جو کسی کے ساتھ احسان کرے گا وہ یہی سمجھے گا کہ مجھے اپنے کرموں کے نتیجہ میں مل رہا ہے۔دوسراچاہے اپنی جان و مال،عزّت بھی کیوں نہ قربان کر دے۔
۱۲۔ تناسخ کے ماننے سے لازم آئے گا کہ پرمیشور بہت ہی کمزور اور چھوٹی موٹی حکومت کے قابل بھی نہیں کیونکہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ داروغہ کے جیل خانہ میں سے کسی کو یہ ہمت نہیں ہوتی کہ اس کے قیدی کوئی بلا تحاشا آزاد کرتا چلا جائے اور وہ داروغہ جیل چوں تک بھی نہ کرے۔مگر برعکس اس کے روزمرّہ دیکھتے ہیں کہ لاکھوں اور کروڑوں قیدی چھُریوں اور بندوقوں کے ذریعہ مسلمان عیسائی اور ہنود آزاد کرتے جاتے ہیں اور کوئی ان کو روکتا تک نہیں۔پس ایک رُوح ذبح کرنے والے لوگ اور بھیڑئیے،شیر اور چیتے وغیرہ تمام ان جانوروں پر جن کو وہ کھاتے ہیں اور اُن کی روحوں کو آزاد کرتے ہیں۔اُن پر احسان کرتے ہیں اور مسلمان تو بہت ہی احسان کرتے ہیں۔
۱۳۔ منوسمرتی ادھیائے ۱۲ شلوک ۵۵میں لکھا ہے کہ برہمن کو قتل کرنے کے نتیجہ میں سؤر، کُتّا،گائے،بکرا، اونٹ، بھیڑیا وغیرہ جونوں میں قاتل کو جانا پڑتا ہے۔اس پر سوال یہ ہے کہ کیا و جہ ہے کہ برہمن کو قتل کرکے ایک تو سؤربن جائے، دوسراکُتا اور تیسرا بھیڑیا وغیرہ۔اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔صورت اوّل یہ ہے کہ اختلاف ِ جون اس لئے ہے کہ نوعیت قتل میں فرق ہے اگر برہمن کو ننگا کرکے مارا جائے تو سؤر۔اور اگر کپڑے سمیت مارا جائے تو بکرا اور اگر جوتے سے مارا جائے تو گائے اور اگر الٹا کر کے یا درخت پر لٹکا کرمارا جائے تو بھیڑیا اور اونٹ۔دوسری صورت یہ ہے کہ برہمنوں میں فرق ہے۔اگر کسی برہمن بچّہ کو مارا جائے تو فلاں جون اور جوان برہمن کو مارا جائے تو فلاں جون۔اور اگر بوڑھے کو مارا جائے تو فلاں جون۔تو یا یہ اختلاف نوعیّت قتل کی و جہ سے ہوگا یا نوعیّت مقتول کی و جہ سے ہوگا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ نوعیّت قاتل میں فرق ہے۔قتل کرنے والا بچّہ۔جوان یابوڑھا ہو۔یا نوعیّت مقتول میں کہ عورت کو مارے یا مرد کو۔غرضیکہ اس اختلاف کی و جہ بتائیں کیا ہے؟ (نیز ستیارتھ پرکاش ب۹دفعہ۴۷)
۱۴۔ ہم کہتے ہیں کہ جب ایشور نے ایک انسان کو اس کے اعمال کی و جہ سے سؤر بنایا تو سؤر کے لئے ضروری ہے کہ وہ گوشت کھائے ۔تو معلوم ہوا کہ تناسخ کے ماننے سے گوشت خوری اور جیوہتیا ماننی پڑتی ہے۔
۱۵۔ اگر مختلف جونوں میں جانا بطور سزا و جزا ہے اور سزا اصلاح کے لئے دی جاتی ہے تو پھر سزا یا جزا یافتہ روح کو علم ہونا چاہیے کہ مجھ کو فلاں عمل کی و جہ سے سزا مل رہی ہے تاکہ وہ آئندہ کو اس گناہ سے بچے ورنہ یہ اندھیر نگری والا حال ہوگا۔کیا کوئی آریہ بتا سکتا ہے کہ وہ اندھا کانا یا لنگڑا کس جُرم کی و جہ سے بنایا گیا ہے یا اس کی والدہ یا بیوی کس عمل کی سزا میں عورت بنائی گئی ہے؟ہرگز نہیں۔
۱۶۔ ’’میں (خدا)خود ہی یہ کہتا ہوں جو دیوتاؤں یا انسانوں کا پیارا ہوں کہ میں جس کے لئے چاہتا ہوں اس کو بُرا بناتا ہوں۔جس کو چاہتا ہوں اسے برہما بناتا ہوں۔جس کو چاہتا ہوں رشی بناتا ہوں اور جس کے لئے چاہتاہوں اسے عقلمند بناتا ہوں۔‘‘(اتھر وید )اس حوالے سے تناسخ باطل ہوگیا ۔ کیونکہ پرمیشور کے اختیار میں ہوگیا۔اعمال کی ضرورت ہی نہ رہی۔
۱۷۔ سوال:۔ جب اختلاف دنیا کی و جہ یہ نہیں تو اور کیا ہے؟
جواب:۔ قرآن شریف فرماتا ہے (الشوریٰ:۲۸) یعنی ہم نے اختلاف دنیا کا اس لئے رکھا ہے تاکہ انتظام عالم میں خلل واقع نہ ہو۔ اگر تمام ایک جیسے ہوں تو کبھی کا یہ سلسلہ درہم برہم ہو جاتا۔
وَلَوۡ بَسَطَ ٱللَّهُ ٱلرِّزۡقَ لِعِبَادِهِۦ لَبَغَوۡاْ فِى ٱلۡأَرۡضِ وَلَـٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ۬ مَّا يَشَآءُۚ إِنَّهُ ۥ بِعِبَادِهِۦ خَبِيرُۢ بَصِيرٌ۬ (٢٧) (الشوریٰ:۲۸)
۱۸۔ اگردنیاکاتمام سلسلہ گناہوں کے سلسلہ پرچل رہا ہے توپھرپرمیشورسرب شکتیمان کہاں رہا۔سب کچھ ہمارے گناہوں کے طفیل ہو رہا ہے۔پھر پرمیشور کی کیا ضرورت ہے؟
۱۹۔ ایشور، روح، مادہ تین کیوں ہیں؟اس اختلاف کی کیا و جہ ہے؟
۲۰۔ اگر پرمیشور کے عطیات پچھلے اعمال کے بدلے پر ہی موقوف ہیں تو پھر دیانند جی کا (ستیارتھ پرکارش ب۴دفعہ۴۳) میں بے نظیر اولاد حاصل کرنے کے لئے یہ طریق جماع لکھنا کہ جب ویرج (منی) گرنے کا وقت ہو اس وقت مرد عورت بے حرکت ناک کے سامنے ناک آنکھ کے سامنے آنکھ یعنی سیدھا جسم رکھیں اور نہایت خوش دل رہیں۔ہلیں نہیں۔مرد اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑے اور عورت ویرج حاصل کرنے کے لئے اپان وایو کو اوپر کھینچے جائے مخصوص کو اوپر سکوڑ کر ویریہ کو اوپر کشش کرکے رحم میں ٹھہرائے وغیرہ وغیرہ اسقدر طول طویل آسن لکھنا فضول ٹھہرتا ہے کیونکہ پچھلے اعمال کی بدولت جو کچھ ملنا ہے وہ بہر حال ملنا ہے ۔یہ مفت کی کوشش اور محنت کرنے سے کیا حاصل؟