خدا تعالیٰ جو علیم اور حکیم ہے اس نے دنیا کو ظلمت و گمراہی کی تاریک و تار گھٹاؤں میں گھرا دیکھ کر اپنی سنّت قدیمہ کے مطابق دنیائے جہالت کومنوّر کر نے کرنے کے لئے نورِ اسلام ظاہر کیا۔یہ مذہب
’’فاران کی چوٹیوں پر‘‘(بائیبل استثناء باب ۳۳ آیت ۲)
سے تمام دنیا پر چمکا ۔اور کروڑہا انسانوں کو خواب غفلت سے بیدار کر کے منزلِ مقصود تک پہنچایا۔تمام دنیا کی متحدہ طاقتوں نے اس نورِ خداوندی کو بجھانے کی کوشش کی لیکن یہ بچہ تلواروں کے سایہ میں پَلا،پَھلا اور پھولا۔حتیٰ کہ ایک وقت آیا جب دنیا کا کونہ کونہ اس
وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذۡنِهِۦ وَسِرَاجً۬ا مُّنِيرً۬ا (٤٦) ’’سراج منیر‘‘ (الاحزاب:۴۷)
کی ظلمت سوز ضیاء سے منوّر ہوگیا۔ہزارہا مذاہب اس کے مقابل پر آئے مگراسلام کے دلائل بیّنہ و براہین ساطعہ کے آگے سرنگوں ہوئے بغیر ان کے لئے اور کوئی چارہ نہ تھا۔
وید جو ممکن ہے ابتدائے دنیا میں جب انسانی دماغ نے ابھی منازِل ارتقاء طے نہ کی تھیں (دیکھو ستیارتھ پرکاش باب ۷ دفعہ ۷۴) ابتدائی تعلیم دینے کے لئے نازل ہوئے ہوں،لیکن آج جبکہ ترقی ٔ علوم سے انسانی دماغ ارتقاء کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکا ہے۔اس ویدک تعلیم کو عالمگیر اور قابل تتبّع قرار دینا دسمبر میں برف بیچنے کے مترادف ہے۔
(۱) عالمگیر کامل الہامی کتاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عالمگیر اور الہامی ہونے کا پہلے خود دعویٰ کرے اور پھر اس کے دلائل بھی خود ہی بیان کرے۔قرآن کریم فرماتا ہے
وَإِنَّهُ ۥ لَتَنزِيلُ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ (١٩٢) (الشعراء:۱۹۳)
کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔پھر فرمایا
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَءَامَنُواْ بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ۬ وَهُوَ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّہِمۡۙ كَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَيِّـَٔاتِہِمۡ وَأَصۡلَحَ بَالَهُمۡ (٢) (محمد:۳)
کہ یہ کتاب محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔پھر فرماتا ہے
تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلۡفُرۡقَانَ عَلَىٰ عَبۡدِهِۦ لِيَكُونَ لِلۡعَـٰلَمِينَ نَذِيرًا (١) (الفرقان:۲)
کہ قرآن مجید اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے موجب ہدایت ہو۔مگر اس کے مقابل وید نہ تو اپنے الہامی ہونے کے مدعی ہیں اور نہ وہ اپنے ملہمین کا کچھ اتا پتہ بتاتے ہیں کہ وہ تھے کون؟انسان تھے یا آگ،پانی،ہوا،سورج؟ان کی زندگی کیسی تھی؟انہوں نے وید کی تعلیم پر کس طرح پر عمل کیا؟کس طرح تبلیغ کی؟تاکہ ہمارے لئے وید کی تحقیق کرنے کے لیے آسانی ہوتی مگر ویدوں نے ان سب باتوں کو نظر انداز کر کے اپنے غیر مکمل ہونے کا کافی ثبوت بہم پہنچا دیا ہے اندریں صورت آریہ صاحبان کا وید کو کامل الہامی اور عالمگیر کتاب ثابت کرنا ۹۹۹۹۹۹’’مدعی سُست گواہ چست ‘‘بلکہ’’مدعی مفقود اور گواہ موجود‘‘کا مصداق ہے۔
(۲) وہی کتاب مکمل الہامی کہلا سکتی ہے جو اس منبع ہدایت (خدا)کے متعلق نہایت اعلیٰ اور اکمل تعلیم دے۔جو کتاب خدا تعالیٰ کو نہایت بھیانک شکل میں پیش کرتی ہے وہ کبھی الہامی نہیں ہو سکتی۔ قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کی مختلف صفات بیان کر کے فرمایا
قُلِ ٱدۡعُواْ ٱللَّهَ أَوِ ٱدۡعُواْ ٱلرَّحۡمَـٰنَۖ أَيًّ۬ا مَّا تَدۡعُواْ فَلَهُ ٱلۡأَسۡمَآءُ ٱلۡحُسۡنَىٰۚ وَلَا تَجۡهَرۡ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتۡ بِہَا وَٱبۡتَغِ بَيۡنَ ذَٲلِكَ سَبِيلاً۬ (١١٠) (بنی اسرائیل:۱۱۱)
ہر قسم کی خوبیاں خدا تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ ہر قسم کی برائی سے پاک ہے۔کیسی اعلیٰ اور اکمل تعلیم ہے۔
ویدوں کی خدا کے متعلق تعلیم ملاحظہ ہو :۔
لا علم خدا :۔ خدا کہتا ہے :۔’’اس دنیا میں پاپ اور پُن بھوگنے کے دو راستے ہیں ۔ایک عارفوں یا عالموں کا ۔دوسرا علم و معرفت سے معرّاانسانوں کا ۔میں نے یہ دو رستے سنے ہیں۔‘‘ (یجر وید ادھیائے ۱۹ منتر ۴۷ اردو ترجمہ عبدالحق ودیارتھیبحوالہ رگ وید آدی بھاش بھومکامترجم نہال سنگھ صفحہ (۱۲۲) پھر خدا پوچھتا ہے:۔’’اے بیاہے ہوئے مرد عورتو!تم دونوں رات کو کہاں ٹھہرے تھے اور دن کہاں بسر کیا تھا اور کھانا وغیرہ کہاں کھایا تھا۔ تمہارا وطن کہاں ہے۔جس طرح بیوہ (نیوگن) اپنے دیور (نیوگی خاوند)کے ساتھ شب باش ہوتی ہے اسی طرح تم کہاں شب باش ہوئے تھے۔‘‘ (رگ ویداشٹگ۷؍ادھیائے۸ورگ نمبر۱۸منتر۲بھومکا صفحہ ۱۲۵و ستیارتھ پرکاش باب ۴ دفعہ ۱۳۰)۔
چور خدا:۔ ’’اے اندر دولتوں سے مالا مال پرمیشور !ہم سے الگ مت ہو۔ہماری مرغوب سامانِ خوراک مت چُرا اور نہ کسی اور سے چُروا۔‘‘ (رگ وید اشٹگ سوکت نمبر۱۹ترقی نمبر۸ آریہ بھومی صفحہ ۵۸مصنفہ دیانند) تفصیل دوسری جگہ درج ہے۔ ع
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
(۳) ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسانی ہاتھ کی ایجاد ہو دوسرا انسان اس کی تعمیر کی طاقت رکھتاہے۔مگر صانع قدرت کی مصنوعات کو بنانے کی کوشش تضیعِ اوقات ہے پس الٰہی کلام میں یہی مابہ الامتیاز ہے کہ وہ بے مثل ہوتا ہے۔قرآن شریف نے ببانگ دہل تمام دنیا کو اپنے مقابل پہ بلا کر کہا۔ (بنی اسرائیل :۸۹)کہ اگر تمام جن اور انسان جمع ہو کر بھی قرآن کریم کی نظیر لانے کی کوشش کریں تو بھی اس کی مثل نہیں لا سکیں گے ۔چنانچہ واقعات نے بتا دیا کہ قرآن کا یہ دعویٰ کس قدر وزنی تھااور ۱۳۰۰سال تک کوئی اس مطالبہ کا جواب نہ دے سکا۔پنڈت کالی چرن اور دھرم بھکشونے چند غلط فقرات لکھ کر اندھوں میں کانا را جہ بننا چاہا مگر ایسی منہ کی کھائی کہ بولنے کا نام تک نہ لیا۔مگر اس کے بالمقابل بر ہمنوں نے اتھروید کو اپنے پاس سے بنا کر رگ وید، سام وید اور یجروید کے ساتھ ایسا ملا دیا کہ آریہ صاحبان اتھر وید کو بھی باقی تینوں ویدوں کی طرح الہامی ماننے لگ گئے۔ حالانکہ باقی ویدوں میں اتھر وید کا کہیں ذکر نہیں بلکہ وہاں صاف طور پر تین ہی ویدوں کا ہونا لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو:۔
’’ایک ایک وید کو…………بارہ (۱۲) بارہ(۱۲) سال مل کر چھتیس (۳۶) سال میں ختم کریں ۔‘‘ (ستیارتھ پرکاش ب ۳ دفعہ ۲۶) فرمائیے جناب !وید تین ہیں یا چار۔بارہ سال میں ایک پڑھنے سے ۳۶ سال میں کتنے وید ختم ہوئے تین یا چار؟اور سنیے:۔جس سبھا میں رگ وید،یجر وید،سام وید کے جاننے والے تین سبھا سدھ ہو کر آئین باندھیں ۔‘‘(منوسمرتی ادھیائے ۱۲۔۱۱۲بحوالہ ستیارتھ پرکاش ب۶دفعہ)
پھر یجر وید ادھیائے ۳۶ کے پہلے منتر میں ’’رگ وید،سام وید اور یجر وید ‘‘کا نام ہے۔مگر اتھر وید کا کہیں ذکر نہیں ۔پس معلوم ہوا کہ اتھر وید بعد میں برہمنوں نے باقی تینوں ویدوں میں ملا دیا ہے۔پس وید بے مثل نہ رہے۔
(۴) کامل الہامی کتاب وہی ہو سکتی ہے جو عین فطرت انسانی کے مطابق تعلیم دے۔قرآن کہتا ہے
فَأَقِمۡ وَجۡهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفً۬اۚ فِطۡرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيۡہَاۚ لَا تَبۡدِيلَ لِخَلۡقِ ٱللَّهِۚ ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلۡقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمُونَ (٣٠) (الروم:۳۱)
کہ اسلام عین فطرت انسانی کے مطابق تعلیم دیتا ہے مگر اس کے بالمقابل ویدک دھرم کی تعلیم فطرت انسانی کے سخت خلاف ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:۔
(الف) ’’بچوں سے لاڈ نہیں کرنا چاہیے بلکہ تنبیہ ہی کرتے رہیں‘‘ (ستیارتھ ب ۲ دفعہ ۲۰)
(ب) ’’پیدائش سے ہی گاتیری منتر پڑھنا اچھا ہے۔‘‘ (ستیارتھ ب۳دفعہ۱۴)
(ج) ’’بالکل شادی نہ کرنا اچھا ہے ۔ورنہ ۴۰ سال کی عمر میں (ستیارتھ ب۳دفعہ ۳۴۔۳۵)
(د) وید میں ہے:۔’’بادل جو بمنزلہ باپ کے ہے ۔زمین میں جو بمنزلہ دُختر کے ہے۔باران کی صورت حمل قائم کرتا ہے۔‘‘ (رگ وید منڈل نمبر۱ سکونت ۱۶۴منتر۳۳بحوالہ رگ وید آدی بھاش بھومکاصفحہ ۱۶۳)
علاوہ ازیں نیوگ کا حیاسوز مسئلہ ایسا ہے کہ فطرتِ انسانی اسے دھکے دے رہی ہے۔صرف ایک حوالہ نقل کرتا ہوں:۔
سوامی دیانند صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ جب ایک شادی ہوگی اور ایک عورت کے لئے ایک خاوند ہوگا ۔اگر مرد و عورت دونوں جوان ہوں اور عورت حاملہ ہو یا مرد مریض ہو تو ان صورتوں میں اگر حاملہ عورت کے خاوند یا ایک مریض خاوند کی جوان عورت یا ایک مریض عورت کے جوان خاوند سے رہا نہ جائے تو کیا کرے۔‘‘سوامی جی کا جواب ملاحظہ فرمائیے:۔
’’اگر حاملہ عورت سے ایک سال صحبت نہ کرنے کے عرصہ میں مرد سے یا دائم المریض مرد کی عورت سے رہا نہ جائے تو کسی سے نیوگ کرکے اس کے لئے اولاد پیدا کرے لیکن رنڈی بازی یا زناکاری کبھی نہ کریں۔ (ستیارتھ ب ۴ دفعہ۔۱۴۶)
حضرات!انسانی کانشنس کیا ایک لمحہ کے لئے بھی یہ قبول کر سکتی ہے کہ ایسی حیا سوز تعلیم دینے والی کتاب کبھی خدا کا کلام ہو سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا فقرہ میں ’’اس کے لئے اولاد پیدا کرے‘‘۔ محض ڈھکوسلہ ہے کیونکہ جس صورت میں عورت حاملہ ہوگی اولاد کے حصول کے لئے کہیں اور جاکر نیوگ کرنا تحصیل حاصل ہے ۔پس اصل علاج تو سوامی صاحب نے ’’رہا نہ جائے‘‘کا بتایا ہے۔
ہمارے گجرات (پنجاب)میں سوامی جی تشریف لائے اور آکر لیکچر دیا۔ ایک شخص نے سوامی جی سے سوال کیا۔’’جس عورت کا خاوند کنجری کے پاس جائے ۔اُس کی عورت کیا کرے؟ انہوں نے فرمایا:۔اُس کی عورت بھی ایک مضبوط آدمی رکھ لے۔‘‘ (جیون چرتر مصنّفہ لیکھرام و آتمارام صفحہ ۳۵۵) حیرت ہے کہ اس تعلیم کو کامل، مکمل بلکہ اکمل اور عالمگیر الہامی قرار دیا جاتا ہے
(۵) خدا علیمِ کُل ہے ۔اس کے لئے تینوں زمانے یکساں ہیں۔وہ آئندہ کے حالات جانتا ہے کیونکہ وہی (الفرقان:۳)کا فاعل ہے مگر انسان ضعیف البنیان کمیٔ علم کی و جہ سے آئندہ کے حالات نہیں جان سکتا۔پس انسانی اور الہامی کلام میں ایک یہ مابہ الامتیاز ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں پیشگوئیاں ہوتی ہیں جو اسے انسانی کلام سے ممتاز و بالا ثابت کرتی ہیں۔ویدوں میں پیشگوئیوں کا نام تک نہیں مگر اس کے بالمقابل قرآن شریف نے آئندہ زمانہ کی اخبار بیان فرما کر آئندہ زمانوں کے لئے قرآن کی صداقت کے نئے نئے ثبوت مہیا فرمائے ۔قرآن شریف نے فرمایا کہ جب فرعونِ مصر دریائے نیل میں غرق ہونے لگا تو اس وقت خدا نے اسے کہا :۔ (یونس:۹۳)کہ اے فرعون!میں آج سے تیرے جسم کو محفوظ رکھوں گا نہ اس کو دریائی مچھلیاں یا پانی تلف کر سکے گا نہ زمین کے کیڑے یا مٹی اس کی تباہی کا موجب ہوں گے۔بلکہ یہ محفوظ رہے گا ۔تاکہ تیرے بعد کے آنے والوں کے لئے نشان بنے اور بہت سے لوگ ہمارے نشانوں سے غافل ہیں۔
قرآن شریف نے خدا تعالیٰ اور فرعون کی گفتگو کا ذکر فرمایااور اس کے ثبوت میں اپنا وعدہ بیان کر کے اس کو بطور پیشگوئی کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد فرعون کی لاش صحیح و سالم برآمد ہوئی اور مصر کے عجائب گھر کی زینت ہو کر
فَٱلۡيَوۡمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنۡ خَلۡفَكَ ءَايَةً۬ۚ وَإِنَّ كَثِيرً۬ا مِّنَ ٱلنَّاسِ عَنۡ ءَايَـٰتِنَا لَغَـٰفِلُونَ (٩٢) (یونس:۹۳)
کے مطابق ہمارے لئے بطور نشان بنی۔
کیا ایسی عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد بھی قرآن کریم کے الہامی ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟مبارک وہ جو حق کو قبول کرتے ہیں۔
’’فاران کی چوٹیوں پر‘‘(بائیبل استثناء باب ۳۳ آیت ۲)
سے تمام دنیا پر چمکا ۔اور کروڑہا انسانوں کو خواب غفلت سے بیدار کر کے منزلِ مقصود تک پہنچایا۔تمام دنیا کی متحدہ طاقتوں نے اس نورِ خداوندی کو بجھانے کی کوشش کی لیکن یہ بچہ تلواروں کے سایہ میں پَلا،پَھلا اور پھولا۔حتیٰ کہ ایک وقت آیا جب دنیا کا کونہ کونہ اس
وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذۡنِهِۦ وَسِرَاجً۬ا مُّنِيرً۬ا (٤٦) ’’سراج منیر‘‘ (الاحزاب:۴۷)
کی ظلمت سوز ضیاء سے منوّر ہوگیا۔ہزارہا مذاہب اس کے مقابل پر آئے مگراسلام کے دلائل بیّنہ و براہین ساطعہ کے آگے سرنگوں ہوئے بغیر ان کے لئے اور کوئی چارہ نہ تھا۔
وید جو ممکن ہے ابتدائے دنیا میں جب انسانی دماغ نے ابھی منازِل ارتقاء طے نہ کی تھیں (دیکھو ستیارتھ پرکاش باب ۷ دفعہ ۷۴) ابتدائی تعلیم دینے کے لئے نازل ہوئے ہوں،لیکن آج جبکہ ترقی ٔ علوم سے انسانی دماغ ارتقاء کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکا ہے۔اس ویدک تعلیم کو عالمگیر اور قابل تتبّع قرار دینا دسمبر میں برف بیچنے کے مترادف ہے۔
(۱) عالمگیر کامل الہامی کتاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عالمگیر اور الہامی ہونے کا پہلے خود دعویٰ کرے اور پھر اس کے دلائل بھی خود ہی بیان کرے۔قرآن کریم فرماتا ہے
وَإِنَّهُ ۥ لَتَنزِيلُ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ (١٩٢) (الشعراء:۱۹۳)
کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔پھر فرمایا
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَءَامَنُواْ بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ۬ وَهُوَ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّہِمۡۙ كَفَّرَ عَنۡہُمۡ سَيِّـَٔاتِہِمۡ وَأَصۡلَحَ بَالَهُمۡ (٢) (محمد:۳)
کہ یہ کتاب محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔پھر فرماتا ہے
تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلۡفُرۡقَانَ عَلَىٰ عَبۡدِهِۦ لِيَكُونَ لِلۡعَـٰلَمِينَ نَذِيرًا (١) (الفرقان:۲)
کہ قرآن مجید اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے موجب ہدایت ہو۔مگر اس کے مقابل وید نہ تو اپنے الہامی ہونے کے مدعی ہیں اور نہ وہ اپنے ملہمین کا کچھ اتا پتہ بتاتے ہیں کہ وہ تھے کون؟انسان تھے یا آگ،پانی،ہوا،سورج؟ان کی زندگی کیسی تھی؟انہوں نے وید کی تعلیم پر کس طرح پر عمل کیا؟کس طرح تبلیغ کی؟تاکہ ہمارے لئے وید کی تحقیق کرنے کے لیے آسانی ہوتی مگر ویدوں نے ان سب باتوں کو نظر انداز کر کے اپنے غیر مکمل ہونے کا کافی ثبوت بہم پہنچا دیا ہے اندریں صورت آریہ صاحبان کا وید کو کامل الہامی اور عالمگیر کتاب ثابت کرنا ۹۹۹۹۹۹’’مدعی سُست گواہ چست ‘‘بلکہ’’مدعی مفقود اور گواہ موجود‘‘کا مصداق ہے۔
(۲) وہی کتاب مکمل الہامی کہلا سکتی ہے جو اس منبع ہدایت (خدا)کے متعلق نہایت اعلیٰ اور اکمل تعلیم دے۔جو کتاب خدا تعالیٰ کو نہایت بھیانک شکل میں پیش کرتی ہے وہ کبھی الہامی نہیں ہو سکتی۔ قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کی مختلف صفات بیان کر کے فرمایا
قُلِ ٱدۡعُواْ ٱللَّهَ أَوِ ٱدۡعُواْ ٱلرَّحۡمَـٰنَۖ أَيًّ۬ا مَّا تَدۡعُواْ فَلَهُ ٱلۡأَسۡمَآءُ ٱلۡحُسۡنَىٰۚ وَلَا تَجۡهَرۡ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتۡ بِہَا وَٱبۡتَغِ بَيۡنَ ذَٲلِكَ سَبِيلاً۬ (١١٠) (بنی اسرائیل:۱۱۱)
ہر قسم کی خوبیاں خدا تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ ہر قسم کی برائی سے پاک ہے۔کیسی اعلیٰ اور اکمل تعلیم ہے۔
ویدوں کی خدا کے متعلق تعلیم ملاحظہ ہو :۔
لا علم خدا :۔ خدا کہتا ہے :۔’’اس دنیا میں پاپ اور پُن بھوگنے کے دو راستے ہیں ۔ایک عارفوں یا عالموں کا ۔دوسرا علم و معرفت سے معرّاانسانوں کا ۔میں نے یہ دو رستے سنے ہیں۔‘‘ (یجر وید ادھیائے ۱۹ منتر ۴۷ اردو ترجمہ عبدالحق ودیارتھیبحوالہ رگ وید آدی بھاش بھومکامترجم نہال سنگھ صفحہ (۱۲۲) پھر خدا پوچھتا ہے:۔’’اے بیاہے ہوئے مرد عورتو!تم دونوں رات کو کہاں ٹھہرے تھے اور دن کہاں بسر کیا تھا اور کھانا وغیرہ کہاں کھایا تھا۔ تمہارا وطن کہاں ہے۔جس طرح بیوہ (نیوگن) اپنے دیور (نیوگی خاوند)کے ساتھ شب باش ہوتی ہے اسی طرح تم کہاں شب باش ہوئے تھے۔‘‘ (رگ ویداشٹگ۷؍ادھیائے۸ورگ نمبر۱۸منتر۲بھومکا صفحہ ۱۲۵و ستیارتھ پرکاش باب ۴ دفعہ ۱۳۰)۔
چور خدا:۔ ’’اے اندر دولتوں سے مالا مال پرمیشور !ہم سے الگ مت ہو۔ہماری مرغوب سامانِ خوراک مت چُرا اور نہ کسی اور سے چُروا۔‘‘ (رگ وید اشٹگ سوکت نمبر۱۹ترقی نمبر۸ آریہ بھومی صفحہ ۵۸مصنفہ دیانند) تفصیل دوسری جگہ درج ہے۔ ع
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
(۳) ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر وہ چیز جو انسانی ہاتھ کی ایجاد ہو دوسرا انسان اس کی تعمیر کی طاقت رکھتاہے۔مگر صانع قدرت کی مصنوعات کو بنانے کی کوشش تضیعِ اوقات ہے پس الٰہی کلام میں یہی مابہ الامتیاز ہے کہ وہ بے مثل ہوتا ہے۔قرآن شریف نے ببانگ دہل تمام دنیا کو اپنے مقابل پہ بلا کر کہا۔ (بنی اسرائیل :۸۹)کہ اگر تمام جن اور انسان جمع ہو کر بھی قرآن کریم کی نظیر لانے کی کوشش کریں تو بھی اس کی مثل نہیں لا سکیں گے ۔چنانچہ واقعات نے بتا دیا کہ قرآن کا یہ دعویٰ کس قدر وزنی تھااور ۱۳۰۰سال تک کوئی اس مطالبہ کا جواب نہ دے سکا۔پنڈت کالی چرن اور دھرم بھکشونے چند غلط فقرات لکھ کر اندھوں میں کانا را جہ بننا چاہا مگر ایسی منہ کی کھائی کہ بولنے کا نام تک نہ لیا۔مگر اس کے بالمقابل بر ہمنوں نے اتھروید کو اپنے پاس سے بنا کر رگ وید، سام وید اور یجروید کے ساتھ ایسا ملا دیا کہ آریہ صاحبان اتھر وید کو بھی باقی تینوں ویدوں کی طرح الہامی ماننے لگ گئے۔ حالانکہ باقی ویدوں میں اتھر وید کا کہیں ذکر نہیں بلکہ وہاں صاف طور پر تین ہی ویدوں کا ہونا لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو:۔
’’ایک ایک وید کو…………بارہ (۱۲) بارہ(۱۲) سال مل کر چھتیس (۳۶) سال میں ختم کریں ۔‘‘ (ستیارتھ پرکاش ب ۳ دفعہ ۲۶) فرمائیے جناب !وید تین ہیں یا چار۔بارہ سال میں ایک پڑھنے سے ۳۶ سال میں کتنے وید ختم ہوئے تین یا چار؟اور سنیے:۔جس سبھا میں رگ وید،یجر وید،سام وید کے جاننے والے تین سبھا سدھ ہو کر آئین باندھیں ۔‘‘(منوسمرتی ادھیائے ۱۲۔۱۱۲بحوالہ ستیارتھ پرکاش ب۶دفعہ)
پھر یجر وید ادھیائے ۳۶ کے پہلے منتر میں ’’رگ وید،سام وید اور یجر وید ‘‘کا نام ہے۔مگر اتھر وید کا کہیں ذکر نہیں ۔پس معلوم ہوا کہ اتھر وید بعد میں برہمنوں نے باقی تینوں ویدوں میں ملا دیا ہے۔پس وید بے مثل نہ رہے۔
(۴) کامل الہامی کتاب وہی ہو سکتی ہے جو عین فطرت انسانی کے مطابق تعلیم دے۔قرآن کہتا ہے
فَأَقِمۡ وَجۡهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفً۬اۚ فِطۡرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيۡہَاۚ لَا تَبۡدِيلَ لِخَلۡقِ ٱللَّهِۚ ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلۡقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمُونَ (٣٠) (الروم:۳۱)
کہ اسلام عین فطرت انسانی کے مطابق تعلیم دیتا ہے مگر اس کے بالمقابل ویدک دھرم کی تعلیم فطرت انسانی کے سخت خلاف ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:۔
(الف) ’’بچوں سے لاڈ نہیں کرنا چاہیے بلکہ تنبیہ ہی کرتے رہیں‘‘ (ستیارتھ ب ۲ دفعہ ۲۰)
(ب) ’’پیدائش سے ہی گاتیری منتر پڑھنا اچھا ہے۔‘‘ (ستیارتھ ب۳دفعہ۱۴)
(ج) ’’بالکل شادی نہ کرنا اچھا ہے ۔ورنہ ۴۰ سال کی عمر میں (ستیارتھ ب۳دفعہ ۳۴۔۳۵)
(د) وید میں ہے:۔’’بادل جو بمنزلہ باپ کے ہے ۔زمین میں جو بمنزلہ دُختر کے ہے۔باران کی صورت حمل قائم کرتا ہے۔‘‘ (رگ وید منڈل نمبر۱ سکونت ۱۶۴منتر۳۳بحوالہ رگ وید آدی بھاش بھومکاصفحہ ۱۶۳)
علاوہ ازیں نیوگ کا حیاسوز مسئلہ ایسا ہے کہ فطرتِ انسانی اسے دھکے دے رہی ہے۔صرف ایک حوالہ نقل کرتا ہوں:۔
سوامی دیانند صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ جب ایک شادی ہوگی اور ایک عورت کے لئے ایک خاوند ہوگا ۔اگر مرد و عورت دونوں جوان ہوں اور عورت حاملہ ہو یا مرد مریض ہو تو ان صورتوں میں اگر حاملہ عورت کے خاوند یا ایک مریض خاوند کی جوان عورت یا ایک مریض عورت کے جوان خاوند سے رہا نہ جائے تو کیا کرے۔‘‘سوامی جی کا جواب ملاحظہ فرمائیے:۔
’’اگر حاملہ عورت سے ایک سال صحبت نہ کرنے کے عرصہ میں مرد سے یا دائم المریض مرد کی عورت سے رہا نہ جائے تو کسی سے نیوگ کرکے اس کے لئے اولاد پیدا کرے لیکن رنڈی بازی یا زناکاری کبھی نہ کریں۔ (ستیارتھ ب ۴ دفعہ۔۱۴۶)
حضرات!انسانی کانشنس کیا ایک لمحہ کے لئے بھی یہ قبول کر سکتی ہے کہ ایسی حیا سوز تعلیم دینے والی کتاب کبھی خدا کا کلام ہو سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا فقرہ میں ’’اس کے لئے اولاد پیدا کرے‘‘۔ محض ڈھکوسلہ ہے کیونکہ جس صورت میں عورت حاملہ ہوگی اولاد کے حصول کے لئے کہیں اور جاکر نیوگ کرنا تحصیل حاصل ہے ۔پس اصل علاج تو سوامی صاحب نے ’’رہا نہ جائے‘‘کا بتایا ہے۔
ہمارے گجرات (پنجاب)میں سوامی جی تشریف لائے اور آکر لیکچر دیا۔ ایک شخص نے سوامی جی سے سوال کیا۔’’جس عورت کا خاوند کنجری کے پاس جائے ۔اُس کی عورت کیا کرے؟ انہوں نے فرمایا:۔اُس کی عورت بھی ایک مضبوط آدمی رکھ لے۔‘‘ (جیون چرتر مصنّفہ لیکھرام و آتمارام صفحہ ۳۵۵) حیرت ہے کہ اس تعلیم کو کامل، مکمل بلکہ اکمل اور عالمگیر الہامی قرار دیا جاتا ہے
گر یہی دیں ہے جو ہے ان کے خصائل سے عیاں
مَیں تو اک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار
مَیں تو اک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار
(۵) خدا علیمِ کُل ہے ۔اس کے لئے تینوں زمانے یکساں ہیں۔وہ آئندہ کے حالات جانتا ہے کیونکہ وہی (الفرقان:۳)کا فاعل ہے مگر انسان ضعیف البنیان کمیٔ علم کی و جہ سے آئندہ کے حالات نہیں جان سکتا۔پس انسانی اور الہامی کلام میں ایک یہ مابہ الامتیاز ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں پیشگوئیاں ہوتی ہیں جو اسے انسانی کلام سے ممتاز و بالا ثابت کرتی ہیں۔ویدوں میں پیشگوئیوں کا نام تک نہیں مگر اس کے بالمقابل قرآن شریف نے آئندہ زمانہ کی اخبار بیان فرما کر آئندہ زمانوں کے لئے قرآن کی صداقت کے نئے نئے ثبوت مہیا فرمائے ۔قرآن شریف نے فرمایا کہ جب فرعونِ مصر دریائے نیل میں غرق ہونے لگا تو اس وقت خدا نے اسے کہا :۔ (یونس:۹۳)کہ اے فرعون!میں آج سے تیرے جسم کو محفوظ رکھوں گا نہ اس کو دریائی مچھلیاں یا پانی تلف کر سکے گا نہ زمین کے کیڑے یا مٹی اس کی تباہی کا موجب ہوں گے۔بلکہ یہ محفوظ رہے گا ۔تاکہ تیرے بعد کے آنے والوں کے لئے نشان بنے اور بہت سے لوگ ہمارے نشانوں سے غافل ہیں۔
قرآن شریف نے خدا تعالیٰ اور فرعون کی گفتگو کا ذکر فرمایااور اس کے ثبوت میں اپنا وعدہ بیان کر کے اس کو بطور پیشگوئی کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد فرعون کی لاش صحیح و سالم برآمد ہوئی اور مصر کے عجائب گھر کی زینت ہو کر
فَٱلۡيَوۡمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنۡ خَلۡفَكَ ءَايَةً۬ۚ وَإِنَّ كَثِيرً۬ا مِّنَ ٱلنَّاسِ عَنۡ ءَايَـٰتِنَا لَغَـٰفِلُونَ (٩٢) (یونس:۹۳)
کے مطابق ہمارے لئے بطور نشان بنی۔
کیا ایسی عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد بھی قرآن کریم کے الہامی ہونے میں شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟مبارک وہ جو حق کو قبول کرتے ہیں۔