اسوہ انسان کامل ۔ یونی کوڈ
حضرت محمد مصطفی ؐکا سوانحی خاکہ
کتاب اسوۂ انسان کامل میں سوانح کی ترتیب مہ وسال کی بجائے رسول اللہؐ کے اخلاق فاضلہ اور اُسوۂ حسنہ پر واقعاتی انداز میں بحث کی گئی ہے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں ایک مختصر سوانحی خاکہ پیش کردیا جائے جو مختلف اہم واقعات سیرت کے لئے انڈیکس کا کام دے سکے۔ ہمارے نبی شاہِ دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اس تاریخی سال میں ہوئی، جب خانہ کعبہ پریمن کے گورنر ابرہہ نے حملہ کیاتھا۔ محمود پاشا فلکی مصری کی تحقیق کے مطابق یہ سال 571ء تھا اور 20؍اپریل (مطابق 9ربیع الاوّل) تاریخ تھی۔ چالیس سال کی عمر میں حضرت محمدمصطفی ؐ پر وحی قرآنی کا نزول ہوا۔ اس تسلسل میں اہم تاریخی سوانح کا خاکہ یُوں ہے۔
٭
بعثت نبوی کا پہلا سال610ء ۔ نزول قرآن کا آغاز
٭
پانچواں سال614ء ۔ پہلی ہجرت حبشہ
٭
ساتواں سال615ء ۔ محاصرہ شعب ابی طالب،معجزہ شق القمر
٭
دسواں سال619ء
وفات حضرت خدیجہ و ابوطالب،نکاح حضرت عائشہ ؓ و حضرت سودہؓ، سفر طائف
٭
گیارہواں سال620ء ۔ اہل یثرب سے ملاقات
٭
بارھواں سال 621ء ۔ واقعۂ معراج
٭
تیرھواں سال622ء ۔ بیعت عقبہ ثانیہ ، ہجرت مدینہ
٭
ہجرت کاپہلا سال1ھ مطابق622 ء مدینہ آمد،مسجد قباء اور مسجد نبوی کی بنیاد، ابتدائے اذان،مؤاخات انصار و مہاجرین، معاہدہ یہود
٭
2ھ بمطابق 623ء تحویل قبلہ ،فرضیت رمضان،عیدالفطر،جنگ بدر،حضرت عائشہ ؓ سے شادی
٭
3ھ مطابق624ء غزوۂ قینقاع،پہلی عیدالاضحی،حضرت علیؓ کا حضرت فاطمہؓسے نکاح، حضرت عثمانؓ سے اُمّ کلثوم کی شادی، رسول اللہؐ کی حضرت حفصہؓ سے شادی،غزوہ ٔاحد
٭
4ھ مطابق625ء واقعہ رجیع و بئر معونہ،یہودی قبیلہ بنو نضیر کا مدینہ سے اخراج، رسول اللہؐ کی حضرت امّ سلمہ ؓ سے شادی، غزوۂ بدر الموعد
٭
5ھ مطابق 626ء غزوۂ دومۃ الجندل،مدینہ میں چاندگرھن اور نماز خسوف، غزوۂ بنو مصطلق اور واقعہ افک غزوۂ خندق، غزوۂ بنوقریظہ۔
٭
6ھ مطابق627-28ء غزوۂ بنو لحیان، ثمامہ بن اثال رئیس یمامہ کا قبول اسلام، حضرت ابوالعاص داماد رسول کا قبول اسلام، صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان
٭
7ھ مطابق628-29ء
شاہان مملکت کو تبلیغی خطوط، غزوۂ ذی قرد، غزوۂ خیبر،حضرت صفیہؓ سے شادی، اہل فدک سے مصالحت،آنحضرتؐ کو زہر دینے کی سازش، مہاجرین حبشہ کی واپسی، حضرت ابوھریرہؓ کا قبول اسلام،غزوۂ ذات الرقاع اور صلوۃ الخوف،عمرۃ القضاء
٭
8ھ مطابق629ء غزوۂ مُوتہ ، غزوۂ فتح مکّہ، غزوہ حنین، غزوۂ طائف،مدینہ میںقبائل عرب کے وفودکی آمد کا آغاز
٭
9ھ مطابق630ء
غزوۂ تبوک، وفود عرب کی کثرت سے آمد، عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کی موت، اہل طائف کا قبول اسلام، حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں مسلمانوں کا پہلا حج،
٭
10ھ مطابق631ء
حضرت عدی بن حاتم الطائی کا قبول اسلام، حضرت ابوموسیٰ ؓو حضرت معاذ ؓ کو یمن بھجوانا، حجۃ الوداع
٭
11ھ مطابق632ء
آخری وفد کی آمد، حضورؐ کی آخری بیماری، سریہّ اسامہ بن زید، وفات رسولؐ
شمائل نبویؐ کی ایک جھلک
’’شمائل نبوی‘‘ میں اپنے آقا و مطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان پاکیزہ عادات و اطوارکاایک نقشہ پیش کرنا مقصودہے جن کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ گواہی ہے کہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ یعنی آپؐ عظیم الشان اخلاق پر فائز تھے۔ (سورۃ القلم:6)اس آسمانی شہادت سے بہتر آپؐ کے اخلاق کی تصویر کشی کون کرسکتا ہے؟
رسول اللہؐ کی رفیقہء حیات حضرت عائشہ ؓ کی یہ شہادت ہے کہ اللہ کی رضاکے تابع آپؐ کے سب کام ہوتے تھے اور جس کام سے خدا ناراض ہو،آپؐ اس سے دور رہتے تھے۔(حکیم ترمذی)1
یزید بن بابنوس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا اے ام المؤمنین ! رسول اللہؐ کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے فرمایا رسول اللہؐ کے اخلاق قرآن تھے۔ پھر فرمانے لگیں تمہیں سورۃ المؤمنون یا د ہے تو سنائو۔ انہوں نے اس سورت کی پہلی دس آیات کی تلاوت کی جو قَدْاَفْلَحَ المُوْمِنُوْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں عاجزی اختیار کرتے ہیں ۔وہ لغو چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں۔وہ اپنے تمام سوراخوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ ہوئے کہ ان پر کوئی ملامت نہیں۔ اور جو اس کے علاوہ چاہے وہ لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔حضرت عائشہؓ نے ان آیات کی تلاوت سن کر فرمایا کہ یہ تھے رسول اللہؐ کے اخلاق فاضلہ۔ (حاکم)2
الغرضحضرت عائشہؓ کیچشم دیدشہادت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ؐ کے اخلاق قرآن تھے۔جس کا یہ مطلب ہے کہ اوّل۔قرآن شریف میں بیان فرمودہ تمام اخلاق اور مومنوں کی جملہ صفات کی تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی۔ چنانچہ قرآن کی اخلاقی تعلیم پر عمل کر کے آپؐ نے ایسا حسین عملی نمونہ پیش کیا جسے قرآن کریم نے اسوۂ حسنہ قرار دیاہے۔(سورۃ الاحزاب:22)
دوم۔قرآن نے جو حکم دیئے وہ سب آپؐ نے پورے کر دکھائے۔گویا آپؐ چلتے پھرتے اور مجسم قرآن تھے۔
آیئے ان دونوں پہلوئوں سے شمائل نبوی پرایک نظر ڈالتے ہیں۔
قرآن شریف میں رسول کریم ؐ کی شخصیت ،آپؐ کے لباس، حقوق العبادکی نازک ذمہ داریوں،بے پناہ روز مرہ مصروفیات ،انقطاع الی اللہ ،عبادات، ذکرالہٰی، تبلیغ اورپاکیزہ اخلاق، سچائی، راستبازی، استقامت،رافت و رحمت،عفووکرم وغیرہ کے واضح اشارے ملتے ہیں اور احادیث نبویہ میں ان اخلاق فاضلہ کی تفاصیل موجود ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر کشش شخصیت کا عکس آپؐ کے خوبصورت اور پرکشش چہرہ سے خوب نمایاں تھا ،جس کے ہزاروں فدائی اور عاشق پیدا ہوئے۔
بلاشبہ آپؐ کا بھرا بھرا ،کھلتے ہوئے سفید رنگ کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوتا تھا،شرافت و عظمت کا نور اس پر برستاتھااور بشاشت و مسکراہٹ اس پاکیزہ چہرہ کی رونق تھی۔
آپؐ کاسر بڑا تھا او ر بال گھنے ۔ ریش مبارک گھنی تھی،ناک پتلی کھڑی ہوئی،کالی خوبصورت آنکھیں اور رخسار نرم و ملائم تھے۔ دہانہ کشادہ دانت فاصلے دار اور سفید موتیوں کی طرح چمکدار تھے۔گردن لمبی ، سینہ فراخ ،بدن چھریرا اور پیٹ سینہ کے برابر تھا۔قد درمیانہ اور متناسب تھا۔پُشت مبارک پر کندھوں کے درمیان کبوتری کے انڈے کے برابر سُرخ رنگ کا گوشت کا ایک ٹکڑا اُبھراہوا تھاجو مہر نبوت سے موسوم تھا اورجس کا ذکر قدیم نوشتوں میں رسول اللہؐ کی شناخت کی ایک جسمانی نشانی کے طور پر موجود تھا۔(ترمذی)3
روز مرہ معمولات
کہتے ہیں کسریٰ شاہ ایران نے اپنے ایام کی تقسیم اس طرح کررکھی تھی کہ جس دن بادِ بہار چلے وہ سونے اور آرام کے لئے مقررہوتا تھا، ابرآلودموسم شکار کیلئے مختص تھا، برسات کے دن رنگ و طرب اور شراب کی محفلیں سجتی تھیں۔ جب مطلع صاف اور دن روشن ہوتا تو دربار شاہی لگایا جاتا اور عوام و خواص کو اذن باریابی ہوتا۔ظاہر ہے یہ ان اہل دنیا کا حال ہے جو آخرت سے غافل ہیں۔
مگر ہمارے آقاو مولا حضرت محمد مصطفیٰؐ نے ہر حال میں عسرہویایُسر اپنے دن کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہواتھا۔دن کا ایک حصہ عبادت الہٰی کیلئے،ایک حصہ اہل خانہ کے لئے اور ایک حصہ اپنی ذاتی ضروریات کیلئے مقررتھا۔پھر اپنی ذات کیلئے مقرر وقت میں سے بھی ایک بڑا حصہ بنی نوع اِنسان کی خدمت میں صرف ہوتا تھا۔(عیاض)4
دعویٰ نبوت کے بعدرسول کریم ؐ کی ۳ ۲ سالہ زندگی میں سے ۱۳ سالہ مکی دور نزول قرآن، تبلیغی جدوجہد،اسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم و تربیت اور ابتلاء و مصائب کا ایک ہنگامی دور تھا۔اس کے معمولات کی تفصیلات اس طرح نہیں ملتیں جس طرح دس سالہ مدنی دور کے معمولات روز و شب کی تفاصیل احادیث میں ملتی ہیں اور جن سے مکی دور کی بھرپورمصروفیات کا ایک اندازہ کیاجاسکتا ہے۔
احادیث کے مطابق آپؐ روزانہ اپنی مصروفیات کا آغاز نماز تہجد سے فرماتے تھے۔ نماز سے قبل وضو کرتے ہوئے مسواک استعمال فرماتے اور منہ اچھی طرح صاف کرتے۔نہایت خوبصورت اور لمبی نماز تہجد ادا کرتے جس میں قرآن شریف کی لمبی تلاوت کرتے، اتنی لمبی کہ زیادہ دیر کھڑے رہنے سے پائوں پرورم ہوجاتے۔ نماز کے بعد آپؐ کچھ دیر لیٹ جاتے۔اگر آپؐ کے گھر والوں میں سے کوئی جاگ رہا ہوتا تو اس سے بات کرلیتے ورنہ آرام فرماتے۔ پھر جونہی نماز کے لئے حضرت بلال ؓ کی آواز کان میں پڑتی فوراًنہایت مستعدی سے اُٹھتے اور دو مختصر رکعت سنت ادا کرکے نماز فجر پڑھانے مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے۔کبھی نماز تہجّد بیماری وغیرہ کے باعث رہ جاتی تو دن کے وقت نوافل ادا کرتے ۔(بخاری)5
نمازفجر کے بعدسے طلوع آفتاب تک صحابہ کے درمیان تشریف فرما ہوتے ۔ذکرِ الٰہی سے فارغ ہوکرصحابہ سے احوال پرسی فرماتے ،زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی ہوتیں۔ آپؐ پوچھتے کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو سنائے ۔اچھی خواب پسند فرماتے اوراس کی تعبیر بیان کرتے۔کبھی اپنی کوئی خواب بھی سنادیتے۔ (بخاری،مسلم)6
رسول کریم ؐ صبح ہی اپنے دن کا پروگرام مرتب فرمالیتے۔اگر کسی صحابی کو تین دن سے زیادہ غیرحاضر پاتے اس کے بارہ میں پوچھتے اگر وہ سفر پر ہوتا تو اس کے لئے دعا کرتے ۔شہر میں ہوتا تو اس کی ملاقات کو جاتے۔ بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے۔(کنز)7
رسول کریمؐ کی مجالس صحابہ سے ملاقات اور تعلیم و تربیت کا بھی ایک نہایت عمدہ موقع ہوتی تھیں۔ صبح صبح مدینہ کے بچے حصول تبرّک کے لئے برتنوں میں پانی وغیرہ لے کر آجاتے تھے۔ آپؐ برتن میں انگلیاں ڈال کر تبرّک عطا فرماتے۔ (مسلم)8
قومی کاموں سے فارغ ہوکر آپؐ گھر تشریف لے جاتے۔ اہل خانہ سے پوچھتے کہ کچھ کھانے کو ہے۔ مل جاتا تو کھا لیتے اور اگر کچھ موجود نہ ہوتا تو فرماتے اچھا آج ہم روزہ ہی رکھ لیتے ہیں۔(ترمذی)9
بادشاہ اور بڑے لوگ اپنے کام وزراء اور دوسروں کے سپرد کر کے خود عیش و عشرت سے زندگی گزارتے ہیں مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پنجوقتہ نمازیں،جمعہ،عیدوغیرہ خود پڑھاتے تھے۔ پھرگھر میں جو وقت گزرتا کام کاج میں اہل خانہ کی مدد فرماتے۔ہاتھ سے کام کرنا عار نہ سمجھتے۔ عام آدمی کی طرح گھر میں کام کرتے، کپڑے خود سی لیتے، پیوندبھی لگائے ،ضرورت پرجوتا بھی ٹانک لیا،جھاڑو بھی دیا، حسب ضرورت جانوروں کو باندھ دیتے اورچارہ بھی ڈال دیتے، دودھ دوھ لیاکرتے۔خادم تھک جاتے تو ان کی مدد فرماتے۔(احمد10)بیت المال کے جانوروں کو نشان لگانے کی خاطر خود داغ دیتے۔
آپؐاپنے ہمسایوں کا بہت خیال رکھتے ،ان کی بکریوں کادودھ اُن کو دوہ کردیتے۔ (احمد)11
رسول کریمؐ کی ایک بہت اہم اور نازک ذمہ داری نزول قرآن اور اس کی حفاظت کی تھی۔اس کے لئے اپنے اوقات کا بڑا حصہ آپؐکووقف کرنا پڑتا تھا۔ گھر یا مجلس میں جہاں اورجب بھی وحی الہٰی کا نزول ہوتا اس کے بوجھ سے ایک خاص کیفیت آپؐ پر طاری ہوتی۔ جسم پسینہ سے شرابور ہوجاتا جس کے فوراً بعد کاتب کو بلواکر وحی الہٰی لکھوالیتے۔ (بخاری)12
وحی قرآن کے یاد رکھنے اورنمازوںمیں تلاوت کے لئے گھر پراس کااعادہ اورغورو تدّبرایک الگ محنت طلب کام تھا۔
ذکر الہٰی و دعا
نبی کریمؐ ہر کام اللہ کا نام لے کر شروع کرتے، فرماتے تھے کہ اس کے بغیر کام بے برکت ہوتے ہیں۔(ہیثمی13) فراغت و مصروفیت ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے تھے۔ الغرض آپؐ ’’دست درکارودل بایار‘‘ کے حقیقی مصداق تھے۔
ہر موقع اور محل کے لئے آپؐ سے دعائیں ثابت ہیں۔ صبح اٹھتے ہوئے خیرو برکت کی دعا مانگتے تو شام کو انجام بخیر کی۔گھر سے جاتے اور آتے ہوئے، مسجد داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے، کھانا کھانے سے پہلے اور بعدمیں،بیت الخلاء جاتے آتے،بازار جاتے ہوئے، سفر پر روانہ ہوتے ہوئے، سوتے اور جاگتے وقت ہر حال میں خدا کی طرف رجوع کرتے اور اسے سہارا بناکر دعا کرتے۔مجلس میں بیٹھے ستّر مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ (بخاری)14
دعائوں میں زیادہ الحاح اور تضرّع کے وقت یَاحَیُّ یَا قُیُّوْمُ کی صفات الہیہ (یعنی اے زندہ اے قائم رکھنے والے) پڑھ کر دعا کرتے۔ مصیبت کے وقت آسمان کی طرف سر اٹھا کر سُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیْمُ پڑھتے۔یعنی پاک ہے اللہ بڑی عظمت والا۔مجلس میں چھینک آنے پر دھیمی آواز میں الحمدللہ کہتے اور کسی دوسرے کو چھینک آنے پر یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کی دعا دیتے کہ اللہ تم پر رحم کرے۔(بخاری)15
صحابہ سے عام ملاقاتیں ، وعظ و نصیحت اور سوال و جواب کی مجالس کے پروگرام نمازوں کے اوقات میں ہو جاتے تھے۔اکثراپنے اصحاب خصوصاً انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے۔(احمد16)حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ کے گھر بھی تشریف لے گئے، کبھی ان کے باغ میں جاکر وقت گزارتے۔(بخاری)17
نماز عصر کے بعد باری باری سب ازواج مطہرات کے گھر جایا کرتے تھے۔ (احمد18) یہ گھر ایک حویلی میں مختلف کمروں کی صورت میں پاس پاس ہی تھے۔ مغرب کے بعد سب بیویا ں اس گھر میں جمع ہوجاتیں جہاں حضورؐ کی باری ہوتی وہاں ان کے ساتھ مجلس فرماتے۔ ظہر کے بعد گھر میں حسب حالات کچھ قیلو لہ فرمالیتے اور فرمایا کرتے کہ قیلولہ کے ذریعے رات کی عبادت کیلئے مد دحاصل کیا کرو۔ (طبرانی)19
عشاء سے قبل سونا آپؐ کو پسند نہ تھاتاکہ نماز عشاء نہ رہ جائے اورعشاء کے بعد بلاوجہ زیادہ دیر تک فضول باتیں اور گپ شپ پسند نہ فرماتے تھے۔ البتہ بعض اہم دینی کاموں کیلئے آپؐ ؐنے حضرت ابو بکرؓ اور عمر ؓ سے عشاء کے بعد بھی مشورے فرمائے۔ (احمد20) دن کے کاموں کا اختتام نماز عشاء سے پہلے پہلے کر کے عشاء کے بعد آرام کرنا پسند کرتے تاکہ تہجد کیلئے بروقت بیدارہوسکیں۔(بخاری)21
پھر آدھی رات کے قریب جب آنکھ کھلتی اپنے مولیٰ سے راز و نیاز میں محو ہوجاتے۔ آپؐ نے رات کے ہر حصہ میں نماز تہجّد ادا کی ہے۔مگر اکثر رات کی آخری تہائی میں عبادت کرتے تھے۔(بخاری)22
خوراک و غذا
نبی کریمؐ کھانے سے پہلے اوربعدہاتھ دھونے کی ہدایت فرماتے تھے۔(ہیثمی23) نیز اللہ کا نام لے کر اپنے سامنے سے اور دائیںہاتھ سے کھانے کی تلقین فرماتے۔(بخاری24) آپؐ کی خوراک و غذا نہایت سادہ تھی۔ بسااوقات رات کے کھانے کی بجائے دودھ پر ہی گزارا ہوتا تھا۔(بخاری25) مشروب پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے اور اللہ کے نام سے شروع کرتے اور اس کی حمد پرختم کرتے۔(ہیثمی)26
جو ملی گندم کے اَن چَھنے آٹے کی روٹی استعمال کرتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں چھلنیاں نہیں ہوتی تھیں۔یوں توحضورؐکو دستی کا گوشت پسند تھا مگر جو میّسر آتاکھا کر حمدوشکر بجالاتے۔ سبزیوں میں کدّو پسند تھا۔ سِر کہ کے ساتھ بھی روٹی کھائی اور فرمایا ’’یہ بھی کتنا اچھا سالن ہوتا ہے۔‘‘(بخاری)27
عربی کھانا ثَرِید(جس میں گندم کے ساتھ گوشت ملا ہوتا ہے) مرغوب تھا۔ اسی نوع کا ایک اور کھاناہریسہ بھی استعمال فرمایا ۔سنگترہ کھجور کے ساتھ ملاکر کھانے کالطف بھی اٹھایا۔ اللہ کی ہر نعمت کے بعد اس کا شکر ادا کرتے۔(بخاری)28
پھلوں میں تربوز بہت پسند تھا۔ دائیں ہاتھ سے کھجور اوربائیں سے تربوز لے کر کھاتے اور فرماتے ہم کھجور کی گرمی کا علاج تربوز کی ٹھنڈک سے کرتے ہیں۔ (حاکم29)میٹھے میں شہد کے علاوہ حلوہ اور کھیر پسند تھی۔(احمد)30
آپؐ ٹیک لگاکرکھانا نہیں کھاتے تھے۔سخت گرم کھانا کھانے سے پرہیزکرتے تھے۔ (حاکم )31
طہارت و صفائی
ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی رکھنے والوں کوپسند کرتاہے۔ (سورۃ البقرہ:23)یہی وجہ ہے کہ رسول کریمؐ نے باطنی طہارت کیلئے ظاہری طہارت کو ضروری قراردیا اور اس کے تفصیلی آداب سکھائے۔ دن میں پانچ مرتبہ ہر نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا۔جسم کی صفائی کیلئے ہفتہ میں کم از کم دو مرتبہ نہانے کی ہدایت فرماتے۔کم از کم ایک صاع(یعنی قریباً تین لٹر) پانی سے نہالیتے تھے۔غسل کی عادت زیادہ تھی۔(ترمذی32) آنکھوں کی حفاظت کے لئے رات کوآپؐ سرمہ لگاتے تھے۔(ترمذی)33
دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیتے ،فرماتے تھے۔’’اگر اُمت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو ہر نماز کے ساتھ( دن میں پانچ مرتبہ) مسواک کا حکم دیتا۔‘‘اپنا یہ حال تھا کہ گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک فرماتے۔مسواک دانتوں کے آڑے رُخ یعنی نیچے سے اوپر کرتے تھے۔ تاکہ درزیں خوب صاف ہوں۔ (مسلم34) بوقت وفات بھی مسواک دیکھ کر اس کی خواہش کی تو حضرت عائشہؓ نے نرم کرکے استعمال کروائی۔(بخاری)35
آپؐ عمدہ خوشبوپسند کرتے تھے۔ اپنی مخصوص خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ کے پسینے سے جو خوشبو آتی تھی وہ مشک سے بھی بڑھ کر ہوتی تھی۔ (دارمی36) سر کے بال کانوں کی لَو سے بڑھ کر کندھوں پر آجاتے تو کٹوادیتے۔ داڑھی حسب ضرورت لمبے اور چوڑے رخ سے ترشواتے تھے۔جو مشت بھر رہتی تھی۔بالوں پر مہندی لگاتے تھے۔(ترمذی)37
لباس
قرآنی ارشاد کے مطابق لباس میں پردہ اور زینت کی بنیادی شرائط ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔عام طور پر ایک تہبند اور ایک اوڑھنے کی چادر عربوں کا لباس تھاجو آپؐ نے بھی پہنا مگر سلا ہوا لمبی آستین والا کُرتہ زیادہ پسند تھا۔ بغیرآستین بھی پہنا۔(ابن ماجہ38)سادہ موٹے کپڑے استعمال فرماتے ۔آپؐ جبہ، پاجامہ اور سردی میں تنگ آستین والی روئی بھری صدری بھی استعمال فرماتے تھے۔حسب موقع وضو کے بعدپونچھنے کیلئے تولیہ بھی استعمال فرماتے۔
آپ ؐنے ٹوپی بھی استعمال فرمائی۔ جمعہ کے روز کلاہ کے اوپر پگڑی پہنتے۔جمعہ عیدین اور وفود کی آمد پرعمدہ کپڑے اور خاص طور پر ایک سرخ قبا زیب تن فرماتے۔ایک چاند رات میں سرخ قبا پہنی ہوئی تھی۔دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ اس رات آپؐ چاند سے زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے۔سفید کپڑے زیادہ پسند تھے۔مگر سرخ، سبز اور زعفرانی رنگ بھی استعمال فرمائے۔نیا کپڑا پہننے پر دو رکعت نماز ادا فرماتے اور پرانا کپڑا کسی ضرورت مند کو دے دیتے تھے۔چمڑے کے موزے استعمال فرماتے اور بوقت وضو ان پر مسح فرماتے۔چمڑے کے کھلے جوتے دو تسمے والے (ہوائی چپل ، سلیپر نما) استعمال فرماتے۔ (ترمذی) 39
آپؐ کی چاندی کی انگشتری پر مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ؐ کندہ تھا جو خطوط پر مہر لگوانے کے لئے بنوائی تھی۔ (بخاری40)ایک عرصہ تک یہ انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہنتے رہے پھر بائیں ہاتھ میں بھی پہنی۔بیت الخلاء جاتے تو یہ انگوٹھی اتار دیتے۔وضو کرتے وقت اسے حرکت دے کر انگلی کو دھوتے۔ہاتھ میں بالعموم کھجور کی شاخ کی چھڑی رکھتے تھے۔
جنگ میں آپؐ نے خود اور زرہ بھی پہنی ہے۔غزوۂ احد میں تو دو زرہیں پہن رکھی تھیں۔ایک زرہ کی کڑیاں ٹوٹ کر رخسار مبارک میں دھنس گئی تھیں۔(بخاری)41
چال ڈھال اور گفتگو
نبی کریم ؐچال ڈھال میں نہایت کو ہ وقارانسان تھے۔چال ایسی سبک تھی جیسے ڈھلوان سے اتر رہے ہوں۔حضرت ابوھریرہ ؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہؐ سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا ایسے لگتا تھا کہ زمین آپؐ کے لئے لپٹتی جارہی ہے۔ہم ساتھ چل کر تھک جاتے مگر حضورؐ پرتھکاوٹ کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔آپؐ گردن اکڑا کر نہ چلتے بلکہ نظریں نیچی رکھتے تھے۔(ترمذی)42
حضرت علی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ آگے کو جھک کر چلتے تھے یوں لگتاتھا جیسے گھاٹی سے اتر رہے ہوں، مَیں نے آپؐ سے پہلے اور آپؐ کے بعد ایسی رفتار والا شخص نہیں دیکھا۔(ترمذی)43
حضرت حسن بن علیؓ اپنے ماموں ھندؓ بن ابی ھالہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ لمبے لمبے اور تیز قدم اُٹھاتے تھے۔نظر یں نیچی رکھتے تھے مگر جب دیکھتے تو نظریں بھرکر پوری توجہ فرماتے ،چلتے ہوئے اپنے صحابہ سے آگے نکل جاتے تھے، اور جو بھی راستہ میں ملتا اسے سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے۔(ابن سعد)44
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ چلتے ہوئے اِدھر اُدھرتوجہ نہیں فرماتے تھے۔بسااوقات آپؐ کی چادر کسی درخت یا کانٹوں وغیرہ سے الجھ جاتی تو بھی توجہ نہ فرماتے اور صحابہ اس وجہ سے بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوئے ہنستے اور سمجھتے تھے کہ حضورؐ کا دھیان ادھر نہیں۔(ابن سعد)45
حسب ارشاد باری کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپؐ کو نرم کر دیا ہے۔(سورۃآل عمران:107) آپؐ کی گفتگو میں تلخی تھی نہ تیزی ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھا کر وضاحت اور نرمی سے آپؐ اس طرح کلام فرماتے کہ بات ذہن نشین ہوجاتی۔تین دفعہ بات دہراتے تھے۔ (احمد)46
کوئی بھی عزم کرلینے کے بعدآپؐ خدا پر کامل بھروسہ رکھتے ۔جب آپؐ تین دفعہ کوئی بات کہہ دیتے تو اسے کوئی پلٹا نہیں سکتا تھا۔(احمد47)لیکن آپؐ کبھی صحابہ کی طاقت سے زیادہ ان کو حکم نہ دیتے تھے۔(احمد)48
آنحضورؐبغیر ضرورت کے گفتگو نہ فرماتے تھے اور جب بولتے تھے تو فصاحت و بلاغت سے بھر پور نہایت بامعنی کلام فرماتے ۔خود بات شروع کرتے اور اسے انتہا تک پہنچاتے ۔آپؐ کی گفتگو فضول باتوں اور ہر قسم کے نقص سے مبرّا اوربہت واضح ہوتی تھی۔اپنے ساتھیوں سے تلخ گفتگو نہیں کرتے تھے۔نہ ہی انہیں باتوں سے رسوا کرتے تھے۔معمولی سے معمولی احسان کا ذکر بھی تعظیم سے کرتے اور کسی کی مذمت نہ کرتے۔کسی پر محض دنیوی بات کی وجہ سے ناراض نہ ہوتے البتہ جب کوئی حق سے تجاوز کرتا توپھر آپؐ کے غصہ کوکوئی نہ روک سکتا تھا اور ایسی بات پرآپؐ سزا ضرور دیتے تھے مگر محض اپنی ذات کی خاطر غصے ہوتے تھے نہ انتقام لیتے تھے۔غصے میںمنہ پھیر لیتے تھے۔خوش ہوتے تو آنکھیں نیچی کرلیتے۔مسکراتے تو سفید دانت اس طرح آبدارہوتے جیسے بادل سے گرنے والے اولے۔(ابن سعد) 49
حضرت جابرؓ کی روایت کے مطابق رسول کریمؐ کی گفتگو میں بھی ایک ترتیب اور حُسن ہوتا تھا۔ (ابودائود50) امّ معبد کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ شیریں بیان تھے۔ آپؐ کی گفتگو کے وقت ایسے لگتا تھا جیسے کسی مالا کے موتی گررہے ہوں۔(حاکم)51
حضرت عائشہؓکی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی۔ اور جب آپؐ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپؐ اس وقت تک اس سے کھچے کچھے رہتے تھے جب تک کہ آپ ؐکو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے توبہ کرلی ہے۔(ابن سعد)52
زیادہ تر آپؐ کی ہنسی مسکراہٹ کی حد تک ہوتی تھی۔مسکرانا توآپؐ کی عادت تھی۔صحابہ کہتے ہیں ’’ہم نے حضور سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔خوش ہوتے تو آپؐ کا چہرہ تمتما اُٹھتا تھا۔‘‘(احمد)53
آپؐ کی گفتگو خشک نہ تھی۔بلکہ ہمیشہ شگفتہ مزاح فرماتے تھے۔ مگر مذاق میں بھی کبھی دامن صدق نہ چھوٹا۔فرماتے ’’میرے منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے۔‘‘ (طبرانی)54
ایک صحابی نے ایک دفعہ سواری کیلئے آپؐ سے اونٹ مانگا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا میں تجھے اونٹ کا بچہ دے سکتا ہوں۔وہ سراسیمہ ہوکر بولے حضورؐ اونٹنی کا بچہ لے کر میں کیا کروں گا؟مجھے تو سواری چاہئے فرمایا ’’بھئی! اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔‘‘(ترمذی)55
صحابہ کو وعظ و نصیحت کرنے میں ناغہ کرتے تاکہ وہ اکتا نہ جائیں۔آپؐ کی تقریر نہایت فصیح و بلیغ دلکش اور جوش سے بھر ی ہوئی ہوتی تھی۔بعض دفعہ خطبہ میں یہ جوش و جلال بھی دیکھا گیا کہ آنکھیں سرخ ہیں اور آواز بلند۔ جیسے کسی حملہ آور لشکر سے ڈرا رہے ہوں جو صبح یا شام حملہ آور ہونے والا ہے۔ایک دفعہ صفات الہٰیہ کے بیان کے وقت منبر آپؐ کے جوش کے باعث لرزرہا تھا۔(مسلم56)رسول کریم ؐ کے خطبہ ونماز میں میانہ روی اور اعتدال ہوتا تھا۔ (مسلم)57
حالت جنگ میں آپؐ عجب مجاہدانہ شان کے ساتھ کمان حمائل کئے ایک سپہ سالار کے طور پر صحابہ سے مخاطب ہوتے۔ عام حالات میں جمعہ وغیرہ کے موقع پر عصا ہاتھ میں ہوتا۔ (ابن ماجہ58) بعد میں منبر بن گیا تو اس پر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔
آپؐ جو کہتے تھے وہ کر کے بھی دکھاتے تھے۔ گفتگو میں الفاظ کے چنائو میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے اور الفاظ کے بے محل استعمال کی اصلاح فرما دیتے ،عرب میں غلام اپنے آقائوں کو ’’رب‘‘ کہتے تھے جس کے معنے ہیں پالنے والا۔اور جو حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ آپؐ نے فرمایاکہ آقا کو سید کہا کرو۔یعنی سردار۔آقا اپنے غلام کو ’عبد‘ کہتے تھے یعنی نوکر۔ فرمایا فتٰی کہہ کر مخاطب کرو۔یعنی نوجوان یا بچے تاکہ ان کی عزت نفس قائم رہے۔(بخاری59) نبی کریمؐ کو زبان وادب کا عمدہ ذوق تھا۔آپؐ موزوں کلام اورعمدہ شعر پسند فرماتے اور داد دیتے تھے۔حضرت شریدؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول کریمؐ کے ساتھ آپؐ کی سواری کے پیچھے بیٹھا۔آپؐ نے فرمایا تمہیں مشہور شاعر امیہ بن الصلت کے کوئی شعریاد ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے کچھ شعر سنانے کی خواہش کی۔ میں نے ایک شعر سنایا تو فرمایا’’ہاں اور سنائو‘‘ پھر ایک شعر سنایا تو فرمایا اور سنائو۔ یہاں تک کہ میں نے سوشعر سنائے۔ (مسلم60)رسول کریم اشعار کی محض ظاہری فصاحت پر خوش نہ ہوتے بلکہ ان کے مضامین کی گہرائی اور لطافت پر نظرہوتی اور کہیں کوئی بات کھٹکتی تو دریافت فرمالیتے۔
مشہور شاعر نابغہ ابولیلیٰ نے حاضر خدمت ہوکر جب اپنا کلام سنایا اور یہ شعر پڑھا۔
عَلَوْنَاالعِبَادََعِفَّۃً وَتَکَرُّمًا وَاِنَّالَنَرْجُوافَوقَ ذٰلِکَ مَظْھَرا
یعنی اسلام قبول کر کے ہم تمام دنیا سے عفت اور عزت میں بلند ہوگئے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ’’مظہر‘‘ کی اُمید رکھتے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ ہماری اور عزت وکرامت ظاہرفرمائے گا۔ رسول کریمؐ نے فوراً پوچھا ’’مظہر‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ نابغہ نے عرض کیا یارسول اللہؐ جنت مراد ہے۔ فرمایا ہاں ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو ضرور یہ نعمت بھی عطاہوگی۔ اور جب نابغہ کلام سنا چکے تورسول کریمؐ نے فرمایا تم نے بہت خوب کہا اور پھر ان کو دعا بھی دی۔(ہیثمی)61
حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ نبی کریمؐ کبھی شعر وغیرہ بھی گنگناتے تھے تو فرمانے لگیں کہ ہاں! اپنے صحابی شاعر عبداللہؓ بن رواحہ کے شعر گنگناتے تھے۔مثلاً یہ مصرع
وَیَاتِیْکَ بِالَاخْبَارِمَالَمْ تُزَوِّ دٖ
کہ تیرے پاس ایسی ایسی خبریں آئیں گی جو پہلے تمہیں حاصل نہیں۔ (ترمذی)62
حضرت جندب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں نبی کریمؐ پیدل جارہے تھے۔ پتھر کی ٹھوکرسے ایک انگلی زخمی ہوگئی آپؐ نے انگلی کو مخاطب کر کے یہ شعر کہا
ھَلْ اَنْتِ اِلاَّ اُصبْعٌ دُمِیتٖ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَالَقِیْتٖ
توایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہوئی اور خدا کی راہ میں یہ تکلیف اُٹھائی۔(بخاری)63
آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے جوا مع الکلم عطا کئے گئے تھے یعنی مختصر کلام میں ایسے گہرے مضمون بیان فرماتے تھے کہ دریا کو کوزے میں بند کردیتے تھے۔نہایت لطیف خوبصورت محاورات میں کلام فرماتے تھے۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں وفدنہد آیا تو رسول اللہؐ نے ان کی درخواست پر ان کے حق میں دعا کی اور پھر انہیں ایک معاہدہ لکھ کرد یا کہ جو نماز قائم کرے مومن ہے،جو زکوۃ ادا کرے مسلمان ہے جو کلمہ شہادت لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِپڑھ لے وہ غافل نہیں لکھا جائے گاوغیرہ۔حضرت علیؓ کہتے ہیں اس معاہدہ کی فصیح و بلیغ عبارت دیکھ کر میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ! ہم ایک باپ کے بیٹے۔ ایک شہرکی گلیوں میں بڑھے پلے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ وفود عرب سے آپؐ ایسی زبان میں کلام کرتے ہیں کہ اس کا جواب نہیں۔فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھایا ہے اور بہت بہترین سکھایا ہے اور میں بنی سعد میں پروان چڑھا ہوں۔(عیاض)64
حضرت بُریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ سب لوگوں سے زیادہ فصیح تھے۔ بعض دفعہ رسول کریم ؐ ایسا کلام کرتے تھے کہ لوگوں کو اس کے معنی کی سمجھ نہ آتی تھی، یہاں تک کہ آپؐ خود اس کے معنے بیان فرماتے تھے۔(ابن جوزی)65
حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ یہی سوال کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ! آپؐ کی زبان ہم سب سے بڑھ کر فصیح وبلیغ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل ؑ آئے اور انہوں نے مجھے میرے باپ اسماعیل ؑ کی زبان سکھائی۔(کنز)66
رسول کریمؐ کواچھے نام پسند تھے جیسے عبداللہ،عبدالرحمن وغیرہ۔کسی نام کے اچھے معنے نہ ہوتے تو اسے بدل دیتے۔ایک شخص کانام حُزن تھا جس کے معنی غم کے ہیں آپؐ نے اس کا نام سہل رکھ دیا جو آسانی کے معنی دیتا ہے۔ ایک عورت کانام عاصیہ تھا جس میں نافرمانی کا مفہوم ہے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا یعنی خوبصورت۔(بخاری)67
معاشرت
رسول کریمؐ کی معاشرت اپنے اہل خانہ اور صحابہ کرام کے ساتھ رافت و رحمت کی آئینہ دار تھی۔فرمایا’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلئے بہتر ہو۔ اور میں تم میں سب سے بڑھ کر اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘(ابن ماجہ)68
گھر میں بے تکلفی سے خوش خوش رہتے ۔کبھی بیویوں کو کہانیا ں اور قصے بھی سناتے۔ اہل خانہ سے حد درجہ کی نرمی اور اکرام کا سلوک فرماتے۔(بخاری)69
گھریلو زندگی کا ایک نہایت دلکش اور قابل رشک نظارہ خود حضرت عائشہ ؓ کی زبانی سنیئے۔آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں بیٹھی چرخے پر سوت کات رہی تھی اور نبی کریمؐ اپنے جوتے کی مرمت فرمارہے تھے کہ آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آگیا، پسینہ کے قطرے آپؐ کے پُرنور چہرے پر دمک رہے تھے اور ایک روشنی ان سے پھوٹ رہی تھی۔ میںمحو حیرت ہوکر یہ حسین نظارہ دیکھنے میں مگن تھی کہ ناگہاں رسول اللہؐ کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ آپؐ نے میری حالت بھانپ کر فرمایا عائشہؓ! تم اتنی کھوئی کھوئی اور حیران وششدر کیوں ہو؟میں نے عرض کیا ابھی جو آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آیا تو اس کے قطرات سے ایک عجب نور پھوٹتے میں نے دیکھا اگر شاعر ابوکبیر ھُذلی آپ ؐ کو اس حال میں دیکھ لیتا تو اسے ماننا پڑتا کہ اس کے شعر کے مصداق آپؐ ہی ہیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اچھا! ابوکبیر کے وہ شعرتو سنائو۔میں نے شعر سنائے جن میں ایک یہ تھا۔ فَاِذَا نظَرْتَ اِلیٰ اَسِرَّ ۃِ وَجْھِہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ العَارِضِ المُتَھَلِّلٖ
کہ تم میرے محبوب کے روشن چہرے کے خدوخال کو دیکھو تو تمہیں اس کی چمک دمک بادل سے چمکنے والی بجلی کی طرح معلوم ہو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں یہ شعر سن کر رسول کریمؐ جوش محبت اور فرطِ مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی کا بوسہ لے کر فرمانے لگے۔ اے عائشہؓ ! اللہ آپ کو بہترین جزا عطافرمائے۔شایدتم نے مجھے اس حال میں دیکھ کر اتنا لطف نہیں اُٹھایا ہوگا۔جتنا مزامجھے آپ سے یہ شعر سن کر آیا ہے۔ (بیہقی)70
اپنے صحابہ کی ضروریات اور جذبات کا بے حد احساس تھا ۔ان کے حالات سے باخبر رہتے مگر کسی کے خلاف یکطرفہ کوئی بات سننا گوارہ نہ کرتے۔ فرماتے تھے کہ اپنے اصحاب کیلئے میراسینہ صاف رہنے دو۔(ابودائود)71
صحابہ کو فاقہ کی تکلیف ہوتی تو اپنے گھر لے جاکر تواضع فرماتے یا پھر صحابہ کو تحریک کردیتے۔وہ بیمار ہوتے تو اُن کی عیادت کرتے ۔اپنے یہودی خادم کا حال پوچھنے اس کے گھر گئے۔بوقت عیادت مریض پر ہاتھ پھیرتے اور شفا کی دعا کرتے۔(بخاری)72
اپنے ساتھیوں پرخاص توجہ فرماتے۔ کوئی ساتھی راستہ میں مل جاتا تو رک کر اس سے ملتے اور کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ خوداجازت لیتا۔کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک وہ نہ چھوڑے۔(ترمذی)73
اپنے ساتھیوں سے تحائف قدردانی کے ساتھ وصول فرماتے تھے۔ خوشبو اور دودھ کا تحفہ کبھی رد نہ فرماتے اور بدلہ میں بہتر تحفہ عطا فرماتے تھے۔(احمد)74
تحفہ میں زمزم کا پانی دینا پسند فرماتے تھے۔صدقہ کا مال اپنی ذات کے لئے نہ لیتے تھے۔انصار کے گھروں میں ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے۔(احمد75)ان کے بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ۔پیار دیتے اور دعا کرتے۔بعض بچوں کی پیدائش پر کھجور کی گھٹی بھی دی۔(بخاری)76
گھر میں بیک وقت نو بیویاں رہیں ہمیشہ ان میں عدل فرماتے، ان میں سے کسی کو سفر پر ہمراہ لے جانے کے لئے فیصلہ قرعہ انداز ی سے فرماتے۔(احمد77)مدینہ سے رخصت ہوتے وقت سب سے آخر میں اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ ؓ سے مل کر جاتے اور واپسی پر مسجد نبوی میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ہی آکر ملتے۔(احمد78) سفر سے واپس تشریف لاتے تو خاندان کے بچے اور اہل مدینہ آپؐ کا استقبال مدینہ سے باہر جا کر کرتے۔(بخاری)79
آپؐ عام مسلمانوں کی دعوت طعام بلا تفریق قبول فرماتے۔(بخاری80) اپنے صحابہ کے جنازہ اور تدفین میں شامل ہوتے تھے۔سوائے اس کے کہ کوئی شخص مقروض ہو تو اس کے بارہ میں فرماتے تھے کہ اس کا جنازہ خود پڑھ لو۔(بخاری)81
صحابہ کے ساتھ قومی کاموں میں برابر کے شریک ہوتے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں ان کے ساتھ مل کر اینٹیں اٹھائیں تو غزوئہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی میں حصہ لیا اور مٹی باہر نکالی۔(بخاری)82
آپؐ خادموں سے بہت حسن سلوک فرماتے تھے۔حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے کبھی آپؐ نے مجھے اُف تک نہیں فرمایا کبھی کسی بات پر نہیں ٹوکا۔(بخاری)83
حضرت علیؓ نے امام حسینؓ کے اس سوال پر کہ رسول کریمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ سلوک کیسا ہوتا تھا ۔حضور ؐکی معاشرت کا دلآویز نقشہ یوں کھینچا کہ:۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ مسکراتے تھے۔عمدہ اخلاق والے اور نرم خوُ تھے۔تُرش رو تھے نہ تند خو،نہ کوئی فحش زبان پر لانے والے نہ چیخ کر بولنے والے۔عیب چیں تھے نہ بخیل۔جو بات ناگوار ہوتی اس کی طرف توجہ ہی نہ فرماتے نہ ہی اس کے بارے میںکوئی جواب دیتے۔آپؐ نے اپنے آپؐ کو تین باتوں سے کلیتہً آزاد کرلیا ہواتھا۔ جھگڑے ،تکبر اور لا یعنی و فضول باتوں سے اور تین باتوں میں لوگوں کو آزاد چھوڑ رکھا تھا یعنی آپؐ کسی کی مذمت نہ کرتے تھے، کسی کی غیبت نہ کرتے تھے اور کسی کی پردہ دری نہ چاہتے تھے۔آپؐ صرف اس امر کے بارے میں گفتگو کرتے جس میں ثواب کی اُمید ہو ۔جب آپؐ خاموش ہوجاتے تو لوگ بات کرلیتے تھے مگر آپؐ کے سامنے ایک دوسرے سے باتیں نہ کرتے اور جب آپؐ کے سامنے کوئی ایک بات کر رہا ہوتا تو باقی لوگ اس کی بات خاموشی سے سنتے یہاں تک کہ وہ بات پوری کرلے۔آپؐ اپنے صحابہ کی باتوں میں دلچسپی لیتے۔ان کی مذاق کی باتوں میں ان کا ساتھ دیتے اور تعجب کا موقع ہوتا تو تعجب فرماتے ۔کبھی کوئی اجنبی مسافر آجاتا تو اس کی گفتگو یا سوال نہایت توجہ سے سماعت فرماتے۔(عیاض)84
صحابہ مہمانوں کو حضورؐ کی خدمت میں بڑے شوق سے لایا کرتے تھے۔ وہ خود ازراہ ادب آپؐ سے اکثر سوال نہ کرتے تھے بلکہ اس انتظار میں رہتے کہ کوئی بدّو آکر مسئلہ پوچھے تو ہم بھی سنیں ۔(بخاری)85
آپؐ کی ہدایت تھی کہ اگر کوئی ضرورت منددیکھو تواسے کچھ دے دو ورنہ اس کی مدد کے لئے تحریک کردیا کرو۔ فرماتے تھے کہ نیک سفارش کا بھی اجر ہوتا ہے۔مبالغہ آمیز تعریف و ستائش آپؐ کو قطعاً پسند نہ تھی۔سوائے اس کے کہ جائز حدود کے اندر ہو۔(بخاری)86
آپؐ کسی کی قطع کلامی پسند نہ فرماتے تھے سوائے اس کے کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کرے۔ایسی صورت میں اسے روک دیتے تھے یا خود اس مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔
متفرق معمولات
آپؐ ہفتہ کے روز کبھی پیدل اور کبھی سواری پر مسجد قبا جایا کرتے تھے جو بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں مدینہ سے چند میل دور تھی۔یوں ہفتہ وار تفریح بھی ہوجاتی اوراس محلہ کے صحابہ سے ملاقات بھی۔(احمد87)حضورؐ کو سبزے اور جاری پانی کو دیکھنابہت پسند تھا۔
جمعہ کا دن تو جمعہ کی تیاری اور اس کی مصروفیات میں گزرتا ۔کوئی مہم بھجوانا ہوتی تو بالعموم جمعرات کو دن کے پہلے حصہ میں بھجواتے۔(احمد88)اور تین یا اس سے زائد افراد پر امیر مقرر فرماتے۔(بخاری)89
نبی کریمؐ عیدین کے موقع پر قربانیوں اور عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرنا پسند کرتے تھے۔ حضرت واثلہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کو عید کے دن ملا۔ اور عرض کیا کہ اللہ ہم سے اور آپؐ سے (عبادات وغیرہ) قبول فرمائے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ہاں! تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا ومِنْکَ یعنی اللہ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے۔(بیہقی)90
ہر کام میں دائیں پہلو کو ترجیح دیتے۔جوتا پہننے،کنگھی کرنے،وضو کرنے،نہانے وغیرہ میں یہی معمول تھا۔دایاں ہاتھ کھانے پینے،مصافحہ کرنے کے لئے استعمال فرماتے۔ (بخاری)91
دیگر طہارت وغیرہ کے کام بائیں ہاتھ سے کرتے۔دائیں پہلو پر سوتے۔ جوتا پہننے میں پہلے دایاں پائوں پہنتے اور اتارتے وقت پہلے بایاں اتارتے۔ (مسلم)92
مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پائوں اندر رکھتے اور باہر نکلتے وقت پہلے بایاں پائوں باہر رکھتے۔کسی کے بارے میں کوئی شکایت پہنچتی تو نام لئے بغیر(بعض لوگ کہہ کر)مجلس میں سر زنش یا تنبیہہ فرماتے۔(بخاری)93
کسی کا نام بھول جاتا تو یا بن عبداللہ کہہ کر پکارتے یعنی اے اللہ کے بندے کے بیٹے! کوئی کام یاد رکھنے کیلئے انگلی پر دھا گہ باندھ لیتے۔
سفر پر جاتے تو مدینہ میں امیر مقرر فرماتے۔ موسم گرما کی سخت گرمیوں کے بعدجب موسم سرما کی آمد آمد ہوتی توخوش ہو کر اسے مرحبا کہتے۔بادل یا آندھی کے آثار دیکھ کر فکر مند ہو جاتے اور چہرہ متغیّر ہوجاتا کہ یہ طوفان بادوباراں کہیں گزشتہ قوموں کی طرح عذاب کا پیش خیمہ نہ ہو اور پھر دعائے خیر میں لگ جاتے۔(بخاری)94
مگر موسم گرما کی عام بارش سے خوش ہوتے اور اسے بڑے شوق سے سر پر لے کر فرماتے۔ ’’میرے رب کی طرف سے یہ تازہ رحمت آئی ہے‘‘(احمد)95
خوش ہوتے تو چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا۔ناراض ہوتے تو چہرے کا رنگ سرخ ہوجاتااور چہرے پر اس کے آثارظاہرہوجاتے۔(احمد)96
کوئی غم پہنچتا توفرماتے بندوں کی بجائے میرا رب میرے لئے کافی ہے۔اور نماز کی طرف توجہ فرماتے۔(احمد)97
کسی کو سرزنش کرتے تو اتنا فرماتے۔’’اللہ اس کا بھلا کر ے اسے کیا ہوا؟‘‘ زیادہ سوالات اور قِیل وقال سے منع فرماتے تھے۔(بخاری)98
مسائل میں الجھنیں اور مشکلات پیدا کرنے سے بھی روکتے اور فرماتے’’آسانی پیدا کرو مشکل پیدا نہ کرو۔‘‘
مجلس میں چھینک آتی تو منہ پر ہاتھ یارومال رکھ لیتے۔جمائی آتی تو ہاتھ منہ پر رکھ لیتے۔تھوک پر مٹی ڈال کر اسے دفن کر دیتے ۔(بخاری)99
کبھی آپؐ کو درد شقیقہ کی تکلیف بھی ہوجاتی تھی جو ایک یا دو دن رہتی تھی۔ایسی صورت میں گھر میں آرام فرماتے۔
اخلاق فاضلہ
وہ ہستی جس کے بارے میں عرش کے خدا نے گواہی دی کہ اے نبی تو عظیم اخلاق پر فائز ہے۔وہ اخلاق کیسے شاندار ہونگے۔
حضورؐ کے عام اخلاق کے بارہ میں حضرت خدیجہ ؓ کی پندرہ سالہ رفاقت کے بعد وہ گواہی کیسی زبردست ہے کہ آپؐ صلہ رحمی کرنے والے، دوسروں کے بوجھ بانٹنے والے،گمشدہ اخلاق اور نیکیوں کو زندہ کرنے والے، مہمان نواز اور راہ حق میں مصائب پر مدد کرنے والے ہیں اس لئے آپؐ جیسے انسان کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔(بخاری)100
پھر حضرت عائشہ ؓ کا آپؐ کے اخلاق کے بارہ میں بیان ہے کہ آپؐ کبھی فحش کلامی نہ فرماتے تھے۔نہ ہی بازاروں میں آوازے کسنا آپؐ کا شیوہ تھا۔ آپؐ بدی کابدلہ بدی سے نہیں لیتے تھے بلکہ عفو اور درگذر سے کام لیتے تھے۔(بخاری)101
صحابہ بیان کرتے ہیں کہ سب لوگوںکے محبوب ترین انسان آپؐ تھے۔ (احمد)102 جب کبھی آپؐ کو دو معاملات میں اختیار دیا جاتا تو آسان امر کو اختیار کرتے۔ آپؐ سے زیادہ اپنے نفس پر ضبط کرنیوالا کوئی نہ تھا۔(بخاری)103
٭ حیاء ایسی تھی کہ آپؐ کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔(احمد)104
٭ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریمؐ سب سے بڑھ کر سخی تھے۔(مسلم)105
٭ جب بھی آپؐ سے سوال کیا گیا آپؐ نے عطا فرمایا۔(احمد)106
مال فئی(غنیمت) جس روز آتا اسی روز تقسیم فرمادیتے تھے۔توکل ایسا تھا کہ کبھی کل کے لئے کچھ بچا کر نہ رکھتے تھے۔(بخاری)107
آپؐ تمام لوگوں سے بڑھ کر زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے(احمد108)اپنے آپؐ کو دنیا میں ایک مسافر سمجھتے تھے جو سستانے کے لئے ایک درخت کے نیچے آرام کیلئے کچھ دیررکتا اور پھر آگے روانہ ہوجاتاہے۔(ترمذی)109
شجاعت ایسی تھی کہ جنگوں میں تن تنہا بھی مردمیدان بن کرلڑے اور کبھی قدم پیچھے نہ ہٹایا۔اشجع الناس اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔(مسلم)110
آپؐ کا عفو ایسا کہ جانی دشمنوںاور قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو بھی معاف کردیا۔ (بخاری)111
الغرض رسول کریمؐ جامع اخلاق فاضلہ تھے۔آپؐ صفات الٰہیہ کے مظہراتم تھے۔ آپؐ خلق عظیم پر فائز تھے اور بنی نوع انسان کے لئے ایک خوبصورت اور کامل نمونہ تھے۔ ایسانمونہ جس کی پیروی کی برکت سے آج بھی خدا مل سکتا ہے اور آج بھی وہ ہمارا خالق و مالک یہ پاکیزہ اخلاق نبوی اپنے بندوں میں دیکھ کر ان سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔سچ ہے
محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَام
حوالہ جات
1
نوادرالاصول فی احادیث الرسول حکیم ترمذی جلد 4ص215دارالجیل بیروت
2
مستدرک حاکم جلد2ص392 و مسلم
3
شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہؐ
4
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص174دارالکتاب العربی
5
بخاری کتاب التہجد
6
بخاری کتاب التعبیر الرؤیاء ،ابوداؤ کتاب الادب :4847
مسلم کتاب المساجد باب فضل الجلوس فی الصلوۃ:286
7
کنزالعمال جلد7ص153
8
مسلم کتاب الفضائل باب قرب النبی علیہ السلام من الناس:742
9
ترمذی کتاب الصوم
10
مسند احمد جلد6ص121،اسد الغابہ جلد1ص29
11
مسند احمد جلد5ص111
12
بخاری بدء الوحی و فضائل القرآن
13
مجمع الزوائد لہیثمی جلد2ص188
14
بخاری وترمذی کتاب الدعوات
15
بخاری کتاب الادب
16
مسند احمد جلد6ص398
17
بخاری کتاب الصلوۃ و کتاب التفسیر سورۃ ال عمران لن تنالوالبرّ
18
مسنداحمد جلد6ص59
19
المعجم الکبیرللطبرانی جلد11ص245
20
مسند احمد1ص26
21
بخاری و ترمذی کتاب الصلوۃ
22
بخاری کتاب التہجد
23
مجمع الزوائدلہیثمی جلد5ص23
24
بخاری کتاب الاطعمہ
25
بخاری کتاب الرقاق
26
مجمع الزوائدلھیثمی جلد5ص81
27
بخاری کتاب الاطعمہ
28
بخاری و ترمذی کتاب الاطعمۃ
29
مستدرک حاکم جلد4ص121
30
مسند احمد6ص59
31
مستدرک حاکم جلد4ص118وابوداؤد کتاب الاطعمہ
32
ترمذی کتاب الطہارۃ
33
شمائل الترمذی باب ماجاء فی کحل رسول اللہؐ
34
مسلم کتاب الطھارۃ باب السواک :370
35
بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ
36
سنن الدارمی جلد1ص31
37
شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہؐؐ
38
ابن ماجہ کتاب اللباس
39
ترمذی کتاب الادب وکتاب اللباس
40
بخاری کتاب العلم
41
بخاری کتاب المغازی
42
شمائل ترمذی باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللہؐؐ
43
ترمذی کتاب المناقب باب فی صفۃ النبی ؐ :3637
44
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص379,422
45
مسند احمد3ص213وبخاری کتاب العلم
46
مسند احمد جلد3ص423
47
مسند احمد6ص56
48
الشفاء للقاضی عیاض جلد1ص202،طبقات ابن سعد جلد1ص422
49
ابودائود کتاب الادب :4838
50
مستدرک حاکم جلد3ص9
51
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص378
52
مسنداحمد جلد4ص358
53
المعجم الکبیرلطبرانی جلد12ص391
54
شمائل الترمذی باب ماجاء فی مزاح رسول اللہؐؐ
55
مسلم کتاب الجمعہ باب تخفیف الصلوۃ و الخطبہ:1435
56
مسلم کتاب الجمعہ باب الصلوۃ
57
ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ باب ماجاء فی الخطبۃ یوم الجمعہ:1107
58
بخاری کتاب الادب
59
مسلم کتاب الشعر حدیث1
60
مجمع الزوائدلھیثمی جلد 8ص126
61
ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی انشادالشعر:28487
62
بخاری کتاب الادب باب مایجوز من الشعر
63
الشفاء للقاضی عیاض جلد1ص9
64
الوفاء باحوال المصطفے ابن جوزی ص459 بیروت
65
کنزالعمال جلد7ص219
66
بخاری کتاب الادب
67
ابن ماجہ کتاب النکاح
68
بخاری کتاب النکاح
69
سنن البیھقی جلد7ص422 دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن
70
ابوداؤد کتاب الادب باب فی رفع الحدیث من المجلس:4218
71
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الحجرات
72
بخاری کتاب المرضیٰ
73
ترمذی کتاب صفۃ القیامہ باب46
74
مسند احمد جلد6ص90
75
مسند احمد جلد4ص398
76
بخاری کتاب الادب
77
مسند احمد جلد6ص117
78
مسند احمدجلد3ص455
79
بخاری کتاب المغازی
80
بخاری کتاب الاطعمۃ
81
بخاری کتاب الحوالات
82
بخاری کتاب المغازی
83
بخاری کتاب المناقب
84
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ قاضی عیاض جلد3ص206دارالکتاب العربی
85
بخاری کتاب العلم
86
بخاری کتاب الادب
87
مسند احمد جلد2ص4
88
مسند احمد جلد4ص484
89
بخاری و مسلم کتاب الجہاد و مسند احمد جلد5ص358
90
سنن الکبری للبیھقی جلد3ص319
91
بخاری کتاب الصلوۃ باب التیّمن
92
مسلم کتاب القدر:4816
93
بخاری کتاب الادب
94
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحقاف
95
مسند احمد جلد6ص41,90,129
96
مسند احمد جلد3ص459و مجمع الزوائدلھیثمی جلد8ص287
97
مسند احمد جلد5ص388
98
بخاری کتاب الاستقراض
99
بخاری کتاب الادب وکتاب الصلوۃ
100
بخاری بدء الوحی
101
بخاری کتاب الادب
102
مسند احمد جلد3ص402
103
بخاری کتاب المناقب:3296
104
مسند احمد جلد3ص71
105
مسلم کتاب الفضائل
106
مسند احمد جلد3ص190
107
بخاری کتاب الرقاق
108
مسند احمد جلد4ص198
109
ترمذی کتاب الزھد
110
مسلم کتاب الفضائل
111
بخاری کتاب المغازی
{توحید پرستوں کا بادشاہ}
رسول اللہ ؐکی محبت الہٰی وغیرت توحید
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرک وبت پرستی کے تاریک دور میں قیام توحید کا عظیم الشان کام لیا جانا تھا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے آغاز سے ہی آپؐ کے دل میں توحید کی محبت اور بت پرستی سے نفرت رکھ دی تھی اوراپنی خاص مشیٔت سے آپؐ کو ہرقسم کے شرک سے محفوظ رکھا ۔
شرک سے نفرت
رسول اللہؐ کی کھلائی ام ایمنؓ بیان کرتی تھیںکہ ’’ بُوانہ‘‘ وہ بت تھا جس کی قریش بہت تعظیم کرتے تھے۔ اُ س کے پاس حاضر ی دے کرقربانیاں گزارتے اور سال میں ایک دن وہاں اعتکاف کرتے تھے ۔ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ وہاں جاتے اور رسول اللہؐ کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے مگر آپؐ انکار کر دیتے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات حضورؐ کی پھوپھیاں اورابو طالب آپؐسے سخت ناراض ہوتے اور کہتے کہ بتوں سے آپؐ کی بیزاری کے باعث ہمیں آپؐ کے بارے میں ڈر ہی رہتا ہے۔
ایک دفعہ اپنی پھوپھیوں کے اصرار پر آپؐ وہاں چلے توگئے مگر سخت خوفزدہ ہو کر واپس آگئے اور کہا کہ میں نے وہاںایک عجیب منظر دیکھا ہے۔ پھوپھیوں نے کہا کہ اتنے نیک انسان پر شیطان اثر نہیں کر سکتا اور پوچھاآپؐ نے کیا دیکھا ہے؟آپؐ نے بتایا کہ جونہی میں بت کے قریب جانے لگتا تھاتو سفید رنگ اور لمبے قد کا ایک شخص چلّا کر کہتا تھا کہ اے محمدؐ ! پیچھے رہو اور اس بت کو مت چھوؤ۔ بعد میںپھوپھیوں نے بھی بتوں کے پاس جانے کے لئے یہ اصرار چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپؐ کو ایسی مشرکانہ رسوم سے محفوظ رکھا ۔(بیہقی)1
بچپن میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ سفر شام کے دوران عیسائی راھب بُحیرٰی سے ملاقات ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایک سوال پر فرمایا تھا کہ مجھ سے لات، اور عزیٰ بتوںکے بارہ میں مت پوچھو، خدا کی قسم ! ان سے بڑھ کر مجھے اور کسی چیز سے نفرت نہیں۔(بیہقی)2
نبی کریم ؐ حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر جب ملک شام گئے تو سودا فروخت کیا۔ کسی شخص نے اس دوران آپؐ سے لات اورعُزّٰی کی قسم لینا چاہی۔آپؐ نے فرمایا میں نے کبھی آج تک ان بتوں کے نام کی قسم نہیں کھائی اورنہ کبھی ان کی طرف توجہ کی ہے ۔(ابن سعد)3
عبادت الہٰی کی محبت
الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بچپن سے ہی اپنے خالق ومالک کی محبت بھر دی گئی تھی۔عبادت اور ذکر الہٰی سے آپؐ کو خاص شغف تھا، خلوت پسند تھی۔ عین عنفوانِ شباب میں آپؐ کو نیک اور سچی خوابوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔(بخاری)4
جوانی میں آنحضورؐ ہر سال غار حرا میں ایک مہینہ کے لئے اعتکاف فرمایا کرتے اور تنہائی میں اللہ کو یاد کرتے تھے۔ جاہلیت میں قریش کی عبادت کا یہ ایک طریق تھا ۔جب آپؐ کا یہ اعتکاف ختم ہو تا توواپس آکر پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر گھر تشریف لے جاتے۔ جب حضورؐ کو پہلی وحی ہوئی تویہ رمضان کاہی مہینہ تھا جس میں آپؐ غار حرا میں اعتکاف فرما رہے تھے۔ (ابن ھشام)5
اس زمانہ میں مکہ میں گنتی کے چند لوگ توحید پرست باقی رہ گئے تھے جو دین ابراہیمی پر قائم تھے ۔ان میں ایک قابل ذکر شخص زید بن عمرو تھے ۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی ملاقات مکے کے قریب بلدح بستی میں ہوئی ۔ مشرکین کی طرف سے آنحضرتؐ کے سامنے کچھ کھانا پیش کیا گیا۔ آپؐ نے کھانے سے انکار کر دیا ۔پھر زید کو کھانا پیش کیا گیا تو انہوں نے بھی یہ کہہ کر کھانے سے انکار کیا کہ تم لوگ اپنے بتوں کے نام پر جانور ذبح کرتے ہو اس لئے میں ہر گزتمہارا کھانا نہ کھاؤں گا ، سوائے اس کھانے کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ۔ زید بن عمرو قریش کا ذبیحہ حرام سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ بکری پیدا کرنے والاتو خدا ہے۔ اس کے لئے گھاس اُگانے والا بھی وہی ہے۔ پھر تم اسے غیر اللہ کے نام پر کیوں ذبح کرتے ہو؟(بخاری)6
نبی کریم ؐکی پہلی وحی کا آغاز ہی بنیادی طور پر توحید کے پیغام سے ہوا۔ پہلے محض اِقْرَأ کے الفاظ پر آپؐ رکتے رہے مگر جب کہا گیا اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ یعنی اپنے اس پیدا کرنے والے پروردگار کے نام سے پڑھییٔ جس نے پیدا کیا، توبے اختیار آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے کیونکہ آپؐ تو پہلے ہی اپنے خالق ومالک پر فدا تھے۔
محبت الہٰی کی تمنَّا
حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت الہٰی کے نظارے دیکھ کر مکے کے لوگ سچ ہی تو کہتے تھے عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہ‘ کہ محمد تو اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے۔(غزالی)7
اوراس میں کیا شک ہے کہ آپؐ اپنے رب کے سچے عاشق تھے۔ آپؐ کی محبت کا اظہار نمازوں، عبادات، دعائوں اور ذکر الہٰی سے خوب عیاں ہے۔ رسول اللہؐ کی محبت الہٰی کا یہ حال تھا کہ حضرت داؤد ؑ کی یہ دعا بڑے شوق سے اپنی دعائوں میں شامل کرتے تھے ۔
َاَللّٰھُمَّ اِنِّی اَساَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَالعَمَلَ الَّذِی یُبَلِّغُنِی حُبَّکَ ، اَللّٰھُمَّ اجعَل حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِن نَفسِی وَمَالِی وَاَھلِی وَمِنَ المَائِ البَارِدِ۔
’’اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ! اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو ۔‘‘ (ترمذی)8
مگر محبت الہٰی کی جو دعا آپؐ نے سکھائی وہ حضرت داؤد ؑکی دعا سے کہیں جامع اور بلیغ ہے ۔آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور عرض کرتے :۔
اَللّٰھُمَّ ارزُقنِی حُبَّکَ وَحُبَّ مَن یَّنفَعُنِی حُبُّہٗ عِندَکَ اَللّٰھُمَّ مَا رَزَقتَنِی مِمَّا اُحِبُّ فَاجعَلہُ قُوَّۃًلِّی فِیمَا تُحِبُّ،وَمَازَوَیتَ عَنِّی مِمَّا اُحِبُّ فَاجعَلہُ فَرَاغًا لِّی فِیمَا تُحِبُّ۔
’’ اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اُس کی محبت جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔ اے اللہ! میری دل پسند چیزیں جو تو مجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیز وں کے حصول کے لئے قوت کا ذریعہ بنا دے ۔اور میری وہ پیاری چیزیں جو تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا فرما دے۔(ترمذی)9
جس سے محبت ہو اس کی ہر چیزسے بھی پیار ہوجاتا ہے، جب سال کی پہلی بارش ہوتی تو رسول اللہؐ اسے ننگے سر پر لیتے اور فرماتے ہمارے رب سے یہ تازہ نعمت آتی ہے اور سب سے زیادہ برکت والی ہے۔(کنز)10
رسول کریمؐ کی عبادات اور اعمال پر توحید کی گہری چھاپ تھی۔آپؐنماز کا آغاز ہی اس دعا سے کرتے تھے ’’ وَجَّھْتُ وَ جْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّ مَا اَناَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔(الانعام:80) میںنے موحّد ہوکر اپنی تمام توجہ اس ذات کی طرف پھیر دی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔(نسائی)11
چنانچہ رسول کریمؐ نے شرک کی مختلف شکلوں اور باریک راہوں سے بھی روکا۔ آپؐ نے ریاکاری کو شرک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جوشخص نماز میں ریا کرتا ہے وہ بھی شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔(احمد)12
حضرت شدادؓ بن اوس کہتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ آپؐ کی امت بھی آپؐ کے بعد شرک کرے گی؟ فرمایا ہاں وہ سورج، چاند ،پتھر یا بت کی پرستش تو نہیں کریں گے مگر اپنے اعمال میں دکھاوا کریں گے۔(احمد)13
اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے میں شرک کرنے والوں کے شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ جو شخص کسی بھی عمل میں میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو میں اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں۔(مسلم)14
حضرت عمرؓ ایک دفعہ مسجد سے نکلے تو حضرت معاذ بن جبل ؓ کو رسول کریم ؐکے مزار کے پاس روتے ہوئے پایا۔حضرت عمرؓ نے رونے کا سبب پوچھا۔ تو وہ کہنے لگے ایک حدیث (یادآگئی جو) میں نے رسول اللہ ؐ سے سنی تھی آپؐ نے فرمایا تھا کہ ’’معمولی ریاء بھی شرک ہے‘‘(حاکم15)رسول کریمؐ بدشگونی کو بھی شرک سے تعبیر فرماتے تھے۔(احمد)16
ایک دفعہ رسول اللہؐ خطبہ ارشاد فرمانے کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! جھوٹی گواہی بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی۔
حُنَفَآئَ الِلّٰہِ غَیْرَمُشْرِکِیْنَ بِہٖ ط وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَاخَرَّمِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُاَوْتَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ۔(سورۃ حج:31)
ترجمہ:ہمیشہ اللہ کی طرف جھکتے ہوئے اُس کا شریک نہ ٹھہراتے ہوئے اور جو بھی اللہ کا شریک ٹھہرائے گا۔تو گویا وہ آسمان سے گرگیا۔پس یا تو اُسے پرندے اُچک لیں گے یا ہوا اُسے کسی دُورجگہ جاپھینکے گی۔(ترمذی)17
حضرت فروہ ؓ رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جو میں رات سوتے ہوئے پڑھاکروں فرمایا سورۃ الکافرون پڑھاکرو۔ یہ شرک سے آزاد کرنے والی (سورت) ہے۔(احمد)18
.968حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شرک سے بچو یہ چیونٹی کے نقش پا سے بھی باریک تر ہے ۔صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ کیسے بچیں؟فرمایا یہ دُعا پڑھا کرو :-اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوذُبِکَ مِن اَن نُّشرِکَ بِکَ شَیأنَّعلَمُہٗ وَنَستَغفِرُکَ لِمَا لَا نَعلَمُ۔ (احمد)19
.968 .968ترجمہ:۔ اے اﷲ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اس بات سے کہ تیرے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو شریک ٹھہرائیںاورلا علمی میں ایسا کرنے سے ہم تجھ سے بخشش کے طلبگار ہیں ۔
رسول اللہ ؐ کی عبادات محض اپنے مولیٰ کی رضا کے لئے وقف اور خالص تھیں اورآپؐ کے دل پر توحید کی گہری چھاپ کی وجہ سے وہ ہر قسم کے ریاء سے پاک تھیں۔ جس پر عرش کے خدا نے بھی یہ گواہی دی کہ اے نبی تو کہہ دے میری نماز ،میری قربانیاں، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی امر کا حکم دیا گیا ہے اور میں اُس کا سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔(سورۃالانعام:163,164)
فرض نمازوں کے علاوہ بالخصوص رات کے وقت آپؐ اللہ تعالیٰ کی گہری محبت سے سرشار ہوکر نہایت خشوع و خضوع سے بہت لمبی اور خوبصور ت نماز پڑھا کرتے تھے۔اپنے رب کی عبادت آپؐ کو ہر دوسری چیز سے زیادہ پیاری تھی۔آپؐ کے پاس بیک وقت نوبیویاں رہیںاپنی عزیز ترین بیوی حضرت عائشہ ؓکے ہاں آپؐ کی نویں دن باری آتی تھی۔ایک دفعہ موسم سرما کی سرد رات کو ان کے لحاف میں داخل ہوجانے کے بعد اُن سے فرمانے لگے کہ عائشہ! اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار لوں۔انہوں نے بخوشی اجازت دے دی اور آپؐ نے وہ ساری رات عبادت میں بسر کی اورروتے روتے سجدہ گاہ تر کردی۔ (سیوطی)20
توحید کے اقرار کا بھی آپؐ کو بہت لحاظ تھا ۔ایک دفعہ ایک انصاری نے عرض کیا کہ میرے ذمّہ ایک مسلمان لونڈی آزادکرناہے۔ یہ ایک حبشی لونڈی ہے اگر آپؐ سمجھتے ہیں کہ یہ مومن ہے تو میں اسے آزاد کر دیتا ہوں ۔آنحضورؐ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ کیا تم گواہی دیتی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کیا گواہی دیتی ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟اس نے کہا ہاں۔فرمایا کیا یوم آخرت پر ایمان لاتی ہو؟اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اسے آزادکر دو۔یہ مومن عورت ہے۔‘‘(احمد)21
قیام توحید
رسول اللہ ؐ کی شریعت کا پہلا سبق ہی کلمہ توحید لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ تھا۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔آپؐ کا اوڑھنا بچھونا توحید ہی تھا ۔صبح وشام خدا کی توحید کا دم بھرتے تھے۔دن چڑھتا توآپؐ کے لبوںپریہ دعاہوتی۔ ’’ہم نے اسلام کی فطرت اور کلمۂ اخلاص (یعنی توحید) پر اور اپنے نبی محمدؐ کے دین اور اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر صبح کی جو موحّد تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘(احمد)22
شام ہوتی تو یہ دعا زبان پر ہوتی ۔اَمسَینَا وَاَمسَی المُلکُ لِلّٰہِ’’ہم نے اور سارے جہاں نے اللہ کی خاطر شام کی ہے اور تمام تعریف اللہ کے لئے ہے ۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے ۔تمام تعریفوں کا وہی مالک ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔‘‘ (مسلم)23
کوئی مصیبت در پیش ہوتی تو یہ دعا کرتے ۔لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ العَظِیمُ الحَلِیم ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہی عظمت والا اور بردبار ہے۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عظیم عرش کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمان اور زمین کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش کریم کا رب ہے۔‘‘ (بخاری)24
حضرت محمد ؐ مصطفٰے ہی تھے جنہوں نے شرک وبت پرستی کے ماحول میں نعرۂ تو حید بلند کیا ۔ پھر عمر بھریہ علمِ تو حید بلند کیے رکھااور کبھی اس پر آنچ نہ آنے دی ۔ اس کلمۂ توحید کی خاطر ہر طرح کے دکھ اٹھائے ،اذیتیں برداشت کیں ،اپنے جانی دوستوں کی قربانی بھی دی اور خود اپنی جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کیا ۔ ہمیشہ قیام توحید کے لئے کوہ استقامت بن کر تمام ابتلاؤں کا مقابلہ کیا۔ آپؐ نے توحید کو ہی ذریعہ نجات قرار دیا اور فرمایا کہ جس نے صدق دل سے تو حید باری کا اقرار کیا وہ جنّتی ہے ۔(احمد) 25
اپنی امت کو ہمیشہ توحید کے ترانے اور نغمے الاپنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے دن میں سو مرتبہ خدا کی توحید کا یوں اقرار کیا لَااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَا شَرِیْکَ لَہ‘ لَہُُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِ یْرٌ۔’’کہ خدا کہ سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ایک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ،بادشاہت اُسی کی ہے ۔ تمام تعریفوں کا بھی وہ مستحق ہے اور وہ ہر شے ٔپر قادر ہے ۔‘‘ایسے شخص کو دس غلاموں کی آزادی کے برابر ثواب ہو گا اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں مٹائی جائیں گی۔ توحید باری پر مشتمل یہ ذکر اُس دن شام تک کے لئے شیطان سے اُس کی پناہ کا ذریعہ بن جائے گا اور کوئی شخص اُس سے بہتر عمل والا قرار نہیں پائے گا سوائے اُس شخص کے جو یہ ذکر اِس سے زیادہ کثرت سے کرے۔(بخاری)26
رسول اللہ ؐ نے توحید کی حفاظت کی خاطر وطن کی قربانی بھی دی اور مدینہ ہجرت کر لی۔جب وہاں بھی دشمن تعاقب کر کے حملہ آور ہوا تو مجبوراًدفاع کے لئے تلوار اٹھائی مگر ان دفاعی جنگوں کی غرض بھی یہی تھی کہ خدا کا نام بلند ہو۔
ایک دفعہ کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کوئی شخص حمیت کی خاطر لڑتا ہے، کوئی شجاعت کے لئے تو کوئی مال غنیمت کی خاطر۔ان میں سے خدا کی خاطر جہاد کرنے والا کون شمار ہو گا؟آپؐ نے فرمایا ’’وہ شخص جو اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہواور توحید کی عظمت قائم ہو ، فی الحقیقت وہی خدا کی راہ میں لڑنے والا شمار ہو گا ۔‘‘(بخاری)27
رسول اللہؐ نے توحید کا یہ احترام بھی قائم کیا کہ اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے اور ظلم کرنے والے جانی دشمنوں کے متعلق فرمایا کہ اب بھی اگر یہ کلمۂ توحید پڑھ لیں تو ہماری ان سے کوئی لڑائی نہیں ۔(بخاری28)گویاہماری تلواریں جو اپنے دفاع کے لئے اٹھی تھیں ،کلمہ کے احترام میں پھر میانوں میں واپس چلی جائیں گی ۔چنانچہ آنحضورؐ نے کلمہ توحید کا اقرار کرنے پر جانی دشمن کو امان دینے کا حکم دیا ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ جس بستی سے اذان کی آواز آتی ہو (جو توحید اور رسالت کے اقرار پر مشتمل ہے) اس پر حملہ نہیں کرنا۔(بخاری)29
حضرت مقداد بن عمرو کندیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے پوچھا کہ اگر کسی کافر کے ساتھ میدان جنگ میں میرا مقابلہ ہو ، وہ میرا ہاتھ کاٹ دے اور کسی درخت کی آڑ لے کر مجھ سے بچنے کی خاطر کہہ دے کہ میں اللہ کی خاطر مسلمان ہوتا ہوں تو کیا اس کلمے کے بعد میں اسے قتل کرنے کا حق رکھتا ہوں۔فرمایا’’ نہیں تم اسے ہر گز قتل نہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا یارسول اللہ!اس نے میرا ہاتھ کاٹا ہے اور اس کے بعد مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا’’اسے قتل نہ کرو۔ اگر تم اسے قتل کرو گے تو وہ مسلمان اور تم کافر سمجھے جاؤ گے۔‘‘(بخاری)30
حضرت اسامہؓ نے جب ایک جنگ میں مدّ مقابل دشمن پرحملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا۔اسامہ نے پھربھی اسے ہلاک کر دیاتو رسول اللہؐ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ توحید کا اقرار کرنے والے ایک شخص کو کیوں قتل کیا ؟ قیامت کے روز جب کلمہ تمہارے گریبان کو پکڑے گا تو کیا جواب دو گے ؟ اور جب اسامہؓ نے کہا کہ وہ سچے دل سے کلمہ نہیں پڑھتا تھا تو فرمایا کہ ’’کیا تم نے اس کا دل چیرکر دیکھ لیا تھا؟‘‘ (مسلم)31
رسول کریمؐ توحید کے بارے میں اتنی احتیاط فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آپؐ کی مجلس میں آکر ذکرکیا کہ اے محمدؐ! آپؐ بہت اچھے لوگ ہیں بشرطیکہ آپ ؐ شرک نہ کرو۔ رسول کریمؐنے کمال عاجزی سے فرمایا اللہ پاک ہے۔وہ شرک کیا ہے؟ وہ کہنے لگاآپ ’’وَالکَعْبَتِہ‘‘ کہہ کر کعبہ کی قسم کھاتے ہو۔ حالانکہ مسلمان کعبہ کے بارہ میں کوئی مشرکانہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے پھربھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ توقف کے بعد موقع ظن سے بچنے اور احتیاط کی خاطر مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ اب اس شخص نے ایک بات کہہ دی ہے اس لئے آئندہ حلف کے وقت کعبہ کی بجائے ربّ کعبہ کہہ کر قسم کھایا کرو۔
پھر وہ یہودی عالم کہنے لگا آپؐ بہت اچھی قوم ہیں۔ بشرطیکہ آپؐ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اللہ پاک ہے۔ ہم کونسا شریک ٹھہراتے ہیں؟ اس نے کہا آپؐ لوگ کہتے ہیں اللہ نے چاہا اور تم نے چاہا۔ رسول کریمؐ نے پھر توقّف کیا اور فرمایا اس نے ایک بات کردی ہے۔ پس آئندہ جو شخص کہے کہ( ماشاء اللہ)اللہ نے چاہا تو اس کے بعد وقفہ ڈال کرکہہ سکتا ہے کہ تم نے چاہا۔(اکٹھے یہ جملے کہنے میں احتیاط کی جائے)۔(احمد)32
چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے کہا ماشاء اللہ وشئتَ کہ جو اللہ نے چاہا اور آپؐ نے چاہا۔نبی کریمؐ نے فرمایا تم نے مجھے اللہ کے برابر ٹھہرایا بلکہ اصل وہ ہے جو صرف خدائے واحد نے چاہا۔(احمد)33
حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے والد کی قسم کھارہے تھے۔ رسول اللہؐ نے ان کو پکار کر فرمایا سنو! اللہ تمہیں اپنے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جسے قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔ (بخاری)34
غیرت توحید
زندگی کے بڑے سے بڑے ابتلاء میں بھی جب خود رسول اللہ ؐاورآپؐ کے صحابہ کی جانیں خطرہ میں تھیں آپؐ غیرت توحید کی حفاظت سے غافل نہیں ہوئے بلکہ آپؐ کی محبت توحید کمال شان کے ساتھ ظاہر ہوئی۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ غزوۂ بدر کے لئے تشریف لے جارہے تھے کہ حرۃ الوبرہ مقام پر ایک مشرک شخص حاضر خدمت ہوا۔جرأت و شجاعت میں اس کی بہت شہرت تھی۔ صحابہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ ایک سو رما حالت جنگ میں میسرّ آیا ہے۔ اس نے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اس شرط پر آپؐ کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے آیا ہوں کہ مال غنیمت سے مجھے بھی حصّہ دیا جائے۔آپؐ نے فرمایا کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے فرمایاپھر تم جاسکتے ہو۔ میں کسی مشرک سے مدد لینا نہیں چاہتا۔سبحان اللہ! توحید کی کیسی غیرت ہے کہ حالتِ جنگ میں ہوتے ہوئے بھی ایک بہادر سور ماکی مدد اس لئے قبول کرنے کو تیار نہیں کہ وہ مشرک ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر حاضر ہوکر یہی درخواست کی تو آپؐ نے وہی جواب دیا۔ وہ تیسری دفعہ آیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی شریک لشکر کرلیں۔آپ ؐ نے پھر پوچھا کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہو؟اس دفعہ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا’’ ٹھیک ہے پھر ہمارے ساتھ چلو۔‘‘(مسلم)35
عظمت توحید
غزوۂ احد میں کفار مکہ کے درۂ اُحد سے دوبارہ حملہ کے بعد مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اس دوران ستر مسلمان شہید ہوئے تھے۔ خود حضورؐ کی شہادت کی خبریں پھیل گئیں ۔دشمن کو اس پر خوش ہونے کا موقع میسر آگیا۔ ابوسفیان فخر میں آکر اپنی فتح جتلانے لگا ۔اس نازک حالت میں (جب مسلمان خود حفاظتی کی خاطر ایک پہاڑی دامن میں پناہ گزیں تھے ) ابو سفیان مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا ۔’’کیا تم لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں؟‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازراہ مصلحت ارشاد فرمایا کہ ان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کی خاموشی دیکھ کر ابو سفیان کا حوصلہ بڑھا۔ کہنے لگا کیا تم میں ابو قحافہ کا بیٹا (ابو بکرؓ ) ہے ؟ حضور ؐ نے پھر ارشاد فرمایا کہ جواب نہ دو ۔ اس پر ابو سفیان پھر بولا کیا تم میں خطاب کا بیٹا (عمرؓ) ہے ؟ مسلمانوں کی مسلسل خاموشی دیکھ کر ابوسفیان نے فتح وکامرانی کا نعرہ لگایا اور کہا اُعْلُ ھُبُل ْ۔ ہبل بت زندہ باد۔یہ سن کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیرتِ توحید نے جوش مارا اور آپؐنے فوراًجواب دینے کا ارشادفرمایا۔ صحابہ نے پوچھا کیاجواب دیں ؟فر مایا کہواَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ اللہ سب سے بلند اور اعلیٰ شان والا ہے ۔ابو سفیان نے پھرکہا ہمارا تو عزیٰ بت ہے۔ تمہارا کوئی عزیٰ نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اس کو جواب میں کہو کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔ (بخاری)36
فتح مکہ کے موقع پربھی غیرت توحیدکی عجب شان دیکھنے میں آئی۔خدائے واحد کا گھر ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے ان دعائوں کے ساتھ تعمیر کیا تھاکہ خدایا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچانا۔ (سورۃابراھیم:36) رسول اللہ ؐ کی بعثت کے وقت اس خانہ خدا کو ۳۶۰ جھوٹے خدائوں نے گھیر رکھا تھا۔لیکن ابراہیمی دعائوں کی بدولت اب رسول اللہ ؐ کے ذریعہ اس ظلم اور جھوٹ کے مٹنے کا وقت آگیا تھاچنانچہ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے خانہ کعبہ تشریف لاکر خدا کے گھر کو بتوں سے پاک کیا۔
مکے میں داخلے کے وقت دنیا نے کمال انکسار کا یہ منظردیکھاتھا کہ جب اپنی ذات کا معاملہ تھا تو اس فخر انسانیتؐ نے اپنا وجود کتنا مٹا دیا اور اپناسر کتنا جھکا دیا تھا کہ سواری کے پالان کو چھونے لگا لیکن جب رب جلیل کی عظمت و وحدانیت اور غیرت کے اظہار کا وقت آیا تونبیوں کے اس سردار ؐ نے ایک ایک بت کے پاس جاکر پوری قوت سے اُس پر اپنی کمان ماری۔ یکے بعد دیگرے انکو گراتے چلے گئے ۔ آپؐ بڑے جلال سے یہ آیتتلاوت کر رہے تھے ۔
جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (سورۃ بنی اسرائیل:82)
کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور وہ ہے ہی مٹنے والا۔(بخاری)37
فتح پر خدائے واحد کی عظمت کے نعرے
چند لمحوں میں ضرب مصطفوی ؐسے تمام بت ریزہ ریزہ ہوگئے۔ عزیٰ ٹوٹ کر پارہ پارہ ہوگیا اور ہبل پاش پاش ہوکر بکھر گیا۔(ابن ہشام)38
تعمیر بیت اللہ کا یہ مقصد پورا ہوا کہ اس میں صرف اورصرف خدائے واحد کی پرستش کی جائے۔یہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرادوں اور تمنائوں کے پورا ہونے کا دن تھا۔یہ خدا کی بڑائی ظاہر کرنے اور عظمت قائم کرنے کا دن تھا۔اس روز رسولِ خداؐ کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی پہنچی کہ توحید کا بول بالا ہوا تھا۔اس کیفیت میں جب رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف لائے اور حجرا سود کا بوسہ لیا تو وفور جذبات سے آپؐ نے بآواز بلند اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔
صحابہ ؓ نے بھی جواب میں اللہ اکبر ، اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور اس زور سے لگائے کہ سر زمین مکہ نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ مگر نعرے تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے صحابہ ؓ کو خاموش کرایا۔(زرقانی)39
پس فتح مکہ کا دن بھی دراصل توحید کی عظمت اور قیام کا دن تھا ۔اس روز رسول اللہؐ نے اپنی فتح کا کوئی نقارہ نہیں بجایا ۔ہاں! اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کے شادیانے ضرور بجائے گئے۔ یہ کہتے ہوئے لَااِلٰہَ اِلَا اللّٰہُ وَحْدَہ‘ اَعَزَّ جُنْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہ‘ وَصَدَقَ وَعْدَہ‘ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ‘کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس نے اپنے لشکر کی عزت افزائی کی اوراپنے بندے کی مدد کی اور اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ تنہا اسی نے تمام لشکروں کو پسپا کر دیا۔ (بخاری40)یہ تھا اپنی زندگی کی عظیم فتح پر ہمارے آقا ومولیٰ کا نعرہ ٔتوحید۔
توحید پر گہرے ایمان کی وجہ سے رسول اللہؐ کو کبھی کسی کا خوف پیدا نہیں ہوا۔ غزوۂ حنین میں تیروں کی بوچھاڑ کے سامنے آپؐ خچر پرسوار مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اور بآوازِ بلند فرمارہے تھے۔ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں ۔جھوٹا نہیںہوں۔میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔(بخاری)41
آپؐ کا تن تنہا ایک لشکر کے تیروں کی بوچھاڑ کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنا جہاں توحید ِ کامل پر ایما ن کا نتیجہ تھا وہاں آپؐ کی صداقت کا محیرالعقول معجزہ بھی تھا ۔
یہاں آپؐ کی غیرت ِ توحید ایک اورر نگ میں ظاہر ہوئی۔ خدشہ تھا کہ آپؐ کو مافوق البشر مخلوق نہ خیال کرلیاجائے اس لئے اپنی صداقت کی گواہی کے ساتھ یہ وضاحت فرمادی کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور ایک انسان ہوں۔یہ رعب بھی خداداد ہے اور یہ حفاظت خدا تعالیٰ کی عطاکردہ۔
رسول اللہ ؐ کوقیام توحید اوراحکام الہٰی کی بڑی غیرت تھی۔طائف سے ثقیف قبیلہ کا وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔انہوں نے بعض احکام میں رخصت کی شرط پر اسلام قبول کرنے کی حامی بھری اور عرض کیا کہ نماز معاف اور زنا،شراب اور سود حلال کردیا جائے۔ رسول کریمؐ نے اس کی اجازت نہیں دی اور فرمایا’’وہ دین ہی کیا ہے جس میں نماز نہیں‘‘
اسی طرح اہل طائف نے اپنے بت’’لات‘‘ کے بارہ میں جسے وہ ’’ربّہ‘‘ یعنی دیوی کہتے تھے عرض کیا کہ تین سال تک اسے توڑا نہ جائے۔رسول اللہ ؐ کی غیرت توحید نے یہ مداہنت بھی قبول نہیں فرمائی۔اہل طائف نے عرض کیا کہ ایک سال تک ہی اسے نہ گرائیں۔رسول اللہؐ نے پھر بھی انکار کیا ۔انہوں نے کہا چلیں ایک ماہ تک اسے نہ گرانے کی اجازت دے دیں تاکہ لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں اوربے وقوف لوگ اور عورتیں اسے گرانے کی وجہ سے اسلام سے دور نہ ہوں، لیکن رسول اللہؐ نے اس کی بھی رخصت نہیں دی اور حضرت ابو سفیانؓ اورحضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو بھجواکر اس بت کو گروادیا۔(الحلبیہ)42
رسول کریمؐ کی توہر بات کی تان توحیدالہٰی اور عظمت باری پرجاکرٹوٹتی تھی۔آپؐ کی اونٹنی عضباء بہت تیز رفتار تھی جس سے آگے کوئی اور اونٹنی نہ نکل سکتی تھی۔ایک دفعہ ایک اعرابی نے اپنی اونٹنی اُس کے ساتھ دوڑائی اور آگے نکل گیا۔صحابہ کو بڑا رنج ہوا مگر رسول کریمؐ نے عجب طمانیت کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی کسی بھی چیز کو اونچا کرتا ہے تو لازم ہے کہ اسے نیچا بھی کرے کیونکہ سب سے اونچی خدا کی ذات ہے۔(ابودائود)43
نبی کریمؐ کی پشت پر گوشت کا ابھرا ہوا ایک ٹکڑا تھا۔ابورمثہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے نبی کریمؐ کو کہا کہ یہ جو آپؐ کی پشت میں اُبھارسا ہے ذرا مجھے دکھائیں کیونکہ میں طبیب آدمی ہوں۔اُس کا مطلب تھا کہ میں اس کا علاج کر کے ٹھیک کردوں گا۔نبی کریمؐ نے کس غیرت سے فرمایا کہ اصل طبیب تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے آپؐ ایک دوست اور ساتھی ہو۔ اس کا طبیب وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا۔(ابودائود)44
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ اللہ فرماتا ہے،کبریاء یعنی بڑائی میرا لبا س ہے،عظمت میرا اوڑھنا ہے جوکوئی ان دونوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے گا میں اسے آگ میں پھینکوں گا۔(ابودائود)45
نبی کریمؐ نے نجران کے عیسائی وفد کے سامنے توحید باری کا مضمون خوب بیان کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپؐ اپنے رب کے بارے میں ہمیں بتائیں وہ زَبرُ جد ہے؟ یا قوت ہے؟ سونا ہے یا چاندی؟رسول کریمؐ نے فرمایا میرا رب ایسی کسی مادی چیز میں سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ خود ان اشیاء کا خالق ہے۔ اس زمانہ میں سورۃ الاخلاص نازل ہوچکی تھی نبی کریمؐ نے انہیں قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔ پڑھ کر سنائی کہ خدا ایک ہے۔ انہوں نے کہا وہ بھی ایک ہے آپؐ بھی ایک ہیں۔ فرق کیا ہوا؟ رسول کریمؐ نے یہ آیت پڑھی’’ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ئٌ ‘‘ اس جیسی اور کوئی چیز نہیں نہ کوئی مثیل ہے نہ ثانی۔ نصاریٰ نجران نے کہا آپؐ ہمیں اس خدا کی کوئی اور صفات بتائیں۔
آپؐ نے سورۃ الاخلاص کی اگلی آیت پڑھی کہ اللہ بے نیاز ہے اور کسی کا محتا ج نہیں۔ انہوں نے کہا ’’صَمَدْ‘‘کیا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا مخلوق اپنی ضروریات کے لئے جس ہستی کا سہارا لے وہ ذاتصَمَدْ کہلاتی ہے۔ انہوں نے اللہ کی اور کوئی صفت رسول اللہؐ سے پوچھی۔ رسول اللہؐ نے پڑھا لَمْ یَلِدْ یعنی نہ اس نے کسی کو جنا جیسے مریم کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ وَلَمْ یُوْلَدْ اور نہ وہ جنا گیا جیسے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُواً اَحَد اور نہ کوئی مخلوق میں اس کی برابری کرنے والا ہے۔ (ترمذی)46
توحید کی یہی محبت آپؐ نے اپنے صحابہ میں بھی پیدا فرمائی۔ چنانچہ ایک انصاری صحابی کا ذکر ہے کہ وہ مسجد قبا میں نماز پڑھاتے تھے اور جہری قراء ت والی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد پہلے سورۃ الاخلاص قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھ کر پھر اس کے ساتھ کوئی اور سورت تلاوت کرتے تھے۔ نمازیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ سورت اخلاص ہی پر اکتفا کرلیا کریں اس کے ساتھ الگ سورۃ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے نماز پڑھوانی ہے تو میں ایسے ہی پڑھائوں گا ورنہ بیشک کسی اور کو امام بنالو۔ چونکہ وہ ان میں سے صاحب فضیلت تھے اس لئے انہوں نے امام تو نہ بدلا البتہ رسول اللہؐ کی خدمت میں ان کی شکایت کردی۔ آپ ؐنے اُس صحابی کو بلا کر ہر رکعت میں سورت اخلاص پڑھنے کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے کہا یہ سورت خدائے رحمان کی صفات پر مشتمل ہے۔ مجھے اس کی تلاوت بہت پیاری لگتی ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایااس سورت سے محبت تمہارے جنت میں داخلہ کا ذریعہ بن جائے گی۔ (ترمذی)47
بلاشبہ سورۃ الاخلاص میں توحید کامضمون نہایت اختصار اور کمال شان سے بیان ہوا ہے۔
رسول کریمؐ کو خداکے آخری کلام اور اس کے احکام کی بھی بہت غیرت تھی۔حضرت عمر بن الخطابؓ ایک دفعہ تورات کا ایک نسخہ اٹھالائے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے۔ رسول اللہؐ خاموش بیٹھے رہے۔ حضرت عمرؓ اس میں سے پڑھنے لگے تو رسول اللہؐ کے چہرے کا رنگ متغیرّ ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمرؓ کو اس طرف توجہ دلائی کہ آنحضورؐ یہ پسند نہیں فرمارہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے معذرت کی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ ؑتم میں ظاہر ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی اختیار کرتے تو سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتے اور اگر وہ خود بھی زندہ ہونے کی حالت میں میرا زمانۂ نبوت پالیتے تو ضرور میری پیروی کرتے۔(دارمی)48
فتح مکہ کے موقع پر ایک قریشی عورت کے چوری کرنے پر جب اس کا ہاتھ کاٹنے کی سزا کا فیصلہ ہوا اور لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین فرد اسامہ بن زید ؓسے معافی کی سفارش کروائی تو آپؐ جوش میں آکر فرمانے لگے ’’اے اسامہ کیا تم اللہ کے احکام میں سے ایک حکم کے بارہ میں سفارش کی جرأت کرتے ہو ؟‘‘(بخاری)49
احکام الہٰی کی تعمیل کی غیرت کا ایک اور واقعہ ابو سعید بن معلّٰی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے جواب نہیں دیا اور نماز پڑھتا رہا۔ نماز سے فارغ ہوکر عرض کیا یارسول اللہؐ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔آپؐ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جب وہ تم کو پکارے تاکہ تمہیں زندہ کرے۔(بخاری50)حضورؐ کا اشارہ سورۂ انفال آیت25کی طرف تھا۔
حضرت ابوبکر ؓ تہجد کی نماز میں بہت آہستہ آواز میں قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے تھے اور حضرت عمر ؓ ذرا اونچی آواز میں پڑھتے تھے۔رسول اللہؐ نے دونوں سے اس کی وجہ پوچھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں اپنے رب سے سرگوشی میں بات کرتا ہوں۔وہ میری حاجت کو جانتا ہی ہے۔حضرت عمر ؓ نے کہا میں شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوئے ہوئے کو جگاتا ہوں۔جب قرآن شریف کی یہ آیت اتری کہ نماز میں بہت اونچی تلاوت نہ کرو، نہ ہی بہت ہلکی آواز سے پڑھواور درمیانی راہ اختیار کرو۔(بنی اسرائیل: 111 ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ ذرا اونچی آواز میں پڑھا کریںاور حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ آپ ذرا ہلکی آواز میں پڑھا کریںتاکہ قرآنی حکم کی تعمیل ہو۔(سیوطی)51
نبی کریمؐکو احکام الہٰی کی پابندی کی غیرت کے بارہ میںحضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی ذات کے بارہ میں کبھی کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کسی حکم کو توڑا جاتا تو پھر آپؐ ضرور غیرت دکھاتے اور سزادیتے تھے۔(بخاری)52
رسول اللہؐ کی آخری بیماری میں کسی بیوی نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ(یعنی حضرت مریم ؑ) کے نام سے موسوم تھا۔آپؐ اپنی بیماری کی تکلیف دہ حالت میں بھی خاموش نہ رہ سکے۔جوش غیرتِ توحید میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ’’ براہو ان یہودیوں اور عیسائیوں کا جنہوں نے اپنے نبیوںاور بزرگوں کے مزاروں کو معابد بنالیا۔‘‘گویا بالفاظ دیگر اپنی وفات کو قریب جانتے ہوئے آپؐ بیویوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ دیکھو میرے بعد توحید پر قائم رہنا اور میری قبر پر سجدہ نہ ہونے دینا۔(بخاری)53
گویا یہ آپؐ کی توحید کے قیام کے لئے آخری کوشش بھی تھی اور خواہش بھی۔تبھی توآپؐ یہ دعا کیا کرتے تھے اللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْناً اے اللہ میری قبر کو بت پرستی کی جگہ نہ بنانا۔(احمد)54
پھردیکھوخدانے اپنے اس موحّدبندے کی غیرت توحید کی کیسے لاج رکھی کہ توحید پرستوں کے بادشاہ کا روضۂ مبارک ہرقسم کے شرک کی آلائش اوربت پرستی سے پاک ہے۔خدا کے ایک موحّد بندے کی توحید خالص کا نشان۔لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ۔
خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی
بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی
ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا رہی
کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی
ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلاَم
حوالہ جات
1
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 1 ص 58 مطبوعہ بیروت
2
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2 ص 26 تا29 مطبوعہ بیرت
3
طبقات الکبریٰ ابن سعد جلد1ص311مطبوعہ بیروت
4
بخاری باب بدء الوحی
5
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد1 ص 250,251 مکتبہ مصطفی البابی الحلبی
6
بخاری بنیان الکعبہ باب حدیث زید بن عمرو
7
المنقذمن الضلال للغزالی ص151پھئۃ الاوقاف پنجاب لاہور طبع اول1971
8
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح :3412
9
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح:3413
10
کنزالعمال حدیث نمبر4939
11
نسائی کتاب الصلوۃ باب افتتاح الصلوۃ
12
مسنداحمدجلد4ص126
13
مسنداحمدجلد4ص124
14
مسلم کتاب الزہدباب من الشرک فی عملہ غیراللہ
15
مستدرک حاکم جلد1ص4
16
مسنداحمد جلد5ص253
17
ترمذی کتاب الفرائض باب ماجاء فی میراث الجدّ
18
مسنداحمدجلد5ص456
19
مسنداحمدجلد4ص403مطبوعہ بیروت
20
الدّرالمنثورفی التفسیر الماثور للسیوطی جلد 6ص27مطبوعہ بیروت
21
مسند احمد جلد 3 ص 452مطبوعہ بیروت
22
مسند احمد جلد3ص406 مطبوعہ بیروت
23
مسلم کتاب الذکر باب التعوْذ من شرماعمل:4901
24
بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عندالکرب:5869
25
مسند احمدجلد4صفحہ411مطبوعہ بیروت
26
بخاری کتاب بد ء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ
27
بخاری کتاب الجہاد باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا:2599
28
بخاری کتاب الایمان باب فان تابو واقا موا الصلوۃ:24
29
بخاری کتاب الجہاد
30
بخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکۃ بدر اً
31
مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الہ الا اللہ :140
32
مسنداحمد بن حنبل جز6ص372:25845
33
مسنداحمد بن حنبل جزاول ص354 احیاء التراث العربی طبع جدیدہ بیروت لبنان
34
بخاری کتاب الادب باب من لم یر اکفار من قال متاولاًاوجاھلاً
35
مسلم کتاب الجہاد والسیر باب کراھۃ الاستعانہ فی الغزو بکافر
36
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد
37
بخاری کتاب المغازی باب فتح مکہ
38
السیرۃ النبویّہ لابن ہشام جز 4ص59مطبوعہ مصر
39
شرح مواھب اللدنیہ لزرقانی جلد ۲ صفحہ ۳۳۴مطبوعہ بیروت
40
بخاری کتاب الجہاد باب مایقول اذارجع من الغزو:2854
41
بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ و یوم حنین
42
السیرۃ الحلبیہ جلد3ص217بیروت
43
ابوداؤد کتاب الادب باب فی کراھیۃ الرفعۃ فی الامور
44
ابوداؤدکتاب الترجْل باب فی الخضاب
45
ابوداؤد کتاب اللباس باب ماجاء فی الکبر
46
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب سورۃ الاخلاص:3287
47
ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ماجاء فی سورۃ الاخلاص:2826
48
سنن دارمی مقدمہ باب مایتقی من تفسیر حدیث النبی ﷺ
49
بخاری کتاب الانبیاء باب حدیث الغار:3216
50
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفاتحۃ
51
الدرالمنثورزیر آیت سورۃ بنی اسرائیل جلد5ص350مطبوعہ بیروت
52
بخاری کتاب الادب باب یسرواو لا تعسروا:5661
53
بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ فی البیعۃ
54
مسند احمد جلد2ص246مطبوعہ بیروت
حق بندگی ادا کرنے والا…عبدکامل
صحرائے عرب کی تاریک اور پرسکوت رات میں ہُو کا عالم طاری تھا۔ہر طرف ایک سناّٹا تھا۔خانہ کعبہ کے پڑوسی اور وادی بطحا کے مکین رنگ رلیاں مناکر اور شراب کی محفلیں سجانے کے بعد خواب نوشیں میں مست پڑے سورہے تھے....عین اِس وقت مکہ سے چند میل دور جنگل کے ایک پہاڑی غار میں ایک معصوم اور عابد و زاہد عربی نوجوان عبادت میں مصروف تھا ۔وہ اپنے رب ِکریم کے آستانہ پر سجدہ ریز ہوکر گریہ وزاری کر رہا تھا اور نہایت سوز وگداز کے ساتھ اس کے حضور میں التجا کرتا تھا ’’اے ہادی!اس جاہل قوم کو ہدایت دے!‘‘ عہد شباب میں ہی اس سعید نوجوان کو دنیا سے بے رغبتی ہوچکی تھی اوردنیا کی رعنائیاں اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں ۔
خلوت میں یادالہٰی
اس سعادت مند نوجوان کو عبادت الہٰی سے انتہائی لگائو تھا۔تنہائی کی دعائوں میںوہ ایک خاص لطف اٹھاتا ۔دنیا سے الگ تھلگ ہوکر خشوع وخضوع کے ساتھ خدا کو یاد کرنے میں وہ ایک خاص سرورو لذت محسوس کرتا۔ وہ تن تنہا کچھ زادِ راہ ساتھ لے کر مکہ سے چند میل دور حرا نامی پہاڑی غار میں جاکر،معتکف ہوکر عبادت کیا کرتا ۔مہینوں وہ مکہ کی طرب خیز زندگی سے کنارہ کش رہتا۔پھر جب زادِ راہ ختم ہوجاتی تو واپس آکر اور زاد ساتھ لے لیتا اور تنہائی میں جاکر مراقبہ کرتا۔ اللہ کو یاد کرتا۔(بخاری1)یہ پاک طینت اور نیک خصلت انسان درگاہِ الہٰی میں بار پاگیا۔
حرا سے اُتر کر سوئے قوم آنے والا یہ فخر عرب نوجوان ہادیٔ برحق،سیدالمعصومین حضرت مصطفیٰ ﷺ کا وجود باجود ہے جسے رب العزت نے خلعت نبوت سے سرفراز فرمایا۔
عین عنفوان شباب میں جبکہ آرزوئیں اور تمنائیں جو بن پر ہوتی ہیں اور خواہشات کے ہجوم کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔محمد ﷺ دنیاسے بے رغبت ہوکر آبادی مکہ سے کوسوں دور ایک ویران پہاڑی غار حرا میں چلے جاتے ۔ وہاں تنہائی میں کائنات پرغورو فکر کرتے ۔اللہ کو یاد کرتے۔
شہر مکہ کے طرب خیزاور پُر رونق ماحول کو چھوڑ کر ایک نوجوان کی اللہ کی یاد میں ایسی محویت، استغراق اور خلوت پسندی ایک غیرمعمولی واقعہ تھاجسے مکہ والوں اور آپؐ کے خاندان کے لوگوں نے تعجب اور حیرت کی نظر سے دیکھا۔ وہ سوچتے تھے کہ یہ عجیب انسان ہے جو دنیا کی دلچسپیوں سے بیزارہے۔ عالمِ جوانی میں بھی بیوی بچوں اورگھریلو زندگی پر ویرانوں کو ترجیح دیتا ہے۔
عین عالم جوانی میں حضرت محمد ؐ دین ابراہیمی اور عربوں کے دستور کے مطابق سال میں ایک ماہ اعتکاف فرماتے تھے۔عمر کے چالیسویں سال میں آپؐ رمضان کے مہینہ میں غار حرا میں اعتکاف فرمارہے تھے کہ پہلی وحی ہوئی۔(ابن ہشام)2
نماز کی عبادت
جبریل ؑ نے ابتدائی وحی کے بعد نبی کریم ﷺ کو وضو کر کے دکھایا اور اس کا طریق سکھاکر آپؐ کو نماز پڑھائی۔آنحضورؐ نے حضرت خدیجہ ؓکو وضو کا طریق سکھاکر نماز پڑھائی جس طرح جبریل ؑ نے آپؐ کو سکھایا تھا۔(ابن ہشام)3
الغرض مکی دور کے آغاز میں ہی حضرت جبریل ؑنے نبی کریم ﷺ کو پانچ نمازوں کی امامت کرواکے نماز کا طریق اور اوقات سمجھادیئے تھے۔(ترمذی)4
رسول کریمؐ کو منصب نبوت عطا ہوا تو عبادت کی ذمہ داری اور بڑھ گئی۔ارشاد ہوا۔ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ o وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ (سورۃالانشراح:8,9)
کہ جب تو دن بھر کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو تو رات کو اپنے رب کے حضور کھڑا ہوجا اور اس کی محبت سے تسکین دل پایا کر۔
حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے مطابق آغاز میں نماز دو دو رکعت ہوتی تھی۔مدینہ ہجرت کے بعد چار رکعت ہوگئی۔(بخاری)5
فرضیت نماز کے روزاول سے لے کر تا دم واپسیں آپ نے اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّلیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجَرِ(سورۃ بنی اسرائیل:79) میں پنج وقت نمازوں کی ادائیگی کے حکم کی تعمیل کاحق ایساا دا کر کے دکھایا کہ خود خدا نے گواہی دی کہ آپؐ کی نمازیں، عبادتیں اور مرنا اور جینا محض اللہ کی خاطر ہوچکا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔(سورۃالاعراف:163)
رسول اللہؐ پرآغازرسالت میں ابھی حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ ہی ایمان لائے تھے کہ آپؐنے ان کے ساتھ نماز باجماعت کی ادائیگی کا سلسلہ شروع فرمادیا۔پھر عمر بھر سفر و حضر، بیماری و صحت ، امن وجنگ غرض کہ ہر حالتِ عسرو یسر میں اس فریضہ کی بجا آوری میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہونے دی۔ابتدا ً آپؐکفار کے فتنہ کے اندیشہ سے چھپ کربھی نماز ادا کرتے رہے۔ کبھی گھر میں پڑھ لیتے تو کبھی کسی پہاڑی گھاٹی میں ۔البتہ چاشت کی نمازعلی الاعلان کعبہ میں ادا کرتے ۔(بخاری)6
دعویٰ نبوت کے بعدکفار مکہ نبی کریمؐ کو عبادت سے روکتے اورتکالیف دیتے۔ ظالموں نے ایک دن حالت سجدہ میں اونٹنی کی غلیظ نجاست سے بھری ہوئی بھاری بھر کم بچہ دانی رسول اللہؐ کی پشت پر ڈال دی۔(بخاری)7
ایک بدبخت نے ایک دن حضور ؐ کے گلے میں چادر ڈال کر مروڑنا شروع کیااور گردن دبوچنے لگا۔ دم گھٹنے کو تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اسے دھکا دیکر ہٹایا اور کہا’’ کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرنا چاہتے ہوکہ وہ کہتا ہے اللہ میرا رب ہے۔‘‘ مگر آپؐ عبادت سے کب باز آسکتے تھے۔ (بخاری)8
اہتمام نماز
نماز تو رسول کریمؐ کاروزانہ و شبانہ کا وہ معمول تھا جس میں آپؐ کی روح کی غذا تھی۔ ہرچند کہ امّت کی سہولت کی خاطررسول اللہؐ نے یہ رخصت دی کہ کھانا چنا جا چکا ہوتو کھانے سے فارغ ہوکرپھر نماز ادا کرلو۔مگر اپنا یہ حال تھا کھانا کھاتے ہوئے بلالؓ کی آواز سنی کہ نماز کا وقت ہوگیا تو صرف اتنا کہا’’ اسے کیا ہوا اللہ اُسکا بھلا کرے۔‘‘(یعنی کھانا تو کھا لینے دیا ہوتا) مگر اگلے ہی لمحے وہ چھری جس سے بھنا ہوا گوشت کاٹ رہے تھے وہیں پھینک دی اور سیدھے نماز کیلئے تشریف لے گئے۔(ابودائود)9
حضرت عائشہ ؓ آپؐ کا معمول یہ بیان فرماتی تھیں کہ نماز کیلئے بلالؓ کی اطلاعی آواز پر آپؐ بلا توقّف مستعد ہوکر اٹھتے اور نمازکے لئے تشریف لے جاتے۔(بخاری)10
بیماری میں بھی نماز ضائع نہ ہونے دیتے۔ایک دفعہ گھوڑے سے گرجانے کے باعث جسم کا دایاں پہلو شدیدزخمی ہوگیا۔ کھڑے ہوکر نماز ادا نہ فرماسکتے تھے۔ بیٹھ کرنمازپڑھائی مگر باجماعت نمازمیںناغہ پسندنہ فرمایا۔(بخاری)11
سفر میں بھی نماز کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔روایات حدیث کے مطابق زندگی بھرمیں صرف دو مواقع ایسے آئے کہ جن میں بعض صحابہ کورسول کریمؐ کی غیرموجودگی میں نماز پڑھانے کی نوبت آئی۔
ایک موقعہ وہ تھا جب آنحضرتؐ بنی عمرو بن عوف میں مصالحت کے لئے تشریف لے گئے۔اور جیسا کہ ہدایت فرماگئے تھے تاخیر کی صورت میں کچھ انتظار کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے بلالؓ کی درخواست پر نماز پڑھانی شرو ع کی۔اتنے میں آپؐ تشریف لے آئے۔حضرت ابوبکرؓ پیچھے ہٹ گئے اور آپؐ نے خود امامت کروائی۔(ابوداؤد)12
دوسرا موقع وہ ہے جب ایک سفر میں آپؐ قافلے سے پیچھے رہ گئے تو حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓنے نماز فجر قضا ہونے کے اندیشہ سے شروع کروائی اور آپؐ پیچھے سے آکر شامل ہوگئے۔آپؐ نے بروقت نماز ادا کرنے پر صحابہ ؓ سے اظہار خوشنودی فرمایا۔(مسلم)13
نبی کریم ؐ نے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پرمدینہ سے یہود بنی قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہوتے ہوئے صحابہ کو یہ ہدف دیا کہ عصر کی نماز بنو قریظہ جاکر ادا کی جائے۔(بخاری)14
یوں آپؐ نے حالت سفر میں بھی نماز کی حفاظت کا پیشگی انتظام فرمادیا۔
رسول کریمؐسفر میں جدھر سواری کا رخ ہوتا اسی طرف منہ کر کے نفل نماز سواری پر ادا فرمالیتے تھے۔(ابوداؤد15)تاہم فرض نمازیں ہمیشہ قافلہ روک کر باجماعت قصر اور جمع کر کے ادا کرتے۔ (بخاری16) بارش کی صورت میں بعض دفعہ سواری کے اوپر بھی فرض نماز ادا کی ہے۔ (ترمذی)17
ایک سفر میں رات کے آخری حصہ میں پڑائو کرتے ہوئے بلالؓ کی ڈیوٹی فجر کی نماز میں جگانے پر لگائی گئی مگر ان پر نیند غالب آگئی۔دن چڑھے سب کی آنکھ کھلی۔ فجر کی نماز میں تاخیر ہوچکی تھی۔ پریشانی کے عالم میں رسول اللہؐ نے اس جگہ مزید رکنا بھی پسند نہیں فرمایا جہاں نماز ضائع ہوئی اور آگے جاکر نماز ادا کی۔(بخاری)18
رسول کریمؐجنگ کے ہنگامی حالات میں بھی نماز کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے۔غزوہ بدرسے پہلے اپنی جھونپڑی میں نماز کی حالت میں گریہ و زاری کررہے تھے اورتین سو تیرہ عبادت گزاروں کا واسطہ دے کر دراصل آپؐ نے دعائوں کے ذریعہ اس کوٹھری میں ہی یہ جنگ جیت لی تھی۔
غزوۂ احد کی شام جب لوہے کے خود کی کڑیاںدائیں رخسار میں ٹوٹ جانے سے بہت سا خون بہہ چکا تھا۔آپؐ زخموں سے نڈھال تھے اور ستر صحابہ کی شہادت کا زخم اس سے کہیں بڑھ کر اعصاب شکن تھا۔اس روز بھی آپ بلالؓ کی نداء پر نماز کیلئے اسی طرح تشریف لائے جس طرح عام دنوںمیں تشریف لاتے تھے اور دنیا نے قیام عبادت کا ایسا حیرت انگیز نظارہ دیکھا جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔(واقدی)19
غزوۂ احزاب میں دشمن کے مسلسل حملہ کے باعث ظہر و عصر کی نمازیں وقت پر ادا نہ ہو سکیں یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔وہی رسول خدا جو طائف میں دشمن کے ہاتھوں سے لہولہان ہوکر بھی ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔نماز کے ضائع ہونے پر بے قرار ہوکر فرماتے تھے۔خدا ان کو غارت کرے انہوں نے ہمیں نماز سے روک دیا۔ پھرحضورؐ نے اصحاب کو اکٹھا کیا اور نمازیں ادا کروائیں۔ (بخاری)20
نماز باجماعت کا اہتمام اس قدر تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر شہر کے ایک جانب مسجد الحرام سے کافی فاصلے پرآپؐ کا قیام تھا۔مگر باقاعدہ تمام نماز وں کی ادائیگی کے لئے حرم تشریف لاتے رہے۔
جنگوں کے دوران خطرے اور خوف کی حالت میں بھی آپؐ نے نماز نہیں چھوڑی بلکہ اس حال میں صحابہ کواس طرح نماز پڑھائی کہ ایک گروہ دشمن کے سامنے رہا اور دوسرے نے آپؐ کے ساتھ نصف نماز ادا کی۔ پھر پہلے گروہ نے آکر نماز پڑھی۔ یوں آپؐ نے سبق دیا کہ موت کے بڑے سے بڑے خطرے میں بھی نماز ترک نہیںکی جا سکتی یہ رخصت دے دی کہ سواری پر یا پیدل یا چلتے ہوئے بھی اشارے سے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔(بخاری)21
آخری بیماری میں رسول کریمؐتپ محرقہ کے باعث شدید بخار میں مبتلا تھے مگر فکرتھی تو نماز کی۔ گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے ،کیا نماز کا وقت ہوگیا؟بتایا گیا کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں۔بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایاکہ میرے اُوپر پانی کے مشکیز ے ڈالو۔ تعمیل ارشادہوئی مگر پھر غشی طاری ہوگئی۔ ہوش آیا تو پھر پوچھا کہ کیا نماز ہوگئی؟ جب پتہ چلا کہ صحابہ انتظار میں ہیں تو فرمایا’’ مجھ پر پانی ڈالو‘‘ جس کی تعمیل کی گئی۔غسل سے بخار کچھ کم ہوا تو تیسری مرتبہ نماز پر جانے لگے مگر نقاہت کے باعث نیم غشی کی کیفیت طاری ہوگئی اورآپ مسجد تشریف نہ لے جاسکے۔(بخاری)22
بخار میں پھر جب ذرا افاقہ ہوا تو اسی بیماری اور نقاہت کے عالم میں دو صحابہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر، اُنکا سہارا لے کر رسول اللہؐنماز پڑھنے مسجد گئے۔ حالت یہ تھی کہ کمزوری سے پائوں زمین پر گھسٹتے جارہے تھے۔حضر ت ابوبکرؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ آپؐ نے اُن کے بائیں پہلو میں امام کی جگہ بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ اوریوں آخر دم تک خدا کی عبادت کا حق ادا کر کے دکھادیا۔(بخاری)23
دنیا میں آپؐ کی آخری خوشی بھی نماز کی خوشی تھی جب آپؐ نے سوموار کے دن ( جس روز دنیا سے کوچ فرمایا) فجر کی نماز کے وقت اپنے حجرے کا پردہ اٹھاکر دیکھا تو صحابہ محو عبادت تھے۔ اپنے غلاموں کو نماز میں دیکھ کر آپؐ کا دل سرور سے بھر گیا۔خوشی سے چہرے پر تبسم کھیلنے لگا۔(بخاری)24
آپؐ نے سچ ہی تو فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔ایسے اہتمام سے ادا کی جانیوالی نمازیں محبت الہٰی اور خشوع وخضوع سے کیسی بھری ہوئی ہوتی ہونگی(اس کا تفصیلی نقشہ رسول اللہ ؐ کی خشیٔت کے زیر عنوان بیان ہو گا)۔
نماز تہجد
نبی کریم ﷺ کی فرض نمازیں نسبتاً مختصر ہوتی تھیں تاکہ کمزور، بیمار، بچے، بوڑھے اور مسافر کیلئے بوجھ نہ ہو لیکن تنہائی میں آپؐ کی نفل نمازوں کی شان توبہت نرالی تھی۔ فرماتے تھے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ بدستور اللہ کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا اس کے ہاتھ پائوں اور آنکھیں ہوجاتا ہے۔بلاشبہ محبت الہٰی اورفنافی اللہ کا یہ مقام آپؐ نے حاصل کر کے ہمیں خوبصورت نمونہ دیا۔
تہجد کی نماز رسول اللہؐ کی روح کی غذا تھی۔فرماتے تھے کہ اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے۔ (طبرانی)25
ابتدا میں آپؐ رات کے وقت تیرہ یا گیارہ رکعتیں (بمعہ وتر)ادا فرماتے اور آخری عمر میں کمزوری کے باعث نو رکعتیں پڑھتے رہے۔ اگر کبھی رات کو اتفاقاً آنکھ نہ کھلتی تو دن کے وقت بارہ رکعتیں ادا کر کے اس کی تلافی فرماتے۔حضرت اُبی ّ بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر چکی ہوتی تو آپؐ بآواز بلند فرماتے ’’لوگو!خدا کو یاد کرو زلزلہ قیامت آنے والاہے۔اس کے پیچھے آنے والی گھڑی سر پر ہے ۔موت اپنے سامان کے ساتھ آپہنچی ہے۔موت اپنے سامان کے ساتھ آپہنچی ہے۔‘‘(ترمذی)26
رات کے وقت آپؐ کی نماز بہت لمبی ہوتی۔نسبتاًلمبی سورتیں تلاوت کرنا پسند فرماتے۔ حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ؓکی نماز(تہجد )کی کیفیت پوچھی گئی۔ آپ ؓ نے فرمایا۔ حضورؐ رمضان یا اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔مگر وہ اتنی لمبی پیاری اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو! ’’یعنی میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپؐ کی اس خوبصورت عبا دت کا نقشہ کھینچ سکوں۔ (بخاری)27
نوجوان صحابہؓ کو حضور ؐ کی عبادت دیکھنے کا بہت شوق تھا۔رسول اللہ ؐ کے عم زاد اور حضرت میمونہ ؓ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں۔ ’’میں ایک رات رسول اللہ ؐ کے گھر ٹھہرا۔ نصف رات یا اس سے کچھ پہلے آپؐ بیدار ہوئے۔چہرے سے نیند زائل کی۔آلِ عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر گھر میں لٹکے ہوئے مشکیزہ سے نہایت عمدہ طریق پر وضوء کیا اور نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔میں جاکر بائیں پہلومیں کھڑا ہوگیا۔آپؐ نے مجھے کان سے پکڑ کر دائیں طرف کردیا۔آپؐ نے تیرہ رکعتیں ادا فرمائیں۔‘‘ (بخاری)28
نبی کریمؐ نے اپنے اس عمل سے ایک نوجوان کی عملی تربیت بھی فرمادی کہ اکیلا مقتدی امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کی توفیق ملی۔آپؐ نے پہلے سورۃ بقرہ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی۔پھر قیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔پھر قیام کے برابر سجدہ کیا۔سجدہ میں بھی یہی تسبیح ،دعا پڑھتے رہے۔پھر کھڑے ہوکر آل عمران پڑھی۔پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے۔(ابوداؤد)29
حضرت حذیفہ بن یمانؓ (رسول اللہؐ کے راز دان صحابی) فرماتے ہیں کہ انہوں نے رمضان میں ایک رات رسول اللہ ؐ کے ساتھ نماز ادا کی۔جب نماز شروع کی تو آپؐ نے کہا
’’اَللّٰہُ اَکْبَرْذُ وْالمَلَکُوْتِ وَالْجَبْرُوْتِ وَالْکِبْرِیَائِ وَالعَظْمَۃِ۔‘‘یعنی اللہ بڑا ہے جو اقتدار اور سطوت کبریائی اور عظمت والا ہے۔پھرآپؐ نے سورۃ بقرہ (مکمل )پڑھی ،پھر رکوع فرمایا،جو قیام کے برابر تھا،پھر رکوع کے برابر وقت کھڑے ہوئے،پھر سجدہ کیا جو قیام کے برابر تھا۔پھر دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْلِیْ۔رَبِّ اغْفِرْلِیْمیرے رب مجھے بخش دے کہتے ہوئے اتنی دیر بیٹھے جتنی دیر سجدہ کیا تھا۔دوسری رکعتوں میں آپؐنے آل عمران، نسائ، مائدہ، انعام وغیرہ طویل سورتیں تلاوت فرمائیں۔ (ابوداؤد)30
ام المٔومنین حضرت سودہؓ نہایت سادہ اور نیک مزاج تھیں،ایک رات انہوں نے بھی اپنی باری میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کا ارادہ کیا اور حضورؐ کے ساتھ جاکر نماز میں شامل ہوئیں،نامعلوم کتنی نماز ساتھ ادا کر پائیں۔مگراپنی سادگی میں دن کو رسول کریم ؐ کے سامنے اس لمبی نماز پر جو تبصرہ کیا اس سے حضورؐ بہت محظوظ ہوئے۔کہنے لگیں ’’یا رسول اللہ ! رات آپؐ نے اتنا لمبا رکوع کروایا کہ مجھے تو لگتا تھا جھکے جھکے کہیں میری نکسیر ہی نہ پھوٹ پڑے۔‘‘ حضور ؐ (جن کی ہر رات کی نماز ہی ایسی لمبی ہوتی تھی) یہ تبصرہ سن کر خوب مسکرائے۔(ابن حجر)31
بسا اوقات آپؐ ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی۔آپؐ اتنی دیر (نمازمیں) کھڑے رہے کہ میں نے ایک بُری بات کا ارادہ کرلیا۔پوچھا گیا کہ کیا ارادہ تھا؟ فرمایا’’میں نے سوچا کہ رسو ل اللہ ؐ کو چھوڑ کر بیٹھ جائوں۔‘‘ (بخاری)32
حضرت ابو ذرؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ایک رات نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ساری رات ایک ہی آیت قیام،رکوع اور سجود میں پڑھتے رہے۔یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ابوذرؓ سے پوچھا گیاکہ وہ کون سی آیت تھی۔ فرمایا’’یہ آیت:اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (المائدۃ:199)
خدایا! اگر تو انہیں عذاب دینا چاہے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخشنا چاہے تو تو بہت غالب اور بڑی حکمتوں والا خدا ہے۔(نسائی)33
سبحان اللہ! خدا اور اس کے رسول ؐ کے دشمن آرام کی نیند سورہے ہیں اور خدا کا پیارا رسول ؐ بے قرار ہوکر گڑ گڑا کر بارگاہ ایزدی میں ان کی مغفرت کاملتجی ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آخری عمر میں جب حضو رؐکے بدن میں کچھ موٹاپے کے آثار ظاہر ہوئے۔تو بیٹھ کر تہجد ادا کرتے اور اس میں لمبی تلاوت فرماتے۔ جب سورت کی آخری تیس یا چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہوکر تلاوت کرتے پھر سجدے میں جاتے۔(بخاری)34
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں۔آپؐ کچھ دیر سوتے پھر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے پھر سوجاتے پھر اُٹھ بیٹھتے اور نماز ادا کرتے۔غرض صبح تک یہی حالت جاری رہتی۔ (بخاری)35
حمدباری
یہ نمازیں بھی یاد الہٰی اور اللہ کی حمد سے خوب لبریز ہوتی تھیں اور اس پہلو سے اللہ کی حمد کرنے میں آپ ؐکی ایک اور سبقت کی شان بھی کھل کر سامنے آتی ہے،جیسا کہ آپؐ کا نام ’’احمد‘‘ بھی تھا واقعی آپؐ اسم بامسمّٰی تھے۔ اللہ کی حمد و ستائش روئے زمین پر اس شان سے کب ہوئی ہوگی جو آپؐ نے کردکھائی۔
آپؐ اپنی نفل نماز کا آغاز تسبیح و حمد سے کرتے اور اس کے لئے ایسے الفاظ کا انتخاب فرماتے کہ جن کو سوچ کر آج بھی روح وجد میں آجاتی ہے۔تسبیح وتحمید کے یہ نغمے اور ترانے جو کبھی حرا کی تنہائیوں میں الاپے اور کبھی مکہ اور مدینہ کی خلوتوں میں آپؐ نے اپنے محبوب حقیقی سے سوز و گداز میں ڈوبی کیا کیا سرگوشیاں کیں۔یہ تواحادیث کا ایک طویل باب ہیں۔آپؐ نماز تہجد کاآغاز ہی’’ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ‘‘ سے کرتے کہ سب تعریف تیرے لئے ہے (بخاری)36
پھر رکوع سے کھڑے ہوتے تو عرض کرتے ’’اے اللہ تیری اتنی تعریفیں کہ جن سے آسمان بھرجائے…اور اتنی تعریفیں کہ زمین بھی ان سے بھر جائے…اور اتنی حمد کہ آسمان و زمین کے بعد جو توُ چاہے وہ بھی بھر جائے…اے تعریف اور بزرگی کے لائق۔(مسلم37) کوئی ہے جو اس ایک حمد سے ہی بڑھ کر کوئی حمد پیش کر سکے؟
نماز میں خشوع
کبھی گھر کے لوگ سوجاتے تو آپؐ چپ چاپ بستر سے اٹھتے اور دعا و مناجات الہٰی میں مصروف ہوجاتے ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات میری آنکھ کھلی تو آپؐ کو بستر پر نہ پایا ۔میںسمجھی کہ آپؐ کسی اور بیوی کے حجرے میں تشریف لے گئے ہیں ۔اندھیرے میں ادھر ادھر ٹٹولا تو دیکھا کہ پیشانی مبارک خاک پر ہے اور آپؐ سربسجود مصروفِ دعا ہیں۔سُبْحَانَکَ وَ بِحَمْدِکَ لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ۔اے اللہ!تو پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ فرماتی ہیں ’’یہ دیکھ کر مجھے اپنے شبہ پر ندامت ہوئی اور دل میں کہا۔سبحان اللہ! میں کس خیال میںہوں اور خدا کا رسول ؐ کس عالم میں ہے۔‘‘(نسائی)38
رات کے وقت جب سارا عالم محو خواب ہوتا لوگ میٹھی نیند سورہے ہوتے۔ آپؐ چپکے سے بستر چھوڑ کربعض دفعہ سنسان قبرستان میں چلے جاتے اورہاتھ اُٹھاکر دعا میں مصروف ہوجاتے۔ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ تجسّس کیلئے پیچھے گئیں تو آپؐ جنت البقیع میں کھڑے دعا مانگ رہے تھے۔ اپنے رب سے محوراز و نیاز تھے۔حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں سوچا کہ خدا کا رسول تم پر ظلم کرے گا۔(یعنی تمہاری باری میں کہیں اورکیسے جاسکتا تھا )پھرفرمایا مجھے جبریل ؑ ؑنے آکر تحریک کی کہ اہل بقیع کی بخشش کی دعا کروں اور میں نے خیال کیا تم سوگئی ہو اس لئے جگانا نامناسب سمجھا۔(نسائی)39
حضرت عائشہ ؓ کی ایک اور روایت ہے کہ ایک رات میری باری میں باہر تشریف لے گئے ۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کپڑے کی طرح زمین پر پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں سَجَدَلَکَ سَوَادِیْ وَ خِیَالِیْ وَ آمَنَ لَکَ فُؤَادِیْ رَبِّ ھٰذِہٖ یَدَایَ وَمَا جَنَیْتُ بِھَا عَلٰی نَفْسِیْ یَا عَظِیمًا یُرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِالذَّنْبَ الْعَظِیْم۔(ھیثمی)40
(اے اللہ)تیرے لئے میرے جسم و جاں سجدے میں ہیں۔میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے۔اے میرے رب! یہ میرے دونوںہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے۔ اے عظیم! جس سے ہر عظیم بات کی اُمیدکی جاتی ہے۔عظیم گناہوں کو تو بخش دے۔ پھر فرمایا’’ اے عائشہ! جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کیلئے کہا ہے تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو۔جو شخص یہ کلمات پڑھے سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے۔‘‘
عبادت سے محبت
رسول کریمؐ کواپنے رب کی عبادت ہر دوسری چیز سے زیادہ عزیز تھی۔ اپنی عزیز ترین بیوی حضرت عائشہؓ کے ہاں نویں دن باری آتی تھی۔ایک دفعہ موسم سرما کی سرد رات کو ان کے لحاف میں داخل ہوجانے کے بعد ان سے فرماتے ہیں کہ عائشہ! اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں وہ بخوشی اجازت دیتی ہیں اور آپؐ ساری رات عبادت میں روتے روتے سجدہ گاہ تر کردیتے ہیں۔(سیوطی)41
نماز میںرسول کریمؐ کی خشوع و خضوع کا یہ عالم ہوتا تھا کہ روتے ہوئے سینے سے ہنڈیا اُبلنے کی طرح آواز آتی تھی۔(احمد)42
راتوں کی عبادت کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے بجا طور پر آپؐ کی یہ تعریف کی کہ
یَبِیْتُ یُجَافِیْ جَنْبَہ‘ عَنْ فِرَاشِہٖ
اِذَا سْتَثْقَلَتْ بِالْمُشَرِکِیْنَ المَضَاجِع‘
کہ آپؐ اس وقت بستر سے الگ ہوکر رات گزار دیتے ہیںجب مشرکوں پر بستر کو چھوڑنا نیند کی وجہ سے بہت بوجھل ہوتا ہے۔(بخاری)43
رمضان المبارک میں عبادت کا اہتمام
عبادات اور دعائیںتوآپؐ کا عام معمول تھا۔رمضان کے مہینہ میں آپؐ کی عبادات میں بہت اضافہ ہوجاتا ۔خصوصاً رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف میں توبہت زیادہ عبادت کرتے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ ’’جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپؐ کمر ہمت کس لیتے ۔ بیدار رہ کر راتوں کو زندہ کرتے ،خود بھی عبادت کرتے ،اہل بیت کو بھی جگاتے۔اس آخری عشرہ میں آپ ؐاعتکاف بھی فرماتے۔‘‘(بخاری)44
آنحضورؐ سارا وقت خدا کے گھر میں بیٹھ کر یادالہٰی اور عبادت میں مصروف رہتے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ؐ کچھ بیمار تھے۔صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ ! آج کچھ بیماری کا اثر آپؐ پر نمایاں ہے۔فرمانے لگے ’’اس کمزوری‘‘ کے باوجود آج رات میں نے طویل سورتیں نماز تہجد میں پڑھی ہیں۔(ابن الجوزی)45
صحابہ کرام رسول اللہ ؐ کی کثرت عبادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؐ اس قدر لمبی نمازیں پڑھتے اور اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپؐ کے پائوں سوج جاتے۔آپ ؐ سے عرض کی گئی کہ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ آپؐ کی بخشش کا اعلان فرماکر آپؐ کو معصوم و بے گناہ قرار دے چکا ہے تو آپؐ نے فرمایا اے عائشہؓ! کیا میں (اس نعمت پر) عبادت گزار اور شکرگزار انسان نہ بنوں؟(بخاری)46
عبادت الہٰی کی خاطر آرام طلبی ہر گز پسند نہ تھی۔ ایک رات حضرت حفصہ ؓ نے آپؐ کے بستر کی چارتہیں کردیں ۔صبح آپؐ نے فرمایا’’ رات تم نے کیا بچھایا تھا۔اسے اکہرا کردو اس نے مجھے نماز سے روک دیا ہے۔‘‘(ترمذی)47
قرآن کی تلاوت اور ذکرالہٰی بھی ایک عبادت ہے۔نبی کریمؐ کو تلاوت کلام پاک سے بھی خاص شغف تھا۔روزانہ سورتوں کی مقررہ تعداد عشاء کے وقت تلاوت فرماتے ،پچھلی رات بیدار ہوتے تو کلام الہٰی زبان پر جاری ہوتا۔(عموماً آلِ عمران کا آخری رکوع تلاوت فرمایا کرتے) رات کے وقت نماز میں نہایت وجداور ذوق و شوق سے ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ’’کبھی پوری رات آپ قیام فرماتے ۔سورہ بقرہ،آل عمران اور سورہ نساء تلاوت کرتے۔ جب کوئی عذاب کی آیت آتی تو خدا سے پناہ طلب کرتے اور جب کوئی رحمت کی آیت آتی تو اس کے لئے دعا کرتے۔‘‘(نسائی)48
مزیدتفصیل ملاحظہ ہوزیرعنوان قرآن کریم سے عشق اورحمدوشکروذکرالہٰی۔
روزہ کی عبادت
روزے رکھنا سنّت انبیاء ہے۔ نبی کریمؐ بھی روزہ کی عبادت کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ نبوت سے قبل عربوں کے دستور کے مطابق دسویں محرم کاروزہ رکھتے تھے۔ نبوت کے بعد بھی مکہ میں آپؐ کئی مہینوں تک یہ روزہ رکھتے رہے۔مدینہ آکربھی روزہ رکھا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔رمضان کے علاوہ مدینہ میں آپؐ شعبان کا اکثر مہینہ روزے رکھتے تھے۔(بخاری49)سال کے باقی مہینوں میں یہ کیفیت رہتی کہ روزہ رکھنے پر آتے تو معلوم ہوتا کہ آپ ؐکبھی روزہ نہ چھوڑیں گے۔پھر روزے رکھنے چھوڑ دیتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ پھر نہیں رکھیں گے۔ (بخاری)50
ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ ،چودہ ، پندرہ تاریخ کا روزہ بھی نہیں چھوڑتے تھے۔(نسائی)51
مہینہ کے نصف اول میں اکثر روزے رکھتے اور مہینہ میں تین دن معمولاً روزہ رکھتے۔بالعموم مہینہ کے پہلے سوموار اور اگلے دونوں جمعرات کے دن۔(مسلم)52
آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ سوموار اور جمعرات کو اعمال (خدا کے حضور) پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے عمل اس حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں۔(ترمذی)53
اس کے علاوہ آپؐ نویں ذوالحجہ کا روزہ بھی رکھتے تھے۔(مسلم)54
عام حالات میں آپؐ کبھی گھر تشریف لاتے پوچھتے کچھ کھانے کو ہے۔جواب ملتا کچھ نہیں۔ فرماتے تو میں آج روزہ رکھ لیتا ہوں ۔(ترمذی)55
کبھی کبھی ’’صوم و صال‘‘ بھی رکھتے یعنی متواتر کئی دن تک روزے، درمیان میں افطار نہ کرتے تھے لیکن صحابہ ؓ کو آپؐ نے اس سے روکا اور فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کھلا پلا دیتا ہے۔(بخاری)56
رمضان کی ایک اور اہم عبادت اعتکاف ہے۔ دعویٰ نبوت سے قبل بھی رسول کریمؐ کو تنہائی میں جاکر اللہ کو یاد کرنے کا شوق تھا۔ چنانچہ غارحرا میں جاکر اعتکاف فرماتے بعد کے زمانے میں رمضان کی فرضیت کے بعدپہلے درمیانی عشرہ اور آخری عشرہ تک اعتکاف فرماتے رہے۔ (بخاری57) جس میں آپؐ غیرمعمولی عبادت کی توفیق پاتے تھے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آخری عشرہ میں نبی کریم ؐ اپنی کمر ہمت کس لیتے تھے۔اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور عبادت الہٰی میں گزارتے تھے۔ اور گھر والوں کو بھی جگا کر عبادت کے لئے تحریک فرماتے تھے۔ اور اتنی محنت اور مجاہدہ آخری عشرہ میں فرماتے تھے کہ اتنا اہتمام کسی اور زمانہ میں نہیں ہوتا تھا۔(مسلم)58
رسول کریمؐ کی عبادت کا معراج حج بیت اللہ کے موقع پربھی دیکھا گیا جب آپؐ محض جانوروں کی قربانی ہی خدا کی راہ میں نہیں گزارتے تھے۔کفن کے لباس کی طرح محض دوچادروں کا لباس اوڑھ کرننگے سردیوانہ وار اپنے رب کریم کے پاک گھر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب آپؐ کے جسم کے ساتھ آپؐ کی روح بھی اس طواف میں برابر کی شریک ہوتی تھی اور عبادت کا نقطۂ معراج حاصل ہوتا۔ اگرچہ آپؐ کی ساری زندگی ہی ہمہ تن عبادت تھی۔
حوالہ جات
1
بخاری بدء الوحی
2
السیرۃ النبویۃلابن ہشام جلد1ص261,260,251مطبوعہ مصر
3
السیرۃ النبویۃلاہشام جز1ص252مطبوعہ مصر
4
ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی مواقیت الصلوۃ:138
5
بخاری کتاب المناقب باب التاریخ من أین أرخوالتاریخ:3642
6
بخاری کتاب الوضوء باب اذا القی علی ظھرا المصلی قذر:233
7
بخاری کتاب الصلوۃ باب المرأۃ تطرح عن المصلی شیئًا من الأذی:490
8
بخاری کتاب التفسیرسورۃ المؤمن4441
9
ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب فی ترک الوضؤ ممامست النار:160
10
بخاری کتاب الجمعہ باب من نام اول اللیل:1078
11
بخاری کتاب المرضیٰ باب اذا عاد مریضاً:5226
12
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب التصفیق فی الصلوۃ
13
مسلم کتاب الصلاۃ باب تقدیم الجماعۃ :640
14
بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبیؐ من الاحزاب:3810
15
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب ردّالسلام
16
بخاری ابواب تقصیر الصلوۃ
17
ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی الصلوۃ علی الدابہ فی الطین
18
بخاری کتاب المواقیت الصلوۃ باب الاذان بعد ذھاب الوقت:5609
19
فتوح العرب فی شروع الحرب ص387 ازواقدی
20
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃالاحزاب ـ:3802
21
بخاری کتاب التفسیرسورۃ البقرۃ باب قولہ عزوجل فان خفتم فرجالا :4171
22
بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ووفاتہ:4088
23
بخاری کتاب الاذان باب حد المریض ان یشھد الجماعۃ :624
24
بخاری کتاب الاذان باب اھل العلم والفضل احق بالا مامۃ:639
25
المعجم اللکبیرلطبرانی جلد 12ص84
26
ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب منہ:2381
27
بخاری کتاب الجمعۃ باب قیام النبی بلیل فی رمضان
28
بخاری کتاب الوضوء باب قراء ۃ القرآن بعد الحدث
29
ابوداؤد کتاب الصلوۃباب فی الدعا ء مایقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ
30
ابوداؤدکتاب الصلوۃ باب مایقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ:740
31
الاصابہ فی تمییز الصحابۃ ابن حجرجلد 7ص721
32
بخاری کتاب الجمعہ باب طول القیام فی صلاۃ اللیل:1067
33
نسائی کتاب الافتتاح باب تردید الا یۃ:1000
34
بخاری کتاب الجمعۃ باب اذا صلی قاعدا:1051
35
بخاری کتاب التفسیر باب لیغفرلک اللہ:4460
36
بخاری کتاب الدعوات
37
مسلم کتاب الصلوۃ
38
نسائی کتاب عشرۃ النساء باب الغیرۃ
39
نسائی عشرۃ النساء باب الغیرۃ
40
مجمع الزوائد ھیثمی جلد 2ص128مطبوعہ بیروت
41
الدرالمنشور فی تفسیر الماثورجلد 6ص27مطبوعہ بیروت
42
مسند احمد جلد 4ص26مطبوعہ مصر
43
بخاری کتاب الجمعہ باب فضل من تعار من الیل:1087
44
بخاری کتاب صلاۃ التراویح باب العمل فی العشر الاواخرمن رمضان:1884
45
الوفاء باحوال المصطفیٰ ابن الجوزی ص511بیروت
46
بخاری کتاب التفسیر باب لیغفر لک اللہ ماتقدم:4459
47
الشمائل النبویہ الترمذی باب ماجاء فی فرا ش رسول اللہ
48
نسائی کتاب الافتتاح باب مسأ لۃ القاری اذا مرّبآیۃ رحمۃ:999
49
بخاری کتاب الصوم باب صوم شعبان:1834
50
بخاری کتاب الجمعۃ باب قیام النبیؐ باللیل من نومہ:1073
51
نسائی کتاب الصیام باب صوم النبیؐ
52
مسلم کتاب الصیام باب استحباب صیام ثلاثۃ ایاّم من کل شہر:1972
53
ترمذی کتاب الصیام باب فی صوم یوم الاثنین
54
مسلم کتاب الاعتکاف باب صوم عشر ذی الحجہ
55
ترمذی کتاب الصوم
56
بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحورمن غیر ایجاب:1788
57
بخاری کتاب الاعتکاف فی العشر الاواخر
58
مسلم کتاب الاعتکاف باب الاجتہاد فی اللہ
نبی کریمؐ کی خشیٔت اور خوف الہٰی
قرآن شریف نے جس خالق کائنات اور قادر مطلق ہستی کا ہمیں پتہ دیا ہے، وہ بادشاہ بھی ہے، غنی بھی، جبار قہاراور متکبر بھی…اس عظیم ہستی کے سامنے انسان وہ عاجز مخلوق ہے۔ جوہر لحظہ اس کا محتاج ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے’’ اَحْسَنِ تَقْوِیْم‘‘ یعنی بہترین صورت میں اپنی فطرت پر پیدا کیااور اس کی پیدائش کا مقصد عبودیّت ٹھہرایا۔اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فضل شامل حال نہ ہو تو انسان فطرت صحیحہ کو چھوڑ کر شیطانی راہوں میں بھٹک جاتا اور اَسْفَلُ السَّا فِلِیْن یعنی ذلّت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرجاتاہے۔یہ وہ خوف ہے جوایک ذی شعور انسان کو بے چین کر دینے کے لئے کافی ہے۔خدا کی ذات پر ایمان کے نتیجہ میں یہ خوف زائل ہوتا اور امید ورجاء کا بندھن مضبوط ہوتا ہے اس لئے ایمان وہی قابل تعریف قراردیا گیا ہے جو خوف و رجاء کے درمیان ہو۔انسان کے لئے اس کے سو اکوئی چارہ نہیں کہ وہ ہمیشہ درِ مولیٰ سے چمٹا رہے اور لرزاں و ترسا ں اسی کے حضور جھکارہے اوراس کی ناراضگی کے خوف سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاردے اسی کا نام تقویٰ ہے اور اسی میں انسان کی نجات ہے۔
رسول کریمؐ نے فرمایا دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی ایک وہ آنکھ جو اللہ کی خشیٔت میں روئے اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں حفاظت کرتے ہوئے بیدار رہے۔(ترمذی)1
حقیقی خشیئت یہی ہے کہ انسان محض اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور کامل توحید کا بھی یہی مطلب ہے ۔ ایک دفعہ رسول کریمؐ نے صحابہ کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ وہ کیسے؟آپؐ نے فرمایا اس طرح کہ کسی دینی بات یا للّٰہی کام میں وہ کوئی خامی یا خرابی محسوس کرتا ہے مگر اس پر وہ خاموش رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے روز پوچھے گا تم نے کیوں اپنی رائے کا اظہار نہ کیا وہ کہے گا لوگوں کے ڈر سے ایسا نہ کیا۔ اللہ فرمائے گا لوگوں کی نسبت میں اس بات کا زیادہ مستحق تھا کہ تم مجھ سے ڈرتے۔(ابن ماجہ)2
رسول کریمؐ نے اپنے صحابہ میں خشیئت الہٰی کی صفت پیدا کرنے کے لئے ایک دفعہ انہیں یہ کہانی سنائی کہ ایک شخص نے بوقت موت اپنے اہل خانہ کو وصیت کی کہ میری وفات کے بعد لکڑیاں جمع کرکے آگ جلانا جب میں جل کر راکھ ہوجائوں تو خاک سمند ر میں ڈال دینا۔ اولاد نے اس کی وصیت پر عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خاک جمع کی او راس سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کہا؟ اس نے عرض کیا اے میرے ربّ!تیرے ڈر اور خوف سے ایسا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب سن کر اسے بخش دیا۔(بخاری)3
سب سے بڑھ کر خدا ترس
ہمارے نبی ﷺ اوّل المؤمنین تھے اس لئے سب سے بڑھ کر اپنے مولیٰ کی خشیٔت آپؐ میں تھی جس کی وجہ سے آپؐ ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے تھے۔ ہرچند کہ پہلی وحی خدا کی طرف سے آپؐ پر ایک عظیم روحانی انعام تھا۔مگر آپؐ کے لئے یہ بھی مقام خوف تھا اس لئے حضرت خدیجہؓ سے آکر کہا لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ (بخاری4) مجھے تو اتنا ڈر پیدا ہواہے کہ اپنی جان کے لالے پڑگئے ہیں۔یہ ذمہ داری کا احساس بھی تھا اور انتہائی خشیٔت کا اظہار بھی۔
ایک دفعہ بعض صحابہ نے دنیا سے بے رغبتی کے اظہار کے طور پر عمر بھر شادی نہ کرنے، ساری ساری رات عبادت کرنے اورہمیشہ روزہ رکھنے کے عہد کئے۔ رسول کریمؐ نے انہیں اس بات سے روکا اور اپنے نمونہ پر چلنے کی طرف توجہ دلائی نیزفرمایا دیکھو میں نے شادی بھی کی ہے، رات سوتا بھی ہوں ،عبادت بھی کرتا ہوں،روزے رکھتابھی ہوں اوراس میں ناغہ بھی کرتاہوں۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! آپؐ کی کیا بات آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں ۔ان کا مطلب تھاہم کمزور اور گناہگار ہیں ہمیں زیادہ نیکیوں کی ضرورت ہے۔تب آپؐ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ اِنَّاَتْقَاکُمْ وَاَعْلَمَکُمْ بِاللّٰہِ اَنَا۔(بخاری5)کہ تم میں سب سے زیادہ اللہ کا تقوی اختیار کرنے والا اور اللہ کی معرفت رکھنے والا میں ہوں۔گویاسب سے زیادہ عمل کی مجھے ضرورت ہے اور نجات کے لئے میرے نمونہ کی پیروی تم پر لازم ہے اوریہی امر واقعہ ہے کہ ہمارے نبیؐہی سب سے زیادہ خدا ترس انسان تھے۔
نبی کریمؐ اکثر اپنی دعائوں میں یہ دعامانگا کرتے تھے کہ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر جمادے اور مضبوط کر دے۔صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ !آپؐ بھی یہ دعا کرتے ہیں حالانکہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں (اورہمیں ہدایت دینے والے) فرمایا ہاں! دل تو رحمان خدا کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے وہ جیسے چاہے اس کو پھیردے۔(ترمذی)6
آنحضورؐؐ کی خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو کھول کرسنا دیا کہ تمہارے عمل ہی تمہارے کام آئیں گے، میں یا میرے ساتھ تمہارارشتہ کچھ کام نہیں آئے گا۔(بخاری7) آپؐ فرماتے تھے کہ اللہ کی رحمت اورفضل نہ ہوتو میںبھی اپنی بخشش کے بارہ میں قطعیت سے کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا۔(بخاری)8
اللہ تعالیٰ کے غناء سے ہمیشہ آپ ؐ کو یہ خوف بھی دامنگیر رہتا تھا کہ نیک اعمال خدا کے حضور قبولیت کے لائق بھی ٹھہرتے ہیں یا نہیں؟جیساکہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ سچے مومن وہ ہیں جو اپنے رب کی خشیئت کے باعث ڈرتے رہتے ہیںاور اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیںاوریہ لوگ جب دیتے ہیں جو بھی وہ (خداکی راہ میں) دیں تو ان کے دل خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔(المؤمنون : 58تا61)
حضرت عائشہؓ کے دل میں ان آیات کے بارہ میں ایک سوال پیدا ہوا اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ،چوری (وغیرہ گناہ) کرتے اور پھر اللہ سے ڈرتے ہیں۔نبی کریم ﷺتوقرآن کی عملی تفسیر تھے۔آپؐ سے بڑھ کر کون اِن آیات کی حقیقت بیان کرسکتاتھا ۔آپ ؐنے کیا خوب فرمایا’’ اے صدّیق کی بیٹی! یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اور صدقات دیتے ہیں مگر پھربھی ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نیکیاں غیر مقبول ہوکر ردّ ہوجائیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں سبقت کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘‘(ترمذی)9
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ مجھے جہنم کی آگ کا خیال آیاتومیں روپڑی۔ رسول کریمؐ نے رونے کا سبب پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ جہنم کی آگ کو یادکرکے روپڑی تھی پھرمعلوم ہوتاہے۔ اسی وقت حضرت عائشہؓ کو رسول اللہؐ اور آپؐ کی شفاعت کا خیال آیا۔ تو آپؐ سے پوچھنے لگیں کیا آپؐ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یادکریںگے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تین جگہوں پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔ ایک تو حساب کے وقت جب تک یہ پتہ نہ چل جائے کہ اس کا پلڑا ہلکا ہے یا بھاری؟ دوسرے اعمال نامہ دیئے جانے کے وقت۔جب تک یہ علم نہ ہوجائے وہ دائیں ہاتھ میں دیا جاتاہے یابائیں یا پیچھے سے اور تیسرے پُل صراط کے پاس جو جہنم کے سامنے ہوگی۔(احمد)10
خدا تعالیٰ کی ناراضگی اورپکڑ کا خوف
آنحضورؐ ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں آپؐ کا رحیم و کریم خدا آپؐ سے ناراض نہ ہوجائے۔ایک دفعہ حضور ؐ بیمار ہوگئے اور دو یا تین راتیں نماز تہجد کیلئے نہ اُٹھ سکے۔حضرت خدیجہؓ نے عرض کیایارسول اللہؐمیرے خیال میں آپؐ کے ساتھی(یعنی جبرائیل ؑ)کے نزول میں کچھ تاخیر ہوگئی ہے۔حضورؐ کو بھی طبعاً فکر ہوئی ہوگی۔چنانچہ سورۃ والضُّحٰے نازل ہوئی جس میں حضورؐ کو تسلی دیتے ہوئے یہ ارشاد ہے مَاوَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلیٰکہ تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں اور نہ وہ تجھ سے ناراض ہوا۔(بخاری)11
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ جب بادل یا آندھی کے آثار دیکھتے تو آپؐ کا چہرہ متغیّر ہوجاتا۔میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی۔مگر میں دیکھتی ہوں کہ آپؐ بادل دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا اے عائشہؓ ! کیا پتہ اس آندھی میں کوئی ایسا عذاب پوشیدہ ہو جس سے ایک گزشتہ قوم ہلاک ہوگئی تھی اور ایک قوم (عاد)ایسی گزری ہے جس نے عذاب دیکھ کر کہا تھاکہ یہ تو بادل ہے۔ برس کر چھٹ جائے گا۔ مگر وہی بادل اُن پردردناک عذاب بن کربرسا۔(بخاری)12
قرآن شریف کی جن سورتوں میںعذاب الہٰی کے نتیجہ میں بعض گزشتہ قوموں کی تباہی کا ذکرہے۔اُن کے مضامین کا حضورؐ کی طبیعت پر بہت گہرا اثر تھا۔ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ آپ کے بالوں میں کچھ سفیدی سی جھلکنے لگی ہے۔آپؐ نے فرمایا ہاں سورۃہود، سورۃ الواقعہ، سورۃ المرسلات، سورۃ النبااور سورۃ التکویر وغیرہ نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔(ترمذی)13
ایک دفعہ نبی کریمؐ ایک نوجوان کے پا س تشریف لائے جو جان کنی کے عالم میں تھا۔ آپؐ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا خدا کی قسم اے اللہ کے رسول ؐ ! میں اللہ سے نیک اُمید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا بھی ہوں۔ رسول اللہؐ نے فرمایایہ دونوں باتیں خوف ورجاء جس مومن بندے کے دل میں آخری وقت میںاس طرح اکٹھی پائی جائیں تو اللہ تعالیٰ اُسے اس کی اُمید کے مطابق ضرور عطاکرے گااور اس کے خوف سے اس کو امن عطافرمائے گا۔(ترمذی)14
احکام الہٰی کی بجاآوری
نبی کریم ؐ کے تقویٰ کا ایک اظہار اللہ کے احکام کی بجا آوری سے خوب ہوتا تھا جو رسول کریمؐ ایسی مستعدی سے کرتے تھے جسکی مثال نہیں ملتی۔چنانچہ جب سورۃ النصرمیں افواج کے اسلام میں داخلہ پر استقبال کی خاطر اللہ کی تسبیح وحمد اور استغفار کا حکم ہوا تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اس کے بعد رسول اللہؐ کی کوئی نمازخالی نہ جاتی تھی جس میں آپؐ یہ کلمات نہ پڑھتے ہوں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔اے اللہ تو پاک ہے اے ہمارے رب اپنی حمد کے ساتھ اے اللہ مجھے بخش دے۔(بخاری)15
رسول کریم ؐ احکام الہٰی کی پیروی میں تقویٰ کی انتہائی باریک راہوں کا خیال رکھتے تھے۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐسے سنا،حلال اور حرام واضح ہیں اور ان کے درمیان شبہ والی چیز یں ہیں جن کو اکثر لوگ جانتے نہیں، جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچتا ہے اس نے اپنا دین اور عزت بچالی، جو اِن شبہات میں پڑگیا وہ اُس چروا ہے کی طرح ہے جو ایک رَکھ( محفوظ چرا گاہ) کے اِرد گرد بکریاں چراتا ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی بکریاں اس چراگاہ کے اندر چلی جائیں گی۔ سنو ہر بادشاہ کی ایک رَکھ محفوظ جگہ ہوتی ہے اور اللہ کی رَکھ اس کی زمین میں اُس کی منع کردہ چیزیںہیں۔پھر سنو! جسم میں ایک ایسا عضو ہے کہ اگر وہ درست ہو تو سب جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجائے گا۔ اور یاد رکھو یہ دل ہے۔(بخاری)16
تقویٰ کی باریک راہوں کے اختیار کرنے اور شبہات سے بچنے کی چند مثالیں قابل ذکرہیں۔حضرت عقبہؓ بن حارث سے روایت ہے کہ اُنہوں نے ابواِھاب کی بیٹی سے شادی کی۔ ایک عورت نے آکر کہہ دیا کہ اس نے مجھے اورمیری بیوی کو دودھ پلایا ہے۔عقبہؓ نے کہا مجھے تو تم نے دودھ نہیں پلایا اور نہ ہی بتایا ہے۔ عقبہؓ حضورؐ کے پاس مکہ سے مدینہ یہ مسئلہ پوچھنے آئے۔ حضورؐ نے فرمایا اب جب یہ کہا جاچکا ہے اور شک پڑچکا ہے۔ پھر کیسے تم میاں بیوی رہ سکتے ہو؟ پھر حضورؐ نے ان کو جدا کردیا۔ عقبہ ؓ نے اور شادی کرلی۔(بخاری)17
حضرت ابو قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر حدیبیہ کے لئے نکلا آپؐ اوردیگر صحابہ تواحرام میں تھے مگر میںنے احرام نہیں باندھاتھا۔ دوران سفر میں نے ایک جنگلی گدھا دیکھااور حملہ کر کے اُسے شکار کرلیا اور حضورؐ کے پاس آکر عرض کیاکہ حضور! میں احرام سے نہیں تھا اس لئے آپؐ کی خاطریہ شکار کرلیا۔چونکہ مُحرم کا خودشکارکرنا یا اس کی خاطر کسی کا شکار مارنا بھی جائز نہیں۔حضورؐ نے میرے اس فقرہ کی وجہ سے کہ’’ میں نے آپؐ کی خاطر یہ شکار کیا ہے‘‘ اُس میں سے کچھ کھانا پسند نہ کیا البتہ اپنے صحابہ کو اس گوشت سے کھانے کی اجازت دے دی۔(ابن ماجہ)18
اللہ کے نام کی عظمت اور احترام
ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آکر رسول کریمؐ پراعتراض کیا کہ آپ لوگ کعبہ کی قسم کھاکرشرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہرچند کہ مسلمان خانہ کعبہ کے بارہ میں کوئی مشرکانہ تصورنہیں رکھتے۔ پھر بھی رسول کریمؐ نے ازراہِ احتیاط یہی ارشاد فرمایا کہ آئندہ سے قسم کی نوبت آنے پر کعبہ کی بجائے ربّ کعبہ کی قسم کھائی جائے۔(احمد)19
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی صحابی نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ’’مَاشَآئَ اللّٰہُ وَشِئْتَ‘‘کہ وہی ہوا یا ہوگا جو اللہ نے چاہا اور آپؐ نے چاہا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تم نے مجھے خدا کے برابر ٹھہرادیا۔ گویاصرف ماشاء اللہ کہو کہ یہی کامل توحیدہے۔ (احمد)20
آنحضرت ﷺ تو خدا کا نام درمیان آجانے سے ڈر جاتے تھے۔اُمیمہ بنت شراحیل وہ معزز خاتون ہیں جو قبیلہ بنو الجون نے آنحضورؐ سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے لئے آپؐ کی خدمت میںبھجوائی ۔آپؐ کاارادہ اُن کو اپنے عقد میں شامل کرنے کاتھا۔(اُس کی ملازمہ یاکسی نے اس بی بی کو کہہ دیا کہ پہلے دن ہی رسول اللہؐ پررعب جمالینا)۔ آنحضرتﷺ نے ایک باغ میں ان کے لئے خیمہ لگوایا ۔ جب آپؐان کے پاس خیمہ میں تشریف لے گئے توفرمایااپنے آپ کومیرے لئے ہبہ کردو۔ وہ بولی کیاکوئی شہزادی بھی ایک عام شخص کو اپنی ذات ہبہ کرتی ہے۔ حضورؐ نے اُسے مانوس کرنے کے لئے اُس کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہا تواُس نے کہا میں آپؐ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔آپؐ نے فرمایا تم نے بہت عظیم الشان ہستی کی پناہ مانگی ہے۔ پھرآپؐ نے طلاق دے کر اُسے آزاد کردیااور مال و متاع دیکرواپس اُس کے قبیلہ میں بھجوادیا۔ (بخاری)21
تقویٰ کی باریک راہیں
آنحضرتؐہر لحظہ اپنے رب سے ڈرتے رہتے تھے۔ فرماتے تھے کہ مَیںبسااوقات گھر میں ایک کھجوربستر پر پڑی پاتا ہوں ۔اٹھا کر کھانے لگتا ہوں پھر خیال آتا ہے کہ صدقہ کی نہ ہو اور جہاں سے اٹھائی وہیں رکھ دیتا ہوں۔(بخاری)22
رسول اللہؐ نے اپنی اولاد کی بھی اسی رنگ میں تربیت فرمائی اور ان کے دل میں بھی بچپن سے خوف خدا پیدا کیا۔ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ یا حسینؓ نے گھر میں کھجور کاایک ڈھیر دیکھا اور صدقہ کی ان کھجوروں میں سے ایک کھجور منہ میں ڈال لی۔نبی کریم ؐ نے دیکھ لیا۔انگلی بچے کے منہ میں ڈالی، کھجور نکال کر باہر پھینک دی اور فرمایا بچے! ہم آل رسولؐ ہیں۔ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔(بخاری)23
ایک دفعہ آنحضرتؐ نماز کے بعد خلاف معمول بڑی تیزی سے صحابہ کی صفیں چیرتے ہوئے گھر تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے تو ہاتھ میں سونے کی ایک ڈلی تھی۔ فرمایا کچھ سونا آیا تھا وہ مستحقین میں تقسیم ہوگیا۔ یہ سونے کی ڈلی تقسیم ہونے سے رہ گئی تھی۔ نماز میں مجھے خیال آیا تو اسے میں جلدی سے لے آیا ہوں تاکہ قومی مال میں سے کچھ ہمارے گھر میں نہ رہ جائے۔ طہارت نفس اور خوف ِ الہٰی کی یہ کیسی بے نظیر مثال ہے۔(بخاری)24
آنحضرتؐہر دم اللہ تعالیٰ کے غنا اور عظمت سے خائف رہتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے میں بسا اوقات ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوںاو ر اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔(بخاری)25
قرآن شریف میں انبیاء علیھم السلام کے قبولیت دعا کے تجارب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک مشترک خصوصیت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ ہم سے چاہت اور خوف سے دعاکرتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی سے جھکنے والے اور خشوع اختیار کرنے والے تھے۔ (سورۃ الانبیائ:91)سیدالانبیاء ﷺکی دعائوں میں بھی یہ کیفیّت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔
دعائوں میںگریہ وبکا
نبی کریم ؐخوف الہٰی سے اکثر گریہ و زاری کرتے دیکھے جاتے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جب آپؐ کے تین سو تیرہ نہتے ساتھیوں کا مقابلہ ایک ہزار کے مسلح جنگجو لشکر سے تھا ،آپؐ میدان بدر میں اپنے جھونپڑے میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہوکر رو رو کر دعائیں کر رہے تھے،حالانکہ اللہ کی طرف سے فتح و نصرت کے وعدے موجودتھے مگر آپؐ کی نگاہ اپنے مولیٰ کے غنا پر بھی تھی اسلئے سجدہ میں پڑے گریہ و زاری کررہے تھے۔بدن پر لرزہ طاری تھا۔کپکپاہٹ سے کندھوں پر سے چادر سرک کر گررہی تھی اور آپؐ اپنے مولیٰ سے یہ التجا کررہے تھے۔ اے اللہ!اگر آج اس مختصر سی جماعت کوتونے ہلاک کردیا تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔(مسلم)26
حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں آپؐ نے خشوع و خضوع خشیٔت اور ابتہال سے بھری ہوئی جو دعا کی، وہ آپؐ کے خوف و ابتہال اور خشیٔت کا بہترین شاہکار ہے۔آپؐ اپنے مولا کے حضور عرض کرتے ہیں۔
’’اے اﷲ تو میری باتوں کوسنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے ۔میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں ہے۔مَیں ایک بدحال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں ،تیری مدد اور پناہ کا طالب ،سہما اور ڈرا ہؤا،اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس (چلا آیا) ہوں مَیں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں (ہاں!) تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگار کی طرح زاری کرتا ہوں ۔ایک اندھے نابینے کی طرح (ٹھوکروں سے)خوف زدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں۔میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں ۔میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے ۔اے اﷲ! تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بدبخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا۔اے وہ! جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے میری دعا قبول کر لینا ۔‘‘(طبرانی)27
قرآن شریف میں ان مومنوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اور عاجزی اختیار کرتے ہیں۔آنحضرت ﷺ کی نماز خشوع کا بہترین نمونہ ہوتی تھی۔چنانچہ رکوع میں آپؐ یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے۔
’’میرے اﷲ ! تیری خاطر مَیں نے رکوع کیا اور تجھ پر ایمان لایا اور میں تیرا ہی فرمانبردار ہوں ۔اور تجھی پر میرا توکّل ہے ۔تو ہی میرا پروردگار ہے۔ میرے کان اور میری آنکھیں ، میرا گوشت اور خون، میری ہڈیاں اور میرا دماغ اور میرے اعصاب اس اﷲ کی اطاعت میں جُھکے ہوئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔‘‘
گریہ و زاری اور خشوع و خضوع کی یہ کیفیت آپؐ کی تنہائی کی نمازوں میں خاص طور پرپائی جاتی تھی۔صحابہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ خدا کے حضوراس طرح گڑ گڑاتے تھے کہ آپؐ کے سینے سے اس کی آواز سنی جاسکتی تھی جو ہنڈیا کے ابلنے کی آواز سے مشابہ ہوتی تھی۔ (نسائی)28
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضورؐ کو بستر سے غائب پایا تلاش کیا تو مسجد میں تھے۔(اندھیرے میں)میرا ہاتھ آپؐ کے پائوں کے تلوے کو چھوگیا ۔آپؐ کے پائوں زمین پرگڑے ہوئے تھے اورسجد ے کی حالت میں مولیٰ کے حضورآپؐ یہ زاری کررہے تھے۔
’’اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔ میںخالص تیری پناہ چاہتا ہوں۔میں تیری تعریف شمار نہیں کرسکتا بے شک تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے خوداپنی تعریف آپ کی ہے۔‘‘(ابن ماجہ)29
حضرت مطّرفؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیںکہ میں نے رسول خداؐ کو نماز پڑھتے دیکھا۔گریہ وزاری اور بکاء سے یوں ہچکیاں بندھ گئی تھیں گویا چکی چل رہی ہے اور ہنڈیا کے اُبلنے کی آواز کی طرح آپؐ کے سینہ سے گڑ گڑاہٹ سنائی دیتی تھی ۔(ابودائود)30
حضرت عبداللہؓبن عمر حجۃ الوداع کا یہ خوبصورت منظر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے حجر اسود کی طرف منہ کیا۔پھر اپنے ہونٹ اس پر رکھ دیئے اور دیر تک روتے رہے۔پھر اچانک توجہ فرمائی توحضرت عمر بن الخطابؓ کو (پہلو میں کھڑے) روتے دیکھا اور فرمایا اے عمر! یہ وہ جگہ ہے جہاں (اللہ کی محبت اور خوف سے) آنسو بہائے جاتے ہیں۔(ابن ماجہ)31
حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا کہ رسول کریم ﷺ کی کوئی بہت پیاری اور خوبصورت سی بات سنائیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا ان کی تو ہر ادا ہی پیاری تھی۔ایک رات میرے ہاں باری تھی۔ آپؐ تشریف لائے اور میرے ساتھ بستر میں داخل ہوئے۔ آپؐ کا بدن میرے بدن سے چھونے لگا۔پھر فرمانے لگے اے عائشہؓ ! کیا آج کی رات مجھے اپنے رب کی عبادت میں گزارنے کی اجازت دو گی۔میں نے کہا مجھے توآپؐ کی خواہش عزیز ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں پھر آپؐ اٹھے ، مشکیزہ سے وضو کیا، اورنماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھنے لگے۔پھر رونے لگے یہاں تک آپؐ کے آنسوئوں سے دامن تر ہوگیا ۔پھر آپؐ نے دائیں پہلو سے ٹیک لگائی۔ دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر کچھ توقّف کیا۔ پھر رونے لگے یہاں تک کہ آپؐ کے آنسوئوں سے زمین بھیگ گئی۔صبح بلالؓ نماز کی اطلاع کرنے آئے تو آپؐ کو روتے پایا اور عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ!آپؐ بھی روتے ہیں؟ حالانکہ اللہ نے آپؐ کو بخش دیا۔فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
پھر فرمانے لگے میں کیوں نہ روئوں جبکہ آج رات مجھ پر یہ آیات اتری ہیں اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ َوالْارْضِ وَ اخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ۔آپؐ نے آل عمران کے آخری رکوع کی یہ آیات پڑھیں اور فرمایا ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس نے یہ آیات پڑھیں اور ان پر غور نہ کیا۔ (سیوطی)32
عہد نبوی ؐ میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا۔رسول اللہ ؐ نماز کسوف پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے۔بڑے لمبے رکوع اور سجدے کئے ۔آپؐ اس قدر روتے جاتے تھے کہ ہچکی بندھ گئی ۔اس حال میںرو رو کر یہ دعا کر رہے تھے۔
’’میرے رب! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا کہ جب تک میں ان لوگوںمیں ہوں تو انہیں عذاب نہ دے گا۔کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا کہ جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے تو ان پر عذاب نازل نہ کرے گا۔پس ہم استغفار کرتے ہیں۔‘‘(توہمیںمعاف فرما)۔(سیوطی)33
رسول کریمؐ اس وقت تک یہ دعا کرتے رہے جب تک سورج گرہن ختم نہ ہوگیا۔
خشیئت کی اس کیفیت کے باوجود رسول کریم ﷺ کی خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے مولیٰ کے حضور مناجات میں اس کا تقویٰ اور خشیئت مانگا کرتے۔ کبھی کہتے ’’اے اللہ میرے نفس کو اپنا خوف اور تقویٰ نصیب کردے اور اسے پاک کردے۔ تجھ سے بڑھ کر کون اسے پاک کرسکتا ہے؟ توہی اس کا دوست اور آقا ہے۔‘‘(مسلم)34
کبھی یہ دعا کرتے ’’اے اللہ اپنی وہ خشئیت ہمیں عطاکر جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہوجائے۔‘‘(ترمذی)35
تلاوت قرآن اور خشیٔت الہٰی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے۔جب ان پر رحمان خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے خدا کے حضور ٹھوڑیوں کے بل سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اللہ خشوع میں انہیں اور بڑھا دیتا ہے۔(بنی اسرائیل:110)دوسری جگہ فرمایا کہ قرآن کا کلام سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔(سورۃ الزمر:24)
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کون اس مضمون کا مصداق ہوسکتا ہے جو سب سے بڑھ کر خدا ترس تھے۔قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے آپؐ کی کیفیت بھی یہی ہوتی تھی۔
کلام الہٰی سن کر آپؐ پر رِقّت طاری ہوجاتی اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک روز آپؐ نے فرمایا قرآن سنائو! جب وہ اس آیت پر پہنچے فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُ لٓائِ شَھِیْدًا (النسائ:42) تو آپ ؐ تاب نہ لا سکے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی بہہ نکلی۔ہاتھ کے اشارے سے فرمایا بس کرو۔(بخاری)36
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب (سورۂ نجم کی آخری) آیت اتری۔ اَفَمِنْ ھٰذَاالْحَدِیْثِ تَعْجَبُونَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ ۔ یعنی کیا تم اس بات (یاکلام) سے تعجب کرتے ہو۔ اور ہنستے ہو روتے نہیں تو رسول اللہؐ کے وہ غریب صحابہ جن کا مسجد نبوی کے چبوترے پر بسیرا ہوتا تھااوراصحاب صُفّہ کہلاتے تھے، بہت روئے۔ یہاں تک کہ ان کے آنسو سے رخسار بھیگ گئے۔ رسول کریمؐ نے ان کی آہ وزاری سنی تو ان کے ساتھ مل کررونے لگے۔ ابوھریرہؓ کہتے ہیں ہم حضورؐ کو روتا دیکھ کر اور رونے لگے۔ تب آپؐ نے فرمایا جو شخص اللہ کی خشیٔت سے رویا وہ آگ میں داخل نہ ہوگا۔(بیہقی وقرطبی)37
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گر گئے۔پھر بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی ہر دفعہ آپؐ روتے روتے گر پڑتے۔ آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔(ابن الجوزی)38
کبھی آپؐ روتے روتے خدا کے حضورعرض کرتے۔’’اے اللہ مجھے آنسو بہانے والی آنکھیں عطاکر جوتیری خشیئت میں آنسوئوں کے بہنے سے دل کوٹھنڈا کردیں، پہلے اس سے کہ آنسو خون اور پتھر انگارے بن جائیں۔‘‘(طبرانی)39
قصہ مختصر اس فانی فی اللہ کی خشیئت اور خوف الہٰی سے لبریزاندھیری راتوں کی یہی دلدوز چیخ و پکار اور دعائیں ہی توتھیں جنہوں نے عرش الہٰی کو ہلا کر رکھ دیا اوریک دفعہ سرزمین عرب میں ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہوا کہ پہلے اس سے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سُنا۔
حوالہ جات
1
ترمذی کتاب فضائل الجہاد باب ماجاء فی فضل الحرس فی سبیل اللہ:1639
2
ابن ماجہ کتاب الفتن باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر
3
بخاری کتاب الا نبیاء باب مایذکرعن بنی اسرائیل
4
بخاری باب کیف کان بدء الوحی
5
بخاری کتاب الایمان باب قول النبی ؐ انا اعلمکم باللہ :19
6
ترمذی کتاب القدر باب ماجاء ان القلوب بین اصبعی الرحمان:2006
7
بخاری کتاب الوصایا باب ھل یدخل النساء والولدفی الاقارب:2548
8
بخاری کتاب المرضی باب تمنی المریض الموت:5241
9
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب سورۃ المؤمنون :3099
10
مسند احمد جلد1ص101
11
بخاری کتاب التفسیر سورۃ والضحیٰ
12
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحقاف باب قولہ فلما رأوہ عارضا مستقبل اودیتھم
13
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب من سورۃ الواقعہ:3219
14
ترمذی کتاب الجنائز باب ماجاء ان المؤمن یموت بعرق الجبین:905
15
بخاری کتاب الاذان باب الدعاء فی الرکوع:752
16
بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدینہ
17
بخاری کتاب العلم باب الرحلۃ فی المسٔلۃ النازلۃ
18
ابن ماجہ کتاب المناسک باب الرخصۃ فی ذلک ان لم یصدلہ :3084
19
مسنداحمدجلد6ص372
20
مسنداحمدجزاول ص354طبع جدیدہ داراحیاء التراث العربی بیروت
21
بخاری کتاب الطلاق باب من طلق وھل یواجہ الرجل امرا تہ بالطلاق:4853
22
بخاری کتاب اللقطۃ باب اذا وجدتمرۃ فی الطریق:2252
23
بخاری کتاب الزکاۃ باب اخذ الصدقۃ التمر:1390
24
بخاری کتاب الزکوۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ:1340
25
بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبیؐ فی الیوم واللیلۃ :5832
26
مسلم کتاب الجہاد باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر:3309
27
المعجم الکبیرلطبرانی جلد11ص174بیروت
28
نسائی کتاب السہو باب البکاء فی الصلوۃ
29
ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ باب ماجاء فی القنوت:1169
30
ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب البکاء فی الصلوۃ: 157
31
ابن ماجہ کتاب المناسک باب استلام الحجر:2945
32
الدرالمنثورللسیوطی جلد27:6جز 4ص409دارالفکر بیروت
33
الدرالمنثورللسیوطی جز9ص59دارالفکر بیروت
34
مسلم کتاب الذکر باب التعوذ من شر ماعمل:4899
35
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح
36
بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقریٔ للقاری حسبک:4662
37
بیھقی شعب الایمان جلد1ص479،جامع الاحکام القرطبی جلد17ص86
38
الوفاباحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص549بیروت
39
کتاب الدعاء جلد3ص1480از علامہ طبرانی مطبوعہ بیروت
ذکر الہٰی اور حمد و شکر میں اسوۂ رسولؐ
کہتے ہیں کہ انسان جس چیز سے محبت کرتا ہے وہ اس کا بہت ذکر کرتا ہے اور ہمارے نبی حضرت محمدؐ کی تو پہلی اور آخری محبت اللہ تعالیٰ کی ذات تھی۔عین عالم جوانی میں آپؐ دنیا کی دلچسپیوں سے بیزار غارحرا کی تنہائیوں میں جاکر اس محبوب حقیقی کو ہی تو یاد کرتے تھے۔ اسی میں آپؐ کی زندگی کاسارا لطف تھا۔آپؐ کی یہ وارفتگی دیکھ کر اہل مکّہ بھی کہتے تھے کہ محمدؐ تو اپنے رب پر عاشق ہوگیا ہے۔
مگر امر واقعہ یہ ہے آپؐ فنافی اللہ کے اس مقام پر تھے جہاں انسان اپنا وجود بھی فراموش کر بیٹھتا ہے اور محویت کے اس عالم میں صرف اللہ کی یاد باقی رہ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق نبی کریم ؐہر لحظہ و ہر آن خدا کو یاد رکھتے تھے۔(مسلم)1
یادالہٰی میں شغف
دن ہو یا رات ،خلوت ہویا جلوت عالم خواب ہو یا بیداری کبھی بھی آپؐاپنے ربّ کی یاد نہیں بھولے۔فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے میں بعض دفعہ ستّر سے بھی زائد مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔(ابودائود)2
صوفیاء نے ’’دست درکار و دل بایار‘‘ کے محاورہ میں عشق کے جس مقام کا ذکر کیا ہے کہ ہاتھ کام میں لگے ہوںمگر دل یار کے ساتھ ہو۔ظاہر ہے اُس کا تعلق بیداری کی حالت سے ہی ہے۔ مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو اس سے بھی کہیں آگے تھا کہ سوتے ہوئے بھی آپؐ کا دل یاد الہٰی سے معمور ہوتا تھا۔فرماتے تھے میری آنکھیں جب سوجاتی ہیں تو بھی دل نہیں سوتا۔(بخاری)3
گویا ذکر الہٰی آپؐ کے دل کی غذا تھا۔جیسے جسم کاانحصار دوران خون اور عمل تنفس پر ہے۔ آپؐ کی روح کا دارومدار ذکر الہٰی پر تھا۔ دن بھر میں قضائے حاجت کے ہی چند لمحے ہوں گے جن میں اللہ کے ذکر کی عظمت اور احترام کے باعث آپؐ اس سے رُک جاتے ہوں، شاید اِسی لئے قضائے حاجت سے فارغ ہوکر آتے تو غُفْرَانَکَ کی دعا کرتے تھے کہ اے اللہ تیری بخشش کا طلبگار ہوں۔ (ترمذی4) اس میں بھی یہ راز تھاکہ چند لمحے بھی کیوں یادالہٰی میں روک بنیں۔
انسانی زندگی کاایک لمحہ بھی اپنے خالق و مالک کی توفیق اور احسان کے بغیر ممکن نہیں بلکہ محتاج محض ہے جبکہ صفت رحمانیت کے تحت بغیر کسی تقاضا کے اللہ تعالیٰ کے فیضان عام اور عنایات کے لا محدود سلسلہ نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔پھر صفت رحیمیت کے طفیل انسان کی محنت کے اجر کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی جاری وساری ہے اور اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں اور احسانات نے اس طرح انسان کو گھیر رکھا ہے کہ بے اختیار انسان کو اس قرآنی آیت کے آگے سر جھکانا پڑتا ہے کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو شمار نہیں کرسکو گے۔(سورۃ ابراھیم:15) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے بندوں پر افسو س بھی کیا ہے کہ ان میں سے بہت کم شکر ادا کرنے والے ہوتے ہیںوہاں حقِ شکر ادا کرنیوالوں کا تعریف کے ساتھ ذکر فرمایاہے۔
شکرِنعمت
حضرت نوح ؑکی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ وہ عبدِشکور تھے۔(سورۃ الاسرائ:171)یعنی اللہ تعالیٰ کے بہت شکر گزار بندے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے بارہ میں فرمایا کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔(سورۃ النمل:122) پھر آنحضرتؐ کوارشاد ہوتا ہے کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور شکر کرنے والے بندوں میں شامل ہوجائیں۔(سورۃ الزمر:40)
اللہ تعالیٰ کا اپنے شکر گزار بندوں سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں اور زیادہ نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے واقعی حقِ شکر ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات سے حصہ پایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپؐ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔(سورۃ النسائ:114)
رسول اللہؐ کی یاد الہٰی کی اصل معراج آپؐ کی نمازتھی۔ جس میں آپؐ کی آنکھوں اور دل کی ٹھنڈک تھی۔(نسائی)5
عام لوگوں کا دل نماز میں نہیں لگتا اورنماز کے دوران بھی خیالات کہیں اور ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس نبی کریمؐ کا دل نماز کے علاوہ اوقات میں بھی نماز میںہی اٹکا ہوتا تھا۔اللہ کو اتنا یاد کرنے کے بعدبھی آپؐ اپنے رب کے حضور یہ دعا کرتے تھے کہ رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَاکِرًا لَکَ شَاکِرًا۔(ابودائود)6
یعنی’’ اے میرے رب مجھے اپنا ذکر کرنیوالا اور اپنا شکر کرنیوالا بنائیو۔‘‘ کیونکہ شکر بھی دراصل ذکر الہٰی اور محبت کے اظہار کا ایک خوبصورت اسلوب ہے۔اور ذکر کی ایک بہترین شکل حمدوثنا ہے۔
آپؐ کی نماز مجسم شکر انہ ہوتی تھی جو الحمدللہ کہہ کر اللہ کی حمد سے شروع ہوتی۔ اس کا وسط بھی سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ کہہ کر حمد کثیر پر مشتمل ہوتا تو اس کی انتہاء اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ کی جامع حمد پر ہی ہوتی تھی۔آپ ؐکے رکوع و سجود بھی اسی حمد الہٰی سے لبریز ہوتے تھے جن میں آپؐ عرض کرتے ’’اے اللہ تو پاک ہے اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ۔‘‘(بخاری)7
رکوع سے اٹھ کر پھر یہ حمد باری یوں ٹھاٹھیں مارتی جیسے بے قرار سمندر۔آپؐ عرض کرتے اے اللہ ہمارے رب! سب تعریفیں تجھی کو حاصل ہیں۔یہ حمد کر کے بھی آپؐ کاجی سیر نہ ہوتا تو کہتے تیری اتنی تعریفیں کہ جس سے سارے آسمان اور زمین بھر جائیں اور اس کے بعد جو چیز تو چاہے وہ بھی بھر جائے۔(مگر تیری حمد ختم نہ ہو)۔اے تعریف اور بزرگی کے لائق ہستی! بندہ جتنی تیری تعریف کرے تو اس کا مستحق ہے اور ہم سب تیرے بندے ہی تو ہیں۔(مسلم)8
فرض نمازوں کے علاوہ نوافل میں آپؐ کے شکرانے کا یہ عالم تھا کہ پوری پوری رات خدا کے حضور عبادت میں گزارردیتے یہاں تک کہ پائوں سوُج جاتے۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں تو کیا خوب جواب دیا اَفَلاَ اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًاکہ میں عبدشکور یعنی خدا کا انتہائی شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(بخاری)9
محبت الہٰی اورذکر و شکر سے بھری اس نماز سے فارغ ہوکر آپؐ یاد خدا کو بھولتے نہیں تھے بلکہ یہ دعا کرتے تھے۔اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَ شُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔(ابودائود)10
اے اللہ! مجھے اپنے ذکر،اپنے شکر اور خوبصورت عبادت کی توفیق عطا فرما۔اس دعا کی قبولیت عملی زندگی میں لمحہ بہ لمحہ آپؐ کے ہمر کاب نظر آتی ہے۔ رات کا کچھ حصّہ آرام کر کے اٹھتے تو پہلا کلمہ جو آپؐ کی زبان پر جاری ہوتا وہ اللہ کی حمد اور شکر کا کلمہ ہوتا ۔آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور اقرار کرتے کہ تمام تعریف اس خدا کی ذات کیلئے ہے جس نے نیند جیسی موت کے بعد ہمیں پھر سے زندگی دی اور بالآخر تو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(بخاری)11
روکھی سوکھی پر گزارا کرتے ہوئے بھی کھانے کے بعدرسول اللہؐ کے شکر گزار دل سے بے اختیار حمد اور تشکر کے جذبات نکلتے تھے۔فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت راضی اور خوش ہوتا ہے۔ جو ایک لقمہ بھی کھاتا ہے تو اللہ کی حمد اور تعریف کرتا ہے۔ پانی پیتا ہے تو اس پر بھی اللہ کی حمد کرتا ہے۔چنانچہ کھانے کے بعد آپؐ دعا کرتے اس خدا کی تمام تعریف ہے جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پانی پلایا اور ہمیں اپنا فرما نبردار بندہ بنایا۔(ترمذی)12
یعنی شکر کی یہ توفیق دی گویا توفیق شکر ملنے پر بھی ایک شکرانہ ادا کرتے تھے۔الغرض ذکر الہٰی آپؐ کے وجود کا جزو لاینفکّ تھا۔
قضائے حاجت سے فارغ ہوجانے پر بھی اللہ کا شکر ہی بجالاتے اور عرض کرتے تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مضر چیز مجھ سے دور کردی مجھے تندرستی عطا کی اور غذا کے نفع بخش مادے میرے جسم میں باقی رکھ لئے۔(ابن ماجہ)13
رات کو بستر پر جاتے ہوئے دن بھر میں ہونیوالی اللہ کی نعمتوں کا شکر یوں ادا کرتے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ پر اپنا احسان اور فضل کیا اور مجھے عطا کیا اور بہت دیا اور ہر حال میں اللہ ہی کی حمد و ثناہے۔ (ابودائود))14
رسول کریمؐ نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت یہ کہتا ہے اے اللہ تیری جو نعمت اس وقت مجھے حاصل ہے وہ محض تیری طرف سے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ وہ شخص اس دن کا شکر ادا کرتا ہے اور جو شام کو یہ کلمات کہتا ہے اس نے اپنی رات کا شکر ادا کیا۔(ابودائود)15
رسول کریمؐ جب کوئی نیا کپڑا زیب تن فرماتے تو اللہ کی حمد بجالاتے۔(ترمذی)16
موسم گرما میںجب کبھی عرصہ کے بعد بارش ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر شکر سے خدا کے حضور جھک جاتا، آپؐ اپنے سر سے کپڑا وغیرہ ہٹادیتے اور ننگے سر پر بارش لیتے اور فرماتے یہ میرے رب سے تازہ تازہ آئی ہے۔( احمد)17
جب آپؐ کی دعا بارگاہ الہٰی میں قبولیت کا درجہ پاتی یا کوئی نیک کام انجام کو پہنچتا تو کسی فخر کی بجائے اللہ کی حمد بجالاتے اور کہتے تمام تعریف اس خدا کی ہے جس کے جلال و عظمت سے ہی نیک کام انجام کو پہنچتے ہیں۔(حاکم)18
اپنے یہودی غلام کی عیادت کو گئے اس کا آخری وقت دیکھ کر اسے کلمہ پڑھنے کو کہا اور جب اس نے پڑھ لیا تو بے اختیار آپ کی زبان پر یوں حمد باری جاری ہوئی کہ اس خدا کی تعریف ہے جس نے ایک روح کو آگ سے بچا لیا۔(بخاری)19
سجداتِ شکر
کوئی خوشی کی خبر آتی تورسول کریمؐ فوراً خدا کے حضور سجدہ میں گر جاتے اور سجدہ تشکّر بجالاتے۔(خطیب وابودائود)20
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے۔جب ہم عزوراء مقام پر پہنچے وہاں حضورؐ اترے۔آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور کچھ وقت دعا کی۔پھرحضورؐ سجدے میں گر گئے۔لمبی دیر سجدے میں رہے۔پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی۔پھر سجدے میں گر گئے۔آپؐ نے تین دفعہ ایسے کیا۔پھر آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے یہ دعا مانگی تھی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دی۔ میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدے میں گر گیا اور سر اُٹھاکر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزیدایک تہائی اپنی امت کی شفاعت کیلئے اجازت مرحمت فرمائی۔میں پھر شکرانے کا سجدہ بجالایا۔ پھر سر اُٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لئے مجھے اجازت عطافرما دی اور میں اپنے رب کے حضورسجدۂ شکر بجالانے کے لئے گر گیا۔(ابودائود)21
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہوکر سجدے میں گرگئے اور بہت لمبا سجدہ کیا۔یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپؐ کی روح قبض کرلی ہے۔میں آپؐ کے قریب ہوا تو آپؐ اُٹھ بیٹھے اور پوچھا کون ہے؟میں نے عرض کیا عبدالرحمن۔ فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ! آپؐ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہواکہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح تو قبض نہیں کرلی۔آپؐ نے فرمایا میرے پاس جبریل ؑ آئے تھے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے حق میں فرماتا ہے کہ جوا ٓپ ؐ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کرونگا اور جو آپؐ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔یہ سُن کر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالایا ہوں۔(احمد)22
اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی مکہ کی فتح کے موقع پر آپؐ اپنی اونٹنی پر بیٹھے تھے اور سر جھک کر پالان کو چھُو رہا تھا ۔آپ ؐ سجدۂ تشکر بجالاتے ہوئے یہ دعا پڑھ رہے تھے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ اے اللہ تو پاک ہے اپنی حمد اور تعریف کے ساتھ۔اے اللہ مجھے بخش دے۔(ابن ہشام)23
شکرکے نئے گوشے
نبی کریم ﷺ کے شکراداکرنے کا ایک لطیف پہلو یہ ہے کہ آپؐ شکر کے نئے گوشے تلاش کرتے تھے۔محض نعمتوں اور احسانوں اور کامیابیوں پر ہی آپ اللہ کا شکر نہیں کرتے تھے بلکہ گردش زمانہ اور مصائب سے محفوظ رہنے پر بھی اللہ کی حمد بجالاتے تھے۔ ہر مصیبت زدہ آپؐ کو اس شکر کی یاد دلاتا تھا۔چنانچہ کسی معذور یا مصیبت زدہ کو دیکھ کر جہاں انسانیت کے ناطہ سے آپ کے دل میں اس کے لئے درد پیدا ہوتا تھا وہاں آپؐ اللہ کا شکر بھی کرتے تھے کہ اس خدا کی تعریف ہے جس نے ہمیں اس مصیبت سے بچاکر صحت وتندرستی عطا کی اور اپنی بیشتر مخلوق پر فضیلت عطا فرمائی۔(ترمذی)24
رسول کریمؐ حمد باری کے نئے او رنرالے انداز ڈھونڈنکالنے کا ایک واقعہ اُمّ المؤمنین حضرت جُویریہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک روز صبح کی نماز کے وقت حضورؐ میرے پاس سے گئے تو میں اپنے مصلّے پر تھی۔ دن چڑھے واپس لوٹے تو بھی مجھے مصلّے پر پایا اور پوچھا کہ تم صبح سے اس حال میں یہاں بیٹھی ہو؟ میں نے کہاجی ہاں۔آپؐ نے فرمایا میں نے اس کے بعد صرف چار کلمات تین مرتبہ دہرائے ہیں۔ اگر ان کا موازنہ تمہارے اس سارے وقت کے ذکرو تسبیح سے کیا جائے تو وہ کلمے بھاری ہوں اور وہ یہ کلمے ہیں۔
سُبحَانَ اﷲِ عَدَدَ خَلقِہٖ سُبحَانَ اﷲِ رِضَا نَفسِہٖ سُبحَانَ اﷲِ زِنَۃَ عَرشِہٖ سُبحَانَ اﷲِ مِدَادَ کَلِمَاتِہٖ ۔
.968اﷲ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کی مخلوق ہے ۔اﷲ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کی ذات یہ بات پسند کرتی ہے ۔اﷲ پاک ہے اُس قدرجس قدر اُس کے عرش کا وزن ہے (یعنی بے انتہا) ۔اﷲ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کے کلمات کی سیاہی ہے۔(مسلم )25
اپنی ایک مناجات میںآپؐ اپنے مولیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں ۔
’’تیرانور کامل ہے تو نے ہی ہدایت فرمائی سب تعریف تیرے لئے ہے، تیرا حلم عظیم ہے۔ تو نے ہی بخشش عطاکی پس کامل حمد تجھے ہی حاصل ہے۔تیرے ہاتھ فراخ ہیں۔ تو نے ہی سب عطا کیا پس کامل حمد تجھے ہی حاصل ہے۔اے ہمارے رب تیرا چہرہ سب چہروں سے زیادہ قابل عزت ہے اور تیری وجاہت تمام وجاہتوں سے بڑھ کر ہے۔تیری عطا تمام عطائوں سے افضل اورشیریں ہے۔ اے ہمارے رب! جب تیری اطاعت کی جاتی ہے تو تُو قدردانی کرتا ہے اور تیری نافرمانی ہو تو بھی تیری بخشش میں فرق نہیں آتا۔ تو ہی ہے جو مجبور اور لاچار کی دعا سنتا اور تکلیف دور کرتا ہے، بیمار کو صحت عطافرماتا، گناہ بخشتا اور توبہ قبول کرتا ہے۔ کوئی نہیں جو تیری نعمتوں کا بدلہ اتار سکے اور تیری تعریف تک کسی مدحت گر کی زبان رسائی نہیں پاسکتی۔ (شوکانی) 26
اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ ؐ کی حمد و ستائش کے اداکئے ہوئے یہ نغمے ایسے پسند آئے کہ اس نے فیصلہ فرمایا کہ قیامت کے روز جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور ہر شخص کسی پناہ کی تلاش میں ہوگاتو رسول اللہؐ کو’’مقام محمود ‘‘یعنی حمد باری کے انتہائی مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے حمد کا جھنڈا عطا کیا جائے گا۔(ترمذی)27
آپؐ کی صفت احمد کی شان اس رنگ میں ظاہر ہوگی کہ آپؐ پر حمد کے نئے مضامین کھولے جائیں گے اورخدا کے لئے تعریفی کلمات سکھائے جائیں گے۔
پھرآپؐ سجدہ ریز ہوکر وہ حمدباری بجالائیں گے جسکے جواب میں آپؐ کو یہ انعام ملے گا کہ اے محمدؐ! آج جو مانگیں گے آپؐ کو عطا کیا جائیگا۔تب آپؐ اپنی امت کی شفاعت کی دعا کریں گے۔ اور یہ حمد الہٰی کی ایک عظیم الشان برکت ہے جو آپؐ کو نصیب ہوگی۔(بخاری)28
حمد باری کے حریص
رسول اللہ ؐتواپنے رب کی حمد کے حریص تھے۔ اللہ کی حمد اور شکرکے ایسے اعلیٰ ذوق اور توفیق کے بعد پھربھی اگر کسی کو حمد باری کرتے ہوئے سن لیتے تو اس پر رشک کرتے۔(احمد)29
مشرک شاعر امیہ بن صلت کا حمد باری پر مشتمل ایک شعر جب آپؐ نے سنا تو دل پھڑک اٹھا۔فرمانے لگے امیہ کا شعر تو ایمان لے آیا مگر خود اسکو ایمان کی توفیق نہ ملی۔دل کافر ہی رہا۔شعر یہ تھا:۔
َلَکَ الْحَمْدُ وَالْنَّعْمَائُ وَالْفَضْلُ رَبَّنَا
فََلاشَیْیَٔ اَعْلیٰ مِنْکَ حَمْدًا وَّاَمْجَدًا
یعنی اے ہمارے رب! سب تعریفیں تیرے لئے ہیں ،احسان اور فضل بھی تیرے ہیں کوئی چیز حمد اور بزرگی سے تجھ سے بڑھ کر نہیں۔(کنز)30
لبیدعرب کا مشہو ر شاعر تھاجس کا بلند پایہ کلام خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا ۔مگر رسول اللہؐ کو اس کے سارے کلام سے جو شعر پسند آیاوہ اللہ کی عظمت کے بارہ میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ سب سے سچی بات جو لبید نے کہی وہ اسکے شعر کا یہ مصرع ہے۔
اَلَا کُلُّ شَی ئٍ مَّاخَلَا اللّٰہَ بَاطِل‘
کہ سنو! اللہ کے سوا ہر چیز بالآخر فنا ہونیوالی ہے۔(بخاری)31
پس سچی بات تویہ ہے کہ رسول اللہؐ سے بڑھ کر آج تک اللہ کی کوئی حمد کرنیوالا پیدا نہیں ہوا۔اسی لئے تو الہٰی نوشتوں میں آپ ؐکا نام ’’احمد‘‘ رکھا گیا تھا کہ سب سے بڑھ کر خدا کی حمد کرنیوالا ۔ اسی حمد باری کے صدقے آپؐ محمدؐ کہلائے اور آپؐ کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی۔
جذبۂ شکر اور قدردانی
دراصل شکر ایک جذبہ ہے جو احسان کے نتیجہ میں ایک قدردان دل کے اندر پیدا ہوتا ہے۔انسان میں اس جذبہ کا ہونا اللہ کی سچی حمداور شکراداکرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ فرماتے تھے کہ جو لوگوں کے احسانوں کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔(ترمذی32)کیونکہ اسے شکر کی نیک عادت ہی نہیں یا یہ جذبہ سرد پڑچکا ہے۔
آنحضرت ﷺنے شکریہ ادا کرنے کا طریق بھی اپنی امت کو سمجھایا۔ حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہؐ نے فرمایا کہ جس شخص سے کوئی نیکی کی جائے تو وہ اس نیکی کرنے والے سے یہ کہے جَزَاکَ اللّٰہ ُخَیْراً کہ اللہ تعالیٰ تجھے بہترین جزا دے تو اس شخص نے تعریف کا حق ادا کردیا۔(ترمذی)33
آپؐ فرماتے تھے کہ جو شخص تمہارے ساتھ نیکی کرے اس کا بدلہ دو اور اس کی طاقت نہیں تو اس کے لئے دعا کیا کرو اتنی دعا کہ تم جان لو کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ اُتار دیا ہے۔(ابودائود)34
انسانوں کا شکر
ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ تو بدی کا بدلہ بھی نیکی سے دینے کے عادی تھے ۔
آپؐ فرماتے تھے کہ اگر کسی کو کوئی تحفہ دیا جائے تو چاہیے کہ اس کا بدلہ دے اگر اس کی توفیق نہ ہو تو اس کی تعریف ہی کرے جس نے اس کی تعریف کی اس نے اس کا شکر کیا۔ اور جس نے شکرانے کا اظہار نہ کیا اس نے ناقدری کی۔(ابودائود)35
جہاں تک نیکی کے بدلہ کا تعلق ہے رسول کریمؐ قرآن شریف کی اس آیت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھیمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراًیَّرَہ‘۔(سورۃ زلزال:8) یعنی جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی اس کا بدلہ بھی پائے گا۔بلکہ بعض دفعہ بظاہر معمولی نیکی کاغیر معمولی بدلہ عطا فرماتے۔ ایک دفعہ آپؐ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو آپؐ کے کم سن چچازاد بھائی عبداللہ بن عباسؓ نے وضو کے لئے پانی بھر کر رکھ دیا۔آپؐ نے آکر پوچھا کہ یہ کس نے رکھا ہے اور پھر معلوم ہونے پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے لئے یہ دعا کی کہ اے اللہ ان کوقرآن اور حکمت سکھا۔ (بخاری۔36) اوران کو دین کی گہری سمجھ عطا کر۔اس دعا نے حضرت عبداللہؓ بن عباس کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔(بخاری)37
نبی کریم ؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو انصار مدینہ نے خدمات کی سعادت پائی۔بعض نے کھجور کے درخت پیش کردیئے۔اسکے بعد جب بنو قریظہ اوربنو نضیر کے اموال غنیمت آئے تو آپ ؐان قربانی کرنیوالے انصار کا خاص خیال رکھتے اور اُن کے تحائف کا بدلہ بہترین رنگ میں اُنہیں واپس دینے کی کوشش فرماتے تھے۔(بخاری)38
فتح مکہ کے بعد بھی رسول کریمؐ نے انصار کی تالیف قلبی اور احساسات و جذبات کا خاص خیال رکھااور فرمایا اب میرا مرنا جینا تمہارے ساتھ ہے۔چنانچہ آپؐ نے مدینہ کو ہی اپناوطن ثانی قرار دیئے رکھا۔انصار کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی۔ فرماتے تھے انصار کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔(بخاری)39
کعب بن زُھیر مشہور عرب شاعر تھاجورسول اللہ ؐ کے خلاف گندے اشعار کہنے کی وجہ سے لائق گرفت تھا۔جب وہ معافی کا خواستگار ہو کر حاضر خدمت ہوا تو حضورؐ کی شان میں ایک قصیدہ کہا جس میں مہاجرین کی تعریف کی اور انصار کا ذکر نہیں کیا۔رسول کریمؐ کو انصارکی اتنی دلداری مقصود ہوتی تھی، فرمانے لگے کہ تم نے انصار کی شان میں کچھ نہیں کہا۔ یہ بھی مدح کے مستحق ہیں۔تو اس نے انصار کے لئے یہ شعر کہا
مَنْ سَرَّہ‘ کَرَمَ الْحَیَاۃِ فَلاَیَزَلْ
فِیْ مِقْنَبٍ مِنْ صَالِحِی الْاَنْصَارِ
جس شخص کو باعزت زندگی پسند ہے وہ ہمیشہ نیک انصار کے شہ سواروں کے دستہ میں شامل رہے گا۔(حلبیہ)40
الغرض نبی کریم ﷺ کے ساتھ جس کسی نے زندگی میں کبھی کوئی نیکی کی آپ ؐنے کبھی فراموش نہیں کیا۔حتٰی کہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین نے غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ ؐ کے چچا حضرت عباس کو عندالضرورت جو قمیص مہیا کیا تھا اسے بھی یاد رکھا اور عبد اللہ کی وفات پر اپنا قمیص اس کے کفن کے لئے عطا فرمایا ۔(بخاری)41
نبی کریمؐ حضرت خدیجہؓ کی خدمات کو بھی ہمیشہ یادرکھتے تھے۔حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ اس بارہ میں ازراہ غیرت کچھ عرض کیا تو فرمایا’’جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو خدیجہ ؓنے قبول کیا۔ جب لوگوں نے انکار کیا تو وہ ایمان لائیں۔جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور اللہ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطافرمائی۔(مسند احمد )42
نبی کریم ؐ جب اہل مکہ کے رویّہ سے مایوس ہوکر تبلیغ اسلام کے لئے طائف تشریف لے گئے تو واپسی پر مکہ میں داخلہ سے قبل حسب دستورکسی سردار کی امان لینی ضروری تھی۔آپ نے مختلف سرداروں کو پیغام بھجوائے مگر کسی نے حامی نہ بھری سوائے مطعم بن عدی کے جس نے اپنے بیٹوں کو بھجوایا کہ حضور کو اپنی حفاظت میں شہر میں لے آئیں۔نبی کریمؐ نے مُطْعَم کا یہ احسان ہمیشہ یادرکھا۔وہ بدر سے پہلے وفات پاچکے تھے مگر نبی کریمؐ نے بدر کی فتح کے بعد جب ستّرکفار مکہ کو قیدی بنایا تو فرمایا اگر آج ان کا سردار مُطْعَم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھے ان قیدیوں کی رہائی کی سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا۔(بخاری)43
رسول اللہؐ کے چچا ابو طالب نے زندگی بھر آپ ؐسے وفا کی، ہمیشہ آپؐ کا ساتھ دیا اور آپ ؐکی خاطر شعب ابی طالب میں محصور رہے۔وہ بیمار ہوئے تو آپ ؐان کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔ انہوں نے دعا کی درخواست کی کہ اپنے رب سے دعا کرو۔اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور پھر آپؐ کی دعا سے وہ صحت یاب ہوئے۔(حاکم44)اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابو طالب آپؐ کو دل سے سچا مانتے تھے مگر کھل کر اس کا اظہار نہ کرتے تھے۔آخری بیماری میں بھی حضورؐ انہیںاعلانیہ اظہار اسلام کی تحریک کرتے رہے مگر وہ ایسا نہ کرسکے۔اس کے باوجود نبی کریمؐ نے آخر دم تک ان سے حسن سلوک کیا۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو جب اپنے والد ابوطالب کی وفات کی اطلاع کی تو آپ روپڑے اور فرمایا جائو ان کو غسل دو اور کفن کا انتظام کرو۔نیز آپؐ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان پر رحم کرے۔(ابن سعد)45
جب ابو طالب کا جنازہ اُٹھا تو اپنے محسن کے سفر آخرت کو دیکھ کر بے اختیار رسول اللہؐ کوان کی صلہ رحمی اور احسان یاد آئے تو یہ دعا کی کہ صلہ رحمی کا بدلہ آپ ؐکو عطا ہو اور اے چچا اللہ آپؐ کو بہترین جزاعطاکرے۔ آمین۔ (ابن اثیر)46
رسول کریمؐ چاہتے تھے کہ آپ ؐکے ساتھی اور آپؐ سے محبت کا دم بھرنے والے بھی شکر کا اعلیٰ وصف اپنے اندر پیدا کریں۔ ایک دفعہ حضرت ابوھریرہؓ کو یہ نصیحت فرمائی!اے ابوھریرہ! بہت زیادہ ڈرتے رہو تو آپ سب لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والے ہوجائوگے اور قناعت کرنے والے بن جائو ۔سب سے زیادہ شکر کرنے والے ہوجائو گے۔(ابن ماجہ)47
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آقا کی پیروی میں حقیقی حمد وشکر کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
حوالہ جات
1
مسلم کتاب الحیض باب ذکر اللہ تعالیٰ فی حال الجنابۃ و غیر ھا:558
2
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب فی الاستغفار:1294
3
بخاری کتاب المناقب باب کان النبی تنام عینہ ولا ینام قلبہ:3304
4
ترمذی کتاب الطہارۃ باب مایقول اذاخرج من الخلاء :7
5
نسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء :3879
6
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب مایقول الرجل اذاسلم:1391
7
بخاری کتاب الصلوۃ باب مایقول الامام ومن خلفہ اذا رفع رأسہ من الرکوع
8
مسلم کتاب الصلوۃ باب مایقول اذا رفع رأ سہ من الرکوع
9
بخاری کتاب التفسیر باب لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک:4460
10
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب فی الاستغفار:1301
11
بخاری کتاب الدعوات باب مایقول اذانام:5837
12
ترمذی کتاب الدعوات باب مایقول اذا فرغ من الطعام:3379
13
ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب مایقول اذا خرج من الخلائ:297
14
ابوداؤد کتاب الادب باب مایقال عندالنوم
15
سنن ابوداؤد کتاب الادب باب مایقول اصبح:4411
16
ترمذی کتاب اللباس باب مایقول اذا لبس ثوباجدیدا:1689
17
مسند احمد جلد3ص267مطبوعہ بیروت
18
مستدرک حاکم جلد1ص730مطبوعہ بیروت
19
بخاری کتاب الجنائزباب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ
20
تاریخ الخطیب للبغدادی جلد4ص157،ابوداؤد :2774
21
ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی سجود الشکر:2394
22
مسند احمد جلد1ص191مطبوعہ بیروت
23
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد4ص91مطبوعہ بیروت
24
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی مایقول اذا رأی مبتلیً
25
مسلم کتاب الذکر ولدعاء والتوبۃ والاستغفار باب التسبیح اول النھار وعندالنوم:4905
26
تحفۃ الذاکر ین از علامہ شوکانی ص290 مطبوعہ بیروت
27
ترمذی کتاب المناقب باب فی فضل النبیؐ:3543
28
بخاری کتاب التفسیرسورۃ البقرۃ باب قول اللہ وعلم ادم الاسماء کلھا
29
مسند احمد جلد2ص470مطبوعہ بیروت و مسلم کتاب الشعر
30
کنز العمال15241وفتح الباری جلد7ص154
31
بخاری کتاب المناقب باب ایام الجاھلیۃ:3553
32
ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک:1877
33
ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی الثناء بالمعروف:1958
34
ابوداؤد کتاب الزکاۃ باب عطیۃ من سأل باللہ:1424
35
سنن ابوداؤد کتاب الادب باب فی شکر المعروف:4179
36
بخاری کتاب العلم باب قول النبی اللھم علّمہ الکتاب :73
37
بخاری کتاب الوضوء باب وضع المائِ عندالخلائ:140
38
بخاری کتاب المغازی باب حدیث بنی النضیر
39
بخاری کتاب الایمان باب حبّ الانصار من الایمان
40
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص215مطبوعہ بیروت
41
بخاری کتاب التفسیرسورۃ التوبۃ باب قولہ استغفرلھم وشرح بخاری قسطلانی
42
مسنداحمد بن حنبل جلد6ص117مطبوعہ بیروت
43
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
44
مستدرک حاکم کتاب الدعاء جلد1ص542مطبوعہ مصر
45
الطبقات الکبری لابن سعد جلد1ص27مطبوعہ بیروت
46
البدایہ والنھایہ لابن اثیر جلد3ص125مطبوعہ بیروت
47
سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الودع والتقویٰ:4207
رسول کریمؐ کی قرآن کریم سے گہری محبت اورعشق
قرآن اللہ تعالیٰ کا پاک کلام اور وہ آخری مکمل ترین شریعت ہے جو قیامت تک بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کی گئی۔ فصیح وبلیغ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ کلام اپنے نفس مضمون کی وسعت و گہرائی حقائق ودقائق، دلائل وفضائل اور فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے ایسابے مثل ہے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت یا چند آیات کی مثال لانے پر بھی آج تک کوئی قادر نہ ہوسکا۔قرآن عظیم کا اپنے جیسی نظیر پیش کرنے کا لاجواب چیلنج آج تک اس کی عظمت اور فتح کا نقارہ بجارہا ہے۔
یہ وہی پاک کلام ہے جسے مشہو رقادرالکلام عرب شاعر لبید نے سنا تو اس کی عظمت کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پر ایسا مجبور ہواکہ شعر کہنے چھوڑ دیئے۔چنانچہ جب اسے تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو کہنے لگا میں نے جب سے کلام اللہ کی یہ آیت سنی ہے الٓمّ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہ۔ میں نے شعرکہنے چھوڑ دیئے۔(قرطبی)1
حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام بھی قرآنی تائید کا اعجاز تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ رسول اللہؐ کو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرکے گھرسے نکلے تھے۔مگرراستے میں اپنی بہن کے ہاںسورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات پڑھتے ہی بے اختیارکہہ اُٹھے۔ یہ کتنا خوبصورت عزت والا کلام ہے اوربالآخر اسلام قبول کرلیا۔ (قرطبی) 2
مشہور سردار قریش عتبہ قریش کانمائندہ بن کر رسول کریمؐ کو سمجھانے کی غرض سے آیا تو آپؐ نے اسے سورۃ حٰم فُصِّلَتْ کی ابتدائی آیات سنائیں۔ جب حضورؐ سجدہ والی آیت پر پہنچے تووہ بے اختیار حضورؐ کے ساتھ سجدے میں شامل ہوا اور کہہ اُٹھا کہ خدا کی قسم! یہ نہ تو شعر ہے نہ کسی کاھن کا کلام ہے اور نہ جادو ہے۔ خدا کی قسم میں نے محمدؐ سے ایسا کلام سنا ہے کہ آج تک کبھی ایسا کلام نہیں سنا۔(حاکم)3
اس پاک کلام کی اصل شان اس وقت ظاہر ہوتی تھی جب خودخدا کا رسولؐ اس کی تلاوت کرکے سناتا تھاجیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
رَسُولٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنۃ:3 )
یعنی اللہ کا رسول مطہرّ صحیفے پڑھتا تھا۔ اُن میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں۔رسول اللہ ؐجب اس دلکش کلام کی آیات پڑھ کر سناتے تھے تو عرش کے خدا کو بھی اس پر پیار آتا تھاچنانچہ فرمایا وَمَاتَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًااِذْتُفِیْضُوْنَ فِیْہِ (یونس:62)
یعنی (اے رسول)تو کبھی کسی خاص کیفیت میں نہیں ہوتا اور اس کیفیت میں قرآن کی تلاوت نہیں کرتا۔اسی طرح تم (اے مومنو!) کوئی(اچھا) عمل نہیں کرتے مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں۔ جب تم اس کام میں مصروف ہوتے ہو۔
اللہ تعالیٰ کو محمدؐ کی تلاوت قرآن پراس لئے بھی پیارآتا تھا کہ وہ ایک عجب جذب، سوزوگداز اور عشق ومحبت کے ساتھ اس پاک کلام کی تلاوت کرتے تھے۔آپؐ کی تلاوت کی وہی عظمت اور شان تھی جو قرآن میں یوںبیان ہوئی اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُوْ نَہ‘ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُوْلٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ(البقرہ:122)
یعنیجن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسے تلاوت کا حق ہے۔ یہی لوگ ہیں جو اس کتاب پر سچا ایمان رکھتے ہیں۔
رسول کریمؐ اس حکم الہٰی کے مطابق خوبصورت لحن اور ترتیل کے ساتھ ایسی تلاوت کرتے تھے کہ تلاوت کا حق ادا ہوجاتا تھا۔حضرت انسؓ سے پوچھا گیا کہ رسول کریمؐ کی تلاوت کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا آپؐ لمبی تلاوت کرتے تھے۔ پھر انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر سنائی۔ اسے لمبا کیا پھر الرحمان کو لمبا کرکے پڑھا پھر الرحیم کو۔(احمد)4
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو کان لگا کر توجہ سے نہیں سنتا جتنا نبی کریمؐ کی تلاوت قرآن کو سنتا ہے۔ جب وہ خوبصورت لحن اور غنا کے ساتھ بآوازبلنداس کی تلاوت کرتے ہیں۔(احمد)5
حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریمؐ تلاوت کرتے ہوئے آیت پر وقف کرتے تھے۔ فاتحہ میں ہرآیت پر رُکتے رب العالمین پر پھرالرحمان الرحیم پررُک رُک کرتلاوت کرتے تھے۔(احمد)6
رسول کریمؐ تلاوت کرتے ہوئے ایک ایک لفظ واضح اور جداکرکے پڑھتے۔ سوزوگداز میں ڈوبی ہوئی یہ آواز کبھی بلندہوجاتی اور کبھی دھیمی۔ کسی نے رسول اللہؐ سے پوچھا کہ بہترین تلاوت کونسی ہے؟ فرمایا جس کو سن کر آپؐ کو احساس ہو کہ یہ شخص اللہ سے ڈرتا ہے۔ یعنی خشیٔت الہٰی سے لبریزتلاوت اور یہ تلاوت آپؐ کی ہی ہوتی تھی۔
رسول کریمؐ کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن تھا۔ دن بھر گاہے بگاہے اور خصوصاًنمازوں میں نازل ہونے والی تازہ قرآنی وحی کے تکرار اور دہرائی کا اہتمام تو ہوتا ہی تھا۔عموماً رات کوبھی زبان پر قرآن ہی ہوتا۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں۔ کبھی رات کو اچانک آنکھ کھل جاتی تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کی آیات جاری ہوتیں۔ وَمَامِنْ اِلٰہٍ اِلَّاللّٰہُ الوَاحِدُ القَھَّارُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَ رْضِ وَمَابَیْنَھُمَا العَزِیْزُ الْغَفَّارُ (صٓ:67)
یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ صاحب جبروت ہے نیز آسمانوں زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا رب ہے اور غالب اور بخشنے والا ہے۔(حاکم)7
آپؐرات کو تیسرے پہر تہجدّ کے لئے بیدار ہوتے تو اُٹھتے ہی سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرماتے۔ان آیات کا مضمون خالق کائنات کی تخلیق ارض و سماء اور اس میںموجود نشانات پر غوروفکر سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کے بعد انسان کے دل میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی عبادت کا شوق اور جوش ولولہ بیدار ہوتا ہے۔(بخاری)8
اسی طرح رات کو بستر پر جاتے ہوئے بھی قرآن کے مختلف حصوں کی تلاوت رسول کریمؐ سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت کے مطابق نبی کریمؐ آخری تین سورتوں کی تلاوت کر کے ہاتھوں میں پھونکتے اور اپنے جسم پر پھیر کر سوجاتے۔(بخاری)9
حضرت جابر ؓ کے بیان کے مطابق سونے سے قبل آنحضرت ؐسورہ الٓم السجدہ اور سورۂ ملک کی تلاوت کرتے تھے۔(ترمذی)10
حضرت عائشہ ؓ کی دوسری روایت یہ ہے کہ سونے سے قبل رسول اللہؐسورۂ زمر اور بنی اسرائیل کی بھی تلاوت کرتے تھے۔(احمد)11
حضرت عرباضؓ بن ساریہ کی روایت کے مطابق رسول کریمؐ بستر پرجاتے ہوئے وہ سورتیں پڑھتے تھے جو اللہ کی تسبیح کے ذکر سے شروع ہوتی ہیں(یعنی الحدید الحشر، الصف، الجمعہ، التغابن اور الاعلیٰ) اور فرماتے تھے ان میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوںسے بہتر ہے۔(احمد)12
حضرت خباب ؓ کا بیان ہے کہ رسول کریم ؐبستر پر جانے سے قبل سورۂ کافرون سے لے کر آخر تک تمام سورتیں (اللھب،النصر،الاخلاص،الفلق، الناس)پڑھ کر سوتے تھے۔ (ھیثمی)13
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کی توفیق ملی۔آپؐ نے پہلے سورہ بقرہ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی۔پھر نماز میںقیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔پھراسی قیام کے برابر سجدہ کیا۔سجدہ میں بھی یہی تسبیح اوردعا پڑھتے رہے۔پھر کھڑے ہوکر آل عمران کی تلاوت کی۔پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے۔(ابودائود)14
رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ اس میں قرآن شریف کی تلاوت اورتدبّرکا شغف اپنی معراجپرہوتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نیکیوں میں سب لوگوں سے سبقت لے جانے والے تھے اور سب سے زیادہ آپؐ کی یہ شان رمضان میں دیکھی جاتی ہے۔ جب جبریل ؑ آپؐ سے ملاقات کرتے تھے اور یہ ملاقات رمضان کی ہر رات کو ہوتی تھی۔ جس میں وہ رسول کریمؐ سے قرآن کریم کا دورکرتے تھے یعنی آپؐ سے قرآن سنتے بھی تھے اورسناتے بھی تھے۔اس زمانے میں رسول اللہؐ کی نیکیوں کا عجب عالم ہوتاتھا۔ آپؐ تیزآندھی سے بھی بڑھ کر سخاوت فرماتے تھے۔(بخاری)15
دوسری روایت میں ذکرہے کہ جبریل ؑ رسول کریمؐ کے ساتھ ہرسال رمضان میں ایک بارقرآن کریم کادورمکمل کرتے تھے۔ مگرحضورؐ کی وفات کے آخری سال انہوں نے دودفعہ قرآن کریم کا دورآپؐ کے ساتھ مکمل کیا۔(بخاری16) اور یہ آپؐ کی آخری سنت تھی۔
تلاوت قرآن اور خشیت الہٰی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے۔جب ان پر رحمان خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے خدا کے حضور ٹھوڑیوں کے بل سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اللہ خشوع میں انہیں اور بڑھا دیتا ہے۔(بنی اسرائیل:110)دوسری جگہ فرمایا کہ قرآن کا کلام سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔(سورۃ الزمر:24)
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کر کون اس مضمون کا مصداق ہوسکتا ہے جو سب سے بڑھ کر خدا ترس تھے۔قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے آپؐ کی کیفیت بھی یہی ہوتی تھی۔
نبی کریم ؐ قرآن شریف کے مضامین میں ڈوب کر تلاوت کرتے تھے اور اس کے گہرے اثرات آپؐ کی طبیعت پرہوتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ! آپؐکے بالوں میں سفیدی جھلکنے لگی ہے فرمایا ہاں! مجھے سورۂ ھود، الواقعہ، المرسلات،النبا اور التکویر نے بوڑھا کردیا۔(ترمذی)17
(ان سورتوں میں گزشتہ قوموں کا ذکر ہے جن پر احکام خداوندی اور اس کے رسولوں کے انکار کی وجہ سے عذاب آیا اوروہ ہلاک ہوئیں)رسول کریمؐ نے بعض مواقع پر صحابہ کو سوز وگداز سے بھری آواز میںقرآن کریم کی تلاوت سُنائی۔
ذراتصور کریںوہ کیا عجب سماں ہوگا اور کیسی بابرکت محفل ہوگی جس میں اس پاک وجود نے جس کے دل پر قرآن اترا۔ سورہ رحمان جِسے عروس القرآن(قرآن کی دلہن) کا خطاب آپؐ نے دیا خود صحابہ کو خوش الحانی سے سنائی۔ یقینا اس وقت آسمان کے فرشتے بھی ہمہ تن گوش ہوںگے اور خدائے ذوالعرش کی بھی محبت کی نظریں آپ ؐپر پڑتی ہوںگی۔
اس دلکش واقعہ کا ذکر حضرت جابر ؓ یوں بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ایک دفعہ انہیں سورہ رحمان تلاوت کر کے سنائی۔صحابہ محوحیرت ہوکر خاموشی سے سنتے رہے۔ رسول کریمؐ نے سورت کی تلاوت مکمل ہونے پر اس سکوت کو توڑتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ایک قوم جنّ کو جب یہ سورت سنائی تو انہوں نے تم سے بھی بہتر نمونہ دکھایا۔ جب بھی میں نے فَبِاَیِّ اٰلٓائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ کی آیت پڑھی جس کا مطلب ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے تو وہ قوم جواب میں کہتی تھی۔ لَا بِشَیْ ئٍ مِنْ نِعمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ وَلَکَ الْحَمْدُ۔
یعنی اے ہمارے رب ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کو جھٹلاتے نہیں او ر سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔(ترمذی)18
قیس بن عاصمؓ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا جو وحی آپؐ پر نازل ہوئی ہے۔ اس میں سے کچھ سنائیں نبی کریمؐ نے سورۃ الرحمان سنائی وہ کہنے لگا دوبارہ سنائیں۔ آپؐ نے پھر سنائی اس نے تیسری بار پھر درخواست کی تو آپؐ نے تیسری مرتبہ سنائی جس پر وہ کہہ اُٹھا خدا کی قسم اس کلام میں روانی اورایک شیرینی ہے اس کلام کا نچلا حصہ زرخیز ہے تو اُوپر کا حصہ پھلدار ہے۔ اور یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔(قرطبی)19
حضرت زیدؓ بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابی ّ ؓبن کعب نے رسول کریمؐ کی موجودگی میں صحابہ کو قرآن کی تلاوت سنائی تو سب پر رقّت طاری ہوگئی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا رقت کے وقت دعا کو غنیمت جانو کیونکہ رقّت بھی رحمت ہے۔(قرطبی)20
کلام الہٰی سن کررسول کریمؐ پررقت طاری ہوجاتی اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک روز آپؐ نے فرمایاکچھ قرآن سنائو! جب وہ اس آیت پر پہنچے فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُ لٓائِ شَھِیْدًا (سورۃ النسائ:42)تو آپ ؐ ضبط نہ کر سکے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی بہہ نکلی۔ہاتھ کے اشارے سے فرمایا بس کرو۔(بخاری)21
آپؐ کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ایک شخص کو تلاوت کرتے سنا جو سورۂ مزّمل کی اس آیت کی تلاوت کررہا تھا ۔اِنَّ لَدَیْنَا اَنْکَالًا وَجَحِیْمًا (یعنی ہمارے پاس بیڑیاں اور جہنم ہے)تو نبی کریم ؐمدہوش ہوکر گرپڑے۔(کنز)22
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گر گئے۔پھر بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی ہر دفعہ آپؐ روتے روتے گر پڑتے۔ آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔(ابن جوزی)23
کندہ قبیلہ کا وفدرسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے آپؐسے کوئی نشانِ صداقت طلب کیا۔ آپؐ نے قرآن شریف کے اعجازی کلام کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایسا کلام ہے جس پر کبھی بھی باطل اثر انداز نہیں ہوسکتانہ آگے سے نہ پیچھے سے۔ پھر آپؐ نے سورۂ صافات کی ابتدائی چھ آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی۔وَالصّٰفّٰتِ صَفًّاo فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًاo فَالتّٰلِیٰتِ ذِکْرًاo اِنَّ اِلٰھَکُمْ لَوَاحِدٌ oرَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَھُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِo (الصّٰفّٰت:1تا6)
ترجمہ:قطاردرقطارصف بندی کرنے والی (فوجوں) کی قسم پھر اُن کی جو للکارتے ہوئے ڈپٹنے والیاں ہیں۔ پھر ذکربلند کرنے والیوں کی۔ یقینا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔آسمانوں کا بھی ربّ ہے اور زمین کا بھی اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور تمام مشرقوں کا ربّ ہے۔
یہاں تک تلاوت کر کے حضورؐ رُک گئے کیونکہ آواز بھراکر گلوگیر ہوگئی تھی۔ آپؐ ساکت و صامت اور بے حس و حرکت بیٹھے تھے ۔آنکھوں سے آنسو رواں تھے جو ٹپ ٹپ داڑھی پر گر رہے تھے۔ کندہ قبیلہ کے لوگ یہ عجیب ماجرا دیکھ کر حیران ہورہے تھے۔ کہنے لگے کیا آپؐ اپنے بھیجنے والے کے خوف سے روتے ہیں؟آپؐ نے فرمایا ہاں اسی کا خوف مجھے رُلاتا ہے جس نے مجھے صراطِ مستقیم پر مبعوث فرمایاہے۔مجھے تلوار کی دھار کی طرح سیدھا اُس راہ پر چلنا ہے اگر ذرا بھی میں نے اس سے انحراف کیا تو ہلاک ہوجائوں گا۔(حلبیہ)24
نمازوں میں مسنون تلاوت
قرآن کریم توسارے کا سارا ہی بہت پیارا ہے۔ مگر رسول کریمؐ سے مختلف اوقات میں حسب حال مضمون قرآنی کی مناسبت سے نمازوں میں بعض خاص سورتوں کی تلاوت ثابت ہے۔
آپؐ ظہر و عصر کی نمازوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد بعض سورتوں کی خاموش تلاوت فرماتے تھے اور مغرب وعشاء وفجر میں فاتحہ کے ساتھ کسی سورت یا حصۂ قرآن کی بآواز بلند تلاوت ہوتی تھی۔
نمازظہر کی پہلی دورکعتیں آخری دورکعتوں سے تلاوت کے لحاظ سے دوگنی لمبی ہوتی تھیں۔ پہلی دورکعتوں میں سے ہررکعت میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کا اندازہ قریباً تیس آیات کے برابر تلاوت کا ہے۔ حضرت جابرؓ بن سمرہ کے مطابق ظہر وعصر میں سورۃ اللیل کی تلاوت ہوتی تھی۔(جس کی 21چھوٹی آیات ہیںدوسری روایت میں سورۂ اعلیٰ کی تلاوت کابھی ذکرہے) اور فجر کی نماز میں نسبتاًاس سے لمبی تلاوت ہوتی ہے۔ (مسلم)25
حضرت جابرؓ کے نزدیک نبی کریمؐ فجر میں سورۃ ق ٓ کی تلاوت کرتے تھے بعد میں یہ تلاوت اس سے بھی نسبتاً مختصر ہوگئی۔ حضرت ابوبرزہؓ اسلمی کا اندازہ ہے کہ فجر کی ہر رکعت میں 60 سے 100 آیات کی تلاوت ہوتی تھی۔حضرت عمروؓ بن حُریث کا بیان ہے کہ انہوں نے فجر میں رسول کریمؐ کو سورۃ تکویر کی تلاوت کرتے سنا۔(مسلم)26
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم السجدہ اور سورۂ دھر کی تلاوت فرماتے تھے۔(بخاری)27
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ ام الفضلؓ نے انہیں مغرب کی نماز میں سورۃ المرسلات پڑھتے سنا تو کہنے لگیں میرے بیٹے! تم نے نماز مغرب میں یہ سورت تلاوت کرکے مجھے وہ زمانہ یاد کروادیا، جب میں نے نبی کریم ؐ کونماز مغرب میں سورۂ المرسلات پڑھتے سنا۔(احمد)28
حضرت جبیرؓ بن مطعم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریمؐ کو مغرب کی نماز میں سورۂ طُور پڑھتے سنا۔اور ایسی خوبصورت اور دلکش آواز میں کہ قریب تھا کہ میرا دل اُڑ جائے۔ (احمد29) یعنی میں مکمل طور پر اس تلاوت کے سننے میں محو ہوگیا اور اپنی کوئی ہوش نہ رہی۔
حضرت جابربن سمرہؓ نے نمازمغرب میں سورۃ کافرون اور سورۃاخلاص پڑھنے کی سنت رسول ؐروایت کی ہے۔(بغوی)30
حضرت برائؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کو نماز عشاء میں سورۂ التین کی تلاوت کرتے سنا۔ اور خدا کی قسم میں نے آپؐ سے زیادہ خوبصورت آواز میں تلاوت کرنے والا کوئی نہیں سنا۔(بخاری)31
حضرت معاذ ؓ بن جبل کو رسول کریمؐ نے عشاء میں نسبتاً مختصر قرأت کی خاطر سورۃ شمس، والضُّحٰی،واللیل اورسورۃ الاعلیٰ کی تلاوت کی ہدایت فرمائی۔(احمد)32
نبی کریمؐ جمعہ اور عیدین کے موقع پر سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے تھے۔(سیوطی)33
اسی طرح جمعہ کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الجمعہ اور دوسری رکعت میں سورۃ المنافقون کی تلاوت کی روایت بھی آئی ہے۔(سیوطی)34
الغرض رسول کریمؐ کے عشق قرآن کا اظہار قرآن شریف کی تلاوت کی کثرت سے بھی خوب ہوتا تھا۔ قرآن آپؐ کی روح کی غذاتھا۔ اور آپؐ کی قلبی کیفیت یہی تھی۔
دل میں یہی ہے ہردم تیرا صحیفہ چُوموں
قرآں کے گردگھوموں کعبہ میرا یہی ہے
حوالہ جات
1
تفسیرالجامع لاحکام القرآن قرطبی جز 15ص51دارالکتاب العربی
2
تفسیرالجامع لاحکام القرآن قرطبی جز 11ص150دارالکتاب العربی
3
مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 2ص253
4
مسنداحمدجلد3ص119
5
مسنداحمدجلد2ص450
6
مسنداحمدجلد6ص302
7
مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد1ص540
8
بخاری کتاب الوضوء باب قرا ء ۃ القرآن بعد الحدث
9
بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ والقرا ء ۃ عندالمنام
10
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فیمن یقرا ٔالقرآن عندالمنام۔۔:3402
11
مسند احمد جلد6ص68
12
مسند احمد جلد4ص128
13
مجمع الزوائد ھیثمی جلد10ص121
14
ابوداؤد کتاب الصلوۃ۔باب فی الدعا ء مایقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ
15
بخاری کتاب الصوم
16
بخاری کتاب الفضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی ﷺ
17
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب تفسیر سورۃ الواقعہ:3297
18
ترمذی ابواب التفسیر سورۂ رحمان :3291
19
تفسیر الجامع لاحکام القرآن للقرطبی سورۃ الرحمان ص133مطبوعہ دارالکتاب العربی
20
تفسیرالجامع لاحکام القرآن قرطبی جلد15ص219دارالکتاب العربی
21
بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقریٔ للقاری حسبک:4662
22
کنزالعمال جلد7ص206
23
الوفاباحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص549بیروت
24
السیرۃ الحلبیہ جلد3ص227بیروت
25
مسلم کتاب الصلوۃ باب القراء ۃ فی الظھروالعصر والفجر
26
مسلم کتاب الصلوۃ باب القراء ۃ فی الفجر
27
بخاری کتاب الجمعہ باب مایقرأفی صلوۃ الفجر
28
مسنداحمدجلد6ص340
29
مسنداحمدجلد4ص84
30
شرح السنہ للبغوی جلد3ص81
31
بخاری کتاب الصلوۃ باب القراء ۃ فی المغرب والعشاء
32
مسنداحمدجلد6ص340
33
تفسیر الدر المنثور سورۃ الاعلیٰ جلد8ص480دارالفکر
34
تفسیر الدرالمنثورسورۃ المنافقون جلد8ص170دارالفکر
رسول اللہؐ کی قبولیت دعا کے راز
آداب دعا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبولیت دعا کے راز اپنے تجربے سے خودمشاہدہ کئے پھر ہمیں بھی وہ آداب سکھائے۔آپؐ نے ان حالات، مقامات،اوقات، مواقع اور کیفیات کی نشاندہی فرمائی جن میں دعائیں بطور خاص قبول ہوتی ہیں۔ان تمام کیفیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ حالتیں انسان میں جوش اضطراب اور دعا کی تحریک میں ممدّومعاون ہوتی ہیں۔اس لئے ایسے حالات ،اوقات کی دعائیں خاص قبولیت کا اثر رکھتی ہیں۔ ان بابرکت اوقات کا تذکرہ یہاں مناسب ہوگا۔
٭
نماز تہجد کی دعائیں (بالخصوص رات کے آخری حصہ میں)
٭
اذان کے وقت نیز اذان و اقامت کے درمیان کی دعا
٭
آمین کی کیفیت میں ملائکہ سے موافقت یعنی نماز میں توجہ سے دعا
٭
حالتِ سجدہ کی دعائیں ٭ نماز جمعہ میں قبولیت دعا کی گھڑی
٭
مسلمانوں کے اجتماع اور پاکیزہ مجالس ذکر کی دعائیں
٭
روزہ دار کی افطاری کے وقت کی دعا
٭
رمضان المبارک بالخصوص آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کی دعائیں
٭
ختم قرآن کے وقت کی دعا ٭ بارش کے وقت کی دعا
٭
حالتِ مظلومیت کی دعائیں ٭ ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا۔
٭
ایک شخص کی دوسرے غیرموجود بھائی کے حق میںدعائیں
بعض تعلقات کی وجہ سے بھی دعا میں اضطراب اور جوش پیدا ہوتا ہے۔مثلاً
٭
والدین کی اولاد کے بارے میں اور نیک اولاد کی والدین کے حق میں دعا
٭
امام عادل کی دعا نیز صالح اور نیک لوگوں کی دعائیں
بعض مقامات بھی قبولیت دعا کے لئے خاص جوش اورتاثیر پیداکرتے ہیں۔
٭
مکّہ مکرمہ میں بیت اللہ کو دیکھ کر دعا ٭ مقام ابراہیم پرنیزحجراسود کے پاس دعا
٭
صفا مروہ پر دعا ٭ مشعرالحرام اور میدان عرفات میں دعا
٭
مسجد نبوی اور بیت المقدس میں دعا
اس جگہ قبولیت دعا کے ان جملہ مواقع اوقات و حالات اور تعلقات کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کے بعض ارشادات بیان کرنے مناسب ہوں گے۔
۱۔ نماز تہجدکا وقت خاص قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے۔ رسول کریمؐ فرماتے ہیں کہ ہمارا رب ہر رات کو جب آخری تہائی شب باقی رہ جائے، نچلے آسمان پر اترآتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں۔کون ہے جو مجھ سے مانگے اور مَیں اس کو عطاکروں۔کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اورمَیں اسے بخش دوں۔(بخاری)1
بعض روایات میں آدھی رات گزر جانے کے بعد اور بعض میں ایک تہائی رات کے بعد اللہ تعالیٰ کے نچلے آسمان پر اُتر آنے کا ذکر ہے۔
حضرت ابوامامہ باہلیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ رات کے درمیانی حصہ میں سب سے زیادہ قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے۔اس کے بعد فرض نمازوں کے معاً بعد کے اوقات بھی خاص قبولیت کے ہیں۔(ترمذی)2
۲۔ اذان کے وقت کی دعا کے بارے میں حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’دو ایسے اوقات ہیں جن میں دعا ردّ نہیں کی جاتی ایک اذان کے وقت،دوسرے جنگ میں جب دشمن سے سخت مقابلہ جاری ہو۔‘‘(ابودائود)3
حضرت انس بن مالک ؓکہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا کبھی ردّ نہیں کی جاتی۔کسی نے پوچھا اس وقت کون سی دعا کرنی چاہیے۔فرمایا’’دنیا و آخرت کی بھلائی مانگو‘‘۔(ترمذی)4
۳۔ ختم قرآن کا وقت بھی خاص قبولیت کے اوقات میں سے ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جب بندہ قرآن کریم ختم کرتا ہے تو اس وقت ساٹھ ہزار فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ نیز اس موقع پر قبر کی وحشت سے مانوسیت اورحصول رحمت باری کی دعا رسول اللہؐ نے سکھلائی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ختم قرآن کا وقت نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے۔ (شوکانی)5
۴۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو جمعہ کی ایک خاص گھڑی کا بتایا جس میں دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں۔اس گھڑی کا وقت خطبہ جمعہ سے لے کر جمعہ کے دن کے ختم ہونے تک بیان کیا گیا ہے۔خاص طور پر خطبہ جمعہ اور نماز کے دوران اس گھڑی کی توقع کی جاسکتی ہے۔(ابوداؤد)6
۵۔ رمضان المبارک دعائوں کا مہینہ ہے۔بالخصوص اس کے آخری عشرہ میں آنحضرتؐ کی سنت سے خاص مجاہدے کے ساتھ دعائیں کرنا ثابت ہے۔(بخاری)7
رسول اللہ ؐ نے فرمایاروزہ دار کے لئے افطاری کا وقت قبولیت دعا کا ایک خاص موقع ہوتا ہے۔ جس وقت اس کی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔(ترمذی)8
۶۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی رات خاص طور پر قبولیت دعا کے اوقات میں سے ہے۔(ترمذی)9
۷۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی نیک لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھتے ہیں تو فرشتے ان کو گھیرلیتے ہیں اور ان پر رحمت و سکینت کا نزول ہوتا ہے اور ان کو مغفرت عطاہوتی ہے۔(بخاری)10
۸۔ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بارانِ رحمت کے نزول کا وقت بھی قبولیت دعا کا خاص وقت ہوتا ہے۔(ابن ماجہ)11
۹۔ جن کیفیات میں دعا بطور خاص قبول ہوتی ہے ۔ان میں ایک وہ حالت ہے جب نماز میں توجہ اور خشوع حاصل ہو۔حدیث میں آتا ہے جب سورۃ فاتحہ کی دعا کے بعد ملائکہ کی آمین سے کسی کی آمین کی موافقت ہوجائے تو اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔(بخاری)12
۱۰۔ سجدے میں دعائوں کا خاص موقع ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان حالت سجدہ میں اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے۔پس تم اس وقت کثرت سے دعائیں کیا کرو۔(مسلم)13
۱۱۔ مظلوم کی دعا بھی خاص قبولیت کے لائق ہے۔آنحضرت ﷺ نے جن تین دعائوں کی خاص قبولیت کا ذکر فرمایا ان میں ایک مظلوم کی دعا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ مظلوم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان قبولیت میں کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔(بخاری)14
۱۲۔ ایسے شخص کے لئے خاص توجہ اور جوش سے دعا کرنا جو پاس موجود نہ ہو خاص قبولیت کا موقع ہوتا ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سرعت کے ساتھ قبول ہونے والی دعا اس شخص کی دعا ہے جو اپنے کسی غیر حاضر بھائی کے لئے دعا کرتا ہے۔(مسلم)15
۱۳۔ دعا کرنے والے کی حالت بھی قبولیت دعا میں ممدّومعاون ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے اللہ سے اس کے حضور،ہتھیلیاں پھیلاکر سوالی بن کر دعا مانگا کرو اور جب دعا سے فارغ ہوجائو تو ہاتھ منہ پر پھیرلو۔اسی طرح فرمایا کہ تمہارا رب بہت ہی کریم اور حیادار ہے۔جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعا کرتا ہے تو اس کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ وہ ان ہاتھوں کو خالی واپس لوٹا دے۔(ترمذی)16
بعض رشتے اور تعلقات بھی قبولیت دعا کے لئے محرّک ہوتے ہیں۔ چنانچہ والد کی دعا کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر والد اولاد کے خلاف دعا کرے تو اس کی قبولیت میں شک نہیں ہوتا۔ (ترمذی17)اسی طرح والدین کی اولاد کے حق میںاور نیک اولاد کی اپنے والدین کے لئے دعا بھی خاص طور پر قبولیت کا رنگ رکھتی ہے۔
۱۵۔ آنحضرت ﷺ نے امام عادل یعنی مسلمانوں کے نیک اور بزرگ ائمہ کی دعا کے متعلق فرمایا کہ وہ ردّ نہیں کی جاتی اسی طرح نیک اور صالح لوگوں کی دعائیں بھی قبولیت کا خاص مرتبہ رکھتی ہیں۔(ترمذی)18
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دعائیں خاص قبول ہوتی ہیں۔
۱۶ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا ؑ کو حصول اولاد کے لئے جب جوش دعا پیدا ہوا تو وہ اپنے محراب(عبادت کی خاص جگہ) میں دعا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ٹلے نہیں جب تک دُعا قبول نہیں ہوئی۔ اسی جگہ ان کو دعا قبول ہوجانے کی خوشخبری بھی عطا کی گئی۔(سورۃآل عمران:39,40)
۱۷ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بیت اللہ کے ماحول میں مقام ابراہیم پر خاص طورسے عبادات اور دعائیں کرنے کی ہدایت فرمائی۔ (البقرہ)پس یہ دعائیں بھی خاص تاثیر رکھتی ہیں۔
۱۸ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جب بیت اللہ پر نظر پڑے تو جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔
۱۹ اسی طرح بیت اللہ میں حجر اسود کے پاس دعا کا خاص موقع ہوتا ہے جہاں رسول کریمؐ نے بہت رو رو کر دعائیں کیں۔(شوکانی)19
۲۰ صفا مروہ اور مشعر الحرام کے پاس بھی رسول اللہؐ نے دعائیں کیں۔اس جگہ بھی دعا کی قبولیت کا ذکرملتاہے۔(نسائی)20
۲۱ میدان عرفات کی دعا کورسول اللہؐ نے بہترین دعاقراردیا۔ (ترمذی) 21
۲۲ رسول اللہ ؐ نے بیت اللہ کے علاوہ دیگر مقامات مقدسہ میں سے بطور خاص مدینہ کی مسجد نبویؐ اور بیت المقدس کی طرف خاص اہتمام سے سفر کرنے کی اجازت فرمائی۔ ان مقامات میں بھی انسان قبولیت دعا کے خاص مواقع حاصل کرسکتا ہے۔(بخاری)22
آداب دعا اور چند جامع دعائیں
آدابِ دعامیں یہ شامل ہے کہ اس سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کرنی چاہئے۔سورۃ فاتحہ کے بعد درود شریف پڑھ کر دعاکرنی زیادہ مناسب اور مقبول ہے۔
رسول کریمؐ نے صحابہ کو دعا کے آداب بھی سکھائے۔ ایک دفعہ آپؐ ایک شخص کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ جو چُوزے کی طرح کمزور ہوچکا تھا۔ رسول کریمؐ نے اس کی حالت بھانپ کر فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے تھے وہ کہنے لگا ہاں میں دعاکرتا تھا کہ اے اللہ تو نے جو سزا مجھے دینی ہے۔آخرت کی بجائے اسی دنیا میں دے لے۔رسول کریمؐ نے فرمایا’’اللہ پاک ہے تمہیں اس سزا کی برداشت کہاں ہے؟ تمہیں یہ دعا کرنی چاہئے تھی!اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَۃً وَ فِی الاخِرَۃِ حَسَنَۃً ،وَقِنَا عَذَابَ النَّار۔
اے اﷲ! ہمیں دنیا میںبھی نیکی عطا کر اور آخرت میں بھی ۔ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔پھررسول کریمؐ نے اس شخص کے لئے دعا کی اور اسے اللہ تعالیٰ نے شفا عطافرمائی۔(مسلم)23
.968حضرت عبد اﷲؓ بن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺروزانہ صبح اور شام کچھ دُعائیہ کلمات ضرور پڑھتے تھے ۔اُن میں سے ایک دُعا یہ ہے :-
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَساَلُکَ العَافِیَۃَ فِی الدُّنیَا وَالآخِرَۃِ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَساَلُکَ العَفوَ وَالعَافِیَۃَ فِی دِینِی وَدُنیَایَ،وَاَھلِی وَمَالِی ،اَللّٰھُمَّ استُر عَورَاتِی،وَآمِن رَوعَاتِی ،اَللّٰھُمَّ احفَظنِی مِن بَینِ یَدَیَّ وَمِن خَلفِی وَعَن یَمِینِی وَعَن شِمَالِی وَمِن فَوقِی، وَاَعُوذُ بِعَظمَتِکَ اَن اُغتَالَ مِن تَحتِی۔ (ابو داؤد )24
اے اﷲ! مَیں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا طلبگار ہوں۔مولیٰ !مَیں تجھ سے دین و دنیا،مال و گھر بار میںعفو اور عافیت کا خواستگار ہوں۔اے اﷲ !میری کمزوریاںڈھانپ دے اور مجھے میرے خوفوں سے امن دے ۔اے اﷲ ! آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر سے خود میری حفاظت فرما اور مَیں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ مَیں نیچے سے کسی مخفی مصیبت کا شکار ہوں۔
حضرت ابوامامہ باہلیؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپؐنے ڈھیر ساری دُعائیں کی ہیںجو ہمیں یاد ہی نہیں رہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ میںتمہیں ایک جامع دُعا سکھاتا ہوں تم یہ یاد کر لو:۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَساَلُکَ مِن خَیرِ مَا سَئَلَکَ مِنہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ ،وَنَعُوذُبِکَ مِن شَرِّمَااستَعَاذَ مِنہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَاَنتَ المُستَعَانُ ،وَعَلَیکَ البَلَاغُ۔ (ترمذی )25
اے اللہ !ہم تجھ سے وہ تمام خیر و بھلائی مانگتے ہیں جو تیرے نبی ﷺ نے تجھ سے مانگی اور ہم تجھ سے ان باتوں سے پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمد ﷺ نے پناہ چاہی ۔تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جاتی ہے ۔پس تیرے تک دُعا کا پہنچانا لازم ہے۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ ایک دفعہ فجر کی نماز میں اتنی تاخیرسے تشریف لائے کہ سورج نکلنے کے قریب ہوگیا۔ آپؐ نے مختصر نماز پڑھا کر فرمایا کہ تم لوگ اپنی جگہ بیٹھے رہو۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا میں تمہیں آج فجر کی نماز پر دیرسے آنے کی وجہ بتادوں۔ میں رات کو تہجد کے لئے اُٹھااورجتنی توفیق تھی نماز پڑھی۔ نماز میں ہی مجھے اونگھ آگئی۔ آنکھ کھلی تو اپنے رب کو نہایت خوبصورت شکل میں دیکھا۔ اللہ نے فرمایا اے محمد معلوم ہے فرشتے کس بارہ میں بحث کررہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ دوبارہ اللہ تعالیٰ نے یہی پوچھا تو میں نے یہی جواب دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے کندھے پر رکھی یہاں تک کہ اس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی اور ہر چیز میرے پر روشن ہوگئی۔پھر اللہ نے پوچھا اے محمد فرشتے کس بارہ میں بحث کررہے ہیں؟ میں نے کہا ’’کفّارات‘‘ کے بارہ میں۔ اللہ نے فرمایاکفّارات کیا ہیں؟(یعنی وہ چیزیں جن سے گناہ دورہوتے ہیں)۔میں نے کہا نماز باجماعت کے لئے چل کر مسجدجانا اور نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر ذکرالہٰی کرنا اور ناپسندیدگی کے باوجود مکمل وضو کرنا۔ پھر اللہ نے پوچھا اور ’’درجات‘‘ کیا ہیں؟ میں نے کہا کھانا کھلانا، نرم کلام کرنا اور نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوں۔ تب اللہ نے فرمایا اب مانگو جو مانگتے ہو۔ تب میں نے یہ دعا کی۔ رسول اللہؐ نے فرمایایہ دعا برحق ہے اسے خود بھی یادکرو اور دوسروں کو بھی سکھائو۔دعا یہ ہے۔اَللّٰھُمّ اِنّیِ أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ، وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ المَسَاکِیْنِ، وَأن تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْ، وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَمَفْتُونٍ، وَأَسْأَلُکَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ ، وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ
اے اللہ! میں تجھ سے نیک کام کرنے اور بری باتیں چھوڑنے کی توفیق چاہتا ہوں۔ مجھے مساکین کی محبت عطاکر۔اور مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر۔ اور جب تو قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر فتنہ میں ڈالے موت دے دینا۔میں تجھ سے تیری محبت چاہتا ہوں اوراس کی محبت جس سے تو محبت کرتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تیری محبت کے قریب کردے۔آمین۔(احمد)26
سیرت النبی ؐ… قبولیت دعا کے واقعات
خدا ایک مخفی خزانہ تھا اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے انسان کو پیدا کیا اور اپنی ذات و صفات کا عرفان اسے بخشا ۔ان صفات میں سے ایک نہایت اہم صفت جو ہستی باری تعالیٰ پرزبردست گواہ ہے خدا تعالیٰ کا مجیب الدعوات ہونا ہے۔ وہ خود اپنی ہستی کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ کون ہے جو لاچار کی دعائیں سنتا اور اس کی مصیبت دور کرتا ہے کیا خدا کے سوا کوئی اور معبودہے؟(سورۃ النمل:63)
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہوں جو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا اور اس کا جواب دیتا ہوں، شرط یہ ہے کہ یہ دعائیں کرنے والے کامل ایمان کے ساتھ میرے حکم قبول کریں۔(سورۃ البقرہ:187)
دراصل قبولیت دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ جتنا کوئی خدا کی باتیں مانتا ہے اسی قدر اس کی سنی اور مانی جاتی ہے ۔ ایک لاکھ چوبیس ہزارنبیوں کی زندگی گواہ ہے کہ ان کا ایک ایک لمحہ دعا کے سہارے گزرااور تبھی وہ کامیاب وکامران ہوئے۔
انبیاء کرام کے اس عظیم گروہ میں ایک وہ مرد میدان بھی ہے جس نے اپنے رب کریم کی اطاعت میں اپنا وجود ایسا مٹایا کہ خدا کی رضا اس کی رضا بن گئی۔ وہی فخرانسانیت جس نے یہ نعرہ بلند کیا کہ’’ میری نمازیں اورقربانیاں اور میرا مرنا اورجینا سب اس اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔ تب خدا بھی اس پر خوب مہربان ہوا اور اس دنیا میں اس کی سب مرادیں پوری کیں۔ اگلے جہاں میں بھی جب تمام انبیا ء کی خدمت میں خدا کے دربار میں شفاعت کرنے کی التماس ہو گی تو سب انبیاء کے عذر کے بعد آپؐ ہی وہ جری اللہ ہیں جو آگے بڑھیں گے اور اپنے مولیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اور گڑگڑا کر اپنے امتیوں کے لئے شفاعت کی اجازت چاہیں گے تب آپؐ کو یہ مثردہ سنایا جائے گا کہ ’’ سَلْ تُعْطَہْ‘‘ آج آپ ؐجو مانگیں گے عطا کیا جائے گا۔ اور پھر کتنے ہی ایسے امتیوںکے حق میں آپؐ کی شفاعت قبول ہو گی جن کے اعمال صالحہ میں کچھ کمزوریاں بھی رہ گئی تھیں اور وہ سب بخشے جائیں گے ۔یقیناً یہی وہ عظیم الشان مقبول دعا ہو گی جس کے بارے میں ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کو ایک خاص دعا کی قبولیت کا وعدہ ہوتا ہے اور میں نے وہ دعا اپنی امت کے لئے محفوظ کر رکھی ہے جو روز قیامت اپنے رب سے مانگوں گا۔ ہزاروں ہزار درود ہوں اس محسن اعظم ؐ پر جنہیں اپنی امت کا اس قدر درد تھا۔ (بخاری)27
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میںدعا کا عرفان اور اس پرسچا ایمان ہمارے سیدومولیٰ محمد مصطفیٰؐ نے پیدا کیا ،آپؐ نے ہمیں سکھایا کہ جوتی کا تسمہ بھی مانگنا ہو تو اپنے رب سے مانگو ۔ آپؐ کا تو لمحہ لمحہ دعا تھا اور آپؐ کی پاکیزہ سیرت قبولیت دعا کے سینکڑوں خوبصورت نمونوں سے بھری پڑی ہے۔ جن میںسے چند واقعات کا تذکرہ اس جگہ کیا جا رہا ہے تاکہ قبولیت دعا پر ایمان اور یقین بڑھے اور دعا کے لئے جوش اور جذبے اس طرح پروان چڑھیں جیسے حضرت مریم ؑ کے ہاں بے موسم پھل دیکھ کر حضرت زکریاؑ میں دعا کا جوش پیدا ہوا تھا جو بالآخر اُن کی قبولیت کا باعث ٹھہرا۔ ہم بھر پور یقین اور عزم کے ساتھ اپنے اس مولیٰ سے مانگیں جو اپنے بندوں کے ساتھ گمان کے مطابق ہی سلوک کرتاہے ۔سیرت رسولؐ سے ایسی مقبول دعاؤں کے چند نمونے یہاں پیش ہیں۔
ہدایت کیلئے دعائیں
(1) ہمارے آقا ومولیٰ کا اٹھنا بیٹھنا اور اوڑھنا بچھونا تو دعا ہی تھا، آپؐ کے ہر کام کا آغاز بھی دعا سے ہی ہوتا تھا اور دعاؤں سے ہی آپ ؐ کے کام انجام کو پہنچتے تھے ۔مکہ میں جب آپؐ نے دعوت اسلام کا آغاز فرمایا اور مخالفت شروع ہوئی تو سردار ان قریش میں عمرو بن ہشام (ابو جہل )اور عمر بن خطاب جیسے شدید معاندین پیش پیش تھے ۔ رسول کریم ؐ کے دل میں ان شدید دشمنان اسلام کے حق میں محبت اور رحم کے جذبات ہی پیدا ہوئے اورآپؐ نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی ۔
’’اے اللہ ! ان دو اشخاص عمرو بن ہشام اور عمر بن الخطاب میں سے کسی ایک کے ساتھ (جو تجھے پسند ہو ) اسلام کو عزت اور قوت نصیب فرما۔‘‘ (ترمذی)28
پھردنیا نے دیکھا کہ ہادیٔ برحق کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعا ایسے حیرت انگیز معجزانہ رنگ میں قبول ہوئی کہ وہی عمر جو گھر سے تلوار لے کر رسولؐ خدا کو قتل کرنے نکلے تھے اسلام کی محبت اور دعا کی تلوار سے گھائل ہو گئے ۔
(2) جب قریش نافرمانیوں میں حد سے بڑھ گئے اور ان کے ایمان لانے کی صورت نظر نہ آئی ۔تب بھی اس رحمۃ للعالمینؐ نے ان کی ہلاکت نہیں مانگی بلکہ بارگاہ الٰہی میں ایک التجا کی (جو شاید بظاہر تو بد دعا معلوم ہو لیکن فی الواقع وہ ان کو کسی بڑی سزا اور تباہی سے بچانے کے لئے ایک نہایت حکیمانہ دعا تھی )آپ ؐ نے عرض کیا !’’اے میرے مولیٰ! ان مشرکین مکہ کے مقابلہ پر میری مدد کسی ایسے قحط سے فرماجس طرح حضرت یوسف ؑ کی مدد تو نے قحط سالی کے ذریعہ فرمائی تھی۔‘‘
اس دعا میں رحمت وشفقت کا یہ عجیب رنگ غالب تھاکہ ان کو قحط سے ہلاک نہ کرنا بلکہ جس طرح یوسف کے بھائی قحط سالی سے مجبور ہو کر اس نشان کے بعد بالآخراُن پر ایمان لے آئے تھے اس طرح میری قوم کو بھی میرے پاس لے آ۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور مشرکین مکہ کو ایک شدید قحط نے آگھیرا۔ یہاں تک کہ ان کو ہڈیاںاور مردار کھانے کی نوبت آئی۔ تب مجبور ہو کر ابو سفیان آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ’’اے محمدؐ! آپ ؐ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ آپ ؐ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپ ؐ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں (کہ قحط سالی دور فرما ئے ) اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپ ؐ کی قوم تباہ ہو جائے گی‘‘۔
رسول کریم ؐ نے ابو سفیان کو احساس دلانے کے لئے صرف اتنا کہا کہ تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہو جو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو ۔مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ اس رحمت مجسم کو اپنی قوم کی ہلاکت ہر گز منظور نہ تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپ ؐ کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے اور اپنے مولیٰ سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی یہ دعا بھی خوب مقبول ہوئی۔ اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے ۔مگر ساتھ ہی وہ انکار ومخالفت میں بھی تیز ہو گئے ۔(بخاری)29
حضور ؐ کی دعا سے جب بارشوں کا کثرت سے نزول شروع ہوا تو مسلسل کئی روز تک بارش ہوتی چلی گئی ۔مشرکین نے پھر آکر بارش تھم جانے کے لئے درخواست دعا کی اور رسولؐ اللہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں بارش تھم گئی۔ (سیوطی30)مگر حیف صد حیف کہ اس نشان کے باوجود قریش انکار ومخالفت سے باز نہ آئے۔
(3) مکی دور میں مشرکین مکہ کی مخالفت اور انکار بالاصر ار سے تنگ آکر جب ہمارے آقا ومولیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے الٰہی ارشاد کے مطابق طائف کا قصد فرمایا تو آپؐ کو زندگی کی سب سے بڑی تکلیف اور اذیّت وہاں اٹھانی پڑی ۔حضرت عائشہ ؓ نے ایک دفعہ آپ ؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ !جنگ اُحد (جس میں آپ ؐ شدید زخمی ہوئے اور تکلیف اٹھائی ) سے زیادہ بھی کبھی آپؐ کو تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے؟ رسولؐاللہ نے فرمایا اے عائشہ ؓ میںنے تیری قوم سے بہت تکلیفیں برداشت کیں ۔مگر میری تکلیفوں کا سخت ترین دن وہ تھا جب میں طائف کے سردار عبدیالیل کے پاس گیا اور (پیغام حق پہنچانے کے لئے) اس سے اعانت اور امان چاہی مگر اس نے انکار کر دیا (بلکہ شہر کے اوباش آپؐ کے پیچھے لگا دئے جو آپؐ کو پتھر مارنے لگے یہاں تک کہ آپؐ کے پاؤں سے خون بہنے لگا)۔ تب میں افسردہ ہوکر وہاں سے لوٹا۔
اس موقع پر ہمارے آقا ومولیٰ ؐنے دردوکرب میں ڈوبی ہوئی دعا کی اس سے آپؐ کی اس جسمانی تکلیف اور اذیت کابھی اندازہ ہوتا ہے جو اس موقع پر آپؐ نے برداشت کی۔دعا سے یوںمعلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور طائف والوں کے انکار اور ظلم کے مقابل پر اپنی بے بسی اور بے کسی کا عالم دیکھ کر اس اولوالعزم رسولؐ سید المعصومین کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا ۔آپؐ نے اپنے مولیٰ کی غیرت کو یوں جوش دلایا کہ:۔
’’اے خداوند ! میں اپنے ضعف وناتوانی، مصیبت اور پریشانی کاحال تیرے سوا کس سے کہوں؟ مجھ میںصبر کی طاقت اب تھوڑی رہ گئی ہے۔ مجھے اپنی مشکل حل کرنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی ۔میں سب لوگوں میں ذلیل ورسوا ہو گیا ہوں ۔تیرا نام ارحم الراحمین ہے تو رحم فرما ! کیا تو مجھے دشمن کے حوالے کر دے گا جو مجھے تباہ وبرباد کردے ۔خیر! جو چاہے کر پر توُ مجھ سے ناراض نہ ہونا۔ بس پھر مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔‘‘(طبرانی)31
پھر جب آپؐ قرن الثعالب مقام پر پہنچے تو کچھ اوسان بحال ہوئے۔ آسمان کی طرف نگاہ کی تو جبریل ؑ کی آواز آئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعا کا جواب بھیجا ہے۔ تب ملک الجبال نے آپؐ کوسلام کیا اور کہا کہ اے محمد! آپؐ کیا چاہتے ہیں ؟اگر آپؐ چاہیں تو ان دو پہاڑوں کو اس وادی پر گرا کر تباہ کر دوں ۔
اپنے جانی دشمنوں کی ہلاکت کے جملہ اسباب جمع ہو جانے پر بھی آپؐ نے ان کی تباہی نہیں چاہی۔ آپؐ نے جواب دیا کہ نہیں ایسا مت کرو ۔میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد لاشریک کی عبادت کریں گے اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ (بخاری)32
صرف یہی نہیں کہ آپؐ نے اپنی قوم کی ہلاکت نہیں چاہی بلکہ نہایت درد کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعا کی ۔اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔
اے اللہ! میری قوم کو ہدایت نصیب کر کہ یہ نادان ہیں ۔(خضری)33
بے کسی اور بے بسی کے زمانے کایہ عجیب اور حیرت انگیز ماجرا ہے کہ وہ قوم جس سے ہمارے آقا ومولیٰؐ کو زندگی کا سب سے بڑا دکھ پہنچتا ہے۔اُن کے لئے بھی آپ ؐ کے دل کی گہرائیوں سے رحمت وہدایت کی دعا کے سوا کچھ نہیں نکلتا پھر جب مکہ فتح ہوتا ہے اور آپ ؐ کو اتنی طاقت حاصل ہوتی ہے کہ چاہیں تو طائف کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اس وقت بھی آپؐ اہل طائف کے لئے اپنے مولیٰ سے رحمت کی بھیک مانگتے ہی نظر آتے ہیں۔ اسلامی لشکر جب طائف کا رخ کرتا ہے تو اہل طائف محصور ہو کر مقابلہ کی ٹھان لیتے ہیں اور قلعہ بند ہو کر کھلے میدان میں پڑے مسلمان محاصرین پر خوب تیر اندازی کرتے ہیں تب صحابہؓ سے رہا نہیں جاتا اور وہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ثقیف قبیلہ کے تیروں کی بارش نے ہمیں بھون کر رکھ دیا ہے آپؐ ان ظالموں کے خلاف کوئی بد دعا کریں۔ ایک ظالم قوم کا مسلسل ظلم اورانکار دیکھ کراورطاقت پاکر بھی ہمارے آقا ومولیٰؐ کی رحمت ودعا پھرجوش میں ہے آپؐ جواباً فرماتے ہیں !
اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفاً۔اے اللہ !وادی طائف کی قوم ثقیف کو ہدایت عطا فرما ۔دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی یہ دعا بھی قبولیت کا شرف پا گئی اور 9ھ میں قوم ثقیف نے مدینہ میں آکر اسلام قبول کر لیا ۔(بخاری)34
(4) یمن کے قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرو نے قبول اسلام کے بعد نبی کریم ؐ سے درخواست کی کہ میں اپنے قبیلہ کا سردار ہوں اور انہیں جاکر اسلام کی طرف بلانا چاہتا ہوں ۔آپؐ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے کوئی تائیدی نشان عطا فرمائے۔نبی کریمؐ نے اُسی وقت دعا کی کہ اے اللہ! طفیلؓ بن عمرو کو کوئی نشان عطاکر۔یہ دعا عجیب رنگ میں قبول ہوئی جس نے حضرت طفیلؓ کو بھی مستجاب الدعوات بنادیا۔
حضرت طفیلؓ کہتے ہیں میں اپنی قوم کی طرف لوٹا تواپنے شہر میں داخل ہوتے وقت میری پیشانی پر روشنی کا ایک نشان ظاہر ہوا۔میں نے دعا کی کہ اے اللہ! میری قوم یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اپنا دین تبدیل کرنے کی وجہ سے میرا چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔اس لئے یہ نشان کہیںاورظاہر فرمادے۔چنانچہ میری چابُک کے سرے پر وہ روشنی ظاہر ہوگئی اور جب میں شہر میں داخل ہوا تو لوگ میری چابُک کے سرے پر ایک روشن چراغ کا نظارہ کرنے لگے۔طفیل کے والد اور بیوی وغیرہ رشتہ داروں نے تو ان کی حکمت عملی سے نیز یہ نشان دیکھ کر حق قبول کرلیامگر قوم پھر بھی نہ مانی۔
تب حضرت طفیلؓ نے دوبارہ مکہ آکر رسول اللہؐ سے اپنی قوم کے خلاف بددعا کی درخواست کی۔نبی کریمؐ نے ہاتھ اُٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ دوس قبیلہ کو ہدایت عطافرمااور ان کو یہاں لے کر آ۔اور طفیل کو یہ نصیحت فرمائی کہ آپ واپس جاکر نہایت حکمت، نرمی اور محبت سے اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلائیں۔اس نصیحت پر عمل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اوردوس قبیلہ مسلمان ہونے لگا۔غزوۂ خیبر کے زمانہ میں حضرت طفیل اپنی قوم میں سے مسلمان ہونے والوں کو لیکر آئے اور جلد ہی مدینہ میں دوس کے سترّ اسّی گھرانے آباد ہوگئے۔یہ بلاشبہ رسول اللہؐ کی دعا کا معجزنمانشان تھا۔(بیہقی)35
(5) دوس قبیلہ کے ابوہریرہؓ اور ان کی مشرک والدہ بھی اسی دعا کا پھل تھے ۔ ایک روز حضرت ابوہریرہؓ نے مشرک والدہ کو اسلام قبول کرنے کو کہا تو انہوں نے رسولؐ اللہ کی شان میں گستاخی کی۔ابوہریرہؓ بڑے کرب کے ساتھ دربارنبوی میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل سے یہ دعا نکلی۔’’اَللّٰھُمَّ اھْدِ اُمَّ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘‘اے اللہ!ابوہریرہؓ کی ماں کو ہدایت دے۔یہ دعا عجیب معجزانہ طور پر قبول ہوئی۔ابوہریرہؓ گھر واپس آئے تو ان کی والدہ میں ایک عجیب تغیرّ اور انقلاب پیدا ہوچکا تھا۔وہ بآواز بلند ’’اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ پڑھ کر اپنے قبول اسلام کا اعلان کررہی تھیں۔
ابوہریرہؓ پھولے نہ سمائے اور خوشی کے آنسو لئے اسی وقت پھر رسولؐاللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔سارا واقعہ آپؐ سے عرض کیا۔ دعا پر ان کا ایمان اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ عرض کیا اے خدا کے رسولؐ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری والدہ کی محبت مومنوں کے دلوں میں پیدا کردے اور رسول اللہؐ نے ان کے حق میں یہ دعا بھی کردی۔(ابن حجر)36
(6) ایک دفعہ ایک یہودی نبی کریمؐ کے پاس بیٹھا تھا۔حضورؐ کو چھینک آئی تو یہودی نے یَرْحَمْکَ اللّٰہُ کہا کہ اللہ آپؐ پر رحم کرے۔نبی کریم ؐ نے اسے جواباً یہ دعا دی کہ اللہ تمہیں ہدایت دے۔چنانچہ اس یہودی کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطاہوئی۔(سیوطی)37
ہمارے آقا و مولیٰ کی یہ دعائیں ہی تھیں جنہوں نے سر زمین عرب کی کایا پلٹ دی تھی۔ یہ تو ان دعائوں کا ذکر تھا جو قوم کی ہدایت کے لئے گاہے بگاہے آپؐ نے کیں مگر آپؐ کا وجود تو مجسم دعا تھا۔چلتا پھرتا دعائوں کا ایک پیکر۔ایسے لگتا ہے کہ مَایَعْبَؤُابِکُمْ َربِّیْ لَوْلَادُعَاؤُکُمْ (الفرقان:78)( کہ اگر تم دعا نہ کرو تو خدا کو تمہاری کیا پرواہ ہے) کا ارشاد ہر دم آپؐ کے مدنظر رہتا تھا ۔
غزوات میں دعائیں
رسول اللہؐ کی زندگی کی تمام تر فتوحات بھی دراصل آپؐ کی دعائوں کی ہی مرہون منت تھیں۔ ہر مشکل مرحلے پر آپؐ ہمیشہ خدا کو یاد کرتے اور نصرت الہٰی طلب کرتے نظر آتے ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ دعا آپ ؐ کی زندگی اور آپؐ کی جملہ مہمات دینیہ کی ایک کلید تھی۔جسے آپؐ ہر ضرورت کے وقت استعمال فرماتے تھے۔ ہمیشہ یہ کلید آپؐ کے لئے فتوحات کے دروازے کھولتی ہوئی نظر آتی ہے۔
(7) بدر کی فتح کو اگر کوئی 313نہتے مسلمانوں کی فتح قرار دیتا ہے تودے، میں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ دراصل میرے آقا و مولیٰ کی ان بے قرار دعائوں کی فتح تھی جو بدر کی جھونپڑی میں نہایت عاجزی اور اضطراب سے آپؐ نے مانگیں۔اس روزآپؐ نے اپنے مولیٰ کونامعلوم کیا کیا واسطے دیئے۔ یہاں تک کہ اسے اس کی توحید کا واسطہ دے کرکہااے مولیٰ! آج تو نے اس چھوٹی سی موحّد جماعت کو ہلاک کردیا تو پھر تیری عبادت کون کریگا۔ (بخاری)38
کس قدر خدائی غیرت کو جوش دلانے والی ہے یہ دعا۔گویا باالفاظ دیگر آپؐ اپنے مولیٰ سے یوں مخاطب تھے کہ ان مٹھی بھر جانوں کی تو پرواہ نہیں،مجھے تو تجھ سے اور تیری توحید سے غرض ہے اور سالہا سال کی محنت کے بعدچند موحّد عبادت گزاروں کی یہ مٹھی بھر جماعت میں نے اکٹھی کی ہے۔اگر اس جماعت کو بھی تو نے ہلاک کردیا تو مجھے یہ فکر ہے کہ تیرے نام لیوا کہاں سے آئیں گے؟ بدر کے جھونپڑے میں کی جانے والی یہ دعا ہی تھی کہ بارگاہ الوہیت میں جب مقبول ہوئی تو اس نے کنکروں کی ایک مٹھی کو طوفان بادوباراں میں بدل کے رکھ دیااورتین سو تیرہ نہتے مسلمانوں کو مشرکین کے ایک ہزار مسلح لشکر جرار پر فتح عطا فرمائی۔(بخاری)39
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیںکہ بدر کے موقع پر رسول اللہؐ ساری رات دعا کرتے رہے۔عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے سچے واسطے دے کر محمدؐ سے بڑھ کر دعا کرنے والا کوئی نہیں سنا۔آپؐ نے بدر میںبڑے الحاح کے ساتھ دعا کر کے جب سراُٹھایا تو آپؐ کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔آپؐ نے فرمایا آج شام دشمن قوم کے لوگ جس جگہ ہلاک ہوکر گریں گے ان کی جگہ میں دیکھ رہا ہوں۔(ہیثمی)40
(8) غزوۂ احزاب کی فتح بھی دراصل دعائوں کی فتح تھی۔جب مدینہ کی چھوٹی سے بستی پر چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں مسلح لشکر چڑھ آئے اور محصور مسلمان سخت سردی کے ایام میں،ناکافی غذائی ضروریات کے باعث سخت پریشان تھے۔صحابہؓ رسول نے بھوک کا مقابلہ کرنے کیلئے پیٹوں پر پتھر باندھ لئے اور خود رسول خداؐ کے پیٹ پر دو پتھر تھے۔وہ جنگ صرف ایک اعصاب شکن جنگ ہی نہ تھی بلکہ مسلمانوں کی زندگی پر ہولناک ابتلا تھاجس کا سچا نقشہ اور صاف تصویر قرآن شریف نے یوں کھینچی ہے۔
’’جب دشمن اوپر سے بھی چڑھ آئے تھے اور نیچے سے بھی اور آنکھیں پتھرا گئیں اور دل مارے خوف کے اچھل کر گلوں تک آرہے تھے اور مومنوں کو خدا کے وعدوں پر طرح طرح کے گمان آنے لگے۔جہاں مومن خوب آزمائے گئے اتنے کہ ان کی زندگیوں پر ایک شدیداور خوفناک زلزلہ کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ ہلائے گئے بلکہ جھنجھوڑ کر رکھ دئے گئے۔‘‘(سورۃالاحزاب11,12)
ان نازک حالات میں جب شہر مدینہ زندگی اور موت کی کش مکش میںتھا۔ مدینہ میں ایک وجود ایسا بھی تھا جو اپنے مولیٰ پر کمال یقین اور توکل کے ساتھ ان دعائوں میں مصروف تھا۔
اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِ مْہُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۔ اے میرے مولیٰ ! اپنی پاک کتاب کو نازل کرنے والے اور جلد حساب لینے والے! عرب کے ان تمام لشکروں کو پسپا کردے ان کو شکست فاش دے اور ہلا کر رکھ دے۔
اس دعا کے نتیجہ میں اچانک ایک خوفناک آندھی نمودار ہوئی جس نے عربوں کی آگیں بجھادیں۔ وہ محاصرہ چھوڑ کر سخت افراتفری کے عالم میںبھاگے اور ایسے بھاگے کہ سر پیر کا ہوش نہ رہا۔لشکر کفار کا سردار ابو سفیان اپنے اونٹ کا گھٹنا تک کھولنا بھول گیا اور بندھے ہوئے اونٹ پر سوار ہوکر اسے بھگانا چاہا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر دعائوں کی قبولیت کے معجزہ کا ذکر کرتے ہوئے بے اختیار یہ کہہ اٹھے۔
لَااِلٰہَ اِ لَّااللّٰہُ وَحْدَہ‘ اَعَزَّ جُنْدَہ‘ وَ نَصَرَ عَبْدَہ‘ وَغَلَبَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ‘ فَلَا شَییَٔ بَعْدَہ ‘ (بخاری)41
کہ اس خدا کے سوا کوئی معبود نہیں جس نے اپنے گروہ کو عزت دی۔ اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور خود ہی تمام لشکروں پہ غالب آیا۔ سب کچھ وہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔
(9) غزوہ خیبر کا عظیم معرکہ بھی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی دعائوں کا ثمرہ تھا۔جب مسلسل کئی روز مختلف جرنیلوں کی سرکردگی میں ترتیب دئیے گئے لشکر خیبر کے قلعوں کو فتح نہ کرسکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعائوں میں لگ گئے،تب واقعہ یہ ہوا کہ خیبر کے محاصرہ کی ساتویں رات حضرت عمرؓ کے حفاظتی دستے نے ایک یہودی جاسوس کو اسلامی لشکر کے قریب گھومتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ اسے رسول کریمؐ کی خدمت میں لے آئے۔ اس وقت بھی حضور ؐ خدا کے حضور سر بسجود دعائوں میں مصروف تھے۔مگر آپؐ کی دعائیں رنگ لاچکی تھیں، یہودی جاسوس نے جان کی امان طلب کرتے ہوئے مسلمانوں کو خیبر کے قلعوں کے اہم جنگی راز بتادیئے۔ اس نے اہل خیبر کے خوف و ہراس اور مایوسی کے نتیجہ میں ایک قلعہ خالی کردینے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ فتح ہونے پر وہ راشن اور اسلحہ کے ذخیرے بھی بتائے گا۔(الحلبیہ)42
دعائوں کے نتیجہ میں خیبر کی فتح کی کلید حاصل ہوچکی تھی رسول کریم ؐ نے اس وقت اعلان فرمایا کہ صبح آپؐ اُس شخص کو لشکرِ اسلامی کا عَلم عطا کریں گے جس کے ہاتھ پر خدا مسلمانوںکو فتح دینے والا ہے، اور پھر آپ ؐ نے حضر ت علیؓ کو بلا کر عَلم اسلام عطا کیا۔ ان کی دکھتی آنکھیں آپؐ کی دعا کے فوری اثر سے شفا یاب ہوئیں اور دعائوں کے ساتھ آپؐ نے حضرت علیؓ کو رخصت کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر خیبر فتح فرمایا۔(بخاری)43
(10) مکہ کی عظیم الشان فتح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائوں کا تابندہ نشان تھا، رحمت دو عالم صدق دل سے چاہتے تھے کہ معاہدہ شکن دشمن پر اس طرح اچانک چڑھائی کریں کہ اسے کانوں کان خبر نہ ہوا ور اس کے نتیجہ میں دشمن جانی نقصان سے بھی بچ جائے۔اس مقصد کے حصول کے لئے دیگر تدابیر کے علاوہ آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور دعائوں میں لگ گئے کہ اے اللہ! قریش کے جاسوس ہم سے روک رکھنا اور ہماری خبریں ان تک نہ پہنچنے پائیں۔(حلبیہ)44
یہ دعائیں ایسی مقبول ہوئیں کہ جب رسولؐ خدا نہایت رازداری کے ساتھ دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں اہل مکہ کے سر پر آن پہنچے تو بھی ابوسفیان کو یقین نہ آتا تھا کہ مسلمان اتنے بڑے لشکر کے ساتھ اتنی تیزی سے مکہ پر چڑھ آئے ہیں۔آپؐ نے انہیں یوں حیران و ششدر اور مبہوت کر چھوڑا کہ وہ رسول اللہ ؐ کے مقابلہ کا موقع نہ پاسکے اور مکہ بغیرکسی کشت و خون کے فتح ہوگیا۔
(11) غزوات میں قدم قدم پر جو مشکلات رسول کریمؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو پیش آتیں، آپؐ اسی وقت خداتعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوکر ان کا ازالہ کرتے۔ایک جنگ میں زادراہ اور راشن کی بہت قلت ہوگئی،صحابہ ؓ کرام پریشان ہوکر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھانے کیلئے اپنے سواری کے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت چاہی۔پہلے تو آپؐ نے ان پر رحم کھاتے ہوئے اجازت دے دی، مگر بعد میں حضرت عمرؓ کے اس سوال پر کہ سواری کے اونٹ بھی نہ رہے تو سفر کیسے طے ہوگا؟ آپؐ کے دل میں دعا کا جوش پیدا ہوا۔ اسی وقت آپؐ نے اعلان کروایا کہ جو بچی کھچی زاد راہ قافلہ کے پاس ہے وہ اکٹھی کی جائے۔ پھرآپؐ نے اس معمولی سے جمع شدہ زاد راہ پر برکت کی دعا کی ۔اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور یہی خوراک اتنی بڑھ گئی کہ قافلہ کے سب لوگ اپنے اپنے برتن بھر کر لے گئے۔قبولیت دعا کا یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر رسول خدا ؐبے اختیار کہہ اٹھے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔(بخاری)45
(12) ایک سفر میں حضور ﷺ کی اونٹنی بدک کر بھاگ نکلی۔آپؐ نے دعا کی تو اچانک آندھی کا ایک بگولا نمودار ہوا جو اس اونٹنی کو دھکیل کر آپؐ کے پاس واپس لے آیا۔(عیاض)46
اہل مدینہ کیلئے دعائیں
(13) جب رسول اللہؐ مکہ سے ہجرت کر کے یثرب تشریف لائے تو یہ ایک وبائی علاقہ تھا جس کی وجہ سے کئی صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ ،حضرت بلالؓ ،اور حضرت عائشہ ؓ وغیرہ بیمار پڑ گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت خدا کے حضور دعا کی کہ اے مولیٰ! اس وبائی علاقہ کی وباء دو ر کردے اور اس شہر کے رزق میں برکت عطا فرما۔(بخاری47)یہ دعا جس طرح قبول ہوئی خود شہر مدینہ کی آبادی و شادابی اس پر شاہد ناطق ہے۔
(14) ایک دفعہ مدینہ میں سخت قحط پڑگیا،ایک شخص نے خطبہ جمعہ میں کھڑے ہوکر نہایت لجاجت سے باران رحمت کے لئے یوں درخواست دعا کی کہ اے اللہ کے رسولؐ ! مال مویشی خشک سالی سے ہلاک ہوگئے اور راستے ٹوٹ گئے۔ آپؐ دعا کریں کہ خدا بارش دے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! ہماری خشک سالی دور کر اور ہم پہ بارش برسا۔حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ اس وقت ہمیں آسمان پر کوئی بادل نظر نہیں آتا تھا اور مطلع بالکل صاف تھا۔ اچانک سلع کی پہاڑیوں کے پیچھے سے چھوٹی سی ایک بدلی اٹھی جو وسط آسمان میں آکر پھیلی ،پھروہ برسی اور خوب برسی یہاں تک کہ ایک ہفتہ تک ہم نے سورج کی شکل نہ دیکھی۔ اگلے خطبہ جمعہ کے دوران پھر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! اب تو بارش کی کثرت سے مال مویشی مرنے لگے ہیں اور سیلاب سے رستے بہ رہے ہیں۔ دعا کریں کہ اب بارش تھم جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! ان بادلوں کو ہمارے ارد گرد لے جا۔ ہم پہ نہ برسا۔ان کوپہاڑوں،ٹیلوں، وادیوںاور درختوں پر لے جا۔ تب اسی وقت معجزانہ رنگ میںبارش تھم گئی اور ہم جمعہ کے بعد باہر نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی۔(بخاری)48
رزق اور مال میں برکت کی دعائیں
رسول کریم ؐ کی معجزانہ دعائوں کے اثرات اور برکات مال اور رزق میں خارق عادت برکت کے رنگ میں بھی ظاہر ہوئے۔
(15) حضرت انس ؓ بن مالک انصاری دس برس کے تھے کہ والدین نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ذاتی خادم کے طور پر پیش کر دیا۔ ایک دفعہ حضرت انس ؓ کی والدہ حضرت ام سُلیم ؓنے آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ ! یہ انسؓ آپ کا خادم ہے، اس کے لئے اللہ سے دعا کریں۔ آپؐنے اسی وقت انسؓ کو دعا دی کہ اے اللہ! انس کے مال واولاد میں برکت دینا اور جو کچھ تو اسے عطا کرے اس میں برکت ڈالنا ۔(بخاری)49
حضرت انسؓ خود بیان کرتے تھے کہ خدا نے یہ دعا میرے حق میںخوب قبول فرمائی۔ میرا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہے اور میری زندگی میں میری اولاد بیٹے، بیٹیاں،پوتے نواسے ،نواسیاں سب ملا کر اسّی سے بھی زائد ہیں۔ حضرت انسؓ نے 103 سے 110سال عمر پائی۔(ابن اثیر)50
(16) حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللہ ؓ اُحد میں شہید ہوگئے تھے اور ان کے ذمہ یہودی ساہو کاروں کا کچھ قرض تھاجس کا وہ حضرت جابر ؓ سے سختی سے مطالبہ کررہے تھے۔یہاں تک کہ حضرت جابرؓ نے ان کو قرض کے عوض یہ پیشکش کردی کہ اس سال ان کے کھجوروں کے باغ کا سارا پھل قرض خواہ لے کر قرض سے بری الذمہ قرار دیدیں۔ مگر یہودی بنیئے نے رسول اللہؐ کی سفارش کے باوجود بھی ایساکرنے سے انکار کیا تو رسول کریم ؐ نے باغ میں تشریف لاکر دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے کھجور کا اتنا پھل ہوا کہ قرض ادا کر کے بھی نصف کے قریب کھجوربچ رہی۔جب حضرت ابوبکرؓ کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے یہ تبصرہ کیا کہ رسول اللہؐ نے جب باغ میں جاکر دعا کی تھی اس وقت ہی ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے پھل میں خارق عادت برکت دے گا۔(بخاری)51
(17) حضرت مقدادؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی بھوک اور فاقوں سے ایسے بدحال ہوئے کہ سماعت و بصارت بھی متاثر ہوگئی۔
مقدادؓ اپنی اس وقت کی مالی تنگی کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک اوڑھنے کی چادر تھی وہ بھی اتنی مختصر کہ سر ڈھانپتا تو پائوں ننگے ہوجاتے اور پائوں ڈھانکتا تو سر ننگا رہتا تھا ۔ہم نے محتاجی کے اس عالم میں صحابہؓ رسولؐ سے مدد چاہی مگر کوئی بھی ہمیں مہمان بناکر پاس نہ رکھ سکا۔ بالآخر ہم رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔ حضورؐ ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ آپؐ کے گھر میں تین بکریاں تھیں۔ آپؐ نے فرمایا ان بکریوں کا دودھ دوہ لیا کرو۔ ہم چاروںپی لیا کریں گے چنانچہ یوں گزارہ ہونے لگا۔ہم تینوں دودھ کا اپنا حصہ پی کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ بچا کر رکھ لیتے تھے۔ آپؐ رات کو تشریف لاتے ۔پہلے ہلکی آواز میں سلام کرتے کہ سونے والے جاگ نہ جائیں اور جاگنے والا سن لے۔پھر اپنی جائے نماز پر نماز پڑھ کر اس جگہ آتے جہاں آپؐ کے لئے دودھ رکھا ہوتا تھا۔آپؐ خود دودھ لے کر نوش فرماتے۔ ایک رات شیطان نے میرے دل میں کیا خیال ڈالا کہ اپنے حصہ کا دُودھ پی کر میں سوچنے لگاکہ یہ جو حضور ؐ کے لئے تھوڑا سا دودھ پڑا ہے اس کی آپؐ کو ضرورت ہی کیا ہے ۔آپؐ کی خدمت میں تو انصار تحفے پیش کرتے رہتے ہیںاور آپؐ اس سے کھا پی لیتے ہوں گے۔یہ سوچ کر میں نے حضورؐ کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا۔ جب اس سے خوب پیٹ بھر چکا توفکرہونے لگی کہ اب رسول کریم ؐ کیلئے کوئی دودھ باقی نہیں رہا اور اپنے کئے پر سخت ندامت سے اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ میرا برا ہومیں نے یہ کیا کیاکہ رسول کریم ﷺ کا حصہ بھی ہڑپ کر گیا۔اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئیں گے اور حسب معمول جب دودھ اس جگہ نہیں ملے گا تو ضرور میرے خلاف کوئی بد دعا کریں گے اور میری دنیاو آخرت تباہ ہوجائے گی۔اسی مخمصے اور بے چینی میں میری نیند اڑ گئی تھی ،جبکہ میرے دونوں ساتھی میٹھی نیند سورہے تھے کیونکہ وہ میری اس حرکت میں شامل نہیں تھے۔
اسی اثنا ء میں رسول اللہ ؐ تشریف لائے۔ آپؐ نے حسب عادت سلام کیا۔پہلے اپنی جائے نماز پر جاکر نماز پڑھتے رہے۔ پھر اپنے دودھ والے برتن کے پاس گئے ڈھکنا اٹھایا تو اس میں کچھ نہ پایا۔اُدھر آپ ؐ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور ادھر مجھے یہ خوف کہ لو اب میرے خلاف بددعا ہوئی اور میں مارا گیا۔ مگر آپؐ نے جو دعا کی وہ یہ تھی اے اللہ! جو مجھے کھلائے تو اس کو کھلا جو مجھے پلائے تو خود اس کو پلا۔۔۔اس دعا کا سننا تھا کہ میں فوراً اٹھا چادر اوڑھی اور چھری لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ذبح کر کے حضورؐ کو کھلا کر آپؐ کی دعا کا وارث بنوں۔ جب میں سب سے موٹی بکری کو ذبح کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے تھنوں میں دودھ اترا ہوا ہے،حالانکہ شام کو دودھ نکالا تھا پھر جب باقی بکریوں پر نظر کی تو سب کا یہی حال دیکھا۔ چنانچہ میں نے بکری ذبح کر نے کا ارادہ ترک کر کے حضورؐ کے گھر سے دودھ کا برتن لیا اور بکریاں دوبارہ دوہ کراسے بھر لیا اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپؐ نے جب تازہ دودھ دیکھا تو خیال ہوا کہ ان بیچاروں نے بھی ابھی تک دودھ نہیں پیاہوگا۔فرمانے لگے کیا تم لوگوں نے آج رات دودھ نہیں پیا۔ میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ حضورؐ !بس آپؐ پئیں۔ حضورؐ نے کچھ دودھ پی کر باقی مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ اب تم پی لو۔ میں نے کہا کہ آپؐ اور پئیں۔ حضورؐ نے اور پیا اور پھر مجھے دے دیا۔اب دل کو تسلی ہوئی کہ رسول اللہ ؐبھوکے نہیں رہے خوب سیر ہوچکے ہیں اور یہ خوشی بھی کہ آپؐ کی یہ دعا کہ ’’اے اللہ! جو مجھے پلائے تو اسے بھی پلا‘‘ میرے حق میں قبول ہوچکی ہے۔تب حضورؐ کے دودھ کا حصہ پینے کی اپنی حرکت یاد کر کے مجھے بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی، اتنی ہنسی کہ میں لوٹ پوٹ ہوکر زمین پر گر پڑا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے مقداد ! تجھے اپنی کونسی عجیب حرکت یاد آئی ہے جس پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہو ۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا قصہ کہہ سنایا کہ اس طرح آپؐ کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا اپنے حق میں آپؐ سے دعا بھی کروالی اور دوبارہ دودھ بھی پی لیا۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے(قبولیت دعا کے نتیجہ میں) خاص رحمت کا نزول تھا ۔تم نے اپنے ساتھی کو جگا کراور اس دودھ میں سے پلا کر کیوں نہ ان کے حق میں بھی یہ دعا پوری کروائی میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ مجھے اس برکت سے حصہ مل گیاتومیں اس بات سے بے پرواہ ہوگیا کہ کوئی اور اس میں شریک ہوتا ہے کہ نہیں۔(مسلم)52
(18) اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کے لئے رسول اللہؐ نے دعا کی کہ کبھی ان کو بھوک کی تکلیف نہ آئے۔ فاطمہؓ فرماتی ہیں اس کے بعد کبھی مجھے بھوک نہیں پہنچی۔(سیوطی)53
(19) حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کی تجارت میں برکت کے لئے حضورؐ نے دعا کی۔جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ کوئی چیز خریدتے تو اس میںنفع پاتے۔(سیوطی)54
(20) حضرت عرُوہؓ کے لئے آپؐ نے برکت کی دعاکی۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں نے بازار جاکر سودا لگایا اور بسا اوقات چالیس ہزار تک منافع لے کر واپس لوٹا۔ امام بخاری نے لکھا ہے کہ عروہؓ مٹی بھی خریدتے تھے تو اس میں منافع پاتے تھے۔(سیوطی)55
شفاء کی دعائیں
(21) رسول کریمؐنے مختلف مواقع پر بعض بیماروں کیلئے معجزانہ شفا کی دعا مانگی۔خدا تعالیٰ نے اس دعا کی قبولیت کے فوری اثرات ظاہر فرمائے، غزوہ خیبر میں رسول اکرمؐ نے اعلان فرمایا کہ کل میں جس شخص کو جھنڈا دوں گا اس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ فتح عطافرمائے گا۔ صحابہ نے اس امید میں رات بسر کی کہ شاید یہ قرعۂ فال ان کے نام پڑے۔ حضرت علیؓ کو آشوب چشم کی تکلیف تھی، آنکھیں اتنی شدید دکھتی تھیں کہ صحابہؓ کا اس طرف خیال ہی نہیں گیا کہ یہ عظیم فاتح حضرت علیؓ بھی ہوسکتے ہیں۔اگلی صبح جب حضورؐ نے حضرت علیؓ کو یاد فرمایا تو صحابہ ؓ نے ان کی بیماری کی وجہ سے معذرت پیش کرنا چاہی ،مگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؐ کو بلا کر آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور دعا کی۔ خدا نے حضرت علیؓ کو معجزانہ طور پر اسی وقت شفا عطافرمائی اور شفا بھی ایسی کہ یوں لگتا تھا جیسے پہلے کبھی آپؓ کی آنکھیں خراب ہی نہ ہوئی تھیں۔ (بخاری)56
(22) ایک اور موقع پررسول کریم ؐ نے حضرت علیؓ کے حق میں گرمی و سردی کے اثر سے محفوظ رہنے کی دعا کی چنانچہ وہ گرمی و سردی کے اثر سے محفوظ رہتے تھے۔ (ابن ماجہ)57
(23) حضرت یعلی بن مرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔راستہ میں ایک عورت ملی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اس بچے کو نیند کی حالت میں نامعلوم کتنی مرتبہ دورہ پڑتا ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ بچہ مجھے پکڑائو۔میں نے بچہ حضورؐ کو دیا۔ آپؐ نے اسے اپنے پالان پر بٹھایا اور اس کا منہ کھول کر اس میں تین پھونکیں ماریں اور اسے اپنا لعاب دھن دیا اور فرمایا’’اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ کے بندے۔ اے اللہ کے دشمن دور ہوجا‘‘ پھر حضورؐ نے وہ بچہ واپس پکڑا دیا اور اس عورت سے فرمایا کہ واپسی سفر میں اسی جگہ آکر ملنا اور بچے کا حال بتانا۔
سفر سے واپسی پر وہ عورت وہاں موجود تھی۔اس کے ساتھ تین بکریاں بھی تھیں۔ رسول کریمؐ نے پوچھا بچے کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا خدا کی قسم اس گھڑی تک اُسے کوئی دورہ نہیں پڑا۔پھر اس نے تین بکریاں حضورؐ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیں نبی کریمؐ نے مجھے فرمایا کہ نیچے اترو اور ایک بکری لے کر باقی واپس کردو۔(احمد)58
(24) حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی اور عرض کیا کہ اسے کھانے کے وقت جنون کا دورہ ہوتا ہے۔رسول کریمؐنے اس کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی۔اچانک اسے کھل کر قے ہوئی اور اس کے پیٹ سے سیاہ رنگ کا چھوٹا سا سانپ نکل کر بھاگ گیا۔(احمد)59
(25) حضرت سائب بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میری خالہ رسول کریمؐ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا کہ حضورؐ یہ میرا بھانجا سائب بیمار ہوگیا ہے۔آپؐ اس کیلئے دعا کریں۔ حضورؐ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے حق میں برکت کی دعا کی۔حضورؐ نے وضو فرمایا تو میں نے آپؐ کے وضوء کا بچا ہوا پانی بطور تبرک پی لیا۔(بخاری)60
سائبؓ سن 2 ھ میں پیدا ہوئے تھے یہ واقعہ پانچ چھ برس کی عمر کا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سائبؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت سے نہ صرف شفا دی بلکہ لمبی عمر عطا فرمائی اور سن 80ھ میں بعمر78برس ان کا انتقال ہوا۔(خطیب)61
(26) یزید بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہؓ کی پنڈلی پر ایک زخم کا نشان دیکھا۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے بتایا کہ خیبر کے دن مجھے یہ زخم آیا تھا۔زخم اتنا بڑا تھا کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ سلمہؓ زخمی ہوگیا ہے۔مجھے اٹھاکر نبی کریم ؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپؐ(نے دعا کر کے) تین پھونکیں مجھ پہ ماریں۔تواسی وقت وہ زخم اچھا ہوگیا۔ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی زخم آیا ہی نہیں۔(صرف نشان باقی رہ گیا)۔اس کے بعد پھر کبھی اس میں تکلیف نہیں ہوئی۔(بخاری)62
(27) عمرو بن اخطب ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے چہرے پر پھیرا اور میرے حق میں صحت اور خوبصورتی کی دعا کی۔اللہ تعالیٰ نے یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ َعمرو کو صحت والی لمبی زندگی اور اولاد عطا فرمائی۔ ایک سو بیس سال کی عمر میں بھی ان کی ایسی صحت تھی کہ سر میں صرف چند سفید بال تھے۔(ترمذی)63
(28) حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے چچا ابو طالب بیمار ہوئے۔ آپؐ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ انہوں نے کہا بھتیجے! اپنے اس رب سے جس نے تجھے مبعوث کیا ہے دعا کر کہ وہ مجھے اچھا کردے۔ نبی کریمؐ نے اسی وقت دعا کی ’’اے اللہ میرے چچا کو شفا دے۔‘‘ یہ دعا حیرت انگیز رنگ میں فی الفور قبول ہوئی۔ ابو طالب اسی وقت اس طرح کھڑے ہوگئے جیسے ان کے بندھن کھول دیئے گئے ہوں۔اور کہنے لگے اے محمدؐ! واقعی تیرے رب نے تجھے بھیجا ہے اور وہ تیری بات بھی خوب مانتا ہے۔آنحضورؐ نے فرمایا اے چچا اگر آپؐ بھی اللہ تعالیٰ کی باتیں مانیں تو وہ ضرور آپؐ کی بھی سنے گا اور مانے گا۔(حاکم)64
(29) حضرت ابو قتادہ ؓ کے لئے رسول اللہؐ نے دعا کی کہ اے اللہ ان کو کامیاب و کامران کر اور ان کے بالوں اور چہرہ کو برکت دے،چنانچہ ابوقتادہؓ نے صحت والی لمبی عمر پائی۔روایت ہے کہ ستر برس کی عمر میں بھی وہ پندرہ سالہ صحت مند جوان نظر آتے تھے۔(عیاض)65
(30) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خدمت کرنے والے صحابہ کے لئے رسول کریمؐ بہت دعائیں کیا کرتے تھے۔ مخلص خدّام کیلئے بسااوقات آپؐ کے دل سے ایسی دعا نکلتی تھی کہ معجزانہ رنگ میں اس کی قبولیت کے اثرات ظاہر ہوتے تھے۔
عبداللہ بن عتیکؓ انصاری ایک مہم پر بھجوائے گئے۔واپسی پرایک حادثہ میں انکی ٹانگ کوشدید ضرب آئی اور پنڈلی ٹوٹ گئی ۔وہ کہتے ہیں میں ایک ٹانگ پر کودتا ہوا اپنے ساتھیوں تک پہنچا۔ پھر رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپؐ نے فرمایا اپنا پائوں پھیلائو۔میں نے پائوں حضورؐ کے سامنے رکھ دیا۔ آپؐ نے اس پر ہاتھ پھیرا تو ایسے لگا جیسے کبھی مجھے یہ تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔(بخاری)66
قبولیت دعا کی پیشگی خبر
رسول کریمؐ کی دعاؤں کی ایک شان یہ بھی تھی کہ آپؐبعض دعائوں کی قبولیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے علم پاکرقبل از وقت اطلاع فرما دیا کرتے تھے۔
(31) ایک مرتبہ نبی کریمؐحضرت انس ؓ بن مالک کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں کچھ دیر آرام فرمایا ،دریں اثناء آپؐ کی آنکھ لگ گئی۔ بیدار ہوئے تو مسکرارہے تھے۔ انسؓ کی خالہ ام حرامؓ نے وجہ پوچھی۔ آپؐ نے فرمایا مجھے سمندر پر سفر کرنے والے بعض اسلامی لشکر وں کا نظارہ کروایا گیا ہے جو تختوں پر بیٹھے ہوئے گویابادشاہوں کی طرح سفر کر رہے ہیں۔ حضرت ام حرامؓ کو کیا سوجھی۔ عرض کیا یا رسول اللہؐ !آپؐ دعا کریں میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جائوں۔ آپؐ نے اپنی اس مخلص اور خدمت گزارخاتون کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے ان کے حق میں دعاکی کہ اے اللہ ! ان کو بھی اسلامی لشکر کے اس بحری سفر میں شریک کردے،دوبارہ حضورؐ پر غنودگی طاری ہوئی اور آپؐ نے ایک دوسرے نظارے کاذکر کیا تو ام حرامؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! میرے لئے ان لوگوں میں بھی شامل ہونے کی دعا کریں ۔رسول خداﷺ نے فرمایا کہ تم پہلے گروہ میں شامل ہوچکیں، (جس کے بارے میں چند لمحے قبل حضورؐ نے دعا کی تھی) یہ دعا غیر معمولی اور حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی۔ ام حرامؓ کو خدا تعالیٰ نے لمبی عمر دی اور اس زمانے تک زندہ رکھا جب اسلامی لشکر حضرت معاویہؓ کے زمانے میں قبرص کے بحری سفر پر روانہ ہوا۔ ام حرامؓ بھی اپنے خاوندحضرت عبادہ بن صامتؓ کے ساتھ اس مہم میں شریک ہوئیں۔ سفر سے واپسی پر شام میں ساحل سمندر پر اترتے ہوئے سواری سے گر کر فوت ہو گئیں ۔(بخاری)67
(32) خدا تعالیٰ سے علم پا کر دعا کی قبولیت کی اسی وقت اطلاع دینے کا ایک اور واقعہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے تعلق رکھتا ہے جو ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ آپؐ نے مکہ سے ہجرت کر لی تھی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں بیمار ہو ئے تو فکر لاحق ہوئی کہ اگر مکہ میں وفات ہوئی تو انجام کے لحاظ سے ہجرت کا ثواب ضائع نہ ہو جائے۔ رسول کریم ؐ ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے تو انہوں نے اپنے اس خدشہ کے اظہارکے ساتھ دعا کی خصوصی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضورؐ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ مجھے مکہ میںوفات نہ دے جہاں سے میں ہجرت کرچکا ہوں۔اس وقت ان کی حالت ایسی نازک تھی کہ انہوں نے اپنے ورثہ وغیرہ کے بارے میں آخری وصیت بھی کردی ۔آنحضورؐ نے دعا کی کہ
’’اے اللہ! میرے صحابہؓ کی ہجرت ان کے لئے جاری کردے۔ ‘‘ پھر حضرت سعدؓ کو اس دعا کی قبولیت کی بشارت بھی دے دی اور فرمایا اے سعد! اللہ تعالیٰ تمہیں لمبی عمر عطا کرے گا اور بہت سے لوگ تجھ سے فائدہ اٹھائیں گے اور کئی لوگ نقصان اٹھائیں گے۔(بخاری)68
چنانچہ حضرت سعدؓ کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر شفا عطا فرمائی۔وہ اُن دس صحابہ میں سے تھے جن کو رسول اللہؐ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی۔ سن 55ھ میں بعمر ستّرسال آپ کا انتقال ہوا۔آپ کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے ایران جیسی عظیم الشان مملکت کی فتح کی بنیاد رکھوائی۔(ابن حجر)69
(33) ایک دفعہ نبی کریمؐ قضائے حاجت کیلئے تشریف لے گئے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اس وقت کم سن بچے تھے۔دس گیارہ برس کی عمر ہوگی۔انہوں نے حضور ؐ کے لئے پانی کا لوٹا بھر کے رکھ دیا۔حضورؐ تشریف لائے توپوچھا ’’ یہ پانی کس نے رکھا ہے؟‘‘ عرض کیا گیا عبداللہ بن عباس ؓ نے! آپؐ کے دل میں اس بچہ کیلئے تشکّرکا ایسا جذبہ پیدا ہواکہ اسے محبت سے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور دعا کی ’’اے اللہ! اس بچہ کو دین کی سمجھ عطا کر،اے اللہ! اس بچہ کو کتاب اور حکمت کا علم عطا فرما۔‘‘(بخاری70)یہ دعا پایۂ قبولیت کو پہنچی اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ امت کے عظیم الشان اور زبردست فقیہ اور عالم ٹھہرے اور ’’حِبْرُ الْامَّۃْ‘‘یعنی امت کے متبحر عالم کے طور پر مشہور ہوئے۔
(34) رسول کریم ؐنے ایک صحابی حضرت جریرؓ بن عبداللہؓ کو ذُوالخلصہ کا بت خانہ منہدم کرنے کیلئے بھجوایا۔ یہ معبد بیت اللہ کے مقابل پر کعبہ یمانی کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا۔حضرت جریرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول ؐ اللہ! میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا ۔رسول ؐ اللہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور دعا کی اے اللہ! اس کو مضبوط اور ثابت کردے اور اسے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنادے۔ حضرت جریرؓ بیان کرتے تھے کہ اس دعا کا ایسا اثر ہوا کہ اس کے بعد میں کبھی گھوڑے سے گرا نہیں۔(بخاری)71
(35) عبدالحمید بن سلمہؓ اپنے د ادا کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور یوں ان میں علیٰحدگی ہوگئی۔وہ اپنے نابالغ بچے کی حضانت(سُپرداری) کا مسئلہ حضورؐ کی خدمت میں فیصلہ کیلئے لائے۔حضورؐنے فرمایا کہ بچے کو اختیار دے دیتے ہیں ۔کم سن بچوں کا رجحان طبعاً والدہ کی طرف ہوتا ہے۔ حضورؐ کی نورانی بصیرت دیکھ رہی تھی کہ بچے کی کفالت والد کے پاس بہتر طور پر ہوسکے گی۔بچے کو جب اختیار دیا گیا تو وہ والدہ کی طرف جانے لگا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کی بہبود کے طبعی جوش سے اس کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! اس بچے کوباپ کی طرف رہنمائی کردے۔ وہی بچہ جو تھوڑی دیر پہلے ماں کی طرف دوڑا جارہا تھا،لپک کر باپ سے لپٹ گیا اور یوں حضورؐ کی دعاکی فوری قبولیت کا نظارہ بچے کے والدین نے دیکھا۔(احمد)72
(36) حضرت ابوہریرہؓ نے یمن سے آکر 7ھ میں اسلام قبول کیا، انہوں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپؐ سے جو باتیں سنتاہوں بھول جاتا ہوں۔ میرے لئے دعا کریں،آپؐ نے فرمایا ابوہریرہؓ چادر پھیلائو۔ابوہریرہؓ نے چادر پھیلائی آپؐ نے دعا کی اور پھر وہ چادر ابوہریرہؓ کو اوڑھا دی۔ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی کوئی حدیث نہیں بھولی۔یہی وجہ ہے کہ بہت بعد میں آنے کے باوجود حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایات ابتدائی دور کے صحابہ سے بھی زیادہ ہیں۔(ترمذی)73
(37) ایک جنگ میں مسلمانوں کو سخت پیاس کا سامنا کرنا پڑا۔ پانی میسّر نہ تھا۔حضرت عمرؓ نے رسول کریمؐ سے دعا کی درخواست کی۔آپؐ نے دعا کی۔ اچانک ایک بادل اٹھا اور اتنا برسا کہ مسلمانوں کی ضرورت پوری ہوگئی اور پھر وہ بادل چھٹ گیا۔(عیاض)74
(38) اپنے اصحاب کے لئے دلی جوش سے دعا کا ایک اور واقعہ حضرت ابوعامرؓ کے متعلق ہے جو جنگ اوطاس میں امیر مقرر کر کے بھجوائے گئے تھے۔ ابوموسیؓ اشعری بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا! ابو عامرؓ کو جنگ کے دوران گھٹنے میں تیر لگا۔جب میں نے وہ تیر نکالا تو گھٹنے سے پانی نکلا۔ زخم بہت کاری تھا جان لیوا ثابت ہوا۔ آخری لمحات میں ابو عامرؓ نے ابو موسیٰ ؓسے کہا اے بھتیجے! نبی کریمؐ کو میرا سلام کہنا اور میری طرف سے دعائے مغفرت کی خاص درخواست کرنا۔یہ کہا اور جان جاں آفرین کے سپرد کردی۔ابو موسیٰ ؓیہ پیغام لے کر رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا اور عرض کیا کہ ابو عامرؓ نے دعائے مغفرت کی درخواست کی تھی،تو رسول اللہؐ اپنے عاشق کی آخری خواہش سن کر بے قرار سے ہوگئے۔فوراً پانی منگوا کر وضو کیا اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی۔’’اے اللہ اپنے بندے ابو عامرؓ کو بخش دے۔‘‘مگر آپؐ نے اس فدائی کے لئے صرف بخشش کی دعا ہی نہیں مانگی ان کی بلندی درجات کی بھی دعا کی کہ’’ اے اللہ ! قیامت کے دن ابوعامرؓ کو اپنی بہت ساری مخلوق سے بلند مقام اور مرتبہ عطا کرنا۔‘‘ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں میں نے جو دعا کی یہ مقبول گھڑی دیکھی تو عرض کیا۔ حضورؐ! میرے حق میں بھی دعا کردیں۔ آپؐ نے دعا کی ’’اے اللہ! عبداللہ بن قیسؓ (ابوموسیٰ اشعری) کے گناہ بھی معاف کرنا اور قیامت کے دن اس کو معزز مقام میں داخل کرنا۔‘‘(بخاری)75
(39) بے لوث خدمت کے نتیجہ میں دعا کا ایک اور واقعہ حضرت ابوایوب ؓ انصاری کا ہے۔غزوۂ خیبر سے واپسی پر جب رسول اللہ ؐ نے یہودی سردارحُیی بن اخطب کی بیٹی صفیہؓ سے شادی کی حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کے ذہن میں جذبۂ عشقِ رسولؐ اور حفاظتِ رسولؐ کے خیال سے کچھ اندیشے اور وسوسے پیدا ہوئے اور آپؐ ساری رات حضورؐ کے خیمۂ عروسی کے گرد پہرہ دیتے رہے۔ صبح رسول اللہؐ نے دیکھ کر پوچھا تو دل کا حال عرض کیا کہ آپؐ کی حفاظت کے لئے از خودساری رات پہرہ پرکھڑارہا۔رسول اللہؐ نے اسی وقت دعا کی کہ’’ اے اللہ! ابو ایوب ؓ کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت پر مستعد رہے ہیں‘‘۔یہ دعا بھی قبول ہوئی۔حضرت ابو ایوب ؓ نے بہت لمبی عمر پائی اور قسطنطنیہ میں آپؓ کا مزار آج بھی محفوظ ہے اور زیارت گاہ خاص و عام ہے۔(حلبیہ)76
(40) رسول کریم ؐنے اپنے صحابی سعدؓ کے لئے دعا کی تھی کہ اے اللہ! سعدؓ کی دعائیں قبول کرنا۔ اس دعا نے حضرت سعدؓ کو مستجاب الدعوات بزرگ بنادیاتھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں آپ کُوفہ کے گورنر تھے۔ ایک شخص ابوسعدہ نے ان پر بے انصافی اور خیانت کاالزام لگایا۔ حضرت سعد ؓ کو پتہ چلا تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ شخص جھوٹا ہے تو اس کو لمبی عمر اور دائمی غربت دے۔ اس کی بینائی چھین لے اور اسے فتنوں کا نشانہ بنادے۔اُسے حضرت سعدؓ کی یہ دعا ایسے لگی کہ آخری عمر میں اندھا اور فقیر ہوکر مارا مارا پھرتا تھا اور گلیوں میں بچے بھی اسے چھیڑتے تھے۔چنانچہ جب تک سعدؓ زندہ رہے ان کے دعائیہ نشان کی وجہ سے لوگ ان کی بددعا سے ڈرتے تھے اور ان سے دعائے خیر کی تمنا رکھتے تھے۔(سیوطی)77
(41) حویرثؓ بیان کرتے ہیں9ھ میں وفدِ تَجیب رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ ان کی آمد پر بہت خوش ہوئے اور انعام واکرام عطاکرنے کے بعد پوچھا کہ کیا وفد میں سے کوئی پیچھے تو نہیں رہ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک نوجوان ہمارے خیمہ گاہ پر حفاظت کی خاطر رہ گیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا اسے بھی میرے پاس بھجوائو۔وہ جواں سال لڑکا آکرکہنے لگا کہ میں اسی قافلہ کا فرد ہوں جو ابھی آپؐسے انعام و اکرام لے کر رخصت ہوا۔جس طرح آپؐ نے ان کی حاجات پوری فرمائی ہیںمیری حاجت بھی پوری کریں۔آپؐ نے فرمایا حاجت بتائو؟ سعادت مند نوجوان نے عرض کیا بس یہی کہ آپؐ میرے حق میں بخشش اور رحمت کی دعا کریں کہ مولیٰ کریم میرے دل میں غنا پیدا کردے پھر حضورؐ نے اُسے باقی ساتھیوں جیسا انعام بھی عطا فرمایا۔ اگلے سال حج کے موقع پراس قبیلہ کے لوگ رسول کریم ؐسے ملے تو آپؐ نے ان سے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسا ہے؟انہوں نے بتایاکہ ہم نے اس جیسا کوئی اور نہیں دیکھا، نہ ہی اس سے بڑھ کرکوئی قناعت پسندپایا۔(ابن الجوزی)78
قہری دعائوںکے نشان
دعائوں کی یہ عظیم الشان برکات پانے والے سعادت مندوں کے بالمقابل کچھ ایسے بدبخت بھی تھے جو اپنی شقاوت ازلی کے نتیجہ میں رسول اللہؐ کی دعا سے اللہ تعالیٰ کی قہری تجلّی کے مورد بنے۔
(42) نبی کریم ؐ نے ہمیشہ دشمن کی بھی خیر خواہی فرمائی۔ طائف میں آپؐ کو لہولہان کرنیوالے ہوں یا اُحد کے میدان میں خون آلودکرنے والے۔ آپؐ نے ان کی ہدایت کی ہی دعا کی۔مگر کبھی ایسا بھی ہوا کہ جب جانی دشمن حد سے بڑھ گئے اور رسولؐ خدا کو عبادت الہٰی سے روکنے لگے تو آپ ؐ نے عذاب الہٰی کا نشان مانگا۔ خدا تعالیٰ نے خوب آپؐ کی نصرت فرمائی ۔
ایک دفعہ رسول کریمؐ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی صحن کعبہ میں مجلس لگائے بیٹھے تھے۔ان سرداروں میں کسی ظالم نے مشورہ دیا کہ فلاں محلہ میں جواونٹنی ذبح ہوئی ہے کوئی جاکر اس کی بچہ دانی اٹھا لائے اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) جب سجدہ میں جائیں تو ان کی پشت پر رکھ دے۔ ان میں سے ایک بدبخت عُقبہ بن ابی مُعیط اٹھا اور اونٹنی کی گند بھری بچہ دانی اٹھا لایا اور دیکھتا رہاجونہی بنی کریم ؐ سجدہ میں گئے اس نے غلاظت بھرا وہ بوجھ آپ ؐ کی پشت پردونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہا کرتے تھے کہ میںیہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی رسولؐ خدا کی کچھ مدد نہ کرسکتا تھا۔بس کفِ افسوس ملتا رہ گیاکہ اے کاش ان دشمنان رسولؐ کے مقابل پر مجھے اتنی توفیق ہوتی کہ آپؐ سے یہ بوجھ دور کرسکتا۔اُدھر ان مشرک سرداروں کا یہ عالم تھا کہ رسولؐ اللہ کو اذیت میں دیکھ کر استہزا کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کی حالت میں پڑے تھے، بوجھ کی وجہ سے سر نہیں اٹھاسکتے تھے۔یہاں تک کہ آپؐ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ تشریف لائیں اور آپؓ کی پشت سے وہ غلاظت کا بوجھ ہٹایا۔تب آپؓ نے سجدے سے سراٹھایا ۔ عبادت الہٰی سے روکنے اور استہزا کرنے والے ان جانی دشمنوں کے حق میں رسول اللہؐ نے یہ فریاد کی’’ اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ‘‘۔ اے اللہ!ان قریش کو تو خود سنبھال ۔یہ دعا بھی قبول ہوئی اور خدائی گرفت ان دشمنان رسول پر بدر کے دن آئی اور رسول اللہؐ نے ان کا یہ عبرت ناک انجام بچشم خود دیکھاکہ میدان بدر میں ان کی لاشیں اس حال میں پڑی تھیں کہ تمازتِ آفتاب سے ان کے حلیے بگڑ چکے تھے۔(بخاری79) یہ تھا دشمنان رسولؐ کا عبرتناک انجام جو رسول ؐاللہ کی دعا کے نتیجہ میں ظاہر ہوا۔
(43) رسول اللہؐ نے کسریٰ شاہ ایران کوتبلیغ کے لئے خط لکھا تو اس نے وہ پھاڑ کر ریزہ ریزہ کردیا۔آپؐ نے دعا کی کہ’’ اے اللہ! اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کردے‘‘۔(بخاری)80
تاریخ شاہد ہے دنیا کی عظیم الشان سلطنت کے بارہ میں یہ دعا کس طرح حیرت انگیز طور پر قبول ہوئی کہ چند ہی سالوں میں سلطنت کسریٰ کے ایوان میں ایسا انتشار اور تزلزل برپا ہوا کہ شاہان کسریٰ اندرونی خلفشار کا شکار ہوکر ہلاک ہوئے اور یہ سلطنت رفتہ رفتہ نابود ہوکر رہ گئی۔
عُتبہ بن ابی لہب جب اپنی فتنہ پردازیوں اور شر انگیزیوں سے بازنہ آیا توآپؐنے دعاکی کہ’’ اے اللہ اس پر کوئی کتا مسلّط کردے‘‘۔ تھوڑے ہی عرصہ میں وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام گیاخود کہتا تھا کہ مجھے محمدؐ کی بددعا سے ڈرلگتا ہے۔ساتھیوں نے تسلی دی اور رات اس کا پہرہ دے کر حفاظت کرتے رہے۔مگر اچانک ایک بھیڑیا آیا، اسے اُٹھا کرلے گیا اور اسے ہڑپ کرگیا۔(ابن حجر)81
(44) ایک اور معاند اسلام حکم بن ابی العاص سر کی جنبش اور آنکھ کے اشاروں سے آنحضرتؐ کا تمسخر اُڑاتا تھا۔آپؐ نے ایک دفعہ فرمایا’’ خدا کرے اسی طرح ہوجائو۔‘‘اس پر ایسا رعشہ طاری ہوا کہ آخری سانس تک رہا اور وہ اس حال میں مرا کہ آنکھوں کو حرکت دیتے دیکھا گیا۔ (عیاض)82
(45) رسول خدا کی قبولیت دعا کایہ جلالی نشان بھی قابل ذکر ہے۔ بنونَجار سے ایک عیسائی شخص مسلمان ہوا اس نے سورۃ البقرۃ اور آل عمران بھی یاد کرلی(لکھنا پڑھنا جانتا تھا) نبی کریمؐ کی وحی بھی لکھنے لگا مگر کچھ عرصہ بعد مرتدّ ہوکر پھر عیسائی ہوگیا اور یہود سے جاملا۔ وہ اس سے بہت خوش ہوئے۔ وہاں جاکر یہ شخص دعوے کرنے لگا کہ محمد ﷺ کو تو کچھ نہیں آتا میں ہی لکھ کر دیا کرتا تھا۔اس پر یہود نے اسے اور عزت دی۔معلوم ہوتا تھا کہ یہ عیسائی کسی خاص سازش کیلئے بھیجا گیا تھا اور مقصدطائفہ یہود کی طرح یہ تھا کہ صبح مسلمان ہوکر شام کو انکار کردو تاکہ مسلمان بھی بد ظن ہوکر پھر جائیں۔ چونکہ اب وہ شخص وحی الہٰی کو اپنی طرف منسوب کررہا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق و باطل کے لئے خدا تعالیٰ سے خاص نشان طلب کیا اور دعا کی کہ ’’اے اللہ ! اس شخص کو عبرت کا نشان بنا ۔ یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے جلد ہی اس شخص کو ہلاک کردیا‘‘۔ چنانچہ اسے دفن کردیا گیا مگر خداتعالیٰ نے اسے عبرت ناک نشان بنانا تھا۔ صبح ہوئی تو دنیا نے یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھا کہ زمین نے اسے قبر سے نکال باہر پھینک دیاہے ۔عیسائی کہنے لگے کہ یہ کام محمدؐ اور اس کے ساتھیوں کا ہے کہ اس شخص کے مرتد ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس کی قبر کھود کر نعش نکال باہر پھینکی ہے۔چنانچہ انہوں نے اسے دوبارہ دفن کردیا اور اس دفعہ قبر اتنی گہری کھودی جتنا وہ کھود سکتے تھے لیکن اگلی صبح پھر یہ عجیب ماجرا دیکھنے میں آیاکہ نعش زمین سے باہر پڑی تھی۔عیسائیوں نے پھر وہی الزام دہرایا کہ یہ مسلمانوں کا کام ہے ۔ اس دفعہ انہوں نے انتہائی گہرا گڑھا کھودا مگر زمین نے تیسری مرتبہ بھی اسے قبول نہ کیا۔ اب عیسائیوں کو عقل آئی کہ یہ انسان کے ہاتھوں کا کام نہیں ہوسکتا۔چنانچہ انہوں نے اس کی نعش کو دو چٹانوں کے درمیان رکھ کر اوپر پتھر پھینک دئیے۔(مسلم)83
اُمّت کے لئے دعائیں
ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمدؐ کی دعائوں کی وسعت کا یہ عالم تھاجس سے کوئی زمانہ محروم نہیں رہااور قیامت تک آنے والے متبعین امت کیلئے آپؐ نے دعائیں کردی ہیں۔
آپؐ نے اپنے روحانی خلفاء کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! میرے ان خلفاء کے ساتھ خاص رحم اور فضل کا سلوک فرمانا جو میرے زمانے کے بعد آئیں گے اور میری احادیث اور سنت لوگوں تک پہنچائیں گے۔ خودبھی اس پر عمل کریں گے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیں گے۔(سیوطی)84
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ ؓ کو مہمات پر بھجواتے ہوئے بھی ان کے لئے دعا کرتے تھے۔ اکثر مہمات علی الصبح روانہ فرماتے اور اس موقع پر خاص طور پر یہ دعا کرتے۔ ’’اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْ اُمَّتِیْ فِیْ بُکُوْرِھِمْ ‘‘(احمد)85
اے اللہ ! میری امت کے صبح کے سفروں میں خاص برکت عطا فرما۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کا اتنا خیال رکھا کہ اس کے حق میں یہ دعا کی اے اللہ ! جو شخص بھی میری امت کا والی یا حاکم ہو اور اُن پر سختی یا زیادتی کرے توتُو خود اس سے بدلہ لینا اور اُس سے ایسا ہی سلوک کرنا اور جووالی یا حاکم میری امت سے نرمی کا سلوک کرے تو تُوبھی اس کے ساتھ نرمی کا سلوک فرمانا۔(احمد)86
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت کے ساتھ جو محبت تھی اس کا ایک اظہار آپؐ نے اپنی شبانہ روز دعائوں سے بھی کیا۔جب آپؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے تو اس وقت کئی کمزور مسلمان ایسے تھے جو مکہ میں رہ گئے۔ وہ مختلف وجوہ سے ہجرت نہ کرسکتے تھے اور مکہ میں اذیتیں برداشت کررہے تھے۔ آپؐ کے دل میں اپنے ان کمزور بھائیوں کیلئے جو درد تھا اس کا اندازہ آپؐ کی دعائوں سے کیا جاسکتا ہے ،ایک زمانہ تک آپؐ اپنے ان مظلوم مریدوں کے نام لے لے کر عشاء کی نماز میں دعا کرتے۔
’’ اے اللہ! عیاشؓ بن ابی ربیعہ(ابوجہل کے بھائی) کو کفار مکہ سے نجات دے، اے اللہ! ولید بن ولیدؓ کو ان سے رہائی دے،اے اللہ سلمہ ؓبن ہشام کو مشرکوں کے ظلم سے بچا،اے اللہ ! سب کمزور مسلمانوں (مومنوں) کی نجات کے سامان فرما‘‘پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو دشمن سے نجات دی۔(بخاری)87
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن عاص سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے سورۃ ابراہیم کی آیات 36,37کی تلاوت کی جن میں اپنی اولاد کے شرک سے بچنے اور ساری قوم کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا ہے۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ قرآنی دعا اپنی قوم کی بخشش کے بارہ میں پڑھی کہ اے اللہ اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگران کو بخش دے تو تُو غالب اور حکمت والا ہے۔(سورۃمائدہ:119)
پھر آپؐ کے دل میں اپنی امت کے لئے دعا کا جوش پیدا ہوا تو ہاتھ اُٹھائے اور یوں دعا کی اے اللہ میری امت کو بھی بخش دے۔میری امت پر رحم کیجیئو اور یہ کہتے کہتے آپؐ رونے لگے تب اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ سے فرمایا کہ محمدؐ سے جاکر پوچھو(حالانکہ اللہ تعالیٰ آپؐ کی حالت کو خوب جانتاتھا کہ ان کے رونے کا کیا سبب ہے؟) جبریل ؑ نے آکر پوچھا تو رسول اللہؐ نے اپنی امت کے بارہ میں رحم کی بھیک مانگی۔ تب خدا کی رحمت بھی جوش میں آئی اور جبریل ؑ سے کہا کہ جاکر محمدؐ سے کہہ دو کہ ہم آپؐ کو آپؐ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور ناخوش نہیں کریں گے۔(مسلم)88
الغرض اللہ تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو قبولیت دُعا کے ہر قسم کے نشان عطافرمائے اور اس کثرت سے آپؐ کی دعائیں بنی نوع انسان کے حق میں قبول ہوئیں کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ رسول کریمؐ کے پاکیزہ اسوہ پر عمل کے نتیجہ میں آج بھی ہر صاحب ایمان یہ برکات حاصل کرسکتا ہے۔
حوالہ جات
1
بخاری کتاب الجمعۃ باب الدعاء فی الصلاۃ من اخر اللیل:107
2
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح بالید:3421
3
ابوداؤد باب الصلاۃ باب ماجاء فی الدعاء بین الاذان والاقامۃ:437
4
ترمذی کتاب الدعوات باب فی العفووالعافیۃ:3518
5
تحفۃ الذاکرین للشوکانی ص42,43دارالکتاب العربی بیروت
6
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب الاجابۃ أیۃ الساعۃ:885
7
بخاری کتاب صلاۃ التراویح باب العمل فی العشرالأ واخر:1884
8
ترمذی کتاب الدعوات باب فی العفو والعافیۃ:3522
9
ترمذی کتاب الدعوات باب منہ:3435
10
بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ:5929
11
ابن ماجہ کتاب الدعاء باب مایدعو بہ الرجل اذارأی السحاب:3879
12
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفاتحہ باب غیرالمغضوب علیھم ولاالضَّآلین
13
مسلم کتاب الصلوٰۃ باب مایقال فی الرکوع والسجود:744
14
بخاری کتاب المظالم باب الاتقاء والحذرمن دعوۃ المظلوم
15
مسلم کتاب الذکر باب فضل الدعاء للمسلمین بظھر الغیب:4914
16
ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیؐ :3479
17
ترمذی کتاب الدعوات باب ماذکر فی دعوۃ المسافر:3370
18
ترمذی کتاب صفۃ الجنۃ باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ:2449
19
تحفہ الذاکرین للشوکانی ص44,45 دارالکتاب العربی مطبوعہ بیروت
20
نسائی کتاب مناسک الحج باب التھلیل علی الصفا:2924
21
ترمذی کتاب الدعوات باب فی الدعاء یوم عرفۃ:3509
22
بخاری کتاب الجمعۃ باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدنیۃ
23
مسلم کتاب الذکروالدعاء والتوبہ والاستغفارباب کراھۃ الدعاء بتعجیل العقوبۃ
24
ابوداؤد کتاب الادب باب مایقول اِذا أصبح
25
ترمذی کتاب الدعوات
26
مسنداحمد جلد5ص243
27
بخاری کتاب التفسیر سورہ بنی اسرائیل باب ذریۃ من حملنا مع نوح:41
28
ترمذی کتاب المناقب باب عمر بن الخطاب
29
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الروم والدخان
30
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی صفحہ163مطبوعہ بیروت
31
المعجم الکبیر لطبرانی جلد11ص174بیروت
32
بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ
33
نور الیقین فی سیرۃ خاتم النبین ڈاکٹرخضری بک واقعہ سفر طائف مطبوعہ مصر
34
بخاری کتاب المغازی وتر مذی ابواب المناقب باب مناقب ثقیف
35
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد5ص361،مسند احمد جلد2ص243مطبوعہ بیروت
36
الاصابہ فی تمییز الصحابہؓ زیر لفظ ابوھریرہؓ جلد 4ص204مطبوعہ مصر
37
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص167مطبوعہ بیروت
38
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
39
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
40
مجمع الزوائدللھیثمی جلد6ص82مطبوعہ بیروت
41
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب:3805
42
سیرت الحلبیہ جلد3ص35بیروت
43
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر:3888
44
السیرۃالحلبیہ جلد3ص74بیروت
45
بخاری کتاب الجہاد باب حمل الزاد فی الغزو
46
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد459
47
بخاری کتاب المناقب باب مقدم النبی واصحابہ المدینہ:3633
48
بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستسقاء علی المنبر:959
49
بخاری کتاب الدعوات باب دعوۃ النبی لخادمہ
50
الاسد الغابہ لابن اثیر جلد1ص128مطبوعہ بیروت
51
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد و کتاب الاستقراض
52
مسلم کتاب الاشر بہ باب اکرام الضیف و فضل ایثارہ
53
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص71
54
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص170بحوالہ بیھقی دارالکتاب العربی
55
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص169بیروت بحوالہ بیھقی وابونعیم
56
بخاری کتاب الجہاد باب دعاء النبیؐ الناس الی الاسلام:2724
57
ابن ماجہ کتاب المقدمۃ باب فضل علی بن ابی طالب:114
58
مسند احمد بن حنبل جلد4ص170مطبوعہ بیروت
59
مسند احمد بن حنبل جلد1ص254بیروت
60
بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبوۃ
61
الاکمال فی اسماء الرجال للخطیب زیر لفظ سائب
62
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
63
ترمذی کتاب المناقب باب فی آیات اثبات نبوۃ النبیؐ:3562
64
مستدرک حاکم کتاب الدعاء جلد1ص542مطبوعہ مصر
65
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص458بیروت
66
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر
67
بخاری کتاب الجہاد باب فضل من یصرع فی سبیل اللہ
68
بخاری کتاب الوصایا باب ان یترک ورثتہ اغنیاء خیر:2537
69
الاصابہ فی تمییز الصحابہ زیر لفظ سعد
70
بخاری کتاب الوضوء باب وضع الماء عندالخلائ:140
71
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذی الخلصہ
72
مسند احمدبن حنبل جلد5ص446-447 و
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص167بیروت
73
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابی ھریرۃ:3769
74
الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص457بحوالہ بیھقی
75
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ أوطاس:3979
76
السیرۃ الحلبیہ جلد 3ص44مطبوعہ بیروت
77
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص165بیروت
78
الوفاء باحوال المصطفی ص764ازابن الجوزی بیروت
79
بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ:2717
80
بخاری کتاب المغازی باب کتاب النبیؐالی کسریٰ
81
فتح الباری لابن حجرجلد4ص39 دارالکتب الاسلامیہ لاہور
82
الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص46بحوالہ بیھقی
83
مسلم کتاب المنافقین باب 1:4986
84
جامع الصغیر للسیوطی جز1ص60بیروت
85
مسند احمدبن حنبل جلد3ص416بیروت
86
مسند احمد بن حنبل جلد6ص93بیروت
87
بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء علی المشرکین
88
مسلم کتاب الایمان باب دعاء النبی لامتہ :346
مخبر صادقؐکے رؤیا و کشوف اور پیشگوئیاں
خواب انسان کی باطنی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا جائزہ لینے کے لئے آپ ؐکے رؤیا وکشوف کا مضمون بھی بہت اہم ہے ۔دوسرے رؤیا وکشوف کے ذریعہ خوش خبریوں کا عطا ہونا اور خدا کا بندے سے کلام کرنا محبت الٰہی کی نشانی ہے۔
تیسرے جن رؤیا وکشوف کا تعلق آئندہ زمانے سے ہو ان کاکثرت سے ہوبہو پورا ہو جاناصاحب کشف والہام انسان کی سچائی کا نشان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق فرماتا ہے۔ ’’وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتابجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔‘‘(سورۃ الجن:27) اس اظہار غیب کا ذریعہ وحی والہام اور رؤیا وکشوف ہی ہیں۔چنانچہ دوسری جگہ فرمایا’’اور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یاکوئی پیغام رساں بھیجے جو اُس کے اِذن سے جو وہ چاہے وحی کرے۔یقینا وہ بہت بلند شان (اور)حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ الشوریٰ:52)
رؤیا وکشوف کے بارہ میں قرآن شریف سے یہ اصول بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض پیش گوئیاں انبیاء کی زندگی میں پوری ہو جاتی ہیں اور بعض وفات کے بعد ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’اگرہم تجھے اُن انذاری وعدوں میں سے کچھ دکھادیں جو ہم ان سے کرتے ہیں یا تجھے وفات دے دیں تو(ہرصورت) تیرا کام صرف کھول کھول کر ُپہنچادینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے۔‘‘(سورۃ الرعد:41)
سید الانبیا ء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بشیر ونذیر ‘‘کے لقب سے بھی نوازاگیا ہے ۔ آپؐ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ بشارات اور تنبیہات کی تفاصیل رؤیا و کشوف کے ذریعے عطا فرمائی گئیں اور امت محمدیہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبریں عطا کی گئیں۔ ایک دفعہ نمازِ کسوف کے دوران ہونے والے کشفی نظارہ کے بارہ میں آپؐ نے فرمایا ’’مجھے ابھی اس جگہ آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ‘‘ یہاں تک کہ جنت ودوزخ کی کیفیات بھی دکھائی گئیں۔ اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعماء جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپؐ انہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کر کے پیچھے ہٹے ۔(بخاری)1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رؤیا و کشوف کی مختلف انواع و کیفیات اور واقعات میں سے بطور نمونہ کچھ ذکر اس جگہ کیا جاتا ہے۔
۱۔نبی کریمؐ کی زندگی میں ظاہری رنگ میں پوری ہونے والی رؤیا
پہلی قسم اُن رؤیاء و کشوف اور پیش گوئیوں کی ہے، جو نبی کریمؐکی حیات مبارکہ میں ہی واضح طور پر اپنے ظاہری رنگ میں منّ وعَنْ پوری ہو گئیں۔
حضرت عائشہ ؓسے شادی کی رؤیا
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ شادی سے قبل ان کی تصویر دکھا کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ آپ ؐکی بیوی ہے۔ظاہری حالات میں یہ بات ناممکن نظر آتی تھی کیونکہ حضرت عائشہؓ کی منگنی دوسری جگہ طے ہوچکی تھی اور یوں بھی نبی کریمؐ اور حضرت عائشہؓ کی عمروں کا فرق ہی چالیس سال سے زائد تھا۔ اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آنحضورؐ نے کمال احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رؤیاکا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیدا فرماوے گا۔ (بخاری)2
پھر بظاہر نا موافق حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ بات غیرمعمولی رنگ میںپوری کردکھائی اورجُبیر بن مطعم سے منگنی ختم ہونے کے بعد کم سن حضرت عائشہؓ رسول اللہؐ کے عقد میں آئیں اور اُمّ المؤمنین کا اعزازان کو عطاہوا۔
مکی دور میں فتح بدرکی پیش گوئی
ان پیشگوئیوں میں سے ایک غزوۂ بدر کی فتح کی پیش گوئی بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکّہ ہی میں تھے اور مسلمان انتہائی کمزور اور مظلوم ومقہور ہو چکے تھے ۔ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہلی قوموں کی قربانیوں کی مثالیں دے کر صبر کی تلقین فرماتے تھے۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے تازہ نشان بھی مسلمانوں کے لئے انشراحِ صدر اور مضبوطیٔ ایمان کا موجب ہوتے تھے۔جیسے شقِّ قمر کا معجزہ وغیرہ۔ چاند جو عربوں کی حکومت کا نشان تھا۔ اس کے دو ٹکڑے کر کے دکھانے میں یہ بلیغ اشارہ بھی تھا کہ قریش کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی اور انکی وحدت ملی پارہ پارہ ہوکر رہے گی۔سورۃ قمر (جس میں واقعہ شق قمر کا ذکر ہے ) میں واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کے مقابل پر کفار کے ایک بڑے گروہ کی پسپائی کا ذکر ہے۔فرمایا سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَo(القمر:46)یعنی( اس روز قریش کی) جمعیت پسپا ہوگی اور یہ (اوران کے لشکر) پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہونگے۔
کمزوری کے اس زمانے میں دشمن اس پیشگوئی کو دیوانے کی ایک بڑکہہ سکتے تھے اور اسی لئے ساحرومجنون کے الزام لگاتے تھے۔پھراللہ تعالیٰ نے جس شان سے ان وعدوں کو پورا فرمایا اس پر اہل مکّہ بھی انگشت بدنداں ہوکررہ گئے۔
چنانچہ بدر کے موقع پر اس پیشگی وعدۂ فتح کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا۔ وَاِذْیَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّھَالَکُمْ(سورۃالانفال:8) کہ اس وقت کو یادکرو جب اللہ تمہیں دو گروہوں (یعنی لشکرکفار اور قافلہ) میں ایک کا وعدہ کررہا تھا کہ اس پر تم کو فتح ہوگی۔
پھر بھی جب میدان بدر میں رسول اللہؐ نے دیکھا کہ قریش کے تجارتی قافلے کی بجائے ایک مسلح لشکر جرارسامنے ہے جو کمزور نہتے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہے تو طبعاً آپؐ کوفکر دامنگیرہوئی۔ تب خداتعالیٰ کی شان غنا سے ڈرتے ہوئے اور اپنی کمزوری پر نظر کرتے ہوئے رسول اللہؐ نے دعائوں کی حد کردی۔ آپؐ بدر کے دن اللہ تعالیٰ کو اس کے وعدوں کا واسطہ دے دے کر اتنے الحاح سے د عا کررہے تھے کہ چادر کندھوں سے گر گر جاتی تھی۔
آپؐ اپنے مولیٰ سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔اے اللہ تیرے عہدوں اور وعدوں کا واسطہ! (تو ہمیں کامیاب کر) اے اللہ اگر آج تو نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ہلاک کردیا تو کون تیری عبادت کرے گا۔
حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہؐ! اب بس کریں۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے۔ آپؐ یہ آیت تلاوت کررہے تھے ۔سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَo(سورۃالقمر:46)کہ لشکر ضرور پسپا ہوں گے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ (بخاری3)گویا خدا کاپیشگی وعدہ فتح یاد کرکے مسلمانوں کو تسلی دے رہے تھے۔ چنانچہ بظاہر نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتح عطافرمائی اور رسول اللہؐ کیکنکریوں کی ایک مٹھی کفار پرآندھی و طوفان بن کرٹوٹی اور انہیں پسپا کرنے کا موجب بن گئی۔
سرداران قریش کی ہلاکت کی پیشگوئی
نبی کریم ؐ کو بدر میں صنادید قریش کی ہلاکت کا کشفی نظارہ پہلے سے کروایا گیا تھا۔اس بارہ میں حضرت انسؓ بیان کرتے تھے کہ ہم مکّہ و مدینہ کے درمیان حضرت عمرؓ کے ساتھ شریک سفر تھے۔چنانچہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ معرکۂ بدر سے ایک روز قبل رسول کریمؐ نے ہمیں مشرک سرداروں کے ہلاک ہونے کی جگہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا’’یہ فلاں شخص کے ہلاک ہونے کی جگہ ہے اور یہاں فلاں شخص ہلاک ہوگا۔‘‘حضرت عمرؓ کہتے ہیں پھر ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ وہیں گر گر کر ہلاک ہوئے جہاں رسول خداؐ نے بتایاتھا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ۔آپ ؐنے ان کے گر کر ہلاک ہونے کی جو جگہیں بتائی تھیں، ان میں ذرا بھی غلطی نہیں ہوئی۔(مسلم)4
غزوۂ بدر میں قریش کے چوبیس سردار ہلاک ہوئے۔انہیں بدر کے ایک گڑھے میں ڈالا گیا۔ تیسرے دن بدرسے کُوچ کے وقت رسو ل کریمؐاس گڑھے کے کنارے کھڑے ہوکر ان سرداروں اور ان کے باپوں کے نام لے کر پکارنے لگے ۔آپؐ فرماتے تھے ’’اے فلاں کے بیٹے کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی؟‘‘ہم نے تو اپنے ربّ کے وعدوں کو سچاپالیا کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ حق پایا ہے یا نہیں؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہؐ !آپؐ ان بے جان جسموں سے کلام کررہے ہیں ‘‘آپ ؐ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، جو باتیں میں کہہ رہا ہوں وہ انکو تم سے زیادہ سمجھ رہے ہیں۔‘‘ (یعنی اپنے ظلموں کی جزاپاکر)۔(بخاری)5
مکی دور میں ہجرتِ مدینہ اور مکّہ واپسی کی پیشگوئی
قرآن شریف میں سورۂ قَصص (جو مکی سورۃ ہے) کے آغاز میں حضرت موسیٰ ؑکے حالات اور سفر ہجرت کا ذکر ہے۔ آخرمیں مثیل موسیٰ نبی کریمؐ کے مکّہ سے ہجرت کرنے اور پھر مکّہ لوٹ کر آنے کی پیشگوئی واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَ آدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ط(سورۃ القصص :86)یعنی وہ جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا ہے ،ضرور تجھے ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔
یہ پیشگوئی جن حالات میں کی گئی، ان میں مکّہ سے نکالے جانے کے بعد پھر واپس آنا بظاہر ایک ناممکن سی بات معلوم ہوتی تھی۔فتح مکّہ سے چندروز قبل تک بھی معلوم نہ تھا کہ رسول اللہؐ اس شان سے مکّہ میں داخل ہوں گے۔مگر یہ پیشگوئی صرف آٹھ سال کے عرصہ میں کس شان سے پوری ہوئی۔
کسرٰی شاہ ایران کی ہلاکت کی پیشگوئی
رسول اللہؐ نے کسرٰی شاہ ایران کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے خط لکھا ۔اس نے نہایت بے ادبی سے وہ خط پھاڑ دیا۔رسول کریمؐ کو علم ہوا تو آپؐ نے کسریٰ کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی دعا کی۔پھر نہایت معجزانہ رنگ میں اس زمانہ کی یہ طاقتور حکومت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اورا س کا جابرو ظالم حاکم بھی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا اوررسول خداکی سچائی کا نشان بنا۔
تفصیل اس کی یوں ہے کہ نبی کریمؐ کے تبلیغی خط کو کسریٰ نے اپنی ہتک سمجھااور یمن کے حاکم باذان کو حکم بھجوایا کہ اس شخص کو جو حجاز میں ہے دو مضبوط آدمی بھجوائو جوگرفتار کر کے اُسے میرے پاس لے آئیں۔باذان نے ایک افسربابویہ نامی اور ایک ایرانی شخص کے ہاتھ اپنے خط میںآنحضرت ؐکو لکھا کہ آپؐ ان دونوں کے ساتھ شاہ ایران کے پاس حاضر ہوں ۔ بابویہ کو اس نے کہا اس دعویدار نبوت سے جاکرخود بات کرو اور اس کے حالات سے مجھے مطلع کرو۔ یہ لوگ طائف پہنچے اور آنحضرت ؐ کے بارہ میں پوچھا ۔انہوں نے کہا وہ تو مدینہ میں ہیں۔ طائف والے اس پر بہت خوش ہوئے کہ اب کسرٰی شاہ ایران اس شخص کے پیچھے پڑگیا ہے۔ وہ اس کے لئے کافی ہے۔دونوں قاصدمدینہ پہنچے۔ بابویہ نے رسول اللہؐ سے بات چیت کی اور آپؐ کو بتایا کہ شہنشاہ کسرٰی نے شاہ یمن باذان کو حکم بھجوایا ہے کہ آپؐ کو گرفتار کر کے اس کے پاس بھجوایا جائے اور مجھے باذان نے بھیجا ہے کہ آپؐ میرے ساتھ چلیں۔ اگر آپ ؐمیرے ساتھ چلنے پر تیار ہوں تو میں شنہشاہ کسریٰ کے نام ایسا خط دوں گاکہ وہ آپؐ کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا۔ اگر آپؐ میرے ساتھ چلنے سے انکاری ہیں تو آپؐ خود جانتے ہیں کہ اس میں آپؐ کی بلکہ پوری قوم کی ہلاکت اور ملک کی تباہی وبربادی ہے ۔ آپؐ نے ان دونوں نمائندوں سے فرمایا کہ اس وقت تم دونوں جاؤ صبح آنا۔ رسول اللہ ؐ کو اسی رات اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی کہ شنہشاہ ایران کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیاگیاہے۔ اس نے اپنے باپ کو فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو قتل کردیا ہے۔
اگلی صبح جب وہ دونوں رسو ل اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ان دونوں سے فرمایا کہ میرے رب نے فلاں مہینے کی فلاں تاریخ رات کے وقت تمہارے رب کو ہلاک کر دیا ہے اور اس کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلّط کر کے اسے قتل کیا ہے ۔ وہ دونوں کہنے لگے آپؐ کو پتہ ہے کہ آپؐ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم اس سے معمولی بات پر بڑی بڑی سزائیں دیا کرتے ہیں ۔کیا ہم آپؐ کی بات شہنشاہ کو لکھ کر بھیج دیں۔ آپؐ نے بڑے جلال سے فرمایا ۔ہاں ! میری طرف سے اسے یہ اطلاع کردو اور اسے جا کر یہ پیغام دو کہ میرا دین اور میرا غلبہ یقیناً تمہارے ملک ایران پر بھی ہو گااور اس کو کہہ دینا کہ اگر تم اسلام قبول کرلو تو تمہارا یہ ملک تمہارے ماتحت کر دیا جائے گا اور تمہیں تمہاری قوم پر حاکم بنا دیا جائے گا ۔یہ دونوں شخص جب حاکم یمن باذان کے پاس پہنچے تو اس نے کہا یہ کسی بادشاہ کا کلام نہیں ہے یہ شخص تو نبی معلوم ہوتا ہے ۔ جو کچھ اس نے کہا ہے ہم اس کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر تو یہ سچ نکلا تو یقیناًیہ خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ کریں گے ۔تھوڑے ہی عرصے بعد باذان کو نئے شہنشاہ شیرویہ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا۔ میں نے اپنے ملک ایران کے مفاد کی خاطرکسریٰ کوقتل کیا ہے کیونکہ وہ ایرانی سرداروں اور معززین کے قتل کا حکم دیتا اور ان کو قید کرتا تھا ۔اب تم میرا یہ خط پہنچتے ہی عوام سے میری اطاعت کا عہد لو اور کسریٰ نے جو خط حجاز کے ایک شخص کی گرفتاری کا لکھا تھا کالعدم سمجھو یہاں تک کہ میرا دوسرا حکم تمہیں پہنچے ۔ کسریٰ کے بیٹے کا خط پڑھتے ہی باذان کہنے لگا یہ شخص تو اللہ کا رسول ہے۔چنانچہ اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور کئی ایرانی باشندے بھی جو یمن میں آباد تھے مسلمان ہو گئے ۔(طبری)6
اسود عنسی کے قتل کی خبر
حضرت عبداللہؓ بن عمربیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کو رات کے وقت اسود عنسی (مدعی نبوت ) کے قتل کی خبر دی ۔آپؐ نے ہمیں علی الصبح اطلاع فرمائی کہ آج رات اسود عنسی قتل ہو گیا ہے۔ ایک مبارک آدمی نے اس کو قتل کیا ہے ۔پوچھا گیا وہ کون ہے ؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس کا نام فیروز بان فیروز ہے ۔(کنز)7
-2تعبیر طلب رؤیا اور ان کا پورا ہونا
دوسری قسم کی رؤیا یا پیشگوئیاں وہ ہیں جو اپنے ظاہری الفاظ میں پوری نہیں ہوتیں بلکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں۔ رسول کریمؐ کو ان کی تعبیر کے بارہ میں بھی قبل از وقت علم عطا فرمایا گیا اور آپؐ نے وقت سے پہلے کھول کر بتا دیا کہ اس رؤیا کے مطابق یوں واقعہ ہوگا۔ اور پھر اسی طرح ظہور میں آکر وہ واقعات آپؐ کی سچائی کے گواہ بنے۔
جھوٹے مدعیان نبوت کے ظہور کی پیشگوئی
حجۃ الوداع کے بعد نبی کریم ؐ نے دو جھوٹے مدّعیان نبوت کے بارہ میں اپنی یہ رؤیابیان فرمائی کہ میں سویا ہوا تھا۔ زمین کے خزانے مجھے دیئے گئے ۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں دو سونے کے کنگن دیکھے۔ میری طبیعت پر یہ بات گراں گزری۔ سونے کے یہ کنگن میرے لئے باعث پریشانی ہوئے۔تب مجھے وحی ہوئی کہ ان کو پھونک ماریں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اُڑ گئے۔ میں نے اس رؤیا کی یہ تعبیر کی کہ دو جھوٹے دعویدارہیں جن کے درمیان میںہوں۔ایک تو صنعاء کا باشندہ(اسود عنسی) دوسرا یمامہ کا رہنے والا (مسیلمہ کذاب)۔ (بخاری)8
یہ رؤیا بھی حضورؐ کی زندگی میں پوری ہوئی اور ان دونوںمدّعیان نے رسول اللہؐ کی زندگی میں نبوت کے دعوے کئے ۔اسود عنسی آپؐ کی زندگی میں اور مسیلمہ بعد میں ہلاک ہوا۔
خلافت ابو بکرؓ وعمرؓ کے متعلق رؤیا
خدا تعالیٰ کے ہرمامور کی طرح نبی کریم ؐ کو اپنے بعد اپنے مشن کے جاری اور قائم رہنے کی فکر لاحق تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فکر اُس رؤیا کے ذریعے دور فرمادی جس میں حضرت ابو بکرؓ کے مختصر زمانہ خلافت او ر حضرت عمرؓکے فتوحات سے بھرپور پُر شوکت عہد کی طرف اشارہ تھا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ
’’میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں سیاہ رنگ کی بکریوں کے لئے کنوئیں سے پانی کھینچ رہا ہوں جن میں کچھ گندمی رنگ کی بکریا ں بھی ہیں۔ اتنے میں ابو بکرؓ آئے انہوں نے ایک یا دو ڈول پانی کھینچا اور ان کے کھینچنے میں کچھ کمزوری تھی پھر عمرؓ آئے اور انہوں نے ڈول لیا تو وہ اسے بھرا ہوا کھینچ لائے۔ اُنہوں نے تمام لوگوں کو پانی سے سیراب کیا اور تمام بکریوں نے پانی پی لیا۔ میں نے آج تک ایسا کوئی باکمال وباہمت جواں مردنہیں دیکھا جو حضرت عمرؓ جیسی طاقت رکھتا ہو۔‘‘(بخاری)9
چنانچہ یہ رؤیا بھی بڑی شان سے پوری ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قیصر و کسریٰ کی عظیم فتوحات کی بنیاد رکھ دی گئی اور بڑی بڑی فتوحات ہوئیں۔
فتح ایران اورسراقہ بن مالک کے بارہ میں پیشگوئی
سفر ہجرت میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہؐ کا تعاقب کرنے والے سراقہ بن مالکؓ کے حق میں بھی رسول اللہؐ کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی۔
حضرت ابوبکرؓ ہجرت نبوی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہمارا تعاقب کرنیوالوں میں سے صرف سراقہ بن مالک ہی ہم تک پہنچ سکا جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ ہمیں پکڑنے کیلئے آیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اے ابوبکرؓ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ جب سراقہ ہمارے قریب ہوا تو رسول کریم ؐ نے دعا کی کہ اے اللہ ہماری طرف سے توُ خود اسکے لئے کافی ہو۔تب اچانک اسکے گھوڑے کے اگلے دو پائوں زمین میں دھنس گئے۔اس پر سراقہ کہنے لگا مجھے پتہ چل گیا ہے کہ یہ آپؐ کی دعا کا نتیجہ ہے۔اب آپؐ دعا کریں اللہ مجھے اس سے نجات دے۔ خدا کی قسم اپنے پیچھے آنیوالوں کو میں آپؐ کے بارہ میں نہیں بتائوں گا ۔ آپؐ میرے تِیر بطور نشانی لے لیں۔ فلاں جگہ جب میرے اونٹوں اور بکریوں کے ریوڑ کے پاس سے آپؐ گزریں تو اپنی ضرورت کے مطابق جوچیز چاہیں لے لیں۔حضور ؐ نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔پھر آپؐ نے اس کے لئے دعا کی اور اس کے گھوڑے کے پائوں باہر نکل آئے۔(احمد)10
سراقہ کی درخواست پر رسول کریمؐ نے اسے ایک تحریر امان لکھواکر دی اور جب وہ واپس جانے لگا تو آپؐ نے فرمایا اے سراقہ !اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کسرٰی کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے؟ سراقہ نے حیرانی سے کہا کسریٰ بن ہرُمز(شہنشاہ ایران)؟ آپؐ نے فرمایا’’ہاں کسریٰ بن ہرُمز کے کنگن۔‘‘
اپنے جانی دشمنوں سے جان بچاکر ہجرت کرنے والے بظاہر ایک کمزور انسان کی اس پیشگوئی کی شان اور عظمت پر غورتو کریں جس میں سُراقہ کو کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے سے کہیں بڑھ کر عظیم الشان پیشگوئی یہ تھی کہ ایران فتح ہوگا اور کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں گے۔پھر نامساعد حالات میں کی گئی یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی۔
سراقہ نے فتح مکّہ کے بعدجِعّرانہ میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں کسرٰی کے کنگن اور تاج وغیرہ حضرت عمرؓ کے دربار میں پیش ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے سراقہ کو بلایا اور فرمایا’’ ہاتھ آگے کرو ‘‘۔ پھر آپ نے اُسے سونے کے کنگن پہنادیئے اور فرمایا اے سراقہ ! کہو کہ تمام تعریفیں اس خدا کی ہیں جس نے ان کنگنوں کو کسریٰ کے ہاتھ سے چھین کر سراقہ کے ہاتھوں میں پہنادیا۔ وہ کسریٰ جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں۔(الحلبیہ)11
اسلامی بحری فتوحات کی پیشگوئی
ایک اور عظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے۔ مدنی زندگی کے اس دور میں جب بری سفروں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسر نہیں تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کی بحری جنگوں اورفتوحات کی خبر دی گئی ۔
حضرت ام حرامؓ بنت ملحان بیان کرتی ہیں کہ حضورؐ ہمارے گھر محو استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔میں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ:۔
’’ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں۔‘‘
ام حرام ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ !آپ ؐدعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنادے۔چنانچہ رسول کریمؐ نے یہ دعا کی کہ’’ اے اللہ اسے بھی ان میں شامل کردے۔‘‘پھر آپؐ کو اونگھ آگئی اور آنکھ کھلی توآپؐ مسکرارہے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپؐ نے پہلے کی طرح امت کے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہاد کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے۔ ام حرام ؓ نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ اس گروہ میں بھی شامل ہوں۔آپؐ نے فرمایا’’ تم گروہ اولین میں شامل ہو، گروہ آخرین میں شریک نہیں۔‘‘ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ پھریہی حضرت ام حرامؓ سمندری سفر میں شامل ہوئیںاور اسی سفر سے واپسی پر سواری سے گر کر وفات پائی۔(بخاری)12
اس پیشگوئی میں جزیرہ قبرص کے بحری سفر کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت معاویہؓ کو جب وہ شام کے گورنر تھے پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی۔ اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی۔حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں ہی حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیاجو اسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہاد تھا۔جس کے نتیجہ میں قبرص فتح ہوا اور بعد میں ہونے والی بحری فتوحات کی بنیادیں رکھی گئیں۔یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی وہ بات پوری ہوئی کہ دین اسلام غالب آئے گا یہاں تک کہ سمندر پار کی دنیائوں میں بھی اس کا پیغام پہنچے گا اور مسلمانوں کے گھڑ سوار دستے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کو بھی چیر جائیں گے۔(کنز)13
یہ پیش گوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبردست ایرانی اور رومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کا لوہا منوایا۔ عبداللہ بن سعدؓ بن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیٹرے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھاکر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگادیئے۔چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہمات میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ اسود و احمر کے بھی اس پار پہنچے اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ روس صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا۔تیسری طرف طارق بن زیاد فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے جبرا لٹر پر پہنچ کر ہر چہ بادا باد کہہ کر اپنے سفینے جلادیئے تو چوتھی طرف محمدبن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے اور یوں مسلمانوں نے جریدۂ عالم پر بحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی اورکیا بلحاظ صنعت اور کیا بلحاظ جہاز رانی ایسے اَن مٹ نقوش ثبت کئے جو رہتی دنیا تک یادرہیں گے۔ نئی بندرگاہیں تعمیرہوئیں، جہاز سازی کے کارخانے بنے بحری راستوں کی نشان دہی اور سمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے اور مسلمان جو پانیوں سے ڈرتے تھے سمندروں پر حکومت کرنے لگے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا وکشوف کمال شان کے ساتھ پورے ہوئے۔
-3تعبیر طلب رؤیا کاکسی اور رنگ میں پورا ہونا
رؤیا اور کشوف کی تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ رؤیا کے وقت کی گئی تعبیر کے مطابق من و عن ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ الہٰی مشیٔت وتقدیرکے مطابق کسی اور بہتر رنگ میں ظاہر ہوتی ہیںجیسے واقعہ صلح حدیبیہ۔
مدنی دور میں جب مسلمان اہل مکّہ سے حالت جنگ میں تھے اور ان کے حج و عمرہ پر پابندی تھی۔اس وقت رسول اللہؐ نے رؤیا میں اپنے آپؐ کو صحابہ کے ساتھ امن و امان سے طواف کرتے دیکھا اور ظاہری تعبیر پر عمل کرتے ہوئے چودہ سو صحابہ کی جماعت ہمراہ لے کر عمرہ کرنے تشریف بھی لے گئے۔مگر گہری مخفی الہٰی حکمتوں اور منشاء الہٰی کے تابع آپؐ اس سال عمرہ نہ کرسکے اور معاہدۂ صلح حدیبیہ کے مطابق اگلے سال عمرہ کیا۔لیکن اس معاہدۂ حدیبیہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیبر کی فتح بھی عطا فرمائی اور مکّہ بھی اسی معاہدہ کی برکت سے فتح ہوا۔اب اگر یہ تعبیر ظاہری رنگ میں پوری ہوجاتی کہ اُسی سال مسلمان طواف کر بھی لیتے تووہ فوائد و برکات حاصل نہ ہوتیں جو صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں عطا ہوئی ہیں اور جسے قرآن شریف میں’’فتح مبین‘‘ قراردیا گیا۔(بخاری)14
ہجرت مدینہ کی رؤیا بھی اسی قسم کی تھی جس کی درست تعبیر بعد میں ظاہر ہوئی۔نبی کریم ؐ کواپنی ہجرت کی جگہ دکھائی گئی کہ کوئی کھجوروں والی جگہ ہے۔ آپؐ نے اُس سے یمامہ یا حجر کی سرزمین مراد لی۔مگر بعد میں کھلا کہ اس سے یثرب یعنی ’’مدینۃ الرّسول‘‘ مراد تھا۔(بخاری)15
رؤیا میںدارالہجرت کے نام کے اخفاء میں یقینا گہری حکمت پوشیدہ تھی کہ ہجرت کے سفر میں کوئی روک یا خطرہ حائل نہ ہو۔
-4رؤیاپوری ہونے پر اُس کی تعبیرکا کھلنا
بعض رؤیا ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی تعبیر رؤیا کے وقت واضح نہیں ہوتی مگر بعد میں رؤیا کے پورا ہونے پر سمجھ آتی ہے۔ جس کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ اُس واقعہ یاحادثہ کے ظہور کے بعد رؤیا میں مضمر منشاء الہٰی معلوم کرکے انسان کو اطمینان حاصل ہو۔جیسے غزوۂ احد سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیا میں دیکھا کہ آپؐ کچھ گائیوں کو ذبح کر رہے ہیں۔اسی طرح دیکھا کہ آپؐاپنی تلوار لہراتے ہیں اور اس کا اگلا حصہ ٹوٹ جاتاہے۔ رؤیا کے وقت اس کی تعبیر واضح نہ تھی، مگر بعد میں اس کشف کی تعبیر اُحد میں سترّ مسلمانوں کی شہادت کی عظیم قربانی،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے اور دندان مبارک شہید ہونے کے رنگ میں ظاہر ہو گئی اس وقت کُھلا کہ اس رؤیا کا کیا مطلب تھا۔(بخاری)16
-5پیش گوئی کا جانشین یا اولاد کے حق میں پورا ہونا
بعض رؤیا کی تعبیر بعد میں آنے والوں مثلاً نبیوں کے خلفاء ،اُن کے ماننے والوں یا صاحبِ رؤیا کی اولاد کے حق میں ظاہر ہوتی ہے۔
ایک نہایت اہم اور غیر معمولی شان کا حامل لطیف کشف وہ ہے جس کا نظارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ احزاب کے اس ہولناک ابتلاء میں کروایا گیا جب اہل مدینہ ایک طرف کفار مکّہ کے امکانی حملہ سے بچنے کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود رہے تھے۔ دوسری طرف اندرونی طور پر وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے اور جیساکہ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصرو ف تھے۔مسلسل تین دن سے فاقہ میں تھے خودآنحضرتؐ نے بھوک کی شدت سے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔(بخاری)17
حضرت براء بن عازبؓ اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی۔ آپؐ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی تو پتھر شکستہ ہوگیا اور اس کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ گرا۔ آپؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ ملک شام کی کنجیاں میرے حوالے کی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! میں شام کے سرخ محلات اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔پھر آپؐ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی پتھر کا ایک اور حصہ شکستہ ہوکر ٹوٹا اور رسول کریمؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم! میں مدائن اور اس کے سفید محلات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے اللہ کا نام لیکر تیسری ضرب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ آپؐ نے تیسری بار اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا! ’’ یمن کی چابیاں میرے سپرد کی گئی ہیں اور خدا کی قسم !میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اس جگہ سے کررہا ہوں۔(احمد)18
یہ عظیم الشان روحانی کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کے زبردست ایمان و یقین پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ خود حفاظت کے لئے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف ہیں۔ الہٰی وعدوں پر کیساپختہ ایمان ہے کہ اپنے دور کی دو عظیم طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن پوری ہوکر رہیں گی۔
پھر خدا کی شان دیکھو کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت سے ان فتوحات کا آغاز ہوجاتا ہے۔حضرت خالد بن ولید ؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کو فتح کرتے ہیں اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں ان فتوحات کی تکمیل ہوجاتی ہے اورحضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں مسلمان ایران کو فتح کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیاکی دو بڑی سلطنتیں روم اور ایران ان فاقہ کش مگر یقین محکم رکھنے والے مسلمانوں کے زیر نگیں ہوجاتی ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان فتوحات کے روشن نظارے اس تفصیل کے ساتھ کرائے گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ خُریم بن اوسؓ کے بیان کے مطابق حیرہ کی فتح کے بارہ میں رسول کریم ؐ کا کشف جس شان کے ساتھ پورا ہوا وہ حیرت انگیز ہے۔رسول کریمؐ نے فرمایا’’ حیرہ کے سفید محلّات میرے سامنے لائے گئے اور میں نے دیکھا کہ اس کی (شہزادی) شیماء بنت نفیلہ ازدیہ ایک سرخ خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی سے نقاب اوڑھے ہوئے ہے۔ خُریم ؓ نے غالباً اس پیشگوئی کی مزید پختگی کی خاطر عرض کیا یا رسول اللہؐ! اگر ہم حیرہ میں یوں فاتحانہ داخل ہوئے اور ان کی شہزادی شیماء کو ایسا ہی پایا جیسا کہ حضورؐ نے بیان فرمایا ہے تو کیا وہ شہزادی میری ملکیت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ہوئی۔ اب دیکھیں اس پیشگوئی میں حیرہ کی فتح کے ساتھ شیماء اور خریم کے زندہ رہنے کی پیشگوئی بھی شامل ہے۔ خریم کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب ہم نے حیرہ فتح کیا تو بعینہٖ وہی نظارہ ہم نے دیکھا جو رسول اللہؐ نے بیان فرمایا تھا کہ شیماء خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی کا نقاب کئے آرہی تھی۔میںاس کی خچر سے چمٹ گیا اور کہا کہ رسول اللہؐ نے یہ مجھے ھبہ فرمادی تھی۔ سالار فوج خالدؓ بن ولید نے مجھے بلوایا اور میرے دعویٰ کی دلیل طلب کی۔ میں نے محمد بن مسلمہؓ اور محمد بن بشیر انصاری ؓکو بطور گواہ پیش کیا اور شیماء میرے حوالے کردی گئی۔ اس کا بھائی عبدالمسیح صلح کی غرض سے میرے پاس آیا اور کہا کہ اسے میرے پاس فروخت کرد و میں نے کہا میں دس سو درہم سے کم نہیں لونگا۔ اس نے فوراً مجھے ایک ہزار درہم دیئے اور میں نے شیماء اس کے حوالے کردی۔ مجھے لوگ کہنے لگے اگر تم دس ہزار درہم بھی کہتے تو وہ ادا کردیتا۔ یہ تم نے ایک ہزار مانگ کرکیا کیا؟ میں نے کہا دس سو سے زیادہ مجھے بھی گنتی نہیں آتی تھی۔(ابونعیم)19
فاقہ کش ابوہریرہؓ جنہوں نے اِن رؤیاکی تعبیراپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھی،وہ یہ فتوحات دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ’’ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں‘‘۔پھرکہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو وفات پاگئے۔ اب تم ان خزانوں کوحاصل کررہے ہو۔(بخاری) 20
پس رسول اللہؐ کے رؤیا ،کشوف اور پیشگوئیاں مختلف رنگوں میں الہٰی منشاء اور حکمت کے مطابق بہرحال پوری ہوئیںاورآج ہمارے لئے ازدیاد ایمان کا موجب بن کر ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضروربالضرور پورے ہونگے جو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم سے کئے گئے ۔
چنانچہ آخری زمانہ کے بعض خوش قسمت گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ فرمایا ہے ایک وہ جو ہندوستان سے جہاد کرے گا اور دوسری وہ جماعت جو عیسیٰ ؑبن مریم کے ساتھ ہوگی۔(نسائی)21
اس پیشگوئی کا پہلا حصہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس وقت پورا ہوا جب محمد بن قاسم کے ذریعے سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغازہوا۔ اور انہوں نے سندھ کے باسیوں کووہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلا کر عدل وانصاف کی حکومت قائم کی اور اپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل سندھ کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ یوں یہاں اسلام کا آغاز ہوا ۔پیشگوئی کے دوسرے حصے کا تعلق اس آخری زمانہ سے ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ کر دکھایا،یہاں تک کہ اُس کے مشرقی کنارے بھی اور مغربی کنارے بھی میرے سامنے تھے۔ اور مجھے کہا گیا تھا کہ میری اُمت کی حکومت زمین کے اُن تمام کناروں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے اور مجھے دو خزانے دیئے گئے ایک سرخ خزانہ(یعنی سونے کا) اور ایک سفید خزانہ( یعنی چاندی کا)‘‘ (مسلم)22
اسلام کے اس آخری عظیم الشان غلبہ کے بارہ میں آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کوئی کچا یا پکا گھر نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اسلام کو داخل کر دے گا۔ان الہٰی وعدوں پر ہر مومن کو یقین اور ایمان ہونا چاہیے کیونکہ
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
حوالہ جات
1
بخاری کتاب الجمعۃ باب اذافتلت الدابۃ فی الصلاۃ:1134
2
بخاری کتاب النکاح باب الابکار :4688
3
بخاری کتاب التفسیر باب سیھزم الجمع ویولون الدبر
4
مسلم کتاب الجنہ وصفۃ نعیمھا باب عرض مقعد المیت من الجنۃ:5120
5
بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل:3679
6
تاریخ الامم والملوک لطبری جز3ص248دارالفکربیروت
7
کنزالعمال حدیث نمبر 37472
8
بخاری کتاب تعبیر الرؤیاباب النفخ فی المنام :6515
9
بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر
10
مسند احمد جلد 1ص2مطبوعہ مصر
11
السیرۃ الحلبیہ جلد 2ص45 مطبوعہ بیروت
12
بخاری کتاب الجہادباب الدعاء بالجہادوالشہادۃ للرجال والنسائ:2580
13
کنزالعمال جلد 10 ص 212 مطبوعہ حلب
14
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفتح
15
بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی الی المدینۃ
16
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
17
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب :3792
18
مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص 303 دارالفکر بیروت
19
دلائل النبوۃ لابی نعیم جلد2ص692
20
بخاری کتاب التعبیر باب رؤیا اللیل:6483
21
نسائی کتاب الجہاد باب غزوۃ الھند
22
مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ھلاک ھذہ الامۃ بعضھم ببعض:5144
صداقت شعاری میں رسول اللہؐ کا بلند مقام
انسانی سیرت و کردار کی تعمیر میں سب سے اہم وصف صدق لہجہ، سچائی اور راست گفتاری ہے۔ دراصل انسان کی باطنی سچائی ہی ہے جس کا اظہار نہ صرف اس کی زبان سے بلکہ سیر ت و کردار حتّٰی کہ اس کی پیشانی سے بھی جھلکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ماموروں اور فرستادوں کی سچائی کا نشان یہی صداقت شعاری کا خلق ٹھہرایا ہے۔
چنانچہ نبی کریم ؐ کے ذریعہ اہل مکّہ کو یہ خطاب ہوا کہ ’’ان کو کہہ دے اگر اللہ چاہتا تو میں یہ( قرآن ) تم کو پڑھ کرنہ سناتا اور نہ اس سے تمہیں آگاہ کرتا۔ اس سے پہلے میں تمہارے درمیان عمر کا ایک حصّہ گزار چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘ (سورۃیونس آیت 17)
اس آیت میں آنحضرت ﷺکی دعویٰ سے پہلے کی زندگی بحیثیت مدّعیٔ نبوت راست گفتاری میں بطور مثال کے پیش فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص بچپن اور جوانی میں انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ بڑھاپے کے قریب خدا پر کیسے جھوٹ باندھ سکتا ہے۔ بلاشبہ مدّعی ٔ نبوت کی صداقت کے لئے یہ ایک بنیادی اور اہم دلیل ہے۔اس پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو پرکھا جائے تو آپؐ کی سچائی روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہے۔
آپؐ ہی تھے جن کو آغاز جوانی سے ہی اپنے پرائے سبھی امانت دار مانتے تھے۔ آپؐ کا نام ہی صدوق پڑگیا تھا جو بے حد سچ بولنے والے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی دعویٔ نبوت تک کھلم کھلا یہ گواہی دیتے رہے کہ آپؐنے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اس جگہ ہم رسول کریمؐ کی صداقت کے بارے میں چند شہادتیں پیش کریں گے۔
میاں بیوی کی قربت کو قرآن شریف میں بجا طور پر ایک دوسرے کے لباس سے تعبیر کیا گیا ہے۔(سورۃ البقرۃ:188)پس بیوی سے بڑھ کر کون ہے جو شوہر کے زیادہ قریب ہو اور اس کے اخلاق کے بارہ میں اس سے بہتررائے دے سکے؟
ازواج مطہرات ؓکی گواہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی وحی کے بعد گھبراہٹ کے عالم میں گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو جن الفاظ میں تسلی دی وہ آپؐ کی صداقت کی زبردست گواہی ہے۔ انہوں نے آپؐ کی یہ اہم صفت بھی بیان کی کہ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔(بخاری)1
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میںحضرت عائشہؓ کی بھی یہی گواہی تھی کہ آپؐ کے اخلاق تو قرآن تھے اوراسلام وقرآن کا بنیادی خلق تو سچائی ہی ہے۔
حضرت عائشہؓکی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی۔ اور جب آپؐ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپؐ اس وقت تک اس سے کھچے کچھے رہتے تھے جب تک کہ آپ ؐکو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے توبہ کرلی ہے۔(ابن سعد)2
رشتہ داروں کی گواہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت حق پہنچائیں تو کوہِ صفا پر آپؐ نے قبائل قریش کونام لے کر بلایا۔جب وہ اکٹھے ہوئے تو ان سے پوچھاکہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟’’ انہوں نے بلاتامّل کہا ہاں! ہم نے کبھی بھی آپؐ سے جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا۔ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔‘‘مگر جب آپؐ نے انہیں کلمۂ توحید کی دعوت دی توآپؐ کا چچا ابو لہب کہنے لگا’’ تیرا برا ہو کیا تو نے اس لئے ہمیں جمع کیا تھا۔‘‘(بخاری )3
سورۂ یونس میں نبی کی دعوے سے پہلے کی زندگی کو بطور دلیل پیش کرنے میں یہی حکمت ہے کہ بعد میں تو مخالف بھی پیدا ہوجاتے ہیں مگر دعویٰ سے پہلے سب اس کی راستبازی پر متفق ہوتے ہیں۔
ابو طالب کی گواہی
ایک دفعہ قریش کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت لے کر رسول اللہؐ کے چچا ابوطالب کے پاس آیا۔ ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلواکر سمجھایا کہ قریش کی بات مان لو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے فرمایا کہ اگر تم اس سورج سے روشن شعلۂ آگ بھی میرے پاس لے آئو پھر بھی میرے لئے اس کام کو چھوڑنا ممکن نہیں ۔اس پر ابو طالب نے گواہی دی کہ خد ا کی قسم ! میں نے آج تک کبھی اپنے بھتیجے کو اس کے قول میں جھوٹا نہیں پایا۔یعنی یہ اپنی بات کا پکا اور سچا ہے اور اس پر قائم رہے گا۔میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔(بیہقی)4
ابو طالب کی دوسری گواہی شعب ابی طالب کے زمانہ کی ہے۔جب اس محصوری کی حالت میں تیسرا سال ہونے کو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اس کی ساری عبارت کو سوائے لفظ اللہ کے دیمک کھاگئی ہے۔ ابوطالب کو رسول اللہ کے قول پر ایسا یقین تھا کہ انہوں پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔یہ بات بھی لازماً سچ ہے۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ سرداران قریش کے پاس گئے اور انہیں بھی کھل کر کہا کہ میرے بھتیجے نے مجھے یہ بتایا ہے کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک کھا گئی ہے۔ اس نے مجھ سے آج تک جھوٹ نہیں بولا۔بے شک تم جاکر دیکھ لو اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلے تو تمہیں بائیکاٹ کا اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر وہ جھوٹا ثابت ہو تو میں اُسے تمہارے حوالے کرونگا۔چاہو تو اسے قتل کرو اور چاہو تو زندہ رکھو۔ انہوں نے کہا بالکل یہ انصاف کی بات ہے۔ پھر جاکر دیکھا تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،سوائے لفظ اللہ کے سارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی تھی۔چنانچہ قریش یہ معاہدہ ختم کرنے پر مجبور ہوگئے۔(ابن جوزی)5
خزیمہ بن حکیم سلمی کی گواہی
خزیمہ حضرت خدیجہ ؓ کے سسرالی رشتہ داروں میں سے تھے۔ دعویٰ نبوت سے قبل جب رسول کریمؐ تجارت کے لئے حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر شام گئے۔ خزیمہؓ بھی حضورؐ کے ساتھ تھے۔ حضورؐ کے پاکیزہ اخلاق مشاہدہ کر کے انہوں نے بے اختیار یہ گواہی د ی کہ
’’اے محمدؐ میں آپؐ کے اندر عظیم الشان خصائل اور خوبیاں دیکھتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ وہی نبی ہیں جس نے تہامہ سے ظاہرہوناتھا اور میں آپؐ پر ابھی ایمان لاتا ہوں۔ ‘‘ انہوں نے وعدہ کیاتھا کہ جب مجھے آپؐ کے دعویٰ کی خبر ملی میں ضرور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونگا۔ مگر دعویٰ کے بعد جلد اس وعدہ کی تکمیل نہ ہوسکی۔فتح مکہ کے بعد آکر اسلام قبول کیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا’’پہلے مہاجر کو خوش آمدید‘‘۔(ابن حجر)6
دوست کی گواہی
حضرت ابوبکرؓ رسول اللہؐ کے بچپن کے دوست تھے۔ انہوں نے جب آپؐ کے دعویٰ کے بارہ میں سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی کیونکہ زندگی بھر کا مشاہدہ یہی تھا کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔(بیہقی)7
پس رسول اللہؐ کا کردار بھی آپ ؐکی سچائی کا گواہ تھا اور آپؐ کی پیشانی پر بھی سچائی کی روشنی تھی جسے حضرت ابوبکرؓ نے پہچان لیا۔
اولین معاند ابوجہل کی شہادت
حق یہ ہے کہ سچوں کی گواہی دینے پر اپنے اور بیگانے تو کیا دشمن بھی مجبو رہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ابو جہل سے بڑھ کر کون تھا؟ مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برملا کہا کرتا تھا کہ ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو تو لے کر آیا ہے۔(ترمذی )8
دشمن اسلام ابوسفیان کی گواہی
رسول اللہؐ کا دوسرا بڑا دشمن ابو سفیان تھا۔ ہر قل شاہ روم نے اپنے دربار میں جب اس سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے اس مدعی نبوت ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس سے پہلے کوئی جھوٹ کا الزام لگایا؟ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں ہرگز نہیں۔ دانا ہر قل نے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ اس نے لوگوں کے ساتھ توکبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور خدا پر جھوٹ باندھنے لگ جائے۔(بخاری )9
جانی دشمن نضربن حارث کی شہادت
رسول اللہؐ کا ایک اور جانی دشمن نضربن حارث تھا جودارالندوہ میں آپؐکے قتل کے منصوبے میں بھی شامل تھا۔ کفار کی مجلس میں جب کسی نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں محمدؐکے بارے میں یہ مشہور کردینا چاہئے کہ یہ جھوٹا ہے تو نضر بن حارث سے رہانہ گیا۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھا کہ دیکھو محمدؐ تمہارے درمیان جوان ہوا،اس کے اخلاق پسندیدہ تھے۔ وہ تم میں سب سے زیادہ سچااور امین تھا۔ پھر جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچا اور اپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے لگا تو تم نے کہا جھوٹا ہے ۔ خدا کی قسم! یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ وہ جھوٹا ہے۔ وہ ہرگزجھوٹا نہیں ہے۔(ابن ہشام) 10
دشمن اسلام اُمیّہ بن خلف کی گواہی
دشمن رسول امیہ بن خلف نے اپنے جاہلیت کے دوست حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری سے اپنی ہلاکت کے بارے میں رسول اللہؐ کی پیشگوئی سن کربے ساختہ گواہی دی تھی کہ خدا کی قسم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) جب بھی بات کرتا ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا۔(بخاری)11
امیہ کی بیوی کی گواہی
حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری نے جب سردارقریش امیہ بن خلف کی بیوی کو بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ اس کا خاوند امیہ ہلاک ہوگا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھی! خداکی قسم محمد جھوٹ نہیں بولتے۔ چنانچہ جب جنگ بدر کے لئے امیہ ابو جہل کے ساتھ جانے لگا تو بیوی نے پھر کہا ’’تمہیں یاد نہیں تمہارے یثربی بھائی سعد نے تمہیں کیا کہا تھا۔‘‘امیہ اس وجہ سے رُک گیا مگر ابوجہل باصرار اسے لے گیا چنانچہ امیہ بن خلف بدر میں مارا گیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ثابت ہوئی۔(بخاری )12
سردار قریش عتبہ کی گواہی
قریش نے ایک دفعہ اپنے ایک سردار عتبہ کو نمائندہ بناکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ اس نے کہا کہ آپؐ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟آپؐ کی جوبھی خواہش ہے پوری کرتے ہیں۔آپؐ ان باتوں سے باز آئیں۔حضورؐ تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ سب کہہ چکا تو آپؐنے سورۃ حٰم فُصِّلَتْ کی چند آیات تلاوت کیں ،جب آپؐ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد وثمود جیسے عذاب سے ڈرا تا ہوں توعتبہ نے آپؐ کو روک دیا کہ اب بس کریں اورخوف کے مارے اُٹھ کر چل دیا۔اس نے قریش کو جاکر کہا تمہیں پتہ ہے کہ محمدؐ جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آجائے جس سے وہ ڈراتا ہے۔ تمام سردار یہ سن کرخاموش ہوگئے۔(حلبیہ13) اُن سب سردارانِ قریش کی یہ خاموشی اپنی ذات میں اس بات کی گواہی تھی کہ بلاشبہ آپ ؐ صادق وراستبازہیں ۔
یہودی عالم کی گواہی
عبداللہؓ بن سلام مدینہ کے ایک بڑے یہودی عالم تھے۔وہ مسلمان ہونے سے پہلے کا اپنا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضورؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگ دیوانہ وار آپؐ کو دیکھنے گئے میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔ آپؐ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ہی میںپہچان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔(ابن ماجہ)14
ایچ جی ویلز نے رسول اللہؐ کے صدق وصفا کی گواہی دیتے ہوئے لکھا:۔
’’یہ محمد(ﷺ) کے صدق کی دلیل قاطع ہے کہ ان سے قربت رکھنے والے لوگ، اُن پر ایمان لائے ، حالانکہ وہ اُن کے اسرار ورموز سے پوری طرح واقف تھے اور اگر انہیں ان کی صداقت میں ذرہ برابر بھی شبہ ہوتا تو اُن پر وہ ہرگز ایمان نہ لاتے۔‘‘(ویلز)15
پس ایک انسان کی سچائی پر اپنوں، پرایوں، دوستوںاور دشمنوں سب کا اتفاق کرلینا ایسی عظیم الشان شہادت ہے جو ہمارے نبی ؐ کی راستبازی اور سچائی کی زبردست اور روشن دلیل ہے۔
حوالہ جات
1
بخاری کتاب التعبیرباب اول مابدیٔ بہ رسول اللہؐ
2
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص378
3
بخاری کتاب التفسیر سورۃ اللہب
4
دلائل النبوۃ بیھقی جلد2ص187دارالکتبہ العلمیہ بیروت
5
الوفاء باحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص198بیروت
6
الاصابہ فی تمییز الصحابہ از ابن الحجرجز 2ص112دارالکتاب العلمیہ بیروت
7
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2ص164دارالکتب العلمیہ بیروت
8
ترمذی ابواب التفسیر سورۃ الانعام زیرآیت قَدْنَعْلَمُ اِنَّہ‘ لَیَحْزُنکَ الَّذِی یَقُوْلُوْنَ
9
بخاری بدء الوحی
10
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد1ص320مصر
11
بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
12
بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
13
السیرۃ الحلبیۃ از علامہ برھان الدین جلد1ص303مطبوعہ بیروت
14
ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب اطعام الطعام
15
ایچ جی ویلز ، زکریا ہاشم زکریاص270بحوالہ نقوش رسول نمبر ص550
’ ’ رسولِ امین ؐ ‘‘کی امانت و دیانت
’’اللہ تمہیںحکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروںکو اداکرو۔‘‘(النسائ:59) یہ ہے رسول اللہؐ کی شریعت میں قیام امانت کی بنیادی تعلیم۔ دنیامیں سب سے زیادہ امانت دار خداکے نبی اور رسول ہوتے ہیں جو خدا کا پیغام بلا کم وکاست اس کی مخلوق تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے قرآن شریف میں کئی انبیاء کا یہ دعویٰ مذکور ہے کہ ’’میں ایک امانت دار رسول ہوکر آیا ہوں۔‘‘ مگر ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ارفع یہ ہے کہ عرش کے خدانے آپؐ کے ’’امین‘‘ ہونے کی گواہی دی۔فرمایا مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۔(التکویر:22) کہ یہ نبی ایسا ہے جس کی پیروی کی جائے اور امانت دار ہے۔آپؐ ہی وہ انسان کامل ہیں جنہوں نے اس امانت کا بوجھ اُٹھایا جو آسمان وزمین اورپہاڑبھی نہ اُٹھاسکے۔(الاحزاب:73)
آسمان بار امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
پس رسول کریمؐ ہی ہیں جنہوں نے امانت کے حق ادا کردکھائے۔آپؐ کے ماننے والوں کو بھی یہ تعلیم دی گئی کہ ’’وہ مومن فلاح پاگئے جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ (المؤمنون:9) رسول کریمؐ نے فرمایا جس کی امانت نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(طبرانی)1
امانت و دیانت کی بنیاد نیک نیتی دلی سچائی اور راستبازی ہے۔رسول کریمؐ میں یہ وصف بھی خوب نمایاں تھا۔ آپؐ اہل مکہ میں اس خوبی میں ایسے ممتاز تھے کہ سب آپؐ کو ’’صدوق وامین‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے اور اپنی امانتیں آپؐ کے پاس بے خوف و خطر رکھتے تھے۔
ایمان کا امانت سے گہرا تعلق ہے رسول کریمؐ کی تعلیم کاخاصہ بھی یہی تھا چنانچہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ وہ مدعی نبوت تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے۔ تو ابوسفیان نے بھی گواہی دی کہ وہ نماز،سچائی،پاکدامنی، ایفائے عہد اور امانت ادا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس پرہرقل بے اختیار کہہ اُٹھا یہ تو نبی کی صفات ہیں۔(مسلم)2
نجاشی شاہ حبشہ کے دربار میں حضرت جعفرطیارؓ نے رسول اللہؐ اور آپؐ کے دین کا تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ
’’اے بادشاہ! ہم ایک جاہل قوم تھے۔ بتوں کے پجاری تھے۔ مردار کھاتے اور بدکاری کے مرتکب ہوتے تھے۔ قطع رحمی ہمارا شیوہ تھا اور ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے۔ طاقتورکمزور کا حق کھا جاتا تھا تب خدا نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کی سچائی امانت اور پاکدامنی کے ہم گواہ ہیں۔ اس نے ہمیں خدا کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا اور بت پرستی سے بچایا اور سچائی، امانت کی ادائیگی صلہ رحمی اور ہمسائے سے حسن سلوک کی تعلیم دی۔‘‘ (احمد)3
قریش مکہ نبی کریمؐ کے خون کے پیاسے اورآپؐ کے قتل کے درپے تھے۔مگرحضورؐ کوہجرت مدینہ کے وقت ان کی امانتوں کی واپسی کی فکر تھی۔ چنانچہ مکہ چھوڑتے ہوئے اپنے عم زاد حضرت علیؓ کو ان خطرناک حالات کے باوجود پیچھے چھوڑ اکہ وہ امانتیں ادا کر کے مدینہ آئیں۔(ہشام)4
رسول کریمؐ کے دل میں امانت کا جس قدر گہرااحساس تھااس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتاہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا کہ اگر کوئی گری پڑی چیز مل جائے تو اس کا کیا کیا جائے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کی نشانیاں بتا کر اعلان کرتے رہو پھر اگر اس کا مالک آجائے تو اسے لوٹا دو۔ وہ کہنے لگا اگر کوئی گمشدہ اونٹ مل جائے تو اس کا کیا کریں ؟ نبی کریمؐ بہت ناراض ہوئے۔ چہرہ کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمانے لگے تمہیں اس سے کیا؟ اس اونٹ کے پائوں ساتھ ہیں وہ درخت چرکر اور پانی پی کر زندہ رہ سکتاہے۔تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ خود اس کا مالک اُسے پالے۔(بخاری)5
حفاظتِ امانت میںنبی کریمؐ کا اپنا یہ حال تھا کہ فرماتے تھے میں بسااوقات اپنے گھر میں بستر پر کوئی کھجور پڑی ہوئی پاتا ہوں۔کھانے کی خواہش بھی ہوتی ہے اور میں وہ کھجور اُٹھا کر کھانا چاہتا ہوں مگر پھر خیال آتا ہے کہ صدقہ کی کھجور نہ ہو تب اسے وہیں رکھ چھوڑ تا ہوں۔(بخاری)6
ایک دفعہ گھر میں کھجور کے ایک ڈھیر میں سے کم سن حضرت امام حسین ؓیا حسنؓ نے ایک کھجور لے کر مُنہ میں ڈال لی۔ نبی کریمؐ نے فوراً وہ کھجور بچے کے مُنہ سے اگلوادی۔ کیونکہ وہ صدقہ کا مال تھا۔ اور مسلمانوں کی امانت تھی۔ آپؐ نے بچے سے فرمایا کہ ہم آلِ رسول صدقہ نہیں کھاتے اور بچے نے تھوکرکے وہ کھجور پھینک دی۔(بخاری)7
غزوۂ خیبر کے موقع پر یہود شکست کے بعد پسپا ہوئے۔ مسلمانوں کو طویل محاصرہ کے بعد فتح عطاہوئی۔ بعض مسلمانوں نے جو کئی دن سے فاقہ سے تھے یہود کے مال مویشی پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر کے کچھ جانور ذبح کئے اور ان کا گوشت پکنے کے لئے آگ پر چڑھادیا۔ نبی کریمؐ کو خبرہوئی تو رسول کریمؐ نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مال غنیمت میں باضابطہ تقسیم سے پہلے یوں تصّرف کیوں کیا گیااور اسے آپ ؐنے خیانت پر محمول فرمایا ۔ آپؐنے صحابہ کو امانت کا سبق دینے کے لئے گوشت سے بھرے وہ سب دیگچے اور ہنڈیاں الٹوادیں پھر صحابہ کے مابین خود جانور تقسیم فرمائے اور ہر دس آدمیوں کو ایک بکری دی گئی۔دوسری روایت میں ہے کہ آپؐنے فرمایا کہ اموال پر زبردستی قبضہ جائزنہیں۔(احمد)8
ایک دفعہ رسول کریمؐ نماز پڑھانے کے بعد خلاف معمول تیزی سے گھر گئے اور ایک سونے کی ڈلی لے کر واپس آئے اورفرمایا کہ کچھ سونا آیاتھا سب تقسیم ہوگیا یہ سونے کی ڈلی بچ گئی تھی۔ میں جلدی سے اسے لے آیا ہوں کہ قومی مال میں سے کوئی چیز ہمارے گھر میں نہ رہ جائے۔(بخاری)9
حضرت سائب بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضرت عثمان ؓ اور زبیرؓمجھے اپنے ساتھ لے کر آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری تعریفیں کرنے لگے۔ رسول کریمؐ نے انہیں فرمایا !آپؐ لوگ بے شک مجھے اس کے بارے میں زیادہ نہ بتائو۔ یہ جاہلیت کے زمانے میں میرا ساتھی رہا ہے۔ سائبؓ کہنے لگے ہاں یا رسول اللہؐ! آپؐ کتنے اچھے ساتھی تھے۔آپؐ نے فرمایاہاں اے سائبؓ دیکھنا جاہلیت میں تمہارے اخلاق بہت نیک تھے۔ اسلام میں بھی وہ قائم رکھنا۔مثلاً مہمان نوازی،یتیم کی عزت اور ہمسائے سے نیک سلوک وغیرہ پر خاص توجہ دینا۔
دوسری روایت میں ہے کہ سائبؓ آنحضرت ؐ کے ساتھ تجارت میں شریک رہے۔فتح مکہ کے دن سائب نے یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ نے کبھی جھگڑا نہیں کیا۔(احمد)10
غزوۂ خیبر کے محاصرہ کے وقت بھوک اور فاقے کے ایام میں مسلمانوں کی امانت کاایک کڑا امتحان ہوا۔ہوایوں کہ یہود کے ایک حبشی چراوہے نے اسلام قبول کرلیا اور سوال پیدا ہو اکہ اس کے سپرد یہود کی بکریوں کا کیا کیا جائے۔ نبی کریمؐ نے ہر حال میںامانت کی حفاظت کرنے کا فیصلہ فرمایا۔آپؐ نے اپنے صحابہ کی بھوک اور فاقہ کی قربانی دے دی مگرکیامجال کہ آپؐ کی امانت میں کوئی فرق آیا ہو حالانکہ یہ بکریاں دشمن کے طویل محاصرہ میں تو مہینوں کی خوراک بن سکتی تھیں۔مگرآپؐ نے کس شان استغناء سے فرمایا کہ بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کے ان کوہانک دو۔خداتعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچادے گا۔نومسلم غلام نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیںجہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کرلیا۔سبحان اللہ! رسول اللہﷺ جنگ میں بھی جہاں سب کچھ جائز سمجھاجاتا ہے کس شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے اور کرواتے تھے۔(ابن ھشام)11
لڑنے والوں کے مال آج بھی میدان جنگ میں حلال سمجھے جاتے ہیں۔ کیا آج کل کے مہذب زمانہ میں کبھی ایسا واقعہ ہو اہے کہ دوران جنگ دشمن کے جانوراور مال و اسباب ہاتھ آگئے ہوں اور ان کو دشمن فوج کی طرف سے واپس کردیا گیا ہو۔نہیں نہیں! آج کی دنیا میں عام حالات میں بھی دشمن کے مال کی حفاظت تو درکنار،اسے لوٹنا جائز سمجھا جاتا ہے۔مگر قربان جائیں دیانتداروں کے اس سردار پر کہ دشمن کا وہ مال جوایک طرف فاقہ کش اور بھوک کے شکار مسلمانوں کی مہینوں کی غذابن سکتاتھا ،دوسری طرف دشمن اس سے اپنا محاصرہ لمبا کھینچ کر مسلمانوں کو پسپائی پر مجبور کرسکتا تھا۔ان سب باتوںکی کوئی پرواہ نہ کی اور امانت مالکوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
نبی کریمؐ نے بھی صرف انسانوں کی امانت کے حق ہی ادا نہیں کئے بلکہ اپنے مولیٰ کی امانتوں کے تمام حق اد اکردکھائے۔ ایک دفعہ یمن سے سونا آیا اور رسول اللہؐ نے تالیف قلبی کی خاطرعرب کے چار سرداروں میں تقسیم فرمادیا ایک شخص نے کہا ہم اس کے زیادہ حق دار تھے۔ رسول کریمؐ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کیااللہ تعالیٰ تومجھے اہل زمین پرامین مقررکرے اور تم لوگ مجھے امین نہ سمجھو۔دوسری روایت میں ہے تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں (وحی الہٰی) آتی ہیں۔(گویا وحی آسمانی کا امین ہوں)۔ (بخاری واحمد)12
خداکی امانتوں کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی عبادات اور قرآنی وحی کی تبلیغ شامل ہے۔ جس کا حق اداکرنے کی تفصیل عبادت اور داعی الی اللہ کے عناوین میں مذکور ہے۔
پس رسول کریمؐ نے بندوں اور خدا کی تمام امانتوں کے حق ادا کر کے دکھائے۔
حوالہ جات
1
المعجم الکبیرلطبرانی جلد8ص296
2
مسلم کتاب الجہاد والسیرکتاب النبی الی ہرقل یدعوہ الی الاسلام:3322
3
مسند احمدجلد1 ص203
4
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد 2ص98
5
بخاری کتاب العلم باب الغضب فی الموعظۃ
6
بخاری کتاب اللقطہ باب اذا وجد تمرۃ فی الطریق:2252
7
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقۃ التمر:1390
8
مسند احمد جلد4ص89،مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد2ص134
9
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ:1340
10
مسند احمد جلد 3ص425بیروت
11
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد4ص42
12
بخاری کتاب الانبیاء باب واِلٰی عادٍاخاھم ھودًاومسنداحمدجلد3ص4
رسول اللہ ؐ کا ایفائے عہد
قرآن شریف میں عہد پورا کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے فرمایا’’عہد پورا کرو کہ عہد کے بارہ میں پرسش ہوگی۔‘‘ (سورۃ الاسرائ:35)رسول کریمؐ نے فرمایا جو شخص بغیر کسی جائز وجہ کے کسی معاہدہ کرنے والے کو قتل کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردے گا۔(ابودائود1) نیزفرمایا جس کا عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(احمد)2
نبی کریمؐ آغازسے ہی امانت و دیانت اورایفائے عہدکا بہت خیال رکھتے تھے۔آپؐ نے پابندیٔ عہد میں بھی بہترین نمونہ پیش فرمایا ہے۔
بعثت سے قبل
حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے زمانۂ بعثت سے قبل نبی کریمؐ سے ایک سودا کیا۔ ان کا کچھ حصہ میرے ذمہ واجب الادا رہ گیا۔میں نے آپؐ سے طے کیا کہ فلاں وقت اس جگہ آکرمیں آپؐ کو ادائیگی کروں گامگر میں واپس جاکر وعدہ بھول گیا۔ تین روز بعد مجھے یاد آیا تو میں مقررہ جگہ حاضر ہوا۔کیا دیکھتا ہوں کہ نبی کریمؐ اسجگہ موجود تھے۔ آپؐ فرمانے لگے نوجوان! تم نے ہمیں سخت مشکل میں ڈالا۔ میں تین روز سے یہاں (اس وقت) تمہارا انتظار کرتا رہاہوں۔(ابودائود)3
مکی دور میں بعثت سے قبل حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے تھے جس کا بنیادی مقصد مظلوموں کی امداد تھا۔آپؐ فرماتے تھے کہ اس معاہدہ میں شرکت کی خوشی مجھے اونٹوں کی دولت سے بڑھ کر ہے اور اسلام کے بعد بھی مجھے اس معاہدہ کا واسطہ دے کر مدد کے لئے بلایا جائے تو میں ضرورمدد کروں گا۔(ابن ہشام)4
بعثت نبویؐ کے بعد
دعویٔ نبوت کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک اجنبی ’’الاراشی‘‘ کا حق سردار مکّہ ابوجہل نے دبا لیا۔ اُس شخص نے آنحضرتؐ سے آکر مدد مانگی۔ حضور ؐ اُس کے ساتھ ہولئے اور معاہدہ حلف الفضول کی پابندی کرتے ہوئے اپنے سخت معاند ابوجہل کے دروازے پر جاکر اُس مظلوم اجنبی کے حق کا تقاضاکیا۔ پھروہاں سے ہلے نہیں جب تک کہ اُس کا حق اُسے دلوانہیں دیا۔ (ابن ہشام)5
حضرت حُذیفہ بن الیمّانؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے بدر میں شامل ہونے میں یہ روک ہوئی کہ میں اور ابوسہلؓ بدر کے موقع پرگھرسے نکلے۔راستہ میں ہمیں کفارِ قریش نے پکڑ لیا۔ انہوں نے کہا تم محمدؐ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ہم نے کہا نہیں ہم تو مدینہ جارہے ہیں۔انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ ہم جاکر رسول اللہؐ کے ساتھ لڑائی میں شامل نہیں ہونگے بلکہ سیدھے مدینہ چلے جائیں گے۔ ہم رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور سارا واقعہ عرض کردیا۔آپؐ نے فرمایا جائو اور اپنا عہد پورا کرو ہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے۔(مسلم)6
شہنشاہ ِروم قل نے رسول اللہؐ کا تبلیغی خط ملنے پر اپنے دربار میں سردار قریش ابوسفیان کو بلاکر جب بغرض تحقیق کچھ سوالات کئے تو یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا اس مدّعیٔ رسالت نے کبھی کوئی بدعہدی بھی کی ہے؟ابوسفیان رسول اللہؐ کا جانی دشمن تھا مگر پھر بھی اسے ہرقل کے سامنے تسلیم کرنا پڑا کہ ’’آج تک اُنہوں نے ہم سے کوئی بدعہدی نہیں کی۔البتہ آجکل ہمارا اس سے ایک معاہدہ (حدیبیہ) چل رہا ہے دیکھیں وہ کیا کرتا ہے۔‘‘ابوسفیان کہتا تھاکہ میں ہرقل کے سامنے اس سے زیادہ اپنی طرف سے کوئی بات اپنی گفتگو میں حضورؐ کے خلاف داخل نہ کرسکاتھا۔(بخاری)7
مشرکین سے ایفائے عہد
خدا کی تقدیر دیکھئے کہ رسول کریمؐ نے معاہدۂ حدیبیہ کی ایک ایک شق پر عمل کر کے دکھایا۔معاہدہ توڑنے کے مرتکب بھی پہلے قریش ہی ہوئے اور پھر عہدشکنی کا انجام بھی ان کو بھگتنا پڑا۔ جب کہ رسول کریمؐ نے ایفائے عہد کی برکات سے حصہ پایا اورسب سے بڑی برکت فتح مکہ کی صورت میں آپؐ کو عطاہوئی ۔
معاہدہ حدیبیہ کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے مکہ آئیں گے اور تین دن کے اندر مکہ کو خالی کردیں گے۔ چنانچہ اگلے سال جب نبی کریمؐ عمرہ قضا کے لئے مکہ آئے تو قریش نے مکہ خالی کردیا۔حویطب بن عزیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سہیل بن عمرو مکہ میں رہے تاکہ تین دن کے بعد مسلمانوں سے حسب معاہدہ مکہ خالی کرواسکیں جب تین دن گزر گئے تو میں نے اور سہیل نے رسول اللہؐ کو یاد کروایاکہ آج شرط کے مطابق مسلمانوں کو مکہ خالی کرنا ہوگا۔ آنحضورؐنے اسی وقت بلال ؓکو حکم فرمایا کہ اعلان کردیں کہ آج غروب آفتاب کے بعد کوئی مسلمان جو ہمارے ساتھ عمرہ کرنے مکہ آیا ہے مکہ میں نہ رہے اور بڑی سختی سے اس کی پابندی کی گئی۔(حاکم)8
معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان بھاگ کر مدینے جائے گا تو اسے واپس اہل مکہ کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اس شق پر مسلمانوں نے تکمیل معاہدہ سے بھی پہلے عمل کر دکھایااور نمائندہ قریش کے مکہ سے بھاگ کر آنے والے مسلمان بیٹے ابو جندلؓ کو دوبارہ اس کے باپ سہیل بن عمروکے سپرد کردیا گیا جس نے اسے پھر اذیت ناک قید میں ڈال دیا۔
معاہدہ کے بعد بھی بعض مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئے تورسول کریمؐ نے معاہدہ کے مطابق انہیں مکّہ واپس بھجوادیا۔ مگر یہ شرط خود مکّہ والوں کے لئے وبالِ جان بن گئی کیونکہ معاہدہ کے بعد مکّہ سے مدینہ آنے والے ایک بہادر مسلمان ابو بصیر کو جو مشرک گرفتارکرکے مدینہ سے دوبارہ مکّہ لے جارہے تھے،راستہ میںوہ ان کو قتل کر کے، رہائی پانے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر ابو بصیرؓ نے واپس مدینہ آنے کی بجائے ساحل سمندر کے قریب اپنا اڈا بنالیا جہاں دیگر مسلمان بھی مکّہ سے آکر اکٹھے ہونے لگے اور ایک جمعیت بن کر اہل مکہ کے لئے خطرہ بن گئے۔جس پر مکہ والے خود یہ شرط چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
صلح حدیبیہ میں قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو نے مسلمانوں کے ساتھ آئندہ دس سال کے لئے معاہدہ امن طے کیا تھا، جس کے مطابق بنوبکرقریش کے حلیف بنے تھے اور بنوخزاعہ مسلمانوں کے۔نیزیہ کہ کسی کے حلیف پر حملہ خود اس پر حملہ تصور کیاجائے گا۔
حلیف سے ایفاء اور امداد
صلح کے زمانے میں مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابیاں دیکھ کر قریش نے معاہدۂ امن توڑنا چاہا اور قریش مکہ کے ایک گروہ نے اپنے حلیف بنو بکر سے ساز باز کر کے ایک تاریک رات میں مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔خزاعہ نے حرم کعبہ میں پناہ لی لیکن پھر بھی ان کے تیئس آدمی نہایت بے دردی سے قتل کردیئے گئے۔خود سردار قریش ابوسفیان کوپتہ چلا تو اس نے اس واقعہ کواپنے آدمیوں کی شرانگیزی قراردیا اور کہااب محمد ؐ ہم پر ضرور حملہ کریں گے۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو اس واقعہ کی اطلاع بذریعہ وحی اسی صبح کردی ۔ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو یہ واقعہ بتا کرفرمایا کہ منشاالہٰی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قریش کی اس بدعہدی کا ہمارے حق میں کوئی بہتر نتیجہ ظاہر ہوگا۔ پھر تین روز بعد قبیلہ بنوخزاعہ کا چالیس شترسواروں کا ایک وفدرسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ بنو بکر اور قریش نے مل کر بدعہدی کرتے ہوئے شب خون مار کرہمارا قتل عام کیا ہے۔ اب معاہدۂ حدیبیہ کی رو سے آپؐ کا فرض ہے کہ ہماری مدد کریں۔بنوخزاعہ کے نمائندہ عمرو بن سالم نے اپنا حال زار بیان کر کے خدا کی ذات کا واسطہ دیکر ایفائے عہد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا
یَا رَبِ ّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًا
حَلْفَ اَبِیْنَا وَ اَ بِیْہِ الْاَ تْلَدَا
یعنی اے میرے رب!مَیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا واسطہ دے کر مدد کے لئے پکارتا ہوں اور اپنے آباء اور اس کے آباء کے پرانے حلف کا واسطہ دے کر عہد پورا کرنے کا خواستگارہوں۔
خزاعہ کی مظلومیت کا حال سن کر رحمتہ للعالمین ﷺ کا دل بھر آیا۔آپؐ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ آپؐ نے ایفائے عہد کے جذبہ سے سرشار ہوکر فرمایا۔ اے بنو خزاعہ!یقینا یقینا تمہاری مدد کی جائے گی۔اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے۔ تم محمد ﷺ کوعہد پورا کرنے والا اور با وفا پائو گے۔ تم دیکھو گے کہ جس طرح میں اپنی جان اور بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوںاسی طرح تمہاری حفاظت کروں گا۔(ابن ہشام)9
ادھر ابوسفیان اس معاہدہ شکنی کے نتیجے سے بچنے کیلئے بہت جلد اس یقین کے ساتھ مدینے پہنچا کہ محمدﷺ کو اس بدعہدی کی خبر نہ ہوگی۔اس نے بڑی ہوشیاری سے آنحضرت ﷺ سے بات کی کہ میں در اصل صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود ہی نہیں تھا۔آپؐ میرے ساتھ اس معاہدہ کی ازسرنو تجدید کرلیں۔ آنحضرتؐ نے کمال حکمت عملی سے پوچھا کہ کیا کوئی فریق معاہدہ توڑ بیٹھا ہے؟ ابوسفیان گھبراکر کہنے لگا ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ رسول کریمؐ نے جواب دیا تو پھر ہم سابقہ معاہدے پر قائم ہیں۔چنانچہ نبی کریمؐ نے بنو خزاعہ کے ساتھ کیا گیا عہد پورا فرمایا اور دس ہزار قدوسیوں کو ساتھ لے کر ان پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکو مکہ کی شاندار فتح عطا فرمائی۔(الحلبیہ)10
سراقہ سے ایفاء عہد
ہجرت مدینہ کے سفر میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہؐ کا پیچھا کرنے والے سراقہ بن مالک کی روایت ہے کہ جب میں تعاقب کرتے کرتے رسول کریمؐ کے قریب پہنچا تو میرا گھوڑا بار بار ٹھوکر کھاکر گرجاتا رہا تب میں نے آواز دے کر حضورؐ کو بلایا اور حضورؐ کے ارشاد پر ابوبکرؓ نے مجھ سے پوچھا آپؐ ہم سے کیا چاہتے ہو؟میں نے کہاآپؐ مجھے امن کی تحریر لکھ دیں، انہوں نے مجھے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر وہ تحریرلکھ دی اور میں واپس لوٹ آیا۔فتح مکہ کے بعد جب حضورؐ جنگ حنین سے فارغ ہوکر جعّرانہ میں تھے۔ میں حضورؐ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا،حضورؐ انصار کے ایک گھوڑ سوار دستے کے حفاظتی حصار میں تھے،وہ مجھے پیچھے ہٹاتے اور کہتے تھے کہ تمہیں کیا کام ہے؟ حضور ؐ اپنی اونٹنی پر سوار تھے ،میں نے اپنا ہاتھ بلند کرکے وہی تحریر رسول اللہؐ کو دکھائی اور کہا میں سراقہ ہوں اور یہ آپؐ کی تحریر امن ہے۔رسول کریمؐ نے فرمایا آج کا دن عہد پورا کرنے اور احسان کا دن ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا سراقہ کو میرے پاس لایا جائے۔ میں آپؐ کے قریب ہوا اور بالآخر آپ ؐ سے ملاقات کرکے اسلام قبول کرلیا۔(ابن ھشام)11
رسول کریمؐ نے مسلمان عورت کے عہدکا بھی پاس کیا ہے۔امّ ہانی ؓ بنت ابی طالب نے فتح مکہ کے موقع پر رسول کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ انہوں نے اپنے سسرال کے بعض مشرک لوگوں کو پناہ دی ہے۔حالانکہ حضرت علیؓ اس کے خلاف تھے۔رسول کریمؐ نے فرمایا اے ام ہانی ؓ! جسے تم نے امان دیدی اسے ہم نے امان دی۔(ابودائود)12
ابو رافع قبطیؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اللہؐ کی خدمت میں سفیر بناکر بھجوایا۔رسول کریمؐکو دیکھ کر میرے دل میں اسلام کی سچائی گھر کر گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں قریش کی طرف لوٹ کر واپس نہیں جانا چاہتا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ ہی سفیر کو روکتا ہوں۔آپؐ اس وقت بہر حال واپس جائوپھر اگربعد میں یہی ارادہ ہو کہ اسلام قبول کرنا ہے تو وہاں جاکر واپس آجانا۔چنانچہ یہ قریش کے پا س لوٹ کر گئے اور بعد میں آکر اسلام قبول کیا۔(ابودائود)13
یہودمدینہ سے ایفائے عہد
نبی کریمؐ نے مکہ سے یثرب ہجرت فرمائی تواہل مدینہ کے جن گروہوں سے معاہدہ ہوا اس میں یہود کے تین قبائل بنو قینقاع،بنوقریظہ اور بنو نضیرشامل تھے۔ اس معاہدہ کے مطابق یہود اور مسلمان امت واحدہ کے طور پر ریاست مدینہ کے باسی تھے۔ نبی کریمؐ نے ہمیشہ اس معاہدہ کا نہ صرف ایفاء اور احترام فرمایا۔ یہود کے حق میں عادلانہ فیصلے فرمائے۔یہود کو مکمل مذہبی آزادی دی اور بعض مسلمانوں نے جب ان کے بانی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رسول کریمؐ کی فضیلت و برتری ظاہرکی جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا کی تھی تو بھی آپؐ نے معاہدقوم کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ازراہِ انکساروایثار یہی فرمایا کہ مجھے موسیٰ ؐ پر فضیلت مت دو تاکہ اس کے نتیجہ میں مدینہ کی امن کی فضاخراب نہ ہو۔ (بخاری)14
نبی کریمؐ نے یہودی جنازوں کا بھی احترام کیااور ان کا جنازہ آتے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا کہ یہودی کا جنازہ ہے فرمایا کیا وہ انسان نہیں تھا۔(بخاری)15
اس کے برعکس یہاں تک مسلسل عہد شکنی کے نتیجہ میں بالآخران کومدینہ بدرکرناپڑا۔ لیکن رسول اللہؐ پر کبھی کسی یہودی کو عہدشکنی کا الزام تک لگانے کی جرأت نہ ہوئی۔(بخاری)16
عیسائیوں سے ایفائے عہد
فتح مکہ کے بعدجن مختلف قبائل عرب نے مدینہ آکرصلح وامن کے معاہدے کئے ان میں نجران اور یمن کے عیسائی بھی تھے۔ نجران کے عیسائیوں نے معاہدۂ صلح کے بعد رسول کریمؐ سے درخواست کی کہ اس معاہدہ کے ایفاء کے لئے آپؐ اپنا کوئی ایسانمائندہ مقررکریں جو دیانتداری سے معاہدہ کی شقوں پر عمل کروائے۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کو امین الامت کا خطاب دیتے ہوئے اور تکمیل معاہدہ کے لئے نگران مقررفرمایا اور انہوں نے ایفائے عہد کاحق ادا کردکھایا۔(بخاری)17
الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پابندیٔ عہد میں بھی ایک مثالی نمونہ پیش فرمایاہے۔
حضرت محمد مصطفی ؐکا سوانحی خاکہ
کتاب اسوۂ انسان کامل میں سوانح کی ترتیب مہ وسال کی بجائے رسول اللہؐ کے اخلاق فاضلہ اور اُسوۂ حسنہ پر واقعاتی انداز میں بحث کی گئی ہے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز میں ایک مختصر سوانحی خاکہ پیش کردیا جائے جو مختلف اہم واقعات سیرت کے لئے انڈیکس کا کام دے سکے۔ ہمارے نبی شاہِ دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اس تاریخی سال میں ہوئی، جب خانہ کعبہ پریمن کے گورنر ابرہہ نے حملہ کیاتھا۔ محمود پاشا فلکی مصری کی تحقیق کے مطابق یہ سال 571ء تھا اور 20؍اپریل (مطابق 9ربیع الاوّل) تاریخ تھی۔ چالیس سال کی عمر میں حضرت محمدمصطفی ؐ پر وحی قرآنی کا نزول ہوا۔ اس تسلسل میں اہم تاریخی سوانح کا خاکہ یُوں ہے۔
٭
بعثت نبوی کا پہلا سال610ء ۔ نزول قرآن کا آغاز
٭
پانچواں سال614ء ۔ پہلی ہجرت حبشہ
٭
ساتواں سال615ء ۔ محاصرہ شعب ابی طالب،معجزہ شق القمر
٭
دسواں سال619ء
وفات حضرت خدیجہ و ابوطالب،نکاح حضرت عائشہ ؓ و حضرت سودہؓ، سفر طائف
٭
گیارہواں سال620ء ۔ اہل یثرب سے ملاقات
٭
بارھواں سال 621ء ۔ واقعۂ معراج
٭
تیرھواں سال622ء ۔ بیعت عقبہ ثانیہ ، ہجرت مدینہ
٭
ہجرت کاپہلا سال1ھ مطابق622 ء مدینہ آمد،مسجد قباء اور مسجد نبوی کی بنیاد، ابتدائے اذان،مؤاخات انصار و مہاجرین، معاہدہ یہود
٭
2ھ بمطابق 623ء تحویل قبلہ ،فرضیت رمضان،عیدالفطر،جنگ بدر،حضرت عائشہ ؓ سے شادی
٭
3ھ مطابق624ء غزوۂ قینقاع،پہلی عیدالاضحی،حضرت علیؓ کا حضرت فاطمہؓسے نکاح، حضرت عثمانؓ سے اُمّ کلثوم کی شادی، رسول اللہؐ کی حضرت حفصہؓ سے شادی،غزوہ ٔاحد
٭
4ھ مطابق625ء واقعہ رجیع و بئر معونہ،یہودی قبیلہ بنو نضیر کا مدینہ سے اخراج، رسول اللہؐ کی حضرت امّ سلمہ ؓ سے شادی، غزوۂ بدر الموعد
٭
5ھ مطابق 626ء غزوۂ دومۃ الجندل،مدینہ میں چاندگرھن اور نماز خسوف، غزوۂ بنو مصطلق اور واقعہ افک غزوۂ خندق، غزوۂ بنوقریظہ۔
٭
6ھ مطابق627-28ء غزوۂ بنو لحیان، ثمامہ بن اثال رئیس یمامہ کا قبول اسلام، حضرت ابوالعاص داماد رسول کا قبول اسلام، صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان
٭
7ھ مطابق628-29ء
شاہان مملکت کو تبلیغی خطوط، غزوۂ ذی قرد، غزوۂ خیبر،حضرت صفیہؓ سے شادی، اہل فدک سے مصالحت،آنحضرتؐ کو زہر دینے کی سازش، مہاجرین حبشہ کی واپسی، حضرت ابوھریرہؓ کا قبول اسلام،غزوۂ ذات الرقاع اور صلوۃ الخوف،عمرۃ القضاء
٭
8ھ مطابق629ء غزوۂ مُوتہ ، غزوۂ فتح مکّہ، غزوہ حنین، غزوۂ طائف،مدینہ میںقبائل عرب کے وفودکی آمد کا آغاز
٭
9ھ مطابق630ء
غزوۂ تبوک، وفود عرب کی کثرت سے آمد، عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کی موت، اہل طائف کا قبول اسلام، حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں مسلمانوں کا پہلا حج،
٭
10ھ مطابق631ء
حضرت عدی بن حاتم الطائی کا قبول اسلام، حضرت ابوموسیٰ ؓو حضرت معاذ ؓ کو یمن بھجوانا، حجۃ الوداع
٭
11ھ مطابق632ء
آخری وفد کی آمد، حضورؐ کی آخری بیماری، سریہّ اسامہ بن زید، وفات رسولؐ
شمائل نبویؐ کی ایک جھلک
’’شمائل نبوی‘‘ میں اپنے آقا و مطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان پاکیزہ عادات و اطوارکاایک نقشہ پیش کرنا مقصودہے جن کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ گواہی ہے کہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ یعنی آپؐ عظیم الشان اخلاق پر فائز تھے۔ (سورۃ القلم:6)اس آسمانی شہادت سے بہتر آپؐ کے اخلاق کی تصویر کشی کون کرسکتا ہے؟
رسول اللہؐ کی رفیقہء حیات حضرت عائشہ ؓ کی یہ شہادت ہے کہ اللہ کی رضاکے تابع آپؐ کے سب کام ہوتے تھے اور جس کام سے خدا ناراض ہو،آپؐ اس سے دور رہتے تھے۔(حکیم ترمذی)1
یزید بن بابنوس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا اے ام المؤمنین ! رسول اللہؐ کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے فرمایا رسول اللہؐ کے اخلاق قرآن تھے۔ پھر فرمانے لگیں تمہیں سورۃ المؤمنون یا د ہے تو سنائو۔ انہوں نے اس سورت کی پہلی دس آیات کی تلاوت کی جو قَدْاَفْلَحَ المُوْمِنُوْنَ سے شروع ہوتی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں عاجزی اختیار کرتے ہیں ۔وہ لغو چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں۔وہ اپنے تمام سوراخوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ ہوئے کہ ان پر کوئی ملامت نہیں۔ اور جو اس کے علاوہ چاہے وہ لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔حضرت عائشہؓ نے ان آیات کی تلاوت سن کر فرمایا کہ یہ تھے رسول اللہؐ کے اخلاق فاضلہ۔ (حاکم)2
الغرضحضرت عائشہؓ کیچشم دیدشہادت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ؐ کے اخلاق قرآن تھے۔جس کا یہ مطلب ہے کہ اوّل۔قرآن شریف میں بیان فرمودہ تمام اخلاق اور مومنوں کی جملہ صفات کی تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی۔ چنانچہ قرآن کی اخلاقی تعلیم پر عمل کر کے آپؐ نے ایسا حسین عملی نمونہ پیش کیا جسے قرآن کریم نے اسوۂ حسنہ قرار دیاہے۔(سورۃ الاحزاب:22)
دوم۔قرآن نے جو حکم دیئے وہ سب آپؐ نے پورے کر دکھائے۔گویا آپؐ چلتے پھرتے اور مجسم قرآن تھے۔
آیئے ان دونوں پہلوئوں سے شمائل نبوی پرایک نظر ڈالتے ہیں۔
قرآن شریف میں رسول کریم ؐ کی شخصیت ،آپؐ کے لباس، حقوق العبادکی نازک ذمہ داریوں،بے پناہ روز مرہ مصروفیات ،انقطاع الی اللہ ،عبادات، ذکرالہٰی، تبلیغ اورپاکیزہ اخلاق، سچائی، راستبازی، استقامت،رافت و رحمت،عفووکرم وغیرہ کے واضح اشارے ملتے ہیں اور احادیث نبویہ میں ان اخلاق فاضلہ کی تفاصیل موجود ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر کشش شخصیت کا عکس آپؐ کے خوبصورت اور پرکشش چہرہ سے خوب نمایاں تھا ،جس کے ہزاروں فدائی اور عاشق پیدا ہوئے۔
بلاشبہ آپؐ کا بھرا بھرا ،کھلتے ہوئے سفید رنگ کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوتا تھا،شرافت و عظمت کا نور اس پر برستاتھااور بشاشت و مسکراہٹ اس پاکیزہ چہرہ کی رونق تھی۔
آپؐ کاسر بڑا تھا او ر بال گھنے ۔ ریش مبارک گھنی تھی،ناک پتلی کھڑی ہوئی،کالی خوبصورت آنکھیں اور رخسار نرم و ملائم تھے۔ دہانہ کشادہ دانت فاصلے دار اور سفید موتیوں کی طرح چمکدار تھے۔گردن لمبی ، سینہ فراخ ،بدن چھریرا اور پیٹ سینہ کے برابر تھا۔قد درمیانہ اور متناسب تھا۔پُشت مبارک پر کندھوں کے درمیان کبوتری کے انڈے کے برابر سُرخ رنگ کا گوشت کا ایک ٹکڑا اُبھراہوا تھاجو مہر نبوت سے موسوم تھا اورجس کا ذکر قدیم نوشتوں میں رسول اللہؐ کی شناخت کی ایک جسمانی نشانی کے طور پر موجود تھا۔(ترمذی)3
روز مرہ معمولات
کہتے ہیں کسریٰ شاہ ایران نے اپنے ایام کی تقسیم اس طرح کررکھی تھی کہ جس دن بادِ بہار چلے وہ سونے اور آرام کے لئے مقررہوتا تھا، ابرآلودموسم شکار کیلئے مختص تھا، برسات کے دن رنگ و طرب اور شراب کی محفلیں سجتی تھیں۔ جب مطلع صاف اور دن روشن ہوتا تو دربار شاہی لگایا جاتا اور عوام و خواص کو اذن باریابی ہوتا۔ظاہر ہے یہ ان اہل دنیا کا حال ہے جو آخرت سے غافل ہیں۔
مگر ہمارے آقاو مولا حضرت محمد مصطفیٰؐ نے ہر حال میں عسرہویایُسر اپنے دن کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہواتھا۔دن کا ایک حصہ عبادت الہٰی کیلئے،ایک حصہ اہل خانہ کے لئے اور ایک حصہ اپنی ذاتی ضروریات کیلئے مقررتھا۔پھر اپنی ذات کیلئے مقرر وقت میں سے بھی ایک بڑا حصہ بنی نوع اِنسان کی خدمت میں صرف ہوتا تھا۔(عیاض)4
دعویٰ نبوت کے بعدرسول کریم ؐ کی ۳ ۲ سالہ زندگی میں سے ۱۳ سالہ مکی دور نزول قرآن، تبلیغی جدوجہد،اسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم و تربیت اور ابتلاء و مصائب کا ایک ہنگامی دور تھا۔اس کے معمولات کی تفصیلات اس طرح نہیں ملتیں جس طرح دس سالہ مدنی دور کے معمولات روز و شب کی تفاصیل احادیث میں ملتی ہیں اور جن سے مکی دور کی بھرپورمصروفیات کا ایک اندازہ کیاجاسکتا ہے۔
احادیث کے مطابق آپؐ روزانہ اپنی مصروفیات کا آغاز نماز تہجد سے فرماتے تھے۔ نماز سے قبل وضو کرتے ہوئے مسواک استعمال فرماتے اور منہ اچھی طرح صاف کرتے۔نہایت خوبصورت اور لمبی نماز تہجد ادا کرتے جس میں قرآن شریف کی لمبی تلاوت کرتے، اتنی لمبی کہ زیادہ دیر کھڑے رہنے سے پائوں پرورم ہوجاتے۔ نماز کے بعد آپؐ کچھ دیر لیٹ جاتے۔اگر آپؐ کے گھر والوں میں سے کوئی جاگ رہا ہوتا تو اس سے بات کرلیتے ورنہ آرام فرماتے۔ پھر جونہی نماز کے لئے حضرت بلال ؓ کی آواز کان میں پڑتی فوراًنہایت مستعدی سے اُٹھتے اور دو مختصر رکعت سنت ادا کرکے نماز فجر پڑھانے مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے۔کبھی نماز تہجّد بیماری وغیرہ کے باعث رہ جاتی تو دن کے وقت نوافل ادا کرتے ۔(بخاری)5
نمازفجر کے بعدسے طلوع آفتاب تک صحابہ کے درمیان تشریف فرما ہوتے ۔ذکرِ الٰہی سے فارغ ہوکرصحابہ سے احوال پرسی فرماتے ،زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی ہوتیں۔ آپؐ پوچھتے کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو سنائے ۔اچھی خواب پسند فرماتے اوراس کی تعبیر بیان کرتے۔کبھی اپنی کوئی خواب بھی سنادیتے۔ (بخاری،مسلم)6
رسول کریم ؐ صبح ہی اپنے دن کا پروگرام مرتب فرمالیتے۔اگر کسی صحابی کو تین دن سے زیادہ غیرحاضر پاتے اس کے بارہ میں پوچھتے اگر وہ سفر پر ہوتا تو اس کے لئے دعا کرتے ۔شہر میں ہوتا تو اس کی ملاقات کو جاتے۔ بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے۔(کنز)7
رسول کریمؐ کی مجالس صحابہ سے ملاقات اور تعلیم و تربیت کا بھی ایک نہایت عمدہ موقع ہوتی تھیں۔ صبح صبح مدینہ کے بچے حصول تبرّک کے لئے برتنوں میں پانی وغیرہ لے کر آجاتے تھے۔ آپؐ برتن میں انگلیاں ڈال کر تبرّک عطا فرماتے۔ (مسلم)8
قومی کاموں سے فارغ ہوکر آپؐ گھر تشریف لے جاتے۔ اہل خانہ سے پوچھتے کہ کچھ کھانے کو ہے۔ مل جاتا تو کھا لیتے اور اگر کچھ موجود نہ ہوتا تو فرماتے اچھا آج ہم روزہ ہی رکھ لیتے ہیں۔(ترمذی)9
بادشاہ اور بڑے لوگ اپنے کام وزراء اور دوسروں کے سپرد کر کے خود عیش و عشرت سے زندگی گزارتے ہیں مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پنجوقتہ نمازیں،جمعہ،عیدوغیرہ خود پڑھاتے تھے۔ پھرگھر میں جو وقت گزرتا کام کاج میں اہل خانہ کی مدد فرماتے۔ہاتھ سے کام کرنا عار نہ سمجھتے۔ عام آدمی کی طرح گھر میں کام کرتے، کپڑے خود سی لیتے، پیوندبھی لگائے ،ضرورت پرجوتا بھی ٹانک لیا،جھاڑو بھی دیا، حسب ضرورت جانوروں کو باندھ دیتے اورچارہ بھی ڈال دیتے، دودھ دوھ لیاکرتے۔خادم تھک جاتے تو ان کی مدد فرماتے۔(احمد10)بیت المال کے جانوروں کو نشان لگانے کی خاطر خود داغ دیتے۔
آپؐاپنے ہمسایوں کا بہت خیال رکھتے ،ان کی بکریوں کادودھ اُن کو دوہ کردیتے۔ (احمد)11
رسول کریمؐ کی ایک بہت اہم اور نازک ذمہ داری نزول قرآن اور اس کی حفاظت کی تھی۔اس کے لئے اپنے اوقات کا بڑا حصہ آپؐکووقف کرنا پڑتا تھا۔ گھر یا مجلس میں جہاں اورجب بھی وحی الہٰی کا نزول ہوتا اس کے بوجھ سے ایک خاص کیفیت آپؐ پر طاری ہوتی۔ جسم پسینہ سے شرابور ہوجاتا جس کے فوراً بعد کاتب کو بلواکر وحی الہٰی لکھوالیتے۔ (بخاری)12
وحی قرآن کے یاد رکھنے اورنمازوںمیں تلاوت کے لئے گھر پراس کااعادہ اورغورو تدّبرایک الگ محنت طلب کام تھا۔
ذکر الہٰی و دعا
نبی کریمؐ ہر کام اللہ کا نام لے کر شروع کرتے، فرماتے تھے کہ اس کے بغیر کام بے برکت ہوتے ہیں۔(ہیثمی13) فراغت و مصروفیت ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے تھے۔ الغرض آپؐ ’’دست درکارودل بایار‘‘ کے حقیقی مصداق تھے۔
ہر موقع اور محل کے لئے آپؐ سے دعائیں ثابت ہیں۔ صبح اٹھتے ہوئے خیرو برکت کی دعا مانگتے تو شام کو انجام بخیر کی۔گھر سے جاتے اور آتے ہوئے، مسجد داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے، کھانا کھانے سے پہلے اور بعدمیں،بیت الخلاء جاتے آتے،بازار جاتے ہوئے، سفر پر روانہ ہوتے ہوئے، سوتے اور جاگتے وقت ہر حال میں خدا کی طرف رجوع کرتے اور اسے سہارا بناکر دعا کرتے۔مجلس میں بیٹھے ستّر مرتبہ استغفار فرماتے تھے۔ (بخاری)14
دعائوں میں زیادہ الحاح اور تضرّع کے وقت یَاحَیُّ یَا قُیُّوْمُ کی صفات الہیہ (یعنی اے زندہ اے قائم رکھنے والے) پڑھ کر دعا کرتے۔ مصیبت کے وقت آسمان کی طرف سر اٹھا کر سُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیْمُ پڑھتے۔یعنی پاک ہے اللہ بڑی عظمت والا۔مجلس میں چھینک آنے پر دھیمی آواز میں الحمدللہ کہتے اور کسی دوسرے کو چھینک آنے پر یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کی دعا دیتے کہ اللہ تم پر رحم کرے۔(بخاری)15
صحابہ سے عام ملاقاتیں ، وعظ و نصیحت اور سوال و جواب کی مجالس کے پروگرام نمازوں کے اوقات میں ہو جاتے تھے۔اکثراپنے اصحاب خصوصاً انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے۔(احمد16)حضرت ابو طلحہ انصاری ؓ کے گھر بھی تشریف لے گئے، کبھی ان کے باغ میں جاکر وقت گزارتے۔(بخاری)17
نماز عصر کے بعد باری باری سب ازواج مطہرات کے گھر جایا کرتے تھے۔ (احمد18) یہ گھر ایک حویلی میں مختلف کمروں کی صورت میں پاس پاس ہی تھے۔ مغرب کے بعد سب بیویا ں اس گھر میں جمع ہوجاتیں جہاں حضورؐ کی باری ہوتی وہاں ان کے ساتھ مجلس فرماتے۔ ظہر کے بعد گھر میں حسب حالات کچھ قیلو لہ فرمالیتے اور فرمایا کرتے کہ قیلولہ کے ذریعے رات کی عبادت کیلئے مد دحاصل کیا کرو۔ (طبرانی)19
عشاء سے قبل سونا آپؐ کو پسند نہ تھاتاکہ نماز عشاء نہ رہ جائے اورعشاء کے بعد بلاوجہ زیادہ دیر تک فضول باتیں اور گپ شپ پسند نہ فرماتے تھے۔ البتہ بعض اہم دینی کاموں کیلئے آپؐ ؐنے حضرت ابو بکرؓ اور عمر ؓ سے عشاء کے بعد بھی مشورے فرمائے۔ (احمد20) دن کے کاموں کا اختتام نماز عشاء سے پہلے پہلے کر کے عشاء کے بعد آرام کرنا پسند کرتے تاکہ تہجد کیلئے بروقت بیدارہوسکیں۔(بخاری)21
پھر آدھی رات کے قریب جب آنکھ کھلتی اپنے مولیٰ سے راز و نیاز میں محو ہوجاتے۔ آپؐ نے رات کے ہر حصہ میں نماز تہجّد ادا کی ہے۔مگر اکثر رات کی آخری تہائی میں عبادت کرتے تھے۔(بخاری)22
خوراک و غذا
نبی کریمؐ کھانے سے پہلے اوربعدہاتھ دھونے کی ہدایت فرماتے تھے۔(ہیثمی23) نیز اللہ کا نام لے کر اپنے سامنے سے اور دائیںہاتھ سے کھانے کی تلقین فرماتے۔(بخاری24) آپؐ کی خوراک و غذا نہایت سادہ تھی۔ بسااوقات رات کے کھانے کی بجائے دودھ پر ہی گزارا ہوتا تھا۔(بخاری25) مشروب پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے اور اللہ کے نام سے شروع کرتے اور اس کی حمد پرختم کرتے۔(ہیثمی)26
جو ملی گندم کے اَن چَھنے آٹے کی روٹی استعمال کرتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں چھلنیاں نہیں ہوتی تھیں۔یوں توحضورؐکو دستی کا گوشت پسند تھا مگر جو میّسر آتاکھا کر حمدوشکر بجالاتے۔ سبزیوں میں کدّو پسند تھا۔ سِر کہ کے ساتھ بھی روٹی کھائی اور فرمایا ’’یہ بھی کتنا اچھا سالن ہوتا ہے۔‘‘(بخاری)27
عربی کھانا ثَرِید(جس میں گندم کے ساتھ گوشت ملا ہوتا ہے) مرغوب تھا۔ اسی نوع کا ایک اور کھاناہریسہ بھی استعمال فرمایا ۔سنگترہ کھجور کے ساتھ ملاکر کھانے کالطف بھی اٹھایا۔ اللہ کی ہر نعمت کے بعد اس کا شکر ادا کرتے۔(بخاری)28
پھلوں میں تربوز بہت پسند تھا۔ دائیں ہاتھ سے کھجور اوربائیں سے تربوز لے کر کھاتے اور فرماتے ہم کھجور کی گرمی کا علاج تربوز کی ٹھنڈک سے کرتے ہیں۔ (حاکم29)میٹھے میں شہد کے علاوہ حلوہ اور کھیر پسند تھی۔(احمد)30
آپؐ ٹیک لگاکرکھانا نہیں کھاتے تھے۔سخت گرم کھانا کھانے سے پرہیزکرتے تھے۔ (حاکم )31
طہارت و صفائی
ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی رکھنے والوں کوپسند کرتاہے۔ (سورۃ البقرہ:23)یہی وجہ ہے کہ رسول کریمؐ نے باطنی طہارت کیلئے ظاہری طہارت کو ضروری قراردیا اور اس کے تفصیلی آداب سکھائے۔ دن میں پانچ مرتبہ ہر نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا۔جسم کی صفائی کیلئے ہفتہ میں کم از کم دو مرتبہ نہانے کی ہدایت فرماتے۔کم از کم ایک صاع(یعنی قریباً تین لٹر) پانی سے نہالیتے تھے۔غسل کی عادت زیادہ تھی۔(ترمذی32) آنکھوں کی حفاظت کے لئے رات کوآپؐ سرمہ لگاتے تھے۔(ترمذی)33
دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیتے ،فرماتے تھے۔’’اگر اُمت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو ہر نماز کے ساتھ( دن میں پانچ مرتبہ) مسواک کا حکم دیتا۔‘‘اپنا یہ حال تھا کہ گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک فرماتے۔مسواک دانتوں کے آڑے رُخ یعنی نیچے سے اوپر کرتے تھے۔ تاکہ درزیں خوب صاف ہوں۔ (مسلم34) بوقت وفات بھی مسواک دیکھ کر اس کی خواہش کی تو حضرت عائشہؓ نے نرم کرکے استعمال کروائی۔(بخاری)35
آپؐ عمدہ خوشبوپسند کرتے تھے۔ اپنی مخصوص خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ کے پسینے سے جو خوشبو آتی تھی وہ مشک سے بھی بڑھ کر ہوتی تھی۔ (دارمی36) سر کے بال کانوں کی لَو سے بڑھ کر کندھوں پر آجاتے تو کٹوادیتے۔ داڑھی حسب ضرورت لمبے اور چوڑے رخ سے ترشواتے تھے۔جو مشت بھر رہتی تھی۔بالوں پر مہندی لگاتے تھے۔(ترمذی)37
لباس
قرآنی ارشاد کے مطابق لباس میں پردہ اور زینت کی بنیادی شرائط ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔عام طور پر ایک تہبند اور ایک اوڑھنے کی چادر عربوں کا لباس تھاجو آپؐ نے بھی پہنا مگر سلا ہوا لمبی آستین والا کُرتہ زیادہ پسند تھا۔ بغیرآستین بھی پہنا۔(ابن ماجہ38)سادہ موٹے کپڑے استعمال فرماتے ۔آپؐ جبہ، پاجامہ اور سردی میں تنگ آستین والی روئی بھری صدری بھی استعمال فرماتے تھے۔حسب موقع وضو کے بعدپونچھنے کیلئے تولیہ بھی استعمال فرماتے۔
آپ ؐنے ٹوپی بھی استعمال فرمائی۔ جمعہ کے روز کلاہ کے اوپر پگڑی پہنتے۔جمعہ عیدین اور وفود کی آمد پرعمدہ کپڑے اور خاص طور پر ایک سرخ قبا زیب تن فرماتے۔ایک چاند رات میں سرخ قبا پہنی ہوئی تھی۔دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ اس رات آپؐ چاند سے زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے۔سفید کپڑے زیادہ پسند تھے۔مگر سرخ، سبز اور زعفرانی رنگ بھی استعمال فرمائے۔نیا کپڑا پہننے پر دو رکعت نماز ادا فرماتے اور پرانا کپڑا کسی ضرورت مند کو دے دیتے تھے۔چمڑے کے موزے استعمال فرماتے اور بوقت وضو ان پر مسح فرماتے۔چمڑے کے کھلے جوتے دو تسمے والے (ہوائی چپل ، سلیپر نما) استعمال فرماتے۔ (ترمذی) 39
آپؐ کی چاندی کی انگشتری پر مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ؐ کندہ تھا جو خطوط پر مہر لگوانے کے لئے بنوائی تھی۔ (بخاری40)ایک عرصہ تک یہ انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہنتے رہے پھر بائیں ہاتھ میں بھی پہنی۔بیت الخلاء جاتے تو یہ انگوٹھی اتار دیتے۔وضو کرتے وقت اسے حرکت دے کر انگلی کو دھوتے۔ہاتھ میں بالعموم کھجور کی شاخ کی چھڑی رکھتے تھے۔
جنگ میں آپؐ نے خود اور زرہ بھی پہنی ہے۔غزوۂ احد میں تو دو زرہیں پہن رکھی تھیں۔ایک زرہ کی کڑیاں ٹوٹ کر رخسار مبارک میں دھنس گئی تھیں۔(بخاری)41
چال ڈھال اور گفتگو
نبی کریم ؐچال ڈھال میں نہایت کو ہ وقارانسان تھے۔چال ایسی سبک تھی جیسے ڈھلوان سے اتر رہے ہوں۔حضرت ابوھریرہ ؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہؐ سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا ایسے لگتا تھا کہ زمین آپؐ کے لئے لپٹتی جارہی ہے۔ہم ساتھ چل کر تھک جاتے مگر حضورؐ پرتھکاوٹ کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔آپؐ گردن اکڑا کر نہ چلتے بلکہ نظریں نیچی رکھتے تھے۔(ترمذی)42
حضرت علی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ آگے کو جھک کر چلتے تھے یوں لگتاتھا جیسے گھاٹی سے اتر رہے ہوں، مَیں نے آپؐ سے پہلے اور آپؐ کے بعد ایسی رفتار والا شخص نہیں دیکھا۔(ترمذی)43
حضرت حسن بن علیؓ اپنے ماموں ھندؓ بن ابی ھالہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ لمبے لمبے اور تیز قدم اُٹھاتے تھے۔نظر یں نیچی رکھتے تھے مگر جب دیکھتے تو نظریں بھرکر پوری توجہ فرماتے ،چلتے ہوئے اپنے صحابہ سے آگے نکل جاتے تھے، اور جو بھی راستہ میں ملتا اسے سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے۔(ابن سعد)44
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ چلتے ہوئے اِدھر اُدھرتوجہ نہیں فرماتے تھے۔بسااوقات آپؐ کی چادر کسی درخت یا کانٹوں وغیرہ سے الجھ جاتی تو بھی توجہ نہ فرماتے اور صحابہ اس وجہ سے بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوئے ہنستے اور سمجھتے تھے کہ حضورؐ کا دھیان ادھر نہیں۔(ابن سعد)45
حسب ارشاد باری کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپؐ کو نرم کر دیا ہے۔(سورۃآل عمران:107) آپؐ کی گفتگو میں تلخی تھی نہ تیزی ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھا کر وضاحت اور نرمی سے آپؐ اس طرح کلام فرماتے کہ بات ذہن نشین ہوجاتی۔تین دفعہ بات دہراتے تھے۔ (احمد)46
کوئی بھی عزم کرلینے کے بعدآپؐ خدا پر کامل بھروسہ رکھتے ۔جب آپؐ تین دفعہ کوئی بات کہہ دیتے تو اسے کوئی پلٹا نہیں سکتا تھا۔(احمد47)لیکن آپؐ کبھی صحابہ کی طاقت سے زیادہ ان کو حکم نہ دیتے تھے۔(احمد)48
آنحضورؐبغیر ضرورت کے گفتگو نہ فرماتے تھے اور جب بولتے تھے تو فصاحت و بلاغت سے بھر پور نہایت بامعنی کلام فرماتے ۔خود بات شروع کرتے اور اسے انتہا تک پہنچاتے ۔آپؐ کی گفتگو فضول باتوں اور ہر قسم کے نقص سے مبرّا اوربہت واضح ہوتی تھی۔اپنے ساتھیوں سے تلخ گفتگو نہیں کرتے تھے۔نہ ہی انہیں باتوں سے رسوا کرتے تھے۔معمولی سے معمولی احسان کا ذکر بھی تعظیم سے کرتے اور کسی کی مذمت نہ کرتے۔کسی پر محض دنیوی بات کی وجہ سے ناراض نہ ہوتے البتہ جب کوئی حق سے تجاوز کرتا توپھر آپؐ کے غصہ کوکوئی نہ روک سکتا تھا اور ایسی بات پرآپؐ سزا ضرور دیتے تھے مگر محض اپنی ذات کی خاطر غصے ہوتے تھے نہ انتقام لیتے تھے۔غصے میںمنہ پھیر لیتے تھے۔خوش ہوتے تو آنکھیں نیچی کرلیتے۔مسکراتے تو سفید دانت اس طرح آبدارہوتے جیسے بادل سے گرنے والے اولے۔(ابن سعد) 49
حضرت جابرؓ کی روایت کے مطابق رسول کریمؐ کی گفتگو میں بھی ایک ترتیب اور حُسن ہوتا تھا۔ (ابودائود50) امّ معبد کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ شیریں بیان تھے۔ آپؐ کی گفتگو کے وقت ایسے لگتا تھا جیسے کسی مالا کے موتی گررہے ہوں۔(حاکم)51
حضرت عائشہؓکی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی۔ اور جب آپؐ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپؐ اس وقت تک اس سے کھچے کچھے رہتے تھے جب تک کہ آپ ؐکو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے توبہ کرلی ہے۔(ابن سعد)52
زیادہ تر آپؐ کی ہنسی مسکراہٹ کی حد تک ہوتی تھی۔مسکرانا توآپؐ کی عادت تھی۔صحابہ کہتے ہیں ’’ہم نے حضور سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔خوش ہوتے تو آپؐ کا چہرہ تمتما اُٹھتا تھا۔‘‘(احمد)53
آپؐ کی گفتگو خشک نہ تھی۔بلکہ ہمیشہ شگفتہ مزاح فرماتے تھے۔ مگر مذاق میں بھی کبھی دامن صدق نہ چھوٹا۔فرماتے ’’میرے منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے۔‘‘ (طبرانی)54
ایک صحابی نے ایک دفعہ سواری کیلئے آپؐ سے اونٹ مانگا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا میں تجھے اونٹ کا بچہ دے سکتا ہوں۔وہ سراسیمہ ہوکر بولے حضورؐ اونٹنی کا بچہ لے کر میں کیا کروں گا؟مجھے تو سواری چاہئے فرمایا ’’بھئی! اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔‘‘(ترمذی)55
صحابہ کو وعظ و نصیحت کرنے میں ناغہ کرتے تاکہ وہ اکتا نہ جائیں۔آپؐ کی تقریر نہایت فصیح و بلیغ دلکش اور جوش سے بھر ی ہوئی ہوتی تھی۔بعض دفعہ خطبہ میں یہ جوش و جلال بھی دیکھا گیا کہ آنکھیں سرخ ہیں اور آواز بلند۔ جیسے کسی حملہ آور لشکر سے ڈرا رہے ہوں جو صبح یا شام حملہ آور ہونے والا ہے۔ایک دفعہ صفات الہٰیہ کے بیان کے وقت منبر آپؐ کے جوش کے باعث لرزرہا تھا۔(مسلم56)رسول کریم ؐ کے خطبہ ونماز میں میانہ روی اور اعتدال ہوتا تھا۔ (مسلم)57
حالت جنگ میں آپؐ عجب مجاہدانہ شان کے ساتھ کمان حمائل کئے ایک سپہ سالار کے طور پر صحابہ سے مخاطب ہوتے۔ عام حالات میں جمعہ وغیرہ کے موقع پر عصا ہاتھ میں ہوتا۔ (ابن ماجہ58) بعد میں منبر بن گیا تو اس پر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔
آپؐ جو کہتے تھے وہ کر کے بھی دکھاتے تھے۔ گفتگو میں الفاظ کے چنائو میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے اور الفاظ کے بے محل استعمال کی اصلاح فرما دیتے ،عرب میں غلام اپنے آقائوں کو ’’رب‘‘ کہتے تھے جس کے معنے ہیں پالنے والا۔اور جو حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ آپؐ نے فرمایاکہ آقا کو سید کہا کرو۔یعنی سردار۔آقا اپنے غلام کو ’عبد‘ کہتے تھے یعنی نوکر۔ فرمایا فتٰی کہہ کر مخاطب کرو۔یعنی نوجوان یا بچے تاکہ ان کی عزت نفس قائم رہے۔(بخاری59) نبی کریمؐ کو زبان وادب کا عمدہ ذوق تھا۔آپؐ موزوں کلام اورعمدہ شعر پسند فرماتے اور داد دیتے تھے۔حضرت شریدؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول کریمؐ کے ساتھ آپؐ کی سواری کے پیچھے بیٹھا۔آپؐ نے فرمایا تمہیں مشہور شاعر امیہ بن الصلت کے کوئی شعریاد ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے کچھ شعر سنانے کی خواہش کی۔ میں نے ایک شعر سنایا تو فرمایا’’ہاں اور سنائو‘‘ پھر ایک شعر سنایا تو فرمایا اور سنائو۔ یہاں تک کہ میں نے سوشعر سنائے۔ (مسلم60)رسول کریم اشعار کی محض ظاہری فصاحت پر خوش نہ ہوتے بلکہ ان کے مضامین کی گہرائی اور لطافت پر نظرہوتی اور کہیں کوئی بات کھٹکتی تو دریافت فرمالیتے۔
مشہور شاعر نابغہ ابولیلیٰ نے حاضر خدمت ہوکر جب اپنا کلام سنایا اور یہ شعر پڑھا۔
عَلَوْنَاالعِبَادََعِفَّۃً وَتَکَرُّمًا وَاِنَّالَنَرْجُوافَوقَ ذٰلِکَ مَظْھَرا
یعنی اسلام قبول کر کے ہم تمام دنیا سے عفت اور عزت میں بلند ہوگئے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ’’مظہر‘‘ کی اُمید رکھتے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ ہماری اور عزت وکرامت ظاہرفرمائے گا۔ رسول کریمؐ نے فوراً پوچھا ’’مظہر‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ نابغہ نے عرض کیا یارسول اللہؐ جنت مراد ہے۔ فرمایا ہاں ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو ضرور یہ نعمت بھی عطاہوگی۔ اور جب نابغہ کلام سنا چکے تورسول کریمؐ نے فرمایا تم نے بہت خوب کہا اور پھر ان کو دعا بھی دی۔(ہیثمی)61
حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ نبی کریمؐ کبھی شعر وغیرہ بھی گنگناتے تھے تو فرمانے لگیں کہ ہاں! اپنے صحابی شاعر عبداللہؓ بن رواحہ کے شعر گنگناتے تھے۔مثلاً یہ مصرع
وَیَاتِیْکَ بِالَاخْبَارِمَالَمْ تُزَوِّ دٖ
کہ تیرے پاس ایسی ایسی خبریں آئیں گی جو پہلے تمہیں حاصل نہیں۔ (ترمذی)62
حضرت جندب ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں نبی کریمؐ پیدل جارہے تھے۔ پتھر کی ٹھوکرسے ایک انگلی زخمی ہوگئی آپؐ نے انگلی کو مخاطب کر کے یہ شعر کہا
ھَلْ اَنْتِ اِلاَّ اُصبْعٌ دُمِیتٖ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَالَقِیْتٖ
توایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہوئی اور خدا کی راہ میں یہ تکلیف اُٹھائی۔(بخاری)63
آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے جوا مع الکلم عطا کئے گئے تھے یعنی مختصر کلام میں ایسے گہرے مضمون بیان فرماتے تھے کہ دریا کو کوزے میں بند کردیتے تھے۔نہایت لطیف خوبصورت محاورات میں کلام فرماتے تھے۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں وفدنہد آیا تو رسول اللہؐ نے ان کی درخواست پر ان کے حق میں دعا کی اور پھر انہیں ایک معاہدہ لکھ کرد یا کہ جو نماز قائم کرے مومن ہے،جو زکوۃ ادا کرے مسلمان ہے جو کلمہ شہادت لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِپڑھ لے وہ غافل نہیں لکھا جائے گاوغیرہ۔حضرت علیؓ کہتے ہیں اس معاہدہ کی فصیح و بلیغ عبارت دیکھ کر میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ! ہم ایک باپ کے بیٹے۔ ایک شہرکی گلیوں میں بڑھے پلے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ وفود عرب سے آپؐ ایسی زبان میں کلام کرتے ہیں کہ اس کا جواب نہیں۔فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھایا ہے اور بہت بہترین سکھایا ہے اور میں بنی سعد میں پروان چڑھا ہوں۔(عیاض)64
حضرت بُریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ سب لوگوں سے زیادہ فصیح تھے۔ بعض دفعہ رسول کریم ؐ ایسا کلام کرتے تھے کہ لوگوں کو اس کے معنی کی سمجھ نہ آتی تھی، یہاں تک کہ آپؐ خود اس کے معنے بیان فرماتے تھے۔(ابن جوزی)65
حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ یہی سوال کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ! آپؐ کی زبان ہم سب سے بڑھ کر فصیح وبلیغ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل ؑ آئے اور انہوں نے مجھے میرے باپ اسماعیل ؑ کی زبان سکھائی۔(کنز)66
رسول کریمؐ کواچھے نام پسند تھے جیسے عبداللہ،عبدالرحمن وغیرہ۔کسی نام کے اچھے معنے نہ ہوتے تو اسے بدل دیتے۔ایک شخص کانام حُزن تھا جس کے معنی غم کے ہیں آپؐ نے اس کا نام سہل رکھ دیا جو آسانی کے معنی دیتا ہے۔ ایک عورت کانام عاصیہ تھا جس میں نافرمانی کا مفہوم ہے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا یعنی خوبصورت۔(بخاری)67
معاشرت
رسول کریمؐ کی معاشرت اپنے اہل خانہ اور صحابہ کرام کے ساتھ رافت و رحمت کی آئینہ دار تھی۔فرمایا’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلئے بہتر ہو۔ اور میں تم میں سب سے بڑھ کر اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘(ابن ماجہ)68
گھر میں بے تکلفی سے خوش خوش رہتے ۔کبھی بیویوں کو کہانیا ں اور قصے بھی سناتے۔ اہل خانہ سے حد درجہ کی نرمی اور اکرام کا سلوک فرماتے۔(بخاری)69
گھریلو زندگی کا ایک نہایت دلکش اور قابل رشک نظارہ خود حضرت عائشہ ؓ کی زبانی سنیئے۔آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں بیٹھی چرخے پر سوت کات رہی تھی اور نبی کریمؐ اپنے جوتے کی مرمت فرمارہے تھے کہ آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آگیا، پسینہ کے قطرے آپؐ کے پُرنور چہرے پر دمک رہے تھے اور ایک روشنی ان سے پھوٹ رہی تھی۔ میںمحو حیرت ہوکر یہ حسین نظارہ دیکھنے میں مگن تھی کہ ناگہاں رسول اللہؐ کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ آپؐ نے میری حالت بھانپ کر فرمایا عائشہؓ! تم اتنی کھوئی کھوئی اور حیران وششدر کیوں ہو؟میں نے عرض کیا ابھی جو آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آیا تو اس کے قطرات سے ایک عجب نور پھوٹتے میں نے دیکھا اگر شاعر ابوکبیر ھُذلی آپ ؐ کو اس حال میں دیکھ لیتا تو اسے ماننا پڑتا کہ اس کے شعر کے مصداق آپؐ ہی ہیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اچھا! ابوکبیر کے وہ شعرتو سنائو۔میں نے شعر سنائے جن میں ایک یہ تھا۔ فَاِذَا نظَرْتَ اِلیٰ اَسِرَّ ۃِ وَجْھِہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ العَارِضِ المُتَھَلِّلٖ
کہ تم میرے محبوب کے روشن چہرے کے خدوخال کو دیکھو تو تمہیں اس کی چمک دمک بادل سے چمکنے والی بجلی کی طرح معلوم ہو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں یہ شعر سن کر رسول کریمؐ جوش محبت اور فرطِ مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی کا بوسہ لے کر فرمانے لگے۔ اے عائشہؓ ! اللہ آپ کو بہترین جزا عطافرمائے۔شایدتم نے مجھے اس حال میں دیکھ کر اتنا لطف نہیں اُٹھایا ہوگا۔جتنا مزامجھے آپ سے یہ شعر سن کر آیا ہے۔ (بیہقی)70
اپنے صحابہ کی ضروریات اور جذبات کا بے حد احساس تھا ۔ان کے حالات سے باخبر رہتے مگر کسی کے خلاف یکطرفہ کوئی بات سننا گوارہ نہ کرتے۔ فرماتے تھے کہ اپنے اصحاب کیلئے میراسینہ صاف رہنے دو۔(ابودائود)71
صحابہ کو فاقہ کی تکلیف ہوتی تو اپنے گھر لے جاکر تواضع فرماتے یا پھر صحابہ کو تحریک کردیتے۔وہ بیمار ہوتے تو اُن کی عیادت کرتے ۔اپنے یہودی خادم کا حال پوچھنے اس کے گھر گئے۔بوقت عیادت مریض پر ہاتھ پھیرتے اور شفا کی دعا کرتے۔(بخاری)72
اپنے ساتھیوں پرخاص توجہ فرماتے۔ کوئی ساتھی راستہ میں مل جاتا تو رک کر اس سے ملتے اور کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ خوداجازت لیتا۔کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک وہ نہ چھوڑے۔(ترمذی)73
اپنے ساتھیوں سے تحائف قدردانی کے ساتھ وصول فرماتے تھے۔ خوشبو اور دودھ کا تحفہ کبھی رد نہ فرماتے اور بدلہ میں بہتر تحفہ عطا فرماتے تھے۔(احمد)74
تحفہ میں زمزم کا پانی دینا پسند فرماتے تھے۔صدقہ کا مال اپنی ذات کے لئے نہ لیتے تھے۔انصار کے گھروں میں ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے۔(احمد75)ان کے بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ۔پیار دیتے اور دعا کرتے۔بعض بچوں کی پیدائش پر کھجور کی گھٹی بھی دی۔(بخاری)76
گھر میں بیک وقت نو بیویاں رہیں ہمیشہ ان میں عدل فرماتے، ان میں سے کسی کو سفر پر ہمراہ لے جانے کے لئے فیصلہ قرعہ انداز ی سے فرماتے۔(احمد77)مدینہ سے رخصت ہوتے وقت سب سے آخر میں اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ ؓ سے مل کر جاتے اور واپسی پر مسجد نبوی میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ہی آکر ملتے۔(احمد78) سفر سے واپس تشریف لاتے تو خاندان کے بچے اور اہل مدینہ آپؐ کا استقبال مدینہ سے باہر جا کر کرتے۔(بخاری)79
آپؐ عام مسلمانوں کی دعوت طعام بلا تفریق قبول فرماتے۔(بخاری80) اپنے صحابہ کے جنازہ اور تدفین میں شامل ہوتے تھے۔سوائے اس کے کہ کوئی شخص مقروض ہو تو اس کے بارہ میں فرماتے تھے کہ اس کا جنازہ خود پڑھ لو۔(بخاری)81
صحابہ کے ساتھ قومی کاموں میں برابر کے شریک ہوتے۔مسجد نبوی کی تعمیر میں ان کے ساتھ مل کر اینٹیں اٹھائیں تو غزوئہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی میں حصہ لیا اور مٹی باہر نکالی۔(بخاری)82
آپؐ خادموں سے بہت حسن سلوک فرماتے تھے۔حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے کبھی آپؐ نے مجھے اُف تک نہیں فرمایا کبھی کسی بات پر نہیں ٹوکا۔(بخاری)83
حضرت علیؓ نے امام حسینؓ کے اس سوال پر کہ رسول کریمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ سلوک کیسا ہوتا تھا ۔حضور ؐکی معاشرت کا دلآویز نقشہ یوں کھینچا کہ:۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ مسکراتے تھے۔عمدہ اخلاق والے اور نرم خوُ تھے۔تُرش رو تھے نہ تند خو،نہ کوئی فحش زبان پر لانے والے نہ چیخ کر بولنے والے۔عیب چیں تھے نہ بخیل۔جو بات ناگوار ہوتی اس کی طرف توجہ ہی نہ فرماتے نہ ہی اس کے بارے میںکوئی جواب دیتے۔آپؐ نے اپنے آپؐ کو تین باتوں سے کلیتہً آزاد کرلیا ہواتھا۔ جھگڑے ،تکبر اور لا یعنی و فضول باتوں سے اور تین باتوں میں لوگوں کو آزاد چھوڑ رکھا تھا یعنی آپؐ کسی کی مذمت نہ کرتے تھے، کسی کی غیبت نہ کرتے تھے اور کسی کی پردہ دری نہ چاہتے تھے۔آپؐ صرف اس امر کے بارے میں گفتگو کرتے جس میں ثواب کی اُمید ہو ۔جب آپؐ خاموش ہوجاتے تو لوگ بات کرلیتے تھے مگر آپؐ کے سامنے ایک دوسرے سے باتیں نہ کرتے اور جب آپؐ کے سامنے کوئی ایک بات کر رہا ہوتا تو باقی لوگ اس کی بات خاموشی سے سنتے یہاں تک کہ وہ بات پوری کرلے۔آپؐ اپنے صحابہ کی باتوں میں دلچسپی لیتے۔ان کی مذاق کی باتوں میں ان کا ساتھ دیتے اور تعجب کا موقع ہوتا تو تعجب فرماتے ۔کبھی کوئی اجنبی مسافر آجاتا تو اس کی گفتگو یا سوال نہایت توجہ سے سماعت فرماتے۔(عیاض)84
صحابہ مہمانوں کو حضورؐ کی خدمت میں بڑے شوق سے لایا کرتے تھے۔ وہ خود ازراہ ادب آپؐ سے اکثر سوال نہ کرتے تھے بلکہ اس انتظار میں رہتے کہ کوئی بدّو آکر مسئلہ پوچھے تو ہم بھی سنیں ۔(بخاری)85
آپؐ کی ہدایت تھی کہ اگر کوئی ضرورت منددیکھو تواسے کچھ دے دو ورنہ اس کی مدد کے لئے تحریک کردیا کرو۔ فرماتے تھے کہ نیک سفارش کا بھی اجر ہوتا ہے۔مبالغہ آمیز تعریف و ستائش آپؐ کو قطعاً پسند نہ تھی۔سوائے اس کے کہ جائز حدود کے اندر ہو۔(بخاری)86
آپؐ کسی کی قطع کلامی پسند نہ فرماتے تھے سوائے اس کے کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کرے۔ایسی صورت میں اسے روک دیتے تھے یا خود اس مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔
متفرق معمولات
آپؐ ہفتہ کے روز کبھی پیدل اور کبھی سواری پر مسجد قبا جایا کرتے تھے جو بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں مدینہ سے چند میل دور تھی۔یوں ہفتہ وار تفریح بھی ہوجاتی اوراس محلہ کے صحابہ سے ملاقات بھی۔(احمد87)حضورؐ کو سبزے اور جاری پانی کو دیکھنابہت پسند تھا۔
جمعہ کا دن تو جمعہ کی تیاری اور اس کی مصروفیات میں گزرتا ۔کوئی مہم بھجوانا ہوتی تو بالعموم جمعرات کو دن کے پہلے حصہ میں بھجواتے۔(احمد88)اور تین یا اس سے زائد افراد پر امیر مقرر فرماتے۔(بخاری)89
نبی کریمؐ عیدین کے موقع پر قربانیوں اور عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرنا پسند کرتے تھے۔ حضرت واثلہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کو عید کے دن ملا۔ اور عرض کیا کہ اللہ ہم سے اور آپؐ سے (عبادات وغیرہ) قبول فرمائے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا ہاں! تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا ومِنْکَ یعنی اللہ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے۔(بیہقی)90
ہر کام میں دائیں پہلو کو ترجیح دیتے۔جوتا پہننے،کنگھی کرنے،وضو کرنے،نہانے وغیرہ میں یہی معمول تھا۔دایاں ہاتھ کھانے پینے،مصافحہ کرنے کے لئے استعمال فرماتے۔ (بخاری)91
دیگر طہارت وغیرہ کے کام بائیں ہاتھ سے کرتے۔دائیں پہلو پر سوتے۔ جوتا پہننے میں پہلے دایاں پائوں پہنتے اور اتارتے وقت پہلے بایاں اتارتے۔ (مسلم)92
مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پائوں اندر رکھتے اور باہر نکلتے وقت پہلے بایاں پائوں باہر رکھتے۔کسی کے بارے میں کوئی شکایت پہنچتی تو نام لئے بغیر(بعض لوگ کہہ کر)مجلس میں سر زنش یا تنبیہہ فرماتے۔(بخاری)93
کسی کا نام بھول جاتا تو یا بن عبداللہ کہہ کر پکارتے یعنی اے اللہ کے بندے کے بیٹے! کوئی کام یاد رکھنے کیلئے انگلی پر دھا گہ باندھ لیتے۔
سفر پر جاتے تو مدینہ میں امیر مقرر فرماتے۔ موسم گرما کی سخت گرمیوں کے بعدجب موسم سرما کی آمد آمد ہوتی توخوش ہو کر اسے مرحبا کہتے۔بادل یا آندھی کے آثار دیکھ کر فکر مند ہو جاتے اور چہرہ متغیّر ہوجاتا کہ یہ طوفان بادوباراں کہیں گزشتہ قوموں کی طرح عذاب کا پیش خیمہ نہ ہو اور پھر دعائے خیر میں لگ جاتے۔(بخاری)94
مگر موسم گرما کی عام بارش سے خوش ہوتے اور اسے بڑے شوق سے سر پر لے کر فرماتے۔ ’’میرے رب کی طرف سے یہ تازہ رحمت آئی ہے‘‘(احمد)95
خوش ہوتے تو چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا۔ناراض ہوتے تو چہرے کا رنگ سرخ ہوجاتااور چہرے پر اس کے آثارظاہرہوجاتے۔(احمد)96
کوئی غم پہنچتا توفرماتے بندوں کی بجائے میرا رب میرے لئے کافی ہے۔اور نماز کی طرف توجہ فرماتے۔(احمد)97
کسی کو سرزنش کرتے تو اتنا فرماتے۔’’اللہ اس کا بھلا کر ے اسے کیا ہوا؟‘‘ زیادہ سوالات اور قِیل وقال سے منع فرماتے تھے۔(بخاری)98
مسائل میں الجھنیں اور مشکلات پیدا کرنے سے بھی روکتے اور فرماتے’’آسانی پیدا کرو مشکل پیدا نہ کرو۔‘‘
مجلس میں چھینک آتی تو منہ پر ہاتھ یارومال رکھ لیتے۔جمائی آتی تو ہاتھ منہ پر رکھ لیتے۔تھوک پر مٹی ڈال کر اسے دفن کر دیتے ۔(بخاری)99
کبھی آپؐ کو درد شقیقہ کی تکلیف بھی ہوجاتی تھی جو ایک یا دو دن رہتی تھی۔ایسی صورت میں گھر میں آرام فرماتے۔
اخلاق فاضلہ
وہ ہستی جس کے بارے میں عرش کے خدا نے گواہی دی کہ اے نبی تو عظیم اخلاق پر فائز ہے۔وہ اخلاق کیسے شاندار ہونگے۔
حضورؐ کے عام اخلاق کے بارہ میں حضرت خدیجہ ؓ کی پندرہ سالہ رفاقت کے بعد وہ گواہی کیسی زبردست ہے کہ آپؐ صلہ رحمی کرنے والے، دوسروں کے بوجھ بانٹنے والے،گمشدہ اخلاق اور نیکیوں کو زندہ کرنے والے، مہمان نواز اور راہ حق میں مصائب پر مدد کرنے والے ہیں اس لئے آپؐ جیسے انسان کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔(بخاری)100
پھر حضرت عائشہ ؓ کا آپؐ کے اخلاق کے بارہ میں بیان ہے کہ آپؐ کبھی فحش کلامی نہ فرماتے تھے۔نہ ہی بازاروں میں آوازے کسنا آپؐ کا شیوہ تھا۔ آپؐ بدی کابدلہ بدی سے نہیں لیتے تھے بلکہ عفو اور درگذر سے کام لیتے تھے۔(بخاری)101
صحابہ بیان کرتے ہیں کہ سب لوگوںکے محبوب ترین انسان آپؐ تھے۔ (احمد)102 جب کبھی آپؐ کو دو معاملات میں اختیار دیا جاتا تو آسان امر کو اختیار کرتے۔ آپؐ سے زیادہ اپنے نفس پر ضبط کرنیوالا کوئی نہ تھا۔(بخاری)103
٭ حیاء ایسی تھی کہ آپؐ کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔(احمد)104
٭ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریمؐ سب سے بڑھ کر سخی تھے۔(مسلم)105
٭ جب بھی آپؐ سے سوال کیا گیا آپؐ نے عطا فرمایا۔(احمد)106
مال فئی(غنیمت) جس روز آتا اسی روز تقسیم فرمادیتے تھے۔توکل ایسا تھا کہ کبھی کل کے لئے کچھ بچا کر نہ رکھتے تھے۔(بخاری)107
آپؐ تمام لوگوں سے بڑھ کر زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے(احمد108)اپنے آپؐ کو دنیا میں ایک مسافر سمجھتے تھے جو سستانے کے لئے ایک درخت کے نیچے آرام کیلئے کچھ دیررکتا اور پھر آگے روانہ ہوجاتاہے۔(ترمذی)109
شجاعت ایسی تھی کہ جنگوں میں تن تنہا بھی مردمیدان بن کرلڑے اور کبھی قدم پیچھے نہ ہٹایا۔اشجع الناس اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔(مسلم)110
آپؐ کا عفو ایسا کہ جانی دشمنوںاور قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو بھی معاف کردیا۔ (بخاری)111
الغرض رسول کریمؐ جامع اخلاق فاضلہ تھے۔آپؐ صفات الٰہیہ کے مظہراتم تھے۔ آپؐ خلق عظیم پر فائز تھے اور بنی نوع انسان کے لئے ایک خوبصورت اور کامل نمونہ تھے۔ ایسانمونہ جس کی پیروی کی برکت سے آج بھی خدا مل سکتا ہے اور آج بھی وہ ہمارا خالق و مالک یہ پاکیزہ اخلاق نبوی اپنے بندوں میں دیکھ کر ان سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔سچ ہے
محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلَام
حوالہ جات
1
نوادرالاصول فی احادیث الرسول حکیم ترمذی جلد 4ص215دارالجیل بیروت
2
مستدرک حاکم جلد2ص392 و مسلم
3
شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہؐ
4
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص174دارالکتاب العربی
5
بخاری کتاب التہجد
6
بخاری کتاب التعبیر الرؤیاء ،ابوداؤ کتاب الادب :4847
مسلم کتاب المساجد باب فضل الجلوس فی الصلوۃ:286
7
کنزالعمال جلد7ص153
8
مسلم کتاب الفضائل باب قرب النبی علیہ السلام من الناس:742
9
ترمذی کتاب الصوم
10
مسند احمد جلد6ص121،اسد الغابہ جلد1ص29
11
مسند احمد جلد5ص111
12
بخاری بدء الوحی و فضائل القرآن
13
مجمع الزوائد لہیثمی جلد2ص188
14
بخاری وترمذی کتاب الدعوات
15
بخاری کتاب الادب
16
مسند احمد جلد6ص398
17
بخاری کتاب الصلوۃ و کتاب التفسیر سورۃ ال عمران لن تنالوالبرّ
18
مسنداحمد جلد6ص59
19
المعجم الکبیرللطبرانی جلد11ص245
20
مسند احمد1ص26
21
بخاری و ترمذی کتاب الصلوۃ
22
بخاری کتاب التہجد
23
مجمع الزوائدلہیثمی جلد5ص23
24
بخاری کتاب الاطعمہ
25
بخاری کتاب الرقاق
26
مجمع الزوائدلھیثمی جلد5ص81
27
بخاری کتاب الاطعمہ
28
بخاری و ترمذی کتاب الاطعمۃ
29
مستدرک حاکم جلد4ص121
30
مسند احمد6ص59
31
مستدرک حاکم جلد4ص118وابوداؤد کتاب الاطعمہ
32
ترمذی کتاب الطہارۃ
33
شمائل الترمذی باب ماجاء فی کحل رسول اللہؐ
34
مسلم کتاب الطھارۃ باب السواک :370
35
بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ
36
سنن الدارمی جلد1ص31
37
شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہؐؐ
38
ابن ماجہ کتاب اللباس
39
ترمذی کتاب الادب وکتاب اللباس
40
بخاری کتاب العلم
41
بخاری کتاب المغازی
42
شمائل ترمذی باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللہؐؐ
43
ترمذی کتاب المناقب باب فی صفۃ النبی ؐ :3637
44
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص379,422
45
مسند احمد3ص213وبخاری کتاب العلم
46
مسند احمد جلد3ص423
47
مسند احمد6ص56
48
الشفاء للقاضی عیاض جلد1ص202،طبقات ابن سعد جلد1ص422
49
ابودائود کتاب الادب :4838
50
مستدرک حاکم جلد3ص9
51
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص378
52
مسنداحمد جلد4ص358
53
المعجم الکبیرلطبرانی جلد12ص391
54
شمائل الترمذی باب ماجاء فی مزاح رسول اللہؐؐ
55
مسلم کتاب الجمعہ باب تخفیف الصلوۃ و الخطبہ:1435
56
مسلم کتاب الجمعہ باب الصلوۃ
57
ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ باب ماجاء فی الخطبۃ یوم الجمعہ:1107
58
بخاری کتاب الادب
59
مسلم کتاب الشعر حدیث1
60
مجمع الزوائدلھیثمی جلد 8ص126
61
ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی انشادالشعر:28487
62
بخاری کتاب الادب باب مایجوز من الشعر
63
الشفاء للقاضی عیاض جلد1ص9
64
الوفاء باحوال المصطفے ابن جوزی ص459 بیروت
65
کنزالعمال جلد7ص219
66
بخاری کتاب الادب
67
ابن ماجہ کتاب النکاح
68
بخاری کتاب النکاح
69
سنن البیھقی جلد7ص422 دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن
70
ابوداؤد کتاب الادب باب فی رفع الحدیث من المجلس:4218
71
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الحجرات
72
بخاری کتاب المرضیٰ
73
ترمذی کتاب صفۃ القیامہ باب46
74
مسند احمد جلد6ص90
75
مسند احمد جلد4ص398
76
بخاری کتاب الادب
77
مسند احمد جلد6ص117
78
مسند احمدجلد3ص455
79
بخاری کتاب المغازی
80
بخاری کتاب الاطعمۃ
81
بخاری کتاب الحوالات
82
بخاری کتاب المغازی
83
بخاری کتاب المناقب
84
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ قاضی عیاض جلد3ص206دارالکتاب العربی
85
بخاری کتاب العلم
86
بخاری کتاب الادب
87
مسند احمد جلد2ص4
88
مسند احمد جلد4ص484
89
بخاری و مسلم کتاب الجہاد و مسند احمد جلد5ص358
90
سنن الکبری للبیھقی جلد3ص319
91
بخاری کتاب الصلوۃ باب التیّمن
92
مسلم کتاب القدر:4816
93
بخاری کتاب الادب
94
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحقاف
95
مسند احمد جلد6ص41,90,129
96
مسند احمد جلد3ص459و مجمع الزوائدلھیثمی جلد8ص287
97
مسند احمد جلد5ص388
98
بخاری کتاب الاستقراض
99
بخاری کتاب الادب وکتاب الصلوۃ
100
بخاری بدء الوحی
101
بخاری کتاب الادب
102
مسند احمد جلد3ص402
103
بخاری کتاب المناقب:3296
104
مسند احمد جلد3ص71
105
مسلم کتاب الفضائل
106
مسند احمد جلد3ص190
107
بخاری کتاب الرقاق
108
مسند احمد جلد4ص198
109
ترمذی کتاب الزھد
110
مسلم کتاب الفضائل
111
بخاری کتاب المغازی
{توحید پرستوں کا بادشاہ}
رسول اللہ ؐکی محبت الہٰی وغیرت توحید
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرک وبت پرستی کے تاریک دور میں قیام توحید کا عظیم الشان کام لیا جانا تھا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے آغاز سے ہی آپؐ کے دل میں توحید کی محبت اور بت پرستی سے نفرت رکھ دی تھی اوراپنی خاص مشیٔت سے آپؐ کو ہرقسم کے شرک سے محفوظ رکھا ۔
شرک سے نفرت
رسول اللہؐ کی کھلائی ام ایمنؓ بیان کرتی تھیںکہ ’’ بُوانہ‘‘ وہ بت تھا جس کی قریش بہت تعظیم کرتے تھے۔ اُ س کے پاس حاضر ی دے کرقربانیاں گزارتے اور سال میں ایک دن وہاں اعتکاف کرتے تھے ۔ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ وہاں جاتے اور رسول اللہؐ کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے مگر آپؐ انکار کر دیتے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات حضورؐ کی پھوپھیاں اورابو طالب آپؐسے سخت ناراض ہوتے اور کہتے کہ بتوں سے آپؐ کی بیزاری کے باعث ہمیں آپؐ کے بارے میں ڈر ہی رہتا ہے۔
ایک دفعہ اپنی پھوپھیوں کے اصرار پر آپؐ وہاں چلے توگئے مگر سخت خوفزدہ ہو کر واپس آگئے اور کہا کہ میں نے وہاںایک عجیب منظر دیکھا ہے۔ پھوپھیوں نے کہا کہ اتنے نیک انسان پر شیطان اثر نہیں کر سکتا اور پوچھاآپؐ نے کیا دیکھا ہے؟آپؐ نے بتایا کہ جونہی میں بت کے قریب جانے لگتا تھاتو سفید رنگ اور لمبے قد کا ایک شخص چلّا کر کہتا تھا کہ اے محمدؐ ! پیچھے رہو اور اس بت کو مت چھوؤ۔ بعد میںپھوپھیوں نے بھی بتوں کے پاس جانے کے لئے یہ اصرار چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپؐ کو ایسی مشرکانہ رسوم سے محفوظ رکھا ۔(بیہقی)1
بچپن میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ سفر شام کے دوران عیسائی راھب بُحیرٰی سے ملاقات ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایک سوال پر فرمایا تھا کہ مجھ سے لات، اور عزیٰ بتوںکے بارہ میں مت پوچھو، خدا کی قسم ! ان سے بڑھ کر مجھے اور کسی چیز سے نفرت نہیں۔(بیہقی)2
نبی کریم ؐ حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر جب ملک شام گئے تو سودا فروخت کیا۔ کسی شخص نے اس دوران آپؐ سے لات اورعُزّٰی کی قسم لینا چاہی۔آپؐ نے فرمایا میں نے کبھی آج تک ان بتوں کے نام کی قسم نہیں کھائی اورنہ کبھی ان کی طرف توجہ کی ہے ۔(ابن سعد)3
عبادت الہٰی کی محبت
الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بچپن سے ہی اپنے خالق ومالک کی محبت بھر دی گئی تھی۔عبادت اور ذکر الہٰی سے آپؐ کو خاص شغف تھا، خلوت پسند تھی۔ عین عنفوانِ شباب میں آپؐ کو نیک اور سچی خوابوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔(بخاری)4
جوانی میں آنحضورؐ ہر سال غار حرا میں ایک مہینہ کے لئے اعتکاف فرمایا کرتے اور تنہائی میں اللہ کو یاد کرتے تھے۔ جاہلیت میں قریش کی عبادت کا یہ ایک طریق تھا ۔جب آپؐ کا یہ اعتکاف ختم ہو تا توواپس آکر پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر گھر تشریف لے جاتے۔ جب حضورؐ کو پہلی وحی ہوئی تویہ رمضان کاہی مہینہ تھا جس میں آپؐ غار حرا میں اعتکاف فرما رہے تھے۔ (ابن ھشام)5
اس زمانہ میں مکہ میں گنتی کے چند لوگ توحید پرست باقی رہ گئے تھے جو دین ابراہیمی پر قائم تھے ۔ان میں ایک قابل ذکر شخص زید بن عمرو تھے ۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی ملاقات مکے کے قریب بلدح بستی میں ہوئی ۔ مشرکین کی طرف سے آنحضرتؐ کے سامنے کچھ کھانا پیش کیا گیا۔ آپؐ نے کھانے سے انکار کر دیا ۔پھر زید کو کھانا پیش کیا گیا تو انہوں نے بھی یہ کہہ کر کھانے سے انکار کیا کہ تم لوگ اپنے بتوں کے نام پر جانور ذبح کرتے ہو اس لئے میں ہر گزتمہارا کھانا نہ کھاؤں گا ، سوائے اس کھانے کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ۔ زید بن عمرو قریش کا ذبیحہ حرام سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ بکری پیدا کرنے والاتو خدا ہے۔ اس کے لئے گھاس اُگانے والا بھی وہی ہے۔ پھر تم اسے غیر اللہ کے نام پر کیوں ذبح کرتے ہو؟(بخاری)6
نبی کریم ؐکی پہلی وحی کا آغاز ہی بنیادی طور پر توحید کے پیغام سے ہوا۔ پہلے محض اِقْرَأ کے الفاظ پر آپؐ رکتے رہے مگر جب کہا گیا اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ یعنی اپنے اس پیدا کرنے والے پروردگار کے نام سے پڑھییٔ جس نے پیدا کیا، توبے اختیار آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے کیونکہ آپؐ تو پہلے ہی اپنے خالق ومالک پر فدا تھے۔
محبت الہٰی کی تمنَّا
حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت الہٰی کے نظارے دیکھ کر مکے کے لوگ سچ ہی تو کہتے تھے عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہ‘ کہ محمد تو اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے۔(غزالی)7
اوراس میں کیا شک ہے کہ آپؐ اپنے رب کے سچے عاشق تھے۔ آپؐ کی محبت کا اظہار نمازوں، عبادات، دعائوں اور ذکر الہٰی سے خوب عیاں ہے۔ رسول اللہؐ کی محبت الہٰی کا یہ حال تھا کہ حضرت داؤد ؑ کی یہ دعا بڑے شوق سے اپنی دعائوں میں شامل کرتے تھے ۔
َاَللّٰھُمَّ اِنِّی اَساَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَالعَمَلَ الَّذِی یُبَلِّغُنِی حُبَّکَ ، اَللّٰھُمَّ اجعَل حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِن نَفسِی وَمَالِی وَاَھلِی وَمِنَ المَائِ البَارِدِ۔
’’اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ! اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو ۔‘‘ (ترمذی)8
مگر محبت الہٰی کی جو دعا آپؐ نے سکھائی وہ حضرت داؤد ؑکی دعا سے کہیں جامع اور بلیغ ہے ۔آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور عرض کرتے :۔
اَللّٰھُمَّ ارزُقنِی حُبَّکَ وَحُبَّ مَن یَّنفَعُنِی حُبُّہٗ عِندَکَ اَللّٰھُمَّ مَا رَزَقتَنِی مِمَّا اُحِبُّ فَاجعَلہُ قُوَّۃًلِّی فِیمَا تُحِبُّ،وَمَازَوَیتَ عَنِّی مِمَّا اُحِبُّ فَاجعَلہُ فَرَاغًا لِّی فِیمَا تُحِبُّ۔
’’ اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اُس کی محبت جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔ اے اللہ! میری دل پسند چیزیں جو تو مجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیز وں کے حصول کے لئے قوت کا ذریعہ بنا دے ۔اور میری وہ پیاری چیزیں جو تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا فرما دے۔(ترمذی)9
جس سے محبت ہو اس کی ہر چیزسے بھی پیار ہوجاتا ہے، جب سال کی پہلی بارش ہوتی تو رسول اللہؐ اسے ننگے سر پر لیتے اور فرماتے ہمارے رب سے یہ تازہ نعمت آتی ہے اور سب سے زیادہ برکت والی ہے۔(کنز)10
رسول کریمؐ کی عبادات اور اعمال پر توحید کی گہری چھاپ تھی۔آپؐنماز کا آغاز ہی اس دعا سے کرتے تھے ’’ وَجَّھْتُ وَ جْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّ مَا اَناَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔(الانعام:80) میںنے موحّد ہوکر اپنی تمام توجہ اس ذات کی طرف پھیر دی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔(نسائی)11
چنانچہ رسول کریمؐ نے شرک کی مختلف شکلوں اور باریک راہوں سے بھی روکا۔ آپؐ نے ریاکاری کو شرک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جوشخص نماز میں ریا کرتا ہے وہ بھی شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔(احمد)12
حضرت شدادؓ بن اوس کہتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ آپؐ کی امت بھی آپؐ کے بعد شرک کرے گی؟ فرمایا ہاں وہ سورج، چاند ،پتھر یا بت کی پرستش تو نہیں کریں گے مگر اپنے اعمال میں دکھاوا کریں گے۔(احمد)13
اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے میں شرک کرنے والوں کے شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ جو شخص کسی بھی عمل میں میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو میں اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں۔(مسلم)14
حضرت عمرؓ ایک دفعہ مسجد سے نکلے تو حضرت معاذ بن جبل ؓ کو رسول کریم ؐکے مزار کے پاس روتے ہوئے پایا۔حضرت عمرؓ نے رونے کا سبب پوچھا۔ تو وہ کہنے لگے ایک حدیث (یادآگئی جو) میں نے رسول اللہ ؐ سے سنی تھی آپؐ نے فرمایا تھا کہ ’’معمولی ریاء بھی شرک ہے‘‘(حاکم15)رسول کریمؐ بدشگونی کو بھی شرک سے تعبیر فرماتے تھے۔(احمد)16
ایک دفعہ رسول اللہؐ خطبہ ارشاد فرمانے کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! جھوٹی گواہی بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے۔ پھر آپؐ نے یہ آیت پڑھی۔
حُنَفَآئَ الِلّٰہِ غَیْرَمُشْرِکِیْنَ بِہٖ ط وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَاخَرَّمِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُاَوْتَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ۔(سورۃ حج:31)
ترجمہ:ہمیشہ اللہ کی طرف جھکتے ہوئے اُس کا شریک نہ ٹھہراتے ہوئے اور جو بھی اللہ کا شریک ٹھہرائے گا۔تو گویا وہ آسمان سے گرگیا۔پس یا تو اُسے پرندے اُچک لیں گے یا ہوا اُسے کسی دُورجگہ جاپھینکے گی۔(ترمذی)17
حضرت فروہ ؓ رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جو میں رات سوتے ہوئے پڑھاکروں فرمایا سورۃ الکافرون پڑھاکرو۔ یہ شرک سے آزاد کرنے والی (سورت) ہے۔(احمد)18
.968حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شرک سے بچو یہ چیونٹی کے نقش پا سے بھی باریک تر ہے ۔صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ کیسے بچیں؟فرمایا یہ دُعا پڑھا کرو :-اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوذُبِکَ مِن اَن نُّشرِکَ بِکَ شَیأنَّعلَمُہٗ وَنَستَغفِرُکَ لِمَا لَا نَعلَمُ۔ (احمد)19
.968 .968ترجمہ:۔ اے اﷲ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اس بات سے کہ تیرے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو شریک ٹھہرائیںاورلا علمی میں ایسا کرنے سے ہم تجھ سے بخشش کے طلبگار ہیں ۔
رسول اللہ ؐ کی عبادات محض اپنے مولیٰ کی رضا کے لئے وقف اور خالص تھیں اورآپؐ کے دل پر توحید کی گہری چھاپ کی وجہ سے وہ ہر قسم کے ریاء سے پاک تھیں۔ جس پر عرش کے خدا نے بھی یہ گواہی دی کہ اے نبی تو کہہ دے میری نماز ،میری قربانیاں، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی امر کا حکم دیا گیا ہے اور میں اُس کا سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔(سورۃالانعام:163,164)
فرض نمازوں کے علاوہ بالخصوص رات کے وقت آپؐ اللہ تعالیٰ کی گہری محبت سے سرشار ہوکر نہایت خشوع و خضوع سے بہت لمبی اور خوبصور ت نماز پڑھا کرتے تھے۔اپنے رب کی عبادت آپؐ کو ہر دوسری چیز سے زیادہ پیاری تھی۔آپؐ کے پاس بیک وقت نوبیویاں رہیںاپنی عزیز ترین بیوی حضرت عائشہ ؓکے ہاں آپؐ کی نویں دن باری آتی تھی۔ایک دفعہ موسم سرما کی سرد رات کو ان کے لحاف میں داخل ہوجانے کے بعد اُن سے فرمانے لگے کہ عائشہ! اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار لوں۔انہوں نے بخوشی اجازت دے دی اور آپؐ نے وہ ساری رات عبادت میں بسر کی اورروتے روتے سجدہ گاہ تر کردی۔ (سیوطی)20
توحید کے اقرار کا بھی آپؐ کو بہت لحاظ تھا ۔ایک دفعہ ایک انصاری نے عرض کیا کہ میرے ذمّہ ایک مسلمان لونڈی آزادکرناہے۔ یہ ایک حبشی لونڈی ہے اگر آپؐ سمجھتے ہیں کہ یہ مومن ہے تو میں اسے آزاد کر دیتا ہوں ۔آنحضورؐ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ کیا تم گواہی دیتی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کیا گواہی دیتی ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟اس نے کہا ہاں۔فرمایا کیا یوم آخرت پر ایمان لاتی ہو؟اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا ’’اسے آزادکر دو۔یہ مومن عورت ہے۔‘‘(احمد)21
قیام توحید
رسول اللہ ؐ کی شریعت کا پہلا سبق ہی کلمہ توحید لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ تھا۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔آپؐ کا اوڑھنا بچھونا توحید ہی تھا ۔صبح وشام خدا کی توحید کا دم بھرتے تھے۔دن چڑھتا توآپؐ کے لبوںپریہ دعاہوتی۔ ’’ہم نے اسلام کی فطرت اور کلمۂ اخلاص (یعنی توحید) پر اور اپنے نبی محمدؐ کے دین اور اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر صبح کی جو موحّد تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘(احمد)22
شام ہوتی تو یہ دعا زبان پر ہوتی ۔اَمسَینَا وَاَمسَی المُلکُ لِلّٰہِ’’ہم نے اور سارے جہاں نے اللہ کی خاطر شام کی ہے اور تمام تعریف اللہ کے لئے ہے ۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے ۔تمام تعریفوں کا وہی مالک ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔‘‘ (مسلم)23
کوئی مصیبت در پیش ہوتی تو یہ دعا کرتے ۔لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ العَظِیمُ الحَلِیم ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہی عظمت والا اور بردبار ہے۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عظیم عرش کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمان اور زمین کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش کریم کا رب ہے۔‘‘ (بخاری)24
حضرت محمد ؐ مصطفٰے ہی تھے جنہوں نے شرک وبت پرستی کے ماحول میں نعرۂ تو حید بلند کیا ۔ پھر عمر بھریہ علمِ تو حید بلند کیے رکھااور کبھی اس پر آنچ نہ آنے دی ۔ اس کلمۂ توحید کی خاطر ہر طرح کے دکھ اٹھائے ،اذیتیں برداشت کیں ،اپنے جانی دوستوں کی قربانی بھی دی اور خود اپنی جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کیا ۔ ہمیشہ قیام توحید کے لئے کوہ استقامت بن کر تمام ابتلاؤں کا مقابلہ کیا۔ آپؐ نے توحید کو ہی ذریعہ نجات قرار دیا اور فرمایا کہ جس نے صدق دل سے تو حید باری کا اقرار کیا وہ جنّتی ہے ۔(احمد) 25
اپنی امت کو ہمیشہ توحید کے ترانے اور نغمے الاپنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے دن میں سو مرتبہ خدا کی توحید کا یوں اقرار کیا لَااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَا شَرِیْکَ لَہ‘ لَہُُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِ یْرٌ۔’’کہ خدا کہ سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ایک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ،بادشاہت اُسی کی ہے ۔ تمام تعریفوں کا بھی وہ مستحق ہے اور وہ ہر شے ٔپر قادر ہے ۔‘‘ایسے شخص کو دس غلاموں کی آزادی کے برابر ثواب ہو گا اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں مٹائی جائیں گی۔ توحید باری پر مشتمل یہ ذکر اُس دن شام تک کے لئے شیطان سے اُس کی پناہ کا ذریعہ بن جائے گا اور کوئی شخص اُس سے بہتر عمل والا قرار نہیں پائے گا سوائے اُس شخص کے جو یہ ذکر اِس سے زیادہ کثرت سے کرے۔(بخاری)26
رسول اللہ ؐ نے توحید کی حفاظت کی خاطر وطن کی قربانی بھی دی اور مدینہ ہجرت کر لی۔جب وہاں بھی دشمن تعاقب کر کے حملہ آور ہوا تو مجبوراًدفاع کے لئے تلوار اٹھائی مگر ان دفاعی جنگوں کی غرض بھی یہی تھی کہ خدا کا نام بلند ہو۔
ایک دفعہ کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کوئی شخص حمیت کی خاطر لڑتا ہے، کوئی شجاعت کے لئے تو کوئی مال غنیمت کی خاطر۔ان میں سے خدا کی خاطر جہاد کرنے والا کون شمار ہو گا؟آپؐ نے فرمایا ’’وہ شخص جو اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہواور توحید کی عظمت قائم ہو ، فی الحقیقت وہی خدا کی راہ میں لڑنے والا شمار ہو گا ۔‘‘(بخاری)27
رسول اللہؐ نے توحید کا یہ احترام بھی قائم کیا کہ اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے اور ظلم کرنے والے جانی دشمنوں کے متعلق فرمایا کہ اب بھی اگر یہ کلمۂ توحید پڑھ لیں تو ہماری ان سے کوئی لڑائی نہیں ۔(بخاری28)گویاہماری تلواریں جو اپنے دفاع کے لئے اٹھی تھیں ،کلمہ کے احترام میں پھر میانوں میں واپس چلی جائیں گی ۔چنانچہ آنحضورؐ نے کلمہ توحید کا اقرار کرنے پر جانی دشمن کو امان دینے کا حکم دیا ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ جس بستی سے اذان کی آواز آتی ہو (جو توحید اور رسالت کے اقرار پر مشتمل ہے) اس پر حملہ نہیں کرنا۔(بخاری)29
حضرت مقداد بن عمرو کندیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے پوچھا کہ اگر کسی کافر کے ساتھ میدان جنگ میں میرا مقابلہ ہو ، وہ میرا ہاتھ کاٹ دے اور کسی درخت کی آڑ لے کر مجھ سے بچنے کی خاطر کہہ دے کہ میں اللہ کی خاطر مسلمان ہوتا ہوں تو کیا اس کلمے کے بعد میں اسے قتل کرنے کا حق رکھتا ہوں۔فرمایا’’ نہیں تم اسے ہر گز قتل نہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا یارسول اللہ!اس نے میرا ہاتھ کاٹا ہے اور اس کے بعد مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا’’اسے قتل نہ کرو۔ اگر تم اسے قتل کرو گے تو وہ مسلمان اور تم کافر سمجھے جاؤ گے۔‘‘(بخاری)30
حضرت اسامہؓ نے جب ایک جنگ میں مدّ مقابل دشمن پرحملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا۔اسامہ نے پھربھی اسے ہلاک کر دیاتو رسول اللہؐ یہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایاکہ توحید کا اقرار کرنے والے ایک شخص کو کیوں قتل کیا ؟ قیامت کے روز جب کلمہ تمہارے گریبان کو پکڑے گا تو کیا جواب دو گے ؟ اور جب اسامہؓ نے کہا کہ وہ سچے دل سے کلمہ نہیں پڑھتا تھا تو فرمایا کہ ’’کیا تم نے اس کا دل چیرکر دیکھ لیا تھا؟‘‘ (مسلم)31
رسول کریمؐ توحید کے بارے میں اتنی احتیاط فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آپؐ کی مجلس میں آکر ذکرکیا کہ اے محمدؐ! آپؐ بہت اچھے لوگ ہیں بشرطیکہ آپ ؐ شرک نہ کرو۔ رسول کریمؐنے کمال عاجزی سے فرمایا اللہ پاک ہے۔وہ شرک کیا ہے؟ وہ کہنے لگاآپ ’’وَالکَعْبَتِہ‘‘ کہہ کر کعبہ کی قسم کھاتے ہو۔ حالانکہ مسلمان کعبہ کے بارہ میں کوئی مشرکانہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے پھربھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ توقف کے بعد موقع ظن سے بچنے اور احتیاط کی خاطر مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ اب اس شخص نے ایک بات کہہ دی ہے اس لئے آئندہ حلف کے وقت کعبہ کی بجائے ربّ کعبہ کہہ کر قسم کھایا کرو۔
پھر وہ یہودی عالم کہنے لگا آپؐ بہت اچھی قوم ہیں۔ بشرطیکہ آپؐ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا اللہ پاک ہے۔ ہم کونسا شریک ٹھہراتے ہیں؟ اس نے کہا آپؐ لوگ کہتے ہیں اللہ نے چاہا اور تم نے چاہا۔ رسول کریمؐ نے پھر توقّف کیا اور فرمایا اس نے ایک بات کردی ہے۔ پس آئندہ جو شخص کہے کہ( ماشاء اللہ)اللہ نے چاہا تو اس کے بعد وقفہ ڈال کرکہہ سکتا ہے کہ تم نے چاہا۔(اکٹھے یہ جملے کہنے میں احتیاط کی جائے)۔(احمد)32
چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے کہا ماشاء اللہ وشئتَ کہ جو اللہ نے چاہا اور آپؐ نے چاہا۔نبی کریمؐ نے فرمایا تم نے مجھے اللہ کے برابر ٹھہرایا بلکہ اصل وہ ہے جو صرف خدائے واحد نے چاہا۔(احمد)33
حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے والد کی قسم کھارہے تھے۔ رسول اللہؐ نے ان کو پکار کر فرمایا سنو! اللہ تمہیں اپنے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جسے قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔ (بخاری)34
غیرت توحید
زندگی کے بڑے سے بڑے ابتلاء میں بھی جب خود رسول اللہ ؐاورآپؐ کے صحابہ کی جانیں خطرہ میں تھیں آپؐ غیرت توحید کی حفاظت سے غافل نہیں ہوئے بلکہ آپؐ کی محبت توحید کمال شان کے ساتھ ظاہر ہوئی۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ غزوۂ بدر کے لئے تشریف لے جارہے تھے کہ حرۃ الوبرہ مقام پر ایک مشرک شخص حاضر خدمت ہوا۔جرأت و شجاعت میں اس کی بہت شہرت تھی۔ صحابہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ ایک سو رما حالت جنگ میں میسرّ آیا ہے۔ اس نے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اس شرط پر آپؐ کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے آیا ہوں کہ مال غنیمت سے مجھے بھی حصّہ دیا جائے۔آپؐ نے فرمایا کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے فرمایاپھر تم جاسکتے ہو۔ میں کسی مشرک سے مدد لینا نہیں چاہتا۔سبحان اللہ! توحید کی کیسی غیرت ہے کہ حالتِ جنگ میں ہوتے ہوئے بھی ایک بہادر سور ماکی مدد اس لئے قبول کرنے کو تیار نہیں کہ وہ مشرک ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے پھر حاضر ہوکر یہی درخواست کی تو آپؐ نے وہی جواب دیا۔ وہ تیسری دفعہ آیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی شریک لشکر کرلیں۔آپ ؐ نے پھر پوچھا کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہو؟اس دفعہ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا’’ ٹھیک ہے پھر ہمارے ساتھ چلو۔‘‘(مسلم)35
عظمت توحید
غزوۂ احد میں کفار مکہ کے درۂ اُحد سے دوبارہ حملہ کے بعد مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اس دوران ستر مسلمان شہید ہوئے تھے۔ خود حضورؐ کی شہادت کی خبریں پھیل گئیں ۔دشمن کو اس پر خوش ہونے کا موقع میسر آگیا۔ ابوسفیان فخر میں آکر اپنی فتح جتلانے لگا ۔اس نازک حالت میں (جب مسلمان خود حفاظتی کی خاطر ایک پہاڑی دامن میں پناہ گزیں تھے ) ابو سفیان مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا ۔’’کیا تم لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں؟‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازراہ مصلحت ارشاد فرمایا کہ ان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کی خاموشی دیکھ کر ابو سفیان کا حوصلہ بڑھا۔ کہنے لگا کیا تم میں ابو قحافہ کا بیٹا (ابو بکرؓ ) ہے ؟ حضور ؐ نے پھر ارشاد فرمایا کہ جواب نہ دو ۔ اس پر ابو سفیان پھر بولا کیا تم میں خطاب کا بیٹا (عمرؓ) ہے ؟ مسلمانوں کی مسلسل خاموشی دیکھ کر ابوسفیان نے فتح وکامرانی کا نعرہ لگایا اور کہا اُعْلُ ھُبُل ْ۔ ہبل بت زندہ باد۔یہ سن کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیرتِ توحید نے جوش مارا اور آپؐنے فوراًجواب دینے کا ارشادفرمایا۔ صحابہ نے پوچھا کیاجواب دیں ؟فر مایا کہواَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ اللہ سب سے بلند اور اعلیٰ شان والا ہے ۔ابو سفیان نے پھرکہا ہمارا تو عزیٰ بت ہے۔ تمہارا کوئی عزیٰ نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اس کو جواب میں کہو کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔ (بخاری)36
فتح مکہ کے موقع پربھی غیرت توحیدکی عجب شان دیکھنے میں آئی۔خدائے واحد کا گھر ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے ان دعائوں کے ساتھ تعمیر کیا تھاکہ خدایا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچانا۔ (سورۃابراھیم:36) رسول اللہ ؐ کی بعثت کے وقت اس خانہ خدا کو ۳۶۰ جھوٹے خدائوں نے گھیر رکھا تھا۔لیکن ابراہیمی دعائوں کی بدولت اب رسول اللہ ؐ کے ذریعہ اس ظلم اور جھوٹ کے مٹنے کا وقت آگیا تھاچنانچہ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے خانہ کعبہ تشریف لاکر خدا کے گھر کو بتوں سے پاک کیا۔
مکے میں داخلے کے وقت دنیا نے کمال انکسار کا یہ منظردیکھاتھا کہ جب اپنی ذات کا معاملہ تھا تو اس فخر انسانیتؐ نے اپنا وجود کتنا مٹا دیا اور اپناسر کتنا جھکا دیا تھا کہ سواری کے پالان کو چھونے لگا لیکن جب رب جلیل کی عظمت و وحدانیت اور غیرت کے اظہار کا وقت آیا تونبیوں کے اس سردار ؐ نے ایک ایک بت کے پاس جاکر پوری قوت سے اُس پر اپنی کمان ماری۔ یکے بعد دیگرے انکو گراتے چلے گئے ۔ آپؐ بڑے جلال سے یہ آیتتلاوت کر رہے تھے ۔
جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (سورۃ بنی اسرائیل:82)
کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور وہ ہے ہی مٹنے والا۔(بخاری)37
فتح پر خدائے واحد کی عظمت کے نعرے
چند لمحوں میں ضرب مصطفوی ؐسے تمام بت ریزہ ریزہ ہوگئے۔ عزیٰ ٹوٹ کر پارہ پارہ ہوگیا اور ہبل پاش پاش ہوکر بکھر گیا۔(ابن ہشام)38
تعمیر بیت اللہ کا یہ مقصد پورا ہوا کہ اس میں صرف اورصرف خدائے واحد کی پرستش کی جائے۔یہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرادوں اور تمنائوں کے پورا ہونے کا دن تھا۔یہ خدا کی بڑائی ظاہر کرنے اور عظمت قائم کرنے کا دن تھا۔اس روز رسولِ خداؐ کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی پہنچی کہ توحید کا بول بالا ہوا تھا۔اس کیفیت میں جب رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف لائے اور حجرا سود کا بوسہ لیا تو وفور جذبات سے آپؐ نے بآواز بلند اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔
صحابہ ؓ نے بھی جواب میں اللہ اکبر ، اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور اس زور سے لگائے کہ سر زمین مکہ نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ مگر نعرے تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے صحابہ ؓ کو خاموش کرایا۔(زرقانی)39
پس فتح مکہ کا دن بھی دراصل توحید کی عظمت اور قیام کا دن تھا ۔اس روز رسول اللہؐ نے اپنی فتح کا کوئی نقارہ نہیں بجایا ۔ہاں! اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کے شادیانے ضرور بجائے گئے۔ یہ کہتے ہوئے لَااِلٰہَ اِلَا اللّٰہُ وَحْدَہ‘ اَعَزَّ جُنْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہ‘ وَصَدَقَ وَعْدَہ‘ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ‘کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس نے اپنے لشکر کی عزت افزائی کی اوراپنے بندے کی مدد کی اور اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ تنہا اسی نے تمام لشکروں کو پسپا کر دیا۔ (بخاری40)یہ تھا اپنی زندگی کی عظیم فتح پر ہمارے آقا ومولیٰ کا نعرہ ٔتوحید۔
توحید پر گہرے ایمان کی وجہ سے رسول اللہؐ کو کبھی کسی کا خوف پیدا نہیں ہوا۔ غزوۂ حنین میں تیروں کی بوچھاڑ کے سامنے آپؐ خچر پرسوار مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اور بآوازِ بلند فرمارہے تھے۔ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں ۔جھوٹا نہیںہوں۔میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔(بخاری)41
آپؐ کا تن تنہا ایک لشکر کے تیروں کی بوچھاڑ کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنا جہاں توحید ِ کامل پر ایما ن کا نتیجہ تھا وہاں آپؐ کی صداقت کا محیرالعقول معجزہ بھی تھا ۔
یہاں آپؐ کی غیرت ِ توحید ایک اورر نگ میں ظاہر ہوئی۔ خدشہ تھا کہ آپؐ کو مافوق البشر مخلوق نہ خیال کرلیاجائے اس لئے اپنی صداقت کی گواہی کے ساتھ یہ وضاحت فرمادی کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور ایک انسان ہوں۔یہ رعب بھی خداداد ہے اور یہ حفاظت خدا تعالیٰ کی عطاکردہ۔
رسول اللہ ؐ کوقیام توحید اوراحکام الہٰی کی بڑی غیرت تھی۔طائف سے ثقیف قبیلہ کا وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔انہوں نے بعض احکام میں رخصت کی شرط پر اسلام قبول کرنے کی حامی بھری اور عرض کیا کہ نماز معاف اور زنا،شراب اور سود حلال کردیا جائے۔ رسول کریمؐ نے اس کی اجازت نہیں دی اور فرمایا’’وہ دین ہی کیا ہے جس میں نماز نہیں‘‘
اسی طرح اہل طائف نے اپنے بت’’لات‘‘ کے بارہ میں جسے وہ ’’ربّہ‘‘ یعنی دیوی کہتے تھے عرض کیا کہ تین سال تک اسے توڑا نہ جائے۔رسول اللہ ؐ کی غیرت توحید نے یہ مداہنت بھی قبول نہیں فرمائی۔اہل طائف نے عرض کیا کہ ایک سال تک ہی اسے نہ گرائیں۔رسول اللہؐ نے پھر بھی انکار کیا ۔انہوں نے کہا چلیں ایک ماہ تک اسے نہ گرانے کی اجازت دے دیں تاکہ لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں اوربے وقوف لوگ اور عورتیں اسے گرانے کی وجہ سے اسلام سے دور نہ ہوں، لیکن رسول اللہؐ نے اس کی بھی رخصت نہیں دی اور حضرت ابو سفیانؓ اورحضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو بھجواکر اس بت کو گروادیا۔(الحلبیہ)42
رسول کریمؐ کی توہر بات کی تان توحیدالہٰی اور عظمت باری پرجاکرٹوٹتی تھی۔آپؐ کی اونٹنی عضباء بہت تیز رفتار تھی جس سے آگے کوئی اور اونٹنی نہ نکل سکتی تھی۔ایک دفعہ ایک اعرابی نے اپنی اونٹنی اُس کے ساتھ دوڑائی اور آگے نکل گیا۔صحابہ کو بڑا رنج ہوا مگر رسول کریمؐ نے عجب طمانیت کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی کسی بھی چیز کو اونچا کرتا ہے تو لازم ہے کہ اسے نیچا بھی کرے کیونکہ سب سے اونچی خدا کی ذات ہے۔(ابودائود)43
نبی کریمؐ کی پشت پر گوشت کا ابھرا ہوا ایک ٹکڑا تھا۔ابورمثہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے نبی کریمؐ کو کہا کہ یہ جو آپؐ کی پشت میں اُبھارسا ہے ذرا مجھے دکھائیں کیونکہ میں طبیب آدمی ہوں۔اُس کا مطلب تھا کہ میں اس کا علاج کر کے ٹھیک کردوں گا۔نبی کریمؐ نے کس غیرت سے فرمایا کہ اصل طبیب تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے آپؐ ایک دوست اور ساتھی ہو۔ اس کا طبیب وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا۔(ابودائود)44
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ اللہ فرماتا ہے،کبریاء یعنی بڑائی میرا لبا س ہے،عظمت میرا اوڑھنا ہے جوکوئی ان دونوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے گا میں اسے آگ میں پھینکوں گا۔(ابودائود)45
نبی کریمؐ نے نجران کے عیسائی وفد کے سامنے توحید باری کا مضمون خوب بیان کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپؐ اپنے رب کے بارے میں ہمیں بتائیں وہ زَبرُ جد ہے؟ یا قوت ہے؟ سونا ہے یا چاندی؟رسول کریمؐ نے فرمایا میرا رب ایسی کسی مادی چیز میں سے نہیں ہے۔ بلکہ وہ خود ان اشیاء کا خالق ہے۔ اس زمانہ میں سورۃ الاخلاص نازل ہوچکی تھی نبی کریمؐ نے انہیں قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔ پڑھ کر سنائی کہ خدا ایک ہے۔ انہوں نے کہا وہ بھی ایک ہے آپؐ بھی ایک ہیں۔ فرق کیا ہوا؟ رسول کریمؐ نے یہ آیت پڑھی’’ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ئٌ ‘‘ اس جیسی اور کوئی چیز نہیں نہ کوئی مثیل ہے نہ ثانی۔ نصاریٰ نجران نے کہا آپؐ ہمیں اس خدا کی کوئی اور صفات بتائیں۔
آپؐ نے سورۃ الاخلاص کی اگلی آیت پڑھی کہ اللہ بے نیاز ہے اور کسی کا محتا ج نہیں۔ انہوں نے کہا ’’صَمَدْ‘‘کیا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا مخلوق اپنی ضروریات کے لئے جس ہستی کا سہارا لے وہ ذاتصَمَدْ کہلاتی ہے۔ انہوں نے اللہ کی اور کوئی صفت رسول اللہؐ سے پوچھی۔ رسول اللہؐ نے پڑھا لَمْ یَلِدْ یعنی نہ اس نے کسی کو جنا جیسے مریم کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ وَلَمْ یُوْلَدْ اور نہ وہ جنا گیا جیسے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُواً اَحَد اور نہ کوئی مخلوق میں اس کی برابری کرنے والا ہے۔ (ترمذی)46
توحید کی یہی محبت آپؐ نے اپنے صحابہ میں بھی پیدا فرمائی۔ چنانچہ ایک انصاری صحابی کا ذکر ہے کہ وہ مسجد قبا میں نماز پڑھاتے تھے اور جہری قراء ت والی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد پہلے سورۃ الاخلاص قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھ کر پھر اس کے ساتھ کوئی اور سورت تلاوت کرتے تھے۔ نمازیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ سورت اخلاص ہی پر اکتفا کرلیا کریں اس کے ساتھ الگ سورۃ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے نماز پڑھوانی ہے تو میں ایسے ہی پڑھائوں گا ورنہ بیشک کسی اور کو امام بنالو۔ چونکہ وہ ان میں سے صاحب فضیلت تھے اس لئے انہوں نے امام تو نہ بدلا البتہ رسول اللہؐ کی خدمت میں ان کی شکایت کردی۔ آپ ؐنے اُس صحابی کو بلا کر ہر رکعت میں سورت اخلاص پڑھنے کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے کہا یہ سورت خدائے رحمان کی صفات پر مشتمل ہے۔ مجھے اس کی تلاوت بہت پیاری لگتی ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایااس سورت سے محبت تمہارے جنت میں داخلہ کا ذریعہ بن جائے گی۔ (ترمذی)47
بلاشبہ سورۃ الاخلاص میں توحید کامضمون نہایت اختصار اور کمال شان سے بیان ہوا ہے۔
رسول کریمؐ کو خداکے آخری کلام اور اس کے احکام کی بھی بہت غیرت تھی۔حضرت عمر بن الخطابؓ ایک دفعہ تورات کا ایک نسخہ اٹھالائے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے۔ رسول اللہؐ خاموش بیٹھے رہے۔ حضرت عمرؓ اس میں سے پڑھنے لگے تو رسول اللہؐ کے چہرے کا رنگ متغیرّ ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمرؓ کو اس طرف توجہ دلائی کہ آنحضورؐ یہ پسند نہیں فرمارہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے معذرت کی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ ؑتم میں ظاہر ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی اختیار کرتے تو سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتے اور اگر وہ خود بھی زندہ ہونے کی حالت میں میرا زمانۂ نبوت پالیتے تو ضرور میری پیروی کرتے۔(دارمی)48
فتح مکہ کے موقع پر ایک قریشی عورت کے چوری کرنے پر جب اس کا ہاتھ کاٹنے کی سزا کا فیصلہ ہوا اور لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین فرد اسامہ بن زید ؓسے معافی کی سفارش کروائی تو آپؐ جوش میں آکر فرمانے لگے ’’اے اسامہ کیا تم اللہ کے احکام میں سے ایک حکم کے بارہ میں سفارش کی جرأت کرتے ہو ؟‘‘(بخاری)49
احکام الہٰی کی تعمیل کی غیرت کا ایک اور واقعہ ابو سعید بن معلّٰی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے جواب نہیں دیا اور نماز پڑھتا رہا۔ نماز سے فارغ ہوکر عرض کیا یارسول اللہؐ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔آپؐ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جب وہ تم کو پکارے تاکہ تمہیں زندہ کرے۔(بخاری50)حضورؐ کا اشارہ سورۂ انفال آیت25کی طرف تھا۔
حضرت ابوبکر ؓ تہجد کی نماز میں بہت آہستہ آواز میں قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے تھے اور حضرت عمر ؓ ذرا اونچی آواز میں پڑھتے تھے۔رسول اللہؐ نے دونوں سے اس کی وجہ پوچھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں اپنے رب سے سرگوشی میں بات کرتا ہوں۔وہ میری حاجت کو جانتا ہی ہے۔حضرت عمر ؓ نے کہا میں شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوئے ہوئے کو جگاتا ہوں۔جب قرآن شریف کی یہ آیت اتری کہ نماز میں بہت اونچی تلاوت نہ کرو، نہ ہی بہت ہلکی آواز سے پڑھواور درمیانی راہ اختیار کرو۔(بنی اسرائیل: 111 ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ ذرا اونچی آواز میں پڑھا کریںاور حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ آپ ذرا ہلکی آواز میں پڑھا کریںتاکہ قرآنی حکم کی تعمیل ہو۔(سیوطی)51
نبی کریمؐکو احکام الہٰی کی پابندی کی غیرت کے بارہ میںحضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی ذات کے بارہ میں کبھی کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کسی حکم کو توڑا جاتا تو پھر آپؐ ضرور غیرت دکھاتے اور سزادیتے تھے۔(بخاری)52
رسول اللہؐ کی آخری بیماری میں کسی بیوی نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ(یعنی حضرت مریم ؑ) کے نام سے موسوم تھا۔آپؐ اپنی بیماری کی تکلیف دہ حالت میں بھی خاموش نہ رہ سکے۔جوش غیرتِ توحید میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ’’ براہو ان یہودیوں اور عیسائیوں کا جنہوں نے اپنے نبیوںاور بزرگوں کے مزاروں کو معابد بنالیا۔‘‘گویا بالفاظ دیگر اپنی وفات کو قریب جانتے ہوئے آپؐ بیویوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ دیکھو میرے بعد توحید پر قائم رہنا اور میری قبر پر سجدہ نہ ہونے دینا۔(بخاری)53
گویا یہ آپؐ کی توحید کے قیام کے لئے آخری کوشش بھی تھی اور خواہش بھی۔تبھی توآپؐ یہ دعا کیا کرتے تھے اللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْناً اے اللہ میری قبر کو بت پرستی کی جگہ نہ بنانا۔(احمد)54
پھردیکھوخدانے اپنے اس موحّدبندے کی غیرت توحید کی کیسے لاج رکھی کہ توحید پرستوں کے بادشاہ کا روضۂ مبارک ہرقسم کے شرک کی آلائش اوربت پرستی سے پاک ہے۔خدا کے ایک موحّد بندے کی توحید خالص کا نشان۔لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ۔
خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی
بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی
ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا رہی
کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی
ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام
عَلَیْکَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکَ السَّلاَم
حوالہ جات
1
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 1 ص 58 مطبوعہ بیروت
2
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2 ص 26 تا29 مطبوعہ بیرت
3
طبقات الکبریٰ ابن سعد جلد1ص311مطبوعہ بیروت
4
بخاری باب بدء الوحی
5
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد1 ص 250,251 مکتبہ مصطفی البابی الحلبی
6
بخاری بنیان الکعبہ باب حدیث زید بن عمرو
7
المنقذمن الضلال للغزالی ص151پھئۃ الاوقاف پنجاب لاہور طبع اول1971
8
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح :3412
9
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح:3413
10
کنزالعمال حدیث نمبر4939
11
نسائی کتاب الصلوۃ باب افتتاح الصلوۃ
12
مسنداحمدجلد4ص126
13
مسنداحمدجلد4ص124
14
مسلم کتاب الزہدباب من الشرک فی عملہ غیراللہ
15
مستدرک حاکم جلد1ص4
16
مسنداحمد جلد5ص253
17
ترمذی کتاب الفرائض باب ماجاء فی میراث الجدّ
18
مسنداحمدجلد5ص456
19
مسنداحمدجلد4ص403مطبوعہ بیروت
20
الدّرالمنثورفی التفسیر الماثور للسیوطی جلد 6ص27مطبوعہ بیروت
21
مسند احمد جلد 3 ص 452مطبوعہ بیروت
22
مسند احمد جلد3ص406 مطبوعہ بیروت
23
مسلم کتاب الذکر باب التعوْذ من شرماعمل:4901
24
بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء عندالکرب:5869
25
مسند احمدجلد4صفحہ411مطبوعہ بیروت
26
بخاری کتاب بد ء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ
27
بخاری کتاب الجہاد باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا:2599
28
بخاری کتاب الایمان باب فان تابو واقا موا الصلوۃ:24
29
بخاری کتاب الجہاد
30
بخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکۃ بدر اً
31
مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الہ الا اللہ :140
32
مسنداحمد بن حنبل جز6ص372:25845
33
مسنداحمد بن حنبل جزاول ص354 احیاء التراث العربی طبع جدیدہ بیروت لبنان
34
بخاری کتاب الادب باب من لم یر اکفار من قال متاولاًاوجاھلاً
35
مسلم کتاب الجہاد والسیر باب کراھۃ الاستعانہ فی الغزو بکافر
36
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد
37
بخاری کتاب المغازی باب فتح مکہ
38
السیرۃ النبویّہ لابن ہشام جز 4ص59مطبوعہ مصر
39
شرح مواھب اللدنیہ لزرقانی جلد ۲ صفحہ ۳۳۴مطبوعہ بیروت
40
بخاری کتاب الجہاد باب مایقول اذارجع من الغزو:2854
41
بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ و یوم حنین
42
السیرۃ الحلبیہ جلد3ص217بیروت
43
ابوداؤد کتاب الادب باب فی کراھیۃ الرفعۃ فی الامور
44
ابوداؤدکتاب الترجْل باب فی الخضاب
45
ابوداؤد کتاب اللباس باب ماجاء فی الکبر
46
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب سورۃ الاخلاص:3287
47
ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ماجاء فی سورۃ الاخلاص:2826
48
سنن دارمی مقدمہ باب مایتقی من تفسیر حدیث النبی ﷺ
49
بخاری کتاب الانبیاء باب حدیث الغار:3216
50
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفاتحۃ
51
الدرالمنثورزیر آیت سورۃ بنی اسرائیل جلد5ص350مطبوعہ بیروت
52
بخاری کتاب الادب باب یسرواو لا تعسروا:5661
53
بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوۃ فی البیعۃ
54
مسند احمد جلد2ص246مطبوعہ بیروت
حق بندگی ادا کرنے والا…عبدکامل
صحرائے عرب کی تاریک اور پرسکوت رات میں ہُو کا عالم طاری تھا۔ہر طرف ایک سناّٹا تھا۔خانہ کعبہ کے پڑوسی اور وادی بطحا کے مکین رنگ رلیاں مناکر اور شراب کی محفلیں سجانے کے بعد خواب نوشیں میں مست پڑے سورہے تھے....عین اِس وقت مکہ سے چند میل دور جنگل کے ایک پہاڑی غار میں ایک معصوم اور عابد و زاہد عربی نوجوان عبادت میں مصروف تھا ۔وہ اپنے رب ِکریم کے آستانہ پر سجدہ ریز ہوکر گریہ وزاری کر رہا تھا اور نہایت سوز وگداز کے ساتھ اس کے حضور میں التجا کرتا تھا ’’اے ہادی!اس جاہل قوم کو ہدایت دے!‘‘ عہد شباب میں ہی اس سعید نوجوان کو دنیا سے بے رغبتی ہوچکی تھی اوردنیا کی رعنائیاں اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں ۔
خلوت میں یادالہٰی
اس سعادت مند نوجوان کو عبادت الہٰی سے انتہائی لگائو تھا۔تنہائی کی دعائوں میںوہ ایک خاص لطف اٹھاتا ۔دنیا سے الگ تھلگ ہوکر خشوع وخضوع کے ساتھ خدا کو یاد کرنے میں وہ ایک خاص سرورو لذت محسوس کرتا۔ وہ تن تنہا کچھ زادِ راہ ساتھ لے کر مکہ سے چند میل دور حرا نامی پہاڑی غار میں جاکر،معتکف ہوکر عبادت کیا کرتا ۔مہینوں وہ مکہ کی طرب خیز زندگی سے کنارہ کش رہتا۔پھر جب زادِ راہ ختم ہوجاتی تو واپس آکر اور زاد ساتھ لے لیتا اور تنہائی میں جاکر مراقبہ کرتا۔ اللہ کو یاد کرتا۔(بخاری1)یہ پاک طینت اور نیک خصلت انسان درگاہِ الہٰی میں بار پاگیا۔
حرا سے اُتر کر سوئے قوم آنے والا یہ فخر عرب نوجوان ہادیٔ برحق،سیدالمعصومین حضرت مصطفیٰ ﷺ کا وجود باجود ہے جسے رب العزت نے خلعت نبوت سے سرفراز فرمایا۔
عین عنفوان شباب میں جبکہ آرزوئیں اور تمنائیں جو بن پر ہوتی ہیں اور خواہشات کے ہجوم کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔محمد ﷺ دنیاسے بے رغبت ہوکر آبادی مکہ سے کوسوں دور ایک ویران پہاڑی غار حرا میں چلے جاتے ۔ وہاں تنہائی میں کائنات پرغورو فکر کرتے ۔اللہ کو یاد کرتے۔
شہر مکہ کے طرب خیزاور پُر رونق ماحول کو چھوڑ کر ایک نوجوان کی اللہ کی یاد میں ایسی محویت، استغراق اور خلوت پسندی ایک غیرمعمولی واقعہ تھاجسے مکہ والوں اور آپؐ کے خاندان کے لوگوں نے تعجب اور حیرت کی نظر سے دیکھا۔ وہ سوچتے تھے کہ یہ عجیب انسان ہے جو دنیا کی دلچسپیوں سے بیزارہے۔ عالمِ جوانی میں بھی بیوی بچوں اورگھریلو زندگی پر ویرانوں کو ترجیح دیتا ہے۔
عین عالم جوانی میں حضرت محمد ؐ دین ابراہیمی اور عربوں کے دستور کے مطابق سال میں ایک ماہ اعتکاف فرماتے تھے۔عمر کے چالیسویں سال میں آپؐ رمضان کے مہینہ میں غار حرا میں اعتکاف فرمارہے تھے کہ پہلی وحی ہوئی۔(ابن ہشام)2
نماز کی عبادت
جبریل ؑ نے ابتدائی وحی کے بعد نبی کریم ﷺ کو وضو کر کے دکھایا اور اس کا طریق سکھاکر آپؐ کو نماز پڑھائی۔آنحضورؐ نے حضرت خدیجہ ؓکو وضو کا طریق سکھاکر نماز پڑھائی جس طرح جبریل ؑ نے آپؐ کو سکھایا تھا۔(ابن ہشام)3
الغرض مکی دور کے آغاز میں ہی حضرت جبریل ؑنے نبی کریم ﷺ کو پانچ نمازوں کی امامت کرواکے نماز کا طریق اور اوقات سمجھادیئے تھے۔(ترمذی)4
رسول کریمؐ کو منصب نبوت عطا ہوا تو عبادت کی ذمہ داری اور بڑھ گئی۔ارشاد ہوا۔ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ o وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ (سورۃالانشراح:8,9)
کہ جب تو دن بھر کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو تو رات کو اپنے رب کے حضور کھڑا ہوجا اور اس کی محبت سے تسکین دل پایا کر۔
حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے مطابق آغاز میں نماز دو دو رکعت ہوتی تھی۔مدینہ ہجرت کے بعد چار رکعت ہوگئی۔(بخاری)5
فرضیت نماز کے روزاول سے لے کر تا دم واپسیں آپ نے اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّلیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجَرِ(سورۃ بنی اسرائیل:79) میں پنج وقت نمازوں کی ادائیگی کے حکم کی تعمیل کاحق ایساا دا کر کے دکھایا کہ خود خدا نے گواہی دی کہ آپؐ کی نمازیں، عبادتیں اور مرنا اور جینا محض اللہ کی خاطر ہوچکا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔(سورۃالاعراف:163)
رسول اللہؐ پرآغازرسالت میں ابھی حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ ہی ایمان لائے تھے کہ آپؐنے ان کے ساتھ نماز باجماعت کی ادائیگی کا سلسلہ شروع فرمادیا۔پھر عمر بھر سفر و حضر، بیماری و صحت ، امن وجنگ غرض کہ ہر حالتِ عسرو یسر میں اس فریضہ کی بجا آوری میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہونے دی۔ابتدا ً آپؐکفار کے فتنہ کے اندیشہ سے چھپ کربھی نماز ادا کرتے رہے۔ کبھی گھر میں پڑھ لیتے تو کبھی کسی پہاڑی گھاٹی میں ۔البتہ چاشت کی نمازعلی الاعلان کعبہ میں ادا کرتے ۔(بخاری)6
دعویٰ نبوت کے بعدکفار مکہ نبی کریمؐ کو عبادت سے روکتے اورتکالیف دیتے۔ ظالموں نے ایک دن حالت سجدہ میں اونٹنی کی غلیظ نجاست سے بھری ہوئی بھاری بھر کم بچہ دانی رسول اللہؐ کی پشت پر ڈال دی۔(بخاری)7
ایک بدبخت نے ایک دن حضور ؐ کے گلے میں چادر ڈال کر مروڑنا شروع کیااور گردن دبوچنے لگا۔ دم گھٹنے کو تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اسے دھکا دیکر ہٹایا اور کہا’’ کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرنا چاہتے ہوکہ وہ کہتا ہے اللہ میرا رب ہے۔‘‘ مگر آپؐ عبادت سے کب باز آسکتے تھے۔ (بخاری)8
اہتمام نماز
نماز تو رسول کریمؐ کاروزانہ و شبانہ کا وہ معمول تھا جس میں آپؐ کی روح کی غذا تھی۔ ہرچند کہ امّت کی سہولت کی خاطررسول اللہؐ نے یہ رخصت دی کہ کھانا چنا جا چکا ہوتو کھانے سے فارغ ہوکرپھر نماز ادا کرلو۔مگر اپنا یہ حال تھا کھانا کھاتے ہوئے بلالؓ کی آواز سنی کہ نماز کا وقت ہوگیا تو صرف اتنا کہا’’ اسے کیا ہوا اللہ اُسکا بھلا کرے۔‘‘(یعنی کھانا تو کھا لینے دیا ہوتا) مگر اگلے ہی لمحے وہ چھری جس سے بھنا ہوا گوشت کاٹ رہے تھے وہیں پھینک دی اور سیدھے نماز کیلئے تشریف لے گئے۔(ابودائود)9
حضرت عائشہ ؓ آپؐ کا معمول یہ بیان فرماتی تھیں کہ نماز کیلئے بلالؓ کی اطلاعی آواز پر آپؐ بلا توقّف مستعد ہوکر اٹھتے اور نمازکے لئے تشریف لے جاتے۔(بخاری)10
بیماری میں بھی نماز ضائع نہ ہونے دیتے۔ایک دفعہ گھوڑے سے گرجانے کے باعث جسم کا دایاں پہلو شدیدزخمی ہوگیا۔ کھڑے ہوکر نماز ادا نہ فرماسکتے تھے۔ بیٹھ کرنمازپڑھائی مگر باجماعت نمازمیںناغہ پسندنہ فرمایا۔(بخاری)11
سفر میں بھی نماز کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔روایات حدیث کے مطابق زندگی بھرمیں صرف دو مواقع ایسے آئے کہ جن میں بعض صحابہ کورسول کریمؐ کی غیرموجودگی میں نماز پڑھانے کی نوبت آئی۔
ایک موقعہ وہ تھا جب آنحضرتؐ بنی عمرو بن عوف میں مصالحت کے لئے تشریف لے گئے۔اور جیسا کہ ہدایت فرماگئے تھے تاخیر کی صورت میں کچھ انتظار کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے بلالؓ کی درخواست پر نماز پڑھانی شرو ع کی۔اتنے میں آپؐ تشریف لے آئے۔حضرت ابوبکرؓ پیچھے ہٹ گئے اور آپؐ نے خود امامت کروائی۔(ابوداؤد)12
دوسرا موقع وہ ہے جب ایک سفر میں آپؐ قافلے سے پیچھے رہ گئے تو حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓنے نماز فجر قضا ہونے کے اندیشہ سے شروع کروائی اور آپؐ پیچھے سے آکر شامل ہوگئے۔آپؐ نے بروقت نماز ادا کرنے پر صحابہ ؓ سے اظہار خوشنودی فرمایا۔(مسلم)13
نبی کریم ؐ نے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پرمدینہ سے یہود بنی قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہوتے ہوئے صحابہ کو یہ ہدف دیا کہ عصر کی نماز بنو قریظہ جاکر ادا کی جائے۔(بخاری)14
یوں آپؐ نے حالت سفر میں بھی نماز کی حفاظت کا پیشگی انتظام فرمادیا۔
رسول کریمؐسفر میں جدھر سواری کا رخ ہوتا اسی طرف منہ کر کے نفل نماز سواری پر ادا فرمالیتے تھے۔(ابوداؤد15)تاہم فرض نمازیں ہمیشہ قافلہ روک کر باجماعت قصر اور جمع کر کے ادا کرتے۔ (بخاری16) بارش کی صورت میں بعض دفعہ سواری کے اوپر بھی فرض نماز ادا کی ہے۔ (ترمذی)17
ایک سفر میں رات کے آخری حصہ میں پڑائو کرتے ہوئے بلالؓ کی ڈیوٹی فجر کی نماز میں جگانے پر لگائی گئی مگر ان پر نیند غالب آگئی۔دن چڑھے سب کی آنکھ کھلی۔ فجر کی نماز میں تاخیر ہوچکی تھی۔ پریشانی کے عالم میں رسول اللہؐ نے اس جگہ مزید رکنا بھی پسند نہیں فرمایا جہاں نماز ضائع ہوئی اور آگے جاکر نماز ادا کی۔(بخاری)18
رسول کریمؐجنگ کے ہنگامی حالات میں بھی نماز کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے۔غزوہ بدرسے پہلے اپنی جھونپڑی میں نماز کی حالت میں گریہ و زاری کررہے تھے اورتین سو تیرہ عبادت گزاروں کا واسطہ دے کر دراصل آپؐ نے دعائوں کے ذریعہ اس کوٹھری میں ہی یہ جنگ جیت لی تھی۔
غزوۂ احد کی شام جب لوہے کے خود کی کڑیاںدائیں رخسار میں ٹوٹ جانے سے بہت سا خون بہہ چکا تھا۔آپؐ زخموں سے نڈھال تھے اور ستر صحابہ کی شہادت کا زخم اس سے کہیں بڑھ کر اعصاب شکن تھا۔اس روز بھی آپ بلالؓ کی نداء پر نماز کیلئے اسی طرح تشریف لائے جس طرح عام دنوںمیں تشریف لاتے تھے اور دنیا نے قیام عبادت کا ایسا حیرت انگیز نظارہ دیکھا جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔(واقدی)19
غزوۂ احزاب میں دشمن کے مسلسل حملہ کے باعث ظہر و عصر کی نمازیں وقت پر ادا نہ ہو سکیں یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔وہی رسول خدا جو طائف میں دشمن کے ہاتھوں سے لہولہان ہوکر بھی ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔نماز کے ضائع ہونے پر بے قرار ہوکر فرماتے تھے۔خدا ان کو غارت کرے انہوں نے ہمیں نماز سے روک دیا۔ پھرحضورؐ نے اصحاب کو اکٹھا کیا اور نمازیں ادا کروائیں۔ (بخاری)20
نماز باجماعت کا اہتمام اس قدر تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر شہر کے ایک جانب مسجد الحرام سے کافی فاصلے پرآپؐ کا قیام تھا۔مگر باقاعدہ تمام نماز وں کی ادائیگی کے لئے حرم تشریف لاتے رہے۔
جنگوں کے دوران خطرے اور خوف کی حالت میں بھی آپؐ نے نماز نہیں چھوڑی بلکہ اس حال میں صحابہ کواس طرح نماز پڑھائی کہ ایک گروہ دشمن کے سامنے رہا اور دوسرے نے آپؐ کے ساتھ نصف نماز ادا کی۔ پھر پہلے گروہ نے آکر نماز پڑھی۔ یوں آپؐ نے سبق دیا کہ موت کے بڑے سے بڑے خطرے میں بھی نماز ترک نہیںکی جا سکتی یہ رخصت دے دی کہ سواری پر یا پیدل یا چلتے ہوئے بھی اشارے سے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔(بخاری)21
آخری بیماری میں رسول کریمؐتپ محرقہ کے باعث شدید بخار میں مبتلا تھے مگر فکرتھی تو نماز کی۔ گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے ،کیا نماز کا وقت ہوگیا؟بتایا گیا کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں۔بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایاکہ میرے اُوپر پانی کے مشکیز ے ڈالو۔ تعمیل ارشادہوئی مگر پھر غشی طاری ہوگئی۔ ہوش آیا تو پھر پوچھا کہ کیا نماز ہوگئی؟ جب پتہ چلا کہ صحابہ انتظار میں ہیں تو فرمایا’’ مجھ پر پانی ڈالو‘‘ جس کی تعمیل کی گئی۔غسل سے بخار کچھ کم ہوا تو تیسری مرتبہ نماز پر جانے لگے مگر نقاہت کے باعث نیم غشی کی کیفیت طاری ہوگئی اورآپ مسجد تشریف نہ لے جاسکے۔(بخاری)22
بخار میں پھر جب ذرا افاقہ ہوا تو اسی بیماری اور نقاہت کے عالم میں دو صحابہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر، اُنکا سہارا لے کر رسول اللہؐنماز پڑھنے مسجد گئے۔ حالت یہ تھی کہ کمزوری سے پائوں زمین پر گھسٹتے جارہے تھے۔حضر ت ابوبکرؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ آپؐ نے اُن کے بائیں پہلو میں امام کی جگہ بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ اوریوں آخر دم تک خدا کی عبادت کا حق ادا کر کے دکھادیا۔(بخاری)23
دنیا میں آپؐ کی آخری خوشی بھی نماز کی خوشی تھی جب آپؐ نے سوموار کے دن ( جس روز دنیا سے کوچ فرمایا) فجر کی نماز کے وقت اپنے حجرے کا پردہ اٹھاکر دیکھا تو صحابہ محو عبادت تھے۔ اپنے غلاموں کو نماز میں دیکھ کر آپؐ کا دل سرور سے بھر گیا۔خوشی سے چہرے پر تبسم کھیلنے لگا۔(بخاری)24
آپؐ نے سچ ہی تو فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔ایسے اہتمام سے ادا کی جانیوالی نمازیں محبت الہٰی اور خشوع وخضوع سے کیسی بھری ہوئی ہوتی ہونگی(اس کا تفصیلی نقشہ رسول اللہ ؐ کی خشیٔت کے زیر عنوان بیان ہو گا)۔
نماز تہجد
نبی کریم ﷺ کی فرض نمازیں نسبتاً مختصر ہوتی تھیں تاکہ کمزور، بیمار، بچے، بوڑھے اور مسافر کیلئے بوجھ نہ ہو لیکن تنہائی میں آپؐ کی نفل نمازوں کی شان توبہت نرالی تھی۔ فرماتے تھے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ بدستور اللہ کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا اس کے ہاتھ پائوں اور آنکھیں ہوجاتا ہے۔بلاشبہ محبت الہٰی اورفنافی اللہ کا یہ مقام آپؐ نے حاصل کر کے ہمیں خوبصورت نمونہ دیا۔
تہجد کی نماز رسول اللہؐ کی روح کی غذا تھی۔فرماتے تھے کہ اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے۔ (طبرانی)25
ابتدا میں آپؐ رات کے وقت تیرہ یا گیارہ رکعتیں (بمعہ وتر)ادا فرماتے اور آخری عمر میں کمزوری کے باعث نو رکعتیں پڑھتے رہے۔ اگر کبھی رات کو اتفاقاً آنکھ نہ کھلتی تو دن کے وقت بارہ رکعتیں ادا کر کے اس کی تلافی فرماتے۔حضرت اُبی ّ بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر چکی ہوتی تو آپؐ بآواز بلند فرماتے ’’لوگو!خدا کو یاد کرو زلزلہ قیامت آنے والاہے۔اس کے پیچھے آنے والی گھڑی سر پر ہے ۔موت اپنے سامان کے ساتھ آپہنچی ہے۔موت اپنے سامان کے ساتھ آپہنچی ہے۔‘‘(ترمذی)26
رات کے وقت آپؐ کی نماز بہت لمبی ہوتی۔نسبتاًلمبی سورتیں تلاوت کرنا پسند فرماتے۔ حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ؓکی نماز(تہجد )کی کیفیت پوچھی گئی۔ آپ ؓ نے فرمایا۔ حضورؐ رمضان یا اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔مگر وہ اتنی لمبی پیاری اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو! ’’یعنی میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپؐ کی اس خوبصورت عبا دت کا نقشہ کھینچ سکوں۔ (بخاری)27
نوجوان صحابہؓ کو حضور ؐ کی عبادت دیکھنے کا بہت شوق تھا۔رسول اللہ ؐ کے عم زاد اور حضرت میمونہ ؓ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں۔ ’’میں ایک رات رسول اللہ ؐ کے گھر ٹھہرا۔ نصف رات یا اس سے کچھ پہلے آپؐ بیدار ہوئے۔چہرے سے نیند زائل کی۔آلِ عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر گھر میں لٹکے ہوئے مشکیزہ سے نہایت عمدہ طریق پر وضوء کیا اور نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔میں جاکر بائیں پہلومیں کھڑا ہوگیا۔آپؐ نے مجھے کان سے پکڑ کر دائیں طرف کردیا۔آپؐ نے تیرہ رکعتیں ادا فرمائیں۔‘‘ (بخاری)28
نبی کریمؐ نے اپنے اس عمل سے ایک نوجوان کی عملی تربیت بھی فرمادی کہ اکیلا مقتدی امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کی توفیق ملی۔آپؐ نے پہلے سورۃ بقرہ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی۔پھر قیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔پھر قیام کے برابر سجدہ کیا۔سجدہ میں بھی یہی تسبیح ،دعا پڑھتے رہے۔پھر کھڑے ہوکر آل عمران پڑھی۔پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے۔(ابوداؤد)29
حضرت حذیفہ بن یمانؓ (رسول اللہؐ کے راز دان صحابی) فرماتے ہیں کہ انہوں نے رمضان میں ایک رات رسول اللہ ؐ کے ساتھ نماز ادا کی۔جب نماز شروع کی تو آپؐ نے کہا
’’اَللّٰہُ اَکْبَرْذُ وْالمَلَکُوْتِ وَالْجَبْرُوْتِ وَالْکِبْرِیَائِ وَالعَظْمَۃِ۔‘‘یعنی اللہ بڑا ہے جو اقتدار اور سطوت کبریائی اور عظمت والا ہے۔پھرآپؐ نے سورۃ بقرہ (مکمل )پڑھی ،پھر رکوع فرمایا،جو قیام کے برابر تھا،پھر رکوع کے برابر وقت کھڑے ہوئے،پھر سجدہ کیا جو قیام کے برابر تھا۔پھر دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْلِیْ۔رَبِّ اغْفِرْلِیْمیرے رب مجھے بخش دے کہتے ہوئے اتنی دیر بیٹھے جتنی دیر سجدہ کیا تھا۔دوسری رکعتوں میں آپؐنے آل عمران، نسائ، مائدہ، انعام وغیرہ طویل سورتیں تلاوت فرمائیں۔ (ابوداؤد)30
ام المٔومنین حضرت سودہؓ نہایت سادہ اور نیک مزاج تھیں،ایک رات انہوں نے بھی اپنی باری میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کا ارادہ کیا اور حضورؐ کے ساتھ جاکر نماز میں شامل ہوئیں،نامعلوم کتنی نماز ساتھ ادا کر پائیں۔مگراپنی سادگی میں دن کو رسول کریم ؐ کے سامنے اس لمبی نماز پر جو تبصرہ کیا اس سے حضورؐ بہت محظوظ ہوئے۔کہنے لگیں ’’یا رسول اللہ ! رات آپؐ نے اتنا لمبا رکوع کروایا کہ مجھے تو لگتا تھا جھکے جھکے کہیں میری نکسیر ہی نہ پھوٹ پڑے۔‘‘ حضور ؐ (جن کی ہر رات کی نماز ہی ایسی لمبی ہوتی تھی) یہ تبصرہ سن کر خوب مسکرائے۔(ابن حجر)31
بسا اوقات آپؐ ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی۔آپؐ اتنی دیر (نمازمیں) کھڑے رہے کہ میں نے ایک بُری بات کا ارادہ کرلیا۔پوچھا گیا کہ کیا ارادہ تھا؟ فرمایا’’میں نے سوچا کہ رسو ل اللہ ؐ کو چھوڑ کر بیٹھ جائوں۔‘‘ (بخاری)32
حضرت ابو ذرؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ایک رات نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ساری رات ایک ہی آیت قیام،رکوع اور سجود میں پڑھتے رہے۔یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ابوذرؓ سے پوچھا گیاکہ وہ کون سی آیت تھی۔ فرمایا’’یہ آیت:اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (المائدۃ:199)
خدایا! اگر تو انہیں عذاب دینا چاہے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخشنا چاہے تو تو بہت غالب اور بڑی حکمتوں والا خدا ہے۔(نسائی)33
سبحان اللہ! خدا اور اس کے رسول ؐ کے دشمن آرام کی نیند سورہے ہیں اور خدا کا پیارا رسول ؐ بے قرار ہوکر گڑ گڑا کر بارگاہ ایزدی میں ان کی مغفرت کاملتجی ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آخری عمر میں جب حضو رؐکے بدن میں کچھ موٹاپے کے آثار ظاہر ہوئے۔تو بیٹھ کر تہجد ادا کرتے اور اس میں لمبی تلاوت فرماتے۔ جب سورت کی آخری تیس یا چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہوکر تلاوت کرتے پھر سجدے میں جاتے۔(بخاری)34
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں۔آپؐ کچھ دیر سوتے پھر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے پھر سوجاتے پھر اُٹھ بیٹھتے اور نماز ادا کرتے۔غرض صبح تک یہی حالت جاری رہتی۔ (بخاری)35
حمدباری
یہ نمازیں بھی یاد الہٰی اور اللہ کی حمد سے خوب لبریز ہوتی تھیں اور اس پہلو سے اللہ کی حمد کرنے میں آپ ؐکی ایک اور سبقت کی شان بھی کھل کر سامنے آتی ہے،جیسا کہ آپؐ کا نام ’’احمد‘‘ بھی تھا واقعی آپؐ اسم بامسمّٰی تھے۔ اللہ کی حمد و ستائش روئے زمین پر اس شان سے کب ہوئی ہوگی جو آپؐ نے کردکھائی۔
آپؐ اپنی نفل نماز کا آغاز تسبیح و حمد سے کرتے اور اس کے لئے ایسے الفاظ کا انتخاب فرماتے کہ جن کو سوچ کر آج بھی روح وجد میں آجاتی ہے۔تسبیح وتحمید کے یہ نغمے اور ترانے جو کبھی حرا کی تنہائیوں میں الاپے اور کبھی مکہ اور مدینہ کی خلوتوں میں آپؐ نے اپنے محبوب حقیقی سے سوز و گداز میں ڈوبی کیا کیا سرگوشیاں کیں۔یہ تواحادیث کا ایک طویل باب ہیں۔آپؐ نماز تہجد کاآغاز ہی’’ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ‘‘ سے کرتے کہ سب تعریف تیرے لئے ہے (بخاری)36
پھر رکوع سے کھڑے ہوتے تو عرض کرتے ’’اے اللہ تیری اتنی تعریفیں کہ جن سے آسمان بھرجائے…اور اتنی تعریفیں کہ زمین بھی ان سے بھر جائے…اور اتنی حمد کہ آسمان و زمین کے بعد جو توُ چاہے وہ بھی بھر جائے…اے تعریف اور بزرگی کے لائق۔(مسلم37) کوئی ہے جو اس ایک حمد سے ہی بڑھ کر کوئی حمد پیش کر سکے؟
نماز میں خشوع
کبھی گھر کے لوگ سوجاتے تو آپؐ چپ چاپ بستر سے اٹھتے اور دعا و مناجات الہٰی میں مصروف ہوجاتے ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات میری آنکھ کھلی تو آپؐ کو بستر پر نہ پایا ۔میںسمجھی کہ آپؐ کسی اور بیوی کے حجرے میں تشریف لے گئے ہیں ۔اندھیرے میں ادھر ادھر ٹٹولا تو دیکھا کہ پیشانی مبارک خاک پر ہے اور آپؐ سربسجود مصروفِ دعا ہیں۔سُبْحَانَکَ وَ بِحَمْدِکَ لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ۔اے اللہ!تو پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ فرماتی ہیں ’’یہ دیکھ کر مجھے اپنے شبہ پر ندامت ہوئی اور دل میں کہا۔سبحان اللہ! میں کس خیال میںہوں اور خدا کا رسول ؐ کس عالم میں ہے۔‘‘(نسائی)38
رات کے وقت جب سارا عالم محو خواب ہوتا لوگ میٹھی نیند سورہے ہوتے۔ آپؐ چپکے سے بستر چھوڑ کربعض دفعہ سنسان قبرستان میں چلے جاتے اورہاتھ اُٹھاکر دعا میں مصروف ہوجاتے۔ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ تجسّس کیلئے پیچھے گئیں تو آپؐ جنت البقیع میں کھڑے دعا مانگ رہے تھے۔ اپنے رب سے محوراز و نیاز تھے۔حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں سوچا کہ خدا کا رسول تم پر ظلم کرے گا۔(یعنی تمہاری باری میں کہیں اورکیسے جاسکتا تھا )پھرفرمایا مجھے جبریل ؑ ؑنے آکر تحریک کی کہ اہل بقیع کی بخشش کی دعا کروں اور میں نے خیال کیا تم سوگئی ہو اس لئے جگانا نامناسب سمجھا۔(نسائی)39
حضرت عائشہ ؓ کی ایک اور روایت ہے کہ ایک رات میری باری میں باہر تشریف لے گئے ۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کپڑے کی طرح زمین پر پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں سَجَدَلَکَ سَوَادِیْ وَ خِیَالِیْ وَ آمَنَ لَکَ فُؤَادِیْ رَبِّ ھٰذِہٖ یَدَایَ وَمَا جَنَیْتُ بِھَا عَلٰی نَفْسِیْ یَا عَظِیمًا یُرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِالذَّنْبَ الْعَظِیْم۔(ھیثمی)40
(اے اللہ)تیرے لئے میرے جسم و جاں سجدے میں ہیں۔میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے۔اے میرے رب! یہ میرے دونوںہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے۔ اے عظیم! جس سے ہر عظیم بات کی اُمیدکی جاتی ہے۔عظیم گناہوں کو تو بخش دے۔ پھر فرمایا’’ اے عائشہ! جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کیلئے کہا ہے تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو۔جو شخص یہ کلمات پڑھے سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے۔‘‘
عبادت سے محبت
رسول کریمؐ کواپنے رب کی عبادت ہر دوسری چیز سے زیادہ عزیز تھی۔ اپنی عزیز ترین بیوی حضرت عائشہؓ کے ہاں نویں دن باری آتی تھی۔ایک دفعہ موسم سرما کی سرد رات کو ان کے لحاف میں داخل ہوجانے کے بعد ان سے فرماتے ہیں کہ عائشہ! اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں وہ بخوشی اجازت دیتی ہیں اور آپؐ ساری رات عبادت میں روتے روتے سجدہ گاہ تر کردیتے ہیں۔(سیوطی)41
نماز میںرسول کریمؐ کی خشوع و خضوع کا یہ عالم ہوتا تھا کہ روتے ہوئے سینے سے ہنڈیا اُبلنے کی طرح آواز آتی تھی۔(احمد)42
راتوں کی عبادت کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے بجا طور پر آپؐ کی یہ تعریف کی کہ
یَبِیْتُ یُجَافِیْ جَنْبَہ‘ عَنْ فِرَاشِہٖ
اِذَا سْتَثْقَلَتْ بِالْمُشَرِکِیْنَ المَضَاجِع‘
کہ آپؐ اس وقت بستر سے الگ ہوکر رات گزار دیتے ہیںجب مشرکوں پر بستر کو چھوڑنا نیند کی وجہ سے بہت بوجھل ہوتا ہے۔(بخاری)43
رمضان المبارک میں عبادت کا اہتمام
عبادات اور دعائیںتوآپؐ کا عام معمول تھا۔رمضان کے مہینہ میں آپؐ کی عبادات میں بہت اضافہ ہوجاتا ۔خصوصاً رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف میں توبہت زیادہ عبادت کرتے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ ’’جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپؐ کمر ہمت کس لیتے ۔ بیدار رہ کر راتوں کو زندہ کرتے ،خود بھی عبادت کرتے ،اہل بیت کو بھی جگاتے۔اس آخری عشرہ میں آپ ؐاعتکاف بھی فرماتے۔‘‘(بخاری)44
آنحضورؐ سارا وقت خدا کے گھر میں بیٹھ کر یادالہٰی اور عبادت میں مصروف رہتے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ؐ کچھ بیمار تھے۔صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ ! آج کچھ بیماری کا اثر آپؐ پر نمایاں ہے۔فرمانے لگے ’’اس کمزوری‘‘ کے باوجود آج رات میں نے طویل سورتیں نماز تہجد میں پڑھی ہیں۔(ابن الجوزی)45
صحابہ کرام رسول اللہ ؐ کی کثرت عبادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپؐ اس قدر لمبی نمازیں پڑھتے اور اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپؐ کے پائوں سوج جاتے۔آپ ؐ سے عرض کی گئی کہ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ آپؐ کی بخشش کا اعلان فرماکر آپؐ کو معصوم و بے گناہ قرار دے چکا ہے تو آپؐ نے فرمایا اے عائشہؓ! کیا میں (اس نعمت پر) عبادت گزار اور شکرگزار انسان نہ بنوں؟(بخاری)46
عبادت الہٰی کی خاطر آرام طلبی ہر گز پسند نہ تھی۔ ایک رات حضرت حفصہ ؓ نے آپؐ کے بستر کی چارتہیں کردیں ۔صبح آپؐ نے فرمایا’’ رات تم نے کیا بچھایا تھا۔اسے اکہرا کردو اس نے مجھے نماز سے روک دیا ہے۔‘‘(ترمذی)47
قرآن کی تلاوت اور ذکرالہٰی بھی ایک عبادت ہے۔نبی کریمؐ کو تلاوت کلام پاک سے بھی خاص شغف تھا۔روزانہ سورتوں کی مقررہ تعداد عشاء کے وقت تلاوت فرماتے ،پچھلی رات بیدار ہوتے تو کلام الہٰی زبان پر جاری ہوتا۔(عموماً آلِ عمران کا آخری رکوع تلاوت فرمایا کرتے) رات کے وقت نماز میں نہایت وجداور ذوق و شوق سے ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ’’کبھی پوری رات آپ قیام فرماتے ۔سورہ بقرہ،آل عمران اور سورہ نساء تلاوت کرتے۔ جب کوئی عذاب کی آیت آتی تو خدا سے پناہ طلب کرتے اور جب کوئی رحمت کی آیت آتی تو اس کے لئے دعا کرتے۔‘‘(نسائی)48
مزیدتفصیل ملاحظہ ہوزیرعنوان قرآن کریم سے عشق اورحمدوشکروذکرالہٰی۔
روزہ کی عبادت
روزے رکھنا سنّت انبیاء ہے۔ نبی کریمؐ بھی روزہ کی عبادت کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ نبوت سے قبل عربوں کے دستور کے مطابق دسویں محرم کاروزہ رکھتے تھے۔ نبوت کے بعد بھی مکہ میں آپؐ کئی مہینوں تک یہ روزہ رکھتے رہے۔مدینہ آکربھی روزہ رکھا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔رمضان کے علاوہ مدینہ میں آپؐ شعبان کا اکثر مہینہ روزے رکھتے تھے۔(بخاری49)سال کے باقی مہینوں میں یہ کیفیت رہتی کہ روزہ رکھنے پر آتے تو معلوم ہوتا کہ آپ ؐکبھی روزہ نہ چھوڑیں گے۔پھر روزے رکھنے چھوڑ دیتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ پھر نہیں رکھیں گے۔ (بخاری)50
ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ ،چودہ ، پندرہ تاریخ کا روزہ بھی نہیں چھوڑتے تھے۔(نسائی)51
مہینہ کے نصف اول میں اکثر روزے رکھتے اور مہینہ میں تین دن معمولاً روزہ رکھتے۔بالعموم مہینہ کے پہلے سوموار اور اگلے دونوں جمعرات کے دن۔(مسلم)52
آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ سوموار اور جمعرات کو اعمال (خدا کے حضور) پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے عمل اس حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں۔(ترمذی)53
اس کے علاوہ آپؐ نویں ذوالحجہ کا روزہ بھی رکھتے تھے۔(مسلم)54
عام حالات میں آپؐ کبھی گھر تشریف لاتے پوچھتے کچھ کھانے کو ہے۔جواب ملتا کچھ نہیں۔ فرماتے تو میں آج روزہ رکھ لیتا ہوں ۔(ترمذی)55
کبھی کبھی ’’صوم و صال‘‘ بھی رکھتے یعنی متواتر کئی دن تک روزے، درمیان میں افطار نہ کرتے تھے لیکن صحابہ ؓ کو آپؐ نے اس سے روکا اور فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کھلا پلا دیتا ہے۔(بخاری)56
رمضان کی ایک اور اہم عبادت اعتکاف ہے۔ دعویٰ نبوت سے قبل بھی رسول کریمؐ کو تنہائی میں جاکر اللہ کو یاد کرنے کا شوق تھا۔ چنانچہ غارحرا میں جاکر اعتکاف فرماتے بعد کے زمانے میں رمضان کی فرضیت کے بعدپہلے درمیانی عشرہ اور آخری عشرہ تک اعتکاف فرماتے رہے۔ (بخاری57) جس میں آپؐ غیرمعمولی عبادت کی توفیق پاتے تھے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آخری عشرہ میں نبی کریم ؐ اپنی کمر ہمت کس لیتے تھے۔اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور عبادت الہٰی میں گزارتے تھے۔ اور گھر والوں کو بھی جگا کر عبادت کے لئے تحریک فرماتے تھے۔ اور اتنی محنت اور مجاہدہ آخری عشرہ میں فرماتے تھے کہ اتنا اہتمام کسی اور زمانہ میں نہیں ہوتا تھا۔(مسلم)58
رسول کریمؐ کی عبادت کا معراج حج بیت اللہ کے موقع پربھی دیکھا گیا جب آپؐ محض جانوروں کی قربانی ہی خدا کی راہ میں نہیں گزارتے تھے۔کفن کے لباس کی طرح محض دوچادروں کا لباس اوڑھ کرننگے سردیوانہ وار اپنے رب کریم کے پاک گھر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب آپؐ کے جسم کے ساتھ آپؐ کی روح بھی اس طواف میں برابر کی شریک ہوتی تھی اور عبادت کا نقطۂ معراج حاصل ہوتا۔ اگرچہ آپؐ کی ساری زندگی ہی ہمہ تن عبادت تھی۔
حوالہ جات
1
بخاری بدء الوحی
2
السیرۃ النبویۃلابن ہشام جلد1ص261,260,251مطبوعہ مصر
3
السیرۃ النبویۃلاہشام جز1ص252مطبوعہ مصر
4
ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی مواقیت الصلوۃ:138
5
بخاری کتاب المناقب باب التاریخ من أین أرخوالتاریخ:3642
6
بخاری کتاب الوضوء باب اذا القی علی ظھرا المصلی قذر:233
7
بخاری کتاب الصلوۃ باب المرأۃ تطرح عن المصلی شیئًا من الأذی:490
8
بخاری کتاب التفسیرسورۃ المؤمن4441
9
ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب فی ترک الوضؤ ممامست النار:160
10
بخاری کتاب الجمعہ باب من نام اول اللیل:1078
11
بخاری کتاب المرضیٰ باب اذا عاد مریضاً:5226
12
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب التصفیق فی الصلوۃ
13
مسلم کتاب الصلاۃ باب تقدیم الجماعۃ :640
14
بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبیؐ من الاحزاب:3810
15
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب ردّالسلام
16
بخاری ابواب تقصیر الصلوۃ
17
ترمذی کتاب الصلوۃ باب ماجاء فی الصلوۃ علی الدابہ فی الطین
18
بخاری کتاب المواقیت الصلوۃ باب الاذان بعد ذھاب الوقت:5609
19
فتوح العرب فی شروع الحرب ص387 ازواقدی
20
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃالاحزاب ـ:3802
21
بخاری کتاب التفسیرسورۃ البقرۃ باب قولہ عزوجل فان خفتم فرجالا :4171
22
بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ووفاتہ:4088
23
بخاری کتاب الاذان باب حد المریض ان یشھد الجماعۃ :624
24
بخاری کتاب الاذان باب اھل العلم والفضل احق بالا مامۃ:639
25
المعجم اللکبیرلطبرانی جلد 12ص84
26
ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب منہ:2381
27
بخاری کتاب الجمعۃ باب قیام النبی بلیل فی رمضان
28
بخاری کتاب الوضوء باب قراء ۃ القرآن بعد الحدث
29
ابوداؤد کتاب الصلوۃباب فی الدعا ء مایقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ
30
ابوداؤدکتاب الصلوۃ باب مایقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ:740
31
الاصابہ فی تمییز الصحابۃ ابن حجرجلد 7ص721
32
بخاری کتاب الجمعہ باب طول القیام فی صلاۃ اللیل:1067
33
نسائی کتاب الافتتاح باب تردید الا یۃ:1000
34
بخاری کتاب الجمعۃ باب اذا صلی قاعدا:1051
35
بخاری کتاب التفسیر باب لیغفرلک اللہ:4460
36
بخاری کتاب الدعوات
37
مسلم کتاب الصلوۃ
38
نسائی کتاب عشرۃ النساء باب الغیرۃ
39
نسائی عشرۃ النساء باب الغیرۃ
40
مجمع الزوائد ھیثمی جلد 2ص128مطبوعہ بیروت
41
الدرالمنشور فی تفسیر الماثورجلد 6ص27مطبوعہ بیروت
42
مسند احمد جلد 4ص26مطبوعہ مصر
43
بخاری کتاب الجمعہ باب فضل من تعار من الیل:1087
44
بخاری کتاب صلاۃ التراویح باب العمل فی العشر الاواخرمن رمضان:1884
45
الوفاء باحوال المصطفیٰ ابن الجوزی ص511بیروت
46
بخاری کتاب التفسیر باب لیغفر لک اللہ ماتقدم:4459
47
الشمائل النبویہ الترمذی باب ماجاء فی فرا ش رسول اللہ
48
نسائی کتاب الافتتاح باب مسأ لۃ القاری اذا مرّبآیۃ رحمۃ:999
49
بخاری کتاب الصوم باب صوم شعبان:1834
50
بخاری کتاب الجمعۃ باب قیام النبیؐ باللیل من نومہ:1073
51
نسائی کتاب الصیام باب صوم النبیؐ
52
مسلم کتاب الصیام باب استحباب صیام ثلاثۃ ایاّم من کل شہر:1972
53
ترمذی کتاب الصیام باب فی صوم یوم الاثنین
54
مسلم کتاب الاعتکاف باب صوم عشر ذی الحجہ
55
ترمذی کتاب الصوم
56
بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحورمن غیر ایجاب:1788
57
بخاری کتاب الاعتکاف فی العشر الاواخر
58
مسلم کتاب الاعتکاف باب الاجتہاد فی اللہ
نبی کریمؐ کی خشیٔت اور خوف الہٰی
قرآن شریف نے جس خالق کائنات اور قادر مطلق ہستی کا ہمیں پتہ دیا ہے، وہ بادشاہ بھی ہے، غنی بھی، جبار قہاراور متکبر بھی…اس عظیم ہستی کے سامنے انسان وہ عاجز مخلوق ہے۔ جوہر لحظہ اس کا محتاج ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے’’ اَحْسَنِ تَقْوِیْم‘‘ یعنی بہترین صورت میں اپنی فطرت پر پیدا کیااور اس کی پیدائش کا مقصد عبودیّت ٹھہرایا۔اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فضل شامل حال نہ ہو تو انسان فطرت صحیحہ کو چھوڑ کر شیطانی راہوں میں بھٹک جاتا اور اَسْفَلُ السَّا فِلِیْن یعنی ذلّت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرجاتاہے۔یہ وہ خوف ہے جوایک ذی شعور انسان کو بے چین کر دینے کے لئے کافی ہے۔خدا کی ذات پر ایمان کے نتیجہ میں یہ خوف زائل ہوتا اور امید ورجاء کا بندھن مضبوط ہوتا ہے اس لئے ایمان وہی قابل تعریف قراردیا گیا ہے جو خوف و رجاء کے درمیان ہو۔انسان کے لئے اس کے سو اکوئی چارہ نہیں کہ وہ ہمیشہ درِ مولیٰ سے چمٹا رہے اور لرزاں و ترسا ں اسی کے حضور جھکارہے اوراس کی ناراضگی کے خوف سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاردے اسی کا نام تقویٰ ہے اور اسی میں انسان کی نجات ہے۔
رسول کریمؐ نے فرمایا دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی ایک وہ آنکھ جو اللہ کی خشیٔت میں روئے اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں حفاظت کرتے ہوئے بیدار رہے۔(ترمذی)1
حقیقی خشیئت یہی ہے کہ انسان محض اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور کامل توحید کا بھی یہی مطلب ہے ۔ ایک دفعہ رسول کریمؐ نے صحابہ کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ وہ کیسے؟آپؐ نے فرمایا اس طرح کہ کسی دینی بات یا للّٰہی کام میں وہ کوئی خامی یا خرابی محسوس کرتا ہے مگر اس پر وہ خاموش رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے روز پوچھے گا تم نے کیوں اپنی رائے کا اظہار نہ کیا وہ کہے گا لوگوں کے ڈر سے ایسا نہ کیا۔ اللہ فرمائے گا لوگوں کی نسبت میں اس بات کا زیادہ مستحق تھا کہ تم مجھ سے ڈرتے۔(ابن ماجہ)2
رسول کریمؐ نے اپنے صحابہ میں خشیئت الہٰی کی صفت پیدا کرنے کے لئے ایک دفعہ انہیں یہ کہانی سنائی کہ ایک شخص نے بوقت موت اپنے اہل خانہ کو وصیت کی کہ میری وفات کے بعد لکڑیاں جمع کرکے آگ جلانا جب میں جل کر راکھ ہوجائوں تو خاک سمند ر میں ڈال دینا۔ اولاد نے اس کی وصیت پر عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خاک جمع کی او راس سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کہا؟ اس نے عرض کیا اے میرے ربّ!تیرے ڈر اور خوف سے ایسا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب سن کر اسے بخش دیا۔(بخاری)3
سب سے بڑھ کر خدا ترس
ہمارے نبی ﷺ اوّل المؤمنین تھے اس لئے سب سے بڑھ کر اپنے مولیٰ کی خشیٔت آپؐ میں تھی جس کی وجہ سے آپؐ ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے تھے۔ ہرچند کہ پہلی وحی خدا کی طرف سے آپؐ پر ایک عظیم روحانی انعام تھا۔مگر آپؐ کے لئے یہ بھی مقام خوف تھا اس لئے حضرت خدیجہؓ سے آکر کہا لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ (بخاری4) مجھے تو اتنا ڈر پیدا ہواہے کہ اپنی جان کے لالے پڑگئے ہیں۔یہ ذمہ داری کا احساس بھی تھا اور انتہائی خشیٔت کا اظہار بھی۔
ایک دفعہ بعض صحابہ نے دنیا سے بے رغبتی کے اظہار کے طور پر عمر بھر شادی نہ کرنے، ساری ساری رات عبادت کرنے اورہمیشہ روزہ رکھنے کے عہد کئے۔ رسول کریمؐ نے انہیں اس بات سے روکا اور اپنے نمونہ پر چلنے کی طرف توجہ دلائی نیزفرمایا دیکھو میں نے شادی بھی کی ہے، رات سوتا بھی ہوں ،عبادت بھی کرتا ہوں،روزے رکھتابھی ہوں اوراس میں ناغہ بھی کرتاہوں۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! آپؐ کی کیا بات آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں ۔ان کا مطلب تھاہم کمزور اور گناہگار ہیں ہمیں زیادہ نیکیوں کی ضرورت ہے۔تب آپؐ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ اِنَّاَتْقَاکُمْ وَاَعْلَمَکُمْ بِاللّٰہِ اَنَا۔(بخاری5)کہ تم میں سب سے زیادہ اللہ کا تقوی اختیار کرنے والا اور اللہ کی معرفت رکھنے والا میں ہوں۔گویاسب سے زیادہ عمل کی مجھے ضرورت ہے اور نجات کے لئے میرے نمونہ کی پیروی تم پر لازم ہے اوریہی امر واقعہ ہے کہ ہمارے نبیؐہی سب سے زیادہ خدا ترس انسان تھے۔
نبی کریمؐ اکثر اپنی دعائوں میں یہ دعامانگا کرتے تھے کہ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر جمادے اور مضبوط کر دے۔صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ !آپؐ بھی یہ دعا کرتے ہیں حالانکہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں (اورہمیں ہدایت دینے والے) فرمایا ہاں! دل تو رحمان خدا کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے وہ جیسے چاہے اس کو پھیردے۔(ترمذی)6
آنحضورؐؐ کی خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو کھول کرسنا دیا کہ تمہارے عمل ہی تمہارے کام آئیں گے، میں یا میرے ساتھ تمہارارشتہ کچھ کام نہیں آئے گا۔(بخاری7) آپؐ فرماتے تھے کہ اللہ کی رحمت اورفضل نہ ہوتو میںبھی اپنی بخشش کے بارہ میں قطعیت سے کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا۔(بخاری)8
اللہ تعالیٰ کے غناء سے ہمیشہ آپ ؐ کو یہ خوف بھی دامنگیر رہتا تھا کہ نیک اعمال خدا کے حضور قبولیت کے لائق بھی ٹھہرتے ہیں یا نہیں؟جیساکہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ سچے مومن وہ ہیں جو اپنے رب کی خشیئت کے باعث ڈرتے رہتے ہیںاور اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیںاوریہ لوگ جب دیتے ہیں جو بھی وہ (خداکی راہ میں) دیں تو ان کے دل خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔(المؤمنون : 58تا61)
حضرت عائشہؓ کے دل میں ان آیات کے بارہ میں ایک سوال پیدا ہوا اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ،چوری (وغیرہ گناہ) کرتے اور پھر اللہ سے ڈرتے ہیں۔نبی کریم ﷺتوقرآن کی عملی تفسیر تھے۔آپؐ سے بڑھ کر کون اِن آیات کی حقیقت بیان کرسکتاتھا ۔آپ ؐنے کیا خوب فرمایا’’ اے صدّیق کی بیٹی! یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے اور صدقات دیتے ہیں مگر پھربھی ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نیکیاں غیر مقبول ہوکر ردّ ہوجائیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں سبقت کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘‘(ترمذی)9
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ مجھے جہنم کی آگ کا خیال آیاتومیں روپڑی۔ رسول کریمؐ نے رونے کا سبب پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ جہنم کی آگ کو یادکرکے روپڑی تھی پھرمعلوم ہوتاہے۔ اسی وقت حضرت عائشہؓ کو رسول اللہؐ اور آپؐ کی شفاعت کا خیال آیا۔ تو آپؐ سے پوچھنے لگیں کیا آپؐ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یادکریںگے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تین جگہوں پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔ ایک تو حساب کے وقت جب تک یہ پتہ نہ چل جائے کہ اس کا پلڑا ہلکا ہے یا بھاری؟ دوسرے اعمال نامہ دیئے جانے کے وقت۔جب تک یہ علم نہ ہوجائے وہ دائیں ہاتھ میں دیا جاتاہے یابائیں یا پیچھے سے اور تیسرے پُل صراط کے پاس جو جہنم کے سامنے ہوگی۔(احمد)10
خدا تعالیٰ کی ناراضگی اورپکڑ کا خوف
آنحضورؐ ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں آپؐ کا رحیم و کریم خدا آپؐ سے ناراض نہ ہوجائے۔ایک دفعہ حضور ؐ بیمار ہوگئے اور دو یا تین راتیں نماز تہجد کیلئے نہ اُٹھ سکے۔حضرت خدیجہؓ نے عرض کیایارسول اللہؐمیرے خیال میں آپؐ کے ساتھی(یعنی جبرائیل ؑ)کے نزول میں کچھ تاخیر ہوگئی ہے۔حضورؐ کو بھی طبعاً فکر ہوئی ہوگی۔چنانچہ سورۃ والضُّحٰے نازل ہوئی جس میں حضورؐ کو تسلی دیتے ہوئے یہ ارشاد ہے مَاوَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلیٰکہ تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں اور نہ وہ تجھ سے ناراض ہوا۔(بخاری)11
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ جب بادل یا آندھی کے آثار دیکھتے تو آپؐ کا چہرہ متغیّر ہوجاتا۔میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی۔مگر میں دیکھتی ہوں کہ آپؐ بادل دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا اے عائشہؓ ! کیا پتہ اس آندھی میں کوئی ایسا عذاب پوشیدہ ہو جس سے ایک گزشتہ قوم ہلاک ہوگئی تھی اور ایک قوم (عاد)ایسی گزری ہے جس نے عذاب دیکھ کر کہا تھاکہ یہ تو بادل ہے۔ برس کر چھٹ جائے گا۔ مگر وہی بادل اُن پردردناک عذاب بن کربرسا۔(بخاری)12
قرآن شریف کی جن سورتوں میںعذاب الہٰی کے نتیجہ میں بعض گزشتہ قوموں کی تباہی کا ذکرہے۔اُن کے مضامین کا حضورؐ کی طبیعت پر بہت گہرا اثر تھا۔ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ آپ کے بالوں میں کچھ سفیدی سی جھلکنے لگی ہے۔آپؐ نے فرمایا ہاں سورۃہود، سورۃ الواقعہ، سورۃ المرسلات، سورۃ النبااور سورۃ التکویر وغیرہ نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔(ترمذی)13
ایک دفعہ نبی کریمؐ ایک نوجوان کے پا س تشریف لائے جو جان کنی کے عالم میں تھا۔ آپؐ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا خدا کی قسم اے اللہ کے رسول ؐ ! میں اللہ سے نیک اُمید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا بھی ہوں۔ رسول اللہؐ نے فرمایایہ دونوں باتیں خوف ورجاء جس مومن بندے کے دل میں آخری وقت میںاس طرح اکٹھی پائی جائیں تو اللہ تعالیٰ اُسے اس کی اُمید کے مطابق ضرور عطاکرے گااور اس کے خوف سے اس کو امن عطافرمائے گا۔(ترمذی)14
احکام الہٰی کی بجاآوری
نبی کریم ؐ کے تقویٰ کا ایک اظہار اللہ کے احکام کی بجا آوری سے خوب ہوتا تھا جو رسول کریمؐ ایسی مستعدی سے کرتے تھے جسکی مثال نہیں ملتی۔چنانچہ جب سورۃ النصرمیں افواج کے اسلام میں داخلہ پر استقبال کی خاطر اللہ کی تسبیح وحمد اور استغفار کا حکم ہوا تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اس کے بعد رسول اللہؐ کی کوئی نمازخالی نہ جاتی تھی جس میں آپؐ یہ کلمات نہ پڑھتے ہوں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔اے اللہ تو پاک ہے اے ہمارے رب اپنی حمد کے ساتھ اے اللہ مجھے بخش دے۔(بخاری)15
رسول کریم ؐ احکام الہٰی کی پیروی میں تقویٰ کی انتہائی باریک راہوں کا خیال رکھتے تھے۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐسے سنا،حلال اور حرام واضح ہیں اور ان کے درمیان شبہ والی چیز یں ہیں جن کو اکثر لوگ جانتے نہیں، جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچتا ہے اس نے اپنا دین اور عزت بچالی، جو اِن شبہات میں پڑگیا وہ اُس چروا ہے کی طرح ہے جو ایک رَکھ( محفوظ چرا گاہ) کے اِرد گرد بکریاں چراتا ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی بکریاں اس چراگاہ کے اندر چلی جائیں گی۔ سنو ہر بادشاہ کی ایک رَکھ محفوظ جگہ ہوتی ہے اور اللہ کی رَکھ اس کی زمین میں اُس کی منع کردہ چیزیںہیں۔پھر سنو! جسم میں ایک ایسا عضو ہے کہ اگر وہ درست ہو تو سب جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجائے گا۔ اور یاد رکھو یہ دل ہے۔(بخاری)16
تقویٰ کی باریک راہوں کے اختیار کرنے اور شبہات سے بچنے کی چند مثالیں قابل ذکرہیں۔حضرت عقبہؓ بن حارث سے روایت ہے کہ اُنہوں نے ابواِھاب کی بیٹی سے شادی کی۔ ایک عورت نے آکر کہہ دیا کہ اس نے مجھے اورمیری بیوی کو دودھ پلایا ہے۔عقبہؓ نے کہا مجھے تو تم نے دودھ نہیں پلایا اور نہ ہی بتایا ہے۔ عقبہؓ حضورؐ کے پاس مکہ سے مدینہ یہ مسئلہ پوچھنے آئے۔ حضورؐ نے فرمایا اب جب یہ کہا جاچکا ہے اور شک پڑچکا ہے۔ پھر کیسے تم میاں بیوی رہ سکتے ہو؟ پھر حضورؐ نے ان کو جدا کردیا۔ عقبہ ؓ نے اور شادی کرلی۔(بخاری)17
حضرت ابو قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر حدیبیہ کے لئے نکلا آپؐ اوردیگر صحابہ تواحرام میں تھے مگر میںنے احرام نہیں باندھاتھا۔ دوران سفر میں نے ایک جنگلی گدھا دیکھااور حملہ کر کے اُسے شکار کرلیا اور حضورؐ کے پاس آکر عرض کیاکہ حضور! میں احرام سے نہیں تھا اس لئے آپؐ کی خاطریہ شکار کرلیا۔چونکہ مُحرم کا خودشکارکرنا یا اس کی خاطر کسی کا شکار مارنا بھی جائز نہیں۔حضورؐ نے میرے اس فقرہ کی وجہ سے کہ’’ میں نے آپؐ کی خاطر یہ شکار کیا ہے‘‘ اُس میں سے کچھ کھانا پسند نہ کیا البتہ اپنے صحابہ کو اس گوشت سے کھانے کی اجازت دے دی۔(ابن ماجہ)18
اللہ کے نام کی عظمت اور احترام
ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آکر رسول کریمؐ پراعتراض کیا کہ آپ لوگ کعبہ کی قسم کھاکرشرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہرچند کہ مسلمان خانہ کعبہ کے بارہ میں کوئی مشرکانہ تصورنہیں رکھتے۔ پھر بھی رسول کریمؐ نے ازراہِ احتیاط یہی ارشاد فرمایا کہ آئندہ سے قسم کی نوبت آنے پر کعبہ کی بجائے ربّ کعبہ کی قسم کھائی جائے۔(احمد)19
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی صحابی نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ’’مَاشَآئَ اللّٰہُ وَشِئْتَ‘‘کہ وہی ہوا یا ہوگا جو اللہ نے چاہا اور آپؐ نے چاہا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تم نے مجھے خدا کے برابر ٹھہرادیا۔ گویاصرف ماشاء اللہ کہو کہ یہی کامل توحیدہے۔ (احمد)20
آنحضرت ﷺ تو خدا کا نام درمیان آجانے سے ڈر جاتے تھے۔اُمیمہ بنت شراحیل وہ معزز خاتون ہیں جو قبیلہ بنو الجون نے آنحضورؐ سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے لئے آپؐ کی خدمت میںبھجوائی ۔آپؐ کاارادہ اُن کو اپنے عقد میں شامل کرنے کاتھا۔(اُس کی ملازمہ یاکسی نے اس بی بی کو کہہ دیا کہ پہلے دن ہی رسول اللہؐ پررعب جمالینا)۔ آنحضرتﷺ نے ایک باغ میں ان کے لئے خیمہ لگوایا ۔ جب آپؐان کے پاس خیمہ میں تشریف لے گئے توفرمایااپنے آپ کومیرے لئے ہبہ کردو۔ وہ بولی کیاکوئی شہزادی بھی ایک عام شخص کو اپنی ذات ہبہ کرتی ہے۔ حضورؐ نے اُسے مانوس کرنے کے لئے اُس کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہا تواُس نے کہا میں آپؐ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔آپؐ نے فرمایا تم نے بہت عظیم الشان ہستی کی پناہ مانگی ہے۔ پھرآپؐ نے طلاق دے کر اُسے آزاد کردیااور مال و متاع دیکرواپس اُس کے قبیلہ میں بھجوادیا۔ (بخاری)21
تقویٰ کی باریک راہیں
آنحضرتؐہر لحظہ اپنے رب سے ڈرتے رہتے تھے۔ فرماتے تھے کہ مَیںبسااوقات گھر میں ایک کھجوربستر پر پڑی پاتا ہوں ۔اٹھا کر کھانے لگتا ہوں پھر خیال آتا ہے کہ صدقہ کی نہ ہو اور جہاں سے اٹھائی وہیں رکھ دیتا ہوں۔(بخاری)22
رسول اللہؐ نے اپنی اولاد کی بھی اسی رنگ میں تربیت فرمائی اور ان کے دل میں بھی بچپن سے خوف خدا پیدا کیا۔ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ یا حسینؓ نے گھر میں کھجور کاایک ڈھیر دیکھا اور صدقہ کی ان کھجوروں میں سے ایک کھجور منہ میں ڈال لی۔نبی کریم ؐ نے دیکھ لیا۔انگلی بچے کے منہ میں ڈالی، کھجور نکال کر باہر پھینک دی اور فرمایا بچے! ہم آل رسولؐ ہیں۔ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔(بخاری)23
ایک دفعہ آنحضرتؐ نماز کے بعد خلاف معمول بڑی تیزی سے صحابہ کی صفیں چیرتے ہوئے گھر تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے تو ہاتھ میں سونے کی ایک ڈلی تھی۔ فرمایا کچھ سونا آیا تھا وہ مستحقین میں تقسیم ہوگیا۔ یہ سونے کی ڈلی تقسیم ہونے سے رہ گئی تھی۔ نماز میں مجھے خیال آیا تو اسے میں جلدی سے لے آیا ہوں تاکہ قومی مال میں سے کچھ ہمارے گھر میں نہ رہ جائے۔ طہارت نفس اور خوف ِ الہٰی کی یہ کیسی بے نظیر مثال ہے۔(بخاری)24
آنحضرتؐہر دم اللہ تعالیٰ کے غنا اور عظمت سے خائف رہتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے میں بسا اوقات ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوںاو ر اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔(بخاری)25
قرآن شریف میں انبیاء علیھم السلام کے قبولیت دعا کے تجارب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک مشترک خصوصیت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ ہم سے چاہت اور خوف سے دعاکرتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی سے جھکنے والے اور خشوع اختیار کرنے والے تھے۔ (سورۃ الانبیائ:91)سیدالانبیاء ﷺکی دعائوں میں بھی یہ کیفیّت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔
دعائوں میںگریہ وبکا
نبی کریم ؐخوف الہٰی سے اکثر گریہ و زاری کرتے دیکھے جاتے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جب آپؐ کے تین سو تیرہ نہتے ساتھیوں کا مقابلہ ایک ہزار کے مسلح جنگجو لشکر سے تھا ،آپؐ میدان بدر میں اپنے جھونپڑے میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہوکر رو رو کر دعائیں کر رہے تھے،حالانکہ اللہ کی طرف سے فتح و نصرت کے وعدے موجودتھے مگر آپؐ کی نگاہ اپنے مولیٰ کے غنا پر بھی تھی اسلئے سجدہ میں پڑے گریہ و زاری کررہے تھے۔بدن پر لرزہ طاری تھا۔کپکپاہٹ سے کندھوں پر سے چادر سرک کر گررہی تھی اور آپؐ اپنے مولیٰ سے یہ التجا کررہے تھے۔ اے اللہ!اگر آج اس مختصر سی جماعت کوتونے ہلاک کردیا تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔(مسلم)26
حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں آپؐ نے خشوع و خضوع خشیٔت اور ابتہال سے بھری ہوئی جو دعا کی، وہ آپؐ کے خوف و ابتہال اور خشیٔت کا بہترین شاہکار ہے۔آپؐ اپنے مولا کے حضور عرض کرتے ہیں۔
’’اے اﷲ تو میری باتوں کوسنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے ۔میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں ہے۔مَیں ایک بدحال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں ،تیری مدد اور پناہ کا طالب ،سہما اور ڈرا ہؤا،اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس (چلا آیا) ہوں مَیں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں (ہاں!) تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگار کی طرح زاری کرتا ہوں ۔ایک اندھے نابینے کی طرح (ٹھوکروں سے)خوف زدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں۔میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں ۔میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے ۔اے اﷲ! تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بدبخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا۔اے وہ! جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے میری دعا قبول کر لینا ۔‘‘(طبرانی)27
قرآن شریف میں ان مومنوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اور عاجزی اختیار کرتے ہیں۔آنحضرت ﷺ کی نماز خشوع کا بہترین نمونہ ہوتی تھی۔چنانچہ رکوع میں آپؐ یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے۔
’’میرے اﷲ ! تیری خاطر مَیں نے رکوع کیا اور تجھ پر ایمان لایا اور میں تیرا ہی فرمانبردار ہوں ۔اور تجھی پر میرا توکّل ہے ۔تو ہی میرا پروردگار ہے۔ میرے کان اور میری آنکھیں ، میرا گوشت اور خون، میری ہڈیاں اور میرا دماغ اور میرے اعصاب اس اﷲ کی اطاعت میں جُھکے ہوئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔‘‘
گریہ و زاری اور خشوع و خضوع کی یہ کیفیت آپؐ کی تنہائی کی نمازوں میں خاص طور پرپائی جاتی تھی۔صحابہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ خدا کے حضوراس طرح گڑ گڑاتے تھے کہ آپؐ کے سینے سے اس کی آواز سنی جاسکتی تھی جو ہنڈیا کے ابلنے کی آواز سے مشابہ ہوتی تھی۔ (نسائی)28
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضورؐ کو بستر سے غائب پایا تلاش کیا تو مسجد میں تھے۔(اندھیرے میں)میرا ہاتھ آپؐ کے پائوں کے تلوے کو چھوگیا ۔آپؐ کے پائوں زمین پرگڑے ہوئے تھے اورسجد ے کی حالت میں مولیٰ کے حضورآپؐ یہ زاری کررہے تھے۔
’’اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔ میںخالص تیری پناہ چاہتا ہوں۔میں تیری تعریف شمار نہیں کرسکتا بے شک تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے خوداپنی تعریف آپ کی ہے۔‘‘(ابن ماجہ)29
حضرت مطّرفؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیںکہ میں نے رسول خداؐ کو نماز پڑھتے دیکھا۔گریہ وزاری اور بکاء سے یوں ہچکیاں بندھ گئی تھیں گویا چکی چل رہی ہے اور ہنڈیا کے اُبلنے کی آواز کی طرح آپؐ کے سینہ سے گڑ گڑاہٹ سنائی دیتی تھی ۔(ابودائود)30
حضرت عبداللہؓبن عمر حجۃ الوداع کا یہ خوبصورت منظر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے حجر اسود کی طرف منہ کیا۔پھر اپنے ہونٹ اس پر رکھ دیئے اور دیر تک روتے رہے۔پھر اچانک توجہ فرمائی توحضرت عمر بن الخطابؓ کو (پہلو میں کھڑے) روتے دیکھا اور فرمایا اے عمر! یہ وہ جگہ ہے جہاں (اللہ کی محبت اور خوف سے) آنسو بہائے جاتے ہیں۔(ابن ماجہ)31
حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا کہ رسول کریم ﷺ کی کوئی بہت پیاری اور خوبصورت سی بات سنائیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا ان کی تو ہر ادا ہی پیاری تھی۔ایک رات میرے ہاں باری تھی۔ آپؐ تشریف لائے اور میرے ساتھ بستر میں داخل ہوئے۔ آپؐ کا بدن میرے بدن سے چھونے لگا۔پھر فرمانے لگے اے عائشہؓ ! کیا آج کی رات مجھے اپنے رب کی عبادت میں گزارنے کی اجازت دو گی۔میں نے کہا مجھے توآپؐ کی خواہش عزیز ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں پھر آپؐ اٹھے ، مشکیزہ سے وضو کیا، اورنماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھنے لگے۔پھر رونے لگے یہاں تک آپؐ کے آنسوئوں سے دامن تر ہوگیا ۔پھر آپؐ نے دائیں پہلو سے ٹیک لگائی۔ دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر کچھ توقّف کیا۔ پھر رونے لگے یہاں تک کہ آپؐ کے آنسوئوں سے زمین بھیگ گئی۔صبح بلالؓ نماز کی اطلاع کرنے آئے تو آپؐ کو روتے پایا اور عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ!آپؐ بھی روتے ہیں؟ حالانکہ اللہ نے آپؐ کو بخش دیا۔فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
پھر فرمانے لگے میں کیوں نہ روئوں جبکہ آج رات مجھ پر یہ آیات اتری ہیں اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ َوالْارْضِ وَ اخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ۔آپؐ نے آل عمران کے آخری رکوع کی یہ آیات پڑھیں اور فرمایا ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس نے یہ آیات پڑھیں اور ان پر غور نہ کیا۔ (سیوطی)32
عہد نبوی ؐ میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا۔رسول اللہ ؐ نماز کسوف پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے۔بڑے لمبے رکوع اور سجدے کئے ۔آپؐ اس قدر روتے جاتے تھے کہ ہچکی بندھ گئی ۔اس حال میںرو رو کر یہ دعا کر رہے تھے۔
’’میرے رب! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا کہ جب تک میں ان لوگوںمیں ہوں تو انہیں عذاب نہ دے گا۔کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا کہ جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے تو ان پر عذاب نازل نہ کرے گا۔پس ہم استغفار کرتے ہیں۔‘‘(توہمیںمعاف فرما)۔(سیوطی)33
رسول کریمؐ اس وقت تک یہ دعا کرتے رہے جب تک سورج گرہن ختم نہ ہوگیا۔
خشیئت کی اس کیفیت کے باوجود رسول کریم ﷺ کی خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے مولیٰ کے حضور مناجات میں اس کا تقویٰ اور خشیئت مانگا کرتے۔ کبھی کہتے ’’اے اللہ میرے نفس کو اپنا خوف اور تقویٰ نصیب کردے اور اسے پاک کردے۔ تجھ سے بڑھ کر کون اسے پاک کرسکتا ہے؟ توہی اس کا دوست اور آقا ہے۔‘‘(مسلم)34
کبھی یہ دعا کرتے ’’اے اللہ اپنی وہ خشئیت ہمیں عطاکر جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہوجائے۔‘‘(ترمذی)35
تلاوت قرآن اور خشیٔت الہٰی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے۔جب ان پر رحمان خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے خدا کے حضور ٹھوڑیوں کے بل سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اللہ خشوع میں انہیں اور بڑھا دیتا ہے۔(بنی اسرائیل:110)دوسری جگہ فرمایا کہ قرآن کا کلام سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔(سورۃ الزمر:24)
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کون اس مضمون کا مصداق ہوسکتا ہے جو سب سے بڑھ کر خدا ترس تھے۔قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے آپؐ کی کیفیت بھی یہی ہوتی تھی۔
کلام الہٰی سن کر آپؐ پر رِقّت طاری ہوجاتی اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک روز آپؐ نے فرمایا قرآن سنائو! جب وہ اس آیت پر پہنچے فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُ لٓائِ شَھِیْدًا (النسائ:42) تو آپ ؐ تاب نہ لا سکے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی بہہ نکلی۔ہاتھ کے اشارے سے فرمایا بس کرو۔(بخاری)36
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب (سورۂ نجم کی آخری) آیت اتری۔ اَفَمِنْ ھٰذَاالْحَدِیْثِ تَعْجَبُونَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ ۔ یعنی کیا تم اس بات (یاکلام) سے تعجب کرتے ہو۔ اور ہنستے ہو روتے نہیں تو رسول اللہؐ کے وہ غریب صحابہ جن کا مسجد نبوی کے چبوترے پر بسیرا ہوتا تھااوراصحاب صُفّہ کہلاتے تھے، بہت روئے۔ یہاں تک کہ ان کے آنسو سے رخسار بھیگ گئے۔ رسول کریمؐ نے ان کی آہ وزاری سنی تو ان کے ساتھ مل کررونے لگے۔ ابوھریرہؓ کہتے ہیں ہم حضورؐ کو روتا دیکھ کر اور رونے لگے۔ تب آپؐ نے فرمایا جو شخص اللہ کی خشیٔت سے رویا وہ آگ میں داخل نہ ہوگا۔(بیہقی وقرطبی)37
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گر گئے۔پھر بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی ہر دفعہ آپؐ روتے روتے گر پڑتے۔ آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔(ابن الجوزی)38
کبھی آپؐ روتے روتے خدا کے حضورعرض کرتے۔’’اے اللہ مجھے آنسو بہانے والی آنکھیں عطاکر جوتیری خشیئت میں آنسوئوں کے بہنے سے دل کوٹھنڈا کردیں، پہلے اس سے کہ آنسو خون اور پتھر انگارے بن جائیں۔‘‘(طبرانی)39
قصہ مختصر اس فانی فی اللہ کی خشیئت اور خوف الہٰی سے لبریزاندھیری راتوں کی یہی دلدوز چیخ و پکار اور دعائیں ہی توتھیں جنہوں نے عرش الہٰی کو ہلا کر رکھ دیا اوریک دفعہ سرزمین عرب میں ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہوا کہ پہلے اس سے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سُنا۔
حوالہ جات
1
ترمذی کتاب فضائل الجہاد باب ماجاء فی فضل الحرس فی سبیل اللہ:1639
2
ابن ماجہ کتاب الفتن باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر
3
بخاری کتاب الا نبیاء باب مایذکرعن بنی اسرائیل
4
بخاری باب کیف کان بدء الوحی
5
بخاری کتاب الایمان باب قول النبی ؐ انا اعلمکم باللہ :19
6
ترمذی کتاب القدر باب ماجاء ان القلوب بین اصبعی الرحمان:2006
7
بخاری کتاب الوصایا باب ھل یدخل النساء والولدفی الاقارب:2548
8
بخاری کتاب المرضی باب تمنی المریض الموت:5241
9
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب سورۃ المؤمنون :3099
10
مسند احمد جلد1ص101
11
بخاری کتاب التفسیر سورۃ والضحیٰ
12
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحقاف باب قولہ فلما رأوہ عارضا مستقبل اودیتھم
13
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب من سورۃ الواقعہ:3219
14
ترمذی کتاب الجنائز باب ماجاء ان المؤمن یموت بعرق الجبین:905
15
بخاری کتاب الاذان باب الدعاء فی الرکوع:752
16
بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدینہ
17
بخاری کتاب العلم باب الرحلۃ فی المسٔلۃ النازلۃ
18
ابن ماجہ کتاب المناسک باب الرخصۃ فی ذلک ان لم یصدلہ :3084
19
مسنداحمدجلد6ص372
20
مسنداحمدجزاول ص354طبع جدیدہ داراحیاء التراث العربی بیروت
21
بخاری کتاب الطلاق باب من طلق وھل یواجہ الرجل امرا تہ بالطلاق:4853
22
بخاری کتاب اللقطۃ باب اذا وجدتمرۃ فی الطریق:2252
23
بخاری کتاب الزکاۃ باب اخذ الصدقۃ التمر:1390
24
بخاری کتاب الزکوۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ:1340
25
بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبیؐ فی الیوم واللیلۃ :5832
26
مسلم کتاب الجہاد باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر:3309
27
المعجم الکبیرلطبرانی جلد11ص174بیروت
28
نسائی کتاب السہو باب البکاء فی الصلوۃ
29
ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ باب ماجاء فی القنوت:1169
30
ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب البکاء فی الصلوۃ: 157
31
ابن ماجہ کتاب المناسک باب استلام الحجر:2945
32
الدرالمنثورللسیوطی جلد27:6جز 4ص409دارالفکر بیروت
33
الدرالمنثورللسیوطی جز9ص59دارالفکر بیروت
34
مسلم کتاب الذکر باب التعوذ من شر ماعمل:4899
35
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح
36
بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقریٔ للقاری حسبک:4662
37
بیھقی شعب الایمان جلد1ص479،جامع الاحکام القرطبی جلد17ص86
38
الوفاباحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص549بیروت
39
کتاب الدعاء جلد3ص1480از علامہ طبرانی مطبوعہ بیروت
ذکر الہٰی اور حمد و شکر میں اسوۂ رسولؐ
کہتے ہیں کہ انسان جس چیز سے محبت کرتا ہے وہ اس کا بہت ذکر کرتا ہے اور ہمارے نبی حضرت محمدؐ کی تو پہلی اور آخری محبت اللہ تعالیٰ کی ذات تھی۔عین عالم جوانی میں آپؐ دنیا کی دلچسپیوں سے بیزار غارحرا کی تنہائیوں میں جاکر اس محبوب حقیقی کو ہی تو یاد کرتے تھے۔ اسی میں آپؐ کی زندگی کاسارا لطف تھا۔آپؐ کی یہ وارفتگی دیکھ کر اہل مکّہ بھی کہتے تھے کہ محمدؐ تو اپنے رب پر عاشق ہوگیا ہے۔
مگر امر واقعہ یہ ہے آپؐ فنافی اللہ کے اس مقام پر تھے جہاں انسان اپنا وجود بھی فراموش کر بیٹھتا ہے اور محویت کے اس عالم میں صرف اللہ کی یاد باقی رہ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق نبی کریم ؐہر لحظہ و ہر آن خدا کو یاد رکھتے تھے۔(مسلم)1
یادالہٰی میں شغف
دن ہو یا رات ،خلوت ہویا جلوت عالم خواب ہو یا بیداری کبھی بھی آپؐاپنے ربّ کی یاد نہیں بھولے۔فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے میں بعض دفعہ ستّر سے بھی زائد مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔(ابودائود)2
صوفیاء نے ’’دست درکار و دل بایار‘‘ کے محاورہ میں عشق کے جس مقام کا ذکر کیا ہے کہ ہاتھ کام میں لگے ہوںمگر دل یار کے ساتھ ہو۔ظاہر ہے اُس کا تعلق بیداری کی حالت سے ہی ہے۔ مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو اس سے بھی کہیں آگے تھا کہ سوتے ہوئے بھی آپؐ کا دل یاد الہٰی سے معمور ہوتا تھا۔فرماتے تھے میری آنکھیں جب سوجاتی ہیں تو بھی دل نہیں سوتا۔(بخاری)3
گویا ذکر الہٰی آپؐ کے دل کی غذا تھا۔جیسے جسم کاانحصار دوران خون اور عمل تنفس پر ہے۔ آپؐ کی روح کا دارومدار ذکر الہٰی پر تھا۔ دن بھر میں قضائے حاجت کے ہی چند لمحے ہوں گے جن میں اللہ کے ذکر کی عظمت اور احترام کے باعث آپؐ اس سے رُک جاتے ہوں، شاید اِسی لئے قضائے حاجت سے فارغ ہوکر آتے تو غُفْرَانَکَ کی دعا کرتے تھے کہ اے اللہ تیری بخشش کا طلبگار ہوں۔ (ترمذی4) اس میں بھی یہ راز تھاکہ چند لمحے بھی کیوں یادالہٰی میں روک بنیں۔
انسانی زندگی کاایک لمحہ بھی اپنے خالق و مالک کی توفیق اور احسان کے بغیر ممکن نہیں بلکہ محتاج محض ہے جبکہ صفت رحمانیت کے تحت بغیر کسی تقاضا کے اللہ تعالیٰ کے فیضان عام اور عنایات کے لا محدود سلسلہ نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔پھر صفت رحیمیت کے طفیل انسان کی محنت کے اجر کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی جاری وساری ہے اور اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں اور احسانات نے اس طرح انسان کو گھیر رکھا ہے کہ بے اختیار انسان کو اس قرآنی آیت کے آگے سر جھکانا پڑتا ہے کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو شمار نہیں کرسکو گے۔(سورۃ ابراھیم:15) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے بندوں پر افسو س بھی کیا ہے کہ ان میں سے بہت کم شکر ادا کرنے والے ہوتے ہیںوہاں حقِ شکر ادا کرنیوالوں کا تعریف کے ساتھ ذکر فرمایاہے۔
شکرِنعمت
حضرت نوح ؑکی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ وہ عبدِشکور تھے۔(سورۃ الاسرائ:171)یعنی اللہ تعالیٰ کے بہت شکر گزار بندے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے بارہ میں فرمایا کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔(سورۃ النمل:122) پھر آنحضرتؐ کوارشاد ہوتا ہے کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور شکر کرنے والے بندوں میں شامل ہوجائیں۔(سورۃ الزمر:40)
اللہ تعالیٰ کا اپنے شکر گزار بندوں سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں اور زیادہ نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے واقعی حقِ شکر ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات سے حصہ پایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپؐ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔(سورۃ النسائ:114)
رسول اللہؐ کی یاد الہٰی کی اصل معراج آپؐ کی نمازتھی۔ جس میں آپؐ کی آنکھوں اور دل کی ٹھنڈک تھی۔(نسائی)5
عام لوگوں کا دل نماز میں نہیں لگتا اورنماز کے دوران بھی خیالات کہیں اور ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس نبی کریمؐ کا دل نماز کے علاوہ اوقات میں بھی نماز میںہی اٹکا ہوتا تھا۔اللہ کو اتنا یاد کرنے کے بعدبھی آپؐ اپنے رب کے حضور یہ دعا کرتے تھے کہ رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَاکِرًا لَکَ شَاکِرًا۔(ابودائود)6
یعنی’’ اے میرے رب مجھے اپنا ذکر کرنیوالا اور اپنا شکر کرنیوالا بنائیو۔‘‘ کیونکہ شکر بھی دراصل ذکر الہٰی اور محبت کے اظہار کا ایک خوبصورت اسلوب ہے۔اور ذکر کی ایک بہترین شکل حمدوثنا ہے۔
آپؐ کی نماز مجسم شکر انہ ہوتی تھی جو الحمدللہ کہہ کر اللہ کی حمد سے شروع ہوتی۔ اس کا وسط بھی سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ کہہ کر حمد کثیر پر مشتمل ہوتا تو اس کی انتہاء اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ کی جامع حمد پر ہی ہوتی تھی۔آپ ؐکے رکوع و سجود بھی اسی حمد الہٰی سے لبریز ہوتے تھے جن میں آپؐ عرض کرتے ’’اے اللہ تو پاک ہے اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ۔‘‘(بخاری)7
رکوع سے اٹھ کر پھر یہ حمد باری یوں ٹھاٹھیں مارتی جیسے بے قرار سمندر۔آپؐ عرض کرتے اے اللہ ہمارے رب! سب تعریفیں تجھی کو حاصل ہیں۔یہ حمد کر کے بھی آپؐ کاجی سیر نہ ہوتا تو کہتے تیری اتنی تعریفیں کہ جس سے سارے آسمان اور زمین بھر جائیں اور اس کے بعد جو چیز تو چاہے وہ بھی بھر جائے۔(مگر تیری حمد ختم نہ ہو)۔اے تعریف اور بزرگی کے لائق ہستی! بندہ جتنی تیری تعریف کرے تو اس کا مستحق ہے اور ہم سب تیرے بندے ہی تو ہیں۔(مسلم)8
فرض نمازوں کے علاوہ نوافل میں آپؐ کے شکرانے کا یہ عالم تھا کہ پوری پوری رات خدا کے حضور عبادت میں گزارردیتے یہاں تک کہ پائوں سوُج جاتے۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں تو کیا خوب جواب دیا اَفَلاَ اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًاکہ میں عبدشکور یعنی خدا کا انتہائی شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(بخاری)9
محبت الہٰی اورذکر و شکر سے بھری اس نماز سے فارغ ہوکر آپؐ یاد خدا کو بھولتے نہیں تھے بلکہ یہ دعا کرتے تھے۔اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَ شُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔(ابودائود)10
اے اللہ! مجھے اپنے ذکر،اپنے شکر اور خوبصورت عبادت کی توفیق عطا فرما۔اس دعا کی قبولیت عملی زندگی میں لمحہ بہ لمحہ آپؐ کے ہمر کاب نظر آتی ہے۔ رات کا کچھ حصّہ آرام کر کے اٹھتے تو پہلا کلمہ جو آپؐ کی زبان پر جاری ہوتا وہ اللہ کی حمد اور شکر کا کلمہ ہوتا ۔آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور اقرار کرتے کہ تمام تعریف اس خدا کی ذات کیلئے ہے جس نے نیند جیسی موت کے بعد ہمیں پھر سے زندگی دی اور بالآخر تو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(بخاری)11
روکھی سوکھی پر گزارا کرتے ہوئے بھی کھانے کے بعدرسول اللہؐ کے شکر گزار دل سے بے اختیار حمد اور تشکر کے جذبات نکلتے تھے۔فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت راضی اور خوش ہوتا ہے۔ جو ایک لقمہ بھی کھاتا ہے تو اللہ کی حمد اور تعریف کرتا ہے۔ پانی پیتا ہے تو اس پر بھی اللہ کی حمد کرتا ہے۔چنانچہ کھانے کے بعد آپؐ دعا کرتے اس خدا کی تمام تعریف ہے جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پانی پلایا اور ہمیں اپنا فرما نبردار بندہ بنایا۔(ترمذی)12
یعنی شکر کی یہ توفیق دی گویا توفیق شکر ملنے پر بھی ایک شکرانہ ادا کرتے تھے۔الغرض ذکر الہٰی آپؐ کے وجود کا جزو لاینفکّ تھا۔
قضائے حاجت سے فارغ ہوجانے پر بھی اللہ کا شکر ہی بجالاتے اور عرض کرتے تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مضر چیز مجھ سے دور کردی مجھے تندرستی عطا کی اور غذا کے نفع بخش مادے میرے جسم میں باقی رکھ لئے۔(ابن ماجہ)13
رات کو بستر پر جاتے ہوئے دن بھر میں ہونیوالی اللہ کی نعمتوں کا شکر یوں ادا کرتے کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ پر اپنا احسان اور فضل کیا اور مجھے عطا کیا اور بہت دیا اور ہر حال میں اللہ ہی کی حمد و ثناہے۔ (ابودائود))14
رسول کریمؐ نے فرمایا جو شخص صبح کے وقت یہ کہتا ہے اے اللہ تیری جو نعمت اس وقت مجھے حاصل ہے وہ محض تیری طرف سے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ وہ شخص اس دن کا شکر ادا کرتا ہے اور جو شام کو یہ کلمات کہتا ہے اس نے اپنی رات کا شکر ادا کیا۔(ابودائود)15
رسول کریمؐ جب کوئی نیا کپڑا زیب تن فرماتے تو اللہ کی حمد بجالاتے۔(ترمذی)16
موسم گرما میںجب کبھی عرصہ کے بعد بارش ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر شکر سے خدا کے حضور جھک جاتا، آپؐ اپنے سر سے کپڑا وغیرہ ہٹادیتے اور ننگے سر پر بارش لیتے اور فرماتے یہ میرے رب سے تازہ تازہ آئی ہے۔( احمد)17
جب آپؐ کی دعا بارگاہ الہٰی میں قبولیت کا درجہ پاتی یا کوئی نیک کام انجام کو پہنچتا تو کسی فخر کی بجائے اللہ کی حمد بجالاتے اور کہتے تمام تعریف اس خدا کی ہے جس کے جلال و عظمت سے ہی نیک کام انجام کو پہنچتے ہیں۔(حاکم)18
اپنے یہودی غلام کی عیادت کو گئے اس کا آخری وقت دیکھ کر اسے کلمہ پڑھنے کو کہا اور جب اس نے پڑھ لیا تو بے اختیار آپ کی زبان پر یوں حمد باری جاری ہوئی کہ اس خدا کی تعریف ہے جس نے ایک روح کو آگ سے بچا لیا۔(بخاری)19
سجداتِ شکر
کوئی خوشی کی خبر آتی تورسول کریمؐ فوراً خدا کے حضور سجدہ میں گر جاتے اور سجدہ تشکّر بجالاتے۔(خطیب وابودائود)20
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے۔جب ہم عزوراء مقام پر پہنچے وہاں حضورؐ اترے۔آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور کچھ وقت دعا کی۔پھرحضورؐ سجدے میں گر گئے۔لمبی دیر سجدے میں رہے۔پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی۔پھر سجدے میں گر گئے۔آپؐ نے تین دفعہ ایسے کیا۔پھر آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے یہ دعا مانگی تھی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دی۔ میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدے میں گر گیا اور سر اُٹھاکر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزیدایک تہائی اپنی امت کی شفاعت کیلئے اجازت مرحمت فرمائی۔میں پھر شکرانے کا سجدہ بجالایا۔ پھر سر اُٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لئے مجھے اجازت عطافرما دی اور میں اپنے رب کے حضورسجدۂ شکر بجالانے کے لئے گر گیا۔(ابودائود)21
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہوکر سجدے میں گرگئے اور بہت لمبا سجدہ کیا۔یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپؐ کی روح قبض کرلی ہے۔میں آپؐ کے قریب ہوا تو آپؐ اُٹھ بیٹھے اور پوچھا کون ہے؟میں نے عرض کیا عبدالرحمن۔ فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ! آپؐ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہواکہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح تو قبض نہیں کرلی۔آپؐ نے فرمایا میرے پاس جبریل ؑ آئے تھے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے حق میں فرماتا ہے کہ جوا ٓپ ؐ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کرونگا اور جو آپؐ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔یہ سُن کر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالایا ہوں۔(احمد)22
اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی مکہ کی فتح کے موقع پر آپؐ اپنی اونٹنی پر بیٹھے تھے اور سر جھک کر پالان کو چھُو رہا تھا ۔آپ ؐ سجدۂ تشکر بجالاتے ہوئے یہ دعا پڑھ رہے تھے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ اے اللہ تو پاک ہے اپنی حمد اور تعریف کے ساتھ۔اے اللہ مجھے بخش دے۔(ابن ہشام)23
شکرکے نئے گوشے
نبی کریم ﷺ کے شکراداکرنے کا ایک لطیف پہلو یہ ہے کہ آپؐ شکر کے نئے گوشے تلاش کرتے تھے۔محض نعمتوں اور احسانوں اور کامیابیوں پر ہی آپ اللہ کا شکر نہیں کرتے تھے بلکہ گردش زمانہ اور مصائب سے محفوظ رہنے پر بھی اللہ کی حمد بجالاتے تھے۔ ہر مصیبت زدہ آپؐ کو اس شکر کی یاد دلاتا تھا۔چنانچہ کسی معذور یا مصیبت زدہ کو دیکھ کر جہاں انسانیت کے ناطہ سے آپ کے دل میں اس کے لئے درد پیدا ہوتا تھا وہاں آپؐ اللہ کا شکر بھی کرتے تھے کہ اس خدا کی تعریف ہے جس نے ہمیں اس مصیبت سے بچاکر صحت وتندرستی عطا کی اور اپنی بیشتر مخلوق پر فضیلت عطا فرمائی۔(ترمذی)24
رسول کریمؐ حمد باری کے نئے او رنرالے انداز ڈھونڈنکالنے کا ایک واقعہ اُمّ المؤمنین حضرت جُویریہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک روز صبح کی نماز کے وقت حضورؐ میرے پاس سے گئے تو میں اپنے مصلّے پر تھی۔ دن چڑھے واپس لوٹے تو بھی مجھے مصلّے پر پایا اور پوچھا کہ تم صبح سے اس حال میں یہاں بیٹھی ہو؟ میں نے کہاجی ہاں۔آپؐ نے فرمایا میں نے اس کے بعد صرف چار کلمات تین مرتبہ دہرائے ہیں۔ اگر ان کا موازنہ تمہارے اس سارے وقت کے ذکرو تسبیح سے کیا جائے تو وہ کلمے بھاری ہوں اور وہ یہ کلمے ہیں۔
سُبحَانَ اﷲِ عَدَدَ خَلقِہٖ سُبحَانَ اﷲِ رِضَا نَفسِہٖ سُبحَانَ اﷲِ زِنَۃَ عَرشِہٖ سُبحَانَ اﷲِ مِدَادَ کَلِمَاتِہٖ ۔
.968اﷲ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کی مخلوق ہے ۔اﷲ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کی ذات یہ بات پسند کرتی ہے ۔اﷲ پاک ہے اُس قدرجس قدر اُس کے عرش کا وزن ہے (یعنی بے انتہا) ۔اﷲ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کے کلمات کی سیاہی ہے۔(مسلم )25
اپنی ایک مناجات میںآپؐ اپنے مولیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں ۔
’’تیرانور کامل ہے تو نے ہی ہدایت فرمائی سب تعریف تیرے لئے ہے، تیرا حلم عظیم ہے۔ تو نے ہی بخشش عطاکی پس کامل حمد تجھے ہی حاصل ہے۔تیرے ہاتھ فراخ ہیں۔ تو نے ہی سب عطا کیا پس کامل حمد تجھے ہی حاصل ہے۔اے ہمارے رب تیرا چہرہ سب چہروں سے زیادہ قابل عزت ہے اور تیری وجاہت تمام وجاہتوں سے بڑھ کر ہے۔تیری عطا تمام عطائوں سے افضل اورشیریں ہے۔ اے ہمارے رب! جب تیری اطاعت کی جاتی ہے تو تُو قدردانی کرتا ہے اور تیری نافرمانی ہو تو بھی تیری بخشش میں فرق نہیں آتا۔ تو ہی ہے جو مجبور اور لاچار کی دعا سنتا اور تکلیف دور کرتا ہے، بیمار کو صحت عطافرماتا، گناہ بخشتا اور توبہ قبول کرتا ہے۔ کوئی نہیں جو تیری نعمتوں کا بدلہ اتار سکے اور تیری تعریف تک کسی مدحت گر کی زبان رسائی نہیں پاسکتی۔ (شوکانی) 26
اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ ؐ کی حمد و ستائش کے اداکئے ہوئے یہ نغمے ایسے پسند آئے کہ اس نے فیصلہ فرمایا کہ قیامت کے روز جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور ہر شخص کسی پناہ کی تلاش میں ہوگاتو رسول اللہؐ کو’’مقام محمود ‘‘یعنی حمد باری کے انتہائی مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے حمد کا جھنڈا عطا کیا جائے گا۔(ترمذی)27
آپؐ کی صفت احمد کی شان اس رنگ میں ظاہر ہوگی کہ آپؐ پر حمد کے نئے مضامین کھولے جائیں گے اورخدا کے لئے تعریفی کلمات سکھائے جائیں گے۔
پھرآپؐ سجدہ ریز ہوکر وہ حمدباری بجالائیں گے جسکے جواب میں آپؐ کو یہ انعام ملے گا کہ اے محمدؐ! آج جو مانگیں گے آپؐ کو عطا کیا جائیگا۔تب آپؐ اپنی امت کی شفاعت کی دعا کریں گے۔ اور یہ حمد الہٰی کی ایک عظیم الشان برکت ہے جو آپؐ کو نصیب ہوگی۔(بخاری)28
حمد باری کے حریص
رسول اللہ ؐتواپنے رب کی حمد کے حریص تھے۔ اللہ کی حمد اور شکرکے ایسے اعلیٰ ذوق اور توفیق کے بعد پھربھی اگر کسی کو حمد باری کرتے ہوئے سن لیتے تو اس پر رشک کرتے۔(احمد)29
مشرک شاعر امیہ بن صلت کا حمد باری پر مشتمل ایک شعر جب آپؐ نے سنا تو دل پھڑک اٹھا۔فرمانے لگے امیہ کا شعر تو ایمان لے آیا مگر خود اسکو ایمان کی توفیق نہ ملی۔دل کافر ہی رہا۔شعر یہ تھا:۔
َلَکَ الْحَمْدُ وَالْنَّعْمَائُ وَالْفَضْلُ رَبَّنَا
فََلاشَیْیَٔ اَعْلیٰ مِنْکَ حَمْدًا وَّاَمْجَدًا
یعنی اے ہمارے رب! سب تعریفیں تیرے لئے ہیں ،احسان اور فضل بھی تیرے ہیں کوئی چیز حمد اور بزرگی سے تجھ سے بڑھ کر نہیں۔(کنز)30
لبیدعرب کا مشہو ر شاعر تھاجس کا بلند پایہ کلام خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا ۔مگر رسول اللہؐ کو اس کے سارے کلام سے جو شعر پسند آیاوہ اللہ کی عظمت کے بارہ میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ سب سے سچی بات جو لبید نے کہی وہ اسکے شعر کا یہ مصرع ہے۔
اَلَا کُلُّ شَی ئٍ مَّاخَلَا اللّٰہَ بَاطِل‘
کہ سنو! اللہ کے سوا ہر چیز بالآخر فنا ہونیوالی ہے۔(بخاری)31
پس سچی بات تویہ ہے کہ رسول اللہؐ سے بڑھ کر آج تک اللہ کی کوئی حمد کرنیوالا پیدا نہیں ہوا۔اسی لئے تو الہٰی نوشتوں میں آپ ؐکا نام ’’احمد‘‘ رکھا گیا تھا کہ سب سے بڑھ کر خدا کی حمد کرنیوالا ۔ اسی حمد باری کے صدقے آپؐ محمدؐ کہلائے اور آپؐ کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی۔
جذبۂ شکر اور قدردانی
دراصل شکر ایک جذبہ ہے جو احسان کے نتیجہ میں ایک قدردان دل کے اندر پیدا ہوتا ہے۔انسان میں اس جذبہ کا ہونا اللہ کی سچی حمداور شکراداکرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ فرماتے تھے کہ جو لوگوں کے احسانوں کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔(ترمذی32)کیونکہ اسے شکر کی نیک عادت ہی نہیں یا یہ جذبہ سرد پڑچکا ہے۔
آنحضرت ﷺنے شکریہ ادا کرنے کا طریق بھی اپنی امت کو سمجھایا۔ حضرت اسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہؐ نے فرمایا کہ جس شخص سے کوئی نیکی کی جائے تو وہ اس نیکی کرنے والے سے یہ کہے جَزَاکَ اللّٰہ ُخَیْراً کہ اللہ تعالیٰ تجھے بہترین جزا دے تو اس شخص نے تعریف کا حق ادا کردیا۔(ترمذی)33
آپؐ فرماتے تھے کہ جو شخص تمہارے ساتھ نیکی کرے اس کا بدلہ دو اور اس کی طاقت نہیں تو اس کے لئے دعا کیا کرو اتنی دعا کہ تم جان لو کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ اُتار دیا ہے۔(ابودائود)34
انسانوں کا شکر
ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ تو بدی کا بدلہ بھی نیکی سے دینے کے عادی تھے ۔
آپؐ فرماتے تھے کہ اگر کسی کو کوئی تحفہ دیا جائے تو چاہیے کہ اس کا بدلہ دے اگر اس کی توفیق نہ ہو تو اس کی تعریف ہی کرے جس نے اس کی تعریف کی اس نے اس کا شکر کیا۔ اور جس نے شکرانے کا اظہار نہ کیا اس نے ناقدری کی۔(ابودائود)35
جہاں تک نیکی کے بدلہ کا تعلق ہے رسول کریمؐ قرآن شریف کی اس آیت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھیمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراًیَّرَہ‘۔(سورۃ زلزال:8) یعنی جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی اس کا بدلہ بھی پائے گا۔بلکہ بعض دفعہ بظاہر معمولی نیکی کاغیر معمولی بدلہ عطا فرماتے۔ ایک دفعہ آپؐ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو آپؐ کے کم سن چچازاد بھائی عبداللہ بن عباسؓ نے وضو کے لئے پانی بھر کر رکھ دیا۔آپؐ نے آکر پوچھا کہ یہ کس نے رکھا ہے اور پھر معلوم ہونے پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے لئے یہ دعا کی کہ اے اللہ ان کوقرآن اور حکمت سکھا۔ (بخاری۔36) اوران کو دین کی گہری سمجھ عطا کر۔اس دعا نے حضرت عبداللہؓ بن عباس کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔(بخاری)37
نبی کریم ؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو انصار مدینہ نے خدمات کی سعادت پائی۔بعض نے کھجور کے درخت پیش کردیئے۔اسکے بعد جب بنو قریظہ اوربنو نضیر کے اموال غنیمت آئے تو آپ ؐان قربانی کرنیوالے انصار کا خاص خیال رکھتے اور اُن کے تحائف کا بدلہ بہترین رنگ میں اُنہیں واپس دینے کی کوشش فرماتے تھے۔(بخاری)38
فتح مکہ کے بعد بھی رسول کریمؐ نے انصار کی تالیف قلبی اور احساسات و جذبات کا خاص خیال رکھااور فرمایا اب میرا مرنا جینا تمہارے ساتھ ہے۔چنانچہ آپؐ نے مدینہ کو ہی اپناوطن ثانی قرار دیئے رکھا۔انصار کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی۔ فرماتے تھے انصار کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔(بخاری)39
کعب بن زُھیر مشہور عرب شاعر تھاجورسول اللہ ؐ کے خلاف گندے اشعار کہنے کی وجہ سے لائق گرفت تھا۔جب وہ معافی کا خواستگار ہو کر حاضر خدمت ہوا تو حضورؐ کی شان میں ایک قصیدہ کہا جس میں مہاجرین کی تعریف کی اور انصار کا ذکر نہیں کیا۔رسول کریمؐ کو انصارکی اتنی دلداری مقصود ہوتی تھی، فرمانے لگے کہ تم نے انصار کی شان میں کچھ نہیں کہا۔ یہ بھی مدح کے مستحق ہیں۔تو اس نے انصار کے لئے یہ شعر کہا
مَنْ سَرَّہ‘ کَرَمَ الْحَیَاۃِ فَلاَیَزَلْ
فِیْ مِقْنَبٍ مِنْ صَالِحِی الْاَنْصَارِ
جس شخص کو باعزت زندگی پسند ہے وہ ہمیشہ نیک انصار کے شہ سواروں کے دستہ میں شامل رہے گا۔(حلبیہ)40
الغرض نبی کریم ﷺ کے ساتھ جس کسی نے زندگی میں کبھی کوئی نیکی کی آپ ؐنے کبھی فراموش نہیں کیا۔حتٰی کہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین نے غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ ؐ کے چچا حضرت عباس کو عندالضرورت جو قمیص مہیا کیا تھا اسے بھی یاد رکھا اور عبد اللہ کی وفات پر اپنا قمیص اس کے کفن کے لئے عطا فرمایا ۔(بخاری)41
نبی کریمؐ حضرت خدیجہؓ کی خدمات کو بھی ہمیشہ یادرکھتے تھے۔حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ اس بارہ میں ازراہ غیرت کچھ عرض کیا تو فرمایا’’جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو خدیجہ ؓنے قبول کیا۔ جب لوگوں نے انکار کیا تو وہ ایمان لائیں۔جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور اللہ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطافرمائی۔(مسند احمد )42
نبی کریم ؐ جب اہل مکہ کے رویّہ سے مایوس ہوکر تبلیغ اسلام کے لئے طائف تشریف لے گئے تو واپسی پر مکہ میں داخلہ سے قبل حسب دستورکسی سردار کی امان لینی ضروری تھی۔آپ نے مختلف سرداروں کو پیغام بھجوائے مگر کسی نے حامی نہ بھری سوائے مطعم بن عدی کے جس نے اپنے بیٹوں کو بھجوایا کہ حضور کو اپنی حفاظت میں شہر میں لے آئیں۔نبی کریمؐ نے مُطْعَم کا یہ احسان ہمیشہ یادرکھا۔وہ بدر سے پہلے وفات پاچکے تھے مگر نبی کریمؐ نے بدر کی فتح کے بعد جب ستّرکفار مکہ کو قیدی بنایا تو فرمایا اگر آج ان کا سردار مُطْعَم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھے ان قیدیوں کی رہائی کی سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا۔(بخاری)43
رسول اللہؐ کے چچا ابو طالب نے زندگی بھر آپ ؐسے وفا کی، ہمیشہ آپؐ کا ساتھ دیا اور آپ ؐکی خاطر شعب ابی طالب میں محصور رہے۔وہ بیمار ہوئے تو آپ ؐان کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔ انہوں نے دعا کی درخواست کی کہ اپنے رب سے دعا کرو۔اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور پھر آپؐ کی دعا سے وہ صحت یاب ہوئے۔(حاکم44)اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابو طالب آپؐ کو دل سے سچا مانتے تھے مگر کھل کر اس کا اظہار نہ کرتے تھے۔آخری بیماری میں بھی حضورؐ انہیںاعلانیہ اظہار اسلام کی تحریک کرتے رہے مگر وہ ایسا نہ کرسکے۔اس کے باوجود نبی کریمؐ نے آخر دم تک ان سے حسن سلوک کیا۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو جب اپنے والد ابوطالب کی وفات کی اطلاع کی تو آپ روپڑے اور فرمایا جائو ان کو غسل دو اور کفن کا انتظام کرو۔نیز آپؐ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان پر رحم کرے۔(ابن سعد)45
جب ابو طالب کا جنازہ اُٹھا تو اپنے محسن کے سفر آخرت کو دیکھ کر بے اختیار رسول اللہؐ کوان کی صلہ رحمی اور احسان یاد آئے تو یہ دعا کی کہ صلہ رحمی کا بدلہ آپ ؐکو عطا ہو اور اے چچا اللہ آپؐ کو بہترین جزاعطاکرے۔ آمین۔ (ابن اثیر)46
رسول کریمؐ چاہتے تھے کہ آپ ؐکے ساتھی اور آپؐ سے محبت کا دم بھرنے والے بھی شکر کا اعلیٰ وصف اپنے اندر پیدا کریں۔ ایک دفعہ حضرت ابوھریرہؓ کو یہ نصیحت فرمائی!اے ابوھریرہ! بہت زیادہ ڈرتے رہو تو آپ سب لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والے ہوجائوگے اور قناعت کرنے والے بن جائو ۔سب سے زیادہ شکر کرنے والے ہوجائو گے۔(ابن ماجہ)47
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آقا کی پیروی میں حقیقی حمد وشکر کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
حوالہ جات
1
مسلم کتاب الحیض باب ذکر اللہ تعالیٰ فی حال الجنابۃ و غیر ھا:558
2
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب فی الاستغفار:1294
3
بخاری کتاب المناقب باب کان النبی تنام عینہ ولا ینام قلبہ:3304
4
ترمذی کتاب الطہارۃ باب مایقول اذاخرج من الخلاء :7
5
نسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء :3879
6
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب مایقول الرجل اذاسلم:1391
7
بخاری کتاب الصلوۃ باب مایقول الامام ومن خلفہ اذا رفع رأسہ من الرکوع
8
مسلم کتاب الصلوۃ باب مایقول اذا رفع رأ سہ من الرکوع
9
بخاری کتاب التفسیر باب لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک:4460
10
ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب فی الاستغفار:1301
11
بخاری کتاب الدعوات باب مایقول اذانام:5837
12
ترمذی کتاب الدعوات باب مایقول اذا فرغ من الطعام:3379
13
ابن ماجہ کتاب الطہارۃ باب مایقول اذا خرج من الخلائ:297
14
ابوداؤد کتاب الادب باب مایقال عندالنوم
15
سنن ابوداؤد کتاب الادب باب مایقول اصبح:4411
16
ترمذی کتاب اللباس باب مایقول اذا لبس ثوباجدیدا:1689
17
مسند احمد جلد3ص267مطبوعہ بیروت
18
مستدرک حاکم جلد1ص730مطبوعہ بیروت
19
بخاری کتاب الجنائزباب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ
20
تاریخ الخطیب للبغدادی جلد4ص157،ابوداؤد :2774
21
ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی سجود الشکر:2394
22
مسند احمد جلد1ص191مطبوعہ بیروت
23
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد4ص91مطبوعہ بیروت
24
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی مایقول اذا رأی مبتلیً
25
مسلم کتاب الذکر ولدعاء والتوبۃ والاستغفار باب التسبیح اول النھار وعندالنوم:4905
26
تحفۃ الذاکر ین از علامہ شوکانی ص290 مطبوعہ بیروت
27
ترمذی کتاب المناقب باب فی فضل النبیؐ:3543
28
بخاری کتاب التفسیرسورۃ البقرۃ باب قول اللہ وعلم ادم الاسماء کلھا
29
مسند احمد جلد2ص470مطبوعہ بیروت و مسلم کتاب الشعر
30
کنز العمال15241وفتح الباری جلد7ص154
31
بخاری کتاب المناقب باب ایام الجاھلیۃ:3553
32
ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک:1877
33
ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی الثناء بالمعروف:1958
34
ابوداؤد کتاب الزکاۃ باب عطیۃ من سأل باللہ:1424
35
سنن ابوداؤد کتاب الادب باب فی شکر المعروف:4179
36
بخاری کتاب العلم باب قول النبی اللھم علّمہ الکتاب :73
37
بخاری کتاب الوضوء باب وضع المائِ عندالخلائ:140
38
بخاری کتاب المغازی باب حدیث بنی النضیر
39
بخاری کتاب الایمان باب حبّ الانصار من الایمان
40
السیرۃ الحلبیۃ جلد3ص215مطبوعہ بیروت
41
بخاری کتاب التفسیرسورۃ التوبۃ باب قولہ استغفرلھم وشرح بخاری قسطلانی
42
مسنداحمد بن حنبل جلد6ص117مطبوعہ بیروت
43
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
44
مستدرک حاکم کتاب الدعاء جلد1ص542مطبوعہ مصر
45
الطبقات الکبری لابن سعد جلد1ص27مطبوعہ بیروت
46
البدایہ والنھایہ لابن اثیر جلد3ص125مطبوعہ بیروت
47
سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الودع والتقویٰ:4207
رسول کریمؐ کی قرآن کریم سے گہری محبت اورعشق
قرآن اللہ تعالیٰ کا پاک کلام اور وہ آخری مکمل ترین شریعت ہے جو قیامت تک بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کی گئی۔ فصیح وبلیغ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ کلام اپنے نفس مضمون کی وسعت و گہرائی حقائق ودقائق، دلائل وفضائل اور فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے ایسابے مثل ہے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت یا چند آیات کی مثال لانے پر بھی آج تک کوئی قادر نہ ہوسکا۔قرآن عظیم کا اپنے جیسی نظیر پیش کرنے کا لاجواب چیلنج آج تک اس کی عظمت اور فتح کا نقارہ بجارہا ہے۔
یہ وہی پاک کلام ہے جسے مشہو رقادرالکلام عرب شاعر لبید نے سنا تو اس کی عظمت کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پر ایسا مجبور ہواکہ شعر کہنے چھوڑ دیئے۔چنانچہ جب اسے تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو کہنے لگا میں نے جب سے کلام اللہ کی یہ آیت سنی ہے الٓمّ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہ۔ میں نے شعرکہنے چھوڑ دیئے۔(قرطبی)1
حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام بھی قرآنی تائید کا اعجاز تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ رسول اللہؐ کو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرکے گھرسے نکلے تھے۔مگرراستے میں اپنی بہن کے ہاںسورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات پڑھتے ہی بے اختیارکہہ اُٹھے۔ یہ کتنا خوبصورت عزت والا کلام ہے اوربالآخر اسلام قبول کرلیا۔ (قرطبی) 2
مشہور سردار قریش عتبہ قریش کانمائندہ بن کر رسول کریمؐ کو سمجھانے کی غرض سے آیا تو آپؐ نے اسے سورۃ حٰم فُصِّلَتْ کی ابتدائی آیات سنائیں۔ جب حضورؐ سجدہ والی آیت پر پہنچے تووہ بے اختیار حضورؐ کے ساتھ سجدے میں شامل ہوا اور کہہ اُٹھا کہ خدا کی قسم! یہ نہ تو شعر ہے نہ کسی کاھن کا کلام ہے اور نہ جادو ہے۔ خدا کی قسم میں نے محمدؐ سے ایسا کلام سنا ہے کہ آج تک کبھی ایسا کلام نہیں سنا۔(حاکم)3
اس پاک کلام کی اصل شان اس وقت ظاہر ہوتی تھی جب خودخدا کا رسولؐ اس کی تلاوت کرکے سناتا تھاجیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
رَسُولٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنۃ:3 )
یعنی اللہ کا رسول مطہرّ صحیفے پڑھتا تھا۔ اُن میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں۔رسول اللہ ؐجب اس دلکش کلام کی آیات پڑھ کر سناتے تھے تو عرش کے خدا کو بھی اس پر پیار آتا تھاچنانچہ فرمایا وَمَاتَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًااِذْتُفِیْضُوْنَ فِیْہِ (یونس:62)
یعنی (اے رسول)تو کبھی کسی خاص کیفیت میں نہیں ہوتا اور اس کیفیت میں قرآن کی تلاوت نہیں کرتا۔اسی طرح تم (اے مومنو!) کوئی(اچھا) عمل نہیں کرتے مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں۔ جب تم اس کام میں مصروف ہوتے ہو۔
اللہ تعالیٰ کو محمدؐ کی تلاوت قرآن پراس لئے بھی پیارآتا تھا کہ وہ ایک عجب جذب، سوزوگداز اور عشق ومحبت کے ساتھ اس پاک کلام کی تلاوت کرتے تھے۔آپؐ کی تلاوت کی وہی عظمت اور شان تھی جو قرآن میں یوںبیان ہوئی اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُوْ نَہ‘ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُوْلٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ(البقرہ:122)
یعنیجن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسے تلاوت کا حق ہے۔ یہی لوگ ہیں جو اس کتاب پر سچا ایمان رکھتے ہیں۔
رسول کریمؐ اس حکم الہٰی کے مطابق خوبصورت لحن اور ترتیل کے ساتھ ایسی تلاوت کرتے تھے کہ تلاوت کا حق ادا ہوجاتا تھا۔حضرت انسؓ سے پوچھا گیا کہ رسول کریمؐ کی تلاوت کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا آپؐ لمبی تلاوت کرتے تھے۔ پھر انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر سنائی۔ اسے لمبا کیا پھر الرحمان کو لمبا کرکے پڑھا پھر الرحیم کو۔(احمد)4
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو کان لگا کر توجہ سے نہیں سنتا جتنا نبی کریمؐ کی تلاوت قرآن کو سنتا ہے۔ جب وہ خوبصورت لحن اور غنا کے ساتھ بآوازبلنداس کی تلاوت کرتے ہیں۔(احمد)5
حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریمؐ تلاوت کرتے ہوئے آیت پر وقف کرتے تھے۔ فاتحہ میں ہرآیت پر رُکتے رب العالمین پر پھرالرحمان الرحیم پررُک رُک کرتلاوت کرتے تھے۔(احمد)6
رسول کریمؐ تلاوت کرتے ہوئے ایک ایک لفظ واضح اور جداکرکے پڑھتے۔ سوزوگداز میں ڈوبی ہوئی یہ آواز کبھی بلندہوجاتی اور کبھی دھیمی۔ کسی نے رسول اللہؐ سے پوچھا کہ بہترین تلاوت کونسی ہے؟ فرمایا جس کو سن کر آپؐ کو احساس ہو کہ یہ شخص اللہ سے ڈرتا ہے۔ یعنی خشیٔت الہٰی سے لبریزتلاوت اور یہ تلاوت آپؐ کی ہی ہوتی تھی۔
رسول کریمؐ کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن تھا۔ دن بھر گاہے بگاہے اور خصوصاًنمازوں میں نازل ہونے والی تازہ قرآنی وحی کے تکرار اور دہرائی کا اہتمام تو ہوتا ہی تھا۔عموماً رات کوبھی زبان پر قرآن ہی ہوتا۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں۔ کبھی رات کو اچانک آنکھ کھل جاتی تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کی آیات جاری ہوتیں۔ وَمَامِنْ اِلٰہٍ اِلَّاللّٰہُ الوَاحِدُ القَھَّارُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَ رْضِ وَمَابَیْنَھُمَا العَزِیْزُ الْغَفَّارُ (صٓ:67)
یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ صاحب جبروت ہے نیز آسمانوں زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا رب ہے اور غالب اور بخشنے والا ہے۔(حاکم)7
آپؐرات کو تیسرے پہر تہجدّ کے لئے بیدار ہوتے تو اُٹھتے ہی سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرماتے۔ان آیات کا مضمون خالق کائنات کی تخلیق ارض و سماء اور اس میںموجود نشانات پر غوروفکر سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کے بعد انسان کے دل میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی عبادت کا شوق اور جوش ولولہ بیدار ہوتا ہے۔(بخاری)8
اسی طرح رات کو بستر پر جاتے ہوئے بھی قرآن کے مختلف حصوں کی تلاوت رسول کریمؐ سے ثابت ہے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت کے مطابق نبی کریمؐ آخری تین سورتوں کی تلاوت کر کے ہاتھوں میں پھونکتے اور اپنے جسم پر پھیر کر سوجاتے۔(بخاری)9
حضرت جابر ؓ کے بیان کے مطابق سونے سے قبل آنحضرت ؐسورہ الٓم السجدہ اور سورۂ ملک کی تلاوت کرتے تھے۔(ترمذی)10
حضرت عائشہ ؓ کی دوسری روایت یہ ہے کہ سونے سے قبل رسول اللہؐسورۂ زمر اور بنی اسرائیل کی بھی تلاوت کرتے تھے۔(احمد)11
حضرت عرباضؓ بن ساریہ کی روایت کے مطابق رسول کریمؐ بستر پرجاتے ہوئے وہ سورتیں پڑھتے تھے جو اللہ کی تسبیح کے ذکر سے شروع ہوتی ہیں(یعنی الحدید الحشر، الصف، الجمعہ، التغابن اور الاعلیٰ) اور فرماتے تھے ان میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوںسے بہتر ہے۔(احمد)12
حضرت خباب ؓ کا بیان ہے کہ رسول کریم ؐبستر پر جانے سے قبل سورۂ کافرون سے لے کر آخر تک تمام سورتیں (اللھب،النصر،الاخلاص،الفلق، الناس)پڑھ کر سوتے تھے۔ (ھیثمی)13
حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کی توفیق ملی۔آپؐ نے پہلے سورہ بقرہ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی۔پھر نماز میںقیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔پھراسی قیام کے برابر سجدہ کیا۔سجدہ میں بھی یہی تسبیح اوردعا پڑھتے رہے۔پھر کھڑے ہوکر آل عمران کی تلاوت کی۔پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے۔(ابودائود)14
رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ اس میں قرآن شریف کی تلاوت اورتدبّرکا شغف اپنی معراجپرہوتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نیکیوں میں سب لوگوں سے سبقت لے جانے والے تھے اور سب سے زیادہ آپؐ کی یہ شان رمضان میں دیکھی جاتی ہے۔ جب جبریل ؑ آپؐ سے ملاقات کرتے تھے اور یہ ملاقات رمضان کی ہر رات کو ہوتی تھی۔ جس میں وہ رسول کریمؐ سے قرآن کریم کا دورکرتے تھے یعنی آپؐ سے قرآن سنتے بھی تھے اورسناتے بھی تھے۔اس زمانے میں رسول اللہؐ کی نیکیوں کا عجب عالم ہوتاتھا۔ آپؐ تیزآندھی سے بھی بڑھ کر سخاوت فرماتے تھے۔(بخاری)15
دوسری روایت میں ذکرہے کہ جبریل ؑ رسول کریمؐ کے ساتھ ہرسال رمضان میں ایک بارقرآن کریم کادورمکمل کرتے تھے۔ مگرحضورؐ کی وفات کے آخری سال انہوں نے دودفعہ قرآن کریم کا دورآپؐ کے ساتھ مکمل کیا۔(بخاری16) اور یہ آپؐ کی آخری سنت تھی۔
تلاوت قرآن اور خشیت الہٰی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے۔جب ان پر رحمان خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے خدا کے حضور ٹھوڑیوں کے بل سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اللہ خشوع میں انہیں اور بڑھا دیتا ہے۔(بنی اسرائیل:110)دوسری جگہ فرمایا کہ قرآن کا کلام سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔(سورۃ الزمر:24)
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کر کون اس مضمون کا مصداق ہوسکتا ہے جو سب سے بڑھ کر خدا ترس تھے۔قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے آپؐ کی کیفیت بھی یہی ہوتی تھی۔
نبی کریم ؐ قرآن شریف کے مضامین میں ڈوب کر تلاوت کرتے تھے اور اس کے گہرے اثرات آپؐ کی طبیعت پرہوتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ! آپؐکے بالوں میں سفیدی جھلکنے لگی ہے فرمایا ہاں! مجھے سورۂ ھود، الواقعہ، المرسلات،النبا اور التکویر نے بوڑھا کردیا۔(ترمذی)17
(ان سورتوں میں گزشتہ قوموں کا ذکر ہے جن پر احکام خداوندی اور اس کے رسولوں کے انکار کی وجہ سے عذاب آیا اوروہ ہلاک ہوئیں)رسول کریمؐ نے بعض مواقع پر صحابہ کو سوز وگداز سے بھری آواز میںقرآن کریم کی تلاوت سُنائی۔
ذراتصور کریںوہ کیا عجب سماں ہوگا اور کیسی بابرکت محفل ہوگی جس میں اس پاک وجود نے جس کے دل پر قرآن اترا۔ سورہ رحمان جِسے عروس القرآن(قرآن کی دلہن) کا خطاب آپؐ نے دیا خود صحابہ کو خوش الحانی سے سنائی۔ یقینا اس وقت آسمان کے فرشتے بھی ہمہ تن گوش ہوںگے اور خدائے ذوالعرش کی بھی محبت کی نظریں آپ ؐپر پڑتی ہوںگی۔
اس دلکش واقعہ کا ذکر حضرت جابر ؓ یوں بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ایک دفعہ انہیں سورہ رحمان تلاوت کر کے سنائی۔صحابہ محوحیرت ہوکر خاموشی سے سنتے رہے۔ رسول کریمؐ نے سورت کی تلاوت مکمل ہونے پر اس سکوت کو توڑتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ایک قوم جنّ کو جب یہ سورت سنائی تو انہوں نے تم سے بھی بہتر نمونہ دکھایا۔ جب بھی میں نے فَبِاَیِّ اٰلٓائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ کی آیت پڑھی جس کا مطلب ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے تو وہ قوم جواب میں کہتی تھی۔ لَا بِشَیْ ئٍ مِنْ نِعمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ وَلَکَ الْحَمْدُ۔
یعنی اے ہمارے رب ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کو جھٹلاتے نہیں او ر سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔(ترمذی)18
قیس بن عاصمؓ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا جو وحی آپؐ پر نازل ہوئی ہے۔ اس میں سے کچھ سنائیں نبی کریمؐ نے سورۃ الرحمان سنائی وہ کہنے لگا دوبارہ سنائیں۔ آپؐ نے پھر سنائی اس نے تیسری بار پھر درخواست کی تو آپؐ نے تیسری مرتبہ سنائی جس پر وہ کہہ اُٹھا خدا کی قسم اس کلام میں روانی اورایک شیرینی ہے اس کلام کا نچلا حصہ زرخیز ہے تو اُوپر کا حصہ پھلدار ہے۔ اور یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔(قرطبی)19
حضرت زیدؓ بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابی ّ ؓبن کعب نے رسول کریمؐ کی موجودگی میں صحابہ کو قرآن کی تلاوت سنائی تو سب پر رقّت طاری ہوگئی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا رقت کے وقت دعا کو غنیمت جانو کیونکہ رقّت بھی رحمت ہے۔(قرطبی)20
کلام الہٰی سن کررسول کریمؐ پررقت طاری ہوجاتی اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک روز آپؐ نے فرمایاکچھ قرآن سنائو! جب وہ اس آیت پر پہنچے فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰؤُ لٓائِ شَھِیْدًا (سورۃ النسائ:42)تو آپ ؐ ضبط نہ کر سکے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑی بہہ نکلی۔ہاتھ کے اشارے سے فرمایا بس کرو۔(بخاری)21
آپؐ کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبداللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ایک شخص کو تلاوت کرتے سنا جو سورۂ مزّمل کی اس آیت کی تلاوت کررہا تھا ۔اِنَّ لَدَیْنَا اَنْکَالًا وَجَحِیْمًا (یعنی ہمارے پاس بیڑیاں اور جہنم ہے)تو نبی کریم ؐمدہوش ہوکر گرپڑے۔(کنز)22
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ؐ کے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا۔آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گر گئے۔پھر بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی ہر دفعہ آپؐ روتے روتے گر پڑتے۔ آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔(ابن جوزی)23
کندہ قبیلہ کا وفدرسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے آپؐسے کوئی نشانِ صداقت طلب کیا۔ آپؐ نے قرآن شریف کے اعجازی کلام کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایسا کلام ہے جس پر کبھی بھی باطل اثر انداز نہیں ہوسکتانہ آگے سے نہ پیچھے سے۔ پھر آپؐ نے سورۂ صافات کی ابتدائی چھ آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی۔وَالصّٰفّٰتِ صَفًّاo فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًاo فَالتّٰلِیٰتِ ذِکْرًاo اِنَّ اِلٰھَکُمْ لَوَاحِدٌ oرَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَھُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِo (الصّٰفّٰت:1تا6)
ترجمہ:قطاردرقطارصف بندی کرنے والی (فوجوں) کی قسم پھر اُن کی جو للکارتے ہوئے ڈپٹنے والیاں ہیں۔ پھر ذکربلند کرنے والیوں کی۔ یقینا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔آسمانوں کا بھی ربّ ہے اور زمین کا بھی اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور تمام مشرقوں کا ربّ ہے۔
یہاں تک تلاوت کر کے حضورؐ رُک گئے کیونکہ آواز بھراکر گلوگیر ہوگئی تھی۔ آپؐ ساکت و صامت اور بے حس و حرکت بیٹھے تھے ۔آنکھوں سے آنسو رواں تھے جو ٹپ ٹپ داڑھی پر گر رہے تھے۔ کندہ قبیلہ کے لوگ یہ عجیب ماجرا دیکھ کر حیران ہورہے تھے۔ کہنے لگے کیا آپؐ اپنے بھیجنے والے کے خوف سے روتے ہیں؟آپؐ نے فرمایا ہاں اسی کا خوف مجھے رُلاتا ہے جس نے مجھے صراطِ مستقیم پر مبعوث فرمایاہے۔مجھے تلوار کی دھار کی طرح سیدھا اُس راہ پر چلنا ہے اگر ذرا بھی میں نے اس سے انحراف کیا تو ہلاک ہوجائوں گا۔(حلبیہ)24
نمازوں میں مسنون تلاوت
قرآن کریم توسارے کا سارا ہی بہت پیارا ہے۔ مگر رسول کریمؐ سے مختلف اوقات میں حسب حال مضمون قرآنی کی مناسبت سے نمازوں میں بعض خاص سورتوں کی تلاوت ثابت ہے۔
آپؐ ظہر و عصر کی نمازوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد بعض سورتوں کی خاموش تلاوت فرماتے تھے اور مغرب وعشاء وفجر میں فاتحہ کے ساتھ کسی سورت یا حصۂ قرآن کی بآواز بلند تلاوت ہوتی تھی۔
نمازظہر کی پہلی دورکعتیں آخری دورکعتوں سے تلاوت کے لحاظ سے دوگنی لمبی ہوتی تھیں۔ پہلی دورکعتوں میں سے ہررکعت میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کا اندازہ قریباً تیس آیات کے برابر تلاوت کا ہے۔ حضرت جابرؓ بن سمرہ کے مطابق ظہر وعصر میں سورۃ اللیل کی تلاوت ہوتی تھی۔(جس کی 21چھوٹی آیات ہیںدوسری روایت میں سورۂ اعلیٰ کی تلاوت کابھی ذکرہے) اور فجر کی نماز میں نسبتاًاس سے لمبی تلاوت ہوتی ہے۔ (مسلم)25
حضرت جابرؓ کے نزدیک نبی کریمؐ فجر میں سورۃ ق ٓ کی تلاوت کرتے تھے بعد میں یہ تلاوت اس سے بھی نسبتاً مختصر ہوگئی۔ حضرت ابوبرزہؓ اسلمی کا اندازہ ہے کہ فجر کی ہر رکعت میں 60 سے 100 آیات کی تلاوت ہوتی تھی۔حضرت عمروؓ بن حُریث کا بیان ہے کہ انہوں نے فجر میں رسول کریمؐ کو سورۃ تکویر کی تلاوت کرتے سنا۔(مسلم)26
حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم السجدہ اور سورۂ دھر کی تلاوت فرماتے تھے۔(بخاری)27
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ ام الفضلؓ نے انہیں مغرب کی نماز میں سورۃ المرسلات پڑھتے سنا تو کہنے لگیں میرے بیٹے! تم نے نماز مغرب میں یہ سورت تلاوت کرکے مجھے وہ زمانہ یاد کروادیا، جب میں نے نبی کریم ؐ کونماز مغرب میں سورۂ المرسلات پڑھتے سنا۔(احمد)28
حضرت جبیرؓ بن مطعم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریمؐ کو مغرب کی نماز میں سورۂ طُور پڑھتے سنا۔اور ایسی خوبصورت اور دلکش آواز میں کہ قریب تھا کہ میرا دل اُڑ جائے۔ (احمد29) یعنی میں مکمل طور پر اس تلاوت کے سننے میں محو ہوگیا اور اپنی کوئی ہوش نہ رہی۔
حضرت جابربن سمرہؓ نے نمازمغرب میں سورۃ کافرون اور سورۃاخلاص پڑھنے کی سنت رسول ؐروایت کی ہے۔(بغوی)30
حضرت برائؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کو نماز عشاء میں سورۂ التین کی تلاوت کرتے سنا۔ اور خدا کی قسم میں نے آپؐ سے زیادہ خوبصورت آواز میں تلاوت کرنے والا کوئی نہیں سنا۔(بخاری)31
حضرت معاذ ؓ بن جبل کو رسول کریمؐ نے عشاء میں نسبتاً مختصر قرأت کی خاطر سورۃ شمس، والضُّحٰی،واللیل اورسورۃ الاعلیٰ کی تلاوت کی ہدایت فرمائی۔(احمد)32
نبی کریمؐ جمعہ اور عیدین کے موقع پر سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے تھے۔(سیوطی)33
اسی طرح جمعہ کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الجمعہ اور دوسری رکعت میں سورۃ المنافقون کی تلاوت کی روایت بھی آئی ہے۔(سیوطی)34
الغرض رسول کریمؐ کے عشق قرآن کا اظہار قرآن شریف کی تلاوت کی کثرت سے بھی خوب ہوتا تھا۔ قرآن آپؐ کی روح کی غذاتھا۔ اور آپؐ کی قلبی کیفیت یہی تھی۔
دل میں یہی ہے ہردم تیرا صحیفہ چُوموں
قرآں کے گردگھوموں کعبہ میرا یہی ہے
حوالہ جات
1
تفسیرالجامع لاحکام القرآن قرطبی جز 15ص51دارالکتاب العربی
2
تفسیرالجامع لاحکام القرآن قرطبی جز 11ص150دارالکتاب العربی
3
مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 2ص253
4
مسنداحمدجلد3ص119
5
مسنداحمدجلد2ص450
6
مسنداحمدجلد6ص302
7
مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد1ص540
8
بخاری کتاب الوضوء باب قرا ء ۃ القرآن بعد الحدث
9
بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ والقرا ء ۃ عندالمنام
10
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فیمن یقرا ٔالقرآن عندالمنام۔۔:3402
11
مسند احمد جلد6ص68
12
مسند احمد جلد4ص128
13
مجمع الزوائد ھیثمی جلد10ص121
14
ابوداؤد کتاب الصلوۃ۔باب فی الدعا ء مایقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ
15
بخاری کتاب الصوم
16
بخاری کتاب الفضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی ﷺ
17
ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب تفسیر سورۃ الواقعہ:3297
18
ترمذی ابواب التفسیر سورۂ رحمان :3291
19
تفسیر الجامع لاحکام القرآن للقرطبی سورۃ الرحمان ص133مطبوعہ دارالکتاب العربی
20
تفسیرالجامع لاحکام القرآن قرطبی جلد15ص219دارالکتاب العربی
21
بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقریٔ للقاری حسبک:4662
22
کنزالعمال جلد7ص206
23
الوفاباحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص549بیروت
24
السیرۃ الحلبیہ جلد3ص227بیروت
25
مسلم کتاب الصلوۃ باب القراء ۃ فی الظھروالعصر والفجر
26
مسلم کتاب الصلوۃ باب القراء ۃ فی الفجر
27
بخاری کتاب الجمعہ باب مایقرأفی صلوۃ الفجر
28
مسنداحمدجلد6ص340
29
مسنداحمدجلد4ص84
30
شرح السنہ للبغوی جلد3ص81
31
بخاری کتاب الصلوۃ باب القراء ۃ فی المغرب والعشاء
32
مسنداحمدجلد6ص340
33
تفسیر الدر المنثور سورۃ الاعلیٰ جلد8ص480دارالفکر
34
تفسیر الدرالمنثورسورۃ المنافقون جلد8ص170دارالفکر
رسول اللہؐ کی قبولیت دعا کے راز
آداب دعا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبولیت دعا کے راز اپنے تجربے سے خودمشاہدہ کئے پھر ہمیں بھی وہ آداب سکھائے۔آپؐ نے ان حالات، مقامات،اوقات، مواقع اور کیفیات کی نشاندہی فرمائی جن میں دعائیں بطور خاص قبول ہوتی ہیں۔ان تمام کیفیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ حالتیں انسان میں جوش اضطراب اور دعا کی تحریک میں ممدّومعاون ہوتی ہیں۔اس لئے ایسے حالات ،اوقات کی دعائیں خاص قبولیت کا اثر رکھتی ہیں۔ ان بابرکت اوقات کا تذکرہ یہاں مناسب ہوگا۔
٭
نماز تہجد کی دعائیں (بالخصوص رات کے آخری حصہ میں)
٭
اذان کے وقت نیز اذان و اقامت کے درمیان کی دعا
٭
آمین کی کیفیت میں ملائکہ سے موافقت یعنی نماز میں توجہ سے دعا
٭
حالتِ سجدہ کی دعائیں ٭ نماز جمعہ میں قبولیت دعا کی گھڑی
٭
مسلمانوں کے اجتماع اور پاکیزہ مجالس ذکر کی دعائیں
٭
روزہ دار کی افطاری کے وقت کی دعا
٭
رمضان المبارک بالخصوص آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کی دعائیں
٭
ختم قرآن کے وقت کی دعا ٭ بارش کے وقت کی دعا
٭
حالتِ مظلومیت کی دعائیں ٭ ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا۔
٭
ایک شخص کی دوسرے غیرموجود بھائی کے حق میںدعائیں
بعض تعلقات کی وجہ سے بھی دعا میں اضطراب اور جوش پیدا ہوتا ہے۔مثلاً
٭
والدین کی اولاد کے بارے میں اور نیک اولاد کی والدین کے حق میں دعا
٭
امام عادل کی دعا نیز صالح اور نیک لوگوں کی دعائیں
بعض مقامات بھی قبولیت دعا کے لئے خاص جوش اورتاثیر پیداکرتے ہیں۔
٭
مکّہ مکرمہ میں بیت اللہ کو دیکھ کر دعا ٭ مقام ابراہیم پرنیزحجراسود کے پاس دعا
٭
صفا مروہ پر دعا ٭ مشعرالحرام اور میدان عرفات میں دعا
٭
مسجد نبوی اور بیت المقدس میں دعا
اس جگہ قبولیت دعا کے ان جملہ مواقع اوقات و حالات اور تعلقات کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کے بعض ارشادات بیان کرنے مناسب ہوں گے۔
۱۔ نماز تہجدکا وقت خاص قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے۔ رسول کریمؐ فرماتے ہیں کہ ہمارا رب ہر رات کو جب آخری تہائی شب باقی رہ جائے، نچلے آسمان پر اترآتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں۔کون ہے جو مجھ سے مانگے اور مَیں اس کو عطاکروں۔کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اورمَیں اسے بخش دوں۔(بخاری)1
بعض روایات میں آدھی رات گزر جانے کے بعد اور بعض میں ایک تہائی رات کے بعد اللہ تعالیٰ کے نچلے آسمان پر اُتر آنے کا ذکر ہے۔
حضرت ابوامامہ باہلیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ رات کے درمیانی حصہ میں سب سے زیادہ قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے۔اس کے بعد فرض نمازوں کے معاً بعد کے اوقات بھی خاص قبولیت کے ہیں۔(ترمذی)2
۲۔ اذان کے وقت کی دعا کے بارے میں حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’دو ایسے اوقات ہیں جن میں دعا ردّ نہیں کی جاتی ایک اذان کے وقت،دوسرے جنگ میں جب دشمن سے سخت مقابلہ جاری ہو۔‘‘(ابودائود)3
حضرت انس بن مالک ؓکہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا کبھی ردّ نہیں کی جاتی۔کسی نے پوچھا اس وقت کون سی دعا کرنی چاہیے۔فرمایا’’دنیا و آخرت کی بھلائی مانگو‘‘۔(ترمذی)4
۳۔ ختم قرآن کا وقت بھی خاص قبولیت کے اوقات میں سے ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جب بندہ قرآن کریم ختم کرتا ہے تو اس وقت ساٹھ ہزار فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ نیز اس موقع پر قبر کی وحشت سے مانوسیت اورحصول رحمت باری کی دعا رسول اللہؐ نے سکھلائی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ختم قرآن کا وقت نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے۔ (شوکانی)5
۴۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو جمعہ کی ایک خاص گھڑی کا بتایا جس میں دعائیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں۔اس گھڑی کا وقت خطبہ جمعہ سے لے کر جمعہ کے دن کے ختم ہونے تک بیان کیا گیا ہے۔خاص طور پر خطبہ جمعہ اور نماز کے دوران اس گھڑی کی توقع کی جاسکتی ہے۔(ابوداؤد)6
۵۔ رمضان المبارک دعائوں کا مہینہ ہے۔بالخصوص اس کے آخری عشرہ میں آنحضرتؐ کی سنت سے خاص مجاہدے کے ساتھ دعائیں کرنا ثابت ہے۔(بخاری)7
رسول اللہ ؐ نے فرمایاروزہ دار کے لئے افطاری کا وقت قبولیت دعا کا ایک خاص موقع ہوتا ہے۔ جس وقت اس کی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔(ترمذی)8
۶۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی رات خاص طور پر قبولیت دعا کے اوقات میں سے ہے۔(ترمذی)9
۷۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی نیک لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھتے ہیں تو فرشتے ان کو گھیرلیتے ہیں اور ان پر رحمت و سکینت کا نزول ہوتا ہے اور ان کو مغفرت عطاہوتی ہے۔(بخاری)10
۸۔ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بارانِ رحمت کے نزول کا وقت بھی قبولیت دعا کا خاص وقت ہوتا ہے۔(ابن ماجہ)11
۹۔ جن کیفیات میں دعا بطور خاص قبول ہوتی ہے ۔ان میں ایک وہ حالت ہے جب نماز میں توجہ اور خشوع حاصل ہو۔حدیث میں آتا ہے جب سورۃ فاتحہ کی دعا کے بعد ملائکہ کی آمین سے کسی کی آمین کی موافقت ہوجائے تو اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔(بخاری)12
۱۰۔ سجدے میں دعائوں کا خاص موقع ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان حالت سجدہ میں اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے۔پس تم اس وقت کثرت سے دعائیں کیا کرو۔(مسلم)13
۱۱۔ مظلوم کی دعا بھی خاص قبولیت کے لائق ہے۔آنحضرت ﷺ نے جن تین دعائوں کی خاص قبولیت کا ذکر فرمایا ان میں ایک مظلوم کی دعا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ مظلوم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان قبولیت میں کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔(بخاری)14
۱۲۔ ایسے شخص کے لئے خاص توجہ اور جوش سے دعا کرنا جو پاس موجود نہ ہو خاص قبولیت کا موقع ہوتا ہے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سرعت کے ساتھ قبول ہونے والی دعا اس شخص کی دعا ہے جو اپنے کسی غیر حاضر بھائی کے لئے دعا کرتا ہے۔(مسلم)15
۱۳۔ دعا کرنے والے کی حالت بھی قبولیت دعا میں ممدّومعاون ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے اللہ سے اس کے حضور،ہتھیلیاں پھیلاکر سوالی بن کر دعا مانگا کرو اور جب دعا سے فارغ ہوجائو تو ہاتھ منہ پر پھیرلو۔اسی طرح فرمایا کہ تمہارا رب بہت ہی کریم اور حیادار ہے۔جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعا کرتا ہے تو اس کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ وہ ان ہاتھوں کو خالی واپس لوٹا دے۔(ترمذی)16
بعض رشتے اور تعلقات بھی قبولیت دعا کے لئے محرّک ہوتے ہیں۔ چنانچہ والد کی دعا کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر والد اولاد کے خلاف دعا کرے تو اس کی قبولیت میں شک نہیں ہوتا۔ (ترمذی17)اسی طرح والدین کی اولاد کے حق میںاور نیک اولاد کی اپنے والدین کے لئے دعا بھی خاص طور پر قبولیت کا رنگ رکھتی ہے۔
۱۵۔ آنحضرت ﷺ نے امام عادل یعنی مسلمانوں کے نیک اور بزرگ ائمہ کی دعا کے متعلق فرمایا کہ وہ ردّ نہیں کی جاتی اسی طرح نیک اور صالح لوگوں کی دعائیں بھی قبولیت کا خاص مرتبہ رکھتی ہیں۔(ترمذی)18
بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دعائیں خاص قبول ہوتی ہیں۔
۱۶ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا ؑ کو حصول اولاد کے لئے جب جوش دعا پیدا ہوا تو وہ اپنے محراب(عبادت کی خاص جگہ) میں دعا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ٹلے نہیں جب تک دُعا قبول نہیں ہوئی۔ اسی جگہ ان کو دعا قبول ہوجانے کی خوشخبری بھی عطا کی گئی۔(سورۃآل عمران:39,40)
۱۷ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بیت اللہ کے ماحول میں مقام ابراہیم پر خاص طورسے عبادات اور دعائیں کرنے کی ہدایت فرمائی۔ (البقرہ)پس یہ دعائیں بھی خاص تاثیر رکھتی ہیں۔
۱۸ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جب بیت اللہ پر نظر پڑے تو جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔
۱۹ اسی طرح بیت اللہ میں حجر اسود کے پاس دعا کا خاص موقع ہوتا ہے جہاں رسول کریمؐ نے بہت رو رو کر دعائیں کیں۔(شوکانی)19
۲۰ صفا مروہ اور مشعر الحرام کے پاس بھی رسول اللہؐ نے دعائیں کیں۔اس جگہ بھی دعا کی قبولیت کا ذکرملتاہے۔(نسائی)20
۲۱ میدان عرفات کی دعا کورسول اللہؐ نے بہترین دعاقراردیا۔ (ترمذی) 21
۲۲ رسول اللہ ؐ نے بیت اللہ کے علاوہ دیگر مقامات مقدسہ میں سے بطور خاص مدینہ کی مسجد نبویؐ اور بیت المقدس کی طرف خاص اہتمام سے سفر کرنے کی اجازت فرمائی۔ ان مقامات میں بھی انسان قبولیت دعا کے خاص مواقع حاصل کرسکتا ہے۔(بخاری)22
آداب دعا اور چند جامع دعائیں
آدابِ دعامیں یہ شامل ہے کہ اس سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کرنی چاہئے۔سورۃ فاتحہ کے بعد درود شریف پڑھ کر دعاکرنی زیادہ مناسب اور مقبول ہے۔
رسول کریمؐ نے صحابہ کو دعا کے آداب بھی سکھائے۔ ایک دفعہ آپؐ ایک شخص کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ جو چُوزے کی طرح کمزور ہوچکا تھا۔ رسول کریمؐ نے اس کی حالت بھانپ کر فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے تھے وہ کہنے لگا ہاں میں دعاکرتا تھا کہ اے اللہ تو نے جو سزا مجھے دینی ہے۔آخرت کی بجائے اسی دنیا میں دے لے۔رسول کریمؐ نے فرمایا’’اللہ پاک ہے تمہیں اس سزا کی برداشت کہاں ہے؟ تمہیں یہ دعا کرنی چاہئے تھی!اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَۃً وَ فِی الاخِرَۃِ حَسَنَۃً ،وَقِنَا عَذَابَ النَّار۔
اے اﷲ! ہمیں دنیا میںبھی نیکی عطا کر اور آخرت میں بھی ۔ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔پھررسول کریمؐ نے اس شخص کے لئے دعا کی اور اسے اللہ تعالیٰ نے شفا عطافرمائی۔(مسلم)23
.968حضرت عبد اﷲؓ بن عمرؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺروزانہ صبح اور شام کچھ دُعائیہ کلمات ضرور پڑھتے تھے ۔اُن میں سے ایک دُعا یہ ہے :-
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَساَلُکَ العَافِیَۃَ فِی الدُّنیَا وَالآخِرَۃِ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَساَلُکَ العَفوَ وَالعَافِیَۃَ فِی دِینِی وَدُنیَایَ،وَاَھلِی وَمَالِی ،اَللّٰھُمَّ استُر عَورَاتِی،وَآمِن رَوعَاتِی ،اَللّٰھُمَّ احفَظنِی مِن بَینِ یَدَیَّ وَمِن خَلفِی وَعَن یَمِینِی وَعَن شِمَالِی وَمِن فَوقِی، وَاَعُوذُ بِعَظمَتِکَ اَن اُغتَالَ مِن تَحتِی۔ (ابو داؤد )24
اے اﷲ! مَیں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا طلبگار ہوں۔مولیٰ !مَیں تجھ سے دین و دنیا،مال و گھر بار میںعفو اور عافیت کا خواستگار ہوں۔اے اﷲ !میری کمزوریاںڈھانپ دے اور مجھے میرے خوفوں سے امن دے ۔اے اﷲ ! آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر سے خود میری حفاظت فرما اور مَیں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ مَیں نیچے سے کسی مخفی مصیبت کا شکار ہوں۔
حضرت ابوامامہ باہلیؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپؐنے ڈھیر ساری دُعائیں کی ہیںجو ہمیں یاد ہی نہیں رہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ میںتمہیں ایک جامع دُعا سکھاتا ہوں تم یہ یاد کر لو:۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَساَلُکَ مِن خَیرِ مَا سَئَلَکَ مِنہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ ،وَنَعُوذُبِکَ مِن شَرِّمَااستَعَاذَ مِنہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَاَنتَ المُستَعَانُ ،وَعَلَیکَ البَلَاغُ۔ (ترمذی )25
اے اللہ !ہم تجھ سے وہ تمام خیر و بھلائی مانگتے ہیں جو تیرے نبی ﷺ نے تجھ سے مانگی اور ہم تجھ سے ان باتوں سے پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمد ﷺ نے پناہ چاہی ۔تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جاتی ہے ۔پس تیرے تک دُعا کا پہنچانا لازم ہے۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ ایک دفعہ فجر کی نماز میں اتنی تاخیرسے تشریف لائے کہ سورج نکلنے کے قریب ہوگیا۔ آپؐ نے مختصر نماز پڑھا کر فرمایا کہ تم لوگ اپنی جگہ بیٹھے رہو۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا میں تمہیں آج فجر کی نماز پر دیرسے آنے کی وجہ بتادوں۔ میں رات کو تہجد کے لئے اُٹھااورجتنی توفیق تھی نماز پڑھی۔ نماز میں ہی مجھے اونگھ آگئی۔ آنکھ کھلی تو اپنے رب کو نہایت خوبصورت شکل میں دیکھا۔ اللہ نے فرمایا اے محمد معلوم ہے فرشتے کس بارہ میں بحث کررہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ دوبارہ اللہ تعالیٰ نے یہی پوچھا تو میں نے یہی جواب دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے کندھے پر رکھی یہاں تک کہ اس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی اور ہر چیز میرے پر روشن ہوگئی۔پھر اللہ نے پوچھا اے محمد فرشتے کس بارہ میں بحث کررہے ہیں؟ میں نے کہا ’’کفّارات‘‘ کے بارہ میں۔ اللہ نے فرمایاکفّارات کیا ہیں؟(یعنی وہ چیزیں جن سے گناہ دورہوتے ہیں)۔میں نے کہا نماز باجماعت کے لئے چل کر مسجدجانا اور نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر ذکرالہٰی کرنا اور ناپسندیدگی کے باوجود مکمل وضو کرنا۔ پھر اللہ نے پوچھا اور ’’درجات‘‘ کیا ہیں؟ میں نے کہا کھانا کھلانا، نرم کلام کرنا اور نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوں۔ تب اللہ نے فرمایا اب مانگو جو مانگتے ہو۔ تب میں نے یہ دعا کی۔ رسول اللہؐ نے فرمایایہ دعا برحق ہے اسے خود بھی یادکرو اور دوسروں کو بھی سکھائو۔دعا یہ ہے۔اَللّٰھُمّ اِنّیِ أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ، وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ المَسَاکِیْنِ، وَأن تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْ، وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَمَفْتُونٍ، وَأَسْأَلُکَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ ، وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ
اے اللہ! میں تجھ سے نیک کام کرنے اور بری باتیں چھوڑنے کی توفیق چاہتا ہوں۔ مجھے مساکین کی محبت عطاکر۔اور مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر۔ اور جب تو قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر فتنہ میں ڈالے موت دے دینا۔میں تجھ سے تیری محبت چاہتا ہوں اوراس کی محبت جس سے تو محبت کرتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تیری محبت کے قریب کردے۔آمین۔(احمد)26
سیرت النبی ؐ… قبولیت دعا کے واقعات
خدا ایک مخفی خزانہ تھا اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے انسان کو پیدا کیا اور اپنی ذات و صفات کا عرفان اسے بخشا ۔ان صفات میں سے ایک نہایت اہم صفت جو ہستی باری تعالیٰ پرزبردست گواہ ہے خدا تعالیٰ کا مجیب الدعوات ہونا ہے۔ وہ خود اپنی ہستی کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ کون ہے جو لاچار کی دعائیں سنتا اور اس کی مصیبت دور کرتا ہے کیا خدا کے سوا کوئی اور معبودہے؟(سورۃ النمل:63)
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہوں جو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا اور اس کا جواب دیتا ہوں، شرط یہ ہے کہ یہ دعائیں کرنے والے کامل ایمان کے ساتھ میرے حکم قبول کریں۔(سورۃ البقرہ:187)
دراصل قبولیت دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ جتنا کوئی خدا کی باتیں مانتا ہے اسی قدر اس کی سنی اور مانی جاتی ہے ۔ ایک لاکھ چوبیس ہزارنبیوں کی زندگی گواہ ہے کہ ان کا ایک ایک لمحہ دعا کے سہارے گزرااور تبھی وہ کامیاب وکامران ہوئے۔
انبیاء کرام کے اس عظیم گروہ میں ایک وہ مرد میدان بھی ہے جس نے اپنے رب کریم کی اطاعت میں اپنا وجود ایسا مٹایا کہ خدا کی رضا اس کی رضا بن گئی۔ وہی فخرانسانیت جس نے یہ نعرہ بلند کیا کہ’’ میری نمازیں اورقربانیاں اور میرا مرنا اورجینا سب اس اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔ تب خدا بھی اس پر خوب مہربان ہوا اور اس دنیا میں اس کی سب مرادیں پوری کیں۔ اگلے جہاں میں بھی جب تمام انبیا ء کی خدمت میں خدا کے دربار میں شفاعت کرنے کی التماس ہو گی تو سب انبیاء کے عذر کے بعد آپؐ ہی وہ جری اللہ ہیں جو آگے بڑھیں گے اور اپنے مولیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اور گڑگڑا کر اپنے امتیوں کے لئے شفاعت کی اجازت چاہیں گے تب آپؐ کو یہ مثردہ سنایا جائے گا کہ ’’ سَلْ تُعْطَہْ‘‘ آج آپ ؐجو مانگیں گے عطا کیا جائے گا۔ اور پھر کتنے ہی ایسے امتیوںکے حق میں آپؐ کی شفاعت قبول ہو گی جن کے اعمال صالحہ میں کچھ کمزوریاں بھی رہ گئی تھیں اور وہ سب بخشے جائیں گے ۔یقیناً یہی وہ عظیم الشان مقبول دعا ہو گی جس کے بارے میں ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کو ایک خاص دعا کی قبولیت کا وعدہ ہوتا ہے اور میں نے وہ دعا اپنی امت کے لئے محفوظ کر رکھی ہے جو روز قیامت اپنے رب سے مانگوں گا۔ ہزاروں ہزار درود ہوں اس محسن اعظم ؐ پر جنہیں اپنی امت کا اس قدر درد تھا۔ (بخاری)27
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میںدعا کا عرفان اور اس پرسچا ایمان ہمارے سیدومولیٰ محمد مصطفیٰؐ نے پیدا کیا ،آپؐ نے ہمیں سکھایا کہ جوتی کا تسمہ بھی مانگنا ہو تو اپنے رب سے مانگو ۔ آپؐ کا تو لمحہ لمحہ دعا تھا اور آپؐ کی پاکیزہ سیرت قبولیت دعا کے سینکڑوں خوبصورت نمونوں سے بھری پڑی ہے۔ جن میںسے چند واقعات کا تذکرہ اس جگہ کیا جا رہا ہے تاکہ قبولیت دعا پر ایمان اور یقین بڑھے اور دعا کے لئے جوش اور جذبے اس طرح پروان چڑھیں جیسے حضرت مریم ؑ کے ہاں بے موسم پھل دیکھ کر حضرت زکریاؑ میں دعا کا جوش پیدا ہوا تھا جو بالآخر اُن کی قبولیت کا باعث ٹھہرا۔ ہم بھر پور یقین اور عزم کے ساتھ اپنے اس مولیٰ سے مانگیں جو اپنے بندوں کے ساتھ گمان کے مطابق ہی سلوک کرتاہے ۔سیرت رسولؐ سے ایسی مقبول دعاؤں کے چند نمونے یہاں پیش ہیں۔
ہدایت کیلئے دعائیں
(1) ہمارے آقا ومولیٰ کا اٹھنا بیٹھنا اور اوڑھنا بچھونا تو دعا ہی تھا، آپؐ کے ہر کام کا آغاز بھی دعا سے ہی ہوتا تھا اور دعاؤں سے ہی آپ ؐ کے کام انجام کو پہنچتے تھے ۔مکہ میں جب آپؐ نے دعوت اسلام کا آغاز فرمایا اور مخالفت شروع ہوئی تو سردار ان قریش میں عمرو بن ہشام (ابو جہل )اور عمر بن خطاب جیسے شدید معاندین پیش پیش تھے ۔ رسول کریم ؐ کے دل میں ان شدید دشمنان اسلام کے حق میں محبت اور رحم کے جذبات ہی پیدا ہوئے اورآپؐ نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی ۔
’’اے اللہ ! ان دو اشخاص عمرو بن ہشام اور عمر بن الخطاب میں سے کسی ایک کے ساتھ (جو تجھے پسند ہو ) اسلام کو عزت اور قوت نصیب فرما۔‘‘ (ترمذی)28
پھردنیا نے دیکھا کہ ہادیٔ برحق کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعا ایسے حیرت انگیز معجزانہ رنگ میں قبول ہوئی کہ وہی عمر جو گھر سے تلوار لے کر رسولؐ خدا کو قتل کرنے نکلے تھے اسلام کی محبت اور دعا کی تلوار سے گھائل ہو گئے ۔
(2) جب قریش نافرمانیوں میں حد سے بڑھ گئے اور ان کے ایمان لانے کی صورت نظر نہ آئی ۔تب بھی اس رحمۃ للعالمینؐ نے ان کی ہلاکت نہیں مانگی بلکہ بارگاہ الٰہی میں ایک التجا کی (جو شاید بظاہر تو بد دعا معلوم ہو لیکن فی الواقع وہ ان کو کسی بڑی سزا اور تباہی سے بچانے کے لئے ایک نہایت حکیمانہ دعا تھی )آپ ؐ نے عرض کیا !’’اے میرے مولیٰ! ان مشرکین مکہ کے مقابلہ پر میری مدد کسی ایسے قحط سے فرماجس طرح حضرت یوسف ؑ کی مدد تو نے قحط سالی کے ذریعہ فرمائی تھی۔‘‘
اس دعا میں رحمت وشفقت کا یہ عجیب رنگ غالب تھاکہ ان کو قحط سے ہلاک نہ کرنا بلکہ جس طرح یوسف کے بھائی قحط سالی سے مجبور ہو کر اس نشان کے بعد بالآخراُن پر ایمان لے آئے تھے اس طرح میری قوم کو بھی میرے پاس لے آ۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور مشرکین مکہ کو ایک شدید قحط نے آگھیرا۔ یہاں تک کہ ان کو ہڈیاںاور مردار کھانے کی نوبت آئی۔ تب مجبور ہو کر ابو سفیان آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ’’اے محمدؐ! آپ ؐ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ آپ ؐ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپ ؐ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں (کہ قحط سالی دور فرما ئے ) اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپ ؐ کی قوم تباہ ہو جائے گی‘‘۔
رسول کریم ؐ نے ابو سفیان کو احساس دلانے کے لئے صرف اتنا کہا کہ تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہو جو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو ۔مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ اس رحمت مجسم کو اپنی قوم کی ہلاکت ہر گز منظور نہ تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپ ؐ کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے اور اپنے مولیٰ سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی یہ دعا بھی خوب مقبول ہوئی۔ اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے ۔مگر ساتھ ہی وہ انکار ومخالفت میں بھی تیز ہو گئے ۔(بخاری)29
حضور ؐ کی دعا سے جب بارشوں کا کثرت سے نزول شروع ہوا تو مسلسل کئی روز تک بارش ہوتی چلی گئی ۔مشرکین نے پھر آکر بارش تھم جانے کے لئے درخواست دعا کی اور رسولؐ اللہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں بارش تھم گئی۔ (سیوطی30)مگر حیف صد حیف کہ اس نشان کے باوجود قریش انکار ومخالفت سے باز نہ آئے۔
(3) مکی دور میں مشرکین مکہ کی مخالفت اور انکار بالاصر ار سے تنگ آکر جب ہمارے آقا ومولیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے الٰہی ارشاد کے مطابق طائف کا قصد فرمایا تو آپؐ کو زندگی کی سب سے بڑی تکلیف اور اذیّت وہاں اٹھانی پڑی ۔حضرت عائشہ ؓ نے ایک دفعہ آپ ؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ !جنگ اُحد (جس میں آپ ؐ شدید زخمی ہوئے اور تکلیف اٹھائی ) سے زیادہ بھی کبھی آپؐ کو تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے؟ رسولؐاللہ نے فرمایا اے عائشہ ؓ میںنے تیری قوم سے بہت تکلیفیں برداشت کیں ۔مگر میری تکلیفوں کا سخت ترین دن وہ تھا جب میں طائف کے سردار عبدیالیل کے پاس گیا اور (پیغام حق پہنچانے کے لئے) اس سے اعانت اور امان چاہی مگر اس نے انکار کر دیا (بلکہ شہر کے اوباش آپؐ کے پیچھے لگا دئے جو آپؐ کو پتھر مارنے لگے یہاں تک کہ آپؐ کے پاؤں سے خون بہنے لگا)۔ تب میں افسردہ ہوکر وہاں سے لوٹا۔
اس موقع پر ہمارے آقا ومولیٰ ؐنے دردوکرب میں ڈوبی ہوئی دعا کی اس سے آپؐ کی اس جسمانی تکلیف اور اذیت کابھی اندازہ ہوتا ہے جو اس موقع پر آپؐ نے برداشت کی۔دعا سے یوںمعلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور طائف والوں کے انکار اور ظلم کے مقابل پر اپنی بے بسی اور بے کسی کا عالم دیکھ کر اس اولوالعزم رسولؐ سید المعصومین کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا ۔آپؐ نے اپنے مولیٰ کی غیرت کو یوں جوش دلایا کہ:۔
’’اے خداوند ! میں اپنے ضعف وناتوانی، مصیبت اور پریشانی کاحال تیرے سوا کس سے کہوں؟ مجھ میںصبر کی طاقت اب تھوڑی رہ گئی ہے۔ مجھے اپنی مشکل حل کرنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی ۔میں سب لوگوں میں ذلیل ورسوا ہو گیا ہوں ۔تیرا نام ارحم الراحمین ہے تو رحم فرما ! کیا تو مجھے دشمن کے حوالے کر دے گا جو مجھے تباہ وبرباد کردے ۔خیر! جو چاہے کر پر توُ مجھ سے ناراض نہ ہونا۔ بس پھر مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔‘‘(طبرانی)31
پھر جب آپؐ قرن الثعالب مقام پر پہنچے تو کچھ اوسان بحال ہوئے۔ آسمان کی طرف نگاہ کی تو جبریل ؑ کی آواز آئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعا کا جواب بھیجا ہے۔ تب ملک الجبال نے آپؐ کوسلام کیا اور کہا کہ اے محمد! آپؐ کیا چاہتے ہیں ؟اگر آپؐ چاہیں تو ان دو پہاڑوں کو اس وادی پر گرا کر تباہ کر دوں ۔
اپنے جانی دشمنوں کی ہلاکت کے جملہ اسباب جمع ہو جانے پر بھی آپؐ نے ان کی تباہی نہیں چاہی۔ آپؐ نے جواب دیا کہ نہیں ایسا مت کرو ۔میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد لاشریک کی عبادت کریں گے اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ (بخاری)32
صرف یہی نہیں کہ آپؐ نے اپنی قوم کی ہلاکت نہیں چاہی بلکہ نہایت درد کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعا کی ۔اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔
اے اللہ! میری قوم کو ہدایت نصیب کر کہ یہ نادان ہیں ۔(خضری)33
بے کسی اور بے بسی کے زمانے کایہ عجیب اور حیرت انگیز ماجرا ہے کہ وہ قوم جس سے ہمارے آقا ومولیٰؐ کو زندگی کا سب سے بڑا دکھ پہنچتا ہے۔اُن کے لئے بھی آپ ؐ کے دل کی گہرائیوں سے رحمت وہدایت کی دعا کے سوا کچھ نہیں نکلتا پھر جب مکہ فتح ہوتا ہے اور آپ ؐ کو اتنی طاقت حاصل ہوتی ہے کہ چاہیں تو طائف کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اس وقت بھی آپؐ اہل طائف کے لئے اپنے مولیٰ سے رحمت کی بھیک مانگتے ہی نظر آتے ہیں۔ اسلامی لشکر جب طائف کا رخ کرتا ہے تو اہل طائف محصور ہو کر مقابلہ کی ٹھان لیتے ہیں اور قلعہ بند ہو کر کھلے میدان میں پڑے مسلمان محاصرین پر خوب تیر اندازی کرتے ہیں تب صحابہؓ سے رہا نہیں جاتا اور وہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ثقیف قبیلہ کے تیروں کی بارش نے ہمیں بھون کر رکھ دیا ہے آپؐ ان ظالموں کے خلاف کوئی بد دعا کریں۔ ایک ظالم قوم کا مسلسل ظلم اورانکار دیکھ کراورطاقت پاکر بھی ہمارے آقا ومولیٰؐ کی رحمت ودعا پھرجوش میں ہے آپؐ جواباً فرماتے ہیں !
اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفاً۔اے اللہ !وادی طائف کی قوم ثقیف کو ہدایت عطا فرما ۔دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی یہ دعا بھی قبولیت کا شرف پا گئی اور 9ھ میں قوم ثقیف نے مدینہ میں آکر اسلام قبول کر لیا ۔(بخاری)34
(4) یمن کے قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرو نے قبول اسلام کے بعد نبی کریم ؐ سے درخواست کی کہ میں اپنے قبیلہ کا سردار ہوں اور انہیں جاکر اسلام کی طرف بلانا چاہتا ہوں ۔آپؐ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے کوئی تائیدی نشان عطا فرمائے۔نبی کریمؐ نے اُسی وقت دعا کی کہ اے اللہ! طفیلؓ بن عمرو کو کوئی نشان عطاکر۔یہ دعا عجیب رنگ میں قبول ہوئی جس نے حضرت طفیلؓ کو بھی مستجاب الدعوات بنادیا۔
حضرت طفیلؓ کہتے ہیں میں اپنی قوم کی طرف لوٹا تواپنے شہر میں داخل ہوتے وقت میری پیشانی پر روشنی کا ایک نشان ظاہر ہوا۔میں نے دعا کی کہ اے اللہ! میری قوم یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اپنا دین تبدیل کرنے کی وجہ سے میرا چہرہ مسخ ہوگیا ہے۔اس لئے یہ نشان کہیںاورظاہر فرمادے۔چنانچہ میری چابُک کے سرے پر وہ روشنی ظاہر ہوگئی اور جب میں شہر میں داخل ہوا تو لوگ میری چابُک کے سرے پر ایک روشن چراغ کا نظارہ کرنے لگے۔طفیل کے والد اور بیوی وغیرہ رشتہ داروں نے تو ان کی حکمت عملی سے نیز یہ نشان دیکھ کر حق قبول کرلیامگر قوم پھر بھی نہ مانی۔
تب حضرت طفیلؓ نے دوبارہ مکہ آکر رسول اللہؐ سے اپنی قوم کے خلاف بددعا کی درخواست کی۔نبی کریمؐ نے ہاتھ اُٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ دوس قبیلہ کو ہدایت عطافرمااور ان کو یہاں لے کر آ۔اور طفیل کو یہ نصیحت فرمائی کہ آپ واپس جاکر نہایت حکمت، نرمی اور محبت سے اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلائیں۔اس نصیحت پر عمل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اوردوس قبیلہ مسلمان ہونے لگا۔غزوۂ خیبر کے زمانہ میں حضرت طفیل اپنی قوم میں سے مسلمان ہونے والوں کو لیکر آئے اور جلد ہی مدینہ میں دوس کے سترّ اسّی گھرانے آباد ہوگئے۔یہ بلاشبہ رسول اللہؐ کی دعا کا معجزنمانشان تھا۔(بیہقی)35
(5) دوس قبیلہ کے ابوہریرہؓ اور ان کی مشرک والدہ بھی اسی دعا کا پھل تھے ۔ ایک روز حضرت ابوہریرہؓ نے مشرک والدہ کو اسلام قبول کرنے کو کہا تو انہوں نے رسولؐ اللہ کی شان میں گستاخی کی۔ابوہریرہؓ بڑے کرب کے ساتھ دربارنبوی میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل سے یہ دعا نکلی۔’’اَللّٰھُمَّ اھْدِ اُمَّ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ‘‘اے اللہ!ابوہریرہؓ کی ماں کو ہدایت دے۔یہ دعا عجیب معجزانہ طور پر قبول ہوئی۔ابوہریرہؓ گھر واپس آئے تو ان کی والدہ میں ایک عجیب تغیرّ اور انقلاب پیدا ہوچکا تھا۔وہ بآواز بلند ’’اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًارَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ پڑھ کر اپنے قبول اسلام کا اعلان کررہی تھیں۔
ابوہریرہؓ پھولے نہ سمائے اور خوشی کے آنسو لئے اسی وقت پھر رسولؐاللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔سارا واقعہ آپؐ سے عرض کیا۔ دعا پر ان کا ایمان اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ عرض کیا اے خدا کے رسولؐ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری والدہ کی محبت مومنوں کے دلوں میں پیدا کردے اور رسول اللہؐ نے ان کے حق میں یہ دعا بھی کردی۔(ابن حجر)36
(6) ایک دفعہ ایک یہودی نبی کریمؐ کے پاس بیٹھا تھا۔حضورؐ کو چھینک آئی تو یہودی نے یَرْحَمْکَ اللّٰہُ کہا کہ اللہ آپؐ پر رحم کرے۔نبی کریم ؐ نے اسے جواباً یہ دعا دی کہ اللہ تمہیں ہدایت دے۔چنانچہ اس یہودی کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطاہوئی۔(سیوطی)37
ہمارے آقا و مولیٰ کی یہ دعائیں ہی تھیں جنہوں نے سر زمین عرب کی کایا پلٹ دی تھی۔ یہ تو ان دعائوں کا ذکر تھا جو قوم کی ہدایت کے لئے گاہے بگاہے آپؐ نے کیں مگر آپؐ کا وجود تو مجسم دعا تھا۔چلتا پھرتا دعائوں کا ایک پیکر۔ایسے لگتا ہے کہ مَایَعْبَؤُابِکُمْ َربِّیْ لَوْلَادُعَاؤُکُمْ (الفرقان:78)( کہ اگر تم دعا نہ کرو تو خدا کو تمہاری کیا پرواہ ہے) کا ارشاد ہر دم آپؐ کے مدنظر رہتا تھا ۔
غزوات میں دعائیں
رسول اللہؐ کی زندگی کی تمام تر فتوحات بھی دراصل آپؐ کی دعائوں کی ہی مرہون منت تھیں۔ ہر مشکل مرحلے پر آپؐ ہمیشہ خدا کو یاد کرتے اور نصرت الہٰی طلب کرتے نظر آتے ہیں۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ دعا آپ ؐ کی زندگی اور آپؐ کی جملہ مہمات دینیہ کی ایک کلید تھی۔جسے آپؐ ہر ضرورت کے وقت استعمال فرماتے تھے۔ ہمیشہ یہ کلید آپؐ کے لئے فتوحات کے دروازے کھولتی ہوئی نظر آتی ہے۔
(7) بدر کی فتح کو اگر کوئی 313نہتے مسلمانوں کی فتح قرار دیتا ہے تودے، میں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ دراصل میرے آقا و مولیٰ کی ان بے قرار دعائوں کی فتح تھی جو بدر کی جھونپڑی میں نہایت عاجزی اور اضطراب سے آپؐ نے مانگیں۔اس روزآپؐ نے اپنے مولیٰ کونامعلوم کیا کیا واسطے دیئے۔ یہاں تک کہ اسے اس کی توحید کا واسطہ دے کرکہااے مولیٰ! آج تو نے اس چھوٹی سی موحّد جماعت کو ہلاک کردیا تو پھر تیری عبادت کون کریگا۔ (بخاری)38
کس قدر خدائی غیرت کو جوش دلانے والی ہے یہ دعا۔گویا باالفاظ دیگر آپؐ اپنے مولیٰ سے یوں مخاطب تھے کہ ان مٹھی بھر جانوں کی تو پرواہ نہیں،مجھے تو تجھ سے اور تیری توحید سے غرض ہے اور سالہا سال کی محنت کے بعدچند موحّد عبادت گزاروں کی یہ مٹھی بھر جماعت میں نے اکٹھی کی ہے۔اگر اس جماعت کو بھی تو نے ہلاک کردیا تو مجھے یہ فکر ہے کہ تیرے نام لیوا کہاں سے آئیں گے؟ بدر کے جھونپڑے میں کی جانے والی یہ دعا ہی تھی کہ بارگاہ الوہیت میں جب مقبول ہوئی تو اس نے کنکروں کی ایک مٹھی کو طوفان بادوباراں میں بدل کے رکھ دیااورتین سو تیرہ نہتے مسلمانوں کو مشرکین کے ایک ہزار مسلح لشکر جرار پر فتح عطا فرمائی۔(بخاری)39
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیںکہ بدر کے موقع پر رسول اللہؐ ساری رات دعا کرتے رہے۔عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے سچے واسطے دے کر محمدؐ سے بڑھ کر دعا کرنے والا کوئی نہیں سنا۔آپؐ نے بدر میںبڑے الحاح کے ساتھ دعا کر کے جب سراُٹھایا تو آپؐ کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔آپؐ نے فرمایا آج شام دشمن قوم کے لوگ جس جگہ ہلاک ہوکر گریں گے ان کی جگہ میں دیکھ رہا ہوں۔(ہیثمی)40
(8) غزوۂ احزاب کی فتح بھی دراصل دعائوں کی فتح تھی۔جب مدینہ کی چھوٹی سے بستی پر چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں مسلح لشکر چڑھ آئے اور محصور مسلمان سخت سردی کے ایام میں،ناکافی غذائی ضروریات کے باعث سخت پریشان تھے۔صحابہؓ رسول نے بھوک کا مقابلہ کرنے کیلئے پیٹوں پر پتھر باندھ لئے اور خود رسول خداؐ کے پیٹ پر دو پتھر تھے۔وہ جنگ صرف ایک اعصاب شکن جنگ ہی نہ تھی بلکہ مسلمانوں کی زندگی پر ہولناک ابتلا تھاجس کا سچا نقشہ اور صاف تصویر قرآن شریف نے یوں کھینچی ہے۔
’’جب دشمن اوپر سے بھی چڑھ آئے تھے اور نیچے سے بھی اور آنکھیں پتھرا گئیں اور دل مارے خوف کے اچھل کر گلوں تک آرہے تھے اور مومنوں کو خدا کے وعدوں پر طرح طرح کے گمان آنے لگے۔جہاں مومن خوب آزمائے گئے اتنے کہ ان کی زندگیوں پر ایک شدیداور خوفناک زلزلہ کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ ہلائے گئے بلکہ جھنجھوڑ کر رکھ دئے گئے۔‘‘(سورۃالاحزاب11,12)
ان نازک حالات میں جب شہر مدینہ زندگی اور موت کی کش مکش میںتھا۔ مدینہ میں ایک وجود ایسا بھی تھا جو اپنے مولیٰ پر کمال یقین اور توکل کے ساتھ ان دعائوں میں مصروف تھا۔
اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِ مْہُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۔ اے میرے مولیٰ ! اپنی پاک کتاب کو نازل کرنے والے اور جلد حساب لینے والے! عرب کے ان تمام لشکروں کو پسپا کردے ان کو شکست فاش دے اور ہلا کر رکھ دے۔
اس دعا کے نتیجہ میں اچانک ایک خوفناک آندھی نمودار ہوئی جس نے عربوں کی آگیں بجھادیں۔ وہ محاصرہ چھوڑ کر سخت افراتفری کے عالم میںبھاگے اور ایسے بھاگے کہ سر پیر کا ہوش نہ رہا۔لشکر کفار کا سردار ابو سفیان اپنے اونٹ کا گھٹنا تک کھولنا بھول گیا اور بندھے ہوئے اونٹ پر سوار ہوکر اسے بھگانا چاہا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر دعائوں کی قبولیت کے معجزہ کا ذکر کرتے ہوئے بے اختیار یہ کہہ اٹھے۔
لَااِلٰہَ اِ لَّااللّٰہُ وَحْدَہ‘ اَعَزَّ جُنْدَہ‘ وَ نَصَرَ عَبْدَہ‘ وَغَلَبَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ‘ فَلَا شَییَٔ بَعْدَہ ‘ (بخاری)41
کہ اس خدا کے سوا کوئی معبود نہیں جس نے اپنے گروہ کو عزت دی۔ اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور خود ہی تمام لشکروں پہ غالب آیا۔ سب کچھ وہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔
(9) غزوہ خیبر کا عظیم معرکہ بھی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی دعائوں کا ثمرہ تھا۔جب مسلسل کئی روز مختلف جرنیلوں کی سرکردگی میں ترتیب دئیے گئے لشکر خیبر کے قلعوں کو فتح نہ کرسکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعائوں میں لگ گئے،تب واقعہ یہ ہوا کہ خیبر کے محاصرہ کی ساتویں رات حضرت عمرؓ کے حفاظتی دستے نے ایک یہودی جاسوس کو اسلامی لشکر کے قریب گھومتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ اسے رسول کریمؐ کی خدمت میں لے آئے۔ اس وقت بھی حضور ؐ خدا کے حضور سر بسجود دعائوں میں مصروف تھے۔مگر آپؐ کی دعائیں رنگ لاچکی تھیں، یہودی جاسوس نے جان کی امان طلب کرتے ہوئے مسلمانوں کو خیبر کے قلعوں کے اہم جنگی راز بتادیئے۔ اس نے اہل خیبر کے خوف و ہراس اور مایوسی کے نتیجہ میں ایک قلعہ خالی کردینے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ فتح ہونے پر وہ راشن اور اسلحہ کے ذخیرے بھی بتائے گا۔(الحلبیہ)42
دعائوں کے نتیجہ میں خیبر کی فتح کی کلید حاصل ہوچکی تھی رسول کریم ؐ نے اس وقت اعلان فرمایا کہ صبح آپؐ اُس شخص کو لشکرِ اسلامی کا عَلم عطا کریں گے جس کے ہاتھ پر خدا مسلمانوںکو فتح دینے والا ہے، اور پھر آپ ؐ نے حضر ت علیؓ کو بلا کر عَلم اسلام عطا کیا۔ ان کی دکھتی آنکھیں آپؐ کی دعا کے فوری اثر سے شفا یاب ہوئیں اور دعائوں کے ساتھ آپؐ نے حضرت علیؓ کو رخصت کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر خیبر فتح فرمایا۔(بخاری)43
(10) مکہ کی عظیم الشان فتح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائوں کا تابندہ نشان تھا، رحمت دو عالم صدق دل سے چاہتے تھے کہ معاہدہ شکن دشمن پر اس طرح اچانک چڑھائی کریں کہ اسے کانوں کان خبر نہ ہوا ور اس کے نتیجہ میں دشمن جانی نقصان سے بھی بچ جائے۔اس مقصد کے حصول کے لئے دیگر تدابیر کے علاوہ آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور دعائوں میں لگ گئے کہ اے اللہ! قریش کے جاسوس ہم سے روک رکھنا اور ہماری خبریں ان تک نہ پہنچنے پائیں۔(حلبیہ)44
یہ دعائیں ایسی مقبول ہوئیں کہ جب رسولؐ خدا نہایت رازداری کے ساتھ دس ہزار قدوسیوں کے جلو میں اہل مکہ کے سر پر آن پہنچے تو بھی ابوسفیان کو یقین نہ آتا تھا کہ مسلمان اتنے بڑے لشکر کے ساتھ اتنی تیزی سے مکہ پر چڑھ آئے ہیں۔آپؐ نے انہیں یوں حیران و ششدر اور مبہوت کر چھوڑا کہ وہ رسول اللہ ؐ کے مقابلہ کا موقع نہ پاسکے اور مکہ بغیرکسی کشت و خون کے فتح ہوگیا۔
(11) غزوات میں قدم قدم پر جو مشکلات رسول کریمؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو پیش آتیں، آپؐ اسی وقت خداتعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوکر ان کا ازالہ کرتے۔ایک جنگ میں زادراہ اور راشن کی بہت قلت ہوگئی،صحابہ ؓ کرام پریشان ہوکر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھانے کیلئے اپنے سواری کے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت چاہی۔پہلے تو آپؐ نے ان پر رحم کھاتے ہوئے اجازت دے دی، مگر بعد میں حضرت عمرؓ کے اس سوال پر کہ سواری کے اونٹ بھی نہ رہے تو سفر کیسے طے ہوگا؟ آپؐ کے دل میں دعا کا جوش پیدا ہوا۔ اسی وقت آپؐ نے اعلان کروایا کہ جو بچی کھچی زاد راہ قافلہ کے پاس ہے وہ اکٹھی کی جائے۔ پھرآپؐ نے اس معمولی سے جمع شدہ زاد راہ پر برکت کی دعا کی ۔اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور یہی خوراک اتنی بڑھ گئی کہ قافلہ کے سب لوگ اپنے اپنے برتن بھر کر لے گئے۔قبولیت دعا کا یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر رسول خدا ؐبے اختیار کہہ اٹھے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔(بخاری)45
(12) ایک سفر میں حضور ﷺ کی اونٹنی بدک کر بھاگ نکلی۔آپؐ نے دعا کی تو اچانک آندھی کا ایک بگولا نمودار ہوا جو اس اونٹنی کو دھکیل کر آپؐ کے پاس واپس لے آیا۔(عیاض)46
اہل مدینہ کیلئے دعائیں
(13) جب رسول اللہؐ مکہ سے ہجرت کر کے یثرب تشریف لائے تو یہ ایک وبائی علاقہ تھا جس کی وجہ سے کئی صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ ،حضرت بلالؓ ،اور حضرت عائشہ ؓ وغیرہ بیمار پڑ گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت خدا کے حضور دعا کی کہ اے مولیٰ! اس وبائی علاقہ کی وباء دو ر کردے اور اس شہر کے رزق میں برکت عطا فرما۔(بخاری47)یہ دعا جس طرح قبول ہوئی خود شہر مدینہ کی آبادی و شادابی اس پر شاہد ناطق ہے۔
(14) ایک دفعہ مدینہ میں سخت قحط پڑگیا،ایک شخص نے خطبہ جمعہ میں کھڑے ہوکر نہایت لجاجت سے باران رحمت کے لئے یوں درخواست دعا کی کہ اے اللہ کے رسولؐ ! مال مویشی خشک سالی سے ہلاک ہوگئے اور راستے ٹوٹ گئے۔ آپؐ دعا کریں کہ خدا بارش دے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! ہماری خشک سالی دور کر اور ہم پہ بارش برسا۔حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ اس وقت ہمیں آسمان پر کوئی بادل نظر نہیں آتا تھا اور مطلع بالکل صاف تھا۔ اچانک سلع کی پہاڑیوں کے پیچھے سے چھوٹی سی ایک بدلی اٹھی جو وسط آسمان میں آکر پھیلی ،پھروہ برسی اور خوب برسی یہاں تک کہ ایک ہفتہ تک ہم نے سورج کی شکل نہ دیکھی۔ اگلے خطبہ جمعہ کے دوران پھر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! اب تو بارش کی کثرت سے مال مویشی مرنے لگے ہیں اور سیلاب سے رستے بہ رہے ہیں۔ دعا کریں کہ اب بارش تھم جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! ان بادلوں کو ہمارے ارد گرد لے جا۔ ہم پہ نہ برسا۔ان کوپہاڑوں،ٹیلوں، وادیوںاور درختوں پر لے جا۔ تب اسی وقت معجزانہ رنگ میںبارش تھم گئی اور ہم جمعہ کے بعد باہر نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی۔(بخاری)48
رزق اور مال میں برکت کی دعائیں
رسول کریم ؐ کی معجزانہ دعائوں کے اثرات اور برکات مال اور رزق میں خارق عادت برکت کے رنگ میں بھی ظاہر ہوئے۔
(15) حضرت انس ؓ بن مالک انصاری دس برس کے تھے کہ والدین نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ذاتی خادم کے طور پر پیش کر دیا۔ ایک دفعہ حضرت انس ؓ کی والدہ حضرت ام سُلیم ؓنے آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ ! یہ انسؓ آپ کا خادم ہے، اس کے لئے اللہ سے دعا کریں۔ آپؐنے اسی وقت انسؓ کو دعا دی کہ اے اللہ! انس کے مال واولاد میں برکت دینا اور جو کچھ تو اسے عطا کرے اس میں برکت ڈالنا ۔(بخاری)49
حضرت انسؓ خود بیان کرتے تھے کہ خدا نے یہ دعا میرے حق میںخوب قبول فرمائی۔ میرا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہے اور میری زندگی میں میری اولاد بیٹے، بیٹیاں،پوتے نواسے ،نواسیاں سب ملا کر اسّی سے بھی زائد ہیں۔ حضرت انسؓ نے 103 سے 110سال عمر پائی۔(ابن اثیر)50
(16) حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللہ ؓ اُحد میں شہید ہوگئے تھے اور ان کے ذمہ یہودی ساہو کاروں کا کچھ قرض تھاجس کا وہ حضرت جابر ؓ سے سختی سے مطالبہ کررہے تھے۔یہاں تک کہ حضرت جابرؓ نے ان کو قرض کے عوض یہ پیشکش کردی کہ اس سال ان کے کھجوروں کے باغ کا سارا پھل قرض خواہ لے کر قرض سے بری الذمہ قرار دیدیں۔ مگر یہودی بنیئے نے رسول اللہؐ کی سفارش کے باوجود بھی ایساکرنے سے انکار کیا تو رسول کریم ؐ نے باغ میں تشریف لاکر دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے کھجور کا اتنا پھل ہوا کہ قرض ادا کر کے بھی نصف کے قریب کھجوربچ رہی۔جب حضرت ابوبکرؓ کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے یہ تبصرہ کیا کہ رسول اللہؐ نے جب باغ میں جاکر دعا کی تھی اس وقت ہی ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے پھل میں خارق عادت برکت دے گا۔(بخاری)51
(17) حضرت مقدادؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی بھوک اور فاقوں سے ایسے بدحال ہوئے کہ سماعت و بصارت بھی متاثر ہوگئی۔
مقدادؓ اپنی اس وقت کی مالی تنگی کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک اوڑھنے کی چادر تھی وہ بھی اتنی مختصر کہ سر ڈھانپتا تو پائوں ننگے ہوجاتے اور پائوں ڈھانکتا تو سر ننگا رہتا تھا ۔ہم نے محتاجی کے اس عالم میں صحابہؓ رسولؐ سے مدد چاہی مگر کوئی بھی ہمیں مہمان بناکر پاس نہ رکھ سکا۔ بالآخر ہم رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔ حضورؐ ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ آپؐ کے گھر میں تین بکریاں تھیں۔ آپؐ نے فرمایا ان بکریوں کا دودھ دوہ لیا کرو۔ ہم چاروںپی لیا کریں گے چنانچہ یوں گزارہ ہونے لگا۔ہم تینوں دودھ کا اپنا حصہ پی کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ بچا کر رکھ لیتے تھے۔ آپؐ رات کو تشریف لاتے ۔پہلے ہلکی آواز میں سلام کرتے کہ سونے والے جاگ نہ جائیں اور جاگنے والا سن لے۔پھر اپنی جائے نماز پر نماز پڑھ کر اس جگہ آتے جہاں آپؐ کے لئے دودھ رکھا ہوتا تھا۔آپؐ خود دودھ لے کر نوش فرماتے۔ ایک رات شیطان نے میرے دل میں کیا خیال ڈالا کہ اپنے حصہ کا دُودھ پی کر میں سوچنے لگاکہ یہ جو حضور ؐ کے لئے تھوڑا سا دودھ پڑا ہے اس کی آپؐ کو ضرورت ہی کیا ہے ۔آپؐ کی خدمت میں تو انصار تحفے پیش کرتے رہتے ہیںاور آپؐ اس سے کھا پی لیتے ہوں گے۔یہ سوچ کر میں نے حضورؐ کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا۔ جب اس سے خوب پیٹ بھر چکا توفکرہونے لگی کہ اب رسول کریم ؐ کیلئے کوئی دودھ باقی نہیں رہا اور اپنے کئے پر سخت ندامت سے اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ میرا برا ہومیں نے یہ کیا کیاکہ رسول کریم ﷺ کا حصہ بھی ہڑپ کر گیا۔اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئیں گے اور حسب معمول جب دودھ اس جگہ نہیں ملے گا تو ضرور میرے خلاف کوئی بد دعا کریں گے اور میری دنیاو آخرت تباہ ہوجائے گی۔اسی مخمصے اور بے چینی میں میری نیند اڑ گئی تھی ،جبکہ میرے دونوں ساتھی میٹھی نیند سورہے تھے کیونکہ وہ میری اس حرکت میں شامل نہیں تھے۔
اسی اثنا ء میں رسول اللہ ؐ تشریف لائے۔ آپؐ نے حسب عادت سلام کیا۔پہلے اپنی جائے نماز پر جاکر نماز پڑھتے رہے۔ پھر اپنے دودھ والے برتن کے پاس گئے ڈھکنا اٹھایا تو اس میں کچھ نہ پایا۔اُدھر آپ ؐ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور ادھر مجھے یہ خوف کہ لو اب میرے خلاف بددعا ہوئی اور میں مارا گیا۔ مگر آپؐ نے جو دعا کی وہ یہ تھی اے اللہ! جو مجھے کھلائے تو اس کو کھلا جو مجھے پلائے تو خود اس کو پلا۔۔۔اس دعا کا سننا تھا کہ میں فوراً اٹھا چادر اوڑھی اور چھری لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ذبح کر کے حضورؐ کو کھلا کر آپؐ کی دعا کا وارث بنوں۔ جب میں سب سے موٹی بکری کو ذبح کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے تھنوں میں دودھ اترا ہوا ہے،حالانکہ شام کو دودھ نکالا تھا پھر جب باقی بکریوں پر نظر کی تو سب کا یہی حال دیکھا۔ چنانچہ میں نے بکری ذبح کر نے کا ارادہ ترک کر کے حضورؐ کے گھر سے دودھ کا برتن لیا اور بکریاں دوبارہ دوہ کراسے بھر لیا اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپؐ نے جب تازہ دودھ دیکھا تو خیال ہوا کہ ان بیچاروں نے بھی ابھی تک دودھ نہیں پیاہوگا۔فرمانے لگے کیا تم لوگوں نے آج رات دودھ نہیں پیا۔ میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ حضورؐ !بس آپؐ پئیں۔ حضورؐ نے کچھ دودھ پی کر باقی مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ اب تم پی لو۔ میں نے کہا کہ آپؐ اور پئیں۔ حضورؐ نے اور پیا اور پھر مجھے دے دیا۔اب دل کو تسلی ہوئی کہ رسول اللہ ؐبھوکے نہیں رہے خوب سیر ہوچکے ہیں اور یہ خوشی بھی کہ آپؐ کی یہ دعا کہ ’’اے اللہ! جو مجھے پلائے تو اسے بھی پلا‘‘ میرے حق میں قبول ہوچکی ہے۔تب حضورؐ کے دودھ کا حصہ پینے کی اپنی حرکت یاد کر کے مجھے بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی، اتنی ہنسی کہ میں لوٹ پوٹ ہوکر زمین پر گر پڑا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے مقداد ! تجھے اپنی کونسی عجیب حرکت یاد آئی ہے جس پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہو ۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا قصہ کہہ سنایا کہ اس طرح آپؐ کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا اپنے حق میں آپؐ سے دعا بھی کروالی اور دوبارہ دودھ بھی پی لیا۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے(قبولیت دعا کے نتیجہ میں) خاص رحمت کا نزول تھا ۔تم نے اپنے ساتھی کو جگا کراور اس دودھ میں سے پلا کر کیوں نہ ان کے حق میں بھی یہ دعا پوری کروائی میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ مجھے اس برکت سے حصہ مل گیاتومیں اس بات سے بے پرواہ ہوگیا کہ کوئی اور اس میں شریک ہوتا ہے کہ نہیں۔(مسلم)52
(18) اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کے لئے رسول اللہؐ نے دعا کی کہ کبھی ان کو بھوک کی تکلیف نہ آئے۔ فاطمہؓ فرماتی ہیں اس کے بعد کبھی مجھے بھوک نہیں پہنچی۔(سیوطی)53
(19) حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کی تجارت میں برکت کے لئے حضورؐ نے دعا کی۔جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ کوئی چیز خریدتے تو اس میںنفع پاتے۔(سیوطی)54
(20) حضرت عرُوہؓ کے لئے آپؐ نے برکت کی دعاکی۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں نے بازار جاکر سودا لگایا اور بسا اوقات چالیس ہزار تک منافع لے کر واپس لوٹا۔ امام بخاری نے لکھا ہے کہ عروہؓ مٹی بھی خریدتے تھے تو اس میں منافع پاتے تھے۔(سیوطی)55
شفاء کی دعائیں
(21) رسول کریمؐنے مختلف مواقع پر بعض بیماروں کیلئے معجزانہ شفا کی دعا مانگی۔خدا تعالیٰ نے اس دعا کی قبولیت کے فوری اثرات ظاہر فرمائے، غزوہ خیبر میں رسول اکرمؐ نے اعلان فرمایا کہ کل میں جس شخص کو جھنڈا دوں گا اس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ فتح عطافرمائے گا۔ صحابہ نے اس امید میں رات بسر کی کہ شاید یہ قرعۂ فال ان کے نام پڑے۔ حضرت علیؓ کو آشوب چشم کی تکلیف تھی، آنکھیں اتنی شدید دکھتی تھیں کہ صحابہؓ کا اس طرف خیال ہی نہیں گیا کہ یہ عظیم فاتح حضرت علیؓ بھی ہوسکتے ہیں۔اگلی صبح جب حضورؐ نے حضرت علیؓ کو یاد فرمایا تو صحابہ ؓ نے ان کی بیماری کی وجہ سے معذرت پیش کرنا چاہی ،مگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؐ کو بلا کر آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور دعا کی۔ خدا نے حضرت علیؓ کو معجزانہ طور پر اسی وقت شفا عطافرمائی اور شفا بھی ایسی کہ یوں لگتا تھا جیسے پہلے کبھی آپؓ کی آنکھیں خراب ہی نہ ہوئی تھیں۔ (بخاری)56
(22) ایک اور موقع پررسول کریم ؐ نے حضرت علیؓ کے حق میں گرمی و سردی کے اثر سے محفوظ رہنے کی دعا کی چنانچہ وہ گرمی و سردی کے اثر سے محفوظ رہتے تھے۔ (ابن ماجہ)57
(23) حضرت یعلی بن مرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔راستہ میں ایک عورت ملی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اس بچے کو نیند کی حالت میں نامعلوم کتنی مرتبہ دورہ پڑتا ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ بچہ مجھے پکڑائو۔میں نے بچہ حضورؐ کو دیا۔ آپؐ نے اسے اپنے پالان پر بٹھایا اور اس کا منہ کھول کر اس میں تین پھونکیں ماریں اور اسے اپنا لعاب دھن دیا اور فرمایا’’اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ کے بندے۔ اے اللہ کے دشمن دور ہوجا‘‘ پھر حضورؐ نے وہ بچہ واپس پکڑا دیا اور اس عورت سے فرمایا کہ واپسی سفر میں اسی جگہ آکر ملنا اور بچے کا حال بتانا۔
سفر سے واپسی پر وہ عورت وہاں موجود تھی۔اس کے ساتھ تین بکریاں بھی تھیں۔ رسول کریمؐ نے پوچھا بچے کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا خدا کی قسم اس گھڑی تک اُسے کوئی دورہ نہیں پڑا۔پھر اس نے تین بکریاں حضورؐ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیں نبی کریمؐ نے مجھے فرمایا کہ نیچے اترو اور ایک بکری لے کر باقی واپس کردو۔(احمد)58
(24) حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی اور عرض کیا کہ اسے کھانے کے وقت جنون کا دورہ ہوتا ہے۔رسول کریمؐنے اس کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی۔اچانک اسے کھل کر قے ہوئی اور اس کے پیٹ سے سیاہ رنگ کا چھوٹا سا سانپ نکل کر بھاگ گیا۔(احمد)59
(25) حضرت سائب بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میری خالہ رسول کریمؐ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا کہ حضورؐ یہ میرا بھانجا سائب بیمار ہوگیا ہے۔آپؐ اس کیلئے دعا کریں۔ حضورؐ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے حق میں برکت کی دعا کی۔حضورؐ نے وضو فرمایا تو میں نے آپؐ کے وضوء کا بچا ہوا پانی بطور تبرک پی لیا۔(بخاری)60
سائبؓ سن 2 ھ میں پیدا ہوئے تھے یہ واقعہ پانچ چھ برس کی عمر کا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سائبؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت سے نہ صرف شفا دی بلکہ لمبی عمر عطا فرمائی اور سن 80ھ میں بعمر78برس ان کا انتقال ہوا۔(خطیب)61
(26) یزید بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہؓ کی پنڈلی پر ایک زخم کا نشان دیکھا۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے بتایا کہ خیبر کے دن مجھے یہ زخم آیا تھا۔زخم اتنا بڑا تھا کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ سلمہؓ زخمی ہوگیا ہے۔مجھے اٹھاکر نبی کریم ؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپؐ(نے دعا کر کے) تین پھونکیں مجھ پہ ماریں۔تواسی وقت وہ زخم اچھا ہوگیا۔ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی زخم آیا ہی نہیں۔(صرف نشان باقی رہ گیا)۔اس کے بعد پھر کبھی اس میں تکلیف نہیں ہوئی۔(بخاری)62
(27) عمرو بن اخطب ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے چہرے پر پھیرا اور میرے حق میں صحت اور خوبصورتی کی دعا کی۔اللہ تعالیٰ نے یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ َعمرو کو صحت والی لمبی زندگی اور اولاد عطا فرمائی۔ ایک سو بیس سال کی عمر میں بھی ان کی ایسی صحت تھی کہ سر میں صرف چند سفید بال تھے۔(ترمذی)63
(28) حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے چچا ابو طالب بیمار ہوئے۔ آپؐ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ انہوں نے کہا بھتیجے! اپنے اس رب سے جس نے تجھے مبعوث کیا ہے دعا کر کہ وہ مجھے اچھا کردے۔ نبی کریمؐ نے اسی وقت دعا کی ’’اے اللہ میرے چچا کو شفا دے۔‘‘ یہ دعا حیرت انگیز رنگ میں فی الفور قبول ہوئی۔ ابو طالب اسی وقت اس طرح کھڑے ہوگئے جیسے ان کے بندھن کھول دیئے گئے ہوں۔اور کہنے لگے اے محمدؐ! واقعی تیرے رب نے تجھے بھیجا ہے اور وہ تیری بات بھی خوب مانتا ہے۔آنحضورؐ نے فرمایا اے چچا اگر آپؐ بھی اللہ تعالیٰ کی باتیں مانیں تو وہ ضرور آپؐ کی بھی سنے گا اور مانے گا۔(حاکم)64
(29) حضرت ابو قتادہ ؓ کے لئے رسول اللہؐ نے دعا کی کہ اے اللہ ان کو کامیاب و کامران کر اور ان کے بالوں اور چہرہ کو برکت دے،چنانچہ ابوقتادہؓ نے صحت والی لمبی عمر پائی۔روایت ہے کہ ستر برس کی عمر میں بھی وہ پندرہ سالہ صحت مند جوان نظر آتے تھے۔(عیاض)65
(30) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خدمت کرنے والے صحابہ کے لئے رسول کریمؐ بہت دعائیں کیا کرتے تھے۔ مخلص خدّام کیلئے بسااوقات آپؐ کے دل سے ایسی دعا نکلتی تھی کہ معجزانہ رنگ میں اس کی قبولیت کے اثرات ظاہر ہوتے تھے۔
عبداللہ بن عتیکؓ انصاری ایک مہم پر بھجوائے گئے۔واپسی پرایک حادثہ میں انکی ٹانگ کوشدید ضرب آئی اور پنڈلی ٹوٹ گئی ۔وہ کہتے ہیں میں ایک ٹانگ پر کودتا ہوا اپنے ساتھیوں تک پہنچا۔ پھر رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپؐ نے فرمایا اپنا پائوں پھیلائو۔میں نے پائوں حضورؐ کے سامنے رکھ دیا۔ آپؐ نے اس پر ہاتھ پھیرا تو ایسے لگا جیسے کبھی مجھے یہ تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔(بخاری)66
قبولیت دعا کی پیشگی خبر
رسول کریمؐ کی دعاؤں کی ایک شان یہ بھی تھی کہ آپؐبعض دعائوں کی قبولیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے علم پاکرقبل از وقت اطلاع فرما دیا کرتے تھے۔
(31) ایک مرتبہ نبی کریمؐحضرت انس ؓ بن مالک کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں کچھ دیر آرام فرمایا ،دریں اثناء آپؐ کی آنکھ لگ گئی۔ بیدار ہوئے تو مسکرارہے تھے۔ انسؓ کی خالہ ام حرامؓ نے وجہ پوچھی۔ آپؐ نے فرمایا مجھے سمندر پر سفر کرنے والے بعض اسلامی لشکر وں کا نظارہ کروایا گیا ہے جو تختوں پر بیٹھے ہوئے گویابادشاہوں کی طرح سفر کر رہے ہیں۔ حضرت ام حرامؓ کو کیا سوجھی۔ عرض کیا یا رسول اللہؐ !آپؐ دعا کریں میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جائوں۔ آپؐ نے اپنی اس مخلص اور خدمت گزارخاتون کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے ان کے حق میں دعاکی کہ اے اللہ ! ان کو بھی اسلامی لشکر کے اس بحری سفر میں شریک کردے،دوبارہ حضورؐ پر غنودگی طاری ہوئی اور آپؐ نے ایک دوسرے نظارے کاذکر کیا تو ام حرامؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! میرے لئے ان لوگوں میں بھی شامل ہونے کی دعا کریں ۔رسول خداﷺ نے فرمایا کہ تم پہلے گروہ میں شامل ہوچکیں، (جس کے بارے میں چند لمحے قبل حضورؐ نے دعا کی تھی) یہ دعا غیر معمولی اور حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی۔ ام حرامؓ کو خدا تعالیٰ نے لمبی عمر دی اور اس زمانے تک زندہ رکھا جب اسلامی لشکر حضرت معاویہؓ کے زمانے میں قبرص کے بحری سفر پر روانہ ہوا۔ ام حرامؓ بھی اپنے خاوندحضرت عبادہ بن صامتؓ کے ساتھ اس مہم میں شریک ہوئیں۔ سفر سے واپسی پر شام میں ساحل سمندر پر اترتے ہوئے سواری سے گر کر فوت ہو گئیں ۔(بخاری)67
(32) خدا تعالیٰ سے علم پا کر دعا کی قبولیت کی اسی وقت اطلاع دینے کا ایک اور واقعہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے تعلق رکھتا ہے جو ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے۔ آپؐ نے مکہ سے ہجرت کر لی تھی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں بیمار ہو ئے تو فکر لاحق ہوئی کہ اگر مکہ میں وفات ہوئی تو انجام کے لحاظ سے ہجرت کا ثواب ضائع نہ ہو جائے۔ رسول کریم ؐ ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے تو انہوں نے اپنے اس خدشہ کے اظہارکے ساتھ دعا کی خصوصی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضورؐ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ مجھے مکہ میںوفات نہ دے جہاں سے میں ہجرت کرچکا ہوں۔اس وقت ان کی حالت ایسی نازک تھی کہ انہوں نے اپنے ورثہ وغیرہ کے بارے میں آخری وصیت بھی کردی ۔آنحضورؐ نے دعا کی کہ
’’اے اللہ! میرے صحابہؓ کی ہجرت ان کے لئے جاری کردے۔ ‘‘ پھر حضرت سعدؓ کو اس دعا کی قبولیت کی بشارت بھی دے دی اور فرمایا اے سعد! اللہ تعالیٰ تمہیں لمبی عمر عطا کرے گا اور بہت سے لوگ تجھ سے فائدہ اٹھائیں گے اور کئی لوگ نقصان اٹھائیں گے۔(بخاری)68
چنانچہ حضرت سعدؓ کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر شفا عطا فرمائی۔وہ اُن دس صحابہ میں سے تھے جن کو رسول اللہؐ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی۔ سن 55ھ میں بعمر ستّرسال آپ کا انتقال ہوا۔آپ کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے ایران جیسی عظیم الشان مملکت کی فتح کی بنیاد رکھوائی۔(ابن حجر)69
(33) ایک دفعہ نبی کریمؐ قضائے حاجت کیلئے تشریف لے گئے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اس وقت کم سن بچے تھے۔دس گیارہ برس کی عمر ہوگی۔انہوں نے حضور ؐ کے لئے پانی کا لوٹا بھر کے رکھ دیا۔حضورؐ تشریف لائے توپوچھا ’’ یہ پانی کس نے رکھا ہے؟‘‘ عرض کیا گیا عبداللہ بن عباس ؓ نے! آپؐ کے دل میں اس بچہ کیلئے تشکّرکا ایسا جذبہ پیدا ہواکہ اسے محبت سے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور دعا کی ’’اے اللہ! اس بچہ کو دین کی سمجھ عطا کر،اے اللہ! اس بچہ کو کتاب اور حکمت کا علم عطا فرما۔‘‘(بخاری70)یہ دعا پایۂ قبولیت کو پہنچی اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ امت کے عظیم الشان اور زبردست فقیہ اور عالم ٹھہرے اور ’’حِبْرُ الْامَّۃْ‘‘یعنی امت کے متبحر عالم کے طور پر مشہور ہوئے۔
(34) رسول کریم ؐنے ایک صحابی حضرت جریرؓ بن عبداللہؓ کو ذُوالخلصہ کا بت خانہ منہدم کرنے کیلئے بھجوایا۔ یہ معبد بیت اللہ کے مقابل پر کعبہ یمانی کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا۔حضرت جریرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول ؐ اللہ! میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا ۔رسول ؐ اللہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور دعا کی اے اللہ! اس کو مضبوط اور ثابت کردے اور اسے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنادے۔ حضرت جریرؓ بیان کرتے تھے کہ اس دعا کا ایسا اثر ہوا کہ اس کے بعد میں کبھی گھوڑے سے گرا نہیں۔(بخاری)71
(35) عبدالحمید بن سلمہؓ اپنے د ادا کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور یوں ان میں علیٰحدگی ہوگئی۔وہ اپنے نابالغ بچے کی حضانت(سُپرداری) کا مسئلہ حضورؐ کی خدمت میں فیصلہ کیلئے لائے۔حضورؐنے فرمایا کہ بچے کو اختیار دے دیتے ہیں ۔کم سن بچوں کا رجحان طبعاً والدہ کی طرف ہوتا ہے۔ حضورؐ کی نورانی بصیرت دیکھ رہی تھی کہ بچے کی کفالت والد کے پاس بہتر طور پر ہوسکے گی۔بچے کو جب اختیار دیا گیا تو وہ والدہ کی طرف جانے لگا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کی بہبود کے طبعی جوش سے اس کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! اس بچے کوباپ کی طرف رہنمائی کردے۔ وہی بچہ جو تھوڑی دیر پہلے ماں کی طرف دوڑا جارہا تھا،لپک کر باپ سے لپٹ گیا اور یوں حضورؐ کی دعاکی فوری قبولیت کا نظارہ بچے کے والدین نے دیکھا۔(احمد)72
(36) حضرت ابوہریرہؓ نے یمن سے آکر 7ھ میں اسلام قبول کیا، انہوں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپؐ سے جو باتیں سنتاہوں بھول جاتا ہوں۔ میرے لئے دعا کریں،آپؐ نے فرمایا ابوہریرہؓ چادر پھیلائو۔ابوہریرہؓ نے چادر پھیلائی آپؐ نے دعا کی اور پھر وہ چادر ابوہریرہؓ کو اوڑھا دی۔ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی کوئی حدیث نہیں بھولی۔یہی وجہ ہے کہ بہت بعد میں آنے کے باوجود حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایات ابتدائی دور کے صحابہ سے بھی زیادہ ہیں۔(ترمذی)73
(37) ایک جنگ میں مسلمانوں کو سخت پیاس کا سامنا کرنا پڑا۔ پانی میسّر نہ تھا۔حضرت عمرؓ نے رسول کریمؐ سے دعا کی درخواست کی۔آپؐ نے دعا کی۔ اچانک ایک بادل اٹھا اور اتنا برسا کہ مسلمانوں کی ضرورت پوری ہوگئی اور پھر وہ بادل چھٹ گیا۔(عیاض)74
(38) اپنے اصحاب کے لئے دلی جوش سے دعا کا ایک اور واقعہ حضرت ابوعامرؓ کے متعلق ہے جو جنگ اوطاس میں امیر مقرر کر کے بھجوائے گئے تھے۔ ابوموسیؓ اشعری بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا! ابو عامرؓ کو جنگ کے دوران گھٹنے میں تیر لگا۔جب میں نے وہ تیر نکالا تو گھٹنے سے پانی نکلا۔ زخم بہت کاری تھا جان لیوا ثابت ہوا۔ آخری لمحات میں ابو عامرؓ نے ابو موسیٰ ؓسے کہا اے بھتیجے! نبی کریمؐ کو میرا سلام کہنا اور میری طرف سے دعائے مغفرت کی خاص درخواست کرنا۔یہ کہا اور جان جاں آفرین کے سپرد کردی۔ابو موسیٰ ؓیہ پیغام لے کر رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا اور عرض کیا کہ ابو عامرؓ نے دعائے مغفرت کی درخواست کی تھی،تو رسول اللہؐ اپنے عاشق کی آخری خواہش سن کر بے قرار سے ہوگئے۔فوراً پانی منگوا کر وضو کیا اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی۔’’اے اللہ اپنے بندے ابو عامرؓ کو بخش دے۔‘‘مگر آپؐ نے اس فدائی کے لئے صرف بخشش کی دعا ہی نہیں مانگی ان کی بلندی درجات کی بھی دعا کی کہ’’ اے اللہ ! قیامت کے دن ابوعامرؓ کو اپنی بہت ساری مخلوق سے بلند مقام اور مرتبہ عطا کرنا۔‘‘ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں میں نے جو دعا کی یہ مقبول گھڑی دیکھی تو عرض کیا۔ حضورؐ! میرے حق میں بھی دعا کردیں۔ آپؐ نے دعا کی ’’اے اللہ! عبداللہ بن قیسؓ (ابوموسیٰ اشعری) کے گناہ بھی معاف کرنا اور قیامت کے دن اس کو معزز مقام میں داخل کرنا۔‘‘(بخاری)75
(39) بے لوث خدمت کے نتیجہ میں دعا کا ایک اور واقعہ حضرت ابوایوب ؓ انصاری کا ہے۔غزوۂ خیبر سے واپسی پر جب رسول اللہ ؐ نے یہودی سردارحُیی بن اخطب کی بیٹی صفیہؓ سے شادی کی حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کے ذہن میں جذبۂ عشقِ رسولؐ اور حفاظتِ رسولؐ کے خیال سے کچھ اندیشے اور وسوسے پیدا ہوئے اور آپؐ ساری رات حضورؐ کے خیمۂ عروسی کے گرد پہرہ دیتے رہے۔ صبح رسول اللہؐ نے دیکھ کر پوچھا تو دل کا حال عرض کیا کہ آپؐ کی حفاظت کے لئے از خودساری رات پہرہ پرکھڑارہا۔رسول اللہؐ نے اسی وقت دعا کی کہ’’ اے اللہ! ابو ایوب ؓ کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت پر مستعد رہے ہیں‘‘۔یہ دعا بھی قبول ہوئی۔حضرت ابو ایوب ؓ نے بہت لمبی عمر پائی اور قسطنطنیہ میں آپؓ کا مزار آج بھی محفوظ ہے اور زیارت گاہ خاص و عام ہے۔(حلبیہ)76
(40) رسول کریم ؐنے اپنے صحابی سعدؓ کے لئے دعا کی تھی کہ اے اللہ! سعدؓ کی دعائیں قبول کرنا۔ اس دعا نے حضرت سعدؓ کو مستجاب الدعوات بزرگ بنادیاتھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں آپ کُوفہ کے گورنر تھے۔ ایک شخص ابوسعدہ نے ان پر بے انصافی اور خیانت کاالزام لگایا۔ حضرت سعد ؓ کو پتہ چلا تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ شخص جھوٹا ہے تو اس کو لمبی عمر اور دائمی غربت دے۔ اس کی بینائی چھین لے اور اسے فتنوں کا نشانہ بنادے۔اُسے حضرت سعدؓ کی یہ دعا ایسے لگی کہ آخری عمر میں اندھا اور فقیر ہوکر مارا مارا پھرتا تھا اور گلیوں میں بچے بھی اسے چھیڑتے تھے۔چنانچہ جب تک سعدؓ زندہ رہے ان کے دعائیہ نشان کی وجہ سے لوگ ان کی بددعا سے ڈرتے تھے اور ان سے دعائے خیر کی تمنا رکھتے تھے۔(سیوطی)77
(41) حویرثؓ بیان کرتے ہیں9ھ میں وفدِ تَجیب رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ ان کی آمد پر بہت خوش ہوئے اور انعام واکرام عطاکرنے کے بعد پوچھا کہ کیا وفد میں سے کوئی پیچھے تو نہیں رہ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک نوجوان ہمارے خیمہ گاہ پر حفاظت کی خاطر رہ گیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا اسے بھی میرے پاس بھجوائو۔وہ جواں سال لڑکا آکرکہنے لگا کہ میں اسی قافلہ کا فرد ہوں جو ابھی آپؐسے انعام و اکرام لے کر رخصت ہوا۔جس طرح آپؐ نے ان کی حاجات پوری فرمائی ہیںمیری حاجت بھی پوری کریں۔آپؐ نے فرمایا حاجت بتائو؟ سعادت مند نوجوان نے عرض کیا بس یہی کہ آپؐ میرے حق میں بخشش اور رحمت کی دعا کریں کہ مولیٰ کریم میرے دل میں غنا پیدا کردے پھر حضورؐ نے اُسے باقی ساتھیوں جیسا انعام بھی عطا فرمایا۔ اگلے سال حج کے موقع پراس قبیلہ کے لوگ رسول کریم ؐسے ملے تو آپؐ نے ان سے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسا ہے؟انہوں نے بتایاکہ ہم نے اس جیسا کوئی اور نہیں دیکھا، نہ ہی اس سے بڑھ کرکوئی قناعت پسندپایا۔(ابن الجوزی)78
قہری دعائوںکے نشان
دعائوں کی یہ عظیم الشان برکات پانے والے سعادت مندوں کے بالمقابل کچھ ایسے بدبخت بھی تھے جو اپنی شقاوت ازلی کے نتیجہ میں رسول اللہؐ کی دعا سے اللہ تعالیٰ کی قہری تجلّی کے مورد بنے۔
(42) نبی کریم ؐ نے ہمیشہ دشمن کی بھی خیر خواہی فرمائی۔ طائف میں آپؐ کو لہولہان کرنیوالے ہوں یا اُحد کے میدان میں خون آلودکرنے والے۔ آپؐ نے ان کی ہدایت کی ہی دعا کی۔مگر کبھی ایسا بھی ہوا کہ جب جانی دشمن حد سے بڑھ گئے اور رسولؐ خدا کو عبادت الہٰی سے روکنے لگے تو آپ ؐ نے عذاب الہٰی کا نشان مانگا۔ خدا تعالیٰ نے خوب آپؐ کی نصرت فرمائی ۔
ایک دفعہ رسول کریمؐ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی صحن کعبہ میں مجلس لگائے بیٹھے تھے۔ان سرداروں میں کسی ظالم نے مشورہ دیا کہ فلاں محلہ میں جواونٹنی ذبح ہوئی ہے کوئی جاکر اس کی بچہ دانی اٹھا لائے اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) جب سجدہ میں جائیں تو ان کی پشت پر رکھ دے۔ ان میں سے ایک بدبخت عُقبہ بن ابی مُعیط اٹھا اور اونٹنی کی گند بھری بچہ دانی اٹھا لایا اور دیکھتا رہاجونہی بنی کریم ؐ سجدہ میں گئے اس نے غلاظت بھرا وہ بوجھ آپ ؐ کی پشت پردونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہا کرتے تھے کہ میںیہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی رسولؐ خدا کی کچھ مدد نہ کرسکتا تھا۔بس کفِ افسوس ملتا رہ گیاکہ اے کاش ان دشمنان رسولؐ کے مقابل پر مجھے اتنی توفیق ہوتی کہ آپؐ سے یہ بوجھ دور کرسکتا۔اُدھر ان مشرک سرداروں کا یہ عالم تھا کہ رسولؐ اللہ کو اذیت میں دیکھ کر استہزا کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کی حالت میں پڑے تھے، بوجھ کی وجہ سے سر نہیں اٹھاسکتے تھے۔یہاں تک کہ آپؐ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ تشریف لائیں اور آپؓ کی پشت سے وہ غلاظت کا بوجھ ہٹایا۔تب آپؓ نے سجدے سے سراٹھایا ۔ عبادت الہٰی سے روکنے اور استہزا کرنے والے ان جانی دشمنوں کے حق میں رسول اللہؐ نے یہ فریاد کی’’ اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ‘‘۔ اے اللہ!ان قریش کو تو خود سنبھال ۔یہ دعا بھی قبول ہوئی اور خدائی گرفت ان دشمنان رسول پر بدر کے دن آئی اور رسول اللہؐ نے ان کا یہ عبرت ناک انجام بچشم خود دیکھاکہ میدان بدر میں ان کی لاشیں اس حال میں پڑی تھیں کہ تمازتِ آفتاب سے ان کے حلیے بگڑ چکے تھے۔(بخاری79) یہ تھا دشمنان رسولؐ کا عبرتناک انجام جو رسول ؐاللہ کی دعا کے نتیجہ میں ظاہر ہوا۔
(43) رسول اللہؐ نے کسریٰ شاہ ایران کوتبلیغ کے لئے خط لکھا تو اس نے وہ پھاڑ کر ریزہ ریزہ کردیا۔آپؐ نے دعا کی کہ’’ اے اللہ! اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کردے‘‘۔(بخاری)80
تاریخ شاہد ہے دنیا کی عظیم الشان سلطنت کے بارہ میں یہ دعا کس طرح حیرت انگیز طور پر قبول ہوئی کہ چند ہی سالوں میں سلطنت کسریٰ کے ایوان میں ایسا انتشار اور تزلزل برپا ہوا کہ شاہان کسریٰ اندرونی خلفشار کا شکار ہوکر ہلاک ہوئے اور یہ سلطنت رفتہ رفتہ نابود ہوکر رہ گئی۔
عُتبہ بن ابی لہب جب اپنی فتنہ پردازیوں اور شر انگیزیوں سے بازنہ آیا توآپؐنے دعاکی کہ’’ اے اللہ اس پر کوئی کتا مسلّط کردے‘‘۔ تھوڑے ہی عرصہ میں وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام گیاخود کہتا تھا کہ مجھے محمدؐ کی بددعا سے ڈرلگتا ہے۔ساتھیوں نے تسلی دی اور رات اس کا پہرہ دے کر حفاظت کرتے رہے۔مگر اچانک ایک بھیڑیا آیا، اسے اُٹھا کرلے گیا اور اسے ہڑپ کرگیا۔(ابن حجر)81
(44) ایک اور معاند اسلام حکم بن ابی العاص سر کی جنبش اور آنکھ کے اشاروں سے آنحضرتؐ کا تمسخر اُڑاتا تھا۔آپؐ نے ایک دفعہ فرمایا’’ خدا کرے اسی طرح ہوجائو۔‘‘اس پر ایسا رعشہ طاری ہوا کہ آخری سانس تک رہا اور وہ اس حال میں مرا کہ آنکھوں کو حرکت دیتے دیکھا گیا۔ (عیاض)82
(45) رسول خدا کی قبولیت دعا کایہ جلالی نشان بھی قابل ذکر ہے۔ بنونَجار سے ایک عیسائی شخص مسلمان ہوا اس نے سورۃ البقرۃ اور آل عمران بھی یاد کرلی(لکھنا پڑھنا جانتا تھا) نبی کریمؐ کی وحی بھی لکھنے لگا مگر کچھ عرصہ بعد مرتدّ ہوکر پھر عیسائی ہوگیا اور یہود سے جاملا۔ وہ اس سے بہت خوش ہوئے۔ وہاں جاکر یہ شخص دعوے کرنے لگا کہ محمد ﷺ کو تو کچھ نہیں آتا میں ہی لکھ کر دیا کرتا تھا۔اس پر یہود نے اسے اور عزت دی۔معلوم ہوتا تھا کہ یہ عیسائی کسی خاص سازش کیلئے بھیجا گیا تھا اور مقصدطائفہ یہود کی طرح یہ تھا کہ صبح مسلمان ہوکر شام کو انکار کردو تاکہ مسلمان بھی بد ظن ہوکر پھر جائیں۔ چونکہ اب وہ شخص وحی الہٰی کو اپنی طرف منسوب کررہا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق و باطل کے لئے خدا تعالیٰ سے خاص نشان طلب کیا اور دعا کی کہ ’’اے اللہ ! اس شخص کو عبرت کا نشان بنا ۔ یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے جلد ہی اس شخص کو ہلاک کردیا‘‘۔ چنانچہ اسے دفن کردیا گیا مگر خداتعالیٰ نے اسے عبرت ناک نشان بنانا تھا۔ صبح ہوئی تو دنیا نے یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھا کہ زمین نے اسے قبر سے نکال باہر پھینک دیاہے ۔عیسائی کہنے لگے کہ یہ کام محمدؐ اور اس کے ساتھیوں کا ہے کہ اس شخص کے مرتد ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس کی قبر کھود کر نعش نکال باہر پھینکی ہے۔چنانچہ انہوں نے اسے دوبارہ دفن کردیا اور اس دفعہ قبر اتنی گہری کھودی جتنا وہ کھود سکتے تھے لیکن اگلی صبح پھر یہ عجیب ماجرا دیکھنے میں آیاکہ نعش زمین سے باہر پڑی تھی۔عیسائیوں نے پھر وہی الزام دہرایا کہ یہ مسلمانوں کا کام ہے ۔ اس دفعہ انہوں نے انتہائی گہرا گڑھا کھودا مگر زمین نے تیسری مرتبہ بھی اسے قبول نہ کیا۔ اب عیسائیوں کو عقل آئی کہ یہ انسان کے ہاتھوں کا کام نہیں ہوسکتا۔چنانچہ انہوں نے اس کی نعش کو دو چٹانوں کے درمیان رکھ کر اوپر پتھر پھینک دئیے۔(مسلم)83
اُمّت کے لئے دعائیں
ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمدؐ کی دعائوں کی وسعت کا یہ عالم تھاجس سے کوئی زمانہ محروم نہیں رہااور قیامت تک آنے والے متبعین امت کیلئے آپؐ نے دعائیں کردی ہیں۔
آپؐ نے اپنے روحانی خلفاء کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! میرے ان خلفاء کے ساتھ خاص رحم اور فضل کا سلوک فرمانا جو میرے زمانے کے بعد آئیں گے اور میری احادیث اور سنت لوگوں تک پہنچائیں گے۔ خودبھی اس پر عمل کریں گے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیں گے۔(سیوطی)84
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ ؓ کو مہمات پر بھجواتے ہوئے بھی ان کے لئے دعا کرتے تھے۔ اکثر مہمات علی الصبح روانہ فرماتے اور اس موقع پر خاص طور پر یہ دعا کرتے۔ ’’اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْ اُمَّتِیْ فِیْ بُکُوْرِھِمْ ‘‘(احمد)85
اے اللہ ! میری امت کے صبح کے سفروں میں خاص برکت عطا فرما۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کا اتنا خیال رکھا کہ اس کے حق میں یہ دعا کی اے اللہ ! جو شخص بھی میری امت کا والی یا حاکم ہو اور اُن پر سختی یا زیادتی کرے توتُو خود اس سے بدلہ لینا اور اُس سے ایسا ہی سلوک کرنا اور جووالی یا حاکم میری امت سے نرمی کا سلوک کرے تو تُوبھی اس کے ساتھ نرمی کا سلوک فرمانا۔(احمد)86
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت کے ساتھ جو محبت تھی اس کا ایک اظہار آپؐ نے اپنی شبانہ روز دعائوں سے بھی کیا۔جب آپؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے تو اس وقت کئی کمزور مسلمان ایسے تھے جو مکہ میں رہ گئے۔ وہ مختلف وجوہ سے ہجرت نہ کرسکتے تھے اور مکہ میں اذیتیں برداشت کررہے تھے۔ آپؐ کے دل میں اپنے ان کمزور بھائیوں کیلئے جو درد تھا اس کا اندازہ آپؐ کی دعائوں سے کیا جاسکتا ہے ،ایک زمانہ تک آپؐ اپنے ان مظلوم مریدوں کے نام لے لے کر عشاء کی نماز میں دعا کرتے۔
’’ اے اللہ! عیاشؓ بن ابی ربیعہ(ابوجہل کے بھائی) کو کفار مکہ سے نجات دے، اے اللہ! ولید بن ولیدؓ کو ان سے رہائی دے،اے اللہ سلمہ ؓبن ہشام کو مشرکوں کے ظلم سے بچا،اے اللہ ! سب کمزور مسلمانوں (مومنوں) کی نجات کے سامان فرما‘‘پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو دشمن سے نجات دی۔(بخاری)87
حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن عاص سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے سورۃ ابراہیم کی آیات 36,37کی تلاوت کی جن میں اپنی اولاد کے شرک سے بچنے اور ساری قوم کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا ہے۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ قرآنی دعا اپنی قوم کی بخشش کے بارہ میں پڑھی کہ اے اللہ اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگران کو بخش دے تو تُو غالب اور حکمت والا ہے۔(سورۃمائدہ:119)
پھر آپؐ کے دل میں اپنی امت کے لئے دعا کا جوش پیدا ہوا تو ہاتھ اُٹھائے اور یوں دعا کی اے اللہ میری امت کو بھی بخش دے۔میری امت پر رحم کیجیئو اور یہ کہتے کہتے آپؐ رونے لگے تب اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ سے فرمایا کہ محمدؐ سے جاکر پوچھو(حالانکہ اللہ تعالیٰ آپؐ کی حالت کو خوب جانتاتھا کہ ان کے رونے کا کیا سبب ہے؟) جبریل ؑ نے آکر پوچھا تو رسول اللہؐ نے اپنی امت کے بارہ میں رحم کی بھیک مانگی۔ تب خدا کی رحمت بھی جوش میں آئی اور جبریل ؑ سے کہا کہ جاکر محمدؐ سے کہہ دو کہ ہم آپؐ کو آپؐ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور ناخوش نہیں کریں گے۔(مسلم)88
الغرض اللہ تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو قبولیت دُعا کے ہر قسم کے نشان عطافرمائے اور اس کثرت سے آپؐ کی دعائیں بنی نوع انسان کے حق میں قبول ہوئیں کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ رسول کریمؐ کے پاکیزہ اسوہ پر عمل کے نتیجہ میں آج بھی ہر صاحب ایمان یہ برکات حاصل کرسکتا ہے۔
حوالہ جات
1
بخاری کتاب الجمعۃ باب الدعاء فی الصلاۃ من اخر اللیل:107
2
ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح بالید:3421
3
ابوداؤد باب الصلاۃ باب ماجاء فی الدعاء بین الاذان والاقامۃ:437
4
ترمذی کتاب الدعوات باب فی العفووالعافیۃ:3518
5
تحفۃ الذاکرین للشوکانی ص42,43دارالکتاب العربی بیروت
6
ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب الاجابۃ أیۃ الساعۃ:885
7
بخاری کتاب صلاۃ التراویح باب العمل فی العشرالأ واخر:1884
8
ترمذی کتاب الدعوات باب فی العفو والعافیۃ:3522
9
ترمذی کتاب الدعوات باب منہ:3435
10
بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ:5929
11
ابن ماجہ کتاب الدعاء باب مایدعو بہ الرجل اذارأی السحاب:3879
12
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفاتحہ باب غیرالمغضوب علیھم ولاالضَّآلین
13
مسلم کتاب الصلوٰۃ باب مایقال فی الرکوع والسجود:744
14
بخاری کتاب المظالم باب الاتقاء والحذرمن دعوۃ المظلوم
15
مسلم کتاب الذکر باب فضل الدعاء للمسلمین بظھر الغیب:4914
16
ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیؐ :3479
17
ترمذی کتاب الدعوات باب ماذکر فی دعوۃ المسافر:3370
18
ترمذی کتاب صفۃ الجنۃ باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ:2449
19
تحفہ الذاکرین للشوکانی ص44,45 دارالکتاب العربی مطبوعہ بیروت
20
نسائی کتاب مناسک الحج باب التھلیل علی الصفا:2924
21
ترمذی کتاب الدعوات باب فی الدعاء یوم عرفۃ:3509
22
بخاری کتاب الجمعۃ باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدنیۃ
23
مسلم کتاب الذکروالدعاء والتوبہ والاستغفارباب کراھۃ الدعاء بتعجیل العقوبۃ
24
ابوداؤد کتاب الادب باب مایقول اِذا أصبح
25
ترمذی کتاب الدعوات
26
مسنداحمد جلد5ص243
27
بخاری کتاب التفسیر سورہ بنی اسرائیل باب ذریۃ من حملنا مع نوح:41
28
ترمذی کتاب المناقب باب عمر بن الخطاب
29
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الروم والدخان
30
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی صفحہ163مطبوعہ بیروت
31
المعجم الکبیر لطبرانی جلد11ص174بیروت
32
بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ
33
نور الیقین فی سیرۃ خاتم النبین ڈاکٹرخضری بک واقعہ سفر طائف مطبوعہ مصر
34
بخاری کتاب المغازی وتر مذی ابواب المناقب باب مناقب ثقیف
35
دلائل النبوۃ للبیھقی جلد5ص361،مسند احمد جلد2ص243مطبوعہ بیروت
36
الاصابہ فی تمییز الصحابہؓ زیر لفظ ابوھریرہؓ جلد 4ص204مطبوعہ مصر
37
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص167مطبوعہ بیروت
38
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
39
بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ بدر
40
مجمع الزوائدللھیثمی جلد6ص82مطبوعہ بیروت
41
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب:3805
42
سیرت الحلبیہ جلد3ص35بیروت
43
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر:3888
44
السیرۃالحلبیہ جلد3ص74بیروت
45
بخاری کتاب الجہاد باب حمل الزاد فی الغزو
46
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد459
47
بخاری کتاب المناقب باب مقدم النبی واصحابہ المدینہ:3633
48
بخاری کتاب الجمعۃ باب الاستسقاء علی المنبر:959
49
بخاری کتاب الدعوات باب دعوۃ النبی لخادمہ
50
الاسد الغابہ لابن اثیر جلد1ص128مطبوعہ بیروت
51
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد و کتاب الاستقراض
52
مسلم کتاب الاشر بہ باب اکرام الضیف و فضل ایثارہ
53
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص71
54
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص170بحوالہ بیھقی دارالکتاب العربی
55
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص169بیروت بحوالہ بیھقی وابونعیم
56
بخاری کتاب الجہاد باب دعاء النبیؐ الناس الی الاسلام:2724
57
ابن ماجہ کتاب المقدمۃ باب فضل علی بن ابی طالب:114
58
مسند احمد بن حنبل جلد4ص170مطبوعہ بیروت
59
مسند احمد بن حنبل جلد1ص254بیروت
60
بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبوۃ
61
الاکمال فی اسماء الرجال للخطیب زیر لفظ سائب
62
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
63
ترمذی کتاب المناقب باب فی آیات اثبات نبوۃ النبیؐ:3562
64
مستدرک حاکم کتاب الدعاء جلد1ص542مطبوعہ مصر
65
الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص458بیروت
66
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر
67
بخاری کتاب الجہاد باب فضل من یصرع فی سبیل اللہ
68
بخاری کتاب الوصایا باب ان یترک ورثتہ اغنیاء خیر:2537
69
الاصابہ فی تمییز الصحابہ زیر لفظ سعد
70
بخاری کتاب الوضوء باب وضع الماء عندالخلائ:140
71
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذی الخلصہ
72
مسند احمدبن حنبل جلد5ص446-447 و
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جزثانی ص167بیروت
73
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابی ھریرۃ:3769
74
الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص457بحوالہ بیھقی
75
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ أوطاس:3979
76
السیرۃ الحلبیہ جلد 3ص44مطبوعہ بیروت
77
الخصائص الکبریٰ للسیوطی جز ثانی ص165بیروت
78
الوفاء باحوال المصطفی ص764ازابن الجوزی بیروت
79
بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ:2717
80
بخاری کتاب المغازی باب کتاب النبیؐالی کسریٰ
81
فتح الباری لابن حجرجلد4ص39 دارالکتب الاسلامیہ لاہور
82
الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض جلد1ص46بحوالہ بیھقی
83
مسلم کتاب المنافقین باب 1:4986
84
جامع الصغیر للسیوطی جز1ص60بیروت
85
مسند احمدبن حنبل جلد3ص416بیروت
86
مسند احمد بن حنبل جلد6ص93بیروت
87
بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء علی المشرکین
88
مسلم کتاب الایمان باب دعاء النبی لامتہ :346
مخبر صادقؐکے رؤیا و کشوف اور پیشگوئیاں
خواب انسان کی باطنی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا جائزہ لینے کے لئے آپ ؐکے رؤیا وکشوف کا مضمون بھی بہت اہم ہے ۔دوسرے رؤیا وکشوف کے ذریعہ خوش خبریوں کا عطا ہونا اور خدا کا بندے سے کلام کرنا محبت الٰہی کی نشانی ہے۔
تیسرے جن رؤیا وکشوف کا تعلق آئندہ زمانے سے ہو ان کاکثرت سے ہوبہو پورا ہو جاناصاحب کشف والہام انسان کی سچائی کا نشان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق فرماتا ہے۔ ’’وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتابجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔‘‘(سورۃ الجن:27) اس اظہار غیب کا ذریعہ وحی والہام اور رؤیا وکشوف ہی ہیں۔چنانچہ دوسری جگہ فرمایا’’اور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یاکوئی پیغام رساں بھیجے جو اُس کے اِذن سے جو وہ چاہے وحی کرے۔یقینا وہ بہت بلند شان (اور)حکمت والا ہے۔‘‘(سورۃ الشوریٰ:52)
رؤیا وکشوف کے بارہ میں قرآن شریف سے یہ اصول بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض پیش گوئیاں انبیاء کی زندگی میں پوری ہو جاتی ہیں اور بعض وفات کے بعد ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’اگرہم تجھے اُن انذاری وعدوں میں سے کچھ دکھادیں جو ہم ان سے کرتے ہیں یا تجھے وفات دے دیں تو(ہرصورت) تیرا کام صرف کھول کھول کر ُپہنچادینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے۔‘‘(سورۃ الرعد:41)
سید الانبیا ء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بشیر ونذیر ‘‘کے لقب سے بھی نوازاگیا ہے ۔ آپؐ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ بشارات اور تنبیہات کی تفاصیل رؤیا و کشوف کے ذریعے عطا فرمائی گئیں اور امت محمدیہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبریں عطا کی گئیں۔ ایک دفعہ نمازِ کسوف کے دوران ہونے والے کشفی نظارہ کے بارہ میں آپؐ نے فرمایا ’’مجھے ابھی اس جگہ آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ‘‘ یہاں تک کہ جنت ودوزخ کی کیفیات بھی دکھائی گئیں۔ اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعماء جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپؐ انہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کر کے پیچھے ہٹے ۔(بخاری)1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رؤیا و کشوف کی مختلف انواع و کیفیات اور واقعات میں سے بطور نمونہ کچھ ذکر اس جگہ کیا جاتا ہے۔
۱۔نبی کریمؐ کی زندگی میں ظاہری رنگ میں پوری ہونے والی رؤیا
پہلی قسم اُن رؤیاء و کشوف اور پیش گوئیوں کی ہے، جو نبی کریمؐکی حیات مبارکہ میں ہی واضح طور پر اپنے ظاہری رنگ میں منّ وعَنْ پوری ہو گئیں۔
حضرت عائشہ ؓسے شادی کی رؤیا
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ شادی سے قبل ان کی تصویر دکھا کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ آپ ؐکی بیوی ہے۔ظاہری حالات میں یہ بات ناممکن نظر آتی تھی کیونکہ حضرت عائشہؓ کی منگنی دوسری جگہ طے ہوچکی تھی اور یوں بھی نبی کریمؐ اور حضرت عائشہؓ کی عمروں کا فرق ہی چالیس سال سے زائد تھا۔ اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آنحضورؐ نے کمال احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رؤیاکا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیدا فرماوے گا۔ (بخاری)2
پھر بظاہر نا موافق حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ بات غیرمعمولی رنگ میںپوری کردکھائی اورجُبیر بن مطعم سے منگنی ختم ہونے کے بعد کم سن حضرت عائشہؓ رسول اللہؐ کے عقد میں آئیں اور اُمّ المؤمنین کا اعزازان کو عطاہوا۔
مکی دور میں فتح بدرکی پیش گوئی
ان پیشگوئیوں میں سے ایک غزوۂ بدر کی فتح کی پیش گوئی بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکّہ ہی میں تھے اور مسلمان انتہائی کمزور اور مظلوم ومقہور ہو چکے تھے ۔ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہلی قوموں کی قربانیوں کی مثالیں دے کر صبر کی تلقین فرماتے تھے۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے تازہ نشان بھی مسلمانوں کے لئے انشراحِ صدر اور مضبوطیٔ ایمان کا موجب ہوتے تھے۔جیسے شقِّ قمر کا معجزہ وغیرہ۔ چاند جو عربوں کی حکومت کا نشان تھا۔ اس کے دو ٹکڑے کر کے دکھانے میں یہ بلیغ اشارہ بھی تھا کہ قریش کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی اور انکی وحدت ملی پارہ پارہ ہوکر رہے گی۔سورۃ قمر (جس میں واقعہ شق قمر کا ذکر ہے ) میں واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کے مقابل پر کفار کے ایک بڑے گروہ کی پسپائی کا ذکر ہے۔فرمایا سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَo(القمر:46)یعنی( اس روز قریش کی) جمعیت پسپا ہوگی اور یہ (اوران کے لشکر) پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہونگے۔
کمزوری کے اس زمانے میں دشمن اس پیشگوئی کو دیوانے کی ایک بڑکہہ سکتے تھے اور اسی لئے ساحرومجنون کے الزام لگاتے تھے۔پھراللہ تعالیٰ نے جس شان سے ان وعدوں کو پورا فرمایا اس پر اہل مکّہ بھی انگشت بدنداں ہوکررہ گئے۔
چنانچہ بدر کے موقع پر اس پیشگی وعدۂ فتح کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا۔ وَاِذْیَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّھَالَکُمْ(سورۃالانفال:8) کہ اس وقت کو یادکرو جب اللہ تمہیں دو گروہوں (یعنی لشکرکفار اور قافلہ) میں ایک کا وعدہ کررہا تھا کہ اس پر تم کو فتح ہوگی۔
پھر بھی جب میدان بدر میں رسول اللہؐ نے دیکھا کہ قریش کے تجارتی قافلے کی بجائے ایک مسلح لشکر جرارسامنے ہے جو کمزور نہتے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہے تو طبعاً آپؐ کوفکر دامنگیرہوئی۔ تب خداتعالیٰ کی شان غنا سے ڈرتے ہوئے اور اپنی کمزوری پر نظر کرتے ہوئے رسول اللہؐ نے دعائوں کی حد کردی۔ آپؐ بدر کے دن اللہ تعالیٰ کو اس کے وعدوں کا واسطہ دے دے کر اتنے الحاح سے د عا کررہے تھے کہ چادر کندھوں سے گر گر جاتی تھی۔
آپؐ اپنے مولیٰ سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔اے اللہ تیرے عہدوں اور وعدوں کا واسطہ! (تو ہمیں کامیاب کر) اے اللہ اگر آج تو نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ہلاک کردیا تو کون تیری عبادت کرے گا۔
حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہؐ! اب بس کریں۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے۔ آپؐ یہ آیت تلاوت کررہے تھے ۔سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَo(سورۃالقمر:46)کہ لشکر ضرور پسپا ہوں گے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ (بخاری3)گویا خدا کاپیشگی وعدہ فتح یاد کرکے مسلمانوں کو تسلی دے رہے تھے۔ چنانچہ بظاہر نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتح عطافرمائی اور رسول اللہؐ کیکنکریوں کی ایک مٹھی کفار پرآندھی و طوفان بن کرٹوٹی اور انہیں پسپا کرنے کا موجب بن گئی۔
سرداران قریش کی ہلاکت کی پیشگوئی
نبی کریم ؐ کو بدر میں صنادید قریش کی ہلاکت کا کشفی نظارہ پہلے سے کروایا گیا تھا۔اس بارہ میں حضرت انسؓ بیان کرتے تھے کہ ہم مکّہ و مدینہ کے درمیان حضرت عمرؓ کے ساتھ شریک سفر تھے۔چنانچہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ معرکۂ بدر سے ایک روز قبل رسول کریمؐ نے ہمیں مشرک سرداروں کے ہلاک ہونے کی جگہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا’’یہ فلاں شخص کے ہلاک ہونے کی جگہ ہے اور یہاں فلاں شخص ہلاک ہوگا۔‘‘حضرت عمرؓ کہتے ہیں پھر ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ وہیں گر گر کر ہلاک ہوئے جہاں رسول خداؐ نے بتایاتھا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ۔آپ ؐنے ان کے گر کر ہلاک ہونے کی جو جگہیں بتائی تھیں، ان میں ذرا بھی غلطی نہیں ہوئی۔(مسلم)4
غزوۂ بدر میں قریش کے چوبیس سردار ہلاک ہوئے۔انہیں بدر کے ایک گڑھے میں ڈالا گیا۔ تیسرے دن بدرسے کُوچ کے وقت رسو ل کریمؐاس گڑھے کے کنارے کھڑے ہوکر ان سرداروں اور ان کے باپوں کے نام لے کر پکارنے لگے ۔آپؐ فرماتے تھے ’’اے فلاں کے بیٹے کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی؟‘‘ہم نے تو اپنے ربّ کے وعدوں کو سچاپالیا کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ حق پایا ہے یا نہیں؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہؐ !آپؐ ان بے جان جسموں سے کلام کررہے ہیں ‘‘آپ ؐ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، جو باتیں میں کہہ رہا ہوں وہ انکو تم سے زیادہ سمجھ رہے ہیں۔‘‘ (یعنی اپنے ظلموں کی جزاپاکر)۔(بخاری)5
مکی دور میں ہجرتِ مدینہ اور مکّہ واپسی کی پیشگوئی
قرآن شریف میں سورۂ قَصص (جو مکی سورۃ ہے) کے آغاز میں حضرت موسیٰ ؑکے حالات اور سفر ہجرت کا ذکر ہے۔ آخرمیں مثیل موسیٰ نبی کریمؐ کے مکّہ سے ہجرت کرنے اور پھر مکّہ لوٹ کر آنے کی پیشگوئی واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَ آدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ط(سورۃ القصص :86)یعنی وہ جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا ہے ،ضرور تجھے ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔
یہ پیشگوئی جن حالات میں کی گئی، ان میں مکّہ سے نکالے جانے کے بعد پھر واپس آنا بظاہر ایک ناممکن سی بات معلوم ہوتی تھی۔فتح مکّہ سے چندروز قبل تک بھی معلوم نہ تھا کہ رسول اللہؐ اس شان سے مکّہ میں داخل ہوں گے۔مگر یہ پیشگوئی صرف آٹھ سال کے عرصہ میں کس شان سے پوری ہوئی۔
کسرٰی شاہ ایران کی ہلاکت کی پیشگوئی
رسول اللہؐ نے کسرٰی شاہ ایران کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے خط لکھا ۔اس نے نہایت بے ادبی سے وہ خط پھاڑ دیا۔رسول کریمؐ کو علم ہوا تو آپؐ نے کسریٰ کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی دعا کی۔پھر نہایت معجزانہ رنگ میں اس زمانہ کی یہ طاقتور حکومت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اورا س کا جابرو ظالم حاکم بھی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا اوررسول خداکی سچائی کا نشان بنا۔
تفصیل اس کی یوں ہے کہ نبی کریمؐ کے تبلیغی خط کو کسریٰ نے اپنی ہتک سمجھااور یمن کے حاکم باذان کو حکم بھجوایا کہ اس شخص کو جو حجاز میں ہے دو مضبوط آدمی بھجوائو جوگرفتار کر کے اُسے میرے پاس لے آئیں۔باذان نے ایک افسربابویہ نامی اور ایک ایرانی شخص کے ہاتھ اپنے خط میںآنحضرت ؐکو لکھا کہ آپؐ ان دونوں کے ساتھ شاہ ایران کے پاس حاضر ہوں ۔ بابویہ کو اس نے کہا اس دعویدار نبوت سے جاکرخود بات کرو اور اس کے حالات سے مجھے مطلع کرو۔ یہ لوگ طائف پہنچے اور آنحضرت ؐ کے بارہ میں پوچھا ۔انہوں نے کہا وہ تو مدینہ میں ہیں۔ طائف والے اس پر بہت خوش ہوئے کہ اب کسرٰی شاہ ایران اس شخص کے پیچھے پڑگیا ہے۔ وہ اس کے لئے کافی ہے۔دونوں قاصدمدینہ پہنچے۔ بابویہ نے رسول اللہؐ سے بات چیت کی اور آپؐ کو بتایا کہ شہنشاہ کسرٰی نے شاہ یمن باذان کو حکم بھجوایا ہے کہ آپؐ کو گرفتار کر کے اس کے پاس بھجوایا جائے اور مجھے باذان نے بھیجا ہے کہ آپؐ میرے ساتھ چلیں۔ اگر آپ ؐمیرے ساتھ چلنے پر تیار ہوں تو میں شنہشاہ کسریٰ کے نام ایسا خط دوں گاکہ وہ آپؐ کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا۔ اگر آپؐ میرے ساتھ چلنے سے انکاری ہیں تو آپؐ خود جانتے ہیں کہ اس میں آپؐ کی بلکہ پوری قوم کی ہلاکت اور ملک کی تباہی وبربادی ہے ۔ آپؐ نے ان دونوں نمائندوں سے فرمایا کہ اس وقت تم دونوں جاؤ صبح آنا۔ رسول اللہ ؐ کو اسی رات اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی کہ شنہشاہ ایران کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیاگیاہے۔ اس نے اپنے باپ کو فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو قتل کردیا ہے۔
اگلی صبح جب وہ دونوں رسو ل اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے ان دونوں سے فرمایا کہ میرے رب نے فلاں مہینے کی فلاں تاریخ رات کے وقت تمہارے رب کو ہلاک کر دیا ہے اور اس کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلّط کر کے اسے قتل کیا ہے ۔ وہ دونوں کہنے لگے آپؐ کو پتہ ہے کہ آپؐ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم اس سے معمولی بات پر بڑی بڑی سزائیں دیا کرتے ہیں ۔کیا ہم آپؐ کی بات شہنشاہ کو لکھ کر بھیج دیں۔ آپؐ نے بڑے جلال سے فرمایا ۔ہاں ! میری طرف سے اسے یہ اطلاع کردو اور اسے جا کر یہ پیغام دو کہ میرا دین اور میرا غلبہ یقیناً تمہارے ملک ایران پر بھی ہو گااور اس کو کہہ دینا کہ اگر تم اسلام قبول کرلو تو تمہارا یہ ملک تمہارے ماتحت کر دیا جائے گا اور تمہیں تمہاری قوم پر حاکم بنا دیا جائے گا ۔یہ دونوں شخص جب حاکم یمن باذان کے پاس پہنچے تو اس نے کہا یہ کسی بادشاہ کا کلام نہیں ہے یہ شخص تو نبی معلوم ہوتا ہے ۔ جو کچھ اس نے کہا ہے ہم اس کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر تو یہ سچ نکلا تو یقیناًیہ خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ کریں گے ۔تھوڑے ہی عرصے بعد باذان کو نئے شہنشاہ شیرویہ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا۔ میں نے اپنے ملک ایران کے مفاد کی خاطرکسریٰ کوقتل کیا ہے کیونکہ وہ ایرانی سرداروں اور معززین کے قتل کا حکم دیتا اور ان کو قید کرتا تھا ۔اب تم میرا یہ خط پہنچتے ہی عوام سے میری اطاعت کا عہد لو اور کسریٰ نے جو خط حجاز کے ایک شخص کی گرفتاری کا لکھا تھا کالعدم سمجھو یہاں تک کہ میرا دوسرا حکم تمہیں پہنچے ۔ کسریٰ کے بیٹے کا خط پڑھتے ہی باذان کہنے لگا یہ شخص تو اللہ کا رسول ہے۔چنانچہ اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور کئی ایرانی باشندے بھی جو یمن میں آباد تھے مسلمان ہو گئے ۔(طبری)6
اسود عنسی کے قتل کی خبر
حضرت عبداللہؓ بن عمربیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کو رات کے وقت اسود عنسی (مدعی نبوت ) کے قتل کی خبر دی ۔آپؐ نے ہمیں علی الصبح اطلاع فرمائی کہ آج رات اسود عنسی قتل ہو گیا ہے۔ ایک مبارک آدمی نے اس کو قتل کیا ہے ۔پوچھا گیا وہ کون ہے ؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس کا نام فیروز بان فیروز ہے ۔(کنز)7
-2تعبیر طلب رؤیا اور ان کا پورا ہونا
دوسری قسم کی رؤیا یا پیشگوئیاں وہ ہیں جو اپنے ظاہری الفاظ میں پوری نہیں ہوتیں بلکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں۔ رسول کریمؐ کو ان کی تعبیر کے بارہ میں بھی قبل از وقت علم عطا فرمایا گیا اور آپؐ نے وقت سے پہلے کھول کر بتا دیا کہ اس رؤیا کے مطابق یوں واقعہ ہوگا۔ اور پھر اسی طرح ظہور میں آکر وہ واقعات آپؐ کی سچائی کے گواہ بنے۔
جھوٹے مدعیان نبوت کے ظہور کی پیشگوئی
حجۃ الوداع کے بعد نبی کریم ؐ نے دو جھوٹے مدّعیان نبوت کے بارہ میں اپنی یہ رؤیابیان فرمائی کہ میں سویا ہوا تھا۔ زمین کے خزانے مجھے دیئے گئے ۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں دو سونے کے کنگن دیکھے۔ میری طبیعت پر یہ بات گراں گزری۔ سونے کے یہ کنگن میرے لئے باعث پریشانی ہوئے۔تب مجھے وحی ہوئی کہ ان کو پھونک ماریں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اُڑ گئے۔ میں نے اس رؤیا کی یہ تعبیر کی کہ دو جھوٹے دعویدارہیں جن کے درمیان میںہوں۔ایک تو صنعاء کا باشندہ(اسود عنسی) دوسرا یمامہ کا رہنے والا (مسیلمہ کذاب)۔ (بخاری)8
یہ رؤیا بھی حضورؐ کی زندگی میں پوری ہوئی اور ان دونوںمدّعیان نے رسول اللہؐ کی زندگی میں نبوت کے دعوے کئے ۔اسود عنسی آپؐ کی زندگی میں اور مسیلمہ بعد میں ہلاک ہوا۔
خلافت ابو بکرؓ وعمرؓ کے متعلق رؤیا
خدا تعالیٰ کے ہرمامور کی طرح نبی کریم ؐ کو اپنے بعد اپنے مشن کے جاری اور قائم رہنے کی فکر لاحق تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فکر اُس رؤیا کے ذریعے دور فرمادی جس میں حضرت ابو بکرؓ کے مختصر زمانہ خلافت او ر حضرت عمرؓکے فتوحات سے بھرپور پُر شوکت عہد کی طرف اشارہ تھا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ
’’میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں سیاہ رنگ کی بکریوں کے لئے کنوئیں سے پانی کھینچ رہا ہوں جن میں کچھ گندمی رنگ کی بکریا ں بھی ہیں۔ اتنے میں ابو بکرؓ آئے انہوں نے ایک یا دو ڈول پانی کھینچا اور ان کے کھینچنے میں کچھ کمزوری تھی پھر عمرؓ آئے اور انہوں نے ڈول لیا تو وہ اسے بھرا ہوا کھینچ لائے۔ اُنہوں نے تمام لوگوں کو پانی سے سیراب کیا اور تمام بکریوں نے پانی پی لیا۔ میں نے آج تک ایسا کوئی باکمال وباہمت جواں مردنہیں دیکھا جو حضرت عمرؓ جیسی طاقت رکھتا ہو۔‘‘(بخاری)9
چنانچہ یہ رؤیا بھی بڑی شان سے پوری ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قیصر و کسریٰ کی عظیم فتوحات کی بنیاد رکھ دی گئی اور بڑی بڑی فتوحات ہوئیں۔
فتح ایران اورسراقہ بن مالک کے بارہ میں پیشگوئی
سفر ہجرت میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہؐ کا تعاقب کرنے والے سراقہ بن مالکؓ کے حق میں بھی رسول اللہؐ کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی۔
حضرت ابوبکرؓ ہجرت نبوی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہمارا تعاقب کرنیوالوں میں سے صرف سراقہ بن مالک ہی ہم تک پہنچ سکا جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ ہمیں پکڑنے کیلئے آیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اے ابوبکرؓ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ جب سراقہ ہمارے قریب ہوا تو رسول کریم ؐ نے دعا کی کہ اے اللہ ہماری طرف سے توُ خود اسکے لئے کافی ہو۔تب اچانک اسکے گھوڑے کے اگلے دو پائوں زمین میں دھنس گئے۔اس پر سراقہ کہنے لگا مجھے پتہ چل گیا ہے کہ یہ آپؐ کی دعا کا نتیجہ ہے۔اب آپؐ دعا کریں اللہ مجھے اس سے نجات دے۔ خدا کی قسم اپنے پیچھے آنیوالوں کو میں آپؐ کے بارہ میں نہیں بتائوں گا ۔ آپؐ میرے تِیر بطور نشانی لے لیں۔ فلاں جگہ جب میرے اونٹوں اور بکریوں کے ریوڑ کے پاس سے آپؐ گزریں تو اپنی ضرورت کے مطابق جوچیز چاہیں لے لیں۔حضور ؐ نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔پھر آپؐ نے اس کے لئے دعا کی اور اس کے گھوڑے کے پائوں باہر نکل آئے۔(احمد)10
سراقہ کی درخواست پر رسول کریمؐ نے اسے ایک تحریر امان لکھواکر دی اور جب وہ واپس جانے لگا تو آپؐ نے فرمایا اے سراقہ !اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کسرٰی کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے؟ سراقہ نے حیرانی سے کہا کسریٰ بن ہرُمز(شہنشاہ ایران)؟ آپؐ نے فرمایا’’ہاں کسریٰ بن ہرُمز کے کنگن۔‘‘
اپنے جانی دشمنوں سے جان بچاکر ہجرت کرنے والے بظاہر ایک کمزور انسان کی اس پیشگوئی کی شان اور عظمت پر غورتو کریں جس میں سُراقہ کو کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے سے کہیں بڑھ کر عظیم الشان پیشگوئی یہ تھی کہ ایران فتح ہوگا اور کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں گے۔پھر نامساعد حالات میں کی گئی یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی۔
سراقہ نے فتح مکّہ کے بعدجِعّرانہ میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں کسرٰی کے کنگن اور تاج وغیرہ حضرت عمرؓ کے دربار میں پیش ہوئے۔ حضرت عمر ؓ نے سراقہ کو بلایا اور فرمایا’’ ہاتھ آگے کرو ‘‘۔ پھر آپ نے اُسے سونے کے کنگن پہنادیئے اور فرمایا اے سراقہ ! کہو کہ تمام تعریفیں اس خدا کی ہیں جس نے ان کنگنوں کو کسریٰ کے ہاتھ سے چھین کر سراقہ کے ہاتھوں میں پہنادیا۔ وہ کسریٰ جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں۔(الحلبیہ)11
اسلامی بحری فتوحات کی پیشگوئی
ایک اور عظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے۔ مدنی زندگی کے اس دور میں جب بری سفروں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسر نہیں تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کی بحری جنگوں اورفتوحات کی خبر دی گئی ۔
حضرت ام حرامؓ بنت ملحان بیان کرتی ہیں کہ حضورؐ ہمارے گھر محو استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔میں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ:۔
’’ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں۔‘‘
ام حرام ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ !آپ ؐدعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنادے۔چنانچہ رسول کریمؐ نے یہ دعا کی کہ’’ اے اللہ اسے بھی ان میں شامل کردے۔‘‘پھر آپؐ کو اونگھ آگئی اور آنکھ کھلی توآپؐ مسکرارہے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپؐ نے پہلے کی طرح امت کے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہاد کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے۔ ام حرام ؓ نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ اس گروہ میں بھی شامل ہوں۔آپؐ نے فرمایا’’ تم گروہ اولین میں شامل ہو، گروہ آخرین میں شریک نہیں۔‘‘ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ پھریہی حضرت ام حرامؓ سمندری سفر میں شامل ہوئیںاور اسی سفر سے واپسی پر سواری سے گر کر وفات پائی۔(بخاری)12
اس پیشگوئی میں جزیرہ قبرص کے بحری سفر کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت معاویہؓ کو جب وہ شام کے گورنر تھے پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی۔ اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی۔حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں ہی حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیاجو اسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہاد تھا۔جس کے نتیجہ میں قبرص فتح ہوا اور بعد میں ہونے والی بحری فتوحات کی بنیادیں رکھی گئیں۔یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی وہ بات پوری ہوئی کہ دین اسلام غالب آئے گا یہاں تک کہ سمندر پار کی دنیائوں میں بھی اس کا پیغام پہنچے گا اور مسلمانوں کے گھڑ سوار دستے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کو بھی چیر جائیں گے۔(کنز)13
یہ پیش گوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبردست ایرانی اور رومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کا لوہا منوایا۔ عبداللہ بن سعدؓ بن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیٹرے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھاکر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگادیئے۔چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہمات میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ اسود و احمر کے بھی اس پار پہنچے اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ روس صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا۔تیسری طرف طارق بن زیاد فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے جبرا لٹر پر پہنچ کر ہر چہ بادا باد کہہ کر اپنے سفینے جلادیئے تو چوتھی طرف محمدبن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے اور یوں مسلمانوں نے جریدۂ عالم پر بحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی اورکیا بلحاظ صنعت اور کیا بلحاظ جہاز رانی ایسے اَن مٹ نقوش ثبت کئے جو رہتی دنیا تک یادرہیں گے۔ نئی بندرگاہیں تعمیرہوئیں، جہاز سازی کے کارخانے بنے بحری راستوں کی نشان دہی اور سمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے اور مسلمان جو پانیوں سے ڈرتے تھے سمندروں پر حکومت کرنے لگے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا وکشوف کمال شان کے ساتھ پورے ہوئے۔
-3تعبیر طلب رؤیا کاکسی اور رنگ میں پورا ہونا
رؤیا اور کشوف کی تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ رؤیا کے وقت کی گئی تعبیر کے مطابق من و عن ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ الہٰی مشیٔت وتقدیرکے مطابق کسی اور بہتر رنگ میں ظاہر ہوتی ہیںجیسے واقعہ صلح حدیبیہ۔
مدنی دور میں جب مسلمان اہل مکّہ سے حالت جنگ میں تھے اور ان کے حج و عمرہ پر پابندی تھی۔اس وقت رسول اللہؐ نے رؤیا میں اپنے آپؐ کو صحابہ کے ساتھ امن و امان سے طواف کرتے دیکھا اور ظاہری تعبیر پر عمل کرتے ہوئے چودہ سو صحابہ کی جماعت ہمراہ لے کر عمرہ کرنے تشریف بھی لے گئے۔مگر گہری مخفی الہٰی حکمتوں اور منشاء الہٰی کے تابع آپؐ اس سال عمرہ نہ کرسکے اور معاہدۂ صلح حدیبیہ کے مطابق اگلے سال عمرہ کیا۔لیکن اس معاہدۂ حدیبیہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیبر کی فتح بھی عطا فرمائی اور مکّہ بھی اسی معاہدہ کی برکت سے فتح ہوا۔اب اگر یہ تعبیر ظاہری رنگ میں پوری ہوجاتی کہ اُسی سال مسلمان طواف کر بھی لیتے تووہ فوائد و برکات حاصل نہ ہوتیں جو صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں عطا ہوئی ہیں اور جسے قرآن شریف میں’’فتح مبین‘‘ قراردیا گیا۔(بخاری)14
ہجرت مدینہ کی رؤیا بھی اسی قسم کی تھی جس کی درست تعبیر بعد میں ظاہر ہوئی۔نبی کریم ؐ کواپنی ہجرت کی جگہ دکھائی گئی کہ کوئی کھجوروں والی جگہ ہے۔ آپؐ نے اُس سے یمامہ یا حجر کی سرزمین مراد لی۔مگر بعد میں کھلا کہ اس سے یثرب یعنی ’’مدینۃ الرّسول‘‘ مراد تھا۔(بخاری)15
رؤیا میںدارالہجرت کے نام کے اخفاء میں یقینا گہری حکمت پوشیدہ تھی کہ ہجرت کے سفر میں کوئی روک یا خطرہ حائل نہ ہو۔
-4رؤیاپوری ہونے پر اُس کی تعبیرکا کھلنا
بعض رؤیا ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی تعبیر رؤیا کے وقت واضح نہیں ہوتی مگر بعد میں رؤیا کے پورا ہونے پر سمجھ آتی ہے۔ جس کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ اُس واقعہ یاحادثہ کے ظہور کے بعد رؤیا میں مضمر منشاء الہٰی معلوم کرکے انسان کو اطمینان حاصل ہو۔جیسے غزوۂ احد سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیا میں دیکھا کہ آپؐ کچھ گائیوں کو ذبح کر رہے ہیں۔اسی طرح دیکھا کہ آپؐاپنی تلوار لہراتے ہیں اور اس کا اگلا حصہ ٹوٹ جاتاہے۔ رؤیا کے وقت اس کی تعبیر واضح نہ تھی، مگر بعد میں اس کشف کی تعبیر اُحد میں سترّ مسلمانوں کی شہادت کی عظیم قربانی،خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے اور دندان مبارک شہید ہونے کے رنگ میں ظاہر ہو گئی اس وقت کُھلا کہ اس رؤیا کا کیا مطلب تھا۔(بخاری)16
-5پیش گوئی کا جانشین یا اولاد کے حق میں پورا ہونا
بعض رؤیا کی تعبیر بعد میں آنے والوں مثلاً نبیوں کے خلفاء ،اُن کے ماننے والوں یا صاحبِ رؤیا کی اولاد کے حق میں ظاہر ہوتی ہے۔
ایک نہایت اہم اور غیر معمولی شان کا حامل لطیف کشف وہ ہے جس کا نظارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ احزاب کے اس ہولناک ابتلاء میں کروایا گیا جب اہل مدینہ ایک طرف کفار مکّہ کے امکانی حملہ سے بچنے کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود رہے تھے۔ دوسری طرف اندرونی طور پر وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے اور جیساکہ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصرو ف تھے۔مسلسل تین دن سے فاقہ میں تھے خودآنحضرتؐ نے بھوک کی شدت سے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔(بخاری)17
حضرت براء بن عازبؓ اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی۔ آپؐ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی تو پتھر شکستہ ہوگیا اور اس کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ گرا۔ آپؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ ملک شام کی کنجیاں میرے حوالے کی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! میں شام کے سرخ محلات اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔پھر آپؐ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی پتھر کا ایک اور حصہ شکستہ ہوکر ٹوٹا اور رسول کریمؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم! میں مدائن اور اس کے سفید محلات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے اللہ کا نام لیکر تیسری ضرب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ آپؐ نے تیسری بار اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا! ’’ یمن کی چابیاں میرے سپرد کی گئی ہیں اور خدا کی قسم !میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اس جگہ سے کررہا ہوں۔(احمد)18
یہ عظیم الشان روحانی کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کے زبردست ایمان و یقین پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ خود حفاظت کے لئے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف ہیں۔ الہٰی وعدوں پر کیساپختہ ایمان ہے کہ اپنے دور کی دو عظیم طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن پوری ہوکر رہیں گی۔
پھر خدا کی شان دیکھو کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت سے ان فتوحات کا آغاز ہوجاتا ہے۔حضرت خالد بن ولید ؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کو فتح کرتے ہیں اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں ان فتوحات کی تکمیل ہوجاتی ہے اورحضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں مسلمان ایران کو فتح کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیاکی دو بڑی سلطنتیں روم اور ایران ان فاقہ کش مگر یقین محکم رکھنے والے مسلمانوں کے زیر نگیں ہوجاتی ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان فتوحات کے روشن نظارے اس تفصیل کے ساتھ کرائے گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ خُریم بن اوسؓ کے بیان کے مطابق حیرہ کی فتح کے بارہ میں رسول کریم ؐ کا کشف جس شان کے ساتھ پورا ہوا وہ حیرت انگیز ہے۔رسول کریمؐ نے فرمایا’’ حیرہ کے سفید محلّات میرے سامنے لائے گئے اور میں نے دیکھا کہ اس کی (شہزادی) شیماء بنت نفیلہ ازدیہ ایک سرخ خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی سے نقاب اوڑھے ہوئے ہے۔ خُریم ؓ نے غالباً اس پیشگوئی کی مزید پختگی کی خاطر عرض کیا یا رسول اللہؐ! اگر ہم حیرہ میں یوں فاتحانہ داخل ہوئے اور ان کی شہزادی شیماء کو ایسا ہی پایا جیسا کہ حضورؐ نے بیان فرمایا ہے تو کیا وہ شہزادی میری ملکیت ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ہوئی۔ اب دیکھیں اس پیشگوئی میں حیرہ کی فتح کے ساتھ شیماء اور خریم کے زندہ رہنے کی پیشگوئی بھی شامل ہے۔ خریم کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب ہم نے حیرہ فتح کیا تو بعینہٖ وہی نظارہ ہم نے دیکھا جو رسول اللہؐ نے بیان فرمایا تھا کہ شیماء خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی کا نقاب کئے آرہی تھی۔میںاس کی خچر سے چمٹ گیا اور کہا کہ رسول اللہؐ نے یہ مجھے ھبہ فرمادی تھی۔ سالار فوج خالدؓ بن ولید نے مجھے بلوایا اور میرے دعویٰ کی دلیل طلب کی۔ میں نے محمد بن مسلمہؓ اور محمد بن بشیر انصاری ؓکو بطور گواہ پیش کیا اور شیماء میرے حوالے کردی گئی۔ اس کا بھائی عبدالمسیح صلح کی غرض سے میرے پاس آیا اور کہا کہ اسے میرے پاس فروخت کرد و میں نے کہا میں دس سو درہم سے کم نہیں لونگا۔ اس نے فوراً مجھے ایک ہزار درہم دیئے اور میں نے شیماء اس کے حوالے کردی۔ مجھے لوگ کہنے لگے اگر تم دس ہزار درہم بھی کہتے تو وہ ادا کردیتا۔ یہ تم نے ایک ہزار مانگ کرکیا کیا؟ میں نے کہا دس سو سے زیادہ مجھے بھی گنتی نہیں آتی تھی۔(ابونعیم)19
فاقہ کش ابوہریرہؓ جنہوں نے اِن رؤیاکی تعبیراپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھی،وہ یہ فتوحات دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ’’ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں‘‘۔پھرکہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو وفات پاگئے۔ اب تم ان خزانوں کوحاصل کررہے ہو۔(بخاری) 20
پس رسول اللہؐ کے رؤیا ،کشوف اور پیشگوئیاں مختلف رنگوں میں الہٰی منشاء اور حکمت کے مطابق بہرحال پوری ہوئیںاورآج ہمارے لئے ازدیاد ایمان کا موجب بن کر ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضروربالضرور پورے ہونگے جو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم سے کئے گئے ۔
چنانچہ آخری زمانہ کے بعض خوش قسمت گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ فرمایا ہے ایک وہ جو ہندوستان سے جہاد کرے گا اور دوسری وہ جماعت جو عیسیٰ ؑبن مریم کے ساتھ ہوگی۔(نسائی)21
اس پیشگوئی کا پہلا حصہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس وقت پورا ہوا جب محمد بن قاسم کے ذریعے سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغازہوا۔ اور انہوں نے سندھ کے باسیوں کووہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلا کر عدل وانصاف کی حکومت قائم کی اور اپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل سندھ کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ یوں یہاں اسلام کا آغاز ہوا ۔پیشگوئی کے دوسرے حصے کا تعلق اس آخری زمانہ سے ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ کر دکھایا،یہاں تک کہ اُس کے مشرقی کنارے بھی اور مغربی کنارے بھی میرے سامنے تھے۔ اور مجھے کہا گیا تھا کہ میری اُمت کی حکومت زمین کے اُن تمام کناروں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے اور مجھے دو خزانے دیئے گئے ایک سرخ خزانہ(یعنی سونے کا) اور ایک سفید خزانہ( یعنی چاندی کا)‘‘ (مسلم)22
اسلام کے اس آخری عظیم الشان غلبہ کے بارہ میں آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کوئی کچا یا پکا گھر نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اسلام کو داخل کر دے گا۔ان الہٰی وعدوں پر ہر مومن کو یقین اور ایمان ہونا چاہیے کیونکہ
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
حوالہ جات
1
بخاری کتاب الجمعۃ باب اذافتلت الدابۃ فی الصلاۃ:1134
2
بخاری کتاب النکاح باب الابکار :4688
3
بخاری کتاب التفسیر باب سیھزم الجمع ویولون الدبر
4
مسلم کتاب الجنہ وصفۃ نعیمھا باب عرض مقعد المیت من الجنۃ:5120
5
بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل:3679
6
تاریخ الامم والملوک لطبری جز3ص248دارالفکربیروت
7
کنزالعمال حدیث نمبر 37472
8
بخاری کتاب تعبیر الرؤیاباب النفخ فی المنام :6515
9
بخاری کتاب المناقب باب مناقب عمر
10
مسند احمد جلد 1ص2مطبوعہ مصر
11
السیرۃ الحلبیہ جلد 2ص45 مطبوعہ بیروت
12
بخاری کتاب الجہادباب الدعاء بالجہادوالشہادۃ للرجال والنسائ:2580
13
کنزالعمال جلد 10 ص 212 مطبوعہ حلب
14
بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفتح
15
بخاری کتاب المناقب باب ھجرۃ النبی الی المدینۃ
16
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
17
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب :3792
18
مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص 303 دارالفکر بیروت
19
دلائل النبوۃ لابی نعیم جلد2ص692
20
بخاری کتاب التعبیر باب رؤیا اللیل:6483
21
نسائی کتاب الجہاد باب غزوۃ الھند
22
مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ھلاک ھذہ الامۃ بعضھم ببعض:5144
صداقت شعاری میں رسول اللہؐ کا بلند مقام
انسانی سیرت و کردار کی تعمیر میں سب سے اہم وصف صدق لہجہ، سچائی اور راست گفتاری ہے۔ دراصل انسان کی باطنی سچائی ہی ہے جس کا اظہار نہ صرف اس کی زبان سے بلکہ سیر ت و کردار حتّٰی کہ اس کی پیشانی سے بھی جھلکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ماموروں اور فرستادوں کی سچائی کا نشان یہی صداقت شعاری کا خلق ٹھہرایا ہے۔
چنانچہ نبی کریم ؐ کے ذریعہ اہل مکّہ کو یہ خطاب ہوا کہ ’’ان کو کہہ دے اگر اللہ چاہتا تو میں یہ( قرآن ) تم کو پڑھ کرنہ سناتا اور نہ اس سے تمہیں آگاہ کرتا۔ اس سے پہلے میں تمہارے درمیان عمر کا ایک حصّہ گزار چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘ (سورۃیونس آیت 17)
اس آیت میں آنحضرت ﷺکی دعویٰ سے پہلے کی زندگی بحیثیت مدّعیٔ نبوت راست گفتاری میں بطور مثال کے پیش فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص بچپن اور جوانی میں انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ بڑھاپے کے قریب خدا پر کیسے جھوٹ باندھ سکتا ہے۔ بلاشبہ مدّعی ٔ نبوت کی صداقت کے لئے یہ ایک بنیادی اور اہم دلیل ہے۔اس پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو پرکھا جائے تو آپؐ کی سچائی روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہے۔
آپؐ ہی تھے جن کو آغاز جوانی سے ہی اپنے پرائے سبھی امانت دار مانتے تھے۔ آپؐ کا نام ہی صدوق پڑگیا تھا جو بے حد سچ بولنے والے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی دعویٔ نبوت تک کھلم کھلا یہ گواہی دیتے رہے کہ آپؐنے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اس جگہ ہم رسول کریمؐ کی صداقت کے بارے میں چند شہادتیں پیش کریں گے۔
میاں بیوی کی قربت کو قرآن شریف میں بجا طور پر ایک دوسرے کے لباس سے تعبیر کیا گیا ہے۔(سورۃ البقرۃ:188)پس بیوی سے بڑھ کر کون ہے جو شوہر کے زیادہ قریب ہو اور اس کے اخلاق کے بارہ میں اس سے بہتررائے دے سکے؟
ازواج مطہرات ؓکی گواہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی وحی کے بعد گھبراہٹ کے عالم میں گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو جن الفاظ میں تسلی دی وہ آپؐ کی صداقت کی زبردست گواہی ہے۔ انہوں نے آپؐ کی یہ اہم صفت بھی بیان کی کہ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔(بخاری)1
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میںحضرت عائشہؓ کی بھی یہی گواہی تھی کہ آپؐ کے اخلاق تو قرآن تھے اوراسلام وقرآن کا بنیادی خلق تو سچائی ہی ہے۔
حضرت عائشہؓکی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی۔ اور جب آپؐ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپؐ اس وقت تک اس سے کھچے کچھے رہتے تھے جب تک کہ آپ ؐکو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے توبہ کرلی ہے۔(ابن سعد)2
رشتہ داروں کی گواہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت حق پہنچائیں تو کوہِ صفا پر آپؐ نے قبائل قریش کونام لے کر بلایا۔جب وہ اکٹھے ہوئے تو ان سے پوچھاکہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟’’ انہوں نے بلاتامّل کہا ہاں! ہم نے کبھی بھی آپؐ سے جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا۔ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔‘‘مگر جب آپؐ نے انہیں کلمۂ توحید کی دعوت دی توآپؐ کا چچا ابو لہب کہنے لگا’’ تیرا برا ہو کیا تو نے اس لئے ہمیں جمع کیا تھا۔‘‘(بخاری )3
سورۂ یونس میں نبی کی دعوے سے پہلے کی زندگی کو بطور دلیل پیش کرنے میں یہی حکمت ہے کہ بعد میں تو مخالف بھی پیدا ہوجاتے ہیں مگر دعویٰ سے پہلے سب اس کی راستبازی پر متفق ہوتے ہیں۔
ابو طالب کی گواہی
ایک دفعہ قریش کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت لے کر رسول اللہؐ کے چچا ابوطالب کے پاس آیا۔ ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلواکر سمجھایا کہ قریش کی بات مان لو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے فرمایا کہ اگر تم اس سورج سے روشن شعلۂ آگ بھی میرے پاس لے آئو پھر بھی میرے لئے اس کام کو چھوڑنا ممکن نہیں ۔اس پر ابو طالب نے گواہی دی کہ خد ا کی قسم ! میں نے آج تک کبھی اپنے بھتیجے کو اس کے قول میں جھوٹا نہیں پایا۔یعنی یہ اپنی بات کا پکا اور سچا ہے اور اس پر قائم رہے گا۔میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔(بیہقی)4
ابو طالب کی دوسری گواہی شعب ابی طالب کے زمانہ کی ہے۔جب اس محصوری کی حالت میں تیسرا سال ہونے کو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اس کی ساری عبارت کو سوائے لفظ اللہ کے دیمک کھاگئی ہے۔ ابوطالب کو رسول اللہ کے قول پر ایسا یقین تھا کہ انہوں پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔یہ بات بھی لازماً سچ ہے۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ سرداران قریش کے پاس گئے اور انہیں بھی کھل کر کہا کہ میرے بھتیجے نے مجھے یہ بتایا ہے کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک کھا گئی ہے۔ اس نے مجھ سے آج تک جھوٹ نہیں بولا۔بے شک تم جاکر دیکھ لو اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلے تو تمہیں بائیکاٹ کا اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر وہ جھوٹا ثابت ہو تو میں اُسے تمہارے حوالے کرونگا۔چاہو تو اسے قتل کرو اور چاہو تو زندہ رکھو۔ انہوں نے کہا بالکل یہ انصاف کی بات ہے۔ پھر جاکر دیکھا تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،سوائے لفظ اللہ کے سارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی تھی۔چنانچہ قریش یہ معاہدہ ختم کرنے پر مجبور ہوگئے۔(ابن جوزی)5
خزیمہ بن حکیم سلمی کی گواہی
خزیمہ حضرت خدیجہ ؓ کے سسرالی رشتہ داروں میں سے تھے۔ دعویٰ نبوت سے قبل جب رسول کریمؐ تجارت کے لئے حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر شام گئے۔ خزیمہؓ بھی حضورؐ کے ساتھ تھے۔ حضورؐ کے پاکیزہ اخلاق مشاہدہ کر کے انہوں نے بے اختیار یہ گواہی د ی کہ
’’اے محمدؐ میں آپؐ کے اندر عظیم الشان خصائل اور خوبیاں دیکھتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ وہی نبی ہیں جس نے تہامہ سے ظاہرہوناتھا اور میں آپؐ پر ابھی ایمان لاتا ہوں۔ ‘‘ انہوں نے وعدہ کیاتھا کہ جب مجھے آپؐ کے دعویٰ کی خبر ملی میں ضرور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونگا۔ مگر دعویٰ کے بعد جلد اس وعدہ کی تکمیل نہ ہوسکی۔فتح مکہ کے بعد آکر اسلام قبول کیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا’’پہلے مہاجر کو خوش آمدید‘‘۔(ابن حجر)6
دوست کی گواہی
حضرت ابوبکرؓ رسول اللہؐ کے بچپن کے دوست تھے۔ انہوں نے جب آپؐ کے دعویٰ کے بارہ میں سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی کیونکہ زندگی بھر کا مشاہدہ یہی تھا کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔(بیہقی)7
پس رسول اللہؐ کا کردار بھی آپ ؐکی سچائی کا گواہ تھا اور آپؐ کی پیشانی پر بھی سچائی کی روشنی تھی جسے حضرت ابوبکرؓ نے پہچان لیا۔
اولین معاند ابوجہل کی شہادت
حق یہ ہے کہ سچوں کی گواہی دینے پر اپنے اور بیگانے تو کیا دشمن بھی مجبو رہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ابو جہل سے بڑھ کر کون تھا؟ مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برملا کہا کرتا تھا کہ ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو تو لے کر آیا ہے۔(ترمذی )8
دشمن اسلام ابوسفیان کی گواہی
رسول اللہؐ کا دوسرا بڑا دشمن ابو سفیان تھا۔ ہر قل شاہ روم نے اپنے دربار میں جب اس سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے اس مدعی نبوت ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس سے پہلے کوئی جھوٹ کا الزام لگایا؟ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں ہرگز نہیں۔ دانا ہر قل نے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ اس نے لوگوں کے ساتھ توکبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور خدا پر جھوٹ باندھنے لگ جائے۔(بخاری )9
جانی دشمن نضربن حارث کی شہادت
رسول اللہؐ کا ایک اور جانی دشمن نضربن حارث تھا جودارالندوہ میں آپؐکے قتل کے منصوبے میں بھی شامل تھا۔ کفار کی مجلس میں جب کسی نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں محمدؐکے بارے میں یہ مشہور کردینا چاہئے کہ یہ جھوٹا ہے تو نضر بن حارث سے رہانہ گیا۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھا کہ دیکھو محمدؐ تمہارے درمیان جوان ہوا،اس کے اخلاق پسندیدہ تھے۔ وہ تم میں سب سے زیادہ سچااور امین تھا۔ پھر جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچا اور اپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے لگا تو تم نے کہا جھوٹا ہے ۔ خدا کی قسم! یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ وہ جھوٹا ہے۔ وہ ہرگزجھوٹا نہیں ہے۔(ابن ہشام) 10
دشمن اسلام اُمیّہ بن خلف کی گواہی
دشمن رسول امیہ بن خلف نے اپنے جاہلیت کے دوست حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری سے اپنی ہلاکت کے بارے میں رسول اللہؐ کی پیشگوئی سن کربے ساختہ گواہی دی تھی کہ خدا کی قسم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) جب بھی بات کرتا ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا۔(بخاری)11
امیہ کی بیوی کی گواہی
حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری نے جب سردارقریش امیہ بن خلف کی بیوی کو بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ اس کا خاوند امیہ ہلاک ہوگا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھی! خداکی قسم محمد جھوٹ نہیں بولتے۔ چنانچہ جب جنگ بدر کے لئے امیہ ابو جہل کے ساتھ جانے لگا تو بیوی نے پھر کہا ’’تمہیں یاد نہیں تمہارے یثربی بھائی سعد نے تمہیں کیا کہا تھا۔‘‘امیہ اس وجہ سے رُک گیا مگر ابوجہل باصرار اسے لے گیا چنانچہ امیہ بن خلف بدر میں مارا گیااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ثابت ہوئی۔(بخاری )12
سردار قریش عتبہ کی گواہی
قریش نے ایک دفعہ اپنے ایک سردار عتبہ کو نمائندہ بناکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ اس نے کہا کہ آپؐ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟آپؐ کی جوبھی خواہش ہے پوری کرتے ہیں۔آپؐ ان باتوں سے باز آئیں۔حضورؐ تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ سب کہہ چکا تو آپؐنے سورۃ حٰم فُصِّلَتْ کی چند آیات تلاوت کیں ،جب آپؐ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد وثمود جیسے عذاب سے ڈرا تا ہوں توعتبہ نے آپؐ کو روک دیا کہ اب بس کریں اورخوف کے مارے اُٹھ کر چل دیا۔اس نے قریش کو جاکر کہا تمہیں پتہ ہے کہ محمدؐ جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آجائے جس سے وہ ڈراتا ہے۔ تمام سردار یہ سن کرخاموش ہوگئے۔(حلبیہ13) اُن سب سردارانِ قریش کی یہ خاموشی اپنی ذات میں اس بات کی گواہی تھی کہ بلاشبہ آپ ؐ صادق وراستبازہیں ۔
یہودی عالم کی گواہی
عبداللہؓ بن سلام مدینہ کے ایک بڑے یہودی عالم تھے۔وہ مسلمان ہونے سے پہلے کا اپنا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضورؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگ دیوانہ وار آپؐ کو دیکھنے گئے میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔ آپؐ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ہی میںپہچان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔(ابن ماجہ)14
ایچ جی ویلز نے رسول اللہؐ کے صدق وصفا کی گواہی دیتے ہوئے لکھا:۔
’’یہ محمد(ﷺ) کے صدق کی دلیل قاطع ہے کہ ان سے قربت رکھنے والے لوگ، اُن پر ایمان لائے ، حالانکہ وہ اُن کے اسرار ورموز سے پوری طرح واقف تھے اور اگر انہیں ان کی صداقت میں ذرہ برابر بھی شبہ ہوتا تو اُن پر وہ ہرگز ایمان نہ لاتے۔‘‘(ویلز)15
پس ایک انسان کی سچائی پر اپنوں، پرایوں، دوستوںاور دشمنوں سب کا اتفاق کرلینا ایسی عظیم الشان شہادت ہے جو ہمارے نبی ؐ کی راستبازی اور سچائی کی زبردست اور روشن دلیل ہے۔
حوالہ جات
1
بخاری کتاب التعبیرباب اول مابدیٔ بہ رسول اللہؐ
2
الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1ص378
3
بخاری کتاب التفسیر سورۃ اللہب
4
دلائل النبوۃ بیھقی جلد2ص187دارالکتبہ العلمیہ بیروت
5
الوفاء باحوال المصطفیٰ لابن جوزی ص198بیروت
6
الاصابہ فی تمییز الصحابہ از ابن الحجرجز 2ص112دارالکتاب العلمیہ بیروت
7
دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2ص164دارالکتب العلمیہ بیروت
8
ترمذی ابواب التفسیر سورۃ الانعام زیرآیت قَدْنَعْلَمُ اِنَّہ‘ لَیَحْزُنکَ الَّذِی یَقُوْلُوْنَ
9
بخاری بدء الوحی
10
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد1ص320مصر
11
بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
12
بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
13
السیرۃ الحلبیۃ از علامہ برھان الدین جلد1ص303مطبوعہ بیروت
14
ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب اطعام الطعام
15
ایچ جی ویلز ، زکریا ہاشم زکریاص270بحوالہ نقوش رسول نمبر ص550
’ ’ رسولِ امین ؐ ‘‘کی امانت و دیانت
’’اللہ تمہیںحکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروںکو اداکرو۔‘‘(النسائ:59) یہ ہے رسول اللہؐ کی شریعت میں قیام امانت کی بنیادی تعلیم۔ دنیامیں سب سے زیادہ امانت دار خداکے نبی اور رسول ہوتے ہیں جو خدا کا پیغام بلا کم وکاست اس کی مخلوق تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے قرآن شریف میں کئی انبیاء کا یہ دعویٰ مذکور ہے کہ ’’میں ایک امانت دار رسول ہوکر آیا ہوں۔‘‘ مگر ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ارفع یہ ہے کہ عرش کے خدانے آپؐ کے ’’امین‘‘ ہونے کی گواہی دی۔فرمایا مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ۔(التکویر:22) کہ یہ نبی ایسا ہے جس کی پیروی کی جائے اور امانت دار ہے۔آپؐ ہی وہ انسان کامل ہیں جنہوں نے اس امانت کا بوجھ اُٹھایا جو آسمان وزمین اورپہاڑبھی نہ اُٹھاسکے۔(الاحزاب:73)
آسمان بار امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
پس رسول کریمؐ ہی ہیں جنہوں نے امانت کے حق ادا کردکھائے۔آپؐ کے ماننے والوں کو بھی یہ تعلیم دی گئی کہ ’’وہ مومن فلاح پاگئے جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ (المؤمنون:9) رسول کریمؐ نے فرمایا جس کی امانت نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(طبرانی)1
امانت و دیانت کی بنیاد نیک نیتی دلی سچائی اور راستبازی ہے۔رسول کریمؐ میں یہ وصف بھی خوب نمایاں تھا۔ آپؐ اہل مکہ میں اس خوبی میں ایسے ممتاز تھے کہ سب آپؐ کو ’’صدوق وامین‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے اور اپنی امانتیں آپؐ کے پاس بے خوف و خطر رکھتے تھے۔
ایمان کا امانت سے گہرا تعلق ہے رسول کریمؐ کی تعلیم کاخاصہ بھی یہی تھا چنانچہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ وہ مدعی نبوت تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے۔ تو ابوسفیان نے بھی گواہی دی کہ وہ نماز،سچائی،پاکدامنی، ایفائے عہد اور امانت ادا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس پرہرقل بے اختیار کہہ اُٹھا یہ تو نبی کی صفات ہیں۔(مسلم)2
نجاشی شاہ حبشہ کے دربار میں حضرت جعفرطیارؓ نے رسول اللہؐ اور آپؐ کے دین کا تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ
’’اے بادشاہ! ہم ایک جاہل قوم تھے۔ بتوں کے پجاری تھے۔ مردار کھاتے اور بدکاری کے مرتکب ہوتے تھے۔ قطع رحمی ہمارا شیوہ تھا اور ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے۔ طاقتورکمزور کا حق کھا جاتا تھا تب خدا نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کی سچائی امانت اور پاکدامنی کے ہم گواہ ہیں۔ اس نے ہمیں خدا کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا اور بت پرستی سے بچایا اور سچائی، امانت کی ادائیگی صلہ رحمی اور ہمسائے سے حسن سلوک کی تعلیم دی۔‘‘ (احمد)3
قریش مکہ نبی کریمؐ کے خون کے پیاسے اورآپؐ کے قتل کے درپے تھے۔مگرحضورؐ کوہجرت مدینہ کے وقت ان کی امانتوں کی واپسی کی فکر تھی۔ چنانچہ مکہ چھوڑتے ہوئے اپنے عم زاد حضرت علیؓ کو ان خطرناک حالات کے باوجود پیچھے چھوڑ اکہ وہ امانتیں ادا کر کے مدینہ آئیں۔(ہشام)4
رسول کریمؐ کے دل میں امانت کا جس قدر گہرااحساس تھااس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتاہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا کہ اگر کوئی گری پڑی چیز مل جائے تو اس کا کیا کیا جائے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کی نشانیاں بتا کر اعلان کرتے رہو پھر اگر اس کا مالک آجائے تو اسے لوٹا دو۔ وہ کہنے لگا اگر کوئی گمشدہ اونٹ مل جائے تو اس کا کیا کریں ؟ نبی کریمؐ بہت ناراض ہوئے۔ چہرہ کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمانے لگے تمہیں اس سے کیا؟ اس اونٹ کے پائوں ساتھ ہیں وہ درخت چرکر اور پانی پی کر زندہ رہ سکتاہے۔تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ خود اس کا مالک اُسے پالے۔(بخاری)5
حفاظتِ امانت میںنبی کریمؐ کا اپنا یہ حال تھا کہ فرماتے تھے میں بسااوقات اپنے گھر میں بستر پر کوئی کھجور پڑی ہوئی پاتا ہوں۔کھانے کی خواہش بھی ہوتی ہے اور میں وہ کھجور اُٹھا کر کھانا چاہتا ہوں مگر پھر خیال آتا ہے کہ صدقہ کی کھجور نہ ہو تب اسے وہیں رکھ چھوڑ تا ہوں۔(بخاری)6
ایک دفعہ گھر میں کھجور کے ایک ڈھیر میں سے کم سن حضرت امام حسین ؓیا حسنؓ نے ایک کھجور لے کر مُنہ میں ڈال لی۔ نبی کریمؐ نے فوراً وہ کھجور بچے کے مُنہ سے اگلوادی۔ کیونکہ وہ صدقہ کا مال تھا۔ اور مسلمانوں کی امانت تھی۔ آپؐ نے بچے سے فرمایا کہ ہم آلِ رسول صدقہ نہیں کھاتے اور بچے نے تھوکرکے وہ کھجور پھینک دی۔(بخاری)7
غزوۂ خیبر کے موقع پر یہود شکست کے بعد پسپا ہوئے۔ مسلمانوں کو طویل محاصرہ کے بعد فتح عطاہوئی۔ بعض مسلمانوں نے جو کئی دن سے فاقہ سے تھے یہود کے مال مویشی پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر کے کچھ جانور ذبح کئے اور ان کا گوشت پکنے کے لئے آگ پر چڑھادیا۔ نبی کریمؐ کو خبرہوئی تو رسول کریمؐ نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مال غنیمت میں باضابطہ تقسیم سے پہلے یوں تصّرف کیوں کیا گیااور اسے آپ ؐنے خیانت پر محمول فرمایا ۔ آپؐنے صحابہ کو امانت کا سبق دینے کے لئے گوشت سے بھرے وہ سب دیگچے اور ہنڈیاں الٹوادیں پھر صحابہ کے مابین خود جانور تقسیم فرمائے اور ہر دس آدمیوں کو ایک بکری دی گئی۔دوسری روایت میں ہے کہ آپؐنے فرمایا کہ اموال پر زبردستی قبضہ جائزنہیں۔(احمد)8
ایک دفعہ رسول کریمؐ نماز پڑھانے کے بعد خلاف معمول تیزی سے گھر گئے اور ایک سونے کی ڈلی لے کر واپس آئے اورفرمایا کہ کچھ سونا آیاتھا سب تقسیم ہوگیا یہ سونے کی ڈلی بچ گئی تھی۔ میں جلدی سے اسے لے آیا ہوں کہ قومی مال میں سے کوئی چیز ہمارے گھر میں نہ رہ جائے۔(بخاری)9
حضرت سائب بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضرت عثمان ؓ اور زبیرؓمجھے اپنے ساتھ لے کر آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری تعریفیں کرنے لگے۔ رسول کریمؐ نے انہیں فرمایا !آپؐ لوگ بے شک مجھے اس کے بارے میں زیادہ نہ بتائو۔ یہ جاہلیت کے زمانے میں میرا ساتھی رہا ہے۔ سائبؓ کہنے لگے ہاں یا رسول اللہؐ! آپؐ کتنے اچھے ساتھی تھے۔آپؐ نے فرمایاہاں اے سائبؓ دیکھنا جاہلیت میں تمہارے اخلاق بہت نیک تھے۔ اسلام میں بھی وہ قائم رکھنا۔مثلاً مہمان نوازی،یتیم کی عزت اور ہمسائے سے نیک سلوک وغیرہ پر خاص توجہ دینا۔
دوسری روایت میں ہے کہ سائبؓ آنحضرت ؐ کے ساتھ تجارت میں شریک رہے۔فتح مکہ کے دن سائب نے یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپؐ نے کبھی جھگڑا نہیں کیا۔(احمد)10
غزوۂ خیبر کے محاصرہ کے وقت بھوک اور فاقے کے ایام میں مسلمانوں کی امانت کاایک کڑا امتحان ہوا۔ہوایوں کہ یہود کے ایک حبشی چراوہے نے اسلام قبول کرلیا اور سوال پیدا ہو اکہ اس کے سپرد یہود کی بکریوں کا کیا کیا جائے۔ نبی کریمؐ نے ہر حال میںامانت کی حفاظت کرنے کا فیصلہ فرمایا۔آپؐ نے اپنے صحابہ کی بھوک اور فاقہ کی قربانی دے دی مگرکیامجال کہ آپؐ کی امانت میں کوئی فرق آیا ہو حالانکہ یہ بکریاں دشمن کے طویل محاصرہ میں تو مہینوں کی خوراک بن سکتی تھیں۔مگرآپؐ نے کس شان استغناء سے فرمایا کہ بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کے ان کوہانک دو۔خداتعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچادے گا۔نومسلم غلام نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیںجہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کرلیا۔سبحان اللہ! رسول اللہﷺ جنگ میں بھی جہاں سب کچھ جائز سمجھاجاتا ہے کس شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے اور کرواتے تھے۔(ابن ھشام)11
لڑنے والوں کے مال آج بھی میدان جنگ میں حلال سمجھے جاتے ہیں۔ کیا آج کل کے مہذب زمانہ میں کبھی ایسا واقعہ ہو اہے کہ دوران جنگ دشمن کے جانوراور مال و اسباب ہاتھ آگئے ہوں اور ان کو دشمن فوج کی طرف سے واپس کردیا گیا ہو۔نہیں نہیں! آج کی دنیا میں عام حالات میں بھی دشمن کے مال کی حفاظت تو درکنار،اسے لوٹنا جائز سمجھا جاتا ہے۔مگر قربان جائیں دیانتداروں کے اس سردار پر کہ دشمن کا وہ مال جوایک طرف فاقہ کش اور بھوک کے شکار مسلمانوں کی مہینوں کی غذابن سکتاتھا ،دوسری طرف دشمن اس سے اپنا محاصرہ لمبا کھینچ کر مسلمانوں کو پسپائی پر مجبور کرسکتا تھا۔ان سب باتوںکی کوئی پرواہ نہ کی اور امانت مالکوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
نبی کریمؐ نے بھی صرف انسانوں کی امانت کے حق ہی ادا نہیں کئے بلکہ اپنے مولیٰ کی امانتوں کے تمام حق اد اکردکھائے۔ ایک دفعہ یمن سے سونا آیا اور رسول اللہؐ نے تالیف قلبی کی خاطرعرب کے چار سرداروں میں تقسیم فرمادیا ایک شخص نے کہا ہم اس کے زیادہ حق دار تھے۔ رسول کریمؐ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا کیااللہ تعالیٰ تومجھے اہل زمین پرامین مقررکرے اور تم لوگ مجھے امین نہ سمجھو۔دوسری روایت میں ہے تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں (وحی الہٰی) آتی ہیں۔(گویا وحی آسمانی کا امین ہوں)۔ (بخاری واحمد)12
خداکی امانتوں کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی عبادات اور قرآنی وحی کی تبلیغ شامل ہے۔ جس کا حق اداکرنے کی تفصیل عبادت اور داعی الی اللہ کے عناوین میں مذکور ہے۔
پس رسول کریمؐ نے بندوں اور خدا کی تمام امانتوں کے حق ادا کر کے دکھائے۔
حوالہ جات
1
المعجم الکبیرلطبرانی جلد8ص296
2
مسلم کتاب الجہاد والسیرکتاب النبی الی ہرقل یدعوہ الی الاسلام:3322
3
مسند احمدجلد1 ص203
4
السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد 2ص98
5
بخاری کتاب العلم باب الغضب فی الموعظۃ
6
بخاری کتاب اللقطہ باب اذا وجد تمرۃ فی الطریق:2252
7
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقۃ التمر:1390
8
مسند احمد جلد4ص89،مستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد2ص134
9
بخاری کتاب الزکوٰۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ:1340
10
مسند احمد جلد 3ص425بیروت
11
السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد4ص42
12
بخاری کتاب الانبیاء باب واِلٰی عادٍاخاھم ھودًاومسنداحمدجلد3ص4
رسول اللہ ؐ کا ایفائے عہد
قرآن شریف میں عہد پورا کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے فرمایا’’عہد پورا کرو کہ عہد کے بارہ میں پرسش ہوگی۔‘‘ (سورۃ الاسرائ:35)رسول کریمؐ نے فرمایا جو شخص بغیر کسی جائز وجہ کے کسی معاہدہ کرنے والے کو قتل کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردے گا۔(ابودائود1) نیزفرمایا جس کا عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(احمد)2
نبی کریمؐ آغازسے ہی امانت و دیانت اورایفائے عہدکا بہت خیال رکھتے تھے۔آپؐ نے پابندیٔ عہد میں بھی بہترین نمونہ پیش فرمایا ہے۔
بعثت سے قبل
حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے زمانۂ بعثت سے قبل نبی کریمؐ سے ایک سودا کیا۔ ان کا کچھ حصہ میرے ذمہ واجب الادا رہ گیا۔میں نے آپؐ سے طے کیا کہ فلاں وقت اس جگہ آکرمیں آپؐ کو ادائیگی کروں گامگر میں واپس جاکر وعدہ بھول گیا۔ تین روز بعد مجھے یاد آیا تو میں مقررہ جگہ حاضر ہوا۔کیا دیکھتا ہوں کہ نبی کریمؐ اسجگہ موجود تھے۔ آپؐ فرمانے لگے نوجوان! تم نے ہمیں سخت مشکل میں ڈالا۔ میں تین روز سے یہاں (اس وقت) تمہارا انتظار کرتا رہاہوں۔(ابودائود)3
مکی دور میں بعثت سے قبل حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے تھے جس کا بنیادی مقصد مظلوموں کی امداد تھا۔آپؐ فرماتے تھے کہ اس معاہدہ میں شرکت کی خوشی مجھے اونٹوں کی دولت سے بڑھ کر ہے اور اسلام کے بعد بھی مجھے اس معاہدہ کا واسطہ دے کر مدد کے لئے بلایا جائے تو میں ضرورمدد کروں گا۔(ابن ہشام)4
بعثت نبویؐ کے بعد
دعویٔ نبوت کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک اجنبی ’’الاراشی‘‘ کا حق سردار مکّہ ابوجہل نے دبا لیا۔ اُس شخص نے آنحضرتؐ سے آکر مدد مانگی۔ حضور ؐ اُس کے ساتھ ہولئے اور معاہدہ حلف الفضول کی پابندی کرتے ہوئے اپنے سخت معاند ابوجہل کے دروازے پر جاکر اُس مظلوم اجنبی کے حق کا تقاضاکیا۔ پھروہاں سے ہلے نہیں جب تک کہ اُس کا حق اُسے دلوانہیں دیا۔ (ابن ہشام)5
حضرت حُذیفہ بن الیمّانؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے بدر میں شامل ہونے میں یہ روک ہوئی کہ میں اور ابوسہلؓ بدر کے موقع پرگھرسے نکلے۔راستہ میں ہمیں کفارِ قریش نے پکڑ لیا۔ انہوں نے کہا تم محمدؐ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ہم نے کہا نہیں ہم تو مدینہ جارہے ہیں۔انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ ہم جاکر رسول اللہؐ کے ساتھ لڑائی میں شامل نہیں ہونگے بلکہ سیدھے مدینہ چلے جائیں گے۔ ہم رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور سارا واقعہ عرض کردیا۔آپؐ نے فرمایا جائو اور اپنا عہد پورا کرو ہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے۔(مسلم)6
شہنشاہ ِروم قل نے رسول اللہؐ کا تبلیغی خط ملنے پر اپنے دربار میں سردار قریش ابوسفیان کو بلاکر جب بغرض تحقیق کچھ سوالات کئے تو یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا اس مدّعیٔ رسالت نے کبھی کوئی بدعہدی بھی کی ہے؟ابوسفیان رسول اللہؐ کا جانی دشمن تھا مگر پھر بھی اسے ہرقل کے سامنے تسلیم کرنا پڑا کہ ’’آج تک اُنہوں نے ہم سے کوئی بدعہدی نہیں کی۔البتہ آجکل ہمارا اس سے ایک معاہدہ (حدیبیہ) چل رہا ہے دیکھیں وہ کیا کرتا ہے۔‘‘ابوسفیان کہتا تھاکہ میں ہرقل کے سامنے اس سے زیادہ اپنی طرف سے کوئی بات اپنی گفتگو میں حضورؐ کے خلاف داخل نہ کرسکاتھا۔(بخاری)7
مشرکین سے ایفائے عہد
خدا کی تقدیر دیکھئے کہ رسول کریمؐ نے معاہدۂ حدیبیہ کی ایک ایک شق پر عمل کر کے دکھایا۔معاہدہ توڑنے کے مرتکب بھی پہلے قریش ہی ہوئے اور پھر عہدشکنی کا انجام بھی ان کو بھگتنا پڑا۔ جب کہ رسول کریمؐ نے ایفائے عہد کی برکات سے حصہ پایا اورسب سے بڑی برکت فتح مکہ کی صورت میں آپؐ کو عطاہوئی ۔
معاہدہ حدیبیہ کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے مکہ آئیں گے اور تین دن کے اندر مکہ کو خالی کردیں گے۔ چنانچہ اگلے سال جب نبی کریمؐ عمرہ قضا کے لئے مکہ آئے تو قریش نے مکہ خالی کردیا۔حویطب بن عزیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سہیل بن عمرو مکہ میں رہے تاکہ تین دن کے بعد مسلمانوں سے حسب معاہدہ مکہ خالی کرواسکیں جب تین دن گزر گئے تو میں نے اور سہیل نے رسول اللہؐ کو یاد کروایاکہ آج شرط کے مطابق مسلمانوں کو مکہ خالی کرنا ہوگا۔ آنحضورؐنے اسی وقت بلال ؓکو حکم فرمایا کہ اعلان کردیں کہ آج غروب آفتاب کے بعد کوئی مسلمان جو ہمارے ساتھ عمرہ کرنے مکہ آیا ہے مکہ میں نہ رہے اور بڑی سختی سے اس کی پابندی کی گئی۔(حاکم)8
معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان بھاگ کر مدینے جائے گا تو اسے واپس اہل مکہ کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اس شق پر مسلمانوں نے تکمیل معاہدہ سے بھی پہلے عمل کر دکھایااور نمائندہ قریش کے مکہ سے بھاگ کر آنے والے مسلمان بیٹے ابو جندلؓ کو دوبارہ اس کے باپ سہیل بن عمروکے سپرد کردیا گیا جس نے اسے پھر اذیت ناک قید میں ڈال دیا۔
معاہدہ کے بعد بھی بعض مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئے تورسول کریمؐ نے معاہدہ کے مطابق انہیں مکّہ واپس بھجوادیا۔ مگر یہ شرط خود مکّہ والوں کے لئے وبالِ جان بن گئی کیونکہ معاہدہ کے بعد مکّہ سے مدینہ آنے والے ایک بہادر مسلمان ابو بصیر کو جو مشرک گرفتارکرکے مدینہ سے دوبارہ مکّہ لے جارہے تھے،راستہ میںوہ ان کو قتل کر کے، رہائی پانے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر ابو بصیرؓ نے واپس مدینہ آنے کی بجائے ساحل سمندر کے قریب اپنا اڈا بنالیا جہاں دیگر مسلمان بھی مکّہ سے آکر اکٹھے ہونے لگے اور ایک جمعیت بن کر اہل مکہ کے لئے خطرہ بن گئے۔جس پر مکہ والے خود یہ شرط چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
صلح حدیبیہ میں قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو نے مسلمانوں کے ساتھ آئندہ دس سال کے لئے معاہدہ امن طے کیا تھا، جس کے مطابق بنوبکرقریش کے حلیف بنے تھے اور بنوخزاعہ مسلمانوں کے۔نیزیہ کہ کسی کے حلیف پر حملہ خود اس پر حملہ تصور کیاجائے گا۔
حلیف سے ایفاء اور امداد
صلح کے زمانے میں مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابیاں دیکھ کر قریش نے معاہدۂ امن توڑنا چاہا اور قریش مکہ کے ایک گروہ نے اپنے حلیف بنو بکر سے ساز باز کر کے ایک تاریک رات میں مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔خزاعہ نے حرم کعبہ میں پناہ لی لیکن پھر بھی ان کے تیئس آدمی نہایت بے دردی سے قتل کردیئے گئے۔خود سردار قریش ابوسفیان کوپتہ چلا تو اس نے اس واقعہ کواپنے آدمیوں کی شرانگیزی قراردیا اور کہااب محمد ؐ ہم پر ضرور حملہ کریں گے۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو اس واقعہ کی اطلاع بذریعہ وحی اسی صبح کردی ۔ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو یہ واقعہ بتا کرفرمایا کہ منشاالہٰی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قریش کی اس بدعہدی کا ہمارے حق میں کوئی بہتر نتیجہ ظاہر ہوگا۔ پھر تین روز بعد قبیلہ بنوخزاعہ کا چالیس شترسواروں کا ایک وفدرسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ بنو بکر اور قریش نے مل کر بدعہدی کرتے ہوئے شب خون مار کرہمارا قتل عام کیا ہے۔ اب معاہدۂ حدیبیہ کی رو سے آپؐ کا فرض ہے کہ ہماری مدد کریں۔بنوخزاعہ کے نمائندہ عمرو بن سالم نے اپنا حال زار بیان کر کے خدا کی ذات کا واسطہ دیکر ایفائے عہد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا
یَا رَبِ ّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًا
حَلْفَ اَبِیْنَا وَ اَ بِیْہِ الْاَ تْلَدَا
یعنی اے میرے رب!مَیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا واسطہ دے کر مدد کے لئے پکارتا ہوں اور اپنے آباء اور اس کے آباء کے پرانے حلف کا واسطہ دے کر عہد پورا کرنے کا خواستگارہوں۔
خزاعہ کی مظلومیت کا حال سن کر رحمتہ للعالمین ﷺ کا دل بھر آیا۔آپؐ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ آپؐ نے ایفائے عہد کے جذبہ سے سرشار ہوکر فرمایا۔ اے بنو خزاعہ!یقینا یقینا تمہاری مدد کی جائے گی۔اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے۔ تم محمد ﷺ کوعہد پورا کرنے والا اور با وفا پائو گے۔ تم دیکھو گے کہ جس طرح میں اپنی جان اور بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوںاسی طرح تمہاری حفاظت کروں گا۔(ابن ہشام)9
ادھر ابوسفیان اس معاہدہ شکنی کے نتیجے سے بچنے کیلئے بہت جلد اس یقین کے ساتھ مدینے پہنچا کہ محمدﷺ کو اس بدعہدی کی خبر نہ ہوگی۔اس نے بڑی ہوشیاری سے آنحضرت ﷺ سے بات کی کہ میں در اصل صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود ہی نہیں تھا۔آپؐ میرے ساتھ اس معاہدہ کی ازسرنو تجدید کرلیں۔ آنحضرتؐ نے کمال حکمت عملی سے پوچھا کہ کیا کوئی فریق معاہدہ توڑ بیٹھا ہے؟ ابوسفیان گھبراکر کہنے لگا ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ رسول کریمؐ نے جواب دیا تو پھر ہم سابقہ معاہدے پر قائم ہیں۔چنانچہ نبی کریمؐ نے بنو خزاعہ کے ساتھ کیا گیا عہد پورا فرمایا اور دس ہزار قدوسیوں کو ساتھ لے کر ان پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکو مکہ کی شاندار فتح عطا فرمائی۔(الحلبیہ)10
سراقہ سے ایفاء عہد
ہجرت مدینہ کے سفر میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہؐ کا پیچھا کرنے والے سراقہ بن مالک کی روایت ہے کہ جب میں تعاقب کرتے کرتے رسول کریمؐ کے قریب پہنچا تو میرا گھوڑا بار بار ٹھوکر کھاکر گرجاتا رہا تب میں نے آواز دے کر حضورؐ کو بلایا اور حضورؐ کے ارشاد پر ابوبکرؓ نے مجھ سے پوچھا آپؐ ہم سے کیا چاہتے ہو؟میں نے کہاآپؐ مجھے امن کی تحریر لکھ دیں، انہوں نے مجھے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر وہ تحریرلکھ دی اور میں واپس لوٹ آیا۔فتح مکہ کے بعد جب حضورؐ جنگ حنین سے فارغ ہوکر جعّرانہ میں تھے۔ میں حضورؐ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا،حضورؐ انصار کے ایک گھوڑ سوار دستے کے حفاظتی حصار میں تھے،وہ مجھے پیچھے ہٹاتے اور کہتے تھے کہ تمہیں کیا کام ہے؟ حضور ؐ اپنی اونٹنی پر سوار تھے ،میں نے اپنا ہاتھ بلند کرکے وہی تحریر رسول اللہؐ کو دکھائی اور کہا میں سراقہ ہوں اور یہ آپؐ کی تحریر امن ہے۔رسول کریمؐ نے فرمایا آج کا دن عہد پورا کرنے اور احسان کا دن ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا سراقہ کو میرے پاس لایا جائے۔ میں آپؐ کے قریب ہوا اور بالآخر آپ ؐ سے ملاقات کرکے اسلام قبول کرلیا۔(ابن ھشام)11
رسول کریمؐ نے مسلمان عورت کے عہدکا بھی پاس کیا ہے۔امّ ہانی ؓ بنت ابی طالب نے فتح مکہ کے موقع پر رسول کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ انہوں نے اپنے سسرال کے بعض مشرک لوگوں کو پناہ دی ہے۔حالانکہ حضرت علیؓ اس کے خلاف تھے۔رسول کریمؐ نے فرمایا اے ام ہانی ؓ! جسے تم نے امان دیدی اسے ہم نے امان دی۔(ابودائود)12
ابو رافع قبطیؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اللہؐ کی خدمت میں سفیر بناکر بھجوایا۔رسول کریمؐکو دیکھ کر میرے دل میں اسلام کی سچائی گھر کر گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں قریش کی طرف لوٹ کر واپس نہیں جانا چاہتا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ ہی سفیر کو روکتا ہوں۔آپؐ اس وقت بہر حال واپس جائوپھر اگربعد میں یہی ارادہ ہو کہ اسلام قبول کرنا ہے تو وہاں جاکر واپس آجانا۔چنانچہ یہ قریش کے پا س لوٹ کر گئے اور بعد میں آکر اسلام قبول کیا۔(ابودائود)13
یہودمدینہ سے ایفائے عہد
نبی کریمؐ نے مکہ سے یثرب ہجرت فرمائی تواہل مدینہ کے جن گروہوں سے معاہدہ ہوا اس میں یہود کے تین قبائل بنو قینقاع،بنوقریظہ اور بنو نضیرشامل تھے۔ اس معاہدہ کے مطابق یہود اور مسلمان امت واحدہ کے طور پر ریاست مدینہ کے باسی تھے۔ نبی کریمؐ نے ہمیشہ اس معاہدہ کا نہ صرف ایفاء اور احترام فرمایا۔ یہود کے حق میں عادلانہ فیصلے فرمائے۔یہود کو مکمل مذہبی آزادی دی اور بعض مسلمانوں نے جب ان کے بانی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رسول کریمؐ کی فضیلت و برتری ظاہرکی جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا کی تھی تو بھی آپؐ نے معاہدقوم کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ازراہِ انکساروایثار یہی فرمایا کہ مجھے موسیٰ ؐ پر فضیلت مت دو تاکہ اس کے نتیجہ میں مدینہ کی امن کی فضاخراب نہ ہو۔ (بخاری)14
نبی کریمؐ نے یہودی جنازوں کا بھی احترام کیااور ان کا جنازہ آتے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا کہ یہودی کا جنازہ ہے فرمایا کیا وہ انسان نہیں تھا۔(بخاری)15
اس کے برعکس یہاں تک مسلسل عہد شکنی کے نتیجہ میں بالآخران کومدینہ بدرکرناپڑا۔ لیکن رسول اللہؐ پر کبھی کسی یہودی کو عہدشکنی کا الزام تک لگانے کی جرأت نہ ہوئی۔(بخاری)16
عیسائیوں سے ایفائے عہد
فتح مکہ کے بعدجن مختلف قبائل عرب نے مدینہ آکرصلح وامن کے معاہدے کئے ان میں نجران اور یمن کے عیسائی بھی تھے۔ نجران کے عیسائیوں نے معاہدۂ صلح کے بعد رسول کریمؐ سے درخواست کی کہ اس معاہدہ کے ایفاء کے لئے آپؐ اپنا کوئی ایسانمائندہ مقررکریں جو دیانتداری سے معاہدہ کی شقوں پر عمل کروائے۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کو امین الامت کا خطاب دیتے ہوئے اور تکمیل معاہدہ کے لئے نگران مقررفرمایا اور انہوں نے ایفائے عہد کاحق ادا کردکھایا۔(بخاری)17
الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پابندیٔ عہد میں بھی ایک مثالی نمونہ پیش فرمایاہے۔