انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 23
خدام کو نصائح
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام کو نصائح
(فرمودہ 5اپریل 1952ء برموقع افتتاح دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘جس وقت یہ زمین خریدی گئی تھی اس وقت مَیں نے تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ سے جو اس زمین کے خریدار تھے یہ خواہش کی تھی کہ وہ انصار اﷲ اور خدام الاحمدیہ کے لئے بھی ایک ایک ٹکڑا وقف کریں۔ چنانچہ بارہ بارہ کنال زمین دونوں کے لئے وقف کی گئی۔ بارہ کنال زمین کے یہ معنے ہیں کہ 65 ہزار مربع فٹ کا رقبہ ان کے پاس ہے اگر اسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ بہت بڑے کام آسکتا ہے۔ مثلاً اس کے ارد گرد چار دیواری بنالی جائے تو آئندہ سالانہ اجتماع بجائے اس کے کہ کسی اَور میدان میں کیا جائے بڑی عمدگی کے ساتھ اس جگہ ہو سکتا ہے۔ 65 ہزار مربع فٹ زمین میں سے اگر عمارتوں اور سڑکوں کو نکال لیا جائے مثلاً عمارتوں اور سڑکوں کے لئے 25 ہزار مربع فٹ زمین نکال لی جائے تو چالیس ہزار مربع فٹ زمین باقی بچتی ہے اور دس دس فٹ زمین ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے بلکہ 15،15 فٹ زمین بھی ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے تو چالیس ہزار فٹ زمین میں اڑھائی تین ہزار آدمی سو سکتا ہے اور اتنے نمائندے ہی اجتماع میں ہوتے ہیں۔ پھر اگر زیادہ نمائندے آجائیں تو سڑکوں وغیرہ کے لئے زمین کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ پھر پاس ہی انصار اﷲ کا دفتر ہو گا۔ اگر دونوں مجالس کے سالانہ اجتماع ایک ہی وقت میں نہ ہوں تو 24 کنال زمین استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔ انہیں ضرورت ہو تو تم اپنی جگہ انہیں دے دو اور تمہیں ضرورت ہو تو وہ اپنی جگہ تمہیں دے دیں اس طرح مقامی جگہ کی عظمت قائم ہو سکتی ہے۔ پس میرے نزدیک آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی نہ کسی قسم کی چار دیواری اس زمین کے ارد گرد ہو جائے۔ خواہ وہ چار دیواری لکڑیوں کی ہی کیوں نہ ہو۔ بارہ کنال کی چار دیواری پر اڑھائی تین ہزار روپیہ خرچ آئے گا بلکہ اس سے بھی کم اخراجات میں چار دیواری بن جائے گی’’۔
اس موقع پر محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدّام الاحمدیہ نے عرض کیا کہ پتھروں کی چار دیواری بارہ سَو روپیہ میں بن جاتی ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا:-
‘‘میرے مکان کی چار دیواری کو لیا جائے تو یہ اندازہ بہت کم ہے۔ اتنی رقم میں چار دیواری نہیں بن سکتی’’۔
صاحبزادہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور اس رقم میں صرف چار فٹ اُونچی چاردیواری بنے گی۔حضور نے فرمایا:-
‘‘ہاں اگر چار فٹ اُونچی چار دیواری بنائی جائے تو اتنی رقم میں کام ہو سکتا ہے لیکن چار فٹ اُونچی چار دیواری سے پردہ نہیں ہوتا۔ بہرحال اگر چار دیواری بن جائے تو مرکز کا اثر بیرونی مجالس پر بڑھ جائے گا۔ عورتوں کے متعلق مجھے تجربہ ہے کہ جب وہ کوئی بنی ہوئی چیز دیکھتی ہیں تو پہلے سے بڑھ کر روپیہ خرچ کرتی ہیں اور نوجوانوں میں تو یہ سپرٹ (Spirit)زیادہ ہونی چاہئے۔ جب سالانہ اجتماع ہو گا۔ خدّام باہر سے آئیں گے اور چاردیواری بنی ہوئی دیکھیں گے تو وہ سمجھیں گے کہ ان کا روپیہ نظر آنے والی صورت میں لگ رہا ہے اور ان کا جوش بڑھ جائے گا۔ دفاتر میں جو روپیہ لگتا ہے وہ انہیں نظر نہیں آتا۔ اگر تم کہو کہ دفتر میں کاغذ ، سیاہی، قلم، پنسل اور کارکنوں کی تنخواہوں پر روپیہ صَرف ہوتا ہے تو چونکہ یہ خرچ انہیں نظر نہیں آتا وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا روپیہ صحیح طور پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو روپیہ تنظیم پر خرچ ہوتاہے وہ نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے قوم کی طرف سے جب بھی کوئی اعتراض ہوتا ہے تو وہ تنظیم سے متعلقہ اخراجات پر ہی ہوتا ہے اور کسی چیز پر نہیں۔ مثلاً وہ کہیں گے تعلیم پر کس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے۔ ہسپتالوں پر کس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے۔ غریبوں کی امداد کے لئے کس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے، غرباء کے وظائف پر کس قدر رقم خرچ ہوئی ہے اور اگر انہیں یہ بتایا جائے کہ کام کو چلانے کے لئے اتنے سیکرٹریوں کی ضرورت ہے، پھر دفتری اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے، سفر خرچ کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ ضائع ہو گیا۔ اگرچہ ایسا اعتراض کرنا حماقت ہوتا ہے کیونکہ سب سے اہم چیز مرکزیت ہوتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمیشہ ان اخراجات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ تم انگلستان کی تاریخ کو لے لو، امریکہ کی تاریخ کو لے لو، فرانس کی تاریخ کو لے لو، جرمنی کی تاریخ کو لے لو، جاپان کی تاریخ کو لے لو، روس کی تاریخ کو لے لو جب کبھی بھی میزانیہ پر اعتراض ہؤا ہے تو اس کے اسی حصّہ پر ہؤا ہے جو تنظیم کے لئے خرچ ہؤا ہے کیونکہ یہ اخراجات نظر نہیں آتے۔ پس نظر آنے والا خرچ لوگوں میں مزید چندہ دینے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ اگر تم اس جگہ کو زیادہ سے زیادہ اعلیٰ بناتے جاؤ گے تو خدّام میں چندہ کی تحریک ہوتی رہے گی مثلاً میدان کو چھوڑ کر دیواروں کے ساتھ ساتھ پھُول لگائے جائیں۔ چونکہ اس جگہ پرتمہیں سالانہ اجتماع بھی کرنا ہو گا اس لئے تم چمن تو بنا نہیں سکتے لیکن دیواروں کے ساتھ ساتھ پھُول لگائے جاسکتے ہیں۔ اس طرح نظارہ اور زیادہ خوبصورت بن جائے گا۔ پھر بیچ میں چند فٹ کی سڑک رکھ کر اس کے ارد گرد بھی پھُول لگائے جاسکتے ہیں۔ جب خدّام آئیں گے اور اس جگہ کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ صحیح طور پر استعمال ہؤا ہے۔
اس کے بعد مَیں آپ لوگوں کے لئے دُعا کروں گا۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہیں جلد مرکز بنانے کی توفیق دے دی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ انصار اﷲ نے ابھی مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی۔ دُنیا میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بوڑھے تجربہ کار ہوتے ہیں لیکن ہماری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ بُڈھے بیکار ہوتے ہیں اور بیکار کا کوئی کام نہیں اس لئے انصار اﷲ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کوئی کام نہیں کرتے تو وہ اپنے عہدے کے مطابق کام کرتے ہیں۔ قادیان میں بھی انصار اﷲ نے زیادہ کام نہیں کیا اور اب یہاں بھی انصاراﷲ کام نہیں کرتے۔ شاید یہ چیز ہو کہ صدر انجمن احمدیہ کے بڑے بڑے افسر اس مجلس کے عہدیدار ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صدر انجمن احمدیہ کے کاموں سے فرصت نہیں۔ بہرحال انصار اﷲ کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اپنا مرکز بناتے لیکن اُنہوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ یہ غلط خیال ہے کہ چونکہ قادیان واپس ملنا ہے اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ ایک صاحب یہاں ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں ان سے جب بھی کوئی بات پوچھی جائے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اس لئے یہاں مکان بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ قادیان کے لئے جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکّہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں لیکن کیا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ واپس گئے؟ ہم تو یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ہم قادیان واپس جائیں گے اور وہی ہمارا مرکز ہو گا لیکن جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ سے مدینہ چلے گئے تو مکّہ میں واپس نہیں آئے حالانکہ مکّہ فتح ہو گیا تھا۔ آپ نے مدینہ کو چھوڑا نہیں۔ پھر بعد میں مدینہ ہی حکومت کا مرکز بنا اور وہیں سے اسلام ارد گرد پھیلنے لگا۔ مکّہ صرف حج کے لئے رہ گیا مکّہ صرف اعتکاف کی جگہ بن گئی یا جو لوگ اپنی زندگیا ں وقف کر کے مکّہ چلے جاتے تھے ان کی جگہ رہی لیکن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ ہی رہے اور وہیں آپؐ فوت ہوئے۔ خداتعالیٰ کیا کرے گا؟ آیا اس کے نزدیک ہمارا یہاں رہنا بہتر ہے یا قادیان واپس جانا بہتر ہے ہمیں اس کا علم نہیں۔ پس یہ حماقت کی بات ہے کہ محض ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو کسی جگہ کے تقدس پر دلالت کرتی ہیں جبکہ ان پیشگوئیوں سے زیادہ پیشگوئیاں دوسری جگہ کے متعلق موجود تھیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں کسی اَور شکل میں پورا کیا تھا۔ ہم یہ خیال کرلیں کہ ہمیں کسی اور جگہ کی ضرورت نہیں۔ اگر بڑی جگہ کے لئے جو پیشگوئیاں تھیں وہ ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو چھوٹی جگہ کے لئے یہ کیوں ضروری خیال کرلیا گیا ہے کہ اس کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں ہی پوری ہوں گی۔ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ وہی آیات ہیں جو مکّہ کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ وہ آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دوبارہ نازل ہوئی ہیں اور جب وہ پیشگوئیاں مکّہ کے لئے بھی ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو ہم کیا لگتے ہیں کہ یہ کہیں کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم واپس مکّہ تشریف نہیں لے گئے بلکہ مدینہ میں ہی مرکز بنا کر کام کرتے رہے۔ صرف آپؐ حج کے لئے مکّہ تشریف لے جاتے تھے اور حج کر کے واپس تشریف لے آتے تھے۔ پھر حضرت ابو بکر ؓ واپس مکّہ نہیں گئے۔ حضرت عمر ؓ واپس مکّہ نہیں گئے، حضرت عثمان ؓ واپس مکّہ نہیں گئے، حضرت علیؓ واپس مکّہ نہیں گئے۔ یہ سب حج کے لئے مکّہ جاتے تھے اور واپس آجاتے تھے۔ حکومت کا مرکز مدینہ ہی رہا اور یہیں سے اسلام ارد گرد کے علاقوں میں پھیلا۔ پس جب پیشگوئیوں سے کسی جگہ کی عظمت ظاہر ہوتی ہے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پیشگوئیاں ضرور ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی حماقت ہے۔ چاہے بعد میں وہ پیشگوئیاں ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو جائیں لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ جس چیز میں خدا تعالیٰ نے اُسے اب رکھا ہے اُسی میں وہ راضی رہے۔
خدا تعالیٰ کا معاملہ جو ہمارے ساتھ ہے وہ کتنا عجیب ہے۔ ایک چور سیندھ لگاتا ہے اور پھر توبہ کر لیتا ہے تو خداتعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ دوسرے دن پھر سیندھ لگائے گا۔ پھر وہ دوسرے دن سیندھ لگاتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے وہ پھر سیندھ لگائے گا۔پس خداتعالیٰ باوجود اس کے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے ہمارے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم لوگ باوجود علم غیب نہ ہونے کے خدا تعالیٰ کے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ بھی ہمارے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرے تو چونکہ اُسے علم ہے کہ مجرم دوبارہ جُرم کرے گا اُسے علم غیب حاصل ہے اس لئے کسی کی توبہ قبول نہ ہو۔ اس طرح ہزاروں لوگ مارے جائیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ گناہ کرتے ہیں تو پھر بعض اوقات بڑی سٹرگل (STRUGGLE) کے بعد اس گناہ سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ اگرخداتعالیٰ توبہ قبول کرنے سے انکار کر دے توکوئی شخص گناہ سے نجات حاصل نہ کرے۔ توبہ ضمیر کو روشن کرتی ہے اور انسان کو گناہ سے روکتی ہے۔ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس شخص نے توبہ توڑ دینی ہے، باوجود اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ پھر فساد کرے گا، لڑائی کرے گا، گالیاں دے گا اور جھوٹ بولے گا وہ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے گویا خدا تعالیٰ باوجود علم غیب رکھنے اور جاننے کے کہ مجرم دوبارہ جُرم کرے گا وہ اس سے حاضر والا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم باوجود علم غیب نہ ہونے کے خداتعالیٰ سے مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ بیوقوفی اور کیا ہو گی۔ ہمیں خدا تعالیٰ سے حاضر والا معاملہ کرنا چاہئیے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہیے اور اپنا کام کرتے چلے جاناچاہیے۔ ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہؤا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دُور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں۔ اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مر جائیں۔ اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں خدا تعالیٰ نے تمہیں رکھا ہے تمہیں اسی میں فوراً کام شروع کر دینا چاہئے۔ خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جاکر کام شروع کر دو لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو۔ مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اُسے موت آجاتی ہے۔ گویا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہے۔
آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ اپنا مرکز تعمیر کر لیا اور خدا کرے کہ انصار اﷲ کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہو اور وہ اس حماقت کو چھوڑ دیں کہ قادیان واپس جانے کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں ہیں اس لئے قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گی اور چونکہ قادیان ہمیں واپس ملے گی اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکّہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں ظاہری معنوں کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئیں اس لئے ہمیں بھی پتہ نہیں کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ مکّہ کے متعلق بھی بہت پیشگوئیاں موجود تھیں بلکہ ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا لیکن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فتح کے بعد بھی مدینہ میں ہی رہے مکّہ واپس نہیں گئے۔ قادیان مکّہ سے بڑھ کر نہیں۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اگرچہ ہم بھی اُمید رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور ایک مومن کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ ہمیں واپس ملے گا اور وہیں ہمارا مرکز ہو گا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عملاً ہمارا مرکز وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالیٰ رکھنا چاہتا ہے۔ پس ہمیں اس نکتہ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو وسیع کرنا چاہئے اور اس بات کو نظر انداز کر کے کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے۔ بلکہ مَیں تو کہوں گا کہ اگر ہمیں تار بھی آجائے کہ آؤ اور قادیان میں بس جاؤ تو بھی تمہیں شام تک کام کرتے چلے جانا چاہئے تا یہ پتہ لگے کہ ہمیں کام سے غرض ہے۔ ہمیں قادیان سے کوئی غرض نہیں، ہمیں ربوہ سے کوئی غرض نہیں۔ اگر ہمیں خدا تعالیٰ لے جائے ہم وہاں چلے جائیں گے ورنہ نہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے نوکر ہیں کسی جگہ کے نوکر نہیں۔ اگر ہم کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اُسے عزّت دی ہے۔ پس مومن کو اپنے کاموں میں سُست نہیں ہونا چاہئے۔ پھر نوجوانوں کی عمر تو کام کی عمر ہے انہیں اپنے کاموں میں بہت چُست رہنا چاہئے’’۔
(الفضل ربوہ ۔ فضل عمر نمبر 1966ء)
سب کا فرض ہے کہ
وہ درس القرآن میں شامل ہؤا کریں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہؤا کریں
( فرمودہ 23جون 1952ء بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘آپ لوگ جو اس وقت یہاں دُعا کے لئے جمع ہوئے ہیں تو کسی ایسی دُعاکے لئے جمع نہیں ہوئے جس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہو یا سُنت سے ملتا ہو یا احادیث سے ملتاہو بلکہ ایک ایسی دُعا کے لئے جمع ہوئے ہیں جو ہم میں صرف رسماً پیدا ہو گئی ہے یعنی قرآن کریم کے درس کے اختتام پر کی جانے والی دُعا۔ جس دُعا کا ہمیں قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے وہ دُعا وہ ہے جو تہجد کے وقت کی جاتی ہے یا ایک روزہ دار سحری کھانے سے پہلے کرتا ہے۔ ہماری یہ دُعا بالکل ایسی ہی ہے جیسے پُرانے مسلمانوں کی رسم تراویح تھی اُنہوں نے تراویح کو اختیار کر لیا اور تہجد کو چھوڑ دیا۔ تم نے بھی رمضان کے ایک دن جمع ہو کر دُعا کرنا اختیار کر لیا اور رمضان کی تیس دنوں کی دُعا کو چھوڑ دیا۔ گویا اُنہوں نے بھی جادو اور ٹونے کا راستہ نکال لیا اور تم بھی جادو اور ٹونہ کا رستہ نکال رہے ہو۔ اگر یہ دُعا زائد ہوتی تو پھر یہ ایک عمدہ چیز تھی جیسے فرض خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں، سُنتیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ملا لیں، نفل ہر انسان جتنا دل چاہتا ہے پڑھ لیتا ہے۔ جب سُنتیں فرض کے ساتھ ادا ہوتی ہیں تو وہ نیکی کو زیادہ کرتی ہیں۔ جب نفل سُنتوں کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں تو نیکی کو زیادہ کرتے ہیں لیکن فرض کو چھوڑ کر سُنتیں ادا کرنا یا سُنتوں کو چھوڑ کر نفل ادا کرنا انسان کو گنہگار بناتا ہے۔ اس وقت جتنے لوگ یہاں جمع ہیں اگر اتنے ہی لوگ ہر روز درس کے لئے آیا کرتے تھے تو ان کا آج کا آنا ان کے ثواب کو بڑھانے والا ہے لیکن اگر آج کا اجتماع روزانہ کے اجتماع کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ اگر جتنے لوگ اب جمع ہوئے ہیں ان کا بیسواں حصّہ بھی روزانہ درس میں جمع نہیں ہوتے تھے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم نے بھی ایک رسم کو اختیار کر لیا ہے جیسے دوسرے لوگوں نے تراویح کو تہجد کا قائمقام بنا لیا۔ آخر کیا فائدہ ہے اس دُعا کا اور کیا نتیجہ ہے جو ایسی دُعا سے نکل سکتا ہے۔ آخر ہمارا خدا کوئی بھولا بھالا بچہ تو نہیں۔ تم ایک بچہ کو بعض دفعہ پیسہ دے کر کہتے ہو کہ یہ روپیہ ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔ تم بعض دفعہ اپنی خالی انگلیاں اس کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہو اور کہتے ہو یہ مٹھائی ہے تووہ ہنس دیتا ہے۔ کیا اسی طرح تم بھی یہ خیال کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے اس دھوکا میں آجائے گا تم اسے پیسہ دے کر کہو گے کہ یہ روپیہ ہے اور وہ دھوکا کھا جائے گا۔ تم اس کے ہاتھ میں خالی انگلیاں رکھ دو گے اور کہو گے یہ مٹھائی ہے تو وہ ہنس دے گا۔ آخر یہ قرآن کریم کے کس پارہ اور کس سورۃ میں آتا ہے کہ رمضان میں قرآن کریم کے ختم ہونے پر سب مل کر دُعا کرو تو وہ قبول ہو جاتی ہے۔ یا کونسی حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ آخری روزہ کو عصر کے وقت دُعا کرو تو اﷲ تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے۔ صحاح ستّہ تو کیا کسی کمزور سے کمزور روایت میں بھی اس دُعا کا ذکر نہیں۔ حدیثوں میں یہ تو آتا ہے کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ اس میں جو دُعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے، 1حدیثوں میں یہ تو آتا ہے کہ رمضان میں لیلۃ القدر آتی ہے اس رات جو دُعا کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے۔2 اسی طرح قرآن کریم میں یہ تو آتا ہے کہ رمضان کی راتوں میں خصوصاً لیلۃ القدر میں دُعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن مَیں نے نہ قرآن میں، نہ حدیث میں اور نہ اسلام میں کسی اور جگہ یہ دیکھا ہے کہ رمضان کے آخری دن تم اکٹھے ہو جایا کرو تو اس دن تم جو دُعا کرو گے وہ قبول ہو جائے گی۔ مَیں خود درس دیا کرتا تھا تو آخر میں دُعا بھی کر لیا کرتا تھا کیونکہ اُس وقت میرا دُعا کرنا رسم نہیں تھا لیکن اب جبکہ مَیں درس نہیں دیتا جب مجھے دُعا کے لئے بُلایا جاتا ہے تو میری طبیعت پر سخت گراں گزرتا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ دُعا محض ایک رسم کے اختیار کر لی گئی ہے۔ جو لوگ درس دیتے رہے ہیں یا جو روزانہ درس سُنتے رہے ہیں وہ تو کچھ نہ کچھ حق بھی رکھتے تھے کہ دُعا میں حصّہ لیں لیکن وہ لوگ جو آج سینکڑوں کی تعداد میں آئے ہوئے ہیں وہ یقیناً ایک رسم کے ماتحت آئے ہیں۔ جس شخص نے درس دیا ہے یا جن لوگوں نے روزانہ درس سُنا ہے ان کے لئے تو دُعا کا موقع ہے لیکن باقی لوگوں کے لئے یہ محض ایک رسم ہے دُعا کا کوئی موقع نہیں اور رسم پر چلنا کسی مومن کا کام نہیں ہو سکتا۔
اگر چہ وقت کم ہے اور لوگوں نے روزہ افطار کرنا ہے اس لحاظ سے ضروری ہے کہ دس بارہ منٹ روزہ افطار ہونے سے قبل دعا کر دی جائے لیکن تاہم مَیں نے اس کے متعلق کچھ بیان کرنا مناسب سمجھا۔ میری طبیعت پر ہمیشہ گرانی سی رہتی ہے اور مَیں چَٹی سمجھ کر دُعا کے لئے آتا رہا ہوں کیونکہ مَیں ابھی تک اس اجتماع کی حکمت کو نہیں سمجھ سکا۔ نہ قرآن کریم کی کوئی آیت مجھے اس کی تصدیق میں ملی ہے اور نہ کوئی حدیث مجھے اس کی تصدیق میں ملی ہے ۔ہاں جنہوں نے قرآن کریم پڑھایا ہے یا قرآن کریم کا درس سُنا ہے ان کی دُعا تبرکاً قبول ہو سکتی ہے۔ یوں پڑھنے والے گھروں پر قرآن پڑھتے ہی ہیں مثلاً ہم نے بھی قرآن کریم ختم کئے ہیں۔ چنانچہ ہمیشہ مَیں نے دیکھا ہے کہ رمضان میں پانچ سات بلکہ آٹھ نو دفعہ قرآن کریم ختم ہو جاتا ہے۔ اس دفعہ بھی بیماری اور ضُعف کے باوجود میں نے پانچ دفعہ قرآن کریم ختم کیا ہے اور مجھے حق ہے کہ اس موقع پر مَیں دُعا کروں لیکن اس مجلس میں نہیں کیونکہ مَیں نے اس مجلس میں قرآن کریم نہیں سُنا۔ مَیں نے گھر میں قرآن کریم پڑھا ہے اور گھر میں دُعائیں بھی کرتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ انہیں قبول بھی فرماتا ہے لیکن تم میں بہت سے ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے نہ تو روزہ رکھنے کی کوشش کی اور نہ یہاں آکر قرآن کریم سُننے کی کوشش کی۔ خود تو ان میں یہ قابلیت نہیں تھی کہ وہ قرآن کریم سمجھ سکتے ان کے لئے موقع تھا کہ وہ یہاں آتے اور قرآن کریم سُنتے لیکن وہ یہاں نہیں آئے۔ جو میرے پاس رپورٹیں آتی رہی ہیں ان میں یہی لکھا ہوتا تھا کہ دو تین سو آدمی درس سننے کے لئے آتے ہیں لیکن اس وقت دو تین ہزار کا مجمع ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہر دس میں سے نو آدمی یہاں کیوں آئے ہیں اور آخر اُنہوں نے کیا کام کیا ہے کہ آج خدا تعالیٰ اُن کی دُعا سُنے۔ ہاں جنہوں نے قرآن کریم سُنا ہے وہ اگر کہیں کہ اے خدا! ہم نے تیرے نشانات دیکھے ، تیری آیات پڑھیں، تیرا کلام سُنا۔ اب ہم قرآن کریم ختم کرنے لگے ہیں، اے خدا! تو ایک اور نشان ہمارے لئے دکھا جس سے ہمارے ایمان تازہ ہوں تو یہ معقول بات ہو گی۔ جس شخص نے قرآن سُنایا ہے وہ اگر کہے کہ اے اﷲ! مَیں سُنی سنائی باتیں سُناتا رہا ہوں تُو اب ایک زندہ نشان میرے لئے بھی ظاہر فرما تو یہ معقول بات ہو گی لیکن جو درس میں آتا ہی نہیں رہا وہ کیا کہے گا؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ اے خدا! سارا مہینہ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نشانات سُنائے جاتے رہے، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے نشانات سُنائے جاتے رہے لیکن مَیں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ آج اور لوگ آئے ہیں تو مَیں بھی آگیا ہوں تُو میری دُعا بھی سُن لے۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسے شخص کی دُعا قبول ہو سکتی ہے؟ یہ تو ویسا ہی لطیفہ ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک زمیندار تھا جس نے ابھی شہر نہیں دیکھا تھا۔ اس کی بیوی اسے روز کہتی کہ مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے جب لوگ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ تیرے خاوند نے ابھی شہر بھی نہیں دیکھا۔ پانچ میل پر تو شہر ہے کسی دن جا اور جاکر شہر دیکھ آ۔ ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ تُو ہر روز مجھے طعنے دیتی رہتی ہے کہ تُو نے ابھی تک شہر نہیں دیکھا تُو مجھے آٹا گوندھ دے مَیں شہر دیکھ آتا ہوں۔ بیوی نے آٹا گوندھ کر دے دیا اور وہ شہر کو چل پڑا۔ چادر اس نے کندھے پر ڈال لی اور بازار میں پھرتا رہا۔ دیہات میں اگر کوئی آئے تو وہ کسی گھر میں چلا جاتا ہے اور گھر والوں سے کہتا ہے میری روٹی بھی پکا دو اور وہ اسے روٹی پکا دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کہہ دیتے ہیں آٹے کی کیا ضرورت ہے روٹی ہم نے پکا ئی ہی ہے تم یہاں آکر روٹی کھا لینا لیکن شہروں میں یہ رواج نہیں ہوتا وہاں تو نفسا نفسی ہوتی ہے۔ وہ زمیندار کسی گھر میں گھُسا اور کہا آٹا لے لو اور میری روٹی پکا دو۔ گھر والوں نے کہا نکلو باہر تم ہمارے مکان میں کیوں گھُسے ہو۔ وہ دوسرے گھر گیا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا، تیسرے گھر گیا تو وہاں بھی یہی سلوک ہؤا، یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور عصر کا وقت آگیا کسی نے اسے روٹی پکا کر نہ دی۔ وہ اب ایک جگہ حیران ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پاس ہی ایک حلوائی پوریاں تَل رہا تھا۔ اس نے حلوائی سے دریافت کیا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا میں لچیاں تَل رہا ہوں۔ زمیندار نے دیکھا کہ وہ نہایت چھوٹے چھوٹے پیڑوں کی ٹکیاں بنا کر تَل رہا ہے اور انہیں لُچیاں کہتا ہے۔ اس نے آٹا کی گرہ کھولی جو چادر کے ایک طرف باندھا ہؤا تھا اور آٹے کا ایک بڑا سا پیڑا بنا کر زور سے کڑاہی میں دے مارا اور کہا میرا بھی لُچ تل دے۔ حلوائی کا گھی کڑاہی سے باہر جا پڑا اور وہ شور مچانے لگ گیا۔ تمہاری دُعا بھی ایسی ہی ہے ۔ کچھ تو سارا ماہ لُچیاں تلتے رہے یعنی درس دیتے رہے۔ کچھ لُچیاں خریدتے رہے یعنی درس سُنتے رہے لیکن جب آخری دن آیا تو تم نے بھی اپنا آٹا کڑاہی میں دے مارا کہ میرا بھی لُچ تَل دو۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسی حالت میں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ یہی ہو گا کہ تمہیں جیل خانہ بھیج دیا جائے گا۔
غرض رسموں کا طریق مردہ قوموں کا طریق ہوتا ہے ہمارا طریق نہیں ۔ اگر تمہارے اندر جرأت ہوتی تو جیسے تم پہلے نہیں آئے آج بھی نہ آتے۔ اگر تیس دن گناہ میں تم نے اپنے آپ کو منافق نہیں بنایاتو آج تم اپنے آپ کو کیوں منافق بناتے ہو۔ آج بھی تم میں جرأت ہونی چاہئے تھی کہ اگر سارا ماہ تم نہیں آئے تو آج بھی تم یہاں نہ آتے۔ اگر تم ایسا کرتے تو یہ بات تمہارے لئے زیادہ نیکی کا موجب ہوتی۔ اگر تم ایسا کرتے تو اگلے سال تمہیں خیال آتا کہ میں بھی درس میں جاؤں تا دُعا میں شریک ہوسکوں۔ اگر تم چھ دن مسجد میں نہیں آتے لیکن جمعہ کے دن آجاتے ہو تو ہم کہیں گے تم نے ایک دن تو نیکی کر لی ہے کیونکہ اس کا حکم قرآن کریم میں ہے لیکن اس دُعا کا حکم قرآن کریم میں نہیں، اس دُعا کا حکم حدیث میں نہیں۔ یہ دُعا تبھی دُعا کہلا سکتی ہے جب تم تیس دن قرآن کریم سُنتے ، پڑھتے اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنے لئے رحم طلب کرتے۔ اگر تم ایسا کرتے تو تمہاری یہ بات طبعی ہوتی۔ اگر تم روٹی پکاتے ہو تو تمہارا حق ہے کہ تم روٹی کھاؤ لیکن یہ نہیں کہ تم روٹی تو نہ پکاؤ لیکن اپنے ہمسائے کی روٹی لے کر کھالو۔ اگر تم روٹی پکاتے تو تمہارا حق تھا کہ آج آتے اور روٹی کھاتے لیکن یہ نہیں کہ آٹا کسی نے گوندھا ، روٹی تو کسی نے پکائی اور روٹی کھانے کے لئے تم آجاؤ یعنی درس کسی نے دیا، گلا کسی نے بٹھایا، سُنا کسی نے لیکن آج جب قرآن کریم ختم کرنے کا وقت آیا تو تم بھی آگئے کہ ہماری دُعا قبول ہو جائے۔ آج ہر دس آدمیوں میں سے نو آدمی ایسے ہیں جو دوسرے کا مال کھانے کے لئے آگئے ہیں اُنہوں نے سارا ماہ دُعا نہیں کی لیکن آج یہاں آگئے ہیں تا دُعا میں شریک ہو جائیں لیکن ہمارا خدا دھوکا میں نہیں آتا ممکن ہے کوئی دل آج اپنے فعل پر افسردہ ہو، شرمندہ ہو اور پھر یہاں آ گیا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی دُعا سُن لے کیونکہ ہمارا خُدارحیم و کریم ہے لیکن جو لوگ آج رسماً یہاں آگئے ہیں خدا تعالیٰ ان کی دُعائیں نہیں سُنے گا کیونکہ یہ دُعا نہیں بلکہ محض ایک تمسخر ہے۔باقی وہ جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف تھا اور اُنہوں نے سارا ماہ قرآن کریم سُنا ، قرآن پڑھا اور روزے رکھے ان کے لئے بے شک یہ دُعا کا موقع ہے ۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا! رمضان جارہا ہے، برکت کی گھڑیاں جو تُو نے ہمیں دی تھیں وہ اب جا رہی ہیں۔ لگے ہاتھوں اب میری دُعا بھی سُن لے۔
صرف ایسے ہی لوگوں کو مَیں کہتا ہوں کہ ہمارا خدا نہ تو ہمارے آنسوؤں کا محتاج ہے نہ وہ ہمارے گڑ گڑانے کا محتاج ہے اور نہ وہ ہماری کسی اور حرکت کا محتاج ہے۔وہ صرف ایک گداز دل کی آہ سُننے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ وہ مومن کا دل دیکھتا ہے اور اس کے دل کے درد کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے۔ بچہ جب سوتے سوتے رات کو درد کے ساتھ کراہتا ہے تو ماں اس کی طرف دوڑ پڑتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ بچہ چلّاتا ہے یا نہیں وہ اس کے رونے کا انتظار نہیں کرتی۔ سو دُکھ کی نکلی ہوئی آواز خدا تعالیٰ سُنتا ہے۔ اگر ہمیں دُکھ ہے تو تمہاری دُعائیں اسی طرح سُنی جائیں گی جس طرح تم سے پہلی جماعتوں کی دُعائیں سُنی گئیں اور خدا تعالیٰ تمہاری طرف اسی طرح دوڑے گا جس طرح وہ پہلے انبیاء کی جماعتوں کی طرف دَوڑا۔ پس مَیں ایسے دلوں سے کہتا ہوں کہ تم دُعائیں کرو۔ کسی لمبی دُعا کی ضرورت نہیں۔درد سے نکلا ہؤا ایک فقرہ بھی خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتا ہے۔
تم دُعائیں کرو اُن مبلّغوں کے لئے جو دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور دین کا کام کررہے ہیں۔ وہ صرف اپنا فرض ہی ادا نہیں کر رہے بلکہ تمہاری نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔ دُعائیں کرو ان جماعتوں کے لئے جنہوں نے نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا اور نہ آپ کے خلفاء کو دیکھا لیکن اسلام کی فتح کے لئے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں وہ برابر کی شریک ہیں اور وہ ایمان بالغیب لے آئی ہیں۔ دُعائیں کرو ان لوگوں کے لئے جو اس مُلک کے رہنے والے ہیں کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھے لیکن اُنہوں نے آنکھیں بند کر لیں خدا تعالیٰ انہیں آنکھیں دے اور ہدایت پانے کی توفیق دے۔ دُعائیں کرو ان فتنوں کے لئے جو احمدیت کے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں کہ وہ خدا جس کے ''کُن'' کہنے سے ہر چیز پیدا ہوتی ہے اور فنا ہوتی ہے وہ ان فتنوں کو مٹا دے اور اپنا خاص نشان دکھائے۔ دُعائیں کرو اپنے لئے کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں دُعا کی توفیق دے۔ دُعائیں کرو ان مُردہ دلوں کے لئے جو تمہارے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان نہیں وہ ایمان کا جبّہ پہنے ہوئے ہیں لیکن درحقیقت وہ بھیڑیئے ہیں جنہوں نے بھیڑوں کی کھال پہنی ہوئی ہے اﷲ تعالیٰ ان کی اصلاح کرے اور انہیں صحیح ایمان بخشے۔ پھر دُعائیں کرو ان لوگوں کے لئے جنہوں نے پارٹیشن کے موقع پر اپنے ایمان کو کھو دیا اور وہ چوری، بے ایمانی، بد دیانتی ، جھوٹ، فریب اور دوسری ناجائز حرکات کے مرتکب ہوئے کہ خدا تعالیٰ ان کو سمجھ دے، ان کو توبہ کی توفیق دے اور ان کو اس ذلیل حالت سے بچائے جو اُن کو دوزخ سے ورے نہیں رکھ سکتی۔ پھر دُعائیں کرو اپنے بیوی بچوں کے لئے، اپنے قریبیوں اور دوستوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو اس موقع پر یہاں حاضر نہیں ہو سکے لیکن اُنہوں نے دُعا کی تحریک کی ہے کہ اﷲتعالیٰ سب پر فضل کرے، سب کے کاموں میں برکت دے، ان کی مُشکلات اور تنگیاں دُور کرکے ان کے لئے فراخی کے سامان پیدا کرے اور یہ کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری زبانوں اور تحریروں میں برکت ڈالے اور لوگ زیادہ سے زیادہ احمدیت میں داخل ہوں مگر اس احمدیت میں نہیں جس کا نمونہ تم میں سے بعض پیش کر رہے ہیں بلکہ اُس احمدیت میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دُنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے’’۔
(الفضل ربوہ 23مارچ 1960ء)
1: بخاری کتاب الجُمُعَۃِ باب السَّاعَۃ الَّتِیْ فی یَوْمِ الْجُمُعَۃِ
پاکستان میں قانون کا مستقبل
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان میں قانون کا مستقبل
(محررہ جولائی 1952ء)
سندھ مسلم لاء کالج نے ایک سہ ماہی رسالہ ''پاکستان لاء ریویو'' کے نام سے کراچی سے جاری کیا جس کے اگست 1952ء کے شمارہ میں حضرت مصلح موعود کا رقم فرمودہ حسب ذیل مقالہ سپردِ اشاعت ہؤا۔
‘‘مجھے یہ معلوم کر کے از حد مسرّت ہوئی ہے کہ سندھ مسلم لاء کالج عنقریب ایک سہ ماہی رسالہ اس مقصد کے لئے جاری کر رہا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو قانون کے سائنٹیفک طور پر مطالعہ کرنے کی طرف عموماً اور پاکستان میں قوانین کو بہتر بنانے کے متعلق امور پر بحث کرنے کی طرف خصوصاً راہنمائی کر سکے تاکہ اس طرح عام لوگوں اور ماہرین علم قانون کے نظریات اور خیالات میں یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور تاکہ ماہرین علم قانون اپنے اہم فرائض سے بہتر طریق پر زیادہ سہولت کے ساتھ عُہدہ برآ ہو سکیں۔
اس میں شک نہیں کہ علم قانون دوسرے علوم کی طرح بلکہ ان میں سے اکثر سے کچھ زیادہ ہی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کو انسانی عمل اور تجربہ کی روشنی میں منضبط اور مرتب کیا جائے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی صحیح راہنمائی کر سکے لیکن بد قسمتی سے ایشیا کے باشندے کئی صدیوں سے غیروں کی ماتحتی میں رہنے کی وجہ سے اس ضروری علم سے بالکل بے بہرہ ہو چکے ہیں۔ اب جبکہ کم از کم ایشیا پر مکمل آزادی کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور اس کے باشندوں نے بھی دنیا کی آزاد اقوام کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا ہے یہ امر اَور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے مقابلہ پر علم قانون کے مطالعہ کے لئے زیادہ توجہ اور زیادہ وقت صرف کریں۔ دنیا کی آزاد اقوام نے علم قانون کے لمبے مطالعہ اور تجربہ کے بعد آخر کار اپنے ممالک کے قوانین کے لئے ایک مخصوص راستہ اور پس منظر پیدا کر لیا ہے جو کامل طور پر ان کی شخصی اور اجتماعی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ علاوہ اس کے ان میں وسیع اور گہرا علم رکھنے والے ماہرین قانون موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے پُرانے اختیار کردہ راستہ کے مطابق نئے پیدا ہونے والے دُشوار اور دقیق قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ایشیائی لوگوں کے لئے بہرحال یہ مشکل ہے کہ ان میں جو لوگ قانون کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کا علم بھی رکھتے ہیں وہ کوئی گزشتہ تجربہ اور قومی روایات نہیں رکھتے جن سے انہیں نئے قوانین بنانے میں مدد مل سکے۔ پس ان کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے لئے ایک نیا راستہ بنائیں اور پھر ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان پر قابو پائیں جو مبتدیوں کو پیش آتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کو اس راہ میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئے گی کہ اس کے باشندوں میں ایک بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور پاکستان کی حکومت کسی فوجی یا ملکی فتح کے نتیجہ میں قائم نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک معاہدہ کے ذریعہ سے معرضِ وجود میں آئی ہے اس لئے اپنے قوانین بناتے ہوئے پاکستان کو باوجود اپنی وسیع مسلمان اکثریت کے اس معاہدہ کا لحاظ رکھنا پڑے گا ورنہ اس کو اس بات کا بجا طور پر ملزم گردانا جائے گا کہ اس نے ایک باہمی معاہدہ توڑ دیا۔ جوش اور ولولہ اگرچہ ایک قابلِ تعریف خصلت ہے لیکن اس کا حد سے بڑھ جانا بھی غلط اقدام کا باعث بن جاتا ہے۔ تُرکی میں مذہب کا سیاست سے بالکل الگ کیا جانا دراصل اسی قسم کے غلط مذہبی جوش کا ردِّ عمل تھا۔ اسلام سے محبت اور اپنے ملک میں اس کے قیام کی خواہش یقیناً بہت اعلیٰ جذبات ہیں لیکن اگر ان ہی جذبات کو مناسب حدود سے تجاوز کرنے دیا جائے تو یہی ہمیں اسلام سے دُور لے جانے کا باعث بن جائیں گے۔
ہمارے رسولِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی مکّہ والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان کفر اختیار کر لے تو اسے مکّہ جانے کا پورا اختیار ہو گا لیکن اس کے برعکس اگر کوئی کافر اسلام لے آئے تو اسے مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ اسے اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا۔ یہ شرط مسلمانوں کے لئے بظاہر نقصان دہ اور ذلیل کن معلوم ہوتی تھی اور انہوں نے اس ہتک کو محسوس بھی کیا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے لیڈر بھی کچھ وقت کے لئے تذبذب میں پڑ گئے۔ ابھی اس معاہدہ پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ایک نوجوان جس کا نام ابو جندل تھا بیڑیوں میں جکڑا ہؤا بمشکل تمام اس مجلس میں آپہنچا جہاں اس کے باپ سہیل نے ابھی ابھی مکّہ والوں کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ سہیل نے فوراً مطالبہ کیا کہ معاہدہ کے مطابق ابو جندل کو مکّہ واپس کیا جائے۔ مسلمانوں نے جب اس معاہدہ کا عملی پہلو دیکھا تو اسے نہایت خطرناک اور ذلیل کن خیال کیا اور ابو جندل کی حفاظت میں فوراً تلواریں کھینچ لیں لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا اور فرمایا:-
‘‘خدا کے رسول اپنا عہد کبھی توڑا نہیں کرتے’’۔ 1
اور مسلمانوں کی جذبات انگیز درخواستوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابو جندل کو اس کے باپ کے حوالے کر دیا۔ اس لئے ایک پاکستانی مسلمان خواہ کتنا ہی مخلص اور دینی جوش رکھنے والا ہو کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اسلام کی محبت اور خیر خواہی میں اتنا گداز ہے جتنا حضرت نبی ٔ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تھے اور رسولِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اس معاملہ میں ہمارے لئے خود ایک اعلیٰ نمونہ چھوڑ گئے ہیں۔ اگر ایک مسلمان اﷲ تعالیٰ کی نظر میں ویسا ہی اچھا مسلمان ثابت ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ خود گمان کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ لفظی اور معنوی طور پر ان تمام معاہدات اور وعدوں کو پورا کرے جو پاکستان بننے کے وقت اقلیتوں اور دوسری قوموں سے کئے گئے تھے اگر وہ ان وعدوں کے ایفاء سے ذرا بھی پہلو تہی کرتا ہے تو وہ درحقیقت اسلام سے دُور جاتا ہے۔
پاکستان کے قوانین بناتے ہوئے ہمیں خاص خیال رکھنا ہو گا کہ:-
الف: تعلیم اسلام کی رُوح ہمیشہ ہمارے مدِّنظر رہے۔
ب: ہمارے قوانین فطرتِ انسانی کے ساتھ کامل مطابقت رکھتے ہوں۔
ج: ہم ان وعدوں کو ہر لحاظ سے پورا کریں جو اقلیتوں سے کئے گئے ہیں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتاہے۔ 2 اب اگر حضورؐ کا یہ ارشاد صحیح اور سچا ہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے تو پھر اسلام کے قوانین بھی انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انسانی فطرت قوانین اسلام کے خلاف ہو سکتی ہے۔ پس ہمارا یہ ایک مقدّس فرض ہے کہ ہم مندرجہ بالا حدیث کو سامنے رکھیں اور اس حقیقت پر یقین رکھیں کہ اسلام نے جو کچھ سکھایا ہے فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے۔ اگر اسلام کی تعلیم کا وہ حصّہ جسے ہم انسانی فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں واقعی انسانی فطرت کے خلاف ہے تو ظاہر ہے کہ ہم نے اس حصہ تعلیم کی رُوح کو اخذ نہیں کیا لیکن اگر ہم نے اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر سمجھا ہے تو فطرتِ انسانی کبھی بھی اس کے خلاف نہیں ہو سکتی اور یقینا کہیں پر ہماری ہی غلطی ہو گی۔ اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ اس معاملہ پر زیادہ گہرے طور پر غور کریں اور مزید کوشش کر کے اصل حقیقت کو معلوم کریں۔ اگر ہم اس نہایت ہی مضبوط اصل کو سامنے رکھیں گے تو ہم یقینا بہت جلد صداقت کو پا لیں گے اور اپنے ملک کے لئے بہترین قوانین بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے ملک کے ہر طبقہ یعنی مولویوں، مغربیت زدہ تعلیم یافتہ لوگوں، غریبوں اور امیروں کو پوری طرح مطمئن نہیں کر سکتے لیکن مندرجہ بالا دانشمندانہ اصول پر عمل کر کے ہم یقینا انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کر سکیں گے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے قوانین بنانے والوں اور ان پر عمل کرانے والوں کو ان کے وکیلوں کو اور قوانین کی کتابیں لکھنے والوں کو اور ان کے شارِحین کو اﷲ تعالیٰ اسلام کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ مفیدرسالہ جو کہ سندھ مسلم لاء کالج کی طرف سے جاری کیا جارہا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک مفید آلہ ثابت ہو’’۔
(روزنامہ الفضل لاہور مورخہ 20ستمبر 1952 صفحہ 5)
1: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 332،333۔ مطبوعہ مصر 1936ء
2: بخاری کتاب الجنائز باب مَا قِیْلَ فی اَوْلَادِ الْمُشْرِکِیْن
احرار کو چیلنج
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
احرار کو چیلنج
(محررہ3 اکتوبر 1952ء)
‘‘آزاد’’ مؤرخہ 19ستمبر 1952ء میں ایک مضمون شائع ہؤا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ:
‘‘مرزا بشیر الدین محمود نے مُلک میں جاگیرداروں کے خلاف بڑھتی ہوئی مُہم سے خوفزدہ ہو کر اپنی تمام زمین فروخت کرنا شروع کردی ہے’’۔‘‘معلوم ہؤا ہے کہ مرزا محمود سب سے پہلے سندھ میں اپنی ریاستوں کی زمین فروخت کرنا چاہتے ہیں’’۔‘‘تازہ اطلاعات سے پتہ چلا ہے کہ مرزا محمود سندھ کی اراضی کو پہلے اس لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں کہ سندھ گورنمنٹ نے سندھ سے جاگیرداریاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مرزا محمود کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر اُنہوں نے ایسے حالات سے پہلے اپنی زمین فروخت نہ کی تو وہ تمام اراضی ضبط کر لی جائے گی۔’’
پھر لکھا ہے:-
‘‘یہ اراضی تحریک جدید کے نام پر جمع شُدہ چندہ سے خریدی گئی تھی لیکن کاغذات میں مرزا محمود نے اسے اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا’’۔ ‘‘مرزائی چندہ دہندگان نے آواز بُلند کی کہ جماعتی اراضی کو فروخت کر کے اس کی رقم جماعتی خزانہ میں جمع کی جائے’’۔‘‘مرزامحمود یہ رقم اپنے ذاتی خزانہ میں جمع کرنے کے لئے اس اراضی کو دجّالانہ طریق پر فروخت کرنا چاہتے ہیں’’۔
اس مضمون کے شائع ہونے کے چند دن بعد 26ستمبر کے ''آزاد'' میں اس خط کا چربہ بھی شائع کیا گیا جو میری اراضیات کے دفتر کے کلرک نے ''الفضل'' کو لکھا تھا اور جس میں مذکورہ بالا اراضی کی فروخت کا اعلان کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس خط کے چربہ کے اوپر ایک نوٹ بھی ادارۂ آزاد کی طرف سے شائع ہؤا ہے کہ ہمارے اعلان پر ''بعض مرزائی سیخ پا ہوئے اور خبر کو بے بنیاد بتانے لگے'' ۔
اس لئے ہم اس خط کا چربہ شائع کرتے ہیں۔
اگر احرار کی شُہرۂ آفاق غلط بیانیوں کا علم نہ ہوتا تو میرے لئے یہ مضمون اور اس چربہ کی اشاعت حیرت انگیز ہوتی کیونکہ اصل بنیاد اس مضمون کی یہ ہے کہ کوئی زمین میرے پاس ہے جسے مَیں فروخت کر رہا ہوں اور کسی کے پاس زمین کاہونا کسی اسلامی حکم کے خلاف نہیں۔ صحابہ ؓ کے پاس زمینیں تھیں، خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے خاندان کے پاس باغ فدک تھا اور پھر زمینوں کا فروخت کرنا بھی قابلِ تعجب نہیں۔ حدیثوں میں صحابہ ؓ اور تابعین کا اپنی زمینیں فروخت کرنے کا ذکر آتا ہے۔ پس یقیناً کسی صحیح الدّماغ انسان نے ''آزاد'' سے اس امر کا ثبوت نہیں مانگا ہو گا کہ کیا امام جماعت احمدیہ کے پاس کوئی زمین ہے یا یہ کہ کیا وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ثبوت مانگا ہو گا تو اس بات کا مانگا ہو گا کہ آیا جماعت احمدیہ کے روپیہ سے خریدی ہوئی کسی زمین کو وہ اپنی ذات کے لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ یہ بات یقیناً قابلِ اعتراض ہے اور اگر ایسا ثابت ہو جائے تو خلافت تو الگ رہی مَیں ایک شریف انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں رہتا لیکن یہ خیال کرنا کہ لوگوں نے ''آزاد'' سے اس بات کا مطالبہ شروع کر دیا کہ تم نے کیوں امام جماعت احمدیہ پر یہ اعتراض کیا کہ ان کے پاس کوئی زمین ہے اور وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس امر کو تو کوئی عقلمند باور نہیں کر سکتا اور جو اعتراض معقول ہے اور جو مَیں نے اوپر لکھا ہے اگر وہ کسی نے کیا ہے تو اس خط کے چربہ سے اس کا جواب نہیں ملتا کیونکہ اعتراض تو صرف یہی ہو سکتا ہے کہ انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی زمین کو اپنی ذات کے لئے فروخت کرنا ناجائز ہے اور اس خط میں جس کا چربہ شائع کیا گیا ہے نہ تو یہ ذکر ہے کہ وہ زمین انجمن کے روپیہ سے خریدی گئی ہے اور نہ یہ کہیں ذکر ہے کہ وہ روپیہ مَیں اپنی ذات کے لئے استعمال کرنے والا ہوں۔ پس اس چربہ سے کیا نتیجہ نکلا؟ کچھ بھی نہیں۔
جہاں تک اس خط کے شائع ہونے کا سوال ہے یہ تو میرے دفتر کے کلرک کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اس کو حل کرے یا ''آزاد'' اخبار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو حل کرے کہ آیا اس نے ٹرین پوسٹل سروس کی مدد سے خط چُرایا ہے یا پولیس سنسر نے اسے یہ خط دیا ہے یا خود میرے کلرک سے مل کر یہ خط چُرایا گیا ہے۔ جہاں تک میری عزت کا سوال ہے مجھے اس امر سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ نہ تو مَیں یہ کہتا ہوں کہ جس زمین کا اس خط میں ذکر ہے وہ میرے پاس نہیں ہے اور نہ مَیں اس بات کا انکار کرتا ہوں کہ مَیں اس زمین کو فروخت کر رہا ہوں۔ جہاں تک اس خط کے مضمون کی اشاعت کا تعلق ہے مجھے اس خط کے چَھپنے سے نہ کوئی تکلیف ہوئی ہے نہ فکر کیونکہ زمین کا مالک ہونا یا اسے فروخت کرنے کی کوشش کرنا کوئی اخلاقی ، مذہبی یا سیاسی جُرم نہیں ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ خواہ کتنا ہی بے ضررمضمون ہو میرے دفتر کا ایک خط چُرایا گیا ہے۔ خواہ ٹرین پوسٹل سروس کے ذریعہ سے یا سنسر کے ذریعہ سے یا میرے دفتر کے کسی غدار کے ذریعہ سے۔ مجھے اس خط کے شائع ہونے کے بارہ میں ضرور دلچسپی ہے اور مَیں اس کی ضرور تحقیقات کروں گا۔ مجھے بعض وجوہ سے غالب خیال ہے کہ یہ چوری ایک خاص ذریعہ سے ہوئی ہے لیکن چونکہ وہ صرف عقلی خیال ہے اس کے اوپر مَیں اپنے عمل کی بنیاد رکھنے کو تیار نہیں۔
اب مَیں اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو ''آزاد'' نے شائع کیا ہے۔ ''آزاد'' نے لکھا ہے کہ:-
اوّل کوئی زمین میرے قبضہ میں ہے جو کہ انجمن کے روپیہ سے خریدی گئی ہے۔
دوم یہ کہ مَیں اس زمین کو فروخت کر رہا ہوں۔
سوم یہ کہ جماعت کے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے۔
چہارم یہ کہ میری فروخت کا بڑا محرک جاگیرداری کے منسوخ ہونے کا قانون ہے۔
پنجم یہ کہ انجمن کی زمین کی قیمت کو مَیں اپنی ذات پر خرچ کرنا چاہتا ہوں۔
مَیں نمبر وار ان سوالوں کا جواب دیتا ہوں۔
نمبر اوّل کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض انجمن کی زمینیں میرے نام پر خریدی ہوئی ہیں مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ بعض میری زمینیں انجمن کے نام پر خریدی ہوئی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جو زمینیں انجمن کی میرے نام پر خریدی ہوئی ہیں ان کا رقبہ اُن زمینوں کی نسبت جو میری ہیں اور انجمن کے نام پر خریدی گئی ہیں قریباً نصف یا ساٹھ فی صدی کے قریب ہے۔ پس اگر مَیں انجمن کی زمینیں فروخت کروں تو اس سے قریباً دو گنا رقبہ میرا انجمن کے پاس ہے اوروہ مجھے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس گڑ بڑ کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت سندھ میں جو زمینیں خریدی گئی ہیں وہ ایک احمدیہ کمپنی نے خریدی تھیں جس کا ذکر اُس زمانہ کے ''الفضل'' کے فائلوں میں ملتا ہے اور جس کا ذکر انجمن کے ریزولیوشنوں میں بھی آتا ہے۔ اس کمپنی کا ایک بڑا حصّہ دارمَیں تھا اور مجھ سے بھی بڑی حصّہ دار انجمن تھی۔ کچھ اور حصّہ دار بھی تھے لیکن شروع میں چونکہ آمدن پیدا نہ ہوئی اور زمینوں کی قسط ادا کرنے کے لئے لوگوں کو اپنے پاس سے روپے دینے پڑے اس لئے سوائے تین حصّہ داروں کے باقی سب حصّہ داروں نے اپنی زمینیں دوسرے حصّہ داروں کے پاس فروخت کر دیں اور اب اس کمپنی کی زمین صرف تین حصّہ داروں کے پاس رہ گئی ہے اور وہ یہ ہیں۔ صدر انجمن احمدیہ ، مَیں اور میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب۔ اسی دوران میں جبکہ ابھی زمینیں تقسیم نہیں ہوئی تھیں، کچھ اَور زمینیں معلوم ہوئیں جو خریدی جاسکتی تھیں۔ چنانچہ تحریک جدید نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے ریزرو فنڈ کو انہی زمینوں کی خرید میں لگا لے لیکن تحریک جدید اُس وقت تک رجسٹرڈ نہیں تھی اِس لئے اس کی ساری زمینیں صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدی گئیں چونکہ وہ کمپنی جس نے زمین خریدی تھی وہ بھی رجسٹرڈ نہیں تھی اس لئے اس کی تمام زمینیں بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدی گئیں۔ اس وجہ سے لازماً میراحصّہ بھی اور میرے بھائی کا حصّہ بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدا گیا کیونکہ ہماری خرید براہ راست نہ تھی بلکہ اس کمپنی کے حصّہ دار کی حیثیت سے تھی۔ اسی دوران میں مَیں نے خود کچھ زمین براہِ راست خریدی جس کے نتیجہ میں مجھے بھی اپنے آدمی وہاں رکھنے پڑے۔ جب کبھی کسی نئی زمین کا پتہ لگتا تھا کہ وہ خریدی جاسکتی ہے اور انتظام کے لحاظ سے مفید ہے تو اسے خرید لیا جاتا تھا لیکن کبھی ایسا ہوتا تھا کہ صدر انجمن احمدیہ کا مختارنامہ یا مختار موجود نہ ہوتا تھا تو میرا مختار میرے مختار نامہ پر زمین خرید لیتا تھا لیکن وہ ہوتی تھی صدر انجمن احمدیہ کی اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کوئی زمین مَیں نے خریدنی ہوتی تھی لیکن میرا مختار نامہ یا میرا مختار موجود نہیں ہوتا تھا تو انجمن کا مختار اس زمین کو انجمن کے نام پر خرید لیتا تھا لیکن وہ ہوتی تھی میری۔ اس کی موٹی علامت یہ ہوتی تھی کہ زمینوں کے حلقے تقسیم کر دیئے گئے تھے۔ نبی سر روڈ کے پاس کی زمینیں صدر انجمن احمدیہ کی تھیں اور ٹاہلی اسٹیشن سے پاس کی زمینیں تحریک جدید کی تھیں اور ٹنڈو الٰہ یا رکے علاقہ کی زمینوں میں تھوڑا سا حصّہ میرا تھا۔ باقی تحریک جدید کا تھا۔ اس کے مقابلہ میں کُنری اسٹیشن کے پاس کی زمین ان حصّہ داروں کو ملی جو کہ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ زمین خریدنے والی کمپنی کے ممبر تھے۔ جنہوں نے آگے جاکر اپنی زمینیں میرے اور میرے بھائی کے پاس فروخت کر دیں۔ پس وہاں جو زمین خریدی جاتی تھی وہ میرے لئے خریدی جاتی تھی۔ اسی طرح کنجے جی اسٹیشن کے پاس زمینیں سب سے پہلے مَیں نے ہی خریدی تھیں۔ اس لئے وہاں اگر کوئی زمین نکلتی تھی تو مَیں ہی خریدتا تھا اور جس کی زمین ہوتی تھی وہ اس کے مینجروں کے سپرد ہو جاتی تھی اور شروع دن سے وہی اس پر کام کرتے تھے اور ان کے بینک اکاؤنٹ اس پر شاہد ہوتے تھے مثلاً انجمن کے نام پر جو انجمن کی زمین خریدی گئی اس کی قیمت یا انجمن کے ریزولیوشنوں میں درج ہے یا انجمن کے بینک اکاؤنٹس سے ادا ہوئی اور آئندہ اس کی قسطیں بھی اسی طرح ادا ہوتی رہیں۔ ہر شخص فوراً دیکھ سکتا ہے کہ یہ زمین گو کسی اور کے نام سے خریدی گئی مگر اس کی ابتدائی رقمیں بھی انجمن نے دیں اور پھر اس کی قسطیں بھی شروع سے لے کر آخر تک انجمن نے ہی دیں۔ اسی طرح تحریک جدید کی جو زمین خریدی گئی گو وہ انجمن کے نام پر ہے لیکن بینکوں کے اکاؤنٹ شاہد ہیں کہ اس کی قیمت انجمن نے ادا نہیں کی۔ اس کی قیمت تحریک جدید نے ادا کی اور پندرہ سال کی متواتر بینکوں کی شہادتیں اس بات پر ہیں کہ وہ زمین تحریک جدید کی ہے۔ اسی طرح جو میری زمین ہے۔ زمین خریدنے والی کمپنی اور انجمن کا ریکارڈ شاہد ہیں کہ اس کی قیمتیں مَیں نے دی ہیں۔ اسی طرح بینک اکاؤنٹ گواہ ہے کہ اس کی قسطیں برابر میرے کھاتہ سے جاتی رہیں۔ انجمن یا تحریک نے وہ ادا نہیں کیں اور اس کا انتظام میرے مینجر کرتے چلے آئے۔
پس یہ ٹھیک ہے کہ انجمن کی بعض زمینیں میرے نام پر خریدی گئی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ زمینیں گو میرے نام پر خریدی گئی ہیں لیکن انجمن کی اسٹیٹ میں شامل ہیں٭ اور انجمن کے کارکن اس پر قابض ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ تحریک جدید کی زمین انجمن کے نام پر خریدی گئی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شروع دن سے اس زمین پر تحریک جدید کے کارکن کام کر رہے ہیں اور وہ تحریک جدید کے قبضہ میں ہے۔ اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ کچھ میری زمین انجمن کے
٭ یہاں یہ لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان سندھ کی زمینوں کو بعض دفعہ ہمارے اخبارات میں اسٹیٹس لکھا جاتا ہے جس کے معنے انگریزی میں زمینداری کے ہیں یا ایک کوٹھی اور اس کے اردگرد کی زمینداری کے لیکن احرار جہلاء ہمیشہ اسی لفظ پر شور مچاتے رہے ہیں کہ احمدیوں نے ریاستیں قائم کر لی ہیں۔ چنانچہ مذکورہ بالا مضمون میں بھی اسٹیٹ کا ترجمہ ریاست کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ مرزا محمود سب سے پہلے سندھ میں اپنی ریاستوں کی زمین فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس مُلک کی کتنی بد قسمتی ہے جس کے علماء جہلاء ہوں یا دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہوں۔ مرزا محمود احمد
نام پر خریدی گئی ہے لیکن شروع دن سے اس کے اُوپر میرے کارکن کام کر رہے ہیں اور میرے بینک اکاؤنٹ اس بات کے شاہد ہیں کہ بینکوں کے ذریعہ سے میرے حساب سے اس کی قیمت ادا ہوئی ہے۔ پس یہ کوئی جھگڑے والا سوال ہی نہیں۔ پاکستان کے چار زبردست بینک اس بات کے گواہ موجود ہیں۔ ان بینکوں میں میرے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں، صدر انجمن احمدیہ کے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں، تحریک جدید کے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں اور ان کھاتوں سے وہ قیمتیں ادا ہوئی ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ضرور ہؤا ہے کہ ضرورت کے موقع پر ایک دوسرے کے کھاتے سے قرض لے لیا گیا ہے لیکن یہ ثبوت بھی بینکوں سے مل سکتا ہے کہ اگر ضرورت کے موقع پر مَیں نے دس روپے لئے ہیں تو اس کے مقابلہ میں ضرورت کے موقع پر تحریک جدید یا انجمن کومَیں نے سو روپیہ دیا ہے۔ یعنی قرض کے معاملہ میں بھی میرا پہلو بھاری ہے اور تحریک جدید اور انجمن کا پہلو کمزور ہے۔مَیں ان کا مقروض نہیں رہا وہ میرے مقروض رہے ہیں۔
یہ بات مَیں زمینوں کے متعلق لکھ رہا ہوں ورنہ یوں انجمن مجھے قرض کے طور پر پچھلے سال تک ماہوار رقم گزارہ کے لئے دیتی رہی ہے اور وہ رقم برابر جماعت کے بجٹ میں پڑتی رہی ہے اور حساب میں موجود ہے۔ (ڈیڑھ سال سے مَیں نے وہ رقم لینی بند کر دی ہے اور سابق قرض اُتارنے کی فکر میں ہوں)
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک فروخت کرنے کا سوال ہے یہ ٹھیک ہے کہ مَیں کچھ زمین فروخت کر رہا ہوں لیکن وہ زمین انجمن کی نہیں ہے۔ نہ وہ ان زمینوں میں سے ہے جو میری ہیں لیکن انجمن کے نام پر خریدی گئی ہیں۔ پس اس کے متعلق نہ کوئی حقیقی اعتراض پیدا ہو سکتا ہے نہ کوئی غلط فہمی۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ کوئی انجمن کی زمین میرے قبضہ میں ہے۔ مَیں بتا چُکا ہوں کہ انجمن کی کچھ زمین میرے نام پر خریدی ہوئی ضرور ہے لیکن میرے قبضہ میں وہ نہیں ہے۔ وہ انجمن ہی کے قبضہ میں ہے اور اس کے مینیجر اس پر کام کر رہے ہیں اس لئے کسی شخص کو اس پر اعتراض کی گنجائش نہ ہو سکتی ہے اور نہ کبھی ہوئی ہے۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ جاگیرداری کے قانون سے ڈر کر مَیں یہ زمین فروخت کر رہا ہوں۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جاگیر داری کے قانون سے ڈر کر فروخت کرنا نہ شرعاً جُرم ہے نہ قانوناً جُرم ہے۔ جس دن تک وہ قانون پاس ہو۔ اس دن تک ہر جاگیردار اپنی جاگیر فروخت کر سکتا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور نہ شریعت کا اس بات پر کوئی اعتراض ہے کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز مناہی سے پہلے فروخت کر سکے۔ باقی ''آزاد'' اور احرار کے دماغ تو ہیں بالکل کُند کیونکہ جو شخص غلط بیانی پر اُتر آتا ہے وہ سوچنے کا عادی نہیں رہتا۔ ورنہ ہر شخص جان سکتا ہے کہ سندھ میں میری کوئی جاگیر ہو ہی نہیں سکتی۔ مَیں پنجابی ہوں مجھے سندھ میں کیوں جاگیر ملنی تھی۔ جاگیر نام ہے اس زمین کا جو حکومتِ وقت کی طرف سے بطور عطیہ کے ملی ہو۔ خصوصاً وہ جس کا لینڈریونیو معاف ہو۔لوگ محض فخر کے طور پر ایسی زمین کو بھی جاگیر کہہ دیتے ہیں جو گورنمنٹ نے دی ہو اور اس کا لینڈ ریونیو معاف نہ ہو لیکن اصل اصطلاح یہی ہے کہ جو زمین گورنمنٹ نے دی ہو اور اس کا لینڈ ریونیو معاف کر دیا ہووہ جاگیر ہے۔ مَیں اپنی کتاب ''اسلام اور ملکیت زمین'' میں خود لکھ چُکا ہوں کہ جاگیرداری اسلام میں ناجائز ہے کیونکہ لینڈ ریونیو، زکوٰۃ کا قائم مقام ہے اور زکوٰۃ حکومت معاف نہیں کر سکتی۔ نیز امراء کے لئے زکوٰۃ لینی جائز نہیں اور مَیں نے اس کتاب میں حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جاگیروں کو اُڑا دے اور جاگیرداروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خود اس حق کو چھوڑ دیں کیونکہ یہ آمد اسلام کے خلاف ہے اور امراء کو زکوٰۃ میں سے حصّہ نہیں لینا چاہئے ۔ پس یہ کیونکر خیال کیا جاسکتا ہے کہ میرے پاس کوئی جاگیر ہے۔ نہ مَیں سندھ کا باشندہ ہوں اور نہ مَیں سندھ کی حکومت کا کبھی ملازم رہا، نہ مَیں جاگیر کا قائل۔ میرے پاس جاگیر آہی کس طرح سکتی تھی اور جو چیز آ نہیں سکتی تھی اس کی فروخت کا سوال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے۔
پانچواں اعتراض یہ ہے کہ مَیں انجمن کی زمین کی قیمت کو اپنی ذات پر خرچ کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں اُوپر لکھ چُکا ہوں انجمن کی کوئی زمین میرے قبضہ میں نہیں۔ انجمن کی جو زمین میرے نام پر خریدی گئی ہے وہ بھی انجمن کے قبضہ میں ہے اور اس پر نہ کسی نے اعتراض کیا ہے کہ مَیں انجمن کی خریدی ہوئی جائداد پر قبضہ کر رہا ہوں۔ نہ اس اعتراض میں کوئی وقعت ہے اور نہ مَیں اس اعتراض سے ڈرتا ہوں۔ انجمن کے ریکارڈ میں تمام وہ زمینیں درج ہیں جو اُس نے خریدیں ،انجمن کے خزانے میں وہ رقوم درج ہیں جو اس نے اس زمین پر خرچ کیں اور انجمن کے بینک اکاؤنٹ میں بھی وہ آمدنیں درج ہیں جو اِن زمینوں سے ہوئی ہیں اور وہ خرچ بھی درج ہیں جو ان زمینوں پر ہوئے ۔ اسی طرح جو زمینیں مَیں نے خریدی ہیں اُن کی پہلی قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے۔ اُن کی دوسری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے اور اُن کی تیسری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے۔ یہاں تک کہ آخری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے۔ پس کوئی صحیح الدّماغ آدمی اعتراض ہی کس طرح کر سکتا ہے اور اگر کوئی شخص جوشِ جنون میں اعتراض کرے تو مجھے اس سے گھبراہٹ ہی کیا ہو سکتی ہے۔ ریکارڈ موجود ہے ۔ مَیں جماعت کے سامنے رکھ دوں گا۔
ان حالات کے بیان کرنے کے بعد اب مَیں احرار کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر اُن کے اندر کوئی تخمِ دیانت ہے تو وہ مندرجہ ذیل طریقہ سے مجھ سے اس اعتراض کا تصفیہ کر لیں۔
اوّل یہ کہ ایک نمائندہ جو مستقل طور پر دیوانی کی ججی پر کام کر چُکا ہو یا کام کر رہا ہو مَیں مقرر کردوں گا اور ایک اسی قابلیت کا آدمی وہ مقرر کر دیں۔ یہ دونوں آدمی مل کر ایک تیسرا ثالث اپنے ساتھ ملا لیں جس میں یہی صفات پائی جائیں۔ یعنی وہ مستقل طور پر سب ججی یا اس سے اُوپر کے کسی عُہدہ پر رہ چُکا ہو یا اس وقت اس عُہدہ پر ہو۔ مَیں تین کاپیاں ان تینوں ثالثوں کو دے دوں گا۔ جس میں یہ عبارت درج ہو گی کہ :-
‘‘مَیں مرزا بشیر الدین محمود احمد اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ یہ زمین جس کی فروخت کا اعلان الفضل کو بھجوایا گیا تھا اور جس کے لئے دو تین گاہک بھی آچکے ہیں اور وہ خط و کتابت میرے پاس محفوظ ہے یہ زمین انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی نہیں۔ انجمن نے کبھی اس زمین کو اپنی نہیں سمجھا اور کبھی کسی واقفِ حالات شخص نے اس زمین کو انجمن کی قرار نہیں دیا۔ اگر مَیں اس دعویٰ میں جھوٹا ہوں تو خدا کی *** مجھ پرہو’’۔
اسی قسم کی ایک تحریر جماعت احرار لکھ کر دے دے اور اس پر مولوی عطاء اﷲ شاہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور شیخ تاج الدین صاحب کے دستخط ہوں۔ کیونکہ وہی احرار کے ذمہ دار کارکن ہیں کہ:-
‘‘ہم جو جماعت احرار کے ذمہ دار کارکن ہیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ وہ زمین جو مرزا محمود احمد سابق قادیانی حال ربوہ فروخت کر رہے تھے اور جس کی فروخت کا اعلان الفضل کو بھجوایا گیا تھا اور آزاد نے جس کا چربہ شائع کیا ہے یہ انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی زمین تھی اور وہ اس زمین کو اپنی ذاتی اغراض پر خرچ کرنے کے لئے فروخت کر رہے تھے۔ اگر ہم اس اعلان میں جھوٹے ہوں تو خدا کی ہم پر *** ہو۔’’
جب تینوں ججوں کی طرف سے میرے پاس یہ تحریر آجائے گی کہ ہمارے پاس دونوں فریق کی تحریریں پہنچ گئی ہیں تو میں دس دس ہزار روپیہ بینک میں ان تینوں ثالثوں کے نام جمع کر ادوں گا کہ اگر احرار کا دعویٰ ثابت ہو جائے تو علاوہ میری تحریر کے وہ دس ہزار روپیہ بھی احرار کو دے دیں۔ اس طرح احرار کو کھالوں کی اٹھنیاں اور روپے جمع کرنے سے بھی بہت کچھ نجات ہو جائے گی۔ مَیں ان سے کسی روپیہ کا مطالبہ نہیں کرتا۔ مَیں صرف اس تحریر کامطالبہ کرتا ہوں۔ اِس کے بعد دونوں فریق اپنے اپنے دلائل لکھ کر مقرر کردہ ثالثوں کو دے دیں اور وہ لوگ کثرت رائے سے اپنا فیصلہ صادر کر دیں کہ آیا میرا دعویٰ صحیح ہے یا احرار کا دعویٰ صحیح ہے۔ اگر وہ احرار کا دعویٰ صحیح قرار دیں تو دس ہزار روپیہ بھی احرار کو دے دیں اور اپنا فیصلہ جس کے ساتھ میری *** والی تحریر نتھی ہو وہ بھی ان کے حوالہ کر دیں۔ احرار کو اس طرح میرے خلاف پروپیگنڈے کا بھی ایک بڑا موقع مل جائے گا اور روپیہ بھی بہت کافی مل جائے گا لیکن اگر ثالثوں پر یہ ثابت ہو کہ میرا دعویٰ ٹھیک ہے اور احرار نے جھوٹ کی نجاست پر مُنہ مارا ہے تو وہ اپنا فیصلہ لکھ کر اس کے ساتھ احرار کی تحریر لگا کر مجھے بھجوا دیں اور میرا روپیہ مجھے واپس کر دیں۔ ہاں یہ ضروری ہو گا کہ ثالث اپنے فیصلوں میں دونوں فریق کی تحریرات شامل کریں اور فیصلہ با دلائل دیں کیونکہ اس نے بہرحال شائع ہونا ہے۔ اختلاف کی صورت میں کسی ثالث کا اختلافی نوٹ ساتھ شامل کرنا ضروری ہو گا۔ یہ امر بھی یاد رہے کہ جس طرح لعنتوں والی تحریر کی تین کاپیاں تینوں ثالثوں کو الگ الگ دینی ضروری ہوں گی اسی طرح دلائل والی کاپیاں بھی تینوں ثالثوں کو الگ الگ دینی ضروری ہوں گی جن پر میری طرف سے میرے دستخط ہوں گے اور اگر احرار اصرار کریں تو صدر انجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ کے بھی مَیں اُس پر دستخط کروا دوں گا۔ اسی طرح تحریک جدید کے صدر کے بھی دستخط کروا دوں گا۔ گو چونکہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے اس لئے اس کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی لیکن اگر وہ چاہیں تو مَیں اس کا بھی ذمّہ لے لیتا ہوں۔ دوسری طرف احرار کی تینوں کاپیوں پر مولوی عطاء اﷲ شاہ صاحب، مولوی محمدعلی صاحب جالندھری اور شیخ تاج الدین صاحب لدھیانوی کے دستخط ہونے ضروری ہوں گے۔ مَیں تین کاپیوں کے تینوں ثالثوں کو الگ الگ دیئے جانے پر اس لئے زور دے رہا ہوں کہ اگر میرا نمائندہ شرارت کرے تو احرار کے پاس ریکارڈ محفوظ رہے اور اگر اُن کا نمائندہ شرارت کرے تو ہمارے پاس ریکارڈ محفوظ رہے۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت احرار اس غیبی دس ہزار روپیہ کو لینے کے لئے بے تابی سے آگے بڑھے گی۔ لعنتیں کھانے کے تو وہ عادی ہیں اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں اور اگر وہ سچے ہیں تو پھر تو بالکل گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ چنانچہ مَیں بالکل نہیں گھبرایا بلکہ مَیں لعنتوں کی تحریر کے علاوہ دس ہزار روپیہ بھی دینے کے لئے تیار ہوں۔ یہ روپیہ بینک کے پاس تین ماہ کی میعاد تک کے لئے ثالثوں کے پاس جمع رہے گا۔ اگر اس عرصہ میں اُنہوں نے فیصلہ نہ کیا اور نہ مزید مہلت مجھ سے طلب کی تو مجھے واپس مل جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ ثالث کسی وجہ سے فیصلہ دینے کے لئے تیار نہیں اور اس صورت میں دونوں فریق کو اجازت ہو گی کہ اپنے نمائندے سے فریقین کی تحریریں لے کر خود شائع کر دیں۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
1952ء03-10-’’
(الفضل 4 اکتوبر 1952ء)
اخبار ‘‘پیغام صلح’’
کے اس بیان کی تردید کہ
مبائعین نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
اخبار ‘‘پیغام صلح’’ کے اس بیان کی تردید کہ
مبائعین نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں
(محررہ24اکتوبر 1952ء)
‘‘اخبارپیغام صلح مؤرخہ 15اکتوبر 1952ء میں ایک مضمون میاں محمدصاحب پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور کی طرف سے شائع ہؤا ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ:-
‘‘اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہ قادیانی جماعت کے امام جناب مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب نے آخر کار حضرت صاحب کی نبوت کے عقیدہ سے بہت کچھ رجوع کر لیا ہے اور اب وہ اپنی تحریرات کا وہی مفہوم لیتے ہیں جن کی طرف حضرت امیر مرحوم انہیں دعوت دیتے تھے’’۔
مجھے اس عبارت کو پڑھ کر تعجب ہؤا اور بے اختیار آنکھوں کے سامنے یہ فقرہ آگیا کہ سخن فہمی ٔ عالَم بالا معلوم شُد۔اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
تعجب ہے کہ میاں محمد صاحب اخبارمیں تو یہ شائع کرتے ہیں کہ میں نے اپنے عقیدے بدل لئے ہیں اور وہی عقائد اختیار کر لئے ہیں جو مولوی محمد علی صاحب رکھتے تھے مگر مجھے بار بار خط لکھتے ہیں کہ مَیں اپنے عقائد کی وضاحت کروں تاکہ دنیا میں جو غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے وہ دور ہو جائے۔ اگر مَیں نے اپنے خیالات کی اصلاح کر لی ہے تو دُنیا میں غلط فہمی کون سی رہ گئی ہے۔ باقی رہا یہ کہ میرے متعلق آپ کو یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ مَیں نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں تو اس وہم کا ازالہ میرے اختیار میں نہیں۔ جو مَیں نے نہیں لکھا آپ اپنے خطوں میں میری طرف منسوب کرتے ہیں اور اب اخبار میں بھی شائع کر رہے ہیں۔ اس مرض کا علاج میرے پاس نہیں ہے۔ میرے عقائد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق وہی ہیں جو آپ کی زندگی میں تھے، جو آپ کے بعد آج تک رہے اور آئندہ اِنْشَاءَ ﷲ رہیں گے۔ میں نے جو آخری خط میاں محمدصاحب کو لکھا تھا وہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں۔ اس کو پڑھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔میرے خط کی عبارت یہ ہے:-
‘‘مکرمی میاں صاحب!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ ﷲِ وَبَرَکَاتُہٗ
آپ کا خط ملا۔ میری تحریر سے کچھ مترشح ہوتا ہے یا نہیں یہ تو آپ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مَیں نے تو جو کچھ لکھا تھا سادہ عبارت میں ایک مفہوم ادا کیا تھا۔ اصل میں ایسے مسائل خط و کتابت سے طے نہیں ہوتے۔ یا کتابوں سے یا ملاقاتوں سے یا پھر اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ دینے سے طے ہوتے ہیں۔ یعنی جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ اب ملاقات یا کتابوں کا مطالعہ بے فائدہ چیز ہے۔
آپ نے میرے ایک حوالہ کا ذکر کیا ہے مگر کتاب یا اخبار کا نام اور صفحہ وغیرہ درج نہیں کیا۔ آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ مجھے یاد نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اخباروں میں اس حوالہ کا ذکر آچکا ہے۔ یہ درست ہو گا مگر وہ اخبار آپ نے پڑھے ہیں، میں نے نہیں پڑھے۔ اس لئے جب تک حوالہ آپ نہ لکھیں میرے لئے اسے دیکھنا مُشکل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے 1901ء سے پہلے کے حوالوں کو اگر مَیں نے کسی جگہ منسوخ قرار دیا ہے تو اسی جگہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مَیں نے کون سی چیز منسوخ قرار دی ہے؟ جو چیز منسوخ ہوئی وہ صرف نبوت ٭کی تعریف ہے۔
٭ یہ فقرہ جو مَیں نے لکھا ہے بعینہٖ یہی مضمون حقیقۃ النبوۃ میں بھی بیان ہے۔ چنانچہ
پس جو بات نبوت کی اس تعریف کے خلاف ہو گی، جو 1901ء کے بعد آپ نے فرمائی وہ منسوخ ہو گئی اور جو خلاف نہیں ہو گی وہ منسوخ نہیں ہو گی۔ حوالہ جات منسوخ نہیں صرف پہلی تعریفِ نبوت منسوخ ہے ورنہ ان حوالوں کا مضمون قائم ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ مَیں نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کا مقام مجددیت اور نبوت کے درمیان ہے۔ مَیں نے اپنا خط نکال کر پھر پڑھا ہے اس میں تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ حضرت صاحب کا مقام مجددیت اور نبوت کے درمیان ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بے شک لکھا ہے کہ امتی نبی کا نام ایک نیا نام ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملا اور یہی ہم کہتے ہیں، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔
ہالینڈ میں مسجد ہم بنا رہے ہیں اور نقشہ بن رہا ہے۔ کل ہی اس کا پلین (PLAN) ہالینڈ کے ایک آرکیٹیکچر (ARCHITECTURE)کی طرف سے آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کسی نے آپ کو یہ غلط رپورٹ دی ہے کہ ہم مسجد نہیں بنا رہے۔ والسلام خدا حافظ
خاکسار۔ مرزا محمود احمد’’
اِس خط سے ظاہر ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امتی نبی تسلیم کرتے ہیں لیکن امتی نبی کوئی ایسا درجہ نہیں جو مجددیت اور نبوت کے درمیان ہو بلکہ
(بقیہ حاشیہ
اس کے بعض فقرات یہ ہیں:
‘‘یہ تعریفوں کا اختلاف ہی تھا جس کی وجہ سے 1901ء سے پہلے آپ اپنی نبوت کو جزئی اور ناقص قرار دیتے رہے’’۔ 1
‘‘خدا تعالیٰ نے کسی پہلے حکم کو بدلا نہیں اور آپ جزوی نبی سے پورے نبی نہیں بنائے گئے۔ ’’ 2
‘‘پس اس تعریف نے پہلی تعریف کو بدلا دیا اور 1901ء سے پہلے جس قدر تحریرات سے نبی ہونے کا انکار پایا جاتا تھا ان کے معنے بھی بدل دیئے اور اس کے صرف یہ معنے رہ گئے کہ آپ نے شریعتِ جدیدہ لانے یا براہ راست نبوت پانے سے انکار کیا ہے’’۔3
امتی نبوت بھی نبوت کی ایک قسم ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہمیشہ سے نبی مانتے آئے ہیں اور اب بھی مانتے ہیں لیکن ہم نے کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی نئی شریعت لائے تھے یا انہوں نے کوئی نیا دین نکالا تھا یا انہوں نے کوئی نیا کلمہ بنایا تھا یا انہوں نے کوئی نیا قبلہ تجویز کیا تھا۔ ہمارا ہمیشہ سے یہی عقیدہ رہا ہے کہ آپؑ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبع تھے اور امتی تھے اور آپؑ کی طرح آپؑ کی سب جماعت بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت سے ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر قیامت تک ایک ہی امت چلے گی اور وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت ہو گی مسیح موعود ؑ یا اور کوئی جو مصلح آئے وہ کسی نئی امت کا بانی نہیں ہو گا بلکہ خود امتی ہو گا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اور تابع ہو گا نبی مکّی کا صلی اﷲ علیہ وسلم۔
پس جو کچھ آپؑ نے پایا وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیضان سے پایا اورآپؑ کی تمام عزت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی میں تھی اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت سے خفیف سے خفیف سرتابی کو بھی آپ کفر سمجھتے تھے بلکہ حقیقتاً یہی عقیدہ بِناء تھا اس عقیدہ کی کہ عام مسلمانوں میں اب حقیقتِ اسلام باقی نہیں رہی کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور تعلیم سے وہ سرتابی کرتے ہیں۔
پس جو کچھ مَیں نے کہا ہے اور جو ہمیشہ مَیں کہتا چلا آیا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عُہدہ نبوت مستقلہ شرعیہ اور مجدد کے درمیان کا عُہدہ ہے لیکن ہے وہ نبوت ہی کی ایک قسم اور اب بھی ہمارا یہی عقیدہ ہے اور ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ایک وقت تھا کہ جماعت غیر مبائعین اس قسم کی بحثوں میں پڑ کر یہ خوشی محسوس کیا کرتی تھی کہ اس قسم کی بحث میں جب مبائعین کو پھنسایا جائے گا تو غیراحمدیوں میں ان کی بدنامی ہو گی لیکن واقعات نے ان کی اس پالیسی کو غلط ثابت کر دیا ہے کیونکہ باوجود ان حیلوں کے بڑھی ہماری ہی جماعت۔ وہ اسی طرح کے اسی طرح رہے اور اب تو وہ زمانہ بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ اس وقت غیر احمدی ہمارے حوالوں سے واقف نہیں تھے۔ جب وہ ''پیغام صلح'' میں وہ حوالے پڑھتے تھے تو بوجہ نیا علم ہونے کے ان کے دلوں میں شُبہ پیدا ہوتا تھا اور بعض کے دلوں میں غصہ پیدا ہوتا تھا۔
اب جماعت احرار نے خود مطالعہ کر کے غیر مبائعین سے بھی زیادہ ہمارے حوالے نکال لئے ہیں اور ایک ایک حوالہ کے ساتھ دس دس جھوٹ بھی ملالئے ہیں۔ اب پیغام صلح میں اس قسم کی بحث چھیڑنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ وہ یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اس کی تردید کریں گے، تو وہ اس کو اچھالیں گے لیکن وہ ہمارے جن حوالوں کو اچھالیں گے ایک ایک حوالے میں دس دس جھوٹ ملا کر احرار اس کو خوب پھیلا چکے ہیں اور ہمارے حوالے بگڑی ہوئی خطرناک صورت میں عوام الناس غیراحمدیوں کے سامنے آچکے ہیں اس لئے اب یہ کھیل پرانا ہو چکا ہے اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ ہم ممنون ہیں عقلمند غیر مبائعین کے کہ انہوں نے موجودہ جھگڑے میں اس بات کو خوب محسوس کیا کہ یہ تلوار صرف مبائعین پر ہی نہیں چل رہی غیر مبائعین پر بھی چل رہی ہے۔ غیر احمدی علماء نے صاف فتویٰ دے دیا ہے کہ اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ مرزا صاحب مجدّد تھے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرزا صاحب مرتد تھے اور کافر تھے۔ چنانچہ مولوی عبدالحامد صاحب بدیوانی کا خط ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کو اس مضمون کا آچکا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘جناب مرزا کے دعاوی وبیانات پر نظر رکھنے والے افراد کی آپ حضرات کے بارے میں جو رائے ہے، وہ ظاہر ہے جس شخص نے حضرات انبیاءِ کرام کی اہانت کی ہو حضرات اہلِ بیت اطہار سے اپنے مقام کو بڑھایا ہو، صفاتِ احدیت کو خود اپنی ذات میں جمع کیا ہو، ان کے مجدد یا مسیح موعود ماننے والوں کو بھی ہم قادیانیوں جیسا ہی سمجھتے ہیں’’۔
غرض سب عقلمند غیر مبائعین نے سمجھ لیا ہے کہ ان حالات میں تبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پڑ رہا ہے کسی ایک جماعت پر نہیں پڑ رہا۔ اور مخالفت کسی ایک حصہ کی نہیں بلکہ ساری احمدیت کی ہے اور بقول زمیندؔار صرف دمشقی اور اندلسی کا فرق ہے، ورنہ بات ایک ہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عقلمند فرقہ آئندہ بھی اپنے رویّہ پر قائم رہے گا، ورنہ بہرحال یہ ان کا اپنا کام ہے۔ اگر وہ عقل سے کام لیں گے تو فائدہ اٹھائیں گے نہ لیں گے تو خدا تعالیٰ کے قانون کی گرفت میں آئیں گے۔
میاں صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم تو یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے عقائد میں کچھ فرق آگیا ہے کیونکہ چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ نے حال ہی میں انگلستان سے مجھے رپورٹ بھیجی ہے کہ اب ووکنگ مشن کے ذریعہ سے انگریز احمدی بھی ہونے لگ گئے ہیں۔ گویا وہی تعلیم جس کو پہلے زہر قرار دیا جاتا تھا اب تریاق قرار دے دی گئی ہے۔ چنانچہ ووکنگ مشن کے ذریعہ سے ایک احمدی ہونے والی عورت ہمارے مشن میں بھی آئی اور ہمارے مشنری سے اس نے باتیں کیں۔ پس ہم تو یہ امید رکھ رہے ہیں کہ جلد ہی احمدیت کی تبلیغ ایک ضروری چیز قرار دے دی جائے گی اور غیرمبائعین بھی انگلستان اور امریکہ میں کھلے بندوں احمدیت کی تبلیغ کرنے لگ جائیں گے اور خدا تعالیٰ دونوں فریق کو اس بات کی توفیق دے گا کہ وہ احمدیت کی اشاعت میں حصہ لیں۔
خاکسار۔ مرزا محمود احمد
24۔اکتوبر1952ء’’
(الفضل 29 اکتوبر1952ء)
1: حقیقۃ النبوۃ۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ451
2: حقیقۃ النبوۃ۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ379
3: حقیقۃ النبوۃ۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ455
خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتتاحی خطاب
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں
افتتاحی خطاب
(فرمودہ 30اکتوبر 1952ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘مجھے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ خدّام الاحمدیہ کا یہ بارہواں سالانہ اجلاس ہو رہا ہے۔ بارہواں سال ایک بلوغت کا سال سمجھا جاتا ہے۔ بلوغت کے جو پانچ زمانے شمار کئے جاتے ہیں ان میں سے پہلا زمانہ بارہ سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے اور دوسرا 15 سال کی عمر میں جبکہ جہاد میں شمولیت کی اجازت مل سکتی ہے۔ تیسرا 18 سال کی عمر میں جبکہ جہاد واجب ہو جاتا ہے۔ چوتھا 21 برس کا ہونے پر جبکہ شریعت انسان کو پورے طور پر اپنے اموال کا مالک قرار دیتی ہے اور پانچواں دَور بلوغت کا 40 برس کا ہونے پر شروع ہوتا ہے جو کہ عام مدّت خدا تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت کے لئے مقرر فرمائی ہوئی ہے۔
یہ سال جو تمہارے لئے بلوغت کا پہلا سال ہے جماعت کے لئے بہت سے فساد اور مشکلات لایا ہے۔ سلسلے پر جو نازک ترین زمانے گزرے ہیں۔ گیارہویں اور بارہویں سال کا یہ درمیانی عرصہ ان سے بھی زیادہ خطرناک حالات تمہارے لئے لایا ہے۔ اِس سے پہلے بھی جماعت پر ظلم و تعدّی کے کئی دَور آئے ہیں لیکن کبھی بھی ایسا زمانہ نہیں آیا تھا جبکہ بعض لوگوں نے ظلم اور جبر سے ڈر کر کچھ کمزوری دکھائی۔ گو مخالفین نے تو ایسے لوگوں کی تعداد بہت ظاہر کی ہے مگر میرے علم کے مطابق ان کی تعداد کسی صورت میں بھی پچاس ساٹھ سے زیادہ نہیں ہوئی اور ان میں سے بھی اکثر بعد میں جلد ہی سنبھل گئے اور شاید ہی کوئی ایسا رہا ہو گا جس نے ندامت کا اظہار نہ کیا ہو مگر بہرحال مومنوں کی جماعت کے لئے اتنی کمزوری بھی معمولی نہیں ہے۔ ان کی جماعت تو اتنی مضبوط ہونی چاہئے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسی کمزوری نہ دکھلائے۔
خدّام الاحمدیہ کی تنظیم کی غرض یہی تھی کہ اگر کسی موقع پر قربانی کا موقع آئے تو سو میں سے ننانوے نہیں بلکہ سوکے سو ہی اس قربانی پر پورے اُتریں۔ یہ روح اگر تم میں پیدا ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی قوم تم پر ظلم نہیں کر سکتی۔ دنیا کی کوئی طاقت تمہاری راہ میں کھڑی نہیں ہو سکتی۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تمہاری اکثریت ایسے مُلک میں ہے جہاں کی حکومت جمہوریت کے اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے حتّی الامکان ظلم و ستم ہونے نہیں دیتی لیکن تم نے صرف ایک مُلک تک محدود نہیں رہنا تم نے ساری دُنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے اور دنیا میں آج بھی ایسے مُلک موجود ہیں جہاں پر مذہب کے نام پر ظلم ہوتا ہے۔ جہاں تلوار کے زور سے عقائد کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پس تمہارا فرض ہے کہ تم ایسے ممالک کے حالات کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھو تاکہ وقت آنے پر تم کمزوری نہ دکھلا سکو۔
گو پاکستان کے حُکام کو اﷲ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق عدل و انصاف کو قائم رکھتے ہیں اور ظلم نہیں ہونے دیتے اور ہم اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مُلک کو اس روزِ بد سے ہمیشہ ہی محفوظ رکھے جبکہ یہاں بھی ظلم ہو لیکن ایک حد تک یہاں بھی مُشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور بعض دیگر ممالک میں تو یقیناً ہوں گی۔ پس تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ ایسے حالات کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھے جبکہ ایک طرف ایمان ہو اور دوسری طرف تلوار۔ ویسے تو اِس وقت تم میں سے ہرایک جذباتی طور پر کہہ دے گا کہ ہم جانیں دے دیں گے مگر اپنے ایمان پر قائم رہیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز تیاری اور وقت چاہتی ہے۔ اس سال جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے تمہاری پہلی بلوغت کے ساتھ ہی تمہیں ہوشیار کر دیا ہے تاکہ تم آنے والے خطرات کے مقابلہ کے لئے تیاری کر سکو۔
خدّام الاحمدیہ کے متعلق جو رپورٹیں مجھے ملی ہیں ان سے معلو م ہوتا ہے کہ گزشتہ خطرات کے ایّام میں احمدیوں کی مدد کرنے، عورتوں اور بچوں کو خطرات سے نکالنے اور اشتہارات وغیرہ کی اشاعت کے سلسلے میں انہیں خدا تعالیٰ نے اچھا کام کرنے کی توفیق دی ہے۔ یہ ایک خوشکن علامت ہے لیکن ایسی نہیں جس پر ہم مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں گو جیسا کہ مَیں نے کہا ہے یہ تمہاری بلوغت کا پہلا زمانہ ہے لیکن سب بالغ ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے۔ بعض بیس سال کی عمر میں بھی عادتوں کے لحاظ سے ابھی بچے ہی ہوتے ہیں اور بعض بہت چھوٹی عمر میں ہی بڑے بڑے کارنامے کر کے دکھاتے ہیں۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بارہ سال کی اس بلوغت تک پہنچنے کے بعد کیا تمہاری عقلیں اتنی تیز ہو گئی ہیں کہ تم ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کر سکو۔ یوں تو مومن خدا کے حکم کے ماتحت اپنی حفاظت کرتا ہے لیکن اگر ایک طرف تمہاری جان ہو اور دوسری طرف ایمان تو کیا تم میں سے ہر ایک کی روح بِلا تردّد، بِلا تأمل اور فوری طور پر اپنی جان کو خدا اور اپنے درمیان حائل سمجھتے ہوئے اسے قربان کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
خدا تعالیٰ نے تمہیں ہوشیار کر دیا ہے اب تم اپنے دلوں کو مضبوط کرو اور آنے والے خطرات کے لئے تیاری کرو۔ وہ تیاری اسی طرح ہو سکتی ہے کہ تم اپنے اوقات کو صحیح رنگ میں گزارو، زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرو، زیادہ سے زیادہ خدمتِ خلق کرو۔ خدمتِ خلق کے متعلق تمہارا کام ابھی نمایاں نہیں ہے۔ زلزلہ اور اسی طرح کی دیگر مصیبتوں کے پڑنے پر یا جلسوں اور جلوسوں کے مواقع پر تمہیں کم از کم بوائے سکاؤٹس یا ریڈ کراس جتنا نمونہ تو دکھانا چاہئے حالانکہ اصل میں تو ان سے سینکڑوں گُنا زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے۔ واضح رہے کہ خدمتِ خلق سے میری مراد محض احمدیوں یا مسلمانوں کی خدمت نہیں بلکہ بِلاامتیاز مذہب و ملت، خدا کی ساری ہی مخلوق کی خدمت مراد ہے۔ حتّٰی کہ اگر دُشمن بھی مصیبت میں ہو تو اس کی بھی مدد کرو۔ یہ ہے خدمتِ خلق کا صحیح جذبہ۔
اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرو جس کے بعد تمہیں یقین ہو جائے کہ تم ہر گز بُزدلی نہیں دکھاؤ گے۔ اس کے لئے تیاری کرو مگر یہ تیاری اسلامی طریق کے مطابق ہونی چاہئے۔ ایسی تیاری کرنے کے دُنیا میں دو ہی طریق ہیں ایک یہ کہ جسموں کو مضبوط بنایا جائے۔ اس کی مثال نپولین، ہٹلر، چنگیز خان اور تیمور سے مل سکتی ہے اور ایک تیاری روح کی مضبوطی اور پاکیزگی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اس کی سب سے روشن اور اعلیٰ و ارفع مثال دُنیا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدس وجود میں دیکھ چُکی ہے۔ پس تم ہٹلر، نپولین یا چنگیز خاں اور تیمور کی بجائے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے تیاری کرو لیکن یہ نمونہ دُنیوی خوشیوں سے سینکڑوں اور ہزاروں گُنا بالا ہے بلکہ اتنا بالا ہے کہ آج بھی فرشتے اس پر مرحبا کہہ رہے ہیں’’۔
(الفضل لاہور یکم نومبر 1952ء)
وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ
(اختتامی خطاب فرمودہ یکم نومبر 1952ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الا احمدیہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘1- جو خادم انعام لینے آئے وہ پہلے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے۔ انعام دائیں ہاتھ سے لے اور پھر اسے بائیں ہاتھ میں تھام کر مصافحہ کرے۔ انعام لے کر جَزَاکُمُ ﷲ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہے۔ اس موقع پر حاضرین مجلس کو بھی انعامات تقسیم کرنے والے کی اتباع میں بَارَکَ ﷲ لَکَ کہنا چاہئے۔
2- میری تقریر کے وقت اطفال کو بھی یہاں لانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے شور سے تقریر میں مُخِلّ نہ ہوں اور ان کے کانوں میں بھی نیکی کی باتیں پڑتی رہیں۔
3- مرکزی کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اپنے احکام کی تعمیل کرانے کے لئے مختلف مقامات پر والنٹیرز متعین کریں اور خدّام کا فرض ہے کہ جونہی وہ کوئی حکم سنیں فوراً اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اس کی تعمیل شروع کر دیں۔ اس روح کے بغیر کبھی بھی نظم و ضبط کا حقیقی تقاضا پورا نہیں ہو سکتا۔
4- خدّام کو اپنے اپنے مقامات پر اے آر پی کی ٹریننگ لینی چاہئے اور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ لوکل انتظامات میں حصّہ لینا چاہئے۔
ان ہدایات کے بعد فرمایا:-
‘‘مَیں ایک اور نہایت ضروری بات کی طرف بھی توجّہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کو عموماً اور خدّام کو خصوصاً یاد رہے کہ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا ہے حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ۔1 اس ارشاد نبوی ؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ حُبّ الوطنی بھی اسلام کا ایک حصّہ ہے۔ ایمان بڑی اہم چیز ہے اور چونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق وطن کی محبت بھی ایمان ہی کا ایک حصّہ ہے اس لئے یہ بھی ایک اہم چیز ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پس ہمارے نوجوانوں میں حُبّ الوطنی کا مادہ دوسروں سے زیادہ ہونا چاہئے اور اس کے عملی ثبوت کے طور پر انہیں اپنی قومی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قومی حکومت کو مضبوط کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ تم خواہ حکومت کے ملازم ہو یا کوئی اور کام کرتے ہو بہرحال دوسروں سے زیادہ محنت اور سنجیدگی سے اپنے فرائض کو سرانجام دو۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چند مقررہ گھنٹے کام کر کے ذمّہ داری ختم ہو جاتی ہے حالانکہ یہ غلط ہے۔ اصل کام وہ ہے جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نکلے۔ اگر نہیں نکلتا تو تم سمجھ لو کہ تمہارے کام میں کوئی نقص رہ گیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ نتیجہ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے مگر اس فقرہ کا جو مفہوم لیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا تو یہ قانون ہے کہ وہ صحیح طور پر محنت کرنے کا ضرور صحیح نتیجہ نکالتا ہے۔ پس اگر صحیح نتیجہ نہیں نکلتا تو تم کیوں اسے خدا کی طرف منسوب کرتے ہو اور کیوں نہیں اسے اپنی کسی غلطی کا نتیجہ قرار دیتے۔حقیقت یہ ہے کہ جب یہ وہم ہو جائے کہ مَیں تو کام ٹھیک کرتا ہوں مگر خدا غلط نتیجہ نکال دیتا ہے تو پھر انسان اپنی اصلاح سے غافل ہو جاتا ہے۔
اپنے مُلک کی سچی خدمت کرنے کی راہ میں اس امر کو کبھی روک نہ بناؤ کہ ہماری مخالفت بہت ہوتی ہے جب ہم یہ جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر ہماری مخالفت کرنے والے مُلک کے دُشمن ہیں اور دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہی مُلک کے حقیقی خیر خواہ اور وفا دار ہیں تو خود اندازہ لگاؤ کہ اس مخالفت کے نتیجہ میں ہمیں مُلک کی خدمت میں کمزور ہو جانا چاہئے یا پہلے سے بھی بڑھ کر اس میں حصّہ لینا چاہئے۔ جس چیز کے لئے سچی محبت اور ہمدردی ہوتی ہے اسے خطرے میں دیکھ کر تو قربانی کا جذبہ تیز ہؤا کرتا ہے نہ کہ کم۔ پس اگر تم مُلک کے سچے خیر خواہ ہو اور تمہاری مخالفت کرنے والے مُلک کے دُشمن ہیں تو تم پہلے سے بھی بڑھ کر مُلک کی خدمت پر کمر بستہ ہو جاؤ۔ تا دُشمن ہمارے مُلک کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ تم اگر حکومت کے ملازم ہو تو حکومت کا کام پوری محنت عقل اور دیانت داری سے کرو۔ اگر کوئی اور کاروبار کرتے ہو تو اسے محنت سے سرانجام دو۔ اگر سلسلے کا کام کرتے ہو تو اسے محنت اور دیانت داری سے کرو۔ غرض اگر تم واقع میں مُلک کے وفادار اور خیر خواہ ہو تو ہر کام اس جذبہ سے کرو اور اپنا یہ مطمح نظر بنا لو کہ تم نے کسی بھی شعبے اور کام میں دوسروں سے پیچھے نہیں رہنا بلکہ آگے ہی بڑھنا ہے کیونکہ اس میں مُلک کا بھی فائدہ ہے اور دین کا بھی۔جب تک ہر احمدی ڈاکٹر، وکیل، تاجر، کلرک، زمینداراور مزدور اپنے اپنے شُعبہ میں اپنا یہ مطمح نظر نہیں بناتا اس وقت تک ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنا قومی فرض ادا کر رہا ہے’’۔
حضور نے خدمتِ خلق کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اس کے مختلف طریق بیان فرمائے مثلاً سٹیشنوں پر مسافروں کی خدمت، جلسوں کے موقع پر انتظام، دیہات میں جاکر جہاں طبی امداد نہ ہونے کے برابر ہے چھوٹی چھوٹی اور معمولی بیماریوں کا علاج وغیرہ۔اس کے بعد حضور نے فرمایا:-
‘‘ اس وقت تک خدّام نے خدمتِ خلق کے شعبے میں کوئی قابلِ ذکر اور نمایاں کام نہیں کیا۔ حالانکہ تمہیں چاہئے کہ تم اپنے افادے کو خلقِ خدا کی سچی اور بے لوث خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ وسیع کرو’’۔
آخر میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ:-
‘‘ تمہیں ہر روز کچھ وقت خاموشی کے ساتھ ذکرِ الٰہی یا مراقبے کے لئے خرچ کرنے کی عادت بھی ڈالنی چاہئے۔ ذکرِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ علاوہ نمازوں وغیرہ کے روزانہ تھوڑا سا وقت خواہ وہ ابتدا میں پانچ منٹ ہی ہو اپنے لئے مقرر کر لیا جائے جبکہ تنہائی میں خاموش بیٹھ کر تسبیح و تحمید کی جائے۔ مثلاً سُبْحَانَ اللہ ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، اَللہُ اَکْبَرُ اور اسی طرح دیگر صفاتِ الٰہیہ کا وِرد کیا جائے اور ان پر غور کیا جائے۔
مراقبے کے یہ معنے ہیں کہ روزانہ کچھ دیر خلوت میں بیٹھ کر انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اس سے کون کونسی غلطیاں سر زد ہوگئی ہیں۔آیا وہ انہیں دُور کر سکتا ہے یا نہیں ۔ اگر کر سکتا ہے تو اب تک کیوں نہیں کیں۔ اگر دُور نہیں کر سکتا تو اس کی کیا وجوہ ہیں اور کیا علاج ہو سکتا ہے۔ پھر اس کے آگے وہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے عزیزوں اور ہمسایوں کی اصلاح کی کیا صورت ہے۔ تبلیغ کے کیا مؤثّرذرائع ہیں۔ کیا رکاوٹیں ہیں اور انہیں کس طرح دُور کیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے محاسبہ کا جو نتیجہ نکلے اسے ڈائری کے رنگ میں لکھ لیا جائے اور پھر اسی سلسلے کو وسیع کرنے کی کوشش کی جائے۔
اگر اس رنگ میں ذکرِ الٰہی اور مراقبہ کی عادت ڈالی جائے تو یقینا اس سے روحانیت ترقی کرے گی، عقل تیز ہو گی اور امام وقت کی ہدایات و تقاریر پر زیادہ غور و تدبّر کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق مل جائے گی۔ ایسا شخص آہستہ آہستہ ایک حد تک دنیا کے لئے ایک روحانی ڈاکٹر اور مصلح بن جائے گا۔
پس چاہئے کہ ہمارے چہروں پر رونق ہو۔ جسم اور ہماری روحیں دونوں مضبوط ہوں تا دیکھنے والا سمجھ لے کہ اس کا مقابلہ آسان نہیں۔ اس وقت گو تم دنیا کی نظر میں ذلیل ہو اور وہ تم کو مٹانا چاہتی ہے مگر خدا نے بہرحال تمہیں بہت بڑی طاقتیں عطا فرمائی ہیں۔ اس نے ایک نہ ایک دن تمہیں دنیا کا راہنما بنانا ہے۔ پس تم اپنی حقیقت کو سمجھو تم کیوں اپنے وقتوں کو رائیگاں کرتے ہو۔ اگلی نسلوں نے کام کیا اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ اب تمہیں چاہئے کہ مراقبے، ذکر الٰہی اور غور و فکر کے ذریعے اس کام کو ترقی دو۔ ایک بہت بڑا کام اور بہت بڑا نتیجہ تمہارے سامنے ہے اب تمہارا فرض ہے کہ اس نتیجہ کے پیدا کرنے میں حصہ دار بنو۔ یاد رکھو کہ خدا اپنے کمزور بندوں کا ہاتھ پکڑ کر ان سے کام لیا کرتا ہے۔ عزّت بندے کی ہوتی ہے اور محنت خدا کی ہوتی ہے’’۔
(الفضل لاہور 4نومبر 1952ء)
1: موضوعات کبیر۔ مؤلفہ ملّا علی قاری صفحہ35۔ مطبوعہ دھلی1315ھ
نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے
(افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ فرمودہ 26 دسمبر 1952ء بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘پہلے مَیں اس جلسہ کے افتتاح کے لئے دُعا کر دیتا ہوں تاکہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس جلسہ کو ان اغراض کے مطابق بنائے جن اغراض کے لئے اس نے اس جلسہ کی بنیاد رکھی تھی اور تاکہ اﷲ تعالیٰ اس جلسہ میں شامل ہونے والوں پر اپنے فضل اور رحمت سے ان دروازوں کو کھولے جن دروازوں کو کھولنا اِس جلسہ کے قیام کے ساتھ اس نے مقدر کیا تھا اور جس طرح اس نے اُن کو اس دُنیا کی باتیں سُننے کے لئے کان عطا فرمائے ہیں اسی طرح وہ ان کو دین کی باتیں سُننے کے لئے روحانی اور دل کے کان بھی عطا فرمائے اور قوتِ عملیہ جس کے بغیر ایمان کسی کام کا نہیں وہ ان کو عطا ہو اور ان کی زندگیاں خداتعالیٰ کے منشاء اور اسلام کی تعلیم کے مطابق ہوں۔
بعض جماعتوں کی طرف سے باہر سے تاریں آئی ہیں جن میں اُنہوں نے درخواست کی ہے کہ جلسہ سالانہ کی دُعا کے موقع پر ان کے لئے بھی دُعا کی جائے۔ چنانچہ بورنیو کے شہر جیلٹن سے وہاں کی جماعت کی تار آئی ہے کہ یہاں نئی جماعت بن رہی ہے۔ دوست دُعا فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری امداد فرمائے۔ اسی طرح شیخ ناصر احمد صاحب کی سوئٹزرلینڈ سے تار آئی ہے، سیّد عبدالرحمن صاحب کی امریکہ سے تار آئی ہے، چوہدری عبدالرحمن صاحب کی لنڈن سے تار آئی ہے، حافظ بشیر الدین صاحب کی ماریشس سے تار آئی ہے، یہاں کی مقامی جماعتوں کی طرف سے بھی مختلف جگہوں سے تاریں آئی ہیں جن کے نام لینے کی ضرورت نہیں۔ احباب اجمالی طور پر ان سب کو اپنی دُعاؤں میں شامل کر لیں۔ دُعا کے بعد مَیں چند الفاظ کہہ کر اس جلسہ کا افتتاح کروں گا اور پھر باقی پروگرام شروع ہو گا۔’’
اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دُعا کروائی۔ دُعا سے فارغ ہونے پر فرمایا:-
‘‘مَیں صرف چند منٹ بعض باتیں کہہ کر چلا جاؤں گا۔ ایک تو مَیں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ پچھلے کچھ دنوں سے شدید سردی اور خشک سردی کی وجہ سے میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ دردیں پھر شروع ہو گئی ہیں اور اسی طرح نزلہ کی شکایت ہو گئی ہے۔ دردوں کی وجہ سے مجھے ملاقاتوں میں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مَیں بیٹھ نہیں سکتا اور نزلہ کی وجہ سے بولنے میں تکلیف ہوتی ہے اس لئے مَیں بول نہیں سکتا۔ پس ایک تو ملاقاتوں کے وقت احباب احتیاط سے چل کر آیا کریں تاکہ گرد نہ اُڑے۔ دوسرے دُعا بھی کریں کہ اﷲ تعالیٰ ان دنوں میں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ مَیں اپنے خیالات آپ تک پہنچا سکوں۔ باقی دوائیں جو درد کی وجہ سے مَیں نے شروع کی ہیں ان سے کچھ افاقہ بھی ہے چنانچہ آج پون گھنٹہ مَیں نے ملاقات کی اور مَیں اس غرض کے لئے بیٹھ سکا لیکن بعض دفعہ لمبی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ دوائیں جو دردوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ان سے دل میں ضُعف پیدا ہوتا ہے اور اس وجہ سے مَیں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا لیکن بہرحال درد کی شدت کی وجہ سے چونکہ نہ مَیں بول سکتا ہوں اور نہ بیٹھ سکتا ہوں اس لئے دوائیں استعمال کرنی ہی پڑتی ہیں۔
اس کے بعد دو تین باتیں مَیں جلسہ کے متعلق اور کچھ منتظمین کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔ آپ سے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ اخبار میں مَیں نے اعلان کروا دیا تھا۔ آجکل خشک سردی پڑ رہی ہے اور اس سے نمونیہ وغیرہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے اپنے اوقات کو اس طرح خرچ کریں اور یہاں اس طرح اپنے دن گزاریں کہ آپ کو بلا وجہ موسم کی شدت کا مقابلہ نہ کرنا پڑے۔ مومن کی جان بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے۔ آپ کو تو خود تجربہ ہے کہ ایک ایک احمدی بنانے میں کتنے مہینے لگ جاتے ہیں۔ پس ایک احمدی کا اپنی جان بچانا کوئی معمولی بات نہیں۔ کیونکہ وہ آسانی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ بڑی قربانی سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسری بات مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ میں بعض قیود بڑھائی گئی ہیں کیونکہ اخراجات کے متعلق ہمارا اندازہ تھا کہ جلسہ سالانہ پر خرچ زیادہ ہوتا ہے۔ پس مَیں نے منتظمین کو تاکید کی کہ چونکہ قحط کا موسم ہے اس لئے کھانے کو ضائع ہونے سے بچاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ اخراجات اتنے زیادہ ہو جائیں کہ سلسلہ ان کو برداشت نہ کر سکے۔ بڑھنے والی جماعتوں کے متعلق ہمیشہ ترقی اور اصلاح کا خیال زیادہ رکھا جاتا ہے لیکن اس خیال میں بعض غلطیاں بھی ہوئیں۔ چونکہ نیا تجربہ ہے اس لئے دوستوں کو غلطیوں کی اصلاح کی تو کوشش کرنی چاہئے لیکن ان غلطیوں پر چِڑنا نہیں چاہئے ور نہ جماعت کی تنظیم اور اس کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ ترقی ہمیشہ اسی طرح ہوتی ہے کہ اصلاحات جاری کی جائیں اور پھر غلطیاں دیکھی جائیں اور ان غلطیوں کی اصلاح کر کے آئندہ کے لئے کوئی معیّن اور صحیح قدم اُٹھایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لوگوں کے ڈر کے مارے کوئی نیا قدم نہیں اُٹھایا جاسکتا اور نظام کی مضبوطی کے لئے کوئی نیا طریق اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ پس جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ جماعت میں ہمیشہ نئی نئی اصلاحات کی جائیں۔ بے شک ان اصلاحات میں غلطیاں بھی ہوں گی دوست ان غلطیوں کو پکڑیں لیکن ان غلطیوں پر گھبرانا نہیں چاہئے ورنہ کام کرنے والے نئے قدم اُٹھانے سے گھبرائیں گے اور قوم ترقی نہیں کر سکے گی۔ پس آپ جرح ضرور کریں اور جب کوئی غلطی دیکھیں تو منتظمین کو توجّہ دلائیں تاکہ اس غلطی کی اصلاح کی جائے لیکن ساتھ ہی خوشی سے نئی قیود اور اصلاحات کو برداشت کریں کیونکہ ان قیود کا بڑھانا جماعت کی ترقی کی علامت ہے تنزل کی نہیں۔ اسی طرح کام کرنے والوں کو توجّہ دلانا بھی ضروری ہے اگرچہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ توجّہ دلانے کے باوجود بھی اصلاح نہیں کی جاتی۔ ابھی ایک دوست نے جو کراچی سے آئے ہوئے ہیں اور جنہوں نے صرف چند دن ہوئے بیعت کی ہے کھانے کے متعلق شکایت کی۔ مَیں نے اس شکایت اور بعض دوسری شکایتوں کے لئے ایک کمیٹی بنا دی کہ وہ نگرانی کرے اور کارکن مہمانوں کی ہر ضرورت کو پورا کر دیا کریں۔ اس کمیٹی کی طرف سے مجھے رپورٹ آئی کہ انتظام ہو گیا ہے لیکن پھر دوبارہ اسی دوست کی طرف سے شکایت آئی کہ ابھی تک انتظام نہیں ہؤا۔ اس پر پھر توجہ دلائی گئی تو اُنہوں نے پھر رپورٹ کی کہ انتظام ہو گیا ہے۔ مگر ابھی مَیں تقریر کے لئے آرہا تھا تو پھر ان کی طرف سے شکایت آئی کہ کوئی بھی انتظام نہیں ہؤا۔ اسی طرح جلسہ گاہ کے متعلق خود مَیں نے اس نقشہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ مجھے پسند نہیں۔ یہ احتیاط سے گزر کر غیر اسلامی طریق کا جلسہ گاہ بن گیا ہے اور اسے مَیں پسند نہیں کرتا۔ اسلام ہمیں بے شک احتیاط کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ہی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خُذُوْا حِذْرَکُمْ 1لیکن موجودہ جلسہ گاہ کی جو شکل ہے یہ تو ایسی ہی ہے جیسے بادشاہ اعلانوں کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو دُور دُور بٹھادیا جاتا ہے۔ اتنا لمبافاصلہ میرے نزدیک ہرگز اس حفاظت کے لئے ضروری نہیں جس حفاظت کا خدا تعالیٰ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔
پہلوؤں کے متعلق مَیں نے کہا تھا کہ انہیں تنگ کرو اور یہاں لوگوں کو بیٹھنے کا موقع دو۔ اسی طرح سامنے والے حصّہ کے متعلق مَیں نے کہا تھا کہ اسے بھی تنگ کرو۔ جیسا کہ آپ لوگوں کو یاد ہو گا گزشتہ سال بھی بعض احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں لیکن اس وقت چاروں طرف لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک حملہ جس کی آجکل زیادہ احتیاط کی جاتی ہے پستول کا حملہ ہوتا ہے اور پستول کا حملہ ایسی چیز ہے کہ ایسے ہنگامہ میں اگر کوئی شخص فائر کرنا چاہے اور اس کے پاس بیٹھنے والے ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ اس کے حملہ کو فوراً بے کار کر سکتے ہیں۔ پستول کا حملہ پچاس فٹ سے زیادہ فاصلے سے نہیں ہو سکتا۔ اِلَّا مَا شَاءَ ﷲ۔ لیکن ایسا تو کبھی کبھی ہوتا ہے اور عزرائیل لوگوں کی جانیں نکالنے کے لئے ہر روز آتا ہے۔ پس جان نکالنا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں کہ اس کے لئے غیرمعمولی احتیاط کی جائے۔ اب جلسہ گاہ میں بیٹھنے والے اتنے دُور دُور بیٹھے ہیں کہ ان کا اس قدر دُور بیٹھنا طبیعت پر سخت گراں گزرتا ہے اور زیادہ تو افسوس یہ ہے کہ باوجود میرے کہنے کے اصلاح نہیں کی گئی۔ پس مَیں منتظمین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اس جلسہ گاہ کی اصلاح نہ کی گئی مَیں کل تقریر نہیں کروں گا۔ اگلی صف آگے آنی چاہئے اور پہلوؤں میں بھی لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہونا چاہئے۔ اب تو ایسی شکل بنی ہوئی ہے جیسے بادشاہ اعلان کرنے کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو بٹھادیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ احتیاط ضروری چیز ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے۔ مصر میں ایک دفعہ مسلمان نماز پڑھ رہے تھے کہ ان پر اچانک حملہ کر دیا گیا۔ شاید اُنہوں نے پہرہ مقرر نہیں کیا تھا جیسے آجکل کے مولوی ہمارے پہرہ پر اعتراض کرتے ہیں اسی طرح اس زمانہ میں لوگ اعتراض کرتے ہوں گے۔ چونکہ نیا مُلک فتح ہؤا تھا اس لئے اُنہوں نے اس خیال سے کہ لوگ اعتراض نہ کریں کہ نماز کے وقت بھی یہ پہرہ رکھتے ہیں اپنے لئے پہرہ مقرر نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ دُشمن نے نماز کی حالت میں کئی صفیں قتل کر دیں اور پھر کہیں جاکر اگلی صف والوں کو پتہ لگا کہ دُشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ بیسیوں صحابہ ؓ مارے گئے اور سینکڑوں دوسرے مسلمان شہید ہوئے۔ پس پہرہ ایک ضروری چیز ہے لیکن اس کی ایسی شکل بنا دینا کہ پہرہ ہی رہ جائے اور کام ختم ہو جائے یہ بھی ایک لغو بات ہے۔ آخر ہر ایک نے مرنا ہے پس ایسی احتیاط جو خلافت کو بادشاہت کا رنگ دے دے یا تنظیم کو غیر معمولی شان و شوکت والی چیز بنا دے یہ نہ تنظیم کہلا سکتی ہے اور نہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے یہ کوئی پسندیدہ امر ہے۔ اصل حفاظت خداتعالیٰ کرتا ہے بندے نہیں کرتے اور یہ چیز جو آج نظر آرہی ہے یہ احتیاط سے بالا ہو گئی ہے۔ لوگ اتنی دُور بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ تو شاید مجھے دیکھ رہے ہوں لیکن میری نظر چونکہ کمزور ہے اس لئے مجھے شاذو نادر ہی کسی کی شکل نظر آرہی ہے۔ پس ان کو بھی قریب آنے کا موقع دینا چاہئے۔ باقی نگرانوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ ہوشیاری سے کام لیں۔ بھلا ایسے احمقوں نے حفاظت کیا کرنی ہے جن کے سامنے ایک شخص رائفل لے کر آجاتا ہے، اسے اُٹھاتا ہے، نشانہ باندھتا ہے اور فائر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر نہ انہیں رائفل لاتے وقت وہ نظر آتا ہے ،نہ رائفل اُٹھاتے وقت نظر آتا ہے ، نہ نشانہ باندھتے وقت نظر آتا ہے ، نہ اِرد گرد بیٹھنے والوں کو پتہ لگتا ہے کہ فلاں شخص رائفل چلانے لگا ہے حالانکہ رائفل ایسی چیز ہے کہ ایک ہاتھ مارا جائے تو وہ دُور جا پڑے اور اس کا نشانہ آسمان کی طرف چلا جائے۔ پس رائفل کا سوال نہیں سوال پستول کا ہے مگر اس میں بھی تب کامیابی ہوتی ہے جب کوئی پچاس ساٹھ فٹ سے نشانہ لگائے اور ایک منٹ تو نشانہ لگانے میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ اگر پاس کے لوگ ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ صرف ایک کُہنی کی حرکت سے اس کے نشانہ کو ختم کر سکتے ہیں بلکہ کُہنی تو الگ رہی سانس کی تیزی سے بھی نشانہ بگڑ جاتا ہے۔ اگر کسی کو پتہ لگے کہ کوئی شخص پستول چلانے لگا ہے اور وہ ذرا اپنی کہنی اسے مار دے تو اتنی معمولی سی بات سے ہی اس کا نشانہ خطا ہو جاتا ہے۔ پس یہ کھیل مَیں پسند نہیں کرتا اس کی فوراً اصلاح کی جائے۔ جلسہ کے وقت میں تو اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ راتوں رات اس کی اصلاح ہو جانی چاہئے ورنہ کل میں تقریر کے لئے نہیں آؤں گا اور دوستوں کو خلافت کے لئے جو مکانات بنائے گئے ہیں ان میں ملاقات کا موقع دوں گا اور کہہ دوں گا کہ مُجھ سے مصافحہ کر لو اور چلے جاؤ۔ ایسے ماحول میں تقریر کرنے کےلئے مَیں نہیں آسکتا۔ ہماری جماعت ایک مخلصین کی جماعت ہے اور دُور دُور سے لوگ جلسہ سالانہ کے لئے آتے ہیں۔ ان کو مُجرم کے طور پر بٹھادینا اور ڈربہ کے طور پر بند کر دینا ایسی چیز ہے جسے میری غیرت برداشت نہیں کرتی۔ وہ مُجھ سے محبت کرتے ہیں اور مَیں اُن سے محبت کرتا ہوں۔ پھر ہم میں اتنی دُوری کیوں ہو؟
دوسری طرف پہرہ کا انتظام بہت ناقص ہے۔ پہلے بہت سے آدمی ہؤا کرتے تھے مگر اس دفعہ اتنے آدمی نظر نہیں آتے۔ جلسہ گاہ کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر لوگوں کے لئے سٹیج سے پندرہ بیس فٹ پرے جگہ بنا دی جائے تو غالباً کافی ہو گا۔ بے شک نگرانوں کی یہ ذمّہ داری ہے کہ وہ دیکھتے رہیں کہ کوئی شریر آدمی تو اندر نہیں آگیا۔ مگر یہ بھی نا مناسب امر ہے کہ کسی ایک شریر کی وجہ سے سارے مُحّبوں کو دُور بٹھادیا جائے۔
اِسی طرح مَیں کارکنوں کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ بے تحقیق رپورٹیں نہ کیا کریں۔ درست رپورٹیں کیا کریں۔ بے شک ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سلسلہ کا روپیہ ضائع ہو۔ مگر ہم یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ مہمانوں کی ہتک ہو۔ اب مَیں جلسہ کا افتتاح کر کے جاتا ہوں۔ اس کے بعد دوسری کارروائی شروع ہو گی۔’’
(الفضل 11جنوری 1953ء)
1: النسآء :72
حضرت اماں جان کے وجودِ گرامی
کی اہمیت،تعمیر ربوہ اور مخالفین
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
حضرت اماں جان کے وجودِ گرامی کی اہمیت،
تعمیر ربوہ اور مخالفین
(فرمودہ 27دسمبر 1952ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
علالتِ طبع
‘‘جلسے سے کچھ ایّام پہلے میری طبیعت پھر خراب ہونی شروع ہو گئی تھی۔ جسم کے مختلف حصّوں میں دردیں ظاہر ہونے لگیں اور نزلہ
کی طرف بھی طبیعت مائل ہو گئی جس کی وجہ سے گلا اتنا ماؤف ہو گیا کہ کل رات جب مَیں کھانا کھا رہا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ لقمہ گلے کو چیرتا ہؤا اندر جارہا ہے۔ کچھ تکلیف تو پہلے ہی تھی لیکن آج عورتوں کی بیعت کے موقع پر بد انتظامی اور شور کی وجہ سے اس میں اَور اضافہ ہو گیا ہے ۔ مگر چونکہ دوست بڑی تعداد میں آئے ہیں اِس لئے مَیں تقریر کو چھوڑ بھی نہیں سکتا۔
مستورات سے خطاب
عام تقریر شروع کرنے سے قبل مَیں مستورات کو توجّہ دلاتا ہوں کہ تمہارے ذمّہ مسجد ہالینڈ کی تعمیر کا
چندہ ہے، اسی طرح لجنہ کے دفاتر کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی قرضہ ابھی باقی ہے، تمہیں اس بوجھ کو اُتارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تمہارے اندر قربانی کا جذبہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تمہیں خدا نے قربانی ہی کی جنس بنایا ہے۔ ماں، بہن اور بیٹی کی حیثیت میں محنت اور قربانی کے جو نظارے عورتوں میں نظر آتے ہیں وہ ایک دفعہ تو انسانی دل کو کپکپادیتے ہیں۔ مرد بھی بے شک بڑی بڑی قربانی کرتے ہیں مگر جو روح فدائیت کی عورتوں میں نظر آتی ہے وہ مافوق الانسانیت معلوم ہوتی ہے۔ پس تمہیں اپنے اس امتیاز کو قائم رکھنا چاہئے اور اپنے ذمّے جو چندے اور فرائض ہیں انہیں پورا کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ تمہیں اپنے اندر انتظام کی عادت بھی ڈالنی چاہئے۔ لجنہ کا فائدہ کیا ہؤا اگر ہماری مستورات میں بھی بد نظمی جاری رہے۔ اصل میں تو انتظام کا شعبہ خدا نے تمہارے ہی سپرد کیا ہؤا ہے۔ اگر تم اس کو نہ کرو تو اور کس نے کرنا ہے؟
جلسہ سالانہ کے انتظامات
بے شک اگر انتظامات میں کوئی خامی دیکھو تو اس کی اصلاح کی خاطر اس کی رپورٹ کرو مگر اس قدر
نہ بڑھ جاؤ کہ منتظمین کو انتظام قائم رکھنے میں ہی دقّت ہو جائے۔دراصل ایسے موقع پر ایک حد تک تکلیف ضرور ہوتی ہے اور اسی میں مزہ ہوتا ہے۔ خدا کی راہ میں جو لُطف تکلیف اُٹھانے میں ہوتا ہے وہ آرام میں نہیں ہوتا اور یہاں تو دراصل کوئی مہمان ہوتا ہی نہیں۔ ربوہ کی آبادی ابھی اتنی کم ہے کہ اس کے لئے اتنے مہمانوں کا انتظام کرنا ناممکن ہے اس لئے تمہیں اپنے آپ کو خود ہی مہمان اور خود ہی میزبان سمجھنا چاہئے۔ دوسری طرف منتظمین کو بھی چاہئے کہ کمزور طبائع کے ساتھ نرمی اور درگزر کا سلوک کریں۔
الفضل اور ریویو کی اشاعت بڑھانے کی تحریک
مَیں اصل تقریر سے قبل الفضل کی اشاعت کو بڑھانے کی بھی تحریک کرتا ہوں۔ اس سال الفضل کا خاتم النّبیین نمبر شائع ہؤا تھا
اور وہ فتنے کے ایّام میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے باقی سارے لٹریچر سے زیادہ کامیاب رہا۔ اس کا مضمون ایک تھا مگر اس کے متعلق مختلف پہلوؤں کو جمع کر دیا گیا تھا۔ گویا وہ ایک باغیچہ تھا جس میں مختلف پھل اور پھول جمع کر دیئے گئے تھے مگر خوبی یہ تھی کہ وہ سب ایک ہی قسم کے تھے۔ چنانچہ ختم نبوت کے مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریریں، قرآن مجید کی آیات، احادیث نبویہ اور ائمہ سلف کے خیالات کو جمع کر دیا گیا تھا تاکہ ہر قسم کی طبائع کو اپنے اپنے مذاق کے مطابق مواد مل سکے۔ جماعتوں کی طرف سے جو اطلاعیں آئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مخالفوں نے بھی مانگ مانگ کر یہ پرچہ پڑھا ہے۔ اِن میں سے متعدد نے بعد میں اِس خیال کا اظہار کیا کہ پہلے ہم احمدیت کو ایک خلافِ اسلام تحریک سمجھتے تھے مگر اس نمبر کو پڑھنے سے معلوم ہؤا کہ احمدی اسلام کے یا قرآن کے منکر نہیں ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض تاویل کا اختلاف ہے۔ متعدد جماعتوں نے خاتم النّبیین نمبر کے متعلق لکھا کہ اس کی اشاعت کے بعد مخالفت کی رَو بدل گئی۔ پس الفضل کی اشاعت کو بڑھانے کی کوشش کرو۔ سالہاسال سے اس کی اشاعت 20 اور 25 کے درمیان ہی گھوم رہی ہے حالانکہ جماعت پھیل رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ روزانہ اخبار ہونے کی وجہ سے اس کا چندہ زیادہ ہے مگر کمزور جماعتیں مل کر خرید سکتی ہیں۔ اسی طرح اگر افراد بھی اکیلے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو دو دو، تین تین، چار چار مل کر خرید سکتے ہیں۔ پس مَیں احباب کو تحریک کرتا ہوں کہ الفضل کی اشاعت کو بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرو۔
اسی طرح انگریزی کا رسالہ ریویو ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے زمانہ کی جماعت کے لحاظ سے اس کے کم از کم دس ہزار خریدار ہونے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اور موجودہ تعداد کے لحاظ سے تو اب اس کے لاکھوں تک خریدار ہونے چاہئیں لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو کم از کم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو تو پورا کرنے کی کوشش کرو۔ باہر سے جو خطوط آتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی ممالک میں لوگ اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اسی طرح خدّا م اور لجنہ کے رسالوں کی اشاعت بڑھانے کی بھی مَیں تحریک کرتا ہوں۔ لجنہ کو شکایت ہے کہ اس کے رسالہ سے عورتیں پورا تعاون نہیں کرتیں۔ مگر مجھے اس پر تعجب ہے کہ عورتیں اپنے رسالہ کی پرورش نہ کریں کیونکہ اگر انہیں یقین ہو کہ یہ چیز اپنی ہے تو پھر ان سے یہ اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس کی پرورش اور نگرانی نہ کریں اور خدّام کے رسالہ کے متعلق تو مجھے کچھ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ان کی جوانی کا زمانہ ہے ہمت اور طاقت کے ایّام میں ان کا تو یہ کام ہے کہ وہ بوڑھوں کی بھی مدد کریں اور الفضل کی اشاعت بھی بڑھائیں۔ کجا یہ کہ اپنے رسالہ کو نہ چلا سکیں۔
پاکستان کے بنیادی اصولوں
کے متعلق سفارشات
تفصیلی طور پر تو ابھی مجھے اس کے مطالعہ کا موقع نہیں ملا مگر دو باتوں کے متعلق عام طور پر اخبارات میں احتجاج کیا جارہا ہے ایک تو
اس امر پر کہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں برابری کا اصول کیوں رکھا گیا ہے اور دوسرا فیڈرل سسٹم پر۔ میرے نزدیک اصل پوائنٹ جو مُلک کے لئے بہت مُضر ہے یہ ہے کہ مولویوں کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جس امر پر چاہیں اعتراض کریں اور قانون سازی میں رکاوٹ ڈالیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ مولویوں کے صرف ایڈ وائز ری بورڈ بنائے گئے ہیں انہیں اختیارات نہیں دیئے گئے۔ میرے نزدیک ایسا سمجھنے والے مولویوں کی ذہنیت سے ناواقف ہیں۔ ترکی میں جب مولویوں کو حکومت میں اقتدار حاصل ہؤا تو وہاں یہ حالت ہو گئی کہ اُنہوں نے بات بات پر فتویٰ بازی شروع کر دی اور قوم کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا۔ اگر یہاں بھی ان لوگوں کو پنپنے کا موقع دیا گیا تو یہی حالت ہو جائے گی۔
مجھے تعجب ہے کہ یہ عالم اور مولوی کہلانے والے ایڈوائز ری بورڈ کے راستہ کی بجائے انتخاب کے راستے سے کیوں حکومت میں اقتدار حاصل نہیں کرتے۔ اگر وہ واقعی قوم کے نمائندے ہیں جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو پھر انہیں اسمبلی کا ممبر ہونا چاہئے نہ کہ ایڈوائزری بورڈ کا اور اگر وہ اسمبلی کے ذریعہ قوم کے نمائندے نہیں بنتے تو پھر دوباتوں میں سے ایک ضرور ماننی پڑے گی۔یا تو یہ کہ قوم ان کی مزعومہ ''اسلامی حکومت'' نہیں چاہتی اور یا یہ کہ وہ قوم کے نمائندے نہیں ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں صاف ظاہر ہے کہ ان کے ایڈوائزری بورڈ کی کیا حیثیت ہو گی۔
مشرقی بنگال اور مغربی پاکستان میں برابری
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ مشرقی بنگال کو
مغربی پاکستان کے مساوی نمائندگی کیوں دی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ اسلام کی رو سے تمام مسلمان برابر ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان مسلمان ہو گئے ہیں؟ کیا مغربی پاکستان میں صوبائی عصبیت موجود نہیں ہے؟ کیا سرحد، بلوچستان اور سندھ میں یہ روح نہیں پائی جاتی ؟ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ بنگال مستحق مبارکباد ہے جو تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود برابری پر راضی ہو گیا۔ پس میرے نزدیک بے شک اس برابری پر اعتراض کیا جائے مگر اس وقت جب خود مغربی پاکستان کے صوبوں میں عصبیت کی روح نہ رہے اور جب مغربی پاکستان خود اپنے اندر اسلامی روح پیدا کر کے مشرقی بنگال کے دل کو موہ لے اور عملی قربانی کا نمونہ پیش کرے، جب دل صاف ہو جائیں گے تو پھر بے شک بنگال والوں کی بد گمانی کو نا مناسب قرار دینا مگر خود ایسا تعصّب کرنا اور پھر اس برابری پر اعتراض کرنا ہمارے مُنہ سے زیب نہیں دیتا۔
میرے نزدیک ایک بڑی بھاری کوتاہی ان سفارشات میں یہ ہوئی ہے کہ کشمیر کے پاکستان میں داخل ہونے کے متعلق کوئی دفعہ نہیں رکھی گئی حالانکہ سفارشات میں یہ ہونا چاہئے تھا کہ اگر کوئی نیا مُلک یا رقبہ پاکستان میں شامل ہو تو اسے کن اصولوں کے ماتحت نمائندگی دی جائے گی۔’’(الفضل 31دسمبر 1952ء)
‘‘یہ تو ابتدائی باتیں تھیں اب میں اصل تقریر کو لیتا ہوں۔
وفات حضرت امّاں جان
میرے نزدیک اس سال کا بلکہ ہماری جماعت کی تاریخ میں سے ایک خاص عرصہ کا اہم واقعہ
وفات حضرت امّاں جان ہے ۔حضرت امّاں جان ایک زنجیر تھیں ہمارے درمیان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ نام اولاد کے ذریعہ چلتا ہے لیکن اولاد پھل تو ہے، درخت کا اپنا حصّہ نہیں۔ ہاں ایسی بیوی جس کے متعلق خداتعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حصّہ ہو گی وہ بے شک حصّہ حقیقی معنوں سے ہی ہو گی، گو ہر بیوی میں یہ قابلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے خاوند کا حصّہ ہونے کا حق ادا کرے۔ تم آم کے درخت کے آدھے حصّہ کو کہتے ہو کہ یہ درخت کا ایک حصّہ ہے۔ یعنی تمہارے سامنے کیسے ہی عمدہ لنگڑے آم رکھ دیئے جائیں تم انہیں آم کے درخت کا حصّہ نہیں کہہ سکتے۔ تو حضرت امّاں جان کی وفات کے ساتھ وہ مادی زنجیر جو ہم نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھی ٹوٹ گئی ہے۔ آپ کی وفات کے ساتھ وہ مادی واسطہ جو ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان تھا جاتا رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ عام حالات سے زیادہ جو ان کے متعلق بات تھی وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامات میں آدم کا نام دیا گیا ہے اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ تمام انبیاء میں سے خصوصیت کے ساتھ جس نبی کے کاموں میں اس کی بیوی کو شریک کیا گیا ہے وہ حضرت آدم ؑ ہیں جو باقی انبیاء آتے رہے یہ نہیں کہ ان کی بیویاں ادنیٰ درجہ کی تھیں۔ بے شک وہ بھی بڑے اعلیٰ درجہ کی تھیں لیکن الٰہی حکمت کے ماتحت جس طرح حضرت آدم ؑ کی شریک حال حضرت حوّا کو بنایا گیا اس طرح دوسرے انبیاء کی بیویوں کو نہیں بنایا گیا۔ پس حضرت مسیح موعود ؑ کا نام جو آدم رکھا گیا ہے اور آپ کی بعثت کو جو آدم ؑ کی بعثتِ ثانیہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آپ کی بیوی کو آپ کے کاموں میں شریک کیا گیا ہے۔ مگر اس حد تک بات ہوتی تو یہ صرف ایک منطقی نتیجہ ہوتا لیکن میں اب بتاتا ہوں کہ اس کا ایک معیّن ثبوت ملتا ہے۔ احادیث میں آیا ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مسیح موعود ؑ کے متعلق فرماتے ہیں یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ1 کہ وہ شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی۔ ظاہر ہے کہ شادی تو سارے انبیاء نے کی تھی سوائے حضرت مسیح علیہ السلام کے۔ جن کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے شادی نہیں کی لیکن قرآن کریم سے جو کچھ ثابت ہے یہی ہے کہ سب نبیوں کی بیویاں بھی تھیں اور بچے بھی تھے۔ کیونکہ فرماتا ہے۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّيَّةً 2 یعنی ہم تجھ سے پہلے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیویاں اور بچے عطا فرمائے تھے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سب رسولوں کی بیویاں تھیں اور ان کے ہاں اولاد بھی تھی۔ پس حضرت مسیح ناصری اس گروہ سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اس کے باوجود جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ وہ شادی بھی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہو گی تو اس کا کیا مطلب تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ سب سابق مامورین ایسا ہی کر چکے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں خصوصیت کے ساتھ ایک بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپؑ کی بیوی آپؑ کی شریکِ حال بننے والی تھی اور چونکہ یہ ایک خصوصیت تھی جس میں سب سابق مامور شامل نہ تھے سوائے چند کے جن میں سے نمایاں مثال حضرت آدم ؑ کی تھی۔ پس یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗکے الفاظ سے آنے والے موعود کی بیوی کی اہمیت ظاہر کی گئی تھی۔ پھر ہم اس زمانہ سے نیچے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اُمتِ محمدیہ کے بعض اور بزرگوں نے بھی اپنی پیشگوئیوں میں یہ بات بیان کی ہے۔ حضرت امّاں جان دہلی کی رہنے والی تھیں۔ آپ کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ خواجہ محمد ناصر تھے۔ آپ کے والد بادشاہِ وقت کے خاص درباریوں میں سے تھے اور نواب کا خطاب رکھتے تھے اور خواجہ محمد ناصر بھی فوجی افسر تھے۔ آپ کے وقت کا بادشاہ محمد شاہ تھا۔ ایک دن الٰہی منشاء معلوم کر کے آپ نے محمد شاہ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ آپ کو اس نے بہت سمجھایا کہ استعفیٰ واپس لے لو۔ آپ کا مستقبل بہت روشن ہے لیکن آپ نے کہا میری خدا تعالیٰ سے لَو لگ گئی ہے۔ اب مَیں یہ خدمت سر انجام نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ گھر آگئے اور عبادت میں لگ گئے۔
ایک دن آپ دروازے بند کر کے عبادت کر رہے تھے اور حجرہ میں بیٹھے بیٹھے کئی دن اور کئی راتیں گزر گئیں تھیں کہ آپ کو کشف میں امام حسن علیہ السلام نظر آئے۔ حضرت امام حسن نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ مجھے میرے نانا نے بھیجا ہے کہ مَیں تم کو آپ ؐ کی طرف سے روحانیت کی خلعت دے آؤں۔ آپؐ نے فرمایا کہ خواجہ محمد ناصر سے کہہ دینا کہ یہ تحفہ جو تمہیں ملتا ہے ایسا ہے جس میں تجھے مخصوص کیا گیا ہے اس لئے تم اپنے طریقہ کو طریقۂ محمدیہ کہو اور فرمایا:
‘‘یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادۂ نبوت نے تیرے واسطے مخصوص رکھی تھی اس کی ابتدا تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدیٔ موعودؑپر ہو گا۔3 گویا خواجہ محمدناصر جو خواجہ میر درد کے والد اور حضرت امّاں جان کے پڑنانا تھے کو دو سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ تمہارا سلسلہ مہدیٔ موعود ؑ سے مل جائے گا۔ اب ملنے کے دو ہی معنے ہیں۔ یا تو خواجہ صاحب خود حضرت مہدیٔ موعود کے مرید ہوتے لیکن مرید تو خواجہ صاحب ہوئے نہیں کیونکہ آپ مہدی موعود کے ظہور سے بیسیوں سال پہلے فوت ہو گئے اور یا پھر آپ کے خاندان کا رشتہ آنے والے مہدی کے خاندان کے ساتھ ہو جاتا اور خدا تعالیٰ نے یہی دوسرا طریق اختیار کیا۔ یعنی آپ کی نواسی کی شادی مہدی موعود ؑ سے ہوئی اور اس طرح خواجہ صاحب کا سلسلہ محمدیہ اور حضرت مہدی موعود ؑ کا سلسلہ دونوں مل گئے۔ بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ میخانہ ٔ درد میں لکھا ہے کہ گدّی پر بیٹھنے کا کسی اور خاندان کا حق تھا لیکن الٰہی منشاء یہ تھا کہ وہ اس نسل کو بدل دے۔ سیّد محمد نصیر صاحب جو اپنے ماموں محمد بخش کے لا ولد فوت ہو جانے کی وجہ سے ان کی گدّی پر بیٹھے تھے ان کی وفات پر خلافت کا جھگڑا اُٹھا تو خاندان کی ایک بڑھیا عورت سے مشورہ کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس کو وہ کہے اسے گدّی پر بٹھا دیا جائے۔ چنانچہ اس بڑھیا نے مشورہ دیا کہ اپنے بزرگوں کا ہم پلّہ خاندان میں تو کوئی نظر نہیں آتااس لئے میرے نزدیک میاں ناصرمیر جو خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ ہیں انہیں گدّی پر بٹھا دیا جائے۔ میاں ناصر میر کے خلیفہ منتخب ہو جانے کے بعد سلسلہ محمدیہ منتقل ہو کر ایک دوسرے خاندان میں آ گیا۔ جو ماں کی طرف سے خواجہ میر درد کا خاندان تھا اور باپ کی طرف سے نواب خاندوران خان4 کا خاندان تھا۔ یہ گویا دوسری پیشگوئی تھی کہ سلسلہ محمدیہ اب مہدی موعود ؑ کے سلسلہ میں مدغم ہو جائے گا۔ پھر اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھا ہے:
''اور یہ نسبت محمدیہ الخالصہ حضرت امام موعودؑکی ذات پاک پر ختم ہو گی اور تمام جہان ایک نورسے روشن ہو گا اور اس نیّرِ اعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی ''۔ 5
یعنی خصوصیت سے جو یہ سلسلہ بنایا جا رہا ہے یہ حضرت مہدی معہود ؑ پر ختم ہو جائے گا پھر ایک نیا سلسلہ قائم ہو گا۔ اس میں بھی پہلی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے دو ہی معنے تھے کہ یا تو آپ کی اولاد میں سے مہدی ہو یا ان کی بیٹی مہدی موعود کے ساتھ بیاہی جائے۔ یہ دونوں اقتباسات میخانہ ٔ درد کے ہیں جو ناصر خلیق ابن ناصر نذیر فراق کی تصنیف ہے۔
پھر حضرت امّاں جان کے وجود کی اہمیت کا پتہ اس بات سے بھی لگتا ہے کہ ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ کسی کو یہ خیال بھی نہیں تھا کہ یہ شادی ہو گی بھی یا نہیں کہ اس وقت حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہؤا جو تذکرہ کے صفحہ 29 پر درج ہے۔ یہ الہام شادی سے تین سال قبل ہؤا کہ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَأیْتَ خَدِیْجَتِیْ6 تُو میری نعمت کا شکر کر کہ جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مددگار کے طور پر حضرت خدیجہ ؓ ملی تھیں اسی طرح تجھ کو بھی خدیجہ ملنے والی ہے۔ یہ الہام اس وقت ہؤا جب ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ یعنی یہ بھی نہیں تھا کہ شادی ہو جانے کی وجہ سے حضرت امّاں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی خدمت کی ہوجس کی بناء پر خدا تعالیٰ نے آپ کی تعریف کی ہو بلکہ ابھی تک شادی کا نام بھی نہیں تھا۔ یہ الہام 1881ء میں ہؤا اور شادی 1884ء میں ہوئی۔
پھر اس الہام کے قریب ایک اور الہام ہؤا جو تذکرہ صفحہ 36پر درج ہے اور وہ یہ ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَ النَّسَبَ 7
خدا تعالیٰ ہی کو سب تعریف حاصل ہے جس نے تمہارے لئے سسرال بھی بڑے اعلیٰ درجہ کے تجویز کئے اور تم کو بھی ایک اعلیٰ خاندان سے پیدا کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر اس الہام کو بیان فرمایا کرتے تھے۔ یہ الہام بھی شادی سے تین سال پہلے کا ہے۔ یہ جو سسرال کی تعریف کی گئی ہے مَیں سمجھتا ہوں کہ اس میں خواجہ محمد ناصر کی پیشگوئی کی طرف اشارہ تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا سلسلہ محمدیہ، مہدی معہود ؑ کے سلسلہ سے مل جائے گا۔ مہدی معہود ؑ خواجہ محمد ناصر کی اولاد میں سے تو نہ ہوئے۔ ہاں آپ کی ایک نواسی ان سے بیاہی گئی اور اس طرح یہ سلسلہ محمدیہ ، مہدی معہود ؑ کے سلسلہ سے مل گیا اور وہ پیشگوئی ظاہری طور پر بھی پوری ہو گئی۔
پھر شادی سے ایک سال پہلے یہ الہام ہؤا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ 8 کہ اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں اکٹھے رہو۔ یہ الہام تذکرہ صفحہ 69 پر درج ہے اور 1883ء کا ہے۔ ابھی بیوی آئی نہیں کسی کو یہ پتہ نہیں کہ شادی ہو گی بھی یا نہیں کہ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتاتا ہے کہ بیوی آرہی ہے تُو اور تیری بیوی ایک جنت میں رہو۔ اب دیکھو ان پیشگوئیوں کا آپس میں کیسا گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ پہلے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ مہدی معہود ؑ شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی۔ پھر حضرت خواجہ میر ناصر پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ان کا سلسلہ محمدیہ مہدی معہود ؑ کے سلسلہ کے ساتھ مل جائے کا۔ یعنی میرا مہدی معہود سے ایسا رشتہ ہو جائے گا کہ میرا سلسلہ اس کے سلسلہ میں مدغم ہو جائے گا۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے شادی سے تین سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا ہے کہ ایک عورت ایسی آنے والی ہے جو تیرے کاموں میں اسی طرح مددگار ہو گی جیسے حضرت خدیجہ ؓ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاموں میں مددگار تھیں۔ پھر فرماتا ہے تو اور تیری بیوی دونوں اکٹھے جنت میں رہو گے۔ تمہاری زندگی خوشی کی زندگی ہو گی۔ تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ تمہاری مقامِ قُرب میں وفات ہو گی اور تم دونوں کا جنت میں اکٹھا مقام ہو گا۔ یہ الہام 1883ء کا ہے جو تذکرہ صفحہ 69 پر درج ہے۔
پھر ساتھ ہی الہام ہؤا یَآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ9 اے احمد! تُو اور تیری بیوی جنت میں رہو۔ بعض متشکک طبائع ہوتی ہیں وہ کہہ سکتی ہیں کہ یہاں حضرت آدم ؑ کا ذکر ہے۔ حضرت مرزا صاحب کا نہیں اس لئے ایک طرف تو یہ الہام کیا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ اور دوسری طرف یہ الہام کیا کہ یَآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۔ گویا یہ بتایا کہ جب ہم نے آدم کا لفظ کہا ہے تُو اس سے مراد تُو ہے یعنی اس الہام میں نام لے کر بتا دیا کہ تو اور تیری بیوی اکٹھے جنت میں رہو۔
اب لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ہمیں یہ الہام سنا دیا ہمیں اس سے خوشی ہوئی لیکن یہاں یہ شُبہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو کہا تھا اے آدم اور اے احمد! تُو اور تیری بیوی اکٹھے جنت میں رہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان میں دفن ہیں اور حضرت امّاں جان ربوہ میں دفن ہوئیں۔ یہ اکٹھے کیسے ہوئے۔ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے الہام میں یہ نہیں کہا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ فِی الْمَقْبَرَۃِ الْجَنَّۃِ۔ کہ اے آدم! تُو اور تیری بیوی دونوں بہشتی مقبرہ میں رہو بلکہ یہ کہا ہے کہ تُو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو۔ اب جنت میں تو سب اکٹھے ہوتے ہیں اگر اس سے دُنیوی زندگی مراد ہے تو آپ دونوں اکٹھے رہے اور اگر اس سے اُخروی زندگی مراد ہے تو جنت میں آپ دونوں اکٹھے ہو جائیں گے۔ جنت کے لئے یہ سوال نہیں ہوتا کہ کوئی شخص مکّہ میں فوت ہو یا مدینہ میں، عرب میں فوت ہو یا جاپان میں فوت ہو، یا امریکہ میں فوت ہو۔ جنت میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے اور مومنوں کے لئے اس میں ایک بشارت دی گئی ہے۔ اس الہام کے الفاظ ایسے ہیں کہ وہ اپنا مضمون بھی پورا کر جاتے ہیں اور مومنوں کے لئے اس میں ایک بشارت بھی ہے اور وہ بشارت یہ ہے کہ اگر یہاں جنت کے معنی مقبرہ بہشتی کے لئے جائیں تو یہ پیشگوئی بن جاتی ہے کہ اے احمد! تُو اور تیری بیوی اس مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گے۔ یعنی تمہارے لئے یہ مقدر تھا کہ قادیان سے ہجرت ہوگی تم قادیان سے نکالے جاؤ گے۔ تمہارے دل زخمی ہوں گے سو تم گھبرا کر کہو گے کہ یا الٰہی اب کیا کریں۔ ہم نے حضرت امّاں جان کو قادیان سے باہر دفن کیا ہے لیکن تو نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ آپ مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گی تو اس الہام میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ مَیں انہیں قادیان پہنچاؤں گا۔ گویا مومنوں کو یہ امیددلائی گئی ہے اور یقین دلایا گیا ہے کہ مَیں تمہیں قادیان ضرور دوں گا اور حضرت امّاں جان مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گی۔ پس خدا تعالیٰ نے پہلے سے یہ پیشگوئی کر دی اور بتا دیا کہ حضرت امّاں جان کا یہاں آنا تمہارے لئے تسلی کا موجب ہے کہ تم ضرور قادیان واپس جاؤ گے۔
تیسرے خدا تعالیٰ نے تمام پیشگوئیوں میں مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئیوں کا متمم قرار دیا ہے۔ متعدد پیشگوئیاں پچھلے انبیاء کی بھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے بھی اس کا پتہ لگتا ہے۔ جیسے مصلح موعود کی پیشگوئی میں بتایا گیا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے مجھے بھی کئی دفعہ اس کے متعلق اشارہ کیا ہے لیکن چونکہ مَیں مامور نہیں ہوں اِس لئے مَیں ان باتوں پر زور نہیں دیتا۔ مامور اپنے الہامات کو دُہراتا رہتا ہے اور اس کے الہامات لوگوں کے کانوں میں بار بار پڑتے رہتے ہیں اس لئے وہ باتیں پکّی ہو جاتی ہیں۔ مَیں اپنی رؤیا کا ذکر تو کر دیتا ہوں لیکن یہ ذکر برسبیلِ تذکرہ ہوتا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ ان کی ہر وقت تبلیغ ہوتی رہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک بار بار لوگوں کے کانوں میں کوئی بات نہ ڈالی جائے متشکک طبائع کو شُبہ رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کا مُنہ بند کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت امّاں جان کو زندگی دی اور آپ کو ربوہ میں میرے ساتھ لایا اس لئے کہ مسیح اوّل نے جب ہجرت کی تھی تو اُن کی والدہ اُن کے ساتھ آئی تھیں اور وہیں دفن ہوئی تھیں جہاں حضرت مسیح ؑ ہجرت کر کے گئے تھے۔ تو اﷲ تعالیٰ حضرت امّاں جان کو میرے ساتھ لایا تا متشکک لوگ یہ نہ کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو مشابہت مسیح اوّل سے تھی وہ آپ کے وجود پر پوری نہیں ہوئی آپ کے بیٹے پر پوری ہوئی۔ جماعت کے بعض منافق لوگ جن کا مجھے علم ہے اور جن کی باتیں مجھے پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے بعض دلیری سے اپنی مجالس میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ربوہ کا بہشتی مقبرہ بنا تو ایسے لوگ اپنی مجالس میں اکثر کہتے رہتے ہیں کہ یہ بات تو عجیب ہے کہ جہاں چاہا مقبرہ بہشتی بنا لیا۔ وہ احمق یہ نہیں سمجھتے کہ بعض لوگ ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کے مقبرہ بہشتی بنانے سے مقبرہ بہشتی بن جاتا ہے۔ تمہارا اس میں کیا اختیار ہے لیکن چونکہ میں مامور نہیں اس لئے یہ بات بار بار دُہرا نہیں سکتا لیکن منافق اپنی مجالس میں اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ یہاں بھی بہشتی مقبرہ بن گیا ہے۔ اب اﷲ تعالیٰ نے حضرت امّاں جان کو یہاں دفن کروادیا ہے۔ ایسا کیوں ہؤا۔ اب یہ لوگ بتائیں کہ یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی غلط ہوئی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۔
کیونکہ آپ خود تو قادیان میں دفن ہوئے اور حضرت امّاں جان یہاں ربوہ میں دفن ہوئیں اور یا اس الہام نے یہ بتادیا ہے کہ یہ مقبرہ بھی بہشتی مقبرہ ہے اور قادیان کے بہشتی مقبرہ کا ہی ایک حصّہ ہے۔ گویا اس بہشتی مقبرہ کے بنانے میں جو مُشکل میرے سامنے آئی تھی الٰہی فعل نے اسے حل کر دیا۔ مَیں مامور نہیں تھا، میری زبان بند تھی، مَیں ایسے مقام پر نہیں تھا کہ اس اعتراض کا جواب دے سکوں۔ سو خدا تعالیٰ نے حضرت امّاں جان کو یہاں دفن کر کے ان لوگوں کا مُنہ بند کر دیا۔ اب انہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ اور یَآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ جھوٹا تھا کیونکہ آدم وہاں دفن ہیں اور حوّا یہاں۔ احمد وہاں دفن ہیں اور ان کی بیوی یہاں اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ جگہ بھی بہشتی مقبرہ ہے۔ غرض اس الہام نے یہ واضح کر دیا کہ میرا قدم خدا تعالیٰ کی منشاء کے عین مطابق تھا۔ اسی طرح وہ پہلی پیشگوئیوں کے بھی عین مطابق تھا۔ اس مقبرہ کو بِلا کم و کاست وہی پوزیشن حاصل ہے جو مقبرہ بہشتی قادیان کو حاصل ہے۔ پورے سو فیصدی سو میں سے ایک حصّہ بھی کم نہیں ورنہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ والی بات نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹی تھی۔
اُوپر کے الہامات کے علاوہ ایک اور الہام بھی تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہؤا اور وہ یہ ہے إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔10 یہ الہام 20ستمبر 1907ء کو ہؤا اور تذکرہ صفحہ677 پر درج ہے یعنی مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور اہل میں سے سب سے مقدم بیوی ہوتی ہے۔ پھر یہی الہام 21ستمبر 1907ء کو بھی ہؤا۔ 5نومبر 1907ء کو بھی ہؤا پھر 2دسمبر 1907ء کو بھی یہ الہام ہؤا۔ گویا ایک سال کی آخری چہار ماہی میں یہ الہام چار دفعہ ہؤا۔
اب عجیب بات یہ ہے کہ ایک تو شادی سے پہلے یہ الہامات ہوئے جن میں حضرت امّاں جان کا ذکر تھا، پھر شادی کے قریب الہام ہؤا، پھر یہ سلسلہ ایک لمبے عرصہ تک بند رہا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہونے والی تھی تو بیوی کا ذکر دوبارہ شروع ہو گیا۔ یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کو توارد کون کہہ سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قادیان میں پیدا کیا جو ایک گمنام بستی تھی۔ آپ کو ایک ایسے خاندان میں پیدا کیا جو اس زمانہ کے اعلیٰ درجہ کے خاندانوں میں سے ایک تھا پھر ایک پیر خاندان میں رشتہ کیا جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ہمیں وہ کمال ملا ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اَور کسی کو نہیں ملا۔ پھر بڑی مُشکل یہ تھی کہ حضرت امّاں جان کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحب اہل حدیث تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ اہل حدیث کے نام سے گھبراتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ ان لوگوں میں روحانیت نہیں ہوتی یہ لوگ متشکک ہوتے ہیں اس خاندان میں آپ کی شادی ہوئی۔ شادی سے پہلے بیوی کا ذکر الہامات میں آتا ہے لیکن جب شادی ہو جاتی ہے تو یہ ذکر ختم ہو جاتا ہے۔ پھر عین تیس سال کے بعد جب حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو پھر الہامات میں بیوی کا ذکر آجاتا ہے۔ یہ کون سے اتفاق کی بات ہے۔ یہ تو ایک بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ غیب کی طاقت نے یہ خبر دی۔
پہلے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ اب واقعہ کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ اس کا کیا مطلب تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے عین قریب بیوی کا ذکر آتا ہے یعنی إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔
إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ کے الہامات بار بار ہوتے ہیں۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر دی جارہی تھی تو ساتھ ہی آپ کو یہ تسلّی دی جارہی تھی کہ تمہارے بعد تمہاری بیوی کے ہم خود کفیل ہوں گے اور حضرت امّاں جان کو بھی یہ تسلّی دی کہ گو تم سے تمہارا خاوند جُدا ہو گا مگر ہم جُدا نہیں ہوں گے۔ ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے خود کفیل ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے پہلے تو آپ کا ذہن اس طرف نہیں جاسکتا تھا لیکن آپ کی وفات کے بعد جو فقرہ حضرت امّاں جان کی زبان پر بار بار آیا وہ یہی تھا کہ اے خدا! انہوں نے تو مجھے چھوڑ دیا ہے مگر تو مجھے نہ چھوڑنا۔ یہ وہی مفہوم تھا جو الہام إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ میں بیان کیا گیا تھا کہ ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں گے اور پھر حضرت امّاں جان کی زبان سے بھی کہلوادیا۔ پھر 19جنوری 1908ء کو یہ الہام ہوتا ہے کہ إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ 11 بعض متشککین جو ہمیشہ کریدتے رہتے ہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آدم کہا ہے۔ اب جس طرح اس سے مراد اصل آدم نہیں اسی طرح اہل سے مراد بھی اصل بیوی نہیں بلکہ یہاں جماعت مراد ہے۔ پس اس الہام کے ذریعہ ایسے لوگوں کی تسلی کر دی اور الہام میں بتا دیا کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں جو یہ ہے یعنی اس بیوی کے ساتھ ہوں۔ جماعت تو ایک تھی دو نہیں تھیں۔ اس لئے ھٰذہٖ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیویاں دو تھیں اس لئے ھٰذہٖ کہہ کر یہ بات پکّی کر دی کہ یہ وعدے خاص حضرت امّاں جان کے ساتھ ہیں۔
پھر 19مارچ 1907ء کو خواب میں دیکھا حضرت امّاں جان آئی ہیں اور آپ کہتی ہیں کہ ''مَیں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے'' یہ بھی اسی طرف اشارہ تھا کہ تم وفات پاؤ گے اور یہ صبر کا پورا نمونہ دکھائیں گی۔ آپ کہتے ہیں کہ مَیں نے ان کو جواب میں کہا ''اس سے تو تم پر حُسن چڑھا ہے'' 12یعنی اﷲ تعالیٰ نے تمہارے اس فعل کو پسند کر کے تمہیں درجہ اور زینت عطا کی ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا کہ ''اسّی یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم''13 اِس الہام پر بعض غیر احمدی مَلنٹے اعتراض کرتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں۔ خدا تعالیٰ کو تو شک نہیں پڑتا۔ کیا خدا تعالیٰ کو 85 یا 75 اور 76 کے ہندسے نہیں آتے۔ یہ کیا الہام ہے کہ ''اسّی یا اسّی پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم'' یہ خداتعالیٰ کا کلام نہیں لیکن یہ مولوی بھُول جاتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ یہ غلطی خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی کی ہے کیونکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ حضرت یونس ؑ کی نسبت فرماتا ہے وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ 14 یونس کو ہم نے لاکھ یا شاید لاکھ سے کچھ زیادہ کی طرف بھیجا۔ اب کیا خدا تعالیٰ کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا تھا۔ جس خدا کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا اس کو اسّی کا ہندسہ بھی بھُول سکتا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ اصل سوال تو بھُول چُوک ہے۔ جب بھُول چُوک ثابت ہو گئی تو اسّی اور لاکھ کا کیا سوال ہے۔
دراصل یہ حماقت کی بات ہے۔ یہاں کلام میں تحسین پیدا کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔ حسن کلام کے لئے ڈیفینیٹ (DEFINITE) بات پہلے بیان نہیں کی بلکہ الفاظ سے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ تم اسے لاکھ کہہ لو یا لاکھ سے زیادہ کہہ لو۔ مطلب یہ ہے کہ ہیں زیادہ۔ تو ایسے موقع پر اعداد کو بیان نہیں کیا جاتا۔ اگر خدا تعالیٰ یہاں لاکھ کہہ دیتا تو لوگ کہتے اس کا ثبوت دو کہ وہ واقعی ایک لاکھ تھے۔ پس ایک طرف لاکھ یا کچھ زیادہ کہہ کر کلام میں حُسن پیدا کر دیا اور دوسرے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اندازہ ہے اور اندازہ پر کوئی کیا اعتراض کرے گا۔
پس اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے حُسنِ کلام کے لئے قرآن کریم میں مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْیَزِیْدُوْنَ لاکھ یا لاکھ سے کچھ زیادہ کہا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی حُسنِ کلام کے لئے یہ طریق اختیار کیا گیا ہے لیکن اس کا ایک دوسرا جواب بھی ہے جو یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے یٰآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ کہہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امّاں جان کو ایک قبر میں دفن کیا ہے اور دونوں کو ایک جگہ رکھا ہے گویا دونوں وجودوں کو ایک وجود قرار دیا ہے اور عمر کے الہام میں دونوں ہی کی عمر بتائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے یعنی اسّی سے پانچ سال کم اور حضرت امّاں جان85 سال کی عمر میں فوت ہوئیں یعنی اسّی سے پانچ سال زیادہ۔ گویا الہام میں جو وحدتِ وجود بتائی گئی تھی اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امّاں جان دونوں کے وجود ہیں۔ ایک اسّی سال سے پانچ سال پہلے فوت ہو جاتا ہے اور ایک اسّی سے پانچ سال بعد فوت ہوتا ہے گویا الہام میں جس وجود کو ‘‘ تُو’’ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا اس کا ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال کم میں فوت ہو گیا اور ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال زیادہ عمر پاکر فوت ہو گیا اب یہ کتنی زبردست پیشگوئی بن جاتی ہے اور کس طرح اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دراصل یہ دو پیشگوئیاں ہیں اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وجود کو ہم نے ایک قرارد یا تھا اس کا ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال کم عمر پاکر فوت ہو گیا اور ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال زیادہ عمر میں فوت ہو گیا۔ اب یہ کسی کے اختیار کی بات نہیں تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے اور آپ کی بیوی جو مریض تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا لٹریچر آپ کی مرض سے بھرا پڑا ہے وہ تو 85 سال کی عمر میں فوت ہوں۔ اس الہام کے یقینا یہی معنے ہیں کہ اس کے ایک حصّہ میں ایک کی موت کی خبر دی گئی ہے اور دوسرے حصّہ میں دوسرے کی موت کی خبر دی گئی ہے۔
حضرت امّاں جان کو ایک پُرانی خواب آئی تھی۔ جب حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد آپ کی طبیعت گھبرانے لگتی تو آپ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے گھر چلی جاتیں۔ میر صاحب کو آپ نے نہایت محبت اور اخلاص سے پالا تھا اور میر صاحب کو بھی اپنی بہن کا بہت احترام تھا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے آپ جب گھبرا جاتیں تو میرصاحب کے ہاں چلی جاتیں۔ مجھے یہ بات بُری لگتی لیکن مَیں آپ کے ادب کی وجہ سے بولتا نہیں تھا۔ مَیں سمجھتا تھا کہ آپ کو مرکز میں رہنا چاہئے۔ ایک دن آپ میرصاحب کے ہاں سے تشریف لائیں تو آپ نے بتایا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مَیں صَفر میں فوت ہوئی ہوں۔ میرا ذہن فوراً اس طرف گیا کہ چلو اب موقع ہے انہیں مرکز میں ہی مستقل طور پر ٹھہرنے کے لئے کہہ دوں۔ مَیں نے کہا۔امّاں جان! صفر ص سے کیوں، س سے کیوں نہیں۔ میرے نزدیک تو اس خواب میں آپ کو بتایا گیا ہے کہ آپ سفر میں فوت ہوں گی اس لئے آپ سفروں سے پرہیز کریں۔ چنانچہ اس کے بعد آپ نے کوئی سفر نہیں کیا۔ میرے ساتھ سفر میں جاتی تھیں۔ یوں نہیں جاتی تھیں۔ جب آپ بیمار ہوتیں تو میری یہ کوشش تھی کہ مَیں انہیں پکّے مکانوں میں لے جاؤں تا سفرِ ہجرت کی حالت ختم ہو جائے۔ ابھی ہم کچے مکانوں میں ہی رہتے تھے۔ مَیں ڈاکٹروں سے کہتا اُن میں سے ایک حصّہ مان جاتا اور کہتا اچھی بات ہے وہاں کھلی ہوا ہو گی لیکن جب میں پکّے مکانوں میں جانے کی تیاری کرتا تو ڈاکٹروں کا دوسرا حصّہ پہلے حصّہ کو منا لیتا کہ ابھی انہیں وہاں لے جانا اچھا نہیں اور ان کی رائے بدل جاتی۔ اس طرح آپ کی وہ خواب پوری ہو گئی۔ ہم قادیان سے نکلے اور پیشتر اس کے کہ ہم اپنے مستقل گھروں میں آئے۔ سفرِ ہجرت میں ہی مستقل مکانوں میں آنے سے پہلے آپ وفات پاگئیں۔
مَیں نے ایک ماہ پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ میرا ایک بڑا دانت جو دو دانت کے برابر تھا نکل گیا ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ آپ میرے لئے ماں اور باپ دونوں کی جگہ تھیں۔ پس آپ کی وفات کے ساتھ مَیں نے ان دونوں کو کھویا۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ۔
ایک عرصہ پہلے مَیں نے ایک رؤیا دیکھی تھی جو الفضل میں شائع ہو گئی ہے وہ اس طرح تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیمار ہیں اور آپ نے بعض دیسی دواؤں کے نام لئے ہیں (یہ رؤیا الفضل 7اکتوبر 1951ء میں شائع ہو چکی ہے) شاید اس کا یہ مطلب تھا کہ طبیبوں کا علاج کیا جائے ڈاکٹروں کا علاج چھوڑ دیا جائے لیکن اُس وقت میرا ذہن اس طرف نہیں گیا۔ آپ کی وفات کی وجہ سے طبیعت پر ایسا اثر پڑا ہے کہ تین ماہ تو بخار چڑھتا رہا اور بائیں طرف نیم فالج کے دَورے بھی ہوتے رہے ہیں اور ابھی تک میں کام میں محنت نہیں کر سکتا اور جب سردی کا موسم آیا تو میری صحت اچھی ہونے لگی۔ جلسہ سے بیس دن پہلے میری طبیعت اچھی تھی۔ مَیں سمجھتا تھا کہ مَیں اچھا ہو گیا ہوں لیکن جب خشک سردی زیادہ ہو گئی تو میری طبیعت خراب ہو گئی اور جلسہ سے قبل دو دفعہ ضُعف کے دورے بھی ہو گئے۔ اس کی وجہ سے تفسیر کے کام میں بھی دیر ہو گئی ہے لیکن اب مَیں نے تفسیر کا کام شروع کر دیا ہے۔ میری آنکھوں میں چونکہ بچپن سے ہی ککرے ہیں اس لئے مَیں معمولی روشنی میں کام نہیں کر سکتا۔ بجلی آجائے گی تو مَیں راتوں کو زیادہ دیر تک بیٹھ کر کام کر سکوں گا۔ جلسہ کے دنوں میں دو دن رات کام کرنے بیٹھا تو آنکھوں میں خارش شروع ہو گئی۔
ربوہ کی تعمیر
دوسری بات مَیں تعمیر ربوہ کے متعلق لیتا ہوں۔ربوہ کی تعمیر اﷲ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان ہے یعنی یہ ایک مثال ہے جو پاکستان
اور ہندوستان میں پائی جاتی ہے کہ اتنی جلدی ایک اُکھڑی ہوئی قوم نے اپنا مرکز بنا لیا۔ جہاں تمہیں اَور فضائل دوسرے لوگوں پر حاصل ہیں وہاں یہ کیا کم فضیلت ہے۔ یہ ایک زندہ اور نمایاں فضیلت ہے جو تمہیں حاصل ہے۔ لوگ شور مچاتے ہیں کہ گورنمنٹ نے انہیں لاکھوں کی زمین کوڑیوں میں دے دی۔ زمین کیا دے دی۔ حکومت نے ایک اعلان شائع کیا تھا اور گورنمنٹ گزٹ میں یہ بات شائع ہوئی تھی کہ ہم یہ زمین بیچنا چاہتے ہیں کیا کوئی گاہک ہے جو یہ زمین خریدے۔ ہم نے کہا چلو ہم یہ زمین لے لیتے ہیں۔ جب کوئی اور گاہک نہ آیا تو حکومت نے ہمیں یہ زمین دے دی۔ بعد میں اگر کسی کو حسد ہو جائے تو اس کا کون ذمہ دار ہے۔
دو سال کا عرصہ ہؤا ''زمیندار'' نے یہ بات شائع کی کہ حکومت نے پچاس لاکھ کی زمین احمدیوں کو کوڑیوں میں دے دی۔ مَیں نے اسی وقت اسے ایک تار دیا کہ زمین حاضر ہے تم وہ گاہک لاؤ جو اس زمین کے بدلہ میں پچاس لاکھ روپیہ دے گا مَیں اسے زمین دے دوں گا اور پھر زائد رقم جو ملے گی وہ مَیں خود نہیں رکھوں گا بلکہ زائد رقم مَیں گورنمنٹ کے خزانہ میں جمع کروا دوں گا۔ میری تار کا اُس نے جواب نہ دیا اور وہ چُپ ہو گیا۔ اگر واقعہ یہ تھا کہ کوئی شخص اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ روپیہ دیتا تھا تو چاہئے تھا کہ ''زمیندار'' کا ایڈیٹر اسے آگے لاتا، اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ تو کیا ہمیں اب پچاس کروڑ ملے گا لیکن یہ پچاس کروڑ روپیہ ملے گا اس مدرسہ کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس کالج کی وجہ سے جو آئندہ یہاں بنے گا، یہ روپیہ ملے گا ہسپتال کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس زنانہ کالج کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس دینیات کالج کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا ان دینی تعلیموں کی وجہ سے جو اس جگہ دی جارہی ہیں۔ یہ روپیہ ربوہ کی زمین کی وجہ سے کسی کو نہیں ملے گا۔ اب اس زمین کو لے کر دیکھ لو۔
عمرو بن معدی کربؓ ایک مشہور سپاہی تھے۔ حضرت عمر ؓ ان کی بہادری اور شمشیرزنی کے واقعات سُنتے رہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر ؓ بھی بہت بہادر تھے اور دلیر تھے لیکن عمرو بن معدی کربؓ کی طرح شمشیر زن نہیں تھے۔ ایک دفعہ عمرو بن معدی کربؓ حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تو آپ ؓ نے ان کی تلوار لے لی۔ آپؓ کو یہ شوق تھا کہ عمرو بن معدی کربؓ کی تلوار دیکھیں۔ آپؓ نے وہ تلوار ایک درخت پر ماری تو اس سے اس درخت کا بہت تھوڑا حصّہ کٹا۔ آپؓ نے فرمایا عمرو ؓ! مَیں تو سُنا کرتا تھا کہ تو ایک تلوار مارتا ہے تو اُونٹ کی چاروں ٹانگیں کاٹ دیتا ہے، تو تلوار مارتا ہے تو ایک ہی ضرب میں درخت کاٹ دیتا ہے مگر مَیں نے تلوار ماری ہے تو یہ درخت نہیں کٹا۔ یونہی معمولی نشان پڑا ہے۔ کیا یہی تلوار ہے جس کی سارے عرب میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ عمرو بن معدی کربؓ نے کہا یا امیرالمؤمنین! تلوار کا کام اونٹ کی چاروں ٹانگیں نہیں کاٹنا بلکہ وہ ہاتھ کاٹنا ہے جس میں یہ تلوار ہوتی ہے۔
پس زمین اب بھی گورنمنٹ کے پاس ہے۔ یہاں سے سرگودھا تک ربوہ کی زمین سے دس گنا زمین خالی پڑی ہے۔ اس زمین میں چار پانچ بڑے بڑے شہر بن سکتے ہیں۔ ایک جگہ تو قریباً سات ہزار ایکڑ زمین خالی پڑی ہے۔ جہاں سرگودھا کے لوگ اب چاندماری کرتے ہیں۔ جب ہم اس زمین کو دیکھنے گئے تو میرے ساتھیوں نے کہا یہ زمین پسند کر لیں یہ کھلی ہے۔ مَیں نے کہا ہمیں کھلی زمین کون دیتا ہے۔ تنگ زمین ہی لے لو۔ اب ان کو یہ تنگ زمین بھی نہیں پچتی۔
تو بہرحال گورنمنٹ کے پاس ابھی ایسی زمینیں موجود ہیں جس کو اس زمین پر اعتراض ہے وہ اب لے کر دیکھ لے۔ وہ ٹکڑا پسند کرے اور قیمت دے جائے اور شہر بنا لے مگر شرطیں وہی ہوں جو ہمارے ساتھ کی گئی ہیں کہ زمین صدر انجمن احمدیہ لے اور وہ آگے افراد کو دے پھر وہ وعدے کرے کہ اس میں سکول، کالج، ہسپتال اور دوسرے ضروری ادارے بنائے گی۔ پس جس طرح ہم نے گورنمنٹ کو لکھ کر دیا ہے وہ بھی لکھ کر دے دیں اور وہ سب کچھ بنائیں جو ہم بنا رہے ہیں پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ شہر کتنی جلدی آباد ہوتا ہے۔ ہم نے حکومت سے زمین لے کر ربوہ آباد کر دیا ہے لیکن حکومت جوہرآباد اور لیاقت آباد کے شہر آباد نہیں کر سکی۔ کیا مُلک کی ساری طاقت اس کے پیچھے نہیں تھی، کیا مُلک کا سارا روپیہ اس کے پیچھے نہیں تھا، پھر کیا حکومت نے وہ شہر آباد کر لئے ہیں؟ ربوہ روپے سے آباد نہیں ہؤا۔ ربوہ اس وجہ سے آباد نہیں ہؤا کہ حکومت نے ہمیں سستے داموں زمین دے دی تھی۔ ربوہ آباد ہؤا ہے ان گُدڑی پوشوں اور کھدّر پہننے والے لوگوں کے ایمانوں سے۔ یہ ایمان جو اِن پھٹے پُرانے کپڑے پہننے والوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ اگر دُنیا میں کہیں اور جگہ پایا جاتا ہو تو ایک ربوہ کیا ایک کروڑ ربوہ سال میں تیار ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ ایمان نہ ہو تو چاہے ہزار سال تک بھی احراری شور مچاتے رہیں وہ ہزار سال کے بعد بھی ربوہ جیسا شہر آباد نہیں کر سکیں گے۔ ان کی مثال وہی ہو گی جیسے کہتے ہیں ہتھ پُرانے کھونسڑے بسنتے ہوری آئے۔
ایک اخبار نویس نے جو ہم سے اچھا تعلق رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک دفعہ کہیں لاہور کی نئی آبادی کی سیر کی۔ حکومت لاہور کے قریب نئی آبادی کر رہی ہے۔ مَیں اُس وقت کوئٹہ میں تھا۔ اس اخبار نویس نے یہ لکھا کہ مَیں نے ربوہ بھی دیکھا ہے۔ وہ بھی کوشش کر رہے ہیں اور ایک نیا شہر بنانا چاہتے ہیں اور مَیں نے لاہور کی آبادی کی نئی سکیمیں بھی دیکھی ہیں۔ لاہور افسر بھی نہایت مستعد معلوم ہوتے ہیں۔ وہ خوب زور سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور ربوہ کے لوگوں کے بھی بڑے بڑے ارادے ہیں۔ اب دیکھیں کون پہلے شہر بنا لیتا ہے۔ لاہور کی نئی آبادی کی سکیم پہلے مکمل ہوتی ہے یا ربوہ پہلے تیار ہوتا ہے۔ اس سفر میں درد صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔ مَیں نے انہیں کہا۔ آپ اس اخبار نویس کو ایک چٹھی لکھیں اور اس پر صرف ربوہ کا لفظ بریکٹ میں ڈال کر بھیج دیں۔ اب دیکھ لو کون سا شہر پہلے آباد ہؤا ہے۔ لاہور کی نئی آبادی کی جو سکیمیں بن رہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کچھ مکان بن گئے ہیں لیکن وہ بات نہیں جو یہاں ہے۔ ہمیں تو سامان بھی نہیں ملتا تھا۔ ہمیں اینٹیں نہیں ملتی تھیں، لکڑی نہیں ملتی تھی، لوہانہیں ملتا تھا۔ اینٹیں اب بنی ہیں لیکن وہ اتنی جلدی ختم ہوئی ہیں کہ دو بھٹوں کی اینٹیں ختم ہو گئی ہیں لیکن باوجود اس کو تاہ دامنی کے خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسا سامان دیا کہ سڑک پرسے گزرنے والوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک بہت بڑا شہر بن چُکا ہے۔ اﷲ تعالیٰ چاہے گا تو اگلے سال جب آپ جلسہ سالانہ پر آئیں گے تو ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ جلسہ گاہ کہاں بنائیں کیونکہ یہ جگہ زنانہ سکول کی ہے۔ لڑکیوں کا سکول یہاں بنے گا۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی اور اگلے سال یہ سکول بن گیا تو یہاں تقریریں نہیں ہو سکیں گی۔
پس حقیقت یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہؤا ہے اﷲ تعالیٰ کی برکتوں سے ہی ہؤا ہے۔ ہم قادیان سے نکل کر آئے تو یہاں دینیات کالج بھی بن گیا، ہائی سکول بھی بن گیا، زنانہ ہائی سکول بھی بن گیا، زنانہ کالج بھی بن گیا، لڑکوں کا کالج ابھی نہیں بنا۔ اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو وہ بھی بن جائے گا۔ بھلا وہ کون سے مہاجر ہیں جن کے پاس مشرقی پنجاب میں کوئی زنانہ کالج نہیں تھا مگر اُنہوں نے یہاں آکر بنا لیا ہو۔ یہ سب اﷲ تعالیٰ کی برکتیں ہیں۔ پھر یہاں آکر ہسپتال بنا لیا۔ پہلے چھپّر بنے ہوئے تھے اور چھت پر بانس ڈالے ہوئے تھے۔ انہی چھپّروں میں ہسپتال بھی تھا اور ڈاکٹر وہیں کام کرتے تھے۔ اُدھر گورنمنٹ اعلان کر رہی تھی کہ تم اتنی اتنی تنخواہیں لے لو لیکن کوئی ڈاکٹر کام کے لئے آگے نہیں آتا تھا۔ اِدھر چھپّروں میں اور معمولی تنخواہوں پر ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی دین ہے اگر دوسرے لوگوں نے بھی ربوہ جیسے شہر بنانے ہیں تو اس کا ایک ہی رستہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حضور سجدوں میں گر جائیں۔ اُسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور کہیں۔اے اﷲ! تُو ہی مدد فرما۔ تو دیکھیں کتنے ربوہ بنانے کی انہیں توفیق ملتی ہے۔
بہرحال یہاں بہت سے مکان بن چکے ہیں اور بہت سے مکانات ابھی بننے والے ہیں۔ کئی دوست تو ایسے ہیں جنہوں نے سُنا کہ وہ زمین جو ہم نے سَو میں خریدی تھی اب دو ہزار روپیہ میں بک رہی ہے تو اُنہوں نے زمین بیچنی شروع کر دی اور کئی لوگ جنہوں نے پہلے زمین نہیں خریدی تھی وہ اب دو دو ہزار میں زمین خرید رہے ہیں۔ ان لوگوں سے تو مَیں کہتا ہوں کہ تم نے ایک سو روپے میں زمین نہیں خریدی تھی اب دو ہزار میں خریدو۔ اﷲ تعالیٰ نے تم پر اُنیس سو روپے جرمانہ کیا ہے۔ مگر جو لوگ بیچ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں سے بعض معذور ہیں اور معذوری کی وجہ سے وہ زمین بیچ رہے ہیں لیکن کئی لوگ ایسے ہیں جو صرف دو ہزار روپیہ کے لالچ کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔
مجھے ایک قصہ یاد آ گیا۔ کوئی ماسٹر تھے وہ کہیں ملازم تھے دس بیس سال تک گھر نہ آئے اُن کی بیوی نے اُنہیں لکھا کہ تم اپنی ان بیٹیوں کا تو خیال کرو۔ میری زندگی تو برباد ہوئی ان کی زندگی تو برباد نہ کرو۔ ان کے دوستوں نے بھی انہیں مشورہ دیا کہ وہ گاؤں ضرور جائیں۔ چنانچہ وہ گاؤں جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ دس بیس میل پر ان کا گاؤں تھا۔ انہوں نے رتھ والے کو د س روپے دیئے اور اس میں بیٹھ کر گاؤں روانہ ہوئے۔ جب وہ اپنی منزل پر پہنچے تو وہ رتھ والے سے پوچھنے لگے کہ اب تم خالی جاؤگے۔ تمہیں بڑا نقصان ہو گا۔ رتھ والے نے کہا مَیں نے آپ سے اسی لئے دس روپے لئے تھے اب مَیں خالی بھی واپس چلا جاؤں تو مجھے کوئی نقصان نہیں۔ ماسٹر صاحب نے کہا اگر واپس جاتے ہوئے کوئی سواری مل جائے تو تم اس سے کیا لو گے۔ رتھ والے نے کہا مَیں نے دونوں طرف کا کرایہ آپ سے وصول کر لیا ہے۔ اب اگر کوئی مجھے ایک روپیہ بھی دے تو مَیں اُسے لے جاؤں گا۔ ماسٹر صاحب نے کہا تب ایک روپیہ مجھ سے لے لو اور مجھے واپس لے جاؤ۔ چنانچہ وہ اسی لالچ کی وجہ سے کہ رتھ والا انہیں اب ایک روپیہ میں واپس لے جار ہا ہے وہیں سے واپس چلے گئے۔
پس مَیں جب اُن لوگوں کو دیکھتا ہوں جو دو ہزار روپے کی لالچ میں زمین بیچ رہے ہیں تو مجھے یہ قصّہ یاد آجاتا ہے۔ تم نے سو روپے خرچ نہیں کئے تھے بلکہ اس کی زمین خریدی تھی۔ بہرحال یہ بھی اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی علامت ہے۔ اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں۔ پیغامی اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے جماعت پر قبضہ کر لیا ہے۔ احراری بھی سُبْحَانَ ﷲِکیا کیا باتیں بناتے ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ان کو یہ موقع نصیب نہیں ہؤا کہ وہ ربوہ جیسا شہر آباد کر سکیں۔ گورنمنٹ کے گزٹ میں لکھا ہؤا موجود ہے کہ پچھلے ہزار سال سے یہاں کوئی آبادی نہیں تھی بلکہ یہاں تک لکھاہے کہ یہ زمین ایری گیشن (IRRIGATION)کے ناقابل ہے اور نان کلٹی ایبل (NON CULTIABLE)ہے یعنی اس زمین کے متعلق ہے کہ یہاں آب پاشی اور زراعت نہیں ہو سکتی۔ یہ زمین دوسری زمین سے 23 فٹ بلندہے۔ پانی چڑھے کہاں اور پھر پانی نمکین ہے۔ سوائے اس کے کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ یہاں میٹھا پانی نکلے گا تو یہاں میٹھا پانی نکلنا شروع ہؤا اور وہ بھی ابھی کچھ حصّہ سے نکلنا شروع ہؤا ہے۔ ایسے کوردیہہ میں دو سال کے بعد دو دو ہزار کو زمین بِکنی شروع ہو گئی۔ آخر کسی کی عقل میں یہ بات نہیں آئی کہ اس شخص کے پاس کون سا جادو ہے کہ وہ مٹی کو ہاتھ لگاتا ہے تووہ سونا بن جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پیرا نامی ایک نوکر تھا جو بالکل جاہل تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ان لوگوں سے بھی بعض دفعہ بے تکلفی کا اظہار کر لیا کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے پیرے سے کہا۔ کیا تمہیں بھی دین کا کچھ پتہ ہے؟ پیرے نے جواب دیا کہ اَور تو مجھے کچھ پتہ نہیں۔ ہاں مَیں نے ایک دن مولوی محمد حسین سے بحث کی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے فرمایا اچھا تم نے مولوی محمد حسین سے بحث کی تھی۔ پھر انہوں نے کیا کہا؟ پیرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ملازم تھا۔ آپ اسے بلٹیاں دے دیتے تھے اور وہ اسے بٹالہ سے لانی پڑتی تھیں۔ اس نے کہا کہ مَیں جب بِلٹیاں لینے جایا کرتا تھا تو روزانہ مولوی محمد حسین کو دیکھتا کہ وہ اسٹیشن پر آتے اور اگر کوئی آدمی قادیان آنے والا دیکھتے تو اُسے کہتے مَیں مرزا صاحب کا پُرانا دوست ہوں، میرے ان سے تعلقات ہیں، مَیں جانتا ہوں کہ اُنہوں نے دکان بنائی ہوئی ہے اور کچھ نہیں۔ ان کی ان باتوں سے متاثر ہو کر کوئی تو واپس چلا جاتا اور کوئی ان کی باتوں سے اثر لئے بغیر قادیان آجاتا۔ پیرا کہنے لگا مَیں اسی طرح مولوی محمد حسین کو روزانہ اسٹیشن پر دیکھتا۔ ایک دن اتفاقاً مولوی صاحب کو قادیان جانے والا کوئی شخص نہ ملا۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا پیریا تُو نے کیوں اپنا ایمان خراب کر لیا ہے؟ کیا تو نے سوچا بھی ہے آخر مَیں اتنا بڑا عالم ہوں۔ مولوی صاحب کو یہ بڑا شوق تھا کہ لوگوں کو پتہ لگے کہ مَیں بڑا عالم ہوں اور اہل حدیث کا لیڈر ہوں۔ مولوی صاحب نے کہا مَیں اتنا بڑا عالم اور اہلِ حدیث کا لیڈر بھلا مرزا صاحب کو میرے مقابلہ میں کیا حیثیت حاصل ہے۔ کیا تو نے کبھی سوچا نہیں کہ اتنے بڑے عالم کو چھوڑ کر تو نے قادیان جاکر اپنا ایمان کیوں خراب کر لیا ہے؟ پیرا جاہلِ مطلق تھا۔ اُسے دین کا کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ وہ کہنے لگا۔ مولوی صاحب مَیں جاہل ہوں، مجھے دین کا کچھ بھی علم نہیں۔ یہاں تک کہ مجھے نماز بھی نہیں آتی۔ مَیں صرف ایک بات جانتا ہوں۔ علم والی بات تو مجھے نہیں آتی۔ مَیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مَیں اتنے سالوں سے مرزا صاحب کی بِلٹیاں چھڑانے کے لئے بٹالہ آرہا ہوں اور جب بھی یہاں آتا ہوں آپ کو اسٹیشن کے قریب ٹہلتے دیکھتا ہوں۔ آپ روزانہ ایسے آدمی کی تلاش میں رہتے ہیں جو قادیان جانے کا ارادہ رکھتا ہو تا آپ اسے قادیان جانے سے باز رکھ سکیں۔ خبر نہیں آپ کی یہاں آتے آتے کتنی جوتیاں گھِس گئی ہیں۔ اُدھر مَیں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب کوٹھری میں گھُسے ہوئے ہیں۔ چھ چھ گھنٹے لوگ دروازے کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب نکلیں تو وہ آپؑ کی زیارت کریں۔ لوگ یہاں سے یکّوں میں جاتے ہیں، پیدل جاتے ہیں، راستہ میں دھکّے کھاتے ہیں اور پھر وہاں گھنٹوں دروازہ کے آگے بیٹھے رہتے ہیں۔ تب کہیں مرزا صاحب کوٹھری سے باہر نکلتے ہیں اور وہ لوگ آپؑ کی زیارت کرتے ہیں اور خوش خوش وہاں سے واپس آتے ہیں لیکن مَیں کئی سال سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی کئی جوتیاں بھی گھِس گئی ہوں گی لیکن آپ لوگوں کو قادیان جانے سے باز نہیں رکھ سکے۔ آخر کچھ تو ہے جس کی وجہ سے آپ کی کوشش بار آور نہیں ہوتی۔ آخر ان علماء کہلانے والوں کو کیا اتنی بھی سمجھ نہیں کہ ایک شخص گاؤں کا رہنے والا ہے اس نے نہ کوئی دینی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ دنیوی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کی صحت خراب ہے۔ وہ کمزور ہے۔ جب وہ خلیفہ ہؤا تو جماعت کے امیر اور بڑے بڑے لوگ اس سے بگڑ گئے اور لاہور جاکر اُنہوں نے ایک علیحدہ انجمن بنا لی اور پھر بھی خدا تعالیٰ اُسے نہ صرف پاکستان میں کامیاب کرتا جارہا ہے بلکہ ساری دُنیا میں اُسے کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اسلام کے جھنڈے ساری دُنیا میں گاڑ دیئے ہیں۔ اس کے ذریعہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بادشاہت قائم ہورہی ہے۔ مگر پھر وہی زندیق اور کافر ہے۔ اگر زندیق اور کافر اسی کا نام ہے تو خدا تعالیٰ اس قسم کے زندیق اور کافر اسلام میں آئندہ بھی جاری رکھے تو اس میں اُمّت کا کتنا بچاؤ ہے۔
یہ یاد رکھو کہ یہاں جو مکان تم بناؤ گے اور جتنی جلدی تم بناؤ گے تو تمہیں اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اگر تم یہاں اپنے بیوی بچوں کو رکھو گے تو وہ تعلیم حاصل کریں گے اور اگر تم خود نہیں آؤ گے اور بیوی بچوں کو یہاں نہیں رکھ سکو گے تو مکان کا کرایہ ہی تمہیں ملے گا اور اس طرح روپیہ محفوظ رہے گا۔ بہرحال مکان ایک ایسی چیز ہے جس کی قیمت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کوئی آباد قصبہ ہو تو آج اگر دوہزار روپیہ کا مکان ہے تو کل وہ دس ہزار روپیہ کا ہو گا لیکن جو لوگ یہاں مکان نہیں بنا سکے اور اُنہوں نے یہاں زمین نہیں خریدی اور وہ اب یہاں خریدنے کے خواہش مند ہیں اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے نام دفتر آبادی ربوہ میں نوٹ کرا دیں۔ ہمیں قوی اُمید ہے کہ پانچ چھ سو مکانات کی جگہ مل جائے گی۔ تین سو کے قریب دوستوں نے اپنے نام لکھوا دیئے ہیں۔ جنہوں نے ابھی تک اپنے نام نہیں لکھوائے وہ اب لکھوا دیں۔ انہیں پانچ چھ ماہ کے بعد زمین مل سکے گی۔ اس کے بعد انہیں ربوہ کی حدود میں زمین نہیں مل سکے گی۔ سوائے اس کے کہ وہ ان لوگوں سے جنہوں نے پہلے زمین خرید کر لی تھی پانچ پانچ سات سات ہزار روپیہ پر زمین خرید لیں مگر جو لوگ مکان نہیں بنا سکتے انہیں مَیں تحریک کرتا ہوں کہ قومی کاموں میں زندگی کے آثار ہونے چاہئیں۔ جب تم اور جگہوں پر جاتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ تم یہاں نہیں آتے۔ یورپ میں ایک مزدور کو بھی سال میں چودہ دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں جن میں وہ دوسری جگہوں پر جاتے ہیں۔ تم بھی چودہ چودہ پندرہ پندرہ دن کے لئے یہاں آؤ اور اپنی خدمات سلسلہ کو پیش کرو۔ اگر اس طرح دس دس آدمی پندرہ پندرہ دن کے لئے سال بھر آتے رہیں تو سلسلہ دس آدمیوں کے خرچ سے آزاد ہو جائے گا۔ اگر 24 آدمی آتے ہیں تو سلسلہ 24 آدمیوں کے خرچ سے آزاد ہو جائے گا۔ 24 آدمی ایک افسر کا قائمقام ہو جاتے ہیں اور اگر 240 آدمی آجائیں تو وہ دس افسروں کے قائمقام ہو جاتے ہیں۔ دوسرے نئے آدمیوں کے آنے سے نئے ارادے اور نئے خیالات آتے رہتے ہیں۔
پھر ربوہ کی آبادی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ پنشنر دوست یہاں آئیں۔ مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پنشنر دوست پنشن لینے کے بعد بھی نوکری کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور کام کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ جب کسی کی اولاد جوان ہو گئی ہے اور کام کے قابل ہو گئی ہے تو اب انہیں آرام کرنا چاہئے اور جو دو چار سال زندگی کے باقی ہیں وہ خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کے کام میں لگانے چاہئیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ پنشن لینے کے بعد بھی نوکری کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور دو سو، چار سو روپیہ ماہوار حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں چلو نوکری تو ملتی ہے کرلو۔ مَیں پھر ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تو اپنی زندگی کو ضائع کرنے والی بات ہے۔ آخر تم خداتعالیٰ کو کیا جواب دو گے؟ اﷲ تعالیٰ کہے گا تم نے 55 سال نوکری کی اور جو زندگی کے دو چار سال باقی تھے وہ بھی تم نے دنیوی لالچ کے لئے خرچ کر دیئے۔ اگر تم نے مجھے پس خوردہ کھانا بھی نہیں دیا تو مَیں کیا سمجھوں کہ تمہارا مجھ سے کوئی تعلق ہے۔ یہ تو وہی بات ہو گی کہ کہتے ہیں کسی شخص کے دوست کی کُتیا نے بچے دیئے اُس نے اس سے کہا۔ مجھے کُتیا کا ایک بچہ دینا۔ اس نے کہا چھ بچے تھے وہ سارے مر گئے لیکن اگر وہ زندہ بھی ہوتے تو تمہیں کوئی بچہ نہ دیتا۔ یہ بھی وہی بات ہے کہ ساری زندگی تو مَیں نے دی نہیں۔ نوکری میں 55 سال خرچ کر دیئے ہیں لیکن اب جو دو چار سال زندگی کے پنشن لینے کے بعد باقی ہیں وہ بھی تمہیں نہیں دینے۔ تمہیں پنشن مل گئی ہے اولاد تمہاری جوان ہو گئی ہے وہ ملازم ہو گئی ہے اور انہیں تنخواہ ملنے لگ گئی ہے یا وہ اپنے کاموں میں لگ گئی ہے۔ اگر چار پانچ سَو تمہاری تنخواہ تھی اور اب تمہارے پاس ایک دو بچے رہ گئے ہیں تو دو اڑھائی سو روپیہ پنشن میں گزارہ ہو سکتا ہے۔ اگر پنشن میں گزارہ نہیں ہو سکتا تو پچاس روپے اور لے لو۔ تمہیں بھی فائدہ ہو گا اور دین کو بھی مدد ملے گی۔
پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ پنشنر دوست یہاں آئیں اور اپنی خدمات سلسلہ کو پیش کردیں۔ پنشنر کو تو دوبارہ ملازمت کرنا گناہ سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ وہ اب اس قابل ہو چُکا ہے کہ دین کی خدمت میں لگا رہے۔ جن کو اس سے زیادہ توفیق ملتی ہے وہ اپنی زندگیاں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ پہلے یہ سلسلہ شروع ہؤا تھا لیکن درمیان میں رُک گیا۔ اب پھر دیکھتا ہوں کہ کچھ دنوں سے ایک رَو چلی ہے بعض خطوط آئے ہیں جن میں بعض لوگوں کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ ہم اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ درمیان میں بھاگنے کی رَو زیادہ تھی اور مَیں نے بھی ڈھیل دے دی تھی کہ اچھا بھاگنا ہے تو بھاگ جاؤ۔ حالانکہ دین کے لئے زندگی پیش کرنے کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی ساری زندگی دین کو دے دیتا ہے اور اسے اس پر اختیار نہیں رہتا۔ تم یہی کہو گے کہ اس نے زندگی تباہ کر دی لیکن کیا دوسری قوموں نے مُلک کی خاطر اور قوم کی خاطر اپنی زندگیاں پیش نہیں کیں۔ کیا پچھلی جنگ کے موقع پر لاکھوں جرمنوں، انگریزوں، امریکیوں اور فرانسیسیوں نے اپنی جانیں پیش نہیں کی تھیں۔ تم میں سے دس بیس نے اگر دین کی خاطر اپنی زندگیاں پیش کر دیں تو تمہیں ان پر کوئی زائد فضیلت حاصل نہیں ہو گی۔ یہی چیز ان میں بھی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بھی اپنی زندگیاں قوم اور مُلک کو دیں اور تم نے بھی اپنی زندگیاں دین کی خاطر دیں۔ پس نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کریں تاکہ ان کی خدمات دین کے لئے مفید ہوں''۔ (غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
احرار کا فتنہ
‘‘اس سال احراریوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف جو فتنہ برپا کیا حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فتنہ گزشتہ دوسال سے
جاری تھا مگر اس سال اس نے خاص شدت اختیار کر لی تھی کیونکہ مُلک کے بعض عناصر نے اپنی اپنی سیاسی اور ذاتی اغراض کے ماتحت احراریوں سے جوڑ توڑ کرنے اور انہیں مُلک میں نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ احمدیت کی مخالفت اور اسی طرح چوہدری ظفراﷲ خاں صاحب کی مخالفت تو محض ایک آڑ تھی ورنہ اصل مقصد در پردہ اپنی سیاسی اغراض حاصل کرنا تھا۔ اس ایجی ٹیشن کی ابتدا تو انہی عناصر نے کی جو ہمیشہ پاکستان کے اور مسلم لیگ کے مخالف رہے ہیں، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنتا تو آہستہ آہستہ ایسے مولویوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کیا جو بظاہر مسلم لیگ کے مخالف نہ تھے اور غیر جانبدار سمجھے جاتے تھے مگر اپنی اغراض کے ماتحت آگے آنا چاہتے تھے۔ چنانچہ مختلف گروہوں میں سے ایسے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس کا نام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ رکھ دیا گیا اور تحفظِ ختم نبوّت کے نام سے ایجی ٹیشن شروع کر دی گئی۔ حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ بھلا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی ختم نبوّت کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کی مدد کی کیا ضرورت ہے۔ ان کی ختم نبوّت کا محافظ تو خود اﷲ تعالیٰ ہے اور ختم نبوت کا جو مفہوم جماعت احمدیہ بیان کرتی ہے وہی مفہوم صحابہ کرام اور اُمت کے بہت سے بزرگوں نے بیان کیا۔ پھر یہ مفہوم جماعت احمدیہ نے آج پیش نہیں کیا بلکہ ساٹھ سال سے پیش کر رہی ہے۔ پس آج کوئی بھی ایسی نئی بات اس مسئلہ کے متعلق پیدا نہ ہوئی تھی جسے اس ہنگامہ اور ایجی ٹیشن کی وجہ قرار دیا جاسکے۔ بہرحال یہ ایجی ٹیشن اشتعال انگیزی اور جھوٹے پروپیگنڈا کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ حتّٰی کہ حکومت کے بعض ذمّہ دار افراد بھی ایک حد تک اس سے متاثر ہو گئے کیونکہ وہ اصل حالات سے ناواقف تھے۔
ذمّہ دار افراد پر اظہار حقیقت
جہاں اس فتنے نے ہماری جماعت کے لئے نئی نئی مُشکلات پیدا کیں اور انفرادی طور
پر بعض احمدیوں کو نقصان بھی اُٹھانا پڑا وہاں اس کے بعض فوائد بھی ہمیں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئے۔ چنانچہ ایک فائدہ تو یہ ہؤا کہ مُلک کے جن ذمّہ دار افراد کو جھوٹے الزامات کے ذریعے جماعت احمدیہ سے بدظن کیا جارہا تھا ہمیں بھی انہیں سمجھانے کا اور اصل حقیقت واضح کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے بعد میں برملا کہا کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے احمدی اسلام کا اور قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں لیکن اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہ غلط ہے۔ احمدی بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا دیگر مسلمانوں کے ساتھ جو اعتقادی اختلاف ہے اسے صرف تفسیر اور تاویل کا اختلاف کہا جاسکتا ہے۔
بیرونی ممالک کے نمائندوں پر اس کا اثر
دوسرا اثر اس فتنے کا یہ ہؤا کہ کراچی میں جماعت احمدیہ
کے جلسہ میں چودھری ظفراﷲ خاں صاحب نے ''اسلام زندہ مذہب ہے'' پر تقریر کی۔ یہ مولوی بھلا یہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا جائے۔ انہوں نے اسلام کو زندہ مذہب ثابت کرنے کو اپنے لئے ایک بہت بڑی اشتعال انگیزی قرار دیا اور ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی۔ کراچی میں چونکہ بیرونی ممالک کے سفیر بھی موجود ہوتے ہیں اس لئے جب انہوں نے یہ حالات دیکھے تو ان پر یہ اثر ہؤا اور اسی اثر کے ماتحت انہوں نے اپنے اپنے مُلک میں رپورٹیں بھیجیں کہ احمدی جماعت ایک فعال جماعت ہے اور مولویوں کا طبقہ محض اعتقادی اختلاف پر عوام کو مشتعل کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو رہا ہے اور مذہبی تعصّب کو ہوا دے کر اسے ایک تنگ نظر مُلک بنانا چاہتا ہے۔ ان میں سے بعض نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ترقی کرنے والا مُلک ہے مگر اس ہنگامے کو دیکھ کر پاکستان کی ترقی کے متعلق ہمارے دل میں شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ گویا انہوں نے سمجھا کہ شاید یہی مولوی مُلک کی آواز ہیں حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ یہ لوگ پاکستان کا ایک چھوٹا سا جزو تو سمجھے جاسکتے ہیں مگر انہیں پاکستان کا دل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان کا دل اور ہے۔ بے شک لوگ وقتی اشتعال کے ماتحت ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں مگر مُلک کی حقیقی آواز ہر گز وہ نہیں ہے جو یہ لوگ بُلند کرتے ہیں۔ پس اس فتنے کا ایک فائدہ یہ ہؤا کہ غیرممالک میں ہمیں متعارف ہونے اور انہیں اسلام کی تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
بنگالی نمائندوں کی رائے
ایک اثر اس فتنے کا یہ ہؤا کہ بنگالی نمائندوں نے اصل حقیقت کو بھانپ لیا اور انہیں علم ہو گیا کہ
اہل غرض افراد مذہب کی آڑ میں سیاسی چالیں چل رہے ہیں۔ چنانچہ بنگال کے اخبارات میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب نے یہی لکھا کہ ہم اس گند کو جو مغربی پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے ہر گز بنگال میں نہیں آنے دیں گے۔
حکومت کی دھمکیاں
کراچی کے فساد کا ایک اور اثر یہ ہؤا کہ مُلک کے شریف اور سنجیدہ لیڈروں نے ان لوگوں کو سمجھانا
شروع کیا جو کسی نہ کسی رنگ میں اس فتنہ سے متأثر ہو رہے تھے اور انہیں اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا۔ پھر جب جماعت اسلامی نے جو حکومت کی کھلی مخالف ہے ہماری مخالفت میں آگے آنا شروع کیا تو سیاسی لیڈروں کی بھی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے محسوس کیا جماعت احمدیہ کے مخالف دراصل اس آڑ میں حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ جلد ہی اس کا ثبوت بھی مل گیا اور وہی لوگ جو شروع میں ہماری مخالفت کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہمیں سیاست سے یا حکومت کی مخالفت سے کوئی واسطہ ہی نہیں انہوں نے برملا حکومت کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں''۔
اس موقع پر حضور نے اخبار آزاد اور زمیندار میں سے متعدد ایسے حوالے پڑھ کر سنائے جن میں حکومت کے ذمّہ دار راہنماؤں کے نام لے لے کر کھلے طور پر یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبے نہ مانے تو ہم حکومت سے ٹکرائیں گے، بدامنی پیدا کریں گے اور جنرل نجیب کی طرح حکومت کا تختہ اُلٹا دیں گے۔ اس طرح ان حوالوں میں عوام کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ کسی لیڈر کا انتظار نہ کریں بلکہ خود آگے آکر مُلک میں بدامنی پیدا کریں۔فرمایا:-
‘‘ہمارے خلاف اِن فسادات کے ایّام میں حکومت نے اکثر مقامات پر دیانتداری سے کام کرنے اور حالات کو سدھارنے کی کوشش کی۔ اس نے جو اعلانات کئے وہ بھی درست تھے۔ گو عملاً بعض مقامات پر حکومت حالات پر قابو رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی’’۔
صوبائی مسلم لیگ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
مجھے خوشی ہے کہ مسلم لیگ کا رویہ بہت اچھا رہا اس نے اپنے ہر اجلاس میں دلیری سے اصل حالات کا جائزہ لیا۔پاکستان کے دوسرے صوبوں نے تو پنجاب سے بھی بہتر نمونہ دکھایا بالخصوص سرحد کے وزیراعظم نے تو بڑی دلیری سے اس فتنے کو بڑھنے سے روکا اور اسے دبایا۔ اسی طرح سندھ میں بھی شرارتیں محدود رہی ہیں اور اب تو پنجاب میں بھی حالات بہتر ہورہے ہیں گو پوری طرح فتنہ دبا نہیں ہے۔
بعض صریحاً غلط الزامات
جہاں مجھے خوشی ہے کہ اکثر مقامات پر حکومت نے دیانتداری سے کام کرنے کی کوشش کی ہے
وہاں مجھے افسوس ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق غلطیاں بھی کی ہیں مثلاً حکومت نے ایک اعلان میں یہ الزام لگایا ہے (گو نام نہیں لیا مگر اشارہ ہماری ہی طرف تھا)کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہبوں کو ملازمت میں بھرتی کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک ذمّہ دار افسر نے کہا کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھا کر احمدیوں کو ناجائز الاٹمنٹ کرتے ہیں۔ جو شخص اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ناجائز طور پر ایسے کام کرتا ہے اور اس طرح حق داروں کی حق تلفی کرتا ہے میرے نزدیک وہ نہ صرف حکومت کا مجرم ہے بلکہ قرآن کا بھی مجرم ہے کیونکہ وہ قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک فعل کا جرم ہونا کسی کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ بغیر تحقیقات کے کسی پر اس جرم کے ارتکاب کا الزام لگا دے۔ کیا حکومت کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ یہ الزام لگانے سے پیشتر اس شکایت کی تحقیقات کرتی اور یوں بغیر تحقیقات کے ایک قوم پر الزام لگا کر اس کی ہتک کا مرتکب نہ ہوتی۔ کیا حکومت کے لئے یہ کوئی مُشکل امر تھا کہ وہ ان الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کراتی اور ان کے ثبوت بہم پہنچاتی؟ پھر اگر یہ الزام کسی احمدی افسر کے متعلق درست ثابت ہوتا تو بے شک اسے سزا دیتی کیونکہ وہ واقعی مجرم ہے نہ صرف حکومت کا بلکہ اسلام کا بھی لیکن اگر یہ الزام درست ثابت نہ ہو تو یقینا یہ صریح بے انصافی ہے کہ ہم پر بغیر تحقیقات کے صرف اس لئے الزام لگا دیا جائے کہ ہم غریب ہیں اور کمزور ہیں۔
اسلامی حکومت کافرض ہے کہ وہ مُلک
کےہر فرد کی عزت کی حفاظت کرے
اسلامی حکومت کا تو یہ فرض ہے کہ وہ اپنے مُلک کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کی عزت
کی بھی حفاظت کرے اور اس پر کوئی جھوٹا الزام نہ آنے دے۔ کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے عرصہ میں ظفراﷲ خاں کے دفتر میں کسی چوہڑے نے بھی بیعت کی ہے اور احمدیت قبول کی ہے اگر یہ نہیں ثابت کیا جاسکتا تو یقینا ایسا الزام لگانا ظفراﷲ خاں پر ظلم نہیں ہے بلکہ اس قوم پر ظلم ہے جس کے وہ ایک فرد ہیں۔
اس کے بالمقابل مودودی جماعت کے کئی آدمی اس جُرم میں پکڑے بھی گئے مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پھر الزام لگانے سے پہلے یہ بھی تو دیکھ لیا جاتا کہ کون کون سے احمدی افسر ایسے ہیں جو بھرتی کرنے کے قابل ہیں۔ کوئی فائننشل کمشنر احمدی نہیں ہے، کوئی ڈپٹی کمشنر احمدی نہیں ہے۔ مہاجرین کو زمین تقسیم کرنے والا کوئی اعلیٰ افسر احمدی نہیں ہے۔ پھر یہ ناجائز الاٹمنٹ کرنے والا اور احمدیوں کو بھرتی کرنے والا ایسا احمدی افسر کون ہے؟
پھر یہ بھی تو سوچنے والی بات ہے کہ اگر احمدی افسر ناجائز الاٹمنٹیں کرتے تو سب سے پہلے وہ مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے لیکن مجھے تو انہوں نے کچھ نہ لے کر دیا بلکہ میری جو زمین قادیان میں تھی اس کے کاغذات ابھی ادھر اُدھر ہی پھر رہے ہیں گو احراری تو کہہ رہے ہیں کہ مجھے دس ہزار مربعے ملے ہیں مگر مجھے دس ہزار مربعے چھوڑ دس مرتبان بھی نہیں ملے۔
انصاف کا طریق
یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ حکومت نے بغیر تحقیقات کے یہ الزام ہماری جماعت پر لگا دیا ہے اور انصاف کا طریق یہی ہے
کہ حکومت اس کی پوری پوری تحقیقات کرے۔ اگر کسی احمدی افسر کے متعلق یہ الزام درست ثابت ہو تو بے شک اسے سخت سے سخت سزا دے لیکن اگر یہ غلط ثابت ہو تو پھر اس کی تردید کرے اور اعلان کرے کہ یہ الزام غلط ہے۔
گو الزام تو ہم پر لگایا جاتا ہے کہ احمدی افسر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے احمدیوں کی مدد کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں احمدیوں سے تعصّب برتا جاتا ہے اور ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور اس طرح ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور اس حق تلفی پر پردہ ڈالنے کے لئے اُلٹا احمدیوں پر الزام لگایا جارہا ہے۔ ہم حکومت کے سامنے کئی ایک ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہیں جب کہ مختلف محکموں میں احمدیوں کو ملازمت یا ترقی سے صرف اس لئے محروم کیا گیا کہ وہ احمدی ہیں حالانکہ ان کی تعلیم ، تجربہ، قابلیت اور گزشتہ ریکارڈاُن کے حق میں تھے لیکن ہم نے ان حق تلفیوں پر کبھی شور نہیں مچایا کیونکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس قسم کی حق تلفی اور تعصب کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیم ، قابلیت، محنت، دیانتداری اور اچھے اخلاق کے معیار کو اور بلند کر کے ان کا مقابلہ کریں نہ کہ شور مچائیں۔ اگر ہمارے نوجوان ہماری تعلیم پر عمل کریں گے تو اس قسم کی حق تلفی زیادہ عرصہ نہیں ہو سکتی اور نوکریاں اور ملازمتیں آپ ان کے پاس آئیں گی۔
ذمّہ دار پریس نے اپنے فرض کو ادا کیا
مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس فتنے کے دوران میں ہمارے مُلک
کے ذمّہ دار پریس نے جو مُلک کی رائے عامہ کی جان ہوتا ہے بڑی دلیری سے اپنے فرض کو ادا کیا ہے۔ سب سے پہلے ''ڈان'' نے بڑی جرأت سے اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی۔ پھر بنگال کے پریس نے اس کی تائید کی۔ پنجاب میں سِول اور بعض دیگر اخبارات نے بھی اپنا فرض ادا کیا۔ اُردو کے پریس کے ایک حصّہ کا رویّہ شروع میں ڈانواں ڈول تھا مگر بعد میں اس نے بھی دیانتداری کا ثبوت دیا۔ گو افسوس ہے کہ مسلم لیگی پریس کے ایک حصّہ نے اس موقع پر بہت بُرا نمونہ دکھایا۔ بہرحال جس قوم کے متعلق یہ مشہور ہو کہ وہ بہت جلد پروپیگنڈا سے متاثر ہو جاتی ہے اس قوم کے پریس کا پروپیگنڈا کے مواد کو چھوڑ دینا ایک بہت اُمید افزا بات ہے۔
ہندوستان کے مُسلم پریس کا احتجاج
دوسری خوشی مجھے یہ ہوئی کہ اس موقع پر ہندوستان کے مسلم پریس
نے بھی اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی۔ حتّٰی کہ وہ اخبارات جو پہلے ہمارے دُشمن تھے اُنہوں نے بھی بڑے زور سے ہماری تائید کی۔ ان میں سے ایک نے تو لکھا کہ اس فتنہ کو دیکھ کرہمارے سرندامت سے جھک جاتے ہیں اور ہم ہندوستان کے غیر مسلموں کے سامنے آنکھ اُٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ یہ ایک بہت نیک تبدیلی ہے۔ ہم دُعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے پھر ترقی کے مواقع پیدا کرے۔ انہیں ہر قسم کے ظلم سے بچائے۔ ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا سامان پیدا کرے اور ہندوستان میں اسلام کو پھر وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزت حاصل ہو جو اسے پہلے وہاں حاصل تھی۔
اب اس فتنے نے ایک اور پلٹا کھایا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے خلاف منظم بائیکاٹ کی تحریک شروع کی گئی ہے لیکن اس قسم کی چیزیں عارضی ہوتی ہیں جو اِنْشَاءَ ﷲ بہت جلد خود ہی ختم ہو جائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کام کا ارادہ کرنا اور چیز ہوتی ہے اَور کام کرلینا اور چیز ہوتی ہے۔
سراسر جھوٹے الزامات
اب آخری تدبیر کے طور پر ہمارے مخالفین نے سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانے کی مہم
شروع کی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے جھوٹ بولنے میں جتنا کمال حاصل کر لیا ہے ہماری جماعت نے ابھی سچ بولنے میں اتنا کمال حاصل نہیں کیا ۔ اگر سچ بولنے میں ہماری جماعت کمال حاصل کر لے تو یہ جھوٹا پروپیگنڈا ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ مثلاً
(1) پہلا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ہم نے فرقان فورس کے ذریعے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا۔ مکمل فوجی وردیاں اور بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود وغیرہ حاصل کر کے ربوہ میں لے آئے۔ یہ الزام لگاتے ہوئے فوجی وردیوں اور گولہ بارود کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اوّل تو وہی اس الزام کی تردید کے لئے کافی ہے کیونکہ بیان کردہ مقدار کبھی ایک بٹالین کو مل ہی نہیں سکتی۔ دوسرے ہمارے پاس فوجی حُکام کی باقاعدہ رسید موجود ہے کہ فرقان فورس نے جو ہتھیار اور وردیاں وغیرہ حاصل کیں وہ سب کی سب واپس دے دی گئیں اور کوئی چیز بھی ان کے پاس باقی نہیں رہی۔ ایسے الزام لگانے والوں کو علم ہی نہیں کہ فوج کا ایک خاص نظام ہوتا ہے۔ اس میں ہر چیز کا ریکارڈ اور حساب ہوتا ہے وہ کوئی احراریوں کا لیا ہؤا چندہ نہیں ہوتا کہ جس کے پاس آیا اس کی جیب میں چلا گیا۔
(2) حکومت کا جو ملازم کسی الزام میں ملوث ہو اسے احمدی مشہور کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(3) کہا جاتا ہے کہ احمدی غیر احمدی لڑکوں کو بھگا کر ربوہ لے آتے ہیں۔ یہ الزام بھی صریحاً جھوٹ ہے۔ چنانچہ حال ہی میں جب ایک اسی قسم کا الزام لگایا گیا تو پولیس نے اس کی تحقیقات کی اور اس نے اسے بالکل بے بنیاد پایا۔
(4) احمدیت سے برگشتہ ہونے کی خبریں مشہور کر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ ان میں سے اکثر غلط ہوتی ہیں چنانچہ جن لوگوں کے متعلق ایسی خبریں شائع کی گئیں ان میں سے اکثر کو تو مَیں اس وقت بھی اپنے سامنے بیٹھا ہؤا دیکھ رہا ہوں۔ بھلا ظلم و تشدد اور جبر کے ساتھ بھی سچائی کسی کے دل سے نکلا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فتنے میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ثابت قدم رہی ہے۔ چند ایک کمزور لوگوں نے اگر تشدد اور ظلم سے ڈر کر کمزوری دکھائی بھی تو بہت جلد اپنی حرکت پروہ نادم ہوئے اور واپس آگئے اور اس قسم کے کمزور لوگ تو ہر جماعت میں ہوتے ہی ہیں۔
(5) کہا جاتا ہے کہ ہم نے چونکہ پرانی کتابوں میں سے ایسے حوالوں کی طرف مسلمانوں کو توجّہ دلائی ہے جن میںرسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اور دیگر انبیاء کی ہتک کی گئی ہے۔ لہٰذا ہم نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی توہین کی۔ حالانکہ اگر ہم نے صرف ان حوالوں کا ذکر کیا اور وہ قابل ضبط ہے تو وہ کتابیں کیوں نہیں قابلِ ضبط سمجھی جاتیں جن میں یہ ہتک کی گئی ہے۔ کیا صرف اس لئے کہ وہ باتیں لکھنے والے وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں چوٹی کے عالم اور بزرگ سمجھے جاتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج بھی یہ کتابیں مسلمانوں کے دینی مدارس اور خود پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہیں مگر کوئی انہیں ضبط کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ بے شک الفضل کا وہ پرچہ ضبط کر لو جن میں ان کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے بشرطیکہ ان کتابوں کو بھی ضبط کرو تاکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت قائم ہو۔
سات روزے رکھنے کی تحریک
احباب 1953ء کے شروع میں سات روزے رکھیں اور خاص طور پر دعائیں
کریں کہ اﷲ تعالیٰ مُلک میں فتنہ پھیلانے والوں اور ہم پر ظلم کرنے والوں کو سمجھ دے۔ یا سزا دے اور ہمیں ان کے مظالم پر صبر کرنے کی توفیق دے اور اپنے مقاصد میں کامیاب کرے۔ یہ سات روزے جنوری سے شروع کئے جائیں اور ہر سوموار کو رکھے جائیں۔ جنوری میں یہ روزے 5،12،19 اور26 تاریخ کو آئیں گے اور فروری میں 2، 9 اور 16 تاریخ کو۔
اسلامی مُمالک کو فلسطین کے متعلق
کوئی عملی قدم اُٹھانا چاہئے
‘‘مختلف ممالک میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مُشکلات پیدا ہو رہی ہیں مثلاً ایران، مصر، انڈونیشیا،
عراق اور اُردن کے سیاسی حالات میں نئی نئی تبدیلیاں اور اُلجھنیں پیدا ہو رہی ہیں۔ تیونس اور مراکو کے مسلمان آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اسلامی مُمالک کے مسلمانوں کی مدد ہم دُعا اور احتجاج سے تو کرتے ہی رہتے ہیں مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جس کے متعلق ہماری حکومت کو بھی ضرور کوئی عملی کارروائی کرنی چاہئے اور وہ ہے فلسطین میں یہودیوں کے اقتدار کا مسئلہ۔ یہود مسلمانوں کے شدید دُشمن ہیں اور اُنہوں نے ایک ایسے مُلک میں اپنی حکومت قائم کر لی ہے جو ہمارے مقدس ترین مقامات یعنی مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بہت قریب ہے۔ ان کے ارادے یقینا بہت خطرناک ہیں اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو ضرور مجموعی طور پر کوئی عملی قدم اُٹھانا چاہئے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر تمام اسلامی مُلک اس خطرے کے ازالہ کے لئے اپنے اپنے بجٹ کا پانچ فیصدی بھی مخصوص کر دیں تو ایک اتنی بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے جس سے ہم یہودیوں کی بڑھتی ہوئی شرارتوں کا عملاً سدِّباب کر سکتے ہیں۔ اس مسئلہ کی اہمیت کے متعلق مَیں نے پہلے بھی توجّہ دلائی تھی اور اب پھر دلاتا ہوں۔ مگر افسوس کہ اب تک مسلمانوں نے اس خطرے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ اسی طرح کشمیر کے علاقہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ موجودہ طریق سے یہ مسئلہ کس طرح حل ہو گا؟ کشمیر کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کی پوزیشن بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کا روپیہ گر جائے اور دوسرا اُسے اُٹھا کر اپنے قبضہ میں کر لے۔ جس کا روپیہ گرا ہے اگر وہ محض صبر سے کام لیتا چلا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے کبھی بھی روپیہ ملنے کی اُمید نہ کرنی چاہئے۔ بہرحال دُعا کرو کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کا بھی کوئی صحیح راستہ حکومت کو نظر آئے اور پھر اس راستے پر اسے عمل کرنے کی بھی توفیق ملے۔ کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ہر گز محفوظ نہیں ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کوئی صحیح طریق اختیار کرے مگر وہ جو بھی راستہ تجویز کرے تمہیں اس پر عمل کرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا چاہئے۔
بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد کی اہمیت
مَیں نے اس سال شوریٰ کے موقع پر بیرونی ممالک میں
مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی اور اس کے لئے ایسے طریق تجویز کئے تھے جن پر عمل کر کے ہر شخص بغیر کسی خاص بوجھ کے بڑی آسانی سے اس میں حصّہ لے سکتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اس تحریک پر پوری طرح عمل کیا جائے تو دو لاکھ روپیہ سالانہ بڑی آسانی سے ہم جمع کر سکتے ہیں۔ یاد رکھو کہ بیرونی ممالک میں جب تک ہم مساجد تعمیر نہ کریں گے وہاں پر تبلیغ اسلام کرنے میں ہمیں کامیابی نہیں ہو گی کیونکہ مسجد ایک بہترین مبلغ کا کام دیتی ہے۔ لوگوں کے قلعے توپوں اور بندوقوں سے آراستہ ہوتے ہیں اور انہی سے وہ مُلک فتح کرتے ہیں۔مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلعے مساجد ہوتے ہیں۔ جہاں سے اَللہُ اَکْبَرُ کی آواز سے دلوں کو فتح کیا جاتاہے وہاں سے رات دن اذان کی گولہ باری ہوتی ہے جو کفرو ظلمت کی خندقوں کو پاٹ کر دلوں کو دلوں سے ملا دیتی ہے۔ دُنیوی قلعوں سے لوگ خوف کھاتے ہیں۔ دُنیا کی بڑی سے بڑی حکومت بھی دوسری حکومت کو اپنے مُلک میں قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیتی مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ قلعہ ایسا ہے جو ہم ہر مُلک اور ہر علاقہ میں آسانی سے تعمیر کر سکتے ہیں اور اس طرح اسلام کی اشاعت کا سامان پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو یہ ہماری کوتاہی ہو گی۔
پس مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ بیرونی مُمالک میں تعمیرِمساجد کی اہمیت کو سمجھے اور اس فنڈ میں مقررہ طریق کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصّہ لے تاکہ ہم جلد سے جلد دُنیا کے ہر مُلک میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلعے تعمیر کر سکیں۔
چندہ تحریک جدید
یہ ایک جہاد ہے اس لئے ہر احمدی کو اس میں حصّہ لینا چاہئے تم کوشش کرو کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو اس میں
حصّہ نہ لے رہاہو۔اب یہ ضروری نہیں رہا کہ ہر سال اپنے چندہ میں اضافہ ہی کیا جائے اگر تمہاری آمدنی میں کمی واقع ہو گئی ہے تو بے شک چندے میں کمی کردو لیکن حصّہ لینے سے محروم نہ رہو۔
صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت آجکل اس حد تک کمزور ہے کہ ماہوار تنخواہیں کارکنوں کو قرض لے کر دی جارہی ہیں۔ گو اس میں انجمن کا اپنا بھی قصور ہے مگر بہرحال دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اس کا طریق یہ ہے کہ تمام دوست اپنا چندہ پوری باقاعدگی کے ساتھ ادا کریں اور جو لوگ چندہ نہیں دیتے ان سے وصول کریں۔ ابھی جماعتوں میں ایک خاصی تعداد ایسے افراد کی موجود ہے جو نادہند ہے۔ اگر ان کو توجّہ دلائی جائے اور ان سے چندہ وصول کیا جائے تو یقیناً ہمارے چندے میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے اور انجمن کی مالی حالت مضبوط ہو سکتی ہے۔
اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی ضرورت
مُلک کی اقتصادی حالت کا بھی چندے سے گہرا تعلق
ہے۔ اگر اقتصادی حالات بہتر ہوں تو یقیناً چندوں میں زیادتی ہو جاتی ہے۔ مَیں نے اس دفعہ شوریٰ پر یہ نصیحت کی تھی کہ اپنی اقتصادی حالت کو درست کرنے کے لئے احمدی تاجروں ، زمینداروں اور پیشہ وروں کی الگ الگ تنظیم ہونی چاہئے اور ان کے وقتاً فوقتاً اجلاس ہونے چاہئیں تاکہ وہ مل کر اپنی مُشکلات پر غور کر سکیں اور مَیں بھی انہیں ایسے طریق بتا سکوں جن سے وہ اپنی حالت کو بہتر بنا سکیں۔ اس وقت تک تو اس تجویز پر عمل نہیں ہو سکا مگر آئندہ سال ضرور اس پر عمل ہونا چاہئے۔ کیونکہ اقتصادی حالت کی مضبوطی کا ہمارے چندوں اور ہماری تبلیغ سے گہرا تعلق ہے۔ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جب یہ اجلاس بلائے جائیں تو اپنے اچھے سے اچھے نمائندے اس میں بھیجیں تاکہ آپ کی
اقتصادی حالت درست ہو سکے''۔ (الفضل یکم و دو جنوری1952ء)
1: مشکوٰة المصابیح صفحہ480مطبوعہ کراچی1368ھ
2: الرعد :39
3: میخانہ دردصفحہ26 مطبوعہ1344ھ
4: میخانہ دردصفحہ17مطبوعہ 1344ھ میں ان کا مکمل نام ''نواب خاندوران خان صمصام الدولہ'' لکھا ہے۔
5: میخانہ دردصفحہ 127،128 مطبوعہ 1344ھ
6: تذکرہ صفحہ 37۔ ایڈیشن چہارم
7: تذکرہ صفحہ 37۔ ایڈیشن چہارم
8: تذکرہ صفحہ 70۔ ایڈیشن چہارم
9: تذکرہ صفحہ 70۔ ایڈیشن چہارم
10: تذکرہ صفحہ 731۔ ایڈیشن چہارم
11: تذکرہ صفحہ 749۔ ایڈیشن چہارم
12: تذکرہ صفحہ 707۔ ایڈیشن چہارم
13: تذکرہ صفحہ 653۔ ایڈیشن چہارم
14: الصَّفّٰت :148
تعلق باﷲ
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعلق باﷲ
(فرمودہ 28دسمبر1952ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اصل تقریر ‘‘تعلق باﷲ’’ سے قبل بعض ضروری امور کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :-
کونسی مجلس علم انعامی کی مستحق ہے
‘‘خدام الاحمدیہ نے اس سال دس معیار مقرر کئے تھے یہ دیکھنے کے
لئے کہ کونسی مجلس عَلمِ انعامی کی مستحق ہے اس ہدایت کے مطابق خدا م الاحمدیہ نے انسپکٹر بھجوا کر تمام مجالس کا معائنہ کروایا اور انسپکٹر صاحب کی رپورٹ موصول ہونے پر مجلس عاملہ مرکزیہ نے ایک سب کمیٹی مقرر کی جس نے ہر شق پر تفصیلی غور کرنے کے بعد مجلس عاملہ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کر دی۔ مجلس عاملہ مرکزیہ نے سب کمیٹی کی رپورٹ پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ کیا کہ امسال مقرر کردہ معیاروں کے مطابق مجلس خدا م الاحمدیہ راولپنڈی تمام مجالس میں سے اوّل رہی ہے اس مجلس نے سَو میں سے اڑسٹھ نمبر حاصل کئے ہیں۔ مجلس خدام الاحمدیہ چک نمبر 121 گوکھووال دوم رہی ہے اور اس نے 67½/100 نمبر حاصل کئے ہیں۔ مجلس کراچی سوم رہی ہے اس مجلس نے سَو میں سے چونسٹھ نمبر حاصل کئے ہیں۔ اوّل رہنے والی مجلس کو انعامی جھنڈا دیا جاتا ہے مگر اس دفعہ مَیں نے جلسہ میں جھنڈا دینا روک دیا ہے کیونکہ اس طرح تقریر میں حرج واقع ہوتا ہے۔ بہرحال جماعت کی ترغیب اور تحریص کے لئے مَیں نے اعلان کر دیا ہے کہ خدا م الاحمدیہ کی تین جماعتوں کا کام بہت اچھا رہا ہے۔ اوّل جماعت راولپنڈی ، دوم مجلس چک نمبر 121 گوکھووال اور سوم نمبر پر کراچی۔ اس کے علاوہ تمام جماعتوں کی طرف سے خبریں پہنچتی رہی ہیں کہ ضرورت کے مواقع پر بالعموم خدام نے اچھا کام کیا ہے اور یہی نوجوانوں کا فرض ہوتا ہے۔ بوڑھے یہ کام نہیں کر سکتے جب یہ لوگ بوڑھے ہو جائیں گے تو اس وقت اگلی نسل آجائے گی اور پھر اس کے بوڑھا ہونے پر اس سے اگلی نسل آجائے گی۔ مجھے جو رپورٹیں پہنچتی رہی ہیں ان میں اکثر جماعتوں نے خدام کی تعریف کی ہے۔ بے شک بعض نے کمزوری بھی دکھائی ہے مگر یہ نہیں کہ سب نے ایسا کیا ہو۔ ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور ہماری جماعت میں بھی کچھ کمزور لوگ پائے جاتے ہیں۔ حرف تب آتا ہے جب کام کے وقت سارے خاموش رہیں۔
مقبرۂ بہشتی ربوہ کا مقام
مَیں اصل تقریر سے قبل یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ربوہ کے بہشتی مقبرہ کے متعلق ایک دوست نے
سوال کیا ہے کہ جب حضرت امّاں جان کی نعشِ مبارک کو قادیان کے بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دفن کر دیا جائے گا تو اس وقت ربوہ کے بہشتی مقبرہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ یہ سوال تو بالکل سادہ تھا اور اگر کوئی نئی چیز ہوتی تو انہیں پوچھنے کی ضرورت بھی ہوتی مگر پھر بھی مَیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام میں یہ طریق جاری ہے چنانچہ دیکھ لو مقامِ ابراہیم ؑ مکّہ میں ہے مگر حضرت ابراہیم ؑ مکّہ سے چلے گئے اور بیت المقدس میں دفن ہوئے مگر باوجود اس کے ہم اسے صرف خانۂ کعبہ نہیں کہتے بلکہ مقامِ ابراہیم ؑ بھی کہتے ہیں کیونکہ نبی تو دنیا میں آتے اور فوت ہو جاتے ہیں مگر ان کے چلے جانے کی وجہ سے کسی مقام کی برکات نہیں جاتیں چنانچہ کل ہی مَیں نے بتایا تھا کہ کسی مقدس مقام کی برکت کبھی نہیں جاتی اور جس مقام پر ایک دفعہ اﷲ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے تو چونکہ اُس مقام نے گناہ نہیں کرنا ہوتا اس لئے وہ فضل چلتا چلا جاتا ہے۔ باپ بڑا نیک ہو اور بیٹا بُرا ہو تو برکت مٹ جائے گی۔ مگر جس مقام پر دُعائیں کی گئی ہوں اور جہاں خدا نے اپنے فضل کی بارشیں نازل کی ہوں اس مقام کی برکات کبھی مٹ ہی نہیں سکتیں۔ آپ لوگوں نے یہ کیوں سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے پاس اتنی تھوڑی برکتیں ہیں کہ اگر وہاں برکتیں نازل کرے گا تو یہاں نہیں کرے گا۔ وَ مَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ1 خدا تعالیٰ کے فضل تو اس قدر ہیں کہ اگر زمین کا چَپّہ چَپّہ بھی بہشتی مقبرہ بن جائے تو پھر بھی وہ فضل بچا ہی رہے گا۔ ہمیں تو یقین ہے کہ آپ کی نعش قادیان جائے گی۔ مگر وہ صرف اپنی برکتیں لے جائے گی اس مقام پر اسی طرح اس کی برکتیں نازل ہوتی رہیں گی جس طرح اب نازل ہو رہی ہیں۔ آخررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ میں پیدا ہوئے مگر مدفون مدینہ میں ہیں۔ پس جو خدا مکّہ سے اپنی برکتوں کو بچا کر مدینہ لے گیا اور اس نے مدینہ کو بھی بابرکت کر دیا اسی خدا نے اس زمانہ میں قادیان کو بھی بابرکت کیا اور پھر قادیان کی برکتوں سے بچا کر اس نے ربوہ کو بھی بابرکت کر دیا۔ اس قسم کے خیالات محض لوگوں کے اپنے اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم غریب ہیں اسی طرح نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا بھی غریب ہے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ مسلمانوں کی بادشاہی کے زمانہ میں ایک نائی جو امراء کی حجامتیں بنایا کرتا تھا اسے ایک دفعہ کسی امیر نے دو سَو اشرفی انعام دے دی۔ چونکہ دو سَو اشرفی کی تھیلی اسے یکدم ملی اس لئے وہ ہر وقت اسے اچھالتا رہتا اور جب بھی کوئی شخص ملتا اور پوچھتا کہ سنائیے شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ بغداد کا کوئی ہی بد قسمت ہو گا جس کے پاس دو سَو اشرفی بھی نہ ہو۔ چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اس لئے وہ تھیلی کے متعلق زیادہ احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ایک دفعہ کسی امیر کو مذاق سوجھا اور اس نے چپکے سے وہ تھیلی کھسکا لی۔ اب وہ کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ڈرتا تھا کہ امراء اُسے کہیں گے کہ تو ہم پر چوری کا الزام لگاتا ہے مگر دوسری طرف اسے صدمہ بھی سخت تھا۔ آخر غم کے مارے وہ بیمار ہو گیا۔ جب لوگ اسے پوچھنے جاتے اور دریافت کرتے کہ بتلائیے اب شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ شہر کا کیا پوچھتے ہو وہ تو بھُوکا مَر رہا ہے۔ آخر اس امیر نے تھیلی نکال کر دے دی اور کہا شہر کو بھُوکا نہ مارو اور اپنی تھیلی لے لو۔ پس اپنی کمزوریوں پر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا کیوں اندازہ لگاتے ہو۔
خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ جگہ جگہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مثیل اور خادم پیدا ہوں۔ خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم جگہ جگہ مقامِ ابراہیم پیدا کر دیں، خداتعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دُنیا کے کونے کونے میں مدینے قائم کر دیں، خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دُنیا کے کونے کونے میں قادیان قائم کر دیں اور تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے پاس جتنی برکتیں تھیں وہ اس نے صرف ایک مقام پر ہی نازل کر دی ہیں۔ حالانکہ وہ خود کہتا ہے کہ آگے بڑھو اور میری برکتوں سے حصّہ لو۔ روکیں تم نے خود کھڑی کر لی ہیں کہ تم کہتے ہو ہم مقامِ ابراہیم تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم ان برکتوں کے وارث نہیں ہو سکتے جن برکتوں سے پہلے لوگوں نے حصّہ پایا۔ پس اگر تم خود ہی ان برکتوں کو نہ لو تو تمہاری مرضی۔ تم خود پیچھے ہٹتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ نہیں ہو سکتا اور وہ نہیں ہو سکتا۔ مَیں نے ایک دفعہ تقریر میں کہہ دیا کہ ہر مؤمن کو ایک چھوٹا محمد بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس پر مخالفین نے شور مچا دیا کہ ہتک ہو گئی، ہتک ہو گئی۔ حالانکہ جب کسی کی اقتداء کرنے کے لئے کہا جائے گا تو ہمیشہ کسی نیک اور پاک آدمی کا نام ہی لیا جائے گا۔شیطان کا نام تو نہیں لیا جائے گا۔ پس سوال یہ ہے کہ آخر ہم کیا کہیں؟ اگر یہ کہیں کہ ابلیس بنو تب مصیبت ہے اور اگر کہیں کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مثیل بنو تب مصیبت ہے۔ یہ تو ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی امیر سفر کے لئے نِکلا تو اس نے اپنے ساتھ ایک میراثی لے لیا۔ ایک جگہ پہنچے تو بارش آگئی اور چھت ٹپکنے لگ گئی۔ میراثی نے کہیں سے چارپائی لی، چوہدری صاحب کو اس پر بٹھایا اور آپ سرک کر اس کی پائنتی پر بیٹھ گیا۔ چوہدری صاحب نے اس کو دو چار تھپڑ لگائے اور کہا کم بخت تو ہمارا مقابلہ کرتا ہے اور ہمارے ساتھ ایک چار پائی پر بیٹھتا ہے۔ آگے چلے تو بیٹھنے کے لئے چار پائی بھی نہ ملی وہ کہیں سے ایک کَسی لایا اور اس نے زمین کھودنی شروع کر دی۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب کے برابر تو میں بیٹھ نہیں سکتا، اب یہ زمین پر بیٹھے ہیں تو میرے لئے یہی صورت رہ گئی ہے کہ مَیں زمین کھود کر ان سے بھی نیچے بیٹھوں۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے۔ شیطان کہو تب غصّہ آتا ہے، محمد رسول اﷲ کہو تب غصّہ آتا ہے۔ حالانکہ انسان یامحمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مثیل بنے گا یا شیطان کا۔ پس انسان حیران ہوتا ہے کہ وہ کہے کیا۔ غرض اﷲ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم سارے نبیوں کی برکتیں لو لیکن انسان آپ کمزوری دکھاتا ہے اور کہتا ہے یہ نہیں ہو سکتا، وہ نہیں ہو سکتا۔ پس مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ ان کی نعش قادیان نہیں جائے گی، جائے گی اور ضرورجائے گی مگر جو برکتیں یہاں نازل ہو رہی ہیں وہ نازل ہوتی چلی جائیں گی۔ دیکھو صحابہ ؓ اِس نکتہ کو سمجھتے تھے چنانچہ نماز اور دُعا تو الگ رہی وہ اس مقام سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے جہاں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی پیشاب کیا ہو۔
حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ جب بھی حج کے لئے جاتے تو ایک مقام پر وہ خاص طور پر تھوڑی دیر کے لئے قافلہ کو ٹھہراتے اور پیشاب کے لئے بیٹھ جاتے۔ اُنہوں نے دو تین حج کئے تھے۔ ایک صحابی ؓ کہتے ہیں مَیں نے ایک دفعہ دیکھا تو جہاں وہ پیشاب کے لئے بیٹھے تھے وہ جگہ بالکل خشک تھی۔ مَیں نے ان سے کہا کہ آپ نے ہمارا اتنا حرج کیا۔ اگر آپ کو پیشاب آیا نہیں تھا تو آپ نے قافلہ کو ٹھہرایا کیوں،آپ یہاں بیٹھے کس لئے ؟ وہ کہنے لگے یہ بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حج کیا تو مَیں نے دیکھا کہ اس مقام پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیشاب کیا تھا۔ پس مَیں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں مَیں کہتا ہوں کہ موقع جانے نہ پائے اور خواہ مجھے پیشاب آیا ہو یا نہ آیا ہو مَیں یہاں تھوڑی دیر کے لئے برکت حاصل کرنے کے لئے بیٹھ جاتا ہوں۔2 تو صحابہ ؓ یہ سمجھتے تھے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر کام میں نقل ان کے لئے برکت کا مؤجب ہے اور درحقیقت یہ بات ہے بھی درست ۔ جہاں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، جہاں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بیٹھے اور جہاں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کام کئے وہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں۔ دیکھو، آپ لوگ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام پیش کیا کرتے ہیں کہ :
''بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے''۔3
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسم سے آپ کے کپڑے لگے اور وہ بابرکت ہو گئے۔ پھر اگر کسی زمین پر کوئی مقدس انسان رہے تو وہ کیوں بابرکت نہیں ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ روحانی دنیا میں اس کی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ یہ سوال ہر شخص کو خود ہی سمجھ لینا چاہئے تھا اور اس بارہ میں کسی سوال کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرنی چاہئے تھی۔
ایک افسوسناک واقعہ
آج رات کو ایک افسوس ناک واقعہ ہؤا کہ عورتوں کی پانچ بیرکیں جل گئیں اور ہزاروں روپیہ کا نقصان ہؤا۔
بیس سے زیادہ بستر ہی جل گئے اور بہت سی عورتوں کے بُرقعے جل گئے اور بہت سی عورتوں کی جوتیاں جل گئیں یا غائب ہو گئیں۔ بعض کی ایک جل گئی اور ایک رہ گئی۔ اس طرح ہزار ہا کا نقصان ہو گیا۔ زیورات بھی بڑی مقدار میں ضائع ہوئے ہیں۔ کچھ تو مل رہے ہیں مگر کچھ ابھی تک نہیں ملے۔ ایک عورت کا کئی ہزار کا زیور گم ہو گیا ہے۔ یہ نقصان کچھ تو آگ لگنے کی وجہ سے ہؤا اور کچھ آگ کو پھیلنے سے بچانے کے لئے بعض اور بیرکیں ہمیں خود بھی گرانی پڑیں۔ بڑی وجہ اس نقصان کی یہ تھی کہ عورتوں کی بیرکیں الگ تھیں، ان کا رستہ بہت محدود تھا اور اس وجہ سے فوری طور پر زیادہ امداد نہیں پہنچ سکتی تھی''
اس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ:-
''الحمدﷲ ابھی اطلاع ملی ہے کہ اس عورت کا آٹھ تولہ کا ہار مل گیا ہے۔ بہرحال زیورات انشاء اﷲ مل جائیں گے۔ اس عورت کے کڑے بھی تھے وہ بھی امید ہے مل جائیں گے''۔
سلسلۂ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
'' مَیں اس موقع پر پہلی نصیحت مستورات کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ صبر اور ہمت سے کام لیں۔ بعض عورتیں اس حادثہ کی وجہ سے سخت گھبرا گئیں اور وہ صبح سے ہی بستر باندھ کر بیٹھ گئیں کہ ہم تو جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ عورتیں چاہتی ہیں ان کے اچھے کپڑے ہوں اور اگر معمولی کپڑے بھی ہوں تو میلے نہ ہوں ۔ کیونکہ بہرحال کچھ نہ کچھ زینت کا احساس عورت میں پایا جاتا ہے لیکن ایسے وقت میں اپنے جذبات اور احساسات کو دبا لینا چاہئے۔ ایسے وقت میں غیرت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ انسان کہہ دے کہ کرلو جو کچھ کرنا ہے مَیں اپنے مذہب اور عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا یہی تو غیرت دکھانے کا وقت ہوتا ہے۔ اور کونسا وقت ہے جس میں انسان اس قسم کی غیرت دکھا سکے۔
امورِ عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ جیسے مردوں کی بیرکوں میں اتفاقی طور پر آگ لگ گئی تھی اسی طرح عورتوں کی بیرکوں میں بھی اتفاقی طور پر آگ لگ گئی ہے لیکن مَیں ان کی اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتا۔ مردوں کی بیرکوں کے متعلق ان کی رپورٹ مَیں نے تسلیم کر لی تھی مگر اس رپورٹ کو میں غلط سمجھتا ہوں اور اس کی میرے پاس وجوہ موجود ہیں۔ مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے مگر انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ مجھ پر یا میرے محکمہ پر الزام نہ آئے۔ میرے نزدیک اسی اثر کے ماتحت ان کی یہ رپورٹ ہے مگر ہمارے پاس اس رپورٹ کے غلط ہونے کی وجہ موجود ہے۔ ہم نے دوذرائع سے اس حادثہ کی تحقیقات کرائی ہے۔ ایک تحقیق تو ناظم جلسہ نے اسی وقت کی۔ مَیں نے انہیں حکم دیا کہ فوراً تحقیقات کرو اور مجھے اپنی تحقیق کے نتائج سے اطلاع دو۔ دراصل جلسہ سے جانے کے بعد مجھے کافی عرصہ تک نیند نہیں آئی۔ نمازوں اور ملاقاتوں کے بعد بھی مَیں دیر تک جاگتا رہا۔ اس کے بعد میں لیٹا ہی تھا کہ یکدم شور کی آواز آئی اور معلوم ہؤا کہ عورتوں کی بیرکوں میں آگ لگ گئی ہے۔ مَیں نے فوراً آدمی دوڑائے اور کہا کہ مجھے اطلاع دو کہ کیسے آگ لگی ہے۔ چنانچہ ڈیڑھ بجے رات انہوں نے مجھے اطلاع دی جس میں انہوں نے نقشہ بھی دیا ہؤا تھا۔ مَیں نے جو پہرے دار بھجوائے تھے اُنہوں نے بتایا کہ ایک عورت نے یہ کہا ہے کہ مَیں نے خود بعض آدمی جاتے ہوئے دیکھے ہیں جو کہتے تھے کہ رستہ نہیں ملتا ، رستہ نہیں ملتا۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ ایک عورت کہتی ہے کہ یہ آگ باہر سے آتے ہوئے مَیں نے دیکھی ہے۔ اس کے بعد ناظم جلسہ کی رپورٹ بھی پہنچ گئی۔ اس میں وضاحت سے ذکر تھا کہ فلاں عورت سے مَیں نے بیان لئے ہیں وہ کہتی ہے کہ مَیں اپنی بیرک میں بیٹھی ہوئی تھی کہ مجھے چھت کے اوپر سے گرمی لگی اور پھر مَیں نے اوپر سے نیچے آگ آتی ہوئی دیکھی جو پھیل گئی اور پھر مَیں نے شور مچا دیا کہ آگ لگ گئی ہے۔ اسی طرح ان کا بیان ہے کہ دو تین اَور عورتوں نے بھی یہی بیان کیا کہ ایک جگہ نہیں بلکہ دو تین جگہ باہر سے آگ آتی ہوئی دیکھی گئی ہے۔ اس کے بعد صبح لجنہ نے تحقیقات کی۔ لجنہ کی تحقیقات بھی قریباً اسی طرح ہے جس طرح یہاں ناظم جلسہ کی تحقیق تھی۔ وہ بھی کہتی ہیں کہ عورتوں کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے خود آگ لگتے دیکھی جو اوپر سے نیچے کی طرف آئی۔ پس امورِ عامہ کی رپورٹ میرے نزدیک درست نہیں۔ انہوں نے صرف اپنی بدنامی سے ڈر کر کہ ان کے محکمہ پر الزام آئے گا اس طرح کی رپورٹ کر دی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آگ باہر سے لگی ہے۔ بلکہ اب تو مجھے یہ بھی شُبہ پیدا ہو گیا ہے کہ مردوں والی آگ بھی کسی نے دانستہ نہ لگائی ہو۔ بالکل ممکن ہے کہ کوئی دوست بن کر آگیا ہو اور اس نے لیمپ کی بتی اس طرح اونچی کر دی ہو کہ گھانس پھونس کو آگ لگ گئی ہو۔ یہ پرانا دستور ہے جو الٰہی جماعتوں کے مخالف ہمیشہ اختیار کیا کرتے ہیں لیکن ان باتوں کو دیکھ کر مؤمن کا ایمان اور بھی بڑھ جایا کرتا ہے۔ مؤمن کی مثال درحقیقت ربڑ کے گیند کی سی ہوتی ہے کہ اسے جتنا دباؤ اتنا ہی اُچھلتا ہے۔ پس مؤمنوں کے ارادوں کو پَست کرنے کی بجائے یہ چیزیں اُن کے ایمانوں کو اور بھی بڑھانے والی ہیں اور انہیں کہنا چاہئے کہ اچھا اگلی دفعہ ہم اور زیادہ آئیں گے۔ آخر جب مشرقی پنجاب سے لوگ آئے تو ان کا کتنا نقصان ہؤا تھا۔ یہاں زیورات والی عورتیں تو صرف پانچ سات ہوں گی باقی اکثر غرباء تھیں لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے سامان پیدا کرتا ہے۔
ناظم صاحب جلسہ میرے پاس آئے کہ عورتوں کے لئے بستروں کا کیا انتظام کریں۔
خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پرسوں ہی ایشین افریقن کمپنی جس میں سلسلہ کے بھی حصّے ہیں اور میرے اور میری اولاد کے بھی حصّے ہیں ۔ کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے نام پر کچھ حصّہ نکالا کرتی ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے اُن کی چِٹھی آئی کہ ہم پچاس اطالین کمبل غرباء کے لئے بھجوا رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر پہنچے کہ ابھی کمبلوں کا بنڈل بند کا بند ہی پڑا تھا۔ جس وقت ناظم صاحب جلسہ میرے پاس آئے تو مَیں نے کہا وہ بنڈل ان کے حوالے کر دو۔ یوں بھی وہ ہم نے غریبوں اور حاجتمندوں میں ہی تقسیم کرنے تھے مگر مَیں سمجھتا ہو ں کہ اس دفعہ کمپنی کو زیادہ ثواب اور اجر ملے گا۔ یوں تو وہ کمبل پہلے بھی بھیجتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے اس دفعہ انہوں نے زیادہ اخلاص سے بھیجے ہیں کیونکہ وہ ایسے موقع پر کام آئے جبکہ سلسلہ کو ان کی سخت ضرورت تھی''۔ (الفضل7دسمبر1960ء)
اِسکے بعد اصل موضوع تعلق باللہ پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
''میری آج کی تقریر کا موضوع تعلق بِاللہ ہے میں نے پچھلے دنوں اپنے ایک خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ بہت سے لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کریں بیٹا ہو جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میری بیوی اچھی ہو جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے کوئی بیوی مل جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میرا اپنی بیوی سے ایک جھگڑا چل رہا ہے اُس میں صلح کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے نوکری مل جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میں امتحان میں کامیاب ہو جاؤں۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے اپنی ملازمت میں ترقی مل جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میری فلاں جگہ سے تبدیلی ہو جائے۔ اسی طرح عورتیں میرے پاس آتی ہیں تو کوئی کہتی ہے میرے ہاں صرف لڑکیاں ہیں دعا کریں کہ کوئی لڑکا ہو جائے۔ کوئی کہتی ہے میرے خاوند کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہیں دعا کریں کہ اُس کا سلوک اچھا ہو جائے۔ کوئی کہتی ہے میرے خاوند کا سلوک تو اچھا ہے لیکن دعا کریں کہ وہ اس سے بھی زیادہ اچھا سلوک کرے۔ کوئی کہتی ہے میرے ماں باپ اور خاوند کے درمیان کوئی جھگڑا ہے دعا کریں کہ اُن کی آپس میں صلح ہو جائے۔ غرض جتنی ضرورتیں بیان کی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہوتی ہیں جو اس دنیا کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں حالانکہ سب سے مقدّم دعا اگر کوئی ہو سکتی ہے تو یہی ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو جائے اور سب سے مقدم سوال اگر کوئی شخص کر سکتا ہے تو یہی ہے کہ میری اِس بارہ میں راہنمائی کی جائے کہ مجھے تعلق بِاللہ کس طرح حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے۔ اگر ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہو جائے تو باقی سب چیزیں اِسی میں آ جاتی ہیں جیسے کہتے ہیں کہ ''ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں''۔
تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ کوئی بزرگ تھے جن کے ہمسایہ میں کوئی امیر شخص رہتا تھا جو رات دن ناچ گانے کی مجالس گرم رکھتا تھا اور ہر وقت شور و غوغا ہوتا رہتا تھا چونکہ اس طرح اُن کی عبادت میں خلل واقع ہوتا تھا ایک دن اُنہوں نے اُسے سمجھایا اور کہا کہ تم رات کو باجے بجاتے اور اُونچا اُونچا گاتے ہو اس طرح میری عبادت میں خلل آتا ہے مناسب یہ ہے کہ تم اِس قسم کی مجلسوں کو بند کر دو۔ وہ امیر آدمی بادشاہ کا مصاحب تھا اُسے یہ بات بُری لگی اور اُس نے بادشاہ کے پاس شکایت کر دی کہ اِس طرح بعض لوگ ہمارے گانے بجانے میں مزاحمت کرتے ہیں۔ بادشاہ نے فوج کا ایک دستہ اُس کے مکان پر بھجوا دیا۔ جب شاہی فوج آ گئی تو اُس نے اُس بزرگ کو کہلا بھجوایا کہ میری حفاظت کے لئے فوج آ گئی ہے اگر طاقت ہے تو مقابلہ کرلو۔ اُس بزرگ نے جواب دیا کہ اِن سامانوں سے تو مقابلہ کی مجھ میں طاقت نہیں لیکن لڑائی ہم نے بھی نہیں چھوڑنی۔ اگر ہم تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں تو نہ معلوم ہمارا تیر نشانہ پر پڑے یا نہ پڑے اِس لئے ظاہری تیر اور تلوار کی بجائے ہم رات کے تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں گے۔ جب یہ پیغام اُسے پہنچا تو معلوم ہوتا ہے اُس کے اندر تھوڑی بہت نیکی تھی پہلے تو وہ خاموش رہا لیکن کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس کی چیخ نکل گئی اور اُس نے کہا مجھے معاف کیا جائے آج سے باجا گانا سب بند ہو جائے گا کیونکہ رات کے تیروں کے مقابلہ کی نہ مجھ میں طاقت ہے اور نہ میرے بادشاہ میں طاقت ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ملنا اور اُس سے انسان کا تعلق پیدا ہو جانا یہ سب سے اہم اور ضروری چیز ہے اور اگر خدا مل سکتا ہے تو پھر اس میں کوئی شُبہ ہی نہیں رہتا کہ ہمارا سب سے بڑا فرض یہی رہ جاتا ہے کہ اُس کے ساتھ تعلق پیدا کریں اور اس طرح اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیں۔
اِس مضمون کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلا سوال انسان کے دل میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا ہے یا نہیں؟ اور پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا مل سکتا ہے یا نہیں؟ اگر اس دنیا کا کوئی خدا ہے اور اگر وہ خدا ہمیں مل سکتا ہے تو اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ پھر سب سے مقدم چیز وہی ہے۔ بعض لوگ مُرغا کھانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔ چودھری ظفراللہ خان صاحب میرے بچپن کے دوست ہیں اُنہیں مُرغے کی ٹانگ بڑی پسند ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی بڑی پسند تھی ایک دوست جو فوت ہو گئے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو ساری عمر مُرغے کی ٹانگ ملتی رہے تو اُسے اَور کیا چاہیے لیکن مجھے پسند نہیں کیونکہ اُس کی بوٹی میرے دانت میں پھنس جاتی ہے۔ بہرحال بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں کو بہت مرغوب ہوتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ چیزیں اُنہیں مل جائیں تو وہ بڑے خوش قسمت ہیں لیکن وہ چیزیں بہت ادنیٰ اور معمولی ہوتی ہیں اور پھر اُن چیزوں کے حصول کے بعد بھی اور ہزاروں چیزوں کی احتیاج انسان کو باقی رہتی ہے لیکن اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اگر خداتعالیٰ پر ہمیں کامل یقین ہو اور اگر خدا ہمیں مل سکتا ہو تو پھر قطعی اور یقینی طور پر انسان کہہ سکتا ہے کہ اس کے بعد مجھے کسی اَور چیز کی کیا ضرورت ہے۔ انبیاء بڑے قیمتی وجود ہیں اور اُن کی محبت انسان کے ایمان کا ایک ضروری جزو ہے لیکن یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی کو خدا مل جائے اور اُسے انبیاء نہ ملیں۔ انبیاء تو اُسے شوق سے ملیں گے اور کہیں گے کہ جو تمہارا محبوب ہے وہ ہمارا بھی محبوب ہے اور جب وہ تم سے محبت کرتا ہے تو ہم بھی تم سے محبت رکھتے ہیں۔
مذاہبِ عالَم پر نظر ڈالنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ مل سکتا ہے گو اُس کے ملنے کی شکلیں اُن کے نزدیک الگ الگ ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم یہودی مذہب کو دیکھتے ہیں۔ یہودی مذہب کے مطالعہ سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا مل سکتا ہے۔ حضرت نوحؑ کے ایک دادا تھے جن کا نام حنوک تھا۔ اُن کے متعلق بائبل میں لکھا ہے کہ وہ تین سَو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔4
اور یہودی حدیثوں میں لکھا ہے کہ:-
''لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے خدا نے زمین کو چھوڑ دیا اور حنوک کو آسمان پر اُٹھا لیا اور آسمانی خزانوں کا اس کو نگران اور فرشتوں کا سردار مقرر کر دیا اور خدا کے تخت کے سامنے خاص مصاحب کے طور پر وہ مقرر کیا گیا۔ اُس کو سب راز معلوم ہیں اور فرشتے اُس کی پشت پر ہیں اور وہ خدا کا منہ ہے اور وہ خدا کے احکام کو دنیا میں جاری کرتا ہے''۔ 5
پھر بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ کشتی کی اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کو گرا لیا یعنی خدا ہار بھی گیا6 اور یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ دراصل یہ ایک کشفی واقعہ ہے کوئی لغو اور بیہودہ قصہ نہیں۔ بچوں کے ساتھ گھروں میں روزانہ ایسا ہوتا ہے کہ ماں باپ ہنسی مذاق میں اُن کے ساتھ کشتی کرتے ہیں اور پھر کشتی کرتے کرتے خود گر جاتے ہیں اور بچہ اُن کے سینہ پر سوار ہو جاتا ہے اور وہ قہقہہ مار کر کہتا ہے کہ میں نے ان کو گرا لیا۔ اسی طرح اللہ میاں نے بھی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ضرور کشتی کی ہوگی اور پھر خداتعالیٰ محبت اور پیار کے انداز میں خود ہی گر گیا ہوگا اور یعقوب علیہ السلام نے قہقہے مارے ہوں گے کہ میں نے خدا کو بھی گرا لیا۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے۔ اُن کی زندگی کی تاریخ جو انجیل میں ہے اُس سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ وہ خدا سے ملے۔ چنانچہ اُن کا خدا کو باپ کہنا اور اپنے آپ کو اُس کا بیٹا کہنا صاف بتاتا ہے کہ اُن کا خدا تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق تھا جیسے دنیا میں ماں باپ اور بیٹوں کے درمیان ہوتا ہے۔
ہندوؤں نے خداتعالیٰ کو زیادہ تر ماتا کی شکل میں پیش کیا ہے مگر بہرحال ہندو مذہب بھی خدا تعالیٰ کے تعلق اور اُس کے پیار کا قائل ہے۔ اسلام نے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو ماں اور باپ کی محبت سے مشابہت دی ہے اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ ماں اور باپ کا بھی اپنے بچہ سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اسی طرح زرتشتی مذہب لے لو، بدھ مذہب لے لو، سب میں یہی نظر آئے گا کہ انسان روحانیت میں ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کا خدا تعالیٰ سے براہِ راست تعلق ہو جاتا ہے۔ بدھ مذہب کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت بدھ ایک جگہ بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور یہ عبادت اُنہوں نے اتنے انہماک سے کی کہ ایک بانس کا درخت اُن کے نیچے سے اُگا اور اُنہیں چیر کر اُن کے سر سے نکل گیا مگر اُن کو خبر تک نہ ہوئی اور پھر اُنہیں خدا مل گیا۔ اِس قصہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ دنیا سے اتنے بیزار اور متنفر ہوئے کہ آخر انہیں خدا کا وصال حاصل ہو گیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی ملاقات ہو سکنے کا جہاں تک امکان ہے دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں جو یہ کہتا ہو کہ خدا نہیں مل سکتا۔ جو لوگ خداتعالیٰ کو مانتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں خداتعالیٰ کی کتاب کو اپنا راہنما سمجھتے ہیں اور اُس کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تو یہی یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ مل سکتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنی عملی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہیں رکھتے وہ بے شک منکر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نہیں مل سکتا۔ مسلمانوں میں سے جو متکلمین یا فلسفی لوگ ہیں یعنی وہ لوگ جو خالص ظاہری علوم کے دِلدادہ ہوتے ہیں یا جنہیں ہم زیادہ سے زیادہ کتابی کہہ سکتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اُس سے تعلق پیدا کرنے کا صرف اتنا ہی مفہوم ہے کہ انسان کو اس امر کا یقین ہو جائے کہ وہ اُس کے حکم کے مطابق نماز، روزہ اور ذکرِ الٰہی وغیرہ میں مشغول ہے۔ گویا عبادت و امتثال ہی اُس سے تعلق ہے اور اُس کا احسان وانعام ہی اُس تعلق کے اظہار کا ایک ثبوت ہے۔ اِن متکلمین کو چھوڑ کر مسلمان، عیسائی، یہودی، زرتشتی اور اسی طرح ہندو اور بدھ مذہب کے پیرو سب یہی کہتے ہیں کہ خدا مل سکتا ہے اور یہی نہیں کہ وہ مل سکتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے نبیوں اور دوسرے صلحاء وغیرہ کو ملا ہے اور اُس نے اُن کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف وہ انہیں ملا ہے بلکہ ہمارا بھی یہی دعویٰ ہے کہ وہ ہم کو بھی ملا ہے اور اُس نے ایسے ایسے رنگ میں ہم سے اپنے تعلقات کا اظہار کیا ہے کہ یہ ملنا اُس سے کم ملنا نہیں جس طرح کوئی اپنے ماں باپ یا کسی اور عزیز سے ملتا ہے۔ پس متکلمین کا یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ انسان کو نہیں ملتا۔ اگر ہم نے اُس کی اطاعت کی تو یہ اُس کا ملنا ہو گیا اور اگر اُس نے ہم پر فضل اور احسان کیا تو یہ اُس کے تعلق کا ایک ثبوت ہو گیا۔ یہ محض فلسفیانہ رنگ کا ایک دعویٰ ہے جو خداتعالیٰ سے دوری اور اُس کی محبت کے کرشموں کو نہ دیکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے۔اگر تو اتنا ہی ہوتا کہ مثلاً مجھے ایک ضرورت ہوتی اور وہ پوری ہو جاتی تو گو اس سے مجھے یہ تسلی ہو جاتی کہ میری ضرورت پوری ہوگئی ہے لیکن میرے دل میں خداتعالیٰ کی محبت پیدا نہ ہوتی لیکن میرا یہ احساس کہ میرے خدا نے میری فلاں ضرورت پوری کی ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو مجھے خدا تعالیٰ کی محبت میں گداز کر دیتی ہے۔
مجھے یاد ہے میری جوانی کا زمانہ تھا۔ ابھی میری خلافت پر دو تین سال ہی گزرے تھے کہ مجھے ایک مشکل پیش آگئی اور میں نے اُس کام کے لئے دعائیں شروع کر دیں مگر میرا وہ کام نہ ہؤا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ جب تک میرا یہ کام نہیں ہو جائے گا میں چارپائی پر نہیں سوؤں گا۔ میرے اندر بھی اُس وقت گاندھی کی کوئی رگ تھی اور میں نے بھی ایک رنگ میں ستیہ گرہ کر دی اور زمین پر لیٹ گیا۔ امۃ الحی مرحومہ اُن دنوں زندہ تھیں اور اُنہی کے ہاں اُس دن باری تھی۔ ہم دونوں کے لئے ایک بڑی سی چارپائی ہوتی تھی اور اُس پر ہم سویا کرتے تھے مگر اُس رات میں نے امۃ الحی سے کہا کہ تم اپنا بستر اُوپر کر لو۔ میرا بستر نیچے ہی رہے گا۔ کہنے لگیں کیوں؟ میں نے کہا کوئی بات ہے۔ چنانچہ میں فرش پر بستر کر کے لیٹ گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ مجھے لیٹے ہوئے ابھی گھنٹہ گزرا تھا یا دو گھنٹے۔ بہرحال نصف رات سے کم وقت ہی تھا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے آیا ہے مگر وہ اُس وقت حضرت اماں جان کی شکل میں تھا (حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی کو بھی ایک دفعہ اللہ تعالیٰ اُن کی والدہ کی شکل میں ملا تھا۔ پس خشک مُلاّ غصہ میں نہ آئے کہ وہ جو کچھ مجھے کہے گا وہی سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بھی کہنا پڑے گا) اُس کے ہاتھ میں ایک نہایت نرم اور نازک لمبی سی چھڑی تھی وہ تازہ شاخ کی معلوم ہوتی تھی اور چھڑی کے ساتھ کچھ سبز پتے بھی لگے ہوئے تھے۔ چھڑی بہت نازک اور ہلکی اور باریک سی تھی اور قریباً سوا گز لمبی تھی۔ میں اُس وقت رؤیا میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے جو میرے سامنے ظاہر ہؤا ہے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ حضرت اماں جان (جو درحقیقت وجود باری کا ظہور تھا) میرے پاس آئیں اور جس طرح ماں بعض دفعہ بچہ پر بظاہر غصہ کا اظہار کر رہی ہوتی ہے لیکن درحقیقت اُس غصہ کے پیچھے محبت ہوتی ہے اِسی طرح اُنہوں نے بھی وہ چھڑی مجھے مارنے کے لئے اُٹھائی اور کہا ''محمود! لیٹتا ہے کہ نہیں چارپائی پر'' اور میں نے دیکھا کہ اِن الفاظ کے ساتھ ہی اُنہوں نے وہ چھڑی نہایت نرمی سے میرے جسم کے ساتھ چُھو دی۔ اِدھر میں نے یہ نظارہ دیکھا اور اُدھر میں نے سمجھا کہ گو اللہ تعالیٰ نے چارپائی پر لیٹنے کا ہی حکم دیا ہے لیکن اگر ذرا بھی اس حکم کے ماننے میں دیر ہوئی تو میرے ایمان میں خلل آ جائے گا۔ چنانچہ جونہی اُن کا ہاتھ پیچھے ہٹا میں رؤیا کی حالت میں ہی چھلانگ لگا کر چارپائی پر آ گیا اور جب آنکھ کھلی تو میں چارپائی پر لیٹا ہؤا تھا۔
اب فرض کرو میرا وہ کام ہو جاتا تو مجھے اِس میں کیا مزا آتا۔ مگر وہ لطف جو اُس رؤیا سے مجھے آیا اُس کا مزہ میرے دل میں آج تک باقی ہے اور اس کا خیال کر کے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں گدگدیاں پیدا کرنے لگتی ہے اور ایسا ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ ہوا ہے اور کئی کئی رنگ میں ہم نے خداتعالیٰ کے فضل کے مشاہدات کئے ہیں اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ محبت اور پیار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں میں جو لُطف ہے وہ باقی کیفیات میں کہاں ہے۔ بس ان دونوں کا ایسا ہی فرق سمجھ لو جیسے ایک ماں اپنے بچہ کو جب چھاتی سے دودھ پلا رہی ہوتی ہے تو جو اطمینان اُس بچہ کے چہرے پر دوڑتا ہوا نظر آتا ہے جس بے تکلّفی اور محبت سے وہ اپنی آنکھیں کبھی بند کرتا ہے اور کبھی کھولتا ہے، کبھی منہ مچکاتا اور کبھی مسکراتا ہے اُس کی کیفیت بالکل اور ہوتی ہے۔ اُس وقت وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ مجھے دودھ پلا رہی ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مجھے اپنی محبت اور پیار سے حصہ دے رہی ہے۔ اس کے مقابلہ میں تم نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ دروازہ پر فقیر آیا تو عورت نے اُسے روٹی دے دی۔ اُس نے ایک مانگی تو عورت نے دو دے دیں۔ اُس نے خالی روٹی مانگی مگر عورت نے روٹی کے ساتھ سالن بھی دے دیا۔ مگر فقیر کو وہ مزا کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو ایک بچہ کو اپنی ماں کا دودھ پیتے وقت حاصل ہوتا ہے کیونکہ ماں کا اپنے بچہ کو دودھ پلانا محبت کے جذبات سے تعلق رکھتا ہے اور فقیر کے مانگنے پر عورت کا اُسے روٹی یا سالن دے دینا محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ پس وہاں اور جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے اور یہاں اور جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اِسی طرح بے شک فلسفی طبقہ کہتا ہے کہ عبادت و امتثالِ امر میں خدا تعالیٰ سے تعلق کا پیدا ہونا ہے اور اُس کا احسان اور انعام ہی اس کے تعلق کا اظہار ہے اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی توفیق ملنا بھی اُس کے فضل پر منحصر ہے اور اس کے احکام کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ کے احسان سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ لیکن جو مزا اُس شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جسے پتہ ہو کہ میرا خدا مجھے ملا ہے۔ میرا اُس کے ساتھ تعلق ہے اور اُس نے اپنی محبت اور پیار کا اظہار فلاں فلاں نعمتوں کے علاوہ براہِ راست بھی کیا ہے تو وہ مزا اُس شخص کو کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو ان نشانوں سے محروم ہو۔ اِن دونوں کی تو آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی۔
تعلق بِاللہ کا مفہوم
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ جب سارے انبیاء و صلحاء یہ مانتے چلے آئے ہیں کہ خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو سکتا
ہے تو تعلق کے معنی کیا ہیں؟سو یاد رکھنا چاہیے کہ تعلق کے معنی عربی زبان میں لٹکنے کے ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں تَعَلَّقَ الْمَرْأَۃَ 7 فلاں شخص فلاں عورت کے ساتھ معلّق ہو گیا۔ یا کبھی ب کے ساتھ بھی اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے یعنی کہتے ہیں تَعَلَّقَ بِالْاِمْرَأَۃِ 8 فلاں عورت کے ساتھ فلاں شخص کا تعلق قائم ہو گیا اور اس کے معنی عربی زبان کے لحاظ سے یہ ہوتے ہیں کہ مَالَ قَلْبُہٗ اِلَیْھَا9 اُس شخص کا دل شوق اور محبت کے ساتھ اُس عورت کی طرف جھکا۔ اِسی طرح کہتے ہیں تَعَلَّقَ الشَّوْکَ بِالثَّوْبِ۔ اور اس کے معنی ہوتے ہیں نَشَبَ فِیْہِ وَ اسْتَمْسَکَ۔10 کہیں راستہ میں سے گزرتے ہوئے اگر کانٹے پڑے ہوئے ہوں اور تمہارا کپڑا لمبا ہو تو کانٹے تمہارے کپڑوں کے ساتھ چمٹ جائیں گے اور وہ تمہارے ساتھ ساتھ گھسٹتے جائیں گے اس کو بھی عربی زبان میں تعلق کہتے ہیں۔ گویا جب کوئی چیز اس طرح لٹک جائے کہ کوشش کے ساتھ اُسے ہٹانا پڑے وہ آپ نہ ہٹے تو اُسے تعلق کہتے ہیں۔ اِسی وجہ سے علق کے معنی محبت کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں عَلِقَہٗ وَبِہٖ عُلُوْقًا ھَوَاہُ وَاَحَبَّہٗ یَعْنِیْ عَلِقَہٗ 11 جس کے لفظی معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُس کے ساتھ لٹک گیا۔ اِس کا مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ محبت کی۔ ہمارے ہاں بھی ایک اِسی قسم کا محاورہ ہے۔ کہتے ہیں فلاں کے ساتھ دل اٹکا ہؤا ہے۔ پس تعلق بِاللہ کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ لٹک جانا اور ایسا تعلق قائم کر لینا کہ کوئی دوسرا پرے کرے تو کرے آپ نہ ہٹے۔ مثلاً اِس وقت میری سوٹی میرے ساتھ پڑی ہے اگر میں علیحدہ ہوں گا تو یہ گر جائے گی لیکن اگر کانٹے لگ جائیں تو میں اُنہیں اُتاروں گا تو وہ اُتریں گے یا کوئی اور شخص اُنہیں ہٹائے گا تو وہ ہٹیں گے خودبخود علیحدہ نہیں ہوں گے۔ پس تعلق ایسے گہرے ربط کو کہتے ہیں جو آپ ہی آپ نہیں ٹوٹ سکتا اور اسی کو محبت بھی کہتے ہیں۔ پس تعلق بِاللہ کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ سے لٹک جانا اور اُس سے نہ ٹوٹنے والا تعلق پیدا کرلینا۔
قرآن کریم میں بھی اس تعلق کا ذکر آتا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اور اس تعلق کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں اور بہت بڑی نعمتوں میں سے قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ12 خداتعالیٰ نے انسان کو عَلَق سے پیدا کیا ہے یا یہ کہ اُس نے انسان میں عَلَق کا مادہ پیدا کیا ہے۔ خُلِقَ مِنْ فُلَانٍ13 کے معنی عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ اُس کو اُس چیز سے پیدا کیا گیا ہے لیکن کبھی اِس کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ وہ چیز اُس کی فطرت میں ہی داخل ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ انسان کے متعلق فرماتا ہے کہ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ 14 اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے یعنی مٹی منبع تھی انسان کی پیدائش کا۔ لیکن دوسری جگہ آتا ہے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ 15اُس نے انسان کو جلدی سے پیدا کیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ جلدی کوئی مادہ ہے جس سے انسان کی پیدائش ہوئی ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اُس کی طبیعت میں جلدی کا مادہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے یہ معنی بھی ہیں کہ اُس نے انسان کی فطرت میں عَلَق کا مادہ رکھا ہے اور یہ معنی بھی ہیں کہ عَلَق کی حالت سے ترقی دے کر اُسے پیدا کیا ہے کیونکہ عَلَق کے معنی اُس خون کے بھی ہوتے ہیں جو ماں کے رحم میں نُطفہ سے ترقی کر کے پیدا ہوتا ہے اور رحم سے چمٹا ہؤا ہوتا ہے اور پھر بچہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پس ظاہری معنی اس کے ایک یہ بھی ہیں کہ اُس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔
یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے خَلَقَ الْاِنْسَانَ فرمایا ہے انسان کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں عربی زبان کے لحاظ سے مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے مُلک کی زبان میں انسان کا ترجمہ آدمی کیا جاتا ہے اور جب آدمی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس سے مراد صرف مرد لئے جاتے ہیں عورتیں مراد نہیں لی جاتیں۔ عورتوں کو بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ جب آدمی کا لفظ استعمال کریں گی تو اپنے آپ کو نکال لیں گی اور صرف مردوں کو آدمی قرار دیں گی۔ بعض عورتیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ اُنہیں خواہ کتنا بھی سمجھاؤ آخر وہ یہی کہتی ہیں کہ ''آخر مرد آدمی ہیں تو اُنہیں ہم آدمی ہی کہیں گی''۔ پس یاد رکھو کہ یہاں پنجابی زبان کے لحاظ سے انسان یا آدمی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ یہ عربی انسان ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ بہرحال جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ہم نے مرد اور عورت دونوں کو عَلَق سے پیدا کیا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر انسان عَلَقسے پیدا ہوا ہے؟ ظاہر میں تو یہی نظر آتا ہے کہ مرد عورت ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے اور اُن کے ماں باپ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے اور آخر یہ سلسلہ آدم پر جا کر ختم ہو گیا جس کے ماں باپ کوئی نہ تھے مگر خدا تعالیٰ نے تو خَلَقَ الْاِنْسَانَ میں الْاِنْسَانَ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سارے انسان۔ اب جبکہ سارے انسان عَلَقسے پیدا ہوئے ہیں تو اگر ہم یہ سلسلہ آدم پر ختم کر دیتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم انسان تھے یا نہیں؟ حوّا انسان تھیں یا نہیں؟ اگر تھیں تو پھر اُن کی مائیں اور اُن کے باپ بھی ماننے چاہئیں۔ ورنہ یہ آیت غلط ہو جاتی ہے اور اگر اُن کی مائیں تھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پیدا ہوئیں؟ اگر کہو کہ اپنی ماؤں سے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پیدا ہوئیں؟ غرض اس طرح اس سلسلہ کو چاہے دس کروڑ سال تک لے جاؤ تمہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ نسلِ انسانی کا آغاز جس آدم و حوّا سے ہوا وہ عَلَق کے بغیر پیدا ہوئے تھے اور یا پھر تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس تسلسل میں عَلَق دو معنوں میں استعمال ہؤا ہے۔ آدم تک اور معنی ہیں اور آدم و حوّا کے متعلق یا جو بھی پہلا جوڑا تھا اس کے متعلق کچھ اور معنے ہیں اور یہ آخری بات ہی درست ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام غلط نہیں ہو سکتا اور جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ رحمِ مادر میں جمے ہوئے خون سے انسان کو پیدا کیا اور دوسرے یہ کہ انسان کو اسی طرح پیدا کیا کہ اُس کی فطرت میں محبت الٰہی رکھی گئی۔ تمام انسانوں کیلئے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ وہ جمے ہوئے خون سے پیدا ہوئے لیکن انسانِ اوّل یا پہلے جوڑے کے متعلق اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں تعلق باللہ کے مادہ کے ساتھ پیدا کیا۔ پس یہ آیت اپنے ایک مفہوم کے لحاظ سے آدم کی تمام نسل پر چسپاں ہوتی ہے اور دوسرے مفہوم کی رو سے پہلے جوڑے اور اُس کی نسل سب پر چسپاں ہوتی ہے۔ اور نسل انسانی کا کوئی نکاح نہیں جس پر یہ آیت چسپاں نہ ہو سکتی ہو۔ گویا آدمِ اوّل کی ماں خدا تھا جس کی محبت اُس کے دل میں پیدا کی گئی تھی۔ ایک تیسرے معنی بھی اِس آیت کے ہو سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ عَلَق کا تعلق انسان سے نہیں خدا تعالیٰ سے قرار دیا جائے اور معنی یہ لئے جائیں کہ انسان کی پیدائش کی وجہ وہ علاقہ تھا جو اُلوہیت کو انسانیت سے تھا۔ یعنی اُلوہیت ایک ایسے وجود کو چاہتی تھی جو اُس کی صفات کو ظاہر کرے۔ پس اُلوہیت کی یہ تڑپ انسان کے پیدا کرنے کا موجب ہوئی اور گویا خدا تعالیٰ انسان کے لئے بمنزلہ ماں بن گیا اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ ماں کو بچہ سے اور بچہ کو ماں سے شدید تعلق ہوتا ہے۔ قرآن اور احادیث سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں سے تعلق ماں سے زیادہ ہوتا ہے۔ پس آدمِ اوّل تک تو سب لوگ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے لیکن آگے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آدم و حوّا خدا سے پیدا ہوئے۔ یہ نہیں کہ آدم خدا میں سے نکلا بلکہ یہ کہ اُس کے پیدا کرنے کے عام ذرائع ذاتِ باری میں مرکوز ہوگئے۔ اگر خدا اپنی تقدیر خاص سے آدم کو پیدا نہ کرتا تو نسل انسانی کا سلسلہ اس دنیا میں جاری نہ ہوتا۔ پس بعد میں آنے والے انسان اپنی ماؤں سے پیدا ہوئے اور آدم و حوّا ذاتِ باری سے۔ یعنی كُنْ فَيَكُوْنُ16سے پیدا ہوئے۔
عَلَق کے دوسرے معنی کُلُّ مَا عُلِّقَ17 کے ہیں یعنی جو چیز لٹکائی جائے اُسے عَلَق کہتے ہیں اور عَلَق کے معنی اَلطِّیْنُ الَّذِیْ یُعَلَّقُ بِالْیَدِ18کے بھی ہیں یعنی وہ گُندھی ہوئی مٹی جس میں اتنی چپک اور لزوجت پیدا ہو جائے کہ اگر اُسے ہاتھ لگاؤ تو وہ ہاتھوں سے چمٹ جائے۔ بعض مٹیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ہاتھوں سے نہیں چمٹتیں لیکن جب ایسی مٹی ہو جو ہاتھوں سے چمٹ جائے تو اُسے عَلَقکہیں گے۔ اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ طِیْن ہی سے انسان پیدا ہؤا ہے۔ یوں تو ایسی طِیْن بھی ہو سکتی ہے جس میں پانی زیادہ ہو اور وہ ہاتھوں سے نہ چمٹے یا ایسی طِیْن بھی ہو سکتی ہے جو خمیر کی طرح اُبھری ہوئی ہو لیکن انسان ایسی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جس میں چمٹنے کی خاصیت پائی جاتی ہے اور وہ گوندھنے والے یا بنانے والے کے ہاتھوں سے چپک جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر کسی صوفی کا یہ قول پنجابی میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ یا تو کسی کے دامن سے چمٹ جا یا کوئی دامن تجھے ڈھانپ لے۔ یعنی اس دنیا کی زندگی ایسی طرز پر ہے کہ اس میں سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ یا تو تم کسی کے بن جاؤ یا کوئی تمہارا بن جائے اور یہی طین سے پیدا کرنے کا مفہوم ہے۔ یعنی انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ یا تو وہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے یا کسی کو اپنا بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ دیکھ لو بچہ ابھی پوری طرح ہوش بھی نہیں سنبھالتا کہ کسی کے ہو جانے کا شوق اُس کے دل میں گد گدیاں پیدا کرنے لگتا ہے۔ بلوغت تو کئی سالوں کے بعد آتی ہے لیکن چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو دیکھ لو وہ کھیلتی ہیں تو کہتی ہیں یہ میرا گڈا ہے اور وہ تیری گڑیا ہے۔ آؤ ہم گڈے گڑیا کا بیاہ رچائیں۔ میرے گڈے کے ساتھ تیری گڑیا کی شادی ہوگی اور فلاں کے گڈے کی شادی کرتی ہیں اور بڑی خوشی مناتی ہیں کہ ہمارے گڈے کی شادی ہوگئی یا ہماری گڑیا کا فلاں کے گڈے سے بیاہ ہو گیا۔ پھر وہ ماؤں کی نقلیں کر کے گڑیوں کو اپنی گود میں اُٹھائے پھرتی ہیں، اُنہیں پیار کرتی ہیں اور جس طرح مائیں اپنے بچوں کو دُودھ پلاتی ہیں اسی طرح وہ اُن کو اپنے سینوں سے لگائے رکھتی ہیں کیونکہ ان کا دل چاہتا ہے کہ ہم کسی کی ہو جائیں یا کوئی ہمارا ہو جائے۔ اِسی طرح لڑکوں کو دیکھ لو جب تک بیاہ نہیں ہوتا ہر وقت ماں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں لیکن جب بیاہ ہو جائے تو کہتے ہیں ماں تو جائے چولہے میں ہماری بیوی جو ہے وہ ایسی ہے اور ایسی ہے اور دن رات اُس کی تعریفوں میں گزر جاتے ہیں تو اللہ اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ انسان کی فطرت میں ہم نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے۔ اِس کے بغیر اُس کے دل کو تسلّی نہیں ہوتی۔
پھر عَلَق کے معنی خصومت اور جھگڑے کے بھی ہوتے ہیں لیکن میرے مضمون کے ساتھ ان معنوں کا تعلق نہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے انسان کے اندر جھگڑنے کا مادہ رکھا ہے۔ اِسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا 19 جھگڑا بھی انسان تبھی کرتا ہے جب وہ کسی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ اس لحاظ سے اس میں بھی تعلق کا مفہوم پایا جاتا ہے اور وہ تضاد جو بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے دور ہو جاتا ہے۔
غرض جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عَلَق سے پیدا کیا ہے یعنی انسان کی فطرت میں اس نے اپنی محبت کا مادہ رکھ دیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف انسان خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے بلکہ یہ کہ ہم نے خود انسان کے اندر محبت کا مادہ پیدا کیا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کسبی ہوتی ہیں اور بعض چیزیں کسبی نہیں بلکہ فطرتی ہوتی ہیں۔ خداتعالیٰ کی محبت بھی کوئی کسبی چیز نہیں بلکہ وہ ایک فطرتی مادہ ہے جو ہر انسان کے اندر پایا جاتا ہے۔ جب تم ان ساری چیزوں پر غور کرو گے تو آخر تم اسی نتیجہ پر پہنچو گے کہ خدا تعالیٰ سے محبت ہوسکتی ہے۔
پس اسلام تعلق بِاللہ کو نہ صرف ممکن بلکہ انسان کی اغراضِ پیدائش میں سے قرار دیتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے۔ عَنْ اَبِیْ ہُرِیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلّٰہِ اَشَدُّ فَرْحًا بِتَوْبَۃِ اَحَدِکُمْ مِنْ اَحَدِکُمْ بِضَالَّتِہٖ اِذَا وَجَدَھَا20یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ خدا اپنے بندہ کی توبہ پر اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری سفر میں گم ہو جائے اور پھر وہ اُسے مل جائے۔ عرب جیسے مُلک میں سفر کی حالت میں اگر کسی شخص کی سواری گم ہو جائے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ کتنی خطرناک بات ہے۔ میلوں میل پر ایسے شخص کو نہ پانی مل سکتا ہے نہ کھانے کیلئے کوئی چیز مل سکتی ہے اور نہ کوئی اَور ایسا شخص مل سکتا ہے جو اُسے منزلِ مقصود پر پہنچنے میں مدد دے۔ ایسی حالت میں اگر اُس کی گمشدہ سواری اُسے مل جائے تو جو خوشی ایسے شخص کو ہو سکتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اُس کا کوئی بندہ اُس کے حضور توبہ کرتا ہے۔ دیکھو اس میں بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کو خداتعالیٰ کی طرف رجوع ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے بلکہ ایک زائد بات بھی اس میں بتائی گئی ہے اور وہ زائد بات یہ ہے کہ ضَالَّۃٌ 21 گمشدہ سواری کو کہتے ہیں۔ اور بندے کے توبہ کی مثال گمشدہ سواری سے دینا اپنے اندر یہ حکمت رکھتا ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی سواری ہے جس سے وہ سفر کرتا ہے یعنی اپنی صفات کو دنیا میں جاری کرتا ہے۔ اگر یہ حکمت مدنظر نہ ہوتی تو گمشدہ سواری کی مثال دینے کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ خداتعالیٰ کو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی کسی شخص کو اپنی کھوئی ہوئی دولت کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ مثال کے لئے سواری کو مخصوص کرنا بتاتا ہے کہ انسان بھی اللہ تعالیٰ کی ایک سواری ہے۔ سواری کے معنی اُس چیز کے ہوتے ہیں جس کے ذریعہ سے اُس کا سوار اپنی منزلِ مقصود تک پہنچتا ہے۔ پس جس طرح گدھے اور گھوڑے اور اونٹ کا انسان محتاج ہے اور وہ اُن پر سواری کرتا ہے تا کہ وہ جلد منزلِ مقصود پر پہنچ سکے۔ اِسی طرح خدا بھی اپنے ظہور کے لئے کسی نیک بندے کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ انسان اونٹنی بنتا ہے اور خدا اس پر سوار ہوتا ہے اور جس طرح اُسی سواری سے سفر اچھا ہوتا ہے جو سِدھی ہوئی ہو اِسی طرح انسان بھی وہی کام کا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے سِدھ جائے اور اُس کے اشاروں کو سمجھنے لگے۔ گویا خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے کی مثال ایک سواری کی سی ہے جو خدا تعالیٰ کے کام آتی ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو اس دنیا سے خداتعالیٰ روشناس بھی نہ ہو۔ تمثیلی زبان میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو اس بات کا محتاج قرار دیا ہے کہ انسان اُس کی سواری بنے تا کہ دنیا میں اُس کا ظہور ہو اور اُس کی صفات اس عالَم میں ظاہر ہوں۔
غرض قرآن کریم و حدیث سے ثابت ہے کہ انسان کی پیدائش تعلق بِاللہ کے لئے ہے اور یہ کہ تعلق بِاللہ دونوں طرح کا ہوتا ہے۔ بندے کا خدا سے اور خدا کا بندے سے۔ جیسا کہ حدیث بالا میں توبہ پر خدا کی خوشی کا ذکر ہے اور انسان کو خداتعالیٰ کی سواری قرار دیا گیاہے۔ نیز اُس حدیث میں بھی اس کا ذکر آتا ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا اُس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے۔ اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے22 اور یہ مقام جس کا ذکر کیا گیا ہے یعنی خداتعالیٰ سے انسان کا ایسا گہرا تعلق قائم ہو جانا کہ انسان اُس کی سواری بن جائے اور خداتعالیٰ کا اپنے بندے کو اس قدر قریب کرنا کہ اُس کے کان اور اُس کی آنکھیں اور اُس کے ہاتھ اور اُس کے پاؤں اُس کے نہ رہیں بلکہ خداتعالیٰ کے بن جائیں۔ یہ خالی اطاعت و امتثال اور انعام نہیں ہو سکتے کیونکہ اِن امور کا تعلق فکر سے ہے جذبات سے نہیں۔ اطاعت ایک فلسفیانہ چیز ہے اور خداتعالیٰ کا ملنا ایک حِسّیاتی چیز ہے۔ اطاعت اور امتثال محض دماغی کیفیات سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور خداتعالیٰ کا اس قدر قریب ہو جانا کہ انسان اُس کی سواری بن جائے اور خدا اُس کے ہاتھ پاؤں بن جائے یہ دل کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور ظاہر ہے کہ حِسّ و جذبات ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق دائمی ہوتا ہے اور دماغ ایسی چیز ہے جس کا تعلق عارضی ہوتا ہے تم جاگ رہے ہو تو مکھی جب تمہارے جسم پر بیٹھنے کے لئے آتی ہے تو تم ہاتھ مارتے ہو تا کہ مکھی تم سے دور ہو جائے لیکن سوتے ہوئے اگر مکھی تمہارے قریب آتی ہے تو تمہیں رعشہ کا مرض ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ نہیں ہوتا کہ سونے کی حالت میں اُس کے آنے سے پہلے ہی اُس کو ہٹانے کی کوشش کرو۔ یا دشمن آتا ہے اور تم پر حملہ کرتا ہے اور پھر تم سو جاتے ہو تو یہ کہ تم سوتے سوتے یہ سوچتے رہو کہ اگر پھر دشمن تم پر حملہ کر دے تو تم اس کا کس طرح مقابلہ کرو گے۔ بلکہ اگر تمہارے سوتے ہوئے گھر میں کوئی دشمن آ جائے اور تمہاری بیوی یا بیٹا اُس کا مقابلہ کر کے اُسے بھگا دیں تو تم بعد میں شکوہ کرتے ہو اپنے بیٹے سے یا شکوہ کرتے ہو اپنی بیوی سے کہ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں ورنہ مجھے بھی پتہ لگ جاتا اور میں بھی تمہاری مدد کرتا۔ تو عقلی تعلق صرف جاگتے ہوئے چلتا ہے اور سونے کی حالت میں وہ اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ صرف تحتَ الشعور ہی میں اُس تعلق کا احساس رہتا ہے اور وہ بھی بہت محدود رنگ میں لیکن جذباتی اور قلبی تعلق ایسا نمایاں ہوتا ہے کہ جاگتے ہوئے بھی اُس کا خیال رہتا ہے اور سوتے ہوئے بھی اُسی کا خیال رہتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو ماں سوتے سوتے اپنے بچہ کو گلے سے چمٹائے رہتی ہے اور سونے کی حالت میں ہی کبھی وہ اسے پیار کرتی ہے کبھی پچکارتی ہے اور کبھی اُسے سینہ سے لگاتی ہے۔ اگر اُسی حالت میں کوئی چور اُس کا مال اُٹھا کر لے جائے تو اُسے خبر بھی نہیں ہوتی کیونکہ مال کا تعلق فکر سے ہے جذبات سے نہیں۔ لیکن بچہ کی محبت سونے کی حالت میں بھی قائم رہتی ہے۔ اِدھر ماں بچہ کو پیار کر رہی ہوتی ہے اور بچہ اپنی ماں کی چھاتیاں منہ میں ڈالے چوس رہا ہوتا ہے اور وہ دونوں سو رہے ہوتے ہیں تو جذبات ہر وقت قائم رہتے ہیں۔ جب یہ پیدا ہو جائیں تو اُن کے لئے جاگنا اور سونا برابر ہوتا ہے لیکن دماغی کیفیتیں جاگتے وقت نمایاں ہوتی ہیں اور سوتے وقت غائب ہو جاتی ہیں اور جب جگاؤ تو اُن کیفیات کو دماغ میں مستحضر کرنے کے لئے ایک فاصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ماں کی آنکھ کھلے تو بچہ کی محبت آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی آ جائے گی لیکن گھر میں سانپ نکل آئے اور کسی سوئے ہوئے آدمی کو جگایا جائے تو آنکھ کھلنے پر فوری طور پر اُس کا ذہن خطرہ کی طرف منتقل نہیں ہوتا بلکہ اُسے درمیان کا فاصلہ طَے کرنے کے لئے کچھ وقفہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن جذبات میں ایک تسلسل چلتا ہے جو سوتے جاگتے ہر وقت قائم رہتا ہے۔
اس تعلق کے اظہار کے لئے عربی زبان میں مختلف الفاظ پائے جاتے ہیں مثلاً رغبت، شوق، اُنس، وُدْ، محبت، خُلّۃ، عشق۔ اِن کے سوا بعض اَور بھی الفاظ ہیں مگر یہ چند موٹے موٹے الفاظ ہیں جو میں نے چن لئے ہیں۔
شوق اَور عشق
شوق اور عشق کا لفظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہؤا، نہ بندے کے خدا سے تعلق کے متعلق استعمال ہؤا ہے اور نہ خدا کے
بندے سے تعلق کے متعلق استعمال ہؤا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کے لحاظ سے شوق میں وسعت کا مادّہ نہیں پایا جاتا لیکن جو شوق کے معنی ہیں وہ رغبت کے معنوں میں بھی آ جاتے ہیں اور پھر رغبت کے لفظ میں عربی زبان کے لحاظ سے وسعت بھی پائی جاتی ہے چونکہ جس شخص سے بھی خدا تعالیٰ کو محبت ہوگی لازماً وہ محبت انسانی محبت سے زیادہ ہوگی اور جس شخص کے دل میں بھی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا خیال پیدا ہوگا وہ یہی چاہے گا کہ میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کروں۔ یہ نہیں کہ وہ کہے گا میں اتنی محبت کروں گا جتنی مجھے مثلاً اپنی بکری سے ہے یا جتنی محبت مجھے اپنے گھوڑے سے ہے اور شوق میں وسعت نہیں پاتی جاتی اِس لئے نہ بندے کے اُس تعلق کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو اُس کا خداتعالیٰ سے ہوتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے اس تعلق کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو اُس کا اپنے بندے سے ہوتا ہے۔ شوق کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ چیز ابھی ملی نہیں جس کی ہمارے دل میں خواہش پائی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس مفہوم کے لحاظ سے خداتعالیٰ کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہو سکتا۔ ورنہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ کہنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ کو بھی بعض چیزوں کی خواہش ہوتی ہے مگر وہ اُسے ملتی نہیں۔ اسی طرح عشق کا لفظ بھی نہ قرآن کریم میں استعمال ہؤا ہے اور نہ جہاں تک مجھے علم ہے حدیثوں میں استعمال ہوا ہے۔ نہ اُس تعلق کے اظہار کے لئے جو بندے کا خدا سے ہوتا ہے اور نہ اُس تعلق کے اظہار کے لئے جوخدا کا اپنے بندے سے ہوتا ہے۔ حالانکہ عشق بڑی شدید محبت کو کہتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ نہایت شدید محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے پھر بھی خدا تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ تم مجھ سے عشق کرو اور نہ یہ کہتا ہے کہ فلاں بندے کو مجھ سے عشق تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق کے معنی لغت کی وضع کے لحاظ سے کچھ پسندیدہ معنے نہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوفیاء نے یہ لفظ استعمال کیا ہے اور میں جو تردید کر رہا ہوں خود میرے شعروںمیں بھی کئی جگہ عشق کا لفظ آیا ہے مگر وہ استعمال اُردو شاعری کے لحاظ سے ہے بحیثیت عربی دان ہونے کے نہیں۔ عربی میں اس لفظ کا استعمال خدا تعالیٰ کے لئے پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق کے معنوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایسی محبت ہو جو انسان کو ہلاکت تک پہنچا دے اور یہ بات ایسی ہے جو نہ اُس انسان کے متعلق کہی جا سکتی ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت کر رہا ہو اور نہ خدا تعالیٰ کے متعلق کہی جا سکتی ہے جو اپنے کسی بندے سے محبت کر رہا ہو۔ خداتعالیٰ جو منبعِ حیات ہے اُس کے لئے اگر کوئی شخص شدید محبت رکھے گا تو اُس کی محبت بڑھے گی اور ترقی کرے گی اور اُسے ایک نئی زندگی عطا ہوگی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کی محبت اُسے ہلاک کر دے۔ اسی طرح خداتعالیٰ کی اُس محبت پر بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہو سکتا جو وہ اپنے بندوں سے رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ تو خود منبع حیات ہے اور جو فنا نہیں ہو سکتا اُس کے متعلق یہ کہنا کہ محبت اُسے ہلاکت تک پہنچا دے گی بالکل غلط ہوگا۔ پس چونکہ عشق کے معنوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس سے عقل میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ ایسی محبت کرنے والا ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے اور یہ چیزیں خداتعالیٰ کی محبت میں انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتیں اور نہ خدا تعالیٰ کی اُس محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں جو وہ اپنے بندوں سے رکھتا ہے۔ اِس لئے نہ قرآن میں اور نہ کسی حدیث صحیح میں بندے اور خدا کی محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال ہؤا ہے۔ میں نے یہ وضاحت اس لئے کی ہے کہ ہمارے مُلک میں عشق کا لفظ انتہائی محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن قرآن اور حدیث میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا اور اِس کی وجہ میں نے بتا دی ہے کہ عربی لغت کے لحاظ سے عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جو ہلاکت اور بربادی تک پہنچا دے۔ پس گو عام محاورہ کے لحاظ سے ہم اپنی زبان میں کبھی کہہ بھی دیتے ہیں فلاں شخص خداتعالیٰ سے عشق رکھتا ہے لیکن عربی زبان کے لحاظ سے اس لفظ کا استعمال صحیح نہیں ہوتا کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ نہ کوئی انسان عقل صحیح سے کام لیتے ہوئے خداتعالیٰ سے عشق کر سکتا ہے اور نہ کوئی انسان ایسا ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے عشق کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کو ہلاکت اور بربادی سے بچاتی ہے ہلاکت اور بربادی تک لے جاتی نہیں۔
اب باقی رہ گئے رغبت، اُنس، وُدْ، محبت اور خُلّۃ کے الفاظ۔ یہ الفاظ کسی جگہ پر بندے کے خدا سے تعلق کی نسبت اور کسی جگہ پر خدا تعالیٰ کے بندے سے تعلق کی نسبت قرآن و حدیث میں استعمال کئے گئے ہیں۔ آگے چل کر میں بیان کروں گا کہ اِن مختلف الفاظ میں کیا حکمت ہے اور ہر لفظ محبت کے کس رنگ یا کس درجہ کو ظاہر کرتا ہے۔
رغبت
سب سے پہلے میں یہ بتاتا ہوں کہ رغبت کے عربی زبان میں کیا معنی ہیں رَغِبَہٗ کے معنی ہوتے ہیں اَرَادَہٗ بِالْحِرْصِ عَلَیْہِ وَ اَحَبَّہٗ 23 اُس نے ارادہ
کیا حرص کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اور ایسی محبت کے ساتھ جس میں وسعت پائی جاتی ہے۔ گویا جب ہم کسی کے متعلق یہ کہیں کہ وہ کسی سے رغبت رکھتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اُس سے محبت رکھتا ہے۔ اُس کا دل چاہتا ہے کہ اُس سے ملے۔ اُس کی چاہت اُس کے دل میں پائی جاتی ہے اور چاہت بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی وسیع ہے۔ اب اُردو کے لحاظ سے تو لوگ کہیں گے کہ خوب مضمون ہے جو اِس چھوٹے سے لفظ کے اندر آگیا۔ لیکن عربی زبان کے لحاظ سے محبت کا یہ سب سے چھوٹا مضمون ہے جو اس لفظ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔
غرض رغبت کے معنی ہیں ملاقات کا ارادہ کرنا اور ارادہ بھی کسی اور غرض کے لئے نہ ہو بلکہ محض پیار کے لئے ہو اور وہ ارادہ بھی معمولی نہ ہو بلکہ بہت تیز ہو۔
پھر رَغِبَ اِلَیْہِ کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ اِبْتَھَلَ24یعنی عجز کرنا اور بہت ہی منکسرانہ طور پر اخلاص اور تضرع سے دعا کرنا۔ گویا رغبت کے یہ معنی ہوئے کہ مومنوں کا اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ وہ عجز و انکسار سے اُس کے حضور دعائیں کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی مومنوں کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ يَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا25 مؤمن بندے ہمیں عجز اور انکسار کے ساتھ پکارتے ہیں کیونکہ اُن کے دلوں میں ہماری شدید محبت ہوتی ہے۔ یہاں اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کا محب ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے۔ اور وہ ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ عجز اور انکسار کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکے ہوتے ہیں۔ اِسی طرح مومنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ26 ہم اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہیں۔ پہلے تھی خدا کی گواہی کہ دنیا میں میرے ایسے بندے موجود ہیں جن کے دلوں میں میری محبت ہے اور محبت بھی تیز اور محبت بھی معرفت والی اور عجز اور انکسار والی۔ اب فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جب اُنہیں کہا جائے کہ تم کون ہو؟ تو وہ دھڑلّے سے چیلنج کرتے ہیں لوگوں کو، اور کہتے ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرنے والے ہیں۔ جب لوگ اُن کو اپنی طرف بُلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں دنیا میں مال دیں گے۔ بڑی بڑی نعمتیں دیں گے تو وہ جواب میں کہتے ہیں تم اپنی چیزوں کو اپنے پاس رکھو ہمارا محبوب تو وہ بیٹھا ہے۔بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اِس قسم کا دعویٰ کرنا گستاخی اور بے ادبی ہے۔ حالانکہ یہ خیال مذہب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص حافظ محمد صاحب پشاور کے رہنے والے تھے۔ قرآن کریم کے حافظ تھے اور سخت جوشیلے احمدی تھے۔ میرا خیال ہے وہ اہلحدیث رہ چکے تھے کیونکہ اُن کے خیالات میں بہت زیادہ سختی پائی جاتی تھی۔ وہ ایک دفعہ جلسہ پر آئے ہوئے تھے اور قادیان سے واپس جا رہے تھے کہ راستہ میں خداتعالیٰ کی خشیت کی باتیں شروع ہو گئیں۔ کسی شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو بہت بڑی ہے ہم لوگ تو بالکل ذلیل اور حقیر ہیں پتہ نہیں کہ خدا ہماری نماز بھی قبول کرتا ہے یا نہیں، ہمارے روزے بھی قبول کرتا ہے یا نہیں، ہماری زکوٰۃ اور حج بھی قبول کرتا ہے یا نہیں۔ اس پر ایک دوسرا شخص بولا کہ اللہ تعالیٰ کی بڑی شان ہے میں تو کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ میں مومن بھی ہوں یا نہیں۔ حافظ محمد صاحب ایک کونہ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ یہ باتیں سنتے ہی اُس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ کیا یہ سمجھتے ہو کہ تم مومن ہو یا نہیں؟ اُس نے کہا میں تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں مومن ہوں یا نہیں۔ حافظ محمد صاحب کہنے لگے اچھا اگر یہ بات ہے تو آج سے میں نے تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھنی۔ باقیوں نے کہا حافظ صاحب! اس کی بات ٹھیک ہے ایمان کا مقام تو بہت ہی بلند ہے۔ کہنے لگے اچھا پھر تم سب کے پیچھے نماز بند۔ جب تم اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے تو تمہارے پیچھے نماز کس طرح ہو سکتی ہے۔ غرض دوست پشاور پہنچے اور حافظ صاحب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چھوڑ دی۔ جب پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ تم تو اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے میں تمہارے پیچھے نماز کس طرح پڑھوں۔ آخر جب فساد بڑھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ حافظ صاحب ٹھیک کہتے ہیں مگر یہ اُن کی غلطی تھی کہ اُنہوں نے اُن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی ہی چھوڑ دی کیونکہ اُنہوں نے کفر نہیں کیا تھا لیکن بات ٹھیک ہے۔ ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے آپ پر حسن ظنی کرتے۔ جہاں تک کوشش کا سوال ہے انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھے اور نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرے۔ مگر یہ کہ مومن ہونے سے ہی انکار کر دے یہ غلط طریق ہے۔ پس مسئلہ اُن کا ٹھیک ہے لیکن فعل اُن کا غلط ہے۔ انہیں اپنے دوستوں کے پیچھے نماز نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔ صوفیاء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیدہ و دانستہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ میں اپنے نفس کو ٹٹولتا ہوں تو مجھے نظر نہیں آتا کہ اُس میں ایمان پایا جاتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ مومن کہتے ہیں اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ۔ ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہیں۔ پس مومنوں کو سب سے پہلے اپنے آپ پر اعتبار کرنا چاہئے۔ یہ اَور بات ہے کہ وہ اپنے نفس میں کمزوریاں محسوس کریں اور سمجھیں کہ ابھی اُنہیں اَور زیادہ ترقی کی ضرورت ہے مگر اِس کا علاج یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو بدلیں۔ اُس کی اصلاح کریں اور کمزوریوں پر غالب آنے کی کوشش کریں۔ اِسی طرح دوسروں سے بھی کہیں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں مزید ترقیات عطا فرمائے اور ہماری کمزوریوں پر پردہ ڈالے لیکن جب واقع میں اُن کی سمجھ میں آگیا کہ خداتعالیٰ ہے اور اُس کے احکام پر عمل کرنا اُن کا فرض ہے تو اُن کے مؤمن ہونے میں کیا شُبہ رہا۔
اِسی طرح سورۃ قلم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مؤمن کہتے ہیں اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ 27 ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رغبت رکھتے ہیں۔
مفردات راغب میں جو قرآن کریم کی ایک پُرانی لغت کی کتاب ہے علامہ اصفہانی لکھتے ہیں کہ اَصْلُ الرَّغْبَۃِ اَلسَّعَۃُ فِی الشَّيْ ءِ۔28 یعنی رغبت کے اصل معنی کسی چیز میں وُسعت پیدا ہو جانے کے ہیں یُقَالُ رَغُبَ الشَّيْءُ اتَّسَعَ۔29 عرب کہتے ہیں فلاں چیز رغیب ہوگئی یعنی فلاں چیز بہت وسیع ہوگئی30 اور کہتے ہیں حَوْضٌ رَغِیْبٌ31 فلاں حوض بڑا وسیع ہے اور کہتے ہیں فَرَسٌ رَغِیْبُ الْعَدَدِ فلاں گھوڑا بڑے لمبے قدم مار کر چلتا ہے۔ گویا عربی میں رغبت کے اصل معنی وسعت کے ہیں۔ پھر کہتے ہیں اَلرَّغْبَۃُ اَلسَّعَۃُ فِی الْاِرَادَۃِ۔32 ارادہ کی وسعت پر بھی رغبت کا لفظ بولا جاتا ہے اور رَغِبَ فِیْہِ وَاِلَیْہِ کے معنی ہیں یَقْتَضِی الْحِرْصَ عَلَیْہِ۔33 وہ شدتِ حرص کے ساتھ اس چیز کو طلب کرتا ہے۔ گویا کسی چیز کی طلب کی وُسعت اور اس کے حصول کے لئے خواہش کی شدت کو رغبت کہا جاتا ہے۔ پس خداتعالیٰ کی رغبت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ملنے کی زبردست اور وسیع خواہش انسان کے دل میں پیدا ہو جائے۔
دوسرا لفظ اُنس ہے۔ اَنِسَ یَأْنَسُ کے معنی ہوتے ہیں اَلِفَہٗ 34 اُس چیز سے اُلفت ہوگئی وَسَکَنَ قَلْبُہٗ بِہٖ35 اور اُس چیز کے ملنے سے دل کو تسکین ہوگئی گویا اُنس کے معنی ہیں وہ چیز جس کی جستجو تھی مل جائے اور اُس کے ملنے سے دل کی گھبراہٹ دور ہو جائے۔ وَلَمْ یَنْفَرْمِنْہُ 36 اور جس کے پاس آنے سے وحشت پیدا نہ ہو۔ جیسے اگر کوئی غیر آ کر بیٹھ جائے تو انسان چاہتا ہے کہ وہ جلدی اُٹھ جائے لیکن اگر کوئی بے تکلف دوست آ بیٹھے یا بیوی کام کرتے ہوئے آجائے یا بچہ ملنے کے لئے آ جائے اور تھوڑی دیر کے بعد جانے لگے تو انسان کہتا ہے کہ ابھی کچھ اور بیٹھو اتنی جلدی کیوں چلے ہو۔ یہ اُنس کی علامت ہوتی ہے لیکن جس سے وحشت ہوتی ہے انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ جلدی علیحدہ ہو جائے۔ اِسی لئے لغت میں لکھا ہے۔ اَلْاُنْسُ ضِدُّ الْوَحْشَۃِ۔37 اُنس وحشت کی ضد کو کہتے ہیں۔ پھر لکھا ہے اِلْاِنْسُ خِلَافَ الْجِنِّ۔38 اِنس جن کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ وَالْاُنْسُ خِلَافَ النُّفُوْرِ 39 اور اُنس، نفور کے خلاف چیز ہے۔ کہتے ہیں مجھے فلاں سے اُنس ہے یعنی مجھے اُس سے نفرت نہیں۔ وَالْاِنْسِیُّ مَنْسُوْبٌ اِلَی الْاُنْسِ یُقَالُ ذٰلِکَ لِمَنْ کَثُرَاُنْسُہٗ40 اور اِنْسِیٌّ کے معنی ہوتے ہیں انسانوں سے تعلق رکھنے والی چیز خصوصاً جس چیز کا زیادہ اُنس ہو یا جو چیز زیادہ اُنس کرے اُسے اِنْسِیٌّ کہتے ہیں۔ وَلِکُلِّ مَایُوْنَسُ بِہٖ41 اور جس کے ساتھ تعلق ہو اُسے بھی اِنْسِیٌّ کہتے ہیں۔ وَلِھٰذَا قِیْلَ اِنْسِیُّ الدَّابَّۃِ لِلْجَانِبِ الَّذِیْ یَلِی الرَّاکِب42 اسی لئے گھوڑے کی وہ جانب جو سوار کی طرف ہو اُسے اِنْسِیُّ الدَّابَّۃِ کہیں گے۔ مثلاً اِس وقت میرے سامنے لاؤڈ سپیکر پڑا ہے اِس کا ایک حصہ میری طرف ہے اور دوسرا حصہ آپ لوگوں کی طرف۔ یہ حصہ میرا اِنْسِی ہے اور وہ حصہ آپ لوگوں کا اِنْسِی ہے۔ گویا جو حصہ کسی کی طرف جھکتا ہو اور اس سے ملتا ہو اُسے اِنْسِی کہیں گے وَالْاِنْسِیُّ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَایَلِی الْاِنْسَان43 اور ہر وہ چیز جس کا انسان کی طرف منہ ہوتا ہے اُسے اِنْسِی کہتے ہیں۔
اس تشریح سے ظاہر ہے کہ جہاں رغبت کے معنی وُسعتِ تعلق کے ہیں وہاں اُنس کے معنی صرف رغبت کے نہیں بلکہ اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ وہ چیز قریب بھی آ گئی ہے اور اُس نے اپنا منہ اِدھر کر لیا ہے۔ پس اُنس دل کی تسلی اور قرب پر دلالت کرتا ہے۔ خالی شوق سے نہ دل کی تسلی ہوتی ہے اور نہ اپنے محبوب کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح رغبت صرف یہ دلالت کرتی تھی کہ مجھے اُس کے ساتھ محبت ہے لیکن اُنس اس پر دلالت کرتا ہے کہ میری محبت نے اُس کا منہ بھی میری طرف پھیر دیا ہے اور چونکہ اُس کا منہ میری طرف ہو گیا ہے اِس لئے میرے دل کو تسلی ہوگئی ہے اور گھبراہٹ جاتی رہی ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جا رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک آگ دیکھی اور اپنے اہل سے کہا کہ اِنِّیْ اٰنَسْتُ نَارًا44 ایک آگ کو دیکھ کر میرے دل نے تسلی پائی ہے۔ چونکہ اٰنَسَ کے اصلی معنی قرب اور تسلی کے ہیں۔ ایناس دیکھنے اور سننے کے معنوں میں بھی آتا ہے کیونکہ دیکھی اور سنی وہی چیز جاتی ہے جو قریب ہو جاتی ہے۔ پس اٰنَسْتُ ناراً کے معنی یہ ہیں کہ مجھے آگ کی تلاش تھی اب ایک قسم کی آگ مجھے نظر آئی ہے اور میرے دل کو تسلی ہو گئی ہے کہ میری ضرورت پوری ہو گئی۔
تیسرا لفظ وُدْ ہے۔ وُدْ اُس محبت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ تمنّی بھی ہو یعنی صرف محبت ہی نہ ہو بلکہ اُس کے ساتھ تمنّی اور خواہش بھی پائی جاتی ہو کہ وہ چیز مجھے مل جائے۔ گویا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ لَو لگ جائے۔ یہ لفظ وَدْ کی شکل میں بھی استعمال ہوتا ہے، وِدْ کی شکل میں بھی اور وُدْ کی شکل میں بھی۔ اور تینوں شکلوں میں محبت کے معنوں میں ہی آتا ہے۔ اِس کے معنی محبت کے بھی ہیں اور بہت محبت کے بھی ہیں۔ اِس کے معنوں کی حقیقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ وَدْ عربی زبان میں وَتَدٌ45 یعنی میخ کو بھی کہتے ہیں۔ اِس وجہ سے کہ اُس کے ذریعہ سے جانور کو زمین کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ گویا وُدْ ایسی محبت کا نام ہے جو محب اور محبوب دونوں کو اس طرح جوڑ دیتی ہے جیسے کِیلا گاڑ کر جانور کو باندھ دیتے ہیں اور وہ زمین کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے۔ رغبت کے معنی یہ تھے کہ میرے دل میں شوق پیدا ہو گیا ہے اگلے کا پتہ نہیں کہ اُس کے دل میں بھی کوئی شوق پیدا ہؤا ہے یا نہیں۔ اُنس کے یہ معنی تھے کہ میرے دل میں بھی شوق پیدا ہو گیا ہے اور اگلے کے دل پر بھی میری محبت کا اتنا اثر ہو چکا ہے کہ اُس نے اپنا منہ میری طرف کر لیا ہے اور وُدْ کے یہ معنی ہیں کہ صرف اُس نے منہ ہی نہیں کیا بلکہ محبت نے ہماری آپس میں گرہ باندھ دی ہے۔ پس وُدْ وہ محبت ہے جو گہرا اور مضبوط تعلق پیدا کر دے اور ایک کو دوسرے سے وابستہ کر دے۔
رغبت اور اُنس کے الفاظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت نہیں آتے۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جب ملنے کی خواہش کرے گا تو وہ پوری بھی ہو جائے گی اور رغبت کا لفظ خواہش کے پورا ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اِسی طرح اُنس کا لفظ بھی اللہ تعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں ہوتا کیونکہ اُنس کے یہ معنی ہیں کہ محبت ہے اور دیدار بھی ہو گیا لیکن اُسے قریب نہیں لاسکا اور اللہ تعالیٰ کی محبت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں بندے کے الگ رہنے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اُسے خود اپنے قرب میں کھینچ لیتا ہے جیسے مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ پس چونکہ خدا اپنے مقربین کو خود اپنی طرف کھینچتا ہے اِس لئے خدا تعالیٰ کے متعلق اُنس کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ اُنس صرف بندے کے اندر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں جو کفار کے بتوں کے نام آئے ہیں اُن میں سے ایک بت کا نام وُدْ 46 بھی آیا ہے۔ کیونکہ مشرکین کا خیال تھا کہ اِس بُت کا خدا تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق ہے جیسے کیلے کا زمین سے ہوتا ہے۔ اِسی طرح مؤمنوں کے متعلق فرماتا ہے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا 47 خدا اُن کے لئے وُدْ پیدا کر دے گا قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بعض جگہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جن کو چکر دے کر کئی کئی مضامین نکل آتے ہیں۔ یہاں بھی اسی قسم کا طریق اختیار کیا گیا ہے۔ اِس جگہ لَهُمْ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں اُن کے فائدہ کے لئے کیونکہ لام فائدہ کے لئے آتا ہے مگر یہ کہ کس کس امر کے متعلق وُدْ پیدا کرے گا اسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تا کہ جتنے معانی پیدا ہو سکتے ہوں وہ اس ایک لفظ سے ہی پیدا ہو جائیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے ایک تو یہ معنی بنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے لئے اُن کے دلوں میں وُدْ پیدا کرے گا یعنی بنی نوع انسان کی خیر خواہی کا جذبہ اُن کے دلوں میں پیدا ہوگا اور وہ مخلوق کی ہمدردی اور اُن کی بہتری اور ترقی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اُن کی خدمت میں مشغول ہو جائیں گے۔
پھر انسان کو اس امر کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو۔ اس لحاظ سے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کر دے گا۔
پھر انسان یہ چاہتا ہے کہ نہ صرف اُس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو بلکہ خدا بھی اپنی محبت کا اُسے مورد بنا لے اور اُسے اپنے خاص فضلوں میں سے حصہ دے۔ اس لحاظ سے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نفس میں اُن کی محبت پیدا کر دے گا اور اُن کو اپنی محبت کا مورد بنا لے گا۔
پھر انسان کو اس امر کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کے رشتہ داروں اور عزیزوں اور دوستوں میں اُس کی عزت ہو۔ اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اپنے شہر اور مُلک والوں میں اُسے نیک نامی حاصل ہو۔ انسان کی اس خواہش کو بھی سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا میں پورا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں بھی اُن کی محبت ڈالے گا۔ گویا ہر پہلو کے لحاظ سے اس محبت کو کامل کیا گیا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ خدا سے مجھ کو محبت ہو جائے۔ انسان چاہتا ہے کہ خدا کواُس سے محبت ہو جائے۔ انسان چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان اُس سے محبت کرنے لگیں اور انسان چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان کی محبت اُس کے دل میں پیدا ہو جائے اور یہ چاروں محبتیں سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کی آیت کی رُو سے مومنوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ اِن الفاظ کی بجائے صرف اتنا فرماتا کہ میں اُن سے محبت کروں گا تو ایک معنی تو آ جاتے مگر تین معنی رہ جاتے۔ اگر یہ فرماتا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کریں گے اور میں بھی اُن سے محبت کروں گا تو دو معنی آجاتے اور دو رہ جاتے۔ اگر فرماتا کہ میں اُنہیں نیک شہرت دوں گا تو ایک معنی آ جاتے اور تین رہ جاتے۔ اگر فرماتا کہ میں اُنہیں نیک شہرت بھی دوں گا، اُن کے دلوں میں اپنی محبت بھی پیدا کروں گا اور اپنی محبت کا بھی اُنہیں مورِد بناؤں گا تب بھی تین معنی آ جاتے اور چوتھے معنی جو شفقت علی النّاس سے تعلق رکھتے ہیں وہ رہ جاتے۔ اب اللہ تعالیٰ نے آیت ایک رکھی ہے مگر معنی چاروں کے چاروں اس میں آ گئے ہیں۔ یہ معنی بھی اِس میں آ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرے گا۔ یہ معنی بھی اس میں آ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنی محبت کا مورد بنائے گا۔ یہ معنی بھی اس میں آ گئے ہیں کہ بنی نوع انسان کے دلوں میں اُن کی محبت پیدا کرے گا اور یہ معنی بھی اس میں آ گئے ہیں کہ بنی نوع انسان کی محبت اُن کے دلوں میں پیدا کر دے گا یعنی شفقت علی الناس کے لحاظ سے بھی اُنہیں ایک نمونہ بنا دے گا۔ گویا وہ دنیا میں بھی مقبول ہوں گے اور آخرت میں بھی مقبول ہوں گے۔ وہ محبوب ہوں گے بنی نوع انسان کی نگاہ میں اور محبوب ہوں گے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں۔ یہ چار مطالب ایک چھوٹے سے فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ادا کر دیئے ہیں۔
اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے اِنَّ رَبِّيْ رَحِيْمٌ وَّدُوْدٌ 48میرا رَبّ رحیم اور ودُود ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے خدا راغب نہیں ہوتا کیونکہ رغبت میں ناقص محبت ہوتی ہے۔ خدا انیس نہیں ہوتا کیونکہ انیس بھی محبت کے لحاظ سے ناقص ہوتا ہے۔ خدا ودُود ہوتا ہے۔ وَدُوْد کے معنی ہیں بہت محبت کرنے والا۔ گویا خدا یہ بتاتا ہے کہ میں خالی وَادٌّ (وَادِدْ) نہیں بلکہ وَدُوْد ہوں۔ میں بہت محبت کرنے والا نہیں بلکہ بہت بہت محبت کرنے والا ہوں۔
پھرسورۃ بروج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ 49 خدا بڑا غفور اور وَدُود ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے راغب اور اٰنِسْ کا لفظ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوا کیونکہ رغبت اور اُنس کمزور یا معمولی تعلق پر دلالت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا تعلق کمزور یا معمولی نہیں ہؤا کرتا۔ بندے کا تعلق تو کمزور ہو سکتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خداتعالیٰ کا تعلق کمزور ہو جیسے ماں کا تعلق اولاد سے ہمیشہ شدید ہوتا ہے لیکن اولاد اکثر بے پرواہ ہوتی ہے اور کچھ ہی ہوتے ہیں جو اپنی ماں کا حق ادا کرتے ہیں۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے متعلق رغبت اور اُنس کے لفظ استعمال نہیں ہوتے۔ صرف وُدْ کا لفظ استعمال ہؤا ہے جو اِن دو سے زیادہ طاقتور ہے اور وُدْ کا بھی صیغہ فاعل استعمال نہیں ہوا۔ صیغہ فعول استعمال ہؤا ہے جو شدت اور وسعت پر دلالت کرتا ہے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ جب یہ لفظ ناقص ہیں تو انسان کی نسبت کیوں استعمال ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ انسان خود ناقص ہے اور ناقص محبت کر سکتا ہے بلکہ عام طور پر اُس کے دل میں ناقص صورت میں ہی محبت پیدا ہوتی ہے اس لئے انسان کی نسبت یہ الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں لیکن چونکہ خداتعالیٰ کامل ہے اور وہ جب کرے گا کامل محبت ہی کرے گا اس لئے وہ الفاظ جو ناقص محبت پر دلالت کرتے ہیں خداتعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں ہو سکتے۔ خداتعالیٰ جب بھی اپنے کسی بندہ سے محبت شروع کرے گا اُس کا پہلا درجہ وُدْ سے شروع ہوگا۔ یعنی اگر کسی میں خداتعالیٰ کی طرف رغبت پائی جاتی ہے تو خداتعالیٰ اُس کی محبت کا جواب رغبت کی شکل میں نہیں بلکہ وُدْ کی شکل میں دے گا۔ اِسی طرح اگر کسی شخص میں خدا تعالیٰ کی طرف اُنس پایا جائے گا تو خدا تعالیٰ اُنس کی شکل میں اُس کی محبت کا جواب نہیں دے گا بلکہ وُدْ کی شکل میں اُس کی محبت کا جواب دے گا۔ جیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ایک روپیہ دے اور وہ ایک روپیہ کی بجائے چار روپے دے دے۔ اِسی طرح خداتعالیٰ جب بھی اپنے کسی بندہ کی محبت کا جواب دے گا تو وُدْ کی صورت میں دے گا۔ انسان محبت شروع کرے گا تو رغبت سے شروع کرے گا پھر اُنس کرے گا اور پھر وُدْ کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب بھی اپنی محبت کا اظہار شروع کرے گا تو وُدْ سے شروع کرے گا اور وُدْ کی صورت میں واد ہو کر نہیں وَدُود کی صورت میں محبت کرے گا۔ انسان کی نسبت جو وُدْ کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس میں ایک رنگ کی تربیت پائی جاتی ہے یعنی وُدْ کا مقام تقاضا کرتا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے ایسا گہرا تعلق ہو جائے کہ وہ اُس کی چیز کہلانے لگ جائے۔ جیسے کہتے ہیں کہ یہ فلاں طویلے 50 کی بکری ہے یہ فلاں طویلے کا گھوڑا ہے۔ وُدْ کا مقام بھی اُس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان خداتعالیٰ کی طرف منسوب ہونے لگے اور جب وہ اُس کی طرف منسوب ہونے لگے تو وہ اُس کی تربیت شروع کر دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تَزَوَّجُوا الْوَلُوْ دَالْوَدُوْدَ فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ51 تم ایسی عورتوں سے شادیاں کرو جو بہت بچے جننے والی اور ودُود ہوں۔ کیوں ایسا کرو؟ آپ فرماتے ہیں کہ اس لئے کہ قیامت کے دن مَیں دوسری اُمتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا کہ میری اُمت سب سے زیادہ ہے اور وہ زیادہ تبھی ہو سکتے ہیں۔ جب عورتیں زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہوں اور فخر تبھی کر سکتا ہوں جب وہ بچے اعلیٰ اخلاق اور روحانیت والے ہوں۔ پس تم وَلُوْد عورتوں سے شادیاں کرو جو زیادہ بچے جنیں اور ودُود عورتوں سے شادیاں کرو جو ہر وقت محبت اور پیار سے اولاد کی نگرانی کرنے والیاں ہوں تا کہ قیامت کے دن میں فخر کر سکوں کہ میری اُمت تم سب سے اچھی ہے بلحاظ تعدادِ افراد کے بھی اور بلحاظ تربیت افراد کے بھی۔ اس سے معلوم ہؤا کہ ودُود میں تربیت کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ اگر تربیت کے معنی اس میں نہ پائے جاتے ہوں تو قیامت کے دن دوسری اُمتوں کے مقابلہ میں فخر کی کوئی صورت ہی نہیں رہتی۔ فخر تو اِسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اُمت محمدیہ کے افراد کی تعداد بھی زیادہ ہو اور اُن کی تربیت بھی اچھی ہو اور وہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے والے ہوں۔ غرض وَدُوْداً کے معنی دائمی محبت سے پُر اور گہرا تعلق رکھنے والے کے ہیں جس کا لازمی نتیجہ عمدہ تربیت ہوتی ہے۔
حُبّ
چوتھا لفظ حُبّ ہے۔ اصل میں یہ حَبَبَ، یَحْبِبُ ہے جو مدغم ہو کر حَبَّ یَحِبُّ ہو گیا۔ اِس کے معنی کسی چیز کے اندر گھس جانے کے یا اپنے اندر لے لینے کے
ہیں۔ انہی معنوں میں اَحَبَّ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے چونکہ محبت کامل کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ اُس کے دل میں داخل ہو جائے اور وہ اس کے دل میں داخل ہو جائے۔ اس لئے اِسی کیفیت کے لئے حَبَّ یا اَحَبَّ کا لفظ عربی میں استعمال کیا جانے لگا اور یہ لفظ وُدْ سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ وُدْ میں صرف ایک وجود کے دوسرے کے اندر گھسنے کا مفہوم ہے جیسا کہ کِیلا زمین میں گھس گیا لیکن حَبَّ میں دونوں وجودوں کے ایک دوسرے کے اندر گھس جانے کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ نیز اس کے معنوں میں پھولنے اور بڑھنے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں گو عربی میں اس کیفیت کے لئے حَبَّ اور اَحَبَّ دونوں لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن اسمِ فاعل کے لئے عام طور پر مُحِبّ کا لفظ ہی مستعمل ہے جو اَحَبَّ سے بنا ہے۔
چونکہ حُبّ کے اصل معنی کسی چیز کے اندر گھس جانے یا اُسے اپنے اندر لے لینے کے ہوتے ہیں اِس لئے بُلبلہ جو پانی میں اُٹھتا ہے اُسے بھی حُبَابٌ کہتے ہیں کیونکہ اُس کے اندر ہوا بھری ہوئی ہوتی ہے۔ گویا پانی جب ہوا کو اپنے اندر لے لیتا ہے تو وہ حُبَابٌ کہلانے لگتا ہے اور جب اُگنے والے مادہ کو کوئی چھلکا اپنے اندر لے لیتا ہے تو اُسے حَبْ کہتے ہیں کیونکہ پودا اُس میں چھپا ہؤا ہوتا ہے۔ اسی طرح حُبّ عربی زبان میں اُس گھڑے کو بھی کہتے ہیں جس میں چیزیں بھرتے ہیں۔ اب تو ہر جگہ ٹرنکوں وغیرہ کا رواج ہے لیکن پُرانے زمانہ میں گھڑوں میں مختلف چیزیں رکھی جاتی تھیں کسی میں شکر ڈال دی جاتی۔ کسی میں گڑ ڈال دیا جاتا۔ کسی میں دانے ڈال دیئے جاتے۔ کسی میں دالیں وغیرہ رکھ لی جاتیں بلکہ بعض زمینداروں کے گھروں میں تو کپڑے بھی گھڑوں میں ہی رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ ایسے گھڑوں کے لئے بھی عربی زبان میں حُبّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی وہ مٹی کے برتن جن میں عورتیں اپنا سامان رکھتی ہیں۔ پس جب وہ جذبہ انسان کے اندر پیدا ہو جو دوسرے کو اپنے دل میں لے لے یا آپ اُس میں گھس جائے تو اُسے حُبّ کہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اُردو زبان میں اِس قسم کا کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ ہماری زبان میں دو ہی لفظ ہیں یا محبت یا عشق۔ حالانکہ اگر وُدْ کی جگہ محبت بولو تو غلط ہوگا اور اگر اُنس کی جگہ محبت کا لفظ بولو تب بھی غلط ہوگا اور اگر رغبت کو محبت کا مترادف قرار دو تب بھی غلط ہوگا کیونکہ عربی زبان کے لحاظ سے حُبّ اُس جذبہ محبت کا نام ہے جس میں انسان کے اس جذبہ کو اتنی تقویت حاصل ہو جائے کہ جس وجود سے وہ محبت کرتا ہے وہ اس کے دل میں گھس جائے اور یہ اس کے دل میں گھس جائے۔ رغبت کے معنی صرف یہ تھے کہ یہ اُدھر جانا چاہتا ہے لیکن ممکن ہے یہ اُدھر جانا چاہے اور وہ مطلوب وجود اور آگے چلا جائے۔ اُنس کے معنی یہ تھے کہ اِس نے ایک وجود کی طرف توجہ کی اور اُس پر بھی اثر ہؤا اور وہ اس کی طرف مُڑا۔ لیکن ابھی دونوں قریب نہیں آئے بلکہ جیسے ہم سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں یا قطب کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اِسی طرح وہ آمنے سامنے ہوگئے ہیں۔ پھر وُدْ کا مقام آیا اِس مقام میں یہ اُس کے اندر اور وہ اس کے اندر نہیں گھسا لیکن اِس کا اُس کے ساتھ ایک واسطہ ہو گیا جیسے کِیلا زمین میں گاڑ کر گھوڑے کو اُس کے ساتھ باندھ دیا جائے تو گھوڑا زمین میں نہیں گھستا نہ زمین گھوڑے میں گھستی ہے لیکن کیلے کے واسطہ سے اُس کا زمین کے ساتھ تعلق ہو جاتا ہے۔ اِس کے بعد حُبّ کا مقام آتا ہے۔ وُدْ میں ایک واسطہ اور تعلق تو ہو چکا تھا لیکن ابھی وہ دُور دُور تھے حُبّ کے مقام پر پہنچ کر یہ اُس وجود میں گھس گیا اور وہ وجود اِس میں گھس گیا۔
دوسرے محبت اُس تعلق کو کہتے ہیں جو نتیجہ خیز ہو اور ایک کھیتی پیدا کر دے کیونکہ حَبّ کے معنی اُس بیج کے ہوتے ہیں جس سے بڑے بڑے درخت اور کھیتیاں پیداہو جائیں گویا محبت حقیقی بھی وہی ہے جو دانے کی طرح ہو۔ جس طرح دانے سے درخت پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح محبت بھی اپنے پھل پیدا کئے بغیر نہیں رہتی۔ گویا یوں کہو کہ بندے اور خدا کا تعلق ایسا ہوتا ہے جیسے مرد اور عورت کا ہوتا ہے۔ جب انسان محبت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کی روحانی نسل دنیا میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہے اور لوگ اُس پر ایمان لانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لفظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی آتا ہے اور مومنوں کی نسبت بھی آتا ہے جس طرح وُدْ کا لفظ بھی دونوں کے متعلق استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤ52 اے مومنو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا۔ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍتو اس کے بعداللہ تعالیٰ ضرور کسی دوسری قوم کے افراد کو آگے لے آئے گا۔ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤاللہ تعالیٰ اُن سے محبت کرے گا اور وہ خدا سے محبت کریں گے۔ پس یہ کہنا بھی درست ہے کہ فلاں شخص خدا سے محبت کرتا ہے اور یہ کہنا بھی جائز ہے کہ فلاں سے خدا محبت کرتا ہے کیونکہ مذکورہ بالا مومنوں کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خدا سے محبت کریں گے اور خدا اُن سے محبت کرے گا۔
اِسی طرح فرماتا ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ۠ كَحُبِّ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ١ؕ 53 یعنی دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بعض غیر از خدا وجودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر مانتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے اِن شریکوں سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی چاہیے لیکن مومنوں کی جماعت سب چیزوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتی ہے۔ اِس آیت میں یہ بھی بتا دیا کہ ایسے مومن لوگ فِی الواقع موجود ہیں جو خدا تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ پہلی آیت میں یہ مضمون تھا کہ خدا تعالیٰ ایک ایسی قوم کو آگے لے آئے گا جو خداتعالیٰ سے محبت کرنے والی ہوگی اور خداتعالیٰ اُس سے محبت کرنے والا ہوگا اور ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص یہ بات سُن کر کہہ دے کہ یہ تو ایک خیالی بات ہے مرتد ہونے والے مرتد ہوگئے اور اب اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ اُن کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ہماری طرف لے آئے گا۔ پس چونکہ لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک خیالی بات ہے ہم اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اِس لئے اِسی آیت میں موجودہ مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ کافر و مشرک تو خدا تعالیٰ کے شریک قرار دے کر اُن سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی خدا سے کرنی چاہیے لیکن ہمارے مؤمن بندے ایسے ہیں جو فِی الواقع سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ واقعات سے بھی ثابت ہے کہ صحابہؓ میں ایسے لوگ موجود تھے جو تمام دوسری چیزوں سے زیادہ خداتعالیٰ سے محبت کرتے تھے۔ اسی طرح فرماتا ہے قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ54 کہہ دے اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں اور تمہارے بھائی اور تمہاری بہنیں اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے قبیلہ کے لوگ اور تمہاری قوم کے لوگ اور تمہارے مال جو تم محنت سے کماتے ہو اور تمہاری تجارتیں جو خطرہ کی حالت میں ہوتی ہیں اور اگر تم ذرا بھی توجہ ہٹاؤ تو اُن تجارتوں کے تباہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے (تاجر پر بعض دن ایسے آتے ہیں کہ اگر وہ سارا کام نوکروں پر چھوڑ کر کہیں باہر چلا جائے یا ذرا بھی غفلت سے کام لے تو ساری تجارت تباہ ہو جاتی ہے) اور وہ مکان جو تم کو بہت بھاتے ہیں تم کو خدا اور اُس کے رسول سے زیادہ پسند ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آ جائے اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو کبھی کامیاب نہیں کرتا۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صحابہؓکی جماعت عملاً خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والی تھی اور محبت بھی ایسی کامل رکھتی تھی کہ اُس کے مقابلہ میں نہ ماں باپ کی محبت ٹھہرتی تھی اور نہ بیٹوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ بھائیوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ بیویوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ قبیلہ اور قوم کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ مال اور تجارت کی محبت ٹھہرتی تھی اور نہ جائدادوں اور مکانوں کی محبت ٹھہرتی تھی۔ حدیثوں میں آتا ہے لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا55 کوئی تم میں سے ایمان والا نہیں کہلا سکتا جب تک کہ اللہ اور اُس کا رسول اُس کو باقی سب چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔
اِسی طرح بعض اور حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں آپ سے بڑی محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کتنی؟ اُس نے کہا جتنی مجھے اپنے بچوں سے محبت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم مومن نہیں ہو سکتے۔ ایمان کے لئے اس سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں آپ سے اپنی جان جتنی محبت رکھتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب بھی تم مومن نہیں ہو سکتے کیونکہ ایمان کے لئے اس سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں آپ سے اپنی جان اور اپنے مال اور اپنے بیوی بچوں سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم مومن ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ایمان اور کفر کو جانے دو تو محبت خالص خود بھی اپنی ذات میں ایک مذہب ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کس کی طرف منسوب ہوتا ہے اور کسے پسند کرتا ہے۔ اِس وقت ساری دنیا میں ناول پڑھے جاتے ہیں اور ناولوں میں بِالعموم یہی عشق و محبت کے ہی قصے ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارے مُلک میں یوسف زلیخا کا قصہ مشہور ہے اور بڑے مزے سے پڑھا جاتاہے۔ لیلیٰ مجنوں کے قصے بڑے شوق سے سُنے جاتے ہیں حالانکہ مجنوں کون تھا؟ عرب کا ایک بدو تھا اور لیلیٰ عرب کی ایک عورت تھی جو ممکن ہے ہماری نوکرانیوں سے بھی گھٹیا قسم کی ہو لیکن اس لئے کہ مجنوں کو اُس سے عشق ہو گیا ساری دنیا لیلیٰ مجنوں کے قصوں کو بڑے شوق سے پڑھتی ہے حالانکہ فلسفیانہ طور پر اگر غور کیا جائے تو اس میں کوئی عجوبہ نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ ایک فلسفی نے عشق کی حقیقت اسی طرح کھینچی ہے کہ یوسف اور زلیخا کا قصہ کیا ہے بس یہی کہ ایک عورت مرد کے لئے لٹو ہوگئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ خواہ فلسفیانہ رنگ میں کچھ کہا جائے عشقیہ کتابیں ہر جگہ پسند کی جاتی ہیں اور بڑے شوق کے ساتھ اُن کو خریدا جاتا ہے۔ ہمارے مُلک میں ہی نہیں یورپ اور امریکہ میں بھی اِن کتابوں کی بڑی قدر ہے۔ اِسی طرح بڑے بڑے بادشاہوں کے حالاتِ زندگی دیکھے جائیں تو وہ بھی اِن چیزوں کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔ نپولین کے واقعات پڑھ کر دیکھ لو۔ رُوس کے بادشاہ پیٹر کے واقعات پڑھ کر دیکھ لو۔ اِسی طرح بڑے بڑے جرنیلوں کے حالات پڑھ کر دیکھ لو تمہیں یہی معلوم ہوگا کہ وہ اِسی قسم کی کتابوں کو بڑا پسند کرتے تھے بلکہ بعض جرنیل لڑائی کے لئے جاتے تو اپنے ساتھ ایسی کتابیں رکھ لیتے جو عشق و محبت کے افسانوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔ تو عشق ایسی حسین چیز ہے کہ خواہ ادنیٰ مخلوق سے ہو تب بھی وہ پیارا لگتا ہے۔ پھر اگر خدا سے عشق ہو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ کتنا پیارا لگے گا۔
اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِذَا اَحَبَّ اللہُ عَبْدَہٗ لَمْ یَضُرَّہٗ ذَنْبٌ56 کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرے (اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ نہ صرف بندہ خدا سے محبت کرتا ہے بلکہ خدا بھی بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے) تو کوئی گناہ اُسے ضرر نہیں پہنچاتا۔ اب اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ کوئی گناہ اُس سے سرزد نہیں ہو سکتا اور یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ گناہ تو اُس سے سرزد ہوتا ہے لیکن وہ اُسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ پہلے معنی اِس حدیث کے اِس لئے نہیں ہو سکتے کہ یہاں ذَنْب کا لفظ ہے جس کا صدور ہر انسان کے لئے ممکن ہے۔ پس ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سے محبت کرنے لگ جائے تو اُس سے ذَنْب سرزد ہی نہیں ہو سکتے۔ ہم اگر معنی کر سکتے ہیں تو یہی کہ ذَنْب تو اس سے صادر ہو سکتا ہے لیکن وہ اسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ ذَنْب کا لفظ گناہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بشری کمزوری کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس یہ مراد نہیں کہ ذَنْب اُس سے صادر ہی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر ذَنْب اُس سے صادر ہو جائے تو اُسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ اگر گناہ کے معنی کئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ ایسے انسان کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے کہ جو مرضی ہے کرے۔ خواہ ڈاکہ مارے، خواہ چوری کرے، خواہ بدکاری کرے، خواہ جھوٹ بولے لیکن یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہو سکتے ہیں کہ اگر وہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندہ کو جھٹ توبہ کی توفیق دے دیتا ہے اور اس طرح گناہ اُسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور یہی اس کے حقیقی معنی ہیں۔ چنانچہ اس حدیث کے اگلے ٹکڑہ میں اس کی وضاحت آ جاتی ہے چنانچہ مذکورہ بالاعبارت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ 57 یعنی اُسے گناہ سے نقصان اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ ضرور توبہ کر لیتا ہے اور جو گناہ سے توبہ کرلے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ غرض اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ مومن کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ جب خدا اُس سے پیار کرنے لگ جائے تو اُس کا کوئی گناہ اُسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ یہ معنی نہیں کہ وہ کوئی ادنیٰ غلطی بھی نہیں کرتا۔ یہ معنی بھی نہیں کہ وہ کوئی بڑی غلطی نہیں کرتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو ایسی خشیت کے مقام پر لے جاتا ہے کہ اِدھر وہ غلطی کرتا ہے اور اُدھر اللہ تعالیٰ اُسے توبہ کی توفیق عطا فرما دیتا ہے اور وہ گناہ اُسے معاف ہو جاتا ہے۔ یہی آدم کے قصہ کی حقیقت ہے کہ وہ بھول گیا تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَسِیَ58 آدم بھول گیا اور اُس سے غلطی سرزد ہوگئی۔ اس کے بعد وہ گھبرایا تو ہم نے کہا گھبراتے کیوں ہو دعا کرو ہم تمہیں معاف کر دیں گے۔ چنانچہ آپ ہی اُسے دعا سکھلائی اور پھر اُسی دعا کے کرنے پر اُنہیں معاف کر دیا۔ چنانچہ فرماتا ہے فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ59اس پر آدم نے اپنے ربّ سے کچھ دعائیں سیکھیں فَتَابَ عَلَیْہِ 60 جن کے مانگنے پر اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا۔غرض محبت کا تعلق بندہ اور اللہ تعالیٰ میں دونوں طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی بندے سے محبت کرتا ہے اور بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے۔
اِس سے اُوپر خُلّۃ کا مقام ہے۔ خُلّۃ کا لفظ خلل سے نکلا ہے اور یہ لفظ ہمارے مُلک میں عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہمارے دماغ میں خلل ہے۔ ہمارے مُلک میں خلل ہے۔ ہماری جماعت میں خلل ہے لیکن لوگ سمجھتے نہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ لغت کے لحاظ سے اُس کے معنی سوراخ اور فاصلہ کے ہوتے ہیں اور یہ ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ بعض لفظ عربی زبان میں ایسے ہیں جو ایک معنی ہی نہیں دیتے بلکہ اُس کے اُلٹ معنی بھی دے دیتے ہیں یعنی اُسی میں شر کے معنی شامل ہوں گے اور اُسی میں خیر کے معنی بھی شامل ہوں گے۔ اسی میں فاصلہ کے معنی شامل ہوں گے اور اسی میں قرب کے معنی شامل ہوں گے۔ اِسی قسم کا یہ لفظ بھی ہے جس کے معنی سوراخ اور فاصلہ کے بھی ہیں اور ایسی محبت اور دوستی کے بھی ہیں جس میں کوئی خلل نہ ہو ۔ گویا خُلّۃ کے معنی اُس محبت کے ہیں جو تمام اختلافات کو دور کر دے اور جذبات اور خیالات میں یکجہتی پیدا کر دے۔ یہ معنی تو اقرب الموارد والے نے کئے ہیں لیکن مفردات والا کہتا ہے کہ خلل کے معنی شگاف کے ہیں اور جسم کے شگاف اُس کے مسام اور سوراخ ہیں جن سے پسینہ نکلتا اور زہریلے مواد خارج ہوتے رہتے ہیں اور مساموں کے راستہ ہی باہر کی کئی چیزیں جسم میں داخل ہوتی رہتی ہیں۔پس خُلّۃ کے معنی یہ ہیں کہ ایسی محبت جو خلل کے اندر گھس جائے یعنی خالی دل ہی میں نہ گھسے بلکہ جسم کے سُوراخ سُوراخ میں داخل ہو جائے اور پھیل جائے۔ محبت اُس کو کہتے ہیں جو صرف ایک مقام یعنی دل میں داخل ہو جائے لیکن خُلّۃ اُس دوستی کو کہتے ہیں جو جسم کے تمام مساموں میں داخل ہو جائے اور کوئی حصۂ بدن بھی اُس سے خالی نہ ہو۔ نہ ہاتھ اُس سے خالی ہوں نہ پاؤں اُس سے خالی ہوں نہ کان اُس سے خالی ہوں نہ آنکھ اُس سے خالی ہو نہ دل اُس سے خالی ہو نہ دماغ اُس سے خالی ہو۔ گویا وہ انسانی جسم اور روح اور دل اور دماغ پر اتنی حاوی ہو جائے کہ ہاتھ ہوں تو وہ محبوب کا وجود بنے ہوئے ہوں۔ پاؤں ہوں تو وہ محبوب کا وجود بنے ہوئے ہوں اور غیریت کا سوال ہی باقی نہ رہے۔ حُبّ باہر سے حکم لاتی ہے لیکن خُلّۃ باہر سے نہیں بلکہ نیچرل اور طبعی طور پر کام کرتی ہے۔ یہ معنی جو مفردات والوں نے کئے ہیں زیادہ اچھے اور زیادہ صحیح ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا 61 ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے خلیل بنایا۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کی وفات کی خبر آئی تو آپؐ نے صحابہؓ کو جمع کیا اور اُن میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا ایک بندہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے میرے بندے! اگر تو چاہے تو میں تجھے اپنے پاس بُلالوں اور اگر تو دنیا میں اَور رہنا چاہے تو میں تیری عمر کو اَور لمبا کر دوں۔ اُس بندے نے کہا اے میرے خدا! میں دنیا میں نہیں رہنا چاہتا تو مجھے اپنے پاس ہی بُلا لے۔ صحابہؓ نے یہ بات سنی تو اُنہوں نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال دی ہے اور وہ دل میں خوش ہوئے کہ آج ہمیں ایک بڑا اچھا نکتہ ملا ہے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ یہ سنتے ہی رونے لگ گئے اور اتنے روئے اتنے روئے کہ اُن کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! ابوبکر مجھے اتنا پیارا ہے کہ اگر خدا کے سِوا میں کسی اور کو خلیل بنا سکتا تو ابوبکر کو بنا لیتا۔ 62 معلوم ہؤا کہ اسلام میں کسی انسان سے محبت کرنا تو جائز ہے لیکن خُلّۃ صرف خداتعالیٰ کے لئے جائز ہے۔ گو استعارہ کے طور پر انسانوں کیلئے بھی کبھی کبھی بول لیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت بعد میں اسلام لائے تھے مگر اُنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے کا بہت شوق تھا اور اسی وجہ سے اُنہوں نے ہزاروں حدیثیں بیان کی ہیں مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے اُن کی درایت ایسی اعلیٰ نہیں تھی وہ ہمیشہ نئے آنے والوں پر جب اپنے فخر کا اظہار کیا کرتے تو کہا کرتے تھے کہ خلیلی نے یہ فرمایا ہے۔ خلیلی نے یہ فرمایا ہے اور مراد یہ ہؤا کرتی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے۔ گویا اپنا تعلق جتانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض دفعہ خلیل کا لفظ استعمال کر لیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ ایک دفعہ کہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے اِسی طرح کہنا شروع کیا کہ خلیلی نے یوں کہا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے سنا تو اُنہیں بُرا معلوم ہوا اور اُنہوں نے ڈانٹا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو کیا ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھے اور کیا ہم دیکھا نہیں کرتے تھے کہ تمہارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنا تعلق تھا؟ معلوم ہوتا ہے جوش میں حضرت ابوہریرہؓ اس طرح کہہ لیتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف خدا اور بندے کے انتہائی تعلق پرہی خُلّۃ کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔ اگر اس لفظ کو کسی اور مفہوم یا مقام پر استعمال کیا جائے گا تو وہ بہرحال استعارہ کہلائے گا۔ پس خُلّۃ کا لفظ مقاماتِ محبت میں سب سے بلند ہے چونکہ عام لفظ محبت ہے ہم اُسی کو آسانی کے ساتھ استعمال کر لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محبت کے مختلف درجے ہیں۔ (١) رغبت (٢)اُنس (٣) وُدْ (٤) محبت (٥) خُلّۃ۔ اوریہ پانچوں درجے وہ ہیں جن کا قرآن کریم سے ثبوت ملتا ہے۔
محبت کے اظہار کے لئے الفاظ تو بعض اَور بھی ہیں مگر وہ لمبے فقروں میں استعمال ہوئے ہیں اس لئے میں نے اُن کو چھوڑ دیا ہے اور دو لفظ ایسے ہیں جن کو میں نے لیا ہی نہیں یعنی شوق اور عشق۔ ان پانچ الفاظ میں دو تو صرف بندوں کی محبت کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور تین ایسے ہیں جو بندے اور خدا دونوں میں شریک ہیں یعنی بندے کے خدا سے تعلق پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور خدا کے بندے سے تعلق پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔
یہ جو میں نے کہا تھا کہ عشق کے معنی ہلاکت کے ہیں اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کے متعلق قرآن کریم یا احادیث میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا اس کا حدیثوں سے بھی ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ شَہِیْدًا63 یعنی اگر کسی شخص کو عشق ہو جائے اور پھر وہ اپنا تقویٰ قائم رکھے اور مر جائے تو وہ شہید ہوتا ہے۔ اِس سے پتہ لگا کہ عشق کا لفظ صرف شہوت یا ایسی مُفرط محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو صحت کو برباد کر دیتی اور دماغ کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی محبت کو عشق کہا جا سکتا ہے تو پھر اِس سے روکنے کے کیا معنی تھے۔ ایسی ہی روایت ابن عساکرؔ نے بھی ابن عباسؓ سے کی ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ محبت جسمانی جو انتہاء کو پہنچ جائے اور جب صبر بظاہر ناممکن ہو جائے تو اُس کے مفہوم میں عشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور چونکہ یہ بُرے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے یعنی شہوت یا ایسی مفرط محبت کے معنوں میں جو دماغ کو خراب کر دیتی ہے اور اسلام ایسے کسی فعل کو پسند نہیں کرتا خواہ خدا تعالیٰ ہی کے متعلق ہو۔ اس لئے گو عشق بھی محبت کے معنی رکھتا ہے مگر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے کسی صحیح حدیث یا قرآن میں نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ اور مومنوں کے متعلق قرآن یا حدیث میں صرف (١) رغبت (٢) اُنس (٣) وُدْ (٤) محبت اور (٥) خُلّۃکے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ پہلے دو صرف ایسی محبت کی نسبت استعمال ہوتے ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے اور دوسرے تین اُس محبت کے متعلق استعمال ہوئے ہیں جو دونوں طرف سے ممکن ہے اور ہوتی ہے۔ رغبت اور اُنس کے لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوئے کہ اوّل یہ ادنیٰ درجہ کی محبتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت ادنیٰ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے اس لئے کہ دونوں میں دوری سے نزدیکی اور وحشت سے قرب کے معنی پائے جاتے ہیں اور یہ باتیں انسان میں تو ہوتی ہیں کہ وہ پہلے دور ہوتا ہے اور پھر نزدیک ہونے کی خواہش کرتا ہے یا پہلے وحشت رکھتا ہے اور پھر قرب کا کوئی موقع مل جائے تو اُسے سکون محسوس ہوتا ہے اور وہ بار بار اس کی خواہش کرتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ایسا صرف انسان سے ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں کیونکہ وہ انسان کی ہر حالت سے ہر وقت واقف ہے اور اُس کی طرف جانے کی خواہش یا اُس سے کسی وقت ملاقات کے نتیجہ میں اُس سے سکون کا حصول اُس کی شان اور درجہ کے منافی ہے۔ پس بندے کی محبت، رغبت اور اُنس سے ترقی کرنا شروع کرتی ہے اور وُدْ کے مقام پر خدا تعالیٰ کی محبت میں مدغم ہو جاتی ہے اور پھر دونوں محبتیں مل کر خُلّۃ کے مقام پر ختم ہو جاتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مقام پر بندے سے اونچا ہوتا ہے۔ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ انسان راغب ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ وَدُوْد۔ انسان انیس ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ وَدُوْد۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ یہ وادِدْ ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ودُود ہو جاتا ہے جو وَادِدْ سے زیادہ شدید ہے۔ اِس کے بعد یہ مُحِبّ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی محبت پھر بھی اِس کی محبت پر فائق رہتی ہے۔ بظاہر چونکہ لفظ ایک ہے اس لئے بادی النظر میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح بندہ محبت کرتا ہے اِسی طرح شاید خداتعالیٰ بھی اپنے بندے سے محبت کرتا ہوگا۔ حالانکہ یہ درست نہیں محبت کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں جیسے ماں کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے، باپ کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے، بیوی بچوں کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے۔ پس یہ غلط ہے کہ بندہ کی محبت اور خداتعالیٰ کی محبت ایک جیسی ہے۔ بندہ جب مقاماتِ محبت میں ترقی کرتے کرتے مُحبّ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے اَحَبُّ مِنَ الاُمِّ ہو جاتا ہے یعنی ماں سے بھی زیادہ اُس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اس کا ثبوت ہمیں ایک حدیث سے ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قَدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبِیٌّ فَاِذَا اِمْرَأَۃٌ مِنَ السَّبٰی تَبْتَغِیْ اِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِی السَّبٰی اَخَذَتْہُ فَاَلْصَقَتْہُ بِبَطَنِھَا وَاَرْضَعَتْہُ فَقَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَرَوْنَ ھٰذِہِ الْمَرْأَۃَ طَارِحَۃً وَلَدَھَا فِی النَّارِ؟ قُلْنَا لَاوَاللہِ وَھِیَ تَقْدِرُ عَلٰی اَلَّاتَطْرَحُہٗ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللہُ اَرْحَمُ بِعِبَادِہٖ مِنْ ھٰذِہِ بِوَلَدِھَا64 یعنی ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے جن میں ایک عورت بھی تھی جب وہ قیدیوں میں کسی بچہ کو دیکھتی تو اُسے اُٹھاتی، اپنے سینہ سے لگاتی اور پھر اُسے دودھ پلاتی۔ اِس روایت میں تو ذکر نہیں آتا مگر دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتی رہی یہاں تک کہ اُس کا اپنا بچہ اُسے مل گیا اور وہ اُسے گود میں لے کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس عورت کو دیکھا اور پھر صحابہؓ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اس سے کہے کہ اپنے بچہ کو آگ میں پھینک دے تو کیا یہ اُسے پھینک دے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا خدا کی قسم! اگر اس کا بس چلے تو وہ کبھی اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینکے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے جو اس عورت کی محبت کا نظارہ دیکھا ہے اللہ تعالیٰ اِس سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے۔ ماں سے تو دس آدمی مل کر اُس کا بچہ چھین سکتے ہیں مگر وہ کون ماں کا بچہ ہے جو خدا کی گود سے کسی کو چھین سکے۔ اِس لئے خدا کی محبت زیادہ شاندار اور زیادہ پائیدار اور زیادہ اثر رکھنے والی ہے۔
اِس حدیث میں رحم کا لفظ محبت کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے کیونکہ ماں بچہ پر رحم نہیں کرتی اُس سے محبت کرتی ہے۔ پس مثال نے اِس کے معنی متعین کر دیئے ہیں۔
پھر اس سے اوپر ترقی کر کے بندہ خُلّۃ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں خلیل کہلاتے ہیں۔ لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ محبت میں زیادہ ہوتا ہے اِسی طرح خُلّۃ میں بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لفظ ایک ہے مگر بندے کی خُلّۃ اورخدا تعالیٰ کی خُلّۃ میں بڑا بھاری فرق ہے کیونکہ گو جذباتِ محبت ہر وقت زندہ رہتے ہیں لیکن سونے اور جاگنے کی حالت میں اُن میں فرق ہو جاتا ہے۔ سوتے وقت جذبات زندہ تو ہوتے ہیں مگر وہ دَب جاتے ہیں اور اُن پر ایک طرح کا پردہ پڑ جاتا ہے پس چونکہ انسان پر سِنَةٌ اور نَوْمٌآتے ہیں اور اُس وقت خُلّۃ تو ہوتی ہے مگر اُونگھ اور نیند کی وجہ سے اُس طرح کی نہیں ہوتی جس طرح جاگتے وقت کی ہوتی ہے۔ اِس لئے خدا اور بندے کی خُلّۃ میں بڑا بھاری فرق ہے۔ خداتعالیٰ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ65 کا مصداق ہے۔ پس یہ جاگتا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اِس سے اُسی طرح محبت کرتا ہے اور یہ سوتا ہے تب بھی اُس کی خُلّۃ اُسی طرح جاری رہتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ایک تحریر میں بھی اشارہ کیا ہے جو میں تشحیذالاذہان اور بدر میں شائع کروا چکا ہوں۔ اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
''دنیا کہتی ہے تُو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے اگر ہو تو اُس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں۔ لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں، جب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ میں کس حال میں ہوں اُس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت اور پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میں تیرے ساتھ ہوں تو پھر اے میرے مولیٰ! یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے ہوئے پھر میں تجھے چھوڑ دوں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں''۔66
تو دیکھو سوتے وقت جب انسان کا جسم اور روح بھی اُسے ایک طرح چھوڑ جاتے ہیں اُس وقت بھی خداتعالیٰ اپنے بندے کو نہیں چھوڑتا۔ اِس لئے خداتعالیٰ کا مقامِ خُلّۃ انسان کے مقامِ خُلّۃ سے بہت بالا ہے۔ نام دونوں محبتوں کا ایک ہے مگر دونوں کی کیفیت میں بہت فرق ہے۔
پس محبت کے تمام مقاموں میں سے جو ادنیٰ ہیں وہ صرف انسان سے مخصوص ہیں۔ خداتعالیٰ اُن کے مقابل پر اُن سے اعلیٰ مقام کی محبت دکھاتا ہے اور جو اعلیٰ مقام ہیں اور بندہ اور خدا میں مشترک ہیں اُن میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیشہ بندے سے آگے رہتا ہے۔ اِسی نکتہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں یوں بیان فرماتے ہیں:عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ قَالَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَامَعَہٗ حَیْثُ یَذْکُرُنِیْ۔ وَاللہِ لِلّٰہِ اَفْرَحُ بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ مِنْ اَحَدِکُمْ یَجِدُضَالَّتَہٗ بِالْفُلَاۃِ وَمَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَاِذَا اَقْبَلَ اِلَیَّ یَمْشِیْ اَقْبَلْتُ اِلَیْہِ اُھَرْوِلُ 67 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ خدا نے مجھے الہام سے فرمایا ہے کہ میں اپنے بندے کے یقین کے مطابق اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہوں اور جب کبھی بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں فوراً اُس کے پاس پہنچ جاتا ہوں۔ پھر اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا کی قسم ہے! کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ پر اس شخص سے زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے جس نے سخت جنگل میں اپنی اونٹنی کھوئی اور پھر وہ اُسے مل گئی۔ اس کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ جو شخص میرے پاس ایک بالشت بھر چل کر آتا ہے میں اُس کے پاس ایک ہاتھ چل کر آتا ہوں۔ (ذراع اُنگلیوں سے لے کر کُہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں) اور جو شخص ایک ہاتھ چل کر میرے پاس آتا ہے میں اُس کی طرف ایک باع (یعنی دونوں بازوؤں کے پھیلاؤ کے برابر) چل کر جاتا ہوں۔ اور جب بندہ میرے پاس چلتے ہوئے آتا ہے تو اَقْبَلْتُ اِلَیْہِ اُھَرْ وِلُ میں اُس کی طرف دَوڑنا شروع کر دیتا ہوں۔ غرض ہر مقام پر اللہ تعالیٰ بندے سے اونچے مقام پر رہتا ہے بندہ ایک بالشت چلتا ہے تو خداتعالیٰ ایک ہاتھ چلتا ہے۔ بندہ ایک ہاتھ چلتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک باع چل کر آتا ہے۔ بندہ اس کی طرف چل پڑتا ہے تو خداتعالیٰ اپنی محبت کے جوش میں اُس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ بندہ جس جس حد تک کام کرے اللہ تعالیٰ اُس سے زیادہ کام کرتا ہے وہاں اُس نے محبت کے کچھ قانون بھی بنائے ہیں جب کوئی شخص محبت الٰہی کے میدان میں قدم رکھنا چاہے تو اُسے اِن قانونوں کو مدنظر رکھنا چاہیے چنانچہ پہلا قانون یہ ہے کہ جب بندہ رغبت، اُنس اور وُدْ کے مقام سے ترقی کرکے حُبّ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس مقام کے لئے یہ شرط ہے کہ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَیعنی رغبت کے مقام تک اگر انسان میں کمزوری ہو اور بیوی بچوں کی محبت اُس کے دل پر غالب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ سمجھتا ہے کہ یہ کمزور ہے۔ ایسا مضبوط نہیں کہ اس جذبہ پر غالب آسکے۔ جب انسان اُنس کے مقام پر آتا ہے تو وہ زیادہ قربانیاں چاہتا ہے مگر یہ نہیں چاہتا کہ وہ سب کچھ بھول جائے۔ جب اِنسان وُدْ کے مقام پر آتا ہے تو وہ اپنے بندہ سے اُنس کے مقام سے بھی زیادہ قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے مگر پھر بھی اُس کی کمزوریوں کا خیال رکھتا ہے لیکن جب وہ حُبّ کے مقام پر پہنچ جائے تو چونکہ اب ترقی کرتے کرتے محبت کے بہت سے اسرار اُس پر کھل چکے ہوتے ہیں اِس لئے اللہ تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اب بندہ یہ فیصلہ کر لے کہ میں نے خداتعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی اَور کو منہ نہیں لگانا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قانون اللہ تعالیٰ نے حُبّ کے متعلق رکھا ہے رغبت کے متعلق نہیں رکھا۔ اُنس کے متعلق نہیں رکھا۔ وُدْ کے متعلق نہیں رکھا۔ رغبت جس میں کچھ خدا کی محبت ہو اور کچھ دنیا کی محبت، انسان کو خدا کا مقرب بنا سکتی ہے۔ اُنس جس میں خدا کی بھی محبت ہو اور دنیا کی بھی محبت ہو اللہ تعالیٰ کے قرب میں انسان کو کچھ نہ کچھ بڑھا دیتا ہے۔ اگر رغبت یا اُنس کے مقام پر انسان سے کچھ غلطی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ جانے دو میرا یہ بندہ ابھی پورے طور پر ہوش میں نہیں آیا اس کی غلطیاں نظر انداز کرنے کے قابل ہیں پھر وہ وُدْ کے مقام پر بھی پہنچ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کی غلطیوں کی کچھ زیادہ پرواہ نہیں کرے گا کیونکہ نہ وہ خدا میں فنا ہو گیا ہوگا اور نہ خدا اُس کے دل میں جا بسا ہوگا۔ اُس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی نابالغ بچہ لڑائی میں شامل ہوا اور اس نے کمزوری دکھائی اور وہ میدان سے بھاگ گیا لیکن جب حُبّ کے مقام پر انسان پہنچ جائے تو اُس وقت وہ اپنے باپ کو یا اپنے بیٹے کو یا اپنے بھائی کو یا اپنی بیوی کو یا اپنے قبیلہ کو یا اپنے خاندان کو یا اپنے مال کو یا اپنی شہرت کو یا اپنے علم کو یا اپنی نیک نامی کو یا اپنے مکانوں اور جائدادوں کو خداتعالیٰ پر ترجیح دے تو وہ خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکار دیا جائے گا اور اُسے کہا جائے گا کہ تم نے ہمارے مقامِ محبت کی ہتک کی ہے۔ پس بے شک یہ مقام اعلیٰ ہے مگر اس مقام کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں۔ جو پہلی رعائتیں تھیں وہ اس مقام پر آ کر ختم ہو جاتی ہیں۔ مقامِ رغبت تک وہ مزے میں تھا اور اِدھر اُدھر جا سکتا تھا۔ اُنس کے مقام تک بھی اگر اُس سے غلطی ہو جاتی اور فرشتے کہتے کہ ہم اسے سزا دیں تو اللہ تعالیٰ کہتا کہ سزا کیسی؟ ابھی اِس نے ہوش تھوڑی سنبھالی ہے۔ پھر وُدْ کا مقام آیا تو اس مقام میں بھی یہ خطرے سے باہر تھا کیونکہ گو وہ بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن ابھی بالغ کے احکام اُس پر جاری نہیں ہو سکتے تھے لیکن جب وہ حُبّ کے مقام پر پہنچا تو بالغ ہو گیا اور اس پر تمام احکام جاری ہونے لگ گئے۔ جب تک یہ بالغ نہیں ہؤا تھا اس کی گرفت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا جیسے لڑائی ہو رہی ہو تو کوئی شخص بچوں کو نہیں پکڑتا کہ تم لڑائی پر کیوں نہیں جاتے بلکہ اگر کوئی نابالغ بچوں کو پیش بھی کرے تو ذمہ دار افسر ہنس پڑتے ہیں کہ کس کو پیش کیا جا رہا ہے چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ بارہ بارہ برس کے لڑکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور کہتے کہ یَا رَسُوْلَ اللہ ہمیں بھی جہاد میں شامل ہونے کی اجازت دیجئے۔ مگر آپ فرماتے کہ جاؤ ابھی تم پر جہاد فرض نہیں۔تو رغبت کے مقام پر اور اُنس کے مقام پر اور وُدْ کے مقام پر گناہوں سے معافی زیادہ ملتی ہے۔ مگر جب انسان حُبّ کے مقام پر پہنچ جائے تو گناہوں کی معافی کم ہو جاتی ہے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور توبہ کے ساتھ خواہ کیسے ہی گناہ ہوں معاف ہو جاتے ہیں لیکن بہرحال پہلے مقام وہ تھے جن میں معافی کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ جیسے چھوٹا بچہ دودھ پیتے پیتے بعض دفعہ اپنی ماں کا پستان کاٹ لیتا ہے مگر ماں اُسے کبھی نہیں کہتی کہ مجھ سے معافی مانگو۔ وہ سمجھتی ہے کہ یہ بچہ ہے اور اس سے نادانی میں یہ حرکت ہوگئی ہے۔ اِسی طرح رغبت اور اُنس اور وُدْ کے مقام پر معافی کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ وہ چاہے مانگے یا نہ مانگے۔ اللہ تعالیٰ اُسے بچے کی طرح سمجھتا ہے گویا نیکی تو اُس میں موجود ہوتی ہے لیکن توبہ کا مقام اُسے حاصل نہیں ہوتا۔ اِس کے بعد جب وہ حُبّ کے مقام پر پہنچتا ہے اور پھر کوئی غلطی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے اب یہ معافی مانگے گا تو ہم معاف کریں گے یوں ہم اسے معاف نہیں کر سکتے۔ جب یہ توازن قائم نہیں رہتا تو انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور وہ رغبت اور اُنس کے مقام پر بعض دفعہ محبت الٰہی کا دعویٰ کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم محبوبِ خدا ہوگئے ہیں حالانکہ جب تک وہ ایک بچہ کی حیثیت رکھتا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں ان راہوں سے زیادہ واقف نہیں میری حیثیت ایک بچہ کی سی ہے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو پھر بالغ کی ذمہ داریاں سمجھے اور خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی چیز کو ترجیح نہ دے۔
(2) دوسری شرط یہ ہے کہ جب انسان محبت کے مقام پر پہنچے تو پھر خداتعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ جو شخص اس مقام سے گرتا ہے وہ خداتعالیٰ کی طرف سے سخت سزا پاتا ہے۔ رغبت کے مقام پر اگر اُس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں۔ اُنس کے مقام پر اگر اُس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں۔ وُدْ کے مقام پر اگر اس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں لیکن جب محبت کے مقام پر پہنچ جائے تو پھر اس مقام کو مضبوطی سے پکڑ لے اور اللہ تعالیٰ کو ایک آن کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اُن کے دشمن آئے اور اُنہوں نے کہا کہ کیا ستاروں کی پرستش کرنا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا ذرا ٹھہرو۔ جب ستارے آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ 68 وہ چیز جو آنکھوں سے اوجھل ہو جائے میں اُس سے محبت نہیں کر سکتا۔ اگر یہ خدا ہیں تو پھر اوجھل کیوں ہوگئے۔ محبت تو اُس سے ہو سکتی ہے جو آنکھوں سے اوجھل نہ ہو۔ پس کامل محبت تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ کیا تم نے کبھی کوئی ماں ایسی دیکھی ہے جسے یہ یاد کرانے کی ضرورت ہو کہ اپنے بچہ سے محبت کر۔ بچہ کہیں بیٹھا ہو اس کے دل میں محبت کی چنگاری سُلگ رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ بیٹھے بیٹھے اُس کے منہ سے آہ نکل جاتی ہے۔ بیوی خاوند آپس میں محبت کرتے ہیں تو خواہ خاوند کتنی دور چلا جائے جب بھی اُس کا ذہن خالی ہوگا وہ اپنی بیوی کو ضرور یاد کرے گا۔ بعض دفعہ ایک سپاہی لڑائی میں شامل ہوتا ہے۔ میدانِ جنگ میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ بندوقیں چل رہی ہوتی ہیں اور موت کا بازار گرم ہوتا ہے لیکن اُس وقت بھی اگر اُسے اپنی بیوی یاد آ جائے تو اُس کی آہ نکل جاتی ہے۔ بیوی بعض دفعہ پھلکے پکا رہی ہوتی ہے کہ اپنے میاں اُسے یاد آ جاتے ہیں اور پھلکے پکاتے پکاتے اُس کی آہ نکل جاتی ہے۔ تو فرماتا ہے لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ اگر تمہارا خداتعالیٰ سے تعلق ہو اور کبھی اُس کی محبت تمہارے دل میں آ جاتی ہو اور کبھی نہ آتی ہو تو تم مت کہو کہ ہمیں خدا تعالیٰ سے محبت ہے تم کہو کہ ہمیں اُس سے رغبت ہے، تم کہو کہ ہمیں اُس سے اُنس ہے تم کہو کہ ہمیں اُس سے وُدْ ہے مگر یہ مت کہو کہ ہمیں اُس سے محبت ہے کیونکہ محبت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب محبوب کی یاد دل سے جدا نہ ہو۔ خیال تو دوسری طرف جا سکتا ہے جیسے کھیل کے وقت کھیل کا ہی خیال رہے گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ محبت کا جذبہ بالکل جاتا رہے۔ بلکہ جب بھی وہ اللہ تعالیٰ کا خیال کرے گا اُسی وقت اُس کی محبت بھی آ جائے گی۔ جو شخص کبھی محبت کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا اُس کی محبت کبھی قبول نہیں ہوتی یا یوں کہو کہ وہ محبت ہی نہیں ہوتی لیکن توبہ واستغفار قبول ہو جاتا ہے حالانکہ توبہ و استغفار بھی انسان کبھی کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ محبت جذبات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور توبہ و استغفار دماغ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ محبت ہمیشہ یکساں چلتی چلی جائے گی چاہے انسان خوشی میں ہو یا رنج میں۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ محبت کی لہر کبھی اونچی چلی جائے اور کبھی نیچے آ جائے لیکن یہ کبھی نہیں ہوگا کہ وہ کبھی غائب ہی ہو جائے۔ اِس کے مقابلہ میں توبہ و استغفار میں یہ ہوگا کہ کبھی ہم توبہ و استغفار کر رہے ہوں گے اور کبھی نہیں کر رہے ہوں گے۔ پس الٰہی محبت وہی ہو سکتی ہے جو سب سے زیادہ ہو اور اُس میں دوام پایا جائے۔
قرآن کریم کی رُو سے محبت کی دو اقسام ثابت ہوتی ہیں۔ اوّل محبت کسبی جو انسان کسب سے حاصل کرتا ہے یعنی پہلے وہ رغبت کرتا ہے پھر اُنس کرتا ہے پھر وُدْ کرتا ہے اور پھر محبت کرتا ہے۔ یہ محبت بندے کی طرف سے آتی ہے۔ گویا کسبی چیز وہ ہے جو بندہ کرتا ہے اور وہبی وہ ہے جو خدا کی طرف سے آتی ہے چاہے وہ محبت سے ہی شروع ہو جائے۔ بہرحال کسبی محبت میں کوشش بندے کو کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 69 یعنی اگر تمہارے دلوں میں خداتعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مقابل میں بھی محبت کا پیدا ہونا ایک ضروری امر ہے کیونکہ سچی محبت دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں ''دل را بہ دل رہسیت''۔ جب کوئی شخص سچے دل سے کسی سے محبت کرتا ہے تو دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال خداتعالیٰ سے کوئی ایسی محبت نہیں ہو سکتی جس میں دونوں طرف جوڑ اور اِتصال نہ ہو۔ جیسے ماں اور بچہ اور خاوند اور بیوی میں محبت ہوتی ہے کہ ایک طرف ماں کے دل میں محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بچہ کے دل میں۔ ایک طرف خاوند اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے تو دوسری طرف بیوی اپنے خاوند پر جان دیتی ہے۔ اِسی طرح بندے اور خدا کی محبت میں بھی ایک جوڑ اور تعلق ہوتا ہے۔ فرماتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ ۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہاری یہ محبت تب ثابت ہوگی جب تم ہمارے بتائے ہوئے طریق کے مطابق محبت کرو گے اگر تم اُس طریق کے مطابق چلو گے تب ہم مانیں گے کہ تم ہم سے محبت کرتے ہو ورنہ نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ ہمارے دل کی تو یہی خواہش ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کریں مگر ہم کریں کس طرح اس کا جواب یہ دیا کہ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع بن جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا۔ یہ محبت کسبی ہے۔ بندہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے مگراُس کے راستہ میں روک پیدا ہو جاتی ہے۔ تب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یوں محبت کرو۔ پس ایک محبت وہ ہے جو بندے کی طرف سے شروع ہوتی ہے اور بعض ذرائع اختیار کر کے حاصل ہوتی ہے اور آخر اللہ تعالیٰ بھی اُس بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ محبت کسبی کہلاتی ہے۔
یاد رہے کہ اس آیت میں فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ فرمایا ہے فَاَحِبُّوْنِیْ نہیں فرمایا کیونکہ محبت جذبات سے تعلق رکھتی ہے اور جذبات اپنی مرضی سے پیدا نہیں کئے جا سکتے۔ جبر اور زور سے اعمال کئے جا سکتے ہیں۔ اِس لئے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو جو جبر سے کی جا سکتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور اس محبت کے بدلہ میں تمہاری محبت جو خدا تعالیٰ سے ہے بڑھنے لگے گی۔
دوسری محبت موہبت کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بندہ کو گھیرلیتی ہے۔ اس محبت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ١ٞيُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ لَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔ 70اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اے مومنو! اگر تم میں سے کوئی شخص مرتد ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلہ میں ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جس سے وہ محبت کرے گا اور جو اُس سے محبت کرے گی یعنی پہلے اللہ تعالیٰ محبت کرے گا اور پھر وہ کریں گے گویا اُن کی محبت موہبت والی محبت ہوگی۔
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ جو مومن تھے اُن کی نسبت تو اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ پہلے تم اتباعِ رسول کرو پھر تم خداتعالیٰ کے محبوب ہوگے اور مرتدوں کے بدلہ میں جو کفار سے آنے والے تھے اُن کے متعلق یہ کہا کہ خدا اُن سے پہلے محبت کرے گا اور پھر وہ اس سے محبت کریں گے۔ اِس فرق کی وجہ کیا ہے اور کیوں مومنوں کی محبت کو کسبی اور مرتدوں کے بدلہ میں کفار میں سے آنے والوں کی محبت کو وہبی قرار دیا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ بعض دفعہ کسی کو شرمندہ کرنے کے لئے دوسرے کو حق سے زیادہ انعام دیا جاتا ہے یا بعض دفعہ دوست کی ناشکری پر غیر پر زیادہ احسان کر دیا جاتا ہے تا کہ روٹھنے والے کو شرمندہ کیا جائے اور اپنا استغناء ظاہر کیا جائے۔ بعض دفعہ ہم اپنے کسی بچے کو بُلاتے ہیں اور کہتے ہیں آؤ ہم تمہیں مٹھائی دیں اگر وہ نہیں آتا تو پاس اگر غیر کا بچہ کھڑا ہو تو اُسے دوگنی مٹھائی دے دیتے ہیں تا کہ اپنا بچہ جو نہیں آیا وہ شرمندہ ہو۔ اسی طرح بعض دفعہ مومن مرتد ہوتا ہے اور چلاجاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی حالت میں ہم خود کافروں میں سے چن چن کر بعض لوگوں کو لائیں گے اور پھر تمہیں دکھائیں گے کہ ہم اُن سے کیسا پیار کرتے ہیں۔ گویا اس میں اصل مضمون مومنوں کو غیرت دلانا ہے۔ ورنہ خود مومنوں کے لئے بھی یہ مقام ہوتا ہے اور رسول تو سب کے سب اس دوسرے گروہ میں شامل ہوتے ہیں اور خدا کی خاص تربیت کے نیچے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متعلق یہ مشہور ہے کہ اُن کا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ لوگوں نے حماقت سے یہ سمجھ لیا ہے کہ اُن کو الف۔ ب پڑھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلق بِاللہ کے بنیادی اصول وہ کسی پیر اُستاد سے نہیں سیکھتے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے دل میں یہ اصول خود ودیعت کرتا ہے اور خود اُنہیں روحانیت کے اسرار سے واقف کرتا ہے۔ پس نبی کا استاد نہ ہونے کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ اُن کو روحانی علوم سکھانے والا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ باقی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو لوگ سکھاتے ہیں جیسے میں اِس وقت لیکچر دے رہا ہوں اور آپ لوگ سن رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے سکھایا تھا۔ ولید وغیرہ تو سب مشرک تھے اُن سے آپ نے محبت الٰہی کا کیا سبق سیکھنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ سیکھا براہِ راست اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ کوئی دُنیوی اُستاد ایسا نہیں تھا جس نے آپ کو روحانیت کے اِن رازوں سے آشنا کیا ہو۔ پس یہ درست ہے کہ نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا مگر اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اُن کو محبت الٰہی کے راز سکھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ خدا خود اُن سے براہِ راست محبت کرتا اور براہِ راست اپنے علوم سے سرفراز فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں اور معصوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ بلوغت سے پہلے ہی وہ معصوم ہوں کیونکہ عصمتِ کاملہ جو نبی کو حاصل ہوتی ہے وہ اُس وقت تک اُسے حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب تک کہ تقویٰ اور محبت الٰہی اُس کے بلوغ بلکہ ہوش سے پہلے ہی موجود نہ ہو۔ جو اُسے بُرائیوں سے محفوظ رکھے اور یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَوْکَانَ نَبِیًّا71 تو اس کے معنی صرف بچپن کے کھیل کود کے ہیں نہ کہ بغاوت و شرارت کے۔
اب میں قرآن کریم سے بتاتا ہوں کہ خداتعالیٰ کن لوگوں سے محبت نہیں کرتا تا کہ انسان کوشش کرے کہ میں ویسا نہ بنوں۔ جب خداتعالیٰ کہتا ہے کہ میں فلاں فلاں سے محبت نہیں کرتا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ایسے آدمی کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ پس جن لوگوں میں یہ باتیں پائی جائیں گی وہ اِن امور کی موجودگی میں خداتعالیٰ سے کبھی محبت نہیں کر سکتے اور نہ اُن کا یہ دعویٰ تسلیم کیا جا سکتا ہے (اگر وہ کہیں) کہ وہ خداتعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ قرآن کریم کی آیات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلاں فلاں شخص سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا لیکن چونکہ یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ بندہ ایک قدم بڑھے تو خداتعالیٰ دو قدم بڑھتا ہے اِس لئے اگر یہ ممکن ہو تا کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتے تو یہ جواب غلط ہو جاتا کہ ایک قدم کے بدلہ میں خداتعالیٰ دو قدم بڑھتا ہے۔ پس نتیجہ یہی نکلا کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کر ہی نہیں سکتے اور جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ عقل بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دس قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ دس قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔
(1، 2) اوّل مختال سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا اور دوسرے فَخُوْرَا سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا72جس شخص کے اندر کبر پایا جاتا ہے اور جس شخص کے اندر فخر کی عادت پائی جاتی ہے اُس سے خدا محبت نہیں کرتا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ جس شخص کے اندر تکبر پایا جاتا ہے یا جس شخص کے اندر فخر کا مادہ پایا جاتا ہے وہ خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا۔ مختال اُس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی اِتنی بڑی شان سمجھے کہ گویا سب مصائب سے محفوظ ہے اور فَخُوْرَا اُسے کہتے ہیں جسے یہ خیال ہو کہ میرے اندر ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو دوسروں میں نہیں اور انہیں طعنہ دے کہ میرے جیسی خوبیاں دوسروں میں کہاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے بلکہ درحقیقت کسی انسان سے بھی محبت نہیں کر سکتے جس شخص کے اندر کبر پایا جاتا ہے اگر خداتعالیٰ کی کبریائی کا اُسے کبھی خیال آتا تو کیا وہ تکبر کر سکتا؟ جس کے سامنے بادشاہ کھڑا ہو کیا وہ اپنا سر اُونچا کر سکتا ہے؟ معمولی سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی سامنے کھڑا ہو تو سپاہی ایسا مؤدب اور شریف بن کر کھڑا ہوتا ہے کہ گویا اُس کے منہ میں زبان ہی نہیں۔ پھر جو شخص خداتعالیٰ کی کبریائی کا بھی خیال نہیں رکھتا اُس نے خداتعالیٰ سے محبت کیا کرنی ہے۔ محبت یا تو حُسن سے پیدا ہوتی ہے یا احسان سے۔ جب یہ اپنے آپ کو اتنی بڑی شان کا مالک خیال کرتا ہے کہ سمجھتا ہے میں سب مصائب سے محفوظ ہوں تو ذاتِ باری کا حسن یا اُس کا احسان اسے کس طرح نظر آ سکتا ہے۔ پس مختال سے خداتعالیٰ محبت نہیں کرتا اور نہ ایسا شخص خداتعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔
اِسی طرح فخر بھی وہی کرتا ہے جو سمجھتا ہے کہ میرے اندر ایسی خوبیاں ہیں جو دوسروں میں نہیں اور وہ اُن خوبیوں کو اپنا ذاتی وصف قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ ہمیں جس قدر نعمتیں حاصل ہیں یہ ہم نے اپنے زورِ بازو سے حاصل کی ہیں۔پس فخر کے معنی یہ ہیں کہ انسان خداتعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرے اور کہے کہ اِن نعمتوں کا حصول میرا ذاتی وصف ہے اور جو شخص بھی ایسا کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حسن کا انکار کرتا ہے اور ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔
(3)جس شخص کو اپنے کاموں میں حد سے گزر جانے کی عادت ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ 73 حد سے گزر جانے والوں سے خدا محبت نہیں کرتا یا یوں کہو کہ جو لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں وہ کبھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص بھی طبعی طور پر خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنے حق کا مطالبہ کرنے میں حد سے بڑھا ہؤا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو غصہ آ گیا اور اُس نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا۔ اب یہ ایک غلطی ہے جس کی سزا اُسے ملنی چاہیے مگر یہ سزا اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ ہم اُسے بُلائیں اور ڈانٹ دیں کہ تم نے فلاں کو تھپڑ کیوں مارا لیکن بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس شخص سے قصور سرزد ہؤا ہو جب تک وہ اُس کا قیمہ نہ کر لیں اُن کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس بھی مختلف قسم کی رپورٹیں آتی رہتی ہیں اور ہم اُنہیں اُن کے قصور کے مطابق سزا دے دیتے ہیں۔ بعض دفعہ کسی سے غلطی ہو تو اُسے مثلاً ڈانٹ دیا جاتا ہے یا معمولی جرمانہ یا مسجد میں بیٹھ کر ذکرالٰہی کرنے کی سزا دے دی جاتی ہے۔ مگر جو اپنے کاموں میں حد کے اندر رہنے کے عادی نہ ہوں اُن کی اس سے تسلی ہی نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں یہ بھی کیا سزا ہے کہ چار آنے جرمانہ کر دیا۔ اُن کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ ہم اُس کے سر پر آرہ رکھ کر چلائیں۔ پھر اُس کی ہڈیاں جلا کر اُنہیں سِل پر پیسیں اور پھر کسی پاخانہ کے گڑھے میں اُس کی راکھ ڈال دیں اور پھر اُس پر ایک کتبہ لگا دیں جس میں اُس کو اور اُس کے باپ دادا کو گالیاں دی گئی ہوں اور پھر یہیں تک بس نہیں جب وہ اگلے جہان میں پہنچے تو وہاں بھی خدا اُس کو دوزخ میں ڈالے اور اُسے ایسا عذاب دے جو کسی اور کو نہ دیا گیا ہو حالانکہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے۔ وہ حد سے زیادہ گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا اور نہ حد سے گزرنے والا خداتعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔
(4)جو شخص خوّان ہو یعنی طبیعت میں خیانت کا مادہ رکھتا ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِيْمًا74 محبت کہتے ہیں معاملہ کی درستی کو اور خوّان کے معنی ہیں بہت بڑا خائن۔ محبت کے معاملہ میں تو ایک چھوٹی سی خیانت بھی برداشت نہیں کی جا سکتی کُجا یہ کہ کوئی شخص خوّان ہو اور پھر اُس سے محبت کی جا سکے۔ جو شخص بڑا خائن ہے وہ کسی صورت میں بھی محبت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تعلقات کو نباہ نہیں سکتا۔ ایسے شخص کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ خدا سے محبت کرے گا یاخدا اُس سے محبت کرے گا بالکل عقل کے خلاف ہے۔
(5)اِسی طرح جو شخص اثیم ہو یعنی گناہ کی طرف کمال رغبت رکھتا ہو اُس سے بھی خداتعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ اثیم کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی بڑا قانون شکن ہو اور جس شخص کو قانون شکنی کی عادت پڑی ہوئی ہو وہ جس طرح دنیا کے قانون توڑے گا اِسی طرح خداتعالیٰ کے قانون بھی توڑے گا۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللہَ۔75 جو شخص یہ سوچتا رہے گا کہ میں نے اِس قانون کو توڑ لیا تو کیا حرج ہے، اُس قانون کو توڑ لیا تو کیا حرج ہے وہ خداتعالیٰ کے قانون بھی توڑتا چلا جائے گا اور اُن کی اطاعت سے ہمیشہ گریز کرے گا۔
ہماری جماعت میں ایک شخص ہؤا کرتا تھا جسے لوگ فلاسفر فلاسفر کہا کرتے تھے اب وہ فوت ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرمائے۔ اُسے بات بات میں لطیفے سوجھ جاتے تھے جن میں سے بعض بڑے اچھے ہؤا کرتے تھے۔ فلاسفر اُسے اِسی لئے کہتے تھے کہ وہ ہر بات میں ایک نیا نکتہ نکال لیتا تھا۔ ایک دفعہ روزوں کا ذکر چل پڑا۔ کہنے لگا مولویوں نے یہ محض ڈھونگ رچایا ہؤا ہے کہ سحری ذرا دیر سے کھاؤ تو روزہ نہیں ہوتا۔ بھلا جس نے بارہ گھنٹے فاقہ کیا اُس نے پانچ منٹ بعد سحری کھالی تو کیا حرج ہؤا۔ مولوی جھٹ سے فتویٰ دیتے ہیں کہ اُس کا روزہ ضائع ہو گیا۔ غرض اُس نے اِس پر خوب بحث کی۔ صبح وہ گھبرایا ہوا حضرت خلیفہ اوّل کے پاس آیا۔ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا مگر چونکہ حضرت خلیفہ اوّل ہی درس وغیرہ دیا کرتے تھے اس لئے آپ کی مجلس میں بھی لوگ کثرت سے آیا جایا کرتے تھے۔ آتے ہی کہنے لگا کہ آج رات تو مجھے بڑی ڈانٹ پڑی ہے۔ آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ کہنے لگا رات کو میں یہ بحث کرتا رہا کہ مولویوں نے ڈھونگ رچایا ہؤا ہے کہ روزہ دار ذرا سحری دیر سے کھائے تو اُس کا روزہ نہیں ہوتا۔ میں کہتا تھا کہ جس شخص نے بارہ گھنٹے یا چودہ گھنٹے فاقہ کیا وہ اگر پانچ منٹ دیر سے سحری کھاتا ہے تو حرج ہی کیا ہے۔ اِس بحث کے بعد میں سو گیا تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں نے تانی لگائی ہوئی ہے (فلاسفر جولاہا تھا اِس لئے خواب بھی اُسے اپنے پیشہ کے مطابق ہی آئی) دونوں طرف میں نے کِیلے گاڑ دیئے ہیں اور تانی کو پہلے ایک کِیلے سے باندھا اور پھر میں اُسے دوسرے کِیلے سے باندھنے کے لئے لے چلا۔ جب کِیلے کے قریب پہنچا تو دو انگلی وَرے سے تانی ختم ہوگئی۔ میں بار بار کھینچتا تھا کہ کسی طرح اسے کِیلے سے باندھ لوں مگر کامیاب نہ ہوسکا اور میں نے سمجھا کہ میرا سارا سوت مٹی پر گِر کر تباہ ہو جائے گا چنانچہ میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میری مدد کے لئے آؤ۔ دو اُنگلیوں کی خاطر میری تانی چلی۔ دو اُنگلیوں کی خاطر میری تانی چلی۔ اور یہی شور مچاتے مچاتے میری آنکھ کھل گئی۔ جب میں جاگا تو میں نے سمجھا کہ اس رؤیا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسئلہ سمجھایا ہے کہ دو اُنگلیوں جتنا فاصلہ رہ جانے سے اگر تانی خراب ہو سکتی ہے تو روزہ میں تو پانچ منٹ کا فاصلہ کہہ رہے ہو اُس کے ہوتے ہوئے کسی کا روزہ کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔
وہ تو فلاسفر کا لطیفہ تھا جس نے یہ کہا تھا کہ اگر پانچ منٹ بعد سحری کھائی جائے تو کیا حرج ہے۔ راولپنڈی کے ایک مولوی کا قصہ مشہور ہے کہ اُس کا ایک شاگرد اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا حضور! میں ایک مسئلہ دریافت کرنے آیا ہوں۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے تھوڑی سی ہوا خارج ہو جائے تو کیا وضو قائم رہتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟ اُس نے کہا وضو تو ٹوٹ جائے گا۔ کہنے لگا آپ میرا مطلب سمجھے نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر بہت تھوڑی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جائے گا؟ مولوی صاحب نے کہا تھوڑی کیا اور بہت کیا، ہوا خارج ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اُس نے کہا مولوی صاحب آپ پھر بھی نہیں سمجھے اگر بہت ہی تھوڑی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا ایک دفعہ تو کہا ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کیا کہوں۔ اِس پر اُس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ اگر اتنی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جائے گا؟ مولوی صاحب کو غصہ آ گیا اور اُنہوں نے کہا کمبخت! تیرا تو پاخانہ بھی نکل جائے تو وضو نہیں ٹوٹ سکتا۔ تو خوّان اور اثیم نے محبت کیا کرنی ہے وہ تو زیادہ سے زیادہ ایک فلسفی کہلا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔
جہاں محبت ہوتی ہے وہاں انسان دلیلیں نہیں سوچتا بلکہ عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ تقریر فرما رہے تھے کہ آپؐ نے دیکھا کہ کناروں پر کچھ لوگ کھڑے ہیں آپؐ نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اُس وقت مسجد کی طرف آ رہے تھے ابھی آپ گلی میں ہی تھے کہ آپ کے کانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز پہنچی کہ بیٹھ جاؤ۔ آپ وہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔ کسی شخص نے آپ کو دیکھا تو کہا عبداللہ بن مسعودؓ! تم ایسے عقلمند ہو کر یہ کیا حرکت کر رہے ہو کہ گلی میں بچوں کی طرح گھسٹ رہے ہو۔ اُنہوں نے کہا بات یہ ہے کہ مجھے ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ اِس لئے میں بیٹھ گیا۔ اُس نے کہا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو اُن لوگوں کے لئے تھا جو تقریر کے وقت کھڑے تھے۔ اُنہوں نے کہا مطلب تو میں بھی سمجھتا ہوں لیکن ڈرتا ہوں کہ ابھی میری جان نکل جائے تو میں خداتعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوں گا کہ ایک حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا بھی تھا جس پر میں نے عمل نہیں کیا۔76 پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے حکم تو سنا ہے لیکن اس کا یہ مفہوم ہے وہ مفہوم ہے وہ فلسفی تو کہلا سکتا ہے لیکن محب نہیں۔ اِسی طرح اثیم جو کھلے بندوں قانون شکنی کرتا ہے اور جو گناہ کی طرف میل رکھتا ہے وہ بھی اچھے دوست کے ساتھ اپنے تعلقات کو نباہ نہیں سکتا۔ اور بُرے دوست سے حقیقی محبت یوں بھی مشکل ہوتی ہے۔ پس خوّان اور اثیم سے بھی خداتعالیٰ محبت نہیں رکھتا یا یوں کہہ لو کہ خوّان اور اثیم بھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔
(6)جو فرح ہو یعنی عارضی لذات پر کمال لذت محسوس کرتا ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ 77 جو شخص چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خوش ہو جائے اللہ تعالیٰ اُسے اپنی محبت کا مورد نہیں بنا سکتا۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی تھی میں تھانیدار بن گیا۔ میں نے فلاں تجارت کی اور اُس میں بڑا نفع ہؤا اور اس خوشی میں اکڑا پھرتا ہے اور پتلون کے شکن ہر وقت درست کرتا رہتا ہے اُس نے خدا تعالیٰ کی محبت کیا حاصل کرنی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتی ہیں اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں ہر خوشی اور ہر نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے لیکن انسان اتنا پست ہمت کیوں بنے کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر قانع ہو جائے اور بڑی کامیابیوں کا خیال اُس کے دل سے اُتر جائے۔ اُسے تو آسمان کے تارے توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے عزم کو اتنا بلند رکھنا چاہیے کہ ہر مطمح نظر اُسے نیچا دکھائی دے اور وہ سمجھے کہ ابھی میں نے اور اونچا اُڑنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب براہین احمدیہ لکھی اور مولوی بُرہان الدین صاحب کو پہنچی تو اُنہوں نے آپ سے ملنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ وہ جہلم سے قادیان آئے۔ اتفاقاً اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کہیں باہر تشریف لے گئے تھے شاید ہوشیار پور چلّہ کرنے کے لئے یا کسی اور جگہ۔ مولوی بُرہان الدین صاحب چونکہ اسی ارادہ سے آئے تھے کہ آپ سے ملیں گے اِس لئے وہ اُسی جگہ جا پہنچے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قیام تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منع کیا ہؤا تھا کہ کوئی شخص مجھ سے ملنے کیلئے نہ آئے۔ وہ شیخ حامد علی صاحب کے پاس پہنچے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پُرانے خادم تھے اور سفروں میں آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ مولوی صاحب بعد میں خود ہی سنایا کرتے تھے کہ میں نے شیخ حامد علی صاحب کی بڑی منتیں کیں کہ کسی طرح میری ملاقات کرا دو مگر اُنہوں نے کہا میں کس طرح ملاقات کروا سکتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ملاقاتیں بند کی ہوئی ہیں۔ مگر میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں اِتنی دُور سے آیا ہوں اب میں بغیر آپ کو دیکھے کے واپس نہیں جاؤں گا چنانچہ میں وہیں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی صاحب کسی کام کے لئے گئے تو میں دَوڑ کر آپ کے کمرہ کی طرف چلا گیا اور دروازہ کے آگے جو پردہ لٹکا ہؤا تھا اُس کو ہٹا کر دیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ لکھتے ہوئے بھی ٹہلا کرتے تھے اُس وقت بھی آپ کوئی کتاب لکھ رہے تھے اور اِدھر سے اُدھر تیزی کے ساتھ ٹہلتے جاتے اور ساتھ ساتھ لکھتے جاتے تھے۔ میں نے جونہی آپ پر نظر ڈالی مجھے دیکھ کر اتنا ڈر آیا کہ پردہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ لوگوں نے مجھے دیکھا تو کہا ہمیں بھی کچھ بتائیے مرزا صاحب آپ سے ملے یا نہیں؟ میں نے کہا میں نے مرزا صاحب کو دیکھ لیا ہے بات تو میں نے آپ سے کوئی نہیں کی لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کمرے کے اندر بھی اتنی جلدی جلدی ٹہل رہے تھے جیسے کسی نے بڑی دور جانا ہو اور وہ اپنے کام کو تیزی کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہو۔ اِس سے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی منزل بہت دور ہے اور کوئی عظیم الشان مقصد ہے جو آپ کے سامنے ہے لیکن فَرِحَ یعنی تھوڑی تھوڑی چیز پر تسلی پا جانے والا دور کی کامیابیوں کو اپنا مقصد قرار ہی نہیں دے سکتا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ مومن پر اللہ تعالیٰ جب بھی کوئی احسان کرے گا وہ کہے گا ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۔ مگر ساتھ ہی کہے گا اِس انعام پر تو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ مگر میری منزل ابھی دور ہے پھر دوسرا انعام آئے گا تو کہے گا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۔ خدایا تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے اِس انعام سے سرفراز فرمایا مگر میں نے تو آپ کو لینا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں میرا مقصود نہیں ہیں۔ اِس طرح وہ قدم بقدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور آخر وہ خداتعالیٰ کو پا لیتا ہے۔
(7) جو شخص مفسد ہو اللہ تعالیٰ اُس سے بھی محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ 78 مفسد سے میں محبت نہیں کرتا۔ سیدھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا خالق اور اُس کا ربّ ہے۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرے گا تو اُس مخلوق کا خالق اور ربّ فساد کرنے والے سے کس طرح محبت کرے گا۔ اگر کسی بچہ سے انسان کو نفرت ہو تو اُس کی ماں کبھی نفرت کرنے والے سے پیار نہیں کر سکتی۔ جب تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جو شخص فساد ڈلواتا ہے اور لوگوں کی آپس میں لڑائیاں کرواتا رہتا ہے خدا تعالیٰ اُسے کبھی پسند نہیں کرسکتا۔
انگریزی میں ایک حکایت مشہور ہے کہ کسی شخص کو ایک عورت سے عشق ہو گیا۔ وہ عورت بیوہ تھی اور وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر یوروپین طریق کے مطابق خالی پیغام سلام سے شادی نہیں ہو سکتی تھی ضروری تھا کہ پہلے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا جائے کہ یورپ کے لوگوں میں مرد و عورت کی دوستی کے بعد شادی ہوتی ہے پہلے نہیں۔ پس وہ اُسے اپنی طرف راغب کرنے کی بڑی کوشش کرتا مگر اُسے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ آخر اُس نے اپنے کسی دوست سے ذکر کیا کہ مجھے اِس اِس طرح فلاں عورت سے عشق ہے اور میں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر وہ میری طرف توجہ ہی نہیں کرتی۔ اُس نے کہا عورت کا کوئی بچہ ہے یا نہیں؟ اُس نے کہا کہ بچہ تو ہے۔ اُس نے کہا تو پھر محبت میں کونسی مشکل ہے بچہ کو اُٹھا کر اُس سے چند دن پیار کرو عورت تم سے خودبخود بے تکلّف ہو جائے گی۔ تو جس سے کسی کو محبت ہو اُس سے نفرت رکھنے سے کبھی اُس شخص کی محبت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
خاکم نثار کوچۂ آلِ محمد است
اب آلِ محمدؐ میں سے اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔ مگر اس وجہ سے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ انسان اُن سے محبت کرے۔ یہ خیال کرنا کہ آلِ محمدؐ سے بے شک محبت نہ ہو لیکن محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مجھے حاصل ہو جائے گی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ ۔ اگر تم فساد کرو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تم سے محبت نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے پیارے ہیں۔ جو اُن سے محبت نہ کرے اور اُن کا بدخواہ ہو، نہ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کر سکتا ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ سے۔
(8) جو شخص ناشکرا ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا اور نہ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کر سکتا ہے کیونکہ محبت کا ایک ذریعہ احسان ہے۔ جو شخص شکرگزار نہیں اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ احسان کو نہیں دیکھ سکتا اور جو احسان کو نہیں دیکھ سکتا وہ خدا تعالیٰ سے محبت بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اُس سے محبت کا پہلا دروازہ احسان ہی ہے۔ وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ 79 خوّان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ كَفُوْر کے معنی ہیں ایسا انسان جو خدا تعالیٰ کے انعامات کو دیکھتا ہے اور پھر بھی اُس کے اندر شکرگزاری کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ گویا احسان شناسی کا مادہ اُس کے اندر ہوتا ہی نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کے احسانات کو دیکھتا ہی نہیں۔ کہتا ہے مجھے کچھ نہیں ملا اُسے اور کیا مل سکتا ہے۔ اُس سے تو اللہ تعالیٰ اگر محبت بھی کرے گا تو وہ کہہ دے گا کہ مجھے کچھ نہیں ملا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ80 تم جتناجتنا شکر کرو گے میں اُتنا ہی اپنے انعامات کو بڑھاتا چلا جاؤں گا اور جتنی جتنی ناشکری کرو گے اتنی ہی میں اپنے انعامات میں کمی کر دوں گا۔
(9) جو شخص مُسرف ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ81 مُسرف سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں رکھتا کیونکہ مسرف اپنے اور اپنے نفس کی لذات کو دوسرے کی تکلیف اور آرام پر ترجیح دیتا ہے اور جو شخص خداتعالیٰ کے بندوں پر خرچ کرنا پسند نہیں کرتا اپنے نفس پر بِلاوجہ خرچ کرتا چلا جاتا ہے اُسے کون پسند کر سکتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ آؤ میں تم پر اپنے انعامات نازل کروں کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی۔ تب بندے اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ خدایا! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور بیمار ہو۔ ہماری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ اُن سے کہے گا جب دنیا میں میرے غریب بندوں میں سے کسی بھوکے کو تم نے کھانا کھلایا تو تم نے اُسے کھانا نہیں کھلایا، مجھے کھلایا۔ اور جب تم نے کسی پیاسے کو پانی پلایا تو تم نے اُسے پانی نہیں پلایا بلکہ مجھے پانی پلایا اور جب تم نے کسی ننگے کو کپڑے دیئے تو تم نے اُس کو کپڑے نہیں دیئے بلکہ مجھے کپڑے دیئے اور جب تم نے میرے بیمار بندوں کی عیادت کی تو تم نے اُن کی عیادت نہیں بلکہ میری عیادت کی۔ اِس کے بعد وہ دوسری طرف کے لوگوں سے مخاطب ہوگا اور کہے گا میں بھوکا تھا مگر تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ میں پیاسا تھا مگر تم نے مجھے پانی نہ پلایا۔ میں ننگا تھا مگر تم نے مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں بیمار تھا مگر تم نے میری عیادت نہ کی تب وہ بھی اسی طرح کہیں گے کہ خدایا! تو تو زمین و آسمان کا مالک اور سب کا خالق ہے تو بھلا کب بیمار ہو سکتا ہے، کب بھوکا اور پیاسا اور ننگا ہو سکتا ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ اُن سے کہے گا کہ دنیا میں میرے کچھ ایسے بندے تھے جو بھوکے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو پیاسے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو ننگے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو بیمار تھے مگر تم نے اُن کی پرواہ نہ کی۔ نہ تم نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، نہ پیاسوں کو پانی پلایا، نہ ننگوں کو کپڑا دیا، نہ بیماروں کی عیادت کی۔ پس تم نے اُن بندوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا بلکہ میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے کیونکہ وہ میرے بندے تھے۔82 تو اللہ تعالیٰ جن لوگوں کی مدد کے لئے ہمیں روپیہ دیتا ہے، ہمیں علم دیتا ہے، ہمیں عزت اور شہرت دیتا ہے اگر ہم اپنے روپیہ اور علم اور عزت اور شہرت سے اُن کی مدد نہیں کرتے بلکہ صرف اپنے نفس کی لذات میں ہی منہمک رہتے ہیں تو ہم کیا امید کر سکتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے محبت کرے گا اور جب وہ ہم سے محبت نہیں کرے گا تو ہم اُس سے کس طرح محبت کر سکتے ہیں۔
(10) جو شخص ظالم ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ83 ظالموں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔گویا ظلم اور محبت جمع نہیں ہو سکتے۔ جو شخص ظلم کرتا ہے اُسے درحقیقت اپنی ذات کی محبت سب سے زیادہ ہوتی ہے اور جسے اپنی ذات کی محبت سب سے زیادہ ہو وہ دوسرے سے محبت نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے بندوں پر تو ظلم کرے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرے پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ محبت جذبہ ہے نرمی کا اور ظلم جذبہ ہے سختی کا۔ محبت کہتی ہے اپنی چیز قربان کر اور ظلم کہتا ہے دوسرے کی چیز قربان کر۔ پس یہ دو مخالف جذبات ہیں اِس لئے جو شخص ظالم ہے نہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے اور نہ خداتعالیٰ اُس سے محبت کرتا ہے۔
یہ دس عدد اخلاق اور بُرائیاں جس شخص میں ہوں فرداً فرداً یا مجتمع طور پر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے ناقابل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس سے محبت نہیں کر سکتا۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس میں یہ عیب نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ سے ضرور محبت کرتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس میں یہ عیب نہ ہوں اُس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی قابلیت ہوتی ہے۔ پس اِن باتوں کے یہ معنی نہیں کہ جن لوگوں میں یہ باتیں نہ ہوںوہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ جن لوگوں میں یہ باتیں ہوں وہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے اور نہ خداتعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے۔ لیکن اگر اُن میں یہ باتیں نہ ہوں تو اُن کے لئے اِمکان ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے محبت کر سکیں۔ یہ معنی نہیں کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ مثلاً جو شخص ظالم ہے وہ اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا۔ مگر جو ظالم نہیں ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہو۔ ممکن ہے وہ سخت دل ہو یا پاگل ہو اور اُس کے اندر محبت پیدا ہی نہ ہو سکی ہو۔ پس نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ ظلم کے ہوتے ہوئے محبت نہیں ہو سکتی۔ یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ظلم نہ ہو تو محبت ضرور ہوگی۔ ایک شخص جو مسرف نہیں اُس میں قابلیت ہے محبت کرنے کی مگر ضروری نہیں کہ وہ محبت کرے۔ اِسی طرح وہ شخص جو خوّان اور اثیم نہیں اُس میں قابلیت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرلے مگر ضروری نہیں کہ وہ محبت کرے۔ جب تک وہ خوّان اور اثیم تھا اس کے لئے محبت کرنا ناممکن تھا جب وہ خوّان اور اثیم نہ رہا تو محبت کرنا اس کے لئے ممکن ہو گیا۔ گویا ان صفات میں منفی کی طاقت ہے اِن کے عدم میں مثبت طاقت نہیں۔
اب میں بتاتا ہوں کہ محبت الٰہی پیدا کرنے کے لئے کن ذرائع کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ
اوّل صفاتِ الٰہی کا ورد کرنے سے، جسے ذکر کہتے ہیں محبت پیدا ہوتی ہے یعنی سُبْحَانَ اللہِ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ اَللہُ اَکْبَرُ اور اِسی طرح یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا سَتَّارُ یَا غَفَّارُ وغیرہ وغیرہ۔ ننانوے اسمائے الٰہیہ عام طور پر قرار دیئے جاتے ہیں۔ بعض نے سَو یا ایک سَو ایک نام بھی لکھے ہیں مگر ہیں وہ بہت زیادہ۔ بہرحال صفاتِ الٰہیہ کے ذکر کرنے سے محبت الٰہیہ پیدا ہوتی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ سب سے پہلا درجہ ہے اِس لئے کہ یہ تکلّف کا درجہ ہے۔ ہم کہتے ہیں سُبْحَانَ اللہِ۔ ہم کہتے ہیں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ ہم کہتے ہیں اَللہُ اَکْبَرُ۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا نام لیتے اور اُس کی صفات کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن نام لینے سے یقین اور ایمان میں ترقی نہیں ہوتی۔ ہم ایک مضمون تو اپنے سامنے لاتے ہیں مگر یہ کہ ہمارا قلب بھی اُس مضمون کو تسلیم کر لیتاہے یا نہیں یہ دوسری بات ہے۔ ہم ایمان لے آئے خدا کی باتوں پر۔ ہم ایمان لے آئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر اور ہم نے کہا خدا بڑا غفار ہے۔ خدا بڑا ستار ہے یا خدا بڑی شان کا مالک ہے۔ یہ ہمارے دماغ کی تسلی کا تو ثبوت ہے لیکن ہمارے دل کی تسلی کا ثبوت نہیں۔ ہم جب سُبْحَانَ اللہِ کہتے ہیں یا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے ہیں یا سَتَّار اور غَفَّار کہتے ہیں تو ایک عقلی چیز اپنے سامنے لاتے ہیں اور عقلی چیز کا لازمی نتیجہ محبت نہیں ہوتی۔ مثلاً ہم شیر کو مانتے ہیں مگر شیر کے ماننے سے محبت پیدا نہیں ہو جاتی۔ اِسی طرح ہم انگلینڈ اور امریکہ کا باربار ذکر سنتے ہیں تو انگلینڈ اور امریکہ سے محبت نہیں کرنے لگ جاتے۔ اِسی لئے اِس کو ذِکر کہتے ہیں یعنی یہ تکلّف اور بناوٹ کی محبت ہے۔ جیسے اقلیدس والا کہتا ہے کہ فرض کرو یہ لکیر فلاں لکیر کے برابر ہے۔ اِس طرح وہ فرض سے شروع کرتا ہے اور سچائی کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ ایک شخص مصنوعی طور پر رونا شروع کرتا ہے تو آہستہ آہستہ سچ مچ رونے لگ جاتا ہے۔ کئی مائیں اپنے بچوں کو ڈرانے لگتی ہیں تو بعد میں وہ خود بھی ڈرنے لگ جاتی ہیں۔
عربوں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی لڑکا تھا جسے باقی لڑکے سخت تنگ کرتے اور اُسے مارتے رہتے تھے۔ جب وہ بہت ہی تنگ آ جاتا تو اُن سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہتا کہ تمہیں کچھ پتہ بھی ہے آج فلاں رئیس کے ہاں ولیمہ کی دعوت ہے۔ یہ سنتے ہی بچے اُس طرف دَوڑ پڑتے اور اِسے چھوڑ دیتے۔ اُن کے جانے کے بعد اس کے دل میں خیال آتا کہ شاید وہاں سچ مچ دعوت ہو اور یہ لڑکے کھا آئیں اور میں محروم رہ جاؤں۔ اس خیال کے آنے پر وہ خود بھی اُسی طرف بھاگ پڑتا۔ ابھی وہ نصف راستہ میں ہی ہوتا کہ لڑکے ناکام واپس آ رہے ہوتے اور وہ غصہ میں اُسے پھر پکڑ لیتے اور خوب مارتے۔ جب وہ بہت ہی تنگ آ جاتا تو پھر اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے چاہتا کہ اُنہیں کوئی دھوکا دے۔ چنانچہ وہ اُن سے کہتا کہ اصل میں مَیں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔ دعوت اُس رئیس کے ہاں نہیں تھی بلکہ فلاں رئیس کے ہاں تھی۔ یہ سن کر لڑکے اُس دوسرے رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتے۔ مگر اُن کے جانے کے بعد پھر اُس کے دل میں شبہ پیدا ہوتا کہ گو میں نے دھوکا دیا ہے مگر شاید اُس رئیس کے ہاں دعوت ہی ہو۔ اِس خیال کے آنے پر وہ خود بھی اُسی طرف دَوڑ پڑتا اور خود بھی دھوکا کھا جاتا۔
تو بسا اوقات بناوٹ سے بھی یقین پیدا ہو جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی نماز میں رونے والی شکل بنائے تو آہستہ آہستہ اُسے رونا آجاتا ہے۔ پس ذکرِ الٰہی تصنع والی محبت کا مقام ہے۔ اصل میں اِس کا دماغ خدا کو سُبْحان مانتا ہے۔ اِس کا دماغ خدا کو ستار اور غفار مانتا ہے۔ اس کا اپنا جوڑ خداتعالیٰ سے نہیں ہوتا لیکن جب یہ کہنا شروع کرتا ہے کہ یا ستار یا غفار تو محبت الٰہی کا کوئی نہ کوئی چھینٹا اِس پر بھی آ پڑتا ہے۔ جیسے کیچڑ اُچھالا جائے تو کچھ کیچڑ اپنے اوپر بھی آ پڑتا ہے یا شکر کی بوری بھرتے ہیں تو شکر کے چند دانے بوری بھرنے والے کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔ غرض اِسی طرح ہوتے ہوتے یہ مصنوعی محبت حقیقی محبت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ فَاذْكُرُوْنِيْۤ۠ اَذْكُرْكُمْ84 تم میرا ذکر کیا کرو گے تو ہوتے ہوتے ایسا مقام تمہیں حاصل ہو جائے گا کہ میں تمہیں یاد کرنے لگ جاؤں گا۔
(2) دوسرا ذریعہ صفاتِ الٰہیہ پر غور کرنا ہے جسے صوفیاء کی اصطلاح میں فکر کہا جاتا ہے۔ ایک ہے سُبْحَانَ اللہِ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور اَللہُ اَکْبَرُ کہنا اور ایک ہے سوچنااور غور کرنا کہ خدا سُبْحَان کس طرح ہے۔ خدا اَکْبَر کس طرح ہے، خدا تمام تعریفوں اور محامد کا مستحق کس طرح ہے۔ یہ جو دماغ میں صفاتِ الٰہیہ کا دَور کیا جاتا اور اُن کا ایک رنگ میں آپریشن کیا جاتا ہے اِس کو فکر کہتے ہیں۔ خالی اَللہُ اَکْبَرُ کہنا ذکر ہے لیکن اَکْبَرُ پر بحث شروع کر دینی کہ اللہ کس طرح بڑا ہے یہ فکر ہے۔ جب انسان فکر کرے گا تو اس کے سامنے سوال آئے گا کہ اللہ کس طرح بڑا ہوا؟ آج تو امریکہ سب سے بڑا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی امریکہ کرتا ہے وہی ساری دنیا کرنے لگ جاتی ہے اور مسلمان اپنی حکومتوں کے باوجود اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکتے۔ جب وہ سوچے گا تو اُسے خود ہی یہ جواب سمجھ آئے گا کہ امریکہ کو جو بڑائی ملی ہے یہ اُسے کس نے دی ہے اور کیوں دی ہے۔ جب وہ غور کرے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ امریکہ کو خدا نے ہی بڑائی دی ہے اور اس لئے بڑائی دی ہے کہ اُس نے فلاں فلاں اعمال کئے اور مسلمان اس لئے گر گئے کہ اُنہوں نے اُن اعمال کو ترک کر دیا۔ غرض اس طرح جب وہ سوچے گا تو اس کا دل اِس یقین اور ایمان سے لبریز ہو جائے گا کہ اَکْبَراللہ ہے امریکہ نہیں۔ اِس غور اور تدبر کو فکر کہتے ہیں اور یہ مقام تفصیل کا مقام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔85 اے مومنو! یاد کرو میرے ناموں کو نہیں، میری صفات کو نہیں بلکہ نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ جو انعام میں نے تم پر اپنی کسی خاص صفت کے ماتحت کئے ہیں اُن کی تفصیلات پر غور کرو۔ یہ نہ سوچو کہ میں نے تمہیں کھانا دیا اور کپڑے دیئے بلکہ یہ سوچو کہ دنیا تمہارے لئے کیا کر رہی تھی اور میں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ کس طرح ایک قوم تمہیں تباہ کرنے کے لئے اُٹھی اور اُس نے اپنی ساری قوتیں تمہارے خلاف جمع کر لیں۔ کیا کیا قدرتیں تھیں جو اُس کو حاصل تھیں فَكَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اُس کے سارے منصوبوں میں اُس کے ہاتھ روک دیئے اور تمہیں اُس کے حملوں سے محفوظ کر دیا۔ یہ فکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتا ہے یعنی خالی زبان سے رحمٰن یا رحیم نہ کہا جائے بلکہ یہ سوچا جائے کہ تم بیماری سے مرنے لگے تھے، سارے حالات تمہارے خلاف جمع تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچا لیا اور تمہیں صحت عطا کر دی۔ فرض کرو کوئی شخص جنگل میں جا رہا ہے اور وہ کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے جس میں آپریشن ضروری ہے تو ایسی حالت میں اگر اچانک گھوڑے پر سوار کوئی ڈاکٹر اُس کے پاس آ جاتا ہے اور وہ اُس کا علاج کرتا ہے جس سے وہ اچھا ہو جاتا ہے تو ہر شخص سمجھے گا کہ یہ ڈاکٹر نہیں آیا بلکہ خدا اپنے بندہ کے پاس چل کر آیا ہے۔ ایسے ہی نشانات ہوتے ہیں جو انسان کو کھینچ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لے جاتے ہیں اور اُسے فرش سے اُٹھا کر عرش تک پہنچا دیتے ہیں اور انہی نشانات پر غور انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیت میں اِسی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم غور کرو اور سوچو کہ آیا تمہارے ساتھ، تمہارے دوستوں کے ساتھ یا تمہارے بزرگوں اور عزیزوں کے ساتھ ایسے واقعات گزرے ہیں یا نہیں جن میں اُس کی قدرت کا ہاتھ دکھائی دیتا تھا۔ جب تم ایسے واقعات پر غور کرو گے تو تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے گی۔ یہ پہلے مقام سے اونچا مقام ہے۔ ذکر میں تکلّف پایا جاتا ہے لیکن فکر میں تکلّف نہیں ہوتا بلکہ ایک حقیقت سامنے ہوتی ہے۔
(3) تیسرے مخلوقِ الٰہی کی خیر خواہی اور اُس سے محبت کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وہ طریق ہے جس میں انسان خداتعالیٰ کو ایک رنگ میں مجبور کرتا ہے کہ میرے دل میں اپنی محبت ڈال۔ جیسے تم خدمت اور محبت سے دوسرے کے دل میں محبت پیدا کر دیتے ہو۔ تم ریل میں سفر کرتے ہو کمرہ میں سخت بھیڑ ہوتی ہے تمہارے لئے بیٹھنے کو کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ایک شخص گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ کمبخت یہ ریل ہے یا ڈربہ۔ جو آتا ہے اِسی ڈبہ میں آ جاتا ہے۔ اُس وقت اگر تم ایک کیلا نکال کر اُس شخص کے بچہ کو دے دو تو اُسی وقت اُس کا غصہ جاتا رہے گا اور وہ کہے گا تشریف رکھئے اور پھر وہ تم سے محبت کے ساتھ باتیں کرنے لگ جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے مخلوقِ الٰہی سے اگر نیک سلوک کرو تو اللہ میاں تم سے آپ کہیں گے کہ آؤ میاں میرے پاس بیٹھو۔ اصلی صوفیاء نے اِسی کا نام عشق مجازی رکھا تھا لیکن جھوٹے صوفیاء نے افراد کی محبت اور اُن سے عشق کا نام عشق مجازی رکھ لیا۔ حالانکہ جب صوفیاء نے یہ کہا تھا کہ عشق حقیقی پیدا کرنے کے لئے عشق مجازی ضروری ہے تو اُن کا مطلب صرف یہ تھا کہ بندوں کی حقیقی محبت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہو سکتی۔ نہ یہ کہ کسی حسین لڑکے یا حسین عورت سے جب تک محبت نہ کی جائے اللہ تعالیٰ بھی انسان سے محبت نہیں کر سکتا۔ یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نکتہ تھا جسے گندی شکل دے کر جاہلوں اور اوباشوں نے دین کی ہتک کی اور اپنی ہوس رانی کی راہ نکال لی۔ درحقیقت یہ محبت بسیط ہے یعنی کسی خاص شخص کی محبت نہیں بلکہ بنی نوع انسان بلکہ مخلوقات کا تصور کر کے یہ خیال کرنا کہ یہ میرے خدا کے پیارے ہیں مجھے خدا تعالیٰ تو نہیں ملتا چلو میں اِن سے محبت کروں اس محبت کا سرچشمہ ہے۔ ایسی محبت کرتے کرتے یکدم محبت الٰہی شُعلہ مار کر تیز ہو جاتی ہے۔ پس بے شک یہ درست ہے کہ عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی پیدا نہیں ہو سکتا لیکن عشق مجازی کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ جب تک انسان بنی نوع انسان کی محبت اور اُن کے لئے قربانی اور ایثار کا مادہ اپنے اندر پیدا نہیں کرتا اُس وقت تک خداتعالیٰ اُس سے محبت نہیں کر سکتا۔ اِس لئے صوفیاء نے کہا ہے کہ بنی نوع انسان خدا کے عیال ہیں جس طرح تمہیں اپنے بچوں سے محبت ہے اِسی طرح خدا کو بھی اپنی مخلوق سے محبت ہے۔ پس مخلوق سے محبت کر کے خدا کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے اور خدا کی محبت سے مخلوق کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ جب بارش نازل ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحن میں تشریف لاتے اور اپنی زبان نکال کر اُس پر بارش کا قطرہ لیتے اور فرماتے یہ میرے ربّ کی طرف سے تازہ نعمت آئی ہے86(اس موقع پر حضور نے اپنی زبان باہر نکالی اور فرمایا۔ اس طرح۔ پھر فرمایا) میرے زبان نکالنے پر ممکن ہے تم میں سے بعض یہ خیال کرتے ہوں کہ میں نے تہذیب کے خلاف حرکت کی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان نکالی تھی تو اُس وقت بھی بعض ایسے ہی خیالات رکھنے والے لوگ کہتے ہوں گے کہ یہ کیسی تہذیب کے خلاف بات ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کی اور فرمایا میرے ربّ کی طرف سے یہ تازہ نعمت آئی ہے میں کیوں نہ اِسے اپنی زبان پر لے لوں۔ اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کا قطرہ اپنی زبان پر نہیں لیا بلکہ درحقیقت خدا کی نعمت لی اور میں نے بھی اپنی زبان نکال کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ایک فعل کیا ہے تا کہ تمہیں یہ احساس ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی کس طرح قدر کیا کرتے تھے۔ اِسی مفہوم پر وہ آیت دلالت کرتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتی ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ 87 اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا تُو اپنے آپ کو اِس غم میں ہلاک کرلے گا کہ میرے یہ بندے ایمان نہیں لائے؟ گویا خیال کر کے کہ یہ مجھ سے دور ہیں اور میرے لئے ناخوشی کا موجب ہیں تُو آپ مرا جا رہا ہے۔ اس طرح سے بین السطور اِس آیت کا یہ ہے کہ جب تو میری مخلوق کے غم میں مرا جا رہا ہے تو میں تجھ سے پیار کیوں نہ کروں۔ دنیا میں اور لوگ بھی لوگوں کے مومن نہ ہونے پر غم کرتے ہیں مگر اُن کا غم اُن کے ہدایت نہ پانے پر نہیں ہوتا بلکہ اپنی بات کی ناکامی پر ہوتا ہے اور دونوں غموں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ ایک میں غصہ ہوتا ہے اور ایک میں رنج۔
پھر جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حدیث قدسی میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض بندوں سے کہے گا کہ جب میں بھوکا تھا تو تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ جب میں پیاسا تھا تو تم نے مجھے پانی پلایا اور جب میں بیمار تھا تو تم نے میری عیادت کی۔ بندے کہیں گے کہ خدایا! تو کب بھوکا ہؤا کہ ہم تجھے کھانا کھلاتے۔ تو کب پیاسا ہوا کہ ہم تجھے پانی پلاتے۔ تو کب ننگا ہؤا کہ ہم تجھے کپڑے پہناتے۔ تُو کب بیمار ہؤا کہ ہم تیری عیادت کرتے۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے کچھ بندے دنیا میں ایسے تھے جو بھوکے اور پیاسے اور ننگے اور بیمار تھے اور تم نے اُن کی خدمت کی۔ پس گو تم نے میرے بندوں کے ساتھ یہ سلوک کیا مگر یہ ایسا ہی تھا کہ گویا تم نے مجھ سے یہ سلوک کیا ہے۔
اِس مثال سے بھی ظاہر ہے کہ مخلوق کی محبت سے خالق کی محبت ملتی ہے۔ اِسی لئے اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے کہ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ88 جب کوئی شخص محسن ہو جاتا ہے اور بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے لگ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ جب تم کسی سے محبت کرنے لگو تو بتاؤ کہ کیا تمہارا دل چاہتا ہے کہ تم تو اُس سے محبت کرو لیکن وہ تم سے محبت نہ کرے۔ جب تم کسی سے محبت کرو گے تو لازماً تمہارا دل چاہے گا کہ وہ بھی تم سے محبت کرے لیکن دنیا میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ تم زید سے محبت کرو اور زید تم سے محبت نہ کرے۔ تم ایک شخص کو چاہو اور وہ تمہیں نہ چاہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا ایک بات چاہے اور وہ نہ ہو۔ جب خدا کہتا ہے کہ جو شخص محسن ہو جاتا ہے میں اُس سے محبت کرتا ہوں تو یہ ناممکن ہے کہ تم محسن بنو اور خدا تم سے محبت نہ کرے اور اس کی محبت کے نتیجہ میں تمہارے دل میں بھی ضرور محبت پیدا ہوگی اور تم بھی اُس سے محبت کرنے لگ جاؤ گے۔ یہ تو عام قاعدہ بھی ہے مگر خدا تعالیٰ کی تو یہ شان ہے کہ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ۔89
(4) گناہ پر ندامت کی عادت ڈالنا یعنی کوئی گناہ ایسا نہ ہو جس کے بعدندامت نہ ہو۔ اِس سے بھی محبت الٰہی پیدا ہوتی ہے کیونکہ جو شخص گناہ پرنادم ہو اُس کے اندر آہستہ آہستہ حُسن کے دیکھنے اور قدر کرنے کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جو شخص گناہ کرتا ہے اور پھر اُس کے اندر ندامت پیدا نہیں ہوتی اس کے معنی یہ ہیں کہ اُس نے بُری تصویردیکھی مگر اُس نے سمجھا ہی نہیں کہ یہ بُری تصویر ہے اور جس میں ندامت پیدا ہوتی ہے اُس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ اُس میں یہ احساس ہے کہ وہ بُری چیزوں کو بُری سمجھتا ہے اور جب وہ بُری چیزوں کو بُری سمجھے گا تو لازماً اچھی چیز دیکھ کر اُسے اچھی سمجھے گا۔ جب یہ مادّہ کسی شخص کے اندر پیدا ہو جائے اور وہ حسن کو دیکھنے لگے تو پھر خدا تعالیٰ کی محبت کا دروازہ آپ ہی کھل جاتا ہے کیونکہ وہ سب سے بڑا محسن اور سب سے بڑا حسین ہے۔ اِسی لئے فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ 90 اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(5) جو انسان اپنے دل میں یہ یقین پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہے کہ دعا کے بغیر میرے کام نہیں ہو سکتے۔ اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اِس خیال کو اپنے دل میں مرکوز کرلے گا وہ لازماً دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ کرے گا۔ کہے گا فلاں کا کام دعا سے ہوا ہے آؤ میں بھی اُس سے دعا کروں اور اس طرح خداتعالیٰ کا احسان اُس کے زیادہ قریب آ جائے گا۔ یوں تو خدا تعالیٰ نے ہی سورج اور چاند اور ستارے اور ہوا اور دوسری ہزاروں ہزار چیزیں پیدا کی ہیں اور انسان جانتا ہے کہ یہ سب خداتعالیٰ کی عطا کردہ ہیں لیکن جب یہ بات نظر کے سامنے آئے کہ میں نے فلاں چیز مانگی اور خدا نے دے دی۔ میں نے فلاں چیز مانگی اور خدا نے دے دی تو جو اثر یہ چیزیں پیدا کرتی ہیں وہ سورج اور چاند اور ستارے پیدا نہیں کرتے۔ پس دعا کی طرف توجہ کرنا بھی محبت الٰہی پیدا کرتا ہے۔ بے شک شروع میں تکلّف والا حصہ آئے گا لیکن جب یہ بار بار دعائیں مانگے گا تو لازماً اس کی دعائیں قبول بھی ہوں گی اور بعض دفعہ معجزانہ رنگ میں قبول ہوں گی اور اس کی وجہ سے احسان جس سے محبت پیدا ہوتی ہے ننگا ہو کر اس کے سامنے آ جائے گا اور اس کے دل میں بھی محبت الٰہی پیدا ہو جائے گی۔ اِس کی طرف بھی اوپر کی آیت اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ کے دوسرے معنوں نے اشارہ کیا ہے۔
تَوَّابِیْنَ کے دو معنی ہیں۔ ایک توبہ کرنے والوں کے اور دوسرے تَوَّاب اُس شخص کو کہتے ہیں جو بار بار اُس کی درگاہ میں جاتا ہے۔ پس جو شخص بار بار اُس کی درگاہ میں جاتا ہے اُس کے دل میں بھی خداتعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر یہ بات بھی فطرتِ انسانی میں داخل ہے کہ جب انسان مانگتا ہے تو عجز کرتا ہے اور جب عجز کرتا ہے تو اُس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اِس طرح بھی توّاب خداتعالیٰ کی محبت کا جاذب بن جاتا ہے۔
(6) جو شخص خداتعالیٰ پر اپنے کاموں کو چھوڑ دے یعنی تدبیریں سب کرے لیکن یہ یقین کرے کہ نتیجہ اللہ تعالیٰ ہی نے نکالنا ہے اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ جو شخص اپنے کام کو اُس پر چھوڑتا ہے وہ کم سے کم تکلّف سے اُس کی طاقتوں اور اُس کے احسان کا اقرار کرتا ہے اور یہ تکلّف آخر حقیقت بن جاتا ہے جیسا کہ اکثر دنیا کے کاموں میں ہوتا ہے۔ اِسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ 91 جوشخص خداتعالیٰ پر اپنے کام چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے یہ مجھ سے نہیں ہو سکتے آپ ہی یہ کام کیجئے اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔
(7) جو شخص دنیا میں خداتعالیٰ کے لئے انصاف کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اُس کے دل میں بھی محبت الٰہی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ انصاف کا ترک اپنے یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں اور عزیزوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ انسان اِسی لئے انصاف چھوڑتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر میں نے انصاف سے کام لیا تو میری ماں کو نقصان پہنچے گا یا میرے باپ کو نقصان پہنچے گا یامیرے رشتہ داروں کو نقصان پہنچے گا۔ پس انصاف کے ترک کی ایک بڑی وجہ اپنی یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت ہوتی ہے اور یا پھر انصاف کا ترک دشمن کے بُغض کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہی دو وجوہ نا انصافی کے ہؤا کرتے ہیں یعنی دونوں فریق میں سے ایک کی دوستی یا ایک کا بُغض۔ ظاہر ہے کہ جو نہ اپنی یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت کی پرواہ کرے گا نہ دشمن کا بُغض اُسے انصاف سے پھیرے گا کوئی اُس محبت سے بڑی محبت یا اُس بُغض سے بڑا خوف ضرور اُس کے دل میں ہوگا۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اگر فلاں مقدمہ کا میں یوں فیصلہ کر دوں تو میرے بچہ کو فائدہ ہوگا یا میرے دوست کو فائدہ ہوگا یا ماں باپ کو فائدہ ہوگا مگر اس کے باوجود وہ نہیں کرتا تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اور بڑی محبت اُس کے پیچھے ہے اِس لئے وہ انصاف کو ترک نہیں کرتا یا اگر کوئی بڑا دشمن اس کے قابو آ گیا ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ اُس سے بدلہ لے سکتا ہے پھر بھی یہ انصاف سے کام لیتا ہے اور دشمنی کی پروا ہ نہیں کرتا تو صاف ظاہر ہے کہ اُس بُغض کا بدلہ لینے کے پیچھے کوئی ڈر اور خوف ہے جو اُسے ترکِ انصاف سے روکتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے بدلہ لیا تو میرے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ یہ بڑی محبت یابڑا خوف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو سکتا ہے جو خواہ معیّن طور پر اللہ کے نام سے ہو یا غیر معیّن کسی بالا اور اعلیٰ طاقت کی وجہ سے ہو۔ بہرحال اُس کی فطرت میں محبت یا خوف پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ انصاف سے کام لیتا ہے اور یہ محبت یا خوف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو سکتا ہے۔ اور جس کے دل میں یہ بات نہیں لازماً اُس کا یہ فعل اِس لئے ہوگا کہ گویا وہ کسی بڑی طاقت کو مانتا ہے یا اُس کے قریب ہونا چاہتا ہے اور جب ایسا مقام کسی کو حاصل ہو جائے تو لازماً وہ خداتعالیٰ سے محبت کرنے لگ جائے گا اور جب وہ خداتعالیٰ سے محبت کرے گا تو خدا بھی اُس سے محبت کرنا شروع کر دے گا۔ چنانچہ اِس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ 92 اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(8)ایک طریقہ محبت الٰہی کے حصول کا یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر امر میں خداتعالیٰ کو ڈھال بنانے کی کوشش کرے۔ یعنی بدی کو خدا کے لئے چھوڑے بدی کو بدی کے لئے نہ چھوڑے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تقویٰ کہتے ہیں۔ جب انسان کو کسی ہستی کی خاطر کام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے تو آہستہ آہستہ اُس سے محبت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ بادشاہوں، نوابوں اور رؤساء سے پُرانے خاندانی خدام اور رعایا کی محبت اِسی لئے ہوتی ہے کہ اُنہیں اُن کی خاطر کام کرنے کی عادت ہوتی ہے اور اس عادت کی وجہ سے اُن کی محبت ترقی کرتی رہتی ہے۔ اِسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرے خداتعالیٰ کی رضا کے لئے کرے۔ مثلاً اگر وہ صدقہ دیتا ہے تو کہے کہ میں یہ صدقہ اس لئے نہیں دیتا کہ میری نیک نامی اور شہرت ہو بلکہ اِس لئے دیتا ہوں کہ خدا نے صدقہ دینے کا حکم دیا ہے یا فلاں پر میں ظلم نہیں کروں گا کیونکہ میں خدا سے ڈرتا ہوں۔ جب اِس طرح اُسے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی عادت پڑ جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی وابستگی ہو جائے گی۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ 93 جو بُرے کاموں سے میرے لئے بچتے ہیں اور جو نیکی کا کام میرے لئے کرتے ہیں اُن سے میں محبت کرتا ہوں اور اسی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہدایت دیتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی شخص نیک کام کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اِحْتِسَابًا کرے۔94 اِحْتِسَابًا کے معنی ہیں خداتعالیٰ کی خوشنودی اور اُس کی جزاء کے لئے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مقام ادنیٰ ہے حالانکہ یہ بہت اعلیٰ مقام ہے اور اِس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔
(9) محبت کا ایک ذریعہ ہم جنس بننا ہے۔ جتنا جتنا کوئی ہم جنس بنے اِس کی محبت اُسے اور اُس کی اِسے پیدا ہو جاتی ہے۔ انسانوں کو دیکھ لو سب ہم جنس سے محبت کرنے کے عادی ہیں۔ مُلکی مُلکیوں سے اور ایک زبان والے اپنی زبان والوں سے اسی وجہ سے محبت کرتے ہیں کہ وہ اُن کے ہم جنس ہوتے ہیں بلکہ انسان تو الگ رہے جانوروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ کوّے سب اکٹھے رہیں گے، قاز95 سب اکٹھے رہیں گے، مرغ، گھوڑے اور گدھے اپنی اپنی جنس میں رہیں گے۔ ایک طرف آدمی ہوں اور دوسری طرف گھوڑے اور تم کسی گھوڑے کو کھلا چھوڑ دو تو وہ فوراً گھوڑوں کی طرف چلا جائے گا۔ اِسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اِن الفاظ میں اشارہ فرماتا ہے کہ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ خداتعالیٰ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کے ہم جنس بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کی جو صفات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں تم اُن کی نقل کرنے کی کوشش کرو۔ تم حيّ نہیں بن سکتے لیکن تم بیمار کا علاج کر کے یا بیمار کی خدمت کر کے حيّ کی نقل تو کر سکتے ہو۔ تم مُمِیْت نہیں بن سکتے لیکن تم بدی کا خاتمہ کر کے مُمِیْت کی نقل تو کر سکتے ہو۔ تم خالق نہیں بن سکتے لیکن تم اچھی اولاد پیدا کر کے خالق کی نقل تو کر سکتے ہو۔ مُتَطَہِّر کے معنی ہیں تکلّف کے ساتھ پاکیزگی اختیار کرنا۔ پس اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ میں اللہ تعالیٰ نے اِس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر تم میری نقلیں کرنی شروع کر دوتو میں تم سے محبت کرنے لگ جاؤں گا۔ پس صفاتِ الٰہیہ کو جو شخص اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس جس قدر اللہ تعالیٰ سے اُسے مشابہت ہوتی جاتی ہے اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی جاتی ہے اور خداتعالیٰ کو اُس کی محبت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اپنے اپنے دائرہ میں چھوٹے خدا بننے کی کوشش کرو۔ جب تم چھوٹے خدا بن جاؤ گے تو بڑا خدا تم سے آپ ہی محبت کرنے لگ جائے گا۔
(10) ایک ذریعہ محبت کا فطرت کا مطالعہ اور محبت کے طریقوں پر غور کرنا اور اُن پر عمل کرنا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا96 اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر کچھ جذبات رکھے ہیں جو خود اُس نے پیدا کئے ہیں۔ اِن میں صفاتِ الٰہیہ کی جھلک رکھی گئی ہے یعنی انسان کے اندر اُس نے ایسے مادے رکھ دئے ہیں جن سے خدا اور بندے میں ہم جنسیت ہو جاتی ہے۔
اب ہم قانونِ قدرت سے وہ امور تلاش کرتے ہیں جو محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں تا کہ ان پر غور کر کے ایک طالبِ صادق محبت الٰہی پیدا کر سکے۔
(1) سب سے پہلی محبت ہم دیکھتے ہیں کہ ماں باپ اور اولاد کی ہوتی ہے اِس محبت میں حسن اور احسان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کسی ماں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اپنے بچہ سے اِس لئے محبت نہیں کرتی کہ وہ خوبصورت نہیں۔ نہ کوئی ماں یہ کہتی ہے کہ میں اپنے بچوں سے اس لئے محبت کرتی ہوں کہ اُنہوں نے ہم پر احسان کئے ہوئے ہیں۔ نہ بچے نے ماں باپ پر احسان کئے ہوتے ہیں اور نہ وہ اُس کی شکل دیکھتے ہیں بلکہ باوجود بدصورت ہونے کے اُنہیں اپنا بچہ ہی سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ آج ہی ایک عورت مجھ سے ملنے کے لئے آئی اُس نے گود میں اپنا بچہ اُٹھایا ہوا تھا۔ اُس بچہ کو دیکھ کر گھن آتی تھی۔ ناک بہہ رہا تھا اور بہتے ہوئے اُس کے ہونٹوں پر گِر رہا تھا مگر ماں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور وہ اُس کی رینٹھ کو غالباً مشک اور عنبر سے بھی زیادہ اچھا سمجھتی تھی۔ تو ماں باپ کی محبت کسی ظاہری دلیل کی وجہ سے نہیں ہوتی۔
کتابوں میں قصہ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا ہوا تھا کہ اُس نے ایک حبشی کو بُلایا اور اُسے ایک خوبصورت ٹوپی دے کر کہا کہ تمہیں اِس دربار میں جو سب سے زیادہ خوبصورت بچہ دکھائی دے اُس کے سر پر جا کر یہ ٹوپی رکھ دو۔ وہ سیدھا اپنے بیٹے کی طرف گیا جو نہایت کالا کلوٹا اور بھدی شکل کا تھا اور جس کے موٹے موٹے ہونٹ تھے ناک بیٹھا ہوا تھا اور ٹوپی اُس کے سر پر رکھ دی۔ یہ دیکھ کر سارا دربار ہنس پڑا۔ بادشاہ نے اُس سے کہا کہ میں نے تو تمہیں کہا تھا کہ سب سے خوبصورت بچہ کے سر پر یہ ٹوپی جا کر رکھ دو اور تم نے اِس بچہ کے سر پر رکھ دی۔ اُس نے کہا بادشاہ سلامت مجھے تو یہی بچہ سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ تو ماں باپ کی اپنے بچوں سے محبت اُن کی اچھی شکل و صورت کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ بعض اور چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے جن کو میں آگے چل کر بیان کروں گا اور جن کو ماں باپ بھی نہیں جانتے۔ چنانچہ کسی ماں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ تم اپنے بچے سے کیوں محبت کرتی ہو تو بجائے جواب دینے کے وہ ہنس کے کہہ دے گی کہ سودائی کہیں کا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے حالانکہ بچہ ماں باپ کے لئے موجب تکلیف اور خرچ ہوتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی اُس کی رات دن نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ دایہ کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے کپڑے تیار کرنے پڑتے ہیں۔ پھر اگر بچہ کو رات کے وقت پیٹ میں کوئی تکلیف ہو جائے تو ماں ساری ساری رات اُسے لے کر پھرتی رہتی ہے اور جب وہ درد کی وجہ سے روتا اور چلاتا ہے تو وہ کہتی ہے ''میں مَر جاؤں''، ''میں مَر جاؤں''۔ پس ماں باپ سے پوچھنے کی بجائے ہمیں فلسفیانہ طور پر غور کرنا چاہیے کہ آخر بچہ سے ماں باپ کیوں محبت کرتے ہیں۔ اِس نقطۂ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں اس محبت کی پانچ وجوہ معلوم ہوتی ہیں۔
پہلی وجہ اِس محبت کی مقامِ خالقیت ہے۔ یعنی ماں باپ اپنے بچوں سے اِس لئے محبت کرتے ہیں کہ وہ ایک رنگ میں اُن کے خالق ہوتے ہیں اور وہ دنیا میں ایک نیا وجود پیدا کرتے ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس لئے بنائی ہے کہ یہ ترقی کرے اور پھیلے اور چونکہ پیدائش عالَم کی ایک بڑی غرض یہ تھی جیسا کہ وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً 97 سے ظاہر ہے اور پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اِس لئے نہیں بنائی تھی کہ صرف آدم و حوا پیدا ہو جائیں بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اُن کی نسل کو پھیلائے اور ترقی دے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے بہرحال اِس سلسلہ کو جاری رکھنا تھا اِس لئے اُس نے ماں باپ کے دل میں اپنے بچوں کی محبت پیدا کر دی۔ پس ماں باپ کی محبت کی ایک بڑی وجہ خالقیت ہے اور جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا تو اِس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جب خدا کہتا ہے کہ میں سب سے زیادہ محبت رکھتا ہوں تو ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے۔ جب انسان خالقیت کے ایک ادنیٰ پرتَو کی وجہ سے اپنے بچوں سے اتنی محبت رکھتا ہے تو اصل خالق کو اپنی مخلوق سے جس قدر محبت ہو سکتی ہے اُس کا تو اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت اور قوت سے باہر ہے۔
(2) ماں باپ کی محبت کی دوسری وجہ وحدتِ جسمانی ہے۔ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے اپنے جسم کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تم اچانک اپنے کسی دوست کی آنکھ کی طرف زور سے انگلی لے جاؤ تو وہ فوراً اپنی آنکھ جھپک لے گا کیونکہ یہ فطرتی چیز ہے اور اِس میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پچھلے دنوں میری ایک نواسی جو ابھی چھوٹی بچی ہی ہے اور اُس کا والد سیّد ہے میرے پاس آئی اور میں نے مذاق کے طور پر اپنی سوٹی اُس کی طرف اِس انداز میں کی کہ گویا ابھی میں اُسے مارنے لگا ہوں۔ میری سوٹی کے آگے نوکدار پھَل بھی لگا ہوا ہے چونکہ میں نے اچانک ایسا کیا تھا اِس لئے اُس نے ڈر کر چیخ ماری۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ ٹھیک ہو گئی تو میں نے اُسے ہنس کر کہا سیّد بزدل ہوتے ہیں، مغل بہادر ہوتے ہیں۔ کہنے لگی نہیں نہیں سیّد بہادر ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اُس کے ذہن سے یہ بات اُتر گئی تو میں نے پھر اُسے ڈرانے کے لئے اِسی طرح کیا اور وہ پھر ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ میں نے کہا دیکھا سیّد ڈر جاتے ہیں۔ خیر وہ چلی گئی اور چند دن مشق کرتی رہی۔ اِس کے بعد وہ پھر میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اب دیکھیں میں ڈرتی ہوں یا نہیں؟ چنانچہ میں نے اُسے ڈرایا تو وہ نہیں ڈری لیکن دو چار دن کے بعد جب وہ پھر میرے پاس آئی تو غیر متوقع طور پر میں نے پھر اُسے ڈرا دیا اور میں نے دیکھا کہ اس دفعہ بھی وہ ڈر گئی کیونکہ وہ اِس کے لئے تیار نہیں تھی تو فطرت کے اندر خداتعالیٰ نے اپنے جسم کی حفاظت کا مادہ رکھا ہے چونکہ بچہ ماں باپ کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اِس لئے اپنے جسم کو بچانے کا جو مادہ فطرت میں ہوتا ہے وہ اِدھر منتقل ہو جاتا ہے اور ماں باپ اپنے بچہ سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
(3) ماں باپ کی محبت کی تیسری وجہ اپنائیت ہوتی ہے جس طرح وحدتِ جسمانی ایک طبعی محبت پیدا کرتی ہے اِسی طرح تعلق کے لحاظ سے بھی ایک ہو جانے کا خیال محبت پیدا کر دیتا ہے۔ تمہارا کوٹ پھٹ جائے تو تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ کوٹ کے ساتھ اپنایت کا تعلق نہیں ہوتا۔ تم سمجھتے ہو کہ ایک کوٹ پھٹا تو دوسرا لے لیں گے لیکن جہاں تمہارا تعلق ہوتا ہے وہاں اُس چیز کے ضائع ہونے سے تمہیں درد ہوتا ہے۔ پس وحدتِ جسمانی کی طرح اپنائیت بھی محبت پیدا کرتی ہے۔ خداتعالیٰ نے اِس دنیا کا سلسلہ ایسا بنایا ہے کہ ہر بچہ اپنے ماں باپ کے پاس رہتا ہے اور ماں باپ اُس بچہ کو کوئی غیر چیز نہیں بلکہ اپنی چیز سمجھتے ہیں اِس لئے اُس سے محبت رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ لوگوں پر ٹیکس لگا سکتی ہے لیکن اگر گورنمنٹ یہ چاہے کہ وہ کسی کا بچہ لے لے تو وہ بچہ نہیں لے سکتی۔ پس اپنایت کی انتہاء بھی محبت پیدا کرتی ہے۔
(4) بقائے ذات کی خواہش بھی محبت پیدا کرتی ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان چاہتا ہے میں ہزار سال زندہ رہوں مگر ظاہر ہے کہ انسان اِس دنیا میں ہمیشہ کے لئے زندہ نہیں رہ سکتا۔98 لیکن دوسری طرف بقائے ذات کی خواہش بھی ہر انسان میں پائی جاتی ہے جس کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے کہ اُس کی اولاد اُس کے نام کو زندہ رکھتی ہے اور اِس طرح بقائے ذات کی خواہش ایک رنگ میں پوری ہو جاتی ہے۔ پس چونکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں دنیا میں اگر زندہ رہ سکتا ہوں تو بچہ کی طرف سے، اس لئے اُسے اپنے بچہ سے محبت ہوتی ہے۔
(5) ماں باپ کی محبت کی پانچویں وجہ مظہریت ہوتی ہے۔ بقائے ذات کی خواہش تو یہ تھی کہ انسان چاہتا ہے میں خود زندہ رہوں اور مظہریت کے معنی یہ ہیں کہ انسان چاہتا ہے کہ جو چیزیں اُس سے ظاہر ہوتی ہیں وہ بھی ہمیشہ قائم رہیں۔ ایک شخص جوانی میں خوب چل پھر سکتا ہے، گھوڑے پر سواری کرتا ہے اور میلوں میل تک سفر کرتا چلا جاتا ہے اب جہاں طبعی طور پر اُس کے اندر یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں وہاں اس کے اندر یہ خواہش بھی پائی جاتی ہے کہ میں ہمیشہ جوان رہوں۔ یہ نہیں چاہتا کہ میں بُڈھا ہو جاؤں اور لوگ میرے منہ میں لقمے ڈالا کریں۔ گویا اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ میری مظہریت دنیا میں قائم رہے اور چونکہ انسان کی مظہریت اُس کی اولاد کے ذریعہ ہی قائم رہ سکتی ہے اِس لئے فطرتی طور پر ہر شخص اپنے بچوں سے محبت رکھتا ہے۔
یہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی دلیل کے ماں باپ اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں اور یہ ایسے گہرے موجبات ہیں کہ انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں حتی کہ اُسے اِن کے بارہ میں سوچنے کی بھی ضرورت نہیں جس طرح انسان کا اپنا جسم دماغ پر خودبخود اثر کرتا ہے یہ موجبات بھی اُس کے دماغ پر تصرف کرتے ہیں حتّٰی کہ وہ بغیر موجبات کو سوچنے کے مُوجَبْ کو محسوس کرتے لگتا ہے۔
شاید کوئی کہے کہ پہلی محبت تو بچہ کو ماں باپ کی ہوتی ہے آپ نے یہ کیوں کہا کہ پہلی محبت ماں باپ کو بچہ کی ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی نسل کو اگر اس اصول پر مانا جائے کہ آدم و حوا سے نسل انسانی چلنی شروع ہوئی تو ماننا پڑے گا کہ پہلی محسوس محبت آدم و حوا کو ہوئی کیونکہ آدمِ اوّل خواہ یکدم پیدا ہؤا خواہ غیر محسوس دَور سے گزر کر محسوس دَور میں داخل ہؤا۔ اُس نے ماں باپ کی محبت کو نہیں دیکھا یا نہیں سمجھا لیکن اُس نے اپنی اولاد کی محبت کو پہلی دفعہ دیکھا اور سمجھا اور یہی حق ہے۔ پس آدم و حوا کی پیدائش کی تھیوری کو دیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ پہلی محبت ماں باپ کی بچہ سے تھی پہلی محبت بچہ کی ماں باپ سے نہیں تھی۔ یا یوں کہو کہ پہلے اِس محبت کو محسوس کرنے والے ماں باپ تھے بچے نہیں تھے۔ یوں تو لوگ ہمیشہ بحث کیا کرتے ہیں کہ پہلے انڈا تھا یا مرغی؟ اور یہ بحث ہمیشہ جاری رہے گی کہ پہلے آدم ہؤا یا بچہ۔ لیکن بہرحال کوئی نہ کوئی تھیوری ماننی پڑے گی۔ ڈارون کہتا ہے کہ نسل انسانی نے آہستہ آہستہ ارتقائی صورت اختیار کی ہے پہلے وہ بعض جانوروں کی شکل میں تھا لیکن ارتقائی دَور میں سے گزرتے گزرتے آخر وہ انسانی شکل میں نمودار ہؤا۔ قرآن کریم اِس تھیوری کو غلط قرار دیتا ہے لیکن بہرحال اگر ڈارون کی تھیوری لو تب بھی پہلا وجود جو محسوس محبت کرنے والا تھا وہ ماں باپ کا ماننا پڑے گا بچے کا نہیں اور اگر قرآن کریم کی تھیوری لو تب بھی ماں باپ کی محبت کو پہلی محبت ماننا پڑے گا بچے کی محبت کو پہلی محبت نہیں ماننا پڑے گا۔ دینی لحاظ سے بھی یہی اصل ہے کیونکہ خالق و مخلوق کے تعلق میں خالقیت کا تعلق مقدم ہے اور مخلوقیت کا تعلق مَابَعْد۔ پس ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب اپنی محبت کے لئے پیدا کیا تو پہلے محبت اللہ تعالیٰ کے دل میں آئی اور اس کے بعد مخلوق میں۔ جس طرح پہلے محبت ماں باپ کے دل میں آتی ہے اور بعد میں بچہ میں جب وہ محسوس کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ماں جنتے ہی بچہ سے محبت کرتی ہے بلکہ جننے سے بھی پہلے۔ لیکن بچہ کی ماں ولادت کے وقت فوت ہو جائے تو وہ پالنے والی عورت ہی کو ماں سمجھنے لگتا ہے اور اصل ماں باپ کو بھول جاتا ہے۔
اِس سوال کا جواب دینے کے بعد اَب میں اُن موجبات کو لیتا ہوں جو ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کرنے والے ہیں لیکن جن کو وہ خود نہیں جانتے صرف ان کے نتیجہ کو جانتے ہیں اور اُن کو انسان اور خداتعالیٰ کے رشتہ پر چسپاں کرتے ہیں۔
(الف) پہلا موجب میں نے خالقیت کا بتایا ہے یہ ہمیں فطرتِ انسانی سے معلوم ہوتا ہے۔ بچے گڑیاں بنانے کے شوقین ہوتے ہیں، مکان بنانے کے شوقین ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالقیت کا ایک زبردست تقاضا انسان و حیوان میں ہے اور پھر وہ اپنی مخلوق سے طبعاً محبت کرتا ہے۔ پس یہ جذبہ سب سے پہلے ماں باپ کے دل میں بچہ کی محبت پیدا کرتا ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ بھی نکال سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو اصل خالق ہے اُس کی محبت اپنی مخلوق سے بہت زیادہ شدید ہونی چاہیے اور سچ پوچھو تو اس کی موٹی مثال موجود ہے۔ ماں باپ کے جتنے قصور بچے کرتے ہیں وہ کب تک اُن کو معاف کرتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ایک بات نہ ماننے پر ہی اُنہیں عاق کر دیتے ہیں۔ بیسیوں واقعات سننے میں آتے ہیں کہ ماں باپ نے اپنے بچوں کو عاق کر دیا اور جب پوچھا گیا کہ آپ نے عاق کیوں کیا ہے تو اُنہوں نے جواب یہ دیا کہ ہم نے کہا تھا فلاں جگہ شادی کر لو مگر اُس نے ہماری بات نہ مانی اور فلاں جگہ شادی کر لی۔ اب کوئی اُن سے پوچھے کہ یہ بھی کوئی عاق کرنے والی بات تھی۔ عمر اُس نے بسر کرنی تھی یا تم نے؟ مگر وہ برداشت نہیں کرسکتے اور اُنہیں عاق کر دیتے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ حال ہے کہ رات دن دنیا کی چھاتی پر انسان گناہ کر رہا ہے اور خداتعالیٰ کی بات کو ردّ کر رہا ہے مگر وہ ہے کہ اوّل تو عذاب نہیں دیتا اور پھر باوجود جاننے کے کہ کل یہی شخص توبہ توڑ دے گا اُس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اور فرماتا ہے اگر کل اِس نے توبہ توڑی تو دیکھا جائے گا آج تو یہ توبہ کر رہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى 99 اگر اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو ظلم اور گناہ کرتے ہیں پکڑنا چاہے تو انسان کیا حیوان بھی اِس دنیا کے پردہ پر نہ رہیں اور انسان کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے مگر وہ ٹلاتا جاتا ہے اور کہتا ہے معاف کر دو۔ کیا دنیا میں کوئی ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو اتنا معاف کرتے ہوں۔ اپنے نفس پر غور کر کے دیکھ لو ہم میں سے ہر شخص خدا کی جس قدر نافرمانیاں کرتا ہے اور جس قدر ہزاروں ہزار قصور اُس سے سرزد ہوتے ہیں کیا اِس قدر نافرمانیاں وہ اپنے ماں باپ کی کر سکتے ہیں؟ وہ تو مار مار کر دھجیاں اُڑا دیں۔
(ب) دوسری وجہ ماں باپ کی محبت کی میں نے وحدتِ وجود بتائی ہے خدا تعالیٰ کو انسان سے یہ تعلق تو نہیں لیکن وحدتِ مرکزیت کا تعلق ہے کیونکہ انسان اپنی ساری طاقتیں اُس سے لیتا ہے۔ ماں باپ چھوٹے قد کے ہوں تو بچہ بعض دفعہ لمبے قد کا ہوتا ہے۔ ماں باپ کی نظر کمزور ہو تو بچے کی نظر تیز ہوتی ہے۔ ماں باپ کُند ذہن ہوں تو بچہ بعض دفعہ بڑا ذہین ہوتا ہے۔ یاماں باپ بہادر ہوں تو بچہ بُزدل ہوتا ہے۔ غرض ہزاروں ہزار چیزیں ایسی ہیں کہ باوجود وحدتِ وجود کے بچے ماں باپ سے نہیں لیتے لیکن خداتعالیٰ کو انسان سے چونکہ وحدتِ مرکزیت کا تعلق ہے اور انسان کُلّی طور پر اپنی طاقتیں اُسی سے لیتا ہے اِس لئے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کو خدا سے حاصل نہ ہو گویا خداتعالیٰ اِنجن ہے اور وہ کَلْ اور یہ تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔
(ج) تیسری وجہ ماں باپ کی محبت کی اپنائیت ہے کہ یہ شَے میری ہے۔ یہ تعلق بھی اللہ تعالیٰ کا اِنسان سے ماں باپ سے زیادہ ہے کیونکہ ان کا اپنائیت کا احساس ابتدا کے لحاظ سے بھی محدود ہے اور انتہاء کے لحاظ سے بھی محدود ہے۔ ماں باپ کی اپنائیت کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب بچہ رحمِ مادر میں آتا ہے اور جب وہ مَر جاتا ہے تو یہ احساس ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ احساس یا تعلق دونوں لحاظ سے غیر محدود ہے۔ میں خواہ آج پیدا ہؤا یا پچھلی صدی میں پیدا ہؤا۔ خداتعالیٰ ازل سے یہ جانتا تھا کہ میں اُس کا ہوں اور ازل سے یہ جانتا ہے کہ میں مَرنے کے بعد بھی اُسی کا ہوں پس ماں باپ کی اپنائیت محدود دائرہ کے لئے ہے اور خداتعالیٰ کی اپنائیت غیر محدود دائرہ کے لئے ہے۔
(د) چوتھی وجہ ماں باپ کی محبت کی بقائے ذات کا احساس ہے چونکہ اُنہوں نے فنا ہونا ہے اس لئے وہ ایک ایسے وجود کو چاہتے ہیں جن میں اُن کا وجود زندہ رہے۔ خداتعالیٰ فنا سے پاک ہے مگر اس کا تعلق اس جہت سے بھی انسان سے ہے۔ ماں باپ کا بقائے ذات کا تعلق زمانہ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یعنی ماں باپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جب ہم مَر جائیں گے تو اُس زمانہ میں یہ بچہ ہمارا قائم مقام ہوگا لیکن خدا تعالیٰ کا بقائے ذات کا تعلق مقام کے لحاظ سے ہے یعنی چونکہ وہ وراء الوراء ہے وہ انسان کے ذریعہ سے اپنے وجود کو دنیا میں زندہ رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں صرف اپنے بندے کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہو سکتا ہوں اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اِسی طرح بڑے بڑے اولیاء جو اُمتِ محمدیہ میں آئے اگر وہ نہ آئے ہوتے تو اُس زمانہ کے لوگ خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اِسی طرح اِس زمانہ میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ آتے تو دنیا خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ پس ماں باپ کو مدنظر رکھتے ہوئے بقائے ذات کا تعلق وقت کے لحاظ سے ہے اور خداتعالیٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا بقائے ذات کا مقام کے لحاظ سے ہے۔ خدا اِس مجلس میں اِن آنکھوں سے نظر نہیں آ رہا لیکن اُس کے بندے نظر آ رہے ہیں جو اُس کے وجود کو دنیا میں زندہ رکھے ہوئے ہیں اور درحقیقت یہی قسم بقائے ذات کی اصل بقاء ہے۔ وہ بقاء ایک شکی سی چیز ہے اور یہ بقاء ایک یقینی اور قطعی چیز ہے۔ آخر سوچنا چاہیے کہ جسمانی بیٹا ماں باپ کی بقاء کا کس طرح موجب بنتا ہے۔ وہ صرف ورثہ لیتا ہے اِس کے سوا والدین کی حیات کا وہ اَور کیا موجب ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نیک بندے خداتعالیٰ کے وجود کو دنیا میں زندہ کرتے اور زندہ رکھتے ہیں اور جسمانی بیٹوں کے مقابلہ میں خداتعالیٰ سے اُن کی محبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو بقائے ذات کی خواہش رکھنے والے ماں باپ کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ بعض دفعہ محتاج بھی ہوتے ہیں تو بچہ اُن کی مدد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ماں باپ کا وفادار ہونے کی بجائے اپنی اولاد کا زیادہ وفادار ہوتا ہے لیکن وفادار روحانی بیٹے کی یہ حالت ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو خواب میں دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو ابراہیم ؑ جو اپنی اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء کا محتاج تھا وہ اِس خواب کے آتے ہی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا اور اُس نے کہا جب میرا خدا مجھ سے یہ قربانی چاہتا ہے تو میں اپنا قدم پیچھے کیوں ہٹاؤں۔ پس وفادار جسمانی بیٹے اور وفادار روحانی بیٹے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جس طرح ابراہیم خدا نما تھا کوئی بیٹا بھی باپ نما نہیں ہو سکتا۔
(ھ) پانچویں وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے لئے علاوہ جسمانی حیات کے روحانی حیات بھی چاہتا ہے۔ سب سے زیادہ موقع تربیت کا اُسے اپنی اولاد کے متعلق ملتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میرے اخلاق کا مظاہرہ ہوتا رہے چنانچہ دیکھ لو والدین ہمیشہ یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں فلاں خوبیاں ہماری اولاد ظاہر کرے یا ہمارے فلاں مطمح نظر اُس کے ذریعہ سے پورے ہوں لیکن عملاً کم ہوتا ہے۔ پھر بھی ایسی خواہش کے پورا ہونے کا وجود اولاد ہی ہو سکتی ہے اِس لئے وہ اُن سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بھی انسان اِس رنگ میں مظہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہےاِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًاۙ۔لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ١ؕ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا۔اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ100 اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے لئے بطور گواہ ہیں اور گواہ کے ذریعہ ہمیشہ فریق مقدمہ کی سچائی ظاہر ہوتی ہے۔ پس آپ کو گواہ قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے خداتعالیٰ کی سچائی ثابت ہوتی ہے اور آپؐ کی ذات سے خداتعالیٰ کا وجود ثابت ہوتا ہے اِس لئے آپؐ کی بیعت خدا کی بیعت ہے۔ پھر فرماتا ہے یہی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بھی خدا کا ہاتھ ہے اِس لئے کہ یہ ہاتھ مجھے دکھا رہا ہے اور چونکہ یہ میرا چہرہ دکھا رہا ہے اِس لئے اُس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔ گویا پہلی آیت يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ کی دلیل کے طور پر بیان کی گئی ہے یعنی چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے مظہرکامل ہیں اور آپؐ کے ذریعہ خداتعالیٰ کا وجود اِس دنیا میں ظاہر ہو رہا ہے اِس لئے آپؐ کی بیعت خدا کی بیعت اور آپؐ کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے۔ اِسی طرح اعلیٰ مومنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ میں اُن کے ہاتھ ہو جاتا ہوں، پاؤں ہو جاتا ہوں، زبان ہو جاتا ہوں یعنی وہ میری صفات کو دنیا میں ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اولاد سے جن امور کی بناء پر محبت کی جاتی ہے وہ سب کے سب خداتعالیٰ میں پائے جاتے ہیں اِس لئے وہ لازماً اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ بعض سے عام جیسا کہ ہر ماں باپ اپنے ہر قسم کے بچے سے پیار کرتے ہیں اور بعض سے خاص۔ جیسا کہ ماں باپ اُن بچوں سے جن میں زیادہ اوصاف جمع ہو جائیں دوسرے بچوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
یہ ایک ضمنی حصہ ہے اور درحقیقت الگ باب ہے اس امر کے متعلق کہ خداتعالیٰ کو اپنے بندوں سے کیوں اور کس قسم کی محبت ہوتی ہے مگر چونکہ میں محبت کا فلسفہ بیان کر رہا تھا یہ بھی درمیان میں آگیا۔
(2) دوسرا موجب محبت کا احسان ہوتا ہے اِس جذبہ کے ماتحت بچہ ماں باپ سے محبت کرتا ہے (ماں باپ کی محبت اِس کے برخلاف فطرتی ہوتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے) کیونکہ ماں باپ اُس کے اخراجات برداشت کرتے اور اُس کے لئے ہر رنگ میں اپنے نفس پر تکالیف وارد کرتے ہیں۔ شاگرد اُستاد سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُسے سکھاتا اور تعلیم دیتا ہے۔ محتاج محسن سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُس کی ضرورت کو پورا کرنے والا ہوتا ہے۔ مرید شیخ سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُسے روحانی تعلیم دیتا ہے۔ یہ وجہ بھی اللہ تعالیٰ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور قرآن کریم نے اِس وجہ کی طرف خاص طور پر توجہ بھی دلائی ہے چنانچہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ رَبّ ہے، رحمن ہے، رحیم ہے، مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِہے، غفور ہے، ستارہے، جبار ہے، وارث ہے، حفیظ ہے، بصیر ہے، رزّاق ہے، سمیع ہے، مجیب الدعا ہے۔ یہ صفات بتا کر اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ تم اِن صفاتِ الٰہیہ پر غور کرو اور سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کس قدر احسانات کئے ہیں اور یہ تو صرف چند نام بطور مثال میں نے لئے ہیں ورنہ بہت سے نام اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں جو اُس کی صفاتِ حسنہ پر دلالت کرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نظر نہیں آتا اور ماں باپ، استاد، محسن اور پیر کا ہاتھ نظر آ جاتا ہے۔ بندوں کے احسانات ظاہر ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ کے احسانات پوشیدہ ہوتے ہیں اور درحقیقت اِن احسانات کو پوشیدہ رکھنا ہی ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس احسان مندی کا بڑا بدلہ مقرر ہے جو انسانوں کی احسان مندی کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا بدلہ زیادہ ملتا ہے اور شیخ اور پیر کی محبت کا بدلہ اُتنا نہیں ملتا۔ جو چیز ظاہر ہو وہ چونکہ طبعی ہو جاتی ہے اور مزید بدلہ کا راستہ بند کر دیتی ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کو مخفی رکھا ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اُس کے احسانات کو تلاش کرکر کے اپنی محبت کو بڑھائے اور اُستوار کرلے۔
(3) تیسری وجہ محبت کی حسن ہے۔ اِس کے مظہر میاں بیوی، عمدہ نظارے، عمدہ آواز، عمدہ قاعدے اور قانون وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہ درجہ مادی محبت کے لحاظ سے احسان والی محبت سے ادنیٰ ہے۔ احسان والی محبت کا درجہ مادی لحاظ سے حسن والی محبت سے اعلیٰ ہے کیونکہ احسان والی محبت میں اخلاق کا دخل ہوتا ہے اور حسن کی محبت میں صرف طبعی میلانات بلکہ پس پردہ لذّاتِ جسمانی کا حصول اِس کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے ماں باپ کی محبت بیوی کی محبت سے زیادہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے کیونکہ اوّل الذکر کی بنیاد اخلاق پر اور ثانی الذکر کی لذاتِ جسمانی پر ہوتی ہے۔ لیکن روحانی محبتوں میں یہ بات اُلٹ جاتی ہے مثلاً خداتعالیٰ کی محبت کا موجب احسان کی یاد ہو تو یہ محبت درجہ کے لحاظ سے ادنیٰ سمجھی جائے گی لیکن حسن باری محبت کا موجب ہو تو یہ محبت اعلیٰ سمجھی جائے گی گویا دنیا کی محبتوں اور خداتعالیٰ کی محبت میں یہ فرق ہے کہ دُنیوی محبت میں حسن والی محبت کا درجہ احسان والی محبت کے درجہ سے کم ہے کیونکہ احسان کی محبت میں اخلاق کا دخل ہے اور حسن کی محبت میں صرف طبعی میلان کا بلکہ پس پردہ لذتِ جسمانی کے حصول کی خواہش کا۔ لیکن روحانی محبت میں حقیقت اُلٹ جاتی ہے اور احسان کی وجہ سے جو محبت ہو وہ حسن کی وجہ سے محبت سے ادنیٰ سمجھی جاتی ہے۔ انسان میں حسن پہلے نظر آتا ہے اور احسان بعد میں۔ گویا حسن ظاہر ہے اور احسان مخفی اور اس وجہ سے احسان حسن سے اعلیٰ مقام پر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے لحاظ سے احسان پہلے نظر آتا ہے اور حسن بعد میں۔ یعنی حسن الٰہی، احسانِ الٰہی سے زیادہ مخفی ہے۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١ٞ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ 101 تمہاری آنکھیں اُس کو نہیں دیکھ سکتیں کیونکہ وہ لطیف ہستی ہے لیکن وہ خود چل کر تمہارے پاس آ جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمہارے دل میں اُس کی محبت کی تپش پائی جاتی ہے اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! کیا آپ نے کبھی خدا کو بھی دیکھا ہے؟ آپؐ نے فرمایا نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہُ102 وہ تو ایک نور ہے اُس کو کس طرح دیکھا جا سکتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی رؤیت جسمانی نہیں ہوتی۔ پس حسن الٰہی ایک نئی حس سے نظر آتا ہے جو محبت میں ترقی کرتے کرتے انسانوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے برخلاف انسانی حسن سب سے پہلے نظر آنے والی شَے ہے اور اس کے دیکھنے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن احسان بعد میں نظر آتا ہے اور اس کے لئے عقل اور فکر سے کام لینا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانی دیا ہے، روٹی دی ہے، ہوا دی ہے، سورج دیا ہے، چاند دیا ہے، سیارے اور ستارے دیئے ہیں، زمین بنائی ہے، آسمان بنایا ہے یہ سب اُس کے احسانات ہیں جو بالکل ظاہر ہیں لیکن (حسن الٰہی ایک مخفی چیز ہے جس کے لئے جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اِس لئے خدا کے معاملہ میں حسن کا مقام زیادہ بلند ہے اور یہ حسن الٰہی ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ ایک نئی حس سے نظر آتا ہے جو احسان کے بعد آہستہ آہستہ ترقی پاتی ہے اور محبت کے اعلیٰ مدارج میں سے ہے اور احسان کی محبت سے بہت بالا ہے کیونکہ اس کے لئے آنکھیں بھی پیدا کرنی پڑتی ہیں اُس سے بہت اعلیٰ آنکھیں جو احسان دیکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محبت کے نہایت اعلیٰ مقام پر پہنچ کر یہ حسن نشوونما پاتا ہے اور قلب کی ایک نئی طاقت خداتعالیٰ کے حسن کو دیکھنے اور چھونے پر قادر ہو جاتی ہے جو ہر انسان کو نہیں مل سکتی)اِسی کا ایک حصہ کانوں سے حسن کو معلوم کرنے کا ہے جو الہام کے ذریعہ سے انسان کو موہبت کے رنگ میں عطا ہوتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ جس کے ساتھ اُسے محبت ہے اُس کی آواز بھی سنے تا کہ اُس کے کان بھی اپنے محبوب کی آواز سے لُطف اندوز ہوں اور یہی خواہش اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں کے دلوں میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی شیریں آواز اُن کے کان میں آئے اور وہ اپنے محبوب سے راز و نیاز کی باتیں کریں لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے یہ جسمانی کان خداتعالیٰ کی آواز کو نہیں سُن سکتے۔ وہ تبھی سُنتے ہیں جب ایک نئی طاقت ہمارے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔ دنیا میں تو جس طرح حسن اِن مادی آنکھوں سے دکھائی دے سکتا ہے اِسی طرح محبوب کی آواز بھی ہمارے یہ مادی کان سُن لیتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے معاملہ میں جس طرح حسن الٰہی ایک نئی حِسّ سے نظر آتا ہے اِسی طرح حسن آواز کے لئے نئے کان پیدا کرنے پڑتے ہیں جو گویا احسان کی قدر کے بعد ایک موہبت کے رنگ میں عطا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں حسن کی وجہ سے محبت کا مقام زیادہ بلند ہے اور احسان کی وجہ سے محبت کا مقام اُس سے نیچے ہے۔
چوتھا ذریعہ محبت کا اقتضائے حاجات و رفع شہوات ہے۔ جیسے میاں بیوی کی محبت ہے یا مال کی محبت بھی اِسی قسم کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی بہت ہی تھوڑی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور پھر جو ضرورتیں پوری کرتے ہیں اُن کے تمام سامان خداتعالیٰ کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ پس قضائے حاجات کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ محبت کا مستحق ہے کیونکہ وہی سب سے زیادہ اپنے بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔
پانچواں ذریعہ محبت کا رفاقت و مصاحبت ہے۔ اس کی مثال دوستوں کی محبت اور میاں بیوی کی محبت ہے۔ بیویاں نہ سب کی حسین ہو سکتی ہیں نہ ہمیشہ حسین رہ سکتی ہیں۔ خوبصورت سے خوبصورت بیوی بھی ہو تو بعض دفعہ بیماریوں کی وجہ سے وہ نہایت بدصورت ہو جاتی ہے مگر یہ نہیں ہوتا کہ بیوی بدصورت ہو جائے تو خاوند اُسے چھوڑ دے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ گو ابتدا میں اکثر میاں بیوی ایک دوسرے سے اقتضائے حاجات اور حسن کی وجہ سے محبت کرتے ہیں یعنی وہ ایک دوسرے کو اچھے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام آتے ہیں اور ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اِس لئے وہ آپس میں محبت رکھتے ہیں لیکن بعد میں حسن اور شہوت، رفاقت اور مصاحبت کی محبت سے بدل جاتے ہیں اور حسن بھول جاتا ہے گویا چونکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اِس لئے اُن کی محبت ایک نیا چولہ بدلتی ہے جو بڑھاپے تک قائم رہتی ہے۔ اُس وقت وہ عورت جس پر وہ کسی زمانہ میں اُس کے حسن کی وجہ سے جان چھڑک رہا تھا اپنے سارے حسن کو کھو بیٹھتی ہے مگر مرد اُس سے پھر بھی محبت کر رہا ہوتا ہے۔ اگر اُس عورت کی کوئی تصویر کھینچ کر دوسرے کے پاس لے جائے اور کہے بتاؤ کیا تم اِس عورت سے محبت کر سکتے ہو؟ تو وہ دیکھتے ہی کہے گا کہ کیا تم مجھے احمق سمجھتے ہو کیا یہ اِس قابل ہے کہ اِس کے ساتھ محبت کی جائے۔ اِس کی بھویں لٹکی ہوئی ہیں، چہرہ سُوکھا ہؤا ہے، دانت کوئی ہے نہیں، کمر کبڑی ہو چکی ہے اور تم کہتے ہو کہ میں اِس کے ساتھ محبت کروں لیکن اُس کا خاوند اب بھی اُس پر جان دیتا ہے کیونکہ اُس کی حسن اور قضائے حاجت والی محبت رفاقت اور مصاحبت کی محبت سے بدل چکی ہوتی ہے۔ اِس رفاقت اور مصاحبت کو لو تو یہ بھی خداتعالیٰ میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اِسی کی طرف قرآن کریم میں اِن الفاظ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا103 یعنی تمہاری محبتیں شکلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ خداتعالیٰ نے تمہیں آپس میں اس طرح سمو دیا ہے کہ تمہیں شکلیں یاد ہی نہیں رہیں بلکہ تم ایک دوسرے کا حصہ ہوگئے ہو اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے سَو میں اسّی میاں بیوی جن کی زندگی آرام سے گزرتی ہے اور وہ آپس میں محبت کرتے ہیں۔ اُن کی زندگی اِسی رفاقت اور مصاحبت کی وجہ سے اچھی ہوتی ہے۔ اگر حسن اور قضائے حاجت کا سوال ہوتا تو شاید وہ اس طرح محبت نہ کر سکتے۔
(6) کبھی محبوبوں کا اجتماع کرنے والے سے بھی محبت ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ بعض خاص کلبوں سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ وہاں ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں جن سے اُنہیں لگاؤ ہوتا ہے۔ بعض خاص قسم کی سوسائٹیوں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں ایسے لوگ آتے ہیں جن سے مل کر اُنہیں حظّ اور سرور حاصل ہوتا ہے۔ وطن کی محبت بھی اِسی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہاں اُن سے تعلقاتِ محبت رکھنے والے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح شہروں اور محلّوں کی محبت کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ انسان کہتا ہے اِس محلّہ میں میرا چچا اور ماموں یا دوسرے رشتہ دار موجود ہیں۔ جب کسی شخص کو وطن سے باہر بھجوایا جائے تو چونکہ وہ جگہ ایسی ہوتی ہے جو اُس کے محبوبوں کو جمع نہیں کرتی اِس لئے اس کی طبیعت میں بے چینی رہتی ہے۔ پھر جس طرح بعض خاص کلبیں، مجالس، شہر اور محلّے مختلف محبتوں کو یکجا کرنے کی وجہ سے انسان کو محبوب ہوتے ہیں اِسی قسم کی محبت بعض رشتہ داروں سے بھی ہوتی ہے اور انسان کہتا ہے فلاں سے مجھے بڑی محبت ہے کیونکہ وہ میرے چچا کا بھی بیٹا ہے اور میری خالہ کا بھی بیٹا ہے تو دو رشتے اُس میں بھی ہوگئے ہیں۔ کئی خاوند اپنی بیویوں سے اِس لئے محبت کرتے جاتے ہیں کہ اُن سے نیک اولاد اُنہیں حاصل ہوئی ہوتی ہے۔ غرض دنیا میں یہ ایک عام نظارہ نظر آتا ہے کہ محبوبوں کا اجتماع کرنے والے سے انسان کو محبت ہوتی ہے۔ اِس نقطۂ نگاہ سے بھی اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اِس محبت کا بھی مرکز ہے کیونکہ جو اچھا آدمی ہوگا وہ لازماً خدا سے بھی تعلق رکھتا ہوگا۔ اِس لئے خدا سے تعلق رکھ کر ہر اچھے آدمی سے تعلق پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں۔ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں۔ غرض جتنے حسین اور قابلِ محبت وجود خدا تعالیٰ میں جمع ہوتے ہیں اور کہیں جمع نہیں ہوتے۔ اُس کی جنت میں تمام نیک جمع ہو جاتے ہیں اور تمام محب اور محبوب اُس کی طاقت سے محب اور محبوب بنتے ہیں۔ پس اس نقطۂ نگاہ سے بھی خداتعالیٰ کا وجود ہی اِس قابل ہے کہ اُس کے ساتھ محبت کی جائے اور اِسی امر پر غور کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھا سکتا ہے۔
(7) طویل تعلق اور آئندہ ترقیات کی وابستگی کے احساس سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے۔ بادشاہوں سے یا وطن سے یا سیاسی اور مذہبی پارٹیوں سے اِسی جہت سے محبت ہوتی ہے۔ بعض لوگ جو سینکڑوں سال سے حنفی چلے آ رہے ہیں اُنہیں طبعی طور پر حنفیوں سے ہی محبت ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا خاندان تو سات پشت سے حنفی ہے یا ہمارا خاندان سات پشت سے وہابی ہے۔ اِسی طرح وہ سیاسی پارٹیاں جو ایک لمبے عرصہ تک برسرِاقتدار رہتی ہیں اُن کے ساتھ بھی لوگوں کو محبت ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلاں بڑی مضبوط پارٹی ہے۔ اگر ہم اُس پارٹی کے ساتھ تعلق پیدا کریں گے تو ہمیں فائدہ ہوگا۔ غرض سابق لمبا تعلق یا آئندہ کے لمبے تعلق کی امید بھی انسان کے دل میں محبت پیدا کر دیتی ہے عادات سے محبت بھی اِسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اُن کے ساتھ ایک لمبا تعلق رہ چکا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لحاظ سے یہ وجہ بھی بڑی قوی ہے کیونکہ آئندہ ترقیات جتنی اُس سے وابستہ ہو سکتی ہیں اور کسی سے نہیں اور طویل تعلق زمانۂ سابق یا مستقبل کے لحاظ سے بھی جتنا اُس سے ہے اور کسی سے نہیں۔
(8) آٹھویں وجہ محبت کی سکون کا حاصل ہونا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی سکون سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے یعنی یہ دونوں چیزیں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ محب کے وصال سے سکون اور حصولِ سکون سے محبت پیدا ہوتی ہے گویا اِن دونوں کا آپس میں خالق و مخلوق کا تعلق ہے۔ کبھی یہ خالق اور وہ مخلوق اور کبھی یہ مخلوق اور وہ خالق ہوتا ہے۔ یہ سکون کبھی عقلی ہوتا ہے اور کبھی جذباتی۔ عقلی جیسے کھانے پینے اور پہننے سے سکون حاصل ہوتا ہے اور جذباتی جیسے تعلقاتِ مرد و زن سے۔ کبھی تسکین کی امید کی وجہ سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے یعنی امید ہو کہ اُس سے تسکین حاصل ہوگی جیسے سیاسی یا مذہبی پروگرام وغیرہ جن سے مُلکی ترقی یا اُخروی زندگی کی امید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ امر بھی سب سے زیادہ چسپاں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے جس سکون کے ملنے کا امکان ہو سکتا ہے غیر سے نہیں کیونکہ غیر کی نعمت ٹوٹ سکتی ہے لیکن خداتعالیٰ کی نعمت جاری ہے اور ترقیات وہ بہت زیادہ دے سکتا ہے۔
غرض جتنے موجباتِ محبت ہیں وہ سارے کے سارے نہایت شدت سے اللہ تعالیٰ کے وجود میں پائے جاتے ہیں۔ اِس لئے جب ایک ایک وجہ شدید محبت پیدا کر سکتی ہے تو جس میں وہ سب وجوہ پائی جائیں اور شدت سے پائی جائیں اُس سے کیوں محبت نہ ہوگی۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ذکر و فکر سے اِن اُمور کا احساس غائب سے حاضر میں لایا جائے اور عدم سے وجود میں اُن کو تبدیل کیا جائے۔
(9) ایک ذریعہ محبت کا تحریک و تحریص بھی ہوتا ہے۔ جب بار بار کسی حسین چیز کا ذکر کیا جائے تو لوگوں کو سُن سُن کر بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ عربوں میں قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے کسی کتاب میں پڑھا کہ اُستادوں سے دوستانہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ بے وقوف ہوتے ہیں۔ اُس کے ایک استاد سے بڑے اچھے تعلقات تھے جو ایک لمبے عرصہ تک قائم رہے اور وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ استاد تو بڑے اچھے ہوتے ہیں معلوم نہیں لکھنے والے نے یہ کس طرح لکھ دیا کہ استاد بے وقوف ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ وہ اُن سے کچھ عرصہ کے بعد ملنے کے لئے گیا تو اُسے معلوم ہؤا کہ استاد صاحب بیمار ہیں۔ اُس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ وہ کب سے بیمار ہیں۔ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ مدت ہوگئی وہ تو گھر سے نکلتے ہی نہیں۔ وہ بہت پریشان ہؤا اور آخر دریافت حالات کے لئے اُن کے مکان پر پہنچا۔ بیوی نے اُن سے کہا کہ آپ اُن کے اچھے دوست ہیں آپ نے خبر بھی نہیں لی کہ اُن کا کیا حال ہے وہ تو مرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اِسے سن کر بہت افسوس ہؤا اور اس نے کہا کہ پردہ کروا دیں تا کہ میں خود اُن سے حال دریافت کر سکوں۔ چنانچہ وہ اندر گیا دیکھا تو واقع میں استاد صاحب بڑے مضمحل اور کمزور ہو چکے تھے اور ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ گئے تھے۔ اُس نے پوچھا کہ آپ کو بیماری کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بیماری کی کچھ سمجھ نہیں آئی بہت علاج کروایا ہے مگر کوئی افاقہ نہیں ہؤا۔ اس نے کہا آخر کچھ تو بتائیے کہ یہ بیماری آپ کو شروع کس طرح ہوئی ہے؟ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ جب میں کتابیں پڑھتا اور اُن میں محبت اور عشق کے واقعات دیکھتا تھا تو میرے دل میں بھی بار بار خیال آتا تھا کہ مجھے بھی محبت کرنی چاہیے مگر میں سمجھتا تھا کہ میری محبت کسی معمولی عورت سے نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں جو سب سے زیادہ حسین عورت ہوگی اُس سے میں محبت کروں گا۔ چنانچہ ایک دن میں اپنی گلی میں بیٹھا ہؤا تھا کہ ایک شخص میرے پاس سے گزرا اور اُس نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اُمِّ عمرو ایسی حسین عورت ہے کہ ساری دنیا اُس پر عاشق ہے۔ میں نے کہا کہ بس عشق کرنا ہے تو اُمِّ عمرو سے ہی کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے اُس سے محبت کرنی شروع کر دی۔ اُس نے کہا یہ تو فرمائیے آپ نے اُمِّ عمرو کبھی دیکھی بھی تھی یا نہیں؟ کہنے لگا میں نے دیکھی تو نہیں لیکن جب ساری دنیا اُس سے محبت کرتی تھی تو میں نے سمجھا کہ میں بھی اُس سے کیوں نہ محبت کروں۔ چنانچہ میں اپنی محبت اور عشق میں ترقی کرتا چلا گیا اور دل میں باربار حسرت پیدا ہوتی تھی کہ اُمِّ عمرو کا مجھے وصال حاصل ہو مگر مدتیں گزر گئیں اور اُمِّ عمرو کا کچھ پتہ نہ چلا۔ ایک دن میں پھر اپنی گلی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص گزرا اور اُس نے یہ شعر پڑھا کہ
لَقَدْ مَرَّا لْحِمَارُ بِاُمِّ عَمْرٍو
فَمَا رَجَعَتْ وَمَا رَجَعَ الْحِمَارُ
کہ اُمِّ عمرو کو گدھا لے کر چلا گیا اور اِس کے بعد نہ وہ لَوٹی اور نہ گدھا لَوٹا۔ میں نے سمجھ لیا کہ وہ جو لَوٹی نہیں تو ضرور مَر چکی ہے۔ چنانچہ اُس دن سے میں چارپائی پر پڑا ہوں اور حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ جب محبوب ہی نہ رہا تو اِس دنیا میں زندہ رہ کر کیا کرنا ہے۔ وہ یہ قصہ سُن کر لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھا اور کہنے لگا کتاب میں سچ لکھا تھا کہ استاد بے وقوف ہوتے ہیں۔
تو حقیقت یہ ہے کہ بار بار کسی چیز کا ذکر سننے سے بھی محبت ہو جاتی ہے۔ بار بار یہ کہنا کہ خدا بڑا پیارا ہے، خدا بڑا محسن ہے، خدا بڑا مہربان ہے، خدا ہم سب کی ضروریات پوری کرتا ہے، خدا ہم سب کو روزی دیتا ہے، خدا ہماری دعائیں سنتا ہے، خدا ہماری مشکلات دور کرتا ہے۔ اِسی طرح وعظ و نصیحت کی مجالس منعقد کرنا اور خداتعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کی ترغیب دلانا۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جو رفتہ رفتہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتی ہیں چنانچہ دیکھ لو جہاں سخاوت کا ذکر آئے گا لوگ فوراً کہہ اُٹھیں گے کہ حاتم بڑا سخی تھا حالانکہ نہ اُنہوں نے حاتم کو دیکھا نہ اُس کے حالات پڑھے محض اس لئے کہ لوگوں کی زبان پر حاتم کا بار بار ذکر آتا ہے ہر شخص حاتم سے محبت کرتا ہے۔ اِسی طرح ایک پنجابی جو نہ یونان کا نام جانتا ہے نہ اُس مُلک کے حالات سے واقفیت رکھتا ہے فوراً کہہ دے گا کہ تو بڑا افلاطون آیا ہے یا جب کوئی شخص اپنی بہادری کی ڈینگیں مارے تو لوگ کہتے ہیں بڑا رُستم بنا پھرتا ہے حالانکہ کہا جاتا ہے کہ رُستم کوئی حقیقی وجود نہیں تھا محض قصہ کہانیوں میں بہادری کے ذکر کے لئے ایک نام تجویز کر لیا گیا ہے۔ پھر اور باتوں کو جانے دو زلیخا کے حسن کے اتنے قصے مشہور ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں۔ اچھے معقول اور تعلیم یافتہ آدمیوں نے بعض دفعہ مجھ سے پوچھا ہے کہ کیا یہ سچ ہے کہ زلیخا اتنی حسین تھی کہ اُس سے بڑھ کر اور کوئی حسین عورت نہیں تھی؟ اب زلیخا مَر کے مٹی بھی ہوگئی مگر اُس کے حسن کا چرچا باقی ہے کیونکہ لوگوں میں اُس کا بار بار ذکر آتا ہے۔ اِسی طرح لیلیٰ ضرور اچھی ہوگی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کئی نوکرانیاں اُس سے اچھی ہوں مگر اِس وجہ سے کہ بار بار لیلیٰ کا ذکر آتا ہے اُس کا دماغوں پر ایسا نقشہ کھنچ گیا ہے کہ انسان خیال کرتا ہے کہ لیلیٰ سے بڑھ کر کوئی خوبصورت عورت ہو ہی نہیں سکتی۔ پس کسی کا اچھا ذکرسن سن کر بھی اُس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب ہماری عقل بتاتی ہے کہ خدا سب سے اچھا ہے تو اگر قوم میں اِس امر کو جاری کیا جائے کہ محبت الٰہی کا ذکر بار بار ہو اور لوگوں کو تحریک کی جائے کہ وہ خود بھی ذکر و فکر کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں اور اِس ذکر کو عام کرنے کے لئے وعظ و نصیحت کی مجالس منعقد کی جائیں اور بچوں کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں، بیویوں کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں، ماں باپ کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں تو غیر شعوری طور پر لوگوں کے دلوں میں محبت الٰہی پیدا ہو جائے گی اور قوم میں ایسے لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں نظر آنے لگیں گے جو خدا کے نام پر سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔
دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ مگر اس وجہ سے کہ عیسائی بچپن سے ہی اپنی قوم کے افراد کے دلوں میں یہ نقش کرتے رہتے ہیں کہ عیسیٰ بڑا ہے کوئی عیسائی بھی خواہ وہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسیٰ پر فضیلت دی جائے۔ میں جب انگلستان گیا تو ایک عیسائی ڈاکٹر جو دہریہ تھا مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے مذہبی گفتگو شروع کر دی مگر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی بے باقی کے ساتھ حملہ کر دیتا تھا۔ تین چار دفعہ تو میں نے برداشت کیا مگر جب بار بار اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا تو میں نے کہا کیا تم جانتے نہیں عیسیٰ میں فلاں فلاں نقص تھے جن کو انجیل سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ جب میں نے عیسیٰ کا نام لیا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا عیسیٰ کا نام نہ لیں یہاں عیسیٰ کا کیا ذکر ہے میں عیسیٰ کے متعلق کوئی بات سن نہیں سکتا۔ میں نے کہا تم اگر عیسیٰ کے متعلق کوئی بات نہیں سن سکتے تو میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بات نہیں سن سکتا۔ وہ دہریہ تھا مگر اس وجہ سے کہ بچپن سے اُس کے کانوں میں یہ بات ڈالی جاتی رہی تھی کہ عیسیٰ سب سے بڑا ہے باوجود دہریہ ہونے کے وہ اِس بات کو برداشت نہ کر سکا کہ عیسیٰ پر اعتراض کیا جائے۔
اِسی طرح جب میں حج کے لئے گیا تو جس جہاز میں میں نے سفر کیا اُسی میں تین بیرسٹر بھی سفر کر رہے تھے۔ ایک ہندو تھا اور دو مسلمان مگر وہ دونوں دہریہ تھے۔ خداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان نہیں رکھتے تھے چنانچہ میرے ساتھ اُن کی لمبی بحث رہی۔ وہ خداتعالیٰ کی ہستی پر بار بار مذاق اُڑاتے اور بعض دفعہ ایک تنکا نکال کر سامنے رکھ دیتے کہ اگر تمہارے خدا میں طاقت ہے تو وہ یہ تنکا ہِلا کر دکھائے۔ ہندو بیرسٹر بھی اُن اعتراضات میں اُن کا شریک ہؤا کرتا تھا۔ ایک دن اس بحث کے دوران میں جب کہ ہندو بیرسٹر بات کر رہا تھا اُس نے مثال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی گستاخی سے ذکر کر دیا۔ بس اُس کا یہ ذکر کرنا تھا کہ وہ دونوں بیرسٹر جو خدا کی ہستی پر رات دن مذاق اُڑاتے رہتے تھے یکدم غصہ کے ساتھ اُس سے کہنے لگے کہ دیکھو میاں! اب اِس کے بعد تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لینا ورنہ ہماری اور تمہاری دوستی بالکل ٹوٹ جائے گی۔ اُس نے کہا جب تم خدا کو ہی نہیں مانتے تو رسول کے ماننے کا سوال کیسا؟ وہ کہنے لگے کچھ ہو خدا کو جو مرضی ہے کہہ لو مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہم کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے۔ اب اِس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہی ہے کہ ماں باپ نے بچپن سے ''تحفظِ ختم نبوت'' کی تلقین کی ہوئی ہوتی ہے اور چونکہ بچپن سے وہ سنتے چلے آتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں سے بڑے ہیں اِس لئے وہ یہ بحث تو کر لیں گے کہ خدا ہے یا نہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف وہ کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ تو بار بار سننے سے بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حَبِّبُوا اللہَ اِلٰی عِبَادِہٖ یُحْبِبْکُمُ اللہُ104 یعنی لوگوں کے اندر تم ایسی باتیں کیا کرو جن سے خدا کی محبت پیدا ہو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا۔ اگر تم اپنے بچوں کو اور بڑوں کو، دوستوں کو اور رشتہ داروں کو محبت الٰہی کی ضرورت اور اُس کے حصول کی اہمیت بتاؤ اور محبت پیدا کرنے والے افعال کا ذکر بار بار اپنی مجالس میں محبت اور پیار سے کرتے رہو تو تمہاری محبت بھی بڑھے گی اور اُن کی بھی۔
(10) دسواں طریقہ محبت الٰہی کے حصول کا دعا ہے جو ساری کامیابیوں کی جڑ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اٰخِرُالدَّوَاءِ اَلْکَیُّ105 کہ آخری علاج داغ دینا ہوتا ہے۔ اِسی طرح سارے کاموں کا آخری انحصار دعا پر ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکے اور اُس سے کہے کہ الٰہی! تیرا وجود مخفی ہے میری عقل سخت ناقص اور ناتمام ہے مگر میرے دل کے مخفی گوشوں میں تیرے وصال کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے۔ میرا دل تجھ سے ملنے کے لئے بیتاب ہے میں چاہتا ہوں کہ تیری محبت کو حاصل کروں۔ مگر اے میرے رَبّ! میری کوششیں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک تیرے فضل میرے شاملِ حال نہ ہوں۔ پس تو اپنی محبت سے مجھے حصہ عطا فرما اور مجھے اُن لوگوں میں شامل فرما جو تیرے مُحِبّین کے پاک گروہ میں شامل ہیں۔ چنانچہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ اَحَبَّکَ وَحُبَّ مَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ وَاجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ۔106
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ یعنی اے میرے خدا! مجھے اپنی محبت عطا فرما وَحُبَّ مَنْ اَحَبَّکَ اور اے خدا جو تجھ سے محبت کرتے ہیں میرے دل میں تو اُن کی محبت بھی ڈال دے وَحُبَّ مَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ اور ان کاموں کی اور ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی اور ان قربانیوں اورنیکیوں کی بھی میرے دل میں محبت ڈال دے جن سے تیری محبت پیدا ہوتی ہے وَاجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اوراے میرے رَبّ! اپنی محبت میرے دل میں اُس سے بھی زیادہ پیدا کر دے جتنی شدید گرمی کے موسم میں انسان کو ٹھنڈے پانی کی محبت ہوتی ہے۔ الْمَاءِ الْبَارِدِ کے معنی ٹھنڈے پانی کے بھی ہیں اور ماء کو حیات کا مرکز بھی قرار دیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ 107 ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا ہے۔ پس یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الْمَاءِ الْبَارِدِ سے یہاں صرف جسمانی پانی مراد نہ ہو بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہو کہ تیری محبت اِتنی پیاری ہو کہ مرکز حیات کی محبت بھی میرے دل میں اِس قدر نہ ہو۔ بہرحال یہ دعا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مانگا کرتے تھے اور جس پر دوام انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔
وقت کم تھا لیکن پھر بھی میں نے جلدی جلدی اپنے مضمون کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوستوں کو چاہیے کہ اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کریں تا کہ یہ جسمانی زندگی ختم ہونے سے پہلے پہلے ہم میں سے ہر شخص کے دل میں محبت الٰہی پیدا ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی محبت عطا فرمائے اور اپنے مَاسِوَا کی محبت ہمارے دلوں سے سرد کردے اور جن سے محبت کرنا اُس کے منشاء کے مطابق ہو اُن سے اِس قسم کی اور اتنی محبت ہمیں ہو کہ جس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھے اور اُس کا تعلق زیادہ ہو حتیّٰ کہ ہماری محبت اُس کی محبت کو کھینچ لے اور وہ ہمارا چاہنے والاہو جائے اور ہم اُس کے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔’’
1: المدثر:32
2:
3: تذکرہ صفحہ 10۔ ایڈیشن چہارم
4: پیدائش باب5 آیت22۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء
5: جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد5 صفحہ178 تا 181 (ترجمہ مفہوماً)
6: پیدائش باب 32۔ آیت 24 تا28۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء
7تا 9: اقرب الموارد جلد2 صفحہ821۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
10: المنجد صفحہ526۔ مطبوعہ بیروت 1960ء
11:
12: العلق: 3
13:
14: اٰل عمران: 60 15: الانبیاء: 38 16: البقرۃ: 118
17 ، 18: اقرب الموارد جلد2 صفحہ822۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
19: الکھف: 55
20: مسلم کتاب التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ (الخ)
21: اقرب الموارد جلد١ صفحہ689 مطبوعہ بیروت 1889ء
22: بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
23 ، 24: اقرب الموارد جلد1 صفحہ415۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
25: الانبیاء: 91 26: التوبۃ: 59 27: القلم: 33
28 تا 31: المفردات فی غریب القرآن صفحہ197۔ مطبوعہ مصر 1324ھ
32 ، 33: المفردات فی غریب القرآن صفحہ197،198 مطبوعہ مصر 1324ھ
34تا37: اقرب الموارد جلد1 صفحہ20۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
38تا41: المفردات فی غریب القرآن صفحہ27 مطبوعہ مصر 1324ھ
42 ، 43: المفردات فی الغریب القرآن صفحہ27 مطبوعہ 1324ھ
44: طہٰ: 11
45: اقرب الموارد جلد2 صفحہ1437مطبوعہ بیروت 1889ء
46: نوح: 24 47: مریم: 97 48: ھود: 91
49: البروج: 15
50: طویلہ: گھوڑوں کا تھان۔ گھوڑوں کے باندھنے کی جگہ
51: النسائی کتاب النکاح باب کراہیۃ تزویج العقیم
52: المائدہ: 55 53: البقرۃ: 166 54: التوبۃ: 24
55: مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ207۔ مطبوعہ بیروت 1978ء
56 ، 57: تفسیر درمنثور للسیوطی جلد١ صفحہ261۔ مطبوعہ بیروت 1314ھ
58: طٰہٰ: 116 59، 60: البقرۃ: 38 61: النساء: 126
62: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم سدّوا الا بواب (الخ)
63: کنز العمال جلد3 صفحہ372 مطبوعہ حلب 1970ء
64: مسلم کتاب التوبۃ باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ (الخ)
65: البقرۃ: 256
66: بدر ١١ جنوری 1912ء صفحہ6
67: مسلم کتاب التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ
68: الانعام: 77
69:اٰلِ عمران: 32 70: المائدہ: 55
71:
72: النساء: 37
73: البقرۃ: 191 74: النساء: 108
75: ترمذی ابواب البروالصلۃ باب ماجاء فی الشکر (الخ)
76: اسد الغابۃ جلد3 صفحہ157مطبوعہ ریاض 1286ھ
77: القصص: 77 78: القصص: 78 79: الحج: 39
80: ابراہیم: 8 81: الانعام: 142،الاعراف: 32
82: مسلم کتاب البروالصلۃ باب فضل عیادۃ المریض
83: ال عمران: 141 84: البقرۃ: 153 85: المائدۃ: 12
86: ابوداؤد کتاب الادب باب فی المطر
87: الشعراء: 4 88: اٰلِ عمران: 149 89: یٰسٓ: 83
90: البقرۃ: 223 91: ال عمران: 160 92: المائدۃ: 43
93: اٰل عمران: 77
94: بخاری کتاب الصوم باب من صَام رمضان ایمانًا واحتسابًا (الخ)
95: قاز: راج ہنس، ایک قسم کی مرغابی
96: الروم: 31 97: النساء: 2
98: یَوَدُّاَحَدُھُمْ لَو یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ (البقرۃ:97)
99: النحل: 62 100: الفتح: 9 تا 11 101: الانعام: 104
102: مسلم کتاب الایمان باب فی قولہ علیہ السلام نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہٗ (الخ)
103: النحل: 73
104: المعجم الکبیر للطبرانی جلد8 صفحہ91 مطبوعہ قاہرہ 1985ء
105:
106:
107: الانبیاء: 31
مشرقی افریقہ کے باشندوں کو
دعوتِ اسلام
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
‘‘ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوتِ اسلام
(محررہ18جنوری1953ء )
سواحیلی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کے مضمون کے متعلق مختصر نوٹ شائع کئے جارہے ہیں۔ افریقہ کو اسلامی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ خصوصاً شمال مشرقی افریقہ کو اسلام کے ابتدائی ایّام میں جب مکّہ والوں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے مظالم کئے اور مکّہ میں مسلمانوں کی رہائش ناممکن ہو گئی تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے ارشاد سے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف جانے کی ہدایت فرمائی۔ حبشہ یعنی ایبے سینیا وہ ملک ہے جو کہ کینیا کالونی کے ساتھ لگا ہؤا ہے۔ چنانچہ جب مسلمان اس مُلک میں پہنچے اور وہاں کے بادشاہ کے قانون کے ماتحت انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی گئی اور امن کا سانس انہوں نے لینا شروع کیا تو مکّہ والوں سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی قوم کے دو لیڈروں کو بادشاہ اور اس کے درباریوں کے لئے بہت سے تحائف دے کر بھجوایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ بادشاہ سے درخواست کریں کہ وہ مہاجرینِ مکّہ کو مکّہ کی حکومت کے حوالے کر دے تاکہ وہ ان سے اپنے خیالات اور عقائد کے مطابق سلوک کریں اور اگر بادشاہ نہ مانے تو پھر درباریوں کو تحفے دے کر ان سے بادشاہ پر زور ڈلوائیں اور مسلمان مہاجرین مکّہ کو جس طرح بھی ہو واپس مکّہ لائیں۔ چنانچہ یہ وفد حبشہ گیا اور درباریوں خصوصًا پادریوں کے ذریعہ سے بادشاہ سے ملا جو اُس زمانہ میں نیگس کہلاتا تھا۔ جسے عرب لوگ نجاشی کہتے تھے۔ یہ اُس بادشاہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ اُس زمانہ کے حبشی بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا۔ چنانچہ بادشاہ کے سامنے اُنہوں نے شکایت کی کہ اُن کے مُلک کے کچھ باغی بھاگ کر حبشہ آگئے ہیں اور انہیں مکّہ والوں نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان باغیوں کو مکّہ کی حکومت کے حوالہ کر دیا جائے۔ بادشاہ نے ان لوگوں کی باتیں سُن کر مسلمانوں کو بُلوایا اور اُن سے پوچھا کہ وہ کس طرح آئے ہیں؟ اُنہوں نے بتایا کہ اُن پر اُن کی قوم ظلم کر رہی تھی اور چونکہ افریقن بادشاہ کا انصاف اور اس کا عدل مشہور تھا وہ اس کے مُلک میں پناہ لینے کے لئے آگئے۔ اس پر بادشاہ نے مکّہ کے وفد کو جواب دیا کہ چونکہ اِن کے خلاف کوئی سیاسی جُرم ثابت نہیں صرف مذہبی اختلاف ثابت ہے اس لئے وہ ان کو واپس کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مکّہ کا وفد جب دربار سے ناکام لَوٹا تو اس نے درباریوں اور پادریوں کو بھی تحفے تقسیم کئے اور اُنہیں اُ کسایا کہ یہ مسلمان لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی بھی ہتک کرتے ہیں اس لئے مسیحیوں کو بھی مکّہ والوں کے ساتھ مِل کر ان پر سختی کرنی چاہئے۔ چنانچہ دوسرے دن پھر درباریوں نے بادشاہ پر زور دیا کہ یہ لوگ تو مسیح کی بھی ہتک کرتے ہیں۔ چنانچہ بادشاہ نے مسلمانوں کو پھر بُلوایا اور اُن سے پوچھا کہ آپ لوگ مسیح ؑ کے بارہ میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ مسلمانوں نے سورة مریم کی ابتدائی آیات پڑھ کر اس کو سنائیں جن میں مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر ہے اور پھر کہا کہ ہم مسیح کو نبی اﷲ مانتے ہیں۔ ہاں انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتے۔ اس پر پادریوں نے شور مچا دیا کہ دیکھو انہوں نے مسیح کی ہتک کی ہے مگر افریقن بادشاہ منصف مزاج اور عادل تھا۔ اُس نے سمجھ لیا کہ یہ الزام ان پر غلط لگایا جارہا ہے۔ یہ لوگ مسیح کا ادب کرتے ہیں مگر اُس کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے۔ چنانچہ اس نے بڑے جوش سے ایک تنکا فرش پر سے اُٹھایا اور کہا کہ خدا کی قسم! مَیں بھی مسیح کو وہی کچھ مانتا ہوں جو یہ کہتے ہیں اور مَیں اس درجہ سے جو انہوں نے مسیح کا بیان کیا ہے اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا۔
پادریوں نے بادشاہ کے خلاف بھی آوازے کسنے شروع کئے کہ تُو بھی مُرتد ہو گیا ہے لیکن نجاشی نے کہا کہ مَیں تمہارے اس شورو شغب کی وجہ سے مرعوب نہیں ہو سکتا۔ جب میرا باپ مَرا تھا تو مَیں چھوٹا بچہ تھا اور میری جگہ پر میرا چچا قائمقام مقرر کیا گیا تھا اور تم لوگوں نے اس کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ مجھ کو تخت سے محروم کر دو۔ جب مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو باوجود اس کے کہ مَیں چھوٹا تھا مَیں نے اپنا حق لینا چاہا اور نوجوان میرے ساتھ مل گئے اور میرے چچا نے ڈر کر دستبرداری دے دی اور تخت میرے حوالے کر دیا۔ تو میری بادشاہت تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے باوجود تمہاری مخالف کوششوں کے مجھے دی ہے۔ کیا مَیں اب تم سے ڈر کر خدا کو چھوڑ دوں گا اور ظلم اور تعدّی کروں گا؟ نہ تم نے یہ بادشاہت مجھے دی ہے نہ مَیں تمہاری مدد کا محتاج ہوں۔ مَیں کسی صورت میں ظلم نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ آزادی سے میرے مُلک میں رہیں گے اور کوئی ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔1 پس اے اہلِ افریقہ! جن کی زبان سواحیلی ہے مَیں یہ ترجمہ آپ کے سامنے پیش کرنے میں ایک لذت اور سرور محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس کتاب کے ابتدائی ایام میں اس کتاب کے ماننے والوں کو آپ کے برّاعظم نے پناہ دی تھی اور ظلم و تعدّی کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انصاف اور عدل قائم کرنے کا بیڑہ اُٹھایا تھا۔ آج قرآن کریم کی پاکیزہ تعلیم اُسی طرح مظلوم ہے جس طرح کسی زمانہ میں قرآن کریم کے ماننے والے مظلوم ہؤا کرتے تھے۔ آج اس قرآن کریم کو دُنیا میں لانے والا نبی فوت ہو چُکا ہے لیکن اس کا روحانی وجود آج اس سے بھی زیادہ مظلوم ہے جتنا کہ آج سے قریباً چودہ سو سال پہلے وہ اپنی دنیوی زندگی میں مظلوم تھا۔ اس پر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں ، اس کی لائی ہوئی تعلیم کو بگاڑ کر دُنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، اس کے ماننے والوں کو حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ واقعہ یہ نہیں۔ خدا کی نظروں میں سب سے زیادہ معزز وجود محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے جن پر قرآن نازل ہؤا تھا اور سب سے زیادہ سچی تعلیم وہ ہے جو اس کتاب یعنی قرآن کریم میں موجود ہے۔ جیسا کہ آپ خود دیکھ لیں گے۔ دُنیا صرف اپنی طاقت اور اپنی قوت کے گھمنڈ پر اس کی تردید کر رہی ہے اور اس کے ماننے والوں کو ذلیل کر رہی ہے لیکن اے اہلِ افریقہ! آج آپ کا بھی یہی حال ہے۔ آپ کو غیر مُلکوں میں تو الگ رہا اپنے مُلک میں بھی ذلیل سمجھا جا رہا ہے۔ پس وہ تعلیم جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے ایک وحشی اور غیر تعلیم یافتہ قوم کو دُنیا کی ترقیات کی چوٹی پر پہنچا دیا تھا لیکن جو آج مظلوم ہے اور گھر سے بے گھر کر دی گئی ہے مَیں اُسے آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جبکہ آپ لوگوں کی حالت بھی اسی قسم کی ہے اور آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کتاب کو غور سے پڑھیں اور اسی عدل و انصاف کی نگاہ سے اسے دیکھیں جس نگاہ سے نجاشی نے مکّہ کے مسلم مہاجرین کو دیکھا تھا اور پھر اپنی عقل اور اپنی بصیرت سے نہ کہ لوگوں کے لگائے ہوئے جھوٹے الزاموں کے اثر کے نیچے اور لوگوں کی بنائی ہوئی رنگین عینکوں کے ذریعہ سے اسے دیکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو اس لاثانی جوہر کی حقیقت معلوم ہو جائے گی اور اُس رسّے کو آپ پکڑ لیں گے جو کہ خدا تعالیٰ نے اس کتاب کے ذریعہ سے آسمان سے پھینکا ہے تاکہ اس کے بندے اسے پکڑ کر اس تک پہنچ جائیں۔
اے اہلِ افریقہ! ایک دفعہ پھر اپنے عدل اور انصاف کا ثبوت دو اور پھر ایک سچائی کے قائم کرنے میں مدد دو۔ جو سچائی تمہارے پیدا کرنے والے خدا نے بھیجی ہے۔ جس سچائی کو قبول کرنے کے بغیر غلام قومیں آزاد نہیں ہو سکتیں، مظلوم ظلم سے چھٹکارا نہیں پاسکتے۔ قیدی قید خانوں سے چھوٹ نہیں سکتے۔ امن، رفاہیت اور ترقی کا پیغام میں تمہیں پہنچاتا ہوں۔ یہ پیغام میرا نہیں بلکہ تمہارے اور میرے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے، یہ زمین آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے، یہ یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے۔ آؤ اور ہزاروں کی تعداد میں آؤ، لاکھوں کی تعداد میں آؤ، کروڑوں کی تعداد میں آؤ اور سچائی کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاؤ تاکہ ہم سب مِل کر دُنیا میں ازسرِ نو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کر دیں اور بنی نوع انسان کی ہمہ گیر اخوت اور خدا تعالیٰ کے ہمہ گیر عدل و انصاف کو دُنیا میں قائم کر دیں۔ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو میری آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دے اور مَیں وہ دن دیکھوں جبکہ آپ لوگ میرے دوش بدوش دُنیا میں امن و سلامتی اور ترقی اور رفاہیت کے قائم کرنے میں کوشش کر رہے ہوں اور پھر یہ کوششیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوں۔
خاکسار۔ مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی’’
(الفضل 26فروری 1958ء)
1: سیرت ابن ھشام جلد 1 صفحہ 356تا362۔ مطبوعہ مصر 1936ء
مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق
اِسلامی نظریہ
(اسلامک آئیڈیالوجی)
از
افاضات
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
‘‘ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ھُوَ النَّاصِرُ
اسلام کا بنیادی نظریہ متعلق مسئلہ نبوّت
(از افاضات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ۔ یہ اس دستاویز کا ابتدائی حصہ ہے جو تحقیقاتی عدالت، فسادات پنجاب 1953ء میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے داخل کی گئی تھی)
اسلام ایک کلیاتی مذہب ہے یعنی وہ صرف متفرق احکام نہیں دیتا بلکہ وہ دُنیا کی پیدائش کے مقصد اور شریعت کی ضرورت اور انسانی ذمّہ داریوں کی حد بندیوں اور انسانی پیدائش کی غرض اور اُس کی فطرت کی حقیقت اور سوسائٹی کے مقابلہ میں اُس کا مقام اور اُس کے مقابلہ میں سوسائٹی کا مقام اور اُس کے آخری انجام کو بھی بیان کرتا ہے۔ وہ اس پر بحث کرتا ہے کہ دُنیا بِلا وجہ اور بِلا مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ کائنات کی پیدائش ایک بشرکامل کی پیدائش کے لئے تھی۔
بشر کامل سے مُراد
اور بشر کامل سے مُراد ایسا وجود تھا جو خدا تعالیٰ کی صفات کو دُنیا میں ظاہر کرنے والا ہو اور جو خدا تعالیٰ کی طرف جھکے اور
خدا جس کی طرف جھکے اور اس طرح دو محبتوں کی وجہ سے وہ انسان کہلائے جو اصل میں ‘‘اُنْسَانِ’’ ہے یعنی دو محبتوں کا مجموعہ۔ اوّل اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس سے ۔ دوم اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے بھی محبت کرتا ہے اور اُس کی مخلوق سے بھی۔ پھر وہ یہ بتاتا ہے کہ کمال کے معنے یہ نہیں کہ اُس سے قصور نہیں ہو سکتا کیونکہ قائم وَحَیّ بِالذَّات تو ان معنوں میں بے عیب ہو کر بھی کامل کہلا سکتا ہے مگر مخلوق اِن معنوں میں بے عیب ہو کر کامل نہیں کہلا سکتی بلکہ بوجہ مخلوق ہونے کے مجبور کہلائے گی اور مجبوری حسنِ کمال سے محروم کر دیتی ہے۔ پس اس کے کامل کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ایک اَور طریق اختیار کیا کہ اُس کے اندر خیر و شر کے دونوں مادے پیدا کر دیئے اور اس کی راہنمائی کے لئے اُسے دو مددگار طبعی اور دو مددگار فوق الطبعیات عطا فرمائے تا وہ اُن کی مدد سے خداتعالیٰ تک پہنچے اور اپنے اخلاق کو کامل کرے اور اپنی ذمّہ داری کو ادا کرے۔ پہلا طبعی مددگار وہ معائنہ اور فکر کو قرار دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۔الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ1یعنی زمین اور آسمان کی پیدائش اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے بہت سے نشانات مخفی ہیں۔ اُن لوگوں کے لئے جو اﷲ تعالیٰ کو کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے ہوئے بھی یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرتے ہیں۔ یعنی طبعیات پر غور اور اُس کے تغیرو تبدل پر فکر کرنا بھی ہدایت اور صحیح علم کا ایک ذریعہ ہے۔
دوسرا ذریعہ فرماتا ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا2یعنی انسان کے اندر اُس نے ایک ایسا مادہ رکھ دیا ہے جس سے وہ اچھے اور بُرے میں تمیز کرتا اور ہدایت کی راہیں معلوم کرتا ہے یعنی انسان کے اندر شعور اور تمیز پیدا کی گئی ہے جس سے وہ صدق و باطل میں فرق کر سکتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس آیت میں کہ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا١ؕ 3اﷲ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی فطرت وہی ہے جسے لے کر انسان پیدا ہوتا ہے جو بعد میں اس پر رنگ آمیزی کی جاتی ہے اور اُس پر تعصب کا رنگ چڑھایا جاتا ہے وہ خدا کی دین نہیں۔ صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لئے صرف بیرونی اثرات سے خالی اور آزاد دماغ ہی کام دیتا ہے جسے لے کر بچہ پیدا ہوتا ہے۔
دو مافوق الطبعیات ذرائع اُس نے الہام اور نبوت پیدا کئے ہیں یعنی انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف متوجّہ ہوجاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے راہنمائی ملتی ہے۔ جیسے فرمایا وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا١ؕ۔4جو لوگ سچے طور پر ہماری ملاقات کے لئے کوشش کرتے ہیں ہم اُن کے لئے اپنی طرف راہنمائی کرنے والے اسباب پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تفصیلی راہنمائی کے لئے نبوت کا مقام جاری کیا جس کے ذریعہ سے وہ شریعتیں اور قانون ملتے ہیں یا شریعت اور قانون کے راز معلوم ہوتے ہیں جو کسی مخصوص زمانے کے لئے ضروری ہوں۔ اِسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔5 اگر تمہاری طرف تم میں سے ہی رسول آئیں جو تم کو میرے نشانات بتائیں تو جو شخص تقویٰ اور اصلاح سے کام لے گا اُسے نہ آئندہ کا خوف لاحق ہو گا نہ ماضی کا غم۔
قرآن کریم یہ چار ذرائع انسان کی تکمیل کے لئے بتاتا ہے جن میں سے دو طبعی ہیں اور دو فوق الطبعیات۔ اور غور کر کے دیکھا جائے تو دنیا کی ترقی انہیں چاروں ذریعوں سے وابستہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم نے یہ چار راستے تو انسان کے لئے کھولے ہیں لیکن اُن پر چلنے کے لئے اُسے مجبور نہیں کیا صرف اُسے قبول کرنے یا ردّ کرنے کی مقدرت دی ہے۔ اور محبتِ الٰہی کے پیدا کرنے کے لئے شریعت کی بنیاد انسان کے فائدہ پر رکھی ہے جبر اور زور پر نہیں رکھی۔ چونکہ انسانی فطرت اپنے کمال کے لئے تین سہاروں کی محتاج ہے ایک صحیح عمل پر اور ایک صحیح فکر پر اور ایک شوق و رغبت پر اس لئے صحیح عمل کے لئے اُس نے شریعت نازل کی۔ صحیح فکر کے لئے تمیز اور معائنہ قدرت کے سامان پیدا کئے۔ اور شوق اور رغبت کی تکمیل کے لئے الہام و وحی کا دروازہ کھولا۔ مگر چونکہ شریعت کا مکمل ہو جانا انسانی دماغ کے مکمل ہونے پر موقوف تھا اِس لئے شریعت کو محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود کے ساتھ مکمل کر دیا لیکن محبتِ الٰہی کی خواہش کمالِ ذہنی سے بڑھتی ہے۔ اس لئے دوسرا راستہ الہام و رضا کا محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ پہلے سے بھی زیادہ کھول دیا۔ اگر پہلے نبیوں کے ذریعہ سے ایک مُلک اور قوم میں محدود لوگ اُس مرتبہ کو پاتے تھے تو آپ کے بعد آپ کے ذریعہ سے یہ فیض اور بھی بڑھ گیا۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رَسُوْلکَ الْخَاتمُ لِمَا سَبَقَ وَالْفَاتِحُ لِمَا انْغَلَقَ۔6 یعنی اے خدا تیرا رسول ؐ ایسا ہے کہ سابق انعامات کو اُس نے کمال تک پہنچا دیا اور وہ دروازے رحمتِ الٰہی کے جو پہلے بند تھے اُس نے کھول دیئے۔ یہ وہ اسلامی آئیڈیالوجی ہے جسے مَیں تمہید کے طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اسی پس منظر میں یہ امر سمجھ میں آسکتا ہے کہ آیا احمدیت نے اسلام میں کوئی نئی بات نکالی ہے یا اُس آئیڈیالوجی کی تشریح کی ہے۔ اَب میں اُوپر کے مختصر بیان کی تصدیق میں قرآن کریم اور احادیث اور اقوالِ اولیاء و صلحاء بیان کر کے کسی قدر تفصیل سے اس مضمون کو بیان کرتاہوں۔
مذکورہ بالا مختصر بیان کی تصدیق قرآن مجید سے
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
کہ وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ ۔ 7 یعنی زمین و آسمان بِلا وجہ نہیں پیدا کئے گئے بلکہ اُن کی پیدائش میں حکمت تھی اور وہ اعلیٰ درجہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے تھے۔
پھر فرماتا ہے اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا 8آسمان اور زمین یقیناً پہلے بند تھے پھر ہم نے اُن کو کھول دیا۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ تمام عالم پہلے ایک واحد شکل میں تھا پھر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف وجود بنائے گئے۔ جیسا علم ہیئت اور علم تخلیقِ ارض سے ثابت ہوتا ہے کہ دُنیا بننے سے پہلے ہیولائی حالت میں ہوتی ہے، پھر وہ پہلے تو زیادہ گھنی ہوتی جاتی ہے اور پھر بعض دفعہ اندرونی تغیّرات سے متاثر ہو کر وہ جھٹکا کھاتی ہے اور اس کے کچھ حصّے الگ ہو کر ایک نظامِ شمسی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مگر دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ دُنیا بغیر ہدایت اور رہنمائی کے ہوتی ہے پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے کلام کے نزول کا راستہ کھول دیتا ہے اور تاریکیوں میں سے نکل کر مخلوق روشنی کی طرف آجاتی ہے۔
پھر انسان کی طرف متوجّہ ہوتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا۔9 کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو بغیر کسی مقصد اور بغیر کسی مُدعا کے پیدا کیا تھا۔ پھر اس اشارہ سے وضاحت کی طرف رجوع کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔ 10ہم نے تمام بڑے لوگوں اور عوام النّاس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے نفس کو مہذب بنائیں اور قُربِ الٰہی حاصل کریں۔ دوسری جگہ اس کی تشریح یوں فرمائی ہے کہ صِبْغَةَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً١ٞ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ۔11یعنی اﷲ تعالیٰ کے رنگ کو اختیار کرو اور اﷲ تعالیٰ سے بہتر رنگ کون دے سکتا ہے۔
حدیث میں اس رنگ کی تشریح یوں آئی ہے خَلَقَ اللہُ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ12 اﷲ تعالیٰ نے آدم کو ایسی شکل میں پیدا کیا ہے کہ الٰہی صفات کو ظاہر کر سکے۔
بائبل میں ہے کہ ‘‘خدا تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا’’۔13 پھر اس مقصد کے پورا کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے کہ وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً١ؕ14اور یاد کرو جب کہ تمہارے ربّ نے ملائکہ سے کہا کہ مَیں دُنیا میں اپنی صفات کو ظاہر کرنے والا ایک وجود پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ گویا وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ میں جو غرض انسان کی پیدائش کی بتائی گئی تھی اِس آیت میں اُس غرض کے پورا کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پھر انسان کو اس غرض کے پورا کرنے کے لئے چننے کی وجہ یہ بتائی کہ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ۔15 یعنی شریعت کا حامل انسان کے سوا اَور کوئی وجود مخلوقات میں سے نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اُس کے اندر اپنے ارادہ سے اپنے نفس پر ظلم کرنے اور اُسے مجبور کر کے کام لینے اور عواقب کو بُھلا کر کام کرنے کی طاقت رکھی گئی ہے۔
امانت کا لفظ جو اس جگہ آیا ہے اس کی تشریح ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا۔16 یعنی اﷲ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم حکومت کی امانت اُن لوگوں کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہیں۔ ایک اور آیت میں انسان کی اس طاقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا ہے اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا17 ہم نے انسان میں یہ مادہ پیدا کیا ہے کہ وہ چاہے تو شکر گزار بندہ بن جائے اور چاہے تو نافرمان بن جائے۔ یعنی اس پر جبر نہیں کیا صرف اسے مقدرت بخشی ہے تاکہ وہ انعام کا مستحق بنے اور جبر کی وجہ سے ایک آلۂ بے جان قرار نہ پائے۔ اسی طرح فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَيْنَيْنِۙ۔وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَيْنِۙ۔وَ هَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِۚ۔ 18 کیا ہم نے انسان کے لئے دو آنکھیں دیکھنے کو نہیں بنائیں؟اور زبان اور ہونٹ اپنی شبہات کے اظہار کے لئے نہیں بنائے؟ اور اُس کو نیکی اور بدی دونوں کا راستہ نہیں دکھایا؟
پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۔ 19 انسان کے اندر بُری باتوں اور نیک باتوں کے سمجھنے کا مادہ رکھا گیا ہے۔
پیدائشِ عالَم کا ایک مقصد
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم اور اسلام کی رُو سے پیدائشِ عالَم ایک مقصد کے مطابق ہے
اور وہ ہے ایک ایسے وجود کو ظاہر کرنا جو صفاتِ الٰہیہ کامظہر ہو۔ اور اس کے لئے انسان چُنا گیا ہے جس میں بِالارادہ خیر و شر کو اختیار کرنے کی طاقت رکھی گئی ہے اور انسان کے وجود کو ظاہر کرنا پھر ایک مقصد کے مطابق ہے اور اُسے آزاد بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی عقل اور فہم سے کام لے کر ان دونوں طریق میں سے کسی ایک کو اختیار کرے۔
پھر اس کے بعد فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۔وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۔20 جو شخص اپنی فطرتِ صحیحہ کو پاک رکھے گا اور اسے خرابیوں میں مبتلا ہونے سے بچائے گا وہ اپنے مقصد اور مُدعا کو پا لے گا۔ اور جو شخص اپنی فطرتِ صحیحہ کو خاک اور مٹی میں مسل دے گا وہ اپنی پیدائش کے مقصد اور مدعا میں ناکام رہے گا۔ یعنی صفاتِ الٰہیہ کا ظہور اُس کے ذریعہ سے نہیں ہو گا اور وہ ایک سڑے ہوئے پھل کی طرح ہو جائے گا جس کا نام تو پھل ہے لیکن وہ کام نہیں آسکتا۔
اس فطرتی راہنمائی کے علاوہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی راہنمائی کے لئے ہم نے یہ طریق بھی جاری کیا ہے کہ ہم انسانوں میں سے بعض لوگوں کو چُن لیتے ہیں اور اُن پر اپنا کلام نازل کرتے ہیں۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۔21اﷲ تعالیٰ ملائکہ اور انسانوں میں سے رسول چُن لیتا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ دُعاؤں کا سُننے والا اور انسانوں کی حالتوں کو دیکھنے والا ہے۔ یعنی انسانوں کی حالتوں میں جب کبھی خرابی پیدا ہوتی اور اُن کی حالت اصلاح طلب ہو جاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کچھ فرشتوں کواصلاح کے لئے مبعوث کرتا ہے جو آگے اپنے جیسے وجودوں پر خدا تعالیٰ کی مرضی کو ظاہر کرتے ہیں اور وہ بنی نوع انسان کی اصلاح کے کام میں لگ جاتے ہیں۔
اسی طرح فرماتا ہے فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔22 یعنی اے بنی آدم! جب تمہاری طرف ہدایت آئے تو جو میری ہدایت پر عمل کرے گا وہ خوف اور غم سے محفوظ رہے گا۔ اس جگہ ہدایت کا ذکر ہے رسالت کا نہیں جس میں رسالت اور عام الہام دونوں شامل ہیں۔ اور حضرت آدم ؑ کے زمانے میں ہی قیامت تک کے لئے انزالِ وحی کا جو کبھی رسالت کی شکل میں ہو گی ، کبھی بغیر رسالت کے ہو گی وعدہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ مومنون میں اس بات کا ذکر فرماتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اُس کو اپنی ہدایت کا وارث بنایا اور نوح ؑ اور اس کے بعد دوسرے رسول پے در پے بھیجے۔ یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آگیا۔ اور سورۂ حدید میں فرماتا ہے وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِيْمَ وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ١ۚ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ۔23 اور ہم نے نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کو رسول بنا کر بھیجا اور اُن کی اولاد میں بھی نبوّت اور کتاب کا سلسلہ جاری کیا۔ اُن میں سے کچھ تو ہدایت یافتہ ہو گئے اور اکثر اُن میں سے نافرمان ہو گئے۔ اس کے بعد موسیٰ ؑ کے زمانے کا ذکر یوں فرماتا ہے وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ١ٞ وَ اٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَ اَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ١ۚ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ١ٞ وَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ۔وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ۔وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ١ۙ وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ۠ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوْا١ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ١ٞ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ۔24 یعنی موسیٰ ؑ کو بھی کتاب ملی اور اُن کے بعد بھی خداتعالیٰ نے پے در پے رسول بھیجے یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم دُنیا میں ظاہر ہوئے اور اُن کے بعد خدا تعالیٰ نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جن پر قرآن کریم نازل ہؤا جس نے پہلی کتابوں کی تصدیق کر دی۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تک انبیاء کا سلسلہ متواتر جاری رہا اور بغیر کسی معتدبہ وقفہ کے اﷲ تعالیٰ کی طرف بُلانے والے لوگ آتے رہے۔
بے شک قرآن کریم میں صرف ان نبیوں کے نام لئے گئے ہیں جن سے عرب واقف تھے لیکن دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔25
اسی طرح فرماتا ہے وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔26 یعنی دُنیا کی ہر قوم میں خدا تعالیٰ کے رسول اور ہادی گزرے ہیں۔ پس بنی نوع انسان کا اس کے ساتھ تعلق بذریعہ الہام آدم سے لے کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود تک برابر چلا آیا ہے۔
خدا تعالیٰ کے وجود اور قیامِ نبوّت کے متعلق اسلامی نظریہ کے مقابل دوسرے مذاہب کا نظریہ
اِس اسلامی نظریہ کے خلاف دوسرے مذاہب اور دوسری
اقوام میں خدا تعالیٰ کا وجود اور نبوّت کا قیام صرف اپنی اپنی قوم کے دائرہ میں محصور کیا گیا ہے۔ ہندو مذہب غیر اقوام میں مرسلانِ الٰہی کے متعلق بالکل خاموش ہے بلکہ اپنے نسلی نظریہ کے لحاظ سے اُس کے خلاف ہے۔ مشرقی ایشیائی اقوام بھی اس نظریہ سے بالکل کوری نظر آتی ہیں اور یہی حال بُدھوں کا ہے۔ ایرانی، بابلی اور یونانی بھی مذہبی نظر سے اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں بلکہ جو شہادت ملتی ہے وہ اس کے خلاف ملتی ہے۔ بنی اسرائیل بھی خدا کو ایک قومی خدا قرار دیتے ہیں اور نبوت کو ابراہیم کی نسل کا ورثہ سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ ۔27 یعنی ہم نے نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کی ذرّیت میں نبوت رکھ دی ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کی ذرّیت میں سے نبی آتے رہے اور اُن کا سلسلہ بند نہیں ہؤا۔ یہ معنے نہیں کہ دوسری قوموں میں نبی نہیں آئے کیونکہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔اور اﷲ تعالیٰ اس کو کسی زمانے سے مخصوص نہیں کرتا بلکہ ان آیات کے مدِّنظر وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ کے معنے سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتے کہ نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کی اولاد میں نبوت جاری رہی اور یہ معنے نہیں نکالے جاسکتے کہ اُن کی قوموں کے سوا باہر کوئی نبی کبھی نہیں آیا۔ جو قومیں کسی نبی کو نہیں مانتیں اُن کے متعلق قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ ۔28 یعنی اُن لوگوں نے خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ نہیں کیا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے کبھی کسی بندے پر کوئی وحی نازل نہیں کی۔ گویا وہ لوگ الہامِ الٰہی کے قطعاً منکر تھے۔
دوسرا گروہ وہ تھا جو نبوت کا تو قائل تھا لیکن ہر قوم پر اسے یہ خیال ہوتا تھا کہ نبوت کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور آئندہ کسی قسم کا کوئی پیغام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آنا چاہئے۔ ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا۔29 پھر فرماتا ہے قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا ۔30 یعنی جو کچھ ہمارے باپ دادوں کے پاس تعلیم تھی وہی ہمارے لئے کافی ہے کسی نئی تعلیم کی ضرورت نہیں۔
ہندو قوم کے عقیدہ کی بنیاد اِسی پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ ویدوں کے رِشیوں پر اُتارا۔ اُس کے بعد دُنیا میں اُس کا کلام آنا بند ہو گیا اور اس تعلیم کے بعد کسی اور تعلیم کی ضرورت نہیں۔ بعض لوگ اس بات کے تو قائل نہیں تھے کہ ابتدائے عالَم میں جو وحی نازل ہوئی وہی کافی تھی لیکن وہ وحی کے تسلسل کو بند کرنے والے ضرور تھے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ اُن لوگوں کے متعلق فرماتا ہے وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا١ؕ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ۔31 اور تمہارے پاس یقیناً یوسفؑ بھی اس سے پہلے کھلے کھلے نشانات لے کر آیا تھا لیکن اُس کی لائی ہوئی تعلیم کے متعلق متواتر شُبہ میں رہے۔ یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گیا تو تم یوں کہنے لگ گئے کہ اﷲ تعالیٰ اس کے بعد کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ حدّ سے بڑھنے والوں اور شک میں پڑنے والوں کو گمراہ قرار دیا کرتا ہے۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل اپنے زمانے میں نبوّت کے اجراء کو روکنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ حتّٰی کہ یوسف علیہ السلام بھی جو نہ کسی سلسلے کے بانی تھے نہ کسی سلسلہ کے خاتم، نبوت کے روکنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔
اسی طرح قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی لوگوں کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ اب کوئی رسول نہیں آئے گا۔ چنانچہ سورۂ جنّ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن جِنّوں نے جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وحی سُننے کے لئے آئے تھے (ہمارے نزدیک وہ نصیبین کے یہودی تھے اور جِنّ کا لفظ غیر قوموں کے لئے اور باغی قوموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔) واپس جاکر اپنی قوم سے کہا کہ اَنَّهُمْ ظَنُّوْا كَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ اَحَدًا۔32 کہ جس مُلک سے ہم آئے ہیں وہ لوگ بھی تمہاری طرح یہ یقین رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ آئندہ کسی کو نبی بنا کر نہیں بھیجے گا۔ چونکہ سورۂ احقاف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ موسیٰ ؑپر ایمان لانے والے لوگ تھے۔33 پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
حضرت مسیح ؑ کے نزول کے بعد عیسائی لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہو گیا کہ گو عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے لیکن آئندہ کوئی اَور نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ 34
ان دونوں نظریوں کو مقابل میں رکھ کر یہ نتائج نکلتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک تو تمام بنی نوع انسان روحانی ترقی اور قُربِ الٰہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور ہمیشہ اﷲ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرتا رہے گا کہ انسان کو قُربِ الٰہی کے اعلیٰ درجے کے مقامات حاصل ہوتے رہیں لیکن اس کے مقابل پر باقی دُنیا اس نظریہ کی قائل رہی ہے کہ خدا تعالیٰ ساری دُنیا کا خدا نہیں بلکہ وہ مخصوص قوموں کا خدا ہے۔ گویا اُن کے نظریہ میں خدا تعالیٰ کی حیثیت ایک بُت کی حیثیت تھی جسے ہر ایک قوم نے اپنے لئے خدا ٹھہرا لیا تھا اور پھر یا تو وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے قُربِ الٰہی کے حصول کے لئے کوئی آسمانی ذریعہ کبھی پیدا ہی نہیں کیا اور یا یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ذریعہ پیدا تو کیا مگر صرف انہی کی قوم کے لئے پیداکیا۔ اور پھر بعض لوگ اس غلطی میں مبتلا تھے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانی ذرائع کو ایک زمانے تک پیدا کیا اور آئندہ آسمانی برکتوں کے رستے بند کر دیئے۔ کسی نے تو یہ رستہ حضرت یوسفؑ تک بند کر دیا، کسی نے حضرت موسیٰ ؑ تک اور کسی نے حضرت عیسیٰ ؑ تک اور قرآن کریم ان میں سے ہر ایک کو ملامت کرتا اور جھوٹا قرار دیتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت دُنیا کا یہ روحانی نقشہ مکمل ہو گیا۔ قرآن کے رُو سے ابتدائے آفرینش میں ایک نبی تھا یعنی حضرت آدم ؑ۔ نسلِ انسانی اُس وقت محدود تھی اور سب کی سب حضرت آدم ؑ پر ایمان لانے کے لئے مدعو۔ حضرت نوح ؑ تک یہ سلسلہ چلا۔ آپ کے بعد بنی نوع انسان کثرت سے ہو گئے اور دُنیا میں پھیل گئے۔اُس وقت سے الگ الگ قوموں میں الگ الگ نبی آتے رہے۔لیکن جب انسانی ذہن ارتقاء کو پہنچ گیا اور وہ زمانہ قریب آگیا جس میں بنی نوع انسان کے آپس میں ملنے اور ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے کے سامان کثرت سے پیدا ہو جانے والے تھے تو خدا تعالیٰ نے پھر بنی نوع انسان کی وحدت کے لئے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ آپ تمام بنی نوع انسان کو دعوتِ حقّہ دیں۔ چنانچہ فرمایا وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ 35 ہم نے تجھے صرف اِس غرض سے بھیجا ہے کہ تُو تمام بنی نوع انسان کو ایک مذہب اور ایک عقیدہ پر جمع کر دے۔ اور پھر فرماتا ہے قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا 36 اے لوگو! مَیں تم سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اِسی طرح فرماتا ہے وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا 37 ہم نے تجھے تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمام دُنیا کے لئے کیوں مبعوث کئے گئے
یہاں سوال ہوتا تھا کہ آپ ساری دُنیا اور سب زمانوں کے لوگوں کی طرف کیوں مبعوث کئے گئے ہیں؟
اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا 38 یعنی آج سے مَیں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین کے چُن لیا۔ یعنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے تو انسانی حالات اور زمانی کیفیات ایسی تھیں کہ مختلف علاقوں کے لئے مختلف قسم کے اصولی احکام دئیے جائیں لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت دُنیا اِس حد تک ترقی کر چکی تھی اور آپس میں میل جول کے ذرائع اِس حد تک پیدا ہو گئے تھے کہ اب تمام دُنیا کے لئے ایک ہی قسم کے اصولی احکام دینا ضروری ہو گیا تھا۔ اسی طرح آپ کے زمانہ سے پہلے انسانی دماغ نے اس قدر نشوونما نہیں پائی تھی کہ وہ شریعت کی تمام باریکیوں سے واقفیت کا متحمل ہو سکے مگر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں انسانی دماغ اتنا کامل ہو چکا تھا کہ شریعت کے رازوں اور حکمتوں سے واقفیت حاصل کر سکے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وہ کتاب دی جو شریعت کے تمام ضروری احکام پر مشتمل تھی اور وہ ایسے الفاظ میں تھی جو شریعت کے رازوں اور حکمتوں کو تفصیل کے ساتھ واضح کر دینے پر کَمَاحَقُّہٗ حاوی تھی۔ اِسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِيْ عَلَيْكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙۛ۔ كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَ يُزَكِّيْكُمْ وَ يُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۔39 فرماتا ہے (تم میرا خوف کرو) تا مَیں تم پر اپنی نعمت کامل کر دوں اور تم ہدایت پا جاؤ۔ اس لئے کہ مَیں نے تمہاری طرف وہ رسول بھیجا ہے جو تم میں سے ہی ہے، جو تمہیں میرے نشان پڑھ کر سُناتا ہے اور تم کو پاک کرتا ہے اور تمہیں شریعت بھی سکھاتا ہے اور اُس کی حکمتیں بھی تم پر واضح کرتا ہے۔
اس آیت میں اُوپر والی آیت کی تشریح کر دی ہے کہ اتمامِ نعمت کے لئے یہ ضروری ہے کہ شریعت کی حکمتیں بیان کی جائیں کیونکہ شریعت کا کامل ہونا انسانی دماغ کے تنوّر کے لئے ضروری نہیں۔ شریعت صرف ہمارے خیال، ہمارے افکار اور ہمارے اعمال کو درست کرتی ہے مگر ہمارے ذہن کو بُلندی تبھی حاصل ہوتی ہے جب کہ اُس شریعت کے بیان کرنے کا پسِ منظر بھی ہمارے سامنے کھولا جائے اور اُس کی حکمتیں بھی ہم پر ظاہر کی جائیں۔ تب ہمیں صرف ایک قانون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم ایک رنگ میں اُس قانون کے بنانے والے ہو جاتے ہیں کیونکہ جب اُس قانون کے بنانے کی حکمتیں ہم پر ظاہر کر دی جاتی ہیں اور ہم ان سے متفق ہو جاتے ہیں تو ہمارا دِل یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر یہ علم ہمیں حاصل ہوتا اور ہم پر قانون بنانے کی ذمّہ داری ڈال دی جاتی تو ہم بھی یہی قانون بناتے۔ پس گو قانون بنا بنایا ہمیں مِلا ہے لیکن جو علم اُس کے ساتھ دیا گیا ہے اُس کے ساتھ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم قانون بناتے تو یہی قانون بناتے اور یہی ہمارے لئے بہتر ہوتا۔ جب تک شریعت اس مقام پر نہ پہنچے اُس وقت تک وہ عالمگیر شریعت نہیں بن سکتی اور نہ ہمیشگی کی شریعت بن سکتی ہے۔ پس ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ گزشتہ زمانے میں بنی نوع انسان کے متفرق ہو جانے کے بعد پھر آدم کی طرح تمام دُنیا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر کیوں جمع کر دی گئی ہے اور کیوں اس سے پہلے جمع نہیں کی گئی۔
اُوپر کی تمہید سے ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ سے جو کمالِ انسانی ظاہر کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ایک ایسی شریعت آپ کو دی گئی جو تمام اصولی و ضروری احکام پر مشتمل تھی جو تمام بنی نوع انسان کی ضرورتیں پوری کرنے والی تھی اور جس کے ساتھ اُن احکام کا پس منظر بھی دے دیا گیا جو اُن احکام کے دینے کی وجہ تھا تا بنی نوع انسان بشاشت کے ساتھ اُن احکام پر عمل کر سکے۔ حضرت مسیح ناصری ؑ بھی اپنے اِس قول میں اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ:۔
‘‘مجھے تم سے اَور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اَب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا رُوح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سُنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا’’۔40
قرآن مجید ہر حکم کی حکمت بیان کرتا ہے
قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ وہ نہ صرف ضروری تعلیم
بیان کرتا ہے بلکہ تعلیم کی غرض و غایت اور موجبات اور اس کا پس منظر بھی بیان کرتا ہے۔ اس نے مذہب کی تاریخ بالکل بدل دی۔ قرآن کریم سے پہلے شرائع تو آئی تھیں مگر ہر حکم کی حکمت نہیں بیان کی جاتی تھی۔ اس وجہ سے انسان اطاعت تو کرتاتھا مگر خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دِل میں پیدا نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ اپنے آپ کو ایک غلام محسوس کرتا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اُس کا باپ یا اُس کی ماں اُس کے فائدہ کے لئے اور اُس کو نفع پہنچانے اور ترقی دینے کے لئے اُس کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ایک جابر آقا اُس پر اپنی حکومت جتانے کے لئے اُسے اندھا دُھند حکم دے رہا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اِس اصول کو پیش کیا کہ خدا تعالیٰ بھی بِلا وجہ کوئی حکم نہیں دیتا اور ہر حکم کی کوئی ایسی وجہ ہوتی ہے جس میں خود انسان کا فائدہ مضمر ہوتا ہے اور وہ اس کی ترقی کو مدِّنظر رکھ کر دیا جاتا ہے۔ پس گو اسلام سے پہلے بھی بعض مذاہب نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق محبت کی بناء پر ہونا چاہئے لیکن انہوں نے محبت پیدا کرنے کے لئے سمجھ میں نہ آنے والے صرف چند احسانات گنا دینے پر بس کیا ہے۔ محبت پیدا کرنے کے حقیقی ذرائع مہیا نہیں کئے۔ صرف اسلام ہی ہے جس ے کہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے انسان کے فائدہ کے لئے دیتا ہے اور کوئی حکم ایسا نہیں دیتا جس میں انسان کے لئے مضرّت ہو۔ وہ فرماتا ہے طٰهٰۚ۔مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى۔ 41 ہم نے تجھ پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تُو شریعت کے احکام کے نیچے دَب جائے بلکہ اس لئے نازل کیا ہے کہ دِلوں کے وساوس دُور ہو جائیں اور اُن کے شبہات کا ازالہ ہو جائے اور شریعت کی حکمتیں اُن پر ظاہر ہو جائیں۔ یہاں تک کہ قرآن کریم ماننے والوں کے لئے رحمت کا موجب ہو جائے۔ تکلیف، دُکھ یا دباؤ کا مؤجب نہ بنے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۔42 اور ہم قرآن مجید کی وہ تعلیم بھی نازل کرتے ہیں جو دِلوں اور رُوحوں کی بیماریوں کے لئے شفاء ہے اور شبہات کو دُور کرتی ہے اور اسی طرح نہ صرف مسلمانوں کے لئے یا موجودہ زمانے کے لوگوں کے لئے بلکہ تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے رحمت اور فضل ہے۔ قرآن کریم کی یہ خوبی ایسی ظاہر ہے کہ آخر قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ۔رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ۔43 اس کتاب میں شریعت کے احکام بیان کئے گئے ہیں بلکہ احکام اس طرح کھول کھول کر بیان کئے گئے ہیں اور اُن کی حکمت اس طرح واضح کی گئی ہے کہ کئی دفعہ کفّار بھی ان حکمتوں کو سُن کر دِل میں خواہش کرنے لگتے ہیں کہ کاش! وہ بھی مسلمان ہوتے اور اُس شریعت پر عمل کرنے والے ہوتے جو انسانوں کے لئے رحمت و برکت اور ترقی کا موجب ہے نہ کہ جبر اور سختی کا موجب۔ غرض اسلام نے پہلی دفعہ مذہب کی بنیاد عقل اور محبت پر رکھی۔ قرآن کے بعد انسان خدا کو ایک غضب کا دیوتا نہیں سمجھتا بلکہ وہ اُس کو ایک رُوحانی باپ اور رُوحانی ماں کے طور پر سمجھتا ہے جو اُس کے فائدے کے لئے اور اُس کے آرام کے لئے اور اُس کی ترقیات کے لئے اُس کو ایسی نصیحتیں دیتا ہے کہ جن پر چل کر وہ سُکھ اور آرام دیکھ سکتا ہے۔ اس کی تشریح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ ایک جنگ میں ایک کافر عورت جس کا بچہ کھو گیا تھا جب وہ مِل گیا تو وہ دُنیا و مافیہا سے غافل ہو کر اُسے پیار کرنے لگ گئی۔ آپ نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تم اس عورت کو دیکھتے ہو کہ یہ کتنی خوش ہے،کیونکہ اس کا بچہ اسے مل گیا ہے۔ اِسی طرح جب خدا کا کوئی بندہ ہدایت پاکر اُس کی طرف لَوٹتا ہے تو وہ اُس ماں سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے اپنے کھوئے ہوئے بچے کو پالیا ہو۔ 44
اور اِسی مضمون کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ 45 تُو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تمہارے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے تو تم میری شریعت پر عمل کرو کیونکہ یہی شریعت سچی محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ تم اگر اس شریعت پر عمل کرو گے تو وہ تمہاری محبت کو اتنا بڑھادے گی کہ اُس کے نتیجہ میں خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا اور تم مُحِبّ سے محبوب بن جاؤ گے۔
افسوس دُنیا نے اِس پُر حکمت تعلیم کی قدر نہ کی۔ مسلمان علماء میں سے غزالی ؒ نے پردہ اُٹھا کر ایک جھلک اُس کی دیکھی۔ شاہ ولی اﷲ صاحب نے اس سے زیادہ اس کی جلوت کا معائنہ کیا۔ اور احمدیت نے اِس خوبی کو ایسے کامل طور پر واضح کیا کہ دُنیا کے دلوں کی پھر ایک دفعہ یہ حالت ہو گئی کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ۔46
مگر ایسی اعلیٰ اور اکمل تعلیم کے آنے کے ہر گز یہ معنے نہ تھے کہ اُس کے نزول کے بعد جو خیر و شر کے قبول کرنے کا مادہ انسان میں رکھا گیا تھا وہ باطل کر دیا جائے۔ کیونکہ قرآن کریم سے واضح ہے کہ انسان کو دوسری مخلوقات پر ترجیح دینے کی اور کلامِ الٰہی کا حامل بنانے کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ انسان اپنے نفس پر جبر کر کے اپنی مرضی اور اپنے ارادہ سے خدا تک پہنچنے کی کوشش کر سکتا تھا اور اپنی مرضی اور اپنے ارادہ سے اس کو چھوڑ بھی سکتا تھا۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد انسان میں خیر و شر کی مقدرت نہیں رہی تھی اور وہ ایک مقررہ رستہ پر چلنے پر مجبور تھا تو پھر اُسی دن سے انسان اپنی انسانیت بھی کھو بیٹھا تھا اور اب وہ نہ کسی انعام کا مستحق تھا نہ کسی سزا کا مستوجب۔ لیکن ایسا نہیں۔ قرآن کریم تو رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی انسان کو سزا اور جزا کا مستحق قرار دیتا ہے اور جب تک انسان خیر و شر پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور جب تک اُس کا ارادہ آزاد ہے اُس وقت تک جہاں اُس کے نیکی میں بڑھنے کا امکان موجود ہے وہاں اُس کے شرارت میں ترقی کرنے کے امکانات بھی موجود ہیں اور اگر اُس کے اندر تغیّر و تبدیلی کی طاقت موجود ہے، اگر وہ بدعت نکال سکتا ہے، اگر وہ تحریفِ معانی کر سکتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسے آدمیوں کے آنے کا بھی رستہ کھلا رہے گا جو ان باتوں سے اُسے روکیں اور صحیح رستہ کی طرف لائیں۔ اگر ایسا ہونا نہیں تھا تو قرآن کریم یہ نہ فرماتا کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيْلًا۔47 یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کُفر کیا پھر ایمان لائے پھر کُفر کیا اور پھر کُفر میں اَور بھی بڑھ گئے۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف نہیں کرے گا اور وہ انہیں سیدھے راستے کی طرف نہیں لے جائے گا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد بھی کُفر کا دروازہ کھلا ہے۔
مسلمانوں کے بگڑنے کے متعلق پیشگوئیاں
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں
کہ قیامت کے دن مَیں دیکھوں گا کہ بعض لوگ حوضِ کوثر سے ہٹا کر دوسری طرف لے جائے جائیں گے۔ اُس وقت مَیں کہوں گا کہ أُصَیْحَابِیْ۔ یہ تو میری جماعت کے لوگ ہیں۔ اِس پر خدا تعالیٰ فرمائے گا ‘‘اِنَّکَ لَا تَدْ رِیْ مَا اَحْدَ ثُوْا بَعْدَکَ’’۔ 48 تجھے کیا معلوم کہ تیرے بعد ان لوگوں نے کیا کیا ہے۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ‘‘یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ’’۔ 49 یعنی کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بظاہر نمازیں بھی پڑھیں گے، قرآن بھی پڑھیں گے اور بظاہر دوسرے لوگوں سے زیادہ اچھی نمازیں بھی پڑھیں گے لیکن پھر بھی وہ دینِ اسلام سے اِسی طرح نِکل جائیں گے جس طرح تیر نشان گاہ سے باہر نِکل جاتا ہے۔
کثرت سے احادیث ایسی پائی جاتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں اور بگڑیں گے اور آہستہ آہستہ اُن کی حالت ایسی ہو جائے گی جیسے یہود اور نصاریٰ کی ہوئی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ”لَتَتْبِعُنَّ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَ ذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْدَخَلُوْا فِیْ جُحْرِ ضَبٍّ لَا تَّبَعْتُمُوْھُمْ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللہِ اَلْیَھُوْدُ وَ النَّصَارٰی؟ قَالَ فَمَنْ’’۔50 یعنی ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب کہ تم لوگ گزشتہ اقوام کے قدم بقدم چلو گے۔ یہاں تک کہ اگر انہوں نے گوہ کے سوراخ میں بھی اپنا ہاتھ ڈالا ہو گا تو تم بھی ویسا ہی کرو گے۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں ہم نے پوچھا یا رسول اﷲ! کیا ان پہلے لوگوں سے یہود اور نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا اور کون۔ گویا آخر میں مسلمانوں میں یہود اور نصاریٰ والی غلطیاں پیدا ہو جائیں گی۔
قرآن کریم بھی اس کے متعلق فرماتا ہے يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔51 اﷲ تعالیٰ اس امر کو یعنی اسلام کو آسمان سے زمین کی طرف لائے گا اور مضبوطی سے قائم کرے گا۔ پھر ایک مدّت کے بعد وہ آسمان کی طرف چڑھنا شروع ہو جائے گا۔ اتنے لمبے زمانے میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ہزار سال ہو گی۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کچھ عرصہ تک اسلام کی خوبیاں اور اُس کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حقیقی معنوں میں دُنیا میں قائم ہوتی چلی جائے گی لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ حالت بدل جائے گی اور ایک ہزار سال تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس کی یہی تشریح فرماتے ہیں جو ہم نے اس وقت کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَفْشُوالْکَذِبُ۔52 یعنی سب سے بہتر تو وہ صدی ہے جس میں مَیں ہوں۔ پھر اس کے بعد دوسری صدی اچھی ہو گی، پھر تیسری صدی اچھی ہو گی، پھر جھوٹ ،فریب اور خرابیاں دُنیا میں پھیل جائیں گی۔ اور آخری زمانہ کا نقشہ بھی آپ اس آیت کے مطابق کھینچتے ہیں اور فرماتے ہیں لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَام إِلَّا اسْمُہٗ وَ لَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّا رَسْمُہٗ۔53 کہ اُس زمانے میں اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف حرف باقی رہ جائیں گے۔ یعنی قرآن تو نہیں بدلے گا۔ قرآن تو موجود رہے گا لیکن قرآن کے سمجھنے والے مِٹ جائیں گے۔ اور اسلام تو نہیں بدلے گا اسلام تو موجود رہے گا لیکن اس پر عمل کرنے والے مِٹ جائیں گے۔ یہی سورۂ سجدہ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام اُس وقت سمٹ کر آسمان پر چلا جائے گا۔
پھر اس سے بڑھ کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ عُلَمَاءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِیْمِ السَّمآءِ۔ 54 یعنی عوام الناس تو الگ رہے علماء بھی اُس زمانے میں ایسے گر جائیں گے کہ آسمان کے نیچے اُن سے بدتر اور کوئی مخلوق نہ ہو گی۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسلام گرتے گرتے ایسی خطرناک حد تک پہنچ جائے گا اور اس کے دُشمن اتنی قوت پکڑ جائیں گے کہ حضرت نوح ؑ سے لے کر آج تک کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اس فتنہ سے لوگوں کو نہ ڈرایا ہو۔55 اور پھر آپ فرماتے ہیں کہ ایمان اس قدر متزلزل ہو جائیں گے کہ یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِیْ کَافِراً اَوْ یُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَ یُصْبِحُ کَافِراً۔56 انسان صبح کے وقت اُٹھے گا تو مومن ہو گا اور شام کے وقت سوئے گا تو کافر ہو گا اور شام کو مومن سوئے گا اور صبح کے وقت کافر اُٹھے گا۔
قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات اور احادیث سے صاف ثابت ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ اور آپ کی تعلیمِ کاملہ کے ہر گز یہ معنے نہیں کہ اِس کی موجودگی میں انسان بگڑ نہیں سکتے بلکہ قرآن کریم اور احادیث اس پر شاہد ہیں کہ نہ صرف یہ کہ اِس کی موجودگی میں لوگ بگڑ سکتے ہیں بلکہ وہ بگڑیں گے اور ایسے بگڑیں گے کہ اسلام کی عمارت متزلزل ہو جائے گی اور اسلام کا نام ہی دُنیا میں باقی رہ جائے گا اور قرآن کے حروف ہی دُنیا میں باقی رہ جائیں گے۔ حقیقت بالکل غائب ہو جائے گی حتّٰی کہ علماء عوام الناس سے بھی بد تر ہوں گے اور وہ دین کی حفاظت کی بجائے دین کو تباہ کرنے والے بن جائیں گے۔ اور جب یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے تو دو باتوں میں سے ایک بات ماننی پڑے گی ۔ یا تو یہ کہ اسلام کے متعلق یہ عقیدہ کہ وہ قیامت تک جائے گا غلط ہے اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ایسی غلطیوں کو دُور کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ آتے رہیں گے جو کہ اسلام کی عمارت پھر مرمّت کریں اور پھر اُس کو اپنی اصل شکل میں دُنیا کے سامنے پیش کریں۔ پہلا خیال تو قرآن اور حدیث کی رُو سے بالکل باطل اور غلط ہے۔ قرآن و حدیث اِس پر شاہد ہیں اور گواہ ہیں اور پہلی کتب بھی کہ قرآن کریم کی تعلیم قیامت تک ہے۔
مسلمانوں کی اصلاح کے لئے مَردانِ خدا کے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں
پس صرف ایک ہی رستہ کھلا رہتا ہے اور وہ یہ تسلیم کر لینا کہ جب کبھی مسلمانوں میں خرابی
پیدا ہو گی اور وہ اسلام سے دُور چلے جائیں گے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے آدمی آئیں گے جو اسلام کو اُس کی اصل شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر کریں گے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۠۔يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔57 اے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! تُو اپنے لوگوں سے کہہ دے کہ میرے خدا نے اسلام کے ذریعہ سے تمام وہ باتیں جن کی بُرائی فطرت پر گراں ہے خواہ وہ نمایاں طور پر بُری ہوں یا اُن کی بُرائی کسی قدر مخفی ہو اُن سب کو حرام کر دیا ہے اور اِسی طرح اُس نے انتہائی درجہ کے گناہوں کو بھی حرام کر دیا ہے اور ایک دوسرے پر ظلم کو بھی حرام کر دیا ہے جو بغیر کسی قانونی یا اخلاقی وجہ کے ہو۔ اور اس سے بھی اُس نے منع کیا ہے کہ کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کا کسی کو شریک بنائے جس کے لئے کوئی آسمانی دلیل موجود نہیں۔ اور اس سے بھی اُس نے منع فرمایا کہ تم اﷲ تعالیٰ کے متعلق کوئی ایسی بات کہو جس کو تم نہیں جانتے۔ اور اے لوگو! ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آتا ہے تو وہ ایک گھڑی بھی مقررہ میعاد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور ایک گھڑی بھی اُس مقررہ میعاد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔اے آدم کی اولاد! اگر تمہاری طرف کوئی رسول آئیں جو تمہیں میرے نشانات پڑھ کر سُنائیں تو یاد رکھو کہ جو کوئی تقویٰ اختیار کرے گا اور اصلاح کو مدِّ نظر رکھے گا تو ایسے لوگوں کو نہ آئندہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ گزشتہ غلطیوں پر کسی قسم کا غم پہنچے گا۔
یہ آیت قطعی طور پر مسلمانوں کے متعلق ہے۔ اس سے پہلے کی آیتیں بھی اور بعد کی آیتیں بھی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی اُمّت کے متعلق ہیں اور اس آیت میں صاف کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی خرابی کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے انسان کھڑے کئے جاتے رہیں گے جو اُن کو خدا تعالیٰ کی باتیں سُنائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف واپس لانے کی کوشش کریں گے۔ جو لوگ اُن کی باتوں پر کان دھریں گے اور فساد اور فتنہ کی باتوں کو ترک کریں گے اور تقویٰ اور اصلاح کے رستوں کو اختیار کریں گے اُن کے لئے خدا کی طرف سے برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور خدا اُن کا خود محافظ ہو گا۔ اسی کی تصدیق میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں إِنَّ ﷲ یَبْعَثُ لِھٰذہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَّنْ یُّجَدِّ دُلَھَادِیْنَھَا۔58 اﷲ تعالیٰ اِس اُمّت میں ہر صدی کے سر پر ایسا آدمی مبعوث کرے گا جو اُمّت کی خاطر اور اُس کے فائدہ کے لئے اور اُس کے دین کو پھر نئے سرے سے اُجاگر اور روشن اور غلطیوں سے پاک کردے گا۔
اِس حدیث کے ہم نے دو حوالے لکھے ہیں۔ شیعوں اور سُنیوں دونوں کی کُتب سے جس سے ہمارا منشاء یہ ہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں میں متفق علیہ ہے۔
مصلحین اور مجددین کی مخالفت
یہ ظاہر ہے کہ جو شخص بھی تجدیدِ دین کرے گا وہ زیادہ یا کم رائج الوقت
خیالات یا عقائدکے خلاف باتیں کرے گا تو اُس وقت کے تمام وہ علماء جو اُس کے ساتھ متفق نہیں ہوں گے اس کی تردید اور تکذیب کریں گے۔ چنانچہ اس اُمّت میں ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ حضرت جُنید ؒ بغدادی پر کُفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے۔ 59
حضرت محی الدین ابن عربی کو علماء نے کافر اور زندیق کہا۔ آپ خود تحریر فرماتے ہیں ‘‘لَقَدْ وَقَعَ لَنَا وَ لِلْعَارِفِیْنَ اُمُوْرٌ وَ مِحَنٌ بِوَاسِطَۃِ اِظْہَارِنَا الْمَعَارِفَ وَ الْاَسْرَارَ وَ شَھِدُ وْافِیْنَا بِالزَّنْدَ قَةِ وَ اٰذُوْنَا اَشَدَّ الْاَ ذٰی وَ صِرْنَا کَرَ سُوْلٍ کَذَّبَہٗ قَوْمُہٗ وَ مَا اٰمَنَ مَعَہٗ اِلَّا قَلِیْلٌ وَ اَعْدٰی عَدُوٌّ لَّنَا الْمُقَلِّدُوْنَ لِاَ فْکَارِھِمْ۔ 60 یعنی ہمیں اور خدا کے دوسرے عارف بندوں کو دین کے معارف اور اسرار کے ظاہر کرنے پر بڑی بھاری مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لوگوں نے ہمیں کافر اور زندیق قرار دیا ہے اور اُنہوں نے ہمیں شدید ترین تکالیف پہنچائی ہیں۔ اور ہم اُس رسول کی طرح ہو گئے ہیں جسے اس کی قوم نے جھٹلا دیا ہے اور جس پر صرف چند لوگ ایمان لائے۔ اور اِس بارہ میں ہمارے شدید ترین دُشمن وہ لوگ ہیں جو اپنے خیالات اور افکار کے مقلّد ہیں۔
اسی طرح حضرت امام غزالی ؒ پر کُفر کا فتویٰ لگایا گیا اور اُن کی کتابوں کو جلا دینا اور اُن پر *** کرنا ثواب سمجھا گیا۔ 61
حضرت امام ابو حنیفہؒ کو کافر، زندیق اور بدعتی کہا گیا۔ ان پر طرح طرح کی سختیاں کی گئیں اور انہیں قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔
حضرت امام شافعی ؒ کو لوگوں نے رافضی کہہ کر قید کروا دیا۔62
حضرت امام مالک ؒ پر کئی قسم کی سختیاں کی گئیں۔ ایک دفعہ اُن کی ایسی بے دردی سے مُشکیں باندھی گئیں کہ اُن کا بازو اُکھڑ گیا۔ پھر اُنہیں کوڑے مارے گئے اور وہ قید میں ڈالے گئے۔
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ بھی قید کئے گئے اور اُن کے پاؤں میں بھاری بھاری بیڑیاں ڈالی گئیں۔ انہیں ذلیل کرنے کے لئے لوگ اُن کو تھپڑ مارتے اور اُن کے مُنہ پر تھوکتے تھے۔ حضرت امام بخاری وطن سے نکالے گئے۔ 63
حضرت بایزید بسطامی ؒ سات دفعہ اپنے شہر سے نکالے گئے۔ حضرت ذوالنون مصری ؒ مشکیں باندھ کر بغداد بھیجے گئے اور علماء کی ایک جماعت اُن کے کُفر کی گواہی دینے کے لئے اُن کے ساتھ گئی۔ 64
حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ پر اُس وقت کے علماء و فقہاء نے کُفر کا فتویٰ لگایا۔65 حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی ؒ نے مجدّدیت کا دعویٰ کیا اور اُن کے ساتھ یہ سلوک ہؤا کہ کافر ٹھہرائے گئے اور قید میں ڈالے گئے۔ 66
حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ محدّث دہلوی نے مجدّدیت کا دعویٰ کیا اور اُن کے زمانے میں بھی اُن کے ساتھ بہت کچھ سختیاں کی گئیں اور انہیں بدعتی اور گمراہ کہا گیا۔ پھر حضرت سیّداحمد بریلوی ؒ نے مجدّدیت کا دعویٰ کیا اور خود مسلمانوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر اُن کو قتل کرا دیا۔ 67
حقیقت یہ ہے کہ اصلاح بغیر تجدید کے نہیں ہو سکتی اور تجدید پر اُس وقت کے علماء میں انقباض پیدا ہونا طبعی امر ہے۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠۔68 اے افسوس انسانوں پر کہ کبھی کوئی رسول اُن کی طرف نہیں آیا جس کے ساتھ اُنہوں نے ہنسی اور تمسخر کا سلوک نہ کیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پچھلے سارے طریقوں کو بند کر دیا۔اب تمام روحانی طریقے آپ ہی سے جاری ہو سکتے تھے اور ہونے والے تھے۔ اسی طرح پہلے زمانوں میں جو مختلف نبیوں کے زمانہ میں خرابیاں ہوئیں وہ بھی مجموعی طور پر آپ کی اُمّت میں پیدا ہونی تھیں کیونکہ اَب خدا اور وسواس دونوں کی جولانگاہ صرف ایک ہی اُمّت ہو گئی تھی۔ اس قاعدہ کُلّیہ کے ماتحت جو ہم نے اُوپر لکھا ہے اور جس کی تصدیق قرآن اور حدیث سے ہوتی ہے یہ لازمی بات تھی کہ حضرت مرزا صاحب ؑ کے دعوے کی بھی مخالفت ہوتی اور علماء آپ کے خلاف کھڑے ہو جاتے لیکن دیکھنے والی بات یہ نہیں کہ علماء ان کے خلاف کھڑے ہیں دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ :۔
(1) کیا مسلمان کبھی بگڑ سکتے ہیں یا نہیں؟
(2) کیا علماء کبھی بگڑ سکتے ہیں یا نہیں؟
(3) کیا مسلمانوں کے بگڑنے کی کوئی خبر قرآن نے دی ہے یا نہیں؟
(4) کیا علماء کے بگڑنے کی کوئی خبر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے یا نہیں؟
(5) کیا اسلام سے غافل ہو جانے اور اس کی تعلیم کو چھوڑ دینے کی کوئی خبر قرآن اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے یا نہیں؟
اگر یہ خبریں قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں تو پھر حضرت مرزا صاحب ؑ یا اور کسی گزشتہ بزرگ کی مخالفت اسلامی اصول سے جائز نہیں ہو سکتی اور نہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام نے ایسی تحریکوں کو بزور منع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم یہ قطعی طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ قرآن اور حدیث کے مطابق مسلمانوں کے لئے مختلف زمانوں میں بگڑنا ضروری تھا اور اس حد تک بگڑنا ضروری تھا کہ وہ اسلام اور قرآن کی تعلیم سے بالکل غافل ہو جائیں۔ اور یہ بھی ضروری تھا کہ اِس زمانے کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کوئی شخص کھڑا کیا جائے۔ اِن دونوں صورتوں کی موجودگی میں کوئی انسان یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ اکثریت اُس شخص کے خلاف نہیں ہو گی جو اصلاح کے لئے کھڑا کیا جائے گا۔
اگر اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اکثریت اپنے مذہب کو زور سے منوا لے اور اگر اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اکثریت اپنے مخالف کو مٹانے کا اختیار رکھتی ہے اور وہ اس بات کی مجاز ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اسلام ایک ہی مُنہ سے تو یہ کہتا ہے کہ مسلمان بگڑیں گے اور اُن کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے آدمی آئیں گے اور اُسی مُنہ سے وہ یہ کہتا ہے کہ اکثریت کو اختیار ہے کہ وہ ایسی اقلّیت کو کچل ڈالے اور اس کو تباہ کر دے۔ گویا خدا تعالیٰ خود اپنے بنائے ہوئے گھر کے گرانے کا سامان کرتا ہے۔ آخر وہ کونسی آسمانی طاقت آئے گی جو یہ بتائے گی کہ یہ اصلاح کا مُدعی سچّا ہے یا جھوٹا ہے۔ کیا یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آدم سے لے کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کو تو اُن کے مخالف تکلیف دینے پر قادر ہو سکے اور اُن کو طرح طرح کے دکھوں میں مُبتلا کیا گیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کو بھی کہنا پڑا کہ يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠ اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی یہ کہنا پڑا کہ سب سے زیادہ مشکلات اور مصائب خداتعالیٰ کے انبیاء پر آیا کرتے ہیں اور پھر اُن سے نیچے اُتر کر جتنا جتنا کوئی شخص خداتعالیٰ کو پیارا ہوتا ہے اُتنی ہی اُس پر مشکلات آتی ہیں۔ 69
لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جو مصلح اور مجدّد آئیں گے آسمان سے فرشتے اُن کی مدد کے لئے اُتر کر سب مسلمانوں کو بتادیں گے کہ یہ شخص سچّا ہے تم اس کی مخالفت نہ کرو۔ جو بات سارے رسولوں کو حاصل نہیں ہوئی حتّٰی کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہیں ہوئی وہ آپ کے ایک خادم اور تابع کو حاصل ہو جائے گی۔ یہ بات نہ صرف عقلاً غلط ہے بلکہ نقلاً بھی غلط ہے کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ مَاتَ بِغَیْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔70 یعنی وہ شخص جس نے اپنے زمانہ کے امام کو قبول نہ کیا اور اُسی حالت میں مَر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ یعنی اماموں کے آنے کے بعد کچھ لوگ انہیں مانیں گے اور کچھ نہیں مانیں گے۔ اگر لوگوں کو زبردستی ایمان لے آنا تھا اور ہدایت سب پر کھل جانی تھی تو پھر اس حدیث کے معنے ہی کیا رہ جاتے ہیں۔ اور اگر مخالفت ہونی تھی تو پھر لازماً ایک طرف اکثریت کا ہونا ضروری تھا اور ایک طرف مصلح اور اس کی چھوٹی سی جماعت کا ہونا۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اُن کی قبولیت کو دُنیا میں پھیلا دے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اکثریت ہمیشہ حق پر ہوتی ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اقلّیت کو دبانے کا اکثریت کو حق حاصل ہے ، اُس کو قید کرنے اور قتل کرنے کا بھی حق ہے، اُس کو جبراً مذہب بدلوانے کا بھی حق ہے، اُس کو اُس کے ضمیر کے خلاف مجبور کر کے اپنے اندر شامل کر لینے کا بھی حق ہے اُن کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اُمّتِ محمدیہ میں جتنے مصلح اور جتنے مجدّد آئیں گے اُن سب کی گردنیں اور اُن سب کی جماعت کی گردنیں علماءِ سُوء کے ہاتھ میں ہوں گی اور وہ اختیار رکھیں گے کہ جس وقت چاہیں اُن کی گردن مروڑ دیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو گا جس کی تائید کے لئے وہ مصلح کھڑے ہوں گے اور جس نے اُن کی بعثت کی خبر دی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مُلک کی اکثریت نے حضرت محی الدین ابن عربی ؒ ، حضرت امام غزالیؒ، حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبل ؒ ، حضرت مجدّد الف ثانی ؒ، حضرت مولانا شاہ ولی اﷲؒاورحضرت سیّد احمد بریلوی ؒ وغیرہ بیسیوں صلحاءِ اُمّت کی سخت مخالفت کی۔ اُس وقت کے اجماع کا فیصلہ آج کیوں باطل ہو گیا ہے اور اُس وقت کی اقلّیت آج حق پر کیو ں سمجھی جاتی ہے؟
کہا جاتا ہے کہ مرزا صاحب ؑ کی مخالفت کی یہ وجہ ہے کہ اُنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اِس قسم کا دعویٰ خدا کی طرف سے خبر پاکر کرے تو کیا لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور اس کی جماعت کو دُنیا سے مٹانے کی کوشش کریں؟ اگر یہ درست ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ انسانی حکومت کی تائید میں بولنے والا انسان مجرم نہیں بلکہ تعریف کے قابل ہے لیکن خدا کی حکومت کی تائید میں بولنے والا انسان کُشتنی اور گردن زَدنی ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِيْنَۙ۔ وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِيْ وَ خَافَ وَعِيْدِ۔71 اور نہ ماننے والے ہمیشہ اپنی طرف مبعوث ہونے والے رسولوں سے یہ کہتے آئے ہیں کہ ہم یقینا تم کو اپنے مُلک سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب کی طرف واپس لَوٹ آؤ گے۔ اس موقع پر رسولوں کا ربّ بھی اُن کی طرف وحی کرتا رہا ہے کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے۔ کیا جو بات قرآن کے رُو سے ہمیشہ نبیوں کے دُشمن کرتے چلے آئے تھے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب اس کو اسلام کی تصدیق حاصل ہو گئی ہے اور کیا اب وہ علماء جو اپنے آپ کو ورثہ انبیاء کہتے ہیں کفّار کی اس دیرینہ رسم کا پورا کرنے کے ذمّہ دار بن گئے ہیں؟ اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے جو کام ظلم تھا اب وہ انصاف اور عدل ہو گیا ہے؟
اسی طرح سورۂ یٰس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی سابق زمانے میں خدا تعالیٰ کے کچھ مُرسل آئے (ان کو مفسرین نے حضرت مسیح ؑ کے حواری قرار دیا ہے۔72)تو لوگوں نے اُن سے کہا کہ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَيَمَسَّنَّكُمْ۠ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ 73 اگر تم اپنے خیالات کی تبلیغ سے باز نہیں آؤ گے تو ہم تمہیں سنگسار کر کے قتل کر دیں گے اور تم کو درد ناک عذاب پہنچائیں گے۔ کیا ان آیات سے یہ ظاہر نہیں کہ نبیوں اور ولیوں کے دُشمن ہمیشہ نبیوں اور اُن کے ماننے والوں کو قتل کرنے، عذاب پہنچانے اور مُلک سے نکال دینے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں کیا یہی وہ دھمکیاں نہیں تھیں جو اس زمانہ کے علماء نے احمدیوں کو دیں؟ کیا انہوں نے نہیں کہا کہ ان لوگوں کو اس مُلک سے نکال دینا چاہئے؟ کیا ان لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ ان لوگوں کو بہت سے حقوق سے محروم کر دیا جائے؟ کیا ان لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر یہ باز نہ آئیں تو ان کو قتل کر دینا چاہئے ؟ اور یہی تین باتیں ہیں جو قرآن کریم کے رُو سے انبیاء کے دُشمن کہتے چلے آئے ہیں۔
اسی طرح ایک اَور جگہ قرآن کریم میں آتا ہے قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ74 یعنی شعیب کی قوم کے ان سرداروں نے جو سخت متکبر تھے شعیب ؑ سے کہا کہ ہم ضرور تجھ کو اپنے علاقہ سے نکال دیں گے اور ان کو بھی جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں۔ یا تجھے ہمارے مذہب میں واپس لَوٹنا ہو گا۔ شعیب ؑ نے جواب میں کہا کیا اگر ہم تمہارے دین کو نا پسند کرتے ہوں تب بھی تم ہم کو لَوٹا دو گے؟
اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت شعیب ؑ نے اس بات کو حیرت سے دیکھا ہے کہ کوئی شخص اپنے عقیدہ کے خلاف کسی دوسرے عقیدہ کے اظہار پر مجبور کیا جائے اور خدا تعالیٰ نے اُن کے اس استدلال کو درست تسلیم فرمایا ہے کیونکہ اس نے ان کے استدلال کو قرآن کریم میں درج فرما کر اس کی ہمیشہ کے لئے تصدیق کر دی ہے۔ یہ تو قبل از زمانۂ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتیں ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور الٰہی تصدیق کے بعد ہمارے لئے قابلِ عمل ہیں اور ضروری ہیں اور سچے مذہب کی آئیڈیالوجی کو ظاہر کرتی ہیں۔ مگر قرآن کریم نے بھی اسلامی تعلیم میں ان باتوں کو نظرانداز نہیں کیا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِ 75 اے اسلام کے منکرو! تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ 76 دین میں کسی قسم کا جبر نہیں۔
اسی طرح قرآن کریم میں منافقوں کو متواتر بُرا کہا ہے۔ فرماتا ہے يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۔77 یہ لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں اور اﷲ تعالیٰ اس کو جانتا ہے جس کو وہ چھپا رہے ہیں اور آج جماعتِ اسلامی، مجلسِ عمل اور مجلسِ احرار کہتی ہیں کہ ہم احمدیوں کو مجبور کریں گے کہ وہ وہ باتیں کہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں۔ یعنی وہ دل سے تو حضرت مرزا صاحب ؑ کو مامور مِنَ اﷲ مانیں گے لیکن مُنہ سے اُن کو ان عقائد کا اقرار کرنا پڑے گا جو مولانا مودودی یا مجلسِ احرار یا علماءِ دیوبند بیان کرتے ہیں۔ گویا جس چیز کو قرآن کریم ناپاک اور مردود قرار دیتا ہے اور اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف اور قابلِ نفرت فعل ٹھہراتا ہے مولانا مودودی، مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری اور مولانا ابو الحسنات اور علماء دیو بند اِسی فعل کے ارتکاب پر احمدیوں کو مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ آخر وہ کونسی منطق ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ احمدیوں کو تین دن قید کرنے کے بعد ان کے عقائد وہ نہیں رہیں گے جو تین دن پہلے تھے اور وہ دل سے اور ضمیر کی تائید سے اُن عقائد کے قائل ہو جائیں گے جو مولانامودودی ، مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری اور مولانا ابو الحسنات بیان کرتے ہیں۔ جن کے احمدی پہلے مُنکر تھے۔ تین ہی دن کی مدّت فقہا اس فاقہ شُدہ کے لئے بھی مقرر کرتے ہیں جسے سؤر کھانا جائز ہو جاتا ہے۔ شاید مُرتد کو تین دن قید کرنے کی بھی یہی حکمت ہے کہ اتنے ظلم کے بعد اسے جھوٹ بولنا جو سؤر کھانے کے برابر ہے جائز ہو جائے گا۔ مگر کیا قید سے یقین پیدا ہؤا کرتا ہے؟ کیا قید اطمینانِ قلب پیدا کر دیتی ہے؟ کیا قید انسان کے خیالات کو درست کر دیتی ہے؟ کیا موت کا ڈر انسان کے خیالات کو صاف کر دیتا ہے؟ کیا موت کا ڈر منافق بنا دیتا ہے مومن نہیں بناتا؟ اور منافقت تو ایک ایسی *** ہے کہ جس قوم میں بھی آئی وہ تباہ ہو گئی۔
یہ تو ہم مان سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دیدۂ و دانستہ اپنے فوائد کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مسلمان ہونے کے لئے آئے تو ہمارا حق نہیں کہ ہم اُس کو مسلمان کرنے سے انکار کریں کیونکہ ہمیں قلوب کا علم نہیں۔ جیسا کہ تاریخ میں آتا ہے کہ ابو سفیان نے مُنہ سے تو یہ کہا کہ مَیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت پر شک کرتا ہوں مگر بیعت کرنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا اور آپؐ نے اس کی بیعت لے لی۔ 78 کیونکہ کسی شخص کا اس خیال سے بیعت کر لینا کہ میرا ایمان ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ شاید کچھ دنوں تک بعض ایسے مسائل جو اَب تک میری سمجھ میں نہیں آئے حل ہو جائیں گے یہ اس کے اختیار کی بات ہے مگر کسی شخص کا اس پر جبر کرنا اور یہ کہنا کہ تو اُن عقائد کا اظہار کر جن کے خلاف تیرا دل کہتا ہے یہ نہایت ظالمانہ، نہایت ناپاک اور نہایت مکروہ فعل ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر کوئی شخص دوسرے عقائد رکھتا ہے تو وہ اس جماعت سے الگ ہو جائے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جماعت کے اصل عقیدے وہی ہیں جن پر وہ ایمان رکھتا ہے تو وہ اس جماعت سے کس طرح الگ ہو سکتا ہے۔ وہ یہی سمجھے گا کہ مَیں جن عقائد پر قائم ہوں وہی اس مذہب کے عقائد ہیں اور دوسرے لوگ یہ سمجھیں گے کہ جو اُن کے عقائد ہیں وہی ان کا مذہب انہیں سکھلاتا ہے۔ آگے دُنیا فیصلہ کر لے گی کہ کس کی بات ٹھیک ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک سے بھی یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ جس مذہب کو مانتا ہے اُس مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا چھوڑ دے۔ آخر یہ دُنیا نے کیا پلٹا کھایا کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے جس بات کے مرتکب کفّار ہوتے تھے، جس بات کو قرآن کریم باربار ردّ کرتا، ناجائز ٹھہراتا اور ظلم قرار دیتا ہے وہی مردود بات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اُن علماء کا جو نائبِ رسول ؐ سمجھے جاتے ہیں، حق بن گئی اور ان کا خاص کام قرار پاگئی۔ کیا کُفر اسلام بن سکتا ہے؟ کیا خدا کی جگہ شیطان لے سکتا ہے؟ مَعَاذَ ﷲ۔
اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جن چیزوں پر ان علماء نے شورش کی اور جن پر شورش کرنا اپنا حق قرار دیا ہے وہ ابتدائے اسلام سے مسلمانوں میں موجود رہی ہیں اور ابتدائے اسلام سے مسلمانوں کے علماء اور اولیاء اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ ان کی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں بلکہ اُن میں سے بعض اسلامی آئیڈیالوجی کا حصّہ ہیں اور وہ ایسی باتیں نہیں ہیں کہ اگر وہ غلط بھی سمجھی جائیں تو اُن پر شورش اور فساد کرنے کا کسی کو حق ہو۔
جماعت احمدیہ کے خلاف اعتراضات کا خلاصہ
بانیٔ سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے
متعلق جو باتیں شورش کا موجب قرار دی گئی ہیں وہ خلاصۃً مندرجہ ذیل ہیں:
اوّل۔ احمدیوں نے اسلام میں اُمّتیوں پر نزولِ وحی اور نزولِ جبرئیل تسلیم کیا ہے حالانکہ نہ غیر نبی پر وحی نازل ہو سکتی ہے نہ بعد رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جبرئیل نازل ہو سکتا ہے۔ ایسے عقیدہ والا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے۔
دوم۔ انہوں نے نبوّت کا دعویٰ کیا ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت کی ہتک کی ہے۔
سوم۔ انہوں نے (مرزا صاحب ؑکے) مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تسلیم کیا ہے اور حضرت مسیح ناصری ؑ کی وفات کا اعلان کر کے مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے۔
چہارم۔ انہوں نے ایک نئی اُمّت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج ازاسلام کیا ہے۔
پنجم۔ انہوں نے اپنے مخالفوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے روکا ہے، اُن کی نماز جنازہ پڑھنے سے روکا ہے اور اُن کو لڑکیاں دینے سے روکا ہے۔
ششم۔ انہوں نے ایک غیر مسلم حکومت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی ہے اور اُن کی تائید میں جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے۔
ہفتم۔ انہوں نے مسلمان حکومتوں سے اور مسلمان تحریکوں سے کوئی ہمدردی نہیں کی۔
ہشتم۔ انہوں نے مسلمانوں کو عموماً اور مسلمان علماء کو خصوصاً سخت گالیاں دیں۔
نہم۔ انہوں نے مسلمانوں سے الگ رہنے کی کوششیں کیں۔ مثلاً ربوہ بنایا۔
دہم۔ ایک بات احمدیوں کے متعلق یہ بھی کہی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چاہئیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے مجرم ہیں۔
سوال نمبر1۔ متعلق اجرائے وحی و نزولِ جبرئیل
کہاگیا ہے کہ یہ فسادات احمدیوں کے عقائد اور اُن کے طرزِ عمل کا طبعی نتیجہ تھے کیونکہ احمدیوں کا نبوّت اور نزولِ وحی کے متعلق نظریہ اپنی ذات میں اتنا اشتعال انگیز ہے کہ کوئی مسلمان اسے برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے اور مسلمانوں کو اِس پر غصّہ آنا لازمی ہے۔ اور علماء نے لوگوں کو نہیں اُ کسایا بلکہ لوگ خود اِن باتوں کو سُن کر جوش سے اندھے ہو گئے۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ احمدی جماعت کے عقائد آج پہلی مرتبہ لوگوں کے سامنے نہیں آئے بلکہ آج سے ستّر سال پہلے سے سامنے آرہے ہیں۔ اگر ان سے واقع میں طبائع میں جوش پیدا ہو سکتا تھا تو وہ ستّر سال پہلے پیدا ہونا چاہئے تھا نہ کہ آج۔
کہا گیا ہے کہ:
‘‘پہلے انگریزی حکومت تھی جس کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن اب قیامِ پاکستان کے بعد مسلمانوں کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع میسر آیا ہے’’۔
اِس کے جواب میں معزّز عدالت کی توجہ کے لئے مندرجہ ذیل حقائق پیش کئے جاسکتے ہیں:۔
(1) انگریزی دَورِ حکومت میں ہندو مسلم اور شیعہ سُنّی فسادات ہوتے رہے۔ انفرادی طور پر مذہبی اختلافات کی بناء پر بھی قتل کی وارداتیں ہوتی رہیں مثلاً راجپال، شردھانند وغیرہ قتل ہوئے۔ سیاسی اختلافات کی بناء پر انگریز گورنر جنرل (لارڈ منٹو) قتل ہوئے۔ بعض انگریز گورنروں اور انگریز افسروں پر قاتلانہ حملے ہوئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ برِّعظیم ہندوپاکستان میں گزشتہ ستّر سال میں کبھی احمدی غیر احمدی فسادات نہیں ہوئے اور نہ مذہبی اختلافات کی بناء پر کبھی کوئی احمدی قتل ہؤا۔ پس اگر احمدیہ عقائد ، احمدیہ لٹریچر اور دوسرے مسلمانوں سے ان کی نمازوں اور جنازوں میں علیحدگی ، باہمی تکفیر اور مسئلہ ختمِ نبوّت مسلمانوں کے لئے فِی الحقیقت ناقابلِ برداشت ہوتا تو کبھی ممکن نہ تھا کہ باہم فسادات نہ ہوتے اور کوئی احمدی کبھی کسی غیر احمدی کے ہاتھ سے مارا نہ جاتا۔
(2) پھر قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1947 ء سے لے کر 1953 ء تک چھ سال یہ فسادات کیوں رُکے رہے؟ کہا گیا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد چونکہ مسئلہ مہاجرین اور مسئلہ کشمیر اور مسئلہ خوراک کی طرف سب کو توجّہ تھی اس لئے احمدیوں کے خلاف مسلمانوں کا جوش دبا رہا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو جملہ مسائل ابھی تک حل نہیں ہوئے اور اب بھی اسی طرح مسلمانوں کی توجّہ کا مرکز ہیں جس طرح پہلے تھے۔ دوسرے یہ کہ باوجود اِن مسائل کے قیامِ پاکستان کے بعد 1953 ء کے فسادات سے قبل پاکستان میں چار مقامات پر (نارووال ضلع سیالکوٹ، ضلع لاہور، ضلع سرگودھا اور ضلع میانوالی میں) شیعہ سُنّی فسادات ہوئے لیکن کسی جگہ احمدی غیر احمدی فسادات نہیں ہوئے۔ اس سے بھی ثابت ہے کہ ابتداءً عام مسلمانوں کے دل میں احمدیوں کے خلاف ہر گز وہ جوش اور اشتعال نہیں تھا جو اُن کے دلوں میں شیعوں کے خلاف تھا۔ احمدیوں کے خلاف تو جوش و اشتعال ایک لمبی مُدّت کی مسلسل کوششوں کے بعد پیدا ہؤا ہے۔
(3) قیامِ پاکستان سے پہلے اور مابعد احمدیوں اور غیر احمدیوں کے مابین مسئلہ ختمِ نبوّت اور صداقت حضرت مرزا صاحب ؑ اور وفاتِ مسیح ؑ کے مسائل پر گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے مناظرے ہوتے رہے ہیں۔ ہندوستان کے ہر بڑے شہر اور پنجاب کے قصبوں اور قریوں تک میں ایسے مناظرے ہوئے اور ہزاروں ہزار مسلمان نہایت شوق کے ساتھ یہ مناظرے سُنتے رہے لیکن ہمیشہ پُر امن رہے کبھی کسی جگہ کوئی فساد نہیں ہؤا۔ یہ امرواقعہ بذاتِ خود اِس خود ساختہ نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ فسادات طبعی تھے۔
(4) پھر یہ کہنا کہ مسلمان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی وحی یا نبوت کا تصوّر برداشت ہی نہیں کر سکتا، اِس وجہ سے بھی غلط ہے کہ احمدی جماعت کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ قریباً تمام احمدی یہاں کے مسلمانوں ہی میں سے جماعت میں آئے ہیں۔ ان میں علماء بھی ہیں، صوفیاء اور گدّی نشین بھی اور مذہبی اور دُنیاوی لحاظ سے تعلیم یافتہ بھی۔
مشہور علماء جنہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا اقرار کیا
حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی، حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی،
حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی،حضرت مولانا محمد احسن صاحب امروہی، حضرت مولانا سیّد محمد سرور شاہ صاحب (سابق مدرّس دارالعلوم دیو بند و مظاہر العلوم سہارنپور)، حضرت مولانا قاضی سیّد امیر حسین صاحب سابق مدرّس مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور، حضرت مولانا فضل الدین صاحب کھاریاں، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب میرٹھی، حضرت مولانا انوار حسین خاں صاحب شاہ آباد ضلع ہردوئی، حضرت مولانا حافظ سیّد علی میاں صاحب شاہجہانپوری، حضرت مولانا قاضی خلیل الدین احمد صاحب رازی تلہری، حضرت مولانا غلام حسین صاحب لاہوری گمٹی والے، حضرت مولانا حسن علی صاحب واعظ (جنہوں نے تمام ہندوستان میں دورہ کر کے تبلیغِ اسلام کا فریضہ ادا کیا، جن کی تبلیغی سرگرمیاں تمام ہندوستان میں مشہور ہیں۔)، حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی، حضرت مولانا امام الدین صاحب گولیکی ضلع گجرات، حضرت مولانا محمداسماعیل صاحب فاضل جلالپوری، حضرت مولوی محمد دلپذیر صاحب بھیروی (مشہور پنجابی شاعر) حضرت میاں ہدایت اﷲ صاحب لاہوری(پنجابی شاعر سہ حرفی والے) ، حضرت مولانا عبدالقادر صاحب لدھیانوی حنفی، حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری، حضرت مولانا عبدالواحد صاحب آف براہمن بڑیہ بنگال، حضرت مولانا فضل الدین صاحب بھیروی وغیرہ مشہور و مسلّم علماء۔
پِیر اور گدّی نشین
پِیرانِ عِظام اور گدی نشینوں میں سے حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے (جو سابق ہِز ہائینس نواب
صاحب بہاولپورکے پِیر تھے اور جن کے لاکھوں مُرید ریاست بہاولپور اور سندھ میں موجود ہیں)، حضرت پِیر صاحب کوٹھے والے (صوبہ سرحد)، حضرت پیر صاحبُ العَلَم (صوبہ سندھ)، حضرت پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی سرسہ شریف (یو۔پی)، حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی، حضرت حافظ روشن علی صاحب و حضرت پِیر برکت علی صاحب نوشاہی (آف رنمل شریف ضلع گجرات)۔
مسلم مشاہیر جنہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تعریف کی یا اُن کی مخالفت نہیں کی
مولانا شبلی نعمانی، مولانا عبدالحلیم شرر، شمس العلماء مولانا
سیّد میر حسن صاحب سیالکوٹی، شمس العلماء مولانا ممتاز علی صاحب، خواجہ حسن نظامی دہلوی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا غلام مرشد صاحب (خطیب شاہی مسجد لاہور)، حکیم برہم مدیر شرق گورکھپور، مولانا عبداﷲالعمادی، چوہدری سر شہاب الدین ، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، خلیفہ محمد حسین صاحب وزیر اعظم پٹیالہ، سیّد ریاض احمد صاحب ریاض خیر آبادی مدیر ریاض الاخبار گورکھپور، شمس العلماء مولانا الطاف حسین صاحب حالی، مولانا اکبر الٰہ آبادی۔
والیٔ قلات
اس سلسلہ میں ہم موجودہ نواب صاحب بلوچستان کے دادا جناب معلّٰی القاب میر خداداد خان صاحب سابق والیٔ قلات کا نام خاص طور پر پیش کرنا
چاہتے ہیں۔ انہوں نے بھی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تصدیق فرمائی تھی۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس معزّز عدالت کے رو برو اپنے بیان میں اس امر کا ذکر فرمایا تھا تو اس کے بعد موجودہ نواب صاحب نے اس کی صحت سے انکار کیا اور اخبارات میں بھی تردید شائع کرائی۔ حقیقتِ حال کو واضح کرنے کے لئے ہم جناب میر خدا داد خان صاحب مرحوم سابق والیٔ قلات کا اصل خط معززعدالت کے ملاحظہ کے لئے پیش کرتے ہیں جس سے حضرت امام جماعت احمدیہ کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔
علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال
اس سلسلہ میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ اگرچہ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر
صاحب موصوف نے اپنی وفات کے قریب (34،1933ء کے بعد)احمدیت کی مخالفت کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے وہ تمام عمر احمدیت کے مدّاح اور مؤیّد رہے۔
(الف) عدالت کے سامنے خواجہ نذیر احمد صاحب کے بیان اور مولانا غلام محی الدین صاحب قصوری کی تصدیق سے یہ ثابت ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے والد صاحب کے ہمراہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔
(ب) ڈاکٹر صاحب موصوف نے سعد اﷲ نَو مسلم لدھیانوی کی ایک نہایت گندی اور فحش نظم کے جواب میں (جو اُس نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ہجو میں لکھی تھی) ایک نظم لکھی تھی جو کتاب ‘‘آئینہ حق نما’’ میں شائع ہو چکی ہے جو عدالت کے سامنے پڑھی جا چکی ہے۔
(ج) ڈاکٹر صاحب موصوف اپنے مشہور لیکچر ‘‘ملّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر’’ میں (جو آپ نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے دو سال بعد ١٩١٠ء میں آسٹریحی ہال ایم۔او کالج علیگڑھ میں بزبان انگریزی دیا تھا اور مولانا ظفر علی خان صاحب نے جس کا ترجمہ مئی ١٩١١ء میں خود ڈاکٹر سر محمد اقبال کی موجودگی میں برکت علی محمڈن ہال لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ کے سامنے پڑھ کر سُنایا تھا) فرماتے ہیں:
‘‘میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ہے ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے اور ہماری تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اس نمونہ کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت اُسے پیشِ نظر رکھیں...... پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اُس جماعت کی شکل میں ظاہر ہؤا ہے جسے فرقۂ قادیانی کہتے ہیں’’۔79
ڈاکٹر صاحب موصوف کا 1910ء میں یہ اظہارِ خیال بتاتا ہے کہ آج جو یہ بات کہی گئی ہے کہ احمدیت کی تعلیم اور نبوّت کے بارے میں نظریہ بذاتِ خود مسلمانوں کے لئے طبعی طور پر اشتعال انگیز تھا ایک بے بنیاد اور بے حقیقت الزام ہے۔
مفکرِ احرار چوہدری افضل حق صاحب
اِس ضمن میں ہم مفکرِ احرار چوہدری افضل حق صاحب
مرحوم کا ایک مضمون بھی معزّز عدالت کے ملاحظہ کے لئے نقل کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر سر محمداقبال صاحب کی طرح چوہدری افضل حق صاحب نے بھی بعد میں بعض سیاسی وجوہ کی بناء پر احمدیت کی مخالفت کی لیکن اُن کا یہ ابتدائی اظہارِ خیال پورے طور پر اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ احمدیت کی تعلیم مسلمانوں کے لئے بذاتِ خود طبعی طور پر اشتعال انگیز ہے۔ چوہدری افضل حق صاحب اپنی کتاب موسومہ بہ ‘‘فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں’’ میں تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘آریہ سماج کے معرضِ وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسدِ بے جان تھا جس میں تبلیغی حِسّ مفقود ہو چکی تھی۔ سوامی دیانند کی مذہبِ اسلام کے متعلق بد ظنّی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنّا کر دیا مگر حسبِ معمول جلدی خوابِ گراں طاری ہو گئی۔ مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی۔ ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشرواشاعت کے لئے بڑھا۔ اگرچہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہؤا تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابلِ تقلید ہے بلکہ دُنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے’’۔80
(ب) پھر اِسی کتاب کے صفحہ 41 پر تحریر فرماتے ہیں:
‘‘سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیراقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا۔ کس قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب میں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کا بھی تبلیغی نظام موجود نہیں’’۔
جناب مولانا عبدالحلیم صاحب شرر لکھنوی
مولانا عبدالحلیم صاحب شرر تحریر فرماتے ہیں:
‘‘احمدی مسلک شریعتِ محمدیہ کو اُسی وقعت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے۔ اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پُرجوش خدمت ادا کرتا ہے جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے’’۔ 81
یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ مولانا عبدالحلیم صاحب شرر احمدی جماعت میں شامل نہیں تھے۔
جناب مولانا محمد علی صاحب جوہر(برادر مولانا شوکت علی صاحب مرحوم)
‘‘ناشکر گزاری ہو گی اگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکران سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجّہات بِلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ یہ حضرات اِس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اور مسلمانوں کی تنظیم اور تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دُور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرزِ عمل سوادِ اعظم اسلام کے لئے بِالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بِالخصوص جو بسم اﷲ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کی بلند بانگ و باطن ہیچ ، دعاوی کے خوگر ہیں۔ مشعلِ راہ ثابت ہو گا’’۔82
مولانا ظفر علی خان مدیر ‘‘زمیندار’’
باوجود اس حقیقت کے کہ مولوی ظفر علی صاحب احمدیت کے شدید
مخالفوں میں سے ہیں انہوں نے فتنہ ارتداد (یو۔پی) 1923ء کے موقع پر جماعت احمدیہ کی خدماتِ اسلامی کو سراہتے ہوئے اخبار ‘‘زمیندار’’ میں متعدد مقالے لکھے جن کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:
(الف)‘‘مسلمانانِ جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں جو ایثار، کمر بستگی، نیک نیتی اور توکّل علی اﷲ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمتِ اسلام کر کے دکھادی’’۔83
(ب) ‘‘احمدی بھائیوں نے جس اخلاص، جس ایثار، جس خوشی اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصّہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے’’۔
(ج) ‘‘گھر بیٹھ کر احمدیوں کو بُرا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اِس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں۔ کیا ندوۃ العلماء دیوبند، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغِ اشاعتِ حق کی سعادت میں حصّہ لیں؟ کیا ہندوستان میں ایسے متموّل مسلمان نہیں ہیں جو چاہیں تو بِلا دِقّت ایک ایک مشن کا خرچ اپنی گِرہ سے دے سکتے ہیں؟ یہ سب کچھ ہے لیکن افسوس کہ عزیمت کا فقدان ہے۔ فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنا آج کے مسلمانوں کا شعار ہو چُکا ہے’’۔84
مولانا ابو الکلام آزاد کے برادرِ اکبر مولانا ابو النصرآہ
مولانا ابو النصر آہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں 1905ء میں قادیان آئے اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ سے ملاقات کے بعد
انہوں نے اپنے تأثرات اخبار ‘‘وکیل’’ امرتسر میں شائع کرائے۔ لکھتے ہیں:-
‘‘چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سلوک کیا اور مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب جن کے اسم گرامی سے تمام انڈیا واقف ہے اور مولانا عبدالکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھوم ہے مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر ‘‘بدر’’ جن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں، جناب میر ناصر نواب صاحب دہلوی جو مرزا صاحب کے خُسر ہیں ، مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے ۔ ایل۔ایل۔ بی ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز، مولوی یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم، جناب شاہ سراج الحق صاحب وغیرہ وغیرہ پر لے درجے کی شفقت اور نہایت محبت سے پیش آئے’’۔
‘‘مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے۔ آنکھوں میں خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے۔ طبیعت منکسر مگر حکومت خیز، مزاج ٹھنڈا مگردلوں کو گرما دینے والا، بُرد باری شان میں انکساری، کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا متبسّم ہیں ..... مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثناءِ قیام کے متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا۔ ‘‘ہم آپ کو اِس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں’’۔ اُس وقت کا تبسّم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے۔ مَیں جس شوق کو لے کے گیا تھا ساتھ لایا ہوں اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے۔’’ 85
(5) پھر یہ امر بھی اس معزز عدالت کی توجّہ کے لائق ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں باوجود اس امر کے کہ آپ کے دعاوی کے ساتھ علماء نے اختلاف کیا، آپ کے خلاف کُفر کے فتوے لگائے۔ نمازوں اور جنازوں اور رشتوں ناطوں سے علیحدگی ہوئی لیکن جب 26مئی 1908ء کو آپ نے وفات پائی تو مسلم پریس نے آپ کی تعریف اور آپ کی اسلامی خدمات کی ستائش سے بھر پور مضامین لکھے جس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ احرار اور ان کے ہمنواؤں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ احمدیہ جماعت کے نظریات بالطبع مسلمانوں کے لئے اشتعال انگیز اور جماعت احمدیہ کو مسلمانوں سے الگ ایک جماعت ثابت کرنے والے ہیں۔ ذیل میں ہم چند اقتباسات درج کرتے ہیں:
بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات پر مشہور اخبارات کی آراء
(الف) مولانا عبداﷲ العمادی مدیر اخبار ‘‘وکیل’’ امرتسر نے اخبار ‘‘وکیل’’ میں شائع فرمایا:-
‘‘وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں ..... خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا ..... مرزاغلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اِس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور مٹانے کے لئے اُسے امتدادِ زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے۔ ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دُنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازشِ فرزندانِ تاریخ بہت کم منظر پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دُنیا میں انقلاب کر کے دکھا جاتے ہیں۔
مرزا صاحب کی اس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ان تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا کہ اُن کا ایک بڑا شخص اُن سے جُدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفینِ اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اُس شاندار مدافعت کا جُؤا اُس کی ذات سے وابستہ تھا، خاتمہ ہوگیا۔ اُن کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے بر خلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے ..... مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبولِ عام کی سند حاصل کر چُکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدروعظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چُکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے کہ وہ وقت ہرگز لَوحِ قلب سے نَسْیًا مَّنْسِیًّا نہیں ہو سکتا۔ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھِر چُکا ہے .....
غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گراں بارِ احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی صفِ اوّل میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرضِ مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اُس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ ان کے شعارِ قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا’’۔ 86
(ب) علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نے لکھا:
‘‘مرحوم ایک مانے ہوئے مصنّف اور مرزائی فرقہ کے بانی تھے..... کئی دفعہ آپ کو کافر قرار دیا گیا اور آپ پر اکثر مقدمات کئے گئے ..... بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا’’۔87
(ج) تہذیبِ نسواں لاہور کے مدیر شمس العلماء مولانا ممتاز علی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دلوں کو تسخیر کر لیتی تھی۔ وہ نہایت باخبر عالم، بُلند ہمت، مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے’’۔88
(د) اخبار زمیندار کے مدیر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد ماجد مولوی سراج دین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
‘‘مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے 26مئی کی صبح کو لاہور میں انتقال فرمایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُونَ ..... مرزا غلام احمد صاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرّر تھے۔ اُس وقت آپ کی عمر بائیس چوبیس سال کی ہو گی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صَرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ 1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی۔ اُن دنوں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ 1881ء یا 1882ء میں آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف کا اعلان دیا اور ہم اس کتاب کے اوّل خریداروں میں سے تھے’’۔89
(ح) ایڈیٹر ‘‘صادق الاخبار’’ ریواڑی مولوی بشیر الدین صاحب جو سرسیّد احمد خان صاحب کے ساتھیوں میں سے تھے اور مسلمانوں کے لیڈروں میں شامل تھے آپ ؑ کی وفات پر تحریر فرماتے ہیں:
‘‘چونکہ مرزا صاحب نے اپنی پُر زور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفینِ اسلام کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایتِ اسلام کما حقہ، ادا کر کے خدمتِ اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامئ اسلام اور مُعِینُ المسلمین، فاضلِ اجلّ، عالمِ بے بدل کی ناگہانی اور بے وقت موت پر افسوس کیا جائے’’۔
یہ سب اقتباسات اس امرکے ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلاف 1953ء کے حالیہ فسادات احمدیت کی تعلیم اور نظریات کے اشتعال انگیز ہونے کے باعث نہ تھے بلکہ اُس اشتعال انگیز اور منافرت خیز پروپیگنڈے کا نتیجہ تھے جو مجلسِ احرار اور مجلسِ عمل کے اراکین نے قیامِ پاکستان کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف کیا۔
(6) اس امر کا ایک اور ثبوت کہ یہ تحریک کسی طبعی جذبے کا نتیجہ نہ تھی بلکہ انجینئرڈ تھی یہ بھی ہے کہ اگر یہ تحریک احمدیت کے نظریات کے باعث اشتعال ہونے کی وجہ سے ہوتی تو سب سے پہلے بہائیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف اُٹھتی جو پاکستان میں بکثرت موجودہیں اور ایک زبردست تنظیم کے ساتھ پاکستان میں منظم پروپیگنڈا کے ذریعہ اپنی تعداد کو بڑھا رہے ہیں۔
(7) اس تحریک کے غیر مذہبی اور غیر طبعی ہونے کا ایک زبردست ثبوت یہ بھی ہے کہ اس تحریک میں تحفّظ ختم نبوّت کے نام پر احرارؔ نے پنجاب کے عیسائیوں کو بھی شامل کیا۔ حالانکہ عیسائیوں کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النّبیین تو کُجا نَعُوذُ بِاﷲ نبی بھی نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کے نزدیک مسیح ناصری خاتم النّبیین ہیں ۔ چنانچہ پنجاب ریلیجس بُک سوسائٹی لاہور نے 1953ء میں ایک رسالہ موسومہ بہ ‘‘خاتم النّبیین’’ شائع کیا جس کے صفحہ 21 پر درج ہے:
توریت اور نبیوں کی اُن خبروں کو بعض محمدی عالموں نے حضرت محمد ؐ عربی پر عائد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس بحث میں علماءِ محمدیہ نے سخت ندامت اُٹھائی اور بڑی شکست اُٹھا کر خاموش رہ گئے اور انجیل میں مسیح کے یہ الفاظ پڑھ کر مسلمان بڑے خوش ہوئے کہ ‘‘دُنیا کا سردار آتا ہے’’۔90
‘‘مگر جب ان کو معلوم ہؤا کہ یہ خبر شیطان کے بارہ میں ہے تو چُپ کر گئے’’۔ 91
‘‘آخری نبی کی خبروں کے متعلق مسلمان عالموں کی ملمع سازیوں کی حقیقت بے نقاب ہو گئی اور اس بحث کا نہایت عمدہ نتیجہ نِکلا کہ یہودیوں اور مسیحیوں کی کتابوں میں محمد ؐ صاحب کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ محمد ؐ صاحب پچھلے چھ صد سال پہلے مسیح خداوند کا اپنا دعویٰ تھا کہ تورات اور نبیوں کا سابقہ سارا بیان میرے حق میں ہے اور آئندہ کے لئے اس کا تاکیدی فرمان ہے کہ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہیں۔ (متی 7:150) مسیح کے قول کی صداقت کے سامنے کسی اور انسان کا کیا اعتبار ہے۔ کیونکہ وہی صادق القول اور سچا گواہ ہیں۔ مکاشفہ 15:1 و14:13 و 11:19 و6:22 ۔ اور اس کے مقدس حواریوں نے اس کے سچّے قول کی تصدیق میں یہودی قوم کے سرداروں کے سامنے اس حقیقت کا اعلانیہ اقرار اور اظہار کیا کہ مسیح ناصری ہی خاتم النّبیّین ہے۔ اعمال 30:3 و اعمال 42:10و پطرس 9:1-11 ۔ پس ہماری تحریک نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم دُنیا میں اس بات کا اعلانیہ اظہار کریں کہ توریت اور نبیوں اور انجیل مقدس میں مسیح خداوند اور اس کے حواریوں کے بعد کی سچّے نبی کی آمد کی کوئی خبر نہیں۔ اس لئے مسیح اور اس کے حواریوں کے بعد کسی کا دعویٰ ئ نبوت حق اور قابلِ وثوق نہیں ہے۔ پس ساری باتوں کو آزماؤ اور بہتر کو اختیار کرو۔ 1۔تِھسلُنیکیوں 21:5’’۔ 92
اب اس کے بعد ہم معزز عدالت کی توجّہ کے لئے اخبار آزاد 27فروری 1953ء پنجاب کے عیسائی لیڈر مسٹر ظفر اقبال ظفر کا اعلان نقل کرتے ہیں۔ احراری اخبار آزاد ‘‘عیسائی مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے’’ کے زیر عنوان رقمطراز ہے:
‘‘لاہور 25فروری۔ مسیحی لیڈر مسٹر ظفر اقبال ظفر نے اخبارات کو بیان دیتے ہوئے کہا:
مَیں برادرانِ ملّت سے پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس دھوکے اور فریب میں نہ آئیں اور مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو زور شور سے جاری رکھیں۔ مرزائی اسلام اور پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ہم اس تحریک میں برادرانِ ملّت کے ساتھ ہیں اور ہم دو قدم آگے بڑھ کر ہر قسم کی جانی اور مالی قُربانی دے کر مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے’’۔ 93
مندرجہ بالا اقتباس میں ‘‘برادرانِ ملّت’’ کے الفاظ خاص طور پر قابلِ توجّہ ہیں۔ گویا مجلسِ عمل کے اراکین اور عیسائی تو ایک ملّت ہیں لیکن جماعت احمدیہ خارج از ملّت ہے۔
احرار اور عیسائیوں کے اس اتحاد سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ تحریک درحقیقت مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔
(٨) اگر یہ تحریک طبعی ہوتی اور اس کا باعث احمدیت کے مخصوص عقائد و نظریات کا عام مسلمانوں کے لئے طبعاً اشتعال ہونا ہوتا تو چاہئے تھا کہ یہ تحریک بجائے سیاسی لیڈروں کی طرف سے اُٹھائے جانے کے خود عوام کی طرف سے اُٹھتی۔ علماء کو اس کے بھڑکانے کی کیا ضرورت تھی؟
اگر مسلمان جانتے ہوں کہ فلاں جگہ پر ان کو سُؤر کھلایا جاتا ہے تو کسی عالم کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہو گی کہ تم وہاں نہ جاؤ۔ اگر واقع میں لوگوں میں ایسی تعلیمات پر غم اور غصّہ پایا جاتا تھا تو پھر کسی شخص کے اشتعال دلانے اور تقریر کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہزار ہا جھوٹ بولنے کی ضرورت تھی۔ وہ علماءِ کرام جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی گدّی پر بیٹھنے کے دعویدار ہیں برابر پانچ سال تک بولتے رہے ہیں، اُن کا جلسے کرنا اور اُن کا لٹریچر شائع کرنا، اُن کا نوٹ بنابنا کر بیچنے کی کوشش کرنا، اُن کا بکروں کی کھالیں طلب کرنا تاکہ لوگوں کو اِن باتوں سے واقف کیا جائے بتاتا ہے کہ یہ عوام الناس کی تحریک نہیں تھی بلکہ علماء اِسے عوام الناس میں پھیلانا چاہتے تھے تاکہ اِس زور اور دباؤ کے ذریعہ سے وہ گورنمنٹ کو مجبور کریں۔ اور علماء اس مسئلہ میں غیر جانبدار پارٹی نہیں تھے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اسلام میں وحی کا سلسلہ جاری ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام میں مولویوں کی کوئی حیثیت نہیں وہ محض ایک مدرّس اور قانون کی تشریح کرنے والے لوگ کہلائیں گے اِس سے زیادہ اِن کو لوگوں پر کوئی حکومت حاصل نہیں۔ خدا رسیدہ اور اﷲ تعالیٰ سے وحی پانے والے لوگ اگر دُنیا میں آتے رہیں تو PRIESTHOOD کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ PRIESTHOOD اُسی وقت رہتی ہے جب کہ وحی کا زمانہ دُور ہو جاتا ہے اور لوگ نقل اور تقلید پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام سے لے کر عزرا ؑ نبی تک کوئی مُلّا اِزم نہیں تھا کیونکہ متواتر نبی آتے رہے تھے۔ عزرا ؑ کے بعد جب نبیوں کے آنے میں وقفہ پڑا تب سے احبار اور رِبّی وغیرہ پیدا ہونے شروع ہوئے۔ جیسا کہ فریسیوں اور صدوقیوں کی تاریخ سے ثابت ہے۔ پس علماء کا اس معاملہ میں جوش دکھانا اُن کی ذاتی اغراض کے ماتحت تھا عوام النّاس کو اِس تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عوام النّاس تو جھوٹ بول بول کر اور دھوکے دے دے کر فساد پر آمادہ کئے گئے ۔ ہمارے مُلک کے اکثر افراد تو پِیروں کے ماننے والے ہیں۔ اہلِ حدیث تو بہت ہی کم ہیں۔ پھر اہلِ حدیث کا ایک حصّہ ایسا بھی ہے جو کہ وحی و الہام کا قائل ہے اور بزرگوں کو مانتا ہے اور اُن کی بیعت کرتا ہے جیسا کہ مولانا داؤد صاحب غزنوی کے دادا کا عقیدہ تھا اور اُن کے والد مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی نے اپنی کتاب ‘‘اِثْبَاتُ الْاِلْہَامِ وَ الْبَیْعَۃِ’’ میں لکھا ہے کہ:
‘‘مسئلہ الہام کا حلّت و حرمت کا مسئلہ نہیں جو اِس کا ثبوت صحابہ اور تابعین سے ضرور ہونا چاہئے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اِس دم تک اگر کسی نے بھی دعویٰ نہ کیا ہو اور آج ایک شخص متقی صالح دعویٰ کرے کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور مجھے غیب سے آواز آتی ہے تو بھی اُس کو سچّا جانیں گے اور بحکمِ شریعت تمام اہلِ اسلام پر لازم ہے کہ اُس کو سچّا سمجھیں’’۔ 94
جس مُلک کی اکثریت وحی اور الہام کی قائل ہو ایسے مُلک میں اِس بات پر شور مچانا کہ مرزا صاحب وحی کے مُدعی ہیں کسی کی سمجھ میں آسکتا ہے؟ سامعین تو اکثر وہ لوگ ہوتے تھے جو کہ اُن لوگوں کے ماننے والے ہیں جو وحی و الہام کے مُدعی ہیں۔ ہمارے مُلک میں کتنے عوام ہیں جو کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو نبی نہیں مانتے اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ صاف طور پر کہتے ہیں کہ ؎
دمبدم رُوح القدس اندر معینے مے د مد
من نمے دانم مگر من عیسیٰ ثانی شدم95
یعنی ہر لحظہ اور ہر گھڑی جبرئیل ؑ معین ؒ کے اندر آکر یہ بات پھُونکتا ہے اس لئے مَیں نہیں کہتا، مگر حقیقت یہی ہے کہ مَیں عیسیٰ ثانی ہو گیا ہوں۔ یہاں صاف طور پر وحی کا دعویٰ ہے جبرئیل ؑ کے اُترنے کا دعویٰ ہے مسیح ثانی ہونے کا دعویٰ ہے اور پاکستان کے اسّی فیصدی مسلمان حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو اپنا مقتدا اور زمانہ کا بہت بڑا ولی سمجھتے ہیں۔ اگر وحی کا دعویٰ کرنا انسان کو کافر اور گمراہ بنا دیتا ہے تو کیا یہی مولوی جرأت کر سکتے ہیں کہ پبلک میں کھڑے ہو کر کہیں کہ مرزا صاحب ؑ کا وہی دعویٰ ہے جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا ہے اور ایسا دعویٰ کرنے والے کافر اور گمراہ ہوتے ہیں۔
مسلمانوں میں سے اکثر صوفیاء حضرت محی الدین ابن عربی کو صوفیاء کا سردار قرار دیتے ہیں اور محی الدین ابنِ عربی ؒ بھی اجراءِ وحی کے قائل ہیں۔ امام عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں:
‘‘فَاِنْ قُلْتَ قَدْ ذَکَرَا لْغَزَالِی فِیْ بَعْضِ کُتُبِہٖ اِنَّ مِنَ الْفَرَقِ بَیْنَ تَنَزُّلِ الْوَحْیِ عَلٰی قَلْبِ الْاَنْبِیَاءِ وَ تَنَزُّلِہٖ عَلٰی قُلُوْبِ الْاَوْلِیَاءِ نُزُوْلُ الْمَلَکِ۔ فَاِنَّ الْوَلِیَّ یُلْھَمُ وَ لَا یَنْزِلُ عَلَیْہِ مَلَکٌ قَطُّ وَ النَّبِیّ لَا بُدَّ لَہٗ فِی الْوَحْیِ مِنْ نُزُوْلِ الْمَلَکِ بِہٖ فَھَلْ ذٰلِکَ صَحِیْحٌ فَالْجَوَابُ کَمَا قَالَہُ الشَّیْخُ فِی الْبَابِ الرَّابِعِ وَ السِتِّیْنَ وَ الثَلَاثِ مِائَۃ اِنَّ ذٰلِکَ غَلَطٌ وَ الْحَقّ اَنَّ الْکَلَامَ فِی الْفَرقِ بَیْنَھُمَا اِنَّمَا ھُوَ فِیْ کَیْفِیَّۃٍ مَا یَنْزِلُ بِہِ الْمَلَکُ لَا فِی نُزُوْلِ الْمَلَکِ’’۔ 96
یعنی اگر تُو کہے کہ غزالی ؒ نے اپنی بعض کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ انبیاء کے دلوں پر وحی کے نزول اور اولیاء کے دلوں پر وحی کے نزول میں مَابِہِ الْاِمْتِیَاز فرشتہ کا نزول ہے۔ اﷲ تعالیٰ ولیوں پر وحی تو کرتا ہے مگر اُن پر فرشتہ کبھی نہیں اُترتا اور نبی کے لئے ضروری ہے کہ فرشتہ اُس پر وحی لے کر نازل ہو۔ تو کیا یہ بات صحیح ہے؟ اس کا جواب وہی ہے جو کہ حضرت محی الدین ابن عربی ؒ نے اپنی کتاب (فتوحات مکیہ) کے 364 ویں باب میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ غلط ہے اور سچی بات یہ ہے کہ نبیوں اور ولیوں کی وحی میں فرق صرف وحی کے مضمون میں ہوتا ہے نہ کہ فرشتہ کے نازل ہونے یا نہ نازل ہونے کا فرق۔
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک بھی جو سردارِ صوفیاء کہلاتے ہیں۔97اور حضرت امام غزالی ؒ کے نزدیک بھی وحی نہ صرف نبیوں پر اُترتی ہے بلکہ ولیوں پر بھی اُترتی ہے۔ امام غزالی ؒ کے نزدیک تو نبیوں پر وحی فرشتوں کے ذریعہ اُترتی ہے اور ولیوں پر بغیر فرشتوں کے۔ مگر حضرت محی الدین ابنِ عربی ؒ کے نزدیک ان کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ولیوں پر بھی فرشتوں ہی کے ذریعہ وحی اُترتی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ نبیوں کی وحی میں اَور قسم کے امور ہوتے ہیں اور ولیوں کی وحی میں اَور قسم کے اُمور۔ یعنی نبیوں کی وحی شریعت وغیرہ امور پر مشتمل ہوتی ہے اور ولیوں کی وحی میں یہ بات نہیں ہوتی۔ پس وحی کا نزول یا فرشتہ کے نزول کا عقیدہ کوئی نئی چیز نہیں۔
خود قرآن کریم بھی اس بات کا مُدعی ہے کہاِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ۔نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۔98وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اﷲ ہمارا ربّ ہے پھر عمل کے ساتھ اس پر قائم ہو جاتے ہیں فرشتے اُن پر نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں نہ تو آئندہ کا کوئی خوف دل میں رکھو اور نہ کسی گزشتہ نقصان پر غم کھاؤ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس جنّت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے خبر سُن لو۔ ہم اِس دُنیا میں بھی (خدا کے حُکم کے ساتھ) تمہارے ساتھ رہیں گے اور اسی طرح بعد میں آنے والی دُنیا میں بھی۔ اور تم کو اِس دُنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جو کچھ تم چاہتے ہو اور جو کچھ مانگتے ہو ملے گا۔ یہ خدائے بخشندہ اور مہربان کی طرف سے تمہارے لئے بطور اعزاز ظاہر ہو گا۔
اِس آیت میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگوں پر فرشتے نازل ہوں گے اور انہیں خدا کا پیغام پہنچائیں گے۔ چنانچہ اِس آیت کے ماتحت تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ ‘‘ نُلْھِمُکُمُ الْحَقَّ وَ نَحْمِلُکُمْ عَلَی الْخَیْرِ بَدَل مَا کَانَتِ الشَّیٰطیْنُ تَفْعَلُ بِالْکَفَرَۃِ۔99 یعنی جس طرح شیطان کفار کے دلوں میں بُرے خیالات پیدا کرتے ہیں ہم مسلمانوں کو سچی باتوں کا الہام کریں گے اور نیک باتوں پر عمل کرنے کی اُن کو تحریص کریں گے۔
اِسی طرح قرآن کریم میں مخلص مسلمانوں کی وفات کے وقت بھی فرشتوں کے ذریعہ وحی نازل ہونے کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ١ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ١ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔100 یعنی وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حال میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو۔ اپنے اعمال نیک کی وجہ سے اب موعودہ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اور یہ آیت تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔101 اے بنی آدم! (یہ آیت مسلمانوںکو مخاطب کر کے کہی گئی ہے۔) اگر تمہاری طرف ہمارے رسول آئیں اور تم کو ہمارے نشانات و احکام سنائیں تو جو اصلاح سے کام لے گا اور تقویٰ کرے گا اُسے نہ آئندہ کا خوف ہو گا نہ گزشتہ کا غم۔
خود حدیثوں میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی وحی صحابہؓ پر نازل ہوئی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں عبداﷲ بن زیدؓ ایک صحابی تھے اﷲ تعالیٰ نے اُن کو وحی کے ذریعہ سے اذان سکھائی تھی اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہی کی وحی پر انحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اذان کا رواج ڈالا تھا۔ بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی مگر بیس دن تک مَیں خاموش رہا اس خیال سے کہ ایک اَور شخص رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کر چُکا ہے۔ 102
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ نے مجھے آکر اذان سکھائی اور مَیں اُس وقت پوری طرح سویا ہؤا نہیں تھا کچھ کچھ جاگ رہا تھا۔ 103
پھر نہ صرف یہ کہ بعض صحابہ پر فرشتہ نازل ہؤا بلکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود دُعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ بعض صحابہ پر فرشتے نازل کرے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت حسان ؓ بن ثابت جب کفّار کے بعض اعتراضات کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔ 104 اے خدا! تُو جبرئیل کے ذریعہ سے اس کی مدد کر۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی اُمتوں میں ایسے لوگ پائے جاتے تھے جن پر وحی الٰہی نازل ہوتی تھی۔ اگر میری اُمّت میں بھی ایسے لوگ ہوئے تو عمر بن الخطاب ان لوگوں میں سے ایک ہو گا۔105 اس پر حاشیہ میں لکھا ہے کہ محدّث سے مراد وہ شخص ہے جو کہ عظیم الشّان مرتبہ پر ہو اور صادق الکلام ہو۔ اور مجمع البحار میں لکھا ہے کہ اِس سے وہ شخص مراد ہے جس کے دل میں خداتعالیٰ کوئی بات ڈالتا ہے پھر وہ اپنی عقل سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ بات خداکی طرف سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے لئے مخصوص کر دیتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فرشتے ان سے بولتے ہیں۔
حضرت مولانا روم ؒ فرماتے ہیں ؎
نَے نجوم است و نہ رمل است و نہ خواب
وحی حق وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ
از پئے روپوش عامہ در بیان
وحی دل گویند آں را صوفیان 106
وحی الٰہی نہ نجو م ہے نہ رمل ہے نہ خواب ہے لیکن عوام النّاس سے چُھپانے کے لئے صوفی اسے وحی دل کہہ دیتے ہیں۔
اِسی طرح وہ اپنی مثنوی کے دفتر سوم صفحہ 5پر کہتے ہیں کہ ؎
خلق نفس از وسوسہ خالی شود
مہمان وحی اِجلالی شود
کامل انسانوں کا نفس خدا تعالیٰ نے وسوسہ سے پاک بنایا اور اُن کے اُوپر وحی اجلالی نازل ہوتی رہتی ہے۔
تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَاكَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا ۔107 اس میں خدا تعالیٰ نے عام ذکر کیا ہے نبی کا ذکر نہیں کیااس لئے نبیوں کے ساتھ وحی مخصوص نہیں بلکہ سابق زمانے میں مریم اور اُمِّ موسیٰ کی مثال موجود ہے کہ وہ نبیّہ نہیں تھیں اور اﷲ تعالیٰ نے اُن سے کلام کیا اور ہماری اُمّت میں محدّثینِ اُمّت سے بھی یہی سلوک ہو گا اور اُن پر وحی نازل ہو گی۔108
لفظِ الہام اور وحی کے معنے
بعض لوگوں نے الہام اور وحی میں فرق کیا ہے لیکن لُغت والوں نے اس فرق کو تسلیم نہیں کیا۔
چنانچہ منتہی الادب میں لکھا ہے کہ اَوْحَی ﷲ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی طرف فرشتہ بھیجا اور اس پر الہام کیا۔
لِسان العرب والے کہتے ہیں کہ وضع کے لحاظ سے وحی کا لفظ عام تھا۔ مگر ثُمَّ قصر الْوَحْی لِلْاِلْہَامِ ہوتے ہوتے وحی کے معنے الہام کے ہو گئے۔109
تاج العروس والے لکھتے ہیں کہ اَوْحٰی إِلَیْہِ کے معنی ہیں أَلْھَمَہٗ۔ اس پر خدا نے الہام نازل کیا۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ وحی کے اصل معنی مخفی طور پر کسی بات کے بتانے کے ہیں اور اِسی وجہ سے الہام کو بھی وحی کہتے ہیں۔ 110
حدیث کی مشہور لغت نہایہ ابن الاثیر میں ہے کہ الہام کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کسی کے دل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی تحریک ڈالے اور وہ بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ اﷲ تعالیٰ اِس کے لئے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے۔111
حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ یہ مقربینِ الٰہی کی علامت ہے اور اس قُرب کی خصوصیتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فرشتے ایسے شخص کو پُکارتے ہیں جس طرح کہ مریم کو پُکارا تھا۔112
پھر فرماتے ہیں کہ اُمّت فرشتہ کی معرفت وحی اور اس کے دیکھنے کے حصّہ سے محروم نہیں ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کس طرح مریم نے جبرئیل کو دیکھا اور ایک مضبوط اور تندرست آدمی کی شکل میں دیکھا اور کس طرح فرشتوں نے اس کو پُکارا۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک مومن اپنے ایک بھائی سے ملنے کے لئے ایک گاؤں کی طرف گیا۔ رستہ میں ایک فرشتہ اُس پر ظاہر ہؤا اور فرشتے نے اُس سے کہا کہ مَیں خدا کی طرف سے تمہاری طرف رسول ہوں۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ اگر تمہارے اندر ایمان کی ایک حالت رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔ ایسی حالت میں کہ تم اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے ہو اور حدیث میں آتا ہے کہ اسید بن حضیر نے ملائکہ کو لیمپوں کی شکل میں دیکھا۔113
اور اپنے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی اور فرمایا مَیں تجھے وہ طریقہ دوں گا جو اِن تمام طریقوں میں جو اِس وقت رائج ہیں سب سے زیادہ خداتعالیٰ تک پہنچانے میں قریب ہو گا اور سب سے زیادہ مضبوط ہو گا۔ 114
امام رازی ؒ اپنی کتاب تفسیر کبیر کی جلد ٧ صفحہ 371,370 پر فرماتے ہیں کہ:۔
‘‘ملائکہ انسان کی رُوحوںمیں الہاموں کے ذریعہ سے اپنی تاثیر نازل کرتے ہیں اور یقینی کشفوں کے ذریعہ سے اُن پر اپنے کمالات ظاہر کرتے ہیں۔ تفسیر عرائس البیان میں لکھا ہے میری اُمّت میں محدّث اور مکلّم ہوں گے اور عمر ؓ ان میں سے ہو گا۔ پس محدث وہ ہوتے ہیں جن سے فرشتے بولتے ہیں اور مکلّم وہ ہوتا ہے جن سے اﷲ تعالیٰ کلام کرتا ہے’’۔ 115
حضرت مولانا محمد اسمٰعیل شہید ؒ جو حضرت مولانا شاہ ولی اﷲ ؒ کے پوتے اور حضرات دیوبند کے اُستاد اوّل ہیں فرماتے ہیں کہ:۔
‘‘یہ جان لینا چاہئے کہ وحی کی ایک قسم الہام بھی ہے۔ وہ الہام کہ جو نبیوں پر اُترنا ثابت ہے اُسے وحی کہتے ہیں اور اگر وہ غیر نبیوں پر اُترے تو اُسے محدّثیت کہہ دیتے ہیں اور قرآن کریم میں الہام کو ہی خواہ وہ انبیاء پر اُترے یا غیر انبیاء پر وحی کہا گیا ہے’’۔ 116
نواب صدیق حسن خان صاحب جو ہندوستان کے اہلِ حدیث کے مسلّمہ لیڈر تھے فرماتے ہیں:-
‘‘حدیث لَا وَحْیَ بَعْدَ مَوْتِیْ بے اصل ہے۔ ہاں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ آیا ہے۔ اس کے معنے نزدیک اہلِ علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا۔ سُبکی نے اپنی تصنیف میں صراحت کی ہے اِس بات کی کہ عیسیٰ علیہ السلام ہمارے ہی نبی کی شریعت کا حکم دیں گے۔ قرآن و حدیث کی رُو سے اس سے یہ امر راجح سمجھا جاتا ہے کہ وہ سُنت کو جناب نبوّت سے بطریق مشافہہ کے بغیر کسی واسطہ کے یا بطریق وحی و الہام کے حاصل کریں گے......
ہاں یہ بات اور ہے کہ اُن کو وحی آئے گی جس طرح حدیث نواس بن سمعان میں نزدیک مسلم وغیرہ کے آیا ہے..... ظاہر یہی ہے کہ لانے والے اس وحی کے جبرئیل علیہ السلام ہوں گے بلکہ اسی کا ہم کو یقین ہے۔ اس میں کچھ تردّد نہیں کیونکہ اُن (جبرئیل) کا وظیفہ یہی ہے کہ وہ درمیان خدا و انبیاء کے سفیر ہوتے ہیں۔ یہ بات کسی دوسرے فرشتہ کے لئے معلوم نہیں۔ ابو حاتم نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔ اِنَّہٗ وُکِّلَ جِبْرَئِیْلُ بِالْکُتُبِ وَ بِالْوَحْیِ اِلَی الْاَنْبِیَاءِ (انبیاء کی طرف وحی لانا اور کتابیں لانا جبرئیل ؑ کے سپرد ہے).....یہ حدیث کہ اِنَّ جِبْرَئِیْلَ لَایَنْزِلُ اِلَی الْاَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ صَلَّی ﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بے اصل ہے۔ حالانکہ کئی احادیث میں آنا جبرئیل ؑ کا آیا ہے۔جیسے وقت مرنے کے طہارت پر۔ شب قدر میں۔ دجّال کے روکنے کو مکّے، مدینے سے۔ اِلٰی غَیْرِ ذَالِکَ۔117
غرض قرآن کریم، احادیث اور اولیاء اﷲ کے کلام سے ثابت ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں وحی کا سلسلہ جاری ہے اور اُمّتِ محمدیہ کے بہت سے افراد نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے اور آنے والے مسیح کے متعلق تو معیّن صورت میں وحی کے نزول کی خبر دی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت نواس بن سمعان ؓ کی روایت میں جو مسلم نے بیان کی ہے صاف کہا گیا ہے کہ أَوْحَی ﷲ اِلٰی عِیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامُ اِنِّیْ قَدْ اَخْرَجْتُ عِبَاداً لِیْ لَا یَدَانِ لِاَ حَدٍ بِقَتَالِھِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِیْ اِلَی الطُّوْرِ۔118 یعنی اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جب وہ دُنیا میں آئیں گے تو وحی نازل کرے گا کہ مَیں نے ایسے بندے نکالے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہیں۔ پس میرے بندوں کو طُور پر لے جا۔
رُوح المعانی والے لکھتے ہیں کہ ‘‘یُوْحٰی اِلَیْہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحْیٌ حَقِیْقِیٌّ’’۔119
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی حقیقی نازل ہو گی۔ علامہ محمد الحبّان اپنی کتاب اسعاف الراغبین، جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت اور اہلِ بیت کے فضائل کے متعلق لکھی گئی ہے لکھتے ہیں:
‘‘مہدی آئے گا تو اکثر مسائل میں علماء کے مذہب کے خلاف حکم دے گا اور اُس پر وہ ناراض ہو جائیں گے کیونکہ وہ یقین کریں گے کہ جو اُن کے بڑے بزرگ تھے اُن کے بعد اﷲ تعالیٰ کسی کو ایسی اجتہادی باتیں نہیں بتائے گا’’۔ 120
اِسی طرح وہ اپنی کتاب کے صفحہ 144پر لکھتے ہیں کہ:-
‘‘مہدی کی جماعت سب غیر عربیوں پر مشتمل ہو گی۔ ان میں سے ایک بھی عربی نہیں ہو گا’’۔
اِسی طرح صفحہ 145پر لکھتے ہیں کہ:-
‘‘حضرت محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ مہدی الہام کے ذریعہ سے شریعت کی باریکیاں سمجھ کے لوگوں تک پہنچائے گا۔ اور ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی میرا متّبع ہو گا متبوع نہیں ہو گا۔ یعنی ایسے فتوے دے گا جو اُس وقت کے علماء کو نئے معلوم ہوں گے مگر وہ اپنے فیصلہ میں غلطی کریں گے۔ درحقیقت مہدی وہی فتوے دے گا جو مَیں نے لکھے ہیں اور وہ میرا متّبع ہو گا اور اپنے حکم میں معصوم ہوگا’’۔
اِسی طرح پر صفحہ 147 پر وہ مسیح کے متعلق لکھتے ہیں کہ:-
‘‘امام سیوطی نے اپنی کتاب اعلام میں لکھا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق حکم دیں گے۔ اور اس پر اجماع ہے کہ مسیح اپنے احکام میں کسی رائج مذہب کا مقلّد نہیں ہو گا بلکہ وہ تمام شریعت کے احکام قرآن سے اخذ کرے گا جس طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اخذ کرتے تھے اور جبرئیل اُن پر وحی حقیقی لے کر نازل ہو گا’’۔
پھر وہ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘امام سیوطی ؒ نے اس کی تائید میں بڑے دلائل دئے ہیں اور جو اس کو ردّ کرتے ہیں، اُن کو انہوں نے غلطی پر قرار دیا ہے’’۔121
غرض قرآن کریم اور احادیث کے حوالوں سے اور خدا ترس علماء کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے کہ وحی الٰہی کا نزول اسلامی آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) کا ایک حصّہ ہے۔ وحی الٰہی صرف شریعت میں محصور نہیں ہوتی بلکہ اس کے علاوہ بھی اس کی اغراض ہوتی ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا کہ مومنوں کو تسلّی دینے اور ان کا خوف دُور کرنے اور خدا تعالیٰ کی محبت کے اظہار کے لئے بھی وحی آتی ہے اور حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ نے فرمایا کہ وحی الٰہی قُربِ الٰہی کے اظہار کے لئے اور شریعت کے باریک اسرار کو ظاہر کرنے کے لئے اولیاء اﷲ پر نازل ہوتی رہتی ہے۔ پس مذہب کی آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) عموماً اور اسلام کی آئیڈیالوجی خصوصاً جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان اِس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا قُرب حاصل کرے اور اُس کی معرفت تامہ اُس کو ملے اور اس چیز کا ذریعہ وحی الٰہی کو تجویز کیا گیا تھا اس بات کی تائید میں ہے کہ شریعت کے ختم ہو جانے کے بعد وحی کو آتے رہنا چاہئے اور جو شخص وحی الٰہی کو بند کرتا ہے وہ نہ صرف قرآن، حدیث اور اولیاءِ اسلام کی تردید کرتا ہے بلکہ وہ اسلامک آئیڈیالوجی پر حملہ کرتا ہے اور اُس امتیازی فرق کو مٹا دیتا ہے جو کہ خدائی مذہبوں اور فلسفی مذہبوں میں مَابِہِ الْاِمْتِیَاز ہے۔ اسلام کا فخر تو اس بات میں ہے کہ اُس نے جیسا کہ ہم اُوپر ثابت کر چکے ہیں مذہب کی بنیاد محبت پر قائم کر دی ہے اور ذہنی غلامی سے انسان کو بچا لیا ہے اور محبت کی سب سے بڑی علامت یہی ہوتی ہے کہ محبوب کا قُرب نصیب ہو اور اُس کے مُنہ سے ہمیں یہ معلوم ہو جاوے کہ وہ ہمارے کاموں سے راضی ہے اور ہم سے خوش ہے اور مصیبت کے وقت ہم سے ہمدردی کرے اور ہمارا ساتھ دے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اسلام تو کہتا ہے کہ پہلے زمانے میں چند نبیوں کو خدا کا محبوب قرار دیا جاتا تھا مگر اُمّتِ محمدیہ میں محبت کا دروازہ اتنا وسیع کر دیا گیا ہے اور شریعتِ اسلام نے احکامِ اسلامی کو ایسے رنگ میں بیان کیا ہے کہ انسان کے دل سے جبروغلامی کا احساس مِٹ جاتا ہے اور وہ اسلامی تعلیم پر اپنا ذوق اور شوق اور علم اور معرفت کے ساتھ نہ صرف عمل کرتا ہے بلکہ عمل کرنا چاہتا ہے اور عمل کرنا ضروری سمجھتا ہے اور اس کے نیک نتائج کو دیکھ کر اس کا دل خدا کی محبت سے بھر جاتا ہے کہ اُس نے مجھے ایسا رستہ دکھایا کہ جو میری کامیابی کا ہے اور مجھے تباہی سے بچانے والا ہے۔ لیکن آجکل کے علماء اسلام کی خدمت اس بات کا نام رکھتے ہیں کہ وہ اس آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) کو مٹا دیں اور خدا اور بندے کے درمیان ایک دیوار حائل کر دیں تا ایک مسلمان اور ایک فلسفی کے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہے۔ قرآن تو سامری کے بُت کے متعلق یہ فرماتا ہے کہ اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا 122 کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ بُت اُن کی باتوں کا جواب نہیں دیتا۔ لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی گدّی پر بیٹھنے کے دعویدار اور اسلام کی خدمت کے مُدعی علماء آج یہ کہتے ہیں کہ جو اسلام کے خدا کو سامری کے بُت جیسا نہیں سمجھتا وہ اسلام سے خارج ہے۔ حالانکہ خود اُن کے علماء مذکورہ بالا آیت اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا سے یہ استدلال کر چکے ہیں کہ’’لَمْ یَخْطُرْ بِبَالِھِمْ اَنَّ مَنْ لَّا یَتَکَلَّمُ وَ لَا یَضُرُّوَ لَا یَنْفَعُ لَا یَکُوْنُ اِلٰھًا’’۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کیا اُن کے دلوں میں یہ خیال نہیں گزرتا کہ جو وجود کلام نہیں کرتا اور نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔123
اس کے ہم معنے ایک اور آیت سورۂ اعراف میں بھی ہے۔ وہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَ لَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا 124 کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بُت اُن سے کلام نہیں کرتا اور نہ انہیں کوئی یہ ہدایت بھجواتا ہے (اور یہ بھی کلام الٰہی کی ہی ایک شاخ ہے۔) اس پر بھی امام رازی فرماتے ہیں کہ ‘‘مَنْ لَا یَکُوْنُ مُتَکَلِّمًا وَ لَا ھَادِیًا اِلَی السَّبِیْلِ لَمْ یَکُنْ اِلٰھاً ’’۔ 125جو ہستی بولتی نہیں اور سچّا راستہ نہیں دکھاتی وہ خدا نہیں ہو سکتی۔
ہمارا خدا یقیناً بولنے والا خدا ہے اور سامری کے بُت جیسا نہیں ہے کہ اپنے سے پیار کرنے والے کو جواب بھی نہ دے۔ ہم اس عقیدہ میں خدا کے سابق نبیوں کے عقیدہ کے مطابق ہیں۔ ہم اس عقیدہ میں قرآن اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے عقیدہ کے مطابق ہیں۔ ہم اس عقیدہ میں اُمّتِ اسلامیہ کے روحانی پیشواؤں کے ہم عقیدہ ہیں۔ ہم اس عقیدہ میں خدائے واحد و قہّار کی عزت کے قائم کرنے والے ہیں۔ اگر اسلام کی آئیڈیالوجی(IDEOLOGY) کو قائم کرنے، اگر بتوں پر خدا کی برتری ثابت کرنے کے نتیجہ میں ہم قابلِ دار ہیں، ہم کُشتنی و سوختنی ہیں تو ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہماری گردنیں حاضر ہیں۔ یہ علماء جو چاہیں ہم سے سلوک کریں۔ ہم اس عقیدہ کو کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارا توکّل خدا پر ہے اور وہی ہمارا حافظ و ناصر ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی یہی سوال اُٹھایا گیا تھا کہ خدا اور غیر خدا میں کیا فرق ہے؟ اور حضرت ابراہیم ؑ نے مشرکوں سے کہا تھا کہ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِيْرُهُمْ هٰذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ۔فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ۔ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ١ۚ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ يَنْطِقُوْنَ۔قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ۠ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْـًٔا وَّ لَا يَضُرُّكُمْ۔126جب حضرت ابراہیم ؑ نے چند بُت توڑ دیئے (وہ بُت حضرت ابراہیم ؑ کے خاندان کے ہی ملکیت تھے) اور لوگ اُن کے پاس آئے اور کہا کہ کیا آپ نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہاں! کسی نے تو یہ کام کیا ہی ہے۔ یہ ان میں سے بڑا بُت ہے اِس سے اور دوسروں سے پوچھو، اگر بُت بولتے ہیں کہ انہیں کس نے توڑا ہے؟ اِس پر وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجّہ ہوئے اور کہا کہ تم لوگ شرک کر کے بڑے ظلم میں مُبتلا ہو۔ پھر شرمندگی سے انہوں نے سر ڈال دیئے اور حضرت ابراہیم ؑ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ باتیں نہیں کر سکتے۔ اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ کیا تم اﷲ کے سوا اُن کی عبادت کرتے ہو جو نہ نفع پہنچاتے ہیں اور نہ ضرر پہنچاتے ہیں؟ پس حضرت ابراہیم ؑ کے وقت میں بھی تو خدا کے بولنے اور نہ بولنے کا جھگڑا ہؤا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا بُت پرستوں پر یہی الزام تھا کہ میرا خدا بولتا ہے اور تمہارا خدا نہیں بولتا۔ اگر کسی گزشتہ وقت میں خدا کا بولنا بھی اُس کی خدائی کو ثابت کر دیتا ہے تو پھر ہندوؤں کا یہ دعویٰ کہ ابتدائے عالَم میں خدا نے وید نازل کئے اور پھر چُپ ہو گیا درست ہونا چاہئے! مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے جو خدا پہلے سُنتا تھا اَب بھی سُنتا ہے۔ جو پہلے دیکھتا تھا اب بھی دیکھتا ہے۔ اِسی طرح جو پہلے بولتا تھا وہ اب بھی ضرور بولتا ہے۔
سوال نمبر2: مسئلۂ ختمِ نبوّت
دوسرا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہدۂ ختمِ نبوت کی ہتک کی ہے۔ یہ الزام بھی مذہبی آئیڈیالوجی اور اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف اور خود خاتم النّبیّین کی آیت کے بھی خلاف ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ بیانِ قرآنِ کریم کے مطابق ختمِ نبوت کے ان معنوں کو متواتر مختلف قومیں پیش کرتی رہی ہیں کہ اُن کے نبی کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد بھی لوگوں نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی بعض لوگوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تو سارے عیسائی کہہ رہے ہیں کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ 127
اب حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ پس جس خیال اور فلسفہ کی قرآن کریم تردید کرتا ہے اسی خیال اور فلسفہ کے مطابق وہ کس طرح حکم دے سکتا ہے۔ قرآن کریم بالنص اِس بات کا اظہار کرتا ہے کہ آخری اور کامل شریعت نازل ہو سکتی ہے مگر اِس خیال کی کہ کوئی نبی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کسی قسم کے نبی کے بھی آنے کی اجازت نہ ہو اس نے متواتر تردید کی ہے اِسے بالکل غلط قرار دیا ہے۔
آیت خاتم النّبّیین کی تشریح
آج کل کے علماء جس آیت سے مزعومہ عقیدہ ختمِ نبوت نکالتے ہیں۔ خود وہ آیت
اِس عقیدی کی تردید کرنے والی ہے۔اِس آیت کے الفاظ یہ ہیں مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ۔128 محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور خاتم النّبیّین ہیں۔ کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہونا، اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں ہے۔ اگر قرآن کریم نے یہ دلیل پیش کی ہوتی کہ جو شخص کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا یا قرآن سے پہلے بعض قوموں کا یہ عقیدہ ہوتا تو ہم کہتے کہ قرآن کریم میں اِس عقیدہ کا استثناء بیان کیا گیا ہے یا اس عقیدہ کی تردید کی گئی ہے لیکن یہ تو کسی قوم کا مذہب نہیں کہ جو کسی مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ مسلمان اور عیسائی تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نبوّت کے قائل ہیں اور یہودی ان کی بزرگی مانتے ہیں مگر یہ کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کہ اُن کے ہاں اولاد تھی کیونکہ اُن کی تو شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ پس اِس آیت کے معنی کیا ہوئے کہ محمد ؐ تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن نبی ہیں لازماً اِس فقرہ کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایک شخص جس کے متعلق لوگ غلطی سے یہ کہتے تھے کہ وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا متبنّٰی ہے۔ اِس اظہار کے بعد کہ وہ متبنّٰی نہیں اِس امر کا کیا تعلق تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت کا ذکر کیا جاتا۔ اور پھر اس بات کا کیا تعلق تھا کہ آپ کی ختمِ نبوّت کا ذکر کیا جاتا۔کیا اگر زید رضی اﷲ عنہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے دیتے اور محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو ختمِ نبوت کا مسئلہ مخفی رہ جاتا؟ کیا اتنے اہم اور عظیم الشان مسائل یونہی ضمناً بیان ہؤا کرتے ہیں؟
اِس کے علاوہ جیسا کہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں کسی مَرد کے باپ ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ نبوّت کا کوئی تعلق نہیں۔ پس ہمیں قرآن کریم پر غور کرنا چاہئے کہ کیا کسی اور جگہ کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہے جس سے اگر آپ بالغ مَردوں کے باپ ثابت نہ ہوں تو آپ کا نبی ہونا مشتبہ ہو جائے ۔ کیونکہ لٰکِنْ کا لفظ عربی زبان میں اور اِس کے ہم معنی لفظ دُنیا کی ہرزبان میں کسی شُبہ کے دُور کرنے کے لئے آتا ہے۔ اِس اُلجھن کو دُور کرنے کے لئے ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں صاف لکھا ہؤا نظر آتا ہے کہ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ۔اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۔129 ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمایا ہے۔ پس تُو اﷲ تعالیٰ کی عبادتیں کر اور قُربانیاں کر۔ یقینا تیرا دُشمن ہی نرینہ اولاد سے محروم ہے، تُو نہیں۔ یہ آیت جو مکّہ میں نازل ہوئی تھی اِس میں اُن مُشرکینِ مکّہ کا ردّ کیا گیا تھا جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزند کی وفات ہو جانے پر طعنہ دیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کی تو کوئی نرینہ اولاد نہیں۔ آج نہیں تو کل اس کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ 130
اِس سورۃ کے نزول کے بعد مسلمانوں کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد ہو گی اور زندہ رہے گی لیکن ہؤا یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد نرینہ تو اُن کے خیال کے مطابق ہوئی نہیں اور جن دُشمنوں کے متعلق هُوَ الْاَبْتَرُ کہا گیا تھا اُن کی اولاد نرینہ زندہ رہی۔ چنانچہ ابو جہل کی اولاد بھی زندہ رہی، عاصی کی اولاد بھی زندہ رہی، ولید کی اولاد بھی زندہ رہی (گو آگے چل کر اُن کی اولاد مسلمان ہو گئی اور اُس میں سے بعض لوگ اکابر صحابہ میں بھی شامل ہوئے) جب حضرت زید ؓ کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں کے دلوں میں یہ شُبہات پیدا ہوئے کہ زید ؓ کی مطلّقہ سے جو آپ کا متبنّٰی تھا، آپ نے شادی کر لی ہے اور یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ بہو سے شادی جائز نہیں تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو سمجھتے ہو کہ زید (رضی اﷲ عنہ) محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے بیٹے ہیں یہ غلط ہے۔ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) تو کسی بالغ جوان مَرد کے باپ ہیں ہی نہیں۔ اور ‘‘مَا كَانَ ‘‘ کے الفاظ عربی زبان میں صرف یہی معنی نہیں دیتے کہ اِس وقت باپ نہیں بلکہ یہ معنی بھی دیتے ہیں کہ آئندہ بھی باپ نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے كَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا 131 یعنی خدا تعالیٰ عزیز و حکیم تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ اِس اعلان پر قدرتاً لوگوں کے دلوں میں ایک شُبہ پیدا ہونا تھا کہ مکّہ میں تو سورۃ کوثر کے ذریعے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے دُشمن تو اولاد نرینہ سے محروم رہیں گے مگر آنحضرت (صلی اﷲ علیہ وسلم) محروم نہیں رہیں گے لیکن اب سالہا سال بعد مدینہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) نہ اب کسی بالغ مَرد کے باپ ہیں نہ آئندہ ہوں گے تو اِس کے یہ معنی ہوئے کہ سورۃ کوثر والی پیشگوئی (نعوذ باﷲ) جھوٹی نکلی اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت مشکوک ہے؟ اِس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ یعنی ہمارے اِس اعلان سے لوگوں کے دلوں میں یہ شُبہ پیدا ہؤا ہے کہ یہ اعلان تو (نَعُوْذُ بِاللّٰہ) محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن اِس اعلان سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے۔ باوجود اِس اعلان کے محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں بلکہ خاتم النّبیّین ہیں یعنی نبیوں کی مُہر ہیں۔ پچھلے نبیوں کے لئے بطور زینت کے ہیں اور آئندہ کوئی شخص نبوّت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی مُہر اُس پر نہ لگی ہو۔ ایسا شخص آپ کا رُوحانی بیٹا ہو گا اور ایک طرف ایسے رُوحانی بیٹوں کے محمدرسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی اُمّت میں پیدا ہونے سے اور دوسری طرف اکابر مکّہ کی اولاد کے مسلمان ہو جانے سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ سورۂ کوثر میں جو کچھ بتایا گیا تھا وہ ٹھیک تھا۔ ابوجہل اور عاصی اور ولید کی اولاد ختم کی جائے گی اور وہ اولاد اپنے آپ کو محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے منسوب کر دے گی اور آپ کی روحانی اولاد ہمیشہ جاری رہے گی اور قیامت تک ان میں ایسے مقام پر بھی لوگ فائز ہوتے رہیں گے جس مقام پر کوئی عورت کبھی فائز نہیں ہو سکتی۔ یعنی نبوّت کا مقام جو صرف مَردوں کے لئے مخصوص ہے۔ پس سورۂ کوثر کو سورۂ احزاب کے سامنے رکھ کر اِن معنوں کے سوا اور کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر خاتم النّبیّین کی آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ محمدرسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں اور آئندہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو یہ آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور سیاق و سباق سے اِس کا کوئی تعلق نہیں رہتا اور کفّار کا وہ اعتراض جس کا سورۂ کوثر میں ذکر کیا گیا ہے پختہ ہو جاتا ہے اور اِس کا کوئی جواب مسلمانوں کے پاس باقی نہیں رہتا۔
نبوّت کے متعلق دوسری آیات
اِسی سلسلہ میں ہم قرآن شریف کی مندرجہ ذیل آیا ت بھی پیش کرتے ہیں:
(١) سورۂ حج میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۔132 اﷲ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے کچھ افراد کو رسول بنانے کے لئے چُن لیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ یقیناً دُعاؤں کو سُنتا اور حالات کو دیکھتا ہے۔ اِس آیت سے پہلے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخاطبین کا ذکر ہے۔ آپ سے پہلے لوگوں کا ذکر نہیں ہے اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ملائکہ میں سے اور انسانوں میں سے رسول چنتا ہے اور چنتا رہے گا۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ سُننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اِس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں یعنی آپ کے زمانۂ نبوّت میں اَور انسان بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول کا نام پانے والے کھڑے ہوں گے۔
(2) سورۂ فاتحہ میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دُعا سکھائی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ۔صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔133 یا اﷲ تو ہمیں سیدھا رستہ دکھا اُن لوگوں کا رستہ جن پر تیرے انعام ہوتے ہیں۔ یہ دُعا پانچ وقت فرضاً اور اِس کے علاوہ کئی اور وقت نفلاً مسلمان پڑھتے ہیں۔ یہ منعم علیہ گروہ کا رستہ کیا ہے؟ قرآن کریم نے خود اِس کی تشریح فرمائی ہے۔ وَ لَهَدَيْنٰهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا۔134 اگر مسلمان رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلوں پر عمل کریں اور بشاشت کے ساتھ ان کی فرمانبرداری کریں تو ہم ان کو صراطِ مستقیم کی ہدایت دیں گے۔ پھر اس صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دینے کا طریقہ یہ بیان کیا ہے وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًاؕ۔ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ١ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ عَلِيْمًا۔135 اور جو شخص بھی اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرے۔ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ تو وہ اُن لوگوں کے گروہ میں شامل کئے جائیں گے جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ یعنی نبیوں کے گروہ میں اور صدیقوں کے گروہ اور شہیدوں کے گروہ میں اور صالحین کے گروہ میں۔ اور یہ لوگ سب سے بہتر ساتھی ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک فضل ہے اور اﷲ تعالیٰ تمام اُمور کو بہتر سے بہتر جانتا ہے۔
اِس آیت میں صاف بتایا گیا ہے کہ منعم علیہ گروہ کا رستہ وہ رستہ ہے جس پر چل کر انسان نبیوں میں اور صدیقوں میں اور شہیدوں اور صلحاء میں شامل ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس جگہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہاں ‘‘مَعَ’’ کا لفظ ہے اور معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے۔ خود منعم علیہ گروہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ حالانکہ اس آیت کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اِس صورت میں اِس آیت کے یہ معنی بن جائیں گے کہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے لیکن اس گروہ میں شامل نہیں ہوں گے یعنی نبیوں کے ساتھ ہوں گے لیکن نبیوں میں شامل نہیں ہوں گے۔صدیقوں کے ساتھ ہو ں گے مگر صدیقوں میں شامل نہیں ہوں گے۔ شہیدوں کے ساتھ ہوں گے لیکن شہیدوں میں شامل نہیں ہوں گے اور صالحین کے ساتھ ہوں گے لیکن صالحین میں شامل نہیں ہوں گے۔ گویا اِن معنوں کی رُو سے اُمّتِ محمدیہ صرف نبوّت سے ہی محروم نہیں ہوئی بلکہ صدیقیت سے بھی محروم ہو گئی اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا کہ ابو بکر ؓ صدیق ہے وہ نعوذباﷲ غلط ہے اور شہداء کے درجہ سے بھی محروم ہو گئی۔ قرآن کریم میں جو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم شہداء کے مقام پر ہیں وہ بھی غلط ہے (شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ 136) اور صالحین میں بھی اِس اُمّت کا کوئی آدمی داخل نہیں ہوتا۔ اور یہ جو خیال ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں بہت سے صلحاء گزرے ہیں، یہ بھی بالکل غلط ہے۔ کیا کوئی عقلمند آدمی جس کو قرآن اور حدیث پر عبور ہو اِن معنوں کو مان سکتا ہے؟ ‘‘مع’’ کے معنی خالی ساتھ کے نہیں ہوتے۔ ‘‘مَعَ’’ کے معنی شمولیّت کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں مومنوں کو دُعا سکھلائی گئی ہے۔ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۔137 اے اﷲ! ہم کو ابرار کے ساتھ موت دے۔ اور ہر مسلمان اس کے یہی معنی کرتا ہے کہ اے اﷲ! مجھے ابرار میں شامل کر کے موت دے۔ یہ معنی کوئی نہیں کرتا کہ یا اﷲ! جس دن کوئی نیک آدمی مَرے اُسی دن مَیں بھی مرجاؤں۔
اِسی طرح قرآن کریم میں ہے اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ١ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيْرًاۙ۔اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَ اَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ١ؕ وَ سَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا۔138 یعنی منافق جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے اور تُو کسی کو ان کا مددگار نہ دیکھے گا۔ ہاں جو توبہ کرے اور اصلاح کرے اور خدا تعالیٰ کی تعلیم کو مضبوطی سے پکڑے اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنی اطاعت مخصوص کر دے تو وہ مومنوں میں شامل کئے جائیں گے اور اﷲ تعالیٰ جلد مؤمنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔ اس جگہ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ کے الفاظ ہیں مگر مَعَ۔ مِنْ کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے۔
اِسی طرح سورۂ حجر میں آیا ہے مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ۔139 اے ابلیس! کیوں تُو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہؤا مگر سورۂ اعراف میں ہے لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ 140 ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا۔ پس ‘‘مَعَ’’ قرآن کریم میں ‘‘مِنْ’’ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم کی مشہور لغت ‘‘مفردات القرآن’’ مصنّفہ امام راغب میں بھی لکھا ہے ‘‘وَ قَوْلُہٗ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ۔ اَیْ اِجْعَلْنَا فِیْ زُمْرَتِھِمْ اِشَارَۃٌ اِلٰی قَوْلِہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ ﷲ عَلَیْھِمْ’’۔141 یعنی فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ میں مَعَ کے یہ معنی ہیں کہ ہم کو زُمرۃ الشاہدین میں داخل فرما۔ جس طرح کہ آیت فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ میں ‘‘مَعَ’’ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے منعم علیہم کے زُمرہ میں شامل ہوں گے۔
نیز تفسیر بحر محیط میں امام راغب کے اِس قول کی مزید تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:
‘‘قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ اَنْعَمَ عَلَیْھِمْ مِنَ الْفرقِ الْاَرْبَعِ فِی الْمَنْزِلَۃِ وَ الثَّوَابِ اَلنَّبِیُّ بِالنَّبِیِّ وَ الصِّدِّیْقُ بِالصِّدِّیْقِ وَالشَّہِیْدُ بِالشَّھِیْدِ وَ الصَّالِحُ بِالصَّالِحِ’’۔ 142
یعنی امام راغب کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحون میں شامل کئے جائیں گے۔ یعنی اِس اُمّت کا نبی، نبی کے ساتھ۔ صدیق، صدیق کے ساتھ۔ شہید، شہید کے ساتھ۔ صالح، صالح کے ساتھ۔
اِسی طرح مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ۔143 اے بنی آدم! اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں جو میری آیتیں تم کو پڑھ کر سُنائیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اُن کی باتوں پر کان دھریں گے اور اصلاح کے طریق کو اختیار کریں گے اُن کو آئندہ کسی قسم کا خوف نہ ہو گا اور نہ گزشتہ غلطیوں پر اُنہیں کسی قسم کا غم ہو گا۔ اِس آیت میں بھی صاف بتایا گیا ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں رسول آتے رہیں گے۔ اِسی طرح قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ ۔144 اور جب رسول ایک وقت مقررہ پر لائے جائیں گے یعنی آخری زمانہ میں اﷲ تعالیٰ تمام رسولوں کو بروزی رنگ میں دوبارہ ظاہر کرے گا۔
شیعہ لوگ اِسی سے استدلال کرتے ہیں کہ امام مہدی کے زمانہ میں تمام رسول لائے جائیں گے اور وہ اُن کی اتباع کریں گے۔ چنانچہ تفسیر قُمّی میں لکھا ہے ‘‘مَا بَعَثَ ﷲ نَبِیًّا مِن لَّدُنْ اٰدَمَ اِلَّا وَ یَرْجِعُ اِلَی الدُّنْیَا فَیَنْصُرُ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ’’۔ 145اﷲ تعالیٰ نے آدم سے لے کر آخر تک جتنے نبی بھیجے ہیں وہ ضرور دُنیا میں واپس آئیں گے اور امیرالمؤمنین مہدی کی مدد کریں گے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سارے رسول آئیں گے اور پھر بھی آپ کی ختمِ نبوّت نہیں ٹوٹے گی۔ یہ تو قرآنِ کریم کی آیتوں میں سے چند آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی اُمّتِ محمدیہ میں نبوّت کا سلسلہ جاری ہے۔
اَب ہم حدیثوں کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان میں اِس مسئلہ کے متعلق کیا لکھا ہے۔ جب ہم حدیثوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم آنے والے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ نبی اﷲ ہو گا۔ 146گویا خود آپ اِس آیت کے یہ معنی نہیں کرتے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔
بعض لوگوں نے ختمِ نبوّت کی آیت سے ڈر کر یہ معنی کئے ہیں کہ آنے والا مسیح نبی نہیں ہو گا بلکہ وہ اُمّتی ہو کر آئے گا لیکن ائمہ نے سختی سے اس کو ردّ کیا ہے۔ چنانچہ حجج الکرامۃ میں نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ ‘‘فَھُوَ عَلَیْہِ السَّلَامَ وَ اِنْ کَانَ خَلِیْفَۃٌ فِی الْاُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ فَھُوَ رَسُوْلٌ وَ نَبِیٌ کَرِیْمٌ عَلٰی حَالِہٖ’’۔ 147
یعنی عیسیٰ علیہ السلام گو اُمّتِ محمدیہ میں سے ایک خلیفہ ہوں گے مگر وہ رسول بھی ہوں گے اور نبی بھی ہوں گے۔پھر لکھتے ہیں کہ ‘‘لَا کَمَا یَظُنُّ بَعْضُ النَّاسِ اَنَّہٗ یَأْتِیْ وَاحِدًا مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ بِدُوْنِ نُبُوَّۃٍ وَ رِسَالَۃٍ’’۔ 148وہ اپنی اسی نبوت کی شان کے ساتھ آئیں گے جس طرح وہ پہلے نبی تھے نہ کہ جس طرح بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ اِس اُمّت کا ایک فرد بن کر آئیں گے۔ نبی اور رسول نہیں ہوں گے۔
پھر وہ لکھتے ہیں جو شخص اُن کی نبوّت کے سلب ہونے کا اعلان کرتا ہے، وہ پورے طور پر کافر ہو گیا۔ جیسا کہ سیوطی نے ثابت کیا ہے کیونکہ وہ نبی ہیں اور اُن کا وصفِ نبوّت نہ اُن کی زندگی میں زائل ہؤا اور نہ موت کے بعد زائل ہو گا۔149
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر فرمایا ‘‘لَوعَاشَ اِبْرَھِیْمُ لَکَانَ صِدِّ یْقًا نَبِیًّا’’۔ 150 یعنی اگر ابراہیم میرا فرزند زندہ رہتا تو نہ صرف یہ کہ وہ نبی ہوتا بلکہ صدیق نبی ہوتا۔ جیسا کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام صدیق نبی تھے۔ اِسی طرح آپ فرماتے ہیں ‘‘اَمَا وَ اللہِ اِنَّہٗ لَنَبِیُّ ابْنُ نَبِیٍّ’’۔ 151 خدا کی قسم! میرا بیٹا ابراہیم نبی ابن نبی ہے۔
اِسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ ‘‘اِنِّیْ عِنْدَ اللہِ لَخَاتَمُ النَّبِیّٖنَ وَ اِنَّ اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمُنْجَدلٌ فِیْ طِیْنَتِہٖ’’۔152 یعنی مَیں خاتم النّبیّین تھا جب کہ آدم ؑ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔
اِسی طرح حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ‘‘قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَتٰی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّۃُ قَالَ وَ اٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ’’۔ 153 یعنی لوگوں نے پوچھا یَا رَسُوْلَ اﷲ! آپ کی نبوت کب سے قائم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آدم ؑ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اِس مقام پر فائز کیا تھا۔
یہ وہ احادیث ہیں جن کو جماعتِ اسلامی، مجلسِ عمل اور مجلس احرار سب صحیح مانتے ہیں۔ اِن سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختمِ نبوت کا عُہدہ ملنے کے بعد تشریعی نبی بھی آتے رہے۔ یعنی نوح علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام وغیرہ۔ پھر اگر جماعت احمدیہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ خاتم النّبّیین کے بعد غیر تشریعی اُمّتی نبی آسکتا ہے تو اِس پر کیا اعتراض۔ اِس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی بھی ایک روایت ہے جو ابن ابی شیبہ نے بیان کی ہے۔ اس نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے بعض لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم خاتم النّبّیین تو بے شک کہا کرو مگر لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ نہ کہا کرو۔154
اِس روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے نزدیک خاتم النّبیّین اور لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ میں فرق تھا۔ یعنی خاتم النّبیّین کے پورے معنی لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ سے ادا نہیں ہوتے تھے بلکہ اس سے کچھ غلط فہمی پیدا ہو جاتی تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا لَا نَبِیَّ بَعْدِی فرماناتو خود احادیث سے ثابت ہے۔ پس یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث کی منکر تھیں اور اس کو ردّ فرماتی تھیں بلکہ ان کے اِس قول سے یہی ماننا پڑے گا کہ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ سے کوئی دھوکا لگ سکتا تھا لیکن خاتم النّبیّین کے لفظ سے وہ دھوکا نہیں لگ سکتا۔ اِسی لئے آپ نے فرمایا کہ خاتم النّبیّین کا لفظ جو قرآنِ کریم میں آیا ہے وہ استعمال کیا کرو کیونکہ اِس سے کوئی دھوکا نہیں لگتا۔ لیکن لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ جو حدیثوں میں آئے ہیں وہ استعمال نہ کیا کرو کیونکہ ان سے دھوکا لگتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دھوکا وہی ہے جس کا ازالہ احمدی جماعت کرتی ہے۔ کیونکہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لَا نَبِیَّ بَعْدِی کے یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔ نہ شرعی نہ غیرشرعی، نہ بروزی نہ مستقل، نہ اُمّتی نہ غیر اُمّتی۔ حالانکہ یہ غلط ہے لیکن خاتم النّبیّین کے الفاظ سے یہ دھوکا نہیں لگتا۔ اگر جیسا کہ علماء کہتے ہیں، خاتم النّبیّین کے معنی بھی یہی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا یہ کہنا کہ تم خاتم النّبیّین کہا کرو لَانَبِیَّ بَعْدَہٗ نہ کہا کرو اِس کے معنی کیا ہیں؟ یہ تو ایک بالکل ہی بے معنی کلام ہو جاتا ہے۔
ایک دوسری روایت بھی اس بارہ میں ابن ابی شیبہ نے نقل کی ہے اور امام سیوطیؒ کی کتاب درّ منثور میں درج ہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک شخص مغیرہ بن شعبہ ؓ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ محمد خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ پر اپنا درود بھیجے۔ اِس پر مغیرہ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ اگر تُو خاتم الانبیاء کہہ کر ہی ختم کر دے تو یہ کافی ہے کیونکہ ہم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں باتیں کیا کرتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں اگر وہ آئے تو آپ سے پہلے بھی وہ نبی ہوں گے اور آپ کے بعد بھی وہ نبی ہوں گے۔ 155
اِس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کے نزدیک یہ خیال کرنا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں، غلط ہے اور لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کہنے سے اِس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔ لیکن خاتم النّبیّین سے یہ خیال ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا اور اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر نہیں تھے کیونکہ وہ کہتے ہیں ‘‘جب وہ نکلیں گے’’۔ شاید اُن کا یہ عقیدہ ہو کہ وہ زمین پر ہی کہیں چھُپے بیٹھے ہیں۔ جیسا کہ شیعہ صاحبان کا مہدی کے متعلق خیال ہے۔
اِسی طرح ابن الانباری نے کتاب المصاحف میں لکھا ہے کہ عبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت حسن ؓ اور حسینؓ کو قرآن پڑھانے پر مقرر کیا ہؤا تھا۔ ایک دن مَیں قرآنِ کریم پڑھا رہا تھا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ پاس سے گزرے۔ اُس وقت مَیں خاتم النّبیّین کی آیت پڑھا رہا تھا۔ اِس پر آپ نے فرمایا اﷲ تجھے توفیق دے۔ تو میرے بچوں کو خاتَم النّبیّین ت کی زبر سے پڑھا۔ 156
اِس سے ظاہر ہے کہ خاتم النّبیّین میں ت کی زیر سے یہ شُبہ پیدا ہوتا تھا کہ اِس کے معنی یہ ہیں کہ سب قسم کے نبی ختم ہو گئے۔ پس گویہ قراءت موجود ہے مگر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے یہ پسند نہ کیا کہ اُن کے بیٹے اِس دھوکے میں پڑ جائیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی بھی نہیں آئے گا اور اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے اُستاد کو منع کر دیا کہ انہیں خَاتِم ت کی زیر سے نہ پڑھاؤ بلکہ خَاتَم ت کی زبر سے پڑھاؤ۔
حضرت شیخ محی الدین ابنِ عربی ؒ جو ساتویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں اپنی کتاب فتوحاتِ مکیہ جلد 2 باب 73 صفحہ 3 میں لکھتے ہیں کہ وہ نبوّت جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظاہر ہونے سے ختم ہو گئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے۔ اُس کا دُنیا میں کوئی مقام نہیں۔ پس اَب کوئی شریعت ایسی نہیں ہو گی جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کو موقوف کرے اور کوئی شریعت ایسی نہیں ہو گی جو آپ کی شریعت میں کوئی حکم زائد کرے۔ اور یہی معنے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کے ہیں کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے پس میرے بعد اب کوئی رسول اور نبی نہیں ہے۔ یعنی کوئی ایسا نبی میرے بعد نہیں جو کسی ایسی شریعت پر قائم ہو جو میری شریعت کے مخالف ہے بلکہ جب کوئی نبی ہو گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا اور کوئی رسول میرے بعد نہیں ہو گا۔ یعنی کوئی شخص مخلوقُ اﷲ میں ایسا نہیں ہو گا جو کوئی نئی شرع لائے اور اُس کی طرف لوگوں کو بُلائے۔ یہی وہ چیز ہے جو ختم ہو ئی ہے اور جس کا دروازہ بند ہؤا ہے نہ کہ نبوّت کا مقام بند ہؤا ہے۔
اِسی طرح حضرت محی الدین ابن عربی ؒ لکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے تو وہ نبوتِ مستقلہ کے ساتھ نہیں اُتریں گے بلکہ وہ نبوت مطلقہ والے ولی ہوکر اُتریں گے اور یہ وہ نبوت ہے جس میں محمدی اولیاء بھی اُن کے ساتھ شریک ہیں۔157
اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ نبوت مخلوقات میں قیامت تک جاری ہے گو کہ شریعت کے لحاظ سے وہ ختم ہو چکی ہے اور شریعت نبوّت کے حصّوں میں سے ایک حصّہ ہے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا الہام دُنیا میں سے بند ہو جاوے کیونکہ اگر وہ بند ہو جاوے تو دُنیا کی رُوحانی غذا ختم ہو جاتی ہے اور رُوحانی وجودوں کے زندہ رہنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا۔ 158
پھر وہ فرماتے ہیں نبوّت عامہ یعنی جو شریعت سے خالی ہے وہ اِس اُمّت کے بڑے لوگوں میں قیامت تک جاری ہے۔ 159
پھر وہ لکھتے ہیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ رسالت اور نبوّت بند ہو گئی ہے اِس کے صرف یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آئے گا۔ پس اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لے۔ 160
پھر وہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر نبوّت عامہ اُن میں باقی رکھی یعنی وہ نبوّت جس کے ساتھ شریعت نہیں ہوتی۔ 161
سیّد عبدالکریم جیلانی جو قدوۃ الاولیاء کہلاتے ہیں لکھتے ہیں نبوت تشریعی کا حُکم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بند ہو گیا اور اِسی وجہ سے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النّبیّین کہلائے کیونکہ وہ کامل تعلیم لے کر آئے تھے۔ 162
حضرت مُلّا علی قاری ؒ (جو گیارھویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں اور جو حنفیوں کے عقائد کے مدوّن ہیں یعنی جنہوں نے اُن کے عقائد کو ایڈٹ کیا ہے) وہ اپنی کتاب ‘‘موضوعاتِ کبیر’’ میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘قُلْتُ وَ مَعَ ھٰذَا لَوْعَاشَ اِبْرَاھِیْمُ وَ صَارَنَبِیًّا وَ کَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَعِیْسٰی وَ الْخضْرَ وَ اِلْیَاسَ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ۔ فَلَا یُنَاقِضُ قَوْلَہٗ تَعَالٰی خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ اِذَا الْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَایَأْتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یُنْسِخُ مِلَّتَہٗ وَ لَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہٖ فَیُقَوِّیْ حَدِیْث لَوْکَانَ مُوْسٰی علیہ السلام حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ’’۔163
ترجمہ: ‘‘مَیں کہتا ہوں کہ باوجود اِس کے کہ اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اِسی طرح اگر حضرت عمر بھی نبی ہو جاتے تو دونوں آنحضرت صلعم کے تابعین میں سے ہوتے۔ جس طرح عیسیٰ ؑ خضر ؑ اور الیاس ؑ (کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے۔) یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور سچّا نبی ہوتا آیت خاتم النّبیّین کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ خاتم النّبیّین کے معنی صرف اِس قدر ہیں کہ آپ ؐ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی ملّت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمّت میں سے نہ ہو۔ اِسی عقیدہ کی تقویت اِس حدیث سے ہوتی ہے کہ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو میری اتباع کے بغیر اُنہیں کوئی چارہ نہ ہوتا’’۔
حضرت ملّا علی قاری ؒ کا یہ قول ہم خاص طور پر عدالت کی توجّہ کے لئے پیش کرتے ہیں کیونکہ اِس میں خاتم النّبیّین اور عقیدۂ ختمِ نبوّت کے بارے میں بعینہٖ وہی بات کہی گئی ہے جو اِس وقت جماعت احمدیہ کہتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم آیت خاتم النّبیّین کے نزول (5 ھ ) کے قریب تین سال بعد پیدا ہوئے اور نو ہجری میں (آیت خاتم النّبیّین کے نزول کے چار سال بعد) فوت ہوئے لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی وفات کے موقع پر فرمایا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتاتو سچّا نبی ہوتا۔164
حضرت مُلّا علی قاری ؒ مندرجہ بالا اقتباس میں فرماتے ہیں کہ آیت خاتَم النّبیّین کے نزول کے بعد پَیدا ہونے والے صاحبزادہ ابراہیم اگر فی الواقع نبی ہو جاتے تب بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النّبیّین ہونے میں کوئی فرق نہ آتا اور نہ ہی آپ کی خاتمیّت کے منافی ہوتا کیونکہ حضرت مُلّا علی قاری ؒ کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی متبع یا اُمّتی کا نبی ہونا آیت خاتَم النّبیّین کے مخالف نہیں۔ اُن کے نزدیک خاتَم النّبیّین کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد آپ کی اُمّت سے باہر کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ یا ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے۔
ہم اِس حوالے کی طرف خاص طور پر معزّز عدالت کی توجّہ اِس لئے مبذول کرا رہے ہیں کہ اِس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام (جو سابق نبی ہیں) کے واپس آنے کے لئے وجہ جواز نہیں نکالی گئی بلکہ خود اُمّتِ محمدیہ میں سے غیر تشریعی اور اُمّتی نبی کا پیدا ہونا بھی جائز قرار دیا گیا ہے اور خاص طور پر کہا گیا ہے کہ اگر ایسا ہو تو اِس سے ختمِ نبوّت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک آیت خاتم النّبیّین کا مفہوم سوائے اس کے کچھ نہیں ہے جو حضرت مُلّا علی قاری ؒ کی مندرجہ بالا تحریر میں بیان کیا گیا ہے۔ اگر مجلسِ عمل کا یہ خیال درست ہے کہ لفظ خاتم النّبیّین کی یہ تاویل کرنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت اور آپ کی اتباع اور پَیروی میں غیر تشریعی نبی ہو سکتا ہے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے تو پھر حضرت مُلّا علی قاری ؒ جیسے عظیم الشّان بزرگ پر بھی اُن کو یہی فتویٰ لگانا پڑے گا۔ لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے کیونکہ حضرت مُلّا علی قاری ؒ وہ بزرگ ہیں جن کو تمام اہلِ سُنت خواہ وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی اور تمام اہلِ حدیث جن میں مولانا داؤد غزنوی بھی شامل ہیں، واجب الاحترام بزرگ خیال کرتے ہیں۔ 165
حضرت مُلّا علی قاری ؒ بیک وقت امامِ فقہ بھی ہیں اور امامِ حدیث بھی۔
ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ مندرجہ بالاحوالہ ہم نے صرف یہ ثابت کرنے کے لئے پیش کیا ہے کہ حضرت مُلّا علی قاری ؒ کے نزدیک خاتم النّبیّین کے یہ معنی ہیں:
(الف) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے نہ ہونے والا نبی نہیں آسکتا۔
(ب) اگر اُمّت محمدیہ میں کوئی تابع نبی پیدا ہو تو خاتمیّت کے منافی نہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ آیا حضرت مُلّا علی قاری ؒ کے نزدیک ایسا کوئی اُمّتی نبی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد فِی الواقع پیدا ہونے والا تھا یا نہیں؟ تو اِس کی یہاں بحث نہیں بلکہ بحث صرف یہ ہے کہ لفظ خاتم النّبیّین کے جو معنی جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے وہ نئے نہیں بلکہ گزشتہ علماء، فقہاء اور محدثین یہی معنے بیان فرماتے رہے ہیں۔
امام عبدالوہاب شعرانی ؒجو دسویں صدی ہجری میں گزرے ہیں فرماتے ہیں:-
‘‘یاد رکھو کہ نبوّت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کُلّی طور پر بند نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت آپ کے بعد بند ہوئی ہے۔ پس رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ قول کہ نہ کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول ہے، اس کے یہ معنے ہیں کہ میرے بعد کوئی نئی شریعت نہیں۔ اور یہ قول آپ کا ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا ‘‘اِذَاھَلَکَ کِسْرٰی فَلَا کِسْرٰی بَعْدَہٗ وَ اِذَا ھَلَکَ قَیْصَر فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ’’ جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہو گا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہو گا۔ حالانکہ اس قیصر کے بعد اور کئی قیصر ہوئے۔ مطلب یہ تھا کہ اِس شان کا کوئی قیصر نہیں ہو گا’’۔ 166
شیعوں کے نزدیک بھی خاتم النّبیّین کے یہی معنی ہیں چنانچہ تفسیر صافی کے صفحہ111 پر آیت خاتم النّبیّین کے ماتحت لکھا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے علی ؓ اَنَا خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ وَ اَنْتَ یَا عَلِیُّ خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ۔ مَیں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی ؓ! تُو خاتم الاولیاء ہے۔ حالانکہ حضرت علی ؓ کے بعد اور کئی اولیاء ہوئے اور شیعوں کے نزدیک تو گیارہ امام بھی ہوئے۔ اس کے صاف یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خاتم الانبیاء کے معنی افضل الانبیاء کے کئے ہیں اور بتایا ہے کہ مَیں افضل الانبیاء ہوں اور تُو افضل الاولیاء ہے۔
اسی طرح حضرت علیؓ کی ایک اور روایت ہے جس میں انہوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ سے فیضان جاری رہنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ آپ ؓ فرماتے ہیں ‘‘وَ رَسُوْلُکَ الْخَاتَمُ لِمَا سَبَقَ وَ الْفَاتِحُِ لِمَا انْغَلَقَ’’۔ 167اے خدا تیرا رسول ایسا ہے کہ جو کمالات پہلے لوگوں کو حاصل ہوئے تھے اُن کے انتہائی درجہ کو پہنچا ہؤا تھا اور جو کمالات پہلے لوگوں سے ہم کو نہیں ملے اُن کا دروازہ اس نے ہمارے لئے کھول دیا ہے۔
علامہ زرقانی ؒ جو بارہویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں شرح مواہب اللّدنیہ کی جلد 3 صفحہ 163پر لکھتے ہیں کہ ختم کے معنی اعلیٰ درجے کے کمال کے ہوتے ہیں اور زینت کے ہوتے ہیں۔ پس خاتم النّبیّین کے یہ معنی ہیں کہ آپ انبیاء میں سے سب سے بہتر تھے۔ جسمانی اور رُوحانی طور پر اسی طرح آپ انبیاء کے لئے حُسن کا موجب تھے جس طرح انسان کے لئے انگوٹھی حُسن کا موجب ہوتی ہے۔
شیعوں کی تفسیر مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ تاء کی زبر کے ساتھ خاتم النّبیّین کا جولفظ ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نبیوں کے لئے زینت تھے۔168
تفسیر فتح البیان جلد 7 صفحہ 286پر لکھا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نبیوں کے لئے بطور انگوٹھی کے تھے جس سے وہ زینت حاصل کرتے تھے۔ یہ لفظ ان معنوں میں صلحاءِ اُمّت نے بھی استعمال کیا ہے۔ چنانچہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ جو چھٹی صدی ہجری کے قریباً آخر میں گزرے ہیں لکھتے ہیں ‘‘فَحِیْنَئِذٍ تَکُوْنُ وَارِثَ کُلِّ رَسُوْلٍ وَ نَبِیٍّ وَ صِدِّیْقٍ وَ بِکَ تَخْتُمُ الْوِلَایَۃُ’’۔ 169یعنی اے مجھ سے عقیدت رکھنے والے جب تُو مخلوقات سے اُمیدیں چھوڑ دے گا اور اپنی خواہشات اور ارادے ترک کر دے گا تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تجھے ایک نئی زندگی ملے گی اور نیا علم اور نیا قُرب اور نئی عزت تجھے بخشی جائے گی اور تُو وارث ہو جائے گا ہر رسول اور ہر نبی اور صدیق کا اور ولایت تجھ پر ختم ہو جائے گی۔
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اُمّتِ محمدیہ کے اعلیٰ لوگ تو الگ رہے اُن کے شاگرد بھی نبیوں، رسولوں اور صدیقوں کے وارث اور خاتم الولایت کے مقام پر پہنچ جائیں گے۔ اگر حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ کے نزدیک خاتم کے معنی ختم کرنے والے کے ہوں تو لازماً اس حوالہ کے یہ معنی ہوں گے کہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ کے شاگردوں پر ولایت ختم ہو جائے گی اور مہدی اور مسیح اِس شکل میں ظاہر ہوں گے کہ خدا کی ولایت اُنہیں حاصل نہ ہو گی۔ چونکہ اِس حوالے کے یہ معنی بِالبداہت باطل ہیں اِس لئے یہ بھی باطل ہے کہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ نے خاتم کے معنی ‘‘ختم کرنے والا’’ کے لئے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی بھی جو بارہویں صدی ہجری کے آخر میں گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ :۔
‘‘رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو خاتم النبیّٖن کہا گیا ہے اِس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص دُنیا میں ایسا نہیں ہو گا جس کو خدا تعالیٰ نئی شریعت دے کر لوگوں کی طرف بھیجے ‘‘۔ 170
مَولانا محمد قاسم بانیٔ مدرسۃ العلوم دیوبند جو تیرہویں صدی ہجری کے آخر میں گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ
‘‘عوام کے خیال میں تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاتَم ہونا بایں معنٰی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدّم یا تاخرِ زمانی میں بالذّات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقامِ مدح میں وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ فرمانا اِس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقامِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخّر زمانی صحیح ہو سکتی ہے’’۔171
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اگر بِالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا’’۔ 172
ہم نے اُوپر خاتم النبیّٖن والی آیت کے جو معنی کئے ہیں اُن کی تصدیق بھی حضرت مولانا محمد قاسم ؒ کے اِس قول سے ہو جاتی ہے :
‘‘حاصل مطلب آیت کریمہ اِس صورت میں یہ ہو گا کہ ابوّتِ معروفہ تو رسولِ اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوّتِ معنوی اُمّتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے۔ انبیاء کی نسبت تو فقط خاتَم النبیّٖن شاہد ہے’’۔ 173
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ بہت بڑے فاضل اور جیسا کہ اُوپر عرض کیا جاچکا ہے مدرسۃ العلوم دیوبند کے بانی تھے اور تمام دیوبندی علماء ان کو اپنا واجب الاحترام بزرگ اور مقتداء تسلیم کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو بیان مولوی محمد علی صاحب کاندھلوی) مولانا موصوف کی عبارت جو نمبر (ب) پر تحذیر الناس صفحہ 28 کے حوالہ سے درج کی گئی ہے وہ نہایت واضح اور صاف ہے اور اس میں الفاظ ‘‘پیدا ہو’’ خاص طور پر اِس معزّز عدالت کی توجّہ کے قابل ہیں۔ ان الفاظ نے اِس احتمال کی گنجائش بالکل باقی نہیں رکھی کہ نزولِ مسیح کے عقیدہ کے پیشِ نظر ایسا لکھا گیا ہے کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا نہ تو خاتمیت کے منافی ہے اور نہ ہی عقیدۂ ختم نبوّت کے لئے باعثِ خطر۔ بشرطیکہ اس پیدا ہونے والے نبی کی نبوّت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت سے مستفاض ہو یعنی بِالعرض ہو، بالذّات نہ ہو۔ ہم حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اﷲ علیہ کے الفاظ‘‘اگر بِالفرض بعد زمانۂ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا’’ موجودہ دیوبندی علماء کے سامنے پیش کر کے اُن سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا آپ بھی یہی الفاظ کہنے کے لئے تیار ہیں اور کیا آپ کا بھی وہی خیال ہے جو مولانا محمد قاسم رحمۃ اﷲ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے؟
ہمیں یقین ہے کہ اُن کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا کیونکہ موجودہ غیر احمدی علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کوئی نبی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہو (خواہ وہ آپ کا غلام اور اُمّتی اور آپ کی پیروی کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔) تو اس کی آمد سے عقیدۂ ختمِ نبوّت کو سخت خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے مندرجہ بالا حوالہ جات محض یہ دکھانے کے لئے پیش کئے گئے ہیں کہ لفظ خاتَم النبیّٖن میں ‘‘ختمیّت’’ بمعنی تأخّرِزمانی مُراد نہیں لی گئی۔
باقی رہا یہ سوال کہ آیا مولانا محمد قاسم ؒ کے اپنے خیال میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد فِی الْواقع کوئی نبی آسکتا تھا یا نہیں؟ تو اس کی نہ یہاں کوئی بحث ہے اور نہ ہم نے ایسا کوئی خیال مولانا موصوف کی طرف منسوب کیا ہے۔ اِس جگہ تو ہماری بحث صرف لفظ ‘‘خاتَم’’ کی تشریح و تأویل کے بارہ میں ہے نہ کہ اجرائے نبوّت کے متعلق عقیدۂ حضرت مولانا محمد قاسم ؒ نانوتوی کے بارہ میں۔ اور مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ لفظ ‘‘خاتَم’’ کے جو معنی جماعت احمدیہ بیان کرتی ہے وہ نئے نہیں پہلے بزرگوں نے بھی کئے ہیں۔
پھر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے ایک نامور اور شُہرۂ آفاق معاصر حضرت مولانا عبدالحیٔ لکھنوی فرنگی محلی رحمۃ اﷲ علیہ کا بھی یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :۔
‘‘آنحضرتؐ کے عصر میں کوئی نبی صاحبِ شرع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوت آپ کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہو گا وہ متّبع شریعتِ محمدیہ کا ہو گا’’174
اِسی طرح حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی ؒ لکھنوی اپنے رسالہ دافع الوسواس میں لکھتے ہیں کہ :۔
‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں آنحضرت کے مجرّد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحبِ شرعِ جدید ہونا البتہ ممتنع ہے’’۔ 175
حضرت مولانا رومی ؒ جو ساتویں صدی ہجری کے قریباً آخر میں گزرے ہیں لکھتے ہیں ؎
مکر کُن در راہ نیکو خدمتے
تا نبوّت یا بی اندر اُمّتے176
یعنی تُو بنی نوع انسان کی خدمت اور بہتری کے لئے کوشش کرتاکہ اُمّت میں رہتے ہوئے نبوّت پاجائے۔
اسی طرح فرماتے ہیں:
چون بدا دی دست خود دردست پیر
پیر حکمت کو علیمست و خبیر
کو نبی وقت خویش ست اے مرید
زاں کہ زو نُورِ نبیؐ آید پدید177
جب تُو اپنا ہاتھ اپنے پیر کے ہاتھ میں دیتا ہے اِس لئے کہ وہ دینِ اسلام کو خوب جاننے والا اور سمجھنے والا ہے اور اس لئے کہ اے مُرید! وہ اپنے وقت کا نبی ہے تا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نور اُس کے ذریعہ سے ظاہر ہو۔
اس سے واضح ہے کہ مولانا رومی ؒ کے نزدیک بھی اِس اُمّت میں سے کمال درجہ پر پہنچنے والا انسان نبی کہلاتا ہے۔
(ج)پھر مولانا رومی ؒ نے اپنی مثنوی میں لفظ خاتم کے معنی بھی بیان کئے ہیں۔ فرماتے ہیں ؎
معنیٔ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِھِمْ
تاز را ہے خاتم پیغمبراں
ختم ہائے کانبیاء بگذاشتند
قفلہائے ناکشودہ ماندہ بود
او شفیع است ایں جہاں وآں جہاں
پیشہ اش اندر ظہور و در کمون
باز گشتہ از دمِ اوہر دو باب
بہر ایں خاتم شد است او کہ بجود
چونکہ در صنعت برد استاد دست
درکشادے ختم ہا تو خاتمی
ہست اشارات محمدؐ المراد
ایں شناس ، ایں است رہ رورا مہم
بوکہ بر خیزد زلب ختم گراں
آں بدینِ احمدی برداشتند
از کف إِنَّا فَتَحْنَا برکشود
ایں جہاں دردین و آں جہاں درجناں
اِھْدِ قَوْمِیْ اِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
در دو عالم دعوتِ اومستجاب
مثلِ اونے بود و نے خواہند بود
نی تو گوئی ختم صنعت بر تو ہست
درجہان رُوح بخشاں حاتمی
کل کشاد اندر کشاد اندر کشاد178
یعنی نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِہِمْ کے معنی سمجھنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ یہ راہ رَو کے لئے ایک مشکل ہے تاکہ لب ہلانے سے خاتم النبیّٖن کے رستے سے ایک بھاری ختم اُٹھ جائے۔ ایسے بہت سے ختم جو پہلے نبی باقی چھوڑ گئے تھے وہ دینِ محمدی میں اُٹھائے گئے۔ بہت سے تالے بند پڑے تھے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِنَّا فَتَحْنَا کے ہاتھ سے وہ سب کھول دیئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دونوں جہانوں کے شفیع ہیں اِس جہان میں دین کے اور اگلے جہان میں جنّت کے۔ ظاہر و باطن میں آپ کا وِرد یہی تھا کہ اے خدا! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ اُنہیں علم نہیں ہے۔ آپ کے فیض سے دونوں دروازے کھُل گئے اور دونوں جہانوں میں آپ کی دُعا مستجاب ہو گی۔ آپ ان معنوں میں خاتَم ہیں کہ فیض رسانی میں آپ کے برابر نہ کوئی پہلے ہؤا نہ کوئی آئندہ ہو گا۔ جس طرح جب کوئی استاد صنعت میں اپنا کمال دکھاتا ہے تو کیا تُو یہ نہیں کہتا کہ اے اُستاد ! تُجھ پر صنعت ختم ہے۔ اے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم! تُو ہر قسم کے ختموں کو کھولنے کی وجہ سے خاتم ہے اور رُوح پھُونکنے والوں میں تُو خاتم ہے۔ غرضیکہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صدا یہی ہے کہ تمام راستے کھلے ہیں اور کوئی بند نہیں ہے۔
حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:-
‘‘ کہ کوئی کمال براہ راست حاصل ہونے والی نبوّت کے سوا ختم نہیں ہؤا اور اﷲتعالیٰ جو تمام فیوض کا مبدا ہے اُس کے متعلق بخل اور دریغ کا خیال کرنا نا ممکن ہے’’۔179
حضرت امام ربّانی مجدّد الف ثانی ؒ جو گیارھویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں فرماتے ہیں:-
‘‘کمالاتِ نبوت اُمّتیوں کو تبعیت اور وراثت کے طریق پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ملنا آپ کی خاتمیت کے منافی نہیں ہے اور اس بات میں تُو ہر گز شک نہ کر’’۔ 180
خود احادیث سے بھی ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ شرح بخاری میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ میرے اور مسیح ابن مریم کے درمیان کوئی نبی نہیں علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘اس کے معنی یہ ہیں کہ میرے اور اُن کے درمیان کوئی شریعتِ مستقلہ والا نبی نہیں کیونکہ خود حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان جرجیس اور خالد بن سنان دو نبی گزرے ہیں’’۔ 181
قسطلانی شرح بخاری میں لکھا ہے کہ :-
‘‘رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا ہے کہ مَیں آخری اینٹ ہوں اور مَیں خاتم النبیّٖن ہوں۔ اس کے معنی ہیں مکمل شرائع الدین۔ مَیں دین کی شرائع کو مکمل کرنے والا ہوں’’۔ 182
اسی طرح قسطلانی شرح بخاری جلد 6 صفحہ 21 مطبوعہ مصر1304 ھ پر لکھا ہے:-
‘‘عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ختمِ نبوت کے منافی نہیں کیونکہ وہ آپ کے دین پر ہوں گے’’۔
پھر لکھتے ہیں:-
‘‘ کہ چونکہ وہ آپ کے اتباع میں سے ہوں گے اس لئے ان کا وجود ختم نبوّت کے مخالف نہیں ہو گا’’۔
شیعہ لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں کسی نبی کا آنا ختم نبوت کے خلاف نہیں۔ چنانچہ رسالہ غایۃ المقصود مصنّفہ علامہ علی حائری میں لکھا ہے کہ :-
‘‘هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ میں مہدی موعود کی پیشگوئی ہے اور رسول سے مراد مہدی موعود ہیں’’۔ 183
اِسی طرح تفسیر صافی میں بھی لکھا ہے کہ اِس آیت میں رسول سے مراد مہدی موعود ہیں۔ شیعہ صاحبان مہدی کو نہ صرف عام رسول قرار دیتے ہیں بلکہ اہم درجہ کا رسول قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ علامہ حائری لکھتے ہیں کہ :-
‘‘مہدی علیہ السلام کی افضلیت حضرت مسیح ناصری پر ثابت اور واضح ہے’’۔ 184
شیعوں کی کتاب اکمال الدین صفحہ 375پر لکھا ہے کہ:-
‘‘انبیاء اور اولیاء میں سے ہادیوں کے آنے کی بندش ہر گز جائز نہیں۔ جب تک انسان خدا کے حکموں کا مکلّف ہے یہ لوگ بھی آتے رہیں گے’’۔
اِسی طرح ایک حدیث میں جو شیعوں کی تفسیر القُمّی کے صفحہ٣٣ پر لکھی ہے آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے پانی کو لیا اور اُسے مخاطب کر کے کہا کہ مَیں تجھ سے نبی پیدا کرتا رہوں گا، رسول پیدا کرتا رہوں گا، صالحین پیدا کرتا رہوں گا، ہدایت دینے والے ائمہ پیدا کرتا رہوں گا اور جنّت کی طرف بُلانے والے پیدا کرتا رہوں گا اور قیامت تک ایسا ہی کرتا چلا جاؤں گا اور ہر گز کسی کے اعتراض کی پرواہ نہیں کروں گا۔ یعنی خدا نے جس دن دُنیا پیدا کی تھی اُسی دن اُس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ حافظ کفایت حسین صاحب اور شمسی صاحب کچھ کہتے رہیں، مَیں پھر بھی ارسالِ رُسُل اور ارسالِ مہدِیّین سے دست کش نہ ہوں گا۔
بحث کا خلاصہ
مذکورہ بالاآیات اور احادیث اور اقوالِ صلحاء و اولیاء سے مندرجہ ذیل باتیں روزِ روشن کی طرح ثابت ہیں۔
اوّل: قرآن کریم کی رُو سے ایک قسم کی نبوّت کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور اِس قسم کے انبیاء رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی آتے رہیں گے۔
دوم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ختمِ نبوّت کے مقام پر اپنی بعثت کے بعد فائز نہیں ہوئے بلکہ کائنات کی ابتداء میں ہی آپ کو مقامِ نبوّت عطا کیا گیا تھا اور جتنے نبی دُنیا میں آئے گو آپ کی پیدائش کے لحاظ سے وہ آپ سے پہلے گزرے ہیں لیکن ختمِ نبوّت کے لحاظ سے وہ ختمِ نبوّت کے بعد ہوئے ہیں۔
سوم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی جو نئی شریعت لانے والا ہو یا آپ کی اطاعت سے باہر ہو ظاہر نہیں ہو گا۔
چہارم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد باوجود ختمِ نبوّت کے اعلان کے مسلمانوں کے نزدیک نبی ظاہر ہو سکتا تھا جیسا کہ بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم اور بعض صلحاءِ اُمّت کا یہ خیال تھا کہ مسیحِ ناصری دوبارہ دُنیا میں آئیں گے اور نبی کی حیثیت میں آئیں گے۔
پنجم: آیت خاتم النبیّٖن کے معنی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور بہت سے صلحاء کے نزدیک قطعی طور پر یہ ہیں کہ ہر قسم کا بابِ نبوّت اس آیت سے مسدود نہیں۔
ششم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم معیّن صورت میں فرماتے ہیں کہ اس اُمّت میں سے کسی تابع نبی کا ہونا ناممکن نہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم ؑ کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔
ہفتم: صلحاءِ اُمّت میں سے بعض اکابر زمانۂ صحابہ سے لے کر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے زمانہ تک اِس بات کے قائل رہے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ایسے لوگ ظاہر ہوتے رہیں گے جو نبوتِ عامہ یعنی بغیر شریعت کے نبوّت پائیں گے۔
ہشتم: کئی اکابر علماءِ اُمّت خصوصاً دیو بندیوں اور اس زمانہ کے حنفیوں کے رہنما اِس بات کے قائل ہیں کہ گو اُمّتِ محمدیہ میں سے نبی کا آنا ثابت نہیں لیکن اگر کوئی اُمّت میں سے نبی آئے تو یہ ختمِ نبوّت کی آیت کے خلاف نہ ہو گا اور اسلام کے لئے کسی خرابی یا ذلّت کا موجب نہیں ہو گا۔
اَب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کا اختلاف صرف اِسی بات میں ہے کہ آیا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اُمّت میں سے ظاہر ہو سکتا ہے یا نہیں۔ درحقیقت جمہور مسلمان بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ایک سابق نبی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ظاہر ہو گا اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ اگر وہ نبی آیا تو وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے بھی نبی ہو گا اور آپ ؐ کے بعد بھی نبی ہو گا۔ اس لئے لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں بلکہ خاتم النّبیّٖن کہنا چاہئے۔ پس ختمِ نبوّت کے بعد کسی نبی کے آنے کے متعلق اختلاف نہیں بلکہ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ نبی باہر سے آئے گا یا اُمّت میں سے آئے گا۔ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ باہر سے آنے والا نبی یقیناً رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس طرح ممنون نہیں ہو گا جس طرح کہ وہ اُمّتی جو آپ کی فرمانبرداری سے مقامِ نبوّت پائے، آپ کا ممنون ہو سکتا ہے۔
پس احمدی جماعت کا عقیدہ اسلام کے عین مطابق اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان کو بڑھانے والا ہے۔ اور کم سے کم یہ ماننا پڑے گا کہ وہ اسلامی رُوح کے ہر گز خلاف نہیں کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے بعد کسی نہ کسی رنگ کے نبی کے آنے کا دروازہ تمام مسلمانوں کے نزدیک کھلا ہے۔
بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا ‘‘ختمِ نبوّت’’ پر ایمان
اب ہم بتاتے ہیں کہ
بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے
ختمِ نبوّت کے متعلق کس شدّت سے اظہار کیا ہے اور اگر اپنے متعلق نبی کا لفظ بولا ہے تو اِس میں کتنی احتیاط برتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘مَیں مفصّلہ ذیل اُمور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اِس خانۂ خدا مسجد میں کرتا ہوں کہ مَیں جناب خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوّت کا مُنکر ہو اُس کو بے دین اور دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں’’۔185
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘ہم اِس آیت پر سچّا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ’’۔186
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘عقیدہ کے رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے’’۔ 187
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اگر مَیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دُنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرفِ مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اَب بجز محمدی نبوّت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو’’۔188
‘‘ختمِ نبوّت’’ پر ایمان احمدی ہونے کی ایک شرط ہے
اِن حوالجات سے ظاہر ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ ختمِ نبوّت پر پورا ایمان رکھتے تھے اور ہرگز اِس کا انکار نہیں کرتے تھے۔ موجودہ
امام جماعت احمدیہ کا عقیدہ اس سے ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی خلافت کے شروع سے ختمِ نبوّت پر ایمان لانے کو اپنی شرائطِ بیعت میں شامل کیا ہے اور آپ کی بیعت کے فقروں میں سے ایک فقرہ یہ ہے کہ ‘‘ مَیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النبیّٖن یقین کروں گا’’۔ اِس بات کے بعد علماءِ کرام یہ تو حق رکھتے تھے کہ لوگوں سے یہ کہتے کہ احمدی یہی لکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النبیّٖن مانتے ہیں لیکن اِن کے دلوں میں یہ عقیدہ نہیں یہ جھوٹ بول کے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ مگر ان کا یہ حق نہیں تھا کہ وہ لوگوں سے یہ کہتے کہ احمدی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت پر ایمان کا اقرار نہیں کرتے۔ علماءِ کرام کا لوگوں کے سامنے یہ بات کہنا بتاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول کر فساد پیدا کرنا چاہتے تھے اور اُن کی تقریروں کی غرض مذہبی نہیں تھی کیونکہ مذہب جھوٹ کی اجازت نہیں دیتا۔ اُن کی اغراض محض پولیٹیکل تھیں اور وہ صرف اپنے مخالف کو زیر کرنا چاہتے تھے۔ اس سے اُن کو کوئی غرض نہیں تھی کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے کہ جھوٹ ہے۔ وہ انصاف کے مطابق ہے یا اس میں ظلم اور تعدّی سے کام لیا گیا ہے۔
بانیٔ سلسلہ احمدیہ کن معنوں میں نبی ہیں
بے شک بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے کہا ہے کہ مَیں ایک
رنگ میں نبی ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ مَیں رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے فیض سے اور آپ کی اُمّت میں سے ہو کر آیا ہوں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘کوئی شخص اس جگہ نبی ہونے کے لفظ سے دھوکا نہ کھاوے۔ مَیں بار بار لکھ چُکا ہوں کہ یہ وہ نبوّت نہیں ہے جو ایک مستقل نبوّت کہلاتی ہے۔ کوئی مستقل نبی اُمّتی نہیں کہلا سکتا مگر مَیں اُمّتی ہوں’’۔ 189
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اتباعِ کامل کی وجہ سے میرا نام اُمّتی ہؤا اور پورا عکسِ نبوّت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہو گیا۔ پس اِس طرح پر مجھے دو نام حاصل ہوئے’’۔ 190
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ نبی کے نام پر اکثر لوگ کیوں چِڑ جاتے ہیں۔ جس حالت میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمّت میں سے ہو گا۔ پھر اگر خدا تعالیٰ نے اس کا نام نبی رکھ دیا تو حرج کیا ہؤا۔ ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اسی کا نام اُمّتی بھی تو رکھا گیا ہے اور اُمّتیوں کی تمام صفات اس میں رکھی گئی ہیں۔ پس یہ مرکّب نام ایک الگ نام ہے اور کبھی حضرت عیسٰیؑ اسرائیلی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے اور مجھے خدا تعالیٰ نے میری وحی میں بار بار اُمّتی کر کے بھی پُکارا ہے اور نبی کر کے بھی پُکارا ہے اور اِن دونوں ناموں کے سُننے سے میرے دِل میں نہایت لذّت پیدا ہوتی ہے اور مَیں شُکر کرتا ہوں کہ اِس مُرکّب نام سے مجھے عزّت دی گئی۔ اوراس مرکّب نام کے رکھنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم عیسٰی بن مریم کو خدا بناتے ہو مگر ہمارانبی صلی اﷲ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اُس کی اُمّت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ اُمّتی ہے’’۔ 191
پھر اِس نبوّت کی تعریف فرماتے ہوئے جس کا دعویٰ آپ نے کیا ہے تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘میری مُراد نبوّت سے یہ نہیں ہے کہ مَیں نعوذ باﷲآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابل پرکھڑا ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مُراد میری نبوّت سے کثرتِ مکالمت و مخاطبتِ الٰہیہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے۔ سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی۔ یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں۔ مَیں اُس کی کثرت کا نام بموجب حکمِ الٰہی نبوّت رکھتا ہوں۔ وَلِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ’’۔192
اِسی طرح اپنی وفات سے صرف تین مہینے پہلے آپ نے فرمایا:-
‘‘اصل یہ نزاع لفظی ہے۔ خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ و مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ پس ہم نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوّت تشریعی نہیں جو کتاب اﷲ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے ایسے دعویٰ کو تو ہم کُفر سمجھتے ہیں’’۔ 193
آپ نے یہ جو تعریف فرمائی ہے وہ قرآن کریم میں بھی آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا۔اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ ۔194 یعنی اﷲ تعالیٰ ہی علمِ غیب جاننے والا ہے اور وہ غیب کی خبریں کثرت سے کسی شخص کو نہیں دیتا سوائے ان کے جن کو اپنا رسول بنانے کے لئے پسند کر لیتا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں:-
‘‘جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں۔ مَیں اُس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول ہوں۔ ہاں مَیں اِس طور سے نبی اور رسول ہوں جس طور سے ابھی مَیں نے بیان کیا ہے۔ پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ ٔ نبوّت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے۔ مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اِسی بناء پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہؤا۔ پس نبوّت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد ؐ کی چیز محمدؐ کے پاس ہی رہی۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام’’۔195
لفظ نبی کے بکثرت استعمال میں احتیاط
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لفظ کے استعمال میں تو
اس قدر احتیاط برتی ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ عام بول چال میں میری نسبت نبی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لُغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزمِ کُفر نہیں۔ مگر مَیں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اِس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے’’۔196
ہماری جماعت کے موجودہ امام نے بھی نبوّت کی یہی تعریف کی ہے۔ چنانچہ آپ اپنی کتاب ‘‘حقیقۃ النبوۃ’’ میں تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘یہ سب جھگڑا جو نبوّت کے متعلق پیدا ہؤا ہے وہ صرف نبوّت کی دو مختلف تعریفوں کے باعث ہے۔ ہمارا مخالف گروہ نبی کی اَور تعریف کرتا ہے اور ہم اَور تعریف کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک نبی کی تعریف یہ ہے کہ (1) وہ کثرت سے امورِ غیبیہ پر اطلاع پائے۔ (2)وہ غیب کی خبریں انذار و تبشیر کا پہلو اپنے اندر رکھتی ہوں (3)خداتعالیٰ اُس شخص کا نام نبی رکھے۔ جن لوگوں میں یہ تینوں باتیں پائی جائیں، وہ ہمارے نزدیک نبی ہوں گے’’۔ 197
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘بعض لوگ ان تین شرائط کے پائے جانے کا نام نبوّت نہیں رکھتے اور ان کے علاوہ اَور شرائط مقرر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کے لئے یاتو شریعتِ جدیدہ لانا ضروری ہے یا بلا واسطہ نبوّت پانا۔ اور اگر ان دونوں شرائط کے علاوہ کوئی اور شرط بھی لگاتے ہوں تو اس کا مجھے علم نہیں۔ اور چونکہ یہ شرائط حضرتِ مسیح موعود میں نہیں پائی جاتیں، اس لئے ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود ؑ نبی نہیں بلکہ صرف محدّث ہیں۔ اور ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر نبوّت کی تعریف یہی ہے تو بیشک حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے اور جن کے نزدیک یہ تعریف درست ہے اگر وہ مسیح موعود کو نبی کہیں تو یہ ایک خطرناک گناہ ہے کیونکہ شریعتِ جدیدہ کا آنا قرآن کریم کے بعد ممتنع ہے اور بِلا واسطہ نبوّت کا دروازہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد مسدود ہے’’۔ 198
انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے عام بول چال میں نبی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ جب ایک شخص نے آپ سے یہ سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو عام بول چال میں اس لفظ کا استعمال منع فرمایا ہے اور آجکل اس لفظ پر خاص زور دیا جارہا ہے تو اُنہوں نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ:-
‘‘نبوّت کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سب احمدی حضرت مسیح موعود کو نبی ظلّی ہی مانتے ہیں لیکن چونکہ حضرت صاحب کے درجہ کو اِس وقت بہت گھٹا کر لکھا جاتا ہے، اس لئے مصلحتِ وقت مجبور کرتی ہے کہ آپ کے اصل درجہ سے جماعت کو آگاہ کیا جاوے، ورنہ اِس طرح کے لفظِ نبی کے استعمال کو مَیں خود بھی پسند نہیں کرتا۔ نہ اس لئے کہ آپ نبی نہ تھے بلکہ اس لئے کہ ایسا نہ ہو کچھ مدّت بعد بعض لوگ اِس سے نبوتِ مستقلہ کا مفہوم نکال لیں ۔ مگر یہ صرف چند روزہ بات ہے اور بطور علاج کے ہے کیونکہ اِس وقت بہت سے احمدی حضرت مسیح موعود ؑ کے درجہ سے ناواقف ہیں اور اخبار میں یہ بھی بار بار لکھ دیا جاتا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے کے لئے آئے تھے’’۔ 199
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اِن علماء کی خاطر یا دوسرے مسلمانوں کی خاطر یہ لفظ زیرِبحث نہیں آتا رہا بلکہ احمدی جماعت کے ایک حصّہ نے جب اس لفظ کو کُلّی طور پر ترک کرنے پر زور دیا اور اس طرح جماعت کی تنظیم میں تفرقہ پیدا کرنا چاہا تو موجودہ امام جماعت کو اس مسئلہ پر تفصیلاً بحث کرنی پڑی۔ اِسی وجہ سے وہ یہ لکھتے ہیں کہ اِس وقت اس لفظ پر مصلحتاً زور دیا جاتا ہے۔ یعنی عام حالات میں اس لفظ پر زور دینے کی ہمارے لئے کوئی وجہ نہیں مگر چونکہ اِس وقت خود جماعت کا ایک حصّہ اس کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے اور جماعت کے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اس لئے ہم اس مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں۔ گویا یہ تمام بحثیں نہ تو مسلمانوں کے چِڑانے کے لئے تھیں نہ ان کے لئے تھیں صرف جماعت احمدیہ کے ایک حصّہ کے فتنہ کو دُور کرنے کے لئے جس سے جماعت میں کمزوری پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتاتھا اِس بحث کو چھیڑا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف مواقع پر موجودہ امام جماعت نے اِس کی تشریح کی ہے کہ نبوّت کے لفظ سے اس سے زیادہ کچھ بھی مراد نہیں ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کثرت سے الہام ہوتے تھے اور خدا تعالیٰ کے الہاموں میں ان کا نام نبی آتا تھا۔ ورنہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابل پر ان کو کوئی مقام بھی حاصل نہیں۔
امام جماعت احمدیہ کے ایک اور حوالہ سے بھی ثابت ہے کہ وہ اُمّتِ محمدیہ کا اصل نبی حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ آپ کا ایک اعلان الفضل20مئی 1950ء میں شائع ہؤا ہے کہ کسی شخص نے آپ کو توجّہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے متعلق خاندانِ نبوّت کا لفظ اخبار میں لکھا جاتا ہے، یہ نہیں چاہئے۔ اِس تسلسل میں آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘متواتر خط و کتابت میں اِن صاحب نے ایک بات لکھی جس نے میری طبیعت پر اثر کیا اور وہ بات یہ تھی کہ خاندانِ نبوّت سے یہ دھوکا لگتا ہے کہ شاید یہی ایک خاندانِ نبوت ہے۔ اور مَیں نے سمجھا کہ اس قسم کا دھوکا ضرور پیدا ہو جاتا ہے اس لئے اس لفظ کا استعمال ٹھیک نہیں۔ اصل نبوّت تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و اٰلہٖ وسلم کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت تو ظلّی ہے۔ پس اصل ‘‘خاندانِ نبوّت’’ تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاندان ہے جس نے اپنی قُربانیوں سے اور اپنے ایثار سے اور اپنی خدمتِ اسلام سے یہ ثابت کر دیا کہ اُن کے دل میں جو اِس فضل اور احسان کی بہت بڑی قدر ہے جو خدا تعالیٰ نے انہیں محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں پیدا کر کے کیاہے۔پس ایسا کوئی لفظ جس سے یہ شُبہ پیدا ہو جائے کہ کسی اَور خاندان کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاندان کے علاوہ کوئی امتیاز دیا جاتا ہے تو خواہ وہ نادانستہ ہی ہو پسندیدہ نہیں۔ اس لئے مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ ‘‘الفضل’’ میں اور دوسری احمدی تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو خاندانِ نبوّت کی بجائے خاندانِ مسیح موعود لکھا جایا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جتنے دعاوی ہیں وہ سارے کے سارے مسیح موعود کے لفظ میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ یہی نام آپ کا حاوی نام ہے۔ پس خاندانِ مسیح موعود ؑ کہنے سے وہ تمام باتیں اس خاندان کی طرف منسوب ہو جاتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے ان کی طرف منسوب ہو سکتی ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان اپنے عمل سے اپنے آپ کو اُس مقام کا اہل ثابت کرے جو مقام خدا تعالیٰ نے ان کو بخشا ہے۔ اگر ان میں سے ہی بعض دُنیا کے کاموں میں لگ جائیں اور روٹی انہیں خداتعالیٰ پر مقدم ہو تو انہیں خاندانِ نبوّت کہا جائے یا خانوادۂ الوہیت کہا جائے بلکہ خواہ خدا ہی کہہ دیا جائے ہر تعریف اُن کے لئے ہتک کا ہی موجب ہو گی کسی عزّت کا موجب نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کی تعریف کرنے والے لوگ ان کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ سے پِھرانا چاہتے ہیں’’۔ 200
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک بھی لفظِ نبی کا ایسا استعمال جس سے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے توجّہ ہٹتی ہو احمدی جماعت کے لئے جائز نہیں۔ پس اِس بارہ میں جن خیالات کا بھی اظہار ہؤا ہے محض اپنی جماعت کے ایک کمزور حصّہ کی اصلاح کے لئے ہؤا ہے اور ہر گز دوسرے فرقۂ اسلام کو مدّ نظر رکھ کر اس لفظ پر زور نہیں دیا گیا۔ جہاں جہاں بھی یہ بات بحث میں آئی ہے یا تو کسی معترض کے جواب میں آئی ہے یا اپنی جماعت کے کمزور لوگوں کی اصلاح کے لئے آئی ہے۔ اور اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ احمدی جماعت کسی مستقل نبوّت کی قائل نہیں بلکہ وہ اس اُمّت کا نبی محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو ہی سمجھتے ہیں اور قیامت تک انہیں کی نبوّت کو جاری سمجھتے ہیں۔
آخر میں ہم ایک حوالہ سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کا درج کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نبوّت کے متعلق خواہ کوئی بھی اختلاف کیا جائے بہرحال احرار اور اُن کے ساتھیوں نے یہ سوال مذہب کی وجہ سے نہیں اُٹھایا بلکہ سیاست کی وجہ سے اُٹھایا ہے۔ چنانچہ سیّدعطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری نے اپنی ایک تقریر میں بیان کیا:-
‘‘یہ الگ بات ہے کہ سچا تھا، یا جھوٹا۔ یہ تو چیز ہی بالکل بے معنی ہے۔ فرض کر لو اگر وہ سچا ہوتا اور نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم مان لیتے؟’’201
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب کی مخالفت مذہبی نہیں تھی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب سچے بھی ہوتے تو بھی ہم اُن کو مان نہیں سکتے تھے۔ جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ بنتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کے ماننے کا خدا بھی حکم دیتا تو بھی ہم نہ مانتے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ یہ مذہبی مخالفت نہیں۔ اگر مذہبی مخالفت ہوتی تو خدا اور اُس کے رسول کی تائید میں ہوتی۔ عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری فرماتے ہیں ‘‘ کہ خدا بھی کہے تو ہم نہیں مانیں گے’’جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے سیاسی فوائد اُن کے نہ ماننے میں ہیں۔ اس لئے ہم مذہب کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے۔
دوسرا حوالہ بھی سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کا ہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:-
‘‘اگر نبی ہی ماننا ہے تو خدا کی قسم! جناح کو نبی مان لو۔ اگر اُسے نہیں ماننا تو مجھے ہی مان لو۔ ارے! کوئی آدمی تو ہو ..... اگر مسلمانو! تم تیرہ سَو سال کی نبوّت سے تنگ آگئے ہو تو قائداعظم ہی کو نبی مان لو’’۔202
اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ ایمان کو سیاست کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے ایمان کو سچائی اور مذہب کا ذریعہ نہیں قرار دیا جاتا۔ اور بہ تکرار یہ کہنے والا مذہبی آدمی کبھی نہیں کہلا سکتا، سیاسی آدمی کہلا سکتا ہے۔
ایک تیسرا حوالہ بھی بتاتا ہے کہ یہ محض سیاسی جوش تھا۔ یہ بھی سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کا حوالہ ہے۔ اس کے لئے ہم ایک اشتہار کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کرتے ہیں:-
‘‘میرا مجلس احرار سے کوئی تعلق نہیں۔ مَیں مجلسِ احرار کا دو آنہ کا ممبر بھی نہیں ہوں۔ مَیں پکّا مُسلم لیگی ہوں۔ مسلم لیگ اور پاکستان کا سچا وفادار ہوں۔ مَیں ممتاز صاحب دولتانہ کو اِس لئے اپنا لیڈر جانتا ہوں کہ وہ ایک تو صوبہ مسلم لیگ کے صدر ہیں اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اگر دولتانہ صاحب کہہ دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوّت پر ایمان لے آؤ تو مَیں اُس پر ایمان لے آؤں گا اور مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفۃ المسیح مان لوں گا’’۔203
سوال نمبر 3 متعلق دعویٰ ٔ مسیحیت و متعلقہ اُمور
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شُبہ نہیں۔ حضرت مرزا صاحب بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اِسی سے لازم آتا ہے کہ مسیح ناصری کو وفات یافتہ سمجھا جائے لیکن اس دعویٰ سے مسلمانوں کی کوئی دل شکنی نہیں ہوتی۔ نہ عیسائیوں کی کوئی دل شکنی ہوتی ہے۔ عیسائی تو مسیح ناصری کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی اُن کی اس دعویٰ سے دل شکنی نہیں ہوتی۔ بہت سے عیسائی ممالک میں احمدی مشنری ہیں اور وہ احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ان ممالک کے لوگ عیسائیت کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ کروڑوں کروڑ روپیہ مسلمانوں میں تبلیغ کے لئے چندہ دیتے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ عیسائیت کی محبت اور اُس پر ایمان اُن کے دلوں میں موجود ہے مگر پھر بھی وہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیح موعود سے نہیں چِڑتے اور انہیں غصّہ نہیں آتا۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ انسانی اخلاق کی قیمت کو سمجھتے ہیں۔ ہمارے علماء انسانی اخلاق اور حُریتِ ضمیر کی قیمت نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے تنگ مذاہب کے باوجود وسعتِ حوصلہ رکھتے ہیں لیکن یہ علماء اسلام کی وسیع اور پُر محبت تعلیم کے باوجود اپنے اندر وسعتِ حوصلہ نہیں رکھتے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ کوئی بُری بات نہیں۔ اگر اس اُمّت میں سے کسی کو مسیح موعود ہونا تھا تو یہ دعویٰ حضرت مرزاصاحب کریں یا کوئی اور اِس میں چڑنے کی کوئی بات نہیں۔ صرف یہ دیکھا جائے گا کہ مُدعی سچا ہے یا جھوٹا۔ باقی رہا یہ سوال کہ تمام مسلمان مسیح کو زندہ سمجھتے ہیں اور اُسی مسیح کی آمد کے قائل ہیں، یہ درست نہیں۔ مسلمانوں میں سب سے پہلا اجماع اِسی بات پر ہؤا تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں جن میں مسیح بھی شامل ہیں۔ چنانچہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر جب مسلمان گھبرا گئے اور یہ صدمہ اُن کے لئے ناقابلِ برداشت ہو گیا تو حضرت عمر ؓ نے اسی گھبراہٹ میں تلوار کھینچ لی اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں تو مَیں اُس کی گردن کاٹ دُوں گا۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ حضرت موسیٰ کی طرح خدا سے ملنے گئے ہیں اور پھر واپس آئیں گے اور منافقوں کو ختم کریں گے پھر وفات پائیں گے۔204 گویا اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ منافق جب تک ختم نہ ہوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فوت نہیں ہو سکتے اور چونکہ منافق آپ کی وفات تک موجود تھے اِس لئے وہ سمجھے کہ آپ فوت نہیں ہوئے ہیں۔ حضرت ابو بکر ؓ جو اُس وقت مدینہ کے پاس باہر ایک گاؤں میں گئے ہوئے تھے تشریف لائے۔ وہ سیدھے گھر میں گئے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا جسم مبارک دیکھا اور معلوم کیا کہ آپ واقع میں وفات پا چکے ہیں۔ اِس پر آپ باہر تشریف لائے اور یہ کہتے ہوئے آئے کہ اﷲ تعالیٰ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو موتیں نہیں دے گا۔ یعنی ایک موت جسمانی دوسری موت رُوحانی کہ آپ کی وفات کے ساتھ ہی مسلمان بگڑ جائیں۔ پھر آپ سیدھے صحابہ ؓ کے اجتماع میں گئے اور لوگوں سے کہا کہ مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر ؓتلوار لئے کھڑے تھے اور یہ اِرادہ کر کے کھڑے تھے کہ اگر کسی نے محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اعلان کیا تو مَیں اُس کو قتل کر دوں گا۔ حضرت ابو بکر ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا۔ اے لوگو! ‘‘مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ ﷲ فَإِنَّ اللہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ’’۔ جو شخص محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ سُن لے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اور جو کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو جائے کہ اﷲ تعالیٰ زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہو گا۔
پھر فرمایا وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم صرف اﷲ تعالیٰ کے ایک رسول تھے اور آپ سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں سب فوت ہو چکے ہیں۔ پھر آپ کیوں نہ فوت ہوں گے۔ اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور اسلام کو چھوڑ دو گے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب قرآنِ کریم کی آیت حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے پڑھی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے اور مجھ پر ظاہر ہو گیا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور میرے پاؤں کانپ گئے اور مَیں زمین پر گِر گیا۔ 205
یہ ایک ہی اجماع صحابہ ؓ کا ہے۔ کیونکہ اُس وقت سارے صحابہ ؓ موجود تھے اور درحقیقت ایسا وقت مسلمانوں پر پہلے کبھی نہیں آیا کیونکہ پھر کبھی مسلمان اِس طرح جمع نہیں ہوئے۔ اِس اجتماع میں حضرت ابو بکر ؓ نے یہ آیت پڑھی کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صرف اﷲ تعالیٰ کے ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے جس قدر اﷲتعالیٰ کے رسول آئے ہیں وہ سب کے سب فوت ہو چکے ہیں۔ پس آپ کا فوت ہونا بھی کوئی قابلِ تعجب بات نہیں اور سارے کے سارے صحابہ ؓ نے آپ کے ساتھ اتفاق کیا۔ حضرت عمر ؓ جو پہلے مخالف تھے اِس آیت کو سُن کر وہ بھی موافق ہو گئے۔ اگر واقع میں مسلمانوں کے نزدیک حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود تھے تو حضرت عمر ؓ نے یہ کیوں نہ کہا کہ اَے ابو بکر ؓ آپ کیوں غلط بیانی کرتے ہیں؟ قرآن سے تو ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں پھر محمد رسول اﷲ کس طرح فوت ہو سکتے ہیں۔ مگر حضرت عمر ؓ نے تو غم کی حالت میں حضرت عیسیٰ کا نام بھی نہیں لیا حضرت موسیٰ ؑ کے خدا کے پاس جانے کا ذکر کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے کان میں یہ بات کبھی نہیں پڑی تھی کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ ہیں۔ نہ غلط طور پر نہ صحیح طور پر۔ بعض روایتوں میں حضرت موسیٰ ؑ کی بجائے حضرت عیسیٰ ؑ کا نام آتا ہے۔ اگر یہ روایتیں بھی درست تسلیم کر لی جائیں تب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہے۔ قرآنِ کریم میں متعدد دیگر آیات بھی ہیں جو حضرتِ عیسیٰ ؑ کی وفات پر دلالت کرتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ 206 اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دُوں گا اور پھر تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تجھے کفّار کے اُن سارے اعتراضات سے بچاؤں گا جو وہ تجھ پر کرتے ہیں اور تیری جماعت کو قیامت تک دوسرے لوگوں پر غلبہ دُوں گا۔ اِس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے وفات کا ذکر کیا ہے اور پھر رفع کا ذکر کیا ہے اور وفات کے بعد رفع تو سب مومنوں کا ہؤا کرتاہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی اُمّت کے لوگوں کو دُعا سکھاتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ ارْفَعْنِیْ۔ اے اﷲ تُو مجھے اُونچا کر۔ 207
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب مومن مَر جاتا ہے تو اُس کی رُوح کو اُٹھا کر فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں۔ 208
کہا جاتا ہے کہ توفّی کے معنی قبضِ رُوح کے نہیں لیکن ہماری طرف سے ایک لمبے عرصہ سے یہ چیلنج دیا جارہا ہے اور آج پھر ہم اِس چیلنج کو دُہراتے ہیں۔ کوئی شخص یہ ثابت کر دے کہ اﷲ تعالیٰ فاعل ہو، ذی رُوح مفعول ہو اور توفّی کے معنی قبضِ رُوح کے سوا کچھ اور ہوں تو بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اِس کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام تو رکھا تھا مگر آج تک کسی لغت میں سے ایسا حوالہ نکال کر کوئی مولوی صاحب یہ انعام نہیں لے سکے ہیں۔ ہم اِس وقت پھر اِس چیلنج کو دُہراتے ہیں۔ یہ علماء بیٹھے ہیں۔ یہ اب بھی کسی لُغت میں سے یا کسی مشہور شاعر اور ادیب کے کلام میں سے کوئی ایسا حوالہ نکال کر دکھادیں۔
بعض دفعہ یہ علماء علم کی کمی کی وجہ سے قرآن کریم کی بعض آیتیں (ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ 209 وغیرہ)پیش کر دیتے ہیں کہ ان میں قبضِ رُوح کے معنی نہیں ہیں۔ حالانکہ اُن آیتوں کے الفاظ بابِ تفعّل میں سے نہیں بلکہ بابِ تفعیل میں سے ہوتے ہیں اور عربی زبان میں اکثر بابوں کی تبدیلی سے معنی بدل جاتے ہیں۔ اسی طرح سورۂ مائدہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ١ۗ بِحَقٍّ١ؐؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۔مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِيْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ۔ 210 یعنی یاد کرو جب اﷲ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم سے کہے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اﷲ کے سوا دو معبود بنا لو۔ اِس پر عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ آپ پاک ہیں، میرا کیا حق تھا کہ مَیں وہ بات کہتا جس کا مجھے حق نہ تھا۔ اگر مَیں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کو اس کا علم ہوتا۔ آپ میرے دل کی بات جانتے ہیں مگر مَیں آپ کی بات کا پس منظر نہیں جانتا۔ آپ تو سب غیبوں کو جاننے والے ہیں۔ مَیں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ ہے اَور تمہارا بھی ربّ ہے اور جب تک مَیں اُن میں رہا اُن پر گواہ تھا پھر جب آپ نے مجھے وفات دی تو پھر آپ ہی اُن پر نگران تھے مَیں نہ تھا اور آپ ہر چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
اِس آیت میں حضرت مسیح کا صاف طور پر یہ فرمانا موجود ہے کہ میری وفات تک عیسائی نہیں بگڑے لیکن اب بگڑے ہوئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ اگر یہ کہا جاوے کہ یہ گفتگو قیامت کے دن ہو گی تو پھر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی وفات کے بعد عیسائی بگڑیں گے۔ اگر یہ گفتگو قیامت کے دن ہو تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی واپسی تک عیسائی نہیں بگڑے تھے بلکہ اُن کی وفات کے بعد بگڑے۔ حالانکہ مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ اُتریں گے تو عیسائی بگڑ چکے ہوں گے اور وہ سب کفّار کا خاتمہ کریں گے اور توحید کو قائم کریں گے یا سب کو مسلمان بنا لیں گے۔ پس خواہ یہ گفتگو کسی پہلے زمانہ کی طرف منسوب کی جائے یا قیامت کی طرف اِس سے بہرحال اُن کی وفات ثابت ہے۔ پھر اگر یہ گفتگو قیامت ہی کے دن کی مانی جائے تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہو گی کہ حضرت عیسیٰ ؑ اِس دُنیا میں آئیں گے، عیسائیوں کو سمجھائیں گے، توحید کی طرف لائیں گے اور اسلام کو قائم فرمائیں گے لیکن پھر بھی قیامت کے دن اُن سے یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا تُو نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی تھی اور اُن سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو۔ اُن کی اِس عظیم خدمت کے بعد یہ سوال کیا جانا کتنا حیران کُن ہے اور اگر ایسا ہو تو کیا اِس کا یہ جواب نہیں ہونا چاہئے کہ اے اﷲ! مَیں نے تو اپنی قوم کو مارا، اُن کے شرک کو دُور کیا اور توحید دُنیا میں قائم کی۔ پھر بھی مجھ پر یہ الزام ہے کہ گویا مَیں نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی۔ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے رفع و نزولِ جسمانی کا عقیدہ صحیح ہونے کی حالت میں تو ان کی طرف سے یہی جواب ہونا چاہئے مگر اس جواب کا تو کوئی ذکر نہیں بلکہ بر خلاف اس کے قرآن شریف بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح ؑ قیامت کے دن یہ جواب دیں گے کہ جب تک مَیں اُن میں موجود رہا وہ توحید پر قائم رہے، جب مَیں فوت ہو گیا تو پھر مجھے معلوم نہیں کہ اُنہوں نے کیا کِیا۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس آیت کے وہی معنی کرتے ہیں جو ہم نے کئے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میرے کچھ اَ تْباع کو فرشتے سزا کے لئے لے جاویں گے اور مَیں اِس پر فریاد کروں گا کہ یہ تو میرے اَ تْباع ہیں۔ اِس پر مجھ سے کہا جائے گا کہ تجھے کیا خبر کہ تیرے بعد اُنہوں نے کیا کِیا۔ فَأَ قُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَھِیْدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔211 کہ جس طرح خدا کے نیک بندے یعنی حضرت عیسیٰ ؑنے کہا ہے مَیں بھی کہوں گا کہ مَیں اپنی زندگی میں اپنی قوم پر گواہ تھا جب آپ نے مجھے وفات دی تو پھر آپ ہی اُن پر نگران تھے۔ بخاری کی اس حدیث سے یہ امور ظاہر ہیں۔
(1) یہ سوال بعثتِ نبوی ؐ سے پہلے ہو چُکا تھا۔ کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح عیسیٰ ؑ کہہ چکے ہیں اِسی طرح میں بھی کہوں گا۔
(2) مسیحی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے بگڑ چکے تھے اور اس سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑکی وفات ہو چکی تھی۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ کے جواب میں اپنے وفات پانے اور مسیحیوں کے بگڑ جانے کا اقرار ہے۔
(3) توفّی کے معنے یقیناً اِس جگہ موت کے ہی ہیں کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت مسیح ناصری ؑ کا حوالہ دے کر اپنی نسبت توفّی کا لفظ استعمال فرماتے ہیں اور آپ ؐ کی وفات کے متعلق کوئی دو رائیں مسلمانوں میں نہیں ہیں۔
بعض لوگ غلطی سے توفّی کے معنی وفات کے سوا کچھ اور کرناچاہتے ہیں۔ ایک حصّہ کا جواب ہم دے چکے ہیں دوسرا حصّہ اب بیان کریں گے اور وہ یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک اس لفظ کے معنی وفات کے سوا اور کچھ نہیں۔ چنانچہ اس کے لئے ہم جامعہ از ہر کے ایک بہت بڑے عالم علّامہ محمود شلتوت کا فتویٰ پیش کرتے ہیں جس میں اُنہوں نے وضاحت سے اس بات کااقرار کیا ہے کہ عربی زبان بولنے والے توفّی کے معنی موت کے سوا اور کچھ نہیں کرتے۔ آپ اپنے شائع شُدہ فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ تَوَفَّیْتَنِیْ کا لفظ جو آیتِ قرآنیہ میں حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت استعمال ہؤا ہے۔ اِس کا حق ہے کہ ہم اس کے وہی معنی کریں جو عربوں کے ذہن میں فوراً آتے ہیں اور وہ طبعی مَوت کے ہیں جسے سب لوگ جانتے ہیں اور جو تمام عربی زبان بولنے والے اِس لفظ اور اِس کے استعمال سے سمجھتے ہیں اور اگر اس آیت میں اپنی طرف سے کوئی اَور بات نہ ملائی جائے تو اس قول کو ہر گز صحیح نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت عیسیٰ ؑزندہ ہیں، فوت نہیں ہوئے۔ 212 ہم اس فتوے کی ایک مطبوعہ نقل معہ ترجمہ کے پیش کرتے ہیں ۔ اصل مصری فتویٰ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مادری زبان عربی رکھنے والا جامعہ ازہر کا ایک ممتاز پروفیسر تو یہ کہتا ہے کہ اس لفظ کے معنی مَوت کے سوا کچھ نہیں لیکن ہمارے علماء جو عربی زبان کے دو فقرے بھی بولنے کی طاقت نہیں رکھتے پاکستان میں بیٹھ کر یہ کہتے ہیں کہ توفّٰی کے معنی یہاں پر کچھ اَور ہیں۔
صحابہ ؓ نے بھی توفّی کے معنی مَوت کے ہی کئے ہیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ مُتَوَفِّیْکَ کے معنی مُمِیْتُکَ کے ہیں۔ 213 اور امام مالک کا بھی قول ہے کہ مَاتَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ۔ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم فوت ہو گئے ہیں۔ 214
اِسی طرح علّامہ ابن حزم کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ وفات پا چکے ہیں۔215
معراج کی حدیث میں بھی ذکر آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے معراج کی رات تمام وفات یافتہ انبیاء کے ساتھ حضرت عیسیٰؑ کو بھی دیکھا۔ 216 پھر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پچھلے مسیح کا بھی حُلیہ بیان کیا ہے اور آنے والے مسیح کا بھی حُلیہ بیان کیا ہے اور دونوں حُلیوں میں اختلاف ہے۔ پہلے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ فَاَمَّا عِیْسٰی فَأَحْمَرُجَعْدٌ۔ 217 یعنی مسیح ابن مریم کا رنگ سُرخ تھا اور اُن کے بال گھنگھر والے تھے۔اور آنے والے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعْرِ۔218 اُس کا رنگ گندم گوں ہو گا اور اُس کے بال سیدھے ہوں گے۔
اِس سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک ایک مثیلِ مسیح آنے والا ہے۔ پہلا مسیح فوت ہو چُکا ہے اور اُس کے رنگ اور اخلاق اور کمالات کو لے کر ایک دُوسرا شخص اس اُمّت میں پیدا ہو گا۔
چونکہ مسیح کی آمد کا عقیدہ متواتر احادیث میں بیان کیا گیا ہے اور قرآنِ کریم میں بھی اِس کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ۔219
جب مسیح ابن مریم کا ذکر تمثیلی طور پر کیا جاتا ہے تو تیری قوم بُرا مناتی ہے۔ اِس میں اِسی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں میں مسیح کی دوبارہ آمد تمثیلی طور پر بیان کی جاتی تھی اور کُفّار اِس پر چِڑتے تھے کہ مسیح کو تو اتنی اہمیت دے دی کہ کہا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ آئے گا اور ہمارے معبودوں کو جھوٹا کہا جاتا ہے اور چونکہ ابنِ عباس ؓ اور امام مالکؓ کا قول ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ فوت ہو چکے ہیں اس لئے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمّت میں سے ہو گا اور یہ صرف ہمارا قیاس ہی نہیں بلکہ اِس کا ثبوت تاریخ سے بھی ملتا ہے۔ چنانچہ خریدۃ العجائب جو سراج الدین ابی حفص عمرو بن الوردی کی کتاب ہے اور جس کے متعلق علّامہ احمد بن مصطفٰی المعروف بطاش کُبریٰ زادہ نے جو جیو گریفی کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے اپنی کتاب مفتاح السعادہ جلد اوّل صفحہ 322 پر لکھا ہے:
‘‘کہ یہ کتاب علّامہ قزوینی کی کتاب عجائب المخلوقات سے بھی زیادہ اچھی ہے’’۔
اِس کتاب کے صفحہ 214 پر لکھا ہے کہ :-
‘‘قرآن کریم میں جو یہ ذکر ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اُٹھا لیا اِس بارہ میں مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر تو یہ کہتے ہیں اور اُنہی کی بات زیادہ سچی ہے کہ عیسٰی علیہ السلام بعینہٖ دوبارہ آئیں گے لیکن ایک اور جماعت مسلمانوں کی یہ کہتی ہے کہ عیسیٰ ؑ کے نزول سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا شخص ظاہر ہو گا جو حضرت عیسیٰ ؑ سے اپنی بزرگی اور اپنے کمالات میں مشابہہ ہو گا۔ جس طرح کہ ایک نیک آدمی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ ہے اور شریر آدمی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ شیطان ہے۔ اِن دونوں کو بطور تمثیل کے یہ نام دیئے جاتے ہیں اور یہ مراد نہیں ہوتی کہ سچ مچ شیطان آگیا یا فرشتہ آ گیا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ایک تیسرا گروہ بھی مسلمانوں میں ہے جن کا یہ خیال ہے کہ اس پیشگوئی سے یہ مراد نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑدوبارہ دُنیا میں آئیں گے بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ نامی کوئی شخص رسولِ کریم ؐ کی اُمّت میں سے ہو گا۔ اس میں مسیح کی رُوح داخل کر دی جائے گی لیکن یہ دونوں خیال اہمیت نہیں رکھتے مگر اصل حقیقت اﷲ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے’’۔
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں دو گروہ ایسے رہے ہیں جن کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح فوت ہو چُکا ہے اور دوبارہ جو شخص آئے گا وہ اِسی اُمّت میں سے ہو گا۔ اُن میں سے ایک گروہ کا یہ عقیدہ تھا کہ ایک اُمّتی شخص مسیح کے اخلاق اور آپ کے کمالات کو حاصل کر کے عیسیٰ بن مریم کہلائے گا۔ جس طرح احمدی کہتے ہیں اور دوسرے گروہ کا یہ خیال تھا کہ ہو گا تو وہ کوئی اُمّتی شخص مگر اُس کا نام بھی عیسیٰ ہو گا مگر اُس کے اندر مسیح کی رُوح داخل کر دی جاوے گی۔ مسیح کا جسم بہرحال واپس نہیں آئے گا۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ صاحبِ کتاب نے یہ لکھا ہے کہ اکثر مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ واپس آئیں گے اور اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ صاحبِ کتاب نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ دونوں عقیدے کہ مسیح دوبارہ نہیں آئیں گے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ صاحبِ کتاب نے یہ بھی لکھا ہے کہ قطعیت کے ساتھ کسی بات کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت اﷲ ہی کو معلوم ہے۔ گویا اس زمانہ میں جب تک مسیح موعود ظاہر نہیں ہوئے تھے اُن کے نزدیک مسیح کے دوبارہ نازل ہونے کے عقیدہ کو ترجیح تو دی جاسکتی تھی مگر اُسے جزوِ ایمان قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ ورنہ وہ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ نہ لکھتے۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اﷲ ایک ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اﷲ ؐ اﷲ کے رسول ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قرآن خدا کی کتا ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ فرشتے حق ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قیامت حق ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قدرِ خیر و شر حق ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اُنہیں چیزوں کے متعلق کہا جاتا ہے جن میں اختلاف ممکن ہو اور جائز ہو اور جو جُزوِ ایمان نہ ہوں۔ ابی حفص عمرو بن الوردی کے اس بیان سے ثابت ہے کہ یہ عقیدہ مسلمانوں میں سینکڑوں سال سے رائج ہے۔ یہ صاحب آٹھویں صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ پس کم سے کم ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ آٹھ نو سَو سال سے مسلمانوں میں یہ عقیدہ موجود ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل نہیں ہوں گے بلکہ اِسی اُمّت میں سے ایک شخص آپ کے کمالات کو لے کر دُنیا میں ظاہر ہو گا اور جو لوگ اِس عقیدے کے قائل نہیں تھے بلکہ مسیح کے آسمان سے اُترنے کے قائل تھے وہ بھی مسیح کے آسمان سے اُترنے کے عقیدہ کو جُزوِ ایمان نہیں سمجھتے تھے بلکہ اِس بات کا احتمال رکھتے تھے کہ شاید وہ اِسی اُمّت میں سے ظاہر ہو جائے لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے مسیح کی آمد ثانی کے منتظر تھے کیونکہ اُنہوں نے کوئی ایسا فرقہ نہیں لکھا جو مسیح کی آمد کا ہی مُنکر ہو۔
سوال نمبر 4متعلق اعتراض نئی اُمّت و مسئلہ کفر و اسلام
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ایک نئی اُمّت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج از اسلام کہا ہے۔ اِس لئے مسلمانوں کو اشتعال آتا ہے۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ مرزا صاحب ؑ نے کوئی نئی اُمّت بنائی بلکہ بار بار آپ نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ مَیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ہوں اور ہماری جماعت کی طرف سے ہمیشہ ہی اِس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ اُمّتِ محمدیہ ایک ہی ہے اور آپ بھی اس کے ایک فرد ہیں۔ چانچہ آپ کے الہاموں میں سے ایک الہام یہ ہے کہ رَبِّ أَصْلِحْ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ 220 کہ اے میرے ربّ! اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح فرما۔ اگر آپ نے اپنی کوئی علیحدہ اُمّت بنائی ہوتی تو پھر اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کے لئے دُعا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر تو آپ یہ کہتے کہ ‘‘میری اُمّت کی اصلاح کر’’۔
پھر آپ اپنی کتاب ‘‘نزول المسیح’’ میں لکھتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے سب انبیاء کے نام دیئے ہیں اور الفاظ یہ ہیں:
‘‘اِس صورت میں گویا تمام انبیاءِ گزشتہ اِس امت میں دوبارہ پیدا ہوگئے’’۔ 221
اگر آپ اپنی کوئی الگ اُمّت مانتے تو اِس فقرہ کے معنی کیا بن سکتے ہیں؟
پھر اِسی کتاب کے صفحہ 34 پر آپ فرماتے ہیں کہ سُورۃ نور اور سورۃ فاتحہ پر نظرِ غائر کر کے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اِس اُمّت کے کُل خلفاء اِسی اُمّت میں سے ہوں گے اور یہ بات اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اِس طرح اپنے آپ کو اِس اُمّت میں شامل کرتے ہیں۔
پھر اپنے ملہم مِنَ اﷲ ہونے کے ثبوت میں آپ فرماتے ہیں کہ
‘‘اگر خدا کو یہ منظور ہی نہیں کہ بموجب دُعا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۔ انبیاء علیہم السلام کے انعامات میں اِس اُمّت کو بھی شریک کرے۔ تو اُس نے کیوں یہ دُعا سکھلائی’’۔222
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اِسی اُمّت میں سے آئے گا’’۔223
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘خدا نے اِس اُمّت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے’’۔ 224
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘اسلامی تعلیم کا اِن دو فقروں میں خلاصہ تمام اُمّت کو سکھلایا گیا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ’’۔225
اَور آپ خود بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِکہتے تھے اور اپنی جماعت کو بھی یہی پڑھنے کی تعلیم دیتے تھے۔ اِسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ:
‘‘احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہلائے گا’’۔ 226
اِسی طرح فرماتے ہیں کہ :-
‘‘جَعَلَ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ کَأَنْبِیَاءِ الْاُمَمِ السَّابِقَۃِ۔ اَلَسْنَا بِخَیْرِالْأُمَمِ فِی الْقُرْآن’’ 227
یعنی اﷲ تعالیٰ نے اِس اُمّت میں پہلی اُمّتوں کے انبیاء کی طرح کے بعض لوگ پیدا کئے ہیں۔ کیا قرآنِ کریم میں ہم کو خیرِ الْاُمم نہیں قرار دیا گیا؟ ایسا ہی فرماتے ہیں:
ہم ہوئے خیر اُمم تجھ سے ہی اے خیر رُسُل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے 228
جماعتِ احمدیہ کے موجودہ امام کی طرف سے اِس عقیدہ کا اظہار
ہماری جماعت کے موجودہ امام نے بھی متواتر اِس عقیدہ کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ 8جولائی 1952ء کے ‘‘المصلح’’ میں
ایک خط اور اُس کا جواب امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہؤا۔ اِس خط کا مضمون یہ ہے کہ ایک شخص نے امام جماعت احمدیہ کو لکھا کہ خواب میں مجھے مرزا صاحب نظر آئے اور اُنہوں نے کہا کہ ‘‘میری اُمّت کا مبلّغ بن’’۔ پھر خط لکھنے والے نے لکھا کہ ‘‘بوجہ قلّت و کمزوریٔ مال بندہ غیر مِلّت میں پھنسا ہؤا ہے۔ اِس لئے زیارت و فیض سے محروم ہے’’۔
اِس خط کا جو جواب امام جماعت احمدیہ نے دیا اور جو اسی اخبار میں شائع ہؤا ہے وہ یہ ہے:
‘‘خواب میں غلطی لگی ہے۔ مرزا صاحب کی کوئی اُمّت نہیں۔ اُمّت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہے اور مرزا صاحب خود بھی اُن کی اُمّت میں سے ہیں۔ اِس لئے یہ خواب شیطانی ہے’’۔ 229
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک بھی حضرت مرزاصاحب ؑ کی کوئی اُمّت نہیں۔ وہ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ہیں اور اگر کسی شخص کو خواب میں بھی معلوم ہو کہ مرزا صاحب کی اُمّت ہے تو اُس خواب کو شیطانی سمجھا جائے گا، خدائی نہیں۔
حضرت مرزا صاحب نے کسی کو ‘‘کافر’’ اور ‘‘خارج از اسلام’’ نہیں کہا
دوسرا حصّہ اِس سوال کا یہ تھا کہ مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو کافر اور خارج از اسلام
کہا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہ بات غلط ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو کافر کہا بلکہ مرزا صاحب کے مخالفین نے مرزا صاحب ؑ کو اور اُن کی جماعت کو کافر کہا۔ چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے 1892ء میں فتویٰ دیا کہ:
‘‘مرزا (کادیانی) کافر ہے، چھپا مرتد ہے، گمراہ ہے، گمراہ کنندہ ملحد ہے، دجّال ہے، وسوسہ ڈالنے والا، ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا..... لَا شَکَّ اَنَّ مِرْزَا مُرْتَدٌّ کَافِرٌ ۔ زِنْدِیْقٌ ۔ ضَالٌّ ۔ مُضِلٌّ ۔ مُلْحِدٌ ۔ دَجَّالٌ ۔ وَسْوَاسٌ خَنَّاسٌ’’۔230
مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی نے فتویٰ دیا کہ:
‘‘مرزا غلام احمد ساکن قصبہ قادیان اور اس کے جملہ معتقدین گروہ اہل سنت و الجماعت سے اور اسلام سے بالکل خارج ہیں۔ معتقدینِ مرزا کے ساتھ کوئی معاملہ شرعاً درست نہیں۔ مسلمانوں کو ضروری اور لازم ہے کہ مرزائیوں کو نہ اسلامی سلام کریں اور نہ اُن سے رشتہ و قرابت رکھیں اور نہ اُن کا ذبیحہ کھائیں نہ اُن سے محبت اور نہ اُلفت رکھیں اور نہ اُن کو اپنے اسلامی مجمعوں میں شریک ہونے دیں اور نہ اُن کی مجلسوں میں اہلِ اسلام شریک ہوں ۔ جس طرح ہندو، نصاریٰ ، یہود سے اہلِ اسلام علیحدہ رہتے ہیں اس سے زیادہ مرزائیوں سے الگ رہیں۔ جس طرح سے بول و براز، سانپ اور بچھو سے پرہیز کیا جاتا ہے اس سے زیادہ مرزائیوں سے پرہیز کرنا شرعاً ضروری اور لازمی ہے’’۔ 231
اِسی طرح دیکھیں فتویٰ مولوی نذیر حسین دہلوی المعروف شیخ الکُل232
فتویٰ مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی 233
فتویٰ مولوی عبدالحق صاحب مؤلف و مفسر حقانی 234
فتویٰ مولوی محمد اسماعیل صاحب 235
فتویٰ مولوی فقیر اللہ صاحب 236
فتویٰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی 237
مرزا صاحب کا مؤقف
ان تمام ایّام میں جب کہ علمائے کرام مرزا صاحب ؑ پر کافر اور خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ لگا رہے تھے۔
مرزا صاحب ؑ کی طرف سے بار بار درخواست کی جاتی تھی کہ مَیں مسلمان ہوں، مجھے کافر نہ کہو۔ آپ نے علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ‘‘اے بزرگو! ، اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے۔ غیظ اور غضب میں آکر حد سے مت بڑھو……… خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی زبانوں کو تکفیر سے تھام لو۔ خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مَیں ایک مسلمان ہوں۔ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ وَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ حْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ فَا تَّقُوااللہَ وَ لَا تَقُوْلُوْا لَسْتَ مُسْلِمًا وَ اتَّقُوا الْمَلِکَ الَّذِیْ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔238
ترجمہ: مَیں اﷲ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتا ہوں اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ صرف ایک ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ پس اے لوگو! اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو اور مجھے یہ مت کہو کہ تُو مسلمان نہیں اور اُس خدا سے ڈرو کہ جس کے سامنے ایک دن تم نے پیش ہونا ہے’’۔
اِسی طرح فرمایا:-
‘‘یاد رہے کہ جس قدر ہمارے مخالف علماء لوگوں کو ہم سے نفرت دلا کر ہمیں کافر اور بے ایمان ٹھہراتے اور عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ یہ شخص مع اس کی تمام جماعت کے عقائدِ اسلام اور اصولِ دین سے برگشتہ ہے۔ یہ اُن حاسد مولویوں کے وہ اختراع ہیں کہ جب تک کسی دِل میں ایک ذرہ بھی تقویٰ ہو ایسے اختراع نہیں کر سکتا۔ جن پانچ چیزوں پراسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے۔ ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اﷲ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حَسْبُنَا کِتَابُ ﷲہے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں بالخصوص قصوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشرِ اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اﷲ جلّ شانہ، نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالاحق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اوراباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے ..... اور ہم آسمان اور زمین کو اِس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افترا کرتا ہے اور قیامت میں ہمارا اُس پر یہ دعویٰ ہے کہ کب اُس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے اُن اقوال کے مخالف ہیں۔ اَلَا اِنَّ لَعْنَۃَ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ وَ الْمُفْتِرِیْنَ’’۔239
کسی کو کافر کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے
اِس قسم کی بہت سی تحریریں شائع کی گئیں لیکن علمائے کرام
کا دل نہ پسیجا اور وہ اپنے فتوؤں پر مُصِر رہے۔ جب تواتر اور تکرار کے ساتھ ان لوگوں نے اپنے کُفر کے فتوے جاری رکھے تو پھر بانی ٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خیال کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث کے ماتحت کہ جو شخص کسی کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔ کُفر کا فتویٰ لگانے والوں کو بھی کافر کہا جائے تا اُنہیں معلوم ہو کہ اس لفظ کے استعمال سے دُکھ پہنچتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ:-
‘‘اَیَّمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ کَفَّرَ رَجُلًا مُسْلِمًافَإِنْ کَانَ کَافِرًا وَ اِلَّاکَانَ ھُوَالْکَافِرُ’’۔ 240
اس انکوائری میں مولانا مودودی صاحب نے یہ بات دیکھتے ہوئے کہ فتویٰ تو ہم پر ہی اُلٹ پڑا ہے اپنے جوابات میں یہ ظاہر کیا ہے کہ حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو کافر کہنے کی سزا ملتی ہے لیکن جس وقت اُنہوں نے یہ جواب دیا اُن کے ذہن میں غالباً یہ حدیث نہیں تھی جو ہم نے لکھی ہے۔ اُنہوں نے ایک دوسری حدیث کے الفاظ سے جس میں یہ ذکر ہے کہ کُفر دونوں میں سے ایک پر اُلٹ پڑتا ہے فائدہ اُٹھاکر یہ خیال کر لیا کہ اس جواب سے وہ اپنے فعل پر پردہ ڈال دیں گے لیکن جو حدیث ہم نے اُوپر بیان کی ہے اس میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ وہ شخص کافر ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ بھی حدیث لے لی جائے جس پر جماعتِ اسلامی نے اپنے دعویٰ کی بنیاد رکھی ہے تو پھر بھی اُن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ جب کافر کہنے سے بھی انسان کافر نہیں بنتا بلکہ اُسے صرف سزا ملتی ہے تو اس سے غیر احمدی علماء کے لئے راستہ نہیں کھلتا احمدیوں کے لئے راستہ کھل جاتاہے۔
غرض احمدیوں نے کافر نہیں کہا۔ احمدیوں نے کافر کہنے والوں کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے فعل کے مناسب حال جواب دیا ہے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ غلط ہے تو یہ علماء اب کہہ دیں کہ کیا اُنہوں نے مرزا صاحب کے کافر کہنے سے پہلے آپ کو کافر کہا تھا یا نہیں یا کم سے کم اَب کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ جن علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا اُنہوں نے جھوٹ بولا ہے مگر وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔
لفظِ ‘‘ کافر’’ کا مفہوم
دوسرا جواب ہمارا یہ ہے کہ یہ علماء جب کُفر کا فتویٰ دیتے ہیں تو اس سے مُراد بالکل اَور ہوتی ہے اور احمدیوں نے
جب کافرکہا ہے تو اس سے مُراد اُن کی وہ نہیں تھی جو کہ اِن لوگوں کی ہوتی ہے۔ احمدیوں کے نزدیک اسلام اور کُفر دونوں نسبتی الفاظ ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے اسلام کا لفظ بھی مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے اور کُفر کا لفظ بھی مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اسی طرح حدیث میں بھی ایمان اور کفر کے الفاظ مختلف معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ اسلام کی ایک یہ تعریف فرماتا ہے کہ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۔241اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ تُو اُن سے کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں تم یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہؤا۔
اِس آیت سے ظاہر ہے کہ ایمان کا درجہ اسلام کے اُوپر ہوتا ہے اَور خواہ انسان کی روحانیت اعلیٰ ہو، یا نہ ہو وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ہے اور یہی اسلام کی جامع مانع تعریف ہے اور اس درجے کے مسلمان کہلانے والے کے لئے یہ بحث فضول ہوتی ہے کہ اس کا ایمان کس حد تک پختہ ہے اور کس حد تک پختہ نہیں۔
اِسی طرح قرآن کریم میں ایک اَور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ٞ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِيْرَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۔242اے مومنو! جب تم سفر کر رہے ہو تو اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو۔ اور جو شخص تم کو سلام کہے اُس کو یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں۔ اگر تم ایسا کہو گے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم دُنیا کا مال چاہتے ہو۔ حالانکہ اﷲ کے پاس بہت سے اموال ہیں اور تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا اور تم کو ایمان کے درجے عطا کر دئے ہیں۔ تم تحقیقات کر لیا کرو۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دِل تو الگ رہا اگر کوئی شخص اسلام کی تفصیلات سے ناواقف ہو اُس نے اسلام کے صرف ظاہری آداب سیکھے ہوں اور وہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں سے ظاہر کرے تب بھی اُس کو یہ کہنا کہ تُو مسلمان نہیں، جائز نہیں اور فرماتا ہے کہ جو شخص ایسے شخص کو غیر مسلم کہتا ہے وہ درحقیقت اُس کو لوٹنے کی خاطر راستہ کھولتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ جو لوگ نئے نئے مذہب میں داخل ہوتے ہیں اُن کی معلومات ہمیشہ کم ہؤا کرتی ہیں۔ پس جن کی معلومات زیادہ ہوں اُن کو اپنی معلومات پر فخر کر کے تھوڑی معلومات والوں پر طعنہ نہیں کرنا چاہئے۔
‘‘اسلام’’ اور ‘‘ایمان’’ کے مراتب
غرض ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا ایک درجہ ایمان
سے چھوٹا ہے اور ایمان کا درجہ اُس سے بڑا ہے لیکن اس کے مقابل پر بعض دوسری آیات بھی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ ایک قسم کے اسلام کا درجہ ایمان سے بھی بڑا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔243جب اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ سے کہا کہ تُو اسلام لے آ۔ تو اُس نے کہا کہ مَیں ربّ العالمین کے لئے اسلام لاتا ہوں۔ حالانکہ ابراہیم ؑ نبی تھے۔ پس یہ اسلام عام اسلام سے بلکہ عام ایمان سے بھی اونچا ہے۔
اِسی طرح فرماتا ہے يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا ۔244 کہ بنی اسرائیل میں بعض نبی ایسے تھے جو شریعت نہیں لاتے تھے، وہ مسلمان ہوتے تھے اور یہودیوں کو تو رات کے احکام پر چلاتے تھے۔ اِس جگہ پر بھی نبیوں کا نام مسلم رکھا گیا ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ قرآن کے نزدیک اسلام کے دو درجے ہیں۔ ایک ایمان سے کم، ایک ایمان سے زیادہ۔ جو ایمان سے زیادہ اسلام ہے اُس سے خارج ہو کر بھی انسان ایمان کے درجے پر ہو سکتا ہے اور مسلم کہلانے کا حق رکھتا ہے اور اسلام کے جامع مانع دائرہ سے باہر نہیں لیکن اس کے بر خلاف جو ایمان سے کم اسلام ہے اُس اسلام میں داخل ہو کر بھی انسان ایمان سے محروم ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں صراحتاً ذکر ہے۔
علمائے اسلام نے بھی یہی تشریح کی ہے۔ چنانچہ علامہ اصفہانی لکھتے ہیں:-
‘‘اَلْاِسْلَامُ فِی الشَّرْعِ عَلٰی ضَرْبَیْنِ اَحَدُ ھُمَا دُوْنَ الْإِ یْمَانِ وَ ھُوَ الْإِعْتِرَافُ بِاللِّسَانِ وَ بِہٖ یُحْقَنُ الدَّمُ حَصَلَ مَعَہُ الْاِعْتِقَادُ اَوَلَمْ یَحْصُلْ وَ اِیَّاہُ قُصِدَ بِقولِہٖ قَالَتِ الأَ عْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا ولٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا۔والثَّانِی فَوْقَ الْاِیْمَانِ وَھُوَ اَنْ یَّکُوْنَ مَعَ الْاِعْتِرَافِ اِعْتِقَادٌ بِالْقَلْبِ وَ وَفَاءٌ بِالْفِعْلِ وَ اسْتِسْلَامُ لِلّٰہِ فِیْ جَمِیْعِ مَا قَضٰی وَ قَدَّرَ کَمَا ذُکِرَ عَنْ إِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ قَوْلِہٖ اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ ﷲِ الْاِسْلَامُ وَ قَوْلُہٗ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا أَیْ إِجْعَلْنِیْ مِمَّنِ اسْتَسْلَمَ لِرِضَاکَ’’۔ 245
یعنی اسلام دینِ محمدی کی رُو سے دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک اسلام ایمان سے نیچے ہوتا ہے اور وہ زبان سے اعتراف کرنا اور کلمہ پڑھنا۔ اور جان کی حفاظت اتنے سے ہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ اعتقاد کی صحت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کی یہ جو آیت ہے کہ قَالَتِ الْأعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا اس سے اسی طرح کے اسلام کی طرف اشارہ ہے۔ اور دوسرا اسلام وہ ہوتا ہے جو ایمان سے اُوپر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ پڑھنے کے علاوہ دِل میں بھی اس کا اعتقاد ہو اور عملاً بھی ایسا شخص وفاداری کا اظہار کرے اور خدا تعالیٰ کی تمام قضاؤں کے سامنے اپنے آپ کو جُھکادے۔ اسی قسم کے اسلام کی طرف حضرت ابراہیم ؑ کے اُس ذکر میں اشارہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے اُن سے کہا کہ تُو اِسلام لا تو اُنہوں نے کہا مَیں رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ خدا کے لئے ایمان لاتا ہوں اور اسی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ دین اﷲ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اسی طرف اشارہ ہے اس دُعا میں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے کی تھی کہ الٰہی! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے۔
اسلامی لٹریچر سے اِس کی تصدیق
لُغت کی اِس تشریح کے علاوہ اسلامی دینی لٹریچر سے بھی اِس اصطلاح کی
تصدیق ہوتی ہے مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ صَلّٰے صَلٰوتَنَا وَ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ أَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ ﷲ وَ ذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ فَلَا تَخْفَرُوا اللہَ فِیْ ذِمَّتِہٖ۔ 246جو شخص ہماری طرح کی نماز پڑھتا ہے۔ ہمارے قبلے کی طرف مُنہ کرتا ہے اور ہمارے ذبیحہ کو کھاتا ہے وہ مسلمان ہے اور اﷲ اور اس کے رسول کی حفاظت اس کو حاصل ہے۔ پس اے مسلمانو! اُس کوکسی قسم کی تکلیف دے کر خدا تعالیٰ کو اُس کے عہد میں جھوٹا نہ بناؤ۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں ثَلَاثٌ مِنْ اَصْلِ الْاِیْمَانِ أَلْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا الٰہ اِلَّا ﷲ لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ وَّ لَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلٍ۔ 247 ایمان کی تین جڑیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ کہہ دے تُو اُس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نہ کر، اُس کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ بنا اور اسلام سے خارج مت قرار دے۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں أَلْاِسْلَامُ عَشَرَۃُ أَسْھُمٍ وَقَدْ خَابَ مَنْ لَا سَھْمَ لَہٗ شَھَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہ اِلَّا اللہُ وَھِیَ الْمِلَّۃُ۔ 248اسلام کے دس حصّے ہیں جس شخص کے حصّے میں ایک حصّہ بھی نہ آیا ہو وہ تباہ ہو گیا۔ پہلا حصّہ یہ ہے کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی گواہی دے۔ یعنی جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہہ دیتا ہے وہ ملّتِ اسلامی میں داخل ہو جاتا ہے۔
اِسی طرح بخاری کتاب الایمان میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے دریافت فرمایا کہ أَتَعْلَمُوْنَ مَا الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَ حْدَہٗ ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایمان کی کیا تعریف ہے؟اُنہوں نے کہا کہ اﷲ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا شَھَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ۔ ایمان یہ ہے کہ انسان اپنے مُنہ سے لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کہہ دے۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ مَنِ انْتَقَصَ مِنْھُنَّ شَیْئًا فَھُوَ سَھْمٌ مِنْ سِھَامِ الْاِسْلَامِ تُرِکَ وَمَنْ تَرَکَھُنَّ کُلَّھُنَّ فَقَدْ تَرَکَ الْاِسْلَامَ 249 کہ اسلام کے کئی حصّے ہیں جس نے ان حصّوں میں سے کوئی حصّہ کھو دیا اُس نے اسلام کے حصّوں میں سے ایک حصّہ کھو دیا اور جس نے سارے حصّے کھو دیئے اُس نے سارا اسلام کھو دیا۔
ان حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک اسلام محض لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے سے حاصل ہو جاتا ہے اور ملت اسلامیہ اسی کا نام ہے جو شخص لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہہ دے وہ ملت اسلامیہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ جو شخص اسے ملتِ اسلامیہ ے خارج قرار دے وہ خدا اور رسول پر ظلم کرتا ہے اور انہیں جھوٹا قرار دیتا ہے۔ ان معنوں میں ہم نے کبھی کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا بلکہ سارے کے سارے مسلمان فرقوں کو ہم ملتِ اسلامی کا جزو قرار دیتے رہے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کا قول ہے کہ ‘‘إِنْکَارٌ بِمَا اَنْزَلَ اللہُ ھُوَ بِہٖ کُفْرٌ وَلَیْسَ کَمَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ ۔ 250اﷲ تعالیٰ کی کسی وحی یا الہام کا انکار کفر تو ہے لیکن وہ ایسا کفر نہیں جیسے اﷲ، ملائکہ، کتب اور رسل کا کفر ہوتا ہے۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں اَلْکُفْرُ کُفْرَانِ أَحَدُ ھُمَا یَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّۃِ وَالْآخَرُلَا یَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّۃِ۔ 251 یعنی کفر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک کفر ملت سے نکال دیتا ہے اور دوسرا کفر ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ وَحَقِیْقَۃُ الْاَمْرِ انْ منْ لَمْ یَکُنْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ حَقًّا یُقَالُ فِیہِ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ وَ مَعَہٗ اِیْمَانٌ یَمْنَعُہُ الْخُلُوْدُ فِی النَّارِ۔ وَھٰذَا مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ بَیْنَ اَھْلِ السُّنَّۃ یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پورا مومن نہ ہو مگر پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ وہ مسلم ہے اور تمام اہل سنت اس پر متفق ہیں۔ لٰکِنْ ھَلْ یُطْلَقُ عَلَیْہِ اِسْمُ الْاِیْمَانِ ھٰذَا ھُوَالَّذِیْ تَنَازَعُوْا فِیْہِ فَقِیْلَ یُقَالُ مُسْلِمٌ وَلَا یُقَالُ مُؤْمِنٌ۔ 252لیکن یہ سوال کہ کیا اس پر لفظ ایمان بھی بولا جائے گا یا نہیں اور اسے ہم مومن بھی کہیں گے یا نہیں؟ یہ بات ایسی ہے جس میں علماء میں اختلاف ہوتے رہے۔ چنانچہ بعض نے کہا ہے کہ اسے مسلم تو کہیں گے مگر مومن نہیں کہیں گے۔
‘‘ملّتِ اسلامیہ’’ میں شامِل ہونے کے لئے صرف کلمہ ضروری ہے
اِن تمام حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ملّتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لئے صرف کلمے کا پڑھنا کافی
ہے۔ باقی کوئی امر ایسا نہیں ہے کہ جو ملّتِ اسلامی میں شمولیت کے لئے ضروری ہو۔ اگر باقی ضروری اُمور کا کوئی انکار کرتا ہے تو ہم اُسے غیر مؤمن کہہ لیں گے، ناقص الایمان کہہ لیں گے لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ ان اُمور کی وجہ سے وہ ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہو گیا ہے۔ ہاں چونکہ ایک اسلام ایمان سے بھی اُوپر ہے اِس کے لحاظ سے ایک شخص کو جس میں کوئی بڑا دینی نقص پایا جائے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص اسلام سے خارج ہو گیا ہے مگر اس سے مراد ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہونا نہیں ہو گا۔ اِس سے صرف یہ مراد ہو گا کہ وہ ایمان کے بڑے درجوں سے محروم ہے۔ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ مَشٰی مَعَ ظَالِمٍ لِیُقَوِّیَہٗ وَھُوَ یَعْلَمُ أَنَّہٗ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ’’۔ 253 جو شخص ظالم کی جانتے بوجھتے ہوئے مدد کی کوشش کرے اور اُسے علم ہو کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
اس حدیث میں ایسے شخص کو جو کسی ظالم کی مدد کرتا ہے خارج عَنِ الْاِسْلَام قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ متعدد مواقع پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُکہنے سے انسان ملّتِ اسلامی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی اور گُناہ اُسے ملّتِ اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔ ان حدیثوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یہی ماننا پڑتا ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی کلمہ گو کو خارج از اسلام قرار دیا تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ ایمان کے بعض مدارج سے یہ شخص محروم ہے اور جب کسی شخص کو ملّتِ اسلامیہ میں داخل قرار دیا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اُس کے اندر ایمان کے تمام مدارج کامل طور پر پائے جاتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اسلامک باڈی پولٹکس (ISLAMIC BODY POLITICS) کا ممبر ہو گیا ہے اور اگر ہم نے کسی شخص کو مؤمن یا کافر کہا ہے تو انہی معنوں کی رُو سے کہا ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا عقیدہ
حضرت ابو حنیفہ ؒ بھی اسی عقیدہ پر قائم تھے جو ہم نے اُوپر بیان کیا ہے۔ چنانچہ کتاب
معین الحکام مصنفہ ابو الحسن طرابلسی میں جو جماعتِ اسلامی کی طرف سے پیش کی گئی ہے اور جس کے حاشیہ والی کتاب سے انہوں نے سند لی ہے اس کے صفحہ202 پر امام طحاوی، حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کے ساتھیوں سے روایت کرتے ہیں کہ لَا یَخْرُجُ الرَّجُلُ مِنَ الْاِیْمَانِ إِلَّا جُحُوْد مَا أَدْخَلَہٗ فِیْہِ۔254 یعنی حضرت امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا یہ مذہب تھا کہ ایمان سے کوئی چیز کسی کو خارج نہیں کرتی سوائے اُس چیز کے دیدہ دانستہ انکار کے جس نے اُس کو اسلام میں داخل کیا تھا۔ یعنی کلمہ شہادت، مطلب یہ ہے کہ جب تک کلمہ شہادت کا کوئی شخص دیدہ دانستہ انکار نہ کرے اُس وقت تک کوئی چیز اس کو اسلام سے خارج نہیں کرتی۔ پھر امام طحاوی کا جو حنفیوں میں مجتہد المذہب کی حیثیت رکھتے ہیں یہ مذہب بیان کیا گیا ہے کہ ایسی صورت میں نہ تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس قسم کا مرتد ہو گیا ہے کہ اس پر مرتدین کے احکام جاری کر دیئے جائیں اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ایسے احکام جاری نہیں ہو سکتے کیونکہ کلمہ پڑھنے سے اس کا اسلام ثابت ہو چُکا تھا۔ اب کسی شک کی وجہ سے اس کو اسلام سے نہیں نکالا جاسکتا کیونکہ اسلام ہمیشہ غالب رہتا ہے اور وہ عالم جس کے پاس ایسے شخص کا معاملہ پیش کیا جائے اس کو چاہئے کہ کسی مسلمان پر جو کہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ چُکا ہے کُفر کا فتویٰ لگانے میں جلدی نہ کرے لیکن کُفّار میں سے اگر کوئی شخص کلمہ پڑھے تو اُس کے اسلام کا فتویٰ دے۔
ہمیں تعجب ہے کہ اُنہوں نے اس کتاب کے حاشیہ پر چھپی ہوئی ایک کتاب سے حوالہ درج کر کے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ مذہب تھا کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے اُس سے جو شخص معجزہ مانگے وہ کافر ہو جاتا ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ اس حوالہ کے پیش کرنے میں اُنہوں نے دیانت سے کام نہیں لیا کیونکہ یہ مذہب مصنف کتاب کا بیان کیا گیا ہے، امام ابو حنیفہ ؒ کا بیان نہیں کیا گیا اور پھر مصنف کتاب کے نزدیک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی شخص اس غرض کے لئے سوال کرے کہ اگر وہ معجزہ نہ دکھاسکے گا تو اس کا جھوٹ ظاہر ہو جائے گا تو پھر وہ کافر نہیں ہوتا۔ 255
جس سے یہ احتمال نظر آتا ہے کہ اگر وہ معجزہ دکھا دے گا تو اس کی نبوت ثابت ہو جائے گی اس لئے اس کے کُفر کا سوال ہی نہیں رہے گا۔ اِسی مصنفِ کتاب کا مذہب صفحہ205 پر بیان کیا گیا ہے کہ إِذَا کَانَ فِی الْمَسْئَلَۃِ وُجُوْہٌ تُوْجِبُ التَّکْفِیْرَ وَوَجْہٌ وَاحِدٌ یَمْنَعُ فَعَلَی الْمُفْتِیْ أَنْ یَّمِیْلَ اِلٰی ذٰلِکَ الْوَجْہِ۔یعنی اگر کسی شخص کے کافر بنانے میں بہت سی وجوہ پائی جاتی ہوں لیکن ایک وجہ تکفیر سے روکتی ہو تو مفتی کا فرض ہے کہ وہ اس ایک وجہ کی طرف مائل ہو جو اُس کو کافر بنانے سے روکتی ہے اور اُن وجوہ کی طرف توجہ نہ کرے جو اُسے کافر بنانے کی تائید کرتی ہیں۔
ہم نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا یہ مذہب ہے کہ جو چیز کسی کو اسلام میں داخل کرتی ہے وہی اُس کو اسلام میں قائم رکھتی ہے بلکہ اگر کوئی شخص شک کی وجہ سے انکار بھی کر دے تب بھی وہ اس کے ہوتے ہوئے اسلام سے نہیں نکلتا۔ اس کی تشریح لسان الحکام میں جس سے جماعت اسلامی نے حوالہ لیا ہے یہ کی گئی ہے کہ:-
‘‘قدوری کتاب کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دہریہ ہو یا بُت پرست ہو یا خدا کو مانتا ہو لیکن ساتھ اس کے اور بھی خدا مانتا ہو تو ایسا شخص اگر صرف لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ کہہ دے تو وہ اسلا م میں داخل ہو جاتا ہے یا کہہ دے کہ میں محمد صاحب کو اﷲ کا رسول مانتا ہوں تو وہ اسلا م میں داخل ہو جاتا ہے کیونکہ اسلام کے منکر اِن کلموں کے کہنے سے احتراز کرتے ہیں۔ پس جب ان دونوں حکموں میں سے کسی ایک کلمہ کا بھی وہ اظہار کر دے تو پھر اُس کو غیر مسلم نام سے نکالا جائے گا اور اُسے مسلمان قرار دے دیا جائے گا’’۔ 256
غیر احمدی علماء کے نزدیک لفظ ‘‘ کافر’’ کا مفہوم
غیر احمدی علماء تو جب ہم کو کافر کہتے
ہیں تو اس کے یہ معنے بھی کرتے رہے ہیں کہ ہم جہنمی ہیں لیکن ہم تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جہنم اُن لوگوں کو ملے گی جو کہ دیدہ دانستہ شرارت سے سچائیوں کا انکار کرتے ہیں۔ کلمہ کا مُنہ سے پڑھنا تو انسان کو صداقت سے بہت کچھ قریب کر دیتا ہے ۔ جو شخص انبیاء و کتب کا بھی مُنکر ہے اُس کا انکار بھی اگر دیانتداری کے ساتھ ہے اور اُس پر خدا کی حجت تمام نہیں ہوئی تو ہمارے نزدیک تو وہ شحص رحم کا مستحق ہے اور جو اسلامی آئیڈیالوجی ہم شروع میں بیان کر آئے ہیں اس کے مطابق یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ 257 میری رحمت ہر چیز کو ڈھانپے ہوئے ہے اور فرماتا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 258 مَیں نے سارے انسانوں کو اپنا مثیل ہونے کے لئے بنایا ہے اور اپنا عبد ہونے کے لئے بنایا ہے اور اﷲ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْۙ۔وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۔259 جو میرے عبد ہوںوہ میری جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مسلمان اس دُنیا میں باقی مذاہب کے مقابلہ میں تیسرا یا چوتھا حصّہ ہیں۔ پھر ان میں سے ہزار میں سے ایک یا اس سے بھی کم بقولِ مودودی صاحب اسلام سے قطعی طور پر ناواقف ہیں اور رسوماتِ کُفر میں مُبتلا ہیں۔ 260
تو گویا دُنیا کی کُل آبادی میں سے چالیس ہزار آدمی اسلام سے واقف ہے۔ پھر ان میں سے بھی معلوم نہیں سچے مسلمان کتنے ہیں اور دکھاوے کے کتنے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ دُنیا میں اسلام پر عمل کرنے والے لوگ ہزار میں سے کوئی ایک ہے۔ اگر ان سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں جانا ہے تو رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ کے کیا معنے ہیں اور مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ کے کیا معنے ہیں۔ پھر تو خدا ہارا اور شیطان جیتا اور مقصدِ پیدائشِ عالم باطل ہو گیا۔ اِسلام کی رُو سے تو درحقیقت دُنیا کے مختلف تغیرات اور زمانہ برزخ اور یوم حشر اور زمانہ دوزخ یہ سب کے سب انسان کو صفائی اور پاکیزگی اور نجات کی طرف لے جارہے ہیں اور تمام کے تمام انسان ہی خدائی رحمت کے نیچے آجائیں گے اور خدا کی بات پوری ہو جائے گی کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ اور رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ یَاْ تِیْ عَلٰی جَہَنَّمَ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْھَا اَحَدٌ وَ نَسِیْمُ الصَّبَاتُحَرِّکُ اَبْوَابَھَا۔261 یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ ہوائیں اس کے دروازے ہلا رہی ہوں گی اور اس جیل خانے کے دروازے کھول دئیے جائیں گے کیونکہ اس کے اندر کوئی قیدی باقی نہیں رہے گا۔
ہم نے کبھی کُفر کا لفظ اُن معنوں میں استعمال نہیں کیا جن معنوں میں مولوی استعمال کرتے ہیں۔ ہم تو خدا کو رحیم و کریم سمجھتے ہیں۔ اس کی بخششوں کو روکنے والا کون انسان ہے۔
بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے چند اور حوالے
ہم نے اُوپر جو کچھ لکھا ہے اُس کی تائید میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے
چند حوالے پیش کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا۔ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوائے کُفر سے پہلے شائع ہؤا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہراویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے’’۔ 262
اِسی طرح آپ فرماتے ہیں:-
‘‘یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مؤمن کو کافر کہنے والا آخر کافر ہو جاتا ہے۔ پھر جبکہ قریباً دو سو مولوی نے مجھے کافر ٹھہرایا اور میرے پر کُفر کا فتویٰ لکھا گیا اور اُنہی کے فتویٰ سے یہ بات ثابت ہے کہ مؤمن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مؤمن کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے۔ تو اب اس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخمِ دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو اُن کو چاہئے کہ اِن مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا۔ تب مَیں ان کو مسلمان سمجھ لوں گا’’۔ 263
یہ حوالہ بالکل اس حدیث کے مطابق ہے جو کہ اُوپر نقل کی جاچکی ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں:-
‘‘کُفر دو قسم پر ہے۔ (اوّل)ایک یہ کُفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم)دوسرے یہ کُفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اُس کو باوجود اتمامِ حُجّت کے جھوٹا جانتا ہے’’۔ 264
اسلام کی تعریف
اِسی طرح اسلام کی تعریف بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اِن الفاظ میں فرمائی ہے کہ :-
‘‘عقیدہ کے رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اُس کا نبی ہے’’۔ 265
اِسی طرح جزا و سزا کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالحکیم میرے متعلق لکھتا ہے کہ گویا مَیں نے اپنی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ شخص جو میرے نام سے بھی بے خبر ہو گا اور گو وہ ایسے مُلک میں ہو گا جہاں تک میری دعوت نہیں پہنچی وہ کافر ہو جائے گا اور دوزخ میں پڑے گا۔ آپ فرماتے ہیں یہ سرا سر افتراء ہے۔ مَیں نے اپنی کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا اور پھر فرماتے ہیں کہ :-
‘‘یہ تو ایسا امر ہے کہ ببداہت کوئی عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی۔ جو شخص بکلّی نام سے بھی بے خبر ہے اُس پر مؤاخذہ کیوں کر ہو سکتا ہے۔ ہاں مَیں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ مَیں مسیح موعود ہوں اور خدا نے عام طور پر میرے لئے آسمان سے نشان ظاہر کئے ہیں۔ پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمامِ حجّت ہو چُکا ہے اور میرے دعوے پر وہ اطلاع پا چُکا ہے وہ قابلِ مؤاخذہ ہو گا’’۔ 266
اِسی طرح آپ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘ماسوا اِس کے اگر فرض کے طور پر کوئی ایسا شخص دُنیا میں ہو کہ وہ باوجود پوری نیک نیتی اور ایسی پوری پوری کوشش کے کہ جیسا کہ وہ دُنیا کے حصول کے لئے کرتا ہے اسلام کی سچائی تک پہنچ نہیں سکا تو اُس کا حساب خدا کے پاس ہے’’۔ 267
موجودہ امامِ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے وضاحت
موجودہ امامِ جماعتِ احمدیہ نے بھی اِس کے متعلق وضاحت کی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘باقی ہم میں اور اُن میں تو کُفر کی تعریف میں اختلاف بھی بہت سا پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ کُفر کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا انکار حالانکہ ہم یہ معنے نہیں کرتے اور نہ کُفر کی یہ تعریف کرتے ہیں۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اسلام کے ایک حد تک پائے جانے کے بعد انسان مسلمان کے نام سے پُکارے جانے کا مستحق سمجھا جاسکتا ہے لیکن جب وہ اس مقام سے بھی نیچے گر جاتا ہے تو گو وہ مسلمان کہلا سکتا ہے مگر کامل مسلم اُسے نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ تعریف ہے جو ہم کُفر و اسلام کی کرتے ہیں اور پھر اس تعریف کی بناء پر ہم کبھی نہیں کہتے کہ ہر کافر دائمی جہنمی ہوتاہے’’۔ 268
آگے چل کر آپ فرماتے ہیں:-
‘‘اُن کے کُفر اور ہمارے کُفر میں بہت بڑا فرق ہے۔ اُن کا کُفر تو ایسا ہے جیسے سُرمے والا سُرمہ پیستا ہے۔ وہ بھی جب کسی کو کافر کہتے ہیں تو اُس کا مطلب یہ ہؤا کرتا ہے اُسے پیس کر رکھ دیں۔ کہتے ہیں کہ وہ جہنمی ہے اور ابدی دوزخ میں پڑے گا ..... پس ہماری کُفر کی اصطلاح ہی اَور ہے اور اُن کے کُفر کی اصطلاح اَور۔ ہمارا کُفر تو اُن کے کفر کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے سُورج کے مقابل پر ذرّہ ہو۔ پس اِس پر اُنہیں غُصّہ کیوں آتا ہے۔ آجکل بڑے زور سے کہا جاتا ہے کہ احمدی ہمیں کافر کہتے ہیں۔ اگر وہ سچّے ہیں تو ثابت کریں کہ پہلے ہم نے اُنہیں کافر کہا ہو۔ اگر وہ ذرا بھی غور کریں گے تو اُنہیں معلوم ہو گا کہ پہلے اُنہوں نے ہی ہمیں کافر کہا ہم نے کافر نہیں کہا۔ گو اِس رنگ میں بھی اُن کے کُفر اور ہمارے کُفر میں بہت بڑا فرق ہے لیکن بہرحال اُن کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ دیکھیں۔ پہلے اُنہوں نے ہمیں کافر کہا اور ہم پر کُفر کے فتوے لگائے یا ہم نے اُن کو کافر کہا؟’’۔269
اِس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعتِ احمدیہ کے نزدیک بھی کُفر دوقسم کا ہے۔ ایک کُفر کے باوجود انسان مسلمان کہلاتا ہے اور وہ ملّتِ اسلامیہ میں شامل ہوتا ہے اور دوسرے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم نے جو کچھ کہا جواب میں کہا ہے۔ اصل ذمہ دار علماء ہیں جنہوں نے ہم کو پہلے کافر کہا۔ لفظِ کُفر کی حقیقت احمدیہ جماعت کے نزدیک محض حجت اور عدمِ حجت کے متعلق ہے۔ کُفر کے عواقب خدا تعالیٰ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جو غیر احمدی علماء بتاتے ہیں اُن سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ خدا دو ہیں۔ ایک مؤمنوں کا خدا اور ایک کافروں کا خدا۔ حالانکہ خدا تو ایک ہی ہے۔ ایک باپ کے دوبیٹوں میں سے ایک فرمانبردار ہوتا ہے اور ایک نافرمان لیکن ہوتا بیٹا ہی ہے۔ نافرمان ہو جانے سے باپ کے دل سے اُس کی محبت نہیں جاسکتی اور وہ اُس کی بہتری کے لئے کوشش کرنے سے باز نہیں رہتا۔ اگر خدا مسلمانوں اور کافروں کا ایک ہی ہے تو یہی کیفیت اُس کی بھی ہونی چاہئے۔ کافر کے معنے محض اتنے ہیں کہ وہ اُس کا بیمار بندہ ہے جس کے دل میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ مگر ‘‘اُس’’ کا ہونے اور اُس کا ‘‘بندہ’’ ہونے میں تو کوئی فرق نہیں آتا۔ پس کسی مذہب میں کسی شخص کو کافر کہنے کے بعد جو اُس کے لئے سزا اور جزا تجویز کی گئی ہے اُس کو مدِّ نظر رکھے بغیر ہم اُس قوم کے کُفر کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اور اِس بات کا پتہ کہ اسلام کے کون سے فرقے پیدائشِ عالم کی غرض کو مدِّنظر رکھتے ہیں اِسی سے مِل سکتا ہے کہ کُفر کی جو تشریح وہ کرتے ہیں آیا وہ اسلامک آئیڈیالوجی کے مطابق ہے یا اُس کے مخالف ہے۔ پس اِس بات کو واضح کرنے کے لئے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے کُفر کی سزا کے متعلق یوں لکھا ہے:-
‘‘اِسلام اِس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر انسان نجات ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خواہ کوئی کیسا ہی کافر ہو مختلف قسم کے علاجوں کے بعد جن میں سے ایک علاج جہنم بھی ہے آخر جنت کو پا لے گا۔ قرآن نجات کے بارہ میں وزنِ اعمال پر زور دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نیک اعمال کا بڑھ جانا انسان کی نجات کے لئے اُس کی سچی کوشش پر دلالت کرتا ہے اور جو شخص سچی کوشش کرتا ہؤا مَر جاتا ہے وہ اُس سپاہی کی طرح ہے جو فتح سے پہلے مارا جاتا ہے ..... اگر ایک شخص نیکی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے مَر جاتا ہے تو یقیناً وہ خدا تعالیٰ کے فضل کا مستحق ہے سزا کا مستوجب نہیں۔ کوئی قوم اپنے سپاہیوں کو اِس بات پر ملامت نہیں کیا کرتی کہ وہ فتح پانے سے پہلے کیوں مارے گئے’’۔ 270
پھر وہ لکھتے ہیں:-
‘‘بات یہ ہے کہ اصل چیز محبتِ الٰہی ہے اور یہ رستہ شریعت نے اُسی کے لئے تجویز کیا ہے جس کا دل اﷲ تعالیٰ کے عشق اور اُس کی محبت سے لبریز ہو گا....... یہ انعام اُسی کے لئے مقدر ہے جس کا دل اﷲتعالیٰ کی محبت سے سرشار ہو گا اور جو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود محبتِ الٰہی کی آگ اپنے اندر رکھتا ہو گا اور یقینا جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو گی اُسے کبھی دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اُس کی نجات کا سامان پیدا کردے گا اور حساب بنا بنا کر اور مختلف ذرائع اور طریق اختیار کر کے اُسے جنت میں لے جانے کی کوشش کرے گا’’۔271
اِسی طرح امامِ جماعتِ احمدیہ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘جنت صرف مُنہ کے اقرار کا نتیجہ نہیں۔ جنت بہت سی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ اِسی طرح دوزخ صرف مُنہ کے انکار کا نتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کا شکار بننے کے لئے بہت سی شرطیں ہیں۔ کوئی انسان دوزخ میں نہیں جاسکتا جب تک اُس پر حُجّت تمام نہ ہو۔ خواہ وہ بڑی سے بڑی صداقت کا ہی مُنکر کیوں نہ ہو۔ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بچپن میں مَر جانے والے یا بُلند پہاڑوں میں رہنے والے یا جنگلوں میں رہنے والے یا اتنے بڈھے جن کی سمجھ ماری گئی ہو یا پاگل جو عقل سے کورے ہوں اِن لوگوں سے مؤاخذہ نہیں ہوگابلکہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن اِن لوگوں کی طرف دوبارہ نبی مبعوث فرمائے گا’’۔ 272
اِس حوالہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کی اُس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو رُوح المعانی میں مروی ہے۔ 273
پھر لکھا ہے:-
‘‘نجات کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ صداقت اُس کے کان میں نہ پڑے تاکہ اُسے ماننی نہ پڑے۔ یا جس پر حجت تمام ہو جائے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے خدا تعالیٰ کے نزدیک قابلِ مؤاخذہ ہے’’۔ 274
اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ موجودہ امامِ جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان ایسے کافر نہیں جو ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہوں اور اُن کے نزدیک نجات کا تعلق محبتِ الٰہی پر ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے اندر محبتِ الٰہی رکھتا ہے تو اگر اُس کے اندر کچھ غلطیاں بھی ہیں اور بعض قسم کا کُفر بھی پایا جاتا ہے تب بھی اﷲ تعالیٰ اُس کی نیک نیتی کو دیکھ کر اور اُس کی محبت کے جذبات کو دیکھ کر اُس کی بخشش کے کوئی نہ کوئی سامان کر دے گا۔
جماعتِ احمدیہ کی طرف سے لفظِ کافر کا کم سے کم استعمال
اِس جگہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب کہ احمدی جماعت کُفر کے معنے بھی اور کرتی تھی اور ان الفاظ کو صرف جواباً استعمال کرتی تھی تو
پھر کیوں اُن کی طرف سے کوشش نہیں ہوئی کہ ان الفاظ کا استعمال کم کیا جائے یا روکا جائے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری طرف سے ایسی کوشش ہوتی رہی ہے۔ چنانچہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب ‘‘انجام آتھم’’ میں اِس تحریک کو پیش کیا تھا کہ:-
‘‘نہ ہمیں غیر احمدی علماء گالیاں دیں نہ ہم اُن کا جواب دیں اور اس طرح سات سال تک خاموشی سے گزار دیں۔ اِس عرصہ میں خدا کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے اور ان دنوں میں مجھے اسلام کے دُشمنوں سے مقابلہ کرنے کی مُہلت دی جائے۔ اگر مَیں اِن ایّام میں اسلام کی کوئی عظیم الشان خدمت کر لوں تو خود مسلمانوں کی سمجھ میں آجائے گا کہ مَیں اسلام کا خادم ہوں، دُشمن نہیں اور اگر مَیں ایسا نہ کر سکوں تو پھر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مَیں اسلام کا خیر خواہ نہیں’’۔275
اِسی طرح 26فروری 1899ء کو آپ نے ایک اعلان اپنی جماعت کے نام شائع کیا اور اُس میں لکھا کہ:-
‘‘کسی کے دل کو ان الفاظ سے دُکھ نہ دیں کہ یہ کافر ہے یا دجّال ہے یا کذّاب ہے یا مُفتری ہے...... ہم نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ٢٧ میں شیخ محمد حسین اور اُس کے گروہ سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ سات سال تک اس طور سے ہم سے صُلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بدزبانی سے مُنہ بند رکھیں اور انتظار کریں کہ ہمارا انجام کیا ہوتا ہے لیکن اُس وقت کسی نے ہماری یہ درخواست قبول نہ کی اور نہ چاہا کہ کافر اور دجّال کہنے سے باز آجائیں۔ یہاں تک کہ عدالت کو اب امن قائم رکھنے کے لئے وہی طریق استعمال کرنا پڑاجس کو ہم صلحکاری کے طور سے چاہتے تھے’’۔276
یہ دوسری کوشش تھی۔ مگر اس کے باوجود غیر احمدی علماء اپنی کُفر بازی سے باز نہ آئے۔ اِس کے بعد 1910ء میں جماعت احمدیہ میں باہم اختلاف پیدا ہوگیا اور کچھ احمدیوں نے غیر احمدیوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے مرزا صاحب کو ایسے رنگ میں پیش کرنا چاہا کہ اُن کا وجود اور عدمِ وجود برابر ثابت ہوتا تھا۔ تب جماعت احمدیہ کے اُس حصّہ نے جو کہ مرزا صاحب کی آمد کو اہم قرار دیتا تھا اُن اصطلاحات کے مطابق جو کہ احمدیوں میں پائی جاتی ہیں اور جن کا اُوپر ذکر کیا جاچُکا ہے اِس مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن اُس وقت اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کسی وقت یہ باہمی گُفت و شُنید پبلک میں افتراق پیدا کرنے کا ذریعہ بنائی جائیگی لیکن یہ گفت و شنید بھی 1922ء تک ختم ہوگئی۔ 1922ء کے بعد کوئی کتاب امامِ جماعت احمدیہ کی طرف سے ایسی نہیں نکلی جس میں اس مضمون کے متعلق اظہارِ خیالات کیا گیا ہو۔ اگر کوئی تحریر شائع ہوئی ہے تو وہ صلح کی تائید میں شائع ہوئی ہے۔ چنانچہ امامِ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے ایک تحریر ‘‘ریویو آف ریلیجنز اُردو’’ جولائی 1922ء میں شائع ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:-
‘‘جو شخص غیر احمدیوں کو کافر، یہودی اور جاہل بِلا ضرورت کہتا پھرتا ہے وہ درحقیقت شریعت کا مجرم اور فتنہ انگیز ہے۔ اگر غیراحمدی اُس کے نزدیک کافر ہیں تو اُس کو یہ کہاں سے حق حاصل ہو گیا کہ وہ اُن کو کافر کہتا پھرے..... بِلا وجہ اور بے ضرورت اِس قسم کے مضامین اخبار میں نکالنا اور زبانی کہتے پھرنا واقع میں فتنہ کا مؤجب ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو مَیں اُس کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق کو درست کرے ورنہ وہ خدا کے نزدیک گنہگار ہے’’۔
اِسی طرح یکم مئی 1935ء کو آپ کا ایک خطبہ الفضل میں چَھپا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ:-
‘‘اب بھی ہمیں کس طرح بار بار اُن کی طرف سے کافر کہا جاتا ہے اور اخبارات میں لکھا جاتا ہے۔ کیا ہمارے اخبارات میں بھی لکھا جاتا ہے کہ احراری کافر ہیں؟ ہم تو کہتے ہیں جو کسی کو بِلا وجہ کافر کہتا ہے وہ اُس کی دِل آزاری کرتا ہے’’۔
پس ہماری طرف سے برابر یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ ان الفاظ کو استعمال نہ کیا جائے لیکن احرار اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے ان الفاظ کو کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ الفاظ جو کسی زمانہ میں صرف جواباً استعمال کئے گئے تھے اور جو گزشتہ پچاس برس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی استعمال نہیں کئے گئے اشتعال دلانے کے لئے اُن کا باربار ذکر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی کو پیٹھ پیچھے گالی دی اور دوسرے شخص نے وہ گالی اُس کو پہنچا دی تو اُس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی نے کسی شخص کو تیر مارا اور وہ لگا نہیں لیکن دوسرے شخص نے وہ تیر اُٹھایا اور اُس کے سینہ میں گھونپ دیا۔
خدام کو نصائح
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام کو نصائح
(فرمودہ 5اپریل 1952ء برموقع افتتاح دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘جس وقت یہ زمین خریدی گئی تھی اس وقت مَیں نے تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ سے جو اس زمین کے خریدار تھے یہ خواہش کی تھی کہ وہ انصار اﷲ اور خدام الاحمدیہ کے لئے بھی ایک ایک ٹکڑا وقف کریں۔ چنانچہ بارہ بارہ کنال زمین دونوں کے لئے وقف کی گئی۔ بارہ کنال زمین کے یہ معنے ہیں کہ 65 ہزار مربع فٹ کا رقبہ ان کے پاس ہے اگر اسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ بہت بڑے کام آسکتا ہے۔ مثلاً اس کے ارد گرد چار دیواری بنالی جائے تو آئندہ سالانہ اجتماع بجائے اس کے کہ کسی اَور میدان میں کیا جائے بڑی عمدگی کے ساتھ اس جگہ ہو سکتا ہے۔ 65 ہزار مربع فٹ زمین میں سے اگر عمارتوں اور سڑکوں کو نکال لیا جائے مثلاً عمارتوں اور سڑکوں کے لئے 25 ہزار مربع فٹ زمین نکال لی جائے تو چالیس ہزار مربع فٹ زمین باقی بچتی ہے اور دس دس فٹ زمین ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے بلکہ 15،15 فٹ زمین بھی ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے تو چالیس ہزار فٹ زمین میں اڑھائی تین ہزار آدمی سو سکتا ہے اور اتنے نمائندے ہی اجتماع میں ہوتے ہیں۔ پھر اگر زیادہ نمائندے آجائیں تو سڑکوں وغیرہ کے لئے زمین کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ پھر پاس ہی انصار اﷲ کا دفتر ہو گا۔ اگر دونوں مجالس کے سالانہ اجتماع ایک ہی وقت میں نہ ہوں تو 24 کنال زمین استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔ انہیں ضرورت ہو تو تم اپنی جگہ انہیں دے دو اور تمہیں ضرورت ہو تو وہ اپنی جگہ تمہیں دے دیں اس طرح مقامی جگہ کی عظمت قائم ہو سکتی ہے۔ پس میرے نزدیک آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی نہ کسی قسم کی چار دیواری اس زمین کے ارد گرد ہو جائے۔ خواہ وہ چار دیواری لکڑیوں کی ہی کیوں نہ ہو۔ بارہ کنال کی چار دیواری پر اڑھائی تین ہزار روپیہ خرچ آئے گا بلکہ اس سے بھی کم اخراجات میں چار دیواری بن جائے گی’’۔
اس موقع پر محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدّام الاحمدیہ نے عرض کیا کہ پتھروں کی چار دیواری بارہ سَو روپیہ میں بن جاتی ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا:-
‘‘میرے مکان کی چار دیواری کو لیا جائے تو یہ اندازہ بہت کم ہے۔ اتنی رقم میں چار دیواری نہیں بن سکتی’’۔
صاحبزادہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور اس رقم میں صرف چار فٹ اُونچی چاردیواری بنے گی۔حضور نے فرمایا:-
‘‘ہاں اگر چار فٹ اُونچی چار دیواری بنائی جائے تو اتنی رقم میں کام ہو سکتا ہے لیکن چار فٹ اُونچی چار دیواری سے پردہ نہیں ہوتا۔ بہرحال اگر چار دیواری بن جائے تو مرکز کا اثر بیرونی مجالس پر بڑھ جائے گا۔ عورتوں کے متعلق مجھے تجربہ ہے کہ جب وہ کوئی بنی ہوئی چیز دیکھتی ہیں تو پہلے سے بڑھ کر روپیہ خرچ کرتی ہیں اور نوجوانوں میں تو یہ سپرٹ (Spirit)زیادہ ہونی چاہئے۔ جب سالانہ اجتماع ہو گا۔ خدّام باہر سے آئیں گے اور چاردیواری بنی ہوئی دیکھیں گے تو وہ سمجھیں گے کہ ان کا روپیہ نظر آنے والی صورت میں لگ رہا ہے اور ان کا جوش بڑھ جائے گا۔ دفاتر میں جو روپیہ لگتا ہے وہ انہیں نظر نہیں آتا۔ اگر تم کہو کہ دفتر میں کاغذ ، سیاہی، قلم، پنسل اور کارکنوں کی تنخواہوں پر روپیہ صَرف ہوتا ہے تو چونکہ یہ خرچ انہیں نظر نہیں آتا وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا روپیہ صحیح طور پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو روپیہ تنظیم پر خرچ ہوتاہے وہ نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے قوم کی طرف سے جب بھی کوئی اعتراض ہوتا ہے تو وہ تنظیم سے متعلقہ اخراجات پر ہی ہوتا ہے اور کسی چیز پر نہیں۔ مثلاً وہ کہیں گے تعلیم پر کس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے۔ ہسپتالوں پر کس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے۔ غریبوں کی امداد کے لئے کس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے، غرباء کے وظائف پر کس قدر رقم خرچ ہوئی ہے اور اگر انہیں یہ بتایا جائے کہ کام کو چلانے کے لئے اتنے سیکرٹریوں کی ضرورت ہے، پھر دفتری اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے، سفر خرچ کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ ضائع ہو گیا۔ اگرچہ ایسا اعتراض کرنا حماقت ہوتا ہے کیونکہ سب سے اہم چیز مرکزیت ہوتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمیشہ ان اخراجات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ تم انگلستان کی تاریخ کو لے لو، امریکہ کی تاریخ کو لے لو، فرانس کی تاریخ کو لے لو، جرمنی کی تاریخ کو لے لو، جاپان کی تاریخ کو لے لو، روس کی تاریخ کو لے لو جب کبھی بھی میزانیہ پر اعتراض ہؤا ہے تو اس کے اسی حصّہ پر ہؤا ہے جو تنظیم کے لئے خرچ ہؤا ہے کیونکہ یہ اخراجات نظر نہیں آتے۔ پس نظر آنے والا خرچ لوگوں میں مزید چندہ دینے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ اگر تم اس جگہ کو زیادہ سے زیادہ اعلیٰ بناتے جاؤ گے تو خدّام میں چندہ کی تحریک ہوتی رہے گی مثلاً میدان کو چھوڑ کر دیواروں کے ساتھ ساتھ پھُول لگائے جائیں۔ چونکہ اس جگہ پرتمہیں سالانہ اجتماع بھی کرنا ہو گا اس لئے تم چمن تو بنا نہیں سکتے لیکن دیواروں کے ساتھ ساتھ پھُول لگائے جاسکتے ہیں۔ اس طرح نظارہ اور زیادہ خوبصورت بن جائے گا۔ پھر بیچ میں چند فٹ کی سڑک رکھ کر اس کے ارد گرد بھی پھُول لگائے جاسکتے ہیں۔ جب خدّام آئیں گے اور اس جگہ کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ صحیح طور پر استعمال ہؤا ہے۔
اس کے بعد مَیں آپ لوگوں کے لئے دُعا کروں گا۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہیں جلد مرکز بنانے کی توفیق دے دی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ انصار اﷲ نے ابھی مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی۔ دُنیا میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بوڑھے تجربہ کار ہوتے ہیں لیکن ہماری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ بُڈھے بیکار ہوتے ہیں اور بیکار کا کوئی کام نہیں اس لئے انصار اﷲ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کوئی کام نہیں کرتے تو وہ اپنے عہدے کے مطابق کام کرتے ہیں۔ قادیان میں بھی انصار اﷲ نے زیادہ کام نہیں کیا اور اب یہاں بھی انصاراﷲ کام نہیں کرتے۔ شاید یہ چیز ہو کہ صدر انجمن احمدیہ کے بڑے بڑے افسر اس مجلس کے عہدیدار ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صدر انجمن احمدیہ کے کاموں سے فرصت نہیں۔ بہرحال انصار اﷲ کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اپنا مرکز بناتے لیکن اُنہوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ یہ غلط خیال ہے کہ چونکہ قادیان واپس ملنا ہے اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ ایک صاحب یہاں ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں ان سے جب بھی کوئی بات پوچھی جائے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اس لئے یہاں مکان بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ قادیان کے لئے جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکّہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں لیکن کیا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ واپس گئے؟ ہم تو یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ہم قادیان واپس جائیں گے اور وہی ہمارا مرکز ہو گا لیکن جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ سے مدینہ چلے گئے تو مکّہ میں واپس نہیں آئے حالانکہ مکّہ فتح ہو گیا تھا۔ آپ نے مدینہ کو چھوڑا نہیں۔ پھر بعد میں مدینہ ہی حکومت کا مرکز بنا اور وہیں سے اسلام ارد گرد پھیلنے لگا۔ مکّہ صرف حج کے لئے رہ گیا مکّہ صرف اعتکاف کی جگہ بن گئی یا جو لوگ اپنی زندگیا ں وقف کر کے مکّہ چلے جاتے تھے ان کی جگہ رہی لیکن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ ہی رہے اور وہیں آپؐ فوت ہوئے۔ خداتعالیٰ کیا کرے گا؟ آیا اس کے نزدیک ہمارا یہاں رہنا بہتر ہے یا قادیان واپس جانا بہتر ہے ہمیں اس کا علم نہیں۔ پس یہ حماقت کی بات ہے کہ محض ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو کسی جگہ کے تقدس پر دلالت کرتی ہیں جبکہ ان پیشگوئیوں سے زیادہ پیشگوئیاں دوسری جگہ کے متعلق موجود تھیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں کسی اَور شکل میں پورا کیا تھا۔ ہم یہ خیال کرلیں کہ ہمیں کسی اور جگہ کی ضرورت نہیں۔ اگر بڑی جگہ کے لئے جو پیشگوئیاں تھیں وہ ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو چھوٹی جگہ کے لئے یہ کیوں ضروری خیال کرلیا گیا ہے کہ اس کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں ہی پوری ہوں گی۔ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ وہی آیات ہیں جو مکّہ کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ وہ آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دوبارہ نازل ہوئی ہیں اور جب وہ پیشگوئیاں مکّہ کے لئے بھی ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو ہم کیا لگتے ہیں کہ یہ کہیں کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم واپس مکّہ تشریف نہیں لے گئے بلکہ مدینہ میں ہی مرکز بنا کر کام کرتے رہے۔ صرف آپؐ حج کے لئے مکّہ تشریف لے جاتے تھے اور حج کر کے واپس تشریف لے آتے تھے۔ پھر حضرت ابو بکر ؓ واپس مکّہ نہیں گئے۔ حضرت عمر ؓ واپس مکّہ نہیں گئے، حضرت عثمان ؓ واپس مکّہ نہیں گئے، حضرت علیؓ واپس مکّہ نہیں گئے۔ یہ سب حج کے لئے مکّہ جاتے تھے اور واپس آجاتے تھے۔ حکومت کا مرکز مدینہ ہی رہا اور یہیں سے اسلام ارد گرد کے علاقوں میں پھیلا۔ پس جب پیشگوئیوں سے کسی جگہ کی عظمت ظاہر ہوتی ہے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پیشگوئیاں ضرور ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی حماقت ہے۔ چاہے بعد میں وہ پیشگوئیاں ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو جائیں لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ جس چیز میں خدا تعالیٰ نے اُسے اب رکھا ہے اُسی میں وہ راضی رہے۔
خدا تعالیٰ کا معاملہ جو ہمارے ساتھ ہے وہ کتنا عجیب ہے۔ ایک چور سیندھ لگاتا ہے اور پھر توبہ کر لیتا ہے تو خداتعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ دوسرے دن پھر سیندھ لگائے گا۔ پھر وہ دوسرے دن سیندھ لگاتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے وہ پھر سیندھ لگائے گا۔پس خداتعالیٰ باوجود اس کے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے ہمارے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم لوگ باوجود علم غیب نہ ہونے کے خدا تعالیٰ کے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ بھی ہمارے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرے تو چونکہ اُسے علم ہے کہ مجرم دوبارہ جُرم کرے گا اُسے علم غیب حاصل ہے اس لئے کسی کی توبہ قبول نہ ہو۔ اس طرح ہزاروں لوگ مارے جائیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ گناہ کرتے ہیں تو پھر بعض اوقات بڑی سٹرگل (STRUGGLE) کے بعد اس گناہ سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ اگرخداتعالیٰ توبہ قبول کرنے سے انکار کر دے توکوئی شخص گناہ سے نجات حاصل نہ کرے۔ توبہ ضمیر کو روشن کرتی ہے اور انسان کو گناہ سے روکتی ہے۔ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس شخص نے توبہ توڑ دینی ہے، باوجود اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ پھر فساد کرے گا، لڑائی کرے گا، گالیاں دے گا اور جھوٹ بولے گا وہ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے گویا خدا تعالیٰ باوجود علم غیب رکھنے اور جاننے کے کہ مجرم دوبارہ جُرم کرے گا وہ اس سے حاضر والا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم باوجود علم غیب نہ ہونے کے خداتعالیٰ سے مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ بیوقوفی اور کیا ہو گی۔ ہمیں خدا تعالیٰ سے حاضر والا معاملہ کرنا چاہئیے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہیے اور اپنا کام کرتے چلے جاناچاہیے۔ ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہؤا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دُور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں۔ اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مر جائیں۔ اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں خدا تعالیٰ نے تمہیں رکھا ہے تمہیں اسی میں فوراً کام شروع کر دینا چاہئے۔ خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جاکر کام شروع کر دو لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو۔ مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اُسے موت آجاتی ہے۔ گویا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہے۔
آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ اپنا مرکز تعمیر کر لیا اور خدا کرے کہ انصار اﷲ کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہو اور وہ اس حماقت کو چھوڑ دیں کہ قادیان واپس جانے کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں ہیں اس لئے قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گی اور چونکہ قادیان ہمیں واپس ملے گی اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکّہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں ظاہری معنوں کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئیں اس لئے ہمیں بھی پتہ نہیں کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ مکّہ کے متعلق بھی بہت پیشگوئیاں موجود تھیں بلکہ ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا لیکن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فتح کے بعد بھی مدینہ میں ہی رہے مکّہ واپس نہیں گئے۔ قادیان مکّہ سے بڑھ کر نہیں۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اگرچہ ہم بھی اُمید رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور ایک مومن کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ ہمیں واپس ملے گا اور وہیں ہمارا مرکز ہو گا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عملاً ہمارا مرکز وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالیٰ رکھنا چاہتا ہے۔ پس ہمیں اس نکتہ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو وسیع کرنا چاہئے اور اس بات کو نظر انداز کر کے کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے۔ بلکہ مَیں تو کہوں گا کہ اگر ہمیں تار بھی آجائے کہ آؤ اور قادیان میں بس جاؤ تو بھی تمہیں شام تک کام کرتے چلے جانا چاہئے تا یہ پتہ لگے کہ ہمیں کام سے غرض ہے۔ ہمیں قادیان سے کوئی غرض نہیں، ہمیں ربوہ سے کوئی غرض نہیں۔ اگر ہمیں خدا تعالیٰ لے جائے ہم وہاں چلے جائیں گے ورنہ نہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے نوکر ہیں کسی جگہ کے نوکر نہیں۔ اگر ہم کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اُسے عزّت دی ہے۔ پس مومن کو اپنے کاموں میں سُست نہیں ہونا چاہئے۔ پھر نوجوانوں کی عمر تو کام کی عمر ہے انہیں اپنے کاموں میں بہت چُست رہنا چاہئے’’۔
(الفضل ربوہ ۔ فضل عمر نمبر 1966ء)
سب کا فرض ہے کہ
وہ درس القرآن میں شامل ہؤا کریں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہؤا کریں
( فرمودہ 23جون 1952ء بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘آپ لوگ جو اس وقت یہاں دُعا کے لئے جمع ہوئے ہیں تو کسی ایسی دُعاکے لئے جمع نہیں ہوئے جس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہو یا سُنت سے ملتا ہو یا احادیث سے ملتاہو بلکہ ایک ایسی دُعا کے لئے جمع ہوئے ہیں جو ہم میں صرف رسماً پیدا ہو گئی ہے یعنی قرآن کریم کے درس کے اختتام پر کی جانے والی دُعا۔ جس دُعا کا ہمیں قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے وہ دُعا وہ ہے جو تہجد کے وقت کی جاتی ہے یا ایک روزہ دار سحری کھانے سے پہلے کرتا ہے۔ ہماری یہ دُعا بالکل ایسی ہی ہے جیسے پُرانے مسلمانوں کی رسم تراویح تھی اُنہوں نے تراویح کو اختیار کر لیا اور تہجد کو چھوڑ دیا۔ تم نے بھی رمضان کے ایک دن جمع ہو کر دُعا کرنا اختیار کر لیا اور رمضان کی تیس دنوں کی دُعا کو چھوڑ دیا۔ گویا اُنہوں نے بھی جادو اور ٹونے کا راستہ نکال لیا اور تم بھی جادو اور ٹونہ کا رستہ نکال رہے ہو۔ اگر یہ دُعا زائد ہوتی تو پھر یہ ایک عمدہ چیز تھی جیسے فرض خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں، سُنتیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ملا لیں، نفل ہر انسان جتنا دل چاہتا ہے پڑھ لیتا ہے۔ جب سُنتیں فرض کے ساتھ ادا ہوتی ہیں تو وہ نیکی کو زیادہ کرتی ہیں۔ جب نفل سُنتوں کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں تو نیکی کو زیادہ کرتے ہیں لیکن فرض کو چھوڑ کر سُنتیں ادا کرنا یا سُنتوں کو چھوڑ کر نفل ادا کرنا انسان کو گنہگار بناتا ہے۔ اس وقت جتنے لوگ یہاں جمع ہیں اگر اتنے ہی لوگ ہر روز درس کے لئے آیا کرتے تھے تو ان کا آج کا آنا ان کے ثواب کو بڑھانے والا ہے لیکن اگر آج کا اجتماع روزانہ کے اجتماع کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ اگر جتنے لوگ اب جمع ہوئے ہیں ان کا بیسواں حصّہ بھی روزانہ درس میں جمع نہیں ہوتے تھے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم نے بھی ایک رسم کو اختیار کر لیا ہے جیسے دوسرے لوگوں نے تراویح کو تہجد کا قائمقام بنا لیا۔ آخر کیا فائدہ ہے اس دُعا کا اور کیا نتیجہ ہے جو ایسی دُعا سے نکل سکتا ہے۔ آخر ہمارا خدا کوئی بھولا بھالا بچہ تو نہیں۔ تم ایک بچہ کو بعض دفعہ پیسہ دے کر کہتے ہو کہ یہ روپیہ ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔ تم بعض دفعہ اپنی خالی انگلیاں اس کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہو اور کہتے ہو یہ مٹھائی ہے تووہ ہنس دیتا ہے۔ کیا اسی طرح تم بھی یہ خیال کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے اس دھوکا میں آجائے گا تم اسے پیسہ دے کر کہو گے کہ یہ روپیہ ہے اور وہ دھوکا کھا جائے گا۔ تم اس کے ہاتھ میں خالی انگلیاں رکھ دو گے اور کہو گے یہ مٹھائی ہے تو وہ ہنس دے گا۔ آخر یہ قرآن کریم کے کس پارہ اور کس سورۃ میں آتا ہے کہ رمضان میں قرآن کریم کے ختم ہونے پر سب مل کر دُعا کرو تو وہ قبول ہو جاتی ہے۔ یا کونسی حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ آخری روزہ کو عصر کے وقت دُعا کرو تو اﷲ تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے۔ صحاح ستّہ تو کیا کسی کمزور سے کمزور روایت میں بھی اس دُعا کا ذکر نہیں۔ حدیثوں میں یہ تو آتا ہے کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ اس میں جو دُعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے، 1حدیثوں میں یہ تو آتا ہے کہ رمضان میں لیلۃ القدر آتی ہے اس رات جو دُعا کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے۔2 اسی طرح قرآن کریم میں یہ تو آتا ہے کہ رمضان کی راتوں میں خصوصاً لیلۃ القدر میں دُعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن مَیں نے نہ قرآن میں، نہ حدیث میں اور نہ اسلام میں کسی اور جگہ یہ دیکھا ہے کہ رمضان کے آخری دن تم اکٹھے ہو جایا کرو تو اس دن تم جو دُعا کرو گے وہ قبول ہو جائے گی۔ مَیں خود درس دیا کرتا تھا تو آخر میں دُعا بھی کر لیا کرتا تھا کیونکہ اُس وقت میرا دُعا کرنا رسم نہیں تھا لیکن اب جبکہ مَیں درس نہیں دیتا جب مجھے دُعا کے لئے بُلایا جاتا ہے تو میری طبیعت پر سخت گراں گزرتا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ دُعا محض ایک رسم کے اختیار کر لی گئی ہے۔ جو لوگ درس دیتے رہے ہیں یا جو روزانہ درس سُنتے رہے ہیں وہ تو کچھ نہ کچھ حق بھی رکھتے تھے کہ دُعا میں حصّہ لیں لیکن وہ لوگ جو آج سینکڑوں کی تعداد میں آئے ہوئے ہیں وہ یقیناً ایک رسم کے ماتحت آئے ہیں۔ جس شخص نے درس دیا ہے یا جن لوگوں نے روزانہ درس سُنا ہے ان کے لئے تو دُعا کا موقع ہے لیکن باقی لوگوں کے لئے یہ محض ایک رسم ہے دُعا کا کوئی موقع نہیں اور رسم پر چلنا کسی مومن کا کام نہیں ہو سکتا۔
اگر چہ وقت کم ہے اور لوگوں نے روزہ افطار کرنا ہے اس لحاظ سے ضروری ہے کہ دس بارہ منٹ روزہ افطار ہونے سے قبل دعا کر دی جائے لیکن تاہم مَیں نے اس کے متعلق کچھ بیان کرنا مناسب سمجھا۔ میری طبیعت پر ہمیشہ گرانی سی رہتی ہے اور مَیں چَٹی سمجھ کر دُعا کے لئے آتا رہا ہوں کیونکہ مَیں ابھی تک اس اجتماع کی حکمت کو نہیں سمجھ سکا۔ نہ قرآن کریم کی کوئی آیت مجھے اس کی تصدیق میں ملی ہے اور نہ کوئی حدیث مجھے اس کی تصدیق میں ملی ہے ۔ہاں جنہوں نے قرآن کریم پڑھایا ہے یا قرآن کریم کا درس سُنا ہے ان کی دُعا تبرکاً قبول ہو سکتی ہے۔ یوں پڑھنے والے گھروں پر قرآن پڑھتے ہی ہیں مثلاً ہم نے بھی قرآن کریم ختم کئے ہیں۔ چنانچہ ہمیشہ مَیں نے دیکھا ہے کہ رمضان میں پانچ سات بلکہ آٹھ نو دفعہ قرآن کریم ختم ہو جاتا ہے۔ اس دفعہ بھی بیماری اور ضُعف کے باوجود میں نے پانچ دفعہ قرآن کریم ختم کیا ہے اور مجھے حق ہے کہ اس موقع پر مَیں دُعا کروں لیکن اس مجلس میں نہیں کیونکہ مَیں نے اس مجلس میں قرآن کریم نہیں سُنا۔ مَیں نے گھر میں قرآن کریم پڑھا ہے اور گھر میں دُعائیں بھی کرتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ انہیں قبول بھی فرماتا ہے لیکن تم میں بہت سے ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے نہ تو روزہ رکھنے کی کوشش کی اور نہ یہاں آکر قرآن کریم سُننے کی کوشش کی۔ خود تو ان میں یہ قابلیت نہیں تھی کہ وہ قرآن کریم سمجھ سکتے ان کے لئے موقع تھا کہ وہ یہاں آتے اور قرآن کریم سُنتے لیکن وہ یہاں نہیں آئے۔ جو میرے پاس رپورٹیں آتی رہی ہیں ان میں یہی لکھا ہوتا تھا کہ دو تین سو آدمی درس سننے کے لئے آتے ہیں لیکن اس وقت دو تین ہزار کا مجمع ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہر دس میں سے نو آدمی یہاں کیوں آئے ہیں اور آخر اُنہوں نے کیا کام کیا ہے کہ آج خدا تعالیٰ اُن کی دُعا سُنے۔ ہاں جنہوں نے قرآن کریم سُنا ہے وہ اگر کہیں کہ اے خدا! ہم نے تیرے نشانات دیکھے ، تیری آیات پڑھیں، تیرا کلام سُنا۔ اب ہم قرآن کریم ختم کرنے لگے ہیں، اے خدا! تو ایک اور نشان ہمارے لئے دکھا جس سے ہمارے ایمان تازہ ہوں تو یہ معقول بات ہو گی۔ جس شخص نے قرآن سُنایا ہے وہ اگر کہے کہ اے اﷲ! مَیں سُنی سنائی باتیں سُناتا رہا ہوں تُو اب ایک زندہ نشان میرے لئے بھی ظاہر فرما تو یہ معقول بات ہو گی لیکن جو درس میں آتا ہی نہیں رہا وہ کیا کہے گا؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ اے خدا! سارا مہینہ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نشانات سُنائے جاتے رہے، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے نشانات سُنائے جاتے رہے لیکن مَیں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ آج اور لوگ آئے ہیں تو مَیں بھی آگیا ہوں تُو میری دُعا بھی سُن لے۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسے شخص کی دُعا قبول ہو سکتی ہے؟ یہ تو ویسا ہی لطیفہ ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک زمیندار تھا جس نے ابھی شہر نہیں دیکھا تھا۔ اس کی بیوی اسے روز کہتی کہ مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے جب لوگ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ تیرے خاوند نے ابھی شہر بھی نہیں دیکھا۔ پانچ میل پر تو شہر ہے کسی دن جا اور جاکر شہر دیکھ آ۔ ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ تُو ہر روز مجھے طعنے دیتی رہتی ہے کہ تُو نے ابھی تک شہر نہیں دیکھا تُو مجھے آٹا گوندھ دے مَیں شہر دیکھ آتا ہوں۔ بیوی نے آٹا گوندھ کر دے دیا اور وہ شہر کو چل پڑا۔ چادر اس نے کندھے پر ڈال لی اور بازار میں پھرتا رہا۔ دیہات میں اگر کوئی آئے تو وہ کسی گھر میں چلا جاتا ہے اور گھر والوں سے کہتا ہے میری روٹی بھی پکا دو اور وہ اسے روٹی پکا دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کہہ دیتے ہیں آٹے کی کیا ضرورت ہے روٹی ہم نے پکا ئی ہی ہے تم یہاں آکر روٹی کھا لینا لیکن شہروں میں یہ رواج نہیں ہوتا وہاں تو نفسا نفسی ہوتی ہے۔ وہ زمیندار کسی گھر میں گھُسا اور کہا آٹا لے لو اور میری روٹی پکا دو۔ گھر والوں نے کہا نکلو باہر تم ہمارے مکان میں کیوں گھُسے ہو۔ وہ دوسرے گھر گیا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا، تیسرے گھر گیا تو وہاں بھی یہی سلوک ہؤا، یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور عصر کا وقت آگیا کسی نے اسے روٹی پکا کر نہ دی۔ وہ اب ایک جگہ حیران ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پاس ہی ایک حلوائی پوریاں تَل رہا تھا۔ اس نے حلوائی سے دریافت کیا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا میں لچیاں تَل رہا ہوں۔ زمیندار نے دیکھا کہ وہ نہایت چھوٹے چھوٹے پیڑوں کی ٹکیاں بنا کر تَل رہا ہے اور انہیں لُچیاں کہتا ہے۔ اس نے آٹا کی گرہ کھولی جو چادر کے ایک طرف باندھا ہؤا تھا اور آٹے کا ایک بڑا سا پیڑا بنا کر زور سے کڑاہی میں دے مارا اور کہا میرا بھی لُچ تل دے۔ حلوائی کا گھی کڑاہی سے باہر جا پڑا اور وہ شور مچانے لگ گیا۔ تمہاری دُعا بھی ایسی ہی ہے ۔ کچھ تو سارا ماہ لُچیاں تلتے رہے یعنی درس دیتے رہے۔ کچھ لُچیاں خریدتے رہے یعنی درس سُنتے رہے لیکن جب آخری دن آیا تو تم نے بھی اپنا آٹا کڑاہی میں دے مارا کہ میرا بھی لُچ تَل دو۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسی حالت میں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ یہی ہو گا کہ تمہیں جیل خانہ بھیج دیا جائے گا۔
غرض رسموں کا طریق مردہ قوموں کا طریق ہوتا ہے ہمارا طریق نہیں ۔ اگر تمہارے اندر جرأت ہوتی تو جیسے تم پہلے نہیں آئے آج بھی نہ آتے۔ اگر تیس دن گناہ میں تم نے اپنے آپ کو منافق نہیں بنایاتو آج تم اپنے آپ کو کیوں منافق بناتے ہو۔ آج بھی تم میں جرأت ہونی چاہئے تھی کہ اگر سارا ماہ تم نہیں آئے تو آج بھی تم یہاں نہ آتے۔ اگر تم ایسا کرتے تو یہ بات تمہارے لئے زیادہ نیکی کا موجب ہوتی۔ اگر تم ایسا کرتے تو اگلے سال تمہیں خیال آتا کہ میں بھی درس میں جاؤں تا دُعا میں شریک ہوسکوں۔ اگر تم چھ دن مسجد میں نہیں آتے لیکن جمعہ کے دن آجاتے ہو تو ہم کہیں گے تم نے ایک دن تو نیکی کر لی ہے کیونکہ اس کا حکم قرآن کریم میں ہے لیکن اس دُعا کا حکم قرآن کریم میں نہیں، اس دُعا کا حکم حدیث میں نہیں۔ یہ دُعا تبھی دُعا کہلا سکتی ہے جب تم تیس دن قرآن کریم سُنتے ، پڑھتے اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنے لئے رحم طلب کرتے۔ اگر تم ایسا کرتے تو تمہاری یہ بات طبعی ہوتی۔ اگر تم روٹی پکاتے ہو تو تمہارا حق ہے کہ تم روٹی کھاؤ لیکن یہ نہیں کہ تم روٹی تو نہ پکاؤ لیکن اپنے ہمسائے کی روٹی لے کر کھالو۔ اگر تم روٹی پکاتے تو تمہارا حق تھا کہ آج آتے اور روٹی کھاتے لیکن یہ نہیں کہ آٹا کسی نے گوندھا ، روٹی تو کسی نے پکائی اور روٹی کھانے کے لئے تم آجاؤ یعنی درس کسی نے دیا، گلا کسی نے بٹھایا، سُنا کسی نے لیکن آج جب قرآن کریم ختم کرنے کا وقت آیا تو تم بھی آگئے کہ ہماری دُعا قبول ہو جائے۔ آج ہر دس آدمیوں میں سے نو آدمی ایسے ہیں جو دوسرے کا مال کھانے کے لئے آگئے ہیں اُنہوں نے سارا ماہ دُعا نہیں کی لیکن آج یہاں آگئے ہیں تا دُعا میں شریک ہو جائیں لیکن ہمارا خدا دھوکا میں نہیں آتا ممکن ہے کوئی دل آج اپنے فعل پر افسردہ ہو، شرمندہ ہو اور پھر یہاں آ گیا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی دُعا سُن لے کیونکہ ہمارا خُدارحیم و کریم ہے لیکن جو لوگ آج رسماً یہاں آگئے ہیں خدا تعالیٰ ان کی دُعائیں نہیں سُنے گا کیونکہ یہ دُعا نہیں بلکہ محض ایک تمسخر ہے۔باقی وہ جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف تھا اور اُنہوں نے سارا ماہ قرآن کریم سُنا ، قرآن پڑھا اور روزے رکھے ان کے لئے بے شک یہ دُعا کا موقع ہے ۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا! رمضان جارہا ہے، برکت کی گھڑیاں جو تُو نے ہمیں دی تھیں وہ اب جا رہی ہیں۔ لگے ہاتھوں اب میری دُعا بھی سُن لے۔
صرف ایسے ہی لوگوں کو مَیں کہتا ہوں کہ ہمارا خدا نہ تو ہمارے آنسوؤں کا محتاج ہے نہ وہ ہمارے گڑ گڑانے کا محتاج ہے اور نہ وہ ہماری کسی اور حرکت کا محتاج ہے۔وہ صرف ایک گداز دل کی آہ سُننے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ وہ مومن کا دل دیکھتا ہے اور اس کے دل کے درد کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے۔ بچہ جب سوتے سوتے رات کو درد کے ساتھ کراہتا ہے تو ماں اس کی طرف دوڑ پڑتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ بچہ چلّاتا ہے یا نہیں وہ اس کے رونے کا انتظار نہیں کرتی۔ سو دُکھ کی نکلی ہوئی آواز خدا تعالیٰ سُنتا ہے۔ اگر ہمیں دُکھ ہے تو تمہاری دُعائیں اسی طرح سُنی جائیں گی جس طرح تم سے پہلی جماعتوں کی دُعائیں سُنی گئیں اور خدا تعالیٰ تمہاری طرف اسی طرح دوڑے گا جس طرح وہ پہلے انبیاء کی جماعتوں کی طرف دَوڑا۔ پس مَیں ایسے دلوں سے کہتا ہوں کہ تم دُعائیں کرو۔ کسی لمبی دُعا کی ضرورت نہیں۔درد سے نکلا ہؤا ایک فقرہ بھی خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتا ہے۔
تم دُعائیں کرو اُن مبلّغوں کے لئے جو دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور دین کا کام کررہے ہیں۔ وہ صرف اپنا فرض ہی ادا نہیں کر رہے بلکہ تمہاری نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔ دُعائیں کرو ان جماعتوں کے لئے جنہوں نے نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا اور نہ آپ کے خلفاء کو دیکھا لیکن اسلام کی فتح کے لئے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں وہ برابر کی شریک ہیں اور وہ ایمان بالغیب لے آئی ہیں۔ دُعائیں کرو ان لوگوں کے لئے جو اس مُلک کے رہنے والے ہیں کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھے لیکن اُنہوں نے آنکھیں بند کر لیں خدا تعالیٰ انہیں آنکھیں دے اور ہدایت پانے کی توفیق دے۔ دُعائیں کرو ان فتنوں کے لئے جو احمدیت کے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں کہ وہ خدا جس کے ''کُن'' کہنے سے ہر چیز پیدا ہوتی ہے اور فنا ہوتی ہے وہ ان فتنوں کو مٹا دے اور اپنا خاص نشان دکھائے۔ دُعائیں کرو اپنے لئے کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں دُعا کی توفیق دے۔ دُعائیں کرو ان مُردہ دلوں کے لئے جو تمہارے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان نہیں وہ ایمان کا جبّہ پہنے ہوئے ہیں لیکن درحقیقت وہ بھیڑیئے ہیں جنہوں نے بھیڑوں کی کھال پہنی ہوئی ہے اﷲ تعالیٰ ان کی اصلاح کرے اور انہیں صحیح ایمان بخشے۔ پھر دُعائیں کرو ان لوگوں کے لئے جنہوں نے پارٹیشن کے موقع پر اپنے ایمان کو کھو دیا اور وہ چوری، بے ایمانی، بد دیانتی ، جھوٹ، فریب اور دوسری ناجائز حرکات کے مرتکب ہوئے کہ خدا تعالیٰ ان کو سمجھ دے، ان کو توبہ کی توفیق دے اور ان کو اس ذلیل حالت سے بچائے جو اُن کو دوزخ سے ورے نہیں رکھ سکتی۔ پھر دُعائیں کرو اپنے بیوی بچوں کے لئے، اپنے قریبیوں اور دوستوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو اس موقع پر یہاں حاضر نہیں ہو سکے لیکن اُنہوں نے دُعا کی تحریک کی ہے کہ اﷲتعالیٰ سب پر فضل کرے، سب کے کاموں میں برکت دے، ان کی مُشکلات اور تنگیاں دُور کرکے ان کے لئے فراخی کے سامان پیدا کرے اور یہ کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری زبانوں اور تحریروں میں برکت ڈالے اور لوگ زیادہ سے زیادہ احمدیت میں داخل ہوں مگر اس احمدیت میں نہیں جس کا نمونہ تم میں سے بعض پیش کر رہے ہیں بلکہ اُس احمدیت میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دُنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے’’۔
(الفضل ربوہ 23مارچ 1960ء)
1: بخاری کتاب الجُمُعَۃِ باب السَّاعَۃ الَّتِیْ فی یَوْمِ الْجُمُعَۃِ
پاکستان میں قانون کا مستقبل
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان میں قانون کا مستقبل
(محررہ جولائی 1952ء)
سندھ مسلم لاء کالج نے ایک سہ ماہی رسالہ ''پاکستان لاء ریویو'' کے نام سے کراچی سے جاری کیا جس کے اگست 1952ء کے شمارہ میں حضرت مصلح موعود کا رقم فرمودہ حسب ذیل مقالہ سپردِ اشاعت ہؤا۔
‘‘مجھے یہ معلوم کر کے از حد مسرّت ہوئی ہے کہ سندھ مسلم لاء کالج عنقریب ایک سہ ماہی رسالہ اس مقصد کے لئے جاری کر رہا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو قانون کے سائنٹیفک طور پر مطالعہ کرنے کی طرف عموماً اور پاکستان میں قوانین کو بہتر بنانے کے متعلق امور پر بحث کرنے کی طرف خصوصاً راہنمائی کر سکے تاکہ اس طرح عام لوگوں اور ماہرین علم قانون کے نظریات اور خیالات میں یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور تاکہ ماہرین علم قانون اپنے اہم فرائض سے بہتر طریق پر زیادہ سہولت کے ساتھ عُہدہ برآ ہو سکیں۔
اس میں شک نہیں کہ علم قانون دوسرے علوم کی طرح بلکہ ان میں سے اکثر سے کچھ زیادہ ہی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کو انسانی عمل اور تجربہ کی روشنی میں منضبط اور مرتب کیا جائے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی صحیح راہنمائی کر سکے لیکن بد قسمتی سے ایشیا کے باشندے کئی صدیوں سے غیروں کی ماتحتی میں رہنے کی وجہ سے اس ضروری علم سے بالکل بے بہرہ ہو چکے ہیں۔ اب جبکہ کم از کم ایشیا پر مکمل آزادی کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور اس کے باشندوں نے بھی دنیا کی آزاد اقوام کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا ہے یہ امر اَور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے مقابلہ پر علم قانون کے مطالعہ کے لئے زیادہ توجہ اور زیادہ وقت صرف کریں۔ دنیا کی آزاد اقوام نے علم قانون کے لمبے مطالعہ اور تجربہ کے بعد آخر کار اپنے ممالک کے قوانین کے لئے ایک مخصوص راستہ اور پس منظر پیدا کر لیا ہے جو کامل طور پر ان کی شخصی اور اجتماعی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ علاوہ اس کے ان میں وسیع اور گہرا علم رکھنے والے ماہرین قانون موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے پُرانے اختیار کردہ راستہ کے مطابق نئے پیدا ہونے والے دُشوار اور دقیق قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ایشیائی لوگوں کے لئے بہرحال یہ مشکل ہے کہ ان میں جو لوگ قانون کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کا علم بھی رکھتے ہیں وہ کوئی گزشتہ تجربہ اور قومی روایات نہیں رکھتے جن سے انہیں نئے قوانین بنانے میں مدد مل سکے۔ پس ان کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے لئے ایک نیا راستہ بنائیں اور پھر ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان پر قابو پائیں جو مبتدیوں کو پیش آتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کو اس راہ میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئے گی کہ اس کے باشندوں میں ایک بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور پاکستان کی حکومت کسی فوجی یا ملکی فتح کے نتیجہ میں قائم نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک معاہدہ کے ذریعہ سے معرضِ وجود میں آئی ہے اس لئے اپنے قوانین بناتے ہوئے پاکستان کو باوجود اپنی وسیع مسلمان اکثریت کے اس معاہدہ کا لحاظ رکھنا پڑے گا ورنہ اس کو اس بات کا بجا طور پر ملزم گردانا جائے گا کہ اس نے ایک باہمی معاہدہ توڑ دیا۔ جوش اور ولولہ اگرچہ ایک قابلِ تعریف خصلت ہے لیکن اس کا حد سے بڑھ جانا بھی غلط اقدام کا باعث بن جاتا ہے۔ تُرکی میں مذہب کا سیاست سے بالکل الگ کیا جانا دراصل اسی قسم کے غلط مذہبی جوش کا ردِّ عمل تھا۔ اسلام سے محبت اور اپنے ملک میں اس کے قیام کی خواہش یقیناً بہت اعلیٰ جذبات ہیں لیکن اگر ان ہی جذبات کو مناسب حدود سے تجاوز کرنے دیا جائے تو یہی ہمیں اسلام سے دُور لے جانے کا باعث بن جائیں گے۔
ہمارے رسولِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی مکّہ والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان کفر اختیار کر لے تو اسے مکّہ جانے کا پورا اختیار ہو گا لیکن اس کے برعکس اگر کوئی کافر اسلام لے آئے تو اسے مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ اسے اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا۔ یہ شرط مسلمانوں کے لئے بظاہر نقصان دہ اور ذلیل کن معلوم ہوتی تھی اور انہوں نے اس ہتک کو محسوس بھی کیا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے لیڈر بھی کچھ وقت کے لئے تذبذب میں پڑ گئے۔ ابھی اس معاہدہ پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ایک نوجوان جس کا نام ابو جندل تھا بیڑیوں میں جکڑا ہؤا بمشکل تمام اس مجلس میں آپہنچا جہاں اس کے باپ سہیل نے ابھی ابھی مکّہ والوں کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ سہیل نے فوراً مطالبہ کیا کہ معاہدہ کے مطابق ابو جندل کو مکّہ واپس کیا جائے۔ مسلمانوں نے جب اس معاہدہ کا عملی پہلو دیکھا تو اسے نہایت خطرناک اور ذلیل کن خیال کیا اور ابو جندل کی حفاظت میں فوراً تلواریں کھینچ لیں لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا اور فرمایا:-
‘‘خدا کے رسول اپنا عہد کبھی توڑا نہیں کرتے’’۔ 1
اور مسلمانوں کی جذبات انگیز درخواستوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابو جندل کو اس کے باپ کے حوالے کر دیا۔ اس لئے ایک پاکستانی مسلمان خواہ کتنا ہی مخلص اور دینی جوش رکھنے والا ہو کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اسلام کی محبت اور خیر خواہی میں اتنا گداز ہے جتنا حضرت نبی ٔ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تھے اور رسولِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اس معاملہ میں ہمارے لئے خود ایک اعلیٰ نمونہ چھوڑ گئے ہیں۔ اگر ایک مسلمان اﷲ تعالیٰ کی نظر میں ویسا ہی اچھا مسلمان ثابت ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ خود گمان کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ لفظی اور معنوی طور پر ان تمام معاہدات اور وعدوں کو پورا کرے جو پاکستان بننے کے وقت اقلیتوں اور دوسری قوموں سے کئے گئے تھے اگر وہ ان وعدوں کے ایفاء سے ذرا بھی پہلو تہی کرتا ہے تو وہ درحقیقت اسلام سے دُور جاتا ہے۔
پاکستان کے قوانین بناتے ہوئے ہمیں خاص خیال رکھنا ہو گا کہ:-
الف: تعلیم اسلام کی رُوح ہمیشہ ہمارے مدِّنظر رہے۔
ب: ہمارے قوانین فطرتِ انسانی کے ساتھ کامل مطابقت رکھتے ہوں۔
ج: ہم ان وعدوں کو ہر لحاظ سے پورا کریں جو اقلیتوں سے کئے گئے ہیں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتاہے۔ 2 اب اگر حضورؐ کا یہ ارشاد صحیح اور سچا ہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے تو پھر اسلام کے قوانین بھی انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انسانی فطرت قوانین اسلام کے خلاف ہو سکتی ہے۔ پس ہمارا یہ ایک مقدّس فرض ہے کہ ہم مندرجہ بالا حدیث کو سامنے رکھیں اور اس حقیقت پر یقین رکھیں کہ اسلام نے جو کچھ سکھایا ہے فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے۔ اگر اسلام کی تعلیم کا وہ حصّہ جسے ہم انسانی فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں واقعی انسانی فطرت کے خلاف ہے تو ظاہر ہے کہ ہم نے اس حصہ تعلیم کی رُوح کو اخذ نہیں کیا لیکن اگر ہم نے اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر سمجھا ہے تو فطرتِ انسانی کبھی بھی اس کے خلاف نہیں ہو سکتی اور یقینا کہیں پر ہماری ہی غلطی ہو گی۔ اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ اس معاملہ پر زیادہ گہرے طور پر غور کریں اور مزید کوشش کر کے اصل حقیقت کو معلوم کریں۔ اگر ہم اس نہایت ہی مضبوط اصل کو سامنے رکھیں گے تو ہم یقینا بہت جلد صداقت کو پا لیں گے اور اپنے ملک کے لئے بہترین قوانین بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے ملک کے ہر طبقہ یعنی مولویوں، مغربیت زدہ تعلیم یافتہ لوگوں، غریبوں اور امیروں کو پوری طرح مطمئن نہیں کر سکتے لیکن مندرجہ بالا دانشمندانہ اصول پر عمل کر کے ہم یقینا انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کر سکیں گے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے قوانین بنانے والوں اور ان پر عمل کرانے والوں کو ان کے وکیلوں کو اور قوانین کی کتابیں لکھنے والوں کو اور ان کے شارِحین کو اﷲ تعالیٰ اسلام کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ مفیدرسالہ جو کہ سندھ مسلم لاء کالج کی طرف سے جاری کیا جارہا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک مفید آلہ ثابت ہو’’۔
(روزنامہ الفضل لاہور مورخہ 20ستمبر 1952 صفحہ 5)
1: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 332،333۔ مطبوعہ مصر 1936ء
2: بخاری کتاب الجنائز باب مَا قِیْلَ فی اَوْلَادِ الْمُشْرِکِیْن
احرار کو چیلنج
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
احرار کو چیلنج
(محررہ3 اکتوبر 1952ء)
‘‘آزاد’’ مؤرخہ 19ستمبر 1952ء میں ایک مضمون شائع ہؤا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ:
‘‘مرزا بشیر الدین محمود نے مُلک میں جاگیرداروں کے خلاف بڑھتی ہوئی مُہم سے خوفزدہ ہو کر اپنی تمام زمین فروخت کرنا شروع کردی ہے’’۔‘‘معلوم ہؤا ہے کہ مرزا محمود سب سے پہلے سندھ میں اپنی ریاستوں کی زمین فروخت کرنا چاہتے ہیں’’۔‘‘تازہ اطلاعات سے پتہ چلا ہے کہ مرزا محمود سندھ کی اراضی کو پہلے اس لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں کہ سندھ گورنمنٹ نے سندھ سے جاگیرداریاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مرزا محمود کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر اُنہوں نے ایسے حالات سے پہلے اپنی زمین فروخت نہ کی تو وہ تمام اراضی ضبط کر لی جائے گی۔’’
پھر لکھا ہے:-
‘‘یہ اراضی تحریک جدید کے نام پر جمع شُدہ چندہ سے خریدی گئی تھی لیکن کاغذات میں مرزا محمود نے اسے اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا’’۔ ‘‘مرزائی چندہ دہندگان نے آواز بُلند کی کہ جماعتی اراضی کو فروخت کر کے اس کی رقم جماعتی خزانہ میں جمع کی جائے’’۔‘‘مرزامحمود یہ رقم اپنے ذاتی خزانہ میں جمع کرنے کے لئے اس اراضی کو دجّالانہ طریق پر فروخت کرنا چاہتے ہیں’’۔
اس مضمون کے شائع ہونے کے چند دن بعد 26ستمبر کے ''آزاد'' میں اس خط کا چربہ بھی شائع کیا گیا جو میری اراضیات کے دفتر کے کلرک نے ''الفضل'' کو لکھا تھا اور جس میں مذکورہ بالا اراضی کی فروخت کا اعلان کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس خط کے چربہ کے اوپر ایک نوٹ بھی ادارۂ آزاد کی طرف سے شائع ہؤا ہے کہ ہمارے اعلان پر ''بعض مرزائی سیخ پا ہوئے اور خبر کو بے بنیاد بتانے لگے'' ۔
اس لئے ہم اس خط کا چربہ شائع کرتے ہیں۔
اگر احرار کی شُہرۂ آفاق غلط بیانیوں کا علم نہ ہوتا تو میرے لئے یہ مضمون اور اس چربہ کی اشاعت حیرت انگیز ہوتی کیونکہ اصل بنیاد اس مضمون کی یہ ہے کہ کوئی زمین میرے پاس ہے جسے مَیں فروخت کر رہا ہوں اور کسی کے پاس زمین کاہونا کسی اسلامی حکم کے خلاف نہیں۔ صحابہ ؓ کے پاس زمینیں تھیں، خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے خاندان کے پاس باغ فدک تھا اور پھر زمینوں کا فروخت کرنا بھی قابلِ تعجب نہیں۔ حدیثوں میں صحابہ ؓ اور تابعین کا اپنی زمینیں فروخت کرنے کا ذکر آتا ہے۔ پس یقیناً کسی صحیح الدّماغ انسان نے ''آزاد'' سے اس امر کا ثبوت نہیں مانگا ہو گا کہ کیا امام جماعت احمدیہ کے پاس کوئی زمین ہے یا یہ کہ کیا وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ثبوت مانگا ہو گا تو اس بات کا مانگا ہو گا کہ آیا جماعت احمدیہ کے روپیہ سے خریدی ہوئی کسی زمین کو وہ اپنی ذات کے لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ یہ بات یقیناً قابلِ اعتراض ہے اور اگر ایسا ثابت ہو جائے تو خلافت تو الگ رہی مَیں ایک شریف انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں رہتا لیکن یہ خیال کرنا کہ لوگوں نے ''آزاد'' سے اس بات کا مطالبہ شروع کر دیا کہ تم نے کیوں امام جماعت احمدیہ پر یہ اعتراض کیا کہ ان کے پاس کوئی زمین ہے اور وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس امر کو تو کوئی عقلمند باور نہیں کر سکتا اور جو اعتراض معقول ہے اور جو مَیں نے اوپر لکھا ہے اگر وہ کسی نے کیا ہے تو اس خط کے چربہ سے اس کا جواب نہیں ملتا کیونکہ اعتراض تو صرف یہی ہو سکتا ہے کہ انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی زمین کو اپنی ذات کے لئے فروخت کرنا ناجائز ہے اور اس خط میں جس کا چربہ شائع کیا گیا ہے نہ تو یہ ذکر ہے کہ وہ زمین انجمن کے روپیہ سے خریدی گئی ہے اور نہ یہ کہیں ذکر ہے کہ وہ روپیہ مَیں اپنی ذات کے لئے استعمال کرنے والا ہوں۔ پس اس چربہ سے کیا نتیجہ نکلا؟ کچھ بھی نہیں۔
جہاں تک اس خط کے شائع ہونے کا سوال ہے یہ تو میرے دفتر کے کلرک کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اس کو حل کرے یا ''آزاد'' اخبار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو حل کرے کہ آیا اس نے ٹرین پوسٹل سروس کی مدد سے خط چُرایا ہے یا پولیس سنسر نے اسے یہ خط دیا ہے یا خود میرے کلرک سے مل کر یہ خط چُرایا گیا ہے۔ جہاں تک میری عزت کا سوال ہے مجھے اس امر سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ نہ تو مَیں یہ کہتا ہوں کہ جس زمین کا اس خط میں ذکر ہے وہ میرے پاس نہیں ہے اور نہ مَیں اس بات کا انکار کرتا ہوں کہ مَیں اس زمین کو فروخت کر رہا ہوں۔ جہاں تک اس خط کے مضمون کی اشاعت کا تعلق ہے مجھے اس خط کے چَھپنے سے نہ کوئی تکلیف ہوئی ہے نہ فکر کیونکہ زمین کا مالک ہونا یا اسے فروخت کرنے کی کوشش کرنا کوئی اخلاقی ، مذہبی یا سیاسی جُرم نہیں ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ خواہ کتنا ہی بے ضررمضمون ہو میرے دفتر کا ایک خط چُرایا گیا ہے۔ خواہ ٹرین پوسٹل سروس کے ذریعہ سے یا سنسر کے ذریعہ سے یا میرے دفتر کے کسی غدار کے ذریعہ سے۔ مجھے اس خط کے شائع ہونے کے بارہ میں ضرور دلچسپی ہے اور مَیں اس کی ضرور تحقیقات کروں گا۔ مجھے بعض وجوہ سے غالب خیال ہے کہ یہ چوری ایک خاص ذریعہ سے ہوئی ہے لیکن چونکہ وہ صرف عقلی خیال ہے اس کے اوپر مَیں اپنے عمل کی بنیاد رکھنے کو تیار نہیں۔
اب مَیں اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو ''آزاد'' نے شائع کیا ہے۔ ''آزاد'' نے لکھا ہے کہ:-
اوّل کوئی زمین میرے قبضہ میں ہے جو کہ انجمن کے روپیہ سے خریدی گئی ہے۔
دوم یہ کہ مَیں اس زمین کو فروخت کر رہا ہوں۔
سوم یہ کہ جماعت کے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے۔
چہارم یہ کہ میری فروخت کا بڑا محرک جاگیرداری کے منسوخ ہونے کا قانون ہے۔
پنجم یہ کہ انجمن کی زمین کی قیمت کو مَیں اپنی ذات پر خرچ کرنا چاہتا ہوں۔
مَیں نمبر وار ان سوالوں کا جواب دیتا ہوں۔
نمبر اوّل کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض انجمن کی زمینیں میرے نام پر خریدی ہوئی ہیں مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ بعض میری زمینیں انجمن کے نام پر خریدی ہوئی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جو زمینیں انجمن کی میرے نام پر خریدی ہوئی ہیں ان کا رقبہ اُن زمینوں کی نسبت جو میری ہیں اور انجمن کے نام پر خریدی گئی ہیں قریباً نصف یا ساٹھ فی صدی کے قریب ہے۔ پس اگر مَیں انجمن کی زمینیں فروخت کروں تو اس سے قریباً دو گنا رقبہ میرا انجمن کے پاس ہے اوروہ مجھے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس گڑ بڑ کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت سندھ میں جو زمینیں خریدی گئی ہیں وہ ایک احمدیہ کمپنی نے خریدی تھیں جس کا ذکر اُس زمانہ کے ''الفضل'' کے فائلوں میں ملتا ہے اور جس کا ذکر انجمن کے ریزولیوشنوں میں بھی آتا ہے۔ اس کمپنی کا ایک بڑا حصّہ دارمَیں تھا اور مجھ سے بھی بڑی حصّہ دار انجمن تھی۔ کچھ اور حصّہ دار بھی تھے لیکن شروع میں چونکہ آمدن پیدا نہ ہوئی اور زمینوں کی قسط ادا کرنے کے لئے لوگوں کو اپنے پاس سے روپے دینے پڑے اس لئے سوائے تین حصّہ داروں کے باقی سب حصّہ داروں نے اپنی زمینیں دوسرے حصّہ داروں کے پاس فروخت کر دیں اور اب اس کمپنی کی زمین صرف تین حصّہ داروں کے پاس رہ گئی ہے اور وہ یہ ہیں۔ صدر انجمن احمدیہ ، مَیں اور میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب۔ اسی دوران میں جبکہ ابھی زمینیں تقسیم نہیں ہوئی تھیں، کچھ اَور زمینیں معلوم ہوئیں جو خریدی جاسکتی تھیں۔ چنانچہ تحریک جدید نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے ریزرو فنڈ کو انہی زمینوں کی خرید میں لگا لے لیکن تحریک جدید اُس وقت تک رجسٹرڈ نہیں تھی اِس لئے اس کی ساری زمینیں صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدی گئیں چونکہ وہ کمپنی جس نے زمین خریدی تھی وہ بھی رجسٹرڈ نہیں تھی اس لئے اس کی تمام زمینیں بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدی گئیں۔ اس وجہ سے لازماً میراحصّہ بھی اور میرے بھائی کا حصّہ بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدا گیا کیونکہ ہماری خرید براہ راست نہ تھی بلکہ اس کمپنی کے حصّہ دار کی حیثیت سے تھی۔ اسی دوران میں مَیں نے خود کچھ زمین براہِ راست خریدی جس کے نتیجہ میں مجھے بھی اپنے آدمی وہاں رکھنے پڑے۔ جب کبھی کسی نئی زمین کا پتہ لگتا تھا کہ وہ خریدی جاسکتی ہے اور انتظام کے لحاظ سے مفید ہے تو اسے خرید لیا جاتا تھا لیکن کبھی ایسا ہوتا تھا کہ صدر انجمن احمدیہ کا مختارنامہ یا مختار موجود نہ ہوتا تھا تو میرا مختار میرے مختار نامہ پر زمین خرید لیتا تھا لیکن وہ ہوتی تھی صدر انجمن احمدیہ کی اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کوئی زمین مَیں نے خریدنی ہوتی تھی لیکن میرا مختار نامہ یا میرا مختار موجود نہیں ہوتا تھا تو انجمن کا مختار اس زمین کو انجمن کے نام پر خرید لیتا تھا لیکن وہ ہوتی تھی میری۔ اس کی موٹی علامت یہ ہوتی تھی کہ زمینوں کے حلقے تقسیم کر دیئے گئے تھے۔ نبی سر روڈ کے پاس کی زمینیں صدر انجمن احمدیہ کی تھیں اور ٹاہلی اسٹیشن سے پاس کی زمینیں تحریک جدید کی تھیں اور ٹنڈو الٰہ یا رکے علاقہ کی زمینوں میں تھوڑا سا حصّہ میرا تھا۔ باقی تحریک جدید کا تھا۔ اس کے مقابلہ میں کُنری اسٹیشن کے پاس کی زمین ان حصّہ داروں کو ملی جو کہ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ زمین خریدنے والی کمپنی کے ممبر تھے۔ جنہوں نے آگے جاکر اپنی زمینیں میرے اور میرے بھائی کے پاس فروخت کر دیں۔ پس وہاں جو زمین خریدی جاتی تھی وہ میرے لئے خریدی جاتی تھی۔ اسی طرح کنجے جی اسٹیشن کے پاس زمینیں سب سے پہلے مَیں نے ہی خریدی تھیں۔ اس لئے وہاں اگر کوئی زمین نکلتی تھی تو مَیں ہی خریدتا تھا اور جس کی زمین ہوتی تھی وہ اس کے مینجروں کے سپرد ہو جاتی تھی اور شروع دن سے وہی اس پر کام کرتے تھے اور ان کے بینک اکاؤنٹ اس پر شاہد ہوتے تھے مثلاً انجمن کے نام پر جو انجمن کی زمین خریدی گئی اس کی قیمت یا انجمن کے ریزولیوشنوں میں درج ہے یا انجمن کے بینک اکاؤنٹس سے ادا ہوئی اور آئندہ اس کی قسطیں بھی اسی طرح ادا ہوتی رہیں۔ ہر شخص فوراً دیکھ سکتا ہے کہ یہ زمین گو کسی اور کے نام سے خریدی گئی مگر اس کی ابتدائی رقمیں بھی انجمن نے دیں اور پھر اس کی قسطیں بھی شروع سے لے کر آخر تک انجمن نے ہی دیں۔ اسی طرح تحریک جدید کی جو زمین خریدی گئی گو وہ انجمن کے نام پر ہے لیکن بینکوں کے اکاؤنٹ شاہد ہیں کہ اس کی قیمت انجمن نے ادا نہیں کی۔ اس کی قیمت تحریک جدید نے ادا کی اور پندرہ سال کی متواتر بینکوں کی شہادتیں اس بات پر ہیں کہ وہ زمین تحریک جدید کی ہے۔ اسی طرح جو میری زمین ہے۔ زمین خریدنے والی کمپنی اور انجمن کا ریکارڈ شاہد ہیں کہ اس کی قیمتیں مَیں نے دی ہیں۔ اسی طرح بینک اکاؤنٹ گواہ ہے کہ اس کی قسطیں برابر میرے کھاتہ سے جاتی رہیں۔ انجمن یا تحریک نے وہ ادا نہیں کیں اور اس کا انتظام میرے مینجر کرتے چلے آئے۔
پس یہ ٹھیک ہے کہ انجمن کی بعض زمینیں میرے نام پر خریدی گئی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ زمینیں گو میرے نام پر خریدی گئی ہیں لیکن انجمن کی اسٹیٹ میں شامل ہیں٭ اور انجمن کے کارکن اس پر قابض ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ تحریک جدید کی زمین انجمن کے نام پر خریدی گئی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شروع دن سے اس زمین پر تحریک جدید کے کارکن کام کر رہے ہیں اور وہ تحریک جدید کے قبضہ میں ہے۔ اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ کچھ میری زمین انجمن کے
٭ یہاں یہ لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان سندھ کی زمینوں کو بعض دفعہ ہمارے اخبارات میں اسٹیٹس لکھا جاتا ہے جس کے معنے انگریزی میں زمینداری کے ہیں یا ایک کوٹھی اور اس کے اردگرد کی زمینداری کے لیکن احرار جہلاء ہمیشہ اسی لفظ پر شور مچاتے رہے ہیں کہ احمدیوں نے ریاستیں قائم کر لی ہیں۔ چنانچہ مذکورہ بالا مضمون میں بھی اسٹیٹ کا ترجمہ ریاست کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ مرزا محمود سب سے پہلے سندھ میں اپنی ریاستوں کی زمین فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس مُلک کی کتنی بد قسمتی ہے جس کے علماء جہلاء ہوں یا دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہوں۔ مرزا محمود احمد
نام پر خریدی گئی ہے لیکن شروع دن سے اس کے اُوپر میرے کارکن کام کر رہے ہیں اور میرے بینک اکاؤنٹ اس بات کے شاہد ہیں کہ بینکوں کے ذریعہ سے میرے حساب سے اس کی قیمت ادا ہوئی ہے۔ پس یہ کوئی جھگڑے والا سوال ہی نہیں۔ پاکستان کے چار زبردست بینک اس بات کے گواہ موجود ہیں۔ ان بینکوں میں میرے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں، صدر انجمن احمدیہ کے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں، تحریک جدید کے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں اور ان کھاتوں سے وہ قیمتیں ادا ہوئی ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ضرور ہؤا ہے کہ ضرورت کے موقع پر ایک دوسرے کے کھاتے سے قرض لے لیا گیا ہے لیکن یہ ثبوت بھی بینکوں سے مل سکتا ہے کہ اگر ضرورت کے موقع پر مَیں نے دس روپے لئے ہیں تو اس کے مقابلہ میں ضرورت کے موقع پر تحریک جدید یا انجمن کومَیں نے سو روپیہ دیا ہے۔ یعنی قرض کے معاملہ میں بھی میرا پہلو بھاری ہے اور تحریک جدید اور انجمن کا پہلو کمزور ہے۔مَیں ان کا مقروض نہیں رہا وہ میرے مقروض رہے ہیں۔
یہ بات مَیں زمینوں کے متعلق لکھ رہا ہوں ورنہ یوں انجمن مجھے قرض کے طور پر پچھلے سال تک ماہوار رقم گزارہ کے لئے دیتی رہی ہے اور وہ رقم برابر جماعت کے بجٹ میں پڑتی رہی ہے اور حساب میں موجود ہے۔ (ڈیڑھ سال سے مَیں نے وہ رقم لینی بند کر دی ہے اور سابق قرض اُتارنے کی فکر میں ہوں)
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک فروخت کرنے کا سوال ہے یہ ٹھیک ہے کہ مَیں کچھ زمین فروخت کر رہا ہوں لیکن وہ زمین انجمن کی نہیں ہے۔ نہ وہ ان زمینوں میں سے ہے جو میری ہیں لیکن انجمن کے نام پر خریدی گئی ہیں۔ پس اس کے متعلق نہ کوئی حقیقی اعتراض پیدا ہو سکتا ہے نہ کوئی غلط فہمی۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ کوئی انجمن کی زمین میرے قبضہ میں ہے۔ مَیں بتا چُکا ہوں کہ انجمن کی کچھ زمین میرے نام پر خریدی ہوئی ضرور ہے لیکن میرے قبضہ میں وہ نہیں ہے۔ وہ انجمن ہی کے قبضہ میں ہے اور اس کے مینیجر اس پر کام کر رہے ہیں اس لئے کسی شخص کو اس پر اعتراض کی گنجائش نہ ہو سکتی ہے اور نہ کبھی ہوئی ہے۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ جاگیرداری کے قانون سے ڈر کر مَیں یہ زمین فروخت کر رہا ہوں۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جاگیر داری کے قانون سے ڈر کر فروخت کرنا نہ شرعاً جُرم ہے نہ قانوناً جُرم ہے۔ جس دن تک وہ قانون پاس ہو۔ اس دن تک ہر جاگیردار اپنی جاگیر فروخت کر سکتا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور نہ شریعت کا اس بات پر کوئی اعتراض ہے کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز مناہی سے پہلے فروخت کر سکے۔ باقی ''آزاد'' اور احرار کے دماغ تو ہیں بالکل کُند کیونکہ جو شخص غلط بیانی پر اُتر آتا ہے وہ سوچنے کا عادی نہیں رہتا۔ ورنہ ہر شخص جان سکتا ہے کہ سندھ میں میری کوئی جاگیر ہو ہی نہیں سکتی۔ مَیں پنجابی ہوں مجھے سندھ میں کیوں جاگیر ملنی تھی۔ جاگیر نام ہے اس زمین کا جو حکومتِ وقت کی طرف سے بطور عطیہ کے ملی ہو۔ خصوصاً وہ جس کا لینڈریونیو معاف ہو۔لوگ محض فخر کے طور پر ایسی زمین کو بھی جاگیر کہہ دیتے ہیں جو گورنمنٹ نے دی ہو اور اس کا لینڈ ریونیو معاف نہ ہو لیکن اصل اصطلاح یہی ہے کہ جو زمین گورنمنٹ نے دی ہو اور اس کا لینڈ ریونیو معاف کر دیا ہووہ جاگیر ہے۔ مَیں اپنی کتاب ''اسلام اور ملکیت زمین'' میں خود لکھ چُکا ہوں کہ جاگیرداری اسلام میں ناجائز ہے کیونکہ لینڈ ریونیو، زکوٰۃ کا قائم مقام ہے اور زکوٰۃ حکومت معاف نہیں کر سکتی۔ نیز امراء کے لئے زکوٰۃ لینی جائز نہیں اور مَیں نے اس کتاب میں حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جاگیروں کو اُڑا دے اور جاگیرداروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خود اس حق کو چھوڑ دیں کیونکہ یہ آمد اسلام کے خلاف ہے اور امراء کو زکوٰۃ میں سے حصّہ نہیں لینا چاہئے ۔ پس یہ کیونکر خیال کیا جاسکتا ہے کہ میرے پاس کوئی جاگیر ہے۔ نہ مَیں سندھ کا باشندہ ہوں اور نہ مَیں سندھ کی حکومت کا کبھی ملازم رہا، نہ مَیں جاگیر کا قائل۔ میرے پاس جاگیر آہی کس طرح سکتی تھی اور جو چیز آ نہیں سکتی تھی اس کی فروخت کا سوال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے۔
پانچواں اعتراض یہ ہے کہ مَیں انجمن کی زمین کی قیمت کو اپنی ذات پر خرچ کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں اُوپر لکھ چُکا ہوں انجمن کی کوئی زمین میرے قبضہ میں نہیں۔ انجمن کی جو زمین میرے نام پر خریدی گئی ہے وہ بھی انجمن کے قبضہ میں ہے اور اس پر نہ کسی نے اعتراض کیا ہے کہ مَیں انجمن کی خریدی ہوئی جائداد پر قبضہ کر رہا ہوں۔ نہ اس اعتراض میں کوئی وقعت ہے اور نہ مَیں اس اعتراض سے ڈرتا ہوں۔ انجمن کے ریکارڈ میں تمام وہ زمینیں درج ہیں جو اُس نے خریدیں ،انجمن کے خزانے میں وہ رقوم درج ہیں جو اس نے اس زمین پر خرچ کیں اور انجمن کے بینک اکاؤنٹ میں بھی وہ آمدنیں درج ہیں جو اِن زمینوں سے ہوئی ہیں اور وہ خرچ بھی درج ہیں جو ان زمینوں پر ہوئے ۔ اسی طرح جو زمینیں مَیں نے خریدی ہیں اُن کی پہلی قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے۔ اُن کی دوسری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے اور اُن کی تیسری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے۔ یہاں تک کہ آخری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے۔ پس کوئی صحیح الدّماغ آدمی اعتراض ہی کس طرح کر سکتا ہے اور اگر کوئی شخص جوشِ جنون میں اعتراض کرے تو مجھے اس سے گھبراہٹ ہی کیا ہو سکتی ہے۔ ریکارڈ موجود ہے ۔ مَیں جماعت کے سامنے رکھ دوں گا۔
ان حالات کے بیان کرنے کے بعد اب مَیں احرار کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر اُن کے اندر کوئی تخمِ دیانت ہے تو وہ مندرجہ ذیل طریقہ سے مجھ سے اس اعتراض کا تصفیہ کر لیں۔
اوّل یہ کہ ایک نمائندہ جو مستقل طور پر دیوانی کی ججی پر کام کر چُکا ہو یا کام کر رہا ہو مَیں مقرر کردوں گا اور ایک اسی قابلیت کا آدمی وہ مقرر کر دیں۔ یہ دونوں آدمی مل کر ایک تیسرا ثالث اپنے ساتھ ملا لیں جس میں یہی صفات پائی جائیں۔ یعنی وہ مستقل طور پر سب ججی یا اس سے اُوپر کے کسی عُہدہ پر رہ چُکا ہو یا اس وقت اس عُہدہ پر ہو۔ مَیں تین کاپیاں ان تینوں ثالثوں کو دے دوں گا۔ جس میں یہ عبارت درج ہو گی کہ :-
‘‘مَیں مرزا بشیر الدین محمود احمد اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ یہ زمین جس کی فروخت کا اعلان الفضل کو بھجوایا گیا تھا اور جس کے لئے دو تین گاہک بھی آچکے ہیں اور وہ خط و کتابت میرے پاس محفوظ ہے یہ زمین انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی نہیں۔ انجمن نے کبھی اس زمین کو اپنی نہیں سمجھا اور کبھی کسی واقفِ حالات شخص نے اس زمین کو انجمن کی قرار نہیں دیا۔ اگر مَیں اس دعویٰ میں جھوٹا ہوں تو خدا کی *** مجھ پرہو’’۔
اسی قسم کی ایک تحریر جماعت احرار لکھ کر دے دے اور اس پر مولوی عطاء اﷲ شاہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور شیخ تاج الدین صاحب کے دستخط ہوں۔ کیونکہ وہی احرار کے ذمہ دار کارکن ہیں کہ:-
‘‘ہم جو جماعت احرار کے ذمہ دار کارکن ہیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ وہ زمین جو مرزا محمود احمد سابق قادیانی حال ربوہ فروخت کر رہے تھے اور جس کی فروخت کا اعلان الفضل کو بھجوایا گیا تھا اور آزاد نے جس کا چربہ شائع کیا ہے یہ انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی زمین تھی اور وہ اس زمین کو اپنی ذاتی اغراض پر خرچ کرنے کے لئے فروخت کر رہے تھے۔ اگر ہم اس اعلان میں جھوٹے ہوں تو خدا کی ہم پر *** ہو۔’’
جب تینوں ججوں کی طرف سے میرے پاس یہ تحریر آجائے گی کہ ہمارے پاس دونوں فریق کی تحریریں پہنچ گئی ہیں تو میں دس دس ہزار روپیہ بینک میں ان تینوں ثالثوں کے نام جمع کر ادوں گا کہ اگر احرار کا دعویٰ ثابت ہو جائے تو علاوہ میری تحریر کے وہ دس ہزار روپیہ بھی احرار کو دے دیں۔ اس طرح احرار کو کھالوں کی اٹھنیاں اور روپے جمع کرنے سے بھی بہت کچھ نجات ہو جائے گی۔ مَیں ان سے کسی روپیہ کا مطالبہ نہیں کرتا۔ مَیں صرف اس تحریر کامطالبہ کرتا ہوں۔ اِس کے بعد دونوں فریق اپنے اپنے دلائل لکھ کر مقرر کردہ ثالثوں کو دے دیں اور وہ لوگ کثرت رائے سے اپنا فیصلہ صادر کر دیں کہ آیا میرا دعویٰ صحیح ہے یا احرار کا دعویٰ صحیح ہے۔ اگر وہ احرار کا دعویٰ صحیح قرار دیں تو دس ہزار روپیہ بھی احرار کو دے دیں اور اپنا فیصلہ جس کے ساتھ میری *** والی تحریر نتھی ہو وہ بھی ان کے حوالہ کر دیں۔ احرار کو اس طرح میرے خلاف پروپیگنڈے کا بھی ایک بڑا موقع مل جائے گا اور روپیہ بھی بہت کافی مل جائے گا لیکن اگر ثالثوں پر یہ ثابت ہو کہ میرا دعویٰ ٹھیک ہے اور احرار نے جھوٹ کی نجاست پر مُنہ مارا ہے تو وہ اپنا فیصلہ لکھ کر اس کے ساتھ احرار کی تحریر لگا کر مجھے بھجوا دیں اور میرا روپیہ مجھے واپس کر دیں۔ ہاں یہ ضروری ہو گا کہ ثالث اپنے فیصلوں میں دونوں فریق کی تحریرات شامل کریں اور فیصلہ با دلائل دیں کیونکہ اس نے بہرحال شائع ہونا ہے۔ اختلاف کی صورت میں کسی ثالث کا اختلافی نوٹ ساتھ شامل کرنا ضروری ہو گا۔ یہ امر بھی یاد رہے کہ جس طرح لعنتوں والی تحریر کی تین کاپیاں تینوں ثالثوں کو الگ الگ دینی ضروری ہوں گی اسی طرح دلائل والی کاپیاں بھی تینوں ثالثوں کو الگ الگ دینی ضروری ہوں گی جن پر میری طرف سے میرے دستخط ہوں گے اور اگر احرار اصرار کریں تو صدر انجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ کے بھی مَیں اُس پر دستخط کروا دوں گا۔ اسی طرح تحریک جدید کے صدر کے بھی دستخط کروا دوں گا۔ گو چونکہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے اس لئے اس کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی لیکن اگر وہ چاہیں تو مَیں اس کا بھی ذمّہ لے لیتا ہوں۔ دوسری طرف احرار کی تینوں کاپیوں پر مولوی عطاء اﷲ شاہ صاحب، مولوی محمدعلی صاحب جالندھری اور شیخ تاج الدین صاحب لدھیانوی کے دستخط ہونے ضروری ہوں گے۔ مَیں تین کاپیوں کے تینوں ثالثوں کو الگ الگ دیئے جانے پر اس لئے زور دے رہا ہوں کہ اگر میرا نمائندہ شرارت کرے تو احرار کے پاس ریکارڈ محفوظ رہے اور اگر اُن کا نمائندہ شرارت کرے تو ہمارے پاس ریکارڈ محفوظ رہے۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت احرار اس غیبی دس ہزار روپیہ کو لینے کے لئے بے تابی سے آگے بڑھے گی۔ لعنتیں کھانے کے تو وہ عادی ہیں اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں اور اگر وہ سچے ہیں تو پھر تو بالکل گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ چنانچہ مَیں بالکل نہیں گھبرایا بلکہ مَیں لعنتوں کی تحریر کے علاوہ دس ہزار روپیہ بھی دینے کے لئے تیار ہوں۔ یہ روپیہ بینک کے پاس تین ماہ کی میعاد تک کے لئے ثالثوں کے پاس جمع رہے گا۔ اگر اس عرصہ میں اُنہوں نے فیصلہ نہ کیا اور نہ مزید مہلت مجھ سے طلب کی تو مجھے واپس مل جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ ثالث کسی وجہ سے فیصلہ دینے کے لئے تیار نہیں اور اس صورت میں دونوں فریق کو اجازت ہو گی کہ اپنے نمائندے سے فریقین کی تحریریں لے کر خود شائع کر دیں۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
1952ء03-10-’’
(الفضل 4 اکتوبر 1952ء)
اخبار ‘‘پیغام صلح’’
کے اس بیان کی تردید کہ
مبائعین نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
اخبار ‘‘پیغام صلح’’ کے اس بیان کی تردید کہ
مبائعین نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں
(محررہ24اکتوبر 1952ء)
‘‘اخبارپیغام صلح مؤرخہ 15اکتوبر 1952ء میں ایک مضمون میاں محمدصاحب پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور کی طرف سے شائع ہؤا ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ:-
‘‘اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہ قادیانی جماعت کے امام جناب مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب نے آخر کار حضرت صاحب کی نبوت کے عقیدہ سے بہت کچھ رجوع کر لیا ہے اور اب وہ اپنی تحریرات کا وہی مفہوم لیتے ہیں جن کی طرف حضرت امیر مرحوم انہیں دعوت دیتے تھے’’۔
مجھے اس عبارت کو پڑھ کر تعجب ہؤا اور بے اختیار آنکھوں کے سامنے یہ فقرہ آگیا کہ سخن فہمی ٔ عالَم بالا معلوم شُد۔اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
تعجب ہے کہ میاں محمد صاحب اخبارمیں تو یہ شائع کرتے ہیں کہ میں نے اپنے عقیدے بدل لئے ہیں اور وہی عقائد اختیار کر لئے ہیں جو مولوی محمد علی صاحب رکھتے تھے مگر مجھے بار بار خط لکھتے ہیں کہ مَیں اپنے عقائد کی وضاحت کروں تاکہ دنیا میں جو غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے وہ دور ہو جائے۔ اگر مَیں نے اپنے خیالات کی اصلاح کر لی ہے تو دُنیا میں غلط فہمی کون سی رہ گئی ہے۔ باقی رہا یہ کہ میرے متعلق آپ کو یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ مَیں نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں تو اس وہم کا ازالہ میرے اختیار میں نہیں۔ جو مَیں نے نہیں لکھا آپ اپنے خطوں میں میری طرف منسوب کرتے ہیں اور اب اخبار میں بھی شائع کر رہے ہیں۔ اس مرض کا علاج میرے پاس نہیں ہے۔ میرے عقائد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق وہی ہیں جو آپ کی زندگی میں تھے، جو آپ کے بعد آج تک رہے اور آئندہ اِنْشَاءَ ﷲ رہیں گے۔ میں نے جو آخری خط میاں محمدصاحب کو لکھا تھا وہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں۔ اس کو پڑھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔میرے خط کی عبارت یہ ہے:-
‘‘مکرمی میاں صاحب!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ ﷲِ وَبَرَکَاتُہٗ
آپ کا خط ملا۔ میری تحریر سے کچھ مترشح ہوتا ہے یا نہیں یہ تو آپ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مَیں نے تو جو کچھ لکھا تھا سادہ عبارت میں ایک مفہوم ادا کیا تھا۔ اصل میں ایسے مسائل خط و کتابت سے طے نہیں ہوتے۔ یا کتابوں سے یا ملاقاتوں سے یا پھر اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ دینے سے طے ہوتے ہیں۔ یعنی جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ اب ملاقات یا کتابوں کا مطالعہ بے فائدہ چیز ہے۔
آپ نے میرے ایک حوالہ کا ذکر کیا ہے مگر کتاب یا اخبار کا نام اور صفحہ وغیرہ درج نہیں کیا۔ آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ مجھے یاد نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اخباروں میں اس حوالہ کا ذکر آچکا ہے۔ یہ درست ہو گا مگر وہ اخبار آپ نے پڑھے ہیں، میں نے نہیں پڑھے۔ اس لئے جب تک حوالہ آپ نہ لکھیں میرے لئے اسے دیکھنا مُشکل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے 1901ء سے پہلے کے حوالوں کو اگر مَیں نے کسی جگہ منسوخ قرار دیا ہے تو اسی جگہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مَیں نے کون سی چیز منسوخ قرار دی ہے؟ جو چیز منسوخ ہوئی وہ صرف نبوت ٭کی تعریف ہے۔
٭ یہ فقرہ جو مَیں نے لکھا ہے بعینہٖ یہی مضمون حقیقۃ النبوۃ میں بھی بیان ہے۔ چنانچہ
پس جو بات نبوت کی اس تعریف کے خلاف ہو گی، جو 1901ء کے بعد آپ نے فرمائی وہ منسوخ ہو گئی اور جو خلاف نہیں ہو گی وہ منسوخ نہیں ہو گی۔ حوالہ جات منسوخ نہیں صرف پہلی تعریفِ نبوت منسوخ ہے ورنہ ان حوالوں کا مضمون قائم ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ مَیں نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کا مقام مجددیت اور نبوت کے درمیان ہے۔ مَیں نے اپنا خط نکال کر پھر پڑھا ہے اس میں تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ حضرت صاحب کا مقام مجددیت اور نبوت کے درمیان ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بے شک لکھا ہے کہ امتی نبی کا نام ایک نیا نام ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملا اور یہی ہم کہتے ہیں، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔
ہالینڈ میں مسجد ہم بنا رہے ہیں اور نقشہ بن رہا ہے۔ کل ہی اس کا پلین (PLAN) ہالینڈ کے ایک آرکیٹیکچر (ARCHITECTURE)کی طرف سے آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کسی نے آپ کو یہ غلط رپورٹ دی ہے کہ ہم مسجد نہیں بنا رہے۔ والسلام خدا حافظ
خاکسار۔ مرزا محمود احمد’’
اِس خط سے ظاہر ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امتی نبی تسلیم کرتے ہیں لیکن امتی نبی کوئی ایسا درجہ نہیں جو مجددیت اور نبوت کے درمیان ہو بلکہ
(بقیہ حاشیہ
‘‘یہ تعریفوں کا اختلاف ہی تھا جس کی وجہ سے 1901ء سے پہلے آپ اپنی نبوت کو جزئی اور ناقص قرار دیتے رہے’’۔ 1
‘‘خدا تعالیٰ نے کسی پہلے حکم کو بدلا نہیں اور آپ جزوی نبی سے پورے نبی نہیں بنائے گئے۔ ’’ 2
‘‘پس اس تعریف نے پہلی تعریف کو بدلا دیا اور 1901ء سے پہلے جس قدر تحریرات سے نبی ہونے کا انکار پایا جاتا تھا ان کے معنے بھی بدل دیئے اور اس کے صرف یہ معنے رہ گئے کہ آپ نے شریعتِ جدیدہ لانے یا براہ راست نبوت پانے سے انکار کیا ہے’’۔3
امتی نبوت بھی نبوت کی ایک قسم ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہمیشہ سے نبی مانتے آئے ہیں اور اب بھی مانتے ہیں لیکن ہم نے کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی نئی شریعت لائے تھے یا انہوں نے کوئی نیا دین نکالا تھا یا انہوں نے کوئی نیا کلمہ بنایا تھا یا انہوں نے کوئی نیا قبلہ تجویز کیا تھا۔ ہمارا ہمیشہ سے یہی عقیدہ رہا ہے کہ آپؑ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبع تھے اور امتی تھے اور آپؑ کی طرح آپؑ کی سب جماعت بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت سے ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر قیامت تک ایک ہی امت چلے گی اور وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت ہو گی مسیح موعود ؑ یا اور کوئی جو مصلح آئے وہ کسی نئی امت کا بانی نہیں ہو گا بلکہ خود امتی ہو گا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اور تابع ہو گا نبی مکّی کا صلی اﷲ علیہ وسلم۔
پس جو کچھ آپؑ نے پایا وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیضان سے پایا اورآپؑ کی تمام عزت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی میں تھی اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت سے خفیف سے خفیف سرتابی کو بھی آپ کفر سمجھتے تھے بلکہ حقیقتاً یہی عقیدہ بِناء تھا اس عقیدہ کی کہ عام مسلمانوں میں اب حقیقتِ اسلام باقی نہیں رہی کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور تعلیم سے وہ سرتابی کرتے ہیں۔
پس جو کچھ مَیں نے کہا ہے اور جو ہمیشہ مَیں کہتا چلا آیا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عُہدہ نبوت مستقلہ شرعیہ اور مجدد کے درمیان کا عُہدہ ہے لیکن ہے وہ نبوت ہی کی ایک قسم اور اب بھی ہمارا یہی عقیدہ ہے اور ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ایک وقت تھا کہ جماعت غیر مبائعین اس قسم کی بحثوں میں پڑ کر یہ خوشی محسوس کیا کرتی تھی کہ اس قسم کی بحث میں جب مبائعین کو پھنسایا جائے گا تو غیراحمدیوں میں ان کی بدنامی ہو گی لیکن واقعات نے ان کی اس پالیسی کو غلط ثابت کر دیا ہے کیونکہ باوجود ان حیلوں کے بڑھی ہماری ہی جماعت۔ وہ اسی طرح کے اسی طرح رہے اور اب تو وہ زمانہ بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ اس وقت غیر احمدی ہمارے حوالوں سے واقف نہیں تھے۔ جب وہ ''پیغام صلح'' میں وہ حوالے پڑھتے تھے تو بوجہ نیا علم ہونے کے ان کے دلوں میں شُبہ پیدا ہوتا تھا اور بعض کے دلوں میں غصہ پیدا ہوتا تھا۔
اب جماعت احرار نے خود مطالعہ کر کے غیر مبائعین سے بھی زیادہ ہمارے حوالے نکال لئے ہیں اور ایک ایک حوالہ کے ساتھ دس دس جھوٹ بھی ملالئے ہیں۔ اب پیغام صلح میں اس قسم کی بحث چھیڑنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ وہ یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اس کی تردید کریں گے، تو وہ اس کو اچھالیں گے لیکن وہ ہمارے جن حوالوں کو اچھالیں گے ایک ایک حوالے میں دس دس جھوٹ ملا کر احرار اس کو خوب پھیلا چکے ہیں اور ہمارے حوالے بگڑی ہوئی خطرناک صورت میں عوام الناس غیراحمدیوں کے سامنے آچکے ہیں اس لئے اب یہ کھیل پرانا ہو چکا ہے اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ ہم ممنون ہیں عقلمند غیر مبائعین کے کہ انہوں نے موجودہ جھگڑے میں اس بات کو خوب محسوس کیا کہ یہ تلوار صرف مبائعین پر ہی نہیں چل رہی غیر مبائعین پر بھی چل رہی ہے۔ غیر احمدی علماء نے صاف فتویٰ دے دیا ہے کہ اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ مرزا صاحب مجدّد تھے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرزا صاحب مرتد تھے اور کافر تھے۔ چنانچہ مولوی عبدالحامد صاحب بدیوانی کا خط ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کو اس مضمون کا آچکا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘جناب مرزا کے دعاوی وبیانات پر نظر رکھنے والے افراد کی آپ حضرات کے بارے میں جو رائے ہے، وہ ظاہر ہے جس شخص نے حضرات انبیاءِ کرام کی اہانت کی ہو حضرات اہلِ بیت اطہار سے اپنے مقام کو بڑھایا ہو، صفاتِ احدیت کو خود اپنی ذات میں جمع کیا ہو، ان کے مجدد یا مسیح موعود ماننے والوں کو بھی ہم قادیانیوں جیسا ہی سمجھتے ہیں’’۔
غرض سب عقلمند غیر مبائعین نے سمجھ لیا ہے کہ ان حالات میں تبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پڑ رہا ہے کسی ایک جماعت پر نہیں پڑ رہا۔ اور مخالفت کسی ایک حصہ کی نہیں بلکہ ساری احمدیت کی ہے اور بقول زمیندؔار صرف دمشقی اور اندلسی کا فرق ہے، ورنہ بات ایک ہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عقلمند فرقہ آئندہ بھی اپنے رویّہ پر قائم رہے گا، ورنہ بہرحال یہ ان کا اپنا کام ہے۔ اگر وہ عقل سے کام لیں گے تو فائدہ اٹھائیں گے نہ لیں گے تو خدا تعالیٰ کے قانون کی گرفت میں آئیں گے۔
میاں صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم تو یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے عقائد میں کچھ فرق آگیا ہے کیونکہ چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ نے حال ہی میں انگلستان سے مجھے رپورٹ بھیجی ہے کہ اب ووکنگ مشن کے ذریعہ سے انگریز احمدی بھی ہونے لگ گئے ہیں۔ گویا وہی تعلیم جس کو پہلے زہر قرار دیا جاتا تھا اب تریاق قرار دے دی گئی ہے۔ چنانچہ ووکنگ مشن کے ذریعہ سے ایک احمدی ہونے والی عورت ہمارے مشن میں بھی آئی اور ہمارے مشنری سے اس نے باتیں کیں۔ پس ہم تو یہ امید رکھ رہے ہیں کہ جلد ہی احمدیت کی تبلیغ ایک ضروری چیز قرار دے دی جائے گی اور غیرمبائعین بھی انگلستان اور امریکہ میں کھلے بندوں احمدیت کی تبلیغ کرنے لگ جائیں گے اور خدا تعالیٰ دونوں فریق کو اس بات کی توفیق دے گا کہ وہ احمدیت کی اشاعت میں حصہ لیں۔
خاکسار۔ مرزا محمود احمد
24۔اکتوبر1952ء’’
(الفضل 29 اکتوبر1952ء)
1: حقیقۃ النبوۃ۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ451
2: حقیقۃ النبوۃ۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ379
3: حقیقۃ النبوۃ۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ455
خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتتاحی خطاب
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں
افتتاحی خطاب
(فرمودہ 30اکتوبر 1952ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘مجھے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ خدّام الاحمدیہ کا یہ بارہواں سالانہ اجلاس ہو رہا ہے۔ بارہواں سال ایک بلوغت کا سال سمجھا جاتا ہے۔ بلوغت کے جو پانچ زمانے شمار کئے جاتے ہیں ان میں سے پہلا زمانہ بارہ سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے اور دوسرا 15 سال کی عمر میں جبکہ جہاد میں شمولیت کی اجازت مل سکتی ہے۔ تیسرا 18 سال کی عمر میں جبکہ جہاد واجب ہو جاتا ہے۔ چوتھا 21 برس کا ہونے پر جبکہ شریعت انسان کو پورے طور پر اپنے اموال کا مالک قرار دیتی ہے اور پانچواں دَور بلوغت کا 40 برس کا ہونے پر شروع ہوتا ہے جو کہ عام مدّت خدا تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت کے لئے مقرر فرمائی ہوئی ہے۔
یہ سال جو تمہارے لئے بلوغت کا پہلا سال ہے جماعت کے لئے بہت سے فساد اور مشکلات لایا ہے۔ سلسلے پر جو نازک ترین زمانے گزرے ہیں۔ گیارہویں اور بارہویں سال کا یہ درمیانی عرصہ ان سے بھی زیادہ خطرناک حالات تمہارے لئے لایا ہے۔ اِس سے پہلے بھی جماعت پر ظلم و تعدّی کے کئی دَور آئے ہیں لیکن کبھی بھی ایسا زمانہ نہیں آیا تھا جبکہ بعض لوگوں نے ظلم اور جبر سے ڈر کر کچھ کمزوری دکھائی۔ گو مخالفین نے تو ایسے لوگوں کی تعداد بہت ظاہر کی ہے مگر میرے علم کے مطابق ان کی تعداد کسی صورت میں بھی پچاس ساٹھ سے زیادہ نہیں ہوئی اور ان میں سے بھی اکثر بعد میں جلد ہی سنبھل گئے اور شاید ہی کوئی ایسا رہا ہو گا جس نے ندامت کا اظہار نہ کیا ہو مگر بہرحال مومنوں کی جماعت کے لئے اتنی کمزوری بھی معمولی نہیں ہے۔ ان کی جماعت تو اتنی مضبوط ہونی چاہئے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسی کمزوری نہ دکھلائے۔
خدّام الاحمدیہ کی تنظیم کی غرض یہی تھی کہ اگر کسی موقع پر قربانی کا موقع آئے تو سو میں سے ننانوے نہیں بلکہ سوکے سو ہی اس قربانی پر پورے اُتریں۔ یہ روح اگر تم میں پیدا ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی قوم تم پر ظلم نہیں کر سکتی۔ دنیا کی کوئی طاقت تمہاری راہ میں کھڑی نہیں ہو سکتی۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تمہاری اکثریت ایسے مُلک میں ہے جہاں کی حکومت جمہوریت کے اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے حتّی الامکان ظلم و ستم ہونے نہیں دیتی لیکن تم نے صرف ایک مُلک تک محدود نہیں رہنا تم نے ساری دُنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے اور دنیا میں آج بھی ایسے مُلک موجود ہیں جہاں پر مذہب کے نام پر ظلم ہوتا ہے۔ جہاں تلوار کے زور سے عقائد کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پس تمہارا فرض ہے کہ تم ایسے ممالک کے حالات کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھو تاکہ وقت آنے پر تم کمزوری نہ دکھلا سکو۔
گو پاکستان کے حُکام کو اﷲ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق عدل و انصاف کو قائم رکھتے ہیں اور ظلم نہیں ہونے دیتے اور ہم اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مُلک کو اس روزِ بد سے ہمیشہ ہی محفوظ رکھے جبکہ یہاں بھی ظلم ہو لیکن ایک حد تک یہاں بھی مُشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور بعض دیگر ممالک میں تو یقیناً ہوں گی۔ پس تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ ایسے حالات کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھے جبکہ ایک طرف ایمان ہو اور دوسری طرف تلوار۔ ویسے تو اِس وقت تم میں سے ہرایک جذباتی طور پر کہہ دے گا کہ ہم جانیں دے دیں گے مگر اپنے ایمان پر قائم رہیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز تیاری اور وقت چاہتی ہے۔ اس سال جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے تمہاری پہلی بلوغت کے ساتھ ہی تمہیں ہوشیار کر دیا ہے تاکہ تم آنے والے خطرات کے مقابلہ کے لئے تیاری کر سکو۔
خدّام الاحمدیہ کے متعلق جو رپورٹیں مجھے ملی ہیں ان سے معلو م ہوتا ہے کہ گزشتہ خطرات کے ایّام میں احمدیوں کی مدد کرنے، عورتوں اور بچوں کو خطرات سے نکالنے اور اشتہارات وغیرہ کی اشاعت کے سلسلے میں انہیں خدا تعالیٰ نے اچھا کام کرنے کی توفیق دی ہے۔ یہ ایک خوشکن علامت ہے لیکن ایسی نہیں جس پر ہم مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں گو جیسا کہ مَیں نے کہا ہے یہ تمہاری بلوغت کا پہلا زمانہ ہے لیکن سب بالغ ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے۔ بعض بیس سال کی عمر میں بھی عادتوں کے لحاظ سے ابھی بچے ہی ہوتے ہیں اور بعض بہت چھوٹی عمر میں ہی بڑے بڑے کارنامے کر کے دکھاتے ہیں۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بارہ سال کی اس بلوغت تک پہنچنے کے بعد کیا تمہاری عقلیں اتنی تیز ہو گئی ہیں کہ تم ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کر سکو۔ یوں تو مومن خدا کے حکم کے ماتحت اپنی حفاظت کرتا ہے لیکن اگر ایک طرف تمہاری جان ہو اور دوسری طرف ایمان تو کیا تم میں سے ہر ایک کی روح بِلا تردّد، بِلا تأمل اور فوری طور پر اپنی جان کو خدا اور اپنے درمیان حائل سمجھتے ہوئے اسے قربان کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
خدا تعالیٰ نے تمہیں ہوشیار کر دیا ہے اب تم اپنے دلوں کو مضبوط کرو اور آنے والے خطرات کے لئے تیاری کرو۔ وہ تیاری اسی طرح ہو سکتی ہے کہ تم اپنے اوقات کو صحیح رنگ میں گزارو، زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرو، زیادہ سے زیادہ خدمتِ خلق کرو۔ خدمتِ خلق کے متعلق تمہارا کام ابھی نمایاں نہیں ہے۔ زلزلہ اور اسی طرح کی دیگر مصیبتوں کے پڑنے پر یا جلسوں اور جلوسوں کے مواقع پر تمہیں کم از کم بوائے سکاؤٹس یا ریڈ کراس جتنا نمونہ تو دکھانا چاہئے حالانکہ اصل میں تو ان سے سینکڑوں گُنا زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے۔ واضح رہے کہ خدمتِ خلق سے میری مراد محض احمدیوں یا مسلمانوں کی خدمت نہیں بلکہ بِلاامتیاز مذہب و ملت، خدا کی ساری ہی مخلوق کی خدمت مراد ہے۔ حتّٰی کہ اگر دُشمن بھی مصیبت میں ہو تو اس کی بھی مدد کرو۔ یہ ہے خدمتِ خلق کا صحیح جذبہ۔
اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرو جس کے بعد تمہیں یقین ہو جائے کہ تم ہر گز بُزدلی نہیں دکھاؤ گے۔ اس کے لئے تیاری کرو مگر یہ تیاری اسلامی طریق کے مطابق ہونی چاہئے۔ ایسی تیاری کرنے کے دُنیا میں دو ہی طریق ہیں ایک یہ کہ جسموں کو مضبوط بنایا جائے۔ اس کی مثال نپولین، ہٹلر، چنگیز خان اور تیمور سے مل سکتی ہے اور ایک تیاری روح کی مضبوطی اور پاکیزگی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اس کی سب سے روشن اور اعلیٰ و ارفع مثال دُنیا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدس وجود میں دیکھ چُکی ہے۔ پس تم ہٹلر، نپولین یا چنگیز خاں اور تیمور کی بجائے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے تیاری کرو لیکن یہ نمونہ دُنیوی خوشیوں سے سینکڑوں اور ہزاروں گُنا بالا ہے بلکہ اتنا بالا ہے کہ آج بھی فرشتے اس پر مرحبا کہہ رہے ہیں’’۔
(الفضل لاہور یکم نومبر 1952ء)
وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ
(اختتامی خطاب فرمودہ یکم نومبر 1952ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الا احمدیہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘1- جو خادم انعام لینے آئے وہ پہلے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے۔ انعام دائیں ہاتھ سے لے اور پھر اسے بائیں ہاتھ میں تھام کر مصافحہ کرے۔ انعام لے کر جَزَاکُمُ ﷲ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہے۔ اس موقع پر حاضرین مجلس کو بھی انعامات تقسیم کرنے والے کی اتباع میں بَارَکَ ﷲ لَکَ کہنا چاہئے۔
2- میری تقریر کے وقت اطفال کو بھی یہاں لانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے شور سے تقریر میں مُخِلّ نہ ہوں اور ان کے کانوں میں بھی نیکی کی باتیں پڑتی رہیں۔
3- مرکزی کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اپنے احکام کی تعمیل کرانے کے لئے مختلف مقامات پر والنٹیرز متعین کریں اور خدّام کا فرض ہے کہ جونہی وہ کوئی حکم سنیں فوراً اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اس کی تعمیل شروع کر دیں۔ اس روح کے بغیر کبھی بھی نظم و ضبط کا حقیقی تقاضا پورا نہیں ہو سکتا۔
4- خدّام کو اپنے اپنے مقامات پر اے آر پی کی ٹریننگ لینی چاہئے اور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ لوکل انتظامات میں حصّہ لینا چاہئے۔
ان ہدایات کے بعد فرمایا:-
‘‘مَیں ایک اور نہایت ضروری بات کی طرف بھی توجّہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کو عموماً اور خدّام کو خصوصاً یاد رہے کہ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا ہے حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ۔1 اس ارشاد نبوی ؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ حُبّ الوطنی بھی اسلام کا ایک حصّہ ہے۔ ایمان بڑی اہم چیز ہے اور چونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق وطن کی محبت بھی ایمان ہی کا ایک حصّہ ہے اس لئے یہ بھی ایک اہم چیز ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پس ہمارے نوجوانوں میں حُبّ الوطنی کا مادہ دوسروں سے زیادہ ہونا چاہئے اور اس کے عملی ثبوت کے طور پر انہیں اپنی قومی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قومی حکومت کو مضبوط کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ تم خواہ حکومت کے ملازم ہو یا کوئی اور کام کرتے ہو بہرحال دوسروں سے زیادہ محنت اور سنجیدگی سے اپنے فرائض کو سرانجام دو۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چند مقررہ گھنٹے کام کر کے ذمّہ داری ختم ہو جاتی ہے حالانکہ یہ غلط ہے۔ اصل کام وہ ہے جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نکلے۔ اگر نہیں نکلتا تو تم سمجھ لو کہ تمہارے کام میں کوئی نقص رہ گیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ نتیجہ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے مگر اس فقرہ کا جو مفہوم لیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا تو یہ قانون ہے کہ وہ صحیح طور پر محنت کرنے کا ضرور صحیح نتیجہ نکالتا ہے۔ پس اگر صحیح نتیجہ نہیں نکلتا تو تم کیوں اسے خدا کی طرف منسوب کرتے ہو اور کیوں نہیں اسے اپنی کسی غلطی کا نتیجہ قرار دیتے۔حقیقت یہ ہے کہ جب یہ وہم ہو جائے کہ مَیں تو کام ٹھیک کرتا ہوں مگر خدا غلط نتیجہ نکال دیتا ہے تو پھر انسان اپنی اصلاح سے غافل ہو جاتا ہے۔
اپنے مُلک کی سچی خدمت کرنے کی راہ میں اس امر کو کبھی روک نہ بناؤ کہ ہماری مخالفت بہت ہوتی ہے جب ہم یہ جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر ہماری مخالفت کرنے والے مُلک کے دُشمن ہیں اور دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہی مُلک کے حقیقی خیر خواہ اور وفا دار ہیں تو خود اندازہ لگاؤ کہ اس مخالفت کے نتیجہ میں ہمیں مُلک کی خدمت میں کمزور ہو جانا چاہئے یا پہلے سے بھی بڑھ کر اس میں حصّہ لینا چاہئے۔ جس چیز کے لئے سچی محبت اور ہمدردی ہوتی ہے اسے خطرے میں دیکھ کر تو قربانی کا جذبہ تیز ہؤا کرتا ہے نہ کہ کم۔ پس اگر تم مُلک کے سچے خیر خواہ ہو اور تمہاری مخالفت کرنے والے مُلک کے دُشمن ہیں تو تم پہلے سے بھی بڑھ کر مُلک کی خدمت پر کمر بستہ ہو جاؤ۔ تا دُشمن ہمارے مُلک کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ تم اگر حکومت کے ملازم ہو تو حکومت کا کام پوری محنت عقل اور دیانت داری سے کرو۔ اگر کوئی اور کاروبار کرتے ہو تو اسے محنت سے سرانجام دو۔ اگر سلسلے کا کام کرتے ہو تو اسے محنت اور دیانت داری سے کرو۔ غرض اگر تم واقع میں مُلک کے وفادار اور خیر خواہ ہو تو ہر کام اس جذبہ سے کرو اور اپنا یہ مطمح نظر بنا لو کہ تم نے کسی بھی شعبے اور کام میں دوسروں سے پیچھے نہیں رہنا بلکہ آگے ہی بڑھنا ہے کیونکہ اس میں مُلک کا بھی فائدہ ہے اور دین کا بھی۔جب تک ہر احمدی ڈاکٹر، وکیل، تاجر، کلرک، زمینداراور مزدور اپنے اپنے شُعبہ میں اپنا یہ مطمح نظر نہیں بناتا اس وقت تک ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنا قومی فرض ادا کر رہا ہے’’۔
حضور نے خدمتِ خلق کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اس کے مختلف طریق بیان فرمائے مثلاً سٹیشنوں پر مسافروں کی خدمت، جلسوں کے موقع پر انتظام، دیہات میں جاکر جہاں طبی امداد نہ ہونے کے برابر ہے چھوٹی چھوٹی اور معمولی بیماریوں کا علاج وغیرہ۔اس کے بعد حضور نے فرمایا:-
‘‘ اس وقت تک خدّام نے خدمتِ خلق کے شعبے میں کوئی قابلِ ذکر اور نمایاں کام نہیں کیا۔ حالانکہ تمہیں چاہئے کہ تم اپنے افادے کو خلقِ خدا کی سچی اور بے لوث خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ وسیع کرو’’۔
آخر میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ:-
‘‘ تمہیں ہر روز کچھ وقت خاموشی کے ساتھ ذکرِ الٰہی یا مراقبے کے لئے خرچ کرنے کی عادت بھی ڈالنی چاہئے۔ ذکرِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ علاوہ نمازوں وغیرہ کے روزانہ تھوڑا سا وقت خواہ وہ ابتدا میں پانچ منٹ ہی ہو اپنے لئے مقرر کر لیا جائے جبکہ تنہائی میں خاموش بیٹھ کر تسبیح و تحمید کی جائے۔ مثلاً سُبْحَانَ اللہ ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، اَللہُ اَکْبَرُ اور اسی طرح دیگر صفاتِ الٰہیہ کا وِرد کیا جائے اور ان پر غور کیا جائے۔
مراقبے کے یہ معنے ہیں کہ روزانہ کچھ دیر خلوت میں بیٹھ کر انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اس سے کون کونسی غلطیاں سر زد ہوگئی ہیں۔آیا وہ انہیں دُور کر سکتا ہے یا نہیں ۔ اگر کر سکتا ہے تو اب تک کیوں نہیں کیں۔ اگر دُور نہیں کر سکتا تو اس کی کیا وجوہ ہیں اور کیا علاج ہو سکتا ہے۔ پھر اس کے آگے وہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے عزیزوں اور ہمسایوں کی اصلاح کی کیا صورت ہے۔ تبلیغ کے کیا مؤثّرذرائع ہیں۔ کیا رکاوٹیں ہیں اور انہیں کس طرح دُور کیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے محاسبہ کا جو نتیجہ نکلے اسے ڈائری کے رنگ میں لکھ لیا جائے اور پھر اسی سلسلے کو وسیع کرنے کی کوشش کی جائے۔
اگر اس رنگ میں ذکرِ الٰہی اور مراقبہ کی عادت ڈالی جائے تو یقینا اس سے روحانیت ترقی کرے گی، عقل تیز ہو گی اور امام وقت کی ہدایات و تقاریر پر زیادہ غور و تدبّر کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق مل جائے گی۔ ایسا شخص آہستہ آہستہ ایک حد تک دنیا کے لئے ایک روحانی ڈاکٹر اور مصلح بن جائے گا۔
پس چاہئے کہ ہمارے چہروں پر رونق ہو۔ جسم اور ہماری روحیں دونوں مضبوط ہوں تا دیکھنے والا سمجھ لے کہ اس کا مقابلہ آسان نہیں۔ اس وقت گو تم دنیا کی نظر میں ذلیل ہو اور وہ تم کو مٹانا چاہتی ہے مگر خدا نے بہرحال تمہیں بہت بڑی طاقتیں عطا فرمائی ہیں۔ اس نے ایک نہ ایک دن تمہیں دنیا کا راہنما بنانا ہے۔ پس تم اپنی حقیقت کو سمجھو تم کیوں اپنے وقتوں کو رائیگاں کرتے ہو۔ اگلی نسلوں نے کام کیا اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ اب تمہیں چاہئے کہ مراقبے، ذکر الٰہی اور غور و فکر کے ذریعے اس کام کو ترقی دو۔ ایک بہت بڑا کام اور بہت بڑا نتیجہ تمہارے سامنے ہے اب تمہارا فرض ہے کہ اس نتیجہ کے پیدا کرنے میں حصہ دار بنو۔ یاد رکھو کہ خدا اپنے کمزور بندوں کا ہاتھ پکڑ کر ان سے کام لیا کرتا ہے۔ عزّت بندے کی ہوتی ہے اور محنت خدا کی ہوتی ہے’’۔
(الفضل لاہور 4نومبر 1952ء)
1: موضوعات کبیر۔ مؤلفہ ملّا علی قاری صفحہ35۔ مطبوعہ دھلی1315ھ
نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے
(افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ فرمودہ 26 دسمبر 1952ء بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘پہلے مَیں اس جلسہ کے افتتاح کے لئے دُعا کر دیتا ہوں تاکہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس جلسہ کو ان اغراض کے مطابق بنائے جن اغراض کے لئے اس نے اس جلسہ کی بنیاد رکھی تھی اور تاکہ اﷲ تعالیٰ اس جلسہ میں شامل ہونے والوں پر اپنے فضل اور رحمت سے ان دروازوں کو کھولے جن دروازوں کو کھولنا اِس جلسہ کے قیام کے ساتھ اس نے مقدر کیا تھا اور جس طرح اس نے اُن کو اس دُنیا کی باتیں سُننے کے لئے کان عطا فرمائے ہیں اسی طرح وہ ان کو دین کی باتیں سُننے کے لئے روحانی اور دل کے کان بھی عطا فرمائے اور قوتِ عملیہ جس کے بغیر ایمان کسی کام کا نہیں وہ ان کو عطا ہو اور ان کی زندگیاں خداتعالیٰ کے منشاء اور اسلام کی تعلیم کے مطابق ہوں۔
بعض جماعتوں کی طرف سے باہر سے تاریں آئی ہیں جن میں اُنہوں نے درخواست کی ہے کہ جلسہ سالانہ کی دُعا کے موقع پر ان کے لئے بھی دُعا کی جائے۔ چنانچہ بورنیو کے شہر جیلٹن سے وہاں کی جماعت کی تار آئی ہے کہ یہاں نئی جماعت بن رہی ہے۔ دوست دُعا فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری امداد فرمائے۔ اسی طرح شیخ ناصر احمد صاحب کی سوئٹزرلینڈ سے تار آئی ہے، سیّد عبدالرحمن صاحب کی امریکہ سے تار آئی ہے، چوہدری عبدالرحمن صاحب کی لنڈن سے تار آئی ہے، حافظ بشیر الدین صاحب کی ماریشس سے تار آئی ہے، یہاں کی مقامی جماعتوں کی طرف سے بھی مختلف جگہوں سے تاریں آئی ہیں جن کے نام لینے کی ضرورت نہیں۔ احباب اجمالی طور پر ان سب کو اپنی دُعاؤں میں شامل کر لیں۔ دُعا کے بعد مَیں چند الفاظ کہہ کر اس جلسہ کا افتتاح کروں گا اور پھر باقی پروگرام شروع ہو گا۔’’
اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دُعا کروائی۔ دُعا سے فارغ ہونے پر فرمایا:-
‘‘مَیں صرف چند منٹ بعض باتیں کہہ کر چلا جاؤں گا۔ ایک تو مَیں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ پچھلے کچھ دنوں سے شدید سردی اور خشک سردی کی وجہ سے میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ دردیں پھر شروع ہو گئی ہیں اور اسی طرح نزلہ کی شکایت ہو گئی ہے۔ دردوں کی وجہ سے مجھے ملاقاتوں میں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مَیں بیٹھ نہیں سکتا اور نزلہ کی وجہ سے بولنے میں تکلیف ہوتی ہے اس لئے مَیں بول نہیں سکتا۔ پس ایک تو ملاقاتوں کے وقت احباب احتیاط سے چل کر آیا کریں تاکہ گرد نہ اُڑے۔ دوسرے دُعا بھی کریں کہ اﷲ تعالیٰ ان دنوں میں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ مَیں اپنے خیالات آپ تک پہنچا سکوں۔ باقی دوائیں جو درد کی وجہ سے مَیں نے شروع کی ہیں ان سے کچھ افاقہ بھی ہے چنانچہ آج پون گھنٹہ مَیں نے ملاقات کی اور مَیں اس غرض کے لئے بیٹھ سکا لیکن بعض دفعہ لمبی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ دوائیں جو دردوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ان سے دل میں ضُعف پیدا ہوتا ہے اور اس وجہ سے مَیں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا لیکن بہرحال درد کی شدت کی وجہ سے چونکہ نہ مَیں بول سکتا ہوں اور نہ بیٹھ سکتا ہوں اس لئے دوائیں استعمال کرنی ہی پڑتی ہیں۔
اس کے بعد دو تین باتیں مَیں جلسہ کے متعلق اور کچھ منتظمین کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔ آپ سے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ اخبار میں مَیں نے اعلان کروا دیا تھا۔ آجکل خشک سردی پڑ رہی ہے اور اس سے نمونیہ وغیرہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے اپنے اوقات کو اس طرح خرچ کریں اور یہاں اس طرح اپنے دن گزاریں کہ آپ کو بلا وجہ موسم کی شدت کا مقابلہ نہ کرنا پڑے۔ مومن کی جان بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے۔ آپ کو تو خود تجربہ ہے کہ ایک ایک احمدی بنانے میں کتنے مہینے لگ جاتے ہیں۔ پس ایک احمدی کا اپنی جان بچانا کوئی معمولی بات نہیں۔ کیونکہ وہ آسانی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ بڑی قربانی سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسری بات مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ میں بعض قیود بڑھائی گئی ہیں کیونکہ اخراجات کے متعلق ہمارا اندازہ تھا کہ جلسہ سالانہ پر خرچ زیادہ ہوتا ہے۔ پس مَیں نے منتظمین کو تاکید کی کہ چونکہ قحط کا موسم ہے اس لئے کھانے کو ضائع ہونے سے بچاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ اخراجات اتنے زیادہ ہو جائیں کہ سلسلہ ان کو برداشت نہ کر سکے۔ بڑھنے والی جماعتوں کے متعلق ہمیشہ ترقی اور اصلاح کا خیال زیادہ رکھا جاتا ہے لیکن اس خیال میں بعض غلطیاں بھی ہوئیں۔ چونکہ نیا تجربہ ہے اس لئے دوستوں کو غلطیوں کی اصلاح کی تو کوشش کرنی چاہئے لیکن ان غلطیوں پر چِڑنا نہیں چاہئے ور نہ جماعت کی تنظیم اور اس کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ ترقی ہمیشہ اسی طرح ہوتی ہے کہ اصلاحات جاری کی جائیں اور پھر غلطیاں دیکھی جائیں اور ان غلطیوں کی اصلاح کر کے آئندہ کے لئے کوئی معیّن اور صحیح قدم اُٹھایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لوگوں کے ڈر کے مارے کوئی نیا قدم نہیں اُٹھایا جاسکتا اور نظام کی مضبوطی کے لئے کوئی نیا طریق اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ پس جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ جماعت میں ہمیشہ نئی نئی اصلاحات کی جائیں۔ بے شک ان اصلاحات میں غلطیاں بھی ہوں گی دوست ان غلطیوں کو پکڑیں لیکن ان غلطیوں پر گھبرانا نہیں چاہئے ورنہ کام کرنے والے نئے قدم اُٹھانے سے گھبرائیں گے اور قوم ترقی نہیں کر سکے گی۔ پس آپ جرح ضرور کریں اور جب کوئی غلطی دیکھیں تو منتظمین کو توجّہ دلائیں تاکہ اس غلطی کی اصلاح کی جائے لیکن ساتھ ہی خوشی سے نئی قیود اور اصلاحات کو برداشت کریں کیونکہ ان قیود کا بڑھانا جماعت کی ترقی کی علامت ہے تنزل کی نہیں۔ اسی طرح کام کرنے والوں کو توجّہ دلانا بھی ضروری ہے اگرچہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ توجّہ دلانے کے باوجود بھی اصلاح نہیں کی جاتی۔ ابھی ایک دوست نے جو کراچی سے آئے ہوئے ہیں اور جنہوں نے صرف چند دن ہوئے بیعت کی ہے کھانے کے متعلق شکایت کی۔ مَیں نے اس شکایت اور بعض دوسری شکایتوں کے لئے ایک کمیٹی بنا دی کہ وہ نگرانی کرے اور کارکن مہمانوں کی ہر ضرورت کو پورا کر دیا کریں۔ اس کمیٹی کی طرف سے مجھے رپورٹ آئی کہ انتظام ہو گیا ہے لیکن پھر دوبارہ اسی دوست کی طرف سے شکایت آئی کہ ابھی تک انتظام نہیں ہؤا۔ اس پر پھر توجہ دلائی گئی تو اُنہوں نے پھر رپورٹ کی کہ انتظام ہو گیا ہے۔ مگر ابھی مَیں تقریر کے لئے آرہا تھا تو پھر ان کی طرف سے شکایت آئی کہ کوئی بھی انتظام نہیں ہؤا۔ اسی طرح جلسہ گاہ کے متعلق خود مَیں نے اس نقشہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ مجھے پسند نہیں۔ یہ احتیاط سے گزر کر غیر اسلامی طریق کا جلسہ گاہ بن گیا ہے اور اسے مَیں پسند نہیں کرتا۔ اسلام ہمیں بے شک احتیاط کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ہی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خُذُوْا حِذْرَکُمْ 1لیکن موجودہ جلسہ گاہ کی جو شکل ہے یہ تو ایسی ہی ہے جیسے بادشاہ اعلانوں کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو دُور دُور بٹھادیا جاتا ہے۔ اتنا لمبافاصلہ میرے نزدیک ہرگز اس حفاظت کے لئے ضروری نہیں جس حفاظت کا خدا تعالیٰ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔
پہلوؤں کے متعلق مَیں نے کہا تھا کہ انہیں تنگ کرو اور یہاں لوگوں کو بیٹھنے کا موقع دو۔ اسی طرح سامنے والے حصّہ کے متعلق مَیں نے کہا تھا کہ اسے بھی تنگ کرو۔ جیسا کہ آپ لوگوں کو یاد ہو گا گزشتہ سال بھی بعض احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں لیکن اس وقت چاروں طرف لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک حملہ جس کی آجکل زیادہ احتیاط کی جاتی ہے پستول کا حملہ ہوتا ہے اور پستول کا حملہ ایسی چیز ہے کہ ایسے ہنگامہ میں اگر کوئی شخص فائر کرنا چاہے اور اس کے پاس بیٹھنے والے ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ اس کے حملہ کو فوراً بے کار کر سکتے ہیں۔ پستول کا حملہ پچاس فٹ سے زیادہ فاصلے سے نہیں ہو سکتا۔ اِلَّا مَا شَاءَ ﷲ۔ لیکن ایسا تو کبھی کبھی ہوتا ہے اور عزرائیل لوگوں کی جانیں نکالنے کے لئے ہر روز آتا ہے۔ پس جان نکالنا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں کہ اس کے لئے غیرمعمولی احتیاط کی جائے۔ اب جلسہ گاہ میں بیٹھنے والے اتنے دُور دُور بیٹھے ہیں کہ ان کا اس قدر دُور بیٹھنا طبیعت پر سخت گراں گزرتا ہے اور زیادہ تو افسوس یہ ہے کہ باوجود میرے کہنے کے اصلاح نہیں کی گئی۔ پس مَیں منتظمین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اس جلسہ گاہ کی اصلاح نہ کی گئی مَیں کل تقریر نہیں کروں گا۔ اگلی صف آگے آنی چاہئے اور پہلوؤں میں بھی لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہونا چاہئے۔ اب تو ایسی شکل بنی ہوئی ہے جیسے بادشاہ اعلان کرنے کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو بٹھادیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ احتیاط ضروری چیز ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے۔ مصر میں ایک دفعہ مسلمان نماز پڑھ رہے تھے کہ ان پر اچانک حملہ کر دیا گیا۔ شاید اُنہوں نے پہرہ مقرر نہیں کیا تھا جیسے آجکل کے مولوی ہمارے پہرہ پر اعتراض کرتے ہیں اسی طرح اس زمانہ میں لوگ اعتراض کرتے ہوں گے۔ چونکہ نیا مُلک فتح ہؤا تھا اس لئے اُنہوں نے اس خیال سے کہ لوگ اعتراض نہ کریں کہ نماز کے وقت بھی یہ پہرہ رکھتے ہیں اپنے لئے پہرہ مقرر نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ دُشمن نے نماز کی حالت میں کئی صفیں قتل کر دیں اور پھر کہیں جاکر اگلی صف والوں کو پتہ لگا کہ دُشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ بیسیوں صحابہ ؓ مارے گئے اور سینکڑوں دوسرے مسلمان شہید ہوئے۔ پس پہرہ ایک ضروری چیز ہے لیکن اس کی ایسی شکل بنا دینا کہ پہرہ ہی رہ جائے اور کام ختم ہو جائے یہ بھی ایک لغو بات ہے۔ آخر ہر ایک نے مرنا ہے پس ایسی احتیاط جو خلافت کو بادشاہت کا رنگ دے دے یا تنظیم کو غیر معمولی شان و شوکت والی چیز بنا دے یہ نہ تنظیم کہلا سکتی ہے اور نہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے یہ کوئی پسندیدہ امر ہے۔ اصل حفاظت خداتعالیٰ کرتا ہے بندے نہیں کرتے اور یہ چیز جو آج نظر آرہی ہے یہ احتیاط سے بالا ہو گئی ہے۔ لوگ اتنی دُور بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ تو شاید مجھے دیکھ رہے ہوں لیکن میری نظر چونکہ کمزور ہے اس لئے مجھے شاذو نادر ہی کسی کی شکل نظر آرہی ہے۔ پس ان کو بھی قریب آنے کا موقع دینا چاہئے۔ باقی نگرانوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ ہوشیاری سے کام لیں۔ بھلا ایسے احمقوں نے حفاظت کیا کرنی ہے جن کے سامنے ایک شخص رائفل لے کر آجاتا ہے، اسے اُٹھاتا ہے، نشانہ باندھتا ہے اور فائر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر نہ انہیں رائفل لاتے وقت وہ نظر آتا ہے ،نہ رائفل اُٹھاتے وقت نظر آتا ہے ، نہ نشانہ باندھتے وقت نظر آتا ہے ، نہ اِرد گرد بیٹھنے والوں کو پتہ لگتا ہے کہ فلاں شخص رائفل چلانے لگا ہے حالانکہ رائفل ایسی چیز ہے کہ ایک ہاتھ مارا جائے تو وہ دُور جا پڑے اور اس کا نشانہ آسمان کی طرف چلا جائے۔ پس رائفل کا سوال نہیں سوال پستول کا ہے مگر اس میں بھی تب کامیابی ہوتی ہے جب کوئی پچاس ساٹھ فٹ سے نشانہ لگائے اور ایک منٹ تو نشانہ لگانے میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ اگر پاس کے لوگ ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ صرف ایک کُہنی کی حرکت سے اس کے نشانہ کو ختم کر سکتے ہیں بلکہ کُہنی تو الگ رہی سانس کی تیزی سے بھی نشانہ بگڑ جاتا ہے۔ اگر کسی کو پتہ لگے کہ کوئی شخص پستول چلانے لگا ہے اور وہ ذرا اپنی کہنی اسے مار دے تو اتنی معمولی سی بات سے ہی اس کا نشانہ خطا ہو جاتا ہے۔ پس یہ کھیل مَیں پسند نہیں کرتا اس کی فوراً اصلاح کی جائے۔ جلسہ کے وقت میں تو اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ راتوں رات اس کی اصلاح ہو جانی چاہئے ورنہ کل میں تقریر کے لئے نہیں آؤں گا اور دوستوں کو خلافت کے لئے جو مکانات بنائے گئے ہیں ان میں ملاقات کا موقع دوں گا اور کہہ دوں گا کہ مُجھ سے مصافحہ کر لو اور چلے جاؤ۔ ایسے ماحول میں تقریر کرنے کےلئے مَیں نہیں آسکتا۔ ہماری جماعت ایک مخلصین کی جماعت ہے اور دُور دُور سے لوگ جلسہ سالانہ کے لئے آتے ہیں۔ ان کو مُجرم کے طور پر بٹھادینا اور ڈربہ کے طور پر بند کر دینا ایسی چیز ہے جسے میری غیرت برداشت نہیں کرتی۔ وہ مُجھ سے محبت کرتے ہیں اور مَیں اُن سے محبت کرتا ہوں۔ پھر ہم میں اتنی دُوری کیوں ہو؟
دوسری طرف پہرہ کا انتظام بہت ناقص ہے۔ پہلے بہت سے آدمی ہؤا کرتے تھے مگر اس دفعہ اتنے آدمی نظر نہیں آتے۔ جلسہ گاہ کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر لوگوں کے لئے سٹیج سے پندرہ بیس فٹ پرے جگہ بنا دی جائے تو غالباً کافی ہو گا۔ بے شک نگرانوں کی یہ ذمّہ داری ہے کہ وہ دیکھتے رہیں کہ کوئی شریر آدمی تو اندر نہیں آگیا۔ مگر یہ بھی نا مناسب امر ہے کہ کسی ایک شریر کی وجہ سے سارے مُحّبوں کو دُور بٹھادیا جائے۔
اِسی طرح مَیں کارکنوں کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ بے تحقیق رپورٹیں نہ کیا کریں۔ درست رپورٹیں کیا کریں۔ بے شک ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سلسلہ کا روپیہ ضائع ہو۔ مگر ہم یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ مہمانوں کی ہتک ہو۔ اب مَیں جلسہ کا افتتاح کر کے جاتا ہوں۔ اس کے بعد دوسری کارروائی شروع ہو گی۔’’
(الفضل 11جنوری 1953ء)
1: النسآء :72
حضرت اماں جان کے وجودِ گرامی
کی اہمیت،تعمیر ربوہ اور مخالفین
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
حضرت اماں جان کے وجودِ گرامی کی اہمیت،
تعمیر ربوہ اور مخالفین
(فرمودہ 27دسمبر 1952ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
علالتِ طبع
‘‘جلسے سے کچھ ایّام پہلے میری طبیعت پھر خراب ہونی شروع ہو گئی تھی۔ جسم کے مختلف حصّوں میں دردیں ظاہر ہونے لگیں اور نزلہ
کی طرف بھی طبیعت مائل ہو گئی جس کی وجہ سے گلا اتنا ماؤف ہو گیا کہ کل رات جب مَیں کھانا کھا رہا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ لقمہ گلے کو چیرتا ہؤا اندر جارہا ہے۔ کچھ تکلیف تو پہلے ہی تھی لیکن آج عورتوں کی بیعت کے موقع پر بد انتظامی اور شور کی وجہ سے اس میں اَور اضافہ ہو گیا ہے ۔ مگر چونکہ دوست بڑی تعداد میں آئے ہیں اِس لئے مَیں تقریر کو چھوڑ بھی نہیں سکتا۔
مستورات سے خطاب
عام تقریر شروع کرنے سے قبل مَیں مستورات کو توجّہ دلاتا ہوں کہ تمہارے ذمّہ مسجد ہالینڈ کی تعمیر کا
چندہ ہے، اسی طرح لجنہ کے دفاتر کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی قرضہ ابھی باقی ہے، تمہیں اس بوجھ کو اُتارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تمہارے اندر قربانی کا جذبہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تمہیں خدا نے قربانی ہی کی جنس بنایا ہے۔ ماں، بہن اور بیٹی کی حیثیت میں محنت اور قربانی کے جو نظارے عورتوں میں نظر آتے ہیں وہ ایک دفعہ تو انسانی دل کو کپکپادیتے ہیں۔ مرد بھی بے شک بڑی بڑی قربانی کرتے ہیں مگر جو روح فدائیت کی عورتوں میں نظر آتی ہے وہ مافوق الانسانیت معلوم ہوتی ہے۔ پس تمہیں اپنے اس امتیاز کو قائم رکھنا چاہئے اور اپنے ذمّے جو چندے اور فرائض ہیں انہیں پورا کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ تمہیں اپنے اندر انتظام کی عادت بھی ڈالنی چاہئے۔ لجنہ کا فائدہ کیا ہؤا اگر ہماری مستورات میں بھی بد نظمی جاری رہے۔ اصل میں تو انتظام کا شعبہ خدا نے تمہارے ہی سپرد کیا ہؤا ہے۔ اگر تم اس کو نہ کرو تو اور کس نے کرنا ہے؟
جلسہ سالانہ کے انتظامات
بے شک اگر انتظامات میں کوئی خامی دیکھو تو اس کی اصلاح کی خاطر اس کی رپورٹ کرو مگر اس قدر
نہ بڑھ جاؤ کہ منتظمین کو انتظام قائم رکھنے میں ہی دقّت ہو جائے۔دراصل ایسے موقع پر ایک حد تک تکلیف ضرور ہوتی ہے اور اسی میں مزہ ہوتا ہے۔ خدا کی راہ میں جو لُطف تکلیف اُٹھانے میں ہوتا ہے وہ آرام میں نہیں ہوتا اور یہاں تو دراصل کوئی مہمان ہوتا ہی نہیں۔ ربوہ کی آبادی ابھی اتنی کم ہے کہ اس کے لئے اتنے مہمانوں کا انتظام کرنا ناممکن ہے اس لئے تمہیں اپنے آپ کو خود ہی مہمان اور خود ہی میزبان سمجھنا چاہئے۔ دوسری طرف منتظمین کو بھی چاہئے کہ کمزور طبائع کے ساتھ نرمی اور درگزر کا سلوک کریں۔
الفضل اور ریویو کی اشاعت بڑھانے کی تحریک
مَیں اصل تقریر سے قبل الفضل کی اشاعت کو بڑھانے کی بھی تحریک کرتا ہوں۔ اس سال الفضل کا خاتم النّبیین نمبر شائع ہؤا تھا
اور وہ فتنے کے ایّام میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے باقی سارے لٹریچر سے زیادہ کامیاب رہا۔ اس کا مضمون ایک تھا مگر اس کے متعلق مختلف پہلوؤں کو جمع کر دیا گیا تھا۔ گویا وہ ایک باغیچہ تھا جس میں مختلف پھل اور پھول جمع کر دیئے گئے تھے مگر خوبی یہ تھی کہ وہ سب ایک ہی قسم کے تھے۔ چنانچہ ختم نبوت کے مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریریں، قرآن مجید کی آیات، احادیث نبویہ اور ائمہ سلف کے خیالات کو جمع کر دیا گیا تھا تاکہ ہر قسم کی طبائع کو اپنے اپنے مذاق کے مطابق مواد مل سکے۔ جماعتوں کی طرف سے جو اطلاعیں آئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مخالفوں نے بھی مانگ مانگ کر یہ پرچہ پڑھا ہے۔ اِن میں سے متعدد نے بعد میں اِس خیال کا اظہار کیا کہ پہلے ہم احمدیت کو ایک خلافِ اسلام تحریک سمجھتے تھے مگر اس نمبر کو پڑھنے سے معلوم ہؤا کہ احمدی اسلام کے یا قرآن کے منکر نہیں ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض تاویل کا اختلاف ہے۔ متعدد جماعتوں نے خاتم النّبیین نمبر کے متعلق لکھا کہ اس کی اشاعت کے بعد مخالفت کی رَو بدل گئی۔ پس الفضل کی اشاعت کو بڑھانے کی کوشش کرو۔ سالہاسال سے اس کی اشاعت 20 اور 25 کے درمیان ہی گھوم رہی ہے حالانکہ جماعت پھیل رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ روزانہ اخبار ہونے کی وجہ سے اس کا چندہ زیادہ ہے مگر کمزور جماعتیں مل کر خرید سکتی ہیں۔ اسی طرح اگر افراد بھی اکیلے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو دو دو، تین تین، چار چار مل کر خرید سکتے ہیں۔ پس مَیں احباب کو تحریک کرتا ہوں کہ الفضل کی اشاعت کو بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرو۔
اسی طرح انگریزی کا رسالہ ریویو ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے زمانہ کی جماعت کے لحاظ سے اس کے کم از کم دس ہزار خریدار ہونے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اور موجودہ تعداد کے لحاظ سے تو اب اس کے لاکھوں تک خریدار ہونے چاہئیں لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو کم از کم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو تو پورا کرنے کی کوشش کرو۔ باہر سے جو خطوط آتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی ممالک میں لوگ اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اسی طرح خدّا م اور لجنہ کے رسالوں کی اشاعت بڑھانے کی بھی مَیں تحریک کرتا ہوں۔ لجنہ کو شکایت ہے کہ اس کے رسالہ سے عورتیں پورا تعاون نہیں کرتیں۔ مگر مجھے اس پر تعجب ہے کہ عورتیں اپنے رسالہ کی پرورش نہ کریں کیونکہ اگر انہیں یقین ہو کہ یہ چیز اپنی ہے تو پھر ان سے یہ اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس کی پرورش اور نگرانی نہ کریں اور خدّام کے رسالہ کے متعلق تو مجھے کچھ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ان کی جوانی کا زمانہ ہے ہمت اور طاقت کے ایّام میں ان کا تو یہ کام ہے کہ وہ بوڑھوں کی بھی مدد کریں اور الفضل کی اشاعت بھی بڑھائیں۔ کجا یہ کہ اپنے رسالہ کو نہ چلا سکیں۔
پاکستان کے بنیادی اصولوں
کے متعلق سفارشات
تفصیلی طور پر تو ابھی مجھے اس کے مطالعہ کا موقع نہیں ملا مگر دو باتوں کے متعلق عام طور پر اخبارات میں احتجاج کیا جارہا ہے ایک تو
اس امر پر کہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں برابری کا اصول کیوں رکھا گیا ہے اور دوسرا فیڈرل سسٹم پر۔ میرے نزدیک اصل پوائنٹ جو مُلک کے لئے بہت مُضر ہے یہ ہے کہ مولویوں کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جس امر پر چاہیں اعتراض کریں اور قانون سازی میں رکاوٹ ڈالیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ مولویوں کے صرف ایڈ وائز ری بورڈ بنائے گئے ہیں انہیں اختیارات نہیں دیئے گئے۔ میرے نزدیک ایسا سمجھنے والے مولویوں کی ذہنیت سے ناواقف ہیں۔ ترکی میں جب مولویوں کو حکومت میں اقتدار حاصل ہؤا تو وہاں یہ حالت ہو گئی کہ اُنہوں نے بات بات پر فتویٰ بازی شروع کر دی اور قوم کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا۔ اگر یہاں بھی ان لوگوں کو پنپنے کا موقع دیا گیا تو یہی حالت ہو جائے گی۔
مجھے تعجب ہے کہ یہ عالم اور مولوی کہلانے والے ایڈوائز ری بورڈ کے راستہ کی بجائے انتخاب کے راستے سے کیوں حکومت میں اقتدار حاصل نہیں کرتے۔ اگر وہ واقعی قوم کے نمائندے ہیں جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو پھر انہیں اسمبلی کا ممبر ہونا چاہئے نہ کہ ایڈوائزری بورڈ کا اور اگر وہ اسمبلی کے ذریعہ قوم کے نمائندے نہیں بنتے تو پھر دوباتوں میں سے ایک ضرور ماننی پڑے گی۔یا تو یہ کہ قوم ان کی مزعومہ ''اسلامی حکومت'' نہیں چاہتی اور یا یہ کہ وہ قوم کے نمائندے نہیں ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں صاف ظاہر ہے کہ ان کے ایڈوائزری بورڈ کی کیا حیثیت ہو گی۔
مشرقی بنگال اور مغربی پاکستان میں برابری
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ مشرقی بنگال کو
مغربی پاکستان کے مساوی نمائندگی کیوں دی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ اسلام کی رو سے تمام مسلمان برابر ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان مسلمان ہو گئے ہیں؟ کیا مغربی پاکستان میں صوبائی عصبیت موجود نہیں ہے؟ کیا سرحد، بلوچستان اور سندھ میں یہ روح نہیں پائی جاتی ؟ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ بنگال مستحق مبارکباد ہے جو تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود برابری پر راضی ہو گیا۔ پس میرے نزدیک بے شک اس برابری پر اعتراض کیا جائے مگر اس وقت جب خود مغربی پاکستان کے صوبوں میں عصبیت کی روح نہ رہے اور جب مغربی پاکستان خود اپنے اندر اسلامی روح پیدا کر کے مشرقی بنگال کے دل کو موہ لے اور عملی قربانی کا نمونہ پیش کرے، جب دل صاف ہو جائیں گے تو پھر بے شک بنگال والوں کی بد گمانی کو نا مناسب قرار دینا مگر خود ایسا تعصّب کرنا اور پھر اس برابری پر اعتراض کرنا ہمارے مُنہ سے زیب نہیں دیتا۔
میرے نزدیک ایک بڑی بھاری کوتاہی ان سفارشات میں یہ ہوئی ہے کہ کشمیر کے پاکستان میں داخل ہونے کے متعلق کوئی دفعہ نہیں رکھی گئی حالانکہ سفارشات میں یہ ہونا چاہئے تھا کہ اگر کوئی نیا مُلک یا رقبہ پاکستان میں شامل ہو تو اسے کن اصولوں کے ماتحت نمائندگی دی جائے گی۔’’(الفضل 31دسمبر 1952ء)
‘‘یہ تو ابتدائی باتیں تھیں اب میں اصل تقریر کو لیتا ہوں۔
وفات حضرت امّاں جان
میرے نزدیک اس سال کا بلکہ ہماری جماعت کی تاریخ میں سے ایک خاص عرصہ کا اہم واقعہ
وفات حضرت امّاں جان ہے ۔حضرت امّاں جان ایک زنجیر تھیں ہمارے درمیان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ نام اولاد کے ذریعہ چلتا ہے لیکن اولاد پھل تو ہے، درخت کا اپنا حصّہ نہیں۔ ہاں ایسی بیوی جس کے متعلق خداتعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حصّہ ہو گی وہ بے شک حصّہ حقیقی معنوں سے ہی ہو گی، گو ہر بیوی میں یہ قابلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے خاوند کا حصّہ ہونے کا حق ادا کرے۔ تم آم کے درخت کے آدھے حصّہ کو کہتے ہو کہ یہ درخت کا ایک حصّہ ہے۔ یعنی تمہارے سامنے کیسے ہی عمدہ لنگڑے آم رکھ دیئے جائیں تم انہیں آم کے درخت کا حصّہ نہیں کہہ سکتے۔ تو حضرت امّاں جان کی وفات کے ساتھ وہ مادی زنجیر جو ہم نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھی ٹوٹ گئی ہے۔ آپ کی وفات کے ساتھ وہ مادی واسطہ جو ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان تھا جاتا رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ عام حالات سے زیادہ جو ان کے متعلق بات تھی وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامات میں آدم کا نام دیا گیا ہے اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ تمام انبیاء میں سے خصوصیت کے ساتھ جس نبی کے کاموں میں اس کی بیوی کو شریک کیا گیا ہے وہ حضرت آدم ؑ ہیں جو باقی انبیاء آتے رہے یہ نہیں کہ ان کی بیویاں ادنیٰ درجہ کی تھیں۔ بے شک وہ بھی بڑے اعلیٰ درجہ کی تھیں لیکن الٰہی حکمت کے ماتحت جس طرح حضرت آدم ؑ کی شریک حال حضرت حوّا کو بنایا گیا اس طرح دوسرے انبیاء کی بیویوں کو نہیں بنایا گیا۔ پس حضرت مسیح موعود ؑ کا نام جو آدم رکھا گیا ہے اور آپ کی بعثت کو جو آدم ؑ کی بعثتِ ثانیہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آپ کی بیوی کو آپ کے کاموں میں شریک کیا گیا ہے۔ مگر اس حد تک بات ہوتی تو یہ صرف ایک منطقی نتیجہ ہوتا لیکن میں اب بتاتا ہوں کہ اس کا ایک معیّن ثبوت ملتا ہے۔ احادیث میں آیا ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مسیح موعود ؑ کے متعلق فرماتے ہیں یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ1 کہ وہ شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی۔ ظاہر ہے کہ شادی تو سارے انبیاء نے کی تھی سوائے حضرت مسیح علیہ السلام کے۔ جن کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے شادی نہیں کی لیکن قرآن کریم سے جو کچھ ثابت ہے یہی ہے کہ سب نبیوں کی بیویاں بھی تھیں اور بچے بھی تھے۔ کیونکہ فرماتا ہے۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّيَّةً 2 یعنی ہم تجھ سے پہلے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیویاں اور بچے عطا فرمائے تھے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سب رسولوں کی بیویاں تھیں اور ان کے ہاں اولاد بھی تھی۔ پس حضرت مسیح ناصری اس گروہ سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اس کے باوجود جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ وہ شادی بھی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہو گی تو اس کا کیا مطلب تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ سب سابق مامورین ایسا ہی کر چکے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں خصوصیت کے ساتھ ایک بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپؑ کی بیوی آپؑ کی شریکِ حال بننے والی تھی اور چونکہ یہ ایک خصوصیت تھی جس میں سب سابق مامور شامل نہ تھے سوائے چند کے جن میں سے نمایاں مثال حضرت آدم ؑ کی تھی۔ پس یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗکے الفاظ سے آنے والے موعود کی بیوی کی اہمیت ظاہر کی گئی تھی۔ پھر ہم اس زمانہ سے نیچے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اُمتِ محمدیہ کے بعض اور بزرگوں نے بھی اپنی پیشگوئیوں میں یہ بات بیان کی ہے۔ حضرت امّاں جان دہلی کی رہنے والی تھیں۔ آپ کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ خواجہ محمد ناصر تھے۔ آپ کے والد بادشاہِ وقت کے خاص درباریوں میں سے تھے اور نواب کا خطاب رکھتے تھے اور خواجہ محمد ناصر بھی فوجی افسر تھے۔ آپ کے وقت کا بادشاہ محمد شاہ تھا۔ ایک دن الٰہی منشاء معلوم کر کے آپ نے محمد شاہ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ آپ کو اس نے بہت سمجھایا کہ استعفیٰ واپس لے لو۔ آپ کا مستقبل بہت روشن ہے لیکن آپ نے کہا میری خدا تعالیٰ سے لَو لگ گئی ہے۔ اب مَیں یہ خدمت سر انجام نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ گھر آگئے اور عبادت میں لگ گئے۔
ایک دن آپ دروازے بند کر کے عبادت کر رہے تھے اور حجرہ میں بیٹھے بیٹھے کئی دن اور کئی راتیں گزر گئیں تھیں کہ آپ کو کشف میں امام حسن علیہ السلام نظر آئے۔ حضرت امام حسن نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ مجھے میرے نانا نے بھیجا ہے کہ مَیں تم کو آپ ؐ کی طرف سے روحانیت کی خلعت دے آؤں۔ آپؐ نے فرمایا کہ خواجہ محمد ناصر سے کہہ دینا کہ یہ تحفہ جو تمہیں ملتا ہے ایسا ہے جس میں تجھے مخصوص کیا گیا ہے اس لئے تم اپنے طریقہ کو طریقۂ محمدیہ کہو اور فرمایا:
‘‘یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادۂ نبوت نے تیرے واسطے مخصوص رکھی تھی اس کی ابتدا تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدیٔ موعودؑپر ہو گا۔3 گویا خواجہ محمدناصر جو خواجہ میر درد کے والد اور حضرت امّاں جان کے پڑنانا تھے کو دو سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ تمہارا سلسلہ مہدیٔ موعود ؑ سے مل جائے گا۔ اب ملنے کے دو ہی معنے ہیں۔ یا تو خواجہ صاحب خود حضرت مہدیٔ موعود کے مرید ہوتے لیکن مرید تو خواجہ صاحب ہوئے نہیں کیونکہ آپ مہدی موعود کے ظہور سے بیسیوں سال پہلے فوت ہو گئے اور یا پھر آپ کے خاندان کا رشتہ آنے والے مہدی کے خاندان کے ساتھ ہو جاتا اور خدا تعالیٰ نے یہی دوسرا طریق اختیار کیا۔ یعنی آپ کی نواسی کی شادی مہدی موعود ؑ سے ہوئی اور اس طرح خواجہ صاحب کا سلسلہ محمدیہ اور حضرت مہدی موعود ؑ کا سلسلہ دونوں مل گئے۔ بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ میخانہ ٔ درد میں لکھا ہے کہ گدّی پر بیٹھنے کا کسی اور خاندان کا حق تھا لیکن الٰہی منشاء یہ تھا کہ وہ اس نسل کو بدل دے۔ سیّد محمد نصیر صاحب جو اپنے ماموں محمد بخش کے لا ولد فوت ہو جانے کی وجہ سے ان کی گدّی پر بیٹھے تھے ان کی وفات پر خلافت کا جھگڑا اُٹھا تو خاندان کی ایک بڑھیا عورت سے مشورہ کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس کو وہ کہے اسے گدّی پر بٹھا دیا جائے۔ چنانچہ اس بڑھیا نے مشورہ دیا کہ اپنے بزرگوں کا ہم پلّہ خاندان میں تو کوئی نظر نہیں آتااس لئے میرے نزدیک میاں ناصرمیر جو خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ ہیں انہیں گدّی پر بٹھا دیا جائے۔ میاں ناصر میر کے خلیفہ منتخب ہو جانے کے بعد سلسلہ محمدیہ منتقل ہو کر ایک دوسرے خاندان میں آ گیا۔ جو ماں کی طرف سے خواجہ میر درد کا خاندان تھا اور باپ کی طرف سے نواب خاندوران خان4 کا خاندان تھا۔ یہ گویا دوسری پیشگوئی تھی کہ سلسلہ محمدیہ اب مہدی موعود ؑ کے سلسلہ میں مدغم ہو جائے گا۔ پھر اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھا ہے:
''اور یہ نسبت محمدیہ الخالصہ حضرت امام موعودؑکی ذات پاک پر ختم ہو گی اور تمام جہان ایک نورسے روشن ہو گا اور اس نیّرِ اعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی ''۔ 5
یعنی خصوصیت سے جو یہ سلسلہ بنایا جا رہا ہے یہ حضرت مہدی معہود ؑ پر ختم ہو جائے گا پھر ایک نیا سلسلہ قائم ہو گا۔ اس میں بھی پہلی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے دو ہی معنے تھے کہ یا تو آپ کی اولاد میں سے مہدی ہو یا ان کی بیٹی مہدی موعود کے ساتھ بیاہی جائے۔ یہ دونوں اقتباسات میخانہ ٔ درد کے ہیں جو ناصر خلیق ابن ناصر نذیر فراق کی تصنیف ہے۔
پھر حضرت امّاں جان کے وجود کی اہمیت کا پتہ اس بات سے بھی لگتا ہے کہ ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ کسی کو یہ خیال بھی نہیں تھا کہ یہ شادی ہو گی بھی یا نہیں کہ اس وقت حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہؤا جو تذکرہ کے صفحہ 29 پر درج ہے۔ یہ الہام شادی سے تین سال قبل ہؤا کہ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَأیْتَ خَدِیْجَتِیْ6 تُو میری نعمت کا شکر کر کہ جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مددگار کے طور پر حضرت خدیجہ ؓ ملی تھیں اسی طرح تجھ کو بھی خدیجہ ملنے والی ہے۔ یہ الہام اس وقت ہؤا جب ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ یعنی یہ بھی نہیں تھا کہ شادی ہو جانے کی وجہ سے حضرت امّاں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی خدمت کی ہوجس کی بناء پر خدا تعالیٰ نے آپ کی تعریف کی ہو بلکہ ابھی تک شادی کا نام بھی نہیں تھا۔ یہ الہام 1881ء میں ہؤا اور شادی 1884ء میں ہوئی۔
پھر اس الہام کے قریب ایک اور الہام ہؤا جو تذکرہ صفحہ 36پر درج ہے اور وہ یہ ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَ النَّسَبَ 7
خدا تعالیٰ ہی کو سب تعریف حاصل ہے جس نے تمہارے لئے سسرال بھی بڑے اعلیٰ درجہ کے تجویز کئے اور تم کو بھی ایک اعلیٰ خاندان سے پیدا کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر اس الہام کو بیان فرمایا کرتے تھے۔ یہ الہام بھی شادی سے تین سال پہلے کا ہے۔ یہ جو سسرال کی تعریف کی گئی ہے مَیں سمجھتا ہوں کہ اس میں خواجہ محمد ناصر کی پیشگوئی کی طرف اشارہ تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا سلسلہ محمدیہ، مہدی معہود ؑ کے سلسلہ سے مل جائے گا۔ مہدی معہود ؑ خواجہ محمد ناصر کی اولاد میں سے تو نہ ہوئے۔ ہاں آپ کی ایک نواسی ان سے بیاہی گئی اور اس طرح یہ سلسلہ محمدیہ ، مہدی معہود ؑ کے سلسلہ سے مل گیا اور وہ پیشگوئی ظاہری طور پر بھی پوری ہو گئی۔
پھر شادی سے ایک سال پہلے یہ الہام ہؤا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ 8 کہ اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں اکٹھے رہو۔ یہ الہام تذکرہ صفحہ 69 پر درج ہے اور 1883ء کا ہے۔ ابھی بیوی آئی نہیں کسی کو یہ پتہ نہیں کہ شادی ہو گی بھی یا نہیں کہ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتاتا ہے کہ بیوی آرہی ہے تُو اور تیری بیوی ایک جنت میں رہو۔ اب دیکھو ان پیشگوئیوں کا آپس میں کیسا گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ پہلے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ مہدی معہود ؑ شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی۔ پھر حضرت خواجہ میر ناصر پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ان کا سلسلہ محمدیہ مہدی معہود ؑ کے سلسلہ کے ساتھ مل جائے کا۔ یعنی میرا مہدی معہود سے ایسا رشتہ ہو جائے گا کہ میرا سلسلہ اس کے سلسلہ میں مدغم ہو جائے گا۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے شادی سے تین سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا ہے کہ ایک عورت ایسی آنے والی ہے جو تیرے کاموں میں اسی طرح مددگار ہو گی جیسے حضرت خدیجہ ؓ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاموں میں مددگار تھیں۔ پھر فرماتا ہے تو اور تیری بیوی دونوں اکٹھے جنت میں رہو گے۔ تمہاری زندگی خوشی کی زندگی ہو گی۔ تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ تمہاری مقامِ قُرب میں وفات ہو گی اور تم دونوں کا جنت میں اکٹھا مقام ہو گا۔ یہ الہام 1883ء کا ہے جو تذکرہ صفحہ 69 پر درج ہے۔
پھر ساتھ ہی الہام ہؤا یَآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ9 اے احمد! تُو اور تیری بیوی جنت میں رہو۔ بعض متشکک طبائع ہوتی ہیں وہ کہہ سکتی ہیں کہ یہاں حضرت آدم ؑ کا ذکر ہے۔ حضرت مرزا صاحب کا نہیں اس لئے ایک طرف تو یہ الہام کیا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ اور دوسری طرف یہ الہام کیا کہ یَآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۔ گویا یہ بتایا کہ جب ہم نے آدم کا لفظ کہا ہے تُو اس سے مراد تُو ہے یعنی اس الہام میں نام لے کر بتا دیا کہ تو اور تیری بیوی اکٹھے جنت میں رہو۔
اب لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ہمیں یہ الہام سنا دیا ہمیں اس سے خوشی ہوئی لیکن یہاں یہ شُبہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو کہا تھا اے آدم اور اے احمد! تُو اور تیری بیوی اکٹھے جنت میں رہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان میں دفن ہیں اور حضرت امّاں جان ربوہ میں دفن ہوئیں۔ یہ اکٹھے کیسے ہوئے۔ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے الہام میں یہ نہیں کہا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ فِی الْمَقْبَرَۃِ الْجَنَّۃِ۔ کہ اے آدم! تُو اور تیری بیوی دونوں بہشتی مقبرہ میں رہو بلکہ یہ کہا ہے کہ تُو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو۔ اب جنت میں تو سب اکٹھے ہوتے ہیں اگر اس سے دُنیوی زندگی مراد ہے تو آپ دونوں اکٹھے رہے اور اگر اس سے اُخروی زندگی مراد ہے تو جنت میں آپ دونوں اکٹھے ہو جائیں گے۔ جنت کے لئے یہ سوال نہیں ہوتا کہ کوئی شخص مکّہ میں فوت ہو یا مدینہ میں، عرب میں فوت ہو یا جاپان میں فوت ہو، یا امریکہ میں فوت ہو۔ جنت میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے اور مومنوں کے لئے اس میں ایک بشارت دی گئی ہے۔ اس الہام کے الفاظ ایسے ہیں کہ وہ اپنا مضمون بھی پورا کر جاتے ہیں اور مومنوں کے لئے اس میں ایک بشارت بھی ہے اور وہ بشارت یہ ہے کہ اگر یہاں جنت کے معنی مقبرہ بہشتی کے لئے جائیں تو یہ پیشگوئی بن جاتی ہے کہ اے احمد! تُو اور تیری بیوی اس مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گے۔ یعنی تمہارے لئے یہ مقدر تھا کہ قادیان سے ہجرت ہوگی تم قادیان سے نکالے جاؤ گے۔ تمہارے دل زخمی ہوں گے سو تم گھبرا کر کہو گے کہ یا الٰہی اب کیا کریں۔ ہم نے حضرت امّاں جان کو قادیان سے باہر دفن کیا ہے لیکن تو نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ آپ مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گی تو اس الہام میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ مَیں انہیں قادیان پہنچاؤں گا۔ گویا مومنوں کو یہ امیددلائی گئی ہے اور یقین دلایا گیا ہے کہ مَیں تمہیں قادیان ضرور دوں گا اور حضرت امّاں جان مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گی۔ پس خدا تعالیٰ نے پہلے سے یہ پیشگوئی کر دی اور بتا دیا کہ حضرت امّاں جان کا یہاں آنا تمہارے لئے تسلی کا موجب ہے کہ تم ضرور قادیان واپس جاؤ گے۔
تیسرے خدا تعالیٰ نے تمام پیشگوئیوں میں مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئیوں کا متمم قرار دیا ہے۔ متعدد پیشگوئیاں پچھلے انبیاء کی بھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے بھی اس کا پتہ لگتا ہے۔ جیسے مصلح موعود کی پیشگوئی میں بتایا گیا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے مجھے بھی کئی دفعہ اس کے متعلق اشارہ کیا ہے لیکن چونکہ مَیں مامور نہیں ہوں اِس لئے مَیں ان باتوں پر زور نہیں دیتا۔ مامور اپنے الہامات کو دُہراتا رہتا ہے اور اس کے الہامات لوگوں کے کانوں میں بار بار پڑتے رہتے ہیں اس لئے وہ باتیں پکّی ہو جاتی ہیں۔ مَیں اپنی رؤیا کا ذکر تو کر دیتا ہوں لیکن یہ ذکر برسبیلِ تذکرہ ہوتا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ ان کی ہر وقت تبلیغ ہوتی رہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک بار بار لوگوں کے کانوں میں کوئی بات نہ ڈالی جائے متشکک طبائع کو شُبہ رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کا مُنہ بند کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت امّاں جان کو زندگی دی اور آپ کو ربوہ میں میرے ساتھ لایا اس لئے کہ مسیح اوّل نے جب ہجرت کی تھی تو اُن کی والدہ اُن کے ساتھ آئی تھیں اور وہیں دفن ہوئی تھیں جہاں حضرت مسیح ؑ ہجرت کر کے گئے تھے۔ تو اﷲ تعالیٰ حضرت امّاں جان کو میرے ساتھ لایا تا متشکک لوگ یہ نہ کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو مشابہت مسیح اوّل سے تھی وہ آپ کے وجود پر پوری نہیں ہوئی آپ کے بیٹے پر پوری ہوئی۔ جماعت کے بعض منافق لوگ جن کا مجھے علم ہے اور جن کی باتیں مجھے پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے بعض دلیری سے اپنی مجالس میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ربوہ کا بہشتی مقبرہ بنا تو ایسے لوگ اپنی مجالس میں اکثر کہتے رہتے ہیں کہ یہ بات تو عجیب ہے کہ جہاں چاہا مقبرہ بہشتی بنا لیا۔ وہ احمق یہ نہیں سمجھتے کہ بعض لوگ ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کے مقبرہ بہشتی بنانے سے مقبرہ بہشتی بن جاتا ہے۔ تمہارا اس میں کیا اختیار ہے لیکن چونکہ میں مامور نہیں اس لئے یہ بات بار بار دُہرا نہیں سکتا لیکن منافق اپنی مجالس میں اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ یہاں بھی بہشتی مقبرہ بن گیا ہے۔ اب اﷲ تعالیٰ نے حضرت امّاں جان کو یہاں دفن کروادیا ہے۔ ایسا کیوں ہؤا۔ اب یہ لوگ بتائیں کہ یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی غلط ہوئی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۔
کیونکہ آپ خود تو قادیان میں دفن ہوئے اور حضرت امّاں جان یہاں ربوہ میں دفن ہوئیں اور یا اس الہام نے یہ بتادیا ہے کہ یہ مقبرہ بھی بہشتی مقبرہ ہے اور قادیان کے بہشتی مقبرہ کا ہی ایک حصّہ ہے۔ گویا اس بہشتی مقبرہ کے بنانے میں جو مُشکل میرے سامنے آئی تھی الٰہی فعل نے اسے حل کر دیا۔ مَیں مامور نہیں تھا، میری زبان بند تھی، مَیں ایسے مقام پر نہیں تھا کہ اس اعتراض کا جواب دے سکوں۔ سو خدا تعالیٰ نے حضرت امّاں جان کو یہاں دفن کر کے ان لوگوں کا مُنہ بند کر دیا۔ اب انہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ اور یَآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ جھوٹا تھا کیونکہ آدم وہاں دفن ہیں اور حوّا یہاں۔ احمد وہاں دفن ہیں اور ان کی بیوی یہاں اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ جگہ بھی بہشتی مقبرہ ہے۔ غرض اس الہام نے یہ واضح کر دیا کہ میرا قدم خدا تعالیٰ کی منشاء کے عین مطابق تھا۔ اسی طرح وہ پہلی پیشگوئیوں کے بھی عین مطابق تھا۔ اس مقبرہ کو بِلا کم و کاست وہی پوزیشن حاصل ہے جو مقبرہ بہشتی قادیان کو حاصل ہے۔ پورے سو فیصدی سو میں سے ایک حصّہ بھی کم نہیں ورنہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ والی بات نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹی تھی۔
اُوپر کے الہامات کے علاوہ ایک اور الہام بھی تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہؤا اور وہ یہ ہے إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔10 یہ الہام 20ستمبر 1907ء کو ہؤا اور تذکرہ صفحہ677 پر درج ہے یعنی مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور اہل میں سے سب سے مقدم بیوی ہوتی ہے۔ پھر یہی الہام 21ستمبر 1907ء کو بھی ہؤا۔ 5نومبر 1907ء کو بھی ہؤا پھر 2دسمبر 1907ء کو بھی یہ الہام ہؤا۔ گویا ایک سال کی آخری چہار ماہی میں یہ الہام چار دفعہ ہؤا۔
اب عجیب بات یہ ہے کہ ایک تو شادی سے پہلے یہ الہامات ہوئے جن میں حضرت امّاں جان کا ذکر تھا، پھر شادی کے قریب الہام ہؤا، پھر یہ سلسلہ ایک لمبے عرصہ تک بند رہا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہونے والی تھی تو بیوی کا ذکر دوبارہ شروع ہو گیا۔ یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کو توارد کون کہہ سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قادیان میں پیدا کیا جو ایک گمنام بستی تھی۔ آپ کو ایک ایسے خاندان میں پیدا کیا جو اس زمانہ کے اعلیٰ درجہ کے خاندانوں میں سے ایک تھا پھر ایک پیر خاندان میں رشتہ کیا جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ہمیں وہ کمال ملا ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اَور کسی کو نہیں ملا۔ پھر بڑی مُشکل یہ تھی کہ حضرت امّاں جان کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحب اہل حدیث تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ اہل حدیث کے نام سے گھبراتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ ان لوگوں میں روحانیت نہیں ہوتی یہ لوگ متشکک ہوتے ہیں اس خاندان میں آپ کی شادی ہوئی۔ شادی سے پہلے بیوی کا ذکر الہامات میں آتا ہے لیکن جب شادی ہو جاتی ہے تو یہ ذکر ختم ہو جاتا ہے۔ پھر عین تیس سال کے بعد جب حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو پھر الہامات میں بیوی کا ذکر آجاتا ہے۔ یہ کون سے اتفاق کی بات ہے۔ یہ تو ایک بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ غیب کی طاقت نے یہ خبر دی۔
پہلے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ اب واقعہ کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ اس کا کیا مطلب تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے عین قریب بیوی کا ذکر آتا ہے یعنی إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔
إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ کے الہامات بار بار ہوتے ہیں۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر دی جارہی تھی تو ساتھ ہی آپ کو یہ تسلّی دی جارہی تھی کہ تمہارے بعد تمہاری بیوی کے ہم خود کفیل ہوں گے اور حضرت امّاں جان کو بھی یہ تسلّی دی کہ گو تم سے تمہارا خاوند جُدا ہو گا مگر ہم جُدا نہیں ہوں گے۔ ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے خود کفیل ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے پہلے تو آپ کا ذہن اس طرف نہیں جاسکتا تھا لیکن آپ کی وفات کے بعد جو فقرہ حضرت امّاں جان کی زبان پر بار بار آیا وہ یہی تھا کہ اے خدا! انہوں نے تو مجھے چھوڑ دیا ہے مگر تو مجھے نہ چھوڑنا۔ یہ وہی مفہوم تھا جو الہام إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ میں بیان کیا گیا تھا کہ ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں گے اور پھر حضرت امّاں جان کی زبان سے بھی کہلوادیا۔ پھر 19جنوری 1908ء کو یہ الہام ہوتا ہے کہ إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ 11 بعض متشککین جو ہمیشہ کریدتے رہتے ہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آدم کہا ہے۔ اب جس طرح اس سے مراد اصل آدم نہیں اسی طرح اہل سے مراد بھی اصل بیوی نہیں بلکہ یہاں جماعت مراد ہے۔ پس اس الہام کے ذریعہ ایسے لوگوں کی تسلی کر دی اور الہام میں بتا دیا کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں جو یہ ہے یعنی اس بیوی کے ساتھ ہوں۔ جماعت تو ایک تھی دو نہیں تھیں۔ اس لئے ھٰذہٖ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیویاں دو تھیں اس لئے ھٰذہٖ کہہ کر یہ بات پکّی کر دی کہ یہ وعدے خاص حضرت امّاں جان کے ساتھ ہیں۔
پھر 19مارچ 1907ء کو خواب میں دیکھا حضرت امّاں جان آئی ہیں اور آپ کہتی ہیں کہ ''مَیں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے'' یہ بھی اسی طرف اشارہ تھا کہ تم وفات پاؤ گے اور یہ صبر کا پورا نمونہ دکھائیں گی۔ آپ کہتے ہیں کہ مَیں نے ان کو جواب میں کہا ''اس سے تو تم پر حُسن چڑھا ہے'' 12یعنی اﷲ تعالیٰ نے تمہارے اس فعل کو پسند کر کے تمہیں درجہ اور زینت عطا کی ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا کہ ''اسّی یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم''13 اِس الہام پر بعض غیر احمدی مَلنٹے اعتراض کرتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں۔ خدا تعالیٰ کو تو شک نہیں پڑتا۔ کیا خدا تعالیٰ کو 85 یا 75 اور 76 کے ہندسے نہیں آتے۔ یہ کیا الہام ہے کہ ''اسّی یا اسّی پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم'' یہ خداتعالیٰ کا کلام نہیں لیکن یہ مولوی بھُول جاتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ یہ غلطی خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی کی ہے کیونکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ حضرت یونس ؑ کی نسبت فرماتا ہے وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ 14 یونس کو ہم نے لاکھ یا شاید لاکھ سے کچھ زیادہ کی طرف بھیجا۔ اب کیا خدا تعالیٰ کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا تھا۔ جس خدا کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا اس کو اسّی کا ہندسہ بھی بھُول سکتا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ اصل سوال تو بھُول چُوک ہے۔ جب بھُول چُوک ثابت ہو گئی تو اسّی اور لاکھ کا کیا سوال ہے۔
دراصل یہ حماقت کی بات ہے۔ یہاں کلام میں تحسین پیدا کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔ حسن کلام کے لئے ڈیفینیٹ (DEFINITE) بات پہلے بیان نہیں کی بلکہ الفاظ سے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ تم اسے لاکھ کہہ لو یا لاکھ سے زیادہ کہہ لو۔ مطلب یہ ہے کہ ہیں زیادہ۔ تو ایسے موقع پر اعداد کو بیان نہیں کیا جاتا۔ اگر خدا تعالیٰ یہاں لاکھ کہہ دیتا تو لوگ کہتے اس کا ثبوت دو کہ وہ واقعی ایک لاکھ تھے۔ پس ایک طرف لاکھ یا کچھ زیادہ کہہ کر کلام میں حُسن پیدا کر دیا اور دوسرے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اندازہ ہے اور اندازہ پر کوئی کیا اعتراض کرے گا۔
پس اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے حُسنِ کلام کے لئے قرآن کریم میں مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْیَزِیْدُوْنَ لاکھ یا لاکھ سے کچھ زیادہ کہا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی حُسنِ کلام کے لئے یہ طریق اختیار کیا گیا ہے لیکن اس کا ایک دوسرا جواب بھی ہے جو یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے یٰآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ کہہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امّاں جان کو ایک قبر میں دفن کیا ہے اور دونوں کو ایک جگہ رکھا ہے گویا دونوں وجودوں کو ایک وجود قرار دیا ہے اور عمر کے الہام میں دونوں ہی کی عمر بتائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے یعنی اسّی سے پانچ سال کم اور حضرت امّاں جان85 سال کی عمر میں فوت ہوئیں یعنی اسّی سے پانچ سال زیادہ۔ گویا الہام میں جو وحدتِ وجود بتائی گئی تھی اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امّاں جان دونوں کے وجود ہیں۔ ایک اسّی سال سے پانچ سال پہلے فوت ہو جاتا ہے اور ایک اسّی سے پانچ سال بعد فوت ہوتا ہے گویا الہام میں جس وجود کو ‘‘ تُو’’ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا اس کا ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال کم میں فوت ہو گیا اور ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال زیادہ عمر پاکر فوت ہو گیا اب یہ کتنی زبردست پیشگوئی بن جاتی ہے اور کس طرح اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دراصل یہ دو پیشگوئیاں ہیں اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وجود کو ہم نے ایک قرارد یا تھا اس کا ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال کم عمر پاکر فوت ہو گیا اور ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال زیادہ عمر میں فوت ہو گیا۔ اب یہ کسی کے اختیار کی بات نہیں تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے اور آپ کی بیوی جو مریض تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا لٹریچر آپ کی مرض سے بھرا پڑا ہے وہ تو 85 سال کی عمر میں فوت ہوں۔ اس الہام کے یقینا یہی معنے ہیں کہ اس کے ایک حصّہ میں ایک کی موت کی خبر دی گئی ہے اور دوسرے حصّہ میں دوسرے کی موت کی خبر دی گئی ہے۔
حضرت امّاں جان کو ایک پُرانی خواب آئی تھی۔ جب حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد آپ کی طبیعت گھبرانے لگتی تو آپ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے گھر چلی جاتیں۔ میر صاحب کو آپ نے نہایت محبت اور اخلاص سے پالا تھا اور میر صاحب کو بھی اپنی بہن کا بہت احترام تھا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے آپ جب گھبرا جاتیں تو میرصاحب کے ہاں چلی جاتیں۔ مجھے یہ بات بُری لگتی لیکن مَیں آپ کے ادب کی وجہ سے بولتا نہیں تھا۔ مَیں سمجھتا تھا کہ آپ کو مرکز میں رہنا چاہئے۔ ایک دن آپ میرصاحب کے ہاں سے تشریف لائیں تو آپ نے بتایا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مَیں صَفر میں فوت ہوئی ہوں۔ میرا ذہن فوراً اس طرف گیا کہ چلو اب موقع ہے انہیں مرکز میں ہی مستقل طور پر ٹھہرنے کے لئے کہہ دوں۔ مَیں نے کہا۔امّاں جان! صفر ص سے کیوں، س سے کیوں نہیں۔ میرے نزدیک تو اس خواب میں آپ کو بتایا گیا ہے کہ آپ سفر میں فوت ہوں گی اس لئے آپ سفروں سے پرہیز کریں۔ چنانچہ اس کے بعد آپ نے کوئی سفر نہیں کیا۔ میرے ساتھ سفر میں جاتی تھیں۔ یوں نہیں جاتی تھیں۔ جب آپ بیمار ہوتیں تو میری یہ کوشش تھی کہ مَیں انہیں پکّے مکانوں میں لے جاؤں تا سفرِ ہجرت کی حالت ختم ہو جائے۔ ابھی ہم کچے مکانوں میں ہی رہتے تھے۔ مَیں ڈاکٹروں سے کہتا اُن میں سے ایک حصّہ مان جاتا اور کہتا اچھی بات ہے وہاں کھلی ہوا ہو گی لیکن جب میں پکّے مکانوں میں جانے کی تیاری کرتا تو ڈاکٹروں کا دوسرا حصّہ پہلے حصّہ کو منا لیتا کہ ابھی انہیں وہاں لے جانا اچھا نہیں اور ان کی رائے بدل جاتی۔ اس طرح آپ کی وہ خواب پوری ہو گئی۔ ہم قادیان سے نکلے اور پیشتر اس کے کہ ہم اپنے مستقل گھروں میں آئے۔ سفرِ ہجرت میں ہی مستقل مکانوں میں آنے سے پہلے آپ وفات پاگئیں۔
مَیں نے ایک ماہ پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ میرا ایک بڑا دانت جو دو دانت کے برابر تھا نکل گیا ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ آپ میرے لئے ماں اور باپ دونوں کی جگہ تھیں۔ پس آپ کی وفات کے ساتھ مَیں نے ان دونوں کو کھویا۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ۔
ایک عرصہ پہلے مَیں نے ایک رؤیا دیکھی تھی جو الفضل میں شائع ہو گئی ہے وہ اس طرح تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیمار ہیں اور آپ نے بعض دیسی دواؤں کے نام لئے ہیں (یہ رؤیا الفضل 7اکتوبر 1951ء میں شائع ہو چکی ہے) شاید اس کا یہ مطلب تھا کہ طبیبوں کا علاج کیا جائے ڈاکٹروں کا علاج چھوڑ دیا جائے لیکن اُس وقت میرا ذہن اس طرف نہیں گیا۔ آپ کی وفات کی وجہ سے طبیعت پر ایسا اثر پڑا ہے کہ تین ماہ تو بخار چڑھتا رہا اور بائیں طرف نیم فالج کے دَورے بھی ہوتے رہے ہیں اور ابھی تک میں کام میں محنت نہیں کر سکتا اور جب سردی کا موسم آیا تو میری صحت اچھی ہونے لگی۔ جلسہ سے بیس دن پہلے میری طبیعت اچھی تھی۔ مَیں سمجھتا تھا کہ مَیں اچھا ہو گیا ہوں لیکن جب خشک سردی زیادہ ہو گئی تو میری طبیعت خراب ہو گئی اور جلسہ سے قبل دو دفعہ ضُعف کے دورے بھی ہو گئے۔ اس کی وجہ سے تفسیر کے کام میں بھی دیر ہو گئی ہے لیکن اب مَیں نے تفسیر کا کام شروع کر دیا ہے۔ میری آنکھوں میں چونکہ بچپن سے ہی ککرے ہیں اس لئے مَیں معمولی روشنی میں کام نہیں کر سکتا۔ بجلی آجائے گی تو مَیں راتوں کو زیادہ دیر تک بیٹھ کر کام کر سکوں گا۔ جلسہ کے دنوں میں دو دن رات کام کرنے بیٹھا تو آنکھوں میں خارش شروع ہو گئی۔
ربوہ کی تعمیر
دوسری بات مَیں تعمیر ربوہ کے متعلق لیتا ہوں۔ربوہ کی تعمیر اﷲ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان ہے یعنی یہ ایک مثال ہے جو پاکستان
اور ہندوستان میں پائی جاتی ہے کہ اتنی جلدی ایک اُکھڑی ہوئی قوم نے اپنا مرکز بنا لیا۔ جہاں تمہیں اَور فضائل دوسرے لوگوں پر حاصل ہیں وہاں یہ کیا کم فضیلت ہے۔ یہ ایک زندہ اور نمایاں فضیلت ہے جو تمہیں حاصل ہے۔ لوگ شور مچاتے ہیں کہ گورنمنٹ نے انہیں لاکھوں کی زمین کوڑیوں میں دے دی۔ زمین کیا دے دی۔ حکومت نے ایک اعلان شائع کیا تھا اور گورنمنٹ گزٹ میں یہ بات شائع ہوئی تھی کہ ہم یہ زمین بیچنا چاہتے ہیں کیا کوئی گاہک ہے جو یہ زمین خریدے۔ ہم نے کہا چلو ہم یہ زمین لے لیتے ہیں۔ جب کوئی اور گاہک نہ آیا تو حکومت نے ہمیں یہ زمین دے دی۔ بعد میں اگر کسی کو حسد ہو جائے تو اس کا کون ذمہ دار ہے۔
دو سال کا عرصہ ہؤا ''زمیندار'' نے یہ بات شائع کی کہ حکومت نے پچاس لاکھ کی زمین احمدیوں کو کوڑیوں میں دے دی۔ مَیں نے اسی وقت اسے ایک تار دیا کہ زمین حاضر ہے تم وہ گاہک لاؤ جو اس زمین کے بدلہ میں پچاس لاکھ روپیہ دے گا مَیں اسے زمین دے دوں گا اور پھر زائد رقم جو ملے گی وہ مَیں خود نہیں رکھوں گا بلکہ زائد رقم مَیں گورنمنٹ کے خزانہ میں جمع کروا دوں گا۔ میری تار کا اُس نے جواب نہ دیا اور وہ چُپ ہو گیا۔ اگر واقعہ یہ تھا کہ کوئی شخص اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ روپیہ دیتا تھا تو چاہئے تھا کہ ''زمیندار'' کا ایڈیٹر اسے آگے لاتا، اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ تو کیا ہمیں اب پچاس کروڑ ملے گا لیکن یہ پچاس کروڑ روپیہ ملے گا اس مدرسہ کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس کالج کی وجہ سے جو آئندہ یہاں بنے گا، یہ روپیہ ملے گا ہسپتال کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس زنانہ کالج کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس دینیات کالج کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا ان دینی تعلیموں کی وجہ سے جو اس جگہ دی جارہی ہیں۔ یہ روپیہ ربوہ کی زمین کی وجہ سے کسی کو نہیں ملے گا۔ اب اس زمین کو لے کر دیکھ لو۔
عمرو بن معدی کربؓ ایک مشہور سپاہی تھے۔ حضرت عمر ؓ ان کی بہادری اور شمشیرزنی کے واقعات سُنتے رہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر ؓ بھی بہت بہادر تھے اور دلیر تھے لیکن عمرو بن معدی کربؓ کی طرح شمشیر زن نہیں تھے۔ ایک دفعہ عمرو بن معدی کربؓ حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تو آپ ؓ نے ان کی تلوار لے لی۔ آپؓ کو یہ شوق تھا کہ عمرو بن معدی کربؓ کی تلوار دیکھیں۔ آپؓ نے وہ تلوار ایک درخت پر ماری تو اس سے اس درخت کا بہت تھوڑا حصّہ کٹا۔ آپؓ نے فرمایا عمرو ؓ! مَیں تو سُنا کرتا تھا کہ تو ایک تلوار مارتا ہے تو اُونٹ کی چاروں ٹانگیں کاٹ دیتا ہے، تو تلوار مارتا ہے تو ایک ہی ضرب میں درخت کاٹ دیتا ہے مگر مَیں نے تلوار ماری ہے تو یہ درخت نہیں کٹا۔ یونہی معمولی نشان پڑا ہے۔ کیا یہی تلوار ہے جس کی سارے عرب میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ عمرو بن معدی کربؓ نے کہا یا امیرالمؤمنین! تلوار کا کام اونٹ کی چاروں ٹانگیں نہیں کاٹنا بلکہ وہ ہاتھ کاٹنا ہے جس میں یہ تلوار ہوتی ہے۔
پس زمین اب بھی گورنمنٹ کے پاس ہے۔ یہاں سے سرگودھا تک ربوہ کی زمین سے دس گنا زمین خالی پڑی ہے۔ اس زمین میں چار پانچ بڑے بڑے شہر بن سکتے ہیں۔ ایک جگہ تو قریباً سات ہزار ایکڑ زمین خالی پڑی ہے۔ جہاں سرگودھا کے لوگ اب چاندماری کرتے ہیں۔ جب ہم اس زمین کو دیکھنے گئے تو میرے ساتھیوں نے کہا یہ زمین پسند کر لیں یہ کھلی ہے۔ مَیں نے کہا ہمیں کھلی زمین کون دیتا ہے۔ تنگ زمین ہی لے لو۔ اب ان کو یہ تنگ زمین بھی نہیں پچتی۔
تو بہرحال گورنمنٹ کے پاس ابھی ایسی زمینیں موجود ہیں جس کو اس زمین پر اعتراض ہے وہ اب لے کر دیکھ لے۔ وہ ٹکڑا پسند کرے اور قیمت دے جائے اور شہر بنا لے مگر شرطیں وہی ہوں جو ہمارے ساتھ کی گئی ہیں کہ زمین صدر انجمن احمدیہ لے اور وہ آگے افراد کو دے پھر وہ وعدے کرے کہ اس میں سکول، کالج، ہسپتال اور دوسرے ضروری ادارے بنائے گی۔ پس جس طرح ہم نے گورنمنٹ کو لکھ کر دیا ہے وہ بھی لکھ کر دے دیں اور وہ سب کچھ بنائیں جو ہم بنا رہے ہیں پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ شہر کتنی جلدی آباد ہوتا ہے۔ ہم نے حکومت سے زمین لے کر ربوہ آباد کر دیا ہے لیکن حکومت جوہرآباد اور لیاقت آباد کے شہر آباد نہیں کر سکی۔ کیا مُلک کی ساری طاقت اس کے پیچھے نہیں تھی، کیا مُلک کا سارا روپیہ اس کے پیچھے نہیں تھا، پھر کیا حکومت نے وہ شہر آباد کر لئے ہیں؟ ربوہ روپے سے آباد نہیں ہؤا۔ ربوہ اس وجہ سے آباد نہیں ہؤا کہ حکومت نے ہمیں سستے داموں زمین دے دی تھی۔ ربوہ آباد ہؤا ہے ان گُدڑی پوشوں اور کھدّر پہننے والے لوگوں کے ایمانوں سے۔ یہ ایمان جو اِن پھٹے پُرانے کپڑے پہننے والوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ اگر دُنیا میں کہیں اور جگہ پایا جاتا ہو تو ایک ربوہ کیا ایک کروڑ ربوہ سال میں تیار ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ ایمان نہ ہو تو چاہے ہزار سال تک بھی احراری شور مچاتے رہیں وہ ہزار سال کے بعد بھی ربوہ جیسا شہر آباد نہیں کر سکیں گے۔ ان کی مثال وہی ہو گی جیسے کہتے ہیں ہتھ پُرانے کھونسڑے بسنتے ہوری آئے۔
ایک اخبار نویس نے جو ہم سے اچھا تعلق رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک دفعہ کہیں لاہور کی نئی آبادی کی سیر کی۔ حکومت لاہور کے قریب نئی آبادی کر رہی ہے۔ مَیں اُس وقت کوئٹہ میں تھا۔ اس اخبار نویس نے یہ لکھا کہ مَیں نے ربوہ بھی دیکھا ہے۔ وہ بھی کوشش کر رہے ہیں اور ایک نیا شہر بنانا چاہتے ہیں اور مَیں نے لاہور کی آبادی کی نئی سکیمیں بھی دیکھی ہیں۔ لاہور افسر بھی نہایت مستعد معلوم ہوتے ہیں۔ وہ خوب زور سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور ربوہ کے لوگوں کے بھی بڑے بڑے ارادے ہیں۔ اب دیکھیں کون پہلے شہر بنا لیتا ہے۔ لاہور کی نئی آبادی کی سکیم پہلے مکمل ہوتی ہے یا ربوہ پہلے تیار ہوتا ہے۔ اس سفر میں درد صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔ مَیں نے انہیں کہا۔ آپ اس اخبار نویس کو ایک چٹھی لکھیں اور اس پر صرف ربوہ کا لفظ بریکٹ میں ڈال کر بھیج دیں۔ اب دیکھ لو کون سا شہر پہلے آباد ہؤا ہے۔ لاہور کی نئی آبادی کی جو سکیمیں بن رہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کچھ مکان بن گئے ہیں لیکن وہ بات نہیں جو یہاں ہے۔ ہمیں تو سامان بھی نہیں ملتا تھا۔ ہمیں اینٹیں نہیں ملتی تھیں، لکڑی نہیں ملتی تھی، لوہانہیں ملتا تھا۔ اینٹیں اب بنی ہیں لیکن وہ اتنی جلدی ختم ہوئی ہیں کہ دو بھٹوں کی اینٹیں ختم ہو گئی ہیں لیکن باوجود اس کو تاہ دامنی کے خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسا سامان دیا کہ سڑک پرسے گزرنے والوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک بہت بڑا شہر بن چُکا ہے۔ اﷲ تعالیٰ چاہے گا تو اگلے سال جب آپ جلسہ سالانہ پر آئیں گے تو ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ جلسہ گاہ کہاں بنائیں کیونکہ یہ جگہ زنانہ سکول کی ہے۔ لڑکیوں کا سکول یہاں بنے گا۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی اور اگلے سال یہ سکول بن گیا تو یہاں تقریریں نہیں ہو سکیں گی۔
پس حقیقت یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہؤا ہے اﷲ تعالیٰ کی برکتوں سے ہی ہؤا ہے۔ ہم قادیان سے نکل کر آئے تو یہاں دینیات کالج بھی بن گیا، ہائی سکول بھی بن گیا، زنانہ ہائی سکول بھی بن گیا، زنانہ کالج بھی بن گیا، لڑکوں کا کالج ابھی نہیں بنا۔ اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو وہ بھی بن جائے گا۔ بھلا وہ کون سے مہاجر ہیں جن کے پاس مشرقی پنجاب میں کوئی زنانہ کالج نہیں تھا مگر اُنہوں نے یہاں آکر بنا لیا ہو۔ یہ سب اﷲ تعالیٰ کی برکتیں ہیں۔ پھر یہاں آکر ہسپتال بنا لیا۔ پہلے چھپّر بنے ہوئے تھے اور چھت پر بانس ڈالے ہوئے تھے۔ انہی چھپّروں میں ہسپتال بھی تھا اور ڈاکٹر وہیں کام کرتے تھے۔ اُدھر گورنمنٹ اعلان کر رہی تھی کہ تم اتنی اتنی تنخواہیں لے لو لیکن کوئی ڈاکٹر کام کے لئے آگے نہیں آتا تھا۔ اِدھر چھپّروں میں اور معمولی تنخواہوں پر ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی دین ہے اگر دوسرے لوگوں نے بھی ربوہ جیسے شہر بنانے ہیں تو اس کا ایک ہی رستہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حضور سجدوں میں گر جائیں۔ اُسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور کہیں۔اے اﷲ! تُو ہی مدد فرما۔ تو دیکھیں کتنے ربوہ بنانے کی انہیں توفیق ملتی ہے۔
بہرحال یہاں بہت سے مکان بن چکے ہیں اور بہت سے مکانات ابھی بننے والے ہیں۔ کئی دوست تو ایسے ہیں جنہوں نے سُنا کہ وہ زمین جو ہم نے سَو میں خریدی تھی اب دو ہزار روپیہ میں بک رہی ہے تو اُنہوں نے زمین بیچنی شروع کر دی اور کئی لوگ جنہوں نے پہلے زمین نہیں خریدی تھی وہ اب دو دو ہزار میں زمین خرید رہے ہیں۔ ان لوگوں سے تو مَیں کہتا ہوں کہ تم نے ایک سو روپے میں زمین نہیں خریدی تھی اب دو ہزار میں خریدو۔ اﷲ تعالیٰ نے تم پر اُنیس سو روپے جرمانہ کیا ہے۔ مگر جو لوگ بیچ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں سے بعض معذور ہیں اور معذوری کی وجہ سے وہ زمین بیچ رہے ہیں لیکن کئی لوگ ایسے ہیں جو صرف دو ہزار روپیہ کے لالچ کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔
مجھے ایک قصہ یاد آ گیا۔ کوئی ماسٹر تھے وہ کہیں ملازم تھے دس بیس سال تک گھر نہ آئے اُن کی بیوی نے اُنہیں لکھا کہ تم اپنی ان بیٹیوں کا تو خیال کرو۔ میری زندگی تو برباد ہوئی ان کی زندگی تو برباد نہ کرو۔ ان کے دوستوں نے بھی انہیں مشورہ دیا کہ وہ گاؤں ضرور جائیں۔ چنانچہ وہ گاؤں جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ دس بیس میل پر ان کا گاؤں تھا۔ انہوں نے رتھ والے کو د س روپے دیئے اور اس میں بیٹھ کر گاؤں روانہ ہوئے۔ جب وہ اپنی منزل پر پہنچے تو وہ رتھ والے سے پوچھنے لگے کہ اب تم خالی جاؤگے۔ تمہیں بڑا نقصان ہو گا۔ رتھ والے نے کہا مَیں نے آپ سے اسی لئے دس روپے لئے تھے اب مَیں خالی بھی واپس چلا جاؤں تو مجھے کوئی نقصان نہیں۔ ماسٹر صاحب نے کہا اگر واپس جاتے ہوئے کوئی سواری مل جائے تو تم اس سے کیا لو گے۔ رتھ والے نے کہا مَیں نے دونوں طرف کا کرایہ آپ سے وصول کر لیا ہے۔ اب اگر کوئی مجھے ایک روپیہ بھی دے تو مَیں اُسے لے جاؤں گا۔ ماسٹر صاحب نے کہا تب ایک روپیہ مجھ سے لے لو اور مجھے واپس لے جاؤ۔ چنانچہ وہ اسی لالچ کی وجہ سے کہ رتھ والا انہیں اب ایک روپیہ میں واپس لے جار ہا ہے وہیں سے واپس چلے گئے۔
پس مَیں جب اُن لوگوں کو دیکھتا ہوں جو دو ہزار روپے کی لالچ میں زمین بیچ رہے ہیں تو مجھے یہ قصّہ یاد آجاتا ہے۔ تم نے سو روپے خرچ نہیں کئے تھے بلکہ اس کی زمین خریدی تھی۔ بہرحال یہ بھی اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی علامت ہے۔ اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں۔ پیغامی اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے جماعت پر قبضہ کر لیا ہے۔ احراری بھی سُبْحَانَ ﷲِکیا کیا باتیں بناتے ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ان کو یہ موقع نصیب نہیں ہؤا کہ وہ ربوہ جیسا شہر آباد کر سکیں۔ گورنمنٹ کے گزٹ میں لکھا ہؤا موجود ہے کہ پچھلے ہزار سال سے یہاں کوئی آبادی نہیں تھی بلکہ یہاں تک لکھاہے کہ یہ زمین ایری گیشن (IRRIGATION)کے ناقابل ہے اور نان کلٹی ایبل (NON CULTIABLE)ہے یعنی اس زمین کے متعلق ہے کہ یہاں آب پاشی اور زراعت نہیں ہو سکتی۔ یہ زمین دوسری زمین سے 23 فٹ بلندہے۔ پانی چڑھے کہاں اور پھر پانی نمکین ہے۔ سوائے اس کے کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ یہاں میٹھا پانی نکلے گا تو یہاں میٹھا پانی نکلنا شروع ہؤا اور وہ بھی ابھی کچھ حصّہ سے نکلنا شروع ہؤا ہے۔ ایسے کوردیہہ میں دو سال کے بعد دو دو ہزار کو زمین بِکنی شروع ہو گئی۔ آخر کسی کی عقل میں یہ بات نہیں آئی کہ اس شخص کے پاس کون سا جادو ہے کہ وہ مٹی کو ہاتھ لگاتا ہے تووہ سونا بن جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پیرا نامی ایک نوکر تھا جو بالکل جاہل تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ان لوگوں سے بھی بعض دفعہ بے تکلفی کا اظہار کر لیا کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے پیرے سے کہا۔ کیا تمہیں بھی دین کا کچھ پتہ ہے؟ پیرے نے جواب دیا کہ اَور تو مجھے کچھ پتہ نہیں۔ ہاں مَیں نے ایک دن مولوی محمد حسین سے بحث کی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے فرمایا اچھا تم نے مولوی محمد حسین سے بحث کی تھی۔ پھر انہوں نے کیا کہا؟ پیرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ملازم تھا۔ آپ اسے بلٹیاں دے دیتے تھے اور وہ اسے بٹالہ سے لانی پڑتی تھیں۔ اس نے کہا کہ مَیں جب بِلٹیاں لینے جایا کرتا تھا تو روزانہ مولوی محمد حسین کو دیکھتا کہ وہ اسٹیشن پر آتے اور اگر کوئی آدمی قادیان آنے والا دیکھتے تو اُسے کہتے مَیں مرزا صاحب کا پُرانا دوست ہوں، میرے ان سے تعلقات ہیں، مَیں جانتا ہوں کہ اُنہوں نے دکان بنائی ہوئی ہے اور کچھ نہیں۔ ان کی ان باتوں سے متاثر ہو کر کوئی تو واپس چلا جاتا اور کوئی ان کی باتوں سے اثر لئے بغیر قادیان آجاتا۔ پیرا کہنے لگا مَیں اسی طرح مولوی محمد حسین کو روزانہ اسٹیشن پر دیکھتا۔ ایک دن اتفاقاً مولوی صاحب کو قادیان جانے والا کوئی شخص نہ ملا۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا پیریا تُو نے کیوں اپنا ایمان خراب کر لیا ہے؟ کیا تو نے سوچا بھی ہے آخر مَیں اتنا بڑا عالم ہوں۔ مولوی صاحب کو یہ بڑا شوق تھا کہ لوگوں کو پتہ لگے کہ مَیں بڑا عالم ہوں اور اہل حدیث کا لیڈر ہوں۔ مولوی صاحب نے کہا مَیں اتنا بڑا عالم اور اہلِ حدیث کا لیڈر بھلا مرزا صاحب کو میرے مقابلہ میں کیا حیثیت حاصل ہے۔ کیا تو نے کبھی سوچا نہیں کہ اتنے بڑے عالم کو چھوڑ کر تو نے قادیان جاکر اپنا ایمان کیوں خراب کر لیا ہے؟ پیرا جاہلِ مطلق تھا۔ اُسے دین کا کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ وہ کہنے لگا۔ مولوی صاحب مَیں جاہل ہوں، مجھے دین کا کچھ بھی علم نہیں۔ یہاں تک کہ مجھے نماز بھی نہیں آتی۔ مَیں صرف ایک بات جانتا ہوں۔ علم والی بات تو مجھے نہیں آتی۔ مَیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مَیں اتنے سالوں سے مرزا صاحب کی بِلٹیاں چھڑانے کے لئے بٹالہ آرہا ہوں اور جب بھی یہاں آتا ہوں آپ کو اسٹیشن کے قریب ٹہلتے دیکھتا ہوں۔ آپ روزانہ ایسے آدمی کی تلاش میں رہتے ہیں جو قادیان جانے کا ارادہ رکھتا ہو تا آپ اسے قادیان جانے سے باز رکھ سکیں۔ خبر نہیں آپ کی یہاں آتے آتے کتنی جوتیاں گھِس گئی ہیں۔ اُدھر مَیں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب کوٹھری میں گھُسے ہوئے ہیں۔ چھ چھ گھنٹے لوگ دروازے کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب نکلیں تو وہ آپؑ کی زیارت کریں۔ لوگ یہاں سے یکّوں میں جاتے ہیں، پیدل جاتے ہیں، راستہ میں دھکّے کھاتے ہیں اور پھر وہاں گھنٹوں دروازہ کے آگے بیٹھے رہتے ہیں۔ تب کہیں مرزا صاحب کوٹھری سے باہر نکلتے ہیں اور وہ لوگ آپؑ کی زیارت کرتے ہیں اور خوش خوش وہاں سے واپس آتے ہیں لیکن مَیں کئی سال سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی کئی جوتیاں بھی گھِس گئی ہوں گی لیکن آپ لوگوں کو قادیان جانے سے باز نہیں رکھ سکے۔ آخر کچھ تو ہے جس کی وجہ سے آپ کی کوشش بار آور نہیں ہوتی۔ آخر ان علماء کہلانے والوں کو کیا اتنی بھی سمجھ نہیں کہ ایک شخص گاؤں کا رہنے والا ہے اس نے نہ کوئی دینی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ دنیوی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کی صحت خراب ہے۔ وہ کمزور ہے۔ جب وہ خلیفہ ہؤا تو جماعت کے امیر اور بڑے بڑے لوگ اس سے بگڑ گئے اور لاہور جاکر اُنہوں نے ایک علیحدہ انجمن بنا لی اور پھر بھی خدا تعالیٰ اُسے نہ صرف پاکستان میں کامیاب کرتا جارہا ہے بلکہ ساری دُنیا میں اُسے کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اسلام کے جھنڈے ساری دُنیا میں گاڑ دیئے ہیں۔ اس کے ذریعہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بادشاہت قائم ہورہی ہے۔ مگر پھر وہی زندیق اور کافر ہے۔ اگر زندیق اور کافر اسی کا نام ہے تو خدا تعالیٰ اس قسم کے زندیق اور کافر اسلام میں آئندہ بھی جاری رکھے تو اس میں اُمّت کا کتنا بچاؤ ہے۔
یہ یاد رکھو کہ یہاں جو مکان تم بناؤ گے اور جتنی جلدی تم بناؤ گے تو تمہیں اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اگر تم یہاں اپنے بیوی بچوں کو رکھو گے تو وہ تعلیم حاصل کریں گے اور اگر تم خود نہیں آؤ گے اور بیوی بچوں کو یہاں نہیں رکھ سکو گے تو مکان کا کرایہ ہی تمہیں ملے گا اور اس طرح روپیہ محفوظ رہے گا۔ بہرحال مکان ایک ایسی چیز ہے جس کی قیمت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کوئی آباد قصبہ ہو تو آج اگر دوہزار روپیہ کا مکان ہے تو کل وہ دس ہزار روپیہ کا ہو گا لیکن جو لوگ یہاں مکان نہیں بنا سکے اور اُنہوں نے یہاں زمین نہیں خریدی اور وہ اب یہاں خریدنے کے خواہش مند ہیں اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے نام دفتر آبادی ربوہ میں نوٹ کرا دیں۔ ہمیں قوی اُمید ہے کہ پانچ چھ سو مکانات کی جگہ مل جائے گی۔ تین سو کے قریب دوستوں نے اپنے نام لکھوا دیئے ہیں۔ جنہوں نے ابھی تک اپنے نام نہیں لکھوائے وہ اب لکھوا دیں۔ انہیں پانچ چھ ماہ کے بعد زمین مل سکے گی۔ اس کے بعد انہیں ربوہ کی حدود میں زمین نہیں مل سکے گی۔ سوائے اس کے کہ وہ ان لوگوں سے جنہوں نے پہلے زمین خرید کر لی تھی پانچ پانچ سات سات ہزار روپیہ پر زمین خرید لیں مگر جو لوگ مکان نہیں بنا سکتے انہیں مَیں تحریک کرتا ہوں کہ قومی کاموں میں زندگی کے آثار ہونے چاہئیں۔ جب تم اور جگہوں پر جاتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ تم یہاں نہیں آتے۔ یورپ میں ایک مزدور کو بھی سال میں چودہ دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں جن میں وہ دوسری جگہوں پر جاتے ہیں۔ تم بھی چودہ چودہ پندرہ پندرہ دن کے لئے یہاں آؤ اور اپنی خدمات سلسلہ کو پیش کرو۔ اگر اس طرح دس دس آدمی پندرہ پندرہ دن کے لئے سال بھر آتے رہیں تو سلسلہ دس آدمیوں کے خرچ سے آزاد ہو جائے گا۔ اگر 24 آدمی آتے ہیں تو سلسلہ 24 آدمیوں کے خرچ سے آزاد ہو جائے گا۔ 24 آدمی ایک افسر کا قائمقام ہو جاتے ہیں اور اگر 240 آدمی آجائیں تو وہ دس افسروں کے قائمقام ہو جاتے ہیں۔ دوسرے نئے آدمیوں کے آنے سے نئے ارادے اور نئے خیالات آتے رہتے ہیں۔
پھر ربوہ کی آبادی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ پنشنر دوست یہاں آئیں۔ مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پنشنر دوست پنشن لینے کے بعد بھی نوکری کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور کام کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ جب کسی کی اولاد جوان ہو گئی ہے اور کام کے قابل ہو گئی ہے تو اب انہیں آرام کرنا چاہئے اور جو دو چار سال زندگی کے باقی ہیں وہ خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کے کام میں لگانے چاہئیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ پنشن لینے کے بعد بھی نوکری کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور دو سو، چار سو روپیہ ماہوار حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں چلو نوکری تو ملتی ہے کرلو۔ مَیں پھر ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تو اپنی زندگی کو ضائع کرنے والی بات ہے۔ آخر تم خداتعالیٰ کو کیا جواب دو گے؟ اﷲ تعالیٰ کہے گا تم نے 55 سال نوکری کی اور جو زندگی کے دو چار سال باقی تھے وہ بھی تم نے دنیوی لالچ کے لئے خرچ کر دیئے۔ اگر تم نے مجھے پس خوردہ کھانا بھی نہیں دیا تو مَیں کیا سمجھوں کہ تمہارا مجھ سے کوئی تعلق ہے۔ یہ تو وہی بات ہو گی کہ کہتے ہیں کسی شخص کے دوست کی کُتیا نے بچے دیئے اُس نے اس سے کہا۔ مجھے کُتیا کا ایک بچہ دینا۔ اس نے کہا چھ بچے تھے وہ سارے مر گئے لیکن اگر وہ زندہ بھی ہوتے تو تمہیں کوئی بچہ نہ دیتا۔ یہ بھی وہی بات ہے کہ ساری زندگی تو مَیں نے دی نہیں۔ نوکری میں 55 سال خرچ کر دیئے ہیں لیکن اب جو دو چار سال زندگی کے پنشن لینے کے بعد باقی ہیں وہ بھی تمہیں نہیں دینے۔ تمہیں پنشن مل گئی ہے اولاد تمہاری جوان ہو گئی ہے وہ ملازم ہو گئی ہے اور انہیں تنخواہ ملنے لگ گئی ہے یا وہ اپنے کاموں میں لگ گئی ہے۔ اگر چار پانچ سَو تمہاری تنخواہ تھی اور اب تمہارے پاس ایک دو بچے رہ گئے ہیں تو دو اڑھائی سو روپیہ پنشن میں گزارہ ہو سکتا ہے۔ اگر پنشن میں گزارہ نہیں ہو سکتا تو پچاس روپے اور لے لو۔ تمہیں بھی فائدہ ہو گا اور دین کو بھی مدد ملے گی۔
پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ پنشنر دوست یہاں آئیں اور اپنی خدمات سلسلہ کو پیش کردیں۔ پنشنر کو تو دوبارہ ملازمت کرنا گناہ سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ وہ اب اس قابل ہو چُکا ہے کہ دین کی خدمت میں لگا رہے۔ جن کو اس سے زیادہ توفیق ملتی ہے وہ اپنی زندگیاں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ پہلے یہ سلسلہ شروع ہؤا تھا لیکن درمیان میں رُک گیا۔ اب پھر دیکھتا ہوں کہ کچھ دنوں سے ایک رَو چلی ہے بعض خطوط آئے ہیں جن میں بعض لوگوں کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ ہم اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ درمیان میں بھاگنے کی رَو زیادہ تھی اور مَیں نے بھی ڈھیل دے دی تھی کہ اچھا بھاگنا ہے تو بھاگ جاؤ۔ حالانکہ دین کے لئے زندگی پیش کرنے کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی ساری زندگی دین کو دے دیتا ہے اور اسے اس پر اختیار نہیں رہتا۔ تم یہی کہو گے کہ اس نے زندگی تباہ کر دی لیکن کیا دوسری قوموں نے مُلک کی خاطر اور قوم کی خاطر اپنی زندگیاں پیش نہیں کیں۔ کیا پچھلی جنگ کے موقع پر لاکھوں جرمنوں، انگریزوں، امریکیوں اور فرانسیسیوں نے اپنی جانیں پیش نہیں کی تھیں۔ تم میں سے دس بیس نے اگر دین کی خاطر اپنی زندگیاں پیش کر دیں تو تمہیں ان پر کوئی زائد فضیلت حاصل نہیں ہو گی۔ یہی چیز ان میں بھی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بھی اپنی زندگیاں قوم اور مُلک کو دیں اور تم نے بھی اپنی زندگیاں دین کی خاطر دیں۔ پس نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کریں تاکہ ان کی خدمات دین کے لئے مفید ہوں''۔ (غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
احرار کا فتنہ
‘‘اس سال احراریوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف جو فتنہ برپا کیا حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فتنہ گزشتہ دوسال سے
جاری تھا مگر اس سال اس نے خاص شدت اختیار کر لی تھی کیونکہ مُلک کے بعض عناصر نے اپنی اپنی سیاسی اور ذاتی اغراض کے ماتحت احراریوں سے جوڑ توڑ کرنے اور انہیں مُلک میں نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ احمدیت کی مخالفت اور اسی طرح چوہدری ظفراﷲ خاں صاحب کی مخالفت تو محض ایک آڑ تھی ورنہ اصل مقصد در پردہ اپنی سیاسی اغراض حاصل کرنا تھا۔ اس ایجی ٹیشن کی ابتدا تو انہی عناصر نے کی جو ہمیشہ پاکستان کے اور مسلم لیگ کے مخالف رہے ہیں، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنتا تو آہستہ آہستہ ایسے مولویوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کیا جو بظاہر مسلم لیگ کے مخالف نہ تھے اور غیر جانبدار سمجھے جاتے تھے مگر اپنی اغراض کے ماتحت آگے آنا چاہتے تھے۔ چنانچہ مختلف گروہوں میں سے ایسے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس کا نام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ رکھ دیا گیا اور تحفظِ ختم نبوّت کے نام سے ایجی ٹیشن شروع کر دی گئی۔ حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ بھلا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی ختم نبوّت کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کی مدد کی کیا ضرورت ہے۔ ان کی ختم نبوّت کا محافظ تو خود اﷲ تعالیٰ ہے اور ختم نبوت کا جو مفہوم جماعت احمدیہ بیان کرتی ہے وہی مفہوم صحابہ کرام اور اُمت کے بہت سے بزرگوں نے بیان کیا۔ پھر یہ مفہوم جماعت احمدیہ نے آج پیش نہیں کیا بلکہ ساٹھ سال سے پیش کر رہی ہے۔ پس آج کوئی بھی ایسی نئی بات اس مسئلہ کے متعلق پیدا نہ ہوئی تھی جسے اس ہنگامہ اور ایجی ٹیشن کی وجہ قرار دیا جاسکے۔ بہرحال یہ ایجی ٹیشن اشتعال انگیزی اور جھوٹے پروپیگنڈا کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ حتّٰی کہ حکومت کے بعض ذمّہ دار افراد بھی ایک حد تک اس سے متاثر ہو گئے کیونکہ وہ اصل حالات سے ناواقف تھے۔
ذمّہ دار افراد پر اظہار حقیقت
جہاں اس فتنے نے ہماری جماعت کے لئے نئی نئی مُشکلات پیدا کیں اور انفرادی طور
پر بعض احمدیوں کو نقصان بھی اُٹھانا پڑا وہاں اس کے بعض فوائد بھی ہمیں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئے۔ چنانچہ ایک فائدہ تو یہ ہؤا کہ مُلک کے جن ذمّہ دار افراد کو جھوٹے الزامات کے ذریعے جماعت احمدیہ سے بدظن کیا جارہا تھا ہمیں بھی انہیں سمجھانے کا اور اصل حقیقت واضح کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے بعد میں برملا کہا کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے احمدی اسلام کا اور قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں لیکن اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہ غلط ہے۔ احمدی بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا دیگر مسلمانوں کے ساتھ جو اعتقادی اختلاف ہے اسے صرف تفسیر اور تاویل کا اختلاف کہا جاسکتا ہے۔
بیرونی ممالک کے نمائندوں پر اس کا اثر
دوسرا اثر اس فتنے کا یہ ہؤا کہ کراچی میں جماعت احمدیہ
کے جلسہ میں چودھری ظفراﷲ خاں صاحب نے ''اسلام زندہ مذہب ہے'' پر تقریر کی۔ یہ مولوی بھلا یہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا جائے۔ انہوں نے اسلام کو زندہ مذہب ثابت کرنے کو اپنے لئے ایک بہت بڑی اشتعال انگیزی قرار دیا اور ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی۔ کراچی میں چونکہ بیرونی ممالک کے سفیر بھی موجود ہوتے ہیں اس لئے جب انہوں نے یہ حالات دیکھے تو ان پر یہ اثر ہؤا اور اسی اثر کے ماتحت انہوں نے اپنے اپنے مُلک میں رپورٹیں بھیجیں کہ احمدی جماعت ایک فعال جماعت ہے اور مولویوں کا طبقہ محض اعتقادی اختلاف پر عوام کو مشتعل کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو رہا ہے اور مذہبی تعصّب کو ہوا دے کر اسے ایک تنگ نظر مُلک بنانا چاہتا ہے۔ ان میں سے بعض نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ترقی کرنے والا مُلک ہے مگر اس ہنگامے کو دیکھ کر پاکستان کی ترقی کے متعلق ہمارے دل میں شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ گویا انہوں نے سمجھا کہ شاید یہی مولوی مُلک کی آواز ہیں حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ یہ لوگ پاکستان کا ایک چھوٹا سا جزو تو سمجھے جاسکتے ہیں مگر انہیں پاکستان کا دل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان کا دل اور ہے۔ بے شک لوگ وقتی اشتعال کے ماتحت ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں مگر مُلک کی حقیقی آواز ہر گز وہ نہیں ہے جو یہ لوگ بُلند کرتے ہیں۔ پس اس فتنے کا ایک فائدہ یہ ہؤا کہ غیرممالک میں ہمیں متعارف ہونے اور انہیں اسلام کی تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
بنگالی نمائندوں کی رائے
ایک اثر اس فتنے کا یہ ہؤا کہ بنگالی نمائندوں نے اصل حقیقت کو بھانپ لیا اور انہیں علم ہو گیا کہ
اہل غرض افراد مذہب کی آڑ میں سیاسی چالیں چل رہے ہیں۔ چنانچہ بنگال کے اخبارات میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب نے یہی لکھا کہ ہم اس گند کو جو مغربی پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے ہر گز بنگال میں نہیں آنے دیں گے۔
حکومت کی دھمکیاں
کراچی کے فساد کا ایک اور اثر یہ ہؤا کہ مُلک کے شریف اور سنجیدہ لیڈروں نے ان لوگوں کو سمجھانا
شروع کیا جو کسی نہ کسی رنگ میں اس فتنہ سے متأثر ہو رہے تھے اور انہیں اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا۔ پھر جب جماعت اسلامی نے جو حکومت کی کھلی مخالف ہے ہماری مخالفت میں آگے آنا شروع کیا تو سیاسی لیڈروں کی بھی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے محسوس کیا جماعت احمدیہ کے مخالف دراصل اس آڑ میں حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ جلد ہی اس کا ثبوت بھی مل گیا اور وہی لوگ جو شروع میں ہماری مخالفت کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہمیں سیاست سے یا حکومت کی مخالفت سے کوئی واسطہ ہی نہیں انہوں نے برملا حکومت کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں''۔
اس موقع پر حضور نے اخبار آزاد اور زمیندار میں سے متعدد ایسے حوالے پڑھ کر سنائے جن میں حکومت کے ذمّہ دار راہنماؤں کے نام لے لے کر کھلے طور پر یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبے نہ مانے تو ہم حکومت سے ٹکرائیں گے، بدامنی پیدا کریں گے اور جنرل نجیب کی طرح حکومت کا تختہ اُلٹا دیں گے۔ اس طرح ان حوالوں میں عوام کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ کسی لیڈر کا انتظار نہ کریں بلکہ خود آگے آکر مُلک میں بدامنی پیدا کریں۔فرمایا:-
‘‘ہمارے خلاف اِن فسادات کے ایّام میں حکومت نے اکثر مقامات پر دیانتداری سے کام کرنے اور حالات کو سدھارنے کی کوشش کی۔ اس نے جو اعلانات کئے وہ بھی درست تھے۔ گو عملاً بعض مقامات پر حکومت حالات پر قابو رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی’’۔
صوبائی مسلم لیگ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
مجھے خوشی ہے کہ مسلم لیگ کا رویہ بہت اچھا رہا اس نے اپنے ہر اجلاس میں دلیری سے اصل حالات کا جائزہ لیا۔پاکستان کے دوسرے صوبوں نے تو پنجاب سے بھی بہتر نمونہ دکھایا بالخصوص سرحد کے وزیراعظم نے تو بڑی دلیری سے اس فتنے کو بڑھنے سے روکا اور اسے دبایا۔ اسی طرح سندھ میں بھی شرارتیں محدود رہی ہیں اور اب تو پنجاب میں بھی حالات بہتر ہورہے ہیں گو پوری طرح فتنہ دبا نہیں ہے۔
بعض صریحاً غلط الزامات
جہاں مجھے خوشی ہے کہ اکثر مقامات پر حکومت نے دیانتداری سے کام کرنے کی کوشش کی ہے
وہاں مجھے افسوس ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق غلطیاں بھی کی ہیں مثلاً حکومت نے ایک اعلان میں یہ الزام لگایا ہے (گو نام نہیں لیا مگر اشارہ ہماری ہی طرف تھا)کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہبوں کو ملازمت میں بھرتی کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک ذمّہ دار افسر نے کہا کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھا کر احمدیوں کو ناجائز الاٹمنٹ کرتے ہیں۔ جو شخص اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ناجائز طور پر ایسے کام کرتا ہے اور اس طرح حق داروں کی حق تلفی کرتا ہے میرے نزدیک وہ نہ صرف حکومت کا مجرم ہے بلکہ قرآن کا بھی مجرم ہے کیونکہ وہ قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک فعل کا جرم ہونا کسی کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ بغیر تحقیقات کے کسی پر اس جرم کے ارتکاب کا الزام لگا دے۔ کیا حکومت کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ یہ الزام لگانے سے پیشتر اس شکایت کی تحقیقات کرتی اور یوں بغیر تحقیقات کے ایک قوم پر الزام لگا کر اس کی ہتک کا مرتکب نہ ہوتی۔ کیا حکومت کے لئے یہ کوئی مُشکل امر تھا کہ وہ ان الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کراتی اور ان کے ثبوت بہم پہنچاتی؟ پھر اگر یہ الزام کسی احمدی افسر کے متعلق درست ثابت ہوتا تو بے شک اسے سزا دیتی کیونکہ وہ واقعی مجرم ہے نہ صرف حکومت کا بلکہ اسلام کا بھی لیکن اگر یہ الزام درست ثابت نہ ہو تو یقینا یہ صریح بے انصافی ہے کہ ہم پر بغیر تحقیقات کے صرف اس لئے الزام لگا دیا جائے کہ ہم غریب ہیں اور کمزور ہیں۔
اسلامی حکومت کافرض ہے کہ وہ مُلک
کےہر فرد کی عزت کی حفاظت کرے
اسلامی حکومت کا تو یہ فرض ہے کہ وہ اپنے مُلک کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کی عزت
کی بھی حفاظت کرے اور اس پر کوئی جھوٹا الزام نہ آنے دے۔ کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے عرصہ میں ظفراﷲ خاں کے دفتر میں کسی چوہڑے نے بھی بیعت کی ہے اور احمدیت قبول کی ہے اگر یہ نہیں ثابت کیا جاسکتا تو یقینا ایسا الزام لگانا ظفراﷲ خاں پر ظلم نہیں ہے بلکہ اس قوم پر ظلم ہے جس کے وہ ایک فرد ہیں۔
اس کے بالمقابل مودودی جماعت کے کئی آدمی اس جُرم میں پکڑے بھی گئے مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پھر الزام لگانے سے پہلے یہ بھی تو دیکھ لیا جاتا کہ کون کون سے احمدی افسر ایسے ہیں جو بھرتی کرنے کے قابل ہیں۔ کوئی فائننشل کمشنر احمدی نہیں ہے، کوئی ڈپٹی کمشنر احمدی نہیں ہے۔ مہاجرین کو زمین تقسیم کرنے والا کوئی اعلیٰ افسر احمدی نہیں ہے۔ پھر یہ ناجائز الاٹمنٹ کرنے والا اور احمدیوں کو بھرتی کرنے والا ایسا احمدی افسر کون ہے؟
پھر یہ بھی تو سوچنے والی بات ہے کہ اگر احمدی افسر ناجائز الاٹمنٹیں کرتے تو سب سے پہلے وہ مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے لیکن مجھے تو انہوں نے کچھ نہ لے کر دیا بلکہ میری جو زمین قادیان میں تھی اس کے کاغذات ابھی ادھر اُدھر ہی پھر رہے ہیں گو احراری تو کہہ رہے ہیں کہ مجھے دس ہزار مربعے ملے ہیں مگر مجھے دس ہزار مربعے چھوڑ دس مرتبان بھی نہیں ملے۔
انصاف کا طریق
یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ حکومت نے بغیر تحقیقات کے یہ الزام ہماری جماعت پر لگا دیا ہے اور انصاف کا طریق یہی ہے
کہ حکومت اس کی پوری پوری تحقیقات کرے۔ اگر کسی احمدی افسر کے متعلق یہ الزام درست ثابت ہو تو بے شک اسے سخت سے سخت سزا دے لیکن اگر یہ غلط ثابت ہو تو پھر اس کی تردید کرے اور اعلان کرے کہ یہ الزام غلط ہے۔
گو الزام تو ہم پر لگایا جاتا ہے کہ احمدی افسر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے احمدیوں کی مدد کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں احمدیوں سے تعصّب برتا جاتا ہے اور ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور اس طرح ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور اس حق تلفی پر پردہ ڈالنے کے لئے اُلٹا احمدیوں پر الزام لگایا جارہا ہے۔ ہم حکومت کے سامنے کئی ایک ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہیں جب کہ مختلف محکموں میں احمدیوں کو ملازمت یا ترقی سے صرف اس لئے محروم کیا گیا کہ وہ احمدی ہیں حالانکہ ان کی تعلیم ، تجربہ، قابلیت اور گزشتہ ریکارڈاُن کے حق میں تھے لیکن ہم نے ان حق تلفیوں پر کبھی شور نہیں مچایا کیونکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس قسم کی حق تلفی اور تعصب کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیم ، قابلیت، محنت، دیانتداری اور اچھے اخلاق کے معیار کو اور بلند کر کے ان کا مقابلہ کریں نہ کہ شور مچائیں۔ اگر ہمارے نوجوان ہماری تعلیم پر عمل کریں گے تو اس قسم کی حق تلفی زیادہ عرصہ نہیں ہو سکتی اور نوکریاں اور ملازمتیں آپ ان کے پاس آئیں گی۔
ذمّہ دار پریس نے اپنے فرض کو ادا کیا
مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس فتنے کے دوران میں ہمارے مُلک
کے ذمّہ دار پریس نے جو مُلک کی رائے عامہ کی جان ہوتا ہے بڑی دلیری سے اپنے فرض کو ادا کیا ہے۔ سب سے پہلے ''ڈان'' نے بڑی جرأت سے اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی۔ پھر بنگال کے پریس نے اس کی تائید کی۔ پنجاب میں سِول اور بعض دیگر اخبارات نے بھی اپنا فرض ادا کیا۔ اُردو کے پریس کے ایک حصّہ کا رویّہ شروع میں ڈانواں ڈول تھا مگر بعد میں اس نے بھی دیانتداری کا ثبوت دیا۔ گو افسوس ہے کہ مسلم لیگی پریس کے ایک حصّہ نے اس موقع پر بہت بُرا نمونہ دکھایا۔ بہرحال جس قوم کے متعلق یہ مشہور ہو کہ وہ بہت جلد پروپیگنڈا سے متاثر ہو جاتی ہے اس قوم کے پریس کا پروپیگنڈا کے مواد کو چھوڑ دینا ایک بہت اُمید افزا بات ہے۔
ہندوستان کے مُسلم پریس کا احتجاج
دوسری خوشی مجھے یہ ہوئی کہ اس موقع پر ہندوستان کے مسلم پریس
نے بھی اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی۔ حتّٰی کہ وہ اخبارات جو پہلے ہمارے دُشمن تھے اُنہوں نے بھی بڑے زور سے ہماری تائید کی۔ ان میں سے ایک نے تو لکھا کہ اس فتنہ کو دیکھ کرہمارے سرندامت سے جھک جاتے ہیں اور ہم ہندوستان کے غیر مسلموں کے سامنے آنکھ اُٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ یہ ایک بہت نیک تبدیلی ہے۔ ہم دُعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے پھر ترقی کے مواقع پیدا کرے۔ انہیں ہر قسم کے ظلم سے بچائے۔ ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا سامان پیدا کرے اور ہندوستان میں اسلام کو پھر وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزت حاصل ہو جو اسے پہلے وہاں حاصل تھی۔
اب اس فتنے نے ایک اور پلٹا کھایا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے خلاف منظم بائیکاٹ کی تحریک شروع کی گئی ہے لیکن اس قسم کی چیزیں عارضی ہوتی ہیں جو اِنْشَاءَ ﷲ بہت جلد خود ہی ختم ہو جائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کام کا ارادہ کرنا اور چیز ہوتی ہے اَور کام کرلینا اور چیز ہوتی ہے۔
سراسر جھوٹے الزامات
اب آخری تدبیر کے طور پر ہمارے مخالفین نے سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانے کی مہم
شروع کی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے جھوٹ بولنے میں جتنا کمال حاصل کر لیا ہے ہماری جماعت نے ابھی سچ بولنے میں اتنا کمال حاصل نہیں کیا ۔ اگر سچ بولنے میں ہماری جماعت کمال حاصل کر لے تو یہ جھوٹا پروپیگنڈا ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ مثلاً
(1) پہلا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ہم نے فرقان فورس کے ذریعے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا۔ مکمل فوجی وردیاں اور بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود وغیرہ حاصل کر کے ربوہ میں لے آئے۔ یہ الزام لگاتے ہوئے فوجی وردیوں اور گولہ بارود کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اوّل تو وہی اس الزام کی تردید کے لئے کافی ہے کیونکہ بیان کردہ مقدار کبھی ایک بٹالین کو مل ہی نہیں سکتی۔ دوسرے ہمارے پاس فوجی حُکام کی باقاعدہ رسید موجود ہے کہ فرقان فورس نے جو ہتھیار اور وردیاں وغیرہ حاصل کیں وہ سب کی سب واپس دے دی گئیں اور کوئی چیز بھی ان کے پاس باقی نہیں رہی۔ ایسے الزام لگانے والوں کو علم ہی نہیں کہ فوج کا ایک خاص نظام ہوتا ہے۔ اس میں ہر چیز کا ریکارڈ اور حساب ہوتا ہے وہ کوئی احراریوں کا لیا ہؤا چندہ نہیں ہوتا کہ جس کے پاس آیا اس کی جیب میں چلا گیا۔
(2) حکومت کا جو ملازم کسی الزام میں ملوث ہو اسے احمدی مشہور کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(3) کہا جاتا ہے کہ احمدی غیر احمدی لڑکوں کو بھگا کر ربوہ لے آتے ہیں۔ یہ الزام بھی صریحاً جھوٹ ہے۔ چنانچہ حال ہی میں جب ایک اسی قسم کا الزام لگایا گیا تو پولیس نے اس کی تحقیقات کی اور اس نے اسے بالکل بے بنیاد پایا۔
(4) احمدیت سے برگشتہ ہونے کی خبریں مشہور کر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ ان میں سے اکثر غلط ہوتی ہیں چنانچہ جن لوگوں کے متعلق ایسی خبریں شائع کی گئیں ان میں سے اکثر کو تو مَیں اس وقت بھی اپنے سامنے بیٹھا ہؤا دیکھ رہا ہوں۔ بھلا ظلم و تشدد اور جبر کے ساتھ بھی سچائی کسی کے دل سے نکلا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فتنے میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ثابت قدم رہی ہے۔ چند ایک کمزور لوگوں نے اگر تشدد اور ظلم سے ڈر کر کمزوری دکھائی بھی تو بہت جلد اپنی حرکت پروہ نادم ہوئے اور واپس آگئے اور اس قسم کے کمزور لوگ تو ہر جماعت میں ہوتے ہی ہیں۔
(5) کہا جاتا ہے کہ ہم نے چونکہ پرانی کتابوں میں سے ایسے حوالوں کی طرف مسلمانوں کو توجّہ دلائی ہے جن میںرسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اور دیگر انبیاء کی ہتک کی گئی ہے۔ لہٰذا ہم نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی توہین کی۔ حالانکہ اگر ہم نے صرف ان حوالوں کا ذکر کیا اور وہ قابل ضبط ہے تو وہ کتابیں کیوں نہیں قابلِ ضبط سمجھی جاتیں جن میں یہ ہتک کی گئی ہے۔ کیا صرف اس لئے کہ وہ باتیں لکھنے والے وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں چوٹی کے عالم اور بزرگ سمجھے جاتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج بھی یہ کتابیں مسلمانوں کے دینی مدارس اور خود پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہیں مگر کوئی انہیں ضبط کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ بے شک الفضل کا وہ پرچہ ضبط کر لو جن میں ان کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے بشرطیکہ ان کتابوں کو بھی ضبط کرو تاکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت قائم ہو۔
سات روزے رکھنے کی تحریک
احباب 1953ء کے شروع میں سات روزے رکھیں اور خاص طور پر دعائیں
کریں کہ اﷲ تعالیٰ مُلک میں فتنہ پھیلانے والوں اور ہم پر ظلم کرنے والوں کو سمجھ دے۔ یا سزا دے اور ہمیں ان کے مظالم پر صبر کرنے کی توفیق دے اور اپنے مقاصد میں کامیاب کرے۔ یہ سات روزے جنوری سے شروع کئے جائیں اور ہر سوموار کو رکھے جائیں۔ جنوری میں یہ روزے 5،12،19 اور26 تاریخ کو آئیں گے اور فروری میں 2، 9 اور 16 تاریخ کو۔
اسلامی مُمالک کو فلسطین کے متعلق
کوئی عملی قدم اُٹھانا چاہئے
‘‘مختلف ممالک میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مُشکلات پیدا ہو رہی ہیں مثلاً ایران، مصر، انڈونیشیا،
عراق اور اُردن کے سیاسی حالات میں نئی نئی تبدیلیاں اور اُلجھنیں پیدا ہو رہی ہیں۔ تیونس اور مراکو کے مسلمان آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اسلامی مُمالک کے مسلمانوں کی مدد ہم دُعا اور احتجاج سے تو کرتے ہی رہتے ہیں مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جس کے متعلق ہماری حکومت کو بھی ضرور کوئی عملی کارروائی کرنی چاہئے اور وہ ہے فلسطین میں یہودیوں کے اقتدار کا مسئلہ۔ یہود مسلمانوں کے شدید دُشمن ہیں اور اُنہوں نے ایک ایسے مُلک میں اپنی حکومت قائم کر لی ہے جو ہمارے مقدس ترین مقامات یعنی مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بہت قریب ہے۔ ان کے ارادے یقینا بہت خطرناک ہیں اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو ضرور مجموعی طور پر کوئی عملی قدم اُٹھانا چاہئے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر تمام اسلامی مُلک اس خطرے کے ازالہ کے لئے اپنے اپنے بجٹ کا پانچ فیصدی بھی مخصوص کر دیں تو ایک اتنی بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے جس سے ہم یہودیوں کی بڑھتی ہوئی شرارتوں کا عملاً سدِّباب کر سکتے ہیں۔ اس مسئلہ کی اہمیت کے متعلق مَیں نے پہلے بھی توجّہ دلائی تھی اور اب پھر دلاتا ہوں۔ مگر افسوس کہ اب تک مسلمانوں نے اس خطرے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ اسی طرح کشمیر کے علاقہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ موجودہ طریق سے یہ مسئلہ کس طرح حل ہو گا؟ کشمیر کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کی پوزیشن بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کا روپیہ گر جائے اور دوسرا اُسے اُٹھا کر اپنے قبضہ میں کر لے۔ جس کا روپیہ گرا ہے اگر وہ محض صبر سے کام لیتا چلا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے کبھی بھی روپیہ ملنے کی اُمید نہ کرنی چاہئے۔ بہرحال دُعا کرو کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کا بھی کوئی صحیح راستہ حکومت کو نظر آئے اور پھر اس راستے پر اسے عمل کرنے کی بھی توفیق ملے۔ کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ہر گز محفوظ نہیں ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کوئی صحیح طریق اختیار کرے مگر وہ جو بھی راستہ تجویز کرے تمہیں اس پر عمل کرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا چاہئے۔
بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد کی اہمیت
مَیں نے اس سال شوریٰ کے موقع پر بیرونی ممالک میں
مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی اور اس کے لئے ایسے طریق تجویز کئے تھے جن پر عمل کر کے ہر شخص بغیر کسی خاص بوجھ کے بڑی آسانی سے اس میں حصّہ لے سکتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اس تحریک پر پوری طرح عمل کیا جائے تو دو لاکھ روپیہ سالانہ بڑی آسانی سے ہم جمع کر سکتے ہیں۔ یاد رکھو کہ بیرونی ممالک میں جب تک ہم مساجد تعمیر نہ کریں گے وہاں پر تبلیغ اسلام کرنے میں ہمیں کامیابی نہیں ہو گی کیونکہ مسجد ایک بہترین مبلغ کا کام دیتی ہے۔ لوگوں کے قلعے توپوں اور بندوقوں سے آراستہ ہوتے ہیں اور انہی سے وہ مُلک فتح کرتے ہیں۔مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلعے مساجد ہوتے ہیں۔ جہاں سے اَللہُ اَکْبَرُ کی آواز سے دلوں کو فتح کیا جاتاہے وہاں سے رات دن اذان کی گولہ باری ہوتی ہے جو کفرو ظلمت کی خندقوں کو پاٹ کر دلوں کو دلوں سے ملا دیتی ہے۔ دُنیوی قلعوں سے لوگ خوف کھاتے ہیں۔ دُنیا کی بڑی سے بڑی حکومت بھی دوسری حکومت کو اپنے مُلک میں قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیتی مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ قلعہ ایسا ہے جو ہم ہر مُلک اور ہر علاقہ میں آسانی سے تعمیر کر سکتے ہیں اور اس طرح اسلام کی اشاعت کا سامان پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو یہ ہماری کوتاہی ہو گی۔
پس مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ بیرونی مُمالک میں تعمیرِمساجد کی اہمیت کو سمجھے اور اس فنڈ میں مقررہ طریق کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصّہ لے تاکہ ہم جلد سے جلد دُنیا کے ہر مُلک میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلعے تعمیر کر سکیں۔
چندہ تحریک جدید
یہ ایک جہاد ہے اس لئے ہر احمدی کو اس میں حصّہ لینا چاہئے تم کوشش کرو کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو اس میں
حصّہ نہ لے رہاہو۔اب یہ ضروری نہیں رہا کہ ہر سال اپنے چندہ میں اضافہ ہی کیا جائے اگر تمہاری آمدنی میں کمی واقع ہو گئی ہے تو بے شک چندے میں کمی کردو لیکن حصّہ لینے سے محروم نہ رہو۔
صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت آجکل اس حد تک کمزور ہے کہ ماہوار تنخواہیں کارکنوں کو قرض لے کر دی جارہی ہیں۔ گو اس میں انجمن کا اپنا بھی قصور ہے مگر بہرحال دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اس کا طریق یہ ہے کہ تمام دوست اپنا چندہ پوری باقاعدگی کے ساتھ ادا کریں اور جو لوگ چندہ نہیں دیتے ان سے وصول کریں۔ ابھی جماعتوں میں ایک خاصی تعداد ایسے افراد کی موجود ہے جو نادہند ہے۔ اگر ان کو توجّہ دلائی جائے اور ان سے چندہ وصول کیا جائے تو یقیناً ہمارے چندے میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے اور انجمن کی مالی حالت مضبوط ہو سکتی ہے۔
اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی ضرورت
مُلک کی اقتصادی حالت کا بھی چندے سے گہرا تعلق
ہے۔ اگر اقتصادی حالات بہتر ہوں تو یقیناً چندوں میں زیادتی ہو جاتی ہے۔ مَیں نے اس دفعہ شوریٰ پر یہ نصیحت کی تھی کہ اپنی اقتصادی حالت کو درست کرنے کے لئے احمدی تاجروں ، زمینداروں اور پیشہ وروں کی الگ الگ تنظیم ہونی چاہئے اور ان کے وقتاً فوقتاً اجلاس ہونے چاہئیں تاکہ وہ مل کر اپنی مُشکلات پر غور کر سکیں اور مَیں بھی انہیں ایسے طریق بتا سکوں جن سے وہ اپنی حالت کو بہتر بنا سکیں۔ اس وقت تک تو اس تجویز پر عمل نہیں ہو سکا مگر آئندہ سال ضرور اس پر عمل ہونا چاہئے۔ کیونکہ اقتصادی حالت کی مضبوطی کا ہمارے چندوں اور ہماری تبلیغ سے گہرا تعلق ہے۔ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جب یہ اجلاس بلائے جائیں تو اپنے اچھے سے اچھے نمائندے اس میں بھیجیں تاکہ آپ کی
اقتصادی حالت درست ہو سکے''۔ (الفضل یکم و دو جنوری1952ء)
1: مشکوٰة المصابیح صفحہ480مطبوعہ کراچی1368ھ
2: الرعد :39
3: میخانہ دردصفحہ26 مطبوعہ1344ھ
4: میخانہ دردصفحہ17مطبوعہ 1344ھ میں ان کا مکمل نام ''نواب خاندوران خان صمصام الدولہ'' لکھا ہے۔
5: میخانہ دردصفحہ 127،128 مطبوعہ 1344ھ
6: تذکرہ صفحہ 37۔ ایڈیشن چہارم
7: تذکرہ صفحہ 37۔ ایڈیشن چہارم
8: تذکرہ صفحہ 70۔ ایڈیشن چہارم
9: تذکرہ صفحہ 70۔ ایڈیشن چہارم
10: تذکرہ صفحہ 731۔ ایڈیشن چہارم
11: تذکرہ صفحہ 749۔ ایڈیشن چہارم
12: تذکرہ صفحہ 707۔ ایڈیشن چہارم
13: تذکرہ صفحہ 653۔ ایڈیشن چہارم
14: الصَّفّٰت :148
تعلق باﷲ
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعلق باﷲ
(فرمودہ 28دسمبر1952ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اصل تقریر ‘‘تعلق باﷲ’’ سے قبل بعض ضروری امور کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :-
کونسی مجلس علم انعامی کی مستحق ہے
‘‘خدام الاحمدیہ نے اس سال دس معیار مقرر کئے تھے یہ دیکھنے کے
لئے کہ کونسی مجلس عَلمِ انعامی کی مستحق ہے اس ہدایت کے مطابق خدا م الاحمدیہ نے انسپکٹر بھجوا کر تمام مجالس کا معائنہ کروایا اور انسپکٹر صاحب کی رپورٹ موصول ہونے پر مجلس عاملہ مرکزیہ نے ایک سب کمیٹی مقرر کی جس نے ہر شق پر تفصیلی غور کرنے کے بعد مجلس عاملہ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کر دی۔ مجلس عاملہ مرکزیہ نے سب کمیٹی کی رپورٹ پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ کیا کہ امسال مقرر کردہ معیاروں کے مطابق مجلس خدا م الاحمدیہ راولپنڈی تمام مجالس میں سے اوّل رہی ہے اس مجلس نے سَو میں سے اڑسٹھ نمبر حاصل کئے ہیں۔ مجلس خدام الاحمدیہ چک نمبر 121 گوکھووال دوم رہی ہے اور اس نے 67½/100 نمبر حاصل کئے ہیں۔ مجلس کراچی سوم رہی ہے اس مجلس نے سَو میں سے چونسٹھ نمبر حاصل کئے ہیں۔ اوّل رہنے والی مجلس کو انعامی جھنڈا دیا جاتا ہے مگر اس دفعہ مَیں نے جلسہ میں جھنڈا دینا روک دیا ہے کیونکہ اس طرح تقریر میں حرج واقع ہوتا ہے۔ بہرحال جماعت کی ترغیب اور تحریص کے لئے مَیں نے اعلان کر دیا ہے کہ خدا م الاحمدیہ کی تین جماعتوں کا کام بہت اچھا رہا ہے۔ اوّل جماعت راولپنڈی ، دوم مجلس چک نمبر 121 گوکھووال اور سوم نمبر پر کراچی۔ اس کے علاوہ تمام جماعتوں کی طرف سے خبریں پہنچتی رہی ہیں کہ ضرورت کے مواقع پر بالعموم خدام نے اچھا کام کیا ہے اور یہی نوجوانوں کا فرض ہوتا ہے۔ بوڑھے یہ کام نہیں کر سکتے جب یہ لوگ بوڑھے ہو جائیں گے تو اس وقت اگلی نسل آجائے گی اور پھر اس کے بوڑھا ہونے پر اس سے اگلی نسل آجائے گی۔ مجھے جو رپورٹیں پہنچتی رہی ہیں ان میں اکثر جماعتوں نے خدام کی تعریف کی ہے۔ بے شک بعض نے کمزوری بھی دکھائی ہے مگر یہ نہیں کہ سب نے ایسا کیا ہو۔ ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور ہماری جماعت میں بھی کچھ کمزور لوگ پائے جاتے ہیں۔ حرف تب آتا ہے جب کام کے وقت سارے خاموش رہیں۔
مقبرۂ بہشتی ربوہ کا مقام
مَیں اصل تقریر سے قبل یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ربوہ کے بہشتی مقبرہ کے متعلق ایک دوست نے
سوال کیا ہے کہ جب حضرت امّاں جان کی نعشِ مبارک کو قادیان کے بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دفن کر دیا جائے گا تو اس وقت ربوہ کے بہشتی مقبرہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ یہ سوال تو بالکل سادہ تھا اور اگر کوئی نئی چیز ہوتی تو انہیں پوچھنے کی ضرورت بھی ہوتی مگر پھر بھی مَیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام میں یہ طریق جاری ہے چنانچہ دیکھ لو مقامِ ابراہیم ؑ مکّہ میں ہے مگر حضرت ابراہیم ؑ مکّہ سے چلے گئے اور بیت المقدس میں دفن ہوئے مگر باوجود اس کے ہم اسے صرف خانۂ کعبہ نہیں کہتے بلکہ مقامِ ابراہیم ؑ بھی کہتے ہیں کیونکہ نبی تو دنیا میں آتے اور فوت ہو جاتے ہیں مگر ان کے چلے جانے کی وجہ سے کسی مقام کی برکات نہیں جاتیں چنانچہ کل ہی مَیں نے بتایا تھا کہ کسی مقدس مقام کی برکت کبھی نہیں جاتی اور جس مقام پر ایک دفعہ اﷲ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے تو چونکہ اُس مقام نے گناہ نہیں کرنا ہوتا اس لئے وہ فضل چلتا چلا جاتا ہے۔ باپ بڑا نیک ہو اور بیٹا بُرا ہو تو برکت مٹ جائے گی۔ مگر جس مقام پر دُعائیں کی گئی ہوں اور جہاں خدا نے اپنے فضل کی بارشیں نازل کی ہوں اس مقام کی برکات کبھی مٹ ہی نہیں سکتیں۔ آپ لوگوں نے یہ کیوں سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے پاس اتنی تھوڑی برکتیں ہیں کہ اگر وہاں برکتیں نازل کرے گا تو یہاں نہیں کرے گا۔ وَ مَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ1 خدا تعالیٰ کے فضل تو اس قدر ہیں کہ اگر زمین کا چَپّہ چَپّہ بھی بہشتی مقبرہ بن جائے تو پھر بھی وہ فضل بچا ہی رہے گا۔ ہمیں تو یقین ہے کہ آپ کی نعش قادیان جائے گی۔ مگر وہ صرف اپنی برکتیں لے جائے گی اس مقام پر اسی طرح اس کی برکتیں نازل ہوتی رہیں گی جس طرح اب نازل ہو رہی ہیں۔ آخررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ میں پیدا ہوئے مگر مدفون مدینہ میں ہیں۔ پس جو خدا مکّہ سے اپنی برکتوں کو بچا کر مدینہ لے گیا اور اس نے مدینہ کو بھی بابرکت کر دیا اسی خدا نے اس زمانہ میں قادیان کو بھی بابرکت کیا اور پھر قادیان کی برکتوں سے بچا کر اس نے ربوہ کو بھی بابرکت کر دیا۔ اس قسم کے خیالات محض لوگوں کے اپنے اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم غریب ہیں اسی طرح نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا بھی غریب ہے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ مسلمانوں کی بادشاہی کے زمانہ میں ایک نائی جو امراء کی حجامتیں بنایا کرتا تھا اسے ایک دفعہ کسی امیر نے دو سَو اشرفی انعام دے دی۔ چونکہ دو سَو اشرفی کی تھیلی اسے یکدم ملی اس لئے وہ ہر وقت اسے اچھالتا رہتا اور جب بھی کوئی شخص ملتا اور پوچھتا کہ سنائیے شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ بغداد کا کوئی ہی بد قسمت ہو گا جس کے پاس دو سَو اشرفی بھی نہ ہو۔ چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اس لئے وہ تھیلی کے متعلق زیادہ احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ایک دفعہ کسی امیر کو مذاق سوجھا اور اس نے چپکے سے وہ تھیلی کھسکا لی۔ اب وہ کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ڈرتا تھا کہ امراء اُسے کہیں گے کہ تو ہم پر چوری کا الزام لگاتا ہے مگر دوسری طرف اسے صدمہ بھی سخت تھا۔ آخر غم کے مارے وہ بیمار ہو گیا۔ جب لوگ اسے پوچھنے جاتے اور دریافت کرتے کہ بتلائیے اب شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ شہر کا کیا پوچھتے ہو وہ تو بھُوکا مَر رہا ہے۔ آخر اس امیر نے تھیلی نکال کر دے دی اور کہا شہر کو بھُوکا نہ مارو اور اپنی تھیلی لے لو۔ پس اپنی کمزوریوں پر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا کیوں اندازہ لگاتے ہو۔
خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ جگہ جگہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مثیل اور خادم پیدا ہوں۔ خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم جگہ جگہ مقامِ ابراہیم پیدا کر دیں، خداتعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دُنیا کے کونے کونے میں مدینے قائم کر دیں، خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دُنیا کے کونے کونے میں قادیان قائم کر دیں اور تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے پاس جتنی برکتیں تھیں وہ اس نے صرف ایک مقام پر ہی نازل کر دی ہیں۔ حالانکہ وہ خود کہتا ہے کہ آگے بڑھو اور میری برکتوں سے حصّہ لو۔ روکیں تم نے خود کھڑی کر لی ہیں کہ تم کہتے ہو ہم مقامِ ابراہیم تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم ان برکتوں کے وارث نہیں ہو سکتے جن برکتوں سے پہلے لوگوں نے حصّہ پایا۔ پس اگر تم خود ہی ان برکتوں کو نہ لو تو تمہاری مرضی۔ تم خود پیچھے ہٹتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ نہیں ہو سکتا اور وہ نہیں ہو سکتا۔ مَیں نے ایک دفعہ تقریر میں کہہ دیا کہ ہر مؤمن کو ایک چھوٹا محمد بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس پر مخالفین نے شور مچا دیا کہ ہتک ہو گئی، ہتک ہو گئی۔ حالانکہ جب کسی کی اقتداء کرنے کے لئے کہا جائے گا تو ہمیشہ کسی نیک اور پاک آدمی کا نام ہی لیا جائے گا۔شیطان کا نام تو نہیں لیا جائے گا۔ پس سوال یہ ہے کہ آخر ہم کیا کہیں؟ اگر یہ کہیں کہ ابلیس بنو تب مصیبت ہے اور اگر کہیں کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مثیل بنو تب مصیبت ہے۔ یہ تو ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی امیر سفر کے لئے نِکلا تو اس نے اپنے ساتھ ایک میراثی لے لیا۔ ایک جگہ پہنچے تو بارش آگئی اور چھت ٹپکنے لگ گئی۔ میراثی نے کہیں سے چارپائی لی، چوہدری صاحب کو اس پر بٹھایا اور آپ سرک کر اس کی پائنتی پر بیٹھ گیا۔ چوہدری صاحب نے اس کو دو چار تھپڑ لگائے اور کہا کم بخت تو ہمارا مقابلہ کرتا ہے اور ہمارے ساتھ ایک چار پائی پر بیٹھتا ہے۔ آگے چلے تو بیٹھنے کے لئے چار پائی بھی نہ ملی وہ کہیں سے ایک کَسی لایا اور اس نے زمین کھودنی شروع کر دی۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب کے برابر تو میں بیٹھ نہیں سکتا، اب یہ زمین پر بیٹھے ہیں تو میرے لئے یہی صورت رہ گئی ہے کہ مَیں زمین کھود کر ان سے بھی نیچے بیٹھوں۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے۔ شیطان کہو تب غصّہ آتا ہے، محمد رسول اﷲ کہو تب غصّہ آتا ہے۔ حالانکہ انسان یامحمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مثیل بنے گا یا شیطان کا۔ پس انسان حیران ہوتا ہے کہ وہ کہے کیا۔ غرض اﷲ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم سارے نبیوں کی برکتیں لو لیکن انسان آپ کمزوری دکھاتا ہے اور کہتا ہے یہ نہیں ہو سکتا، وہ نہیں ہو سکتا۔ پس مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ ان کی نعش قادیان نہیں جائے گی، جائے گی اور ضرورجائے گی مگر جو برکتیں یہاں نازل ہو رہی ہیں وہ نازل ہوتی چلی جائیں گی۔ دیکھو صحابہ ؓ اِس نکتہ کو سمجھتے تھے چنانچہ نماز اور دُعا تو الگ رہی وہ اس مقام سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے جہاں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی پیشاب کیا ہو۔
حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ جب بھی حج کے لئے جاتے تو ایک مقام پر وہ خاص طور پر تھوڑی دیر کے لئے قافلہ کو ٹھہراتے اور پیشاب کے لئے بیٹھ جاتے۔ اُنہوں نے دو تین حج کئے تھے۔ ایک صحابی ؓ کہتے ہیں مَیں نے ایک دفعہ دیکھا تو جہاں وہ پیشاب کے لئے بیٹھے تھے وہ جگہ بالکل خشک تھی۔ مَیں نے ان سے کہا کہ آپ نے ہمارا اتنا حرج کیا۔ اگر آپ کو پیشاب آیا نہیں تھا تو آپ نے قافلہ کو ٹھہرایا کیوں،آپ یہاں بیٹھے کس لئے ؟ وہ کہنے لگے یہ بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حج کیا تو مَیں نے دیکھا کہ اس مقام پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیشاب کیا تھا۔ پس مَیں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں مَیں کہتا ہوں کہ موقع جانے نہ پائے اور خواہ مجھے پیشاب آیا ہو یا نہ آیا ہو مَیں یہاں تھوڑی دیر کے لئے برکت حاصل کرنے کے لئے بیٹھ جاتا ہوں۔2 تو صحابہ ؓ یہ سمجھتے تھے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر کام میں نقل ان کے لئے برکت کا مؤجب ہے اور درحقیقت یہ بات ہے بھی درست ۔ جہاں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، جہاں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بیٹھے اور جہاں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کام کئے وہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں۔ دیکھو، آپ لوگ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام پیش کیا کرتے ہیں کہ :
''بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے''۔3
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسم سے آپ کے کپڑے لگے اور وہ بابرکت ہو گئے۔ پھر اگر کسی زمین پر کوئی مقدس انسان رہے تو وہ کیوں بابرکت نہیں ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ روحانی دنیا میں اس کی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ یہ سوال ہر شخص کو خود ہی سمجھ لینا چاہئے تھا اور اس بارہ میں کسی سوال کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرنی چاہئے تھی۔
ایک افسوسناک واقعہ
آج رات کو ایک افسوس ناک واقعہ ہؤا کہ عورتوں کی پانچ بیرکیں جل گئیں اور ہزاروں روپیہ کا نقصان ہؤا۔
بیس سے زیادہ بستر ہی جل گئے اور بہت سی عورتوں کے بُرقعے جل گئے اور بہت سی عورتوں کی جوتیاں جل گئیں یا غائب ہو گئیں۔ بعض کی ایک جل گئی اور ایک رہ گئی۔ اس طرح ہزار ہا کا نقصان ہو گیا۔ زیورات بھی بڑی مقدار میں ضائع ہوئے ہیں۔ کچھ تو مل رہے ہیں مگر کچھ ابھی تک نہیں ملے۔ ایک عورت کا کئی ہزار کا زیور گم ہو گیا ہے۔ یہ نقصان کچھ تو آگ لگنے کی وجہ سے ہؤا اور کچھ آگ کو پھیلنے سے بچانے کے لئے بعض اور بیرکیں ہمیں خود بھی گرانی پڑیں۔ بڑی وجہ اس نقصان کی یہ تھی کہ عورتوں کی بیرکیں الگ تھیں، ان کا رستہ بہت محدود تھا اور اس وجہ سے فوری طور پر زیادہ امداد نہیں پہنچ سکتی تھی''
اس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ:-
''الحمدﷲ ابھی اطلاع ملی ہے کہ اس عورت کا آٹھ تولہ کا ہار مل گیا ہے۔ بہرحال زیورات انشاء اﷲ مل جائیں گے۔ اس عورت کے کڑے بھی تھے وہ بھی امید ہے مل جائیں گے''۔
سلسلۂ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
'' مَیں اس موقع پر پہلی نصیحت مستورات کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ صبر اور ہمت سے کام لیں۔ بعض عورتیں اس حادثہ کی وجہ سے سخت گھبرا گئیں اور وہ صبح سے ہی بستر باندھ کر بیٹھ گئیں کہ ہم تو جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ عورتیں چاہتی ہیں ان کے اچھے کپڑے ہوں اور اگر معمولی کپڑے بھی ہوں تو میلے نہ ہوں ۔ کیونکہ بہرحال کچھ نہ کچھ زینت کا احساس عورت میں پایا جاتا ہے لیکن ایسے وقت میں اپنے جذبات اور احساسات کو دبا لینا چاہئے۔ ایسے وقت میں غیرت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ انسان کہہ دے کہ کرلو جو کچھ کرنا ہے مَیں اپنے مذہب اور عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا یہی تو غیرت دکھانے کا وقت ہوتا ہے۔ اور کونسا وقت ہے جس میں انسان اس قسم کی غیرت دکھا سکے۔
امورِ عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ جیسے مردوں کی بیرکوں میں اتفاقی طور پر آگ لگ گئی تھی اسی طرح عورتوں کی بیرکوں میں بھی اتفاقی طور پر آگ لگ گئی ہے لیکن مَیں ان کی اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتا۔ مردوں کی بیرکوں کے متعلق ان کی رپورٹ مَیں نے تسلیم کر لی تھی مگر اس رپورٹ کو میں غلط سمجھتا ہوں اور اس کی میرے پاس وجوہ موجود ہیں۔ مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے مگر انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ مجھ پر یا میرے محکمہ پر الزام نہ آئے۔ میرے نزدیک اسی اثر کے ماتحت ان کی یہ رپورٹ ہے مگر ہمارے پاس اس رپورٹ کے غلط ہونے کی وجہ موجود ہے۔ ہم نے دوذرائع سے اس حادثہ کی تحقیقات کرائی ہے۔ ایک تحقیق تو ناظم جلسہ نے اسی وقت کی۔ مَیں نے انہیں حکم دیا کہ فوراً تحقیقات کرو اور مجھے اپنی تحقیق کے نتائج سے اطلاع دو۔ دراصل جلسہ سے جانے کے بعد مجھے کافی عرصہ تک نیند نہیں آئی۔ نمازوں اور ملاقاتوں کے بعد بھی مَیں دیر تک جاگتا رہا۔ اس کے بعد میں لیٹا ہی تھا کہ یکدم شور کی آواز آئی اور معلوم ہؤا کہ عورتوں کی بیرکوں میں آگ لگ گئی ہے۔ مَیں نے فوراً آدمی دوڑائے اور کہا کہ مجھے اطلاع دو کہ کیسے آگ لگی ہے۔ چنانچہ ڈیڑھ بجے رات انہوں نے مجھے اطلاع دی جس میں انہوں نے نقشہ بھی دیا ہؤا تھا۔ مَیں نے جو پہرے دار بھجوائے تھے اُنہوں نے بتایا کہ ایک عورت نے یہ کہا ہے کہ مَیں نے خود بعض آدمی جاتے ہوئے دیکھے ہیں جو کہتے تھے کہ رستہ نہیں ملتا ، رستہ نہیں ملتا۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ ایک عورت کہتی ہے کہ یہ آگ باہر سے آتے ہوئے مَیں نے دیکھی ہے۔ اس کے بعد ناظم جلسہ کی رپورٹ بھی پہنچ گئی۔ اس میں وضاحت سے ذکر تھا کہ فلاں عورت سے مَیں نے بیان لئے ہیں وہ کہتی ہے کہ مَیں اپنی بیرک میں بیٹھی ہوئی تھی کہ مجھے چھت کے اوپر سے گرمی لگی اور پھر مَیں نے اوپر سے نیچے آگ آتی ہوئی دیکھی جو پھیل گئی اور پھر مَیں نے شور مچا دیا کہ آگ لگ گئی ہے۔ اسی طرح ان کا بیان ہے کہ دو تین اَور عورتوں نے بھی یہی بیان کیا کہ ایک جگہ نہیں بلکہ دو تین جگہ باہر سے آگ آتی ہوئی دیکھی گئی ہے۔ اس کے بعد صبح لجنہ نے تحقیقات کی۔ لجنہ کی تحقیقات بھی قریباً اسی طرح ہے جس طرح یہاں ناظم جلسہ کی تحقیق تھی۔ وہ بھی کہتی ہیں کہ عورتوں کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے خود آگ لگتے دیکھی جو اوپر سے نیچے کی طرف آئی۔ پس امورِ عامہ کی رپورٹ میرے نزدیک درست نہیں۔ انہوں نے صرف اپنی بدنامی سے ڈر کر کہ ان کے محکمہ پر الزام آئے گا اس طرح کی رپورٹ کر دی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آگ باہر سے لگی ہے۔ بلکہ اب تو مجھے یہ بھی شُبہ پیدا ہو گیا ہے کہ مردوں والی آگ بھی کسی نے دانستہ نہ لگائی ہو۔ بالکل ممکن ہے کہ کوئی دوست بن کر آگیا ہو اور اس نے لیمپ کی بتی اس طرح اونچی کر دی ہو کہ گھانس پھونس کو آگ لگ گئی ہو۔ یہ پرانا دستور ہے جو الٰہی جماعتوں کے مخالف ہمیشہ اختیار کیا کرتے ہیں لیکن ان باتوں کو دیکھ کر مؤمن کا ایمان اور بھی بڑھ جایا کرتا ہے۔ مؤمن کی مثال درحقیقت ربڑ کے گیند کی سی ہوتی ہے کہ اسے جتنا دباؤ اتنا ہی اُچھلتا ہے۔ پس مؤمنوں کے ارادوں کو پَست کرنے کی بجائے یہ چیزیں اُن کے ایمانوں کو اور بھی بڑھانے والی ہیں اور انہیں کہنا چاہئے کہ اچھا اگلی دفعہ ہم اور زیادہ آئیں گے۔ آخر جب مشرقی پنجاب سے لوگ آئے تو ان کا کتنا نقصان ہؤا تھا۔ یہاں زیورات والی عورتیں تو صرف پانچ سات ہوں گی باقی اکثر غرباء تھیں لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے سامان پیدا کرتا ہے۔
ناظم صاحب جلسہ میرے پاس آئے کہ عورتوں کے لئے بستروں کا کیا انتظام کریں۔
خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پرسوں ہی ایشین افریقن کمپنی جس میں سلسلہ کے بھی حصّے ہیں اور میرے اور میری اولاد کے بھی حصّے ہیں ۔ کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے نام پر کچھ حصّہ نکالا کرتی ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے اُن کی چِٹھی آئی کہ ہم پچاس اطالین کمبل غرباء کے لئے بھجوا رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر پہنچے کہ ابھی کمبلوں کا بنڈل بند کا بند ہی پڑا تھا۔ جس وقت ناظم صاحب جلسہ میرے پاس آئے تو مَیں نے کہا وہ بنڈل ان کے حوالے کر دو۔ یوں بھی وہ ہم نے غریبوں اور حاجتمندوں میں ہی تقسیم کرنے تھے مگر مَیں سمجھتا ہو ں کہ اس دفعہ کمپنی کو زیادہ ثواب اور اجر ملے گا۔ یوں تو وہ کمبل پہلے بھی بھیجتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے اس دفعہ انہوں نے زیادہ اخلاص سے بھیجے ہیں کیونکہ وہ ایسے موقع پر کام آئے جبکہ سلسلہ کو ان کی سخت ضرورت تھی''۔ (الفضل7دسمبر1960ء)
اِسکے بعد اصل موضوع تعلق باللہ پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
''میری آج کی تقریر کا موضوع تعلق بِاللہ ہے میں نے پچھلے دنوں اپنے ایک خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ بہت سے لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کریں بیٹا ہو جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میری بیوی اچھی ہو جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے کوئی بیوی مل جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میرا اپنی بیوی سے ایک جھگڑا چل رہا ہے اُس میں صلح کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے نوکری مل جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میں امتحان میں کامیاب ہو جاؤں۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے اپنی ملازمت میں ترقی مل جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میری فلاں جگہ سے تبدیلی ہو جائے۔ اسی طرح عورتیں میرے پاس آتی ہیں تو کوئی کہتی ہے میرے ہاں صرف لڑکیاں ہیں دعا کریں کہ کوئی لڑکا ہو جائے۔ کوئی کہتی ہے میرے خاوند کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہیں دعا کریں کہ اُس کا سلوک اچھا ہو جائے۔ کوئی کہتی ہے میرے خاوند کا سلوک تو اچھا ہے لیکن دعا کریں کہ وہ اس سے بھی زیادہ اچھا سلوک کرے۔ کوئی کہتی ہے میرے ماں باپ اور خاوند کے درمیان کوئی جھگڑا ہے دعا کریں کہ اُن کی آپس میں صلح ہو جائے۔ غرض جتنی ضرورتیں بیان کی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہوتی ہیں جو اس دنیا کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں حالانکہ سب سے مقدّم دعا اگر کوئی ہو سکتی ہے تو یہی ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو جائے اور سب سے مقدم سوال اگر کوئی شخص کر سکتا ہے تو یہی ہے کہ میری اِس بارہ میں راہنمائی کی جائے کہ مجھے تعلق بِاللہ کس طرح حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے۔ اگر ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہو جائے تو باقی سب چیزیں اِسی میں آ جاتی ہیں جیسے کہتے ہیں کہ ''ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں''۔
تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ کوئی بزرگ تھے جن کے ہمسایہ میں کوئی امیر شخص رہتا تھا جو رات دن ناچ گانے کی مجالس گرم رکھتا تھا اور ہر وقت شور و غوغا ہوتا رہتا تھا چونکہ اس طرح اُن کی عبادت میں خلل واقع ہوتا تھا ایک دن اُنہوں نے اُسے سمجھایا اور کہا کہ تم رات کو باجے بجاتے اور اُونچا اُونچا گاتے ہو اس طرح میری عبادت میں خلل آتا ہے مناسب یہ ہے کہ تم اِس قسم کی مجلسوں کو بند کر دو۔ وہ امیر آدمی بادشاہ کا مصاحب تھا اُسے یہ بات بُری لگی اور اُس نے بادشاہ کے پاس شکایت کر دی کہ اِس طرح بعض لوگ ہمارے گانے بجانے میں مزاحمت کرتے ہیں۔ بادشاہ نے فوج کا ایک دستہ اُس کے مکان پر بھجوا دیا۔ جب شاہی فوج آ گئی تو اُس نے اُس بزرگ کو کہلا بھجوایا کہ میری حفاظت کے لئے فوج آ گئی ہے اگر طاقت ہے تو مقابلہ کرلو۔ اُس بزرگ نے جواب دیا کہ اِن سامانوں سے تو مقابلہ کی مجھ میں طاقت نہیں لیکن لڑائی ہم نے بھی نہیں چھوڑنی۔ اگر ہم تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں تو نہ معلوم ہمارا تیر نشانہ پر پڑے یا نہ پڑے اِس لئے ظاہری تیر اور تلوار کی بجائے ہم رات کے تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں گے۔ جب یہ پیغام اُسے پہنچا تو معلوم ہوتا ہے اُس کے اندر تھوڑی بہت نیکی تھی پہلے تو وہ خاموش رہا لیکن کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس کی چیخ نکل گئی اور اُس نے کہا مجھے معاف کیا جائے آج سے باجا گانا سب بند ہو جائے گا کیونکہ رات کے تیروں کے مقابلہ کی نہ مجھ میں طاقت ہے اور نہ میرے بادشاہ میں طاقت ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ملنا اور اُس سے انسان کا تعلق پیدا ہو جانا یہ سب سے اہم اور ضروری چیز ہے اور اگر خدا مل سکتا ہے تو پھر اس میں کوئی شُبہ ہی نہیں رہتا کہ ہمارا سب سے بڑا فرض یہی رہ جاتا ہے کہ اُس کے ساتھ تعلق پیدا کریں اور اس طرح اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیں۔
اِس مضمون کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلا سوال انسان کے دل میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا ہے یا نہیں؟ اور پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا مل سکتا ہے یا نہیں؟ اگر اس دنیا کا کوئی خدا ہے اور اگر وہ خدا ہمیں مل سکتا ہے تو اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ پھر سب سے مقدم چیز وہی ہے۔ بعض لوگ مُرغا کھانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔ چودھری ظفراللہ خان صاحب میرے بچپن کے دوست ہیں اُنہیں مُرغے کی ٹانگ بڑی پسند ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی بڑی پسند تھی ایک دوست جو فوت ہو گئے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو ساری عمر مُرغے کی ٹانگ ملتی رہے تو اُسے اَور کیا چاہیے لیکن مجھے پسند نہیں کیونکہ اُس کی بوٹی میرے دانت میں پھنس جاتی ہے۔ بہرحال بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں کو بہت مرغوب ہوتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ چیزیں اُنہیں مل جائیں تو وہ بڑے خوش قسمت ہیں لیکن وہ چیزیں بہت ادنیٰ اور معمولی ہوتی ہیں اور پھر اُن چیزوں کے حصول کے بعد بھی اور ہزاروں چیزوں کی احتیاج انسان کو باقی رہتی ہے لیکن اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اگر خداتعالیٰ پر ہمیں کامل یقین ہو اور اگر خدا ہمیں مل سکتا ہو تو پھر قطعی اور یقینی طور پر انسان کہہ سکتا ہے کہ اس کے بعد مجھے کسی اَور چیز کی کیا ضرورت ہے۔ انبیاء بڑے قیمتی وجود ہیں اور اُن کی محبت انسان کے ایمان کا ایک ضروری جزو ہے لیکن یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی کو خدا مل جائے اور اُسے انبیاء نہ ملیں۔ انبیاء تو اُسے شوق سے ملیں گے اور کہیں گے کہ جو تمہارا محبوب ہے وہ ہمارا بھی محبوب ہے اور جب وہ تم سے محبت کرتا ہے تو ہم بھی تم سے محبت رکھتے ہیں۔
مذاہبِ عالَم پر نظر ڈالنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ مل سکتا ہے گو اُس کے ملنے کی شکلیں اُن کے نزدیک الگ الگ ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم یہودی مذہب کو دیکھتے ہیں۔ یہودی مذہب کے مطالعہ سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا مل سکتا ہے۔ حضرت نوحؑ کے ایک دادا تھے جن کا نام حنوک تھا۔ اُن کے متعلق بائبل میں لکھا ہے کہ وہ تین سَو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔4
اور یہودی حدیثوں میں لکھا ہے کہ:-
''لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے خدا نے زمین کو چھوڑ دیا اور حنوک کو آسمان پر اُٹھا لیا اور آسمانی خزانوں کا اس کو نگران اور فرشتوں کا سردار مقرر کر دیا اور خدا کے تخت کے سامنے خاص مصاحب کے طور پر وہ مقرر کیا گیا۔ اُس کو سب راز معلوم ہیں اور فرشتے اُس کی پشت پر ہیں اور وہ خدا کا منہ ہے اور وہ خدا کے احکام کو دنیا میں جاری کرتا ہے''۔ 5
پھر بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ کشتی کی اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کو گرا لیا یعنی خدا ہار بھی گیا6 اور یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ دراصل یہ ایک کشفی واقعہ ہے کوئی لغو اور بیہودہ قصہ نہیں۔ بچوں کے ساتھ گھروں میں روزانہ ایسا ہوتا ہے کہ ماں باپ ہنسی مذاق میں اُن کے ساتھ کشتی کرتے ہیں اور پھر کشتی کرتے کرتے خود گر جاتے ہیں اور بچہ اُن کے سینہ پر سوار ہو جاتا ہے اور وہ قہقہہ مار کر کہتا ہے کہ میں نے ان کو گرا لیا۔ اسی طرح اللہ میاں نے بھی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ضرور کشتی کی ہوگی اور پھر خداتعالیٰ محبت اور پیار کے انداز میں خود ہی گر گیا ہوگا اور یعقوب علیہ السلام نے قہقہے مارے ہوں گے کہ میں نے خدا کو بھی گرا لیا۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے۔ اُن کی زندگی کی تاریخ جو انجیل میں ہے اُس سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ وہ خدا سے ملے۔ چنانچہ اُن کا خدا کو باپ کہنا اور اپنے آپ کو اُس کا بیٹا کہنا صاف بتاتا ہے کہ اُن کا خدا تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق تھا جیسے دنیا میں ماں باپ اور بیٹوں کے درمیان ہوتا ہے۔
ہندوؤں نے خداتعالیٰ کو زیادہ تر ماتا کی شکل میں پیش کیا ہے مگر بہرحال ہندو مذہب بھی خدا تعالیٰ کے تعلق اور اُس کے پیار کا قائل ہے۔ اسلام نے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو ماں اور باپ کی محبت سے مشابہت دی ہے اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ ماں اور باپ کا بھی اپنے بچہ سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اسی طرح زرتشتی مذہب لے لو، بدھ مذہب لے لو، سب میں یہی نظر آئے گا کہ انسان روحانیت میں ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کا خدا تعالیٰ سے براہِ راست تعلق ہو جاتا ہے۔ بدھ مذہب کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت بدھ ایک جگہ بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور یہ عبادت اُنہوں نے اتنے انہماک سے کی کہ ایک بانس کا درخت اُن کے نیچے سے اُگا اور اُنہیں چیر کر اُن کے سر سے نکل گیا مگر اُن کو خبر تک نہ ہوئی اور پھر اُنہیں خدا مل گیا۔ اِس قصہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ دنیا سے اتنے بیزار اور متنفر ہوئے کہ آخر انہیں خدا کا وصال حاصل ہو گیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی ملاقات ہو سکنے کا جہاں تک امکان ہے دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں جو یہ کہتا ہو کہ خدا نہیں مل سکتا۔ جو لوگ خداتعالیٰ کو مانتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں خداتعالیٰ کی کتاب کو اپنا راہنما سمجھتے ہیں اور اُس کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تو یہی یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ مل سکتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنی عملی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہیں رکھتے وہ بے شک منکر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نہیں مل سکتا۔ مسلمانوں میں سے جو متکلمین یا فلسفی لوگ ہیں یعنی وہ لوگ جو خالص ظاہری علوم کے دِلدادہ ہوتے ہیں یا جنہیں ہم زیادہ سے زیادہ کتابی کہہ سکتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اُس سے تعلق پیدا کرنے کا صرف اتنا ہی مفہوم ہے کہ انسان کو اس امر کا یقین ہو جائے کہ وہ اُس کے حکم کے مطابق نماز، روزہ اور ذکرِ الٰہی وغیرہ میں مشغول ہے۔ گویا عبادت و امتثال ہی اُس سے تعلق ہے اور اُس کا احسان وانعام ہی اُس تعلق کے اظہار کا ایک ثبوت ہے۔ اِن متکلمین کو چھوڑ کر مسلمان، عیسائی، یہودی، زرتشتی اور اسی طرح ہندو اور بدھ مذہب کے پیرو سب یہی کہتے ہیں کہ خدا مل سکتا ہے اور یہی نہیں کہ وہ مل سکتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے نبیوں اور دوسرے صلحاء وغیرہ کو ملا ہے اور اُس نے اُن کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف وہ انہیں ملا ہے بلکہ ہمارا بھی یہی دعویٰ ہے کہ وہ ہم کو بھی ملا ہے اور اُس نے ایسے ایسے رنگ میں ہم سے اپنے تعلقات کا اظہار کیا ہے کہ یہ ملنا اُس سے کم ملنا نہیں جس طرح کوئی اپنے ماں باپ یا کسی اور عزیز سے ملتا ہے۔ پس متکلمین کا یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ انسان کو نہیں ملتا۔ اگر ہم نے اُس کی اطاعت کی تو یہ اُس کا ملنا ہو گیا اور اگر اُس نے ہم پر فضل اور احسان کیا تو یہ اُس کے تعلق کا ایک ثبوت ہو گیا۔ یہ محض فلسفیانہ رنگ کا ایک دعویٰ ہے جو خداتعالیٰ سے دوری اور اُس کی محبت کے کرشموں کو نہ دیکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے۔اگر تو اتنا ہی ہوتا کہ مثلاً مجھے ایک ضرورت ہوتی اور وہ پوری ہو جاتی تو گو اس سے مجھے یہ تسلی ہو جاتی کہ میری ضرورت پوری ہوگئی ہے لیکن میرے دل میں خداتعالیٰ کی محبت پیدا نہ ہوتی لیکن میرا یہ احساس کہ میرے خدا نے میری فلاں ضرورت پوری کی ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو مجھے خدا تعالیٰ کی محبت میں گداز کر دیتی ہے۔
مجھے یاد ہے میری جوانی کا زمانہ تھا۔ ابھی میری خلافت پر دو تین سال ہی گزرے تھے کہ مجھے ایک مشکل پیش آگئی اور میں نے اُس کام کے لئے دعائیں شروع کر دیں مگر میرا وہ کام نہ ہؤا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ جب تک میرا یہ کام نہیں ہو جائے گا میں چارپائی پر نہیں سوؤں گا۔ میرے اندر بھی اُس وقت گاندھی کی کوئی رگ تھی اور میں نے بھی ایک رنگ میں ستیہ گرہ کر دی اور زمین پر لیٹ گیا۔ امۃ الحی مرحومہ اُن دنوں زندہ تھیں اور اُنہی کے ہاں اُس دن باری تھی۔ ہم دونوں کے لئے ایک بڑی سی چارپائی ہوتی تھی اور اُس پر ہم سویا کرتے تھے مگر اُس رات میں نے امۃ الحی سے کہا کہ تم اپنا بستر اُوپر کر لو۔ میرا بستر نیچے ہی رہے گا۔ کہنے لگیں کیوں؟ میں نے کہا کوئی بات ہے۔ چنانچہ میں فرش پر بستر کر کے لیٹ گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ مجھے لیٹے ہوئے ابھی گھنٹہ گزرا تھا یا دو گھنٹے۔ بہرحال نصف رات سے کم وقت ہی تھا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے آیا ہے مگر وہ اُس وقت حضرت اماں جان کی شکل میں تھا (حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی کو بھی ایک دفعہ اللہ تعالیٰ اُن کی والدہ کی شکل میں ملا تھا۔ پس خشک مُلاّ غصہ میں نہ آئے کہ وہ جو کچھ مجھے کہے گا وہی سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بھی کہنا پڑے گا) اُس کے ہاتھ میں ایک نہایت نرم اور نازک لمبی سی چھڑی تھی وہ تازہ شاخ کی معلوم ہوتی تھی اور چھڑی کے ساتھ کچھ سبز پتے بھی لگے ہوئے تھے۔ چھڑی بہت نازک اور ہلکی اور باریک سی تھی اور قریباً سوا گز لمبی تھی۔ میں اُس وقت رؤیا میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے جو میرے سامنے ظاہر ہؤا ہے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ حضرت اماں جان (جو درحقیقت وجود باری کا ظہور تھا) میرے پاس آئیں اور جس طرح ماں بعض دفعہ بچہ پر بظاہر غصہ کا اظہار کر رہی ہوتی ہے لیکن درحقیقت اُس غصہ کے پیچھے محبت ہوتی ہے اِسی طرح اُنہوں نے بھی وہ چھڑی مجھے مارنے کے لئے اُٹھائی اور کہا ''محمود! لیٹتا ہے کہ نہیں چارپائی پر'' اور میں نے دیکھا کہ اِن الفاظ کے ساتھ ہی اُنہوں نے وہ چھڑی نہایت نرمی سے میرے جسم کے ساتھ چُھو دی۔ اِدھر میں نے یہ نظارہ دیکھا اور اُدھر میں نے سمجھا کہ گو اللہ تعالیٰ نے چارپائی پر لیٹنے کا ہی حکم دیا ہے لیکن اگر ذرا بھی اس حکم کے ماننے میں دیر ہوئی تو میرے ایمان میں خلل آ جائے گا۔ چنانچہ جونہی اُن کا ہاتھ پیچھے ہٹا میں رؤیا کی حالت میں ہی چھلانگ لگا کر چارپائی پر آ گیا اور جب آنکھ کھلی تو میں چارپائی پر لیٹا ہؤا تھا۔
اب فرض کرو میرا وہ کام ہو جاتا تو مجھے اِس میں کیا مزا آتا۔ مگر وہ لطف جو اُس رؤیا سے مجھے آیا اُس کا مزہ میرے دل میں آج تک باقی ہے اور اس کا خیال کر کے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں گدگدیاں پیدا کرنے لگتی ہے اور ایسا ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ ہوا ہے اور کئی کئی رنگ میں ہم نے خداتعالیٰ کے فضل کے مشاہدات کئے ہیں اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ محبت اور پیار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں میں جو لُطف ہے وہ باقی کیفیات میں کہاں ہے۔ بس ان دونوں کا ایسا ہی فرق سمجھ لو جیسے ایک ماں اپنے بچہ کو جب چھاتی سے دودھ پلا رہی ہوتی ہے تو جو اطمینان اُس بچہ کے چہرے پر دوڑتا ہوا نظر آتا ہے جس بے تکلّفی اور محبت سے وہ اپنی آنکھیں کبھی بند کرتا ہے اور کبھی کھولتا ہے، کبھی منہ مچکاتا اور کبھی مسکراتا ہے اُس کی کیفیت بالکل اور ہوتی ہے۔ اُس وقت وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ مجھے دودھ پلا رہی ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مجھے اپنی محبت اور پیار سے حصہ دے رہی ہے۔ اس کے مقابلہ میں تم نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ دروازہ پر فقیر آیا تو عورت نے اُسے روٹی دے دی۔ اُس نے ایک مانگی تو عورت نے دو دے دیں۔ اُس نے خالی روٹی مانگی مگر عورت نے روٹی کے ساتھ سالن بھی دے دیا۔ مگر فقیر کو وہ مزا کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو ایک بچہ کو اپنی ماں کا دودھ پیتے وقت حاصل ہوتا ہے کیونکہ ماں کا اپنے بچہ کو دودھ پلانا محبت کے جذبات سے تعلق رکھتا ہے اور فقیر کے مانگنے پر عورت کا اُسے روٹی یا سالن دے دینا محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ پس وہاں اور جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے اور یہاں اور جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اِسی طرح بے شک فلسفی طبقہ کہتا ہے کہ عبادت و امتثالِ امر میں خدا تعالیٰ سے تعلق کا پیدا ہونا ہے اور اُس کا احسان اور انعام ہی اس کے تعلق کا اظہار ہے اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی توفیق ملنا بھی اُس کے فضل پر منحصر ہے اور اس کے احکام کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ کے احسان سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ لیکن جو مزا اُس شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جسے پتہ ہو کہ میرا خدا مجھے ملا ہے۔ میرا اُس کے ساتھ تعلق ہے اور اُس نے اپنی محبت اور پیار کا اظہار فلاں فلاں نعمتوں کے علاوہ براہِ راست بھی کیا ہے تو وہ مزا اُس شخص کو کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو ان نشانوں سے محروم ہو۔ اِن دونوں کی تو آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی۔
تعلق بِاللہ کا مفہوم
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ جب سارے انبیاء و صلحاء یہ مانتے چلے آئے ہیں کہ خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو سکتا
ہے تو تعلق کے معنی کیا ہیں؟سو یاد رکھنا چاہیے کہ تعلق کے معنی عربی زبان میں لٹکنے کے ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں تَعَلَّقَ الْمَرْأَۃَ 7 فلاں شخص فلاں عورت کے ساتھ معلّق ہو گیا۔ یا کبھی ب کے ساتھ بھی اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے یعنی کہتے ہیں تَعَلَّقَ بِالْاِمْرَأَۃِ 8 فلاں عورت کے ساتھ فلاں شخص کا تعلق قائم ہو گیا اور اس کے معنی عربی زبان کے لحاظ سے یہ ہوتے ہیں کہ مَالَ قَلْبُہٗ اِلَیْھَا9 اُس شخص کا دل شوق اور محبت کے ساتھ اُس عورت کی طرف جھکا۔ اِسی طرح کہتے ہیں تَعَلَّقَ الشَّوْکَ بِالثَّوْبِ۔ اور اس کے معنی ہوتے ہیں نَشَبَ فِیْہِ وَ اسْتَمْسَکَ۔10 کہیں راستہ میں سے گزرتے ہوئے اگر کانٹے پڑے ہوئے ہوں اور تمہارا کپڑا لمبا ہو تو کانٹے تمہارے کپڑوں کے ساتھ چمٹ جائیں گے اور وہ تمہارے ساتھ ساتھ گھسٹتے جائیں گے اس کو بھی عربی زبان میں تعلق کہتے ہیں۔ گویا جب کوئی چیز اس طرح لٹک جائے کہ کوشش کے ساتھ اُسے ہٹانا پڑے وہ آپ نہ ہٹے تو اُسے تعلق کہتے ہیں۔ اِسی وجہ سے علق کے معنی محبت کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں عَلِقَہٗ وَبِہٖ عُلُوْقًا ھَوَاہُ وَاَحَبَّہٗ یَعْنِیْ عَلِقَہٗ 11 جس کے لفظی معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُس کے ساتھ لٹک گیا۔ اِس کا مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ محبت کی۔ ہمارے ہاں بھی ایک اِسی قسم کا محاورہ ہے۔ کہتے ہیں فلاں کے ساتھ دل اٹکا ہؤا ہے۔ پس تعلق بِاللہ کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ لٹک جانا اور ایسا تعلق قائم کر لینا کہ کوئی دوسرا پرے کرے تو کرے آپ نہ ہٹے۔ مثلاً اِس وقت میری سوٹی میرے ساتھ پڑی ہے اگر میں علیحدہ ہوں گا تو یہ گر جائے گی لیکن اگر کانٹے لگ جائیں تو میں اُنہیں اُتاروں گا تو وہ اُتریں گے یا کوئی اور شخص اُنہیں ہٹائے گا تو وہ ہٹیں گے خودبخود علیحدہ نہیں ہوں گے۔ پس تعلق ایسے گہرے ربط کو کہتے ہیں جو آپ ہی آپ نہیں ٹوٹ سکتا اور اسی کو محبت بھی کہتے ہیں۔ پس تعلق بِاللہ کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ سے لٹک جانا اور اُس سے نہ ٹوٹنے والا تعلق پیدا کرلینا۔
قرآن کریم میں بھی اس تعلق کا ذکر آتا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اور اس تعلق کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں اور بہت بڑی نعمتوں میں سے قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ12 خداتعالیٰ نے انسان کو عَلَق سے پیدا کیا ہے یا یہ کہ اُس نے انسان میں عَلَق کا مادہ پیدا کیا ہے۔ خُلِقَ مِنْ فُلَانٍ13 کے معنی عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ اُس کو اُس چیز سے پیدا کیا گیا ہے لیکن کبھی اِس کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ وہ چیز اُس کی فطرت میں ہی داخل ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ انسان کے متعلق فرماتا ہے کہ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ 14 اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے یعنی مٹی منبع تھی انسان کی پیدائش کا۔ لیکن دوسری جگہ آتا ہے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ 15اُس نے انسان کو جلدی سے پیدا کیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ جلدی کوئی مادہ ہے جس سے انسان کی پیدائش ہوئی ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اُس کی طبیعت میں جلدی کا مادہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے یہ معنی بھی ہیں کہ اُس نے انسان کی فطرت میں عَلَق کا مادہ رکھا ہے اور یہ معنی بھی ہیں کہ عَلَق کی حالت سے ترقی دے کر اُسے پیدا کیا ہے کیونکہ عَلَق کے معنی اُس خون کے بھی ہوتے ہیں جو ماں کے رحم میں نُطفہ سے ترقی کر کے پیدا ہوتا ہے اور رحم سے چمٹا ہؤا ہوتا ہے اور پھر بچہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پس ظاہری معنی اس کے ایک یہ بھی ہیں کہ اُس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔
یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے خَلَقَ الْاِنْسَانَ فرمایا ہے انسان کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں عربی زبان کے لحاظ سے مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے مُلک کی زبان میں انسان کا ترجمہ آدمی کیا جاتا ہے اور جب آدمی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس سے مراد صرف مرد لئے جاتے ہیں عورتیں مراد نہیں لی جاتیں۔ عورتوں کو بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ جب آدمی کا لفظ استعمال کریں گی تو اپنے آپ کو نکال لیں گی اور صرف مردوں کو آدمی قرار دیں گی۔ بعض عورتیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ اُنہیں خواہ کتنا بھی سمجھاؤ آخر وہ یہی کہتی ہیں کہ ''آخر مرد آدمی ہیں تو اُنہیں ہم آدمی ہی کہیں گی''۔ پس یاد رکھو کہ یہاں پنجابی زبان کے لحاظ سے انسان یا آدمی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ یہ عربی انسان ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ بہرحال جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ہم نے مرد اور عورت دونوں کو عَلَق سے پیدا کیا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر انسان عَلَقسے پیدا ہوا ہے؟ ظاہر میں تو یہی نظر آتا ہے کہ مرد عورت ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے اور اُن کے ماں باپ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے اور آخر یہ سلسلہ آدم پر جا کر ختم ہو گیا جس کے ماں باپ کوئی نہ تھے مگر خدا تعالیٰ نے تو خَلَقَ الْاِنْسَانَ میں الْاِنْسَانَ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سارے انسان۔ اب جبکہ سارے انسان عَلَقسے پیدا ہوئے ہیں تو اگر ہم یہ سلسلہ آدم پر ختم کر دیتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم انسان تھے یا نہیں؟ حوّا انسان تھیں یا نہیں؟ اگر تھیں تو پھر اُن کی مائیں اور اُن کے باپ بھی ماننے چاہئیں۔ ورنہ یہ آیت غلط ہو جاتی ہے اور اگر اُن کی مائیں تھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پیدا ہوئیں؟ اگر کہو کہ اپنی ماؤں سے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پیدا ہوئیں؟ غرض اس طرح اس سلسلہ کو چاہے دس کروڑ سال تک لے جاؤ تمہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ نسلِ انسانی کا آغاز جس آدم و حوّا سے ہوا وہ عَلَق کے بغیر پیدا ہوئے تھے اور یا پھر تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس تسلسل میں عَلَق دو معنوں میں استعمال ہؤا ہے۔ آدم تک اور معنی ہیں اور آدم و حوّا کے متعلق یا جو بھی پہلا جوڑا تھا اس کے متعلق کچھ اور معنے ہیں اور یہ آخری بات ہی درست ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام غلط نہیں ہو سکتا اور جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ رحمِ مادر میں جمے ہوئے خون سے انسان کو پیدا کیا اور دوسرے یہ کہ انسان کو اسی طرح پیدا کیا کہ اُس کی فطرت میں محبت الٰہی رکھی گئی۔ تمام انسانوں کیلئے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ وہ جمے ہوئے خون سے پیدا ہوئے لیکن انسانِ اوّل یا پہلے جوڑے کے متعلق اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں تعلق باللہ کے مادہ کے ساتھ پیدا کیا۔ پس یہ آیت اپنے ایک مفہوم کے لحاظ سے آدم کی تمام نسل پر چسپاں ہوتی ہے اور دوسرے مفہوم کی رو سے پہلے جوڑے اور اُس کی نسل سب پر چسپاں ہوتی ہے۔ اور نسل انسانی کا کوئی نکاح نہیں جس پر یہ آیت چسپاں نہ ہو سکتی ہو۔ گویا آدمِ اوّل کی ماں خدا تھا جس کی محبت اُس کے دل میں پیدا کی گئی تھی۔ ایک تیسرے معنی بھی اِس آیت کے ہو سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ عَلَق کا تعلق انسان سے نہیں خدا تعالیٰ سے قرار دیا جائے اور معنی یہ لئے جائیں کہ انسان کی پیدائش کی وجہ وہ علاقہ تھا جو اُلوہیت کو انسانیت سے تھا۔ یعنی اُلوہیت ایک ایسے وجود کو چاہتی تھی جو اُس کی صفات کو ظاہر کرے۔ پس اُلوہیت کی یہ تڑپ انسان کے پیدا کرنے کا موجب ہوئی اور گویا خدا تعالیٰ انسان کے لئے بمنزلہ ماں بن گیا اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ ماں کو بچہ سے اور بچہ کو ماں سے شدید تعلق ہوتا ہے۔ قرآن اور احادیث سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں سے تعلق ماں سے زیادہ ہوتا ہے۔ پس آدمِ اوّل تک تو سب لوگ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے لیکن آگے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آدم و حوّا خدا سے پیدا ہوئے۔ یہ نہیں کہ آدم خدا میں سے نکلا بلکہ یہ کہ اُس کے پیدا کرنے کے عام ذرائع ذاتِ باری میں مرکوز ہوگئے۔ اگر خدا اپنی تقدیر خاص سے آدم کو پیدا نہ کرتا تو نسل انسانی کا سلسلہ اس دنیا میں جاری نہ ہوتا۔ پس بعد میں آنے والے انسان اپنی ماؤں سے پیدا ہوئے اور آدم و حوّا ذاتِ باری سے۔ یعنی كُنْ فَيَكُوْنُ16سے پیدا ہوئے۔
عَلَق کے دوسرے معنی کُلُّ مَا عُلِّقَ17 کے ہیں یعنی جو چیز لٹکائی جائے اُسے عَلَق کہتے ہیں اور عَلَق کے معنی اَلطِّیْنُ الَّذِیْ یُعَلَّقُ بِالْیَدِ18کے بھی ہیں یعنی وہ گُندھی ہوئی مٹی جس میں اتنی چپک اور لزوجت پیدا ہو جائے کہ اگر اُسے ہاتھ لگاؤ تو وہ ہاتھوں سے چمٹ جائے۔ بعض مٹیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ہاتھوں سے نہیں چمٹتیں لیکن جب ایسی مٹی ہو جو ہاتھوں سے چمٹ جائے تو اُسے عَلَقکہیں گے۔ اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ طِیْن ہی سے انسان پیدا ہؤا ہے۔ یوں تو ایسی طِیْن بھی ہو سکتی ہے جس میں پانی زیادہ ہو اور وہ ہاتھوں سے نہ چمٹے یا ایسی طِیْن بھی ہو سکتی ہے جو خمیر کی طرح اُبھری ہوئی ہو لیکن انسان ایسی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جس میں چمٹنے کی خاصیت پائی جاتی ہے اور وہ گوندھنے والے یا بنانے والے کے ہاتھوں سے چپک جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر کسی صوفی کا یہ قول پنجابی میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ یا تو کسی کے دامن سے چمٹ جا یا کوئی دامن تجھے ڈھانپ لے۔ یعنی اس دنیا کی زندگی ایسی طرز پر ہے کہ اس میں سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ یا تو تم کسی کے بن جاؤ یا کوئی تمہارا بن جائے اور یہی طین سے پیدا کرنے کا مفہوم ہے۔ یعنی انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ یا تو وہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے یا کسی کو اپنا بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ دیکھ لو بچہ ابھی پوری طرح ہوش بھی نہیں سنبھالتا کہ کسی کے ہو جانے کا شوق اُس کے دل میں گد گدیاں پیدا کرنے لگتا ہے۔ بلوغت تو کئی سالوں کے بعد آتی ہے لیکن چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو دیکھ لو وہ کھیلتی ہیں تو کہتی ہیں یہ میرا گڈا ہے اور وہ تیری گڑیا ہے۔ آؤ ہم گڈے گڑیا کا بیاہ رچائیں۔ میرے گڈے کے ساتھ تیری گڑیا کی شادی ہوگی اور فلاں کے گڈے کی شادی کرتی ہیں اور بڑی خوشی مناتی ہیں کہ ہمارے گڈے کی شادی ہوگئی یا ہماری گڑیا کا فلاں کے گڈے سے بیاہ ہو گیا۔ پھر وہ ماؤں کی نقلیں کر کے گڑیوں کو اپنی گود میں اُٹھائے پھرتی ہیں، اُنہیں پیار کرتی ہیں اور جس طرح مائیں اپنے بچوں کو دُودھ پلاتی ہیں اسی طرح وہ اُن کو اپنے سینوں سے لگائے رکھتی ہیں کیونکہ ان کا دل چاہتا ہے کہ ہم کسی کی ہو جائیں یا کوئی ہمارا ہو جائے۔ اِسی طرح لڑکوں کو دیکھ لو جب تک بیاہ نہیں ہوتا ہر وقت ماں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں لیکن جب بیاہ ہو جائے تو کہتے ہیں ماں تو جائے چولہے میں ہماری بیوی جو ہے وہ ایسی ہے اور ایسی ہے اور دن رات اُس کی تعریفوں میں گزر جاتے ہیں تو اللہ اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ انسان کی فطرت میں ہم نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے۔ اِس کے بغیر اُس کے دل کو تسلّی نہیں ہوتی۔
پھر عَلَق کے معنی خصومت اور جھگڑے کے بھی ہوتے ہیں لیکن میرے مضمون کے ساتھ ان معنوں کا تعلق نہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے انسان کے اندر جھگڑنے کا مادہ رکھا ہے۔ اِسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا 19 جھگڑا بھی انسان تبھی کرتا ہے جب وہ کسی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ اس لحاظ سے اس میں بھی تعلق کا مفہوم پایا جاتا ہے اور وہ تضاد جو بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے دور ہو جاتا ہے۔
غرض جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عَلَق سے پیدا کیا ہے یعنی انسان کی فطرت میں اس نے اپنی محبت کا مادہ رکھ دیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف انسان خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے بلکہ یہ کہ ہم نے خود انسان کے اندر محبت کا مادہ پیدا کیا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کسبی ہوتی ہیں اور بعض چیزیں کسبی نہیں بلکہ فطرتی ہوتی ہیں۔ خداتعالیٰ کی محبت بھی کوئی کسبی چیز نہیں بلکہ وہ ایک فطرتی مادہ ہے جو ہر انسان کے اندر پایا جاتا ہے۔ جب تم ان ساری چیزوں پر غور کرو گے تو آخر تم اسی نتیجہ پر پہنچو گے کہ خدا تعالیٰ سے محبت ہوسکتی ہے۔
پس اسلام تعلق بِاللہ کو نہ صرف ممکن بلکہ انسان کی اغراضِ پیدائش میں سے قرار دیتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے۔ عَنْ اَبِیْ ہُرِیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلّٰہِ اَشَدُّ فَرْحًا بِتَوْبَۃِ اَحَدِکُمْ مِنْ اَحَدِکُمْ بِضَالَّتِہٖ اِذَا وَجَدَھَا20یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ خدا اپنے بندہ کی توبہ پر اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری سفر میں گم ہو جائے اور پھر وہ اُسے مل جائے۔ عرب جیسے مُلک میں سفر کی حالت میں اگر کسی شخص کی سواری گم ہو جائے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ کتنی خطرناک بات ہے۔ میلوں میل پر ایسے شخص کو نہ پانی مل سکتا ہے نہ کھانے کیلئے کوئی چیز مل سکتی ہے اور نہ کوئی اَور ایسا شخص مل سکتا ہے جو اُسے منزلِ مقصود پر پہنچنے میں مدد دے۔ ایسی حالت میں اگر اُس کی گمشدہ سواری اُسے مل جائے تو جو خوشی ایسے شخص کو ہو سکتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اُس کا کوئی بندہ اُس کے حضور توبہ کرتا ہے۔ دیکھو اس میں بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کو خداتعالیٰ کی طرف رجوع ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے بلکہ ایک زائد بات بھی اس میں بتائی گئی ہے اور وہ زائد بات یہ ہے کہ ضَالَّۃٌ 21 گمشدہ سواری کو کہتے ہیں۔ اور بندے کے توبہ کی مثال گمشدہ سواری سے دینا اپنے اندر یہ حکمت رکھتا ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی سواری ہے جس سے وہ سفر کرتا ہے یعنی اپنی صفات کو دنیا میں جاری کرتا ہے۔ اگر یہ حکمت مدنظر نہ ہوتی تو گمشدہ سواری کی مثال دینے کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ خداتعالیٰ کو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی کسی شخص کو اپنی کھوئی ہوئی دولت کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ مثال کے لئے سواری کو مخصوص کرنا بتاتا ہے کہ انسان بھی اللہ تعالیٰ کی ایک سواری ہے۔ سواری کے معنی اُس چیز کے ہوتے ہیں جس کے ذریعہ سے اُس کا سوار اپنی منزلِ مقصود تک پہنچتا ہے۔ پس جس طرح گدھے اور گھوڑے اور اونٹ کا انسان محتاج ہے اور وہ اُن پر سواری کرتا ہے تا کہ وہ جلد منزلِ مقصود پر پہنچ سکے۔ اِسی طرح خدا بھی اپنے ظہور کے لئے کسی نیک بندے کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ انسان اونٹنی بنتا ہے اور خدا اس پر سوار ہوتا ہے اور جس طرح اُسی سواری سے سفر اچھا ہوتا ہے جو سِدھی ہوئی ہو اِسی طرح انسان بھی وہی کام کا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے سِدھ جائے اور اُس کے اشاروں کو سمجھنے لگے۔ گویا خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے کی مثال ایک سواری کی سی ہے جو خدا تعالیٰ کے کام آتی ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو اس دنیا سے خداتعالیٰ روشناس بھی نہ ہو۔ تمثیلی زبان میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو اس بات کا محتاج قرار دیا ہے کہ انسان اُس کی سواری بنے تا کہ دنیا میں اُس کا ظہور ہو اور اُس کی صفات اس عالَم میں ظاہر ہوں۔
غرض قرآن کریم و حدیث سے ثابت ہے کہ انسان کی پیدائش تعلق بِاللہ کے لئے ہے اور یہ کہ تعلق بِاللہ دونوں طرح کا ہوتا ہے۔ بندے کا خدا سے اور خدا کا بندے سے۔ جیسا کہ حدیث بالا میں توبہ پر خدا کی خوشی کا ذکر ہے اور انسان کو خداتعالیٰ کی سواری قرار دیا گیاہے۔ نیز اُس حدیث میں بھی اس کا ذکر آتا ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا اُس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے۔ اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے22 اور یہ مقام جس کا ذکر کیا گیا ہے یعنی خداتعالیٰ سے انسان کا ایسا گہرا تعلق قائم ہو جانا کہ انسان اُس کی سواری بن جائے اور خداتعالیٰ کا اپنے بندے کو اس قدر قریب کرنا کہ اُس کے کان اور اُس کی آنکھیں اور اُس کے ہاتھ اور اُس کے پاؤں اُس کے نہ رہیں بلکہ خداتعالیٰ کے بن جائیں۔ یہ خالی اطاعت و امتثال اور انعام نہیں ہو سکتے کیونکہ اِن امور کا تعلق فکر سے ہے جذبات سے نہیں۔ اطاعت ایک فلسفیانہ چیز ہے اور خداتعالیٰ کا ملنا ایک حِسّیاتی چیز ہے۔ اطاعت اور امتثال محض دماغی کیفیات سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور خداتعالیٰ کا اس قدر قریب ہو جانا کہ انسان اُس کی سواری بن جائے اور خدا اُس کے ہاتھ پاؤں بن جائے یہ دل کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور ظاہر ہے کہ حِسّ و جذبات ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق دائمی ہوتا ہے اور دماغ ایسی چیز ہے جس کا تعلق عارضی ہوتا ہے تم جاگ رہے ہو تو مکھی جب تمہارے جسم پر بیٹھنے کے لئے آتی ہے تو تم ہاتھ مارتے ہو تا کہ مکھی تم سے دور ہو جائے لیکن سوتے ہوئے اگر مکھی تمہارے قریب آتی ہے تو تمہیں رعشہ کا مرض ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ نہیں ہوتا کہ سونے کی حالت میں اُس کے آنے سے پہلے ہی اُس کو ہٹانے کی کوشش کرو۔ یا دشمن آتا ہے اور تم پر حملہ کرتا ہے اور پھر تم سو جاتے ہو تو یہ کہ تم سوتے سوتے یہ سوچتے رہو کہ اگر پھر دشمن تم پر حملہ کر دے تو تم اس کا کس طرح مقابلہ کرو گے۔ بلکہ اگر تمہارے سوتے ہوئے گھر میں کوئی دشمن آ جائے اور تمہاری بیوی یا بیٹا اُس کا مقابلہ کر کے اُسے بھگا دیں تو تم بعد میں شکوہ کرتے ہو اپنے بیٹے سے یا شکوہ کرتے ہو اپنی بیوی سے کہ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں ورنہ مجھے بھی پتہ لگ جاتا اور میں بھی تمہاری مدد کرتا۔ تو عقلی تعلق صرف جاگتے ہوئے چلتا ہے اور سونے کی حالت میں وہ اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ صرف تحتَ الشعور ہی میں اُس تعلق کا احساس رہتا ہے اور وہ بھی بہت محدود رنگ میں لیکن جذباتی اور قلبی تعلق ایسا نمایاں ہوتا ہے کہ جاگتے ہوئے بھی اُس کا خیال رہتا ہے اور سوتے ہوئے بھی اُسی کا خیال رہتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو ماں سوتے سوتے اپنے بچہ کو گلے سے چمٹائے رہتی ہے اور سونے کی حالت میں ہی کبھی وہ اسے پیار کرتی ہے کبھی پچکارتی ہے اور کبھی اُسے سینہ سے لگاتی ہے۔ اگر اُسی حالت میں کوئی چور اُس کا مال اُٹھا کر لے جائے تو اُسے خبر بھی نہیں ہوتی کیونکہ مال کا تعلق فکر سے ہے جذبات سے نہیں۔ لیکن بچہ کی محبت سونے کی حالت میں بھی قائم رہتی ہے۔ اِدھر ماں بچہ کو پیار کر رہی ہوتی ہے اور بچہ اپنی ماں کی چھاتیاں منہ میں ڈالے چوس رہا ہوتا ہے اور وہ دونوں سو رہے ہوتے ہیں تو جذبات ہر وقت قائم رہتے ہیں۔ جب یہ پیدا ہو جائیں تو اُن کے لئے جاگنا اور سونا برابر ہوتا ہے لیکن دماغی کیفیتیں جاگتے وقت نمایاں ہوتی ہیں اور سوتے وقت غائب ہو جاتی ہیں اور جب جگاؤ تو اُن کیفیات کو دماغ میں مستحضر کرنے کے لئے ایک فاصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ماں کی آنکھ کھلے تو بچہ کی محبت آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی آ جائے گی لیکن گھر میں سانپ نکل آئے اور کسی سوئے ہوئے آدمی کو جگایا جائے تو آنکھ کھلنے پر فوری طور پر اُس کا ذہن خطرہ کی طرف منتقل نہیں ہوتا بلکہ اُسے درمیان کا فاصلہ طَے کرنے کے لئے کچھ وقفہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن جذبات میں ایک تسلسل چلتا ہے جو سوتے جاگتے ہر وقت قائم رہتا ہے۔
اس تعلق کے اظہار کے لئے عربی زبان میں مختلف الفاظ پائے جاتے ہیں مثلاً رغبت، شوق، اُنس، وُدْ، محبت، خُلّۃ، عشق۔ اِن کے سوا بعض اَور بھی الفاظ ہیں مگر یہ چند موٹے موٹے الفاظ ہیں جو میں نے چن لئے ہیں۔
شوق اَور عشق
شوق اور عشق کا لفظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہؤا، نہ بندے کے خدا سے تعلق کے متعلق استعمال ہؤا ہے اور نہ خدا کے
بندے سے تعلق کے متعلق استعمال ہؤا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کے لحاظ سے شوق میں وسعت کا مادّہ نہیں پایا جاتا لیکن جو شوق کے معنی ہیں وہ رغبت کے معنوں میں بھی آ جاتے ہیں اور پھر رغبت کے لفظ میں عربی زبان کے لحاظ سے وسعت بھی پائی جاتی ہے چونکہ جس شخص سے بھی خدا تعالیٰ کو محبت ہوگی لازماً وہ محبت انسانی محبت سے زیادہ ہوگی اور جس شخص کے دل میں بھی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا خیال پیدا ہوگا وہ یہی چاہے گا کہ میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کروں۔ یہ نہیں کہ وہ کہے گا میں اتنی محبت کروں گا جتنی مجھے مثلاً اپنی بکری سے ہے یا جتنی محبت مجھے اپنے گھوڑے سے ہے اور شوق میں وسعت نہیں پاتی جاتی اِس لئے نہ بندے کے اُس تعلق کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو اُس کا خداتعالیٰ سے ہوتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے اس تعلق کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو اُس کا اپنے بندے سے ہوتا ہے۔ شوق کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ چیز ابھی ملی نہیں جس کی ہمارے دل میں خواہش پائی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس مفہوم کے لحاظ سے خداتعالیٰ کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہو سکتا۔ ورنہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ کہنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ کو بھی بعض چیزوں کی خواہش ہوتی ہے مگر وہ اُسے ملتی نہیں۔ اسی طرح عشق کا لفظ بھی نہ قرآن کریم میں استعمال ہؤا ہے اور نہ جہاں تک مجھے علم ہے حدیثوں میں استعمال ہوا ہے۔ نہ اُس تعلق کے اظہار کے لئے جو بندے کا خدا سے ہوتا ہے اور نہ اُس تعلق کے اظہار کے لئے جوخدا کا اپنے بندے سے ہوتا ہے۔ حالانکہ عشق بڑی شدید محبت کو کہتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ نہایت شدید محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے پھر بھی خدا تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ تم مجھ سے عشق کرو اور نہ یہ کہتا ہے کہ فلاں بندے کو مجھ سے عشق تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق کے معنی لغت کی وضع کے لحاظ سے کچھ پسندیدہ معنے نہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوفیاء نے یہ لفظ استعمال کیا ہے اور میں جو تردید کر رہا ہوں خود میرے شعروںمیں بھی کئی جگہ عشق کا لفظ آیا ہے مگر وہ استعمال اُردو شاعری کے لحاظ سے ہے بحیثیت عربی دان ہونے کے نہیں۔ عربی میں اس لفظ کا استعمال خدا تعالیٰ کے لئے پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق کے معنوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایسی محبت ہو جو انسان کو ہلاکت تک پہنچا دے اور یہ بات ایسی ہے جو نہ اُس انسان کے متعلق کہی جا سکتی ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت کر رہا ہو اور نہ خدا تعالیٰ کے متعلق کہی جا سکتی ہے جو اپنے کسی بندے سے محبت کر رہا ہو۔ خداتعالیٰ جو منبعِ حیات ہے اُس کے لئے اگر کوئی شخص شدید محبت رکھے گا تو اُس کی محبت بڑھے گی اور ترقی کرے گی اور اُسے ایک نئی زندگی عطا ہوگی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کی محبت اُسے ہلاک کر دے۔ اسی طرح خداتعالیٰ کی اُس محبت پر بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہو سکتا جو وہ اپنے بندوں سے رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ تو خود منبع حیات ہے اور جو فنا نہیں ہو سکتا اُس کے متعلق یہ کہنا کہ محبت اُسے ہلاکت تک پہنچا دے گی بالکل غلط ہوگا۔ پس چونکہ عشق کے معنوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس سے عقل میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ ایسی محبت کرنے والا ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے اور یہ چیزیں خداتعالیٰ کی محبت میں انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتیں اور نہ خدا تعالیٰ کی اُس محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں جو وہ اپنے بندوں سے رکھتا ہے۔ اِس لئے نہ قرآن میں اور نہ کسی حدیث صحیح میں بندے اور خدا کی محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال ہؤا ہے۔ میں نے یہ وضاحت اس لئے کی ہے کہ ہمارے مُلک میں عشق کا لفظ انتہائی محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن قرآن اور حدیث میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا اور اِس کی وجہ میں نے بتا دی ہے کہ عربی لغت کے لحاظ سے عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جو ہلاکت اور بربادی تک پہنچا دے۔ پس گو عام محاورہ کے لحاظ سے ہم اپنی زبان میں کبھی کہہ بھی دیتے ہیں فلاں شخص خداتعالیٰ سے عشق رکھتا ہے لیکن عربی زبان کے لحاظ سے اس لفظ کا استعمال صحیح نہیں ہوتا کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ نہ کوئی انسان عقل صحیح سے کام لیتے ہوئے خداتعالیٰ سے عشق کر سکتا ہے اور نہ کوئی انسان ایسا ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے عشق کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کو ہلاکت اور بربادی سے بچاتی ہے ہلاکت اور بربادی تک لے جاتی نہیں۔
اب باقی رہ گئے رغبت، اُنس، وُدْ، محبت اور خُلّۃ کے الفاظ۔ یہ الفاظ کسی جگہ پر بندے کے خدا سے تعلق کی نسبت اور کسی جگہ پر خدا تعالیٰ کے بندے سے تعلق کی نسبت قرآن و حدیث میں استعمال کئے گئے ہیں۔ آگے چل کر میں بیان کروں گا کہ اِن مختلف الفاظ میں کیا حکمت ہے اور ہر لفظ محبت کے کس رنگ یا کس درجہ کو ظاہر کرتا ہے۔
رغبت
سب سے پہلے میں یہ بتاتا ہوں کہ رغبت کے عربی زبان میں کیا معنی ہیں رَغِبَہٗ کے معنی ہوتے ہیں اَرَادَہٗ بِالْحِرْصِ عَلَیْہِ وَ اَحَبَّہٗ 23 اُس نے ارادہ
کیا حرص کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اور ایسی محبت کے ساتھ جس میں وسعت پائی جاتی ہے۔ گویا جب ہم کسی کے متعلق یہ کہیں کہ وہ کسی سے رغبت رکھتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اُس سے محبت رکھتا ہے۔ اُس کا دل چاہتا ہے کہ اُس سے ملے۔ اُس کی چاہت اُس کے دل میں پائی جاتی ہے اور چاہت بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی وسیع ہے۔ اب اُردو کے لحاظ سے تو لوگ کہیں گے کہ خوب مضمون ہے جو اِس چھوٹے سے لفظ کے اندر آگیا۔ لیکن عربی زبان کے لحاظ سے محبت کا یہ سب سے چھوٹا مضمون ہے جو اس لفظ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔
غرض رغبت کے معنی ہیں ملاقات کا ارادہ کرنا اور ارادہ بھی کسی اور غرض کے لئے نہ ہو بلکہ محض پیار کے لئے ہو اور وہ ارادہ بھی معمولی نہ ہو بلکہ بہت تیز ہو۔
پھر رَغِبَ اِلَیْہِ کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ اِبْتَھَلَ24یعنی عجز کرنا اور بہت ہی منکسرانہ طور پر اخلاص اور تضرع سے دعا کرنا۔ گویا رغبت کے یہ معنی ہوئے کہ مومنوں کا اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ وہ عجز و انکسار سے اُس کے حضور دعائیں کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی مومنوں کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ يَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا25 مؤمن بندے ہمیں عجز اور انکسار کے ساتھ پکارتے ہیں کیونکہ اُن کے دلوں میں ہماری شدید محبت ہوتی ہے۔ یہاں اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کا محب ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے۔ اور وہ ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ عجز اور انکسار کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکے ہوتے ہیں۔ اِسی طرح مومنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ26 ہم اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہیں۔ پہلے تھی خدا کی گواہی کہ دنیا میں میرے ایسے بندے موجود ہیں جن کے دلوں میں میری محبت ہے اور محبت بھی تیز اور محبت بھی معرفت والی اور عجز اور انکسار والی۔ اب فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جب اُنہیں کہا جائے کہ تم کون ہو؟ تو وہ دھڑلّے سے چیلنج کرتے ہیں لوگوں کو، اور کہتے ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرنے والے ہیں۔ جب لوگ اُن کو اپنی طرف بُلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں دنیا میں مال دیں گے۔ بڑی بڑی نعمتیں دیں گے تو وہ جواب میں کہتے ہیں تم اپنی چیزوں کو اپنے پاس رکھو ہمارا محبوب تو وہ بیٹھا ہے۔بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اِس قسم کا دعویٰ کرنا گستاخی اور بے ادبی ہے۔ حالانکہ یہ خیال مذہب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص حافظ محمد صاحب پشاور کے رہنے والے تھے۔ قرآن کریم کے حافظ تھے اور سخت جوشیلے احمدی تھے۔ میرا خیال ہے وہ اہلحدیث رہ چکے تھے کیونکہ اُن کے خیالات میں بہت زیادہ سختی پائی جاتی تھی۔ وہ ایک دفعہ جلسہ پر آئے ہوئے تھے اور قادیان سے واپس جا رہے تھے کہ راستہ میں خداتعالیٰ کی خشیت کی باتیں شروع ہو گئیں۔ کسی شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو بہت بڑی ہے ہم لوگ تو بالکل ذلیل اور حقیر ہیں پتہ نہیں کہ خدا ہماری نماز بھی قبول کرتا ہے یا نہیں، ہمارے روزے بھی قبول کرتا ہے یا نہیں، ہماری زکوٰۃ اور حج بھی قبول کرتا ہے یا نہیں۔ اس پر ایک دوسرا شخص بولا کہ اللہ تعالیٰ کی بڑی شان ہے میں تو کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ میں مومن بھی ہوں یا نہیں۔ حافظ محمد صاحب ایک کونہ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ یہ باتیں سنتے ہی اُس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ کیا یہ سمجھتے ہو کہ تم مومن ہو یا نہیں؟ اُس نے کہا میں تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں مومن ہوں یا نہیں۔ حافظ محمد صاحب کہنے لگے اچھا اگر یہ بات ہے تو آج سے میں نے تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھنی۔ باقیوں نے کہا حافظ صاحب! اس کی بات ٹھیک ہے ایمان کا مقام تو بہت ہی بلند ہے۔ کہنے لگے اچھا پھر تم سب کے پیچھے نماز بند۔ جب تم اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے تو تمہارے پیچھے نماز کس طرح ہو سکتی ہے۔ غرض دوست پشاور پہنچے اور حافظ صاحب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چھوڑ دی۔ جب پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ تم تو اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے میں تمہارے پیچھے نماز کس طرح پڑھوں۔ آخر جب فساد بڑھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ حافظ صاحب ٹھیک کہتے ہیں مگر یہ اُن کی غلطی تھی کہ اُنہوں نے اُن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی ہی چھوڑ دی کیونکہ اُنہوں نے کفر نہیں کیا تھا لیکن بات ٹھیک ہے۔ ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے آپ پر حسن ظنی کرتے۔ جہاں تک کوشش کا سوال ہے انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھے اور نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرے۔ مگر یہ کہ مومن ہونے سے ہی انکار کر دے یہ غلط طریق ہے۔ پس مسئلہ اُن کا ٹھیک ہے لیکن فعل اُن کا غلط ہے۔ انہیں اپنے دوستوں کے پیچھے نماز نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔ صوفیاء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیدہ و دانستہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ میں اپنے نفس کو ٹٹولتا ہوں تو مجھے نظر نہیں آتا کہ اُس میں ایمان پایا جاتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ مومن کہتے ہیں اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ۔ ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہیں۔ پس مومنوں کو سب سے پہلے اپنے آپ پر اعتبار کرنا چاہئے۔ یہ اَور بات ہے کہ وہ اپنے نفس میں کمزوریاں محسوس کریں اور سمجھیں کہ ابھی اُنہیں اَور زیادہ ترقی کی ضرورت ہے مگر اِس کا علاج یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو بدلیں۔ اُس کی اصلاح کریں اور کمزوریوں پر غالب آنے کی کوشش کریں۔ اِسی طرح دوسروں سے بھی کہیں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں مزید ترقیات عطا فرمائے اور ہماری کمزوریوں پر پردہ ڈالے لیکن جب واقع میں اُن کی سمجھ میں آگیا کہ خداتعالیٰ ہے اور اُس کے احکام پر عمل کرنا اُن کا فرض ہے تو اُن کے مؤمن ہونے میں کیا شُبہ رہا۔
اِسی طرح سورۃ قلم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مؤمن کہتے ہیں اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ 27 ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رغبت رکھتے ہیں۔
مفردات راغب میں جو قرآن کریم کی ایک پُرانی لغت کی کتاب ہے علامہ اصفہانی لکھتے ہیں کہ اَصْلُ الرَّغْبَۃِ اَلسَّعَۃُ فِی الشَّيْ ءِ۔28 یعنی رغبت کے اصل معنی کسی چیز میں وُسعت پیدا ہو جانے کے ہیں یُقَالُ رَغُبَ الشَّيْءُ اتَّسَعَ۔29 عرب کہتے ہیں فلاں چیز رغیب ہوگئی یعنی فلاں چیز بہت وسیع ہوگئی30 اور کہتے ہیں حَوْضٌ رَغِیْبٌ31 فلاں حوض بڑا وسیع ہے اور کہتے ہیں فَرَسٌ رَغِیْبُ الْعَدَدِ فلاں گھوڑا بڑے لمبے قدم مار کر چلتا ہے۔ گویا عربی میں رغبت کے اصل معنی وسعت کے ہیں۔ پھر کہتے ہیں اَلرَّغْبَۃُ اَلسَّعَۃُ فِی الْاِرَادَۃِ۔32 ارادہ کی وسعت پر بھی رغبت کا لفظ بولا جاتا ہے اور رَغِبَ فِیْہِ وَاِلَیْہِ کے معنی ہیں یَقْتَضِی الْحِرْصَ عَلَیْہِ۔33 وہ شدتِ حرص کے ساتھ اس چیز کو طلب کرتا ہے۔ گویا کسی چیز کی طلب کی وُسعت اور اس کے حصول کے لئے خواہش کی شدت کو رغبت کہا جاتا ہے۔ پس خداتعالیٰ کی رغبت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ملنے کی زبردست اور وسیع خواہش انسان کے دل میں پیدا ہو جائے۔
دوسرا لفظ اُنس ہے۔ اَنِسَ یَأْنَسُ کے معنی ہوتے ہیں اَلِفَہٗ 34 اُس چیز سے اُلفت ہوگئی وَسَکَنَ قَلْبُہٗ بِہٖ35 اور اُس چیز کے ملنے سے دل کو تسکین ہوگئی گویا اُنس کے معنی ہیں وہ چیز جس کی جستجو تھی مل جائے اور اُس کے ملنے سے دل کی گھبراہٹ دور ہو جائے۔ وَلَمْ یَنْفَرْمِنْہُ 36 اور جس کے پاس آنے سے وحشت پیدا نہ ہو۔ جیسے اگر کوئی غیر آ کر بیٹھ جائے تو انسان چاہتا ہے کہ وہ جلدی اُٹھ جائے لیکن اگر کوئی بے تکلف دوست آ بیٹھے یا بیوی کام کرتے ہوئے آجائے یا بچہ ملنے کے لئے آ جائے اور تھوڑی دیر کے بعد جانے لگے تو انسان کہتا ہے کہ ابھی کچھ اور بیٹھو اتنی جلدی کیوں چلے ہو۔ یہ اُنس کی علامت ہوتی ہے لیکن جس سے وحشت ہوتی ہے انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ جلدی علیحدہ ہو جائے۔ اِسی لئے لغت میں لکھا ہے۔ اَلْاُنْسُ ضِدُّ الْوَحْشَۃِ۔37 اُنس وحشت کی ضد کو کہتے ہیں۔ پھر لکھا ہے اِلْاِنْسُ خِلَافَ الْجِنِّ۔38 اِنس جن کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ وَالْاُنْسُ خِلَافَ النُّفُوْرِ 39 اور اُنس، نفور کے خلاف چیز ہے۔ کہتے ہیں مجھے فلاں سے اُنس ہے یعنی مجھے اُس سے نفرت نہیں۔ وَالْاِنْسِیُّ مَنْسُوْبٌ اِلَی الْاُنْسِ یُقَالُ ذٰلِکَ لِمَنْ کَثُرَاُنْسُہٗ40 اور اِنْسِیٌّ کے معنی ہوتے ہیں انسانوں سے تعلق رکھنے والی چیز خصوصاً جس چیز کا زیادہ اُنس ہو یا جو چیز زیادہ اُنس کرے اُسے اِنْسِیٌّ کہتے ہیں۔ وَلِکُلِّ مَایُوْنَسُ بِہٖ41 اور جس کے ساتھ تعلق ہو اُسے بھی اِنْسِیٌّ کہتے ہیں۔ وَلِھٰذَا قِیْلَ اِنْسِیُّ الدَّابَّۃِ لِلْجَانِبِ الَّذِیْ یَلِی الرَّاکِب42 اسی لئے گھوڑے کی وہ جانب جو سوار کی طرف ہو اُسے اِنْسِیُّ الدَّابَّۃِ کہیں گے۔ مثلاً اِس وقت میرے سامنے لاؤڈ سپیکر پڑا ہے اِس کا ایک حصہ میری طرف ہے اور دوسرا حصہ آپ لوگوں کی طرف۔ یہ حصہ میرا اِنْسِی ہے اور وہ حصہ آپ لوگوں کا اِنْسِی ہے۔ گویا جو حصہ کسی کی طرف جھکتا ہو اور اس سے ملتا ہو اُسے اِنْسِی کہیں گے وَالْاِنْسِیُّ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَایَلِی الْاِنْسَان43 اور ہر وہ چیز جس کا انسان کی طرف منہ ہوتا ہے اُسے اِنْسِی کہتے ہیں۔
اس تشریح سے ظاہر ہے کہ جہاں رغبت کے معنی وُسعتِ تعلق کے ہیں وہاں اُنس کے معنی صرف رغبت کے نہیں بلکہ اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ وہ چیز قریب بھی آ گئی ہے اور اُس نے اپنا منہ اِدھر کر لیا ہے۔ پس اُنس دل کی تسلی اور قرب پر دلالت کرتا ہے۔ خالی شوق سے نہ دل کی تسلی ہوتی ہے اور نہ اپنے محبوب کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح رغبت صرف یہ دلالت کرتی تھی کہ مجھے اُس کے ساتھ محبت ہے لیکن اُنس اس پر دلالت کرتا ہے کہ میری محبت نے اُس کا منہ بھی میری طرف پھیر دیا ہے اور چونکہ اُس کا منہ میری طرف ہو گیا ہے اِس لئے میرے دل کو تسلی ہوگئی ہے اور گھبراہٹ جاتی رہی ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جا رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک آگ دیکھی اور اپنے اہل سے کہا کہ اِنِّیْ اٰنَسْتُ نَارًا44 ایک آگ کو دیکھ کر میرے دل نے تسلی پائی ہے۔ چونکہ اٰنَسَ کے اصلی معنی قرب اور تسلی کے ہیں۔ ایناس دیکھنے اور سننے کے معنوں میں بھی آتا ہے کیونکہ دیکھی اور سنی وہی چیز جاتی ہے جو قریب ہو جاتی ہے۔ پس اٰنَسْتُ ناراً کے معنی یہ ہیں کہ مجھے آگ کی تلاش تھی اب ایک قسم کی آگ مجھے نظر آئی ہے اور میرے دل کو تسلی ہو گئی ہے کہ میری ضرورت پوری ہو گئی۔
تیسرا لفظ وُدْ ہے۔ وُدْ اُس محبت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ تمنّی بھی ہو یعنی صرف محبت ہی نہ ہو بلکہ اُس کے ساتھ تمنّی اور خواہش بھی پائی جاتی ہو کہ وہ چیز مجھے مل جائے۔ گویا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ لَو لگ جائے۔ یہ لفظ وَدْ کی شکل میں بھی استعمال ہوتا ہے، وِدْ کی شکل میں بھی اور وُدْ کی شکل میں بھی۔ اور تینوں شکلوں میں محبت کے معنوں میں ہی آتا ہے۔ اِس کے معنی محبت کے بھی ہیں اور بہت محبت کے بھی ہیں۔ اِس کے معنوں کی حقیقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ وَدْ عربی زبان میں وَتَدٌ45 یعنی میخ کو بھی کہتے ہیں۔ اِس وجہ سے کہ اُس کے ذریعہ سے جانور کو زمین کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ گویا وُدْ ایسی محبت کا نام ہے جو محب اور محبوب دونوں کو اس طرح جوڑ دیتی ہے جیسے کِیلا گاڑ کر جانور کو باندھ دیتے ہیں اور وہ زمین کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے۔ رغبت کے معنی یہ تھے کہ میرے دل میں شوق پیدا ہو گیا ہے اگلے کا پتہ نہیں کہ اُس کے دل میں بھی کوئی شوق پیدا ہؤا ہے یا نہیں۔ اُنس کے یہ معنی تھے کہ میرے دل میں بھی شوق پیدا ہو گیا ہے اور اگلے کے دل پر بھی میری محبت کا اتنا اثر ہو چکا ہے کہ اُس نے اپنا منہ میری طرف کر لیا ہے اور وُدْ کے یہ معنی ہیں کہ صرف اُس نے منہ ہی نہیں کیا بلکہ محبت نے ہماری آپس میں گرہ باندھ دی ہے۔ پس وُدْ وہ محبت ہے جو گہرا اور مضبوط تعلق پیدا کر دے اور ایک کو دوسرے سے وابستہ کر دے۔
رغبت اور اُنس کے الفاظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت نہیں آتے۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جب ملنے کی خواہش کرے گا تو وہ پوری بھی ہو جائے گی اور رغبت کا لفظ خواہش کے پورا ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اِسی طرح اُنس کا لفظ بھی اللہ تعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں ہوتا کیونکہ اُنس کے یہ معنی ہیں کہ محبت ہے اور دیدار بھی ہو گیا لیکن اُسے قریب نہیں لاسکا اور اللہ تعالیٰ کی محبت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں بندے کے الگ رہنے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اُسے خود اپنے قرب میں کھینچ لیتا ہے جیسے مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ پس چونکہ خدا اپنے مقربین کو خود اپنی طرف کھینچتا ہے اِس لئے خدا تعالیٰ کے متعلق اُنس کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ اُنس صرف بندے کے اندر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں جو کفار کے بتوں کے نام آئے ہیں اُن میں سے ایک بت کا نام وُدْ 46 بھی آیا ہے۔ کیونکہ مشرکین کا خیال تھا کہ اِس بُت کا خدا تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق ہے جیسے کیلے کا زمین سے ہوتا ہے۔ اِسی طرح مؤمنوں کے متعلق فرماتا ہے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا 47 خدا اُن کے لئے وُدْ پیدا کر دے گا قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بعض جگہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جن کو چکر دے کر کئی کئی مضامین نکل آتے ہیں۔ یہاں بھی اسی قسم کا طریق اختیار کیا گیا ہے۔ اِس جگہ لَهُمْ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں اُن کے فائدہ کے لئے کیونکہ لام فائدہ کے لئے آتا ہے مگر یہ کہ کس کس امر کے متعلق وُدْ پیدا کرے گا اسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تا کہ جتنے معانی پیدا ہو سکتے ہوں وہ اس ایک لفظ سے ہی پیدا ہو جائیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے ایک تو یہ معنی بنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے لئے اُن کے دلوں میں وُدْ پیدا کرے گا یعنی بنی نوع انسان کی خیر خواہی کا جذبہ اُن کے دلوں میں پیدا ہوگا اور وہ مخلوق کی ہمدردی اور اُن کی بہتری اور ترقی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اُن کی خدمت میں مشغول ہو جائیں گے۔
پھر انسان کو اس امر کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو۔ اس لحاظ سے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کر دے گا۔
پھر انسان یہ چاہتا ہے کہ نہ صرف اُس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو بلکہ خدا بھی اپنی محبت کا اُسے مورد بنا لے اور اُسے اپنے خاص فضلوں میں سے حصہ دے۔ اس لحاظ سے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نفس میں اُن کی محبت پیدا کر دے گا اور اُن کو اپنی محبت کا مورد بنا لے گا۔
پھر انسان کو اس امر کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کے رشتہ داروں اور عزیزوں اور دوستوں میں اُس کی عزت ہو۔ اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اپنے شہر اور مُلک والوں میں اُسے نیک نامی حاصل ہو۔ انسان کی اس خواہش کو بھی سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا میں پورا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں بھی اُن کی محبت ڈالے گا۔ گویا ہر پہلو کے لحاظ سے اس محبت کو کامل کیا گیا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ خدا سے مجھ کو محبت ہو جائے۔ انسان چاہتا ہے کہ خدا کواُس سے محبت ہو جائے۔ انسان چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان اُس سے محبت کرنے لگیں اور انسان چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان کی محبت اُس کے دل میں پیدا ہو جائے اور یہ چاروں محبتیں سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کی آیت کی رُو سے مومنوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ اِن الفاظ کی بجائے صرف اتنا فرماتا کہ میں اُن سے محبت کروں گا تو ایک معنی تو آ جاتے مگر تین معنی رہ جاتے۔ اگر یہ فرماتا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کریں گے اور میں بھی اُن سے محبت کروں گا تو دو معنی آجاتے اور دو رہ جاتے۔ اگر فرماتا کہ میں اُنہیں نیک شہرت دوں گا تو ایک معنی آ جاتے اور تین رہ جاتے۔ اگر فرماتا کہ میں اُنہیں نیک شہرت بھی دوں گا، اُن کے دلوں میں اپنی محبت بھی پیدا کروں گا اور اپنی محبت کا بھی اُنہیں مورِد بناؤں گا تب بھی تین معنی آ جاتے اور چوتھے معنی جو شفقت علی النّاس سے تعلق رکھتے ہیں وہ رہ جاتے۔ اب اللہ تعالیٰ نے آیت ایک رکھی ہے مگر معنی چاروں کے چاروں اس میں آ گئے ہیں۔ یہ معنی بھی اِس میں آ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرے گا۔ یہ معنی بھی اس میں آ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنی محبت کا مورد بنائے گا۔ یہ معنی بھی اس میں آ گئے ہیں کہ بنی نوع انسان کے دلوں میں اُن کی محبت پیدا کرے گا اور یہ معنی بھی اس میں آ گئے ہیں کہ بنی نوع انسان کی محبت اُن کے دلوں میں پیدا کر دے گا یعنی شفقت علی الناس کے لحاظ سے بھی اُنہیں ایک نمونہ بنا دے گا۔ گویا وہ دنیا میں بھی مقبول ہوں گے اور آخرت میں بھی مقبول ہوں گے۔ وہ محبوب ہوں گے بنی نوع انسان کی نگاہ میں اور محبوب ہوں گے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں۔ یہ چار مطالب ایک چھوٹے سے فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ادا کر دیئے ہیں۔
اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے اِنَّ رَبِّيْ رَحِيْمٌ وَّدُوْدٌ 48میرا رَبّ رحیم اور ودُود ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے خدا راغب نہیں ہوتا کیونکہ رغبت میں ناقص محبت ہوتی ہے۔ خدا انیس نہیں ہوتا کیونکہ انیس بھی محبت کے لحاظ سے ناقص ہوتا ہے۔ خدا ودُود ہوتا ہے۔ وَدُوْد کے معنی ہیں بہت محبت کرنے والا۔ گویا خدا یہ بتاتا ہے کہ میں خالی وَادٌّ (وَادِدْ) نہیں بلکہ وَدُوْد ہوں۔ میں بہت محبت کرنے والا نہیں بلکہ بہت بہت محبت کرنے والا ہوں۔
پھرسورۃ بروج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ 49 خدا بڑا غفور اور وَدُود ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے راغب اور اٰنِسْ کا لفظ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوا کیونکہ رغبت اور اُنس کمزور یا معمولی تعلق پر دلالت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا تعلق کمزور یا معمولی نہیں ہؤا کرتا۔ بندے کا تعلق تو کمزور ہو سکتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خداتعالیٰ کا تعلق کمزور ہو جیسے ماں کا تعلق اولاد سے ہمیشہ شدید ہوتا ہے لیکن اولاد اکثر بے پرواہ ہوتی ہے اور کچھ ہی ہوتے ہیں جو اپنی ماں کا حق ادا کرتے ہیں۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے متعلق رغبت اور اُنس کے لفظ استعمال نہیں ہوتے۔ صرف وُدْ کا لفظ استعمال ہؤا ہے جو اِن دو سے زیادہ طاقتور ہے اور وُدْ کا بھی صیغہ فاعل استعمال نہیں ہوا۔ صیغہ فعول استعمال ہؤا ہے جو شدت اور وسعت پر دلالت کرتا ہے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ جب یہ لفظ ناقص ہیں تو انسان کی نسبت کیوں استعمال ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ انسان خود ناقص ہے اور ناقص محبت کر سکتا ہے بلکہ عام طور پر اُس کے دل میں ناقص صورت میں ہی محبت پیدا ہوتی ہے اس لئے انسان کی نسبت یہ الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں لیکن چونکہ خداتعالیٰ کامل ہے اور وہ جب کرے گا کامل محبت ہی کرے گا اس لئے وہ الفاظ جو ناقص محبت پر دلالت کرتے ہیں خداتعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں ہو سکتے۔ خداتعالیٰ جب بھی اپنے کسی بندہ سے محبت شروع کرے گا اُس کا پہلا درجہ وُدْ سے شروع ہوگا۔ یعنی اگر کسی میں خداتعالیٰ کی طرف رغبت پائی جاتی ہے تو خداتعالیٰ اُس کی محبت کا جواب رغبت کی شکل میں نہیں بلکہ وُدْ کی شکل میں دے گا۔ اِسی طرح اگر کسی شخص میں خدا تعالیٰ کی طرف اُنس پایا جائے گا تو خدا تعالیٰ اُنس کی شکل میں اُس کی محبت کا جواب نہیں دے گا بلکہ وُدْ کی شکل میں اُس کی محبت کا جواب دے گا۔ جیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ایک روپیہ دے اور وہ ایک روپیہ کی بجائے چار روپے دے دے۔ اِسی طرح خداتعالیٰ جب بھی اپنے کسی بندہ کی محبت کا جواب دے گا تو وُدْ کی صورت میں دے گا۔ انسان محبت شروع کرے گا تو رغبت سے شروع کرے گا پھر اُنس کرے گا اور پھر وُدْ کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب بھی اپنی محبت کا اظہار شروع کرے گا تو وُدْ سے شروع کرے گا اور وُدْ کی صورت میں واد ہو کر نہیں وَدُود کی صورت میں محبت کرے گا۔ انسان کی نسبت جو وُدْ کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس میں ایک رنگ کی تربیت پائی جاتی ہے یعنی وُدْ کا مقام تقاضا کرتا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے ایسا گہرا تعلق ہو جائے کہ وہ اُس کی چیز کہلانے لگ جائے۔ جیسے کہتے ہیں کہ یہ فلاں طویلے 50 کی بکری ہے یہ فلاں طویلے کا گھوڑا ہے۔ وُدْ کا مقام بھی اُس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان خداتعالیٰ کی طرف منسوب ہونے لگے اور جب وہ اُس کی طرف منسوب ہونے لگے تو وہ اُس کی تربیت شروع کر دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تَزَوَّجُوا الْوَلُوْ دَالْوَدُوْدَ فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ51 تم ایسی عورتوں سے شادیاں کرو جو بہت بچے جننے والی اور ودُود ہوں۔ کیوں ایسا کرو؟ آپ فرماتے ہیں کہ اس لئے کہ قیامت کے دن مَیں دوسری اُمتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا کہ میری اُمت سب سے زیادہ ہے اور وہ زیادہ تبھی ہو سکتے ہیں۔ جب عورتیں زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہوں اور فخر تبھی کر سکتا ہوں جب وہ بچے اعلیٰ اخلاق اور روحانیت والے ہوں۔ پس تم وَلُوْد عورتوں سے شادیاں کرو جو زیادہ بچے جنیں اور ودُود عورتوں سے شادیاں کرو جو ہر وقت محبت اور پیار سے اولاد کی نگرانی کرنے والیاں ہوں تا کہ قیامت کے دن میں فخر کر سکوں کہ میری اُمت تم سب سے اچھی ہے بلحاظ تعدادِ افراد کے بھی اور بلحاظ تربیت افراد کے بھی۔ اس سے معلوم ہؤا کہ ودُود میں تربیت کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ اگر تربیت کے معنی اس میں نہ پائے جاتے ہوں تو قیامت کے دن دوسری اُمتوں کے مقابلہ میں فخر کی کوئی صورت ہی نہیں رہتی۔ فخر تو اِسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اُمت محمدیہ کے افراد کی تعداد بھی زیادہ ہو اور اُن کی تربیت بھی اچھی ہو اور وہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے والے ہوں۔ غرض وَدُوْداً کے معنی دائمی محبت سے پُر اور گہرا تعلق رکھنے والے کے ہیں جس کا لازمی نتیجہ عمدہ تربیت ہوتی ہے۔
حُبّ
چوتھا لفظ حُبّ ہے۔ اصل میں یہ حَبَبَ، یَحْبِبُ ہے جو مدغم ہو کر حَبَّ یَحِبُّ ہو گیا۔ اِس کے معنی کسی چیز کے اندر گھس جانے کے یا اپنے اندر لے لینے کے
ہیں۔ انہی معنوں میں اَحَبَّ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے چونکہ محبت کامل کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ اُس کے دل میں داخل ہو جائے اور وہ اس کے دل میں داخل ہو جائے۔ اس لئے اِسی کیفیت کے لئے حَبَّ یا اَحَبَّ کا لفظ عربی میں استعمال کیا جانے لگا اور یہ لفظ وُدْ سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ وُدْ میں صرف ایک وجود کے دوسرے کے اندر گھسنے کا مفہوم ہے جیسا کہ کِیلا زمین میں گھس گیا لیکن حَبَّ میں دونوں وجودوں کے ایک دوسرے کے اندر گھس جانے کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ نیز اس کے معنوں میں پھولنے اور بڑھنے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں گو عربی میں اس کیفیت کے لئے حَبَّ اور اَحَبَّ دونوں لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن اسمِ فاعل کے لئے عام طور پر مُحِبّ کا لفظ ہی مستعمل ہے جو اَحَبَّ سے بنا ہے۔
چونکہ حُبّ کے اصل معنی کسی چیز کے اندر گھس جانے یا اُسے اپنے اندر لے لینے کے ہوتے ہیں اِس لئے بُلبلہ جو پانی میں اُٹھتا ہے اُسے بھی حُبَابٌ کہتے ہیں کیونکہ اُس کے اندر ہوا بھری ہوئی ہوتی ہے۔ گویا پانی جب ہوا کو اپنے اندر لے لیتا ہے تو وہ حُبَابٌ کہلانے لگتا ہے اور جب اُگنے والے مادہ کو کوئی چھلکا اپنے اندر لے لیتا ہے تو اُسے حَبْ کہتے ہیں کیونکہ پودا اُس میں چھپا ہؤا ہوتا ہے۔ اسی طرح حُبّ عربی زبان میں اُس گھڑے کو بھی کہتے ہیں جس میں چیزیں بھرتے ہیں۔ اب تو ہر جگہ ٹرنکوں وغیرہ کا رواج ہے لیکن پُرانے زمانہ میں گھڑوں میں مختلف چیزیں رکھی جاتی تھیں کسی میں شکر ڈال دی جاتی۔ کسی میں گڑ ڈال دیا جاتا۔ کسی میں دانے ڈال دیئے جاتے۔ کسی میں دالیں وغیرہ رکھ لی جاتیں بلکہ بعض زمینداروں کے گھروں میں تو کپڑے بھی گھڑوں میں ہی رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ ایسے گھڑوں کے لئے بھی عربی زبان میں حُبّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی وہ مٹی کے برتن جن میں عورتیں اپنا سامان رکھتی ہیں۔ پس جب وہ جذبہ انسان کے اندر پیدا ہو جو دوسرے کو اپنے دل میں لے لے یا آپ اُس میں گھس جائے تو اُسے حُبّ کہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اُردو زبان میں اِس قسم کا کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ ہماری زبان میں دو ہی لفظ ہیں یا محبت یا عشق۔ حالانکہ اگر وُدْ کی جگہ محبت بولو تو غلط ہوگا اور اگر اُنس کی جگہ محبت کا لفظ بولو تب بھی غلط ہوگا اور اگر رغبت کو محبت کا مترادف قرار دو تب بھی غلط ہوگا کیونکہ عربی زبان کے لحاظ سے حُبّ اُس جذبہ محبت کا نام ہے جس میں انسان کے اس جذبہ کو اتنی تقویت حاصل ہو جائے کہ جس وجود سے وہ محبت کرتا ہے وہ اس کے دل میں گھس جائے اور یہ اس کے دل میں گھس جائے۔ رغبت کے معنی صرف یہ تھے کہ یہ اُدھر جانا چاہتا ہے لیکن ممکن ہے یہ اُدھر جانا چاہے اور وہ مطلوب وجود اور آگے چلا جائے۔ اُنس کے معنی یہ تھے کہ اِس نے ایک وجود کی طرف توجہ کی اور اُس پر بھی اثر ہؤا اور وہ اس کی طرف مُڑا۔ لیکن ابھی دونوں قریب نہیں آئے بلکہ جیسے ہم سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں یا قطب کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اِسی طرح وہ آمنے سامنے ہوگئے ہیں۔ پھر وُدْ کا مقام آیا اِس مقام میں یہ اُس کے اندر اور وہ اس کے اندر نہیں گھسا لیکن اِس کا اُس کے ساتھ ایک واسطہ ہو گیا جیسے کِیلا زمین میں گاڑ کر گھوڑے کو اُس کے ساتھ باندھ دیا جائے تو گھوڑا زمین میں نہیں گھستا نہ زمین گھوڑے میں گھستی ہے لیکن کیلے کے واسطہ سے اُس کا زمین کے ساتھ تعلق ہو جاتا ہے۔ اِس کے بعد حُبّ کا مقام آتا ہے۔ وُدْ میں ایک واسطہ اور تعلق تو ہو چکا تھا لیکن ابھی وہ دُور دُور تھے حُبّ کے مقام پر پہنچ کر یہ اُس وجود میں گھس گیا اور وہ وجود اِس میں گھس گیا۔
دوسرے محبت اُس تعلق کو کہتے ہیں جو نتیجہ خیز ہو اور ایک کھیتی پیدا کر دے کیونکہ حَبّ کے معنی اُس بیج کے ہوتے ہیں جس سے بڑے بڑے درخت اور کھیتیاں پیداہو جائیں گویا محبت حقیقی بھی وہی ہے جو دانے کی طرح ہو۔ جس طرح دانے سے درخت پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح محبت بھی اپنے پھل پیدا کئے بغیر نہیں رہتی۔ گویا یوں کہو کہ بندے اور خدا کا تعلق ایسا ہوتا ہے جیسے مرد اور عورت کا ہوتا ہے۔ جب انسان محبت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کی روحانی نسل دنیا میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہے اور لوگ اُس پر ایمان لانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لفظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی آتا ہے اور مومنوں کی نسبت بھی آتا ہے جس طرح وُدْ کا لفظ بھی دونوں کے متعلق استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤ52 اے مومنو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا۔ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍتو اس کے بعداللہ تعالیٰ ضرور کسی دوسری قوم کے افراد کو آگے لے آئے گا۔ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤاللہ تعالیٰ اُن سے محبت کرے گا اور وہ خدا سے محبت کریں گے۔ پس یہ کہنا بھی درست ہے کہ فلاں شخص خدا سے محبت کرتا ہے اور یہ کہنا بھی جائز ہے کہ فلاں سے خدا محبت کرتا ہے کیونکہ مذکورہ بالا مومنوں کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خدا سے محبت کریں گے اور خدا اُن سے محبت کرے گا۔
اِسی طرح فرماتا ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ۠ كَحُبِّ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ١ؕ 53 یعنی دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بعض غیر از خدا وجودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر مانتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے اِن شریکوں سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی چاہیے لیکن مومنوں کی جماعت سب چیزوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتی ہے۔ اِس آیت میں یہ بھی بتا دیا کہ ایسے مومن لوگ فِی الواقع موجود ہیں جو خدا تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ پہلی آیت میں یہ مضمون تھا کہ خدا تعالیٰ ایک ایسی قوم کو آگے لے آئے گا جو خداتعالیٰ سے محبت کرنے والی ہوگی اور خداتعالیٰ اُس سے محبت کرنے والا ہوگا اور ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص یہ بات سُن کر کہہ دے کہ یہ تو ایک خیالی بات ہے مرتد ہونے والے مرتد ہوگئے اور اب اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ اُن کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ہماری طرف لے آئے گا۔ پس چونکہ لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک خیالی بات ہے ہم اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اِس لئے اِسی آیت میں موجودہ مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ کافر و مشرک تو خدا تعالیٰ کے شریک قرار دے کر اُن سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی خدا سے کرنی چاہیے لیکن ہمارے مؤمن بندے ایسے ہیں جو فِی الواقع سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ واقعات سے بھی ثابت ہے کہ صحابہؓ میں ایسے لوگ موجود تھے جو تمام دوسری چیزوں سے زیادہ خداتعالیٰ سے محبت کرتے تھے۔ اسی طرح فرماتا ہے قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ54 کہہ دے اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں اور تمہارے بھائی اور تمہاری بہنیں اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے قبیلہ کے لوگ اور تمہاری قوم کے لوگ اور تمہارے مال جو تم محنت سے کماتے ہو اور تمہاری تجارتیں جو خطرہ کی حالت میں ہوتی ہیں اور اگر تم ذرا بھی توجہ ہٹاؤ تو اُن تجارتوں کے تباہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے (تاجر پر بعض دن ایسے آتے ہیں کہ اگر وہ سارا کام نوکروں پر چھوڑ کر کہیں باہر چلا جائے یا ذرا بھی غفلت سے کام لے تو ساری تجارت تباہ ہو جاتی ہے) اور وہ مکان جو تم کو بہت بھاتے ہیں تم کو خدا اور اُس کے رسول سے زیادہ پسند ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آ جائے اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو کبھی کامیاب نہیں کرتا۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صحابہؓکی جماعت عملاً خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والی تھی اور محبت بھی ایسی کامل رکھتی تھی کہ اُس کے مقابلہ میں نہ ماں باپ کی محبت ٹھہرتی تھی اور نہ بیٹوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ بھائیوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ بیویوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ قبیلہ اور قوم کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ مال اور تجارت کی محبت ٹھہرتی تھی اور نہ جائدادوں اور مکانوں کی محبت ٹھہرتی تھی۔ حدیثوں میں آتا ہے لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا55 کوئی تم میں سے ایمان والا نہیں کہلا سکتا جب تک کہ اللہ اور اُس کا رسول اُس کو باقی سب چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔
اِسی طرح بعض اور حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں آپ سے بڑی محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کتنی؟ اُس نے کہا جتنی مجھے اپنے بچوں سے محبت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم مومن نہیں ہو سکتے۔ ایمان کے لئے اس سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں آپ سے اپنی جان جتنی محبت رکھتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب بھی تم مومن نہیں ہو سکتے کیونکہ ایمان کے لئے اس سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں آپ سے اپنی جان اور اپنے مال اور اپنے بیوی بچوں سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم مومن ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ایمان اور کفر کو جانے دو تو محبت خالص خود بھی اپنی ذات میں ایک مذہب ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کس کی طرف منسوب ہوتا ہے اور کسے پسند کرتا ہے۔ اِس وقت ساری دنیا میں ناول پڑھے جاتے ہیں اور ناولوں میں بِالعموم یہی عشق و محبت کے ہی قصے ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارے مُلک میں یوسف زلیخا کا قصہ مشہور ہے اور بڑے مزے سے پڑھا جاتاہے۔ لیلیٰ مجنوں کے قصے بڑے شوق سے سُنے جاتے ہیں حالانکہ مجنوں کون تھا؟ عرب کا ایک بدو تھا اور لیلیٰ عرب کی ایک عورت تھی جو ممکن ہے ہماری نوکرانیوں سے بھی گھٹیا قسم کی ہو لیکن اس لئے کہ مجنوں کو اُس سے عشق ہو گیا ساری دنیا لیلیٰ مجنوں کے قصوں کو بڑے شوق سے پڑھتی ہے حالانکہ فلسفیانہ طور پر اگر غور کیا جائے تو اس میں کوئی عجوبہ نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ ایک فلسفی نے عشق کی حقیقت اسی طرح کھینچی ہے کہ یوسف اور زلیخا کا قصہ کیا ہے بس یہی کہ ایک عورت مرد کے لئے لٹو ہوگئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ خواہ فلسفیانہ رنگ میں کچھ کہا جائے عشقیہ کتابیں ہر جگہ پسند کی جاتی ہیں اور بڑے شوق کے ساتھ اُن کو خریدا جاتا ہے۔ ہمارے مُلک میں ہی نہیں یورپ اور امریکہ میں بھی اِن کتابوں کی بڑی قدر ہے۔ اِسی طرح بڑے بڑے بادشاہوں کے حالاتِ زندگی دیکھے جائیں تو وہ بھی اِن چیزوں کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔ نپولین کے واقعات پڑھ کر دیکھ لو۔ رُوس کے بادشاہ پیٹر کے واقعات پڑھ کر دیکھ لو۔ اِسی طرح بڑے بڑے جرنیلوں کے حالات پڑھ کر دیکھ لو تمہیں یہی معلوم ہوگا کہ وہ اِسی قسم کی کتابوں کو بڑا پسند کرتے تھے بلکہ بعض جرنیل لڑائی کے لئے جاتے تو اپنے ساتھ ایسی کتابیں رکھ لیتے جو عشق و محبت کے افسانوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔ تو عشق ایسی حسین چیز ہے کہ خواہ ادنیٰ مخلوق سے ہو تب بھی وہ پیارا لگتا ہے۔ پھر اگر خدا سے عشق ہو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ کتنا پیارا لگے گا۔
اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِذَا اَحَبَّ اللہُ عَبْدَہٗ لَمْ یَضُرَّہٗ ذَنْبٌ56 کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرے (اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ نہ صرف بندہ خدا سے محبت کرتا ہے بلکہ خدا بھی بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے) تو کوئی گناہ اُسے ضرر نہیں پہنچاتا۔ اب اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ کوئی گناہ اُس سے سرزد نہیں ہو سکتا اور یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ گناہ تو اُس سے سرزد ہوتا ہے لیکن وہ اُسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ پہلے معنی اِس حدیث کے اِس لئے نہیں ہو سکتے کہ یہاں ذَنْب کا لفظ ہے جس کا صدور ہر انسان کے لئے ممکن ہے۔ پس ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سے محبت کرنے لگ جائے تو اُس سے ذَنْب سرزد ہی نہیں ہو سکتے۔ ہم اگر معنی کر سکتے ہیں تو یہی کہ ذَنْب تو اس سے صادر ہو سکتا ہے لیکن وہ اسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ ذَنْب کا لفظ گناہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بشری کمزوری کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس یہ مراد نہیں کہ ذَنْب اُس سے صادر ہی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر ذَنْب اُس سے صادر ہو جائے تو اُسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ اگر گناہ کے معنی کئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ ایسے انسان کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے کہ جو مرضی ہے کرے۔ خواہ ڈاکہ مارے، خواہ چوری کرے، خواہ بدکاری کرے، خواہ جھوٹ بولے لیکن یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہو سکتے ہیں کہ اگر وہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندہ کو جھٹ توبہ کی توفیق دے دیتا ہے اور اس طرح گناہ اُسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور یہی اس کے حقیقی معنی ہیں۔ چنانچہ اس حدیث کے اگلے ٹکڑہ میں اس کی وضاحت آ جاتی ہے چنانچہ مذکورہ بالاعبارت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ 57 یعنی اُسے گناہ سے نقصان اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ ضرور توبہ کر لیتا ہے اور جو گناہ سے توبہ کرلے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ غرض اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ مومن کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ جب خدا اُس سے پیار کرنے لگ جائے تو اُس کا کوئی گناہ اُسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ یہ معنی نہیں کہ وہ کوئی ادنیٰ غلطی بھی نہیں کرتا۔ یہ معنی بھی نہیں کہ وہ کوئی بڑی غلطی نہیں کرتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو ایسی خشیت کے مقام پر لے جاتا ہے کہ اِدھر وہ غلطی کرتا ہے اور اُدھر اللہ تعالیٰ اُسے توبہ کی توفیق عطا فرما دیتا ہے اور وہ گناہ اُسے معاف ہو جاتا ہے۔ یہی آدم کے قصہ کی حقیقت ہے کہ وہ بھول گیا تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَسِیَ58 آدم بھول گیا اور اُس سے غلطی سرزد ہوگئی۔ اس کے بعد وہ گھبرایا تو ہم نے کہا گھبراتے کیوں ہو دعا کرو ہم تمہیں معاف کر دیں گے۔ چنانچہ آپ ہی اُسے دعا سکھلائی اور پھر اُسی دعا کے کرنے پر اُنہیں معاف کر دیا۔ چنانچہ فرماتا ہے فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ59اس پر آدم نے اپنے ربّ سے کچھ دعائیں سیکھیں فَتَابَ عَلَیْہِ 60 جن کے مانگنے پر اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا۔غرض محبت کا تعلق بندہ اور اللہ تعالیٰ میں دونوں طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی بندے سے محبت کرتا ہے اور بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے۔
اِس سے اُوپر خُلّۃ کا مقام ہے۔ خُلّۃ کا لفظ خلل سے نکلا ہے اور یہ لفظ ہمارے مُلک میں عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہمارے دماغ میں خلل ہے۔ ہمارے مُلک میں خلل ہے۔ ہماری جماعت میں خلل ہے لیکن لوگ سمجھتے نہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ لغت کے لحاظ سے اُس کے معنی سوراخ اور فاصلہ کے ہوتے ہیں اور یہ ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ بعض لفظ عربی زبان میں ایسے ہیں جو ایک معنی ہی نہیں دیتے بلکہ اُس کے اُلٹ معنی بھی دے دیتے ہیں یعنی اُسی میں شر کے معنی شامل ہوں گے اور اُسی میں خیر کے معنی بھی شامل ہوں گے۔ اسی میں فاصلہ کے معنی شامل ہوں گے اور اسی میں قرب کے معنی شامل ہوں گے۔ اِسی قسم کا یہ لفظ بھی ہے جس کے معنی سوراخ اور فاصلہ کے بھی ہیں اور ایسی محبت اور دوستی کے بھی ہیں جس میں کوئی خلل نہ ہو ۔ گویا خُلّۃ کے معنی اُس محبت کے ہیں جو تمام اختلافات کو دور کر دے اور جذبات اور خیالات میں یکجہتی پیدا کر دے۔ یہ معنی تو اقرب الموارد والے نے کئے ہیں لیکن مفردات والا کہتا ہے کہ خلل کے معنی شگاف کے ہیں اور جسم کے شگاف اُس کے مسام اور سوراخ ہیں جن سے پسینہ نکلتا اور زہریلے مواد خارج ہوتے رہتے ہیں اور مساموں کے راستہ ہی باہر کی کئی چیزیں جسم میں داخل ہوتی رہتی ہیں۔پس خُلّۃ کے معنی یہ ہیں کہ ایسی محبت جو خلل کے اندر گھس جائے یعنی خالی دل ہی میں نہ گھسے بلکہ جسم کے سُوراخ سُوراخ میں داخل ہو جائے اور پھیل جائے۔ محبت اُس کو کہتے ہیں جو صرف ایک مقام یعنی دل میں داخل ہو جائے لیکن خُلّۃ اُس دوستی کو کہتے ہیں جو جسم کے تمام مساموں میں داخل ہو جائے اور کوئی حصۂ بدن بھی اُس سے خالی نہ ہو۔ نہ ہاتھ اُس سے خالی ہوں نہ پاؤں اُس سے خالی ہوں نہ کان اُس سے خالی ہوں نہ آنکھ اُس سے خالی ہو نہ دل اُس سے خالی ہو نہ دماغ اُس سے خالی ہو۔ گویا وہ انسانی جسم اور روح اور دل اور دماغ پر اتنی حاوی ہو جائے کہ ہاتھ ہوں تو وہ محبوب کا وجود بنے ہوئے ہوں۔ پاؤں ہوں تو وہ محبوب کا وجود بنے ہوئے ہوں اور غیریت کا سوال ہی باقی نہ رہے۔ حُبّ باہر سے حکم لاتی ہے لیکن خُلّۃ باہر سے نہیں بلکہ نیچرل اور طبعی طور پر کام کرتی ہے۔ یہ معنی جو مفردات والوں نے کئے ہیں زیادہ اچھے اور زیادہ صحیح ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا 61 ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے خلیل بنایا۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کی وفات کی خبر آئی تو آپؐ نے صحابہؓ کو جمع کیا اور اُن میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا ایک بندہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے میرے بندے! اگر تو چاہے تو میں تجھے اپنے پاس بُلالوں اور اگر تو دنیا میں اَور رہنا چاہے تو میں تیری عمر کو اَور لمبا کر دوں۔ اُس بندے نے کہا اے میرے خدا! میں دنیا میں نہیں رہنا چاہتا تو مجھے اپنے پاس ہی بُلا لے۔ صحابہؓ نے یہ بات سنی تو اُنہوں نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال دی ہے اور وہ دل میں خوش ہوئے کہ آج ہمیں ایک بڑا اچھا نکتہ ملا ہے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ یہ سنتے ہی رونے لگ گئے اور اتنے روئے اتنے روئے کہ اُن کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! ابوبکر مجھے اتنا پیارا ہے کہ اگر خدا کے سِوا میں کسی اور کو خلیل بنا سکتا تو ابوبکر کو بنا لیتا۔ 62 معلوم ہؤا کہ اسلام میں کسی انسان سے محبت کرنا تو جائز ہے لیکن خُلّۃ صرف خداتعالیٰ کے لئے جائز ہے۔ گو استعارہ کے طور پر انسانوں کیلئے بھی کبھی کبھی بول لیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت بعد میں اسلام لائے تھے مگر اُنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے کا بہت شوق تھا اور اسی وجہ سے اُنہوں نے ہزاروں حدیثیں بیان کی ہیں مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے اُن کی درایت ایسی اعلیٰ نہیں تھی وہ ہمیشہ نئے آنے والوں پر جب اپنے فخر کا اظہار کیا کرتے تو کہا کرتے تھے کہ خلیلی نے یہ فرمایا ہے۔ خلیلی نے یہ فرمایا ہے اور مراد یہ ہؤا کرتی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے۔ گویا اپنا تعلق جتانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض دفعہ خلیل کا لفظ استعمال کر لیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ ایک دفعہ کہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے اِسی طرح کہنا شروع کیا کہ خلیلی نے یوں کہا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے سنا تو اُنہیں بُرا معلوم ہوا اور اُنہوں نے ڈانٹا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو کیا ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھے اور کیا ہم دیکھا نہیں کرتے تھے کہ تمہارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنا تعلق تھا؟ معلوم ہوتا ہے جوش میں حضرت ابوہریرہؓ اس طرح کہہ لیتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف خدا اور بندے کے انتہائی تعلق پرہی خُلّۃ کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔ اگر اس لفظ کو کسی اور مفہوم یا مقام پر استعمال کیا جائے گا تو وہ بہرحال استعارہ کہلائے گا۔ پس خُلّۃ کا لفظ مقاماتِ محبت میں سب سے بلند ہے چونکہ عام لفظ محبت ہے ہم اُسی کو آسانی کے ساتھ استعمال کر لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محبت کے مختلف درجے ہیں۔ (١) رغبت (٢)اُنس (٣) وُدْ (٤) محبت (٥) خُلّۃ۔ اوریہ پانچوں درجے وہ ہیں جن کا قرآن کریم سے ثبوت ملتا ہے۔
محبت کے اظہار کے لئے الفاظ تو بعض اَور بھی ہیں مگر وہ لمبے فقروں میں استعمال ہوئے ہیں اس لئے میں نے اُن کو چھوڑ دیا ہے اور دو لفظ ایسے ہیں جن کو میں نے لیا ہی نہیں یعنی شوق اور عشق۔ ان پانچ الفاظ میں دو تو صرف بندوں کی محبت کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور تین ایسے ہیں جو بندے اور خدا دونوں میں شریک ہیں یعنی بندے کے خدا سے تعلق پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور خدا کے بندے سے تعلق پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔
یہ جو میں نے کہا تھا کہ عشق کے معنی ہلاکت کے ہیں اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کے متعلق قرآن کریم یا احادیث میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا اس کا حدیثوں سے بھی ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ شَہِیْدًا63 یعنی اگر کسی شخص کو عشق ہو جائے اور پھر وہ اپنا تقویٰ قائم رکھے اور مر جائے تو وہ شہید ہوتا ہے۔ اِس سے پتہ لگا کہ عشق کا لفظ صرف شہوت یا ایسی مُفرط محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو صحت کو برباد کر دیتی اور دماغ کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی محبت کو عشق کہا جا سکتا ہے تو پھر اِس سے روکنے کے کیا معنی تھے۔ ایسی ہی روایت ابن عساکرؔ نے بھی ابن عباسؓ سے کی ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ محبت جسمانی جو انتہاء کو پہنچ جائے اور جب صبر بظاہر ناممکن ہو جائے تو اُس کے مفہوم میں عشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور چونکہ یہ بُرے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے یعنی شہوت یا ایسی مفرط محبت کے معنوں میں جو دماغ کو خراب کر دیتی ہے اور اسلام ایسے کسی فعل کو پسند نہیں کرتا خواہ خدا تعالیٰ ہی کے متعلق ہو۔ اس لئے گو عشق بھی محبت کے معنی رکھتا ہے مگر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے کسی صحیح حدیث یا قرآن میں نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ اور مومنوں کے متعلق قرآن یا حدیث میں صرف (١) رغبت (٢) اُنس (٣) وُدْ (٤) محبت اور (٥) خُلّۃکے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ پہلے دو صرف ایسی محبت کی نسبت استعمال ہوتے ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے اور دوسرے تین اُس محبت کے متعلق استعمال ہوئے ہیں جو دونوں طرف سے ممکن ہے اور ہوتی ہے۔ رغبت اور اُنس کے لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوئے کہ اوّل یہ ادنیٰ درجہ کی محبتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت ادنیٰ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے اس لئے کہ دونوں میں دوری سے نزدیکی اور وحشت سے قرب کے معنی پائے جاتے ہیں اور یہ باتیں انسان میں تو ہوتی ہیں کہ وہ پہلے دور ہوتا ہے اور پھر نزدیک ہونے کی خواہش کرتا ہے یا پہلے وحشت رکھتا ہے اور پھر قرب کا کوئی موقع مل جائے تو اُسے سکون محسوس ہوتا ہے اور وہ بار بار اس کی خواہش کرتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ایسا صرف انسان سے ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں کیونکہ وہ انسان کی ہر حالت سے ہر وقت واقف ہے اور اُس کی طرف جانے کی خواہش یا اُس سے کسی وقت ملاقات کے نتیجہ میں اُس سے سکون کا حصول اُس کی شان اور درجہ کے منافی ہے۔ پس بندے کی محبت، رغبت اور اُنس سے ترقی کرنا شروع کرتی ہے اور وُدْ کے مقام پر خدا تعالیٰ کی محبت میں مدغم ہو جاتی ہے اور پھر دونوں محبتیں مل کر خُلّۃ کے مقام پر ختم ہو جاتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مقام پر بندے سے اونچا ہوتا ہے۔ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ انسان راغب ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ وَدُوْد۔ انسان انیس ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ وَدُوْد۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ یہ وادِدْ ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ودُود ہو جاتا ہے جو وَادِدْ سے زیادہ شدید ہے۔ اِس کے بعد یہ مُحِبّ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی محبت پھر بھی اِس کی محبت پر فائق رہتی ہے۔ بظاہر چونکہ لفظ ایک ہے اس لئے بادی النظر میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح بندہ محبت کرتا ہے اِسی طرح شاید خداتعالیٰ بھی اپنے بندے سے محبت کرتا ہوگا۔ حالانکہ یہ درست نہیں محبت کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں جیسے ماں کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے، باپ کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے، بیوی بچوں کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے۔ پس یہ غلط ہے کہ بندہ کی محبت اور خداتعالیٰ کی محبت ایک جیسی ہے۔ بندہ جب مقاماتِ محبت میں ترقی کرتے کرتے مُحبّ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے اَحَبُّ مِنَ الاُمِّ ہو جاتا ہے یعنی ماں سے بھی زیادہ اُس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اس کا ثبوت ہمیں ایک حدیث سے ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قَدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبِیٌّ فَاِذَا اِمْرَأَۃٌ مِنَ السَّبٰی تَبْتَغِیْ اِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِی السَّبٰی اَخَذَتْہُ فَاَلْصَقَتْہُ بِبَطَنِھَا وَاَرْضَعَتْہُ فَقَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَرَوْنَ ھٰذِہِ الْمَرْأَۃَ طَارِحَۃً وَلَدَھَا فِی النَّارِ؟ قُلْنَا لَاوَاللہِ وَھِیَ تَقْدِرُ عَلٰی اَلَّاتَطْرَحُہٗ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللہُ اَرْحَمُ بِعِبَادِہٖ مِنْ ھٰذِہِ بِوَلَدِھَا64 یعنی ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے جن میں ایک عورت بھی تھی جب وہ قیدیوں میں کسی بچہ کو دیکھتی تو اُسے اُٹھاتی، اپنے سینہ سے لگاتی اور پھر اُسے دودھ پلاتی۔ اِس روایت میں تو ذکر نہیں آتا مگر دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتی رہی یہاں تک کہ اُس کا اپنا بچہ اُسے مل گیا اور وہ اُسے گود میں لے کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس عورت کو دیکھا اور پھر صحابہؓ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اس سے کہے کہ اپنے بچہ کو آگ میں پھینک دے تو کیا یہ اُسے پھینک دے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا خدا کی قسم! اگر اس کا بس چلے تو وہ کبھی اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینکے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے جو اس عورت کی محبت کا نظارہ دیکھا ہے اللہ تعالیٰ اِس سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے۔ ماں سے تو دس آدمی مل کر اُس کا بچہ چھین سکتے ہیں مگر وہ کون ماں کا بچہ ہے جو خدا کی گود سے کسی کو چھین سکے۔ اِس لئے خدا کی محبت زیادہ شاندار اور زیادہ پائیدار اور زیادہ اثر رکھنے والی ہے۔
اِس حدیث میں رحم کا لفظ محبت کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے کیونکہ ماں بچہ پر رحم نہیں کرتی اُس سے محبت کرتی ہے۔ پس مثال نے اِس کے معنی متعین کر دیئے ہیں۔
پھر اس سے اوپر ترقی کر کے بندہ خُلّۃ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں خلیل کہلاتے ہیں۔ لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ محبت میں زیادہ ہوتا ہے اِسی طرح خُلّۃ میں بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لفظ ایک ہے مگر بندے کی خُلّۃ اورخدا تعالیٰ کی خُلّۃ میں بڑا بھاری فرق ہے کیونکہ گو جذباتِ محبت ہر وقت زندہ رہتے ہیں لیکن سونے اور جاگنے کی حالت میں اُن میں فرق ہو جاتا ہے۔ سوتے وقت جذبات زندہ تو ہوتے ہیں مگر وہ دَب جاتے ہیں اور اُن پر ایک طرح کا پردہ پڑ جاتا ہے پس چونکہ انسان پر سِنَةٌ اور نَوْمٌآتے ہیں اور اُس وقت خُلّۃ تو ہوتی ہے مگر اُونگھ اور نیند کی وجہ سے اُس طرح کی نہیں ہوتی جس طرح جاگتے وقت کی ہوتی ہے۔ اِس لئے خدا اور بندے کی خُلّۃ میں بڑا بھاری فرق ہے۔ خداتعالیٰ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ65 کا مصداق ہے۔ پس یہ جاگتا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اِس سے اُسی طرح محبت کرتا ہے اور یہ سوتا ہے تب بھی اُس کی خُلّۃ اُسی طرح جاری رہتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ایک تحریر میں بھی اشارہ کیا ہے جو میں تشحیذالاذہان اور بدر میں شائع کروا چکا ہوں۔ اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
''دنیا کہتی ہے تُو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے اگر ہو تو اُس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں۔ لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں، جب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ میں کس حال میں ہوں اُس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت اور پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میں تیرے ساتھ ہوں تو پھر اے میرے مولیٰ! یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے ہوئے پھر میں تجھے چھوڑ دوں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں''۔66
تو دیکھو سوتے وقت جب انسان کا جسم اور روح بھی اُسے ایک طرح چھوڑ جاتے ہیں اُس وقت بھی خداتعالیٰ اپنے بندے کو نہیں چھوڑتا۔ اِس لئے خداتعالیٰ کا مقامِ خُلّۃ انسان کے مقامِ خُلّۃ سے بہت بالا ہے۔ نام دونوں محبتوں کا ایک ہے مگر دونوں کی کیفیت میں بہت فرق ہے۔
پس محبت کے تمام مقاموں میں سے جو ادنیٰ ہیں وہ صرف انسان سے مخصوص ہیں۔ خداتعالیٰ اُن کے مقابل پر اُن سے اعلیٰ مقام کی محبت دکھاتا ہے اور جو اعلیٰ مقام ہیں اور بندہ اور خدا میں مشترک ہیں اُن میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیشہ بندے سے آگے رہتا ہے۔ اِسی نکتہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں یوں بیان فرماتے ہیں:عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ قَالَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَامَعَہٗ حَیْثُ یَذْکُرُنِیْ۔ وَاللہِ لِلّٰہِ اَفْرَحُ بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ مِنْ اَحَدِکُمْ یَجِدُضَالَّتَہٗ بِالْفُلَاۃِ وَمَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَاِذَا اَقْبَلَ اِلَیَّ یَمْشِیْ اَقْبَلْتُ اِلَیْہِ اُھَرْوِلُ 67 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ خدا نے مجھے الہام سے فرمایا ہے کہ میں اپنے بندے کے یقین کے مطابق اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہوں اور جب کبھی بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں فوراً اُس کے پاس پہنچ جاتا ہوں۔ پھر اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا کی قسم ہے! کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ پر اس شخص سے زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے جس نے سخت جنگل میں اپنی اونٹنی کھوئی اور پھر وہ اُسے مل گئی۔ اس کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ جو شخص میرے پاس ایک بالشت بھر چل کر آتا ہے میں اُس کے پاس ایک ہاتھ چل کر آتا ہوں۔ (ذراع اُنگلیوں سے لے کر کُہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں) اور جو شخص ایک ہاتھ چل کر میرے پاس آتا ہے میں اُس کی طرف ایک باع (یعنی دونوں بازوؤں کے پھیلاؤ کے برابر) چل کر جاتا ہوں۔ اور جب بندہ میرے پاس چلتے ہوئے آتا ہے تو اَقْبَلْتُ اِلَیْہِ اُھَرْ وِلُ میں اُس کی طرف دَوڑنا شروع کر دیتا ہوں۔ غرض ہر مقام پر اللہ تعالیٰ بندے سے اونچے مقام پر رہتا ہے بندہ ایک بالشت چلتا ہے تو خداتعالیٰ ایک ہاتھ چلتا ہے۔ بندہ ایک ہاتھ چلتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک باع چل کر آتا ہے۔ بندہ اس کی طرف چل پڑتا ہے تو خداتعالیٰ اپنی محبت کے جوش میں اُس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ بندہ جس جس حد تک کام کرے اللہ تعالیٰ اُس سے زیادہ کام کرتا ہے وہاں اُس نے محبت کے کچھ قانون بھی بنائے ہیں جب کوئی شخص محبت الٰہی کے میدان میں قدم رکھنا چاہے تو اُسے اِن قانونوں کو مدنظر رکھنا چاہیے چنانچہ پہلا قانون یہ ہے کہ جب بندہ رغبت، اُنس اور وُدْ کے مقام سے ترقی کرکے حُبّ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس مقام کے لئے یہ شرط ہے کہ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَیعنی رغبت کے مقام تک اگر انسان میں کمزوری ہو اور بیوی بچوں کی محبت اُس کے دل پر غالب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ سمجھتا ہے کہ یہ کمزور ہے۔ ایسا مضبوط نہیں کہ اس جذبہ پر غالب آسکے۔ جب انسان اُنس کے مقام پر آتا ہے تو وہ زیادہ قربانیاں چاہتا ہے مگر یہ نہیں چاہتا کہ وہ سب کچھ بھول جائے۔ جب اِنسان وُدْ کے مقام پر آتا ہے تو وہ اپنے بندہ سے اُنس کے مقام سے بھی زیادہ قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے مگر پھر بھی اُس کی کمزوریوں کا خیال رکھتا ہے لیکن جب وہ حُبّ کے مقام پر پہنچ جائے تو چونکہ اب ترقی کرتے کرتے محبت کے بہت سے اسرار اُس پر کھل چکے ہوتے ہیں اِس لئے اللہ تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اب بندہ یہ فیصلہ کر لے کہ میں نے خداتعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی اَور کو منہ نہیں لگانا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قانون اللہ تعالیٰ نے حُبّ کے متعلق رکھا ہے رغبت کے متعلق نہیں رکھا۔ اُنس کے متعلق نہیں رکھا۔ وُدْ کے متعلق نہیں رکھا۔ رغبت جس میں کچھ خدا کی محبت ہو اور کچھ دنیا کی محبت، انسان کو خدا کا مقرب بنا سکتی ہے۔ اُنس جس میں خدا کی بھی محبت ہو اور دنیا کی بھی محبت ہو اللہ تعالیٰ کے قرب میں انسان کو کچھ نہ کچھ بڑھا دیتا ہے۔ اگر رغبت یا اُنس کے مقام پر انسان سے کچھ غلطی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ جانے دو میرا یہ بندہ ابھی پورے طور پر ہوش میں نہیں آیا اس کی غلطیاں نظر انداز کرنے کے قابل ہیں پھر وہ وُدْ کے مقام پر بھی پہنچ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کی غلطیوں کی کچھ زیادہ پرواہ نہیں کرے گا کیونکہ نہ وہ خدا میں فنا ہو گیا ہوگا اور نہ خدا اُس کے دل میں جا بسا ہوگا۔ اُس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی نابالغ بچہ لڑائی میں شامل ہوا اور اس نے کمزوری دکھائی اور وہ میدان سے بھاگ گیا لیکن جب حُبّ کے مقام پر انسان پہنچ جائے تو اُس وقت وہ اپنے باپ کو یا اپنے بیٹے کو یا اپنے بھائی کو یا اپنی بیوی کو یا اپنے قبیلہ کو یا اپنے خاندان کو یا اپنے مال کو یا اپنی شہرت کو یا اپنے علم کو یا اپنی نیک نامی کو یا اپنے مکانوں اور جائدادوں کو خداتعالیٰ پر ترجیح دے تو وہ خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکار دیا جائے گا اور اُسے کہا جائے گا کہ تم نے ہمارے مقامِ محبت کی ہتک کی ہے۔ پس بے شک یہ مقام اعلیٰ ہے مگر اس مقام کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں۔ جو پہلی رعائتیں تھیں وہ اس مقام پر آ کر ختم ہو جاتی ہیں۔ مقامِ رغبت تک وہ مزے میں تھا اور اِدھر اُدھر جا سکتا تھا۔ اُنس کے مقام تک بھی اگر اُس سے غلطی ہو جاتی اور فرشتے کہتے کہ ہم اسے سزا دیں تو اللہ تعالیٰ کہتا کہ سزا کیسی؟ ابھی اِس نے ہوش تھوڑی سنبھالی ہے۔ پھر وُدْ کا مقام آیا تو اس مقام میں بھی یہ خطرے سے باہر تھا کیونکہ گو وہ بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن ابھی بالغ کے احکام اُس پر جاری نہیں ہو سکتے تھے لیکن جب وہ حُبّ کے مقام پر پہنچا تو بالغ ہو گیا اور اس پر تمام احکام جاری ہونے لگ گئے۔ جب تک یہ بالغ نہیں ہؤا تھا اس کی گرفت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا جیسے لڑائی ہو رہی ہو تو کوئی شخص بچوں کو نہیں پکڑتا کہ تم لڑائی پر کیوں نہیں جاتے بلکہ اگر کوئی نابالغ بچوں کو پیش بھی کرے تو ذمہ دار افسر ہنس پڑتے ہیں کہ کس کو پیش کیا جا رہا ہے چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ بارہ بارہ برس کے لڑکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور کہتے کہ یَا رَسُوْلَ اللہ ہمیں بھی جہاد میں شامل ہونے کی اجازت دیجئے۔ مگر آپ فرماتے کہ جاؤ ابھی تم پر جہاد فرض نہیں۔تو رغبت کے مقام پر اور اُنس کے مقام پر اور وُدْ کے مقام پر گناہوں سے معافی زیادہ ملتی ہے۔ مگر جب انسان حُبّ کے مقام پر پہنچ جائے تو گناہوں کی معافی کم ہو جاتی ہے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور توبہ کے ساتھ خواہ کیسے ہی گناہ ہوں معاف ہو جاتے ہیں لیکن بہرحال پہلے مقام وہ تھے جن میں معافی کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ جیسے چھوٹا بچہ دودھ پیتے پیتے بعض دفعہ اپنی ماں کا پستان کاٹ لیتا ہے مگر ماں اُسے کبھی نہیں کہتی کہ مجھ سے معافی مانگو۔ وہ سمجھتی ہے کہ یہ بچہ ہے اور اس سے نادانی میں یہ حرکت ہوگئی ہے۔ اِسی طرح رغبت اور اُنس اور وُدْ کے مقام پر معافی کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ وہ چاہے مانگے یا نہ مانگے۔ اللہ تعالیٰ اُسے بچے کی طرح سمجھتا ہے گویا نیکی تو اُس میں موجود ہوتی ہے لیکن توبہ کا مقام اُسے حاصل نہیں ہوتا۔ اِس کے بعد جب وہ حُبّ کے مقام پر پہنچتا ہے اور پھر کوئی غلطی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے اب یہ معافی مانگے گا تو ہم معاف کریں گے یوں ہم اسے معاف نہیں کر سکتے۔ جب یہ توازن قائم نہیں رہتا تو انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور وہ رغبت اور اُنس کے مقام پر بعض دفعہ محبت الٰہی کا دعویٰ کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم محبوبِ خدا ہوگئے ہیں حالانکہ جب تک وہ ایک بچہ کی حیثیت رکھتا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں ان راہوں سے زیادہ واقف نہیں میری حیثیت ایک بچہ کی سی ہے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو پھر بالغ کی ذمہ داریاں سمجھے اور خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی چیز کو ترجیح نہ دے۔
(2) دوسری شرط یہ ہے کہ جب انسان محبت کے مقام پر پہنچے تو پھر خداتعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ جو شخص اس مقام سے گرتا ہے وہ خداتعالیٰ کی طرف سے سخت سزا پاتا ہے۔ رغبت کے مقام پر اگر اُس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں۔ اُنس کے مقام پر اگر اُس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں۔ وُدْ کے مقام پر اگر اس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں لیکن جب محبت کے مقام پر پہنچ جائے تو پھر اس مقام کو مضبوطی سے پکڑ لے اور اللہ تعالیٰ کو ایک آن کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اُن کے دشمن آئے اور اُنہوں نے کہا کہ کیا ستاروں کی پرستش کرنا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا ذرا ٹھہرو۔ جب ستارے آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ 68 وہ چیز جو آنکھوں سے اوجھل ہو جائے میں اُس سے محبت نہیں کر سکتا۔ اگر یہ خدا ہیں تو پھر اوجھل کیوں ہوگئے۔ محبت تو اُس سے ہو سکتی ہے جو آنکھوں سے اوجھل نہ ہو۔ پس کامل محبت تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ کیا تم نے کبھی کوئی ماں ایسی دیکھی ہے جسے یہ یاد کرانے کی ضرورت ہو کہ اپنے بچہ سے محبت کر۔ بچہ کہیں بیٹھا ہو اس کے دل میں محبت کی چنگاری سُلگ رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ بیٹھے بیٹھے اُس کے منہ سے آہ نکل جاتی ہے۔ بیوی خاوند آپس میں محبت کرتے ہیں تو خواہ خاوند کتنی دور چلا جائے جب بھی اُس کا ذہن خالی ہوگا وہ اپنی بیوی کو ضرور یاد کرے گا۔ بعض دفعہ ایک سپاہی لڑائی میں شامل ہوتا ہے۔ میدانِ جنگ میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ بندوقیں چل رہی ہوتی ہیں اور موت کا بازار گرم ہوتا ہے لیکن اُس وقت بھی اگر اُسے اپنی بیوی یاد آ جائے تو اُس کی آہ نکل جاتی ہے۔ بیوی بعض دفعہ پھلکے پکا رہی ہوتی ہے کہ اپنے میاں اُسے یاد آ جاتے ہیں اور پھلکے پکاتے پکاتے اُس کی آہ نکل جاتی ہے۔ تو فرماتا ہے لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ اگر تمہارا خداتعالیٰ سے تعلق ہو اور کبھی اُس کی محبت تمہارے دل میں آ جاتی ہو اور کبھی نہ آتی ہو تو تم مت کہو کہ ہمیں خدا تعالیٰ سے محبت ہے تم کہو کہ ہمیں اُس سے رغبت ہے، تم کہو کہ ہمیں اُس سے اُنس ہے تم کہو کہ ہمیں اُس سے وُدْ ہے مگر یہ مت کہو کہ ہمیں اُس سے محبت ہے کیونکہ محبت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب محبوب کی یاد دل سے جدا نہ ہو۔ خیال تو دوسری طرف جا سکتا ہے جیسے کھیل کے وقت کھیل کا ہی خیال رہے گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ محبت کا جذبہ بالکل جاتا رہے۔ بلکہ جب بھی وہ اللہ تعالیٰ کا خیال کرے گا اُسی وقت اُس کی محبت بھی آ جائے گی۔ جو شخص کبھی محبت کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا اُس کی محبت کبھی قبول نہیں ہوتی یا یوں کہو کہ وہ محبت ہی نہیں ہوتی لیکن توبہ واستغفار قبول ہو جاتا ہے حالانکہ توبہ و استغفار بھی انسان کبھی کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ محبت جذبات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور توبہ و استغفار دماغ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ محبت ہمیشہ یکساں چلتی چلی جائے گی چاہے انسان خوشی میں ہو یا رنج میں۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ محبت کی لہر کبھی اونچی چلی جائے اور کبھی نیچے آ جائے لیکن یہ کبھی نہیں ہوگا کہ وہ کبھی غائب ہی ہو جائے۔ اِس کے مقابلہ میں توبہ و استغفار میں یہ ہوگا کہ کبھی ہم توبہ و استغفار کر رہے ہوں گے اور کبھی نہیں کر رہے ہوں گے۔ پس الٰہی محبت وہی ہو سکتی ہے جو سب سے زیادہ ہو اور اُس میں دوام پایا جائے۔
قرآن کریم کی رُو سے محبت کی دو اقسام ثابت ہوتی ہیں۔ اوّل محبت کسبی جو انسان کسب سے حاصل کرتا ہے یعنی پہلے وہ رغبت کرتا ہے پھر اُنس کرتا ہے پھر وُدْ کرتا ہے اور پھر محبت کرتا ہے۔ یہ محبت بندے کی طرف سے آتی ہے۔ گویا کسبی چیز وہ ہے جو بندہ کرتا ہے اور وہبی وہ ہے جو خدا کی طرف سے آتی ہے چاہے وہ محبت سے ہی شروع ہو جائے۔ بہرحال کسبی محبت میں کوشش بندے کو کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 69 یعنی اگر تمہارے دلوں میں خداتعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مقابل میں بھی محبت کا پیدا ہونا ایک ضروری امر ہے کیونکہ سچی محبت دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں ''دل را بہ دل رہسیت''۔ جب کوئی شخص سچے دل سے کسی سے محبت کرتا ہے تو دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال خداتعالیٰ سے کوئی ایسی محبت نہیں ہو سکتی جس میں دونوں طرف جوڑ اور اِتصال نہ ہو۔ جیسے ماں اور بچہ اور خاوند اور بیوی میں محبت ہوتی ہے کہ ایک طرف ماں کے دل میں محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بچہ کے دل میں۔ ایک طرف خاوند اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے تو دوسری طرف بیوی اپنے خاوند پر جان دیتی ہے۔ اِسی طرح بندے اور خدا کی محبت میں بھی ایک جوڑ اور تعلق ہوتا ہے۔ فرماتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ ۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہاری یہ محبت تب ثابت ہوگی جب تم ہمارے بتائے ہوئے طریق کے مطابق محبت کرو گے اگر تم اُس طریق کے مطابق چلو گے تب ہم مانیں گے کہ تم ہم سے محبت کرتے ہو ورنہ نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ ہمارے دل کی تو یہی خواہش ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کریں مگر ہم کریں کس طرح اس کا جواب یہ دیا کہ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع بن جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا۔ یہ محبت کسبی ہے۔ بندہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے مگراُس کے راستہ میں روک پیدا ہو جاتی ہے۔ تب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یوں محبت کرو۔ پس ایک محبت وہ ہے جو بندے کی طرف سے شروع ہوتی ہے اور بعض ذرائع اختیار کر کے حاصل ہوتی ہے اور آخر اللہ تعالیٰ بھی اُس بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ محبت کسبی کہلاتی ہے۔
یاد رہے کہ اس آیت میں فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ فرمایا ہے فَاَحِبُّوْنِیْ نہیں فرمایا کیونکہ محبت جذبات سے تعلق رکھتی ہے اور جذبات اپنی مرضی سے پیدا نہیں کئے جا سکتے۔ جبر اور زور سے اعمال کئے جا سکتے ہیں۔ اِس لئے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو جو جبر سے کی جا سکتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور اس محبت کے بدلہ میں تمہاری محبت جو خدا تعالیٰ سے ہے بڑھنے لگے گی۔
دوسری محبت موہبت کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بندہ کو گھیرلیتی ہے۔ اس محبت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ١ٞيُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ لَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔ 70اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اے مومنو! اگر تم میں سے کوئی شخص مرتد ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلہ میں ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جس سے وہ محبت کرے گا اور جو اُس سے محبت کرے گی یعنی پہلے اللہ تعالیٰ محبت کرے گا اور پھر وہ کریں گے گویا اُن کی محبت موہبت والی محبت ہوگی۔
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ جو مومن تھے اُن کی نسبت تو اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ پہلے تم اتباعِ رسول کرو پھر تم خداتعالیٰ کے محبوب ہوگے اور مرتدوں کے بدلہ میں جو کفار سے آنے والے تھے اُن کے متعلق یہ کہا کہ خدا اُن سے پہلے محبت کرے گا اور پھر وہ اس سے محبت کریں گے۔ اِس فرق کی وجہ کیا ہے اور کیوں مومنوں کی محبت کو کسبی اور مرتدوں کے بدلہ میں کفار میں سے آنے والوں کی محبت کو وہبی قرار دیا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ بعض دفعہ کسی کو شرمندہ کرنے کے لئے دوسرے کو حق سے زیادہ انعام دیا جاتا ہے یا بعض دفعہ دوست کی ناشکری پر غیر پر زیادہ احسان کر دیا جاتا ہے تا کہ روٹھنے والے کو شرمندہ کیا جائے اور اپنا استغناء ظاہر کیا جائے۔ بعض دفعہ ہم اپنے کسی بچے کو بُلاتے ہیں اور کہتے ہیں آؤ ہم تمہیں مٹھائی دیں اگر وہ نہیں آتا تو پاس اگر غیر کا بچہ کھڑا ہو تو اُسے دوگنی مٹھائی دے دیتے ہیں تا کہ اپنا بچہ جو نہیں آیا وہ شرمندہ ہو۔ اسی طرح بعض دفعہ مومن مرتد ہوتا ہے اور چلاجاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی حالت میں ہم خود کافروں میں سے چن چن کر بعض لوگوں کو لائیں گے اور پھر تمہیں دکھائیں گے کہ ہم اُن سے کیسا پیار کرتے ہیں۔ گویا اس میں اصل مضمون مومنوں کو غیرت دلانا ہے۔ ورنہ خود مومنوں کے لئے بھی یہ مقام ہوتا ہے اور رسول تو سب کے سب اس دوسرے گروہ میں شامل ہوتے ہیں اور خدا کی خاص تربیت کے نیچے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متعلق یہ مشہور ہے کہ اُن کا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ لوگوں نے حماقت سے یہ سمجھ لیا ہے کہ اُن کو الف۔ ب پڑھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلق بِاللہ کے بنیادی اصول وہ کسی پیر اُستاد سے نہیں سیکھتے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے دل میں یہ اصول خود ودیعت کرتا ہے اور خود اُنہیں روحانیت کے اسرار سے واقف کرتا ہے۔ پس نبی کا استاد نہ ہونے کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ اُن کو روحانی علوم سکھانے والا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ باقی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو لوگ سکھاتے ہیں جیسے میں اِس وقت لیکچر دے رہا ہوں اور آپ لوگ سن رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے سکھایا تھا۔ ولید وغیرہ تو سب مشرک تھے اُن سے آپ نے محبت الٰہی کا کیا سبق سیکھنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ سیکھا براہِ راست اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ کوئی دُنیوی اُستاد ایسا نہیں تھا جس نے آپ کو روحانیت کے اِن رازوں سے آشنا کیا ہو۔ پس یہ درست ہے کہ نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا مگر اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اُن کو محبت الٰہی کے راز سکھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ خدا خود اُن سے براہِ راست محبت کرتا اور براہِ راست اپنے علوم سے سرفراز فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں اور معصوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ بلوغت سے پہلے ہی وہ معصوم ہوں کیونکہ عصمتِ کاملہ جو نبی کو حاصل ہوتی ہے وہ اُس وقت تک اُسے حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب تک کہ تقویٰ اور محبت الٰہی اُس کے بلوغ بلکہ ہوش سے پہلے ہی موجود نہ ہو۔ جو اُسے بُرائیوں سے محفوظ رکھے اور یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَوْکَانَ نَبِیًّا71 تو اس کے معنی صرف بچپن کے کھیل کود کے ہیں نہ کہ بغاوت و شرارت کے۔
اب میں قرآن کریم سے بتاتا ہوں کہ خداتعالیٰ کن لوگوں سے محبت نہیں کرتا تا کہ انسان کوشش کرے کہ میں ویسا نہ بنوں۔ جب خداتعالیٰ کہتا ہے کہ میں فلاں فلاں سے محبت نہیں کرتا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ایسے آدمی کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ پس جن لوگوں میں یہ باتیں پائی جائیں گی وہ اِن امور کی موجودگی میں خداتعالیٰ سے کبھی محبت نہیں کر سکتے اور نہ اُن کا یہ دعویٰ تسلیم کیا جا سکتا ہے (اگر وہ کہیں) کہ وہ خداتعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ قرآن کریم کی آیات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلاں فلاں شخص سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا لیکن چونکہ یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ بندہ ایک قدم بڑھے تو خداتعالیٰ دو قدم بڑھتا ہے اِس لئے اگر یہ ممکن ہو تا کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتے تو یہ جواب غلط ہو جاتا کہ ایک قدم کے بدلہ میں خداتعالیٰ دو قدم بڑھتا ہے۔ پس نتیجہ یہی نکلا کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کر ہی نہیں سکتے اور جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ عقل بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دس قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ دس قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔
(1، 2) اوّل مختال سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا اور دوسرے فَخُوْرَا سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا72جس شخص کے اندر کبر پایا جاتا ہے اور جس شخص کے اندر فخر کی عادت پائی جاتی ہے اُس سے خدا محبت نہیں کرتا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ جس شخص کے اندر تکبر پایا جاتا ہے یا جس شخص کے اندر فخر کا مادہ پایا جاتا ہے وہ خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا۔ مختال اُس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی اِتنی بڑی شان سمجھے کہ گویا سب مصائب سے محفوظ ہے اور فَخُوْرَا اُسے کہتے ہیں جسے یہ خیال ہو کہ میرے اندر ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو دوسروں میں نہیں اور انہیں طعنہ دے کہ میرے جیسی خوبیاں دوسروں میں کہاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے بلکہ درحقیقت کسی انسان سے بھی محبت نہیں کر سکتے جس شخص کے اندر کبر پایا جاتا ہے اگر خداتعالیٰ کی کبریائی کا اُسے کبھی خیال آتا تو کیا وہ تکبر کر سکتا؟ جس کے سامنے بادشاہ کھڑا ہو کیا وہ اپنا سر اُونچا کر سکتا ہے؟ معمولی سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی سامنے کھڑا ہو تو سپاہی ایسا مؤدب اور شریف بن کر کھڑا ہوتا ہے کہ گویا اُس کے منہ میں زبان ہی نہیں۔ پھر جو شخص خداتعالیٰ کی کبریائی کا بھی خیال نہیں رکھتا اُس نے خداتعالیٰ سے محبت کیا کرنی ہے۔ محبت یا تو حُسن سے پیدا ہوتی ہے یا احسان سے۔ جب یہ اپنے آپ کو اتنی بڑی شان کا مالک خیال کرتا ہے کہ سمجھتا ہے میں سب مصائب سے محفوظ ہوں تو ذاتِ باری کا حسن یا اُس کا احسان اسے کس طرح نظر آ سکتا ہے۔ پس مختال سے خداتعالیٰ محبت نہیں کرتا اور نہ ایسا شخص خداتعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔
اِسی طرح فخر بھی وہی کرتا ہے جو سمجھتا ہے کہ میرے اندر ایسی خوبیاں ہیں جو دوسروں میں نہیں اور وہ اُن خوبیوں کو اپنا ذاتی وصف قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ ہمیں جس قدر نعمتیں حاصل ہیں یہ ہم نے اپنے زورِ بازو سے حاصل کی ہیں۔پس فخر کے معنی یہ ہیں کہ انسان خداتعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرے اور کہے کہ اِن نعمتوں کا حصول میرا ذاتی وصف ہے اور جو شخص بھی ایسا کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حسن کا انکار کرتا ہے اور ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔
(3)جس شخص کو اپنے کاموں میں حد سے گزر جانے کی عادت ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ 73 حد سے گزر جانے والوں سے خدا محبت نہیں کرتا یا یوں کہو کہ جو لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں وہ کبھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص بھی طبعی طور پر خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنے حق کا مطالبہ کرنے میں حد سے بڑھا ہؤا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو غصہ آ گیا اور اُس نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا۔ اب یہ ایک غلطی ہے جس کی سزا اُسے ملنی چاہیے مگر یہ سزا اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ ہم اُسے بُلائیں اور ڈانٹ دیں کہ تم نے فلاں کو تھپڑ کیوں مارا لیکن بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس شخص سے قصور سرزد ہؤا ہو جب تک وہ اُس کا قیمہ نہ کر لیں اُن کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس بھی مختلف قسم کی رپورٹیں آتی رہتی ہیں اور ہم اُنہیں اُن کے قصور کے مطابق سزا دے دیتے ہیں۔ بعض دفعہ کسی سے غلطی ہو تو اُسے مثلاً ڈانٹ دیا جاتا ہے یا معمولی جرمانہ یا مسجد میں بیٹھ کر ذکرالٰہی کرنے کی سزا دے دی جاتی ہے۔ مگر جو اپنے کاموں میں حد کے اندر رہنے کے عادی نہ ہوں اُن کی اس سے تسلی ہی نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں یہ بھی کیا سزا ہے کہ چار آنے جرمانہ کر دیا۔ اُن کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ ہم اُس کے سر پر آرہ رکھ کر چلائیں۔ پھر اُس کی ہڈیاں جلا کر اُنہیں سِل پر پیسیں اور پھر کسی پاخانہ کے گڑھے میں اُس کی راکھ ڈال دیں اور پھر اُس پر ایک کتبہ لگا دیں جس میں اُس کو اور اُس کے باپ دادا کو گالیاں دی گئی ہوں اور پھر یہیں تک بس نہیں جب وہ اگلے جہان میں پہنچے تو وہاں بھی خدا اُس کو دوزخ میں ڈالے اور اُسے ایسا عذاب دے جو کسی اور کو نہ دیا گیا ہو حالانکہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے۔ وہ حد سے زیادہ گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا اور نہ حد سے گزرنے والا خداتعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔
(4)جو شخص خوّان ہو یعنی طبیعت میں خیانت کا مادہ رکھتا ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِيْمًا74 محبت کہتے ہیں معاملہ کی درستی کو اور خوّان کے معنی ہیں بہت بڑا خائن۔ محبت کے معاملہ میں تو ایک چھوٹی سی خیانت بھی برداشت نہیں کی جا سکتی کُجا یہ کہ کوئی شخص خوّان ہو اور پھر اُس سے محبت کی جا سکے۔ جو شخص بڑا خائن ہے وہ کسی صورت میں بھی محبت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تعلقات کو نباہ نہیں سکتا۔ ایسے شخص کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ خدا سے محبت کرے گا یاخدا اُس سے محبت کرے گا بالکل عقل کے خلاف ہے۔
(5)اِسی طرح جو شخص اثیم ہو یعنی گناہ کی طرف کمال رغبت رکھتا ہو اُس سے بھی خداتعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ اثیم کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی بڑا قانون شکن ہو اور جس شخص کو قانون شکنی کی عادت پڑی ہوئی ہو وہ جس طرح دنیا کے قانون توڑے گا اِسی طرح خداتعالیٰ کے قانون بھی توڑے گا۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللہَ۔75 جو شخص یہ سوچتا رہے گا کہ میں نے اِس قانون کو توڑ لیا تو کیا حرج ہے، اُس قانون کو توڑ لیا تو کیا حرج ہے وہ خداتعالیٰ کے قانون بھی توڑتا چلا جائے گا اور اُن کی اطاعت سے ہمیشہ گریز کرے گا۔
ہماری جماعت میں ایک شخص ہؤا کرتا تھا جسے لوگ فلاسفر فلاسفر کہا کرتے تھے اب وہ فوت ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرمائے۔ اُسے بات بات میں لطیفے سوجھ جاتے تھے جن میں سے بعض بڑے اچھے ہؤا کرتے تھے۔ فلاسفر اُسے اِسی لئے کہتے تھے کہ وہ ہر بات میں ایک نیا نکتہ نکال لیتا تھا۔ ایک دفعہ روزوں کا ذکر چل پڑا۔ کہنے لگا مولویوں نے یہ محض ڈھونگ رچایا ہؤا ہے کہ سحری ذرا دیر سے کھاؤ تو روزہ نہیں ہوتا۔ بھلا جس نے بارہ گھنٹے فاقہ کیا اُس نے پانچ منٹ بعد سحری کھالی تو کیا حرج ہؤا۔ مولوی جھٹ سے فتویٰ دیتے ہیں کہ اُس کا روزہ ضائع ہو گیا۔ غرض اُس نے اِس پر خوب بحث کی۔ صبح وہ گھبرایا ہوا حضرت خلیفہ اوّل کے پاس آیا۔ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا مگر چونکہ حضرت خلیفہ اوّل ہی درس وغیرہ دیا کرتے تھے اس لئے آپ کی مجلس میں بھی لوگ کثرت سے آیا جایا کرتے تھے۔ آتے ہی کہنے لگا کہ آج رات تو مجھے بڑی ڈانٹ پڑی ہے۔ آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ کہنے لگا رات کو میں یہ بحث کرتا رہا کہ مولویوں نے ڈھونگ رچایا ہؤا ہے کہ روزہ دار ذرا سحری دیر سے کھائے تو اُس کا روزہ نہیں ہوتا۔ میں کہتا تھا کہ جس شخص نے بارہ گھنٹے یا چودہ گھنٹے فاقہ کیا وہ اگر پانچ منٹ دیر سے سحری کھاتا ہے تو حرج ہی کیا ہے۔ اِس بحث کے بعد میں سو گیا تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں نے تانی لگائی ہوئی ہے (فلاسفر جولاہا تھا اِس لئے خواب بھی اُسے اپنے پیشہ کے مطابق ہی آئی) دونوں طرف میں نے کِیلے گاڑ دیئے ہیں اور تانی کو پہلے ایک کِیلے سے باندھا اور پھر میں اُسے دوسرے کِیلے سے باندھنے کے لئے لے چلا۔ جب کِیلے کے قریب پہنچا تو دو انگلی وَرے سے تانی ختم ہوگئی۔ میں بار بار کھینچتا تھا کہ کسی طرح اسے کِیلے سے باندھ لوں مگر کامیاب نہ ہوسکا اور میں نے سمجھا کہ میرا سارا سوت مٹی پر گِر کر تباہ ہو جائے گا چنانچہ میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میری مدد کے لئے آؤ۔ دو اُنگلیوں کی خاطر میری تانی چلی۔ دو اُنگلیوں کی خاطر میری تانی چلی۔ اور یہی شور مچاتے مچاتے میری آنکھ کھل گئی۔ جب میں جاگا تو میں نے سمجھا کہ اس رؤیا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسئلہ سمجھایا ہے کہ دو اُنگلیوں جتنا فاصلہ رہ جانے سے اگر تانی خراب ہو سکتی ہے تو روزہ میں تو پانچ منٹ کا فاصلہ کہہ رہے ہو اُس کے ہوتے ہوئے کسی کا روزہ کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔
وہ تو فلاسفر کا لطیفہ تھا جس نے یہ کہا تھا کہ اگر پانچ منٹ بعد سحری کھائی جائے تو کیا حرج ہے۔ راولپنڈی کے ایک مولوی کا قصہ مشہور ہے کہ اُس کا ایک شاگرد اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا حضور! میں ایک مسئلہ دریافت کرنے آیا ہوں۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے تھوڑی سی ہوا خارج ہو جائے تو کیا وضو قائم رہتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟ اُس نے کہا وضو تو ٹوٹ جائے گا۔ کہنے لگا آپ میرا مطلب سمجھے نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر بہت تھوڑی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جائے گا؟ مولوی صاحب نے کہا تھوڑی کیا اور بہت کیا، ہوا خارج ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اُس نے کہا مولوی صاحب آپ پھر بھی نہیں سمجھے اگر بہت ہی تھوڑی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا ایک دفعہ تو کہا ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کیا کہوں۔ اِس پر اُس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ اگر اتنی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جائے گا؟ مولوی صاحب کو غصہ آ گیا اور اُنہوں نے کہا کمبخت! تیرا تو پاخانہ بھی نکل جائے تو وضو نہیں ٹوٹ سکتا۔ تو خوّان اور اثیم نے محبت کیا کرنی ہے وہ تو زیادہ سے زیادہ ایک فلسفی کہلا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔
جہاں محبت ہوتی ہے وہاں انسان دلیلیں نہیں سوچتا بلکہ عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ تقریر فرما رہے تھے کہ آپؐ نے دیکھا کہ کناروں پر کچھ لوگ کھڑے ہیں آپؐ نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اُس وقت مسجد کی طرف آ رہے تھے ابھی آپ گلی میں ہی تھے کہ آپ کے کانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز پہنچی کہ بیٹھ جاؤ۔ آپ وہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔ کسی شخص نے آپ کو دیکھا تو کہا عبداللہ بن مسعودؓ! تم ایسے عقلمند ہو کر یہ کیا حرکت کر رہے ہو کہ گلی میں بچوں کی طرح گھسٹ رہے ہو۔ اُنہوں نے کہا بات یہ ہے کہ مجھے ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ اِس لئے میں بیٹھ گیا۔ اُس نے کہا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو اُن لوگوں کے لئے تھا جو تقریر کے وقت کھڑے تھے۔ اُنہوں نے کہا مطلب تو میں بھی سمجھتا ہوں لیکن ڈرتا ہوں کہ ابھی میری جان نکل جائے تو میں خداتعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوں گا کہ ایک حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا بھی تھا جس پر میں نے عمل نہیں کیا۔76 پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے حکم تو سنا ہے لیکن اس کا یہ مفہوم ہے وہ مفہوم ہے وہ فلسفی تو کہلا سکتا ہے لیکن محب نہیں۔ اِسی طرح اثیم جو کھلے بندوں قانون شکنی کرتا ہے اور جو گناہ کی طرف میل رکھتا ہے وہ بھی اچھے دوست کے ساتھ اپنے تعلقات کو نباہ نہیں سکتا۔ اور بُرے دوست سے حقیقی محبت یوں بھی مشکل ہوتی ہے۔ پس خوّان اور اثیم سے بھی خداتعالیٰ محبت نہیں رکھتا یا یوں کہہ لو کہ خوّان اور اثیم بھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔
(6)جو فرح ہو یعنی عارضی لذات پر کمال لذت محسوس کرتا ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ 77 جو شخص چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خوش ہو جائے اللہ تعالیٰ اُسے اپنی محبت کا مورد نہیں بنا سکتا۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی تھی میں تھانیدار بن گیا۔ میں نے فلاں تجارت کی اور اُس میں بڑا نفع ہؤا اور اس خوشی میں اکڑا پھرتا ہے اور پتلون کے شکن ہر وقت درست کرتا رہتا ہے اُس نے خدا تعالیٰ کی محبت کیا حاصل کرنی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتی ہیں اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں ہر خوشی اور ہر نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے لیکن انسان اتنا پست ہمت کیوں بنے کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر قانع ہو جائے اور بڑی کامیابیوں کا خیال اُس کے دل سے اُتر جائے۔ اُسے تو آسمان کے تارے توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے عزم کو اتنا بلند رکھنا چاہیے کہ ہر مطمح نظر اُسے نیچا دکھائی دے اور وہ سمجھے کہ ابھی میں نے اور اونچا اُڑنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب براہین احمدیہ لکھی اور مولوی بُرہان الدین صاحب کو پہنچی تو اُنہوں نے آپ سے ملنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ وہ جہلم سے قادیان آئے۔ اتفاقاً اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کہیں باہر تشریف لے گئے تھے شاید ہوشیار پور چلّہ کرنے کے لئے یا کسی اور جگہ۔ مولوی بُرہان الدین صاحب چونکہ اسی ارادہ سے آئے تھے کہ آپ سے ملیں گے اِس لئے وہ اُسی جگہ جا پہنچے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قیام تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منع کیا ہؤا تھا کہ کوئی شخص مجھ سے ملنے کیلئے نہ آئے۔ وہ شیخ حامد علی صاحب کے پاس پہنچے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پُرانے خادم تھے اور سفروں میں آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ مولوی صاحب بعد میں خود ہی سنایا کرتے تھے کہ میں نے شیخ حامد علی صاحب کی بڑی منتیں کیں کہ کسی طرح میری ملاقات کرا دو مگر اُنہوں نے کہا میں کس طرح ملاقات کروا سکتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ملاقاتیں بند کی ہوئی ہیں۔ مگر میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں اِتنی دُور سے آیا ہوں اب میں بغیر آپ کو دیکھے کے واپس نہیں جاؤں گا چنانچہ میں وہیں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی صاحب کسی کام کے لئے گئے تو میں دَوڑ کر آپ کے کمرہ کی طرف چلا گیا اور دروازہ کے آگے جو پردہ لٹکا ہؤا تھا اُس کو ہٹا کر دیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ لکھتے ہوئے بھی ٹہلا کرتے تھے اُس وقت بھی آپ کوئی کتاب لکھ رہے تھے اور اِدھر سے اُدھر تیزی کے ساتھ ٹہلتے جاتے اور ساتھ ساتھ لکھتے جاتے تھے۔ میں نے جونہی آپ پر نظر ڈالی مجھے دیکھ کر اتنا ڈر آیا کہ پردہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ لوگوں نے مجھے دیکھا تو کہا ہمیں بھی کچھ بتائیے مرزا صاحب آپ سے ملے یا نہیں؟ میں نے کہا میں نے مرزا صاحب کو دیکھ لیا ہے بات تو میں نے آپ سے کوئی نہیں کی لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کمرے کے اندر بھی اتنی جلدی جلدی ٹہل رہے تھے جیسے کسی نے بڑی دور جانا ہو اور وہ اپنے کام کو تیزی کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہو۔ اِس سے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی منزل بہت دور ہے اور کوئی عظیم الشان مقصد ہے جو آپ کے سامنے ہے لیکن فَرِحَ یعنی تھوڑی تھوڑی چیز پر تسلی پا جانے والا دور کی کامیابیوں کو اپنا مقصد قرار ہی نہیں دے سکتا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ مومن پر اللہ تعالیٰ جب بھی کوئی احسان کرے گا وہ کہے گا ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۔ مگر ساتھ ہی کہے گا اِس انعام پر تو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ مگر میری منزل ابھی دور ہے پھر دوسرا انعام آئے گا تو کہے گا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۔ خدایا تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے اِس انعام سے سرفراز فرمایا مگر میں نے تو آپ کو لینا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں میرا مقصود نہیں ہیں۔ اِس طرح وہ قدم بقدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور آخر وہ خداتعالیٰ کو پا لیتا ہے۔
(7) جو شخص مفسد ہو اللہ تعالیٰ اُس سے بھی محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ 78 مفسد سے میں محبت نہیں کرتا۔ سیدھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا خالق اور اُس کا ربّ ہے۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرے گا تو اُس مخلوق کا خالق اور ربّ فساد کرنے والے سے کس طرح محبت کرے گا۔ اگر کسی بچہ سے انسان کو نفرت ہو تو اُس کی ماں کبھی نفرت کرنے والے سے پیار نہیں کر سکتی۔ جب تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جو شخص فساد ڈلواتا ہے اور لوگوں کی آپس میں لڑائیاں کرواتا رہتا ہے خدا تعالیٰ اُسے کبھی پسند نہیں کرسکتا۔
انگریزی میں ایک حکایت مشہور ہے کہ کسی شخص کو ایک عورت سے عشق ہو گیا۔ وہ عورت بیوہ تھی اور وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر یوروپین طریق کے مطابق خالی پیغام سلام سے شادی نہیں ہو سکتی تھی ضروری تھا کہ پہلے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا جائے کہ یورپ کے لوگوں میں مرد و عورت کی دوستی کے بعد شادی ہوتی ہے پہلے نہیں۔ پس وہ اُسے اپنی طرف راغب کرنے کی بڑی کوشش کرتا مگر اُسے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ آخر اُس نے اپنے کسی دوست سے ذکر کیا کہ مجھے اِس اِس طرح فلاں عورت سے عشق ہے اور میں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر وہ میری طرف توجہ ہی نہیں کرتی۔ اُس نے کہا عورت کا کوئی بچہ ہے یا نہیں؟ اُس نے کہا کہ بچہ تو ہے۔ اُس نے کہا تو پھر محبت میں کونسی مشکل ہے بچہ کو اُٹھا کر اُس سے چند دن پیار کرو عورت تم سے خودبخود بے تکلّف ہو جائے گی۔ تو جس سے کسی کو محبت ہو اُس سے نفرت رکھنے سے کبھی اُس شخص کی محبت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
خاکم نثار کوچۂ آلِ محمد است
اب آلِ محمدؐ میں سے اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔ مگر اس وجہ سے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ انسان اُن سے محبت کرے۔ یہ خیال کرنا کہ آلِ محمدؐ سے بے شک محبت نہ ہو لیکن محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مجھے حاصل ہو جائے گی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ ۔ اگر تم فساد کرو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تم سے محبت نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے پیارے ہیں۔ جو اُن سے محبت نہ کرے اور اُن کا بدخواہ ہو، نہ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کر سکتا ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ سے۔
(8) جو شخص ناشکرا ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا اور نہ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کر سکتا ہے کیونکہ محبت کا ایک ذریعہ احسان ہے۔ جو شخص شکرگزار نہیں اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ احسان کو نہیں دیکھ سکتا اور جو احسان کو نہیں دیکھ سکتا وہ خدا تعالیٰ سے محبت بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اُس سے محبت کا پہلا دروازہ احسان ہی ہے۔ وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ 79 خوّان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ كَفُوْر کے معنی ہیں ایسا انسان جو خدا تعالیٰ کے انعامات کو دیکھتا ہے اور پھر بھی اُس کے اندر شکرگزاری کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ گویا احسان شناسی کا مادہ اُس کے اندر ہوتا ہی نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کے احسانات کو دیکھتا ہی نہیں۔ کہتا ہے مجھے کچھ نہیں ملا اُسے اور کیا مل سکتا ہے۔ اُس سے تو اللہ تعالیٰ اگر محبت بھی کرے گا تو وہ کہہ دے گا کہ مجھے کچھ نہیں ملا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ80 تم جتناجتنا شکر کرو گے میں اُتنا ہی اپنے انعامات کو بڑھاتا چلا جاؤں گا اور جتنی جتنی ناشکری کرو گے اتنی ہی میں اپنے انعامات میں کمی کر دوں گا۔
(9) جو شخص مُسرف ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ81 مُسرف سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں رکھتا کیونکہ مسرف اپنے اور اپنے نفس کی لذات کو دوسرے کی تکلیف اور آرام پر ترجیح دیتا ہے اور جو شخص خداتعالیٰ کے بندوں پر خرچ کرنا پسند نہیں کرتا اپنے نفس پر بِلاوجہ خرچ کرتا چلا جاتا ہے اُسے کون پسند کر سکتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ آؤ میں تم پر اپنے انعامات نازل کروں کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی۔ تب بندے اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ خدایا! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور بیمار ہو۔ ہماری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ اُن سے کہے گا جب دنیا میں میرے غریب بندوں میں سے کسی بھوکے کو تم نے کھانا کھلایا تو تم نے اُسے کھانا نہیں کھلایا، مجھے کھلایا۔ اور جب تم نے کسی پیاسے کو پانی پلایا تو تم نے اُسے پانی نہیں پلایا بلکہ مجھے پانی پلایا اور جب تم نے کسی ننگے کو کپڑے دیئے تو تم نے اُس کو کپڑے نہیں دیئے بلکہ مجھے کپڑے دیئے اور جب تم نے میرے بیمار بندوں کی عیادت کی تو تم نے اُن کی عیادت نہیں بلکہ میری عیادت کی۔ اِس کے بعد وہ دوسری طرف کے لوگوں سے مخاطب ہوگا اور کہے گا میں بھوکا تھا مگر تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ میں پیاسا تھا مگر تم نے مجھے پانی نہ پلایا۔ میں ننگا تھا مگر تم نے مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں بیمار تھا مگر تم نے میری عیادت نہ کی تب وہ بھی اسی طرح کہیں گے کہ خدایا! تو تو زمین و آسمان کا مالک اور سب کا خالق ہے تو بھلا کب بیمار ہو سکتا ہے، کب بھوکا اور پیاسا اور ننگا ہو سکتا ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ اُن سے کہے گا کہ دنیا میں میرے کچھ ایسے بندے تھے جو بھوکے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو پیاسے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو ننگے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو بیمار تھے مگر تم نے اُن کی پرواہ نہ کی۔ نہ تم نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، نہ پیاسوں کو پانی پلایا، نہ ننگوں کو کپڑا دیا، نہ بیماروں کی عیادت کی۔ پس تم نے اُن بندوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا بلکہ میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے کیونکہ وہ میرے بندے تھے۔82 تو اللہ تعالیٰ جن لوگوں کی مدد کے لئے ہمیں روپیہ دیتا ہے، ہمیں علم دیتا ہے، ہمیں عزت اور شہرت دیتا ہے اگر ہم اپنے روپیہ اور علم اور عزت اور شہرت سے اُن کی مدد نہیں کرتے بلکہ صرف اپنے نفس کی لذات میں ہی منہمک رہتے ہیں تو ہم کیا امید کر سکتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے محبت کرے گا اور جب وہ ہم سے محبت نہیں کرے گا تو ہم اُس سے کس طرح محبت کر سکتے ہیں۔
(10) جو شخص ظالم ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ83 ظالموں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔گویا ظلم اور محبت جمع نہیں ہو سکتے۔ جو شخص ظلم کرتا ہے اُسے درحقیقت اپنی ذات کی محبت سب سے زیادہ ہوتی ہے اور جسے اپنی ذات کی محبت سب سے زیادہ ہو وہ دوسرے سے محبت نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے بندوں پر تو ظلم کرے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرے پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ محبت جذبہ ہے نرمی کا اور ظلم جذبہ ہے سختی کا۔ محبت کہتی ہے اپنی چیز قربان کر اور ظلم کہتا ہے دوسرے کی چیز قربان کر۔ پس یہ دو مخالف جذبات ہیں اِس لئے جو شخص ظالم ہے نہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے اور نہ خداتعالیٰ اُس سے محبت کرتا ہے۔
یہ دس عدد اخلاق اور بُرائیاں جس شخص میں ہوں فرداً فرداً یا مجتمع طور پر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے ناقابل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس سے محبت نہیں کر سکتا۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس میں یہ عیب نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ سے ضرور محبت کرتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس میں یہ عیب نہ ہوں اُس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی قابلیت ہوتی ہے۔ پس اِن باتوں کے یہ معنی نہیں کہ جن لوگوں میں یہ باتیں نہ ہوںوہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ جن لوگوں میں یہ باتیں ہوں وہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے اور نہ خداتعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے۔ لیکن اگر اُن میں یہ باتیں نہ ہوں تو اُن کے لئے اِمکان ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے محبت کر سکیں۔ یہ معنی نہیں کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ مثلاً جو شخص ظالم ہے وہ اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا۔ مگر جو ظالم نہیں ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہو۔ ممکن ہے وہ سخت دل ہو یا پاگل ہو اور اُس کے اندر محبت پیدا ہی نہ ہو سکی ہو۔ پس نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ ظلم کے ہوتے ہوئے محبت نہیں ہو سکتی۔ یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ظلم نہ ہو تو محبت ضرور ہوگی۔ ایک شخص جو مسرف نہیں اُس میں قابلیت ہے محبت کرنے کی مگر ضروری نہیں کہ وہ محبت کرے۔ اِسی طرح وہ شخص جو خوّان اور اثیم نہیں اُس میں قابلیت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرلے مگر ضروری نہیں کہ وہ محبت کرے۔ جب تک وہ خوّان اور اثیم تھا اس کے لئے محبت کرنا ناممکن تھا جب وہ خوّان اور اثیم نہ رہا تو محبت کرنا اس کے لئے ممکن ہو گیا۔ گویا ان صفات میں منفی کی طاقت ہے اِن کے عدم میں مثبت طاقت نہیں۔
اب میں بتاتا ہوں کہ محبت الٰہی پیدا کرنے کے لئے کن ذرائع کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ
اوّل صفاتِ الٰہی کا ورد کرنے سے، جسے ذکر کہتے ہیں محبت پیدا ہوتی ہے یعنی سُبْحَانَ اللہِ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ اَللہُ اَکْبَرُ اور اِسی طرح یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا سَتَّارُ یَا غَفَّارُ وغیرہ وغیرہ۔ ننانوے اسمائے الٰہیہ عام طور پر قرار دیئے جاتے ہیں۔ بعض نے سَو یا ایک سَو ایک نام بھی لکھے ہیں مگر ہیں وہ بہت زیادہ۔ بہرحال صفاتِ الٰہیہ کے ذکر کرنے سے محبت الٰہیہ پیدا ہوتی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ سب سے پہلا درجہ ہے اِس لئے کہ یہ تکلّف کا درجہ ہے۔ ہم کہتے ہیں سُبْحَانَ اللہِ۔ ہم کہتے ہیں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ ہم کہتے ہیں اَللہُ اَکْبَرُ۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا نام لیتے اور اُس کی صفات کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن نام لینے سے یقین اور ایمان میں ترقی نہیں ہوتی۔ ہم ایک مضمون تو اپنے سامنے لاتے ہیں مگر یہ کہ ہمارا قلب بھی اُس مضمون کو تسلیم کر لیتاہے یا نہیں یہ دوسری بات ہے۔ ہم ایمان لے آئے خدا کی باتوں پر۔ ہم ایمان لے آئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر اور ہم نے کہا خدا بڑا غفار ہے۔ خدا بڑا ستار ہے یا خدا بڑی شان کا مالک ہے۔ یہ ہمارے دماغ کی تسلی کا تو ثبوت ہے لیکن ہمارے دل کی تسلی کا ثبوت نہیں۔ ہم جب سُبْحَانَ اللہِ کہتے ہیں یا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے ہیں یا سَتَّار اور غَفَّار کہتے ہیں تو ایک عقلی چیز اپنے سامنے لاتے ہیں اور عقلی چیز کا لازمی نتیجہ محبت نہیں ہوتی۔ مثلاً ہم شیر کو مانتے ہیں مگر شیر کے ماننے سے محبت پیدا نہیں ہو جاتی۔ اِسی طرح ہم انگلینڈ اور امریکہ کا باربار ذکر سنتے ہیں تو انگلینڈ اور امریکہ سے محبت نہیں کرنے لگ جاتے۔ اِسی لئے اِس کو ذِکر کہتے ہیں یعنی یہ تکلّف اور بناوٹ کی محبت ہے۔ جیسے اقلیدس والا کہتا ہے کہ فرض کرو یہ لکیر فلاں لکیر کے برابر ہے۔ اِس طرح وہ فرض سے شروع کرتا ہے اور سچائی کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ ایک شخص مصنوعی طور پر رونا شروع کرتا ہے تو آہستہ آہستہ سچ مچ رونے لگ جاتا ہے۔ کئی مائیں اپنے بچوں کو ڈرانے لگتی ہیں تو بعد میں وہ خود بھی ڈرنے لگ جاتی ہیں۔
عربوں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی لڑکا تھا جسے باقی لڑکے سخت تنگ کرتے اور اُسے مارتے رہتے تھے۔ جب وہ بہت ہی تنگ آ جاتا تو اُن سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہتا کہ تمہیں کچھ پتہ بھی ہے آج فلاں رئیس کے ہاں ولیمہ کی دعوت ہے۔ یہ سنتے ہی بچے اُس طرف دَوڑ پڑتے اور اِسے چھوڑ دیتے۔ اُن کے جانے کے بعد اس کے دل میں خیال آتا کہ شاید وہاں سچ مچ دعوت ہو اور یہ لڑکے کھا آئیں اور میں محروم رہ جاؤں۔ اس خیال کے آنے پر وہ خود بھی اُسی طرف بھاگ پڑتا۔ ابھی وہ نصف راستہ میں ہی ہوتا کہ لڑکے ناکام واپس آ رہے ہوتے اور وہ غصہ میں اُسے پھر پکڑ لیتے اور خوب مارتے۔ جب وہ بہت ہی تنگ آ جاتا تو پھر اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے چاہتا کہ اُنہیں کوئی دھوکا دے۔ چنانچہ وہ اُن سے کہتا کہ اصل میں مَیں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔ دعوت اُس رئیس کے ہاں نہیں تھی بلکہ فلاں رئیس کے ہاں تھی۔ یہ سن کر لڑکے اُس دوسرے رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتے۔ مگر اُن کے جانے کے بعد پھر اُس کے دل میں شبہ پیدا ہوتا کہ گو میں نے دھوکا دیا ہے مگر شاید اُس رئیس کے ہاں دعوت ہی ہو۔ اِس خیال کے آنے پر وہ خود بھی اُسی طرف دَوڑ پڑتا اور خود بھی دھوکا کھا جاتا۔
تو بسا اوقات بناوٹ سے بھی یقین پیدا ہو جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی نماز میں رونے والی شکل بنائے تو آہستہ آہستہ اُسے رونا آجاتا ہے۔ پس ذکرِ الٰہی تصنع والی محبت کا مقام ہے۔ اصل میں اِس کا دماغ خدا کو سُبْحان مانتا ہے۔ اِس کا دماغ خدا کو ستار اور غفار مانتا ہے۔ اس کا اپنا جوڑ خداتعالیٰ سے نہیں ہوتا لیکن جب یہ کہنا شروع کرتا ہے کہ یا ستار یا غفار تو محبت الٰہی کا کوئی نہ کوئی چھینٹا اِس پر بھی آ پڑتا ہے۔ جیسے کیچڑ اُچھالا جائے تو کچھ کیچڑ اپنے اوپر بھی آ پڑتا ہے یا شکر کی بوری بھرتے ہیں تو شکر کے چند دانے بوری بھرنے والے کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔ غرض اِسی طرح ہوتے ہوتے یہ مصنوعی محبت حقیقی محبت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ فَاذْكُرُوْنِيْۤ۠ اَذْكُرْكُمْ84 تم میرا ذکر کیا کرو گے تو ہوتے ہوتے ایسا مقام تمہیں حاصل ہو جائے گا کہ میں تمہیں یاد کرنے لگ جاؤں گا۔
(2) دوسرا ذریعہ صفاتِ الٰہیہ پر غور کرنا ہے جسے صوفیاء کی اصطلاح میں فکر کہا جاتا ہے۔ ایک ہے سُبْحَانَ اللہِ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور اَللہُ اَکْبَرُ کہنا اور ایک ہے سوچنااور غور کرنا کہ خدا سُبْحَان کس طرح ہے۔ خدا اَکْبَر کس طرح ہے، خدا تمام تعریفوں اور محامد کا مستحق کس طرح ہے۔ یہ جو دماغ میں صفاتِ الٰہیہ کا دَور کیا جاتا اور اُن کا ایک رنگ میں آپریشن کیا جاتا ہے اِس کو فکر کہتے ہیں۔ خالی اَللہُ اَکْبَرُ کہنا ذکر ہے لیکن اَکْبَرُ پر بحث شروع کر دینی کہ اللہ کس طرح بڑا ہے یہ فکر ہے۔ جب انسان فکر کرے گا تو اس کے سامنے سوال آئے گا کہ اللہ کس طرح بڑا ہوا؟ آج تو امریکہ سب سے بڑا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی امریکہ کرتا ہے وہی ساری دنیا کرنے لگ جاتی ہے اور مسلمان اپنی حکومتوں کے باوجود اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکتے۔ جب وہ سوچے گا تو اُسے خود ہی یہ جواب سمجھ آئے گا کہ امریکہ کو جو بڑائی ملی ہے یہ اُسے کس نے دی ہے اور کیوں دی ہے۔ جب وہ غور کرے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ امریکہ کو خدا نے ہی بڑائی دی ہے اور اس لئے بڑائی دی ہے کہ اُس نے فلاں فلاں اعمال کئے اور مسلمان اس لئے گر گئے کہ اُنہوں نے اُن اعمال کو ترک کر دیا۔ غرض اس طرح جب وہ سوچے گا تو اس کا دل اِس یقین اور ایمان سے لبریز ہو جائے گا کہ اَکْبَراللہ ہے امریکہ نہیں۔ اِس غور اور تدبر کو فکر کہتے ہیں اور یہ مقام تفصیل کا مقام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔85 اے مومنو! یاد کرو میرے ناموں کو نہیں، میری صفات کو نہیں بلکہ نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ جو انعام میں نے تم پر اپنی کسی خاص صفت کے ماتحت کئے ہیں اُن کی تفصیلات پر غور کرو۔ یہ نہ سوچو کہ میں نے تمہیں کھانا دیا اور کپڑے دیئے بلکہ یہ سوچو کہ دنیا تمہارے لئے کیا کر رہی تھی اور میں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ کس طرح ایک قوم تمہیں تباہ کرنے کے لئے اُٹھی اور اُس نے اپنی ساری قوتیں تمہارے خلاف جمع کر لیں۔ کیا کیا قدرتیں تھیں جو اُس کو حاصل تھیں فَكَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اُس کے سارے منصوبوں میں اُس کے ہاتھ روک دیئے اور تمہیں اُس کے حملوں سے محفوظ کر دیا۔ یہ فکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتا ہے یعنی خالی زبان سے رحمٰن یا رحیم نہ کہا جائے بلکہ یہ سوچا جائے کہ تم بیماری سے مرنے لگے تھے، سارے حالات تمہارے خلاف جمع تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچا لیا اور تمہیں صحت عطا کر دی۔ فرض کرو کوئی شخص جنگل میں جا رہا ہے اور وہ کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے جس میں آپریشن ضروری ہے تو ایسی حالت میں اگر اچانک گھوڑے پر سوار کوئی ڈاکٹر اُس کے پاس آ جاتا ہے اور وہ اُس کا علاج کرتا ہے جس سے وہ اچھا ہو جاتا ہے تو ہر شخص سمجھے گا کہ یہ ڈاکٹر نہیں آیا بلکہ خدا اپنے بندہ کے پاس چل کر آیا ہے۔ ایسے ہی نشانات ہوتے ہیں جو انسان کو کھینچ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لے جاتے ہیں اور اُسے فرش سے اُٹھا کر عرش تک پہنچا دیتے ہیں اور انہی نشانات پر غور انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیت میں اِسی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم غور کرو اور سوچو کہ آیا تمہارے ساتھ، تمہارے دوستوں کے ساتھ یا تمہارے بزرگوں اور عزیزوں کے ساتھ ایسے واقعات گزرے ہیں یا نہیں جن میں اُس کی قدرت کا ہاتھ دکھائی دیتا تھا۔ جب تم ایسے واقعات پر غور کرو گے تو تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے گی۔ یہ پہلے مقام سے اونچا مقام ہے۔ ذکر میں تکلّف پایا جاتا ہے لیکن فکر میں تکلّف نہیں ہوتا بلکہ ایک حقیقت سامنے ہوتی ہے۔
(3) تیسرے مخلوقِ الٰہی کی خیر خواہی اور اُس سے محبت کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وہ طریق ہے جس میں انسان خداتعالیٰ کو ایک رنگ میں مجبور کرتا ہے کہ میرے دل میں اپنی محبت ڈال۔ جیسے تم خدمت اور محبت سے دوسرے کے دل میں محبت پیدا کر دیتے ہو۔ تم ریل میں سفر کرتے ہو کمرہ میں سخت بھیڑ ہوتی ہے تمہارے لئے بیٹھنے کو کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ایک شخص گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ کمبخت یہ ریل ہے یا ڈربہ۔ جو آتا ہے اِسی ڈبہ میں آ جاتا ہے۔ اُس وقت اگر تم ایک کیلا نکال کر اُس شخص کے بچہ کو دے دو تو اُسی وقت اُس کا غصہ جاتا رہے گا اور وہ کہے گا تشریف رکھئے اور پھر وہ تم سے محبت کے ساتھ باتیں کرنے لگ جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے مخلوقِ الٰہی سے اگر نیک سلوک کرو تو اللہ میاں تم سے آپ کہیں گے کہ آؤ میاں میرے پاس بیٹھو۔ اصلی صوفیاء نے اِسی کا نام عشق مجازی رکھا تھا لیکن جھوٹے صوفیاء نے افراد کی محبت اور اُن سے عشق کا نام عشق مجازی رکھ لیا۔ حالانکہ جب صوفیاء نے یہ کہا تھا کہ عشق حقیقی پیدا کرنے کے لئے عشق مجازی ضروری ہے تو اُن کا مطلب صرف یہ تھا کہ بندوں کی حقیقی محبت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہو سکتی۔ نہ یہ کہ کسی حسین لڑکے یا حسین عورت سے جب تک محبت نہ کی جائے اللہ تعالیٰ بھی انسان سے محبت نہیں کر سکتا۔ یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نکتہ تھا جسے گندی شکل دے کر جاہلوں اور اوباشوں نے دین کی ہتک کی اور اپنی ہوس رانی کی راہ نکال لی۔ درحقیقت یہ محبت بسیط ہے یعنی کسی خاص شخص کی محبت نہیں بلکہ بنی نوع انسان بلکہ مخلوقات کا تصور کر کے یہ خیال کرنا کہ یہ میرے خدا کے پیارے ہیں مجھے خدا تعالیٰ تو نہیں ملتا چلو میں اِن سے محبت کروں اس محبت کا سرچشمہ ہے۔ ایسی محبت کرتے کرتے یکدم محبت الٰہی شُعلہ مار کر تیز ہو جاتی ہے۔ پس بے شک یہ درست ہے کہ عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی پیدا نہیں ہو سکتا لیکن عشق مجازی کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ جب تک انسان بنی نوع انسان کی محبت اور اُن کے لئے قربانی اور ایثار کا مادہ اپنے اندر پیدا نہیں کرتا اُس وقت تک خداتعالیٰ اُس سے محبت نہیں کر سکتا۔ اِس لئے صوفیاء نے کہا ہے کہ بنی نوع انسان خدا کے عیال ہیں جس طرح تمہیں اپنے بچوں سے محبت ہے اِسی طرح خدا کو بھی اپنی مخلوق سے محبت ہے۔ پس مخلوق سے محبت کر کے خدا کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے اور خدا کی محبت سے مخلوق کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ جب بارش نازل ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحن میں تشریف لاتے اور اپنی زبان نکال کر اُس پر بارش کا قطرہ لیتے اور فرماتے یہ میرے ربّ کی طرف سے تازہ نعمت آئی ہے86(اس موقع پر حضور نے اپنی زبان باہر نکالی اور فرمایا۔ اس طرح۔ پھر فرمایا) میرے زبان نکالنے پر ممکن ہے تم میں سے بعض یہ خیال کرتے ہوں کہ میں نے تہذیب کے خلاف حرکت کی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان نکالی تھی تو اُس وقت بھی بعض ایسے ہی خیالات رکھنے والے لوگ کہتے ہوں گے کہ یہ کیسی تہذیب کے خلاف بات ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کی اور فرمایا میرے ربّ کی طرف سے یہ تازہ نعمت آئی ہے میں کیوں نہ اِسے اپنی زبان پر لے لوں۔ اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کا قطرہ اپنی زبان پر نہیں لیا بلکہ درحقیقت خدا کی نعمت لی اور میں نے بھی اپنی زبان نکال کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ایک فعل کیا ہے تا کہ تمہیں یہ احساس ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی کس طرح قدر کیا کرتے تھے۔ اِسی مفہوم پر وہ آیت دلالت کرتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتی ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ 87 اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا تُو اپنے آپ کو اِس غم میں ہلاک کرلے گا کہ میرے یہ بندے ایمان نہیں لائے؟ گویا خیال کر کے کہ یہ مجھ سے دور ہیں اور میرے لئے ناخوشی کا موجب ہیں تُو آپ مرا جا رہا ہے۔ اس طرح سے بین السطور اِس آیت کا یہ ہے کہ جب تو میری مخلوق کے غم میں مرا جا رہا ہے تو میں تجھ سے پیار کیوں نہ کروں۔ دنیا میں اور لوگ بھی لوگوں کے مومن نہ ہونے پر غم کرتے ہیں مگر اُن کا غم اُن کے ہدایت نہ پانے پر نہیں ہوتا بلکہ اپنی بات کی ناکامی پر ہوتا ہے اور دونوں غموں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ ایک میں غصہ ہوتا ہے اور ایک میں رنج۔
پھر جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حدیث قدسی میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض بندوں سے کہے گا کہ جب میں بھوکا تھا تو تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ جب میں پیاسا تھا تو تم نے مجھے پانی پلایا اور جب میں بیمار تھا تو تم نے میری عیادت کی۔ بندے کہیں گے کہ خدایا! تو کب بھوکا ہؤا کہ ہم تجھے کھانا کھلاتے۔ تو کب پیاسا ہوا کہ ہم تجھے پانی پلاتے۔ تو کب ننگا ہؤا کہ ہم تجھے کپڑے پہناتے۔ تُو کب بیمار ہؤا کہ ہم تیری عیادت کرتے۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے کچھ بندے دنیا میں ایسے تھے جو بھوکے اور پیاسے اور ننگے اور بیمار تھے اور تم نے اُن کی خدمت کی۔ پس گو تم نے میرے بندوں کے ساتھ یہ سلوک کیا مگر یہ ایسا ہی تھا کہ گویا تم نے مجھ سے یہ سلوک کیا ہے۔
اِس مثال سے بھی ظاہر ہے کہ مخلوق کی محبت سے خالق کی محبت ملتی ہے۔ اِسی لئے اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے کہ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ88 جب کوئی شخص محسن ہو جاتا ہے اور بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے لگ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ جب تم کسی سے محبت کرنے لگو تو بتاؤ کہ کیا تمہارا دل چاہتا ہے کہ تم تو اُس سے محبت کرو لیکن وہ تم سے محبت نہ کرے۔ جب تم کسی سے محبت کرو گے تو لازماً تمہارا دل چاہے گا کہ وہ بھی تم سے محبت کرے لیکن دنیا میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ تم زید سے محبت کرو اور زید تم سے محبت نہ کرے۔ تم ایک شخص کو چاہو اور وہ تمہیں نہ چاہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا ایک بات چاہے اور وہ نہ ہو۔ جب خدا کہتا ہے کہ جو شخص محسن ہو جاتا ہے میں اُس سے محبت کرتا ہوں تو یہ ناممکن ہے کہ تم محسن بنو اور خدا تم سے محبت نہ کرے اور اس کی محبت کے نتیجہ میں تمہارے دل میں بھی ضرور محبت پیدا ہوگی اور تم بھی اُس سے محبت کرنے لگ جاؤ گے۔ یہ تو عام قاعدہ بھی ہے مگر خدا تعالیٰ کی تو یہ شان ہے کہ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ۔89
(4) گناہ پر ندامت کی عادت ڈالنا یعنی کوئی گناہ ایسا نہ ہو جس کے بعدندامت نہ ہو۔ اِس سے بھی محبت الٰہی پیدا ہوتی ہے کیونکہ جو شخص گناہ پرنادم ہو اُس کے اندر آہستہ آہستہ حُسن کے دیکھنے اور قدر کرنے کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جو شخص گناہ کرتا ہے اور پھر اُس کے اندر ندامت پیدا نہیں ہوتی اس کے معنی یہ ہیں کہ اُس نے بُری تصویردیکھی مگر اُس نے سمجھا ہی نہیں کہ یہ بُری تصویر ہے اور جس میں ندامت پیدا ہوتی ہے اُس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ اُس میں یہ احساس ہے کہ وہ بُری چیزوں کو بُری سمجھتا ہے اور جب وہ بُری چیزوں کو بُری سمجھے گا تو لازماً اچھی چیز دیکھ کر اُسے اچھی سمجھے گا۔ جب یہ مادّہ کسی شخص کے اندر پیدا ہو جائے اور وہ حسن کو دیکھنے لگے تو پھر خدا تعالیٰ کی محبت کا دروازہ آپ ہی کھل جاتا ہے کیونکہ وہ سب سے بڑا محسن اور سب سے بڑا حسین ہے۔ اِسی لئے فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ 90 اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(5) جو انسان اپنے دل میں یہ یقین پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہے کہ دعا کے بغیر میرے کام نہیں ہو سکتے۔ اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اِس خیال کو اپنے دل میں مرکوز کرلے گا وہ لازماً دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ کرے گا۔ کہے گا فلاں کا کام دعا سے ہوا ہے آؤ میں بھی اُس سے دعا کروں اور اس طرح خداتعالیٰ کا احسان اُس کے زیادہ قریب آ جائے گا۔ یوں تو خدا تعالیٰ نے ہی سورج اور چاند اور ستارے اور ہوا اور دوسری ہزاروں ہزار چیزیں پیدا کی ہیں اور انسان جانتا ہے کہ یہ سب خداتعالیٰ کی عطا کردہ ہیں لیکن جب یہ بات نظر کے سامنے آئے کہ میں نے فلاں چیز مانگی اور خدا نے دے دی۔ میں نے فلاں چیز مانگی اور خدا نے دے دی تو جو اثر یہ چیزیں پیدا کرتی ہیں وہ سورج اور چاند اور ستارے پیدا نہیں کرتے۔ پس دعا کی طرف توجہ کرنا بھی محبت الٰہی پیدا کرتا ہے۔ بے شک شروع میں تکلّف والا حصہ آئے گا لیکن جب یہ بار بار دعائیں مانگے گا تو لازماً اس کی دعائیں قبول بھی ہوں گی اور بعض دفعہ معجزانہ رنگ میں قبول ہوں گی اور اس کی وجہ سے احسان جس سے محبت پیدا ہوتی ہے ننگا ہو کر اس کے سامنے آ جائے گا اور اس کے دل میں بھی محبت الٰہی پیدا ہو جائے گی۔ اِس کی طرف بھی اوپر کی آیت اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ کے دوسرے معنوں نے اشارہ کیا ہے۔
تَوَّابِیْنَ کے دو معنی ہیں۔ ایک توبہ کرنے والوں کے اور دوسرے تَوَّاب اُس شخص کو کہتے ہیں جو بار بار اُس کی درگاہ میں جاتا ہے۔ پس جو شخص بار بار اُس کی درگاہ میں جاتا ہے اُس کے دل میں بھی خداتعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر یہ بات بھی فطرتِ انسانی میں داخل ہے کہ جب انسان مانگتا ہے تو عجز کرتا ہے اور جب عجز کرتا ہے تو اُس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اِس طرح بھی توّاب خداتعالیٰ کی محبت کا جاذب بن جاتا ہے۔
(6) جو شخص خداتعالیٰ پر اپنے کاموں کو چھوڑ دے یعنی تدبیریں سب کرے لیکن یہ یقین کرے کہ نتیجہ اللہ تعالیٰ ہی نے نکالنا ہے اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ جو شخص اپنے کام کو اُس پر چھوڑتا ہے وہ کم سے کم تکلّف سے اُس کی طاقتوں اور اُس کے احسان کا اقرار کرتا ہے اور یہ تکلّف آخر حقیقت بن جاتا ہے جیسا کہ اکثر دنیا کے کاموں میں ہوتا ہے۔ اِسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ 91 جوشخص خداتعالیٰ پر اپنے کام چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے یہ مجھ سے نہیں ہو سکتے آپ ہی یہ کام کیجئے اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔
(7) جو شخص دنیا میں خداتعالیٰ کے لئے انصاف کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اُس کے دل میں بھی محبت الٰہی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ انصاف کا ترک اپنے یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں اور عزیزوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ انسان اِسی لئے انصاف چھوڑتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر میں نے انصاف سے کام لیا تو میری ماں کو نقصان پہنچے گا یا میرے باپ کو نقصان پہنچے گا یامیرے رشتہ داروں کو نقصان پہنچے گا۔ پس انصاف کے ترک کی ایک بڑی وجہ اپنی یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت ہوتی ہے اور یا پھر انصاف کا ترک دشمن کے بُغض کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہی دو وجوہ نا انصافی کے ہؤا کرتے ہیں یعنی دونوں فریق میں سے ایک کی دوستی یا ایک کا بُغض۔ ظاہر ہے کہ جو نہ اپنی یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت کی پرواہ کرے گا نہ دشمن کا بُغض اُسے انصاف سے پھیرے گا کوئی اُس محبت سے بڑی محبت یا اُس بُغض سے بڑا خوف ضرور اُس کے دل میں ہوگا۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اگر فلاں مقدمہ کا میں یوں فیصلہ کر دوں تو میرے بچہ کو فائدہ ہوگا یا میرے دوست کو فائدہ ہوگا یا ماں باپ کو فائدہ ہوگا مگر اس کے باوجود وہ نہیں کرتا تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اور بڑی محبت اُس کے پیچھے ہے اِس لئے وہ انصاف کو ترک نہیں کرتا یا اگر کوئی بڑا دشمن اس کے قابو آ گیا ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ اُس سے بدلہ لے سکتا ہے پھر بھی یہ انصاف سے کام لیتا ہے اور دشمنی کی پروا ہ نہیں کرتا تو صاف ظاہر ہے کہ اُس بُغض کا بدلہ لینے کے پیچھے کوئی ڈر اور خوف ہے جو اُسے ترکِ انصاف سے روکتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے بدلہ لیا تو میرے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ یہ بڑی محبت یابڑا خوف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو سکتا ہے جو خواہ معیّن طور پر اللہ کے نام سے ہو یا غیر معیّن کسی بالا اور اعلیٰ طاقت کی وجہ سے ہو۔ بہرحال اُس کی فطرت میں محبت یا خوف پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ انصاف سے کام لیتا ہے اور یہ محبت یا خوف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو سکتا ہے۔ اور جس کے دل میں یہ بات نہیں لازماً اُس کا یہ فعل اِس لئے ہوگا کہ گویا وہ کسی بڑی طاقت کو مانتا ہے یا اُس کے قریب ہونا چاہتا ہے اور جب ایسا مقام کسی کو حاصل ہو جائے تو لازماً وہ خداتعالیٰ سے محبت کرنے لگ جائے گا اور جب وہ خداتعالیٰ سے محبت کرے گا تو خدا بھی اُس سے محبت کرنا شروع کر دے گا۔ چنانچہ اِس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ 92 اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(8)ایک طریقہ محبت الٰہی کے حصول کا یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر امر میں خداتعالیٰ کو ڈھال بنانے کی کوشش کرے۔ یعنی بدی کو خدا کے لئے چھوڑے بدی کو بدی کے لئے نہ چھوڑے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تقویٰ کہتے ہیں۔ جب انسان کو کسی ہستی کی خاطر کام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے تو آہستہ آہستہ اُس سے محبت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ بادشاہوں، نوابوں اور رؤساء سے پُرانے خاندانی خدام اور رعایا کی محبت اِسی لئے ہوتی ہے کہ اُنہیں اُن کی خاطر کام کرنے کی عادت ہوتی ہے اور اس عادت کی وجہ سے اُن کی محبت ترقی کرتی رہتی ہے۔ اِسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرے خداتعالیٰ کی رضا کے لئے کرے۔ مثلاً اگر وہ صدقہ دیتا ہے تو کہے کہ میں یہ صدقہ اس لئے نہیں دیتا کہ میری نیک نامی اور شہرت ہو بلکہ اِس لئے دیتا ہوں کہ خدا نے صدقہ دینے کا حکم دیا ہے یا فلاں پر میں ظلم نہیں کروں گا کیونکہ میں خدا سے ڈرتا ہوں۔ جب اِس طرح اُسے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی عادت پڑ جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی وابستگی ہو جائے گی۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ 93 جو بُرے کاموں سے میرے لئے بچتے ہیں اور جو نیکی کا کام میرے لئے کرتے ہیں اُن سے میں محبت کرتا ہوں اور اسی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہدایت دیتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی شخص نیک کام کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اِحْتِسَابًا کرے۔94 اِحْتِسَابًا کے معنی ہیں خداتعالیٰ کی خوشنودی اور اُس کی جزاء کے لئے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مقام ادنیٰ ہے حالانکہ یہ بہت اعلیٰ مقام ہے اور اِس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔
(9) محبت کا ایک ذریعہ ہم جنس بننا ہے۔ جتنا جتنا کوئی ہم جنس بنے اِس کی محبت اُسے اور اُس کی اِسے پیدا ہو جاتی ہے۔ انسانوں کو دیکھ لو سب ہم جنس سے محبت کرنے کے عادی ہیں۔ مُلکی مُلکیوں سے اور ایک زبان والے اپنی زبان والوں سے اسی وجہ سے محبت کرتے ہیں کہ وہ اُن کے ہم جنس ہوتے ہیں بلکہ انسان تو الگ رہے جانوروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ کوّے سب اکٹھے رہیں گے، قاز95 سب اکٹھے رہیں گے، مرغ، گھوڑے اور گدھے اپنی اپنی جنس میں رہیں گے۔ ایک طرف آدمی ہوں اور دوسری طرف گھوڑے اور تم کسی گھوڑے کو کھلا چھوڑ دو تو وہ فوراً گھوڑوں کی طرف چلا جائے گا۔ اِسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اِن الفاظ میں اشارہ فرماتا ہے کہ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ خداتعالیٰ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کے ہم جنس بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کی جو صفات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں تم اُن کی نقل کرنے کی کوشش کرو۔ تم حيّ نہیں بن سکتے لیکن تم بیمار کا علاج کر کے یا بیمار کی خدمت کر کے حيّ کی نقل تو کر سکتے ہو۔ تم مُمِیْت نہیں بن سکتے لیکن تم بدی کا خاتمہ کر کے مُمِیْت کی نقل تو کر سکتے ہو۔ تم خالق نہیں بن سکتے لیکن تم اچھی اولاد پیدا کر کے خالق کی نقل تو کر سکتے ہو۔ مُتَطَہِّر کے معنی ہیں تکلّف کے ساتھ پاکیزگی اختیار کرنا۔ پس اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ میں اللہ تعالیٰ نے اِس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر تم میری نقلیں کرنی شروع کر دوتو میں تم سے محبت کرنے لگ جاؤں گا۔ پس صفاتِ الٰہیہ کو جو شخص اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس جس قدر اللہ تعالیٰ سے اُسے مشابہت ہوتی جاتی ہے اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی جاتی ہے اور خداتعالیٰ کو اُس کی محبت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اپنے اپنے دائرہ میں چھوٹے خدا بننے کی کوشش کرو۔ جب تم چھوٹے خدا بن جاؤ گے تو بڑا خدا تم سے آپ ہی محبت کرنے لگ جائے گا۔
(10) ایک ذریعہ محبت کا فطرت کا مطالعہ اور محبت کے طریقوں پر غور کرنا اور اُن پر عمل کرنا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا96 اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر کچھ جذبات رکھے ہیں جو خود اُس نے پیدا کئے ہیں۔ اِن میں صفاتِ الٰہیہ کی جھلک رکھی گئی ہے یعنی انسان کے اندر اُس نے ایسے مادے رکھ دئے ہیں جن سے خدا اور بندے میں ہم جنسیت ہو جاتی ہے۔
اب ہم قانونِ قدرت سے وہ امور تلاش کرتے ہیں جو محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں تا کہ ان پر غور کر کے ایک طالبِ صادق محبت الٰہی پیدا کر سکے۔
(1) سب سے پہلی محبت ہم دیکھتے ہیں کہ ماں باپ اور اولاد کی ہوتی ہے اِس محبت میں حسن اور احسان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کسی ماں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اپنے بچہ سے اِس لئے محبت نہیں کرتی کہ وہ خوبصورت نہیں۔ نہ کوئی ماں یہ کہتی ہے کہ میں اپنے بچوں سے اس لئے محبت کرتی ہوں کہ اُنہوں نے ہم پر احسان کئے ہوئے ہیں۔ نہ بچے نے ماں باپ پر احسان کئے ہوتے ہیں اور نہ وہ اُس کی شکل دیکھتے ہیں بلکہ باوجود بدصورت ہونے کے اُنہیں اپنا بچہ ہی سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ آج ہی ایک عورت مجھ سے ملنے کے لئے آئی اُس نے گود میں اپنا بچہ اُٹھایا ہوا تھا۔ اُس بچہ کو دیکھ کر گھن آتی تھی۔ ناک بہہ رہا تھا اور بہتے ہوئے اُس کے ہونٹوں پر گِر رہا تھا مگر ماں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور وہ اُس کی رینٹھ کو غالباً مشک اور عنبر سے بھی زیادہ اچھا سمجھتی تھی۔ تو ماں باپ کی محبت کسی ظاہری دلیل کی وجہ سے نہیں ہوتی۔
کتابوں میں قصہ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا ہوا تھا کہ اُس نے ایک حبشی کو بُلایا اور اُسے ایک خوبصورت ٹوپی دے کر کہا کہ تمہیں اِس دربار میں جو سب سے زیادہ خوبصورت بچہ دکھائی دے اُس کے سر پر جا کر یہ ٹوپی رکھ دو۔ وہ سیدھا اپنے بیٹے کی طرف گیا جو نہایت کالا کلوٹا اور بھدی شکل کا تھا اور جس کے موٹے موٹے ہونٹ تھے ناک بیٹھا ہوا تھا اور ٹوپی اُس کے سر پر رکھ دی۔ یہ دیکھ کر سارا دربار ہنس پڑا۔ بادشاہ نے اُس سے کہا کہ میں نے تو تمہیں کہا تھا کہ سب سے خوبصورت بچہ کے سر پر یہ ٹوپی جا کر رکھ دو اور تم نے اِس بچہ کے سر پر رکھ دی۔ اُس نے کہا بادشاہ سلامت مجھے تو یہی بچہ سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ تو ماں باپ کی اپنے بچوں سے محبت اُن کی اچھی شکل و صورت کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ بعض اور چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے جن کو میں آگے چل کر بیان کروں گا اور جن کو ماں باپ بھی نہیں جانتے۔ چنانچہ کسی ماں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ تم اپنے بچے سے کیوں محبت کرتی ہو تو بجائے جواب دینے کے وہ ہنس کے کہہ دے گی کہ سودائی کہیں کا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے حالانکہ بچہ ماں باپ کے لئے موجب تکلیف اور خرچ ہوتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی اُس کی رات دن نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ دایہ کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے کپڑے تیار کرنے پڑتے ہیں۔ پھر اگر بچہ کو رات کے وقت پیٹ میں کوئی تکلیف ہو جائے تو ماں ساری ساری رات اُسے لے کر پھرتی رہتی ہے اور جب وہ درد کی وجہ سے روتا اور چلاتا ہے تو وہ کہتی ہے ''میں مَر جاؤں''، ''میں مَر جاؤں''۔ پس ماں باپ سے پوچھنے کی بجائے ہمیں فلسفیانہ طور پر غور کرنا چاہیے کہ آخر بچہ سے ماں باپ کیوں محبت کرتے ہیں۔ اِس نقطۂ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں اس محبت کی پانچ وجوہ معلوم ہوتی ہیں۔
پہلی وجہ اِس محبت کی مقامِ خالقیت ہے۔ یعنی ماں باپ اپنے بچوں سے اِس لئے محبت کرتے ہیں کہ وہ ایک رنگ میں اُن کے خالق ہوتے ہیں اور وہ دنیا میں ایک نیا وجود پیدا کرتے ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس لئے بنائی ہے کہ یہ ترقی کرے اور پھیلے اور چونکہ پیدائش عالَم کی ایک بڑی غرض یہ تھی جیسا کہ وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً 97 سے ظاہر ہے اور پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اِس لئے نہیں بنائی تھی کہ صرف آدم و حوا پیدا ہو جائیں بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اُن کی نسل کو پھیلائے اور ترقی دے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے بہرحال اِس سلسلہ کو جاری رکھنا تھا اِس لئے اُس نے ماں باپ کے دل میں اپنے بچوں کی محبت پیدا کر دی۔ پس ماں باپ کی محبت کی ایک بڑی وجہ خالقیت ہے اور جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا تو اِس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جب خدا کہتا ہے کہ میں سب سے زیادہ محبت رکھتا ہوں تو ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے۔ جب انسان خالقیت کے ایک ادنیٰ پرتَو کی وجہ سے اپنے بچوں سے اتنی محبت رکھتا ہے تو اصل خالق کو اپنی مخلوق سے جس قدر محبت ہو سکتی ہے اُس کا تو اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت اور قوت سے باہر ہے۔
(2) ماں باپ کی محبت کی دوسری وجہ وحدتِ جسمانی ہے۔ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے اپنے جسم کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تم اچانک اپنے کسی دوست کی آنکھ کی طرف زور سے انگلی لے جاؤ تو وہ فوراً اپنی آنکھ جھپک لے گا کیونکہ یہ فطرتی چیز ہے اور اِس میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پچھلے دنوں میری ایک نواسی جو ابھی چھوٹی بچی ہی ہے اور اُس کا والد سیّد ہے میرے پاس آئی اور میں نے مذاق کے طور پر اپنی سوٹی اُس کی طرف اِس انداز میں کی کہ گویا ابھی میں اُسے مارنے لگا ہوں۔ میری سوٹی کے آگے نوکدار پھَل بھی لگا ہوا ہے چونکہ میں نے اچانک ایسا کیا تھا اِس لئے اُس نے ڈر کر چیخ ماری۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ ٹھیک ہو گئی تو میں نے اُسے ہنس کر کہا سیّد بزدل ہوتے ہیں، مغل بہادر ہوتے ہیں۔ کہنے لگی نہیں نہیں سیّد بہادر ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اُس کے ذہن سے یہ بات اُتر گئی تو میں نے پھر اُسے ڈرانے کے لئے اِسی طرح کیا اور وہ پھر ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ میں نے کہا دیکھا سیّد ڈر جاتے ہیں۔ خیر وہ چلی گئی اور چند دن مشق کرتی رہی۔ اِس کے بعد وہ پھر میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اب دیکھیں میں ڈرتی ہوں یا نہیں؟ چنانچہ میں نے اُسے ڈرایا تو وہ نہیں ڈری لیکن دو چار دن کے بعد جب وہ پھر میرے پاس آئی تو غیر متوقع طور پر میں نے پھر اُسے ڈرا دیا اور میں نے دیکھا کہ اس دفعہ بھی وہ ڈر گئی کیونکہ وہ اِس کے لئے تیار نہیں تھی تو فطرت کے اندر خداتعالیٰ نے اپنے جسم کی حفاظت کا مادہ رکھا ہے چونکہ بچہ ماں باپ کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اِس لئے اپنے جسم کو بچانے کا جو مادہ فطرت میں ہوتا ہے وہ اِدھر منتقل ہو جاتا ہے اور ماں باپ اپنے بچہ سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
(3) ماں باپ کی محبت کی تیسری وجہ اپنائیت ہوتی ہے جس طرح وحدتِ جسمانی ایک طبعی محبت پیدا کرتی ہے اِسی طرح تعلق کے لحاظ سے بھی ایک ہو جانے کا خیال محبت پیدا کر دیتا ہے۔ تمہارا کوٹ پھٹ جائے تو تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ کوٹ کے ساتھ اپنایت کا تعلق نہیں ہوتا۔ تم سمجھتے ہو کہ ایک کوٹ پھٹا تو دوسرا لے لیں گے لیکن جہاں تمہارا تعلق ہوتا ہے وہاں اُس چیز کے ضائع ہونے سے تمہیں درد ہوتا ہے۔ پس وحدتِ جسمانی کی طرح اپنائیت بھی محبت پیدا کرتی ہے۔ خداتعالیٰ نے اِس دنیا کا سلسلہ ایسا بنایا ہے کہ ہر بچہ اپنے ماں باپ کے پاس رہتا ہے اور ماں باپ اُس بچہ کو کوئی غیر چیز نہیں بلکہ اپنی چیز سمجھتے ہیں اِس لئے اُس سے محبت رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ لوگوں پر ٹیکس لگا سکتی ہے لیکن اگر گورنمنٹ یہ چاہے کہ وہ کسی کا بچہ لے لے تو وہ بچہ نہیں لے سکتی۔ پس اپنایت کی انتہاء بھی محبت پیدا کرتی ہے۔
(4) بقائے ذات کی خواہش بھی محبت پیدا کرتی ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان چاہتا ہے میں ہزار سال زندہ رہوں مگر ظاہر ہے کہ انسان اِس دنیا میں ہمیشہ کے لئے زندہ نہیں رہ سکتا۔98 لیکن دوسری طرف بقائے ذات کی خواہش بھی ہر انسان میں پائی جاتی ہے جس کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے کہ اُس کی اولاد اُس کے نام کو زندہ رکھتی ہے اور اِس طرح بقائے ذات کی خواہش ایک رنگ میں پوری ہو جاتی ہے۔ پس چونکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں دنیا میں اگر زندہ رہ سکتا ہوں تو بچہ کی طرف سے، اس لئے اُسے اپنے بچہ سے محبت ہوتی ہے۔
(5) ماں باپ کی محبت کی پانچویں وجہ مظہریت ہوتی ہے۔ بقائے ذات کی خواہش تو یہ تھی کہ انسان چاہتا ہے میں خود زندہ رہوں اور مظہریت کے معنی یہ ہیں کہ انسان چاہتا ہے کہ جو چیزیں اُس سے ظاہر ہوتی ہیں وہ بھی ہمیشہ قائم رہیں۔ ایک شخص جوانی میں خوب چل پھر سکتا ہے، گھوڑے پر سواری کرتا ہے اور میلوں میل تک سفر کرتا چلا جاتا ہے اب جہاں طبعی طور پر اُس کے اندر یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں وہاں اس کے اندر یہ خواہش بھی پائی جاتی ہے کہ میں ہمیشہ جوان رہوں۔ یہ نہیں چاہتا کہ میں بُڈھا ہو جاؤں اور لوگ میرے منہ میں لقمے ڈالا کریں۔ گویا اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ میری مظہریت دنیا میں قائم رہے اور چونکہ انسان کی مظہریت اُس کی اولاد کے ذریعہ ہی قائم رہ سکتی ہے اِس لئے فطرتی طور پر ہر شخص اپنے بچوں سے محبت رکھتا ہے۔
یہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی دلیل کے ماں باپ اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں اور یہ ایسے گہرے موجبات ہیں کہ انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں حتی کہ اُسے اِن کے بارہ میں سوچنے کی بھی ضرورت نہیں جس طرح انسان کا اپنا جسم دماغ پر خودبخود اثر کرتا ہے یہ موجبات بھی اُس کے دماغ پر تصرف کرتے ہیں حتّٰی کہ وہ بغیر موجبات کو سوچنے کے مُوجَبْ کو محسوس کرتے لگتا ہے۔
شاید کوئی کہے کہ پہلی محبت تو بچہ کو ماں باپ کی ہوتی ہے آپ نے یہ کیوں کہا کہ پہلی محبت ماں باپ کو بچہ کی ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی نسل کو اگر اس اصول پر مانا جائے کہ آدم و حوا سے نسل انسانی چلنی شروع ہوئی تو ماننا پڑے گا کہ پہلی محسوس محبت آدم و حوا کو ہوئی کیونکہ آدمِ اوّل خواہ یکدم پیدا ہؤا خواہ غیر محسوس دَور سے گزر کر محسوس دَور میں داخل ہؤا۔ اُس نے ماں باپ کی محبت کو نہیں دیکھا یا نہیں سمجھا لیکن اُس نے اپنی اولاد کی محبت کو پہلی دفعہ دیکھا اور سمجھا اور یہی حق ہے۔ پس آدم و حوا کی پیدائش کی تھیوری کو دیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ پہلی محبت ماں باپ کی بچہ سے تھی پہلی محبت بچہ کی ماں باپ سے نہیں تھی۔ یا یوں کہو کہ پہلے اِس محبت کو محسوس کرنے والے ماں باپ تھے بچے نہیں تھے۔ یوں تو لوگ ہمیشہ بحث کیا کرتے ہیں کہ پہلے انڈا تھا یا مرغی؟ اور یہ بحث ہمیشہ جاری رہے گی کہ پہلے آدم ہؤا یا بچہ۔ لیکن بہرحال کوئی نہ کوئی تھیوری ماننی پڑے گی۔ ڈارون کہتا ہے کہ نسل انسانی نے آہستہ آہستہ ارتقائی صورت اختیار کی ہے پہلے وہ بعض جانوروں کی شکل میں تھا لیکن ارتقائی دَور میں سے گزرتے گزرتے آخر وہ انسانی شکل میں نمودار ہؤا۔ قرآن کریم اِس تھیوری کو غلط قرار دیتا ہے لیکن بہرحال اگر ڈارون کی تھیوری لو تب بھی پہلا وجود جو محسوس محبت کرنے والا تھا وہ ماں باپ کا ماننا پڑے گا بچے کا نہیں اور اگر قرآن کریم کی تھیوری لو تب بھی ماں باپ کی محبت کو پہلی محبت ماننا پڑے گا بچے کی محبت کو پہلی محبت نہیں ماننا پڑے گا۔ دینی لحاظ سے بھی یہی اصل ہے کیونکہ خالق و مخلوق کے تعلق میں خالقیت کا تعلق مقدم ہے اور مخلوقیت کا تعلق مَابَعْد۔ پس ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب اپنی محبت کے لئے پیدا کیا تو پہلے محبت اللہ تعالیٰ کے دل میں آئی اور اس کے بعد مخلوق میں۔ جس طرح پہلے محبت ماں باپ کے دل میں آتی ہے اور بعد میں بچہ میں جب وہ محسوس کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ماں جنتے ہی بچہ سے محبت کرتی ہے بلکہ جننے سے بھی پہلے۔ لیکن بچہ کی ماں ولادت کے وقت فوت ہو جائے تو وہ پالنے والی عورت ہی کو ماں سمجھنے لگتا ہے اور اصل ماں باپ کو بھول جاتا ہے۔
اِس سوال کا جواب دینے کے بعد اَب میں اُن موجبات کو لیتا ہوں جو ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کرنے والے ہیں لیکن جن کو وہ خود نہیں جانتے صرف ان کے نتیجہ کو جانتے ہیں اور اُن کو انسان اور خداتعالیٰ کے رشتہ پر چسپاں کرتے ہیں۔
(الف) پہلا موجب میں نے خالقیت کا بتایا ہے یہ ہمیں فطرتِ انسانی سے معلوم ہوتا ہے۔ بچے گڑیاں بنانے کے شوقین ہوتے ہیں، مکان بنانے کے شوقین ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالقیت کا ایک زبردست تقاضا انسان و حیوان میں ہے اور پھر وہ اپنی مخلوق سے طبعاً محبت کرتا ہے۔ پس یہ جذبہ سب سے پہلے ماں باپ کے دل میں بچہ کی محبت پیدا کرتا ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ بھی نکال سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو اصل خالق ہے اُس کی محبت اپنی مخلوق سے بہت زیادہ شدید ہونی چاہیے اور سچ پوچھو تو اس کی موٹی مثال موجود ہے۔ ماں باپ کے جتنے قصور بچے کرتے ہیں وہ کب تک اُن کو معاف کرتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ایک بات نہ ماننے پر ہی اُنہیں عاق کر دیتے ہیں۔ بیسیوں واقعات سننے میں آتے ہیں کہ ماں باپ نے اپنے بچوں کو عاق کر دیا اور جب پوچھا گیا کہ آپ نے عاق کیوں کیا ہے تو اُنہوں نے جواب یہ دیا کہ ہم نے کہا تھا فلاں جگہ شادی کر لو مگر اُس نے ہماری بات نہ مانی اور فلاں جگہ شادی کر لی۔ اب کوئی اُن سے پوچھے کہ یہ بھی کوئی عاق کرنے والی بات تھی۔ عمر اُس نے بسر کرنی تھی یا تم نے؟ مگر وہ برداشت نہیں کرسکتے اور اُنہیں عاق کر دیتے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ حال ہے کہ رات دن دنیا کی چھاتی پر انسان گناہ کر رہا ہے اور خداتعالیٰ کی بات کو ردّ کر رہا ہے مگر وہ ہے کہ اوّل تو عذاب نہیں دیتا اور پھر باوجود جاننے کے کہ کل یہی شخص توبہ توڑ دے گا اُس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اور فرماتا ہے اگر کل اِس نے توبہ توڑی تو دیکھا جائے گا آج تو یہ توبہ کر رہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى 99 اگر اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو ظلم اور گناہ کرتے ہیں پکڑنا چاہے تو انسان کیا حیوان بھی اِس دنیا کے پردہ پر نہ رہیں اور انسان کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے مگر وہ ٹلاتا جاتا ہے اور کہتا ہے معاف کر دو۔ کیا دنیا میں کوئی ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو اتنا معاف کرتے ہوں۔ اپنے نفس پر غور کر کے دیکھ لو ہم میں سے ہر شخص خدا کی جس قدر نافرمانیاں کرتا ہے اور جس قدر ہزاروں ہزار قصور اُس سے سرزد ہوتے ہیں کیا اِس قدر نافرمانیاں وہ اپنے ماں باپ کی کر سکتے ہیں؟ وہ تو مار مار کر دھجیاں اُڑا دیں۔
(ب) دوسری وجہ ماں باپ کی محبت کی میں نے وحدتِ وجود بتائی ہے خدا تعالیٰ کو انسان سے یہ تعلق تو نہیں لیکن وحدتِ مرکزیت کا تعلق ہے کیونکہ انسان اپنی ساری طاقتیں اُس سے لیتا ہے۔ ماں باپ چھوٹے قد کے ہوں تو بچہ بعض دفعہ لمبے قد کا ہوتا ہے۔ ماں باپ کی نظر کمزور ہو تو بچے کی نظر تیز ہوتی ہے۔ ماں باپ کُند ذہن ہوں تو بچہ بعض دفعہ بڑا ذہین ہوتا ہے۔ یاماں باپ بہادر ہوں تو بچہ بُزدل ہوتا ہے۔ غرض ہزاروں ہزار چیزیں ایسی ہیں کہ باوجود وحدتِ وجود کے بچے ماں باپ سے نہیں لیتے لیکن خداتعالیٰ کو انسان سے چونکہ وحدتِ مرکزیت کا تعلق ہے اور انسان کُلّی طور پر اپنی طاقتیں اُسی سے لیتا ہے اِس لئے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کو خدا سے حاصل نہ ہو گویا خداتعالیٰ اِنجن ہے اور وہ کَلْ اور یہ تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔
(ج) تیسری وجہ ماں باپ کی محبت کی اپنائیت ہے کہ یہ شَے میری ہے۔ یہ تعلق بھی اللہ تعالیٰ کا اِنسان سے ماں باپ سے زیادہ ہے کیونکہ ان کا اپنائیت کا احساس ابتدا کے لحاظ سے بھی محدود ہے اور انتہاء کے لحاظ سے بھی محدود ہے۔ ماں باپ کی اپنائیت کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب بچہ رحمِ مادر میں آتا ہے اور جب وہ مَر جاتا ہے تو یہ احساس ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ احساس یا تعلق دونوں لحاظ سے غیر محدود ہے۔ میں خواہ آج پیدا ہؤا یا پچھلی صدی میں پیدا ہؤا۔ خداتعالیٰ ازل سے یہ جانتا تھا کہ میں اُس کا ہوں اور ازل سے یہ جانتا ہے کہ میں مَرنے کے بعد بھی اُسی کا ہوں پس ماں باپ کی اپنائیت محدود دائرہ کے لئے ہے اور خداتعالیٰ کی اپنائیت غیر محدود دائرہ کے لئے ہے۔
(د) چوتھی وجہ ماں باپ کی محبت کی بقائے ذات کا احساس ہے چونکہ اُنہوں نے فنا ہونا ہے اس لئے وہ ایک ایسے وجود کو چاہتے ہیں جن میں اُن کا وجود زندہ رہے۔ خداتعالیٰ فنا سے پاک ہے مگر اس کا تعلق اس جہت سے بھی انسان سے ہے۔ ماں باپ کا بقائے ذات کا تعلق زمانہ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یعنی ماں باپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جب ہم مَر جائیں گے تو اُس زمانہ میں یہ بچہ ہمارا قائم مقام ہوگا لیکن خدا تعالیٰ کا بقائے ذات کا تعلق مقام کے لحاظ سے ہے یعنی چونکہ وہ وراء الوراء ہے وہ انسان کے ذریعہ سے اپنے وجود کو دنیا میں زندہ رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں صرف اپنے بندے کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہو سکتا ہوں اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اِسی طرح بڑے بڑے اولیاء جو اُمتِ محمدیہ میں آئے اگر وہ نہ آئے ہوتے تو اُس زمانہ کے لوگ خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اِسی طرح اِس زمانہ میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ آتے تو دنیا خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ پس ماں باپ کو مدنظر رکھتے ہوئے بقائے ذات کا تعلق وقت کے لحاظ سے ہے اور خداتعالیٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا بقائے ذات کا مقام کے لحاظ سے ہے۔ خدا اِس مجلس میں اِن آنکھوں سے نظر نہیں آ رہا لیکن اُس کے بندے نظر آ رہے ہیں جو اُس کے وجود کو دنیا میں زندہ رکھے ہوئے ہیں اور درحقیقت یہی قسم بقائے ذات کی اصل بقاء ہے۔ وہ بقاء ایک شکی سی چیز ہے اور یہ بقاء ایک یقینی اور قطعی چیز ہے۔ آخر سوچنا چاہیے کہ جسمانی بیٹا ماں باپ کی بقاء کا کس طرح موجب بنتا ہے۔ وہ صرف ورثہ لیتا ہے اِس کے سوا والدین کی حیات کا وہ اَور کیا موجب ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نیک بندے خداتعالیٰ کے وجود کو دنیا میں زندہ کرتے اور زندہ رکھتے ہیں اور جسمانی بیٹوں کے مقابلہ میں خداتعالیٰ سے اُن کی محبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو بقائے ذات کی خواہش رکھنے والے ماں باپ کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ بعض دفعہ محتاج بھی ہوتے ہیں تو بچہ اُن کی مدد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ماں باپ کا وفادار ہونے کی بجائے اپنی اولاد کا زیادہ وفادار ہوتا ہے لیکن وفادار روحانی بیٹے کی یہ حالت ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو خواب میں دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو ابراہیم ؑ جو اپنی اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء کا محتاج تھا وہ اِس خواب کے آتے ہی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا اور اُس نے کہا جب میرا خدا مجھ سے یہ قربانی چاہتا ہے تو میں اپنا قدم پیچھے کیوں ہٹاؤں۔ پس وفادار جسمانی بیٹے اور وفادار روحانی بیٹے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جس طرح ابراہیم خدا نما تھا کوئی بیٹا بھی باپ نما نہیں ہو سکتا۔
(ھ) پانچویں وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے لئے علاوہ جسمانی حیات کے روحانی حیات بھی چاہتا ہے۔ سب سے زیادہ موقع تربیت کا اُسے اپنی اولاد کے متعلق ملتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میرے اخلاق کا مظاہرہ ہوتا رہے چنانچہ دیکھ لو والدین ہمیشہ یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں فلاں خوبیاں ہماری اولاد ظاہر کرے یا ہمارے فلاں مطمح نظر اُس کے ذریعہ سے پورے ہوں لیکن عملاً کم ہوتا ہے۔ پھر بھی ایسی خواہش کے پورا ہونے کا وجود اولاد ہی ہو سکتی ہے اِس لئے وہ اُن سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بھی انسان اِس رنگ میں مظہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہےاِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًاۙ۔لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ١ؕ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا۔اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ100 اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے لئے بطور گواہ ہیں اور گواہ کے ذریعہ ہمیشہ فریق مقدمہ کی سچائی ظاہر ہوتی ہے۔ پس آپ کو گواہ قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے خداتعالیٰ کی سچائی ثابت ہوتی ہے اور آپؐ کی ذات سے خداتعالیٰ کا وجود ثابت ہوتا ہے اِس لئے آپؐ کی بیعت خدا کی بیعت ہے۔ پھر فرماتا ہے یہی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بھی خدا کا ہاتھ ہے اِس لئے کہ یہ ہاتھ مجھے دکھا رہا ہے اور چونکہ یہ میرا چہرہ دکھا رہا ہے اِس لئے اُس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔ گویا پہلی آیت يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ کی دلیل کے طور پر بیان کی گئی ہے یعنی چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے مظہرکامل ہیں اور آپؐ کے ذریعہ خداتعالیٰ کا وجود اِس دنیا میں ظاہر ہو رہا ہے اِس لئے آپؐ کی بیعت خدا کی بیعت اور آپؐ کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے۔ اِسی طرح اعلیٰ مومنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ میں اُن کے ہاتھ ہو جاتا ہوں، پاؤں ہو جاتا ہوں، زبان ہو جاتا ہوں یعنی وہ میری صفات کو دنیا میں ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اولاد سے جن امور کی بناء پر محبت کی جاتی ہے وہ سب کے سب خداتعالیٰ میں پائے جاتے ہیں اِس لئے وہ لازماً اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ بعض سے عام جیسا کہ ہر ماں باپ اپنے ہر قسم کے بچے سے پیار کرتے ہیں اور بعض سے خاص۔ جیسا کہ ماں باپ اُن بچوں سے جن میں زیادہ اوصاف جمع ہو جائیں دوسرے بچوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
یہ ایک ضمنی حصہ ہے اور درحقیقت الگ باب ہے اس امر کے متعلق کہ خداتعالیٰ کو اپنے بندوں سے کیوں اور کس قسم کی محبت ہوتی ہے مگر چونکہ میں محبت کا فلسفہ بیان کر رہا تھا یہ بھی درمیان میں آگیا۔
(2) دوسرا موجب محبت کا احسان ہوتا ہے اِس جذبہ کے ماتحت بچہ ماں باپ سے محبت کرتا ہے (ماں باپ کی محبت اِس کے برخلاف فطرتی ہوتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے) کیونکہ ماں باپ اُس کے اخراجات برداشت کرتے اور اُس کے لئے ہر رنگ میں اپنے نفس پر تکالیف وارد کرتے ہیں۔ شاگرد اُستاد سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُسے سکھاتا اور تعلیم دیتا ہے۔ محتاج محسن سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُس کی ضرورت کو پورا کرنے والا ہوتا ہے۔ مرید شیخ سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُسے روحانی تعلیم دیتا ہے۔ یہ وجہ بھی اللہ تعالیٰ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور قرآن کریم نے اِس وجہ کی طرف خاص طور پر توجہ بھی دلائی ہے چنانچہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ رَبّ ہے، رحمن ہے، رحیم ہے، مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِہے، غفور ہے، ستارہے، جبار ہے، وارث ہے، حفیظ ہے، بصیر ہے، رزّاق ہے، سمیع ہے، مجیب الدعا ہے۔ یہ صفات بتا کر اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ تم اِن صفاتِ الٰہیہ پر غور کرو اور سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کس قدر احسانات کئے ہیں اور یہ تو صرف چند نام بطور مثال میں نے لئے ہیں ورنہ بہت سے نام اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں جو اُس کی صفاتِ حسنہ پر دلالت کرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نظر نہیں آتا اور ماں باپ، استاد، محسن اور پیر کا ہاتھ نظر آ جاتا ہے۔ بندوں کے احسانات ظاہر ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ کے احسانات پوشیدہ ہوتے ہیں اور درحقیقت اِن احسانات کو پوشیدہ رکھنا ہی ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس احسان مندی کا بڑا بدلہ مقرر ہے جو انسانوں کی احسان مندی کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا بدلہ زیادہ ملتا ہے اور شیخ اور پیر کی محبت کا بدلہ اُتنا نہیں ملتا۔ جو چیز ظاہر ہو وہ چونکہ طبعی ہو جاتی ہے اور مزید بدلہ کا راستہ بند کر دیتی ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کو مخفی رکھا ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اُس کے احسانات کو تلاش کرکر کے اپنی محبت کو بڑھائے اور اُستوار کرلے۔
(3) تیسری وجہ محبت کی حسن ہے۔ اِس کے مظہر میاں بیوی، عمدہ نظارے، عمدہ آواز، عمدہ قاعدے اور قانون وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہ درجہ مادی محبت کے لحاظ سے احسان والی محبت سے ادنیٰ ہے۔ احسان والی محبت کا درجہ مادی لحاظ سے حسن والی محبت سے اعلیٰ ہے کیونکہ احسان والی محبت میں اخلاق کا دخل ہوتا ہے اور حسن کی محبت میں صرف طبعی میلانات بلکہ پس پردہ لذّاتِ جسمانی کا حصول اِس کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے ماں باپ کی محبت بیوی کی محبت سے زیادہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے کیونکہ اوّل الذکر کی بنیاد اخلاق پر اور ثانی الذکر کی لذاتِ جسمانی پر ہوتی ہے۔ لیکن روحانی محبتوں میں یہ بات اُلٹ جاتی ہے مثلاً خداتعالیٰ کی محبت کا موجب احسان کی یاد ہو تو یہ محبت درجہ کے لحاظ سے ادنیٰ سمجھی جائے گی لیکن حسن باری محبت کا موجب ہو تو یہ محبت اعلیٰ سمجھی جائے گی گویا دنیا کی محبتوں اور خداتعالیٰ کی محبت میں یہ فرق ہے کہ دُنیوی محبت میں حسن والی محبت کا درجہ احسان والی محبت کے درجہ سے کم ہے کیونکہ احسان کی محبت میں اخلاق کا دخل ہے اور حسن کی محبت میں صرف طبعی میلان کا بلکہ پس پردہ لذتِ جسمانی کے حصول کی خواہش کا۔ لیکن روحانی محبت میں حقیقت اُلٹ جاتی ہے اور احسان کی وجہ سے جو محبت ہو وہ حسن کی وجہ سے محبت سے ادنیٰ سمجھی جاتی ہے۔ انسان میں حسن پہلے نظر آتا ہے اور احسان بعد میں۔ گویا حسن ظاہر ہے اور احسان مخفی اور اس وجہ سے احسان حسن سے اعلیٰ مقام پر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے لحاظ سے احسان پہلے نظر آتا ہے اور حسن بعد میں۔ یعنی حسن الٰہی، احسانِ الٰہی سے زیادہ مخفی ہے۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١ٞ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ 101 تمہاری آنکھیں اُس کو نہیں دیکھ سکتیں کیونکہ وہ لطیف ہستی ہے لیکن وہ خود چل کر تمہارے پاس آ جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمہارے دل میں اُس کی محبت کی تپش پائی جاتی ہے اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! کیا آپ نے کبھی خدا کو بھی دیکھا ہے؟ آپؐ نے فرمایا نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہُ102 وہ تو ایک نور ہے اُس کو کس طرح دیکھا جا سکتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی رؤیت جسمانی نہیں ہوتی۔ پس حسن الٰہی ایک نئی حس سے نظر آتا ہے جو محبت میں ترقی کرتے کرتے انسانوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے برخلاف انسانی حسن سب سے پہلے نظر آنے والی شَے ہے اور اس کے دیکھنے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن احسان بعد میں نظر آتا ہے اور اس کے لئے عقل اور فکر سے کام لینا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانی دیا ہے، روٹی دی ہے، ہوا دی ہے، سورج دیا ہے، چاند دیا ہے، سیارے اور ستارے دیئے ہیں، زمین بنائی ہے، آسمان بنایا ہے یہ سب اُس کے احسانات ہیں جو بالکل ظاہر ہیں لیکن (حسن الٰہی ایک مخفی چیز ہے جس کے لئے جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اِس لئے خدا کے معاملہ میں حسن کا مقام زیادہ بلند ہے اور یہ حسن الٰہی ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ ایک نئی حس سے نظر آتا ہے جو احسان کے بعد آہستہ آہستہ ترقی پاتی ہے اور محبت کے اعلیٰ مدارج میں سے ہے اور احسان کی محبت سے بہت بالا ہے کیونکہ اس کے لئے آنکھیں بھی پیدا کرنی پڑتی ہیں اُس سے بہت اعلیٰ آنکھیں جو احسان دیکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محبت کے نہایت اعلیٰ مقام پر پہنچ کر یہ حسن نشوونما پاتا ہے اور قلب کی ایک نئی طاقت خداتعالیٰ کے حسن کو دیکھنے اور چھونے پر قادر ہو جاتی ہے جو ہر انسان کو نہیں مل سکتی)اِسی کا ایک حصہ کانوں سے حسن کو معلوم کرنے کا ہے جو الہام کے ذریعہ سے انسان کو موہبت کے رنگ میں عطا ہوتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ جس کے ساتھ اُسے محبت ہے اُس کی آواز بھی سنے تا کہ اُس کے کان بھی اپنے محبوب کی آواز سے لُطف اندوز ہوں اور یہی خواہش اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں کے دلوں میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی شیریں آواز اُن کے کان میں آئے اور وہ اپنے محبوب سے راز و نیاز کی باتیں کریں لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے یہ جسمانی کان خداتعالیٰ کی آواز کو نہیں سُن سکتے۔ وہ تبھی سُنتے ہیں جب ایک نئی طاقت ہمارے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔ دنیا میں تو جس طرح حسن اِن مادی آنکھوں سے دکھائی دے سکتا ہے اِسی طرح محبوب کی آواز بھی ہمارے یہ مادی کان سُن لیتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے معاملہ میں جس طرح حسن الٰہی ایک نئی حِسّ سے نظر آتا ہے اِسی طرح حسن آواز کے لئے نئے کان پیدا کرنے پڑتے ہیں جو گویا احسان کی قدر کے بعد ایک موہبت کے رنگ میں عطا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں حسن کی وجہ سے محبت کا مقام زیادہ بلند ہے اور احسان کی وجہ سے محبت کا مقام اُس سے نیچے ہے۔
چوتھا ذریعہ محبت کا اقتضائے حاجات و رفع شہوات ہے۔ جیسے میاں بیوی کی محبت ہے یا مال کی محبت بھی اِسی قسم کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی بہت ہی تھوڑی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور پھر جو ضرورتیں پوری کرتے ہیں اُن کے تمام سامان خداتعالیٰ کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ پس قضائے حاجات کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ محبت کا مستحق ہے کیونکہ وہی سب سے زیادہ اپنے بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔
پانچواں ذریعہ محبت کا رفاقت و مصاحبت ہے۔ اس کی مثال دوستوں کی محبت اور میاں بیوی کی محبت ہے۔ بیویاں نہ سب کی حسین ہو سکتی ہیں نہ ہمیشہ حسین رہ سکتی ہیں۔ خوبصورت سے خوبصورت بیوی بھی ہو تو بعض دفعہ بیماریوں کی وجہ سے وہ نہایت بدصورت ہو جاتی ہے مگر یہ نہیں ہوتا کہ بیوی بدصورت ہو جائے تو خاوند اُسے چھوڑ دے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ گو ابتدا میں اکثر میاں بیوی ایک دوسرے سے اقتضائے حاجات اور حسن کی وجہ سے محبت کرتے ہیں یعنی وہ ایک دوسرے کو اچھے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام آتے ہیں اور ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اِس لئے وہ آپس میں محبت رکھتے ہیں لیکن بعد میں حسن اور شہوت، رفاقت اور مصاحبت کی محبت سے بدل جاتے ہیں اور حسن بھول جاتا ہے گویا چونکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اِس لئے اُن کی محبت ایک نیا چولہ بدلتی ہے جو بڑھاپے تک قائم رہتی ہے۔ اُس وقت وہ عورت جس پر وہ کسی زمانہ میں اُس کے حسن کی وجہ سے جان چھڑک رہا تھا اپنے سارے حسن کو کھو بیٹھتی ہے مگر مرد اُس سے پھر بھی محبت کر رہا ہوتا ہے۔ اگر اُس عورت کی کوئی تصویر کھینچ کر دوسرے کے پاس لے جائے اور کہے بتاؤ کیا تم اِس عورت سے محبت کر سکتے ہو؟ تو وہ دیکھتے ہی کہے گا کہ کیا تم مجھے احمق سمجھتے ہو کیا یہ اِس قابل ہے کہ اِس کے ساتھ محبت کی جائے۔ اِس کی بھویں لٹکی ہوئی ہیں، چہرہ سُوکھا ہؤا ہے، دانت کوئی ہے نہیں، کمر کبڑی ہو چکی ہے اور تم کہتے ہو کہ میں اِس کے ساتھ محبت کروں لیکن اُس کا خاوند اب بھی اُس پر جان دیتا ہے کیونکہ اُس کی حسن اور قضائے حاجت والی محبت رفاقت اور مصاحبت کی محبت سے بدل چکی ہوتی ہے۔ اِس رفاقت اور مصاحبت کو لو تو یہ بھی خداتعالیٰ میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اِسی کی طرف قرآن کریم میں اِن الفاظ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا103 یعنی تمہاری محبتیں شکلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ خداتعالیٰ نے تمہیں آپس میں اس طرح سمو دیا ہے کہ تمہیں شکلیں یاد ہی نہیں رہیں بلکہ تم ایک دوسرے کا حصہ ہوگئے ہو اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے سَو میں اسّی میاں بیوی جن کی زندگی آرام سے گزرتی ہے اور وہ آپس میں محبت کرتے ہیں۔ اُن کی زندگی اِسی رفاقت اور مصاحبت کی وجہ سے اچھی ہوتی ہے۔ اگر حسن اور قضائے حاجت کا سوال ہوتا تو شاید وہ اس طرح محبت نہ کر سکتے۔
(6) کبھی محبوبوں کا اجتماع کرنے والے سے بھی محبت ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ بعض خاص کلبوں سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ وہاں ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں جن سے اُنہیں لگاؤ ہوتا ہے۔ بعض خاص قسم کی سوسائٹیوں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں ایسے لوگ آتے ہیں جن سے مل کر اُنہیں حظّ اور سرور حاصل ہوتا ہے۔ وطن کی محبت بھی اِسی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہاں اُن سے تعلقاتِ محبت رکھنے والے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح شہروں اور محلّوں کی محبت کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ انسان کہتا ہے اِس محلّہ میں میرا چچا اور ماموں یا دوسرے رشتہ دار موجود ہیں۔ جب کسی شخص کو وطن سے باہر بھجوایا جائے تو چونکہ وہ جگہ ایسی ہوتی ہے جو اُس کے محبوبوں کو جمع نہیں کرتی اِس لئے اس کی طبیعت میں بے چینی رہتی ہے۔ پھر جس طرح بعض خاص کلبیں، مجالس، شہر اور محلّے مختلف محبتوں کو یکجا کرنے کی وجہ سے انسان کو محبوب ہوتے ہیں اِسی قسم کی محبت بعض رشتہ داروں سے بھی ہوتی ہے اور انسان کہتا ہے فلاں سے مجھے بڑی محبت ہے کیونکہ وہ میرے چچا کا بھی بیٹا ہے اور میری خالہ کا بھی بیٹا ہے تو دو رشتے اُس میں بھی ہوگئے ہیں۔ کئی خاوند اپنی بیویوں سے اِس لئے محبت کرتے جاتے ہیں کہ اُن سے نیک اولاد اُنہیں حاصل ہوئی ہوتی ہے۔ غرض دنیا میں یہ ایک عام نظارہ نظر آتا ہے کہ محبوبوں کا اجتماع کرنے والے سے انسان کو محبت ہوتی ہے۔ اِس نقطۂ نگاہ سے بھی اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اِس محبت کا بھی مرکز ہے کیونکہ جو اچھا آدمی ہوگا وہ لازماً خدا سے بھی تعلق رکھتا ہوگا۔ اِس لئے خدا سے تعلق رکھ کر ہر اچھے آدمی سے تعلق پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں۔ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں۔ غرض جتنے حسین اور قابلِ محبت وجود خدا تعالیٰ میں جمع ہوتے ہیں اور کہیں جمع نہیں ہوتے۔ اُس کی جنت میں تمام نیک جمع ہو جاتے ہیں اور تمام محب اور محبوب اُس کی طاقت سے محب اور محبوب بنتے ہیں۔ پس اس نقطۂ نگاہ سے بھی خداتعالیٰ کا وجود ہی اِس قابل ہے کہ اُس کے ساتھ محبت کی جائے اور اِسی امر پر غور کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھا سکتا ہے۔
(7) طویل تعلق اور آئندہ ترقیات کی وابستگی کے احساس سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے۔ بادشاہوں سے یا وطن سے یا سیاسی اور مذہبی پارٹیوں سے اِسی جہت سے محبت ہوتی ہے۔ بعض لوگ جو سینکڑوں سال سے حنفی چلے آ رہے ہیں اُنہیں طبعی طور پر حنفیوں سے ہی محبت ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا خاندان تو سات پشت سے حنفی ہے یا ہمارا خاندان سات پشت سے وہابی ہے۔ اِسی طرح وہ سیاسی پارٹیاں جو ایک لمبے عرصہ تک برسرِاقتدار رہتی ہیں اُن کے ساتھ بھی لوگوں کو محبت ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلاں بڑی مضبوط پارٹی ہے۔ اگر ہم اُس پارٹی کے ساتھ تعلق پیدا کریں گے تو ہمیں فائدہ ہوگا۔ غرض سابق لمبا تعلق یا آئندہ کے لمبے تعلق کی امید بھی انسان کے دل میں محبت پیدا کر دیتی ہے عادات سے محبت بھی اِسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اُن کے ساتھ ایک لمبا تعلق رہ چکا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لحاظ سے یہ وجہ بھی بڑی قوی ہے کیونکہ آئندہ ترقیات جتنی اُس سے وابستہ ہو سکتی ہیں اور کسی سے نہیں اور طویل تعلق زمانۂ سابق یا مستقبل کے لحاظ سے بھی جتنا اُس سے ہے اور کسی سے نہیں۔
(8) آٹھویں وجہ محبت کی سکون کا حاصل ہونا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی سکون سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے یعنی یہ دونوں چیزیں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ محب کے وصال سے سکون اور حصولِ سکون سے محبت پیدا ہوتی ہے گویا اِن دونوں کا آپس میں خالق و مخلوق کا تعلق ہے۔ کبھی یہ خالق اور وہ مخلوق اور کبھی یہ مخلوق اور وہ خالق ہوتا ہے۔ یہ سکون کبھی عقلی ہوتا ہے اور کبھی جذباتی۔ عقلی جیسے کھانے پینے اور پہننے سے سکون حاصل ہوتا ہے اور جذباتی جیسے تعلقاتِ مرد و زن سے۔ کبھی تسکین کی امید کی وجہ سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے یعنی امید ہو کہ اُس سے تسکین حاصل ہوگی جیسے سیاسی یا مذہبی پروگرام وغیرہ جن سے مُلکی ترقی یا اُخروی زندگی کی امید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ امر بھی سب سے زیادہ چسپاں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے جس سکون کے ملنے کا امکان ہو سکتا ہے غیر سے نہیں کیونکہ غیر کی نعمت ٹوٹ سکتی ہے لیکن خداتعالیٰ کی نعمت جاری ہے اور ترقیات وہ بہت زیادہ دے سکتا ہے۔
غرض جتنے موجباتِ محبت ہیں وہ سارے کے سارے نہایت شدت سے اللہ تعالیٰ کے وجود میں پائے جاتے ہیں۔ اِس لئے جب ایک ایک وجہ شدید محبت پیدا کر سکتی ہے تو جس میں وہ سب وجوہ پائی جائیں اور شدت سے پائی جائیں اُس سے کیوں محبت نہ ہوگی۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ذکر و فکر سے اِن اُمور کا احساس غائب سے حاضر میں لایا جائے اور عدم سے وجود میں اُن کو تبدیل کیا جائے۔
(9) ایک ذریعہ محبت کا تحریک و تحریص بھی ہوتا ہے۔ جب بار بار کسی حسین چیز کا ذکر کیا جائے تو لوگوں کو سُن سُن کر بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ عربوں میں قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے کسی کتاب میں پڑھا کہ اُستادوں سے دوستانہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ بے وقوف ہوتے ہیں۔ اُس کے ایک استاد سے بڑے اچھے تعلقات تھے جو ایک لمبے عرصہ تک قائم رہے اور وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ استاد تو بڑے اچھے ہوتے ہیں معلوم نہیں لکھنے والے نے یہ کس طرح لکھ دیا کہ استاد بے وقوف ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ وہ اُن سے کچھ عرصہ کے بعد ملنے کے لئے گیا تو اُسے معلوم ہؤا کہ استاد صاحب بیمار ہیں۔ اُس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ وہ کب سے بیمار ہیں۔ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ مدت ہوگئی وہ تو گھر سے نکلتے ہی نہیں۔ وہ بہت پریشان ہؤا اور آخر دریافت حالات کے لئے اُن کے مکان پر پہنچا۔ بیوی نے اُن سے کہا کہ آپ اُن کے اچھے دوست ہیں آپ نے خبر بھی نہیں لی کہ اُن کا کیا حال ہے وہ تو مرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اِسے سن کر بہت افسوس ہؤا اور اس نے کہا کہ پردہ کروا دیں تا کہ میں خود اُن سے حال دریافت کر سکوں۔ چنانچہ وہ اندر گیا دیکھا تو واقع میں استاد صاحب بڑے مضمحل اور کمزور ہو چکے تھے اور ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ گئے تھے۔ اُس نے پوچھا کہ آپ کو بیماری کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بیماری کی کچھ سمجھ نہیں آئی بہت علاج کروایا ہے مگر کوئی افاقہ نہیں ہؤا۔ اس نے کہا آخر کچھ تو بتائیے کہ یہ بیماری آپ کو شروع کس طرح ہوئی ہے؟ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ جب میں کتابیں پڑھتا اور اُن میں محبت اور عشق کے واقعات دیکھتا تھا تو میرے دل میں بھی بار بار خیال آتا تھا کہ مجھے بھی محبت کرنی چاہیے مگر میں سمجھتا تھا کہ میری محبت کسی معمولی عورت سے نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں جو سب سے زیادہ حسین عورت ہوگی اُس سے میں محبت کروں گا۔ چنانچہ ایک دن میں اپنی گلی میں بیٹھا ہؤا تھا کہ ایک شخص میرے پاس سے گزرا اور اُس نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اُمِّ عمرو ایسی حسین عورت ہے کہ ساری دنیا اُس پر عاشق ہے۔ میں نے کہا کہ بس عشق کرنا ہے تو اُمِّ عمرو سے ہی کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے اُس سے محبت کرنی شروع کر دی۔ اُس نے کہا یہ تو فرمائیے آپ نے اُمِّ عمرو کبھی دیکھی بھی تھی یا نہیں؟ کہنے لگا میں نے دیکھی تو نہیں لیکن جب ساری دنیا اُس سے محبت کرتی تھی تو میں نے سمجھا کہ میں بھی اُس سے کیوں نہ محبت کروں۔ چنانچہ میں اپنی محبت اور عشق میں ترقی کرتا چلا گیا اور دل میں باربار حسرت پیدا ہوتی تھی کہ اُمِّ عمرو کا مجھے وصال حاصل ہو مگر مدتیں گزر گئیں اور اُمِّ عمرو کا کچھ پتہ نہ چلا۔ ایک دن میں پھر اپنی گلی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص گزرا اور اُس نے یہ شعر پڑھا کہ
لَقَدْ مَرَّا لْحِمَارُ بِاُمِّ عَمْرٍو
فَمَا رَجَعَتْ وَمَا رَجَعَ الْحِمَارُ
کہ اُمِّ عمرو کو گدھا لے کر چلا گیا اور اِس کے بعد نہ وہ لَوٹی اور نہ گدھا لَوٹا۔ میں نے سمجھ لیا کہ وہ جو لَوٹی نہیں تو ضرور مَر چکی ہے۔ چنانچہ اُس دن سے میں چارپائی پر پڑا ہوں اور حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ جب محبوب ہی نہ رہا تو اِس دنیا میں زندہ رہ کر کیا کرنا ہے۔ وہ یہ قصہ سُن کر لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھا اور کہنے لگا کتاب میں سچ لکھا تھا کہ استاد بے وقوف ہوتے ہیں۔
تو حقیقت یہ ہے کہ بار بار کسی چیز کا ذکر سننے سے بھی محبت ہو جاتی ہے۔ بار بار یہ کہنا کہ خدا بڑا پیارا ہے، خدا بڑا محسن ہے، خدا بڑا مہربان ہے، خدا ہم سب کی ضروریات پوری کرتا ہے، خدا ہم سب کو روزی دیتا ہے، خدا ہماری دعائیں سنتا ہے، خدا ہماری مشکلات دور کرتا ہے۔ اِسی طرح وعظ و نصیحت کی مجالس منعقد کرنا اور خداتعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کی ترغیب دلانا۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جو رفتہ رفتہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتی ہیں چنانچہ دیکھ لو جہاں سخاوت کا ذکر آئے گا لوگ فوراً کہہ اُٹھیں گے کہ حاتم بڑا سخی تھا حالانکہ نہ اُنہوں نے حاتم کو دیکھا نہ اُس کے حالات پڑھے محض اس لئے کہ لوگوں کی زبان پر حاتم کا بار بار ذکر آتا ہے ہر شخص حاتم سے محبت کرتا ہے۔ اِسی طرح ایک پنجابی جو نہ یونان کا نام جانتا ہے نہ اُس مُلک کے حالات سے واقفیت رکھتا ہے فوراً کہہ دے گا کہ تو بڑا افلاطون آیا ہے یا جب کوئی شخص اپنی بہادری کی ڈینگیں مارے تو لوگ کہتے ہیں بڑا رُستم بنا پھرتا ہے حالانکہ کہا جاتا ہے کہ رُستم کوئی حقیقی وجود نہیں تھا محض قصہ کہانیوں میں بہادری کے ذکر کے لئے ایک نام تجویز کر لیا گیا ہے۔ پھر اور باتوں کو جانے دو زلیخا کے حسن کے اتنے قصے مشہور ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں۔ اچھے معقول اور تعلیم یافتہ آدمیوں نے بعض دفعہ مجھ سے پوچھا ہے کہ کیا یہ سچ ہے کہ زلیخا اتنی حسین تھی کہ اُس سے بڑھ کر اور کوئی حسین عورت نہیں تھی؟ اب زلیخا مَر کے مٹی بھی ہوگئی مگر اُس کے حسن کا چرچا باقی ہے کیونکہ لوگوں میں اُس کا بار بار ذکر آتا ہے۔ اِسی طرح لیلیٰ ضرور اچھی ہوگی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کئی نوکرانیاں اُس سے اچھی ہوں مگر اِس وجہ سے کہ بار بار لیلیٰ کا ذکر آتا ہے اُس کا دماغوں پر ایسا نقشہ کھنچ گیا ہے کہ انسان خیال کرتا ہے کہ لیلیٰ سے بڑھ کر کوئی خوبصورت عورت ہو ہی نہیں سکتی۔ پس کسی کا اچھا ذکرسن سن کر بھی اُس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب ہماری عقل بتاتی ہے کہ خدا سب سے اچھا ہے تو اگر قوم میں اِس امر کو جاری کیا جائے کہ محبت الٰہی کا ذکر بار بار ہو اور لوگوں کو تحریک کی جائے کہ وہ خود بھی ذکر و فکر کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں اور اِس ذکر کو عام کرنے کے لئے وعظ و نصیحت کی مجالس منعقد کی جائیں اور بچوں کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں، بیویوں کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں، ماں باپ کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں تو غیر شعوری طور پر لوگوں کے دلوں میں محبت الٰہی پیدا ہو جائے گی اور قوم میں ایسے لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں نظر آنے لگیں گے جو خدا کے نام پر سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔
دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ مگر اس وجہ سے کہ عیسائی بچپن سے ہی اپنی قوم کے افراد کے دلوں میں یہ نقش کرتے رہتے ہیں کہ عیسیٰ بڑا ہے کوئی عیسائی بھی خواہ وہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسیٰ پر فضیلت دی جائے۔ میں جب انگلستان گیا تو ایک عیسائی ڈاکٹر جو دہریہ تھا مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے مذہبی گفتگو شروع کر دی مگر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی بے باقی کے ساتھ حملہ کر دیتا تھا۔ تین چار دفعہ تو میں نے برداشت کیا مگر جب بار بار اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا تو میں نے کہا کیا تم جانتے نہیں عیسیٰ میں فلاں فلاں نقص تھے جن کو انجیل سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ جب میں نے عیسیٰ کا نام لیا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا عیسیٰ کا نام نہ لیں یہاں عیسیٰ کا کیا ذکر ہے میں عیسیٰ کے متعلق کوئی بات سن نہیں سکتا۔ میں نے کہا تم اگر عیسیٰ کے متعلق کوئی بات نہیں سن سکتے تو میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بات نہیں سن سکتا۔ وہ دہریہ تھا مگر اس وجہ سے کہ بچپن سے اُس کے کانوں میں یہ بات ڈالی جاتی رہی تھی کہ عیسیٰ سب سے بڑا ہے باوجود دہریہ ہونے کے وہ اِس بات کو برداشت نہ کر سکا کہ عیسیٰ پر اعتراض کیا جائے۔
اِسی طرح جب میں حج کے لئے گیا تو جس جہاز میں میں نے سفر کیا اُسی میں تین بیرسٹر بھی سفر کر رہے تھے۔ ایک ہندو تھا اور دو مسلمان مگر وہ دونوں دہریہ تھے۔ خداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان نہیں رکھتے تھے چنانچہ میرے ساتھ اُن کی لمبی بحث رہی۔ وہ خداتعالیٰ کی ہستی پر بار بار مذاق اُڑاتے اور بعض دفعہ ایک تنکا نکال کر سامنے رکھ دیتے کہ اگر تمہارے خدا میں طاقت ہے تو وہ یہ تنکا ہِلا کر دکھائے۔ ہندو بیرسٹر بھی اُن اعتراضات میں اُن کا شریک ہؤا کرتا تھا۔ ایک دن اس بحث کے دوران میں جب کہ ہندو بیرسٹر بات کر رہا تھا اُس نے مثال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی گستاخی سے ذکر کر دیا۔ بس اُس کا یہ ذکر کرنا تھا کہ وہ دونوں بیرسٹر جو خدا کی ہستی پر رات دن مذاق اُڑاتے رہتے تھے یکدم غصہ کے ساتھ اُس سے کہنے لگے کہ دیکھو میاں! اب اِس کے بعد تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لینا ورنہ ہماری اور تمہاری دوستی بالکل ٹوٹ جائے گی۔ اُس نے کہا جب تم خدا کو ہی نہیں مانتے تو رسول کے ماننے کا سوال کیسا؟ وہ کہنے لگے کچھ ہو خدا کو جو مرضی ہے کہہ لو مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہم کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے۔ اب اِس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہی ہے کہ ماں باپ نے بچپن سے ''تحفظِ ختم نبوت'' کی تلقین کی ہوئی ہوتی ہے اور چونکہ بچپن سے وہ سنتے چلے آتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں سے بڑے ہیں اِس لئے وہ یہ بحث تو کر لیں گے کہ خدا ہے یا نہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف وہ کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ تو بار بار سننے سے بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حَبِّبُوا اللہَ اِلٰی عِبَادِہٖ یُحْبِبْکُمُ اللہُ104 یعنی لوگوں کے اندر تم ایسی باتیں کیا کرو جن سے خدا کی محبت پیدا ہو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا۔ اگر تم اپنے بچوں کو اور بڑوں کو، دوستوں کو اور رشتہ داروں کو محبت الٰہی کی ضرورت اور اُس کے حصول کی اہمیت بتاؤ اور محبت پیدا کرنے والے افعال کا ذکر بار بار اپنی مجالس میں محبت اور پیار سے کرتے رہو تو تمہاری محبت بھی بڑھے گی اور اُن کی بھی۔
(10) دسواں طریقہ محبت الٰہی کے حصول کا دعا ہے جو ساری کامیابیوں کی جڑ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اٰخِرُالدَّوَاءِ اَلْکَیُّ105 کہ آخری علاج داغ دینا ہوتا ہے۔ اِسی طرح سارے کاموں کا آخری انحصار دعا پر ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکے اور اُس سے کہے کہ الٰہی! تیرا وجود مخفی ہے میری عقل سخت ناقص اور ناتمام ہے مگر میرے دل کے مخفی گوشوں میں تیرے وصال کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے۔ میرا دل تجھ سے ملنے کے لئے بیتاب ہے میں چاہتا ہوں کہ تیری محبت کو حاصل کروں۔ مگر اے میرے رَبّ! میری کوششیں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک تیرے فضل میرے شاملِ حال نہ ہوں۔ پس تو اپنی محبت سے مجھے حصہ عطا فرما اور مجھے اُن لوگوں میں شامل فرما جو تیرے مُحِبّین کے پاک گروہ میں شامل ہیں۔ چنانچہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ اَحَبَّکَ وَحُبَّ مَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ وَاجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ۔106
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ یعنی اے میرے خدا! مجھے اپنی محبت عطا فرما وَحُبَّ مَنْ اَحَبَّکَ اور اے خدا جو تجھ سے محبت کرتے ہیں میرے دل میں تو اُن کی محبت بھی ڈال دے وَحُبَّ مَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ اور ان کاموں کی اور ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی اور ان قربانیوں اورنیکیوں کی بھی میرے دل میں محبت ڈال دے جن سے تیری محبت پیدا ہوتی ہے وَاجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اوراے میرے رَبّ! اپنی محبت میرے دل میں اُس سے بھی زیادہ پیدا کر دے جتنی شدید گرمی کے موسم میں انسان کو ٹھنڈے پانی کی محبت ہوتی ہے۔ الْمَاءِ الْبَارِدِ کے معنی ٹھنڈے پانی کے بھی ہیں اور ماء کو حیات کا مرکز بھی قرار دیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ 107 ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا ہے۔ پس یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الْمَاءِ الْبَارِدِ سے یہاں صرف جسمانی پانی مراد نہ ہو بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہو کہ تیری محبت اِتنی پیاری ہو کہ مرکز حیات کی محبت بھی میرے دل میں اِس قدر نہ ہو۔ بہرحال یہ دعا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مانگا کرتے تھے اور جس پر دوام انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔
وقت کم تھا لیکن پھر بھی میں نے جلدی جلدی اپنے مضمون کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوستوں کو چاہیے کہ اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کریں تا کہ یہ جسمانی زندگی ختم ہونے سے پہلے پہلے ہم میں سے ہر شخص کے دل میں محبت الٰہی پیدا ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی محبت عطا فرمائے اور اپنے مَاسِوَا کی محبت ہمارے دلوں سے سرد کردے اور جن سے محبت کرنا اُس کے منشاء کے مطابق ہو اُن سے اِس قسم کی اور اتنی محبت ہمیں ہو کہ جس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھے اور اُس کا تعلق زیادہ ہو حتیّٰ کہ ہماری محبت اُس کی محبت کو کھینچ لے اور وہ ہمارا چاہنے والاہو جائے اور ہم اُس کے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔’’
1: المدثر:32
2:
3: تذکرہ صفحہ 10۔ ایڈیشن چہارم
4: پیدائش باب5 آیت22۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء
5: جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد5 صفحہ178 تا 181 (ترجمہ مفہوماً)
6: پیدائش باب 32۔ آیت 24 تا28۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء
7تا 9: اقرب الموارد جلد2 صفحہ821۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
10: المنجد صفحہ526۔ مطبوعہ بیروت 1960ء
11:
12: العلق: 3
13:
14: اٰل عمران: 60 15: الانبیاء: 38 16: البقرۃ: 118
17 ، 18: اقرب الموارد جلد2 صفحہ822۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
19: الکھف: 55
20: مسلم کتاب التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ (الخ)
21: اقرب الموارد جلد١ صفحہ689 مطبوعہ بیروت 1889ء
22: بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
23 ، 24: اقرب الموارد جلد1 صفحہ415۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
25: الانبیاء: 91 26: التوبۃ: 59 27: القلم: 33
28 تا 31: المفردات فی غریب القرآن صفحہ197۔ مطبوعہ مصر 1324ھ
32 ، 33: المفردات فی غریب القرآن صفحہ197،198 مطبوعہ مصر 1324ھ
34تا37: اقرب الموارد جلد1 صفحہ20۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
38تا41: المفردات فی غریب القرآن صفحہ27 مطبوعہ مصر 1324ھ
42 ، 43: المفردات فی الغریب القرآن صفحہ27 مطبوعہ 1324ھ
44: طہٰ: 11
45: اقرب الموارد جلد2 صفحہ1437مطبوعہ بیروت 1889ء
46: نوح: 24 47: مریم: 97 48: ھود: 91
49: البروج: 15
50: طویلہ: گھوڑوں کا تھان۔ گھوڑوں کے باندھنے کی جگہ
51: النسائی کتاب النکاح باب کراہیۃ تزویج العقیم
52: المائدہ: 55 53: البقرۃ: 166 54: التوبۃ: 24
55: مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ207۔ مطبوعہ بیروت 1978ء
56 ، 57: تفسیر درمنثور للسیوطی جلد١ صفحہ261۔ مطبوعہ بیروت 1314ھ
58: طٰہٰ: 116 59، 60: البقرۃ: 38 61: النساء: 126
62: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم سدّوا الا بواب (الخ)
63: کنز العمال جلد3 صفحہ372 مطبوعہ حلب 1970ء
64: مسلم کتاب التوبۃ باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ (الخ)
65: البقرۃ: 256
66: بدر ١١ جنوری 1912ء صفحہ6
67: مسلم کتاب التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ
68: الانعام: 77
69:اٰلِ عمران: 32 70: المائدہ: 55
71:
72: النساء: 37
73: البقرۃ: 191 74: النساء: 108
75: ترمذی ابواب البروالصلۃ باب ماجاء فی الشکر (الخ)
76: اسد الغابۃ جلد3 صفحہ157مطبوعہ ریاض 1286ھ
77: القصص: 77 78: القصص: 78 79: الحج: 39
80: ابراہیم: 8 81: الانعام: 142،الاعراف: 32
82: مسلم کتاب البروالصلۃ باب فضل عیادۃ المریض
83: ال عمران: 141 84: البقرۃ: 153 85: المائدۃ: 12
86: ابوداؤد کتاب الادب باب فی المطر
87: الشعراء: 4 88: اٰلِ عمران: 149 89: یٰسٓ: 83
90: البقرۃ: 223 91: ال عمران: 160 92: المائدۃ: 43
93: اٰل عمران: 77
94: بخاری کتاب الصوم باب من صَام رمضان ایمانًا واحتسابًا (الخ)
95: قاز: راج ہنس، ایک قسم کی مرغابی
96: الروم: 31 97: النساء: 2
98: یَوَدُّاَحَدُھُمْ لَو یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ (البقرۃ:97)
99: النحل: 62 100: الفتح: 9 تا 11 101: الانعام: 104
102: مسلم کتاب الایمان باب فی قولہ علیہ السلام نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہٗ (الخ)
103: النحل: 73
104: المعجم الکبیر للطبرانی جلد8 صفحہ91 مطبوعہ قاہرہ 1985ء
105:
106:
107: الانبیاء: 31
مشرقی افریقہ کے باشندوں کو
دعوتِ اسلام
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
‘‘ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوتِ اسلام
(محررہ18جنوری1953ء )
سواحیلی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کے مضمون کے متعلق مختصر نوٹ شائع کئے جارہے ہیں۔ افریقہ کو اسلامی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ خصوصاً شمال مشرقی افریقہ کو اسلام کے ابتدائی ایّام میں جب مکّہ والوں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے مظالم کئے اور مکّہ میں مسلمانوں کی رہائش ناممکن ہو گئی تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے ارشاد سے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف جانے کی ہدایت فرمائی۔ حبشہ یعنی ایبے سینیا وہ ملک ہے جو کہ کینیا کالونی کے ساتھ لگا ہؤا ہے۔ چنانچہ جب مسلمان اس مُلک میں پہنچے اور وہاں کے بادشاہ کے قانون کے ماتحت انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی گئی اور امن کا سانس انہوں نے لینا شروع کیا تو مکّہ والوں سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی قوم کے دو لیڈروں کو بادشاہ اور اس کے درباریوں کے لئے بہت سے تحائف دے کر بھجوایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ بادشاہ سے درخواست کریں کہ وہ مہاجرینِ مکّہ کو مکّہ کی حکومت کے حوالے کر دے تاکہ وہ ان سے اپنے خیالات اور عقائد کے مطابق سلوک کریں اور اگر بادشاہ نہ مانے تو پھر درباریوں کو تحفے دے کر ان سے بادشاہ پر زور ڈلوائیں اور مسلمان مہاجرین مکّہ کو جس طرح بھی ہو واپس مکّہ لائیں۔ چنانچہ یہ وفد حبشہ گیا اور درباریوں خصوصًا پادریوں کے ذریعہ سے بادشاہ سے ملا جو اُس زمانہ میں نیگس کہلاتا تھا۔ جسے عرب لوگ نجاشی کہتے تھے۔ یہ اُس بادشاہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ اُس زمانہ کے حبشی بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا۔ چنانچہ بادشاہ کے سامنے اُنہوں نے شکایت کی کہ اُن کے مُلک کے کچھ باغی بھاگ کر حبشہ آگئے ہیں اور انہیں مکّہ والوں نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان باغیوں کو مکّہ کی حکومت کے حوالہ کر دیا جائے۔ بادشاہ نے ان لوگوں کی باتیں سُن کر مسلمانوں کو بُلوایا اور اُن سے پوچھا کہ وہ کس طرح آئے ہیں؟ اُنہوں نے بتایا کہ اُن پر اُن کی قوم ظلم کر رہی تھی اور چونکہ افریقن بادشاہ کا انصاف اور اس کا عدل مشہور تھا وہ اس کے مُلک میں پناہ لینے کے لئے آگئے۔ اس پر بادشاہ نے مکّہ کے وفد کو جواب دیا کہ چونکہ اِن کے خلاف کوئی سیاسی جُرم ثابت نہیں صرف مذہبی اختلاف ثابت ہے اس لئے وہ ان کو واپس کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مکّہ کا وفد جب دربار سے ناکام لَوٹا تو اس نے درباریوں اور پادریوں کو بھی تحفے تقسیم کئے اور اُنہیں اُ کسایا کہ یہ مسلمان لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی بھی ہتک کرتے ہیں اس لئے مسیحیوں کو بھی مکّہ والوں کے ساتھ مِل کر ان پر سختی کرنی چاہئے۔ چنانچہ دوسرے دن پھر درباریوں نے بادشاہ پر زور دیا کہ یہ لوگ تو مسیح کی بھی ہتک کرتے ہیں۔ چنانچہ بادشاہ نے مسلمانوں کو پھر بُلوایا اور اُن سے پوچھا کہ آپ لوگ مسیح ؑ کے بارہ میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ مسلمانوں نے سورة مریم کی ابتدائی آیات پڑھ کر اس کو سنائیں جن میں مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر ہے اور پھر کہا کہ ہم مسیح کو نبی اﷲ مانتے ہیں۔ ہاں انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتے۔ اس پر پادریوں نے شور مچا دیا کہ دیکھو انہوں نے مسیح کی ہتک کی ہے مگر افریقن بادشاہ منصف مزاج اور عادل تھا۔ اُس نے سمجھ لیا کہ یہ الزام ان پر غلط لگایا جارہا ہے۔ یہ لوگ مسیح کا ادب کرتے ہیں مگر اُس کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے۔ چنانچہ اس نے بڑے جوش سے ایک تنکا فرش پر سے اُٹھایا اور کہا کہ خدا کی قسم! مَیں بھی مسیح کو وہی کچھ مانتا ہوں جو یہ کہتے ہیں اور مَیں اس درجہ سے جو انہوں نے مسیح کا بیان کیا ہے اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا۔
پادریوں نے بادشاہ کے خلاف بھی آوازے کسنے شروع کئے کہ تُو بھی مُرتد ہو گیا ہے لیکن نجاشی نے کہا کہ مَیں تمہارے اس شورو شغب کی وجہ سے مرعوب نہیں ہو سکتا۔ جب میرا باپ مَرا تھا تو مَیں چھوٹا بچہ تھا اور میری جگہ پر میرا چچا قائمقام مقرر کیا گیا تھا اور تم لوگوں نے اس کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ مجھ کو تخت سے محروم کر دو۔ جب مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو باوجود اس کے کہ مَیں چھوٹا تھا مَیں نے اپنا حق لینا چاہا اور نوجوان میرے ساتھ مل گئے اور میرے چچا نے ڈر کر دستبرداری دے دی اور تخت میرے حوالے کر دیا۔ تو میری بادشاہت تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے باوجود تمہاری مخالف کوششوں کے مجھے دی ہے۔ کیا مَیں اب تم سے ڈر کر خدا کو چھوڑ دوں گا اور ظلم اور تعدّی کروں گا؟ نہ تم نے یہ بادشاہت مجھے دی ہے نہ مَیں تمہاری مدد کا محتاج ہوں۔ مَیں کسی صورت میں ظلم نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ آزادی سے میرے مُلک میں رہیں گے اور کوئی ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔1 پس اے اہلِ افریقہ! جن کی زبان سواحیلی ہے مَیں یہ ترجمہ آپ کے سامنے پیش کرنے میں ایک لذت اور سرور محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس کتاب کے ابتدائی ایام میں اس کتاب کے ماننے والوں کو آپ کے برّاعظم نے پناہ دی تھی اور ظلم و تعدّی کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انصاف اور عدل قائم کرنے کا بیڑہ اُٹھایا تھا۔ آج قرآن کریم کی پاکیزہ تعلیم اُسی طرح مظلوم ہے جس طرح کسی زمانہ میں قرآن کریم کے ماننے والے مظلوم ہؤا کرتے تھے۔ آج اس قرآن کریم کو دُنیا میں لانے والا نبی فوت ہو چُکا ہے لیکن اس کا روحانی وجود آج اس سے بھی زیادہ مظلوم ہے جتنا کہ آج سے قریباً چودہ سو سال پہلے وہ اپنی دنیوی زندگی میں مظلوم تھا۔ اس پر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں ، اس کی لائی ہوئی تعلیم کو بگاڑ کر دُنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، اس کے ماننے والوں کو حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ واقعہ یہ نہیں۔ خدا کی نظروں میں سب سے زیادہ معزز وجود محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے جن پر قرآن نازل ہؤا تھا اور سب سے زیادہ سچی تعلیم وہ ہے جو اس کتاب یعنی قرآن کریم میں موجود ہے۔ جیسا کہ آپ خود دیکھ لیں گے۔ دُنیا صرف اپنی طاقت اور اپنی قوت کے گھمنڈ پر اس کی تردید کر رہی ہے اور اس کے ماننے والوں کو ذلیل کر رہی ہے لیکن اے اہلِ افریقہ! آج آپ کا بھی یہی حال ہے۔ آپ کو غیر مُلکوں میں تو الگ رہا اپنے مُلک میں بھی ذلیل سمجھا جا رہا ہے۔ پس وہ تعلیم جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے ایک وحشی اور غیر تعلیم یافتہ قوم کو دُنیا کی ترقیات کی چوٹی پر پہنچا دیا تھا لیکن جو آج مظلوم ہے اور گھر سے بے گھر کر دی گئی ہے مَیں اُسے آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جبکہ آپ لوگوں کی حالت بھی اسی قسم کی ہے اور آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کتاب کو غور سے پڑھیں اور اسی عدل و انصاف کی نگاہ سے اسے دیکھیں جس نگاہ سے نجاشی نے مکّہ کے مسلم مہاجرین کو دیکھا تھا اور پھر اپنی عقل اور اپنی بصیرت سے نہ کہ لوگوں کے لگائے ہوئے جھوٹے الزاموں کے اثر کے نیچے اور لوگوں کی بنائی ہوئی رنگین عینکوں کے ذریعہ سے اسے دیکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو اس لاثانی جوہر کی حقیقت معلوم ہو جائے گی اور اُس رسّے کو آپ پکڑ لیں گے جو کہ خدا تعالیٰ نے اس کتاب کے ذریعہ سے آسمان سے پھینکا ہے تاکہ اس کے بندے اسے پکڑ کر اس تک پہنچ جائیں۔
اے اہلِ افریقہ! ایک دفعہ پھر اپنے عدل اور انصاف کا ثبوت دو اور پھر ایک سچائی کے قائم کرنے میں مدد دو۔ جو سچائی تمہارے پیدا کرنے والے خدا نے بھیجی ہے۔ جس سچائی کو قبول کرنے کے بغیر غلام قومیں آزاد نہیں ہو سکتیں، مظلوم ظلم سے چھٹکارا نہیں پاسکتے۔ قیدی قید خانوں سے چھوٹ نہیں سکتے۔ امن، رفاہیت اور ترقی کا پیغام میں تمہیں پہنچاتا ہوں۔ یہ پیغام میرا نہیں بلکہ تمہارے اور میرے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے، یہ زمین آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے، یہ یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے۔ آؤ اور ہزاروں کی تعداد میں آؤ، لاکھوں کی تعداد میں آؤ، کروڑوں کی تعداد میں آؤ اور سچائی کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاؤ تاکہ ہم سب مِل کر دُنیا میں ازسرِ نو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کر دیں اور بنی نوع انسان کی ہمہ گیر اخوت اور خدا تعالیٰ کے ہمہ گیر عدل و انصاف کو دُنیا میں قائم کر دیں۔ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو میری آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دے اور مَیں وہ دن دیکھوں جبکہ آپ لوگ میرے دوش بدوش دُنیا میں امن و سلامتی اور ترقی اور رفاہیت کے قائم کرنے میں کوشش کر رہے ہوں اور پھر یہ کوششیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوں۔
خاکسار۔ مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی’’
(الفضل 26فروری 1958ء)
1: سیرت ابن ھشام جلد 1 صفحہ 356تا362۔ مطبوعہ مصر 1936ء
مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق
اِسلامی نظریہ
(اسلامک آئیڈیالوجی)
از
افاضات
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
‘‘ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ھُوَ النَّاصِرُ
اسلام کا بنیادی نظریہ متعلق مسئلہ نبوّت
(از افاضات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ۔ یہ اس دستاویز کا ابتدائی حصہ ہے جو تحقیقاتی عدالت، فسادات پنجاب 1953ء میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے داخل کی گئی تھی)
اسلام ایک کلیاتی مذہب ہے یعنی وہ صرف متفرق احکام نہیں دیتا بلکہ وہ دُنیا کی پیدائش کے مقصد اور شریعت کی ضرورت اور انسانی ذمّہ داریوں کی حد بندیوں اور انسانی پیدائش کی غرض اور اُس کی فطرت کی حقیقت اور سوسائٹی کے مقابلہ میں اُس کا مقام اور اُس کے مقابلہ میں سوسائٹی کا مقام اور اُس کے آخری انجام کو بھی بیان کرتا ہے۔ وہ اس پر بحث کرتا ہے کہ دُنیا بِلا وجہ اور بِلا مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ کائنات کی پیدائش ایک بشرکامل کی پیدائش کے لئے تھی۔
بشر کامل سے مُراد
اور بشر کامل سے مُراد ایسا وجود تھا جو خدا تعالیٰ کی صفات کو دُنیا میں ظاہر کرنے والا ہو اور جو خدا تعالیٰ کی طرف جھکے اور
خدا جس کی طرف جھکے اور اس طرح دو محبتوں کی وجہ سے وہ انسان کہلائے جو اصل میں ‘‘اُنْسَانِ’’ ہے یعنی دو محبتوں کا مجموعہ۔ اوّل اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس سے ۔ دوم اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے بھی محبت کرتا ہے اور اُس کی مخلوق سے بھی۔ پھر وہ یہ بتاتا ہے کہ کمال کے معنے یہ نہیں کہ اُس سے قصور نہیں ہو سکتا کیونکہ قائم وَحَیّ بِالذَّات تو ان معنوں میں بے عیب ہو کر بھی کامل کہلا سکتا ہے مگر مخلوق اِن معنوں میں بے عیب ہو کر کامل نہیں کہلا سکتی بلکہ بوجہ مخلوق ہونے کے مجبور کہلائے گی اور مجبوری حسنِ کمال سے محروم کر دیتی ہے۔ پس اس کے کامل کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ایک اَور طریق اختیار کیا کہ اُس کے اندر خیر و شر کے دونوں مادے پیدا کر دیئے اور اس کی راہنمائی کے لئے اُسے دو مددگار طبعی اور دو مددگار فوق الطبعیات عطا فرمائے تا وہ اُن کی مدد سے خداتعالیٰ تک پہنچے اور اپنے اخلاق کو کامل کرے اور اپنی ذمّہ داری کو ادا کرے۔ پہلا طبعی مددگار وہ معائنہ اور فکر کو قرار دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۔الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ1یعنی زمین اور آسمان کی پیدائش اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے بہت سے نشانات مخفی ہیں۔ اُن لوگوں کے لئے جو اﷲ تعالیٰ کو کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے ہوئے بھی یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرتے ہیں۔ یعنی طبعیات پر غور اور اُس کے تغیرو تبدل پر فکر کرنا بھی ہدایت اور صحیح علم کا ایک ذریعہ ہے۔
دوسرا ذریعہ فرماتا ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا2یعنی انسان کے اندر اُس نے ایک ایسا مادہ رکھ دیا ہے جس سے وہ اچھے اور بُرے میں تمیز کرتا اور ہدایت کی راہیں معلوم کرتا ہے یعنی انسان کے اندر شعور اور تمیز پیدا کی گئی ہے جس سے وہ صدق و باطل میں فرق کر سکتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس آیت میں کہ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا١ؕ 3اﷲ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی فطرت وہی ہے جسے لے کر انسان پیدا ہوتا ہے جو بعد میں اس پر رنگ آمیزی کی جاتی ہے اور اُس پر تعصب کا رنگ چڑھایا جاتا ہے وہ خدا کی دین نہیں۔ صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لئے صرف بیرونی اثرات سے خالی اور آزاد دماغ ہی کام دیتا ہے جسے لے کر بچہ پیدا ہوتا ہے۔
دو مافوق الطبعیات ذرائع اُس نے الہام اور نبوت پیدا کئے ہیں یعنی انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف متوجّہ ہوجاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے راہنمائی ملتی ہے۔ جیسے فرمایا وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا١ؕ۔4جو لوگ سچے طور پر ہماری ملاقات کے لئے کوشش کرتے ہیں ہم اُن کے لئے اپنی طرف راہنمائی کرنے والے اسباب پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تفصیلی راہنمائی کے لئے نبوت کا مقام جاری کیا جس کے ذریعہ سے وہ شریعتیں اور قانون ملتے ہیں یا شریعت اور قانون کے راز معلوم ہوتے ہیں جو کسی مخصوص زمانے کے لئے ضروری ہوں۔ اِسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔5 اگر تمہاری طرف تم میں سے ہی رسول آئیں جو تم کو میرے نشانات بتائیں تو جو شخص تقویٰ اور اصلاح سے کام لے گا اُسے نہ آئندہ کا خوف لاحق ہو گا نہ ماضی کا غم۔
قرآن کریم یہ چار ذرائع انسان کی تکمیل کے لئے بتاتا ہے جن میں سے دو طبعی ہیں اور دو فوق الطبعیات۔ اور غور کر کے دیکھا جائے تو دنیا کی ترقی انہیں چاروں ذریعوں سے وابستہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم نے یہ چار راستے تو انسان کے لئے کھولے ہیں لیکن اُن پر چلنے کے لئے اُسے مجبور نہیں کیا صرف اُسے قبول کرنے یا ردّ کرنے کی مقدرت دی ہے۔ اور محبتِ الٰہی کے پیدا کرنے کے لئے شریعت کی بنیاد انسان کے فائدہ پر رکھی ہے جبر اور زور پر نہیں رکھی۔ چونکہ انسانی فطرت اپنے کمال کے لئے تین سہاروں کی محتاج ہے ایک صحیح عمل پر اور ایک صحیح فکر پر اور ایک شوق و رغبت پر اس لئے صحیح عمل کے لئے اُس نے شریعت نازل کی۔ صحیح فکر کے لئے تمیز اور معائنہ قدرت کے سامان پیدا کئے۔ اور شوق اور رغبت کی تکمیل کے لئے الہام و وحی کا دروازہ کھولا۔ مگر چونکہ شریعت کا مکمل ہو جانا انسانی دماغ کے مکمل ہونے پر موقوف تھا اِس لئے شریعت کو محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود کے ساتھ مکمل کر دیا لیکن محبتِ الٰہی کی خواہش کمالِ ذہنی سے بڑھتی ہے۔ اس لئے دوسرا راستہ الہام و رضا کا محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ پہلے سے بھی زیادہ کھول دیا۔ اگر پہلے نبیوں کے ذریعہ سے ایک مُلک اور قوم میں محدود لوگ اُس مرتبہ کو پاتے تھے تو آپ کے بعد آپ کے ذریعہ سے یہ فیض اور بھی بڑھ گیا۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رَسُوْلکَ الْخَاتمُ لِمَا سَبَقَ وَالْفَاتِحُ لِمَا انْغَلَقَ۔6 یعنی اے خدا تیرا رسول ؐ ایسا ہے کہ سابق انعامات کو اُس نے کمال تک پہنچا دیا اور وہ دروازے رحمتِ الٰہی کے جو پہلے بند تھے اُس نے کھول دیئے۔ یہ وہ اسلامی آئیڈیالوجی ہے جسے مَیں تمہید کے طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اسی پس منظر میں یہ امر سمجھ میں آسکتا ہے کہ آیا احمدیت نے اسلام میں کوئی نئی بات نکالی ہے یا اُس آئیڈیالوجی کی تشریح کی ہے۔ اَب میں اُوپر کے مختصر بیان کی تصدیق میں قرآن کریم اور احادیث اور اقوالِ اولیاء و صلحاء بیان کر کے کسی قدر تفصیل سے اس مضمون کو بیان کرتاہوں۔
مذکورہ بالا مختصر بیان کی تصدیق قرآن مجید سے
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
کہ وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ ۔ 7 یعنی زمین و آسمان بِلا وجہ نہیں پیدا کئے گئے بلکہ اُن کی پیدائش میں حکمت تھی اور وہ اعلیٰ درجہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے تھے۔
پھر فرماتا ہے اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا 8آسمان اور زمین یقیناً پہلے بند تھے پھر ہم نے اُن کو کھول دیا۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ تمام عالم پہلے ایک واحد شکل میں تھا پھر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف وجود بنائے گئے۔ جیسا علم ہیئت اور علم تخلیقِ ارض سے ثابت ہوتا ہے کہ دُنیا بننے سے پہلے ہیولائی حالت میں ہوتی ہے، پھر وہ پہلے تو زیادہ گھنی ہوتی جاتی ہے اور پھر بعض دفعہ اندرونی تغیّرات سے متاثر ہو کر وہ جھٹکا کھاتی ہے اور اس کے کچھ حصّے الگ ہو کر ایک نظامِ شمسی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مگر دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ دُنیا بغیر ہدایت اور رہنمائی کے ہوتی ہے پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے کلام کے نزول کا راستہ کھول دیتا ہے اور تاریکیوں میں سے نکل کر مخلوق روشنی کی طرف آجاتی ہے۔
پھر انسان کی طرف متوجّہ ہوتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا۔9 کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو بغیر کسی مقصد اور بغیر کسی مُدعا کے پیدا کیا تھا۔ پھر اس اشارہ سے وضاحت کی طرف رجوع کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔ 10ہم نے تمام بڑے لوگوں اور عوام النّاس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے نفس کو مہذب بنائیں اور قُربِ الٰہی حاصل کریں۔ دوسری جگہ اس کی تشریح یوں فرمائی ہے کہ صِبْغَةَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً١ٞ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ۔11یعنی اﷲ تعالیٰ کے رنگ کو اختیار کرو اور اﷲ تعالیٰ سے بہتر رنگ کون دے سکتا ہے۔
حدیث میں اس رنگ کی تشریح یوں آئی ہے خَلَقَ اللہُ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ12 اﷲ تعالیٰ نے آدم کو ایسی شکل میں پیدا کیا ہے کہ الٰہی صفات کو ظاہر کر سکے۔
بائبل میں ہے کہ ‘‘خدا تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا’’۔13 پھر اس مقصد کے پورا کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے کہ وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً١ؕ14اور یاد کرو جب کہ تمہارے ربّ نے ملائکہ سے کہا کہ مَیں دُنیا میں اپنی صفات کو ظاہر کرنے والا ایک وجود پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ گویا وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ میں جو غرض انسان کی پیدائش کی بتائی گئی تھی اِس آیت میں اُس غرض کے پورا کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پھر انسان کو اس غرض کے پورا کرنے کے لئے چننے کی وجہ یہ بتائی کہ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ۔15 یعنی شریعت کا حامل انسان کے سوا اَور کوئی وجود مخلوقات میں سے نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اُس کے اندر اپنے ارادہ سے اپنے نفس پر ظلم کرنے اور اُسے مجبور کر کے کام لینے اور عواقب کو بُھلا کر کام کرنے کی طاقت رکھی گئی ہے۔
امانت کا لفظ جو اس جگہ آیا ہے اس کی تشریح ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا۔16 یعنی اﷲ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم حکومت کی امانت اُن لوگوں کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہیں۔ ایک اور آیت میں انسان کی اس طاقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا ہے اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا17 ہم نے انسان میں یہ مادہ پیدا کیا ہے کہ وہ چاہے تو شکر گزار بندہ بن جائے اور چاہے تو نافرمان بن جائے۔ یعنی اس پر جبر نہیں کیا صرف اسے مقدرت بخشی ہے تاکہ وہ انعام کا مستحق بنے اور جبر کی وجہ سے ایک آلۂ بے جان قرار نہ پائے۔ اسی طرح فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَيْنَيْنِۙ۔وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَيْنِۙ۔وَ هَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِۚ۔ 18 کیا ہم نے انسان کے لئے دو آنکھیں دیکھنے کو نہیں بنائیں؟اور زبان اور ہونٹ اپنی شبہات کے اظہار کے لئے نہیں بنائے؟ اور اُس کو نیکی اور بدی دونوں کا راستہ نہیں دکھایا؟
پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۔ 19 انسان کے اندر بُری باتوں اور نیک باتوں کے سمجھنے کا مادہ رکھا گیا ہے۔
پیدائشِ عالَم کا ایک مقصد
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم اور اسلام کی رُو سے پیدائشِ عالَم ایک مقصد کے مطابق ہے
اور وہ ہے ایک ایسے وجود کو ظاہر کرنا جو صفاتِ الٰہیہ کامظہر ہو۔ اور اس کے لئے انسان چُنا گیا ہے جس میں بِالارادہ خیر و شر کو اختیار کرنے کی طاقت رکھی گئی ہے اور انسان کے وجود کو ظاہر کرنا پھر ایک مقصد کے مطابق ہے اور اُسے آزاد بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی عقل اور فہم سے کام لے کر ان دونوں طریق میں سے کسی ایک کو اختیار کرے۔
پھر اس کے بعد فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۔وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۔20 جو شخص اپنی فطرتِ صحیحہ کو پاک رکھے گا اور اسے خرابیوں میں مبتلا ہونے سے بچائے گا وہ اپنے مقصد اور مُدعا کو پا لے گا۔ اور جو شخص اپنی فطرتِ صحیحہ کو خاک اور مٹی میں مسل دے گا وہ اپنی پیدائش کے مقصد اور مدعا میں ناکام رہے گا۔ یعنی صفاتِ الٰہیہ کا ظہور اُس کے ذریعہ سے نہیں ہو گا اور وہ ایک سڑے ہوئے پھل کی طرح ہو جائے گا جس کا نام تو پھل ہے لیکن وہ کام نہیں آسکتا۔
اس فطرتی راہنمائی کے علاوہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی راہنمائی کے لئے ہم نے یہ طریق بھی جاری کیا ہے کہ ہم انسانوں میں سے بعض لوگوں کو چُن لیتے ہیں اور اُن پر اپنا کلام نازل کرتے ہیں۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۔21اﷲ تعالیٰ ملائکہ اور انسانوں میں سے رسول چُن لیتا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ دُعاؤں کا سُننے والا اور انسانوں کی حالتوں کو دیکھنے والا ہے۔ یعنی انسانوں کی حالتوں میں جب کبھی خرابی پیدا ہوتی اور اُن کی حالت اصلاح طلب ہو جاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کچھ فرشتوں کواصلاح کے لئے مبعوث کرتا ہے جو آگے اپنے جیسے وجودوں پر خدا تعالیٰ کی مرضی کو ظاہر کرتے ہیں اور وہ بنی نوع انسان کی اصلاح کے کام میں لگ جاتے ہیں۔
اسی طرح فرماتا ہے فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔22 یعنی اے بنی آدم! جب تمہاری طرف ہدایت آئے تو جو میری ہدایت پر عمل کرے گا وہ خوف اور غم سے محفوظ رہے گا۔ اس جگہ ہدایت کا ذکر ہے رسالت کا نہیں جس میں رسالت اور عام الہام دونوں شامل ہیں۔ اور حضرت آدم ؑ کے زمانے میں ہی قیامت تک کے لئے انزالِ وحی کا جو کبھی رسالت کی شکل میں ہو گی ، کبھی بغیر رسالت کے ہو گی وعدہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ مومنون میں اس بات کا ذکر فرماتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اُس کو اپنی ہدایت کا وارث بنایا اور نوح ؑ اور اس کے بعد دوسرے رسول پے در پے بھیجے۔ یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آگیا۔ اور سورۂ حدید میں فرماتا ہے وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِيْمَ وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ١ۚ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ۔23 اور ہم نے نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کو رسول بنا کر بھیجا اور اُن کی اولاد میں بھی نبوّت اور کتاب کا سلسلہ جاری کیا۔ اُن میں سے کچھ تو ہدایت یافتہ ہو گئے اور اکثر اُن میں سے نافرمان ہو گئے۔ اس کے بعد موسیٰ ؑ کے زمانے کا ذکر یوں فرماتا ہے وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ١ٞ وَ اٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَ اَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ١ۚ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ١ٞ وَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ۔وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ۔وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ١ۙ وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ۠ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوْا١ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ١ٞ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ۔24 یعنی موسیٰ ؑ کو بھی کتاب ملی اور اُن کے بعد بھی خداتعالیٰ نے پے در پے رسول بھیجے یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم دُنیا میں ظاہر ہوئے اور اُن کے بعد خدا تعالیٰ نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جن پر قرآن کریم نازل ہؤا جس نے پہلی کتابوں کی تصدیق کر دی۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تک انبیاء کا سلسلہ متواتر جاری رہا اور بغیر کسی معتدبہ وقفہ کے اﷲ تعالیٰ کی طرف بُلانے والے لوگ آتے رہے۔
بے شک قرآن کریم میں صرف ان نبیوں کے نام لئے گئے ہیں جن سے عرب واقف تھے لیکن دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔25
اسی طرح فرماتا ہے وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔26 یعنی دُنیا کی ہر قوم میں خدا تعالیٰ کے رسول اور ہادی گزرے ہیں۔ پس بنی نوع انسان کا اس کے ساتھ تعلق بذریعہ الہام آدم سے لے کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود تک برابر چلا آیا ہے۔
خدا تعالیٰ کے وجود اور قیامِ نبوّت کے متعلق اسلامی نظریہ کے مقابل دوسرے مذاہب کا نظریہ
اِس اسلامی نظریہ کے خلاف دوسرے مذاہب اور دوسری
اقوام میں خدا تعالیٰ کا وجود اور نبوّت کا قیام صرف اپنی اپنی قوم کے دائرہ میں محصور کیا گیا ہے۔ ہندو مذہب غیر اقوام میں مرسلانِ الٰہی کے متعلق بالکل خاموش ہے بلکہ اپنے نسلی نظریہ کے لحاظ سے اُس کے خلاف ہے۔ مشرقی ایشیائی اقوام بھی اس نظریہ سے بالکل کوری نظر آتی ہیں اور یہی حال بُدھوں کا ہے۔ ایرانی، بابلی اور یونانی بھی مذہبی نظر سے اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں بلکہ جو شہادت ملتی ہے وہ اس کے خلاف ملتی ہے۔ بنی اسرائیل بھی خدا کو ایک قومی خدا قرار دیتے ہیں اور نبوت کو ابراہیم کی نسل کا ورثہ سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ ۔27 یعنی ہم نے نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کی ذرّیت میں نبوت رکھ دی ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کی ذرّیت میں سے نبی آتے رہے اور اُن کا سلسلہ بند نہیں ہؤا۔ یہ معنے نہیں کہ دوسری قوموں میں نبی نہیں آئے کیونکہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔اور اﷲ تعالیٰ اس کو کسی زمانے سے مخصوص نہیں کرتا بلکہ ان آیات کے مدِّنظر وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ کے معنے سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتے کہ نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کی اولاد میں نبوت جاری رہی اور یہ معنے نہیں نکالے جاسکتے کہ اُن کی قوموں کے سوا باہر کوئی نبی کبھی نہیں آیا۔ جو قومیں کسی نبی کو نہیں مانتیں اُن کے متعلق قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ ۔28 یعنی اُن لوگوں نے خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ نہیں کیا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے کبھی کسی بندے پر کوئی وحی نازل نہیں کی۔ گویا وہ لوگ الہامِ الٰہی کے قطعاً منکر تھے۔
دوسرا گروہ وہ تھا جو نبوت کا تو قائل تھا لیکن ہر قوم پر اسے یہ خیال ہوتا تھا کہ نبوت کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور آئندہ کسی قسم کا کوئی پیغام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آنا چاہئے۔ ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا۔29 پھر فرماتا ہے قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا ۔30 یعنی جو کچھ ہمارے باپ دادوں کے پاس تعلیم تھی وہی ہمارے لئے کافی ہے کسی نئی تعلیم کی ضرورت نہیں۔
ہندو قوم کے عقیدہ کی بنیاد اِسی پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ ویدوں کے رِشیوں پر اُتارا۔ اُس کے بعد دُنیا میں اُس کا کلام آنا بند ہو گیا اور اس تعلیم کے بعد کسی اور تعلیم کی ضرورت نہیں۔ بعض لوگ اس بات کے تو قائل نہیں تھے کہ ابتدائے عالَم میں جو وحی نازل ہوئی وہی کافی تھی لیکن وہ وحی کے تسلسل کو بند کرنے والے ضرور تھے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ اُن لوگوں کے متعلق فرماتا ہے وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا١ؕ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ۔31 اور تمہارے پاس یقیناً یوسفؑ بھی اس سے پہلے کھلے کھلے نشانات لے کر آیا تھا لیکن اُس کی لائی ہوئی تعلیم کے متعلق متواتر شُبہ میں رہے۔ یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گیا تو تم یوں کہنے لگ گئے کہ اﷲ تعالیٰ اس کے بعد کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ حدّ سے بڑھنے والوں اور شک میں پڑنے والوں کو گمراہ قرار دیا کرتا ہے۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل اپنے زمانے میں نبوّت کے اجراء کو روکنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ حتّٰی کہ یوسف علیہ السلام بھی جو نہ کسی سلسلے کے بانی تھے نہ کسی سلسلہ کے خاتم، نبوت کے روکنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔
اسی طرح قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی لوگوں کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ اب کوئی رسول نہیں آئے گا۔ چنانچہ سورۂ جنّ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن جِنّوں نے جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وحی سُننے کے لئے آئے تھے (ہمارے نزدیک وہ نصیبین کے یہودی تھے اور جِنّ کا لفظ غیر قوموں کے لئے اور باغی قوموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔) واپس جاکر اپنی قوم سے کہا کہ اَنَّهُمْ ظَنُّوْا كَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ اَحَدًا۔32 کہ جس مُلک سے ہم آئے ہیں وہ لوگ بھی تمہاری طرح یہ یقین رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ آئندہ کسی کو نبی بنا کر نہیں بھیجے گا۔ چونکہ سورۂ احقاف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ موسیٰ ؑپر ایمان لانے والے لوگ تھے۔33 پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
حضرت مسیح ؑ کے نزول کے بعد عیسائی لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہو گیا کہ گو عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے لیکن آئندہ کوئی اَور نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ 34
ان دونوں نظریوں کو مقابل میں رکھ کر یہ نتائج نکلتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک تو تمام بنی نوع انسان روحانی ترقی اور قُربِ الٰہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور ہمیشہ اﷲ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرتا رہے گا کہ انسان کو قُربِ الٰہی کے اعلیٰ درجے کے مقامات حاصل ہوتے رہیں لیکن اس کے مقابل پر باقی دُنیا اس نظریہ کی قائل رہی ہے کہ خدا تعالیٰ ساری دُنیا کا خدا نہیں بلکہ وہ مخصوص قوموں کا خدا ہے۔ گویا اُن کے نظریہ میں خدا تعالیٰ کی حیثیت ایک بُت کی حیثیت تھی جسے ہر ایک قوم نے اپنے لئے خدا ٹھہرا لیا تھا اور پھر یا تو وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے قُربِ الٰہی کے حصول کے لئے کوئی آسمانی ذریعہ کبھی پیدا ہی نہیں کیا اور یا یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ذریعہ پیدا تو کیا مگر صرف انہی کی قوم کے لئے پیداکیا۔ اور پھر بعض لوگ اس غلطی میں مبتلا تھے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانی ذرائع کو ایک زمانے تک پیدا کیا اور آئندہ آسمانی برکتوں کے رستے بند کر دیئے۔ کسی نے تو یہ رستہ حضرت یوسفؑ تک بند کر دیا، کسی نے حضرت موسیٰ ؑ تک اور کسی نے حضرت عیسیٰ ؑ تک اور قرآن کریم ان میں سے ہر ایک کو ملامت کرتا اور جھوٹا قرار دیتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت دُنیا کا یہ روحانی نقشہ مکمل ہو گیا۔ قرآن کے رُو سے ابتدائے آفرینش میں ایک نبی تھا یعنی حضرت آدم ؑ۔ نسلِ انسانی اُس وقت محدود تھی اور سب کی سب حضرت آدم ؑ پر ایمان لانے کے لئے مدعو۔ حضرت نوح ؑ تک یہ سلسلہ چلا۔ آپ کے بعد بنی نوع انسان کثرت سے ہو گئے اور دُنیا میں پھیل گئے۔اُس وقت سے الگ الگ قوموں میں الگ الگ نبی آتے رہے۔لیکن جب انسانی ذہن ارتقاء کو پہنچ گیا اور وہ زمانہ قریب آگیا جس میں بنی نوع انسان کے آپس میں ملنے اور ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے کے سامان کثرت سے پیدا ہو جانے والے تھے تو خدا تعالیٰ نے پھر بنی نوع انسان کی وحدت کے لئے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ آپ تمام بنی نوع انسان کو دعوتِ حقّہ دیں۔ چنانچہ فرمایا وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ 35 ہم نے تجھے صرف اِس غرض سے بھیجا ہے کہ تُو تمام بنی نوع انسان کو ایک مذہب اور ایک عقیدہ پر جمع کر دے۔ اور پھر فرماتا ہے قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا 36 اے لوگو! مَیں تم سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اِسی طرح فرماتا ہے وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا 37 ہم نے تجھے تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمام دُنیا کے لئے کیوں مبعوث کئے گئے
یہاں سوال ہوتا تھا کہ آپ ساری دُنیا اور سب زمانوں کے لوگوں کی طرف کیوں مبعوث کئے گئے ہیں؟
اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا 38 یعنی آج سے مَیں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین کے چُن لیا۔ یعنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے تو انسانی حالات اور زمانی کیفیات ایسی تھیں کہ مختلف علاقوں کے لئے مختلف قسم کے اصولی احکام دئیے جائیں لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت دُنیا اِس حد تک ترقی کر چکی تھی اور آپس میں میل جول کے ذرائع اِس حد تک پیدا ہو گئے تھے کہ اب تمام دُنیا کے لئے ایک ہی قسم کے اصولی احکام دینا ضروری ہو گیا تھا۔ اسی طرح آپ کے زمانہ سے پہلے انسانی دماغ نے اس قدر نشوونما نہیں پائی تھی کہ وہ شریعت کی تمام باریکیوں سے واقفیت کا متحمل ہو سکے مگر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں انسانی دماغ اتنا کامل ہو چکا تھا کہ شریعت کے رازوں اور حکمتوں سے واقفیت حاصل کر سکے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وہ کتاب دی جو شریعت کے تمام ضروری احکام پر مشتمل تھی اور وہ ایسے الفاظ میں تھی جو شریعت کے رازوں اور حکمتوں کو تفصیل کے ساتھ واضح کر دینے پر کَمَاحَقُّہٗ حاوی تھی۔ اِسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِيْ عَلَيْكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙۛ۔ كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَ يُزَكِّيْكُمْ وَ يُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۔39 فرماتا ہے (تم میرا خوف کرو) تا مَیں تم پر اپنی نعمت کامل کر دوں اور تم ہدایت پا جاؤ۔ اس لئے کہ مَیں نے تمہاری طرف وہ رسول بھیجا ہے جو تم میں سے ہی ہے، جو تمہیں میرے نشان پڑھ کر سُناتا ہے اور تم کو پاک کرتا ہے اور تمہیں شریعت بھی سکھاتا ہے اور اُس کی حکمتیں بھی تم پر واضح کرتا ہے۔
اس آیت میں اُوپر والی آیت کی تشریح کر دی ہے کہ اتمامِ نعمت کے لئے یہ ضروری ہے کہ شریعت کی حکمتیں بیان کی جائیں کیونکہ شریعت کا کامل ہونا انسانی دماغ کے تنوّر کے لئے ضروری نہیں۔ شریعت صرف ہمارے خیال، ہمارے افکار اور ہمارے اعمال کو درست کرتی ہے مگر ہمارے ذہن کو بُلندی تبھی حاصل ہوتی ہے جب کہ اُس شریعت کے بیان کرنے کا پسِ منظر بھی ہمارے سامنے کھولا جائے اور اُس کی حکمتیں بھی ہم پر ظاہر کی جائیں۔ تب ہمیں صرف ایک قانون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم ایک رنگ میں اُس قانون کے بنانے والے ہو جاتے ہیں کیونکہ جب اُس قانون کے بنانے کی حکمتیں ہم پر ظاہر کر دی جاتی ہیں اور ہم ان سے متفق ہو جاتے ہیں تو ہمارا دِل یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر یہ علم ہمیں حاصل ہوتا اور ہم پر قانون بنانے کی ذمّہ داری ڈال دی جاتی تو ہم بھی یہی قانون بناتے۔ پس گو قانون بنا بنایا ہمیں مِلا ہے لیکن جو علم اُس کے ساتھ دیا گیا ہے اُس کے ساتھ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم قانون بناتے تو یہی قانون بناتے اور یہی ہمارے لئے بہتر ہوتا۔ جب تک شریعت اس مقام پر نہ پہنچے اُس وقت تک وہ عالمگیر شریعت نہیں بن سکتی اور نہ ہمیشگی کی شریعت بن سکتی ہے۔ پس ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ گزشتہ زمانے میں بنی نوع انسان کے متفرق ہو جانے کے بعد پھر آدم کی طرح تمام دُنیا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر کیوں جمع کر دی گئی ہے اور کیوں اس سے پہلے جمع نہیں کی گئی۔
اُوپر کی تمہید سے ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ سے جو کمالِ انسانی ظاہر کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ایک ایسی شریعت آپ کو دی گئی جو تمام اصولی و ضروری احکام پر مشتمل تھی جو تمام بنی نوع انسان کی ضرورتیں پوری کرنے والی تھی اور جس کے ساتھ اُن احکام کا پس منظر بھی دے دیا گیا جو اُن احکام کے دینے کی وجہ تھا تا بنی نوع انسان بشاشت کے ساتھ اُن احکام پر عمل کر سکے۔ حضرت مسیح ناصری ؑ بھی اپنے اِس قول میں اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ:۔
‘‘مجھے تم سے اَور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اَب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا رُوح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سُنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا’’۔40
قرآن مجید ہر حکم کی حکمت بیان کرتا ہے
قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ وہ نہ صرف ضروری تعلیم
بیان کرتا ہے بلکہ تعلیم کی غرض و غایت اور موجبات اور اس کا پس منظر بھی بیان کرتا ہے۔ اس نے مذہب کی تاریخ بالکل بدل دی۔ قرآن کریم سے پہلے شرائع تو آئی تھیں مگر ہر حکم کی حکمت نہیں بیان کی جاتی تھی۔ اس وجہ سے انسان اطاعت تو کرتاتھا مگر خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دِل میں پیدا نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ اپنے آپ کو ایک غلام محسوس کرتا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اُس کا باپ یا اُس کی ماں اُس کے فائدہ کے لئے اور اُس کو نفع پہنچانے اور ترقی دینے کے لئے اُس کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ایک جابر آقا اُس پر اپنی حکومت جتانے کے لئے اُسے اندھا دُھند حکم دے رہا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اِس اصول کو پیش کیا کہ خدا تعالیٰ بھی بِلا وجہ کوئی حکم نہیں دیتا اور ہر حکم کی کوئی ایسی وجہ ہوتی ہے جس میں خود انسان کا فائدہ مضمر ہوتا ہے اور وہ اس کی ترقی کو مدِّنظر رکھ کر دیا جاتا ہے۔ پس گو اسلام سے پہلے بھی بعض مذاہب نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق محبت کی بناء پر ہونا چاہئے لیکن انہوں نے محبت پیدا کرنے کے لئے سمجھ میں نہ آنے والے صرف چند احسانات گنا دینے پر بس کیا ہے۔ محبت پیدا کرنے کے حقیقی ذرائع مہیا نہیں کئے۔ صرف اسلام ہی ہے جس ے کہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے انسان کے فائدہ کے لئے دیتا ہے اور کوئی حکم ایسا نہیں دیتا جس میں انسان کے لئے مضرّت ہو۔ وہ فرماتا ہے طٰهٰۚ۔مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى۔ 41 ہم نے تجھ پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تُو شریعت کے احکام کے نیچے دَب جائے بلکہ اس لئے نازل کیا ہے کہ دِلوں کے وساوس دُور ہو جائیں اور اُن کے شبہات کا ازالہ ہو جائے اور شریعت کی حکمتیں اُن پر ظاہر ہو جائیں۔ یہاں تک کہ قرآن کریم ماننے والوں کے لئے رحمت کا موجب ہو جائے۔ تکلیف، دُکھ یا دباؤ کا مؤجب نہ بنے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۔42 اور ہم قرآن مجید کی وہ تعلیم بھی نازل کرتے ہیں جو دِلوں اور رُوحوں کی بیماریوں کے لئے شفاء ہے اور شبہات کو دُور کرتی ہے اور اسی طرح نہ صرف مسلمانوں کے لئے یا موجودہ زمانے کے لوگوں کے لئے بلکہ تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے رحمت اور فضل ہے۔ قرآن کریم کی یہ خوبی ایسی ظاہر ہے کہ آخر قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ۔رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ۔43 اس کتاب میں شریعت کے احکام بیان کئے گئے ہیں بلکہ احکام اس طرح کھول کھول کر بیان کئے گئے ہیں اور اُن کی حکمت اس طرح واضح کی گئی ہے کہ کئی دفعہ کفّار بھی ان حکمتوں کو سُن کر دِل میں خواہش کرنے لگتے ہیں کہ کاش! وہ بھی مسلمان ہوتے اور اُس شریعت پر عمل کرنے والے ہوتے جو انسانوں کے لئے رحمت و برکت اور ترقی کا موجب ہے نہ کہ جبر اور سختی کا موجب۔ غرض اسلام نے پہلی دفعہ مذہب کی بنیاد عقل اور محبت پر رکھی۔ قرآن کے بعد انسان خدا کو ایک غضب کا دیوتا نہیں سمجھتا بلکہ وہ اُس کو ایک رُوحانی باپ اور رُوحانی ماں کے طور پر سمجھتا ہے جو اُس کے فائدے کے لئے اور اُس کے آرام کے لئے اور اُس کی ترقیات کے لئے اُس کو ایسی نصیحتیں دیتا ہے کہ جن پر چل کر وہ سُکھ اور آرام دیکھ سکتا ہے۔ اس کی تشریح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ ایک جنگ میں ایک کافر عورت جس کا بچہ کھو گیا تھا جب وہ مِل گیا تو وہ دُنیا و مافیہا سے غافل ہو کر اُسے پیار کرنے لگ گئی۔ آپ نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تم اس عورت کو دیکھتے ہو کہ یہ کتنی خوش ہے،کیونکہ اس کا بچہ اسے مل گیا ہے۔ اِسی طرح جب خدا کا کوئی بندہ ہدایت پاکر اُس کی طرف لَوٹتا ہے تو وہ اُس ماں سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے اپنے کھوئے ہوئے بچے کو پالیا ہو۔ 44
اور اِسی مضمون کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ 45 تُو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تمہارے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے تو تم میری شریعت پر عمل کرو کیونکہ یہی شریعت سچی محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ تم اگر اس شریعت پر عمل کرو گے تو وہ تمہاری محبت کو اتنا بڑھادے گی کہ اُس کے نتیجہ میں خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا اور تم مُحِبّ سے محبوب بن جاؤ گے۔
افسوس دُنیا نے اِس پُر حکمت تعلیم کی قدر نہ کی۔ مسلمان علماء میں سے غزالی ؒ نے پردہ اُٹھا کر ایک جھلک اُس کی دیکھی۔ شاہ ولی اﷲ صاحب نے اس سے زیادہ اس کی جلوت کا معائنہ کیا۔ اور احمدیت نے اِس خوبی کو ایسے کامل طور پر واضح کیا کہ دُنیا کے دلوں کی پھر ایک دفعہ یہ حالت ہو گئی کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ۔46
مگر ایسی اعلیٰ اور اکمل تعلیم کے آنے کے ہر گز یہ معنے نہ تھے کہ اُس کے نزول کے بعد جو خیر و شر کے قبول کرنے کا مادہ انسان میں رکھا گیا تھا وہ باطل کر دیا جائے۔ کیونکہ قرآن کریم سے واضح ہے کہ انسان کو دوسری مخلوقات پر ترجیح دینے کی اور کلامِ الٰہی کا حامل بنانے کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ انسان اپنے نفس پر جبر کر کے اپنی مرضی اور اپنے ارادہ سے خدا تک پہنچنے کی کوشش کر سکتا تھا اور اپنی مرضی اور اپنے ارادہ سے اس کو چھوڑ بھی سکتا تھا۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد انسان میں خیر و شر کی مقدرت نہیں رہی تھی اور وہ ایک مقررہ رستہ پر چلنے پر مجبور تھا تو پھر اُسی دن سے انسان اپنی انسانیت بھی کھو بیٹھا تھا اور اب وہ نہ کسی انعام کا مستحق تھا نہ کسی سزا کا مستوجب۔ لیکن ایسا نہیں۔ قرآن کریم تو رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی انسان کو سزا اور جزا کا مستحق قرار دیتا ہے اور جب تک انسان خیر و شر پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور جب تک اُس کا ارادہ آزاد ہے اُس وقت تک جہاں اُس کے نیکی میں بڑھنے کا امکان موجود ہے وہاں اُس کے شرارت میں ترقی کرنے کے امکانات بھی موجود ہیں اور اگر اُس کے اندر تغیّر و تبدیلی کی طاقت موجود ہے، اگر وہ بدعت نکال سکتا ہے، اگر وہ تحریفِ معانی کر سکتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسے آدمیوں کے آنے کا بھی رستہ کھلا رہے گا جو ان باتوں سے اُسے روکیں اور صحیح رستہ کی طرف لائیں۔ اگر ایسا ہونا نہیں تھا تو قرآن کریم یہ نہ فرماتا کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيْلًا۔47 یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کُفر کیا پھر ایمان لائے پھر کُفر کیا اور پھر کُفر میں اَور بھی بڑھ گئے۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف نہیں کرے گا اور وہ انہیں سیدھے راستے کی طرف نہیں لے جائے گا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد بھی کُفر کا دروازہ کھلا ہے۔
مسلمانوں کے بگڑنے کے متعلق پیشگوئیاں
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں
کہ قیامت کے دن مَیں دیکھوں گا کہ بعض لوگ حوضِ کوثر سے ہٹا کر دوسری طرف لے جائے جائیں گے۔ اُس وقت مَیں کہوں گا کہ أُصَیْحَابِیْ۔ یہ تو میری جماعت کے لوگ ہیں۔ اِس پر خدا تعالیٰ فرمائے گا ‘‘اِنَّکَ لَا تَدْ رِیْ مَا اَحْدَ ثُوْا بَعْدَکَ’’۔ 48 تجھے کیا معلوم کہ تیرے بعد ان لوگوں نے کیا کیا ہے۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ‘‘یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ’’۔ 49 یعنی کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بظاہر نمازیں بھی پڑھیں گے، قرآن بھی پڑھیں گے اور بظاہر دوسرے لوگوں سے زیادہ اچھی نمازیں بھی پڑھیں گے لیکن پھر بھی وہ دینِ اسلام سے اِسی طرح نِکل جائیں گے جس طرح تیر نشان گاہ سے باہر نِکل جاتا ہے۔
کثرت سے احادیث ایسی پائی جاتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں اور بگڑیں گے اور آہستہ آہستہ اُن کی حالت ایسی ہو جائے گی جیسے یہود اور نصاریٰ کی ہوئی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ”لَتَتْبِعُنَّ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَ ذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْدَخَلُوْا فِیْ جُحْرِ ضَبٍّ لَا تَّبَعْتُمُوْھُمْ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللہِ اَلْیَھُوْدُ وَ النَّصَارٰی؟ قَالَ فَمَنْ’’۔50 یعنی ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب کہ تم لوگ گزشتہ اقوام کے قدم بقدم چلو گے۔ یہاں تک کہ اگر انہوں نے گوہ کے سوراخ میں بھی اپنا ہاتھ ڈالا ہو گا تو تم بھی ویسا ہی کرو گے۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں ہم نے پوچھا یا رسول اﷲ! کیا ان پہلے لوگوں سے یہود اور نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا اور کون۔ گویا آخر میں مسلمانوں میں یہود اور نصاریٰ والی غلطیاں پیدا ہو جائیں گی۔
قرآن کریم بھی اس کے متعلق فرماتا ہے يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔51 اﷲ تعالیٰ اس امر کو یعنی اسلام کو آسمان سے زمین کی طرف لائے گا اور مضبوطی سے قائم کرے گا۔ پھر ایک مدّت کے بعد وہ آسمان کی طرف چڑھنا شروع ہو جائے گا۔ اتنے لمبے زمانے میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ہزار سال ہو گی۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کچھ عرصہ تک اسلام کی خوبیاں اور اُس کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حقیقی معنوں میں دُنیا میں قائم ہوتی چلی جائے گی لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ حالت بدل جائے گی اور ایک ہزار سال تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس کی یہی تشریح فرماتے ہیں جو ہم نے اس وقت کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَفْشُوالْکَذِبُ۔52 یعنی سب سے بہتر تو وہ صدی ہے جس میں مَیں ہوں۔ پھر اس کے بعد دوسری صدی اچھی ہو گی، پھر تیسری صدی اچھی ہو گی، پھر جھوٹ ،فریب اور خرابیاں دُنیا میں پھیل جائیں گی۔ اور آخری زمانہ کا نقشہ بھی آپ اس آیت کے مطابق کھینچتے ہیں اور فرماتے ہیں لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَام إِلَّا اسْمُہٗ وَ لَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّا رَسْمُہٗ۔53 کہ اُس زمانے میں اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف حرف باقی رہ جائیں گے۔ یعنی قرآن تو نہیں بدلے گا۔ قرآن تو موجود رہے گا لیکن قرآن کے سمجھنے والے مِٹ جائیں گے۔ اور اسلام تو نہیں بدلے گا اسلام تو موجود رہے گا لیکن اس پر عمل کرنے والے مِٹ جائیں گے۔ یہی سورۂ سجدہ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام اُس وقت سمٹ کر آسمان پر چلا جائے گا۔
پھر اس سے بڑھ کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ عُلَمَاءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِیْمِ السَّمآءِ۔ 54 یعنی عوام الناس تو الگ رہے علماء بھی اُس زمانے میں ایسے گر جائیں گے کہ آسمان کے نیچے اُن سے بدتر اور کوئی مخلوق نہ ہو گی۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسلام گرتے گرتے ایسی خطرناک حد تک پہنچ جائے گا اور اس کے دُشمن اتنی قوت پکڑ جائیں گے کہ حضرت نوح ؑ سے لے کر آج تک کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اس فتنہ سے لوگوں کو نہ ڈرایا ہو۔55 اور پھر آپ فرماتے ہیں کہ ایمان اس قدر متزلزل ہو جائیں گے کہ یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِیْ کَافِراً اَوْ یُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَ یُصْبِحُ کَافِراً۔56 انسان صبح کے وقت اُٹھے گا تو مومن ہو گا اور شام کے وقت سوئے گا تو کافر ہو گا اور شام کو مومن سوئے گا اور صبح کے وقت کافر اُٹھے گا۔
قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات اور احادیث سے صاف ثابت ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ اور آپ کی تعلیمِ کاملہ کے ہر گز یہ معنے نہیں کہ اِس کی موجودگی میں انسان بگڑ نہیں سکتے بلکہ قرآن کریم اور احادیث اس پر شاہد ہیں کہ نہ صرف یہ کہ اِس کی موجودگی میں لوگ بگڑ سکتے ہیں بلکہ وہ بگڑیں گے اور ایسے بگڑیں گے کہ اسلام کی عمارت متزلزل ہو جائے گی اور اسلام کا نام ہی دُنیا میں باقی رہ جائے گا اور قرآن کے حروف ہی دُنیا میں باقی رہ جائیں گے۔ حقیقت بالکل غائب ہو جائے گی حتّٰی کہ علماء عوام الناس سے بھی بد تر ہوں گے اور وہ دین کی حفاظت کی بجائے دین کو تباہ کرنے والے بن جائیں گے۔ اور جب یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے تو دو باتوں میں سے ایک بات ماننی پڑے گی ۔ یا تو یہ کہ اسلام کے متعلق یہ عقیدہ کہ وہ قیامت تک جائے گا غلط ہے اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ایسی غلطیوں کو دُور کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ آتے رہیں گے جو کہ اسلام کی عمارت پھر مرمّت کریں اور پھر اُس کو اپنی اصل شکل میں دُنیا کے سامنے پیش کریں۔ پہلا خیال تو قرآن اور حدیث کی رُو سے بالکل باطل اور غلط ہے۔ قرآن و حدیث اِس پر شاہد ہیں اور گواہ ہیں اور پہلی کتب بھی کہ قرآن کریم کی تعلیم قیامت تک ہے۔
مسلمانوں کی اصلاح کے لئے مَردانِ خدا کے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں
پس صرف ایک ہی رستہ کھلا رہتا ہے اور وہ یہ تسلیم کر لینا کہ جب کبھی مسلمانوں میں خرابی
پیدا ہو گی اور وہ اسلام سے دُور چلے جائیں گے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے آدمی آئیں گے جو اسلام کو اُس کی اصل شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر کریں گے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۠۔يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔57 اے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! تُو اپنے لوگوں سے کہہ دے کہ میرے خدا نے اسلام کے ذریعہ سے تمام وہ باتیں جن کی بُرائی فطرت پر گراں ہے خواہ وہ نمایاں طور پر بُری ہوں یا اُن کی بُرائی کسی قدر مخفی ہو اُن سب کو حرام کر دیا ہے اور اِسی طرح اُس نے انتہائی درجہ کے گناہوں کو بھی حرام کر دیا ہے اور ایک دوسرے پر ظلم کو بھی حرام کر دیا ہے جو بغیر کسی قانونی یا اخلاقی وجہ کے ہو۔ اور اس سے بھی اُس نے منع کیا ہے کہ کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کا کسی کو شریک بنائے جس کے لئے کوئی آسمانی دلیل موجود نہیں۔ اور اس سے بھی اُس نے منع فرمایا کہ تم اﷲ تعالیٰ کے متعلق کوئی ایسی بات کہو جس کو تم نہیں جانتے۔ اور اے لوگو! ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آتا ہے تو وہ ایک گھڑی بھی مقررہ میعاد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور ایک گھڑی بھی اُس مقررہ میعاد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔اے آدم کی اولاد! اگر تمہاری طرف کوئی رسول آئیں جو تمہیں میرے نشانات پڑھ کر سُنائیں تو یاد رکھو کہ جو کوئی تقویٰ اختیار کرے گا اور اصلاح کو مدِّ نظر رکھے گا تو ایسے لوگوں کو نہ آئندہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ گزشتہ غلطیوں پر کسی قسم کا غم پہنچے گا۔
یہ آیت قطعی طور پر مسلمانوں کے متعلق ہے۔ اس سے پہلے کی آیتیں بھی اور بعد کی آیتیں بھی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی اُمّت کے متعلق ہیں اور اس آیت میں صاف کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی خرابی کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے انسان کھڑے کئے جاتے رہیں گے جو اُن کو خدا تعالیٰ کی باتیں سُنائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف واپس لانے کی کوشش کریں گے۔ جو لوگ اُن کی باتوں پر کان دھریں گے اور فساد اور فتنہ کی باتوں کو ترک کریں گے اور تقویٰ اور اصلاح کے رستوں کو اختیار کریں گے اُن کے لئے خدا کی طرف سے برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور خدا اُن کا خود محافظ ہو گا۔ اسی کی تصدیق میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں إِنَّ ﷲ یَبْعَثُ لِھٰذہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَّنْ یُّجَدِّ دُلَھَادِیْنَھَا۔58 اﷲ تعالیٰ اِس اُمّت میں ہر صدی کے سر پر ایسا آدمی مبعوث کرے گا جو اُمّت کی خاطر اور اُس کے فائدہ کے لئے اور اُس کے دین کو پھر نئے سرے سے اُجاگر اور روشن اور غلطیوں سے پاک کردے گا۔
اِس حدیث کے ہم نے دو حوالے لکھے ہیں۔ شیعوں اور سُنیوں دونوں کی کُتب سے جس سے ہمارا منشاء یہ ہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں میں متفق علیہ ہے۔
مصلحین اور مجددین کی مخالفت
یہ ظاہر ہے کہ جو شخص بھی تجدیدِ دین کرے گا وہ زیادہ یا کم رائج الوقت
خیالات یا عقائدکے خلاف باتیں کرے گا تو اُس وقت کے تمام وہ علماء جو اُس کے ساتھ متفق نہیں ہوں گے اس کی تردید اور تکذیب کریں گے۔ چنانچہ اس اُمّت میں ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ حضرت جُنید ؒ بغدادی پر کُفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے۔ 59
حضرت محی الدین ابن عربی کو علماء نے کافر اور زندیق کہا۔ آپ خود تحریر فرماتے ہیں ‘‘لَقَدْ وَقَعَ لَنَا وَ لِلْعَارِفِیْنَ اُمُوْرٌ وَ مِحَنٌ بِوَاسِطَۃِ اِظْہَارِنَا الْمَعَارِفَ وَ الْاَسْرَارَ وَ شَھِدُ وْافِیْنَا بِالزَّنْدَ قَةِ وَ اٰذُوْنَا اَشَدَّ الْاَ ذٰی وَ صِرْنَا کَرَ سُوْلٍ کَذَّبَہٗ قَوْمُہٗ وَ مَا اٰمَنَ مَعَہٗ اِلَّا قَلِیْلٌ وَ اَعْدٰی عَدُوٌّ لَّنَا الْمُقَلِّدُوْنَ لِاَ فْکَارِھِمْ۔ 60 یعنی ہمیں اور خدا کے دوسرے عارف بندوں کو دین کے معارف اور اسرار کے ظاہر کرنے پر بڑی بھاری مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لوگوں نے ہمیں کافر اور زندیق قرار دیا ہے اور اُنہوں نے ہمیں شدید ترین تکالیف پہنچائی ہیں۔ اور ہم اُس رسول کی طرح ہو گئے ہیں جسے اس کی قوم نے جھٹلا دیا ہے اور جس پر صرف چند لوگ ایمان لائے۔ اور اِس بارہ میں ہمارے شدید ترین دُشمن وہ لوگ ہیں جو اپنے خیالات اور افکار کے مقلّد ہیں۔
اسی طرح حضرت امام غزالی ؒ پر کُفر کا فتویٰ لگایا گیا اور اُن کی کتابوں کو جلا دینا اور اُن پر *** کرنا ثواب سمجھا گیا۔ 61
حضرت امام ابو حنیفہؒ کو کافر، زندیق اور بدعتی کہا گیا۔ ان پر طرح طرح کی سختیاں کی گئیں اور انہیں قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔
حضرت امام شافعی ؒ کو لوگوں نے رافضی کہہ کر قید کروا دیا۔62
حضرت امام مالک ؒ پر کئی قسم کی سختیاں کی گئیں۔ ایک دفعہ اُن کی ایسی بے دردی سے مُشکیں باندھی گئیں کہ اُن کا بازو اُکھڑ گیا۔ پھر اُنہیں کوڑے مارے گئے اور وہ قید میں ڈالے گئے۔
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ بھی قید کئے گئے اور اُن کے پاؤں میں بھاری بھاری بیڑیاں ڈالی گئیں۔ انہیں ذلیل کرنے کے لئے لوگ اُن کو تھپڑ مارتے اور اُن کے مُنہ پر تھوکتے تھے۔ حضرت امام بخاری وطن سے نکالے گئے۔ 63
حضرت بایزید بسطامی ؒ سات دفعہ اپنے شہر سے نکالے گئے۔ حضرت ذوالنون مصری ؒ مشکیں باندھ کر بغداد بھیجے گئے اور علماء کی ایک جماعت اُن کے کُفر کی گواہی دینے کے لئے اُن کے ساتھ گئی۔ 64
حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ پر اُس وقت کے علماء و فقہاء نے کُفر کا فتویٰ لگایا۔65 حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی ؒ نے مجدّدیت کا دعویٰ کیا اور اُن کے ساتھ یہ سلوک ہؤا کہ کافر ٹھہرائے گئے اور قید میں ڈالے گئے۔ 66
حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ محدّث دہلوی نے مجدّدیت کا دعویٰ کیا اور اُن کے زمانے میں بھی اُن کے ساتھ بہت کچھ سختیاں کی گئیں اور انہیں بدعتی اور گمراہ کہا گیا۔ پھر حضرت سیّداحمد بریلوی ؒ نے مجدّدیت کا دعویٰ کیا اور خود مسلمانوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر اُن کو قتل کرا دیا۔ 67
حقیقت یہ ہے کہ اصلاح بغیر تجدید کے نہیں ہو سکتی اور تجدید پر اُس وقت کے علماء میں انقباض پیدا ہونا طبعی امر ہے۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠۔68 اے افسوس انسانوں پر کہ کبھی کوئی رسول اُن کی طرف نہیں آیا جس کے ساتھ اُنہوں نے ہنسی اور تمسخر کا سلوک نہ کیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پچھلے سارے طریقوں کو بند کر دیا۔اب تمام روحانی طریقے آپ ہی سے جاری ہو سکتے تھے اور ہونے والے تھے۔ اسی طرح پہلے زمانوں میں جو مختلف نبیوں کے زمانہ میں خرابیاں ہوئیں وہ بھی مجموعی طور پر آپ کی اُمّت میں پیدا ہونی تھیں کیونکہ اَب خدا اور وسواس دونوں کی جولانگاہ صرف ایک ہی اُمّت ہو گئی تھی۔ اس قاعدہ کُلّیہ کے ماتحت جو ہم نے اُوپر لکھا ہے اور جس کی تصدیق قرآن اور حدیث سے ہوتی ہے یہ لازمی بات تھی کہ حضرت مرزا صاحب ؑ کے دعوے کی بھی مخالفت ہوتی اور علماء آپ کے خلاف کھڑے ہو جاتے لیکن دیکھنے والی بات یہ نہیں کہ علماء ان کے خلاف کھڑے ہیں دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ :۔
(1) کیا مسلمان کبھی بگڑ سکتے ہیں یا نہیں؟
(2) کیا علماء کبھی بگڑ سکتے ہیں یا نہیں؟
(3) کیا مسلمانوں کے بگڑنے کی کوئی خبر قرآن نے دی ہے یا نہیں؟
(4) کیا علماء کے بگڑنے کی کوئی خبر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے یا نہیں؟
(5) کیا اسلام سے غافل ہو جانے اور اس کی تعلیم کو چھوڑ دینے کی کوئی خبر قرآن اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے یا نہیں؟
اگر یہ خبریں قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں تو پھر حضرت مرزا صاحب ؑ یا اور کسی گزشتہ بزرگ کی مخالفت اسلامی اصول سے جائز نہیں ہو سکتی اور نہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام نے ایسی تحریکوں کو بزور منع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم یہ قطعی طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ قرآن اور حدیث کے مطابق مسلمانوں کے لئے مختلف زمانوں میں بگڑنا ضروری تھا اور اس حد تک بگڑنا ضروری تھا کہ وہ اسلام اور قرآن کی تعلیم سے بالکل غافل ہو جائیں۔ اور یہ بھی ضروری تھا کہ اِس زمانے کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کوئی شخص کھڑا کیا جائے۔ اِن دونوں صورتوں کی موجودگی میں کوئی انسان یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ اکثریت اُس شخص کے خلاف نہیں ہو گی جو اصلاح کے لئے کھڑا کیا جائے گا۔
اگر اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اکثریت اپنے مذہب کو زور سے منوا لے اور اگر اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اکثریت اپنے مخالف کو مٹانے کا اختیار رکھتی ہے اور وہ اس بات کی مجاز ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اسلام ایک ہی مُنہ سے تو یہ کہتا ہے کہ مسلمان بگڑیں گے اور اُن کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے آدمی آئیں گے اور اُسی مُنہ سے وہ یہ کہتا ہے کہ اکثریت کو اختیار ہے کہ وہ ایسی اقلّیت کو کچل ڈالے اور اس کو تباہ کر دے۔ گویا خدا تعالیٰ خود اپنے بنائے ہوئے گھر کے گرانے کا سامان کرتا ہے۔ آخر وہ کونسی آسمانی طاقت آئے گی جو یہ بتائے گی کہ یہ اصلاح کا مُدعی سچّا ہے یا جھوٹا ہے۔ کیا یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آدم سے لے کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کو تو اُن کے مخالف تکلیف دینے پر قادر ہو سکے اور اُن کو طرح طرح کے دکھوں میں مُبتلا کیا گیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کو بھی کہنا پڑا کہ يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠ اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی یہ کہنا پڑا کہ سب سے زیادہ مشکلات اور مصائب خداتعالیٰ کے انبیاء پر آیا کرتے ہیں اور پھر اُن سے نیچے اُتر کر جتنا جتنا کوئی شخص خداتعالیٰ کو پیارا ہوتا ہے اُتنی ہی اُس پر مشکلات آتی ہیں۔ 69
لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جو مصلح اور مجدّد آئیں گے آسمان سے فرشتے اُن کی مدد کے لئے اُتر کر سب مسلمانوں کو بتادیں گے کہ یہ شخص سچّا ہے تم اس کی مخالفت نہ کرو۔ جو بات سارے رسولوں کو حاصل نہیں ہوئی حتّٰی کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہیں ہوئی وہ آپ کے ایک خادم اور تابع کو حاصل ہو جائے گی۔ یہ بات نہ صرف عقلاً غلط ہے بلکہ نقلاً بھی غلط ہے کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ مَاتَ بِغَیْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔70 یعنی وہ شخص جس نے اپنے زمانہ کے امام کو قبول نہ کیا اور اُسی حالت میں مَر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ یعنی اماموں کے آنے کے بعد کچھ لوگ انہیں مانیں گے اور کچھ نہیں مانیں گے۔ اگر لوگوں کو زبردستی ایمان لے آنا تھا اور ہدایت سب پر کھل جانی تھی تو پھر اس حدیث کے معنے ہی کیا رہ جاتے ہیں۔ اور اگر مخالفت ہونی تھی تو پھر لازماً ایک طرف اکثریت کا ہونا ضروری تھا اور ایک طرف مصلح اور اس کی چھوٹی سی جماعت کا ہونا۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اُن کی قبولیت کو دُنیا میں پھیلا دے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اکثریت ہمیشہ حق پر ہوتی ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اقلّیت کو دبانے کا اکثریت کو حق حاصل ہے ، اُس کو قید کرنے اور قتل کرنے کا بھی حق ہے، اُس کو جبراً مذہب بدلوانے کا بھی حق ہے، اُس کو اُس کے ضمیر کے خلاف مجبور کر کے اپنے اندر شامل کر لینے کا بھی حق ہے اُن کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اُمّتِ محمدیہ میں جتنے مصلح اور جتنے مجدّد آئیں گے اُن سب کی گردنیں اور اُن سب کی جماعت کی گردنیں علماءِ سُوء کے ہاتھ میں ہوں گی اور وہ اختیار رکھیں گے کہ جس وقت چاہیں اُن کی گردن مروڑ دیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو گا جس کی تائید کے لئے وہ مصلح کھڑے ہوں گے اور جس نے اُن کی بعثت کی خبر دی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مُلک کی اکثریت نے حضرت محی الدین ابن عربی ؒ ، حضرت امام غزالیؒ، حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبل ؒ ، حضرت مجدّد الف ثانی ؒ، حضرت مولانا شاہ ولی اﷲؒاورحضرت سیّد احمد بریلوی ؒ وغیرہ بیسیوں صلحاءِ اُمّت کی سخت مخالفت کی۔ اُس وقت کے اجماع کا فیصلہ آج کیوں باطل ہو گیا ہے اور اُس وقت کی اقلّیت آج حق پر کیو ں سمجھی جاتی ہے؟
کہا جاتا ہے کہ مرزا صاحب ؑ کی مخالفت کی یہ وجہ ہے کہ اُنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اِس قسم کا دعویٰ خدا کی طرف سے خبر پاکر کرے تو کیا لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور اس کی جماعت کو دُنیا سے مٹانے کی کوشش کریں؟ اگر یہ درست ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ انسانی حکومت کی تائید میں بولنے والا انسان مجرم نہیں بلکہ تعریف کے قابل ہے لیکن خدا کی حکومت کی تائید میں بولنے والا انسان کُشتنی اور گردن زَدنی ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِيْنَۙ۔ وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِيْ وَ خَافَ وَعِيْدِ۔71 اور نہ ماننے والے ہمیشہ اپنی طرف مبعوث ہونے والے رسولوں سے یہ کہتے آئے ہیں کہ ہم یقینا تم کو اپنے مُلک سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب کی طرف واپس لَوٹ آؤ گے۔ اس موقع پر رسولوں کا ربّ بھی اُن کی طرف وحی کرتا رہا ہے کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے۔ کیا جو بات قرآن کے رُو سے ہمیشہ نبیوں کے دُشمن کرتے چلے آئے تھے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب اس کو اسلام کی تصدیق حاصل ہو گئی ہے اور کیا اب وہ علماء جو اپنے آپ کو ورثہ انبیاء کہتے ہیں کفّار کی اس دیرینہ رسم کا پورا کرنے کے ذمّہ دار بن گئے ہیں؟ اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے جو کام ظلم تھا اب وہ انصاف اور عدل ہو گیا ہے؟
اسی طرح سورۂ یٰس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی سابق زمانے میں خدا تعالیٰ کے کچھ مُرسل آئے (ان کو مفسرین نے حضرت مسیح ؑ کے حواری قرار دیا ہے۔72)تو لوگوں نے اُن سے کہا کہ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَيَمَسَّنَّكُمْ۠ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ 73 اگر تم اپنے خیالات کی تبلیغ سے باز نہیں آؤ گے تو ہم تمہیں سنگسار کر کے قتل کر دیں گے اور تم کو درد ناک عذاب پہنچائیں گے۔ کیا ان آیات سے یہ ظاہر نہیں کہ نبیوں اور ولیوں کے دُشمن ہمیشہ نبیوں اور اُن کے ماننے والوں کو قتل کرنے، عذاب پہنچانے اور مُلک سے نکال دینے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں کیا یہی وہ دھمکیاں نہیں تھیں جو اس زمانہ کے علماء نے احمدیوں کو دیں؟ کیا انہوں نے نہیں کہا کہ ان لوگوں کو اس مُلک سے نکال دینا چاہئے؟ کیا ان لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ ان لوگوں کو بہت سے حقوق سے محروم کر دیا جائے؟ کیا ان لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر یہ باز نہ آئیں تو ان کو قتل کر دینا چاہئے ؟ اور یہی تین باتیں ہیں جو قرآن کریم کے رُو سے انبیاء کے دُشمن کہتے چلے آئے ہیں۔
اسی طرح ایک اَور جگہ قرآن کریم میں آتا ہے قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ74 یعنی شعیب کی قوم کے ان سرداروں نے جو سخت متکبر تھے شعیب ؑ سے کہا کہ ہم ضرور تجھ کو اپنے علاقہ سے نکال دیں گے اور ان کو بھی جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں۔ یا تجھے ہمارے مذہب میں واپس لَوٹنا ہو گا۔ شعیب ؑ نے جواب میں کہا کیا اگر ہم تمہارے دین کو نا پسند کرتے ہوں تب بھی تم ہم کو لَوٹا دو گے؟
اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت شعیب ؑ نے اس بات کو حیرت سے دیکھا ہے کہ کوئی شخص اپنے عقیدہ کے خلاف کسی دوسرے عقیدہ کے اظہار پر مجبور کیا جائے اور خدا تعالیٰ نے اُن کے اس استدلال کو درست تسلیم فرمایا ہے کیونکہ اس نے ان کے استدلال کو قرآن کریم میں درج فرما کر اس کی ہمیشہ کے لئے تصدیق کر دی ہے۔ یہ تو قبل از زمانۂ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتیں ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور الٰہی تصدیق کے بعد ہمارے لئے قابلِ عمل ہیں اور ضروری ہیں اور سچے مذہب کی آئیڈیالوجی کو ظاہر کرتی ہیں۔ مگر قرآن کریم نے بھی اسلامی تعلیم میں ان باتوں کو نظرانداز نہیں کیا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِ 75 اے اسلام کے منکرو! تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ 76 دین میں کسی قسم کا جبر نہیں۔
اسی طرح قرآن کریم میں منافقوں کو متواتر بُرا کہا ہے۔ فرماتا ہے يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۔77 یہ لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں اور اﷲ تعالیٰ اس کو جانتا ہے جس کو وہ چھپا رہے ہیں اور آج جماعتِ اسلامی، مجلسِ عمل اور مجلسِ احرار کہتی ہیں کہ ہم احمدیوں کو مجبور کریں گے کہ وہ وہ باتیں کہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں۔ یعنی وہ دل سے تو حضرت مرزا صاحب ؑ کو مامور مِنَ اﷲ مانیں گے لیکن مُنہ سے اُن کو ان عقائد کا اقرار کرنا پڑے گا جو مولانا مودودی یا مجلسِ احرار یا علماءِ دیوبند بیان کرتے ہیں۔ گویا جس چیز کو قرآن کریم ناپاک اور مردود قرار دیتا ہے اور اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف اور قابلِ نفرت فعل ٹھہراتا ہے مولانا مودودی، مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری اور مولانا ابو الحسنات اور علماء دیو بند اِسی فعل کے ارتکاب پر احمدیوں کو مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ آخر وہ کونسی منطق ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ احمدیوں کو تین دن قید کرنے کے بعد ان کے عقائد وہ نہیں رہیں گے جو تین دن پہلے تھے اور وہ دل سے اور ضمیر کی تائید سے اُن عقائد کے قائل ہو جائیں گے جو مولانامودودی ، مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری اور مولانا ابو الحسنات بیان کرتے ہیں۔ جن کے احمدی پہلے مُنکر تھے۔ تین ہی دن کی مدّت فقہا اس فاقہ شُدہ کے لئے بھی مقرر کرتے ہیں جسے سؤر کھانا جائز ہو جاتا ہے۔ شاید مُرتد کو تین دن قید کرنے کی بھی یہی حکمت ہے کہ اتنے ظلم کے بعد اسے جھوٹ بولنا جو سؤر کھانے کے برابر ہے جائز ہو جائے گا۔ مگر کیا قید سے یقین پیدا ہؤا کرتا ہے؟ کیا قید اطمینانِ قلب پیدا کر دیتی ہے؟ کیا قید انسان کے خیالات کو درست کر دیتی ہے؟ کیا موت کا ڈر انسان کے خیالات کو صاف کر دیتا ہے؟ کیا موت کا ڈر منافق بنا دیتا ہے مومن نہیں بناتا؟ اور منافقت تو ایک ایسی *** ہے کہ جس قوم میں بھی آئی وہ تباہ ہو گئی۔
یہ تو ہم مان سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دیدۂ و دانستہ اپنے فوائد کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مسلمان ہونے کے لئے آئے تو ہمارا حق نہیں کہ ہم اُس کو مسلمان کرنے سے انکار کریں کیونکہ ہمیں قلوب کا علم نہیں۔ جیسا کہ تاریخ میں آتا ہے کہ ابو سفیان نے مُنہ سے تو یہ کہا کہ مَیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت پر شک کرتا ہوں مگر بیعت کرنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا اور آپؐ نے اس کی بیعت لے لی۔ 78 کیونکہ کسی شخص کا اس خیال سے بیعت کر لینا کہ میرا ایمان ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ شاید کچھ دنوں تک بعض ایسے مسائل جو اَب تک میری سمجھ میں نہیں آئے حل ہو جائیں گے یہ اس کے اختیار کی بات ہے مگر کسی شخص کا اس پر جبر کرنا اور یہ کہنا کہ تو اُن عقائد کا اظہار کر جن کے خلاف تیرا دل کہتا ہے یہ نہایت ظالمانہ، نہایت ناپاک اور نہایت مکروہ فعل ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر کوئی شخص دوسرے عقائد رکھتا ہے تو وہ اس جماعت سے الگ ہو جائے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جماعت کے اصل عقیدے وہی ہیں جن پر وہ ایمان رکھتا ہے تو وہ اس جماعت سے کس طرح الگ ہو سکتا ہے۔ وہ یہی سمجھے گا کہ مَیں جن عقائد پر قائم ہوں وہی اس مذہب کے عقائد ہیں اور دوسرے لوگ یہ سمجھیں گے کہ جو اُن کے عقائد ہیں وہی ان کا مذہب انہیں سکھلاتا ہے۔ آگے دُنیا فیصلہ کر لے گی کہ کس کی بات ٹھیک ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک سے بھی یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ جس مذہب کو مانتا ہے اُس مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا چھوڑ دے۔ آخر یہ دُنیا نے کیا پلٹا کھایا کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے جس بات کے مرتکب کفّار ہوتے تھے، جس بات کو قرآن کریم باربار ردّ کرتا، ناجائز ٹھہراتا اور ظلم قرار دیتا ہے وہی مردود بات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اُن علماء کا جو نائبِ رسول ؐ سمجھے جاتے ہیں، حق بن گئی اور ان کا خاص کام قرار پاگئی۔ کیا کُفر اسلام بن سکتا ہے؟ کیا خدا کی جگہ شیطان لے سکتا ہے؟ مَعَاذَ ﷲ۔
اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جن چیزوں پر ان علماء نے شورش کی اور جن پر شورش کرنا اپنا حق قرار دیا ہے وہ ابتدائے اسلام سے مسلمانوں میں موجود رہی ہیں اور ابتدائے اسلام سے مسلمانوں کے علماء اور اولیاء اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ ان کی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں بلکہ اُن میں سے بعض اسلامی آئیڈیالوجی کا حصّہ ہیں اور وہ ایسی باتیں نہیں ہیں کہ اگر وہ غلط بھی سمجھی جائیں تو اُن پر شورش اور فساد کرنے کا کسی کو حق ہو۔
جماعت احمدیہ کے خلاف اعتراضات کا خلاصہ
بانیٔ سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے
متعلق جو باتیں شورش کا موجب قرار دی گئی ہیں وہ خلاصۃً مندرجہ ذیل ہیں:
اوّل۔ احمدیوں نے اسلام میں اُمّتیوں پر نزولِ وحی اور نزولِ جبرئیل تسلیم کیا ہے حالانکہ نہ غیر نبی پر وحی نازل ہو سکتی ہے نہ بعد رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جبرئیل نازل ہو سکتا ہے۔ ایسے عقیدہ والا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے۔
دوم۔ انہوں نے نبوّت کا دعویٰ کیا ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت کی ہتک کی ہے۔
سوم۔ انہوں نے (مرزا صاحب ؑکے) مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تسلیم کیا ہے اور حضرت مسیح ناصری ؑ کی وفات کا اعلان کر کے مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے۔
چہارم۔ انہوں نے ایک نئی اُمّت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج ازاسلام کیا ہے۔
پنجم۔ انہوں نے اپنے مخالفوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے روکا ہے، اُن کی نماز جنازہ پڑھنے سے روکا ہے اور اُن کو لڑکیاں دینے سے روکا ہے۔
ششم۔ انہوں نے ایک غیر مسلم حکومت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی ہے اور اُن کی تائید میں جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے۔
ہفتم۔ انہوں نے مسلمان حکومتوں سے اور مسلمان تحریکوں سے کوئی ہمدردی نہیں کی۔
ہشتم۔ انہوں نے مسلمانوں کو عموماً اور مسلمان علماء کو خصوصاً سخت گالیاں دیں۔
نہم۔ انہوں نے مسلمانوں سے الگ رہنے کی کوششیں کیں۔ مثلاً ربوہ بنایا۔
دہم۔ ایک بات احمدیوں کے متعلق یہ بھی کہی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چاہئیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے مجرم ہیں۔
سوال نمبر1۔ متعلق اجرائے وحی و نزولِ جبرئیل
کہاگیا ہے کہ یہ فسادات احمدیوں کے عقائد اور اُن کے طرزِ عمل کا طبعی نتیجہ تھے کیونکہ احمدیوں کا نبوّت اور نزولِ وحی کے متعلق نظریہ اپنی ذات میں اتنا اشتعال انگیز ہے کہ کوئی مسلمان اسے برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے اور مسلمانوں کو اِس پر غصّہ آنا لازمی ہے۔ اور علماء نے لوگوں کو نہیں اُ کسایا بلکہ لوگ خود اِن باتوں کو سُن کر جوش سے اندھے ہو گئے۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ احمدی جماعت کے عقائد آج پہلی مرتبہ لوگوں کے سامنے نہیں آئے بلکہ آج سے ستّر سال پہلے سے سامنے آرہے ہیں۔ اگر ان سے واقع میں طبائع میں جوش پیدا ہو سکتا تھا تو وہ ستّر سال پہلے پیدا ہونا چاہئے تھا نہ کہ آج۔
کہا گیا ہے کہ:
‘‘پہلے انگریزی حکومت تھی جس کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن اب قیامِ پاکستان کے بعد مسلمانوں کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع میسر آیا ہے’’۔
اِس کے جواب میں معزّز عدالت کی توجہ کے لئے مندرجہ ذیل حقائق پیش کئے جاسکتے ہیں:۔
(1) انگریزی دَورِ حکومت میں ہندو مسلم اور شیعہ سُنّی فسادات ہوتے رہے۔ انفرادی طور پر مذہبی اختلافات کی بناء پر بھی قتل کی وارداتیں ہوتی رہیں مثلاً راجپال، شردھانند وغیرہ قتل ہوئے۔ سیاسی اختلافات کی بناء پر انگریز گورنر جنرل (لارڈ منٹو) قتل ہوئے۔ بعض انگریز گورنروں اور انگریز افسروں پر قاتلانہ حملے ہوئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ برِّعظیم ہندوپاکستان میں گزشتہ ستّر سال میں کبھی احمدی غیر احمدی فسادات نہیں ہوئے اور نہ مذہبی اختلافات کی بناء پر کبھی کوئی احمدی قتل ہؤا۔ پس اگر احمدیہ عقائد ، احمدیہ لٹریچر اور دوسرے مسلمانوں سے ان کی نمازوں اور جنازوں میں علیحدگی ، باہمی تکفیر اور مسئلہ ختمِ نبوّت مسلمانوں کے لئے فِی الحقیقت ناقابلِ برداشت ہوتا تو کبھی ممکن نہ تھا کہ باہم فسادات نہ ہوتے اور کوئی احمدی کبھی کسی غیر احمدی کے ہاتھ سے مارا نہ جاتا۔
(2) پھر قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1947 ء سے لے کر 1953 ء تک چھ سال یہ فسادات کیوں رُکے رہے؟ کہا گیا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد چونکہ مسئلہ مہاجرین اور مسئلہ کشمیر اور مسئلہ خوراک کی طرف سب کو توجّہ تھی اس لئے احمدیوں کے خلاف مسلمانوں کا جوش دبا رہا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو جملہ مسائل ابھی تک حل نہیں ہوئے اور اب بھی اسی طرح مسلمانوں کی توجّہ کا مرکز ہیں جس طرح پہلے تھے۔ دوسرے یہ کہ باوجود اِن مسائل کے قیامِ پاکستان کے بعد 1953 ء کے فسادات سے قبل پاکستان میں چار مقامات پر (نارووال ضلع سیالکوٹ، ضلع لاہور، ضلع سرگودھا اور ضلع میانوالی میں) شیعہ سُنّی فسادات ہوئے لیکن کسی جگہ احمدی غیر احمدی فسادات نہیں ہوئے۔ اس سے بھی ثابت ہے کہ ابتداءً عام مسلمانوں کے دل میں احمدیوں کے خلاف ہر گز وہ جوش اور اشتعال نہیں تھا جو اُن کے دلوں میں شیعوں کے خلاف تھا۔ احمدیوں کے خلاف تو جوش و اشتعال ایک لمبی مُدّت کی مسلسل کوششوں کے بعد پیدا ہؤا ہے۔
(3) قیامِ پاکستان سے پہلے اور مابعد احمدیوں اور غیر احمدیوں کے مابین مسئلہ ختمِ نبوّت اور صداقت حضرت مرزا صاحب ؑ اور وفاتِ مسیح ؑ کے مسائل پر گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے مناظرے ہوتے رہے ہیں۔ ہندوستان کے ہر بڑے شہر اور پنجاب کے قصبوں اور قریوں تک میں ایسے مناظرے ہوئے اور ہزاروں ہزار مسلمان نہایت شوق کے ساتھ یہ مناظرے سُنتے رہے لیکن ہمیشہ پُر امن رہے کبھی کسی جگہ کوئی فساد نہیں ہؤا۔ یہ امرواقعہ بذاتِ خود اِس خود ساختہ نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ فسادات طبعی تھے۔
(4) پھر یہ کہنا کہ مسلمان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی وحی یا نبوت کا تصوّر برداشت ہی نہیں کر سکتا، اِس وجہ سے بھی غلط ہے کہ احمدی جماعت کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ قریباً تمام احمدی یہاں کے مسلمانوں ہی میں سے جماعت میں آئے ہیں۔ ان میں علماء بھی ہیں، صوفیاء اور گدّی نشین بھی اور مذہبی اور دُنیاوی لحاظ سے تعلیم یافتہ بھی۔
مشہور علماء جنہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا اقرار کیا
حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی، حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی،
حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی،حضرت مولانا محمد احسن صاحب امروہی، حضرت مولانا سیّد محمد سرور شاہ صاحب (سابق مدرّس دارالعلوم دیو بند و مظاہر العلوم سہارنپور)، حضرت مولانا قاضی سیّد امیر حسین صاحب سابق مدرّس مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور، حضرت مولانا فضل الدین صاحب کھاریاں، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب میرٹھی، حضرت مولانا انوار حسین خاں صاحب شاہ آباد ضلع ہردوئی، حضرت مولانا حافظ سیّد علی میاں صاحب شاہجہانپوری، حضرت مولانا قاضی خلیل الدین احمد صاحب رازی تلہری، حضرت مولانا غلام حسین صاحب لاہوری گمٹی والے، حضرت مولانا حسن علی صاحب واعظ (جنہوں نے تمام ہندوستان میں دورہ کر کے تبلیغِ اسلام کا فریضہ ادا کیا، جن کی تبلیغی سرگرمیاں تمام ہندوستان میں مشہور ہیں۔)، حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی، حضرت مولانا امام الدین صاحب گولیکی ضلع گجرات، حضرت مولانا محمداسماعیل صاحب فاضل جلالپوری، حضرت مولوی محمد دلپذیر صاحب بھیروی (مشہور پنجابی شاعر) حضرت میاں ہدایت اﷲ صاحب لاہوری(پنجابی شاعر سہ حرفی والے) ، حضرت مولانا عبدالقادر صاحب لدھیانوی حنفی، حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری، حضرت مولانا عبدالواحد صاحب آف براہمن بڑیہ بنگال، حضرت مولانا فضل الدین صاحب بھیروی وغیرہ مشہور و مسلّم علماء۔
پِیر اور گدّی نشین
پِیرانِ عِظام اور گدی نشینوں میں سے حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے (جو سابق ہِز ہائینس نواب
صاحب بہاولپورکے پِیر تھے اور جن کے لاکھوں مُرید ریاست بہاولپور اور سندھ میں موجود ہیں)، حضرت پِیر صاحب کوٹھے والے (صوبہ سرحد)، حضرت پیر صاحبُ العَلَم (صوبہ سندھ)، حضرت پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی سرسہ شریف (یو۔پی)، حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی، حضرت حافظ روشن علی صاحب و حضرت پِیر برکت علی صاحب نوشاہی (آف رنمل شریف ضلع گجرات)۔
مسلم مشاہیر جنہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تعریف کی یا اُن کی مخالفت نہیں کی
مولانا شبلی نعمانی، مولانا عبدالحلیم شرر، شمس العلماء مولانا
سیّد میر حسن صاحب سیالکوٹی، شمس العلماء مولانا ممتاز علی صاحب، خواجہ حسن نظامی دہلوی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا غلام مرشد صاحب (خطیب شاہی مسجد لاہور)، حکیم برہم مدیر شرق گورکھپور، مولانا عبداﷲالعمادی، چوہدری سر شہاب الدین ، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، خلیفہ محمد حسین صاحب وزیر اعظم پٹیالہ، سیّد ریاض احمد صاحب ریاض خیر آبادی مدیر ریاض الاخبار گورکھپور، شمس العلماء مولانا الطاف حسین صاحب حالی، مولانا اکبر الٰہ آبادی۔
والیٔ قلات
اس سلسلہ میں ہم موجودہ نواب صاحب بلوچستان کے دادا جناب معلّٰی القاب میر خداداد خان صاحب سابق والیٔ قلات کا نام خاص طور پر پیش کرنا
چاہتے ہیں۔ انہوں نے بھی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تصدیق فرمائی تھی۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس معزّز عدالت کے رو برو اپنے بیان میں اس امر کا ذکر فرمایا تھا تو اس کے بعد موجودہ نواب صاحب نے اس کی صحت سے انکار کیا اور اخبارات میں بھی تردید شائع کرائی۔ حقیقتِ حال کو واضح کرنے کے لئے ہم جناب میر خدا داد خان صاحب مرحوم سابق والیٔ قلات کا اصل خط معززعدالت کے ملاحظہ کے لئے پیش کرتے ہیں جس سے حضرت امام جماعت احمدیہ کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔
علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال
اس سلسلہ میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ اگرچہ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر
صاحب موصوف نے اپنی وفات کے قریب (34،1933ء کے بعد)احمدیت کی مخالفت کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے وہ تمام عمر احمدیت کے مدّاح اور مؤیّد رہے۔
(الف) عدالت کے سامنے خواجہ نذیر احمد صاحب کے بیان اور مولانا غلام محی الدین صاحب قصوری کی تصدیق سے یہ ثابت ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے والد صاحب کے ہمراہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔
(ب) ڈاکٹر صاحب موصوف نے سعد اﷲ نَو مسلم لدھیانوی کی ایک نہایت گندی اور فحش نظم کے جواب میں (جو اُس نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ہجو میں لکھی تھی) ایک نظم لکھی تھی جو کتاب ‘‘آئینہ حق نما’’ میں شائع ہو چکی ہے جو عدالت کے سامنے پڑھی جا چکی ہے۔
(ج) ڈاکٹر صاحب موصوف اپنے مشہور لیکچر ‘‘ملّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر’’ میں (جو آپ نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے دو سال بعد ١٩١٠ء میں آسٹریحی ہال ایم۔او کالج علیگڑھ میں بزبان انگریزی دیا تھا اور مولانا ظفر علی خان صاحب نے جس کا ترجمہ مئی ١٩١١ء میں خود ڈاکٹر سر محمد اقبال کی موجودگی میں برکت علی محمڈن ہال لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ کے سامنے پڑھ کر سُنایا تھا) فرماتے ہیں:
‘‘میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ہے ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے اور ہماری تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اس نمونہ کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت اُسے پیشِ نظر رکھیں...... پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اُس جماعت کی شکل میں ظاہر ہؤا ہے جسے فرقۂ قادیانی کہتے ہیں’’۔79
ڈاکٹر صاحب موصوف کا 1910ء میں یہ اظہارِ خیال بتاتا ہے کہ آج جو یہ بات کہی گئی ہے کہ احمدیت کی تعلیم اور نبوّت کے بارے میں نظریہ بذاتِ خود مسلمانوں کے لئے طبعی طور پر اشتعال انگیز تھا ایک بے بنیاد اور بے حقیقت الزام ہے۔
مفکرِ احرار چوہدری افضل حق صاحب
اِس ضمن میں ہم مفکرِ احرار چوہدری افضل حق صاحب
مرحوم کا ایک مضمون بھی معزّز عدالت کے ملاحظہ کے لئے نقل کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر سر محمداقبال صاحب کی طرح چوہدری افضل حق صاحب نے بھی بعد میں بعض سیاسی وجوہ کی بناء پر احمدیت کی مخالفت کی لیکن اُن کا یہ ابتدائی اظہارِ خیال پورے طور پر اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ احمدیت کی تعلیم مسلمانوں کے لئے بذاتِ خود طبعی طور پر اشتعال انگیز ہے۔ چوہدری افضل حق صاحب اپنی کتاب موسومہ بہ ‘‘فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں’’ میں تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘آریہ سماج کے معرضِ وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسدِ بے جان تھا جس میں تبلیغی حِسّ مفقود ہو چکی تھی۔ سوامی دیانند کی مذہبِ اسلام کے متعلق بد ظنّی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنّا کر دیا مگر حسبِ معمول جلدی خوابِ گراں طاری ہو گئی۔ مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی۔ ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشرواشاعت کے لئے بڑھا۔ اگرچہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہؤا تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابلِ تقلید ہے بلکہ دُنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے’’۔80
(ب) پھر اِسی کتاب کے صفحہ 41 پر تحریر فرماتے ہیں:
‘‘سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیراقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا۔ کس قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب میں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کا بھی تبلیغی نظام موجود نہیں’’۔
جناب مولانا عبدالحلیم صاحب شرر لکھنوی
مولانا عبدالحلیم صاحب شرر تحریر فرماتے ہیں:
‘‘احمدی مسلک شریعتِ محمدیہ کو اُسی وقعت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے۔ اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پُرجوش خدمت ادا کرتا ہے جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے’’۔ 81
یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ مولانا عبدالحلیم صاحب شرر احمدی جماعت میں شامل نہیں تھے۔
جناب مولانا محمد علی صاحب جوہر(برادر مولانا شوکت علی صاحب مرحوم)
‘‘ناشکر گزاری ہو گی اگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکران سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجّہات بِلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ یہ حضرات اِس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اور مسلمانوں کی تنظیم اور تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دُور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرزِ عمل سوادِ اعظم اسلام کے لئے بِالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بِالخصوص جو بسم اﷲ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کی بلند بانگ و باطن ہیچ ، دعاوی کے خوگر ہیں۔ مشعلِ راہ ثابت ہو گا’’۔82
مولانا ظفر علی خان مدیر ‘‘زمیندار’’
باوجود اس حقیقت کے کہ مولوی ظفر علی صاحب احمدیت کے شدید
مخالفوں میں سے ہیں انہوں نے فتنہ ارتداد (یو۔پی) 1923ء کے موقع پر جماعت احمدیہ کی خدماتِ اسلامی کو سراہتے ہوئے اخبار ‘‘زمیندار’’ میں متعدد مقالے لکھے جن کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:
(الف)‘‘مسلمانانِ جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں جو ایثار، کمر بستگی، نیک نیتی اور توکّل علی اﷲ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمتِ اسلام کر کے دکھادی’’۔83
(ب) ‘‘احمدی بھائیوں نے جس اخلاص، جس ایثار، جس خوشی اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصّہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے’’۔
(ج) ‘‘گھر بیٹھ کر احمدیوں کو بُرا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اِس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں۔ کیا ندوۃ العلماء دیوبند، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغِ اشاعتِ حق کی سعادت میں حصّہ لیں؟ کیا ہندوستان میں ایسے متموّل مسلمان نہیں ہیں جو چاہیں تو بِلا دِقّت ایک ایک مشن کا خرچ اپنی گِرہ سے دے سکتے ہیں؟ یہ سب کچھ ہے لیکن افسوس کہ عزیمت کا فقدان ہے۔ فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنا آج کے مسلمانوں کا شعار ہو چُکا ہے’’۔84
مولانا ابو الکلام آزاد کے برادرِ اکبر مولانا ابو النصرآہ
مولانا ابو النصر آہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں 1905ء میں قادیان آئے اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ سے ملاقات کے بعد
انہوں نے اپنے تأثرات اخبار ‘‘وکیل’’ امرتسر میں شائع کرائے۔ لکھتے ہیں:-
‘‘چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سلوک کیا اور مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب جن کے اسم گرامی سے تمام انڈیا واقف ہے اور مولانا عبدالکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھوم ہے مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر ‘‘بدر’’ جن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں، جناب میر ناصر نواب صاحب دہلوی جو مرزا صاحب کے خُسر ہیں ، مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے ۔ ایل۔ایل۔ بی ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز، مولوی یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم، جناب شاہ سراج الحق صاحب وغیرہ وغیرہ پر لے درجے کی شفقت اور نہایت محبت سے پیش آئے’’۔
‘‘مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے۔ آنکھوں میں خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے۔ طبیعت منکسر مگر حکومت خیز، مزاج ٹھنڈا مگردلوں کو گرما دینے والا، بُرد باری شان میں انکساری، کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا متبسّم ہیں ..... مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثناءِ قیام کے متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا۔ ‘‘ہم آپ کو اِس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں’’۔ اُس وقت کا تبسّم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے۔ مَیں جس شوق کو لے کے گیا تھا ساتھ لایا ہوں اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے۔’’ 85
(5) پھر یہ امر بھی اس معزز عدالت کی توجّہ کے لائق ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں باوجود اس امر کے کہ آپ کے دعاوی کے ساتھ علماء نے اختلاف کیا، آپ کے خلاف کُفر کے فتوے لگائے۔ نمازوں اور جنازوں اور رشتوں ناطوں سے علیحدگی ہوئی لیکن جب 26مئی 1908ء کو آپ نے وفات پائی تو مسلم پریس نے آپ کی تعریف اور آپ کی اسلامی خدمات کی ستائش سے بھر پور مضامین لکھے جس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ احرار اور ان کے ہمنواؤں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ احمدیہ جماعت کے نظریات بالطبع مسلمانوں کے لئے اشتعال انگیز اور جماعت احمدیہ کو مسلمانوں سے الگ ایک جماعت ثابت کرنے والے ہیں۔ ذیل میں ہم چند اقتباسات درج کرتے ہیں:
بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات پر مشہور اخبارات کی آراء
(الف) مولانا عبداﷲ العمادی مدیر اخبار ‘‘وکیل’’ امرتسر نے اخبار ‘‘وکیل’’ میں شائع فرمایا:-
‘‘وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں ..... خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا ..... مرزاغلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اِس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور مٹانے کے لئے اُسے امتدادِ زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے۔ ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دُنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازشِ فرزندانِ تاریخ بہت کم منظر پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دُنیا میں انقلاب کر کے دکھا جاتے ہیں۔
مرزا صاحب کی اس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ان تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا کہ اُن کا ایک بڑا شخص اُن سے جُدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفینِ اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اُس شاندار مدافعت کا جُؤا اُس کی ذات سے وابستہ تھا، خاتمہ ہوگیا۔ اُن کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے بر خلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے ..... مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبولِ عام کی سند حاصل کر چُکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدروعظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چُکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے کہ وہ وقت ہرگز لَوحِ قلب سے نَسْیًا مَّنْسِیًّا نہیں ہو سکتا۔ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھِر چُکا ہے .....
غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گراں بارِ احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی صفِ اوّل میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرضِ مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اُس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ ان کے شعارِ قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا’’۔ 86
(ب) علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نے لکھا:
‘‘مرحوم ایک مانے ہوئے مصنّف اور مرزائی فرقہ کے بانی تھے..... کئی دفعہ آپ کو کافر قرار دیا گیا اور آپ پر اکثر مقدمات کئے گئے ..... بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا’’۔87
(ج) تہذیبِ نسواں لاہور کے مدیر شمس العلماء مولانا ممتاز علی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دلوں کو تسخیر کر لیتی تھی۔ وہ نہایت باخبر عالم، بُلند ہمت، مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے’’۔88
(د) اخبار زمیندار کے مدیر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد ماجد مولوی سراج دین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
‘‘مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے 26مئی کی صبح کو لاہور میں انتقال فرمایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُونَ ..... مرزا غلام احمد صاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرّر تھے۔ اُس وقت آپ کی عمر بائیس چوبیس سال کی ہو گی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صَرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ 1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی۔ اُن دنوں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ 1881ء یا 1882ء میں آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف کا اعلان دیا اور ہم اس کتاب کے اوّل خریداروں میں سے تھے’’۔89
(ح) ایڈیٹر ‘‘صادق الاخبار’’ ریواڑی مولوی بشیر الدین صاحب جو سرسیّد احمد خان صاحب کے ساتھیوں میں سے تھے اور مسلمانوں کے لیڈروں میں شامل تھے آپ ؑ کی وفات پر تحریر فرماتے ہیں:
‘‘چونکہ مرزا صاحب نے اپنی پُر زور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفینِ اسلام کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایتِ اسلام کما حقہ، ادا کر کے خدمتِ اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامئ اسلام اور مُعِینُ المسلمین، فاضلِ اجلّ، عالمِ بے بدل کی ناگہانی اور بے وقت موت پر افسوس کیا جائے’’۔
یہ سب اقتباسات اس امرکے ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلاف 1953ء کے حالیہ فسادات احمدیت کی تعلیم اور نظریات کے اشتعال انگیز ہونے کے باعث نہ تھے بلکہ اُس اشتعال انگیز اور منافرت خیز پروپیگنڈے کا نتیجہ تھے جو مجلسِ احرار اور مجلسِ عمل کے اراکین نے قیامِ پاکستان کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف کیا۔
(6) اس امر کا ایک اور ثبوت کہ یہ تحریک کسی طبعی جذبے کا نتیجہ نہ تھی بلکہ انجینئرڈ تھی یہ بھی ہے کہ اگر یہ تحریک احمدیت کے نظریات کے باعث اشتعال ہونے کی وجہ سے ہوتی تو سب سے پہلے بہائیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف اُٹھتی جو پاکستان میں بکثرت موجودہیں اور ایک زبردست تنظیم کے ساتھ پاکستان میں منظم پروپیگنڈا کے ذریعہ اپنی تعداد کو بڑھا رہے ہیں۔
(7) اس تحریک کے غیر مذہبی اور غیر طبعی ہونے کا ایک زبردست ثبوت یہ بھی ہے کہ اس تحریک میں تحفّظ ختم نبوّت کے نام پر احرارؔ نے پنجاب کے عیسائیوں کو بھی شامل کیا۔ حالانکہ عیسائیوں کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النّبیین تو کُجا نَعُوذُ بِاﷲ نبی بھی نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کے نزدیک مسیح ناصری خاتم النّبیین ہیں ۔ چنانچہ پنجاب ریلیجس بُک سوسائٹی لاہور نے 1953ء میں ایک رسالہ موسومہ بہ ‘‘خاتم النّبیین’’ شائع کیا جس کے صفحہ 21 پر درج ہے:
توریت اور نبیوں کی اُن خبروں کو بعض محمدی عالموں نے حضرت محمد ؐ عربی پر عائد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس بحث میں علماءِ محمدیہ نے سخت ندامت اُٹھائی اور بڑی شکست اُٹھا کر خاموش رہ گئے اور انجیل میں مسیح کے یہ الفاظ پڑھ کر مسلمان بڑے خوش ہوئے کہ ‘‘دُنیا کا سردار آتا ہے’’۔90
‘‘مگر جب ان کو معلوم ہؤا کہ یہ خبر شیطان کے بارہ میں ہے تو چُپ کر گئے’’۔ 91
‘‘آخری نبی کی خبروں کے متعلق مسلمان عالموں کی ملمع سازیوں کی حقیقت بے نقاب ہو گئی اور اس بحث کا نہایت عمدہ نتیجہ نِکلا کہ یہودیوں اور مسیحیوں کی کتابوں میں محمد ؐ صاحب کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ محمد ؐ صاحب پچھلے چھ صد سال پہلے مسیح خداوند کا اپنا دعویٰ تھا کہ تورات اور نبیوں کا سابقہ سارا بیان میرے حق میں ہے اور آئندہ کے لئے اس کا تاکیدی فرمان ہے کہ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہیں۔ (متی 7:150) مسیح کے قول کی صداقت کے سامنے کسی اور انسان کا کیا اعتبار ہے۔ کیونکہ وہی صادق القول اور سچا گواہ ہیں۔ مکاشفہ 15:1 و14:13 و 11:19 و6:22 ۔ اور اس کے مقدس حواریوں نے اس کے سچّے قول کی تصدیق میں یہودی قوم کے سرداروں کے سامنے اس حقیقت کا اعلانیہ اقرار اور اظہار کیا کہ مسیح ناصری ہی خاتم النّبیّین ہے۔ اعمال 30:3 و اعمال 42:10و پطرس 9:1-11 ۔ پس ہماری تحریک نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم دُنیا میں اس بات کا اعلانیہ اظہار کریں کہ توریت اور نبیوں اور انجیل مقدس میں مسیح خداوند اور اس کے حواریوں کے بعد کی سچّے نبی کی آمد کی کوئی خبر نہیں۔ اس لئے مسیح اور اس کے حواریوں کے بعد کسی کا دعویٰ ئ نبوت حق اور قابلِ وثوق نہیں ہے۔ پس ساری باتوں کو آزماؤ اور بہتر کو اختیار کرو۔ 1۔تِھسلُنیکیوں 21:5’’۔ 92
اب اس کے بعد ہم معزز عدالت کی توجّہ کے لئے اخبار آزاد 27فروری 1953ء پنجاب کے عیسائی لیڈر مسٹر ظفر اقبال ظفر کا اعلان نقل کرتے ہیں۔ احراری اخبار آزاد ‘‘عیسائی مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے’’ کے زیر عنوان رقمطراز ہے:
‘‘لاہور 25فروری۔ مسیحی لیڈر مسٹر ظفر اقبال ظفر نے اخبارات کو بیان دیتے ہوئے کہا:
مَیں برادرانِ ملّت سے پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس دھوکے اور فریب میں نہ آئیں اور مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو زور شور سے جاری رکھیں۔ مرزائی اسلام اور پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ہم اس تحریک میں برادرانِ ملّت کے ساتھ ہیں اور ہم دو قدم آگے بڑھ کر ہر قسم کی جانی اور مالی قُربانی دے کر مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے’’۔ 93
مندرجہ بالا اقتباس میں ‘‘برادرانِ ملّت’’ کے الفاظ خاص طور پر قابلِ توجّہ ہیں۔ گویا مجلسِ عمل کے اراکین اور عیسائی تو ایک ملّت ہیں لیکن جماعت احمدیہ خارج از ملّت ہے۔
احرار اور عیسائیوں کے اس اتحاد سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ تحریک درحقیقت مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔
(٨) اگر یہ تحریک طبعی ہوتی اور اس کا باعث احمدیت کے مخصوص عقائد و نظریات کا عام مسلمانوں کے لئے طبعاً اشتعال ہونا ہوتا تو چاہئے تھا کہ یہ تحریک بجائے سیاسی لیڈروں کی طرف سے اُٹھائے جانے کے خود عوام کی طرف سے اُٹھتی۔ علماء کو اس کے بھڑکانے کی کیا ضرورت تھی؟
اگر مسلمان جانتے ہوں کہ فلاں جگہ پر ان کو سُؤر کھلایا جاتا ہے تو کسی عالم کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہو گی کہ تم وہاں نہ جاؤ۔ اگر واقع میں لوگوں میں ایسی تعلیمات پر غم اور غصّہ پایا جاتا تھا تو پھر کسی شخص کے اشتعال دلانے اور تقریر کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہزار ہا جھوٹ بولنے کی ضرورت تھی۔ وہ علماءِ کرام جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی گدّی پر بیٹھنے کے دعویدار ہیں برابر پانچ سال تک بولتے رہے ہیں، اُن کا جلسے کرنا اور اُن کا لٹریچر شائع کرنا، اُن کا نوٹ بنابنا کر بیچنے کی کوشش کرنا، اُن کا بکروں کی کھالیں طلب کرنا تاکہ لوگوں کو اِن باتوں سے واقف کیا جائے بتاتا ہے کہ یہ عوام الناس کی تحریک نہیں تھی بلکہ علماء اِسے عوام الناس میں پھیلانا چاہتے تھے تاکہ اِس زور اور دباؤ کے ذریعہ سے وہ گورنمنٹ کو مجبور کریں۔ اور علماء اس مسئلہ میں غیر جانبدار پارٹی نہیں تھے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اسلام میں وحی کا سلسلہ جاری ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام میں مولویوں کی کوئی حیثیت نہیں وہ محض ایک مدرّس اور قانون کی تشریح کرنے والے لوگ کہلائیں گے اِس سے زیادہ اِن کو لوگوں پر کوئی حکومت حاصل نہیں۔ خدا رسیدہ اور اﷲ تعالیٰ سے وحی پانے والے لوگ اگر دُنیا میں آتے رہیں تو PRIESTHOOD کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ PRIESTHOOD اُسی وقت رہتی ہے جب کہ وحی کا زمانہ دُور ہو جاتا ہے اور لوگ نقل اور تقلید پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام سے لے کر عزرا ؑ نبی تک کوئی مُلّا اِزم نہیں تھا کیونکہ متواتر نبی آتے رہے تھے۔ عزرا ؑ کے بعد جب نبیوں کے آنے میں وقفہ پڑا تب سے احبار اور رِبّی وغیرہ پیدا ہونے شروع ہوئے۔ جیسا کہ فریسیوں اور صدوقیوں کی تاریخ سے ثابت ہے۔ پس علماء کا اس معاملہ میں جوش دکھانا اُن کی ذاتی اغراض کے ماتحت تھا عوام النّاس کو اِس تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عوام النّاس تو جھوٹ بول بول کر اور دھوکے دے دے کر فساد پر آمادہ کئے گئے ۔ ہمارے مُلک کے اکثر افراد تو پِیروں کے ماننے والے ہیں۔ اہلِ حدیث تو بہت ہی کم ہیں۔ پھر اہلِ حدیث کا ایک حصّہ ایسا بھی ہے جو کہ وحی و الہام کا قائل ہے اور بزرگوں کو مانتا ہے اور اُن کی بیعت کرتا ہے جیسا کہ مولانا داؤد صاحب غزنوی کے دادا کا عقیدہ تھا اور اُن کے والد مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی نے اپنی کتاب ‘‘اِثْبَاتُ الْاِلْہَامِ وَ الْبَیْعَۃِ’’ میں لکھا ہے کہ:
‘‘مسئلہ الہام کا حلّت و حرمت کا مسئلہ نہیں جو اِس کا ثبوت صحابہ اور تابعین سے ضرور ہونا چاہئے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اِس دم تک اگر کسی نے بھی دعویٰ نہ کیا ہو اور آج ایک شخص متقی صالح دعویٰ کرے کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور مجھے غیب سے آواز آتی ہے تو بھی اُس کو سچّا جانیں گے اور بحکمِ شریعت تمام اہلِ اسلام پر لازم ہے کہ اُس کو سچّا سمجھیں’’۔ 94
جس مُلک کی اکثریت وحی اور الہام کی قائل ہو ایسے مُلک میں اِس بات پر شور مچانا کہ مرزا صاحب وحی کے مُدعی ہیں کسی کی سمجھ میں آسکتا ہے؟ سامعین تو اکثر وہ لوگ ہوتے تھے جو کہ اُن لوگوں کے ماننے والے ہیں جو وحی و الہام کے مُدعی ہیں۔ ہمارے مُلک میں کتنے عوام ہیں جو کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو نبی نہیں مانتے اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ صاف طور پر کہتے ہیں کہ ؎
دمبدم رُوح القدس اندر معینے مے د مد
من نمے دانم مگر من عیسیٰ ثانی شدم95
یعنی ہر لحظہ اور ہر گھڑی جبرئیل ؑ معین ؒ کے اندر آکر یہ بات پھُونکتا ہے اس لئے مَیں نہیں کہتا، مگر حقیقت یہی ہے کہ مَیں عیسیٰ ثانی ہو گیا ہوں۔ یہاں صاف طور پر وحی کا دعویٰ ہے جبرئیل ؑ کے اُترنے کا دعویٰ ہے مسیح ثانی ہونے کا دعویٰ ہے اور پاکستان کے اسّی فیصدی مسلمان حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو اپنا مقتدا اور زمانہ کا بہت بڑا ولی سمجھتے ہیں۔ اگر وحی کا دعویٰ کرنا انسان کو کافر اور گمراہ بنا دیتا ہے تو کیا یہی مولوی جرأت کر سکتے ہیں کہ پبلک میں کھڑے ہو کر کہیں کہ مرزا صاحب ؑ کا وہی دعویٰ ہے جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا ہے اور ایسا دعویٰ کرنے والے کافر اور گمراہ ہوتے ہیں۔
مسلمانوں میں سے اکثر صوفیاء حضرت محی الدین ابن عربی کو صوفیاء کا سردار قرار دیتے ہیں اور محی الدین ابنِ عربی ؒ بھی اجراءِ وحی کے قائل ہیں۔ امام عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں:
‘‘فَاِنْ قُلْتَ قَدْ ذَکَرَا لْغَزَالِی فِیْ بَعْضِ کُتُبِہٖ اِنَّ مِنَ الْفَرَقِ بَیْنَ تَنَزُّلِ الْوَحْیِ عَلٰی قَلْبِ الْاَنْبِیَاءِ وَ تَنَزُّلِہٖ عَلٰی قُلُوْبِ الْاَوْلِیَاءِ نُزُوْلُ الْمَلَکِ۔ فَاِنَّ الْوَلِیَّ یُلْھَمُ وَ لَا یَنْزِلُ عَلَیْہِ مَلَکٌ قَطُّ وَ النَّبِیّ لَا بُدَّ لَہٗ فِی الْوَحْیِ مِنْ نُزُوْلِ الْمَلَکِ بِہٖ فَھَلْ ذٰلِکَ صَحِیْحٌ فَالْجَوَابُ کَمَا قَالَہُ الشَّیْخُ فِی الْبَابِ الرَّابِعِ وَ السِتِّیْنَ وَ الثَلَاثِ مِائَۃ اِنَّ ذٰلِکَ غَلَطٌ وَ الْحَقّ اَنَّ الْکَلَامَ فِی الْفَرقِ بَیْنَھُمَا اِنَّمَا ھُوَ فِیْ کَیْفِیَّۃٍ مَا یَنْزِلُ بِہِ الْمَلَکُ لَا فِی نُزُوْلِ الْمَلَکِ’’۔ 96
یعنی اگر تُو کہے کہ غزالی ؒ نے اپنی بعض کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ انبیاء کے دلوں پر وحی کے نزول اور اولیاء کے دلوں پر وحی کے نزول میں مَابِہِ الْاِمْتِیَاز فرشتہ کا نزول ہے۔ اﷲ تعالیٰ ولیوں پر وحی تو کرتا ہے مگر اُن پر فرشتہ کبھی نہیں اُترتا اور نبی کے لئے ضروری ہے کہ فرشتہ اُس پر وحی لے کر نازل ہو۔ تو کیا یہ بات صحیح ہے؟ اس کا جواب وہی ہے جو کہ حضرت محی الدین ابن عربی ؒ نے اپنی کتاب (فتوحات مکیہ) کے 364 ویں باب میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ غلط ہے اور سچی بات یہ ہے کہ نبیوں اور ولیوں کی وحی میں فرق صرف وحی کے مضمون میں ہوتا ہے نہ کہ فرشتہ کے نازل ہونے یا نہ نازل ہونے کا فرق۔
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک بھی جو سردارِ صوفیاء کہلاتے ہیں۔97اور حضرت امام غزالی ؒ کے نزدیک بھی وحی نہ صرف نبیوں پر اُترتی ہے بلکہ ولیوں پر بھی اُترتی ہے۔ امام غزالی ؒ کے نزدیک تو نبیوں پر وحی فرشتوں کے ذریعہ اُترتی ہے اور ولیوں پر بغیر فرشتوں کے۔ مگر حضرت محی الدین ابنِ عربی ؒ کے نزدیک ان کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ولیوں پر بھی فرشتوں ہی کے ذریعہ وحی اُترتی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ نبیوں کی وحی میں اَور قسم کے امور ہوتے ہیں اور ولیوں کی وحی میں اَور قسم کے اُمور۔ یعنی نبیوں کی وحی شریعت وغیرہ امور پر مشتمل ہوتی ہے اور ولیوں کی وحی میں یہ بات نہیں ہوتی۔ پس وحی کا نزول یا فرشتہ کے نزول کا عقیدہ کوئی نئی چیز نہیں۔
خود قرآن کریم بھی اس بات کا مُدعی ہے کہاِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ۔نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۔98وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اﷲ ہمارا ربّ ہے پھر عمل کے ساتھ اس پر قائم ہو جاتے ہیں فرشتے اُن پر نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں نہ تو آئندہ کا کوئی خوف دل میں رکھو اور نہ کسی گزشتہ نقصان پر غم کھاؤ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس جنّت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے خبر سُن لو۔ ہم اِس دُنیا میں بھی (خدا کے حُکم کے ساتھ) تمہارے ساتھ رہیں گے اور اسی طرح بعد میں آنے والی دُنیا میں بھی۔ اور تم کو اِس دُنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جو کچھ تم چاہتے ہو اور جو کچھ مانگتے ہو ملے گا۔ یہ خدائے بخشندہ اور مہربان کی طرف سے تمہارے لئے بطور اعزاز ظاہر ہو گا۔
اِس آیت میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگوں پر فرشتے نازل ہوں گے اور انہیں خدا کا پیغام پہنچائیں گے۔ چنانچہ اِس آیت کے ماتحت تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ ‘‘ نُلْھِمُکُمُ الْحَقَّ وَ نَحْمِلُکُمْ عَلَی الْخَیْرِ بَدَل مَا کَانَتِ الشَّیٰطیْنُ تَفْعَلُ بِالْکَفَرَۃِ۔99 یعنی جس طرح شیطان کفار کے دلوں میں بُرے خیالات پیدا کرتے ہیں ہم مسلمانوں کو سچی باتوں کا الہام کریں گے اور نیک باتوں پر عمل کرنے کی اُن کو تحریص کریں گے۔
اِسی طرح قرآن کریم میں مخلص مسلمانوں کی وفات کے وقت بھی فرشتوں کے ذریعہ وحی نازل ہونے کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ١ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ١ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔100 یعنی وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حال میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو۔ اپنے اعمال نیک کی وجہ سے اب موعودہ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اور یہ آیت تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔101 اے بنی آدم! (یہ آیت مسلمانوںکو مخاطب کر کے کہی گئی ہے۔) اگر تمہاری طرف ہمارے رسول آئیں اور تم کو ہمارے نشانات و احکام سنائیں تو جو اصلاح سے کام لے گا اور تقویٰ کرے گا اُسے نہ آئندہ کا خوف ہو گا نہ گزشتہ کا غم۔
خود حدیثوں میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی وحی صحابہؓ پر نازل ہوئی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں عبداﷲ بن زیدؓ ایک صحابی تھے اﷲ تعالیٰ نے اُن کو وحی کے ذریعہ سے اذان سکھائی تھی اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہی کی وحی پر انحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اذان کا رواج ڈالا تھا۔ بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی مگر بیس دن تک مَیں خاموش رہا اس خیال سے کہ ایک اَور شخص رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کر چُکا ہے۔ 102
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ نے مجھے آکر اذان سکھائی اور مَیں اُس وقت پوری طرح سویا ہؤا نہیں تھا کچھ کچھ جاگ رہا تھا۔ 103
پھر نہ صرف یہ کہ بعض صحابہ پر فرشتہ نازل ہؤا بلکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود دُعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ بعض صحابہ پر فرشتے نازل کرے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت حسان ؓ بن ثابت جب کفّار کے بعض اعتراضات کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔ 104 اے خدا! تُو جبرئیل کے ذریعہ سے اس کی مدد کر۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی اُمتوں میں ایسے لوگ پائے جاتے تھے جن پر وحی الٰہی نازل ہوتی تھی۔ اگر میری اُمّت میں بھی ایسے لوگ ہوئے تو عمر بن الخطاب ان لوگوں میں سے ایک ہو گا۔105 اس پر حاشیہ میں لکھا ہے کہ محدّث سے مراد وہ شخص ہے جو کہ عظیم الشّان مرتبہ پر ہو اور صادق الکلام ہو۔ اور مجمع البحار میں لکھا ہے کہ اِس سے وہ شخص مراد ہے جس کے دل میں خداتعالیٰ کوئی بات ڈالتا ہے پھر وہ اپنی عقل سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ بات خداکی طرف سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے لئے مخصوص کر دیتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فرشتے ان سے بولتے ہیں۔
حضرت مولانا روم ؒ فرماتے ہیں ؎
نَے نجوم است و نہ رمل است و نہ خواب
وحی حق وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ
از پئے روپوش عامہ در بیان
وحی دل گویند آں را صوفیان 106
وحی الٰہی نہ نجو م ہے نہ رمل ہے نہ خواب ہے لیکن عوام النّاس سے چُھپانے کے لئے صوفی اسے وحی دل کہہ دیتے ہیں۔
اِسی طرح وہ اپنی مثنوی کے دفتر سوم صفحہ 5پر کہتے ہیں کہ ؎
خلق نفس از وسوسہ خالی شود
مہمان وحی اِجلالی شود
کامل انسانوں کا نفس خدا تعالیٰ نے وسوسہ سے پاک بنایا اور اُن کے اُوپر وحی اجلالی نازل ہوتی رہتی ہے۔
تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَاكَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا ۔107 اس میں خدا تعالیٰ نے عام ذکر کیا ہے نبی کا ذکر نہیں کیااس لئے نبیوں کے ساتھ وحی مخصوص نہیں بلکہ سابق زمانے میں مریم اور اُمِّ موسیٰ کی مثال موجود ہے کہ وہ نبیّہ نہیں تھیں اور اﷲ تعالیٰ نے اُن سے کلام کیا اور ہماری اُمّت میں محدّثینِ اُمّت سے بھی یہی سلوک ہو گا اور اُن پر وحی نازل ہو گی۔108
لفظِ الہام اور وحی کے معنے
بعض لوگوں نے الہام اور وحی میں فرق کیا ہے لیکن لُغت والوں نے اس فرق کو تسلیم نہیں کیا۔
چنانچہ منتہی الادب میں لکھا ہے کہ اَوْحَی ﷲ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی طرف فرشتہ بھیجا اور اس پر الہام کیا۔
لِسان العرب والے کہتے ہیں کہ وضع کے لحاظ سے وحی کا لفظ عام تھا۔ مگر ثُمَّ قصر الْوَحْی لِلْاِلْہَامِ ہوتے ہوتے وحی کے معنے الہام کے ہو گئے۔109
تاج العروس والے لکھتے ہیں کہ اَوْحٰی إِلَیْہِ کے معنی ہیں أَلْھَمَہٗ۔ اس پر خدا نے الہام نازل کیا۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ وحی کے اصل معنی مخفی طور پر کسی بات کے بتانے کے ہیں اور اِسی وجہ سے الہام کو بھی وحی کہتے ہیں۔ 110
حدیث کی مشہور لغت نہایہ ابن الاثیر میں ہے کہ الہام کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کسی کے دل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی تحریک ڈالے اور وہ بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ اﷲ تعالیٰ اِس کے لئے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے۔111
حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ یہ مقربینِ الٰہی کی علامت ہے اور اس قُرب کی خصوصیتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فرشتے ایسے شخص کو پُکارتے ہیں جس طرح کہ مریم کو پُکارا تھا۔112
پھر فرماتے ہیں کہ اُمّت فرشتہ کی معرفت وحی اور اس کے دیکھنے کے حصّہ سے محروم نہیں ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کس طرح مریم نے جبرئیل کو دیکھا اور ایک مضبوط اور تندرست آدمی کی شکل میں دیکھا اور کس طرح فرشتوں نے اس کو پُکارا۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک مومن اپنے ایک بھائی سے ملنے کے لئے ایک گاؤں کی طرف گیا۔ رستہ میں ایک فرشتہ اُس پر ظاہر ہؤا اور فرشتے نے اُس سے کہا کہ مَیں خدا کی طرف سے تمہاری طرف رسول ہوں۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ اگر تمہارے اندر ایمان کی ایک حالت رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔ ایسی حالت میں کہ تم اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے ہو اور حدیث میں آتا ہے کہ اسید بن حضیر نے ملائکہ کو لیمپوں کی شکل میں دیکھا۔113
اور اپنے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی اور فرمایا مَیں تجھے وہ طریقہ دوں گا جو اِن تمام طریقوں میں جو اِس وقت رائج ہیں سب سے زیادہ خداتعالیٰ تک پہنچانے میں قریب ہو گا اور سب سے زیادہ مضبوط ہو گا۔ 114
امام رازی ؒ اپنی کتاب تفسیر کبیر کی جلد ٧ صفحہ 371,370 پر فرماتے ہیں کہ:۔
‘‘ملائکہ انسان کی رُوحوںمیں الہاموں کے ذریعہ سے اپنی تاثیر نازل کرتے ہیں اور یقینی کشفوں کے ذریعہ سے اُن پر اپنے کمالات ظاہر کرتے ہیں۔ تفسیر عرائس البیان میں لکھا ہے میری اُمّت میں محدّث اور مکلّم ہوں گے اور عمر ؓ ان میں سے ہو گا۔ پس محدث وہ ہوتے ہیں جن سے فرشتے بولتے ہیں اور مکلّم وہ ہوتا ہے جن سے اﷲ تعالیٰ کلام کرتا ہے’’۔ 115
حضرت مولانا محمد اسمٰعیل شہید ؒ جو حضرت مولانا شاہ ولی اﷲ ؒ کے پوتے اور حضرات دیوبند کے اُستاد اوّل ہیں فرماتے ہیں کہ:۔
‘‘یہ جان لینا چاہئے کہ وحی کی ایک قسم الہام بھی ہے۔ وہ الہام کہ جو نبیوں پر اُترنا ثابت ہے اُسے وحی کہتے ہیں اور اگر وہ غیر نبیوں پر اُترے تو اُسے محدّثیت کہہ دیتے ہیں اور قرآن کریم میں الہام کو ہی خواہ وہ انبیاء پر اُترے یا غیر انبیاء پر وحی کہا گیا ہے’’۔ 116
نواب صدیق حسن خان صاحب جو ہندوستان کے اہلِ حدیث کے مسلّمہ لیڈر تھے فرماتے ہیں:-
‘‘حدیث لَا وَحْیَ بَعْدَ مَوْتِیْ بے اصل ہے۔ ہاں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ آیا ہے۔ اس کے معنے نزدیک اہلِ علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا۔ سُبکی نے اپنی تصنیف میں صراحت کی ہے اِس بات کی کہ عیسیٰ علیہ السلام ہمارے ہی نبی کی شریعت کا حکم دیں گے۔ قرآن و حدیث کی رُو سے اس سے یہ امر راجح سمجھا جاتا ہے کہ وہ سُنت کو جناب نبوّت سے بطریق مشافہہ کے بغیر کسی واسطہ کے یا بطریق وحی و الہام کے حاصل کریں گے......
ہاں یہ بات اور ہے کہ اُن کو وحی آئے گی جس طرح حدیث نواس بن سمعان میں نزدیک مسلم وغیرہ کے آیا ہے..... ظاہر یہی ہے کہ لانے والے اس وحی کے جبرئیل علیہ السلام ہوں گے بلکہ اسی کا ہم کو یقین ہے۔ اس میں کچھ تردّد نہیں کیونکہ اُن (جبرئیل) کا وظیفہ یہی ہے کہ وہ درمیان خدا و انبیاء کے سفیر ہوتے ہیں۔ یہ بات کسی دوسرے فرشتہ کے لئے معلوم نہیں۔ ابو حاتم نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔ اِنَّہٗ وُکِّلَ جِبْرَئِیْلُ بِالْکُتُبِ وَ بِالْوَحْیِ اِلَی الْاَنْبِیَاءِ (انبیاء کی طرف وحی لانا اور کتابیں لانا جبرئیل ؑ کے سپرد ہے).....یہ حدیث کہ اِنَّ جِبْرَئِیْلَ لَایَنْزِلُ اِلَی الْاَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ صَلَّی ﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بے اصل ہے۔ حالانکہ کئی احادیث میں آنا جبرئیل ؑ کا آیا ہے۔جیسے وقت مرنے کے طہارت پر۔ شب قدر میں۔ دجّال کے روکنے کو مکّے، مدینے سے۔ اِلٰی غَیْرِ ذَالِکَ۔117
غرض قرآن کریم، احادیث اور اولیاء اﷲ کے کلام سے ثابت ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں وحی کا سلسلہ جاری ہے اور اُمّتِ محمدیہ کے بہت سے افراد نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے اور آنے والے مسیح کے متعلق تو معیّن صورت میں وحی کے نزول کی خبر دی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت نواس بن سمعان ؓ کی روایت میں جو مسلم نے بیان کی ہے صاف کہا گیا ہے کہ أَوْحَی ﷲ اِلٰی عِیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامُ اِنِّیْ قَدْ اَخْرَجْتُ عِبَاداً لِیْ لَا یَدَانِ لِاَ حَدٍ بِقَتَالِھِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِیْ اِلَی الطُّوْرِ۔118 یعنی اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جب وہ دُنیا میں آئیں گے تو وحی نازل کرے گا کہ مَیں نے ایسے بندے نکالے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہیں۔ پس میرے بندوں کو طُور پر لے جا۔
رُوح المعانی والے لکھتے ہیں کہ ‘‘یُوْحٰی اِلَیْہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحْیٌ حَقِیْقِیٌّ’’۔119
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی حقیقی نازل ہو گی۔ علامہ محمد الحبّان اپنی کتاب اسعاف الراغبین، جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت اور اہلِ بیت کے فضائل کے متعلق لکھی گئی ہے لکھتے ہیں:
‘‘مہدی آئے گا تو اکثر مسائل میں علماء کے مذہب کے خلاف حکم دے گا اور اُس پر وہ ناراض ہو جائیں گے کیونکہ وہ یقین کریں گے کہ جو اُن کے بڑے بزرگ تھے اُن کے بعد اﷲ تعالیٰ کسی کو ایسی اجتہادی باتیں نہیں بتائے گا’’۔ 120
اِسی طرح وہ اپنی کتاب کے صفحہ 144پر لکھتے ہیں کہ:-
‘‘مہدی کی جماعت سب غیر عربیوں پر مشتمل ہو گی۔ ان میں سے ایک بھی عربی نہیں ہو گا’’۔
اِسی طرح صفحہ 145پر لکھتے ہیں کہ:-
‘‘حضرت محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ مہدی الہام کے ذریعہ سے شریعت کی باریکیاں سمجھ کے لوگوں تک پہنچائے گا۔ اور ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی میرا متّبع ہو گا متبوع نہیں ہو گا۔ یعنی ایسے فتوے دے گا جو اُس وقت کے علماء کو نئے معلوم ہوں گے مگر وہ اپنے فیصلہ میں غلطی کریں گے۔ درحقیقت مہدی وہی فتوے دے گا جو مَیں نے لکھے ہیں اور وہ میرا متّبع ہو گا اور اپنے حکم میں معصوم ہوگا’’۔
اِسی طرح پر صفحہ 147 پر وہ مسیح کے متعلق لکھتے ہیں کہ:-
‘‘امام سیوطی نے اپنی کتاب اعلام میں لکھا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق حکم دیں گے۔ اور اس پر اجماع ہے کہ مسیح اپنے احکام میں کسی رائج مذہب کا مقلّد نہیں ہو گا بلکہ وہ تمام شریعت کے احکام قرآن سے اخذ کرے گا جس طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اخذ کرتے تھے اور جبرئیل اُن پر وحی حقیقی لے کر نازل ہو گا’’۔
پھر وہ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘امام سیوطی ؒ نے اس کی تائید میں بڑے دلائل دئے ہیں اور جو اس کو ردّ کرتے ہیں، اُن کو انہوں نے غلطی پر قرار دیا ہے’’۔121
غرض قرآن کریم اور احادیث کے حوالوں سے اور خدا ترس علماء کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے کہ وحی الٰہی کا نزول اسلامی آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) کا ایک حصّہ ہے۔ وحی الٰہی صرف شریعت میں محصور نہیں ہوتی بلکہ اس کے علاوہ بھی اس کی اغراض ہوتی ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا کہ مومنوں کو تسلّی دینے اور ان کا خوف دُور کرنے اور خدا تعالیٰ کی محبت کے اظہار کے لئے بھی وحی آتی ہے اور حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ نے فرمایا کہ وحی الٰہی قُربِ الٰہی کے اظہار کے لئے اور شریعت کے باریک اسرار کو ظاہر کرنے کے لئے اولیاء اﷲ پر نازل ہوتی رہتی ہے۔ پس مذہب کی آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) عموماً اور اسلام کی آئیڈیالوجی خصوصاً جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان اِس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا قُرب حاصل کرے اور اُس کی معرفت تامہ اُس کو ملے اور اس چیز کا ذریعہ وحی الٰہی کو تجویز کیا گیا تھا اس بات کی تائید میں ہے کہ شریعت کے ختم ہو جانے کے بعد وحی کو آتے رہنا چاہئے اور جو شخص وحی الٰہی کو بند کرتا ہے وہ نہ صرف قرآن، حدیث اور اولیاءِ اسلام کی تردید کرتا ہے بلکہ وہ اسلامک آئیڈیالوجی پر حملہ کرتا ہے اور اُس امتیازی فرق کو مٹا دیتا ہے جو کہ خدائی مذہبوں اور فلسفی مذہبوں میں مَابِہِ الْاِمْتِیَاز ہے۔ اسلام کا فخر تو اس بات میں ہے کہ اُس نے جیسا کہ ہم اُوپر ثابت کر چکے ہیں مذہب کی بنیاد محبت پر قائم کر دی ہے اور ذہنی غلامی سے انسان کو بچا لیا ہے اور محبت کی سب سے بڑی علامت یہی ہوتی ہے کہ محبوب کا قُرب نصیب ہو اور اُس کے مُنہ سے ہمیں یہ معلوم ہو جاوے کہ وہ ہمارے کاموں سے راضی ہے اور ہم سے خوش ہے اور مصیبت کے وقت ہم سے ہمدردی کرے اور ہمارا ساتھ دے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اسلام تو کہتا ہے کہ پہلے زمانے میں چند نبیوں کو خدا کا محبوب قرار دیا جاتا تھا مگر اُمّتِ محمدیہ میں محبت کا دروازہ اتنا وسیع کر دیا گیا ہے اور شریعتِ اسلام نے احکامِ اسلامی کو ایسے رنگ میں بیان کیا ہے کہ انسان کے دل سے جبروغلامی کا احساس مِٹ جاتا ہے اور وہ اسلامی تعلیم پر اپنا ذوق اور شوق اور علم اور معرفت کے ساتھ نہ صرف عمل کرتا ہے بلکہ عمل کرنا چاہتا ہے اور عمل کرنا ضروری سمجھتا ہے اور اس کے نیک نتائج کو دیکھ کر اس کا دل خدا کی محبت سے بھر جاتا ہے کہ اُس نے مجھے ایسا رستہ دکھایا کہ جو میری کامیابی کا ہے اور مجھے تباہی سے بچانے والا ہے۔ لیکن آجکل کے علماء اسلام کی خدمت اس بات کا نام رکھتے ہیں کہ وہ اس آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) کو مٹا دیں اور خدا اور بندے کے درمیان ایک دیوار حائل کر دیں تا ایک مسلمان اور ایک فلسفی کے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہے۔ قرآن تو سامری کے بُت کے متعلق یہ فرماتا ہے کہ اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا 122 کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ بُت اُن کی باتوں کا جواب نہیں دیتا۔ لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی گدّی پر بیٹھنے کے دعویدار اور اسلام کی خدمت کے مُدعی علماء آج یہ کہتے ہیں کہ جو اسلام کے خدا کو سامری کے بُت جیسا نہیں سمجھتا وہ اسلام سے خارج ہے۔ حالانکہ خود اُن کے علماء مذکورہ بالا آیت اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا سے یہ استدلال کر چکے ہیں کہ’’لَمْ یَخْطُرْ بِبَالِھِمْ اَنَّ مَنْ لَّا یَتَکَلَّمُ وَ لَا یَضُرُّوَ لَا یَنْفَعُ لَا یَکُوْنُ اِلٰھًا’’۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کیا اُن کے دلوں میں یہ خیال نہیں گزرتا کہ جو وجود کلام نہیں کرتا اور نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔123
اس کے ہم معنے ایک اور آیت سورۂ اعراف میں بھی ہے۔ وہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَ لَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا 124 کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بُت اُن سے کلام نہیں کرتا اور نہ انہیں کوئی یہ ہدایت بھجواتا ہے (اور یہ بھی کلام الٰہی کی ہی ایک شاخ ہے۔) اس پر بھی امام رازی فرماتے ہیں کہ ‘‘مَنْ لَا یَکُوْنُ مُتَکَلِّمًا وَ لَا ھَادِیًا اِلَی السَّبِیْلِ لَمْ یَکُنْ اِلٰھاً ’’۔ 125جو ہستی بولتی نہیں اور سچّا راستہ نہیں دکھاتی وہ خدا نہیں ہو سکتی۔
ہمارا خدا یقیناً بولنے والا خدا ہے اور سامری کے بُت جیسا نہیں ہے کہ اپنے سے پیار کرنے والے کو جواب بھی نہ دے۔ ہم اس عقیدہ میں خدا کے سابق نبیوں کے عقیدہ کے مطابق ہیں۔ ہم اس عقیدہ میں قرآن اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے عقیدہ کے مطابق ہیں۔ ہم اس عقیدہ میں اُمّتِ اسلامیہ کے روحانی پیشواؤں کے ہم عقیدہ ہیں۔ ہم اس عقیدہ میں خدائے واحد و قہّار کی عزت کے قائم کرنے والے ہیں۔ اگر اسلام کی آئیڈیالوجی(IDEOLOGY) کو قائم کرنے، اگر بتوں پر خدا کی برتری ثابت کرنے کے نتیجہ میں ہم قابلِ دار ہیں، ہم کُشتنی و سوختنی ہیں تو ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہماری گردنیں حاضر ہیں۔ یہ علماء جو چاہیں ہم سے سلوک کریں۔ ہم اس عقیدہ کو کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارا توکّل خدا پر ہے اور وہی ہمارا حافظ و ناصر ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی یہی سوال اُٹھایا گیا تھا کہ خدا اور غیر خدا میں کیا فرق ہے؟ اور حضرت ابراہیم ؑ نے مشرکوں سے کہا تھا کہ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِيْرُهُمْ هٰذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ۔فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ۔ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ١ۚ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ يَنْطِقُوْنَ۔قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ۠ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْـًٔا وَّ لَا يَضُرُّكُمْ۔126جب حضرت ابراہیم ؑ نے چند بُت توڑ دیئے (وہ بُت حضرت ابراہیم ؑ کے خاندان کے ہی ملکیت تھے) اور لوگ اُن کے پاس آئے اور کہا کہ کیا آپ نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہاں! کسی نے تو یہ کام کیا ہی ہے۔ یہ ان میں سے بڑا بُت ہے اِس سے اور دوسروں سے پوچھو، اگر بُت بولتے ہیں کہ انہیں کس نے توڑا ہے؟ اِس پر وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجّہ ہوئے اور کہا کہ تم لوگ شرک کر کے بڑے ظلم میں مُبتلا ہو۔ پھر شرمندگی سے انہوں نے سر ڈال دیئے اور حضرت ابراہیم ؑ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ باتیں نہیں کر سکتے۔ اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ کیا تم اﷲ کے سوا اُن کی عبادت کرتے ہو جو نہ نفع پہنچاتے ہیں اور نہ ضرر پہنچاتے ہیں؟ پس حضرت ابراہیم ؑ کے وقت میں بھی تو خدا کے بولنے اور نہ بولنے کا جھگڑا ہؤا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا بُت پرستوں پر یہی الزام تھا کہ میرا خدا بولتا ہے اور تمہارا خدا نہیں بولتا۔ اگر کسی گزشتہ وقت میں خدا کا بولنا بھی اُس کی خدائی کو ثابت کر دیتا ہے تو پھر ہندوؤں کا یہ دعویٰ کہ ابتدائے عالَم میں خدا نے وید نازل کئے اور پھر چُپ ہو گیا درست ہونا چاہئے! مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے جو خدا پہلے سُنتا تھا اَب بھی سُنتا ہے۔ جو پہلے دیکھتا تھا اب بھی دیکھتا ہے۔ اِسی طرح جو پہلے بولتا تھا وہ اب بھی ضرور بولتا ہے۔
سوال نمبر2: مسئلۂ ختمِ نبوّت
دوسرا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہدۂ ختمِ نبوت کی ہتک کی ہے۔ یہ الزام بھی مذہبی آئیڈیالوجی اور اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف اور خود خاتم النّبیّین کی آیت کے بھی خلاف ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ بیانِ قرآنِ کریم کے مطابق ختمِ نبوت کے ان معنوں کو متواتر مختلف قومیں پیش کرتی رہی ہیں کہ اُن کے نبی کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد بھی لوگوں نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی بعض لوگوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تو سارے عیسائی کہہ رہے ہیں کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ 127
اب حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ پس جس خیال اور فلسفہ کی قرآن کریم تردید کرتا ہے اسی خیال اور فلسفہ کے مطابق وہ کس طرح حکم دے سکتا ہے۔ قرآن کریم بالنص اِس بات کا اظہار کرتا ہے کہ آخری اور کامل شریعت نازل ہو سکتی ہے مگر اِس خیال کی کہ کوئی نبی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کسی قسم کے نبی کے بھی آنے کی اجازت نہ ہو اس نے متواتر تردید کی ہے اِسے بالکل غلط قرار دیا ہے۔
آیت خاتم النّبّیین کی تشریح
آج کل کے علماء جس آیت سے مزعومہ عقیدہ ختمِ نبوت نکالتے ہیں۔ خود وہ آیت
اِس عقیدی کی تردید کرنے والی ہے۔اِس آیت کے الفاظ یہ ہیں مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ۔128 محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور خاتم النّبیّین ہیں۔ کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہونا، اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں ہے۔ اگر قرآن کریم نے یہ دلیل پیش کی ہوتی کہ جو شخص کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا یا قرآن سے پہلے بعض قوموں کا یہ عقیدہ ہوتا تو ہم کہتے کہ قرآن کریم میں اِس عقیدہ کا استثناء بیان کیا گیا ہے یا اس عقیدہ کی تردید کی گئی ہے لیکن یہ تو کسی قوم کا مذہب نہیں کہ جو کسی مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ مسلمان اور عیسائی تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نبوّت کے قائل ہیں اور یہودی ان کی بزرگی مانتے ہیں مگر یہ کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کہ اُن کے ہاں اولاد تھی کیونکہ اُن کی تو شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ پس اِس آیت کے معنی کیا ہوئے کہ محمد ؐ تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن نبی ہیں لازماً اِس فقرہ کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایک شخص جس کے متعلق لوگ غلطی سے یہ کہتے تھے کہ وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا متبنّٰی ہے۔ اِس اظہار کے بعد کہ وہ متبنّٰی نہیں اِس امر کا کیا تعلق تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت کا ذکر کیا جاتا۔ اور پھر اس بات کا کیا تعلق تھا کہ آپ کی ختمِ نبوّت کا ذکر کیا جاتا۔کیا اگر زید رضی اﷲ عنہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے دیتے اور محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو ختمِ نبوت کا مسئلہ مخفی رہ جاتا؟ کیا اتنے اہم اور عظیم الشان مسائل یونہی ضمناً بیان ہؤا کرتے ہیں؟
اِس کے علاوہ جیسا کہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں کسی مَرد کے باپ ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ نبوّت کا کوئی تعلق نہیں۔ پس ہمیں قرآن کریم پر غور کرنا چاہئے کہ کیا کسی اور جگہ کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہے جس سے اگر آپ بالغ مَردوں کے باپ ثابت نہ ہوں تو آپ کا نبی ہونا مشتبہ ہو جائے ۔ کیونکہ لٰکِنْ کا لفظ عربی زبان میں اور اِس کے ہم معنی لفظ دُنیا کی ہرزبان میں کسی شُبہ کے دُور کرنے کے لئے آتا ہے۔ اِس اُلجھن کو دُور کرنے کے لئے ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں صاف لکھا ہؤا نظر آتا ہے کہ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ۔اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۔129 ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمایا ہے۔ پس تُو اﷲ تعالیٰ کی عبادتیں کر اور قُربانیاں کر۔ یقینا تیرا دُشمن ہی نرینہ اولاد سے محروم ہے، تُو نہیں۔ یہ آیت جو مکّہ میں نازل ہوئی تھی اِس میں اُن مُشرکینِ مکّہ کا ردّ کیا گیا تھا جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزند کی وفات ہو جانے پر طعنہ دیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کی تو کوئی نرینہ اولاد نہیں۔ آج نہیں تو کل اس کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ 130
اِس سورۃ کے نزول کے بعد مسلمانوں کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد ہو گی اور زندہ رہے گی لیکن ہؤا یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد نرینہ تو اُن کے خیال کے مطابق ہوئی نہیں اور جن دُشمنوں کے متعلق هُوَ الْاَبْتَرُ کہا گیا تھا اُن کی اولاد نرینہ زندہ رہی۔ چنانچہ ابو جہل کی اولاد بھی زندہ رہی، عاصی کی اولاد بھی زندہ رہی، ولید کی اولاد بھی زندہ رہی (گو آگے چل کر اُن کی اولاد مسلمان ہو گئی اور اُس میں سے بعض لوگ اکابر صحابہ میں بھی شامل ہوئے) جب حضرت زید ؓ کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں کے دلوں میں یہ شُبہات پیدا ہوئے کہ زید ؓ کی مطلّقہ سے جو آپ کا متبنّٰی تھا، آپ نے شادی کر لی ہے اور یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ بہو سے شادی جائز نہیں تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو سمجھتے ہو کہ زید (رضی اﷲ عنہ) محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے بیٹے ہیں یہ غلط ہے۔ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) تو کسی بالغ جوان مَرد کے باپ ہیں ہی نہیں۔ اور ‘‘مَا كَانَ ‘‘ کے الفاظ عربی زبان میں صرف یہی معنی نہیں دیتے کہ اِس وقت باپ نہیں بلکہ یہ معنی بھی دیتے ہیں کہ آئندہ بھی باپ نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے كَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا 131 یعنی خدا تعالیٰ عزیز و حکیم تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ اِس اعلان پر قدرتاً لوگوں کے دلوں میں ایک شُبہ پیدا ہونا تھا کہ مکّہ میں تو سورۃ کوثر کے ذریعے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے دُشمن تو اولاد نرینہ سے محروم رہیں گے مگر آنحضرت (صلی اﷲ علیہ وسلم) محروم نہیں رہیں گے لیکن اب سالہا سال بعد مدینہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) نہ اب کسی بالغ مَرد کے باپ ہیں نہ آئندہ ہوں گے تو اِس کے یہ معنی ہوئے کہ سورۃ کوثر والی پیشگوئی (نعوذ باﷲ) جھوٹی نکلی اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت مشکوک ہے؟ اِس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ یعنی ہمارے اِس اعلان سے لوگوں کے دلوں میں یہ شُبہ پیدا ہؤا ہے کہ یہ اعلان تو (نَعُوْذُ بِاللّٰہ) محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن اِس اعلان سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے۔ باوجود اِس اعلان کے محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں بلکہ خاتم النّبیّین ہیں یعنی نبیوں کی مُہر ہیں۔ پچھلے نبیوں کے لئے بطور زینت کے ہیں اور آئندہ کوئی شخص نبوّت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی مُہر اُس پر نہ لگی ہو۔ ایسا شخص آپ کا رُوحانی بیٹا ہو گا اور ایک طرف ایسے رُوحانی بیٹوں کے محمدرسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی اُمّت میں پیدا ہونے سے اور دوسری طرف اکابر مکّہ کی اولاد کے مسلمان ہو جانے سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ سورۂ کوثر میں جو کچھ بتایا گیا تھا وہ ٹھیک تھا۔ ابوجہل اور عاصی اور ولید کی اولاد ختم کی جائے گی اور وہ اولاد اپنے آپ کو محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے منسوب کر دے گی اور آپ کی روحانی اولاد ہمیشہ جاری رہے گی اور قیامت تک ان میں ایسے مقام پر بھی لوگ فائز ہوتے رہیں گے جس مقام پر کوئی عورت کبھی فائز نہیں ہو سکتی۔ یعنی نبوّت کا مقام جو صرف مَردوں کے لئے مخصوص ہے۔ پس سورۂ کوثر کو سورۂ احزاب کے سامنے رکھ کر اِن معنوں کے سوا اور کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر خاتم النّبیّین کی آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ محمدرسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں اور آئندہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو یہ آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور سیاق و سباق سے اِس کا کوئی تعلق نہیں رہتا اور کفّار کا وہ اعتراض جس کا سورۂ کوثر میں ذکر کیا گیا ہے پختہ ہو جاتا ہے اور اِس کا کوئی جواب مسلمانوں کے پاس باقی نہیں رہتا۔
نبوّت کے متعلق دوسری آیات
اِسی سلسلہ میں ہم قرآن شریف کی مندرجہ ذیل آیا ت بھی پیش کرتے ہیں:
(١) سورۂ حج میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۔132 اﷲ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے کچھ افراد کو رسول بنانے کے لئے چُن لیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ یقیناً دُعاؤں کو سُنتا اور حالات کو دیکھتا ہے۔ اِس آیت سے پہلے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخاطبین کا ذکر ہے۔ آپ سے پہلے لوگوں کا ذکر نہیں ہے اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ملائکہ میں سے اور انسانوں میں سے رسول چنتا ہے اور چنتا رہے گا۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ سُننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اِس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں یعنی آپ کے زمانۂ نبوّت میں اَور انسان بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول کا نام پانے والے کھڑے ہوں گے۔
(2) سورۂ فاتحہ میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دُعا سکھائی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ۔صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔133 یا اﷲ تو ہمیں سیدھا رستہ دکھا اُن لوگوں کا رستہ جن پر تیرے انعام ہوتے ہیں۔ یہ دُعا پانچ وقت فرضاً اور اِس کے علاوہ کئی اور وقت نفلاً مسلمان پڑھتے ہیں۔ یہ منعم علیہ گروہ کا رستہ کیا ہے؟ قرآن کریم نے خود اِس کی تشریح فرمائی ہے۔ وَ لَهَدَيْنٰهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا۔134 اگر مسلمان رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلوں پر عمل کریں اور بشاشت کے ساتھ ان کی فرمانبرداری کریں تو ہم ان کو صراطِ مستقیم کی ہدایت دیں گے۔ پھر اس صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دینے کا طریقہ یہ بیان کیا ہے وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًاؕ۔ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ١ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ عَلِيْمًا۔135 اور جو شخص بھی اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرے۔ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ تو وہ اُن لوگوں کے گروہ میں شامل کئے جائیں گے جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ یعنی نبیوں کے گروہ میں اور صدیقوں کے گروہ اور شہیدوں کے گروہ میں اور صالحین کے گروہ میں۔ اور یہ لوگ سب سے بہتر ساتھی ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک فضل ہے اور اﷲ تعالیٰ تمام اُمور کو بہتر سے بہتر جانتا ہے۔
اِس آیت میں صاف بتایا گیا ہے کہ منعم علیہ گروہ کا رستہ وہ رستہ ہے جس پر چل کر انسان نبیوں میں اور صدیقوں میں اور شہیدوں اور صلحاء میں شامل ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس جگہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہاں ‘‘مَعَ’’ کا لفظ ہے اور معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے۔ خود منعم علیہ گروہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ حالانکہ اس آیت کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اِس صورت میں اِس آیت کے یہ معنی بن جائیں گے کہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے لیکن اس گروہ میں شامل نہیں ہوں گے یعنی نبیوں کے ساتھ ہوں گے لیکن نبیوں میں شامل نہیں ہوں گے۔صدیقوں کے ساتھ ہو ں گے مگر صدیقوں میں شامل نہیں ہوں گے۔ شہیدوں کے ساتھ ہوں گے لیکن شہیدوں میں شامل نہیں ہوں گے اور صالحین کے ساتھ ہوں گے لیکن صالحین میں شامل نہیں ہوں گے۔ گویا اِن معنوں کی رُو سے اُمّتِ محمدیہ صرف نبوّت سے ہی محروم نہیں ہوئی بلکہ صدیقیت سے بھی محروم ہو گئی اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا کہ ابو بکر ؓ صدیق ہے وہ نعوذباﷲ غلط ہے اور شہداء کے درجہ سے بھی محروم ہو گئی۔ قرآن کریم میں جو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم شہداء کے مقام پر ہیں وہ بھی غلط ہے (شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ 136) اور صالحین میں بھی اِس اُمّت کا کوئی آدمی داخل نہیں ہوتا۔ اور یہ جو خیال ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں بہت سے صلحاء گزرے ہیں، یہ بھی بالکل غلط ہے۔ کیا کوئی عقلمند آدمی جس کو قرآن اور حدیث پر عبور ہو اِن معنوں کو مان سکتا ہے؟ ‘‘مع’’ کے معنی خالی ساتھ کے نہیں ہوتے۔ ‘‘مَعَ’’ کے معنی شمولیّت کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں مومنوں کو دُعا سکھلائی گئی ہے۔ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۔137 اے اﷲ! ہم کو ابرار کے ساتھ موت دے۔ اور ہر مسلمان اس کے یہی معنی کرتا ہے کہ اے اﷲ! مجھے ابرار میں شامل کر کے موت دے۔ یہ معنی کوئی نہیں کرتا کہ یا اﷲ! جس دن کوئی نیک آدمی مَرے اُسی دن مَیں بھی مرجاؤں۔
اِسی طرح قرآن کریم میں ہے اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ١ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيْرًاۙ۔اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَ اَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ١ؕ وَ سَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا۔138 یعنی منافق جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے اور تُو کسی کو ان کا مددگار نہ دیکھے گا۔ ہاں جو توبہ کرے اور اصلاح کرے اور خدا تعالیٰ کی تعلیم کو مضبوطی سے پکڑے اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنی اطاعت مخصوص کر دے تو وہ مومنوں میں شامل کئے جائیں گے اور اﷲ تعالیٰ جلد مؤمنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔ اس جگہ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ کے الفاظ ہیں مگر مَعَ۔ مِنْ کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے۔
اِسی طرح سورۂ حجر میں آیا ہے مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ۔139 اے ابلیس! کیوں تُو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہؤا مگر سورۂ اعراف میں ہے لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ 140 ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا۔ پس ‘‘مَعَ’’ قرآن کریم میں ‘‘مِنْ’’ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم کی مشہور لغت ‘‘مفردات القرآن’’ مصنّفہ امام راغب میں بھی لکھا ہے ‘‘وَ قَوْلُہٗ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ۔ اَیْ اِجْعَلْنَا فِیْ زُمْرَتِھِمْ اِشَارَۃٌ اِلٰی قَوْلِہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ ﷲ عَلَیْھِمْ’’۔141 یعنی فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ میں مَعَ کے یہ معنی ہیں کہ ہم کو زُمرۃ الشاہدین میں داخل فرما۔ جس طرح کہ آیت فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ میں ‘‘مَعَ’’ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے منعم علیہم کے زُمرہ میں شامل ہوں گے۔
نیز تفسیر بحر محیط میں امام راغب کے اِس قول کی مزید تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:
‘‘قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ اَنْعَمَ عَلَیْھِمْ مِنَ الْفرقِ الْاَرْبَعِ فِی الْمَنْزِلَۃِ وَ الثَّوَابِ اَلنَّبِیُّ بِالنَّبِیِّ وَ الصِّدِّیْقُ بِالصِّدِّیْقِ وَالشَّہِیْدُ بِالشَّھِیْدِ وَ الصَّالِحُ بِالصَّالِحِ’’۔ 142
یعنی امام راغب کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحون میں شامل کئے جائیں گے۔ یعنی اِس اُمّت کا نبی، نبی کے ساتھ۔ صدیق، صدیق کے ساتھ۔ شہید، شہید کے ساتھ۔ صالح، صالح کے ساتھ۔
اِسی طرح مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ۔143 اے بنی آدم! اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں جو میری آیتیں تم کو پڑھ کر سُنائیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اُن کی باتوں پر کان دھریں گے اور اصلاح کے طریق کو اختیار کریں گے اُن کو آئندہ کسی قسم کا خوف نہ ہو گا اور نہ گزشتہ غلطیوں پر اُنہیں کسی قسم کا غم ہو گا۔ اِس آیت میں بھی صاف بتایا گیا ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں رسول آتے رہیں گے۔ اِسی طرح قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ ۔144 اور جب رسول ایک وقت مقررہ پر لائے جائیں گے یعنی آخری زمانہ میں اﷲ تعالیٰ تمام رسولوں کو بروزی رنگ میں دوبارہ ظاہر کرے گا۔
شیعہ لوگ اِسی سے استدلال کرتے ہیں کہ امام مہدی کے زمانہ میں تمام رسول لائے جائیں گے اور وہ اُن کی اتباع کریں گے۔ چنانچہ تفسیر قُمّی میں لکھا ہے ‘‘مَا بَعَثَ ﷲ نَبِیًّا مِن لَّدُنْ اٰدَمَ اِلَّا وَ یَرْجِعُ اِلَی الدُّنْیَا فَیَنْصُرُ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ’’۔ 145اﷲ تعالیٰ نے آدم سے لے کر آخر تک جتنے نبی بھیجے ہیں وہ ضرور دُنیا میں واپس آئیں گے اور امیرالمؤمنین مہدی کی مدد کریں گے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سارے رسول آئیں گے اور پھر بھی آپ کی ختمِ نبوّت نہیں ٹوٹے گی۔ یہ تو قرآنِ کریم کی آیتوں میں سے چند آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی اُمّتِ محمدیہ میں نبوّت کا سلسلہ جاری ہے۔
اَب ہم حدیثوں کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان میں اِس مسئلہ کے متعلق کیا لکھا ہے۔ جب ہم حدیثوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم آنے والے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ نبی اﷲ ہو گا۔ 146گویا خود آپ اِس آیت کے یہ معنی نہیں کرتے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔
بعض لوگوں نے ختمِ نبوّت کی آیت سے ڈر کر یہ معنی کئے ہیں کہ آنے والا مسیح نبی نہیں ہو گا بلکہ وہ اُمّتی ہو کر آئے گا لیکن ائمہ نے سختی سے اس کو ردّ کیا ہے۔ چنانچہ حجج الکرامۃ میں نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ ‘‘فَھُوَ عَلَیْہِ السَّلَامَ وَ اِنْ کَانَ خَلِیْفَۃٌ فِی الْاُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ فَھُوَ رَسُوْلٌ وَ نَبِیٌ کَرِیْمٌ عَلٰی حَالِہٖ’’۔ 147
یعنی عیسیٰ علیہ السلام گو اُمّتِ محمدیہ میں سے ایک خلیفہ ہوں گے مگر وہ رسول بھی ہوں گے اور نبی بھی ہوں گے۔پھر لکھتے ہیں کہ ‘‘لَا کَمَا یَظُنُّ بَعْضُ النَّاسِ اَنَّہٗ یَأْتِیْ وَاحِدًا مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ بِدُوْنِ نُبُوَّۃٍ وَ رِسَالَۃٍ’’۔ 148وہ اپنی اسی نبوت کی شان کے ساتھ آئیں گے جس طرح وہ پہلے نبی تھے نہ کہ جس طرح بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ اِس اُمّت کا ایک فرد بن کر آئیں گے۔ نبی اور رسول نہیں ہوں گے۔
پھر وہ لکھتے ہیں جو شخص اُن کی نبوّت کے سلب ہونے کا اعلان کرتا ہے، وہ پورے طور پر کافر ہو گیا۔ جیسا کہ سیوطی نے ثابت کیا ہے کیونکہ وہ نبی ہیں اور اُن کا وصفِ نبوّت نہ اُن کی زندگی میں زائل ہؤا اور نہ موت کے بعد زائل ہو گا۔149
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر فرمایا ‘‘لَوعَاشَ اِبْرَھِیْمُ لَکَانَ صِدِّ یْقًا نَبِیًّا’’۔ 150 یعنی اگر ابراہیم میرا فرزند زندہ رہتا تو نہ صرف یہ کہ وہ نبی ہوتا بلکہ صدیق نبی ہوتا۔ جیسا کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام صدیق نبی تھے۔ اِسی طرح آپ فرماتے ہیں ‘‘اَمَا وَ اللہِ اِنَّہٗ لَنَبِیُّ ابْنُ نَبِیٍّ’’۔ 151 خدا کی قسم! میرا بیٹا ابراہیم نبی ابن نبی ہے۔
اِسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ ‘‘اِنِّیْ عِنْدَ اللہِ لَخَاتَمُ النَّبِیّٖنَ وَ اِنَّ اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمُنْجَدلٌ فِیْ طِیْنَتِہٖ’’۔152 یعنی مَیں خاتم النّبیّین تھا جب کہ آدم ؑ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔
اِسی طرح حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ‘‘قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَتٰی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّۃُ قَالَ وَ اٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ’’۔ 153 یعنی لوگوں نے پوچھا یَا رَسُوْلَ اﷲ! آپ کی نبوت کب سے قائم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آدم ؑ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اِس مقام پر فائز کیا تھا۔
یہ وہ احادیث ہیں جن کو جماعتِ اسلامی، مجلسِ عمل اور مجلس احرار سب صحیح مانتے ہیں۔ اِن سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختمِ نبوت کا عُہدہ ملنے کے بعد تشریعی نبی بھی آتے رہے۔ یعنی نوح علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام وغیرہ۔ پھر اگر جماعت احمدیہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ خاتم النّبّیین کے بعد غیر تشریعی اُمّتی نبی آسکتا ہے تو اِس پر کیا اعتراض۔ اِس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی بھی ایک روایت ہے جو ابن ابی شیبہ نے بیان کی ہے۔ اس نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے بعض لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم خاتم النّبّیین تو بے شک کہا کرو مگر لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ نہ کہا کرو۔154
اِس روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے نزدیک خاتم النّبیّین اور لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ میں فرق تھا۔ یعنی خاتم النّبیّین کے پورے معنی لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ سے ادا نہیں ہوتے تھے بلکہ اس سے کچھ غلط فہمی پیدا ہو جاتی تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا لَا نَبِیَّ بَعْدِی فرماناتو خود احادیث سے ثابت ہے۔ پس یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث کی منکر تھیں اور اس کو ردّ فرماتی تھیں بلکہ ان کے اِس قول سے یہی ماننا پڑے گا کہ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ سے کوئی دھوکا لگ سکتا تھا لیکن خاتم النّبیّین کے لفظ سے وہ دھوکا نہیں لگ سکتا۔ اِسی لئے آپ نے فرمایا کہ خاتم النّبیّین کا لفظ جو قرآنِ کریم میں آیا ہے وہ استعمال کیا کرو کیونکہ اِس سے کوئی دھوکا نہیں لگتا۔ لیکن لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ جو حدیثوں میں آئے ہیں وہ استعمال نہ کیا کرو کیونکہ ان سے دھوکا لگتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دھوکا وہی ہے جس کا ازالہ احمدی جماعت کرتی ہے۔ کیونکہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لَا نَبِیَّ بَعْدِی کے یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔ نہ شرعی نہ غیرشرعی، نہ بروزی نہ مستقل، نہ اُمّتی نہ غیر اُمّتی۔ حالانکہ یہ غلط ہے لیکن خاتم النّبیّین کے الفاظ سے یہ دھوکا نہیں لگتا۔ اگر جیسا کہ علماء کہتے ہیں، خاتم النّبیّین کے معنی بھی یہی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا یہ کہنا کہ تم خاتم النّبیّین کہا کرو لَانَبِیَّ بَعْدَہٗ نہ کہا کرو اِس کے معنی کیا ہیں؟ یہ تو ایک بالکل ہی بے معنی کلام ہو جاتا ہے۔
ایک دوسری روایت بھی اس بارہ میں ابن ابی شیبہ نے نقل کی ہے اور امام سیوطیؒ کی کتاب درّ منثور میں درج ہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک شخص مغیرہ بن شعبہ ؓ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ محمد خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ پر اپنا درود بھیجے۔ اِس پر مغیرہ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ اگر تُو خاتم الانبیاء کہہ کر ہی ختم کر دے تو یہ کافی ہے کیونکہ ہم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں باتیں کیا کرتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں اگر وہ آئے تو آپ سے پہلے بھی وہ نبی ہوں گے اور آپ کے بعد بھی وہ نبی ہوں گے۔ 155
اِس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کے نزدیک یہ خیال کرنا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں، غلط ہے اور لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کہنے سے اِس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔ لیکن خاتم النّبیّین سے یہ خیال ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا اور اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر نہیں تھے کیونکہ وہ کہتے ہیں ‘‘جب وہ نکلیں گے’’۔ شاید اُن کا یہ عقیدہ ہو کہ وہ زمین پر ہی کہیں چھُپے بیٹھے ہیں۔ جیسا کہ شیعہ صاحبان کا مہدی کے متعلق خیال ہے۔
اِسی طرح ابن الانباری نے کتاب المصاحف میں لکھا ہے کہ عبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت حسن ؓ اور حسینؓ کو قرآن پڑھانے پر مقرر کیا ہؤا تھا۔ ایک دن مَیں قرآنِ کریم پڑھا رہا تھا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ پاس سے گزرے۔ اُس وقت مَیں خاتم النّبیّین کی آیت پڑھا رہا تھا۔ اِس پر آپ نے فرمایا اﷲ تجھے توفیق دے۔ تو میرے بچوں کو خاتَم النّبیّین ت کی زبر سے پڑھا۔ 156
اِس سے ظاہر ہے کہ خاتم النّبیّین میں ت کی زیر سے یہ شُبہ پیدا ہوتا تھا کہ اِس کے معنی یہ ہیں کہ سب قسم کے نبی ختم ہو گئے۔ پس گویہ قراءت موجود ہے مگر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے یہ پسند نہ کیا کہ اُن کے بیٹے اِس دھوکے میں پڑ جائیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی بھی نہیں آئے گا اور اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے اُستاد کو منع کر دیا کہ انہیں خَاتِم ت کی زیر سے نہ پڑھاؤ بلکہ خَاتَم ت کی زبر سے پڑھاؤ۔
حضرت شیخ محی الدین ابنِ عربی ؒ جو ساتویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں اپنی کتاب فتوحاتِ مکیہ جلد 2 باب 73 صفحہ 3 میں لکھتے ہیں کہ وہ نبوّت جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظاہر ہونے سے ختم ہو گئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے۔ اُس کا دُنیا میں کوئی مقام نہیں۔ پس اَب کوئی شریعت ایسی نہیں ہو گی جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کو موقوف کرے اور کوئی شریعت ایسی نہیں ہو گی جو آپ کی شریعت میں کوئی حکم زائد کرے۔ اور یہی معنے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کے ہیں کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے پس میرے بعد اب کوئی رسول اور نبی نہیں ہے۔ یعنی کوئی ایسا نبی میرے بعد نہیں جو کسی ایسی شریعت پر قائم ہو جو میری شریعت کے مخالف ہے بلکہ جب کوئی نبی ہو گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا اور کوئی رسول میرے بعد نہیں ہو گا۔ یعنی کوئی شخص مخلوقُ اﷲ میں ایسا نہیں ہو گا جو کوئی نئی شرع لائے اور اُس کی طرف لوگوں کو بُلائے۔ یہی وہ چیز ہے جو ختم ہو ئی ہے اور جس کا دروازہ بند ہؤا ہے نہ کہ نبوّت کا مقام بند ہؤا ہے۔
اِسی طرح حضرت محی الدین ابن عربی ؒ لکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے تو وہ نبوتِ مستقلہ کے ساتھ نہیں اُتریں گے بلکہ وہ نبوت مطلقہ والے ولی ہوکر اُتریں گے اور یہ وہ نبوت ہے جس میں محمدی اولیاء بھی اُن کے ساتھ شریک ہیں۔157
اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ نبوت مخلوقات میں قیامت تک جاری ہے گو کہ شریعت کے لحاظ سے وہ ختم ہو چکی ہے اور شریعت نبوّت کے حصّوں میں سے ایک حصّہ ہے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا الہام دُنیا میں سے بند ہو جاوے کیونکہ اگر وہ بند ہو جاوے تو دُنیا کی رُوحانی غذا ختم ہو جاتی ہے اور رُوحانی وجودوں کے زندہ رہنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا۔ 158
پھر وہ فرماتے ہیں نبوّت عامہ یعنی جو شریعت سے خالی ہے وہ اِس اُمّت کے بڑے لوگوں میں قیامت تک جاری ہے۔ 159
پھر وہ لکھتے ہیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ رسالت اور نبوّت بند ہو گئی ہے اِس کے صرف یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آئے گا۔ پس اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لے۔ 160
پھر وہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر نبوّت عامہ اُن میں باقی رکھی یعنی وہ نبوّت جس کے ساتھ شریعت نہیں ہوتی۔ 161
سیّد عبدالکریم جیلانی جو قدوۃ الاولیاء کہلاتے ہیں لکھتے ہیں نبوت تشریعی کا حُکم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بند ہو گیا اور اِسی وجہ سے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النّبیّین کہلائے کیونکہ وہ کامل تعلیم لے کر آئے تھے۔ 162
حضرت مُلّا علی قاری ؒ (جو گیارھویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں اور جو حنفیوں کے عقائد کے مدوّن ہیں یعنی جنہوں نے اُن کے عقائد کو ایڈٹ کیا ہے) وہ اپنی کتاب ‘‘موضوعاتِ کبیر’’ میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘قُلْتُ وَ مَعَ ھٰذَا لَوْعَاشَ اِبْرَاھِیْمُ وَ صَارَنَبِیًّا وَ کَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَعِیْسٰی وَ الْخضْرَ وَ اِلْیَاسَ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ۔ فَلَا یُنَاقِضُ قَوْلَہٗ تَعَالٰی خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ اِذَا الْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَایَأْتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یُنْسِخُ مِلَّتَہٗ وَ لَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہٖ فَیُقَوِّیْ حَدِیْث لَوْکَانَ مُوْسٰی علیہ السلام حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ’’۔163
ترجمہ: ‘‘مَیں کہتا ہوں کہ باوجود اِس کے کہ اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اِسی طرح اگر حضرت عمر بھی نبی ہو جاتے تو دونوں آنحضرت صلعم کے تابعین میں سے ہوتے۔ جس طرح عیسیٰ ؑ خضر ؑ اور الیاس ؑ (کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے۔) یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور سچّا نبی ہوتا آیت خاتم النّبیّین کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ خاتم النّبیّین کے معنی صرف اِس قدر ہیں کہ آپ ؐ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی ملّت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمّت میں سے نہ ہو۔ اِسی عقیدہ کی تقویت اِس حدیث سے ہوتی ہے کہ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو میری اتباع کے بغیر اُنہیں کوئی چارہ نہ ہوتا’’۔
حضرت ملّا علی قاری ؒ کا یہ قول ہم خاص طور پر عدالت کی توجّہ کے لئے پیش کرتے ہیں کیونکہ اِس میں خاتم النّبیّین اور عقیدۂ ختمِ نبوّت کے بارے میں بعینہٖ وہی بات کہی گئی ہے جو اِس وقت جماعت احمدیہ کہتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم آیت خاتم النّبیّین کے نزول (5 ھ ) کے قریب تین سال بعد پیدا ہوئے اور نو ہجری میں (آیت خاتم النّبیّین کے نزول کے چار سال بعد) فوت ہوئے لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی وفات کے موقع پر فرمایا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتاتو سچّا نبی ہوتا۔164
حضرت مُلّا علی قاری ؒ مندرجہ بالا اقتباس میں فرماتے ہیں کہ آیت خاتَم النّبیّین کے نزول کے بعد پَیدا ہونے والے صاحبزادہ ابراہیم اگر فی الواقع نبی ہو جاتے تب بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النّبیّین ہونے میں کوئی فرق نہ آتا اور نہ ہی آپ کی خاتمیّت کے منافی ہوتا کیونکہ حضرت مُلّا علی قاری ؒ کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی متبع یا اُمّتی کا نبی ہونا آیت خاتَم النّبیّین کے مخالف نہیں۔ اُن کے نزدیک خاتَم النّبیّین کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد آپ کی اُمّت سے باہر کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ یا ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے۔
ہم اِس حوالے کی طرف خاص طور پر معزّز عدالت کی توجّہ اِس لئے مبذول کرا رہے ہیں کہ اِس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام (جو سابق نبی ہیں) کے واپس آنے کے لئے وجہ جواز نہیں نکالی گئی بلکہ خود اُمّتِ محمدیہ میں سے غیر تشریعی اور اُمّتی نبی کا پیدا ہونا بھی جائز قرار دیا گیا ہے اور خاص طور پر کہا گیا ہے کہ اگر ایسا ہو تو اِس سے ختمِ نبوّت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک آیت خاتم النّبیّین کا مفہوم سوائے اس کے کچھ نہیں ہے جو حضرت مُلّا علی قاری ؒ کی مندرجہ بالا تحریر میں بیان کیا گیا ہے۔ اگر مجلسِ عمل کا یہ خیال درست ہے کہ لفظ خاتم النّبیّین کی یہ تاویل کرنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت اور آپ کی اتباع اور پَیروی میں غیر تشریعی نبی ہو سکتا ہے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے تو پھر حضرت مُلّا علی قاری ؒ جیسے عظیم الشّان بزرگ پر بھی اُن کو یہی فتویٰ لگانا پڑے گا۔ لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے کیونکہ حضرت مُلّا علی قاری ؒ وہ بزرگ ہیں جن کو تمام اہلِ سُنت خواہ وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی اور تمام اہلِ حدیث جن میں مولانا داؤد غزنوی بھی شامل ہیں، واجب الاحترام بزرگ خیال کرتے ہیں۔ 165
حضرت مُلّا علی قاری ؒ بیک وقت امامِ فقہ بھی ہیں اور امامِ حدیث بھی۔
ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ مندرجہ بالاحوالہ ہم نے صرف یہ ثابت کرنے کے لئے پیش کیا ہے کہ حضرت مُلّا علی قاری ؒ کے نزدیک خاتم النّبیّین کے یہ معنی ہیں:
(الف) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے نہ ہونے والا نبی نہیں آسکتا۔
(ب) اگر اُمّت محمدیہ میں کوئی تابع نبی پیدا ہو تو خاتمیّت کے منافی نہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ آیا حضرت مُلّا علی قاری ؒ کے نزدیک ایسا کوئی اُمّتی نبی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد فِی الواقع پیدا ہونے والا تھا یا نہیں؟ تو اِس کی یہاں بحث نہیں بلکہ بحث صرف یہ ہے کہ لفظ خاتم النّبیّین کے جو معنی جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے وہ نئے نہیں بلکہ گزشتہ علماء، فقہاء اور محدثین یہی معنے بیان فرماتے رہے ہیں۔
امام عبدالوہاب شعرانی ؒجو دسویں صدی ہجری میں گزرے ہیں فرماتے ہیں:-
‘‘یاد رکھو کہ نبوّت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کُلّی طور پر بند نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت آپ کے بعد بند ہوئی ہے۔ پس رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ قول کہ نہ کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول ہے، اس کے یہ معنے ہیں کہ میرے بعد کوئی نئی شریعت نہیں۔ اور یہ قول آپ کا ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا ‘‘اِذَاھَلَکَ کِسْرٰی فَلَا کِسْرٰی بَعْدَہٗ وَ اِذَا ھَلَکَ قَیْصَر فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ’’ جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہو گا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہو گا۔ حالانکہ اس قیصر کے بعد اور کئی قیصر ہوئے۔ مطلب یہ تھا کہ اِس شان کا کوئی قیصر نہیں ہو گا’’۔ 166
شیعوں کے نزدیک بھی خاتم النّبیّین کے یہی معنی ہیں چنانچہ تفسیر صافی کے صفحہ111 پر آیت خاتم النّبیّین کے ماتحت لکھا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے علی ؓ اَنَا خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ وَ اَنْتَ یَا عَلِیُّ خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ۔ مَیں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی ؓ! تُو خاتم الاولیاء ہے۔ حالانکہ حضرت علی ؓ کے بعد اور کئی اولیاء ہوئے اور شیعوں کے نزدیک تو گیارہ امام بھی ہوئے۔ اس کے صاف یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خاتم الانبیاء کے معنی افضل الانبیاء کے کئے ہیں اور بتایا ہے کہ مَیں افضل الانبیاء ہوں اور تُو افضل الاولیاء ہے۔
اسی طرح حضرت علیؓ کی ایک اور روایت ہے جس میں انہوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ سے فیضان جاری رہنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ آپ ؓ فرماتے ہیں ‘‘وَ رَسُوْلُکَ الْخَاتَمُ لِمَا سَبَقَ وَ الْفَاتِحُِ لِمَا انْغَلَقَ’’۔ 167اے خدا تیرا رسول ایسا ہے کہ جو کمالات پہلے لوگوں کو حاصل ہوئے تھے اُن کے انتہائی درجہ کو پہنچا ہؤا تھا اور جو کمالات پہلے لوگوں سے ہم کو نہیں ملے اُن کا دروازہ اس نے ہمارے لئے کھول دیا ہے۔
علامہ زرقانی ؒ جو بارہویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں شرح مواہب اللّدنیہ کی جلد 3 صفحہ 163پر لکھتے ہیں کہ ختم کے معنی اعلیٰ درجے کے کمال کے ہوتے ہیں اور زینت کے ہوتے ہیں۔ پس خاتم النّبیّین کے یہ معنی ہیں کہ آپ انبیاء میں سے سب سے بہتر تھے۔ جسمانی اور رُوحانی طور پر اسی طرح آپ انبیاء کے لئے حُسن کا موجب تھے جس طرح انسان کے لئے انگوٹھی حُسن کا موجب ہوتی ہے۔
شیعوں کی تفسیر مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ تاء کی زبر کے ساتھ خاتم النّبیّین کا جولفظ ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نبیوں کے لئے زینت تھے۔168
تفسیر فتح البیان جلد 7 صفحہ 286پر لکھا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نبیوں کے لئے بطور انگوٹھی کے تھے جس سے وہ زینت حاصل کرتے تھے۔ یہ لفظ ان معنوں میں صلحاءِ اُمّت نے بھی استعمال کیا ہے۔ چنانچہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ جو چھٹی صدی ہجری کے قریباً آخر میں گزرے ہیں لکھتے ہیں ‘‘فَحِیْنَئِذٍ تَکُوْنُ وَارِثَ کُلِّ رَسُوْلٍ وَ نَبِیٍّ وَ صِدِّیْقٍ وَ بِکَ تَخْتُمُ الْوِلَایَۃُ’’۔ 169یعنی اے مجھ سے عقیدت رکھنے والے جب تُو مخلوقات سے اُمیدیں چھوڑ دے گا اور اپنی خواہشات اور ارادے ترک کر دے گا تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تجھے ایک نئی زندگی ملے گی اور نیا علم اور نیا قُرب اور نئی عزت تجھے بخشی جائے گی اور تُو وارث ہو جائے گا ہر رسول اور ہر نبی اور صدیق کا اور ولایت تجھ پر ختم ہو جائے گی۔
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اُمّتِ محمدیہ کے اعلیٰ لوگ تو الگ رہے اُن کے شاگرد بھی نبیوں، رسولوں اور صدیقوں کے وارث اور خاتم الولایت کے مقام پر پہنچ جائیں گے۔ اگر حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ کے نزدیک خاتم کے معنی ختم کرنے والے کے ہوں تو لازماً اس حوالہ کے یہ معنی ہوں گے کہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ کے شاگردوں پر ولایت ختم ہو جائے گی اور مہدی اور مسیح اِس شکل میں ظاہر ہوں گے کہ خدا کی ولایت اُنہیں حاصل نہ ہو گی۔ چونکہ اِس حوالے کے یہ معنی بِالبداہت باطل ہیں اِس لئے یہ بھی باطل ہے کہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ نے خاتم کے معنی ‘‘ختم کرنے والا’’ کے لئے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی بھی جو بارہویں صدی ہجری کے آخر میں گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ :۔
‘‘رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو خاتم النبیّٖن کہا گیا ہے اِس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص دُنیا میں ایسا نہیں ہو گا جس کو خدا تعالیٰ نئی شریعت دے کر لوگوں کی طرف بھیجے ‘‘۔ 170
مَولانا محمد قاسم بانیٔ مدرسۃ العلوم دیوبند جو تیرہویں صدی ہجری کے آخر میں گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ
‘‘عوام کے خیال میں تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاتَم ہونا بایں معنٰی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدّم یا تاخرِ زمانی میں بالذّات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقامِ مدح میں وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ فرمانا اِس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقامِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخّر زمانی صحیح ہو سکتی ہے’’۔171
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اگر بِالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا’’۔ 172
ہم نے اُوپر خاتم النبیّٖن والی آیت کے جو معنی کئے ہیں اُن کی تصدیق بھی حضرت مولانا محمد قاسم ؒ کے اِس قول سے ہو جاتی ہے :
‘‘حاصل مطلب آیت کریمہ اِس صورت میں یہ ہو گا کہ ابوّتِ معروفہ تو رسولِ اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوّتِ معنوی اُمّتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے۔ انبیاء کی نسبت تو فقط خاتَم النبیّٖن شاہد ہے’’۔ 173
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ بہت بڑے فاضل اور جیسا کہ اُوپر عرض کیا جاچکا ہے مدرسۃ العلوم دیوبند کے بانی تھے اور تمام دیوبندی علماء ان کو اپنا واجب الاحترام بزرگ اور مقتداء تسلیم کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو بیان مولوی محمد علی صاحب کاندھلوی) مولانا موصوف کی عبارت جو نمبر (ب) پر تحذیر الناس صفحہ 28 کے حوالہ سے درج کی گئی ہے وہ نہایت واضح اور صاف ہے اور اس میں الفاظ ‘‘پیدا ہو’’ خاص طور پر اِس معزّز عدالت کی توجّہ کے قابل ہیں۔ ان الفاظ نے اِس احتمال کی گنجائش بالکل باقی نہیں رکھی کہ نزولِ مسیح کے عقیدہ کے پیشِ نظر ایسا لکھا گیا ہے کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا نہ تو خاتمیت کے منافی ہے اور نہ ہی عقیدۂ ختم نبوّت کے لئے باعثِ خطر۔ بشرطیکہ اس پیدا ہونے والے نبی کی نبوّت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت سے مستفاض ہو یعنی بِالعرض ہو، بالذّات نہ ہو۔ ہم حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اﷲ علیہ کے الفاظ‘‘اگر بِالفرض بعد زمانۂ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا’’ موجودہ دیوبندی علماء کے سامنے پیش کر کے اُن سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا آپ بھی یہی الفاظ کہنے کے لئے تیار ہیں اور کیا آپ کا بھی وہی خیال ہے جو مولانا محمد قاسم رحمۃ اﷲ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے؟
ہمیں یقین ہے کہ اُن کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا کیونکہ موجودہ غیر احمدی علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کوئی نبی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہو (خواہ وہ آپ کا غلام اور اُمّتی اور آپ کی پیروی کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔) تو اس کی آمد سے عقیدۂ ختمِ نبوّت کو سخت خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے مندرجہ بالا حوالہ جات محض یہ دکھانے کے لئے پیش کئے گئے ہیں کہ لفظ خاتَم النبیّٖن میں ‘‘ختمیّت’’ بمعنی تأخّرِزمانی مُراد نہیں لی گئی۔
باقی رہا یہ سوال کہ آیا مولانا محمد قاسم ؒ کے اپنے خیال میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد فِی الْواقع کوئی نبی آسکتا تھا یا نہیں؟ تو اس کی نہ یہاں کوئی بحث ہے اور نہ ہم نے ایسا کوئی خیال مولانا موصوف کی طرف منسوب کیا ہے۔ اِس جگہ تو ہماری بحث صرف لفظ ‘‘خاتَم’’ کی تشریح و تأویل کے بارہ میں ہے نہ کہ اجرائے نبوّت کے متعلق عقیدۂ حضرت مولانا محمد قاسم ؒ نانوتوی کے بارہ میں۔ اور مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ لفظ ‘‘خاتَم’’ کے جو معنی جماعت احمدیہ بیان کرتی ہے وہ نئے نہیں پہلے بزرگوں نے بھی کئے ہیں۔
پھر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے ایک نامور اور شُہرۂ آفاق معاصر حضرت مولانا عبدالحیٔ لکھنوی فرنگی محلی رحمۃ اﷲ علیہ کا بھی یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :۔
‘‘آنحضرتؐ کے عصر میں کوئی نبی صاحبِ شرع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوت آپ کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہو گا وہ متّبع شریعتِ محمدیہ کا ہو گا’’174
اِسی طرح حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی ؒ لکھنوی اپنے رسالہ دافع الوسواس میں لکھتے ہیں کہ :۔
‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں آنحضرت کے مجرّد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحبِ شرعِ جدید ہونا البتہ ممتنع ہے’’۔ 175
حضرت مولانا رومی ؒ جو ساتویں صدی ہجری کے قریباً آخر میں گزرے ہیں لکھتے ہیں ؎
مکر کُن در راہ نیکو خدمتے
تا نبوّت یا بی اندر اُمّتے176
یعنی تُو بنی نوع انسان کی خدمت اور بہتری کے لئے کوشش کرتاکہ اُمّت میں رہتے ہوئے نبوّت پاجائے۔
اسی طرح فرماتے ہیں:
چون بدا دی دست خود دردست پیر
پیر حکمت کو علیمست و خبیر
کو نبی وقت خویش ست اے مرید
زاں کہ زو نُورِ نبیؐ آید پدید177
جب تُو اپنا ہاتھ اپنے پیر کے ہاتھ میں دیتا ہے اِس لئے کہ وہ دینِ اسلام کو خوب جاننے والا اور سمجھنے والا ہے اور اس لئے کہ اے مُرید! وہ اپنے وقت کا نبی ہے تا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نور اُس کے ذریعہ سے ظاہر ہو۔
اس سے واضح ہے کہ مولانا رومی ؒ کے نزدیک بھی اِس اُمّت میں سے کمال درجہ پر پہنچنے والا انسان نبی کہلاتا ہے۔
(ج)پھر مولانا رومی ؒ نے اپنی مثنوی میں لفظ خاتم کے معنی بھی بیان کئے ہیں۔ فرماتے ہیں ؎
معنیٔ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِھِمْ
تاز را ہے خاتم پیغمبراں
ختم ہائے کانبیاء بگذاشتند
قفلہائے ناکشودہ ماندہ بود
او شفیع است ایں جہاں وآں جہاں
پیشہ اش اندر ظہور و در کمون
باز گشتہ از دمِ اوہر دو باب
بہر ایں خاتم شد است او کہ بجود
چونکہ در صنعت برد استاد دست
درکشادے ختم ہا تو خاتمی
ہست اشارات محمدؐ المراد
ایں شناس ، ایں است رہ رورا مہم
بوکہ بر خیزد زلب ختم گراں
آں بدینِ احمدی برداشتند
از کف إِنَّا فَتَحْنَا برکشود
ایں جہاں دردین و آں جہاں درجناں
اِھْدِ قَوْمِیْ اِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
در دو عالم دعوتِ اومستجاب
مثلِ اونے بود و نے خواہند بود
نی تو گوئی ختم صنعت بر تو ہست
درجہان رُوح بخشاں حاتمی
کل کشاد اندر کشاد اندر کشاد178
یعنی نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِہِمْ کے معنی سمجھنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ یہ راہ رَو کے لئے ایک مشکل ہے تاکہ لب ہلانے سے خاتم النبیّٖن کے رستے سے ایک بھاری ختم اُٹھ جائے۔ ایسے بہت سے ختم جو پہلے نبی باقی چھوڑ گئے تھے وہ دینِ محمدی میں اُٹھائے گئے۔ بہت سے تالے بند پڑے تھے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِنَّا فَتَحْنَا کے ہاتھ سے وہ سب کھول دیئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دونوں جہانوں کے شفیع ہیں اِس جہان میں دین کے اور اگلے جہان میں جنّت کے۔ ظاہر و باطن میں آپ کا وِرد یہی تھا کہ اے خدا! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ اُنہیں علم نہیں ہے۔ آپ کے فیض سے دونوں دروازے کھُل گئے اور دونوں جہانوں میں آپ کی دُعا مستجاب ہو گی۔ آپ ان معنوں میں خاتَم ہیں کہ فیض رسانی میں آپ کے برابر نہ کوئی پہلے ہؤا نہ کوئی آئندہ ہو گا۔ جس طرح جب کوئی استاد صنعت میں اپنا کمال دکھاتا ہے تو کیا تُو یہ نہیں کہتا کہ اے اُستاد ! تُجھ پر صنعت ختم ہے۔ اے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم! تُو ہر قسم کے ختموں کو کھولنے کی وجہ سے خاتم ہے اور رُوح پھُونکنے والوں میں تُو خاتم ہے۔ غرضیکہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صدا یہی ہے کہ تمام راستے کھلے ہیں اور کوئی بند نہیں ہے۔
حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:-
‘‘ کہ کوئی کمال براہ راست حاصل ہونے والی نبوّت کے سوا ختم نہیں ہؤا اور اﷲتعالیٰ جو تمام فیوض کا مبدا ہے اُس کے متعلق بخل اور دریغ کا خیال کرنا نا ممکن ہے’’۔179
حضرت امام ربّانی مجدّد الف ثانی ؒ جو گیارھویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں فرماتے ہیں:-
‘‘کمالاتِ نبوت اُمّتیوں کو تبعیت اور وراثت کے طریق پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ملنا آپ کی خاتمیت کے منافی نہیں ہے اور اس بات میں تُو ہر گز شک نہ کر’’۔ 180
خود احادیث سے بھی ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ شرح بخاری میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ میرے اور مسیح ابن مریم کے درمیان کوئی نبی نہیں علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘اس کے معنی یہ ہیں کہ میرے اور اُن کے درمیان کوئی شریعتِ مستقلہ والا نبی نہیں کیونکہ خود حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان جرجیس اور خالد بن سنان دو نبی گزرے ہیں’’۔ 181
قسطلانی شرح بخاری میں لکھا ہے کہ :-
‘‘رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا ہے کہ مَیں آخری اینٹ ہوں اور مَیں خاتم النبیّٖن ہوں۔ اس کے معنی ہیں مکمل شرائع الدین۔ مَیں دین کی شرائع کو مکمل کرنے والا ہوں’’۔ 182
اسی طرح قسطلانی شرح بخاری جلد 6 صفحہ 21 مطبوعہ مصر1304 ھ پر لکھا ہے:-
‘‘عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ختمِ نبوت کے منافی نہیں کیونکہ وہ آپ کے دین پر ہوں گے’’۔
پھر لکھتے ہیں:-
‘‘ کہ چونکہ وہ آپ کے اتباع میں سے ہوں گے اس لئے ان کا وجود ختم نبوّت کے مخالف نہیں ہو گا’’۔
شیعہ لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں کسی نبی کا آنا ختم نبوت کے خلاف نہیں۔ چنانچہ رسالہ غایۃ المقصود مصنّفہ علامہ علی حائری میں لکھا ہے کہ :-
‘‘هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ میں مہدی موعود کی پیشگوئی ہے اور رسول سے مراد مہدی موعود ہیں’’۔ 183
اِسی طرح تفسیر صافی میں بھی لکھا ہے کہ اِس آیت میں رسول سے مراد مہدی موعود ہیں۔ شیعہ صاحبان مہدی کو نہ صرف عام رسول قرار دیتے ہیں بلکہ اہم درجہ کا رسول قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ علامہ حائری لکھتے ہیں کہ :-
‘‘مہدی علیہ السلام کی افضلیت حضرت مسیح ناصری پر ثابت اور واضح ہے’’۔ 184
شیعوں کی کتاب اکمال الدین صفحہ 375پر لکھا ہے کہ:-
‘‘انبیاء اور اولیاء میں سے ہادیوں کے آنے کی بندش ہر گز جائز نہیں۔ جب تک انسان خدا کے حکموں کا مکلّف ہے یہ لوگ بھی آتے رہیں گے’’۔
اِسی طرح ایک حدیث میں جو شیعوں کی تفسیر القُمّی کے صفحہ٣٣ پر لکھی ہے آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے پانی کو لیا اور اُسے مخاطب کر کے کہا کہ مَیں تجھ سے نبی پیدا کرتا رہوں گا، رسول پیدا کرتا رہوں گا، صالحین پیدا کرتا رہوں گا، ہدایت دینے والے ائمہ پیدا کرتا رہوں گا اور جنّت کی طرف بُلانے والے پیدا کرتا رہوں گا اور قیامت تک ایسا ہی کرتا چلا جاؤں گا اور ہر گز کسی کے اعتراض کی پرواہ نہیں کروں گا۔ یعنی خدا نے جس دن دُنیا پیدا کی تھی اُسی دن اُس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ حافظ کفایت حسین صاحب اور شمسی صاحب کچھ کہتے رہیں، مَیں پھر بھی ارسالِ رُسُل اور ارسالِ مہدِیّین سے دست کش نہ ہوں گا۔
بحث کا خلاصہ
مذکورہ بالاآیات اور احادیث اور اقوالِ صلحاء و اولیاء سے مندرجہ ذیل باتیں روزِ روشن کی طرح ثابت ہیں۔
اوّل: قرآن کریم کی رُو سے ایک قسم کی نبوّت کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور اِس قسم کے انبیاء رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی آتے رہیں گے۔
دوم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ختمِ نبوّت کے مقام پر اپنی بعثت کے بعد فائز نہیں ہوئے بلکہ کائنات کی ابتداء میں ہی آپ کو مقامِ نبوّت عطا کیا گیا تھا اور جتنے نبی دُنیا میں آئے گو آپ کی پیدائش کے لحاظ سے وہ آپ سے پہلے گزرے ہیں لیکن ختمِ نبوّت کے لحاظ سے وہ ختمِ نبوّت کے بعد ہوئے ہیں۔
سوم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی جو نئی شریعت لانے والا ہو یا آپ کی اطاعت سے باہر ہو ظاہر نہیں ہو گا۔
چہارم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد باوجود ختمِ نبوّت کے اعلان کے مسلمانوں کے نزدیک نبی ظاہر ہو سکتا تھا جیسا کہ بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم اور بعض صلحاءِ اُمّت کا یہ خیال تھا کہ مسیحِ ناصری دوبارہ دُنیا میں آئیں گے اور نبی کی حیثیت میں آئیں گے۔
پنجم: آیت خاتم النبیّٖن کے معنی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور بہت سے صلحاء کے نزدیک قطعی طور پر یہ ہیں کہ ہر قسم کا بابِ نبوّت اس آیت سے مسدود نہیں۔
ششم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم معیّن صورت میں فرماتے ہیں کہ اس اُمّت میں سے کسی تابع نبی کا ہونا ناممکن نہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم ؑ کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔
ہفتم: صلحاءِ اُمّت میں سے بعض اکابر زمانۂ صحابہ سے لے کر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے زمانہ تک اِس بات کے قائل رہے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ایسے لوگ ظاہر ہوتے رہیں گے جو نبوتِ عامہ یعنی بغیر شریعت کے نبوّت پائیں گے۔
ہشتم: کئی اکابر علماءِ اُمّت خصوصاً دیو بندیوں اور اس زمانہ کے حنفیوں کے رہنما اِس بات کے قائل ہیں کہ گو اُمّتِ محمدیہ میں سے نبی کا آنا ثابت نہیں لیکن اگر کوئی اُمّت میں سے نبی آئے تو یہ ختمِ نبوّت کی آیت کے خلاف نہ ہو گا اور اسلام کے لئے کسی خرابی یا ذلّت کا موجب نہیں ہو گا۔
اَب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کا اختلاف صرف اِسی بات میں ہے کہ آیا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اُمّت میں سے ظاہر ہو سکتا ہے یا نہیں۔ درحقیقت جمہور مسلمان بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ایک سابق نبی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ظاہر ہو گا اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ اگر وہ نبی آیا تو وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے بھی نبی ہو گا اور آپ ؐ کے بعد بھی نبی ہو گا۔ اس لئے لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں بلکہ خاتم النّبیّٖن کہنا چاہئے۔ پس ختمِ نبوّت کے بعد کسی نبی کے آنے کے متعلق اختلاف نہیں بلکہ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ نبی باہر سے آئے گا یا اُمّت میں سے آئے گا۔ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ باہر سے آنے والا نبی یقیناً رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس طرح ممنون نہیں ہو گا جس طرح کہ وہ اُمّتی جو آپ کی فرمانبرداری سے مقامِ نبوّت پائے، آپ کا ممنون ہو سکتا ہے۔
پس احمدی جماعت کا عقیدہ اسلام کے عین مطابق اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان کو بڑھانے والا ہے۔ اور کم سے کم یہ ماننا پڑے گا کہ وہ اسلامی رُوح کے ہر گز خلاف نہیں کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے بعد کسی نہ کسی رنگ کے نبی کے آنے کا دروازہ تمام مسلمانوں کے نزدیک کھلا ہے۔
بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا ‘‘ختمِ نبوّت’’ پر ایمان
اب ہم بتاتے ہیں کہ
بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے
ختمِ نبوّت کے متعلق کس شدّت سے اظہار کیا ہے اور اگر اپنے متعلق نبی کا لفظ بولا ہے تو اِس میں کتنی احتیاط برتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘مَیں مفصّلہ ذیل اُمور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اِس خانۂ خدا مسجد میں کرتا ہوں کہ مَیں جناب خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوّت کا مُنکر ہو اُس کو بے دین اور دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں’’۔185
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘ہم اِس آیت پر سچّا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ’’۔186
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘عقیدہ کے رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے’’۔ 187
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اگر مَیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دُنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرفِ مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اَب بجز محمدی نبوّت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو’’۔188
‘‘ختمِ نبوّت’’ پر ایمان احمدی ہونے کی ایک شرط ہے
اِن حوالجات سے ظاہر ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ ختمِ نبوّت پر پورا ایمان رکھتے تھے اور ہرگز اِس کا انکار نہیں کرتے تھے۔ موجودہ
امام جماعت احمدیہ کا عقیدہ اس سے ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی خلافت کے شروع سے ختمِ نبوّت پر ایمان لانے کو اپنی شرائطِ بیعت میں شامل کیا ہے اور آپ کی بیعت کے فقروں میں سے ایک فقرہ یہ ہے کہ ‘‘ مَیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النبیّٖن یقین کروں گا’’۔ اِس بات کے بعد علماءِ کرام یہ تو حق رکھتے تھے کہ لوگوں سے یہ کہتے کہ احمدی یہی لکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النبیّٖن مانتے ہیں لیکن اِن کے دلوں میں یہ عقیدہ نہیں یہ جھوٹ بول کے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ مگر ان کا یہ حق نہیں تھا کہ وہ لوگوں سے یہ کہتے کہ احمدی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت پر ایمان کا اقرار نہیں کرتے۔ علماءِ کرام کا لوگوں کے سامنے یہ بات کہنا بتاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول کر فساد پیدا کرنا چاہتے تھے اور اُن کی تقریروں کی غرض مذہبی نہیں تھی کیونکہ مذہب جھوٹ کی اجازت نہیں دیتا۔ اُن کی اغراض محض پولیٹیکل تھیں اور وہ صرف اپنے مخالف کو زیر کرنا چاہتے تھے۔ اس سے اُن کو کوئی غرض نہیں تھی کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے کہ جھوٹ ہے۔ وہ انصاف کے مطابق ہے یا اس میں ظلم اور تعدّی سے کام لیا گیا ہے۔
بانیٔ سلسلہ احمدیہ کن معنوں میں نبی ہیں
بے شک بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے کہا ہے کہ مَیں ایک
رنگ میں نبی ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ مَیں رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے فیض سے اور آپ کی اُمّت میں سے ہو کر آیا ہوں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘کوئی شخص اس جگہ نبی ہونے کے لفظ سے دھوکا نہ کھاوے۔ مَیں بار بار لکھ چُکا ہوں کہ یہ وہ نبوّت نہیں ہے جو ایک مستقل نبوّت کہلاتی ہے۔ کوئی مستقل نبی اُمّتی نہیں کہلا سکتا مگر مَیں اُمّتی ہوں’’۔ 189
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اتباعِ کامل کی وجہ سے میرا نام اُمّتی ہؤا اور پورا عکسِ نبوّت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہو گیا۔ پس اِس طرح پر مجھے دو نام حاصل ہوئے’’۔ 190
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ نبی کے نام پر اکثر لوگ کیوں چِڑ جاتے ہیں۔ جس حالت میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمّت میں سے ہو گا۔ پھر اگر خدا تعالیٰ نے اس کا نام نبی رکھ دیا تو حرج کیا ہؤا۔ ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اسی کا نام اُمّتی بھی تو رکھا گیا ہے اور اُمّتیوں کی تمام صفات اس میں رکھی گئی ہیں۔ پس یہ مرکّب نام ایک الگ نام ہے اور کبھی حضرت عیسٰیؑ اسرائیلی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے اور مجھے خدا تعالیٰ نے میری وحی میں بار بار اُمّتی کر کے بھی پُکارا ہے اور نبی کر کے بھی پُکارا ہے اور اِن دونوں ناموں کے سُننے سے میرے دِل میں نہایت لذّت پیدا ہوتی ہے اور مَیں شُکر کرتا ہوں کہ اِس مُرکّب نام سے مجھے عزّت دی گئی۔ اوراس مرکّب نام کے رکھنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم عیسٰی بن مریم کو خدا بناتے ہو مگر ہمارانبی صلی اﷲ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اُس کی اُمّت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ اُمّتی ہے’’۔ 191
پھر اِس نبوّت کی تعریف فرماتے ہوئے جس کا دعویٰ آپ نے کیا ہے تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘میری مُراد نبوّت سے یہ نہیں ہے کہ مَیں نعوذ باﷲآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابل پرکھڑا ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مُراد میری نبوّت سے کثرتِ مکالمت و مخاطبتِ الٰہیہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے۔ سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی۔ یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں۔ مَیں اُس کی کثرت کا نام بموجب حکمِ الٰہی نبوّت رکھتا ہوں۔ وَلِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ’’۔192
اِسی طرح اپنی وفات سے صرف تین مہینے پہلے آپ نے فرمایا:-
‘‘اصل یہ نزاع لفظی ہے۔ خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ و مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ پس ہم نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوّت تشریعی نہیں جو کتاب اﷲ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے ایسے دعویٰ کو تو ہم کُفر سمجھتے ہیں’’۔ 193
آپ نے یہ جو تعریف فرمائی ہے وہ قرآن کریم میں بھی آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا۔اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ ۔194 یعنی اﷲ تعالیٰ ہی علمِ غیب جاننے والا ہے اور وہ غیب کی خبریں کثرت سے کسی شخص کو نہیں دیتا سوائے ان کے جن کو اپنا رسول بنانے کے لئے پسند کر لیتا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں:-
‘‘جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں۔ مَیں اُس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول ہوں۔ ہاں مَیں اِس طور سے نبی اور رسول ہوں جس طور سے ابھی مَیں نے بیان کیا ہے۔ پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ ٔ نبوّت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے۔ مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اِسی بناء پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہؤا۔ پس نبوّت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد ؐ کی چیز محمدؐ کے پاس ہی رہی۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام’’۔195
لفظ نبی کے بکثرت استعمال میں احتیاط
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لفظ کے استعمال میں تو
اس قدر احتیاط برتی ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ عام بول چال میں میری نسبت نبی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لُغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزمِ کُفر نہیں۔ مگر مَیں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اِس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے’’۔196
ہماری جماعت کے موجودہ امام نے بھی نبوّت کی یہی تعریف کی ہے۔ چنانچہ آپ اپنی کتاب ‘‘حقیقۃ النبوۃ’’ میں تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘یہ سب جھگڑا جو نبوّت کے متعلق پیدا ہؤا ہے وہ صرف نبوّت کی دو مختلف تعریفوں کے باعث ہے۔ ہمارا مخالف گروہ نبی کی اَور تعریف کرتا ہے اور ہم اَور تعریف کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک نبی کی تعریف یہ ہے کہ (1) وہ کثرت سے امورِ غیبیہ پر اطلاع پائے۔ (2)وہ غیب کی خبریں انذار و تبشیر کا پہلو اپنے اندر رکھتی ہوں (3)خداتعالیٰ اُس شخص کا نام نبی رکھے۔ جن لوگوں میں یہ تینوں باتیں پائی جائیں، وہ ہمارے نزدیک نبی ہوں گے’’۔ 197
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘بعض لوگ ان تین شرائط کے پائے جانے کا نام نبوّت نہیں رکھتے اور ان کے علاوہ اَور شرائط مقرر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کے لئے یاتو شریعتِ جدیدہ لانا ضروری ہے یا بلا واسطہ نبوّت پانا۔ اور اگر ان دونوں شرائط کے علاوہ کوئی اور شرط بھی لگاتے ہوں تو اس کا مجھے علم نہیں۔ اور چونکہ یہ شرائط حضرتِ مسیح موعود میں نہیں پائی جاتیں، اس لئے ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود ؑ نبی نہیں بلکہ صرف محدّث ہیں۔ اور ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر نبوّت کی تعریف یہی ہے تو بیشک حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے اور جن کے نزدیک یہ تعریف درست ہے اگر وہ مسیح موعود کو نبی کہیں تو یہ ایک خطرناک گناہ ہے کیونکہ شریعتِ جدیدہ کا آنا قرآن کریم کے بعد ممتنع ہے اور بِلا واسطہ نبوّت کا دروازہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد مسدود ہے’’۔ 198
انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے عام بول چال میں نبی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ جب ایک شخص نے آپ سے یہ سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو عام بول چال میں اس لفظ کا استعمال منع فرمایا ہے اور آجکل اس لفظ پر خاص زور دیا جارہا ہے تو اُنہوں نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ:-
‘‘نبوّت کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سب احمدی حضرت مسیح موعود کو نبی ظلّی ہی مانتے ہیں لیکن چونکہ حضرت صاحب کے درجہ کو اِس وقت بہت گھٹا کر لکھا جاتا ہے، اس لئے مصلحتِ وقت مجبور کرتی ہے کہ آپ کے اصل درجہ سے جماعت کو آگاہ کیا جاوے، ورنہ اِس طرح کے لفظِ نبی کے استعمال کو مَیں خود بھی پسند نہیں کرتا۔ نہ اس لئے کہ آپ نبی نہ تھے بلکہ اس لئے کہ ایسا نہ ہو کچھ مدّت بعد بعض لوگ اِس سے نبوتِ مستقلہ کا مفہوم نکال لیں ۔ مگر یہ صرف چند روزہ بات ہے اور بطور علاج کے ہے کیونکہ اِس وقت بہت سے احمدی حضرت مسیح موعود ؑ کے درجہ سے ناواقف ہیں اور اخبار میں یہ بھی بار بار لکھ دیا جاتا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے کے لئے آئے تھے’’۔ 199
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اِن علماء کی خاطر یا دوسرے مسلمانوں کی خاطر یہ لفظ زیرِبحث نہیں آتا رہا بلکہ احمدی جماعت کے ایک حصّہ نے جب اس لفظ کو کُلّی طور پر ترک کرنے پر زور دیا اور اس طرح جماعت کی تنظیم میں تفرقہ پیدا کرنا چاہا تو موجودہ امام جماعت کو اس مسئلہ پر تفصیلاً بحث کرنی پڑی۔ اِسی وجہ سے وہ یہ لکھتے ہیں کہ اِس وقت اس لفظ پر مصلحتاً زور دیا جاتا ہے۔ یعنی عام حالات میں اس لفظ پر زور دینے کی ہمارے لئے کوئی وجہ نہیں مگر چونکہ اِس وقت خود جماعت کا ایک حصّہ اس کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے اور جماعت کے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اس لئے ہم اس مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں۔ گویا یہ تمام بحثیں نہ تو مسلمانوں کے چِڑانے کے لئے تھیں نہ ان کے لئے تھیں صرف جماعت احمدیہ کے ایک حصّہ کے فتنہ کو دُور کرنے کے لئے جس سے جماعت میں کمزوری پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتاتھا اِس بحث کو چھیڑا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف مواقع پر موجودہ امام جماعت نے اِس کی تشریح کی ہے کہ نبوّت کے لفظ سے اس سے زیادہ کچھ بھی مراد نہیں ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کثرت سے الہام ہوتے تھے اور خدا تعالیٰ کے الہاموں میں ان کا نام نبی آتا تھا۔ ورنہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابل پر ان کو کوئی مقام بھی حاصل نہیں۔
امام جماعت احمدیہ کے ایک اور حوالہ سے بھی ثابت ہے کہ وہ اُمّتِ محمدیہ کا اصل نبی حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ آپ کا ایک اعلان الفضل20مئی 1950ء میں شائع ہؤا ہے کہ کسی شخص نے آپ کو توجّہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے متعلق خاندانِ نبوّت کا لفظ اخبار میں لکھا جاتا ہے، یہ نہیں چاہئے۔ اِس تسلسل میں آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘متواتر خط و کتابت میں اِن صاحب نے ایک بات لکھی جس نے میری طبیعت پر اثر کیا اور وہ بات یہ تھی کہ خاندانِ نبوّت سے یہ دھوکا لگتا ہے کہ شاید یہی ایک خاندانِ نبوت ہے۔ اور مَیں نے سمجھا کہ اس قسم کا دھوکا ضرور پیدا ہو جاتا ہے اس لئے اس لفظ کا استعمال ٹھیک نہیں۔ اصل نبوّت تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و اٰلہٖ وسلم کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت تو ظلّی ہے۔ پس اصل ‘‘خاندانِ نبوّت’’ تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاندان ہے جس نے اپنی قُربانیوں سے اور اپنے ایثار سے اور اپنی خدمتِ اسلام سے یہ ثابت کر دیا کہ اُن کے دل میں جو اِس فضل اور احسان کی بہت بڑی قدر ہے جو خدا تعالیٰ نے انہیں محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں پیدا کر کے کیاہے۔پس ایسا کوئی لفظ جس سے یہ شُبہ پیدا ہو جائے کہ کسی اَور خاندان کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاندان کے علاوہ کوئی امتیاز دیا جاتا ہے تو خواہ وہ نادانستہ ہی ہو پسندیدہ نہیں۔ اس لئے مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ ‘‘الفضل’’ میں اور دوسری احمدی تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو خاندانِ نبوّت کی بجائے خاندانِ مسیح موعود لکھا جایا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جتنے دعاوی ہیں وہ سارے کے سارے مسیح موعود کے لفظ میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ یہی نام آپ کا حاوی نام ہے۔ پس خاندانِ مسیح موعود ؑ کہنے سے وہ تمام باتیں اس خاندان کی طرف منسوب ہو جاتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے ان کی طرف منسوب ہو سکتی ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان اپنے عمل سے اپنے آپ کو اُس مقام کا اہل ثابت کرے جو مقام خدا تعالیٰ نے ان کو بخشا ہے۔ اگر ان میں سے ہی بعض دُنیا کے کاموں میں لگ جائیں اور روٹی انہیں خداتعالیٰ پر مقدم ہو تو انہیں خاندانِ نبوّت کہا جائے یا خانوادۂ الوہیت کہا جائے بلکہ خواہ خدا ہی کہہ دیا جائے ہر تعریف اُن کے لئے ہتک کا ہی موجب ہو گی کسی عزّت کا موجب نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کی تعریف کرنے والے لوگ ان کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ سے پِھرانا چاہتے ہیں’’۔ 200
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک بھی لفظِ نبی کا ایسا استعمال جس سے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے توجّہ ہٹتی ہو احمدی جماعت کے لئے جائز نہیں۔ پس اِس بارہ میں جن خیالات کا بھی اظہار ہؤا ہے محض اپنی جماعت کے ایک کمزور حصّہ کی اصلاح کے لئے ہؤا ہے اور ہر گز دوسرے فرقۂ اسلام کو مدّ نظر رکھ کر اس لفظ پر زور نہیں دیا گیا۔ جہاں جہاں بھی یہ بات بحث میں آئی ہے یا تو کسی معترض کے جواب میں آئی ہے یا اپنی جماعت کے کمزور لوگوں کی اصلاح کے لئے آئی ہے۔ اور اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ احمدی جماعت کسی مستقل نبوّت کی قائل نہیں بلکہ وہ اس اُمّت کا نبی محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو ہی سمجھتے ہیں اور قیامت تک انہیں کی نبوّت کو جاری سمجھتے ہیں۔
آخر میں ہم ایک حوالہ سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کا درج کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نبوّت کے متعلق خواہ کوئی بھی اختلاف کیا جائے بہرحال احرار اور اُن کے ساتھیوں نے یہ سوال مذہب کی وجہ سے نہیں اُٹھایا بلکہ سیاست کی وجہ سے اُٹھایا ہے۔ چنانچہ سیّدعطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری نے اپنی ایک تقریر میں بیان کیا:-
‘‘یہ الگ بات ہے کہ سچا تھا، یا جھوٹا۔ یہ تو چیز ہی بالکل بے معنی ہے۔ فرض کر لو اگر وہ سچا ہوتا اور نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم مان لیتے؟’’201
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب کی مخالفت مذہبی نہیں تھی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب سچے بھی ہوتے تو بھی ہم اُن کو مان نہیں سکتے تھے۔ جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ بنتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کے ماننے کا خدا بھی حکم دیتا تو بھی ہم نہ مانتے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ یہ مذہبی مخالفت نہیں۔ اگر مذہبی مخالفت ہوتی تو خدا اور اُس کے رسول کی تائید میں ہوتی۔ عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری فرماتے ہیں ‘‘ کہ خدا بھی کہے تو ہم نہیں مانیں گے’’جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے سیاسی فوائد اُن کے نہ ماننے میں ہیں۔ اس لئے ہم مذہب کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے۔
دوسرا حوالہ بھی سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کا ہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:-
‘‘اگر نبی ہی ماننا ہے تو خدا کی قسم! جناح کو نبی مان لو۔ اگر اُسے نہیں ماننا تو مجھے ہی مان لو۔ ارے! کوئی آدمی تو ہو ..... اگر مسلمانو! تم تیرہ سَو سال کی نبوّت سے تنگ آگئے ہو تو قائداعظم ہی کو نبی مان لو’’۔202
اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ ایمان کو سیاست کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے ایمان کو سچائی اور مذہب کا ذریعہ نہیں قرار دیا جاتا۔ اور بہ تکرار یہ کہنے والا مذہبی آدمی کبھی نہیں کہلا سکتا، سیاسی آدمی کہلا سکتا ہے۔
ایک تیسرا حوالہ بھی بتاتا ہے کہ یہ محض سیاسی جوش تھا۔ یہ بھی سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کا حوالہ ہے۔ اس کے لئے ہم ایک اشتہار کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کرتے ہیں:-
‘‘میرا مجلس احرار سے کوئی تعلق نہیں۔ مَیں مجلسِ احرار کا دو آنہ کا ممبر بھی نہیں ہوں۔ مَیں پکّا مُسلم لیگی ہوں۔ مسلم لیگ اور پاکستان کا سچا وفادار ہوں۔ مَیں ممتاز صاحب دولتانہ کو اِس لئے اپنا لیڈر جانتا ہوں کہ وہ ایک تو صوبہ مسلم لیگ کے صدر ہیں اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اگر دولتانہ صاحب کہہ دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوّت پر ایمان لے آؤ تو مَیں اُس پر ایمان لے آؤں گا اور مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفۃ المسیح مان لوں گا’’۔203
سوال نمبر 3 متعلق دعویٰ ٔ مسیحیت و متعلقہ اُمور
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شُبہ نہیں۔ حضرت مرزا صاحب بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اِسی سے لازم آتا ہے کہ مسیح ناصری کو وفات یافتہ سمجھا جائے لیکن اس دعویٰ سے مسلمانوں کی کوئی دل شکنی نہیں ہوتی۔ نہ عیسائیوں کی کوئی دل شکنی ہوتی ہے۔ عیسائی تو مسیح ناصری کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی اُن کی اس دعویٰ سے دل شکنی نہیں ہوتی۔ بہت سے عیسائی ممالک میں احمدی مشنری ہیں اور وہ احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ان ممالک کے لوگ عیسائیت کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ کروڑوں کروڑ روپیہ مسلمانوں میں تبلیغ کے لئے چندہ دیتے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ عیسائیت کی محبت اور اُس پر ایمان اُن کے دلوں میں موجود ہے مگر پھر بھی وہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیح موعود سے نہیں چِڑتے اور انہیں غصّہ نہیں آتا۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ انسانی اخلاق کی قیمت کو سمجھتے ہیں۔ ہمارے علماء انسانی اخلاق اور حُریتِ ضمیر کی قیمت نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے تنگ مذاہب کے باوجود وسعتِ حوصلہ رکھتے ہیں لیکن یہ علماء اسلام کی وسیع اور پُر محبت تعلیم کے باوجود اپنے اندر وسعتِ حوصلہ نہیں رکھتے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ کوئی بُری بات نہیں۔ اگر اس اُمّت میں سے کسی کو مسیح موعود ہونا تھا تو یہ دعویٰ حضرت مرزاصاحب کریں یا کوئی اور اِس میں چڑنے کی کوئی بات نہیں۔ صرف یہ دیکھا جائے گا کہ مُدعی سچا ہے یا جھوٹا۔ باقی رہا یہ سوال کہ تمام مسلمان مسیح کو زندہ سمجھتے ہیں اور اُسی مسیح کی آمد کے قائل ہیں، یہ درست نہیں۔ مسلمانوں میں سب سے پہلا اجماع اِسی بات پر ہؤا تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں جن میں مسیح بھی شامل ہیں۔ چنانچہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر جب مسلمان گھبرا گئے اور یہ صدمہ اُن کے لئے ناقابلِ برداشت ہو گیا تو حضرت عمر ؓ نے اسی گھبراہٹ میں تلوار کھینچ لی اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں تو مَیں اُس کی گردن کاٹ دُوں گا۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ حضرت موسیٰ کی طرح خدا سے ملنے گئے ہیں اور پھر واپس آئیں گے اور منافقوں کو ختم کریں گے پھر وفات پائیں گے۔204 گویا اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ منافق جب تک ختم نہ ہوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فوت نہیں ہو سکتے اور چونکہ منافق آپ کی وفات تک موجود تھے اِس لئے وہ سمجھے کہ آپ فوت نہیں ہوئے ہیں۔ حضرت ابو بکر ؓ جو اُس وقت مدینہ کے پاس باہر ایک گاؤں میں گئے ہوئے تھے تشریف لائے۔ وہ سیدھے گھر میں گئے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا جسم مبارک دیکھا اور معلوم کیا کہ آپ واقع میں وفات پا چکے ہیں۔ اِس پر آپ باہر تشریف لائے اور یہ کہتے ہوئے آئے کہ اﷲ تعالیٰ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو موتیں نہیں دے گا۔ یعنی ایک موت جسمانی دوسری موت رُوحانی کہ آپ کی وفات کے ساتھ ہی مسلمان بگڑ جائیں۔ پھر آپ سیدھے صحابہ ؓ کے اجتماع میں گئے اور لوگوں سے کہا کہ مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر ؓتلوار لئے کھڑے تھے اور یہ اِرادہ کر کے کھڑے تھے کہ اگر کسی نے محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اعلان کیا تو مَیں اُس کو قتل کر دوں گا۔ حضرت ابو بکر ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا۔ اے لوگو! ‘‘مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ ﷲ فَإِنَّ اللہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ’’۔ جو شخص محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ سُن لے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اور جو کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو جائے کہ اﷲ تعالیٰ زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہو گا۔
پھر فرمایا وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم صرف اﷲ تعالیٰ کے ایک رسول تھے اور آپ سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں سب فوت ہو چکے ہیں۔ پھر آپ کیوں نہ فوت ہوں گے۔ اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور اسلام کو چھوڑ دو گے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب قرآنِ کریم کی آیت حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے پڑھی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے اور مجھ پر ظاہر ہو گیا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور میرے پاؤں کانپ گئے اور مَیں زمین پر گِر گیا۔ 205
یہ ایک ہی اجماع صحابہ ؓ کا ہے۔ کیونکہ اُس وقت سارے صحابہ ؓ موجود تھے اور درحقیقت ایسا وقت مسلمانوں پر پہلے کبھی نہیں آیا کیونکہ پھر کبھی مسلمان اِس طرح جمع نہیں ہوئے۔ اِس اجتماع میں حضرت ابو بکر ؓ نے یہ آیت پڑھی کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صرف اﷲ تعالیٰ کے ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے جس قدر اﷲتعالیٰ کے رسول آئے ہیں وہ سب کے سب فوت ہو چکے ہیں۔ پس آپ کا فوت ہونا بھی کوئی قابلِ تعجب بات نہیں اور سارے کے سارے صحابہ ؓ نے آپ کے ساتھ اتفاق کیا۔ حضرت عمر ؓ جو پہلے مخالف تھے اِس آیت کو سُن کر وہ بھی موافق ہو گئے۔ اگر واقع میں مسلمانوں کے نزدیک حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود تھے تو حضرت عمر ؓ نے یہ کیوں نہ کہا کہ اَے ابو بکر ؓ آپ کیوں غلط بیانی کرتے ہیں؟ قرآن سے تو ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں پھر محمد رسول اﷲ کس طرح فوت ہو سکتے ہیں۔ مگر حضرت عمر ؓ نے تو غم کی حالت میں حضرت عیسیٰ کا نام بھی نہیں لیا حضرت موسیٰ ؑ کے خدا کے پاس جانے کا ذکر کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے کان میں یہ بات کبھی نہیں پڑی تھی کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ ہیں۔ نہ غلط طور پر نہ صحیح طور پر۔ بعض روایتوں میں حضرت موسیٰ ؑ کی بجائے حضرت عیسیٰ ؑ کا نام آتا ہے۔ اگر یہ روایتیں بھی درست تسلیم کر لی جائیں تب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہے۔ قرآنِ کریم میں متعدد دیگر آیات بھی ہیں جو حضرتِ عیسیٰ ؑ کی وفات پر دلالت کرتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ 206 اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دُوں گا اور پھر تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تجھے کفّار کے اُن سارے اعتراضات سے بچاؤں گا جو وہ تجھ پر کرتے ہیں اور تیری جماعت کو قیامت تک دوسرے لوگوں پر غلبہ دُوں گا۔ اِس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے وفات کا ذکر کیا ہے اور پھر رفع کا ذکر کیا ہے اور وفات کے بعد رفع تو سب مومنوں کا ہؤا کرتاہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی اُمّت کے لوگوں کو دُعا سکھاتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ ارْفَعْنِیْ۔ اے اﷲ تُو مجھے اُونچا کر۔ 207
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب مومن مَر جاتا ہے تو اُس کی رُوح کو اُٹھا کر فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں۔ 208
کہا جاتا ہے کہ توفّی کے معنی قبضِ رُوح کے نہیں لیکن ہماری طرف سے ایک لمبے عرصہ سے یہ چیلنج دیا جارہا ہے اور آج پھر ہم اِس چیلنج کو دُہراتے ہیں۔ کوئی شخص یہ ثابت کر دے کہ اﷲ تعالیٰ فاعل ہو، ذی رُوح مفعول ہو اور توفّی کے معنی قبضِ رُوح کے سوا کچھ اور ہوں تو بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اِس کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام تو رکھا تھا مگر آج تک کسی لغت میں سے ایسا حوالہ نکال کر کوئی مولوی صاحب یہ انعام نہیں لے سکے ہیں۔ ہم اِس وقت پھر اِس چیلنج کو دُہراتے ہیں۔ یہ علماء بیٹھے ہیں۔ یہ اب بھی کسی لُغت میں سے یا کسی مشہور شاعر اور ادیب کے کلام میں سے کوئی ایسا حوالہ نکال کر دکھادیں۔
بعض دفعہ یہ علماء علم کی کمی کی وجہ سے قرآن کریم کی بعض آیتیں (ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ 209 وغیرہ)پیش کر دیتے ہیں کہ ان میں قبضِ رُوح کے معنی نہیں ہیں۔ حالانکہ اُن آیتوں کے الفاظ بابِ تفعّل میں سے نہیں بلکہ بابِ تفعیل میں سے ہوتے ہیں اور عربی زبان میں اکثر بابوں کی تبدیلی سے معنی بدل جاتے ہیں۔ اسی طرح سورۂ مائدہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ١ۗ بِحَقٍّ١ؐؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۔مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِيْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ۔ 210 یعنی یاد کرو جب اﷲ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم سے کہے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اﷲ کے سوا دو معبود بنا لو۔ اِس پر عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ آپ پاک ہیں، میرا کیا حق تھا کہ مَیں وہ بات کہتا جس کا مجھے حق نہ تھا۔ اگر مَیں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کو اس کا علم ہوتا۔ آپ میرے دل کی بات جانتے ہیں مگر مَیں آپ کی بات کا پس منظر نہیں جانتا۔ آپ تو سب غیبوں کو جاننے والے ہیں۔ مَیں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ ہے اَور تمہارا بھی ربّ ہے اور جب تک مَیں اُن میں رہا اُن پر گواہ تھا پھر جب آپ نے مجھے وفات دی تو پھر آپ ہی اُن پر نگران تھے مَیں نہ تھا اور آپ ہر چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
اِس آیت میں حضرت مسیح کا صاف طور پر یہ فرمانا موجود ہے کہ میری وفات تک عیسائی نہیں بگڑے لیکن اب بگڑے ہوئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ اگر یہ کہا جاوے کہ یہ گفتگو قیامت کے دن ہو گی تو پھر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی وفات کے بعد عیسائی بگڑیں گے۔ اگر یہ گفتگو قیامت کے دن ہو تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی واپسی تک عیسائی نہیں بگڑے تھے بلکہ اُن کی وفات کے بعد بگڑے۔ حالانکہ مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ اُتریں گے تو عیسائی بگڑ چکے ہوں گے اور وہ سب کفّار کا خاتمہ کریں گے اور توحید کو قائم کریں گے یا سب کو مسلمان بنا لیں گے۔ پس خواہ یہ گفتگو کسی پہلے زمانہ کی طرف منسوب کی جائے یا قیامت کی طرف اِس سے بہرحال اُن کی وفات ثابت ہے۔ پھر اگر یہ گفتگو قیامت ہی کے دن کی مانی جائے تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہو گی کہ حضرت عیسیٰ ؑ اِس دُنیا میں آئیں گے، عیسائیوں کو سمجھائیں گے، توحید کی طرف لائیں گے اور اسلام کو قائم فرمائیں گے لیکن پھر بھی قیامت کے دن اُن سے یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا تُو نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی تھی اور اُن سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو۔ اُن کی اِس عظیم خدمت کے بعد یہ سوال کیا جانا کتنا حیران کُن ہے اور اگر ایسا ہو تو کیا اِس کا یہ جواب نہیں ہونا چاہئے کہ اے اﷲ! مَیں نے تو اپنی قوم کو مارا، اُن کے شرک کو دُور کیا اور توحید دُنیا میں قائم کی۔ پھر بھی مجھ پر یہ الزام ہے کہ گویا مَیں نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی۔ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے رفع و نزولِ جسمانی کا عقیدہ صحیح ہونے کی حالت میں تو ان کی طرف سے یہی جواب ہونا چاہئے مگر اس جواب کا تو کوئی ذکر نہیں بلکہ بر خلاف اس کے قرآن شریف بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح ؑ قیامت کے دن یہ جواب دیں گے کہ جب تک مَیں اُن میں موجود رہا وہ توحید پر قائم رہے، جب مَیں فوت ہو گیا تو پھر مجھے معلوم نہیں کہ اُنہوں نے کیا کِیا۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس آیت کے وہی معنی کرتے ہیں جو ہم نے کئے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میرے کچھ اَ تْباع کو فرشتے سزا کے لئے لے جاویں گے اور مَیں اِس پر فریاد کروں گا کہ یہ تو میرے اَ تْباع ہیں۔ اِس پر مجھ سے کہا جائے گا کہ تجھے کیا خبر کہ تیرے بعد اُنہوں نے کیا کِیا۔ فَأَ قُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَھِیْدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔211 کہ جس طرح خدا کے نیک بندے یعنی حضرت عیسیٰ ؑنے کہا ہے مَیں بھی کہوں گا کہ مَیں اپنی زندگی میں اپنی قوم پر گواہ تھا جب آپ نے مجھے وفات دی تو پھر آپ ہی اُن پر نگران تھے۔ بخاری کی اس حدیث سے یہ امور ظاہر ہیں۔
(1) یہ سوال بعثتِ نبوی ؐ سے پہلے ہو چُکا تھا۔ کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح عیسیٰ ؑ کہہ چکے ہیں اِسی طرح میں بھی کہوں گا۔
(2) مسیحی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے بگڑ چکے تھے اور اس سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑکی وفات ہو چکی تھی۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ کے جواب میں اپنے وفات پانے اور مسیحیوں کے بگڑ جانے کا اقرار ہے۔
(3) توفّی کے معنے یقیناً اِس جگہ موت کے ہی ہیں کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت مسیح ناصری ؑ کا حوالہ دے کر اپنی نسبت توفّی کا لفظ استعمال فرماتے ہیں اور آپ ؐ کی وفات کے متعلق کوئی دو رائیں مسلمانوں میں نہیں ہیں۔
بعض لوگ غلطی سے توفّی کے معنی وفات کے سوا کچھ اور کرناچاہتے ہیں۔ ایک حصّہ کا جواب ہم دے چکے ہیں دوسرا حصّہ اب بیان کریں گے اور وہ یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک اس لفظ کے معنی وفات کے سوا اور کچھ نہیں۔ چنانچہ اس کے لئے ہم جامعہ از ہر کے ایک بہت بڑے عالم علّامہ محمود شلتوت کا فتویٰ پیش کرتے ہیں جس میں اُنہوں نے وضاحت سے اس بات کااقرار کیا ہے کہ عربی زبان بولنے والے توفّی کے معنی موت کے سوا اور کچھ نہیں کرتے۔ آپ اپنے شائع شُدہ فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ تَوَفَّیْتَنِیْ کا لفظ جو آیتِ قرآنیہ میں حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت استعمال ہؤا ہے۔ اِس کا حق ہے کہ ہم اس کے وہی معنی کریں جو عربوں کے ذہن میں فوراً آتے ہیں اور وہ طبعی مَوت کے ہیں جسے سب لوگ جانتے ہیں اور جو تمام عربی زبان بولنے والے اِس لفظ اور اِس کے استعمال سے سمجھتے ہیں اور اگر اس آیت میں اپنی طرف سے کوئی اَور بات نہ ملائی جائے تو اس قول کو ہر گز صحیح نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت عیسیٰ ؑزندہ ہیں، فوت نہیں ہوئے۔ 212 ہم اس فتوے کی ایک مطبوعہ نقل معہ ترجمہ کے پیش کرتے ہیں ۔ اصل مصری فتویٰ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مادری زبان عربی رکھنے والا جامعہ ازہر کا ایک ممتاز پروفیسر تو یہ کہتا ہے کہ اس لفظ کے معنی مَوت کے سوا کچھ نہیں لیکن ہمارے علماء جو عربی زبان کے دو فقرے بھی بولنے کی طاقت نہیں رکھتے پاکستان میں بیٹھ کر یہ کہتے ہیں کہ توفّٰی کے معنی یہاں پر کچھ اَور ہیں۔
صحابہ ؓ نے بھی توفّی کے معنی مَوت کے ہی کئے ہیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ مُتَوَفِّیْکَ کے معنی مُمِیْتُکَ کے ہیں۔ 213 اور امام مالک کا بھی قول ہے کہ مَاتَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ۔ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم فوت ہو گئے ہیں۔ 214
اِسی طرح علّامہ ابن حزم کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ وفات پا چکے ہیں۔215
معراج کی حدیث میں بھی ذکر آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے معراج کی رات تمام وفات یافتہ انبیاء کے ساتھ حضرت عیسیٰؑ کو بھی دیکھا۔ 216 پھر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پچھلے مسیح کا بھی حُلیہ بیان کیا ہے اور آنے والے مسیح کا بھی حُلیہ بیان کیا ہے اور دونوں حُلیوں میں اختلاف ہے۔ پہلے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ فَاَمَّا عِیْسٰی فَأَحْمَرُجَعْدٌ۔ 217 یعنی مسیح ابن مریم کا رنگ سُرخ تھا اور اُن کے بال گھنگھر والے تھے۔اور آنے والے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعْرِ۔218 اُس کا رنگ گندم گوں ہو گا اور اُس کے بال سیدھے ہوں گے۔
اِس سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک ایک مثیلِ مسیح آنے والا ہے۔ پہلا مسیح فوت ہو چُکا ہے اور اُس کے رنگ اور اخلاق اور کمالات کو لے کر ایک دُوسرا شخص اس اُمّت میں پیدا ہو گا۔
چونکہ مسیح کی آمد کا عقیدہ متواتر احادیث میں بیان کیا گیا ہے اور قرآنِ کریم میں بھی اِس کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ۔219
جب مسیح ابن مریم کا ذکر تمثیلی طور پر کیا جاتا ہے تو تیری قوم بُرا مناتی ہے۔ اِس میں اِسی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں میں مسیح کی دوبارہ آمد تمثیلی طور پر بیان کی جاتی تھی اور کُفّار اِس پر چِڑتے تھے کہ مسیح کو تو اتنی اہمیت دے دی کہ کہا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ آئے گا اور ہمارے معبودوں کو جھوٹا کہا جاتا ہے اور چونکہ ابنِ عباس ؓ اور امام مالکؓ کا قول ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ فوت ہو چکے ہیں اس لئے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمّت میں سے ہو گا اور یہ صرف ہمارا قیاس ہی نہیں بلکہ اِس کا ثبوت تاریخ سے بھی ملتا ہے۔ چنانچہ خریدۃ العجائب جو سراج الدین ابی حفص عمرو بن الوردی کی کتاب ہے اور جس کے متعلق علّامہ احمد بن مصطفٰی المعروف بطاش کُبریٰ زادہ نے جو جیو گریفی کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے اپنی کتاب مفتاح السعادہ جلد اوّل صفحہ 322 پر لکھا ہے:
‘‘کہ یہ کتاب علّامہ قزوینی کی کتاب عجائب المخلوقات سے بھی زیادہ اچھی ہے’’۔
اِس کتاب کے صفحہ 214 پر لکھا ہے کہ :-
‘‘قرآن کریم میں جو یہ ذکر ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اُٹھا لیا اِس بارہ میں مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر تو یہ کہتے ہیں اور اُنہی کی بات زیادہ سچی ہے کہ عیسٰی علیہ السلام بعینہٖ دوبارہ آئیں گے لیکن ایک اور جماعت مسلمانوں کی یہ کہتی ہے کہ عیسیٰ ؑ کے نزول سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا شخص ظاہر ہو گا جو حضرت عیسیٰ ؑ سے اپنی بزرگی اور اپنے کمالات میں مشابہہ ہو گا۔ جس طرح کہ ایک نیک آدمی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ ہے اور شریر آدمی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ شیطان ہے۔ اِن دونوں کو بطور تمثیل کے یہ نام دیئے جاتے ہیں اور یہ مراد نہیں ہوتی کہ سچ مچ شیطان آگیا یا فرشتہ آ گیا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ایک تیسرا گروہ بھی مسلمانوں میں ہے جن کا یہ خیال ہے کہ اس پیشگوئی سے یہ مراد نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑدوبارہ دُنیا میں آئیں گے بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ نامی کوئی شخص رسولِ کریم ؐ کی اُمّت میں سے ہو گا۔ اس میں مسیح کی رُوح داخل کر دی جائے گی لیکن یہ دونوں خیال اہمیت نہیں رکھتے مگر اصل حقیقت اﷲ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے’’۔
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں دو گروہ ایسے رہے ہیں جن کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح فوت ہو چُکا ہے اور دوبارہ جو شخص آئے گا وہ اِسی اُمّت میں سے ہو گا۔ اُن میں سے ایک گروہ کا یہ عقیدہ تھا کہ ایک اُمّتی شخص مسیح کے اخلاق اور آپ کے کمالات کو حاصل کر کے عیسیٰ بن مریم کہلائے گا۔ جس طرح احمدی کہتے ہیں اور دوسرے گروہ کا یہ خیال تھا کہ ہو گا تو وہ کوئی اُمّتی شخص مگر اُس کا نام بھی عیسیٰ ہو گا مگر اُس کے اندر مسیح کی رُوح داخل کر دی جاوے گی۔ مسیح کا جسم بہرحال واپس نہیں آئے گا۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ صاحبِ کتاب نے یہ لکھا ہے کہ اکثر مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ واپس آئیں گے اور اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ صاحبِ کتاب نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ دونوں عقیدے کہ مسیح دوبارہ نہیں آئیں گے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ صاحبِ کتاب نے یہ بھی لکھا ہے کہ قطعیت کے ساتھ کسی بات کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت اﷲ ہی کو معلوم ہے۔ گویا اس زمانہ میں جب تک مسیح موعود ظاہر نہیں ہوئے تھے اُن کے نزدیک مسیح کے دوبارہ نازل ہونے کے عقیدہ کو ترجیح تو دی جاسکتی تھی مگر اُسے جزوِ ایمان قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ ورنہ وہ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ نہ لکھتے۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اﷲ ایک ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اﷲ ؐ اﷲ کے رسول ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قرآن خدا کی کتا ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ فرشتے حق ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قیامت حق ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قدرِ خیر و شر حق ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اُنہیں چیزوں کے متعلق کہا جاتا ہے جن میں اختلاف ممکن ہو اور جائز ہو اور جو جُزوِ ایمان نہ ہوں۔ ابی حفص عمرو بن الوردی کے اس بیان سے ثابت ہے کہ یہ عقیدہ مسلمانوں میں سینکڑوں سال سے رائج ہے۔ یہ صاحب آٹھویں صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ پس کم سے کم ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ آٹھ نو سَو سال سے مسلمانوں میں یہ عقیدہ موجود ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل نہیں ہوں گے بلکہ اِسی اُمّت میں سے ایک شخص آپ کے کمالات کو لے کر دُنیا میں ظاہر ہو گا اور جو لوگ اِس عقیدے کے قائل نہیں تھے بلکہ مسیح کے آسمان سے اُترنے کے قائل تھے وہ بھی مسیح کے آسمان سے اُترنے کے عقیدہ کو جُزوِ ایمان نہیں سمجھتے تھے بلکہ اِس بات کا احتمال رکھتے تھے کہ شاید وہ اِسی اُمّت میں سے ظاہر ہو جائے لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے مسیح کی آمد ثانی کے منتظر تھے کیونکہ اُنہوں نے کوئی ایسا فرقہ نہیں لکھا جو مسیح کی آمد کا ہی مُنکر ہو۔
سوال نمبر 4متعلق اعتراض نئی اُمّت و مسئلہ کفر و اسلام
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ایک نئی اُمّت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج از اسلام کہا ہے۔ اِس لئے مسلمانوں کو اشتعال آتا ہے۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ مرزا صاحب ؑ نے کوئی نئی اُمّت بنائی بلکہ بار بار آپ نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ مَیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ہوں اور ہماری جماعت کی طرف سے ہمیشہ ہی اِس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ اُمّتِ محمدیہ ایک ہی ہے اور آپ بھی اس کے ایک فرد ہیں۔ چانچہ آپ کے الہاموں میں سے ایک الہام یہ ہے کہ رَبِّ أَصْلِحْ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ 220 کہ اے میرے ربّ! اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح فرما۔ اگر آپ نے اپنی کوئی علیحدہ اُمّت بنائی ہوتی تو پھر اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کے لئے دُعا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر تو آپ یہ کہتے کہ ‘‘میری اُمّت کی اصلاح کر’’۔
پھر آپ اپنی کتاب ‘‘نزول المسیح’’ میں لکھتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے سب انبیاء کے نام دیئے ہیں اور الفاظ یہ ہیں:
‘‘اِس صورت میں گویا تمام انبیاءِ گزشتہ اِس امت میں دوبارہ پیدا ہوگئے’’۔ 221
اگر آپ اپنی کوئی الگ اُمّت مانتے تو اِس فقرہ کے معنی کیا بن سکتے ہیں؟
پھر اِسی کتاب کے صفحہ 34 پر آپ فرماتے ہیں کہ سُورۃ نور اور سورۃ فاتحہ پر نظرِ غائر کر کے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اِس اُمّت کے کُل خلفاء اِسی اُمّت میں سے ہوں گے اور یہ بات اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اِس طرح اپنے آپ کو اِس اُمّت میں شامل کرتے ہیں۔
پھر اپنے ملہم مِنَ اﷲ ہونے کے ثبوت میں آپ فرماتے ہیں کہ
‘‘اگر خدا کو یہ منظور ہی نہیں کہ بموجب دُعا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۔ انبیاء علیہم السلام کے انعامات میں اِس اُمّت کو بھی شریک کرے۔ تو اُس نے کیوں یہ دُعا سکھلائی’’۔222
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اِسی اُمّت میں سے آئے گا’’۔223
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘خدا نے اِس اُمّت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے’’۔ 224
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘اسلامی تعلیم کا اِن دو فقروں میں خلاصہ تمام اُمّت کو سکھلایا گیا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ’’۔225
اَور آپ خود بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِکہتے تھے اور اپنی جماعت کو بھی یہی پڑھنے کی تعلیم دیتے تھے۔ اِسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ:
‘‘احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہلائے گا’’۔ 226
اِسی طرح فرماتے ہیں کہ :-
‘‘جَعَلَ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ کَأَنْبِیَاءِ الْاُمَمِ السَّابِقَۃِ۔ اَلَسْنَا بِخَیْرِالْأُمَمِ فِی الْقُرْآن’’ 227
یعنی اﷲ تعالیٰ نے اِس اُمّت میں پہلی اُمّتوں کے انبیاء کی طرح کے بعض لوگ پیدا کئے ہیں۔ کیا قرآنِ کریم میں ہم کو خیرِ الْاُمم نہیں قرار دیا گیا؟ ایسا ہی فرماتے ہیں:
ہم ہوئے خیر اُمم تجھ سے ہی اے خیر رُسُل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے 228
جماعتِ احمدیہ کے موجودہ امام کی طرف سے اِس عقیدہ کا اظہار
ہماری جماعت کے موجودہ امام نے بھی متواتر اِس عقیدہ کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ 8جولائی 1952ء کے ‘‘المصلح’’ میں
ایک خط اور اُس کا جواب امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہؤا۔ اِس خط کا مضمون یہ ہے کہ ایک شخص نے امام جماعت احمدیہ کو لکھا کہ خواب میں مجھے مرزا صاحب نظر آئے اور اُنہوں نے کہا کہ ‘‘میری اُمّت کا مبلّغ بن’’۔ پھر خط لکھنے والے نے لکھا کہ ‘‘بوجہ قلّت و کمزوریٔ مال بندہ غیر مِلّت میں پھنسا ہؤا ہے۔ اِس لئے زیارت و فیض سے محروم ہے’’۔
اِس خط کا جو جواب امام جماعت احمدیہ نے دیا اور جو اسی اخبار میں شائع ہؤا ہے وہ یہ ہے:
‘‘خواب میں غلطی لگی ہے۔ مرزا صاحب کی کوئی اُمّت نہیں۔ اُمّت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہے اور مرزا صاحب خود بھی اُن کی اُمّت میں سے ہیں۔ اِس لئے یہ خواب شیطانی ہے’’۔ 229
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک بھی حضرت مرزاصاحب ؑ کی کوئی اُمّت نہیں۔ وہ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ہیں اور اگر کسی شخص کو خواب میں بھی معلوم ہو کہ مرزا صاحب کی اُمّت ہے تو اُس خواب کو شیطانی سمجھا جائے گا، خدائی نہیں۔
حضرت مرزا صاحب نے کسی کو ‘‘کافر’’ اور ‘‘خارج از اسلام’’ نہیں کہا
دوسرا حصّہ اِس سوال کا یہ تھا کہ مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو کافر اور خارج از اسلام
کہا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہ بات غلط ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو کافر کہا بلکہ مرزا صاحب کے مخالفین نے مرزا صاحب ؑ کو اور اُن کی جماعت کو کافر کہا۔ چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے 1892ء میں فتویٰ دیا کہ:
‘‘مرزا (کادیانی) کافر ہے، چھپا مرتد ہے، گمراہ ہے، گمراہ کنندہ ملحد ہے، دجّال ہے، وسوسہ ڈالنے والا، ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا..... لَا شَکَّ اَنَّ مِرْزَا مُرْتَدٌّ کَافِرٌ ۔ زِنْدِیْقٌ ۔ ضَالٌّ ۔ مُضِلٌّ ۔ مُلْحِدٌ ۔ دَجَّالٌ ۔ وَسْوَاسٌ خَنَّاسٌ’’۔230
مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی نے فتویٰ دیا کہ:
‘‘مرزا غلام احمد ساکن قصبہ قادیان اور اس کے جملہ معتقدین گروہ اہل سنت و الجماعت سے اور اسلام سے بالکل خارج ہیں۔ معتقدینِ مرزا کے ساتھ کوئی معاملہ شرعاً درست نہیں۔ مسلمانوں کو ضروری اور لازم ہے کہ مرزائیوں کو نہ اسلامی سلام کریں اور نہ اُن سے رشتہ و قرابت رکھیں اور نہ اُن کا ذبیحہ کھائیں نہ اُن سے محبت اور نہ اُلفت رکھیں اور نہ اُن کو اپنے اسلامی مجمعوں میں شریک ہونے دیں اور نہ اُن کی مجلسوں میں اہلِ اسلام شریک ہوں ۔ جس طرح ہندو، نصاریٰ ، یہود سے اہلِ اسلام علیحدہ رہتے ہیں اس سے زیادہ مرزائیوں سے الگ رہیں۔ جس طرح سے بول و براز، سانپ اور بچھو سے پرہیز کیا جاتا ہے اس سے زیادہ مرزائیوں سے پرہیز کرنا شرعاً ضروری اور لازمی ہے’’۔ 231
اِسی طرح دیکھیں فتویٰ مولوی نذیر حسین دہلوی المعروف شیخ الکُل232
فتویٰ مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی 233
فتویٰ مولوی عبدالحق صاحب مؤلف و مفسر حقانی 234
فتویٰ مولوی محمد اسماعیل صاحب 235
فتویٰ مولوی فقیر اللہ صاحب 236
فتویٰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی 237
مرزا صاحب کا مؤقف
ان تمام ایّام میں جب کہ علمائے کرام مرزا صاحب ؑ پر کافر اور خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ لگا رہے تھے۔
مرزا صاحب ؑ کی طرف سے بار بار درخواست کی جاتی تھی کہ مَیں مسلمان ہوں، مجھے کافر نہ کہو۔ آپ نے علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ‘‘اے بزرگو! ، اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے۔ غیظ اور غضب میں آکر حد سے مت بڑھو……… خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی زبانوں کو تکفیر سے تھام لو۔ خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مَیں ایک مسلمان ہوں۔ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ وَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ حْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ فَا تَّقُوااللہَ وَ لَا تَقُوْلُوْا لَسْتَ مُسْلِمًا وَ اتَّقُوا الْمَلِکَ الَّذِیْ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔238
ترجمہ: مَیں اﷲ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتا ہوں اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ صرف ایک ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ پس اے لوگو! اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو اور مجھے یہ مت کہو کہ تُو مسلمان نہیں اور اُس خدا سے ڈرو کہ جس کے سامنے ایک دن تم نے پیش ہونا ہے’’۔
اِسی طرح فرمایا:-
‘‘یاد رہے کہ جس قدر ہمارے مخالف علماء لوگوں کو ہم سے نفرت دلا کر ہمیں کافر اور بے ایمان ٹھہراتے اور عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ یہ شخص مع اس کی تمام جماعت کے عقائدِ اسلام اور اصولِ دین سے برگشتہ ہے۔ یہ اُن حاسد مولویوں کے وہ اختراع ہیں کہ جب تک کسی دِل میں ایک ذرہ بھی تقویٰ ہو ایسے اختراع نہیں کر سکتا۔ جن پانچ چیزوں پراسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے۔ ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اﷲ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حَسْبُنَا کِتَابُ ﷲہے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں بالخصوص قصوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشرِ اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اﷲ جلّ شانہ، نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالاحق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اوراباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے ..... اور ہم آسمان اور زمین کو اِس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افترا کرتا ہے اور قیامت میں ہمارا اُس پر یہ دعویٰ ہے کہ کب اُس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے اُن اقوال کے مخالف ہیں۔ اَلَا اِنَّ لَعْنَۃَ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ وَ الْمُفْتِرِیْنَ’’۔239
کسی کو کافر کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے
اِس قسم کی بہت سی تحریریں شائع کی گئیں لیکن علمائے کرام
کا دل نہ پسیجا اور وہ اپنے فتوؤں پر مُصِر رہے۔ جب تواتر اور تکرار کے ساتھ ان لوگوں نے اپنے کُفر کے فتوے جاری رکھے تو پھر بانی ٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خیال کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث کے ماتحت کہ جو شخص کسی کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔ کُفر کا فتویٰ لگانے والوں کو بھی کافر کہا جائے تا اُنہیں معلوم ہو کہ اس لفظ کے استعمال سے دُکھ پہنچتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ:-
‘‘اَیَّمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ کَفَّرَ رَجُلًا مُسْلِمًافَإِنْ کَانَ کَافِرًا وَ اِلَّاکَانَ ھُوَالْکَافِرُ’’۔ 240
اس انکوائری میں مولانا مودودی صاحب نے یہ بات دیکھتے ہوئے کہ فتویٰ تو ہم پر ہی اُلٹ پڑا ہے اپنے جوابات میں یہ ظاہر کیا ہے کہ حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو کافر کہنے کی سزا ملتی ہے لیکن جس وقت اُنہوں نے یہ جواب دیا اُن کے ذہن میں غالباً یہ حدیث نہیں تھی جو ہم نے لکھی ہے۔ اُنہوں نے ایک دوسری حدیث کے الفاظ سے جس میں یہ ذکر ہے کہ کُفر دونوں میں سے ایک پر اُلٹ پڑتا ہے فائدہ اُٹھاکر یہ خیال کر لیا کہ اس جواب سے وہ اپنے فعل پر پردہ ڈال دیں گے لیکن جو حدیث ہم نے اُوپر بیان کی ہے اس میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ وہ شخص کافر ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ بھی حدیث لے لی جائے جس پر جماعتِ اسلامی نے اپنے دعویٰ کی بنیاد رکھی ہے تو پھر بھی اُن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ جب کافر کہنے سے بھی انسان کافر نہیں بنتا بلکہ اُسے صرف سزا ملتی ہے تو اس سے غیر احمدی علماء کے لئے راستہ نہیں کھلتا احمدیوں کے لئے راستہ کھل جاتاہے۔
غرض احمدیوں نے کافر نہیں کہا۔ احمدیوں نے کافر کہنے والوں کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے فعل کے مناسب حال جواب دیا ہے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ غلط ہے تو یہ علماء اب کہہ دیں کہ کیا اُنہوں نے مرزا صاحب کے کافر کہنے سے پہلے آپ کو کافر کہا تھا یا نہیں یا کم سے کم اَب کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ جن علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا اُنہوں نے جھوٹ بولا ہے مگر وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔
لفظِ ‘‘ کافر’’ کا مفہوم
دوسرا جواب ہمارا یہ ہے کہ یہ علماء جب کُفر کا فتویٰ دیتے ہیں تو اس سے مُراد بالکل اَور ہوتی ہے اور احمدیوں نے
جب کافرکہا ہے تو اس سے مُراد اُن کی وہ نہیں تھی جو کہ اِن لوگوں کی ہوتی ہے۔ احمدیوں کے نزدیک اسلام اور کُفر دونوں نسبتی الفاظ ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے اسلام کا لفظ بھی مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے اور کُفر کا لفظ بھی مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اسی طرح حدیث میں بھی ایمان اور کفر کے الفاظ مختلف معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ اسلام کی ایک یہ تعریف فرماتا ہے کہ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۔241اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ تُو اُن سے کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں تم یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہؤا۔
اِس آیت سے ظاہر ہے کہ ایمان کا درجہ اسلام کے اُوپر ہوتا ہے اَور خواہ انسان کی روحانیت اعلیٰ ہو، یا نہ ہو وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ہے اور یہی اسلام کی جامع مانع تعریف ہے اور اس درجے کے مسلمان کہلانے والے کے لئے یہ بحث فضول ہوتی ہے کہ اس کا ایمان کس حد تک پختہ ہے اور کس حد تک پختہ نہیں۔
اِسی طرح قرآن کریم میں ایک اَور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ٞ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِيْرَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۔242اے مومنو! جب تم سفر کر رہے ہو تو اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو۔ اور جو شخص تم کو سلام کہے اُس کو یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں۔ اگر تم ایسا کہو گے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم دُنیا کا مال چاہتے ہو۔ حالانکہ اﷲ کے پاس بہت سے اموال ہیں اور تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا اور تم کو ایمان کے درجے عطا کر دئے ہیں۔ تم تحقیقات کر لیا کرو۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دِل تو الگ رہا اگر کوئی شخص اسلام کی تفصیلات سے ناواقف ہو اُس نے اسلام کے صرف ظاہری آداب سیکھے ہوں اور وہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں سے ظاہر کرے تب بھی اُس کو یہ کہنا کہ تُو مسلمان نہیں، جائز نہیں اور فرماتا ہے کہ جو شخص ایسے شخص کو غیر مسلم کہتا ہے وہ درحقیقت اُس کو لوٹنے کی خاطر راستہ کھولتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ جو لوگ نئے نئے مذہب میں داخل ہوتے ہیں اُن کی معلومات ہمیشہ کم ہؤا کرتی ہیں۔ پس جن کی معلومات زیادہ ہوں اُن کو اپنی معلومات پر فخر کر کے تھوڑی معلومات والوں پر طعنہ نہیں کرنا چاہئے۔
‘‘اسلام’’ اور ‘‘ایمان’’ کے مراتب
غرض ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا ایک درجہ ایمان
سے چھوٹا ہے اور ایمان کا درجہ اُس سے بڑا ہے لیکن اس کے مقابل پر بعض دوسری آیات بھی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ ایک قسم کے اسلام کا درجہ ایمان سے بھی بڑا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔243جب اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ سے کہا کہ تُو اسلام لے آ۔ تو اُس نے کہا کہ مَیں ربّ العالمین کے لئے اسلام لاتا ہوں۔ حالانکہ ابراہیم ؑ نبی تھے۔ پس یہ اسلام عام اسلام سے بلکہ عام ایمان سے بھی اونچا ہے۔
اِسی طرح فرماتا ہے يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا ۔244 کہ بنی اسرائیل میں بعض نبی ایسے تھے جو شریعت نہیں لاتے تھے، وہ مسلمان ہوتے تھے اور یہودیوں کو تو رات کے احکام پر چلاتے تھے۔ اِس جگہ پر بھی نبیوں کا نام مسلم رکھا گیا ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ قرآن کے نزدیک اسلام کے دو درجے ہیں۔ ایک ایمان سے کم، ایک ایمان سے زیادہ۔ جو ایمان سے زیادہ اسلام ہے اُس سے خارج ہو کر بھی انسان ایمان کے درجے پر ہو سکتا ہے اور مسلم کہلانے کا حق رکھتا ہے اور اسلام کے جامع مانع دائرہ سے باہر نہیں لیکن اس کے بر خلاف جو ایمان سے کم اسلام ہے اُس اسلام میں داخل ہو کر بھی انسان ایمان سے محروم ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں صراحتاً ذکر ہے۔
علمائے اسلام نے بھی یہی تشریح کی ہے۔ چنانچہ علامہ اصفہانی لکھتے ہیں:-
‘‘اَلْاِسْلَامُ فِی الشَّرْعِ عَلٰی ضَرْبَیْنِ اَحَدُ ھُمَا دُوْنَ الْإِ یْمَانِ وَ ھُوَ الْإِعْتِرَافُ بِاللِّسَانِ وَ بِہٖ یُحْقَنُ الدَّمُ حَصَلَ مَعَہُ الْاِعْتِقَادُ اَوَلَمْ یَحْصُلْ وَ اِیَّاہُ قُصِدَ بِقولِہٖ قَالَتِ الأَ عْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا ولٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا۔والثَّانِی فَوْقَ الْاِیْمَانِ وَھُوَ اَنْ یَّکُوْنَ مَعَ الْاِعْتِرَافِ اِعْتِقَادٌ بِالْقَلْبِ وَ وَفَاءٌ بِالْفِعْلِ وَ اسْتِسْلَامُ لِلّٰہِ فِیْ جَمِیْعِ مَا قَضٰی وَ قَدَّرَ کَمَا ذُکِرَ عَنْ إِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ قَوْلِہٖ اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ ﷲِ الْاِسْلَامُ وَ قَوْلُہٗ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا أَیْ إِجْعَلْنِیْ مِمَّنِ اسْتَسْلَمَ لِرِضَاکَ’’۔ 245
یعنی اسلام دینِ محمدی کی رُو سے دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک اسلام ایمان سے نیچے ہوتا ہے اور وہ زبان سے اعتراف کرنا اور کلمہ پڑھنا۔ اور جان کی حفاظت اتنے سے ہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ اعتقاد کی صحت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کی یہ جو آیت ہے کہ قَالَتِ الْأعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا اس سے اسی طرح کے اسلام کی طرف اشارہ ہے۔ اور دوسرا اسلام وہ ہوتا ہے جو ایمان سے اُوپر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ پڑھنے کے علاوہ دِل میں بھی اس کا اعتقاد ہو اور عملاً بھی ایسا شخص وفاداری کا اظہار کرے اور خدا تعالیٰ کی تمام قضاؤں کے سامنے اپنے آپ کو جُھکادے۔ اسی قسم کے اسلام کی طرف حضرت ابراہیم ؑ کے اُس ذکر میں اشارہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے اُن سے کہا کہ تُو اِسلام لا تو اُنہوں نے کہا مَیں رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ خدا کے لئے ایمان لاتا ہوں اور اسی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ دین اﷲ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اسی طرف اشارہ ہے اس دُعا میں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے کی تھی کہ الٰہی! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے۔
اسلامی لٹریچر سے اِس کی تصدیق
لُغت کی اِس تشریح کے علاوہ اسلامی دینی لٹریچر سے بھی اِس اصطلاح کی
تصدیق ہوتی ہے مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ صَلّٰے صَلٰوتَنَا وَ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ أَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ ﷲ وَ ذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ فَلَا تَخْفَرُوا اللہَ فِیْ ذِمَّتِہٖ۔ 246جو شخص ہماری طرح کی نماز پڑھتا ہے۔ ہمارے قبلے کی طرف مُنہ کرتا ہے اور ہمارے ذبیحہ کو کھاتا ہے وہ مسلمان ہے اور اﷲ اور اس کے رسول کی حفاظت اس کو حاصل ہے۔ پس اے مسلمانو! اُس کوکسی قسم کی تکلیف دے کر خدا تعالیٰ کو اُس کے عہد میں جھوٹا نہ بناؤ۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں ثَلَاثٌ مِنْ اَصْلِ الْاِیْمَانِ أَلْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا الٰہ اِلَّا ﷲ لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ وَّ لَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلٍ۔ 247 ایمان کی تین جڑیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ کہہ دے تُو اُس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نہ کر، اُس کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ بنا اور اسلام سے خارج مت قرار دے۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں أَلْاِسْلَامُ عَشَرَۃُ أَسْھُمٍ وَقَدْ خَابَ مَنْ لَا سَھْمَ لَہٗ شَھَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہ اِلَّا اللہُ وَھِیَ الْمِلَّۃُ۔ 248اسلام کے دس حصّے ہیں جس شخص کے حصّے میں ایک حصّہ بھی نہ آیا ہو وہ تباہ ہو گیا۔ پہلا حصّہ یہ ہے کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی گواہی دے۔ یعنی جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہہ دیتا ہے وہ ملّتِ اسلامی میں داخل ہو جاتا ہے۔
اِسی طرح بخاری کتاب الایمان میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے دریافت فرمایا کہ أَتَعْلَمُوْنَ مَا الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَ حْدَہٗ ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایمان کی کیا تعریف ہے؟اُنہوں نے کہا کہ اﷲ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا شَھَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ۔ ایمان یہ ہے کہ انسان اپنے مُنہ سے لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کہہ دے۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ مَنِ انْتَقَصَ مِنْھُنَّ شَیْئًا فَھُوَ سَھْمٌ مِنْ سِھَامِ الْاِسْلَامِ تُرِکَ وَمَنْ تَرَکَھُنَّ کُلَّھُنَّ فَقَدْ تَرَکَ الْاِسْلَامَ 249 کہ اسلام کے کئی حصّے ہیں جس نے ان حصّوں میں سے کوئی حصّہ کھو دیا اُس نے اسلام کے حصّوں میں سے ایک حصّہ کھو دیا اور جس نے سارے حصّے کھو دیئے اُس نے سارا اسلام کھو دیا۔
ان حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک اسلام محض لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے سے حاصل ہو جاتا ہے اور ملت اسلامیہ اسی کا نام ہے جو شخص لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہہ دے وہ ملت اسلامیہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ جو شخص اسے ملتِ اسلامیہ ے خارج قرار دے وہ خدا اور رسول پر ظلم کرتا ہے اور انہیں جھوٹا قرار دیتا ہے۔ ان معنوں میں ہم نے کبھی کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا بلکہ سارے کے سارے مسلمان فرقوں کو ہم ملتِ اسلامی کا جزو قرار دیتے رہے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کا قول ہے کہ ‘‘إِنْکَارٌ بِمَا اَنْزَلَ اللہُ ھُوَ بِہٖ کُفْرٌ وَلَیْسَ کَمَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ ۔ 250اﷲ تعالیٰ کی کسی وحی یا الہام کا انکار کفر تو ہے لیکن وہ ایسا کفر نہیں جیسے اﷲ، ملائکہ، کتب اور رسل کا کفر ہوتا ہے۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں اَلْکُفْرُ کُفْرَانِ أَحَدُ ھُمَا یَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّۃِ وَالْآخَرُلَا یَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّۃِ۔ 251 یعنی کفر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک کفر ملت سے نکال دیتا ہے اور دوسرا کفر ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ وَحَقِیْقَۃُ الْاَمْرِ انْ منْ لَمْ یَکُنْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ حَقًّا یُقَالُ فِیہِ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ وَ مَعَہٗ اِیْمَانٌ یَمْنَعُہُ الْخُلُوْدُ فِی النَّارِ۔ وَھٰذَا مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ بَیْنَ اَھْلِ السُّنَّۃ یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پورا مومن نہ ہو مگر پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ وہ مسلم ہے اور تمام اہل سنت اس پر متفق ہیں۔ لٰکِنْ ھَلْ یُطْلَقُ عَلَیْہِ اِسْمُ الْاِیْمَانِ ھٰذَا ھُوَالَّذِیْ تَنَازَعُوْا فِیْہِ فَقِیْلَ یُقَالُ مُسْلِمٌ وَلَا یُقَالُ مُؤْمِنٌ۔ 252لیکن یہ سوال کہ کیا اس پر لفظ ایمان بھی بولا جائے گا یا نہیں اور اسے ہم مومن بھی کہیں گے یا نہیں؟ یہ بات ایسی ہے جس میں علماء میں اختلاف ہوتے رہے۔ چنانچہ بعض نے کہا ہے کہ اسے مسلم تو کہیں گے مگر مومن نہیں کہیں گے۔
‘‘ملّتِ اسلامیہ’’ میں شامِل ہونے کے لئے صرف کلمہ ضروری ہے
اِن تمام حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ملّتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لئے صرف کلمے کا پڑھنا کافی
ہے۔ باقی کوئی امر ایسا نہیں ہے کہ جو ملّتِ اسلامی میں شمولیت کے لئے ضروری ہو۔ اگر باقی ضروری اُمور کا کوئی انکار کرتا ہے تو ہم اُسے غیر مؤمن کہہ لیں گے، ناقص الایمان کہہ لیں گے لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ ان اُمور کی وجہ سے وہ ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہو گیا ہے۔ ہاں چونکہ ایک اسلام ایمان سے بھی اُوپر ہے اِس کے لحاظ سے ایک شخص کو جس میں کوئی بڑا دینی نقص پایا جائے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص اسلام سے خارج ہو گیا ہے مگر اس سے مراد ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہونا نہیں ہو گا۔ اِس سے صرف یہ مراد ہو گا کہ وہ ایمان کے بڑے درجوں سے محروم ہے۔ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ مَشٰی مَعَ ظَالِمٍ لِیُقَوِّیَہٗ وَھُوَ یَعْلَمُ أَنَّہٗ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ’’۔ 253 جو شخص ظالم کی جانتے بوجھتے ہوئے مدد کی کوشش کرے اور اُسے علم ہو کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
اس حدیث میں ایسے شخص کو جو کسی ظالم کی مدد کرتا ہے خارج عَنِ الْاِسْلَام قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ متعدد مواقع پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُکہنے سے انسان ملّتِ اسلامی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی اور گُناہ اُسے ملّتِ اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔ ان حدیثوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یہی ماننا پڑتا ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی کلمہ گو کو خارج از اسلام قرار دیا تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ ایمان کے بعض مدارج سے یہ شخص محروم ہے اور جب کسی شخص کو ملّتِ اسلامیہ میں داخل قرار دیا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اُس کے اندر ایمان کے تمام مدارج کامل طور پر پائے جاتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اسلامک باڈی پولٹکس (ISLAMIC BODY POLITICS) کا ممبر ہو گیا ہے اور اگر ہم نے کسی شخص کو مؤمن یا کافر کہا ہے تو انہی معنوں کی رُو سے کہا ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا عقیدہ
حضرت ابو حنیفہ ؒ بھی اسی عقیدہ پر قائم تھے جو ہم نے اُوپر بیان کیا ہے۔ چنانچہ کتاب
معین الحکام مصنفہ ابو الحسن طرابلسی میں جو جماعتِ اسلامی کی طرف سے پیش کی گئی ہے اور جس کے حاشیہ والی کتاب سے انہوں نے سند لی ہے اس کے صفحہ202 پر امام طحاوی، حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کے ساتھیوں سے روایت کرتے ہیں کہ لَا یَخْرُجُ الرَّجُلُ مِنَ الْاِیْمَانِ إِلَّا جُحُوْد مَا أَدْخَلَہٗ فِیْہِ۔254 یعنی حضرت امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا یہ مذہب تھا کہ ایمان سے کوئی چیز کسی کو خارج نہیں کرتی سوائے اُس چیز کے دیدہ دانستہ انکار کے جس نے اُس کو اسلام میں داخل کیا تھا۔ یعنی کلمہ شہادت، مطلب یہ ہے کہ جب تک کلمہ شہادت کا کوئی شخص دیدہ دانستہ انکار نہ کرے اُس وقت تک کوئی چیز اس کو اسلام سے خارج نہیں کرتی۔ پھر امام طحاوی کا جو حنفیوں میں مجتہد المذہب کی حیثیت رکھتے ہیں یہ مذہب بیان کیا گیا ہے کہ ایسی صورت میں نہ تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس قسم کا مرتد ہو گیا ہے کہ اس پر مرتدین کے احکام جاری کر دیئے جائیں اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ایسے احکام جاری نہیں ہو سکتے کیونکہ کلمہ پڑھنے سے اس کا اسلام ثابت ہو چُکا تھا۔ اب کسی شک کی وجہ سے اس کو اسلام سے نہیں نکالا جاسکتا کیونکہ اسلام ہمیشہ غالب رہتا ہے اور وہ عالم جس کے پاس ایسے شخص کا معاملہ پیش کیا جائے اس کو چاہئے کہ کسی مسلمان پر جو کہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ چُکا ہے کُفر کا فتویٰ لگانے میں جلدی نہ کرے لیکن کُفّار میں سے اگر کوئی شخص کلمہ پڑھے تو اُس کے اسلام کا فتویٰ دے۔
ہمیں تعجب ہے کہ اُنہوں نے اس کتاب کے حاشیہ پر چھپی ہوئی ایک کتاب سے حوالہ درج کر کے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ مذہب تھا کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے اُس سے جو شخص معجزہ مانگے وہ کافر ہو جاتا ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ اس حوالہ کے پیش کرنے میں اُنہوں نے دیانت سے کام نہیں لیا کیونکہ یہ مذہب مصنف کتاب کا بیان کیا گیا ہے، امام ابو حنیفہ ؒ کا بیان نہیں کیا گیا اور پھر مصنف کتاب کے نزدیک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی شخص اس غرض کے لئے سوال کرے کہ اگر وہ معجزہ نہ دکھاسکے گا تو اس کا جھوٹ ظاہر ہو جائے گا تو پھر وہ کافر نہیں ہوتا۔ 255
جس سے یہ احتمال نظر آتا ہے کہ اگر وہ معجزہ دکھا دے گا تو اس کی نبوت ثابت ہو جائے گی اس لئے اس کے کُفر کا سوال ہی نہیں رہے گا۔ اِسی مصنفِ کتاب کا مذہب صفحہ205 پر بیان کیا گیا ہے کہ إِذَا کَانَ فِی الْمَسْئَلَۃِ وُجُوْہٌ تُوْجِبُ التَّکْفِیْرَ وَوَجْہٌ وَاحِدٌ یَمْنَعُ فَعَلَی الْمُفْتِیْ أَنْ یَّمِیْلَ اِلٰی ذٰلِکَ الْوَجْہِ۔یعنی اگر کسی شخص کے کافر بنانے میں بہت سی وجوہ پائی جاتی ہوں لیکن ایک وجہ تکفیر سے روکتی ہو تو مفتی کا فرض ہے کہ وہ اس ایک وجہ کی طرف مائل ہو جو اُس کو کافر بنانے سے روکتی ہے اور اُن وجوہ کی طرف توجہ نہ کرے جو اُسے کافر بنانے کی تائید کرتی ہیں۔
ہم نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا یہ مذہب ہے کہ جو چیز کسی کو اسلام میں داخل کرتی ہے وہی اُس کو اسلام میں قائم رکھتی ہے بلکہ اگر کوئی شخص شک کی وجہ سے انکار بھی کر دے تب بھی وہ اس کے ہوتے ہوئے اسلام سے نہیں نکلتا۔ اس کی تشریح لسان الحکام میں جس سے جماعت اسلامی نے حوالہ لیا ہے یہ کی گئی ہے کہ:-
‘‘قدوری کتاب کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دہریہ ہو یا بُت پرست ہو یا خدا کو مانتا ہو لیکن ساتھ اس کے اور بھی خدا مانتا ہو تو ایسا شخص اگر صرف لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ کہہ دے تو وہ اسلا م میں داخل ہو جاتا ہے یا کہہ دے کہ میں محمد صاحب کو اﷲ کا رسول مانتا ہوں تو وہ اسلا م میں داخل ہو جاتا ہے کیونکہ اسلام کے منکر اِن کلموں کے کہنے سے احتراز کرتے ہیں۔ پس جب ان دونوں حکموں میں سے کسی ایک کلمہ کا بھی وہ اظہار کر دے تو پھر اُس کو غیر مسلم نام سے نکالا جائے گا اور اُسے مسلمان قرار دے دیا جائے گا’’۔ 256
غیر احمدی علماء کے نزدیک لفظ ‘‘ کافر’’ کا مفہوم
غیر احمدی علماء تو جب ہم کو کافر کہتے
ہیں تو اس کے یہ معنے بھی کرتے رہے ہیں کہ ہم جہنمی ہیں لیکن ہم تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جہنم اُن لوگوں کو ملے گی جو کہ دیدہ دانستہ شرارت سے سچائیوں کا انکار کرتے ہیں۔ کلمہ کا مُنہ سے پڑھنا تو انسان کو صداقت سے بہت کچھ قریب کر دیتا ہے ۔ جو شخص انبیاء و کتب کا بھی مُنکر ہے اُس کا انکار بھی اگر دیانتداری کے ساتھ ہے اور اُس پر خدا کی حجت تمام نہیں ہوئی تو ہمارے نزدیک تو وہ شحص رحم کا مستحق ہے اور جو اسلامی آئیڈیالوجی ہم شروع میں بیان کر آئے ہیں اس کے مطابق یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ 257 میری رحمت ہر چیز کو ڈھانپے ہوئے ہے اور فرماتا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 258 مَیں نے سارے انسانوں کو اپنا مثیل ہونے کے لئے بنایا ہے اور اپنا عبد ہونے کے لئے بنایا ہے اور اﷲ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْۙ۔وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۔259 جو میرے عبد ہوںوہ میری جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مسلمان اس دُنیا میں باقی مذاہب کے مقابلہ میں تیسرا یا چوتھا حصّہ ہیں۔ پھر ان میں سے ہزار میں سے ایک یا اس سے بھی کم بقولِ مودودی صاحب اسلام سے قطعی طور پر ناواقف ہیں اور رسوماتِ کُفر میں مُبتلا ہیں۔ 260
تو گویا دُنیا کی کُل آبادی میں سے چالیس ہزار آدمی اسلام سے واقف ہے۔ پھر ان میں سے بھی معلوم نہیں سچے مسلمان کتنے ہیں اور دکھاوے کے کتنے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ دُنیا میں اسلام پر عمل کرنے والے لوگ ہزار میں سے کوئی ایک ہے۔ اگر ان سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں جانا ہے تو رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ کے کیا معنے ہیں اور مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ کے کیا معنے ہیں۔ پھر تو خدا ہارا اور شیطان جیتا اور مقصدِ پیدائشِ عالم باطل ہو گیا۔ اِسلام کی رُو سے تو درحقیقت دُنیا کے مختلف تغیرات اور زمانہ برزخ اور یوم حشر اور زمانہ دوزخ یہ سب کے سب انسان کو صفائی اور پاکیزگی اور نجات کی طرف لے جارہے ہیں اور تمام کے تمام انسان ہی خدائی رحمت کے نیچے آجائیں گے اور خدا کی بات پوری ہو جائے گی کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ اور رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ یَاْ تِیْ عَلٰی جَہَنَّمَ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْھَا اَحَدٌ وَ نَسِیْمُ الصَّبَاتُحَرِّکُ اَبْوَابَھَا۔261 یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ ہوائیں اس کے دروازے ہلا رہی ہوں گی اور اس جیل خانے کے دروازے کھول دئیے جائیں گے کیونکہ اس کے اندر کوئی قیدی باقی نہیں رہے گا۔
ہم نے کبھی کُفر کا لفظ اُن معنوں میں استعمال نہیں کیا جن معنوں میں مولوی استعمال کرتے ہیں۔ ہم تو خدا کو رحیم و کریم سمجھتے ہیں۔ اس کی بخششوں کو روکنے والا کون انسان ہے۔
بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے چند اور حوالے
ہم نے اُوپر جو کچھ لکھا ہے اُس کی تائید میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے
چند حوالے پیش کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا۔ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوائے کُفر سے پہلے شائع ہؤا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہراویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے’’۔ 262
اِسی طرح آپ فرماتے ہیں:-
‘‘یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مؤمن کو کافر کہنے والا آخر کافر ہو جاتا ہے۔ پھر جبکہ قریباً دو سو مولوی نے مجھے کافر ٹھہرایا اور میرے پر کُفر کا فتویٰ لکھا گیا اور اُنہی کے فتویٰ سے یہ بات ثابت ہے کہ مؤمن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مؤمن کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے۔ تو اب اس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخمِ دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو اُن کو چاہئے کہ اِن مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا۔ تب مَیں ان کو مسلمان سمجھ لوں گا’’۔ 263
یہ حوالہ بالکل اس حدیث کے مطابق ہے جو کہ اُوپر نقل کی جاچکی ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں:-
‘‘کُفر دو قسم پر ہے۔ (اوّل)ایک یہ کُفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم)دوسرے یہ کُفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اُس کو باوجود اتمامِ حُجّت کے جھوٹا جانتا ہے’’۔ 264
اسلام کی تعریف
اِسی طرح اسلام کی تعریف بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اِن الفاظ میں فرمائی ہے کہ :-
‘‘عقیدہ کے رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اُس کا نبی ہے’’۔ 265
اِسی طرح جزا و سزا کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالحکیم میرے متعلق لکھتا ہے کہ گویا مَیں نے اپنی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ شخص جو میرے نام سے بھی بے خبر ہو گا اور گو وہ ایسے مُلک میں ہو گا جہاں تک میری دعوت نہیں پہنچی وہ کافر ہو جائے گا اور دوزخ میں پڑے گا۔ آپ فرماتے ہیں یہ سرا سر افتراء ہے۔ مَیں نے اپنی کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا اور پھر فرماتے ہیں کہ :-
‘‘یہ تو ایسا امر ہے کہ ببداہت کوئی عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی۔ جو شخص بکلّی نام سے بھی بے خبر ہے اُس پر مؤاخذہ کیوں کر ہو سکتا ہے۔ ہاں مَیں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ مَیں مسیح موعود ہوں اور خدا نے عام طور پر میرے لئے آسمان سے نشان ظاہر کئے ہیں۔ پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمامِ حجّت ہو چُکا ہے اور میرے دعوے پر وہ اطلاع پا چُکا ہے وہ قابلِ مؤاخذہ ہو گا’’۔ 266
اِسی طرح آپ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘ماسوا اِس کے اگر فرض کے طور پر کوئی ایسا شخص دُنیا میں ہو کہ وہ باوجود پوری نیک نیتی اور ایسی پوری پوری کوشش کے کہ جیسا کہ وہ دُنیا کے حصول کے لئے کرتا ہے اسلام کی سچائی تک پہنچ نہیں سکا تو اُس کا حساب خدا کے پاس ہے’’۔ 267
موجودہ امامِ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے وضاحت
موجودہ امامِ جماعتِ احمدیہ نے بھی اِس کے متعلق وضاحت کی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘باقی ہم میں اور اُن میں تو کُفر کی تعریف میں اختلاف بھی بہت سا پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ کُفر کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا انکار حالانکہ ہم یہ معنے نہیں کرتے اور نہ کُفر کی یہ تعریف کرتے ہیں۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اسلام کے ایک حد تک پائے جانے کے بعد انسان مسلمان کے نام سے پُکارے جانے کا مستحق سمجھا جاسکتا ہے لیکن جب وہ اس مقام سے بھی نیچے گر جاتا ہے تو گو وہ مسلمان کہلا سکتا ہے مگر کامل مسلم اُسے نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ تعریف ہے جو ہم کُفر و اسلام کی کرتے ہیں اور پھر اس تعریف کی بناء پر ہم کبھی نہیں کہتے کہ ہر کافر دائمی جہنمی ہوتاہے’’۔ 268
آگے چل کر آپ فرماتے ہیں:-
‘‘اُن کے کُفر اور ہمارے کُفر میں بہت بڑا فرق ہے۔ اُن کا کُفر تو ایسا ہے جیسے سُرمے والا سُرمہ پیستا ہے۔ وہ بھی جب کسی کو کافر کہتے ہیں تو اُس کا مطلب یہ ہؤا کرتا ہے اُسے پیس کر رکھ دیں۔ کہتے ہیں کہ وہ جہنمی ہے اور ابدی دوزخ میں پڑے گا ..... پس ہماری کُفر کی اصطلاح ہی اَور ہے اور اُن کے کُفر کی اصطلاح اَور۔ ہمارا کُفر تو اُن کے کفر کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے سُورج کے مقابل پر ذرّہ ہو۔ پس اِس پر اُنہیں غُصّہ کیوں آتا ہے۔ آجکل بڑے زور سے کہا جاتا ہے کہ احمدی ہمیں کافر کہتے ہیں۔ اگر وہ سچّے ہیں تو ثابت کریں کہ پہلے ہم نے اُنہیں کافر کہا ہو۔ اگر وہ ذرا بھی غور کریں گے تو اُنہیں معلوم ہو گا کہ پہلے اُنہوں نے ہی ہمیں کافر کہا ہم نے کافر نہیں کہا۔ گو اِس رنگ میں بھی اُن کے کُفر اور ہمارے کُفر میں بہت بڑا فرق ہے لیکن بہرحال اُن کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ دیکھیں۔ پہلے اُنہوں نے ہمیں کافر کہا اور ہم پر کُفر کے فتوے لگائے یا ہم نے اُن کو کافر کہا؟’’۔269
اِس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعتِ احمدیہ کے نزدیک بھی کُفر دوقسم کا ہے۔ ایک کُفر کے باوجود انسان مسلمان کہلاتا ہے اور وہ ملّتِ اسلامیہ میں شامل ہوتا ہے اور دوسرے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم نے جو کچھ کہا جواب میں کہا ہے۔ اصل ذمہ دار علماء ہیں جنہوں نے ہم کو پہلے کافر کہا۔ لفظِ کُفر کی حقیقت احمدیہ جماعت کے نزدیک محض حجت اور عدمِ حجت کے متعلق ہے۔ کُفر کے عواقب خدا تعالیٰ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جو غیر احمدی علماء بتاتے ہیں اُن سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ خدا دو ہیں۔ ایک مؤمنوں کا خدا اور ایک کافروں کا خدا۔ حالانکہ خدا تو ایک ہی ہے۔ ایک باپ کے دوبیٹوں میں سے ایک فرمانبردار ہوتا ہے اور ایک نافرمان لیکن ہوتا بیٹا ہی ہے۔ نافرمان ہو جانے سے باپ کے دل سے اُس کی محبت نہیں جاسکتی اور وہ اُس کی بہتری کے لئے کوشش کرنے سے باز نہیں رہتا۔ اگر خدا مسلمانوں اور کافروں کا ایک ہی ہے تو یہی کیفیت اُس کی بھی ہونی چاہئے۔ کافر کے معنے محض اتنے ہیں کہ وہ اُس کا بیمار بندہ ہے جس کے دل میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ مگر ‘‘اُس’’ کا ہونے اور اُس کا ‘‘بندہ’’ ہونے میں تو کوئی فرق نہیں آتا۔ پس کسی مذہب میں کسی شخص کو کافر کہنے کے بعد جو اُس کے لئے سزا اور جزا تجویز کی گئی ہے اُس کو مدِّ نظر رکھے بغیر ہم اُس قوم کے کُفر کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اور اِس بات کا پتہ کہ اسلام کے کون سے فرقے پیدائشِ عالم کی غرض کو مدِّنظر رکھتے ہیں اِسی سے مِل سکتا ہے کہ کُفر کی جو تشریح وہ کرتے ہیں آیا وہ اسلامک آئیڈیالوجی کے مطابق ہے یا اُس کے مخالف ہے۔ پس اِس بات کو واضح کرنے کے لئے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے کُفر کی سزا کے متعلق یوں لکھا ہے:-
‘‘اِسلام اِس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر انسان نجات ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خواہ کوئی کیسا ہی کافر ہو مختلف قسم کے علاجوں کے بعد جن میں سے ایک علاج جہنم بھی ہے آخر جنت کو پا لے گا۔ قرآن نجات کے بارہ میں وزنِ اعمال پر زور دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نیک اعمال کا بڑھ جانا انسان کی نجات کے لئے اُس کی سچی کوشش پر دلالت کرتا ہے اور جو شخص سچی کوشش کرتا ہؤا مَر جاتا ہے وہ اُس سپاہی کی طرح ہے جو فتح سے پہلے مارا جاتا ہے ..... اگر ایک شخص نیکی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے مَر جاتا ہے تو یقیناً وہ خدا تعالیٰ کے فضل کا مستحق ہے سزا کا مستوجب نہیں۔ کوئی قوم اپنے سپاہیوں کو اِس بات پر ملامت نہیں کیا کرتی کہ وہ فتح پانے سے پہلے کیوں مارے گئے’’۔ 270
پھر وہ لکھتے ہیں:-
‘‘بات یہ ہے کہ اصل چیز محبتِ الٰہی ہے اور یہ رستہ شریعت نے اُسی کے لئے تجویز کیا ہے جس کا دل اﷲ تعالیٰ کے عشق اور اُس کی محبت سے لبریز ہو گا....... یہ انعام اُسی کے لئے مقدر ہے جس کا دل اﷲتعالیٰ کی محبت سے سرشار ہو گا اور جو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود محبتِ الٰہی کی آگ اپنے اندر رکھتا ہو گا اور یقینا جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو گی اُسے کبھی دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اُس کی نجات کا سامان پیدا کردے گا اور حساب بنا بنا کر اور مختلف ذرائع اور طریق اختیار کر کے اُسے جنت میں لے جانے کی کوشش کرے گا’’۔271
اِسی طرح امامِ جماعتِ احمدیہ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘جنت صرف مُنہ کے اقرار کا نتیجہ نہیں۔ جنت بہت سی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ اِسی طرح دوزخ صرف مُنہ کے انکار کا نتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کا شکار بننے کے لئے بہت سی شرطیں ہیں۔ کوئی انسان دوزخ میں نہیں جاسکتا جب تک اُس پر حُجّت تمام نہ ہو۔ خواہ وہ بڑی سے بڑی صداقت کا ہی مُنکر کیوں نہ ہو۔ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بچپن میں مَر جانے والے یا بُلند پہاڑوں میں رہنے والے یا جنگلوں میں رہنے والے یا اتنے بڈھے جن کی سمجھ ماری گئی ہو یا پاگل جو عقل سے کورے ہوں اِن لوگوں سے مؤاخذہ نہیں ہوگابلکہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن اِن لوگوں کی طرف دوبارہ نبی مبعوث فرمائے گا’’۔ 272
اِس حوالہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کی اُس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو رُوح المعانی میں مروی ہے۔ 273
پھر لکھا ہے:-
‘‘نجات کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ صداقت اُس کے کان میں نہ پڑے تاکہ اُسے ماننی نہ پڑے۔ یا جس پر حجت تمام ہو جائے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے خدا تعالیٰ کے نزدیک قابلِ مؤاخذہ ہے’’۔ 274
اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ موجودہ امامِ جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان ایسے کافر نہیں جو ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہوں اور اُن کے نزدیک نجات کا تعلق محبتِ الٰہی پر ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے اندر محبتِ الٰہی رکھتا ہے تو اگر اُس کے اندر کچھ غلطیاں بھی ہیں اور بعض قسم کا کُفر بھی پایا جاتا ہے تب بھی اﷲ تعالیٰ اُس کی نیک نیتی کو دیکھ کر اور اُس کی محبت کے جذبات کو دیکھ کر اُس کی بخشش کے کوئی نہ کوئی سامان کر دے گا۔
جماعتِ احمدیہ کی طرف سے لفظِ کافر کا کم سے کم استعمال
اِس جگہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب کہ احمدی جماعت کُفر کے معنے بھی اور کرتی تھی اور ان الفاظ کو صرف جواباً استعمال کرتی تھی تو
پھر کیوں اُن کی طرف سے کوشش نہیں ہوئی کہ ان الفاظ کا استعمال کم کیا جائے یا روکا جائے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری طرف سے ایسی کوشش ہوتی رہی ہے۔ چنانچہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب ‘‘انجام آتھم’’ میں اِس تحریک کو پیش کیا تھا کہ:-
‘‘نہ ہمیں غیر احمدی علماء گالیاں دیں نہ ہم اُن کا جواب دیں اور اس طرح سات سال تک خاموشی سے گزار دیں۔ اِس عرصہ میں خدا کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے اور ان دنوں میں مجھے اسلام کے دُشمنوں سے مقابلہ کرنے کی مُہلت دی جائے۔ اگر مَیں اِن ایّام میں اسلام کی کوئی عظیم الشان خدمت کر لوں تو خود مسلمانوں کی سمجھ میں آجائے گا کہ مَیں اسلام کا خادم ہوں، دُشمن نہیں اور اگر مَیں ایسا نہ کر سکوں تو پھر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مَیں اسلام کا خیر خواہ نہیں’’۔275
اِسی طرح 26فروری 1899ء کو آپ نے ایک اعلان اپنی جماعت کے نام شائع کیا اور اُس میں لکھا کہ:-
‘‘کسی کے دل کو ان الفاظ سے دُکھ نہ دیں کہ یہ کافر ہے یا دجّال ہے یا کذّاب ہے یا مُفتری ہے...... ہم نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ٢٧ میں شیخ محمد حسین اور اُس کے گروہ سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ سات سال تک اس طور سے ہم سے صُلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بدزبانی سے مُنہ بند رکھیں اور انتظار کریں کہ ہمارا انجام کیا ہوتا ہے لیکن اُس وقت کسی نے ہماری یہ درخواست قبول نہ کی اور نہ چاہا کہ کافر اور دجّال کہنے سے باز آجائیں۔ یہاں تک کہ عدالت کو اب امن قائم رکھنے کے لئے وہی طریق استعمال کرنا پڑاجس کو ہم صلحکاری کے طور سے چاہتے تھے’’۔276
یہ دوسری کوشش تھی۔ مگر اس کے باوجود غیر احمدی علماء اپنی کُفر بازی سے باز نہ آئے۔ اِس کے بعد 1910ء میں جماعت احمدیہ میں باہم اختلاف پیدا ہوگیا اور کچھ احمدیوں نے غیر احمدیوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے مرزا صاحب کو ایسے رنگ میں پیش کرنا چاہا کہ اُن کا وجود اور عدمِ وجود برابر ثابت ہوتا تھا۔ تب جماعت احمدیہ کے اُس حصّہ نے جو کہ مرزا صاحب کی آمد کو اہم قرار دیتا تھا اُن اصطلاحات کے مطابق جو کہ احمدیوں میں پائی جاتی ہیں اور جن کا اُوپر ذکر کیا جاچُکا ہے اِس مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن اُس وقت اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کسی وقت یہ باہمی گُفت و شُنید پبلک میں افتراق پیدا کرنے کا ذریعہ بنائی جائیگی لیکن یہ گفت و شنید بھی 1922ء تک ختم ہوگئی۔ 1922ء کے بعد کوئی کتاب امامِ جماعت احمدیہ کی طرف سے ایسی نہیں نکلی جس میں اس مضمون کے متعلق اظہارِ خیالات کیا گیا ہو۔ اگر کوئی تحریر شائع ہوئی ہے تو وہ صلح کی تائید میں شائع ہوئی ہے۔ چنانچہ امامِ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے ایک تحریر ‘‘ریویو آف ریلیجنز اُردو’’ جولائی 1922ء میں شائع ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:-
‘‘جو شخص غیر احمدیوں کو کافر، یہودی اور جاہل بِلا ضرورت کہتا پھرتا ہے وہ درحقیقت شریعت کا مجرم اور فتنہ انگیز ہے۔ اگر غیراحمدی اُس کے نزدیک کافر ہیں تو اُس کو یہ کہاں سے حق حاصل ہو گیا کہ وہ اُن کو کافر کہتا پھرے..... بِلا وجہ اور بے ضرورت اِس قسم کے مضامین اخبار میں نکالنا اور زبانی کہتے پھرنا واقع میں فتنہ کا مؤجب ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو مَیں اُس کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق کو درست کرے ورنہ وہ خدا کے نزدیک گنہگار ہے’’۔
اِسی طرح یکم مئی 1935ء کو آپ کا ایک خطبہ الفضل میں چَھپا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ:-
‘‘اب بھی ہمیں کس طرح بار بار اُن کی طرف سے کافر کہا جاتا ہے اور اخبارات میں لکھا جاتا ہے۔ کیا ہمارے اخبارات میں بھی لکھا جاتا ہے کہ احراری کافر ہیں؟ ہم تو کہتے ہیں جو کسی کو بِلا وجہ کافر کہتا ہے وہ اُس کی دِل آزاری کرتا ہے’’۔
پس ہماری طرف سے برابر یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ ان الفاظ کو استعمال نہ کیا جائے لیکن احرار اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے ان الفاظ کو کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ الفاظ جو کسی زمانہ میں صرف جواباً استعمال کئے گئے تھے اور جو گزشتہ پچاس برس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی استعمال نہیں کئے گئے اشتعال دلانے کے لئے اُن کا باربار ذکر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی کو پیٹھ پیچھے گالی دی اور دوسرے شخص نے وہ گالی اُس کو پہنچا دی تو اُس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی نے کسی شخص کو تیر مارا اور وہ لگا نہیں لیکن دوسرے شخص نے وہ تیر اُٹھایا اور اُس کے سینہ میں گھونپ دیا۔