• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 25

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 25







سیر روحانی (8)
(28 دسمبر 1954ء)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی





بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

سیر روحانی (8)

(فرمودہ 28دسمبر 1954ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ''سیر روحانی'' کے اہم موضوع پر تقریر کرنے سے قبل حضور نے احباب جماعت کو بعض ضروری امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:-
‘‘کل کی تقریر ایسی حالت میں ہوئی کہ جیسا کہ میں نے بتایا تھا علاوہ سینہ میں درد، نزلہ کی شکایت اور بخار کی شکایت کے کمر کی درد بھی تھی جس کی وجہ سے بہت سے مضامین ذہن میں سے نکل گئے اور جو اصل مضمون آخر میں تھا جو کہ مقصود تھا تقریر کا وہ بھی بیان نہیں ہو سکا۔ تمہید میں سے بھی صرف تھوڑا سا حصہ مضمون کا بیان ہو سکا ہے۔ اس تکلیف کی وجہ سے کئی باتیں جن کے بیان کرنے کی کئی لوگوں نے خواہش کی تھی یا مختلف اداروں نے اپنے آپ کو متعارف کرانے کی خواہش کی تھی وہ میرے ذہن سے نکل گئے۔ اس لئے ان باتوں کو میں آج بیان کرتا ہوں۔
مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ معائنہ کے نتائج
ایک تو خدام الاحمدیہ کا سالانہ فیصلہ ہے کہ
کونسی مجلس اچھی رہی۔ علاوہ خدام الاحمدیہ کی رپورٹوں کے مجلس خدام الاحمدیہ نے انسپکٹر بھجوا کر مختلف انجمنوں کے کام دیکھے اور اس پر ایک فیصلہ کیا۔ ان کی رائے یہ ہے کہ کراچی کو 72 ¾/100 نمبر ملے ہیں اور لاہور کو 71 ½/100 اور راولپنڈی کو 66 ½/100اور گوکھووال کو 48/100اور خانیوال کو 44/100۔یہ گویا پانچ جماعتیں اس ترتیب کے ساتھ آئیں۔ اوّل کراچی، دوم لاہور، سوم راولپنڈی، چہارم گوکھووال اور پنجم خانیوال۔ قاعدہ کی رو سے جو جماعت اوّل رہے اس کو لوائے خدام الاحمدیہ اس سال کے لئے ملنا چاہئے۔ مجلس کی سفارش ہے کہ لاہور کی جماعت نے چونکہ اس دفعہ غیر معمولی کام کیا ہے اس لئے اس سال لاہور کی جماعت کو باوجود دوم رہنے کے لواء دے دیا جائے اور کراچی کی جماعت چونکہ پہلے سے ہی اچھاکام کرتی چلی آ رہی ہے اس لئے اس کو نہ دیا جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لاہور کی جماعت خدام الاحمدیہ نے اس سال بہت عمدہ کام کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک نیم مُردہ سی جماعت تھی جس میں زندگی کی روح پھونک دی گئی اور اس خدمت کا سہرا اُن کے قائد محمد سعید اور ان کے چار پانچ مددگاروں پر ہے جنہوں نے محنت کے ساتھ ان کا ساتھ دیا اور اس مجلس کی تنظیم میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ پچھلے سیلاب کے موقع پر انہوں نے غیر معمولی طور پر کام کیا اور پھر غیر معمولی طور پر اس کو دنیا کے سامنے روشناس بھی کرایا۔ پس اس لحاظ سے وہ خاص طور پر تعریف کے قابل ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم اگر نمبر بدل ڈالنے کی رسم ڈال دیں گے تو اس سے بجائے حوصلہ بڑھنے کے اعتراض پیدا ہو گا۔ ہمیں ان کے اچھے کام کی مختلف مواقع پر تعریف کردینی چاہئے لیکن ساتھ ہی ہم کو یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ جو اوّل نمبر پر ہے اُس کو اوّل نمبر ہی دیا جائے تا کہ آئندہ دوسرے کسی موقع پر کسی کی جنبہ داری یا کسی کی ناجائز تائید کا سامان پیدا نہ ہو۔ پس میں باوجود مجلس کی سفارش کے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لواء حسبِ قاعدہ جماعت کراچی کو دیا جائے۔لیکن ساتھ اس کے میں لاہور کی جماعت کی تعریف بھی تمام دوستوں کے سامنے کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ ہرجماعت ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کی شناخت بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ تسابق اختیار کرتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش یقیناً ہر قوم کے معیار کو اتنا بلند لے جاتی ہے کہ اس کا انسان قیاس بھی نہیں کر سکتا۔ جب کبھی نیکی دنیا سے مفقود ہو جائے یا جب کبھی نیکی میں آگے بڑھنے کی روح مفقود ہو جائے اُس وقت قوم یا مرنا شروع ہو جاتی ہے یا گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن جب تک تسابق کی روح کسی قوم میں قائم ہو اُس وقت تک خواہ وہ کتنی بھی ذلت میں پہنچی ہوئی ہو اور کتنی بھی گری ہوئی ہو پھر بھی چمک دکھلاتی چلی جاتی ہے اور اس کے لئے موقع ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھے۔
ہمارے قریب کے بزرگان میں سے ایسے زمانہ میں جب مسلمانوں پر ایک قسم کے تنزل کی حالت آ گئی تھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ تسابق کی وجہ سے ان لوگوں کے واقعات کو سن کر انسان کے دل میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے۔سید اسماعیل صاحب شہید جو تیرھویں صدی میں گزرے ہیں شاہ ولی اللہ صاحب کے وہ نواسے تھے اور سید احمد صاحب بریلوی کے مرید تھے۔ سید احمد صاحب بریلوی سکھوں سے جہاد کرنے کے لئے پشاور کی طرف گئے ہوئے تھے یہ کسی کام کے لئے دلّی آئے ہوے تھے تاکہ اپنے اقرباء سے مشورہ کریں۔ زیادہ تر ان کاکام یہ ہوتا تھا کہ شاہ اسحٰق صاحب جو شاہ ولی اللہ شاہ صاحب کے پوتے تھے اُن سے مشورہ کر کے سید صاحب تک ان کی رائے پہنچا دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ دہلی سے واپس جا رہے تھے جب کیمل پور کے مقام پر پہنچے تو کسی نے ذکر کیا کہ اس دریا کو یہاں سے کوئی شخص تیر کر نہیں گزر سکتا۔ اس زمانہ میں صرف فلاں سکھ ہے جو گزر سکتا ہے مسلمانوں میں سے کوئی اس کا مقابلہ کرنے والا نہیں۔ وہ جارہے تھے جہاد کے لئے، جارہے تھے اپنے پِیر کی مدد کے لئے۔ وہیں ٹھہر گئے کہ اچھا ایک سکھ ایسا کام کرتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا۔ اب جب تک میں اس دریا کو پار نہیں کر لوں گا میں یہاں سے نہیں ہلوں گا چنانچہ وہاں تیرنے کی مشق شروع کی۔ چارپانچ مہینوں میں اتنے مشّاق ہوئے کہ تیر کر پار گزرے اور پار گزر کر بتا دیا کہ سکھ ہی نہیں ہیں اچھے کام کرنے والے مسلمان بھی جب چاہیں اُن سے بہتر کام کر سکتے ہیں۔ تو دیکھو یہ ایک تسابق کی روح تھی اور اِسی تسابق کی روح کو جب بھی ہم اپنے سامنے لاتے ہیں تو ہماری روحوں میں ایک بالیدگی پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارے دلوں میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارے دماغوں میں عزم پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم اب مخالف یا مدِمقابل یا رقیب سے کسی صورت میں دبیں گے نہیں۔
پس خدام کی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ کوشش کریں کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہمیں مدِ نظر رکھنا چاہیئے کہ جو ہم نے قانون بنایا ہے اُس کو کسی چھوٹی سی وجہ سے نہ توڑیں۔ انہوں نے اچھا کام کیا ہے ہم نے اس کو کئی جگہ بیان کیا ہے اور تعریف کر دی ہے۔ میرے کئی خطبوں میں ذکر آ گیا مَیں اب بھی ان کی تعریف کر رہا ہوں، خدام کے جلسہ میں بھی ان کی تعریف کی۔ اتنی تعریفوں کے بعد انہیں یہ کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کراچی کا لواء ان کے حوالے کر دیں۔ جہاں انہوں نے اتنا قدم بڑھایا ہے کہ ایک سست جماعت سے ایک زندہ جماعت بنے ہیں وہاں اگر وہ کوشش کریں اور کراچی کے نوجوانوں والی خدمات پیش کریں تو لواء بھی لے سکتے ہیں۔ میں کراچی کے خدام کی ساری باتیں بیان نہیں کر سکتا لیکن درحقیقت انہوں نے جو قربانی کی ہے ابھی تک لاہور کی قربانی اُس کو پہنچتی نہیں۔ تو اگر وہ کوشش کریں تو مجلس کی کراچی والوں سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور لاہور والوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ وہ یقیناً لاہور ہو یا گوجرانوالہ یا سیالکوٹ ہو جو جماعت بھی آگے نکلے گی وہ اُس کو لواء دیں گے۔ (الفضل 11جنوری1955ء)
اسکے بعد حضور نے بعض جماعتوں اور افراد کی طرف سے آنے والی تاریں پڑھ کر سُنائیں اور پھر فرمایا:-
‘‘اس کے بعد میں کل کی باتوں سے جو چند تحریکیں لوگوں نے کرنے کے لئے کہا تھا اُن کو پیش کرتا ہوں۔
سلسلہ کے اخبارات
ہمارے سلسلہ کے اخبارات میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ایک خصوصیت رکھتا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت
کے لوگوں میں اخباروں کے پڑھنے کا چرچا اور رواج ذرا کم ہے۔ اس کی وجہ سے جو ان کی شہرت ہونی چاہیئے اور جو ان کا فائدہ ہونا چاہیئے وہ پوری طرح نہیں پہنچتا۔
الفضل
سب سے مقدّم چیز تو ''الفضل'' ہے۔ الفضل روزانہ اخبار ہے اور الفضل ہی ایک ایسا اخبار ہے جس کے ذریعہ سے ساری جماعتوں تک آواز پہنچتی ہے
لیکن متواتر ہم کو آجکل یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ کئی جماعتیں ایسی ہیں کہ ساری جماعت میں ایک الفضل بھی نہیں پہنچ رہا حالانکہ چھوٹی جماعتیں آپس میں چندہ کر کے اور آپس میں مل کر ایک ایک اخبار خرید سکتی ہیں۔ درحقیقت دو ہی چیزیں ہیں جو قوم کی ترقی پر دلالت کرتی ہیں ایک اخبار اور ایک ریلوے کا سفر یا لاری کا سفر۔ جو قوم سفر زیادہ کرتی ہے وہ ضرور کامیاب ہو تی ہے اور جس قوم میں اخبار زیادہ چلتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے۔ کیونکہ اخبار پڑھنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس شخص کی روح نِچلی1 نہیں بیٹھ سکتی۔ اس کے اندر ایک اضطراب پایا جاتا ہے۔ اخبار کیا کرتا ہے؟ وہ ہر روز ہم کو ایک نئی خبر دیتا ہے۔ جس دن اخبار نہیں آتا تو لوگ جس طرح افیون نہیں کھائی ہوتی گھبرائے پھرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں دنیا کے انقلاب کا پتہ نہیں لگتا۔ اور جو شخص انقلاب کی جستجو کرتا ہے درحقیقت اس کے اندر بھی ایک انقلابی مادہ پایا جاتا ہے۔ تو قوم کی ترقی کا اگر کسی شخص نے اندازہ لگانا ہو تو وہ دو چیزیں دیکھ لے کہ وہ قوم کتنا سفر کرتی ہے اور اخبار کے ساتھ اس کو کتنی دلچسپی ہے۔
میں جب فلسطین میں گیا تو اُس وقت یہودی سارے ملک کی آبادی کا دسواں حصہ تھے اور دسواں حصہ عیسائی تھے اور اسّی فیصدی مسلمان تھے لیکن ریلوں میں مَیں نے سفر کر کے دیکھا تو یہودی ہوتا تھا قریباً ستّر فیصدی اور عیسائی ہوتا تھا کوئی پندرہ بیس فیصدی اور مسلمان ہوتا تھا دس فیصدی ۔ میرے پاس ایک سفر میں ایک یہودی آیا وہ ریلوے کا افسر تھا۔ میں تو اُس کا واقف نہیں تھا نہ پہلے کبھی ملا۔ معلوم ہوتا ہے یہودیوں نے ہماری بھی ٹوہ رکھی تھی۔ وہ آیا اور اس نے کہا کہ میں نے آپ سے ملنا ہے۔ وہیں کمرہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ کہنے لگا کہ میں ریلوے کا افسر ہوں اور شام وغیرہ جاتے وقت بارڈر کی نگرانی میرے سپرد ہے۔ میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہو۔ کہنے لگا میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے کیوں مخالف ہیں؟ میں نے کہا تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں مخالف ہوں؟ کہنے لگا میں سن رہا ہوں کہ آپ ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں مخالفت کروں یا کچھ کروں (اُس وقت میں نے یہی بات کہی کہ) میری مخالفت تم جانے دو میں نے یہاں تو یہ نظارہ دیکھا ہے چنانچہ ریل پر دیکھ لو ابھی چلو اس وقت اگلے اسٹیشن پر (اُس وقت گاڑی چل چکی تھی) جب اگلا اسٹیشن آئے گا اُس وقت دیکھ لینا کہ ریل میں ستّر فیصدی یہودی بیٹھا ہؤا ہے، پندرہ بیس فیصدی عیسائی بیٹھا ہؤا ہے باقی دس فیصدی اسّی فیصدی کا نمائندہ بیٹھا ہؤا ہے۔ تو میں مخالفت کروں یا کوئی کرے جب تک مسلمان اپنا نظریہ نہیں بدلیں گے، اپنے حالات نہیں بدلیں گے، اپنا طریقہ نہیں بدلیں گے جیتنا تم نے ہی ہے انہوں نے تو جیتنا نہیں۔ گھبراتے کس بات سے ہو؟ اور پھر یہی ہؤا۔ آخر اُس قوم میں جو باہر نکلتی ہے اور بھاگی پھرتی ہے کوئی نہ کوئی بے کلی کی وجہ ہوتی ہے یونہی تو نہیں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کھڑے ہوتے۔ ان کے اندر ایک جوش ہوتا ہے، ایک ارج (URGE) ہوتی ہے پیچھے سے کہ چلو چلو چلو۔ اور وہ چلو چلو کی ارج (URGE) کے ماتحت چل پڑتے ہیں اور پھر ان کا بچہ بڑا ہر ایک اس میں کام کرتا ہے۔
امریکنوں کو دیکھ لو ساری دنیا کا سفر کرتے پھریں گے۔ پہلے انگلستان والے کرتے تھے اور اب ان میں کمی آ گئی ہے اب امریکن ہیں کہ ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں۔ کسی زمانہ میں عرب میں یہ رواج تھا بلکہ اب بھی یہ بات حجاز کے لوگوں میں کسی قدر پائی جاتی ہے، اب بھی وہ دنیا کے سارے اسلامی ملکوں کے باشندوں سے زیادہ غیرملکوں میں پھرتے ہوئے نظر آ جائیں گے۔ کیونکہ وہ دھکّا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا اور گاڑی چلائی تھی وہ گاڑی اب بھی رینگتی چلی جاتی ہے۔ چودہ پندرہ سو سال ہو گئے مگر اس گاڑی کی حرکت ساکن نہیں ہوئی۔ تو اخبار ایک دلیل ہوتا ہے اِس بات کی کہ قوم کے اندر کتنی بیداری ہے، کتنا اضطراب ہے اور انقلاب کی کتنی خواہش ہے۔ اگر کوئی قوم اخباروں کی طرف توجہ نہیں کرتی تو یقیناً وہ اپنی ترقی کی پوری طرح خواہش نہیں رکھتی۔ پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ پورے زور سے الفضل کو پھیلانے کی کوشش کریں۔
بدر
ہندوستان کے لئے ہمارا اخبار ''بدر'' ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک اس نے پوری ترقی نہیں کی۔ ہمارے قادیان کے دوست جب گھبراتے ہیں تو مجھے لکھ دیتے
ہیں کہ جماعت پاکستان کو ''بدر''کے لئے توجہ دلائی جائے۔حالانکہ یہاں کے لئے ''الفضل'' ہے۔ہندوستا ن کے احمدیوں کے لئے ''بدر ''ہے۔اگر پاکستان کے احمدیوں کے خریدنے سے ''بدر'' نے چلنا ہے تو ''بدر'' نے کوئی انقلاب ہندوستان میں پیدا نہیں کرنا۔ وہ تبھی کوئی انقلاب مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرے گا جب ہندوستان کے مسلمانوں تک اسے پہنچایا جائے۔انقلاب سے میری مراد کوئی سیاسی انقلاب نہیں کیونکہ وہ ہمارا کام نہیں۔انقلاب سے مراد ہے روحانی انقلاب، مذہبی انقلاب۔ تو میں ان کی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ میں پاکستا ن کے احمدیوں کو کہوں کہ تم ضرور ''بدر'' کو خریدو اور پھیلاؤ۔ اگر پاکستان کے لوگوں کے خریدنے پر بدر آگیا تو پھر بدر کا بند ہونا ایسا معیوب نہیں سمجھا جائے گا۔ہندوستان میں بھی خداتعالیٰ کے فضل سے ہزارہا احمدی ہے۔میر ے خیال میں اب بھی بیس پچیس ہزار تو ہو گا ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہندوستان کے لوگوں میں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنائیں اورپھر دوسرے لوگوں میں بھی مقبول بنائیں۔ اگر وہ اچھے اچھے مضمون لکھیں اورایسے لکھیں جن سے مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو،ان میں مذہبی رجحان پیدا ہو،نیکی پیدا ہو تو دوسرے مسلمان بھی اسے خریدیں گے۔ بلکہ میں نے تو دیکھا ہے کہ ہندوؤں میں بھی یہ شوق پایا جاتا ہے اور ہندو بھی خریدتے ہیں۔دلوں میں تحریک جس وقت پیدا ہوتی ہے لوگ خریدنے لگ جاتے ہیں۔ ا لفضل جب میں نے جاری کیا تھا اُس وقت یہ پہلے ہفت روزہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے اِس طرح چلانے کی توفیق دی کہ باوجود اِس کے کہ ہماری سخت مخالفت تھی اور لوگ کہتے تھے یہ نہیں چلے گا۔ ابھی پانچ سات ہفتے ہی گزرے تھے کہ مجھے سندھ سے ایک غیر احمدی کی چٹھی آئی۔ کسی نے اُسے مل کر تحریک کی کہ تم خریدار ہو جاؤ اور وہ خریدار ہوگیا۔ کسی وقت ڈاک میں اُس کا اخبار لیٹ ہو گیا تو اُس کی مجھے چٹھی آئی کہ میں نوجوان آدمی ہوں، میں نے ''الفضل'' خریدنا شرو ع کیا ہے اورمجھے جو اس سے محبت اورپیار ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ تین ہفتے ہوئے میری شادی ہوئی ہے اور مجھے اپنی بیوی بہت پیاری ہے۔مگر اس دفعہ اخبار نہیں پہنچااور میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ اگر میری بیوی مرجاتی تو مجھے زیادہ صدمہ ہو تا یا الفضل نہیں پہنچاتو اس سے زیادہ صدمہ ہؤا ہے۔ تم اس سے اندازہ لگا سکتے ہو کہ کس قدر اُس کو لگاؤ تھا ۔یہ توایک عام آدمی تھا۔ کہہ دو گے کہ شاید اُس کو زیادہ واقفیت نہیں ہوگی مگر اب ملک کے ایک چوٹی کے آدمی کا واقعہ سن لو۔ابوالکلام صاحب آزاد اُنہی دنوں میں قید ہوئے۔ اُن کے پاس یہ اخبار جاتا تھا۔ اُن کے سیکرٹری کی مجھے چٹھی آئی کہ ابو الکلام صاحب آزاد کو گورنمنٹ نے نظر بند کر دیا ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ہم آپ کو ایک اخبار کی اجازت دیتے ہیں تو انہو ں نے صرف ''الفضل'' کی اجازت مانگی ہے اور کہا ہے کہ ''الفضل'' مجھے باقاعدہ ملتا رہے۔ تو اَب دیکھو دوسرے لوگوں کے اوپراِس کا کس قدر اثر تھا۔دوسرے لوگوں پر اُس وقت اثرہوسکتا تھا تو آج بھی ہو سکتا ہے۔ تم اس کو زیادہ عمدہ بنانے کی کوشش کرو گے تو لوگوں میں آپ ہی آپ وہ مقبو ل ہونا شروع ہوجائے گا۔ تو بدرکے متعلق میں تحریک تو کرتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نہ خریدو۔ اگر کوئی شخص خریدنا چاہتا ہے اور ہندستان کے حالات معلوم کرنا چاہتاہے اور قادیان کے حالات معلوم کرنا چاہتا ہے تو بے شک خریدے مگرمیں اُس زور سے جیسے الفضل کی تحریک کرتا ہوں اِس کی نہیں کرتا ۔ اس لئے کہ میرے نزدیک اس کا مقام ہندوستان ہے۔ اگر ہم لوگ اس کو روپیہ دے کرکھڑاکرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی کہ وہ ہندوستان میں اس کو مقبول بنائیں۔
ریویو آف ریلیجنز
تیسری چیز ہمارے ہاں ریویو ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار ہے۔ اِس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
زمانہ کا پرچہ اور ایسا پرچہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود حصہ لیا تھا اور اس میں مضمون لکھے تھے سوائے ریویو کے جماعت میں اورکوئی نہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ دس ہزار پرچہ کم سے کم شائع ہولیکن اِس وقت تک صرف ایک ہزار شائع ہوتا ہے اور وہ ہزار پرچہ بھی جماعت کا ممنونِ احسان نہیں۔ہزار پرچہ کی قیمت تحریک جدید دیتی ہے اور پھر اس کو عیسائی علاقوں میں یادوسرے علاقوں میں مُفت شائع کیا جاتا ہے۔ جو خریدارجماعت کی طرف سے ملا ہے (اگرکوئی خریدار آجاتا ہے تو تحریک اس کو بھی دے دیتی ہے)اس کے متعلق جومیرے پاس رپورٹ آئی تھی وہ شاید دو سو یا ڈیڑھ سو کے قریب خریدار تھے۔باقی سارے کے سارے وہ ہیں جن کو جماعت کی طرف سے مفت تقسیم کیا جاتاہے۔ یہ امریکہ میں جاتا ہے، انگلینڈمیں جاتا ہے، جرمنی میں جاتاہے ۔اِسی طرح مختلف ممالک میں جاتاہے۔یہ فلپائن سے جو بیعت آئی ہے غالباًیہ بھی اِسی طرح آئی ہے۔ ہم نے فلپائن وغیرہ میں بھی پرچے بھجوانے شروع کئے تھے۔ تویہ پہلی بیعت غالباً اِسی ریویوکی اشا عت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تو ریویوآف ریلیجنزکی طرف بھی جماعت کو توجہ ہونی چاہیے۔اب ہماری جماعت اِتنی ہے کہ دس ہزار پرچہ شائع ہوجاناکوئی بڑی بات نہیں۔اِس کی دس روپے قیمت ہے۔دس ہزار کے دس روپیہ قیمت ہوئی تو ایک لاکھ روپیہ ہوگیا۔ تم سالانہ چندوں میں اٹھارہ بیس لاکھ اپنی خوشی سے دیتے ہو۔ اب اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک لاکھ روپیہ سالانہ دے کر اس کو بیچنا شروع کریں تو یقیناً دو چار سال میں ہی پچیس، تیس، چالیس ہزار وہ اپنی آمد خود پیدا کر لے گا۔ اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی لاگت کم ہو جائے کیونکہ پرچہ جب زیادہ چھپے تو اُس کی لاگت کم ہو جاتی ہے۔ اِس وقت اِس کی لاگت دس روپے ہے۔ اگر یہ دس ہزار چھپے تو میں سمجھتا ہوں کہ آٹھ سات روپے ہو جائے گی اور ستّر پچھتر ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو گا۔ اور یہ دس ہزار پرچہ دنیا کی تمام لائبریریوں میں جانا شروع کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ سال دوسال کے اندر تہلکہ پڑ جائے گا۔
فرقان
چوتھا پرچہ ‘‘فرقان’’ ہے۔ فرقان میں اس امر کو مدنظر رکھا جاتاہے کہ علمی مضامین اس کے اندر آئیں اور جماعت اسلامی والے جو نئی نئی باتیں
پیش کرتے ہیں یا ''طلوعِ اسلام''والے پیش کرتے ہیں یااہلِ قرآن یا بہائی پیش کرتے ہیں اُن کا جواب دیا جائے۔ گو یا جتنی نئی مذہبی تحریکیں ہیں اُن نئی مذہبی تحریکوں کے جواب کے لئے یہ رسالہ خصوصیت سے وقف ہے۔ دوسرے اخبار یا رسالے ایسا نہیں کر سکتے۔ الفضل یہ نہیں کر سکتا کیونکہ الفضل روزانہ اخبار ہے۔ روزانہ اخبار ان باتوں میں نہیں پڑ سکتا۔ ریویو بھی اس کو نہیں لے سکتا کیونکہ ریویو غیرملکوں میں جانے والا رسالہ ہے۔ اس کا اصل کام اسلامی نقطہ نظر سے لوگوں کو روشناس کرانا ہے اور چونکہ غیر ملکوں میں اس نے جانا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس میں جماعت اسلامی پر بحث کریں یا طلوعِ اسلام پر بحث کریں۔ امریکہ کو یا جاپان کو یا سوئٹزرلینڈ کو یا آسٹریلیا کو یانیوزی لینڈ کو یا انگلینڈ کو'' طلوعِ اسلام'' والوں سے یا جماعت اسلامی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں جانتے ۔وہ ہمیں جانتے ہیں یااسلام کے نام کو جانتے ہیں اِس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ اُن لوگوں کے سامنے خواہ مخواہ اِن کے مضامین کو لانے کی کیا ضرورت ہے اِس لئے ریویو بھی ہمارے اس کام نہیں آ سکتا۔ پھر یہ ایک ایسا پرچہ ہے جو اردو میں نکلتا ہے اور اِس میں اِس قسم کے مضامین نکلنے سے یقیناً فائدہ ہوتا ہے کیونکہ یہ مضامین زیادہ تر پاکستان میں زیرِ بحث آتے ہیں اور پاکستان میں ایسے لوگ ہیں جن کو ان سے دلچسپی ہے۔
خالد
علاوہ اِس کے خدام الاحمدیہ کا پرچہ ''خالد'' ہے۔وہ ایک خاص جماعت کا پرچہ ہے۔ میں ساری جماعت کو تو نہیں کہتا۔ اِس جماعت کو کہتا ہوں کہ تم اپنے اندر
بیداری پیدا کرنے کے لئے اور اپنے مرکز سے یعنی خدام کے مرکزی دفتر سے وابستگی رکھنے کے لئے ''خالد'' کی اشاعت اپنے حلقہ میں وسیع کرنے کی کوشش کرو۔
دُنیوی اخبار
پھر ہر جماعت کے لئے کوئی نہ کوئی دنیوی اخبار بھی چاہئے۔ میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا کہ بعض اخبار ایسے ہیں جو ہمارے ساتھ انصاف
کا معاملہ کرتے ہیں،بعض ایسے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے ہمارا نقطہ نگاہ پہنچ جاتا ہے۔ وہ گو ہمارے ساتھ شامل نہیں ہیں لیکن ہمارے میانہ روی کے جو خیالات ہیں ان سے وہ متفق ہیں۔ اسی طرح بعض اخبارات ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایسے لوگوں کا تعلق ہے کہ جو ہمارے خیالات سے بالکل متفق ہیں گو وہ دنیوی اخبار ہیں۔ تو ہمیں چاہئے کہ بہرحال ایسے اخبار خریدیں۔ کیونکہ اگر ہم ان کو نہ خریدیں گے، دشمن کے اخباروں کو خریدیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم دشمن کو پیسہ دیتے ہیں کہ وہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرے مثلاً ایک شخص نے دنیوی اخبار خریدنا ہے وہ اگر ''سِول'' خریدے ''ملت'' خریدے ''المصلح'' خریدے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے پیسہ کے ذریعہ ایسے خیالات کی اشاعت ہو گی جن میں میانہ روی پائی جائے گی، جن میں امن پسندی پائی جائے گی، جن میں حکومت کے ساتھ تعاون پایا جائے گا۔ لیکن اگر وہ ''تسنیم'' خریدنا شروع کر دیں یا اور ایسے ہی اخبار خریدنے شروع کر دیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس روپیہ کے ساتھ گورنمنٹ کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے، اسلامی جمہوریت کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے، جماعت احمدیہ کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے۔ تو کیا فائدہ ہے ایسے پرچہ کو روپیہ دینے کا جس کے ذریعہ سے ہمارا ملک کمزور ہو، ہماری حکومت کمزور ہو، ہم خود کمزور ہوں۔ یہ تو اوّل درجہ کی حماقت ہے۔ اگر کوئی احمدی ایسا کرتا ہے اور وہ کہتا ہے مجھے وہ پرچہ زیادہ دلچسپ نظر آتا ہے تو ہم بھی اُس کو یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہمیں بھی تمہاری حماقت بڑی دلچسپ نظر آتی ہے۔ تمہاری مثال بالکل وہی ہے جیسا کہ چیتا اپنی زبان چاٹ چاٹ کر کھا گیا تھا۔ تم زبان کے چسکے لیتے رہو اور اپنی موت کے وارنٹ پر دستخط کرتے رہو۔ تم اگر ایسے احمق ہو گئے ہو تو تمہاری نجات کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے تم تو اپنی ہلاکت کو آپ چاہتے ہو۔
المصلح خریدیں
پس جو دنیوی اخبار لینا چاہیں اور لازماً لینے پڑتے ہیں اس کے لئے میں دوستوں کو کہوں گا کہ جس علاقہ میں ''المصلح'' جاتا ہے وہ
''المصلح'' خریدیں۔مثلاً سندھ کا علاقہ ہے، اِسی طرح ملتان تک کا علاقہ ہے ان کو چاہیئے کہ اس کی خریداری کریں۔ وہ نہایت عمدگی سے خبریں دیتے ہیں۔ کبھی کبھی کمزوری بھی آ جاتی ہے کیونکہ وہ زیادہ منظم اخبار نہیں ہے۔ نہ اتنی طاقت والا ہے کہ اس کے بہت سارے ایڈیٹر ہوں۔ لیکن عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ وہ خبروں میں قریباً ادھر کے اخبارات کے برابر برابر پہنچ جاتا ہے اور کراچی اور حیدر آباد اور کوئٹہ وغیرہ میں تو یقیناً وہ ''سِول'' اور ''الفضل'' وغیرہ سے بہت پہلے خبریں دے گا۔ اِسی طرح ''سِول'' ہے ''ملت'' ہے ''لاہور'' ہے جو ہفتہ واری ہے۔ جنہوں نے ہفتہ واری خریدنا ہو وہ خواہ مخواہ ایسا پرچہ کیوں خریدیں جو حکومت اور ملت سے ٹکراتا ہو۔ ایسا پرچہ کیوں نہ خریدیں جو ملت سے بھی نہیں ٹکراتا، حکومت سے بھی نہیں ٹکراتا اور ہمارے ساتھ بھی نہیں ٹکراتا۔ اِسی طرح لاہور اور پنجاب میں ڈیلی پرچہ اگر کسی نے خریدنا ہی ہے تو کیوں نہ وہ ''سول'' اور ''ملت'' خریدے جس کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں۔
ہماری پالیسی
آخر ہماری پالیسی یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ اس کی بھی یہی پالیسی ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔ ہماری
پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے افتراق کو دور کیا جائے اور ان کو ٹکڑے ہونے سے روکا جائے ۔ یہی پالیسی ''ملت'' اور ''سِول'' کی بھی ہے۔ اگر وہ ہماری اس پالیسی کے ساتھ متفق ہیں۔ چاہے وہ ہماری جماعت کے نہیں، چاہے وہ ہمارے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے لیکن اگر اُن کا زاویہ نگاہ ہمارے ساتھ اِس وقت متفق ہو گیا ہے (کل کو مخالف ہو جائیں گے تو پھر دیکھا جائے گا) تو ہم کیوں نہ دوسروں کے مقابل پر ان کو ترجیح دیں۔ میں سارے اخبار نہیں پڑھتا اَور بھی کئی اخبار ہوں گے جو کہ اِس طرح ہمارے ساتھ متفق ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شیعوں کے اخبار ہوں۔ میں نے ایک شیعہ کا اخبار ایک دو دفعہ پڑھا ہے وہ بھی بڑا معقول پالیسی کا تھا اور اُس میں بھی اتحاد اور اتفاق اور ملک میں امن قائم کرنے والے مضامین تھے۔ تو یہ مَیں مثالیں دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارے علم میں کوئی اَور اخبار ہو جو کہ ملک کے لئے مفید ہو، ہمارے لئے بھی مفید ہو مُضِر نہ ہو اور ہماری خواہ مخواہ مخالفت نہ کرتا ہو۔ پس ایسے اخباروں کو خریدو تا کہ روپیہ اُن لوگوں کی جیبوں میں جائے جو تمہارا گلا کاٹنے کی فکر میں نہ ہوں۔'' (الفضل 12جنوری 1955ء)
کوئی جماعت بغیر مرکز کے نہیں ہو سکتی
''ایک بات میں کل یہ کہنی چاہتا تھا کہ جماعت اَور باتوں
میں تو بڑی بڑی ہوشیاریاں دکھاتی ہے اور بڑی اپنی عقل مندی پر فخر کرتی ہے اور اپنے کام کو لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہے لیکن کبھی جماعت نے یہ بھی غور کیا کہ جماعت کے معنی ہوتے ہیں مرکز کے۔ کوئی جماعت بغیر مرکز کے نہیں ہو سکتی۔ اور مرکز کے معنی ہوتے ہیں وہ کارکن جو اس کو چلا رہے ہیں۔ میں نے مدت سے آپ لوگوں کو توجہ دلائی ہے۔ کبھی آپ نے دیکھا بھی کہ آپ کا مرکز ہے کیا؟ مرکزِ جماعت دو حصوں میں تقسیم ہے۔
ظاہری اور قانونی طور پر ایک مذہبی حصہ ہے اس کا ہیڈ خلیفہ ہے۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ تم میں سے کسی کی رائے خلافت کے کام کے متعلق کیا ہو۔ پر یہ میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میں اس کا دفاع کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ اور دوسرا حصہ اس کا انتظامی ہے۔ اس کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اور وہ مجموعہ ہے کچھ ناظروں کا۔ اگر وہ ناظر کسی کام کے ہوں تو کام چلتا رہے گا۔ اگر وہ ناظر کسی کام کے نہ ہوں تو وہ کام خراب ہو جائے گا۔میں یہ غلطی دیکھتا ہوں جماعت میں کہ وہی پرانی پیرپرستی اب تک چلی آرہی ہے۔ ہم نے پیر پرستی کو دور بھی کیا، لوگوں کو آزاد بھی کیا مگر پھر بھی وہ ایسی حاوی ہے کہ وہ جو پیر پرست نہیں وہ اُن پر بھی حاوی ہے اور جو پیر پرست ہیں وہ ان پر بھی حاوی ہے۔ پیر پرستوں پر تو ایسی حاوی ہے کہ لوگ مجھے ملنے آتے ہیں، سلام کرتے ہیں تو کئی سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔ وہ بیچارے تو سجدہ نہیں سمجھتے لیکن سر جھکا دیتے ہیں۔ اور پیرپرستی پیرپرستی کے مخالفوں پر بھی اتنی حاوی ہے کہ کئی لوگ آتے ہیں وہ بیچارے ہاتھ پکڑ کر اس کو چومنا چاہتے ہیں تو پاس بیٹھا ہؤا آدمی کہتا ہے نہیں نہیں سجدہ منع ہے۔ اُس کے دماغ پر پیر پرستی اِتنی حاوی ہوتی ہے کہ سجدہ ملاقات کرنے والے کے وہم میں بھی نہیں ہوتا اور یہ صاحب یونہی ہاتھ بڑھا کر کہتے ہیں کہ نہیں نہیں یہ منع ہے حالانکہ وہ ممنوع کام کر ہی نہیں رہا ہوتا۔
رسماً دعا کیلئے کہنا
اِسی طرح یہ عادت پڑ گئی ہے کہ جو شخص دوسرے کو ملتا ہے کہتا ہے جی دعا کریں اور درحقیقت اُس کے دل میں دعا کا جوش
اتنا ہوتا ہی نہیں نہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دعا کریں۔ یہ رواج اتنا ہو گیا ہے کہ کئی غیراحمدی جن کی کبھی میں نے شکل بھی نہیں دیکھی۔ فرض کرو وہ کبھی ملنے آئے اور بات شروع ہو گئی۔ انہوں نے کہا پہلے مَیں یہ ہوتا تھا۔ فرض کرو وہ ای۔اے ۔ سی تھا۔ جب وہ مجھے کبھی ملا تھا یا میں نے سنا تھا تو میں نے کہا سنا ہے آپ ڈپٹی کمشنر ہو گئے ہیں۔ کہیں گے ہاں آپ کی دعا کے طفیل ڈپٹی کمشنر ہو گئے ہیں۔ بندہ خدا! نہ تم نے میری شکل دیکھی، نہ میں نے تمہارا نام سنا، نہ میں نے کبھی تمہارے لئے دعا کی، میری دعا کے طفیل تم کہاں ڈپٹی کمشنر بن گئے۔ تو صرف عادت پڑی ہوئی ہے۔ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا اور کہہ دیتے ہیں دعا کریں اور کہہ دیتے ہیں آپ کی دعا کے طفیل یہ ہؤا۔ حالانکہ نہ دعا اُس نے کروائی نہ اِس نے کی صرف ایسا کہنا ایک عادت ہے۔
تو عادت کے طور پر بعض خیالات لوگوں پر غالب آ جاتے ہیں اور وہ ان کے ماتحت چلتے ہیں۔ مثلاً کوئی بزرگ ہوں وہ کہیں گے سب کچھ تمہارے ہی اختیار میں ہے۔ کوئی معاملہ ہو احمدی میرے پاس آ جائیں گے اور مجھ سے وہ کام کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ مثلاً آئیں گے اور کہیں گے میرا لڑکا داخل ہونا ہے۔ میں جواب دوں گا کہ ہیڈماسٹر سے کہیں مگر وہ جھٹ بولیں گے نہیں جی آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ نے ہی جو کرنا ہے کرنا ہے۔ گویا ہیڈ ماسٹر بھی مَیں ہوں۔ اِسی طرح کوئی کلرک ہے تو میرے پاس آ جاتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا ہے؟ کہتا ہے نظارت سے کہیں مجھے کلرک لے لیں۔ میں جواب دیتاہوں آپ انجمن سے کہیں وہ تمہارا انٹرویو کرے گی پھر وہ مختلف امیدواروں میں سے کسی کا انتخاب کرے گی۔ مگر اُس کا اصرار ہو گا کہ حضور! حکم دے دیں سب کچھ آپ کا ہے۔ انجمن کے ساتھ کوئی مالی جھگڑا ہو تو اُن کو میں کہتا ہوں جاؤ ناظروں سے فیصلہ کرو۔ کہیں گے نہیں جی سب چیز آپ کے ہاتھ میں ہے ناظروں کا کیا تعلق ہے۔ غرض وہ سارے کے سارے کاموں میں مجھے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ گویا قادر الکُل ہے۔ شاید خدا تعالیٰ کو بھی اتنا قادر نہیں سمجھتے جتنا وہ مجھے سمجھتے ہیں اور یہ ہٹ آج تک قائم ہے۔ کہہ کہہ کر تھک گئے۔ میاں یہ معاملات جن کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اُسی سے جا کر کہو لیکن وہ بھی کہیں گے کہ خلیفہ ہی سب کچھ کرے اور پھر یہ مرض بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پہلے تویہ کہتے تھے کہ بچوں کا نام خلیفہ سے رکھوانا ہے۔ ہم ان کے بھرّے2 میں آ گئے اور نام رکھنے شروع کر دیئے۔ پھر انہوں نے آگے قدم اٹھایا اور اذان دلوانے، نکاح پڑھوانے، بسم اللہ کروانے کی خواہش کی۔ کوئی ایک دو ہوں تو انسان یہ کام کرے درجنوں اور سینکڑوں کی اِس خواہش کو کس طرح پورا کرے۔ اِس کے بعد اَور ترقی ہوئی تو یہ درخواست شروع ہوئی کہ مکان کا نام رکھ دیں، دکان کا نام رکھ دیں۔ پھر اس سے ترقی کی اور سکول کالج والوں نے ہر کھیل میں شمولیت کی درخواست شروع کر دی کہ برکت ہو گی۔ ہر دعوتِ ولیمہ اور دعوتِ خوشی میں مدعو کرنا شروع کر دیا۔ کوئی نہیں سوچتا کہ ایک خلیفہ تو یہ سارے کام بھی نہیں کر سکتا۔ سلسلہ کے متعلق کام تو الگ رہے، تصانیف اور دفتری کام تو الگ رہے مگر کہتے چلے جاؤ کوئی اِس بات کو نہیں مانتا۔ یہ عادت دور ہونی چاہئے۔ آپ لوگوں کو اپنے دماغوں کی تربیت کرنی چاہیئے۔ ایک آدمی ایک آدمی کا ہی کام کر سکتا ہے۔ یہ بے شک ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی میں کام کی قابلیت دوسروں سے زیادہ ہو۔ تم اس سے یہ امید تو کر سکتے ہو کہ وہ عام آدمی سے زیادہ کام کر سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ ایک آدمی سے انسانی طاقت سے زیادہ کام کی امید کرو۔ اِس سے زیادہ اگر آپ لوگ امید کریں گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ یا آپ کو ٹھوکر لگے گی یا وہ مرے گا۔ جس کے سر پر اتنا بوجھ ڈالو گے جس کو وہ اٹھا نہیں سکتا وہ آخر ختم ہو جائے گا اور یا یہ ہے کہ آپ کو ٹھوکر لگے گی۔ ہر شخص اگر آ کر بیٹھ جائے کہ یہ میرا کام ہو جائے، یہ میرا کام ہو جائے تو نتیجہ اِس کا یہی نکلے گا کہ وہ ایک دن گرے گا اور ختم ہو جائے گا۔ تو یہ امید مت کریں کہ آپ کے دنیوی انتظام بھی خلیفہ کرے اور آپ کے دینی انتظام بھی خلیفہ کرے۔ دنیوی کاموں کے لئے آپ کو بہرحال انجمن پر انحصار کرنا پڑے گا۔ یہ بے شک ٹھیک ہے کہ وہ خلیفہ کے تابع ہیں۔
جب لوگوں نے اعتراض کیا ہم نے کہا نہیں انجمن خلیفہ کے تابع ہے پس یہ ٹھیک ہے کہ وہ خلیفہ کے تابع ہیں لیکن اِس لحاظ سے وہ تابع ہیں کہ آپ لوگ جو چندہ دیتے ہیں میرے مرید ہیں۔ ورنہ مَیں انجمن کا ممبر نہیں۔ مجھے انجمن پر قانونی کوئی اختیار نہیں۔ پر مجھ سے ڈر کر اگر انجمن میری بات مانتی ہے تو باپ کی بیٹے مانا ہی کرتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے میری بات نہ مانی (یعنی مَیں جب دخل دوں اور وہ نہ مانیں) تو میں اپنے مریدوں سے کہوں گا کہ ان کو چندہ نہ دو۔ دیکھو تو اُسی دن انجمن سیدھی ہو جاتی ہے کہ نہیں۔ لیکن جہاں تک انتظام اور قانون کا سوال ہے میرا کوئی دخل نہیں۔ وہ انہی کو کرنا پڑے گا۔ اور یہ جو بات ہے کہ میں کہوں چندہ روک دو یہ تو کسی اہم بات پر کروں گا۔ یہ تو نہیں کہ فلاں کلرک کی ترقی نہیں کی چندہ روک دو۔ لوگ مجھے کیا سمجھیں گے۔ آخر وہ ایسا ہی کام ہو گا جس کو میں دنیا کے سامنے دھڑلّے سے پیش کر سکوں کہ یہ اسلام کو تباہ کرنے لگے تھے اس لئے میں نے روک دیا۔ ورنہ اگر لوگوں کو یہ نظر آئے گا کہ نہایت ہی ذلیل اور حقیر بات کے اوپر میں نے اُنہیں دھمکی دی ہے اور میں نے ان کو کہا ہے کہ مَیں اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ چندہ نہ دو تو سارے مجھے بےوقوف سمجھیں گے اور ان کے ساتھ ہمدردی کریں گے۔
قانونی سوال
تو جہاں تک قانونی سوال ہے اور جہاں تک دنیوی اختیارات کا سوال ہے انجمن نے کام کرنا ہے۔ اگر انجمن صحیح ہاتھوں میں نہیں ہو گی تو
آپ کا کام یقیناً خراب ہو گا۔ لیکن اِس وقت انجمن کے عہدے دیکھو۔ ناظر اعلیٰ، پنشنر۔ ناظر امورعامہ، پنشنر ۔ناظر تعلیم ، پنشنر ۔ناظر دعوۃ و تبلیغ، پنشنر ۔ ناظر بیت المال، پنشنر ۔ ناظر امور خارجہ، پنشنر ۔
یہ تمہارے چھ عہدے ہیں اور چھ پر ہی پنشنر ہیں۔ ایک عہدے کو تو ابھی انہوں نے تنگ آ کر چھوڑا ہے۔ خانصاحب یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کام کرنے کا ان کے اندر جوش تھا۔ فالج ان کی ایک سائیڈ پر گرا ہؤا ہے۔ اب دوسرے ہاتھ پر بھی ہؤا ہے دو آدمیوں کے سہارے اُن کو پکڑے پکڑے کرسی پر آ کر بیٹھتے تھے اور اِسی طرح جاتے تھے۔ بھلا اِس طرح کوئی کام ہو سکتا ہے؟ مجھ سے ملنے آتے تھے تو ان کی اس تکلیف کو دیکھ کر مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی اور میں ہمیشہ انہیں کہتا کہ آپ نیچے آکر اطلاع دے دیا کریں بلکہ بہتر ہے اپنے نائب کو میرے پاس بھیج دیا کریں مگر وہ اپنے شوق میں آجاتے تھے۔ لیکن مجھے ان سے بات کرنا ایک مصیبت معلوم ہوتا تھا۔ دل میں خیال آتا تھا کہ کتنی تکلیف اٹھا کر یہ کام کرتے ہیں۔ تم کہو گے کیوں رکھا ہؤا ہے ایسے آدمی کو؟ میں پوچھوں گا کہ کون سے آدمی تم نے مجھے دیئے ہیں کہ میں اُن کو رکھتا؟ آخر یہ تو نہیں کہ میں نے مٹی سے آدمی بنانے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ان کے ناک میں پھونکنا ہے تو وہ زندہ ہو کر آدمی بن جائیں گے۔ بہرحال عیسیٰ علیہ السلام خدا کے نبی تھے۔ ان کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ چمگادڑ بناتے تھے۔ تو چمگادڑوں نے تو نظارتیں کرنی نہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام والی خیالی اور وہمی طاقت بھی مجھے مل جائے تو میں چمگادڑ ہی بناؤں گا آدمی نہیں بناؤں گا اور چمگادڑوں نے تمہارا کیا کام کرنا ہے۔ آدمی تو تم ہی نے دینے ہیں لیکن یہاں تو یہ حالت ہے کہ
ہر کسے در کارِ خود بادینِ احمد کارنیست
ہرشخص یہی کہتا ہے کہ میں باہر جاؤں گا اور ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ شاید اگلا پرائم منسٹر مَیں نے ہی یہاں ہونا ہے یا اگلا گورنر جنرل میں نے ہی ہونا ہے۔ یا شاید بعض لوگ دل میں یہ غصہ رکھتے ہوں کہ ہمارے گورنر جنرل استعفیٰ کیوں نہیں دیتے تا کہ میرا موقع آئے، ہمارا پرائم منسٹر الگ کیوں نہیں ہوتا کہ کبھی آگے آؤں۔ چاہے وہ ساری عمر ہیڈکلرک بننے کے بھی قابل نہ رہا ہو لیکن امید یہی وہ کرتا ہے کہ میں ملک کا وزیر اعظم بنوں گا اور میں ملک کا گورنر جنرل بنوں گا اور میں کمانڈر اِنچیف بنوں گا۔ اور اگر میں یہاں گیا تو زیادہ سے زیادہ مجھے تین چار سو مل جائے گا یہ کون سی بات ہے۔ اور اگر اس طرح نوجوان پیچھے ہٹیں گے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ کبھی تمہاری جماعت کی تنظیم ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ بڈھے کب تک کام چلائیں گے۔ پھر اگر بڈھوں نے ہی آنا ہے تو یہ بڈھے جائیں گے تو ایک اَور بڈھا آ جائے گا۔ ممکن ہے ساٹھ سال والے کو ہم نکالیں تو چھیاسٹھ سال والا آ جائے۔ چھیاسٹھ والا نکالیں تو ستّر والا آ جائے۔ ستّر والا نکالیں تو اسّی والا آ جائے۔ پھر یہ ہو کہ روزانہ بازار میں اعلان کیا جاتا ہے کہ ناظر صاحب نے دفتر جانا ہے ذرا چار آدمی چارپائی اٹھانے کے لئے چاہئیں۔ انہوں نے دفتر جا کر کام کرنا ہے۔ جب تک نوجوان آگے نہیں آئیں گے یہ کام کس طرح ہو گا۔ یہی حال وکالتوں کا ہے۔ وکالتوں میں ذرا حالت نسبتاً اچھی ہے۔ وکیل الاعلیٰ پنشنر ہیں۔ وکیل المال بھی پنشنر ہیں لیکن باقی وکالتیں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہیں۔ لیکن اب وہاں بھی دقّت ہو رہی ہے کہ وقف کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ جلسہ پر بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ تو حضور ہی کا بچہ ہے ہم نے وقف کیا ہے۔ مگر میں کیا خوش ہوتا جتنے وقف شدہ بچے میرے سامنے پیش ہوئے چار چار سال کے تھے۔ توکون پچیس سال تک زندہ رہے اور ان کا انتظار کرے کہ یہ آ کر کام سنبھالیں گے۔ پچیس سال کے بعد تو وہ کام کے قابل ہوں گے پھر کم سے کم بیس سال ان کو تجربہ کے لئے چاہییں۔ آدمی پنتالیس سال میں ہی جا کر مکمل بن سکتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے۔
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
ان لوگوں کے وکیل بننے کے قابل ہو نے تک کس نے زندہ رہنا ہے اور کس نے اِن کا کام دیکھنا ہے۔ تو جماعت کو چاہیئے کہ اِس طرف توجہ کرے۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنے اندر احساس پیدا کرے۔ اب تک کبھی جماعت نے احساس نہیں کیا کہ آخر ہم اتنا روپیہ جو خرچ کرتے ہیں ان سے پوچھیں تو سہی کہ یہ کام کیا کرتے ہیں۔ کام سوائے خط و کتابت کے اور کوئی نہیں ہوتا۔ ابھی میں نے اختر صاحب کو رکھا ہے ایک نیا نام ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے۔ دیکھئے وہ بیل منڈھے چڑھتی ہے کہ نہیں۔ ناظر الدیوان ان کا عُہدہ مقرر کیا گیا ہے یعنی وہ ناظروں کے کام کو چیک کریں گے۔ ان کو میں نے کہا ذرا معائنہ کرو اور دیکھو کہ نظارت امور عامہ کیوں بنائی گئی تھی؟ اور آیا جس غرض کے لئے امور عامہ کی نظارت بنائی گئی تھی اس کا کوئی کام انہوں نے کیا؟ نظارت اعلیٰ کیوں بنائی گئی تھی؟
نظارت اعلیٰ کے فرائض میں سے ہے کہ ساری نظارتوں کو چیک کرے اور ہر تیسرے مہینے ہر نظارت کا وہ معائنہ کرے۔ لیکن واقع یہ ہے ہر تیسرے مہینے چیک کرنا تو بڑی بات ہے ہر سال میں بھی اگر ثابت ہو جائے، ہر دو سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے، ہر پانچ سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے، ہر دس سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے تو سجدۂ شکر بجالاؤ۔ کیونکہ میرا علم یہ ہے کہ پچھلے چالیس سال میں انہوں نے کبھی کوئی معائنہ نہیں کیا۔ جہاں افسروں کا یہ حال ہو کہ وہ معائنہ ہی نہیں کرتے اپنے ماتحت دفتروں کا، تو ماتحت دفتر کہہ دیتے ہیں ''تور اشنان سو موراشنان''۔ وہ اگلے کو کہہ دیتا ہے۔ ''تور اشنان سو موراشنان''۔ آخر ہوتے ہوتے کلرکوں تک بات آ جاتی ہے۔ باقی سارے کے سارے افیون کھا کر سوتے ہیں اور تم بڑے خوش ہو کہ ہم نے خلیفہ جو مان لیا ہے۔ بس جو خلیفہ مان لیا اب وہی کرے۔
خلیفہ انسان ہے آخر کیا چیز ہے۔ کون سی صورت ہے اس کے لئے کہ وہ ہر ایک معاملہ میں دخل دے اور ہر ایک معاملہ میں سوچے۔ پھر دوسرے یہ کہ اس کا دخل دینا مناسب بھی نہیں۔ ہر دنیوی کام میں اگر وہ دخل دینے لگ جائے تو پھر قوم میں جو تربیت اور تنظیم پیدا ہو تی ہے وہ ختم ہو جائے۔ کیونکہ ہم یہ تو امید نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمیشہ ہی تم کو ایسے خلفاء ملتے رہیں گے جو تنظیمی قابلیت بھی اپنے اندر رکھتے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں محض مذہبی حیثیت کا آدمی تمہیں مل جائے کیونکہ یہی اُس کا اصل کام ہے تو پھر اگر تم نے ایک عہدہ دار پر انحصار رکھنا ہے اور عہدہ دار بھی ایسا جس کو ہٹانے کا بھی تم کو اختیار نہیں تو پھر تو تمہارا بیڑا غرق ہؤا کیونکہ ایسے آدمی پر تم نے کام کا انحصار رکھا جس کو تم ہٹا سکتے نہیں اور یہ کام اس کا ہے نہیں اور سمجھ تم یہ رہے ہو کہ وہ کرے اور وہ کر سکتا نہیں۔ تو پھر اس سے زیادہ تمہاری تباہی کی یقینی خبر اور کیا ہو گی۔ پس نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ ادھر آنے کی کوشش کریں اور کم سے کم جب تک نئے نہ آئیں اُس وقت تک پنشنر ہی آتے رہیں۔ پچپن سال پر پنشن مل جاتی ہے اور چا ر پانچ سال سلسلہ کی خدمت کر لیں۔
ایک بات مَیں بھول گیا تھا۔ وہ اختر صاحب نے شکر ہے یاد دلا دی۔ یہ بات میں نے اُن کے ذمہ لگائی تھی اور اُن کو کہا تھا کہ تقریرکے وقت یاد دلا دیں۔ شکر ہے انہوں نے تقریر ختم ہونے سے پہلے یاد دلا دیا۔ انہوں نے جب سنا کہ مَیں ناظر الدیوان ہوں تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ کام مجھے کر دینا چاہیئے۔ میں نے پچھلے سال تحریک کی تھی کہ لوگ اپنی زائد آمد پیدا کر کے سلسلہ کے لئے دیں تا کہ ان پر بھی بوجھ نہ ہو اور سلسلہ کی مشکلات جو تبلیغِ اسلام کی ہیں وہ دور ہوں اور ان میں امداد ملے۔ ایک دوست عبد العزیز صاحب مغل پورہ گنج کے ہیں۔ انہوں نے تیس روپے کل مجھے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ میں نے آپ کے اُس کہنے کے مطابق زائد کام کر کے آمد پیدا کی ہے جو میں چندہ کے طور پر پیش کرتا ہوں۔
ایک اور دوست نے اسی طرح کہا ہے کہ آپ نے زائد کام کر کے آمد پیدا کرنے کے لئے کہا تھا۔ میں نے اس کے لئے زائد کام کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے 95 روپے ملے ہیں۔ وہ 95 روپے مَیں سلسلہ کی خدمت کے لئے اور اس کی اشاعت کے لئے پیش کرتا ہوں۔ میں نے چونکہ خواب میں دیکھا تھا کہ میں آپ کو خود دے رہا ہوں اس لئے میں یہ رقم پیش کرتا ہوں۔ محمد خان ولد چودھری نواب خان صاحب منصور آباد ضلع تھرپاکر۔
جلسہ میں کوئی چالیس ہزار آدمی بیٹھا تھا۔ اس میں سے چلو دو کو تو توفیق مل گئی ممکن ہے بعض اور نے بھی روپے بھیجے ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ میں زیادہ ملامت بھی نہیں کر سکتا۔ میں سارا سال یہی سوچتا رہا ہوں لیکن مجھے کوئی زائد کام کرنا سمجھ میں نہیں آیا۔ کئی کئی طریق سوچے۔ کبھی یہ سوچا کہ کوئی دوائی اپنے ہاتھ سے کوٹ کاٹ کے بنائیں اور اس کا اشتہار دے دیں۔ کبھی کوئی اَور تجویز سوچی بہرحال اب تک کسی چیز پر تسلی نہیں ہوئی مگر میں ابھی سوچ رہا ہوں کہ کوئی نہ کوئی کام ایسا کروں جس سے زائد آمد پیدا ہو۔
اب میں حسبِ دستور سابق ایک علمی مضمون جس کو پہلے سے میں نے شروع کیا ہؤا ہے اُس کا ایک حصہ آج بیان کرتا ہوں۔ یہ میرا ‘‘سیرِ روحانی’’ کا مضمون ہے۔ اس کے تین لیکچر شائع ہو گئے ہیں اور آپ لوگوں میں سے بعض نے وہ کتاب خریدی ہو گی اور دیکھ لی ہو گی۔ دوسری جلد اس کی انشاء اللہ اگلے سال میں شائع ہو جائے گی۔ ہاں یہ بھی میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ قرآن شریف کی انگریزی تفسیر کا اگلا حصہ چَھپ رہا ہے۔ اس کا خلاصہ مضمون نکال کر میں ان کو ترجمہ کرنے کے لئے دے رہا ہوں۔ اور غالباً اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو میں اگلے سال کے شروع میں اس کو ختم کردوں گا پھر وہ میرے پہلے نوٹ نکال کر نوٹ لکھ دیں گے اور اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ تیسری جلد اس کی شائع ہو جائے گی۔اردو کی جلد بھی جو آخری سپارہ کی باقی ہے انشاء اللہ تعالیٰ شروع سال میں شائع ہو جائے گی''۔ (الفضل 16جنوری 1955ء )
عالَمِ روحانی کے دفاتر
''1938ء کے سفرِ حیدر آباد اور دہلی میں مَیں نے جو تاریخی مقامات دیکھے اُن میں مسلمان بادشاہوں کے دفاتربھی شامل تھے مجھے بعض عمارتیں دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ قلعہ کے شاہی دفاتر ہیں۔
دُنیوی دفاتر کا نظام اور اُس کی غرض و غایت
اِن دفاتر پر ایک سیکرٹری اوروزیر مقرر
ہوتا تھا۔ باہر کے تمام صوبیدار اور ان کے ماتحت افسر اور قاضی وغیرہ بادشاہ کے پاس اپنی رپورٹیں بھجواتے تھے اور اس دفتر میں اُن کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ بادشاہ کو جب ضرورت پیش آتی تھی وہ ریکارڈ اُس کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور وہ اُن سے فائدہ اُٹھاکر اپنے احکام جاری کرتا تھا۔ مثلاً جس قدر بڑے بڑے چور، ڈاکو اور فریبی تھے اُن کے متعلق ڈائریاں جاتی تھیں کہ فلاں شخص مشہور چور ہے، فلاں شخص مشہور ڈاکو ہے، فلاں شخص مشہورمُفسد ہے، فلاں شخص بڑاخائن ہے، فلاں شخص بڑا جعلساز ہے، اور جب اُن کو پکڑا جاتا تھا تو اُن ڈائریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بادشاہ اُن کے متعلق کوئی فیصلہ کرتا تھا اور وہ ڈائریاں وہاں ریکارڈ کے طور پر رکھی جاتی تھیں۔
اِسی طرح جب وہاں سے نیچے احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً فلاں ڈاکو کی مزید نگرانی کرو اور اُس کے متعلق مزید ثبوت بہم پہنچاؤ یا اُس کو فلاں سزا دے دو یا کسی کے اچھے کام کی ڈائری آئی تو حُکم گیا کہ اس کی حوصلہ افزائی کرو یا اس کو فلاں انعام دے دو تو یہ ریکارڈ بھی وہاں رکھے جاتے تھے اور ان میں یہ درج کیا جاتا تھا کہ فلاں فلاں کے نام یہ حکم نافذ کیا گیا ہے۔
رعایا کی سزاؤں اور ترقیات کے احکام کا اندراج
غرض ان دفاتر میں لوگوں کے
اعمالنامے ہوتے تھے اِن اعمالناموں پر بادشاہ جو کارروائی کرتا تھا وہ ریکارڈ ہوتی تھی، جو سزائیں دیتا تھا اُن کے احکام درج ہوتے تھے۔ اِسی طرح جو سزاؤں کی تجویز نچلے افسر کرتے تھے وہ درج ہوتی تھی اور جو انعامات کی سفارشیں نیچے سے آتی تھیں وہ ریکارڈ ہوتی تھیں۔ پھر اُن سفارشات کے مطابق بادشاہ کے جو احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً اس کو بیس ایکڑ زمین دے دو، اس کو ایک گاؤں دے دو، اس کو دس گاؤں دے دو، یہ سارے احکام اس میں درج ہوتے تھے۔
اِسی طرح جو ترقیات کے احکام جاتے تھے یا خطابوں کے احکام جاتے تھے کہ اِس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے، اُس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے وہ ان دفاتر میں لکھے جاتے تھے۔
غرض مُجرموں کی ڈائریاں اور مخلصوں کے کارنامے یہ سارے کے سارے وہاں جمع ہوتے تھے اورجب کسی شخص کو سزا دینے کا سوال پیداہوتا تھا تو اس کے پچھلے اعمالنامے دیکھ لئے جاتے تھے کہ یہ کس سزا کا مستحق ہے۔ بعض دفعہ فعل ایک ہی ہوتا ہے لیکن ایک شخص اس کام کا عادی ہوتا ہے اور دوسرے شخص سے اتفاقی طور پر وہ فعل سرزد ہو جاتا ہے۔ جس سے اتفاقی حادثہ ہو جاتا ہے اس کو تو تھوڑی سزا دی جاتی ہے اور جو عادی مجرم ہوتا ہے اُس کو اس کے پچھلے جرائم کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سزا دی جاتی ہے۔
دُنیوی حکومتوں میں مجرموں
کے لئے گریز کی متعدد راہیں
مگر مَیں نے دیکھا کہ یہ دفاتر جوبادشاہوں نے بنائے تھے اِن میں گریز کی بھی بڑی بڑی راہیں تھیں۔ اوّل تو یہ لوگ چوری چُھپے
کام کرتے تھے مثلاً ایک شخص قتل کرتا تھا یا چوری کرتا تھا اور ظاہر میں وہ بڑا شریف آدمی نظر آتا تھا۔ اب جو ڈائری نویس تھا اُس کو اِس کے حالات معلوم ہونے بڑے مشکل تھے پس اخفاء سے کام لینے کی وجہ سے وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈال دیتا تھا۔ اِسی طرح میں نے دیکھا کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ بات تو اُن کی ظاہر ہو گئی لیکن مبالغہ کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ انہوں نے مکھی ماری اور بن گیا کہ ہاتھی مارا ہے۔ اور پھر وہی رپورٹ اوپر چلی گئی کہ فلاں شخص سے یہ یہ جرائم ہوئے ہیں۔ اور بعض لوگوں کو مَیں نے دیکھا کہ وہ رشوتیں دے کر اچھے اچھے کام لکھوا دیتے تھے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے، فلاں کام کیا ہے لیکن اُن کے اِن کاموں کی کوئی خاص قدر نہیں ہوتی تھی۔ سوائے اِس کے کہ بادشاہ کے دربار میں بڑی شُہرت ہوتی تھی کہ اس نے فلاں کام کیا ہے۔
عالَمِ روحانی کے ڈائری نویس
اور ان کا اعلیٰ درجہ کا نظام
اس کے مقابل پر مَیں نے قرآنی دفتردیکھا تو اس میں مَیں نے یہ پایا کہ تھا تو وہ بھی اِسی شکل میں منظّم لیکن وہ ایسی صورت میں تھا
کہ اُس میں کسی قسم کی بناوٹ یا کسی قسم کی غلط فہمی یا کسی قسم کا دھوکا یا کسی قسم کی سازش نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ قرآنی دفتر میں بھی مَیں نے دیکھا کہ وہاں ڈائریوں کا انتظام ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ وہاں جھوٹ کی آلائش بالکل نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم میں لکھا ہؤا تھا وَ اِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ۔كِرَامًا كَاتِبِيْنَ۔ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۔3 یعنی تم پر ہماری طرف سے ڈائری نویس مقرر ہیں لیکن وہ ڈائری نویس حافظؔ ہیں۔ یعنی ان کا یہی کام نہیں کہ تمہارے جرائم لکھیں بلکہ یہ کام بھی اُن کے سپرد کیا گیا ہے کہ تمہیں جرائم کرنے سے روکیں۔ اُن کا یہی کام نہیں کہ تمہارے اچھے کاموں کا ریکارڈ کریں بلکہ یہ بھی کام ہے کہ تمہیں اچھے کاموں میں زیادہ کامیاب ہونے میں مدد دیں۔ كِرَامًا اور پھر یہ ڈائری نویس جو ہم نے مقرر کئے ہیں بڑے اعلیٰ درجہ کے اور اعلیٰ پایہ کے لوگ ہیں جو ہر قسم کی رشوت خوری سے بالا ہیں، سازش سے بالا ہیں، جھوٹ سے بالا ہیں، کَاتِبِیْنَ اور بڑے محتاط ہیں۔ وہ یہ نہیں کرتے کہ اپنے حافظہ میں بات رکھیں بلکہ جیسے آجکل سٹینو ہوتا ہے وہ سٹینو کی طرح ساتھ ساتھ لکھتے چلے جاتے ہیں اور اِس لکھنے کی وجہ سے اُن کی بات میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اُس کو وہ جانتے بھی ہیں۔
دُنیوی اور روحانی ڈائری نویسوں میں امتیاز
غرض قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہمارے سلسلہء روحانیہ
میں بھی ڈائری نویس ہیں لیکن وہ عام ڈائری نویسوں کی طرح جیسا کہ دنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے غریب نہیں ہوتے، چھوٹی تنخواہوں والے نہیں ہوتے کہ اُن کو رشوت خوری کی ضرورت ہو بلکہ اعلیٰ پایہ کے لوگ ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کو نہ کوئی خوشامد سے منا سکتا ہے، نہ رشوت دے سکتا ہے، نہ کسی کی کوئی دشمنی اس بات کا موجب ہو سکتی ہے کہ وہ غلط رپورٹ کریں بلکہ اُن کی ہر ایک رپورٹ اور ہر ایک کام سچ کے ساتھ ہوتا ہے اور باوجود اِس کے کہ وہ بڑے دیانتدار ہیں، بڑے سچّے ہیں، بڑے راستباز ہیں، وہ اتنے محتاط ہیں کہ صرف اپنے حافظہ پر بات نہیں رکھتے جو بڑا مکمل حافظہ ہے بلکہ وہ ساتھ ساتھ لکھتے بھی چلے جاتے ہیں گویا اس احتیاط کو وہ دوگنی کر لیتے ہیں۔
دنیا میں ڈائریاں لکھنے کا غلط طریق
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیوی ڈائری نویس کئی قسم کی غلطیاں کر
جاتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت ساتھ نہیں رہتے۔ مثلاً تمام گورنمنٹیں پولیس مقرر کرتی ہیں مگر جتنی بڑی سے بڑی منظم گورنمنٹیں ہیں وہ اتنے ڈائری نویس مقرر نہیں کر سکتیں کہ ہر آدمی کے ساتھ ساتھ ڈائری نویس پھرے۔ اگر ملک کے سپاہیوں کی تعداد دیکھی جائے اور ادھر آدمیوں کی تعداد دیکھی جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ اگر ایک کروڑ آدمی ہے تو شاید پولیس تین چار ہزار ہو اور وہ تین چار ہزار بھی سارے ڈائری نویس ہی نہیں ہونگے بلکہ اُن میں سے اکثر وہ ہونگے جن کا کوئی اَور کام مقرر ہوگا۔ مثلاً یہ کہ رستوں کی حفاظت کرنی ہے یا انہیں کسی جگہ پر ریزرو رکھا ہؤا ہوگا۔ کوئی جھگڑا یا فساد ہؤا تو وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ سٹینو اور ڈائریاں لکھنے والے میرے خیال میں سارے صوبہ میں جس کی دوتین کروڑ آبادی ہو دو تین سَو ہی نکلیں گے۔ اب اگر دو تین کروڑ کی آبادی میں ایک کروڑ پر سَو آدمی ہے۔ یا فرض کر لو ایک کروڑ پر ہزار بھی آدمی ہے تب بھی دس ہزار آدمیوں پر ایک ہؤا۔ اور دس ہزار آدمی پر جو ایک شخص مقرر ہے وہ ہر ایک کا نامۂ اعمال نہیں لکھ سکتا نہ وہ ہر ایک آدمی کے عمل کی تحقیقات کر سکتا ہے۔ لازمی بات ہے کہ کچھ لوگ تو یونہی ان کی نظروں سے چُھپ جائیں گے اور جو لوگ اُن کی نظروں کے نیچے آئیں گے اُن سب کے متعلق بھی وہ صحیح تحقیقات نہیں کر سکتے۔ کچھ کے متعلق تو وہ صحیح تحقیقات کریں گے اور کچھ کے متعلق وہ سُنی سُنائی باتوں پر ہی کفایت کر لیں گے۔ اعتبار ہوگا کہ فلاں آدمی بڑا سچا ہے، اُس نے کہا ہے تو ٹھیک ہی بات ہوگی اس لئے وہ مجبور ہوتے ہیں کہ جو بات اُن تک پہنچے اُس پر اعتبار کر لیں۔
مختلف حکومتوں کا طریقِ کار
دنیا کی تمام گورنمنٹوں میں امریکہ میں بھی، انگلینڈ میں بھی، یورپ میں بھی، ایشیا میں بھی
غرض سارے ملکوں میں دیکھاجاتا ہے اُن کی کتابوں کو ہم پڑھتے ہیں تو اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا عام قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی گاؤں میں گئے اور پوچھا کہ یہاں کون کون آدمی رہتے ہیں؟ کوئی نمبردار مل گیا تو اُس سے پوچھا کہ یہاں کونسا اچھا آدمی ہے کونسا بُرا ہے اور اُس کی کیا شُہرت ہے؟ اب ممکن ہے وہ شخص چند آدمیوں کا دشمن ہو اور ممکن ہے کہ چند آدمیوں کا دوست ہو۔ ہم نے دیکھا ہے ایک آدمی سے پوچھو تو وہ کچھ آدمیوں کی تعریف کر دیتا ہے اور دوسرے آدمیوں سے پوچھو تو وہ اُن کی مذمت کر دیتے ہیں۔ غرض اِس طرح کی باتیں سُن کر لازماً وہ مجبور ہوتا ہے کہ اُن باتوں کو لے اور دوسروں کو پہنچا دے۔ اِسی طرح ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ عورتوں سے پوچھ لیتے ہیں، ملازموں سے پوچھ لیتے ہیں، ہمسایوں سے پوچھ لیتے ہیں اور اس طرح اپنی ڈائری مکمل کرلیتے ہیں۔ اس میں بہت سی باتیں سچی بھی ہوتی ہیں اور بہت سی باتیں غلط بھی ہوتی ہیں۔
روحانی ڈائری نویس يَعْلَمُوْنَ مَاتَفْعَلُوْنَ کا مصداق ہوتے ہیں!
لیکن اللہ تعالیٰ فرماتاہے يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ہم نے جو یہ ڈائری نویس مقرر کئے ہیں یہ کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے بلکہ
يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ جو کچھ تم کرتے ہو وہاں تک اُن کو اپروچ (APPROACH)حاصل ہے اُن کو پہنچ حاصل ہے اور تم جو بھی کام کرتے ہو اُن کی نظر کے نیچے ہوتا ہے۔ پس وہ اپنی دیکھی ہوئی بات لکھتے ہیں کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے۔ اس لئے نہ تو لالچ کی وجہ سے کوئی نوکرجھوٹ بول سکتا ہے، نہ بیوقوفی کی وجہ سے کوئی بچہ غلط خبر دے سکتا ہے، نہ دشمنی کی وجہ سے کوئی ہمسایہ فریب کر سکتا ہے اُن کی اپنی دیکھی ہوئی بات ہوتی ہے جو صحیح ہوتی ہے۔
ایک عرائض نویس کا لطیفہ
ہم نے دیکھا ہے دُنیوی ڈائریوں میں بعض دفعہ ایسی ایسی غلطی ہو جاتی ہے کہ لطیفے بن جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے گورداسپور میں ایک صاحب عرائض نویس ہؤا کرتے تھے۔ مَیں بھی اُن سے ملا ہوں۔ اُن کے اندر یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص اُن سے ملتا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر مصافحہ کرتا تو وہ اُس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور بجائے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کے ایڑی پر کھڑے ہو کر اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ کہنا شروع کر دیتے۔ یوں آدمی نمازی اور دیندار تھے۔ ان کے متعلق یہ لطیفہ مشہور ہؤا کہ ایک دفعہ اتفاقاً ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے کچھ مسلیں غائب ہو گئیں۔ کوئی صاحبِ غرض ہوگا یا کوئی شرارتی ہوگا یا کسی نے افسر کو دُکھ پہنچانا ہوگا اب تحقیقات کے لئے پولیس کو مقرر کیا گیا کہ پتہ لو مسلیں کہاں گئیں؟ انہوں نے تحقیقات کر کے خبر دی کہ ہم نے پتہ لے لیا ہے اگر گورنمنٹ اجازت دے تو ہم اس پر کارروائی کریں۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے یا جو بھی مجسٹریٹ مقرر تھا اُس نے اجازت دے دی اور وہی شخص جو مصافحہ کرتے ہوئے اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ کہا کرتا تھا پولیس نے اُس کے گھر پر چھاپا مارا اور بہت سے کاغذات اُٹھا کر لے گئی اور سمجھا کہ مسلیں پکڑی گئیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً وہ مسلیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں پہنچا دیں کیونکہ انہیں فوری کام کرنے کا حکم تھا اُن کو دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملا کہ ان کاغذات میں ہے کیا، سیدھے ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچے۔ اب جو اُس نے مسلیں اٹھائیں تو ایک کے اوپر لکھا ہوا تھا ''نمک کی مسل'' ایک کے اوپر لکھا ہؤا تھا ''مرچ کی مسل'' ایک پر لکھا ہؤا تھا '' ہلدی کی مسل''۔ ایک پر لکھا ہؤا تھا ''آٹے کی مسل''۔ ایک پر لکھا ہؤا تھا ''شکر کی مسل''۔ اب سب حیران کہ شکر اور آٹے کی مسلوں سے کیا مطلب ہے؟ آخر کھول کر دیکھا تو پتہ لگا کہ وہ بیچارہ خبطی تو تھا ہی، روز جب عدالت میں کام کرتا تھا تو دیکھتا تھا کہ مجسٹریٹ بیٹھا ہؤا ہے اور کہتا ہے اہلمد! مسل پیش کرے اور پھر ایک مسل آجاتی۔ اُس کو بھی شوق آتا مگر وہ حیثیت تو تھی نہیں، دل میں خواہش ہوتی کہ کاش! میں ڈپٹی کمشنر ہوتا اور میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں۔ یا میں ای۔اے۔سی ہوتا تو میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں۔ آخر انہوں نے گھر جا کر اپنی بیوی کو حُکم دیا کہ آئندہ مَیں گھر کا خرچ نہیں دونگا جب تک ہر ایک چیز کی مسل نہ بناؤ اور پھر وہ مسل میرے سامنے پیش کیا کرو۔ اب نمک خرچ ہو چکا ہے، بیوی کہتی ہے کہ نمک چاہئے۔ اور وہ کہتے ہیں نہیں، پہلے مسل پیش کرو۔ اس کے لئے رات کا وقت مقرر تھا۔ چنانچہ نو بجے تک جب انہوں نے سمجھنا کہ ہمسائے سو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹھ جانا اور بیوی کو کہنا کہ اچھا اہلمدہ! نمک کی مسل پیش کرو۔ اب اس نے نمک کی مسل پیش کرنی اور انہوں نے اس میں لکھنا کہ دو آنے کا نمک آیا تھا جو فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک چلا ہے۔ اس کے بعد ''حضور والا مدار! اَور منظوری دیں۔'' اور پھر اُس نے لکھنا کہ نمک کے لئے دو آنے کی اَور منظوری دی جاتی ہے۔ غرض وہ سارے کا سارا اُس بیچارے کے گھر کا بہی کھاتہ تھا جو درحقیقت اُس کا ایک تمسخر تھا۔ اب بات کیا ہوئی؟ بات یہ ہوئی کہ پولیس آخر انسان ہے اُس کو غیب کا علم تو ہے نہیں وہ یہی کرتے ہیں کہ اِدھر اُدھر سے کنسوئیاں4 لیتے ہیں کہ کسی طرح بات کا پتہ چلے۔ وہ سارے شہر میں جوپھرے تو ہمسایوں نے کہا کہ اس کے گھر سے رات کو مِسل مِسل کی آواز آیا کرتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اُس کو پکڑ لیا۔ پہلے ایک ہمسایہ نے گواہی دی، پھر دوسرے نے دی، پھر تیسرے نے دی۔ غرض کئی گواہ مل گئے جنہوں نے تصدیق کی کہ روزانہ آدھی رات ہوتی ہے یا دس گیارہ بجتے ہیں تو یہاں سے آواز آنی شروع ہوتی ہے کہ مِسل مِسل! پس مسلیں اسی کے گھر میں ہیں۔ چنانچہ چھاپہ مارا گیا اور اندر سے نمک اور مرچ اور ہلدی کی مسلیں نکل آئیں تو اس طرح غلطیاں لگ سکتی ہیں۔ بہرحال انہوں نے تدبیر اور کوشش سے بات دریافت کرنی ہوتی ہے ان کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم کے جو ڈائری نویس ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ وہ اِردگِرد کنسوئیاں لے کر پتہ نہیں لگاتے بلکہ ہر واقعہ کے اوپر کھڑے ہوتے ہیں اور ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ بات یوں ہوئی ہے۔
ایک سابق گورنر پنجاب کا وائسرائے کے نام خط
اِسی طرح میرے ساتھ
ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔جب میں 1924ء میں انگلستان گیا تو وہاں سے واپسی پر بمبئی گورنمنٹ کے ایک افسر نے ایک چِٹھی کی نقل مجھے بھیجی۔ وہ چِٹھی گورنر پنجاب کی تھی اور تھی وائسرائے کے نام۔ اُس کو مختلف صوبوں میں سرکلیٹ (CIRCULATE) کیا گیا تھا کیونکہ بڑے بڑے اہم معاملات کو سرکلیٹ کیا جاتا ہے۔ وہ چِٹھی اُس نے میرے پاس بھیجی کہ یہ آپ کی دلچسپی کا موجب ہوگی اِسے آپ بھی پڑھ لیں۔ اُس چِٹھی کو میں نے پڑھا تو حیران رہ گیا۔ اُس چِٹھی میں گورنر پنجاب سر میلکم ہیلی ( جو بعد میں لارڈ بن گئے) وائسرائے کو لکھ رہے تھے کہ مجھے آپ کی طرف سے چِٹھی پہنچی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ جو انگلینڈ گئے تھے تو وہاں اُن کے تعلقات سوویٹ یونین کے بڑے بڑے افسروں سے تھے اور وہ اُن سے مل کر مشورے کرتے تھے اس لئے اُن کی نگرانی کی جائے اور دیکھا جائے کہ اُن کو سوویٹ یونین کے لوگوں سے کیا دلچسپی ہے اور سوویٹ یونین کا اُن کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اگر میں امام جماعت احمدیہ کا ذاتی واقف نہ ہوتا تو انگلستان کی سی آئی ڈی کی رپورٹ پر میں یقیناً اعتبار کرتا اور میں اس کو بڑی اہمیت دیتا لیکن میں ان کا ذاتی طور پر واقف ہوں وہ ایک مذہبی آدمی ہیں اور امن پسند آدمی ہیں۔ وہ سوویٹ یونین یا اس کے منصوبوں کے ساتھ دُور کا بھی تعلق نہیں رکھتے اس لئے اپنے ذاتی علم کی بناء پر مَیں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس میں کسی کارروائی کی ضرورت نہیں۔ یہ غلط رپورٹ ہے اور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ آگے انہوں نے خود لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو بغیر علم کے بعض سوویٹ یونین کے بڑے بڑے آدمی ملے ہیں۔ ہمارے آدمیوں کو چونکہ پتہ تھا کہ وہ سوویٹ یونین کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اس میں کوئی بات ہوگی اور ان کو پتہ نہیں تھا۔ ان کو ملنے والے آکر ملے تو انہوں نے ملاقات کر لی اور ا س لئے کہ باقی لوگ بھی غلطی میں مبتلاء نہ رہیں وائسرائے نے وہ چِٹھی گورنر بمبئی کو بھیجی۔شاید اَوروں کو بھی بھیجی ہوگی بہرحال ان کے ایک افسر نے مجھے اس کی نقل بھجوائی کہ چونکہ اس سے آپ کی بریّت ہوتی ہے مَیں آپ کو اطلاع دیتا ہوں۔
سفرِ انگلستان سے واپسی پر جہاز کے چیف انجینئر سے ملاقات
اب میں نے سوچا کہ کیا واقعہ ہے تو مجھے یاد آیا کہ جب ہم جہاز سے واپس آرہے تھے تو جہاز کا جو چیف انجینئر تھا اُس کی طرف
سے مجھے پیغام ملا کہ مَیں آپ کو جہاز کا انجن وغیرہ دِکھانا چاہتا ہوں اور یہ کہ جہاز کس طرح چلائے جاتے ہیں؟ (بڑے بڑے جہازوں کے جو انجینئر ہوتے ہیں وہ بڑے رینک کے ہوتے ہیں بلکہ اُن کے کپتان بھی کرنیل رینک کے ہوتے ہیں۔ یہ پیغام جو مجھے ملا جہازکے چیف انجینئر کی طرف سے تھا) مَیں نے اُس کو کہلا بھیجا کہ مَیں تو ایک مذہبی آدمی ہوں، میرا اِن باتوں سے کیا واسطہ ہے؟ میں نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے کوئی راجہ مہاراجہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ کبھی میرے کام آئیں گے تو خواہ مخواہ جو یہ تکلیف اُٹھائیگا تو اس کا کیا فائدہ ہوگا بعد میں اس کو مایوسی ہوگی پس میں کیوں اس کو مایوس کروں۔ چنانچہ میں نے کہا میں تو ایک فقیر آدمی ہوں، مذہبی امام ہوں مجھے ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں؟ اُس نے پھر یہی کہا کہ ٹھیک ہے آپ مذہبی آدمی ہیں لیکن میری یہ خواہش ہے آپ مجھے ممنون کریں اور ضرور جہاز دیکھیں۔ چنانچہ میں گیا۔ اُس نے بڑا انتظام کیا ہؤا تھا اور سارے انجینئر جو اُس کے ماتحت تھے اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے تھے۔ ایک ایک پُرزہ اُس نے دکھایا اور بتایا کہ یوں جہاز چلتا ہے، اِس اِس طرح پاور پیدا ہوتی ہے اور اِس طرح وہ اُسے آگے کھینچتی ہے۔ غرض سارا جہاز اُس نے دکھایا۔ خیر ہم نے جہاز دیکھ لیا۔ میرے ساتھ بعض اَور ساتھی بھی تھے جب ہم باہر نکلے تو میرے ساتھیوں میں سے ایک دوست نے مجھے کہا کہ انجینئر صاحب نے الگ ہو کر مجھے کہا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ پرائیویٹ طور پر میرے کمرہ میں چل کر ذرا دو پیالی چائے میرے ساتھ پی لیں۔ مَیں نے پھر انکارکیا اور کہا اِن کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے خواہ مخواہ کیوں ان کی مہمانی قبول کروں؟ مگر انہوں نے کہا بہت اصرار کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ مجھ پر بڑا احسان ہوگا آپ چائے پی لیں خیر وہ اکیلا ہی مجھے لے گیا اور باقی ساتھیوں کو ہم نے باہر چھوڑ دیا ہم کمرہ میں بیٹھے اور اُس نے چائے پلائی۔
چیف انجینئر کی غلط فہمی
چائے پلانے کے بعد کہنے لگا میری ایک عرض بھی ہے ۔میں نے کہا فرمایئے۔ میں سمجھ گیا کہ اس کو کوئی
کام ہی تھا۔ کہنے لگا میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ انگلینڈ کیوں گئے تھے؟ میں نے کہا مَیں انگلینڈ یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی ترقی کے لئے وہاں کیا کیا مواقع ہیں اور ہمارا مشن تبلیغ میں کس حد تک کامیاب اور کن اسباب کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے؟ ہنس کر کہنے لگا یہ تو ہوئیں لوگوں سے کرنیوالی باتیں اصل وجہ مجھے بتایئے۔ میں نے کہا لوگوں سے اور تمہارے ساتھ باتیں کرنے میں کیا فرق ہے؟ تم بھی لوگ ہو اَور لوگ بھی لوگ ہیں اس میں میرے لئے فرق کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا نہیں نہیں۔ آپ مجھ پر اعتبار کریں میں کسی کو نہیں بتاتا۔ میں نے کہا میری بات ہی ایسی کوئی نہیں جو کسی کو بتانے والی نہ ہو تم نے بتانا کیا ہے؟ اِس پر اُس نے پھر اصرار کیا کہ سچی بات مجھے بتا دیں۔ اس کے مقابل پر جب پھر مَیں نے اصرار کیا اور کہا کہ سوائے اِس بات کے اور کچھ بھی نہیں کہ مَیں تبلیغی میدان کے لئے راستہ کھولنے کے لئے گیا تھا اور یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی تبلیغ اِن ملکوں میں کس طرح ہو سکتی ہے تو پھر اُس نے بڑے افسوس سے کہا کہ مَیں کس طرح آپ کو یقین دلاؤں کہ میں کون آدمی ہوں۔
میکسیملین سے اپنے
رشتہ داری تعلقات کا اظہار
پھر کہنے لگا، آپ نے میکسیملین5 (MAXIMILIAN) کا نام سنا ہؤا ہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے سنا ہؤا ہے وہ آسٹریلیا
کا ایک شہزادہ تھا۔ میکسیکو میں فساد ہونے پر یورپ کی حکومتوں نے تجویز کی کہ اِس ملک میں اگر ہم کسی کو بادشاہ مقرر کر دیں تو اس ملک کے فسادات دُور ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نےمیکسیملین کے متعلق جو آسٹریلیا کے شاہی خاندان کا ایک شہزادہ تھا اور بڑا سمجھدار اور عقلمند سمجھا جاتا تھا تجویز کیا کہ اس کو میکسیکو کا بادشاہ بنا دیا جائے۔ یہ جاکر انتظام کر لے گا۔ اُس وقت میکسیکو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا تھا۔ اُس نے جاتے وقت اپنے اُن درباریوں میں سے جو شاہی درباری تھے ایک بڑا ہی قابلِ اعتبار آدمی ساتھ لے جانے کے لئے چُنا اور کہا کہ یہ میرا نائب ہوگا اور میری مدد کرے گا۔ غرض وہ میکسیکو میں گیا اور امریکہ، انگلینڈ اور فرانس وغیرہ کے دباؤ ڈالنے سے وہاں اس کی بادشاہت قائم کر دی گئی اور اُس نے کام شروع کر دیا لیکن امریکہ کے لوگ بادشاہوں کے عادی نہیں تھے۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہاں بغاوت شروع ہو گئی اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر کہا کہ ہم تو اِس بادشاہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور وہ سارے کے سارے مقابل میں اُٹھ کھڑے ہوئے آخر اُس کو ملک سے بھاگنا پڑا۔ جب وہ وہاں سے بھاگا تو سارے اُس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ سوائے اُس درباری کے جس کو اُس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اُس نے ایسے ایسے مصائب جِھیلے اور ایسی ایسی مصیبتیں اُٹھائیں کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن بڑی بڑی سخت تکلیفوں اور جان جوکھوں میں بھی اُس نے اُس کا ساتھ نہ چھوڑا۔ کہنے لگاآپ نے اُس کا حال پڑھا ہے؟ میں نے کہا میں نام تو نہیں جانتا پر یہ میں نے پڑھا ہے کہ اُس کا ایک ساتھی اُس کے ساتھ گیا تھا اور وہ بڑا وفادار تھا۔ کہنے لگا مَیں اُس کا پوتا ہوں۔ اب آپ سمجھ لیجئے کہ آپ مجھ پر کتنا اعتبار کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا اعتبار تو جتنا چاہو کرالو پر بات ہی کوئی نہیں میں کیا کروں۔
چیف انجینئر کی مضحکہ خیز پیشکش
کہنے لگا خیر پھر آپ نہیں کرتے تو میں تو کم از کم اپنی طرف سے پیشکش کر دیتا
ہوں اور وہ یہ ہےکہ آپ گئے تو تھے انگریزوں کے خلاف منصوبہ کرنے کے لئے لیکن مشکل آپ کو یہ پیش آئے گی کہ آپ اپنے مبلّغوں کو ہدایات کس طرح بھیجیں کیونکہ خط تو سنسرہو جاتے ہیں اور اگر وہ پکڑے جائیں تو آپ کی ساری سکیم فیل ہو جاتی ہے اس لئے مَیں آپ کو یہ تجویز بتاتا ہوں کہ جب آپ نے ہدایتیں لکھ کر اپنے مبلّغ کو بھیجنی ہوں تو میرا جہاز ہمیشہ فرانس جاتا رہتا ہے۔ میرے ذریعہ آپ اُسے ہدایت بھیجیں اُدھر اپنے مبلغ کو لکھ دیں کہ جہاز پر آکر مجھ سے وہ لفافہ لے جائے۔ اِسی طرح اُس نے آپ کو جو مخفی پیغام بھیجنا ہو وہ مجھے دے دے میں آپ کو پہنچا دیا کروں گا۔ پھر کہنے لگا آپ کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ وہ مجھ تک کس طرح پہنچے اور مَیں اُس کو کس طرح دوں؟ اِس پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے میں آپ کو ایک تجویز بتاتاہوں۔ چنانچہ اُس نے اپنا ایک کارڈ نکالا۔ یہ وزٹنگ کارڈ کہلاتے ہیں جو یورپین لوگ ملتے وقت ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں۔ اِس پر اُس شخص کا نام لکھا ہؤا ہوتا ہے اور اُس کا عہدہ وغیرہ درج ہوتا ہے جب کسی کو ملنا ہوتا ہے تو وہ کارڈ اندر بھجوا دیتے ہیں کہ فلاں افسر ملنے آیا ہے۔ غرض اُس نے اپنا وزٹنگ کارڈ نکالا اور اُس کو بیچ میں سے پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیا۔ جب کارڈ کو دو ٹکڑے کیا جائے تو ہر کارڈ الگ شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کوئی 1/1000 انچ اِدھر سے پھٹتا ہے کوئی 1/1000 انچ اُدھر سے پھٹتا ہے۔ کوئی ذرا اِدھر سے نیچا ہو جاتا ہے کوئی اُدھر سے نیچا ہو جاتا ہے اِس طرح تھوڑا بہت فرق ضرور ہو جاتا ہے اور دونوں حصوں کو ملانے سے فوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کارڈاسی کا حصہ ہے کسی دوسرے کارڈ کے ساتھ وہ نہیں لگ سکتا۔ غرض اس کارڈ کو پھاڑ کر وہ کہنے لگا میں آپ کو اطلاع دونگا کہ میں فلاں تاریخ کوبمبئی پہنچ جاؤں گا آپ کا آدمی آئیگا اور وہ میرا نام لے کر کہے گا کہ فلاں چیف انجینئر صاحب ہیں؟ میں کہوں گا ہاں میں ہوں۔ پھر وہ میرے پاس آئے گا اور آکر مجھے کہے گا آپ کو امام جماعت احمدیہ نے خط بھیجا ہے۔ میں کہوں گا میں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں۔ وہ کون ہیں میں تو بالکل اُن کا واقف نہیں۔ وہ کہے گا نہیں آپ اُن کے واقف ہیں۔ چنانچہ ایک کارڈ جو آپ نے براہ راست میرے پاس بھیجا ہوگا اس کا دوسرا ٹکڑا وہ اپنی جیب سے نکال کر کہے گا۔ یہ لیجئے میں اپنی جیب میں سے کارڈ نکال کر ملاؤنگا جب وہ مل جائیں گے تو میں کہوں گا۔ ہاں ہاں میں جانتا ہوں کیا لائے ہو میرے لئے ؟ پھر وہ لفافہ مجھے دے دیگا۔ اِدھر آپ ایک دوسرا کارڈ کاٹ کر میرے پاس بھیجدیں گے اور ایک اپنے انگلستان کے مبلغ کو بھیج دیں گے۔ جب میں فرانس یا اٹلی پہنچوں گا تو اُس کو خبر دونگا کہ ہمارا جہاز پہنچ گیا ہے یا فلاں تاریخ کو پہنچ جائے گا۔ اور اُس کو آپ کی طرف سے ہدایت ہوگی کہ فلاں جہاز پر پہنچ جانا۔ وہ وہاں آئیگا اور آکر کہے گا کہ اس جہاز کا جو چیف انجینئر ہے وہ ہے؟ لوگ بتائیں گے کہ ہے۔ اس کے بعد میں جاؤنگا اور پوچھوں گا کون صاحب ہیں؟ وہ کہیں گے میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں اور انگلینڈ سے آیا ہوں۔ میں کہوں گا مَیں جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں نہ کسی مبلغ کو جانتا ہوں۔ تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟ وہ کہے گا مجھے امام جماعت احمدیہ نے بھیجا ہے میں کہوں گا مَیں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں۔ اِس کے بعد وہ اپنی جیب میں سے کارڈ نکالے گا اور کہے گاکہ یہ کارڈ لیں۔ میں اپنی جیب سے کارڈ نکالوں گا اور دونوں کو ملاؤں گا۔ اگر وہ مل گئے تو میں کہوں گا ہاں ہاں یہ لفافہ تمہارے لئے ہے۔ اِس طرح آپ کی خط و کتابت بڑی آسانی سے ہو جائے گی۔ میں نے کہا میں آپ کی اِس پیشکش کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی اِس خیر خواہی کا ممنون ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ میں یہ کام ہی نہیں کرتا تو اس سے کس طرح فائدہ اُٹھاؤں۔ کہنے لگا پھر سوچ لیجیئے۔ جب آپ کو ضرورت ہو میں حاضر ہوں۔
پولیس والوں کی قیاسی رپورٹیں
اِس واقعہ سے مجھے خیال آیا کہ شاید وہی سوویٹ یونین کا نمائندہ ہو اور انہوں
نے سمجھا ہو کہ شاید یہ جماعت بھی اِس قسم کے کام کرتی ہے ہم اسے اپنے ساتھ ملا لیں۔ بہرحال یہ ایک چٹھی تھی جو آئی۔ اِس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ڈائری نویس اپنی ڈائریاں کس طرح مرتب کیا کرتے ہیں۔ یہ لکھنے والے بددیانت نہیں تھے، جھوٹے نہیں تھے ہمارے ساتھ ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی۔ بھلا انگلستان کے لوگوں کو یا فرانس کے لوگوں کو ہمارے ساتھ کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے محض قیاس کیا اور ایک شخص جس کے متعلق وہ جانتے تھے کہ وہ سوویٹ یونین کا بڑا آدمی ہے لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا۔ وہ ہمیں ملنے آیا ہم نے سمجھا کہ ایک عام آدمی ہم سے مل رہا ہے اور انہوں نے فوراً نوٹ کیا کہ سوویٹ یونین کا کوئی نمائندہ ان سے ملا ہے اور اس کے اوپر انہوں نے قیاس کر لیا کہ اُن کے ساتھ اِن کے تعلقات قائم ہیں۔
اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ ڈائریوں میں کس طرح غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں۔ لیکن قرآنی دفتر کے ڈائری نویس کسی سے سن کر ڈائری نہیں لکھتے بلکہ جیساکہ میں نے بتایا ہے اُس کی حقیقت سے آپ واقف ہو کر لکھتے ہیں۔
ڈائری نویسوں کی دھوکا دہی
پھر ڈائری نویسوں میں سے بعض ایجنٹ پرووکیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR)
ہوتے ہیں یعنی اُن کو خدمت کا اور اپنی حکومت میں مشہور ہونے کا اور صلہ پانے کا شوق ہوتا ہے اور وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں تاکہ اگلے کے منہ سے کچھ نکل جائے اور وہ اسے بالا افسروں تک پہنچا سکیں۔ مثلاً مجلس لگی ہوئی ہے اور لوگ بالکل ناتجربہ کار اور سیدھے سادے بیٹھے ہیں۔ ایک آدمی نے درمیان میں جان بوجھ کر بات شروع کر دی کہ گورنمنٹ بڑے ظلم کر رہی ہے۔ اب ایک ناواقف شخص نے بھی کسی پر سختی کا ذکر سُنا ہؤا تھا تو اُس نے بھی کہہ دیا کہ ہاں جی میں نے بھی فلاں واقعہ سنا ہے۔ اُس نے جھٹ ڈائری لکھ لی کہ فلاں شخص کہہ رہا تھا کہ گورنمنٹ بڑا ظلم کر رہی ہے حالانکہ اس کا محرّک وہ آپ بنا تھا۔ ایسے لوگوں کو انگریزی میں ایجنٹ پرووکیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR) کہتے ہیں۔ یعنی دوسروں کو اُ کسا کر وہ ان کے منہ سے ایسی باتیں نکلوا دیتے ہیں جو قابلِ گرفت ہوتی ہیں۔ جب میرٹھ کیس ہؤا جس میں وائسرائے کے مارنے کی تجویز کی گئی تھی تو اس میں ایک پولیس افسر نے سارا کیس بنایا کہ فلاں کانگرسی کی سازش تھی، فلاں کانگرسی کی سازش تھی لیکن اتفاقاً جب ساری مسل بالکل تیار ہو گئی تو کسی اَور جُرم میں ایک آدمی پکڑا گیا اور اُس نے اقرار کر لیا۔ اُس وقت پتہ لگا کہ وہ سارے ہی اَور لوگ تھے اور یہ سب کی سب جھوٹی کہانی بنائی گئی تھی۔ تب جاکر یہ حقیقت کھلی اور پھر اُس شخص کو سزا بھی ملی۔
سفرِ حج کا ایک واقعہ
میں جب 1912ء میں حج کے لئے گیا تو وہاں بھی ہمارے ساتھ ایساہی واقعہ پیش آیا۔ میرے ساتھ پانچ آدمی اَور
بھی ہم سفر تھے۔ان میں سے تین بڑی عمر کے تھے اور وہ تینوں ہی بیرسٹری کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک ہندو تھا جو اَب ہندوستان چلا گیا ہے دو مسلمان تھے جن میں سے ایک فوت ہو چکا ہے اور ایک ملتان میں بیرسٹری کر رہا ہے۔ یہ تینوں روزانہ میرے ساتھ مذہبی اور سیاسی گفتگو کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کانگرس کے ساتھ ملنا چاہئے مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی اِسی میں ہے۔ غرض خوب بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ جب ہمارا جہاز عدن پہنچا تو ہم اُتر کے عدن کی سیر کےلئے چلے گئے۔ میں بھی تھا اور وہ تینوں بیرسٹر بھی تھے اور وہ دو لڑکے بھی تھے جن میں سے ایک اِس وقت ایجوکیشن کا ڈائریکٹر ہے اُس وقت وہ بچہ تھا۔ بہرحال ہم سارے وہاں گئے۔ جس وقت ہم شہر میں داخل ہونے لگے تو ایک آدمی بالکل سادہ لباس میں ہمارے پاس آیا۔ اُس وقت ہم پنجابی میں باتیں کر رہے تھے اُس نے دیکھ لیا کہ پنجابی ہیں۔ چنانچہ آتے ہی کہنے لگا ''آگئے ساڈے لالہ لاجپت رائے جی دے وطن دے خوش قسمت لوگ آگئے'' اُس نے اتنا فقرہ ہی کہا تھا کہ انہوں نے اُس کو نہایت غلیظ گالیاں دینی شروع کر دیں۔ مجھے بڑی بدتہذیبی معلوم ہوئی کہ اِس بیچارے نے کہا ہے کہ تم وہاں سے آئے ہو اور انہوں نے گالیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ خیر اُس وقت تو میں چُپ رہا جب ہم واپس آئے تو میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے کوئی اچھے اخلاق نہیں دکھائے۔کوئی مسافر آدمی تھا، پنجابی دیکھ کر اُسے شوق آیا کہ وہ بھی پنجابی میں باتیں کرے اور اُس نے آپ کو کہہ دیا کہ لالہ لاجپت رائے کے وطن کے لوگ آئے ہیں تو اِس میں حرج کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگے آپ نہیں جانتے یہ پولیس مین تھا اور اُس کی غرض یہ تھی کہ ہم لالہ لاجپت رائے کی کچھ تعریف کریں اور یہ ہمارے خلاف ڈائری دے۔ اب پتہ نہیں یہ سچ تھا یا جھوٹ یا ان کے دل پر ایک وہم سوار تھا اور اس کی وجہ سے انہوں نے یہ کہا۔ بہرحال دنیا میں یہ کارروائیاں ہوتی ہیں۔
دیانتدار ڈائری نویسوں کو اپنی
ڈائری کی تصدیق میں مشکلات
پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ ان بادشاہوں کے دربار میں سچی ڈائریاں بھی جاتی تھیں۔ آخر سارے پولیس مین تو جھوٹے نہیں
ہوتے ۔ بیچ میں جھوٹے بھی ہوتے ہیں اور سچے بھی ہوتے ہیں۔بلکہ دنیا کی ہر قوم میں جھوٹے اورسچے ہوتے ہیں تو بعض بیچارے بڑی دیانت داری سے ڈائری لکھتے تھے لیکن ان کی تصدیق مشکل ہو جاتی تھی۔ مثلاً وہ کہتا تھا کہ میں نے فلاں جگہ پرکان رکھ کے سنا تو اندر فلاں فلاں آدمی یہ باتیں کر رہے تھے۔ یا مَیں ریل کے ڈبہ میں بیٹھا تھا تو فلاں فلاں یہ باتیں کر رہے تھے۔ اب ہم کس طرح یقین لائیں کہ اُس نے سچ لکھا ہے۔چاہے ایک ایک لفظ اُس نے سچ لکھا ہو۔ عام طور پر ڈائری نویس کو یہ رعایت ہوتی ہے کہ کہتے ہیں یہ آفیشل ورشن ہے۔ آفیشل ورشن غلط نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ دھینگامُشتی ہے پبلک ہر آفیشل ورشن کو غلط کہتی ہے۔ جب تنقید بڑھ جاتی ہے اور حکومت کے خلاف اعتراضات ملک میں زیادہ ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت قرآن ہاتھ میں لے کر بھی کوئی بات کرے توملک والے کہتے ہیں ہم نہیں مانیں گے یہ غلط اور جھوٹ ہے۔ بیچارہ پولیس والا وضو کرکے اور نماز پڑھ کے ڈائری لکھے اور خدا کی قسم کھائے کہ ایک لفظ بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا تو پھربھی جب لوگ اس ڈائری کو پڑھیں گے تو کہیں گے جھوٹ ہے اور ملک میں اس کے خلاف زبردست پروپیگنڈا شروع ہو جاتاہے اور پھر جمہوری حکومتوں میں چونکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں پولیس بیچاری یہ بھی ڈرتی ہے کہ کل کو یہی آگے آگئے تو ہمارے لئے مصیبت ہو جائے گی۔ مگر فرماتا ہے کہ یہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے ڈائری نویس مقرر ہوتے ہیں ان کے لئے یہ خطرہ نہیں ہوتا۔
مجرموں کے انکار پر پولیس کا جھوٹے گواہ تیار کرنا
سیدھی بات ہے کہ ڈائری عام طور پر
مُجرموں کی لکھی جاتی ہے اور مُجرم جو جُرم کرتا ہے وہ لوگوں کو دکھا کر تو کرتا نہیں، چوری چُھپے کرتا ہے اور چوری میں اتفاقاً ہی کوئی شخص دیکھ سکتا ہے، یہ تو نہیں کہ سارا ملک دیکھے گا یا سارا گاؤں دیکھے گا۔ اب فرض کرو اتفاقاً کوئی پولیس مین وہاں آگیا اور اُس نے وہ بات دیکھ لی اور اُس نے رپورٹ کی کہ ایسا واقعہ ہؤا ہے تو اب لازماً جب وہ شخص پکڑا جائے گا تو کہے گا بالکل جھوٹ ہے اس کو تو میرے ساتھ فلاں دشمنی تھی اِس لئے میرے ساتھ اِس نے یہ سلوک کیا ہے میں نے تو یہ کام کیا ہی نہیں۔ اب اس کے لئے سوائے اِس کے کہ کوئی اَور ایسے گواہ پیش کر دیئے جائیں یا بنا لئے جائیں جن سے یہ واقعہ ثابت ہو اَور کوئی صورت ہی نہیں۔ چنانچہ دنیا میں یہی ہوتاہے واقعہ سچا ہوتا ہے اور اس کے لئے گواہ جھوٹے بنائے جاتے ہیں تاکہ اُس واقعہ کو ثابت کیا جائے۔ اتفاقاً ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جن میں گواہ بھی سچے مل جاتے ہیں اور واقعات بھی سچے مل جاتے ہیں اور ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ واقعہ بھی جھوٹا ہوتا ہے اور گواہ بھی جھوٹے ہوتے ہیں بہرحال دونوں قسم کے کیس ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی گواہ بھی جھوٹے اور واقعہ بھی جھوٹا، کبھی واقعہ سچا اور گواہ جھوٹے، کبھی واقعہ بھی سچا اور گواہ بھی سچے۔ مگر الٰہی سلسلہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہمارے جو ڈائری نویس ہیں ان میں یہ بات بالکل نہیں پائی جاتی۔
عالَمِ روحانی میں مُجرم کے لئے
انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی
یہ درست ہے کہ جس وقت اس کے سامنے گواہ پیش کئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ انہوں نے تمہارا واقعہ لکھا
ہے تو مُجرم لازماً یہ کہے گاکہ صاحب! یہ غلط ہے۔جیسے اِس دنیا میں مجسٹریٹ کے سامنے جب پولیس ایک کیس پیش کرتی ہے تو مُجرم کہتا ہے حضور! یہ بالکل غلط ہے، پولیس والے میرے دشمن ہیں اور انہوں نے خواہ مخواہ مجھ پر کیس چلا دیا ہے میں نے تو کوئی فعل کیا ہی نہیں۔ اس کے نتیجہ میں جج بھی شبہ میں پڑ جاتا ہے اور وہ بھی یہ دیکھتا ہے کہ آیا پولیس سچی ہے یا یہ سچا ہے۔ اور ادھر پبلک بھی شبہ میں پڑ جاتی ہے بلکہ پبلک کو عام ہمدردی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے، پولیس کے ساتھ نہیں ہوتی۔ چنانچہ پبلک بھی اور اخبار والے بھی طنز شروع کر دیتے ہیں کہ یونہی آدمی کو دَھر گھسیٹا ہے، نہ اس نے جُرم کیا نہ کچھ کیا یونہی اس کو دَھر لیا گیا ہے۔ فرماتا ہے یہ امکان ہمارے ڈائری نویسوں کے خلاف بھی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے يَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْۤا اَيْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۔ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ۔6 جب قیامت کے دن ہمارے سامنے وہ لوگ پیش ہونگے تو ہم مشرکوں سے کہیں گے کہ وہ کہاں ہیں جن کو تم میرا شریک قرار دیا کرتے تھے؟ تو فرماتا ہے وہ ایک ہی جواب دیں گے، جیسے ہمیشہ مُجرم جواب دیتے آئے ہیں کہ وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ۔ اے ہمارے رب! تیرے سامنے ہم نے جھوٹ بولنا ہے؟تو ہمارا خدا ہم تیرے بندے، تیرے سامنے تو ہم جھوٹ نہیں بول سکتے۔ مُجرم ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں کہ حضور کے سامنے جھوٹ بولنا ہے؟ آپ کے سامنے تو ہم نے جھوٹ نہیں بولنا۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم کبھی شرک کے قریب بھی نہیں گئے، ہم نے کبھی شرک کیا ہی نہیں، یہ سب جھوٹ ہے اور یہ ڈائریاں یونہی جھوٹی لکھتے رہے ہیں۔ اب یہ سمجھ لو کہ جس طرح یہاں پولیس سچی ڈائری دے اور مجسٹریٹ کے سامنے یہ سوال آجائے کہ پولیس جھوٹی ہے تو وہ بیچارے گھبرا جاتے ہیں کہ اب ہم کس طرح ثابت کریں۔ اسی طرح وہ ڈائری نویس بھی لازماً گھبرائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو اتنی محنت کرکے سچے سچے واقعات لکھے تھے اب انہوں نے اللہ میاں کے سامنے آکر کہہ دیا کہ صاحب! ہم نے آپ کے سامنے تو جھوٹ نہیں بولنا واقعہ یہ ہے کہ ہم نے کوئی شرک نہیں کیا۔ اور ملزم یہ سمجھ لے گاکہ بس میرے اِس حربہ کے ساتھ شکار ہو گیا۔ یا تو اللہ تعالیٰ اِس عذر کو قبول کر لے گااور اگر سزا دیگا تو باقی سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اس بے چارے کو یونہی جھوٹی سزا صرف ڈائری نویسوں کے کہنے پر مل گئی ہے ورنہ یہ مُجرم کوئی نہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے ہاں کیا انتظام ہے۔
مجرموں کے خلاف ان کے
کانوں، آنکھوں اورجلد کی شہادت
ہمارے ہاں یہ انتظام ہے کہ حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَ جُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا
يَعْمَلُوْنَ7دنیا میں آج سے پہلے ڈائری نویس کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ڈائری نویس ڈائری لکھتا تھا اور مجرم جا کر کہہ دیتے تھے کہ جھوٹی ہے۔
موجودہ زمانہ میں ریکارڈر کی ایجاد
اب اِس زمانہ میں ہزاروں سال یا جیالوجی (GEOLOGY) والوں
کے بیان کے مطابق کروڑوں اربوں سال کے بعد وہ آلہ ایجاد ہؤا ہے جس کو ریکارڈر کہتے ہیں۔ طریق یہ ہے کہ اُس کو کمرے میں چُھپا کر کہیں رکھ دیا جاتا ہے اور پولیس کا کوئی نمائندہ یا پولیس کا افسر بھیس بدلے ہوئے اُس مُجرم سے باتیں شروع کر دیتا ہے اور وہ اِس ریکارڈر میں سب لکھی جاتی ہیں۔ مثلاً اُس گفتگو میں وہ اُس کا ساتھی بن جاتا ہے اور کہتا ہے ارے میاں! تم چوری کرتے ہو تو مجھے بھی کچھ دو۔ میں بھی غریب آدمی ہوں، میرا بھی کوئی حصہ رکھو اور مجھے بھی کچھ دلاؤ۔ اِس پر وہ فخر کرنا شروع کر تاہے کہ ہاں ہاں میں نے فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا۔ فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا۔ آؤ تم ہماری پارٹی میں شامل ہو جاؤ بڑی دولت آتی ہے اور خوب آسانی سے مال کمائے جاتے ہیں۔ اب ہمارا ارادہ فلاں جگہ ڈاکہ مارنے کا ہے وہاں سے ہمیں اُمید ہے کہ دس لاکھ پونڈ ملے گا، تمہیں بھی دو چار سو پونڈ حصہ مل جائے گا۔ اب یہ ساری باتیں وہاں ریکارڈ ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے جاکر رپورٹ کی اور وہ پکڑے گئے۔ جب عدالت میں پہنچے تو اُس نے حسب عادت یہ کہہ دیا کہ صاحب! یہ جھوٹ ہے۔ اس کے ساتھ میری دشمنی ہے۔ یہ مجھ سے دس پونڈ رشوت مانگ رہا تھا میں نے نہیں دی اس لئے اس نے میرے خلاف یہ جھوٹی رپورٹ کر دی۔ مجسٹریٹ نے کہا لاؤ ثبوت۔ اُس نے کہا یہ ریکارڈر ہے۔ چنانچہ ریکارڈر پیش کیا گیا، اس میں مُجرم کی آواز بند ہے، اُس کا لہجہ پہچانا جاتا ہے، اُس کی آواز پہچانی جاتی ہے، اُس میں یہ سارا ذکر آتاہے کہ میں نے فلاں جگہ چوری کی، میں نے فلاں جگہ چوری کی، اب فلاں جگہ چوری کرونگا۔ غرض جو اُس نے ڈائری لکھی تھی وہ ساری کی ساری اس میں ریکارڈ ہوتی ہے۔
ریکارڈر کے استعمال میں کئی قسم کی دِقتیں
لیکن یہ ریکارڈر بہت شاذ استعمال ہوتا ہے کیونکہ
ایک تو اس کے لئے جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے اور اسے دوسروں سے چُھپانا پڑتا ہے۔ پھر اس جگہ پر جانے کے لئے ملزم کو راضی کرنا پڑتا ہے۔ جو چور واقف کار ہوتے ہیں وہ جانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم توہوٹل کے کمرہ میں جا کر نہیں بیٹھتے جو بات کرنی ہے میدان میں کرو اور میدان میں ریکارڈر رکھانہیں جا سکتا۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جو زیادہ واقف ہوتے ہیں وہ ایسی مفلڈوائس(MUFFLED VOICE) سے یعنی آواز کو اِس طرح دبا کر بولتے ہیں کہ ریکارڈ ہی نہ ہو۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ شخص کمرہ میں ریکارڈر لایا ہے اس لئے وہ آہستگی سے اس طرح باتیں کریں گے کہ ریکارڈ نہ ہوں اور پھر جیسا کہ ان کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ کبھی وہ ایسا کرتے ہیں کہ جس کمرہ میں وہ ملاقات مقرر کرتے ہیں اس میں وہ پہلے اپنا ساتھی بھیج دیتے ہیں کہ ذرا تلاشی لے آنا اس میں کہیں ریکارڈر تو نہیں رکھا ہؤا۔ اگر ریکارڈر ہوتا ہے تو عین موقع پر وہ بہانہ بنا کرکھسک جاتے ہیں۔ کہہ دیا کہ اوہو! مجھے ضروری کام پیش آگیا ہے پھر بات کریں گے اور ان کی ساری محنت برباد ہو جاتی ہے۔
خدائی ڈکٹوفون
پس اوّل تو ہر جگہ ریکارڈر رکھا نہیں جا سکتا پھر ریکارڈر رکھا بھی جائے تو اس سے بچنے کی صورت ہو جاتی ہے مگر یہاں فرماتا ہے
کہ تمہارا ڈکٹوفون (DICTAPHONE) تو دنیا میں کئی لاکھ سال کے بعد کہیں ایجاد ہوگا اور ہمارا شروع سے ہی ڈکٹوفون موجود ہے۔ چنانچہ جس وقت فرشتے ڈائری پیش کریں گے اللہ تعالیٰ مجرم سے کہے گا دیکھو! تم نے یہ یہ گناہ کیا ہے۔ وہ کہے گا حضور! بالکل جھوٹ۔ یہ ڈائری نویس تو بڑے کذاب ہوتے ہیں انہوں نے سارا جھوٹ لکھا ہے ۔نہ میں نے کبھی چوری کی نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا۔ حضور ساری عمر سچ بولتے گزر گئی، ساری عمر لوگوں کا مال ان کو پہنچاتے ہوئے گزر گئی، شرک کے قریب نہیں گئے، میں تو *** ڈالتاہوں سارے بتوں پر، میں نے کب شرک کیا یہ تو جھوٹ بولتے ہیں۔
کفار پر اتمامِ حُجّت
اللہ تعالیٰ کہے گا اچھا لاؤ ریکارڈر۔ ہم نے اپنے پاس ریکارڈر بھی رکھا ہؤا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے حَتّٰۤى اِذَا مَا جَآءُوْهَا
شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ۔فرمائے گا، ٹھہرو! دوزخ میں داخل کرنے سے پہلے ہم اتمامِ حُجّت کر دیں۔ اے کانو! بتاؤ تم کیا گواہی دیتے ہو؟ اِس پر فرشتوں نے الزام لگایا ہے کہ اس نے غیبت سُنی تھی، تم کیا کہتے ہو؟
کانوں کی گواہی
اس پر یکدم وہ الٰہی روحانی سُوئی کان کے پَردوں پر رکھی گئی اور کان میں سے آواز آنی شروع ہوئی کہ فلاں دن فلاں شخص کی
اِس نے غیبت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ بڑا بے ایمان ہے، بدمعاش ہے، جھوٹا ہے، فریبی ہے۔ فلاں وقت، فلاں گھڑی ، فلاں دن اور فلاں سال اس کے سامنے فلاں شخص نے آکر یہ کہا تھا کہ خدا ایک نہیں ہے خدا کے شریک بھی ہیں۔ اور اس نے کہا تھا کہ آپ ٹھیک فرماتے ہیں اور یہ بات ہم نے سُنی۔ اِسی طرح یہ ساری باتیں کہ فلاں کو گالیاں دی گئیں اور اس نے سُنیں، فلاں کی چغلی کی گئی اور اس نے سنی، فلاں پر جھوٹا اتہام لگایا گیا اور اس نے سنا، فلاں شرک کیا گیا اور اس نے سنا، نبیوں کو گالی دی گئی اور اس نے سنی۔ غرض جتنا ریکارڈ روزانہ کا تھا وہ سارے کا سارا اس کے کان سنا دیں گے۔
آنکھوں کی گواہی
پھر فرمایا، وَ اَبْصَارُهُمْ ۔ پھر ہم اُن کی آنکھوں پر ریکارڈ کی سُوئی رکھ دیں گے اور کہیں گے۔ بولو۔ وہ کہیں گی حضور!
فلاں دن فلاں عورت جا رہی تھی اِس نے اُس کو تاکا، فلاں دن فلاں شخص کو اِس نے بڑے غصے سے دیکھا اور کہا میں اِس کو مار کے چھوڑوں گا۔ فلاں دن فلاں کام اِس نے کیا۔ غرض تمام کا تمام آنکھوں کا ریکارڈ پیش ہونا شروع ہو جائے گا۔
جلد کی گواہی
پھر فرمایا اچھا بعض اور بھی لذّت کے ذرائع ہیں۔ وَ جُلُوْدُهُمْ ذرا اس کے چمڑے سے گواہی مانگو۔ چنانچہ چمڑے پر ریکارڈ رکھا گیا۔
اب چمڑا بولا کہ فلاں دن فلاں اچھی اور خوبصورت چیز تھی یا ملائم جسم والی عورت تھی اِس نے اُسے چُھؤا۔ فلاں دن فلاں کا ایک بڑا نرم کوٹ تھا اِس نے اُسے چُھؤا اور کہا مَیں یہ چُراؤں گا۔ غرض چُھونے کے ساتھ جتنے جرائم وابستہ تھے وہ سارے کے سارے اُس نے گنانے شروع کر دیئے اور بتایا کہ اِس اِس طرح اِس نے کیا ہے۔
عمر بھر کا کچا چٹھا8سامنے آجائے گا
غرض وہ سارے نظارے جو ناجائز تھے تصویروں کی صورت میں
سامنے آنے لگ گئے۔ وہ ساری باتیں جو ناجائز تھیں بیان کر دی گئیں کہ اس نے سُنی تھیں اور وہ لذتِ لمس جس کا حاصل کرنا اِس کے لئے ناجائز تھا وہ بھی اِس کے سامنے بیان کر دیا گیا۔ غرض عمر بھر کا کچا چٹھا سامنے آگیا۔
اِسی طرح فرماتا ہے يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ9اُس دن ہم کچھ اَور بھی گواہیاں لیں گے۔
زبانوں کی گواہی
يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ ۔ اُس دن ان کی زبانیں بھی گواہی دیں گی۔ زبان پر ریکارڈ کی سُوئی رکھ دی جائیگی اور زبان بولنا
شروع کرے گی کہ فلاں دن اس نے خدا کو گالی دی، فلاں دن نبیوں کو گالی دی، فلاں دن اپنے ہمسائے کو گالی دی۔ فلاں دن بیوی کو گالی دی، فلاں دن بیٹے کو گالی دی، فلاں دن فلاں کو گالی دی۔ فلاں دن حرام کا مال چکھا اور فلاں دن اس نے فلاں کام کیا یہ سارے کا سارا ریکارڈ زبان بیان کرنا شروع کر دیگی۔
ہاتھوں کی گواہی
وَ اَيْدِيْهِمْ ۔ پھر ہاتھوں پر سُوئی رکھی جائیگی اور ہاتھ بولنا شروع کریں گے کہ فلاں دن فلاں کو مارا، فلاں دن فلاں کو مارا۔
فلاں دن اُن کا یوں مال اُٹھایا غرض یہ سارے کام ہاتھ بیان کریں گے۔
پاؤں کی گواہی
وَ اَرْجُلُهُمْ ۔ پھر پیر بیان کرنے شروع کر دیں گے کہ فلاں دن رات کے وقت فلاں کے گھر سیندھ لگانے کے لئے یا فلاں مال
اُٹھانے کے لئے یا اُس کو قتل کرنے کے لئے یا اَور کوئی نقصان پہنچانے کے لئے گیا۔
غرض کانوں آنکھوں اورچمڑوں کے علاوہ زبانیں اور ہاتھ اور پاؤں بھی اپنے اپنے حصہ کے ریکارڈ سنائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
کہتے ہیں ''گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے'' جب اپنے ہاتھ گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنے
پَیر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنی آنکھیں گواہی دے رہی ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کیا تھا، اپنے کان گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ سنا تھا، اپنی زبان گواہی دے رہی ہے کہ ہم نے یہ کچھ کہا تھا اور یہ کچھ چکھا تھا تو اب وہ بیچارے پولیس مین کو کس طرح کہیں گے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جو کچھ پولیس مین نے کہا تھا جب آنکھوں نے بھی اُس کے ساتھ گواہی دی، جب کانوں اور ہاتھوں وغیرہ نے بھی اس کے ساتھ گواہی دی تو ڈائری نویس کی جان میں جان آگئی اور اُس نے کہا کہ کروڑوں آدمیوں کے سامنے مجھے جُھوٹا بنایا گیا تھا اب میری براء ت ہو گئی کہ اپنے ہاتھوں اور اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں نے بھی اس کی گواہی دے دی اور میں شرمندہ اور ذلیل ہونے سے بچ گیا۔
دیکھو یہ ڈائری کتنی مکمل ڈائری ہے اِس کے مقابل میں دنیا کی ڈائری کے جو انتظامات ہیں وہ کتنے ناقص ہیں۔ قرآن کی ڈائری سُبْحَانَ اللّٰہِ! ایسی ڈائری پر تو کوئی شبہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔
گواہی میں دماغ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟
یہاں کوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ دماغ کو کیوں
شامل نہیں کیا گیا حالانکہ بہت سے گناہ تو دماغ سے ہوتے ہیں، ہاتھ پاؤں وغیرہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر بسا اوقات دماغی گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے کا ہاتھ پاؤں کو موقع نہیں ملتا۔ تو اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی حکومت میں یہ قانون ہے کہ جو چیز دماغ میں آتی ہے لیکن اُس پر عمل نہیں کیا جاتا وہ بدی نہیں گِنی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اُس کے نامۂ اعمال میں وہ ایک نیکی کی صورت میں لکھی جاتی ہے۔10 پس دماغ کو اس لئے شامل نہیں کیا کہ اگر تو ہاتھ دماغ کے مطابق عمل کر چکے ہیں تو ہاتھ کی بات بیان ہو چکی، اگر زبان دماغ کے مطابق عمل کر چکی ہے تو زبان کی بات بیان ہو چکی، اگر دماغ نے یہ کہا تھا کہ بدی کی بات سنو تو کان بیان کر چکے کہ اس نے فلاں بات سنی تھی، اگر دماغ نے کہا تھا کہ چوری کرو تو پَیروں نے بتا دیا کہ وہ فلاں کے گھر میں چوری کے لئے گئے تھے لیکن اگر دماغ میں ایک بات آئی اور ہاتھ پاؤں سے اُس نے عمل نہیں کروایا تو پھر اسلامی اصول کے ماتحت اس کے نام ایک نیکی لکھی جائے گی کہ اس کے دل میں بُرا خیال بھی آیا لیکن پھر بھی اِس نے اُس پر عمل نہیں کیا۔ تو چونکہ وہ ایک نیکی لکھی گئی اس لئے اس کو اس کی شرمندگی والی باتوں میں بیان نہیں کیا جائے گاکیونکہ ایک طرف خداکا اس کو نیکی قرار دینا اور دوسری طرف اس کو باعثِ فضیحت بنانا یہ خدا کے انصاف کے خلاف ہے۔ اگر تو وہ اس کو بدی قرار دیتا تو پھر بیشک اس کو فضیحت کی جگہ پر استعمال کر سکتا تھا لیکن اس نے تو خود فیصلہ کر دیا کہ دماغ کے خیال کو نیکی تصور کیا جائے گااور جب نیکی تصور ہوگی تو اب اُس کو فضیحت کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ پس معلوم ہؤا کہ ہماری روحانی ڈائری میں بڑے سے بڑے مُجرم کو بھی کچھ پردہ پوشی کا حق دے کر اُس کی عزت کی حفاظت کی جائیگی۔
ریکارڈ کی غرض محض مُجرموں پر اتمامِ حُجّت
ہوگی ورنہ عالِمُ الْغیب خدا سب کچھ جانتاہے
یہ دفتر کتنا مکمل اور کتنا شاندار ہے مگر اسی پر بس نہیں۔ اس طرح
تمام قسم کی حُجّت پوری کرنے کے بعد فرمایا کہ دیکھو میاں یہ خیال نہ کر لینا کہ ڈائری نویس کی ڈائری کے مطابق تمہیں مُجرم بنا دیا جاتا ہے، یہ نہ سمجھ لینا کہ اس ریکارڈ کے مطابق تمہیں مُجرم قرار دیا جاتا ہے، ہم تو تمہیں مذہب کے ذریعہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہم عَالِمُ الْغیب ہیں پھر ہم کو عَالِمُ الْغیب ہونے کے لحاظ سے اس ڈائری کی کیا ضرورت تھی اور اس ریکارڈ کی کیا حاجت تھی ہم تو سب کچھ جانتے تھے۔ اس کی ضرورت محض اس لئے تھی کہ تم پر حُجّت ہو جائے ورنہ ہمیں فرشتوں کو ڈائری لکھنے پر مقرر کرنیکی ضرورت نہیں تھی، ہمیں کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمیں یہ ضرورت تھی کہ یہ تمہارے سامنے پیش ہوں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ ہم بِلا وجہ سزا نہیں دیتے بلکہ پوری طرح حُجّت قائم کرکے دیتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے۔ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا يَخْفٰى11 اللہ تعالیٰ تمام باتیں جو ظاہر ہیں اور مخفی ہیں ان کو جانتا ہے۔ اس کو نہ کسی فرشتہ کے ریکارڈ کی ضرورت ہے نہ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ کی ضرورت ہے نہ ہاتھ پاؤں کی گواہی کی ضرورت ہے اس کے علم میں ساری باتیں ہیں۔
پھر فرماتا ہے اَلَاۤ اِنَّهُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْ١ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَ مَا يُعْلِنُوْنَ12اے لوگو! سُن لو کہ مشرک اور اللہ تعالیٰ کے مخالف لوگ اپنے سینوں کو مروڑتے ہیں تاکہ اُس سے مخفی ہو جائیں۔ یہاں محاورہ کے طور پر سینہ مروڑنا استعمال ہؤا ہے۔ کیونکہ جب کسی چیز کو چکر دیتے ہیں تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ چُھپ جائے۔ لیکن جو دل کی بات ہو اس کے لئے ظاہری سینہ نہیں مروڑا جاتا۔ پس اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں اُن کے دلوں کے رازظاہر نہ ہو جائیں۔ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْ١ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَ مَا يُعْلِنُوْنَ۔ سنو!جب یہ اپنے اوپر کپڑا اوڑھتے ہیں (عربی زبان میں اِسْتَغْشٰی ثَوْبَہٗ یا اِسْتَغْشٰی بِثَوْبِہٖ دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایسی طرز پر کپڑا لیا جس سے آواز دب جائے۔ یہ لفظ عام کپڑا اوڑھنے کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ آواز کے دبانے کے لئے بولا جاتا ہے۔ پس يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْکے معنے یہ ہیں کہ جس وقت وہ اپنے کپڑے اس طرح اوڑھتے ہیں کہ آواز دب کے باہر نہ نکلے) تو وہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔
مفسّروں کی ایک غلط فہمی
اس محاورہ کی وجہ سے مفسّرین کو غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس آیت کے ماتحت بعض ایسی
روایتیں درج کر دی ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی آجاتی ہے۔ بیشک منافق بڑا گندہ ہوتا ہے اور منافق بے وقوف بھی ہوتا ہے لیکن وہ حرکت جو مفسّرین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ تو بہت ہی چھوٹے بچوں والی ہے۔ کہتے ہیں منافق لوگ اللہ تعالیٰ سے چُھپانے کے لئے لحاف اوڑھ کر اس کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے۔ حالانکہ اگر اس کے یہ معنے کئے جائیں تو یہ بچوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ درحقیقت یہ محاورہ ہے اور ''کپڑے اوڑھتے ہیں'' کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی تدبیریں کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کے دل کی بے ایمانی لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے۔
مُجرم اپنے اعمال بھول جائیں گے مگر
خداتعالیٰ کے علم میں سب کچھ ہوگا
بہرحال فرماتا ہے کہ ہمیں کسی ڈائری نویس کی ضرورت نہیں، کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں ہم
تو آپ سب کچھ جانتے ہیں۔چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس دلیل کو بھی لے گا۔ فرماتا ہے يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا١ؕ اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَ نَسُوْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ13جب قیامت کے دن ان سب کو اکٹھا کیا جائے گاتو اللہ تعالیٰ علاوہ ان ڈائریوں کے اور علاوہ اس ریکارڈ کے فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا فرمائے گا ہمیں آپ بھی پتہ تھا، لو اب سن لو ہم تمہیں سناتے ہیں۔ چنانچہ وہ اُن کے سارے اعمالنامے انہیں سنانے شروع کر دیگا۔ اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَ نَسُوْهُ اور جب وہ بیان کرے گا تو پتہ لگے گاکہ اُن کے اعمال خدا کو تو یاد تھے مگر وہ آپ بُھول گئے تھے کہ ہمارے یہ یہ اعمال ہیں۔ گویا سب کچھ کرنے کے باوجود اُن کو پتہ نہیں تھا کہ ہم نے کیا کام کئے ہیں۔ جب خدا نے سنائے تو انہیں پتہ لگ گیا کہ تفصیل کیا ہے۔ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیزکا نگران اور گواہ ہے۔ فرشتوں کی اُس کو ضرورت نہیں صرف لوگوں پر حُجّت قائم کرنے کے لئے اُن کی ضرورت ہے۔
ملائکہ کی ضرورت کے متعلق ایک لطیف نکتہ
اِس جگہ اُس سوال کا جواب بھی آگیا جو
بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ جب خدا عَالِمُ الْغَیب ہے تو فرشتوں کی کیا ضرورت ہے؟ فرماتاہے فرشتوں کی تمہارے لئے ضرورت ہے اُس کے لئے ضرورت نہیں۔ چنانچہ جب وہ قاضی القضاۃ ان مجرموں کو کچا چٹھا سنانا شروع کرے گا تو ان پر یہ راز کھلے گا کہ وہ اپنے ہزاروں اعمال بُھول گئے تھے اب اس بیان سے بُھولی ہوئی باتیں انہیں پھر یاد آنی شروع ہونگی۔
خداتعالیٰ کے علمِ ازلی کی شہادت
اس کے بعد فرماتا ہے کہ اُن ڈائریوں کے علاوہ جو فرشتوں نے لکھ رکھی ہیں
اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے جو کچھ تم کو بتایا ہے اس کے علاوہ بھی ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا کیسا علم ہے۔ اب تک تو ہم نے یہ بتایا ہے کہ تم نے جب کام کئے تھے تو ہم دیکھ رہے تھے اور ہم کو سب کچھ پتہ تھا فرشتوں کی ہمیں ضرورت نہیں تھی۔ مگر اب ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ جب تم نے یہ کام کئے بھی نہیں تھے تب بھی ہم نے ازل سے ہی تمہارے یہ کام لکھے ہوئے تھے اس لئے ہمیں تمہارے فعل کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارا علمِ ازلی بتا رہا تھا کہ تم نے کَل کو یہ فعل کرنا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَ يَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّ لَا كَبِيْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا١ۚ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا١ؕ وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا14 اور جس دن خدا کے ازلی علم کی کتاب پیش کی جائیگی اور کہا جائے گاکہ دیکھو! تم تو اَب پیدا ہوئے اور تم سے اب عمل سرزد ہوئے اور خدا کے علم میں آئے لیکن خدا کو ازلی طور پر بھی ہمیشہ سے اس کا علم تھا۔ اور اس نے پہلے سے تمہارا یہ حساب لکھا ہؤا تھا کہ فلاں پیدا ہوگا، فلاں چوری کرے گا اور فلاں نیک ہوگا۔ یہ علمِ ازلی خدا ان کے سامنے رکھے گا اور اُن سے کہے گاکہ دیکھ لو یہ ہمارا آج کا علم نہیں بلکہ ہمیں ہمیشہ سے یہ علم تھا پس ہمیں کسی فرشتہ کی ضرورت نہیں۔ فرشتے نے تو اُس دن معلوم کیا جس دن تم نے وہ فعل کیا اور ہمارے حاضر علم میں یہ اُس دن بات آئی جس دن تم نے وہ فعل کیا مگر ہمارے ازلی علم میں یہ اربوں ارب سال پہلے سے موجود تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ تم نے یہ کام کرنا ہے۔ اُس وقت مُجرم اُس کو دیکھ کر ڈر رہے ہونگے اور وہ کہیں گے یَا وَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ ۔ ارے !ہم تومر گئے۔ یَا وَيْلَتَنَا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں۔ میری ماں مرے۔ ہماری زبان کے اس محاورہ کے مقابلہ میں عربی زبان کا محاورہ ہے یَا وَيْلَتَنَا ۔ ارے ہلاکت میرے اوپر آکر پڑ گئی مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّ لَا كَبِيْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا۔ یہ قسمت اور اعمالنامہ کی کیسی کتاب ہے کہ نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے نہ بڑی چھوڑتی ہے۔ ساری کی ساری اس میں موجود ہیں۔ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۔ اور جس طرح وہ قدیم سے موجود تھا اسی طرح وہ حال میں بھی اُسے دیکھیں گے۔ وہ خدا کے سامنے لاکھوں سال کے بعد یا سینکڑوں اور ہزاروں سال کے بعد پیش ہونگے مگر وہ دیکھیں گے کہ اُس میں سب کچھ پہلے سے لکھا ہؤا موجود ہے۔ وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا اور خدا تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا نہیں دیگا بلکہ اُن کے جُرموں کے مطابق انہیں سزا دیگا۔
عالَمِ روحانی میں ہر جُرم کے لئے
دس گواہ پیش کئے جائیں گے
گویا اس دفتر میں چار گواہیاں ہوگئیں۔ ایک تو فرشتوں کی ڈائری پیش کی گئی۔ ایک ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان اور
جلد کا ریکارڈ پیش ہؤا۔تیسرے خدا نے کہا میں خود بھی دیکھ رہا تھا مجھے فرشتوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ چوتھے پُرانا ازل کا چِٹھا پیش ہؤا اور انہیں کہا گیا کہ یہ تو ہمیشہ سے علمِ الٰہی میں موجود تھاچنانچہ دیکھ لو یہ لکھا ہؤا ہے۔
ہماری شریعت نے اس دنیا میں بڑے سے بڑے گناہ کی چار گواہیاں مقرر کی ہیں مثلاً زنا ہے اس کے لئے لکھا ہے کہ چار گواہ ہوں۔ باقی گواہیوں میں سے بعض دو دو سے ہوجاتی ہیں اور بعض جگہ ایک گواہ سے بھی گواہی ہو جاتی ہے۔ مگر خدا کے سامنے اتنا انصاف کیا جائے گاکہ وہ چار گواہ ایسے پیش کئے جائیں گے جو نہایت معتبر ہونگے۔ اوّل فرشتوں کی گواہی جو ایک نہیں بلکہ دو ہونگے گویا اس ایک گواہی میں دو گواہیاں آگئیں،پھر ریکارڈ آگیا اس ریکارڈ میں بھی چھ گواہ ہیں آنکھ ، کان، زبان، جلد، ہاتھ اور پاؤں یہ چھ گواہ ہونگے جن کی گواہی ہوگی۔ گویا آٹھ گواہ ہو گئے۔ پھر خدا نواں گواہ اور دسواں علمِ ازلی۔ غرض دس گواہوں کے ساتھ وہاں چھوٹے سے چھوٹے جُرم کی سزا دی جائیگی حالانکہ اس دنیا میں دو دو گواہ اور وہ بھی جو آٹھ آٹھ آنے لے کر قرآن اُٹھا لیتے ہیں، اُن کی گواہیوں پر فیصلہ ہو جاتا ہے۔
دُنیا میں آٹھ آنہ کے گواہوں پر مقدمات کا فیصلہ
ہمارے بڑے بھائی مرزا
سلطان احمد صاحب جو بعدمیں احمدی ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو اُن کا نوکری کرنا پسند نہیں تھا لیکن ان کو نوکری کا شوق تھا۔ چنانچہ وہ نوکر ہوئے اور آخر ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے۔ اُن دِنوں نارتھ ویسٹرن پراونس اور پنجاب یہ دونوں صوبے اکٹھے ہوتے تھے۔ اور وہ کیمل پور یا میانوالی کے علاقہ میں یا شاید ڈیرہ غازیخان میں ای۔اے۔سی تھے۔ وہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا دوست اور مجھ سے بہت ملنے والا تھا اُس کا میرے پاس کوئی مقدمہ تھا۔ مَیں نے اُس کی دَورے میں پیشی رکھی اور جہاں ہم تھے اُس سے وہ جگہ کوئی پچاس ساٹھ میل پر جاکے آئی۔ چونکہ وہ میرا بے تکلّف دوست تھا میرے پاس آیا اورکہنے لگا مرزا صاحب! مجھے آپ پر بڑا اعتبار تھا کیونکہ آپ دوست تھے لیکن خیر یوں تو آپ نے انصاف ہی کرنا ہے مگر کم سے کم مَیں آپ سے یہ تو امید کرتاتھاکہ آپ مجھے خراب تو نہ کریں گے۔ اب آپ نے پچاس میل پر جاکے گواہی رکھی ہے میں یہاں سے گواہ کس طرح لے کے جاؤنگا۔ میرا خرچ الگ ہوگا اور پھرممکن ہے گواہ انکار کر دیں اور کہیں کہ ہم نہیں جاتے پھر میرے پاس کیا چارہ ہے؟ کہنے لگے میں نے اُس کو کہا کہ میں تو تمہیں عقلمند سمجھ کے تمہارے ساتھ دوستی کرتا تھا تم توبڑے بیوقوف نکلے۔ کہنے لگا کیوں؟ میں نے کہا تم بھی مسلمان اور گواہ بھی مسلمان۔ تم کو پتہ نہیں کہ آٹھ آٹھ آنے میں گواہ مل سکتا ہے۔ پھر یہاں سے گواہ لے جانے کا کیا سوال ہے؟ خیر وہ اُٹھ کر چلا گیا۔ کہنے لگے جب ہم وہاں پہنچے تو پچاس مِیل پر جہاں کوئی شخص نہ اُس کی شکل جاننے والا اورنہ اِس واقعہ کا علم رکھنے والا تھا وہاں گواہ آگئے جنہوں نے قرآن اُٹھایا ہؤا تھا اور انہوں نے آکر کہا۔ خداکی قسم! ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے اور ہم سچ بولتے ہیں کہ یہ واقعہ ہؤا ہے۔ کہنے لگے واقعہ کے متعلق تو مجھے پتہ ہی تھاکہ سچا ہے پر یہ بھی پتہ تھا کہ یہ گواہ سارے کے سارے جھوٹے ہیں بہرحال میں نے اُس کے حق میں ڈگری دے دی اور پھر میں نے اُس کو کہا کہ میاں! اس میں تجھ کو گھبراہٹ کس بات کی تھی۔ آٹھ آٹھ آنے لے کر تو مسلمان گواہی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ تو دیکھو اسلامی سزا کتنی کامل تحقیقات کے بعد ہوتی ہے کہ جس میں کوئی شائبہ بھی کسی قسم کے شبہ کا پیدانہیں ہوتا۔
مسئلۂ تقدیر اور قسمت
شاید کسی کے دل میں خیال آئے کہ میں نے جو کتاب ازلی کا ذکرکیا ہے تو اس سے معلوم ہؤا کہ تقدیر اور قسمت
کا مسئلہ اُسی شکل میں ٹھیک ہے جس طرح عوام الناس سمجھتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ قرآن تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُس طرح بیان نہیں کرتا جس طرح کہ عام مسلمان اپنی ناواقفیت سے سمجھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کے نزدیک تقدیر اور قسمت کے محض یہ معنے ہیں کہ ہر انسان کے لئے ایک قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا کام کرے گا تواس کا یہ نتیجہ نکلے گا۔ مثلاً اگرمرچیں کھائے گا تو زبان جلے گی، اگر تُرشی کھائے گا تو نزلہ ہو جائے گااور گلا خراب ہو جائے گا، اگر کوئی سخت چیز کھا لے گاتو پیٹ میں درد ہو جائے گایہ تقدیر اور قسمت ہے۔ یہ تقدیر اور قسمت نہیں کہ فلاں شخص ضرور ایک دن سخت چیز کھائے گا اورپیٹ میں درد ہو جائے گا۔ یہ جھوٹ ہے۔ خدا ایسا نہیں کرتا۔ قرآن اِس سے بھراپڑا ہے کہ یہ باتیں غلط ہیں۔ پس یہ جو ہمیشہ سے لکھا ہؤا ہونا ہے اس کا تقدیر اور قسمت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے کہ تقدیر اور قسمت تب بنتی ہے جب خداکے لکھے ہوئے کے ماتحت انسان کام کرے۔ اگر یہ ضروری ہو کہ جو کچھ خدا نے لکھاہے اُسی کے مطابق اس کو کام کرنا چاہئے تو پھر یہ جبر ہو گیااور تقدیر اور قسمت ٹھیک ہو گئی لیکن جو قرآن سے تقدیر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا اس بات میں بندے کے تابع ہوتاہے اورجو اس بندے نے کام کرنا ہوتاہے خدا اُسے لکھ لیتا ہے۔ تقدیر اور قسمت تو تب ہوتی جب خدا مجبور کرتا اور یہ بندہ خدا کے جبر سے وہ کام کرتا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرتا ہے اور خدا ا س کے جبرکے ماتحت وہی بات لکھتاہے جو اُس نے کرنی ہے۔ اس لئے یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ لکھنے کے بارہ میں خدا پر وہ تقدیر حاوی ہے جو انسانوں پر قیاس کی جاتی ہے۔ یہ تم نہیں کہہ سکتے کہ بندوں کی قسمت میں خدا نے جبر کرکے کوئی اعمال لکھے ہوئے ہیں۔
عالَمِ روحانی میں مُجرموں کے فیصلہ کی نقول
پھر اس دنیا میں قاعدہ ہے کہ لوگ ریکارڈ کی
کاپی مانگتے ہیں۔ انہیں خیال ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو دکھائیں گے اور غور کریں گے کہ یہ سزا ٹھیک ملی ہے یا نہیں ؟اس غرض کے لئے لوگ ریکارڈ اور فیصلہ کی کاپی مانگتے ہیں اور اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں مگر اس دنیا کی گورنمنٹوں نے یہ طریق رکھا ہؤا ہے کہ وہ پیسے لے کر ریکارڈ دیتی ہیں۔ جب کوئی نقل لینے آتاہے تو کہتے ہیں پیسے داخل کراؤ مثلاً پندرہ روپے یا بیس روپے یا پچیس روپے۔ نقل نویسوں نے حرف گِنے اورکہہ دیا کہ اتنے روپے داخل کرو تو ریکارڈ مل جائے گا۔ پھر کہا کہ اگر جلدی نقل لینی ہے تو ڈبل یا تین گُنا فیس دو۔ میں نے دیکھا کہ آیا وہاں بھی کوئی نقل ملتی ہے یا نہیں ؟اور آیا اُن کو تسلی ہوگی کہ گھر جاکر آرام سے بیٹھ کر دیکھیں گے کہ سزا ٹھیک ملی ہے ؟جب میں نے غورکیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہاں بھی نقلیں ملیں گی چنانچہ فرماتا ہے وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ١ۙ۬ فَيَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِيَهْۚ۔وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهْۚ۔يٰلَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ۔ 15 یعنی یہاں تو کچھ دِنوں کے بعدنقل ملتی ہے یا اگر جلدی لینی ہو تووہ بھی تین چار دن میں ملتی ہے اور اس کے لئے کئی گُنے زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے مگر وہاں اِدھر فیصلہ ہوگا اور اُدھر اگر وہ مُجرم ہے تو اُس کے بائیں ہاتھ میں مُفت نقل پکڑا دی جائے گی اور کہا جائے گاکہ یہ تمہارے اعمالنامہ اور فیصلہ کی نقل ہے اور یہ نقل مُفت ملے گی کوئی پیسہ نہیں دینا پڑے گا۔
فیصلہ کی نقل دینے کا فائدہ
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ریکارڈ کی نقل دینے کا زائد فائدہ کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ
اس کا فائدہ یہ ہے کہ سزا ملنے پر انسان کم سے کم اپنی کانشنس کو تسلی دیتا ہے کہ میرا جُرم اتنا نہیں جتنا مجھے مجرم بنایا گیا ہے لیکن جب وہ ریکارڈ پڑ ھے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ جُرم سے کم ہی سزا ملی ہے زیادہ نہیں۔ اُس وقت وہ کہے گا يٰلَيْتَنِيْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِيَهْ۔کاش ! یہ کتاب مجھے نہ دی جاتی تاکہ کم سے کم میری کانشنس تو تسلی پاتی کہ شاید میرے گناہ کچھ زیادہ سمجھ لئے گئے ہیں ورنہ میں اتنا مُجرم نہیں مگر اس سے تو پتہ لگتا ہے کہ گناہ زیادہ ہیں اور سزا کم ہے ۔ وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ اور مجھے یہ نہ پتہ لگتا کہ میرا حساب کیا ہے کیونکہ حساب زیادہ بنتا ہے۔ حساب بنتا ہے دو سَو سال کی قید اور سزا دی ہے ایک سَو پچاس کی۔ میری کانشنس(CONSCIENCE) اُلٹا مجھے مجرم بناتی ہے کہ میں نے جُرم بھی کئے، غداریاں بھی کیں، فریب بھی کئے پھر بھی سزا مجھے کم ملی۔ مجھے پتہ نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے تو میری کانشنس کو کچھ تسلی رہتی۔
نیک لوگوں کو بھی فیصلہ کی نقلیں دی جائیں گی
اِسی طرح فرماتا ہے کہ جو نیک کام کرنے
والے ہیں اُن کو بھی ڈائریوں اور اُن کے فیصلہ کی نقل دی جائے گی چنانچہ فرماتا ہے فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ١ۙ فَيَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْۚ۔اِنِّيْ ظَنَنْتُ اَنِّيْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ۔16 یعنی جو نیک لوگ ہونگے اُن کو بھی فوراً کاپی دیدی جائیگی لیکن اُن کے دائیں ہاتھوں میں کاپی دی جائے گی اور جب وہ اُس کو پڑھیں گے تو اُس میں اُن کے اعمالنامہ کو ایسا خوبصورت کرکے دکھایا ہوگا اور وہ ایسے اچھے ٹائپ پر لکھا ہوگا کہ کہیں گے هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ۔ ارے بھائی! ادھر آنا ذرا پڑھو تو سہی یہ کیا لکھا ہؤا ہے۔ جب کسی شخص کو کوئی انعام ملتا ہے تو وہ لازمی طور پر دوسرے لوگوں کو بھی اُس میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ پس هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْمیں نقشہ کھینچ دیا گیا ہے کہ وہ فخر کرکے لوگوں کو بلائے گا اور کہے گاآؤ میاں! آؤ! ذرا دیکھو میرے اعمال کیا ہیں۔ اِنِّيْ ظَنَنْتُ اَنِّيْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ ۔مجھے تو پہلے سے ہی یہ امید تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی کا حق نہیں مارتا۔ میں نے جو نیک کام کئے ہیں مجھے ان کا ضرور بدلہ ملے گا، سو اُمیدوں سے بڑھ کر ملا۔
دُنیوی حکومتوں کے نظام میں مختلف نقائص
دیکھو دفاتر اور ڈائریوں کا ایسا مکمل اور بے اعتراض
نظام دنیا کی مہذب سے مہذب حکومت میں بھی نہیں ہوتا۔ دُنیوی حکومتوں نے تو حال میں یہ ڈائری نویسی کے انتظام شروع کئے ہیں۔ چنانچہ ڈائری نویسی کے انتظام کا کوئی ہزار پندرہ سَو سال سے پتہ لگتا ہے اس سے پہلے نہیں بلکہ صرف ہزار سال کے قریب ہی عرصہ ہؤا ہے۔ لیکن قرآنی حکومت نے تیرہ سَو سال پہلے اس کا مکمل نقشہ کھینچا ہے کہ ڈائری ہونی چاہئے، ڈائری نویس کی صداقت کا ثبوت ہونا چاہئے اور مجسٹریٹ کو پتہ ہونا چاہئے کہ سچائی کیا ہے؟ یہ تین چیزیں جمع ہوں تب سزا کے متعلق یہ تسلی ہو سکتی ہے کہ سزا ٹھیک ہے۔ ہمارے ہاں اوّل تو ڈائری نویس جھوٹا بھی ہوتا ہے اور سچا بھی ہوتاہے۔ پھر اس کی تصدیق کرنے والے کوئی نہیں ہوتے بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ تیسرے مجسٹریٹ بیچارے کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ کا
قاضیُ القضاۃ بننے سے انکار
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو بادشاہ نے قاضیُ القضاۃ مقرر کیا تو انہوں نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں
قاضیُ القضاۃ نہیں بنتا۔ بادشاہ خفاہو گیا اور اس نے کہا میں اس کو سزا دونگا کیونکہ انہوں نے ہتک کی ہے۔ مگر چونکہ لوگوں میں خبر مشہور ہو چکی تھی اس لئے ان کے دوست دُور دُور سے انہیں مبارک باد دینے کے لئے پہنچے کہ آپ قاضیُ القضاۃ مقرر ہو گئے ہیں۔ لیکن جب شہر میں پہنچے تو پتہ لگا کہ آپ نے تو انکار کر دیا ہے۔ بہرحال وہ آپ کے پاس آئے اورکہا ہم تو مبارکباد دینے کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے کہا تم کس بات کی مبارک باد دینے کے لئے آئے تھے؟ وہ کہنے لگے اتنی بڑی حکومت کا آپ کو قاضیُ القضاۃ مقرر کیا گیا ہے کیا ہم مبارکباد نہ دیں؟ انہوں نے کہا تم بڑے بیوقوف ہو، میں کیا کرونگا؟ میں عدالت میں جاکر بیٹھوں گا اور دو آدمی میرے سامنے پیش ہونگے۔ ایک کہے گا اِس نے میرا سَو روپیہ دینا ہے دوسرا کہے گامیں نے کوئی نہیں دینا۔ اب وہ دونوں آپس میں جھگڑ رہے ہونگے، یہ کہے گادینا ہے وہ کہے گانہیں دینا اورمیں بیچ میں بیٹھا ہونگا کیونکہ مجھے حکومت نے مقرر کیا ہے کہ فیصلہ کرو اِس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ وہ جو کہتا ہے اِس نے سَو روپیہ دینا ہے اُس کو پتہ ہے کہ اُس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ اور جو کہتا ہے میں نے نہیں دینا اُس کو بھی پتہ ہے کہ میں نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ اور میں جو جج بن کر بیٹھاہونگا مجھے پتہ ہی نہیں ہوگا کہ اِس نے دینا ہے یا نہیں دینا۔ پس سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت تو میری ہوگی کہ مدعی کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور مدعا علیہ کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور میں جو قاضی بن کے بیٹھاہوں جس کے سپرد سب سے اہم کام ہے اُس کو نہیں پتہ کہ حقیقت کیا ہے؟ تومیں کس طرح یہ بوجھ اُٹھا سکتاہوں۔ تو یہ بھی ایک بڑا مشکل سوال ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قضاء میں دیکھو کتنا زبردست نظام رکھا گیا ہے کہ ہم ڈائری بھی پیش کریں گے، لکھنے والے عینی گواہ بھی لائیں گے اور پھر عینی گواہوں کے علاوہ اپنی زبان اور اپنے کانوں اور اپنے ہاتھ پاؤں کا ریکارڈ لائیں گے تاکہ وہ انکار نہ کر سکیں اور اس کے بعد ہم جو فیصلہ کرنے والے ہیں اُنہیں بتائیں گے کہ ہم بھی وہاں بیٹھے دیکھ رہے تھے اس لئے اس فیصلہ کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا۔
حکومتیں روحانی نظام کی اب تک نقل بھی نہیں کر سکیں
مگر اتنے بڑے زبردست نظام
کو دیکھ کر بھی حکومتیں اسکی نقل نہیں کر سکیں۔ حکومتوں نے ڈائریاں بھی بنائی ہیں، اب ریکارڈر بھی نکال لئے ہیں مگر وہ ریکارڈر کروڑوں مقدموں میں سے کسی ایک میں استعمال ہوتا ہے ہر جگہ نہیں ہو سکتا۔ غرض اتنے نظام کو دیکھنے کے بعد بھی دنیا ایسا نظام نہیں بنا سکی اور ابھی دنیا کہہ رہی ہے کہ قرآن کی ہم کو ضرورت نہیں ہے۔ تیرہ سَو سال سے یہ اعلیٰ درجہ کا نظامِ حکومت قرآن بیان کرتا ہے اور تیرہ سَو سال سے اس کو تفصیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، تیرہ سَو سال سے مہذب دنیا کی حکومتیں اِس کو دیکھتی ہیں اور اس کی نقل کرنیکی کوشش کرتی ہیں مگر تیرہ سَو سال کے عرصہ میں اس کی مکمل نقل نہیں کر سکیں۔ اگر وہ ڈائریاں لکھنی شروع کرتی ہیں تو ان کو سچے ڈائری نویس نہیں ملتے۔ اگر ڈائری نویس کی تصدیق کا ثبوت ملتاہے تو پہلے تو اُن کو اِس کا پتہ ہی نہیں تھا اب ریکارڈر نکالا تو وہ ریکارڈر کو ہر جگہ استعمال نہیں کر سکتے۔ اور اگر ریکارڈر ہو بھی تو پھربھی جج کو صحیح پتہ نہیں لگ سکتا اورکوئی ایسا جج اُن کو نہیں مل سکتا جس کو پتہ ہو کہ واقعہ کیا ہے۔ وہ محض قیاسی باتیں کرتا ہے۔ چنانچہ ہزاروں دفعہ ایسا ہؤا ہے کہ جج نے ایک فیصلہ کیا ہے اور بعد میں معلوم ہؤا ہے کہ وہ فیصلہ غلط تھا۔ ہم نے انگلستان کے بعض فیصلے پڑھے ہیں جن میں یہ ذکر آتا ہے کہ بعض جج پاگل ہو گئے کیونکہ پندرہ بیس سال کے بعد ان کو بعض ایسے واقعات معلوم ہوئے کہ جس شخص کو انہوں نے پھانسی دی تھی وہ بالکل مُجرم نہیں تھا اور وہ اس صدمہ کے مارے کہ ہم نے اتنا ظلم کیا ہے پاگل ہو گئے۔ لیکن قرآن کا جج دیکھو اُس کے پاس ڈائریوں کا کتنا بڑا نظام ہے اور پھر کس یقین کے ساتھ وہ کہتاہے کہ نہیں اصل حقیقت یہ ہے۔
مخلص اور پارسا اور توبۃ النصوح
کرنے والوں کو ایک خدشہ
ایک اَور بات بھی یہاں قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ اس نظام کا ذکرسُن کر (جیسے تم میں سے بھی جو ہوشیار آدمی ہونگے اُن
کے دل میں بھی خیال آیا ہوگا)مخلص اور پارسا اور توبۃ النصوح کرنے والوں کے دل بھی ڈر جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ آٹے کے ساتھ گھُن بھی پِسنے لگا ہے۔ مجرم تو خیر مجرم تھے ہی لیکن مَیں جو توبہ کرنے والا ہوں یا مَیں جس نے ساری عمر کوشش کرکے نیکیاں کی ہیں میرے اعمال کا بھی تو کوئی نہ کوئی حصہ ایسا ہے جس کے متعلق مَیں نہیں چاہتا کہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہو۔ اگر یہی ذلّت اور فضیحت ہونی ہے تو میں تو صاف مر گیا۔ ابوجہل تو ڈوبے گا ساتھ اس کے کئی صحابہؓ کے اعمال جو چُھپانے والے ہونگے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے۔ اس طرح دوسرے نیک لوگوں کے بھی ظاہر ہو جائیں گے۔ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کا قریب ترین جو شاگرد تھا وہ پہلے ڈاکو اور چور ہوتا تھا۔ اب وہ بزرگ صاحب پیش ہوئے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور اسلام کی خدمت کرنے والے ہیں اور ریکارڈ شروع ہؤا کہ انہوں نے فلاں جگہ چوری کی، فلاں جگہ ڈاکہ مارا تو ذلّت تو ہوگی۔ اب ایسا شخص ملنا سوائے چند افراد کے بہت مشکل ہے کہ جس کی زندگی کا کوئی حصہ بھی ایسا نہ ہو جس کو ریکارڈ پر نہ لایا جا سکے۔ اگر اس دفتر میں ایک ایک عمل اور ایک ایک خیال چار چار ریکارڈوں میں موجود ہے تو کافر تو ذلیل ہونگے ہی مؤمن کو بھی جنت ہز ار رُسوائی کے بعد ہی ملے گی۔ پھر اس کا مزہ کیا آئیگا؟ تائب کہے گاکہ توبہ تو منظور ہو گئی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِمگر کلنک کا ٹیکا تو ماتھے کو لگ ہی گیا۔
ریکارڈر آپ ہی نہیں بجتا بلکہ
مالک جب بجاتا ہے تب بجتا ہے
مگر اس دفتر ریکارڈ میں جب ہم نے قاعدے دیکھے اور غور کیا کہ اچھا اس کے لئے کیا سامان موجود ہے؟ تو معلوم ہؤا کہ
اُس نے اِس خدشہ کا بھی علاج کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسی کوئی بات پیش ہی نہ ہو کیونکہ ہم نے جب ریکارڈ دیکھا تو قانون یہ نکلا کہ وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا١ؕ قَالُوْۤا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْۤ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّ هُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ17 جب اُن کے ہاتھوں نے اور پیروں نے گواہیاں دینی شروع کیں تو انہوں نے کہا ارے کمبختو! تم تو ہمارا حصہ تھے۔ اے کان! تُو میرا تھا، اے آنکھ! تُو میری تھی، اے زبان! تُو میری تھی، اے جِلد! تُو میری تھی، اے ہاتھ! تم میرے تھے، اے پاؤں! تم میرے تھے کمبختو! تمہی نے میرا بیڑا غرق کرنا تھا کہ یہ باتیں کرنی شروع کر دیں۔
صِرف جِلد کا انتخاب اُس کے نمائندہ
ہونے کی حیثیت سے کیا گیا ہے
اِس جگہ اللہ تعالیٰ نے ان اعضاء کے صرف ایک نمائندہ یعنی جِلد کو لے لیا ہے کیونکہ جِلد ان سب
چیزوں کو ڈھانپتی ہے۔جِلد کان پر بھی ہوتی ہے،جِلد زبان پر بھی ہوتی ہے، جِلد آنکھوں پر بھی ہوتی ہے،جِلد پیروں پر بھی ہوتی ہے،جِلد ہاتھوں پر بھی ہوتی ہے۔ پس چونکہ جِلد نمائندہ ہے تمام اعضاء کا اس لئے یہاں صرف جِلد کا لفظ رکھا گیا ہے۔ بہرحال جب وہ یہ کہیں گے تو ان اعضاء کا نمائندہ آگے سے یہ جواب دیگا کہ بھئی! ہم کوئی اپنے اختیار سے بولے ہیں؟ یہ ریکارڈر آپ ہی نہیں بجا کرتے بلکہ مالک جب سُوئی رکھتا ہے اور اس کو بجانا چاہتا ہے تب بجتے ہیں۔ اُس نے جب سُوئی رکھ دی تو ہم کیا کریں پھر تو ہم نے بجنا تھا۔
عالَمِ روحانی کا ایک اور خوشکن قانون
اس سے ایک شخص کے دل کو کم از کم اتنی تسلی ہو گئی کہ ریکارڈر
نے آپ ہی نہیں بجنا، بجانے والا بجوائے گا تو بجے گا۔اب دیکھیئے بجوانے والا بجواتا ہے یا نہیں اور کوئی عزت رہ جاتی ہے کہ نہیں؟ سو اس کے متعلق قاعدہ دیکھا تو یہ قاعدہ نکلا کہ يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ١ؕ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ يَعْمَلْ صَالِحًا يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ وَ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ18 جس دن ہم ان سب لوگوں کو جمع کریں گے اور وہ دن ایسا ہوگا جب ایک دوسرے پر اُس کی غلطیوں کا الزام لگایا جائے گا(تغابن کے معنے ہیں وہ کہے گااِس نے فساد کئے ہیں یہ کہے گا اُس نے کئے ہیں) تو اُس دن اچھی طرح جانچ پڑتال ہوگی۔ پھر کیا ہوگا؟ وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ يَعْمَلْ صَالِحًا جو ایمان لانیوالا ہوگا اور عملِ نیک کرنے والا ہوگا اُس نے کچھ بدیاں تو کی ہونگی، کچھ غلطیاں اُس سے بھی صادر ہوئی ہونگی، کچھ کمزوریاں اُس سے بھی ہوئی ہونگی مگر يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ ہم کہیں گے اُس تمام جگہ پر جہاں بُرے کام درج ہیں چیپیاں لگا دو تاکہ انہیں کوئی نہ دیکھے۔ لغت میں لکھا ہے کہ التَّکْفِیْرُ سَتْرُہٗ وَ تَغْتِیْتُہٗ حَتّٰی یَصِیْرَ بِمَنْزِلَۃِ مَالَمْ یُعْمَلْ 19 کہ تکفیر کے معنے ہوتے ہیں ڈھانپ دینا اور اُس پر پردہ ڈال دینا ایسی صورت میں کہ یہ پتہ لگانا ناممکن ہو جائے کہ اس نے فلاں کام کیا تھا۔ تو يُّكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّاٰتِهٖ اللہ تعالیٰ فوراً حکم دیگا کہ یہاں چیپیاں لگا دی جائیں تاکہ یہ یہ جگہ سامنے آئے تو پتہ ہی نہ لگے کہ اس نے یہ کام کیا تھا۔ اِس طرح بتایا گیا کہ صرف امکان ہی نہیں ہے بلکہ وقوعہ بھی یہی ہوگا کہ مؤمن اور نیک عمل کرنے والے اور تائب کی غلطیوں پر چیپیاں لگا کر انہیں چُھپا دیا جائے گا اور کسی کو پتہ نہیں لگے گا کہ اِس نے کوئی گناہ کیا ہے۔
اگر مؤمن کی غلطیوں پر پردہ نہ ڈالا جاتاتو
وہ اپنے اعمالنامہ پر فخر کس طرح کر سکتا
اگر چیپیاں نہ لگی ہوتیں تو مؤمن کیوں کہتا کہ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ آؤ ذرا میرا
اعمالنامہ پڑھو۔ اگر پڑھاتا تو ساتھ بدیاں بھی نکل آتیں اور اگر اعمالنامہ میں بدیاں بھی لکھی ہوئی ہوتیں تو چاہے اُسے جنت ہی ملی ہوتی وہ اُسے اپنی بغل میں دبا لیتا اور کہتا مجھے جنت ملی ہے مجھے انعام ملا ہے۔ اگر کوئی کہتا ذرا کتاب دکھانا تو جواب دیتا نہیں نہیں! میں پھر دکھاؤنگا ۔ کیونکہ وہ ڈرتا کہ دیکھے گا تو بیچ میں بدیاں بھی نکل آئیں گی۔ مگر چونکہ بدیوں پر چیپیاں لگی ہوئی ہونگی اس لئے وہ کہے گا هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ ارے میاں! آؤ اورمیری کتاب دیکھو میرے اندر کوئی عیب نہیں ہے۔
اعلیٰ درجہ کے مومنوں کی بدیاں
بھی نیکیوں میں بدل دی جائیں گی
اِس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کچھ لوگوں کی غلطیوں کو چُھپا دیا جائے گا وہاں کچھ ایسے بھی
اعلیٰ درجہ کے لوگ ہونگے کہ اُن کی محبت اور قربانی اور توبہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ صرف اُن کی بدیوں کو چُھپائے گا ہی نہیں بلکہ اُنکی بدی کی جگہ نیکی لکھ دیگا۔ چنانچہ فرماتا ہے يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ20 کچھ ایسے مؤمن ہونگے کہ اُن کے اعلیٰ درجہ کو دیکھ کر، اُن کے تقویٰ کو دیکھ کر، اُن کی توبہ کو دیکھ کر، اُن کی دیانت کو دیکھ کر گو غلطیاں بھی انہوں نے کیں، گناہ بھی اُن سے سرزد ہوئے، کمزوریاں بھی اُن سے ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہے گایہ میرا بندہ ہے ہم نے اِس کی سزا معاف کر دی ہے اور اس کو معاف کرکے اس کے قُرب کا فیصلہ کیا ہے اس لئے یہاں نیکی لکھ دو۔ چنانچہ جب وہ کتاب پڑھے گا تو جو ادنیٰ درجہ کا مؤمن ہوگا اُس کے اعمالنامہ پر تو چیپیاں لگی ہوئی ہونگی اور اُس کے گناہ کو چُھپایا ہؤا ہوگا۔ اور جو اعلیٰ درجہ کا مؤمن ہوگا اُس کے اعمالنامہ میں وہاں اُس کاکوئی کارنامہ لکھا ہؤا ہوگا۔ مثلاً وہی کام جو پہلا تھا اُس کو بڑھا کر اپنے انعام کے ساتھ اس میں شامل کیا ہوگا۔ گویا اُس کا اعمال نامہ ایک نئی شکل میں ہوگا۔ اِس کی مثال سمجھنے کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ گویا جھوٹ کے ساتھ کام لیاجائے گا لیکن یہ جھوٹ نہیں ہوگا۔ میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ کس طرز پر کام لیا جائے گا۔
حضرت معاویہؓ کی ایک
نماز ضائع ہونے کا واقعہ
آثار میں پُرانے زمانہ کا ایک واقعہ لکھا ہے آجکل تو یہ ہوتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی مسجد میں نماز پڑھنے چلا جائے تو سارے شہر میں دُھوم پڑ جاتی ہے کہ آج
فلاں صاحب جمعہ کی نماز کے لئے آئے تھے لیکن پُرانے زمانہ میں اِس کے اُلٹ ہوتا تھا۔ پُرانے زمانہ میں امراء خود نماز پڑھاتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء پڑھاتے تھے اور اس کے بعد جو دُنیوی خلفاء آئے وہ بھی خودنماز پڑھاتے تھے۔ حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں خود حضرت معاویہؓ مسجد میں جاکر نماز پڑھاتے تھے۔ ایک دن ایسا ہؤا
کہ کوئی کام کرتے کرتے زیادہ دیر ہو گئی یا کچھ طبیعت خراب تھی نمازکے وقت آواز دینے والے نے آواز دی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے (یہ پرانی سنّت ہے کہ امام کو گھر پر جاکے مؤذن اطلاع دیتا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے) مگر اُن کی آنکھ نہ کھلی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ وقت جا رہا ہے نماز پڑھا دی۔ جب اُن کی آنکھ کھلی تومعلوم ہؤا کہ نماز ہوچکی ہے۔ اِس پر اُن کو اتنا صدمہ ہؤا کہ سارا دن روتے رہے اور استغفار کرتے رہے اور دعائیں کرتے رہے کہ یا اللہ! میں نے کیا خطا کی تھی اور کیا گناہ کیا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آج نماز باجماعت رہ گئی اور میں مسلمانوں کی امامت نہیں کرا سکا۔ دوسرے دن انہوں نے صبح کے قریب ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ گویا شیطان آیا ہے اور وہ آکر اُن کو ہلاتا ہے کہ میاں! اُٹھ نماز پڑھ، میاں! اُٹھ نماز پڑھ۔ وہ پہلے تو گھبرائے اور سمجھا کہ کوئی کمرہ کے اندر آگیا ہے کیونکہ خواب میں بھی انسان ایسی چیزوں سے گھبراتا ہے جن سے اُسے گھبرانے کی عادت ہوتی ہے مگر جب انہوں نے پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ میں شیطان ہوں۔ انہوں نے کہا تم شیطان ہو اور مجھے نماز کے لئے جگا رہے ہو؟ کہنے لگا ہاں! میں نماز کے لئے جگا رہا ہوں۔ کَل مَیں نے تمہاری نماز ضائع کرا دی تھی اور ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ تم سوتے رہو اور آنکھ نہ کھلے مگر اِس پر تم اتنا روئے اور تم نے اِتنی توبہ کی کہ خداتعالیٰ نے فرشتوں کو حُکم دیا کہ اس کی نماز جو رہ گئی ہے اس کے بدلہ میں دس نیکیوں کا ثواب لکھ دو کیونکہ یہ بہت رویا ہے۔ میں نے کہا میں تو ایک نیکی سے محروم کر رہا تھا اور اس کو دس نیکیاں مل گئیں آج اِسے جگا دو کہ 9 نیکیاں تو بچیں۔ یہ طریقہ ہے بدیوں کی جگہ نیکیاں لکھنے کا۔ یعنی انسان کے دل میں جو ندامت اور توبہ اور انابت پیدا ہوتی ہے اُس کا ثواب اتنا مقرر کر دیا جاتا ہے کہ وہ ان بدیوں کی جگہ کو ڈھانپ لیتا ہے اور اس کی جگہ نیکی بن جاتا ہے۔
بدیوں کو نیکیوں میں بدلنے کی ایک اَور مثال
اِسی طرح ایک دوسری مثال حدیث
میں آتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں سے معاملہ کریگا تو ایک وقت ایک مجرم کو نکالا جائے گا۔ اُس کے بڑے جُرم ہونگے مگر اُس کے دل میں کوئی ایسی نیکی ہوگی کہ جس کی وجہ سے خداتعالیٰ کہے گا کہ میں نے اس کو ضرور بخشنا ہے۔ چنانچہ وہ خداتعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا وہ ڈر رہا ہوگا کہ مجھے سزا ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے دل میں فیصلہ کر چکا ہوگا کہ اِس کی فلاں نیکی کی وجہ سے میں نے اسے بخشنا ہے۔ مثلاً ممکن ہے اُس کے دل میں محبتِ رسولؐ بڑی ہو یا اللہ تعالیٰ کی بڑی محبت ہو لیکن اعمال میں کمزور ہو۔ یا غریبوں کی اُس نے بڑی خبر گیری کی ہو یا اور کوئی ایسی نیکی ہو جو اتنی نمایاں ہو گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہو چاہے اس نے کتنے گناہ کئے ہوں مَیں نے اس کو بخش دینا ہے۔ تو جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اللہ تعالیٰ کہے گا دیکھو میاں !تم نے فلاں بدی کی۔ وہ کہے گا ہاں حضور مجھ سے ایسا ہو گیا۔ فرمائے گا اچھا فرشتو! اس کے بدلہ میں اس کے دس ثواب لکھ دو۔ پھر پوچھے گا تم نے فلاں بدی کی تھی؟ وہ کہے گا جی حضور کی تھی۔ فرمائے گا اچھا اس کے دس ثواب لکھ دو۔ تو چونکہ اُس کے لئے بخشش کسی ایسی نیکی کی وجہ سے جو اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی مقدر تھی خداتعالیٰ اُس کے گناہ گنانے شروع کر دیگا اور فرمائے گا کہ ان کے بدلہ میں نیکیاں لکھتے چلے جاؤ۔ لیکن اس کے بڑے بڑے گناہ نہیں گنائے گا تاکہ وہ شرمندہ نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ ختم کر بیٹھے گا تو وہ اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے فلاں فلاں گناہ بھی موجود تھے اگر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی دس دس نیکیاں ملی ہیں تو ان کی تو سَو سَو ملنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ تو اس کی پردہ پوشی کے لئے ایسا کریگا لیکن جب وہ خاموش ہوگا تو بندہ کہے گاحضور! آپ تو بھول ہی گئے میں نے فلاں گناہ بھی کیا تھا اور فلاں میں نے قتل کیا تھا اُس کو تو آپ نے بیان ہی نہیں کیا۔ اِسی طرح فلاں ڈاکہ آپ نے بیان نہیں کِیا یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا کہ دیکھو میرا بندہ میرے عفو پر اتنا دلیر ہو گیا ہے کہ اب یہ اپنے گناہ آپ گناتا ہے 21 تو یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ اس کے معنے اِسی طرز کے ہیں کہ کوئی نہ کوئی نیکی اس کے دل میں ہوتی ہے اور وہ اتنے مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ اُس نیکی کے مقام کی وجہ سے بدی کو نیکی کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہی اس کے معنے ہیں۔ اور اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی اعلیٰ توبہ کی وجہ سے اُن کی دلداری کے لئے اور ان کے دلوں کو تسکین دینے کے لئے اُن کے گناہوں کو بھی نیکی کے ثواب میں بدل دیتا ہے۔
روحانی انعامات کو کوئی شخص
چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا
پھر اس سے اوپر میں نے دیکھا کہ اس دفتر میں جن لوگوں کے لئے انعام مقرر ہوئے تھے انہیں کوئی چھین نہیں سکتا تھا۔ برخلاف دُنیوی
انعاموں کے کہ یہاں ایک بادشاہ دیتا ہے اور دوسرا چھین لیتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ بادشاہ آپ ہی چھین لیتا ہے۔
ایک جرنیل کی معزولی دیکھ کر حضرت شبلی ؒ
کا رونا اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنا
تاریخ میں قصہ آتا ہے کہ حضرت شبلی علیہ الرحمۃ جو حضرت جنید بغدادی ؒ کے
شاگرد تھے پہلے وہ بڑے ظالم ہوتے تھے۔ امیر آدمی تھے اور ایک صوبہ کے گورنرتھے انہوں نے اپنی گورنری کے زمانہ میں بڑے بڑے ظلم کئے تھے۔ اُس زمانہ میں عباسی بادشاہ کے خلاف ایران میں کوئی بغاوت ہوئی کئی جرنیل بھجوائے گئے مگر انہوں نے شکست کھائی اور وہ دشمن کو مغلوب نہ کر سکے۔ آخر بادشاہ نے ایک جرنیل کو چُنا جو بہت دلیرتھا اور اُس کو کہا کہ تم جاؤ اور جاکر دشمن کو شکست دو یہ کام تم سے ہوگا۔ وہ گیا اور چھ مہینے سال اُس نے بڑی بڑی مصیبتیں اُٹھائیں، تکلیفیں جِھیلیں اور آخر ہمت کرکے اُس نے دشمن کو شکست دی اور وہ علاقہ بادشاہ کے لئے فتح کیا۔ واپس آیا تو بادشاہ نے ایک بڑا دربار اُس کے اعزاز میں منعقد کیا اور کہا کہ اس کو خلعت دیاجائے۔ چنانچہ وہ دربار میں آیا اور اُس کو خلعت پہنایا گیا۔ پُرانے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا جیسے آجکل خطاب وغیرہ دیتے ہیں تو دربار لگتے ہیں اِسی طرح دربار لگایا گیا۔ اتفاقاً شبلی ؒ بھی اُن دنوں اپنے کام کی کوئی رپورٹ دینے آئے ہوئے تھے چنانچہ وہ بھی دربار میں بُلائے گئے۔ سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور اوپر وہ جرنیل بیٹھا ہؤا تھا کہ بادشاہ نے پہلے اُس کی تعریف میں کچھ کلمات کہے، اس کے بعد کہا کہ اس کو خلعت پہنایا جائے۔ چنانچہ اسے ایک طرف کمرہ میں لے گئے اور اُس کو خلعت پہنایا گیا۔ بدقسمتی سے وہ اُسی دن سفر سے آیا تھا کہیں سفر میں اُسے ہوا لگی یا کچھ اَور ہؤا جس کی وجہ سے اُس کو شدید نزلہ ہو گیا اور گھر سے چلتے وقت وہ رومال لانا بھول گیا۔ جب بادشاہ کے سامنے آیا تو یکدم اُسے چِھینک آئی اور چِھینک سے رینٹھ نکل کے ہونٹوں پر آگئی۔ اب اگر وہ رینٹھ کے ساتھ بادشاہ کے سامنے کھڑا رہتا ہے تو بادشاہ خفا ہو تا ہے اور اگر پونچھتا ہے تو رومال نہیں۔ اُس نے اِدھر اُدھر نظر بچا کے اُسی خلعت کا ایک پہلو لیا اور ناک پونچھ لیا۔ بادشاہ نے دیکھ لیا اُسے سخت غصہ چڑھا اور کہنے لگا۔ ہم نے تمہارا اتنا اعزاز کیا، تمہیں خلعت دی اور تمہیں اتنا نوازا اور تم نے اتنی تحقیر کی ہے کہ اس کے ساتھ ناک پُونچھتے ہو۔ فوراً یہ خلعت اُتار لیا جائے اور اس کو جرنیلی سے موقوف کیا جائے۔ خیر وہ بیچارہ تو کیا کر سکتا تھا خلعت اُتارنے لگے تو شبلیؒ نے دربار میں چیخیں مارنی شروع کر دیں کہ ہائے مَیں مر گیا۔ بادشاہ حیران ہؤا کہ یہ خواہ مخواہ کیوں شور مچا رہا ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے کہا تم کو کیا ہؤا؟ ہم اس پر خفا ہوئے ہیں تم کیوں خواہ مخواہ رو رہے ہو؟ اُس نے کہا بادشاہ سلامت! مَیں نہیں روؤنگا تو کون روئے گا۔ اِس شخص نے سال بھر ہر صبح سے شام تک اپنی بیوی کو بیوہ کیا، سال بھر میں ہر صبح سے شام تک اِس نے اپنے بچوںکو یتیم کیا، محض آپ کی خوشنودی کے لئے۔ اور بارہ مہینے اس نے اپنے آپ کو قتل و غارت اور خون کے آگے ہدف بنایا صرف اس لئے کہ آپ کی رضا حاصل ہو جائے۔ اور جب اتنی قربانی کے بعد یہ آیا اور آپ نے اِس کو دس ہزار یا بیس ہزار کا خلعت بھی دے دیا اور اس قربانی کے مقابلہ میں بلکہ اس کی ایک دن کی قربانی کے مقابلہ میں بھی تو یہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر آپ نے اس پر اتنے غصے کا اظہار کیا کہ اس نے میرے خلعت کی ہتک کی ہے اور اس سے ناک پونچھ لیا ہے اور اس قدر ناراض ہو گئے کہ کہا اس کو نکال دو، یہ بڑا خبیث اور بے ایمان ہے۔ تو حضور! یہ کان، ناک، آنکھ یہ جسم کی خلعت جو خدا نے مجھے پہنائی ہے مَیں روز آپ کی خاطر اِس کو گندہ اور ناپاک کرتا ہوں۔ مجھے قیامت کے دن خدا کیا کہے گاکہ کمبخت! تُو نے یہ خلعت کیوں گندہ کیا تھا۔ پس مَیں نہ روؤں تو اَور کون روئے؟ وہ اُسی وقت اُٹھے استعفٰے پیش کیا اور چلے گئے ۔22
بیعت کے لئے حضرت جنید ؒ کی شرط
پھرانہوں نے علماء کی مجلس میں جانا شروع کیا اور کہا میرے لئے
دُعا کریں کہ مجھے توبہ نصیب ہو۔اُن کے ظلم بڑے مشہور تھے اور بڑی غارت اور تباہی انہوں نے مچائی ہوئی تھی۔ جس عالم کے پاس بھی جائیں وہ کہے میاں! تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی۔ تمہاری توبہ بھلا خدا کب قبول کر سکتا ہے۔ تم نے تو اتنے ظلم کئے ہیں کہ جنکی کوئی حد ہی نہیں۔ وہ مایوس ہوتے ہوئے بیسیوں علماء کے پاس گئے مگر ہر ایک نے یہی جواب دیا۔ آخر کسی نے کہا کہ جنیدؒ بغدادی بڑے صوفی ہیں اور بڑے خدا پرست اور بڑے رحم دل ہیں اُن کے پاس جاؤ تو شاید وہ تمہاری توبہ قبول کر لیں۔ چنانچہ وہ اُن کے پاس گئے اور جاکر کہا کہ مَیں شبلی ہوں۔ میں اس طرح علماء کے پاس گیا تھا مگر سب نے انکار کیا۔ اب میں آپ کے پاس آیا ہوں آپ میرے لئے دُعا کریں اور توبہ قبول کریں۔ حضرت جنیدؒ نے کہا کہ ہاں خداتعالیٰ سب کے گناہوں کو معاف کرتا ہے پر کچھ تمہیں بھی اپنی توبہ کے آثار دکھانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا مَیں دکھانے کے لئے تیار ہوں۔ آپ جو حُکم دینا چاہیں دیں۔ فرمایا جاؤ اُس صوبہ میں جہاں تم گورنر مقرر تھے اور پھر جس شہر میں تم مقرر تھے اور جہاں روز تم سزائیں دیا کرتے تھے، کوڑے لگوایا کرتے تھے، نالشیں کیا کرتے تھے، گھروں پر قبضہ کیا کرتے تھے، مردوں کو قید کیا کرتے تھے ، عورتوں کو بے عزت کیا کرتے تھے۔ اُس شہر میں جاؤ اور ہر گھرپر دستک دو اور ہر گھر کے آدمیوں کو باہر بُلا کے کہو کہ میں مجرم کی حیثیت میں تمہارے سامنے پیش ہوں جو چاہو مجھے سزا دے دو مگر خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔ ایک ایک گھر میں جاؤ اور معافی لو۔ جب تم سارا شہر پھر لو گے تو پھرمیرے پاس آنا مَیں تمہاری بیعت لے لونگا۔ شبلیؒ نے کہا مجھے منظور ہے۔
شبلیؒ کا گھر گھر جا کر لوگوں
سے معافی حاصل کرنا
چنانچہ وہ وہاں گئے اور ایک سِرے سے لے کر دستک دینی شروع کی۔ لوگوں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہامَیں شبلی ہوں۔ پہلے تو وہ
سمجھیں کہ کوئی فقیر ہوگا یونہی بات کرتا ہے مگر باہر نکل کے دیکھنا تو انہیں معلوم ہونا کہ گورنر صاحب کھڑے ہیں۔ انہوں نے فوراً کہنا کہ حضور ! کس طرح تشریف لائے ہیں؟ وہ کہتے حضور حضورکچھ نہیں مَیں معافی مانگنے آیا ہوں۔ میں نے تم لوگوں پر بڑے ظلم کئے ہیں مجھے خدا کے لئے معاف کر دو۔ پہلے تو لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ مذاق ہو رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہنا نہیں صاحب! آپ تو ہمارے بڑے آدمی ہیں۔ وہ کہتے بڑے کوئی نہیں میں نے استعفیٰ دے دیا ہے اب میں معافی مانگنے آیا ہوں کیونکہ میری نجات تمہاری معافی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ بڑے اصرار کے بعد آخر ان لوگوں کو یقین آجانا کہ یہ بات ٹھیک ہے اور انہوں نے کہہ دینا اچھا ہم نے معاف کر دیا۔ لیکن انسانی دل کو خداتعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب اس کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اب نیکی آچکی ہے تو پھر وہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ابھی پانچ سات گھر ہی شبلی گزرے تھے کہ شہر میں خبر مشہور ہو گئی کہ گورنر آج اِس طرح پھر رہا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ شبلی جا کے دستک دیتے اِدھر وہ گھر پر پہنچتے اور اُدھر گھر والے روتے ہوئے باہر آجاتے اورکہتے ہمیں آپ شرمندہ نہ کریں، ہم نے معاف کیا اور ہم نے اپنے دل سے بات بالکل نکال دی۔ شام تک سارے شہر میں معافیاں ہو گئیں اور بجائے اِس کے کہ وہ مجرم کے طور پر جاتے اُن کا اعزاز ہونا شروع ہو گیا۔ اِس کے بعد واپس گئے۔ حضرت جنیدؒ نے اُن کی بیعت لی، اُن کی توبہ قبول کی اور پھر وہ خودبھی ایک بڑے بزرگ بن گئے۔ 23
دُنیوی خلعتوں اور جاگیروں کی ناپائیداری
تو دیکھو خلعت ہوتے ہیں لیکن دُنیوی بادشاہوں کے
خلعت کبھی آپ ہی چھن جاتے ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ اولادوں سے چھن جاتے ہیں۔ مثلاً پٹھانوں کے وقت کی جاگیریں مغلوں نے چھین لیں۔ مغلوں کے وقت کی جاگیریں جن کے پاس تھیں اُس وقت وہ بڑے اکڑ اکڑ کر پھرتے تھے مگر انگریز آئے تو انگریزوں نے چھین لیں۔ پھر انگریزوں نے جاگیریں دیں تو اب پاکستان اور ہندوستان والے چھین رہے ہیں۔ تو کچھ مدت کے لئے وہ انعام رہتے ہیں اور اس کے بعد وہ جاگیر چھن جاتی ہے۔ مگر یہ وہ حکومت تھی اور یہ وہ دفتر تھے کہ میں نے دیکھا کہ اس میں جو جاگیریں ملتی تھیں اُن کے ساتھ بتا دیا جاتا تھا کہ یہ کتنے عرصہ کے لئے جاگیر ہے، کسی کوکہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کیلئے ہے پر یہ یہ وقفے پڑ جائیں گے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ عارضی ہے جب تک ٹھیک رہو گے ملے گی۔ گویا یہ خدمت کی جاگیر ہے جب تک خدمت کرو گے ملے گی جب خدمت نہ کرو گے چھین لی جائے گی۔
روحانی جاگیرداروں کے
متعلق عالَمِ روحانی کا قانون
چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس میں جاگیرداروں کے متعلق یہ قانون تھا کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ24 ہم جو
جاگیر دینگے اگرتو وہ شخص جس کو جاگیر دی گئی ہوگی اپنی زندگی بھر وفاداری کو قائم رکھے گا تو وہ جاگیر اَبَدالآباد تک اُس کے نام لکھی جائیگی اور اُس سے چھینی نہیں جائیگی۔
مسلمانوں کو خداتعالیٰ کی
عطا کردہ ایک مقدس جاگیر
یہ تو اُخروی انعام ہے۔ اِس دنیا کے انعام میں بھی میں نے یہی قانون دیکھا۔ اُخروی انعام کے متعلق تو مجھے غیر مسلم لوگ کہیں گے کہ
میاں! یہ تو منہ کی باتیں ہیں اگلا جہان کس نے دیکھا ہے۔ تم یہ بتاؤ اور اس بات کا ثبوت دو کہ یہاں بھی مل جاتی ہے؟ تم اپنے دربار کی یہاں کوئی ایسی جائداد بتاؤ جو مستقل طور پر مل گئی ہو اور پھر کسی نے چھینی نہ ہو۔ تو میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں قرآن کریم سے یہ ثبوت نکلا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَۚ۔فِيْهِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِيْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۔25
اِس جاگیر کے ساتھ تعلق
رکھنے والی سات اَور جاگیریں
فرماتا ہے ایک جاگیر ہم نے دنیا کےکچھ لوگوں کو بخشی اور ہم نے کہا ہمارے نام پر ایک گھر بناؤ اس کے ساتھ ہم تم کو جاگیر دینگے۔
تو سب سے پہلے جو گھر خداتعالیٰ کے نام پر لوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا وہ مکہ میں بنا۔ مُبَارَکًا ہم نے کہا اس گھر کو ہمیشہ برکت دی جائے گی۔ وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَ اور یہ گھر ہمیشہ ہی دنیا کے لئے دین اور تقویٰ اور طہارت میں راہنمائی کا موجب رہیگا۔ یہ دو جاگیریں ہو گئیں۔فِيْهِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ تیسری جاگیر یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے نشاناتِ الٰہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔ مَقَامُ اِبرٰھِیْمَ چوتھی جاگیر یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ آئیں گے وہ ابراہیمی درجے پاتے رہیں گے۔ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا اور پانچویں جاگیر یہ ہوگی کہ اُس کے اندر امن لکھ دیا جائے گا یعنی جو شخص اس جاگیر میں آئے گا اُس کو امن مِل جائیگا۔١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ چھٹی جاگیر یہ ہوگی کہ لوگوں کے دلوں میں ہم تحریک کرتے رہیں گے کہ وہ اس کا ادب کریں اور آکر اس کی زیارت کرتے رہیں۔١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ اور ساتویں جاگیر یہ ہوگی کہ جو شخص اس سے منہ موڑے گا ہم اس سے تعلق نہیں رکھیں گے۔
دیکھو! یہ سات جاگیریں ملتی ہیں کہ:-
(1) اس مقام کو ہمیشہ کے لئے برکت والا بنایا جاتا ہے۔
(2) یہ مقام دین اور تقویٰ میں لوگوں کی راہنمائی کا موجب ہوگا۔
(3) اس مقام سے نشاناتِ الٰہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے۔
(4) جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے وہ ابراہیمی درجے حاصل کر یں گے۔
(5) جو شخص اس کے اندر داخل ہوگا اُسے امن حاصل ہو جائے گا۔
(6) اور پھر یہ کہ اس کی طرف لوگوں کو دُور دُور سے کھینچ کر لایا جائے گاتاکہ وہ اس کی زیارت کریں۔
(7) اور جو اس سے منہ موڑے گا خدا تعالیٰ اُس سے منہ موڑ لے گا۔ یعنی اس کے مخالف بھی ہمیشہ رہیں گے لیکن اُن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے نہیں ہوگا۔
ہر زمانہ میں یہ مقدس جاگیر
دشمن کے حملہ سے محفوظ رہی
اب دیکھو کس طرح ہر زمانہ میں یہ نشان پورا ہوتا رہا۔ دنیا کی جاگیروں کے لینے والے تو بڑے بڑے جتھے رکھتے تھے مگر پھر
بھی وہ ناکام رہے اوران کی جاگیریں ضبط ہو گئیں لیکن یہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا معمولی حیثیت تھی۔ کوئی طاقت نہیں ،کوئی قوت نہیں ،کوئی سامان نہیں صرف یہ اعلان ہے کہ یہ شاہی جاگیر ہے لیکن پھر بھی وہ جاگیر محفوظ رہی۔
یمن کے گورنر کا بیت اللہ پر حملہ
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے چودہ سَو سال پہلے یمن میں ایک
گورنر تھا۔اُس نے ایک گِرجا بنایا اور کہا کہ مَیں اس کو عرب کے سارے لوگوں کے لئے عزت کی جگہ بناؤں گا مگر وہ آباد نہ ہؤا۔ آخر اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ گِرجا آباد کیوں نہیں ہوتا؟ انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ عرب میں ایک پُرانا مکان ہے بیت اللہ یا خانہ کعبہ اُس کو کہتے ہیں اُس کی سارے عرب عزت کرتے ہیں جب تک وہ نہیں ٹوٹے گا لوگوں نے اِس کی طرف توجہ نہیں کرنی۔ پہلے اُس کو توڑ لو پھر کوئی تجویز ہوگی۔ اُس نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ اُس نے لشکر لیا اور چل پڑا۔ چلتے چلتے طائف کے مقام پر پہنچے۔ وہاں کے لوگوں کی مکہ والوں سے مخالفت تھی کیونکہ وہ مکہ کے مقابلہ میں طائف کاجو بڑا بُت تھا اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اس کو زیادہ عزت دینی چاہئے۔ اُس نے اُن کو رشوت وغیرہ دی اور اِس طرح اُن کے دلوں میں جو اپنی قوم کا ڈر تھا وہ اُتارا اور انہیں کہا کہ ہم کو مکہ پہنچاؤ۔ وہ تیار ہو گئے۔ جب لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو جیسا کہ پُرانے زمانہ میں قاعدہ تھا ایک منزل پر پہنچ کر وہاں سے انہوں نے مکہ والوں کو نوٹس دیا کہ ہتھیار پھینک دو ورنہ تم پر حملہ کر دیا جائے گا۔ اُس وقت جو مہذب حکومتیں تھیں وہ اِسی طرح کیا کرتی تھیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی یہی طریق رائج ہے۔ جب یہ حُکم پہنچا تو مکہ کے لوگ گھبرا گئے۔ انہوں نے کہا اتنا بڑا لشکر آیا ہے جو دس یا بیس یا پچاس ہزار کا ہے اور مکہ میں سپاہی پانچ سات سَو ہیں ان کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں ۔پھر ان کے ساتھ ہاتھی اور دوسری قسم کے سامان تھے، اِسی طرح منجنیقیں وغیرہ تھیں۔ انہوں نے بہت منتیں سماجتیں کیں، بادشاہ کے آگے ہاتھ جوڑے مگر اُس نے کہا مَیں نہیں مانتا، تم اپنا کوئی وفد بھیجو۔ مَیں یہ تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ اِس گھر کو گِرا دونگا لیکن تمہارے لئے کوئی گزارہ مقرر کر دونگا کیونکہ تمہیں اِس کے چڑھاووں سے آمدن ہوتی تھی یا اِس کی زیارت کرنے کے لئے جو لوگ آتے تھے اُن سے آمدن ہوتی تھی۔ پس مَیں تمہارے لئے کوئی جائداد مقررکر دونگا اور تمہارا اس پر گزارہ ہو جائے گا مگر میں یہ نہیں مان سکتا کہ اِس گھرکو نہ گراؤں یہ گھر تو مَیں نے گِرا کر رہنا ہے۔ چنانچہ وہ واپس گئے اور انہوں نے جاکے کہا کہ بادشاہ تو اس بات پرمُصِر ہے کہ اِس گھر کو میں ضرور گِراؤں گا اب کوئی وفد بھیجا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک وفد بھیجا جس کا سردار حضرت عبدالمطلب کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے چُنا گیا۔ لوگوں نے اُن سے کہا کہ آپ جائیے اور کوشش کیجیئے کہ کسی طرح یہ گھربچ جائے۔
حضرت عبدالمطلب اور ابرہہ کی ملاقات
یہ وہاں پہنچے تو بادشاہ نے اُن کو بُلایا اور ان سے پہلے اِدھر اُدھر
کی باتیں کیں۔ملک کی سیاست کے متعلق باتیں کیں، ملک کی اقتصادی حالت کے متعلق باتیں کیں، قومیت کے متعلق باتیں کیں۔ حضرت عبدالمطلب بڑے سمجھدار اور دانا تھے انہوں نے جو جواب دیئے بادشاہ اُن سے بہت متأثر ہؤا اور اُس نے کہا یہ تو بڑا سمجھدار آدمی ہے۔ خوش ہو کے اُس نے کہا کہ مَیں تو آپ سے مل کر بہت ہی خوش ہؤا ہوں مجھے توقع نہیں تھی کہ مکہ میں ایسے عقلمند بھی موجود ہیں۔ آپ کوئی انعام مجھ سے مانگیں مَیں دینے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا میرے دو سَو اونٹ آپ کے سپاہی پکڑ لائے ہیں وہ مجھے واپس کر دیں۔ بادشاہ کو غصہ چڑھ گیا اور اُس نے کہا دو سَو اونٹ کی حیثیت کیا ہے میں تمہارا مذہبی مکان گِرانے کے لئے آیاہوں۔ مَیں مانتا یا نہ مانتا تمہاری عقل سے میں یہ امید کرتا تھا کہ تم کہو گے یہ میرا مذہبی مقدس مقام ہے اِس کو چھوڑ دو۔ مگر بجائے اِس کے کہ تم مکہ کی سفارش کرتے، خانہ کعبہ کی سفارش کرتے کہ اِس کو چھوڑ دو تم نے اپنے دو سو اونٹوں کو یاد رکھا، میرے دل میں سے تو تمہاری ساری عزت جاتی رہی ہے۔ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ بادشاہ تم جو چاہو نتیجہ نکال لو۔ باقی میں تو سمجھتا ہوں اور یہی مَیں نے آپ کو بتایا ہے کہ دو سَو اونٹ میرے ہیں۔ بھلا کیا حیثیت ہے دو سَو اونٹ کی؟ مگر مجھے اِن کی فکر ہے کہ کسی طرح مجھے مل جائیں اور میں اُن کی حفاظت چاہتا ہوں۔ تو اگر یہ اللہ کا گھر ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو اِس کی اتنی فکر نہیں ہوگی جتنی مجھے دو سَو اونٹ کی ہے؟اِس جواب سے وہ ایسا متأثر ہؤا کہ اُس نے اُن کے اونٹوں کی واپسی کا حکم دے دیا مگر بیتُ اللہ پر حملہ کرنے کا ارادہ اُس نے ترک نہ کیا۔ خیر وہ واپس آگئے اور انہوں نے ساری قوم کو کہدیا کہ پہاڑ پر چڑھ جاؤ اور مکہ کو خالی کر دو۔ لوگوں نے کہا۔ مکہ ہمارا مقدس مقام ہے۔ کیا اِس مقدس مقام کو ہم خالی کر دیں؟ انہوں نے کہا میاں !تمہارا مکان نہیں خدا کا مکان ہے۔ تمہیں اس کا درد ہے تو خدا کو اِس کا درد کیوں نہیں ہوگا۔ جس کا یہ گھر ہے وہ آپ اس کی حفاظت کریگا۔ تم چھوڑو اِس کو اور باہر چلو، اللہ تعالیٰ اس کی آپ حفاظت کریگا۔ اگر ہماری طاقت ہوتی تو ہم لڑتے لیکن ہم میں طاقت نہیں ہے۔ اب یہ خدا ہی کی طاقت ہے کہ وہ اس حملہ کو روکے۔ چنانچہ انہوں نے سب کو شہر سے نکالا اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ 26
ابرہہ کے لشکر کی تباہی
مگر وہاں ایک دن انتظار کیا،دو دن انتظار کیا ،تین دن انتظار کیا جو اُس نے نوٹس دیا تھا کہ تین دن کے اندر
مَیں حملہ کرونگا وہ تین دن گزر گئے اور کوئی بھی نہ آیا۔ پھر چوتھا دن گزرا، پانچواں دن گزرا۔ حیران ہو گئے کہ کیا بات ہے۔ آیا اُس نے معاف کر دیا ہے یا کوئی اور بات ہوئی ہے۔ آخر آدمی بھیجے گئے وہاں جو گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میدانوںمیں لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی لشکر نظر نہیں آتا۔ پتہ لیا تو طائف والوں نے بتایا کہ اُن میں بے تحاشا چیچک پھیلی۔ وہ حبشی فوجیں تھیں اور حبشیوں میں چیچک پھیلتی ہے تو بالکل سیلاب کی طرح آتی ہے۔ خصوصاً اُس زمانہ میں تو بیماریوں کے علاج ہی کوئی نہیں ہوتے تھے۔ دیکھا کہ تمام میدان لاشوں سے اٹا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ کو بھی چیچک ہوئی اور لوگ اُس کو ڈولی میں ڈال کر یمن کی طرف لے گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حفاظت کی اور وہ جائداد پھر محفوظ کی محفوظ رہ گئی۔
اِس مقدس جاگیر کو چھیننے کی
کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا
یہ وہ جائداد ہے جسکے مقابلہ میں دنیا کی کوئی اور جائداد پیش نہیں کی جا سکتی۔ وہ حکومتیں بدل گئیں جن کے سپرد جائداد کی گئی تھی،
ابراہیم ؑ چلاگیا، اسمٰعیل ؑ چلا گیا، وہ جن کو یہ جائداد دی گئی تھی ختم ہو گئے نئی حکومتیں اور نئی بادشاہتیں آگئیں۔یمن کا عیسائی بادشاہ اس ملک پر قابض ہوکے آگیا لیکن اِس جائداد کے متعلق اُس نے فرمایا کہ خبردار! اگر اُس کو چھیڑا تو ہم فوراً سیدھا کر دیں گے اور جب وہ باز نہ آیا تو اُس کو سیدھا کر دیا۔ چنانچہ اِسی کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِؕ۔ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ۔27 پتہ ہے اُن لوگوں کے ساتھ ہم نے کیا کِیا؟ اُن کے بڑے بڑے بُرے ارادے تھے پر مَیں نے اُن کے ارادوں کوکُچل کر رکھ دیا اور اپنی جاگیر کو محفوظ رکھا کیونکہ ہم نے کہا مَیں خدا اِس جاگیر کا دینے والا ہوں کوئی انسان اِس کو چھین نہیں سکتا۔
گزشتہ جنگِ عظیم میں اٹلی کا
ناپاک ارادہ اور اُس کی ناکامی
پھر اِس کے بعد اسلام کی حکومت رہی۔ خانہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے لوگ موجود رہے لیکن جب پچھلی جنگ آئی تو
پھر ایسی حکومتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے یہ بدارادہ کیا کہ ترکوں کو اُس وقت تک شکست نہیں دی جاسکتی جب تک کہ مکہ کونہ لیا جائے۔ چنانچہ اٹلی نے یہ ارادہ ظاہر کیا مگر انگریزوں اور دوسری قوموں نے اُس کو کہا کہ اِس کی ہم ہرگز اجازت نہیں دینگے کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو ساری اسلامی دنیا ہمارے خلاف ہو جائیگی اور یہ جنگ جیتنی ہمارے لئے مشکل ہو جائیگی چنانچہ خداتعالیٰ نے پھر ایسے سامان کر دیئے کہ مکہ محفوظ کا محفوظ رہا۔
بیتُ اللہ کی تقدیس اور اُس کی
عظمت کا زمانۂ قدیم سے اعتراف
یہ جاگیر اتنی پُرانی ہے کہ یونان کے مؤرخ حضرت مسیح ؑکی پیدائش سے پہلے لکھتے ہیں کہ تاریخ کا جب سے پتہ لگتا ہے
یہ مقام عرب میں مقدس چلا آرہا ہے اور لوگ اِس کی زیارت کو جاتے ہیں۔ تاریخ کہیں نہیں بتاتی کہ یہ کب سے بنا ہے؟ اِتنی پُرانی جاگیر تو دنیا میں الگ رہی اِس کا سواں حصہ بھی پُرانی جاگیر دنیا میں کوئی نہیں جو محفوظ ہو۔ ساری کی ساری جائدادیں ضبط کر لی گئیں، تباہ ہو گئیں مگر یہ جاگیر اُسی طرح کھڑی ہے۔
ایک اَور روحانی جاگیر جو خداتعالیٰ
کے نیک بندوں کو دی گئی
پھر اِسی دفتر سے ایک جاگیر جاری ہوئی۔ فرماتا ہے وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا
عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۔28 ہم نے زبور میں اپنا کلام اور اپنی حکمتیں اور اپنی نصائح لکھنے کے بعد یہ لکھا کہ فلسطین کی زمین کے ہمیشہ میرے نیک بندے وارث ہوتے رہیں گے۔
یہ کتنا شاندار وعدہ تھا اورکس شان سے پورا ہؤا۔ اِس وعدے کی تفصیل یہ ہے سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۔ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا۔29
پھر تھوڑی دیر کے بعد فرماتا ہےفَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا۔عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا۔30
ارضِ مقدس کے متعلق
بعض شرائط اور قیود کا ذکر
فرمایا ہم نے ایک اَور بھی جاگیر دی تھی اور اُس کے ساتھ کچھ شرطیں لگائی تھیں اور وہ یہ کہ فلسطین خدا کے نیک بندوں کو ملے گا۔ چونکہ
پہلے یہود کو اِس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، اس لئے ان کو یہ جاگیر ملے گی لیکن یہ شرطیں ہیں کہ:-
1- کچھ عرصہ کے بعد ہم یہ جاگیر تم سے چھین لیں گے۔ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریں گے جو بڑی فوجی طاقت رکھتی ہوگی۔ فَجَاسُوْا خِلٰلَ وہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس جائیگی اور تمہاری حکومت کو توڑ دیگی۔ گویا یہ جاگیر تمہارے پاس سے کچھ دنوں کے لئے ہم چھین لیں گے۔ پس یہ شرطی بات ہے۔ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ مگر کچھ مدت کے بعدہم پھر یہ جاگیر تم کو واپس دے دینگے اور تمہاری طاقت اور قوت قائم کر دینگے وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا اور ہم تم کو مال دینگے اور بیٹے دینگے اور تمہیں بہت زیادہ تعداد میں بڑھا دینگے اور طاقتور بنا دینگے اور پھر یہ جائداد تمہارے پاس واپس آجائے گی۔١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ جاگیر تم سے چھین لیں گے۔ جب وہ دوسرا وعدہ آئے گا یعنی وَعْدُ الْاٰخِرَةِ آئے گا لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ تاکہ وہ لوگ جن کو عارضی طور پر ہم یہ جاگیر دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں۔ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ پہلی دفعہ بھی جب ہم نے جاگیر تم سے چھینی تھی تو اُس وقت بھی تمہاری عبادت گاہ کو اور تمہارے خانہ کعبہ کو دشمن نے برباد کیا تھا اِس دفعہ بھی یہ دشمن گھسے گا اور تمہارے خانہ کعبہ کو برباد کریگا۔ وَّ لِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا اور جس جس علاقہ میں جائے گااُسے تباہ کرتا چلا جائے گا۔ گویا دوبارہ ہم پھر یہ جاگیر لے لیں گے۔ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ مگر پھر ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ یہ جاگیر واپس آئے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری طرف آئے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے گا یعنی اس بدنامی کو دور کر دیگا، یہ نہیں کہ پھر وہ یہودیوں کے ہاتھ میں آجائے۔ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا اور اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو پھر ہم یہ جائداد تم سے چھین لیں گے اور یہ پھر ایک اور قوم کے پاس جائے گی۔ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا اور جہنم کو ہم تمہارے لئے قید خانہ بنا دیں گے یعنی پھر تم اس ملک میں واپس نہیں آؤ گے۔
اب دیکھو اِس جگہ اتنے وعدے کئے گئے ہیں۔
بابلیوں کا فلسطین پر قبضہ
اوّل یہ جاگیر کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گی مگر اس کے بعد بابلیوں کی معرفت یہ جاگیر چھینی جائے
گی۔ چنانچہ بابلی فوجیں آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں، شہر بھی تباہ کئے اور ملک پر قبضہ کیا اور قریباً ایک سَو سال حکومت کی۔ اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہودی اپنے ملک پر قابض ہو گئے۔
رومیوں کا فلسطین پر قبضہ
پھر مسیح ؑکے بعد رومی لوگوں نے پھر اِس ملک پر حملہ کیا اور اس کو تباہ اور برباد کیا۔ اِسی طرح مسجد
کو تباہ کیا اور اُس کےاندر سؤر کی قربانی کی اور اس پر ان کا قبضہ رہا لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا۔ اس لئے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہودیوں کو یہ جاگیر واپس کی جائیگی۔ پہلی جگہ تو فرمایا ہے کہ واپس کی جائیگی یعنی وہاں سے واپس ہو کر یہودیوں کو ملے گی۔ مگر دوسری جگہ یہ نہیں فرمایا کہ واپس کی جائیگی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ پھر ہم تم پر رحم کریں گے یعنی تمہاری وہ بے عزتی دُور ہو جائے گی۔ چنانچہ جب رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا تو پھر وہ موسیٰ ؑ کو بھی ماننے لگ گیا، داؤد ؑ کو بھی ماننے لگ گیا، اِسی طرح باقی انبیاء جس قدر تھے اُن کو بھی ماننے لگ گیا۔ تھا وہ عیسیٰ کو ماننے والا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ موسوی سلسلہ میں سے تھے، عیسائی بادشاہت یہودی نبیوں کا بھی ادب کرتی تھی، تورات کا بھی ادب کرتی تھی بلکہ تورات کو اپنی مقدس کتاب سمجھتی تھی گویا خدا کا رحم ہو گیا گو یہودیوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئی بلکہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔
مسلمانوں کے فلسطین پر قبضہ کی پیشگوئی
مگر فرماتا ہے کہ اس کے بعد وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا اگرتم لوگ
پِھر بِگڑے تو ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے۔ اب تم میں عیسائی بھی شامل ہو گئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے اور بتایا کہ اگر تم نے پھر کوئی شرارت کی تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے۔ پھر مسلمان آجائیں گے اور اُن کے قبضہ میں یہ جاگیر چلی جائیگی اور وہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ بنیں گے اور تمہارے لئے پھر جہنم بن جائے گایعنی تم ہمیشہ کُڑھتے ہی رہنا۔ غرض اس جاگیر کے ساتھ یہ شرطیں لگائی گئیں کہ :-
(1) یہ جاگیر چھین کر ایک اَور قوم کو دے دی جائیگی۔
(2) کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ جاگیر تم کو واپس مل جائیگی۔
(3) کچھ عرصہ کے بعد پھر تم سے چھین لی جائیگی۔
(4) پھر یہ جاگیر تمہاری قوم کے پاس واپس آجائیگی مگر تمہارے اپنے ہاتھ میں نہیں آئے گی موسوی سلسلہ کے ماننے والوں یعنی عیسائیوں کے ہاتھ میں آجائیگی۔
(5) مگر تم پھرشرارت کرو گے تو پھر اُن سے بھی چھین لی جائیگی اور ایک اَور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو۔
مسلمانوں کی نگاہ میں عبادت گاہوں کا احترام
مگر اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میں
داخل ہو کر اُس کی ہتک کریں گے۔ دیکھو! پہلے دو مقامات پر فرمایا کہ وہ مسجد میں جاکر اُس کی ہتک کریں گے مگر یہ تیسری دفعہ جو عذاب آنا ہے اور جس میں اُن کے ہاتھ سے یہ جاگیر لی جانی ہے اس کے متعلق یہ نہیں فرماتا کہ وہ مسجد کی ہتک کریں گے اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے تمام ماتحت انبیاء مقدس تھے، ان کی جگہیں بھی مقدس تھیں اس لئے مسلمان اُن کی مسجدوں میں بھی وہ خرابی نہیں کر سکتے تھے جو بابلیوں اور رومیوں نے کی۔
یورپین مؤرخین کی تعصّب آلود ذہنیت
یہ عجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی مثال ہے کہ
بابلیوں نے یہودیوں کے ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا۔ یورپین مصنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا، کوئی ان کو بُرا نہیں کہتا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاتا۔ رومیوں نے اس ملک کو لیا اور اِس مسجد میں خنزیر کی قربانیاں کیں۔ عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں۔ مثلاً گبن نے ‘‘دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر ’’(The Decline and Fall of the Roman Empire) لکھی ہے مگر جتنی کتابوں کو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں حالانکہ انہوں نے اُن کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے اُن کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اُس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔
حضرت عمر ؓ کے روادارانہ سلوک
کا ایک ایمان افروز نمونہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہؤا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے
باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں آپ مسجد میں آکے دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہامَیں تمہاری مسجد میں داخل ہو کر اِس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں،کَل کو یہ مسلمان اِس مسجد کوچھین لیں گے اور کہیں گے یہ ہماری مقدس جگہ ہے اس لئے میں باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے31پس ایک تو وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کا منہ اُن کی تعریفیں کرتے ہوئے خشک ہوتا ہے اور ایک وہ تھا جس نے مسجد میں دو نفل پڑھنے سے بھی انکار کیاکہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں اور اِس کو رات دن گالیاں دی جاتی ہیں۔ کتنی ناشکرگزار اور بے حیا قوم ہے۔
یہودیوں کی بجائے مسلمانوں
کو فلسطین کیوں دیا گیا ؟
اب مسلمانوں کے پاس فلسطین آجانے کے بعدسوال ہو سکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے پاس تو نہ رہا، موسوی سلسلہ کے پاس بھی نہ
رہا، یہ کیا ّمُعِمہ ہے؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اعتراض اصل میں نہیں پڑتا اس لئے کہ بعض دفعہ جھگڑا ہوتا ہے وارث آجاتے ہیں تو سچے وارث کہتے ہیں ہم ان کے وارث ہیں۔ یہی صورت اس جگہ واقع ہوئی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا جاگیر دینے والا تھا۔ خدا تعالیٰ کے سامنے مقدمہ پیش ہؤا کہ موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث یہ مسلمان ہیں یا موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث یہودی اور عیسائی ہیں؟ تو کورٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے وارث مسلمان ہیں چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا۔ جاگیر قائم ہے مگر جو اس کے وارث قرار دیئے گئے تھے ان کو مل گئی۔
یہود کی فلسطین میں دوبارہ واپسی کی پیشگوئی
پھر آگے چل کر فرماتا ہے فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ
جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا۔32پھراس کے بعد ایک اَوروقت آئیگا کہ یہودیوں کو دنیا سے اکٹھا کرکے فلسطین میں لا کر بسا دیا جائیگا۔ وہ اب وقت آیا ہے جبکہ یہودی اس جگہ پر آئے ہوئے ہیں۔ لوگ ڈرتے ہیں اور مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں، چنانچہ کراچی اور لاہور میں مختلف جگہوں پر مجھ پر مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ یہ تو وعدہ تھا کہ یہ سرزمین مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گی۔ میں نے کہا کہاں وعدہ تھا؟ قرآن میں تو لکھا ہے کہ پھر یہودی بسائے جائیں گے۔ کہنے لگے اچھا جی! یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنا۔ میں نے کہا تمہیں قرآن پڑھانے والا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سُننا کہاں سے ہے۔ میری تفسیر پڑھو اُس میں لکھا ہؤا موجود ہے۔ تو یہ جو وعدہ تھا کہ پھر یہودی آجائیں گے قرآن میں لکھا ہؤا موجود ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں یہ موجود ہے کہ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا ۔ جب آخری زمانہ کا وعدہ آئیگا تو پھر ہم تم کو اکٹھا کرکے اس جگہ پر لے آئیں گے۔
بہائیوں کا لغو اعتراض
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہود کے آنے کی وجہ سے اسلام منسوخ ہو گیا۔ گویا اُن کے نزدیک اسلام کے
منسوخ ہونے کی یہ علامت ہے کیونکہ عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ نے اس پر قبضہ کرنا تھا۔ جب مسلمان وہاں سے نکا ل دیئے گئے تو معلوم ہؤا کہ مسلمان عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ نہیں رہے۔ یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہی پیشگوئی تورات میں موجودہے، یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اسی پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس جاگیر کو بابلیوں نے سَو سال رکھا تو اُس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہؤا۔ ٹائیٹس کے زمانہ سے لیکرسَو دو سَو سال تک بلکہ تین سَو سال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا۔ وہ عیسائیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، یہودیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، مسجد میں سؤر کی قربانی کی جاتی تھی تب بھی وہ پیشگوئی غلط نہیں ہوئی لیکن یہودیوں کے آنے پر پانچ سال کے اندر اسلام منسوخ ہو گیا کیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے۔
یہودیت اور عیسائیت کو بہائی
کیوں منسوخ قرار نہیں دیتے؟
اگر واقع میں کسی غیر قوم کے اندر آجانے سے کوئی پیشگوئی غلط ہو جاتی ہے اور عارضی قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلاتا ہے تو تم نے سَو
سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے۔تین سَو سال دوسری دفعہ کافروں کا قبضہ دیکھا ہے، اُس وقت کی یہودیت کو تم منسوخ نہیں کہتے اُس وقت کی عیسائیت کو تم منسوخ نہیں کہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداوت اتنی ہے کہ پانچ سال کے بعد ہی تم اِس کو اسلام کی منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو۔ جب اتنا قبضہ ہو جائے جتنا کہ عیسائیت کے زمانہ میں یہ اُن کے ہاتھ سے نکلی رہی تھی اور فلسطین غیر عیسائیوں کے قبضہ میں رہا تھا یا غیر یہودیوں کے قبضہ میں رہا تھا تب تو کسی کا حق بھی ہو سکتا ہے کہ کہے لوجی! اسلام کے ہاتھ سے یہ جاگیر نکل گئی لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اِس کا سواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، ساٹھواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، پچاسواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہؤا تو اِس پر یہ اعتراض کرنا محض عداوت نہیں تو اور کیا ظاہر کرتا ہے۔
بہائیوں کی اپنی لامرکزیّت
پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بہائی ہیں جن کا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے
ہاں مثل مشہور ہے کہ نہ آگا نہ پیچھا۔وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ مکہ اس کے پاس ہے مدینہ اس کے پاس ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں، ''چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں سَو سوراخ''۔ تمہارا کیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو۔ تمہارے پاس تو ایک چپّہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو۔ اسلام کا تو مکہ بھی موجود ہے اور مدینہ بھی موجود ہے۔ وہ تو ایک زائد جاگیر تھی، وہ جاگیر اگر عارضی طور پر چلی گئی تو پھر کیا ہؤا۔ اس کے مقابلہ میں 1870ء سے بہائیت کا آغاز ہؤا اور اب 1954ء ہو گیا ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ اُن کے مذہب کو قائم ہوئے چوراسی سال ہو گئے اور چوراسی سال میں ایک گاؤں بھی تو انہوں نے مقدس نہیں بنایا۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت حاصل نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی تو حکومت نہیں، ہم نے تو چند سال میں ربوہ بنا لیا۔ پہلے قادیان بنا ہؤا تھا اب ربوہ بنا ہؤا ہے۔ یہاں ہم آتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، اکٹھے رہتے ہیں، یہ بھی توبتائیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مرکز ہے یا دنیا میں کسی جگہ پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں؟ لیکن اسلام پر صرف پانچ سال کے قبضہ کی وجہ سے اُن کے بُغض نکلتے ہیں اور کہتے ہیں اسلام ختم ہو گیا اور اپنی یہ حالت ہے کہ عکہ کو مرکز قرار دیا ہؤا ہے اورکہتے ہیں کہ حدیثوں میں بھی پیشگوئیاں تھیں کہ عکہ اُن کے پاس ہوگا اور تورات میں بھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی بیوقوف ہیں جو ان کے اعتراضوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں مگر اس کا موقع کسی دوسرے لیکچر میں آئیگا، آج میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔
فلسطین پر یہود کا عارضی قبضہ
اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے
غرض بابلیوں کے آنے اور رومیوں کے عارضی طور پر وہاں آجانے کو جس کا عرصہ ایک دفعہ ایک سَو سال اور دوسری دفعہ
قریباً تین سَو سال کا تھا اگر اس کو موسیٰ ؑ اور داؤد ؑ کے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت قرار نہیں دیا گیا تو اس وقت یہود کا عارضی طور پر قبضہ جس پر صرف پانچ سال گزرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو نکالا جائے گااور یہودی واپس آئیں گے تو یہودیوں کا واپس آنا اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں اسلام کے سچا ہونے کی علامت ہے۔ کیونکہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا۔ باقی رہا یہ کہ پھر عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کے ہاتھ میں کس طرح رہا؟
یہود فلسطین سے نکالے جائیں گے
سو اِس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طور پر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے
اور عارضی طور پر اب بھی نکلا ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں ''عارضی طور پر'' تو لازماً اس کے معنے یہ ہیں کہ پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہونگے۔ لازماً اِس کے یہ معنے ہیں کہ پِھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ سارا نظام جس کو یُو۔این۔او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اِس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں اور پھر اس جگہ پر لاکرمسلمانوں کو بسائیں۔
احادیث میں یہود کی تباہی کی پیشگوئی
دیکھو حدیثوں میں بھی یہ پیشگوئی آتی ہے، حدیثوں میں یہ ذکر ہے
کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئیگا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چُھپ جائیں گے۔ اور جب ایک مسلمان سپاہی پتھرکے پاس سے گزرے گا تو وہ پتھرکہے گا اے مسلمان خدا کے سپاہی! میرے پیچھے ایک یہودی کافر چُھپا ہؤا ہے اس کو مار۔33 جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اُس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام ونشان بھی نہیں تھا۔ پس اِس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں یہودی اس ملک پر قابض ہو نگے مگر پھرخدا مسلمانوں کو غلبہ دیگا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہونگے اور یہودیوں کو چُن چُن کر چٹانوں کے پیچھے ماریں گے۔
فلسطین مستقل طور پر خداتعالیٰ کے
صالح بندوں کے ہاتھ میں رہے گا
پس عارضی مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کا حکم موجود ہے۔
مستقل طور پر تو فلسطین عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ کے ہاتھ میں رہنی ہے۔ سو خداتعالیٰ کے عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ لازماً اس ملک میں جائیں گے۔ نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں، نہ ایچ بم کچھ کر سکتے ہیں، نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے۔ یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہنی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگا لے۔
وَعْدُالْاٰخِرَۃِ کے متعلق ایک اعتراض کا جواب
اس جگہ پر ایک اعتراض کیا جا سکتا
ہے اوروہ اعتراض یہ ہے کہ یہاں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ فرمایا ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مراد آخری زمانہ ہے مگر سورۃ بنی اسرائیل کی وہ پہلی آیتیں جو تم نے پڑھی تھیں وہاں بھی تو ایک وَعْدُ الْاٰخِرَةِ کا ذکر ہے جس میں رومیوں کے حملہ کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا رومیوں کے حملہ کے متعلق ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اس صورت میں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ کو عذاب کا قائم مقام قرار دیاہے اور اس صورت میں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ کو انعام کا قائم مقام قرار دیا ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے۔ اُس جگہ تو فرمایا ہے کہ جب آخرت کا وہ وعدہ آئیگا تو تم کو تباہ کر دیا جائے گااور اِس آیت میں یہ ذکر ہے کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو پھر تم کو اس ملک میں لا کر بسا دیا جائے گا۔ اِس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِاَور ہے اور وہ وَعْدُ الْاٰخِرَةِاَور ہے۔ وہاں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مراد ہے موسوی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی۔ اور یہاں وَعْدُ الْاٰخِرَةِ سے مراد ہے آخری زمانہ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی پیشگوئی۔ پس یہ الفاظ گو ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ یہ اَور وعدہ ہے اور وہ اَور وعدہ ہے۔ وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کا ہے اور انعام کا قائم مقام عذاب کا وعدہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ ''تمہاری موت آئیگی'' اور دوسری دفعہ کہے ''تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہوگا'' تو اب کوئی شخص یہ کہے کہ ''تمہاری موت آئیگی'' کے یہی معنے ہیں کہ ''بیٹا پیدا ہوگا'' تو یہ حماقت کی بات ہوگی کیونکہ اس میں انعام کا وعدہ کیا ہے اور وہاں عذاب کا وعدہ ہے۔'' (الناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ۔ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
''اب میں دعا کرکے جلسہ کو ختم کروں گا۔کچھ تاریں ہیں،وہ میں دعا سے پہلے سنا دیتا ہوں۔''
تاریں سنانے کے بعد فرمایا: -
''پہلے بھی میں دعا کے لئے کہہ چکا ہوں اب احباب سب مل کر دعا کرلیں۔ میں بوجہ کمزوری صحت کے زیادہ نہیں بول سکتا۔ یوں بھی اب میرا گلا کچھ بیٹھ رہا ہے بہر حال اب جلسہ ختم ہے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے پھر ایک سال ہم کو اکٹھا ہونے کا موقع دے دیا۔ اب سب دوست مل کر دعا کر لیں ۔ اس کے بعد اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہونے کی اجازت ہو گی۔ مگر یہ اب کہ فیصلہ کریں کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ اخلاقی حالت میں تغیر پیدا کرنا اپنے ذمہ لگا لے اور یہ عہد کر لے کہ میں نے یہ ضرور قربانی کرنی ہے۔ کوئی سچ پر ہی قائم ہو جائے، کوئی پردے پر ہی قائم ہو جائے، کوئی تعلیم پر ہی قائم ہو جائے۔ غرض کوئی نہ کوئی چیز عملی طور پر لے لے جس سے کہ ہم دنیا کے سامنے نمونہ پیش کر سکیں اور کہہ سکیں کہ ہماری جماعت اِس چیز کو قائم کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ساری نیکیاں کسی میں موجود ہوں۔ چاہے ایک ہی نیکی نمونہ کے طو رپر ہو۔ چاہے سچ ہی کسی میں پورے طور پر آ جائے تو وہی بڑا اثر پیدا کر لیتا ہے بعد میں دوسری نیکیوں کی باری باری توفیق مل جائے گی۔
ہمارے ایک احمدی ہیں میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ان کا خاندان چور تھا اب تو وہ پنشن لے کر بھی آ گئے ہیں۔ چنیوٹ کے پاس ہی رہنے والے ہیں۔ جب احمدی ہوئے تو انہوں نے بُری باتوں کو چھوڑ دیا اور سچ بولنے لگ گئے۔ جب ان کے بھائیوں نے یا باپ نے بھینس وغیرہ چُرا کر لائی یا جانور لائے تو لوگوں نے آ کر کہنا کہ تم لائے ہو کیونکہ وہ مشہور چور تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں لائے۔ قسمیں کھانی، قرآن کھانا اور یہ ان کے نزدیک بالکل آسان بات تھی۔ آخر انہوں نے کہنا ہم نہیں مانتے ہاں یہ لڑکا گواہی دے دیوے تو پھر ہم مان لیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ احمدی ہو گیا ہے جھوٹ نہیں بولتا۔ انہوں نے کہنا کہ اس کافر کی گواہی کیا لینی ہے یہ تو کافر ہے اِس کی کیا گواہی ہے۔ انہوں نے کہنا نہیں اِسی کا فر کی گواہی ماننی ہے۔ ہے تو یہ کافر پر بولتا سچ ہے۔ جو کچھ یہ کہہ دے گا وہ مانیں گے۔ اب اس کو انہوں نے الگ لے جانا اور جا کر کہنا کہ دیکھو! تم نے کہنا ہے ''نہیں لائے بھینس'' اُس نے کہنا لائے تو ہو، وہاں کھڑی ہے بھینس۔ وہ کہتے کمبخت! تجھے ہم کہہ رہے ہیں ہم نہیں لائے یہ تم نے کہنا ہے۔ وہ کہتا کہ میں کس طرح کہوں جب بھینس وہاں کھڑی ہے۔ انہوں نے کہنا ہم بھائیوں کی خاطر تم جھوٹ نہیں بولو گے؟ اس نے کہنا کہ جھوٹ تو میں نہیں بولوں گابولوں گا تو سچ ہی۔ انہوں نے خوب کُوٹنا اور کُوٹ کاٹ کے سمجھنا کہ اب اِس کو اچھا سبق آ گیا ہے چنانچہ اسے پکڑ کر اُن کے سامنے لے جانا۔ انہوں نے بھی دیکھ لینا کہ خوب کُوٹا ہؤا ہے۔ انہوں نے پوچھنا کہ کیوں بھئی بھینس لائے ہیں؟ وہ کہتا جی ہاں لائے ہیں وہاں کھڑی ہوئی ہے۔ پھر انہوں نے کہنا تجھے اتنا مارا تھا مگر پھر بھی تجھے سبق نہیں آیا۔ وہ کہتا جب وہ کھڑی ہوئی ہے تو میں کیا کرتا۔ اب دیکھو وہ اسے کافر کہتے تھے لیکن ساتھ ہی اُسے سچ بولنے میں ایک نمونہ بھی سمجھتے تھے۔
اِس طرح کسی ایک خُلق کو لے لو اور اس میں اپنے آپ کو اتنا نمایاں ثابت کرو کہ سارا محلہ، سارا دفتر، سارا علاقہ کہے کہ یہ اِس بات میں سچا ہے۔ ہمارے کئی بزرگ گزرے ہیں ان کا تاریخی طور پر واقعہ آتا ہے کہ باپ مثلاً بزاز تھا اور وہ کپڑا جوبیچنے لگا تو بیٹا کہنے لگا ابا کیا کر رہے ہیں؟ اس میں تو فلاں جگہ پر داغ پڑا ہؤا ہے۔ اب وہ گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے لیکن اس نے پھر یہی کہنا کہ نہیں نہیں داغ میں نے آپ دیکھا تھا۔ اِس کا اثر یہ تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بیٹا جو بات کرے گا وہ ٹھیک ہو گی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اِسی طرح ہے۔ ان کے اندر فطرتِ صحیحہ پائی جاتی تھی۔ باپ تو ان کے فوت ہو چکے تھے۔ چچا تھے جو اُن کو پالتے تھے۔ وہ بت خانہ کے افسر بھی تھے اور بت بھی بنا بنا کر بیچا کرتے تھے اور لوگ ان سے بت لینے آتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی انہوں نے دکان پر بٹھا دیا کہ یہ لڑکا ذرا تجارت کاواقف ہو جائے۔ وہ اپنے چچیرے بھائیوں کے ساتھ دکان پر بیٹھنے لگ گئے۔ ایک دن کوئی بڈھا آیا اور اس نے آ کر کہا کہ میں نے ایک بت لینا ہے۔ کوئی ستّر اسّی سال کا بڈھا تھا لڑکوں نے جو دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہا کہ آپ چن لیجئے کون سا پسند ہے۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھ کے اوپر ایک بت رکھا ہؤا تھا اُس کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا مجھے یہ پسند ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک قہقہہ مارا۔ اس نے کہا تم کیوں ہنسے؟ وہ کہنے لگے کل میرے سامنے ایک آدمی بت بنا کے لایا تھا جو کل کا بنا ہؤا ہے۔ تم اتنے بڑے بڈھے اِس کے آگے سجدہ کرو گے؟ اُس نے جھٹ بُت پھینک دیا اور چل پڑا۔ بھائیوں نے خوب کُوٹا اور کہا کہ تم نے خواہ مخواہ ہمارا گاہک خراب کر دیا ہے۔ تو ایک نیکی بھی اگر انسان کے اندر آ جائے تو وہ اُس کو نمایاں کر کے لے جاتی ہے۔
پس یہ سننے کی عادت اب چھوڑو۔ کسی ایک چیز کو لے لو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کیا لے لو کسی ایک چیز کو لو اور پھر اس میں تم مشہور ہو جاؤ۔ جیسے بمبئی کے لوگ کہتے ہیں فلاں باٹلی والا ہے اِسی طرح تمہارا ایک نام ہو جائے کہ فلاں سچ والا ہے، فلاں دیانت والا ہے، فلاں ہمدردی والا ہے۔ بس تمہارا ایک نام پڑ جائے پھر دیکھو کہ لوگوں پر اِس کا کیسا اثر ہوتا ہے اور خود تمہیں کتنی دلیری پیدا ہو جاتی ہے کہ چلو میں ہمدردی والا بن گیا، دیانت والا بھی بن جاؤں۔ سچ والا بن گیا ہوں، انصاف والا بھی بن جاؤں۔ تو کوئی نہ کوئی چیز اپنے اندر پیدا کر لو تا کہ لوگوں کے لئے یہ نمونہ ہو جائے اور ہمارے اندر ایسی اخلاقی طاقت پیدا ہو جائے کہ دنیا پر ہماری اخلاقی برتری اور ہماری نیکی کی فوقیت ثابت ہو جائے۔
پھر دعا کرو جیسا کہ میں نے کہا تھا اِس وقت سارے ہی اسلامی ممالک اِلَّامَاشَاءَ اللہُبہت خطرے کی حالت میں ہیں۔ کہیں اندرونی خطرے ہیں کہیں بیرونی خطرے ہیں، کہیں دباؤ ہیں کہیں لالچیں ہیں، کہیں حرصیں ہیں، کہیں ڈراوا ہے، کہیں دھمکیاں ہیں۔ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اِتنی مدت کی غلامی کے بعد اب اس نے جو مسلمانوں کو آزاد کیا ہے تو اَب بخشنے پر آیا ہے تو پھر پوری ہی بخشش دے بجائے اس کے کہ ادھوری چیز دے۔ خصوصاً پاکستان کی طاقت اور آزادی کے لئے دعا کرو اور اپنی وفا کا کامل نمونہ دکھاؤ تا تمہاری وفا کو دیکھ کر دوسرے بھی باوفا ہو جائیں۔
پھر سب سے بڑا غلام اور سب سے زیادہ مصیبت زدہ تو اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ اس غلام کو بھی آزادی بخشے اور اس کی بھی وہی عزت قائم کر دے جو پہلے زمانہ میں تھی۔ یہ جو شاہی تخت کا مستحق تھا آج وہ آفتابہ اٹھائے ہوئے امیروں کے ہاتھ دھلوا رہا ہے۔ خداتعالیٰ اس کو بھی اس غلامی سے آزاد کرے اور پھر تختِ شاہی پر بٹھائے تا کہ ہم لوگ بھی سرخرو ہوں اور ہماری بھی عزت دنیا میں قائم ہو ۔ ہماری عزت تو اسلام سے ہی ہے۔ اگر اسلام کی عزت نہیں تو ہماری کوئی عزت نہیں۔ ایسی عزت سے *** بہتر ہے جو اسلام کے نقصان کے بعد ہم کو حاصل ہو۔ پھر جو تمہارے باہر کے بھائی ہیں اور مبلّغ ہیں ان کے لئے دعائیں کرو، ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بھی دعائیں کرو۔ ہندوستان کے مسلمان بھی بڑی مشکلات میں ہیں۔ بے شک وہ ایک دنیوی حکومت کہلاتی ہے لیکن پھر بھی اکثریت مسلمانوں کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں کر رہی۔ ان کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور ان میں سے بھی کشمیر کے مسلمانوں کے لئے خاص طور پر دعا کرو کہ وہ ان کا حامی اور ان کا محافظ ہو۔ پھر جو اپنے مبلغ ہیں ان کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت دے۔ اپنے لئے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دین کی خدمت کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ وعدے کرنے کی توفیق دے اور اچھے سے اچھے طور پر پورا کرنے کی توفیق دے تا کہ ہمارے تمام کام خوش اسلوبی سے طے ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو کر جائیں۔ جن لوگوں نے اِس وقت خدمت کی ہے حفاظت کے کام کی یا لنگر کے کام کی یا کھانا پہنچانے کے کام کی۔ یہ سارے کے سارے جو خدمت کرنے والے ہیں درحقیقت اللہ کے لئے انہوں نے کام کیا ہے اس لئے وہ مستحق ہیں کہ ہم ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول کرے اور اعلیٰ سے اعلیٰ انعام ان کو دے۔ اور پھر یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے بڑھانے کے سامان پیدا کرے، لوگوں کے دلوں سے بُغض اور نفرت دور کرے اور ہمیں وہ طریقے بتائے کہ جن کے ذریعہ سے ہم زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لائیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے والی جماعت بڑھتی چلی جائے اور اس کے لئے قربانی کرنے والے ترقی کرتے چلے جائیں اور ہمارے ملک کے لوگوں میں ہماری نسبت جو بدظنیاں ہیں وہ دور ہوں اور جو ہماری نیکیاں ہیں وہ ان کے سامنے آئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے، اللہ تعالیٰ ہم کو نیک کام کرنے کی توفیق دے اور اُن کو نیک کاموں کو نیک دیکھنے کی توفیق دے۔ پس آؤ ہم دعا کریں۔ دعا کے بعد ہم رخصت ہوں گے اور اللہ تعالیٰ جب چاہے گا پھر
ملیں گے۔ '' (الفضل 25جنوری 1955ء)
1 نچلی: نِچلی نہ بیٹھنا: ایک حالت پر قائم نہ رہنا۔ کچھ نہ کچھ کیے رکھنا
2 بھرّے: بھرّا : ترغیب ۔ تحریک۔ تحریص۔ دھوکا۔ فریب
3 الانفطار: 11تا 13
4 کنسوئیاں : چھُپ کر کسی کی باتیں سننا
5 میکسی میلین (MAXIMILIAN) (1832ء – 1867ء)
FERDINAND MAXIMILIAN JOSEPH آسٹریا کے صدر مقام ویانا میں آسٹریا کے شہزادہ FRANZ KARL کے گھر پیدا ہوا۔ 22 سال کی عمر میں آسٹرین نیوی کو کمانڈ کیا۔ 1857ء میں میکسی میلین کو وائس کنگ (VICE KING) کے طور پر مقرر کیا گیا۔ 1863ء میں فرانس کے نپولین III اور میکسیکوکی شاہی حکومت کے بعض ممبران کی مدد سے میکسیکو کا حکمران بنا۔ جہاں اسے بہت مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اسے گرفتار کر لیا گیا اور 1867ء میں قتل کر دیا گیا۔ (Wikipedia, the free Encyclopedia)
6 الانعام : 23 ، 24 7 حٰم السجدۃ : 21
8 کچا چِٹھا : صحیح صحیح حال۔ کُل کیفیت
9 النور : 25
10 بخاری کتاب الرّقاق باب مَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ اَوْ بِسَیِّـئَۃٍ
11 الاعلٰی : 8 12 ھود : 6 13 المجادلۃ : 7
14 الکھف : 50 15 الحاقّۃ : 26 تا 28 16 الحاقّۃ : 20 ،21
17 حٰم السجدۃ : 22 18 التغابن : 10
19 المفردات فی غریب القرآن۔ لامام راغب اصفہانی صفحہ 454 مطبوعہ بیروت 2002ء
20 الفرقان : 71
21 مسلم کتاب الایمان باب اَدْنٰی اَھل الجنۃ منزلۃً فِیْھا
22 ،23 تذکرۃ الاولیاء صفحہ 343تا 345۔ از فرید الدین عطار۔ مطبوعہ 1990ء لاہور
24 حٰم السجدۃ : 9 25 اٰل عمران : 97 ،98
26 سیرت ابن ھشام جلد ١ صفحہ 81 مطبوعہ مصر 1295ء
27 الفیل : 2 ،3 28 الانبیاء : 106 29 بنی اسراء یل : 6 ،7
30 بنی اسراء یل : 8 ،9
31
32 بنی اسراء یل : 105
33 مسلم کتاب الفتن باب لَا تقوم السّاعَۃُ حَتّٰی یمر الرجل بقَبْرِ الرَّجل (الخ)






منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات

از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی


بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ


منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات
(1956ء-7-23 تا 1956ء -11-27)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں مولوی محمدصدیق صاحب شاہد مربی سلسلہ راولپنڈی کی طرف سے ایک رپورٹ موصول ہوئی۔ وہ رپورٹ اور اُس پر حضور نے جو پیغام احبابِ جماعت کے نام ارسال فرمایا وہ درج ذیل ہے:
(1)مولوی محمد صدیق صاحب شاہد کا خط
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیّدنا و امامنا حضرت ...........خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
مکرم چیمہ صاحب افسر حفاظت نے مجھے کہا ہے کہ حضور اقدس کی خدمت میں لکھوں کہ راولپنڈی میں اﷲ رکھا کو تم نے کس کے کہنے پر رکھا تھا؟ عرض ہے کہ گزشتہ رمضان کے مہینہ کی بات ہے کہ انجمن احمدیہ راولپنڈی میں اﷲ رکھا آیا اور مہمان خانہ میں رہنے کے لئے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ تم کو قادیان سے نکالا گیا تھا اس لئے اس جگہ نہیں رہ سکتے۔ اس پر کہنے لگا کہ مجھے معافی مل چکی ہے۔
(1) خصوصیت سے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا نام لیا کہ انہوں نے بھی مجھے ایک چٹھی امراء کے نام لکھ کر دی تھی لیکن اس وقت میرے پاس نہیں ہے۔
(2) علاوہ اس کے اَور بھی خاندان کے افراد کی چٹھیاں میرے پاس ہیں۔ ایک خط میاں عبدالوہاب صاحب عمر کا مجھے دکھایا جس میں محبت بھرے الفاظ میں اﷲ رکھا سے تعلقات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہم تو بھائیوں کی طرح ہیں اور امّی جان تم کو بیٹوں کی طرح سمجھتی تھیں۔ یہ خط میں نے خود پڑھا تھا اور اس سے میری تسلی ہو گئی اور میں نے اس کو احمدی خیال کر کے مہمان خانے میں رہنے کی اجازت دے دی۔
(3) راولپنڈی میں میرے پاس تین دن رہنے کے بعد کہنے لگا کہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری (سیکرٹری رُشدو اصلاح) میرے اپنے آدمی ہیں اس لئے میں وہاں جاتا ہوں۔ وہاں کئی دن رہا اور اس دوران میں ملتا رہا اور مختلف احمدیوں خصوصاً کرنل محمود صاحب کے گھر سے کھانا بھی کھاتا رہا۔
(4) چند دنوں کے بعد اپنا تھوڑا سا سامان میرے پاس چھو ڑ کر کہنے لگا کہ میں اگلی جماعتوں کا دورہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہہ کر کیمل پور، پشاور، مردان، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور بالاکوٹ تک قریباً ڈیڑھ مہینہ پھرتا رہا اور اب راولپنڈی اپنا سامان لینے کے لئے واپس آیا۔ چونکہ خاکسار مری تھا اس لئے اس جگہ آ گیا اور آج ہی راولپنڈی واپس گیا ہے اور جاتے ہوئے مندرجہ ذیل پتہ دے گیا ہے۔ نسبت روڈ نمبر 44 بر مکان غلام رسول 35 لاہور۔ اور کہہ گیا کہ راولپنڈی سے ہو کر ربوہ جاؤں گا اور وہاں چند دن رہنے کے بعد لاہور جاؤں گا۔
خدا بہتر جانتا ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سچ اور صحیح لکھا ہے اور میں نے کسی چیز کو چھپایا نہیں ہے اور میں نے اﷲ رکھا سے یہ سلو ک محض اس لئے کیا کہ وہ احمدی ہے اور باقی افرادِ جماعت بلکہ مکرم امیر صاحب راولپنڈی کو بھی ملتا رہاہے۔ ان میں سے کسی نے بھی مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو اپنے پاس مت رکھو۔
نوٹ: لاہور میں وہ اکثر جودھامل بلڈنگ میں مکرم عبدالوہاب صاحب عمر اور حافظ اعظم صاحب کے پاس رہتا ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میرے تعلقات حافظ مختار احمد صاحب اور مولوی خورشید احمد منیر مربی لاہور اور قاضی محمد یوسف صاحب پراونشل امیر سرحد کے ساتھ گہرے ہیں۔
والسلام
حضور کا ادنیٰ غلام
دستخط محمد صدیق شاہد مربی۔مری
1956ء-7-23 ’’
(الفضل 25 جولائی 1956ء)
حضرت مصلح موعود کا انقلاب آفریں پیغام مؤرخہ 1956ء-7-23
''اﷲ رکھا وہ شخص ہے جس نے قادیان کی جماعت کے بیان کے مطابق قادیان میں فساد مچایا تھا اور بقول ان کے قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ اور جب قادیان کی انجمن نے اس کو وہاں سے نکالا تو ان کے بیان کے مطابق اس نے بھارتی پولیس اور سکھوں اور ہندوؤں سے جوڑ ملایا اور قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ جتنا وہ اس کو قادیان سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے اُتنا ہی یہ بھارتی پولیس کی مدد سے قادیان میں رہنے کی کوشش کرتا رہا۔ کوہاٹ کی جماعت کے نمائندوں نے ابھی دو دن ہوئے مجھے بتایا کہ یہ شخص کوہاٹ آیاتھا اور وہاں اس نے ہم سے کہا تھا کہ جب خلیفۃ المسیح الثانی مر جائیں گے تو اگر جماعت نے مرزا ناصر احمد کو خلیفہ بنایا تو میں ان کی بیعت نہیں کروں گا۔ ہم نے جواباً کہا کہ مرزا ناصر احمد کی خلافت کا سوال نہیں تُو ہمارے زندہ خلیفہ کی موت کا متمنّی ہے اس لئے تُو ہمارے نزدیک خبیث آدمی ہے، یہاں سے چلا جا۔ ہم تجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ مولوی محمد صدیق صاحب نے جو اس کا بتایا ہؤا پتہ لکھا ہے کوہاٹ کی جماعت نے دفتر کو بتایا کہ اسی جگہ کے رہنے والے چند نام نہاد احمدیوں کا اس نے نام لیا اور کہا کہ انہوں نے مجھے کرایہ دے کر جماعتوں کے دورے کے لئے بھجوایا ہے۔ مولوی محمد صدیق صاحب کے بیان سے ظاہر ہے کہ وہ مزید دوروں کے لئے پھر رہا ہے۔ چودھری فضل احمد صاحب جو نواب محمد دین صاحب مرحوم کے رشتہ کے بھائی ہیں اور نہایت مخلص اور نیک آدمی ہیں اُنہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے بھی ایک دن روک کر کھڑا ہو گیا تھا اور کہتا تھا میں مُلک بھر میں پھر رہا ہوں۔ مربی راولپنڈی کے بیان کے مطابق میاں عبدالوہاب صاحب نے اس کو ایک خط دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ تم ہمارے بھائیوں کی طرح ہو اور ہماری والدہ بھی تم سے بہت محبت کرتی تھیں۔ اگر ایسا کوئی خط تھا تو یہ بیان بالکل جھوٹ اور افترا ہے کیونکہ میاں عبدالوہاب کی والدہ اس شخص کو جانتی بھی نہ تھیں کیونکہ وہ ربوہ میں رہتی تھیں اور یہ شخص قادیان میں تھا اور جماعت کی پریشانی کا موجب بن رہا تھا۔ نیز وہ تو وفات سے قبل ذیابیطس کے شدید حملہ کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی رہتی تھیں اور ان کی اولاد ان کو پوچھتی تک نہ تھی اور میں ان کو ماہوار رقم محاسب کے ذریعہ سے علاوہ انجمن کے حضرت خلیفہ اوّل کی محبت اور ادب کی وجہ سے دیا کرتا تھا۔ بلکہ جب میں بیمار ہؤا اور یورپ گیا تو ان کی نواسیوں کو تاکید کر گیا تھا کہ ان کی خدمت کے لئے نوکر رکھو جو خرچ ہو گا میں ادا کروں گا۔بہرحال ایک طرف تو جماعت مجھے یہ خط لکھتی ہے کہ ہم آپ کی زندگی کے لئے رات دن دعائیں کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص کا خط مجھے آج ملا کہ میں تیس سال سے آپ کی زندگی کے لئے دعا کر رہا ہوں۔ دوسری طرف جماعت اس شخص کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے جو میری موت کا متمنّی ہے۔ آخر یہ منافقت کیوں ہے؟ کیا میاں عبدالوہاب کا بھائی ہونا محض اس وجہ سے ہے کہ وہ شخص میری موت کا متمنّی ہے؟ کوئی تعجب نہیں کہ وہ مری میں صرف اس نیت سے آیا ہو کہ مجھ پر حملہ کرے۔ جماعت کے دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ جب ہم نے اس کو گھر سے نکالا کہ یہ پرائیویٹ گھر ہے تمہیں اس میں آنے کا کوئی حق نہیں تو اس نے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر شور مچانا شروع کر دیا تاکہ اردگرد کے غیر احمدیوں کی ہمدردی حاصل کرے۔ اب جماعت خود ہی فیصلہ کرے کہ میری موت کا متمنّی آپ کا بھائی ہے یا آپ کا دشمن۔ آپ کو دو ٹوک فیصلہ کرنا ہو گا اور یہ بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ جو اس کے دوست ہیں وہ بھی آپ کے دوست ہیں یا دشمن۔ اگر آپ نے فوراً دو ٹوک فیصلہ نہ کیا تو مجھے آپ کی بیعت کے متعلق دوٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جس جماعت اور جماعت کے افراد کی طرف سے اس دشمنِ احمدیت اور اس کے ساتھیوں کے متعلق براءت کی چِٹھیاں مجھے نہ ملیں تو میں ان کے خط پھاڑ کر پھینک دیا کروں گا اور ان کی درخواستِ دعا پر توجہ نہ کروں گا۔ یہ کتنی بے شرمی ہے کہ ایک طرف میری موت کے متمنّی اور اس کے ساتھیوں کو اپنا دوست سمجھنا اور دوسری طرف مجھ سے دعاؤں کی درخواست کرنا۔
مہربانی کر کے یہ لوگ جن کا نام مولوی صدیق صاحب کے بیان میں ہے یعنی قاضی محمد یوسف صاحب امیر سرحد، حافظ مختار احمد صاحب اور مولوی خورشید احمد صاحب منیر مربی لاہور وہ بھی بتائیں کہ ان کا اس شخص کے ساتھ کیا تعلق ہے یا اس نے اپنے ساتھیوں کی عادت کے مطابق افترا سے کام لیا ہے۔ جن لوگوں کا نام اس شہادت میں آیا ہے ان کے متعلق میرے پاس مزید شہادتیں پہنچ چکی ہیں۔ عنقریب میں ان کو مکمل کر کے شائع کروں گا اور اگر ان لوگوں کی طرف سے چھیڑ خانی جاری رہی تو میں غور کروں گا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ اور میں جماعت کی بھی نگرانی کروں گا کہ وہ اﷲ رکھا اور اس کی قماش کے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔
جماعت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ تذکرہ میں پسرِ موعود کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات شائع ہوئے ہیں ان الہامات کے خاص خاص حصّے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پرائیویٹ طور پر حضرت خلیفہ اوّل کو کیوں لکھے؟ آخر مستقبل سے کچھ تو اس کا تعلق تھا۔ کیوں نہ حضرت صاحب نے سب باتیں سبز اشتہار میں لکھ دیں اور کیا وجہ ہے کہ پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ یسّرنا القرآن نے جو حضرت خلیفہ اوّل کے سالے بھی تھے جب حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں پسرِ موعود پر ایک رسالہ لکھا تو اس پر حضرت خلیفہ اوّل نے یوں ریویو کیا کہ میں اس مضمون سے متفق ہوں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ مَیں مرزا محمود احمد کا بچپن سے کتنا ادب کرتا ہوں۔ اس تبصرہ کی بھی کوئی حکمت تھی۔ اس کی کاپیاں اب تک موجود ہیں اور غالباً حضرت خلیفہ اوّل کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ریویو کا چربہ بھی اب تک موجود ہے''۔
مرزا محمود احمد
(خلیفۃ المسیح الثانی)
1956ء23-7- ''
(الفضل 25 جولائی 1956ء)
(2)مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے پہلے سالانہ اجتماع کے لئے پیغام مؤرخہ 1956ء-7-24
‘‘خیبر لاج مری (1956ء24-7-)
خدام الاحمدیہ کراچی
عزیزان ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔
آپ کے افسران نے مجھ سے خدام الاحمدیہ کراچی کے جلسہ کے لئے پیغام مانگا ہے۔میں اِس کے سوا پیغام کیا دے سکتا ہوں کہ 1914ء میں جب میں خلیفہ ہؤا اور جب میری صرف 26سال عمر تھی خدام الاحمدیہ کی بنیاد ابھی نہیں پڑی تھی مگر ہر احمدی نوجوان اپنے آپ کو خادمِ احمدیت سمجھتا تھا ۔مجھے یاد ہے کہ جس دن انتخابِ خلافت ہونا تھا مولوی محمدعلی صاحب کی طرف سے ایک ٹریکٹ شائع ہؤا کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہئے صدر انجمن احمدیہ ہی حاکم ہونی چاہئے۔اُس وقت چند نوجوان نے مل کر ایک مضمون لکھا اور اُس کی دستی کاپیاں کیں۔ اُس کا مضمون یہ تھا کہ ہم سب احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت فیصلہ کر چکے ہیں کہ جماعت کا ایک خلیفہ ہونا چاہئے، اس فیصلہ پر ہم قائم ہیں اور تا زندگی قائم رہیں گے اور خلیفہ کا انتخاب ضرور کرا کے چھوڑیں گے۔ سکول کے درجنوں طالبعلم پیدل اور سائیکلوں پر چڑھ کے بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے اور ہر نَو وارد مہمان کو دکھا کر اُس سے درخواست کی کہ اگر آپ اِس سے متفق ہیں تو اِس پر دستخط کر دیں۔ جماعت احمدیہ میں خلافت کی بنیاد کا وہ پہلاد ن تھا اور اس بنیاد کی اینٹیں رکھنے والے سکول کے لڑکے تھے۔ مولوی صدر الدین صاحب اُس وقت ہیڈ ماسٹر تھے اُن کو پتہ لگا تو وہ بھی بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ سکول کا ایک لڑکا نو وارد مہمانوں کو وہ مضمون پڑھوا کر دستخط کروا رہا ہے۔ انہوں نے وہ کاغذ اُس سے چھین کر پھاڑ دیا اور کہا چلے جاؤ۔ وہ لڑکا مومن تھا اُس نے کہا مولوی صاحب! آپ ہیڈ ماسٹر ہیں اور مجھے مار بھی سکتے ہیں مگر یہ مذہبی سوال ہے میں اپنے عقیدہ کو آپ کی خاطر نہیں چھوڑ سکتا۔ فوراً جھک کر وہ کاغذ اٹھایا اور اُسی وقت پنسل سے اُس کی نقل کرنی شروع کر دی اور مولوی صاحب کے سامنے ہی دوسرے مہمانوں سے اُس پر دستخط کروانے شروع کر دیئے۔
اِس پر بیالیس سال گزر گئے میں اُس وقت جوان تھا اور اب 68 سال کی عمر کا ہوں اور فالج کی بیماری کا شکار ہوں۔ اُس وقت آپ لوگوں کی گردنیں پیغامیوں کے ہاتھ میں تھیں اور خزانے میں صرف اٹھارہ آنے کے پیسے تھے۔ میں نے خالی خزانہ کو لے کر احمدیت کی خاطر اُن لوگوں سے لڑائی کی جو کہ اُس وقت جماعت کے حاکم تھے اور جن کے پاس روپیہ تھا لیکن خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور جماعت کے نوجوانوں کو خدمت کرنے کی توفیق دی۔ ہم کمزور جیت گئے اور طاقتور دشمن ہار گیا۔ آج ہم ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور جن لوگوں کو ایک تفسیر پر ناز تھا اُن کے مقابلہ میں اتنی بڑی تفسیر ہمارے پاس ہے کہ اُن کی تفسیر اِس کا تیسرا حصہ بھی نہیں۔ جو ایک انگریزی ترجمہ پیش کرتے تھے اُس کے مقابلہ میں ہم چھ زبانوں کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ناشکری کا بُرا حال ہو کہ وہی شخص جس کو پیغامی ستّرا بہّترا قرار دے کر معزول کرنے کا فتویٰ دیتے تھے اور جس کے آگے اور دائیں اور بائیں لڑ کر میں نے اُس کی خلافت کو مضبوط کیا اُس سے تعلق رکھنے والے چند بے دین نوجوان جماعتوں میں آدمی بھجوا رہے ہیں کہ خلیفہ بڈھا ہو گیا ہے اسے معزول کرنا چاہئے۔ اگر واقع میں مَیں کام کے قابل نہیں ہوں تو آپ لوگ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے قابل آدمی کو خلیفہ مقرر کر سکتے ہیں اور اُس سے تفسیرِ قرآن لکھوا سکتے ہیں۔ میری تفسیریں مجھے واپس کر دیجئے اور اپنے روپے لے لیجئے۔ اور مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر یا اور جس تفسیر کو آپ پسند کریں اُسے پڑھا کریں۔ اور جو نئی تفسیر میری چھپ رہی ہے اُس کو بھی نہ چُھوئیں۔ یہ اوّل درجہ کی بے حیائی ہے کہ ایک شخص کی تفسیروں اور قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کر کے تعریفیں اور شہرت حاصل کرنی اور اُسی کو نکمّا اور ناکارہ قرار دینا۔ مجھے آج ہی اللہ تعالیٰ نے الہام سے سمجھایا کہ''آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں''۔ یعنی جماعت سے پھر کہو کہ یا تم مجھے چھوڑ دو اور میری تصنیفات سے فائدہ نہ اٹھاؤ۔ نہیں تو میرے ساتھ وفاداری کا ویسا ہی معاہدہ کرو جیسا کہ مدینہ کے لوگوں نے مکہ کی عقبیٰ جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا تھا اور پھر بدر کی جنگ میں کہا تھا یَا رَسُوْلَ اللہِ! یہ نہ سمجھیں کہ خطرہ کے وقت میں ہم موسیٰؑ کی قوم کی طرح آپ سے کہیں گے کہ جا تُو اور تیرا خدا لڑتے پھرو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔ یَا رَسُوْلَ اللہِ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اُس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آگے نہ آئے1 سو گو میرا حافظ خدا ہے اور اُس کے دیئے ہوئے علم سے آج بھی مَیں ساری دنیا پر غالب ہوں لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی جماعت کا امتحان لے اور اس سے کہہ دے کہ ''آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں'' سو تم میں سے جو شخص خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا کر معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آخری سانس تک وفاداری دکھائے گا۔ وہ آگے بڑھے۔ وہ میرے ساتھ ہے اور میں اور میرا خدا اُس کے ساتھ ہے۔ لیکن جو شخص دنیوی خیالات کی وجہ سے اور مخالفوں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے بزدلی دکھانا چاہتا ہے اُس کو میرا آخری سلام۔ میں کمزور اور بوڑھا ہوں لیکن میرا خدا کمزور اور بوڑھا نہیں۔ وہ اپنی قہری تلوار سے ان لوگوں کو تباہ کر دے گا جو کہ اِس منافقانہ پروپیگنڈا کا شکار ہوں گے۔ اِس پروپیگنڈا کا کچھ ذکر الفضل میں چھاپ دیا گیا ہے چاہئے کہ قائد خدام اس مضمون کو بھی پڑھ کر سنا دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کا حافظ و ناصر ہو۔ پہلے بھی اس کی مدد مجھے حاصل تھی اب بھی اس کی مدد مجھے حاصل رہے گی۔ میں یہ پیغام صرف اِس لئے آپ کو بھجوا رہا ہوں تا کہ آپ لوگ تباہی سے بچ جائیں۔ ورنہ حقیقتاً میں آپ کی مدد کا محتاج نہیں۔ ایک ایک مرتد کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ہزاروں آدمی مجھے دے گا اور مجھے توفیق بخشے گا کہ میرے ذریعہ سے پھر سے جماعت جواں سال ہو جائے۔ آپ میں سے ہر مخلص کے لئے دعا اور کمزور کے لئے رخصتی سلام۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء24-7-’’
(الفضل 4/ اگست 1956ء)
(3)خلیفہ خدا تعالیٰ بنایا کرتا ہےپیغام مؤرخہ 1956ء-7-25
ایک اور شہادت جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منافق پیغامیوں کے ایجنٹ ہیں۔
‘‘ذیل میں ایک اَور شہادت ظہور القمر صاحب ولد ہری داس کی جو ہندوؤں سے مسلمان ہوئے ہیں شائع کی جاتی ہے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ منافق پارٹی پیغامیوں کی ایجنٹ ہے۔ ظہور القمر صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ ''میں مسمّی ظہور القمر ولد ہری داس متعلم جامعۃ المبشرین ربوہ حال مسجد احمدیہ گُلڈنہ مری حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ تقریباً دس روز ہوئے ایک شخص جس نے اپنا نام اللہ رکھا سابق درویش قادیان بتایا مسجداحمدیہ گُلڈنہ میں آیا اور کہا کہ میں مولوی محمد صدیق مربی راولپنڈی کو ملنے آیا ہوں۔ میرا سامان راولپنڈی میں ان کے مکان پر ہے اور میں نے ان سے مکان کی چابی لینی ہے۔ اس کے بعد وہ مولوی محمد صدیق صاحب کو ملا اور انہوں نے اسے مسجد احمدیہ گُلڈنہ میں ٹھہرایا اور بستر وغیرہ بھی دیا۔ اور اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا مولوی محمد صدیق صاحب اسے اپنے ساتھ کھانا بھی کھلاتے رہے (مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ چونکہ اس شخص نے ان سے کہا تھا کہ بڑے بڑے احمدی مجھ سے بڑی محبت کرتے ہیں اور میاں عبدالوہاب صاحب کا خط دکھایا تھا کہ آپ ہمیں بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ میاں بشیر احمد صاحب کا خط بھی میرے پاس ہے۔ گو انہوں نے امرائے جماعت کو لکھا ہے کہ اس شخص کو معافی مل چکی ہے اب جماعت اس کے ساتھ تعاون کرے اور اس کی مدد کرے مگر یہ بھی کہا تھا کہ وہ خط اس وقت میرے ساتھ نہیں ہے۔ پس میں نے اس شخص پر حسن ظنی کی اور اس کو مخلص احمدی سمجھا اور یقین کیا کہ اس کو معافی مل چکی ہے) پھر ظہور القمر لکھتے ہیں کہ''میں عید الاضحی سے ایک روز قبل خیبر لاج میں آیا اور منشی فتح دین صاحب سے دریافت کیا کہ عید کی نماز کب ہو گی اور کون پڑھائے گا؟ منشی صاحب نے بتایا کہ ساڑھے آٹھ بجے ہو گی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پڑھائیں گے، باہر صحن میں درخت کے ساتھ اعلان بھی لگا ہؤا ہے لہٰذا میں نے واپس جا کر سب دوستوں کو جو مسجد میں تھے نماز کے وقت کی اطلاع دی۔ اِسی ضمن میں اللہ رکھا مذکور کو بھی بتایا کہ کل نماز ساڑھے آٹھ بجے ہو گی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نماز پڑھائیں گے تو اس نے جواب دیا کہ''میں ایسوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا'' دوسرے روز مولوی محمدصدیق صاحب اسے زبردستی خیبر لاج لائے اور اسے اپنے ہمراہ نماز کی ادائیگی کے لئے کہا۔ اللہ رکھا کہتا تھا کہ میں پیغامیوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا۔ نیز وہ جتنے روز یہاں رہا پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کی خط و کتابت مولوی صدر دین صاحب سے ہے اور ہر روز وہ کہا کرتا تھا کہ میں نے انہیں آج خط لکھا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ابتدائی دنوں میں پیغامیوں کی مسجد میں رہتا رہا ہے اور میاں محمد صاحب لائلپوری جو کچھ عرصہ پیغامیوں کے امیر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں مری میں تھے ان کے گھر جا کر کھانا کھاتا رہا ہے۔ اور اس نے مجھے کہا کہ انہوں نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ جب چاہو میرے گھر آ جایا کرو۔ میں رات کے گیارہ بجے تک مکان کا دروازہ کھُلا رکھا کروں گا۔ جس روز محمد شریف صاحب اشرف سے اللہ رکھا کا جھگڑا ہؤا تھا اُس دن رات کو جب وہ مسجد میں آیا تو اس نے کہا یہ میری پیشگوئی ہے کہ جس طرح پہلے خلافت کا جھگڑا ہؤا تھا اب پھر ہونے والا ہے آپ ایک ڈیڑھ سال میں دیکھ لیں گے''۔
(دستخط ظہور القمر 1956ء-7-25)
اس شہادت کو پڑھ کر دوستوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب سازش پیغامیوں کی ہے اور اللہ رکھا انہی کا آدمی ہے۔ وہ مولوی صدر دین غیر مبائع منکر نبوت مسیح موعود کے پیچھے نماز جائز سمجھتا ہے لیکن مرزا ناصر احمد جو حضرت مسیح موعود کا پوتا ہے اور ان کی نبوت کا قائل ہے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں سمجھتا۔ اور پیشگوئی کرتا ہے کہ ایک دو سال میں پھر خلافت کا جھگڑا شروع ہو جائے گا۔
موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر یہ فقرہ بتاتا ہے کہ یہ جماعت ایک دو سال میں مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ تبھی اسے یقین ہے کہ ایک دو سال میں تیسری خلافت کا سوال پیدا ہو جائے گا اور ہم لوگ خلافت کے مٹانے کو کھڑے ہوجائیں گے اور جماعت کو خلافت قائم کرنے سے روک دیں گے۔ خلافت نہ خلیفہ اول کی تھی نہ پیغامیوں کی۔ نہ وہ پہلی دفعہ خلافت کے مٹانے میں کامیاب ہوسکے نہ اب کامیاب ہوں گے۔ اُس وقت بھی حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے چند افراد پیغامیوں کے ساتھ مل کر خلافت کو مٹانے کے لئے کوشاں تھے ۔مجھے خود ایک دفعہ میاں عبدالوہاب کی والدہ نے کہا تھا ہمیں قادیان میں رہنے سے کیا فائدہ۔ میرے پاس لاہور سے وفد آیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اگر حضرت خلیفہ اول کے بیٹے عبدالحی کو خلیفہ بنادیا جاتا توہم اس کی بیعت کرلیتے مگر یہ مر زا محمود احمد کہاں سے آ گیا ہم اس کی بیعت نہیں کرسکتے ۔ وہی جوش پھر پیدا ہؤا ۔عبدالحی تو فوت ہو چکا اب شاید کوئی اَور لڑکا ذہن میں ہوگا جس کو خلیفہ بنانے کی تجویز ہوگی ۔ خلیفہ خداتعالیٰ بنایا کرتا ہے۔ اگرساری دنیا مل کر خلافت کو توڑنا چاہے اور کسی ایسے شخص کوخلیفہ بنا نا چاہے جس پر خدا راضی نہیں تو وہ ہزار خلیفہ اوّل کی اولادہو اُس سے نوحؑ کے بیٹوں کا سا سلوک ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کو اور اسکے سارے خاندان کو اس طرح پیس ڈالے گا جس طرح چکّی میں دانے پیس ڈالے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے نوحؑ جیسے نبی کی اولاد کی پروا نہیں کی نہ معلوم یہ لوگ خلیفہ اوّل کو کیا سمجھے بیٹھے ہیں۔ آخر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے اور ان کے طفیل خلیفہ اوّل بنے تھے۔ ان کی عزت قیامت تک محض مسیح موعود ؑ کی غلامی میں ہے۔ بے شک وہ بہت بڑے آدمی تھے مگر مسیح موعودؑ کے غلا م ہو کر نہ کہ ان کے مقابل میں کھڑے ہو کر۔ قیامت تک اگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غلام قرار دیا جائے گا تو ان کا نام روشن رہے گا۔ لیکن اگر اس کے خلاف کسی نے کرنے کی جرأت کی تو وہ دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ کا غضب اس پر بھڑکے گا اور اس کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا۔ یہ خدا کی بات ہے جو پوری ہو کر رہے گی۔ یہ لوگ تو سال ڈیڑھ سال میں مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آسمانوں کا خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ فرماتا ہے ‘‘سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح (یعنی کلام) ڈالیں گے’’ 2 میرے الہاموں کا زبردست طور پر پورا ہونا جماعت پچاس سال سے دیکھ رہی ہے اور جس کو شبہ ہو اَب بھی اس کے سامنے مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اخباروں میں چھپی ہوئی کشوف و رؤیا کے ذریعہ سے بھی اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب جیسے آدمیوں کی شہادت سے بھی۔
پھر خدا نے آپؑ سے فرمایا:-
‘‘وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا3 (یہ شہرت کس نے پائی؟) اور قومیں اس سے برکت پائیں گی4 (قوموں نے برکت کس سے پائی؟) پھر فرمایا:۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا5۔
پس میری موت کو خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور فرماتا ہے کہ جب وہ اپنا کام کر لے گا اور اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا لے گا تب میں اُس کو موت دوں گا۔ پس اِس قسم کے چُوہے محض لاف زنی کر رہے ہیں۔ ایک شخص نے مجھ پر چاقو سے حملہ کیا تھا مگر اُس وقت بھی خدا نے مجھے بچایا۔ پھر جماعت کی خدمت کرتے مجھ پر فالج کا حملہ ہؤا اور یورپ کے سب ڈاکٹروں نے یک زبان کہا کہ آپ کا اِس طرح جلدی سے اچھا ہو جانا معجزہ تھا۔ پھر فرمایا تیری نسل بہت ہو گی (جس پیشگوئی کے مطابق ناصر احمد پیدا ہؤا) پھر فرمایا اور میں تیری ذرّیت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔ مگر عبدالوہاب کے اس پیارے بھائی کے نزدیک اس پیشگوئی کے مصداق ناصر احمد کے پیچھے نماز پڑھنی ناجائز ہے مگر مولوی صدر دین کے پیچھے پڑھنی جائز ہے۔ پس خود ہی سمجھ لو کہ اس فتنہ کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ اور آیا یہ فتنہ میرے خلاف ہے یا مسیح موعودؑ کے خلاف۔ مسیح موعود فوت ہو چکے ہیں۔ جب وہ زندہ تھے تب بھی ان کو تم پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ تُو داروغہ نہیں۔6 اب بھی تم آزاد ہو چاہو تو لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو جاؤ۔ خدا تعالیٰ مٹی کے نیچے دبے ہوئے مسیح موعودؑ کی پھر بھی مددکرے گا اور ان لوگوں کو جو آپ کے خادموں کی طرف منسوب ہو کر آپ کے مشن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ذلیل وخوار کرے گا۔ تمہارا اختیار ہے خواہ مسیح موعود اور ان کی وحی کو قبول کرو یا مرتدوں کو اور منافقوں کو قبول کرو۔ میں اس اختیار کو تم سے نہیں چھین سکتا۔ مگر خدا کی تلوار کو بھی اس کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء25-7- ’’
(الفضل 28 جولائی 1956ء)
(4)ضروری اعلان
‘‘جن کے خط فتنۂ منافقت کے بارہ میں پہنچ رہے ہیں وہ محفوظ رکھے جا رہے ہیں۔ میں سب دوستوں کو اجمالی طور پر جَزَاکَ اللہ کہتا ہوں۔ اور دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی نسلوں کو ایمان پر قائم رکھے اور احمدیت کا خادم بنائے رکھے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ربوہ پہنچ کر ایک عام اعلان کے ذریعہ سب دوستوں کا ذکر کر دیا جائے گا۔’’
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-7-26
(الفضل 29 جولائی 1956ء)
(5)احباب کے نام پیغام
‘‘برادران ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
جو نئے بیانات منافقت کا بھانڈا پھوٹنے کے سلسلہ میں احباب اوپر پڑھ چکے ہیں اب میں اسی سلسلہ میں کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ ان بیانات کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ساری جماعت میں سے مومنانہ دلیری صرف حاجی نصیر الحق صاحب نے دکھائی ہے۔ ان کے بعد کسی قدر دلیری چودھری اسد اللہ خاں صاحب نے دکھائی ہے۔ گو ان سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ میں نے تو اپنے بعد صدر انجمن احمدیہ کا پریذیڈنٹ اَور شخص کو بنایا تھا انہوں نے مندرجہ بالا بیانات امیر جماعت ربوہ کو بھجوا دیئے حالانکہ یا وہ میرے پاس آنا چاہیئے تھے یا پریذیڈنٹ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے پاس جانے چاہیئے تھے۔ میاں بشیر احمد صاحب کا رویہ بھی نہایت بزدلانہ ہے۔ انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک واقعات کو دبائے رکھا اور ایسے لوگوں کے کام سپرد کیا جو خود ملوث تھے۔ شاید میاں بشیر احمد صاحب اس بات سے ڈرگئے کہ عبد الوہاب صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ خلیفۃ المسیح الثانی کو معزول کر کے میاں بشیر احمد صاحب یا چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو خلیفہ بنا دینا چاہئے وہ زیادہ موزوں ہیں۔ انہوں نے سمجھا ہو گا کہ اگر یہ رپورٹیں میں نے بھجوا دیں تو سمجھا جائے گا کہ میں بھی عبدالوہاب صاحب کی سازش میں شریک ہوں تبھی انہوں نے مجھے خلیفہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ واقعات کو دبانے کی یہ کوئی وجہ نہیں تھی۔ کسی فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
آں راکہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک است
بھائی تُو اپنا معاملہ صاف رکھ پھر تجھے کسی کے محاسبہ کا کیا ڈر ہو سکتا ہے۔ پس اپنا معاملہ صاف ہوتے ہوئے انہیں یہ کیوں ڈر پیدا ہؤا کہ مجھے عبد الوہاب کے ساتھ سازش میں شریک سمجھا جائے گا۔
ان بیانات میں جو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کا ذکر آتا ہے اس کو دل مانتا نہیں کیونکہ ان کی ساری زندگی بڑے اخلاص سے گزری ہے لیکن ممکن ہے حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی محبت کا جوش عارضی طور پر ان کے دل پر غالب آ گیا ہو اور انہوں نے یہ غیرمومنانہ طریق اختیار کیا ہو کہ جس شخص نے مومنانہ دلیری سے صحیح حالات لکھ دیئے اس پر خفاء ہوئے ہوں۔ بہرحال ایک لمبے تجربہ کے بعد جو میں نے ان کے متعلق رائے قائم کی ہے میں اس کو بدل نہیں سکتا اور اس وقت کا انتظار کرتا ہوں جب کہ وہ اپنے فعل کی تشریح لکھ کر مجھے بھیجیں۔
اسی سلسلہ میں مَیں جماعت کو یہ بھی اطلاع دیتاہوں کہ امیر جماعت احمدیہ لاہور کی تحقیقاتوں کے نتیجہ میں دشمنوں کے کیمپوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور انہوں نے چاروں طرف دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے چنانچہ آج صبح ہی مری میں حافظ محمد اعظم کو دیکھا گیا جو جودھامل بلڈنگ میں رہتا ہے اور جس کا نام مختلف رپورٹوں میں آ چکا ہے۔ جب اس سے بعض احباب نے پوچھا کہ آپ یہاں کہاں؟ توا س نے کہا سید بہاول شاہ صاحب قائدانصار لاہور نے میرے خلاف بغاوت کی رپورٹ کر دی ہے اس لئے میں مرزا ناصر احمد صاحب سے مدد لینے کے لئے آیا ہوں لیکن بجائے مرزا ناصر احمد کی طرف جانے کے وہ سیدھا اس طرف گیا جہاں ہمارے غیر ملکی طالبعلم رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے مولوی صدر دین صاحب امیر پیغامیان بھی یہاں آئے ہوئے تھے۔
1948ء میں جب چینی طالبعلم آئے تھے تو ان کو پیغامی ایجنٹوں نے ورغلایا تھا اور اپنے گھر لے گئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حافظ اعظم کے ساتھیوں نے جو درحقیقت پیغامیوں کے درینہ ایجنٹ ہیں ان کو غیر ملکی طالبعلموں کو بہکانے کے لئے بھیجا تھا۔ مربی مقامی نے اس کو مقامی مسجدا ور مقامی مہمان خانہ سے فوراً نکال دیا اور اکثر غیر ملکی طالبعلموں نے اس سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ پس جماعت سمجھ لے کہ مفسدوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اب مومنوں کو بھی اپنے دفاع اور فتنہ کے مٹانے کی طرف کوشش کرنی چاہئے تا کہ وہ عمارت جو پچاس سال میں اپنا خون بہا کر ہم نے کھڑی کی تھی اس میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہو۔ ’’
(الفضل 28 جولائی 1956ء)
(6)حضرت عثمانؓ کے وقت میں ذرا سی غفلت نے اتحادِ اسلام کو برباد کر دیا تھا
‘‘ بعض کمزور طبع احمدی کہتے ہیں کہ کیا چھوٹی سی بات کو بڑھا دیا گیا ہے۔ لاہور کا ہرشخص جانتا ہے کہ عبدالوہاب فاتر العقل ہے پھر ایسے شخص کی بات پر اتنے مضامین اور اتنے شور کی ضرورت کیا تھی۔ حضرت عثمانؓ کے وقت میں جن لوگوں نے شور کیا تھا ان کے متعلق بھی صحابہؓ یہی کہتے تھے کہ ایسے زٹیل آدمیوں کی بات کی پروا کیوں کی جاتی ہے۔ حال ہی میں مری پر عیسائیوں نے حملہ کیا تھا اور ایک یہ اعتراض کیا تھا کہ تبوک کے موقع پر تمہارے رسول ہزاروں آدمیوں کو لے کر جلتی دھوپ میں اور بغیر سامان کے سینکڑوں میل چلے گئے جب وہاں گئے تو معلوم ہؤا کہ معاملہ کچھ بھی نہیں۔ کوئی رومی لشکر وہاں جمع نہیں تھے اگر وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو اتنی بڑی غلطی انہوں نے کیوں کی۔ کیوں نہ خدا تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ یہ خبر جو رومی لشکر جمع ہونے کی آئی ہے غلط ہے تبوک کا واقعہ یوں ہے کہ پہلے ایک عیسائی پادری مکہ میں آیا اور مکہ سے اس نے مدینہ کے منافقوں سے ساز باز کیا اور ان کو تجویز بتائی کہ اس کے رہنے اور تبلیغ کرنے کے لئے وہاں ایک نئی مسجد بنائیں چنانچہ انہوں نے قبا نامی گاؤں میں ایک نئی مسجد بنا دی۔ وہ شخص چھپ کر وہاں آیا اور ان کو یہ کہہ کے روم کی طرف چلا گیا کہ میں رومی حکومت کو اکساتا ہوں تم ادھر یہ مشہور کر دو کہ رومی لشکر سرحدوں پر جمع ہو گیا ہے۔ جب محمد رسول اللہ اسلامی لشکر سمیت اس طرف جائیں گے اوروہاں کسی کو نہ پائیں گے اور سخت مایوس ہو کر لوٹیں گے تو تم مدینہ میں مشہور کر دینا کہ یہ دیکھو مسلمانوں کا رسول۔ بات کچھ بھی نہ تھی مگر اس نے اس کو اتنی اہمیت دے دی مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی تائید کی اور صرف تین آدمی جو سینکڑوں کے لشکر میں سے پیچھے رہ گئے تھے ان کو سخت ملامت کی اور ان میں سے ایک کابائیکاٹ کر دیا حالانکہ جب رومی لشکر تھا ہی نہیں تو تین چھوڑ کر تین ہزار آدمی بھی نہ جاتا تو اسلام کا کیا نقصان تھا۔ قرآن کو تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ یہ پیچھے رہنے والے بڑے عقلمند تھے اور جو لوگ اپنی فصلیں تباہ کر کے گرمی میں محمد رسول اللہ کے ساتھ گئے وہ بڑے احمق تھے۔ اس واقعہ میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے کہ واقعہ خواہ کچھ بھی نہ ہو اگر مسلمان کو پتہ لگ جائے کہ منافق دین کے لئے کوئی خطرہ ظاہر کر رہے ہیں تو ساری امت مسلمہ کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جانا چاہئے اور جو کوئی اس میں سستی کرے گا وہ مسلمانوں میں سے نہیں سمجھا جائے گا اور مسلمانوں کو اس سے مقاطعہ کرنا ہو گا۔ اب تبوک کے واقعہ کو دیکھو جو قرآنِ کریم میں تفصیل کے ساتھ بیان ہے اور دیکھو کہ احمدیوں میں سے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتنی چھوٹی سی بات کو اتنا کیوں بڑھایا جا رہا ہے اور کیا ان کے ساتھ بولنا چالنا احمدیوں کے لئے جائز ہے۔ اگر وہ احمدی کہلا سکتے ہیں اور ان کے ساتھ بولنا چالنا جائز ہے تو پھر قرآن اور محمد رسول اللہ نے تبوک کے موقع پر غلطی کی ہے جس وقت کہ معاملہ چھوٹا ہی نہیں تھا بلکہ تھا ہی نہیں اور پھر وہ لوگ بتائیں کہ حضرت عثمانؓ کے وقت میں شرارت کرنے والے لوگوں کو حقیر قرار دینے والے لوگ کیا بعد میں اسلام کو جوڑ سکے۔ اگر وہ اس وقت منافقوں کا مقابلہ کرتے تو نہ ان کا کوئی نقصان تھا نہ اسلام کا کوئی نقصان تھا مگر اس وقت کی غفلت نے اسلام کو بھی تباہ کر دیا اور اتحادِ اسلام کو بھی برباد کر دیا۔
وَالسَّلَام
خاکسار
مرزا محمود احمد
1956ء-7-28 ’’
(الفضل 30 جولائی 1956ء)
(7)ضروری اعلان
‘‘سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق تحریر ہے:۔
‘‘ کرنل محمود صاحب کا بھی رپورٹوں میں نام آیا ہے۔ ان کا کوئی تعلق اللہ رکھا سے نہیں۔ حسب عادت دھوکا دے کر ان کے گھر رہا۔ مگر ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک قادیان کا درویش ان کے گھر بھجوا دیا۔ اور اس نے ان کو سارا حال اس کا بتا دیا۔ جس پر انہوں نے اس کو نکال دیا۔ کوئی دوست کرنل صاحب پر بدظنّی نہ کریں۔’’
(الفضل 30 جولائی 1956ء)
(8)نافقین کے حالیہ فتنہ کے متعلق تازہ پیغام احباب جماعت کے نام مطبوعہ 1956ء-7-29
‘‘احباب کرام! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ۔
پہلے چار قسطیں اِس فتنہ کے متعلق جس کا مرکز لاہور ہے لکھی جا چکی ہیں۔ اب اسی سلسلہ میں پانچویں قسط جماعت کی اطلاع کے لئے لکھی جاتی ہے۔ اِس میں بعض نہایت ضروری امور ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ اس فتنہ کے پیچھے پیغامی ہیں۔ مولوی محمد صدیق صاحب شاہد مربی راولپنڈی لکھتے ہیں کہ:۔
'' پہلے میں نے اس لئے مختصر بیان دیا تھا کہ چیمہ صاحب نے مجھ سے صرف یہ کہا تھا کہ راولپنڈی میں اللہ رکھا آپ سے کس ذریعہ سے ملا تھا اس لئے میں نے سمجھا کہ غالباً صرف راولپنڈی کے متعلق جواب لکھنا ہے مری کے متعلق نہیں۔ اب میں اس کی مری کے متعلق کارروائیاں بھی لکھتا ہوں کیونکہ آپ کی باتوں سے مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ سارے حالات چاہئیں صرف راولپنڈی کے نہیں۔ اب میں نے اللہ رکھا کی مری میں مکمل کارروائیوں کی تحقیق کر لی ہے اور تمام امور کو حضرت اقدس کی اطلاع کے لئے تحریر کر رہا ہوں۔
1۔ وہ منحوس شخص مری میں قریباً دس دن رہا۔ جن میں سے چار دن مسجد احمدیہ گُلڈنہ میں رہا۔ اور تحقیق سے معلوم ہؤا ہے کہ باقی ایام میں وہ پیغامیوں کی مسجد میں رہا ہے۔ ان کے مسجد کے خادم، امام اور مبلغ کے ساتھ اس کی دوستی تھی اور یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ وہ خبیث اپنے آپ کو احمدی کہتا ہؤا پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا ہے۔ ایک بات ایسی بھی معلوم ہوئی ہے جس سے اس پارٹی کے سرغنہ کا پتہ لگتا ہے۔ وہ یہ کہ جتنے دن وہ مری میں رہا ہے مولوی صدر دین سے لڑتا جھگڑتا رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو منافق، بے عمل اور جاسوس کہتے رہے ہیں۔ اِس سلسلہ میں ایک رقعہ بھی ملا ہے جس میں اللہ رکھا نے مولوی صدر دین سے ان کا مشن اور گزشتہ زندگی کا حال پوچھا ہے۔ اِس ساری کارروائی سے اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ منافق اللہ رکھا، میاں محمد صاحب (لائلپوری سابق پریذیڈنٹ انجمن پیغامیاں) کی پارٹی کا آدمی ہے اور اُس کے اشارہ پر ناچ رہا ہے۔ حضور کے ربوہ جانے کے بعد خیبر لاج میں عید الاضحیٰ کے متعلق ایک واقعہ بھی ہؤا ہے جس سے اللہ رکھا کی منافقت کا پتہ لگتا ہے۔ وہ یہ کہ مسجد احمدیہ میں ہم سب کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ مرزا ناصراحمد صاحب عید کی نماز پڑھائیں گے۔ اِس پر اللہ رکھا نے کہا میں میاں ناصر کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ رتن باغ میں ایک دفعہ میں اُن سے لڑ چکا ہوں۔ اس لئے میں تو پیغامیوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا۔ اِس پر میں نے کہا اگر تم نے میاں صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی تو ابھی ہماری مسجد سے نکلو اور آج سے ہمارا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اِس پر وہ منافق نماز عید پڑھنے کے لئے تیار ہو گیا جس پر اس کی منافقت پر پھر پردہ پڑ گیا۔ اِس واقعہ کے متعلق پنڈت ظہورالقمرصاحب کی شہادت شائع ہو چکی ہے۔ ایک بات جو سب سے زیادہ اہم معلوم ہوئی ہے اور جس سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس منافق کے پیچھے پیغامی گروہ کا ضرور ہاتھ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کوہاٹ کی طرح اس منافق نے مری میں بھی چند احمدیوں کے سامنے مری سے جاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اب تو لاہوریوں کی نظر خلیفہ اوّل کی اولاد پر زیادہ پڑتی ہے اور وہ میاں عبد المنان صاحب کی زیادہ تعریف کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ زیادہ قابل ہیں۔ ہمارے خلیفہ کی زندگی میں پیغامی گروہ کا اِس قسم کا پروپیگنڈا ان کی سازشوں کا پتہ دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی سے لوگوں کے ذہنوں کو زہرآلود کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس فتنہ پرداز شخص کے گروہ سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے۔ آخری دن اللہ رکھا منافق نے ایک مجلس میں خیبر لاج سے نکالے جانے پر یہ الفاظ بھی کہے کہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مجھے دھتکارنے والوں پر عذاب اور تباہی آ جائے گی۔ جس طرح 1953ء میں ہؤا تھا اُسی طرح ہو گا اور مجھے کوئی بھی حضرت صاحب کی ملاقات سے نہ روک سکے گا۔
ظہور القمر صاحب نے بتایا ہے کہ اُس نے میرے سامنے ڈیڑھ سال کے اندر اندر آنے والی تباہی کو خلافت کے متعلق قرار دیا تھا۔ آخر میں مَیں حضور سے دوبارہ عرض کروں گا کہ چونکہ منافق اللہ رکھا کئی جماعتوں مثلاً لاہور، سیالکوٹ، جہلم، گجرات، کیمبلپور، کوہاٹ، پشاور، مردان، ایبٹ آباد، مانسہرہ، چنار اور بالاکوٹ تک دورہ کرتا رہا ہے۔ اس لیے ہر جماعت سے اِس منافق کے متعلق دریافت کر لیا جائے کہ ممکن ہے اِس طریق سے اِس فتنہ کا سراغ اور زیادہ واضح طور پر ہمارے سامنے آ جائے۔
(محمد صدیق شاہد)
افسوس ہے کہ سوائے کوہاٹ اور لاہور کے کسی جماعت نے اس شخص کے متعلق رپورٹ نہیں دی۔ نہ سیالکوٹ نے، نہ جہلم نے، نہ گجرات نے، نہ کیمبل پور نے، نہ پشاور نے، نہ مردان نے، نہ ایبٹ آباد نے، نہ مانسہرہ نے، نہ بالاکوٹ نے، اِس سے شبہ پڑتا ہے کہ ان جماعتوں میں بعض منافق لوگ موجود ہیں جن تک یہ شخص پہنچا ہے اور جنہوں نے اس کی کاروائیوں کو مرکز سے چھپایا ہے۔ گجرات کے امیر عبد الرحمن صاحب خادم کو یقیناً اس کا علم ہوناچاہئے تھا کیونکہ اِس شخص کو کوہاٹ کرایہ دے کر بھجوانے والوں میں دو اِن کے اپنے بھائی شامل تھے اور تیسرا ان کے بہنوئی راجہ علی محمد صاحب کا لڑکا تھا۔ سیالکوٹ کی جماعت کو اس سے یہی ہمدردی ہو سکتی تھی کہ یہ شخص سیالکوٹ کا رہنے والا ہے۔ پس امیر جماعت سیالکوٹ کی خاموشی افسوسناک ہے۔ (اب سیالکوٹ سے خلیفہ عبد الرحیم صاحب کا خط باوجود بیماری کے آ گیا ہے) اس کا ہزارہ کا دورہ کرنا بالکل واضح ہے کیونکہ اس کے دوستوں میں سے ایک شخص کے پاس ہزارہ کا ایک منافق احمدی نوکر ہے اور غالباً وہ خط دے کر اس کو ہزارہ بجھوا رہا ہے مگر جماعت کو تو چاہئے تھا وہ ہوشیار رہتی۔
اللہ رکھا نے جو مولوی صدر دین صاحب کے نام رقعہ لکھا تھا اس کی نقل ذیل میں درج ہے اور وہ اصل ہمارے پاس ہے۔
مرزا محمود احمد

مکرمی و محترمی مولوی صدر دین صاحب
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
گزارش ہے کہ آپ سے جو ملاقات ہوئی وہ ابد ابد تک یاد رہے گی (یعنی یہ پیغامی جماعت کے ایجنٹ اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک خدا قائم رہے گا۔ گویا خداتعالیٰ کا وجود اور ان کا وجود ایک ہے) چاہیئے تو یہ تھا کہ میں پہل کرتا مگر میں آپ کی بندہ نوازی کا مشکور ہوں۔ آنحضور نے دریافت فرمایا تھا کہ بندہ کا مشن کیا ہے؟ سو مؤدبانہ عرض ہے کہ بندہ تو مری میں سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ7 کے ماتحت رسول اللہ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق تبلیغِ اسلام کی خاطر آیا ہے۔ (گویا جماعت احمدیہ میں انتشار پھیلانا اور پیغامیوں کی ا یجنٹی کرنا ہی اس شخص کے نزدیک تبلیغِ اسلام ہے) آپ کی کرم نوازی ہو گی اگر آپ اِس بارہ میں یدِ طولیٰ رکھتے ہوں تو رہنمائی فرمائیں۔ اللہ! دھڑے بندی کو چھوڑ کر کچھ ایمان کی تو کہیے۔ ویسے آپ خوب جانتے ہیں۔ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہٖ 8 (یعنی انبیاء کی طرح اس کی زندگی بھی دنیا کے سامنے کھلے ورق کی طرح ہے۔ اور تمام پاکستان یا ساری جماعت احمدیہ اس کے ہر فعل کو جانتی ہے اور اس کو پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ ؐ کی طرح یہ شخص صادق اور امین ہے) القصہ مختصر کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ آپ اپنے مشن کی وضاحت کریں تو بندہ معلوم کرلے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔ (یعنی میاں محمد لائل پوری کی پالیسی سے آپ کو کتنا اتفاق ہے یا جماعت احمدیہ میں فتنہ ڈلوانے کے لئے آپ کتنی رقم مجھے یا میرے ساتھیوں کو دے سکتے ہیں)
خادمِ دین
اللہ رکھا درویش
حال مری’’
(الفضل 29 جولائی 1956ء)
(9)منافقوں کی مزید پردہ دری
‘‘احباب جماعت احمدیہ!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
آج ایک خط میری بیوی اُمِّ متین کے نام آیا جس کا لکھنے والا اپنے آپ کو عورت ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ربوہ کے لوگوں سے واقف ضرور ہے۔ کیونکہ اس نے پتہ پر ‘‘آپامریم صدیقہ و مہر آپا’’ لکھا ہے۔ اس اپنے آپ کو عورت ظاہر کرنے والے مرد نے جولائی 1929ء کے ‘‘مباہلہ’’ کے پرچہ کا ایک کٹنگ بھی بھیجا ہے۔ خط لکھنے والے کا خط اتنا خراب ہے۔ اور اس نے بگاڑ کر پنسل سے اس طرح لکھا ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ مباہلہ اخبار وہی ہے جو کسی زمانہ میں جھوٹے خط بنا کر اپنے اخبار میں شائع کرتا رہتا تھا۔ اور ان خطوں پر لکھا ہوتا تھا ایک معصوم عورت کا خط۔ لیکن ہر خط گمنام ہوتا تھا اور اوپر لکھا ہوتا تھا نقل مطابق اصل اور اندر اکثر خطوں میں یہ ہوتا تھا کہ مَیں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ گمنام شخص سے مباہلہ کون کر سکتا ہے۔ یہ فقرہ اس لئے بڑھایا جاتا تھا کہ احمق لوگ اس سے متاثر ہو جائیں۔ اس بات کو بھی ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ دُنیا کی وہ کونسی عورت ہے جو 27 سالہ پہلے مباہلہ کے کٹنگ کو محفوظ رکھے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ بدبخت جو مباہلہ والوں کی پارٹی میں شامل تھے۔ یا تو انہوں نے یہ کٹنگ چھپا رکھے تھے کہ کسی وقت ان کو شائع کریں گے، یا آج پھر مباہلہ والوں کے دوست مباہلہ والوں سے ان کے پرانے اخباروں کے کٹنگ لے کر جماعت میں پھیلا رہے ہیں۔ اس سے جماعت سمجھ سکتی ہے کہ موجودہ فتنہ کے پیچھے وہی پرانے سانپ ہیں جنہوں نے ایک وقت احمدیت پر حملہ کیا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے عراق سے لکھا تھا کہ مباہلہ کے پرچے پیغام بلڈنگ سے اشاعت کے لئے عراق بھیجے جاتے ہیں۔ پس یہ ایک مزید ثبوت پیغامیوں کی شراکت کا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو اُس وقت آیادان کمپنی میں نوکر تھے اور بھیرہ کے رہنے والے ہیں۔ ان کا ایک لڑکا ایسٹ پاکستان میں نوکر ہوتا تھا۔ ان سے یہ اطلاع ہم کو ملی تھی۔ ان کے نام میں گُل کا لفظ بھی آتا تھا۔ اِس وقت مجھے نام بھول گیا۔ اگر ان کو یہ واقعہ یاد ہو تو ایک دفعہ مجھے پھر لکھیں جب ایک پیغامی لیڈر نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہم نے کوئی ایسا پروپیگنڈا عراق میں نہیں کیا۔ تو ان کے ایک رشتہ دار نے یہ کہا تھا کہ یہ جھوٹ ہے۔ میرے پاس اس پیغامی لیڈر نے ان الزامات کی تصدیق لکھ کر بھیجی ہے۔ یہ صاحب کسی وقت کراچی میں رہتے تھے۔
مرزا محمود احمد
29-7-56 ’’
(الفضل 31 جولائی 1956ء)
(10)منافقین کی سازش کے متعلق تازہ پیغامات
تم میں سے ہر ایک کو ہوشیار ہونا چاہئے
‘‘تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ اللہ رکھا نے میاں بشیر احمد صاحب پر جھوٹ بولا وہ چٹھی جو یہ میاں بشیر احمد صاحب کی بتاتا ہے وہ ہمیں مل گئی ہے اور اس میں اپنے کسی ماتحت کو یہ حکم دیا گیا کہ سفارشی خط دینا بالکل غلط ہے یہ تمہارا اپنا کام ہے کہ تم احمدیوں پر اپنا اچھا اثر پیدا کرو خلیفۃ المسیح کو اس بارہ میں تنگ کرنا درست نہیں۔ اس سے ثابت ہے کہ حسبِ دستور اس کذاب نے ہر معاملہ میں جھوٹ بولا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی جھوٹ بولا ہے۔ نہ میاں بشیر احمد صاحب کو یہ اختیار تھا کہ بغیر میرے پوچھے پوری معافی دیتے نہ انہوں نے ایسا کیا بلکہ اس شخص نے ایسے ہی دجل سے کام لیا جیسا کہ حضرت عثمانؓ کے قتل کے مرتکب مسلمانوں کو دھوکا دیا کرتے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ علیؓ ہمارے ساتھ ہیں کبھی دوسرے صحابہ کا نام لیتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں کم از کم اتنا ثابت ہو گیا کہ اس فتنہ کے بانی اچھی طرح حضرت عثمان کے قاتلوں کی سکیم کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ان کی سکیم پر چلنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی احمدی ان لوگوں سے دھوکا کھاتا ہے تو وہ یقیناً احمدی نہیں اگر شیطان جبرائیل کے بھیس میں بھی آئے تو مومن اس سے دھوکا نہیں کھا سکتا۔ پس تم میں سے ہر شخص کو ایسا ہی ہوشیار ہونا چاہئے کہ کوئی شخص اپنی نسل کے سلسلہ کو خواہ کہیں تک پہنچاتا ہو اور کوئی شخص خواہ کتنے ہی بڑے آدمی کو اپنا مؤیّد قرار دیتا ہو۔ آپ اس پر *** ڈالیں۔ اور اپنے گھر سے نکال دیں۔ اورساری جماعت کو اس سے ہوشیار کر دیں۔ ایک دفعہ جماعت پیغامی فتنہ کا مقابلہ کر چکی ہے کوئی وجہ نہیں کہ اب اس سے دو سو گنے زیادہ ہو کر پیغامی فتنہ کا مقابلہ نہ کیا جا سکے۔
مرزا محمود احمد’’
میاں عبد الوہاب صاحب کا خط میرے نام اور اس کا جواب
نقل خط میاں عبدالوہاب صاحب
‘‘نہایت ہی پیارے آقا! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
الفضل میں اللہ رکھا کے متعلق ایک مضمون پڑھا۔ اس سلسلہ میں بدقسمتی سے میرا نام بھی آ گیا ہے اور حضورنے عاجز پر اظہارِ ناراضگی بھی فرمایا ہے جس سے صدمہ ہؤا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اس سلسلہ میں ایک چِٹھی بذریعہ عام ڈاک خدمتِ عالی میں بھیج چکا ہوں، معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر اس کی نقل بذریعہ رجسٹری بھیج رہا ہوں۔
اِس سلسلہ میں ایک صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ میں خاموش ہو جاتا اور اس معاملہ کو خدا تعالیٰ کے سپر دکر دیتا مگر چونکہ آپ میرے پیارے امام اور آقا ہیں اور مجھے آپ سے بچپن سے دلی اُنس رہا ہے یقین رکھتا ہوں کہ آپ بھی اِس تعلق کو جانتے ہیں اِس لئے اللہ رکھا کے نام اس خط کی حقیقت خدمتِ عالی میں لکھتا ہوں۔
اللہ رکھا کے نام یہ خط غالباً حضرت اماں جی کی تعزیت کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ اللہ رکھا حضرت میر محمداسحق صاحب کی زندگی میں قادیان آیا تھا اور دار الشیوخ میں ملازم تھا۔ بعض دفعہ اماں جی کے گھر کا کام بھی کرتا اور اماں جی اس کو روٹی بھی دیا کرتی تھیں۔ جس طرح سب احمدیوں کے ساتھ ان کا بیٹوں جیسا سلوک تھا اللہ رکھا کے ساتھ بھی تھا۔ یہ کبھی بیمار ہوتا تو میں اس کا علاج بھی کرتا۔ اگر آپ الفضل میں مضمون لکھنے سے پہلے اور میرا ذکر کرنے سے پہلے مجھ سے دریافت کرلیتے تو شاید اِس قدر غلط فہمی پیدا نہ ہوتی۔ میرے علم میں اللہ رکھا کو قادیان میں حماقتوں کی معافی مل چکی تھی اس لئے تعزیت کے خط کا جواب دیتے وقت قطعاً میرے ذہن میں نہیں آ سکتا تھا کہ اس کو خط کا جواب نہ لکھنا چاہیئے۔ حَاشَاوَکَلَّا میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ نہیں آیا کہ میں کسی ایسے شخص کو خط لکھ رہا ہوں جو حضور کا بد خواہ ہے۔ اللہ رکھا کے متعلق کوہاٹ کی جماعت نے جو بات کہی ہے وہ تو بہت بعد کی ہے۔ نہ میں نے یہ بات اس سے سنی نہ مجھے علم تھا کہ آپ کے خیالات اس کے متعلق یہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اللہ رکھا نے میرے خط کا ناجائز استعمال کیا ہے۔
ہمارا تو فرض ہے کہ آپ کو خوش رکھیں خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ آپ بیمار بھی ہیں۔ ایسے حالات میں نادانستہ میرا ایک خط آپ کے لئے تکلیف کا باعث بنا جس سے طبعاً مجھے بھی اذیت پہنچی۔ میں نے بچپن میں فیصلہ کیا تھا کہ اپنی قسمت آپ کے ساتھ وابستہ رکھوں گا۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے علاوہ حضرت خلیفہ اوّل کا منشاء بھی یہ تھا کہ اُن کے بعد آپ جماعت کے امام ہوں۔ میں ان سے زیادہ عالم ہوں نہ عارف۔ دینی نہ دنیوی نقطہ نگاہ سے کوئی با ت میرے ذہن میں آ ہی نہیں سکتی۔ آپ کے ہاتھ سے ساری عمر میٹھی کاشیں کھائیں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ ایک کڑوی کاش کھانے سے انکارکروں۔ آپ کی پہلی مہربانیوں کو بھی انعام ہی سمجھتا رہا ہوں اور آپ کی اِس تحریر کو بھی انعام ہی سمجھوں گا۔ شاید اِس سے نفس کے گناہوں کی تلافی ہو جائے۔ شکر گزار ہوں گا اگر حضور میری یہ تحریر شائع کر دیں۔ دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ مجھے تا موت خلافت کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق دے۔
آپ کا عبد الوہاب ’’
جواب
‘‘میاں عبد الوہاب صاحب!
آپ کا خط ملا ساری بحثیں الفضل میں آر ہی ہیں۔ مجھے آپ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیسیوں احمدیوں کی حلفیہ شہادتیں جو عنقریب شائع ہو جائیں گی ان کے بعد پوچھنے کا سوال نہیں رہتا۔ خصوصاً جبکہ 1926ء،1927ء میں مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں نے آپ کا اور آپ کے ایک مولوی دوست کا خط پکڑ کر مجھے بھجوا دیا تھا جو زاہد کے نام تھا اور جس میں لکھا ہؤا تھا کہ تمہاری مخالفت مرزا محمود سے ہے۔ ان کے متعلق جو چاہو مقابلہ میں لکھو مگر ہمارے اور ہمارے دوستوں کے متعلق کچھ نہ لکھو۔ اور اُس خط کے ساتھ ایک اَور شخص کا خط بھی تھا جو آپ کے ایک دوست نے ایک عورت کے نام لکھا تھا اور جس کے واپس لینے کے لئے آپ اور وہ مولوی صاحب مقبرہ بہشتی جانے والی سڑک پر پیپل کے درخت کے نیچے کھڑے ہوئے ایک لڑکے کے ذریعہ سے زاہد سے خط وکتابت کر رہے تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ لڑکا مخلص احمدی ہے۔ وہ لڑکا وہ خط لے کر سیدھا میرے پاس پہنچا جس میں آپ دونوں اور تیسرے دوست کے خطوط بھی تھے اور زاہد کا وعدہ بھی تھا کہ اس دوست کو ہم بدنام نہیں کریں گے۔
اب ان واقعات کے بعد جب کہ میں نے حضرت خلیفہ اوّل کی محبت کی وجہ سے اتنی مدّت چھپائے رکھا مجھے تحقیقات کی کیا ضرورت تھی۔ اِس کے علاوہ اَور بھی بہت سے ثبوت ہیں جو منصۂ ظہور پر آ جائیں گے۔ قادیان کی باتیں قادیان کے ساتھ ختم نہیں ہوں گئیں۔ کچھ اِدھر آ پہنچی ہیں، کچھ پہنچ جائیں گی۔ لاہور کی باتیں تو مزید برآں ہیں۔
آپ جو کام کر رہے ہیں اگر خلیفہ اوّل زندہ ہوتے تو اس سے بھی بڑھ کر آپ سے سلوک کرتے جو میں کر رہا ہوں۔ اُن کی تو یہ کہتے ہوئے زبان خشک ہوتی تھی کہ ''میاں! میں تمہارا عاشق ہوں اور میں مرزا صاحب کا ادنیٰ خادم ہوں''۔ جب وہ آپ لوگوں کی یہ کارروائیاں دیکھتے تو اِس کے سوا کیا کر سکتے تھے کہ آپ پر ابدی *** ڈالتے۔ آخر وہ نیک انسان تھے۔ کیا ان کو نظر نہیں آتا تھا اور اب پرانے ریکارڈ دیکھ کر جماعت کو نظر نہیں آئے گا کہ جب ان کے لئے غیرت دکھانے والے اپنی ماؤں کے گُھٹنے کے ساتھ لگے ہوئے ‘‘ایں ایں’’ کر رہے تھے اُس وقت میں ہی تھا جو تن من دھن کے ساتھ غیر مبائعین کے ساتھ اُن کی خاطر لڑ رہا تھا جنہوں نے اُن کی زندگی میں ہی ظاہر اور پوشیدہ ان کی مخالفت شروع کر دی تھی۔ اور جیسا کہ حوالوں سے ثابت ہے کہ کہتے تھے کہ مولوی صاحب سترے بہترے ہو گئے ہیں، اب ان کی عقل ماری گئی ہے اب ان کو معزول کر دینا چاہئے۔ یہ سب باتیں نیّر صاحب مرحوم نے سنیں جبکہ پیغامی مقبرہ بہشتی میں گئے ہوئے تھے۔ نیّر صاحب فوت ہو چکے ہیں لیکن اَور کئی لوگ زندہ ہیں اور اُس زمانے کے لٹریچر میں بھی کہیں کہیں یہ حوالے مل جاتے ہیں۔ مجھے تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا جیسا کہ الفضل میں وہ خواب چھپ چکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حفاظت کے لئے میرے بچوں کو اپنی جانیں دینی پڑیں گی۔ میرے لئے اِس سے بڑھ کر کوئی سعادت نہیں ہو سکتی خواہ یہ جانیں دینا لفظی ہو یا معنوی۔
مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام نے اسماعیل قرار دیا ہے9 اور بائیبل میں لکھا ہے کہ اُس کے بھائیوں کی تلوار اُس کے مقابلہ میں کھنچی رہے گی10۔ پہلے اسماعیلؑ کاتو مجھے معلوم نہیں لیکن میں اپنے متعلق جانتا ہوں کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کا سوال پیدا ہؤا جیسا کہ لاہوریوں کے کیس میں ہؤا تھا تو میری تلوار بھی تمام دنیا کے مقابلہ میں کھنچی رہے گی اور عزیز ترین وجودوں کو بھی معنوی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے میں دریغ نہیں کروں گا۔ کیونکہ ظاہری تلوار چلانے سے ہم کو اور حضرت مسیح موعودؑ کو روکا گیا ہے اور ہمیں بشدت تعلیم دی گئی ہے خواہ تمہیں کتنی ہی تکلیف دی جائے کسی دشمن کا جسمانی مقابلہ نہ کرنا۔ ہاں دعاؤں اور تدبیروں سے اُن کے گند ظاہر کرنے کی جتنی کوشش کر سکتے ہو کرو۔
مجھے تو خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ کاروائیاں کروائیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا جس کو حضرت (اماں جان) نہیں سمجھی تھیں اور گھبرا گئی تھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھ کر اُن کے ہاتھ حضرت خلیفہ اوّل کے پاس بھجوایا تھا اور حضرت خلیفہ اوّل نے ان کو تسلی دی تھی کہ یہ الہام آپ کے لئے بُرا نہیں ہے۔ اُس الہام کا مضمون یہ تھا کہ جب تک حضرت خلیفہ اوّل اور اُن کی بیوی زندہ رہیں گے اُن کی اولاد سے نیک سلوک کیا جاتا رہے گا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسا پکڑے گا کہ ان سے پہلے کسی کو نہیں پکڑا ہو گا۔ کیایہ تعجب کی بات نہیں کہ پچھلے 42 سال میں ہزاروں موقعے آپ کو مخالفت کے ملے لیکن اماں جی کی وفات تک کبھی بھی ننگے ہو کر آپ کو مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن جونہی وہ فوت ہوئیں خدائی الہام پورا ہونے لگ گیا۔ اور اگر خداس کی مشیت ہوئی تو اَور بھی پورا ہو گا۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ کے ہاتھوں سے ساری عمر میٹھی میٹھی قاشیں کھائی ہیں ایک کڑوی بھی سہی۔ میں اِس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ سے گزشتہ تیس سال میں بہت سی خنجریں اپنے سینہ میں کھائی ہیں مگر اب چونکہ مسیح موعود علیہ السلام کے کلام اور سلسلہ احمدیہ کی حفاظت اور وقار کاسوال تھا مجھے بھی جواب دینا پڑا۔ اگر وہ کڑوا لگتا ہے تو اپنے آپ کو ملامت کریں یا موت کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کی زبان سے ملامت سن لیں۔ ’’
عبد الوہاب صاحب کا خط اللہ رکھا کے نام
میاں عبد الوہاب صاحب کا خط جو انہوں نے اللہ رکھا کے نام لکھا تھا شائع کیا جاتا ہے۔
‘‘برادرم! وَ عَلَیْکُمُ اَلسَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ
گرامی نامہ مشتمل بر تعزیت ملا۔ جَزَاکُمُ اللہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ۔ آپ کے ساتھ تو ہم لوگوں کا بھائیوں کا تعلق ہے۔ اس لئے آپ کو صدمہ لازمی تھا۔ اس قسم کے حادثات زندگی کی بنیادوں کو ہِلا دینے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی خاص مدد کرے۔ آپ کا خط بہت تسلی آمیز ہے۔ آپ بعافیت ہوں گے۔ کوہ مری ضرور دیکھئے۔
آپ کا بھائی
عبد الوہاب عمر
1956ء-4-13’’
اِس خط کی عبارت سے ظاہر ہے کہ اصل غرض کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ یہ خط 13/اپریل 1956ء کا ہے اور اماں جی جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں فوت ہوئیں۔ اِس بات کو کون مان سکتا ہے کہ اللہ رکھا جیسا زٹیل11 آدمی جس کے سپرد کوئی اہم کام نہیں۔ سوائے اِس کے کہ بعض گھرانوں میں چپڑاسی یا باورچی کا کام کرتا ہے۔ اس نے باوجود اس عشق و محبت کے جو اُسے حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان سے تھی اماں جی جو جولائی یا اگست میں فوت ہوئی تھیں اُن کی تعزیت کا خط مولوی عبد الوہاب کو مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں لکھا اور مولوی عبد الوہاب صاحب نے اُس کا جواب 13/اپریل کو دیا اور تعزیت کے مضمون سے بالکل بے تعلق خط کے آخر میں یہ بھی لکھ گئے کہ ‘‘کوہ مری ضرور دیکھئے’’۔
احباب کو معلوم ہے کہ 24/اپریل کو میں مری آیا تھا لیکن اس سے پہلے دس یا گیارہ اپریل کو میں نے عبد الرحیم احمد اپنے نام نہاد داماد کو کوٹھی تلاش کرنے کے لئے مری بھیجا تھا اور اُس نے 12/اپریل کے قریب ربوہ پہنچ کر کوٹھی کی اطلاع دی تھی جسے ہم نے پسند کر لیا تھا اور عبد الرحیم احمد میاں عبد المنان کا یارِ غار ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے سن کر اپنے بھائی کو اطلاع دے دی کہ خلیفۃ المسیح مری جانے والے ہیں اور عبدالوہاب کوفوراً یاد آگیا کہ 9 مہینے پہلے آئے ہوئے تعزیت کے خط کا جواب اللہ رکھا کوفوراً دینا چاہیے۔ اور یہ بات بھی اُن کے دماغ میں آگئی کہ یہ بھی لکھ دیا جائے کہ ‘‘کوہ مری ضرور دیکھئے’’ کیونکہ اُس وقت میرے مری آنے کا فیصلہ ہوگیا تھا اور پہاڑوں پر چونکہ عام طور صحت کےلئے لوگ باہر جاتے ہیں اور پہر ہ کا انتظام پورا نہیں ہوسکتا اس لئے اللہ رکھا کو تعزیت کے خط کے جواب میں تاکید کردی کہ ‘‘کوہ مری ضرور دیکھئے’’۔ اتنے مہینوں کے بعد تعزیت کاجواب دینا اور اُس وقت دینا جبکہ میرے مری جانے کا فیصلہ ہوچکا تھا ۔ خط کے آخر میں یہ بے جوڑ فقرہ لکھ دینا ایک عجیب اتفاق ہے جس کے معنی ہرعقلمند سمجھ سکتا ہے ۔اول تو تعزیت کے جواب میں مری دیکھنے کا ذکر ہی عجیب ہے پھر ''ضرور'' اَور بھی عجیب ہے۔ اور پھر اُس وقت یہ تحریک جب میں مری آ رہا تھا اور بھی زیادہ عجیب ہے ۔
مرزا محمود احمد’’
منافقت کی سکیم کے متعلق مزید شہادتیں
بیان چودھری بشارت احمد صاحب ولد چودھری محمدشریف صاحب چک98 شمالی سرگودھا حال اے جی آفس لاہور
‘‘میں مندرجہ ذیل بیان خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر لکھوا رہا ہوں اور اس کے متعلق پوری ذمہ داری لیتا ہوں ۔غلام رسول 35میرا واقف ہے اورمیرے ساتھ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں (قادیان سے آنے کے بعد کچھ عرصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں بھی رہا ہے )اور سرگودھا گورنمٹ کالج میں پڑھتا رہا ہے میرے لاہور آنے کے بعد آج سے تقریباً دو ہفتے پہلے مجھے کرایہ پر سائیکل لینے کی ضرورت پیش آئی چونکہ لاہور میں میرا کوئی واقف نہیں تھا ۔اسلئے غلام رسول 35 کے پاس گیا ۔ اُس وقت اس مکان یعنی 43نسبت روڈمیں مندرجہ ذیل لوگ موجود تھے ۔
1۔مرزامحمد حیات تاثیر سابق لائبیریرین حضور اقدس (یہ شخص گجرات کا رہنے والا ہے اور پچھلے کئی سال میں کئی بار گجرات کے احمدیوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ شخص جھوٹے طور پر اپنے آپ کو مرزا لکھتا ہے ورنہ اس کا خاندان قبروں کامجاور ہے مجھے اس امر کی تحقیقات کرنے کا موقع نہیں ملا ورنہ حقیقت کھل جاتی)۔
2۔غلام رسول نمبر35
3۔ اللہ رکھا
غلام رسول نمبر 35 نے اللہ رکھا سے پوچھا کہ وہ اتنے عرصہ میں کہاں کہاں گیا اور یہاں سے جا کر تم نے کوئی خط نہیں لکھا۔ اللہ رکھانے جواب میں کہا کہ میں نے تو تمہیں بھی اور حمید ڈاڈھے کو بھی خطوط لکھے ہیں لیکن تم نے جواب ہی کوئی نہیں دیا۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ وہ سرحد کی تمام جماعتوں میں پھرا۔ اس کے پاس ایک نوٹ بک پاکٹ سائز کی تھی جس میں ان افراد اور جماعتوں کے پتہ جات لکھے ہوئے تھے جن سے وہ مل کر آیا تھا۔ مجھے اس وقت وہ پتہ جات یاد نہیں آ رہے (ہمیں ایک اور آدمی کے ذریعہ وہ معلوم ہوگئے ہیں) اس کے بعد غلام رسول 35 نے اللہ رکھا سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ حضرت صاحب کی بیماری دور نہیں ہو رہی اور ان کے بعد کس شخص کی بیعت کی جائے۔ اللہ رکھا نے جواب میں کہا کہ میں نے متعدد بار میاں بشیر احمد صاحب کو خطوط لکھے ہیں کہ تم تینوں بھائی مل کر کچھ صدقہ دو تب تم صحت یاب ہو سکتے ہو۔ رقم غالباً 3500 کہی گئی تھی (غالباً مراد یہ ہے کہ3500 اللہ رکھا کو دو ورنہ انہی دنوں میں میں قریباً سات سو ایکڑ نہری زمین انجمن کو دے چکا ہوں۔ جس کی کم سے کم قیمت بھی ایک لاکھ چالیس ہزار بنتی ہے) اور میاں بشیر احمد کو یہ بھی لکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی وفات ہو گئی تو ہم آپ کی بیعت کریں گے میاں ناصر احمد صاحب کی بیعت کرنے کے لئے ہم ہرگز تیار نہیں اور اب تک مجھے اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہؤا۔
ناصر احمد کے خلیفہ ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ خلیفے خدا بنایا کرتا ہے۔ جب اس نے مجھے خلیفہ بنایا تھا تو جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں کی گردنیں پکڑوا کر میری بیعت کروا دی تھی۔ جن میں ایک میرے نانا دوسرے میرے ماموں ایک میری والدہ ایک میری نانی ایک میری تائی اور ایک میرے بڑے بھائی بھی شامل تھے۔ اگر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ ناصر احمد خلیفہ ہو تو ایک میاں بشیر کیا ہزار میاں بشیر کو بھی اس کی بیعت کرنی پڑے گی اور غلام رسول جیسے ہزاروں آدمیوں کے سروں پر جوتیاں مار کر خدا ان سے بیعت کروائے گا لیکن ایک خلیفہ کی زندگی میں کسی دوسرے خلیفہ کا خواہ وہ پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ نام لینا خلافِ اسلام یا بے شرمی ہے۔ صرف خلیفہ ہی اپنی زندگی میں دوسرے خلیفہ کو خلافت کے لئے نامزد کر سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خلیفہ اوّل نے 1910ء میں مجھے نامزد کیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ بیماری سے بچ گئے اور خدا تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ کے فیصلہ سے مجھے خلیفہ بنوایا۔ اگر خدانخواستہ اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل فوت ہو جاتے تو ان کی اولاد بڑ مارتی کہ یہ خلافت ہمارے باپ کی دی ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس *** سے بچا لیا اور سورۃ نور کے حکم کے مطابق مجھے خود خلیفہ چنا اور بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ میں خدا تعالیٰ کا بنایا ہؤا خلیفہ ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا۔ میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ اپنی خلافت کے زمانہ میں دمشق گیا ہوں اور اب میں دلیری سے کہہ سکتا ہوں کہ میں کسی انسان کی دی ہوئی خلافت پر خواہ وہ کتنا بڑا انسان کیوں نہ ہو *** بھیجتا ہوں۔ یا تو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی تردید کرنی ہو گی جنہوں نے کہا کہ مسیح دمشق جائے گا یا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تردید کرنی ہو گی۔ جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا۔
اللہ رکھا کی اس بات کو سن کر کہ میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو لکھا ہے کہ ہم تو موجودہ خلیفہ کے مرنے پر آپ کی بیعت کریں گے۔ غلام رسول 35 نے کہانہیں ہم تو میاں عبد المنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے۔ (اگر عبدالمنان بھی اس سازش میں شریک ہے تو تم یاد رکھو کہ عبد المنان اور اس کی اولاد قیامت تک خلافت کو حاصل نہیں کرے گی خواہ کروڑوں غلام رسول ان کے لئے کوشش کرتے ہوئے اور ان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے مر جائیں اور اپنے پیر گھسا دیں اور اپنی ناک رگڑ دیں) پھر غلام رسول نے کہا کہ وہ دو سال کے بعد اتنی طاقت پکڑ جائے گا کہ ربوہ آ کر ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دے گا۔ (دو سال کے بعد کی بات تو خدا ہی جانتا ہے یہی بڑ عبداللہ ابن ابی ابن سلول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ماری تھی اور جب اس کا ہی بیٹا اس کے سامنے تلوار لے کر کھڑا ہو گیا تو اس نے کہا میں مدینہ کا سب سے ذلیل انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے معزز انسان ہیں12 اس کا دعویٰ کرنا تو کّذاب ہونے کی علامت ہے وہ اب ربوہ آ کر دکھا دے بلکہ اپنے گاؤں جا کر دکھا دے مگر ایسی باتیں تو حیا دار لوگوں سے کہی جاتی ہیں بے حیا لوگوں پر ایسی باتوں کا کیا اثر ہوتا ہے۔ وہ پھر یہی کہہ دے گا کہ یہ طاقت تو مجھے دو سال کے بعد حاصل ہو گی جیسا کہ مسیلمہ نے کہا تھا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے بعد وارث نہ بنایا تو میری فوج حملہ کرکے مدینہ کو تباہ کر دے گی۔13 اب وہ مسیلمہ خبیث کہاں ہے کہ ہم اس سے پوچھیں اور یا دو سال بعد غلام رسول بے دین کہا ہو گا جو ہم اس سے پوچھیں گے)۔ چودھری بشارت احمدصاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد حیات تاثیر نے جو اپنے آپ کو مرزا کہتا ہے یہ بھی کہا کہ اگر حمید ڈاڈھے سے خطوط کا جواب چاہتے ہو تو اس کو اس قسم کے خطوط لکھا کرو کہ میاں ناصر احمد کو مارنے اور میاں بشیر احمد کے متعلق جو سکیم تھی وہ کہاں تک کامیاب ہے۔ اس پر وہ فوراً تڑپ کر جواب دے گا (دیکھئے ان خبیثوں کو جو ایک طرف تو اپنے خیال میں اپنی طاقت کے بڑھانے کے لئے میاں بشیر احمد کو خلافت کا لالچ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے قتل کرنے کے منصوبے بھی کر رہے ہیں۔ کیا ایسے لوگ ایماندار یا انسان کہلا سکتے ہیں؟ یہ خبیث اورا ن کے ساتھی منافقوں کی طرح تمنائیں کرتے رہیں گے لیکن سوائے ناکامی اور نامرادی کے ان کو کچھ نصیب نہیں ہو گا۔ آسمان پر خدا تعالیٰ کی تلوار کھچ چکی ہے۔ اب ان لوگوں سے دوستی کا اظہار کرنے والے لوگ خواہ کسی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں اپنے آپ کو بچا کر دیکھیں۔ خداتعالیٰ ان کو دنیا کے ہر گوشہ میں پکڑے گا اور ان کو ان کی بے ایمانی کی سزا دے گا) مرزا محمود احمد’’
ڈاکٹر شاہ نواز خانصاحب کا خط
‘‘سیّدی و مطاعی میرے پیارے آقا (اَبِیْ وَ اُمِّیْ فِدَاکَ) سَلَّمَکُمُ اﷲ۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
الفضل مورخہ 25/جولائی میں آج حضور کا پیغام جماعت کے نام پڑھا۔ جس سے دل کو سخت رنج و غم ہؤا۔ خصوصاً اس بات کے تصور سے کہ حضور کی بیماری کی حالت میں بھی منافقین حضور کو دکھ دینے والی باتیں اور حرکتیں کر رہے ہیں۔ اس کے متعلق حضور نے جماعت اور افراد سے دو ٹوک فیصلہ طلب فرمایا ہے۔ سو عاجز اس کا جواب اوّلین فرصت میں دے رہا ہے (کہ دیر لگانا نفاق کی علامت ہو گی)
(2) پس عرض ہے کہ میں بمع اپنی بیوی اور بچوں کے ایسے شخص کو جو (نَعُوْذُبِاللّٰہِ) حضور کی موت کا متمنی ہے۔ خدا اور رسول اور سلسلہ احمدیہ کا دشمن جانتا ہوں (کیونکہ حضور کی زندگی سے ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ وابستہ ہے) اور ایسے بدبخت پر *** کرتا ہوں اور اس سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔ کاش ایسے ملعون کو اس کی ماں نہ جنتی تو اس کے لئے بہتر تھا۔ اس کے ساتھ ہی میں ان تمام لوگوں کو بھی (جن کے متعلق شہادت مل چکی ہے کہ وہ اس دشمن سلسلہ کے بھائی یا معاون ہیں) جماعت کا دشمن بدخواہ اور بدبخت جانتا ہوں۔ خواہ اس گروہ میں کوئی بظاہر بزرگ ہو۔ معزز عہدہ دار جماعت ہو یا کسی ولی اللہ یا خلیفہ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق دے تا عاقبت خراب نہ ہو۔
(3) خلفاء راشدین کے زمانہ کے حالات کا علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ فتنوں کا ظہور حضرت عثمانؓ کے وقت میں نمایاں طور پر ہؤا تھا گو اس کا آغاز حضرت عمرؓ کے وقت میں ہو چکا تھا مگر وہ دبا ہؤا تھا اور اس وقت بھی حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹے عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے ہی حضرت عثمانؓ کی شہادت میں نمایاں حصہ لیا تھا اور اس کی بہن بھی بانی اسلام کے نکاح میں تھی۔ اسی طرح اب بھی ہو رہا ہے جیسا کہ عاجز نے تین سال ہوئے عرض کیا تھا کہ حضور کازمانہ خلافت چونکہ بفضل خدا بہت لمبا ہو گا اس لئے حضرت عمر ؓ، عثمانؓ اور علیؓ تینوں کے زمانہ کے واقعات حضور کے وجود باجود میں دہرائے جائیں گے جن کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ حضور کی خلافت کا عمریؓ زمانہ حضور پر قاتلانہ حملہ کے ساتھ ختم ہو گیا مگر دشمن کا بیٹا ناکام رہا۔ اب عثمانی دور شروع ہے جس میں اب اندرونی حملہ کی کوشش ہو گی اور اس میں بھی کسی خلیفہ کا بیٹا نمایاں حصہ لے گا (وَاللہُ اَعْلَمُ) بس ہمارا یہ فرض ہے کہ جماعت کو ان فتنوں کے اسباب اور ان کے ازالہ کی طرف توجہ دلاتے رہیں جس کے لئے ہر دوست کو حضور کا لیکچر ''اسلام میں اختلافات کا آغاز'' زیر مطالعہ رکھنا ہو گا۔ (تا وہ دھوکا نہ کھا سکے)اور ہر طرح چوکس رہنا ہو گا۔ وَاللہُ الْمُوَفِّقُ۔
(4)۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بعض امور مصلح موعود کے متعلق حضرت خلیفہ اوّل کو الگ لکھے تھے اس میں بھی حکمت یہی تھی کہ ان کی اولاد پر حجت تمام ہو۔ ان کو غالباً تاریخ خلفاء کی روشنی میں یا کشفی طور پر معلوم ہو گیا ہو گا کہ کسی زمانہ میں ان کا کوئی بیٹا (یاپوتا) مصلح موعود کی خلافت کو ختم کرنے کا متمنی ہو گا۔ پس تبصرہ کی حکمت تدبر کرنے والوں پر واضح ہے۔
(5)۔ عاجز کو معلوم ہے کہ اگر یہ خط شائع ہؤا تو دشمنِ احمدیت اور ان کے دوست ضرور ہمارے مخالف ہو جائیں گے مگر مجھے اس کی پروا نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ مجھے اور میری اولاد کو مارنے کی کوشش کریں گے مگر یہ تو ہماری بہت سعادت ہو گی یعنی شہادت جس کی تمنا ہر مسلمان کو ہونی چاہئے۔
(6)۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا اور میری اولاد کا خاتمہ ایمان بالخلافت اور اہل بیعت کی محبت، خدمت اور حفاظت پر کرے جو دعا عاجز پندرہ سال سے کر رہا ہے آمین ۔
والسلام
خاکسار
خادم ڈاکٹر شاہ نواز خاں
جناح کالونی لائلپور
1956ء-7-25 ’’
خط پر تبصرہ
‘‘یہ بالکل درست ہے کہ حضرت عثمانؓ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ خلیفہ اوّل کا بیٹا بھی شامل تھا مگر اس کا نام عبد الرحمن نہیں تھا جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے۔ عبد الرحمن ایک نہایت نیک صحابی تھے۔ وہ دیر سے اسلام لایا تھا۔ بدر کے وقت تک مسلمان نہیں ہؤا تھا مگر بعد میں جب اسلام لایا تو نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ اس نے دکھایا۔ حضرت ابوبکرؓ کے جس بیٹے نے حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے ساتھ تعاون کیا وہ اور ماں سے تھا اور حضرت عثمانؓ پر جب اس نے حملہ کیا تو حضرت عثمانؓ نے اس سے کہا کہ اگر اس جگہ پر تیرا باپ (یعنی ابوبکرؓ) ہوتا تو یہ جرأت کبھی نہ کرتا۔ تب اس کی ایمانی رگ پھڑک اٹھی اور وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔ تاریخ اسلام نے کبھی اس کے ابوبکرؓ کا بیٹا ہونے کا لحاظ نہیں کیا مگر ڈاکٹر صاحب کو یہ غلطی لگی ہے کہ ایسے ہی واقعات اب ظہور میں آئیں گے۔ میں صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ پسرِ موعود بھی ہوں۔ میرے ساتھ معاملات الہام کے مطابق ہوں گے نہ کہ تاریخ کے مطابق۔ گو ممکن ہے آپس میں تھوڑی بہت مشابہت باقی رہے۔ میرے دل میں بھی کبھی کبھی یہ خیال آتا رہا ہے کہ میری خلافت کے لمبا ہونے کی وجہ سے بعض بے دین نوجوان یہ خیال کریں کہ ہمیں اور ہمارے خاندانوں کو اس شخص کی عمر کی لمبائی نے اس عہدہ سے محروم کر دیا مگر میں جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو آسمانی *** تو ملے گی لیکن خدائی عزت نہیں ملے گی۔
مرزا محمود احمد ’’
(الفضل 30 جولائی 1956ء)
(11)مختلف جماعتوں کے پاس جو معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا کر دیں
‘‘منافقوں کے متعلق بعض نہایت ہی اہم راز اور ظاہر ہوئے ہیں جن میں سے بعض راولپنڈی کی جماعت نے مہیا کئے ہیں، بعض ربوہ کی جماعت نے، بعض لاہور کی جماعت نے جَزَاھُمُ اللہُ خَیْرًا تھوڑے دنوں میں ترتیب دے کر شائع کئے جائیں گے۔
پیغامیوں کے متعلق نہایت معتبر رپورٹ ملی ہے کہ مقابلہ کی تیاریاں کر رہے ہیں جس کا نام وہ حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی محبت رکھیں گے مگر ہمارے پاس ان کا پرانا لٹریچر موجود ہے۔ وہ اس طرح صرف ہمیں یہ موقع مہیا کر کے دیں گے کہ حضرت خلیفہ اوّل کو گالیاں دینے والے ان کی اولاد کے دوست ہیں۔ پس وہ حملہ کریں ہم خوشی سے اس کا خوش آمدید کریں گے۔ وہ صرف اپنا گند ظاہر کرنے کا ایک اور موقع ہم کو دیں گے اور کچھ نہیں۔ آخر دنیا اس بات سے ناواقف نہیں کہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے جن کے ذریعہ سے یہ جماعت بنی ہے یہ وصیت کی تھی کہ ایک خاص شخص ان کے جنازہ میں شامل نہ ہو۔ پس وہ بے شک آئیں اور حملہ کریں اور سو دفعہ حملہ کریں۔ ہمارے پاس بھی وہ سامان موجود ہے جس سے اِنْشَاءَ اللہُان کے پول کُھل جائیں گے۔اس عرصہ میں مختلف جماعتوں کے پاس جو معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا کر دیں۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمد احمد
1956ء-7-30
(الفضل یکم اگست 1956ء)
(12) منافقین کی کذب بیَانی کا ایک مزید ثبوت
برقی پیغام از مری مؤرخہ 1956ء-7-30
‘‘ مرزا بشیر احمد صاحب تار دیتےہیں کہ اللہ رکھا یا اس کے ساتھیوں کی طرف سے ان کو کوئی خط موصول نہیں ہؤا تھا کہ جس میں ان لوگوں نے ان کو خلافت کی پیشکش کی ہو۔ ان لوگوں نے سراسر افترا سے کام لیا ہے۔
یہ اِن لوگوں کی کذب بیانی کا ایک مزید ثبوت ہے۔’’
(خلیفۃ المسیح)
(الفضل یکم اگست 1956ء)
(13)میاں عبد الواسع عمر صاحب کے نام
‘‘میاں عبدالواسع عمر صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب سے رخصت ہو کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں آئے اور حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عریضہ بھیجا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میرے علم کے مطابق خاندان حضرت خلیفہ اوّل کا کوئی فرد موجودہ فتنہ و سازش میں شریک نہیں۔ حضرت مصلح موعود کی طرف سے اس کے جواب میں انہیں حسبِ ذیل مکتوب موصول ہوا۔
‘‘عزیزم عبد الواسع صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ
آپ کا خط ملا۔ کوئی فیصلہ آپ کے بیان پر نہیں کیا گیا۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں سُنی اِس سے کوئی فائدہ نہیں۔ آپ کی گواہی NEGATIVE ہے اور NEGATIVE گواہی کوئی گواہی نہیں ہوتی۔ میرے پاس حلفیہ گواہیاں چند لوگوں کی موجود ہیں جن کو عنقریب شائع کیا جائے گا۔ جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مولوی عبد المنان صاحب نے اُن کو کہا کہ خلافت کا ڈنڈا میرے ہاتھ میں آنے دو پھر میں اس خاندان کو سیدھا کر دوں گا۔ پھر میں خود حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ آپ کی دادی نے مجھ سے کہا تھا کہ پیغامی وفد میرے پاس آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر عبد الحی کو خلیفہ بنا دیا جاتا تو ہم مان لیتے یہ محمود کہاں سے آیا ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ اگر آپ کو کوئی عزت ملتی ہے تو شوق سے لے لیں میں نے آپ کو یہاں قید کر کے تو نہیں رکھا ہوا۔ آپ کے نانا نے مجھے چٹھی لکھی اور آپ کی والدہ کی بنگالی چٹھی اس میں ڈال کر مجھے بھیجی جس کا خلاصہ انہوں نے یہ لکھا کہ آپ نے تو اپنی طرف سے میرے ساتھ نیکی کی تھی مگر آپ نے میرا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اِس گھرمیں ہر وقت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برائیاں اور خلافت سے بغاوت کی باتیں ہوتی ہیں۔ خاندان بہادر ابو الہاشم خان نے لکھا کہ میں نے تو دین میں ترقی کےلئے یہ رشتہ کیا تھا مگر افسوس کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا۔ میری اور دوسرے دوستوں کی گواہیاں POSITIVE ہیں اور آپ کی گواہی NEGATIVE۔ اب بتائیے کہ میں آپ کی دادی کی گواہی کو مانوں، آپ کے نانا کی گواہی کو مانوں جو POSITIVE تھیں یا NEGATIVE گواہی مانوں، آپ تعلیم یافتہ ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ POSITIVE کے مقابلہ میںNEGATIVE مانی نہیں جاتی۔
کل ہی ایک پروفیسر کی گواہی ملی ہے کہ چند لوگوں کی مجلس میں مجھے جانے کا موقع ملا۔ وہ یہ باتیں کرتے تھے کہ مسیح موعودؑ کا تو ذکر الفضل میں بار بار ہوتا ہے خلیفہ اوّل کا نہیں ہوتا اور خلیفہ ثانی کا فوٹو چھپا اور خلیفہ اوّل کا فوٹو نہیں چھپا۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے مامور تھے اور حضرت خلیفہ اوّل ان کے ادنیٰ خادم تھے دونوں میں مقابلہ کا کوئی سوال ہی نہیں۔ سارے یورپ اور امریکہ میں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ یا ان کی تعلیم کا ذکر ہوتا ہے نہ کسی جگہ پر خلیفہ اوّل کے دعویٰ کا ذکر ہوتا ہے نہ ان کی تعلیم کا ۔ پس الفضل جو کچھ کر رہا ہے وہی کر رہا ہے جس کا خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے اور مخالف دنیا بھی جس طرف متوجہ ہے۔ باقی رہی میری تصویر تو اِس کی دلیل موجود تھی۔ میں خطرناک بیماری کے بعد یورپ سے واپس آیا تھا۔ اگر حضرت خلیفہ اوّل بھی دوبارہ زندہ ہو کر آ جاتے تو اُن کی تصویر مجھ سے اونچی شائع کی جاتی۔ دوسرے یہ کہ الفضل میرے ذاتی روپے سے جاری ہوا اور 1920ء تک میں نے اِس کو چلا کے اِس کی خریداری بڑھائی۔ جب چل گیا اور ایک بڑا اخبار بن گیا تو میں نے مفت بغیر معاوضہ کے وہ انجمن کو تحفہ دے دیا۔ پس چونکہ وہ میری ملکیت تھا لازماً یورپ سے واپسی پر اس کے عملہ کو میری تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا ہوا اور حضرت خلیفہ اوّل کی تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا۔ کیونکہ حضرت خلیفہ اوّل نے اِس پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا تھا۔
آپ سے ملنے میں مجھے کوئی عذر نہیں۔ آپ کے دادا اور نانا دونوں سے میرے تعلقات تھے لیکن اِس جواب کو پڑھ کر اگر آپ سمجھیں کہ آپ کا ملنا مفید ہو سکتا ہے تو بے شک ملیں۔
مرزا محمود احمد
1956ء-8-3 ’’
اِس مکتوب پر انہوں نے حضور کی خدمت میں نہایت ادب و عقیدت کے ساتھ شکریہ کا خط لکھا اور عرض کیا۔
‘‘اِس وقت میں خود ایک جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوں اور ایک کرب اور اضطرار میں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ آپ سے مل کر میں آپ کو کیا کہوں۔ میں گھبراہٹ اور بے چینی میں ربوہ آیا تھا اور اِسی اضطرار میں واپس جا رہا ہوں۔’’
(تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 67 تا 69)
(14)عبد الوہاب صاحب کے متعلق ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کی ایک شہادت
‘‘ برادران: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
حضرت خلیفہ اوّل کی ناخلف اولاد اب حضرت خلیفہ اوّل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بڑائی دینے کے لئے سازش پکڑ رہی ہے چنانچہ ڈاکٹر عبد القدوس صاحب نواب شاہ سندھ جو میاں عبد السلام صاحب مرحوم کے ساتھ زمین کے ٹھیکہ میں شریک رہے ہیں لکھتے ہیں کہ 1954ء میں جو قافلہ قادیان گیا میں بھی اس میں شامل ہونے کے لئے لاہور آیا۔ وہاں صبح کی نماز کے بعد جس میں میاں عبد الوہاب شریک نہیں ہوئے وہ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے لوگوں کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے اس طرح بولے جیسے درس دیتے ہیں اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا ملنے کی دعا کی تھی جس سے سکونِ قلب حاصل نہیں ہوتا لیکن حضرت خلیفہ اوّل نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا (لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک الہامی دعا ہے جو وفات کے قریب ہوئی جس میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
سپردم بَتُو مایہء خویش را
تُو دانی حسابِ کم و بیش را 14
یعنی اے خدا! میں اپنی ساری پونچی تیرے سپرد کر تا ہوں تو آگے اس میں کمی بیشی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کے متعلق کہیں ثابت نہیں کہ انہوں نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا تھا ان کی وصیت میں تو یہ لکھا ہے کہ میری اولاد کی تعلیم کا انتظام جماعت کرے اور میری لائبریری بیچ کر ان کا خرچ پورا کیا جائے۔ اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولا دپر ایک پیسہ خرچ کرنے کی جماعت کو نصیحت نہیں کی اور عملاً بھی حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان پر اس سے بہت زیادہ خرچ کرنا پڑا ہے جتنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد پر کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں میں ایک لاکھ چالیس ہزار کی زمین صدر انجمن احمدیہ کو اس وقت تک دے چکا ہوں اور اس کے علاوہ بیس تیس ہزار پچھلے سالوں میں چندہ کے طور پر دیا ہے اور ایک لاکھ تیس ہزار چندہ تحریکِ جدید میں دے چکا ہوں۔ ان رقموں کو ملا لیا جائے تو جماعت نے جو رقم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان پر خرچ کی ہے یہ رقم اس سے چالیس پچاس گنے زیادہ ہے اور پھر حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد جبکہ دنیوی کاموں میں مشغول تھی اُس وقت میں قرآن کریم کی تفسیریں لکھ لکھ کر جماعت کو دے رہا تھا اور اکثر حصوں کی طباعت کا خرچ بھی اپنے پاس سے دے رہا تھا۔ یہ وہ (دنیا) ہے جو اس ناخلف بیٹے کے قول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کے لئے مانگی تھی اور اولاد کو خدا کے سپرد کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت خلیفہ اوّل کا خاندان جماعت کے روپے پر پلتا رہا اور دنیا کے کاموں میں مشغول رہا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑا بیٹا جماعت سے ایک پیسہ لئے بغیر اس کے اندر قرآنِ کریم کے خزانے لُٹاتا رہا۔ یہ فرق ہے آقا کی دعا کا اور غلام کی دعا کا۔ جس کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ دنیا میں بہت سے تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اونچا رہا15 اور جس کو خدا تعالیٰ نے کہا ''کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز اور آپ کا شاگرد ہے16 اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا جری اللہ فی حلل الانبیاء17 اللہ کا بہادر تمام نبیوں کے لباس میں اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا ''دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا18 اور جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم سے لے کر آخر تک تمام انبیاء اس کی خبر دیتے آئے ہیں19۔ اس کی نظر تو اتنی کوتاہ تھی کہ اس نے اپنی اولاد کے لئے صرف دنیا کی دعا کی۔ جس سے تسکینِ قلب حاصل نہیں ہوتی لیکن اس کا شاگرد جس کا منہ غلامی کا دعویٰ کرتے کرتے خشک ہوتا تھا اس بلند پایہ کا تھا اور خدا تعالیٰ کا ایسا مقرب تھا کہ اس نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا۔ یہی وہ سازش ہے جو حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے پیغامیوں نے شروع کی تھی چنانچہ مرزا خدا بخش نے اپنی کتاب عسلِ مصفیٰ میں لکھا تھا کہ ''بے مثل تھا وہ شاگرد (یعنی خلیفہ اوّل) جو تقویٰ اور طہارت میں اپنے استاد (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے بھی بڑھ گیا (لَعْنَت اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ) چنانچہ اس کے انعام میں پیغامیوں نے اس کو نوکر رکھ لیا اور اس کی کتاب عسلِ مصفیٰ خوب بکوائی اور گو اس نے عبدالوہاب کی طرح فوراً معافی مانگنی شروع کر دی مگر نفاق کا معاف کرنا ایک خطرناک غلطی ہوتی ہے چنانچہ باوجود اس کے کہ اس نے کتاب میں کچھ اصلاح کی۔ میں نے اس کو معاف نہیں کیا اور جماعت نے بھی اس کی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق کہا ''دے اس کو عمر ودولت کر دور ہر اندھیرا''20 اس حضرت خلیفہ اوّل کے جاہل بیٹے کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آیا کہ کر دور ہر اندھیرا ایک بڑی دینی دعا ہے اور سورۃ الناس کا خلاصہ ہے اور چاہئے تھا کہ اس دعا کی وجہ سے میاں عبدالوہاب اور ان کے ساتھی اپنے انجام سے ڈر جاتے جس کی خبر اس دعا میں دی گئی تھی۔ ذیل میں کچھ اور دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شائع کی جاتی ہیں ان کو پڑھ کر دوست دیکھ لیں کہ آیا حضرت مسیح موعود نے اپنی اولاد کے لئے دنیا مانگی ہے یا دین مانگا ہے اور میاں عبدالوہاب صاحب اپنے دعویٰ میں راست باز ہیں یا کذاب۔
کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت
کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت
دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
تو ہے ہمارا رہبر تیرا نہیں ہے ہم سر
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
شیطان سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو
جان پُرز نور رکھیو دل پُر سرور رکھیو
ان پہ میں تیرے قربان رحمت ضرور رکھیو
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
کر فضل سب پر یکسر رحمت سے کر معطر
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ا ن کو گندے
کر دور ان سے یارب دنیا کے سارے پھندے
چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
یہ فضل کر کے ہویں نیکو گہر یہ سارے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے میرے جاں کے جانی اے شاہِ دو جہانی
کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہوے ثانی
دے بخت جاودانی اور فیضِ آسمانی
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے واحد یگانہ اے خالقِ زمانہ
میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ
تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
(میاں عبد الوہاب صاحب کے نزدیک یہ دنیا کی دعا ہے اور حضرت خلیفہ اوّل نے اپنی اولاد کے متعلق اس سے بالا دعا مانگی تھی)
اب ذیل میں ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کی گواہی لفظ بلفظ شائع کی جارہی ہے اس سلسلہ میں اور بھی گواہیاں ملی ہیں جو بعد میں شائع کی جائیں گی۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
1956ء-8-5’’
نقل خط ڈاکٹر عبد القدوس صاحب
‘‘بحضور سیدنا و امامنا حضرت……… خلیفة المسیح المصلح الموعود ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
سیدی حسبِ ارشاد پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ نواب شاہ مولوی عبدالوہاب صاحب کے متعلق ایک شہادت ارسال خدمت ہے جو کہ عاجز نے ان کے سامنے زبانی بیان کی تھی۔
سیدی عرض ہے کہ عاجز دسمبر 1954ء کے قافلہ کے ساتھ جو کہ جلسہ سالانہ قادیان جانے والا تھا بندہ لاہور جودھامل بلڈنگ گیا۔ رات جودھامل بلڈنگ میں گزاری۔ صبح نماز فجر باجماعت پڑھنے کے بعد بیٹھے تھے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب آ گئے اور پوچھا کہ جماعت ہو گئی ہے۔ بتانے پر کہ جماعت ہو چکی ہے۔ انہوں نے خود اکیلے ہی نماز پڑھ لی۔ اور وہیں بیٹھ گئے۔ اس جگہ مختلف علاقہ جات سے آئے ہوئے دوسرے احمدی احباب بھی بیٹھے تھے مولوی عبدالوہاب صاحب کہنے لگے (جیسے کہ درس دیا جاتا ہے) کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیاوی ترقیات کے لئے دعا فرمائی۔ جیسے ‘‘دے ان کو عمر و دولت’’ لیکن حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنی اولاد کے لئے دنیا کے لئے دعا نہیں فرمائی بلکہ خدا کے سپرد کر دیا۔ اب دیکھیں کہ حضور کی اولاد دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں تکلیفوں میں مبتلا ہے۔ کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکون قلب حاصل نہیں کر سکتا (اغلباً اس میں حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کا بھی نام لیا تھا)
اِسی قسم کی اَور باتیں بھی انہوں نے کہی تھیں۔ جو کہ مشکوک ہونے کی وجہ سے درج کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن تمام گفتگو کا جو مفہوم تھا وہ وہی تھا جو کہ خاکسار نے اوپر درج کر دیا۔ مندرجہ بالا مفہوم کے متعلق میں اپنے پالنے والے خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہوں کہ وہ بالکل وہی نکلتا ہے جو عاجز نے اوپر تحریر کر دیا ہے۔ والسلام
حضور کا تازیست فرمانبردار رہنے والا خادم
عاجز عبدالقدوس احمدی
نواب شاہ
(سابق) سندھ1956ء-7-30 ’’
(الفضل 8؍اگست 1956ء)
(15) عبد المنان صاحب پسر مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم کا ایک خط اور اسکے متعلق حضور کا اظہارِ ناپسندیدگی
عبد المنان صاحب کا خط
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ
بحضور آقائی حضرت اقدس ......... خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
گزارش خدمت ہے کہ حضور (ایدہ اللہ تعالیٰ) کا پیغام 25 جولائی 1956ء کے الفضل کے شمارے میں پڑھ کر از حد رنج و صدمہ ہوا کہ ایک شریر النفس اور فتنہ پرداز شخص اللہ رکھا نے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے اور حضور (ایدہ اللہ) کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی اور کوشش کی۔ اور حضور کے بیماری کے ایام میں جبکہ حضور کو مکمل آرام کی ضرورت ہے پریشانی اور بے آرامی میں ڈال کر دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔ حضور کا یہ پیغام پڑھ کر میرے گھر کے تمام افراد میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور سبھی اس کمینے شخص پر لعنتیں بھیجنے لگے جس نے ہمارے پیارے آقا کے متعلق اتنے خطرناک منصوبے تیار کر رکھے تھے۔ خاکسار اور خاکسار کے اہل و عیال حضور پر مکمل اعتماد و ایمان رکھتے ہیں اور اپنی ہر لحظہ وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔ مزید برآں اگرچہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کی گرفت سے بچ نہیں سکتا لیکن ہم بھی حضور کے خفیف سے خفیف اشارے پر ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کی قربانی دینے سے ذرہ بھر دریغ نہ کریں گے۔ (انشاء اللہ تعالیٰ) خاکسار خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہے کہ اس خبیث اور شریر النفس اور فتنہ پرداز شخص اللہ رکھا سے اور اس کے تمام ساتھیوں سے جن کا ذکر آ چکا ہے یا جو پوشیدہ ہیں خاکسار اور خاکسار کے بیوی بچوں کا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اور ہم ان لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں، ان کی حرکات کی مذمت کرتے اور ان کو *** سمجھتے ہیں۔
خاکسار اور خاکسار کے بیوی بچے اس امر پر مکمل یقین و ایمان رکھتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ خلیفہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے مصلح موعود ہیں۔ آپ کے عہد خلافت میں جماعت نے ایک عظیم الشان ترقی کی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ حضور ایدہ اللہ نے نہ صرف احمدیت کے پیغام کو ہی دنیا کے کناروں تک پہنچایا ہے بلکہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں اس پیغام کو شاندار کامیابی کے ساتھ ہمیشہ قائم رہنے والے وجود میں قائم کر دیا ہے۔ اور اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی آخری اور مکمل فتح دنیا پر آپ کے مبارک وجود یقین رکھتے ہین کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی آخری اور مکمل فتح دنیا پر آپ کے مبارک وجود سے ہی کرائے گا۔ اور اس کے علاوہ یہ اظہار کئے بغیر بھی طبیعت نہیں رُکتی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک برحق و سچے نبی کے پوتے اور ایک ایسے مصلح موعود کے فرزند ہیں جس کی ذہانت فراست کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ اور یہ کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو یہی ذہانت و فراست خاندانی ورثہ میں قدرتی طور پر ملنے کے علاوہ آپ خود بھی زندگی کے ہر پہلو میں بہت تجربہ کار اور دینی و دنیوی علوم سے خوب بہرہ ور ہیں۔ اگر حضور انہیں ہماری قیادت کے لئے مقرر فرمائیں تو ہمارے لئے اس سے بڑھ کر زیادہ فخر و خوشی کی کونسی بات ہو سکتی ہے۔ حضرت صاحبزادہ میاں ناصر احمد صاحب تو خدا کے فضل و کرم سے ایک بڑی ہستی و شخصیت ہیں۔ اگر حضور جماعت میں سے کسی معمولی سے معمولی شخص کو بھی ہماری قیادت کے لئے مقرر فرمائیں گے تو ہمارے سر ایسے شخص کی وفاداری میں ہمیشہ جھکے رہیں گے۔ حضور خاکسار کے یہ دلی جذبات ہیں جو حضور تک پہنچا کر فخر محسوس کر رہا ہوں۔
خاکسار اور خاکسار کے اہل و عیال حضور کی صحت و درازی عمر کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر وقت دست بدعا ہیں کہ حضور کا بابرکت سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ ہمیش رہے اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام خاندان پر ہمیشہ اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارشیں برساتا رہے اٰمین۔
طالب دعا
حضور کے ادنیٰ ترین خادموں کا خادم
عبد المنان عفی عنہ پسر حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم و مغفور
چمبڑ براستہ ٹنڈوالہ یار ضلع حیدر آباد(سابق سندھ)
مؤرخہ 3 اگست 1956ء’’
نقل ارشاد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مکرم عبد المنان صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
آپ کی چٹھی سیدنا حضرت ....... ایدہ اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ اقدس میں آئی۔ حضور نے فرمایا مجھے ایسی باتیں پسند نہیں۔ آپ کی بہن اور بڑا بھائی تو یقیناً مخلص ہے۔ لیکن آپ اپنے باپ کو بے عزت کر رہے ہیں۔ میرے پاس متواتر خطوط پہنچے کہ آپ 43 نمبر والے مکان میں رہنے والوں کے فتنہ میں شامل ہیں بلکہ غالباً اُن کی تجارت میں بھی شامل ہیں۔ آپ کا یہ فقرہ لکھنا کہ میاں ناصر کو قیادت کے لئے مقرر کر دیں یہ ہی نفاق کی علامت ہے۔ خلیفہ کے لئے تو جائز ہے کہ خلیفہ مقرر کر دے مگر کسی اَور کے لئے جائز نہیں ۔ اگر ناصر احمد بھی ایسا خیال کرے تو وہ بے ایمان ہو جائے گا۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ اللہ رکھا کے مشابہہ ہے۔ پس آپ نے اپنے خط سے ظاہر کر دیا کہ آپ کے خیالات اللہ رکھا سے ملتے ہیں۔
دستخط پرائیویٹ سیکرٹری
1956ء7/8/ ’’
(الفضل 10؍ اگست 1956ء)
خط کے جواب کی مزید تشریح
‘‘برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
عبد المنان پسر محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم نے اپنے اُس خط میں جو میرے نام لکھا ہے اور جس کا جواب الفضل میں شائع ہو چکا ہے اپنے خط میں یہ فقرہ لکھا ہے ‘‘مزید برآں اگرچہ وہ (یعنی اللہ رکھا) خدا تعالیٰ کے عذاب کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ مگر ہم بھی حضور کے خفیف سے خفیف اشارے پر ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کی قربانی دینے سے ذرہ بھر دریغ نہیں کریں گے۔’’
یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ عبد المنان نے دیدہ دانستہ اپنے ساتھیوں کی امداد کے لئے یہ گھناؤنا اور خبیثانہ فقرہ لکھا ہے۔ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں جنہوں نے ہمیں امن کی تعلیم دی ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے روکا ہے۔ مگر یہ شخص معلوم ہوتا ہے کہ ابوجہل کے چیلوں میں سے ہے تبھی آمادگی ظاہر کرتا ہے کہ آپ ادنیٰ سا اشارہ کریں تو میں خون ریزی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ یہ شخص ربوہ میں ناپسندیدہ حرکات کرتا رہا ہے۔ اُن حرکات کو تو اس نے سلسلہ کے کارکنوں کے احکام کے مطابق نہ چھوڑا لیکن حرام کام کرنے کے لئے یہ صرف ایک اشارہ کا محتاج ہے۔ اس کا باپ اس سے زیادہ مخلص تھا۔ یہ بتائے کہ سلسلہ کے اشاروں پر اس کے باپ نے کتنے خون کئے تھے؟ اگر اس کا باپ اس نیکی سے محروم مر گیا تو کیا یہ شخص اپنے باپ سے زیادہ نیکی کا مدّعی ہے؟
میری طرف منسوب کر کے پرائیویٹ سیکرٹری کا جو جواب چھپا ہے وہ اپنی ذات میں واضح تھا اُس میں صاف لکھا ہے کہ ‘‘ مجھے ایسی باتیں پسند نہیں۔ آپ کی بہن اور بڑا بھائی تو یقیناًَ مخلص ہیں۔ لیکن آپ اپنے باپ کو بے عزت کر رہے ہیں۔’’ میرا یہ لکھنا کہ مجھے ایسی باتیں پسند نہیں ہر عقلمند کے لئے کافی تھا۔ لیکن چونکہ بعض لوگ سادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ عبد المنان کی شرارت آمیز تحریر کو نہ سمجھ سکیں اس لئے الفضل کا وہ جواب پڑھ کر جو پرائیویٹ سیکرٹری نے دیا ہے میں نے اوپر کی مزید تشریح لکھ دی ہے تا کہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ عبدالمنان درحقیقت منافقوں کا آلۂ کار ہے اور سلسلہ احمدیہ کو جس کا خادم ساری عمر اس کا باپ رہا بدنام کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو یقیناً اپنے اس بیٹے پر *** بھیجتا جو خوں ریز وحشیوں کے قدم بقدم چلنے کا مدعی ہے۔
(الفضل 12 اگست 1956ء)
(16) احباب جماعت کے نام
‘‘برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
پچھلے دنوں الفضل میں حاجی نصیر الحق صاحب کی گواہیوں کے سلسلہ میں یہ شائع ہؤا تھا کہ گویا اُن کی گواہیاں چودھری اسد اللہ خان صاحب کو تو مل گئی تھیں لیکن انہوں نے میاں بشیر احمد صاحب کے پاس بھجوا دی تھیں جنہوں نے اُن کو یہ جواب دیا کہ میں نے عبد الوہاب کو سمجھانے کے لئے میاں عبد المنان کو بھجوایا ہے۔ اِن بیانات سے یہ اثر پڑا تھا کہ گویا میاں بشیر احمد صاحب انکار کرتے ہیں کہ مجھے چودھری اسداللہ خاں صاحب کی تحریر نہیں ملی۔ میاں بشیر احمد صاحب کا خط نکال کر دیکھا گیا ہے اس میں یہ درج نہیں کہ چودھری سد اللہ خان نے وہ گواہیاں مجھے نہیں بھجوائیں۔ بلکہ یہ درج ہے کہ میں نے چودھری اسد اللہ خاں کو ہرگز یہ نہیں کہا کہ میں نے مولوی عبد النان کو میاں عبدالوہاب کے سمجھانے کے لئے بھیجا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایسا کہہ ہی کس طرح سکتا تھا جبکہ میں مولوی عبد المنان کی اندرونی حالت جانتا تھا۔ چنانچہ ان کا اصل فقرہ درج ذیل ہے ‘‘اور حالاتِ معلومہ کے ہوتے ہوئے میں یہ الفاظ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔’’ ‘‘جو کچھ مجھے یاد ہے میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ مولوی عبد الوہاب کو بیہودہ بکواس کی عادت ہے مگر میں تو صرف ربوہ کا امیر ہوں اور شائد میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت یہ معاملہ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یا پھر اس کا تعلق آپ سے ہے جو لاہور کے امیر ہیں۔’’
مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت ہائے ویسٹ پاکستان فرماتے ہیں کہ انہیں بھی یہ مسودہ میاں بشیر احمد صاحب نے پڑھنے کو دیا تھا۔ پس جہاں تک مسودہ پہنچنے کا سوال ہے یہ بات گواہیوں سے ثابت ہے ۔ ہاں یہ بات مَابِہِ النِّزَاع رہ جاتی ہے کہ میاں بشیر احمد صاحب نے چودھری اسد اللہ خان صاحب سے کیا کہا تھا جو کچھ بھی کہا ہو خدا تعالیٰ پردہ دری پر آ گیا تھا اور میری بیماری کے بڑھنے کے ڈر سے جو بات مجھ سے چھپائی گئی تھی خدا تعالیٰ نے جیسا کہ اُس کی عادت ہے ساری جماعت کے سامنے اسے کھول کر رکھ دیا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد’’
(الفضل 22؍ اگست 1956ء)
(17) تازہ پیغام
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
فتنہ پرداز لوگ عزیزم چودھری ظفر اللہ خان صاحب پر اور ان کے خاندان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر چودھری صاحب کی خصوصاً اور ان کے خاندان کی عموماً خدمات ایسی شاندار ہیں کہ مجھے یا کسی اَور کو اس بارے میں لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن ہر احمدی چونکہ نہ چودھری صاحب سے پوری طرح واقف ہے نہ ان کے خاندان سے اور چونکہ ایک مخلص دوست نے کراچی سے لکھا ہے کہ چودھری صاحب کے بارے میں جلدی اعلان ہو جانا چاہیئے تھا دیر ہو جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لئے میں عزیزم چودھری صاحب کا خط بادلِ نخواستہ الفضل میں شائع کرتا ہوں۔ بادلِ نخواستہ اس لئے کہ چودھری صاحب اور ان کے والد صاحب مرحوم کی قربانیاں خلافت کے بارے میں ایسی ہیں کہ ان کی براءت کا اعلان خواہ اُنہی کی قلم سے ہی ہو مجھ پر گراں گزرتا تھا لیکن دشمن چونکہ اوچھے ہتھیاروں پر اُتر آیا ہے اور جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں اس لئے میں چودھری صاحب کا خط الفضل میں شائع کرواتا ہوں۔ جن لوگوں کے دل میں منافقوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے چودھری صاحب کے بارے میں کوئی شک یا تردّد پیدا ہؤا تھا وہ استغفار کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ چودھری صاحب کا یہ شکوہ بجا ہے کہ کیوں نہ میں نے عہدِ وفاداری کے طلب کرتے ہی خود اپنی طرف سے لکھ دیا کہ چودھری صاحب کے پوچھے بغیر ہی اُن کی وفاداری کا اعلان کرتا ہوں۔ بے شک اُن کا حق یہی تھا کہ میں اُن کی طرف سے ایسا اعلان کر دیتا۔ لیکن منافق دشمن اِس پر پراپیگنڈا کرتا کہ دیکھو چودھری صاحب اتنی دُور بیٹھے ہیں پھر بھی یہ شخص جھوٹ بول کر اُن کے منہ میں الفاظ ڈال رہا ہے اور ہم لوگ اس جھوٹ کا جواب دینے کی مشکل میں مبتلا ہو جاتے۔ چودھری صاحب دُور بیٹھے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ اِس وقت جس دشمن سے ہمارا واسطہ پڑا ہے وہ کتنا جھوٹا ہے۔ ہزاروں ہزار آدمیوں کی طرف سے وفاداری کا اعلان ہو رہا ہے مگر نوائے وقت پاکستان یہی لکھے جا رہا ہے کہ ہمیں معتبر ذرائع سے خبر ملی ہے کہ مرزا محمود کی جماعت زیادہ سے زیادہ متحد ہوتی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ پیش کرے۔ پس چودھری صاحب کا اپنا خط چھپنا ہی مناسب تھا۔ اِس خط سے جتنے دشمن کے دانت کھٹّے ہوں گے میرے اعلان سے اُتنے کھٹّے نہ ہوتے۔ بلکہ وہ یہ شور مچاتا کہ اپنے پاس سے بنا کر جھوٹے اعلان کر رہے ہیں۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-8-22’’
(الفضل 26؍ اگست 1956ء)
نقل خط چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہیگ 11؍ اگست 1956ء
سیدنا و امامنا۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
یہاں الفضل کے پرچے ہوائی ڈاک سے ہفتہ میں ایک بار پہنچتے ہیں۔ ابھی ابھی 31 جولائی لغائت 5؍اگست کے پرچے ملے۔ 4؍اگست کے پرچہ میں حضور کا اعلان پڑھا۔ اُس کے پڑھنے پر یہ خاکسار گذارش کرتا ہے۔
‘‘ اندریں دیں آمدہ از مادریم و اندریں از دار دنیا بگزریم’’ انشاء اللہ
باون سال ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک چہرہ پر نظر پڑنے کی خوش نصیبی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے یہ حقیقت ایک بچے کے دل میں راسخ کر دی کہ یہ چہرہ راستباز پہلوان کا چہرہ ہے۔ پھر جذبات کے ساتھ دلائل ، براہین ، بینات کا سلسلہ شامل ہو گیا اور جاری ہے۔ حضور کا وجود یومِ پیدائش بلکہ اُس سے بھی قبل سے اِس سلسلہ کا ایک اہم جزو ہے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ 1914ء میں لندن میں جس دن وہ ڈاک ملی جس میں اختلاف کے متعلق مواد آیا تھا تو وہی دن ڈاک کے واپس جانے کا تھا۔ پس اتنا معلوم ہونے پر کہ اختلاف کیا ہے خاکسار نے بیعت کا خط لکھ کر ڈاک میں ڈال دیا اور باقی حصہ ڈاک بعد میں پڑھا جاتا رہا۔ اُس دن سے آج تک پھر محض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے باوجود اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں اور غفلتوں کے وہ عہد جو اُس دن باندھا تھا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا آیات اور بینات، انعامات اور نوازشات نے اس تعلق کو وہ رنگ دے دیا ہےکہ خود دل جو اس کی لذات سے تو متواتر بہرہ ور ہوتا ہے اس کی حقیقت کی تہہ کو نہیں پہنچ پاتا چہ جائیکہ قلم اُسے احاطۂ تحریر میں لا سکے۔ اب جو عہد حضور نے طلب فرمایا ہے دل و جان اُس کے مصدق ہیں۔ جو کچھ پہلے حوالہ کر چکے ہیں وہ اب بھی حوالہ ہے۔ ظاہری فاصلہ ہونے کی وجہ سے خاکسار یہ التجا کرنے پر مجبور ہے کہ ایسے اعلان کے ساتھ حضور یہ اعلان بھی فرما دیا کریں کہ ہم اپنے فلاں دور اُفتادہ غلام کی طرف سے اِس پر لبیک کا اعلان کرتے ہیں تا یہ خاکسار کسی موقع پر ثواب میں پیچھے نہ رہ جائے۔ حضور کو اِس درجہ حسن ظن رہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی کمال ستاری اور ذرہ نوازی سے خاتمہ بالخیر کی ہوس کو جو ہر مومن کی آخری ہوس ہوتی ہے پورا کرتے ہوئے فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۔کی بشارت کے ساتھ اپنے ہاں طلب فرمائے گا۔ یا ابی انت و امی
طالب دعا
خاکسار
حضور کا غلام
دستخط ظفر اللہ خاں’’
(الفضل 26؍ اگست 1956ء)
(18) مکرم چودھری محمد عبد اللہ خان صاحب امیر کراچی اور مکرم محمد اقبال شاہ صاحب آف نیروبی مشرقی افریقہ کے اخلاص بھرے خطوط ملنے پر جواب
‘‘جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان و اخلاص میں برکت بخشے ۔ ایمان کا مقام یہی ہے ۔ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں۔ایک وہ جو مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اوّل کی وجہ سے داخل ہوئے ہیں ، ایک وہ طبقہ جو تعلیم یافتہ ہے اور اس لئے ہماری جماعت میں داخل ہوا ہے کہ یہ منظّم جماعت ہے ۔ ان کی وجہ سے سکول اور کالج کھولے جائیں۔ ایک وہ جو میرے الہام اور میری صداقتوں کو دیکھ کر ایمان لائے ہیں۔ میں پہلی دو قسموں پر اعتبار نہیں کرتا، یہ ہر وقت مرتد ہو سکتے ہیں۔ میں صرف اُن کو احمدی سمجھتا ہوں جو تیسرے گروہ میں شامل ہیں۔’’
(الفضل 26؍ اگست 1956ء)
(19) ایک تازہ رؤیا
‘‘ یہ خواب 31؍اگست اور یکم ستمبر کی درمیانی رات کو دیکھی گئی۔
میں نے دیکھا کہ اماں جی بھی اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں اور فرشتے سارے جوّمیں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے۔ لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے۔ یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں۔ اس آخری حصہ پر فرشتے زیادہ زور دیتے ہیں۔’’
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-9-1 ’’
(الفضل 7 ستمبر1956ء)
(20) ایک تازہ رؤیا
‘‘ یہ رؤیا یکم اور 2 ستمبر 1956ء کی درمیانی رات کی ہے۔
میں نے خواب میں دیکھا جیسے کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے (اغلباً فرشتہ ہی ہو گا) کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اِس سے اُس کی یہ غرض ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو وہ کس سرعت سے آپ کے ساتھ مڑتی ہے۔ یا جب آپ اپنی منزلِ مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزلِ مقصود کو اختیار کر لیتی ہے۔ جب وہ فرشتہ یہ کہہ رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے جلا ہوں کی ایک لمبی تانی آئی جو بالکل سیدھی تھی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ صراطِ مستقیم کی مثال ہے جس کی طرف آپ کو خدا لے جا رہا ہے اور ہر فتنہ کے موقع پر وہ دیکھتا ہے کہ کیا جماعت بھی اسی صراطِ مستقیم کی طرف جا رہی ہے یا نہیں۔
تانی دکھانے سے یہ بھی مراد ہے کہ کس طرح نازک تاگے آپس میں باندھے جا کر مضبوط کپڑے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یہی حالت جماعت کی ہوتی ہے۔ جب تک ایک امام کا رشتہ اُسے باندھے رکھتا ہے وہ مضبوط رہتی ہے اور قوم کے ننگ ڈھانکتی رہتی ہے لیکن امام کا رشتہ اس میں سے نکال لیا جائے تو ایک چھوٹا بچہ بھی اُسے توڑ سکتا ہے اور وہ تباہ ہو کر دنیا کی یاد سے مٹا دی جاتی ہے۔ فَتَدَبَّرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ
نوٹ: کچھ عرصہ سے میں نے اپنی خوابیں چھپوانی بند کر دی تھیں ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ میرا خیال اِدھر پھر گیا تھا کہ رؤیا کو باقاعدہ چھپوانا ماموروں کا کام ہے لیکن اب اس فتنے میں بہت سی پرانی رؤیا نکلیں جو اَب شائع کی جائیں گی جن میں تفصیل کے ساتھ موجودہ فتنہ کو بیان کیا گیا ہے۔ممکن ہے درمیانی عرصہ کی خوابیں بھی شائع ہو جاتیں تو اَور کئی رؤیا جماعت کے جماعت کے ایمان کے بڑھانے کا موجب ثابت ہوتیں۔ پس میں نے مناسب سمجھا کہ مامور کی نقل کے طور پر نہیں بلکہ جماعت کے ایمان کو زیادہ کرنے اور ان میں بھی تعلق باللہ پیدا کرنے کی خواہش کی غرض سے بعض اہم خوابیں یا کشوف شائع ہوتے رہنے چاہئیں۔ دوسرے دوستوں کو بھی چاہیئے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو خواب دکھائے یا الہام سے نوازے تو وہ بھی اطلاع دیتے رہا کریں تا کہ جن کو خواب یا الہام نہیں ہوتے وہ بھی دعاؤں اور درود کے ذریعہ سے اس انعام کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جن خوانوں کو میں تعبیر کے لحاظ سے اہم سمجھوں گا الفضل میں شائع کرنے کے لئے دے دوں گا۔ مگر دوستوں کو اصرار نہیں ہونا چاہیئے کہ اُن کی خواب ضرور شائع ہو۔ کیونکہ خواب اور الہام کے ضرور شائع کرنے کا حکم صرف مامور کو ہوتا ہے بلکہ مامور کو بھی بعض خوابوں اور الہاموں کے شائع کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ وہ وحی جس کو ہر صورت میں شائع کرنے کا حکم ہوتا ہے وحیِ متلُوْ ہوتی ہے اور ایسی وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔ اب ہمارے ایمان اور علم کے مطابق قیامت تک کسی انسان پر ایسی وحی نازل نہیں ہو گی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر ایسی وحی نازل نہیں ہوئی اور اِسی وجہ سے آپؐ سے پہلے نبیوں کی وحی کے محفوظ رکھنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ نہیں کیا۔ یہ کمال صرف قرآن کو حاصل ہے اور اسی کو قیامت تک حاصل رہے گا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-9-3 ’’
(الفضل 5 ستمبر1956ء)
(21) روزنامہ سفینہ کی ایک افترا کا جواب
‘‘ سفینہ لاہور مؤرخہ 5 ستمبر نے لکھا ہے مرزا صاحب نے اپنے خطبہ میں فتنہ میں حصہ لینے والوں کو گھٹیا قسم کے لوگ کہا ہے۔ نیز کہا ہے کہ ان میں کوئی عالم اور صاحب رؤیا نہیں۔ اس کے بعد پوچھا ہے کہ مرزا صاحب بتائیں کہ مندرجہ ذیل عالم نہیں ہیں؟ عبدالمنان عمر ایم۔ اے مولوی فاضل، علی محمد اجمیری مولوی فاضل، ملک عبدالرحمٰن خادم بی ۔اے ۔ایل ۔ ایل ۔ بی۔ محمد صالح نور مولوی فاضل۔ محمد حیات تاثیر مولوی فاضل ۔ نیز مولوی محمد علی صاحب ایم ۔اے ۔ایل ۔ایل ۔بی عالم اور صاحب کشف نہیں تھے؟
جس خطبہ کا حوالہ دیا گیا ہے اُس میں لکھا ہے کہ جو شخص کسی خواب کے ذریعہ سے یا آسمانی دلائل کے ذریعہ سے مجھ پر ایمان لایا ہے اگر وہ اس فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو کذّاب کہتا ہے۔ اُسے ہر شخص کہے گا کہ اے بیوقوف! اگر صداقت وہی ہے جس کا تُو اَب اظہار کر رہا ہے تو تُو نے اپنی خواب کیوں شائع کرائی تھی؟ اس کے بعد فتنہ کرنے والوں کے متعلق لکھا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ اِس وقت تک جن لوگوں نے اِس فتنہ میں حصہ لیا ہے وہ نہایت ذلیل اور گھٹیا قسم کے ہیں ایک بھی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ جماعت کے صاحبِ علم اور تقویٰ اور صاحبِ کشوف لوگوں میں سے کوئی شخص فتنہ میں مبتلا ہوا ہو۔ سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں۔ صرف بعض ادنیٰ قسم کے لوگ تھے جنہوں نے کہا کہ حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد ایسا کہہ رہی ہے ہم کیا کریں۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ 42 سال تک جو تم نے میری بیعت کئے رکھی تھی تو کیا تم نے مجھے حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی وجہ سے مانا تھا؟ اِس مضمون کو پڑھ کر ہرعقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایڈیٹر ‘‘سفینہ’’ نے جو اپنی لسٹ میں مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے کا نام شامل کیا ہے وہ ہوش و حواس میں نہیں کیا۔ خطبہ میں ذکر تو موجودہ فتنہ کا تھا جو حضرت خلیہ اوّل کی اولاد کی وجہ سے ہو رہا ہے اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے ایل ایل بی اِس فتنہ سے چار سال پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ چار سال پہلے فوت ہونے والے شخص کا ذکر اس فتنہ کے سلسلہ میں ایڈیٹر سفینہ کے سوا کون کر سکتا ہے۔ 31؍ اگست والے خطبہ میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جن لوگوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ وہ ہیں جو علم روحانی اور تقویٰ رکھتے ہیں اور صاحبِ کشوف ہیں اور پھر بھی اس فتنہ میں شامل ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی شخص نہیں۔ ایڈیٹر ‘‘سفینہ’’ نے جو مولوی عبدالمنان عمر ایم اے کا نام لکھا ہے تو کس وجہ سے؟ کیا وہ ان کی کوئی کشف بتا سکتا ہے جو انہوں نے کسی کتاب یا اخبار میں شائع کی ہو۔ اور کچھ عرصہ کے بعد وہ پوری ہو گئی ہو۔ ایم اے اور مولوی فاضل ہونا تو اس بات کی علامت نہیں کہ اُن کو علم روحانی اور تقویٰ حاصل ہے اور وہ صاحبِ کشف ہیں۔ اگر ایم اے اور مولوی فاضل ہونا اس بات کی دلیل ہوتا تو حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ ، اور حضرت علی کو تو جواب مل جاتا۔ بلکہ عیسائی لوگ تو یہ بھی کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نعوذ باللہ) صاحبِ کشف اور الہام نہیں تھے کیونکہ سفینہ کے ایڈیٹر کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق نہ وہ ایم اے تھے نہ مولوی فاضل۔ یہی جواب علی محمد اجمیری کے متعلق ہے اور یہی جواب محمد صالح نور اور محمد حیات تاثیر کے متعلق ہے۔ محمد صالح نور اور محمد حیات بے شک مولوی فاضل ہیں لیکن وہ دونوں مبایعین احمدیوں کے خرچ سے مولوی فاضل ہوئے ہیں اور پھر دونوں میں سے کسی کو صاحبِ کشف ہونے کا دعویٰ نہیں۔ اگر ہے تو سفینہ کا ایڈیٹر ان کے کشف اور خواب شائع کرے جو انہوں نے دو تین سال پہلے اخبار یا کتابوں میں چھپوائے ہوں اور پھر پورے ہوئے ہوں۔ اِسی طرح مولوی علی محمد اجمیری کے بھی کشف شائع کریں۔
باقی رہے ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم تو وہ ان لوگوں کے مخالف ہیں ان کانام میرے مخالفوں میں لکھنا محض شرارت ہے۔ غرض مولوی محمد علی صاحب کا نام لکھنا جو اِس فتنہ سے چار سال پہلے فوت ہو چکے تھے اور ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم کا نام لکھنا جو میرے وفادار مرید ہیں اوّل درجہ کی بددیانتی اور خباثت ہے۔ اگر سفینہ کے ایڈیٹر کو سچائی کا کوئی بھی احساس ہے تو وہ یہ ثابت کرے کہ مولوی محمد علی صاحب اِس فتنہ کے وقت زندہ تھے اور ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم کا بیان شائع کرے کہ وہ میرے مخالف تھے۔ اور مولوی عبد المنان اور مولوی اجمیری اور صالح نور اور محمد حیات تاثیر کی وہ کشوف شائع کرے جو انہوں نے آج سے چند مہینے یا چند سال پہلے شائع کئے ہوں اور وہ پورے ہو گئے ہوں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو ہمارا جواب اس کو یہ ہے کہ لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
اِس مضمون کے لکھنے کے بعد ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم کا اپنا خط بھی ملا جو شائع کیا جا رہا ہے اور جو ایڈیٹر سفینہ کے جھوٹ کا ایک بیّن ثبوت ہے۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-8’’
(الفضل11ستمبر1956ء)
(22) مولوی علی محمد صاحب اجمیری کے خط کا جواب
‘‘ مولوی علی محمد صاحب اجمیری
آپ کا خط ملا۔ آپ نے میری اس بات کی تردید کی ہے کہ مرزا بشیر احمد صاحب کے متعلق اللہ تعالیٰ کے الہام ہیں وہ ان کو بچا لیں گے۔ اور لکھا ہے۔ میاں منّان کے متعلق آپ نے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ حالانکہ یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ میں نے جو الفاظ عبد المنان کے متعلق استعمال کئے ہیں وہی عبد الوہاب کے متعلق کئے ہیں۔ اور لکھا ہے کہ میاں عبدالوہاب اور عبد المنان پارتی ناکام و نامراد رہے گی، خدا جس کو چاہے گا خلیفہ بنائے گا۔ اور یہ خلیفہ گر دونوں جہاں کی ناراضگی خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصلہ کریں گے۔ کیا یہ سخت لفظ ہیں کہ عبد الوہاب اور عبد المنان پارٹی ناکام و نامراد رہے گی اور خدا جس کو چاہے گا خلیفہ بنائے گا؟
آپ نے لکھا ہے یہ دونوں کسی کی زبان نہیں پکڑ سکتے۔ گویا آپ کے نزدیک پارٹی تو ہے مگر یہ اس میں شامل نہیں ۔ میں نے بھی تو یہی لکھا تھا کہ عبدالوہاب اور عبدالمنان پارٹی ناکام رہے گی۔ گویا آپ کے نزدیک اگر پارٹی عبد المنان کا نام لے تو خدا کی نصرت اسے حاصل ہو گی، شاید کسی اور کا نام لے تو تباہ ہو جائے گی۔ گویا آپ کے نزدیک خداکا الہام اور آپ کا علم برابر ہیں۔ آپ نے دونوں باتوں کا ایک نتیجہ نکالا ہے۔ میں نے تو یہ لکھا تھا کہ چونکہ میاں بشیر احمد صاحب کے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اس لئے وہ بچ جائیں گے جس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کو علم تھا کہ میاں بشیر ایسی حرکت نہیں کریں گے۔ ورنہ ان کے متعلق بشارتوں کے الہام ہی کیوں بھیجتا۔ مگر آپ عالم الغیب نہیں۔ آپ منّان کے متعلق جو کچھ کہتے ہیں وہ اپنے علم کی بناء پر کہتے ہیں اور اپنے علم اور خدا کے علم کو برابر قرار دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ ان کا علم بھی خدا تعالیٰ کے علم کے برابر نہیں۔ پس خدا تعالیٰ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو بھی اپنے علم کے مقابلہ میں کم قرار دیتا ہے مگر آپ اپنے علم کو خدا تعالیٰ کے علم کے برابر سمجھتے ہیں اور یہ دہریت کی علامت ہے۔ اگر یہ حالت جاری رہی تو آپ ایک دن دہریت پر پہنچ کر رہیں گے۔
میں آپ کو جانتا ہوں لیکن باوجود اِس کے میں آپ کی باتوں کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ کیونکہ آپ نے اُس شخص کا نام نہیں لکھا جس نے آپ کو یہ کہا تھا کہ پیپل کے نیچے کھڑے ہونے والے آدمیوں میں سے ایک آپ تھے جب تک آپ اُس شخص کا نام نہ بتائیں اور میں اُس سے پوچھ نہ لوں میں آپ کو کذّاب سمجھتا ہوں۔ قرآن کریم فرماتا ہے اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا۔22
یہ ٹھیک ہے کہ یہ 27، 28 سال کا پرانا واقعہ ہے مگر آپ کا حافظہ مجھ سے زیادہ کمزور ہے۔ آپ نے لکھاہے کہ عبد الوہاب اس میں شامل نہیں تھے لیکن میرے پاس خود میاں زاہد سے سننے والے ایک شخص کی شہادت موجود ہے کہ مجھ سے انہوں نے کہا کہ عبد الوہاب ہماری سازش میں شامل تھا۔ مگر وہ اس لئے بچ گیا کہ وہ خلیفہ اوّل کا بیٹا تھا اور ہم غریب مارے گئے۔ ایک شہادت میرے پاس آ چکی ہے اور ایک دوسری شہادت کے متعلق خبر ہے کہ وہ بھی انشاء اللہ آ جائے گی۔ آپ تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کا اور وہاب کا خط میاں زاہد کے پاس گیا ہے لیکن وہ خدا تعالیٰ نے میرے پاس پہنچا دیا تھا۔ میاں زاہد نے اُس پر جو جواب لکھا تھا وہ خط لے جانے والے نے مجھے دے دیا تھا۔
خدا تعالیٰ نے وہ گواہ بھی مہیّا کر دیئے ہیں جنہوں نے یہ گواہی دی ہے کہ 1915ء میں یا اس کے قریب میاں عبد السلام اور میاں عبد المنان شملہ آئے۔ چونکہ ہم لوگ خلافت اور نبوت کے جھگڑے کی وجہ سے ہی احمدی ہوئے تھے، تازہ تازہ جوش تھا، آنکھیں کھلی رکھتے تھے مولوی عبدالسلام بھی مولوی محمد علی سے ملے اور میاں منّان عید کے دن اُن کی گود میں بیٹھے اور اُن سے نذرانہ وصول کیا۔ مولوی عمر دین شملوی نے جب مولوی عبد السلام کو طعنہ دیا کہ آپ کا بھائی نذرانہ لے کر آیا ہے اور آپ ملاقات کر کے آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کو ہمارے ذاتی تعلقات میں دخل دینے کا کیا حق ہے۔ یعنی جو لوگ اس ناخلف اولاد کے باپ کی مخالفت کرتے تھے اور اس کو مرتد اور ظالم قرار دیتے تھے اُن سے دوستی اور محبت رکھنے پر کیوں اعتراض کیا۔
آخر میں آپ نے مصری صاحب کو اپنی براءت میں پیش کیا ہے۔ مصری صاحب تو خود پیغامیوں میں بیٹھے ہیں میں اُن کی گواہی کس طرح مان سکتا ہوں۔ نہ میں نے اُن کو کمیشن مقرر کیا اور نہ اُن کے بری کرنے سے آپ بری ہو جاتے ہیں۔ یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ اُس وقت آپ کی غلط فہمی دُور ہو گئی تھی یہ بھی جھوٹ ہے۔ میری غلط فہمی کبھی دُور نہیں ہوئی۔ میں آپ کو اس عرصہ میں ایمان کا کمزور ہی سمجھتا رہا ہوں۔ اس معاملہ کا دوبارہ ذکر نہ کرنا میری حیاء کی علامت ہے آپ کے ایمان کی علامت نہیں۔ میں نے تو عبدالمنّان ، عبدالوہاب اور عبدالسلام کی باتوں کا بھی دوبارہ ذکر نہیں کیا۔ نہ امّاں جی کی باتوں کا دوبارہ ذکرکیا۔ چنانچہ اِسی وجہ سے بعض لوگوں نے پچھلےدنوں مجھ سے کہا (غالباً شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے) کہ آپ 25 سال سے ان لوگوں کو معاف کرتے آئے ہیں، اب بھی خاموشی اختیار کر لیں۔ تو میں نے کہا یہ جو کچھ ہو رہا ہے 25سال کی معافی کا تو نتیجہ ہے، اگر میں آج سے 25سال پہلے ان لوگوں کی شرارتوں کو ظاہر کر دیتا تو آج یہ جماعت سے الگ ہو چکے ہوتے اور پیغامیوں کی گود میں بیٹھے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسے گواہ بھی بھجوائے ہیں جو اپنے اپنے علاقہ میں راستباز اور ثقہ مانے جاتے ہیں اور جو بتاتے ہیں کہ ہم سے خود مولوی حبیب الرحمٰن احراری کے باپ نے شملہ میں ذکر کیا کہ مولوی عبد الوہاب ہمارے ایجنٹ ہیں اور ہم نے ان کو مرزائیوں کی خبریں لانے پر مقرر کیا ہوا ہے وہ چودھری افضل حق پریذیڈنٹ جماعت احرار سے بھی لمبی لمبی ملاقاتیں کرتے ہیں۔
مجھے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ میرے لئے میاں زاہد کی گواہی اور اپنا حافظہ کافی ہے۔
آپ نے جو کچھ سید مسعود احمد کی گواہی کی تردید میں لکھا ہے اس بارہ میں آپ کچھ واقعات بھول گئے۔ میں نے جو کچھ کہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتِ الٰہی کے بارہ میں کہا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ذکر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہمارے لئے سب سے مقدم ہے۔ عیسائی تو خدا پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں حیض اور لواطت کا ذکر ہے۔ایسی علمی کتاب جس کے پڑھنے کا عورتوں اور لڑکیوں کو بھی حکم ہے اس میں ایسا ذکر آنا بہت نامناسب ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ان معترضین کی بات نہیں مانی۔ میں بھی آپ کی بات کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔
سید مسعود آپ کے روحانی باپ کا بیٹا ہے آپ اعلان کر دیں کہ وہ جھوٹا اور کذّاب ہے وہ خود جواب دے لے گا۔ مجھے اِس جھگڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میر محمد اسحٰق فوت ہو چکے ہیں اور منّان زندہ ہے ۔ میر محمد اسحٰق کی زندگی میں آپ اُن کی جُوتیاں چاٹا کرتے تھے۔
میاں عطاء اللہ صاحب کے متعلق جو آپ نے لکھا ہے وہ جھوٹ ہے۔ آپ کی غرض ہے کہ میں ان کو بھی منافق سمجھوں۔ یہی کوشش آپ کے برادر مخلص اللہ رکھا نے بھی کوہستان میں کی ہے۔ انگریزی کی ایک مثل ہے ‘‘Cat is out of bag’’ یعنی بلّی تھیلے سے باہر آ گئی۔ اِسی پر آپ نے عمل کیا ہے اور اپنے خط سے ظاہر کر دیا ہے کہ اخباروں میں ایسی باتیں لکھنے والے کے پیچھے کون ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ ان باتوں کی جانچ کے لئے ایک کمشن مقرر کر دیں۔ میں خلیفہ ہوں آپ خلیفہ نہیں ہیں۔ جو احمدی کمیشن کے حق میں ہیں آپ اُن کو اور منّان کو لے کر الگ ہو جائیں اور اپنی الگ خلافت قائم کر لیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے خلاف کیا کیا اعلان کئے ہیں؟ مگر بتائیں کہ انہوں نے کتنے کمشن مقرر کئے تھے؟ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام نے کتنے کمشن مقرر کئے تھے؟ کم سے کم عبدالمنان کے والد کو تو آپ مانتے ہیں؟ انہوں نے کتنے کمشن مقرر کئے تھے۔ پیغامی اُن کے خلاف یہی شور مچاتے تھے کہ آپ یونہی سنی سنائی باتیں ہمارے متعلق مان لیتے ہیں، تحقیقات نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ سے غیر احمدی اخباروں میں بھی کمشن کا سوال شروع ہے مگر جن لوگوں کے کہنے پر وہ یہ بات لکھتے ہیں اُن کے نام نہیں لکھتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان اخباروں کی تاریں بھی کسی ایسے ہی خیالات والے ہاتھ میں ہیں۔ آپ خواہ کتنا ہی شور مچائیں جماعت کبھی کمیشن کے معاملہ میں آپ سے متفق نہیں ہو گی۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ خوارج نے بھی حضرت علیؓ کے سامنے کمشن کا سوال پیش کیا تھا۔ اور بعد میں اِسی بناء پر حضرت علی ؓ سے بغاوت کی تھی۔ اگر آپ یہ باتیں بھول گئے ہوں تو اسلامی تاریخ کے یہ اَوراق پھر پڑھ لیں۔ اس کمشن کے مقرر کرنے پر جو اُن کی اپنی درخواست پر مقرر ہوا تھا انہوں نے حضرت علیؓ پر نعوذ باللہ کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ اگر آپ کبھی اپنے دوست پیغامیوں کے پاس لاہور جائیں تو اُن کی لائبریری میں تاریخ طبری اور تاریخ ابن زبیر مل جائیں گی اُس سے آپ کا حافظہ تیز ہو جائے گا۔ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھ پر کامل اعتماد رکھتی ہے۔ نہ وہ کسی حکومت کے حکم سے میری بیعت میں داخل ہوئی اور نہ اسے میری بیعت سے نکلنے سے میں روک سکتا ہوں۔ جب تک اُس کا ایمان قائم ہے وہ میرے ساتھ رہے گی اور کسی مولوی یا اخبار کے کہنے پر کمشن کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ وہ جانتی ہے کہ اگر ہمیں خلیفہ پر اعتبار نہ رہا تو ہم اِسے چھوڑ دیں گے۔ پھر کمشن کے مطالبہ کے معنے کیا ہوئے۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-8 ’’
(الفضل13ستمبر1956ء)
(23) چاہیئے کہ خلیفہ اپنے بیٹے کو خلافت کے لئے نامزد نہ کرے
‘‘ خاکسار نے حضرت ....... خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی 1914ء کی تقریر ‘‘ برکات خلافت’’ کے مندرجہ ذیل فقرات بغرض تشریح پیش کئے تھے:۔
‘‘وہ نادان جو کہتا ہے کہ گدی بن گئی ہے اُس کو مَیں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں تو یہ جائز ہی نہیں سمجھتا کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو۔ ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے مامور کر دے تو یہ الگ بات ہے اور حضرت عمرؓ کی طرح میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیئے’’۔ (صفحہ 22)
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل کلمات تحریر فرمائے ہیں (خاکسار ابو العطاء جالندھری)
‘‘ یعنی باپ کو بیٹے کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کرنا چاہئے جس طرح حضرت عمرؓ نے منع فرمایا 23 کیونکہ جو پانچ آدمی انہوں نے خود نامزد کئے تھے نہ کہ جماعت نے اُن میں اُن کا بیٹا بھی تھا۔ اس لئے آپ نے فرمایا اسے مشورہ میں شامل کرو خلیفہ مت بنانا۔ پس معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک باپ اپنے بعد بیٹے کو خلیفہ نامزد نہیں کر سکتا۔ مگر حضرت علیؓ نے اس کے خلاف کیا اور اپنے بعد حضرت حسنؓ کو خلیفہ نامزد کیا24۔ میرا رجحان حضرت علیؓ کی بجائے حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی طرف ہے خود حضرت حسنؓ بھی مجھ سے متفق نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے بعد میں حضرت معاویہ کے حق میں دست برداری دے دی۔اگر وہ یہ سمجھتے کہ باپ، بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ بنا سکتا ہے تو کبھی دست بردار نہ ہوتے کیونکہ خلافتِ حقّہ کا چھوڑنا ارشادِ نبویؐ کے مطابق منع ہے۔ مگر حضرت علیؓ نے بھی غلطی نہیں کی۔ اُس وقت حالات نہایت نازک تھے۔ کیونکہ خوارج نے بغاوت کی ہوئی تھی اور دوسری طرف معاویہ اپنے لشکروں سمیت کھڑے تھے۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی تبدیلی کو بڑے فساد پر ترجیح دی کیونکہ حضرت حسنؓ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کی پیشگوئیاں موجود تھیں۔ ممکن ہے حضرت علیؓ نے اَور احتیاطیں بھی کی ہوں جن سے جمہور مسلمانوں کے حق کو محفوظ کر دیا ہو۔ گو وہ مجھے اِس وقت یاد نہیں۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-8 ’’
(الفضل15ستمبر1956ء)
(24) ہفت روزہ ‘‘چٹان’’ کا ایک ادارتی نوٹ
‘‘ اتفاقاً ایک پرچہ ‘‘چٹان’’ کا دفتر نے بھجوایا ہے۔ ممکن ہے انہوں نے خریدا ہو یا کسی دوست نے بھجوایا ہو۔ اس کے صفحہ5 پر ایک مضمون ہے جس کا عنوان ہے ‘‘الفضل کی خدمت میں’’ اس میں لکھا ہے کہ بعض قادیانی حضرات نے گمنام خطوط لکھنے شروع کئے ہیں جن میں دشنام دہی کا ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جو خلیفۃ المسیح اپنے لئے سننے کو تیار نہ ہوں گے۔ گمنام خط خواہ قادیانی بھیجے یا حنفی یا وہابی یا مودودی یا شیعہ یا نیچری یا اہلِ قرآن بُرا ہوتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب تمہیں کوئی خبر آئے تو خبر لانے والے شخص کے حالات کو دریافت کر لیا کرو25 اور گمنام خط لکھنے والے کے حالات دریافت نہیں کئے جا سکتے۔ پس ایسا شخص چاہتا ہے کہ مکتوب الیہ قرآن کریم کے حکم کی نافرمانی کرے اور گویا اباحت پھیلاتا ہے۔ پس مجھے ‘‘چٹان’’ کے ایڈیٹر صاحب سے اس بات میں پوری ہمدردی ہے کہ ان کے نام بعض لوگ بغیر اپنا نام ظاہر کرنے کے ایسے خط بھیجتے ہیں جن میں گالیاں ہوتی ہیں۔ حقیقتاً تو اگر اُن خطوں میں ایڈیٹر صاحب چٹان کی تعریف بھی ہو تو بوجہ ان خطوں کے گمنام ہونے کے اُن کے لکھنے والا خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم ہے اور اسے اپنے گناہ سے توبہ کرنی چاہیئے ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے سزا پائے گا۔ مگر مجھے ایک بات پر تعجب ضرور ہے کہ باوجود ان خطوں کے گمنام ہونے کے ایڈیٹر صاحب چٹان کو یہ کیونکر معلوم ہو گیا کہ وہ قادیانیوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض ‘‘قادیانیت’’ کے دشمن لوگوں نے ایڈیٹرصاحب چٹان کو غصہ دلانے کے لئے ایسے گمنام خط لکھے ہوں۔ جب یہ بات ممکن ہے اور جب وہ خط گمنام بھی ہیں تو تقویٰ کا طریق یہی تھا کہ ایڈیٹر صاحب چٹان اُن خطوں کو تو پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ اے خدا! مسلمانوں پر رحم کر خواہ وہ کسی فرقہ کے ہوں کہ وہ ایسی گندی باتوں سے بچا کریں۔
ایک بات ایڈیٹر صاحب چٹان نے ایسی لکھی ہے کہ مجھے اس کی تائید کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ الفضل نے معاصر نوائے وقت کے ساتھ ہم پر بھی یہ الزام چسپاں کیا ہے کہ ہم کسی کے روپے سے احمدی منافقین کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ لکھ کر وہ لکھتے ہیں لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ میرے نزدیک جب تک کوئی معیّن ثبوت نہ ہو کسی مقابل کے متعلق ایسی بات لکھنا تقویٰ کے خلاف ہے۔ ہمارے متعلق ہمیشہ غیر احمدی کہتے رہے ہیں کہ انگریزوں سے روپیہ لے کر انہوں نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور ہم ہمیشہ اسے بُرا مناتے رہے ہیں۔ وہی طریقہ اپنے مخالف کے متعلق استعمال کرنا نہایت معیوب اور بُرا ہے۔ یا تو ایڈیٹر الفضل کے پاس ایسا ثبوت موجود ہو جس کی بناء پر وہ اپنے بیوی بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کے حکم کے مطابق قسم کھا کر چٹان پر یہ الزام لگا سکے کہ اُس نے کسی سے روپے کھائے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ ہمارا مخالف ہے یا پھر اسے چٹان کے دعویٰ کو قبول کرنا چاہیئے اور مومنوں کی طرح معذرت کرنی چاہیئے کہ ہم نے بعض افواہوں یا قیاسوں کی بناء پر الزام لگایا ورنہ ہم اس الزام پر لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ نہیں کہہ سکتے۔قرآن کو اونچا کرنے کے لئے اپنا سر نیچا کر لینا بڑی عزت کی بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سچا احمدی وہ ہے جو سچا ہو کر جھوٹا بنے26۔ اِس کے یہ معنے نہیں کہ وہ سچ بولے اور کہے کہ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ بلکہ یہ معنے ہیں کہ اگر وہ کوئی ایسی بات کہے جسے وہ سچا سمجھتا تھا مگر قرآن کریم اُسے ایسا کہنے کی اجازت نہ دیتا ہو تو فوراً معذرت کرے اور اپنے مخاصم کی بات کو تسلیم کر لے۔ایڈیٹر صاحب الفضل اِس بات سے نہ ڈریں کہ بعض دوسرے لوگ اِس سے اُن کے سر چڑھ جائیں گے کیونکہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اگر تُو ہمارے حکم کے مطابق فروتنی دکھائے گا تو ہم خود تیری طرف سے ہو کر لڑیں گے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایڈیٹر صاحب الفضل کی لڑائی سے خدا تعالیٰ کی لڑائی زیادہ سخت ہے۔27
آخر میں مَیں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ایڈیٹر صاحب چٹان نے جہاں ایڈیٹر صاحب الفضل کو نصیحت کی ہے وہاں میرے متعلق بھی لکھا ہے کہ جو باتیں آپ اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے متعلق مت لکھیئے یا لکھوائیے حالانکہ ایڈیٹر صاحب چٹان نے جس دلیری سے الفضل کے الزام کے مقابلہ میں لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہا ہے اس فقرہ کے متعلق وہ لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ نہیں کہہ سکتے اور نہ میں ان سے اس کا مطالبہ کرتا ہوں کیونکہ اس نوٹ کے لکھتے وقت ان کا دل دُکھا ہوا تھا اور ایسی حالت میں بعض دفعہ انسان پورا موازنہ نہیں کر سکتا۔
مرزا محمود احمد
1956ء-9-19 ’’
(الفضل22ستمبر1956ء)
(25) جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے ایک ریزولیوشن پر ارشاد
‘‘ ایسا ہی ایک ریزولیوشن جماعت ربوہ نے بھی پاس کرکے بھیجا ہے وہ میں بعد میں بھجوا دوں گا۔ اُس میں اَور ناموں کا ذکر ہے۔ چونکہ ہر جگہ کی جماعت مبایعین کو یہ حق ہے کہ اگر اپنے علاقہ میں رہنے والے کسی احمدی کی نسبت یہ شک کریں کہ وہ جماعت مبایعین جیسے خیالات نہیں رکھتا تو اس کے متعلق یہ ریزولیوشن پاس کر دیں کہ وہ ہماری جماعت کا ممبر نہیں سمجھا جائے گا تا کہ آئندہ اُس کے ذریعہ سے اٹھایا ہوا فتنہ اُس جماعت کی طرف منسوب نہ ہو اور وہ اُس جماعت کا ممبر ہونے کی حیثیت سے احمدیہ جماعت کے کسی عہدہ کے حصول کے لئے کوشش کرنے کا راستہ تلاش نہ کرے۔ پس میں جماعت احمدیہ لاہور اور ربوہ کو ان کے ریزولیوشنوں کے حق ہونے کی وجہ سے اُن کے ریزولیوشنوں کی تصدیق کرتا ہوں۔’’
(الفضل2؍اکتوبر1956ء)
(26) محترم چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب کا خط اور
اس پر تبصرہ
‘‘چودھری ظفراللہ خان صاحب کا ایک ضروری خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے اِس خط سے دو اہم امور کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ایک امر وہ پروپیگنڈا ہے جو مولوی عبدالمنان صاحب کے ساتھی جماعت میں کر رہے ہیں کہ گویا مولوی عبدالمنان کی علمی تحقیقاتوں اور کارروائیوں کا شُہرہ امریکہ تک پہنچا جس پر امریکہ نے اُن کو اپنے ملک میں تقریر کی دعوت دی اور پتا لگ جاتا ہے کہ یہ دعوت چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی سفارش پر ہوئی تھی نہ کہ ان کی عالمی شہرت کی وجہ سے۔ جیسا کہ تھوڑے دنوں میں تحقیقی طور پر ثابت ہو جائے گا مولوی عبد المنان صاحب کی مسند احمد کی تبویب نہ کوئی نیا کارنامہ ہے نہ کوئی علمی تحقیق ہے۔ یہ کام کوئی چالیس سال سے مسلمانوں میں ہو رہا ہے اور مصر اور ہندوستان کے علماء اس میں لگے ہوئے ہیں۔ بلکہ بعض کتابوں سے پتا لگتا ہے کہ بعض لوگ اس کو مکمل بھی کر چکے ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ محنت کا کام ہے جیسے ڈکشنری میں سے لفظ نکالنے کا کام محنت کا کام ہوتا ہے۔ مگر علمی وسعت وسعتِ نظر کا کام نہیں۔ مدرسہ احمدیہ کے بعض پرانے اساتذہ کہتے ہیں کہ جب مولوی عبدالمنان صاحب سکول میں انجمن کے تنخواہ دار ملازم تھے تو خود بھی اپنا وقت اِس کام پر صَرف کرتے تھے اور بعض طلباء سے بھی مدد لیتے تھے وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ بہرحال کوئی نہ کوئی دوست کچھ دنوں تک اس مسئلہ پر تفصیلی اور مکمل روشنی ڈال دیں گے۔ مصر کے ایک عالم نے اس کتاب کی تبویب کی چودہ جلدیں شائع کی ہیں جو کہتے ہیں کراچی اور لاہور میں مل سکتی ہیں گو شبہ ہے کہ ابھی کچھ جلدیں شائع ہونی باقی ہیں۔ ان جلدوں میں سے بہت سی ہمارے جامعۃ المبشرین کی لائبریری میں موجود ہیں۔ اور کچھ جلدیں قادیان کے زمانہ سے میری لائبریری میں موجود تھیں جو اَب یہاں آ گئی ہیں۔ بے شک حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایسی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ یہ جلدیں غالباً مرزا ناصر احمد کی ولایت سے واپسی پر میں نے اُس کے ذریعہ سے مصر سے منگوائی تھیں۔
اِس خط سے اس شبہ کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے جو بعض دوستوں نے اپنے خطوں میں ظاہر کیا ہے جو یہ ہے کہ مولوی عبدالمنان کو امریکہ بھجوا کر چودھری ظفراللہ خان صاحب نے فتنہ کا دروازہ کھولا اور اُن کے دوستوں کو جھوٹے پروپیگنڈا کا موقع دیا۔ مگر جیسا کہ چودھری ظفراللہ خان صاحب کے خط سے ظاہر ہے انہوں نے موجودہ حالات کے علم سے پہلے یہ کوشش کی تھی اور اِس خیال سے کی تھی کہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں میں سے ایک ہی بیٹے کو کچھ علمی شغف ہے وہ علمی مجالس میں آ جائے تو اس طرح شاید سلسلہ کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے گا۔ چونکہ مولوی عبدالمنان تحریک جدید کے ایک عہدے پر مقرر تھے اس لئے چودھری صاحب کا یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ یا ان کے گہرے دوست کوئی بات سلسلہ کے خلاف کریں گے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ چودھری غلام رسول نمبر35 کی قسم کے لوگ اخباروں میں ان کو حضرت مولانا عبدالمنان کر کے لکھیں گے۔ چودھری صاحب نے مولوی عبدالمنان وکیل التصنیف کی سفارش کی تھی۔ انہوں نے حضرت مولانا عبدالمنان کی سفارش نہیں کی تھی۔ اس لئے ان پر الزام لگانا درست نہیں۔ اور جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ اُن کی نیت کو دیکھنا چاہیئے جو ظاہر ہے عمل کو نہیں دیکھنا چاہیئے۔ہاں جو لوگ واقعات کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی ایسے لوگوں میں گُھستے ہیں وہ اپنے عمل سے اِس بات کا ثبوت دے دیتے ہیں کہ اُن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ 28
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
محترم چودھری ظفراللہ خان صاحب کا خط
‘‘بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہیگ 7 ستمبر1956ء
سیدنا و امامنا۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
حضور کے ارشاد کے ماتحت پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے خاکسار کو محترمہ عائشہ صاحبہ (جنہیں خاکسار تو ذاتی طور پر نہیں جانتا) کے خط کی نقل ارسال کی ہے جو محترمہ مذکورہ نے حضور کی خدمت اقدس میں لکھا ہے۔ ان بچوں نے اگر ایسی کوئی بھی بات کہی ہے تو بہت دکھ دینے والی بات ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ خاکسار نے مکرمی مولوی عبد المنان عمر صاحب کے امریکہ جانے کے متعلق جو کوشش کی اس میں خاکسار کی نیت اپنے علم کے مطابق سلسلہ کے ایک عالم اور مخلص خادم کے لئے ایک موقع بہم پہنچانا تھا جس سے وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکیں اور سلسلہ کی خدمت کا اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کر سکیں۔ خاکسار کا ان کے متعلق بوجہ ان کے سلسلہ میں وکیل کے عہدہ پر فائز ہونے، بوجہ حضرت خلیۃ المسیح الاوّل کا فرزند ہونے اور بوجہ اس کے کہ اپنے بھائیوں میں صرف اکیلے وہی علمی مذاق رکھتے ہیں اور علم کا اکتساب کر سکتے ہیں یہی اندازہ اور یہی حُسنِ ظن تھا جو خاکسار نے لکھا ہے۔ اُن امور کا جو ان کے چھوٹے بھائی کے متعلق بعد میں ظاہر ہوئے ہیں یا جن کا ذکر محترمہ عائشہ صاحبہ کے خط میں ہے خاکسار کو نہ علم تھا نہ اندازہ۔ ممکن ہے مکرمی مولوی عبدالمنان عمر صاحب بھی ان امور میں ملوث ہوں۔ خاکسار کو اِس کا بھی کوئی علم اس سے زائد نہیں جو ارشاد حضور نے کوہ مری سے ارسال کردہ اپنے والا نامے میں فرمایا تھا بوجہ مرکز سے باہر ہونے کے موجودہ فتنہ کے متعلق خاکسار کا علم اُنہی امور تک محدود ہے جو الفضل میں شائع ہوئے ہیں۔ ان امور کی تفتیش حضور کے ہاتھ میں اور حضور کے ارشاد کے ماتحت اور حضور کی ہدایات کے مطابق حضور کے خدام کے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے حضور کی ذات مبارک اور سلسلہ عالیہ کو ہر قسم کے خطرہ، پریشانی اور ابتلاء سے محفوظ رکھے۔ اٰمین۔ جو امر حضور کے نزدیک پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے اُس کے مطابق حضور کے خدام کا عمل پیرا ہونا بھی عین سعادت اور تقاضائے عہدِ اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ لیکن جب تک کسی امر کا انکشاف نہیں ہوا تھا اور کوئی ایسی بات ظہور میں نہ آئی تھی اُس وقت تک جن خدام کا عمل حُسنِ ظن کے مطابق رہا وہ اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ کے حکم کے تابع تھا۔ وَاِلَّا صدق و اخلاص اور اطاعت و وفا کا عہد وہیں ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور اسی کی عطا کردہ توفیق سے انشاء اللہ پورا ہوتا جائے گا۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے حضور کو جلد صحت کاملہ عطا فرمائے اور اپنے مبارک ارادوں کی تکمیل کی توفیق عطا فرماتا جائے۔ اور ہم سب خدام کو اُن برکات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے جن کے نزول کا حضور کا وجود باجود ذریعہ ہے اور جو حضور کی ذات مبارک کے ساتھ وابستہ ہیں اور حضور کو ہر پریشانی اور حزن سے محفوظ رکھے۔ اٰمین۔
والسلام
طالب دعا
خاکسار
ظفر اللہ خان’’
(الفضل3؍اکتوبر1956ء)
(27) ضروری اعلان
‘‘ مجھے فتنہ کے ایّام میں کئی احمدی خریدارانِ الفضل کی طرف سے چٹھیاں آئی ہیں کہ جس الفضل میں کوئی خاص مضمون فتنہ کے متعلق ہوتا ہے وہ ہم کو نہیں ملتا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی منافقوں میں سے الفضل کے عملہ میں ہے۔ آج ایک یقینی ثبوت مل گیا ہے۔ ایک احمدی دوست نے خط کے ذریعہ توجہ دلائی ہے کہ میرے پاس میاں محمد صاحب کا ٹریکٹ پہنچا ہے جس پر وہ پتہ تھا جو معروف نہیں اور صرف الفضل کو میں نے دیا ہوا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خریدارانِ الفضل کے پتوں پر میاں محمد صاحب کے ایجنٹوں کا دخل ہے۔ بعض باتیں میں نے بیچ میں چھوڑ دی ہیں کیونکہ ان سے اُس شخص کا بھی پتہ لگ سکتا تھا جس کا یہ کام ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ اُس شخص کے دفتر میں لانے میں ایڈیٹر صاحب الفضل تنویر کا دخل ہے اور ان کی اپنی حیثیت بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ گو ابھی میں ان پر شبہ نہیں کرتا کیونکہ فی الحال اس شخص کا یقینی پتہ لگ گیا ہے جو یہ کام کر رہا ہے۔ مہربانی کر کے وہ دوست جو الفضل کے خریدار ہیں اور جن کا کبھی کوئی تعلق پیغامیوں سے نہیں رہا لیکن اُن کو میاں محمد صاحب کی چٹھی پہنچی ہے یا جن کو منافقوں کے متعلق مضامین نہیں ملے یا دیر سے ملے ہیں وہ تفصیل سے سارے حالات مجھے لکھیں تا کہ اصل مجرم کے پکڑنے میں اَور زیادہ آسانی ہو جائے۔
مرزا محمود احمد ’’
(الفضل10؍اکتوبر1956ء)
(28) ضروری اعلان
‘‘ راجہ علی محمد صاحب نے ایک دفعہ مجھے لکھا تھا کہ میرے پسر رازی میں کوئی سلسلہ سے انحراف کی بُو نہیں پائی جاتی۔ مگر میں ان کی اطلاع کے لئے شائع کرتا ہوں کہ بشیر رازی کی اپنی تحریر کی رو سے جو میرے پاس موجود ہے بشیر رازی اب احمدیہ جماعت میں نہیں ہے۔ اس نے مجھے لکھا:۔
‘‘میں آپ کی خلافت سے بتمام انشراح صدر عدم وابستگی کا اعلان کرتا ہوں۔’’
ڈسکہ اور لاہور کی جماعتیں جہاں وہ رہتا ہے اور گجرات کی جماعت جہاں کا وہ باشندہ ہے اور راجہ علی محمد صاحب جن کا وہ بیٹا ہے اور ملک عبد الرحمٰن صاحب خادم جن کا وہ رشتہ دار ہے مطلع رہیں کہ بشیر رازی اپنے بیان کے مطابق احمدیہ جماعت کے افراد میں سے آئندہ نہیں ہے ۔ ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے کہ ایسے آدمی کو نکالنے کی ہمیں ضرورت پیش نہیں آئی وہ خود ہی نکل گیا۔ آئندہ رازی اور اُس کے دوستوں کو غلام رسول نمبر35 یا منان کی جماعت میں داخل ہونا مبارک ہو یا خدا کی تقدیر کے مطابق نامبارک ہو۔’’
(الفضل18؍اکتوبر1956ء)
(29) ایک اہم مکتوب بنام شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور
‘‘ مکرمی شیخ صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ
آپ کو میرا خط مل گیا ہو گا کہ آپ کو منان سے ملنے کی اجازت ہے۔ اب میں ایک غلط فہمی دور کر دینا چاہتا ہوں۔ چونکہ منان صاحب ایک مہینہ سے زائد ہوا کہ امریکہ سے واپس آ چکے ہیں اور اِس عرصہ میں میاں بشیر احمد صاحب کیونکہ اُن کو لکھ چکے ہیں کہ کون کونسے امور کی صفائی اُن کے ذمہ ہے مگر باوجود اِس کے انہوں نے صفائی نہیں کی اور انجمن کے رجسٹرات اِس پر گواہ ہیں کہ وہ سلسلہ کے جس جس کام پر مقرر ہوئے ہیں اُس کی بہت سی رقوم ابھی تک قابلِ تشریح ہیں اور بہت سی رقوم پر میاں عبدالمنان کے دستخط اب تک موجود ہیں اور میاں غلام غوث صاحب جمونی اور چودھری انور حسین صاحب شیخوپورہ کی معیّن گواہیاں موجود ہیں کہ انہوں نے خلافت کی امیدواری کا اظہار کر دیا اور یہ کہا کہ خلیفہ ثانی، ناصر احمد کو اپنا ولی عہد بنا رہے ہیں۔ اِن حالات کے بعد وہ توبہ بھی کریں اور ہمیں اُن کی توبہ کے الفاظ سے اتفاق بھی ہو تو بھی اُنہیں اِس طرح ہرگز نہیں معاف کیا جا سکتا کہ آئندہ وہ کسی جماعت کے ممبر ہو سکیں یا جماعت کے کسی عہدہ پر فائز ہو سکیں۔ اِس وقت کہ عشاء کے بعد کا وقت ہے میجر عارف الزمان لاہور سے آئے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ میاں منان باقاعدہ مولوی صدر دین سے مل رہے ہیں اور ایک دن تو ملاقات رات کے دو بجے تک رہی اور لاہور کے کسی وکیل فضل علی غنی اور امیر احمد قدوائی سے قانونی مشورے لے رہیں ہیں۔ غالباً یہ امیر احمد قدوائی وہی ہے جس کی آپ نے ایک دفعہ میرے ساتھ دعوت کی تھی کیونکہ وہ بھی وکیل اور قدوائی کہلاتا تھا۔ یہ حالات میری اوپر کی رائے کو اَور بھی پکا کرتے ہیں۔ رجسٹرات اور میاں عبدالمنان کے دستخط ہمارے پاس موجود ہیں۔ شیخ محمد احمد صاحب گو آپ کے پائے کے وکیل تو نہیں مگر بڑے پائے کے وکیل ہیں انہوں نے سب کاغذات دیکھے ہیں اور یہ قطعی رائے دی ہے کہ گو بعض معاملات میں انجمن کے بعض افسروں کی سہل انگاری کی وجہ سے وہ فوجداری مقدمہ سے تو بچ گئے ہیں مگر رجسٹرات میں اُن کے اپنے دستخطوں سے اتنا مواد موجود ہے کہ دنیا کے سامنے اُن کی امانت کو مخدوش کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ بعض واقعات میں کل کے خط میں لکھ چکا ہوں۔ بہرحال میں نے آپ کو اِس لیے وقت پر اطلاع دے دی ہے تا کہ آپ غلطی سے کوئی PROPOSAL بنا کر نہ بھجوا دیں اور پھر اس کے ردّ کرنے کی وجہ سے آپ کی دل شکنی نہ ہو۔ بہرحال سلسلہ کے مفاد اور امانت اور دیانت کو حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد پر مقدم رکھا جائے گا اور صرف اِتنی رعایت اُن کے ساتھ ہو سکتی ہے کہ وہ دلیری کے ساتھ پیغامِ صلح کے افتراء کو ظاہر کریں اور اِسی طرح اپنے دوستوں اور غیر احمدی اخباروں کے افترا کو ۔ تو جماعت سے اخراج میں نرمی کر دی جائے۔ منان میں تو اتنا بھی ایمان نہیں پایا جاتا کہ وہ اجمیری کے اس جھوٹ کی تردید کرتا کہ میں نے کبھی وکلاء کے کمیشن مقرر کرنے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ غلام رسول 35 جو میری خلافت کا پروپیگنڈا کر رہا ہے اس کو میں نے 1950ء، 1951ء میں سلسلہ کے روپے میں سے پچاس روپے دیئے تھے اور اِس طرح کچھ رقم اجمیری کو دی تھی اور اس کے لیے ناصر احمد کی دشمنی کی یہ وجہ ہے کہ ناصر احمد نے یہ ساری بے ضابطگیاں انجمن کے سامنے رکھی تھیں۔
مرزا محمود احمد
1956ء-10-19 ’’
(تاریخِ احمدیت جلد 19 صفحہ 119، 120)
(30)فیض الرحمن صاحب فیضی کے متعلق مشروط معافی کا اعلان
‘‘ ملک فیض الرحمن صاحب فیضی نے اپنے بھائی ملک عبد الرحمن صاحب خادم اور اپنے بہنوئی راجہ علی محمد صاحب کی موجودگی میں اپنے لئے معافی طلب کی اور خادم صاحب نے کہا کہ اِس دفعہ آپ معاف کر دیں، آئندہ ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں پیدا ہو گی۔ اِس پر میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں انہیں مشروط معافی دے دوں گا اور وہ شرطیں یہ ہیں۔
1۔ وہ الفضل میں اپنے اُن رشتہ داروں سے براءت کا اظہار کریں جو مخالفت کر رہے ہیں جیسے ملک عزیز الرحمن اور بشیر رازی ۔
2۔ اِسی طرح اُن دوسرے لوگوں سے جو فتنہ پیدا کر رہے ہیں مگر معافی صرف اِس بات کی ہو گی کہ میں اپنے دل میں ان سے خفگی دور کر دوں گا اور آئندہ ان کو خادم صاحب اپنی والدہ صاحبہ، اپنی بڑی ہمشیرہ صاحبہ اور راجہ علی محمد صاحب سے نیز اپنے خسر اور ساس سے ملنے کی اجازت ہو گی۔ لیکن معافی کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ان ریزولیوشنوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے جو صدر انجمن احمدیہ لاہور، انجمن ربوہ اور دیگر جماعتوں نے پاس کئے ہیں۔ وہ سعد بن عبادہؓ کی طرح اگر ان کوتوفیق ملے احمدیہ مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن اپنے مذکورہ بالا رشتے داروں کے سوا عام احمدیوں سے ان کو میل جول کی اجازت نہیں ہو گی۔ سوائے اِس کے کہ ایک لمبے تجربہ کے بعد ریزولیوشنوں کا کوئی اَور حصہ بھی ان کے متعلق منسوخ کر دیا جائے۔ خادم صاحب نے مجھے کہا کہ شاید فیضی صاحب کے بھائیوں نے کوئی بات کہی ہو گی جس کے متعلق مرزا منظور احمد صاحب سمجھے کہ فیضی صاحب نے کہی ہو گی۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں مرزا منظور احمد صاحب اور طاہر احمد کے بیان کو سچا سمجھتا ہوں۔ اگر خادم صاحب کی اِس بات کو تسلیم کیا جائے کہ اُن کو غلط فہمی ہوئی ہے تو یہ اصول بھی آئندہ کے لئے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کوئی شہادت ایسی ملے جس میں شہادت دہندہ کسی ایک شخص کے متعلق خیال کرتا ہو کہ اُس نے سلسلہ کی ہتک کی ہے تو خادم صاحب کے اوپر کے استدلال کے مطابق خاندان کے دوسرے افراد کے متعلق بھی جو اس مجلس میں شامل ہوں یہ فیصلہ کیا جائے کہ وہ بھی اِس فتنہ میں شامل ہیں کیونکہ غلط فہمی دونوں طرف لگ سکتی ہے۔ کیونکہ جس طرح مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے متعلق یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ فلاں نہیں فلاں نے بات کی ہو گی۔اِ سی طرح یہ غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے کہ جس کے متعلق شبہ ہو کہ اُس نے بات کی ہے اُس نے نہیں باقیوں نے کی ہو گی۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1956ء-10-29 ’’
(الفضل 31 /اکتوبر 1956ء)
(31) چودھری عبداللطیف صاحب کے متعلق مشروط معافی کا اعلان
‘‘آج مؤرخہ 20 نومبر 1956ء برادرم خان بہادر چودھری نعمت خان صاحب اپنے لڑکے چودھری عبداللطیف صاحب کے ساتھ ملنے کے لئے آئے اور فرمایا کہ وہ لڑکا پوری طرح توبہ کرنا چاہتا ہے اسے ملنے کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ میں نے اُن کے سامنے اُن کے بیٹے چودھری عبداللطیف صاحب کو بلا لیا اور خان بہادر صاحب سے کہہ دیا کہ جہاں تک میری دلی رنجش دُور ہونے کا سوال ہے میں چودھری عبداللطیف کو اس شرط پر معاف کرنے کو تیار ہوں کہ آئندہ اس کے مکان واقع نسبت روڈ پر وہ فتنہ پرداز لوگ نہ آئیں جن کا نام اخبار میں چھپ چکا ہے۔ خان بہادر صاحب نے یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہو گا اور چودھری عبد اللطیف نے بھی یقین دلایا کہ میں ذمہ لیتا ہوں کہ وہ آئندہ اس جگہ پر نہیں آئیں گے۔ اور میں نے اس کو کہہ دیا کہ جماعت لاہور اس کی نگرانی کرے گی اور اگر پھر اس نے ان لوگوں سے تعلق رکھا یا اپنے مکان پر آنے دیا جو درحقیقت خان بہادر چودھری نعمت خان صاحب کا مکان ہے تو پھر اس کی معافی کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ اُس نے اِسے تسلیم کیا۔میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ جماعت لاہور کا ریزولیوشن اس کے متعلق اُسی طرح قائم رہے گاجیسا کہ فیض الرحمٰن صاحب فیضی کے متعلق ہے۔ اِن سب باتوں کے بعد اُس نے مجھے یقین دلایا کہ آئندہ وہ نیک چلنی اور صحیح طریقہ اختیار کرے گا۔ نہ سلسلہ کے دشمنوں سے کسی قسم کے تعلقات رکھے گا اور نہ اپنے مکان پر جو کہ درحقیقت اُن کے والد کا مکان ہے اُن کو آنے دے گا۔ اس لئے یہ بات الفضل میں شائع کی جاتی ہے کہ میں نے چودھری عبداللطیف صاحب کو مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ معاف کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کو اپنی توبہ پر قائم رہنے کی توفیق دے کہ اس کے والد نہایت مخلص ہیں اور نہایت تندہی سے سلسلہ کے کاموں میں اپنی پنشن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں اپنی اولاد کی طرف سے ٹھنڈی کرے اور اولاد کو مخلص احمدی بننے کی توفیق دے۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(خلیفۃ المسیح الثانی)
1956ء-11-20 ’’
(الفضل22 نومبر1956ء)
(32) مولوی مصباح الدین صاحب کے متعلق معافی کا اعلان
‘‘ مولوی مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلینڈ سے چند سال ہوئے ایک غلطی ہوئی تھی اور انہوں نے ایک خط میں چند نامناسب الفاظ لکھ دیئے تھے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کرتا ہے اور اب وہ اپنی غلطی پر پشیمانی ظاہر کرتے ہیں اس لئے میں نے ان کو معاف کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے اور ان کی اولادوں کے ایمانوں کو مضبوط کرے۔ چونکہ نظام سلسلہ کے خلاف موجودہ شرارت میں وہ شامل نہیں، گو ایک دفعہ جھوٹے طور پر ایک معاند اخبار نے ان کا نام لکھ دیا تھا اس لئے میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ ان کو معاف نہ کر دوں۔ آئندہ کا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد ہے۔ ان کا ایک بیٹا سخت بیمار ہے اور موجودہ فتنہ کے موقع پر اُس نے ایک دفعہ بہت مومنانہ غیرت کا اظہار کیا تھا۔ دوست اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے شفا دے۔
مرزا محمود احمد
1956ء-11-22 ’’
(الفضل24 نومبر1956ء)
(33)مولوی عبد المنان کے متعلق اخراج از جماعت احمدیہ کا اعلان
‘‘ مولوی عبدالمنان جب امریکہ میں تھے تو اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ کہا تھا کہ خلیفہ ثانی کی وفات کے بعد وہ خلیفہ ہوں گے۔ اور پھر ‘‘پیغام صلح’’ نے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی تائید شروع کر دی تھی۔ جس سے پتا لگتا تھا کہ پیغامیوں کے ساتھ ان کی پارٹی کا جوڑ ہے۔ اور‘‘پیغام صلح’’ نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا کہ گویا میں نے نعوذ باللہ حضرت خلیفہ اول کی ہتک کی ہے۔ میں نے مولوی عبدالمنان کے متعلق کوئی قدم اس لئے نہ اٹھایا کہ وہ باہر ہیں۔ جب وہ واپس آئیں اور ان کو اِن باتوں کی تردید کا موقع ملے۔ تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ جب وہ واپس آئے تو انہوں نے ایک مبہم سا معافی نامہ لکھ کر بھجوا دیا۔ میں نے وہ میاں بشیر احمد صاحب کو دیا کہ وہ اس پر جرح کریں۔ مگر میاں بشیر احمد صاحب کے خطوں کے جواب سے انہوں نے گریز کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد ایک مضمون جو ظاہراً معافی نامہ تھا لیکن اس میں ‘‘پیغام صلح’’ کے اس الزام کی کوئی تردید نہیں تھی کہ خلیفہ ثانی یا جماعت احمدیہ نے حضرت خلیفہ اوّل کی گستاخی کی ہے۔ انہوں نے ‘‘پیغام صلح’’ میں شائع کرایا۔ یہ بیان ایسا تھا کہ جماعت کے بہت سے آدمیوں نے لکھا کہ اس بیان کا ہر فقرہ وہ ہے جس کے نیچے ہر پیغامی دستخط کر سکتا ہے۔ اس لئے اس بیان کو جماعت نے قبول نہ کیا۔
اِس دوران میں چودھری محمد حسین چیمہ ایڈووکیٹ نے ایک مضمون ‘‘پیغام صلح’’ میں لکھا جس میں یہ بھی لکھا گیا کہ مرزا محمود کی خلافت کی مخالفت کرنے والوں کو دلیری اور استقلال سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور ڈرنا نہیں چاہیئے۔ ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم اور ہماری سٹیج ان کی تائید میں ہے۔ مولوی عبدالمنان اور مولوی عبدالوہاب نے اس مضمون کی بھی جو جماعت احمدیہ کی سخت ہتک کرنے والا تھا کوئی تردید نہ کی۔ اس کے بعد مولوی عبدالمنان نے بجائے اس کے کہ تمام ضروری تردیدوں کے ساتھ معافی نامہ میرے پاس بھیجتے ایک بظاہر معافی نامہ لیکن درحقیقت اقرارِ جُرم سلسلہ احمدیہ کے شدید مخالف روزنامہ ‘‘کوہستان’’ میں چھپوا دیا۔ جس کا ہیڈنگ یہ تھا کہ ‘‘قادیانی خلافت سے دستبرداری’’ یہ دوسرے لفظوں میں اقرار تھا اِس بات کا کہ عبدالمنان صاحب ‘‘قادیانی خلافت’’ کے امیدوار ہیں کیونکہ جو شخص امیدوار نہیں وہ دستبردار کس طرح ہو سکتا ہے۔ مگر بہر حال یہ مضمون جیسا بھی تھا میرے پاس نہیں بھیجا گیا بلکہ ‘‘کوہستان’’ میں چھپوایا گیا۔ اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے ایک تدبیر نکالی جا رہی ہے۔ پس میں مولوی عبدالمنان کو اِس وجہ سے کہ وجہِ شکوہ مجھے پیدا ہوئی تھی لیکن انہوں نے اس کے جواب میں ایک ملمع سازی کا مضمون ‘‘کوہستان’’ میں چھپوا دیا جو احمدیت کا دشمن ہے اور میرے پاس صحیح طور پر کوئی معافی نامہ نہیں بھجوایا، پس میں مولوی عبدالمنان کوجو یا تو اپنا مضمون ‘‘پیغام صلح’’ میں چھپواتے ہیں جو جماعتِ مبایعین کا سخت دشمن اخبار ہے یا ‘‘کوہستان’’ میں چھپواتے ہیں جو سلسلہ احمدیہ کا شدید دشمن ہے۔ اور پھر چودھری محمد حسین چیمہ کے شدید دلآزار مضمون کی تردید نہیں کرتے اور اپنی خاموشی سے اُس کی اِس دعوت کو منظور کرتے ہیں کہ شاباش! خلافت ثانیہ کی مخالفت کرتے رہو، ہمارا روپیہ اور ہمارا پلیٹ فارم اور ہماری تنظیم تمہارے ساتھ ہے۔ تم خلافتِ محمودیہ کی مخالفت کرتے رہو اور اس کے پردے چاک کر دو۔ جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں۔ اِسی طرح مذکورہ بالا الزامات کی بناء پر میاں عبدالوہاب کو بھی۔ پس آج سے وہ جماعت احمدیہ کا حصہ نہیں ہیں اور اس سے خارج ہیں۔
مجھے کچھ عرصہ سے برابر جماعت کے خطوط موصول ہو رہے تھے کہ یہ لوگ جب جماعت سے عملاً خارج ہو رہے ہیں تو ان کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا؟ مگر میں پہلے اس لئے رُکا رہا کہ شاید وہ صحیح طور پر معافی مانگ لیں اور الزاموں کا ازالہ کر دیں۔ مگر ان لوگوں نے نہ مجھ سے معافی مانگی نہ ان الزامات کا ازالہ کیا جو ان پر لگائے گئے تھے۔ پس اب میں زیادہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور مولوی عبدالمنان اور میاں عبدالوہاب دونوں کو جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں۔
تمام جماعتیں اِس بات کو نوٹ کر لیں۔ اگر وہ صحیح طور پر براہ راست مجھ سے رجسٹری باخد رسید معافی طلب کریں گے نہ کہ کسی پیغامی یا غیر احمدی اخبار میں مضمون چھپوا کر، تو اِس پر غور کیا جائے گا۔ سر ِدست ان کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے۔ بعض اَور لوگ بھی ان کے ہمنوا ہیں مگر ان کے متعلق مجھے اعلان کرنے کی ضرورت نہیں۔ امور عامہ ان کے متعلق ساری باتوں پر غورکر رہا ہے۔ وہ جب کسی نتیجہ پر پہنچے گا خود اعلان کر دے گا۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفة المسیح الثانی
1956ء-11-27 ’’
(الفضل 29 نومبر 1956ء)
1 سیرت ابن ہشام جلد اوّل صفحہ 675۔ بقیۃ الطریق الی بدر۔ دمشق 2005ء (مفہوماً)
2 تذکرہ صفحہ 109 تا 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
3 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
4 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
5 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004ء
6 لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ(الغاشیۃ:23)
7 الانعام:12
8 یونس:17
9 تذکرہ صفحہ 507 ایڈیشن چہارم 2004ء (دَوْحَۃَ اِسْمَاعِیْل)
10 پیدائش باب 12 آیت 16
11 زٹیل: نکمّا، جو کسی کام نہ آ سکے، گھٹیا (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 11 صفحہ 56 کراچی 1990ء)
12 السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 306۔ مصر 1935ء زیر عنوان غزوۃ بنی المصطلق۔
13 صحیح البخاری کتاب المطاقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔ (مفہوماً)
14 تذکرہ صفحہ 673 ایڈیشن چہارم 2004ء
15 تذکرہ صفحہ 282ایڈیشن چہارم 2004ء میں ‘‘آسمان سے کئی تخت اترے مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا۔’’ کے الفاظ ہیں۔
16 هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ....... (الجمعۃ:3، 4)
17 تذکرہ صفحہ 63 ایڈیشن چہارم 2004ء
18 تذکرہ صفحہ 80 ایڈیشن چہارم 2004ء میں ‘‘……… سچائی ظاہر کر دے گا’’ کے الفاظ ہیں۔
19 صحیح البخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال۔ میں تمام انبیاء کے کانے دجّال سے ڈرانے کا ذکرہے۔
20 درثمین اُردو صفحہ 37 ۔ زیر عنوان ‘‘محمود کی آمین’’۔
21 درثمین اُردو صفحہ 36، 37 ۔ زیر عنوان ‘‘محمود کی آمین’’۔
22 الحجرات :7
23 تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 165 ۔ مطبوعہ بیروت 1987ء
24 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 157۔ بیروت لبنان 2012ء (مفہوماً)
25 اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا (الحجرات:7)
26 کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008ء
27 حضور کی ہدایت کی تعمیل میں ایڈیٹر الفضل کی طرف سے الفضل 22 ستمبر 1956ء صفحہ 8 پر معذرت شائع کی گئی کہ ‘‘ہم تمام متعلقہ اخبارات سے اظہارِ افسوس کرتے ہیں اور خلوصِ دل سے معذرت خواہ ہیں’’۔
28 الشعراء :228






مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے
سالانہ اجتماع 1956ءمیں خطابات




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ


ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے۔ تمہیں اس کی حفاظت کے لئے اپنے اندر ایمانی غیرت پیدا کرنی چاہیئے
افتتاحی خطاب
(فرمودہ 19/اکتوبر 1956ء بمقام ربوہ)

سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی:-
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا١ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ١ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ۖۚ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ١ؕ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۔1
ا س کے بعد فرمایا:-
‘‘ قرآن کریم کی یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اس دَور کے متعلق جو آجکل ہم پر گزر رہا ہے اﷲ تعالیٰ نے ایک ایسی تعلیم دی ہے جو ہماری جماعت کو ہروقت مدّنظر رکھنی چاہئے۔ بے شک ہماری جماعت کے دوستوں نے موجودہ فتنہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اپنے عہدِ وفا داری کو تازہ کیا ہے اور ہر جگہ کی جماعت نے وفاداری کا عہد مجھے بھجوایا ہے مگر قرآن کریم کی اس آیت میں وفاداری کے عہد کے علاوہ کچھ اَور باتیں بھی بیان کی گئی ہیں یا یوں کہو کہ وفاداری کی صحیح تعریف بیان کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خالی منہ سے کہہ دینا کہ مَیں وفادارہوں کافی نہیں بلکہ اس مثبت کے مقابلہ میں ایک منفی کی بھی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ اے مومنو! اگر تمہاری وفاداری کا عہد سچا ہے تو تمہیں جس طرح وفاداری کرنی ہو گی اسی طرح ایک بات نہیں بھی کرنی ہو گی۔ جب تک یہ کرنا اور نہ کرنا دونوں جمع نہ ہو جائیں تم مومن نہیں ہو سکتے۔ کرنا تو یہ ہے کہ تم نے وفادار رہنا ہے لیکن اس کی علامت ایک نہ کرنے والا کام ہے۔ خالی منہ سے کہہ دینا کہ میں وفادار ہوں کوئی چیز نہیں۔ اگر تم واقع میں وفادار ہو تو تمہیں ایک اَور کام بھی کرنا ہو گا یا یوں کہو کہ تمہیں ایک کام سے بچنا پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ تمہارے ہم خیال نہیں وہ تم سے الگ ہیں ان سے تمہیں مخفی تعلق اور دوستی ترک کرنی پڑے گی۔ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا اگر تم ہماری یہ بات نہیں مانو گے تو وہ تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے اور تمہارے وفاداری کے عہد خاک میں مل جائیں گے۔ تمہارا عزم اور تمہارا دعوٰی مٹی میں مل جائے گا اور وہ کچھ بھی نہیں رہے گا جب تک کہ تم ہماری اس ہدایت کو نہیں مانو گے۔ یعنی وہ لوگ جو تم سے الگ ہیں اور تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرتے ہیں تم ان سے قطعی طور پر کسی قسم کی دوستی اور تعلق نہ رکھو۔
ایک شخص جو میرا نام نہاد رشتہ دار کہلاتا ہے وہ یہاں آیا اور ایک منافق کو ملنے گیا۔ جب اس کو ایک افسر سلسلہ نے توجہ دلائی کہ وہ ایک منافق سے ملنے گیا تھا تو اس نے کہا کہ صدرانجمن احمدیہ نے کب حکم دیا تھا کہ اس شخص سے نہ ملا جائے۔ اس افسر نے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کو کس نے حکم دیا تھا کہ پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دیا جائے؟ اگر تمہارے لئے کسی حکم کی ضرورت تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دینے اور اپنا منہ پرے کر لینے کا کس نے حکم دیا تھا؟ جو محرک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دماغ میں پیدا ہوا تھا وہ تمہارے اندر کیوں نہ پیدا ہوا۔ چونکہ اس شخص کے اندر منافقت گھُسی ہوئی تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا کہ یہ کس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شخص لیکھرام کے مقام تک پہنچ گیا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے صرف اتنا کہا ہے کہ لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ یہ نہیں کہا کہ لَاتَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِنْ لیکھرام وَ مِثْلِہٖ کہ تم لیکھرام اور اس جیسے لوگوں سے نہ ملو بلکہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنے عمل سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں چاہے وہ لیکھرام کے مقام تک پہنچے ہوں یا نہ پہنچے ہوں تم ان سے بِطَانَۃً یعنی دوستی اور مخفی تعلق نہ رکھو۔ وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں نے تو اس شخص کے ساتھ دوستی نہیں کی مگر بِطَانَۃً کے معنے صرف دوستی کے نہیں بلکہ مخفی تعلق کے بھی ہیں اور وہ شخص اس منافق سے چوری چھپے ملا تھا۔ اب اس کے قول کے مطابق اس کی اس منافق سے دوستی ہو یا نہ ہو یہ بات تو ظاہر ہو گئی کہ اس نے اس سے مخفی تعلق رکھا۔ پھر جب اسے سمجھایا گیا تو اس نے بہانہ بنایا اور کہا کہ اس منافق کو لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہے۔ اسے یہ خیال نہ آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پنڈت لیکھرام کو سلام کا جواب نہ دیتے وقت جس آیت پر عمل کیا تھا وہ یہی آیت تھی جو میں نے تلاوت کی ہے۔ اس میں لیکھرام یا اس جیسے لوگوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف یہ ذکر ہے کہ ایسے لوگ جو تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو۔
پس یا تو اسے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ جس شخص سے وہ ملا تھا وہ جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کرنے والا نہیں۔ اور اگر اس شخص نے واقع میں جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کیا ہے تو اس کا یہ کہنا کہ اسے لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہےاس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود احمدیت پر ایسا ایمان نہیں رکھتا۔ بہر حال قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے وفاداری کے عہد کی ایک علامت بتائی ہے اور اس علامت کے پورا کئے بغیر وفاداری کے عہد کی کوئی قیمت نہیں۔ تم ان جماعتوں سے آئے ہو جنہوں نے وفاداری کے عہد بھجوائے ہیں لیکن اگر تم اس عہد کے باوجود کسی منافق سے تعلق رکھتے ہو اور اس سے علیحدگی میں ملتے ہو تو وہ ‘‘بِطَانَۃً’’ کے پنجے میں آ جاتا ہے کیونکہ وہ منافق اور اس کی پارٹی کے لوگ جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرتے ہیں۔ اگر تم ان سے مخفی طور پر تعلق رکھتے ہو تو تمہارا عہدِ وفاداری اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتا جتنی حیثیت گدھے کا پاخانہ رکھتا ہے۔گدھے کے پاخانہ کی تو کوئی قیمت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ روڑی کے طور پر کام آ سکتا ہے لیکن تمہارا عہدِ وفاداری خدا تعالیٰ کے نزدیک روڑی کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ اسے قبول نہیں کرے گا۔
پس یاد رکھو کہ ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے اور اس کی حفاظت کے لئے غیرت کی ضرورت ہے۔ جس شخص کے اندر ایمانی غیرت نہیں وہ منہ سے بے شک کہتا رہے کہ میں وفادار ہوں لیکن اس کے اس عہدِ وفاداری کی کوئی قیمت نہیں۔ مثلاً اِس وقت تمہارے اندر ایک شخص بیٹھا ہوا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اس کی منافقت کا پتہ نہیں۔ وہ ہمیشہ مجھے لکھا کرتا ہے کہ آپ مجھ سے کیوں خفا ہیں۔ میں نے تو کوئی قابلِ اعتراض فعل نہیں کیا۔ حالانکہ ہم نے اس کا ایک خط پکڑا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ خلیفہ جماعت کا لاکھوں روپیہ کھا گیا ہے اور لاکھوں روپیہ اس نے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو کھلایا ہے ۔۔۔۔اس نے سمجھا کہ میرے خط کو کون پہچانے گا۔ اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ آجکل ایسی ایجادیں نکل آئی ہیں کہ بغیر نام کے خطوط بھی پہچانے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک ماہر جو یورپ سے تحریر پہچاننے کی بڑی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر کے آیا ہے ہم نے وہ خط اسے بھیج دیا اور چونکہ ہمیں شبہ تھا کہ اس تحریر کا لکھنے والا وہی شخص ہے اس لئے ایک تحریر اسے بغیر بتائے اس سے لکھوالی اور وہ بھی اس خط کے ساتھ بھیج دی۔ اس نے علومِ جدیدہ کے مطابق خط پہچاننے کی پینتیس جگہیں بتائی ہیں جو ماہرین نے بڑا غور کرنے کے بعد نکالی ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ لکھنے والا خواہ کتنی کوشش کرے کہ اس کا خط بدل جائے یہ پینتیس جگہیں نہیں بدلتیں۔ چنانچہ اس نے دونوں تحریروں کو ملا کر دیکھا اور کہا کہ لکھنے والے کی تحریر میں پینتیس کی پینتیس دلیلیں موجود ہیں اس لئے یہ دونوں تحریریں سو فیصدی ایک ہی شخص کی لکھی ہوئی ہیں اور وہ شخص بار بار مجھے لکھتا ہے کہ آپ خواہ مخواہ مجھ سے ناراض ہیں۔ میں نے کیا قصور کیا ہے؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ اس بے وقوف کو کیا پتہ ہے کہ اس کی دونوں تحریریں ہم نے ایک ماہرِفن کو دکھائی ہیں اور ماہرِ فن نے بڑے غور کے بعد جن پینتیس جگہوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کبھی نہیں بدلتیں وہ اس کی تحریر میں نہیں بدلیں وہ شخص غالباً اب بھی یہاں بیٹھا ہو گا اور غالباً کل یا پرسوں مجھے پھر لکھے گا کہ میں تو بڑا وفادار ہوں آپ خواہ مخواہ مجھ پر بدظنی کررہے ہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا حالانکہ اس نے ایک بے نام خط لکھا اور وہ خط جب ماہرِ فن کو دکھایا گیا اور اس کی ایک اور تحریر اس کے ساتھ بھیجی گئی جو اس سے لکھوائی گئی تھی تو اس ماہرِ فن نے کہا کہ یہ دونوں تحریریں اسی شخص کی ہیں۔ پس خالی عہد کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے ساتھ انسان ان باتوں کو بھی مدنظر نہ رکھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ نہ کی جائیں۔
عبد المنان کو ہی دیکھ لو جب وہ امریکہ سے واپس آیا تو میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں مَیں نے وضاحت کر دی کہ اتنے امور ہیں وہ ان کی صفائی کر دے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ وہ یہاں تین ہفتے بیٹھا رہا لیکن اس کو اپنی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی۔ صرف اتنا لکھ دیا کہ میں تو آپ کا وفادار ہوں۔ ہم نے کہا ہم نے تجھ سے وفاداری کا عہد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ہمیں معلوم ہے کہ پیغامی تمہارے باپ کو غاصب کا خطاب دیتے تھے۔ وہ انہیں جماعت کا مال کھانے والا اور حرام خور قرار دیتے تھے تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں ان پیغامیوں کو جانتا ہوں یہ میرے باپ کو گالیاں دیتے تھے یہ آپ کو غاصب اور منافق کہتے تھے۔ میں ان کو قطعی اور یقینی طور پر باطل پر سمجھتا ہوں۔ مگر اس بات کا اعلان کرنے کی اسے توفیق نہ ملی۔ پھر اس نے لکھا کہ میں تو خلافتِ حقہ کا قائل ہوں۔ اسے یہ جواب دیا گیا کہ اس کے تو پیغامی بھی قائل ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم خلافتِ حقہ کے قائل ہیں لیکن ان کے نزدیک خلافتِ حقہ اُس نبی کے بعد ہوتی ہے جو بادشاہ بھی ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بادشاہ بھی تھے اس لئے ان کے نزدیک آپ کے بعد خلافتِ حقہ جاری ہوئی اور حضرت ابوبکرؓ ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ خلیفہ ہوئے لیکن مرزا صاحب چونکہ بادشاہ نہیں تھے اس لئے آپ کے بعد وہ خلافت تسلیم نہیں کرتے۔ پس یہ بات تو پیغامی بھی کہتے ہیں کہ وہ خلافتِ حقہ کے قائل ہیں۔ تم اگر واقعی جماعت احمدیہ میں خلافتِ حقہ کے قائل ہو تو پھر یہ کیوں نہیں لکھتے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بعد خلافت کو تسلیم کرتا ہوں اور جو آپ کے بعد خلافت کے قائل نہیں انہیں *** سمجھتا ہوں۔ پھر تم یہ کیوں نہیں لکھتے کہ خلافتِ حقہ صرف اسی نبی کے بعد نہیں ہے جسے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی مل جائے بلکہ اگر کوئی نبی غیربادشاہ ہو تب بھی اس کے بعد خلافتِ حقہ قائم ہوتی ہے۔ تمہارا صرف یہ لکھنا کہ میں خلافتِ حقہ کا قائل ہوں ہمارے مطالبہ کو پورا نہیں کرتا ممکن ہے۔ تمہاری مراد خلافتِ حقہ سے یہ ہو کہ جب میں خلیفہ بنوں گا تو میری خلافت خلافتِ حقہ ہو گی۔ یا خلافتِ حقہ سے تمہاری یہ مراد ہو کہ میں تو اپنے باپ حضرت خلیفة المسیح الاول کی خلافت کا قائل ہوں۔ یا تمہاری یہ مراد ہو کہ میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا قائل ہوں۔ بہر حال عبد المنان کو امریکہ سے واپس آنے کے بعد تین ہفتہ تک ان امور کی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی اس کی وجہ یہی تھی کہ اگر وہ لکھ دیتا کہ پیغامی لوگ میرے باپ کو غاصب، منافق اور جماعت کا مال کھانے والے کہتے رہے ہیں، میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں تو پیغامی اس سےناراض ہو جاتے۔ اور اس نے یہ امیدیں لگائی ہوئی تھیں کہ وہ ان کی مدد سے خلیفہ بن جائے گا۔ اور اگر وہ لکھ دیتا کہ جن لوگوں نے خلافت ثانیہ کا انکار کیا ہے میں انہیں *** سمجھتا ہوں تو اس کے وہ دوست جو اس کی خلافت کا پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں اس سے قطع تعلق کر جاتے۔ اور وہ ان سے قطع تعلقی پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے ایسا جواب دیا جسے پیغام صلح نے بڑے شوق سے شائع کر دیا۔ اگر وہ بیان خلافت ثانیہ کی تائید میں ہوتا تو پیغام صلح اسے کیوں شائع کرتا۔ اس نے بھلا گزشتہ 42 سال میں کبھی میری تائید کی ہے؟ انہوں نے سمجھا کہ اس نے جو مضمون لکھا ہے وہ ہمارے ہی خیالات کا آئینہ دار ہے اس لئے اسے شائع کرنے میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ جماعت کے بڑے لوگ جو سمجھدار ہیں وہ تو الگ رہے مجھے کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے لکھا کہ پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے لیکن ایک دن مَیں مسجد میں بیٹھا ہؤا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ پیغامِ صلح میں میاں عبدالمنان کا کوئی پیغام چھپا ہے تو میں نے ایک دوست سے کہا۔ میاں! ذرا ایک پرچہ لانا۔ چنانچہ وہ ایک پرچہ لے آیا۔ میں نے وہ بیان پڑھا اور اسے پڑھتے ہی کہا کہ کوئی پیغامی ایسا نہیں جو یہ بات نہ کہدے۔ یہ تردید تو نہیں اور نہ ہی میاں عبدالمنان نے یہ بیان شائع کر کے اپنی بریت کی ہے۔ اس پر ہر ایک پیغامی دستخط کر سکتا ہے کیونکہ اس کا ہر فقرہ پیچ دار طور پر لکھا ہؤا ہے اور اسے پڑھ کر ہر پیغامی اور خلافت کا مخالف یہ کہے گا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔
غرض قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا۔ اے مومنو! جو لوگ تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں تم ان سے خفیہ میل جول نہ رکھو۔ اب دیکھو یہاں دوستی کا ذکر نہیں بلکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے بِطَانَة نہ رکھو اور بِطَانَة کے معنے محض تعلق ہوتے ہیں۔اب اگر کوئی ان لوگوں کو گھر میں چھُپ کر مِل لے اور بعد میں کہدے کہ آپ نے یا صدر انجمن احمدیہ نے کب منع کیا تھا کہ انہیں نہیں ملنا تو یہ درست نہیں ہو گا۔ ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے اندر بھی تو غیرت رکھی ہے پھر ہمارے منع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں خود اپنی غیرت کا اظہار کرنا چاہئے۔ اگر تم ہمارے منع کرنے کا انتظار کرتے ہو تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تمہیں خود قرآن کریم پر عمل کرنے کا احساس نہیں۔
دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب لیکھرام نے سلام کیا تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دینے سے کب منع فرمایا ہے بلکہ آپ نے سمجھا کہ بے شک اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن خداتعالیٰ نے لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا تو فرما دیا ہے کہ تم ایسے لوگوں سے تعلق نہ رکھو جو تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پس گو اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن اس کی صفات تو بیان کر دی گئی ہیں۔ انہی صفات سے میں نے اسے پہچان لیا ہے۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدت را مے شناسم2
کہ اے شخص! تُو چاہے کس رنگ کا کپڑا پہن کر آ جائے میں کسی دھوکا میں نہیں آؤں گا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں۔ حضرت مرزا صاحب نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اے لیکھرام! تُو چاہے کوئی شکل بنا کر آ جائے۔ قرآن کریم نے تیری صفت بیان کر دی ہے اس لئے میں تجھے تیری صفت سے پہچانتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا کہ تمہارے دشمن وہ ہیں جو قوم میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لیے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق میں نے تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نوجوان ہو اور آئندہ سلسلہ کا بوجھ تم پر پڑنے والا ہے تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہر چیز کی بعض علامتیں ہوتی ہیں اسلئے خالی منہ سے ایک لفظ دُہرا دینا کافی نہیں بلکہ ان علامات کو دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہی عجیب نکتہ بیان فرما دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتاکہ ایک شخص ساری رات بیوی سے محبت کا اظہار کرتا ہے مگر دن چڑھے تو اس سے لڑنے لگ جاتا ہے3۔ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ اگر میاں کو اپنی بیوی سے واقعی محبت ہے تو وہ دن کے وقت اس سے کیوں محبت نہیں کرتا۔ اسی طرح جو شخص کسی جلسہ میں وفاداری کا اعلان کر دیتا ہے اور مخفی طور پر ان لوگوں سے ملتا ہے جو جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی وفاداری نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ جو لوگ تمہارے ہم مذہب نہیں ان سے کوئی تعلق نہ رکھو غیر مذاہب والوں سے تعلق رکھنا منع نہیں ۔
حضرت ابن عباسؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ جب بازار سے گزرتے تو یہودیوں کو بھی سلام کرتے۔ اس لئے یہاں مِّنْ دُوْنِكُمْ کی یہ تشریح کی گئی ہے کہ تم ان لوگوں سے الگ رہو جو لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاکے مصداق ہیں یعنی وہ تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی غیرمذاہب والا تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا نہیں کرنا چاہتا تو وہ شخص مِّنْ دُوْنِكُمْ میں شامل نہیں۔ اگر تم اس سے مل لیتے ہو یا دوستانہ تعلق رکھتے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسا شخص جو تمہاری جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرنا چاہتا ہے اس سے تعلق رکھنا خدا تعالیٰ نے ممنوع قرار دیا ہے۔
پھر آگے فرماتا ہے تم کہہ سکتے ہو کہ اس کی کیا دلیل ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْکچھ باتیں ان کے منہ سے نکل چکی ہیں۔ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُان پر قیاس کر کے دیکھ لو کہ جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کیا ہے۔ کہتے ہیں ایک چاول دیکھ کر ساری دیگ پہچانی جا سکتی ہے اسی طرح یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک منافق نے بقول اپنے بھائی کے کہا کہ خلیفہ اب بڈھا اور پاگل ہو گیا ہے اب انہیں دو تین معاون دے دینے چاہئیں۔ اور ہمیں جوشہادت ملی ہے اس کے مطابق اس نے کہا کہ اب خلیفہ کو معزول کر دینا چاہئے۔ اس فقرہ سے ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بغض کا ایک سمندر موجزن تھا۔ جس شخص کا اپنا باپ جب اُس نے بیعت کی تھی اس عمر سے زیادہ تھا جس عمر کو میں 42 سال کی خدمت کے بعد پہنچا ہوں۔ وہ اگر کہتا ہے کہ خلیفہ بڈھا ہو گیا ہے اسے اب معزول کر دینا چاہئے تو یہ شدید بغض کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے ورنہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نہ نکلتا۔ شدید بغض انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اگر اس میں ذرا بھی عقل ہوتی تو وہ سمجھ سکتا تھا کہ میں یہ فقرہ منہ سے نکال کر اپنے باپ کو گالی دے رہا ہوں۔ جیسے انسان بعض اوقات غصہ میں آکر یا پاگل پن کی وجہ سے اپنے بیٹے کو حرام زادہ کہہ دیتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ یہ لفظ کہہ کر اپنی بیوی کو اور اپنے آپ کو گالی دے رہا ہے۔ اسی طرح اس نوجوان کی عقل ماری گئی اور اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر حملہ ہوتا تھا۔ دنیا میں کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کو گالی نہیں دیتا۔ ہاں بغض اور غصہ کی وجہ سے ایسا کر لیتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ اپنے باپ کو گالی دے رہا ہے۔ اس نوجوان کی مجھ سے کوئی لڑائی نہیں تھی اور نہ ہی میں اس کے سامنے موجود تھا کہ وہ غصّہ میں آکر یہ بات کہہ دیتا۔ ہاں اس کے دل میں بغض اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس کی وجہ سے اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر بھی حملہ ہوتا تھا۔ قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْکہ ان کے منہ سے بُغض کی بعض باتیں نکلی ہیں ان سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُجو کچھ ان کے سینوں میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کوشش کرتا ہے کہ اس کے دل کے بغض کا علم کسی اور کو نہ ہو۔ اس لئے جو کچھ اس کے دل میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے جو ظاہر ہو چکا ہے۔
غرض خداتعالیٰ نے اس آیت میں جماعتی نظام کی مضبوطی کے لئے ایک اہم نصیحت بیان فرمائی ہے تمہیں یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنے طریق کو بدلنا چاہئے ورنہ احمدیت آئندہ تمہارے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہو سکتی۔ تم ایک بہادر سپاہی کی طرح بنو۔ایسا سپاہی جو اپنی جان، اپنا مال، اپنی عزت اور اپنے خون کا ہر قطرہ احمدیت اور خلافت کی خاطر قربان کر دے اور کبھی بھی خلافتِ احمدیہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے دے جو پیغامیوں یا احراریوں وغیرہ کے زیر اثر ہوں۔ جس طرح خداتعالیٰ نے بائیبل میں کہا تھا کہ سانپ کا سر ہمیشہ کُچلا جائے گا اسی طرح تمہیں بھی اپنی ساری عمر فتنہ وفساد کے سانپ کے سر پر ایڑی رکھنی ہو گی اور دنیا کے کسی گوشہ میں بھی اسے پنپنے کی اجازت نہیں دینی ہو گی۔ اگر تم ایسا کرو گے تو قرآن کریم کہتا ہے خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور خدا تعالیٰ سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں۔ دیکھو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد جماعت کو کس قدر مدد دی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصوٰۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالانہ ہؤا اس میں چھ سات سو آدمی تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے عہد خلافت کے آخری جلسہ سالانہ پر گیارہ بارہ سو احمدی آئے تھے۔ لیکن اب ہمارے معمولی جلسوں پر بھی دو، اڑھائی ہزار احمدی آ جاتے ہیں اور جلسہ سالانہ پر تو ساٹھ ستّر ہزار لوگ آتے ہیں۔اس سے تم اندازہ کر لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی طاقت دی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں لنگر خانہ پر پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ آجاتا تو آپ کو فکر پڑ جاتی اور فرماتے۔ لنگر خانہ کا خرچ اس قدر بڑھ گیا ہے اب اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا۔ گویا جس شخص نے جماعت کی بنیاد رکھی تھی وہ کسی زمانہ میں پندرہ سو ماہوار کے اخراجات پر گھبراتا تھا۔لیکن اب تمہارا صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ بارہ تیرہ لاکھ کا ہوتا ہے اور صرف ضیافت پر پینتیس چھتیس ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو جاتا ہے۔ پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ کے معنے یہ ہیں کہ سال میں صرف اٹھارہ ہزار روپیہ خرچ ہوتا تھا لیکن اب صرف جامعۃ المبشرین اور طلباء کے وظائف وغیرہ کے سالانہ اخراجات چھیاسٹھ ہزار روپے ہوتے ہیں۔ گویا ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ماہوار۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں۔ وہ مامور من اللہ تھے اور اس لئے آئے تھے کہ دنیا کو ہدایت کی طرف لائیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا کے کونہ کونہ میں قائم کریں اور مسلمانوں کی غفلتوں اور سُستیوں کو دور کر کے انہیں اسلامی رنگ میں رنگین کریں۔ لیکن ان کی زندگی میں جماعتی اخراجات پندرہ سو روپیہ پر پہنچتے ہیں تو گھبرا جاتے ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ یہ اخراجات کہاں سے مہیا ہوں گے۔ لیکن اِس وقت ہم جو آپکی جوتیاں جھاڑنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں صرف ایک درسگاہ یعنی جامعۃ المبشرین پر ساڑھے پانچ ہزار روپے ماہوار خرچ کر رہے ہیں۔ اسی طرح مرکزی دفاتر اور بیرونی مشنوں کو ملا لیا جائے تو ماہوار خرچ ستّر اسّی ہزار روپیہ بن جاتا ہے۔ گویا آپ کے زمانہ میں جو خرچ پانچ سات سال میں ہوتا تھا وہ ہم ایک سال میں کرتے ہیں اور پھر بڑی آسانی سے کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ تبلیغِ اسلام کا وہ کام جو اس وقت دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں کر رہی صرف جماعت احمدیہ کر رہی ہے ۔
مصر کا ایک اخبار الفتح ہے۔ وہ ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے مگر اس نے ایک دفعہ لکھا کہ جماعتِ احمدیہ کو بے شک ہم اسلام کا دشمن خیال کرتے ہیں لیکن اِس وقت وہ تبلیغِ اسلام کا جو کام کر رہی ہے گزشتہ تیرہ سو سال میں وہ کام بڑے بڑے اسلامی بادشاہوں کو بھی کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ جماعت کا یہ کارنامہ محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اور تمہارے ایمانوں کی وجہ سے ہے۔ آپ کی پیشگوئیاں تھیں اور تمہارا ایمان تھا۔ جب یہ دونوں مل گئے تو خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہونی شروع ہوئیں اور جماعت نے وہ کام کیا جس کی توفیق مخالف ترین اخبار الفتح کے قول کے مطابق کسی بڑے سے بڑے اسلامی بادشاہ کو بھی آج تک نہیں مل سکی۔ اب تم روزانہ پڑھتے ہو کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم اور بھی ترقی کرو گے اور اُس وقت تمہارا چندہ بیس پچیس لاکھ سالانہ نہیں ہو گا بلکہ کروڑ، دو کروڑ، پانچ کروڑ، دس کروڑ، بیس کروڑ، پچاس کروڑ، ارب، کھرب، پدم بلکہ اس سے بھی بڑھ جائے گا۔ اور پھر تم دنیا کے چَپّہ چَپّہ میں اپنے مبلغ رکھ سکو گے۔ انفرادی لحاظ سے تُم اُس وقت بھی غریب ہو گے لیکن اپنے فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے ایک قوم ہونے کے لحاظ سے تم امریکہ سے بھی زیادہ مالدار ہو گے۔ دنیا میں ہر جگہ تمہارے مبلغ ہوں گے۔ اور جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اتنے افسر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کے بھی نہیں ہونگے۔ امریکہ کی فوج کے بھی اتنے افسر نہیں ہوں گے جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اور یہ محض تمہارے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ہو گا۔
اگر تم اپنے ایمان کو قائم رکھو گے تو تم اُس دن کو دیکھ لو گے۔ تمہارےباپ دادوں نے وہ دن دیکھا جب 1914ء میں پیغامیوں نے ہماری مخالفت کی۔ جب میں خلیفہ ہؤا تو خزانہ میں صرف 17 روپے تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ اب قادیان تباہ ہو جائے گا لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت دی کہ اب ہم اپنے کسی طالب علم کو سترہ روپے ماہوار وظیفہ بھی دیتے ہیں تو وہ وظیفہ کم ہونے کی شکایت کرتا ہے۔
پیغامیوں کے خلاف پہلا اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس روپیہ نہیں تھا۔ میر ناصر نواب صاحب جو ہمارے نانا تھے انہیں پتہ لگا۔ وہ دارالضعفاء کے لئے چندہ جمع کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس اس چندہ کا کچھ روپیہ تھا۔ وہ دو اڑھائی سو روپیہ میرے پاس لے آئے اور کہنے لگے اس سے اشتہار چھاپ لیں پھر خدا دے گا تو یہ رقم واپس کر دیں۔ پھر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور آمد آنی شروع ہوئی۔ اور اب یہ حالت ہے کہ پچھلے بیس سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ چندہ میں نے دیا ہے۔ کجا یہ کہ ایک اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس دو اڑھائی سو روپیہ بھی نہیں تھا اور کجا یہ کہ خدا تعالیٰ نے میری اِس قسم کی امداد کی اور زمیندارہ میں اس قدر برکت دی کہ میں نے لاکھوں روپیہ بطور چندہ جماعت کو دیا۔
پھر مجھے یاد ہے کہ جب ہم نے پہلا پارہ شائع کرنا چاہا تو میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ ہمارے خاندان کے افراد اپنے روپیہ سے اسے شائع کر دیں لیکن روپیہ پاس نہیں تھا۔ اُس وقت تک ہماری زمینداری کا کوئی انتظام نہیں تھا۔میں نے اپنے مختار کو بلایا اور کہا ہم قرآن کریم چھپوانا چاہتے ہیں لیکن روپیہ پاس نہیں۔ وہ کہنے لگا آپ کو کس قدر روپے کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا کہتے ہیں کہ پہلی جلد تین ہزار روپے میں چھپے گی۔ اس نے کہا میں روپیہ لا دیتا ہوں آپ صرف اس قدر اجازت دے دیں کہ میں کچھ زمین مکانوں کے لئے فروخت کر دوں۔ میں نے کہا اجازت ہے۔ ظہر کی نماز کے بعد میں نے اس سے بات کی اور عصر کی اذان ہوئی تو اس نے ایک پوٹلی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور کہا یہ لیں روپیہ۔ میں نے کہا۔ ہیں! قادیان والوں کے ہاں اتنا روپیہ ہے۔ وہ کہنے لگا اگر آپ تیس ہزار روپیہ بھی چاہیں تو میں آپ کو لا دیتا ہوں۔ لوگ مکانات بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس زمین نہیں اگر انہیں زمین دے دی جائے تو روپیہ حاصل کرنا مشکل نہیں۔ میں نے کہا خیر اِس وقت ہمیں اسی قدر روپیہ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اُس وقت ہم نے قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کر دیا۔
پھر میں نے الفضل جاری کیا تو اس وقت بھی میرے پاس روپیہ نہیں تھا۔ حکیم محمد عمر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں آپ کو کچھ خریدار لا کر دیتا ہوں۔ اور تھوڑی دیر میں وہ ایک پوٹلی روپوں کی میرے پاس لے آئے۔ غرض ہم نے پیسوں سے کام شروع کیا اور آج ہمارا لاکھوں کا بجٹ ہے اور ہماری انجمن کی جائیداد کروڑوں کی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میں خود گزشتہ بیس سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ چندہ دے چکا ہوں ۔ اسی طرح ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ میں نے صدرانجمن احمدیہ کو دیا ہے اور اتنی ہی جائیداد اسےدی ہے۔ گویا تین لاکھ روپیہ صدرانجمن احمدیہ کو دیا ہے اور تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ تحریک جدید کو دیا ہے اس لئے جب کوئی شخص اعتراض کرتا ہے کہ میں نے جماعت کا روپیہ کھا لیا ہے تو مجھے غصّہ نہیں آتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حسابی بات ہے جب انجمن کے رجسٹر سامنے آجائیں گے تو یہ شخص آپ ہی ذلیل ہو جائے گا۔
بہر حال اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ سب کو اپنی ذمّہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ ان کو یاد رکھو اور اپنی جگہوں پر واپس جا کر اپنے بھائیوں اور دوستوں کو بھی سمجھاؤ کہ زبانی طور پر وفاداری کا عہد کرنے کے کوئی معنی نہیں۔ اگر تم واقعی وفادار ہو تو تمہیں منافقوں کا مقابلہ کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہئے۔ کیونکہ انہوں نے لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاوالی بات پوری کر دی ہے اور وہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم کی ہدایت یہی ہے کہ ان سے مخفی طور پر اور الگ ہو کر بات نہ کی جائے اور اس پر تمہیں عمل کرنا چاہئے تا کہ تم شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جاؤ۔ ورنہ تم جانتے ہو کہ شیطان حضرت حوّا کی معرفت جنّت میں گھس گیا تھا اور جو شیطان حضرت حوّا کی معرفت جنت میں گھس گیا تھا وہ جماعت احمدیہ میں کیوں نہیں گھس سکتا۔ ہاں اگر تم کو حضرت آدم والا قصّہ یاد رہے تو تم اس سے بچ سکتے ہو۔ بائبل کھول کر پڑھو تمہیں معلوم ہو گا کہ شیطان نے دوست اور خیر خواہ بن کر ہی حضرت آدمؑ اور حوّا کو ورغلایا تھا۔ اِسی طرح یہ لوگ بھی دوست اور ظاہر میں خیر خواہ بن کر تمہیں خراب کر سکتے ہیں لیکن اگر تم قرآنی ہدایت پر عمل کرو تو تم محفوظ ہو جاؤ گے اور شیطان خواہ کسی بھیس میں بھی آئے تم اس کے قبضہ میں نہیں آؤ گے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو ہمیشہ خلافت کا خدمت گزار رکھے اور تمہارے ذریعہ احمدیہ خلافت قیامت تک محفوظ چلی جائے۔ اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہوتی رہے۔ اور تم اور تمہاری نسلیں قیامت تک اس کا جھنڈا اونچا رکھیں۔ اور کبھی بھی وہ وقت نہ آئے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں تمہارا یا تمہاری نسلوں کا حصہ نہ ہو۔ بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارا اور تمہاری نسلوں کا اس میں حصہ ہو۔ اور جس طرح پہلے زمانہ میں خلافت کے دشمن ناکام ہوتے چلے آئے ہیں تم بھی جلدہی سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ان کو ناکام ہوتا دیکھ لو ۔’’
اس کے بعد حضور نے عہد دہرایا اور دعا کروائی۔ دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے ارشار فرمایا کہ :۔
‘‘واپس جانے سے پہلے میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے میں نے جماعت کے فتنہ پردازوں کا ذکر کیا ہے لیکن اس موقع کے زیادہ مناسبِ حال آج کا خطبہ جمعہ تھا جس میں مَیں نے خدمتِ خلق پر زور دیا ہے۔ خدام الاحمدیہ نے پچھلے دنوں ایسا شاندار کام کیا تھا کہ بڑے بڑے مخالفوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کی یہ خدمت بے نظیر ہے۔ تم اس خدمت کو جاری رکھو اور اپنی نیک شہرت کو مدہم نہ ہونے دو۔ جب بھی ملک اور قوم پر کوئی مصیبت آئے سب سے آگے خدمت کرنے والے خدام الاحمدیہ کو ہونا چاہئے۔ یہاں تک کہ سلسلہ کا شدید سے شدید دشمن بھی یہ مان لے کہ درحقیقت یہی لوگ ملک کے سچّے خادم ہیں، یہی لوگ غریبوں کے ہمدرد ہیں، یہی لوگ مسکینوں اور بیواؤں کے کام آنے والے ہیں۔ یہی لوگ مصیبت زدوں کی مصیبت کو دور کرنے والے ہیں۔ تم اتنی خدمت کرو کہ شدید سے شدید دشمن بھی تمہارا گہرا دوست بن جائے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا سلوک کرو کہ تمہارا دشمن بھی دوست بن جائے۔ یہی خدام الاحمدیہ کو کرنا چاہئے۔ اگر تمہارے کاموں کی وجہ سے تمہارے علاقہ کے لوگ تمہارے بھی اورتمہارے احمدی بھائیوں کے بھی دوست بن گئے ہیں، تمہارے کاموں کی قدر کرنے لگ گئے ہیں اور تم کو اپنا سچا خادم سمجھتے ہیں اور اپنا مددگار سمجھتے ہیں تو تم سچے خادم ہو۔ اور اگر تم یہ روح پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو تمہیں ہمیشہ استغفار کرنا چاہئے کہ تمہارے کاموں میں کوئی کمی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے تم لوگوں کے دلوں میں اثر پیدا نہیں کر سکے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اورآپ کی مدد کرے۔’’
(الفضل 24؍ اپریل 1957ء)


خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں جماعت احمدیہ کو
خلافت کی برکات سے نوازا ہے
اختتامی خطاب
(فرمودہ 21/اکتوبر 1956ء برموقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ مقام ربوہ)

تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''اس دفعہ مختلف وجوہات کی بناء پر جماعت احمدیہ کی مختلف مرکزی انجمنوں نے قریب قریب عرصہ میں اپنے سالانہ اجتماع منعقد کئے ہیں جس کی وجہ سے مجھ پر زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے تین چار سال پہلے جلسہ سالانہ پر میں آپ کی تقاریر سنتا رہا ہوں آپ کی وفات کے وقت میری عمر19سال کی تھی اور اس سے چارپانچ سال قبل میری عمر قریباً14سال کی تھی اس لئے میں آپ کی مجالس میں جاتا اور تقاریر سنتا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر عام طور پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ کی ہوتی تھی اور وفات سے پانچ سال پہلے آپ کی عمر قریباً اتنی ہی تھی جتنی اِس وقت میری ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی مشیّت کے ماتحت مجھ پر ایک خطرناک بیماری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے میں اب لمبی تقاریر نہیں کرسکتا۔ پہلے میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقاریر کرلیتا تھا مگر اس بیماری کے اثر کی وجہ سے مجھے جلدی ضعف محسوس ہونے لگتا ہے۔آج لجنہ اماء اللہ کا اجتماع بھی تھا وہاں بھی میں نے تقریر کی۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ کئی سال سے آپ کی عورتوں میں کوئی تقریر نہیں ہوئی اس لئے آپ اس موقع پر عورتوں میں بھی تقریر کریں۔ چنانچہ میں نے تقریر کرنی منظور کرلی اور صبح وہاں میری تقریر تھی۔اس وقت تمہاری باری آگئی ہے۔چار پانچ دن کے بعد انصار اللہ کی باری آجائے گی پھر جلسہ سالانہ آجائے گا۔اُس موقع پر بھی مجھے تقاریر کرنی ہوں گی۔ پھر ان کاموں کے علاوہ تفسیرکا اہم کام بھی ہے جو میں کر رہا ہوں۔اس کی وجہ سے نہ صرف مجھے کوفت محسوس ہورہی ہے بلکہ طبیعت پر بڑا بوجھ محسوس ہورہا ہے۔اس لئے اگرچہ میری خواہش تھی کہ اس موقع پر میں لمبی تقریر کروں مگر میں زیادہ لمبی تقریر نہیں کرسکتا۔اب پیشتر اِس کے کہ میں اپنی تقریرشروع کروں آپ سب کھڑے ہوجائیں تاکہ عہد دہرایا جائے۔’’
حضور کے اس ارشاد پر تمام خدام کھڑے ہوگئے اور حضور نے عہد دُہرایا۔ عہد دہرانے کے بعد حضور نے فرمایا:
‘‘ آج میں قرآن کریم کی ایک آیت کے متعلق کچھ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا چاہتا تھا مگر اِس وقت میں محسوس کرتا ہو کہ میں اس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرسکتا کیونکہ کل میں نے خطبہ جمعہ بھی پڑھا اور پھر آپ کے اجتماع میں بھی تقریر کی ۔اسی طرح آج صبح لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں بھی مجھے تقریر کرنی پڑی جس کی وجہ سے مجھے اس وقت کوفت محسوس ہورہی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ4 یعنی ہم تم میں سے مومن اور ایمان بِالخلافت رکھنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو ہم ضرور اُسی طرح خلیفہ بنائیں گے جس طرح کہ پہلی قوموں یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بنائے ہیں۔ اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ خلافت ایک عہد ہے پیشگوئی نہیں، اور عہد مشروط ہوتا ہے لیکن پیشگوئی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مشروط ہو۔پیشگوئی مشروط ہو تو وہ مشروط رہتی ہے اور اگر مشروط نہ ہو لیکن اس میں کسی انعام کا وعدہ ہو تو وہ ضرور پوری ہوجاتی ہے۔یہاں وعدہ کا لفظ بھی موجود ہے اوراس کے ساتھ شرط بھی مذکور ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم نے خود اس وعدہ کی تشریح کردی ہے کہ ہمارا یہ وعدہ کہ ہم تم میں سے مومنوں اور اعمالِ صالحہ بجالانے والوں کو اسی طرح خلیفہ بنائیں گے جیسے ہم نے ان سے پہلے یہود و نصاریٰ میں خلیفہ بنائے ضروری نہیں کہ پورا ہو۔ہاں اگر تم بعض باتوں پر عمل کروگے تو ہمارا یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔پہلی شرط اس کی یہ بیان فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ تمہیں خلافت پر ایمان رکھنا ہوگا۔ چونکہ آگے خلافت کا ذکر آتا ہے اس لئے یہاں ایمان کاتعلق اس سے سمجھا جائے گا۔وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ پھر تمہیں نیک اعمال بجا لانے ہوں گے۔اب کسی چیز پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ مثلاً کسی شخص کو اس بات پر ایمان ہو کہ میں بادشاہ بننے والا ہوں یا اسے ایمان ہو کہ میں کسی بڑے عہدہ پر پہنچنے والا ہوں تو وہ اس کے لئے مناسب کوشش بھی کرتا ہے۔ اگرایک طالب علم یہ سمجھے کہ وہ ایم۔اے کا امتحان پاس کرے تو اس کے لئے موقع ہے کہ وہ سی۔پی۔ایس پاس کرے یا پراونشل سروس میں ای۔اے۔سی بن جائے یا اسسٹنٹ کمشنر بن جائے توپھر وہ ا سکے مطابق محنت بھی کرتا ہے۔ لیکن اگر اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ان عہدوں کے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تو وہ ان کے لئے کوشش اور محنت بھی نہیں کرتا۔اِسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو اس بات پر یقین ہو کہ وہ خلافت کے ذریعہ ہی ترقی کرسکتے ہیں اور پھر وہ اس کی شان کے مطابق کام بھی کریں تو ہمارا وعدہ ہے کہ ہم انہیں خلیفہ بنائیں گے۔ لیکن اگر انہیں یقین نہ ہو کہ ان کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ اس کے مطابق عمل بھی نہ کرتے ہوں تو ہمارا ان سے کوئی وعدہ نہیں۔ چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓخلیفہ ہوئے۔اُس وقت انصار نے چاہا کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور بعض اور صحابہؓ فوراً اُس جگہ تشریف لے گئے جہاں انصارؓجمع تھے اور آپ نے انہیں بتایا کہ دیکھو!دو خلیفوں والی بات غلط ہے، تفرقہ سے اسلام ترقی نہیں کرے گا۔خلیفہ بہرحال ایک ہی ہوگا۔ اگر تم تفرقہ کروگے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا، تمہاری عزتیں ختم ہوجائیں گی اور عرب تمہیں تِکّا بوٹی کر ڈالیں گے تم یہ بات نہ کرو۔ بعض انصار نے آپ کے مقابل پر دلائل پیش کرنے شروع کئے۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں نے خیال کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کو تو بولنا نہیں آتا میں انصار کے سامنے تقریر کرو گا۔لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کی تو آپ نے وہ سارے دلائل بیان کردئیے جو میرے ذہن میں تھے اور پھر اس سے بھی زیادہ دلائل بیان کئے ۔میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ بڈھا مجھ سے بڑھ گیا ہے آخر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ خود انصار میں سے بعض لوگ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا حضرت ابوبکرؓ جو کچھ فرمارہے ہیں وہ ٹھیک ہے مکہ والوں کے سوا عرب کسی اَو رکی اطاعت نہیں کریں گے۔پھر ایک انصاری نے جذباتی طور پر کہا اے میری قوم!ا للہ تعالیٰ نے اس ملک میں اپنا ایک رسول مبعوث فرمایا، اس کے اپنے رشتہ داروں نے اسے شہر سے نکال دیا تو ہم نے اُسے اپنے گھروں میں جگہ دی اور خداتعالیٰ نے اس کے طفیل ہمیں عزت دی۔ ہم مدینہ والے گمنام تھے، ذلیل تھے مگر اس رسول کی وجہ سے ہم معزز اور مشہور ہوگئے۔ اب تم اس چیز کو جس نے ہمیں معزز بنایا کافی سمجھو اور زیادہ لالچ نہ کرو ایسانہ ہو کہ ہمیں اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ دیکھو! خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں۔آپ نے فرمایا یہ ابوعبیدہؓ ہیں ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامت کا خطاب عطا فرمایا ہے تم ان کی بیعت کرلو۔ پھر عمرؓ ہیں یہ اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار ہیں تم ان کی بیعت کرلو۔حضرت عمرؓ نے فرمایا ابوبکرؓ! اب باتیں ختم کیجئے ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیت لیجئے۔حضرت ابوبکرؓ کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے جرأت پیدا کردی اور آپ نے بیعت لے لی۔
بعینہٖ یہی واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد میرے ساتھ پیش آیا۔جب میں نے کہا میں اس قابل نہیں کہ خلیفہ بنوں نہ میری تعلیم ایسی ہے اور نہ تجربہ تو اُس وقت بارہ چودہ سَو احمدی جو جمع تھے انہوں نے شور مچا دیا کہ ہم آپ کے سوا او رکسی کی بیعت کرنا نہیں چاہتے۔ مجھے اُس وقت بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے۔میں نے کہا مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں میں بیعت کیسے لوں۔ اس پر ایک دوست کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد ہیں میں بیعت کے الفاظ بولتا جاتا ہوں اور آپ دُہراتے جائیں۔ چنانچہ وہ دوست بیعت کے الفاظ بولتے گئے اور میں انہیں دُہراتا گیا اور اس طرح میں نے بیعت لی گویا پہلے دن کی بیعت دراصل کسی اَور کی تھی میں تو صرف بیعت کے الفاظ دُہراتا جاتا تھا بعد میں مَیں نے بیعت کے الفاظ یاد کئے۔ غرض اِس وقت وہی حال ہوا جو اُس وقت ہوا تھا جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔میں نے دیکھا کہ لوگ بیعت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔مولوی محمد علی صاحب ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا دوستو! غور کرلو اور میری ایک بات سن لو۔ مجھے معلوم نہ ہوا کہ لوگوں نے انہیں کیا جواب دیا ہے کیونکہ اُس وقت بہت شور تھا بعد میں پتہ لگا کہ لوگوں نے انہیں کہا۔ہم آپ کی بات نہیں سنتے۔ چنانچہ وہ مجلس سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔اس کے بعد لوگ ہجوم کرکے بیعت کے لئے بڑھے اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر جماعت کا شیرازہ قائم ہوگیا۔ اُس وقت جس طرح میرے ذہن میں خلافت کاکوئی خیال نہیں تھا۔اِسی طرح یہ بھی خیال نہیں تھا کہ خلافت کے ساتھ ساتھ کونسی مشکلات مجھ پر ٹوٹ پڑیں گی۔ بعد میں پتہ لگا کہ پانچ چھ سو روپے ماہوار تو سکول کے اساتذہ کی تنخواہ ہے اور پھر کئی سو کا قرضہ ہے لیکن خزانہ میں صرف17روپے ہیں۔ گویا اُس مجلس سے نکلنے کے بعد محسوس ہوا کہ ایک بڑی مشکل ہمارے سامنے ہے۔جماعت کے سارے مالدار تو دوسری پارٹی کے ساتھ چلے گئے ہیں اور جماعت کی کوئی آمدنی نہیں پھر یہ کام کیسے چلیں گے۔ لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوئی تو بگڑی سنور گئی۔ 1914ء میں تو میرا یہ خیال تھا کہ خزانہ میں صرف17روپے ہیں اور اساتذہ کی تنخواہوں کے علاوہ کئی سو روپیہ کا قرضہ ہے جو دینا ہے۔لیکن1920ء میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ جب میں نے اعلان کیا کہ ہم برلن میں مسجد بنائیں گے اس کیلئے ایک لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے توجماعتوں کی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر یہ روپیہ اکٹھا کردیا۔ انہوں نے اپنے زیور اتار اتار کردے دیئے کہ انہیں بیچ کر روپیہ اکٹھا کرلیا جائے۔آج میں نے عورتوں کے اجتماع میں اس واقعہ کا ذکر کیا تو میری بیوی نے بتایا کہ مجھے تو اُسوقت پورا ہوش نہیں تھامیں ابھی بچی تھی اور مجھے سلسلہ کی ضرورتوں کا احساس نہیں تھا لیکن میری اماں کہا کرتی ہیں کہ جب حضورنے چندہ کی تحریک کی تو میری ساس نے (جو سید ولی اللہ شاہ صاحب کی والدہ تھیں اور میری بھی ساس تھیں)اپنی تمام بیٹیوں اور بہوؤں کو اکٹھا کیا اور کہا تم سب اپنے زیور اِس جگہ رکھ دو۔ پھر انہوں نے ان زیورات کو بیچ کر مسجد برلن کے لئے چندہ دے دیا۔اِس قسم کا جماعت میں ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ سینکڑوں گھروں میں ایسا ہوا کہ عورتوں نے اپنی بیٹیوں اور بہوؤں کے زیورات اتروا لئے اور انہیں فروخت کرکے مسجد برلن کے لئے دے دیا۔ غرض ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع ہوگیا۔اب دوسال ہوئے میں نے ہالینڈ میں مسجد بنانے کی تحریک کی لیکن اب تک اس فنڈ میں صرف اسّی ہزار روپے جمع ہوئے ہیں حالانکہ اِس وقت جماعت کی عورتوں کی تعداد اُس وقت کی عورتوں سے بیسیوں گُنا زیادہ ہے۔اُس وقت عورتوں میں اتنا جوش تھا کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع کردیا۔ تو درحقیقت یہ جماعت کا ایمان ہی تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے نمونہ دکھایا اور اُس نے بتایا کہ میں سلسلہ کو مدد دینے والا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الہاماً فرمایا تھا کہ اگر ساری دنیا بھی تجھ سے منہ موڑے تو میں آسمان سے اُتار ہوسکتا ہوں اور زمین سے نکال سکتا ہوں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خلافت حقہ کی برکات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہیں۔ہم ایک پیسہ کے بھی مالک نہیں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت دی، جس نے چندے دئے اور سلسلہ کے کام اب تک چلتے گئے اور چل رہے ہیں اور اب تو جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے پہلے سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے دینی ضرورتوں کے لئے خدا تعالیٰ سے کہا کہ اے اللہ! تُو مجھے ایک لاکھ روپیہ دے دے تو سلسلے کے کاموں کو چلاؤں۔ لیکن اب کل ہی میں حساب کررہا تھا کہ میں نے خود چھ لاکھ ستّر ہزار روپیہ سلسلہ کو بطور چندہ دیا ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میں کتنا بیوقوف تھا کہ خداتعالیٰ سے سلسلہ کی ضرورتوں کے لئے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا۔ مجھے تو اُس سے ایک ارب روپیہ مانگنا چاہئے تھا۔مانگنے والا خداتعالیٰ کا خلیفہ ہو اور جس سے مانگا جائے وہ خود خدا کی ذات ہو تو پھر ایک لاکھ روپیہ مانگنے کے کیا معنے ہیں۔مجھے تویہ دعا کرنی چاہئے تھی کہ اے خدا! تُو مجھے ایک ارب روپیہ دے، ایک کھرب روپیہ دے یاایک پدم روپیہ دے۔میں نے بتایا ہے کہ اگرچہ میں نے خداتعالیٰ سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن خداتعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ صرف میں نے پچھلے سالوں میں چھ لاکھ ستّر ہزار روپیہ سلسلہ کو چندہ کے طور پر دیا ہے۔بے شک وہ روپیہ سارا نقدی کی صورت میں نہ تھا کچھ زمین تھی جو میں نے سلسلہ کو دی مگر وہ زمین بھی خدا تعالیٰ نے ہی دی تھی۔میرے پاس تو زمین نہیں تھی ہم تو اپنی ساری زمین قادیان چھوڑآئے تھے۔اپنے باغات او رمکانات بھی قادیان چھوڑ آئے تھے۔قادیان میں میری جائیداد کافی تھی مگر اس کے باوجودمیں نے سلسلہ کو اتناروپیہ نہیں دیا تھا جتنا قادیان سے نکلنے کے بعددیا۔
1947ء میں ہم قادیان سے آئے ہیں اور تحریک جدید1934ء میں شروع ہوئی تھی۔گویا اُس وقت تحریک جدید کو جاری ہوئے بارہ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اس بارہ سال کے عرصہ میں میرا تحریک جدید کا چندہ قریباً چھ ہزار روپیہ تھا لیکن بعد کے دس سال ملا کر چندہ تحریک جدیددو لاکھ بیس ہزار روپیہ بن جاتا ہے۔اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی زمین میں نے تحریک جدید کو دی ہے۔ یہ زمین مجھے چودھری ظفراللہ خان صاحب نے بطور نذرانہ دی تھی۔میں نے خیال کیا کہ اتنا بڑا نذرانہ اپنے پاس رکھنا درست نہیں چنانچہ میں نے وہ ساری زمین سلسلہ کو دے دی۔اس طرح تین لاکھ ستّر ہزار روپیہ میں نے صرف تحریک جدید کوادا کیا۔ اسی طرح خلافت جوبلی کے موقع پر چودھری ظفراللہ خاں صاحب کی تحریک پر جب جماعت نے مجھے روپیہ پیش کیا تو میرمحمد اسحاق صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق جو دعائیں کی ہیں ان میں یہ دعابھی ہے کہ :
دے اِس کو عمر و دولت کر دُور ہر اندھیرا
پس اِس روپیہ کے ذریعہ آپ کی یہ دعا پوری ہوگی۔اس طرح یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگی کہ:
''وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اوردولت ہوگا'' 5
اس پر میں نے کہا کہ میں یہ روپیہ تو لے لیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں یہ روپیہ سلسلہ کے کاموں پر ہی صَرف کروں گا۔ چنانچہ میں نے وہ روپیہ تو لے لیا لیکن میں نے اسے اپنی ذات پر نہیں بلکہ سلسلہ کے کاموں پر خرچ کیا اور صدر انجمن احمدیہ کو دے دیا۔ اب میں نے ہیمبرگ کی مسجد کے لئے تحریک کی ہے کہ جماعت کے دوست اس کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپیہ دیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے تو ہمارے سلسلہ میں تو یہ ہونا چاہیئے کہ ہمارا ایک ایک آدمی ایک ایک مسجد بنادے۔ خود مجھے خیال آتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ مجھے کشائش عطافرمائے تو میں بھی اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں اور کوئی تعجب نہیں کہ خداتعالیٰ مجھے اپنی زندگی میں ہی اس بات کی توفیق دے دے اور میں کسی نہ کسی یورپین ملک میں اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دینے پر منحصر ہے۔انسان کی اپنی کوشش سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ہم لوگ زمیندار ہیں اور ہمارے ملک میں زمیندارہ کی بہت ناقدری ہے یعنی یہاں لائلپور اور سرگودھا کے اضلاع کی زمینوں میں بڑی سے بڑی آمدن ایک سوروپیہ فی ایکڑ ہے حالانکہ یورپین ممالک میں فی ایکڑ آمد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ میں جب یورپ گیا تو میں وہاں زمینوں کی آمد نیں پوچھنی شروع کیں مجھے معلوم ہوا کہ اٹلی میں فی ایکٹر آمد چار سو روپیہ ہے اور ہالینڈ میں فی ایکڑ آمدتین ہزار روپیہ ہے۔ پھر میں نے میاں محمد ممتاز صاحب دولتانہ کا بیان پڑھا۔وہ جاپان گئے تھے اور وہاں انہوں نے زمین کی آمدنوں کا جائزہ لیا تھا۔انہوں نے بیان کیا تھا کہ جاپان میں فی ایکڑآمد چھ ہزار روپے ہے۔اس کے یہ معنے ہوئے کہ اگر میری ایک سو ایکڑ زمین بھی ہو۔حالانکہ وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور اس سے ہالینڈ والی آمد ہو تو تین لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہوجاتی ہے اور اگر جاپان والی آمد ہو تو بڑی آسانی کے ساتھ ایک نہیں کئی مساجد مَیں اکیلاتعمیر کراسکتا ہوں۔
میرا یہ طریق ہے کہ میں اپنی ذات پر زیادہ روپیہ خرچ نہیں کرتا اور نہ اپنے خاندان پر خرچ کرتا ہوں بلکہ جو کچھ میرے پاس آتا ہے اس میں سے کچھ رقم اپنے معمولی اخراجات کے لئے رکھنے کے بعد سلسلہ کے لئے دے دیتا ہوں۔خرچ کرنے کو تو لوگ دس دس کروڑ روپیہ بھی کرلیتے ہیں لیکن مجھے جب بھی خداتعالیٰ نے دیا ہے میں نے وہ خداتعالیٰ کے رستے میں ہی دیدیا ہے۔ بیشک میرے بیوی بچے مانگتے رہیں میں انہیں نہیں دیتا۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ تمہیں وہی گزارے دوں گا جن سے تمہارے معمولی اخراجات چل سکیں۔زمانہ کے حالات کے مطابق میں بعض اوقات انہیں زیادہ بھی دے دیتا ہوں مثلاً اگر وہ ثابت کردیں کہ اس وقت گھی مہنگا ہوگیا ہے، ایندھن کی قیمت چڑھ گئی ہے یا دھوبی وغیرہ کا خرچ بڑھ گیا ہے تو میں اس کے لحاظ سے زیادہ بھی دے دیتا ہوں لیکن اس طرح نہیں کہ ساری کی ساری آمدن ان کے حوالہ کردوں کہ جہاں جی چاہیں خرچ کرلیں۔ غرض میں گھر کے معمولی گزارہ کے لئے اخراجات رکھنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ سلسلہ کو دے دیتا ہوں۔ اگر اللہ تعالےٰ فضل کرے اور کسی وقت وہ ہمارے ملک والوں کو عقل اور سمجھ دے دے اور ہماری آمدنیں بڑھ جائیں تو سال میں ایک مسجد چھوڑ دو دومساجد بھی ہم بنوا سکتے ہیں اور یہ سب خلافت ہی کی برکت ہے۔
میں جب نیانیا خلیفہ ہوا تو مجھے الہام ہوا کہ ''مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں۔'' اس دفعہ میں نے یہ الہام لکھ کر قادیان والوں کو بھجوایا او ران کو توجہ دلائی کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرو اور دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ وہ برکتیں تم پر ہمیشہ نازل کرتا رہے۔اب خلافت کی برکات سے اس علاقہ والوں کو بھی حصہ ملنا شروع ہوگیا ہے چنانچہ اس علاقہ میں کسی زمانہ میں صرف چند احمدی تھے مگر اب ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔ اور ہمیں امید ہے کہ اگر خداتعالیٰ چاہے تو وہ ایک دوسال میں پندرہ بیس ہزار ہوجائیں گے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک دفعہ میں نے خداتعالیٰ سے ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن اب میں خدا تعالیٰ سے اربوں مانگا کرتا ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ مانگ کر غلطی کی ۔اِس وقت اگر یورپین اور دوسرے اہم ممالک کا شمار کیا جائے اور ان مقامات کا جائزہ لیا جائے جہاں مسجدوں کی ضرورت ہے تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بن جاتی ہے۔اور اگر ان ڈیڑھ سو مقامات پر ایک ایک مسجد بھی بنائی جائے اور ہرایک مسجد پر ایک ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا جائے تو ان پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ خرچ ہوجائے گا اور پھر بھی صرف مشہور ممالک میں ایک ایک مسجد بنے گی۔ پھر ایک ایک لاکھ روپیہ سے ہمارا کیا بنتا ہے۔ ہمارا صرف مبلغوں کا سالانہ خرچ سوا لاکھ روپیہ کے قریب بنتا ہے۔ اور اگر اس خرچ کو بھی شامل کیا جائے جو بیرونی جماعتیں کرتی ہیں تو یہ خرچ ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے۔غرض میں نے اُس سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا مگر اُس نے مجھے اس سے بہت زیادہ دیا۔ اب ہماری صدرانجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ تیرہ لاکھ روپیہ کا ہے اور اگر تحریک جدید کے سالانہ بجٹ کوبھی ملالیا جائے تو ہمارا سالانہ بجٹ بائیس تیئیس لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے۔ پس اگر خدا تعالیٰ میری اس بیوقوفی کی دعا کو قبول کرلیتا تو ہمارا سارا کام ختم ہوجاتا مگر اللہ تعالیٰ نے کہا ہم تیری اس دعاکو قبول نہیں کرتے جس میں تُو نے ایک لاکھ روپیہ مانگا ہے۔ ہم تجھے اس سے بہت زیادہ دیں گے تاکہ سلسلہ کے کام چل سکیں۔اب اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو دیکھ کر کہ میں نے ایک لاکھ مانگا تھا مگر اس نے بائیس لاکھ سالانہ دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ایک کروڑ مانگتا توبائیسکروڑ سالانہ ملتا۔ایک ارب مانگتا توبائیس ارب سالانہ ملتا۔ایک کھرب مانگتا توبائیس کھرب سالانہ ملتا اور اگر ایک پدم مانگتا توبائیس پدم سالانہ ملتا۔ اور اس طرح ہماری جماعت کی آمد امریکہ اور انگلینڈ دونوں کی مجموعی آمد سے بھی بڑھ جاتی۔پس خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سی برکات وابستہ کی ہوئی ہیں۔ تم ابھی بچے ہو تم اپنے باپ دادوں سے پوچھو کہ قادیان کی حیثیت جو شروع زمانہ خلافت میں تھی وہ کیاتھی اور پھر قادیان کو اللہ تعالےٰ نے کس قدر ترقی بخشی تھی۔
جب میں خلیفہ ہوا تو پیغامیوں نے اس خیال سے کہ جماعت کے لوگ خلافت کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتے یہ تجویز کی کہ کوئی اَور خلیفہ بنا لیا جائے۔ اُن دنوں ضلع سیالکوٹ کے ایک دوست میر عابد علی صاحب تھے۔وہ صوفی منش آدمی تھے لیکن بعد میں پاگل ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ اُنہیں خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو خدا تعالیٰ نے وعدے کئے تھے وہ میرے ساتھ بھی ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ نے فرمایا تھا کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی۔اس لئے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے برابر ہوں تو خدا تعالیٰ کا یہی وعدہ میرے ساتھ بھی ہے۔میرے گاؤں میں بھی طاعون نہیں آئے گی۔ چنانچہ جب طاعون کی وبا پھوٹی تو انہوں نے اپنے اس خیال کے مطابق اپنے مریدوں سے جو تعداد میں پانچ سات سے زیادہ نہیں تھے کہا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کراُن کے پاس آجائیں۔ چنانچہ وہ اُن کے پاس آگئے۔ لیکن بعد میں اُنہیں خود طاعون ہوگئی۔اُن کے مریدوں نے کہا کہ چلو اَب جنگل میں چلیں۔ لیکن اُنہوں نے کہا جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں طاعون مجھ پراثر نہیں کریگی۔ آخر جب مریدوں نے دیکھا کہ وہ پاگل ہوگئے ہیں تو وہ انہیں ہسپتال میں لے گئے اور وہ اسی جگہ طاعون سے فوت ہوگئے۔ بہرحال جب بیعتِ خلافت ہوئی تو پیغامیوں نے سمجھا میر عابد علی صاحب چونکہ صوفی منش آدمی ہیں اور عبادت گزار ہیں اس لئے الوصیت کے مطابق چالیس آدمیوں کا ان کی بیعت میں آجانا کوئی مشکل امر نہیں۔ چنانچہ مولوی صدر دین صاحب اور بعض دوسرے لوگ رات کو ان کے پاس گئے اور کہا آپ اس بات کے لئے تیار ہوجائیں چنانچہ وہ اس بات پر آمادہ ہوگئے۔اُس وقت مولوی محمد علی صاحب نے دیانتداری سے کام لیا۔وہ جب اس مجلس سے واپس آگئے جس میں جماعت نے مجھے خلیفہ منتخب کیا تھا تو ان لوگوں نے ان سے کہاکہ آپ نے بڑی بیوقوفی کی۔ آپ اگر مجلس میں اعلان کردیتے کہ میری بیعت کرلو تو چونکہ مرزا محمود احمد صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ میں خلیفہ بننا نہیں چاہتالوگوں نے آپ کی بیعت کرلینی تھی اور ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی آپ کی بیعت کرلیتے۔ انہوں نے کہا میں یہ کام کیسے کرسکتا تھا۔ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ خلافت کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہرحال جب ان لوگوں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب خلیفہ بننے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے جیسا کہ میں نے بتایا ہے میر عابد علی صاحب کو بیعت لینے کے لئے آمادہ کیا اور اس کے بعد وہ ہری کین لے کر ساری رات قادیان میں دوہزار احمدیوں کے ڈیروں پر پھرتے رہے۔ لیکن انہیں چالیس آدمی بھی سید عابد علی شاہ صاحب کی بیعت کرنے والے نہ ملے۔ اُس وقت کے احمدیوں کاایمان اِس قدر پختہ تھا کہ غریب سے غریب احمدی بھی کروڑوں روپیہ پر تھوکنے کے لئے تیار نہیں تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پھیلے۔ جب انہیں میر عابد علی صاحب کی بیعت کے لئے چالیس آدمی بھی نہ ملے تو وہ مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافتِ حقہ کی وجہ سے کئی معجزات دکھائے ہیں۔
تم دیکھ لو1934ء میں مجلسِ احرار نے جماعت پر کس طرح حملہ کیاتھا لیکن وہ اس حملہ میں کس طرح ناکام ہوئے۔انہوں نے منہ کی کھائی۔ پھر1947ء میں قادیان میں کیسا خطرناک وقت آیا لیکن ہم نہ صرف احمدیوں کو بحفاظت نکال لائے بلکہ انہیں لاریوں میں سوار کرکے پاکستان لے آئے۔دوسرے لوگ جوپیدل آئے تھے اُن میں سے اکثر مارے گئے لیکن قادیان کے رہنے والوں کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔اب بھی کچھ دن ہوئے مجھے ایک آدمی ملا۔اُس نے مجھے بتایا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ میری اجازت کے بغیرکوئی شخص قادیان سے نہ نکلے ۔چنانچہ ہم نے توآپ کے حکم کی تعمیل کی اور وہاں ٹھہرے رہے لیکن میرے ایک رشتہ دار گھبرا کر ایک قافلہ کے ساتھ پیدل آگئے او رراستہ میں ہی مارے گئے۔ہم جو وہاں بیٹھے رہے لاریوں میں سوار ہوکر حفاظت سے پاکستان آگئے۔ اُس وقت اکثر ایسا ہوا کہ پیدل قافلے پاکستان کی طرف آئے اور جب وہ بارڈر کراس کرنے لگے تو سکھوں نے اُنہیں آلیا اور وہ مارے گئے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ پیدل قافلہ قادیان سے نکلتے ہی سکھوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اگر وہاں سے محفوظ نکل آیا تو بٹالہ آکر یافتح گڑھ چوڑیاں کے پاس مارا گیا۔ لیکن وہ میری ہدایت کے مطابق قادیان میں بیٹھے رہے اور میری اجازت کا انتظار کرتے رہے۔وہ سلامتی کے ساتھ لاریوں میں سوار ہوکر لاہور آئے۔ غرض ہر میدان میں خداتعالیٰ نے جماعت کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت انہیں یاد رکھے۔ مگر بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ انہیں یاد نہیں رکھتے۔
پچھلے مہینہ میں ہی میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا کہ کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ یاجب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو کس سُرعت کے ساتھ آپ کے ساتھ مڑتی ہے۔ یا جب آپ اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزل مقصود کو اختیار کرلیتی ہے۔''
اب دیکھو یہ فتنہ بھی جماعت کے لئے ایک آزمائش تھی لیکن بعض لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے کہ اس میں حصہ لینے والے حضرت خلیفہ اول کے لڑکے ہیں۔ اُنہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی آپ کا انکار کیا تھا اور اس انکار کی وجہ سے وہ عذابِ الٰہی سے بچ نہیں سکا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کے اس فتنہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہمیں کس بات کا خوف ہے۔ اگر وہ فتنہ میں ملوث ہیں تو خدا تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرے گا۔ شروع شروع میں جب فتنہ اٹھا تو چند دنوں تک بعض دوستوں کے گھبراہٹ کے خطوط آئے اور انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹی سی بات کو بڑا بنادیا گیا ہے۔اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ساری جماعت اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ان لوگوں سے نفرت کرنے لگ گئی اور مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کے اَور بھی بہت سے کارنامے ہیں مگر اس بڑھاپے کی عمر میں اور ضعف کی حالت میں جو یہ کارنامہ آپ نے سرانجام دیا ہے یہ اپنی شان میں دوسرے کارناموں سے بڑھ گیا ہے۔آپ نے بڑی جرأت او رہمت کے ساتھ ان لوگوں کو ننگا کردیا ہے جو بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور سلسلہ کو نقصان پہنچانے کے دَرپے تھے۔اِس طرح آپ نے جماعت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچالیا ہے۔
مری میں مجھے ایک غیر احمدی کرنیل ملے انہوں نے کہا کہ جو واقعات1953ء میں احمدیوں پر گزرے تھے وہ اب پھر ان پر گزرنے والے ہیں۔ اس لئے آپ ابھی سے تیاری کرلیں۔ اور میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ1953ء میں تو پولیس اور ملٹری نے آپ کی حفاظت کی تھی لیکن اب وہ آپ کی حفاظت نہیں کرے گی کیونکہ اُس وقت جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے وہ ڈر گئی ہے۔جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا۔کرنل صاحب! پچھلی دفعہ میں نے کون سا تیر مارا تھا جو اَب ماروں گا۔پچھلی دفعہ بھی خداتعالیٰ نے ہی جماعت کی حفاظت کے سامان کئے تھے اور اب بھی وہی اس کی حفاظت کرے گا۔ جب میرا خدا زندہ ہے تومجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔میری اس بات کا کرنل صاحب پر گہرا اثر ہوا چنانچہ جب میں ان کے پاس سے اُٹھا اور دہلیز سے باہر نکلنے لگا تو وہ کہنے لگے فیتھ از بلائنڈ(Faith is blind)یعنی یقین اور ایمان اندھا ہوتا ہے۔ وہ خطرات کی پروا نہیں کرتا۔جب کسی شخص میں ایمان پایا جاتا ہو تو اُسے آگے آنے والے مصائب کا کوئی فکر نہیں ہوتا۔ جب منافقین کا فتنہ اٹھا تو انہی کرنل صاحب نے ایک احمدی افسر کو جو اُن کے قریب ہی رہتے تھے بلایا اور کہا کہ میری طرف سے مرزا صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہےاللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی۔ اس مضمون سے اُسے بلاضرورت شُہرت مل جائے گی۔ میں نے اس احمدی دوست کو خط لکھا کہ میری طرف سے کرنل صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جماعت پر1953ء والے واقعات دوبارہ آنے والے ہیں، آپ ابھی سے تیاری کرلیں۔اب جبکہ میں نے اس بارہ میں کارروائی کی ہے تو آپ نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ آپ خواہ مخواہ فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ جب میں دوبارہ مری گیا تو میں نے اس احمدی دوست سے پوچھا کہ کیامیرا خط آپ کو مل گیا تھا اور آپ نے کرنل صاحب کو میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟انہوں نے کہا ہاں میں نے پیغام دے دیا تھا اور انہوں نے بتایا تھا کہ اب میری تسلی ہوگئی ہے۔ شروع میں مَیں یہی سمجھتا تھا کہ یہ معمولی بات ہے لیکن اب جبکہ پیغامی اور غیر احمدی دونوں فتنہ پردازوں کے ساتھ مل گئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ عقلمندی اورکوئی نہیں تھی کہ آپ نے وقت پر اس فتنہ کو بھانپ لیا اورشرارت کو بے نقاب کردیا۔
غرض خداتعالیٰ ہر فتنہ اور مصیبت کے وقت جماعت کی خود حفاظت فرماتا ہے چنانچہ فتنہ تو اَب کھڑا کیا گیا ہے لیکن خداتعالےٰ نے1950ء میں ہی کوئٹہ کے مقام پر مجھے بتادیا تھا کہ بعض ایسے لوگوں کی طرف سے فتنہ اٹھایا جانے والا ہے جن کی رشتہ داری میری بیویوں کی طرف سے ہے۔ چنانچہ دیکھ لو عبدالوہاب میری ایک بیوی کی طرف سے رشتہ دار ہے۔میری اس سے جدّی رشتہ داری نہیں۔
پھر میری ایک خواب جنوری1935ء میں الفضل میں شائع ہوچکی ہے اس میں بتایا گیا تھا کہ میں کسی پہاڑ پر ہوں کہ خلافت کے خلاف جماعت میں ایک فتنہ پیدا ہوا ہے چنانچہ جب موجودہ فتنہ ظاہر ہوا اُس وقت مَیں مری میں ہی تھا۔
پھراس خواب میں مَیں نے سیالکوٹ کے لوگوں کو دیکھا جو موقع کی نزاکت سمجھ کر جمع ہوگئے تھے اور اِن کے ساتھ کچھ اُن لوگوں کو بھی دیکھا جو باغی تھے۔یہ خواب بڑے شاندار طور پر پوری ہوئی۔ چنانچہ اللہ رکھا سیالکوٹ کا ہی رہنے والا ہے۔جب میں نے اس کے متعلق الفضل میں مضمون لکھا تو خود اس کے حقیقی بھائیوں نے مجھے لکھا کہ پہلے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ شایداس پر ظلم ہورہا ہے۔ لیکن اب ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ وہ پیغامی ہے۔ اس نے ہمیں جوخطوط لکھے ہیں وہ پیغامیوں کے پتہ سے لکھے ہیں۔ پس ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ہم خلافت سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔اب دیکھ لو1934ء میں مجھے اس فتنہ کا خیال کیسے آسکتا تھا۔پھر1950ء والی خواب بھی مجھے یاد نہیں تھی۔ 1950ء میں مَیں جب سندھ سے کوئٹہ گیا تو اپنی ایک لڑکی کو جو بیمار تھی ساتھ لے گیا۔اُس نے اَب مجھے یاد کرایا کہ1950ء میں آپ نے ایک خواب دیکھی تھی جس میں یہ ذکر تھاکہ آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے خلافت کے خلاف فتنہ اٹھایا ہے۔ مَیں نے مولوی محمد یعقوب صاحب کو وہ خواب تلاش کرنے پر مقرر کیا۔چنانچہ وہ الفضل سے خواب تلاش کرکے لے آئے۔ اب دیکھو خداتعالیٰ نے کتنی دیر پہلے مجھے اس فتنہ سے آگاہ کردیا تھا اور پھر کس طرح یہ خواب حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا۔
ہماری جماعت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیے کہ منافقت کی جڑ کو کاٹنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اگر اس کی جڑ کو نہ کاٹاجائے تو وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت سے جو وعدہ فرمایا ہے اس کے پورا ہونے میں شیطان کئی قسم کی رکاوٹیں حائل کرسکتا ہے۔دیکھو خداتعالیٰ کا یہ کتنا شانداروعدہ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پورا ہوا۔حضرت ابوبکرؓ کی خلافت صرف اڑھائی سال کی تھی لیکن اس عرصہ میں خداتعالیٰ نے جو تائید ونصرت کے نظارے دکھائے وہ کتنے ایمان افزا تھے۔حضرت ابوبکرؓ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنیٰ غلام تھے لیکن انہوں نے اپنے زمانۂ خلافت میں رومی فوجوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ آخر اڑھائی سال کے عرصہ میں لاکھوں مسلمان تو نہیں ہو گئے تھے۔اُس وقت قریباً قریباً وہی مسلمان تھے جورسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے۔ لیکن خلافت کی برکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں وہ شان اور اُمنگ اورجرأت پیدا کی کہ انہوں نے اپنے مقابل پر بعض اوقات دو دو ہزار گنا زیادہ تعداد کے لشکر کو بُری طرح شکست کھانے پر مجبور کردیا۔اس کے بعد حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا توآپ نے ایک طرف رومی سلطنت کو شکست دی تو دوسری طرف ایمان کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے رکھ دیا۔ پھر حضرت عثمانؓ کی خلافت کا دور آیا۔اس دور میں اسلامی فوج نے آذربائیجان تک کا علاقہ فتح کرلیا اور پھر بعض مسلمان افغانستان اور ہندوستان آئے اور بعض افریقہ چلے گئے اور ان ممالک میں انہوں نے اسلام کی اشاعت کی۔ یہ سب خلافت کی ہی برکات تھیں۔ یہ برکات کیسے ختم ہوئیں؟یہ اِسی لئے ختم ہوئیں کہ حضرت عثمانؓ کے آخری زمانۂ خلافت میں مسلمانوں کا ایمان بالخلافت کمزور ہو گیا اور انہوں نے خلافت کو قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش او رجدوجہد کو ترک کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے بھی وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کا وعدہ واپس لے لیا۔ لیکن عیسائیوں میں دیکھ لو 1900 سال سے برابر خلافت چلی آرہی ہے اور آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ آخر یہ تفاوت کیوں ہے؟ اور کیوں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی خلافت30سال کے عرصہ میں ختم ہوگئی؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں نے خلافت کی قدر نہ کی اور اس کی خاطر قربانی کرنے سے انہوں نے دریغ کیا۔ جب باغیوں نے حضرت عثمانؓ پر حملہ کیا توآپ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ اے لوگو! میں وہی کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کیا کرتے تھے میں نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ لیکن تم فتنہ پرداز لوگوں کو اپنے گھروں میں آنے دیتے ہو اور ان سے باتیں کرتے ہو۔ اس سے یہ لوگ دلیر ہوگئے ہیں۔ لیکن تمہاری اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خلافت کی برکات ختم ہوجائیں گی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔اب دیکھ لو وہی ہوا جو حضرت عثمانؓ نے فرمایا تھا۔حضرت عثمانؓ کاشہید ہونا تھا کہ مسلمان بکھر گئے اور آج تک وہ جمع نہیں ہوئے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ جب روم کے بادشاہ نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں اختلاف دیکھا تو اس نے چاہا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجے۔ اُس وقت رومی سلطنت کی ایسی ہی طاقت تھی جیسی اِس وقت امریکہ کی ہے۔اُس کی لشکر کشی کا ارادہ دیکھ کر ایک پادری نے جو بڑا ہوشیار تھا کہا بادشاہ سلامت! آپ میری بات سن لیں اور لشکر کَشی کرنے سے اجتناب کریں۔ یہ لوگ اگرچہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ کے مقابلہ میں متحد ہوجائیں گے او رباہمی اختلافات کو بھول جائیں گے۔پھر اس نے کہا آپ دو کتّے منگوائیں اورانہیں ایک عرصہ تک بھوکا رکھیں پھر ان کے آگے گوشت ڈال دیں۔وہ آپس میں لڑنے لگ جائیں گے۔ اگرآپ انہی کُتوں پر شیر چھوڑ دیں تووہ دونوں اپنے اختلافات کو بھول کر شیر پر جھپٹ پڑیں گے۔اِس مثال سے اس نے یہ بتایا کہ تُو چاہتا ہے کہ اِس وقت حضرت علیؓ اور معاویہؓ کے اختلاف سے فائدہ اٹھالے لیکن میں یہ بتادیتاہوں کہ جب بھی کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کا سوال پیدا ہو گا یہ دونوں اپنے باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے اور دشمن کے مقابلہ میں متحد ہوجائیں گے۔ اور ہؤا بھی یہی۔جب حضرت معاویہؓ کو روم کے بادشاہ کے ارادہ کا علم ہوا توآپ نے اسے پیغام بھیجا کہ تُو چاہتا ہے کہ ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھاکر مسلمانوں پر حملہ کرے۔ لیکن میں تمہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ میری حضرت علیؓ کے ساتھ بے شک لڑائی ہے لیکن اگر تمہارا لشکر حملہ آور ہوا تو حضرت علیؓ کی طرف سے اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے جوسب سے پہلاجرنیل نکلے گا وہ مَیں ہوں گا6۔ اَب دیکھ لو حضرت معاویہؓ حضرت علیؓ سے اختلاف رکھتے تھے لیکن اس اختلاف کے باوجود انہوں نے رومی بادشاہ کو ایسا جواب دیا جو اس کی امیدوں پر پانی پھیرنے والا تھا۔
لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کا یہ حال ہے کہ انہیں اتنی بھی توفیق نہ ملی کہ پیغامیوں سے کہتے کہ تم تو ساری عمر ہمارے باپ کو گالیاں دیتے رہے ہو۔پھر ہمارا تم سے کیا تعلق ہے۔انہیں وہ گالیاں بھول گئیں جوان کے باپ کو دی گئی تھیں اور چُپ کرکے بیٹھے رہے۔ انہوں نے ان کی تردید نہ کی اور تردید بھی انہوں نے اسلئے نہ کی کہ اگر ہم نے ایسا کیاتو شاید پیغامی ہماری تائید نہ کریں۔ حالانکہ اگران کے اندر ایمان ہوتا تو یہ لوگ کہتے ہمارا لوگوں سے کیا تعلق ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وہ تقاریر موجود ہیں جن میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ لوگ مجھے خلافت سے دستبردار کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ کون ہیں مجھے دستبردارکرنے والے! مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایاہے اس لئے وہی خلافت کی حفاظت کرے گا۔ اگر یہ لوگ میری بات نہیں سنتے تو اپنے باپ کی بات تو سن لیتے۔وہ کہتا ہے کہ مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اب کسی شخص یا جماعت کی طاقت نہیں کہ وہ مجھے معزول کرسکے۔اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے پھریہ لوگ مجھے معزول کیسے کرسکتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک جماعت کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کردیا تھا اور اُس وقت جمع کردیا تھا جب تمام بڑے بڑے احمدی میرے مخالف ہوگئے تھے اور کہتے تھے کہ اب خلافت ایک بچے کے ہاتھ میں آگئی ہے۔اس لئے جماعت آج نہیں تو کل تباہ ہوجائے گی۔ لیکن اُسی بچہ نے42سال تک پیغامیوں کا مقابلہ کرکے جماعت کو جس مقام تک پہنچایا وہ تمہارے سامنے ہے۔ شروع میں ان لوگوں نے کہا تھا کہ98فیصدی احمدی ہمارے ساتھ ہیں۔ لیکن اب وہ دکھائیں کہ جماعت کا 98فیصدی جو اُن کے ساتھ تھا کہاں ہے؟کیا وہ98فیصدی احمدی ملتان میں ہیں؟ لاہور میں ہیں؟ پشاور میں ہیں؟ کراچی میں ہیں؟ آخر وہ کہاں ہیں؟ کہیں بھی دیکھ لیا جائے۔ان کے ساتھ جماعت کے دوفیصدی بھی نہیں نکلیں گے۔
مولوی نورالحق صاحب انور مبلغ امریکہ کی الفضل میں چٹھی چَھپی ہے کہ عبدالمنان نے ان سے ذکر کیا کہ پشاور سے بہت سے پیغامی انہیں ملنے کے لئے آئے ہیں اور وہ ان کا بہت ادب اور احترام کرتے ہیں۔ لیکن کچھ دن ہوئے امیر جماعت احمدیہ پشاور یہاں آئے۔ میں نے انہیں کہا کہ میاں محمد صاحب کی کھلی چِٹھی کا جواب چَھپا ہے آپ وہ کیوں نہیں خریدتے؟ تو انہوں نے کہا پشاور میں دو سے زیادہ پیغامی نہیں ہیں۔ لیکن ان کے مقابل پروہاں ہماری دومساجد بن چکی ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت وہاں کثرت سے پھیل رہی ہے۔ پیغامیوں کا وہاں یہ حال ہے کہ شروع شروع میں وہاں احمدیت کے لیڈر پیغامی ہی تھے۔ لیکن اب بقول امیر صاحب جماعت احمدیہ پشاور وہاں دو پیغامی ہیں۔
پس میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کس لالچ میں آگئی ہے۔ کیا صرف ایک مضمون کا پیغامِ صلح میں چھپ جانا ان کے لئے لالچ کا موجب ہوگیا؟ اگر یہی ہوا ہے تو یہ کتنی ذلیل بات ہے۔ اگر پاکستان کی حکومت یہ کہہ دیتی کہ ہم حضرت خلیفہ اول کی اولاد کو مشرقی پاکستان کا صوبہ دے دیتے ہیں یا وہ کہتے کہ انہیں مغربی پاکستان دے دیتے ہیں تب تو ہم سمجھ لیتے کہ انہوں نے اس لالچ کی وجہ سے جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا منظور کرلیا ہے۔ لیکن یہاں تو یہ لالچ بھی نہیں۔حضرت خلیفہ اول ایک مولوی کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس نے ایک شادی شدہ لڑکی کا نکاح کسی دوسرے مرد سے پڑھ دیا۔لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے پاس آئے اور کہنے لگے فلاں مولوی جو آپ سے ملنے آیاکرتا ہے اس نے فلاں شادی شدہ لڑکی کا نکاح فلاں مرد سے پڑھ دیا ہے۔مجھے اس سے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب مجھے ملنے آئے تو میں ان سے ضرور دریافت کروں گاکہ کیا بات ہے۔ چنانچہ جب وہ مولوی صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ کے متعلق میں نے فلاں بات سنی ہے۔میرا دل تو نہیں مانتا لیکن چونکہ یہ بات ایک معتبر شخص نے بیان کی ہے اس لئے میں اس کا ذکر آپ سے کررہاہوں۔ کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے ایک شادی شدہ عورت کا ایک اَور مرد سے نکاح کردیا ہے؟وہ کہنے لگا مولوی صاحب! تحقیقات سے پہلے بات کرنی درست نہیں ہوتی۔آپ پہلے مجھ سے پوچھ تو لیں کہ کیا بات ہوئی۔میں نے کہا اسی لئے تو میں نے اس بات کا آپ سے ذکر کیا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا بے شک یہ درست ہے کہ میں نے ایک شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ نکاح پڑھ دیا ہے لیکن مولوی صاحب! جب انہوں نے میرے ہاتھ پر چڑیا جتنا روپیہ رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا۔پس اگر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کو حکومتِ پاکستان یہ لالچ دے دیتی کہ مشرقی پاکستان یا مغربی پاکستان تمہیں دے دیا جائے گا تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ مثال ان پر صادق آجاتی ہے۔جس طرح اس مولوی نے روپیہ دیکھ کر خلافِ شریعت نکاح پر نکاح پڑھ دیا تھا اِنہوں نے بھی لالچ کی وجہ سے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہاں تو چڑیا چھوڑ انہیں کسی نے مُردہ مچھر بھی نہیں دیا۔ حالانکہ یہ اولاد اس عظیم الشان باپ کی ہے جو اس قدر حوصلہ کا مالک تھا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے۔اس پر آپ نے وطن واپس جانے کا نام تک نہ لیا۔اُس وقت آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنا رہے تھے۔جب میں بھیرہ گیا تو میں نے بھی یہ مکان دیکھاتھا۔اس میں آپ ایک شاندار ہال بنوارہے تھے تاکہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مَطبْ بھی کیا کریں۔ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے یہ قربانی کی تھی اُس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا۔ اُس وقت اِس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کاکام نہیں تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے بعدآپ نے واپس جاکر اس مکان کو دیکھا تک نہیں۔بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جاکر مکان تو دیکھ آئیں لیکن آپ نے فرمایا کہ مَیں نے اسے خداتعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے۔اب اسے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے عظیم الشان باپ کی اولاد ایک مُردہ مچھر سے بھی حقیر چیز پر آگری۔
پھر دیکھو حضرت خلیفۃ المسیح الاول تو اس شان کے انسان تھے کہ وہ اپنا عظیم الشان مکان چھوڑ کر قادیان آگئے لیکن آپ کے پوتے کہتے ہیں کہ قادیا ن میں ہمارے داداکی بڑی جائیداد تھی جو ساری کی ساری مرزا صاحب کی اولاد نے سنبھال لی ہے۔ حالانکہ جماعت کے لاکھوں آدمی قادیان میں جاتے رہے ہیں اور ہزاروں وہاں رہے ہیں۔ اَب بھی کئی لوگ قادیان گئے ہیں انہیں پتہ ہے کہ وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا صرف ایک کچا مکان تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بڑی جائیداد تھی مگر وہ جائیداد مادی نہیں بلکہ روحانی تھی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور ہراحمدی کے دل میں آپ کا ادب واحترام پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر آپ کی اولاد خلافت کے مقابلہ میں کھڑی ہوگی تو ہرمخلص احمدی انہیں نفرت سے پرے پھینک دے گا اور ان کی ذرّہ بھر بھی پروا نہیں کرے گا۔
آخر میں خدام کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یاد رکھیں۔ اورکسی چیزکو یاد رکھنے کے لئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اس کے لئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں۔ مثلاً شیعوں کو دیکھ لو وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکالتے ہیں تا قوم کو شہادتِ حسینؓ کا واقعہ یادرہے۔اِسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں۔اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کریں اور اپنی پرانی تاریخ کو دہرایا کریں۔پرانے اخبارات کا ملنا تو مشکل ہے لیکن الفضل نے پچھلے دنوں ساری تاریخ کو ازسرنو بیان کردیا ہے۔اس میں وہ گالیاں بھی آگئی ہیں جو پیغامی لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کو دیا کرتے تھے۔ اور خلافت کی تائیدمیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے جو دعوے کئے ہیں وہ بھی نقل کردئیے گئے ہیں۔ تم اس موقع پر اخبارات سے یہ حوالے پڑھ کرسناؤ۔ اگر سال میں ایک دفعہ خلافت ڈے منا لیا جایا کرے تو ہر سال چھوٹی عمر کے بچوں کو پرانے واقعات یاد ہوجایا کریں گے۔ پھر تم یہ جلسے قیامت تک کرتے چلے جاؤتاجماعت میں خلافت کا ادب او راس کی اہمیت قائم رہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت1900سال سے برابر قائم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو درجہ میں ان سے بڑے ہیں خدا کرے ان کی خلافت دس ہزار سال تک قائم رہے۔مگر یہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ تم سال میں ایک دن اس غرض کے لئے خاص طورپر منانے کی کوشش کرو۔میں مرکز کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر سال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کی طرح خلافت ڈے منایا کرے اور ہرسال یہ بتایا کرے کہ جلسہ میں ان مضامین پر تقاریر کی جائیں۔ الفضل سے مضامین پڑھ کر نوجوانوں کو بتایا جائے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے خلافتِ احمدیہ کی تائید میں کیا کچھ فرمایا ہے اور پیغامیوں نے اس کے ردّ میں کیا کچھ لکھا ہے۔اِسی طرح وہ رؤیا وکشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خداتعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کرکے خداتعالیٰ نے ثابت کردیا کہ اس کی برکات اَب بھی خلافت سے وابستہ ہیں۔
پھر جیسا کہ میں نے مری میں ایک خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا تم درود کثرت سے پڑھا کرو، تسبیح کثرت سے کیا کرو،دعائیں کثرت سے کیا کرو تاخدا تمہیں رؤیا اور کشوف دکھائے۔ پرانے احمدی جنہیں رؤیا کشوف ہوتے تھے اب کم ہورہے ہیں۔میں نے دیکھا تھا کہ خطبہ کے تھوڑے ہی دن بعد مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کی ہدایت کے مطابق ہم نے درود پڑھنا شروع کیا،تسبیح پڑھنی شروع کی اوردعاؤں پر زور دیا تو ہمیں خداتعالیٰ نے رؤیا وکشوف سے نوازا۔اُن دنوں ڈاک میں اکثر چٹھیاں اس مضمون کی آیا کرتی تھیں اور انہیں پڑھ کر لُطف آیا کرتا تھا۔ اب ان چِٹھیوں کا سلسلہ کم ہوگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ درود پڑھنے، تسبیح کرنے اور دعائیں کرنے کی عادت پھر کم ہوگئی ہے۔
یاد رکھو کہ خداتعالیٰ سے بات کرنا معمولی اَمر نہیں۔خداتعالیٰ سے بات کرنا بڑے ایمان کی بات ہے اگر کہیں صدر پاکستان سکندر مرزا آجائیں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ تم میں سے ہرایک کو ان سے ملاقات کا موقع مل جائے گا تو تمہیں کتنی خوشی ہو اور تم کتنے شوق سے ان کی ملاقات کے لئے جاؤ۔ پھر اللہ تعالیٰ جو کائنات عالم کا مالک ہے۔محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا بھیجنے والا ہے۔اس کے متعلق اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ ہرایک سے مل سکتا ہے تو کتنی بدقسمتی ہوگی کہ اس سے ملنے کی کوشش نہ کی جائے۔ پس تم خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کرو اور کہو اے خدا! ہم تیرے کمزور بندے ہیں تُو ہمیں طاقت دے، تُو ہمیں سچ دکھا اور تُو ہم سے کلام کرتا کہ ہمارے دلوں کو اطمینان میسر ہو۔پھر جب کہ میں نے بارہا بتایا ہے میری بیماری دعاؤں سے تعلق رکھتی ہے۔اس لئے تم یہ بھی دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے کام والی زندگی عطا فرمائے اور مجھے دنیا میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کرنے کی توفیق دے۔دیکھو میرا ہر کام تمہاری طرف ہی منسوب ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں اسلام کی اشاعت ہو توتم ہی فخر کروگے کہ ہم امریکہ میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں، سوئٹزر لینڈ میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں،جرمنی میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں، انگلستان میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں، ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں گویا جو میرا کام ہوگا وہ تمہارا کام ہوگا۔ اور تم ہرمجلس میں یہ کہہ سکوگے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے۔پس تم دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں کام کو اچھی طرح نبھا سکوں اور پھر وہ اس میں برکت دے اور اسلام کے دشمنوں کے دلوں کو کھولے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت اِس وقت دنیامیں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہیں۔ پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کی شان کو بلند کرے اور اندھوں کی آنکھیں کھولے تاکہ وہ آپ کی شان اورعظمت کو پہچانیں۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ۔دنیا میں ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول رہ جائے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔’’
(الفضل یکم مئی 1957ء)
1 آل عمران : 119
2 النور: 56
3 سنن ابن ماجہ ابواب النکاح بابُ ضرب النِّساءِ
4 النور: 56
5 تذکرہ صفحہ 139۔ ایڈیشن چہارم
6 البدایۃ و النھایۃ جلد8 صفحہ 126 ۔ مطبوعہ بیروت 2001ء






قرونِ اُولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنےسامنے رکھو



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ


قرونِ اُولی کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو
(فرمودہ 21/اکتوبر 1956ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ بمقام ربوہ)

تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اسلام میں عورت کا مقام
‘‘اسلامی تعلیم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دیگر مذاہب کی نسبت عورت
کے درجہ کوبہت بلند کیا گیا ہے۔ گو موجودہ زمانہ میں مغربیت کے اثر کے ماتحت خود مسلمانوں نے عورت کے درجہ کو کم کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اوربعض باتوں میں انہوں نے غلط اندازے بھی لگائے ہیں مثلاً کہا جاتا ہے کہ پردہ میں عورت کو صحیح تعلیم نہیں دی جاسکتی حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے اندر ہی دین سیکھا تھا اور پردہ کے اندر ہی رہ کر وہ دین کی اتنی ماہر ہوگئی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم آدھا دین عائشہ سے سیکھو1۔گویا سارے مرد مل کر آدھا دین سکھا سکتے ہیں اور حضرت عائشہؓ اکیلی آدھا دین سکھا سکتی ہیں حالانکہ حضرت عائشہؓ پردہ کیا کرتی تھیں اور آپ نے جو دین سیکھا تھا وہ پردہ کے اندررہ کر ہی سیکھا تھا۔ پھر عورتوں نے اسلامی جنگوں میں وہ وہ کام کئے ہیں جو بے پردہ یورپین عورتیں آج بھی نہیں کر رہیں۔حضرت ابوبکرؓکے زمانہ میں حضرت ضرارؓ جوایک بہادر صحابی تھے،غفلت کی وجہ سے رومیوں کی قید میں آگئے اور رومی انہیں پکڑ کر کئی میل تک ساتھ لے گئے۔ان کی بہن خولہؓ کواس کا پتہ لگا تو وہ اپنے بھائی کی زرہ او رسامانِ جنگ لے کر گھوڑے پر سوار ہوکر اُن کے پیچھے گئیں اور دشمن سے اپنے بھائی کو چھڑا لانے میں کامیاب ہوگئیں2 اُس وقت رُومی سلطنت طاقت وقوت کے لحاظ سے ایسی ہی تھی جیسی آجکل انگریزوں کی حکومت ہے مگر اس کی فوج ایک صحابی کو قید کرکے لے گئی تو اُن کی بہن اکیلی ہی باہر نکلی اور کئی میل تک رُومی سپاہیوں کے پیچھے چلی گئی اور پھر بڑی کامیابی سے اپنے بھائی کو اُن کی قید سے چُھڑا لائی اور مسلمانوں کو اِس بات کا اُس وقت پتہ لگا جب وہ اپنے بھائی کو واپس لے آئی۔
پھر ایک اَور واقعہ بھی ہے جس سے عورتوں کی بہادری کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت سعدؓبن ابی وقاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابہؓ میں سے تھے۔ حضرت عمرؓنے اُنہیں اپنے زمانۂ خلافت میں ایرانی فوج کے مقابلہ میں اسلامی فوج کا کمانڈر بنایا تھا۔ اتفاقاً اُنہیں ران پر ایک پھوڑا نکل آیاجسے ہمارے ہاں گھمبیر کہتے ہیں اور وہ لمبے عرصہ تک چلتا چلا گیا۔بہتیرا علاج کیا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر انہوں نے خیال کیا کہ اگر میں چارپائی پر پڑا رہا اور فوج نے دیکھا کہ میں جو اس کا کمانڈر ہوں،ساتھ نہیں،تو وہ بددِل ہوجائے گی چنانچہ انہوں نے ایک درخت پر عرشہ بنوایا جیسے ہمارے ہاں لوگ باغات کی حفاظت کے لئے بنا لیتے ہیں۔آپ اس عرشہ میں آدمیوں کی مدد سے بیٹھ جاتے تا مسلمان فوج اُنہیں دیکھتی رہے اور اسے خیال رہے کہ اس کا کمانڈر ان کے ساتھ ہے۔ انہی دنوں آپ کو اطلاع ملی کہ ایک عرب سردار نے شراب پی ہے۔شراب اگرچہ اسلام میں حرام تھی مگر عرب لوگ اس کے بہت عادی تھے اور اگر اس کی عادت پڑ جائے تو جلدی چُھٹتی نہیں ۔ ابھی اُن کے اسلام لانے پر دوتین سال کا ہی عرصہ گزرا تھا اور دوتین سال کے عرصہ میں اس کی عادت نہیں جاتی۔ بہرحال حضرت سعد بن ابی وقاص کو جب اس مسلمان عرب سردار کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے شراب پی ہے تو آپ نے اُسے قید کردیا۔ان دنوں باقاعدہ قید خانے نہیں ہوتے تھے۔جس شخص کو قید کرنا مقصود ہوتا اُسے کسی کمرہ میں بند کردیا جاتا اور اس پر پہرہ مقرر کردیا جاتا۔ چنانچہ اس مسلمان عرب سردار کو بھی ایک کمرہ میں بند کردیا گیا اور دروازہ پر پہرہ لگادیا گیا۔
وہ سال تاریخِ اسلام میں مصیبت کا سال کہلاتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا جنگ میں بہت نقصان ہوا تھا۔ایک جگہ پراسلامی لشکر کے گھوڑے دشمن کے ہاتھیوں سے بھاگے۔پاس ہی ایک چھوٹا سا دریا تھا،گھوڑے اُس میں کُودے اورعرب چونکہ تیرنا نہیں جانتے تھے اس لئے سینکڑوں مسلمان ڈوب کر مرگئے۔اِس لئے اُس سال کو مصیبت کا سال کہتے ہیں۔بہرحال وہ مسلمان عرب سردار کمرہ میں قید تھا۔جب مسلمان سپاہی جنگ سے واپس آتے اور اس کے کمرہ کے قریب بیٹھ کر یہ ذکر کرتے کہ جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا ہے تو وہ کڑھتااوراس بات پر اظہارِ افسوس کرتا کہ وہ اس موقع پر جنگ میں حصہ نہیں لے سکا۔بے شک اس میں یہ کمزوری تھی کہ اُس نے شراب پی لی لیکن وہ تھا بڑابہادر، اس کے اندر جوش پایا جاتا تھا۔ جنگ میں مسلمانوں کے نقصانات کا ذکر سُن کر وہ کمرہ میں اس طرح ٹہلنے لگ جاتا جیسے پنجرہ میں شیرٹہلتا ہے۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ شعر پڑھتا جن کا مطلب یہ تھا کہ آج ہی موقع تھا کہ تُو اسلام کو بچاتا اوراپنی بہادری کے جوہر دکھاتا مگر تُو قید ہے۔
حضرت سعدؓ کی بیوی بڑی بہادر عورت تھیں وہ ایک دن اس کے کمرہ کے پاس سے گزریں تو انہوں نے یہ شعر سُن لئے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں پہرہ نہیں ہے وہ دروازہ کے پاس گئیں اور اُس قیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔تجھے پتہ ہے کہ سعدؓ نے تجھے قید کیا ہؤا ہے،اگر اُسے پتہ لگ گیا کہ میں نے تجھے قید سے آزاد کردیا ہے تو مجھے چھوڑے گا نہیں۔لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ میں تجھے قیدسے آزاد کردوں تاکہ تُواپنی خواہش کے مطابق اسلام کے کام آسکے۔اُس نے کہا آپ جب لڑائی ہو مجھے چھوڑ دیا کریں میں وعدہ کرتا ہوں کہ لڑائی کے بعد میں فوراً واپس آکر اس کمرہ میں داخل ہوجایاکروں گا۔ اُس عورت کے دل میں بھی اسلام کا درد تھا اور اس کی حفاظت کے لئے جوش پایا جاتا تھا۔اِس لئے اُس نے اس شخص کو قید سے نکال دیا۔ چنانچہ وہ لڑائی میں شامل ہوا اور ایسی بے جگری سے لڑا کہ اس کی بہادری کی وجہ سے اسلامی لشکر بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گیا۔سعدؓ نے اُسے پہچان لیا اور بعد میں کہا کہ آج کی لڑائی میں وہ شخص موجود تھا جسے میں نے شراب پینے کی وجہ سے قید کیا ہوا تھا گو اُس نے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی تھی مگر میں اس کے حملہ کے اندازاو رقد کو پہچانتا ہوں میں اُس شخص کو تلاش کروں گا جس نے اُسے قیدسے نکالا ہے اور اُسے سخت سزا دُوں گا۔جب حضرت سعدؓ نے یہ الفاظ کہے تو اُن کی بیوی کو غصہ آگیا اور اُس نے کہا،تجھے شرم نہیں آتی کہ آپ تُو درخت پر عرشہ بناکر اس پر بیٹھا ہوا ہے او راس شخص کو تُونے قید کیا ہوا ہے جو دشمن کی فوج میں بے دریغ گھس جاتا ہے او راپنی جان کی پروا نہیں کرتا۔میں نے اُس شخص کو قید سے چُھڑایا تھا تم جو چاہو کرلو۔3
غرض عورتوں نے اسلام میں بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ لیکن یہ صرف اسلام کی ہی بات نہیں اِسلام سے پہلے مذاہب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گواُن مذاہب نے عورتوں کو اُن کے حقوق نہیں دئیے مگر انہوں نے اپنے مذہبوں کے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ مثلاً سب سے پرانا نبی ہندوستان کا کرشنؑ ہے۔ تم نے شاید سنا ہوگا کہ کرشنؑ کی گوپیاں ہوتی تھیں جواُن کے اردگرد رہتی تھیں۔ہندو تصویریں بناتے ہیں تو کرشن جی کو ایک بچے کی شکل میں دکھاتے ہیں اور پرانے قصوں کے متعلق یہ قاعدہ ہے کہ وہ قصّہ کو مزیدار بنانے کے لئے شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔بہرحال کرشن جیؑ کے متعلق جو تصویریں عام طور پر ملتی ہیں اُن میں یہ دکھایا جاتاہے کہ کرشن جی درخت پر چڑھے ہوئے ہیں اوراس درخت کے اردگرد عورتیں کھڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے ہاتھ میں مکھن اٹھایا ہوا ہے۔کرشن جی درخت سے نیچے اُترتے ہیں اور اُن سے مکھن چھین کر لے جاتے ہیں۔درحقیقت تصویری زبان میں اس میں ایک بھاری حکمت بیان کی گئی تھی اور وہ حکمت یہ ہے کہ کسی مذہبی قوم کا مکھن اس کے نومسلم ہوتے ہیں۔ جس طرح دودھ کو بلونے سے مکھن بنتا ہے اِسی طرح جب انسانی دماغ کو بلوایا جائے او رسچ اس کے اندر ڈالا جائے تو اس کے نتیجہ میں وہ صداقت کو قبول کرلیتا ہے او رپھر یہ مکھن نبی کے ہاتھ میں جاتا ہے او روہ اسے اپنی جماعت میں داخل کرلیتا ہے۔ پس ان تصویروں میں بتایا گیا ہے کہ کرشن جیؑ کے وقت میں عورتیں تبلیغ کیا کرتی تھیں اور پھر جولوگ صداقت کو قبول کرلیتے تھے انہیں ساتھ لے کر وہ کرشن جیؑ کے پاس آتیں اور وہ انہیں اپنی جماعت میں داخل کرلیتے۔ گو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ عورتوں کو کرشن جی کا مُرید بناتی تھیں یا مردوں کو بناتی تھیں۔ مگر ان تصویروں سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ کی عورتیں اتنی قربانی کرنے والی تھیں کہ وہ رات دن کرشن جی کا پیغام دنیا کو پہنچاتی رہتی تھیں او را سکے نتیجہ میں جو لوگ ایمان لے آتے تھے انہیں ساتھ لیکر کرشن جیؑ کے پاس آتی تھیں اور وہ انہیں اپنی جماعت میں داخل کرلیتے تھے۔غرض حضرت کرشنؑ کے زمانہ میں بھی عورتوں نے مذہب کے لئے بڑی قربانیاں کی ہیں۔
پھر ہم اُن نبیوں کی طرف آتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے۔اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ ہے او رمسلمانوں کی واحد مسجد جو سب سے پُرانی ہے وہ خانہ کعبہ ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے۔ا س کے بننے کا جو ذکر آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی حضرت ہاجرہ کا بڑا حصہ ہے۔حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری بیوی تھیں سارہ پہلی بیوی تھیں۔ سارہ، ہاجرہ سے کسی بات پر جھگڑپڑیں تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اگر ہاجرہ اس گھر میں رہیں تو میرااُن سے نباہ نہیں ہوسکے گا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ جھگڑا دیکھ کر سخت صدمہ ہوا اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ یا اللہ! میرے گھر کا امن بربادہورہا ہے،میری پہلی بیوی دوسری بیوی کی موجودگی میں میرے گھر میں رہنے سے انکار کررہی ہے اور تُو نے اس کی اولاد سے بڑے وعدے کئے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے کہا جیسے تیری پہلی بیوی سارہ کہتی ہے اُس میں تیرے خاندان کی بھلائی ہے۔ تُو ہاجرہ او راس کے بیٹے اسماعیل کو جنگل میں چھوڑ آ 4 چنانچہ آپ حضرت ہاجرہ اور اُس کے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو لے کر (اسلامی روایات کے مطابق)مکّہ کی طرف گئے۔وہاں پہنچ کر آپ نے ایک تھیلی کھجوروں کی او رایک مشکیزہ پانی کا اُن کے پاس رکھا او رخود واپس آگئے۔ابھی وہاں زمزم کا چشمہ نہیں نکلا تھا ا ور اس بے آب وگیاہ وادی میں پانی کا نام ونشان تک نہ تھا۔قافلے بھی پیاس کی وجہ سے وہاں سخت تکلیف اُٹھاتے تھے۔حضرت ہاجرہ نے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بیابان میں اُنہیں او ران کے اکلوتے بیٹے کو چھوڑ کر واپس جارہے ہیں تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہنے لگیں ابراہیم! تُو مجھے اور میرے بچے کو یہاں کس لئے چھوڑ چلے ہو جہاں نہ کھانے کو کچھ ملتا ہے اور نہ پینے کے لئے پانی ہے۔ تم ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوریں ہمیں دے چلے ہو یہ بھلا کتنے دن جائیں گی اس کے بعد ہم کیا کرینگے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس نظارہ کی وجہ سے کہ آپ اپنا بڑا اور اکلوتابیٹا جو بڑھاپے میں پیدا ہوا تھاجبکہ آپ کی عمر سو سال کی تھی بیابان میں چھوڑ کر جارہے ہیں،رقّت آگئی۔آپ نے سمجھا کہ اگر میں نے ہاجرہ کو زبان سے جواب دیا تو میری آواز بھرّا جائے گی اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں گے اس لئے آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھادیا جس کا مطلب یہ تھاکہ ہاجرہ!میں تجھے اور تیرے بیٹے کو کسی سگندلی کی وجہ سے یہاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ مجھے ایسا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔حضرت ہاجرہ نے آپ کی بات کوسمجھ لیا او رکہا اِذًا لَّا یُضَیِّعُنَا۔5 اگر آپ ہمیں خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت یہاں چھوڑ چلے ہیں تو ہمیں کوئی فِکر نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر حضرت ہاجرہ اس جگہ واپس آگئیں جہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو لٹایا ہوا تھا اور ایک دفعہ بھی پیچھے مُڑکر اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھا۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام درد او رغم کی وجہ سے بار بار مُڑ مُڑ کر دیکھتے جاتے تھے۔گویا حضرت ہاجرہ نے جو صبر کا نمونہ دکھایا وہ حضرت ابراہیمؑ کے نمونہ سے بڑھ کر تھا۔آپ تو بار بار مُڑ مُڑ کر دیکھتے تھے لیکن حضرت ہاجرہ نے ایک دفعہ بھی مُڑ کر نہ دیکھا اور کہا اگر خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ہمیں یہاں چھوڑ دیا جائے تو وہ خود ہماری حفاظت کرے گا ہمیں کیا پروا ہے۔ چنانچہ آپ وہاں رہیں اور پھر اسی جگہ اللہ تعالیٰ نے پانی کا چشمہ جاری کردیا۔پانی کا چشمہ نکل آنے کی وجہ سے قافلے آپ کی اجازت سے وہاں ٹھہرتے اور چشمہ کا پانی استعمال کرتے۔بعد میں ایک قبیلہ وہاں آباد ہوگیا اور اس نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اپنا سردار بنا لیا۔ پھر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان نبی پیدا ہوا۔
مسلمان عورتوں کی قُربانیاں
تو دیکھوحضرت ابراہیم علیہ السّلام کے زمانہ میں بھی عورتوں نے مذہب کی
خاطر بڑی قربانیا کی ہیں۔کرشنؑ کے زمانہ میں بھی تبلیغ کا اہم کام کیا ہے اور اسلام کے ابتدائی دَور میں بھی عورتوں نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دئیے ہیں او ربعد میں بھی عورت کا حصہ بڑھتا چلا گیا۔دیکھو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپؐ کی سب سے پہلے امداد جس نے کی وہ ایک عورت ہی تھی۔اسلام کی تبلیغ کے لئے سب سے پہلے روپے کی ضرورت تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا۔اُس وقت حضرت خدیجہؓ نے اپنی تمام دولت آپؐ کے سپرد کردی او رکہا آپ جس طرح چاہیں اُسے استعمال کریں۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی نوجوان دین کے لئے زندگی وقف کرتا ہے تو اُسے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ماں باپ کہتے ہیں ہم اپنی لڑکی اُسے نہیں دیں گے،ہماری لڑکی کھائے گی کہاں سے ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بچپن ہی سے واقفِ زندگی تھے او رآپ کے پاس کوئی روپیہ بھی نہیں تھا۔ حضرت خدیجہؓ جو ایک بڑی مالدار خاتون تھیں،بیوہ تھیں،ان سے کسی سہیلی نے کہا،تم شادی کیوں نہیں کرلیتیں۔ انہوں نے کہا،کس سے کروں؟اگر کوئی دیانتدار آدمی مِل جائے تو شادی کرلُوں۔اِس نے کہا،محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)سے بڑھ کر دیانتدار اور کون ہے۔تم نے خود اس کی دیانت کو دیکھ لیا ہے۔حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو شام کی طرف تجارتی مال دے کر بھیجا تھا اور اس سفر میں آپؐ کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔حضرت خدیجہؓ نے محسوس کیا تھا کہ یہ نفع منڈیوں کے حالا ت کی وجہ سے نہیں بلکہ امیرِ قافلہ کی نیکی اور دیانت کی وجہ سے ہے۔آپ کے غلام مَیسرہ نے بھی آپ کے اس خیال کی تائید کی تھی۔بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ کی دیانتداری کا حضرت خدیجہؓ پر بڑا اثر تھا۔جب اُس نے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کرنے کی تحریک کی تو آپ نے فرمایا اگر وہ راضی ہوجائیں تو میں اُن سے شادی کرلوں گی۔اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر25سال کی تھی اور حضرت خدیجہؓ کی عمر40سال کی تھی گویا آپ حضرت خدیجہؓ سے15سال چھوٹے تھے۔حضرت خدیجہؓ کی اس سہیلی نے جس نے شادی کی تحریک کی تھی کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں اس بارہ میں کسی سے بات کروں۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا میں راضی ہوں او رمیری طرف سے تمہیں اس بارہ میں بات کرنے کی اجازت ہے۔ چنانچہ وہ عورت حضرت خدیجہؓ کے رشتہ داروں کے پاس گئی۔انہوں نے کہا اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) راضی ہوجائے تو ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں۔ پھر وہ عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اُس نے دریافت کیا کہ آپؐ شادی کیوں نہیں کرتے؟آپؐ نے فرمایا میرے پاس کوئی مال نہیں ہے جس سے میں شادی کروں۔اُس نے کہا اگر یہ مشکل دور ہوجائے تو پھر۔آپؐ نے فرمایا وہ کون عورت ہے؟اس نے کہاخدیجہؓ۔آپؐ نے فرمایا میں اُس تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں؟اس نے کہا یہ میرے ذمّہ رہا۔آپؐ نے فرمایا مجھے منظور ہے۔ تب حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے چچا کی معرفت شادی کا پختہ فیصلہ کرلیا اور آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوگئی۔6
شادی کے بعد جب حضرت خدیجہؓ نے محسوس کیا کہ آپ کا حسّاس دل ایسی زندگی میں کوئی خاص لُطف نہیں پائے گا کہ آپؐ کی بیوی مالدار ہو اورآپؐ ا س کے محتاج ہوں تو انہوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ اپنی تمام دولت آپؐ کی خدمت میں پیش کردیں گی تا کہ جب او رجیسے آپؐ چاہیں اُسے خرچ کرسکیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔میرے چچا کے بیٹے!(اُس وقت آپؐ ابھی رسالت کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے اور عرب میں قاعدہ ہے جب بیویاں اپنے خاوند کو مخاطب کرتی ہیں تو چچا کا بیٹا کہا کرتی ہیں)میں اپنا سارا مال اور غلام آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔آپ میری دلجوئی کریں او رمیری اس پیشکش کو قبول فرمالیں۔آپؐ نے فرمایا خدیجہ!منہ سے بات کہہ دینا آسان ہوتا ہے مگر بعد میں اس پر قائم رہنا مشکل ہوتاہے۔تمہیں پتہ ہے میں غلامی کا سخت مخالف ہوں اور تمہارے غلام ہیں اگر تم نے وہ سارے غلام میرے سپرد کر دیئے تو مَیں اُنہیں فوراً آزاد کر دوں گا۔ اُس زمانہ میں بڑی جائیداد غلام ہی ہوتی تھی۔ آپ نے فرمایا خدیجہ! اگر میں نے تمہارے سب غلاموں کو آزاد کر دیا تو تم خفا تو نہیں ہوگی اور اپنے عہد پر قائم رہوگی؟ حضرت خدیجہؓ نے فرمایا آپ جس طرح چاہیں کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں میں آپ کی خوشی میں ہی اپنی خوشی محسوس کرتی ہوں۔ چنانچہ آپؐ نے خانہ کعبہ میں لوگوں کو جمع کیااور اعلان کیا کہ اے لوگو!گواہ رہو آج خدیجہؓ نے اپنا سارا مال مجھے دے دیا ہے اور مجھے اختیار دیا ہے کہ میں جیسے چاہوں استعمال کروں۔سو آج میں نے اس کے سب غلام آزاد کردئیے ہیں اب وہ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔ گویا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی تو اُس وقت وہ روپیہ ایک عورت نے ہی آپؐ کو مہیا کیا۔
پھر آپؐ کو عبادت کا شوق ہوا تو آپؐ شہر سے تین چار میل دُور ایک پہاڑی کی چوٹی پر پتھروں کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سے غار میں جسے حرا کہتے ہیں عبادت کے لئے تشریف لے جاتے۔حضرت خدیجہؓ آپؐ کو تین چار دن کے لئے کھانا دے دیتیں جو ستوؤں اور کھجوروں پر مشتمل ہوتا تھا7 جب وہ ختم ہوجاتا تو آپ واپس آتے او رحضرت خدیجہؓ پھر تین چار دن تک کی خوراک دے دیتیں او رآپ حرا میں واپس تشریف لے جاتے۔
پھر جب آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ بہت گھبرائے۔آپؐ نے خیال کیا کہ انسان چاہے کتنی بھی کوشش کرے خداتعالیٰ کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی خداتعالیٰ کے حق کو ادا نہ کرسکوں او راس طرح اس کی ناراضگی کا مورد بنوں۔آپؐ حضرت خدیجہؓ کے پاس آگئے اور فرمایا۔خدیجہ!آج جبریلؑ آیا ہے اور اُس نے مجھے خداتعالیٰ کا یہ حکم دیا ہے کہ جاؤ اور ساری دُنیا کو خُدائے واحد کی تبلیغ کرو لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہوجائے۔اس بات کو سنتے ہی فوراً حضرت خدیجہؓ نے کہا میرے چچا کے بیٹے!آپ گھبراتے کیوں ہیں۔کَلَّا وَاللہِ لَایُخْزِیْکَ اللہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ 8 خدا کی قسم!یہ کلام خداتعالیٰ نے اس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ ناکام ونامراد ہوں اور خداتعالیٰ آپ کو رُسوا کردے خداتعالیٰ ایسا کب کرسکتا ہے۔آپ تو وہ ہیں کہ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بے یارومددگار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں اور وہ اخلاق جو مُلک سے مِٹ چکے ہیں وہ آپ کی ذات کے ذریعہ دُنیا میں دوبارہ قائم ہورہے ہیں۔مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ کیاایسے انسان کو خدا تعالیٰ کسی ابتلاء میں ڈال سکتا ہے؟اس نے اگر آپ پر کلام نازل کیا ہے تو اس لئے نہیں کہ آپ کو کسی دُکھ میں ڈالے بلکہ اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ آپ کی عزّت بڑھائے۔
پھر سب سے پہلے جو آپؐ کے دعویٰ پر ایمان لائیں وہ حضرت خدیجہؓ ہی تھیں۔ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی بھی ایک عورت ہی تھی۔مؤرخین نے اس بات پر بڑی بحث کی ہے کہ سب سے پہلے کون مسلمان ہوا۔ بعض نے کہا ہے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ تھیں بعض نے حضرت ابوبکرؓ کو پہلا مسلمان قرار دیا ہے اور شیعہ حضرت علیؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لائے۔ محققین نے لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ ایمان لائیں۔جواں سال مردوں میں سے حضرت ابوبکرؓ سب سے پہلے ایمان لائے۔بچوں میں سے حضرت علیؓ کو سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی اور غلاموں میں سے حضرت زیدؓ پہلے ایمان لائے۔ بہرحال اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں پہلا مالی بوجھ اُٹھانے والی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس قدر خدمت کی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ان کی خدمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی محبت وفات کے بعد بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جوش مارتی رہی۔جب بھی کوئی بات ہوتی آپ فرماتے خدیجہؓ نے یوں کہا تھا، خدیجہؓ یوں کیا کرتی تھی۔ او راس کی وجہ سے آپؐ کی نوجوان بیویاں چِڑ جایا کرتی تھیں مثلاً حضرت عائشہؓ جوان تھیں اور پھر آپؐ کی خدمت بھی کرتی تھیں۔جب بات بات پر آپؐ حضرت خدیجہؓ کاذکر فرماتے تو وہ بعض دفعہ چِڑ جایا کرتیں۔ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے کہا یا رسول اللہ!آپ کوکیا ہوگیا ہے!خدیجہؓ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو جوان اورخدمت کرنے والی بیویاں دی ہیں مگرپھر بھی آپ ہر وقت اُسی بُڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ!تجھے معلوم نہیں خدیجہؓ نے میرا ساتھ کس وفاداری کے ساتھ دیا تھا۔ ہر مصیبت میں اس نے میرا ساتھ دیا اور ہر مشکل کے وقت اس نے میرے لئے قربانی کی، کیا میں اُسے بھول سکتا ہوں؟تمہارا مقام اپنی جگہ ہے اور خدیجہؓ کا مقام اپنی جگہ ہے۔اس نے میری اُس وقت خدمت کی جب ساری دنیا مجھے چھوڑ چکی تھی۔وہ میرے دشمنوں کے مقابلہ میں میرے ساتھ پہاڑ بن کر کھڑی رہی۔9
پھر حضرت خدیجہؓ کی خدمات کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر اثر تھا کہ ایک دفعہ ان کی بہن ملنے کے لئے آئیں۔اُن کی آواز حضرت خدیجہؓ کی آواز سے ملتی تھی۔ان کی آواز جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں پڑی تو آپؐ کو یوں معلوم ہوا کہ گویا حضرت خدیجہؓ آگئی ہیں۔ تاریخ میں آتا ہے کہ آپؐ اس کی آواز سُن کر بے قرار ہوگئے او راس بے کلی کی حالت میں فرمانے لگے۔ہائے میری خدیجہؓ!ہائے میری خدیجہؓ! یعنی میری خدیجہ کہاں سے آگئی!لوگوں نے کہا یا رسول اللہ!خدیجہؓ کو تو فوت ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں یہ اُن کی بہن ہے۔10 اب دیکھ لو!حضرت خدیجہؓ کی وفات کے پندرہ سولہ سال بعد بھی ان کی آواز کے ساتھ ملتی جلتی آواز سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے تاب ہوکر ہائے میری خدیجہ! کہہ اُٹھنا اس بات کی کتنی واضح دلیل ہے کہ ان کی خدمات کا آپؐ کے دل پر گہرا اثر تھا او روہ لمباعرصہ گزر جانے کے باوجود بھی آپؐ کے دل سے محو نہیں ہوا تھا۔ تو اسلا م کی ابتداء میں بھی عورتوں نے ہی زیادہ خدمات کی ہیں۔
جب آپؐ نے دعویٰ نبوت کیا تو سارے مکہ والے آپؐ کے مخالف ہوگئے۔اس وقت اگر آپؐ کو کہیں پناہ ملتی تھی تو آپؐ کی پھوپھی کی لڑکی اُمِّ ہانی کے گھر میں ملتی تھی۔پُرانے صحابہ کہا کرتے تھے کہ ہم اُمّ ہانی کے گھر جاکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین سیکھا کرتے تھے۔ غرض پہلی ہستی جس نے آپؐ کی مالی خدمت کی اور غارِ حرا میں عبادت کے زمانہ میں آپؐ کو کھانا وغیرہ باقاعدگی سے پہنچایا وہ ایک عورت ہی تھی اور دعویٰ نبوّت کے بعد جب سارا مکّہ آپؐ کا مخالف ہوگیا تھا تو جس نے آپؐ کو پناہ دی وہ عورت ہی تھی۔
پھر تیسرا نازک ترین وقت آپؐ کی زندگی میں وہ آیا جب عرب کے تمام قبائل نے متحد ہوکر ایک بڑا لشکر مدینہ پر چڑھائی کے لئے بھیجا۔اس وقت مدینہ کے بعض یہودی قبائل بھی جو بظاہر مسلمانوں کے حلیف تھے دشمن کے ساتھ مل گئے تھے اس وقت بھی ایک عورت ہی تھی جس نے ہمت سے کام لیا اور دشمن کے حملہ کو ناکام کردیا۔جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس موقع پر مدینہ کے یہودی بھی مُشرکینِ مکّہ کے ساتھ مِل گئے تھے اور باہر سے بیس سے چوبیس ہزار کے درمیان تعداد میں دشمن کا لشکر حملہآور ہورہاتھا۔ اس کے مقابلہ میں جو مسلمان تھے اُن کی تعداد صرف بارہ سو تھی۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی غدّاری کا علم ہوا تو چونکہ مستورات ان یہودیوں کے اعتبار پر اُس علاقہ کی طرف رکھی گئی تھیں جدھر یہودی قبائل کے قلعے تھے اور اب وہ بغیر حفاظت کے تھیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت ضروری سمجھی اور بارہ سو کے قریب لشکر میں سے پانچ سو سپاہیوں کو عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر فرمادیا لیکن اس سے پہلے تمام عورتیں غیر محفوظ تھیں۔ایک دن دشمن نے شدید حملہ کیا جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ اطمینان سے نماز بھی نہ پڑھ سکے۔دشمن سامنے سے حملہ کررہا تھا اور یہودی اس بات کی تاڑ میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو اُبھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر مسلمان عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں۔ چنانچہ ایک دن یہودیوں نے ایک جاسوس بھیجا تا کہ وہ معلوم کرے کہ عورتیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا خاصی تعداد سپاہیوں کی اُن کی حفاظت کے لئے مقرر ہے۔ جس خاص احاطہ میں خاص خاص خاندانوں کو جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کردیا گیا تھااس کے پاس اس جاسوس نے منڈلانا شروع کردیا اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیاکہ آیا مسلمان سپاہی اردگرد کہیں پوشیدہ تو نہیں۔وہ اس تاڑ میں ہی تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اُسے دیکھ لیا۔ اتفاقاً اُس وقت ایک ہی مسلمان وہاں تھا جو بیمار اور کمزور دل تھا۔ حضرت صفیہؓ نے اُسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں پھر رہا ہے اور چاروں طرف دیکھتا پھرتا ہے یہ یقیناً جاسوس ہے، تم اس کا مقابلہ کرو۔ لیکن اس کمزور دل اور بیمار صحابی نے مقابلہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا مجھے ڈر آتا ہے۔ تب حضرت صفیہؓ نے خود ایک چوب اتاری اور اس جاسوس کی نظر بچاکر اس زور سے اُسے ماری کہ وہ بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ جب وہ یہودی بیہوش ہوکر گرا تو وہ ننگا ہوگیا۔حضرت صفیہؓ نے اس صحابی سے کہا اب ذرا اس پر کپڑا تو ڈال دو لیکن اس صحابی کا دل بہت کمزور تھا وہ پھر بھی کہنے لگا مجھے ڈرآتا ہے کہ کہیں یہ شخص زندہ ہی نہ ہو اور مجھے مار نہ دے۔ آخرکار حضرت صفیہؓ نے ہی جُرأت کی۔ آپ اپنی آنکھوں پر کپڑا ڈال کر ایک طرف سے گئیں اور اُس یہودی پر کپڑا ڈالا اور اس کے بعد اس کی مشکیں کَس دیں۔11
پھر جب جنگِ اُحد کے موقع پر دشمن کا ایک ریلا آیا اور مسلمان لشکر کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے دُور تک دھکیل دئیے گئے اور صرف چند مسلمان آپؐ کے پاس رہ گئے اُس وقت دشمن کی طرف سے کچھ پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خَود پر لگے جس کی وجہ سے خَودکاکیل آپؐ کی پیشانی میں گھس گیا اور آپ بیہوش ہوکر مسلمانوں کی لاشوں پر گر پڑے۔اس کے بعد بعض اَور مسلمانوں کی لاشیں آپؐ کے جسمِ مبارک پر گریں او رمسلمانوں نے سمجھا کہ آپؐ شہید ہوگئے ہیں۔12اُس وقت بھی مسلمان عورتیں ہی تھیں جنہوں نے اپنی وفاداری کا ایسا ثبوت پیش کیا کہ جس کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہے۔
اُحد کا میدان مدینہ سے آٹھ نو میل کے فاصلہ پر تھا۔ جب مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پہنچی تو عورتیں بے تحاشا روتی اور بلبلاتی ہوئی شہر سے باہر نِکل آئیں اور میدانِ جنگ کی طرف دوڑ پڑیں۔ اکثر عورتوں کو رستہ میں آپؐ کی سلامتی کی خبر مل گئی اور وہ وہیں ٹھہر گئیں مگر ایک عورت دیوانہ وار اُحد تک جا پہنچی۔اس عورت کا خاوند ،بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ جب وہ مسلمان لشکر کے قریب پہنچی تو اس نے ایک صحابی سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟چونکہ خبر دینے والا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھا اس لئے اس نے اُس عورت سے کہا۔ بی بی! افسوس ہے کہ تمہارا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے۔اس پر اُس عورت نے کہا تم عجیب ہو۔میں تو پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟اور تم یہ خبر دیتے ہو کہ تیرا باپ مارا گیا ہے۔ اِس پر اُس صحابی نے کہا بی بی!مجھے افسوس ہے کہ تیرا خاوند بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اِس پر عورت نے پھر کہا میں نے تم سے اپنے خاوند کے متعلق دریافت نہیں کیا میں تو یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاکیا حال ہے؟ اِس پر اُس صحابی نے اُسے پھر کہا۔بی بی!مجھے افسوس ہے کہ تیرا بھائی بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اُس عورت نے بڑے جوش سے کہا میں نے تم سے اپنے بھائی کے متعلق دریافت نہیں کیا۔میں تو تم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پُوچھ رہی ہوں تم یہ بتاؤ کہ آپؐ کا کیا حال ہے؟جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ،بھائی اور خاوند کی موت کی کوئی پروا نہیں،وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہے تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور انہوں نے کہا۔بی بی!رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں۔اس پر اُس نے کہا۔مجھے بتاؤ وہ کہاں ہیں؟اور پھر دوڑتی ہوئی اُس طرف گئی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے اور وہاں پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہوکر آپؐ کا دامن پکڑ کر کہنے لگی۔یارسول اللہ!میری ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کیا پروا ہے مجھے تو صرف آپ کی زندگی کی ضرورت تھی اگر آپ زندہ ہیں تومجھے کسی اَور کی وفات کا فکر نہیں۔13
اب دیکھو اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق تھا۔ لوگ اُسے یکے بعد دیگرے باپ،بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا۔
پھر اسی قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں او ربچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ ایک پُرانے اور بہادر انصاری صحابی سعدؓ بن معاذ نے پکڑی ہوئی تھی اور وہ فخر سے آگے آگے چلے آرہے تھے۔شہر کے پاس انہیں اپنی بُڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہوچکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اس کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔اس بُڑھیا کی آنکھوں میں موتیا بند اُتر رہا تھا اور اس کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہوگئی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ سعدؓبن معاذ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملے گی تو اُسے صدمہ ہوگا۔اس لئے انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حوصلہ دلائیں او رتسلّی دیں۔ اس لئے جونہی اُن کی نظر اپنی والدہ پر پڑی انہوں نے کہا،یا رسو ل اللہ میری ماں! یارسولَ اللہ میری ماں! آپؐ نے فرمایا۔بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا ایک لڑکا اس جنگ میں شہید ہوگیا ہے۔بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپؐ کے چہرہ کو نہ دیکھ سکی۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتی رہی آخر کار اس کی نظر آپؐ کے چہرہ پر ٹِک گئی۔وہ آپؐ کے قریب آئی اور کہنے لگی یارسول اللہ!جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا ہے تو آپ سمجھیں کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھالیا۔14
اب دیکھو وہ عورت جس کے بڑھاپے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا۔کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اورآپؐ کی حفاظت کے سلسلہ میں میرے بیٹے نے اپنی جان دی ہے میری قوت کو بڑھانے کا موجب ہوگا۔ تو دیکھو عورتوں کی یہ عظیم الشّان قربانی تھی جس سے اسلام دُنیا میں پھیلا۔
اِس زمانہ میں بھی دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کی قربانیاں دین کی خاطر کم نہیں ہیں۔1920ء میں میں نے جب مسجد برلن کے لئے چندہ کی تحریک کی تو جماعت کی عورتوں نے جو اُس وقت تعداد میں اتنی بھی نہیں تھیں جتنی تم یہاں بیٹھی ہو۔اپنے زیور اتار اتار کر رکھ دئیے اور کہا انہیں بیچ کر رقم حاصل کرلیں او رمسجد فنڈ میں دے دیں۔٭
غرض اُس وقت کی عورتوں نے اس قدر قربانی کی تھی کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ مسجد کے لئے جمع کردیا او راس چیز کا غیروں پر گہرا اثر ہوا۔وہ جب بھی احمدیوں سے ملتے تو اس چیز کا ذکر کرتے او رکہتے کہ ہم پر اس چیز کا بہت اثر ہے۔اب تم اُن سے بہت زیادہ ہو۔ اگر تم میں وہی ایمان پیدا ہوجائے جو 1920ء کی عورتوں کے اندر تھا تو تم ایک لاکھ نہیں پانچ لاکھ روپیہ ایک ماہ میں جمع کرسکتی ہو لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمان پیدا کیا جائے۔
جب تقسیمِ مُلک ہوئی اور ہم ہجرت کرکے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی۔رتن باغ میں ہم مقیم تھے وہیں وہ آکر ملی اور اپنا زیور نکال کر کہنے لگی کہ حضور! میرا یہ زیور چندہ میں دے دیں۔ میں نے کہا بی بی!عورتوں کو زیور کا بہت خیال ہوتا ہے تمہارے سارے زیور سکھوں نے لُوٹ لئے ہیں یہی ایک زیور تمہارے پاس بچا ہے تم اسے اپنے پاس رکھو۔اِس پر اُس نے کہا حضور!جب میں ہندوستان سے چلی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ اگر میں امن سے لاہور پہنچ گئی تو میں اپنا یہ زیور چندہ میں دے دُوں گی۔ اگر سکھ باقی زیورات کے ساتھ یہ زیور بھی چھین کر لے جاتے تو میں کیا کرسکتی تھی۔اب میں بہرحال یہ زیور چندہ میں دُوں گی۔آپ مجھے اسے اپنے پاس رکھنے پر مجبور نہ کریں۔ چنانچہ اس عورت نے اپنا زیور چندہ میں دے دیا۔
٭ اس تقریر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ جب میں نے یہ تحریک کی تھی تو اُمِّ طاہر کی والدہ زندہ تھی۔انہوں نے اُسی وقت اپنی بیٹیوں او ربہوؤں کو بلایا اور کہا کہ سب زیور اُتار کر رکھ دو میں یہ سب زیور مسجد برلن میں چندہ کے طور پر دُوں گی چنانچہ وہ سب زیور بیچ کرمسجد برلن کے چندہ میں دے دیا گیا۔
اب بھی وہ عورت زندہ ہے۔ مشرقی پنجاب سے جو عورتیں پاکستان آئی تھیں ان میں سے ہزاروں ایسی ملیں گی جو لُٹی لٹائی پاکستان پہنچی ہیں۔کئی جگہوں پر تو سکھوں نے اُن سے زیور اوردوسری چیزیں چھین لیں اور بعض جگہوں پر خود انہوں نے ڈر کے مارے اپنے زیور اور نقدی پھینک دی تاکہ اُن کے لالچ سے سِکھ ان پر حملہ آور نہ ہوں اوروہ امن سے پاکستان پہنچ جائیں۔مگر اس عورت کا صرف ایک ہی زیور بچا او روہ بھی اس نے اسلام کی خدمت کے لئے پیش کردیا۔
غرض اسلام میں عورتوں نے ہمیشہ سے قربانیاں کی ہیں اور اب بھی کرتی چلی جاتی ہیں اور اگلے جہان میں بھی اسلام نے عورتوں کے درجہ کو بلند کیا ہے۔ چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت مومن ہو،نمازوں کی پابند ہو،زکوٰۃ دیتی ہو،ہم اُسے جنّت میں اونچے مقام پر رکھیں گے۔عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام میں عورت کی رُوح کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ میں جب یورپ گیا تو مجھ پر بھی ایک عیسائی نے یہی اعتراض کیا میں نے اُسے جواب دیا کہ یہ الزام بالکل غلط ہے اسلام عوت کے حقوق کو کلّی طور پر تسلیم کرتا ہے بلکہ اُس نے روحانی اور اُخروی انعامات میں بھی عورت کو برابر کا شریک قرار دیا ہے۔اِس پر اُس نے شرمندہ ہوتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ حقیقت یہی ہےکہ اسلام پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عورت میں رُوح کا قائل نہیں ،غلط ہے۔
پس اسلام کی تاریخ ہی نہیں دوسرے مذاہب کی تاریخ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ عورتوں نے مذہب کی بہت بڑی خدمت کی ہے اورعورتیں وہ تمام کام کرسکتی ہیں جو مرد کرسکتے ہیں۔وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ جب لڑائی کا موقع آیا تو وہ لڑائی بھی کرتی رہی ہیں۔
جب قادیان میں ہندوؤں او رسکھوں نے حملہ کیاتو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیاگیا او ران کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا۔ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سِکھ اور ہندو حملہ کرتے تو وہ عورتیں ان دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان سکھوں او رہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے اُن پر حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں۔ اورسب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور اُن کی سردار بنائی گئی تھی۔ اب بھی وہ عورت زندہ ہے لیکن اب وہ بُڑھیا اور ضعیف ہوچکی ہے وہ عورتوں کو سکھاتی تھی کہ اِس اِس طرح لڑنا چاہئیے او رلڑائی میں ان کی کمان کرتی تھی۔
غرض کوئی کام بھی ایسا نہیں جو عورت نہیں کرسکتی۔ وہ تبلیغ بھی کرسکتی ہے، وہ پڑھا بھی سکتی ہے ،وہ لڑائی میں بھی شامل ہوسکتی ہے او راگر مال اور جان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کرسکتی ہے او ربعض کام وہ مردوں سے بھی لے سکتی ہے۔مرد بعض دفعہ کمزوری دکھا جاتے ہیں اُس وقت جو غیرت عورت دکھاتی ہے وہ کوئی اور نہیں دکھا سکتا۔
چند دن ہوئے میرے پاس ایک لڑکا آیا۔وہ جالندھر کارہنے والا تھا اور اس کا نانا وہاں پیر تھا او راحمدیت کا سخت مخالف تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مَیں فلاں کا نواسہ ہوں۔ میں نے کہا میں تمہارے نانا کو جانتاہوں او رمجھے یاد ہے کہ تمہاری ماں قادیان میں مجھے ملنے آیا کرتی تھی۔اُس نے کہا یہ بات درست ہے۔اب وہ فوت ہوچکی ہیں اور قادیان میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں۔ میں نے کہا اب تم کس طرح یہاں آئے ہو؟ اس نے کہا میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میری ماں میرے کان میں ہمیشہ یہ بات ڈالتی تھی کہ بیٹا!میں نے دین کی خدمت کے لئے تمہیں وقف کرنا ہے۔ چنانچہ امریکن وفد جو پاکستان آیا تھا اس کے ذریعہ میں نے سِل کے ٹیکے کاکام سیکھا اور اب میں ایک اچھے سرکاری عہدہ پر ہوں مگر میرے دل میں ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ میری والدہ کی یہ خواہش تھی کہ میں اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کردوں۔ میں نے اس بات کا اپنے باپ سے بھی ذکر کیا تو انہوں نے کہا میں تمہاری والدہ کی خواہش میں روک نہیں بننا چاہتا تم بڑی خوشی سے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرو۔اب میں یہاں آیا ہوں کہ حضور میرا وقف قبول فرمائیں او رمجھے کسی دینی خدمت پر لگائیں۔اَب دیکھو وہ عورت قادیان میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ1946ء میں یا اس سے پہلے فوت ہوئی ہوگی اور اب اس کی وفات پر دس بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس نے بچپن سے ہی اپنے بیٹے کے کان میں جو بات ڈالی تھی وہ اَب بھی اس کے دل ودماغ سے نہیں نکلی۔وہ چھوٹا سا تھا جب اس نے اپنے بیٹے کے کان میں یہ بات ڈالنی شروع کی کہ میں نے تمہیں دین کی خاطر وقف کرنا ہے۔ بعد میں وہ جوان ہوا، گریجوایٹ بنا اور پھر اس نے سِل کا امریکن ڈاکٹروں سے علاج سیکھا اور اس کے بعد ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز ہوا۔ لیکن اس کے ذہن سے یہ بات نہ نکلی کہ اس کی ماں کی یہ خواہش تھی کہ اس نے دین کی خا طر اپنی زندگی وقف کرنی ہے۔ غرض عورت نہ صرف خود قربانی کرسکتی ہے بلکہ مردوں کو بھی دین کی خدمت کے لئے تیار کرسکتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بات ہے ایک دفعہ اسلامی لشکر کا مقابلہ عیسائی لشکر سے ہوا۔عیسائی لشکر زیادہ طاقتور تھا اور اسلامی لشکر کمزور تھا۔اس لئے وہ مقابلہ کی تاب نہ لاسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سپاہیوں کی سواریاں پیچھے کی طرف بھاگیں۔ اس اسلامی لشکر کے کمانڈر یزید بن ابُوسفیان تھے۔او راُن کے باپ ابُوسفیان بھی ان کے ساتھ تھے وہ بھی پیچھے کی طرف بھاگے۔ فوج کے پیچھے عورتیں تھیں اور اُن عورتوں میں ابُوسفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی جواسلام لانے سے پہلے اسلام کی اتنی دشمن تھی کہ ایک دفعہ جب جنگ میں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے تو اُس نے اُن کا کلیجہ نکالنے والے کے لئے انعام مقرر کیا۔ہندہ نے جب دیکھا کہ اسلامی لشکر کے پاؤں اُکھڑ چکے ہیں اور مسلمان سپاہی پیچھے کی طرف بھاگے آرہے ہیں تو اس نے عورتوں کو جمع کیا اور کہا تمہارے مردوں نے اسلام سے غداری کی ہے او روہ دشمن کے آگے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔اب تمہارا کام ہے کہ تم انہیں روکو۔عورتوں نے کہا ہمارے پاس تو کوئی ہتھیار نہیں ہم انہیں کیسے روک سکتی ہیں۔ ہندہ نے کہاخیمے توڑ دو اور بانس نکال لو اورجو سپاہی پیچھے آئے اس کی اونٹنی یا گھوڑے کو بانس مار مار کر پیچھے موڑدو۔او رکہو بے حیاؤ واپس جاؤ دشمن سے لڑو۔ اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو ہم عورتیں دشمن کا مقابلہ کریں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب اسلامی لشکر عورتوں کے قریب پہنچا تو انہوں نے خیموں کے بانس نکال لئے اور اُن کی سواریوں کے مونہوں پر مارنے لگیں۔ ہندہ نے بھی ایک بانس ہاتھ میں لیا اور ابوسفیان کی سواری کو مارا اور کہا بے حیا! جب مشرکینِ مکہ اسلام کے مقابلہ کے لئے جاتے تھے تو اُن کے لشکر کا کمانڈر ہوا کرتا تھا۔اب مسلمان ہونے کے بعد تجھے اسلام کی خاطر لڑنا پڑا ہے تو پیچھے بھاگ آیا ہے۔اسی طرح اس نے اپنے بیٹے کی سواری کو بھی بانس مارا اور اُسے بھی پیٹھ دکھانے پر ملامت کی۔ابوسفیان کی غیرت نے بھی جوش مارا اور اس نے اپنے بیٹے یزید سے کہا بیٹا! واپس چلو! عیسائیوں کا لشکر ہم سے بہت طاقتور ہے مگر اُن کے ہاتھوں مارا جانا برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن اِن عورتوں کے ڈنڈے نہیں کھائے جاسکتے۔ چنانچہ اسلامی لشکر واپس گیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُسے فتح دیدی۔
مردوں کو قربانی پر آمادہ کرو
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے مردوں سے کام لینا بھی عورتوں کو آتا ہے۔ وہ
انہیں تحریک کرکے قربانی کے لئے آمادہ کرسکتی ہیں اور اس کی ہمارے ہاں بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔عورتوں نے اپنے مردوں کو تحریک کی اور انہوں نے قربانیاں کیں۔ آخر دیکھ لو ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضۂ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ان عورتوں کے اَب بال سفید ہوچکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے معاً بعد چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے۔ ہمارے ایک مبلّغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں۔ وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے۔ اُن کے واقعات سُن کر بھی انسان کو رقّت آجاتی ہے۔ ایک دن اُن کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا۔امّاں!ابّا کسے کہتے ہیں ؟سکول میں سارے بچے اَبّا اَبّا کہتے ہیں۔ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارا ابّا کہاں گیا ہے؟کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے ہی تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے اور جب وہ واپس آئے تو وہ بچے 17،17،18،18سال کے ہوچکے تھے۔ اب دیکھ لو یہ اُن کی بیوی کی ہمّت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کاکام کرتے رہے۔ اگر وہ انہیں اپنی درد بھری کہانیاں لکھتی رہتی تو وہ یا تو خود بھاگ آتے یا سلسلہ کو مجبور کرتے کہ انہیں بلا لیا جائے۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض عورتوں نے اس بارہ میں کمزوری بھی دکھائی ہے۔ان کے خاوندوں کو باہر گئے ابھی دوسال ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے دفتر کو لکھنا شروع کیا کہ یا تو ہمارے خاوندوں کو واپس بُلا دو یا ہم انہیں لکھیں گی کہ وہ کام چھوڑ کر آجائیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری عورتیں کمزور ہوتی ہیں۔ اگر بعض عورتیں کمزور ہوتی ہیں تو بعض مرد بھی کمزور ہوتے ہیں۔ کمزوری دکھانے میں عورتیں منفرد نہیں بلکہ مردوں میں سے بھی ایک حصّہ کمزوری دکھا جاتا ہے۔غرض کمزوری کو دیکھو تو مرد اورعورت دونوں برابر ہیں اور اگر قوت کو دیکھو تو مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ عشق اور قربانی کو دیکھو تو دونوں برابر ہیں۔غیرت کو دیکھو تو دونوں برابر ہیں۔غرض کسی کام کو دیکھوجس ہمّت سے اُسے مرد کرسکتے ہیں اُسی ہمت سے اُسے عورتیں بھی کرسکتی ہیں۔اس لئے عورت اپنے فرض کو پہچانے او روہ مضبوطی سے اپنے ایمان پرقائم رہے توکسی کی طاقت نہیں کہ وہ احمدیت کوکوئی نقصان پہنچا سکے۔ یہی بات دیکھ لو کہ اگر موجودہ منافقوں کی بیویاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی عورتوں جیسا نمونہ دکھاتیں تو کیا اُن کو منافقت دکھانے کی جُرأت ہوسکتی تھی؟
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ کے لئے باہر تشریف لے گئے ایک صحابی اُس وقت موجود نہیں تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لئے باہر بھیجا ہوا تھا۔وہ مدینہ آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر لڑائی کے باہر جاچکے ہیں۔وہ ایک لمبا عرصہ باہر رہے تھے انہیں اپنی بیوی سے جو نوجوان اور خوبصورت تھی بہت محبت تھی۔ انہوں نے چاہا کہ گھر جاکر اس سے پیار کرلیں چنانچہ وہ گھرآئے۔ان کی بیوی کوئی کام کررہی تھی۔ وہ آگے بڑھے اور اُسے پیار کرنا چاہا اُس نے انہیں دیکھتے ہی دھکّا دے کر پیچھے پھینک دیا او رکہنے لگی تجھے شرم نہیں آتی خداتعالیٰ کا رسول تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رُومی حکومت سے لڑنے کے لئے گیا ہوا ہے اور تجھے اپنی بیوی سے پیار سُوجھ رہا ہے۔اس صحابی کو بیوی کے اس فقرہ سے سخت چوٹ لگی وہ اُسی وقت گھوڑے پر سوار ہوگئے اور جدھر اسلامی لشکر گیا تھا اُدھر روانہ ہوگئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ اگر اِن منافقوں کی بیویاں بھی اسی قسم کا اخلاص دکھاتیں تو اُن کے مردوں کو منافقت دکھانے کی جُرأت ہی نہیں ہوسکتی تھی۔
ایک منافق کا سالا یہاں آیا تھا۔ میں نے اُسے کہا تھا تم میاں بشیر احمد صاحب کے پاس جاؤ اور اُن سے پُوچھ لو کہ ہم نے ان لوگوں کو کِس کِس طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ میاں بشیر احمد صاحب کے پاس گیا اور انہوں نے اُسے تفصیل کے ساتھ تمام باتیں سمجھائیں۔ بعد میں اس نے بتایا کہ مَیں اپنی بہن کے پاس گیا تھا۔ میں اُسے کہہ آیا ہوں کہ ہمارا باپ مرگیا تو ہم نے اُسے کونسا بچا لیا تھا اِسی طرح اگر تیرے خاوند نے توبہ نہ کی اوراس نے معافی نہ مانگی تو ہم تجھے بھی مُردہ سمجھ لیں گے۔ لیکن اگر تُو اپنے خاوند سے قطع تعلق کر لے تو میرا گھر تیرا گھر ہے۔ تُو میرے پاس آ جائے تو میں تیرا سارا بوجھ اُٹھا لوں گا۔ لیکن اگر تُو اپنے خاوند سے قطع تعلق نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی رہے تو پھر میں تیرا منہ بھی نہیں دیکھوں گا۔ غرض ایسے رشتہ دار بھی موجود ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنے رشتہ داروں سے بے تعلقی کا اظہار کیا مگر وہ عورتیں بھی ہیں جو منافقت میں اپنے خاوندوں کے ساتھ ہیں بلکہ وہ خیال کرتی ہیں کہ اگر اُن کے خاوند منافقت میں کچھ اَور ترقی کرلیں تو شاید انہیں فائدہ پہنچ جائے۔
غرض اسلام کا کوئی پہلو لے لو اس میں عورت مرد سے پیچھے نہیں۔ تم اپنے دلوں سے اس خیال کو دُور کردو جو بعض بیوقوف مردوں نے ڈالاہے کہ عورت بڑی مظلوم ہے۔ تم مظلوم نہیں ہو بلکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں وہ حکومت بخشی ہے جس کے مقابلہ میں دُنیا کی کوئی حکومت نہیں ٹھہر سکتی۔پاکستان کی حکومت کو دیکھ لو کئی لوگ ایسے ہیں جو اُسے گالیاں دیتے ہیں مگر بیوی کی حکومت کو کوئی گالی نہیں دیتا۔ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ تُو اپنی بیوی سے محبت او رپیار نہ کرتو وہ کہے گا تُو بڑا خبیث ہے ،تُو میرے گھر میں فتنہ ڈالناچاہتا ہے میں تیری بات نہیں مان سکتا۔ لیکن اگر اس شخص کے سامنے کوئی پاکستان کے کسی عُہدیدار کے متعلق کہے کہ وہ بڑا گندہ ہے تو شاید وہ ا سکی تصدیق کرنے لگ جائے۔ غرض کوئی شخص اپنی بیوی کی حکومت کے خلافت کوئی بات نہیں سن سکتا۔
پس تمہیں خداتعالیٰ نے بڑا اچھا موقع دیا ہے آج تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات نے کیں۔ تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی حضرت ہاجرہ نے کیں، تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی کرشنؑ علیہ السلام کی گوپیوں نے کیں، تم ویسی ہی خدمات کرسکتی ہو جیسی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم نے کیں۔حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حالات سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اُن کی زیادہ تر خدمت عورتوں نے ہی کی ہے۔جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت بڑھ گئی تو انجیل میں آتا ہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور اُس نے بڑا قیمتی عطر آپ کے پَیروں پر ڈالا اور پھر اُس نے اپنے بال کھولے اور ان بالوں سے آپ کے پاؤں پونچھنے شروع کئے15 لوگوں نے کہا یہ کتنی بے وقوف عورت ہے اس نے عطر ضائع کیا ہے۔ اس عطر کی قیمت سے کئی غریب پل سکتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تم اس عورت کو کیوں دِق کرتے ہو۔اس نے تو میرے ساتھ بھلائی کی ہے کیونکہ غرباء تو ہمیشہ تمہارے پاس رہیں گے لیکن میں تمہارے پاس ہمیشہ نہیں رہوں گا16
پھر جب آپ کو صلیب پر چڑھایا گیا تو آپ کے پاس آپ کی والدہ حضرت مریم کے علاوہ تین چار اَور عورتیں بھی تھیں17 عیسائی کتب میں اس واقعہ کی جو تصاویر دی گئی ہیں اُن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم نے تو بہت ضبط سے کام لیا ہے اور اُن کی آنکھ میں آنسو نہیں لیکن دوسری عورتوں کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک رہے ہیں۔ پھر انجیل میں آتا ہے کہ جب تین دن کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام قبر سے نکالے گئے تو سب سے پہلے عورتیں ہی ان کے پاس آئیں،مرد نہیں آئے18 پھر جب آپ پھانسی کی سزا سے بچ کر اِدھر اُدھر چُھپتے پھِرتے تھے تو تاریخ میں آتا ہے کہ ہر جگہ جہاں آپ پہنچتے عورتیں وہاں پہنچ جاتیں اور آپ سے دین کی باتیں سیکھتیں۔مرد ڈر کے مارے آپ کے قریب نہیں آتے تھے19 گویا انجیل سے بھی پتہ لگتا ہے کہ ابتدائے عیسائیت میں عورتوں کی قربانی مردوں سے زیادہ تھی۔ جب مرد حکومت کی گرفت سے ڈر گئے تو عورتیں نہیں ڈریں وہ ہر جگہ پولیس اور فوج کے پہرہ کو چیرتی ہوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جاتیں او رآپ کے قدموں میں بیٹھ کر دین کی تعلیم حاصل کرتیں۔
غرض ہر مذہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عورتوں نے بڑا کام کیا ہے۔میں نے بتایا ہے کہ برلن کی مسجد کی تحریک ہوئی تو اُس وقت کی احمدی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع کردیا۔ اب تم ہیگ کی مسجد کے لئے کوشش کررہی ہو مگر افسوس کہ تم اُتنی کوشش نہیں کررہیں جتنی1920ء میں برلن کی مسجد کے لئے عورتوں نے کی تھی۔ حالانکہ اِس وقت تم اُن سے پندرہ بیس گنا زیادہ ہو۔انہوں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ دے دیا تھا مگر تم نے ابھی ستّر ہزار روپیہ جمع کیا ہے اور پھر اُن کے جمع کردہ چندہ سے برلن میں جو زمین خریدی گئی تھی وہ جب بیچی گئی تو پچاس ہزار روپیہ اصل قیمت سے زیادہ ملا اور اس روپیہ سے لنڈن کی مسجد بن گئی۔ گویا لنڈن کی مسجد بھی انہیں عورتوں کے روپیہ سے بنی ہے۔ برلن میں مسجدتعمیر نہیں کی جاسکی تھی کیونکہ جرمن حکومت نے بعض ایسی شرائط لگادی تھیں جن کی وجہ سے مسجد کی تعمیر پر بہت زیادہ روپیہ خرچ آتا تھا۔اس لئے ہم نے وہاں مسجد کے لئے جو جگہ خرید کی تھی اُسے بیچ دیا اور جو روپیہ بچا اس سے لنڈن کی مسجد بنائی گئی۔ گویا برلن کی مسجد کے لئے بھی عورتوں نے چندہ دیا،لنڈن کی مسجد بھی انہی کے روپیہ سے بنی اور ہیگ کی مسجدکے لئے بھی عورتیں ہی روپیہ جمع کررہی ہیں۔ مرد ابھی تک ہیمبرگ کی مسجد کے لئے بھی روپیہ جمع نہیں کرسکے۔ او راس کی وجہ یہ ہے کہ عورت گو بظاہر کمزور نظرآتی ہے مگرجب وہ قربانی پر آجائے تو مرد سے زیادہ قربانی کرتی ہے۔دیکھ لو ماں جتنی قربانی اپنے بچے کے لئے کرتی ہے اس قدر قربانی مرد نہیں کرسکتا۔
مَیں نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک عورت کے بچہ کو عقاب اُٹھا کر لے گیا اور عقاب نے اس بچہ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر رکھ دیا۔وہ پہاڑی ایسی سیدھی تھی کہ اُس پر کوئی چڑھ نہیں سکتا تھا لیکن ماں نے جب دیکھا کہ عقاب نے اس کا بچہ اس پہاڑی کی چوٹی پررکھ دیا ہے تو وہ پاگلوں کی طرح اس پہاڑی پر چڑھ گئی اور اُسے پتہ بھی نہ لگا کہ وہ پہاڑی اُونچی او رسیدھی تھی او راس پر چڑھنا مشکل ہے۔ پہاڑی پر جاکر اُس نے بچہ کو پیار کیا اور اُسے دودھ پلایا۔ پھر جب نیچے اُترنے لگی تو ڈری او رشور مچانے لگی۔اس پر اِردگرد کے لوگ آئے انہوں نے رسّے ڈال ڈال کر اور کیلے گاڑ گاڑ کر بڑی مشکل سے اُسے پہاڑی سے نیچے اُتارا۔ لیکن جس وقت اس کا بچہ خطرہ میں تھا اُسے کوئی ہوش نہیں تھی اور وہ بڑی آسانی کے ساتھ اس پہاڑی پر چڑھ گئی۔ تو اگرعورت کی محبت واقع میں جوش میں آجائے تو وہ بڑی قربانی کرلیتی ہے۔ بچہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک ایسا مادّہ پیدا کیا ہے جو مردکے اندر نہیں پایا جاتا جب وہ مادّہ جوش میں آجائے تو عورت بڑی سے بڑی قربانی کرلیتی ہے۔ اصل چیز تو وہ مادّہ ہے۔ اگر مادّہ موجود ہوتو پھر قربانی کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک شخص کی جیب میں پانچ روپے ہوں تو وہ ان پانچ روپوں سے تمباکو بھی خرید سکتا ہے، اورانہیں خداتعالیٰ کے رستہ میں بھی دے سکتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کوقربانی کا جو مادّہ دیا ہے اس کو وہ بچہ کے لئے بھی استعمال کرسکتی ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر بھی استعمال کرسکتی ہے۔ جس طرح وہ شخص جس کی جیب میں روپے موجود ہوں وہ اس سے ضروریاتِ زندگی بھی خرید سکتا ہے اور خداتعالیٰ کی راہ میں بھی خرچ کرسکتا ہے۔اسی طرح عورت کے اندر قربانی کا مادہ موجود ہے وہ اُسے بچہ کے لئے بھی خرچ کرسکتی ہے اور خداتعالیٰ کی خاطر بھی خرچ کرسکتی ہے۔ جب وہ جوش میں آجائے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اسے قربانی کرنے سے روک سکے۔وہ بچوں کی اعلیٰ پرورش کرتی ہیں،ان کی تربیت کرتی ہیں اور ضرورت پڑے تو مردوں کو غیرت دلاتی اور انہیں قربانی کے لئے تیار کرتی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ1917ء میں ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری قادیان آئے اوروہاں ایک بڑا جلسہ ہوا۔پانچ چھ ہزار غیر احمدی وہاں جمع ہوا۔اُس وقت قادیان میں احمدی بہت تھوڑے تھے اور شہر کی آبادی بہت کم تھی۔1947ء میں جب ہم قادیان سے نکلے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سترہ اٹھارہ ہزار احمدی تھے لیکن اُس وقت ہزار بارہ سو کے قریب تھے اور ان کے مقابلے میں چھ سات ہزار غیر احمدی جمع ہوگئے تھے۔ انہوں نے رستے روک لئے تھے اور چلنا پھرنا مشکل ہوگیا تھا۔اس لئے مولوی ثناء اللہ صاحب نے خیال کیا کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور انہوں نے اپنی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سخت بُرا بھلا کہا۔قادیان کے قریب کے ایک گاؤں بھینی ہے وہاں کی ایک احمدی عورت ان کے جلسہ گاہ کے قریب کھڑی تھی۔مولوی ثناء اللہ صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیں اور تمام احمدی مرد بیٹھے رہے تو اس نے مولوی صاحب کو پنچابی میں گالی دے کر کہا۔‘‘تیرے دادے داڑھی ہگیا تُوں حضرت صاحب نوں گالیاں دیناایں’’۔اِس پر غیراحمدی جوش میں آگئے اور اس عورت کو مارنے کے لئے اُٹھے۔بعض احمدی اسے بچانے لگے تو دوسرے احمدیوں نے کہا۔ایسا نہ کرو،حضرت صاحب نے احمدیوں کو فساد سے منع کیا ہوا ہے۔مجھے پتہ لگا تو میں اُن پر خفا ہوا اور میں نے کہا یہاں تو ایک عورت کی عزت کا سوال تھا۔اس سے تمہیں کس نے روکا تھا۔ تمہیں شرم نہ آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی گئیں تو تم مردوں میں سے کسی کو بھی غیرت نہ آئی لیکن اس عورت کو غیرت آئی اور اس نے اس بات کی ذرہ بھی پروا نہ کی کہ غیراحمدی کتنی تعداد میں جمع ہیں اور وہ اسے ماریں گے۔اس نے اُسی وقت کھڑے ہوکر مولوی ثناء اللہ صاحب کو کہا ‘‘تیرے دادے داڑھی ہگیا تُوں حضرت صاحب نوں گالیاں دینا ایں’’۔تمہیں تو اس عورت کو بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کردینی چاہییں تھیں۔ او ر اگر تم ایسا کرتے تو میں بہت خوش ہوتا۔اب دیکھو وہ بھی ایک عورت تھی جس نے اس موقع پر بہادری دکھائی۔اُس وقت ہزار بارہ سو آدمی بھی ڈرتے تھے کہ اگر انہیں کچھ کہا تو غیر احمدی انہیں ماریں گے۔لیکن وہ کھڑی ہوگئی اور اس نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو روک دیا۔اُس نے اس بات کی پروا نہ کی کہ سارے کا سارا مجمع اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی جان ضائع ہوجائے گی۔
اپنی طاقتوں کو صحیح رنگ میں استعمال کرو
غرض اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ہرقسم کی قربانی کی توفیق دی ہوئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرو۔ اگر تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرنا
سیکھ لو تو تمہارے مقابلہ پر بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ بلکہ مرد بھی تم سے طاقت حاصل کریں گے۔ گویا تمہاری مثال دیاسلائی کی سی ہوگی اور مرد کی مثال تیل کے پیپے کی سی۔جب تم دیا سلائی سے آگ لگاؤ گی تو وہی مرد جو بزدلی کی وجہ سے کونہ میں کھڑا ہوگا جوش میں آجائے گااور جس طرح آگ کی وجہ سے تیل بھڑک اُٹھتا ہے تمہارے غیرت دلانے سے وہ بھی بھڑک اٹھے گااور پھر کسی روک او رمصیبت کی پروا نہیں کرے گا اور قربانی کرتا چلا جائے گا۔
میں جب بچہ تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے ایک ہوائی بندوق خرید کر دی تھی اور ہم اس سے جانوروں کا شکار کیا کرتے تھے۔ایک دن ہم شکار کرنے کے لئے باہر گئے تو ایک سکھ لڑکا میرے پاس آیا۔اُن دنوں اردگرد کے دیہات میں بڑی مخالفت تھی اور وہاں شکار کے لئے جانا مناسب نہیں تھا لیکن اس لڑکے کو بھی شکار کا شوق تھا۔وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا ہمارے گاؤں چلیں وہاں بہت فاختائیں ہیں۔ہم ان کا شکار کریں گے۔چنانچہ میں اس کے ساتھ اس کے گاؤں چلا گیا۔ وہاں وہ سکھ لڑکا میرے آگے آگے چلتا تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ وہ فاختہ بیٹھی ہے اس کو مارو۔ اتنے میں ایک سکھ عورت باہر نکلی اور اس لڑکے کو مخاطب کرکے کہنے لگی۔‘‘تینوں شرم نہیں آندی’’ کہ ‘‘تُو مُسلیاں کولوں جیو ہتیا کرانداایں’’ یعنی تمہیں شرم نہیں آئی کہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر جانور مرواتے ہو۔ اس عورت کا یہ کہنا تھا کہ وہ سکھ لڑکا کھڑا ہوگیااور بڑے غصے سے کہنے لگا،تم کون ہوتے ہو یوں شکارکرنے والے! حالانکہ وہ خود ہمیں وہاں لے گیا تھا۔ اب دیکھو وہ لڑکا صر ف اس عورت کی بات کی وجہ سے ہمارے مقابلہ پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اس بات کی ذرہ پروا نہ کی کہ وہ خود ہمیں ساتھ لے گیا ہے۔
پس عورت کی آواز میں ایک جوش ہوتا ہے اور مرد میں اُس کے لئے جذبۂ احترام اور ادب ہوتا ہے، چاہے کوئی مرد کتنا بُرا ہو، جُوں ہی اس کے کان میں عورت کی آواز پڑتی ہے وہ کھڑا ہوجاتا ہے۔
جب بغداد میں خلافت بہت کمزور ہوگئی اور مسلمانوں کی طاقت ٹوٹ گئی تو اُس وقت عیسائیوں نے فلسطین میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ وہاں ایک عورت باہر نکلی تو عیسائیوں نے اس کی بے عزتی کی۔ اسے علم نہیں تھا کہ مسلمانوں کی بادشاہت تباہ ہوچکی ہے۔اس نے اونچی آواز سے کہا یا اَمیرَ المومنین!اے امیر المومنین! میری مدد کو پہنچو۔اُس وقت امیر المومنین کی یہ حالت تھی کہ وہ دوسری طاقت کا ایک قیدی تھا اورسوائے دربار کے اس کی کہیں حکومت نہیں تھی۔ لیکن اس عورت کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا۔اُس نے سنا ہوا تھا کہ امیر المومنین کی ہی حکومت ہوتی ہے۔ اتفاقاً اس کے پاس سے ایک قافلہ گزر رہا تھا جو تجارت کے لئے اس طرف گیا تھا۔انہوں نے اس عورت کی آواز کو سنا۔جب وہ قافلہ بغداد پہنچا تو لوگ جمع ہوگئے او رانہوں نے قافلہ والوں سے کہا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ۔اس پر انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین میں سے آرہے تھے کہ عیسائیوں نے ایک مسلمان عورت کو قید کر لیا او راس کی بے عزتی کی تو اس نے بلند آواز میں کہا یَااَمیرَالمؤمنین!مَیں امیر المومنین کو اپنی مدد کے لئے پکارتی ہوں۔ وہ بیچاری اتنا بھی نہیں جانتی تھی کہ امیر المومنین کی کوئی حیثیت نہیں وہ خود ایک قیدی ہے اورسوائے دربار کے اس کی کہیں بھی حکومت نہیں۔اس مجمع میں خلیفہ کا ایک درباری بھی کھڑا تھا۔اس نے یہ واقعہ دربار میں بیان کیا اور کہا اِس اِس طرح ایک قافلہ فلسطین سے آیا ہے اور اس نے بتایاہے کہ راستہ میں انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان عورت کوعیسائیوں نے قید کرلیا ہے اور اس کی بے عزتی کی ہے اور اس عورت نے اپنی مدد کے لئے امیر المومنین کوپکارا ہے۔فلسطین بغدادسے تقریباً ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہے مگر اس عورت کی آواز خلیفہ کے کان میں پڑی جو خود ایک قیدی کی حیثیت میں تھاتو وہ ننگے پاؤں باہر نکل کھڑا ہوا اورکہنے لگا۔خدا کی قسم! جب تک میں اس عورت کو عیسائیوں کے قبضہ سے چھڑاؤں گا نہیں میں جوتا نہیں پہنوں گا اور باہر نکل کر اس نے فوج کو جمع کرنا شروع کیا۔ وہ نواب جو خلافت سے بغاوت کر رہے تھے جب انہیں پتہ لگا تو وہ بھی اپنی فوج لے کر آگئے اور خلیفہ کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔اس طرح ایک بڑا لشکر جمع ہوگیا جس نے فلسطین کی عیسائی حکومت کو شکست دی او راس عورت کو آزاد کروایا گیا۔
پس عورت گو کمزور ہے مگر مردوں کے اندر اس کے لئے ادب اوراحترام پایا جاتا ہے کیونکہ ہر مرد عورت کا ہی بچہ ہے اور اپنی ماں کے ادب اور احترام کی وجہ سے ہر عورت کو اپنی ماں کی جگہ سمجھتا ہے۔جب وہ دیکھتاہے کہ اسے اس کی ماں پکار رہی ہے تو وہ فوراً بھاگ پڑتا ہے۔پس اگر احمدی عورتیں قربانی کریں اور اپنے اندر دین کی خدمت کا جذبہ پیدا کریں تو چونکہ تمہاری آواز میں ایک درد ہے،ایک سوز اور گداز ہے تم دنیا کے گوشہ گوشہ میں آگ لگا دو گی اور گو بظاہر اشاعتِ دین کا کام مرد کررہے ہوں گے لیکن حقیقت میں تم ہی یہ کام کروا رہی ہوگی۔ پس اگر تم کمرِ ہمت باندھ لو او ردین کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے آمادہ ہوجاؤ تو میں تمہیں یقین دلاتاہوں کہ ابھی تم میں سے بہت سی عورتیں زندہ ہوں گی کہ اسلام غالب آجائے گا اور تم اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو گی اور آخرت میں بھی اس کے انعامات کی وارث ہو گی اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گی کہ عیسائیت شکست کھا گئی اور اسلام فتح پاگیا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی ٹوٹ چکی ہے او ررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہی قائم ہوچکی ہے۔پس یہ کام تمہارے اپنے اختیار میں ہے اور اگر تم چاہو تو تم یہ کام بڑی آسانی سے کرسکتی ہو ۔
میں دعا کرتا ہوں کہ تم سچے طور پر اسلام کی خدمت کی توفیق پاؤ او رہمیشہ اللہ تعالیٰ
کی رضا اوراس کی خوشنودی کو حاصل کرنے والی بنو۔ (''مصباح''بابت ماہ جنوری1957ء)
1 النہایہ فی غریب الاثر۔ لابن اثیر۔ جلد 1 صفحہ330 ۔ مطبوعہ بیروت 2001ء
2 فتوح الشام جلد اوّل صفحہ27، 28
3 تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 475 ، 476 مطبوعہ بیروت 1965ء
4 پیدائش باب21آیت 9 تا 12
5 بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفُّون
6 السیرۃ الحلبیۃ الجزء الاول صفحہ 163 مطبوعہ مصر 1932ء
7 بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بَدْء الوحی اِلیٰ رَسُولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
8 بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بَدْء الوحی اِلیٰ رَسُولِ اللہ(الخ)
9 بخاری کتاب مناقب الانصار باب تذویج النَّبِّی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ (الخ)
10 بخاری کتاب مناقب الانصار باب تذویج النَّبِّی صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ (الخ)
11 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 239 مطبوعہ مصر 1936ء
12 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 84 تا 88 مطبوعہ مصر 1936ء
13 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 105 مطبوعہ مصر 1936ء
14 السیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 267، 268 مطبوعہ مصر 1935ء
15 متی باب26آیت6تا13
16 متی باب26آیت6تا13
17 مرقس باب15آیت40
18 مرقس باب16۔ آیت 1 تا 6 کا خلاصہ
19 یوحنا باب20آیت1 تا 18 کا مفہوم





مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع 1956ءمیں خطابات




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ


اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی رہے گی۔
افتتاحی خطاب
(فرمودہ 26/اکتوبر 1956ء برموقع دوسرا سالانہ اجتماع انصار اللہ بمقام ربوہ)

تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدحضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت کی:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ۠ مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ1
اس کے بعد فرمایا:
‘‘آپ لوگوں کانام انصاراللہ رکھاگیاہے یہ نام قرآنی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے اور احمدیت کی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے۔ قرآنی تاریخ میں ایک دفعہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں۔چنانچہ جب آپ نے فرمایا مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ تو آپ کے حواریوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے انصار ہیں۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور ایک گروہ انصار کاتھا۔ گویایہ نام قرآنی تاریخ میں دودفعہ آیاہے۔ ایک جگہ پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق آیا ہے اور ایک جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے ایک حصہ کو انصار کہاگیا ہے۔جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی انصار اللہ کا دو جگہ ذکر آتا ہے۔ ایک دفعہ جب حضرت خلیفہ اوّل کی پیغامیوں نے مخالفت کی تو میں نے انصار اللہ کی ایک جماعت قائم کی اور دوسری دفعہ جب جماعت کے بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کی تنظیم کی گئی تو چالیس سال سے اوپر کے مردوں کی جماعت کانام انصاراللہ رکھا گیا۔ گویا جس طرح قرآن کریم میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے اِسی طرح جماعت احمدیہ میں بھی دو زمانوں میں دو جماعتوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا۔پہلے جن لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اُن میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ تھے کیونکہ یہ جماعت 1913، 1914ء میں بنائی گئی تھی اور اُس وقت اکثر صحابہ زندہ تھے اور اس جماعت میں بھی اکثر وہی شامل تھے ۔اِسی طرح قرآن کریم میں بھی جن انصار کا ذکر آتا ہے ان میں زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ شامل تھے۔ دوسری دفعہ جماعت احمدیہ میں آپ لوگوں کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیاہے جس طرح قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ادنیٰ نبی حضرت مسیح ناصریؑ کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے۔آپ لوگوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کم ہیں اور زیادہ حصہ اُن لوگوں کا ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے۔اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام والی بات بھی پوری ہوگئی۔ یعنی جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا اسی طرح مثیلِ مسیح موعود کے ساتھیوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے۔ گویا قرآنی تاریخ میں بھی دو زمانوں میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا۔خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ اب بھی زندہ ہیں مگر اَب اُن کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔صحابی اُس شخص کو بھی کہتے ہیں جو نبی کی زندگی میں اس کے سامنے آگیا ہو۔ گویا زیادہ تر یہ لفظ انہی لوگوں پر اطلاق پاتا ہےجنہوں نے نبی کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ہو اور اس کی باتیں سنی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام 1908ء میں فوت ہوئے ہیں ۔اس لئے وہ شخص بھی آپ کا صحابی کہلا سکتا ہے جس نے خواہ آپ کی صحبت سے فائدہ نہ اٹھایا ہولیکن آپ کے زمانہ میں پیدا ہوا ہواور اس کا باپ اسے اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے لے گیا ہو۔ لیکن یہ ادنیٰ درجہ کا صحابی ہوگا۔اعلیٰ درجہ کا صحابی وہی ہے جس نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں اور جن لوگوں نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں۔ ان کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے۔اب صرف تین چار آدمی ہی ایسے رہ گئے ہیں جن کے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنی ہیں۔ممکن ہے اگر زیادہ تلاش کیا جائے تو ان کی تعداد تیس چالیس تک پہنچ جائے ۔اَب ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں اگر ایسے تیس چالیس صحابہ بھی ہوں تب بھی یہ تعداد بہت کم ہے۔ اِس وقت جماعت میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے شخص کی بیعت کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متبع تھا اور ان کانام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا تھاجس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا تھا۔حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَوْکَانَ مُوْسیٰ وَعِیْسیٰ حَیَّیْنِ لَمَا وَسِعَھُمَا اِلَّا اتِّبَاعِیْ2 اگر موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میرے متبع ہوتے۔ غرض اِس وقت جماعت کے انصاراللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک متبع اور مثیل کے ذریعہ اسلام کی خد مت کا موقع ملا اور وہ آپ لوگ ہیں۔ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح ان کے حواریوں کو انصاراللہ کہا گیا تھا اُسی طرح مثیلِ مسیح موعود کے ساتھیوں کو انصاراللہ کہا گیا ہے۔ پھر آپ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے انصارکی بات بھی پائی جاتی ہے۔ یعنی جس طرح انصار اللہ میں وہی لوگ شامل تھے جو آپ کے صحابہؓ تھے اسی طر ح آپ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ شامل ہیں۔ گویا آپ لوگوں میں دونوں مثالیں پائی جاتی ہیں۔آپ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ کے صحابہ بھی ہیں جنہیں انصار اللہ کہا جاتا ہے جیسے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو انصار کہا گیا۔ پھر جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنا متبع قرار دیا ہے اور ان کے صحابہ کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے اسی طر ح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک متبع کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے ۔شاید بعض لوگ یہ سمجھیں کہ یہ درجہ کم ہے لیکن اگر چالیس سال اَور گزر گئے تو اُس زمانہ کے لوگ تمھارے زمانہ کے لوگوں کو بھی تلاش کریں گئے اور اگر چالیس سال اَور گزر گئے تو اُس زمانہ کے لوگ تمھارے ملنے والوں کو تلاش کریں گے۔ اسلامی تاریخ میں صحابہؓ کے ملنے والوں کو تابعی کہا گیا ہے کیونکہ وہ صحابہ ؓ کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگئے تھے۔ اور ایک تبع تابعی کا درجہ ہے یعنی وہ لوگ جو تابعین کے ذریعہ صحابہؓ کے قریب ہوئے اور آگے صحابہؓ کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے ۔اِس طرح تین درجے بن گئے ایک صحابی دوسرے تابعی اور تیسرے تبع تابعی۔صحابی وہ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپؑ کی باتیں سنیں۔تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کو دیکھا اور تبع تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سُننے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا۔دنیوی عاشق تو بہت کم حوصلہ ہوتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے :
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مگر مسلمانوں کی محبتِ رسول دیکھو۔ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ فوت ہوئے تو انہوں نے آپ ؑ سے قریب ہونے کے لئے تابعی کادرجہ نکال لیا اور جب تابعی ختم ہوگئے تو انہوں نے تبع تابعین کا درجہ نکال لیا۔اس شاعر نے تو کہا تھا کہ:۔
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مگر یہاں یہ صورت ہوگئی کہ تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر ان کے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر تیرہ سو سال تک برابر چاہتا چلا جاؤں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ:۔
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
بلکہ انہوں کہا یا رسول اللہ! ہم آپ ؐکے چاہنے والوں کو چاہتے ہیں۔ چاہے وہ صحابی ہوں، تابعی ہوں،تبع تابعی ہوں یا تبع تبع تابعی۔ اوران کے بعد یہ سلسلہ خواہ کہا ں تک چلا جائے ہم کو وہ سب لوگ پیارے لگتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوجاتے ہیں۔
محدثین کو اس بات پر بڑا فخر ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی سی سندات سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ میں گیارہ بارہ راویوں کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جاپہنچتا ہوں ۔آپ کو بعض ایسے اساتذہ مل گئے تھے جو آپ کو گیارہ بارہ راویوں کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے تھے اور آپ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے تھے۔
اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع نے آپ کی صحابیت کو بارہ تیرہ درجوں تک پہنچا دیا ہے اوراس پر فخر کیا ہے تو آپ لوگ یا صحابی ہیں یا تابعی ہیں۔ ابھی تبع تابعین کا وقت نہیں آیا۔ اِن دونوں درجوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت بخشی ہے۔ اس عزت میں کچھ اَور لوگ بھی شریک ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انصار کا ذکر فرمایا ہے اورپھر ان کی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھیں۔ چنانچہ جب ہم انصار کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں کہ اگر آپ لوگ جو انصار اللہ ہیں ان کے نقشِ قدم پر چلیں تو یقیناً اسلام اور احمدیت دور دور تک پھیل جائے اور اتنی طاقت پکڑ لے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ پر ٹھہر نہ سکے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو شہر کی تمام عورتیں اور بچے باہر نکل آئے۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے جاتے ہوئے خوشی سے گاتے چلے جاتے تھے کہ :
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوِدَاعِ 3
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے وہ وہی جہت تھی جہاں سے قافلے اپنے رشتہ داروں سے رخصت ہوا کرتے تھے۔اس لئے انہوں نے اس موڑ کا نام ثنیۃ الوداع رکھا ہوا تھایعنی وہ موڑ جہاں سے قافلے رخصت ہوتے ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس موڑ سے مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کی عورتوں اور بچوں نے یہ گاتے ہوئے آپ ؐ کا استقبال کیا کہ
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوِدَاعِ
یعنی ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ جس موڑ سے مدینہ کے رہنے والے اپنے رشتہ داروں کو رخصت کیا کرتے تھے اس موڑ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بدر یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظاہر کردیا ہے۔ پس ہمیں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل ہے اس لئے کہ وہ تو اس جگہ جاکر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو رخصت کرتے ہیں لیکن ہم نے وہاں جاکر سب سے زیادہ محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصول کیا ہے۔
پھر ان لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈال لیا اور ان میں سے ہر شخص کی خواہش تھی کہ آپ ؐ اس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپ ؐ کی اونٹنی گزرتی تھی اُس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یَا رَسُوْلَ اللہِ! یہ ہمارا گھر ہے جو آپؐ کی خدمت کے لئے حاضر ہے یَا رَسُوْلَ اللہِ آپ ہمارے پاس ہی ٹھہریں۔بعض لوگ جو ش میں آگے بڑھتے اور آپ ؐ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تاکہ آپ ؐ کو اپنے گھر میں اُتروالیں مگر آپ ؐ ہر شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو ۔یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامورہے یہ وہیں کھڑی ہوگی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہوگا4 آخر وہ ایک جگہ پر کھڑی ہوگئی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے قریب گھر کِس کا ہے؟حضرت ابو ایوب انصاری ؓنے فرمایا یا رسول اللہ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپؐ کی خدمت کے لئے حاضر ہے ۔حضرت ابو ایوب ؓ کا مکان دو منزلہ تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ ؐ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہوگی نچلی منزل کو پسند فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اِس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں۔ اتفاقا اُسی رات ان سے پانی کا ایک برتن گر گیا ۔حضرت ایوب انصاریؓ نے دوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کوخشک کیا تاکہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے۔ صبح کے وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورسارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوپر کی منز ل پر رہنے میں راضی ہوگئے۔5
اب دیکھو یہ اس عشق کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے جو صحابہؓ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا ۔پھر یہ واقعہ کتنا شاندارہے کہ جب جنگِ اُحد ختم ہوئی اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہؓ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدانِ جنگ میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں۔ ایک صحابی ؓ میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے دیکھا کہ ان کی حالت نازک ہے اور وہ جان توڑ رہے ہیں۔ اس نے زخمی انصاری سے ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھایا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا مَیں انتظار کررہا تھا کہ کوئی بھائی مجھے مل جائے ۔انہوں نے اس صحابیؓ سے پوچھا کہ آپ کی حالت خطرناک معلوم ہوتی ہے اور بچنے کی امید نہیں کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ داروں کو دینا چاہتے ہیں؟ اس مرنے والے صحابیؓ نے کہا ہاں ہاں! میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ مَیں تو مر رہا ہوں مگر میں اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت ‘‘محمد’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑے جا رہا ہوں۔ میں جب تک زندہ رہا اس نعمت کی اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر بھی حفاظت کرتا رہا لیکن اب اے میرے بھائیواور رشتہ دارو! میں اَب مر رہا ہوں اور خدا تعالیٰ کی یہ مقدس امانت تم میں چھوڑرہا ہوں۔ میں آپ سب کو اس کی حفاظت کی نصیحت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اگر آپ سب کو اس کی حفاظت کے سلسلہ میں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو آپ اس سے دریغ نہیں کریں گے اور میری اس آخری وصیت کو یاد رکھیں گے مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے اندر ایمان موجود ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ سب کو محبت ہے اس لئے تم ضرور آپؐ کے وجود کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قربانی کرو گے اور اس کے لئے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرو گے۔6
اب دیکھو ایک شخص مر رہا ہے اسے اپنی زندگی کے متعلق یقین نہیں۔ وہ مرتے وقت اپنے بیوی بچوں کو سلام نہیں بھیجتا انہیں کوئی نصیحت نہیں کرتا بلکہ وہ اگر کوئی پیغام بھیجتا ہے تو یہی کہ اے میری قوم کے لوگو! تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا ۔ہم جب تک زندہ رہے اس فرض کو نبھاتے رہے اب آپؐ کی حفاظت آپ لوگوں کے ذمہ ہے۔ آپ کو اس کے رستہ میں اپنی جانوں کی قربانی بھی پیش کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں۔ میری تم سے یہی آخری خواہش ہے اور مرتے وقت میں تمہیں اس کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ تھا وہ عشق ومحبت جو صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا۔
پھر جب آپ بدر کی جنگ کے لئے مدینہ سے صحابہؓ سمیت باہر نکلے تو آپؐ نے نہ چاہا کہ کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ وہ اس بارہ میں آپؐ کو مشورہ دیں کہ فوج کا مقابلہ کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ ایک کے بعد دوسرامہاجرکھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہؐ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں آپ ہر ایک کا جواب سن کر یہی فرماتے چلے جاتے کہ مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو۔ مدینہ کے لوگ اس وقت تک خاموش تھے اس لئے کہ حملہ آور فوج مہاجرین کے رشتہ دار تھی وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھے مشورہ دو تو ایک انصاریؓ سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مشورہ تو آپؐ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپؐ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپؐ کی مراد ہم انصار سے ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اس سردار نے جواب میں کہا یَا رَسُولَ اللہ!شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرما رہے ہیں کہ آپؐ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپؐ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپؐ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپؐ کی حفاظت کریں گے مدینہ سے باہر نکل کر ہم دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لیکن اس وقت آپؐ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ درست ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللہؐ !جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپؐ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب ہم پر آپؐ کا مرتبہ اور آپؐ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے اس لئے یا رسول اللہ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہم موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح آپؐ کو یہ نہیں کہیں گے اذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ7 کہ تُو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے جنگ کرتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اورآگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور یارسول اللہؐ! دشمن جو آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہؐ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلے پر سمندر ہے(بدر سے چند منزلوں کے فاصلہ پر سمندر تھااور عرب تیرنا نہیں جانتے تھے اس لئے پانی سے بہت ڈرتے تھے ) آپ ہمیں سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دینے کا حکم دیجئے۔ہم بِلا چون و چرا اس میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔8 یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کسی سابق نبی کے ماننے والوں میں نہیں ملتی۔ اس مشورہ کے بعد آپؐ نے دشمن سے لڑائی کرنے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کو نمایاں فتح عطا فرمائی۔
حضرت مسیح ناصریؑ کے انصار کی وہ شان نہیں تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار کی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اِس وقت تک آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہ ان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔مگر تم میں سے بعض لوگ پیغامیوں کی مدد کے لالچ میں آ گئے اور انہوں نے خلافت کو مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ ان لوگوں میں اس عظیم الشان باپ کی اولاد بھی شامل ہے جس کو ہم بڑی قدر اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات پر 42 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر میں ہر قربانی کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ تحریک جدید1934ء سے شروع ہے اور اب 1956ء ہے۔ گویا اِس پر 22 سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ شاید حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد خود بھی اس میں حصہ نہ لیتی ہو لیکن میں ہر سال آپ کی طرف سے اس میں چندہ دیتا ہوں تا کہ آپ کی روح کو بھی اس کا ثواب پہنچے۔ پھر جب میں حج پر گیا تو اُس وقت بھی میں نے آپ کی طرف سے قربانی کی تھی اور اب تک ہر عید کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں۔غرض ہمارے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بڑی قدر اور عظمت ہے لیکن آپ کی اولاد نے جو نمونہ دکھایا وہ تمہارے سامنے ہے۔ اس کے مقابلہ میں تم حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو دیکھو کہ وہ آج تک آپ کی خلافت کو سنبھالے چلے آتے ہیں۔ ہم تو اس مسیحؑ کے صحابہ اور انصار ہیں جس کو مسیح ناصریؑ پر فضیلت دی گئی ہے۔ مگر ہم جو افضل باپ کے روحانی بیٹے ہیں ہم میں سے بعض لوگ چند روپوں کے لالچ میں آ گئے۔ شاید اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ مماثلت بھی پوری ہونی تھی کہ جیسے آپ کے ایک حواری یہودا اسکریوطی نے رومیوں سے تیس روپے لے کر آپ کو بیچ دیا تھا9 اُسی طرح اِس مسیحؑ کی جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہونے تھے جنہوں نے پیغامیوں سے مدد لے کر جماعت میں فتنہ کھڑا کرنا تھا۔ لیکن ہمیں عیسائیوں کے صرف عیب ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ ان کی خوبیاں بھی دیکھنی چاہئیں۔ جہاں اُن میں ہمیں یہ عیب نظر آتا ہے کہ ان میں سے ایک نے تیس روپے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا وہاں ان میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ آج تک جب کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر دو ہزار سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے وہ آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آج جب میں نے اس بات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اِس چیز کا وعدہ بھی حواریوں نے کیا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب کہا مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہ کہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں میری کون مدد کرے گا؟ تو حواریوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں آپ کی مدد کریں گے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم وہ انصارہیں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ اس لئے جب تک خدا تعالیٰ زندہ ہے اُس وقت تک ہم بھی اس کی مدد کرتے رہیں گے۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر قریباً دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عیسائی لوگ برابر عیسائیت کی تبلیغ کرتے چلے جا رہے ہیں اور اب تک ان میں خلافت قائم چلی آتی ہے۔ اب بھی ہماری زیادہ تر ٹکر عیسائیوں سے ہی ہو رہی ہے جو مسیح علیہ السلام کے متبع اور ان کے ماننے والے ہیں اور جن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال رکھتے ہوئے فرمایاکہ خدا تعالیٰ کے سارے نبی اِس فتنہ کی خبر دیتے چلے آئے ہیں۔غرض وہ مسیح ناصریؑ جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ان پر فضیلت عطا فرمائی ہے ان کے انصار نے اتنا جذبہ اخلاص دکھایا کہ انہوں نے دو ہزار سال تک آپ کی خلافت کو مٹنے نہیں دیا۔ کیونکہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر مسیح علیہ السلام کی خلافت مِٹی تو مسیح علیہ السلام کا خود اپنا نام بھی دنیا سے مٹ جائے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شروع عیسائیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ایک حواری نے آپ کو تیس روپے کے بدلہ میں دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا لیکن اب عیسائیت میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو مسیحیت کی اشاعت اورحضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا منوانے کے لئے کروڑوں کروڑ روپیہ دیتے ہیں۔ اِسی طرح اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ نے اپنے زمانہ میں بڑی قربانی کی ہے۔ لیکن آپ کی وفات پر ابھی صرف 48سال ہی ہوئے ہیں کہ جماعت میں سے بعض ڈانواں ڈول ہونے لگے ہیں اور پیغامیوں سے چند روپے لے کر ایمان کو بیچنے لگے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض پر سلسلہ نے ہزارہا روپے خرچ کئے ہیں۔ مَیں پچھلے حسابات نکلوارہا ہوں اور میں نے دفتروالوں سے کہا ہے کہ وہ بتائیں کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فوت ہوئے 48سال ہو چکے ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات پر 42سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فاصلہ زیادہ ہے اور پھر آپ کی اولاد بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود میں نے حسابات نکلوائے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے خاندان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان پرکم خرچ کیا ہے۔ لیکن پھر بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد میں یہ لالچ پید ا ہوئی کہ خلافت بھی سنبھالویہ ہمارے باپ کا حق تھا جو ہمیں ملنا چاہیے تھا۔ چنانچہ سندھ سے ایک آدمی نے مجھے لکھا کہ یہاں میاں عبدالمنان کے بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا ایک پروردہ شخص بشیر احمد آیا اور اس نے کہا کہ خلافت تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا مال تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد کو ملنا چاہئیے تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد نے اسے غصب کرلیا ۔اب ہم سب نے مل کریہ کوشش کرنی ہے کہ اس حق کو دوبارہ حاصل کریں۔ پھر میں نے میاں عبدالسلام صاحب کی پہلی بیوی کے سوتیلے بھائی کا ایک خط پڑھا جس میں اس نے اپنے سوتیلے ماموں کو لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ مشرقی بنگال کی جماعت نے ایک ریزولیوشن پاس کرکے اس فتنہ سے نفرت کااظہار کیا ہے۔ ہمیں تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ ہمارے لئے تو موقع تھا کہ ہم کوشش کرکے اپنے خاندان کی وجاہت کو دوبارہ قائم کرتے ۔یہ ویسی ہی نامعقول حرکت ہے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر لاہور کے بعض مخالفین نے کی تھی۔ انہوں نے آپ کے نقلی جنازے نکالے اور آپ کی وفات پر خوشی کے شادیانے بجائے ۔وہ تو دشمن تھے لیکن یہ لوگ احمدی کہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے خاندان کی وجاہت کو قائم کرنا چاہیے۔ حالانکہ حضرت خلیفہ اول کو جو عزت اور درجہ ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ملا ہے۔ اب جو چیز آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ملی تھی وہ ان لوگوں کے نزدیک ان کے خاندان کی جائیداد بن گئی۔ یہ وہی فقرہ ہے جو پرانے زمانہ میں ان لڑکوں کی والدہ نے مجھے کہا کہ پیغامی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلافت تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی تھی۔ اگر آپ کی وفات کے بعد آپ کے کسی بیٹے کو خلیفہ بنالیا جاتا تو ہم اس کی بیعت کرلیتے مگر مرزا صاحب کا خلافت سے کیا تعلق تھا کہ آپ کے بیٹے کو خلیفہ بنا لیا گیا۔ اُس وقت میری بھی جوانی تھی ۔میں نے انہیں کہا کہ آپ کے لیے رستہ کھلا ہے، تانگے چلتے ہیں (اُن دنوں قادیان میں ریل نہیں آئی تھی )آپ چاہیں تو لاہور چلی جائیں میں آپ کو نہیں روکتا۔ وہاں جاکر آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ وہ آپ کی کیا امداد کرتے ہیں ۔وہاں تو مولوی محمد علی صاحب کو بھی خلافت نہیں ملی۔ انہیں صرف امارت ملی تھی اور امارت بھی ایسی کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں وصیت کرنی پڑی کہ فلاں فلاں شخص ان کے جنازے پر نہ آئے ۔ان کی اپنی تحریر موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مولوی صدرالدین صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب میرے خلاف پروپیگنڈا میں اپنی پوری قوت خرچ کررہے ہیں اور انہوں نے تنکے کو پہاڑبنا کر جماعت میں فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ اوران لوگوں نے مولوی محمد علی صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ یہاں تک کہ آپ نے احمدیت سے انکار کردیا ہے اور انجمن کا مال غصب کرلیا ہے ۔اَب بتاؤ جب وہ شخص جو اس جماعت کا بانی تھا اسے یہ کہنا پڑا کہ جماعت کے بڑے بڑے آدمی مجھ پر الزام لگاتے ہیں اور مجھے مرتد اور جماعت کا مال غصب کرنے والا قرار دیتے ہیں تو اگر وہاں دودھ پینے والے چھوکرے چلے جاتے تو انہیں کیا ملتا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا تھا کہ انہیں پانچ پانچ روپے کے وظیفے دے کر کسی سکول میں داخل کردیا جاتا۔ مگر ہم نے تو ان کی تعلیم پر بڑا روپیہ خرچ کیا اور اس قابل بنایا کہ یہ بڑے آدمی کہلا سکیں۔ لیکن انہوں نے یہ کیا کہ جس جماعت نے انہیں پڑھایا تھا اُسی کو تباہ کرنے کے لئے حملہ کردیا ۔اِس سے بڑھ کر اور کیا قساوت ِ قلبی ہوگی کہ جن غریبوں نے انہیں پیسے دے کر اس مقام پر پہنچایا یہ لوگ انہی کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔جماعت میں ایسے ایسے غریب ہیں کہ جن کی غربت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا مگر وہ لوگ چندہ دیتے ہیں۔
ایک دفعہ قادیان میں ایک غریب احمدی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ امراء کے ہاں دعوتیں کھاتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ میرے گھر بھی تشریف لائیں اور میری دعوت کو قبول فرمائیں۔ میں نے کہا تم بہت غریب ہو میں نہیں چاہتا کہ دعوت کی وجہ سے تم پر کوئی بوجھ پڑے ۔اُس نے کہامیں غریب ہوں تو کیا ہوا آپ میری دعوت ضرور قبول کریں۔ میں نے پھر بھی انکارکیا مگر وہ میرے پیچھے پڑگیا۔ چنانچہ ایک دن میں اس کے گھر گیا تاکہ اس کی دلجوئی ہوجائے۔ مجھے یاد نہیں اس نے چائے کی دعوت کی تھی یا کھانا کھلایا تھا۔ مگر جب میں اس کے گھر سے نکلا تو گلی میں ایک احمدی دوست عبدالعزیز صاحب کھڑے تھے وہ پسرور ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور مخلص احمدی تھے۔ لیکن انہیں اعتراض کرنے کی عادت تھی۔ میں نے انہیں دیکھا تو میرا دل بیٹھ گیااورمیں نے خیال کیا کہ اب یہ دوست مجھ پر ضرور اعتراض کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا ۔حضور! آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی قبول کرلیتے ہیں؟ میں نے کہا عبدالعزیز صاحب میرے لئے دونوں طرح مصیبت ہے۔ اگر میں انکار کروں تو غریب کہتا ہے۔ مَیں غریب ہوں اس لئے میری دعوت نہیں کھاتے۔ اوراگر میں اس کی دعوت منظور کرلوں تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ غریب کی دعوت کیوں مان لی۔ اب دیکھو اس شخص نے مجھے خود دعوت پر بلایا تھا ۔میں نے بارہا انکار کیا لیکن وہ میرے پیچھے اس طرح پڑا کہ میں مجبور ہوگیا کہ اس کی دعوت مان لوں لیکن دوسرے دوست کو اس پر اعتراض پیدا ہوا۔ غرض جماعت میں ایسے ایسے غریب بھی ہیں کہ ان کے ہاں کھانا کھانے پر بھی دوسروں کو اعتراض پیدا ہوتا ہے ۔ایسی غریب جماعت نے ان لڑکوں کی خدمت کرنے اور انہیں پڑھانے پر ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ خرچ کیا۔ میاں عبدالسلام کو وکیل بنایا، عبدالمنان کو ایم اے کروایا، عبدالوہاب کو بھی تعلیم دلائی، اسے وظیفہ دیا، لاہور بھیجا اورہوسٹل میں داخل کروایا۔ مگر اسے خود تعلیم کا شوق نہیں تھا اس لئے وہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ لیکن پھر بھی جماعت نے اسے پڑھانے میں کوئی کوتاہی نہ کی، بعد میں مَیں نے معقول گزارہ دے کراسے دہلی بھجوایا اورکہا کہ تمہارے باپ کا پیشہ طب تھا تم بھی طب پڑھ لو۔ چنانچہ اُسے حکیم اجمل خاں صاحب کے کالج میں طب پڑھائی گئی۔ گو اس نے وہاں بھی وہی حرکت کی کہ پڑھائی کی طرف توجہ نہ کی اور فیل ہوا۔ لیکن اس نے اتنی عقلمندی کی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے گیا چنانچہ بیوی پاس ہوگئی اور امتحان میں اول آئی۔ اب سلسلہ کے اس روپیہ کی وجہ سے جواس پر خرچ کیا گیا وہ اپنا گزارہ کررہا ہے اوراس نے اپنے دواخانہ کا نام دواخانہ نورالدین رکھا ہواہے۔ حالانکہ دراصل وہ دواخانہ سلسلہ احمدیہ ہے، کیونکہ سلسلہ احمدیہ کے روپیہ سے ہی وہ اس حد تک پہنچا ہے کہ دواخانہ کو جاری رکھ سکے۔اب وہ لکھتا ہے کہ میری بیوی جو گولڈ میڈلسٹ ہے وہ علاج کرتی ہے۔ وہ یہ کیوں نہیں لکھتا کہ میری بیوی جس کو سلسلہ احمدیہ نے خرچ دے کر پڑھایا ہے علاج کرتی ہے۔ غرض چاہے تعلیم کو لیا جائے، طب کو لیا جائے، یا کسی اَور پیشہ کو لیا جائے یہ لوگ سلسلہ کی مدد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ مگر اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ لوگ سلسلہ احمدیہ کو ہی تباہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا۔ یہ سلسلہ ایک چٹان ہے جو اِس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جو اس کو مٹانا چاہے گا وہ خود مٹ جائے گا۔ اور کوئی شخص بھی خواہ اس کی پشت پناہ احراری ہوں یا پیغامی ہوں اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو گا۔اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرنے والے ذلیل اور خوار ہوں گے اور قیامت تک ذلت اور رسوائی میں مبتلا رہیں گے ۔اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عزت اور رفعت دیتا چلا جائے گا اور تمام دنیا میں آپ کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ پھیلتا چلا جائے گا۔ اور جب آپ کے ذریعہ ہی اسلام بڑھے گا تو لازمی طور پر جو لوگ آپ کے ذریعہ اسلام قبول کریں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے وہ آپ پر بھی ایمان لائیں گے۔ لیکن اس سلسلہ کی تباہی کا ارادہ کرنے والے ابھی زندہ ہی ہوں گے کہ ان کی عزتیں ان کی آنکھوں کے سامنے خاک میں مل جائیں گی۔ اور پیغامیوں نے جو ان سے مدد کا وعدہ کیا ہے وہ وعدہ بھی خاک میں مل جائے گا۔مولوی محمد علی صاحب سے ان لوگوں نے جو وعدہ کیا تھا کیا وہ پورا ہوا؟ ان کا انجام آپ لوگوں کے سامنے ہے۔ اَب ان لوگوں کا انجام مولوی محمد علی صاحب سے بھی بد تر ہو گا۔ اس لئے کہ جب انہوں نے سلسلہ سے علیحدگی اختیار کی تھی اورا نجمن اشاعتِ اسلام کی بنیاد رکھی تھی تو انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی ایک عرصہ کی خدمت کے بعد ایسا کیا تھا۔ انہیں دنیا کی خدمت کا موقع ملا تھا۔ رسالہ ریویوآف ریلیجنز دنیا میں بہت مقبول ہوا اور وہ اس کے ایڈیٹرتھے۔ پھر انہوں نے اپنے خرچ سے پڑھائی کی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے اپنے یا اپنے باپ کے پیسے سے پڑھائی نہیں کی بلکہ غریب لوگوں کے پیسے سے کی جو بعض دفعہ رات کو فاقہ سے سوتے ہیں اوراس سارے احسان کے بعد انہوں نے یہ کیا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔
یاد رکھو! تمہارا نام انصاراللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مدد گار۔ گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بَعْدَ نسلٍ چلتا چلا جاوے۔ اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں ۔ایک ذریعہ تو یہ کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے۔اس لئے میں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں۔ اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی۔ اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو اگلی نسل انصاراللہ کی اعلیٰ ہو گی۔ میں نے سیڑھیاں بنا دی ہیں آگے کام کرنا تمہارا کام ہے۔ پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے۔ دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے، تیسری سیڑھی انصارللہ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے۔ اب تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہو جائیں گی۔ اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہو جائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو تو پھر تمہارے لئے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں۔ اور جو عرش پر چلا جائے وہ بالکل محفوظ ہو جاتا ہے۔ دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دو سو فٹ پر حملہ کر سکتی ہے، وہ عرش پر حملہ نہیں کر سکتی۔ پس اگر تم اپنی اصلاح کر لو گے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو گے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو جائے گا۔ اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی ۔عیسائیوں کی تعداد تو تمام کوششوں کے بعد مسلمانوں سے قریباً دُگنی ہوئی ہے مگر تمہارے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تعداد کو اتنا بڑھا دے گا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دوسرے تمام مذاہب ہندو ازم، بدھ مت، عیسائیت اور شنٹوازم وغیرہ کے پَیرو تمہارے مقابلہ میں بالکل ادنیٰ اقوام کی طرح رہ جائیں گے یعنی ان کی تعداد تمہارے مقابلہ میں ویسی ہی بے حقیقت ہو گی جیسے آج کل ادنیٰ اقوام کی دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں ہے۔ وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے یقیناً آئے گا۔ لیکن جب آئے گا تو اسی ذریعہ سے آئے گا کہ خلافت کو قائم رکھا جائے،تبلیغِ اسلام کو قائم رکھا جائے، تحریک جدید کو مضبوط کیا جائے، اشاعتِ اسلام کے لئے جماعت میں شغف زیادہ ہو اور دنیا کے کسی کونہ کو بھی بغیر مبلغ کے نہ چھوڑا جائے۔
مجھے بیرونی ممالک سے کثرت سے چِٹھیاں آ رہی ہیں کہ مبلغ بھیجے جائیں ۔اس لئے ہمیں تبلیغ کے کام کو بہر حال وسیع کرنا پڑے گا اور اتنا وسیع کرنا پڑے گا کہ موجودہ کام اس کے مقابلہ میں لاکھواں حصہ بھی نہ رہے۔ میں نے بتایا ہے کہ خلافت کی وجہ سے رومن کیتھولک اس قدر مضبوط ہوگئے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے پڑھا کہ ان کے 54لاکھ مبلغ ہیں۔ ان سے اپنا مقابلہ کرو اورخیال کرو کہ تم سو ڈیڑھ سو مبلغوں کے اخراجات پر ہی گھبرانے لگ جاتے ہو۔ اگر تم ا ن سے تین چار گنے زیادہ طاقت وربننا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تمہارا دو کروڑ مبلغ ہو۔ لیکن اب یہ حالت ہے کہ ہمارے سب مبلغ ملالئے جائیں تو ان کی تعداد دو سو کے قریب بنتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کو مسلمان کرلیں، بُدھوں کو مسلمان کرلیں، شنٹو ازم والوں کو مسلمان کرلیں، کنفیوشس ازم کے پیروؤں کو مسلمان کرلیں تو اس کے لئے دو کروڑمبلغوں کی ضرورت ہے۔ اور ان مبلغوں کو پیدا کرنا اورپھر ان سے کام لینا بغیر خلافت کے نہیں ہوسکتا۔
ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے تمام بیٹوں کو بلایا اور انہیں کہا ایک جھاڑو لاؤ۔ وہ ایک جھاڑو لے آئے ۔اس نے اس کا ایک ایک تنکا انہیں دیا اور کہا اسے توڑو اورانہوں نے اسے فوراًتوڑ دیا۔ پھر اس نے سارا جھاڑو انہیں دیا کہ اب اسے توڑو۔انہوں نے باری باری پورا ضرور لگایا مگر وہ جھاڑو اُن سے نہ ٹوٹا ۔اِس پر اُس نے کہا میرے بیٹو!دیکھو میں نے تمہیں ایک ایک تنکا دیا تو تم نے اسے بڑی آسانی سے توڑدیا لیکن جب سارا جھاڑو تمہیں دیا تو باوجود اس کے تم نے پورا زور لگایا وہ تم سے نہ ٹوٹا۔ اِسی طرح اگر تم میرے مرنے کے بعد بکھر گئے تو ہر شخص تمہیں تباہ کرسکے گا۔ لیکن اگر تم متحد رہے تو تم ایک مضبوط سوٹے کی طرح بن جاؤ گے ۔جسے دنیا کی کوئی طاقت توڑ نہیں سکے گی ۔اسی طرح اگر تم نے خلافت کے نظام کو توڑ دیا تو تمہاری کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور تمہیں دشمن کھا جائے گا۔ لیکن اگرتم نے خلافت کو قائم رکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تباہ نہیں کرسکے گی۔
تم دیکھ لو ہماری جماعت کتنی غریب ہے لیکن خلافت کی وجہ سے اسے بڑی حیثیت حاصل ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کے دوسرے مسلمان نہیں کرسکے۔ مصر کا ایک اخبار الفتح ہے جو سلسلہ کا شدید مخالف ہے اس میں ایک دفعہ کسی نے مضمون لکھا کہ گزشتہ 1300سال میں مسلمانوں میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر انہوں نے اسلام کی وہ خدمت نہیں کی جو اس غریب جماعت نے کی ہے اور یہ چیز ہر جگہ نظر آتی ہے۔یورپ والے بھی اسے مانتے ہیں اور ہمارے مبلغوں کا بڑا اعزاز کرتے ہیں اور انہیں اپنی دعوتوں اور دوسری تقریبوں میں بلاتے ہیں۔ اسرائیلیوں کو ہم سے شدید مخالفت ہے مگر پچھلے دنوں جب ہمارا مبلغ واپس آیا تو اسے وہاں کے صدر کی چٹھی ملی کہ جب آپ واپس جائیں تو مجھے مل کرجائیں۔ اور جب وہ اسے ملنے کے لئے گئے تو ان کا بڑا اعزاز کیا گیا اور اس موقع پر ان کے فوٹو لیے گئے اور پھر ان فوٹوؤں کو حکومتِ اسرائیل نے تمام مسلمان ممالک میں چھپوایا ۔انہوں نے ان فوٹوؤں کو مصر میں بھی چھپوایا ،عرب ممالک میں بھی چھپوایا ،افریقہ میں بھی چھپوایا اور ہندوستان میں بھی ان کی اشاعت کی۔جب چودھری ظفراللہ خاں صاحب شام گئے تو وہاں کے صدر نے انہیں کہا کہ کیا آپ کی اسرائیل سے صلح ہوگئی ہے؟انہوں نے اسے بتایا کہ ہماری اسرائیل سے کوئی صلح نہیں ہوئی بلکہ ہم اس کے شدید مخالف ہیں ۔غرض وہ اسرائیل جو عرب ممالک سے صلح نہیں کرتا اُس نے دیکھا کہ احمدیوں کی طاقت ہے اس لئے ان سے صلح رکھنی ہمارے لئے مفید ہوگی۔وہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں سے خواہ مخواہ ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ گو اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی کیونکہ احمدی اسرائیل کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ میں خنجر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اسرائیل مدینہ کے بہت قریب ہے۔ وہ اگر ہمارے مبلغ کو اپنے ملک کا بادشاہ بھی بنا لیں تب بھی ہماری دلی خواہش یہی ہوگی کہ ہمارا بَس چلے تو اسرئیل کو سمندر میں ڈبودیں اور فلسطین کو ان سے پاک کرکے مسلمانوں کے حوالہ کردیں۔ بہرحال ان کی یہ خواہش توکبھی پوری نہیں ہوگی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت اگرچہ چھوٹی ہے لیکن متحد ہونے کی وجہ سے اسے ایک طاقت حاصل ہے ۔اس طاقت سے ہمیں خواہ مخواہ ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ چنانچہ وہ ہم سے ڈرتے ہیں۔پاکستان میں ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی کوئی طاقت نہیں، انہیں اقلیت قرار دے دینا چاہیے حالانکہ یہاں ہماری تعداد لاکھوں کی ہے لیکن اسرائیل میں ہماری تعداد چند سوکی ہے۔پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ ہماری دلجوئی کی جائے اور یہ محض خلافت کی ہی برکت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ چاہے ہمارے ملک میں چند سواحمدی ہیں اگر وہ ایک ہاتھ پر جمع ہیں اگر انہوں نے آواز اٹھائی تو ان کی آواز صرف فلسطین میں ہی نہیں رہے گی بلکہ ان کی آواز شام میں بھی اٹھے گی، عراق میں بھی اٹھے گی ،مصر میں بھی اٹھے گی،ہالینڈ میں بھی اٹھے گی،فرانس میں بھی اٹھے گی،سپین میں بھی اٹھے گی،انگلستان میں بھی اٹھے گی،سکنڈے نیویا میں بھی اٹھے گی،سوئٹزرلینڈ میں بھی اٹھے گی،امریکہ میں بھی اٹھے گی،انڈونیشیا میں بھی اٹھے گی۔ یہ لوگ تمام ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اگر ان سے بُرا سلوک کیا گیا تو تمام ممالک میں اسرائیل بدنام ہوجائے گا اس لئے ان سے بگاڑ مفید نہیں ہوگا۔یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے مبلغ کا اعزاز کرتے ہیں۔
اسی طرح جب تقسیمِ ملک ہوئی تو ہمارے مبلغوں نے تمام ممالک میں ہندوستان کے خلاف پراپیگنڈا کیا۔ اُس وقت لنڈن میں چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام تھے انہیں پنڈت نہرو نے لکھا کہ آپ لوگوں نے تمام دنیا میں ہمیں اس قدر بدنام کردیا ہے کہ ہم کسی ملک کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ اب دیکھ لو پنڈت نہرو باقی تمام مسلمانوں سے نہیں ڈرے انہیں ڈرمحسوس ہواتو صرف احمدیوں سے اور اس کی وجہ محض ایک مقصد پر جمع ہونا تھی۔ اور یہ طاقت اور قوت جماعت کو کس طرح نصیب ہوئی؟ یہ صرف خلافت ہی کی برکت تھی جس نے احمدیوں کو ایک نظام میں پرودیااور اس کے نتیجہ میں انہیں طاقت حاصل ہوگئی۔میرے سامنے اِس وقت چودھری غلام حسین صاحب بیٹھے ہیں جو مخلص احمدی ہیں اور صحابی ہیں یہ اپنی آواز کو امریکہ کس طرح پہنچا سکتے ہیں،یہ اپنی آواز کو انگلینڈ کیسے پہنچاسکتے ہیں،یہ اپنی آواز کو فرانس،جرمنی اور سپین کیسے پہنچا سکتے ہیں، یہ بے شک جو شیلے احمدی ہیں مگر یہ اپنی آواز دوسرے ملک میں اپنے دوسرے احمدی بھائیوں کے ساتھ مل کر ہی پہنچا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔اِسی مل کر کام کرنے سے اسرائیل کو ڈر پیدا ہوا اور اسی مل کر کام کرنے سے ہی پاکستان کے مولوی ڈرے اور انہوں نے ملک کے ہر کونہ میں یہ جھوٹا پراپیگنڈ ا شروع کردیا کہ احمدیوں نے ملک کے سب کلیدی عہدے سنبھال لئے ہیں انہیں اقلیت قرار دیا جائے اور ان عہدوں سے انہیں ہٹادیا جائے۔ حالانکہ کلیدی عہدے اُنہی کے پاس ہیں ہمارے پاس نہیں۔ یہ سب طاقت خلافت کی وجہ سے ہے۔ خلافت کی وجہ سے ہی ہم اکٹھے رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔
اب اس فتنہ کو دیکھو جو 1953ء کے بعد جماعت میں اٹھا ۔اس میں سارے احراری فتنہ پردازوں کے ساتھ ہیں۔ تمہیں یاد ہے کہ1934ء میں بھی احراری اپنا سارا زور لگا چکے ہیں اوربری طرح ناکام ہوئے ہیں اوراس دفعہ بھی وہ ضرور ناکام ہوں گے۔ اس دفعہ اگر انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد ان کے ساتھ ہے اس لئے وہ جیت جائیں گے تو انہیں جان لینا چاہیے کہ جماعت کے اندر اتنا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کے مقابلہ میں خواہ کوئی اٹھے جماعت احمدیہ اس کا کبھی ساتھ نہیں دے گی۔ کیونکہ انہوں نے دلائل اور معجزات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے ۔ان میں سے ہر شخص نے اپنے اپنے طور پر تحقیقات کی ہے۔ کوئی گوجرانوالہ میں تھا، کوئی گجرات میں تھا، کوئی شیخوپورہ میں تھا، وہاں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں پہنچیں اور آپؑ کے دلائل نقل کرکے بھجوائے گئے تو وہ لوگ ایمان لے آئے۔ پھر ایک دھاگا میں پروئے جانے کی وجہ سے انہیں طاقت حاصل ہوگئی ۔اب دیکھ لو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی طاقت تھی کہ آپ نے اعلان فرمادیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں ۔بس حضرت مسیح علیہ السلام کی موت سے ساری عیسائیت مر گئی۔ اب یہ کتنا صاف مسئلہ تھا مگر کسی اَور مولوی کو نظر نہ آیا ۔سارے علماء کتابیں پڑھتے رہے لیکن ان میں سے کسی کو یہ مسئلہ نہ سُوجھا اور وہ حیران تھے کہ عیسائیت کا مقابلہ کیسے کریں ۔حضرت مرزا صاحب نے آکر عیسائیت کے زور کو توڑدیا اور وفاتِ مسیح کا ایسا مسئلہ بیان کیا کہ ایک طرف مولویوں کا زور ٹوٹ گیا تو دوسری طرف عیسائی ختم ہوگئے۔
بھیرہ میں ایک غیراحمدی حکیم الہٰ دین صاحب ہوتے تھے۔وہ اپنے آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے بھی بڑا حکیم سمجھتے تھے۔ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی حکیم فضل دین صاحب انہیں ملنے کے لئے گئے اور انہوں نے چاہا کہ وہ انہیں احمدیت کی تبلیغ کریں ۔حکیم الہٰ دین صاحب بڑے رُعب والے شخص تھے وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے تُو کل کا بچہ ہے اور مجھے تبلیغ کرنے آیا ہے؟ تُو احمدیت کو کیا سمجھتا ہے؟ میں اسے خوب سمجھتا ہوں ۔حضرت مرزا صاحب نے اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ لکھی جس سے اسلام تمام مذاہب پر غالب ثابت ہوتا تھا مگر مولویوں نے آپ پر کفرکا فتویٰ لگا دیا۔حضرت مرزا صاحب کو غصہ آیا اور انہوں نے کہا اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو،میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن کریم سے فوت شدہ ثابت کردیتا ہوں تم اسے زندہ ثابت کرکے دکھاؤ۔ گویا آپ نے یہ مسئلہ ان مولویوں کو ذلیل کرنے کے لئے بیان کیا تھا ورنہ درحقیقت آپ کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ پھر حکیم صاحب نے ایک گندی گالی دے کرکہا کہ مولوی لوگ پور ا زور لگا چکے ہیں مگر حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں ناکام رہے ہیں۔اس کا اب ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ سب مل کر حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور کہیں ہم آپ کو سب سے بڑا عالم تسلیم کرتے ہیں ۔ہم ہارے اور آپ جیتے۔ اور اپنی پگڑیاں ان کے پاؤں پر رکھ دیں اور درخواست کریں کہ اب آپ ہی قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت کردیں۔ہم تو پھنس گئے ہیں۔ اب معافی چاہتے ہیں اور آپ کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں۔ اگر مولوی لوگ ایسا کریں تو دیکھ لینا حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم میں سے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ثابت کردینا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ عظمت دی ہے کہ آپ ؑ کے مقابلہ میں اور کوئی نہیں ٹھہرسکتا۔ چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہوکیونکہ اگر وہ جماعت میں بڑا ہے تو آپ کی غلامی کی وجہ سے بڑا ہے۔ آپ کی غلامی سے باہر نکل کر اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
مجھے یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب چشمہ معرفت لکھی تو کسی مسئلہ کے متعلق آپ کو خیال پیدا ہوا کہ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بھی کوئی کتاب پڑھ لیں اور دیکھیں کہ انہوں نے اس کے متعلق کیا لکھا ہے۔ آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا محمود! ذرا مولوی صاحب کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ لاؤ اور مجھے سناؤ۔ چنانچہ میں وہ کتاب لایا اور آپ نے نصف گھنٹہ تک کتاب سنی اس کے بعد فرمایا اس کو واپس رکھ آؤ اس کی ضرورت نہیں۔ اب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب چشمہ معرفت کو بھی پڑھواور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ کوبھی دیکھو اور پھر سوچو کہ کیا اِن دونوں میں کوئی نسبت ہے اور کیا آپ نے کوئی نکتہ بھی اس کتاب سے اخذ کیا ہے؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اس کتاب میں پیدائشِ عالَم اور حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق ایسے مسائل بیان فرمائے ہیں کہ ساری دنیا سردھنتی ہے اور تسلیم کرتی ہے لاینحل عُقدے تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حل کردیا ہے۔ یہ سب برکت جو ہمیں ملی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ملی ہے۔اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ اپنی ساری زندگی آپ کے لائے ہوئے پیغام کی خدمت میں لگا دیں اور کوشش کریں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد پھر اس کی اولاد اور پھر اس کی اولاد بلکہ آپ کی آئندہ ہزاروں سال تک کی نسلیں اس کی خدمت میں لگی رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت کو قائم رکھیں۔
مجھ پر یہ بہتان لگایا گیا ہے کہ گویا میں اپنے بعد اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں۔یہ بالکل غلط ہے۔ اگر میرا کوئی بیٹا ایسا خیال بھی دل میں لائے گا تو وہ اُسی وقت احمدیت سے نکل جائے گا۔ بلکہ میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کرے کہ خدا تعالیٰ میری اولاد کو اس قسم کے وسوسوں سے پاک رکھے۔ایسا نہ ہو کہ اس پروپیگنڈا کی وجہ سے میرے کسی کمزور بچے کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہوجائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آقا تھے اگر ان کی اولاد میں بھی کسی وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ خلافت کو حاصل کریں تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی کیونکہ یہ چیز خدا تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے۔ اور جو خدا تعالیٰ کے مال کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے وہ چاہے کسی نبی کی اولاد ہو یا کسی خلیفہ کی وہ تباہ و برباد ہوجائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے گھر میں چوری نہیں ہوسکتی۔ چوری تو ادنیٰ لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے۔ اورقرآن کریم کہتا ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 10مومنوں سے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ گویا خلافت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اُس نے خود دینی ہے۔ جو اسے لینا چاہتا ہے چاہے وہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیٹا ہو یا حضرت مسیح اول کا ، وہ یقیناً سزا پائے گا۔ پس یہ مت سمجھو کہ یہ فتنہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن پھر بھی تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اس کا مقابلہ کرو اورسلسلہ احمدیہ کو اس سے بچاؤ۔
دیکھو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیاتھا کہ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ11 وہ آپؐ کو لوگوں کے حملوں سے بچائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ سے زیادہ سچا اورکس کا وعدہ ہو سکتاہے مگر کیا صحابہؓ نے کبھی آپ کی حفاظت کا خیال چھوڑا؟ بلکہ صحابہؓ نے ہر موقع پر آپ کی حفاظت کی۔ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے باہر ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ باہر نکلے اور دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم انصار ہیں چونکہ اردگرد دشمن جمع ہیں اس لئے ہم ہتھیار لگا کر آپ کا پہرہ دینے آئے ہیں۔ اِسی طرح جنگ احزاب میں جب دشمن حملہ کرتا تھا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف جاتا تھا ۔آپ کے ساتھ اُس وقت صرف سات سو صحابہ تھے کیونکہ پانچ سو صحابہؓ کو آپ نے عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر کردیا تھا اور دشمن کی تعداد اُس وقت سولہ ہزار سے زیادہ تھی لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور دشمن ناکام و نامراد رہا ۔میور جیسا دشمنِ اسلام لکھتا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح اور کفار کے شکست کھانے کی یہ وجہ تھی کہ کفار نے مسلمانوں کی اس محبت کا، جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سےتھی غلط اندازہ لگایا تھا۔ وہ خندق سے گزر کر سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رخ کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے مسلمان مرد عورتیں اور بچے سب مل کر اُن پر حملہ کرتے اور ایسا دیوانہ وار مقابلہ کرتے کہ کفار کو بھاگ جانے پر مجبور کردیتے۔وہ کہتا ہے کہ اگرکفار یہ غلطی نہ کرتے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی بجائے کسی اورجہت میں حملہ کرتے تو وہ کامیاب ہوتے۔ لیکن وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رُخ کرتے تھے اور مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی۔ وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ دشمن آپ کی ذات پر حملہ آور ہو اس لئے وہ بے جگر ی سے حملہ کرتے اور کفار کا منہ توڑ دیتے۔ ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہوجاتی تھی اور وہ اپنی جان کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ یہ وہ سچی محبت تھی جو صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔
آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں۔ جب آپ نے انصار کا نام قبول کیا ہے تو ان جیسی محبت بھی پیدا کریں۔ آپ کے نام کی نسبت خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے۔اس لئے تمہیں بھی چاہیئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو۔ کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہو گی ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کرسکتا، اکیلا نبی بھی کوئی کام نہیں کرسکتا۔ دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دیئے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کی جماعت دی۔اِسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں۔ اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی۔ کیونکہ جب دنیا دیکھے گی کہ جماعت کے لاکھوں لاکھ آدمی خلافت کے لئے جان دینے پر تیار ہیں تو جیسا کہ میور کے قول کے مطابق جنگِ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ پر حملہ کرنے کی وجہ سے حملہ آور بھاگ جانے پر مجبور ہوجاتے تھے اُسی طرح دشمن اِدھر رخ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا ۔وہ سمجھے گا کہ اس کے لئے لاکھوں اطفال، خدام اور انصار جانیں دینے کے لئے تیار ہیں اس لئے اگر اس نے حملہ کیا تو وہ تباہ وبرباد ہوجائے گا ۔غرض دشمن کسی رنگ میں بھی آئے جماعت اس سے دھوکا نہیں کھائے گی۔ کسی شاعر نے کہا ہے ۔
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
کہ تُو کسی رنگ کا کپڑا پہن کر آجائے، تُو کوئی بھیس بد ل لے میں تیرے دھوکا میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں ۔اِسی طرح چاہے خلافت کا دشمن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی اولاد کی شکل میں آئے اور چاہے وہ کسی بڑے اور مقرب صحابی کی اولاد کی شکل میں آئے ایک مخلص آدمی اُسے دیکھ کر یہی کہے گا کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
یعنی تُو کسی رنگ میں بھی آاور کسی بھیس میں آ میں تیرے دھوکا میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیری چال اور قد کو پہچانتا ہوں۔ تُو چاہے مولوی محمد علی صاحب کا جُبّہ پہن لے، چاہے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا جُبّہ پہن لے یاحضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کا جُبّہ پہن لے میں تمہیں پہچان لوں گا اور تیرے دھوکا میں نہیں آؤ نگا۔
مجھے راولپنڈی کے ایک خادم نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ شروع شروع میں اللہ رکھا میرے پاس آیا اور کہنے لگاکہ مری کے امیر کے نام مجھے ایک تعارفی خط لکھ دو ۔میں نے کہا میں کیوں لکھوں؟ مری جاکر پوچھ لو کہ وہاں کی جماعت کا کون امیر ہے۔ مجھے اُس وقت فوراً خیال آیا کہ یہ کوئی منافق ہے۔ چنانچہ میں نے لَاحَوْلَ پڑھنا شروع کر دیا اور آدھ گھنٹے تک پڑھتارہا اور سمجھا کہ شاید مجھ میں بھی کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے یہ منافق میرے پاس آیا ہے۔ تو احمدی عقل مند ہوتے ہیں۔ وہ منافقوں کے فریب میں نہیں آتے۔ کوئی کمزور احمدی ان کے فریب میں آجائے تو اور بات ہے ورنہ اکثر احمدی انہیں خوب جانتے ہیں۔
اَب انہوں نے لاہور میں اشتہارات چھاپنے شروع کئے ہیں۔ جب مجھے بعض لوگوں نے یہ اطلاع دی تو میں نے کہا گھبرا ؤ نہیں پیسے ختم ہوجائیں گے تو خود بخود اشتہارات بند ہوجائیں گے۔ مجھے لاہور سے ایک دوست نے لکھا کہ اب ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ وہ اخباروں میں شور مچائیں اور اشتہارات شائع کریں۔ وہ دوست نہایت مخلص ہیں اور منافقین کا بڑے جوش سے مقابلہ کررہے ہیں مگر منافق اُسے کذاب کا خطاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص یونہی ہمارے متعلق خبریں اڑاتا رہتا ہے۔ لیکن ہم اسے جھوٹا کیونکر کہیں۔ اِدھر ہمارے پاس یہ خبر پہنچی کہ ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ اشتہارات شائع کئے جائیں اور اُدھر لاہور کی جماعت نے ہمیں ایک اشتہار بھیج دیا جو ان منافقین نے شائع کیا تھا اور جب بات پوری ہوگئی تو ہم نے سمجھ لیا کہ اس دوست نے جو خبر بھیجی تھی وہ سچی ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو حقیقی انصار بنائے چونکہ تمھاری نسبت اس کے نام سے ہے اس لئے جس طرح وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اسی طرح وہ آپ لوگو ں کی تنظیم کو بھی تاقیامت زندہ رکھے اور جماعت میں خلافت بھی قائم رہے اور خلافت کی سپاہ بھی قائم رہے۔ لیکن ہماری فوج تلواروں والی نہیں۔اِن انصار میں سے تو بعض ایسے ضعیف ہیں کہ ان سے ایک ڈنڈا بھی نہیں اٹھایا جاسکتا لیکن پھر بھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج ہیں اور ان کی وجہ سے احمدیت پھیلی ہے اور امید ہے کہ آئندہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اَور زیادہ پھیلے گی۔ اور اگر جماعت زیادہ مضبوط ہوجائے تو اس کا بوجھ بھی انشاء اللہ ہلکا ہوجائے گا ورنہ انفرادی طورپر کچھ دیر کے بعد آدمی تھک جاتا ہے۔ پس تم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں احمدیت کی اشاعت کی کوشش کرو اور انہیں تبلیغ کرو تاکہ اگلے سال ہماری جماعت موجودہ تعدادسے دُگنی ہوجائے اور تحریک جدید میں حصہ لینے والے دُگنا چندہ دیں۔ اور پھر اپنی دعاؤں اور نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نوجوانوں پر اثر ڈالوتاکہ وہ بھی دعائیں کرنے لگ جائیں اور صاحبِ کشوف و رؤیا ہوجائیں۔ جس جماعت میں صاحبِ کشوف و رؤیا زیادہ ہوجاتے ہیں وہ جماعت مضبوط ہوجاتی ہے کیونکہ انسان کی دلیل سے اتنی تسلی نہیں ہوتی جتنی تسلی کشف اور رؤیا سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔’’
(الفضل 21، 24 مارچ 1957ء)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ


احمدیت کی اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کے لئے
انصار اللہ کو اپنا عہد ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے
اختتامی خطاب
(فرمودہ27/ اکتوبر1956ء برموقع سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ مقام ربوہ)

تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘ میں تقریر شروع کرنے سے پہلے انصار اللہ کا عہد دُہراتا ہوں سب دوست کھڑے ہوجائیں اور میرے ساتھ ساتھ عہد دُہراتے جائیں۔’’
حضور کے اس ارشاد پر سب دوست کھڑے ہوگئے اور حضور نے مندرجہ ذیل عہد دُہرایا۔
''اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظامِ خلافت کی حفاظت کے لئے انشاء اللہ آخر دم تک جدو جہد کرتا رہوں گااور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہوں گا۔ نیز میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا۔''
اسکے بعد فرمایا:۔
‘‘ کل کی تقریر کے بعد کھانے میں کچھ بدپرہیزی ہوگئی جس کی وجہ سے اسہال آنے شروع ہوگئے اور پھر رات بھر اسہال آتے رہے جس کی وجہ سے میں اس وقت بہت زیادہ کمزوری محسوس کررہا ہوں لیکن چونکہ احباب باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں اِس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ یہاں آکر جو کچھ بھی کہہ سکوں بیان کردوں۔
میں نے کل اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ کا نام انصار اللہ ہے یعنی نہ صرف آپ انصار ہیں بلکہ آپ انصار اللہ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔اللہ تعالیٰ کو تو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں لیکن اس کی نسبت کی وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ہمیشہ اس عہد پر قائم رہیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اس پر موت نہیں آتی اس لئے آپ کے عہد پر کبھی موت نہیں آنی چاہیے۔ چونکہ موت سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا اس لئے انصار اللہ کے معنے یہ ہوں گے کہ جب تک آپ زندہ رہیں گے اس عہد پر قائم رہیں گے اور اگر آپ مرگئے تو آپ کی اولاد اس عہد کو قائم رکھے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہدمیں یہ بات رکھی گئی ہے کہ ''میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا’’ اور اگر اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کو اس بات کی توفیق دے دے تو پھر کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یہ توفیق مل جائے کہ ہم عیسائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک خلافت کو قائم رکھ سکیں۔خلافت کو زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تنظیمِ سلسلہ ایسی مضبوط رہے کہ تبلیغِ احمدیت اور تبلیغِ اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہوتی رہے جو بغیر خلافت کے نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ کوئی ایک آدمی اس بات کی توفیق نہیں رکھتا کہ وہ ہالینڈ ،انگلینڈ ،جرمنی، سپین،فرانس،سکنڈے نیویا،سوئٹزرلینڈاور دوسرے ممالک میں مشنری بھیج سکے۔ یہ کام تبھی ہوسکتا ہے جب ایک تنظیم ہواور کوئی ایسا شخص ہو جس کے ہاتھ پر ساری جماعت جمع ہو اور وہ آنہ آنہ، دو دو آنہ، چار چار آنہ، روپیہ دو روپیہ، جماعت کے ہر فرد سے وصول کرتا رہے۔ اور اس دو دوآنہ، چار چار آنہ اور روپیہ، دو دو روپیہ سے اتنی رقم جمع ہوجائے کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہوسکے۔ دیکھو عیسائیوں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے۔ وہ اس وقت ساٹھ کروڑ کے قریب ہیں۔ پوپ جو عیسائی خلیفہ ہے اُس نے اِس وقت یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ہر عیسائی سال میں ایک ایک آنہ بطور چندہ دیتا ہے اور اس کو عیسائی پوپ کا آنہ(Pope's Penny)کہتے ہیں اور اس طرح وہ پونے چار کروڑ روپیہ جمع کرلیتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ باوجود اس کے کہ اتنا بوجھ اٹھاتے ہیں کہ کوئی اپنی ماہوار تنخواہ کا چھ فیصدی چندہ دیتا ہے اور کوئی دس فیصدی چندہ دیتا ہے اور پھر بارہ ماہ متواتر دیتا ہے آپ کا چندہ پندرہ بیس لاکھ بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری تعداد عیسائیوں سے بہت تھوڑی ہے۔ اگر ہمارے پاس پونے چار کروڑ روپیہ ہوجائے تو شاید ہم دوسال میں عیسائیت کی دھجیاں بکھیر دیں۔اس تھوڑے سے چندہ سے بھی ہم وہ کام کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے۔ چنانچہ عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے جن کے اقتباسات الفضل میں بھی چھپتے رہتے ہیں کہ احمدیوں نے ہمارا ناطقہ بند کردیا ہے۔ جہاں بھی ہم جاتے ہیں احمدیت کی تعلیم کی وجہ سے لوگ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے۔ اور نہ صرف نئے لوگ عیسائیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ہم سے نکل نکل کر لوگ مسلمان ہورہے ہیں ۔نائیجریا اور گولڈ کوسٹ کے متعلق تو یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر تعداد عیسائیوں سے آئی ہے۔ سیرالیون اور لائبیریا سے بھی رپورٹ آئی ہے کہ عیسائی لوگ کثرت سے احمدیت کی طرف متوجہ ہورہے ہیں اور سلسلہ میں داخل ہورہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں لوگ زیادہ تر مسلمانوں سے آئے ہیں کیونکہ یہاں مسلمان زیادہ ہیں اور عیسائی کم ہیں لیکن وہاں چونکہ عیسائی زیادہ ہیں اس لئے زیادہ تر احمدی عیسائیوں سے ہی ہوئے ہیں۔ چنانچہ مغربی افریقہ میں احمدیت کی ترقی کے متعلق گولڈ کوسٹ یونیورسٹی کالج کے پروفیسر جے سی ولیم سن نے اپنی ایک کتاب''مسیحؑ یامحمد'' میں لکھا ہے کہ ''اشانٹی گولڈکوسٹ کے جنوبی حصوں میں عیسائیت آجکل ترقی کررہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصاً ساحل کے ساتھ ساتھ احمدیہ جماعت کو عظیم فتوحات حاصل ہورہی ہیں۔ یہ خوش کن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرضِ خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ عظیم ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھنچی چلی جارہی ہے اور یقیناً(یہ صورت)عیسائیت کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے۔''
پھر جو لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں ان کے اخلاص کی یہ حالت ہے کہ سیرالیون کے مشن نے لکھا کہ یہاں ایک عیسائی سردار تھا جس کو یہاں چیف کے نام سے پکارا جاتا ہے درحقیقت ان کی حیثیت ہمارے ملک کے ذیلداروں کی سی ہوتی ہے مگر وہاں کی گورنمنٹ نے ان چیفس کو بہت زیادہ اختیارات دے رکھے ہیں۔ ان کے پاس مقدمات جاتے ہیں اور گورنمنٹ نے ایک خاص حد تک ان کو سزا دینے کا بھی اختیار دیا ہوا ہے۔ وہاں ملک کے رواج کے مطابق چیف کو خدا تعالیٰ کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے اس لئے ان کے ہاں ہماری طرح خداتعالیٰ کی قسم کھانے کا رواج نہیں بلکہ وہاں یہ رواج ہے کہ جب کسی سے قَسم لینی ہو تو چیف کھڑا ہوجاتا ہے اور اپنا سٹول جس پر وہ بیٹھتا ہے سامنے رکھ دیتا ہے اور مدعی یا اس کا نمائندہ اُس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہے۔اور کہتا ہے کہ مجھے چیف کے اس سٹول کی قسم کہ میں نے فلاں بات کی ہے یا نہیں کی اور اس کی بات مان لی جاتی ہے۔ہمارے احمدیوں نے چیف کے سٹول پر ہاتھ رکھ کر اس کی قسم کھانے سے انکار کرنا شروع کردیا اور کہا یہ شرک ہے ہم تو خدا تعالیٰ کی قسم کھائیں گے لیکن چیف نے کہا میں تو خدا تعالیٰ کی قسم نہیں مانتا۔ہمارے باپ دادا سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ اس سٹول کی قسم کھائی جاتی ہے اس لئے میں اس سٹول کی قَسم لوں گا۔ لیکن احمدیوں نے ایسی قسم کھانے سے انکار کردیا۔ چنانچہ وہاں ایک کے بعد دوسرے احمدی کو سزا ملنی شروع ہوئی لیکن احمدی سٹول کی قسم کھانے سے برابر انکار کرتے گئے۔آخر گورنمنٹ ڈر گئی اور اس نے کہا آخر تم کتنے احمدیوں کو جیل میں بند کرو گے، احمدیت تو اس علاقہ میں پھیل رہی ہے اوراس کے ماننے والوں کی تعداد روزبروز زیادہ ہورہی ہے۔ چنانچہ تنگ آکر گورنمنٹ نے چیفس کو حکم دے دیا کہ اگر کسی مقدمہ میں کسی احمدی سے قَسم لینے کی ضرورت پڑے تو اسے چیف کے سٹول کی قسم نہ دی جائے بلکہ اسے خداتعالیٰ کی قسم دی جائے کیونکہ یہ لوگ خداتعالیٰ کے سواکسی اور کی قَسم نہیں کھا سکتے۔ تو دیکھو وہاں احمدیت نے کایا پلٹ دی ہے۔
سیرالیون میں ہمارا ایک اخبار چھپتا ہے ا س کے متعلق ہمارے مبلغ نے لکھا کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی پریس نہیں تھا اس لئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا۔ دوچارپرچوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اُس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کررہے ہو جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا کیونکہ پادری بُرا مناتے ہیں۔ چنانچہ اخبار چھپنا بند ہوگیا۔ تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبارچھاپنا بند کردیا ہے۔اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے۔ یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پریس میں چھپ جایا کرتا تھا اب چونکہ ہم نے انکار کردیا ہے اور ان کے پاس اپنا کوئی پریس نہیں ا س لئے ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیحؑ کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں،اس کی کیا طاقت ہے۔ اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کرے۔ وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی۔ میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ وہ چندہ کرکے اتنی رقم جمع کردیں کہ ہم اپنا پریس خرید سکیں۔اس سلسلہ میں مَیں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے۔ میں اُس کی طرف جارہا تھا کہ خداتعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پَرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آ گیا اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا۔وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اُتر پڑا اور کہنے لگا آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ میں نے کہا اس طرح ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کردیا ہے اگر مسیحؑ کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھادے۔ وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہوکر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پونڈ لاکر مجھے دے دیئے۔پانچ سو پونڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا گویا تیرہ ہزار روپیہ کے قریب اس نے رقم دے دی او رکہا میری خواہش ہے کہ آپ پریس کا جلدی انتظام کریں تاکہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کردیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پریس دے دیا ہے۔ جماعت کے دوسرے دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور اِس وقت تک1800پونڈ سے زیادہ رقم جمع ہوچکی ہے اور انگلینڈ میں ایک احمدی دوست کے ذریعہ پریس کے لئے آرڈر دے دیا گیا ہے۔
یہ شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا۔ اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جارہا تھا کہ اس احمدی نے اسے تبلیغ شروع کردی۔وہ دریا کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ دیکھو یہ دریا اِدھر سے اُدھر بہہ رہا ہے اگر یہ دریا یک دم اپنا رُخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف اُلٹا بہنا شروع کردے تو یہ ممکن ہے لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے۔ مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقن احمدی اس سے ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہوگئی۔ اب دیکھ لو ان لوگوں کے اندر جو اسلام اور احمدیت کے لئے غیرت پیدا ہوئی ہے وہ محض احمدیت کی برکت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر الزام لگاتی تھی کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ ہیں مگر خداتعالیٰ نے ثابت کردیا کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے ایجنٹ ہیں۔ اگر آپ مخالفوں کے قول کے مطابق عیسائیت کے ایجنٹ تھے تو عیسائیوں کو مسلمان بنانے کے کیا معنی؟ اگر آپ عیسائیوں کے ایجنٹ ہوتے تو آپ مسلمانوں کو عیسائی بناتے نہ کہ عیسائیوں کو مسلمان۔ کیونکہ کوئی شخص اپنے دشمن کی تائید کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ جو شخص عیسائیت کی جڑوں پر تَبر رکھتا ہے عیسائی لوگ اس کی مدد کیوں کریں گے۔
حضرت مسیح ناصریؑ سے بھی بالکل اِسی طرح کا واقعہ ہوا تھا۔ آپ پر یہودیوں نے الزام لگایا کہ انہیں بَعل بُت سکھاتا ہے۔ اس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تو بَعل بُت کے خلاف تعلیم دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایک خدا کی پرستش کرو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ بَعل مجھے سکھاتا ہے اور میری تائید کرتا ہے۔ اب دیکھو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کتنا بڑا نشان ہے کہ آپؑ کی زندگی میں تو مخالف کہتے رہے کہ آپ ؑعیسائیت کے ایجنٹ ہیں لیکن آپؑ کی وفات کے بعد آپ کے ماننے والی غریب جماعت کو اس نے یہ توفیق دی کہ وہ عیسائیت کو شکست دے۔ اُس نے چندے دئیے اور تبلیغ کا جال پھیلا دیا گیا۔ اگر وہ چندے نہ دیتے اور ہمارے مبلغ دنیا کے مختلف ممالک میں نہ جاتے تو یہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں کہاں سے آتے اور عیسائیت کا ناطقہ کیسے بند ہوتا ۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے انہی چندوں کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی کہ اب عیسائیوں کو ایک ملک کے متعلق یہ کہنا پڑا ہے کہ یہ خوش کن امید کہ یہ ملک عیسائی ہوجائیگا پوری نہیں ہوسکتی۔اب غالباً اسلام جیتے گا اور عیسائیت شکست کھائے گی کیونکہ اب عیسائیت کی جگہ اس ملک میں اسلام ترقی کررہا ہے۔احمدی جماعت کی طرف سے سکول جاری ہورہے ہیں، کالج قائم کئے جارہے ہیں، مساجد تعمیر ہورہی ہیں چنانچہ گولڈکوسٹ کے علاقہ میں کماسی مقام پر ہمارا سیکنڈری سکول قائم ہے۔ کہتے تو اسے کالج ہیں لیکن وہاں صرف ایف اے تک تعلیم دی جاتی ہے۔ کئی کئی میل سے لوگ اپنے بچے اس کالج میں بھیجتے ہیں۔ان لوگوں کو دین پڑھنے کااتنا شوق ہے کہ پچھلے سال ایک لڑکا یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا۔اس کے متعلق وہاں کے مبلغ نے لکھا کہ اس کی والدہ میرے پاس آئی اور اس نے مجھے دو سو پونڈ کی رقم دی اور کہا میرے اس بچے کو ربوہ بھیجنے کا انتظام کریں تاکہ یہ وہاں تعلیم حاصل کرے۔ مبلغ نے کہا بی بی! تُو بیوہ عورت ہے اتنا بوجھ کیوں اٹھاتی ہے،یہ رقم تیرے کام آئے گی۔ شاید تو خیال کرتی ہو کہ ربوہ میں تیرا لڑکا بی اے یاایم اے ہوجائے گا وہاں تو لوگ دینیات پڑھاتے ہیں۔اس پر وہ عورت کہنے لگی میں تو اپنے لڑکے کو ربوہ بھیجتی ہی اس لئے ہوں کہ وہ وہاں جاکر دین کی تعلیم حاصل کرے، آپ اسے وہاں بھیجئے خرچ میں دوں گی۔ چنانچہ وہ لڑکا یہاں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد واپس اپنے ملک جائے گا تو وہاں کا مبلغ بن جائے گا۔
اسی طرح ایسٹ افریقہ سے امری عبیدی آئے تھے۔ وہ عیسائیوں میں سے احمدی ہوئے ہیں۔حبشیوں کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ کم عقل ہوتے ہیں لیکن وہ شخص اتنا ذہین ہے کہ اس نے اس بات کو غلط ثابت کردیا ہے۔ کراچی میں پچھلے دنوں نوجوانوں کی ایک انجمن کی کانفرنس ہوئی تھی۔اس میں انہوں نے ہمیں نہیں بلایا تھا لیکن ہم نے خودبعض لڑکے وہاں بھیج دیئے تھے ان میں سے ایک امری عبیدی بھی تھے۔بعد میں وہاں سے رپورٹ آئی کہ وہ ہر بات میں امری عبیدی سے مشورہ لیتے تھے اور اس کو آگے کرتے تھے۔ گویا وہ تو ہمیں بلاتے بھی نہیں تھے لیکن جب ہمارے نوجوان وہاں گئے تو وہ ہربات میں ہمارے اس نوجوان سے مشورہ کرتے تھے اور اسے آگے کرتے تھے۔ اب وہ واپس پہنچ گئے ہیں اور ان کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے انہوں نے تبلیغ کا کام شروع کردیا ہے ۔خدا تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ جب یہ ساری قوم احمدیت کو قبول کرلے۔ تو یہ جو کچھ ہورہا ہے محض نظام کی برکت کی وجہ سے ہورہا ہے اور اس نظام کا ہی دوسرا نام خلافت ہے۔خلافت کوئی علیحدہ چیز نہیں بلکہ خلافت نام ہے نظام کا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب الوصیت میں فرماتے ہیں کہ:
''اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی سنت کو ترک کردیوے۔اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ او روہ دوسری قدرت آ نہیں سکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن جب میں جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا۔'' 12
اب دیکھو قدرتِ ثانیہ کسی انجمن کا نام نہیں۔قدرتِ ثانیہ خلافت اور نظام کا نام ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں تو کچھ مدت تک تمہارے اندر رہ سکتا ہوں۔ مگر یہ قدرتِ ثانیہ دائمی ہوگی او راس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ او رقیامت تک نہ کوئی نبی رہ سکتا ہے اور نہ کوئی خلیفہ رہ سکتا ہے۔ ہاں خلافت قیامت تک رہ سکتی ہے، نظام قیامت تک رہ سکتا ہے۔پس یہاں قدرتِ ثانیہ سے خلافت ہی مراد ہے کیونکہ خلیفہ تو فوت ہوجاتا ہے لیکن خلافت قیامت تک جاسکتی ہے۔ اگر جماعت ایک خلیفہ کے بعد دوسرا خلیفہ مانتی چلی جائے اور قیامت تک مانتی چلی جائے توایک عیسائیت کیا ہزاروں عیسائیتیں بھی احمدیوں کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتیں۔ کیونکہ ہمارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیا ہوا دلائل وبراہین کا وہ ذخیرہ ہے جو کسی اَورقوم کے پاس نہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ آپ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کردیں۔اب وہ زمانہ جب اسلام تمام دنیا پر غالب ہوگاکسی ایک آدمی کی کوشش سے نہیں آسکتا بلکہ اس کے لئے ایک لمبے زمانہ تک لاکھوں آدمیوں کی جدو جہد کی ضرورت ہے ۔پس یہ کام صرف خلافت کے ذریعہ ہی پورا ہوسکتا ہے لیکن اس کا سارا کریڈٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو ملے گا جن کے دیئے ہوئے ہتھیار ہم استعمال کرتے ہیں۔ باقی باتیں محض خوشہ چینی ہیں جیسے کوئی شخص کسی باغ میں چلا جائے اور اس کے پھل کھالے تو وہ پھلوں کا مزہ تو اٹھا لے گا لیکن اصل مزہ اٹھانا اس کا ہے جس نے وہ باغ لگایا۔
لطیفہ مشہورہے کہ کوئی شخص سِل کے عارضہ سے بیمار ہوگیا۔اس نے بہتیرا علاج کرایا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جب ڈاکٹروں نے اسے لاعلاج قرار دے دیا تو وہ اپنے وطن واپس آگیا۔ وہ شخص وزیر آباد کے قریب سڑک پر جارہا تھا کہ اُسے ایک پہلوان ملا جو متکبرانہ طور پر سڑک پر چل رہا تھا۔ اس نے اس عام دستور کے مطابق کہ پہلوان اپنا سر منڈا لیتے ہیں تاکہ کُشتی میں ان کا مدِّمقابل ان کے بال نہ پکڑے اپنے بال منڈائے ہوئے تھے۔اس بیمار شخص کی حالت بہت کمزور تھی لیکن اس پہلوان کو دیکھ کر اسے شرارت سُوجھی اور اس نے آہستہ سے جاکر اس کے سر پر ٹھینگامارا۔ اس پر اُس پہلوان کو غصّہ آگیا اور اس نے سمجھاکہ اس شخص نے میری ہتک کی ہے۔ چنانچہ اس نے اسے ٹھڈوں سے خوب مارا۔ جب وہ اسے ٹھڈے مارہا تھا تووہ کہتا جاتا تھا کہ تُو جتنے ٹھڈے چاہے مارلے جتنا مزہ مجھے اس ٹھینگا مارنے میں آیا ہے تجھے ٹھڈوں سے نہیں آسکتا۔ اِسی طرح جو مزہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دلائل میں آیا ہے وہ عیسائیت کواپنی طاقت کے زمانہ میں بھی نہیں آیا۔
دیکھ لو عیسائی ہم پر حاکم تھے اور ہم کمزور اور ماتحت رعایا تھے۔ ہمارے پاس نہ تلوار تھی اورنہ کوئی مادی طاقت۔ لیکن خدا تعالیٰ کاایک پہلوان آیا اور اس نے ہمیں وہ دلائل دیئے کہ جن سے اب ہم پر امریکہ انگلینڈ اور دوسرے سب ممالک کو شکست دے رہے ہیں۔یہ جوٹھینگے کا مزہ ہے وہ ان کے ٹھڈوں میں نہیں تو یہ برکت جو خداتعالیٰ نے ہمیں دی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل دی ہے۔ اور جوں جوں ہمارے مبلغ کام کریں گے اور احمدیت ترقی کرے گی ہمیں اَور زیادہ برکت ملے گی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تیرے ذریعہ اسلام کو دنیا پر غالب کروں گا۔ اب جو شخص بھی اسلام کی تبلیغ کے لئے باہر نکلتا ہے اور جو شخص بھی تبلیغ کے لئے ایک پیسہ بھی دیتا ہے در حقیقت اپنے دائرہ میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے اور جو وعدے خداتعالیٰ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھے وہ اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے اس کے ساتھ بھی ہوں گے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو فوت ہوگئے اور قرآن کریم ایک کتاب ہے جو بولتی نہیں۔ اب جو مبلغ ہیں وہی بولیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد ایک رنگ میں آپ کے نائب ہوں گے۔ پس جوں جوں وہ امریکہ، انگلستان اور دوسرے ممالک میں تبلیغ کریں گے اور اسلام بڑھے گا خلافتِ محمدیہ ظلی طور پر خداتعالیٰ انہیں دیتا چلاجائے گا۔ لیکن ان کی وہاں خلافت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں مرکز میں بھی خلافت قائم ہو جو تمام احمدیوں کو اکٹھا رکھے اور انہیں خرچ بھجوائے تاکہ وہ اپنی اپنی جگہ کام کرسکیں۔ پھر جوں جوں چندے بڑھتے جائیں تبلیغ کے نظام کو وسیع کرتے چلے جائیں۔ میں نے کل بتایا تھا عیسائی خلافت نے52لاکھ مبلغ تبلیغ کے لئے تیار کیا ہوا ہے اور اس کے مقابلہ میں ہماری طرف سے صرف سَو ڈیڑھ سو مبلغ ہے۔ جس دن مسیحِ محمدی کو52لاکھ مبلغ مل گئے اُس دن بھاگتے ہوئے عیسائیت کورستہ نہیں ملے گا کیونکہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ دلائل اور براہین دئے ہیں جو عیسائیت کے پاس نہیں۔ مثلاً لنڈن میں ایک جلسہ ہوا۔اس میں ہمارے مبلغوں نے تقاریر کیں اور بتایا کہ مسیح ناصری فوت ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مسیح ناصری صلیب سے بچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے اور وہیں انہوں نے وفات پائی ہے اور اب تک ان کی قبر سری نگر میں پائی جاتی ہے۔ اِس پرایک پادری کھڑا ہوااور اس نے کہا کہ اگر مسیح فوت ہوگئے ہیں تو ہماری عیسائیت مرگئی۔ آگے وہ کشمیرچلے گئے یاکسی اَور جگہ اس کاکوئی سوال نہیں۔ یہ تو ایک علمی سوال ہے جو اُٹھایا گیا ہے ان کا وفات پاجانا ہی عیسائیت کے ختم ہوجانے کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ ہم حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں اور اگر وہ مرگئے ہیں تو وہ خدا نہ رہے اور اس طرح عیسائیت بھی باقی نہ رہی۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کو ایسے ایسے معرفت کے نکتے دیئے ہیں جن کا مقابلہ عیسائیت کے بس کی بات نہیں۔ 1300سال سے مسلمان اس دھوکا میں مبتلا چلے آتے تھے کہ مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر ہیں اور اس کی وجہ سے عیسائیت کو مدد مل رہی تھی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کی وفات ثابت کرکے عیسائیت کو ختم کر دیا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں
مسلمانوں پہ تب ادبار آیا
کہ جب تعلیمِ قرآن کو بُھلایا
رسولِ حق کو مٹی میں سُلایا
مسیحاؑ کو فلک پر ہے بٹھایا13
عیسائی ہمیشہ کہتا تھا کہ میرا مسیحؑ آسمان پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھا ہے اور تمہارا رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) زمین میں دفن ہے لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ہی جھٹکا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر چڑھا دیا اور مسیح ناصری کو زمین میں دفن کردیا۔ یہی چیز تھی جس نے احمدیت کو عیسائیت پر غلبہ دیا ہے۔ جس وقت تک یہ تعلیم موجود ہے اور انشاء اللہ یہ قیامت تک رہے گی دنیا میں عیسائیت پنپ نہیں سکتی۔ عیسائیت کو یہی فخر تھا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں اور اس سے ان کے دعویٰ کی تائید ہوتی تھی لیکن اب تو انہیں بھی سمجھ آگئی ہے اور وہ اس عقیدہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
میں جب مری گیا تو وہاں عیسائی مشن میں ہمارا مبلغ اور میرا یک بیٹا عیسائیوں کوتبلیغ کرنے کے لئے جاتے تھے۔جب ہمارے مقابلہ میں ان کا پہلو کمزور ہوگیا تو انہوں نے لاہورسے کچھ دیسی مشنری بلائے اور مشنریوں نے آکر چالاکیاں شروع کردیں اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کیا کہ مرزا صاحب تو مسیح علیہ السلام سے بڑا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اس طرح انہوں نے غیر از جماعت مسلمانوں کو ہمارے خلاف جوش دلانا چاہا مگر وہ روزانہ تبلیغ کے بعد سمجھ چکے تھے کہ احمدی جو کچھ کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے، اس سے اسلام کی فضیلت عیسائیت پر ثابت کی جاسکتی ہے۔ اس لئے جب عیسائیوں نے احمدیت کے خلاف شور مچانا شروع کیا تو انہوں نے کہا تمہیں اس سے کیا واسطہ مرزا صاحب اپنے آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے افضل سمجھتے ہیں یا نہیں۔ یہ تو ہمارے گھر کا جھگڑا ہے تم ان اعتراضات کا جواب دو جو عیسائیت پر ہوتے ہیں اور اپنے عقائد کی حقانیت کو ثابت کرو۔یہ لوگ ہماری طرف سے نمائندے ہیں جو تمہارے ساتھ بحث کررہے ہیں۔ جو یہ بات کریں گے وہ ہماری طرف سے ہی سمجھی جائے گی۔غرض مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیش کردہ دلائل او ربراہین کو سمجھ چکے ہیں اور جوں جوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پھیلتی جائے گی عیسائیت مغلوب ہوتی جائے گی۔
دوسرا پہلو روحانیت کا ہے۔ عیسائیوں کی سیاست کا پہلو تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ سے ختم ہوگیا۔ مذہبی پہلو میں یہ نقص تھا کہ علماء نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہیں اس کی وجہ سے مسلمانوں کا قرآن کریم پر ایمان کامل نہیں رہا تھا۔ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ جس قرآن میں ایک آیت بھی منسوخ ہے مجھے اس کا کیا اعتبار ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مشکل کو بھی دور کردیا اور فیصلہ کردیا کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابلِ عمل ہے۔بِسمِ اللہِ کی ‘‘ب’’ سے لے کر وَالنَّاسِ کے ‘‘س’’ تک کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو قابلِ عمل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں نے تفسیر کبیر لکھی تو لوگ اسے پڑھ کر حیران ہوگئے اور کہنے لگے کہ پہلے علماء نے تو وہ باتیں نہیں لکھیں جو آپ نے لکھی ہیں۔ مجھے کئی غیر احمدیوں کی چٹھیاں آئیں کہ ہم نے تفسیر کبیر کو پڑھا ہے اس میں قرآن کریم کے اتنے معارف لکھے گئے ہیں کہ حد نہیں رہی۔ ضلع ملتان کے ایک غیر احمدی دوست ایک احمدی سے تفسیر کبیر پڑھنے کے لئے لے گئے اور اُسے پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا ہمیں وہ سمندر دیکھنا چاہیے جہاں سے یہ تفسیر نکلی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ سمندر کہاں سے آ گیا۔ یہ محض اس نکتہ کی وجہ سے آیا ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابلِ عمل ہے۔
مفسرین کو جس آیت کی سمجھ نہ آئی اسے انہوں نے منسوخ قرار دے دیا لیکن ہم چونکہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی ہرآیت قابلِ عمل ہے اس لئے ہم ہر آیت پر فکر کرتے ہیں۔ اور غوروفکر کے بعد اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور اور برکت کی وجہ سے اس کو حل کرلیتے ہیں اور اس کی ایسی لطیف تفسیر کرتے ہیں جو1300سال میں کسی عالم نے نہیں کی۔گزشتہ علماء نے اگر بعض آیتوں کی تفسیر نہیں لکھی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قرآن کریم میں بعض آیات منسوخ بھی ہیں۔اس لئے جب کوئی مشکل آیت آجاتی وہ اس پر غور نہیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر بعد میں پتہ لگ گیا کہ یہ آیت منسوخ ہے تو ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں اس لئے ہم ہر آیت پر غور کرتے ہیں او راس کی صحیح تشریح تلاش کرنے میں ہمت نہیں ہارتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ایمان بالقرآن روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کسی پرانے بزرگ کا ذکر سنایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس بزرگ سے کسی نے درخواست کی کہ قرآن کریم کی تفسیر سنائیے۔ تو وہ کہنے لگے یہ قرآن تو سارا ابوجہل کے لئے نازل ہوا ہے۔ ابو بکرؓ کے لئے نازل ہوتا تو اس کی ‘‘ب’’ ہی کافی تھی کیونکہ ب کے معنے ساتھ کے ہیں اور ابوبکرؓ کے لئے یہ کافی تھا کہ انہیں کہہ دیا جاتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھی بن جائیں۔ باقی ابوجہل نہیں مانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سارا قرآن اس کے لئے نازل کیا ہے ورنہ ابوبکرؓ کے لئے اتنے بڑے قرآن کی ضرورت نہیں تھی۔ تو حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم کے معارف اور حقائق سکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے۔آپ نے بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں اور تم قرآن کے جتنے حصے پر عمل کرو گے اُتنے ہی تم خدا تعالیٰ کے قریب ہوجاؤ گے اور عملی طور پردیکھا جائے تو قرآن کریم کسی فلسفہ کی کتاب نہیں بلکہ یہ ایک آسمانی کتاب ہے۔ اس کی ایک ایک آیت پر عمل کرو گے تو تم ولی اللہ بن جاؤگے اور خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی اور جب خداتعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی توتمام آفات اور مصائب تمہیں اپنی نظروں میں ہیچ نظر آنے لگ جائیں گے۔
گزشتہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں جس نے بھی قرآن کریم پر سچے دل سے عمل کیا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ اس کے شاملِ حال رہی ہے اور مصائب اور مشکلات کے ہجوم میں وہ اس کی تائیدات کا مشاہدہ کرتا رہا ہے۔
ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ان کی بیوی ان کے ایک دوست کے پاس گئی جو خود بھی بڑے بزرگ اور عالم تھے اور کہنے لگی آپ اپنے دوست کو سمجھائیں وہ کوئی کام نہیں کرتے۔ اس بزرگ نے کہا بہت اچھا میں ان کے پاس جاؤں گا اور انہیں سمجھاؤں گا کہ وہ کوئی کام کریں۔ چنانچہ وہ وہاں گئے اور کہنے لگے دیکھو بھائی! مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ آپ عالم ہیں اور دوسرے لوگوں کو پڑھا کر بھی آپ اپنی روزی کما سکتے ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا بھائی! میرے دل میں آپ کی بڑی قدر ہے لیکن مجھے افسوس ہوا کہ آپ نے ایسامشورہ کیوں دیا ہے۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ تم کسی کی مہمان نوازی کو رَدّ نہ کرو اور میں تو خداتعالیٰ کا مہمان ہوں پھر میں خدا تعالیٰ کی مہمان نوازی کو کیوں کر رَدّ کروں۔ اگر میں اس کی مہمان نوازی کو رَدّ کروں تو وہ خفا ہوجائے گا۔دوسرے بزرگ بھی ہوشیار تھے انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان نوازی صرف تین دن کی ہوتی ہے۔اس کے بعد صدقہ ہوتا ہے۔14 آپ کو خداتعالیٰ کے مہمان بنے بیس سال ہوگئے ہیں پھر کیا ابھی مہمان نوازی ختم نہیں ہوئی؟ وہ بھی ہوشیار تھے کہنے لگے کیا قرآن کریم نے نہیں فرمایا کہ خداتعالیٰ کاایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے15 گویا قرآن کریم کی روسے تو میں تین ہزار سال تک خداتعالیٰ کا مہمان رہو ں گا اور اُسی کادیا کھاؤں گا۔
تو حقیقت یہی ہے کہ جو خداتعالیٰ کا ہوجاتا ہے وہ اس کے لئے روزی کے مختلف رستے کھول دیتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس نے انسان کے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ تم میرے حضور دعائیں کیا کرو کیونکہ جب کوئی انسان عجز اور انکسار کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو اس کے دل میں محبتِ الٰہی بڑھتی ہے۔ بیشک ظاہری کَسب بھی ایک ضروری چیز ہے لیکن دعائیں بھی روحانیت پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔مومن کَسب تو کرتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ درحقیقت مجھے دیتا خدا تعالیٰ ہی ہے۔ یہ کبھی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ مجھے ملا ہے وہ میری محنت کا نتیجہ ملا ہے۔ لیکن ایک مالدار کافر یہ سمجھتا ہے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے میرے ذاتی علم اور ذہانت اور محنت کی وجہ سے ملا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ جب قارون سے کہا گیا یہ دولت تمہیں خداتعالیٰ نے دی ہے تو اس نے کہا کہ اِنَّمَاۤ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِيْ 16 کہ میری یہ دولت مجھے میرے علم کی وجہ سے ملی ہے۔ تواسلام کمائی سے منع نہیں کرتا لیکن وہ کہتا ہے تم خواہ کتنی محنت کرو یہ یقین رکھو کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً کوئی لوہار ہے تو وہ جتنی چاہے محنت کرے لیکن جو بھی کمائے اس کے متعلق یہ خیال نہ کرے کہ وہ اسے لوہارے کی وجہ سے ملا ہے بلکہ سمجھے کہ یہ سب کچھ اسے خدا نے دیا ہے۔ آخر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ایک شخص سارا سال لوہارے کاکام سیکھتا ہے لیکن وہ سیکھ نہیں سکتا۔ پھر ایسا بھی تو ہوتاہے کہ ایک کاریگر ہوتا ہے لیکن اسے کوئی کام نہیں ملتا۔ پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ روپیہ مل جائے تو رستہ میں کوئی ڈاکو اس کا سارا روپیہ چھین لے۔ پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ گھر کما کر روپیہ لے آئے لیکن گھر میں آتے ہی پیٹ میں درد اٹھے اور وہ جانبر ہی نہ ہوسکے۔ پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے ایسی جِلدی بیماری پیدا ہوجائے کہ وہ کپڑا نہ پہن سکے۔ تو جو کچھ ہوتا ہےاللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان اپنی محنت سے بھی روزی کمائے تب بھی اسے جو کچھ ملتا ہے خداتعالیٰ کی طرف سے ہی ملتا ہے۔یہ چیز ایسی ہے کہ اگر انسان اس پر غور کرے تو اسے معلوم ہوسکتا ہے کہ اسے جو کچھ ملا ہے خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔ اور خداتعالیٰ سے تعلق قرآن کریم سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں حضرت مرزا صاحب نے بتایا ہے۔اصل سبق تو محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا لیکن اسے مسلمان بھول گئے تھے۔حضرت مرزا صاحب نے آکر اسے دوبارہ تازہ کیا اور کہا کہ قرآن پر عمل کرو اور دعائیں کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اور سمجھو کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ تمہیں خدا تعالیٰ نے ہی دیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاایک شعر ہے کہ
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے17
یعنی تمام نیکیاں تقویٰ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر تقویٰ باقی رہے تو ایسے انسان کو کوئی چیز ضائع نہیں کرسکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے بزرگوں کی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی مومن خداتعالیٰ کے فضل سے مصائب اور آفات سے نہیں ڈرتے۔
مثلاً حضرت نظام الدین صاحبؒ اولیاء کے متعلق مشہور ہے کہ آپ کے معاصرین نے آپ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرے اور وہ آپ سے بدظن ہوگیا او رآپ کو سزا دینے پر تیار ہوگیا۔ لیکن اس نے کہا میں ابھی جنگ کے لئے باہر جارہا ہوں واپس آؤں گا تو انہیں سزا دوں گا ۔جب وہ واپس آرہاتھا تو حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے بادشاہ واپس آرہا ہے،آپ کوئی سفارش اس کے پاس پہنچائیں تاکہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے فرمایا ‘‘ہنوز دلی دوراست’’ ابھی دلی بہت دور ہے۔جب وہ دلّی کے اَور قریب آگیا تو مریدوں نے پھر کہا حضور! اب تو بادشاہ بالکل قریب آگیا ہے اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ صبح دِلّی میں داخل ہوجائے گا۔حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے پھر فرمایا کہ ‘‘ہنوز دلّی دوراست’’ ابھی دِلّی بہت دور ہے۔ چنانچہ مرید خاموش ہوکر واپس چلے گئے۔رات کو بادشاہ کے بیٹے نے شہر کے باہر والے محل پرایک بہت بڑا جشن کیا۔ ہزاروں لوگ اس جشن میں شرکت کے لئے آئے اور وہ محل کی چھتوں پر چڑھ گئے۔ چھت کا کچھ حصہ بوسیدہ تھا اس لئے وہ اس بوجھ کو برداشت نہ کرسکا اور گر پڑا ۔بادشاہ اوراس کے ساتھی چھت کے نیچے بیٹھے تھے اس لئے وہ اس کے نیچے ہی دب گئے اور مرگئے۔ چنانچہ صبح بجائے اِس کے کہ بادشاہ شہر میں داخل ہوتا اُس کی لاش شہر میں لائی گئی۔حضرت نظام الدین صاحبؒ نے مریدوں سے فرمایا دیکھو! میں نے نہیں کہا تھا کہ ‘‘ہنوزدلّی دوراست’’ کہ ابھی دلّی بہت دور ہے۔
پھر تین سال ہوئے اس قسم کا ایک واقعہ آپ لوگوں نے بھی دیکھا ہے۔اُس وقت احمدیوں کو لاریوں اور گاڑیوں سے کھینچ کھینچ کر اُتارا جاتا تھا اور انہیں مارا پیٹا جاتا تھا۔اُس وقت میں نے اعلان کیا کہ گھبراؤ نہیں میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا چلا آرہا ہے۔ چنانچہ تم نے دیکھا کہ تین دن کے اندر اندر نقشہ بدل گیا۔لوگ اُس وقت کہہ رہے تھے کہ اب احمدیوں کا پاکستان میں کوئی ٹھکانہ نہیں، ہر طرف ان میں جوش بھر ہوا تھا اور نعرے لگ رہے تھے کہ احمدیوں کو قتل کردو۔ اُس وقت میں نے کہا کہ میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے، وہ مجھ میں ہے وہ میرے پاس ہے۔ پھر دیکھو میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑ کر آیا یا نہیں؟ اَب سارے مولوی تسلیم کررہے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کے تسلیم کرانے میں ناکام رہے ہیں۔
اَب بھی جماعت میں منافقین نے فتنہ پیدا کیا تو گجرات کے ایک آدمی نے مجھے کہا کہ مجھ سے ایک منافق نے ذکر کیا کہ ہم سے غلطی ہوگئی کہ ہم نے خلافت کا سوال بہت پہلے اُٹھا دیا۔اَب ہمیں احمدیوں کے پاس جانے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔جہاں ہم جاتے ہیں دُھتکار دئیے جاتے ہیں۔ اگر ہم چُپ رہتے اورخاموشی سے کام کرتے تو ہم ہر ایک احمدی کے پاس جاسکتے تھے اور اسے اپنی بات سنا سکتے تھے۔ لیکن اب ہمیں یہ کرنے کی جرأت نہیں جس کی وجہ سے ہماری ساری سکیم فیل ہوگئی ہے۔
پھر دیکھو میں بیماری کی وجہ سے لمبا عرصہ باہر رہا تھا او ران منافقین کے لئے موقع تھاکہ وہ میری غیر حاضری میں شور مچاتے لیکن خدا تعالی ٰنے انہیں دبائے رکھا۔ اور جب میں واپس آیا تو اس نے ایک بیوقوف کے منہ سے یہ بات نکلوادی کہ ہم دوسال کے اندر اند رخلافت کو ختم کردیں گے۔میں نے اس کے بیان کوشائع کرایا۔ اس پر کئی لوگوں نے اعتراض کیا کہ یونہی ایک بے وقوف کی بات کو بڑھا دیا گیا ہے اِس سے اُسے شہرت اور اہمیت حاصل ہوجائیگی لیکن اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ لوگ ننگے ہوگئے۔ چنانچہ ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ آپ نے اپنی بیالیس سالہ خلافت میں بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے کئے ہیں لیکن اب جو آپ نے کام کیا ہے اور جماعت کو وقت پر فتنے سے آگاہ کردیا ہے اور اسے بیدار کردیا ہے مجھے یقین ہے کہ اِس سے بڑا آپ کا اور کوئی کارنامہ نہیں۔ آج ہمیں سب منافقوں کا پتہ لگ گیا ہے اور آج ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے شیطان کو مار دیا ہے اور اسے نئے نئے طریقوں سے جماعت کے اندر فتنہ پیدا کرنے سے روک دیا ہے۔ آپ کے اس بات کو شائع کردینے سے جماعت کے اندر ایک نئی روح او رنئی اُمنگ پیدا ہوگئی ہے اور اب ہر احمدی خلافت کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ اگر آپ وقت پر اعلان نہ کرتے،آپ لحاظ کرجاتے اور چُپ کرجاتے تو یہ فتنہ بہت بڑھ جاتا۔آپ نے بہت بڑے بڑے کام کئے ہیں،تبلیغِ اسلام کاکام کیا ہے، غیر ممالک میں مساجد بنائی ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ آپ کا موجودہ فتنہ کو دبا لینا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے آپ نے جماعت کو محفوظ کردیاہے اور جماعت کے اندر ایک نئی بیداری اور جوش پیدا ہوگیا ہے۔ پہلے یہ بات نہیں تھی۔ پہلے جماعت کے اندر سستی پائی جاتی تھی اور ہم سمجھتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں۔ اگر یہ فتنہ یکدم پھیل جاتا تو جماعت غفلت میں بیٹھی رہتی اور فتنہ پرداز اُسے نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے لیکن آپ نے اُدھر فتنہ پیدا ہوا اور اِدھر اعلان شائع کرکے جماعت کو وقت پر بیدار کردیا چنانچہ اب وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح تیار ہے۔ اگر آپ وقت پر جماعت کو بیدار نہ کردیتے تو ان لوگوں نے جماعت کو پیغامیوں کی جھولی میں ڈال دینا تھا اور وہ ساری کوشش جو آپؑ کی نبوت اور ماموریت کی سچائی کے لئے 42سال تک کی گئی تھی ضائع ہوجانی تھی۔ مگر خداتعالیٰ نے آپ کو وقت پر ہوشیار کردیا اور باوجود اس کے کہ وہ بات جو بظاہر چھوٹی نظر آتی تھی اور بعض احمدی بھی خیال کرتے تھے کہ یہ معمولی بات ہےآپ نے اُس کے ضرر کو نمایاں کرکے دکھایا اور اِس طرح تمام احمدی دنیا سمجھ گئی کہ کیا بات ہے اور وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوگئی۔ چنانچہ دنیا کے سب ممالک سے جہاں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں مثلاً امریکہ سے، افریقہ سے، دمشق سے، انڈونیشیا سے اور دوسرے تمام ممالک سے مجھے چِٹھیاں آرہی ہیں کہ ہم خلافت سے سچے دل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جن لوگوں نے اس فتنہ کو اٹھایا ہے اُنہیں منافق خیال کرتے ہیں۔اَب وہ ہم میں شامل ہوکر کوئی رُتبہ اور فضیلت حاصل نہیں کرسکتے۔اَب دیکھو یہ ساری چیزیں خداتعالیٰ کے نشان کے طور پر ہیں۔ اگر اس فتنہ کا مجھے وقت پر علم نہ ہوتا تو شاید وہ شان پیدا نہ ہوتی جو اَب ہے۔ مگر اَب جماعت کے اندر وہی بیداری پیدا ہوگئی ہے جو1914ء میں پیدا ہوئی تھی۔آپ لوگ اُس وقت جوان تھے اور اَب بُڈھے ہوچکے ہیں لیکن اِس وقت نوجوانوں والا عزم آپ کے اندر دوبارہ پیدا ہوگیا ہے۔ اور پھر جوانوں کے اندر بھی عزم پیدا ہوچکا ہے اور جماعت کا ہر فرد اس بات کے لئے تیار ہے کہ وہ خلافت کے لئے اپنی جان دے دے گا لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔ اور جب کوئی شخص خداتعالیٰ کے دین کی تائید اور نصرت کے لئے عزم کرلیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں۔
میں نے پچھلے ماہ خواب میں دیکھا تھا کہ وہ آیتیں پڑھ پڑھ کرسنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے۔ لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے۔ یہ دونوں جھوٹے دعوے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں۔
اَب دیکھو! وہی کچھ ہورہا ہے جو خداتعالیٰ نے مجھے رؤیا میں بتایا تھا۔ ایک طرف یہ منافق معافی مانگتے ہیں اور پھر اخبار میں شائع کرا دیتے ہیں کہ ہم نے تومعافی نہیں مانگی تھی۔ اگر انہوں نے واقع میں کوئی معافی نہیں مانگی تھی تو غیر احمدی اخبارات نے یہ کیوں لکھا تھا کہ دیکھو کتنا ظلم ہورہا ہے ان لوگوں کی معافی مانگتے مانگتے ناکیں بھی رگڑی گئی ہیں لیکن انہیں معافی نہیں ملتی۔ اگر وہ بعد میں معافی کا انکار نہ کرتے تو جماعت کے کئی کمزور لوگ کہتے کہ جب یہ معافی مانگتے ہیں تو انہیں معاف کردیا جائے۔ لیکن انہوں نے پہلے خودمعافی مانگی پھر ڈر گئے اور سمجھا کہ کہیں غیراحمدی یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ اَب ڈر گئے ہیں اور اس طرح ان کی مدد سے محروم نہ ہوجائیں اس لئے انہوں نے پھر لکھ دیا کہ ہم نے تو معافی نہیں مانگی۔ مگر اس جھوٹ کے نتیجہ میں وہی مثال ان پر صادق آئے گی جو کسی لڑکے کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھیڑیں چرایا کرتا تھا۔ ایک دن اُسے گاؤں والوں سے مذاق سُوجھا تو اس نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچادیا کہ شیر آیا،شیر آیا۔گاؤں کے لوگ لاٹھیاں لے کر اُس کی مدد کے لئے آئے لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو وہاں شیر وغیرہ کوئی نہیں تھا۔لڑکے نے انہیں بتایا کہ اُس نے ان سے یونہی مذاق کیا تھا۔دوسرے دن وہ بھیڑیں چرا رہا تھا تو واقع میں شیر آ گیا اور لڑکے نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچایا کہ شیرآیا، شیر آیا۔لیکن گاؤں سے اس کی مدد کے لئے کوئی نہ آیا۔ انہوں نے سمجھا کہ لڑکا کل کی طرح آج بھی مذاق کررہا ہوگا۔ چنانچہ شیر نے اسے پھاڑکر کھالیا۔اسی طرح جب غیراحمدیوں کو محسوس ہوا کہ یہ لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہیں تو وہ ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور یہ لوگ اپنی آنکھوں سے اپنی ناکامی کا مشاہدہ کریں گے۔
آج ہی مجھے میرے نائی نے ایک لطیفہ سنایا۔اُس نے بتایا کہ میں میاں عبدالمنان صاحب کی حجامت بنانے گیا تو انہوں نے کہا کیا تم ڈر گئے تھے کہ حجامت بنانے نہ آئے یا تمہیں کسی نے روکا تھا؟میں نے کہا مجھے تو کوئی ڈر نہیں اور نہ کسی نے مجھے روکا ہے۔ حجامت بنانا تو انسانی حق ہے۔اس سے مجھے کوئی نہیں روکتا۔اس لئے میں آگیا ہوں۔ پھر میں نے کہا میاں صاحب! میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں کہ پشاور سے ایک احمدی قادیان میں آیا اوروہ میاں شریف احمدصاحب سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر گیا۔ اتفاقاً میں بھی اُس وقت حجامت بنانے کے لئے ان کے دروازہ پر کھڑا تھا۔ہمیں معلوم ہؤا کہ میاں صاحب اُس وقت سو رہے ہیں۔اِس پر میں نے کہا کہ میں تو حجامت بنانے کے لئے آیاہوں انہیں اطلاع دے دی جائے لیکن وہ دوست مجھے بڑے اصرار سے کہنے لگے کہ ان کی نیند خراب نہ کریں۔لیکن میں نے نہ مانا اور میاں صاحب کو اطلاع بھجوا دی۔ جس پر انہوں نے مجھے بھی اور اس دوست کو بھی اندر بُلالیا۔ وہاں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی میں نے انہیں کہاکہ اس پر بیٹھ جائیے۔ کہنے لگے میں نہیں بیٹھتا۔ میں نے سمجھا کہ شاید یہ چارپائی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس لئے میں ان کے لئے کرسی اٹھا لایا لیکن وہ کرسی پر بھی نہ بیٹھے اور دروزہ کے سامنے جہاں جُوتیاں رکھی جاتی ہیں وہاں پائیدان پر جاکر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟میں نے چارپائی دی لیکن آپ نہ بیٹھے پھر کرسی دی تب بھی آپ نہ بیٹھے اورایک ایسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں بوٹ وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔ کہنے لگے مَیں تمہیں ایک قصہ سناؤں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا صحابی ہوں۔ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملنے کے لئے آیا۔آپؑ مسجد مبارک میں بیٹھے تھے اور دروازہ کے پاس جوتیاں پڑی تھیں۔ ایک آدمی سیدھے سادے کپڑوں والا آ گیا اور آکر جوتیوں میں بیٹھ گیا۔میں نے سمجھایہ کوئی جوتی چور ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی جوتیوں کی نگرانی شروع کردی کہ کہیں وہ لے کر بھاگ نہ جائے۔ کہنے لگے اس کے کچھ عرصہ بعدحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوگئے اور میں نے سنا کہ آپؑ کی جگہ اَور شخص خلیفہ بن گیا ہے۔ اس پر میں بیعت کرنے کے لئے آیا۔ جب میں نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ وہی شخص تھا جس کو میں نے اپنی بیوقوفی سے جُوتی چور سمجھا تھا یعنی حضرت خلیفہ اول۔ اور میں اپنے دل میں سخت شرمندہ ہوا۔آپ کی عادت تھی کہ آپ جوتیوں میں آکر بیٹھ جاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام آواز دیتے تو آپ ذرا آگے آجاتے۔ پھر جب کہتے مولوی نور الدین صاحب نہیں آئے؟ تو پھر کچھ اَور آگے آجاتے۔ اس طرح بار بار کہنے کے بعد کہیں وہ آگے آتے تھے۔ یہ قصہ سنا کر میں نے انہیں کہامیاں! آپ کے باپ نے جوتیوں میں بیٹھ بیٹھ کے خلافت لی تھی لیکن تم زور سے لینا چاہتے ہو۔ اس طرح کام نہیں بنے گا۔ تم اپنے باپ کی طرح جوتیوں میں بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو۔اس پر وہ چُپ کر گیا اور میری اس بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے۔ آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہورہا تھا، ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سرجُھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہؤا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب! جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرتِ اولاد بھی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اِس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے۔ حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سے سر اٹھایا اور فرمایا حضور! میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہنس پڑے۔ تو دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رُتبہ ملا۔ اَب باوجود اس کے کہ آپ کی اولاد نے جماعت میں فتنہ پیدا کیا ہے لیکن اب بھی جماعت آپ کا احترام کرنے پرمجبور ہے اور آپ کے لئے دعائیں کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں اس انکسار اور محبت کی جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تھی وہ عظمت ڈالی ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کے بیٹوں نے مخالفت کی ہے پھر بھی ان کے باپ کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں جاتی، پھر بھی ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلندکرے کیونکہ انہوں نے اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا جب ساری دنیا آپ کی مخالف تھی۔
اِسی طرح آج کل ضلع جھنگ کے بعض نئے احمدی ہوئے ہیں۔ اُن میں سے ایک مولوی عزیز الرحمن صاحب ہیں جو عربی کے بڑے عالم ہیں اور ان کا ایک عربی قصیدہ الفضل میں بھی چَھپ چکا ہے۔ ان کے والد جو اپنے بیٹے کی طرح عالم نہیں وہ یہاں آئے۔ وہ کہیں جارہے تھے تو کسی نے میاں عبدالمنان کو آتا دیکھ کر انہیں بتایا کہ وہ میاں عبدالمنان ہیں۔اِس پر وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے میاں تیرے باپ کواس در سے خلافت ملی تھی۔ اَب تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تُو بھاگ رہا ہے پھر پنجابی میں کہاکہ جا اور جاکر معافی مانگ۔ عبدالمنان نے کہا باباجی! میں نے تو معافی مانگی تھی۔ وہ کہنے لگے اس طرح نہیں تُو جاکر ان کی دہلیز پربیٹھ جااور وہاں سے ہِل نہیں۔ تجھے دھکّے مارکر بھی وہاں سے نکالنا چاہیں تُو اُس وقت تک نہ اُٹھ جب تک تجھے معافی نہ مل جائے مگر عبدالمنان نے اس نو احمدی کی بات بھی نہ مانی۔ پھر میں نے بھی مری میں خطبہ دیا اور معافی کا طریق بتایا لیکن اُس نے نہ تو اس طریق پر عمل کیا جو میں نے خطبہ میں بیان کیا تھا اور نہ اس طریق پر عمل کیا جو اس نئے احمدی نے اسے بتایا تھا۔ اور اخباروں میں شور مچایا جارہا ہے۔ بے شک وہ اور اس کے ساتھی اخباروں میں جتنا چاہیں شور مچالیں وہ اتنا شور تو نہیں مچا سکتے جتنا1953ء میں جماعت کے خلاف مچایا گیا تھا۔ مگر جو خدا 1953ء میں میری مدد کے لئے دوڑا ہؤا آیا تھا وہ خدا اَب بُڈھا نہیں ہوگیا کہ وہ1953ء میں دَوڑ سکتا تھا اور اب نہیں دَوڑ سکتا۔ بلکہ وہ اُس وقت بھی دوڑ سکتا تھااور اب بھی دوڑ سکتا ہے اور قیامت تک دوڑ سکے گا۔ جب بھی کوئی شخص احمدیت کو کچلنے کے لئے آگے آئے گا میرا خدا دوڑتا ہوا آجائے گا۔ اور جو شخص احمدیت کو مٹانے کے لئے نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا میرا خدا اپنی چھاتی اس کے سامنے کردے گا۔ اور تم یہ جانتے ہی ہو کہ میرے خدا کو نیزہ نہیں لگتا۔ جو شخص میرے خدا کے سینہ میں نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا وہ نیزہ اُلٹ کر خود اس کے اپنے سینہ میں جالگے گا اور جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان کی وجہ سے محفوظ رہتی چلی جائے گی۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ آپ لوگ اپنے ایمان کو قائم رکھیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے جب میں بھوپال میں پڑھا کرتا تھا تو وہاں ایک بزرگ تھے جنہیں میں اکثرملنے جایا کرتاتھا۔نیک آدمی تھے اور مجھ پر انہیں اعتماد تھا۔ ایک دن کچھ وقفہ کے بعد میں انہیں ملنے کے لئے گیا تو کہنے لگے میاں! تم سے ہم محبت کرتے ہیں۔ جانتے ہو کیوں محبت کرتے ہیں؟ ہم اس لئے تم سے محبت کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تم آجاتے ہو تو خداتعالیٰ کی باتیں کرلیتے ہیں۔اس کے بعد پھر دنیا کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں لیکن تم بھی کچھ عرصہ سے میرے پاس نہیں آئے۔ تم نے کبھی قصاب کی دُکان دیکھی ہے؟میں نے کہا ہاں دیکھی ہے۔اُس بزرگ نے کہا تم نے دیکھا نہیں کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد دو چھریوں کو آپس میں رگڑ لیتا ہے۔ پتہ ہے وہ کیوں اس طرح کرتا ہے؟ وہ اس لئے ایسا کرتا ہے کہ گوشت کاٹتے کاٹتے چُھری پر چربی جم جاتی ہے۔ اور وہ کند ہوجاتی ہے جب وہ اسے دوسری چُھری سے رگڑتا ہے تو چربی صاف ہوجاتی ہے۔اِسی طرح جب تم یہاں آتے ہو تو میں تم سے خداتعالیٰ کی باتیں کرتا ہوں اور تم بھی مجھ سے خداتعالیٰ کی باتیں کرتے ہو۔اس طرح وہ چربی جو دنیوی باتوں کی وجہ سے جم جاتی ہے دور ہوجاتی ہے اس لئے ناغہ نہ کیا کرو۔یہاں آتے رہا کرو۔
آپ لوگ بھی اپنے بیوی بچوں کو خداتعالیٰ کی باتیں سناتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتے رہا کریں تاکہ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں میں ہمیشہ ہمیش رہے۔ اور اس کی محبت ہمارے دل میں اتنی تیز ہوجائے کہ نہ صرف ہم اس کے عاشق ہوں بلکہ وہ بھی ہمارا عاشق ہو۔ اور یاد رکھو کہ کوئی شخص اپنے محبوب کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ اگر تم خداتعالیٰ کے محبوب ہوجاؤ گے تو خداتعالیٰ بھی تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔ بلکہ ابھی دشمن اپنے گھر سے نہیں نکلا ہوگا کہ تم دیکھو گے کہ خداتعالیٰ عرش سے بھی نیچے اترآیا ہے اور وہ خود تمہارے گھروں کا پہرہ دے گا۔
دیکھو! رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی بعض دشمن منصوبہ کرکے ننگی تلواریں لئے کھڑے تھے مگر آپ سامنے سے نکل گئے۔ بعد میں لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو مگر تمہارے سامنے سے محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)گزر گئے اور تم سے کچھ نہ ہوسکا۔وہ کہنے لگے خدا کی قسم! وہ ہمیں نظر ہی نہیں آیا۔ پس اگر خداتعالیٰ تمہارے ساتھ ہوگا تو دشمن تمہارے گھر پر آئے گا تو تم اُن کو نظر نہیں آؤ گے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت بڑے انسان تھے ہم نے اپنی جماعت میں بھی اس قسم کے نظارے دیکھے ہیں۔
مولوی عبدالرحمن صاحب کشمیر کے ایک مخلص احمدی تھے۔میں نے انہیں مبلغ بنا کر وہاں رکھاہوا تھا۔ وہ مسلمانوں میں اثر رکھتے تھے اور ان کی تنظیم کرتے تھے ۔اس لئے ان پر ریاست جموں کی گورنمنٹ نے بعض الزامات عاید کردئیے اور کہا کہ فلاں موقع پر جو چوری ہوئی ہے وہ انہی کی وجہ سے ہوئی ہے اور ان کے متعلق وارنٹ فوجداری جاری کردئیے۔ ایک دن وہ کشمیر میں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے ان کے کان میں کہا کہ باہر پولیس کھڑی ہے۔وہ اٹھے اور رومال ڈال کر پولیس کے سامنے سے گزرگئے۔ میں نے بعد میں کسی سے پوچھا کہ مولوی صاحب کا کیا بنا ہے؟ تو دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ پولیس کے سامنے سے گزر گئے اور کسی کو نظر نہیں آئے۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی شان تھی۔مولوی عبدالرحمن صاحب صحابی بھی نہیں تھے تابعی تھے ان کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہو اکہ پولیس وارنٹ لے کر کھڑی تھی لیکن وہ سامنے سے گزر گئے اور جب پولیس سے پوچھا گیا کہ تم نے انہیں پکڑا کیوں نہیں؟ تو کہنے لگے ہم نے انہیں دیکھا ہی نہیں۔
تو جب تک خداتعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق رہے گا۔خداتعالیٰ کا تعلق بھی ہمارے ساتھ رہے گااوراللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی غیرت ہمارے لئے دکھاتا رہے گااور کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ ہماری طرف ترچھی آنکھوں سے دیکھے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے فرشتے فوراً آگے بڑھیں گے اور ہمارے اور اُس کے درمیان حائل ہوجائیں گے۔ اور وہ مدد ہمیں حاصل ہوگی جس کو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ بھی ترستے ہیں۔اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ
ہواور تمہاری مدد کرے۔’’ (الفضل 26، 27 مارچ 1957ء)
1 الصف : 15
2 الیواقیت و الجواہر جلد 2 صفحہ 342 مطبوعہ بیروت لبنان 1997ء
3 السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 74 مطبوعہ بیروت لبنان 2002ء
4 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 140 مطبوعہ مصر 1936ء
5 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 144 مطبوعہ مصر 1936ء (مفہوماً)
6 سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ 100، 101 مطبوعہ مصر 1936ء
7 المائدہ : 25
8 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 267 مطبوعہ مصر 1936ء
9 متی باب 26 آیت 14 تا 16 و آیت 47 تا 50
10 النور :56
11 المائدہ : 68
12 رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305
13 درثمین اُردو صفحہ 51 مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی مطبوعہ 1962ء
14 بخاری کتاب الادب باب اِکْرَامُ الضَّیْفِ وَ خِدْ مَتِہٖ (الخ)
15 اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الحج :48)
16 القصص : 79
17 درثمین اردو صفحہ 42 زیر عنوان ‘‘ بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین’’۔ مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی۔ 1962ء







افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ


افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء
تم خدا کے ہاتھ کا لگایا ہؤا پودا ہو۔ تم بڑھتے چلے جاؤ گے
یہاں تک کہ زمین کے چاروں طرف پھیل جاؤ گے
(فرمودہ26دسمبر1956ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘ اللہ تعالیٰ کابے حدوحساب شکریہ ہے کہ اس سال پھر اس نے ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے غور کرنے اور قربانی کرنے کا موقع دیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا مزید احسان یہ ہے کہ اس دوران میں بعض ایسے حالات پیش آئے کہ دشمن نے خوب خوشیاں منائیں اور بغلیں بجائیں کہ اَب احمدیت کا خاتمہ ہوجائے گا،اَب احمدیت کی دیواروں کے نیچے سے خود اس کی گندی نالیوں نے اس کی دیواروں کے گرانے کے سامان پیدا کردئیے ہیں اور احمدیت کی حفاظتی دیواریں احمدیت کی اپنی نالیوں کی وجہ سے گر جائیں گی۔ اوراخباروں نے باقاعدہ شور مچایا کہ خلیفہ ثانی کی جماعت اب اُس سے بغاوت کررہی ہے۔اَب وہ اخبارنویس کہاں ہیں؟ وہ ذرا دیکھیں کہ یہ بغاوت کررہے ہیں یا عقیدت کا اظہار کررہے ہیں؟ اگر دشمنوں میں ذرا بھی تخمِ دیانت ہے اور جھوٹ کے گند پر منہ مارنے سے ان کوذرابھی شرم آتی ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بھی ان کو نسبت حاصل ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی بھی اتباع کی ان کو توفیق ہے تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہ جماعت آگے سے بہت زیادہ قربانی کرنے پر آمادہ ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا جذبہ ان کے اندر موجود ہے جوکہ اُحد کے موقع پر انہوں نے دکھایا تھا۔اُحد کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی اور ابوسفیان نے خوشی کے نعرے لگائے اور کہا کہاں ہے محمدؐ؟مطلب اُس کا یہ تھا کہ آپؐ فوت ہوگئے ہیں اگر زندہ ہوں گے تو یہ بولیں گے اور پھر ہم دوبارہ لوٹ کر حملہ کردیں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ خاموش رہو۔ پھر انہوں نے کہا کہاں ہے ابوبکرؓ؟ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اور وہ چُپ رہے۔ پھر اُس نے کہاکہاں ہے عمرؓ؟حضرت عمرؓ کھڑے ہوگئے اور کہاکہ عمرؓ تیرا سر توڑنے کے لئے موجود ہے مگرچونکہ دشمن اُس وقت بڑے جتھے میں تھا اور اسلامی لشکر کے پاؤں اُکھڑ گئے تھے اور بظاہر اُسے ایک شکست نصیب ہوئی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو بھی منع کردیا۔ فرمایا! اَب بھی جواب نہ دیں۔1
ہماری جماعت بھی آج اُحد کے رنگ میں یہاں موجود ہے اور ابوسفیان کے مثیلوں کو اور ابوجہل کے چیلوں کو کہہ رہی ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔دشمن یہ خیال کرتا ہے کہ تم ایک کمزور جماعت ہو۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جتھا ہے۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے پاس طاقت ہے۔دشمن یہ سمجھتا ہے کہ جب وہ حملہ کرے گا توتم ایک چڑیا کی طرح اس کے قابو میں آجاؤ گے۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ آسمان سے خدا سب قِسم کی حفاظت کے سامان لے کر اُتر رہا ہے۔اور وہ ان جتھوں کو توڑ دے گا۔وہ ان جماعتوں کو کچل ڈالے گا۔وہ ان تمام نظاموں کو جو خدائی سلسلہ کے مخالف کھڑے ہیں پارہ پارہ کردے گااور ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ اور ایسا ذلیل کرے گا کہ سات پُشت تک ان کی اولادیں ان پر *** کریں گی۔
پس ہم اپنے خدا کاشکریہ ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں اس کا نام بلند کرنے اور اس کے سلسلہ کی عظمت قائم کرنے کے لئے پھر اس جگہ پر جمع ہونے کی توفیق دی اور دشمن کا منہ کالا کرنے کی ہم کو ہمت بخشی۔ اور کیاعورتیں اور کیا بچے اور کیا مرد آج مرکزِ احمدیت میں لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے داخل ہورہے ہیں۔ اور وہ دشمن جو یہ کہتا تھا کہ احمدیت پارہ پارہ ہوگئی اللہ تعالیٰ نے اُس کو ذلیل کردیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے یہی امید ہے اوراس کے وعدوں پر ہم کواعتبارِ کامل ہے کہ قیامت تک یہی جماعت دشمنانِ احمدیت کوکچلتی چلی جائے گی اور قیامت تک جماعت اپنا سر اونچا رکھے گی اور احمدیت پر جانثار ہونے کے لئے اپنے آپ کوکھڑا کرے گی اور دشمن ہمیشہ ان کے مقابلہ میں خائب وخاسر رہے گا۔یہ موجودہ جماعت بھی اور ان کی اولادیں بھی اوراولادوں کی اولادیں بھی قیامت تک احمدیت اور اسلام کے جھنڈے کو بالا رکھیں گی۔ اور جس طرح ابوسفیان نے جب کہا کہ لَنَا العُزّیٰ وَلَاعُزّیٰ لَکُمْ اے مسلمانو! ہمارے لئے عُزیٰ بت ہے جو ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ کوئی نہیں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَب جواب کیوں نہیں دیتے۔پہلے تم جب آدمیوں کا نام لیا جارہا تھا توجواب دینے کے لئے تیار تھے اَب خدا کی بے عزتی کی جاتی ہے اب کیوں نہیں جواب دیتے۔ تو صحابہؓ نے کہایارسول اللہؐ! کیا کہیں؟فرمایا زور سے کہو لَنَا مَوْلیٰ وَلاَ مَوْلیٰ لَکُمْ2 خدا ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ کوئی خدا نہیں۔ تو قیامت تک انشاء اللہ احمدیوں کی نسل اس کے محض فضل اور کرم سے باوجود ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کے کہ ہم اپنی اولادوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دےگا کہ وہ احمدیت او راسلام کا جھنڈا اونچا رکھیں گے اور تمام عیسائی دنیا اور تمام غیر مذاہب کو پُکار کرکہیں گے کہ لَنَا مَوْلیٰ وَلاَ مَوْلیٰ لَکُمْ خدا ہمارے ساتھ ہے اورتمہارے ساتھ کوئی خدا نہیں ہے۔
اَب میں بیٹھنے کے بعد دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کوعظیم الشان برکات کا موجب بنائے اور قیامت تک اس سے بہت بڑے بڑے اجتماع کرنے کی ہم کو توفیق عطا فرمائے جن میں ہم خداتعالیٰ کا نام بلند کریں، جن میں ہم اسلام کی سچی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اور دشمنانِ احمدیت ان اجتماؤں کو دیکھ کر اپنے اندر شرمندہ بھی ہوں اور افسردہ بھی ہوں تاکہ ان کو نظر آئے کہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جن کو ہم نے سمجھا تھا کہ 1953ء میں مار ڈالا تھا وہ1956ء میں اس سے بھی زیادہ زور آور ہے، اور اگلے سالوںمیں اس سے بھی زیادہ طاقتور ہوں گے۔ چنانچہ دیکھ لومیں سات آٹھ دن سے کہہ رہا تھا کہ میں بیالیس سال زمانۂ خلافت میں دیکھتا آیا ہوں کہ جب کبھی دشمن نے حملہ کیا تو خدا نے ہماری مدد کی اور خداتعالیٰ نے ہمیں اوراونچا کیا۔ پس اَب جب کہ دشمن نے کہاہے کہ احمدیت کمزور ہوگئی ہے اور احمدیوں میں بغاوت ہوگئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ احمدیوں کے اخلاص میں اَور بھی ترقی بخشے گااور وہ زیادہ زور سے آئیں گے۔ تو میں نے بار بار منتظمین کو توجہ دلائی مگرباوجود اس کے انہوں نے اپنی طرف سے تو کوشش کی مگر پھر بھی خداکے اندازے کو نہ پہنچے اور آج رات بارہ بجے وہ حالت تھی کہ عورتوں کی رہائش گاہ میں تِل رکھنےکی جگہ نہ تھی اور عورتیں سردی میں بچے لئے پھر تی تھیں کہ کوئی جگہ ہمیں نہیں مل رہی۔ اور رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ پچھلے سال سے اس دفعہ ڈیوڑھے آدمی اِس وقت تک آچکے ہیں۔پچھلے سال رات کے کھانے پراُنیس ہزار اور کچھ سَو تھے اور اِس سال رات کے کھانے پرستائیس ہزار سے زیادہ تھے۔ گویا ڈیوڑھے کے قریب تعداد تھی یا ڈیوڑھے سے بھی کچھ زیادہ تھی۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے اور یہ فضل اور احسان جب تک آپ لوگوں کے دلوں میں ایمان قائم رہے گا اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا چلا جائے گا۔تم خدا کا لگایا ہوا پودا ہو، تم بڑھتے چلے جاؤ گے اور پھیلتے چلے جاؤ گے اور جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے تمہاری جڑیں زمین میں مضبوط ہوتی جائیں گی اور تمہاری شاخیں آسمان میں پھیلتی چلی جائیں گی۔یہاں تک کہ تم میں لگنے والے پھلوں کوجبریل آسمان پر بیٹھا ہواکھائے گااور اس کے ماتحت فرشتے بھی آسمان پر سے کھائیں گے اور خدا تعالیٰ عرش پر تعریف کرے گا کہ میرا لگایا ہوا پوداکتنا شاندار نکلا ہے۔اِدھر زمین میں اس کی جڑیں پھیل گئی ہیں اور اُدھر آسمان میں میرے عرش کے پاس اس کی شاخیں ہل رہی ہیںاَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ 3اِس کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی ہوں گی اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ تو اِدھر تو تم خداتعالیٰ کے فضل سے زمین میں اس طرح پھیلو گے کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایک دن وہ آئے گا کہ دنیا میں میرے ماننے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی اور دوسرے لوگ جس طرح چھوٹی قومیں تھوڑی تھوڑی ہوتی ہیں۔اِس طرح وہ بھی چھوٹی قومیں بن کر رہ جائیں گے۔ اور فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ کے معنی یہ ہیں کہ تم صرف زمین میں پھیلو گے ہی نہیں بلکہ ذکرِ الٰہی اتنا بلند کرو گے کہ آسمان کے فرشتے اس کو سن کر ناچنے لگ جائیں گے اور خوش ہوں گے کہ ہمارے خدا کا ذکر زمین پر بھی اُسی طرح ہونے لگ گیا ہے جس طرح کہ ہم آسمان پر کرتے ہیں۔ تب آسمان پر بھی فرشتے ہوں گے اور زمین پر بھی فرشتے ہوں گے۔ آسمان کے فرشتوں کا نام جبریل اور اسرافیل وغیرہ ہوگا اور زمین کے فرشتوں کا نام احمدی ہوگا کیونکہ وہ زمین کو بھی خدا کے ذکر سے بھر دیں گے جس طرح کہ آسمان کو فرشتوں نے خدا کے ذکر سے بھرا ہوا ہے۔ پس یہ تو ہونے والا ہے اور ہوکر رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ایمانوں کو سلامت رکھیں اور اپنی اولادوں کے دلوں میں ایمان پختہ کرتے چلے جائیں۔ اگر اس تربیت کے کام کو ہم جاری رکھیں تو یقیناً دنیا میں اسلام اور احمدیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ یہ عیسائی حکومتیں جو آج ناز اور نخرے کے ساتھ اپنے سر اٹھا اٹھا کر چل رہی ہیں اور چھاتیاں نکال نکال کر چل رہی ہیں یہ اسلام کے آگے سر جھکائیں گی۔ اور یہی لنگوٹی پوش احمدی اور دھوتی پوش احمدی جو یہاں بیٹھے ہیں ان کے آگے امریکہ کے کروڑ پتی آکر سرجھکائیں گے اور کہیں گے کہ ہم ادب سے تم کو سلام کرتے ہیں کہ تم ہمارے روحانی باپ ہو۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جو نہ صرف ہمارا باپ تھا بلکہ ہمارے خدا کے بیٹے مسیحؑ کا بھی باپ تھا تم اُس کے فرزند ہو اور ہم تمہارے بیٹے ہیں۔پس تم نے ہمیں اپنے باپ سے اور ہمارے خدا کے بیٹے کے باپ سے روشناس کرایا ہے اس لئے تم ہم کو خاندانِ الوہیت میں واپس لانے والے ہو۔ تم ہم آوارہ گردوں کو پھر گھر پہنچانے والے ہو۔اس لئے ہم تمہارے آگے سرجھکاتے ہیں اور تم سے برکتیں چاہتے ہیں کیونکہ تمہاے ذریعہ سے اسلام ہم تک پہنچا ہے۔ سو یہ دن آنے والے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ۔
میں اپنی اس مختصرسی تقریر کے ختم کرنے سے پہلے عورتوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رات کو ان کو تکلیف پہنچی ہے اور بعض ان میں سے شکوہ بھی کرنے لگیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان کو شکوہ کا حق نہیں تھا شکوہ کا حق ہمارا تھا۔ ہمارا حق تھا کہ ہم خدا سے کہتے کہ الٰہی! ہم اپنا فرض ادا نہیں کرسکے تُو ہم کو معاف کر۔ ان کو شکایت کا حق نہیں تھا ان کو تو خوش ہونا چاہئیے تھا کہ اللہ میاں تیرے کتنے احسان ہیں پھر تُو ہمیں اتنا لایاکہ جماعت کا مرکز ہمارے ٹھہرانے کا انتظام نہیں کرسکا۔ تو یہ تو جماعت کی ترقی کی علامت ہے۔ان کو اس پر خوش ہونا چاہئیے تھا۔ ہمیں رونا چاہیے تھا کہ ہم خدا تعالےٰ کے فضلوں کا اندازہ نہیں لگا سکے اور ہم نے جو اندازہ لگایا تھا وہ غلط ہوگیا۔ ان کو ہنسنا چاہئیے تھا کہ دیکھو خداتعالیٰ ہمیں اتنی تعداد میں لایا ہے کہ یہ مرکز والے باوجود ساری کوششوں کے ہماراانتظام کرنے سے محروم رہ گئے۔ اور ہمارے افسروں کو چاہئیے تھا کہ وہ روتے کہ باوجود خداتعالیٰ کے فضلوں کے بار بار دیکھنے کے پھر بھی ہم اس کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے اورپھر بھی خدا کے مہمانوں کو ہم آرام نہیں پہنچا سکے۔ میں سات آٹھ دن سے برابر کہہ رہا تھا کہ دیکھو خداتعالیٰ کی غیرت اِس وقت بھڑکی ہوئی ہے۔ باغیوں کی بغاوت کی وجہ سے خداتعالیٰ عرش پر غصہ سے بھرا ہوا بیٹھا ہے او روہ ضرور ان کو نمونہ دکھائے گا اور نشان دکھائے گا اس لئے تیار ہوجاؤ کہ خدا تعالیٰ اَب برکت کے دروازے کھولنے والا ہے اور ہزاروں ہزار آدمی پچھلے سال سے زائد آئے گا۔ چنانچہ اِس وقت تک بھی قریباً نوہزار آدمی زیادہ آچکا ہے۔ اب اگلے دنوں میں اَور بھی امید ہے ابھی تو ستائیس کی تاریخ کو لوگ زیادہ آیا کرتے ہیں۔ پس ستائیس بھی ہے، اٹھائیس بھی ہے۔ او رپھر ابھی کیا ہے پھر جن کو خداتعالیٰ زندہ رکھے گا اگلا سال بھی ہے جبکہ اس سے بھی زیادہ لوگ آئیں گے۔ اور ہر دفعہ دشمن روسیاہ ہوگا اور ہر دفعہ دشمن شرمندہ ہوگا کہ جس جماعت کو ہم مارنا چاہتے تھے وہ پھر زندہ ہوکر نکل رہی ہے۔پس ایک طرف تو میں منتظمین کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پورے زور سے خداتعالیٰ کے فضلوں کا اندازہ کرکے ایسا انتظام کیا کریں کہ آئندہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو اور مہمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ایک دن تکلیف بھی ہو تو وہ اس بات پر خوش ہوا کریں کہ دیکھو ہمارا خدا کتنا شاندار ہے کہ دشمن کی مخالفت کے باوجود ہم کو بڑھا رہا ہے۔پس اگر تکلیف ہو تو تمہیں اَلْحَمْد کرنی چاہئیے اور خدا تعالیٰ کے ذکر میں بڑھنا چاہئیے۔ اور جو منتظم ہیں ان کو شرمندہ ہونا چاہئیے او ران کو خدا تعالیٰ سے عاجزانہ معافی مانگنی چاہئیے کیونکہ ان کا قصور ہے اورتمہارے لئے برکتوں اور رحمتوں کی علامت ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کُل سات سَو آدمی آئے تھے۔اب ایک ایک بلاک میں کئی کئی ہزار بیٹھا ہے۔ اُس وقت آپؑ کی زندگی کا آخری سال تھا اور کُل سات سو آدمی جلسہ پر آیا اور انتظام اتنا خراب ہوا کہ رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا اور آپؑ کو الہام ہوا کہ یَآ اَیُّھَاالنَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر4 اے نبی! بُھوکے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ۔ چنانچہ صبح معلوم ہوا کہ مہمان تین بجے رات تک لنگرخانہ کے سامنے کھڑے رہے اور ان کو کھانا نہیں ملا۔ پھر آپ نے نئے سرے سے فرمایا کہ دیگیں چڑھاؤ اور ان کو کھانا کھلاؤ۔ تو دیکھو سات سو آدمیوں کی یہ حالت ہوئی مگر ان سات سو آدمیوں کا یہ حال تھا کہ جب آپؑ سیر کے لئے نکلے تو سات سو آدمی ساتھ تھا، ہجوم بہت تھا، آنے والے بے چاروں نے کبھی یہ نظارہ تو دیکھا نہ تھا، باہر تو دوسو آدمی بھی لوگوں کو کسی روحانی بزرگ کے گرد جاتا ہوا نظر نہ آتا تھا۔میلوں میں بے شک جاتے ہیں لیکن روحانی نظاروں میں نہیں جاتے۔ اس لئے اُن کے لئے عجیب چیز تھی، لوگ دھکّے کھارہے تھے۔حضرت صاحب ایک قدم چلتے تھے تو ٹھوکر کھا کر آپؑ کے پیر سے جوتی نکل جاتی تھی۔ پھر کوئی احمدی ٹھہرا لیتا کہ حضور! جوتی پہن لیجئے اور آپؑ کے پیر میں جوتی ڈال دیتا۔ پھر آپؑ چلتے تو پھر کسی کا ٹھڈا لگتا او رجوتی پَرے جاپڑتی۔ پھر وہ کہتا کہ حضور! ٹھہر جائیے جوتی پہنادوں۔اسی طرح ہورہا تھا تو ایک زمیندار دوست نے دوسرے زمیندار دوست سے پوچھا ‘‘او تُوں مسیح موعود دا دست پنجہ لے لیا ہے’’ یعنی کیا تُو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کرلیا ہے؟ وہ کہنے لگا ‘‘ایتھے دست پنجہ لین دا کیہڑا ویلا ہے،نیڑے کوئی نہیں ہون دیندا’’ یعنی یہ مصافحہ کرنے کا کونسا موقع ہے یہاں تو کوئی قریب بھی نہیں آنے دیتا۔ اس پر وہ جو عاشق زمیندار تھا وہ اس کو دیکھ کر کہنے لگا تجھے یہ موقع پھر کب نصیب ہوگا۔ بے شک تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں پھر بھی لوگوں کے درمیان میں سے گزر جا اور مصافحہ کرآ۔
تو کُجا وہ وقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کُجا یہ وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اب ہماری کم سے کم پچاس یا سو یا اس سے بھی زیادہ جماعت موجود ہے جس میں ہزار سے زیادہ آدمی ہیں قریباًستّر اسّی ہزار یا لاکھ تو صرف سیالکوٹ میں موجود ہے۔ کوئی بیس ہزار کے قریب لائل پور میں ہے۔ اسی طرح جھنگ اور سرگودھا کے علاقے جو ملتے ہیں ان میں بھی جماعت بیس ہزار کے قریب جا پہنچی ہے۔ کیونکہ صرف ربوہ کی ہی اب گیارہ بارہ ہزار آبادی ہو گئی ہے۔ یہ کوردیہہ5 جس کی تصویر اَب بھی اپنے ایمان بڑھانے کے لئے دفتروں میں جاکر دیکھ لیا کرو محض ایک جنگل تھا اور تین چار خیمے لگے ہوئے تھے۔اس میں ہم آکے بَسے۔ ابھی ساری دنیا اُجڑی پھر رہی ہے اور خدا نے ہم کو ایک مستقل وطن دے دیا ہے۔ ہم اِس جگہ پر اکٹھے ہوئے اور تین سال کے اندر اندر پکی عمارتیں بن گئی ہیں۔آج سے پانچ چھ سال پہلے جب جلسہ ہوا تھا تو اُس وقت ہم کچے مکانوں میں رہتے تھے۔ پھر اس کے بعد تمام کوٹھیاں ہی کوٹھیاں کراچی اور لاہور کی طرح کی بن گئی ہیں اور یہ ساری عمارتیں اتنی جلدی بن گئی ہیں کہ سارے پاکستان میں اتنی جلدی کسی جگہ پر نہیں بنیں۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ سو دعائیں کرو اللہ تعالیٰ سے کہ وہ اپنے فضل کو بڑھاتا چلاجائے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اس فضل کا مستحق بنائے۔
پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک دوست نے آج مصافحہ کرتے وقت اِس خیال سے کہ سارے احمدی مل رہے ہیں مجھے بھی احمدی نہ سمجھ لیں کہا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ میں غیراحمدی ہوں۔مجھے دل میں ہنسی آئی کہ ہم میں تو خدا نے وہ کشش رکھی ہے کہ ہمارے ہاتھ جس کے جسم کو چُھو جائیں ناممکن ہے کہ وہ اور اس کی اولادیں غیر احمدی رہ جائیں۔میں نے دل میں کہا کہ آج تو یہ بے چارہ کچھ شرمندہ ہے کہ اتنے احمدیوں میں مَیں ایک غیراحمدی آیا ہوں اور کسی دن اِس کا سارے کا سارا خاندان احمدی بن کے آئے گا اور کہے گا حضور! ہمارے خاندان کا ایک ہزار آدمی احمدی ہے۔
اسی طرح مجھے ملاقاتوں میں آج ایک دوست نے بتایا کہ ایک دوست تشریف لائے ہوئے ہیں جو اپنی قوم میں رئیس ہیں احمدیت کی بہت سی کتب بھی انہوں نے پڑھی ہیں۔ لیکن ان کے دل میں یہ شبہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کی تعریف کی ہے۔ میں مختصر طور پران کو بتانا چاہتا ہوں کہ پہلی تعریف تو قرآن نے کروائی ہے۔ انگریز آخر فرعون سے تو بدتر نہیں لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب خداتعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایااے موسیٰ ؑاور اس کے بھائی ہارونؑ! تم دونوں فرعون کے پاس جانا تو فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا 6۔دونوں اس کے ساتھ بڑے ادب اور احترام کے ساتھ باتیں کرنا۔ تو یہ تو قرآن کا سبق ہے۔ اگر مرزا صاحب اس پر عمل نہ کرتے تو پھر آپ لوگ کہتے کہ مرزا صاحب نے قرآن کی تعلیم پر عمل نہیں کیا۔ اب جو قرآن کی تعلیم پر عمل کیا ہے تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں کیا ہے۔ پھر دوسرا اعتراض آپ لوگ یہ کرتے کہ حضرت مسیح ناصریؑ کے سامنے ایک روپیہ پیش کیاگیا اور لوگوں نے کہا کہ قیصر ہم سے ٹیکس وصول کرنا چاہتا ہے کیا ہم دیں یا نہ دیں؟ گاندھی جی نے تحریک کی تھی کہ گورنمنٹ کو ٹیکس نہ دو۔انہوں نے بھی یہی چالاکی کی او رحضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس آئے او ران کو کہا کہ قیصر ہم سے ٹیکس مانگتا ہے دیں کہ نہ دیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ کون سا روپیہ تم سے مانگتا ہے؟انہوں نے روپیہ دکھایا؟ اُس پر قیصر کی تصویر تھی۔حضرت عیسٰی علیہ السلام نے کہا جو قیصر کا ہے وہ قیصرکو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو۔7 اس طرح اُن کو جواب دیا اور ٹلا دیا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزوں کو بُرا کہتے تو پھر آپ کے علماء کہتے کہ یہ اچھا مسیح ہے کہ مسیحؑ نے تو یہ کہا تھا کہ جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو۔ اور یہ اس کے خلاف کررہا ہے۔ پھر یہ کہ قرآن میں عیسائیوں کی تعریف آئی ہے پہلے ان آیتوں کو کیوں نہیں نکالتے۔ مرزا صاحب پر غصہ ہے قرآن پر غصہ کیوں نہیں آتا۔ قرآن میں عیسائیوں کی تعریف آئی ہے کہ ان کے دل روحانیت سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کی آنکھوں سے خدا کی محبت میں آنسو بہتے ہیں۔ پھر انگریزوں نے کعبہ پر حملہ کبھی نہیں کیا مگر حبشہ کی حکومت نے مکہ پر حملہ کیاتھا جس کو سورہ فیل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ8 یہ اصحاب الفیل حبشہ کے گورنر کے سپاہی تھے وہاں اس وقت ابرہہ گورنر تھا اس ابرہہ نے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا تھا لیکن باوجود اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہؓ کو بلایا اور کہا کہ تم کو اَب مکہ میں بڑی تکلیفیں ہیں تم کیوں نہیں اس ملک میں چلے جاتے جو ایک عادل اور نیک بادشاکا ملک ہے۔ انہوں نے کہا یارسول اللہؐ! کون سا ؟فرمایا حبشہ تو حبشہ کا بادشاہ وہ تھا جس کے وائسرائے نے کعبہ پر حملہ کیا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کو عادل اور نیک کہا۔ اگر تم کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بے شک اس کو عادل اور نیک کہا تھا پر آخر میں وہ مسلمان ہوگیا تھا گو پہلے عیسائی تھا تو مَیں ان کو جواب دیتا ہوں کہ انشاء اللہ انگریز بھی مسلمان ہوجائیں گے۔ احمدی مبلغ اس لئے باہر نکلے ہوئے ہیں کہ انگریزوں اور امریکنوں اور دوسرے لوگوں کو مسلمان بنائیں۔آپ لوگ اعتراض کرنا جانتے ہیں۔آپ یہ اعتراض کررہے ہیں کہ مسیح موعودؑ نے انگریزوں کی تعریف کیوں کی۔ اور احمدی مبلغ انگریزوں اور یورپین لوگوں کے منہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود بھجوا رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے کوئی1920ء کی بات ہے ایک دوست نے ایک انگریز نَومسلم کے متعلق مجھے لکھا کہ اُس نے کہا مجھے اسلام سے اتنی عداوت تھی کہ مَیں جب رات کو سوتا تھا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو گالیاں دے کر سوتا تھا مگر اب کسی رات مجھے نیند نہیں آتی جب تک میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود نہ بھیج لوں۔ تو اب بتاؤ کہ وہ قابلِ قدر ہے جس کی قوم دنیا میں جارہی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود بھجوارہی ہے یا وہ گاندھی قابلِ قدر ہے جس کے چیلے آج چار کروڑ مسلمانوں کو ہندوستان میں دُکھ دے رہے ہیں۔ دیکھو کس کی پالیسی ٹھیک نکلی جنہوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا وہ گاندھی اور اس کے چیلے تھے وہ تو آج بھی ہندوؤں کی تعریف کررہے ہیں اور ہندو ان کو مار رہے ہیں لیکن مسیح موعودؑ جس کوکہا جاتا ہے کہ اس نے انگریزوں کی تعریف کی اس کے چیلے ہر جگہ پر مسیحؑ کی ابنیت او رخدائی کا بطلان کررہے ہیں اور عیسائیوں کو مسلمان کررہے ہیں۔
مجھے یاد ہے مَیں بچہ تھا سیالکوٹ میں جلسہ ہوا جس میں حضرت صاحب کی تقریر ہوئی۔ بڑا ہجوم کرکے مسلمان آئے اور انہوں نے کہا کہ پتھر پھینکو اور ان کو خوب مارو۔اُس وقت مسٹر بیٹی ایک انگریز ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا بعد میں وہ شاید لاہور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوگیا تھا، وہ بھی انتظام کے لئے آیا ہوا تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر شروع کی اور لوگوں نے پتھربرسانے شروع کئے تو اس کو غصہ آگیا۔ وہ جگہ جہاں جلسہ ہورہا تھا سرائے تھی، اُس کی ایک بڑی سی دیوار تھی۔اُس دیوارپر وہ کُود کر چڑھ گیا اور کہنے لگا اے مسلمانو! بے غیر تو! بے حیاؤ! تمہیں شرم نہیں آتی وہ تو ہمارے خدا کو مار رہا ہے تم کیوں اس کے خلاف ہو؟ غصہ تو مجھے آنا چاہئیے تھا جس کے خدا کو وہ مارہا ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے تھا کہ انگریزوں کے خدا کو اس نے ماردیا ہے لیکن بجائے اس کے تم اس پر پتھر پھینک رہے ہو اور میں اس کی حفاظت کے لئے آیا ہوں۔
تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کی خوشامد کرکے کیا لیا؟ انگریزوں کے خدا کو تو ماردیا مسلمانوں نے اس خدا کو آسمان پر چڑھایا تھا۔مرزا صاحبؑ نے آسمان سے اتار کے کشمیر میں دفن کردیا اور ابھی کہتے ہیں کہ انگریزوں کی خوشامد کی۔ دیکھو جو بچے کو خوش کرنا چاہے تو وہ اس کے باپ کی تعریف کرتا ہے۔ اگر واقع میں آپ انگریزوں کی خوشامد کرنا چاہتے تو عیسیٰؑ کی تعریف کرتے مگر انہوں نے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو جھوٹی عزت عیسائیوں نے بنالی تھی اُس کی دھجیاں بکھیر دیں اور مسلمانوں نے فتویٰ لگایا کہ یہ عیسیٰؑ کی ہتک کرتا ہے۔ عجیب متضاد خیال ہیں۔ ایک طرف یہ الزام کہ عیسائیوں کی خوشامدکرتے ہیں اور دوسری طرف علماء کا یہ الزام کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کرتا ہے۔ اَب دونوں میں سے کس کو سچا مانیں۔اُن کو سچا مانیں جو کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک کرتا ہے یا اِن کو سچا مانیں جو کہتے ہیں کہ عیسائیوں کی خوشامد کرتا ہے۔ وہ خوشامد کیا تھی؟ یہی تھی کہ اُن کی ملکہ کو اسلام کی تبلیغ کی۔ اورپھر آپ نے عربی میں ایک قصیدہ شائع کیا اور اس میں دعاکرتے ہوئے لکھا کہ اے خدا! اِن عیسائیوں کی دیواریں گرادے، ان کے قلعے گرادے، ان کی گڑھیاں9 گرا دے اور ان کے اوپر آسمان سے وہ عذاب مسلط کر کہ ان کے درودیوار ہل جائیں۔ اگر یہ تعریف ہوتی ہے تو تم بھی ذرا کسی مولوی کو کہو کہ وہ اَب یہی اعلان کرے جب کہ پاکستان کی گورنمنٹ ہے لیکن کسی کو جرأت نہیں۔ صرف ان باتوں کو لیتے ہیں جن باتوں کو سمجھنے کی قابلیت نہیں اور ان باتوں کو نہیں لیتے جو تعریف کی مستحق تھیں۔ آخر کسی قوم کی تعریف کیا اس طرح ہوسکتی ہے؟ کیا یہ بھی کوئی تعریف ہوتی ہے کہ خدایا! ان پر غضب نازل کر۔ خدایا! ان کے قلعوں کی دیواریں توڑ دے۔اے خدا! ان پر ایسی قوم کو حاکم بنادے جو ان کو ذلیل اور رسوا کردے۔ تو انہوں نے تو انگریزی حکومت کے تباہ ہونے کی دعا کی ہے انگریزوں کی تعریف کرنے کے کیا معنے ہوئے۔ اگر انگریزوں کی تعریف کی ہے تو اس طرح کی ہے جس طرح نجاشی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی تھی۔جس طرح مکہ کے بعض سرداروں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی تھی لیکن نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ مسیح ناصری پر اعتراض کرتا ہے جس نے قیصر کی تعریف کی۔ بس لے دے کے ایک مرزا صاحب کی جان رہ گئی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت میں صَرف کردی۔ بس ان کی زبانیں اس پر چل جاتی ہیں اس لئے کہ احمدی تھوڑے ہیں۔ مگر یہ تھوڑے نہیں رہیں گے یہ بڑھیں گے اور پھلیں گے اور اُس وقت تم کو نظر آئے گا کہ تم تھوڑے ہو اور احمدی زیادہ ہیں۔
اس کے بعد میں دعا کروں گا۔ آج کل اپنی بیماری کی وجہ سے میرے دل پر اتنا اثر ہے کہ جب کوئی جنازہ آتا ہے یا مسجد میں جنازہ پڑھاتا ہوں تواس جنازہ میں اپنے آپ کو بھی اورپیچھے جو لوگ کھڑے ہوتے ہیں اُن کو بھی شامل کرلیتا ہوں اور پھر ساری جماعت کو شامل کرتا ہوں۔ مُردوں کو بھی اور زندوں کو بھی کہ کبھی تو وہ مریں گے ہی اور کہتا ہوں کہ اے خدا! سب مُردوں کو بھی بخش اور ہم زندوں کو بھی بخش دے کہ ہم بھی کسی دن مرکے تیرے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔ تُو مجھ کو اور میرے پیچھے جو جنازہ پڑھ رہے ہیں ان کو بھی اور وہ ساری جماعت جو سارے پاکستان یا ہندوستان یا ہندوستان سے باہر پھیلی ہوئی ہے اور امریکہ اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہے اُن سب کو معاف کر اور ان سب کے لئے اپنے فرشتوں کو حکم دے کہ جب وہ مریں تو وہ ان کے استقبال کے لئے آئیں او ران کو عزت کے ساتھ تیری جنت میں داخل کریں۔ اور کوئی وقت ایسا نہ آئے جب وہ گھبرائیں۔ ہر لخطہ اور ہر سیکنڈ تُو ان کے ساتھ رہیو اور مرنے کے وقت جو اکیلا ہونے او رتنہائی کا وقت آتا ہے وہ ان پر کبھی نہ آئے بلکہ ہمیشہ وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہ کہتے رہیں کہ اِنَّ اللہ معنا10۔خدا ہمارے ساتھ ہے ہم اکیلے کوئی نہیں۔ ہمارے بیوی بچے اگر چُھٹ گئے ہیں تو بیوی بچوں میں کیا طاقت تھی خدا ہم کو مل گیا ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمارا سب سے زیادہ قریبی او رسب سے زیادہ ہمارامحبوب ہے۔ تو ہمیشہ ہر جنازہ میں مَیں ساری جماعت کو شامل کرلیتا ہوں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک دفعہ جنازہ پڑھایا تو فرمایا آج ساری جماعت جو پیچھے جنازہ پڑھ رہی تھی میں نے ان سب کا بھی جنازہ پڑھ دیا ہے۔ تو میں نے اس سنت کو دیکھ کر کہا کہ اَب تو جماعت بڑی پھیل گئی ہے اب تو اتنی جماعت نہیں رہی جو پیچھے کھڑی ہوتی۔وہ زمانہ تو ایسا تھا کہ تھوڑے احمدی تھے اس لئے اب مجھے چاہئیے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی ہیں اُن ساروں کو جنازہ میں شامل کرلیا کروں تاکہ جب بھی وہ مریں یہ جنازہ کی دعائیں ان کے کام آئیں اور اللہ تعالیٰ ان کا مدد گار ہو اور اگلے جہان میں ان کو سُکھ اور چین نصیب ہو اوراس دنیا میں ان کی اولاد دین کی خدمت کرنے والی ہو اور دنیا میں چاروں طرف پھیل کر اسلام کی روشنی کو پھیلائے۔
کل کی تقریر کے متعلق میں نے یہ تجویز کی ہے او رآئندہ کے لئے بھی انشاء اللہ اِس پر عمل کیا جائے گا کہ ایسی تقریروں کا امتحان لیا جائے گا اور ان پر انعام مقرر ہوا کرے گا۔ سو چونکہ تقریردیر سے چَھپتی ہے اس لئے میری یہ تجویز ہے کہ تقریر سے پہلے تمام دوست عام طور پر اور احمدی دوست خصوصاً پنسل او رکاغذ لیتے آئیں او رنوٹ کرلیں تاکہ جب وہ گھر جائیں تو ان کو چَھپنے کا انتظار نہ کرنا پڑے بلکہ اپنے نوٹوں کی مدد سے اسے یاد کرلیں اور جب امتحان ہو تو اس کا امتحان دیں۔جب وہ امتحان دیں گے تو جوان میں سے فرسٹ نکلے گا اس کوایک کتاب تذکرہ کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں کی کتاب ہے اور ایک تفسیر کی جلد انعام دیں گے۔ اور جو سیکنڈ نکلے گا اس کو ایک تفسیر کی جلد اورایک سیر روحانی کی جلد دیں گے۔ اِسی طرح جو تھرڈ نکلے گا اس کو یا کوئی تفسیرکی جلد یا صرف سیر روحانی کی جلد دی جائیگی۔ اس طرح ہر سال الگ الگ انعام مقرر ہوتے چلے جائیں گے۔اس سال میں نے یہ اعلان کردیا ہے جو دوست لکھنا چاہتے ہیں وہ کل اپنے ساتھ پنسل اور کاغذ لے آئیں اور مختصر نوٹ لکھ لیں تاکہ ان کویاد کرسکیں او رجب جنوری یا فروری میں امتحان لیا جائے تو اُس وقت وہ صحیح طور پر جواب دے سکیں اور ان کو انتظار نہ کرنا پڑے کہ تقریر چھپے گی تو ہم امتحان دیں گے او رمضمون ان کے ذہن نشین ہوتا چلا جائے گا۔
جب پہلے زمانہ میں قادیان میں مَیں نے یہ کہا تھا تو دوست لکھا کرتے تھے۔ رات کے وقت جلسہ گاہ میں عجیب نظارہ ہوتا تھا۔ چاروں طرف دوست اپنے ساتھیوں کو موم بتیاں پکڑا دیتے تھے اور ان کی روشنی میں بیٹھے ہوئے نوٹ لکھتے تھے۔ اب تو خداتعالیٰ کے فضل سے بجلی کی روشنی بھی آگئی ہے۔اول تو میں بیمار ہوں لمبی تقریر نہیں کرسکتا لیکن اگر رات بھی ہوگئی تو بجلی کی روشنی میں دوست نوٹ لکھ سکتے ہیں۔ پھر فروری، مارچ میں جب امتحان ہوگا تو اُس وقت ان کو اس کا جواب دینا ہوگا۔
قادیان میں جلسہ سالانہ کے بعد جب لوگ جاتے تھے تو مجھے کئی دوستوں نے سنایا کہ ہم گھروں میں جاکر اپنی جماعتوں کو وہ تقریریں سناتے تھے تو اس طرح جماعتوں کو بڑی جلدی تقریریں پہنچ جاتی تھیں۔اَب بھی میں چاہتا ہوں کہ وہ طریق جاری ہوجائے تاکہ جب آپ لوگ جائیں تو اپنے گھروں میں ان نوٹوں کے ذریعہ سے وہ تقریر سنائیں اور کہیں کہ یہ تقریر ہم سن کے آئے ہیں۔چاہے ہم نے ساری نہیں لکھی پر جتنی لکھی ہے وہ تم سن لو۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کتاب پیچھے پہنچے گی اور تقریر پہلے پہنچ جائے گی۔ اور ان لوگوں کو بھی زیادہ سے زیادہ واقفیت ان خیالات سے ہوتی جائے گی جو اُن کا امام اِس وقت اُن تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اور پھر انعام کی جو عزت ہے اور سلسلہ کی کتابوں میں جو برکت ہے وہ بھی ان کو نصیب ہوجائے گی۔
اَب میں دعا کردیتا ہوں۔ باہر سے مختلف مشنوں کی تاریں آئی ہوئی ہیں۔ امریکہ سے بھی، یورپ سے بھی اور مشرقی ایشیا سے بھی۔ اِسی طرح انڈونیشیا اور سنگا پور وغیرہ سب جگہ سے تاریں آئی ہیں۔اور بورنیو سے بھی تار آئی ہے کہ ہمیں بھی دعاؤں میں یاد رکھا جائے۔ہندوستان سے بھی تاریں آئی ہیں اس لئے اپنے ہندوستان کے دوستوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھو۔انڈونیشیا کی جماعت کو بھی یاد رکھو او رافریقہ کی جماعتوں کو بھی جو مل کر پاکستان کے دوسرے نمبر پر بن جاتی ہیں کیونکہ کئی ممالک ہیں اگر ان کی ساری جماعتیں جمع کی جائیں تو غالباًپاکستان سے دوسرے نمبر پر ہوں۔تیسرے نمبر پر انڈونیشیا ہے اور چوتھے نمبر پر یورپ او رامریکہ کی جماعتیں اور مڈل ایسٹ کی جماعتیں مل کر بنتی ہیں۔ ان سب جماعتوں کی طرف سے تاریں آئی ہیں سو سب کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور نصرت کرے۔ اور اس جلسہ میں بوجہ دوری کے جو شامل نہیں ہوسکے خداتعالیٰ اس جلسہ کی برکات اُن کو بھی دے۔ اور اللہ تعالیٰ رات کو جو اپنے فرشتے تم پر اتارے وہ اُن پر بھی اتارے او راللہ تعالیٰ کی حفاظت میں وہ آجائیں اوردن دونی اور رات چوگنی ترقی کا نظارہ دیکھیں۔ اور خدا کرے کہ جو ہمارے ملک میں جماعت ہے اس سے بھی ہزاروں گنا زیادہ وہاں جماعتیں ہوں۔اور ہماری جماعت جو یہاں ہے وہ اتنی بڑھ جائے کہ ہندوستان اور پاکستان کے چَپّہ چَپّہ پر پھیل جائے اور اس طرح اُن ممالک میں بھی جماعتیں پھیل جائیں۔ انڈونیشیا سے تارآئی ہے کہ ہمارا جلسہ سماٹرا میں قرار پایا تھا مگر سماٹرا میں بغاوت ہوگئی ہے اور وہاں کے فوجی گورنر نے حکومت خود سنبھال لی ہے۔اس لئے ہمیں جلسہ ملتوی کرنا پڑا بلکہ حالات ایسے خطرناک تھے کہ تار میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہم جہاز میں اس وقت سماٹرا جانے کے لئے سوار تھے اس وقت تک ہم سب خیریت سے ہیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو آئندہ بھی خیریت سے رکھے۔ سو ان کے لئے بھی جو آئے ہیں۔ اور ان بھائیوں کیلئے بھی جو نہیں آئے یا نہیں آسکے۔ اور اپنی مستورات کے لئے بھی کہ جن کو بچوں کی وجہ سے رات کو زیادہ تکلیف پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو اَور بھی مضبوط کرے اور یہ تکلیف بجائے ان کے لئے ٹھوکر کا موجب ہونے کے ان کے ایمان میں زیادتی کا موجب ہو اور اللہ تعالیٰ اس جلسہ کے بعد ہم کو اتنی جلدی مزید ترقی بخشے کہ لاکھوں لاکھ لوگ احمدیت میں داخل ہوں۔ اور وہ دن آجائے کہ دشمن کو احمدیوں کی طرف غرور کے ساتھ انگل اٹھانے کا موقع نہ ملے بلکہ وہ استعجاب اور حیرت کے ساتھ احمدی جماعت کی ترقی کو دیکھے۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم زیادہ ہوں تو ہمارے دل میں بھی تکبر پیدا نہ ہو۔ ہم یہ خیال نہ کریں کہ ہم زیادہ اور طاقتور ہیں بلکہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم کوزیادہ جھکنے کا حکم ہے، زیادہ خدمت کا حکم ہے اور چپے چپے پر دنیا کے ہر غریب اور امیر کی ہم خدمت کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچا مومن بنائے۔صرف ظاہری مومن نہ بنائے۔ اور جتنا جتنا ہم بڑھتے جائیں اتنا ہی ہمارا سر خدا تعالیٰ کے آگے اور اس کے بندوں کی خدمت کے لئے جُھکتا چلا جائے۔
ایک کشمیر کے دوست کہتے ہیں کہ کشمیر کیلئے بھی دعا کرو کہ کشمیر پر خدا تعالیٰ فضل کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ پہلا آدم آیا اور شیطان نے اسے جنت سے نکال دیا اَب دوسرا آدم آیا ہے تاکہ لوگوں کو پھر جنت میں داخل کرے11 تو پہلا مسیحؑ کشمیر میں دفن ہوا تھا اَب دعا کرو کہ دوسرا مسیحؑ کشمیر میں زندہ ہو۔آمین’’
دعا کے بعد فرمایا:۔
‘‘اب میں جاتا ہوں پیچھے جلسہ شروع ہوگا۔دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے کام کی توفیق دے۔ اس سردی میں میری طبیعت پچھلے سال سے بھی بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جو مضمون میں نے انتخاب کئے وہ اتنے لمبے ہوگئے کہ ان کی لمبائی کا خیال کرکے بھی دل کو گھبراہٹ ہوتی ہے۔ آخر دوستوں نے کہا کہ اپنے نفس پر جبر کرکے آپ صرف نوٹ پڑھ کر سنا دیں۔ پس دوست دعا کریں کہ دو دن جوباقی ہیں اور اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ مجھے ایسی صحت عطا کرے کہ میں اپنے خیالات کو اچھی طرح آپ لوگوں کے سامنے ادا کرسکوں۔ اور آپ لوگوں کو توفیق دے کہ آپ ان خیالات کو قبول کرسکیں او ران پر عمل کرسکیں۔ او رخداتعالیٰ کوئی بات میرے منہ سے ایسی نہ نکلوائے جو سچی نہ ہو۔ اور جب ہر سچ وہ نکلوائے تو کوئی بات ایسی نہ نکلوائے جو آپ کے دل میں جاکر نہ بیٹھ جائے اور فرشتے اس کو آپ کے دلوں میں مستحکم طور پر قائم نہ کر دیں۔ اور پھر ہر سچی بات جو میرے منہ سے نکلوائے اس سچ پر عمل کرنے کی ہمیشہ
ہمیش جماعت کو توفیق عطا فرمائے۔’’ (الفضل 17 مارچ 1957ء)
1 صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب یُکْرَہٗ مِنَ التَّنَازُعِ وَ الْاِخْتِلَافِ فِی الْحرب و عقوبۃ مَن عَصیٰ اِمَامَہٗ
2 صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یُکْرَہٗ مِنَ التَّنَازُعِ وَالْاِخْتِلَافِ………… میں ‘‘ اَللہُ مَوْلَانَا وَ لَا مَوْلیٰ لکُمْ ’’ کے الفاظ ہیں۔
3 ابراہیم : 25
4 تذکرہ صفحہ 746۔ ایڈیشن چہارم
5 کور دیہہ/دِہ : پس ماندہ گاؤں ، کم آباد اور معمولی درجہ کا گاؤں، شہر سے دور اور بے رونق ۔ اجاڑ گاؤں جو روشنیوں سے محروم ہو۔ (اردو لغت تاریخی اصول پر۔ جلد15 صفحہ 338 اردو لغت بورڈ کراچی جون 1994ء)
6 طٰہٰ : 45
7 متی باب 22 آیت 22
8 الفیل : 2
9 گڑھیاں (گڑھی) گڑھ کی تصغیر : چھوٹا قلعہ ۔ کوٹلہ (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد16 صفحہ 65۔ اردو لُغت بورڈ کراچی جون 1994ء)
10 التوبۃ : 40
11 صحیح بخاری کتاب المناقب بابُ عَلَامَاتِ النُّبُوَّۃِ فِی الْاِسْلَام




خلافت حقہ اسلامیہ
اور نظامِ آسمانی کی مخالفت
اور اُس کا پس منظر



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ


خلافتِ حقّہ اسلامیہ اور نظامِ آسمانی کی مخالفت
اور اُس کا پس منظر
(فرمودہ27دسمبر1956ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘آج کی تقریر عام طورپر عام مسائل پر ہوا کرتی تھی لیکن اس دفعہ فتنہ کی وجہ سے مجھے اس تقریر کے لئے بھی ایک ایسا موضوع چُننا پڑا جو اِس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے لئے اس وجہ سے کہ اس کا تعلق خلافتِ احمدیہ سے ہے اور جماعت احمدیہ میں جولوگ شامل نہیں ان کے لئے اسلئے کہ اِس میں ایک اسلامی موضوع بیان ہوا ہے نہایت اہمیت رکھنے والا ہے۔ اور دوسرے اس لئے بھی میں نے اسے چُنا ہے کہ اگر وہ ہمارے اندر فتنہ پیدا ہونے سے خوش ہوتے ہیں تو اَور بھی خوش ہو جائیں او رساری تفصیل اُن کو معلوم ہوجائے۔لیکن اس کی تفصیلات اتنی ہوگئی ہیں کہ میں حیران ہوں کہ اس مضمون کو کس طرح بیان کروں۔ بعض دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ اس کے بعض حصوں میں مَیں صرف نوٹ پڑھ کر سنادوں۔پہلے میری عادت تھی کہ باریک نوٹ چھوٹے کاغذ پر آٹھ یا بارہ صفحے کے لکھے ہوئے ہوتے تھے،حد سے حد سولہ صفحے کے،بعض بہت لمبی لمبی پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقریریں ہوئیں تو ان میں چوبیس صفحہ کے بھی نوٹ ہوتے تھے،لیکن وہ ایسے صفحے ہوتے ہیں کہ ایک فل سکیپ سائز کے کاغذ کے آٹھ صفحے بنتے ہیں۔مگر اس دفعہ یہ نوٹ بہت لمبے ہوگئے ہیں۔دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ میں وہ نوٹ ہی پڑھ کرسنادوں،گو بعض دوسروں نے کہا ہے کہ آپ پڑھ کر سنا ہی نہیں سکتے،جب پڑھ کے سنانے لگیں گے تو کچھ نہ کچھ اپنی باتیں شروع کردیں گے اس طرح تقریر لمبی ہوجائیگی۔گو یہ ہوسکتا ہے کہ بعض حصے جو رہ جائیں اُن کو بعد میں شائع کردیا جائے مگر مناسب یہی ہے کہ احباب جو جمع ہوئے ہیں اُن تک مضمون میری زبان سے پہنچ جائے۔اس لئے جہاں بھی ایسا موقع آیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ مضمون لمباہو رہا ہے تو میں صرف نوٹ پڑھ کے سنا دوں گا تاکہ اِس جلسہ میں یہ تقریر ختم ہوجائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 1
اس آیت کے متعلق تمام پچھلے مفسّرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت خلافتِ اسلامیہ کے متعلق ہے۔اِسی طرح صحابۂ کرام (رَضْوَانُ اللہ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ) اور کئی خلفاء راشدین بھی اس کے متعلق گواہی دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی کتابوں میں اس آیت کو پیش کیا ہے او ربتایا ہے کہ یہ آیت خلافتِ اسلامیہ کے متعلق ہے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اے خلافتِ حقّہ اسلامیہ پر ایمان رکھنے والے مومنو!(چونکہ یہاں خلافت کا ذکر ہے اس لئے اٰمَنُوْا میں ایمان لانے سے مراد ایمان بالخلافت ہی ہوسکتا ہے۔پس یہ آیت مبائعین کے متعلق ہے، غیرمبائعین کے متعلق نہیں کیونکہ وہ خلافت پر ایمان نہیں رکھتے)اے خلافتِ حقّہ اسلامیہ کوقائم رکھنے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے والو!تم سے اللہ ایک وعدہ کرتا ہے او روہ یہ ہے کہ ہم تم میں سے زمین میں اُسی طرح خلفاء بناتے رہیں گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو خلفاء بنایا۔ اور ہم اُن کے لئے اِسی دین کو جاری کریں گے جو ہم نے اُنکے لئے پسند کیا ہے۔ یعنی جو ایمان او رعقیدہ ان کا ہے وہی خدا کو پسندیدہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسی عقیدہ او رطریق کو دنیا میں جاری رکھے گا۔ اور اگر اُن پر کوئی خوف آیا تو ہم اس کو تبدیل کرکے امن کی حالت لے آئیں گے۔لیکن ہم بھی اُن سے اُمید کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ توحید کو دنیا میں قائم کریں گے او رشرک نہیں کریں گے۔ یعنی مشرک مذاہب کی تردید کرتے رہیں گے اور اسلام کی توحیدِ حقّہ کی اشاعت کرتے رہیں گے۔
خلافت کے قائم ہونے کے بعد خلافت پر ایمان لانے والے لوگوں نے خلافت کو ضائع کردیا توفرماتا ہے مجھ پر الزام نہیں ہوگا۔اس لئے کہ میں نے ایک وعدہ کیا ہے اورشرطیہ وعدہ کیا ہے۔اس خلافت کے ضائع ہونے پر الزام تم پر ہو گا۔ میں اگر پیشگوئی کرتا تو مجھ پر الزام ہوتا کہ میری پیشگوئی جھوٹی نکلی۔مگر میں نے پیشگوئی نہیں کی بلکہ میں نے تم سے وعدہ کیا ہے اور شرطیہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم مومن بالخلافۃ ہو گے اور اس کے مطابق عمل کروگے تو پھرمیں خلافت کو تم میں قائم رکھوں گا۔پس اگر خلافت تمہارے ہاتھوں سے نکل گئی تو یاد رکھو کہ تم مومن بالخلافۃ نہیں رہو گے کافر بالخلافۃ ہوجاؤ گے۔ اور نہ صرف خلفاء کی اطاعت سے نکل جاؤ گے بلکہ میری اطاعت سے بھی نکل جاؤ گے اور میرے بھی باغی بن جاؤ گے۔
خلافتِ حقّہ اسلامیہ کے عنوان کی وجہ
میں نے اس مضمون کا ہیڈنگ ''خلافتِ حقّہ اسلامیہ'' اس لئے رکھا ہے کہ جس طرح موسوی زمانہ میں خلافتِ موسویہ یہودیہ دو حصوں میں تقسیم تھی ایک دَور
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کرحضرت عیسٰی السلام تک تھا اور ایک دَور حضرت عیسٰی علیہ السلام سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے۔اِسی طرح اسلام میں بھی خلافت کے دو دَور ہیں،ایک دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شروع ہوا اور اُس کی ظاہری شکل حضرت علیؓ پر ختم ہوگئی۔اور دوسرا دَور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّل سے شروع ہوا۔اور اگر آپ لوگوں میں ایمان اور عملِ صالح قائم رہا او رخلافت سے وابستگی پختہ رہی تو انشاء اللہ یہ دَور قیامت تک قائم رہے گا۔
جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کی تشریح میں مَیں ثابت کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایمان بالخلافۃ قائم رہا اور خلافت کے قیام کے لئے تمہاری کوشش جاری رہی تو میرا وعدہ ہے کہ تم میں سے(یعنی مومنوں میں سے اور تمہاری جماعت میں سے)میں خلیفہ بناتا رہوں گا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے متعلق احادیث میں تصریح فرمائی ہے۔آپ فرماتے ہیں''مَاکَانَتْ نُبُوَّۃٌ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ۔''2 کہ ہرنبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے او رمیرے بعد بھی خلافت ہوگی۔ اس کے بعد ظالم حکومت ہوگی۔پھر جابر حکومت ہوگی یعنی غیر قومیں آکر مسلمانوں پر حکومت کریں گی جو زبردستی مسلمانوں سے حکومت چھین لیں گی۔اس کے بعد فرماتے ہیں کہ پھر خلافت عَلٰی منھاج النّبوّۃ ہوگی۔ یعنی جیسے نبیوں کے بعد خلافت ہوتی ہے ویسی ہی خلافت پھر جاری کردی جائیگی۔3
نبیوں کے بعدخلافت کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آتا ہے۔ایک تو یہ ذکر ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد خداتعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خلافت اس طرح دی کہ کچھ ان میں سے موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی بنائے اورکچھ اُن میں سے بادشاہ بنائے4۔اب نبی اور بادشاہ بنانا تو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہمارے اختیار میں نہیں۔لیکن جو تیسرا امر خلافت کا ہے اور اس حیثیت سے کہ خدا تعالیٰ بندوں سے کام لیتا ہے ہمارے اختیار میں ہے۔ چنانچہ عیسائی اس کے لئے انتخاب کرتے ہیں اور اپنے میں سے ایک شخص کو بڑا مذہبی لیڈر بنا لیتے ہیں جس کانام وہ پوپ رکھتے ہیں۔گوپوپ اور پوپ کے متبعین ا ب خراب ہوگئے ہیں مگر اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ پھر اُن سے مشابہت کیوں دی؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْجس طرح پہلے لوگوں کو میں نے خلیفہ بنایا تھا اسی طرح میں تمہیں خلیفہ بناؤ ں گا۔یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں خلافت قائم کی گئی تھی اُسی طرح تمہارے اندر بھی اس حصہ میں جو موسوی سلسلہ کے مشابہہ ہوگا میں خلافت قائم کروں گا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت براہ راست چلے گی۔ پھر جب مسیح موعودؑ آجائے گا تو جس طرح مسیح ناصریؑ کے سلسلہ میں خلافت چلائی گئی تھی اُسی طرح تمہارے اندر بھی چلاؤں گا۔مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ موسیٰ کے سلسلہ میں مسیحؑ آیا اور محمدی سلسلہ میں بھی مسیح آیا مگر محمدی سِلسلہ کا مسیح پہلے مسیح سے افضل ہے اس لئے وہ غلطیاں جو انہوں نے کیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسیح محمدؐی کی جماعت نہیں کرے گی۔انہوں نے خدا کو بُھلادیا اور خداتعالیٰ کو بُھلا کر ایک کمزور انسان کو خدا کا بیٹا بناکرا ُسے پوجنے لگ گئے۔مگر محمدی مسیحؑ نے اپنی جماعت کو شرک کے خلاف بڑی شدت سے تعلیم دی۔بلکہ خود قرآن کریم نے کہہ دیا ہے کہ اگر تم خلافت حاصل کرنا چاہتے ہوتو پھر شرک کبھی نہ کرنا اور میری خالص عبادت کو ہمیشہ قائم رکھنا جیسا کہ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا میں اشارہ کیا گیاہے۔
پس اگر جماعت اس کو قائم رکھے گی تبھی وہ انعام پائے گی۔اور اس کی صورت یہ بن گئی ہے کہ قرآنِ کریم نے بھی شرک کے خلافت اتنی تعلیم دی کہ جس کا ہزارواں حصہ بھی انجیل میں نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شرک کے خلاف اتنی تعلیم دی ہے جو حضرت مسیحؑ ناصری کی موجود تعلیم میں نہیں پائی جاتی۔پھر آپ کے الہاموں میں بھی یہ تعلیم پائی جاتی ہے۔چنانچہ آپ کا الہام ہےخُذُوا التَّوْحِیْدَ اَلتَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَاءَ الْفَارِسِ5
اے مسیح موعود اور اُس کی ذرّیت!توحید کو ہمیشہ قائم رکھو۔ سو اِس سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے توحید پر اتنا زور دیا ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے اور قرآنی تعلیم پرغور کرتے ہوئے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالےٰ اپنے فضل سے توحیدِ کامل احمدیوں میں قائم رکھے گا۔اور اس کے نتیجہ میں خلافت بھی ان کے اندر قائم رہے گی اور وہ خلافت بھی اسلام کی خدمت گذار ہوگی۔حضرت مسیحؑ ناصری کی خلافت کی طرح وہ خود اس کے اپنے مذہب کو توڑنے والی نہیں ہوگی۔
جماعت احمدیہ میں خلافت قائم رہنے کی بشارت
میں نے بتایا ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ خلیفے ہوں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ میرے بعد خلیفے ہوں گے۔
پھر مُلْکًا عَاضًا ہوگا۔پھر ملک جبریّہ ہوگا۔اور اُس کے بعد خَلَافَۃٌ علٰی مِنْھَاجِ النَّبُوَّۃِ ہوگی ۔اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّت میں الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ
''اے عزیزو!جب کہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلاوے۔سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے۔اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں۔کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کاسلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔''6
یعنی اگر تم سیدھے رستہ پر چلتے رہو گے تو خدا کا مجھ سے وعدہ ہے کہ جو دوسری قدرت یعنی خلافت تمہارے اندر آوے گی وہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگی۔
عیسائیوں کو دیکھو گو جھوٹی خلافت ہی سہی 1900 سال سے وہ اس کو لئے چلے آرہے ہیں۔مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کو ابھی 48 سال ہوئے تو کئی بلّیاں چھیچھڑوں کی خوابیں دیکھنے لگیں اور خلافت کو توڑنے کی فکر میں لگ گئیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ:-
''تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہوکر دُعائیں کرتے رہو۔''7
سو تم کو بھی چاہئیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت دعائیں کرتے رہو کہ اے اللہ!ہم کو مومن بالخلافت رکھیئو اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیجیئو۔اورہمیں ہمیشہ اس بات کا مستحق رکھیئو کہ ہم میں سے خلیفے بنتے رہیں۔اور قیامت تک یہ سِلسلہ جاری رہے تاکہ ہم ایک جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوکر اور ایک صف میں کھڑے ہوکر اسلام کی جنگیں ساری دنیا سے لڑتے رہیں اور پھر ساری دنیاکوفتح کرکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں گرادیں۔کیونکہ یہی ہمارے قیام اور مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ہے۔
قدرتِ ثانیہ سے مُراد خلافت ہے
یہ جو میں نے''قدرت ثانیہ''کے معنے خلافت کے کئے ہیں یہ ہمارے ہی نہیں بلکہ غیر مبائعین نے بھی اس کو تسلیم کیا ہوا ہے۔چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب لکھتے ہیں:۔
''حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیۃ کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدرانجمن احمدیہ موجودہ قادیان واقرباء حضرت مسیح موعودؑ بہ اجازت حضرت (اماں جان) کُل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اُس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سَلَّمَہٗ کو آپؑ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا۔اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی...... یہ خط بطور اطلاع کُل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے۔''الخ8
یہ خط ہے جو انہوں نے شائع کیا۔اس میں مولوی محمد علی صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے کہ معتمدین میں سے وہ اس موقع پر موجود تھے۔اور انہوں نے حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کی۔سو ان لوگوں نے اس زمانہ میں یہ تسلیم کرلیا کہ یہ جو''قدرت ثانیہ''کی پیشگوئی تھی یہ''خلافت'' کے متعلق تھی کیونکہ الوصیۃ میں سوائے اس کے اور کوئی ذکر نہیں کہ تم''قدرت ثانیہ'' کے لئے دعائیں کرتے رہو۔ اور خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ مطابق حکم الوصیۃ ہم نے بیعت کی۔پس خواجہ صاحب کااپنا اقرار موجود ہے کہ الوصیۃ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ ''خلافت''کے متعلق تھی اور''قدرت ثانیہ'' سے مراد''خلافت'' ہی ہے۔پس حضرت خلیفہ اوّل کے ہاتھ پر خواجہ کمال الدین صاحب،مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کا بیعت کرنا اور اسی طرح میرا اور تمام خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیعت کرنا اِس بات کا ثبوت ہے کہ تمام جماعت احمدیہ نے بالاتفاق خلافتِ احمدیہ کااقرار کرلیا۔پھر حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کے تمام خاندان اور جماعت احمدیہ کے ننانوے فیصدی افراد کا میرے ہاتھ پر بیعت کرلینا اس بات کا مزید ثبوت ہوا کہ جماعت احمدیہ اس بات پر متفق ہے کہ''خلافت احمدیہ'' کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
آئندہ انتخابِ خلافت کے متعلق طریق کار
چونکہ اِس وقت حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان میں سے بعض نے اور اُن کے دوستوں نے خلافتِ احمدیہ کا سوال پھر اُٹھایا ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا
کہ اس مضمون کے متعلق پھر کچھ روشنی ڈالوں اور جماعت کے سامنے ایسی تجاویز پیش کروں جن سے خلافت احمدیہ شرارتوں سے محفوظ ہوجائے۔
میں نے اس سے پہلے جماعت کے دوستوں کے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیاتھا کہ خلیفۂ وقت کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کی مجلس شوریٰ دوسرا خلیفہ چنے ۔مگرموجودہ فتنہ نے بتادیا ہے کہ یہ طریق درست نہیں۔کیونکہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ ثانی کے مرنے کے بعد بیعت میاں عبدالمنان کی کریں گے اَور کسی کی نہیں کریں گے۔اس سے پتہ لگا کہ ان لوگوں نے یہ سمجھا کہ صرف دو تین آدمی ہی اگر کسی کی بیعت کرلیں تو وہ خلیفہ ہوجاتا ہے۔اور پھر اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ جماعت میں خلفشار پیدا ہوسکتا ہے۔چاہے وہ خلفشار پیدا کرنے والا غلام رسول نمبر35 جیسا آدمی ہو اور خواہ وہ ڈاہڈا جیسا گمنام آدمی ہی ہو۔وہ دعویٰ تو یہی کریں گے کہ خلیفہ چُنا گیا ہے۔سوجماعت احمدیہ میں پریشانی پیدا ہوگی۔اس لئے وہ پرانا طریق جو طُولِ عمل والا ہے میں اس کو منسوخ کرتا ہوں اور اس کی بجائے میں اس سے زیادہ قریبی طریقہ پیش کرتا ہوں۔
بیشک ہمارا دعویٰ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔مگر اس کے باوجود تاریخ کی اس شہادت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفے شہید بھی ہوسکتے ہیں۔جس طرح حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ شہید ہوئے۔ اور خلافت ختم بھی کی جاسکتی ہے جس طرح حضرت حسنؓ کے بعد خلافت ختم ہوگئی۔جو آیت میں نے اِس وقت پڑھی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں خلافت قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ مشروط ہے کیونکہ مندرجہ بالا آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلافت پر ایمان لانے والوں اور اس کے قیام کے لئے مناسب حال عمل کرنے والے لوگوں سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان میں خلافت کو قائم رکھے گا۔پس خلافت کا ہونا ایک انعام ہے پیشگوئی نہیں۔ اگر پیشگوئی ہوتا تو حضرت امام حسنؓ کے بعد خلافت کا ختم ہونا نعوذ باللہ قرآن کریم کو جھوٹا قرار دیتا۔لیکن چونکہ قرآن کریم نے اس کو ایک مشروط انعام قرار دیا ہے۔اس لئے اب ہم یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت امام حسنؓ کے زمانہ میں عام مسلمان کامل مومن نہیں رہے تھے اور خلافت کے قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش انہوں نے چھوڑ دی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو واپس لے لیا اور باوجود خلافت کے ختم ہو جانے کے قرآن سچا رہا جھوٹا نہیں ہوا۔وہی صورت اب بھی ہوگی۔اگر جماعت احمدیہ خلافت کے ایمان پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جدو جہد کرتی رہی تو اس میں بھی قیامت تک خلافت قائم رہے گی۔جس طرح عیسائیوں میں پوپ کی شکل میں اب تک قائم ہے گو وہ بگڑ گئی ہے میں نے بتا دیا ہے کہ اس کے بگڑنے کا احمدیت پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔مگر بہرحال اس فساد سے اتنا پتہ لگ جاتا ہے کہ شیطان ابھی مایوس نہیں ہوا۔پہلے تو شیطان نے پیغامیوں کی جماعت بنائی۔لیکن بیالیس سال کے انتظار کے بعد اس باسی کڑھی میں پھر اُبال آیااور وہ بھی لگے مولوی عبدالمنان اور عبدالوہاب کی تائید میں مضمون لکھنے اور ان میں سے ایک شخص محمد حسن چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا ہے کہ ہمارا نظام اور ہمارا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کے لئے تیار ہے۔ شاباش! ہمت کرکے کھڑے رہو۔مرزا محمود سے دبنا نہیں۔اس کی خلافت کے پردے چاک کرکے رکھ دو۔ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے۔کوئی اس سے پوچھے کہ تم نے مولوی محمد علی صاحب کو کیا مدد دے لی تھی۔آخر مولوی محمد علی صاحب بھی تو تمہارے لیڈر تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب بھی لیڈر تھے اُن کی تم نے کیا مدد کر لی تھی جو آج عبدالمنان اور عبدالوہاب کی کرلوگے۔پس یہ باتیں محض ڈھکوسلے ہیں۔ان سے صرف ہم کو ہوشیار کیا گیا ہے۔خداتعالیٰ نے بتایا ہے کہ مطمئن نہ ہوجانا اور یہ نہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ چونکہ خلافت قائم کیا کرتا ہے اس لئے کوئی ڈر کی بات نہیں ہے تمہارے زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہورہے ہیں اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہوئے تھے۔اس لئے خلافت کو ایسی طرز پر چلاؤ جو زیادہ آسان ہو۔اور کوئی ایک دو لفنگے اُٹھ کر اَور کسی کے ہاتھ پر بیعت کرکے یہ نہ کہہ دیں کہ چلو خلیفہ مقرر ہوگیا ہے۔
پس اسلامی طریق پر جو کہ میں آگے بیان کروں گا آئندہ خلافت کے لئے میں یہ قاعدہ منسوخ کرتا ہوں کہ شوریٰ انتخاب کرے۔ بلکہ میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں کہ آئندہ جب کبھی خلافت کے انتخاب کا وقت آئے تو صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اور ممبر اور تحریک جدید کے وکلاء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے زندہ افراد اور اب نظر ثانی کرتے وقت مَیں یہ بات بھی بعض دوستوں کے مشورہ سے زائد کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ بھی جن کو فوراً بعد تحقیقات صدر انجمن احمدیہ کو چاہیئے کہ صحابیت کا سرٹیفکیٹ دے دے اور جامعۃ المبشرین کے پرنسپل اور جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ اور تمام جماعتہائے پنجاب اور سندھ کے ضلعوں کے امیر او رمغربی پاکستان او رکراچی کاامیراور مشرقی پاکستان کا امیر مل کر اس کا انتخاب کریں۔
اسی طرح نظر ثانی کرتے وقت میں یہ امر بھی بڑھاتا ہوں کہ ایسے سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیرے رہے ہوں۔گو انتخاب کے وقت بوجہ معذوری کے امیرنہ رہے ہوں وہ بھی اس لِسٹ میں شامل کئے جائیں۔اِسی طرح ایسے تمام مبلّغ جو ایک سال تک غیر ملک میں کام کرآئے ہیں۔اور بعد میں سلسلہ کی طرف سے اُن پر کوئی الزام نہ آیاہو۔ایسے مبلغوں کی لسٹ شائع کرنا مجلس تحریک کا کام ہوگا۔اِسی طرح ایسے مبلّغ جنہوں نے پاکستان کے کسی ضلع یا صوبہ میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم سے کم ایک سال کام کیا ہو۔ان کی فہرست بنانا صدرا نجمن احمدیہ کے ذمہ ہوگا۔
مگر شرط یہ ہوگی کہ اگر وہ موقع پر پہنچ جائیں۔سیکرٹری شوریٰ تمام ملک میں اطلاع دے دے کہ فوراً پہنچ جاؤ۔اس کے بعد جو نہ پہنچے اس کا اپنا قصور ہوگا اور اس کی غیر حاضری خلافت کے انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوگی۔نہ یہ عذر سُنا جائے گا کہ وقت پر اطلاع شائع نہیں ہوئی۔یہ ان کا اپنا کام ہے کہ وہ پہنچیں۔سیکرٹری شوریٰ کاکام اُن کو لانا نہیں ہے۔اس کا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ ایک اعلان کردے۔اور اگر سیکرٹری شوریٰ کہے کہ میں نے اعلان کردیا تھا تو وہ انتخاب جائز سمجھا جائے گا۔ان لوگوں کا یہ کہہ دینا یا ان میں سے کسی کا یہ کہہ دینا کہ مجھے اطلاع نہیں پہنچ سکی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوگی نہ قانوناً نہ شرعاً۔یہ سب لوگ مل کر جوفیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کے لئے قابلِ قبول ہوگا۔اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہوگا۔اور جب بھی انتخابِ خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چُنا جائے میں اُس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا۔او رجو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ذلیل کیاجائے گااور تباہ کیا جائے گا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے۔پس چونکہ وہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو پورا کرنے کے لئے کھڑا ہوگا اس لئے اُسے ڈرنا نہیں چاہئیے۔
جب مجھے خلیفہ چنا گیا تھا تو سلسلہ کے بڑے بڑے لیڈر سارے مخالف ہوگئے تھے اور خزانہ میں کل اٹھارہ آنے تھے۔اب تم بتاؤ اٹھارہ آنے میں ہم تم کو ایک ناشتہ بھی دے سکتے ہیں؟پھر خداتعالیٰ تم کو کھینچ کر لے آیا۔اور یا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر صرف بارہ سو آدمی جمع ہوئے تھے اور یا آج کی رپورٹ یہ ہے کہ ربوہ کے آدمیوں کو ملاکر اس وقت جلسہ مردانہ اور زنانہ میں پچپن ہزارتعداد ہے۔آج رات کو تینتالیس ہزار مہمانوں کو کھاناکھِلایا گیا ہے۔بارہ ہزار ربوہ والے ملالئے جائیں تو پچپن ہزار ہوجاتا ہے۔پس عورتوں اور مردوں کو ملاکر اس وقت ہماری تعداد پچپن ہزار ہے۔اُس وقت بارہ سو تھی۔یہ پچپن ہزار کہاں سے آئے؟خدا ہی لایا۔پس میں ایسے شخص کوجس کو خداتعالیٰ خلیفۂ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خداتعالیٰ پر ایمان لاکر کھڑا ہوجائے گا تو منّان، وہاب اور پیغامی کیا چیز ہیں اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گی جماعت احمدیہ کو حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔جماعت احمدیہ کو خداکی خلافت سے تعلق ہے۔ اوروہ خدا کی خلافت کے آگے اور پیچھے لڑے گی اور دنیا میں کسی شریر کو جو کہ خلافت کے خلاف ہے خلافت کے قریب بھی نہیں آنے دے گی۔
اب یہ دیکھ لو۔ابھی تم نے گواہیاں سن لی ہیں کہ عبدالوہاب احراریوں کو مل کر قادیان کی خبریں سنایا کرتا تھا اور پھر تم نے یہ بھی سن لیا ہے کہ کس طرح پیغامیوں کے ساتھ ان لوگوں کے تعلقات ہیں۔سواگر خدانخواستہ ان لوگوں کی تدبیر کامیاب ہوجائے تو اس کے معنے یہ تھے کہ بیالیس سال کی لڑائی کے بعد تم لوگ احراریوں اور پیغامیوں کے نیچے آجاتے۔تم بظاہر اس کو چھوٹی بات سمجھتے ہو لیکن یہ چھوٹی بات نہیں۔یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔اگر خدانخواستہ ان کی سکیم کامیاب ہوجاتی تو جماعت احمدیہ مبائعین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی۔اور اس کے لیڈر ہوتے مولوی صدرالدین اور عبدالرحمن مصری۔اور ان کے لیڈر ہوتے مولوی داؤد غزنوی اور عطاء اللہ شاہ بخاری۔ اب تم بتاؤ کہ مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری اور داؤد غزنوی اگر تمہارے لیڈر ہوجائیں تو تمہارا دنیا میں کوئی ٹھکانہ رہ جائے؟تمہارا ٹھکانہ تو تبھی رہتا ہے جب مبائعین میں سے خلیفہ ہواور قرآن مجید نے شرط لگائی ہے مِنْکُمْ کی۔یعنی وہ مبائعین میں سے ہونا چاہیئے۔اس پر کسی غیر مبائع یا احراری کا اثر نہیں ہونا چاہئیے۔اگر غیر مبائع کا اور احراری کا اثر ہو تو پھر وہ نہ مِنْکُمْ ہوسکتاہے نہ خلیفہ ہوسکتا ہے۔
پس ایک تو میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جب بھی وہ وقت آئے آخر انسان کے لئے کوئی دن آنا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابھی میں نے حوالہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی موت کی خبر دی اور فرمایا پریشان نہ ہو کیونکہ خداتعالیٰ دوسری قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے۔سو دوسری قدرت کا اگر تیسرا مظہر وہ ظاہر کرنا چاہے تو اُس کوکون روک سکتا ہے۔ہرانسان نے آخر مرنا ہے مگر میں نے بتایا ہے کہ شیطان نے بتادیا ہے کہ ابھی اس کا سر نہیں کچلا گیا۔وہ ابھی تمہارے اندر داخل ہونے کی اُمید رکھتا ہے''پیغامِ صلح'' کی تائید اور محمد حسن چیمہ کا مضمون بتاتا ہے کہ ابھی مارے ہوئے سانپ کی دُم ہل رہی ہے۔پس اُس کو مایوس کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ یہ نہ رکھا جائے کہ ملتان اور کراچی اور حیدر آباداور کوئٹہ اور پشاور سب جگہ کے نمائندے جو پانچ سو کی تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں وہ آئیں تو انتخاب ہو۔ بلکہ صرف ناظروں اور وکیلوں اور مقررہ اشخاص کے مشورہ کے ساتھ اگر وہ حاضر ہوں خلیفہ کا انتخاب ہوگا۔ جس کے بعد جماعت میں اعلان کردیا جائے گا اور جماعت اس شخص کی بیعت کرے گی۔ اس طرح وہ حکم بھی پورا ہوجائے گا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور وہ حکم بھی پورا ہوجائے گا کہ وہ ایسا مومنوں کے ہاتھ سے کرتا ہے۔درحقیقت خلافت کوئی ڈنڈے کے ساتھ تو ہوتی نہیں۔مرضی سے ہوتی ہے۔اگر تم لوگ ایک شخص کو دیکھو کہ وہ خلافِ قانون خلیفہ بن گیا ہے اور اس کے ساتھ نہ ہوتو آپ ہی اس کو نہ آمدن ہوگی نہ کام کرسکے گا ختم ہوجائے گا۔اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ خداتعالیٰ نے یہ چیز اپنے اختیار میں رکھی ہے لیکن بندوں کے توسّط سے رکھی ہے۔ اگر صحیح انتخاب نہیں ہوگا تو تم لوگ کہو گے کہ ہم تو نہیں مانتے۔جو انتخاب کا طریق مقرر ہوا تھا اس پر عمل نہیں ہوا۔تو پھر وہ آپ ہی ہٹ جائے گا۔اور اگر خدا نے اُسے خلیفہ بنایا تو تم فوراً اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوجاؤ گے جس طرح1914ء میں رائے بدلنے پر مجبور ہوگئے تھے۔اور جوق درجوق دوڑتے ہوئے اُس کے پاس آؤ گے اور اس کی بیعتیں کرو گے۔مجھے صرف اتنا خیال ہے کہ شیطان کے لئے دروازہ نہ کھلا رہے۔اس وقت شیطان نے حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹوں کو چُنا ہے جس طرح آدم کے وقت میں اُس نے درختِ حیات کو چُنا تھا۔اُس وقت بھی شیطان نے کہا تھا کہ آدم!میں تمہاری بھلائی کرنا چاہتا ہوں۔میں تم کو اس درخت سے کھانے کو کہتا ہوں کہ جس کے بعد تم کو وہ بادشاہت ملے گی جو کبھی خراب نہیں ہوگی۔اور ایسی زندگی ملے گی جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔سو اب بھی لوگوں کو شیطان نے اسی طرح دھوکا دیا ہے کہ لوجی!حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹوں کو ہم پیش کرتے ہیں۔گو آدم کو دھوکا لگنے کی وجہ موجود تھی تمہارے پاس کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیٹوں کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔کیونکہ ان کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ اپنے خاندان میں خلافت رکھنا چاہتے ہیں۔خلافت تو خدا اور جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے۔اگر خدا اور جماعت احمدیہ خاندانِ بنو فارس میں خلافت رکھنے کا فیصلہ کریں تو یہ حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹے کون ہیں جو اِس میں دخل دیں۔خلافت تو بہرحال خداتعالیٰ اور جماعت احمدیہ کے اختیار میں ہے۔اور خدا اگر ساری جماعت کو اس طرف لے آئے گا تو پھر کسی کی طاقت نہیں کہ کھڑا ہوسکے۔پس میں نے یہ رستہ بتا دیا ہے۔لیکن میں نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے جو عیسائی طریقۂ انتخاب پر غور کرے گی کیونکہ قرآن شریف نے فرمایا ہے کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ جس طرح اس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا اُسی طرح تم کو بنائے گا۔ سو میں نے کہاعیسائی جس طرح انتخاب کرتے ہیں اس کو بھی معلوم کرو۔ ہم نے اس کو دیکھا ہے۔گو پوری طرح تحقیق نہیں ہوئی وہ بہت سادہ طریق ہے۔اس میں جو بڑے بڑے علماء ہیں ان کی ایک چھوٹی سی تعداد پوپ کاانتخاب کرتی ہے اور باقی عیسائی دنیا اُسے قبول کرلیتی ہے۔لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی میں نے چند قواعد تجویز کردئیے ہیں جو اِس سال کی مجلس شوریٰ کے سامنے پیش کردئے جائیں گے تاکہ کسی شرارتی کیلئے شرارت کا موقع نہ رہے۔یہ قواعد چونکہ ایک ریزولیوشن کی صورت میں مجلس شوریٰ کے سامنے علیحدہ پیش ہوں گے اس لئے اس ریزولیوشن کے شائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے پُرانے علماء کی کتابیں پڑھیں تو اُن میں بھی یہی لکھا ہواپایا ہے کہ تمام صحابہؓ اور خلفاءؓ اور بڑے بڑے ممتاز فقیہہ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ خلافت ہوتی تو اجماع کے ساتھ ہے لیکن یہ وہ اجماع ہوتا ہے کہ یَتَیَسَّرَ اِجْتِمَاعُھُمْ 9جن ارباب حل وعقدکا جمع ہوناآسان ہو۔یہ مُراد نہیں کہ اِتنا بڑااجتماع ہوجائے کہ جمع ہی نہ ہوسکے اورخلافت ہی ختم ہوجائے بلکہ ایسے لوگوں کا اجتماع ہوگا جن کا جمع ہونا آسان ہو۔سو میں نے ایسا ہی اجماع بنادیا ہے جن کا جمع ہونا آسان ہے۔ اوراگر ان میں سے کوئی نہ پہنچے تو میں نے کہا ہے کہ اس کی غلطی سمجھی جائے گی۔انتخاب بہرحال تسلیم کیاجائے گا۔اور ہماری جماعت اس انتخاب کے پیچھے چلے گی۔مگر جماعت کو میں یہ حکم نہیں دیتا بلکہ اسلام کابتایا ہوا طریقہ بیان کردیتا ہوں تاکہ وہ گمراہی سے بچ جائیں۔
ہاں جہاں میں نے خلیفہ کی تجویز بتائی ہے وہاں یہ بھی شریعت کا حکم ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی پروپیگنڈا کیاجائے وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا یا جن لوگوں کے متعلق پروپیگنڈا کیاجائے وہ خلیفہ نہیں ہوسکتے۔یاجس کو خود تمنا ہو۔رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس کو وہ مقام نہ دیا جائے تو حضرت خلیفہ اوّل کی موجودہ اولاد بلکہ بعض پوتوں تک نے چونکہ پروپیگنڈا میں حصہ لیا ہے اس لئے حضرت خلیفہ اوّل کے بیٹوں یااُن کے پوتوں کا نام ایسے انتخاب میں ہرگز نہیں آسکے گا۔ایک تو اس لئے کہ انہوں نے پروپیگنڈا کیا ہے اور دوسرے اس لئے کہ اس بناء پر اُن کو جماعت سے خارج کیا گیا ہے۔پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواب بھی بتاتی ہے کہ اس خاندان میں صرف ایک ہی پھانک خلافت کی جانی ہے۔اور''پیغام صلح''نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ اس سے مراد خلافت کی پھانک ہے10۔پس میں نفی کرتا ہوں حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کی اور ان کے پوتوں تک کی یا تمام ایسے لوگوں کی جن کی تائید میں پیغامی یااحراری ہوں یا جن کو جماعتِ مبائعین سے خارج کیاگیاہو۔اور اثبات کرتا ہوں مِنْکُمْ کے تحت آنے والوں کا یعنی جو خلافت کے قائل ہوں۔ چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جسمانی ذرّیت ہوں یا روحانی ذرّیت ہوں۔تمام علماء سِلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعودؑ کی روحانی ذرّیت ہیں اور جسمانی ذرّیت تو ظاہر ہی ہوتی ہے انکا نام خاص طور پر لینے کی ضرورت نہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بیٹوں کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔اب روحانی ذرّیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دس لاکھ ہے اور جسمانی ذرّیت میں سے اس وقت صرف تین فرد زندہ ہیں ایک داماد کو شامل کیا جائے تو چار بن جاتے ہیں۔اتنی بڑی جماعت کیلئے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اِن میں سے کوئی خلیفہ ہو۔اس کا نام اگر یہ رکھا جائے کہ میں اپنے فلاں بیٹے کو کرنا چاہتا ہوں تو ایسے قائل سے بڑا گدھا اور کون ہوسکتاہے۔میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذرّیت جسمانی کے چار افراد اور دس لاکھ اِس وقت تک کی روحانی ذرّیت کو خلافت کا مستحق قرار دیتا ہوں(جو ممکن ہے میرے مرنے تک دس کروڑ ہوجائے)سو جوشخص کہتا ہے کہ اس دس کروڑ میں سے جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوں کسی کو خلیفہ چُن لو اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے نہایت احمقانہ دعویٰ ہے۔میں صرف یہ شرط کرتا ہوں کہ مِنْکُمْ کے الفاظ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کوئی خلیفہ چُنا جائے۔اور چونکہ حضرت خلیفہ اوّل کی نسل نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پیغامیوں کے ساتھ ہیں اور پیغامی ان کے ساتھ ہیں اور احراری بھی ان کے ساتھ ہیں اور غزنوی خاندان جو کہ سلسلہ کے ابتدائی دشمنوں میں سے ہے اُنکے ساتھ ہے اس لئے وہ مِنْکُمْ نہیں رہے۔اِن میں سے کسی کا خلیفہ بننے کے لئے نام نہیں لیا جائے گا۔اور یہ کہہ دینا کہ ان میں سے خلیفہ نہیں ہوسکتا یہ اس بات کے خلاف نہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خلیفہ خدا بناتا ہے تو اِن کے منہ سے وہ باتیں جو خلافت کے خلاف ہیں کہلوائیں کس نے؟اگر خدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو اُن کے منہ سے یہ باتیں کیوں کہلواتا؟اگرخدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو اُن کی یہ باتیں مجھ تک کیوں پہنچا دیتا؟جماعت تک کیوں پہنچا دیتا؟یہ باتیں خدا کے اختیار میں ہیں اس لئے ان کے نہ ہونے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے۔ اور جماعت احمدیہ مبائعین میں سے کسی کا خلیفہ ہونا بھی بتاتا ہے کہ خدا خلیفہ بناتا ہے۔دونوں باتیں یہی ثابت کرتی ہیں کہ خدا ہی خلیفہ بناتا ہے۔بہرحال جو بھی خلیفہ ہوگا وہ مِنْکُمْ ہوگا۔یعنی وہ خلافت احمدیہ کا قائل ہوگا اور جماعت مبائعین میں سے نکالا ہوا نہیں ہوگا۔اور میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ چُنا جائے وہ کھڑے ہوکر یہ قسم کھائے کہ میں خلافتِ احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا۔اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا۔اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا۔اوراگر میں بدنیتی سے کہہ رہا ہوں یا اگر میں دانستہ ایسا کرنے میں کوتاہی کروں تو خدا کی مجھ پر *** ہو۔جب وہ یہ قسم کھا لے گا تو پھر اس کی بیعت کی جائے گی اِس سے پہلے نہیں کی جائے گی۔اِسی طرح منتخب کرنے والی جماعت میں سے ہر شخص حلفیہ اعلان کرے کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اورکسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج ہو یا اس کا تعلق غیر مبائعین یا غیر احمدیوں سے ثابت ہو۔غرض پہلے مقررہ اُشخاص اس کا انتخاب کریں گے۔اس کے بعد وہ یہ قسم کھائے گا کہ میں خلافتِ احمدیہ حقّہ پرایمان رکھتا ہوں اور میں ان کو جو خلافتِ احمدیہ کے خلاف ہیں۔جیسے پیغامی یا احراری وغیرہ باطل پر سمجھتا ہوں۔
اب اِن لوگوں کودیکھ لو۔ان کے لئے کس طرح موقع تھا۔ میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں کہا کہ صراطِ مستقیم پر چلنے سے سب باتیں حل ہوجاتی ہیں۔یہ لوگ بھی صراط مستقیم پر چلیں۔ اور اس کا طریق یہ ہے کہ پیغامی میرے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اوّل کی ہتک کررہا ہے۔یہ اعلان کردیں کہ پیغامی جھوٹے ہیں۔ہمارا پچھلا بیس سالہ تجربہ ہے کہ پیغامی ہتک کرتے چلے آئے ہیں۔اور مبائعین نہیں کرتے رہے۔مبائعین صرف دفاع کرتے رہے ہیں۔مگر باوجود اس کے ان کو توفیق نہیں ملی اوریوں معافی نامے چھاپ رہے ہیں۔ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ اعلان کیا تو ہمارا اڈہ جو غیر مبائعین کا ہے اور ہمارا اڈہ جو احراریوں کاہے وہ ٹوٹ جائے گا۔سو اگر اڈہ بنانے کی فکر نہ ہوتی تو کیوں نہ یہ اعلان کرتے۔مگر یہ اعلان کبھی نہیں کیا۔چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے سنایا کہ عبدالمنان نے اُن سے کہا ہم اس لئے لکھ کر نہیں بھیجتے کہ پھر جرح ہوگی کہ یہ لفظ کیوں نہیں لکھا،وہ لفظ کیوں نہیں لکھا۔حالانکہ اگر دیانتداری ہے تو بیشک جرح ہوحرج کیا ہے۔جو شخص حق کے اظہار میں جرح سے ڈرتا ہے تو اس کے صاف معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ حق کو چھپانا چاہتاہے اور حق کے قائم ہونے کے مخالف ہے۔
غرض جب تک شوریٰ میں معاملہ پیش ہونے کے بعد میں اَور فیصلہ نہ کروں اوپر کا فیصلہ جاری رہے گا۔
تمہیں خوشی ہو کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت چلی تھی واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ تمہارے اندر بھی اُسی طرح چلے گی۔مثلاً حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓخلیفہ ہوئے۔میرا نام عمرؓ نہیں بلکہ محمود ہے مگر خدا کے الہام میں میرا نام فضل عمر رکھا گیا اور اُس نے مجھے دوسرا خلیفہ بنادیا۔جس کے معنے یہ تھے کہ یہ خدائی فعل تھا۔خداچاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خلافت بالکل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی خلافت کی طرح ہو۔میں جب خلیفہ ہوا ہوں تو ہزارہ سے ایک شخص آیا۔اُس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھی تھی کہ میں حضرت عمرؓ کی بیعت کررہا ہوں تو جب میں آیا تو آپ کی شکل مجھے نظر آئی۔اور دوسرے میں نے حضرت عمرؓ کوخواب میں دیکھا کہ اُن کے بائیں طرف سر پر ایک داغ تھا۔میں جب انتظار کرتا ہوا کھڑا رہا آپ نے سر کھجلایا اور پگڑی اُٹھائی تو دیکھا کہ وہ داغ موجود تھا۔اِس لئے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔پھر ہم نے تاریخیں نکالیں تو تاریخوں میں بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ کو بائیں طرف خارش ہوئی تھی اور سر میں داغ پڑگیا تھا۔ سو نام کی تشبیہ بھی ہوگئی او رشکل کی تشبیہ بھی ہوگئی۔ مگرایک تشبیہ نئی نکلی ہے۔وہ میں تمہیں بتا تا ہوں اس سے تم خوش ہوجاؤ گے وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓنے جب اپنی عمر کا آخری حج کیا تو اُس وقت آپ کو یہ اطلاع ملی کہ کسی نے کہاہے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت تو اچانک ہوگئی تھی یعنی حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ نے آپ کی بیعت کرلی تھی۔پس صرف ایک یا دو بیعت کرلیں تو کافی ہوجاتا ہے اور وہ شخص خلیفہ ہو جاتا ہے اور ہمیں خدا کی قسم! اگر حضرت عمرؓ فوت ہوگئے تو ہم صرف فلاں شخص کی بیعت کریں گے اور کسی کی نہیں کریں گے۔11 جس طرح غلام رسول 35 اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ خلیفۂ ثانی فوت ہوگئے تو ہم صرف عبدالمنان کی بیعت کریں گے۔دیکھو تو بھی حضرت عمرؓ سے مشابہت ہوگئی۔ حضرت عمرؓکے زمانہ میں بھی ایک شخص نے قسم کھائی تھی کہ ہم اَور کسی کی بیعت نہیں کریں گے فلاں شخص کی کریں گے۔اِس وقت بھی غلام رسول35 اور اس کے بعض ساتھیوں نے یہی کہا ہے۔جب حضرت عمرؓ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے یہ نہیں کیاجیسے مولوی علی محمد اجمیری نے شائع کیاتھا کہ آپ پانچ وکیلوں کا ایک کمیشن مقرر کریں جو تحقیقات کرے کہ بات کون سی سچی ہے۔حضرت عمرؓ نے ایک وکیل کا بھی کمیشن مقرر نہیں کیا اور کہا میں کھڑے ہوکر اس کی تردید کروں گا۔بڑے بڑے صحابہؓ اُن کے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا حضور! یہ حج کا وقت ہے اور چاروں طرف سے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ان میں بہت سے جاہل بھی ہیں۔ان کے سامنے اگر آپ بیان کریں گے تو نہ معلوم کیا کیا باتیں باہر مشہور کریں گے۔جب مدینہ میں جائیں تو پھر بیان کریں۔چنانچہ جب حضرت عمرؓحج سے واپس آئے تو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہوکر کہا کہ اے لوگو!مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کسی نے کہا ہے کہ ابوبکرؓ کی بیعت تو ایک اچانک واقعہ تھا اب اگر عمر مرجائے تو ہم سوائے فلاں شخص کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے۔ پس کان کھول کر سن لو کہ جس نے یہ کہا تھا کہ ابوبکرؓ کی بیعت اچانک ہوگئی تھی اُس نے ٹھیک کہاہے۔لیکن خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو اس جلد بازی کے فعل کے نتیجہ سے بچا لیا۔اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی شخص ابو بکرؓ کی مانند نہیں جس کی طرف لوگ دُور دُور سے دین اور روحانیت سیکھنے کیلئے آتے تھے۔پس اس وہم میں نہ پڑو کہ ایک دو آدمیوں کی بیعت سے بیعت ہوجاتی ہے اور آدمی خلیفہ بن جاتا ہے۔کیونکہ اگر جمہور مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی شخص نے کسی کی بیعت کی تو نہ بیعت کرنے والے کی بیعت ہوگی اور نہ وہ شخص جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ ہوجائے گا بلکہ دونوں اس بات کا خطرہ محسوس کریں گے کہ سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں اور ان کا کیا کرایا اکارت ہوجائے گا12۔حالانکہ ابوبکرؓ کی بیعت صرف اِس خطرہ سے کی گئی تھی کہ مہاجرین اورانصار میں فتنہ پیدا نہ ہوجائے۔مگر اس کو خداتعالیٰ نے قائم کردیا۔پس وہ خدا کا فعل تھا۔نہ کہ اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ کوئی ایک دو شخص مل کر کسی کو خلیفہ بنا سکتے ہیں۔
پھر علامہ رشید رضا نے احادیث اور اقوال فقہاء سے اپنی کتاب''الخلافہ'' میں لکھا ہے کہ خلیفہ وہی ہوتا ہے جس کومسلمان مشورہ سے اور کثرت رائے سے مقرر کریں۔مگر آگے چل کر وہ علّامہ سعدالدین تفتازانی مصنف شرح''المقاصد''اور علّامہ نووی وغیرہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا جمع ہونا وقت پر مشکل ہوتا ہے۔پس اگر جماعت کے چند بڑے آدمی جن کا جماعت میں رسوخ ہوکسی آدمی کی خلافت کا فیصلہ کریں اور لوگ اُس کے پیچھے چل پڑیں توایسے لوگوں کا اجتماع سمجھا جائے گا اور سب مسلمانوں کااجتماع سمجھا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہوگا کہ دنیا کے سب مسلمان اکٹھے ہوں اور پھر فیصلہ کریں13۔اِسی بناء پر میں نے خلافت کے متعلق مذکورہ بالا قاعدہ بنایا ہے جس پر پچھلے علماء بھی متفق ہیں۔محدثین بھی اور خلفاء بھی متفق ہیں۔پس وہ فیصلہ میرا نہیں بلکہ خلفائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے او رصحابہ کرامؓ کا ہے اور تمام علمائے اُمت کا ہے جن میں حنفی، شافعی، وہابی سب شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے آدمی سے مراد یہ ہے کہ جو بڑے بڑے کاموں پر مقرر ہوں جیسے ہمارے ناظر ہیں اور وکیل ہیں۔ اور قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مومنوں کی جماعت کو مخاطب کیاگیا ہے وہاں مراد ایسے ہی لوگوں کی جماعت ہے۔نہ کہ ہر فردِ بشر۔یہ علّامہ رشید کا قول ہے کہ وہاں بھی یہ مراد نہیں کہ ہر فردِ بشر بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے آدمی14 پس صحابہؓ،احادیثِ رسول اور فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت مسلمانوں کے اتفاق سے ہوتی ہے مگر یہ نہیں کہ ہر مسلمان کے اتفاق سے بلکہ ان مسلمانوں کے اتفاق سے جو مسلمانوں میں بڑا عہدہ رکھتے ہوں یا رسوخ رکھتے ہوں اور اگر ان لوگوں کے سوا چند اوباش مل کر کسی کی بیعت کرلیں تو نہ وہ لوگ مبائع کہلائیں گے اور نہ جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ کہلائے گا۔15
اَب خلافتِ حقّہ اسلامیہ کے متعلق میں قرآنی اور احادیثی تعلیم بھی بتا چکا ہوں اور وہ قواعد بھی بیان کرچکا ہوں جو آئندہ سلسلہ میں خلافت کے انتخاب کیلئے جاری ہونگے۔چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔نہ معلوم میں اُس وقت تک رہوں یا نہ رہوں اس لئے میں نے اوپر کا قاعدہ تجویز کردیا ہے تاکہ جماعت فتنوں سے محفوظ رہے۔’’
(ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
دوسرے حصۂ تقریر ‘‘نظام آسمانی کی مخالفت اور اُس کا پسِ منظر’’ بیان کرنے سے قبل متفرق امور کی بابت حضور نے فرمایا:-
متفرق امور
‘‘تقریر سے پہلے میں چند باتیں تمہیدی طور پر سلسلہ کے کام کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
کل میں نے کہاتھا کہ تقریر کا امتحان لیا جائے گا۔میرے پاس بعض لڑکیوں کی طرف سے یہ شکایت پہنچی ہے کہ سننے والے مردوں میں تو علماء بھی ہوں گے ہمارا ان کے ساتھ کیا مقابلہ ہے اس لئے آپ مختلف گروپ مقرر کریں۔ چنانچہ ان کی یہ بات مجھے ٹھیک معلوم ہوئی۔اس لئے اَب میں نئے گروپ یہ مقررکرتا ہوں کہ چار امتحان ہوں گے۔ایک25سال سے نیچے کی عمر والے مردوں کا اور ایک 25سال سے اوپر والے مردوں کا۔ اِسی طرح ایک پچیس سال سے نیچے عمر والی لڑکیوں کا اور ایک25سال سے اوپر عمر والی عورتوں کا۔اس طرح کوئی شکایت نہیں رہے گی اور ہر عمر اور طبقہ کے آدمی اپنے اپنے میدان میں آسکیں گے اور ہر ایک کو اس میں تین انعام ملیں گے۔ گویا اس طرح12انعام ہوجائیں گے۔چھ عورتوں کے ہوجائیں گے اور چھ مردوں کے ہوجائیں گے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عام طور پر ہمارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک جدید میں صرف پانچ سات مبلغ کام کررہے ہیں اِس لئے جماعت والے سمجھتے نہیں کہ یہ لاکھوں لاکھ چندہ ہم سے کیوں مانگا جاتا ہے۔میں نے آج مبلغین کی لسٹ بنوائی ہے۔ دیکھو انگلستان میں دو مبلغ کام کررہے ہیں، سوئٹزرلینڈ میں ایک مبلغ کام کررہا ہے۔ جرمنی میں دو مبلغ کام کررہے ہیں۔ہالینڈ میں دو مبلغ کام کررہے ہیں۔ سکنڈے نیویا میں ایک کام کررہا ہے۔ سپین میں ایک کام کررہا ہے۔ امریکہ میں پانچ کام کررہے ہیں جن میں سے ایک جرمن بھی ہے۔ٹرینیڈاڈ میں ایک کام کررہا ہے۔گریناڈا جو ٹرینیڈاڈ کے پاس ایک جزیرہ ہے اس میں ایک مبلغ ہے جو انگریز ہے۔سیر الیون میں8مبلغ کام کررہے ہیں جن میں پاکستانی پانچ ہیں اور مقامی تین ہیں۔گولڈ کوسٹ میں78مبلغ کام کررہے ہیں۔جن میں سے پاکستانی پانچ ہیں اور مقامی73ہیں۔نائیجیریا میں6مبلغ کام کررہے ہیں۔مشرقی افریقہ میں20مبلغ کام کررہے ہیں جن میں پاکستانی7ہیں اور مقامی13ہیں۔ شام میں ایک کام کررہا ہے۔مصر میں ایک پاکستانی ہے۔اسرائیل میں ایک پاکستانی ہے۔ماریشس میں دو پاکستانی ہیں مقامی ایک ہے۔لبنان میں ایک پاکستانی ہے۔سیلون میں دو مبلغ ہیں جن میں سے ایک پاکستانی ہے اورایک مقامی ہے۔برما میں ایک پاکستانی ہے۔سنگاپور میں تین مبلغ ہیں جن میں سے پاکستانی دو ہیں اور مقامی ایک ہے۔برٹش نارتھ بورنیو میں دو مبلغ کام کررہے ہیں جو دونوں پاکستانی ہیں۔انڈونیشیا میں دس مبلغ کام کررہے ہیں جن میں سے چار پاکستانی ہیں اورمقامی چھ ہیں۔مسقط میں ایک ہے جو پاکستانی ہے۔لائبیریا میں ایک ہے جو پاکستانی ہے۔ڈچ گی آنا میں ایک ہے جو پاکستانی ہے۔یہ سارے155ہیں۔
اِن میں وہ مبلغین شامل نہیں جو باہر کام کرتے تھے لیکن اِس وقت چھٹی پر ہیں ایسے مبلغین کی تعداد23ہے۔ان ساروں کو ملا کر یہ لسٹ178کی بن جاتی ہے۔ آپ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ پانچ چھ آدمی ہیں اور باہر تنگ سے تنگ اور ادنیٰ سے ادنیٰ گزارہ بھی20پونڈ ماہوار میں ہوتا ہے۔اگردس پونڈ بھی فرض کرلیں تو178مبلغین کا خرچ1780پونڈ بن جاتا ہے اور اگر 20پونڈ خرچ ہوتو3560پونڈ بن جاتا ہے۔ مشنوں کے کرائے اور ان کے دَوروں کے اخراجات اور لٹریچر کی اشاعت یہ ساری رقم مل کر کم سے کم بارہ ہزار پونڈ بن جاتی ہے۔ اور پھر مرکزی اخراجات علیحدہ ہیں اور آنے جانے کے کرائے الگ ہیں۔ یہ سارا خرچ ملاکر قریباً بیس ہزار پونڈ بنتا ہے اور بیس ہزار پونڈ تین لاکھ روپیہ کے قریب بن جاتا ہے۔ اورپھر قرآن مجید کی اشاعت ہے اور دوسری اشاعتیں ہیں یہ ساری ملکر پانچ ، چھ لاکھ روپیہ سالانہ کا خرچ بن جاتا ہے۔آپ لوگ خیال کرلیتے ہیں پانچ ، چھ مبلغ ہیں۔ پانچ ، چھ مبلغ نہیں بلکہ ہمارے مبلغ خدا کے فضل سے178ہیں جو اِس وقت کام کررہے ہیں اور ابھی بہت سے مبلغ تیار ہور ہے ہیں۔ اگر یہ نئے مبلغ باہر ملکوں میں گئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ سات سو مبلغ کام کرنے والے ہوجائیں گے اورابھی انڈیا کے مبلغ ہم نے نہیں لئے۔یہ سارے ملا کر ایک بہت بڑی تعداد بن جاتی ہے۔
اس سال سلسلہ نے مگبورکا میں جو سیرالیون میں ایک جگہ ہے ایک شاندار مسجد تعمیر کی ہے جس پر پانچ سو پاؤنڈ خرچ ہوچکا ہے یعنی سات ہزار روپیہ۔ اور ابھی تین سو پاؤنڈ اَور خرچ ہوگا اور اس طرح دس ہزار روپیہ خرچ ہوجائے گا۔
مشرقی افریقہ میں دارالسلام میں ایک عالیشان مسجد تعمیر ہورہی ہے اور دارالتبلیغ تعمیر ہورہا ہے۔انڈونیشیا میں پاڈانگ میں ایک مسجد تیار ہورہی ہے جس پر اڑھائی تین لاکھ روپیہ خرچ کا اندازہ ہے۔اِسی طرح جاوا، سماٹرا،سولاویسی16 (سیلبس)میں چار نئی مساجد قائم کی گئی ہیں۔جرمنی میں ہیمبرگ مقام میں مسجد کے لئے زمین خریدی جاچکی ہے پلان کی منظوری آجائے تو کام شروع ہوجائے گا۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی گورنمنٹ ہم کو ایکسچینج دے ابھی تک انہوں نے منظور نہیں کیا۔جب وہ منظور ہوجائے گا تو وہ کام بھی شروع ہوجائے گا اِس مسجد پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے قریب خرچ ہوگا(جس میں سے چوبیس ہزار جمع ہوچکا ہے)سوالاکھ کے قریب ابھی اور روپیہ چاہئیے۔
عورتوں نے ہالینڈ کی مسجد کا چندہ اپنے ذمہ لیا تھا مگر اس پر بجائے ایک لاکھ کے جو میرا اندازہ تھا ایک لاکھ چوہتّر ہزار روپیہ خرچ ہوا۔اٹھہتّرہزار اُن کی طرف سے چندہ آیا تھا گویا ابھی چھیانوے ہزار باقی ہے۔ پس عورتوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ وہ چھیانوے ہزار روپیہ جلد جمع کریں تاکہ مسجد ہالینڈ ان کی ہوجائے۔
مسجد ہالینڈ کا نقشہ بن کر آگیا ہے جس میں بجلی بھی لگی ہوئی ہے اور مسجد خوب نظر آ جاتی ہے۔لجنہ اماء اللہ نے اس کا بھی چندہ رکھا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ دو آنے کا ٹکٹ ضرور لیں۔زیادہ کی توفیق ہو تو زیاہ کا ٹکٹ لے کر مسجد دیکھ لیں جس کا نقشہ بن کر آیا ہے اور انہوں نے اس کے اندر بجلی کا بھی انتظام کیا ہوا ہے۔ بجلی سے اندر روشنی ہوجاتی ہے اور پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیسی شاندار مسجد ہے۔ مگر ہمارے پروفیسرٹلٹاک جو جرمنی کے ایک پروفیسر ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہیمبرگ کی مسجد کا جو ہمارے ذہن میں نقشہ ہے وہ ہالینڈ کی مسجد سے زیادہ شاندار ہو گا۔
نئے مشن بھی ہم خدا کے فضل سے کھول رہے ہیں اور ان کے ساتھ مبلغ بھی بڑھیں گے۔ مثلاً مشرقی افریقہ سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ جنوبی روڈیشیا(یہ افریقہ کے ساحل پر ایک بہت بڑا علاقہ ہے)اور نیا سالینڈ اوربلجین کانگو17 میں ہمارے سواحیلی اخبار اور سواحیلی ترجمہ قرآن مجید بھجوائے گئے تھے وہاں لوگ بکثرت احمدیت کی طرف مائل ہورہے ہیں اور بلجین کانگو کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں سینکڑوں احمدی ہوچکے ہیں اور ان ملکوں کے لوگوں نے مبلغین کا مطالبہ کیاہے۔
فلپائن جو امریکہ کے ماتحت ایک علاقہ ہے اور نہایت اہم ہے پہلے یہاں مسلمان آبادی تھی سارا علاقہ مسلمان تھا اور ترکوں اور عربوں کے ماتحت تھا (اب آزاد ہوچکا ہے)سپین نے اس کو فتح کیا اور جس طرح سپین نے اپنے ملک سے مسلمانوں کو نکال دیاتھا اسی طرح فلپائن پر حملہ کرکے اس نے اس کو فتح کیا اور تلوار کے نیچے گردنیں رکھ کرسب سے اقرار کروایا کہ ہم مسلمان نہیں عیسائی ہیں۔ تمہاری غیرت کا تقاضا تھا کہ تم وہاں جاؤ۔سپین کے متعلق بھی تمہاری غیرت کا تقاضا تھا۔ ہم نے وہاں مبلغ بھجوایا لیکن پاکستانی گورنمنٹ زور دے رہی ہے کہ اس مبلغ کو واپس بُلا لو کیونکہ سپینش گورنمنٹ کہتی ہے کہ ہم یہاں تبلیغ کی اجازت نہیں دے سکتے۔ حالانکہ ان کو چاہئیے تھا کہ وہ سپین گورنمنٹ کو کہتے کہ تم کو یہ کوئی حق نہیں کہ تم ہمارے مبلغ کو نکالو۔ہمارے ملک میں بیسیوں عیسائی مبلغ ہیں اگرتم اسے نکالوگے تو ہم بھی تمہارے مبلغوں کو نکال دیں گے۔ لیکن بجائے اس کے انہوں نے مغربی پاکستان کی گورنمنٹ کو لکھا اور مغربی پاکستان کی گورنمنٹ نے مجھے لکھا کہ اس مبلغ کو واپس بلالو۔سپینش گورنمنٹ پسند نہیں کرتی۔ اِدھر فلپائن کے جو لوگ ہیں وہ بھی چونکہ نئے عیسائی ہیں پہلے مسلمان تھے۔ان میں بھی تعصب زیادہ ہے۔ان کے ہاں بڑی کوشش کی گئی کہ کسی طرح وہاں مبلغ جائے لیکن وہاں سے اجازت نہیں مل سکی۔ جب کبھی ویزا کے لئے کوشش کی جاتی ہے وہ انکار کردیتے ہیں۔ مگر ہمارا خدا حکومتوں سے بڑا خدا ہے۔ فلپائن گورنمنٹ یا امریکی گورنمنٹ اگر وہاں جانے سے روکے گی تو بنتا کیا ہے۔اللہ نے ایسا سامان کردیا کہ پچھلے سال جاپان میں ایک مذہبی انجمن بنی۔اُس نے مجھے چِٹھی لکھی کہ اپنا کوئی مبلغ بھجوائیں۔ میں نے خلیل ناصر صاحب جو واشنگٹن کے مبلغ ہیں ان کو وہاں بھجوادیا۔وہ وہاں گئے تو وہاں سے ان کو موقع لگا کہ وہ واپسی میں کچھ دیر فلپائن ٹھہر جائیں۔جب وہ فلپائن ٹھہرے تو فلپائن کے کئی لوگ اُن سے آکر ملے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ابھی بعض جگہوں پر اسلام کا نام باقی ہے اور مسلمان جنگلوں میں رہتے ہیں۔آپ ہمارے ہاں مبلغ بھیجیں تو ہم آپ کی مدد کریں گے اور اسلام پھیلائیں گے۔ انہوں نے مجھے لکھا ہم نے کوشش شروع کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔گورنمنٹ ویزا دینے سے انکار کرتی رہی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے سامان کیا۔ وہ لوگ جو خلیل ناصر صاحب سے ملے تھے ان میں سے ایک پر اثر بہت زیادہ ہوگیا تھا۔اُس نے خط لکھا کہ میں زندگی وقف کرکے اسلام پھیلانا چاہتاہوں اور ربوہ آنا چاہتا ہوں کیاآپ میرے لئے انتظام کریں گے؟ہم نے اس کو فوراً لکھ دیا کہ بڑی خوشی سے آؤ یہ تو ہماری دلی خواہش ہے چنانچہ جس ملک میں سے تلوار کے زور سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو نکالا گیا تھا ہم اس ملک کو دلائل کے ذریعہ سے پھرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی گود میں لاکر دم لیں گے۔
وہ جس نے ہمیں لکھا تھا اس کوکوئی مشکل پیش آئی اس لئے وہ تو نہ آسکا مگر اس کے ذریعہ ایک اَور احمدی ہوا۔وہ احمدی کسی فرم میں ملازم تھا۔وہ وہاں سے بورنیو آ گیا۔ وہاں ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب جو خان صاحب فرزند علی صاحب کے بیٹے ہیں اور مفت تبلیغ کررہے ہیں، ڈاکٹری بھی کرتے ہیں اور تبلیغ بھی کرتے ہیں ان سے ملا اور وہاں اس نے اسلام سیکھنا شروع کیا۔اَب اُس کا خط آیا ہے کہ میں بڑی کوشش کررہا ہوں کہ فرم مجھے چھوڑدے تو میں آجاؤں۔ پھر اس کے کہنے پر کچھ اَور لٹریچر فلپائن بھیجا گیا۔ پہلے وہاں سے سولہ بیعتیں آئی تھیں۔اس ضمن میں ایک کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے وہاں کے مسلمانوں کی جو انجمن تھی اسے تبلیغ شروع کردی۔ ان میں سے کسی کو لٹریچر پسند آگیااور اس نے آگے تبلیغ شروع کردی۔پہلے سولہ بیعتوں کی اطلاع آئی تھی ا س کے بعد ستائیس بیعتیں آئیں گویا43ہوگئیں۔اس کے بعد پھر اٹھارہ بیعتیں آئیں۔یہ سارے مل کر61ہوگئے۔ اور اب اطلاع آئی ہے کہ اَور لوگ بھی تیار ہیں۔ بلکہ انہوں نے لکھا ہے کہ جتنے کالج کے لڑکے ہیں یہ سارے مسلمان ہوجائیں گے اور احمدی بن جائیں گے۔ تو فلپائن گورنمنٹ نے ہمارا راستہ روکا تھا لیکن خدا نے کھول دیا ہے اور جہاں ایک مسلمان کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی وہاں61آدمی بیعت کرچکا ہے اور کالج کے باقی سٹوڈنٹ کہتے ہیں کہ ہمیں جلدی بیعت فارم بھیجو۔ ابھی انہوں نے100بیعت فارم کے متعلق لکھا ہے کہ جلدی بھیجو سب لڑکے تیارہورہے ہیں۔اب جس ملک کے کالج کے لڑکے مسلمان ہوجائیں گے سیدھی بات ہے کہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر مقرر ہوں گے اور جہاں جائیں گے اسلام کی تبلیغ کریں گے کیونکہ اسلام چیزہی ایسی ہے کہ جو ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیتا ہے پھر وہ چُپ نہیں رہ سکتا۔
میرے دوست پروفیسر ٹلٹاک اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں جب مَیں بیماری میں علاج کرانے کے لئے گیا تو ہیمبرگ میں بھی گیامولوی عبداللطیف صاحب جو ہمارے مبلغ ہیں وہ ان کو لائے اور کہنے لگے یہ پروفیسر ٹلٹاک ہیں ان کو اسلام کا بڑا شغف ہے۔یہ کیل (KEELE) میں یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔آپ کا ذکر سن کر کیل سے آئے ہیں مگر کہتے ہیں میں نے الگ بات کرنی ہے۔میں نے کہا بڑی خوشی سے الگ بلالو اَور لوگ چلے جائیں۔ چنانچہ وہ آگئے انہوں نے تھوڑی دیر بات کی اور پھر کہنے لگے میں نے بیعت کرنی ہے۔ میں نے کہابہت اچھا کرلیجئے۔ میں نے پوچھا کہ اسلام سمجھ لیا ہے؟ کہنے لگے ہاں میں نے سمجھ لیا ہے۔ مگر کسی کو پتہ نہ لگے میں بڑا مشہور آدمی ہوں۔ میں نے کہابہت اچھی بات ہے۔ہمیں آپ کو مشہور کرنے کا کیا شوق ہے۔آپ کی خدا سے صلح ہوگئی کافی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد پاس کے کمرہ میں کچھ جرمن دوست نماز پڑھنے کے لئے آئے تھے۔میں نماز پڑھانے کے لئے اُس کمرہ میں گیا۔ جب نماز پڑھ کے میں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ صف کے آخر میں وہ پروفیسرٹلٹاک بیٹھے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ میرا کسی کو پتہ نہ لگے۔میں نے مولوی عبداللطیف صاحب سے کہاکہ پروفیسرصاحب سے ذرا پوچھو کہ آپ تو کہتے تھے کہ میرے اسلام کا کسی کو پتہ نہ لگے اور آپ تو سارے جرمنوں کے سامنے نماز پڑھ رہے ہیں تو اب تو پتہ لگ گیا۔ کہنے لگے میں نے پوچھا تھا۔ یہ کہنے لگے میں نے سمجھا کہ یہاں ان کے آنے کا کیا واسطہ تھا،خدا انہیں میری خاطر لایا ہے تو اب خلیفہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع جو خدا نے مجھے میسر کیا ہے یہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے چنانچہ نماز پڑھ لی۔ اب یاتو وہ وہاں کہتے تھے کہ میرا اسلام ظاہر نہ ہو اور یا یہاں آکے بیٹھے ہوئے ہیں۔’’
اِس موقع پر دوستوں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب انہیں دکھلا دیئے جائیں۔ چنانچہ پروفیسر صاحب سٹیج پر تشریف لے آئے اور حضور نے فرمایا:
‘‘ یہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب ہیں جو جرمنی سے آپ لوگوں کو دیکھنے آئے ہیں اور آپ ان کو دیکھنے آئے ہیں۔
دوسری خوشخبری یہ ہے کہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب یہ خبر لائے ہیں کہ جرمنی میں چار شہروں میں جماعتیں قائم ہوگئی ہیں۔ایک بیعت پیچھے الفضل میں شائع ہوئی ہے تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ اس نَو مسلم کی بیوی نے بھی بیعت کرلی ہے۔سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ پیغامیوں نے منافقین کو کہا تھاکہ ہمارا سٹیج تمہارے لئے ہے۔ہماری تنظیم تمہارے لئے ہے۔آج ہی جس وقت مَیں چلنے لگا ہوں تو مولوی عبداللطیف صاحب کی چِٹھی پہنچی کہ ایک جرمن جو پیغامیوں کے ذریعہ سے مسلمان ہؤا تھا وہ میرے پاس آیا اور میں نے اس کو تبلیغ کی اور وہ بیعت کا خط آپ کو بھجوا رہا ہے تو اُن کی وہ تنظیم خدا نے ہمیں دے دی۔جس طرح ابوجہل کا بیٹا عکرمہؓ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گیا تھا۔اِسی طرح پیغامیوں کا کیاہوا نَومسلم ہمیں مل چکا ہے۔آج ہی اس کے بیعت کا خط آگیا ہے۔
وکالتِ تبشیر نے کہا ہے کہ باہرسے متواتر لٹریچر کی مانگ آرہی ہے۔میں نے عزیزم داؤد احمد کو جسے انگریزی کا اچھا شوق ہے ولایت میں کچھ عرصہ پڑھنے کے لئے رکھا تھا اور وہ انگریزی پڑھ کے آیا ہے۔میں نے تحریک کوکہا کہ اس کو ترجمہ پر لگادو تو انہوں نے کہا ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے۔ گویا اِدھر تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے لئے ہمیں لٹریچر چاہئیے اور اُدھر وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس گنجائش نہیں یہ کیا؟تم فاقے رہ جاتے اور لٹریچر شائع کرتے۔یہ وکالت والوں کی غلطی ہے وہ بجٹ کو صحیح طور پر تقسیم نہیں کرتے۔ اگر صحیح طور پر تقسیم کریں تو ہمارے پاس بڑی گنجائش ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم ساری دنیا کو لٹریچر سے بھر سکتے ہیں۔
تازہ رپورٹ سے پتہ لگتا ہے کہ پیغامی جو کچھ یہاں کرتے رہے ہیں وہ دوسرے ملکوں میں بھی انہوں نے کرنا شروع کردیا ہے۔رشید ہمارا مبلغ ڈچ گی آنا میں گیا۔ وہاں بھی پیغامیوں کا زور تھا پہلے اطلاع آئی تھی کہ دو سوپیغامیوں نے بیعت کرلی ہے اور وہ احمدی ہوگئے ہیں۔اَب پَرسوں تَرسوں دوسری اطلاع آئی ہے کہ دوسو نہیں چار سو تک تعداد پہنچ چکی ہے۔ اَب اس کے بعد رشید صاحب کی اطلاع آئی ہے کہ ایک اَور خاندان احمدی ہورہا ہے جس کے آٹھ افراد ہیں۔ اِسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ عبدالعزیزجمن بخش جو ہمارے ہاں تعلیم پارہے ہیں اور ڈچ گی آنا کے ہیں اُن کا بہنوئی سخت متعصب پیغامی ہے۔اس نے ایک عورت کو بہت سی لالچ دی اور بہت سا روپیہ دیا کہ اس مبلغ کی دعوت کر اور زہر ملاکر اس کو مار دے لیکن حُسنِ اتفاق ہے خدااس کا محافظ تھا،اس کی باتیں اپنی بیوی سے کرتے ہوئے اُس کی ہمسائی نے سن لیں۔اُس ہمسائی نے ایک دوسری ہمسائی کو بتادیا۔اس کا خاوند بھی احمدی تھا اُس نے آکر اِس کو بتادیا کہ یہ آپ کے خلاف کارروائی ہورہی ہے۔ سارے علاقہ میں بات پھیل گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غیر احمدی بھی تُھوتُھو کر رہے ہیں کہ تم لوگ اپنے مبلّغوں کو مرواتے ہو۔ پس دعائیں کرتے رہا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغین کی حفاظت فرمائے۔ایک ایک آدمی ہم بیس بیس سال میں تیار کرتے ہیں اگر یہ زہر دے کر مار دیں تو ہماری بیس سال کی محنت ضائع ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ ان کاحافظ وناصر ہو اور جہاں وہ جائیں اُن کے ہاتھوں پر ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام قبول کریں۔
پھر میں احباب کو اِدھر توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے پچھلے سال بھی کہا تھا کہ ریویوآف ریلیجنز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ دس ہزار اس کی اشاعت ہونی چاہئیے۔اَب سنا ہے کہ تیرہسَو کی اشاعت ہوئی ہے مگر کُجا دس ہزار اور کُجا تیرہسَو ، مَیں سمجھتا ہوں کہ بجائے تحریک کرنے کے ہمیں اب عملی قدم اٹھانا چاہئیے اس لئے میں ایڈیٹر صاحب ریویو کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فی الحال تیرہسَو کی بجائے تین ہزار تین سو چھپوانا شروع کردینگے۔اگلے سال تک ہم کوشش کریں گے کہ دس ہزار ہوجائے۔ سو تین ہزار تین سو چھپوانا شروع کردیں اور قیمت گرا دیں۔ جو ہندوستانی انگریزی ریویوخریدیں ان کو دوروپیہ میں وہ دیدیا کریں اور جوغیر ملکی خریدیں ان سے صرف ڈاک کا خرچ لے لیا کریں۔اگلے سال ہم اس کو دس ہزار کردیں گے۔ اس طرح دوہزار پرچہ بڑھے گا۔اس کے لئے کچھ تو ہندوستانی خریداروں سے قیمت آجائے گی کچھ باہر والے خریداروں سے قیمت آجائے گی۔باقی زیادہ چَھپنے کی وجہ سے قریباً بارہ ہزار کا خرچ رہ جائے گا۔تحریک جدید او رانجمن کو میں مجبور کروں گا کہ وہ چھ ہزار دیں اور چھ ہزار جماعت سے چندہ کی تحریک کروں گا۔ہماری جماعتیں اَب خدا کے فضل سے اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ افریقہ کے جو نئے حبشی ہیں اُن میں سے ایک شخص نے پندرہ سو پاؤنڈ مسجد کے لئے دے دیا یعنی بیس ہزار روپیہ۔ حالانکہ وہ شخص ایسا تھا جو پہلے کہتا تھا کہ دریا رُخ بدل لے تو بدل لے مگر میں نہیں مسلمان ہونے کا۔ وہ شخص مسلمان ہوتا ہے اور اپنی خوشی سے پندرہ سو پاؤنڈ یعنی بیس ہزار روپیہ لاکر دے دیتا ہے اُس ملک میں تولوگ غریب ہیں۔ہماری جماعت میں یہاں بڑے بڑے امیر ہیں ان سے چھ ہزار یا دس ہزار یا بیس ہزار سالانہ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ خواہش پوری کرنا کہ ریویو کی دس ہزار اشاعت ہوجائے کون سا مشکل امر ہے۔ پس اس سال وہ تین ہزار اشاعت کر دیں۔ اگلے چھ مہینے تک ہم اسے چھ ہزار کرنے کی کوشش کرینگے۔ لیکن وہ ایک مینیجر مقرر کریں جو قیمتیں وصول کرے۔اس سے پہلے ان سے غفلت ہوتی رہی ہے اور قیمتیں صحیح نہیں وصول ہوئیں۔اگلے جلسہ سالانہ تک ہم انشاء اللہ دس ہزار شائع کریں گے۔ کچھ لوگوں سے قیمت وصول کریں گے، کچھ جماعت سے وصول کریں گے، کچھ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک سے وصول کریں گے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو ہم اگلے سال خدا چاہے تو ضرور پورا کردیں گے۔ اِس سال اِس خواہش میں قدم بڑھانے کے لئے ہم تیسرا حصہ ادا کرتے ہیں اور چھ مہینہ تک ہم انشاء اللہ نصف سے زیادہ کردیں گے اور خدا تعالیٰ زندہ رکھے اور توفیق دے تو اگلے سال انشاء للہ ہم دس ہزار کی خواہش پوری کردیں گے۔ اور کوشش کریں گے کہ اس سے اگلے سال حضرت صاحب کی خواہش سے دُگنی تعداد ہوجائے یعنی بیس ہزار ہوجائے۔ اس طرح بڑھاتے بڑھاتے ہمارا پروگرام یہ ہوگاکہ حضرت صاحب نے دس ہزار کہا تھا ہم لاکھ تک اِس کی خریداری پہنچا دیں۔’’
اِس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ:۔
‘‘محمد صدیق صاحب کلکتہ والے لکھتے ہیں کہ رسالہ ریویو انگریزی کے لئے یک صد رسالہ کا چندہ مبلغ دوصد روپیہ مَیں اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔ خداتعالیٰ نے ان کوتوفیق دی ہے۔انشاء اللہ ثواب ہوگا۔میری نیت بھی چندہ دینے کی ہے اور انشاء اللہ اِس سے زیادہ ہی دونگا۔
پھر قرآن شریف کے ترجمہ کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اُردو کا ترجمہ تیار ہوگیا ہے۔اورایک جِلد تفسیر کی بھی تیار ہوگئی ہے جس کا پانچ سو صفحہ انشاء اللہ شوریٰ تک چَھپ جائیگا۔تفسیر لمبی ہوگئی ہے میں نے چھوٹی رکھنے کا فیصلہ کیاتھا لیکن غالباً سورۃ طٰہٰیاسورۃ انبیاء تک پانچ سو صفحے پورے ہوجائیں گے۔
الشرکة الاسلامیہ والے کہتے ہیں کہ ہم نے کتابیں چھاپی ہیں۔ضرورت الامام، رازِ حقیقت،نشانِ آسمانی،آسمانی فیصلہ، کشف الغطاء، دافع البلاء،ستارہ قیصریہ اس کی سفارش کرو حالانکہ مَیں تو اس کو بے شرمی سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لکھی ہوئی کتاب ہو او رمیں سفارش کروں۔ کیا کسی غلام کے منہ سے یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے آقاکی کتاب کی سفارش کرے۔ اور کرے بھی ان کے پاس جو اپنے آپ کوفدائی کہتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو لکھا ہے کہ جس شخص نے میری کتابیں کم سے کم تین دفعہ نہیں پڑھیں میں نہیں سمجھتا کہ وہ احمدی ہے18۔ تو اب ہماری جماعت تو دس لاکھ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ پس تین دفعہ اگر وہ کتابیں پڑھیں بلکہ ایک ایک کتاب بھی خریدیں اور تین سال وہی پڑھ لیں تو پھر آگے اولاد بھی ہوتی ہے تب بھی دس لاکھ کتاب لگ جاتی ہے۔ لیکن انہوں نے جن کتابوں کی لسٹ مجھے دی ہے وہ ساری کی ساری شاید کوئی بیس ہزار ہیں تو ایسی کتابوں کے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لکھی ہوئی ہیں جن کی صدیوں تک اَور نظیر نہیں ملے گی یہ کہنا کہ مَیں سفارش کروں یہ ان کی اپنی کمزوری ہے۔ کیوں نہیں وہ جماعت کو کہتے۔ جماعت تو اپنی جانیں حضرت صاحب پر قربان کرنے کے لئے تیار ہے مگر صحیح طور پر کام نہیں کیاجاتا۔ یامین صاحب تو اپنا کیلنڈر بیچ لیتے ہیں مگر ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں بھی نہیں بیچی جاتیں۔
اِسی طرح ریسرچ والوں نے کہا ہے کہ ان کی مصنوعات کے متعلق یاددہانی کرائی جائے۔ لوگوں کو چاہئیے کہ جو جماعت کی طرف سے چیزیں بنتی ہیں اُن کو زیادہ لیا کریں۔ اخلاص تو یہ ہوتا ہے کہ چودھری ظفراللہ خاں صاحب کے والد صاحب نے مجھے سنایا کہ میں سارا سال اپنے کپڑوں کے متعلق کوشش کرتا رہتا ہوں کہ نہ بنواؤں اور جب قادیان آتا ہوں تو سید احمد نور کی دُکان سے خریدتا ہوں۔ گومہنگا ہوتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ایک مہاجر کا گزارہ چل جائے گا میراکیا حرج ہے۔ تو دیکھو مخلص آدمی تو ایسا کرتا ہے۔ چودھری صاحب نے بتایا ہے کہ وہ بنواتے بھی مرزا مہتاب بیگ صاحب سے تھے جو قادیان میں درزی تھے او راحمدی مہاجر تھے۔ تو دیکھو مخلص لوگ تو ایسا کرتے ہیں کہ باہر کے شہر میں کپڑے سستے ملتے ہیں لیکن خریدتے نہیں۔ کہتے تھے قادیان جائیں گے تو ایک مہاجر سے خریدیں گے اور بنوائیں گے بھی ایک مہاجر سے۔ تو اگر ہماری جماعت کے لوگ توجہ کریں کہ سلسلہ کی طرف سے جو چیزیں بنتی ہیں اُن کو خریدیں تو بڑی ترقی ہوسکتی ہے۔ مثلاً شائنو بوٹ پالش ہے جس کی تعریف اتنی کثرت سے ہورہی ہے کہ باٹاکمپنی نے بھی پچیس ہزار ڈبیہ کا آرڈر دیا ہے حالانکہ وہ کروڑ پتی کمپنی ہے۔ پھر نائٹ لائٹ ہے جو بڑی قیمتی چیز ہے۔ کف ایکس ہے۔''سن شائن گرائپ واٹر''ہے۔ڈاکٹروں کو بھی چاہئیے کہ لے جائیں اور تجربہ کریں۔ اور اگر مفید ہیں تو سرٹیفکیٹ دیں۔ جھوٹے سرٹیفکیٹ ہم نہیں مانگتے سچے سرٹیفکیٹ مانگتے ہیں۔پھر ‘‘سٹرولیکس فروٹ سالٹ’’ ہے۔ ''بامیکس''سردرد کی دوا ہے۔ تو اگر جماعت کے لوگ سلسلہ کی مصنوعات کی طرف توجہ کریں تو یقیناً تھوڑے دنوں میں باہر ملکوں میں پھیل سکتی ہیں۔ سفارش تو لغو سی چیز ہے میں تو ان کو کہا کرتا ہوں کہ تم اچھی طرح اشتہارنہیں دیتے ورنہ مجھے قادیان میں ایسی دکانیں معلوم ہیں کہ ایک شخص سے حضرت خلیفہ اول نے چھ پیسے میں دکان نکلوائی لیکن جب وہ قادیان سے نکلا ہے تو اس کے گھر کی قیمت بیس ہزار تھی اور ہزاروں ہزار کی اس کی دُکان تھی۔ اور ایسے بھی دوست مجھے ربوہ میں معلوم ہیں کہ جنہوں نے چھ ہزار سے کام شروع کیا تھا اور اِس وقت پختہ مکانات ان کے پاس ہیں اور دوائیں وغیرہ ملا کر ان کا کوئی پینتیس چالیس ہزار کا سرمایہ ہے۔ تو جو دیانتداری سے کام کرے خداتعالیٰ اُس کو برکت دیتا ہے۔ پس سفارش کرنے کا کیا فائدہ ہے۔
اِسی طرح تشحیذ الاذہان ایک نیا رسالہ نکلنے والا ہے او ربھی بعض رسالے ہیں۔''المصلح''کراچی والے نکالتے ہیں۔ میں کہتا ہوں مجھ سے نہ کہلواؤ ایسے اعلیٰ کام کرو اور ان کی ایسی شکل بناؤ کہ لوگ آپ ہی لیں۔ کسی شخص نے کہا ہے
صورت بہ بین حالت مپرس
ارے میاں! اس کا حال کیا پوچھتے ہو،اس کی شکل دیکھ لو۔ توتم بھی اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ تمہارے رسالے دیکھ کر لوگ خودبخود خریدیں۔ یہ کہناکہ اس کو میری سفارش سے لوگ خریدیں یہ غلط ہے۔ میں اگر حضرت صاحبؑ کے رسالہ کی سفارش کرتا ہوں تو ثواب کے لئے ورنہ میں ریویو کی بھی سفارش نہ کرتا کیونکہ ریویو کی سفارش کرنا تمہاری ہتک ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ مجھے تو حضرت صاحبؑ کے قول کا پاس ہے تمہیں نہیں۔ میں یہ ہتک نہیں کرنا چاہتا۔ میں صرف اس لئے کہہ دیتا ہوں کہ مجھے ثواب مل جائے۔’’
اس موقع پر حضور نے ڈچ گی آنا سے آئی ہوئی وہ تصویر دکھائی جس میں وہ تمام احمدی دوست بیٹھے ہیں جو پہلے پیغامی ہوا کرتے تھے۔ سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:۔
‘‘ ٹرکی سے ایک خط ایک دوست سیبر صاحب کا آیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ''میں نے آپ کا لکھا ہوا ترجمۃ القرآن کا دیباچہ پڑھا ہے۔ یہ دیباچہ ایک نہایت ہی عالمانہ کتاب ہے جو خاص خدائی تائید کے ماتحت لکھی گئی ہے۔ ا س کا مطالعہ بہت سے امور کے متعلق میرے شبہات دور کرنے کا موجب ہوا ہے۔ نیزاس نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ میری دلی خواہش ہے کہ احمدیت نے جو قابلِ تعریف مثال قائم کی ہے مَیں دوسرے مسلمانوں کو بھی اسکی پیروی کرتے ہوئے دیکھوں۔19
اس سے قبل ایک امریکن فوجی افسر نے دیباچہ انگریزی ترجمۃ القرآن کے پڑھنے کے بعد لکھا تھا کہ اس میں سے سوانح آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا حصہ میں نے پڑھا ہے میرے نزدیک آپ(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم)جیسا کامل انسان اِس دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا۔ میں بہت بیوقوف ہوں گا اگر اِس دیباچہ میں آپ کے حالات پڑھنے کے بعد اسلام پر ایمان نہ لاؤں20۔اب یہ شخص احمدی ہوچکا ہے اور ان کا نام ناصر احمد رکھا گیا ہے۔وکالت تبشیر اب سوانح آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حصہ کو ہالینڈ سے چھپوانے کا انتظام کررہی ہے۔
سنہلی زبان کے متعلق میرا رؤیاآپ لوگ پڑھ چکے ہیں۔ خداتعالیٰ نے اس رؤیا کے مطابق سنہلی کتابیں شائع کرنے کا موقع دیا اور وزراء نے اورگورنر نے وہ کتابیں لیں اور وزیر تعلیم خود ہمارے جلسہ میں آیا جس میں وہ کتاب پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد میں ایک اَور خوشخبری سناتا ہوں کہ کچھ دن ہوئے مجھے خواب آئی کہ جنوبی ہندوستان میں خدا کے فضل سے ہندوؤں میں تبلیغ پھیلنی شروع ہوگئی ہے اور اتنی پھیل گئی ہے کہ جنوبی ہندوستان کے لوگوں نے دلّی کی حکومت کولکھا ہے کہ آپ لوگوں کا سلوک احمدیوں سے اچھا نہیں ہے یا تو اپنارویہ بدلیں ورنہ ہم اس پرکوئی مناسب کارروائی کریں گے۔ وہ زما نہ بھی آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن فی الحال ہندوؤں کی تو نہیں مسلمانوں کی خبر آئی ہے۔ ایک دوست کا خط آیا ہے کہ یہاں ایک علاقہ ہے جس میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان ہیں ان میں کثرت کے ساتھ لوگ احمدی ہونا چاہتے ہیں تو یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایک نیا راستہ کھولا ہے۔
پھر یہ بھی اطلاع آئی ہے کہ لکادیپ مالدیپ کے جزائر میں سے ایک جزیرہ میں احمدیہ جماعت قائم ہوئی ہے او روہاں دارالتبلیغ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس ذریعہ سے ان جزائر میں بھی جماعت پھیل جائے گی۔غرض اللہ تعالیٰ خود اُن علاقوں میں جہاں ہم نہیں جاسکتے کام کررہا ہے۔ چنانچہ ایک سکھ رئیس کی بیعت آئی ہے جس نے خواب کے ذریعہ سے بیعت کی ہے اوراسلام قبول کیا ہے۔وہ مشرقی پنجاب کا رہنے والا ہے۔ اس نے خواب دیکھی اور خواب کے ذریعہ سے بیعت کی ہے۔
جرمنی سے ایک پادری کے مسلمان ہونے کی خبر آئی ہے جس نے اپنی زندگی بھی وقف کی ہے۔ وہ یہاں آکر دینِ اسلام سیکھے گا۔
امریکہ سے ایک تازہ خبر آئی ہے۔ لکھا ہے کہ یہاں بھی ایک پادری مسلمان ہوا ہے۔ او رایک نئے شہر میں جہاں پہلے جماعت نہیں تھی احمدی ہوگئے ہیں جس سے وہاں بھی جماعت بننے کا امکان ہے تو اللہ تعالیٰ ہر جگہ جماعتیں قائم کررہا ہے۔
میں نے شروع میں کہا تھادیکھو خداتعالیٰ نے کس طرح وہ بات پوری کی..........میں نے کہاتھا کہ قرآن نے بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے نظامِ دین سے الگ ہوجائے گا تو اس کی جگہ ایک جماعت آئے گی۔دیکھو ان لوگوں کے نکلنے کے بعد خدا نے کئی ہزار نیا احمدی ہم کو دیا ہے او رایسے ایسے لائق آدمی ہم کو دیئے ہیں جیسے یونیورسٹیوں کے پروفیسر او رپادری وغیرہ کہ جن کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہ بھی خبر آئی ہے کہ انڈونیشین زبان میں18پاروں کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ یوگنڈا زبان میں مشرقی افریقہ کی جماعت نے پہلا پارہ شائع کیا ہے۔اس سے قبل انہوں نے سواحیلی ترجمہ شائع کیا تھا باقی ترجمہ وہ کررہے ہیں۔
اَب میں پہلا حصہ مختصر بیان کرنے کے بعد جو خلافت کے انتخاب کے متعلق اور خلافتِ حقہ اسلامیہ کے قیام کے متعلق تھا دوسرا مضمون لیتا ہوں۔ مگر اس سے پہلے ایک بات یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت میں زمیندار زیادہ ہیں اس لئے میں نے صدرانجمن احمدیہ کو مجبورکیا ہے کہ وہ ایک افسر رکھیں جو جماعتوں کے زمیندارہ کے متعلق تعلیم دے۔ انہوں نے آدمی رکھا ہے جس کو ابھی چند مہینے ہوئے ہیں۔لائل پور اور سیالکوٹ کا اس نے دورہ کیا ہے لیکن چھ مہینے کے اندر زراعت کا نتیجہ نہیں نکل سکتا اس لئے اس کا نتیجہ انشاء اللہ اگلے سال آپ کے سامنے پیش ہوگا کہ جماعت نے کیا کام کیا ہے۔ مگر میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ زمیندار اگرایک ایک کنال خدا کے نام پر بونا شروع کردیں تو ان کا چندہ کئی گنا زیادہ ہوجائے۔ ہر زمیندار ہمارے ملک میں چار پانچ ایکڑ بولیتا ہے۔ اگر اس میں سے ایک کنال خدا کے نام کی ہو او راس کی ساری آمدن خدا کے نام ہی جائے تودیکھو اس میں بھی برکت ہوگی اور پاس کی کھیتی میں بھی برکت ہوگی۔ مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔
یہ میں کہہ چکا ہوں کہ آج کا جو مضمون ہے یعنی''نظامِ آسمانی کی مخالفت او راس کا پس منظر''اس کے متعلق یہ نوٹ کرلیں کہ اس کا امتحان ہوگا جو احمدی ہیں اُن کو تو یہ فائدہ ہوجائے گا کہ انہیں واقفیت ہوجائے گی۔ اور جو ہزاروں ہزار غیر احمدی ہمارے جلسہ میں بیٹھے ہیں اُن کو یہ پتہ لگ جائے کہ جماعت میں جو فتنہ ہے اِس کی حقیقت کیا ہے۔ پس اُن کاعلم تاریخی ہوجائے گا او رآپ لوگوں کا علم ایمانی ہوجائے گا اُس وقت تک آپ لوگ تیار ہوجائیں۔’’
(الفضل 9، 10 مارچ 1957ء)
اس کے بعد حضور نے ‘‘نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر’’ پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:۔
نظامِ آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر
سورہ اعلیٰ کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى ۔وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى۔بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا۔وَ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى۔اِنَّ هٰذَا لَفِي
الصُّحُفِ الْاُوْلٰى ۔صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَ مُوْسٰى21۔یعنی جو شخص پاک ہوتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اور نمازیں پڑھتا ہے وہ بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔ لیکن اے قرآن کریم کے مخاطب!تم لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہو یعنی دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہوحالانکہ دین دنیا پر مقدّم ہے اور قائم رہنے والا ہے۔یہی بات پہلی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ابراہیمؑ کی کتاب میں بھی لکھی ہے اور موسٰیؑ کی کتاب میں بھی یہی بات لکھی ہے۔
اِن آیات سے جو میں نے پڑھی ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو وحی نازل ہوئی تھی ان دونوں میں یہ کہا گیا تھا کہ اے لوگو!آخرت یعنی دین کو دنیا پر مقدم کرو۔دُنیا کو دین یعنی آخرت پر مقدم نہ کرو۔ورنہ تمہارا الٰہی نظام سے ٹکراؤ ہوجائیگا اور تم حق کو نہیں پاسکو گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی یہی پُرانی تعلیم سکھائی گئی اور آپ نے اپنی بیعت میں یہ الفاظ رکھے کہ:
''میں دین کو دنیا پر مقدّم رکھوں گا''
درحقیقت یہی تعلیم ہے جس کے نہ ماننے کی وجہ سے نظامِ آسمانی کی مخالفت کی جاتی ہے یعنی رقابت یا لالچ یابُغض کی وجہ سے۔
آدمؑ کے زمانہ میں شیطان کی مخالفت
چنانچہ آدمؑ کو دیکھ لو شیطان نے اُس کے لائے ہوئے نظام کی مخالفت کی۔اِس مخالفت کی وجہ کیا تھی؟ قرآن کریم اِسے یُوں بیان فرماتا ہے قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ١ؕ
قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ١ۚ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ۔قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِيْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ۔قَالَ اَنْظِرْنِيْۤ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۔قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِيْنَ۔قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَيْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىِٕلِهِمْ١ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ۔قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا١ؕ لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ۔22 یعنی اے شیطان!جب میں نے کہا تھا کہ اس آدم کی خاطر اس کی پیدائش کی خوشی میں میرے آگے سجدہ کرو تو تم نے کیوں سجدہ نہیں کیا؟یا میں نے کہا تھا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو تو تم نے کیوں فرمابنرداری نہیں کی۔تو اُس نے جواب دیا میں نے اِس لئے ایسا نہیں کیا کہ میں اس سے اچھا ہوں(قَالَ اَنَا خَیْرٌمِّنْہُ)یعنی میری نافرنی کی وجہ رقابت تھی۔مجھے تُو نے آگ سے پیدا کیا ہے اوراِسے گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے(خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ)اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کو آدم سے یہی بُغض تھا کہ میں تو اِس سے اعلیٰ ہوں پھر اس کو مجھ پر فضیلت کیوں دی گئی۔ یہی بُغض ابلیس کے ساتھیوں کو آدم کے ساتھیوں سے تھا یعنی دنیا کو دین پر مقدّم کرنا ساری مخالفت کا باعث تھا۔وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو بڑھایا ہے بلکہ وہ یہ دیکھتے تھے کہ ہم پر اس کو فضیلت دے دی گئی ہے۔چنانچہ اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اے شیطان!میرے نظام سے باہر نکل جا(قَالَ فَاھْبِطْ مِنْھَا)کیونکہ تیرا کوئی حق نہیں تھا کہ میری جماعت میں شامل ہوتے ہوئے تکبّر کرتا اور میرے مقرر کردہ خلیفہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا(فَمَایَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْھَا)پس نِکل جا، کیونکہ ذلّت تیرے نصیب میں ہے(فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ)اُس نے کہا الٰہی! جب تک یہ قوم ترقی کرے اور دنیا پر غالب آجائے،مجھے ڈھیل دے اور موقع دے کہ میں اِن کو خراب کروں (قَالَ اَنْظِرْنِيْۤ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ)اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ہاں ان کی ترقی کے زمانہ تک میں تجھے ڈھیل دونگا(قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ)اِس پر شیطان نے کہا کہ مجھے بھی تیری ہی ذات کی قسم! کہ چونکہ تُو نے اپنے نظام کو تباہی سے بچانے کیلئے مجھے ہلاکت میں ڈالا ہے اِس لئے میں بھی تیرے نظام پر چلنے والوں کی تباہی کے لئے تیرے سیدھے راستہ پر ڈاکوؤں کی طرح بیٹھوں گا(قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ)پھر میں اُن کے پاس کبھی تو اُن کے لیڈروں کے ذریعہ سے آؤں گا(ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ)اور کبھی اُن کے چھوٹے لوگوں کے ذریعہ سے آؤنگا(وَ مِنْ خَلْفِهِمْ)اور کبھی دینی دلیلیں دے دے کر ورغلاؤں گا(وَ عَنْ اَيْمَانِهِمْ)اور کبھی دنیوی طور پر اُن کو ورغلاؤں گا کہ اگر تم نے اِن تعلیموں پر عمل کیا تو حکومت مخالف ہوجائے گی۔( وَ عَنْ شَمَآىِٕلِهِمْ)اور تُو اِن میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا(وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ)یعنی تُو دیکھ لے گا کہ اِن میں سے اکثر تیری نعمتِ خلافت پر شکر گزار نہیں ہیں بلکہ اکثر اُن میں سے شُبہات میں پڑجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تیری اِن لافوں کی پروا نہیں کرتا۔تُو میرے نظامِ جماعت سے نکل جا۔تجھے ہمیشہ گنہگار قرار دیا جائے گا اور تجھے حقیر سمجھا جائے گا اور تجھے جماعتِ حقّہ اِسلامیہ سے دھتکارا جائے گا۔( قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا)اور جو اِن لوگوں میں سے تیری اتباع کریں گے اُن سب کو میں جہنّم میں جھونک دوں گا یعنی ناکام اور حسرتوں کا شکار بنا دوں گا(لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ)۔
اِس ارشاد پر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اورآپ کے ساتھیوں نے پورا عمل کیا جو ہمیشہاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ کہتے آئے ہیں۔باقی جماعتوں میں سے کچھ لوگوں نے اِس پر عمل تو کیا ہے لیکن اِس کو اہم اصل قرار دے کر اسے یاد نہیں رکھا۔ اِن آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ مخالفینِ نظامِ الٰہی کو اپنے آپ سے جُدا کر دینا خدائی حکم ہے اور یہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ناکام ونامراد رہیں گے۔چنانچہ جس وقت یہ فتنہ٭ شروع ہوا ہے بہت سے جماعت کے مخلصین نے مجھے لکھا کہ آپ خواہ مخواہ ان کو موقع کیوں دیتے ہیں، کیوں نہیں انہیں جماعت سے خارج کردیتے ۔بعض کمزور ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ لکھنا شروع کیا کہ آخر حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد ہے۔اِس پر مجھے
مولوی رحیم بخش صاحب کا واقعہ یاد آگیا۔1914ء میں جب مولوی محمد احسن صاحب
٭ یعنی تازہ فتنہ منافقین
نے لاہوریوں کے لالچ دلانے پراشتہار شائع کیا کہ میں نے ہی میاں محمود کو خلیفہ بنایا تھا اور میں ہی ان کو خلافت سے اتارتا ہوں تو جماعت نے اُس وقت یہ ریزولیوشن پیش کیا کہ اِن کو جماعت سے نکالا جائے۔مولوی رحیم بخش صاحب سیالکوٹ کے ایک بڈھے صحابی تھے وہ کھڑے ہوگئے اور بڑے زور سے کہنے لگے کہ ایسا ریزولیوشن پاس نہ کرو۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِن کو فرشتہ قرار دیا ہے۔میں نے کھڑے ہوکر کہا کہ مولوی صاحب! آپ کا کیا منشاء ہے کہ جو کہتا ہے کہ خلافت توڑ دو اُس کو جماعت سے نہ نکالیں؟ تو کہنے لگے اگر ایسا ہے تو پھر اس کو جماعت سے نکال دو۔
تو وہ لوگ جو آج بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد ہے اُن سے میں کہتا ہوں کہ یہ تو حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہے او رمولوی محمد احسن کے متعلق حضرت صاحب نے کسی خط میں لکھا ہے کہ یہ جو حدیث میں آیا تھا کہ مسیح موعودؑ دوفرشتوں پر اُترے گا اُن میں سے ایک مولوی محمد احسن بھی ہیں۔اُس وقت تو جماعت نے اِتنی ہمّت کی کہ مولوی محمد احسن کو جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرشتہ قرار دیا تھا انہوں نے کہا کہ خلیفہ کے سامنے اگر فرشتہ بھی کھڑا ہوتا ہے تو نکالو اُسے۔حضرت خلیفہ اوّل بھی یہی کہا کرتے تھے کہ اگر تم فرشتے بھی بن جاؤ تو خلیفہ پر اعتراض کرنے پر تم پکڑے جاؤ گے۔لیکن آج بعض کمزور دل کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد ہیں ان کو کچھ نہ کہو۔جماعت کو تباہ ہونے دو۔مرزا صاحب کے سلسلہ کو تباہ ہونے دو۔ محمدؐرسول اللہ کے مشن کو نقصان پہنچنے دو۔ قرآن کریم کی تعلیم کو غلط ہونے دو۔اسلام کو کمزور ہونے دو۔ پر حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کو کچھ نہ کہو۔گویا حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ معزز ہے۔وہ قرآن سے بھی زیادہ معزز ہے۔ وہ اسلام سے بھی زیادہ معزز ہے۔وہ مسیح موعودؑسے بھی زیادہ معزز ہے۔ وہ مسیح موعودؑ کے خاندان سے بھی زیادہ معزز ہے۔وہ مسیح موعودؑ کے الہامات سے بھی زیادہ معزز ہے۔ان کو کچھ نہ کہو سلسلہ کو تباہ ہونے دو۔قرآن کریم کی تعلیم کو غلط ہونے دو۔خلافت کو مٹنے دو۔خدا کے کلام کو غلط ثابت ہونے دو مگر یہ کام نہ کرو۔تو کچھ لوگوں نے تو یہ کہا۔چنانچہ مری میں جب ایک صاحب کو پتہ لگا کہ میں ایک اشتہار لکھ رہا ہوں تو کہنے لگے نہ، نہ،نہ،نہ۔آپ نے 25سال ان کو معاف کیا ہے اَب بھی معاف کردیجئے ۔میں نے کہا مجھے25سال معاف کرنے کی سزا ہی تو مِل رہی ہے۔اگر میں ان کو25سال معاف نہ کرتا اور1926ء میں ہی ان کو کیڑے کی طرح باہر نکال کے پھینک دیتا تو آج ان کو یہ کہاں ہمّت ہوتی۔یہ''مولانا''بنے ہمارے وظیفے کھا کھا کے۔یہ طبیب بنے سلسلہ سے وظیفے لے لے کر۔اور اَب اِن کو یہ جرأت پیدا ہوگئی کہ کہہ دیا کہ''حضرت مولانا''نے مسند احمد بن حنبلؒ کی تبویب کی ہے۔حالانکہ مسنداحمد بن حنبلؒ کی تبویب کا کچھ حصّہ حضرت خلیفہ اول نے کیا ہؤا تھا۔وہ فہرست لائبریری سے مولوی عبدالمنان نے عاریتًہ لی اور واپس نہ کی اور اس کے اوپر کتاب لکھی اور وہ بھی جامعہ احمدیہ کے پروفیسروں اور طالبعلموں کی مدد سے۔ اور پھر اس کے بعد کہہ دیا کہ یہ عظیم الشان کام میں نے کیا ہے۔ جب یہ ہوا تو ہمارے مولویوں کو غیرت پیدا ہوئی اور انہوں نے مجھے کہا کہ اس کتاب کو چھوڑیں ہم لکھ دیں گے۔میں نے کہا بشرطیکہ جلسہ سے پہلے لکھ دو۔چنانچہ بارہ دن ہوئے وہ مجھے اطلاع دے چکے ہیں کہ مسند احمد بن حنبلؒ کی تبویب اُس سے زیادہ مکمل جس کا دعویٰ مولوی عبدالمنان کرتے ہیں ہم تیار کرچکے ہیں۔ او راس لئے گو اس کی چھپوائی پر بڑی رقم خرچ ہوگی مگر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کو جزوجزو کرکے شائع کردیا جائے تاکہ پہلے اجزاء کی قیمت سے اس کے آخری اجزاء چھاپے جاسکیں اور حضرت خلیفہ اول کی خواہش پوری ہوجائے۔خود میں نے بھی اسکے متعلق 1944ء میں ایک تقریر کی ہوئی ہے اور تبویب کے متعلق بعض باتیں بیان کی ہوئی ہیں۔میں نے کہہ دیا ہے کہ ان کو بھی تبویب میں مدنظر رکھا جائے تاکہ وہ بہت زیادہ مفید ہوسکے۔اِس بیماری کے بعد کئی باتیں مجھے اب تک پرانے زمانہ کی بھی یاد ہیں مگر کئی باتیں قریب کی بُھولی ہوئی ہیں۔ مجھے بالکل یاد نہیں تھا کہ1944ء میں مَیں نے مسند احمد بن حنبلؒ پڑھ کے اس کے متعلق تقریر کی ہوئی ہے کہ اِس میں اِن اِن اصلاحوں کی ضرورت ہے۔اَب ایک مبلغ آیا اور کہنے لگا کہ آپ کی تو اِ س پر بڑی اعلیٰ درجہ کی ایک تقریر ہے جو''الفضل'' میں چھپ چکی ہے۔چنانچہ اس نے وہ تقریر سنائی۔پھر مجھے یاد آیا کہ میں نے اس کتاب کو خوب اچھی طرح غور سے پڑھا ہوا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ میں شیطان کا حملہ
حضرت آدمؑ کے بعد پھر نئے دَورِ روحانی کے آدم حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جن سے آگے اسحاقی اور اسمٰعیلی دَور چلنا تھا۔ اسحاقؑ کی نسل سے
موسوی سلسلہ کی بنیاد پڑنی تھی اور اسمٰعیلؑ کی نسل سے محمدی سلسلہ کی بنیاد پڑنی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی پھر وہی آدمؑ والی حکایت دُہرائی گئی۔چنانچہ شیطان نے پھر ایک نئے حملہ کی تجویز کی۔یہودی کتب میں لکھا ہے او راشارۃً قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد فوت ہوگئے او راُن کے چچا جو ایک بُت خانہ کے مجاور تھے اُن کے متولّی بنے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بچپن سے ہی توحید پر قائم کردیا تھا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچپن سے ہی توحید پر قائم کردیا تھا۔جب انہوں نے بتوں کی مخالفت شروع کی تو چچا کے بیٹوں نے اپنے باپ کے پاس اُن کی شکایت کردی او رلوگوں کو بھی یہ بتایا کہ یہ لڑکا بتوں کی حقارت کرتا ہے۔ چنانچہ لوگ جَوق درجَوق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بحث کے لئے آنے شروع ہوئے۔ اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن کو شرمندہ کرنے کے لئے اُن کے بعض بتوں کو توڑ دیا تو انہوں نے اِس حسد کی بنا پر جس کی وجہ سے ابلیس نے آدمؑ کا مقابلہ کیا تھا پبلک میں شور مچادیا کہ ابراہیمؑ کو لاؤ او راُس کو آگ میں جلادو۔جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے،یہ ہجرت اُن کو مہنگی نہیں پڑی بلکہ مفید پڑی۔جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اُن کو مہنگی نہیں پڑی بلکہ مفید پڑی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہجرت کے بعد کنعان اور حجاز کا ملک بخشا گیا۔اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ سے نکالے جانے کے بعد پہلے مدینہ او رپھر ساری دنیا ملی۔پس ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام او ررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ بھی وہی رقابت کی روح تھی جو کہ آدمؑ کی مخالفت کی وجہ تھی۔اور جو رقابت کہ خلافتِ احمدیہ کی مخالفت کی وجہ بنی۔بظاہر اِسے دینی سوال بنا دیا گیا ہے لیکن اس کا باعث درحقیقت رقابت اور بُغض تھا۔اور یہ واقعہ اُسی طرح کا ہے جس طرح ابلیس نے حوّا سے کہا تھا کہ اگر تم شجرۂ ممنوعہ کو چکھو گے تو تمہارے تقویٰ کی روح بڑی بلند ہوجائیگی اور''تم خدا کی مانند نیک وبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔''23 لیکن حقیقتاً اس کی غرض یہ تھی کہ آدمؑ اور حوّا کو جنت سے نکالا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت میں اِس رقابت نے دوسری دفعہ جو صورت اختیار کی وہ مندرجہ ذیل ہے:۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری عمر میں جب اُن کا پلوٹھا بیٹا اسمٰعیلؑ ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوا اور اس کے بعد ان کی پہلی بیوی سارہ کے بطن سے اسحاقؑ پیدا ہوا تو سارہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماموں کی بیٹی تھیں اُنکو خیال تھاکہ میں خاندانی ہوں اور ہاجرہ باہر کی ہے اس لئے وہ اپنا درجہ بڑا سمجھتی تھیں۔اتفاقاً حضرت اسمٰعیلؑ جو بچے تھے حضرت اسحاقؑ کی کسی حرکت یا کسی اَور وجہ سے قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔سارہ نے سمجھا کہ اس نے میری اور میرے بچہ کی حقارت کی ہے اور قہقہہ مارا ہے۔شاید یہ بھی خیال کیا کہ یہ اس بات پر خوش ہے کہ یہ بڑا بیٹا ہے اور یہ وارث ہوگا اور اسحاقؑ وارث نہیں ہوگا ۔تب انہوں نے غصہ میں آکرحضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ یہ لڑکا مجھ پر قہقہے مارتا ہے، اس کو اور اس کی ماں کو گھر سے نکال دو۔کیونکہ میں یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ میرے بیٹے کے ساتھ یہ تیرا وارث ہو۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے تو اِس بات کو بُرا منایا اور اِس کام سے رُکے مگر خدا تعالیٰ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ظاہر کرنا چاہتا تھا اُس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی کی کہ جو کچھ تیری بیوی سارہ کہتی ہے وہی کر24۔ چنانچہ خدا کے حکم کے ماتحت حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور اسمٰعیلؑ کو وادیِ حرم میں چھوڑ گئے۔اور سارہ اور اسحاقؑ کے سپرد کنعان کا علاقہ کردیا گیا او راسمٰعیلؑ کی نسل نے مکہ میں بڑھنا شروع کیا۔اور وہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا س کے گھرانے میں پیدا ہوگئے۔ مگر یہ رقابت یہیں ختم نہیں ہوگئی بلکہ جیسا کہ خداتعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی پیدائش پر ان کی ماں سے کہا تھا،اُسی طرح ہوا کہ
''اس کا ہاتھ سب کے خلاف او رسب کے ہاتھ اُس کے خلاف ہونگے۔''25
یعنی ایک زمانہ تک اسمٰعیلی نسل تھوڑی ہوگی اور اسحاقؑ کی نسل زیادہ ہوگی۔اور وہ سب کے سب مل کراسمٰعیلی سلسلہ کی مخالفت کریں گے اور کوشش کریں گے کہ وہ کامیاب نہ ہوں۔
قرآن کریم میں اس کا ذکر یُوں آتا ہے:وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا١ۖۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ١ۚ الخ 26 یعنی اہلِ کتاب میں سے بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اسمٰعیلی نسل یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اُسے چھوڑ کر پھر کافر ہوجائیں۔اور یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قصور کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے اپنے دلوں سے پیدا شدہ بُغض کی وجہ سے ہے اور رقابت کی وجہ سے ہے۔وہ سارہ اور ہاجرہ کی لڑائی کو دوہزار سال تک لمبا لے جانا چاہتے ہیں۔
پھر علاوہ اِس آیت کے بعض اَور آیتیں بھی ہیں جواِس مضمون پر دلالت کرتی ہیں۔مثلاً سورة آلِ عمران رکوع8آیت 72، 73 میں فرماتا ہے وَ قَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ۔وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِيْنَكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْهُدٰى هُدَى اللّٰهِ١ۙ اَنْ يُّؤْتٰۤى اَحَدٌ مِّثْلَ مَاۤ اُوْتِيْتُمْ اَوْ يُحَآجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللّٰهِ١ۚ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔یعنی اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ نے کہا کہ جو لوگ محمد رسول اللہ پر ایمان لائے ہیں یعنی مسلمان ہوئے ہیں اُن پر جو کچھ نازل ہوا ہے اے یہودیو!اُس پر صبح کے وقت ایمان لے آیا کرو اور شام کے وقت پھر مرتد ہوجایا کرو تاکہ تم کو دیکھ کر اور لوگ بھی مُرتد ہوجائیں(جیسے آج کل پیغامِ صلح شائع کررہا ہے کہ دیکھو منّان وہّاب باہر آگئے ہیں۔ اے ربوہ سے آزاد ہونے والو!بڑھو،بڑھو ہمارا نظام تمہارے ساتھ ہے۔یہی یہودی کہا کرتے تھے) کہ تم حقیقی طور پر امن اُس کو دو جو تمہارے دین کا پیرو ہو۔تُو کہہ کہ حقیقی ہدایت تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ یہ ہے کہ کسی کو وہی کچھ دیاجائے جیسا کہ اے بنی اسرائیل! تم کو دیا گیا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تم سے تمہارے رب کے حضور میں بحث کریں گے۔ پھر تُو اُن سے کہہ دے کہ فضلِ کامل تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا فضلِ کامل دے دیا۔ اس کو مِل گیا۔ جب تمہارے نبیوں کو دے رہا تھا تو اُن کو مل گیا ۔وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ بہت وسعت والا اور بہت جاننے والا ہے۔
اِسی طرح سورة نساء رکوع8آیت54میں آتا ہے اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَيْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَيْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا۔یعنی کیا یہ یہودی اِس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو اپنے فضل سے کچھ حصہ دے دیا ہے؟ اگر ایسا ہوگیا ہے تو بگڑا کیا؟پھر بھی توآلِ ابراہیمؑ کو یعنی اسمٰعیلؑ کی اولاد ہی کو کتاب اور حکمت بخشی گئی اور ان کو بہت بڑا ملک عطا فرمایا گیا۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آلِ ابراہیمؑ میں سے ہیں اور موسوی سِلسلہ بھی آلِ ابراہیمؑ میں سے ہے۔پس موسوی سلسلہ کو جو کتاب ملی وہ بھی آل ابراہیمؑ کو ملی اور محمد رسول اللہ کو جوکتاب اور حکمت ملی وہ بھی آل ابراہیمؑ کو ملی۔اور جو ملک موسیٰؑ کی قوم کو ملا وہ بھی آل ابراہیمؑ کو ملا اور جو ملک محمد ؐرسول اللہ کو ملے گا وہ بھی آلِ ابراہیمؑ کو ملے گا۔
اِن دونوں آیتوں سے ظاہر ہے کہ شیطان نے جو نظامِ الٰہی کے خلاف رقابت کا مادہ بنوا سحاقؑ کے دل میں پیدا کیا تھا وہ حضرت اسمٰعیلؑ کی زندگی تک ختم نہیں ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک لمبا ہوتاگیا۔اور جس طرح پہلے اُس نے حضرت اسمٰعیلؑ کو اُن کی وراثت سے محروم کرنا چاہا تھا اِسی طرح دوہزار سال بعد اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وراثت سے محروم کرنا چاہا۔لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیئے اور وہ یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قریب آیااور شیطان نے دیکھا کہ اَب پُرانا حسد ختم ہوجائیگا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنواسمٰعیلؑ کے دشمنوں کو کچل ڈالیں گے اور ان پر غالب آجائیں گے تواُس نے ایک نئے بُغض کی بنیاد ڈالی جو محمدرسول اللہ کے بعد بھی فتنہ پیدا کرتا چلا جائے۔چنانچہ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا عبدمناف کے ایک بیٹے عبدالشمس تھے۔عبدِ مناف کے ایک اَور چھوٹے بیٹے ہاشم تھے۔اور عبدالشمس کا بیٹا امیّہ تھا۔عبدِ مناف کے مرنے کے بعد قرعہ ڈالا گیا اور باوجود چھوٹا ہونے کے ہاشم کووارث قرار دیا گیا۔اور مسافروں کو چاہِ زمزم سے پانی پلانا اور حاجیوں کی خدمت کرنا جو سب سے بڑا عہدہ سمجھا جاتا تھا وہ اُسے دیا گیا۔اِسی طرح غیر حکومتوں کے پاس وفد بھجوانے کا جو کام تھا اور ان کی سرداری کرنے کا عہدہ بھی ان کے سپرد ہوا۔عبدالشمس کے بیٹے امیّہ کو یہ بات بُری لگی۔شیطان نے اُس کے دل میں ڈالا کہ یہ عہدہ ہاشم کے پاس کیوں جائے۔ اور اُس نے قوم میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے ہاشم کے کاموں کی نقل شروع کردی۔یعنی مسافروں کو زَم زَم سے پانی بھی پلاتا تھا اور بہت کچھ دادودہش27۔ بھی کرتا تھا تاکہ عوام میں مقبول ہوجائے۔قریش نے جب یہ بات دیکھی تو انہوں نے سمجھا کہ یہ خاندان آپس کے مقابلہ میں تباہ ہوجائیگا۔اور یہ دیکھتے ہوئے کہ امیّہ ضدی ہے انہوں نے ہاشم سے اصرار کیا کہ کوئی ثالث مقرر کرکے فیصلہ کروا لو۔مگر اوّل تو ہاشم چونکہ امیّہ سے عمر میں بڑے تھے اور ریاست کا حق ان کو مل چکا تھا انہوں نے انکار کردیا کہ میں فیصلہ ثالثی نہیں کراتا۔مگر آخر ساری قوم نے خاندان کو تباہی سے بچانے کے لئے امیّہ اور ہاشم پر ثالثی کے لئے زور دیا۔آخر ہاشم بھی مان گئے اور امیّہ بھی مان گئے۔اور امیّہ نے خزاعہ قبیلہ کے ایک کاہن کو ثالث تجویز کیا۔ہاشم نے بھی اُسے مان لیا۔اس کاہن کے پاس جب فیصلہ گیا تو اُس نے ہاشم کے حق میں فیصلہ کیا۔اور فیصلہ کے مطابق امیّہ کومکہ سے دس سال کی جلاوطنی قبول کرنی پڑی۔اور وہ شام چلے گئے۔اس تاریخ سے بنو ہاشم اور بنوامیّہ میں حاسدانہ لڑائی شروع ہوگئی28
محاضرات میں شیخ محمد خضری بھی اس رقابت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:-
''ہاشم اور اس کے بھتیجے اُمیّہ کے درمیان مفاخرت اور مقابلہ شروع ہوگیا کیونکہ ہاشم مال کی وجہ سے اور قومی ضروریات کو پورا کرنے کی وجہ سے قوم کا سردار تھا اور امیّہ مال اور اولاد والا تھا۔چنانچہ وہ اپنے چچا سے مفاخرت اور مقابلہ کرتا تھا اور اس وجہ سے دونوں خاندانوں اور ان کی اولادوں میں رقابت رہی یہاں تک کہ اسلام ظاہر ہوگیا۔''29
دائرۃ المعارف یعنی عربی انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ بنو امیّہ اور بنو قریش پہلے ایک ہی قبیلہ کے افراد تھے اور سب اپنے آپ کو عبدمناف کی طرف منسوب کرتے تھے۔لیکن بنو امیّہ کا خاندان بڑا تھا اور اُن کے پاس مال زیادہ تھا اس لئے باوجود اس کے کہ بنوہاشم کے پاس سرداری تھی وہ ان سے ہر بات میں بڑھنے کی کوشش کرتا اور مقابلہ کرتا رہتا تھا۔اِسی طرح اُن کی اولاد میں بھی رقابت چلتی گئی۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑائیوں میں بھی اس لئے کہ آپ ہاشم کی اولاد تھے عام طور پر ابوسفیان جو عبدالشمس کی اولاد میں سے تھا سردار ہوکر آیا کرتا تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو بنو امیّہ شکست کھاگئے لیکن آپ کی وفات کے بعداس فتنہ نے سراٹھانا شروع کیا اور شیطان نے اپنا ہتھیار اور لوگوں کو چُن لیا۔ چنانچہ جب حضرت علیؓ خلیفہ ہوئے تو معاویہ بن ابوسفیان نے جو بنو امیّہ میں سے تھے آپ کے مقابلہ کے لئے لشکر جمع کیا۔30
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شیطان کا حربہ
غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں بھی شیطان نے وہی حربہ نظامِ حقّہ
کے خلاف استعمال کیا جو اوّل دن سے وہ نظامِ حقّہ کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے یعنی حَسد اور بُغض اور لالچ کا۔درمیان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قُرب کی وجہ سے یہ حربہ زیادہ کامیاب نہ ہوا مگر حضرت علیؓ کے زمانہ میں یہ حربہ پھر زور پکڑ گیا اور آج تک شیعہ سُنّی کی شکل میں یہ جھگڑا چل رہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں شیطانی حربہ کی صورت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پھر شیطان نے ایک اَور رنگ میں اس کی بنیاد رکھی۔آپ کی
خلافت میں پہلا جھگڑا جو زیادہ شدّت سے ظاہر نہیں ہوا حضرت خلیفہ اوّل کے خلیفہ بننے کے وقت ہوا۔یہ جھگڑا بھی درحقیقت وہی ابلیس والے جھگڑے کی طرز پر تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک انجمن مقبرہ بہشتی کی بنائی تھی او راُس میں حضرت خلیفہ اوّل کو صدر بنایاتھا اور مولوی محمد علی صاحب اس کے سیکرٹری تھے۔دوسرے ممبروں میں سے خواجہ کمال الدین صاحب،ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ تھے۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں اختلاف ہوتا تو حضرت خلیفہ اوّل کی رائے ایک طرف ہوتی اور مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی کی رائے دوسری طرف ہوتی۔اس لئے مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی میں حضرت خلیفہ اوّل کے خلاف بُغض پیدا ہوجاتا۔جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو اُس وقت کے حالات کی وجہ سے خواجہ کمال الدین صاحب بہت ڈر گئے اور لاہور میں جہاں وفات ہوئی تھی مولوی محمداحسن صاحب امروہی نے حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت کا اعلان کردیا اور خواجہ صاحب نے ڈر کر مان لیا۔جب قادیان پہنچے تو خواجہ صاحب نے سوچا کہ حضرت خلیفہ اوّل ضرورخلیفہ بنیں گے اورا پنی ہوشیاری کی وجہ سے خیال کیا کہ اگر ان کی خلافت کا مسئلہ ہماری طرف سے پیش ہو تو اِن پر ہمارا اثر رہے گا اور وہ ہماری بات مانتے رہیں گے۔چنانچہ انہوں نے آپ کی خلافت کے متعلق ایک اعلان شائع کیا اور اس میں لکھا کہ الوصیّۃ کے مطابق ایک خلیفہ ہونا چاہئے اور ہمارے نزدیک سب سے زیادہ مستحق اس کے حضرت مولوی نور الدین صاحب ہیں۔اِس اعلان کے الفاظ یہ ہیں:۔
''حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیّۃ کے مطابق حسبِ مشورہ معتمدین صدرانجمن احمدیہ موجودہ قادیان واقرباء حضرت مسیح موعودؑ باجازت حضرت (اماں جان) کُل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اُس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلّمہٗ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا۔''31
میں نے بھی اسی قانون کے مطابق نیا نظام بنایا ہے۔(صرف تحریک کے وکلاء کو زائد کردیا ہے۔کیونکہ اب جماعت احمدیہ کے باہر پھیل جانے کی وجہ سے اس کا مرکزی نظام دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا ہے)
اس اشتہار سے پہلے حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت کے وقت مولوی محمد علی صاحب نے اختلاف کا اظہار کیاجیسا کہ وہ خود اپنی کتاب''حقیقتِ اختلاف''میں لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعشِ مبارک جب قادیان میں پہنچی تو
''باغ میں خواجہ کمال الدین صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہ تجویز ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑکے جانشین حضرت مولوی نورالدین صاحب ہوں۔میں نے کہا بالکل صحیح ہے اور حضرت مولوی صاحب ہی ہر طرح سے اس بات کے اہل ہیں۔ا س کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ بھی تجویز ہوئی ہے کہ سب احمدی ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔میں نے کہا اس کی کیا ضرورت ہے جو لوگ نئے سلسلہ میں داخل ہونگے انہیں بیعت کی ضرورت ہے اور یہی الوصیّۃ کامنشاء ہے۔خواجہ صاحب نے کہا کہ چونکہ وقت بڑا نازک ہے ایسا نہ ہو کہ جماعت میں تفرقہ پیدا ہوجائے اور احمدیوں کے حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلینے سے کوئی حرج بھی نہیں۔ تب میں نے بھی اِسے تسلیم کرلیا۔''32
غرض خواجہ صاحب کے سمجھانے سے مولوی محمد علی صاحب حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت پر راضی ہوگئے اور اِس طرح خلافتِ اُولیٰ کا قیام بغیر مخالفت کے ہوگیا۔گو اس کے بعد اِس فتنہ نے کئی اَور صورتوں میں سر اٹھایا۔مگر خلافتِ اُولیٰ قائم ہوگئی اور ساری جماعت حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر جمع ہوگئی۔ اَب شیطان نے دیکھا کہ جو نئے جھگڑے کی بنیاد میں نے ڈالی تھی وہ بھی ختم ہورہی ہے تو اُس نے ایک نئی طرح ڈالی۔یعنی مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی اور حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے بُغض پیدا کردیا تاکہ یہ سلسلہ ابھی اور لمبا چلتا چلا جائے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنیوالا گروہ پھر دنیا کو دین پر مقدم کرنیوالے گروہ کے ظلموں کا شکار ہوجائے۔
یہ بنیاد اِس طرح پڑی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دیکھ کر کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں پہلی بیوی کے بطن سے کوئی نرنیہ اولاد نہیں،لدھیانہ کے ایک بزرگ صوفی احمد جان صاحب کی ایک لڑکی سے جو اُن کی موجودہ زندہ اولاد کی والدہ تھیں نکاح کروایا۔اِس واقعہ کی وجہ سے چاہئے تو یہ تھا کہ یہ دوسری بیوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام او ران کے خاندان سے زیادہ تعلق رکھتیں جس طرح اُن کے بھائی پیر افتخار احمد صاحب مرحوم اور پیر منظور محمد صاحب مرحوم قاعدہ یسرناالقرآن کے موجدحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کے خاندان سے والہانہ عشق رکھتے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔اِ س بُغض کی بھی کچھ دنیوی وجوہات تھیں۔
اوّل یہ کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں اس بیوی سے بھی دیر تک کوئی نرینہ اولاد نہ ہوئی۔اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن کو شوق تھا کہ حضرت مولوی صاحب کے ہاں نرینہ اولاد ہوجائے1896ء میں جبکہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کو آپ نے نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کو قرآن پڑھانے کے لئے مالیر کوٹلہ بھجوایا تھا مولوی صاحب کے متعلق نواب صاحب مرحوم کو ایک خط لکھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی مالیر کوٹلہ کی ایک سید خاندان کی لڑکی سے شادی کاانتظام کریں۔گویہ انتظام تو بعد میں رُک گیا مگر ایک خار دل میں بیٹھ گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی دوسری بیوی پرایک اَور سوکن لانے کی کوشش کی ہے۔
دوسری وجہ اِس بُغض کو بڑھانے کی ایک اَور پیدا ہوگئی اور وہ یہ تھی کہ میاں عبدالسلام، عبدالوہاب اور عبدالمنان کی والدہ نے اپنے خاندان کی ایک لڑکی فاخرہ نام کی پالی ہوئی تھی۔ اُدھر حضرت (اماں جان) نے اپنے وطن سے دُوری کی وجہ سے اپنی خالہ کے ایک بیٹے سید کبیر احمد کو تعلیم کے لئے قادیان بلایا ہوا تھا۔جب حضرت خلیفہ اول مالیر کوٹلہ گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ اِس بچے کو طب کی تعلیم دلوائی جائے اور اُس کو بھی اُن کے ساتھ ہی تعلیم کے سلسلہ میں مالیر کوٹلہ بھیج دیا گیا۔ کبیر احمد کا بیان تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی دوسری بیوی نے اُس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ فاخرہ کا اس سے بیاہ کردیں گی لیکن بعض ایسے حالات کی وجہ سے جن کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے سید کبیر احمد نے جو ہمارے خالہ زاد ماموں تھے زہر کھا کر خود کشی کرلی اور سارے کوٹلہ اور دہلی میں یہ مشہور ہوگیا کہ اِس خود کشی کی وجہ حضرت خلیفہ اوّل کی دوسری بیوی تھیں۔چنانچہ آج تک بھی کچھ لوگ جو نواب لوہارو کے خاندان کے یا ہمارے ننھیال کے زندہ ہیں یہی الزام لگاتے چلے آتے ہیں۔کہ کبیر احمد کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ اپنے خاندان کی بدنامی کے ڈر سے حضرت مولوی نور الدین صاحب نے زہر دیکر مروا دیا تھا۔حالانکہ واقع یہ تھا کہ چونکہ وہ آپ سے طب پڑھتا تھا اور دوائیں اُس کے قبضہ میں تھیں اُس نے خود زہر نکال کر کھالیا تھا۔مگر غلط فہمی ان لوگوں کے دماغ میں ایسی جاگزیں ہوگئی تھی کہ میرے رشتہ کے ایک ماموں حافظ عبدالمجید صاحب سب انسپکٹر پولیس جن کو محمد امین بھی کہتے تھے1936ء یا 1937ء میں مجھے ملنے کے لئے قادیان آئے اورباتوں باتوں میں کہنے لگے کہ ہمارے ایک بھائی کو حضرت مولوی نورالدین صاحب نے زہر دے کرمروا دیا تھا۔میں نے غصہ سے اُن کوکہا کہ میں حضرت خلیفہ اوّل کے متعلق ایسی کوئی بات نہیں سُن سکتا۔اِس پر وہ بھی غصّہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں بھی اپنے بھائی کے واقعہ کو بُھول نہیں سکتا اور چلے گئے۔
اِس واقعہ کو اور اہمیت اِس طرح مل گئی کہ ہمارے ننھیال کارشتہ نواب صاحب لوہارو سے تھا۔یہ اتفاق کی بات ہے کہ اُس وقت نواب صاحب مالیر کوٹلہ کم سن تھے اور گورنمنٹ نے اُنکا نگران نواب صاحب لوہارو کو مقرر کرکے بھیجا ہوا تھا۔جس وقت یہ کبیر کا واقعہ ہوا اُس وقت نواب صاحب لوہارو کوٹلہ میں تھے۔پہلے تو کسی کو پتہ نہیں تھاکہ یہ بھی اُن کے رشتہ دار ہیں۔جس طرح نواب صاحب لوہارو مسمّٰی بہ فرّخ مرزا میرے ماموں تھے۔وہ کبیر کے بھی ماموں تھے۔مگر وہ چونکہ معمولی کمپونڈر اور طالب علم کی حیثیت میں گیا تھا پہلے تو پتہ نہ لگا۔ اس کے مرنے پر جب اُن کو پتہ لگا کہ ایک لڑکے نے خودکشی کی ہے اور وہ دلّی کا ہے تو انہوں نے کُرید کی اور پتہ لگا کہ یہ تومیرا بھانجا ہے۔وہ چونکہ حاکم تھے انہوں نے فوراً کارروائی کی کہ اس کا پیٹ چاک کیا جائے اور زہر نکالا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ زہر اتفاقی استعمال ہوا ہے یا جان بُوجھ کر دیا گیا ہے۔نواب محمد علی خاں صاحب جو نواب مالیر کوٹلہ کے جو اُس وقت بچہ تھے ماموں تھے اور بعد میں میرے بہنوئی ہوئے۔(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بیٹی اُن سے بیاہی گئیں) اُن کو چونکہ قرآن پڑھانے کے لئے حضرت خلیفہ اول گئے تھے اور ان کا ریاست میں رسوخ تھا انہوں نے فوراً کوشش کرکے راتوں رات کبیر کو دفن کرادیا اور اِس طرح اس فتنہ کو دفع کیا۔بیٹے کا مرجانا ماں کے لئے بڑے صدمہ کا موجب ہوتا ہے مگر یہ بُغض اتنا لمبا ہوگیا کہ حضرت (اماں جان) کی خالہ جو اکثر قادیان آتی رہتی تھیں اور قادیان میں بڑا لمبا عرصہ والدہ کے پاس رہتی تھیں انہوں نے ہم سے مِلنا جُلنا چھوڑ دیا۔چنانچہ1909ء یا1911ء میں ہم ایک دفعہ دِلّی گئے تو حضرت (اماں جان) بھی ساتھ تھیں۔ چونکہ انہیں اپنی خالہ سے بڑی محبت تھی وہ اپنی امّاں کی بھاوج کے ہاں ٹھہریں۔اُن کو سارے ''بھابی جان''''بھابی جان''کہتے تھے۔اب اُن کے بچے کراچی میں ہیں۔اُنکے گھر میں ہی ہم جاکر ٹھہرتے تھے۔اُس وقت بھی ان کے گھر میں ہی ٹھہرے۔بلکہ اُن کاایک لطیفہ بھی مشہور ہےکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام1891ء میں دلّی گئے توآپ کے خلاف بڑا جلسہ ہوااور شور پڑا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کو قتل کردو۔مولویوں نے وعظ کیا کہ جواس کو قتل کردیگا وہ جنتی ہوگا۔ہماری وہ بھابی بڑی مخالف تھیں مگر آخر رشتہ دار تھیں۔ایک دن اُن کی نوکرآئی اور آکر کہنے لگی۔بی بی! دُعا کرو میرا بچہ بچ جائے، وہ صبح چُھری تیز کررہا تھا۔ کوئی قادیان سے آیا ہے جو رسول اللہؐ کی ہتک کرتا ہے اُس کو مارنے گیا ہے۔ وہ کہنے لگیں کمبخت! چُپ کر۔ وہ تومیری بھانجی کا خاوند ہے۔مگر بہرحال اُن کے گھر میں خالہ بھی ٹھہری ہوئی تھیں۔اماں جان نے پرانی محبت کی وجہ سے اُن سے خواہش کی کہ مجھے ملادو۔ بھابی جان نے انکار کردیا کہ وہ تو کہتی ہیں میں اُسکی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔پھر ہماری ایک اور بہن تھی اُن کی بیٹی بعد میں حکیم اجمل خان صاحب مرحوم کے بھائی سے بیاہی گئی تھیں۔حضرت (اماں جان)نے اُن سے کہا وہ چھوٹی بچی تھیں اُن کو تو ان باتوں کا پتہ نہیں تھا۔انہوں نے پردہ اُٹھا کے کہا کہ وہ مصلّی پر بیٹھی دُعا کررہی ہیں دیکھ لو۔امّاں جان نے جاکر جھانکا تو اُسی وقت انہوں نے کھڑکی کھولی او رہمسایہ میں چلی گئیں اور وہاں سے ڈولی منگا کر کسی اَور رشتہ دار کے پاس چلی گئیں۔غرض اِتنا اُن کے اندر بُغض تھا کہ انہوں نے ہم سے ملنا بالکل چھوڑ دیا۔اُن کے رشتہ دار اب بھی کراچی میں ہیں۔لاہور میں بھی لوہارو خاندان کے افراد ہیں۔نوابزادہ اعتزازالدین جو پاکستان میں انسپکٹر جنرل پولیس تھے وہ بھی نواب لوہارو کے بیٹے تھے۔ اَور بیٹے بھی ہیں۔بعض اُن کی اولاد میں سے فوج میں کرنیل ہیں۔اُن کے ایک بھائی صمصام مرزا لاہور میں ہیں۔اِ ن لوگوں سے جب بھی بات کرو وہ ہم پر ہنستے ہیں کہ تم بیوقوف ہو۔مولوی صاحب نے اُسے مروا دیا تھا۔تم بیوقوفی میں یونہی اپنے مذہبی عقیدہ کے ماتحت سمجھتے ہو کہ نہیں مروایا تھاآپ مرگیا تھا۔اُس نے خود کشی کوئی نہیں کی اُس کو مروا دیا گیا تھا۔ غرض یہ واقعہ حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان کے دلوں میں بُغض کو بڑھانے کا ایک دوسرا سبب بن گیا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت خلیفہ اوّل کی وفات پر اختلاف کی وجہ
اس کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کی وفات پر خلافتِ ثانیہ کے انتخاب کا وقت آیا۔تو مولوی محمد علی صاحب کے اختلاف کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ
اقتدار اُن کے ہاتھ سے نکل جاتا تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ اُن کی پہلی بیوی مرحومہ جونہایت ہی نیک عورت تھیں (میرا یہ مطلب نہیں کہ انکی موجودہ بیوی نیک نہیں ہے مگر وہ پہلی بیوی میری بہن بنی ہوئی تھیں اور اُن کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا۔ اس لئے میں نے اُن کے متعلق اپنی رائے بیان کردی ہے۔وہ مجھ سے بہت ہی محبت کرتی تھیں۔فاطمہ بیگم اُن کا نام تھا۔مولوی محمد علی صاحب کی جب شادی ہوئی میں بہت چھوٹا سا تھا۔دس سال کا ہونگا کہ وہ آتے ہی میری بہن بن گئیں۔ہمیشہ میرا سر دیکھنا،جُوئیں نکالنی، بہت ہی محبت کرتی تھیں اور کہتیں یہ میرا بھائی ہے۔اورمیں اُنہیں بہن کہا کرتا تھا) وہ نومبر1908ء میں فوت ہوئیں۔مجھے اُس وقت کسی کام کے لئے حضرت خلیفہ اوّل نے باہر بھیجا ہوا تھا۔ میں جب واپس آیا تو مجھے مرحومہ کی وفات کا علم ہوا۔ میں نے اُسی وقت ایک ہمدردی سے پُر خط مولوی محمد علی صاحب کو لکھا۔مولوی محمد علی صاحب نے ا س کے جواب میں مجھے لکھا کہ آپ کے خط کا تو میں ممنون ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ حضرت (اماں جان) میری بیوی کی لاش دیکھنے نہیں آئیں (حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاش دیکھنے کے لئے عورتوں کو باہر جانے سے منع کیا ہوا ہے) یہ صدمہ ایسا ہے کہ میں زندگی بھر اِسے نہیں بُھول سکتا۔یہ گویا دوسری بنیاد مولوی محمد علی صاحب کے دل میں شیطان نے رکھ دی کہ اب زندگی بھر مخالفت کرتے رہو۔بلکہ اس واقعہ کا اجمالی ذکر مولوی محمد علی صاحب نے خود ریویو آف ریلیجنز میں بھی کیا ہے۔اور یہ الفاظ لکھے ہیں کہ:
''اگر کسی نے میرا محسن ہونے کے باوجود بجائے اظہارِ غم وہمدردی کے کسی گزشتہ رنج کا اظہار اِس وفات کے وقت کیا تو یہ شاید میرے لئے سبق تھا کہ دنیا کے کسی گھر کو اپنا گھر سمجھنا غلطی ہے۔''33
گویا خود اُن کی اپنی تحریر بھی اِس بارہ میں موجود ہے۔غرض مولوی محمدعلی صاحب نے اِس صدمہ کے نتیجہ میں بُغض کو انتہا تک پہنچا دیا۔ اور جیسے انہوں نے کہا تھا کہ میں مرنے تک یہ صدمہ نہیں بھول سکتا مرنے تک اس واقعہ کو یاد رکھا اور خاندانِ مسیح موعودؑ کا بُغض اپنے دل سے نہیں نکالا۔چنانچہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات پر خلافتِ ثانیہ کے انتخاب پر بھی اُنہوں نے بغاوت کی اور اس طرح بُغض وحسد کے لمبا کرنے کا سلسلہ انہوں نے جاری کردیا۔ تاکہ آدمؑ کے زمانہ کا بُغض جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ تک آیا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کا بُغض جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک آیا تھا اور آپ کے دادا ہاشم بن عبد مناف کے زمانہ کا بُغض جو پہلے ابوسفیان اُموی کے زمانہ تک آیا تھا اور پھر یزید بن معاویہ اور امام حسینؓ کے زمانہ تک آیا تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک بھی متمد ہوجائے۔غضب یہ ہوا کہ اکبر شاہ خان نجیب آبادی مشہور مؤرخ جو پہلے مبائعین میں تھے اور پھر بھاگ کر لاہور آگئے تھے ،انہوں نے مضمون لکھا کہ آرائیں قوم جس میں سے مولوی محمد علی صاحب تھے بنو امیّہ میں سے ہے34۔ گویا انہوں نے کہا کہ وہ بنو امیّہ کا بغض پھر بنو محمدؐ سے جاری ہونا چاہئیے۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت سلمانؓ فارسی کے خاندان کے متعلق فرمایا ہے کہ''سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلُ الْبَیْتِ''35 کہ سلمان فارسیؓ جن کے خاندان سے بلحاظ فارسی الاصل ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان ملتا ہے ہمارے خاندان میں سے ہیں۔گویا مسیح موعودؑنہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند تھے بلکہ اس حدیث کے ماتحت ایک رنگ میں آپ کے جسمانی فرزند بھی تھے۔ تو پیغامِ صلح میں اکبر شاہ خان نجیب آبادی نے مضمون شائع کیا کہ مولوی محمد علی صاحب بنو امیّہ میں سے ہیں۔ گویا بنو امیّہ اور حضرت علیؓ کا جو بُغض تھا وہ اور لمبا ہوجائیگا ختم نہیں ہوگا۔
غرض انہوں نے ثابت کردیا کہ بنو عبدمناف یعنی اولادِ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور بنو امیّہ کی لڑائی کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔اور وہ احمدیوں میں بھی جاری رہے گا۔
اختلاف کو قائم رکھنے کیلئے غیر مبائعین کی ایک تدبیر
غیر مبائعین نے اس لڑائی کو نئی روح بخشنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ حضرت خلیفہ اوّل کی بیوی اور اُن کے بچوں کو یہ کہنا شروع کیا کہ اگر حضرت
خلیفہ اوّل کا بیٹا عبدالحی مرحوم خلیفہ ہوجاتا تو ہم بیعت کرلیتے۔چنانچہ ہم اِس کے ثبوت میں مولوی عبدالوہاب صاحب کا ہی ایک مضمون پیش کرتے ہیں۔اَب وہ جتنا چاہیں جھوٹ بول لیں مگر یہ اُن کا مضمون چھپا ہوا ہے۔انہوں نے1937ء میں غیر مبائعین کے بعض اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے الفضل میں لکھا کہ:
''مولوی عبدالباقی صاحب بہاری ایم۔اے نے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی وفات کے بعد خلافتِ ثانیہ کے زمانہ میں خلافت کے چند دشمن حضرت مولوی عبدالحی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے۔ مولوی عبدالحی صاحب نے باوجود بچپن کے اُن کو جو جواب دیا وہ اس قابل ہے کہ سلسلہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے۔انہوں نے فرمایا کہ یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکا دے رہے ہیں یاآپ جھوٹ بول رہے ہیں۔میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتا تب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے۔ اطاعت کرنا آسان کام نہیں۔میں اَب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہرگز نہ مانو۔اِس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمابنرداری کرتے ہیں یا نہیں؟ مولوی عبدالحی صاحب نے کہا اگر تم اپنے دعویٰ میں سچّے ہو تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی بیعت کرلو۔یہ بات سن کر وہ لوگ بغلیں جھانکنے لگے اور کہنے لگے یہ تو نہیں ہوسکتا۔''36
اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے عبدالحی مرحوم کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی سے پیدا ہوا تھا اس فتنہ سے بچالیا لیکن اُن کی والدہ او ران کے چھوٹے بھائیوں کے دل میں یہ خار کھٹکتارہا۔چنانچہ جب میں نے امۃ الحی مرحومہ سے اس لئے شادی کی کہ حضرت خلیفہ اوّل کی روح خوش ہوجائے کیونکہ ایک دفعہ انہوں نے بڑے صدمہ سے ذکر کیا تھاکہ میری بڑی خواہش تھی کہ میرا جسمانی رشتہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہوجائے مگر وہ پوری نہیں ہوئی۔جس پر میں نے آپ کی وفات کے بعد اور خلیفہ بننے کے بعد امۃ الحی مرحومہ سے شادی کی۔تو پیغامیوں نے والدۂ عبدالوہاب اور والدۂ عبدالمنان کو یہ کہنا شروع کیا کہ یہ رشتہ مرزا محمود احمد نے اپنی خلافت کو مضبوط کرنے کے لئے کیا تھا۔حالانکہ اگر میں پہلے کرتا تب تو یہ اعتراض ہوتا کہ خلافت لینے کے لئے کیا ہے۔لیکن اوّل تو یہ سوال ہے کہ خلافت حضرت مولوی نور الدین صاحب کی تو نہیں تھی خلافت حضرت مسیح موعودؑ کی تھی۔اگر باپ سے بیٹے کو حق پہنچتا ہے تو میں مسیح موعودؑ کا بیٹا تھا۔پھر تو مولوی صاحب بھی خلیفہ نہیں رہتے۔ پھر تو خلیفہ مجھے ہونا چاہئیے تھا۔ دوسرے خلیفہ مَیں پہلے ہوچکا تھا رشتہ بعد میں ہوا۔بہرحال عبدالحی مرحوم تو اس فتنہ میں نہ آیا جیسا کہ اس کی وفات کے موقع کے حالات سے ظاہر ہے جو میں نے ایک خط میں چودھری فتح محمد صاحب کو لکھے تھے جو اس وقت انگلینڈ میں مبلغ تھے او رجو خط انہوں نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو محفوظ رکھنے کے لئے دے دیا تھا اور اُن کے مرنے کے بعد اُن کے بیٹے لطف الرحمٰن نے مجھے اُن کے کاغذات میں سے نکال کر بھیج دیا۔وہ خط یہ ہے:
''برادرم مکرم چودھری صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ
پہلے خط کے بعد پھر قریباً تین ہفتہ سے خط نہ لکھ سکا جس کا باعث ترجمۂ قرآن کاکام ہے۔مولوی شیر علی صاحب کو کہا ہوا ہے کہ ہر ہفتہ خط جانا چاہئیے نہ معلوم جاتا ہے یا نہیں۔
پچھلے ہفتہ ایک سخت حادثہ ہوگیااور وہ بھی خط لکھنے میں روک رہا۔عزیز میاں عبدالحی کو دو ہفتہ بخار رہا اور گو سخت تھا لیکن حالت مایوسی کی نہ تھی مگر پچھلی جمعرات کو یکلخت حالت بگڑ گئی اور ایک رات اور کچھ حصہ دن کا بے ہوش رہ کر عصر کے قریب اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (اُس وقت ایک ڈاکٹر ہیرا لال صاحب کو میں نے لاہور سے بلایا تھا۔اُس کا خیال تھا کہ ان کو ٹائیفائڈ تھا مگر بیماری کی وقت پر تشخیص نہیں کی گئی اور اب مرض آخری مرحلہ پر پہنچ چکا ہے۔)
قریباً اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اب کے ففتھ ہائی کا امتحان دینا تھا۔سال ڈیرھ سال سے شبانہ روز جسم وعلم میں ترقی تھی اور اَب خاصا جوان آدمی معلوم ہوتے تھے۔ذہن نہایت تیز اور رَسا تھا مگر منشاءِ الٰہی کے مقابلہ میں انسان کا کچھ بس نہیں چل سکتا اور اُس کے ہر ایک فعل میں حکمت ہوتی ہے۔ او رجیسا کہ مجھے ان کی وفات کے بعد معلوم ہوا یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہی حکمتوں کے ماتحت تھاورنہ کئی فتنوں کا اندیشہ تھا۔مرحوم بوجہ کم سِن ہونے کے بہت سے فتنہ پردازوں کے دھوکے میں آجاتا تھا۔میں آخری دنوں میں اپنے گھر میں ہی انہیں لے آیا تھا (اُن کی بہن امۃ الحی مرحومہ کی خواہش سے) اور حیران تھا کہ وہ ہر وقت والدہ صاحبہ اور میرے پاس بیٹھے رہنے پر مُصِر تھا (یہ نظارہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔وہ امۃ الحی مرحومہ کے دالان میں ہی رہتے تھے۔ میں آخر کام کرنے والا آدمی تھا۔ہروقت قرآن کریم کی تفسیرکاکام اور دوسرا کام ہوتا تھا۔جب میں نیچے جاتا تو آدمی آتا کہ عبدالحی بلاتا ہے اورکہتا آپ بیٹھیں،حضرت (اماں جان) بیٹھیں۔میری اماں کو یہاں سے اُٹھا دیں میری جان نہیں نکلے گی۔میری جان تکلیف سے نکلے گی میری ماں کو یہاں سے ہٹا دیں۔غرض وہ ہروقت والدہ صاحبہ اور میرے پاس بیٹھے رہنے پر مُصِر تھا) اور بار بار کہتا تھا کہ آپ میرے پاس بیٹھے رہیں۔مجھے اس سے تسلّی ہوتی ہے۔اور اس کے برخلاف اگراپنی والدہ پاس آتیں تو اُن کو ہٹا دیتا تھا اور اصرار کرتا تھا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ۔معلوم ہوتا ہے کہ وفات سے پہلے اُس کے دل کے دروازے اللہ تعالیٰ نے کھول دیئے تھے اورایک پاک دل کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملا۔مجھے اُس سے ایسی محبت تھی جیسے ایک سگے بھائی سے ہونی چاہئیے۔ اور اس کا باعث نہ صرف حضرت مولوی صاحب کا اس سے محبت رکھنا تھا بلکہ یہ بھی وجہ تھی کہ اُسے خود بھی مجھ سے محبت تھی۔بوجہ ناتجربہ کاری کے بعض متفنّی لوگوں کے فریب میں آجانا بالکل اَور بات ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کے باقی بچوں کو نیک اور پاک عمر عطا فرمائے اورجس طرح آپ کا وجود نافع الناس تھا آپ کی اولاد بھی دعائم الملّۃ 37ہو۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔(لیکن میری اس دُعا کو انہوں نے ضائع کردیا ہے اور خود اپنے لئے تباہی کا بیج بویا ہے)
خاکسار
مرزا محمود احمد
غرض عبدالحئ مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ میں مبتلا ہونے سے بچا لیامگر حضرت خلیفہ اوّل کے باقی لڑکوں کے دلوں میں یہ خیال کھٹکتا چلا گیا کہ خلافت ہمارا حق تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بیٹے نے اس کو چھین لیا ہے اور یہ حق پھر ہم کو واپس لینا چاہئیے۔چنانچہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جو قریباً اتنے ہی پُرانے احمدی ہیں جتنے پُرانے حضرت خلیفہ اوّل تھے۔غالباًاُن کے دو تین سال بعد آئے۔اور پھر انہوں نے سلسلہ کی خدمت میں بڑاروپیہ خرچ کیا ہے۔ان کی شہادت ہے کہ:
''1914ء میں حضرت خلیفہ اوّل........ کی وفات کے بعد پیغامیوں نے قادیان میں ریشہ دوانیوں کا مرکز حضرت خلیفہ اوّل کے گھر کو بنایا۔مختلف اوقات میں لاہور سے جاسوس آتے رہے اور اکابر بھی۔ اور سازش یہ کی گئی کہ اس خاندان میں ایک برائے نام خلیفے کا انتظام کیا جائے۔جسے کچھ عرصہ بعد ٹرکی خلافت کی طرح معزول کردیا جائے۔ کیونکہ ان کا تجربہ بتاتا تھا کہ اِس خاندان کے افراد اس قسم کے سنہری خواب دیکھ رہے ہیں۔''
خود مجھے بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ اپنے بچوں کو لے کر حضرت خلیفہ اول کی بیوی جو میری ساس تھیں میرے پاس آئیں اور بیٹھ کے کہنے لگیں کہ ہماری یہاں کوئی قدر نہیں۔ پیغامی میرے پاس آتے ہیں ،بڑے روپے دیتے ہیں، تحفے لاتے ہیں اور کہتے ہیں لاہور آجاؤ ہم بڑی قدر کرینگے۔ میں نے کہا بڑی خوشی سے جائیے آپ کو یہ خیال ہوگا کہ شاید آپ کی وجہ سے مجھے خلافت ملی ہے۔مجھے پرواہ نہیں آپ چلے جائیے اور اپنی بھڑاس نکالئیے۔پھر جاکر آپ کو تھوڑے دنوں میں ہی پتہ لگ جائیگا کہ جو کچھ سلسلہ آپ کی مدد کرتا ہے وہ اس کا دسواں حصّہ بھی مدد نہیں کریں گے۔چنانچہ وہ پھر نہ گئیں گو درمیان میں جماعت کی وفاداری کی وجہ سے اُن کا یہ خیال دَبتا رہا مگر پھر بھی یہ چنگاری سُلگتی رہی۔چنانچہ1918ء ، 1919ء میں دارِ حضرت خلیفہ اوّل میں مجھے زہر دینے کا منصوبہ کیا گیا۔ اس کے متعلق برکت علی صاحب لائق لدھیانوی جو خود اُن کے ہم وطن ہیں اور جن کے شاگرد اِس وقت پاکستان میں بڑے بڑے عہدوں پر ہیں اور اب بھی مجھے خط لکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے اُستاد بڑے نیک تھے اُن کا پتہ بتائیں۔اُن کی شہادت ہے کہ1918ء میں
''لاہور کے بعض معاندین نے حضرت اقدس کو زہر دینے کی سازش کی اِس طریق پر کہ اماں جی مرحومہ کے گھر میں حضور کی دعوت کی جائے اور دعوت کا اہتمام لاہوری معاندین کے ہاتھ میں ہو مگر ایک بچے نے جو اُن کی سرگوشیاں سُن رہا تھا ساری سکیم فاش کردی۔''
گواہی فضل محمد خان صاحب شملوی
1918 ء ، 1919ء میں جیسا کہ میاں فضل محمد خان صاحب شملوی کی
گواہی سے ظاہر ہے میاں عبدالسلام صاحب، مولوی محمد علی صاحب سے شملہ میں ملے اور اُن سے نذرانہ وصول کیا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
''1915ء کے قریب یا دوتین سال بعد میاں عبدالسلام صاحب عمر جبکہ وہ صرف ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے حضرت مولوی غلام نبی صاحب کے ساتھ جبکہ وہ گرمی کی چھٹیوں میں تفریح کے لئے ٹوٹی کنڈی میں آکر ٹھہرے۔ اس دوران میں مولوی عبدالسلام صاحب غیر مبائعین سے بلاتکلّف مل لیتے تھے۔ مجھے یہ بہت بُرا معلوم ہوتا تھا۔ میرے دل میں صاحبزادہ ہونے کے سبب سے جو احترام تھا کم ہوگیا۔ پھر اسی عید کے موقع پر مجھے یاد نہیں کہ بڑی تھی یا چھوٹی میاں عبدالسلام صاحب مولوی محمد علی صاحب سے عید کا نذرانہ لے آئے اور ان کی گود میں بیٹھ آئے۔جب اس روئیداد کا علم ہوا تو خان صاحب، برکت علی صاحب نے جو اُس وقت جماعت کے سیکرٹری تھے اُن کو تنبیہہ کی کہ وہ مخالفین کے پاس کیوں گئے ایسا نہ چاہئیے تھا۔ تو مولوی عبدالسلام صاحب بجائے نصیحت حاصل کرنے کے بہت بگڑے اور کہا کہ آپ کو ہمارے کسی قسم کے تعلقات پر گرفت کرنے کا حق نہیں۔ (یعنی ہم چاہے احراریوں سے ملیں چاہے پیغامیوں سے ملیں تم کون ہوتے ہو جو ہمیں روکو)مولوی عمر الدین صاحب بڑی تجسّس کے انسان تھے۔ مولوی صاحب مولوی عبدالسلام صاحب کی بہت دلجوئی کرتے۔ اِسی دوران میں مولوی عبدالسلام صاحب عمر نے مولوی عمرالدین سے کسی گفتگو کے دوران میں یہ کہا کہ میں نے خلیفۃ المسیح الثانی کے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)قابلِ اعتراض دستی خطوط اُڑائے ہوئے ہیں جو میرے پاس محفوظ ہیں۔ (اب اگر اس خاندان میں تخمِ دیانت باقی ہے تو وہ میرے خط شائع کرے ورنہ میں کہتا ہوں کہ اگر اس خاندان کے افراد نے یہ بات کہی ہے تو لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ)مولوی عمر الدین نے یہ بات ٹوٹی کنڈی کے دوستوں کو بتائی۔ میں اس بنا پر سخت رنجیدہ اور متنفّر ہوا۔عمر بھر اگرچہ مولوی عبدالسلام صاحب بڑے تپاک سے ملتے تھے اور معانقے سے ملتے تھے مگر میرے دل میں بڑی قبض محسوس ہوتی تھی۔ بعد میں یہ بھی افواہاً سُنتا رہا کہ لاہوری جماعت حضرت خلیفہ اوّل کے گھر والوں کوا پنے ساتھ ملانے کی جدو جہد کرتی رہتی ہے او رلاہوری لوگ مالی مدد سے تالیف کرتے رہتے ہیں۔میری ساری ہی عمر ان سے متنفّر گزری ہے۔''38
1926ء میں میاں عبدالوہاب کی طرف سے مجھ پر عبدالحی مرحوم کو زہر دینے اور عیش پرستی کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس بارہ میں ملک عزیز احمد صاحب رضاعی رشتہ دار حضرت خلیفہ اوّل و اتالیق میاں عبدالوہاب صاحب(جنکوانکی ماں نے اتالیق مقرر کیا تھا)کی گواہی ہے کہ:
‘‘1926ء میں میاں عبدالوہاب نے حضور پر مندرجہ ذیل الزام لگائے:۔
1۔میاں عبدالحی کو زہر دے دی۔
2۔آپا امتہ الحی صاحبہ کی شادی سیاسی نوعیت سے کی گئی(یعنی خلیفہ بننے کے لئے۔ گویا خلیفہ پہلے بن گئے شادی بعد میں ہوئی۔)
3۔آپ معاذ اللہ عیش پرست ہیں۔اور کہا آپ قادیان سے باہر رہتے ہیں آپ کو حالات کا کیا پتہ ہو۔''
اِس کے علاوہ میری اپنی شہادت ہے کہ1926ء ، 1927ء میں مباہلہ والے جب گند اُچھال رہے تھے تو علی محمد اجمیری اور عبدالوہاب مل کر وہاں گئے اور اُن کوایک خط لکھ کر بھجوایا کہ آپ خلیفہ ثانی کے متعلق جو چاہیں لکھیں ہمارے خلا ف کچھ نہ لکھیں۔ انہوں نے خط لکھ کر ایک لڑکے کو دے دیا کہ آپ تسلّی رکھیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔اُس لڑکے نے جو مدرسہ احمدیہ میں پڑھتا تھا وہ خط معہ جواب لاکر مجھے دیدیا۔ مولوی علی محمد اجمیری نے مجھے لکھا ہے کہ وہ تو بے شک گئے تھےمگر میاں عبدالوہاب اُس میں شامل نہ تھے۔ مگر میرا حافظہ اس کی تردید کرتا ہے۔مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں نے جو اُس وقت ہوشیاری سے مباہلہ والوں کے مکان کی نگرانی کرتے تھے مجھے بتایا کہ انہوں نے ان دونوں کو اِن کے مکان کے سامنے کھڑا دیکھا تھا اور انہوں نے ایک خط زاہد کی طرف ایک لڑکے کے ہاتھ بھجوایا(زاہد مولوی عبدالکریم مباہلہ والے کا چھوٹا بھائی تھا)اور اس لڑکے نے مجھے لاکر دیدیا۔
اسی طرح اس کی تردید مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت سابق صوبہ پنجاب کے ایک لڑکے مرزا محمد طاہر کے خط سے بھی ہوتی ہے جو زاہد کے بھانجے ہیں۔اور جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ:
''میاں عبدالوہاب اور زاہد کے آپس میں''فتنۂ مستریان'' سے پہلے بڑے گہرے تعلقات تھے(میں بھی اِس کا ذاتی گواہ ہوں۔زاہد چونکہ چھوٹا ہوتا تھا ہمارے گھر میں آیا کرتا تھا۔میری بیویاں اس سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔اس کی بہن بھی ہمارے گھر میں رہتی تھی اس لئے مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ زاہد سے میاں عبدالوہاب کے بڑے گہرے تعلقات تھے اور میاں عبدالوہاب اس سے اکثر ملتا رہتا تھا)
پھر مرزا محمد طاہر لکھتے ہیں کہ:
''زاہد سے میاں عبدالوہاب نے حضور کے خلاف باتیں کی تھیں جس پر زاہد بھی حضور کے خلاف ہوگیا۔ زاہد کو اَب شکایت یہ تھی کہ جس آدمی نے پہلے حضورکے خلاف باتیں کی تھیں او رفتنہ کی اصل جڑھ تھی وہ تو حضرت خلیفہ اوّل کا لڑکا ہونے کی وجہ سے بچ گیا اوروہ پھنس گیا۔''
اِسی طرح ڈاکٹر محمد منیر صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ امرتسر کی شہادت سے بھی ظاہر ہے کہ1927ء ، 1928ء میں میاں عبدالمنان اور مولوی علی محمد اجمیری ان سازشوں میں شریک تھے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:۔
ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی شہادت
''غالباً1927ء یا1928ء میں جب مباہلہ والوں کا فتنہ زور پر تھا
ایک دن اس سلسلہ میں مباہلہ والوں نے ایک اشتہار حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ہجو میں بڑی موٹی موٹی سُرخیوں کے ساتھ شائع کیا جس میں حضور کے اخلاق پر ذاتی حملے کئے ہوئے تھے۔اُس دن مولوی علی محمد صاحب اجمیری او رمیاں عبدالمنان ساحب عمر اَورمیں(راقم)اکٹھے جارہے تھے کہ بازار میں اس قسم کا ایک اشتہار ہمیں بھی ملا۔ میں تو اُسے پڑھ کر دَمْ بخود ہوکر رہ گیا۔ میرے ہاتھ سے یہ اشتہار مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے لے لیا اورمیاں عبدالمنان صاحب اور مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے اس کو اکٹھا دیکھنا شروع کیا لیکن جُوں جُوں وہ اشتہار کو پڑھتے جاتے تھے وہ ساتھ ساتھ عبارت پڑھتے اور ہنستے جاتے تھے۔ مجھے اُن کا یہ فعل طبعاً بُرا معلوم ہوا کیونکہ اپنے کسی بھی عزیز اورقابلِ عزت اور احترام بزرگ کے متعلق ایسے گندے الفاظ پڑھ کر کوئی بھی شریف آدمی ہنسنے کی بجائے نفرت اور غصہ کے جذبات کا اظہار کرتا مجھ سے اُن کی یہ حرکت گوارا نہ ہوئی اور میں نے اُن سے یہ اشتہار چھین لیا اور کہا کہ یہ ہنسی کا کونسا موقع ہے۔اشتہار پڑھ کر ہمارے دل رنجیدہ ہیں اور آپ کو ہنسی آتی ہے۔ جس پر وہ خاموش ہوگئے۔ ممکن ہے اُن کی ہنسی اس اشتہار کے لکھنے والے کے متعلق حقارت کی ہنسی ہو لیکن جو اثر اُس وقت مجھ پر ہواو ہ یہی تھا کہ میں نے اُنکی ہنسی کو اِس قدر بُرا منایا کہ اُس کا اثر اَب تک میری طبیعت پر رہا اور محو نہیں ہوا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔اب جبکہ موجودہ فتنہ منافقین کا اُٹھا ہے تو میرے اُس تأثّر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ اُس وقت کی مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور میاں عبدالمنان صاحب کی ہنسی ایک نفرت،بدگمانی اور حقارت کا بیج تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ بنصرہِ العزیز کی ذات کے متعلق جو آج ایک مکروہ اور بدنما درخت کی شکل بن کر جماعت کے سامنے ظاہر ہوگیا ہے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
خاکسار
ڈاکٹر محمد منیر امرتسری ’’
غرض جو بات مجھے یاد تھی اُس کی تصدیق ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی شہادت سے بھی ہوگئی اور مرزا محمد طاہر صاحب ابن مرزا عبدالحق صاحب کی شہادت سے بھی ہوگئی جو کہ زاہد کا بھانجا ہے۔
1929ء میں مولوی محمد اسمٰعیل غزنوی نبیرۂ39 حضرت خلیفہ اوّل اور بھانجا میاں عبدالوہاب وعبدالمنان نے (جس کی خط وکتابت عبدالمنان کے کاغذوں میں جنہیں وہ اورینٹل کمپنی میں جس کا وہ پریذیڈنٹ بنایا گیا تھا چھوڑ کر چلا گیا تھا مل گئی ہے) میاں عبدالسلام وعبدالوہاب سے مل کر ایک میٹنگ کی اور اس میں بقول ایک معتبر شاہد کے خلافتِ ثانیہ کے خلاف جھوٹے الزام لگانے کی سکیم بنائی۔مجھے وقت پر یہ خبر مل گئی اور میں نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور درد صاحب مرحوم کو مقرر کیا کہ وہ مخبر کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر ان کی سکیم سُنیں۔ چنانچہ عرفانی صاحب کی شہادت ہے کہ ان لوگوں نے آپس میں باتیں کیں کہ جتنے مالی الزام خلیفہ ثانی پر لگائے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی کارگر ثابت نہیں ہوا اور نہ ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے اِس لئے اب ان پر اخلاقی الزام لگانے چاہئیں۔
مخبر کا بیان ہے کہ اخلاقی الزام کی تشریح بھی انہوں نے کی تھی کہ مولوی عبدالسلام صاحب کی ایک بیوی جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی لڑکی تھیں اور اپنے والد کی طرف سے کئی دفعہ دعا کے خط لے کر میرے پاس آیا کرتی تھیں اُن کو بھیجا جائے جب اُن کے لئے خلیفۂ ثانی دروازہ کھول دیں تو باقی پارٹی کمرہ میں گُھس جائے۔ اور شور مچادے کہ ہم نے ان کو ایک غیر محرم عورت کے ساتھ دیکھا ہے اور تمام لوگوں کو کمرہ میں اکٹھا کرلیں۔
ہم اس مُخبر کی روایت کی قطعی تصدیق نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ایک راوی ہے ہاں صرف شیخ یعقوب علی صاحب کی گواہی کی تصدیق کرسکتے ہیں کیونکہ اس کے ایک وہ بھی راوی ہیں اور دوسرا راوی مخبر بھی ہے۔اِس پارٹی کے ممبر جن کی سازش شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سُنی شیخ صاحب کے بیان کے مطابق میاں عبدالسلام صاحب، میاں عبدالوہاب صاحب اور مولوی محمد اسمٰعیل صاحب غزنوی تھے۔
1930ء میں میر محمد اسحاق صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میاں منّان کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہماری جائیداد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
ابھی وہ ہزاروں آدمی زندہ ہے جو قادیان میں جانے والا ہے انہوں نے حضرت خلیفہ اوّل کا کچا مکان دیکھا ہوا ہے اس کے مقابلہ میں حضرت صاحب نے ہم کو ورثہ میں پانچ گاؤں اور قادیان کا شہردیا تھا۔گویا حضرت خلیفہ اوّل کی جائیداد ہماری جائیداد کا بیس ہزارواں حصہ بھی نہ تھی۔اب کیا وہ بیس ہزارواں حصہ جائیداد بھی ہم نے کھانی تھی؟
1930ء میں چودھری ابو الہاشم صاحب نے مجھے اپنی مرحومہ بیٹی کا جو مولوی عبدالسلام صاحب کی بیوی تھیں ایک خط بھجوایا جو بنگالی میں تھا۔ اور اس میں لکھا تھا کہ خاندانِ حضرت خلیفہ اوّل میں ہر وقت خلافتِ ثانیہ سے بغاوت کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ وہ خط میرے پاس محفوظ نہیں رہا۔ شاید قادیان میں ہی رہ گیا ہے۔
ستمبر1930ء میں پیغامیوں کی طرف سے یہ الزام لگایا گیاکہ ناصر احمد کو ولی عہد مقرر کرنے کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔40
1956ء کی مجلسِ مشاورت کے وقت بھی یہی بات میاں عبدالمنان نے کہی۔ چنانچہ چودھری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ وامیر جماعت احمدیہ شیخوپورہ تحریر کرتے ہیں کہ
''گزشتہ مشاورت کے موقع پر مجھے میاں عبدالرحیم احمد کے مکان پر رہنے کا اتفاق ہوا۔ شیخ بشیر احمد صاحب،ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب بھی وہی مقیم تھے۔میاں عبدالمنان اکثر اس مکان پر رہتے تھے اور ناشتہ او رکھانے کے وقت بھی وہیں ہوتے تھے۔میں مشاورت کی مالی سب کمیٹی کاممبر تھا اور میاں عبدالمنان بھی اس سب کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔اِس اجلاس میں مَیں اور مولوی عبدالمنان اکٹھے ہی گئے۔ رستہ میں میاں عبدالمنان نے کہا کہ لاکھوں کا بجٹ مالی سب کمیٹی کے سامنے رکھا ہی نہیں جاتا۔ اس کا حساب کتاب جماعت کے سامنے لایا ہی نہیں جاتا۔میری دریافت پر میاں عبدالمنان نے کہا کہ یہ جماعتی کاروبار یا تجارت کے متعلق ہے۔ میں اس پر چوکس ہوا۔ مالی سب کمیٹی کا اجلاس آدھی رات کے قریب ختم ہوا اور واپس ہوئے۔غالباً دوسرے دن دوپہر کے وقت میاں عبدالمنان نے پھر ایسی ہی گفتگو شروع کی او رکہا کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو کیا معلوم کہ یہاں کیا ہورہا ہے، یہاں سخت پارٹی بازی ہے۔ پھر مکرم میاں ناصر احمد صاحب کے متعلق ولی عہد کے لفظ کہے اور پھر کہا کہ وہ کوکین استعمال کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ قطعاً غلط ہے اور وہ بضدر ہا۔ میری طبیعت پر اس گفتگو کا یہ اثر تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ یہاں قیام کرنے میں مَیں نے غلطی کی ہے اور میرا یہ احساس تھا کہ اگر کوئی دوست مجھے یہاں ملنے کے لئے بھی آئے اور تھوڑا وقت بھی ٹھہرے تو وہ بھی بُرا اثر قبول کریں گے۔''
خاکسار
محمد انور حسین
1956/09/14 ’’
پھر محمد یوسف صاحب بی۔ایس۔سی سابق افسر کویت کی گواہی ہے کہ1931ء میں مولوی عبدالوہاب عمر خلیفہ ثانی پر گندے الزامات لگاتے رہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:۔
''میں نے1929ء میں بیعت کی تھی۔اس کے ایک دوسال بعد یا اِسی دوران میں میرے والد صاحب مجھے مولوی ظفر اقبال صاحب سابق پرنسپل اورینٹل کالج لاہور کے پاس لے گئے(جن کے والد احمدی تھے اور جو ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب جو لاہور کے مشہور سرجن ہیں اُنکے بڑے بھائی ہیں)اور انہیں کہا کہ میرا بیٹا احمدی ہوگیا ہے اِسے سمجھایا کریں۔ میں بہرحال والد صاحب کے کہنے پر مولوی ظفر اقبال صاحب سے ملتا رہا۔انہوں نے سلسلہ کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کی البتہ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ بڑے مرزا صاحب تو یقیناً بڑے اچھے آدمی تھے لیکن آپ کے موجودہ امام پر کئی گندے الزامات ہیں اور یہ کہ میں آپ کو اس کے ثبوت میں عینی شاہد دے سکتا ہوں۔ میں نے کہا کہ مولوی صاحب آپ کو وہ بات کہنے کااسلام مجاز نہیں بناتا جس کے آپ عینی شاہد نہیں۔جب آپ کی بات ہی اصول کے خلاف ہے تو عینی شاہد مہیّا کرنے کے لئے مطالبہ کرنا غلط ہے۔ یہ بات یہیں ختم ہوگئی۔
میرا ہمیشہ سے یہی تأثر رہا ہے کہ وہ عینی شاہد جس کا مولوی صاحب ذکر کرتے تھے میاں عبدالوہاب عمر تھے۔میں حتمی طور پر یہ بات نہیں کہہ سکتا لیکن کئی باتوں اور حالات کی وجہ سے میرا تأثریہی رہا ہے۔''
خاکسار
محمد یوسف
1956ء/11/11 ’’
اسی کی تصدیق شیخ محمد اقبال صاحب مالک بوٹ ہاؤس کوئٹہ کی شہادت سے بھی ہوتی ہے۔چنانچہ شیخ صاحب لکھتے ہیں:۔
شیخ محمد اقبال صاحب تاجر کوئٹہ کی شہادت
''چوہدری برکت علی مرحوم جو مکتبہ اردو اور ماہنامہ ''ادب لطیف''لاہور کے مالک تھے گرمیاں گزارنے اکثر کوئٹہ آتے رہتے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک اَور غیر احمدی دوست ہوا کرتے تھے جو محکمہ تعلیم پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ ہر دو اصحاب میرے ایک غیر احمدی نوجوان کے گھر اکثر آتے رہتے تھے جو محکمہ ریل میں آفیسر ہیں۔ وہیں میری اُن سے کبھی کبھار ملاقات ہوتی۔ چوہدری صاحب مرحوم سے مذہبی گفتگو کا سلسلہ اکثر چلا کرتا تھا۔ وہ مجلس احرار کے سرگرم رُکن تھے اور اُن کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ احراریوں کی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے او ران کی بڑی مالی امداد بھی کرتے تھے۔احمدیت کے خلاف گوناگوں تعصّب رکھتے۔ اُن کے لہجہ میں طنز کا پہلو نمایاں ہوتا اور بار بار کہتے کہ ہمیں کیا بتاتے ہو ہم تو آپ کی جماعت کے اندرون سے اچھی طرح واقف ہیں۔
غالباً1943ء کی گرمیوں کا ذکر ہے کہ دورانِ گفتگومیں حسبِ معمول چوہدری برکت علی نے متذکرہ بالا ہر دو غیر احمدی احباب کی موجودگی میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے طنزاً کہا کہ تم ابھی بچے ہوتمہیں ابھی اپنی جماعت کے اندرون کا علم نہیں ہوا۔ تمہاری جماعت کے سرکردہ لوگ ہم سے پوشیدہ ملتے رہتے ہیں اور اہلِ قادیان کے اندرونی حالات ہم کو بتاتے رہتے ہیں۔ جس سے''مرزائیت کی سچائی''ہم پر خوب واضح ہوچکی ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر آپ جھوٹ بول کر اپنا ایمان ضائع نہیں کررہے ہیں تو مجھے اُن سرکردہ احمدیوں کے نام بتائیں جو آپ کو پوشیدہ ملتے ہیں اور اگر بہت سی راز کی باتوں سے آپ پر سچائی آشکار ہو چکی ہے تو چند ایک ہمیں بھی بتائیں تاکہ ہم اس سچائی سے محروم نہ رہ جائیں۔ لیکن وہ اس سوال سے کتراتے او رنام نہ بتاتے۔ صرف اتنا کہتے کہ وہ لوگ تمہاری جماعت میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔لیکن ان سے بہت بے انصافی کا برتاؤ ہوا ہے، وہ قادیان میں بہت تنگ ہیں، ان کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے او راپنی تنگ دستی اورپریشانیوں کی ہم سے شکایت کرتے ہیں اور ہم سے مالی امداد بھی طلب کرتے رہتے ہیں۔پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگے کہ وہی لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ قادیان بھر میں دو شخص بھی ایسے نہیں ملیں گے جو دل سے موجودہ خلیفہ سے خوش ہوں۔ ڈر کے مارے گو ظاہر طور پر اب تک مخالفت نہیں ہوئی لیکن جہاں بھی موقع ملتا ہے لوگ خفیہ مجالس کرکے موجودہ خلیفہ کے خلاف غم وغصہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔''
(آج کل بھی وہ''نوائے پاکستان''میں اعلان کررہے ہیں کہ جماعت کا اکثر حصہ خلیفہ ثانی سے بیزاری کا اظہار کررہا ہے۔وہ کذاب اور جھوٹا یہاں آکر دیکھے او رجتنے لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان کا دسواں حصہ ہی اپنی طرف دکھا دے۔ دسواں نہیں ہزارواں حصّہ ہی دکھا دے۔ ہمارے اندازہ کے مطابق اِس وقت جلسہ میں عورتوں اور مردوں کی تعداد ساٹھ ہزارہے وہ ساٹھ آدمی ہی مبائعین میں سے اپنے ساتھ دکھا دے)
پھر کہا:-
''اَب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حال میں قادیان میں ایک جلسہ عام ہوا ہے جس میں اہلِ قادیان نے متفقہ طور پر خلیفہ صاحب کی اقتداء کے خلاف نکتہ چینی کی ہے اور صدائے احتجاج بلندکی ہے(لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ)
میں خاموشی سے سُنتا رہا۔ اس کے بعد چوہدری صاحب کہنے لگے کہ تمہاری جماعت کے بزرگوں کے ذاتی کیریکٹر کے متعلق بھی ہمیں اطلاعات ملتی رہتی ہیں اور کچھ بزرگوں کے خلاف الزام بھی لگائے۔ اِس پر میری غیرت نے اور کچھ سُننا گوارا نہیں کیا او رمیں نے نہایت جوش میں دوسرے ہر دو غیر احمدی احباب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دوستو! ہمارا پنا مکان قادیان میں ہے اور میں اور میرا خاندان ایک لمبے عرصہ تک وہاں مقیم رہے ہیں۔ہم بھی وہاں کے تمام حالات سے واقف ہیں لیکن میں عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے چودھری صاحب کے تمام الزامات اور غلط واقعات کی تردید کرتا ہوں او را س کے جواب میں یہی کہتا ہوں کہ لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ اور اب میں یہ کہتاہوں کہ اگر چودھری صاحب ان نام نہاد سرکردہ احمدیوں کا نام نہیں بتائیں گے جو نہ صرف منافق ہیں اور خفیہ طور پر احرار سے ملتے ہیں بلکہ اپنے کذب اور جھوٹ کو''راز کی باتیں'' بتا کر ان کے عوض جماعت کے شدید دشمنوں کے سامنے کاسۂ گدائی لئے پھرتے ہیں تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ یہ سب کذب اور افتراء چودھری صاحب جیسے اور ان جیسے دیگر دشمنانِ احمدیت کے اپنے گھڑے ہوئے ہیں اور خواہ مخواہ احمدیوں کو بدنام کرتے پھرتے ہیں۔اِس پر یکلخت چودھری برکت علی صاحب نے کہا کہ''وہ آپ کے خلیفہ اول کے لڑکے مولوی عبدالوہاب ہیں۔''
حضور! مجھے اُس وقت ہرگز یقین نہیں آیا تھا کہ مولوی عبدالوہاب صاحب کے متعلق جو باتیں چوہدری برکت علی نے کی ہیں وہ سچ ہیں بلکہ یہی سمجھتا رہا کہ ان پر افتراء کیا جارہا ہے۔ اور چونکہ تحقیق کے بغیر کسی پر عائد شدہ الزام کو پھیلانا اسلام میں ممنوع ہے میں آج تک خاموش رہا ہوں۔ آج تیرہ سال کے بعد اس واقعہ کو حلفیہ طور پر بیان کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں۔''41
ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ1931ء ، 1932ء میں احمدیہ ہوسٹل کی رہائش کے زمانہ میں میاں عبدالوہاب احمدیہ بلڈنگس میں جاتے اور مولوی محمد علی صاحب سے ملا کرتے تھے اور اُن سے امداد بھی لیتے تھے۔ جیسا کہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی گواہی سے ظاہر ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے اور جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ:-
''اگرچہ 1926ء میں سے لے کر آج تک مولوی عبدالوہاب صاحب کو ایک مرتبہ بھی منافقانہ خیالات کے میرے سامنے اظہار کی جرأت نہیں ہوئی لیکن میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اُن کی یہ بیماری نئی نہیں بلکہ جس زمانہ میں ہم کالج میں پڑھتے اور احمدیہ ہوسٹل لاہور میں رہتے تھے تو وہ اُن دنوں بھی احمدیہ بلڈنگ میں جاتے اور مولوی محمد علی صاحب سے ملا کرتے تھے اور ان سے مالی امداد بھی لیا کرتے تھے حالانکہ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ان کو بہت کافی مالی امداد باقاعدہ ملتی تھی۔ یہ1931ء ، 1932ء کی بات ہے۔''
اِسی کی تائید شیخ محمد اقبال صاحب تاجر کوئٹہ کے بیان سے بھی ہوتی ہے جس کو ابھی بیان کیا گیا ہے اورجس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مکتبہ اردو اور ماہنامہ ''ادب لطیف''لاہور کے مالک چوہدری برکت علی مرحوم نے اُن سے کہا کہ تمہاری جماعت کے سرکردہ لوگ ہم سے پوشیدہ ملتے رہتے ہیں اور اہل قادیان کے اندرونی حالات ہم کو بتاتے رہتے ہیں۔ جب میں نے اصرار کیا کہ بتائیں وہ کون لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ تمہاری جماعت میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں مگر''وہ قادیان میں بہت تنگ ہیں ،ان کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے او راپنی تنگدستی او رپریشانیوں کی ہم سے شکایت کرتے ہیں او رہم سے مالی امداد بھی طلب کرتے رہتے ہیں۔''اور آخر میں مولوی عبدالوہاب کا نام لیا42۔
اِن گواہیوں سے ظاہر ہے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب اپنی تنگدستی اور پریشانیوں کی غیروں سے شکایت کرتے رہے اور یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ اُن کی کوئی مالی امداد نہیں کی جاتی۔حالانکہ یہ بالکل جھوٹ تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام1908ء میں فوت ہوئے تھے اور حضرت خلیفہ اول1914ء میں فوت ہوئے۔ گویا حضرت خلیفہ اول کی وفات پر بیالیس سال اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر اڑتالیس سال گزر چکے ہیں جو حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے عرصہ سے یقیناً زیادہ ہے۔ اس عرصہ میں سلسلہ کی طرف سے جو دونوں خاندانوں کو امداد دی گئی ہے اُس کا میں نے حساب نکلوایا ہے جو پچیس سال گزشتہ کا، مل چکا ہے کیونکہ کچھ ریکارڈ قادیان رہ گیا ہے۔اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کو 25سال کے عرصہ میں نوے ہزار ایک سو بیس روپیہ دیا گیا۔اور حضرت خلیفہ اول کے خاندان کو جو بہرحال حضرت مسیح موعودؑ کے خادم تھے اس عرصہ میں نوے ہزار دوسو نوے روپیہ ملا ہے۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے جن کے افراد زیادہ تھے حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان کو ایک سَو ستّر روپیہ زیادہ ملا۔ اور ابھی وہ رقمیں الگ ہیں جو مَیں دیتا رہا۔ مگر باوجود اس کے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان کو گرایا جارہا ہے او ران کی مدد نہیں کی جارہی۔
جب اس کے ساتھ یہ بات بھی ملائی جائے کہ اس پچیس سال میں مَیں نے چندے کے طور پر پنتالیس ہزار کی رقم دی ہے اور پچھلے سال قریباً ڈیڑھ لاکھ کی زمین انجمن کو دی ہے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کو ایک کوڑی بھی نہیں ملی بلکہ انہوں نے بغیر کوئی پیسہ لئے صدر انجمن احمدیہ کی خدمت کی ہے اور اس کو ایک بڑی بھاری رقم دی ہے۔ اور اس کے علاوہ تحریک جدید کو میں نے تین لاکھ روپیہ دیا ہے۔
1936ء میں کیپٹن نواب دین صاحب دارالفضل ربوہ کی گواہی کے مطابق شیخ محمد سعید صاحب نے جوآجکل صوبیدار میجر کے عہدہ سے رٹیائر ہو کر لاہور میں مقیم ہیں اُن کے پاس بیان کیا کہ ڈلہوزی میں میاں عبدالوہاب شیخ مولا بخش صاحب لائلپوری اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی اُن مجالس میں موجود ہوتے تھے جن میں وہ خلیفہ ثانی پر گندے الزامات لگاتے تھے اور ان لوگوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے۔
1940ء میں شیخ عبدالرحیم صاحب پراچہ کی گواہی کے مطابق مولوی حبیب الرحمٰن صاحب لدھیانوی کے والد مولوی محمد زکریا صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ مولوی عبدالوہاب صاحب ان کے ایجنٹ اور مُخبر ہیں۔چنانچہ پراچہ صاحب لکھتے ہیں۔
مکرم شیخ عبدالرحیم صاحب پراچہ کی شہادت
''بہت عرصہ ہوا احمدیہ ہوسٹل لاہور مزنگ کے علاقہ میں نواب صاحب بہاولپور کی کوٹھی میں جس کا نام مجھے یقینی طور پر یاد نہیں رہا(غالباً''الفیض''تھا)میرے بڑے بھائی میاں فضل کریم صاحب پراچہ بی۔اے ایل ایل بی سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل تھے۔ حضور لاہور تشریف لائے تو ہوسٹل میں ہی قیام فرمایا۔ میں بھی لاہور میں تھا۔ ایک دن حضورباہر تشریف لے گئے اور حضور کے کمرہ میں کوئی نہ تھا تو مولوی عبدالوہاب اس کمرہ میں گئے او رحضور کے کاغذات دیکھنے لگ گئے۔ بھائی فضل کریم صاحب نے دیکھ لیا اور انہوں نے اُن سے بہت سختی کی اور حضور کی خدمت میں بھی بعد میں عرض کردیا۔اَب مجھے یاد نہیں اُس وقت میں ہوسٹل میں تھا یا بعد میں بھائی صاحب نے بتایا وہ بہت غصّے میں تھے اور کہتے تھے ان کا پیغامیوں سے تعلق ہے اور اس ضمن میں تلاشی لے رہے تھے۔ انہوں نے مولوی عبدالوہاب کی سخت بے عزتی کی جو مجھے ناگوار گزری کیونکہ بھائی صاحب نے حضور سے عرض کردیا تھا او رحضور نے ستّاری سے کام لیا۔ مجھے محض حضرت خلیفہ اوّل کے مقام اور بھیروی اور ہمارے بزرگوں کے مُحسن ہونے اور اکثر بھیرہ کے لوگوں کے اُن کے ذریعہ جماعت میں داخل ہونے کی وجہ سے بھائی صاحب پر افسوس ہوا کہ حضور نے تو ستّاری کی اور وہ ان کو ننگا کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ جنگ سے پہلے او رجنگ شروع ہونے کے زمانہ میں جو اغلباً1937ء ، 1938ء اور1939ء تھا مَیں کاروبار کے سلسلہ میں شملہ جاتا رہا۔ پہلی دفعہ وہاں مَیں مسلم یا دہلی مسلم ہوٹل میں(صحیح نام یاد نہیں) ٹھہرا۔ او رپھر دوسری مختلف جگہوں پر ٹھہرا۔ میرا قالین کا کاروبار تھا اور قالین کے ایرانی بیوپاری مال لے کر اس ہوٹل میں ٹھہرتے تھے جس کی وجہ سے اکثر اس ہوٹل میں جانا پڑتا تھا۔ ہوٹل کے مالک دہلی میں ریلوے اسٹیشن پر مسلم ریفرشمنٹ روم کے کنٹریکٹر بھی تھے۔اور ان کا منیجر منظورحسین یا احمد ہوتا تھا مجھے سنہ صحیح یاد نہیں مگر مندرجہ بالا اوقات کے دوران میں ایک دن اس ہوٹل کے کھانے کے کمرے میں چائے یا کھانا کھا رہا تھا تو وہاں ایک سفید ریش معمّر مولوی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔اَب یاد نہیں کہ مولوی عبدالوہاب صاحب وہاں مجھ سے پہلے بیٹھے ہوئے تھے یا بعد میں آئے اُن سے وہاں ملاقات ہوئی۔ میں اپنے ساتھی کے ساتھ مصروف رہا۔ مولوی عبدالوہاب صاحب فارغ ہوکر چلے گئے اور میں وہاں بیٹھا رہا۔ مینیجر ہوٹل منظور صاحب جن سے میری بے تکلّفی تھی آکر پاس ہی بیٹھ گئے۔ اُن سفید ریش مولوی صاحب نے جو نہیں جانتے تھے کہ میں احمدی ہوں(مگر منظور صاحب کو میرا اچھی طرح علم تھا)مولوی عبدالوہاب صاحب کا ان کے چلے جانے کے بعد ذکرشروع کردیا کہ یہ فلاں آدمی ہیں او ریہ ہمیں خبریں دیتے ہیں اور ہمیں انہی لوگوں سے مرزائیوں کے راز معلوم ہوتے ہیں۔ اور کہا کہ(مجھے صحیح یاد نہیں آج یا کل)یہ چوہدری افضل حق کے پاس بھی آئے تھے۔(اُن دنوں چودھری افضل حق صاحب شملہ میں تھے)اَور بھی گفتگو ہوئی مگر اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد یاد نہیں مگر وہ الفاظ یا مفہوم جن سے مولوی صاحب کا احراریوں سے تعلق ظاہر ہوتا تھا اور پھر خلیفہ اوّل کی اولاد کس طرح بھول سکتے ہیں سخت صدمہ ہوا۔ میں نے کسی رنگ میں بعد میں مولوی صاحب سے خود چودھری افضل حق صاحب سے ملاقات کی تصدیق بھی کروالی۔پیغامیوں سے ان کے تعلقات کا کئی دفعہ سن چکا تھا۔مگر یہ الفاظ رنجدہ تھے منظور صاحب نے میرے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اُن سفید ریش مولوی صاحب کو یہ نہ بتایا کہ یہ احمدی ہیں بلکہ مسکراتے رہے اور انہیں نہ ٹوکا جب وہ مولوی صاحب چلے گئے تو مجھے بتایا کہ یہ مولوی صاحب مولوی حبیب الرحمٰن صاحب لدھیانوی احراری لیڈر کے والد ہیں۔بعد میں دوسروں سے بھی تصدیق ہوگئی کہ یہ مولوی حبیب الرحمٰن صاحب کے والد ہیں کیونکہ پھر کئی دفعہ ملنے کا موقع ملا۔
میں اِن الفاظ پر جو مولوی حبیب الرحمٰن صاحب کے والد نے کہے تھے حرف بحرف حلف نہیں اُٹھا سکتا مگر میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مولوی حبیب الرحمٰن صاحب کے والد صاحب نے جن کا نام مجھے یاد نہیں ا س مفہوم کے الفاظ کہے تھے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب احراریوں کے مُخبر ہیں اور آج یا کل بھی(شملہ میں)چودھری افضل حق صاحب کے پاس آئے تھے۔43
پراچہ صاحب نے جلسہ سالانہ پر شہادت دیتے ہوئے بتایا کہ جب الفضل میں میرا یہ خط شائع ہوا تو اُس وقت مجھے اُن سفید ریش معمّر مولوی صاحب کا جووہاں بیٹھے ہوئے تھے نام یا د نہیں تھا اَب مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کا نام مولوی محمد زکریا تھا اور میں خود بھی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ مجھے یاد آگیا اورمیرے حافظہ نے کام دیا کہ ان کا نام مولوی محمد زکریا تھا۔اور مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ مولوی حبیب الرحمٰن صاحب احراری لیڈر کے والد ہیں۔
1946ء میں محمد عبداللہ صاحب ظفر وال ضلع سیالکوٹ کی گواہی کے مطابق میاں عبدالمنان صاحب نے مجھ پر اپنی جائیداد غضب کرنے کا الزام لگایا۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:۔
''ہمارے ایک معزز غیر احمدی دوست نے(جو علاقہ مجسٹریٹ کے ریڈر ہیں)مجھے بتایا کہ مولوی منّان میرے واقف ہیں۔ پارٹیشن سے پہلے جب کبھی میں ان کے ہاں جایا کرتا وہ حضور کے خلاف سخت غیظ وغضب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ‘‘دیکھو جی!’’ کمائی ہمارے باپ کی اور کھا یہ رہے ہیں (گویا مسیح موعودؑ کی کمائی ہی نہیں۔ کمائی حضرت خلیفہ اوّل کی تھی۔اگر جسمانی لو تب بھی حضرت خلیفہ اوّل کی کمائی ہم سے ہزارواں حصّہ بھی نہیں تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ورثہ میں پانچ گاؤں اور ایک شہر قادیان کا ملا تھا اور خلیفہ اوّل کو اُن کے باپ کی طرف سے ایک کچا کوٹھا بھی نہیں ملا تھا) ہمیں کوئی پوچھتا بھی نہیں اور ان کے محل بن رہے ہیں۔''
1950ء میں میاں عبدالسلام نے یہ کہا کہ عبدالباسط اُن کے بڑے بیٹے کو زہر دیاگیا ہے۔ وہ لائل پور میں پڑھتا تھا اور میں نے جماعت لائل پور سے گواہی منگوائی ہے وہ کہتے ہیں کہ میونسپل کمیٹی میں اُن کا ریکارڈ موجود ہے اور میونسپل کمیٹی کی سند موجود ہے کہ اُس نے خود کشی کی تھی۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ بعد میں جب ہم نے جنازہ نہ پڑھا کیونکہ خودکشی کرنے والے کا جنازہ جائز نہیں ہوتا تو میاں عبدالمنان نے آکر کہا کہ عبدالباسط نے خود کشی نہیں کی بلکہ کسی نے اس کو زہر دے دیا ہے اور اُس کی موت میں مختلف لوگوں کا ہاتھ ہے۔ او راس کے بعد میاں عبدالسلام اور عبدالمنان دونوں نے پُوری کوشش کی کہ کسی طرح یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس نے خود کشی نہیں کی بلکہ اُسے زہر دیا گیا ہے۔چنانچہ چوہدری رشید احمد صاحب بٹ جو سکھر میں ہیں اور مولوی عبدالسلام صاحب کی زمینوں کے قریب رہتے ہیں ان کی بھی یہی گواہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
''میری مولوی عبدالسلام مرحوم سے پہلی ملاقات جنوری 1950ء میں بمقام کنڈیارو ہوئی جبکہ ہمارا تعارف چودھری ہدایت اللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت کنڈیارو نے کرایا۔ اس سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الاول۔ کے لڑکوں کے نام تو جانتا تھا مگر ان میں سے میرا کوئی واقف نہ تھا۔اس دوران میں مولوی صاحب موصوف اس قسم کی باتیں کرتے رہے جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے موجودہ نظام سے دلچسپی نہیں ہے(یہ تو ظاہر ہی ہے مگر میاں بشیر احمد صاحب کو مولوی عبدالسلام صاحب کا بیٹا خود کہہ گیا ہے کہ میں خلافت سے بدظن ہوں۔ اور کہہ گیا ہے کہ آپ تو بڈھے ہوگئے ہیں، آپ کے ساتھ تو مستقبل کوئی نہیں۔ میں جوان آدمی ہوں میرے سامنے بڑا مستقبل ہے میں نے اس کی فکر کرنی ہے۔ گویا وہ بھی خلافت کا خواب دیکھ رہا ہے)
سیّدی!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غالباً سب سے پہلے ایسی بات جو مولوی صاحب موصوف نے مجھ سے کی وہ یہ تھی کہ میرا بڑا لڑکا جو زہر دے کر ہلاک کیاگیا تھا وہ دراصل مرزا خلیل احمدکی وجہ سے ہوا تھا کیونکہ وہ دونوں کمیونسٹ ہوچکے تھے حضرت صاحب نے اپنے لڑکے کو بچا لیا اور مجھے یہ کہہ کر اَب اگر تم کیس کروگے تو مسیح موعودؑ کے خاندان کی بے عزتی ہوگی حالانکہ میر محمدؐاسمٰعیل صاحب مرحوم نے مجھے بہت کہا تھا کہ کیس کرو مگر میں نے اس واسطے نہیں کیا کہ مجھے حضرت صاحب نے بُلا کر منع کیا تھا(جھوٹ ہے لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ) بہر حال میرا لڑکا (یعنی مولوی عبدالسلام کا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا پوتا)مسیح موعودؑ کے پوتے کے لئے قربان ہوگیا۔ اس دوران میں مولوی صاحب نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ جس وقت یہ کیس ہوا اُس وقت خلیل کی الماری اشتراکی لٹریچر سے بھری ہوئی تھی جس کو خود حضرت صاحب نے جلایا(یہ بھی جھوٹ ہے ۔البتہ یہ ٹھیک ہے کہ بعض کمیونسٹ جو ہمارے دشمن تھے انہوں نے خلیل کے نام کمیونسٹ لٹریچر بھیجنا شروع کردیا تھا)
میں نے مولوی صاحب سے جواباً کہا۔مجھے یہ علم نہیں نہ حضور کے علم میں یہ باتیں ہیں۔''
عبدالباسط نے درحقیقت خود کشی کی تھی جس کی تائید میں جماعت احمدیہ لائلپور نے مولوی عبید اللہ صاحب قریشی، شیخ محمدؐ یوسف صاحب،ڈاکٹر محمد طفیل صاحب، شیخ نذر محمد صاحب،میاں محمد شفیع صاحب،کمانڈر عبداللطیف صاحب ،چودھری عبدالرحمن صاحب،ڈاکٹر چودھری عبدالاحد صاحب اور شیخ عبدالقادر صاحب مربی لاہور کی گواہیاں میرے پاس بھجوا دی ہیں۔جن میں انہوں نے کہا ہے کہ تحقیقات ہوئی اور پولیس بھی آئی اور پھر سارا واقعہ لکھا کہ اس طرح وہ کمیونسٹ دوستوں کے پاس سے آیا او رکہنے لگا۔ مَیں ذرا غسل خانہ میں جانا چاہتا ہوں۔ وہاں گیا تو تھوڑی دیر کے بعد ہم کو آواز آئی۔ ہم نے جب جھانکا تو دیکھا کہ زمین پر گرا پڑا تھااور قے کی ہوئی تھی۔ پھر ہم نے ا س کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس میں سے رُقعہ نکلا کہ میں نے خود زہر کھایا ہے کسی پر الزام نہ لگایاجائے۔ چنانچہ وہ رقعہ پولیس میں دیا گیا۔ اس نے تحقیقات کی او رمیونسپل کمیٹی نے سرٹیفکیٹ دے دیا کہ سیُوسَائڈ(SUICIDE)ہے، دفن کردیا جائے۔اس وجہ سے پولیس نے کوئی مزید کارروائی نہ کی۔
خلیل کا واقعہ ستمبر1941ء کا ہے۔1941ء میں بعض احراریوں نے کمیونسٹوں سے مل کر خلیل احمد کو کمیونسٹ لٹریچر بھیجنا شروع کیا اور دوسری طرف گورنمنٹ کو اطلاع دی کہ اس کے پاس کمیونسٹ لٹریچر آتا ہے اور یہ کمیونسٹ ہے۔ مجھے اس سازش کا پتہ لگ گیا اور میں نے فوراً ڈاکخانہ کو لکھ دیا کہ خلیل کی ڈاک مجھے دی جایا کرے خلیل کو نہ دی جایا کرے۔ میری غرض یہ تھی کہ یہ الزام نہ لگائیں کہ ڈاک کے ذریعہ ا س کے پاس لٹریچر آتا ہے۔ جب وہ لٹریچر میرے پاس آئیگا تو میں اسے تلف کردوں گا اور گورنمنٹ کو کوئی بہانہ نہیں ملے گا۔پولیس نے پھر بھی شرارت کی اور اس کے بعد جب میں ڈلہوزی گیا تو وہاں ڈاکیا کو ساتھ ملا کر ایک بیرنگ پیکٹ خلیل کو دلوا دیا۔ چونکہ میں نے اسے منع کیا تھا وہ فوراً میرے پاس لے آیا اور میں نے وہ درد صاحب کے سپرد کیا اور درد صاحب کے ہاتھ سے پولیس سب انسپکٹر چھین کر لے گیا۔میں نے فوراً گورنر کو تار دلادیا کہ اس طرح پولیس آئی ہے او ردرد صاحب کے ہاتھ سے ایک ٹریکٹ چھین کر لے گئی ہے۔ہمیں نہیں پتہ اس میں کیا ہے۔ مگر اس کا منشا یہ ہے کہ خلیل کوزیرِ الزام لائے کیونکہ وہ خلیل کے نام آیا تھا۔ اس پر گورنمنٹ نے تحقیقات کی او رپولیس کی شرارت اُس پر ظاہر ہوگئی اور وہ ہیڈ کانسٹیبل جو اُس وقت سب انسپکٹر کام کررہا تھا اُس کو ڈی گریڈ کیا گیا۔اور ڈلہوزی سے بدل کر شکر گڑھ کے ایک چھوٹے سے تھانہ میں بھیج دیا گیا۔ اُس وقت نہ ہمیں معلوم تھا کہ عبدالباسط بھی کمیونسٹ اثر کے نیچے ہے اور نہ ہم اس کے لئے کوئی کوشش کرسکتے تھے۔ کیونکہ وہ لائلپور میں پڑھتا تھا اور لائل پور کالج کے کمیونسٹ لڑکوں سے ملا کرتا تھااور ہماری حفاظت سے باہر تھا۔
پھر یہ مخالفت اتنی لمبی کی گئی کہ1950ء ، 1951ء کی گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں عبدالمنان کی خلافت کا پروپیگنڈا شروع کردیا گیا۔چنانچہ عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صادق صاحب مبلغ سیر الیون جو محبوب علی صاحب مرحوم آف مالیر کوٹلہ کی دختر ہیں لکھتی ہیں کہ:
''1950ء ، 1951ء کا واقعہ ہے کہ میرا خالہ زاد بھائی منور شاہ ولد فضل شاہ(ساکن نواں پنڈ احمد آباد مضافات قادیان کا ہے۔اور اِس وقت گوٹھ لالہ چرنجی لال نمبر385تحصیل میرپور خاص ضلع تھرپارکر سندھ میں رہائش رکھتا ہے)انہی دنوں میں یعنی1950ء، 1951ء میں جب کہ مرزا شریف احمد صاحب کی دکان بندوقوں والی میں ملازم تھا ربوہ میں میرے پاس ملنے کو آیا۔اتفاقاً ایک دن باتوں باتوں میں یہ ذکر کیا کہ ایک گروہ نوجوانوں کا ایسا ہے جو کہتا ہے کہ موجودہ خلیفہ کے بعد اگر خلافت پر مرزا ناصر احمد صاحب کو جماعت نے بٹھایا تو ہماری پارٹی میں سے کوئی بھی اسے نہیں مانے گا۔ ہم تو میاں عبدالمنان صاحب عمر کو خلیفہ مانیں گے۔ میں نے اُسے بُرا منایا اور جھڑک کرکہا کہ وہ خبیث کون کون ہیں؟ اس پر غصے میں آکر کہنے لگا کہ دیکھنا! اُس وقت تم لوگوں کا ایمان بھی قائم نہیں رہے گا۔یہ کہہ کر اُسی وقت وہ میرے گھر سے باہر چلا گیا۔ میں اس کی وجہ سے دل میں کُڑھتی رہی مگر سمجھ نہیں آتی تھی کہ اِس کا ذکر حضور سے کیونکر کروں۔ اب حضور کا ارشاد پڑھ کر میں نے یہ بیان مولوی عبداللطیف صاحب بہاول پوری کو لکھوادیا۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ کہتی ہوں کہ یہ بیان صحیح ہے۔ الفاظ میں کمی بیشی ہو تو الگ امر ہے مگر مفہوم یہی تھا۔''44
اسی طرح چودھری بشارت احمد صاحب لاہور کی گواہی ہے۔جس میں وہ کہتے ہیں کہ غلام رسول نمبر35نے بھی یہی کہا کہ ہم تو میاں عبدالمنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے۔45
اور مولوی محمد صدیق صاحب شاہد مربی راولپنڈی کی بھی یہی گواہی ہے کہ اللہ رکھا نے کہا کہ اب تو لاہوریوں کی نظر حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد پر زیادہ پڑتی ہے اوروہ میاں عبدالمنان صاحب کی زیادہ تعریف کررہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ زیادہ قابل ہیں۔46
چنانچہ''پیغام صلح''کی تائید سے بھی ظاہر ہوگیا ہے کہ بات سچ ہے۔اسی طرح عنایت اللہ صاحب انسپکٹر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ لکھتے ہیں:۔
''ڈاکٹر محمد شفیع صاحب نثار پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ طالب آباد نے بتایا کہ آج سے دو سال قبل گوٹھ رحمت علی تھل برانچ پر مولوی محمداسمٰعیل صاحب غزنوی(یہ حضرت خلیفہ اول کے نواسے اور عبدالوہاب اور عبدالمنان کے بھانجے ہیں)کے ایک پروردہ شخص بشیر احمد نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی خلافت کا حق مولوی نور الدین صاحب کے بعد اُن کی اولاد کا تھا۔لیکن میاں محمود احمد صاحب نے(نَعُوْذُ بِاللّٰہِ)ظلم سے ان کا حق غصب کرکے خلافت پر قبضہ کرلیا ہے۔اب ہم لوگ(یعنی خاندان حضرت خلیفہ اوّل اور ان کے غیراحمدی رشتہ دار)اس کوشش میں ہیں کہ خلافت کی گدّی مولوی صاحب کی اولاد کو ملے۔اور اب''حق بحقدار رسید''کے مطابق جلد ہی یہ معاملہ طے ہوکر رہے گا۔''47
یعنی حق حضرت خلیفہ اوّل کا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد نے خواہ مخواہ بیچ میں دخل دے دیا۔ چنانچہ ہمارے پاس بعض ٹریکٹ ایسے پہنچے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل کے غیر احمدی رشتہ داروں نے مختلف کارٹونوں کے ذریعہ سے اس کے لئے پروپیگنڈا بھی شروع کردیا ہے او ریہ اشتہارات کثرت کے ساتھ جماعت میں شائع کئے جائیں گے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اِس وقت ایک ٹریکٹ چالیس ہزار چھپا ہے اور کثرت سے ایسے ٹریکٹ جماعت میں شائع کئے جائیں گے۔
مہاشہ محمدعمر صاحب کی شہادت
مہاشہ محمد عمر صاحب کی رپورٹ بھی اِسی کی تائید کررہی ہےکہ اب تک
مخالفت بڑھائی جارہی ہے۔ وہ کہتے ہیں:۔
''میں بتاریخ56/12/24کو جلسہ سالانے کے لئے ڈھاکہ سے ربوہ آرہا تھا۔جب مَیں امرتسر ریلوے سٹیشن پر گاڑی سے اُترا تو ایک نوجوان مجھے ملا۔ اس نے کہا۔کیا آپ ربوہ جا رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس پر اس نے کہا کہ اگرآپ کو ہماری خدمات کی ضرورت ہوتو ہم حاضر ہیں۔کیونکہ ہماری ڈیوٹی لگی ہے کہ جلسہ پر آنے والے احمدیوں کو سہولت کے ساتھ پہنچا دیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیااور بازار چلا گیا۔
جب ہم بس میں سوار ہوئے تو وہ بھی ہمارے پاس آکر لاہور کے لئے اس بس میں بیٹھ گیااور کہنے لگا کہ آپ لوگوں کے لئے کھانے وغیرہ کا انتظام حضرت مولوی عبدالمنان صاحب نے رتن باغ میں کیا ہے اور وہ بڑے متقی ہیں آپ وہاں تشریف لے چلیں۔
میں نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میرا نام ارشد ہے(ممکن ہے اس نے اپنا نام غلط بتایا ہو ہمارے علم میں اس کا نام خالد ہے)اور میں حضرت مولوی عبدالمنان صاحب کا بھانجا ہوں اور مولوی محمد اسمٰعیل صاحب غزنوی کا لڑکا ہوں۔میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ یہ مَیں درست کہہ رہا ہوں۔'' (مہاشہ محمد عمر)
گویا جیسے شیطان نے کہا تھا کہ اَنَاخَیْرٌمِّنہُ48 کہ میں آدم سے بہتر ہوں اِسی طرح اسمٰعیل غزنوی کے بیٹے نے ہمارے بنگالی مہمانوں کو ورغلانے کے لئے کہا کہ منّان صاحب کی دعوت کھاؤ جو جماعت میں تقویٰ میں سب سے افضل ہے۔
پھر1953ء میں مولوی عبدالمنان صاحب نے سلسلہ کے مخالف وہابیوں سے ایک خفیہ ساز باز کی۔ چنانچہ ہمیں ایک فائل اورینٹل(ORIENTAL) کمپنی کے دفتر سے ملا ہے جس کے چئیرمین مولوی عبدالمنان صاحب تھے۔ خداتعالیٰ نے ان کی عقل ایسی ماری کہ وہ اپنے کئی خطوط وہاں چھوڑ کر بھاگ گئے۔چنانچہ ایک خط اُن میں مولوی محمد اسمٰعیل صاحب غزنوی کا ملا ہے جو ان کے سوتیلے بھانجے ہیں اور غزنوی خاندان میں سے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شدید دشمن رہا ہے۔اور جس کی مخالفت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:-
''جو امانت آپ کے پاس پڑی ہے ضرورت ہے کہ وہ محفوظ ترین طریق سے میرے پاس پہنچ جائے۔ یا تو ان سو جیپوں میں سے کسی ایک پر جو لاہور آرہی ہوں اشیاء بھجوادیں(معلوم ہوتا ہے سازشی طور پر یہاں سے لاہور تک ایک جال تنا ہوا تھا)یا کسی معتبر آدمی کے ہاتھ جسے میں کرایہ بھی ادا کردوں گا۔ یا اگر آپ صالحہ بیگم زوجہ میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کی خبر لینے کے لئے آئیں (وہ1952ء میں لاہور علاج کے لئے گئی تھیں)تو آپ اپنے ساتھ لیتے آئیں۔مگر کسی کے ہاتھ بھجوائیں تو بے خطا بھجوائیں ضائع نہ ہو۔''
اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ1953ء سے مولوی عبدالمنان او رسلسلہ کے مخالف وہابیوں میں خفیہ ساز باز جاری تھی۔
ایک خط اس فائل میں اللہ رکھا کا مولوی عبدالمنان کے نام ملا ہے اس میں اس نے خواہش کی ہے کہ آپ اپنے لنگر خانہ میں مجھے ملازمت دلوادیں۔ چنانچہ وہ لکھتا ہے:۔
''آپ اپنے لنگر خانہ میں مجھے ملازمت دلوا دیں(گویا سلسلہ کا لنگر خانہ جلسہ کے کام پر مقرر کرنے کی وجہ سے اب میاں عبدالمنان کا ہوگیا)مگر جلسہ سالانہ سے پہلے کسی اچھی جگہ پر لگادیں''
اَب اللہ رکھاکا تازہ خط پکڑے جانے پر اس خاندان نے شور مچایا ہے کہ اللہ رکھا کاہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔وہ خط تو اماں جی کی وفات پر محض ہمدردی کے خط کے جواب میں تھا۔ حالانکہ یہ خط بتاتا ہے کہ اللہ رکھا سے پرانے تعلقات چل رہے تھے۔ بلکہ قادیان سے ایک درویش نے جو کہ لنگر خانہ کا افسر تھا لکھا ہے کہ میں لنگر خانہ کے سٹور میں سویا ہوا تھا کہ رات کو میں نے دیکھا کہ اللہ رکھا آیا، اس کی آنکھیں کمزور ہیں او راسے اندھراتا کی شکایت ہے جس کی وجہ سے اسے رات کو ٹھیک طور پر نظر نہیں آتا اس نے آکر اِدھر اُدھر دیکھا مگر اندھیرے کی وجہ سے مجھے دیکھ نہ سکا اس کے بعد وہ وہاں سے سامان اٹھا کر بازار میں بیچنے کے لئے لے گیا۔ میں نے اس کو راستہ میں پکڑ لیا۔ پھر اور لوگ بھی جمع ہوگئے او راس کو ملامت کی۔ جب تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ وہ سامان بیچ کر میاں عبدالوہاب کی ا یجنٹی کرتا ہے اور ان کو روپیہ لاکر دیتا ہے وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
چونکہ راوی ایک ہی ہے اسلئے ہم اس کی شہادت کی قطعی طور پر تصدیق نہیں کرسکتے جب تک کہ کئی راوی نہ مل جائیں۔
اِسی طرح اللہ رکھا کا ایک خط مولوی عبدالمنان کے نام ملا ہے۔ اس میں لکھا ہے۔
''جناب مولوی اسمٰعیل کے ساتھ جس آدمی کے متعلق آپ کے سامنے ذکر فرمایا تھا(اپنے آپکو فرمایا لکھتا ہے)اس کو جناب مولوی (صاحب) سے ملادیا۔ بعد میں کوشش کی کہ آپ کی بھی ملاقات ہووے مگر آپ کو موقع نہ ملا۔ اگر موقع ملتا تو آپ ضروراس کے خیال کا پتہ کرتے اور جو مال ا س کے پاس تھا دیکھتے۔ اگر اس قابل ہوتا کہ موجودہ وقت کے مطابق شائع کرنا مناسب حال ہوتا تو آپ بات کرلیتے۔''
گویا اُس وقت بھی بقول اللہ رکھا ہمارے خلاف ٹریکٹ لکھوائے جارہے تھے اور مولوی عبدالمنان مولوی اسمٰعیل صاحب غزنوی سے مل کر مشورے کرتا تھا۔ اس خط سے بالکل واضح ہوگیا ہے کہ اللہ رکھا مولوی اسمٰعیل غزنوی او رمولوی عبدالمنان میں سالہا سال سے ایک سازش جاری تھی اور یہ محض غلط بیانی ہے کہ اماں جی کی وفات پر کسی ہمدردی کے خط پر اس سے تعلق پیدا ہوا۔ یہ سازش عام نہیں تھی بلکہ سلسلہ کے خلاف لٹریچر شائع کرنے کی سازش تھی جس میں غیر احمدی بھی شامل تھے۔
ہماری جماعت کے لوگ چونکہ عموماً باہر کے لوگوں سے واقف نہیں ہوتے اس لئے وہ سمجھتے نہیں کہ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب غزنوی کون ہیں؟ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب غزنوی حضرت خلیفہ اوّل کی پہلی بیٹی کے بیٹے ہیں۔ جب آپ وہابی تھے تو آپ نے وہابی تعلق کی وجہ سے مولوی عبداللہ صاحب غزنوی رحمة اللہ علیہ جو نہایت بزرگ اور ولی اللہ تھے اور افغانستان سے ہجرت کرکے آئے تھے اُن کے بیٹے مولوی عبدالواحد سے اپنی لڑکی امامہ کا بیاہ کردیا۔ امامہ کے بطن سے تین بچے پیدا ہوئے۔ ایک آمنہ بڑی لڑکی پیدا ہوئی دوسرے محمد ابراہیم بیٹا پیدا ہوا اور تیسرے محمد اسمٰعیل پیدا ہوا جو اَب مولوی اسمٰعیل غزنوی کہلاتاہے۔ ابراہیم غزنوی بچپن میں میرے ساتھ کھیلا ہؤا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کے پاس جو اس کے نانا تھے آیا کرتا تھا۔ بہت نیک اور شریف لڑکا تھا ۔یعنی وہ اپنے چھوٹے بھائی کی بالکل ضِد تھا۔گو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ بڑا ہوتا تو احمدی ہوتایا باپ کے اثر کے نیچے نہ ہوتا مگر بہرحال وہ ایک نیک لڑکاتھا۔ اس خاندان کی سلسلہ سے عداوت بہت پرانی ہے۔ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو ملہم تھے انہوں نے ایک خواب دیکھی تھی جو حافظ محمد یوسف صاحب نے جو امرتسر کے ایک عالم تھے اور مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے مریدوں میں سے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو پہنچادی۔ وہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں چَھپی ہوئی ہے۔ وہ خواب یہ تھی کہ قادیان میں خداتعالیٰ کا نُور اُترا مگر میری اولاد اس سے محروم رہی49 جب یہ خواب شائع ہوئی تو مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی اولاد کو غصہ لگا اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بڑے بڑے فتوے دیئے۔
اِس وقت اس خاندان کے لیڈرمولوی داؤد غزنوی ہیں جو1953ء کے ایجی ٹیشن میں جس میں سینکڑوں احمدی مارے گئے تھے لیڈر تھے۔ یہ مولوی داؤد غزنوی مولوی عبدالجبار کے بیٹے ہیں جو مولوی عبدالواحد کے بڑے بھائی تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے مولوی عبدالجبار کے ایک بھائی احمد بن عبداللہ غزنوی کا فتویٰ اپنے متعلق کتابوں میں نقل کیاہے کہ وہ کیسا بدگو آدمی تھا۔ اس نے جو فتویٰ دیا تھا وہ کتاب البریہ صفحہ120پر درج ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ:-
''قادیانی کے حق میں میرا وہ قول ہے جو ابن تیمیّہ کا قول ہے جیسے تمام لوگوں سے بہتر انبیاء علیہم السلام ہیں ویسے ہی تمام لوگوں سے بدتر وہ لوگ ہیں جو نبی نہ ہوں اور نبیوں سے مشابہہ بن کر نبی ہونے کا دعوےٰ کریں۔۔۔۔۔۔یہ(یعنی مسیح موعودؑ)بدترین خلائق ہے(یعنی چوہڑوں چماروں سے بھی بدتر ہے)تمام لوگوں سے ذلیل تر آگ میں جھونکا جائے گا(یعنی جہنم میں پڑیگا)''۔50
یہ تو ایک بھائی کا فتویٰ تھا۔ اب مولوی اسمٰعیل غزنوی کے باپ(مولوی عبدالواحد غزنوی) کا فتویٰ سن لو جس کے ساتھ مل کر منّان کوششیں کررہا ہے۔اور جس کا بیٹابنگال کے وفد کو لینے کے لئے بارڈر پر گیا تھا۔
مولوی عبدالواحد بن عبداللہ غزنوی کا فتویٰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اشاعۃ السنۃ جلد13میں صفحہ202پر شائع کیا ہے۔یہ دو بھائیوں نے مل کر فتویٰ دیا تھا۔ ایک مولوی عبدالواحد نے جو مولوی اسمٰعیل غزنوی کے باپ ہیں اور ایک ان کے دوسرے بھائی مولوی عبدالحق نے۔ اس میں لکھا ہے کہ:-
''یہ مسئول عنہ شخص(یعنی حضرت مسیح موعودؑ)اپنی ابتدائی حالت میں اچھا معلوم ہوتا تھا۔دین کی نصرت میں ساعی تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کا مددگارتھا۔ دن بدن فَیُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلُ فِی الْاَرْضِ کامصداق بنتا جاتا تھا۔ لیکن اس سے اس نعمت کی قدر دانی نہ ہوئی۔ نفس پروری وزمانہ سازی شروع کی۔ زمانہ کے رنگ کو دیکھ کر اس کے موافق کتاب وسنت میں تحریف والحاد ویہودیت اختیار کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا فَیُوْضَعُ لَہُ الْبَغْضَاءُ فِی الْاَرْضِ کا مصداق بن گیا۔''51
یعنی اَب دنیا میں لوگ اس سے بُغض کریں گے۔ اب تم دیکھ لو کہ مولوی عبدالواحد کا قول سچا نکلا کہ لوگ اس سے بُغض کررہے یا لوگ بیٹھے ہوئے اس پردرود اور سلام بھیج رہے اور اس کیلئے دعائیں کررہے ہیں۔
پھر اس کاایک اور بھائی مولوی عبدالحق غزنوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے متعلق لکھتا ہے:۔
''دجّال ھے، مُلحدھے، کاذب ھے، روسیاہ ھے، بدکار ھے، شیطان ھے، *** ھے، بے ایمان ھے، ذلیل ھے، خوار ھے، خستہ خراب ھے، کافر ھے، شقی سرمدی ھے(یعنی قیامت تک شقی ھے) *** کا طوق ا س کے گلے کا ہار ھے، لعن طعن کا جُوت اُس کے سر پر پڑا، بے جا تاویل کرنے والا ھے، مارے شرمندگی کے زہر کھا کرمرجاوے گا، بکواس کرتا ھے، رسوا ھے، ذلیل ھے، شرمندہ ہوا ھے۔اللہ کی *** ہو۔ جھوٹے اشتہارات شائع کرنے والا ھے۔ اس کی سب باتیں بکواس ہیں۔''52
اور اس کا ہیڈنگ بھی کیسا پاکیزہ رکھا ہے۔ اشتہار کا نام ہے''ضَرْبُ النِّعَالِ عَلیٰ وَجْہِ الدَّجَالِ'' یعنی حضرت مسیح موعودؑ دجال ہیں اور میں انکے منہ پر جُوتیاں مارتا ہوں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے''حجۃ اللہ''کتاب کے صفحہ7 پر اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ عبدالحق غزنوی نے مجھے ایک خط میں گالیاں دیتے ہوئے لکھا ہے۔
''دس ہزار تیرے پر ***''پھر *** *** کئی دفعہ لکھا ہے اور آخر میں لکھا ہے''عشرۃ الف مِائَة'' یعنی دس لاکھ دفعہ *** اس پر نازل ہو۔
پھر یہی مولوی عبدالحق غزنوی(مولوی اسمٰعیل غزنوی کا چچا) حضرت صاحب کے متعلق لکھتا ہے:۔
''کافر، اکفر ھے مرزا۔دجّال ھے مرزا۔ شیطان ھے مرزا۔ فرعون ھے مرزا۔قارون ھے مرزا۔ہامان ھے مرزا۔ارڑپوپو53 ھے مرزا۔وادی کا وحشی ھے مرزا۔کُتا ھے جو ہانپ رہا ھے۔ یہ جنگلی کُتا ھے۔''54
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰة و السّلام نے اپنی تصنیف ‘‘ کتاب البریّہ ’’ میں اس کے خاندان کی گالیاں لکھی ہیں۔ اور لکھا ہے کہ انہوں نے میری نسبت لکھا ہے کہ:-
''ان امور کا مدعی رسولِ خدا کامخالف ہے ۔۔۔۔۔ان لوگوں میں سے ہے جن کے حق میں رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ آخر زمانہ میں دجّال کذّاب پیدا ہونگے ان سے اپنے آپ کو بچاؤ،تم کو گمراہ نہ کردیں اور بہکا نہ دیں۔ اس(قادیانی)کے چوزے(یعنی آپ لوگ بشمولیت حضرت مولوی نورالدین صاحب جو منان کے باپ اور مولوی اسمٰعیل غزنوی کے نانا او راس گالیاں دینے والے کے بھائی کے خسر تھے)ہنود اور نصاریٰ کے مخنّث ہیں۔''55
گویا جب مولوی عبدالواحد غزنوی کا پوتا بارڈر پر آپ لوگوں کو یہ کہنے گیا تھا کہ منان تقویٰ میں سب سے زیادہ ہے تو اس کے معنے یہ تھے کہ ہندو اور نصاریٰ کا مخنّث سب سے زیادہ ہے کیونکہ جب احمدی ہنود اور نصاریٰ کے مخنّث ہیں تو اگر منان احمدی ہے اور وہ احمدیوں میں سب سے بڑا ہے تو پھر وہ ہندوؤں او رعیسائیوں کا سب سے بڑا مخنّث ہے۔
چودھری ظفرا للہ خاں صاحب کہتے کہ مولوی عبدالواحد کا ایک الگ فتویٰ بھی ہے جو اُس نے عدالت میں لکھوایا تھا کہ مرزا قادیانی کافر ہے اور اس کے مرید سب کافر ہیں۔ اور جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اب مولوی محمدؐاسمٰعیل صاحب غزنوی اور مولوی داؤد صاحب غزنوی اور خالد صاحب(ابن مولوی محمد اسمٰعیل صاحب)جنہوں نے بارڈر پر جاکر بنگالی وفد کے سامنے کہا تھا کہ مولوی منان سب سے بڑے متقی ہیں بتائیں کہ آیا وہ کافر ہیں یا نہیں؟ اور آیا ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے یا نہیں؟ جیسا کہ ان کے دادا نے کہا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے یہاں تک لکھا ہے کہ مولوی اسمٰعیل غزنوی کی ماں یعنی حضرت خلیفہ اوّل کی بڑی بیٹی کی وفات بھی میرے مباہلہ کے نتیجہ میں ہوئی۔ مولوی عبدالحق غزنوی نے جو مولوی عبدالواحد غزنوی کا چھوٹا بھائی تھا پیشگوئی کی تھی کہ میرے گھر بیٹا پیدا ہوگا اور مرزا صاحب ابتر مریں گے۔ حضرت صاحب کہتے ہیں تم نے تو کہا تھا کہ تمہارے گھر بیٹے پیدا ہوں گے اور ہمارے ہاں کوئی نہیں ہوگا لیکن خدا نے میرے گھر میں دو اَور بیٹے دے دئیے۔
''اور وہ دونوں پیشگوئیاں جو صدہا انسانوں کو سنائی گئی تھیں پوری ہوگئیں۔ اب بتلاؤ کہ تمہاری وہ پیشگوئیاں کہاں گئیں۔ ذرا جواب دو کہ اس فضول گوئی کے بعد کس قدر لڑکے پیدا ہوئے۔ ذرا انصاف سے کہو کہ جب کہ تم منہ سے دعویٰ کرکے اور اشتہارکے ذریعہ سے لڑکے کی شہرت دے کر پھر صاف نامراد اور خائب وخاسر رہے۔ کیا یہ ذلّت تھی یا عزّت تھی؟اور اس میں کچھ شک نہیں کہ مباہلہ کے بعد جو کچھ قبولیت مجھ کو عطاہوئی وہ سب تمہاری ذلّت کا موجب تھی۔''56
پھر فرماتے ہیں اس نے میرے خلاف دعائیں کیں۔ اُس کی دعاؤں کاکیا انجام ہوا اور میری دعاؤں کاکیا انجام ہوا۔
''اب وہ کس حالت میں ہے اور ہم کس حالت میں ہیں۔دیکھو ا س مباہلہ کے بعد ہرایک بات میں خدا نے ہماری ترقی کی اور بڑے بڑے نشان ظاہر کئے۔ آسمان سے بھی اور زمین سے بھی۔ اورایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا۔ اورجب مباہلہ ہوا تو شاید چالیس آدمی میرے دوست تھے اور آج ستّر ہزار کے قریب ان کی تعداد ہے۔(اور اب خدا کے فضل سے وہ دس لاکھ کے قریب ہے اور تھوڑے ہی دنوں میں دس کروڑ سے بھی زیادہ ہوجائیگی اِنْشَاءَ اللہُ)''57
پھر فرماتے ہیں:۔
''لطف تب ہو کہ اوّل قادیان میں آؤ اور دیکھو کہ ارادتمندوں کا لشکر کس قدر اِس جگہ خیمہ زَن ہے۔ اور پھر امرتسر میں عبدالحق غزنوی کو کسی دکان پر یا بازار میں چلتا ہوا دیکھو کہ کس حالت میں چل رہا ہے۔''58
پھر فرماتے ہیں کہ تمہارے مباہلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمہارے بھائی کا بھی خانہ ویران ہوگیا۔59
تمہارے بھائی مولوی عبدالواحد کا بھی خانہ برباد ہوگیا یعنی مولوی اسمٰعیل غزنوی کے باپ کا جس کی بیوی حضرت خلیفہ اول کی بڑی بیٹی تھی اور فرماتے ہیں یہ میرے مباہلہ کا نتیجہ تھا۔
غرض یہ خاندان، سلسلہ کا پرانا دشمن ہے۔ ان کے دادا نے پیشگوئی کی ہوئی ہے کہ ان کو نورِ قادیان یعنی صداقتِ احمدیت نصیب نہیں ہوگی اور ہمیشہ اس کے دشمن رہیں گے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اب منان اور عبدالوہاب سے انہوں نے اس فتنہ کے موقع پر خاص یارانہ گانٹھا ہے جس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی کے مطابق مولوی عبدالمنان اور مولوی عبدالوہاب بھی احمدی نہیں رہے کیونکہ اگر ان میں احمدیت رہتی تو مولوی عبداللہ صاحب غزنویؒ کی پیشگوئی کے مطابق ان کے پوتے اور ان کے پڑپوتے ان کی دوستی اور ان کی حمایت نہ کرتے۔ مگر چونکہ وہ ان کی حمایت میں ہیں معلوم ہوا کہ ان لوگوں میں بھی احمدیت باقی نہیں رہی۔ اگر باقی ہے تو پھر مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی پیشگوئی جھوٹی جاتی ہے حالانکہ وہ ایک راست باز انسان تھے۔
دسمبر1954ء میں مولوی عبدالوہاب صاحب نے لاہور میں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے اپنی اولاد کیلئے صرف دنیوی ترقیات کے لئے دُعا فرمائی ہے مگر حضرت خلیفہ اوّل نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کردیا۔ چنانچہ ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب نواب شاہ سندھ کی شہادت ہے کہ :-
''عاجز دسمبر1954ء کے قافلہ کے ساتھ جو کہ جلسہ سالانہ پر قادیان جانے والا تھا لاہور جودھامل بلڈنگ گیا۔ رات جو دہا مل بلڈنگ میں گزاری۔ صبح نماز فجر باجماعت پڑھنے کے بعد بیٹھے تھے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب آگئے اور پوچھا کہ جماعت ہوگئی ہے؟ بتانے پر کہ جماعت ہوچکی ہے انہوں نے خود اکیلے ہی نماز پڑھ لی۔ مولوی عبدالوہاب صاحب کہنے لگے(جیسے کہ درس دیا جاتا ہے)کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کیلئے دنیاوی ترقیات کے لئے دعا فرمائی ہے جیسے ‘‘دے انکو عمر ودولت’’ پھر کہا کہ آپ دیکھیں حضور کی اولاد دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہے کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکونِ قلب حاصل نہیں کرسکتا۔''
ان کا یہ درس یا تقریر بتاتی ہے کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کوئی ایمان نہیں رہا ورنہ وہ حضرت خلیفہ اوّل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ترجیح نہ دیتے۔ پھر ان کی بات بھی غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا نہیں مانگی بلکہ دین مانگا ہے ۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین ودولت
کر ان کی خود حفاظت ہو ان پر تیری رحمت
دے رُشد اور ھدایت ، اور عمر اور عزت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
شیطان سے دُور رکھیو! اپنے حضور رکھیو!
جان پُر ز نور رکھیو! دل پُر سرور رکھیو!
ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو!
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے
کر دُور اِن سے یاربّ! دنیا کے سارے پھندے
چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ اِن کو مندے
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
اے میری جاں کے جانی! اے شاہِ دو جہانی!
کر ایسی مہربانی ، اِن کا نہ ہووے ثانی
دے بخت جاودانی! اور فیض آسمانی
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
اے واحد و یگانہ! اے خالقِ زمانہ
میری دعائیں سن لے اور عرضِ چاکرانہ
تیرے سپرد تینوں! دیں کے قمر بنانا
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ 60
مولوی عبدالوہاب کے خیال میں رُشد اور ہدایت اور دین اور فیض آسمانی اور دین کا قمر ہونا یہ سب دنیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو تو دنیا سُوجھی مگر حضرت خلیفہ اوّل کو جو اُن کے غلام تھے دین سُوجھا۔
پھر مولوی عبدالوہاب کا یہ کہنا کہ:-
''حضور کی اولاد دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہے کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکونِ قلب حاصل نہیں کرسکتا۔''
یہ بھی ان کے خاندان کے نظریہ کی رُو سے غلط ہے۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ مولوی عبدلمنان آخری وقت میں جاتے ہوئے اِدھر سلسلہ کا روپیہ ناجائز طور پر استعمال کررہے تھے اور اُدھر دوسرے احمدیوں سے روپیہ منگوارہے تھے۔چنانچہ تحریک جدید اور اورینٹل کارپوریشن کے روپیہ میں انہوں نے جو ناجائز تصرف کیا اُس کے متعلق چودھری احمد جان صاحب وکیل المال تحریک جدید کی شہادت ہے کہ:-
''میاں عبدالمنان صاحب عمر جو تحریک جدید میں نائب وکیل التصنیف اور اورینٹل کارپوریشن کے چیئرمین تھے گزشتہ سال مجلس تحریک جدید نے سات رہائشی کوارٹروں اور مسجد کی تعمیر کاکام ان کے سپرد کیا اور ان تعمیرات کے لئے ستائیس ہزار روپے کا بجٹ منظور کیا جس میں سے میاں عبدالمنان صاحب نے26998روپے خزانہ تحریک جدید سے برآمد کرائے۔ اس میں سے23843روپے کوارٹروں کی تعمیر پر خرچ ہوئے۔باقی رقم انہوں نے نہ تحریک جدید کو واپس کی نہ مسجد بنوائی۔ بلکہ کم وبیش 3700 روپے بصورت سامان تعمیر وغیرہ اورینٹل کمپنی کی طرف منتقل کئے اور وہاں سے اپنی ذاتی دکانوں کی تعمیر پر خرچ کرلئے۔اورینٹل کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کمپنی کی دکانوں اور پریس کی عمارت بنانے کے لئے ساڑھے بارہ ہزار روپے تک خرچ کرنے کی میاں عبدالمنان کو منظوری دی۔ انہوں نے کمپنی کی عمارت کے ساتھ ہی اپنی سات عدد دُکانات بھی تعمیر کیں اور بورڈ کی اجازت کے بغیر اپنی ذاتی اور کمپنی کی تعمیرات کا نہ صرف حساب اکٹھا رکھا بلکہ623روپے کی قلیل رقم کے سوا اپنی دکانوں کا سارا خرچ کمپنی کے فنڈز میں سے کیا جس کے نتیجہ میں ان تعمیرات پر اٹھارہ ہزار روپے کے قریب مجموعی خرچ ہوا جس میں تحریک جدید کی منتقل شدہ رقم بھی شامل ہے۔ اس میں سے ان کی اپنی دکانوں کا خرچ ساڑھے دس ہزار روپے اور باقی قریباً ساڑھے سات ہزار روپے کمپنی کی عمارت کا خرچ ہے۔ اس طرح(اگر وکیل المال صاحب کی رپورٹ صحیح ہے تو) میاں عبدالمنان صاحب تحریک جدیداور کمپنی کا دس ہزار روپیہ ناجائز طور پر اپنے تصرف میں لائے جو بعد میں14/اکتوبر کو ان سے وصول کرلیا گیا۔''
مکرم چودھری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کی شہادت
اسی طرح چودھری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کی شہادت جو ہے کہ:-
''میں نے صدر انجمن احمدیہ کے آڈیٹر کی حیثیت سے جب جلسہ سالانہ1953ء کے حسابات کی پڑتال کی تومجھے معلوم ہوا کہ صدرانجمن احمدیہ کے منظور شدہ قواعد کے ماتحت جو رقم یا تو محکمہ کے سیف(SAFE) میں نقد موجود ہونی چاہئے تھی یا صدرانجمن احمدیہ کے صیغہ امانت میں جلسہ سالانہ کی امانت میں جمع موجود ہونی ضروری تھی اُس میں سے مبلغ1899روپے 1 آنہ3پائی کم تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مولوی عبدالمنان صاحب افسر جلسہ سالانہ تھے۔ جب مولوی عبدالمنان صاحب جلسہ سالانہ کے کام سے تبدیل کئے گئے تو یہ تمام کی تمام رقم کلرک غلام احمد صاحب کے نام پیشگی ظاہر کی گئی جو اُس وقت محرر جلسہ سالانہ تھے۔
میں نے اس معاملہ میں مزید چھان بین کی اور متعلقہ کارکنانِ دفتر کے بیانات لئے اور پرانا ریکارڈدیکھا تو معلوم ہوا کہ1949ء میں 500روپے کی رقم مولوی عبدالمنان صاحب نے لی تھی۔اس رقم میں سے مختلف وقتوں میں انہوں نے کچھ رقم واپس کی اور ابھی تک179روپے12آنے6پائی اس پانسو کی رقم میں سے ان کے تصّرف میں ہیں اور باوجود بار بار کے مطالبات کے یہ رقم ابھی واپس نہیں ہوئی۔ اسی طرح اسی زمانہ میں50روپے دفتر جلسہ سالانہ کی نقدی میں سے پیشگی کا نام دے کر غلام رسول چک35کو دلائے گئے۔ یہ رقم بھی باوجود مطالبات کے واپس نہیں ملی۔ اس کے علاوہ 87روپے 8آنے مولوی علی محمدصاحب اجمیری کو دلائے گئے۔ یہ رقم بھی واپس نہیں ہوئی۔
اس تحقیقات سے میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ اس1899روپے1آنہ3پائی کی رقم کا بیشتر حصہ مولوی عبدالمنان صاحب یا ان کے احباب نے لیا ہوا تھا لیکن تمام رقم ایک ماتحت کارکن کے نام پیشگی دکھائی ہوئی تھی۔''
خاکسار
ظہور احمد
آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ
پھر علاوہ ان بدعنوانیوں کے جو کہ مالی معاملات کے متعلق اورینٹل کمپنی میں مولوی عبدالمنان صاحب نے کی ہیں یا سلسلہ کے روپیہ سے جلسہ سالانہ کے کام میں کی ہیں انہوں نے یہ بھی کوشش شروع کردی تھی کہ کچھ روپیہ جمع کرلیں تاکہ وقتِ ضرورت کام آئے جس سے ان کی نیتوں کا پتہ لگتا ہے۔ چنانچہ ان کا ایک خط پکڑا گیا ہے جس کا فوٹو ہمارے پاس موجود ہے۔ انہوں نے افریقہ میں ایک احمدی دوست کو لکھا کہ میں تمہارے لڑکے کی شادی کرانے لگا ہوں تم پانسو پونڈ(جو آج کل کے لحاظ سے سات ہزار روپیہ بنتا ہے)بھیج دو۔ یہ خط اس دوست نے اپنے ایک دوست کو جو پاکستان میں ہیں بھیج دیا اور اس نے فوٹو لیکر ہمیں بھجوادیا۔وہ خط یہ ہے۔
‘‘ ربوہ مکرم ومحترم چودھری صاحب
56/1/17 اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ
آپ کا خط موصول ہوا۔اَلْحَمْدُ لِلہِ چودھری منصور احمد اور ان کی والدہ بفضلہ تعالیٰ بخریت ہیں۔پرسوں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے منصور احمدصاحب کی ملاقات ہوئی تھی آج ابھی ابھی حضرت ……… خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصر العزیز کی ملاقات کے بعد واپس آئے ہیں۔حضور منصور احمد سے آپ کے اور آپ کے کاروبار کے متعلق دریافت فرماتے رہے۔
عزیز کی شادی کے سلسلہ میں ایک جگہ تجویز کی گئی ہے۔لڑکی بی۔اے پاس ہے اور اس وقت بی ٹی میں لاہور کالج میں پڑھ رہی ہے۔ لڑکے کے دادا نہایت مخلص اور سلسلہ کے فدائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔والد آجکل قادیان میں مقیم ہیں۔ لڑکی تعلیم یافتہ اور مخلص ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو یہ رشتہ پسند ہے۔ لڑکی کے ایک چچا یہاں سلسلہ کے مبلّغ ہیں۔ دوسرے چچا مولوی صالح محمدصاحب پیچھے سلسلہ کی طرف سے انگلستان بھجوائے گئے تھے۔ آج کل مغربی افریقہ گولڈ کوسٹ ان کا تبادلہ ہوگیا ہے۔
دادا کانام فضل احمد صاحب ہے اور والد کا عبدالرحیم۔ لڑکی کا ایک بھائی یہاں رہتا ہے۔ کالج میں زیر تعلیم ہے اور تبلیغ کی ٹریننگ لے رہا ہے ان کی ذات راجکمار یا راجپوت ہے۔ میرے خیال میں رشتہ موزوں ہے۔منصور احمد اور عزیزہ نسیم کو پسند ہے۔
شادی کے اخراجات کے سلسلہ میں میراذاتی نکتہ نگاہ یہ ہے کہ معمولی سے اخراجات کافی ہوتے ہیں۔اسلام میں تکلّفات نہیں اور یہاں بھی عام حالات میں زیادہ اخراجات کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ لڑکی نے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور جانا ہے پھر وہاں کے حالات بھی لڑکی والوں کے سامنے نہیں ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ابھی باقی عزیزوں کے رشتے بھی کرنے ہیں اور ضرورت ہے کہ پہلی شادی کے بعد راستے کھل جائیں اور کئی لوگوں کی نظریں اِس پہلی شادی پر ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں کیا خرچ ہوتا ہے اس سے وہ مالی اور دوسرے حالات کا اندازہ کریں گے اور میرے سامنے یہ حقیقت بھی ہے کہ سونا اور کپڑا افریقہ میں یہاں پاکستان کے مقابلہ میں سستاہے۔
ان تمام حالات کو دیکھ کر میری رائے یہ ہے کہ شادی کے تمام اخراجات کے لئے پانصد پونڈ(یعنی آجکل کے لحاظ سے سات ہزار روپیہ) کافی ہونگے۔ علاوہ حق مہر کے۔ یہ روپیہ بذریعہ ڈرافٹ بھجوانے کی ضرورت نہیں آپ یہ روپیہ وہاں کی جماعت میں میرے نام پر جمع کرا دیں اور رسید مجھے بھجوادیں میں یہ روپیہ یہاں منصوراحمد کی والدہ کو ادا کردوں گا تا وہ اپنی نگرانی میں زیورکپڑا وغیرہ پر صَرف کریں۔ پس آپ ڈرافٹ بینک نہ بھجوائیں بلکہ وہاں میرے نام پر رقم جمع کروادیں۔ میں یہاں اس کے مطابق رقم ادا کرادوں گا۔
مہر اندازاًلڑکے کی ایک سال کی آمد کے برابر ہونی چاہئے جو میرے خیال میں آٹھ ہزار روپیہ ہوگی۔
خاکسار
عبدالمنان عمر(دستخط) ’’
غرض انہوں نے اِدھر سلسلہ کا کچھ مال اِدھراُدھر استعمال کیا اور کچھ لوگوں سے منگواتے رہے۔
یہ عبدالقدوس صاحب نواب شاہ کی گواہی ہے کہ میاں عبدالوہاب صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا مانگی اور ہمارے باپ نے ہمارے لئے دین مانگا۔ اِس کی مزید شہادت لاہور کی مجلس خدام الاحمدیہ نے بھجوائی ہے کہ ایک احمدی سے ایک پیغامی نے آکر کہا کہ میاں منان کہتے ہیں کہ ہم تو چُپ کرکے بیٹھے ہیں کیونکہ ہمارے باپ نے ہمیں خدا کے سپرد کیا تھااور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اپنی اولاد کو دنیا کے سپرد کیا تھا۔ یہ جوش نکال لیں۔ سال دوسال پانچ سال خوب جوش نکالیں پھر ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ یہ شہادت بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔
اب تم جو مبائعین کی جماعت ہو اور جنہوں نے لکھا تھا کہ قیامت تک ہم خلافت احمدیہ کو قائم رکھیں گے تم بتاؤ کہ کیا مولوی عبدالمنان کے قول کے مطابق دو تین سال میں ٹھنڈے پڑجاؤ گے یا قیامت تک تمہاری اولادیں خلافت احمدیہ کا جھنڈا کھڑا رکھیں گی؟’’
اس پر چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ ہم قیامت تک خلافت احمدیہ کا جھنڈا کھڑا رکھیں گے۔
‘‘اکتوبر1955ء میں جب صوفی مطیع الرحمن صاحب شدید ذیابیطس سے فوت ہوئے تو رشید احمد صاحب بٹ ضلع نواب شاہ سندھ کی گواہی کے مطابق میاں عبدالسلام نے کہا کہ صوفی مطیع الرحمن صاحب کا علاج نہیں کروایا گیا اس لئے مر گئے حالانکہ ان کوہسپتال میں داخل کیا گیاتھا اور سینکڑوں روپیہ سلسلہ نے ان پر خرچ کیا تھا۔ میاں محمدعبداللہ صاحب سابق انجینئر ایران حال نواب شاہ سندھ لکھتے ہیں کہ میاں وہاب نے ایک دفعہ کہا کہ حضرت صاحب کی مجلسِ عرفان میں رکھا ہی کیا ہے۔
پھر1955ء کے شروع کے متعلق ملک صاحب خاں صاحب نون ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر بیان کرتے ہیں کہ جب میاں عبدالمنان صاحب کا مکان دوسری جگہ بننے لگاتو میں نے بھیرہ کے تعلقات کی وجہ سے ان سے کہا کہ میاں صاحب!میں نے تو آپ کی صحبت حاصل کرنے کے لئے آپ کے قریب مکان بنایا تھا مگر آپ اب کہیں اَور چلے ہیں۔ تو اِس پر میاں عبدالمنان صاحب آگے بڑھے او رمیرے سینہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر ہلایا او رکہا ملک صاحب! آپ گھبرائیں نہیں۔ ہم جہاں بھی جائیں گے آپ کو ساتھ لے کر جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں اُس وقت تو میں اس کامطلب نہ سمجھا لیکن گھبرا گیا اور بعد میں جب یہ فتنہ پیدا ہوا تو میں باقاعدہ اخبار میں دیکھتا تھا کہ اس میں میاں عبدالمنان کا نام بھی آتا ہے یا نہیں۔ جب میں نے ان کا نام پڑھا تو استغفار پڑھاکہ ان کی یہی غرض تھی کہ مجھے بھی اس فتنہ میں ملوث کریں۔
ملک صاحب سرگودہا کے مشہور خاندان ٹوانہ او رنون میں سے ہیں اور ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں۔ گوجرانوالہ سے رٹیائر ہوئے۔ملک فیروز خاں صاحب نون جو اِس وقت وزیرخارجہ ہیں اُن کے بھتیجے ہیں۔ چنانچہ ملک صاحب کا اصل خط اس شہادت کے سلسلہ میں ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ملک صاحب لکھتے ہیں:۔
مکرم ملک صاحب خان صاحب نون کی شہادت
‘‘ سرگودھا میرے آقا!سلّمہٗ اللہ تعالیٰ
56/9/17 اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
اللہ تعالیٰ آپ کو صحتِ کاملہ او رعمرِ خضر عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔ چونکہ حضور پُرنور امامُ الْوقت اور خلیفۂ وقت ہیں اللہ تعالیٰ کی نصرت حضور کی تائید میں ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہے گی اور دشمنان خائب و خاسر اور منہ کی کھائیں گے۔انشاء اللہ تعالیٰ ضرور ضرور میں ایک واقعہ حضور کی خدمتِ بابرکت میں گوش گزار کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ اس میں ذرّہ بھر بھی شک وشُبہ نہیں بلکہ عین اصل واقعہ ہے۔جب میں نے ربوہ والے مکان کی جگہ کے متعلق حضور پُرنور کے پاس شکایت کی او رحضور نے اپنے ساتھ کچے مکانوں میں مجھے او رناظر متعلقہ(جو اُس وقت غالباً عبدالرشید صاحب تھے)کو بلایا۔ میں نے حاضر ہوکر عرض کیاکہ مجھے شکایت نہیں ہے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے بہت زور دیا کہ یہی جگہ لے لوں اور دوسرے یہ کہ پسرانِ حضرت خلیفہ اوّل میرے ہمسایہ تھے۔ یہ بات میرے واسطے بہت ہی خوشی وتسلّی کی ہوئی۔ گو میں بذاتِ خود اس جگہ کو پسند نہیں کرتا تھا۔ خیر مکان بنایا، بن گیا۔ جب ناظر صاحبان کے مکان مکمل ہوئے تو میاں عبدالمنان صاحب اس نئے مکان میں چلے گئے اور جب میں ربوہ گیا تو مجھے معلوم ہوا۔اتفاق سے منّان صاحب مجھے ملے۔ میں نے کہا واہ مولوی صاحب! آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تو اس نے ذرا آگے آکر ذرا آہستہ آواز میں دایاں ہاتھ اٹھا کر میرے سینہ کے برابر کرکے کہا۔تسلّی رکھو ‘‘جدے جاواں گے تہانوں نالے لے جاواں گے۔''اُس وقت میں نے بہتیرا زور لگایا مگر مجھے اِس مہمل بات کی سمجھ نہ آئی جو متواتر میرے دل میں چُبھتی رہی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی شان مَیں وجہ نہیں بتلا سکتا کہ کیوں میرا اُنس وکشش ومحبت اُن سے دن بدن کم ہوتی گئی حتّٰی کہ جب اماں جی کی وفات ہوئی ڈاک خانہ کے پاس کھڑے کھڑے ہی میں نے منان سے اظہارِ افسوس کیا او ران کے مکان تک بھی نہ گیا ‘‘نوبت بایں جا رسید’’ والا معاملہ ہوا کہ جب دودفعہ منان صاحب میرے سامنے آئے تو میں نے السلام علیکم بھی اُن سے نہیں کی۔ میں نہیں بتلا سکتا کہ کونسی غیبی طاقت اندر ہی اندر کام کررہی تھی۔ جب میں نے یہ فتنہ پڑھا تو ہر پرچہ الفضل کو اوّل سے آخر تک پڑھتا رہا اور خاص توجہ ا س طرف تھی کہ منان صاحب کا بھی کہیں ذکر ہے حتّٰی کہ اُن کے خیالات کے متعلق اطلاع آمدہ امریکہ سے میرا وہ پُرانا مُعمّہ حل ہوا کہ:-
''جدے جاواں گے تہانوں نال لے جاواں گے۔'' کا کیا مدّعا تھا۔
اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر تحریر کرتا ہوں کہ اس میں ذرّہ بھر بھی جھوٹ نہیں۔
نوٹ۔میں نے اس کا ذکر بہت دن ہوئے محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب سے کیا تھا۔
والسلام
حضورکاادنیٰ خادم
صاحب خان نون ’’
مولوی محمد احمد صاحب جلیل کی شہادت
اِسی طرح مولوی محمد احمد صاحب جلیل کی شہادت ہے کہ:-
‘‘1- چند سال قبل جب میاں عبدالمنان صاحب جامعہ احمدیہ میں پڑھایاکرتے تھے میں کسی کام کی غرض سے انہیں ملنے کے لئے اُن کے مکان پر گیا۔دورانِ گفتگو میں انہوں نے اپنے جامعہ میں تقرر پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس رجیم (REGIME) میں ہمارے لئے(یا یہ کہا کہ میرے لئے)کوئی جگہ نہیں۔یہ پہلا موقع تھا کہ میری طبیعت پر ان کے متعلق یہ اثر پیدا ہوا کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے قائم کردہ نظام سے شاکی اور سخت غیر مطمئن ہیں۔
2- تحریک جدید کے ایک کوارٹر کی تعمیر میں قواعدمیونسپل کمیٹی کی خلاف ورزی پر سیکرٹری کمیٹی صاحبزادہ مرزامنور احمد صاحب کی شکایت پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصر العزیز نے مجلس تحریک جدید کو جرمانہ کیا تھا اس کے متعلق مجھ سے بات کرتے ہوئے میاں عبدالمنان صاحب نے کہا کہ نہ کمیٹی کا کوئی ایسا قاعدہ ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور نہ قواعد کی رُو سے یہ جُرمانہ ہوسکتا ہے یہ سب طاقت اور اقتدار کا نتیجہ ہے۔
3- ایک دفعہ میرا ایک معاملہ جس کا حضرت میاں شریف احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سے تعلق تھا اس کے متعلق بات کرتے ہوئے ان دونوں حضرات کے متعلق یہ لفظ میاں عبدالمنان صاحب نے کہے کہ دیکھو! کس طرح ان لوگوں کا خون سفید ہوگیا ہے۔
4- میاں عبدالمنان صاحب جب امریکہ گئے تو امریکہ جانے کی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصر العزیز کی طرف سے اجازت ملنے کے متعلق میری بیوی سے ذکر کرتے ہوئے امۃ الرحمن صاحبہ اہلیہ میاں عبدالمنان صاحب نے حضور کے متعلق یہ کہا کہ انہوں نے اجازت تو دے دی ہے مگر اس بابل دا کی اعتبار ہے کہ ‘‘ڈولے پاکے بھی کڈھ لئے۔’’
خاکسار
محمد احمد جلیل’’
اِس فتنہ کو مزید ہوا شیطان نے اس طرح دی کہ خدام الاحمدیہ میں جب ناصراحمد افسر تھا تو اُس نے حمید ڈاڈھا کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا اور اُس نے اس کو سزا دینی چاہی۔ اِس پر وہ اس کے مخالف ہوگیا۔ چنانچہ حافظ عبداللطیف صاحب اور اخوند فیاض احمد صاحب کی شہادتیں اس بارہ میں ہمارے پاس محفوظ ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ یہ اسی وقت سے مرزا ناصر احمد صاحب کے خلاف بُغض وعِناد کا اظہار کرتا رہتا تھا۔
پھر چونکہ جلسہ سالانہ کا کام کئی سال تک میاں عبدالمنان کے سپرد ہوتا رہا ہے اس لئے وہ سلسلہ کے روپیہ میں سے اپنے ان ایجنٹوں کو پیشگیاں بھی دیتے رہے۔ چنانچہ ریکارڈہے مولوی علی محمد اجمیری کے نام87روپے8آنے، حمید ڈاڈھا کے نام35روپے اورغلام رسول چک نمبر35کے نام50روپے پیشگی دئیے جانے ثابت ہیں۔اِس طرح نفرت اور لالچ دونوں جذبات اکٹھے ہوگئے اور ان لوگوں نے میاں عبدالمنان کی تائیدمیں پروپیگنڈا شروع کردیا۔ جس طرح بعض منافقوں نے حضرت عمرؓ کی زندگی میں پروپیگنڈا شروع کیا تھا کہ جب حضرت عمرؓ فوت ہوں گے تو ہم فلاں کی بیعت کریں گے۔ لیکن وہ بھی خائب خاسر رہے اور یہ بھی خائب وخاسر رہیں گے اور اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کی خود حفاظت کرے گا اور جماعت کی خود راہنمائی کرے گا اور وہ کبھی ان منافقوں یا پیغامیوں کے چیلوں یا احراریوں کے چیلوں کو قریب بھی نہیں آنے دے گا۔
جب1955ء میں مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تو یہ بُغض اَور زیادہ زورسے ظاہر ہونے لگا جیسا کہ شیخ نصیر الحق صاحب کی گواہی سے ظاہر ہے جو ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
مکرم شیخ نصیر الحق صاحب کی گواہی
شیخ صاحب لکھتے ہیں:۔
''سیدناوامامنا حضرت……… المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
جب حضور لاہور سے کراچی تشریف لے گئے دوسرے دن شام کو آپ کی خیریت سے کراچی پہنچنے کی اطلاع حاصل کرنے کے لئے سمن آباد سے رتن باغ پہنچا۔ میرے ساتھ میری چھوٹی بیوی بھی تھی۔انہیں رتن باغ ٹھہرا کر چونکہ یہاں اطلاع کوئی نہیں ملی تھی مَیں جودہامل بلڈنگ میں گیا۔ لوگ مغرب کی نماز ادا کرچکے تھے او رحضور کی خیریت سے کراچی پہنچنے کے متعلق گفتگو کررہے تھے۔ میں مزید حالات معلوم کرنے کے لئے سید بہاول شاہ صاحب کی طرف متوجہ ہوا۔انہوں نے تار کا ذکر کیا کہ اَلْحَمْدُ لِلہِ حضور بخیریت تمام کراچی پہنچ گئے ہیں۔ جب میں واپس رتن باغ کو لَوٹنے لگا تا اپنی بیوی کو ساتھ لے کر گھر سمن آباد چلاجاؤں مولوی عبدالوہاب صاحب نے مجھے آواز دی کہ حاجی صاحب! ٹھہر جائیں میں بھی چلتا ہوں۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ حاجی صاحب! آپ نے دیکھا کہ قوم کا کتناروپیہ خرچ ہورہا ہے۔ میں نے عرض کیا مولوی صاحب! حضرت صاحب تو فرما چکے ہیں کہ میں اپنا خرچ خود برداشت کروں گا پھر اعتراض کیسا؟فرمانے لگے آگے تو سُنو! میں نے کہا فرمائیے کہنے لگے کہ دیکھو اَب خلیفہ تو(نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ)اپنا دماغ کھوچکا ہے وہ اس قابل نہیں کہ خلیفہ رکھا جاسکے۔ میں بجبر خاموش رہاتاسارا ماجرا سُن سکوں اور جو گفتگو یہ کرنا چاہتے ہیں وہ رہ نہ جائے۔ میں نے کہا مولوی صاحب! بھلا یہ تو بتائیے کہ اب اَور کون خلیفہ ہوسکتا ہے؟کہنے لگے کہ میاں بشیر احمد صاحب او رچودھری ظفر اللہ خاں صاحب کیا کم ہیں۔ اب میں نہیں رہ سکا تو میں نے کہا مولوی صاحب! آپ تو ایک بہت بزرگ ہستی کے فرزند ہیں آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضور کو جلد صحت عطا فرمائے۔مولوی صاحب فرمانے لگے کہ بھئی اَب تو یہ ممکن ہی نہیں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ بنانا تو کجا خیال کرنا بھی گناہ ہے چہ جائیکہ آپ ایسی باتیں کررہے ہیں اورمیرے لئے یہ امر نہایت تکلیف دہ ہوگیا ہے۔۔۔۔ پھر فرمانے لگے سُنو سُنو!میں نے عرض کیا کہ چونکہ میں نے سمن آباد جانا ہے اور نیلا گنبد سے بس لینی ہے اس لئے کچھ او رکہنا ہے تو چلتے چلتے بات کیجئے۔کہنے لگے دیکھو یہ جو مضامین آج کل چَھپ رہے ہیں انہیں میاں بشیر احمد صاحب درست کرکے پریس کو بھیجتے ہیں۔ وہ خود تو لکھ ہی نہیں سکتے۔ پھر یہ عجیب بات ہے کہ انہی میاں صاحب کو حضرت صاحب اپنے کمرہ میں سُلاتے ہیں۔میں اِس مُعمّہ کو نہیں سمجھ سکا۔ اسکے علاوہ بھی اور کئی ایسی باتیں کہیں جو میں بھول گیا۔۔۔۔۔۔
میں نے اگلے دن سارا واقعہ چودھری اسداللہ خان صاحب کو ہائی کورٹ میں جا کرسنایا۔ انہوں نے فرمایا لکھ دو۔ میں نے وہیں بیٹھ کر لکھ دیا جو مجھے اُس وقت یاد تھا۔ چودھری صاحب نے فرمایا کہ آپ مولوی صاحب کے سامنے بھی یہی بیان دیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو لکھ دیا ہے، آپ میرے ساتھ جودہامل بلڈنگ چلیں انہیں میری موجودگی میں پڑھا دیں۔ چنانچہ ہم دونوں گئے۔ مولوی صاحب اپنی دکان میں موجود نہ تھے ہم انتظار کرتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد مولوی صاحب تشریف لے آئے۔ میرا خط چودھری صاحب نے مولوی صاحب کو پڑھایا۔ مولوی صاحب کا رنگ زرد ہوگیا۔ کچھ سکتے کے بعد فرمانے لگے نہیں میں نے نہیں کہا۔ چودھری صاحب نے فرمایا لکھ دیجئے۔ کہنے لگے اچھا لکھ دیتا ہوں چنانچہ ان کے دفتر کا کاغذ لے کر مولوی صاحب نے لکھا کہ میں نے ہرگز کوئی ایسی بات نہیں کی جس کے متعلق حاجی صاحب نے لکھا ہے۔چودھری صاحب فرمانے لگے کیا آپ اَب بھی مُصِر ہیں؟ میں نے کہا ہاں!اور مجھے یہ کاغذات دیجئے۔ میں اس پر مزید لکھتا ہوں۔ چنانچہ میں نے یہ الفاظ لکھے کہ مجھے سخت صدمہ ہوا کہ مولوی صاحب ایک ایسی بزرگ ہستی کی اولاد ہیں جو ہمارے خلیفہ اوّل رہ چکے ہیں انہوں نے صریح جھوٹ بول کر مجھے ہی نہیں بلکہ حضرت خلیفہ اول کی روح کو بھی تکلیف پہنچائی ہے۔مجھے ان سے یہ توقع نہ تھی کہ انکار کریں گے۔ مجھے معاً خیال ہوا کہ اگر احمدیت کا یہی نمونہ ہے تو غیر از جماعت لوگوں پر اس کا کیا اثرہوگا۔چنانچہ یہ دونوں تحریریں جناب چودھری اسد اللہ خاں صاحب اپنے ساتھ لے گئے۔''
(خط مورخہ1956ء29-7-) ’’
مکرم میاں غلام غوث صاحب ہیڈ کلرک میونسپل کمیٹی ربوہ کی شہادت
اسی طرح میاں غلام غوث صاحب ہیڈ کلرک میونسپل کمیٹی ربوہ کی گواہی بھی قابلِ ذکر
ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ تقریباً تین چار ماہ کا عرصہ گزرا ہے تاریخ یاد نہیں حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب آنریری سیکرٹری میونسپل کمیٹی ربوہ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں مکرم مولوی عبدالمنان صاحب انچارج صیغہ تالیف وتصنیف تحریک جدید ربوہ کی خدمت میں حاضر ہوکر حضرت میاں منور احمد صاحب کے دستخطوں کی شناخت کروں جو انہوں نے کسی غلط تعمیر کے سلسلہ میں کمیٹی کے قواعد کے تحت مولوی عبدالمنان صاحب کودئیے تھے۔ چنانچہ فدوی وہاں گیا اورمولوی عبدالمنان صاحب نے فرمایا کہ دیکھو یہ دونوں نوٹس موجود ہیں اور دستخط میاں منور احمد صاحب کے ہیں۔ ان دونوں میں کتنا تفاوت ہے۔ان میں سے کونسا صحیح ہے او رکون سا غلط؟(اُس وقت میرے ساتھ والی کرسی پر چودھری بشیر احمد صاحب نائب وکیل المال تحریک جدید بھی تشریف فرما تھے او رہم دونوں مولوی عبدالمنان صاحب کے سامنے بیٹھے تھے) بندہ نے عرض کیا کہ چونکہ میں شروع سے کمیٹی میں حضرت میاں منور احمد صاحب کے ماتحت کام کررہا ہوں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں دستخط حضرت میاں منور احمد صاحب کے ہیں گو ایک چھوٹا ہے اور ایک بڑا۔ لیکن دستخط انہی کے ہیں۔ چونکہ اس کا مضمون ذرا مطابق قواعد مقرر الفاظ میں تھااور زیادہ تر بحث مولوی عبدالمنان صاحب کے مضمون پر تھی غصہ سے بھرے ہوئے الفاظ میں آپ تقریر فرماتے رہے۔ آخر میں اُن کے منہ سے حسبِ ذیل الفاظ ظاہر ہوئے:۔
''میاں منور احمد وغیرہ اس لئے سختی کرتے ہیں اور ناجائز کرتے ہیں کہ وہ حضرت صاحب کے لڑکے ہیں یعنی خلیفہ صاحب کے۔ جس وقت ڈنڈا میرے ہاتھ میں آیا میں سب کو سیدھا کردوں گا یادیکھوں گا۔''
اُس وقت بندہ خاموش ہوکر واپس چلا آیا کیونکہ میاں صاحب بہت غصے میں تھے۔ بندہ نے اُسےSERIOUSنہیں لیا۔البتہ جب دفترکمیٹی میں پہنچا تو وہاں چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیئر اور چوہدری عنایت احمد صاحب اکاؤنٹنٹ و محمد الیاس چپڑاسی موجود تھے۔ میں نے ہنسی کے طور پر چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیئر سے کہا کہ آپ نے میاں عبدالمنان صاحب سے ٹکر لی ہے اَب خبردار ہوجاؤ وہ آپ سب کو سیدھا کردیں گے کیونکہ وہ خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں(میں نے ان کے الفاظ سے یہی مفہوم سمجھا تھا کہ وہ خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں)چنانچہ اُس وقت یہ بات ہنسی مذاق میں آئی گئی ہوگئی۔اب ہنگامی واقعات کی رونمائی پر چودھری عنایت احمد اور چودھری عبداللطیف صاحب نے مجھ سے کہا کہ لو بھائی تمہارا بیان کس قدر حقیقت کا انکشاف کررہا تھا۔ اب ہم تمہارے بیان کو جو آج سے چارماہ قبل تم نے ظاہر کیا تھا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں پیش کرنے لگے ہیں۔ میں نے کہا بیشک کوئی بات نہیں۔ میں نے سچی بات کہی تھی جو سُنی تھی۔ مجھے الہام تو ہوا نہیں تھا کہ چار ماہ بعد کیا واقعہ پیش آنے والاہے۔''
خاکسار
غلام غوث
1956/8/9 ’’
چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیئر کی شہادت
چوہدری عبداللطیف صاحب اوورسیئر بھی
گواہی دیتے ہیں کہ:-
''عرصہ قریباً اڑھائی تین ماہ کا ہوا ہے کہ ایک دن خاکسار ملک حفیظ الرحمٰن صاحب واقفِ زندگی نقشہ نویس(جو حضرت خلیفہ اوّل کے رضاعی رشتہ دار ہیں اس لئے ان کے بھی رشتہ دار ہیں)کے کوارٹر پر ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا میڈیم کوارٹر تحریک جدید جو میاں عبدالمنان صاحب کی زیر نگرانی تعمیر ہورہا تھا کے خلاف نقشہ تعمیر ہونے پر بات ہوئی۔ حفیظ صاحب نے بتایا کہ
میاں صاحب موصوف انکے پاس جی۔ٹی۔پی بائی لاز پر مشورہ کرنے آئے تھے۔ اِسی طرح تعمیرکی اَور باتیں بھی ہوئیں۔ پھر حفیظ صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چند روز ہوئے میاں عبدالرحیم احمد صاحب کی کوٹھی پر ایک دعوت تھی۔ اُس میں ہمارے خاندان کے حضرت خلیفہ اوّل کے خاندان سے تعلقات کی بناءپر میں بھی مدعو تھا۔ڈاکٹرعبدالحق صاحب اور میاں نعیم احمد صاحب بھی شامل تھے۔میاں عبدالمنان صاحب مجھے مخاطب کرکے باتیں کرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے''کیا حفیظ صاحب ایسا نہیں؟ کیا حفیظ صاحب ایسانہیں؟۔''(یعنی خلاف باتیں کرتے تھے)
میاں عبدالرحیم احمد صاحب کبھی آتے اور کبھی جاتے تھے۔ جب آتے تو میاں عبدالمنان صاحب کو مخاطب کرکے کہتے'' میاں صاحب! اِس شریف آدمی کا ایمان کیوں خراب کرتے ہیں؟'' یہ باتیں حفیظ صاحب نے بیان کرنے کے بعد خاکسار کو کہا ''چودھری صاحب!آپ اپنی نمازوں میں سلسلہ کی ترقی کے لئے خاص طور پر دعائیں کیا کریں۔ آئندہ آنے والے ایّام مجھے بہت خطرناک نظر آرہے ہیں۔
میرے پوچھنے پر کہ میاں عبدالمنان صاحب کیا باتیں کرتے تھے؟انہوں نے کہا کہ وہ باتیں بتانے والی نہیں بہت خطرناک ہیں۔''
اس کے بعد چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی سفارش سے میاں عبدالمنان صاحب کو امریکہ جانے کا موقع ملا اور اس پروپیگنڈا نے شدّت پکڑ لی اور یہ کہا جانے لگا کہ ساری جماعت میں میاں عبدالمنان جیسا کوئی لائق آدمی نہیں۔ انہوں نے مسند احمد کی تبویب جیسا عظیم الشان کام کیا ہے۔ حالانکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ تبویب کا ایک حصہ خود حضرت خلیفہ اوّل نے کیاہوا تھا اور ان کا قلمی نسخہ لائبریری میں موجود تھا۔5جون1950ء کو مولوی عبدالمنان نے یہ فہرست لائبریری سے مستعار لی اور کچھ لوگوں کی مدد سے اس میں کچھ زیادتی کرکے اسے اپنی طرف منسوب کرلیا۔ پس کچھ حصہ اس کام کا خود حضرت خلیفہ اوّل کرچکے تھے باقی حصہ مولوی عبدالمنان نے کیا۔ لیکن وہ حصہ بھی خود نہیں کیا بلکہ جب وہ جامعہ احمدیہ میں پروفیسر تھے تو دوسرے استادوں اور لڑکوں کی مدد سے کیا تھا۔بلکہ شاہد کلاس کے ایک طالب علم محمود احمد مختار نے مجھے لکھا ہے کہ اس کا دیباچہ انہوں نے اردو میں لکھا تھا۔ پھر مولوی محمد احمد صاحب ثاقب کے ذریعہ سے مجھے دیا کہ میں اس کا عربی میں ترجمہ کروں۔ پھر یہ بھی یاد رکھناچاہئیے کہ علامہ احمد محمد شاکرمصری جواخوان المسلمین کے بانی بنّا رخاندان میں سے ہیں انہوں نے اس کتاب کا انڈیکس تیار کیاہوا ہے اوراس کی چودہ جلدیں چَھپ چکی ہیں جو میری لائبریری میں موجود ہیں۔ اسی طرح احمد عبدالرحمن کی تبویب''الفتح الرّبانی'' کی پانچ مجلّدات بھی چَھپی ہوئی ہیں۔
ہمارے پاس منڈی بہاؤالدین سے مولوی محمد ارشاد صاحب بشیر کی شہادت آئی ہے کہ وہاں پیغامی یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ مولوی منان صاحب نے ساری حدیثیں جمع کی ہیں یعنی وہ جو تبویب تھی اس کا نام ساری حدیثیں جمع کرنا رکھا ہے اس لئے میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس کام کی کیا حقیقت ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ حدیثوں کی کتابیں کئی قسم کی ہیں۔ ایک مسند کہلاتی ہیں جن میں راوی کے نام کے لحاظ سے حدیثیں جمع کی جاتی ہیں خواہ وہ کسی مضمون کی ہوں۔مثلاً حضرت ابو بکرؓ کی حدیثیں ایک جگہ، حضرت عمرؓ کی ایک جگہ، وَھَلُمَّ جَرًّا۔ مسند احمد جنبلؒ بھی اِسی بناء پر مسند کہلاتی ہے۔ اور بخاری وغیرہ چونکہ مضمونوں کی بناء پر لکھتے ہیں اس لئے ان کو جامع کہتے ہیں۔ جیسے جامع بخاری۔جامع مسلم۔جامع ابی داؤد اور جامع ابن ماجہ۔سُنن ابن ماجہ بھی اس کا نام مشہور ہے۔اِسی طرح جامع ترمذی۔ اگر وہ بہت اعلیٰ کتابیں ہوں تو انہیں صحیح کہہ دیتے ہیں۔ جیسے صحیح بخاری۔ ایک تیسری قسم کی حدیثوں کی کتابیں وہ ہیں جن میں براہِ راست حدیثیں درج نہیں کی گئیں بلکہ حدیث کی پہلی کتب میں سے ضروری حدیثیں اکٹھی کرلی گئی ہیں۔ ان میں ابن تیمیہ کی منتھیٰ ہے۔ سیوطی کی جامع الصغیر ہے۔ ہمارے ملک میں عام طور پر مشکوٰۃ اور بلوغ المرام مشہور ہیں۔مسند احمد بن جنبلؒ پہلی قسم کی کتابوں میں سے ہے جس میں انہوں نے حدیثیں نقل کی ہیں۔مگر انہوں نے یہ حدیثیں راویوں کے نیچے دی ہیں مضمون وار نہیں۔ حضرت خلیفہ اول کی خواہش تھی کہ مضمون وار بھی ان کو جمع کیا جائے تاکہ مضمون نکالنا آسان ہو۔ پس یہ تو جھوٹ ہے کہ میاں منان نے حدیثیں جمع کی ہیں۔ مگر یہ صحیح ہے کہ جامعہ احمدیہ کے استادوں اور طالب علموں کی مدد سے اور کچھ حضرت خلیفہ اول کے کام کی مدد سے بخاری کے باب لے کر ان کے ماتحت مسندا حمد بن جنبلؒ کی حدیثیں انہوں نے مضمون وار جمع کردی ہیں۔یہ کام ہی ایسا ہے جس طرح کہ ڈکشنری میں سے لفظ نکالنے۔ ہرایک محنتی طالب علم یہ کام کرسکتا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت خلیفہ اوّل کی خواہش کے مطابق میں نے علماء کو مقرر کردیا ہے اور وہ کتاب مکمل ہوچکی ہے۔ اَب وہ جامع کی شکل میں زیادہ مکمل صورت میں موجود ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کی خواہش بعض اَور اصلاحات کی بھی تھی جن کو میں نے1944ء کی مجلسِ عرفان میں بیان کیا تھا۔ اس کے متعلق بھی میں نے ہدایت دے دی ہے کہ اِن کو بھی ملحوظ رکھاجائے۔
وہ احمدی جن سے روپیہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ جماعت کے فتنے پر اُسے خرچ کیا جائے وہ مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کے لڑکے ہیں۔ اور اسی طرح افریقہ کا ایک دوست ہے جو بچ گیا۔اس کے بیٹے نے کہہ دیا کہ میں ایسا خرچ کرنا نہیں چاہتا۔ان سے میں کہتا ہوں کہ تمہاری تو وہی مثل ہے کہ''تیری جُوتی تیرے ہی سر''تم سے ہی روپیہ لے کے تمہارے ہی خلاف استعمال کیاجانے والا تھا لیکن خدا نے تمہیں بچا لیا۔
یہ فتنہ اب بیٹوں سے نکل کر پوتوں تک بھی جاپہنچا ہے۔چنانچہ میاں سلطان علی صاحب ولد فتح محمد صاحب سندھ سے لکھتے ہیں کہ:-
''میں خدا کو حاضر ناظر جان کر ایمان سے کہتا ہوں کہ گزشتہ سال شروع سردی میں میرے ساتھ عبدالواسع عمر پسر مولوی عبدالسلام عمر اور دوسرے دو آدمی مولوی عبدالسلام عمر کی بستی نورآباد سے گوٹھ سلطان علی کو شام کے وقت آرہے تھے۔ باتوں باتوں میں میاں عبدالواسع نے کہا اگرانسان نیک ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ بھی مانا جائے تو کوئی حرج نہیں۔جس پر میں نے جواب دیا کہ اس طرح تو حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہ مانا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ پھر دوتین باتیں تبلیغی طور پر میں نے اور دوسرے ساتھیوں نے کیں پھر میاں صاحب چُپ ہوگئے جس سے معلوم ہوا کہ اُن پر کچھ اثر ہوا ہے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد میں نے مولوی عبدالسلام صاحب عمر سے عبدالواسع کے متعلق کہا کہ میں نے ایسی بات سُنی ہے اور مجھے افسوس ہوا ہے۔ تو مولوی صاحب نے کہا کہ نئی روشنی کا اثر نوجوانوں میں ہوگیا ہے۔''
ایک اور احمدی دوست عبدالرحیم صاحب کی شہادت ہے کہ مولوی عبدالسلام صاحب نے جواب میں کہا کہ وہ ابھی بچہ ہے حالانکہ اُس وقت وہ ایم اے کرچکاتھا۔
اِسی طرح امۃ الرحمٰن بنت مولوی شیر علی صاحب زوجہ میاں عبدالمنان صاحب عمر کا خط کسی نے بھیجا ہے جو مولوی عبدالسلام کے لڑکے واسع کے نام ہے۔ اس خط کو کسی نے پکڑ کر بھیج دیا۔ وہ ہمارے پاس موجود ہے۔ اس میں اس نے لکھا ہے کہ:-
''میری رائے میں تو آپ لوگوں کا جلد ہی آجانا بہتر تھا لیکن دیکھئے آپ کے چچا کی کیا رائے ہے۔''
یعنی میری رائے میں تو یہ ہے کہ جلدی سے ربوہ آجاؤ مگرمنان ابھی امریکہ میں ہے وہ آجائے تو پتہ لگے گا کہ اس کی کیا رائے ہے۔ پھر لکھا ہے:-
''لوگ یکے بعد دیگرے آپ لوگوں کے ماحول میں آویں
گے۔''
حاشیہ:- کوئی شخص یہ شبہ نہ کرے کہ اماں جی اور مولوی عبد السلام صاحب تو وفات پا کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکے ہیں پھر ان کی مغفرت کس طرح ہو گئی۔ بخشش خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ جس کو چاہے معاف کر سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو بعض اَور نیکیوں کی وجہ سے انکے بعض مخالفانہ افعال سے توبہ کرنے کی توفیق بخش کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا موقع عطا فرما دیا اور اس طرح اپنے فضل سے اس نے انہیں اپنی مغفرت کے دامن میں لے لیا۔
یعنی ربوہ آجائیں۔ساری جماعت ٹوٹ کر آپ کے گرد جمع ہوجائے گی۔
پھر لکھا ہے:-
''کہا کچھ جاتا ہے بتایا کچھ جاتا ہے۔خطبوں کو اگر حسب سابق منشی ہی دیا کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ کشتی نوح سے زیادہ اہم ان کے خطبے ہیں۔''
اِسی طرح امۃ الرحمٰن زوجہ میاں عبدالمنان صاحب عمر نے ستمبر1956ء میں اپنے جیٹھ کے بچوں کو لکھا کہ :-
''ہمارے بزرگ دادا کو یہاں تک کہا جارہا ہے کہ انہوں نے تو کبھی بھی اپنی اولاد کو خدا کے سپرد نہ کیا تھا۔''
(اس خط کا عکس ہمارے پاس محفوظ ہے اور اُن کے بھائی دیکھ سکتے ہیں۔)
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات عبدالوہاب اور عبدالمنان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی تھی۔مولوی شیر علی صاحب جیسے مخلص کی اس ناخلف بیٹی کو وہاب اور منان کی تو وہ بات بُری نہ لگی جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کہی تھی لیکن وہ بات بُری لگی جو جواب کے طور پر مبائعین نے حضرت خلیفہ اوّل کی اولاد کے متعلق کہی تھی۔
اب اخبار''پیغام''کے5دسمبر کے پرچہ میں سید تصدق حسین صاحب بغداد کا ایک خط چَھپا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ''پیغام صلح''میں
''مولوی عبدالمنان صاحب عمر کا مکتوب فتنۂ قادیان اور منافقین کو سمجھنے کے لئے اخوانِ ربوہ کو بصیرت کاکام دے گا۔''
ہم نے'' پیغام صلح'' کے سب پرچے دیکھ مارے ہیں ان میں وہ مضمون نہیں۔ مگر ہم کو ایک ٹریکٹ ملا ہے جس کے نیچے''حقیقت پسند پارٹی''لکھا ہوا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ انکاجتھا پیغامیوں کے ساتھ ہے اور پیغامی ان ٹریکٹوں کو جو ''حقیقت پسند پارٹی''چھاپ رہی ہے اپنے آدمیوں کو دنیا میں چاروں طرف یہ کہہ کر بھجوا رہی ہے کہ میاں عبدالمنان نے لکھے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ یہ اُنکے یارِغار ہیں ان کو پتہ ہوگا کہ میاں عبدالمنان نے یہ ٹریکٹ لکھے ہیں۔ ورنہ وہ شخص جو ان کی جماعت کا بغداد میں لیڈر ہے یہ کیوں لکھتا کہ میاں عبدالمنان کا ٹریکٹ مل گیا ہے۔
غرض آدمؑ کے زمانہ سے لیکر اِس وقت تک دین کو دنیا پر مقدم نہ کرنے کی وجہ سے نظامِ الٰہی کے خلاف بغاوتیں ہوتی چلی آئی ہیں اور آج کا پیغامی جھگڑا یا حضرت خلیفہ اول کے خاندان کا فتنہ بھی اِسی وجہ سے ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خداتعالیٰ کے حکم سے اپنی جماعت سے یہ عہد لینا کہ''میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا'' اِسی وجہ سے تھا۔مگر افسوس کہ باوجود حضرت خلیفہ اول کے ہوشیار کردینے کے انکی اولاد اس فتنہ میں پھنس گئی۔حالانکہ حضرت خلیفہ اوّل کی شہادت کو خود عبدالمنان نے1945ء کے رسالہ فرقان میں شائع کیا تھا۔ او رپھر یہ شہادت الفضل 11 دسمبر 1956ء میں بھی چَھپ چکی ہے اور ا س کے متعلق جلسہ سالانہ پر ایک ٹریکٹ بھی شائع ہوا ہے۔دوست اسے دیکھ چکے ہوں گے۔ اس میں انہوں نے حضرت خلیفہ اوّل کاایک نوٹ شائع کیا ہے جو دسمبر1912ء کا لکھا ہوا ہے کہ مصلح موعود تیس سال کے بعد ظاہر ہوگا۔چنانچہ1944ء میں خداتعالیٰ نے مجھے رؤیا دکھائی کہ تم مصلح موعود ہو۔ اس مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ:-
''فرقان کے پچھلے شمارہ میں مَیں نے بڑے دردمنددل کے ساتھ ابتدائی چندصفحات قلمبند کئے تھے اور میں حد درجہ اس کا آرزومند تھا کہ کسی طرح ہمارے یہ بچھڑے ہوئے بھائی پھر ہم میں آملیں۔اور اپنی طاقتوں کو باہمی آویزش میں ضائع نہ کریں بلکہ آپس میں مل کر متحدہ رنگ میں اکنافِ عالَم میں اسلام کو پھیلانے اور پاک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے کیلئے خرچ کرسکیں کہ یہی اِس دور میں ہمارا اولین فرض اور ہماری زندگیوں کا بہترین مقصد ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی دردمندانہ جذبہ کی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس احسان سے نوازا کہ میں آج اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کے سامنے اِس آواز کی تائید میں جو گزشتہ پرچہ میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کے دامن سے اپنے دامن کو وابستہ کرلینے کے متعلق بلند کی گئی تھی۔حضرت علامہ حاجی الحرمین سیّدنا نورالدین صدیق ثانی کی ایک زبردست شہادت کو پیش کرسکوں۔''
وہ پیغامیوں کو تو1945ء میں کہتا ہے کہ بچھڑے ہوئے بھائیو مل جاؤ اور اپنے آپ کو کہتا ہے کہ بھاگ جاؤ مبائعین کے پاس سے۔ چلے جاؤ ابلیس کی گود میں اور جماعت احمدیہ کے اتحاد کو چاک چاک کردو۔پھر آگے لکھتا ہے:۔
''اے مقلّب القلوب خدا!تُو اس برادرانہ جنگ کو ختم فرما اور اپنے پیارے مسیح کے ان خادموں کو جو تیرے اس رسول کی تخت گاہ سے کٹ گئے ہیں اُنہیں اِس پر مخلصانہ غور کرنے کی توفیق عطا فرما۔انکے دلوں کو کھول دے اور اس طرح پھر سے انہیں لے آ کہ ہم سب مصلح موعود کی زیر ہدایت پہلو بہ پہلو کندھے سے کندھا جوڑے اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ61 کا مصداق بنیں۔''
سو تم تو منان کی تحریک کے مطابق بن گئے مگر وہ خود اس نعمت سے محروم ہوگیا۔ وہی شخص جو حضرت خلیفہ اوّل کی پیشگوئی ظاہر کررہا تھا کہ انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ تیس سال کے بعد مصلح موعودظاہر ہوگا سو وہ ظاہر ہوگیا ہے وہی آج اپنے باپ کو جھوٹا کہہ رہاہے او راس کے دوست پیغامی کہتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کی ہتک ہم کررہے ہیں۔ ہتک ہم کرتے ہیں جوآپ کے بیان کی تائید کرتے ہیں یا ہتک ان کا بیٹا کرتا ہے اور پیغامی کرتے ہیں جو اپنے باپ کو اور اپنے پہلے خلیفہ کو جس کی انہوں نے بیعت کی تھی جھوٹا کہتے ہیں؟ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خداتعالیٰ کے غضب کو بھڑکائیں گے اور نہ اجمیری اور نہ پیغامی، نہ محمد حسن چیمہ، نہ غلام رسول نمبر35ا ن کی مدد کرسکیں گے۔ کیونکہ خدا کی گرفت آدمیوں کے ذریعہ سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ قانونِ قدرت کے ذریعہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور قانونِ قدرت حکومتوں کے ماتحت بھی نہیں وہ محض خدا تعالیٰ کے ماتحت ہے۔ اور خداتعالیٰ نے مجھے پہلے سے خبر دی ہوئی ہے اور وہ (الفضل 7ستمبر 1956ء میں)چَھپ بھی چکی ہے کہ اب تو پیغامی اور ان کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن فرشتوں نے آسمان پر چکر کھاتے ہوئے قرآن کی وہ آیتیں پڑھیں جومنافق یہودیوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر لڑیں گے اور اگر تم کو نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے۔خداتعالیٰ کہتا ہے نہ یہ لڑیں گے، نہ نکلیں گے جھوٹے ہیں۔
اِسی طرح خداتعالیٰ نے مجھے فرشتوں کے ذریعہ سے بتایاکہ یہی حال ان کا ہوگا۔ پہلے پیغامی اور احراری کہیں گے کہ ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن بعد میں نہ وہ مدد کریں گے نہ ساتھ دیں گے بلکہ سب بھاگ جائیں گے کیونکہ خدا کے غضب کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔
چنانچہ جلسہ سالانہ کے بعد''نوائے پاکستان''17جنوری1957ء میں ان کے ایک ہمدرد نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ نے جو مجھے خبر دی تھی وہ بڑی شان سے پوری ہوگئی ہے۔
اس مضمون میں جو''حقیقت پسند پارٹی سے چند گزارشات''کے زیر عنوان شائع ہوا ہے لکھا ہے:۔
(الف)''حزبِ مخالف نے اگرچہ حقیقت پسند پارٹی کے نام سے اپنی جماعت الگ بنانے کا اعلان کردیا ہے مگر ہیں وہ بڑے پریشان کیونکہ قادیانی خلافت نے تو منافق، غدار،ملحداور دونوں جہان میں خائب وخاسر کا الزام دے کر اپنے سے اِن کو عضوِ فاسد کی طرح کاٹ دیا ہے۔''
(ب)''لاہوری حضرات ان کو دوسرے قادیانیوں کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔ان میں باہمی عقیدہ وخیال کا کوئی فرق نہیں ہے صرف تھوڑا سا خلافتی اختلاف ہے۔ اِس بناء پر وہ ان کو اپنے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتے۔''
(ج)مرزائیت کی حالت میں مسلمانوں کا اُن سے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ اسلام کے ایک بنیادی واساسی عقیدہ کے منکر ہیں۔ مسلمان کافر کی ذمّی ہونے کی حیثیت سے حفاظت وصیانت تو کرسکتا ہے مگر مرتد کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ بلکہ مرتدکی سزا اسلام میں نہایت سنگین ہے اس اعتبار سے یہ معاشرہ سے بالکل کٹ چکے ہیں۔''
(د)''ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَارَحُبَتْ62 کاسا اِن کا حال ہے۔ سرزمینِ پاکستان باوجود اپنی وسعت وفراخی کے اِن پر تنگ ہوگئی ہے۔ کیاوہ ملک بدر ہوجائیں؟آخر جائیں تو کہاں جائیں۔فرض کرلیجئے کہ اِن میں سے ایک آدمی کسی مکان پر صرف اکیلا ہی رہتا ہے، زندگی میں ہزاروں حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں اگر وہ بھی کسی حادثہ کا شکار ہوجائے تو اُن سے کون اُنس ومروّت کریگا۔کیا وہ سِسک سِسک کر نہیں مرجائے گا؟ بِالفرض وہ فوت بھی ہوجاتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی تجہیز وتکفین کون کرے گا؟ اس کاجنازہ کون پڑھا ئے گا؟ اور کِس کے قبرستان میں وہ دفن کیا جائے گا؟ یا اُس کی لاش کو چیلوں اور درندوں کے سپرد کر دیا جائے گا؟حقیقت پسند پارٹی کو اِن بھیانک اور خوفناک نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔''63
غرض یہ پس منظر ہے آسمانی نظام کا، تم آسمانی نظام کے سپاہی ہو اور شیطان اب نئی شکل میں، نئے جُبّہ میں آکر اور احراریوں کی اور غیر مبائعین کی مدد سے اور منان اور وہاب کانام لے کر اور عبدالسلام کے بیٹوں کا نام لے کر تمہارے اندرداخل ہونا چاہتا ہے اور تم کو جنت سے نکالنا چاہتا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پہلا آدمؑ آیا تھا اور شیطان نے اُس کو جنت سے نکال دیا تھا۔ اَب میں دوسرا آدم بن کے آیا ہوں تاکہ لوگوں کو پھر جنّت میں داخل کروں۔64
پس تم دوسرے آدم کی اولاد ہو۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق جنّتِ خلافت سے دشمن تم کو نہیں نکال سکے گا۔ شیطان ناکام رہے گا اور منہ کی کھائے گا اور سانپ کی طرح زمین چاٹتا رہے گا۔ لیکن خدا کی جنت میں تم جاؤ گے جو اس کے سچّے پَیرو ہو۔ کیونکہ تم نے آدمِ ثانیؑ کو قبول کیا ہے اور آدمؑ ثانی کو خدا نے اس لئے بھیجا ہے کہ پھر آدمؑ اوّل کے وقت نکلے ہوئے لوگوں کو دوبارہ جنت میں داخل کرے۔
میری اِس تقریر سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ جو فتنہ شیطان نے آدمؑ کے وقت اٹھایا تھا اور جس آگ کو وہ پہلے ابراہیمؑ کے وقت تک جلاتا چلا گیا تھا اور پھر بنو اسمٰعیلؑ اور بنو اسحقؑ کی لڑائی کی شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قریب زمانہ تک بھڑکاتا چلا گیا تھا اور پھر امیّہ اور ہاشم کی لڑائی کی شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک بھڑکاتا چلا گیا تھا اور پھر حضرت امام حسینؓ اور یزید کی لڑائی کی صورت میں وہ آپؐ کے بعد بھی بھڑکاتا چلا گیا تھا اورپھرآخری زمانہ یعنی دورِ حاضر میں مسیح محمدیؐ اور ابناء مولوی عبداللہؒ صاحب غزنوی مرحوم کی لڑائی کی صورت میں اُس نے بھڑکانا شروع کردیا تھا اور اب پیغامیوں اور مبائعین اور ابنائے مسیح موعودؑ اور ابنائے مولوی عبداللہ صاحبؒ غزنوی کی لڑائی کی شکل میں اس کو جاری رکھے ہوئے ہے۔وہ بات حرف بحرف صحیح ہے اور اس تمام جنگ کی بنیاد لالچ یا بُغض
پر ہے کوئی دینی رُوح اس کے پیچھے نہیں ہے۔’’ (ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ)
1 النور:56
2 کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال۔ جلد 11 صفحہ 286 ۔ حدیث نمبر 31447۔ دمشق 2012ء
3 کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال۔ جلد 6 صفحہ 121 ۔ حدیث نمبر 15114۔ دمشق 2012ء
4 وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا (المائدہ:21)
5 تذکرہ صفحہ 232 ایڈیشن چہارم 2004ء
6 رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20 صفحہ305
7 رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20 صفحہ306
8 اخبار بدد 2جون1908ء
9 رسالۃ الخلافۃ صفحہ مصنفہ شیخ رشید رضا مصری
10
11 تاریخ الخلفاء السیوطی صفحہ 49، 50۔ فصل فی مبایعتہ (ابوبکر) مطبع لکھنؤ۔
12
13
14 رسالہ الخلافہ صفحہ14
15 الخلافۃ مصنفہ علامہ رشید ضیاء شامی ثمر المصری صفحہ 9تا 18
16 سولاویسی: (سیلبس)(CELEBES)SULAWESI : انڈونیشیا کا ایک جزیرہ ہے جو BORNEO اور MALUKU ISLANDS کے درمیان واقع ہے اور یہ دنیا کا گیارھواں بڑا جزیرہ ہے۔(Wikipedia, the free Encyclopedia. Under the topic of “SULAWESI”)
17 بلجین کانگو: (BELGIAN CONGO) بادشاہ KING LEOPOLO II کے دور (1908ء-1960ء) میں موجودہ ملک جمہوریہ کانگو کا یہ رسمی نام تھا۔ (Wikipedia, the free Encyclopedia. Under the topic of “BELGIAN CONGO”)
18 سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحہ 365میں ‘‘حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا تکبر پایا جاتا ہے’’ کے الفاظ ملتے ہیں۔
19 یہ مفصّل خط الفضل یکم دسمبر 1956ء میں شائع ہؤا۔
20 یہ مفصّل خط الفضل 21 دسمبر 1955ء میں شائع ہؤا۔
21 الاعلیٰ : 15 تا20
22 الاعراف : 13 تا 19
23 پیدائش باب3 آیت 5
24 پیدائش باب21آیت12
25 پیدائش باب16آیت12
26 البقرۃ: آیت110
27 داد و دِہِش : بخشش و عطا۔ فیاضی، سخاوت ، خیر خیرات (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 8صفحہ 908کراچی 1987ء
28 تاریخ الکامل لابن اثیر جلد2صفحہ16، 17 ‘‘ابن ھاشم’’ بیروت 1965ء
29 محاضرات جلد اوّل شیخ محمد خضری صفحہ36، 37۔ مصر 1382 ھجری
30 دائرۃ المعارف جلد اوّل صفحہ622
31 بدر2جون1908ء
32 حقیقتِ اختلاف حصہ اوّل صفحہ29۔ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور
33 ریویو آف ریلیجنز دسمبر1908ء صفحہ480
34 پیغام صلح 17دسمبر 1914ءصفحہ2
35 الجامع الصغیر للسیوطی
36 الفضل4؍اگست1937ء
37 دعائم المِلّة : (دِعامۃ) وہ ستون یا بنیاد جس پر عمارت کھڑی ہو (لسان العرب جلد اول زیر لفظ ‘‘الدِّعَامَۃ’’ بیروت 2005ء)
38 الفضل16ستمبر1956ء
39 نبیرہ : بیٹے یا بیٹی کا بیٹا۔ پوتا یا نواسہ (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 19 صفحہ 754۔ اردو لغت کراچی 2003ء)
40 پیغام صلح30ستمبر1930ء
41 الفضل17؍اکتوبر1956ء
42 الفضل17؍اکتوبر1956ء
43 الفضل2؍اکتوبر1956ء
44 الفضل22؍اگست1956ء
45 الفضل30؍جولائی1956ء
46 الفضل29؍جولائی1956ء
47 الفضل4؍اکتوبر1956ء
48 صٓ :77
49 اشتہار معیار الاخیار مورخہ16جون1899ء
50 کتاب البریہ صفحہ120 روحانی خزائن جلد13صفحہ148
51 اشاعۃ السنۃ جلد13نمبر7صفحہ202
52 کتاب البریّہ صفحہ121 روحانی خزائن جلد13صفحہ149
53 ارڑپوپو : نجومی، لاف زن، ضدی ، ہٹیلا، احمق (پنجابی اردو لغت مرتبہ حسین بخاری صفحہ 112 لاہور 1989ء)
54 حجۃ اللہ صفحہ7 روحانی خزائن جلد12صفحہ155
55 کتاب البریہ صفحہ120 روحانی خزائن جلد13صفحہ148
56 تحفہ غزنویہ صفحہ19 روحانی خزائن جلد 15صفحہ549
57 نزول المسیح صفحہ32 روحانی خزائن جلد18صفحہ410
58 نزول المسیح صفحہ32، 33 روحانی خزائن جلد18صفحہ410
59 تحفہ غزنویہ صفحہ19 روحانی خزائن جلد15صفحہ549
60 درثمین اردو زیر عنوان ‘‘محمود کی آمین’’ صفحہ 36، 37
61 الفتح :30
62 التوبہ:118
63 نوائے پاکستان17جنوری1957ء
64 خطبہ الہامیہ حاشیہ متعلقہ بالخطبۃ الالہامیہ۔ ما الفرقُ بین آدم و المسیح الموعود۔ روحانی خزائن جلد 16۔ صفحہ 307، 308







سیر روحانی (10)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ


سیر روحانی (10)
(فرمودہ28دسمبر1956ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)

تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اصل مضمون ‘‘سیر روحانی’’ پر تقریر کرنے سے قبل بعض امور کی طرف احباب کو توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
‘‘تقریر سے پہلے میں کچھ اعلانات کرنا چاہتا ہوں۔ایک تو یہ ہے کہ ربوہ میں ہم نے ایک ہزار ایکڑ زمین خریدی تھی جو ا س کی آ بادی کے لئے اس طرح فروخت کی گئی کہ اس میں دو حصے صدرانجمن احمدیہ کے تھے اور ایک حصہ تحریک جدید کا تھا اور اسی طرح ان دونوں صیغوں کے کام چلے ورنہ ربوہ میں نہ کالج بن سکتے نہ سکول بن سکتے نہ یہ دفاتر بن سکتے نہ یہ عمارتیں بن سکتیں گویا روپیہ تو آپ لوگوں نے ہی دیا مگر زمین لے کر دیا۔اَب خداتعالیٰ کے فضل سے بہت سے مکان بن چکے ہیں اور اَب جماعت کے لوگ پریشان ہیں کہ انہیں اَور زمین نہیں ملتی۔ میں نے احتیاطاً یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کاکام ہے بندے جو بھی انتظام کریں گے وہ تھوڑا ہی ہوگا اس لئے زمین بہرحال بِک جائے گی اور آخراَور ضرورت پیش آئے گی۔ربوہ کے ساتھ سرحد پر ملتی ہوئی زمینیں خریدنے کے لئے ناظم جائیداد کو حکم دیا تھا چنانچہ انہوں نے ایک کافی مقدار میں سکنی زمین کنالوں کی صورت میں خرید لی۔ قریباً دو ہزار مرلے میں نے بھی خریدی۔ لیکن میں نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ چونکہ یہاں سلسلہ کا کام ہونا ہے اسلئے افراد کو خریدنے کی اجازت نہیں سوائے اس صورت کے کہ وہ انجمن سے اجازت لیں اور انجمن سے وعدہ کریں کہ اگر انہوں نے اسے سکنی زمین کرکے بیچا تو جس قیمت پر زمین خریدی ہے او رجس پر بیچی ہے اس کے درمیان میں جتنی رقم آئے اس سے آدھی رقم وہ سلسلہ کو دیں گے۔ اور میں نے بھی اس شرط سے زمین خریدی ہے جب وہ بِکے گی تو جو رقم آئے گی جس قیمت پر میں نے اس کو خریدا ہے اس کے اور فروخت کے درمیان جو فاصلہ ہوگا اس کی آدھی رقم میں سلسلہ کو اس کے کاموں کے لئے دوں گا۔ اَب مجھے رپورٹ پہنچی ہے کہ جو زمین خریدی گئی تھی وہ ختم ہوگئی ہے صرف پندرہ کنال باقی ہے۔اس لئے جو نئی زمین ہے ا سکے بیچنے کی اجازت دی جائے. چنانچہ میں نے اجازت دے دی ہے کہ فی الحال 100 کنال وہ بیچ دیں اور 100کنال چار سو روپے کنال پر بیچیں۔ پس جو دوست لینا چاہتے ہیں وہ دیکھ لیں. پیچھے یہ حالت ہوتی ہے کہ آج تک لوگ میرے پاس آتے ہیں او رحسرت سے کہتے ہیں کہ پہلے جب سو روپیہ کنال تھی تو ہم نے نہ لی۔ اُس وقت اگر ہم بیس پچیس کنال خرید لیتے تو ہماری کوٹھیاں بن جاتیں۔میں نے کہا تم نے خدا پر اتنا توکل نہیں کیا اس لئے نہیں ملی تو اَب جو چاہیں سو کنال تک لے سکتے ہیں۔ پھر بعد میں شکوہ نہ پیدا ہو. پہلے بھی میں نے سو کنال کہی تھی اور اس کے لئے ایک تاریخ مقرر کی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ سو کنال اس تاریخ تک۔ یہ مطلب نہیں تھا کہ اس تاریخ تک سو کنال اگر بِک جائے تب بھی یہی قیمت لی جائے گی۔ اَب بھی یہ ہوگا کہ دومہینے کی ہم مہلت دیں گے لیکن اگر دو مہینے کے اندر اندر سو کنال بِک گئی تو اس کے بعد وہ رعایت ختم ہوجائے گی ہم دومہینے کا لفظ نہیں سنیں گے۔دو مہینے صرف اس میعاد کے لئے رکھے ہیں کہ اگر سو کنال نہ بِکے تب بھی ہم کچھ زمین دو مہینے کے بعد دے دیں گے او رقیمت چاہیں تو بڑھا دیں گے۔ لیکن دو مہینے تک سو کنال تک کی قیمت صرف چار سو روپیہ کنال رہے گی۔ اگر دو مہینے کے اندر سو کنال بِک گئی اور کوئی اَور گاہک آئے تو پھر بیچنے والوں کو حق ہوگا کہ وہ چار سو کی بجائے پانچ سو، چھ سو، سات سو اور آٹھ سو وصول کریں۔تو اَب دو مہینے تک سو کنال زمین خریدنے کا آپ لوگوں کو حق ہے۔میں نے اپنی زمین ابھی روکی ہوئی ہے تاکہ انجمن کی کچھ زمین بِک جائے اور ان کا قدم جم جائے اور تجارت کا رُخ اُدھر ہوجائے۔ جب تک انجمن کی زمین بِک نہ جائے اُس وقت تک میں اپنی زمین فروخت نہیں کروں گا۔ پس اِس وقت جو دوست لینا چاہیں وہ محلہ دارالیمن(الف)میں بھی لے سکتے ہیں۔اس میں پندرہ کنال ابھی باقی ہے مگر اس کی قیمت زیادہ ہے۔اس کی قیمت8/562ہے۔ لیکن آئندہ جو زمین ہوگی او رجو کالج کی طرف ہے یعنی کالج سے ذرا پرے ہے وہ زمین سو کنال تک چار سو روپیہ فی کنال فروخت کریں گے۔جو دوست اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں وہ دفترمیں جاکر اپنے لئے کوئی ٹکڑا ریزرو کرلیں۔ کچھ دنوں کی مہلت تو وہ آخر دیں گے ہی مگر پہلے کی طرح نہیں ہوگا۔پہلے یہ تھا کہ لوگوں نے قیمتیں بھی قسط واردیں اور پھر مکان بھی نہ بنائے اور لمبا کرتے چلے گئے۔اب کے جو زمین لے گا یا تو مدت مقررہ کے اندر جو تین مہینے کی ہوگی یا چھ مہینے کی ہوگی وہ مکان بنائے گا یا آگے انجمن کی اجازت لے کر کسی اچھے آدمی کے پاس فروخت کردے گا۔ دونوں کی اجازت ہے۔ یہ بھی اجازت ہے کہ مثلاً اگر کسی کے پاس کچھ روپیہ ہو فرض کرو چار ہزار روپیہ ہے تو دس کنال خرید لے اور پھر اَور چھ مہینے سال کے بعد جب اس کی قیمت سات سو یا آٹھ سو ہوجائے تو بیچ دے اسے قریباً دُگنا روپیہ مل جائے گا۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ علمِ انعامی جو ہرسال خدام الاحمدیہ کو ملا کرتا ہے۔اس کے لحاظ سے اس دفعہ اول انعام حاصل کرنے والی مجلس خدام الاحمدیہ کراچی ہے۔قائد کراچی آئیں اور سرٹیفکیٹ مجھ سے لے لیں اس کے بعد عَلَمْ اُنہیں دفتر سے مل جائے گا۔ دوسرے نمبر پر شہری مجالس میں سے کوئٹہ رہا ہے مَیں نے فرق کر دیا تھا کہ شہری الگ رہیں اور دیہاتی الگ رہیں۔ جیسے کَل امتحان میں فرق کردیا ہے کہ25سال سے اوپر کی عورتوں اور مردوں کا الگ امتحان ہوگا اور25سال سے نیچے کی عورتوں اور لڑکوں کا الگ امتحان ہوگا۔دیہاتی مجالس میں سے کرونڈی ضلع خیر پور ڈویژن کی انجمن خدا م میں فرسٹ (FIRST) رہی ہے سو اُن کے قائد آئیں اور سرٹیفکیٹ مجھ سے لے لیں۔
غرض شہری مجالس میں سے اول کراچی رہی ہے اور دوم کوئٹہ رہا ہے اور دیہات میں سے اول مجلس خدام الاحمدیہ کرونڈی رہی ہے اور دوم کے متعلق کہتے ہیں کہ اس سال کوئی انعام مقرر نہیں کیا گیا،آئندہ سال شروع ہوگا۔
میراکل کا مضمون کچھ مَہاجال سا تھا۔ایک لمبی تاریخ بیان کرنی تھی جس میں سینکڑوں واقعات تھے اور سینکڑوں شہادتیں تھیں۔اس لئے باوجود اس کے کہ کئی دن ذہن میں مَیں اُنہیں دُہراتا رہا پھر بھی بیان کرتے وقت بہت سی باتیں ذہن سے نکل گئیں۔
ایک بات جو کَل میں کہنی چاہتا تھا اور جو خوشی کی خبر ہے مگر میں بھول گیا وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک کتاب امریکن کتاب کا ترجمہ کرکے شائع کی گئی تھی اور اس کا ترجمہ کرنے والے بھارت کے ایک صوبہ کے گورنر مسٹر منشی بمبئی والے تھے۔اس میں کچھ نامناسب الفاظ تھے۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی گئی ہے چنانچہ وہاں اتنی شورش ہوئی او راتنا فساد ہوا کہ سینکڑوں مسلمان مارے گئے اور ہزاروں جیل خانوں میں گئے۔ آج تک وہ مقدمے چل رہے ہیں اور آج تک مسلمان گرفتاریوں کی سزا بُھگت رہے ہیں۔اُدھر کی شورش کو دیکھ کر جبکہ گورنمنٹ نے اُدھر توجہ نہ کی تو پاکستان گورنمنٹ نے اس کتاب کو ضبط کرلیا گو اس کے بعد ہندوستانی گورنمنٹ نے بھی وہ کتاب ضبط کرلی۔میں نے اس پر خطبہ پڑھا اور کہا کہ یہ ضبط کرنے والاطریق ٹھیک نہیں تب تو ان لوگوں کے دلوں میں شُبہ پیدا ہوگا کہ ہماری باتوں کا جواب کوئی نہیں۔واقع میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسے ہی ہوں گے تبھی کتاب ضبط کرتے ہیں،اس کا جواب نہیں دیتے۔ اصل طریق یہ تھاکہ اس کا جواب دیا جاتا او رامریکہ اور ہندوستان میں شائع کرایا جاتا۔
میرے اس خطبہ کے بعد ہندوستان سے خصوصاً بمبئی سے رپورٹ آئی کہ ترجمہ کرانے کی ضرورت نہیں یہاں زیادہ تر انگریزی پڑھے ہوئے لوگوں میں اس کا چرچا ہے۔اس لئے جو انگریزی کتاب امریکہ کے لئے چھپے وہی ہندوستان میں بھیج دی جائے اور وہ انگریزی دان طبقہ میں تقسیم کی جائے۔ اگر ضرورت سمجھی جائے تو بعد میں اس کا اردو ترجمہ بھی ہوجائے۔چودھری ظفر اللہ خاں صاحب اب امریکہ سے آئے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے کتاب پڑھی ہے ا س کے متعلق کئی غلط فہمیاں ہیں۔ وہ کتاب درحقیقت ایک تحقیقی رنگ میں لکھی ہوئی کتاب ہے۔ وہ شخص اسلام کا دشمن نہیں ہے۔ اس لئے جو میری تجویز تھی کہ اس کا تحقیقی جواب بھی دیا جائے اور پھر الزامی جو اب بھی دیا جائے۔عیسائیوں کو بھی اور ہندوؤں کو بھی۔ ان کی رائے یہ ہے کہ نرمی کے ساتھ تحقیقی جواب دیا جائے لیکن الزامی جو اب نہ دیا جائے کیونکہ لکھنے والے کے دل کی بد نیتی کو ئی نہ تھی۔ اور چونکہ ہندوستان میں بھی دوستوں نے کہا ہے کہ اردو کی ضرورت نہیں انگریزی کی ہے اس لئے ایک کتاب کافی ہوجائے گی جس میں تحقیقی جواب ہوں گے۔ تحقیقی جو اب جیسے عیسائیوں کے لئے کافی ہوتے ہیں اسی طرح ہندوؤں کے لئے، اسی طرح زرتشیوں کے لئے اور اسی طرح یہودیوں کے لئے بھی کافی ہوتے ہیں۔ پس تحقیقی جو اب کے ساتھ وہ کتاب شائع ہوگی او رمجھے اطلاع آچکی ہے کہ وہ لکھی جاچکی ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کا ہمارے ساتھ وہی معاملہ ہے جوایک بڈھے ایرانی کے ساتھ ہوا تھا۔
ایک بڈھا ایرانی ایک دفعہ ایک درخت لگا رہا تھا ساٹھ سال میں کہیں جاکے وہ پھل دیتا تھا۔بادشاہ وہاں سے گزرا۔ بادشاہ نے اس کو درخت لگاتے جو دیکھا تو کہا اس بڈھے کو بلاؤ۔ جب وہ بڈھا پاس آیا تو کہا میاں بڈھے! تم یہ درخت لگا رہے ہوپتہ ہے یہ ساٹھ سال کے بعد پھل دیتا ہے تم تُو اس وقت تک مرجاؤ گے تمہیں اس درخت کے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ بڈھے نے کہا بادشاہ سلامت!آپ بھی عجیب ہیں میرے باپ دادا بھی اگر یہی سوچتے تو میں کہاں سے پھل کھاتا۔میرے باپ دادوں نے درخت لگایا تو میں نے پھل کھایا میں لگاؤں گا تو میرے پوتے پڑپوتے کھائیں گے۔بادشاہ کو بات پسند آگئی اس نے کہا زِہْ! بادشاہ نے وزیر خزانہ کوحکم دیا ہوا تھا کہ جب میں کسی بات پر زِہْ کہوں تو فوراً تین ہزار اشرفی کی تھیلی اس کے آگے رکھ دیا کرو۔ بادشاہ نے کہازِہْ۔وزیر نے فوراً تین ہزار کی تھیلی اس کے آگے رکھ دی۔ جب اس کے آگے تین ہزار اشرفی کی تھیلی رکھی گئی تو اُس نے کہا بادشاہ سلامت! اَب بتائیے آپ تو کہتے تھے کہ تُو ساٹھ سال کے بعد کہاں پھل کھائے گا چھوٹے چھوٹے درخت ہوں تو وہ بھی اگر جلدی پھل دینے والے ہوں تو کم سے کم چارپانچ سال کے بعد پھل دیتے ہیں مگر مجھے تو دیکھئے ایک منٹ کے اندر پھل مل گیا۔ بادشاہ کو یہ بات اَور بھی پسند آئی اوراس نے پھر کہازِہْ۔ او روزیرِ خزانہ نے پھر تین ہزار کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دی۔ جب وہ دوسری تھیلی رکھی گئی تو کہنے لگا بادشاہ سلامت! دیکھئے آپ کی کتنی غلطی تھی۔آپ کہہ رہے تھے کہ ساٹھ سال کے بعد اس نے پھل دینا ہے اور اُس وقت تک تُو بچے گا کہاں مگر دیکھئے لوگوں کو تو سال میں ایک دفعہ پھل ملتا ہے اور میرے درخت نے ایک منٹ میں دودفعہ پھل دے دئیے۔بادشاہ نے کہا زِہْ۔وزیر نے پھر تیسری تھیلی رکھ دی۔ بادشاہ کہنے لگا کہ چلو ورنہ یہ بڈھا خزانہ لُوٹ لے گے۔تو اللہ تعالیٰ کا بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ہندوستانی گورنمنٹ نے وہ کتاب ضبط کی اور ہندوستانیوںمیں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کمزور ہے۔ان پر ایک امریکن نے حملہ کیا او رمسلمان جواب نہیں دے سکے۔ آخر شور مچایا اور گورنمنٹ کو کتاب ضبط کرنی پڑی۔ اِدھر پاکستان گورنمنٹ نے کتاب ضبط کی پاکستان کے عیسائی بڑے خوش ہوئے، پاکستان کے ہندوخوش ہوئے کہ دیکھو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کمزور ہے ان کے حملوں کاجواب کوئی نہیں۔کتاب ضبط کرکے جو اب دے رہے ہیں۔ لیکن جو میں نے تدبیر کی تھی وہ ایسی کارگر نکلی کہ ہماری کتاب ابھی چھپی نہیں اور کتاب کو چھاپنے والی فرم کا معافی نامہ پہلے آ گیا ہے او روہ یہ ہے:
“Henry and Dana Thomas
c/o Hanover House
Publishers 575 Madison Avenue
New York, N.Y.
December 6,1956.
We have just received your letter from our publishers. With regard to the statements made about the Prophet Mohammed in the living Biographies of Religious leaders, we were terribly shocked and saddened that there have been misunderstanding of our attitude and feeling about Mohammed. We have always believed that the teachings of the Prophet are one of the world’s basic manifestations of democracy and that the tenets of the Muslim faith are a direct progenitor of the philosophy of Abraham Lincon.
Despite the Fact that the book was written fifteen years ago under the direction of a book editor who conceived of the Project as a Humanized, Romanticized approach to biography for a westernized gudience we have not had the slightest intention of detracting from the philosophical stature of Mohammed and that is why we have been so distressed our any Misunderstanding that might have arisen.
We wish you Godspeed on your new work on the Prophet Mohammed and if you mention our book would you please convey to your readers how saddened we have been over any adverse reaction and would you convey that we are the last people in the world who are critical of the very great contributions of the muslim faith.
sincerely,
(signed)
Henry and Dana Thomas”
اس کا ترجمہ یہ ہے:
منجانب(مسٹر)ہنری تھامس و (مسز)ڈانا تھامس
معرفت ھینوور ہاؤس
پبلشرز نمبر575میڈیسن ایونیو۔
نیویارک6دسمبر1956ء
ہمیں اپنی کتاب کے ناشرین کی معرفت آپ کا خط ملا(یعنی ہمارے مبلغ کا) نبی اکرم محمد کے متعلق کتاب ''مذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں''میں ہمارے مضمون کے متعلق عرض ہے کہ یہ معلوم کرکے کہ نبی اکرمؐ کے متعلق ہمارے اندازِ تحریر و احساسات کے متعلق بعض غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ہمیں بہت رنج اور افسوس ہوا۔ہمارا ہمیشہ سے یہ اعتقاد رہا ہے کہ نبی اکرم کی تعلیم دنیا میں جمہوریت کی بنیادی مظہر ہے اور کہ مذہب اسلام کے اصول امریکی سابق پریذیڈنٹ(جس کو وہ قریباً نبیوں کی طرح سمجھتے ہیں)ابراہیم لنکن کی فلاسفی کا براہِ راست منبع وماخذ ہیں (یعنی ہم ابراہیم لنکن کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں اور بڑا بزرگ سمجھتے ہیں مگر ہمارا یقین ہے کہ ابراہیم لنکن نے جو امن کی تعلیم پھیلائی تھی وہ براہِ راست اس نے محمد رسول اللہ سے حاصل کی تھی خود نہیں بنائی تھی، اس امر کے باوجود کہ ہمارے مضمون کو جسے ہم نے کتاب کے ایڈیٹر کی زیرِ ہدایت تحریر کیاتھا لکھے پندرہ سال ہوگئے ہیں اور کتاب لکھوانے میں مرتّب کا منشاء ومقصد سوانح عمری کی تحریر میں مغربی تہذیب میں رنگین قارئین وناظرین کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانیت کی نہج پر افسانوی رنگ دینا تھا(یعنی ہم نے قصے کے رنگ میں لکھی تھی جس سے یورپ کے لوگ زیادہ فائدہ اُٹھاسکیں)یہ امر کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم کسی صورت میں محمد کے اعلیٰ عالمانہ مقام کی بے قدری یا تخفیف کریں۔اس وجہ سے ان غلط فہمیوں پر جن کا واقع ہونا ہمیں بتایا جارہا ہے ہمیں نہایت درجہ غم اور افسردگی ہے۔نبی اکرم کے متعلق جو کتا ب آپ تحریر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس میں ہم آپ کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔ اگر آپ ہماری کتاب کا ذکر فرمادیں تو ہم ممنون ہوں گے۔آپ اپنے ناظرین تک ہمارا یہ پیغام بھی پہنچادیں کہ ہماری کتاب کے متعلق ناموافق اور مخالف ردِّ عمل پر ہمیں کتنا افسوس ہوا ہے۔ اور کیا آپ یہ بھی انہیں پہنچادیں گے کہ مذہبِ اسلام سے دنیا کو جو بڑی نعمت عطا ہوئی ہے اس کی عیب جوئی یا تنقید میں آپ ہمیں تمام دنیا کے لوگوں سے آخری فرد پائیں گے۔
آپ کے بہی خواہ
ہنری اینڈ واناتھامس
پس دیکھو ان کی ضبطی کا نتیجہ تو خبر نہیں کب نکلے گا۔ہمارے جواب کا نتیجہ خدا نے فوراً نکال دیا اور کتاب کے چھاپنے والی فرم کی طرف سے معذرت آگئی۔ اور نہ صرف معذرت آئی بلکہ یہ بھی آئی کہ اپنی کتاب میں بھی ہماری معذرت چھاپ دیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ہم سب سے آخر میں وہ لوگ ہوں گے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بات سن سکیں یا برداشت کرسکیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے میری ایک حقیر کوشش کو اتنی جلدی کامیابی بخشی۔سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور پاکستان کے مسلمانوں کے شور سے ان کے کانوں پرجوں بھی نہیں رینگی لیکن میرے اس خطبہ کے نتیجہ میں جب ان کو پتہ لگا کہ کتاب لکھی جارہی ہے تو انہوں نے فوراً معذرت کردی اور لکھوایا کہ ہماری معذرت کتابوں میں بھی چھاپ دی جائے او راپنی جماعت کو بتایا جائے کہ ہمارے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت عزت ہے۔بلکہ ابراہیم لنکن جس کو ہم نبیوں کامقام دیتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بھی محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا شاگرد تھا اور اس نے جو کچھ سیکھا ہے محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے سیکھا ہے۔
ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دوست پروفیسرٹلٹاک جو آئے ہوئے ہیں جرمن قوم کی طر ح ان کے دل میں بھی اشتیاق ہے کہ وہ درّہ خیبر اور اس کا ملحقہ علاقہ دیکھیں۔ہم نے انتظام کیا ہے کہ کوئی دوست ان کو وہاں لے جائے۔ پشاور کی جماعت یہاں بیٹھی ہے ان کو بھی میں پیغام دیتا ہوں کہ وہ جاکر کوئی مناسب انتظام کریں اور جب اُن کو اطلاع ملے کہ وہ آرہے ہیں تو اُس وقت اُن کے لئے درّہ خیبر کے دیکھنے کا مناسب انتظام کریں۔ کیونکہ جرمن لوگوں میں جنگی قوم ہونے کی وجہ سے پٹھانوں کا ملک دیکھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ چنانچہ جب کُنزے صاحب مسلمان ہوکر آئے تھے تو وہ بھی کوئی چھ مہینے جاکر پشاور رہے تھے۔یہ قدرتی اشتیاق ہے۔ ان کے دل پر اثر بھی ہوگا کہ ہمارے بھائی کس طرح اپنے بیرونی بھائیوں کی قدر کرتے ہیں اس لئے جماعت پشاور جاکر ان کے دیکھنے کا مناسب انتظام کرے۔ بلکہ اردگرد ہمارے بعض احمدی بھی ہیں جن کا علاقہ پر اچھا اثر ہے پس ان کے اردگرد جو پٹھان ہیں وہ ان میں تحریک کریں۔ میں جب گیا تھا تو انہوں نے دعوت بھی کی تھی اور پھر ایک شخص توجس سے ہمارے دوست ڈرتے تھے کہ حملہ نہ کردے بندوق لے کر ناچنے لگ گیا اور مجھے کہنے لگا کہ میں تو آپ کو چائے پی کر جانے دوں گا۔میں نے کہاہمارے پاس وقت نہیں۔کہنے لگا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ چلے جائیں اور ہماری ذلت ہو۔ بڑی مصیبت سے اس سے چھٹکارا حاصل کیا۔ تو اُن لوگوں میں تحریک کرکے ان کو انٹروڈیوس(INTRODUCE) کردیں تا کہ ان کی دل جوئی ہو اور ان پر یہ اثر ہو کہ پاکستانی لوگ جرمن مسافروں کے ساتھ ہمدردی اور محبت رکھتے ہیں اور احمدیہ جماعت اپنے نَو مسلموں کو اپنا بھائی سمجھتی ہے۔
اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ منافقوں کی طرف سے جو حملے کئے گئے ہیں اور جو جھوٹ بولے گئے ہیں ان میں سے ایک بات ایسی تھی جوسچی تھی۔میں آج اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی آدمی ان کا دفتروں میں موجود ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ جماعت میں بے انتہا بیزاری پیدا ہورہی ہے یہ تو غلط ہے۔ وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں او ران کا اگر کوئی آدمی یہاں ہوتو دیکھ کر شرمندہ ہوسکتا ہے لیکن کوئی آدمی ہے جو دفتروںمیں رہنے والا بھی ہے۔کیونکہ ایک سچی بات ان کو پتہ لگ گئی اور وہ یہ کہ''نوائے پاکستان''میں میرے متعلق چَھپا تھا کہ خزانہ سے ان کے نام بڑا اووَرْ ڈرا (OVERDRAW) ہوا ہوا ہے۔ یہ بات ٹھیک تھی۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ جب میں بیمار ہوا اور باہر گیا تواپنی زمینوں کا انتظام وغیرہ کرنے کے لئے چونکہ کئی ہزار روپیہ ماہوار تو وہاں کے مینجروں اور عملہ وغیرہ کی تنخواہ ہوتی ہے میں اپنے پیچھے اپنے داماد،ناصر سیال کو انتظام کے لئے مقرر کرگیا۔وہ بچہ اور ناتجربہ کار تھا اس نے غلطی کی وجہ سے بجٹ کو اپنے قابو میں نہ رکھا اور خرچ بڑھتا گیا۔میں احتیاطاً خزانہ کے افسرکو کہہ گیا تھا کہ مہربانی کرکے اس کو اووَرْڈرا کردیں اگر ضرورت پیش آئے۔ اور یہ بنکوں کا قاعدہ ہے جو پرانے گاہک ہوتے ہیں اُن کو اووَر ڈرا کرتے رہتے ہیں حتٰی کہ سرکاری بنک بھی ہمیں اووَرْڈرا کردیتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے منظور کرلی اور ان کو رقم دیتے گئے۔سو یہ بات ٹھیک تھی کہ اوورڈرا میرے نام پر تھا کیونکہ میں ہی اس کا ذمہ دار تھا۔ ناصر سیال میری طرف سے منتظم تھا لیکن اصل ذمہ دار تو میں ہی تھاپس وہ اووَرْڈرا ہؤا ہؤا تھا۔میں اُس وقت چُپ کرکے بیٹھا رہا کہ پہلے یہ قرضہ ادا ہوجائے پھر کچھ کہوں گا۔ چنانچہ جلسہ سے پہلے وہ ساری رقم ادا کرنے کے بعد میں نے امانت کے افسر سے یہ تحریر لے لی ہے کہ ایک ایک پیسہ ادا ہوچکا ہے اور اب کوئی رقم آپ کے ذمہ باقی نہیں رہی۔اس لئے آج میں اس کو بیان کردیتا ہوں کہ یہ سچا واقعہ تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں اووَرْڈرا تھا مگر چونکہ میں ان کا پرانا امانت دار ہوں اور جب کبھی میرے ذمہ کوئی رقم ہوئی میں نے بِلاچُون وچرا ان کو ادا کردی ہے۔اس لئے میری بیماری کی حالت میں اور سفر کی حالت میں انہوں نے منظور کرلیا کہ ناصر سیال کے کہنے پر وہ اووَر ڈرادے دیں گے مگر خداتعالیٰ کے فضل سے جس دن میں آیا اُسی دن سے میں نے اپنے بچوں کو کہنا شروع کیا کہ اپنے سارے خرچ روکو مگر قرضہ ادا کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سے پہلے وہ سب قرض ادا ہوگیا اور افسرصاحب امانت کی تحریر میرے پاس آ گئی کہ اَب ایک پیسہ بھی آپ کی امانت پر اووَرْڈرا نہیں ساری کی ساری واپس ہوچکی ہے۔
ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاکستان میں لوگوں کو ایک بڑی مصیبت پڑی ہوئی ہے او روہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔ کشمیر کے مسئلہ میں آج تک پاکستان حیران بیٹھا ہے اور پاکستانی، گورنمنٹ سے بھی زیادہ حیران بیٹھے ہیں۔ یہ سب کو نظر آرہا ہے کہ جب تک کشمیر نہ ملا پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا اور یہ بھی سب کو نظر آرہا ہے کہ کرنا کرانا کسی نے کچھ نہیں۔ سب حیران ہیں۔ پاکستان کی نظر امریکہ پر ہے اور امریکہ کی نظر روس پر ہے کہ اگر کسی وقت پاکستان نے اِدھر ہلچل کی تو روس اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کردے گایا گلگت میں داخل کردے گا۔اِس حیرت میں پاکستانی گورنمنٹ کچھ نہیں کرتی۔ میں اپنی جماعت کو ایک تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج جب دعائیں ہوں گی تو کشمیر کے متعلق بھی دعائیں کریں۔دوسرے میں ان کو یہ تسلی بھی دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سامان نرالے ہوتے ہیں۔ میں جب پارٹیشن کے بعد آیا تھا تو اُس وقت بھی میں نے تقریروں میں اِس طرف اشارہ کیا تھا مگر گورنمنٹ نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔اب نظر آرہا ہے کہ وہی باتیں جن کو میں نے ظاہر کیا تھا وہ پوری ہورہی ہیں۔ یعنی پاکستان کو جنوب اور مشرق کی طرف سے خطرہ ہے لیکن ایسے سامان پیدا ہورہے ہیں کہ ہندوستان کو شمال اور مشرق کی طرف سے شدید خطرہ پیدا ہونے والا ہے۔ اور وہ خطرہ ایسا ہوگا کہ باوجود طاقت اور قوت کے ہندوستان اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گا اور روس کی ہمدردی بھی اس سے جاتی رہے گی۔ سو دعائیں کرو اور یہ نہ سمجھو کہ ہماری گورنمنٹ کمزور ہے یا ہم کمزور ہیں۔ خدا کی انگلی اشارے کررہی ہے او رمیں اسے دیکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ روس اور اس کے دوست ہندوستان سے الگ ہوجائیں گے۔٭اور
٭ اس تقریر کے بعد جو حالات یواین او میں پیش آئے ہیں ان سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے بہت سے دوست پاکستان کو دے دئیے ہیں۔مرتّب
اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ امریکہ یہ محسوس کرے گا کہ اگر میں نے جلدی قدم نہ اٹھایا تو میرے قدم نہ اٹھانے کی وجہ سے روس او را س کے دوست بیچ میں گُھس آئیں گے۔پس مایوس نہ ہو او رخداتعالیٰ پر توکّل رکھو۔ اللہ تعالیٰ کچھ عرصہ کے اندر ایسے سامان پیدا کردے گا۔ آخر دیکھو یہودیوں نے تیرہ سو سال انتظار کیا اور پھر فلسطین میں آگئے۔ مگر آپ لوگوں کوتیرہ سو سال انتظار نہیں کرنا پڑے گا ممکن ہے تیرہ بھی نہ کرنا پڑے ممکن ہے دس بھی نہ کرنا پڑے اور اللہ تعالیٰ اپنی برکتوں کے نمونے تمہیں دکھائے گا۔
ایک بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ کَل میں نے ریویو آف ریلیجنز کے متعلق تحریک کی تھی۔ میں چاہتا ہو ں کہ اس کو جلدی منظّم صورت میں کردیا جائے۔ کَل میں نے ریویو والوں کو کہا تھاکہ وہ تیرہ سو کی بجائے تینتیس سو چھپوانا شروع کریں۔ دوسو روپیہ کلکتہ کے ایک دوست سیٹھ محمد صدیق صاحب نے سو کاپی کے لئے دینے کا وعدہ کیاتھا۔دوہزار انجمن لے رہی ہے۔دوہزار ایک سو ہوگیا۔گیارہ سو کا میں وعدہ کرتا ہوں۔گیارہ سو پرچہ کا دو روپے کے حساب سے بائیس سو بنتا ہے۔سو میں وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ اس سال میں یہ بائیس سو دے دوں گا اور پھر جماعت میں تحریک کرکے کوشش کروں گا کہ چھ مہینہ تک اس کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ جائے۔ مگر ریویو آف ریلیجنز کے افسروں کو چاہئے کہ وہ ایک مینیجر فروخت مقرر کریں۔ہمارے ہاں طریق یہ ہے کہ اللہ توکل پر کام ہوتا ہے۔حضرت خلیفہ اول ہمیشہ ہنسا کرتے تھے کہ مسلمان بھی عجیب ہے۔مسلمان کے نزدیک اللہ کانام ہے صفر۔ اور اس کی دلیل یہ دیا کرتے تھے کہ جب کسی مسلمان سے پوچھو کہ تمہارے گھر میں کیا ہے تو کہتا ہے اللہ ہی اللہ ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہے۔ تو ہمارے لوگ بھی جب کام کرتے ہیں بس اللہ ہی اللہ کرتے ہیں یعنی کام کوئی نہیں کرنا بس اللہ پر ہی رہنا ہے یہ طریق غلط ہے۔ امریکہ سے ایک رسالہ''ریڈر ڈائی جسٹ''آتا ہے۔قریباً دس یا بارہ ملین یعنی سوا کروڑ چَھپتا ہے تو کیاوجہ ہے کہ ہم انتظام کریں تو ہمارا رسالہ نہ پھیل سکے جبکہ ہم اس کے سب سٹی چیوٹ(Substitute)بھی دیں اور اپنے پاس سے رقم دیں اور تھوڑی قیمت پر لوگ لینے کے لئے تیار ہوجائیں تو اس کے لئے ایک بیچنے والا مینیجر ہونا چاہئیے جو اس بات کی کوشش کرے کہ چھ مہینہ کے اندر اندر پانچ ہزار تک خریداری ہوجائے اور سال کے اندر اندر اس کی دس ہزار خریداری ہوجائے اور پھر بڑھتی چلی جائے یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو خواہش تھی اس سے دُگنی تِگنی چَوگنی پانچ گنی دس گنی بیس گنی سَو گنی پوری کرنے کے ہم قابل ہوجائیں۔ پس اِدھر تو جماعتیں اپنی جہگوں پر جاکے دوستوں میں تحریک کرکے وعدہ کریں کہ ہم دوروپیہ فی رسالہ کے حساب سے اتنے رسالوں کی قیمت دینے کے لئے تیار ہیں۔ کچھ دو روپیہ کے لحاظ سے خریداروں سے وصول ہوجائے گا اور کچھ باہر کے لوگوں کی طرف سے جو ان کا پیکنگ کا خرچ ہے وہ وصول ہوجائے گا۔
امیر جماعت کراچی کہتے ہیں کہ پانچ سو کاپی جماعت کراچی اپنے ذمہ لیتی ہے یعنی ایک ہزار روپیہ، گویا گیارہ سو کاپی میں نے لی تھی، پانچ سو انہوں نے لی سولہ سو ہوگئی۔ دوہزار انجمن لے گئی چھتیس سو ہوگئی۔ ایک سو پرچہ کلکتہ کے ایک دوست نے لیا سینتیس سو ہوگئی۔محمد بشیر صاحب سہگل جو ڈھاکہ کے ہیں وہ کہتے ہیں کہ پچاس کاپیاں میں بھی لوں گا۔اِس طرح ساڑھے سینتیس سو ہوگئی اب پانچ ہزار ہونے میں صرف ساڑھے بارہ سو کی کمی رہ گئی ہے جس کا پورا کرنا ساری جماعت کے لئے کوئی مشکل امر نہیں کیونکہ اکیلے میں نے گیارہ سو پرچہ لیا ہے۔
ایک بات میں یہ کہنی چاہتا تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے خلاف جب حملے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایاتھا کہ مغرور مت ہو میرے پاس خالد ہیں جو تمہارا سر توڑیں گے۔ مگر اُس وقت سوائے میرے کوئی خالد نہیں تھا صرف میں ہی ایک شخص تھا۔ چنانچہ پرانی تاریخ نکال کر دیکھ لو صرف میں ہی ایک شخص تھا جس نے آپ کی طرف سے دفاع کیا اور پیغامیوں کا مقابلہ کیا اوران سے چالیس سال گالیاں سُنیں۔ لیکن باوجود اس کے کہ ایک شخص ان کی طرف سے دفاع کرنے والا تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان میں برکت دی اور ہزاروں ہزار آدمی مبائعین میں آکر شامل ہوگئے۔ جیسا کہ آج کا جلسہ ظاہر کررہا ہے مگر یہ نہ سمجھو کہ اَب وہ خالد نہیں ہیں اَب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں! چنانچہ شمس صاحب ہیں، مولوی ابوالعطاء ہیں، عبدالرحمٰن صاحب خادم ہیں۔ یہ لوگ ایسے ہیں کہ جو دشمن کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور دیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی قلم میں اور ان کے کلام میں زیادہ سے زیادہ برکت دے گا یہاں تک کہ یہ اُس بت خانہ کو جو پیغامیوں نے تیار کیا ہے چکنا چُور کرکے رکھ دیں گے۔
اَب میں اپنے مضمون سیرِ روحانی کے ایک حصہ کو بیان کرتا ہوں۔''سیر روحانی'' کے بہت سے ٹکڑے میں بیان کر چکا ہوں۔اب صرف تین باقی ہیں۔ ایک قرآنی باغات، ایک قرآنی لنگر اور ایک قرآنی کتب خانے۔ یہ تین مضمون خداچاہے ہوجائیں تو پھر وہ سارا لیکچر مکمل ہوجائے گا آج میں باغات کا مضمون لیتا ہوں۔
(الفضل 12، 15 مارچ 1957ء)
قرآنی باغات
‘‘پیشتر اِس کے کہ میں اس مو ضوع پر اپنے خیا لات کا اظہا ر کروں اور اُن با غات کے مقا بلہ میں جو میں نے اپنے سفرِ حیدر آباد میں دیکھے تھے اُن روحانی باغات کا ذکر کروں جو قرآن کریم نے پیش کئے ہیں میں تمہیدی طور پر بعض امو ر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا میرے اس مضمون کے ساتھ تعلّق ہے۔
اِسلام کی توحیدِخالص پر بنیاد
یہ امر یاد رکھنا چا ہئے کہ اسلام کی بنیا د توحیدِخا لص پر ہے اور سورۂ اخلاص اِس
توحید کا معیار ہے۔قرآن کریم اس بات پر زور دیتا ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے سب چیزیں جو ڑا جوڑا ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ خالق ہے اور باقی چیزیں مخلوق ہیں کیونکہ اَحَد وہی ہو سکتا ہے جو جوڑا نہ ہو۔ جو جوڑا ہو اس کا مخلوق ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ سورۂ ذاریات رکوع 3 آیت 50 میں آتاہے۔ وَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ یعنی جتنی چیزیں ہم نے پیدا کی ہیں اِن سب کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تاکہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو۔ یعنی دُنیوی چیزوں کو جوڑا جوڑا پیدا کرنے سے یہ غرض ہے کہ تم سو چو کہ جب ہر چیز جوڑا ہے تو معلوم ہؤا کہ ہر چیز مخلوق ہے اور اس کا کوئی خالق ہے۔ اور جب خدا جوڑا نہیں تو معلوم ہؤا کہ اللہ اَحَد ہے،اللہ صَمَد ہے۔وہ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ 1 ہے۔جو شخص کسی کا بیٹا ہوتا ہے وہ جو ڑا ہو تا ہے او راس کا ایک باپ اور ایک ماں ہو تی ہے۔اور جس کے ہاں کو ئی بیٹا ہو اُس کی ایک بیوی بھی ہوتی ہے۔ غرض جو بیٹا جنے یا کسی کا بیٹا ہو وہ اَحَد نہیں ہو سکتا۔ عیسائیت جو حضرت مسیحؑ کے ابن اللہ ہونے پر نا ز کرتی ہے درحقیقت وہ دوسرے لفظوں میں مسیحؑ کو ابن اللہ ہونے سے جواب دیتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ ابن اللہ ہے تو وہ جوڑا ہے خا لق نہیں۔ وہ منفرد نہیں ،وہ محتاج ہے ایک باپ کاجو اس کو وجود میں لایا ہے۔ وہ محتاج ہے ایک ماں کا جو اس کو وجود میں لائی ہے۔اور جب وہ مخلوق ہؤا تو وہ محتاج ہے بیوی کا بھی تا کہ وہ اولاد پیدا کرے اور اگر وہ بیوی کا محتا ج نہیں تو مخنّث ہے جو ذلیل ہؤا کرتا ہے۔
پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تا کہ تم اس سے نصیحت حا صل کرو۔ ایک نصیحت تو یہ حا صل کرو کہ جب ساری مخلوق کو دیکھو کہ وہ جوڑا جوڑا ہے تو سمجھ جاؤ کہ وہ مخلوق ہے اور خدا نے پید ا کی ہے۔ دوسرے تم سمجھ لو کہ جو جوڑا نہیں وہ خالق ہے اور وہ ایک ہی ہے اور وہی سچا اَحَد ہے اَور کوئی اَحَد نہیں ہو سکتا اس لئے وہ مخلوق بھی نہیں ہو سکتا اور اِس طرح توحیدِ کا مل پر قائم ہو جاؤ۔
ہر چیزکے جو ڑا ہونے کے بارہ میں قرآن کریم کا بے مثال علمی نکتہ
مخلوق کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے سب کو جوڑا جوڑا بنایا ہے۔ یہ علم بھی قرآن کریم سے
پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا۔ سارا وید پڑھ جاؤ، ساری بائیبل پڑھ جاؤ،ساری انجیل پڑھ جاؤ،ساری ژنداوستا پڑھ جاؤ،یو نان کے فلا سفروں کی کتا بیں پڑھ جاؤ، ہندوستان کے فلا سفروں کی کتابیں پڑھ جاؤ، چین کے کنفیوشس نبی کی کتا بیں پڑھ جاؤ ، شنٹواِزم جو جاپان کا مذہب ہے اُس کی کتا بیں پڑھ جاؤ غرض بدھوں کی کتا بیں پڑھو، یہودیوں کی پڑھو، عیسائیوں کی پڑھو، ہندوؤں کی پڑھو، یونانیوں کی پڑھو، کسی مذہب کی کتاب پڑھو، یہ نکتہ تمہیں کہیں نظر نہیں آئے گا کہ ہر چیز کا جوڑا ہے۔ صرف قرآن کریم ایک کتاب ہے جو کہتی ہے کہ ہم نے ہر چیز کا جو ڑا پیدا کیا ہے۔اور یہ جو ڑے اِس لئے پیدا کئے ہیں تا کہ اِن کی حکمت سے تمہیں خداکی توحید کی طرف توجہ ہو۔ یہ علم جو قرآن کریم سے پہلے کسی کو نہیں تھا حتّٰی کہ الہامی کتابوں میں بھی نہیں تھا۔ نہ ویدوں میں تھا،نہ بدھ کی پُستکوں2 میں تھا، نہ یونانیوں کی کتابوں میں تھا،نہ ایرانیوں کی کتابوں میں تھا،نہ یہودیوں کی کتابوں میں تھا،نہ عیسائیوں کی کتابوں میں تھا۔اِس بارہ میں بہت ہی محدود علم عربوں کو حا صل تھا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ محدود علم بھی حا صل نہیں تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کریم خداکی کتاب ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر چیز کا جوڑا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بعض درختوں کے بھی جو ڑے ہیں۔ اگر قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھا ہؤا ہوتاتو اس میں تو جو ڑے کا ذکر ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اور اگر ہو تا تو یہ ہوتا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں کوئی چیز جو ڑا جوڑا نہیں۔ مگر قرآن میں لکھا ہؤا ہے کہ ہر چیز کو خدا تعالیٰ نے جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کہ میں آگے ثابت کرونگا اِس کا کوئی علم نہیں تھا۔اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا کہ ہر چیز کا جوڑا جو ڑا ہے تو پھر آیت کس نے لکھ دی۔ صاف ثابت ہے کہ یہ عالِمُ الغیب خدا نے لکھی ہے جس سے محمدؐرسول اللہ بھی سیکھتے تھے اور ہم بھی سیکھتے ہیں۔اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہوئی ہوتی تو اُن کو بھی علم ہوتا۔ اور اگر اُن کو علم ہو تا تو وہ بات نہ ہو تی جو میں آگے بیان کرنے لگا ہوں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرچیز کے جوڑا ہو نیکا کوئی علم نہیں تھا
حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک کھجوروں کے باغ
کے پاس سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ باغ والے نَر کھجور سے کچھ چیز لے کر مادہ کھجور سے ملا رہے ہیں۔آپ نے فرمایا ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہِ!اس کے بغیر پھل اچھا نہیں آتا۔ یعنی کھجور میں بھی نر اور مادہ ہے اور اگر ان کو آپس میں نہ ملایا جائے تو جیسے نَر مادہ سے نہ ملے تو بچّہ پیدا نہیں ہوتااسی طرح اگر نر کھجور کو مادہ کھجو ر سے نہ ملایا جائے تو اس کا پھل بھی پیدا نہیں ہوتا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بات سُن کر یہ نہیں فرمایا کہ ٹھیک ہے قرآن میں بھی یہی آتا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھل تو خدا تعالیٰ پیداکرتا ہے اُس نے جو پیدا کرنا ہے وہ تو کرے گا ہی جو نہیں پیدا کرے گا وہ کس طرح ہو جائے گا۔ چو نکہ وہ بڑے اطاعت گزار لوگ تھے انہوں نے آپ کی بات سُن کر یہ کام کرنا چھوڑ دیا۔جب پھل کا موسم آیا تو کھجوروں کو پھل نہ لگا، یا بہت کم لگا۔ اُن لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللہِ! آپ کی نصیحت پر عمل کر کے ہم تو مارے گئے۔آپؐ نے تلقیح سے یعنی نر درخت کو مادہ درخت سے ملانے سے منع کیا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا پھل بہت ہی کم آیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اِس فن کے تم ماہر ہو میں ماہر نہیں ہوں،مجھے اس حقیقت کا کیاعلم تھا، تم کو چا ہئے تھا کہ میری بات نہ مانتے۔3
اِس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس با ت کو جو قرآن کریم میں قاعدہ کے طور پر بیان کی گئی تھی اپنے کسبی علم کے ذریعہ سے نہیں جانتے تھے یہ محض الہا می علم تھا۔ پس اِس واقعہ سے ہر عقلمند خواہ کسی ملک کا رہنے والا ہو، کسی مذہب کا ما ننے والا ہو سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنا یا ہؤا نہیں تھا۔ ورنہ وہ با ت جو وہ جانتے نہیں تھے اس میں لکھتے کس طرح؟قرآن کریم عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃ خدا کا اُتارا ہؤا تھااس لئے اس میں علاوہ روحانی علوم کے مادی علوم بھی ایسے بیان کئے گئے جن کو محمدؐ رسول اللہ تو بالکل نہیں جانتے تھے مگر دنیا بھی نہایت محدود رنگ میں اُن سے واقف تھی۔ جیسے عربوں میں یہ علم تھا کہ کھجور میں نَرومادہ ہوتا ہے مگر باوجود اس کے گزشتہ تیرہ سَو سال میں مسلمانوں نے دُنیوی علوم میں بڑی ترقی کی ہے اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود تھی انہوں نے اس مسئلہ میں کوئی ترقی نہیں کی کیو نکہ خدا تعالیٰ یہ ثا بت کرنا چاہتا تھا کہ تیرہ سَو سال بعد سائنس نے جو دریافت کی ہے وہ قرآن کریم میں پہلے سے موجود تھی۔
موجودہ سائنسدانوں کی تحقیق
اب سائنس دان کہتے ہیں کہ صرف کھجو ر میں ہی نر ومادہ نہیں بلکہ اَو ر درختوں میں
بھی ہیں۔مثلاً پپیتا میں بھی ہیں۔پپیتا کے درخت میں بھی ایک نر پپیتا ہو تا ہے اور ایک ما دہ پپیتا۔ میرے سندھ کے باغ میں بہت سے پپیتے لگے ہوئے ہیں۔ کیو نکہ وہاں پپیتے بہت ہوتے ہیں اور ہم بھی لگواتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا تو درختوں پر پھل نہیں تھا۔ میں نے کہا پھل کیوں نہیں؟وہ کہنے لگے غلطی سے سب مادہ درخت لگ گئے ہیں نر کوئی نہیں لگا اِس لئے ہَوا نر درخت میں سے نُطفہ لاکر مادہ پر نہیں گراتی او راس وجہ سے پھل نہیں لگتا۔ اب ہم نر درخت لگائیں گے تو پھر پھل لگے گا۔ غرض اَب سائنٹیفک تحقیق سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ پپیتا میں بھی نر ومادہ ہے بلکہ بہت سی سبزیوں اور ترکا ریوں میں بھی وہ نرو مادہ کے قائل ہو گئے ہیں بلکہ بعض سا ئنسدان تو تحقیق میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ دھاتوں میں بھی نر و مادہ کے قائل ہو گئے ہیں۔ ایک سائنسدان کی کتاب میں نے پڑھی، اُس میں لکھا تھا کہ ٹین4 بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ٹین نَر ہوتا ہے اور ایک مادہ ہوتا ہے اور یہ بھی ایک دوسرے پر اثر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے اثر کو قبول کر کے ایک نئی شکل بدل لیتے ہیں۔ مگر سائنسدان تو یہ کہتے ہیں کہ نباتات میں نر ومادہ ہوتا ہے اور دھاتوں میں بھی نرومادہ ہوتاہے۔ مگر خدا تعالیٰ اس سے بھی اوپر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہم نے ہر چیز میں جوڑابنایا ہے اور چیز کے لفظ کے نیچے سب نباتات بھی آجا تی ہے، جمادات بھی آجاتی ہے،حیوانات بھی آجا تے ہیں۔بلکہ اِس سے بڑھ کر ذرّاتِ عالَم اور مجموعہء ذرّاتِ عالَم بھی آجا تے ہیں۔
دنیا کی زند گی بھی ایک جو ڑا ہے
چنانچہ دیکھ لو! جہاں بہت سے مذاہب اور فلسفیوں نے صرف اِس دنیا کی زندگی
کو ایک حقیقت قرار دیا ہے اسلام نے مذکورہ بالا اصل کے مطابق دوجہان قرار دئیے ہیں یعنی جہانوں میں بھی جو ڑا بتایا ہے۔ایک یہ دنیا ہے اور ایک اگلا جہا ن ہے، یہ بھی جوڑا ہے۔ساری بائیبل پڑھ کے دیکھ جاؤ صرف کہیں کہیں اشارے نظر آئیں گے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی ہے لیکن واضح طور پر حیات بَعْدَ الْمَوْت کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں۔حضرت مسیحؑ نے بھی ایک مُردہ سااشارہ بائیبل سے نکالا کہ اس میں مرنے کے بعد کی زندگی کا ذکر ہے۔ مگر قرآن کو پڑھ جاؤ ہر جگہ اگلے جہان کا ذکر نظر آئے گا۔ میں نے کئی یورپین لوگوں کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ قرآن پڑھ کر متلی ہونے لگ جاتی ہے، ہر جگہ اگلے جہان کا ہی ذکرہے۔ حا لانکہ اگلے جہان کا ذکر قرآن اس لئے کرتا ہے کہ قرآن دعویدار ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا پیدا کیا ہے۔اگر قرآن اگلے جہان پر زور نہ دیتا تو لوگ کہتے یہ جہان تو ایک ہو گیا۔ آپ جو کہتے ہیں کہ ہر چیز کا جوڑا ہے تو پھر اس کا جوڑا کو نسا ہے؟قرآن نے پیش کردیا کہ اس کا جوڑا اگلا جہان ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں صاف طور پر آتا ہے کہ وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ5 جو شخص اپنے ربّ کی شان سے ڈرتا ہے اُس کو د و جنتیں ملیں گی۔ ایک اِس دنیا میں ایک اگلے جہان میں۔سو دو زندگیوں کا اِس آیت میں بھی ذکر آگیا۔ یوں دونوں زندگیوں کا الگ بھی ذکر آتا ہے مگر اس آیت سے بھی نکلتا ہے کہ دو زندگیاں ہیں۔
جنّت اور دوزخ بھی جو ڑا ہیں
اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو دُعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ
حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ6اے خدا! ہم ہر چیز کے جوڑے کے قائل ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ایک یہ دنیا ہے اور ایک اگلا جہان ہے۔تُو ہم کو اس دنیا میں بھی آرام بخشیو اور سُکھ دیجیؤ اور اگلے جہان میں بھی سُکھ دیجیؤ۔ اور اگلے جہان میں ہم کو پتہ ہے کہ پھر جو ڑا ہے،ایک دوزخ ہے اور ایک جنّت ہے۔گویا جوڑا وہاں بھی ختم نہیں ہوتا۔ تُو ہم کو اس جوڑے میں سے جودوزخ والا حصّہ ہے اُس سے بچائیو۔ اور اس جوڑے میں سے جو جنّت والا حصّہ ہے وہ عطا کیجیؤ۔بلکہ پھر آگے چل کر اِس دنیا کو بھی جو ڑا بتایا ہے اور اگلے جہان کو بھی جو ڑا بتایا ہے۔اِس دنیا کے متعلق فرماتا ہے کہ ایک عُسر کی دنیا ہے اور ایک یُسر کی دنیا ہے۔ایک نُور کی دنیا ہے ایک ظلمت کی دنیا ہے۔ یعنی ایک زند گی اِس دنیا میں ایسی ہے جو تکلیف اور دُکھ کی زندگی ہے اور ایک زندگی راحت کی زندگی ہے۔ اِسی طرح ایک زندگی نور کی ہے اور ایک تاریکی کی۔ یہ دونوں اس دنیا کی زندگی کے جوڑے ہیں۔چنانچہ فرماتاہے۔اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِیُسْرًا 7 یعنی یاد رکھ تنگی کے ساتھ ایک بڑی کا میا بی مقدر ہے۔ہا ں یقیناً اس تنگی کے ساتھ ایک بڑی کامیابی مقدر ہے۔اِسی طرح فرماتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ8 یعنی سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ایک ظُلماتی دنیا پیدا کی ہے اور ایک نوری دنیا پیدا کی ہے۔ ظُلماتی دنیا ظاہر ی لحاظ سے رات ہوتی ہے کیو نکہ رات کا کام بھی نرالا ہے اور دن کا کام بھی نرالا ہے۔ اورنورانی دنیا دن ہو تا ہے او ر روحانی طورپر ظُلماتی دنیا کفر کی دنیا ہو تی ہے اور نورانی دنیا ایمان اور اسلام کی دنیا ہوتی ہے۔
پھر اگلے جہان کے متعلق بھی ایک نار اور ایک جنّت کی زند گی بتا تا ہے۔ فرماتا ہے۔ بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّ اَحَاطَتْ بِهٖ خَطِيْٓـَٔتُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۔ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۔9
یعنی وہ لوگ جو برائیوں میں ملوّث ہو نگے اور اُن کے گنا ہ اُن کا چاروں طرف سے احا طہ کرلیں گے وہ دوزخ میں جائیں گے اور وہ اس میں رہتے چلے جائیں گے۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے منا سبِ حال اعمال کئے وہ جنّت میں جائیں گے اور وہ اُس میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔
پھلوں میں بھی جوڑے ہیں
غرض قرآن کریم نے خدائی مخلوق میں ہر جگہ جو ڑا جوڑا تسلیم کیا ہے بلکہ قرآن کریم سے پتہ
لگتاہے کہ صرف درختوں میں ہی جو ڑا نہیں بلکہ پھلوں میں بھی جو ڑا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَھُوَالَّذِیْ مَدَّالْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ وَاَنْھٰرًاط وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْھَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ 10 یعنی خدا ہی ہے جس نے زمین کو پھیلا یا ہے اور اُس میں پہاڑ بنائے ہیں اور نہریں بنائی ہیں اور ہر قسم کے میوے لگائے ہیں۔ مگر وہ تمام قسم کے میوے بھی جوڑا جوڑا ہیں۔ گویا صرف کھجو ر کا درخت ہی جوڑا نہیں بلکہ کھجو ر کو جو پھل لگتا ہے وہ بھی جو ڑا جوڑا ہے اور اس میں بھی نر اور مادہ ہو تا ہے۔ آجکل کے سائنس دانوں کے مقابلہ میں یہ زراعت کا کتنا وسیع علم ہے جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ آج کے سا ئنس دان اس کے ہزارویں حصّہ کو بھی نہیں پہنچے۔
پھر فرماتا ہے یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ11 دیکھو ہم نے دن اور رات کا بھی جوڑا بنا یا ہے۔ رات دن پر اور دن رات پر سوار ہو تا چلا جاتا ہے۔
زمین اور آسمان کا جوڑا
یہ بھی یا د رکھنا چاہئے اس آیت میں زمین کا تو ذکر کیا گیا ہے مگر آسمان کا نہیں۔ یہ تو کہا ہے کہ ہم نے زمین
کو پھیلا یا ہے مگر آسما ن جو زمین کا جو ڑا ہے اُس کا ذکر چھو ڑ دیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ دو متقابل چیزوں میں سے ایک کا ذکر کر دیا جائے تو دوسری کو چھو ڑ دیا جاتا ہے کیو نکہ ہر عقل اس کا آپ ہی قیا س کر لیتی ہے۔عرب کہتے ہیں کہ اگر دومتقابل چیزیں ہوں اور ایک چیز کا ذکر کر کے دوسری کو چھوڑ دیا جائے تو عقلِ انسانی اُسکو آپ ہی نکال لیتی ہے۔ یہ قاعدہ میں اپنے پاس سے بیان نہیں کر رہا بلکہ لُغت کے امام ثعالبی نے اپنی کتاب فقہُ اللُّغۃ میں اِسے بیان کیا ہے۔ ثعالبی وہ شخص ہیں جو ابنِ جنّی کے شاگرد تھے اور ابن جنّی اِمَامُ اللُّغَۃ سمجھے جاتے تھے۔ وہ زبان کے بہت بڑے ماہر تھے۔اُن کی کتاب ایسی بے نظیر ہے کہ جس کی مثا ل اَور کہیں نہیں ملتی۔ اس کتاب میں انہوں نے اشتقاق وغیرہ پر بحث کی ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مِنن الرحمن لکھی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ عربی زبان اُمُّ الْاَلْسِنَہ ہے۔ گو انہوں نے اس کا اپنی کتاب میں ایک نا قص نقشہ کھینچا ہے مگر بہر حال کچھ نہ کچھ نقشہ تو کھینچا ہے۔ پس اس جگہ پر زمین و آسمان کو جو ڑا بتایا گیا ہے اور پھلوں کو بھی جو ڑا جوڑا بتایا گیا ہے۔ پھلوں کے جو ڑے میں صرف دنیاوی جوڑوں کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اِس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ روحانی سلسلوں میں جو پھل پید ا ہوتے ہیں یعنی نبی کی روحانی اولاد چلتی ہے وہ بھی جوڑا جوڑا ہوتی ہے۔
قرآنی باغات بھی سب جو ڑا جوڑا ہیں
اب میں اپنے اصل مضمون یعنی باغات کو لیتا ہوں۔جتنے باغات
میں نے اپنے سفرِِ حیدر آبادمیں دیکھے تھے وہ سب ایک ایک تھے مگر قرآنِ کریم نے جن باغات کو پیش کیا ہے وہ جوڑا ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں جنت کا ایک نام نہیں بلکہ چار نام آئے ہیں۔جنّٰتِ عَدْنٍ12، جنّٰتِ مأْوٰی 13، جنّٰتِ نَعِیْم14 اور جنّٰتِ فِرْدَوْس15۔ گویا جنتوں کو صرف جو ڑا ہی نہیں بتایا بلکہ دو جوڑے (یعنی چار) بتایا ہے۔ اور اِس طرح اُس چیز کو جس کو غیرفانی قرار دیا گیا تھا توحید کے راستہ سے ہٹا کر توحید کی دلیل بنا دیا ہے۔ کیونکہ جنت کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ عدن ہے اور خُلْد ہے یعنی دائمی طور پر رہنے والی ہے۔ اور چونکہ غیر فانی چیزمیں خدا ئی پائی جاتی ہے اِس لئے شُبہ ہو سکتا تھا کہ شاید جنت میں بھی خدائی پائی جاتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بتایا کہ نہیں وہ بھی جوڑ ا ہے۔ اور چونکہ وہ جوڑا ہے اس لئے اُسے بھی خدا تعالیٰ کے مقابل میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا اور اس کے اندر کوئی خدائی نہیں پائی جاتی۔ اِسی طرح وہ چیز جو خدا تعالیٰ کی احدیت میں شُبہ پیدا کر سکتی تھی اُس کو بھی جوڑا بناکر خدا تعالیٰ کی احدیت کو پھر قائم کر دیا۔ اور وہی چیز جو تو حید میں شبہ ڈال سکتی تھی اُس کو توحید کی دلیل بنا دیا ہے۔ پھر اگلی دنیا میں جن جنتوں کا ذکر کیا ہے اُن میں سے ہر ایک جنت کو پھر جوڑا قرار دیا گیا ہے گویا اس طرح چار جنتوں کو آٹھ جنّتیں بنا دیا ہے۔چنانچہ سورۂ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَجَنَاالْجَنَّتَیْنِ دَانٍ۔16 یعنی اگلے جہان کی ہر جنت جنّٰتِ نَعِیْمٍ ہو یا جنّٰتِ مأْوٰی ،جنّٰتِ فِرْدَوْس ہو یاجنّٰتِ عَدْنٍ۔ اس کے بھی دو دو حصّے ہونگے اور اس کے ہر حصّہ کا پھل جُھکا ہؤا ہو گا۔ اوّل تو جنّٰتِ نَعِیْمٍ اکیلی نہیں۔ جنّٰتِ نَعِیْم کے ساتھ جنّٰتِ عَدْنٍ بھی ہے۔ او ر پھر جنّٰتِ مأْوٰیبھی ہے اور جَنّٰتِ فِرْدَوْس بھی ہے۔ گویا چار جنتیں ہیں۔ مگر وہ چاروں جنتیں آگے پھر دو دو جنتیں ہیں اور ان کے ہر حصّہ کا پھل جُھکا ہؤا ہو گا اور مؤمن کو آسانی سے مل جائے گا۔
قومِ عاد کے دو باغات کا ذکر
پھر اس دنیا کی جنتوں کا جہا ں ذکر فرماتا ہے وہاں بھی اُس کو جو ڑا کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ
قرآن کریم میں جہا ں ایک قوم کے باغوں کا ذکر آتا ہے وہا ں بھی اُسکو دو باغ قرار دیا ہے۔ فرماتاہے وَ بَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّ اَثْلٍ وَّ شَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ۔17 یعنی عاد کی قوم کے پاس بھی دو جنتیں تھیں۔ ہم نے ان جنتوں کو تباہ کر دیا اور اُس کی جگہ نہایت بُرے پھل والے درخت لگا دئیے جو بد مزہ تھے،کڑوے تھے او ر کھٹّے تھے۔ خَمْطٍ کے معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو کھٹّی اور کڑوی ہو۔ یعنی وہ ایسے پھل دینے لگے جو کڑوے بھی تھے اورکھٹّے بھی۔یہاں بھی درحقیقت روحانی پھل مراد ہیں کیو نکہ عاد اور ثمود کی تباہی کے بعد جن کے پھل سخت کڑوے اور بد مزہ ہو چکے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تھے۔اِسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اِن لوگوں کی جنتوں کو تباہ کر دیا اور اس کی جگہ نہا یت بُرے پھل والے دو باغ ان کو دئیے یعنی اچھے پھل والے باغ ابراہیم ؑ کو مل گئے اور بُرے پھل والے باغ عاد کو مِل گئے۔
موسوی قوم کے دو باغات کا ذکر
سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ موسوی قوم کے متعلق بھی فرماتاہے۔ وَ اضْرِبْ لَهُمْ
مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا۔كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ اٰتَتْ اُكُلَهَا وَ لَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَيْـًٔا١ۙ وَّ فَجَّرْنَا خِلٰلَهُمَا نَهَرًا 18 یعنی تُو اُن کے سامنے اُن دو شخصوں کی حالت بیان کر جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دئیے تھے اور انہیں ہم نے کھجو ر کے درختوں سے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور ہم نے ان دونوں کے درمیان کچھ کھیتی بھی پیدا کی تھی۔ ان دونوں باغوں نے اپنا اپنا پھل خوب دیا اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کیا اور اُن کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کی ہوئی تھی۔ اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو دو جنتیں عطا فرمائیں اوران دونوں جنتوں میں فاصلہ رکھا اورچونکہ یہ باغ کنارہ کی طرف جاتے جاتے کمزور پڑگئے اس لئے ایک باغ اور دوسرے باغ کے درمیان کھیتیاں بنا دی گئیں۔چنانچہ موسوی باغ اور عیسوی باغ کے درمیان داؤدؑ کے اتباع کا زمانہ آیا۔اِسی کی طرف اِس میں اشارہ ہے کہ موسیٰؑ کا باغ چلے گا اور جاتے جاتے داؤد ؑ کے زمانہ کے بعد اس میں تنزّل شروع ہو جائے گا اور وہ کھیتیاں بن جائے گا۔چنانچہ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمَا زَرْعًا۔ ہم نے ان دونوں باغوں کے درمیان کچھ کھیتی بھی پید ا کی تھی۔یعنی ایک طرف عیسوی باغ تھا اور ایک طرف موسوی باغ اور ان کے درمیا ن ہم نے کھیتی پیدا کردی۔ یعنی داؤد ؑ کی نسل پر وہ زمانہ آیا جب کہ بخت نصر نے یہودیوں کو تباہ کردیا۔اُن کے مَعبد گرا دئیے اور انہیں قید کر کے لے گیا۔ پس اُن اتباع کا جو زمانہ تھا یا حزقی ایل او ر دانی ایل کا زمانہ تھا وہ کھیتیوں کا زمانہ تھا۔ یعنی اُنکی مثال ایک کھیتی کی سی تھی نہ کہ باغ کی جو کہ غَنَمُ الْقَوْمِ کے چر جانے کے خطرہ میں ہو تی ہے۔ یعنی جب قوم کمزور پڑ جاتی ہے تو دشمن قومیں اس کو لُوٹ سکتی ہیں۔ اِسی کو قرآن کریم میں دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے کہ نَفَشَتْ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ۔19 پاس کی ہمسا یہ قوموں کے جو جانور تھے اور بھیڑیں وغیرہ تھیں وہ اس کھیتی میں چرگئیں۔ یعنی اِردگِرد جو بخت نصر کا علاقہ یا رومی علاقہ تھا انہوں نے آکر موسوی کھیتی کو اپنے آگے رکھ لیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ درمیان میں نہر ہو گی۔ یعنی آخری زمانہ اور مو سوی زمانہ کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوپیدا کیا جائے گا۔ چنانچہ موسوی قوم کی دو ترقیوں کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور انہوں نے موسوی باغ کے لئے نہر کا کام دیا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دو باغ عطا کئے جانے کا وعدہ
یہی سلسلہ دُہرانے کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وعدہ فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں
فرماتا ہے اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا١ۙ۬شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا ۔20 اے مکہ والو! ہم نے تمہاری طرف بھی ایک رسول تمہارا نگران بنا کر بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف موسٰی ؑ کو رسو ل بنا کر بھیجا تھا۔ یعنی محمدؐ رسول اللہ مثیلِ موسٰی ؑ ہیں۔ اور موسٰی ؑ کی قوم کے حا لات ایک رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پیش آئیں گے۔ یعنی ان کو بھی دو باغ ملیں گے۔ اور موسٰی ؑ کی طرح اُنکے زمانہء نبوت میں بھی ایک باغ تو وہ ہو گا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بغیر کسی اَو ر مأ مور کی مدد کے چلے گی۔ لیکن آخر میں اسلام کے تنزّل کا دَور آجائے گا اور وہ کھیتیوں کی طرح رہ جائے گا۔ تب اللہ تعالیٰ موسوی سلسلہ کی طرح ایک مسیحِ محمدؐی بھیجے گاجس کی اُمت دوسرے باغ کی حیثیت رکھے گی۔ لیکن ہو گی وہ بھی محمدؐرسول اللہ کی اُمت اور اس کا باغ بھی محمد ؐرسول اللہ کا باغ ہی کہلائے گا۔ لیکن اس فرق سے کہ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موسٰی ؑ سے ا فضل ہیں موسوی سلسلہ کے دوسرے حصہ کی بنیاد جس مسیح سے پڑی تھی وہ مستقل نبی تھا۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے باغ کی بنیاد جس مسیح سے پڑے گی وہ امتی نبی ہوگا۔ یعنی وہ خود بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں ہو گا اور اُس کے ماننے والے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہی ہونگے۔ پس اُس کی کو ئی جُدا اُمت نہیں ہو گی بلکہ اُس کے ماننے والے اُس کے مرید کہلا ئیں گے۔ جیسا کہ جماعتِ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مرید کہلاتی ہے لیکن امت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہلاتی ہے۔
اُمتِ محمدؐیہ کا بلند مقام
چنا نچہ اس کا ثبوت کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے اُمّتی نبی آتے رہیں گے سورۃ نساء
رکوع9 آیت 70سے ملتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًا یعنی اے لوگو!یاد رکھو ہمارے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا درجہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی اطاعت کرے وَ الرَّسُوْلَ او ر اس رسول یعنی محمد ؐرسول اللہ کی اطاعت کرے، فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْوہ اُن لوگوں میں شامل ہو جائے گا جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا۔وہ کون لوگ ہیں؟ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ وہ نبی اور صدیق او ر شہداء اور صالحین ہیں۔ یعنی آپؐ کی اُمت میں داخل ہو نے والے آپؐ کے فیض سے مستفیض ہو کر اور آپؐ کے نور سے منوّر ہو کر اور آپؐ کی روشنی کو حا صل کرکے او ر آپؐ کے درس سے سبق سیکھ کر نبیوں او ر صدیقوں اور شہداء اور صالحین کے مقام کو پہنچیں گے۔لیکن فرماتا ہے یہ درجے صرف محمد ؐرسول اللہ کی اُمت میں مل سکتے ہیں کسی غیر کو حاصل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ الرَّسُوْلَکی اطاعت یعنی محمدؐ رسول اللہ کی اطاعت سے ہی نبی اور صدیق وغیرہ بن سکتے ہیں۔ قرآن کریم کی دوسری آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے نبیوں کی اطاعت کرکے انسان صدیق،شہیداور صا لح بن سکتا ہے مگر نبی نہیں بن سکتا۔مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرکے نبی ، صدیق،شہیداور صالح سب درجے حا صل کر سکتا ہے۔
فلسطین اور کشمیر کے متعلق خدائی وعدہ
پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باغ مل گئے۔
ایک باغ مسیح موعود ؑ کے ظہور سےپہلے زمانہ میں اور ایک باغ مسیح موعود ؑ کے ظہو ر کے بعد کے زمانہ میں۔ چنانچہ پہلے زمانہ میں دُنیوی لحاظ سے وہی باغ آپ کو ملا جو مو سٰی ؑ کی اُمت کو دُنیوی لحا ظ سے ملا تھا۔ یعنی فلسطین اور کشمیر کا علاقہ۔ فلسطین میں بھی بڑے باغات ہیں۔ میں نے 1924ء میں جب سفر کیا تو فلسطین بھی گیا تھا۔میں ریل میں دمشق سے بیروت آیا۔ جب بیروت کے قریب پہنچے تو میں نے دیکھا کہ ریل شہر کے اندر داخل ہو رہی ہے اور ہر گھر میں باغیچے لگے ہوئے ہیں۔ اور دمشق میں مَیں نے دیکھا کہ گھر گھر میں نہریں جاری تھیں او ر ہر گھر میں باغ لگا ہؤا تھا۔ اِسی طرح کشمیر کا حال ہے کہ وہاں چپے چپے پر باغ ہے۔ کچھ خود رَو اور کچھ مغل بادشاہوں کے لگائے ہوئے۔پس قرآن کہتا ہے کہ دُنیوی لحاظ سے محمد ؐ رسول اللہ کو وہی باغ ملے گا جو مو سٰی ؑ کی اُمت کو ملا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلسطین کا اپنے نیک بندوں کو وارث بنائے گا یعنی مسلمانوں کو۔ پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو فلسطین سے نکال کر کشمیر میں لایا او ر اُس نے کشمیر کے لوگوں کو مسلمان بنایا۔ چنانچہ شیخ ہمدان ایران سے آئے اور اُن کے ذریعہ سے سارا کشمیر مسلمان ہو گیا۔
محمد ؐرسول اللہ کو موسوی باغ ملنے کی انجیل میں پیشگوئی
یہ خبر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موسوی باغ مل جائے گا اِس کا ذکر انجیل میں حضرت مسیحؑ نے بھی کیا ہے۔ انجیل میں آتا ہے:۔
''پھر وہ انہی تمثیلوں میں کہنے لگا کہ ایک شخص نے انگور کا باغ لگا یا۔ اور اُس کی چاروں طرف کھیرا اور کولھو کی جگہ کھودی اور ایک بُرج بنا یا اور اسے با غبانوں کو سپرد کرکے پردیس گیا۔ پھر موسم میں اُس نے ایک نوکر کو باغبا نو ں کے پاس بھیجاتا کہ وہ باغبانوں سے انگور کے باغ کے پھل میں سے کچھ لے۔ انہوں نے اُسے پکڑ کے مارا اور خالی ہا تھ بھیجا (چونکہ یہ مثال ایک روحانی سلسلہ کی ہے اس لئے باغ کے مالک سے مراد خدا تعالیٰ ہے) اُس نے دوبارہ ایک اَور نوکر کو اُن کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اُس پر پتھر پھینکے، اُس کا سر پھو ڑا او ر بے حُرمت کر کے پھیر بھیجا۔ پھر اُس نے ایک اَور کو بھیجا۔ انہوں نے اُسے قتل کیا۔ پھر اَور بہتیروں کو۔ اُن میں سے بعض کو پیٹا اور بعض کو مار ڈالا۔ اب اُس کا ایک ہی بیٹا تھا (یعنی خود مسیح)جو اُس کا پیارا تھا آخر کو اُس نے اُسے بھی اُن کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے۔ لیکن ان باغبانوں نے آپس میں کہا یہ وارث ہے آؤ ہم اِسے مار ڈالیں تو میراث ہماری ہو جائے گی۔ اور انہوں نے اسے پکڑکے قتل کیا (اِس میں مسیح کے صلیب پر لٹکا ئے جانے کی پیشگوئی تھی)اورانگور کے باغ کے پَرے پھینک دیا(یعنی فلسطین سے نکالا اور نصیبین بھیج دیا جہا ں سے وہ کشمیر چلا گیا) پس باغ کا مالک کیا کہے گا۔وہ آوے گا او راُن باغبانوں کو ہلا ک کرکے انگوروں کا باغ اَوروں کو دے گا (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور اُن باغبانوں کو یعنی یہودیوں کو وہا ں سے نکال دیں گے اور اپنی اُمت کو دے دیں گے) ''21
اِس جگہ خود مسیح ؑ نے محمدؐ رسول اللہ کے روحانی بادشاہ ہونے کا اعلان کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا مظہر اور موسٰی ؑ کو محض ایک کا رندہ ثابت کیا ہے۔ اِس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ فلسطین اور اُمتِ موسویہ کا باغ محمدؐ رسول اللہ کے حوالے کر دے گا اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باغ مل جائیں گے۔دومادی اور دو روحانی۔ مادی فلسطین اور کشمیر اور روحانی مسیحِ موسوی کی اُمت او ر مسیحِ محمدؐی کے متبع۔
کشمیر اور فلسطین میں
جماعتِ احمدیہ کی اسلامی خدمات
اب دونوں مادی باغوں کو دیکھ لو۔ کشمیر میں بھی خدا کے فضل سے جو لوگ اس عزم کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں کہ
ہم نے سارا ملک ہی مسلمان بنانا ہے وہ احمدی ہیں اورفلسطین میں بھی ایک ہی جماعت بیٹھی ہے اور وہ احمدی ہیں۔ یہ چیز بتاتی ہے کہ یہ پیشگوئی جو محمدؐ رسول اللہ کے ہاتھ میں فلسطین اور کشمیر لانے والی ہے احمدیوں کے ہاتھ سے ہی پوری ہو گی۔ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے متعلق فرمایا تھا کہ اگر میرے زمانہ میں دس یہودی بھی مسلمان ہوجا ئیں تو سارے یہودی مسلمان ہو جائیں گے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صرف ایک یہودی عالِم مسلمان ہؤا دو بھی نہیں ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی مبلغ جو یہودی فلسطین کو اسلامی فلسطین بنانے کے لئے وہاں موجود ہیں ان کے ذریعہ سے اِس وقت تک تین یہودی مسلمان ہو چکے ہیں۔ اُن میں سے ایک بڑا مستشرق پروفیسر ہے، ایک ڈاکٹر ہے او رایک تاجر پیشہ ہے اور ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ یہودی قوم کو پھر مسلمان بنائے گا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو جائیں گے اور بجا ئے اس کے کہ مسلمانوں کو توپیں اور بندوقیں لے کر فلسطین پر حملہ کرنا پڑے یہودی آگے بڑھ کر اپنے دروازے کھو لیں گے اور کہیں گے کہ اے مسلمانو!ہم بھی تمہارے مسلمان بھائی ہیں آجاؤ۔
غرض اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے کام لے کر تم لوگ جو کہ نہایت غریب سمجھے جاتے ہو اور جن کے کپڑوں کو دیکھ کر بعض شہری امراء تو حقارت کی نگاہ سے اپنے منہ پرے پھیر لیتے ہیں تمہا رے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مقدر ہے کہ مسیح موعود ؑ کے ذریعہ سے تم موسوی باغ پر قبضہ کرو اور اُسے محمدؐرسول اللہ کے حوالے کرو۔ محمدؐرسول اللہ کا مادی باغ کشمیر اس وقت ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور فلسطین یہودیوں کے قبضہ میں ہے مگر خدا تعا لیٰ احمدیوں کے ذریعہ سے یہ دونوں باغ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس دلائے گا۔ اِسی طرح دونوں روحانی باغ بھی محمدؐ رسول اللہ کو مل جائیں گے یعنی مسیحِ موسوی کی اُمت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پَیروؤ ں کے ذریعہ سے دوبارہ فتح کی جائے گی اور اسلام لائے گی اور پھر محمد ؐرسول اللہ کا باغ بن جائے گی اور مسیحِ محمدیؐ کے متبع جو ہیں وہ تو ہیں ہی شروع سے محمدؐ رسول اللہ کے۔کہتے ہیں۔ '' کِس دی گولی تے کِس دے گہنے۔''ہم تو ہیں ہی محمدؐ رسول اللہ کے غلام اور آپ کے باغ کے بوٹے۔ ہم تو ہر وقت آپؐ ہی کی ملکیت ہیں۔ کبھی آپؐ کے حلقہء اطاعت سے باہر گئے ہی نہیں۔ موسوی سلسلہ کے لوگ یعنی یہودی وغیرہ بے شک نکلے اور باہر گئے مگر اُنکو بھی ہم محمدؐ رسو ل اللہ کے دروازہ پر لائیں گے اور ہم تو ہیں ہی آپ کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے۔ اس دروازہ کو ہم نے کبھی نہیں چھوڑا نہ چھو ڑ یں گے اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالٰی۔ بلکہ مسیحِ ناصریؑ کی اُمت جو عیسائی ہے اور حضرت مو سٰی ؑ کی براہ ِراست اُمت جو یہودی ہے ان دونوں کے باغوں میں سے بھی روحانی پودے نکال نکال کر ہم محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں لگاتے رہیں گے یہاں تک کہ محمدؐ رسول اللہ کا باغ آباد ہو جائے گا اور موسٰی ؑ کا باغ بھی محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں شامل ہو جائے گا۔
محمدؐرسول اللہ کا باغ دُنیا کے چَپّہ چَپّہ پر پھیل جائے گا
محاورہ زبان میں بھی جسمانی یا رُوحانی اولاد درخت کہلا تی ہے۔ چنا نچہ پنجابی والے تو خوب جانتے ہیں کہ جب کسی عورت کا بچہ مر جا تا ہے
اور وہ بَیْن ڈالتی ہے تو کہتی ہے '' ہائے میرا باغ اُجڑ گیا ،ہائے میرا بُوٹا کس نے پُٹ لیا۔'' تو ہمارے ملک میں بچّے اور اولاد کو بھی بُوٹا اورباغ ہی کہتے ہیں۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ لوگ باغ لگاتے رہے اور باغ محمدؐ رسول اللہ کومل گئے۔ موسٰی علیہ السلام نے کو شش کر کے یہودی بنائے اور اُن کو فلسطین میں قائم کیا۔ خدا نے محمدؐ رسول اللہ کو بنا بنایا فلسطین دے دیا۔ موسٰیؑ کی قوم ہجرت کرکے کشمیر آئی اور کشمیر بنا بنایا خدا نے محمدؐ رسول اللہ کو دے دیا اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لگایا ہؤا باغ بھی محمدؐ رسول اللہ کو ہی مل گیا۔ دنیا کے کناروں تک احمدی مبلغ تبلیغ کرتے ہیں اور لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ پڑھو ا کر لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں یعنی جو درخت بھی اُن کو ملتا ہے وہ لا کر محمدؐ رسول اللہ کے چمن میں لگا دیتے ہیں۔ موسٰی ؑ کے باغ میں تو صرف ایک بڑا درخت پیدا ہؤا تھا جس کا نا م داؤد ؑ تھا۔مگر محمدؐ رسو ل اللہ کے چمن کا ایک درخت یعنی مسیحِ موعود دعویٰ کرتاہے کہ میں ہی محمدؐ رسو ل اللہ کے چمن کا داؤد نامی درخت نہیں بلکہ مجھ سے اَور بیج بھی نکلنے والے ہیں جن سے بہت سے داؤد پیدا ہونگے اور محمدؐ رسول اللہ کے چمن میں ہزاروں داؤدی شجر پیدا ہو جائیں گے۔ چنا نچہ آپ فرماتے ہیں۔
''اِک شجر ہو ں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے۔''
یعنی میں محمد ؐ رسو ل اللہ کے باغ کا ایک درخت ہوں جو خودہی داؤد نہیں بلکہ میرے اندر جو پھل لگ رہے ہیں وہ بھی داؤد ہیں۔ یعنی میں ہی داؤد نہیں بلکہ میرے ماننے والے مریدوں میں سے بھی ہزاروں داؤد پید ا ہو نگے۔
اور پھر فرماتے ہیں :-
میں کبھی آدم کبھی موسٰی کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میر ی بے شمار22
اگر مو سٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کو بنی اسرائیل کی تعدا د پر فخر ہے تو میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار نسلیں دے گا۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغ دنیا میں چپّہ چپّہ پر پھیل جائے گا۔ زمین کا کوئی گوشہ نہیں ہو گا جس میں محمدؐرسول اللہ کا باغ نہ لگا ہؤا ہو۔ اور دنیا کا کو ئی انسان نہیں ہو گا جس کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی کَلی نہ کِھلی ہوئی ہو۔
ابو جہل کے با غ کا درخت عکرمہؓ محمدؐرسول اللہ کے باغ میں لگایا گیا
محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہی نمونہ اللہ تعالیٰ نے دکھایا اور لوگوں کے لگائے ہوئے درخت
آپؐ کے چمن میں لا کر لگا دئیے۔ چنانچہ ابو جہل کے باغ کا انگور کا درخت عکرمہؓ وہاں سے اُکھیڑ کر آپؐ کے باغ میں لا کر لگادیا گیا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِسی خیال کا اظہار فرماتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ جنت سے انگور کا ایک خوشہ لایا۔ جب میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ خوشہ کس کے لئے ہے؟ تو اس نے کہا ابوجہل کے لئے۔ اِس پر میں گھبرا گیا کہ کیا خدا کا رسول اور اُس کا دشمن دونوں جنت میں ہونگے؟ مگر جب عکرمہؓ ابوجہل کا بیٹا مسلمان ہؤا تو میں نے سمجھا کہ یہ اِس خواب کی تعبیر ہے۔23 اِس سے معلوم ہو تا ہے کہ جنت کے انگور کاخوشہ تو ابو جہل کے گھر میں آنا تھامگر اُس وقت آنا تھا جب اُس کے باغ میں سے عکرمہؓ کے انگور کا درخت اُکھیڑ کر محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں لگایا جانا تھا۔
خا لدؓ بھی ولید کے چمن سے اُکھیڑ کر محمدؐ رسول اللہ کے چمن میں لگایا گیا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے مشہور دشمن ولید اور عاص بن وائل تھے۔ ولید
کا بیٹا خالدؓ تھا۔ وہ ولید کے چمن سے اُکھیڑ کر محمدؐ رسول اللہ کے چمن میں لگا دیا گیا اور آج عالَمِ اسلام خا لدؓبن ولید جیسے بہا در جرنیل کے کارناموں پر فخر کرتا ہے۔وہ بُوٹا تھا محمدؐرسول اللہ کے ایک شدید دشمن کا۔ لیکن اُس نے پھل تب دینے شروع کئے جب اُسے محمد ؐرسول اللہ کے باغ میں آکر لگایا گیا۔ اِس سے پہلے وہ مکّہ کے ایک نمبر دار کا بیٹا تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں لگنے کے بعد روم اور کسرٰی کے بادشاہ اُس کے سائے میں بیٹھنے لگ گئے۔ اِسی طرح اَور بھی بہت سی مثا لیں اُس زمانہ کے لوگوں کی ملتی ہیں۔
وہ درخت جو براہِ راست محمدؐ رسول اللہ نے لگائے
اِس کے علاوہ آپؐ کے باغ کے کچھ درخت وہ تھے جوبراہِ راست آپؐ نے لگائے تھے جیسے ابوبکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ اور علیؓ۔ابوبکر ؓکے خاندان کی
ایسی ادنیٰ حالت تھی کہ اُن کے خلیفہ ہونے پر کوئی شخص دَوڑا دَوڑا گیا اور جاکر اُس نے آپ کے باپ کو اطلاع دی۔ ابو قحافہؓ اُن کا نام تھا ،وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن کو کہنے لگارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں لوگ بڑے گھبرائے اور انہوں نے کہا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا بنے گا؟ وہ کہنے لگااُن کے بعد ایک خلیفہ مقرر ہو گیا ہے۔ لوگوں نے کہا کون خلیفہ ہؤا ہے؟ اُس نے کہا ابوبکرؓ!ابو بکرؓ کا باپ اپنے آپ کو اِتنا ادنیٰ سمجھتا تھا کہ ابو قحافہؓ کہنے لگا کون ابوبکرؓ؟اُس نے کہا ابوبکرؓ تمہارا بیٹا۔ وہ کہنے لگاہیں!میرے بیٹے کو عربوں نے سردار مان لیا ہے؟کیا مکّہ کے قریش اور بنو ہاشم اور بنو عبدِشمس نے میرے بیٹے کی بیعت کرلی ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ابھی تک اُس کا ایمان کمزور تھا۔ اُس نے کہا سب نے کر لی ہے۔ہراک نے آگے آگے بڑھ کر بیعت کی۔ عمر خطابؓ نے بھی کی ،عثمان ؓ نے بھی کی اور باقی صحابہؓ نے بھی کی اور مہاجرین نے بھی کی اور انصار نے بھی کی۔ جب اُس نے یہ سنا تو اُس پر اتنا اثر ہؤا کہ اُس کے دل کی جو کمزوریٔ ایمان تھی وہ دُور ہوگئی۔اور کہنے لگا۔لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۔اگر محمد ؐ رسول اللہ کے بعد لوگو ں نے میرے بیٹے کی بیعت کرلی ہے اور محمدؐ رسول اللہ کا اتنا اثر ہے اور اتنی برکت ہے تو پھر اُن کے خدا کا رسول ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔24
حضرت ابو بکرؓ کا قیصر وکسریٰ پر رُعب
لیکن اِدھر تو یہ حالت تھی کہ باپ اس بات کو ما ننے کے
لئے تیا ر نہیں تھا کہ میرا بیٹا خلیفہ ہوسکتاہے اور اُدھر یہ حالت تھی کہ ابو بکرؓ آرام سے ایک کچی کو ٹھڑی میں مدینہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن قیصر اپنے محل میں اُن کے نام سے کا نپ رہا تھا اور کسریٰ اپنے محل میں ایران میں بیٹھا ہؤا ہزار ہزار میل پرکانپ رہا تھا۔ ابوبکرؓ ابوقحافہؓ کا بیٹا جس کو مکّہ میں بھی کوئی عظمت حاصل نہیں تھی وہ مدینہ کی کچی کو ٹھڑی میں بیٹھا تھا لیکن قیصر قسطنطنیہ میں ایک بڑے پکّے محل میں بیٹھا ہؤا تھا اور کسریٰ ایران میں ایک بڑے پکّے محل میں بیٹھا ہؤا تھا لیکن ابو بکرؓ کا نام آتا تھا تو کا نپ جاتے تھے۔ یہی حا ل عمرؓ کا تھا، یہی حال عثمانؓ کا تھا،یہی حال حضرت علیؓ کا تھا۔
شاہِ روم کا حضرت عمرؓ سے تبرّ ک منگوانا
حضرت عمرؓ کا سایہ تو اِتنا بڑھا کہ لکھا ہے ایک دفعہ روم کے
بادشاہ کے سرمیں سخت دَرد ہوئی کسی علاج سے فائدہ نہ ہو تا تھا۔ رومی بادشاہ کو کسی نے کہا کہ آپ نے علاج تو بہت کر دیکھے اب ذرا عمرؓ سے کچھ تبرّ ک منگوائیے، سنا ہے اُس کی چیزوں میں بڑی بر کت ہے۔ شاید اس تبرّ ک کی برکت سے آپ کی درد ہٹ جائے۔ وہ تھا تو مخالف اور اُس کی فوجیں عمرؓ کی فوجوں کے ساتھ لڑ رہی تھیں مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ سردرد کی برداشت نہ ہوئی آخر حضرت عمرؓ کے پاس سفیر بھیجا کہ اپنا کوئی تبرّ ک بھیجیں۔ حضرت عمرؓ نے بھی سمجھا کہ میر ا کیا تبرّ ک ہے یہ تو محمد ؐ رسول اللہ کا تبرّ ک ہے اور خدا اس کو محمد رسول اللہ کی قوم سے لڑنے کی وجہ سے ذلیل کرنا چاہتاہے۔ انہوں نے اپنی پُرانی ٹوپی جس پر دو دو اُنگل میل چڑھی ہوئی تھی وہ دے دی کہ جاؤ اور یہ ٹو پی اُس کو دے دو۔جو تبرّ ک لینے آیا تھا وہ سفیر اُس کو لے گیا۔ بادشاہ کو بڑی بُری لگی اور اُس نے اُسے حقیر سمجھا۔وہ ریشمی ٹو پیاں اور سونے کے تاج پہننے والا بادشاہ بھلا حضرت عمرؓ کی دودو اُنگل میل والی چِکنی چپٹی ٹو پی سر پر رکھنے سے کتنا گھبراتا ہوگا۔ اُس نے کہا پھینکو اس کو میں نہیں پہن سکتا۔ مگر تھوڑی دیر بعد جو درد کا دورہ ہؤاتو کہنے لگا لے آنا ٹوپی۔ وہ ٹوپی رکھی تو سر کا درد دُور ہو گیا اور خدا نے فضل کر دیا۔ جب درد کو ایک دن آرام رہا تو پھر دل میں کچھ خیا ل آیا کہ میرے جیسا بادشاہ ایسی غلیظ ٹوپی پہنے۔کہنے لگا پھینکو پَرے اس کمبخت کو۔ انہوں نے پھر پھینک دی مگر پھر درد ہو گئی۔پھر اپنے درباریوں سے منّتیں کرنے لگا کہ خدا کے واسطے وہ ٹوپی لانا میں مرا جا رہا ہوں۔ پھر سر پر ٹوپی رکھی تو آرام آگیا۔ بہرحال وہ ٹوپی لینے پر مجبور ہؤا اور اس کو سر پر رکھتا رہا۔25
اب دیکھو حضرت عمرؓ کا درخت جو محمد ؐرسول اللہ نے لگایا تھا اُس کا کیسا لمبا سایہ تھا۔ عمرؓ مدینہ میں بیٹھا ہؤا تھا اور روم کے بادشاہ پر اُس کا سایہ تھا۔ چنا نچہ بادشاہِ روم کو بھی اُسکے نیچے بیٹھنے سے آرام آیا۔ عمرؓ کیا تھے؟محمدؐرسول اللہ کے باغ کا ایک درخت ہی تھے۔اور روم کا بادشاہ کیا تھا؟مسیحؑ اور موسٰیؑ کے باغ کا ایک درخت تھا۔ عام درختوں کے اندر تو یہ بات پائی جاتی ہے کہ بڑے درختوں کے نیچے اگر اُن کو لگا یا جائے تو وہ سُوکھنے لگ جاتے ہیں مگر محمد ؐ رسول اللہ کے باغ کا درخت عمرؓ ایسا بابرکت تھاکہ مسیحؑ اورموسٰی ؑ کے باغ کا درخت جب اُس کے نیچے لگا یا گیا یعنی روم کے بادشاہ کے سر پر اُس کی ٹوپی رکھی گئی تو بجائے سُوکھنے کے سرسبزوشاداب ہونے لگ گیا۔ وہ بر کتوں والا زمانہ تو گزر گیا مگر پھر بھی محمدؐی باغ میں ایسے ایسے درخت لگے کہ دنیا کی آنکھیں خِیرہ ہو گئیں۔
معاویہؒ بن یزید کا ایک ایمان افروز واقعہ
رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں ایک گندہ پودا پیدا ہؤا جس کا نام یزید ہے۔ یزید یزیدہی تھا مگر آخر محمدؐ رسول اللہ کے باغ کا پودا کہلاتا تھا۔اُس کے
گھر میں ایک بیٹا پید ا ہؤا تو اُس نے اُس کا نام بھی اپنے باپ کے نام پر معاویہ رکھا۔مگر ایسے گندے باپ کا بیٹا محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے اور اُن کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ایسا پھلا پُھولا کہ اس کے واقعہ کو پڑھ کر لُطف محسوس ہو تا ہے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کی موت کا وقت آیا تو اُس نے اپنے بیٹے معاویہؒ کو خلیفہ مقرر کیا۔ لوگوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا۔ پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑ ے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے بیعت تو لے لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے بیعت کا زیادہ اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اُس وقت سے لیکر اب تک میں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگو ں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو میں یہ امارت اُس کے سپرد کردوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں۔ مگر باوجود بہت غور کرنے کے مجھے تم میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سن لو کہ میں اِس منصب کے اہل نہیں ہوں او ر یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرادادا بھی اس مَنصب کے قابل نہیں تھے۔میرا باپ یزید حسینؓ سے درجہ میں بہت کم تھا۔ اور اُس کا باپ یعنی معاویہ حسنؓ حسین ؓ کے باپ یعنی حضرت علی ؓ سے کم درجے والا تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میر ے دادا اورباپ کے حسنؓ اور حسین ؓ خلافت کے زیادہ حقدار تھے اس لئے میں اِس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں۔ اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ جس کی چاہو بیعت کرلو۔ اُس کی ماں اُس وقت پردہ کے پیچھے اُس کی تقریر سن رہی تھی۔ جب اُس نے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو کہا کمبخت! تُو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اُس کی تمام عزّت خاک میں ملا دی ہے۔وہ سُن کر کہنے لگا کہ جو سچی بات تھی وہ میں نے کہہ دی ہے اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں۔ چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں بیٹھ گیا اور تھو ڑے دن گزر نے کے بعد وفات پا گیا۔ 26
تعجب ہے کہ یہ تاریخ شیعوں کی لکھی ہوئی ہے مگر باوجود اس کے افسوس ہے کہ شیعہ اصحاب نے اُس مُردار جھا ڑی یعنی یزید کو تو یاد رکھا جو یزید بن معاویہ کہلاتی ہے مگر محمد ؐرسول اللہ کے اُس خو شنما پودے کو یا د نہ رکھا جو معا ویہ ؒ ابن یزید کہلاتاہے۔ حالانکہ لوگ اپنے باپ کے باغ کی تعریفیں کیا کرتے ہیں مگر اس میں جو اتفاقاً ایک بُرا پودا یزید کا نکل آیا تھا اُس کو تو شیعہ یاد رکھتے ہیں مگر یزید کے گھر میں جو بیٹا معاویہؒ پیدا ہؤا اور جس نے اتنے فخر سے اور عَلَی الْاِعْلان کہا کہ حسنؓ وحسین ؓ میرے باپ سے بھی اچھے تھے اور میرے دادا سے بھی اچھے تھے اور علیؓ میرے دادا سے اچھے تھے اور وہ خلافت کے زیادہ مستحق تھے اُس بیچارے کا نام بھی کوئی نہیں لیتا۔حالانکہ چاہئے تھا کہ محرّم کے مو قع پر بجائے یزید کے معاویہؒ کا ذکر کیاجاتا کیو نکہ یزید کے ذریعہ سے تو صرف اتنا ہی پتہ لگتا ہے کہ ایک گندی جھاڑی محمد ؐ رسول اللہ کے باغ میں تھی مگرمعاویہؒ بن یزید کے ذریعہ سے یہ پتہ لگتا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں ایک گندی جھاڑی نکلی تھی مگر اس کے بیجوں سے پھر خدا نے ایک شاندا ر درخت پیدا کر دیا۔
محمدی باغات کے نمونے
بے شک ایسی مثالیں شاذ ونادر ہوتی ہیں مگر پھر بھی محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں۔
چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد عمرؒ بن عبدالعزیز بھی ایک ایسا ہی پودا آپؐ کے باغ میں پیدا ہؤا اور پھر مادی باغوں سے علیحدہ ہو کر روحانی باغوں نے اپنی نشوونما شروع کر دی۔ محمدی باغوں میں ایک پودا حسن بصریؒ کا لگا،ایک جنید بغدادیؒ کا لگا، ایک سید عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کا لگا، ایک شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا،ایک ابراہیم ادھم رحمۃاللہ علیہ کالگا، ایک محی الدین صاحب ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک بہاؤالدین صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک معین الدین صاحب چشتی رحمۃ اللہ کالگا، ایک سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک قطب الدین صاحب بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا،ایک فرید الدین صاحب شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک نظام الدین صاحب اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک حضرت باقی بِاللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک مجدد صاحب سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا،ایک شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک خواجہ میر ناصر رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک سید احمد صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا لگااور سب سے آخر میں باغِ محمدؐی کی حفا ظت کرنے والے درخت مسیح موعود ؑ کا پودا لگا جس کو خود مسلمانوں نے بدقسمتی سے کاٹ کر چاہا کہ محمدؐی باغ میں لوگ گُھس جائیں، بکریاں اور بھیڑیں گُھس جائیں اور محمدؐی باغ کو تباہ کردیں۔مگر وہ پودا اِس شان کا تھا کہ اُس نے کہا:-
اے آنکہ سُوئے من بدویدی بصد تَبر
از باغبان بتَرس کہ مَن شاخِ مثمرم
او شخص! جو کہ سَو کلہاڑے لیکر میر ے کا ٹنے کے لئے دَوڑا آرہا ہے میر ے باغبان خدا سے یا محمدؐ رسول اللہ سے ڈر کہ میں وہ شاخ ہو ں جس کو پھل لگے ہوئے ہیں۔ اگر تُو مجھے کا ٹے گا تو محمدؐ رسول اللہ کا پھل کٹ جائے گا او ر نتیجہ یہ ہو گا کہ محمدؐرسول اللہ کا باغ بے ثمر رہ جائے گا۔ پس تُو مجھے نہیں کا ٹ رہا تُو محمدؐرسول اللہ کے باغ کو اُجا ڑ رہا ہے اور خدا کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ محمدؐ رسول اللہ کا باغ اُجڑے وہ ضرور اس کی حفاظت کرے گا۔
محمدؐرسول اللہ کے باغ کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کی تجلّیات
چنانچہ آسمان سے اللہ تعالیٰ مسیح موعودؑ کی حفا ظت کے لئے اُترا اور باوجود مولوی عبدالجبار،مولوی عبدالحق،
مولوی احمد بن عبداللہ غزنوی،مولوی عبدالواحدبن عبداللہ غزنوی،مولوی محمدحسین بٹالوی، مولوی ثناء اللہ امرتسری او ر اَورسینکڑوں ہزاروں مولویوں اور مولوی نذیر حسین دہلوی کے فتووں اور دیوبندیوں کے جوش کے اور جمعیۃ العلماء کی تمام طاقتوں کے اور 1953ء کا فساد پیدا کرنے والے علماء کی کو ششوں کے، باوجود اس کے کہ سب نے اکٹھا ہوکر حملہ کیا اللہ تعالیٰ سینہ سپرہوکر کھڑا ہو گیا کہ میں محمدؐرسول اللہ کے باغ کو نہیں اُجڑنے دونگا۔یہ تو باڑ ہے محمدؐ رسول اللہ کے باغ کی۔ مسیح موعودؑ کو تم ایک انسان سمجھتے ہو مگر فرمایا میں جانتا ہوں کہ یہ محمدؐ رسول اللہ کے باغ کی باڑ ہے اس کے کٹنے سے محمدؐرسول اللہ کا باغ اُجڑتاہے اور محمدؐ رسول اللہ میرا محبوب ہے۔میں اپنے محبوب کی وفات کے بعد اُس کے باغ کو دشمنوں کو اُجا ڑنے نہیں دونگا۔ تم مولوی ہو یا عالِم ہو یا لیڈر ہو میں تمہاری کیا پروا کرتاہوں۔ میں محمدؐ رسو ل اللہ کی ُجو تیوں کے برابر بھی تم کو نہیں سمجھتا۔ محمد ؐرسول اللہ کے باغ یعنی اُس کی امّت کی حفاظت کے لئے میں اسکو زندہ رکھو نگا او ر یہ ایک اَور جماعت کھڑی کرے گاجس طرح کیلے کے ساتھ اَور کیلے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح تم تو کہتے ہو کہ اِس کے جو مرید ہیں وہ شیطان ہیں اور ابلیس کے فرزند ہیں مگر میں بتاؤں گا کہ یہ ملائکہ ہیں جو محمدؐرسول اللہ کے باغ کی حفاظت کے لئے آئے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ کے فضل او ر اُس کی تدبیر سے مسیح موعود ؑ اور پھر اُن کی جماعت کے ذریعہ سے محمدؐ رسول اللہ کے باغ کی باڑ کاٹے جانے سے بچ گئی۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ اس اُمت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے جس کے اوّل میں ہوں اور آخر میں مسیح موعود ؑ۔27 یعنی میرے باغ کے ایک طرف باڑ میں ہوں اور ایک طرف مسیح موعود ؑ۔ نہ خدا مجھے کٹنے دے گا کہ میرا باغ اُجڑے ،نہ خدا مسیح موعودؑکو کٹنے دے گا کہ میرا باغ اُجڑ ے۔ ہم دونوں کے کا ٹے جانے سے باغِ محمدؐی اُجڑتا ہے اور یہ باغ خدا کا لگایا ہؤا ہے خدا اپنے لگائے ہوئے باغ کو اُجڑنے نہیں دے گا۔ میں بھی باڑ ہوں اس باغِ محمدؐی کی اورمسیح موعود ؑ بھی باڑ ہے اِس باغِ محمدؐی کی۔ نہ وہ مجھے کٹنے دے گا اور نہ وہ مسیح موعود ؑ کو کٹنے دے گا۔ وہ باغِ محمدؐی کو آباد رکھنے کے لئے اُس کی باڑ کو سلامت رکھے گا اور قیامت تک وہ باغ چلے گا اور اس کو کوئی نہیں کاٹ سکے گا۔
باغِ محمدی کے مقابلہ میں دُنیوی بادشاہوں کے بے حقیقت باغات
اَب دیکھو ایک طرف دُنیوی بادشاہوں کے باغ ہیں،وہ کتنے چھوٹے ہیں او رکتنی کم عمر کے ہیں
دوسری طرف قرآنی محمدؐی باغ ہیں۔پھر ایک باغ نہیں دو باغ ہیں اور اِن کی عمر اِتنی لمبی ہے کہ محمدؐ رسول اللہ سے لے کر قیا مت تک ممتد ہے۔ پس کُجا وہ دُنیوی با دشاہوں کے باغ جو میں نے 1938ء میں دیکھے تھے اور کُجا یہ محمدؐ رسول اللہ کا باغ جس کا ذکر میں آج 1956ء میں کررہا ہوں۔ اِن دونوں کا مقابلہ کرکے بے اختیا ر منہ سے نکلتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
بڑی برکت والا ہے ہمارا خداجس نے محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان بھیجا جس نے قیامت تک کے لئے دنیا کی ہدایت کا بیڑا اُٹھا لیا۔ پھر بڑی برکت والا ہے وہ خدا جس نے مسیح موعود ؑ جیسا غلام محمدؐرسول اللہ کو دیا جس نے محمدؐ رسول اللہ کا باغ جب اُجڑ کے کھیتی بننے لگا تھا پھر اس کو باغ کی شکل میں تبدیل کر دیا۔ او راُس کے پودوں کو دنیاکے کناروں تک پھیلا دیا تاکہ وہ ہر ملک میں جائیں ،ہر قوم میں جائیں،ہر جگہ پر جا کے وہاں کے عیسٰی ؑ کے باغ کے پودوں کو نکال نکال کر محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں لگائیں اور موسٰی ؑ کے باغ کے پودوں کو اُکھیڑ اُکھیڑ کر محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں لگائیں،یہاں تک کہ دنیا کے چپے ّچپےّ میں محمدؐ رسول اللہ کا باغ لگ جائے اورنہ عیسٰی ؑ کا باغ رہے نہ موسٰی ؑ کا باغ رہے ،وہ ساری اُجاڑ بستیاں بن جائیں۔ آباد بستی اور ہرا باغ صرف محمدؐ رسول اللہ کا ہو جو قیامت تک چلتا چلا جائے۔’’
(ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
‘‘سیر روحانی’’ کے موضوع پر تقریر کرنے کے بعد حضور نے فرمایا:-
‘‘اب میں دعا کروں گا آپ بھی رستہ میں دعائیں کرتے جائیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو دن دُگنی اور رات چَوگنی ترقی دیتا چلا جائے اورمحمدؐ رسول اللہ کا باغ اور اس کے بعد جو اس کو دوسری زندگی مسیح موعود نے بخشی ہےوہ باغ قیامت تک آباد ہوتا چلا جائے اور مسیحیوں کی طرح وہ دن نہ لائے کہ ہم موسٰیؑ کا باغ مسیحؑ کے حوالے کردیں بلکہ ہم مسیح کے باغ کو بھی محمدؐ رسول اللہ کے حوالے کریں۔ اور کبھی کوئی شیطان اور خنّاس ایسا پیدا نہ ہو جو ہمارے دل میں یہ وسوسہ ڈالے کہ مسیح موعودؑ جو محمدؐ رسول اللہ کا غلام تھا وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ محمدؐ رسول اللہ کا ہمسر تھا بلکہ ہمیشہ ہم اس کو غلام ہی سمجھتے رہیں اور ہمیشہ اس کے کام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکام اور اس کی جماعت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سمجھتے رہیں اور محمدؐ رسول اللہ کے مقابلہ میں اس کو ایک ادنیٰ غلام اور ایک چھوٹا شاگرد ہی سمجھتے رہیں جس کے ذریعہ سے خدا نے محمدؐ رسول اللہ کی عظمت قائم کی ہے۔ہم یقین رکھیں کہ مسیح موعود کو جو کچھ ملا ہے محمدؐ رسول اللہ کے طفیل ملا ہے۔ اور ہم کو جو مسیح موعودؑ سے ملا ہے وہ بھی محمدؐ رسول اللہ کاہی انعام ہے۔ جو ہمارا ہے وہ مسیح موعودؑ کا ہے جو مسیح موعود کا ہے وہ محمدؐ رسول اللہ کا ہے اور ہر چیز سمٹ کر آخر محمدؐ رسول اللہ کے ہاتھوں میں جاتی ہے اور ہر بوٹا اُکھیڑا جاکر آخر محمدؐ رسول اللہ کے باغ میں لگتا ہے۔ سو یہ دعائیں رستہ میں کرتے چلے جاؤ۔ دعا کے بعد میں رخصت کرونگا۔ رستہ میں بھی دعائیں کرتے چلے جانا کہ اللہ تعالیٰ اپنی برکتوں سے ہماری حفاظت کرے اور اپنے دینِ اسلام کی حفاظت کرے اور اس کی ترقی کے پھر سامان پیدا کرے۔ اور اللہ تعالیٰ پھر اپنی برکت اور رحمت سے قادیان ہم کو واپس دلائے تاکہ وہ جو اصل مرکز ہے ہم پھر وہاں جائیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ربوہ میں زمین نہ خریدو۔دیکھو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ بسایا تھا پھر مدینہ بھی آباد رہا اور مکہ بھی۔ تو یہ کبھی نہ وہم کرنا کہ ربوہ اُجڑ جائے گا۔ ربوہ کو خدا نے برکت دی ہے، ربوہ کے چَپّہ چَپّہ پر اللہ اکبر کے نعرے لگے ہیں، ربوہ کے چَپّہ چَپّہ پر محمدؐ رسول اللہ پر درود بھیجا گیا ہے۔خدا اس زمین کو کبھی ضائع نہیں کرے گا جس پر نعرۂ تکبیر لگے ہیں اور محمدؐ رسول اللہ پر درود بھیجا گیا ہے۔ یہ بستی قیامت تک خداتعالیٰ کی محبوب بستی رہے گی اور قیامت تک اس پر برکتیں نازل ہونگی اس لئے یہ کبھی نہیں اُجڑے گی، کبھی تباہ نہیں ہوگی بلکہ محمدؐ رسول اللہ کا نام ہمیشہ یہاں سے اونچا ہوتا رہے گا اور قادیان کی اتباع میں یہ بھی محمدؐ رسول اللہ کا جھنڈا دنیا میں کھڑا کرتی رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔’’
اس کے بعد حضور کے ارشاد پر مکرم جناب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے وہ تاریں پڑھ کر سنائیں جو دنیا کے مختلف ممالک اور پاکستان کے اطراف وجوانب سے آئی تھیں اور جودعا اور مبارک باد کے پیغامات پر مشتمل تھیں۔تاریں سنائے جانے کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا۔
‘‘باہر کے پیغاموں سے آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ چاہے ایک ایک دو دو ہی سہی مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے محمدی باغ کا پودا مغرب سے مشرق تک سب جگہ لگادیا ہے۔کیا امریکہ اور کیایورپ اور کیا مڈل ایسٹ اور کیا انڈونیشیا اور کیا بورنیو اور کیا ملایا اور کیا فلپائن اور کیا سپین اور کیا جرمنی اور کیا سکنڈے نیویا گویا اوپر کے برف پڑنے والے علاقوں اور نیچے کے برف پڑنے والے علاقوں اور مغرب ومشرق میں سب جگہ پر خدا تعالیٰ نے اس پودے کو لگا دیا ہے۔آپ کو کافر کہنے والے مولوی آخر تیرہ سوسال سے کہاں تھے۔ انہوں نے صرف کافر ہی بنائے ہیں۔ لیکن جس کو کافر اور اکفر اور دجال کہا جاتا ہے اُس نے محمدؐ رسول اللہ پر درودپڑھنے والے لوگ بحرمنجمد شمالی سے لے کر بحر منجمد جنوبی تک پیدا کردئیے ہیں۔ ہرجگہ پر اسلام کا جھنڈا گاڑنا اگر کافر ہی کاکام ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم میں دوچار کافر ایسے اَور بنادے۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خود فرماتے ہیں
بعد از خدا بعشقِ محمد مخمرم
خدا کے عشق کے بعد مجھے محمدؐ رسول اللہ کا عشق ہے۔
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
اگر خدا کے بعد محمدؐ رسول اللہ سے عشق کرنا کفر ہے تو مجھے خدا کی قسم! میرے جیساکافر کوئی نہیں۔ تو اگر دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنا اور لوگوں میں قربانی کی ایسی روح پیدا کردینا کفر ہے تو پھر سب سے بڑے کافر ہم ہیں۔ لوگ کہیں گے کہ مبلغ گئے اور انہوں نے تبلیغ کی۔ مرزا صاحب نے کیا کیا؟ میں کہتا ہوں کہ اگر خدا چاہتا تو تم دوسرے لوگوں کے اندر کیوں نہ یہ جوش پیدا کردیتے۔آخر مسیح موعودؑ نے جو لوگوں کے دلوں میں جوش پیداکیا ہے تم کیوں نہیں پیدا کرتے؟ تمہارے لوگ باہر غیر ممالک میں کیوں نہیں جاتے؟ اب کچھ لوگ جانے لگے ہیں مگر دنیوی اغراض کے لئے ۔ایک تبلیغی پارٹی بنی ہے، گورنمنٹ کے افسر اس کے ساتھ ہیں، گورنمنٹ کی امداد ان کی حاصل ہے ان کو ایکسچینج مل جاتا ہے ہمارے مبلغوں کو نہیں ملتا ورنہ اگر ہمارے مبلغوں کو ملتا تو اَب تک ہمارے مبلغوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوجاتی جتنی کَل میں نے بیان کی تھی۔
امریکہ میں ایک پاکستانی جرنیل گیا۔ اُس کی بیوی احمدی تھی۔ ایک دن وہ ہوٹل میں کھانا کھارہے تھے کہ ہمارا مبلغ پہنچا۔ہم مبلغوں کو خرچ بہت کم دیتے ہیں۔اس کے سیدھے سادے کپڑے تھے۔ ان کو بُرا لگا کہ میں جرنیل اور بڑا آدمی ہوں، پاکستان کا اِس ملک میں نمائندہ ہوں، میرے کپڑے اچھے ہیں، میری بیوی کے کپڑے اچھے ہیں اور یہ جو اِس کا پیر بھائی ہے اس کے کپڑے گندے ہیں تواس کی بیوی نے بتایا کہ وہ میری طرف دیکھ کر ہنس کر کہنے لگا! دیکھ وہ تیرا پِیر بھائی جارہا ہے۔ مطلب یہ کہ تم اتنے ذلیل ہو۔ وہ کہنے لگی خدا نے میری عزت رکھ لی۔ معاً اس کے فقرہ کے بعد تبلیغی جماعت کے مُلّا آئے جن کے پائینچے اوپرگھٹنوں تک چڑھے ہوئے تھے اور انہوں نے ہاتھ میں دَونے28 لے کر ان کے اندر کھانا ڈالا ہوا تھا اور ان کے ہاتھ میں طہارت کے لئے مٹی کے لوٹے تھے۔ پھر انہوں نے کھا کھا کے میزوں کے نیچے کاغذپھینکنے شروع کئے۔ میں نے اسے کہا یہ تمہارے پِیر بھائی ہیں۔ وہ کہنے لگی میرا خاونداتنا شرمندہ ہوا کہ پھر ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہ نکلا۔ تو دیکھو یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل ہے۔ تم نے سنا ہے امریکہ سے بھی تاریں آئی ہیں، سکنڈے نیویا سے بھی آئی ہیں۔ ایک طرف بحیرہ منجمد شمالی کے قریب ہے اور روس سے بھی اوپر ہے مگر وہاں سے بھی تاریں آئی ہیں۔ پھر ہالینڈ سے بھی آئی ہیں۔ پھر جرمنی سے بھی آئی ہیں بلکہ جرمنی کا ایک نمائندہ یہاں بیٹھا ہے جو یونیورسٹی میں پروفیسر ہے اور بڑا قابل آدمی ہے۔ پھر سوئٹزر لینڈ سے بھی آئی ہیں۔ دمشق سے بھی آئی ہیں۔ بیروت سے بھی آئی ہیں۔ سپین سے بھی آئی ہیں۔ لنڈن سے بھی آئی ہیں۔ پھر نیچے چلے جاؤ تو پاکستان کو چھوڑ کر ہندوستان سے آئی ہیں۔ اور پھر جنوبی ہند تک سے آئی ہیں۔ پھر ملایا سے آئی ہیں۔ پھر اس سے پَرے جاکے انڈونیشیا سے آئی ہیں۔ پھر اس سے اوپر جاپان کے پاس اور فلپائن کے پاس جاکر بورنیو سے آئی ہیں۔ غرض مشرق اور مغرب میں کوئی گوشہ نہیں جہاں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ مرزاصاحب کے طفیل نہیں پڑھا گیا۔ اور مولوی ابھی تک یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ کافر، اکفر، اس کے ماننے والے دجّال۔وہ دجّال جو اسلام کو مارنے آیا تھا۔مرزا صاحب کا کتنا کمال ہے کہ اس دجّال کو کلمہ پڑھوانے پر مقرر کردیا۔ آخریہ کتنی بڑی شان ہے کہ دجّال کاکام تو یہ لکھا تھا کہ وہ کلمہ لوگوں سے چُھڑوائے گا مگر مرزا صاحبؑ نے وہ دجّال پیدا کئے کہ انہوں نے دنیا بھر میں لوگوں سے کلمہ پڑھوادیا۔
پس دعائیں کرو ان تمام مبلغین کے لئے جو باہر ہیں کیونکہ وہ آپ لوگوں کا کام کرتے ہیں۔آپ لوگ اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بے شک مال دیتے ہیں مگر مال کا کچھ حصہ۔ اور وہ لوگ ایسے ہیں جو اپنابہت سا مال بھی دیتے رہے ہیں اور پھر چھوٹی نوکریوں اور چھوٹے گزاروں پر جارہے ہیں۔ایسے تنگ گزار وں پر جارہے ہیں کہ غیروں کو بھی دیکھ کر رحم آتا ہے۔ ایک پاکستانی فوج کا میجر باہر کسی جگہ پر پاکستان کی طرف سے گیا۔اس نے مجھے خط لکھا اور بعد میں مجھے کوئٹہ میں خاص طور پر ملا۔ کہنے لگا میں نے آپ کا فلاں مبلغ دیکھا ہے،وہ بڑی اعلیٰ خدمت کرتا ہے مگر اس کے کپڑے اور اس کے کھانے ایسے ردّی تھے کہ مجھے شرم آتی تھی کہ وہ اسلام پھیلانے کے لئے آیا ہے اور اتنی غربت میں ہے۔ تو میں آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں کہ آپ اپنے مبلغ کو اتنا روپیہ تو دیا کریں کہ جس سے وہ کھانا کھا سکے اور کپڑے پہن سکے۔ تو ایسی تنگی میں وہ لوگ گزارہ کرتے ہیں مگر پھر بھی ان پر ایک ہی دُھن سوار ہے اور رات دن یہ جنون ہے کہ دنیا کلمہ پڑھنے لگ جائے۔
ان کی حالت اُس میراثن کی سی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں آئی اُس کا بیٹا عیسائی ہوگیا تھا اور وہ مسلول تھا۔ وہ اسے حضرت صاحب کے پاس قادیان میں تبلیغ کے لئے لائی مگر اس پر اثر نہ ہوا اور وہ رات کو بھاگا۔ وہ اُسی رات کو گئی اور اُس کو پکڑ کر لائی۔ میں نے دیکھا حضرت صاحب چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔وہ پَیروں پر آکر لَوٹتی تھی اور بے تحاشا روتی تھی اور کہتی تھی حضور! میں آپ سے کوئی دولت نہیں مانگتی، کوئی روپیہ نہیں مانگتی۔ میں آپ سے یہ بھی نہیں کہتی کہ میرا یہ لڑکا پھر تندرست ہوجائے۔ اگر اچھا ہوجائے تو خدا کا فضل ہے۔میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ یہ کلمہ پڑھ کے مرے، یہ محمدؐ رسول اللہ کا باغی ہو کر نہ مرے۔ یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔میں آپ سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ آپ دعا کریں یہ بچ جائے۔ لیکن اگر نہیں بچ سکتا تو نہ بچے۔میری صرف اتنی خواہش ہے کہ یہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے پھر بے شک اس کی جان نکل جائے۔ تو وہی جوش جو اس میراثن کے اندر تھا وہ ہمارے مبلغوں کے اندر بھی ہے۔ بھوکے مرتے ہیں، لوگوں سے گالیاں سنتے ہیں، تکلیفیں اٹھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ یہی کہتے ہیں کہ جب تک دنیا بھر سے ہم محمدؐ رسول اللہ کاکلمہ نہ پڑھوالیں ہم بس نہیں کرنے کے۔
مَیْڈرڈیعنی سپین میں ہمارا مبلغ ہے اور سپین کی گورنمنٹ اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں دیتی۔وہ خرچ بھی کوئی نہیں لیتا۔ اِردگرد پھیری کرکے اپنا اور اپنی بیوی بچوں کا گزارہ کرتا ہے اور تبلیغ کرتا ہے۔ اب خدا کے فضل سے وہاں سات آدمی مسلمان ہو چکے ہیں لیکن ہماری گورنمنٹ کی یہ عنایت ہے کہ میرے نام گورنمنٹ کا نوٹس آیا کہ اس مبلغ کو بلالو سپین کی حکومت ناپسند کرتی ہے۔ حالانکہ ان کو سپین کی گورنمنٹ کویہ کہنا چاہئیے تھا کہ اس ملک میں عیسائیت کاکئی سو مبلغ کام کررہا ہے اگر تم نے اس سے یہ سلوک کیا تو ہم ان مبلغوں کو بھی یہاں سے نکال دیں گے ورنہ اسلام کاایک مبلغ جو تمہارے ملک میں گیا ہے اس کو اجازت دو۔ تو ایسی دشمنیوں کے باوجود اورتکلیفوں کے باوجود ہمارے آدمی کام کررہے ہیں۔پس دعائیں کروان لوگوں کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں میں برکت دے۔ان کے حوصلوں میں برکت دے۔ ان کی تبلیغ میں برکت دے اور لاکھوں لاکھ آدمی خدا کے فضل سے اسلام میں داخل ہوں۔
ادھر یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو توفیق دے کہ تم نمازوں کے پابند ہو۔ تم ذکرِالٰہی کے پابند ہو۔ تمہاری محبتِ الٰہی روز بروز بڑھتی رہے۔ تمہاری محبتِ رسولؐ ترقی کرے۔تم اسلام کے سچے نمونہ بنو۔ تمہیں دیکھ کر دشمن بھی محمدؐ رسول اللہ کا کلمہ پڑھنے لگ جائے۔ اور کہے کہ جس محمدؐ رسول اللہ نے یہ بچے جنے ہیں دَھن ہے وہ باپ جس نے یہ بچے جنے ہیں۔ جھوٹ تمہارے قریب نہ آئے۔ فریب تمہارے قریب نہ آئے۔ چوری چکاری تمہارے قریب نہ آئے۔ دغابازی تمہارے قریب نہ آئے۔ خیانت تمہارے قریب نہ آئے۔ تم ایمان اور اسلام کے اعلیٰ درجہ کے نمونے ہوجاؤ اور عرش پر تمہارا پیدا کنندہ تم کو دیکھ کر خوش ہوجائے۔
پس اپنے لئے بھی دعائیں کرو۔مبلّغوں کے لئے بھی کرو۔ اورپھر یہ دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جس اخلاص اور ایمان سے تم کو یہاں لایا ہے اس سے زیادہ اخلاص اور ایمان لے کر تم اپنے گھروں کو جاؤ۔ اور وہ سارا سال بڑھتا رہے۔ اور جب اگلے سال تم پھر آؤ(بلکہ اَور بھی زیادہ آؤ)تواُس وقت تمہاراایمان اِس سے کئی گُنے زیادہ بڑھا ہوا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے بچوں اور تمہاری اولادوں کو صاحبِ کشف اور صاحبِ الہام بنائے اور ان کے ایمان مضبوط کرے۔ اور ہمیشہ ہمیش غیر متزلزل ایمان لے کر تم قیامت تک محمدؐ رسول اللہ کے جھنڈے کو کھڑا رکھو۔خداتعالیٰ تمہارے لیڈروں اور علماء کو بھی توفیق دے کہ وہ پچھلے علماء کی طرح(گوان میں سے بعض تو بڑے نیک تھے)کفر بازی میں اپنی عمریں ضائع نہ کریں بلکہ وہ ہمیشہ ہمیش تم کو اسلام کی تبلیغ پر لگائے رکھیں۔آپ بھی تبلیغِ اسلام کریں اور دنیا میں اسلام کو روشن کرنے میں لگے رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ میں آپ لوگوں کی خدمت کرتا رہوں۔اِسی طرح اسلام کی خدمت کرسکوں اور محمدؐ رسول اللہ کی خدمت کرسکوں۔ اس کا بڑا فضل ہے کہ اس بیماری میں جبکہ کَل کا مضمون گو ایسا علمی نہیں تھا مگر پھر بھی چونکہ بڑا پیچ دار تھامجھے کئی دن حوالوں کو ترتیب دینے میں بڑی محنت کرنی پڑی گو پھر بھی کچھ رہ گئے اس کی وجہ سے طبیعت پریشان تھی۔ اور میں ڈرتا تھا کہ شاید میں جلسہ نبھا نہ سکوں لیکن خدا کا فضل ہوگیا کہ جلسہ کی آخری تقریر بھی ختم ہوگئی۔اَب جو تھوڑا سا ملاقاتوں کاکام باقی رہ گیا ہے خداتعالیٰ اُس کی بھی توفیق دے۔ اور مجھے صحت دے تاکہ میں قرآن شریف کی تفسیر جلدی سے لکھ لوں اور اس کا ترجمہ جلدی سے شائع کرسکوں۔ اور مجھے توفیق دے کہ آپ لوگوں کے لئے دعائیں کرتا رہوں اور خداتعالیٰ میری دعاؤں کو سنے اور آپ لوگوں کے ایمان اور اخلاص میں برکت دے اور آپ محمد رسول اللہؐ کا شاندارپودا بنیں۔وہ حیات کا پودا جو کہ بائیبل کے رُو سے آدم کے زمانہ میں جنت کے وسط میں لگایا گیا تھا۔علم وعرفان میں آپ ترقی کریں اور قرآن کو سمجھیں اور قرآن پر عمل کریں۔ اور خدا سے آپ راضی ہوں اور خدا آپ سے راضی ہو اَللّٰھُمَّ اٰمِیْن۔
اب میں دعا کرتا ہوں جو دعائیں میں نے کی ہیں وہ بھی اور جن لوگوں نے باہر سے دعاؤں کی خواہشیں کی ہیں اُن کے لئے بھی دعا کریں ۔اِسی طرح اپنے لئے بھی کریں، اپنے گھروالوں کے لئے کریں، اور جو احمدی یہاں نہیں آسکے اور ان کے دل آنے کے لئے چاہتے تھے ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہماری سب دعاؤں
میں شریک کرے۔’’ (الفضل 14 مارچ 1957ء)
1: الاخلاص:4
2: پُستکوں : پُستک: کتاب، صحیفہ
3: مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال مَاقَالَہُ شرعًا
4: ٹین (Tin) ایک سفید نرم دھات (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور)
5: الرحمٰن:47 6: البقرۃ:202 7: الم نشرح :6، 7
8: الانعام :2 9: البقرۃ :82، 83 10: الرعد :4
11: الرعد:4 12: التوبۃ : 72 13: الحج : 20
14: یونس : 10 15: الکھف : 108 16: الرحمٰن :55
17: سبا :17 18: الکھف :33، 34 19: الانبیاء :79
20: المزّمّل:16
21: مرقس باب 12۔ آیت 1 تا 9۔ نارتھ انڈیا بائیبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء
22: درثمین اُردو صفحہ 123۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ
23: السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 106، 107مطبوعہ مصر 1935ء
24: اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد3 صفحہ 37 زیر عنوان عبد اللہ بن عثمان بن عامر (ابوبکر صدیق) مطبوعہ بیروت لبنان 2001ء
25: فتوح الشام ذکر فتح عزاز جلد 1 صفحہ 301دار الکتب العلمیہ 1997ء
26 تاریخ الخمیس جلد2 صفحہ301۔ بیروت 1283 ھجری۔ ذکر خلافۃ معاویۃ بن یزید بن معاویہ
27 کنزالعمال جلد ١٤ صفحہ ٢٦٩۔ مطبوعہ حلب ١٩٧٥ء
28: دَونے : (دَونا) پتوں سے بنایا ہوا پیالہ۔ پتّل جس میں دکاندار پھول، مٹھائی، دہی رکھ کر دیتے ہیں۔ (اردو لغت تاریخی اصول پر۔ جلد 9 صفحہ 729۔ اُردو لغت بورڈ کراچی دسمبر 1988ء)






احباب جماعت کے نام پیغامات
(1955ء11-3- تا 1955ء 29-7-)



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی




بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

احباب جماعت کے نام پیغامات
(1955ء11-3- تا 1955ء 29-7-)
● پیغام مؤرخہ1955ء11-3-
''برادران ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے گزشتہ ہفتہ 26فروری کو مغرب کے قریب مجھ پر بائیں طرف فالج کا حملہ ہؤا اور تھوڑے سے وقت کے لئے مَیں ہاتھ پاؤں چلانے سے معذور ہو گیا۔ پہلے ڈاکٹروں کا خیال ہؤا کہ شایدCEREBERAL THROMBOSIS کا حملہ ہؤا ہے یعنی بعض شریانوں میں خون منجمد ہو گیا اور جو خون دماغ کو غذا پہنچاتا ہے اور جس سے فکرِ انسانی اور عقلِ انسانی پیدا ہوتے ہیں اس کی کمی کی وجہ سے دماغ کا عمل معطل ہو گیا اور دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ مگر بعد میں دوسرے ماہرین ڈاکٹر جو لاہور سے بُلوائے گئے انہوں نے رائے ظاہر کی کہ یہ حملہ اتنی جلد گزر گیا ہے کہ یہی سمجھنا چاہئے کہ دماغ کی رگ پھٹی نہیں اور نہ ہی دماغ یا دل کے THROMBOSIS کا حملہ ہؤا ہے بلکہ صرف بعض خون کی رگیں سُکڑ گئیں (VASOSPASM) اور ان کی وجہ سے دماغ کو خوراک پہنچنی بند ہو گئی ہے۔ ان ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ چند ہفتوں میں دماغی حالت اپنے معمول پر آجائے گی لیکن اب تک جو ترقی ہوئی ہے اس کی رفتار اتنی تیز نہیں۔ پہلے دن تو مَیں کسی چیز کو اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑ نہیں سکتا تھا۔ ہاتھ ڈالتا کہیں تھا اور پڑتا کہیں تھا۔ اب ہاتھ کی حِسّ میں یہ تبدیلی پیدا ہو گئی ہے کہ جس چیز کو پکڑنے کا ارادہ کرتا ہوں اُس تک ہاتھ پہنچ جاتا ہے یعنی فاصلہ اور جہت کا اندازہ ٹھیک ہونے لگ گیا ہے مگر اس بیماری میں لیٹے رہنے کی وجہ سے پاؤں میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ آدمیوں کے سہارے سے ایک دو قدم چل سکتا ہوں مگر وہ بھی مشکل سے۔ اور چلنے سے پَیر لڑکھڑا جاتے ہیں اور گُھٹنوں میں درد معلوم ہوتی ہے۔ دماغ اور زبان کی کیفیت ایسی ہے کہ مَیں تھوڑی دیر کے لئے بھی خطبہ نہیں دے سکتا اور ڈاکٹروں نے دماغی کاموں سے قطعی طور پر منع کر دیا ہے۔ حتّٰی کہ معمولی ملاقاتوں سے بھی۔ اُن کے خیال میں مجھے کسی چیز کے متعلق سوچنا نہیں چاہئے اور ابھی میرے سامنے تفسیرقرآن کا بہت بڑا کام پڑا ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹری مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مَیں اہل و عیال اور دفتری عملہ کو لے کر کچھ عرصہ کے لئے یورپ چلا جاؤں تاکہ جلد ہی اس مرض کی روک تھام ہو جائے۔ پہلے امریکہ کا خیال تھا مگر چونکہ امریکہ کا ایکسچینج نہیں ملتا اس لئے اس ارادہ کو چھوڑنا پڑا لیکن یورپین علاقہ میں انگریزی سِکّہ چل جاتا ہے اور برطانوی کامن ویلتھ کے مختلف علاقوں میں ہماری جماعت خدا کے فضل سے کافی تعداد میں موجود ہے مثلاً افریقہ کے کئی علاقے وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے یورپ جانے میں مشکلات بہت کم ہیں۔ مَیں نے عزیزم چودھری ظفر اﷲ خان صاحب کو مشورہ کے لئے تار دی تو انہوں نے تار میں جواب دیا ہے کہ خدا کے فضل سے یورپ کے بعض ممالک میں علاج کی بہت سی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں اور کامل سامان مل سکتا ہے۔ اس لئے پیشتر اس کے کہ تکلیف بڑھ جائے مَیں یورپ چلا جاؤں اور وہاں کے ڈاکٹروں سے علاج کرواؤں تاکہ مَیں اچھا ہو کر خطبہ بھی دے سکوں، تفسیر بھی مکمل کر سکوں اور جماعتی ترقی کے لئے جس غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ قائم رہے۔ چونکہ سِکّہ کی دقتیں یورپ کے سفر میں ہمارے راستے میں اس قدر روک نہیں ہوں گی جس قدر امریکہ کے سفر میں ہو سکتی ہیں اس لئے اس سفر کے لئے ممکن ہے کہ اگر سلسلہ کے پاس روپیہ ہو تو گورنمنٹ کی طرف سے غیر ملکی سِکّہ مل جائے۔ یا اگر ہماری افریقہ کی جماعتیں اخلاص کا ثبوت دیں تو غیر ملکی سِکّہ کی بہت سی مشکلات اُن کے ذریعہ سے پوری ہو جائیں گی کیونکہ اُن کے پاس وہی سِکّہ ہے جو یورپ میں چلتا ہے۔
جب میں 1924ء میں انگلینڈ گیا تھا تو ہندوستان کی مالی حالت بہت خراب تھی اور ہندوستانی جماعت اخراجاتِ سفر برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اُس وقت زیادہ ایسٹ افریقہ، عراق اور چند اَور غیر ممالک کے احمدیوں نے اکثر حصہ بوجھ کا اٹھایا تھا۔ قادیان کی انجمن ہمارے کھانے کے بھی خرچ نہیں بھجوا سکتی تھی مگر اﷲ تعالیٰ نے افریقہ اور عرب کی جماعتوں کے اندر اس قدر اخلاص اور ایمان پیدا کر دیا کہ سارے قافلہ کے کھانے اور تبلیغ کا خرچ مَیں ادا کرتا تھا۔ یا یوں کہو کہ اﷲ تعالیٰ میرے ذریعہ سے ادا کرتا تھا۔ واقعہ اس طرح ہؤا کہ مَیں نے مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ایسٹ افریقہ کے چند دوستوں کو لکھا کہ مجھے سفر کی ضرورتوں اور جماعت کے وفد کے اخراجات کے لئے کچھ انگریزی سکّہ قرض کے طور پر دے دیں۔ وہ آدمی تو تھوڑے سے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت تک ایسی حیثیت کے آدمی چند تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میاں اکبر علی صاحب، سیّد معراج الدین صاحب اور بابومحمدعالم صاحب ممباسوی ایسی حالت میں تھے کہ کچھ قرض دے سکیں لیکن ایمان دنیا کے خزانوں سے بڑا ہوتا ہے، ایمان نے ان کی تمام مالی کمزوریوں کو دُور کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ بابو اکبر علی صاحب نے اپنی تمام تجارت کا ایک حصّہ نیلام کر دیا اور روپیہ مجھے قرض بھجوا دیا۔ چونکہ یہ جماعتی حساب میں تھا جماعت نے ادا کر دیا مگر اُس وقت ایک عجیب لطیفہ ہؤا جو خداکی قدرت کا نمونہ تھا۔ عراق میں ہمارے صرف ایک احمدی دوست تھے اور ان کی مالی حالت کچھ اچھی نہیں تھی۔ مَیں نے ان کو بھی خط لکھا۔ انہوں نے اپنے کسی اَور دوست سے ذکر کر دیا۔ ایک دن لندن کے ایک بینک نے مجھے اطلاع دی کہ تمہارے نام اتنے سَو پونڈ آیا ہے۔ مَیں نے سمجھا کہ قادیان نے مبلغین کے قافلہ کا خرچ بھجوایا ہے لیکن دریافت پر بینک نے بتایا کہ قادیان یا ہندوستان سے وہ روپیہ نہیں آیا بلکہ عراق سے آیا ہے۔ مَیں نے بیت المال قادیان کو اطلاع دی کہ آپ لوگوں نے قرض کی تحریک کی تھی اور مَیں نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ اِس سلسلہ میں روپیہ آنا شروع ہؤا ہے آپ نوٹ کر لیں اور چونکہ بعد میں ادا کرنا ہے عراق کا پتہ ان کو بتا دیا کہ یہاں سے اتنے سَو پونڈ آیا۔ جب مَیں ہندوستان واپس آیا تو مَیں نے اُس وقت کے ناظر صاحب بیت المال سے کہا کہ کیا اس روپیہ کا پتہ لیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ ہم رجسٹریاں لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں، سارے احمدی انکاری ہیں کہ ہم نے روپیہ نہیں بھیجا۔ مَیں نے اُس سعید غیراحمدی کو خط لکھنے شروع کئے کہ اتنا روپیہ آپ کی طرف سے مِلا ہے یہ غالباً اُس قرضہ کی تحریک کے نتیجہ میں ہے جو بیت المال کی طرف سے کی گئی تھی آپ اطلاع دیں تاکہ سلسلہ اس کو اپنے حساب میں درج کر لے لیکن کئی ماہ مسلسل رجسٹری خطوط بھجوانے کے بعد ایک جواب آیا اور وہ جواب یہ آیا کہ آپ کو غلطی لگی ہے کہ مَیں نے سلسلہ احمدیہ کو کوئی قرض دیا ہے۔ چھ سَو یا آٹھ سَو پونڈ اُنہوں نے لکھے کہ مَیں نے لندن بینک کے ذریعہ آپ کو بھجوائے تھے مگر وہ بیت المال کو قرض نہیں بھجوائے تھے بلکہ وہ آپ کو نذرانہ تھے۔ اِس خط کے وصول ہونے پر میری حیرت کی حد نہ رہی کہ اس غیر احمدی کو اﷲ تعالیٰ نے وہ توفیق دی جو کئی احمدیوں کو بھی نہ ملی تھی۔ ممکن ہے غیراحمدیوں میں کوئی مالدار ہو مگر میرے علم میں تو غیراحمدیوں میں بھی کوئی اتنا مالدار نہیں تھا جو اس بشاشت سے چھ سَو یا آٹھ سَو پونڈ نذرانہ بھجوا دے مگر بہرحال چونکہ وہ سلسلہ کے لئے مدِنظر تھا اور وہ بھیجنے والا غیر احمدی تھا اس لئے مَیں نے نوٹ کر لیا کہ یہ روپیہ سلسلہ کا ہے اور مسجد لندن کے حساب میں مَیں نے وہ رقم بینک میں جمع کرا دی۔ اور حساب کر کے گزشتہ سال تحریک جدید کو مسجد لندن کے حساب میں 731 یا 750 پونڈ ادا کر دیئے جس سے مسجد لندن کی مرمت وغیرہ ہوئی۔ بہرحال اِس طرح مَیں بھی اپنے فرض سے سُبکدوش ہؤا اور مسجد کی مرمت بھی ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے خانۂ خدا خانۂ کفر میں بنوانے کی توفیق بخشی۔ اُسی نے وہ نذرانہ بھیج کر مجھ پر احسان کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ مَیں اُس کے احسان کی قدر اِس صورت میں ظاہر کروں کہ وہ روپیہ خانۂ خدا کے بنانے پر خرچ ہو جائے۔
اِس وقت ہماری جماعت اُس وقت سے کئی گُنے زیادہ ہے بلکہ شاید بیس گُنے زیادہ ہے اور اگر مرکزِ احمدیت کی تحریک پر وہ لوگ بھی انگریزی سکّہ سے ہماری مدد کریں خواہ قرض کے طور پر ہی ہو تو یہ سفر ہمارا آسانی سے گزر جاتا ہے۔ چونکہ مَیں بیماری کی وجہ سے جارہا ہوں اس لئے امید ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے بہت سا انگریزی سکّہ خریدنے کی اجازت مل جائے گی۔ لیکن وہ لوگ جن پر پاکستانی قانون نہیں چلتا اگر انگریزی سکّہ ہمیں مہیا کر دیں تو انٹرنیشنل قانون کے ماتحت یہ جُرم نہیں۔ اﷲ تعالیٰ احبابِ جماعت کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنے فرض کو سمجھ سکیں، ادا کر سکیں تا کہ اگر وحیِ جلی ان پر نازل نہیں ہوئی تو وحیِ خَفی تو ان پر نازل ہو جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ۔1 عنقریب تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن پر ہم وحی کریں گے۔ گویا جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کرتا تھا وہ وحی کے ماتحت کرتا تھا۔ یہی معاملہ خدا کا میرے ساتھ رہا ہے۔ مَیں نے تو ہمیشہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ پکڑا ہے اور اس سے کہا ہے کہ اپنے نوکر کو دوسروں کی ڈیوڑھی سے مانگ کر گزارہ کرنے پر مجبور مت کر۔ اس میں نوکر کی ہتک نہیں آقا کی ہتک ہے۔ اگر میرا نوکر دوسرے کے گھر سے روٹی مانگے تو وہ میری عزت برباد کرتا ہے۔ اس لئے کبھی انسان کے مال پر نہ مَیں نے نظر رکھی ہے نہ آئندہ کبھی رکھوں گا۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیشہ میری خود ہی مددکی ہے اور آئندہ بھی وہی مدد کرے گا۔ کسی نے میری مددنہیں کی کہ خدا تعالیٰ نے اُس سے بیسیوں گُنے اُس کی مدد نہ کی ہو۔ درجنوں مثالیں اس کی موجود ہیں جو چاہے مَیں اس کا ثبوت دے سکتا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ شُبہ کرے کہ مَیں لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے یہ بات کر رہا ہوں۔ آخر وہ اس کا کیا جواب دے گا کہ ایک شخص جو بالکل غریب حالت میں تھا اُس نے میری مدد کی تو اﷲ تعالیٰ نے اُس کو دولت دے دی یا اُس کی اولاد کو اِتنی تعلیم دلا دی کہ وہ صاحبِ اثر و رسوخ بن گیا۔
خیال ہے خدا توفیق دے تو اپریل میں ہوائی جہاز کے ذریعہ سے جاؤں۔ احباب دُعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ اس کے لئے راستہ کھول دے اور اگر یہ سفر اﷲ تعالیٰ کی منشاء کے بموجب ہے تو اس کو صحت کا موجب بنائے۔ دوستوں نے سفر امریکہ کے لئے گزشتہ شوریٰ پر ایک چندہ کی تحریک کی تھی۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حفاظتِ خاص یعنی جماعت احمدیہ کے امام کی حفاظت کے لئے جو رقوم تجویز کی گئی تھیں گو کافی روپیہ اس میں آیا ہے مگر جتنی ضرورت ہے اُتنا نہیں آیا۔ اس لئے مَیں اپنے مُحبّوں اور مخلصوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ فیصلہ جو خود اُن کا ہے کم سے کم اُسے پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ غیروں کے سامنے شرم اور ذلّت محسوس نہ ہو۔
اِس موقع پر مَیں یہ کہنے میں بھی فخر محسوس کرتا ہوں کہ مجھے جو شکوہ پیدا ہؤا تھا کہ اس سال تحریک کے وعدے پورے نہیں آرہے خدا تعالیٰ نے جماعت کو اس شکوہ کے دُور کرنے کی توفیق بخش دی ہے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے آج کی تاریخ تک قریباً چھ ہزار کے وعدے زائد آچکے ہیں اور موجودہ رفتار پر قیاس رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انشاء اﷲ تعالیٰ میعاد کے آخر تک اﷲ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے چالیس پچاس ہزار روپے کے وعدے بڑھ جائیں گے۔ دنیا کی نظروں میں یہ بات عجیب ہے مگر خدائے عجیب کی نظر میں یہ بات عجیب نہیں کیونکہ اُس کے مخلص بندوں کے ہاتھوں سے ایسے معجزے ہمیشہ ہی ظاہر ہوتے چلے آئے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے چلے جائیں گے۔ پہلے بھی خدا تعالیٰ ایسے ہی بندوں کے چہروں سے نظر آتا رہا ہے اور اب ہمارے زمانہ میں بھی ایسے ہی انسانوں کے چہروں سے خدا نظر آئے گا اور ان کے دلوں اور ایمانوں سے ایسے معجزے ظاہرنہیں ہوں گے بلکہ برسیں گے۔ منکر انکار کرتے چلے جائیں گے، جبرائیل کا قافلہ بڑھتا چلا جائے گا اور آخر عرش تک پہنچ کر دم لے گا۔ عرش کا راستہ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے معراج کی رات اپنی اُمّت کے لئے کھول دیا ہؤا ہے۔ اب کوئی ماں ایسا بیٹا نہیں جنے گی جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا کھولا ہؤا راستہ بند کر سکے۔ شیطان حسد سے مَر جائے گا مگر خدا تعالیٰ کی مدد محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو شیطانی حسد کی آگ سے بچالے گی۔ دوزخ چاہے گندھک کی آگ کی بنی ہوئی ہو یا حسد کی آگ سے، صاحبُ الْفلق رسول اس سے محفوظ کیا گیا ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا۔ دوزخ کے شرارے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کے لئے ہیں۔ اس کے دوستوں کے لئے کوثر کا خوشگوار پانی اور جنت کے ٹھنڈے سائے ہیں۔ صرف اتنی ضرورت ہے کہ وہ ہمت کر کے ان سایوں کے نیچے جابیٹھیں اور آگے بڑھ کر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ سے کوثر کا پانی لے لیں۔ لوگ اپنے باپ کی زمینوں اور مکانوں کو نہیں چھوڑتے اور مُلک کی اعلیٰ عدالتوں تک جاتے ہیں کہ ہمارا ورثہ ہمیں دلوایا جائے۔ اگر مسلمانوں میں سے کوئی بد بخت اپنے روحانی باپ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ورثہ کو نظر انداز کرتا ہے تُو اس پر افسوس ہے۔ اُس کو تو فیڈرل کورٹ تک نہیں بلکہ عرش کی عدالت تک اپنے مقدمہ کو لے جانا چاہئے اور اپنا ورثہ لے کر چھوڑنا چاہئے۔ اگر وہ ہمت نہ ہارے گا، اگر وہ دل نہ چھوڑے گا تو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ورثہ اس کو ملے گا اور ضرور ملے گا۔ صاحبُ الْعرش کی عدالت کسی کو اُس کے حق سے محروم نہیں کرتی اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا روحانی باپ دنیا کے ظالم دادوں کی طرح اپنے پوتوں کو طبعی حق سے محروم نہیں کرتا بلکہ جب وہ اُس سے اپیل کرتے ہیں وہ اُن کے روحانی باپ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ورثہ اُن کو دیتا ہے۔ بلکہ ورثہ کے حصّہ سے بھی بڑھ کر دیتا ہے کیونکہ وہ رحیم کریم ہے اور وہ رحیم کریم یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی روحانی اولاد اپنے ورثہ سے محروم ہو جائے۔ سو دوستو! بڑھو کہ تمہیں ترقی دی جائے گی۔ قربانی کرو کہ تمہیں دائمی زندگی عطا کی جائے گی۔ اپنے فرض کو پہچانو کہ خدا تعالیٰ اس سے بڑھ کر اپنے فرض کو پہچانے گا۔ اور جب وہ وقت آئے گا تو نہ صرف تمہارے گھر برکتوں سے بھر جائیں کے بلکہ ہر وہ گوشت کا لوتھڑا جو تمہارے جسم سے نکلے گا اس کو بھی برکتوں کی چادر میں لپیٹ کر بھیجا جائے گا۔ اور جو تمہارے ہمسائے میں رہے گا اس پر بھی برکتیں نازل ہوں گی۔ جو تم سے محبت کرے گا اس سے خدا تعالیٰ محبت کرے گا اور جو تم سے دُشمنی کرے گا اس سے خدا تعالیٰ دُشمنی کرے گا۔
مَیں نے آپ کو کبھی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے باہر جانے کی کوئی سکیم بنائیں۔ یہ سکیم آپ لوگوں کی طرف سے پیش ہوئی، آپ نے ہی اسے منظور کیا۔ مَیں نے ایک لفظ بھی اس کے حق میں نہیں کہا۔ اب آپ کا فرض ہے کہ تکلیف اُٹھا کر بھی جو ریزولیوشن آپ نے پاس کیا تھا اُس کو پورا کریں۔
دوستوں کو میں اِس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ قادیان میں ایک امانت فنڈ کی مَیں نے تجویز کی تھی اور وہ یہ تھی کہ قادیان کی ترقی کے لئے احباب کثرت سے امانتیں قادیان میں جمع کروائیں ۔ خاص خاص وقت پر اپنی اغراض کے لئے خلیفۂ وقت اور جماعت بوقتِ ضرورت کچھ قرض لے لیا کریں گے۔ اس سے احباب کا روپیہ بھی محفوظ رہے گا اور بغیر ایک پیسہ چندہ لئے جماعت کے کام ترقی کرتے رہیں گے۔ قادیان میں اِسی تحریک کے مطابق ترقی کرتے کرتے ستائیس لاکھ روپیہ اس امانت میں پہنچ گیا تھا اور بغیر ایک پیسہ کی مدد کے احبابِ کرام سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق پاجاتے تھے۔ چنانچہ اس تحریک کا نتیجہ تھا کہ پارٹیشن کے بعد جب سارا پنجاب لُٹ گیا تو جماعت احمدیہ کے افراد محفوظ رہے اور ان کو اس امانت کے ذریعے دوبارہ پاکستان میں پاؤں جمانے کا موقع مل گیا۔ اس کی تفصیل کہ کس کس طرح اس روپیہ کو نکالا اور خرچ کیا اور پھر احباب کو واپس کیا۔ یہ تو جب اُس زمانہ کی تاریخ لکھی جائے گی تو اُس میں تفصیلاً آئے گا مگر بہرحال جس طرح جماعت کے افراد اپنے پاؤں پر کھڑے رہے وہ ظاہر ہے۔ اگر اب بھی دوست میری بات کو مانیں گے تو انشاء اﷲ بڑی بڑی برکتیں حاصل کریں گے۔ انہیں اغراض کے ماتحت روپیہ جمع کرانا ہو گا جو مَیں نے اُوپر بیان کی ہیں۔ تحریک، صدر انجمن احمدیہ اور مَیں انشاء اﷲ ذاتی طور پر ان امانتوں کےواپس کرنے کے ذمہ دار ہوں گے جس طرح پہلے دَور میں ذمہ دار تھے اور ایک ایک پیسہ احباب کو ادا کر دیا تھا۔ روپیہ کا گھر میں پڑا رہنا یا سونے کی صورت میں عورتوں کے پاس رہنا قومی ترقی کے لئے روک ہے اس لئے اپنی اولادوں کی ترقی کی خاطر ان کی تعلیم اور پیشوں کی ترقی کی خاطر اپنی آمدن میں سے تھوڑی ہو یا بہت پس انداز کرنے کی عادت ڈالیں اور امانت کے طور پر تحریک جدید یا صدر انجمن کے خزانہ میں جمع کراتے رہیں اور اس کا نام امانت خاص رکھیں۔ یہ امانت اُوپر کے بیان کردہ اغراض کے لئے ہو گی۔ صرف اتنا فرق ہو گا کہ جو شخص اپنی امانت میں سے دس ہزار روپے یا اس سے زائد لینا چاہے اُسے عام طور پر سات دن کا نوٹس دینا ہو گا۔ مگر یہ ضروری نہیں امانت داروں کی ضرورت کے مطابق فوری روپیہ بھی ادا کر دیا جائے گا۔ مگر جو لوگ چند سو یا ہزار لینا چاہیں گے اُن کو بغیر کسی نوٹس کے فوری طور پر روپیہ ادا ہو جائے گا۔ مَیں امید رکھتا ہوں کہ سلسلہ کی تمام خواتین اور مرد میری اِس تحریک پر لبیک کہیں گے اور بغیر پیسہ خرچ کرنے کے دین و دُنیا کے لئے ثوابِ عظیم کمائیں گے۔ اور انشاء اﷲ یہ امانت ان کی مالی ترقی کا بھی موجب بنے گی اور اس کے لئے سکیم آئندہ بنائی جائے گی۔ چونکہ یہ ایک مؤقّت امانت ہو گی جس کے لئے آٹھ دن کے نوٹس کی شرط ہو گی۔ یہ قرضہ بن جائے گا اور زکوٰۃ سے آزاد ہو جائے گا اور اُن کے کام میں کوئی نقص نہیں ہو گا۔ اگر جماعت کے مرد اور عورتیں اِس طرف توجہ کریں تو پندرہ بیس لاکھ روپیہ چند روز میں جمع ہونا مشکل نہیں۔ اور یورپ کا سفر اور سلسلہ کے کام بسہولت جاری رہ سکیں گے اور مالی اعتبار سے بھی مجھے بے فکری رہے گی۔
مَیں اِس وقت بالکل بیکار ہوں اور ایک منٹ نہیں سوچ سکتا اس لئے اپنے پرانے حق کی بناء پر جو پچاس سال سے زیادہ عرصہ کا ہے تمام بہنوں اور بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بے عملی کی زندگی سے بچائے کیونکہ اگر یہ زندگی خدانخواستہ لمبی ہونی ہے تو مجھے اپنی زندگی سے موت زیادہ بھلی معلوم ہو گی۔ سو مَیں خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے خدا! جب میرا وجود اِس دُنیا کے لئے بیکار ہے تو تُو مجھے اپنے پاس جگہ دے جہاں مَیں کام کر سکوں۔ سو اگر چاہتے ہو کہ میری نگرانی میں اسلام کی فتح کا دن دیکھو تو دُعاؤں اور قربانیوں میں لگ جاؤ تاکہ خدا تمہاری مدد کرے اور جو کام ہم نے مل کر شروع کیا تھا وہ ہم اپنی آنکھوں سے کامیاب طور پر پورا ہوتا دیکھیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اِس امانت کی تحریک کے متعلق مجھے بار بار تحریک کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ احباب جماعت اور خواتین خود ہی یہ تحریک اپنے دوستوں میں کرتے رہیں گے اور اس کو زندہ رکھیں گے۔
جب 1924ء میں مَیں نے لندن کا سفر کیا تھا تو اِس قدر مالی تنگی ہو گئی تھی کہ تبلیغ کے لئے جو وفد گیا تھا اُس کا خرچ بھی مجھ کو ہی دینا پڑا تھا مگر اب ڈاکٹروں کی ہدایت ہے کہ فکر بالکل نہ کریں۔ اگر یہ تجویز کامیاب ہو جائے تو میری فکر بھی دُور ہو جائے اور اﷲ تعالیٰ آپ کو بھی اس نیکی میں حصّہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ وَالسَّلَام
خاکسار
مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
1955ء11-3- ''
(الفضل15مارچ1955ء)
● پیغام از لاہور مؤرخہ1955ء15-3- بوقت شب
ترجمہ از انگریزی:
'' اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اب روبصحت ہوں۔ اگرچہ کل شام بہت پریشانی رہی گاہے گاہے دل کا حملہ ہوتا رہا۔ لیکن ڈاکٹروں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ یہ صرف دل کے ظاہری فعل سے تعلق رکھنے والے معمولی حملے تھے کسی قسم کی دل کی عضوی اور اندرونی خرابی سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ بلکہ ان کی وجہ صرف معدے اور ہاضمے کی خرابی تھی۔ ان حملوں کے باوجود انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ مجھے لارنس گارڈن میں سیر کے لئے جانا چاہیئے۔ چنانچہ میں سیر کے لئے گیا اور اس کا میری صحت پر بہت خوشگوار اثر پڑا۔ جب ہم سیر سے واپس آئے تو عام حالت بہت اچھی تھی۔ لیکن سابقہ حملے کی وجہ سے دماغ میں ایک قسم کا خوف سا بیٹھ گیا تھا۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کئی گھنٹے تک میرے پاس رہے اور نبض دیکھتے رہے۔ اس سے دل میں اعتماد بحال ہو گیا اور میں کئی گھنٹے گہری نیند سویا۔ صبح حالت نسبتاً بہتر تھی۔ میں اپنے کمرے میں ٹہلتا رہا۔ دن میں بہت سے ڈاکٹروں کو مشورے کے لئے بلایا گیا۔ ان میں ایک جرمن ڈاکٹر بھی شامل تھا۔ جرمن ڈاکٹر نے برقی مشین کے ذریعہ دل کے فعل کا عکس (CARDIOGRAM) اتارا۔ وہ بھی حتمی طور پر ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کی اس رائے سے متفق تھا کہ حملے کی شدّت خواہ کسی بھی نوعیت کی تھی وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب دور ہو چکی ہے اور اس کے کسی قسم کے برے اثرات باقی نہیں ہیں کہ جن سے بیماری کا نشان ملتا ہو۔ اور یہ کہ اب میرے لئے صرف یہ علاج ہے کہ میں تبدیلیٔ آب و ہوا کے لئے ملک سے باہر چلا جاؤں اور اپنی بیماری کے متعلق سب کچھ بھلا دوں۔ مکمل آرام اور ہر قسم کے تفکرات کو بھلا دینے کے بعد میرا جسم اور دماغ معمول کے مطابق کام شروع کر دے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں پوری طرح صحت مند ہو جاؤں گا۔ میں نے اس سے کہا کہ تفکرات کو بھلا دینے کی تلقین تو آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ لیکن اس نے اصرار کیاکہ ایسا کرنا ہی پڑے گا اور اس کے آغاز کے طور پر مجھے تمام ملاقاتیں وغیرہ بند کر دینی چاہئیں اور اپنے دوستوں اور احباب سے دور کہیں باہر چلا جانا چاہیئے۔ میں نے اُس سے وعدہ کیا ہے کہ میں اس کی ہدایت کے مطابق ایسا کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ لیکن اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے احباب کی دعاؤں اور ان کی مدد کی ضرورت ہے۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو جس طرح کہ وہ پہلے بھی ہماری نصرت فرماتا رہا ہے۔ بلکہ اُس سے بھی کہیں بڑھ کر اس کی مدد ہمارے شاملِ حال رہے۔ آمین
خلیفۃالمسیح ''
(الفضل17مارچ1955ء)
● ایک مکتوب
''برادر عزیز سیٹھ صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
مجھے جس دن فالج کا حملہ ہؤا تھا اُس سے ایک یا دو روز قبل آپ کو خط لکھ چکا ہوں امید ہے کہ مل گیا ہو گا۔ اِس دوران میں آپ نے اخباروں میں پڑھ لیا ہو گا کہ مجھ پر فالج کا حملہ ہؤا۔ اور اب میں پاخانہ پیشاب کے لئے بھی امداد کا محتاج ہوتا ہوں۔ دو قدم بھی چل نہیں سکتا۔
گزشتہ سال دوستوں نے مشورہ کیا تھا کہ امریکہ علاج کے لئے جانا چاہیئے۔ اور انہوں نے مل کر شورٰی میں بھی ایک چندہ کی سکیم بنائی تھی جو زمیندارہ کے مخالف حالات کی وجہ سے پورا تو نہیں ہو سکا مگر بہر حال نصف کے قریب ہو گیا۔
اس عرصہ میں ہم نے امریکہ کی ایکسچینج کی دقتوں کی وجہ سے امریکہ کا ارادہ چھوڑ دیا۔ یہ بھی معلوم ہؤا کہ یورپ میں علاج بہت اعلیٰ ہو گیا ہے۔ خصوصاً سوئیزر لینڈ کے ڈاکٹر امریکہ جا جا کر سیکھ کر آ رہے ہیں۔ اور یو۔ این ۔ او کی مدد سے یورپ کے ہسپتال بھی اپ ٹو ڈیٹ(UP-TO-DATE) ہو گئے ہیں۔
بیماری کے اس حملہ کے بعد زندگی کا تو سوال ہی نہیں رہا۔ کیونکہ زندگی کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہو گیا کہ میرا دماغ بیکار ہو گیا ہے۔ نہ میں سوچ سکتا ہوں نہ میں تفصیلی طور پر کوئی سکیم اسلام کی فتح کی بنا سکتا ہوں۔ نہ تفسیر لکھ سکتا ہوں۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یورپ ہو آؤں تا کہ میں کام کے قابل ہو جاؤں۔ ایسی حالت میں مَیں بیوی بچوں کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا۔ اس لئے سب کو ساتھ ہی لئے جا رہا ہوں انشاء اللہ۔ لوگوں کی نگاہ میں اتنے بڑے قافلہ کو لے جانا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ مگر میرا یقین ہے کہ وہ عجیب خدا اِن حالات میں بھی میرے لئے عجائب ہی دکھائے گا۔ انشاء اللہ مشکلات رائی کائی 2ہو جائیں گی۔ آسمان گرائے گا اور زمین اُگائے گا۔ اور خدا کے فرشتے ہر جگہ پر انتظام کرتے پھریں گے کیونکہ آخر وہ میرے دوست اور ساتھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے ہمارے درمیان دوستی اور بھائی چارہ پیدا کیا ہے۔ پس آسمان پر جبرائیل اور زمین پر جبرائیل کے مظہر میرے کام میں لگیں گے۔ پھر مجھے فکر کس بات کی ہو۔ فکریں عارضی آتی ہیں مگر خدا تعالیٰ ان فکروں کو بھی نرم کر دے گا۔
ولایت میں ہمارا پتہ وہی ہو گا جو ہمارا مشن کا پتہ ہے۔ آپ سہولت سے وہاں خط بھجوا سکتے ہیں۔ اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو آپ کو اطلاع دے دوں گا۔ ان دنوں آپ کا خاندان بھی بہت دعاؤں کا محتاج ہے۔ انشاء اللہ مَیں اِس سفر میں آپ کے خاندان کو دعاؤں میں یاد رکھوں گا۔ آپ میری زندگی کے سفر کے ساتھی ہیں پھر مَیں آپ کو کس طرح بھول سکتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے سیٹھ عبدالرحمٰن، اللہ رکھا مدراسی کی شکل میں اپنے فرشتے بھجوائے تھے، میرے پاس اللہ تعالیٰ نے آپ کی شکل میں فرشتے بھجوائے ہیں۔ اس لئے لازماً جب بھی کوئی فرشتہ آئے گا تو آپ کو یاد کرا جائے گا۔ کیونکہ بھائی بھائی اور دوست دوستوں کو یاد رکھتے ہیں۔ جن کو خدا ملائے اُن کا رشتہ کوئی نہیں توڑ سکتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد میں بھی آپ جیسا اخلاص پیدا کرے۔ بلکہ آپ سے بھی بڑھ کر اور جو دنیوی برکات آپ کو اور آپ کے بھائیوں کو نصیب ہوئی تھیں وہ اب آپ کی اولاد کی طرف منتقل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ احمد بھائی مرحوم کی اہلیہ مکرمہ کو بھی صبرِِ جمیل عطا فرمائے اور ان کی اولاد پر بھی بڑے فضل کرے۔ اور ان کو اپنی ماں بہنوں کی خدمت کی توفیق بخشے تا ان کے باپ کی روح خوش رہے۔ و السلام
دستخط مرزا محمود احمد
ہندوستان کی جماعت کا خیال رکھیں۔ آپ کی طبیعت میں جو شرم و حیا ہے اُس کی وجہ سے میں آپ پر کام کی بڑی ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ مگر وقت آ گیا ہے کہ آپ آگے آکر جماعت کو مضبوط کریں اور مرکز قادیان کو مضبوط کرنے کی سعی فرمائیں۔ میں نے اپنا ایک بیٹا اِس وادی غیر ذی زرع میں بسادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کو کام کی توفیق دے اور آپ دونوں مل کر اِس وسیع ملک کے باوا آدم ثابت ہوں۔ ایک دن آنے والا ہے کہ اِن ملکوں میں آپ لوگوں ہی کی روحانی اور جسمانی نسل ہو گی۔ آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ وفاداری کا سلوک کیا حالانکہ آپ انسان اور کمزور تھے۔ خدا تعالیٰ جو طاقتور اور مالکِ سازوسامان ہے وہ کس طرح آپ سے بے وفائی کر سکتا ہے۔ اگر وہ آپ سے بے وفائی کرے گا تو گویا مجھ سے بے وفائی کرے گا، مگر مجھ سے بے وفائی نہ پہلے اُس نے کی نہ آئندہ کرے گا۔ وہ میرے دائیں بھی، بائیں بھی، آگے بھی، پیچھے بھی، سر کے اوپر بھی اور دل کے اندر بھی ہے۔ ہر ایک شخص جو میری طرف ہاتھ بڑھاتا ہے خدا کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اور جو مجھ پر زبان چلاتا ہے خدا کی طرف چلاتا ہے۔ اُس کی ماں اُسے نہ جنتی تو اچھا تھا۔ اُس کی دردناک حالت پر فرشتے رحم کریں۔
دستخط مرزا محمود احمد''
(الفضل 17 مارچ 1955ء)
● پیغام مؤرخہ1955ء21-3
''احبابِ جماعت! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
آپ کو یہ اطلاع ہو چکی ہے کہ ڈاکٹروں نے مجھے علاج کے لئے یورپ جانے کا مشورہ دیا ہے۔ میرے پہلے اعلان سےایک غلط فہمی ہوئی ہے۔ پہلے اعلان میں یہ لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹروں نے مجھے اپنے خاندان سمیت جانے کا مشورہ دیا ہے۔ اس پر ایک احمدی ڈاکٹر صاحب مجھے ملے اور انہوں نے کہا کہ مشورہ کے وقت مَیں موجود تھا انہوں نے خاندان کا لفظ نہیں بولا تھا صرف آپ کے لئے کہا تھا۔ یہ بات اُن کی ٹھیک تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کا مشورہ یہ تھا کہ میں علاج کے لئے یورپ جاؤں اور ہر قسم کے تفکرات سے بچنے کی کوشش کروں۔ میں اپنی طبیعت کی بناء پر جانتا تھا کہ اِس حالت میں مَیں اگر باہر گیا تو میری بیویوں اور بچوں کے دل میں شدید اضطراب ہو گا کہ نہ معلوم اتنی دُور کیا واقعہ گزر جائے۔ اور اپنی طبیعت کے لحاظ سے مَیں یہ بھی جانتا تھا کہ بیوی بچوں کے ان تفکرات کو مَیں برداشت نہیں کر سکوں گا اس لئے مشورہ کے آخری حصہ کی بناء پر میں یہی سمجھتا تھا کہ مجھے اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے جانا چاہیئے تا کہ سفر میں مجھے ان کی تکلیف لاحق نہ ہو۔ چنانچہ اس کے بعد مجھے ایک اَور ڈاکٹر ملے۔ وہ احمدی تو نہیں ہیں لیکن بہت ہی محبت رکھتے ہیں، انہوں نے میری رائے سن کر اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ آپ میرا نام لے کر بے شک ڈاکٹروں کو بتا دیں کہ اگر آپ ان کے بغیر گئے تو تفکرات بڑھ جائیں گے کم نہیں ہوں گے۔ بہر حال میں کچھ انجمن اور تحریک کے عملہ کو ساتھ لے کر جو وہاں تعلیم کے لئے جا رہے ہیں یا مبلغ ہو کر جا رہے ہیں اور اپنی بیویوں اور بعض بچوں کو لے کر جا رہا ہوں۔
میرے پہلے اعلان کے بعد مجھے پے در پے دل کی تکلیف کے حملے ہوئے جن میں سے بعض اتنے شدید تھے کہ بعض وقتوں میں مَیں سمجھتا تھا کہ میں ایک منٹ یا ڈیڑھ منٹ سے زیادہ کسی صورت میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ جب ڈاکٹروں کو بُلا کے دکھایا گیا تو انہوں نے آلے لگا کر اور نبض دیکھ کر یہی رائے قائم کی کہ بیماری دل کی نہیں ہے بلکہ اعصاب اور معدہ کی ہے لیکن تکلیف اور احساس کے لحاظ سے دونوں بیماریوں میں فرق نہیں۔ اگر اِس خیال سے بیماری کو دیکھا جائے کہ بیمار کیا محسوس کر رہا ہے تو پھر ویسی ہی یہ خطرناک ہے جیسی وہ خطرناک ہے۔ چنانچہ ایک اَور ڈاکٹر نے جب یہی بات کہی تو مَیں نے ان سے کہا کہ بتائیے مَیں فکر کس طرح نہ کروں جبکہ میرا دل محسوس کر رہا ہے کہ میری حالت خطرے میں ہے۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ جب تک آپ سے زیادہ دماغی طاقت والا ڈاکٹر آپ کو ماننے پر مجبور نہ کر دے آپ معذور ہیں مَیں کیا کہہ سکتا ہوں، آپ کو یہ یقین دلا دینا کہ اِس وقت آپ خطرے سے باہر ہیں یہ کسی ایسے ڈاکٹر کے اختیار میں نہیں جو اپنی دماغی قوت کے لحاظ سے آپ سے زیادہ نہ ہو۔ بہر حال اِس مشورہ کے بعد بعض ربوہ کے ہمارے احمدی ڈاکٹر جو تھے انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ابھی نہیں جانا چاہیئے ابھی سردی ہے اور یہ مرض سردی سے ہی متاثر ہوتی ہے۔ مَیں نے اِس پر سوئٹزر لینڈ اور اٹلی اور ہالینڈ اور انگلینڈ تاریں دیں جن کے جوابات بذریعہ تار آئے کہ ہم نے یہاں کے ڈاکٹروں سے مشورہ کر لیا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ کی بیماری کا علاج یہاں بڑی حد تک ہو سکتا ہے اور یہاں کا موسم ہرگز آپ کی بیماری کے خلاف نہیں۔ آپ فوراً آ جائیں یہاں ہر قسم کا انتظام ہسپتال وغیرہ کا موجود ہے۔ یورپ کے ملکوں کے رہنے والے ڈاکٹروں کی ان تاروں سے ربوہ کے ڈاکٹروں کے منہ بند ہو گئے کیونکہ سردی میں تو وہ رہ رہے ہیں۔ ربوہ والے تو نہیں رہ رہے۔ ربوہ والے تو اپنے موسم پر قیاس کرتے ہیں۔ پھر وہ لوگ ان بیماریوں کے ماہر بھی ہیں۔
عزیزم شیخ ناصر احمد نے سوئٹزر لینڈ سے تار دی ہے کہ میں نے معیّن صورت میں یہاں کے ڈاکٹروں سے مشورہ کر لیا ہے اور وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ یہاں آ جائیں ہم علاج کر سکتے ہیں اور یہاں ہر قسم کی سہولتیں مہیا ہیں۔ قریباً اِسی مفہوم کی تار انگلینڈ سے بھی آئی ہے اس لئے میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ہر انسان جو پیدا ہؤا ہے اُس نے مرنا ہے۔ اُن گھڑیوں میں جب میں محسوس کرتا تھا کہ میرا دل ڈوبا کہ ڈوبا مجھے یہ غم نہیں تھا کہ میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں۔ مجھے یہ غم تھا کہ میں آپ لوگوں کو چھوڑ رہا ہوں۔ اور مجھے یہ نظر آ رہا تھا کہ ابھی ہماری جماعت میں وہ آدمی نہیں پیدا ہؤا جو آپ کی نگرانی ایک باپ کی شکل میں کرے۔ میرا دماغ بوجھ نہیں برداشت کر سکتا تھا مگر اُس وقت میں برابر یہ دعا کرتا رہا کہ اے میرے خدا! جو میرا حقیقی باپ اور آسمانی باپ ہے مجھے اپنے بچوں کی فکر نہیں کہ وہ یتیم رہ جائیں گے مجھے اس کی فکر ہے کہ وہ جماعت جو سینکڑوں سال کے بعد تیرے مامور نے بنائی تھی وہ یتیم رہ جائے گی۔ اگر تُو مجھے یہ تسلّی دلا دے کہ ان کے یُتم کا میں انتظام کر دوں گا تو پھر میری یہ تکلیف کی گھڑیاں سہل ہو جائیں گی۔ مگر تو مجھ سے یہ کس طرح امید کر سکتا ہے کہ یہ لاکھوں روحانی بچے جو تُو نے مجھے دئیے ہیں، جن کے دشمن چپے چپے پر دنیا میں موجود ہیں اور جن کو ختم کرنے کے لئے ہر وقت شیطانی نیزے اٹھ رہے ہیں، جب میرے بعد ان نیزوں کو اپنی چھاتی پر کھانے والا کوئی نہیں رہے گا تو تُو ہی بتا کہ میں اس بات کو کس طرح برداشت کر لوں۔ مجھے موت کا ڈر نہیں مجھے ان لوگوں کے یتیم ہو جانے کا ڈر ہے جنہوں نے تیرے نام کو روشن کرنے کے لئے پچاس سال متواتر قربانیاں کیں۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، دنیا نے ان کو کمائی سے محروم کر دیا تھا پھر بھی وہ ہر اُس آواز پر آگے بڑھے جو تیرے نام کے روشن کرنے کے لئے مَیں نے اٹھائی تھی۔ اب اے میرے وفادار آقا! میں تجھے تیری ہی وفاداری کی قسم دیتا ہوں اِن کمزوروں نےاپنی کمزوریوں کے باوجود تجھ سے وفاداری کی۔ تُو طاقتور ہوتے ہوئے ان سے بے وفائی نہ کیجئو کہ یہ بات تیری شان کے شایاں نہیں اور تیری پاکیزہ صفات کے مطابق نہیں۔ مَیں ان لوگوں کو تیری امانت میں دیتا ہوں۔ اے سب امینوں سے بڑے امین! اِس امانت میں خیانت نہ کیجئو اور اِس امانت کو پوری وفاداری کے ساتھ سنبھال کر رکھیو۔ ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں فکر مت کرو۔ لیکن میں اِس امانت کا فکر کس طرح نہ کروں جسے میں نے پچاس سال سے زیادہ عرصہ تک اپنے سینہ میں چھپائے رکھا اور ہر عزیز ترین شے سے زیادہ عزیز سمجھا۔
اے میرے عزیزو! تم سے کوتاہیاں بھی صادر ہوئیں، تم سے قصور بھی ہوئے مگر میں نے یہ دیکھا کہ ہمیشہ ہی خدا تعالیٰ کی آواز پر تم نے لبیک کہا۔ تم موت کی وادیوں میں سے گذر کر بھی خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتے رہے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں نہیں چھوڑے گا۔ خدا تمہیں بے کسی اور بے بسی کی موت نہیں دے گا۔
ڈاکٹروں کی رائے تو یہی ہے کہ میری بیماری صرف عوارض کی بیماری ہے حقیقت کی بیماری نہیں لیکن جو کچھ بھی ہو ہمارا خدا سچا خدا ہے، زندہ خدا ہے، وفادار خدا ہے۔ تم ہمیشہ اُس پر توکّل رکھو اور اپنی اولاد کو بھی اس پر توکّل رکھنے کی تلقین کرو۔ اور اس دعا کے طریقہ کو یاد رکھو جو میں نے اوپر بیان کیا ہے۔ میں نے ساری عمر جب بھی اِس رنگ میں اخلاص کے ساتھ دعا کی ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس دعا کے قبول ہونے میں دیر ہوئی ہو۔ اگر تم اس رنگ میں اپنے رب سے محبت کرو گے اور اُس کی طرف جھکو گے تو وہ ہمیشہ تمہاری مدد کے لئے آسمان سے اترتا رہے گا۔ ایک دولت میں تمہیں دیتا ہوں ایسی دولت جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ ایک علاج میں تمہیں عطا کرتا ہوں وہ علاج جو کسی بیماری میں خطا نہیں کرے گا۔ ایک عصا میں تمہارے حوالے کرتا ہوں ایسا عصا جو تمہاری عمر کی انتہائی کمزوری میں بھی تمہیں سہارا دے گا۔اور تمہاری کمر کو سیدھا کرے گا۔ اے خدا! تُو اپنے ان بندوں کے ساتھ ہو۔ جب انہوں نے میری آواز پر لبیک کہی تو انہوں نے میری آواز پر لبیک نہیں کہی بلکہ تیری آواز پر لبیک کہی۔ اے وفادار اور صادق الوعد خدا! اے وفادار اور سچے وعدوں والے خدا! تُو ہمیشہ ان کے اور ان کی اولادوں کے ساتھ رہیو اور ان کو کبھی نہ چھوڑیو۔ دشمن ان پر کبھی غالب نہ آئے اور یہ کبھی ایسی مایوسی کا دن نہ دیکھیں جس میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ مَیں سب سہاروں سے محروم ہو گیا ہوں۔ یہ ہمیشہ محسوس کریں کہ تُو ان کے دل میں بیٹھا ہے، ان کے دماغ میں بیٹھا ہے اور ان کے پہلو میں کھڑا ہے اَللّٰہُمَّ اٰمِیْنَ۔
بعض ڈاکٹر جو زیادہ ماہر نہیں ہیں وہ تو میرے جانے پر گھبراتے ہیں مگر ماہر ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ جلدی جاؤ اور جلدی آؤ۔ بہرحال ہر شخص کے رُتبہ کے مطابق اُس کی بات پر یقین کیا جاتا ہے۔ مَیں ان ماہرین کی رائے پر اعتبار کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے جاتا ہوں۔ خدا کرے میرا یہ سفر صرف میرے لئے نہ ہو۔ بلکہ اسلام کے لئے ہو اور خدا کے دین کے لئے ہو اور خدا کرے کہ میری عدم موجودگی میں تم غم نہ دیکھو اور جب میں لوٹوں تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت میرے بھی ساتھ ہو اور تمہارے بھی ساتھ ہو۔ ہم سب خدا کی گود میں ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس کھڑے ہوں۔
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
21/3/55 ''
(الفضل 22مارچ 1955ء)
● پیغام مؤرخہ1955ء22-3-
''احباب جماعت احمدیہ ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
کئی دن کی تاروں کے بعد میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب مجھے روانہ ہو جانا چاہیئے۔ میں انشاء اللہ کل 23 مارچ کو بدھ کے دن لاہور جا رہا ہوں تا کہ وہاں سے کراچی جاؤں۔ احباب کو چاہیئے کہ دعاؤں میں لگے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو۔ میں بھی انشاء اللہ جس حد تک مجھے توفیق ملی دعائیں کرتا جاؤں گا۔
مجھے ایک حد تک تشویش تو ہے لیکن مایوسی نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کے جواب میں اپنی مدد ضرور بھیجے گا اور معجزانہ رنگ میں مدد بھیجے گا۔ اگر میری دعاؤں کی تائید میں جماعت کی دعائیں بھی شامل رہیں تو انشاء اللہ تاثیر بڑھ جائے گی۔ احباب کو خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ جب کبھی ذمہ دار افسر اِدھر اُدھر ہوتا ہے تو شریر لوگ فتنہ پیدا کرتے ہیں۔ ہماری جماعت بھی ایسے شریروں سےخالی نہیں، بعض لوگ اپنے لئے درجہ چاہتے ہیں، بعض لوگ اپنے لئے شہرت چاہتے ہیں۔ ایسا کوئی شخص بھی پیدا ہو یا کوئی بھی آواز اٹھائے خواہ کسی گاؤں میں یا شہر یا علاقہ میں تو اُس کی بات کو کبھی برداشت نہ کریں۔ کبھی یہ نہ سمجھیں کہ یہ معمولی بات ہے۔ فساد کوئی بھی معمولی نہیں ہوتا۔ حدیثیں اس پر شاہد ہیں۔ جب کوئی شخص اختلافی آواز اٹھائے فوراً لاحول اور استغفار پڑھیں۔ اور خواہ آپ عمر میں سب سے چھوٹے ہوں اور درجے میں سب سے چھوٹے ہوں اور خواہ آپ کے بزرگ اُس فتنہ انداز کی بات کی تائید کر رہے ہوں فوراً مجلس میں کھڑے ہو جائیں اور لاحول پڑھ کر کہہ دیں کہ ہم نے احمدیت کو خدا کے لئے اختیار کیا تھا، ہمارا آسمانی باپ خدا ہے اور ہمارے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔ جماعت میں فتنہ پھیلانے والی بات اگر ہمارے عزیز ترین وجود سے بھی ظاہر ہوئی تو ہم اُس کا مقابلہ کریں گے۔
عبداللہ بن ابی بن سلول کتنا بڑا منافق تھا۔ قرآن کریم میں متعدد آیات اس کی منافقت کے لئے بیان کی گئی ہیں۔ ایک جنگ میں جب اس نے بعض صحابہؓ کی کمزوری دیکھی اور کہا کہ مدینہ چل لو وہاں پہنچتے ہی جو مدینہ کا سب سے بڑا معزز آدمی ہے یعنی نعوذ باللہ عبداللہ بن ابی بن سلول وہ مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا۔ تو عبد اللہ بن ابی بن سلول کا بیٹا بھی اُس جگہ موجود تھا۔ وہ دوڑتا ہؤا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ! میں آپ کو بتاتا ہوں میرے باپ نے آج کیسی خباثت کی ہے۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہؐ! میں سمجھتا ہوں میرے باپ کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں۔ اگر آپ یہ واجب فیصلہ کریں تو اس کے پورا کرنے کا مجھے حکم دیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی اَور مسلمان ایسا کر بیٹھے تو میرے دل میں منافقت پیدا ہو۔ اور اس کا بغض میرے دل میں پیدا ہو جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہمارا ارادہ یہ نہیں ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو چونکہ عبداللہ بن ابی بن سلول نے یہ کہا تھا کہ مدینہ پہنچنے دو، مدینہ کا سب سے معزز آدمی یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول کے لڑکے نے تلوار نکال لی اور مدینہ کے دروازے کے آگے کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہا۔ اے باپ! تُو نے یہ فقرہ کہا تھا۔ خدا کی قسم! میں وہ وقت ہی نہیں آنے دوں گا کہ تُو اس بات کو پورا کرنے کا ارادہ کرے۔ تُو ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کر میں اپنی تلوار سے تیرا سر کاٹ دوں گا۔ صرف ایک صورت تیرے مدینہ میں داخل ہونے کی ہے۔ اپنی سواری سے اتر آ اور زمین پر کھڑے ہو کر کہہ کہ مدینہ کا سب سے معزز آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے اور سب سے ذلیل وجود میں ہوں۔ اگر تُو یہ کہے گا تو میں تجھے مدینہ میں داخل ہونےدوں گا ورنہ تجھے قتل کر دوں گا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنے بیٹے کے ایمان کو دیکھ کر ایسا مرعوب ہؤا کہ فوراً اپنے اونٹ سے اُتر آیا اور اُس نے وہی فقرے کہے جو اُس کے بیٹے نے کہے تھے۔ تب اُس کے بیٹے نے اسے مدینہ میں داخل ہونے دیا۔ سو دین کے معاملہ میں باپ، دادا، استاد اور پیر کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ جو کہتا ہے دین کی حقارت کرو تم اُس کا مقابلہ کرو۔ اگر تمہارے ٹکڑے ٹکڑے بھی ہو جائیں تو خوشی سے اِس موت کو قبول کرو۔ کیونکہ وہ موت تمہاری نہیں تمہارے دشمن کی ہے۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ آخری زمانہ میں دجّال ایک مومن کو قتل کرے گا پھر اُس کو زندہ کرے گا۔ پھر اس کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا لیکن خدا اُس کو توفیق نہیں دے گا۔ سو یاد رکھو کہ وہ موت جو تم خدا کے لئے قبول کرو گے وہ موت آخری نہیں ہو گی۔ اس کے بعد خدا تمہیں پھر زندہ کرے گا اور تمہیں دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے دیگا۔
پس اے نوجوانو! اے خدام الاحمدیہ کے ممبرو! میری اس نصیحت کو یاد رکھو، عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے کے واقعہ کو یاد رکھو، حدیثِ دجّال کو یاد رکھو۔ اگر تم خدا کے لئے موت قبول کرو گے تو خُدا تم کو ایسی زندگی دے گا جس کو کوئی ختم نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ تم کو سچا مومن اور سچا بندہ بننے کی توفیق دے۔ اَللّٰہُمَّ اٰمِیْنَ
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
22/3/55 ''
(الفضل 23 مارچ 1955ء)
● پیغام بنام مرزا بشیراحمد صاحب امیر مقامی ربوہ بذریعہ تار از لاہور مؤرخہ1955ء24-3-
'' آپ کی تار پہنچی۔ میں خدا کے فضل سے پہلے سے بہتر ہوں۔ احباب کا شکریہ ادا کریں اور انہیں میرا سلام پہنچا دیں۔ میں نے یہاں لاہور میں ڈاکٹروں سے مشورہ کیا ہے۔ اور ان کے مشورے اور بعض دوستوں کی خواہش پر دو دن کے لئے کراچی کی طرف روانگی ملتوی کر دی ہے۔ (خلیفۃ المسیح) '' (الفضل 25مارچ1955ء)
● پیغام از کراچی مؤرخہ1955ء6-4-
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ۔ہُوَ النَّاصِرُ
''احباب جماعت احمدیہ ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
پہلی بات تو میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ شوریٰ میری غیر حاضری میں آ رہی ہے۔ پہلے سال میں بوجہ زخم کے مَیں شوریٰ میں پورا حصہ نہیں لے سکا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشق کروا دی۔ مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ ابھی آپ لوگوں میں اتنی طاقت نہیں پیدا ہوئی کہ میری غیر موجودگی میں اپنی ذمہ داری پر پورا کام کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ایسی طاقت بھی پیدا کر دے اور مجھے بھی ایسی صحت بخشے کہ آپ سے مل کر اسلام کی فتح کی بنیادیں رکھ سکوں۔ جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے پچھلے چند دنوں سے میری طبیعت زیادہ خراب ہونے لگ گئی تھی مگر دو دن سے پھر بحالی کی طرف قدم جلدی جلدی اُٹھ رہا ہے چنانچہ اِس وقت بھی کہ میں یہ پیغام لکھوا رہا ہوں میں کمرہ میں ٹہل رہا ہوں اور میرے قدم آسانی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ پہلے جو بیماری کے حملہ کے بعد دماغ خالی خالی معلوم ہوتا تھا کل سے وقفہ وقفہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بھی نیک تغیر پیدا ہو رہا ہے اور میں بعض اوقات محسوس کرتا ہوں کہ میں سوچ سکتا ہوں اور پچھلے واقعات کا تسلسل میرے دماغ میں شروع ہو جاتا ہے۔ بلکہ کراچی آتی دفعہ ریل میں ایک سورة میرے دماغ میں آئی جس کے بعض حصے لوگوں سے اب تک حل نہیں ہو سکے تھے اور باوجود بیماری کے اس سورة کی شرح اور بسط میں نے کرنی شروع کی اور وہ تفسیر عمدگی کے ساتھ حل ہونی شروع ہو گئی۔ تب میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے خدا! ابھی دنیا تک تیرا قرآن صحیح طور پر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمانوں کی زندگی، تُو مجھے پھر سے توفیق بخش کہ میں قرآن کے بقیہ حصہ کی تفسیر کر دوں اور دنیا پھر ایک لمبے عرصے کے لئے قرآن شریف سے واقف ہو جائے۔ اور اس پر عامل ہو جائے اور اس کی عاشق ہو جائے۔ بہر حال آج میری طبیعت پچھلے چند دن سے بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ کچھ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سفر کی پریشانیاں جو پیدا ہو رہی تھیں وہ دُور ہو رہی ہیں۔ پچھلے دنوں اختر صاحب اور مشتاق احمد صاحب باجوہ جو کام کے لئے جاتے تھے تو اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ نہیں سمجھتے تھے کہ فوراً رپورٹ نہ پہنچی تو مجھے صدمہ ہو گا۔ دو چار دن کے تجربہ کے بعد مَیں نے خود اس بات کو محسوس کر لیا اور انہیں ہدایت کردی کہ جب وہ باہر جایا کریں تو ایک زائد آدمی لے کر جایا کریں اور اسے اُس وقت کی رپورٹ دے کر میرے پاس بھجوا دیا کریں تا کہ مجھے پتہ لگتا رہے۔ جب سے اس پر عمل ہؤا میری گھبراہٹ اور پریشانی دُور ہونی شروع ہو گئی۔ اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے طبیعت میں سکون ہے۔ خدا نے یہ بھی فضل کیا کہ جہاز کے ٹکٹوں کے ملنے کے غیر معمولی سامان ہو گئے اور ایکسچینج کے ملنے کے سامان بھی پیدا ہو گئے۔ اِس موقع پر اسلامی ملک کے بعض نمائندوں نے غیر معمولی شرافت کا ثبوت دیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر دے، اُن کے ملکوں کو عزّت اور ترقی بخشے۔ اِس واقعہ سے طبیعت میں اور بھی زیادہ سکون پیدا ہؤا اور پریشانی دُور ہوئی۔ خدا کرے کہ مسلمانوں میں پھر سے اتحاد پیدا ہو جائے اور پھر سے وہ گزشتہ عروج کو حاصل کرنے لگ جائیں اور اسلام کے نام میں وہی رعب پیدا ہو جائے جو آج سے ہزار بارہ سو سال پہلے تھا۔ میں اُس دن کے دیکھنے کا متمنی ہوں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں۔ جب سعودی، عراقی، شامی اور لبنانی، ترک، مصری اور یمنی سو رہے ہوتے ہیں مَیں ان کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ دعائیں قبول ہونگی۔ خدا تعالیٰ ان کو پھر ضائع شدہ عروج بخشے گا۔ اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم ہمارے لئے فخر و مباہات کا موجب بن جائے گی۔ خدا کرے جلد ایسا ہو۔
مَیں شوریٰ میں آنے والے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے بجٹ اور دوسری باتوں پر غور کریں۔ اس سال دس بارہ دن لگا کر مَیں نے خود بجٹ کو حل کیا ہے اس لئے بجٹ میں دوستوں کو زیادہ تبدیلی نہیں کرنی چاہیئے۔ میرا خیال ہے کہ میری بیماری کا موجب وہ محنت بھی تھی جو تحریک اور انجمن کے بجٹوں کو ٹھیک کرنے کے لئے مجھے کرنی پڑی۔ مَیں تو بیمار ہو گیا۔ مگر میری وہ محنت کئی سال تک آمد و خرچ کے توازن کو ٹھیک کر دیگی۔
اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو اُن فرائض کے پُورا کرنے کی توفیق دے جن کا آپ وعدہ کر چکے ہیں اور جن کے بغیر جماعت کی قریب کی ترقی نا ممکن ہے۔
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1955ء6/4/ ''
(الفضل 10/اپریل 1955ء)
● پیغام بذریعہ تار مؤرخہ1955ء12-4- بوقت7بجے صبح
ترجمہ:
'' مجھے مشورہ دیا گیا ہے کہ مجھے ہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کرنا چاہیئے سو ہم انشاء اللہ کراچی سے 30/ اپریل کو نصف شب کے قریب روانہ ہو کر یکم مئی کو دمشق پہنچیں گے۔ اِس سے قبل ہمارے قافلے کا ایک حصہ کراچی سے براہ راست لندن جائے گا اور انشاء اللہ 27/ اپریل کو وہاں پہنچ جائے گا۔
احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس سفر کو بابرکت کرے اور میری صحت بہتر ہو جائے اور میں تفسیر القرآن کا کام مکمل کر سکوں۔
(خلیفۃ المسیح) ''
(الفضل 16/ اپریل 1955ء)
●پیغام بذریعہ تار مؤرخہ1955ء13-4- بوقت پونے12بجے رات
ترجمہ:
'' برادران! میں چند روز میں ہوائی جہاز کے ذریعے سفر یورپ پر جا رہا ہوں۔ چونکہ کچھ دن پیشتر ایک ہوائی جہاز جس میں ایک درجن کے قریب چینی وزراء سفر کر رہے تھے گر کر تباہ ہو گیا ہے اس لئے قدرتی طور پر میرا بیمار ذہن کسی قدر گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔ لیکن سفر اِس موسم میں بہتر خیال کیا جاتا ہے۔ اس لئے میں اپنے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ہوائی سفر کو ہی ترجیح دیتا ہوں۔ وہ جو کچھ ہمارے ساتھ کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے۔ اور اگر ہم کسی وقت مایوس ہوتے ہیں تو یہ ہماری اپنی ہی غلطی اور کم نگاہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ خدا اب بھی اور آئندہ بھی ہر حال میں آپ کے ساتھ ہو۔ میں آپ کو اپنے خدا کے سپرد کرتا ہوں کہ جس نے آج تک کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔
(مرزا محمود احمد) ''
(الفضل 16/ اپریل 1955ء)
● پیغام از کراچی مؤرخہ1955ء15-4-
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ہُوَ النَّاصِرُ
'' برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
آج پندرہ تاریخ ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے خیریت رکھی تو ہم انشاء اللہ پندرہ دن بعد یعنی 30 اور یکم کی درمیانی رات کو ہوائی جہاز سے روانہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل میں نے ظہر اور عصر کی نماز جمع کر کے جماعت کے ساتھ پڑھائی۔ گو میں سجدے اور رکوع کے درمیان بھول جاتا تھا مگر میں نے اپنے ساتھ دوستوں کو بٹھادیا تھا کہ مجھے یاد کرواتے جائیں ۔ بہرحال چار رکعتیں کھڑے ہو کر میں پڑھا سکا آج جمعہ ہے اور انشاء اللہ ارادہ ہے کہ میں جمعہ کی نماز پڑھاؤں۔ یہ بات میں بدپرہیزی سے نہیں کر رہا بلکہ ڈاکٹر نے مجھے حکم دیا ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھاؤں۔ اور یہ ڈاکٹر بھی غیر احمدی ڈاکٹر ہے احمدی نہیں۔ گو اس نے تاکید کر دی ہے خطبہ اونچی آواز سے نہ ہو لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ سے ہو اور پانچ منٹ سے زیادہ نہ ہو۔ آدمی پاس بیٹھے رہیں جو پانچ منٹ کے بعد روک دیں۔ پچھلے چند دنوں سے خدا کے فضل سے طبیعت اچھی ہوتی چلی گئی۔ گو دل کی کمزوری کے دورے بعض دنوں میں ہوتے رہے۔ آج پہلی دفعہ ایک خواب چھوٹی سی آئی اور مجھے یاد رہ گئی۔ میں نے دیکھا کہ دو نوجوان مجھے ملنے آئے ہیں اور میں نے ان کو ملاقات کا وقت دیا ہے اور ان کے ساتھ کوئی ان کے پروفیسر بھی ہیں۔ کچھ دیر کے بعد نیم خوابی کی حالت ہوئی۔ اور میں نے محسوس کیا کہ ابھی وہ طالب علم اور ان کے پروفیسر ملنے نہیں آئے اور میں نے اپنی بیوی کو کہا اور وقت پوچھا۔ انہوں نے کہا گیارہ بجے ہیں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ دو طالب علم جنہوں نے وقت مقرر کیا تھاوہ نہیں آئے۔ انہوں نے کہا نہیں آئے۔ پھر میں نیند کے زور سے دوبارہ سو گیا۔ بہرحال اُس وقت دماغ پر بوجھ کسی قدر کم معلوم ہوتا تھااور میں محسوس کرتا تھا کہ خیالات کے معطل ہونے کی جو کیفیت پیدا ہو گئی تھی اُس میں کمی آ گئی ہے۔ یہ بہر حال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے گو بہت آہستہ مگر پھر بھی طبیعت بحالی کی طرف مائل ہے۔ اگر انجمن اور تحریک کے افسروں نے مجھے دق نہ کیا تو شاید صحت اَور جلدی ٹھیک ہو جائے گی۔ وہ ضروری ہدایت پر عمل کرنے اور ضروری رپورٹیں بھیجنے میں کوتاہی کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ آپ کی صحت کے پیش نظر ایسا کرتے ہیں۔ حالانکہ رپورٹ وقت پر آئے تو اِس سے طبیعت میں سکون پیدا ہوتا ہے۔ بہرحال احباب دعا کرتے رہیں۔ یورپین ڈاکٹروں کی رائے کا علم تو وہاں جا کر ہی ہو گا۔ فیِ الحال ہوائی سفر کا طبیعت پر بوجھ ہے کیونکہ مجھے اِس کی عادت نہیں۔ تندرست آدمی بھی اس کا بوجھ محسوس کرتا ہے تو اعصابی بیمار تو اَور بھی زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ لیکن دوسرا کوئی راستہ اس وقت ممکن نہیں تھا۔
اللہ تعالیٰ خیریت سے پہنچائے اور خیریت سے واپس لائے۔ تو علاج اور دوستوں کی ملاقات طبیعت میں اچھی تبدیلی پیدا کر دے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ اور آپ کو اپنے فرائض کے صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق دے اور اسلام سے ایسی وابستگی پیدا ہوکہ دنیا کا کوئی ظلم اور تشدد آپ کو اپنے عہد سے پھرا نہ سکے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسی عقل آپ کو عطا فرمائے کہ آپ کو وہ صحیح راستہ ہمیشہ روشن نظر آتا رہے جو خدا تعالیٰ کے کاموں کو چلانے اور اسلام کے قائم کرنے میں مُمِد ہو سکتا ہے۔ وَالسَّلَام
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1955ء15-4- ''
(الفضل 20/ اپریل 1955ء)
● پیغام ازکراچی بنام جماعت احمدیہ مشرقی بنگال
ترجمہ از انگریزی
'' بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہُوَالنَّاصِرُ
میرے بنگال کے احمدی بھائیو! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
جب کسی قوم کے افراد اختلافات کو ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں تو وہ انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کا کردار پست ہو کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو جب مسلمانوں کے دل متحد نہ رہے تو دنیا بھر میں ان کا وقار زائل ہو گیا۔ بالآخر 1300 سال کے ادبار کے بعد خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور چاہا کہ مسلمان پھر ان کے ذریعہ متحد ہو جائیں۔
مجھے حال ہی میں ایک رپورٹ ملی ہے کہ برہمن بڑیہ کے دولت احمد خاں صاحب اور ڈھاکہ کے شاہجہان صاحب چند دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اِس خیال کو ہوا دے رہےہیں کہ چونکہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اِس کی اطاعت لازمی حکم کا درجہ نہیں رکھتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ بھی صحیح ہے کہ صوبائی امیر محمد صاحب ڈھاکہ کے شاہجہان صاحب اور برہمن بڑیہ کے دولت احمد صاحب بھی غلطی کر سکتے ہیں۔ سو برادران! جب صورت یہ ہے کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے، صوبائی امیر غلطی کر سکتا ہے، شاہجہان صاحب غلطی کر سکتے ہیں،دولت احمد صاحب غلطی کر سکتے ہیں تو پھر اس صورت میں خلیفہ کی آواز کو لازمی طور پر فوقیت دینی پڑے گی۔ کیونکہ وہی ایک ایسا شخص ہے کہ جسے ساری جماعت منتخب کرتی ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ یہ مذکورہ بالا حضرات ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے وہ جماعت کے افراد سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔ لیکن دوسری طرف وہ یہ سمجھتے ہیں ہر چند کہ وہ خود بھی غلطی کر سکتے ہیں تاہم اُن کی رائے خلیفہ اور اُس کے مشیروں پر فائق سمجھی جانی چاہیئے۔ اس لئے ان کے اپنے خیال میں انہیں اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ خلیفہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں کہ چونکہ وہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اسے جماعت سے اطاعت کی توقع رکھنے کا حق حاصل نہیں۔ اور یہ کہ جہاں تک اطاعت کی توقع رکھنے کا سوال ہے یہ صرف بنگال کے صوبائی امیر کا حق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ یاد رکھو! کہ یہ لوگ تمہارے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالنے پر تُلے ہوئے ہیں اور تمہیں صدیوں تک کے لئے اُسی طرح تباہ کرنا چاہتے ہیں جس طرح کہ ماضی میں مسلمان تباہی سے دوچار ہوئے۔
مذکورہ بالا خیال اگرچہ بظاہر معمولی نظر آتا ہے لیکن یہی خیال تھا جو گزشتہ زمانہ میں بالآخر مسلمانوں کی تباہی کا باعث بنا۔ بظاہر سادہ نظر آنے والے یہی اصول تمہاری جماعت کو بھی تباہ کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔ پس ان حالات میں سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ میں یہ اعلان کروں کہ میں ہر سچے احمدی سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کو میرا پیرو نہ سمجھے بلکہ انہیں آزاد اور میرے منصب کا باغی تصور کرے۔ اگر یہ لوگ حق پر ہیں تو انہیں اس اعلان پر خوش ہونا چاہیئے۔ اور جو غلطی میں نے کی ہے اور جس چیز کو میں نے تباہ کیا ہے انہیں اس کی اصلاح اور اس کی تعمیر کے لئے کمر بستہ ہو جانا چاہیئے۔ اور اپنے ایمان اور اپنے عمل کی فوقیت ظاہر کرنی چاہیئے۔جب میں نے اپنے ہاتھ میں کام سنبھالا تھا تو اُس وقت ہمارے خزانے میں صرف چند آنے ہی تھے۔ یا بہرحال اُس وقت ہماری کُل پونجی بمشکل ایک روپے سے زائد ہو گی۔ ہماری اُس وقت کی حالت کے مقابلہ میں اِس وقت کا بنگال یقیناً کہیں زیادہ امیر ہے۔ اگر دولت احمد صاحب، ڈپٹی خلیل الرحمٰن صاحب اور ان کے ساتھی حق پر ہیں تو انہیں اتنی کامیابی تو ضرور حاصل کر لینی چاہیئے جتنی کہ ہم نے متحدہ طور پر حاصل کی ہے۔ بالخصوص اِس حال میں کہ ان کے موجودہ وسائل ہمارے اُس وقت کے وسائل سے بہت زیادہ ہیں ان کے لئے اتنی کامیابی حاصل کر لینا مشکل نہیں ہونا چاہیئے۔ بلکہ ایسی صورت میں تو انہیں اس قابل ہونا چاہیئے کہ وہ احمدیت کو ساری دنیا میں پھیلا کر دکھا دیں۔
قادیان میں ہمارے اُس وقت کے وسائل پر نگاہ ڈالو کہ جب جماعت احمدیہ میں اختلاف رونما ہؤا تھا۔ اگر آج سے پچاس سال پہلے کا کمزور مرکز دنیا کو ہلا سکتا تھا تو پھر مشرقی بنگال کے احمدی آج دولت احمد صاحب اور ڈپٹی خلیل الرحمٰن صاحب کی قیادت میں عالمی پیمانے پر اس قسم کا تہلکہ کیوں نہیں مچا سکتے؟ میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مقابلۃًتبلیغ کے میدان میں ایسا کارنامہ کر کے دکھائیں؟ لیکن میں ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتا ہوں کہ وہ اس میدان میں کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ برخلاف اس کے زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ ان کے رشتہ دار اور ساتھی احمدیت کو ترک کر بیٹھیں گے۔ آنے والے چند مہینے اور چند سال اِس *** کو ظاہر کر دیں گے جو یہ لوگ خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے اوپر لا رہے ہیں۔
پس میں اس امید کے ساتھ جماعت احمدیہ بنگال کے نام یہ خط ارسال کر رہا ہوں کہ اگر وہ اپنے مرکز اور اپنے خلیفہ سے محبت رکھتے ہیں تو وہ کسی قسم کا شک کئے بغیر حتمی طور پر ان سے اپنا تعلق منقطع کر لیں گے، ان سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہ رکھیں گے اور پورے وثوق کے ساتھ ان کے خیالات کی تردید کریں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے صحت عطا کر دی تو میں انشاء اللہ بنگال سے اِس بدی کو مٹانے کی پوری کوشش کرونگا۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء کچھ اَور ہے تو پھر بھی وہ تم سے ایساہی سلوک کرے گا جیسا سلوک کہ تم میرے ساتھ روا رکھو گے۔ یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں اپنی عزت کا بدلہ لوں۔ یہ خدا کا کام ہے۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر تمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور اگر میں اس دنیا میں خدا کا برحق نمائندہ ہوں تو پھر اُس *** سے ڈرو جو تمہارا پیچھا کرتی چلی آ رہی ہے۔ اپنے قدموں پر نگاہ رکھو۔ ایسا نہ ہو کہ احمدیت سے تمہارا لفظی ایمان بھی جاتا رہے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً احمدیت کی حفاظت کرے گا۔ وہ قادر و توانا ایسے لوگوں کو آگے لائے گا جو ہوں گے تو تم ہی میں سے لیکن وہ قربانیوں میں تم سے بہت آگے ہوں گے۔ اور اس طرح ان کی قربانیوں کے ذریعہ بنگال میں احمدیت اَور زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گی۔ احمدیت کی ترقی کا انحصار نہ مجسٹریٹوں پر ہے اور نہ سب رجسٹراروں پر ۔ اور ان میں سے کوئی بھی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے باہر ہو۔نہ وہ جو ڈپٹی کے عہدے پر فائز ہوں اور نہ وہ جو سب رجسٹرار ہوں۔
میں نہیں کہتا کہ تم خدائی سزا کا انتظار کرو۔ میں جانتا ہوں کہ وہ آ رہی ہے۔ آسمانوں والا خدا میرے ساتھ ہے۔ اس لئے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خدائی فیصلے کا انتظار کرو۔ اور پھر حق کو پہچانو۔ میں تم سے صرف یہ کہتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے اور جو کوئی بھی میرے خلاف اٹھتا ہے وہ یقیناً خدا کی طرف سے سزا پائے گا۔ اور اُس کا اور اُس کی پارٹی کا اثر و رسوخ اُسے خدا کے غضب سے نہیں بچا سکے گا۔ تمہارے لئے ابھی غور و فکر سے کام لینے اور خدائی منشاء کو جو قرآن میں مذکور ہے سمجھنے کا موقع ہے۔ اگر تم وقت پر ایسا نہیں کرو گے تو پھر تمہاری تباہی تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔
مرزا بشیر الدین محمود احمد
مالیر کراچی خلیفۃ المسیح الثانی و مصلح موعود ''
(الفضل 21/ اپریل 1955ء)
● پیغام از کراچی مؤرخہ1955ء19-4-
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ۔ ہُوَ النَّاصِرُ
'' برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
اب انشاء اللہ چند دن میں ہم یورپ روانہ ہونے والے ہیں۔ اور ممکن ہے کہ جب یہ مضمون شائع ہو تو روانہ ہو چکے ہوں یا روانہ ہونے والے ہوں۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ بعض مفسد اور شرپسند لوگ یہ مشہور کر رہے ہیں کہ گویا میرا بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جانا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ گویا میرے نزدیک ربوہ خدانخواستہ اب تباہ ہونے والا ہے۔ جو احمدی یا غیر احمدی یہ خیال رکھتا ہے وہ خود تباہ ہونے والا ہے۔ ربوہ تباہ ہونے والا نہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے شرارتی لوگوں کو ذلیل اور رسوا کر دے گا۔ اور وہ اس تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے جس تباہی کی انہوں نے ربوہ اور اس کے رہنے والوں کے متعلق خبر دی تھی۔ اس نظارہ کو دیکھنے کے بعد کہ قادیان کی تمام آبادی کو میں بحفاظت نکال کر لے آیا۔ اور کئی سال تک بے سامانی میں ان کے کھانے پینے کا سامان کیا۔ اور سینکڑوں احمدیوں کی لاکھوں روپے کی امانتیں بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچا دیں۔ اور یہ دیکھتے ہوئے کہ باوجود ہر قسم کی مخالفت کے اور کُلّی بے سامانی کے میں نے ہزاروں آدمیوں کو ربوہ میں بسا دیا۔ اور کالج اور سکول بھی بنوا دیئے۔ اور زنانہ کالج بھی بنوا دیا جو قادیان میں نہیں تھا۔ اور پختہ دفتر بھی بنوا دیئے جو قادیان میں نہیں تھے۔ اور خدا کے فضل سے پختہ جامعة المبشرین بھی بن رہا ہے۔ ان تمام باتوں کے دیکھنے کے بعد اگر کوئی احمدی یہ خیال کرتا ہے کہ مَیں ربوہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہوں اور ربوہ تباہ ہونے والا ہے تو اُس بدبخت کو کوئی زمینی طاقت نہیں بچا سکتی۔ کیونکہ جس نے خدا تعالیٰ کو دیکھ کر انکار کیا اُس کے دل میں ایمان اور دماغ میں عقل کوئی شخص نہیں پیدا کر سکتا۔
میں جب انسان ہوں تو بیماری سے بالا نہیں۔ اور جب میں ایسی بیماری میں مبتلا ہوں جس کے متعلق چھ سات چوٹی کے ڈاکٹروں نے کہا ہے جو احمدی نہیں تھے کہ یہ محنتِ شاقّہ کا نتیجہ ہے بلکہ ایک ڈاکٹر نے تو یہ بھی کہا کہ اگر میرا بس چلتا تو مَیں دو سال پہلے ان کو پکڑ کر نکال دیتا کہ کیوں انہوں نے جبراً آپ کو کام سے نہیں روکا۔ پس ان منافقین کے اعتراضوں کا یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی خلیفہ محنت کرتے کرتے بیمار ہو جائے تو اُس کو یہ بھی اجازت نہیں کہ وہ علاج کے لئے باہر جائے۔ اور اگر وہ باہر جائے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ جماعت کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ اگر ان خبیثوں کے اعتراض میں کوئی صداقت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت ایک *** ہے۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میرے باہر علاج کرانے سے مجھے کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں مگر مجھے اس بات کا یقینی علم ہے کہ جن منافق احمدیوں کے دل میں ایسا خیال گزرا ہے اُن کے گھروں کو خدا تعالیٰ برباد کر کے چھوڑے گا اور وہ ربوہ کی موجودگی اور ترقی میں اپنے گھروں کو برباد ہوتے دیکھیں گے۔
میں نےکبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا کہ میں خواہ کتنی محنت تم لوگوں کے لئے کروں نہ میں بیمار ہوں گا، نہ مجھے علاج کی ضرورت ہو گی۔ مجھے پہلے تو بیماری کے حملہ کی شدت کی وجہ سے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ بیماری کا حملہ کس طرح ہؤا اور کس دن ہؤا۔ بعد میں لوگوں سے باتیں کرنے سے مجھے پتہ لگا کہ یہ حملہ ہفتہ کے دن ہؤا تھا۔ اور عورتوں میں درس قرآن دینے کے بعد ہؤا تھا۔ پس میرا قصور صر ف یہ ہے کہ میں نے باوجود کمزور اور بیمار ہونے کے تمہاری بیویوں اور لڑکیوں کو خدا کا کلام سنایا۔ اگر میرا قصور یہی ہے کہ جیسا کہ ظاہر ہے تو سمجھ لو کہ اس اعتراض کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کی بے حد نصرت مجھے ملے گی اور خدا تعالیٰ کا بے حد غضب ایسے معترضین پر نازل ہو گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں سارے کارکن نکال کر اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دو ڈاکٹر میرے ساتھ جا رہے ہیں۔ لیکن ایک مزید ڈاکٹر کو ربوہ کے کام کے لئے میں نے خدمات وقف کرنے کے لئے آمادہ کیا ہے اور وہ اِس وقت ربوہ میں کام کر رہا ہے۔ جو دو ڈاکٹر میں اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں ان میں سے ایک میرا بیٹا ہے جس کو میں نے اپنے خرچ سے پڑھوا کر احمدیہ جماعت کے لئے وقف کیا۔ جبکہ سینکڑوں دوسرے ڈاکٹر اس خرچ پر دو مہینہ کے لئے بھی آنے کو تیار نہیں تھے۔ اگر ان معترضین کے دل میں دیانت ہے تو آٹھ سال کے لئے نہیں صرف چھ چھ مہینے کے لئے اپنے رشتہ داروں کو خدمت جماعت کے لئے لے آئیں اور منور احمد سے دگنا گزارہ لے لیں۔ اب بھی میں اسے اپنے خرچ پر لے جا رہا ہوں تا کہ وہاں وہ بڑے بڑے ہسپتالوں میں نئی دریافتیں سیکھ کر آئے اور ربوہ پہنچ کر جماعت کی خدمت کرے۔ پس اس کا لے جانا بھی آپ لوگوں پر احسان ہے کیونکہ اس کا خرچ میں خود دے رہا ہوں۔ اور اس کے علم کا فائدہ آپ کو پہنچے گا۔
جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے دنیا کے آخر میں جنت بھی قریب آ جائے گی اور دوزخ بھی قریب آ جائے گی۔ مَیں نے ساری عمر کوشش کی کہ قریب آئی ہوئی جنت میں تم داخل ہو جاؤ۔ اگر تم میں سے بعض پھر بھی دوزخ ہی میں گھسنے کی کوشش کریں تو میں تو حسرت بھرے دل سے اِنَّا لِلّٰہ ہی پڑھ سکتا ہوں اور کیا کر سکتا ہوں۔ خدا تعالیٰ تمہاری آنکھیں کھولے اور ان دشمنوں کی بھی آنکھیں کھولے جو احمدیت پر جھوٹے اعتراض کرتے ہیں۔ وَالسَّلَام
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1955ء19/4/
از کراچی ''
(الفضل 23؍ اپریل 1955ء)
● پیغام از کراچی مؤرخہ1955ء19-4- بوقت نو بجے صبح
'' یوں طبیعت بہتر ہو رہی ہے مگر عارضی طور پر طبیعت گرتی ہے۔ کل سے مرض کے بعض حصوں کی زیادتی معلوم ہوتی ہے یعنی بائیں بازو کی حرکت میں جو آسانی پیدا ہو گئی تھی اس میں کمی آ گئی ہے۔مُٹھی بناتے وقت انگلیاں سیدھی ہونے لگ گئی تھیں اب پھر مڑنے لگ گئی ہیں لیکن یہ فرق بھی ہے کہ پہلے میں بائیں ہاتھ کی مدد سے ازاربند باندھ نہیں سکتا تھا اب میں باندھنے پر قادر ہو گیا ہوں۔ کسی قدر عجیب سا معلوم ہوتا ہے مگر باندھ لیتا ہوں۔ اِسی طرح پہلے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پوری حِسّ نہیں تھی۔ جب انگلیاں میں ملاتا تھا معلوم ہوتا تھا کہ کچھ حِسّ میں فرق ہے۔ دائیں ہاتھ کی تشہد کی انگلی اور انگوٹھے سے چھوٹی چیزیں نہیں پکڑی جاتی تھیں پھسل جاتی تھیں۔ اب تشہد کی انگلی اور انگوٹھے سے موتی پکڑ بھی لیتا ہوں اور اٹھا کر دوسری جگہ رکھ بھی دیتا ہوں۔ مگر انگلیوں کے بند کرنے میں بدنمائی ابھی تک قائم ہے۔
احباب دعا کرتے رہیں اب ہمارے یورپ کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ آج یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ وہاں کی سردی مُضِر تو نہیں ہو گی۔ اِس وقت تک ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ جنوبی یورپ کی سردی مُضِر نہیں ہو گی۔ بلکہ اگر گرمی کا خیال رکھا جائے تو مفید ہو گی۔ کچھ دنوں سے بائیں کندھے میں بھی درد ہے جس کو ڈاکٹر محض تھکان قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بیماری کی وجہ سے خون کا دورہ پورا نہیں ہوتا اس لئے جس بازو پر آپ زیادہ لیٹے رہتے ہیں اُس میں درد ہونے لگتا ہے۔ ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ جب وہ حملہ ہؤا جسے فالج سمجھا گیا تھا تو اس کے بعد مَیں بائیں ہاتھ میں قینچی نہیں پکڑ سکتا تھا۔ اور انگلیوں میں اتنا ضعف تھا کہ میں قینچی کے سوراخوں میں انگلیاں اور انگوٹھا ڈال کر کھول نہیں سکتا نہ بند کر سکتا تھا۔ اس کے نتیجہ میں مَیں ناخن نہیں کاٹ سکتا تھا۔ مگر اِس وقت کہ میں حال کھوا رہا ہوں میں نے قینچی کے سوراخوں میں ہاتھ ڈالا ہؤا ہے اِس کو کھول بھی رہا ہوں بند بھی کر رہا ہوں اور بعض دفعہ ناخن کاٹنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہوں۔
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
از کراچی
1955ء19-4-''
بوقت نو بجے صبح
(الفضل 24 /اپریل 1955ء)
● پیغام از کراچی مؤرخہ1955ء20-4-
'' برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
آج 20 تاریخ ہے اور انشاء اللہ 30 کو ہم جا رہے ہیں۔ گرمی ان دنوں کراچی میں بڑی شدید پڑ رہی ہے اور اس وجہ سے طبیعت میں کمزوری محسوس ہوتی ہے مگر باوجود اس کے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ بیماری کے بعض حصوں میں کمی ہے۔ آج ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بڑے اصرار سے اپنا خیال ظاہر کرتے تھے کہ فالج حقیقی نہیں ہے بلکہ محض عرضی 3ہے۔ چونکہ ہوائی سفر قریب آ رہا تھا اس لئے خیال کیا گیا کہ ایک دفعہ دل کے ماہر ڈاکٹروں سے پھر مشورہ کر لیا جائے۔ چنانچہ کراچی کے سب سے بڑے ماہر قلب ڈاکٹر ایم شاہ صاحب جو اس فن کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور امریکہ سے خاص طور پر اس کا مطالعہ کر کے آئے ہیں سے خواہش کی گئی کہ وہ ایک دفعہ جانے سے پہلے آلہ تحقیق قلب سے دل کا پھر مطالعہ کر لیں۔ چونکہ اُس آلہ کا گھر پر لانا ناممکن تھا اس لئے ہسپتال میں دکھانے کا فیصلہ ہؤا۔ چنانچہ میں آج صبح دس بجے وہاں گیا۔ ڈاکٹر شاہ صاحب نے نہایت محبت اور توجہ سے آلہ تحقیق قلب لگا کر دل کی حرکات کا مطالعہ کیا اور آلہ کھولنے کے بعد میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ مبارک ہو دل سو فیصدی ٹھیک ہے۔ پھر فرمایا کہ ہوائی سفر کا فیصلہ نہایت مبارک ہے۔ میں آپ کو یہی مشورہ دینا چاہتا تھا مگر ڈرتا تھا کہ آپ کسی وجہ سے اس سفر سے گھبراتے نہ ہوں مگر دل یہی چاہتا تھا کہ آپ ہوائی سفر کریں تا کہ سفر کی کوفت نہ ہو اور علاج جلدی ہو جائے۔ بہرحال ماہر ڈاکٹروں کے مشورہ سے ہوائی سفر کا فیصلہ ہؤا ہے۔ انشاء اللہ چند روز میں چل پڑیں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعت نمازوں اور دعاؤں میں لگی رہے گی۔ اور ہر فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہےگی۔ اور خدا تعالیٰ سے اتنی محبت کرے گی کہ خدا اس کا ہو جائے گا۔
جہاں تک احساس کا سوال ہے میری طبیعت محسوس کرتی ہے کہ اگر گرمی کچھ کم ہو جائے تو انشاء اللہ طبیعت بہت جلد بحال ہونے لگ جائے گی۔ آج مَیں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے پھر ظہر عصر کی نماز پڑھائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی بار تھی کہ ساری نماز ٹھیک پڑھائی اور کوئی غلطی نہ ہوئی۔ آج میں نے یورپ کی تبلیغ پر بھی غور کیا اور مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ میں خیریت سے وہاں پہنچا تو یورپ کی تبلیغ میں نمایاں تبدیلی ہو جائے گی۔1924ء میں جب میں نے سفر کیا تو گو میں نوجوان تھا اور مضبوط تھا مگر اتنا تجربہ کار نہیں تھا۔ لیکن اب گو کمزور اور ناتواں ہوں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک وسیع تجربہ میری پُشت پر ہے اور میرا دماغ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے تھوڑا بہت کام کرنے لگ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ مدد فرمائے تو اِنْشَاءَ اللہ برکت اور رحمت اور فضل کے دروازے کھلیں گے اور اسلام ترقی کی طرف قدم بڑھائے گا۔ اِنْشَاءَ اللہ، اِنْشَاءَ اللہ ، اِنْشَاءَ اللہ۔ اے خدا ایسا ہی ہو۔ تیرا دین پھر اپنی جگہ حاصل کر لے اور کفر پھر غار میں اپنا سر چھپا لے۔ میرا ارادہ ہے کہ میں یورپ اور امریکہ کے تمام مبلغین کو اکٹھا کر کے قضیہ زمین کو برسرزمین طے کرنے کی کوشش کروں۔ مگر ابھی منزل مقصود کے درمیان ایک بہت بڑا سمندر حائل ہے جس کو پار کروانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر مبنی ہے۔ کیا تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھنا نصیب کر دے اور ہماری موتیں ہماری پیدائشوں سے زیادہ مبارک ہوں۔ اور کامیابی ہمارے قدم چومے اور ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فاتح جرنیل بن جائیں۔ اور قیامت کے دن تمام دنیا کی حکومت کی کنجیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رکھنے کا فخر حاصل کریں۔
اپنے فرض کو سمجھو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار سپاہیوں کی طرح کفر کے مقابلہ کے لئے طیار ہو جاؤ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہارے خاندانوں کی زندگیوں کو بابرکت بنائے۔ اٰمِیْنَ اَللّٰہُمَّ اٰمِیْنَ
مرزا محمود احمد
(خلیفۃ المسیح الثانی)
از کراچی
1955ء20-4- ''
(الفضل 26/اپریل 1955ء)
● پیغام از کراچی مؤرخہ1955ء27-4-
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ہُوَ النَّاصِرُ
'' برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
ہمارا پہلا قافلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوائی جہاز کے ذریعہ قاہرہ پہنچ چکا ہے۔ 29 کو مَیں انشاء اللہ تعالیٰ رات کے ساڑھے بارہ بجے بقیہ قافلہ کے ساتھ دمشق روانہ ہوں گا۔ وہاں سے انشاء اللہ تعالیٰ دوسری تار دی جائے گی۔ احباب جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے فکر سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ اِلَّا مَا شَاءَ اللہ بعض اشخاص کے جنہوں نے باوجود سفر اور بیماری کے نیش زنی سے پرہیز نہیں کیا۔ لیکن تھوڑے بہت تو ساری قوم میں ہی مجرم ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلص گروہ ہی جیتے گا۔ اور وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ میری بیماری کی وجہ سے انہیں سَر اٹھانے کا موقع مل گیا ہے ناکام و نامراد ہوں گے۔ اور خدا تعالیٰ مخلص حصہ کا ساتھ دے گا اور دن اور رات کے کسی حصہ میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے کراچی آنا بہت مفید ثابت ہؤا ہے اور یہاں یورپ کے علاج کے متعلق نہایت مفید مشورے حاصل ہوئے ہیں۔ اور ڈاکٹروں نے نہایت محبت سے علاج کے مثبت اور منفی پہلو سمجھا دئیے ہیں۔ اب صرف ایک تشخیص باقی ہے۔ ڈاکٹروں کی رائے یہ ہے کہ وہ تشخیص یورپ میں ہی ہو سکتی ہے۔ اور یہ کہ اگر وہ بھی تسلی دلانے والی ہو تو انشاء اللہ تعالیٰ بیماری کا کوئی حصہ بھی تشویشناک باقی نہیں رہے گا۔ بلکہ جب کل مَیں نے ایک مشہور اعصابی بیماریوں کے ماہر سے مشورہ لیا کہ اگر تشخیص کے بعد ڈاکٹر وہاں علاج تجویز کر دیں اور میں واپس آنا مفید سمجھوں تو کیا ان کے نزدیک باقی علاج کراچی میں ہو سکے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب مکمل تشخیص کے بعد نسخہ بھی وہ تجویز کر دیں تو اُن کی اجازت اور حالات کے مطابق اگر میں کراچی آ جاؤں تو بقیہ علاج وہ امید کرتے ہیں یہاں ہو سکے گا۔ مگر اس میں انحصار وہاں کے ڈاکٹروں کی رائے پر کرنا چاہیئے۔ اگر جماعت کے احباب کی دعائیں اللہ تعالیٰ سُن لے تو کوئی تعجب نہیں ایسی صورت نکل آئے کہ میں چند دن یا چند ہفتے اس وقت کے قیاس سے پہلے آ سکوں۔ وَ الْعِلْمُ عِنْدَ اللہِ۔گو زور اُن کا یہی ہے کہ وہاں کی آب وہوا سے فائدہ اٹھانا چاہیئے جو اِس مرض کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔ بعض علاجوں کے متعلق اُنہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ سخت تکلیف دہ ہیں۔ اگر وہاں کے ڈاکٹر وہ علاج تشخیص کریں تو اس سے انکار کر دیا جائے اور کہا کہ ہم یہ علاج کراچی میں کروا لیں گے جہاں یہ سب سامان موجود ہے۔ مگر ان کی رائے یہی ہے کہ ایسے سخت علاج کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اِنْشَاءَ اللہُ
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1955ء27-4- ''
(الفضل یکم مئی 1955ء)
● پیغام از کراچی مؤرخہ1955ء28-4-
'' میں نے آج بروز جمعرات 28/اپریل کو خواب میں دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں ۔ میرے ساتھ ایک اور شخص بھی ہے جس کو میں جاگنے کی حالت میں پہچانتا نہیں۔ میں نے دیکھا کہ اس مکان کے ایک کمرہ میں ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بیٹھے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو کچھ فارسی کے شعر سنا رہے ہیں۔ اور قرآن شریف کی تلاوت بھی کر رہے ہیں۔ مجھے ایسا معلوم ہؤا کہ قرآن شریف کی تلاوت شیخ یعقوب علی صاحب کر رہے ہیں۔ میں اوپر کی منزل سے اتر کر نیچے آیا اور ایک اَور شخص جو ان لوگوں کے پاس تھا اُس سے پوچھا کہ یہاں کیا ہو رہا تھا؟ اس نے کہا کہ ڈاکٹر سر اقبال مرحوم فارسی کے کچھ شعر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو سناتے تھے۔ اور شیخ یعقوب علی صاحب پرانے شعراء کے کچھ شعر سر اقبال کو سناتے تھے۔ جن کو سراقبال نے بہت پسند کیا اور شیخ صاحب کے پڑھنے کو بھی بہت پسند کیا۔ پھر شیخ یعقوب علی صاحب نے کچھ قرآن شریف پڑھ کر سر اقبال کو سنایا۔ میں نے کہا قرآن شریف پڑھنا سراقبال کو کیسا پسند آیا؟ اس شخص نے جواب دیا کہ شیخ صاحب کی آواز میں کچھ زیادہ خوبصورتی نہیں تھی اور سراقبال کو ان کی آواز کچھ زیادہ پسند نہیں آئی۔ اِس کے بعد آنکھ کھل گئی۔
رؤیا میں مَیں نے سر محمد اقبال صاحب مرحوم کو دیکھا بھی جیسا کہ آج سے چوبیس پچیس سال پہلے ان کی شکل ہوتی تھی۔ ویسی ہی ان کی شکل رؤیا میں دیکھی۔ رؤیا میں جب میں ابھی اوپر کے کمروں میں تھا میں نے دیکھا کہ سر محمد اقبال مرحوم نے ایک رقعہ میری طرف بھیجا۔ اُس کا مضمون یہ تھا کہ ہم اِس وقت فارسی کے شعر ایک دوسرے کو سنا رہے ہیں اور میں آپ کو یہ رقعہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ کسی زمانہ میں آپ کے خاندان کی زبان فارسی تھی (جیسا کہ فی الواقع تھی۔ عورتیں بھی گھر میں فارسی بولتی تھیں اور مرد خط وکتابت فارسی میں کرتے تھے۔) میں نے سمجھا کہ سر اقبال مجھ سے چاہتے ہیں کہ میرا بھی کوئی فارسی کلام ہو تو اُن کو بھجواؤں۔ میں اس رقعہ کو پڑھ کر سخت شرمندہ ہؤا اور میں نے کہا ہم لوگوں نے اپنی زبان کس طرح بُھلا دی ہے۔ میں نے تو فارسی میں شعر نہیں کہے ہوئے۔ اب میں ان کو کیا بھجواؤں۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول فارسی کے سخت مخالف تھے۔ گو مثنوی مولانا روم انہوں نے مجھے سبقاً پڑھائی۔ فرماتے تھے کہ میاں! مجھے فارسی سے بُغض ہے۔ کیونکہ فارسی نے عربی کی جگہ لے لی اور عربی دنیا سے مٹ گئی۔ اِس وجہ سے ہم لوگوں کو بھی فارسی پڑھنے کی طرف توجہ نہیں رہی۔ حالانکہ اردو عربی جاننے والے کے لئے فارسی کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی۔ چند مہینے میں اچھی فارسی سیکھ سکتا ہے۔ اگر میں اُن کے اِس قول سے اتنا متاثر نہ ہوتا تو کم از کم فارسی دان دنیا سے قریب ترین تعلق پیدا کر سکتا۔ ابھی تک کبھی کبھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے۔ فارسی کتاب پڑھ لیتا ہوں۔ مگر خود لکھنے بولنے کی مہارت نہیں۔
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
1955ء28-4- ''
(الفضل 3 مئی 1955ء)
● پیغام از دمشق مؤرخہ1955ء3-5-
'' دمشق 1955ء3-5-
عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ
آج دمشق آئے تیسرا دن ہے۔ ہوائی جہاز میں تو اس حادثہ کے سوا کہ اس کے کمبل گلو بند کی طرح چھوٹے عرض کے تھے اور کسی طرح بدن کو نہیں ڈھانک سکتے تھے خیریت رہی۔ سردی کے مارے مَیں ساری رات جاگا اور پھر وہم ہونے لگا کہ شاید مجھے دوبارہ حملہ ہوا ہے۔ چودھری ظفر اللہ خاں ساری رات مجھے کمبلوں سے ڈھانکتے رہے مگر یہ اُن کے بس کی بات نہ تھی۔ آخر جب میں بہت نڈھال ہو گیا تو میں نے چودھری صاحب کی طرف دیکھا جو ساتھ کی کُرسی پر تھے۔ تو اُن کا چہرہ مجھے بہت نڈھال نظر آیا اور مجھے یہ وہم ہو گیا کہ چودھری صاحب بھی بیمار ہو گئے ہیں اب یہ دو وہم جمع ہو گئے۔ ایک یہ کہ مجھ پر دوبارہ فالج کا حملہ ہو گیا اور ایک یہ کہ چودھری صاحب بھی بیمار ہو گئے۔ اس سے تکلیف بہت بڑھ گئی۔ آخر میں نے منور احمد سے کہہ کر نیند کی دوائی منگوائی۔ چودھری صاحب نے قہوہ منگوا کر دیا۔ وہ گرم گرم پیا۔ ایک ایسپرین کی پڑیا کھائی تو پھر جا کر نیند آئی اور ایسی گہری نیند آئی کہ جب چودھری صاحب صبح کی نماز پڑھ چکے تو میں جاگا۔ چودھری صاحب نے عذر کیا کہ آپ کی بیماری اور بے چینی کی وجہ سے میں نے آپ کو نماز کے لئے نہیں جگایا۔ بہرحال قضائے حاجات کے بعد کرسی پر نماز ادا کی اور پھر ناشتہ کیا۔ اتنے میں روشنی ہو چکی تھی۔ دور دور سے عرب اور شام کی زمینیں نظر آ رہی تھیں۔ بہرحال بقیہ سفر نہایت عمدگی سے کٹا اور ہم سات بجے دمشق پہنچ گئے۔ ایروڈ روم پر دمشق کی جماعت کے احباب تشریف لائے ہوئے تھے جو سب بہت اخلاص سے ملے۔ برادرم منیر الحصنی بھی جماعت کے ساتھ تشریف لائے ہوئے تھے۔ ایروڈ روم کے ہال میں جا کر بیٹھ گئے جہاں پاکستان کے منسٹر بھی چودھری ظفراللہ خاں صاحب کے ملنے کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ مستورات کے لئے برادرم سید بدرالدین حصنی جو منیر الحصنی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں کی مستورات تشریف لائی ہوئی تھیں وہ مستورات کو گھر لے گئیں پیچھے پیچھے ہم بھی پہنچ گئے۔ محبت اور اخلاص کی وجہ سے بدرالدین صاحب حصنی نے سارا گھر ہمارے لئے خالی کر دیا ہے۔ اِس وقت بھی ہم اس میں ہیں۔ جس محبت سے یہ سارا خاندان ہماری خدمت کر رہا ہے اِس کی مثال پاکستان میں مشکل سے ملتی ہے۔ برادرم سید بدرالدین حصنی شام کے بڑے تاجر ہیں۔ لیکن خدمت میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ خادم زیادہ نظر آتے ہیں رئیس کم نظر آتے ہیں۔ یہاں چونکہ سردی بہت ہے اور یورپ کی طرح Heating system نہیں ہے۔ مجھے سردی کی وجہ سے تکلیف زیادہ ہو گئی ہے۔ یہاں کے قابل ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ جس کے معائنہ کو دیکھ کر معلوم ہؤا کہ وہ واقعی قابل ہے۔ فرانس کا پڑھا ہؤا ہے۔ بعض امور جو تجربہ سے بیماری کو بڑھانے والے معلوم ہوتے تھے اُن کو اُس نے بڑی جلدی اخذ کر لیا۔ منور احمد نے بتایا کہ جب ہم ڈاکٹر کو فیس دینے لگے تو سید منیر الحصنی صاحب نے بڑے زور سے روکا۔ یہ ہمارا خاندان کا ڈاکٹر ہے ہم اس کو سالانہ فیس ادا کرتے ہیں اس کو فیس نہ دیں۔ اِس سے معلوم ہؤا کہ یہاں بھی بڑے خاندان یورپ کی طرح ڈاکٹروں کا ماہانہ یا سالانہ فیس ادا کرتے ہیں اور ہر دفعہ آنے پر الگ فیس نہیں دی جاتی۔ اب یہ پروگرام ہے کہ انشاء اللہ سات تاریخ کو ہم بیروت جائیں گے اور آٹھ کو اٹلی روانہ ہوں گے۔ چودھری صاحب انشاء اللہ ساتھ ہی ہوں گے۔ ان کی ہمراہی بہت تسلّی اور آسائش کا موجب رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔ دلوں میں ایسی محبت کا پیدا کرنا محض اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے انسان کی طاقت نہیں۔ اس لئے ہم اللہ تعالیٰ کے ہی شاکر ہیں کہ اس نے ہمارے لئے وہ کچھ پیدا کر دیا جو دوسرے انسانوں کو باوجود ہم سے ہزاروں گنے طاقت رکھنے کے حاصل نہیں۔ ایک دن یہاں بھی شدید دورہ ہؤا تھا۔ مگر خدا کے فضل سے کم ہو گیا۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ملک میں پہنچ کر جہاں Heating system ہوتا ہے بیماری کے ایک حصہ کو کافی فائدہ ہو گا۔ جو حملہ یہاں آ کر ہؤا وہ زیادہ تر دماغی تھا یعنی جسم پر حملہ ہونے کی بجائے دماغ پر لگتا تھا۔ بڑی سخت گھبراہٹ تھی۔ اُس وقت یہ دل چاہتا تھا کہ اُڑ کر اپنے وطن چلا جاؤں۔ مگر مجبوری اور معذوری تھی۔ ادھر علاج کا مقام بھی بہت قریب آ گیا تھا اِس لئے عقل کہتی تھی اب سفر کی غرض کو پورا کرو۔ شاید اللہ تعالیٰ کُلّی صحت ہی عطا فرما دے اور جسم آئندہ کام کے قابل ہو جائے۔ انشاء اللہ اب ہم آٹھ یا نو تاریخ کو تار یا خط کے ذریعہ سوئٹزرلینڈ سے اپنے حالات لکھیں گے۔ احباب دعاؤں میں مشغول رہیں۔ کیونکہ علاج کا مرحلہ تو اب قریب آ رہا ہے۔ اس سے پہلے تو سفر ہی سفر تھا۔ سب احباب جماعت احمدیہ اور عزیزوں اور رشتہ داروں کو سَلَامٌ عَلَیْکُمْ
مرزا محمود احمد ''
(الفضل 10 مئی 1955ء)
● پیغام بذریعہ تاراز زیورچ سوئٹزرلینڈ مؤرخہ1955ء19-5- برموقع عید الفطر
ترجمہ:
‘‘ پاکستان ، ہندوستان اور دنیا کے تمام احمدی بھائیوں کو عید مبارک ہو۔ میں ان سب کی مشکلات اور تکالیف کے دور ہونے اور روحانی ترقی کے لئے دعا کرتا ہوں۔
خلیفۃ المسیح ’’
(از زیورچ مؤرخہ 19 مئی)
(الفضل 22 مئی 1955ء)
● پیغام بذریعہ تاراز زیورچ سوئٹزرلینڈ مؤرخہ1955ء20-5- بوقت 11 بجے شب
'' خدا کا شکر ہے کہ تمام طبی ٹیسٹ مکمل ہو گئے ہیں اور بیماری متعیّن کر لی گئی ہے۔ مشہور معالج ڈاکٹر بوسیو (Dr. Bosio) نے رپورٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد آج اپنی تشخیص سے مطلع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خون اور شریانیں اور باقی ہر چیز معمول کے مطابق پائی گئی ہے۔ لیکن یہ کہ مجھے بہت زیادہ آرام کرنا چاہیئے۔ اور اگر ممکن ہو سکے تو مجھے یہاں کچھ زیادہ عرصہ قیام کرنا چاہیئے۔ پھر یہ کہ میری تقریریں زیادہ مختصر ہونی چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ گزشتہ سال حملے کے نتیجے میں جو زخم لگا تھا وہ خطرناک تھا اور یہ کہ سرجن کی رائے درست نہیں تھی۔ ایکسرے فوٹو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چاقو کی نوک گردن میں ٹوٹ گئی تھی جو اَب بھی اندر ہی موجود ہے۔ اور ریڑھ کی ہڈی (SPINAL CORD) کے قریب ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ جن خطرناک معائنوں سے بچنے کی کوشش کی جا رہی تھی اب ان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ میرا مکمل آرام دوستوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگردوست میری پوری طرح مدد کریں تو ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق میں کچھ مزید کام کر سکتا ہوں۔ لیکن اگر دوستوں نے تعاون نہ کیا تو خطرہ موجود ہے۔
خلیفۃ المسیح ''
(الفضل 24 مئی 1955ء)
● پیغام از زیورچ سوئٹزرلینڈ مؤرخہ1955ء22-5-
'' بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَ عَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ہُوَ النَّاصِرُ
زیورچ 22 مئی 1955ء
برادران! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
سالہا سال کی بات ہے میں نے خواب دیکھی تھی اور وہ اخبار میں کئی دفعہ چھپ بھی چکی ہے۔ میں نے دیکھا کہ میں کرسی پر بیٹھا ہوں اور سامنے ایک بڑا قالین ہے اور اُس قالین پر عزیزم چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب، عزیزم چودھری عبداللہ خاں صاحب اور عزیزم چودھری اسد اللہ خاں صاحب لیٹے ہوئے ہیں۔ سر اُن کے میری طرف ہیں اور پاؤں دوسری طرف ہیں اور سینہ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور میں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں۔ عزیزم چودھری ظفراللہ خاں صاحب نے ساری عمر دین کی خدمت میں لگائی ہے اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا۔ میری بیماری کے موقع پر تو اللہ تعالیٰ نے صرف ان کو اپنے بیٹا ہونے کو ثابت کرنے کا موقع دیا بلکہ میرے لئے فرشتہ رحمت بنا دیا۔ وہ میری محبت میں یورپ سے چل کر کراچی آئے اور میرے ساتھ چلنے اور میری صحت کا خیال رکھنے کے ارادہ سے آئے۔ چنانچہ ان کی وجہ سے سفر بہت اچھی طرح کٹا اور بہت سی باتوں میں آرام رہا۔ آخر کوئی انسان پندرہ بیس سال پہلے تین نوجوانوں کے متعلق اپنے پاس سے کس طرح ایسی خبر دے سکتا تھا۔ دنیا کا کون ساایسا مذہبی انسان ہے جس کے ساتھ محض مذہبی تعلق کی وجہ سے کسی شخص نے جو اتنی بڑی پوزیشن رکھتا ہو جو چودھری ظفراللہ خاں صاحب رکھتے ہیں اس اخلاص کا ثبوت دیا ہو۔ کیا یہ نشان نہیں؟ مخالف مولوی اور پیر گالیاں تو مجھے دیتے ہیں مگر کیا وہ اِس قسم کے نشان کی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں؟ کیا کسی مخالف اور پیر نے 20 سال پہلے کسی نوجوان کے متعلق ایسی خبر دی اور بیس سال تک وہ خبر پوری ہوتی رہی؟ اور کیا کسی ایسے مولوی اور پیر کی خدمت کا موقع خدا تعالیٰ نے کسی ایسے شخص کو دیا جو چودھری ظفراللہ خانصاحب کی پوزیشن رکھتا تھا؟ اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑے گا۔ اور ان کی محبت کو قبول کرے گااور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دے گا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی اس پر رشک کریں گے۔ کیونکہ وہ خدا شکور ہے اور کسی کا احسان نہیں اٹھاتا۔ اس نے ایک عاجز بندہ کی محبت کا اظہار کیا اور اس کا بوجھ خود اٹھانے کا وعدہ کیا۔ اب یقیناً جو اس کی خدمت کرے گا خدا تعالیٰ اس کی خدمت کو قبول کرے گا۔ اور دین و دنیا میں اُس کو ترقی دے گا۔ وہ صادقُ الوعد ہے اور رحمان و رحیم ہے۔ اب دو اڑھائی مہینے میں ہماری واپسی کا وقت قریب آ جائے گا۔ احباب دعا کریں کہ خیریت سے ہم پاکستان واپس آئیں اور وہاں بھی اللہ تعالیٰ ہر طرح خیریت کے سامان پیدا کرے۔ اِس وقت جب کہ میں یہ پیغام لکھوا رہا ہوں میری طبیعت بہت اچھی معلوم ہو رہی ہے۔ گو یہاں بارش بہت ہے مگر یہاں کی آب و ہوا نے بہت اچھا اثر میری طبیعت پر ڈالا ہے۔ اگر South میں جگہ مل جاتی تو شاید اس سے بھی اچھا اثر پڑتا۔ ممکن ہے آئندہ مختصر قافلہ کے ساتھ دس بارہ دن کے لئے پھر ڈاکٹری کے مشورہ کے لئے آنا پڑے۔ کیونکہ ڈاکٹر نے کہا ہے مجھے وقتاً فوقتاً دکھاتے رہو۔
(مرزا محمود احمد) ''
(الفضل 29 مئی 1955ء)
● ہالینڈ میں مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا ایک مکتوب
مولوی غلام احمد صاحب بشیر مبلغ انچارج ہالینڈ مشن نے ہالینڈ میں مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے کے متعلق 20 مئی 1955ء کو تفصیلی اطلاع حضور کی خدمت میں لکھی۔ اس کے جواب میں حضور نے درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا:۔
''جَزَاکَ اللہُ۔ مبارک ہو۔ آپ کو بھی اور سب احمدی نو مسلموں کو بھی۔ اللہ تعالیٰ چودھری صاحب کے لئے یہ خدمتِ عظیم بہت بہت مبارک کرے اور ثواب کا موجب بنائے۔ سچ وہی ہے جو سر عبدالقادر نے مسجد لندن کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا۔ ؂
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اللہ تعالیٰ نے چودھری صاحب کو مجھے آرام سے یہاں پہنچانے کی سعادت بخشی۔ اور اس کے بدلہ میں ان کو مسجد ہالینڈ کا سنگِ بنیاد رکھنے کی عزت بخشی۔ یہ وہ عزت ہے جو بہت بڑے بڑے لوگوں کو بھی نصیب نہ ہوئی ہو گی۔ ہم نئے سرے سے اسلام کا سنگِ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہونا کوئی معمولی عہدہ نہیں۔ آج دنیا اِس کی قدر کو نہیں جانتی۔ ایک وقت آئے گا جب ساری دنیا کے بادشاہ رشک کی نظر سے ان خدمات کو دیکھیں گے۔ پاکستان کے گورنر جنرل بھی کل سے آئے ہوئے ہیں۔ اور آج معلوم ہؤا ہے کہ اُن کی حالت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہے۔ اور ڈاکٹر امید کرتے ہیں کہ جلد اچھے ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو شفا دے کہ وہ بھی ایک کامیاب مردِ میدان ہیں۔ کروڑوں مسلمانوں کو ان کے ذریعہ فائدہ پہنچا ہے اور پہنچے گا۔ اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ان کو خیریت سے رکھے اور اُس کام کی تکمیل کا موقع بہم پہنچائے جو انہوں نے شروع کیا ہے۔
آپ کا فون پہنچا کہ ایک ڈرائیور ہے جو انگریزی، فرانسیسی اور جرمن جانتا ہے۔ ہمیں ڈرائیور کی سخت ضرورت ہے۔ اسے بھجوا دیں۔ اس دوست کا آنا ہمارے لئے آرام کا موجب ہو گا۔ خدا تعالیٰ اس کے لئے بھی زیادتیٔ ایمان کا موجب بنائے۔ اگر یہ شخص مل گیا اور ہمارے کام آتا رہا تو آپ کے لئے بھی بہت سے ثواب کا موجب ہو گا۔
اگر مکان جلد بن جائے تو آپ کی بیوی کو بھی اب اصرار ہے کہ مجھے جلد بھجوا دو۔ میں کوشش کروں گا کہ خدا تعالیٰ خیریت سے لے جائے تو میں اُن کو بھجوا دوں۔ اللہ تعالیٰ جلد ہالینڈ کے اکثر لوگوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق بخشے۔ اٰمِیْنَ ''
(الفضل 23 جون 1955ء)
● ہیمبرگ جرمنی میں خطاب (27 جون 1955ء)
‘‘لوکل جماعت کی طرف سے دعوتِ چائے کا انتظام کیا گیا، اس موقع پر ایڈریس کے جواب میں حضور نے ایک خاص ولولہ اور روحانی کیفیت کے ساتھ نصف گھنٹہ تک تقریر انگریزی میں فرمائی۔ جس میں احمدی احباب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ربوہ مرکزِ احمدیت کی تعمیر کی تفاصیل بیان فرمائیں کہ کس طرح ایک بنجر علاقہ جس میں صرف تین Tent ابتدا میں تھے خدا تعالیٰ نے ایک پُررونق شہر بسا دیا۔ حضور نے فرمایا ابتدا میں اُس جگہ پینے کا پانی نام کو نہ تھا اور وہاں کے پانی کو جب معائنہ کے لئے لاہور بھجوایا گیا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ پانی انسانوں کے لئے مُضِر ہے۔ حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اُس وقت الہاماً بتایا کہ یہاں میٹھا پینے کا پانی ضرور مہیا ہو گا۔ اوراب وہاں خدائی وعدہ کے مطابق پینے کے پانی کی کمی نہیں۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے اور احمدیت کی صداقت کا بیّن نشان ہے۔اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ جرمن قوم کا کریکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلدی تعمیر کر لیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد اسلام کو جو خود اِسی روح کو بلند کرنے کے لئے تعلیم دیتا ہے قبول کرے گی۔ حضور نے فرمایا کہ میں اُس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا پیروکار ہوں جس نے دنیا میں امن اور رواداری کو قائم کرنے کی پوری کوشش کی اور اپنے مخالفین جنہوں نے مسلمانوں کو تہہِ تیغ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا کو فاتح ہونے کی حیثیت میں کس طرح معاف کر دیا۔ حضور نے فرمایا کہ اسلام اِس رواداری کی تعلیم کا حامل ہے اور اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اسلام قومیت اور رنگ و نسل کی تمیز سے بالا ہے۔ اور دنیا میں عالمگیر برادری اور اخوت کو قائم کرنے کے لئے زریں اصول پیش کرتا ہے۔ ’’
(الفضل 15 جولائی 1955ء)
● جماعت ہیمبرگ جرمنی کی Guest Book پر نوٹ
“Dear Abdul Latif
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
Your success in Germany is wonderful and miraculous. You have won the hearts of German people and this could not be done by your efforts. It is surely God’s work. Some converts are wonderfully zealous in Islam and pure hearted. May God give you more and more converts and open the hearts of German people for Islam on your hands and help you to erect a fitting mosque in Hamburg and make it a centre for German people and specially German muslims Amen!
Europe is certainly going to be muslim as is foretold by promised messiah. As this prophecy is going to be fulfilled through you, it will be a great blessing for you and your family. May God bless the German muslims and increase their number to million to million and millions until they become majority in Germany.
Mirza. B. Mahmud Ahmad
‘‘1955ء28 June
ترجمہ:
عزیزم عبد اللطیف
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
جرمنی میں تمہاری کامیابی حیرت انگیز ہے اور معجزانہ رنگ رکھتی ہے۔ تم نے جرمنی کے رہنے والوں کے دلوں کو فتح کیا ہے۔ اور یہ کام صرف تمہاری کوششوں سے نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ یقینی طور پر خدا کا کام ہے۔بعض نو مسلم نہایت جوشیلے اور مخلص ہیں۔ خدا تعالیٰ تمہیں زیادہ سے زیادہ نو مسلم عطا فرمائے۔ اور تمہارے ذریعہ جرمنی کے لوگوں کے دل اسلام کے لئے کھول دے۔ اور خدا تعالیٰ تمہیں ہیمبرگ میں ایک موزوں مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس کو جرمنی کے تمام لوگوں کے لئے اور خاص طور پر یہاں کے نو مسلموں کے لئے ایک مرکز بنائے۔ اٰمین
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پیشگوئی کے مطابق یورپ یقینی طور پر اسلام کی طرف رجوع کر رہا ہے۔ چونکہ یہ پیشگوئی تمہارے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہے اس لئے یہ تمہارے لئے اور تمہارے خاندان کے لئے بہت بڑی برکت کا موجب ہوگی۔ خدا تعالیٰ جرمنی کے نو مسلموں کو اپنی برکات میں سے حصہ عطا فرمائے اور ان کو لاکھوں لاکھ کی تعداد میں بڑھاتا چلا جائے۔ یہاں تک کہ جرمنی میں ان کی کثرت ہو جائے۔ اٰمین
(دستخط) مرزا بشیر الدین محمود احمد
28 جون 1955ء ’’
(الفضل 15 جولائی 1955ء)
●لندن سے مکتوب بنام ایڈیٹر الفضل ربوہ مؤرخہ1955ء14-7-
'' مکرمی ایڈیٹر صاحب الفضل ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ
انگلستان آ کر پہلے طبیعت خراب ہو گئی تھی مگر آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہی ہے۔ مگر شدید نزلہ اور کھانسی جو شروع ہوئے تھے ابھی تک جاری ہیں۔ گو کچھ کمی کی طرف مائل ہیں۔ شکر ہے کہ کچھ دیسی دوائیں جن سے مجھے فائدہ ہوتا تھا، لندن میں مجھے مل گئیں اور کچھ نزلہ اور کھانسی کے جوشاندے ‘‘خدمتِ خلق’’ سے لے کر اختر صاحب نے لندن بھجوا دئیے ہیں۔ ابھی ملے نہیں۔ ملیں گے تو اُن کا استعمال کریں گے۔
آج تیرہ اور چودہ جولائی کے درمیان میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کمرہ گرم کرنے کی انگیٹھی ہے جیسی کہ ہندوستان میں مکانوں میں ہوتی ہے۔ صاف ہے۔ دیر سے اس میں آگ نہیں جلی اور اس کو صاف کر لیا گیا ہے۔ شاید یہ مطلب ہے کہ ہندوستان میں آج کل سخت گرمی ہے اور چھ مہینے سے وہاں انگیٹھیوں میں آگ نہیں جلتی۔ اس انگیٹھی پر میرا کوئی پوتا یا نواسہ پیٹ کے بل لیٹا ہؤا ہے۔ میں نے اپنے کسی بچہ کا بچہ اسے سمجھا اور اسے آواز دی کہ ادھر آؤ۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ بچہ تو ابھی بہت چھوٹا ہے یہ جواب کس طرح دے گا اور آئے گا کس طرح۔ پھر معاً خیال آیا کہ یہ میرے لڑکے انوراحمد کا بچہ احسن احمد ہے۔ میری آواز سن کر اُس نے اپنی ٹانگیں ٹیڑھی کر کے زمین پر رکھ لیں اور پھر میرے پاس آ گیا اور میں نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ شاید اِس خواب کی یہ تعبیر ہو کہ میرے کسی اَور بچہ کے ہاں لڑکا ہو۔ یا احسن کے لفظ سے یہ تعبیر ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے کامل صحت بخشے اور یہ اس کے فضل سے بعید نہیں ہے۔ وَالسَّلَامُ

مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
حال لندن
1955ء14-7- ''
(الفضل 21 جولائی 1955ء)
● پیغام از لندن بذریعہ تار مؤرخہ1955ء21-7-
'' (پٹنی۔لندن21 جولائی) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد کل پہلی مرتبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے لندن میں ایک نہایت اہم اور عظیم الشان کانفرنس شروع ہو رہی ہے۔ کانفرنس میں امریکہ، غرب الہند، افریقہ اور یورپ کے قریباً تمام اہم ممالک میں متعیّن احمدی مبلغین شامل ہوں گے۔
22 جولائی سے چودھری محمد ظفر اللہ خان بھی اس کانفرنس میں شامل ہو رہے ہیں۔
دوست کانفرنس کی نمایاں کامیابی اور اس کے وسیع ترین کامیاب نتائج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دردِ دل سے دعا کریں۔
(خلیفۃ المسیح) ''
(الفضل 24 جولائی 1955ء)
● پیغام از لندن بذریعہ تار مؤرخہ1955ء25-7-
''چکر آتے ہیں، کام کی وجہ سے طبیعت پر اثر ہے۔ ایک دو دن آرام کرنے سے انشاء اللہ طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔ کھانسی نزلہ میں کمی ہے گو پوری طرح آرام نہیں۔''
(الفضل 3؍اگست 1955ء)
● پیغام از لندن بذریعہ تار مؤرخہ1955ء29-7- برموقع عیدالاضحیہ
''تمام بھائیوں کو عید الاضحیہ مبارک ہو۔ میری صحت بفضلہٖ ترقی کر رہی ہے۔ لیکن قدرے بیماری ابھی باقی ہے۔ احباب دردِ دل کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ حقیقی عید کا دن بھی دکھائے جب کہ تمام مذاہب پر اسلام کو فتح نصیب
ہو گی۔'' (الفضل 3/ اگست 1955ء)
1 : تذکرہ صفحہ 50 ایڈیشن چہارم
2: رائی کائی: ریزہ ریزہ ۔ چُورا چُورا۔
3: عَرَضی: وہ بیماری جو کسی دوسرے مرض کے سبب سے ہو۔ جیسے دردِ سر جو بخار کی وجہ سے ہو۔







سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں نمائندگان جماعت سے خطاب



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں
نمائندگان جماعت سے خطاب

(فرمودہ 7ستمبر1955ء )

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘چونکہ اِس وقت یہاں تمام جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں اس لئے میں کچھ ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں جو اُن ڈاکٹروں کی آراء کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جنہوں نے ولایت میں مجھے دیکھا۔ یوں تو یورپ کے کئی ڈاکٹروں نے مجھے دیکھا ہے چنانچہ جرمن ڈاکٹروں نے بھی دیکھا ہے اور انگریز ڈاکٹروں نے بھی دیکھا ہے لیکن اصل علاج ڈاکٹر روسئی کا تھا جو زیورک کے یونیورسٹی ہاسپٹل کے میڈیکل ڈائریکٹر ہیں۔ پہلے بھی انہوں نے مجھے کہا تھا مگر چلتے وقت انہوں نے خصوصیت سے کہا کہ یہ بات میں ایک بار پھر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک معیّن طاقت رکھی ہے اور اُسی کے مطابق اُسے کام کرنا چاہیئے۔ آپ نے اپنی گزشتہ عمر میں نارمل کنڈیشن سے ڈیڑھ سو فیصدی زیادہ کام کیا ہے اب میں آپ کی بیماری کی آخری حالت کو دیکھ کر یہ تو نہیں کہتا کہ آئندہ آپ بالکل کام نہ کریں مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ایک حد تک کام کریں اس سے زیادہ نہیں۔ اگر پہلے آپ نارمل کنڈیشن سے ڈیڑھ سو فیصدی زیادہ کام کر چکے ہیں تو اب ایک نارمل آدمی کے نارمل کام کا زیادہ سے زیادہ سو فیصدی کر لیں اس سے زیادہ کام ایک تندرست آدمی بھی برداشت نہیں کر سکتا اور آپ پر تو بیماری کا ایک خطرناک حملہ ہو چکا ہے۔ یوں جہاں تک بیماری کے ظاہری حالات اور علامات کا تعلق ہے اس نے کہا کہ میری اب پوری تسلی ہے کہ وہ علامات دور ہو چکی ہیں اور آپ کو بھی اطمینان رکھنا چاہیئے اور اس بارہ میں کسی قسم کی تشویش یا اضطراب آپ کو نہیں ہونا چاہئے۔ بیماری کے ظاہری حالات جو ہر شخص کو دکھائی دیتے ہیں یہی ہوتے ہیں کہ ہاتھوں کی طاقت میں نقص آ جاتا ہے، پاؤں کی طاقت میں نقص آ جاتا ہے اور انسان بے کار ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان علامات کے لحاظ سے اس نے کہا کہ جو ترقی کا پہلا دَورتھا وہ کامیابی کے ساتھ گزر گیا ہے اور اب ان شکایات میں سے کوئی شکایت آپ کے اندر نہیں پائی جاتی۔ چنانچہ اس نے کہا کہ آپ جس ڈاکٹر کو چاہیں دکھا لیں مگر اسے بتائیں نہیں کہ آپ پر بیماری کا کوئی حملہ ہو چکا ہے تو وہ آپ کو دیکھ کر یہی کہے گا کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں۔ لیکن پھر بھی اس نے کہا کہ آپ اس امر کو نہ بھولیں کہ ایک تندرست چیز جتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے ایک دفعہ ٹوٹنے کے بعد وہ اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ آپ کو اب زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ آرام کریں، طبیعت کو خوش رکھیں اور اس پر کسی قسم کا بوجھ نہ ڈالیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی صحت میں جو ترقی ہو رہی ہے اُس کی رفتار کم ہو جائے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ میں ڈاکٹری طور پر آپ کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ آپ اس بیماری کے بعد بھی بڑا کام کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اس نے کہا میں اس کا ایک متوازی کیس آپ کو بتاتا ہوں اس سے آپ سمجھ لیں کہ نارمل کنڈیشن میں اگر آپ عمر بھر بھی کام کرتے رہیں تو آپ کو کسی تشویش کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد اس نے ایک مشہور ڈاکٹر سائنسدان پیسٹیور(PASTEUR)کا ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ جَرم (GERM) تھیوری اس نے نکالی تھی اور اس کے علاوہ بھی اس نے کئی ایجادات کیں۔ اُس پر قریباً آپ ہی کی عمر میں فالج کا حملہ ہؤا اور اُس کابایاں پہلو سارے کا سارا مارا گیا تھا۔ اُس کا پوتا میرا دوست تھا اور وہ خود بھی ڈاکٹر تھا اس نے بتایا کہ اس حملہ کے بعد وہ تیس سال تک زندہ رہا اور اس نے جتنی ایجادیں کی ہیں وہ سب کی سب اِسی تیس سالہ زندگی میں کی ہیں۔ اس لئے آپ کو یہ وہم نہیں کرنا چاہئے کہ آپ کسی قسم کا کام نہیں کر سکتے۔ ہاں یہ ضروری بات ہے کہ آپ مناسب حد تک کام کریں اورزیادہ بوجھ اپنے آپ پر نہ ڈالیں۔ میں جب زیورک سے لندن گیا تو وہاں میں نے اپنے ماموں زاد بھائی سیدمحمود احمد سے کہا کہ تم میوزیم میں جاؤ اور کتابیں دیکھ کر معلوم کرو کہ ڈاکٹر پیسٹیور (PASTEUR)کب پیدا ہؤا تھا اور کب فوت ہؤا اور کس عمر میں اُس پر فالج کا حملہ ہؤا تھا؟ اُس نے کتابیں دیکھیں تو معلوم ہؤا کہ 1812ء میں وہ پیدا ہؤا تھا اور 1895ء میں 83 سال کی عمر میں فوت ہؤا اور 56 سال کی عمر میں اس پر فالج کا حملہ ہؤا تھا۔ گویا فالج کے حملہ کے بعد وہ 27 سال زندہ رہا۔ واپسی پر زیورک میں ڈاکٹر روسئی سے میں نے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگا کہ اس کا پوتا میرا دوست تھا اور اس نے مجھے کہا تھا کہ بیماری کے بعد وہ تیس سال زندہ رہا۔ ممکن ہے اس بارہ میں میری یاد داشت کی غلطی ہو اور اُس نے ستائیس سال کہا ہو اور مجھے تیس سال یاد رہا ہو۔ بہرحال وہ بیماری کے بعد ایک لمبے عرصے تک زندہ رہا اور اُس نے جتنی ایجادات کیں وہ سب کی سب اِسی عمر میں کی ہیں۔ پھر میں نے انسائیکلوپیڈیا دیکھی تو اُس میں سے بھی یہ نکل آیا کہ اس نے جتنی ایجادیں کی ہیں سب فالج کے حملہ کے بعد ہی کی ہیں۔ پس اس نے کہا کہ آپ بے شک کام کریں لیکن فکر اور تشویش کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔ اس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ کمزوری بھی جاتی رہے گی اور جسم میں پوری طرح طاقت آ جائے گی۔ چلتے وقت بھی اس نے یہی کہا کہ جہاں تک بیماری کاحملہ تھا وہ جاتا رہا اب صرف کمزوری پائی جاتی ہے جو آہستہ آہستہ دور ہو جائے گی۔ مگر اصل چیز جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ کام بے شک کریں لیکن ایک نارمل آدمی کے نارمل کام کا زیادہ سے زیادہ سو فیصدی کر لیں اِس سے زیادہ نہیں۔
ایک اَور ڈاکٹر کرائین بُل (KRAYEN BULL) جو زیورک کے بڑے ہسپتال کے ماہر نیورولجسٹ (NEUROLOGIST) ہیں اور بوسٹن امریکہ میں لیکچر دینے جایا کرتے ہیں انہوں نے میرا معائنہ کیا تو انہوں نے بھی کہا کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں۔ بلکہ انہوں نے ایک فقرہ ایسا کہہ دیا جو مجھ پر گراں گزرا اور میں نے سمجھا کہ یہ تو خدائی کا دعویٰ کرنے والی بات ہے۔ انہوں نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ میں تو کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ آپ نارمل حالت میں اَور چالیس سال کیوں کام نہیں کر سکتے۔ اُن کی یہ بات مجھے اچھی نہ لگی اور میں نے سمجھا کہ یہ خدائی میں دخل دینے والی بات ہے۔ اب واپسی پر پھر ایک دفعہ میں اُن کے پاس گیا تو وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے I want to tell you something be optimistic, be optimistic.
ایک انگریز ڈاکٹر سر چارلس سائمنڈ تھا اسے لندن میں دکھایا گیا تو اس نے کہہ دیا کہ یہ دراصل معدی آرٹری(ARETRY) کا تھرمبوسس (THROMBOSIS) تھا۔ اس سے بڑی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور ڈاکٹر روسئی کو فون کیا گیا اس نے سن کر بڑے جوش سے کہا کہ میں حیران ہوں ڈاکٹر سائمنڈ نے یہ رائے کس طرح دے دی ہے۔ میں نے خود اس آرٹری کا معائنہ کیا تھا اور وہ بالکل ٹھیک چل رہی تھی۔ چنانچہ آتی دفعہ مَیں پھر ڈاکٹر روسئی کے پاس گیا تو اس نے اپنی کاپی نکالی اور اس کے صفحات الٹ کر دکھایا کہ دیکھئے میں نے اُس وقت اپنی کاپی میں نوٹ کر لیا تھا کہ یہ آرٹری میں نے دیکھی ہے اوربالکل ٹھیک ہے اس میں کسی قسم کا نقص نہیں۔ بلکہ اس نے کہا کہ سب سے پہلے ہم اس آرٹری کا معائنہ کیا کرتے ہیں اس لئے ڈاکٹر چارلس سائمنڈ نے جو رائے دی ہے وہ قطعاً غلط ہے۔ اِس طرح لندن میں ڈاکٹر رسل برین کو دکھایا گیا جو شاہی خاندان کا بھی ڈاکٹر ہے۔ لاہور کے ڈاکٹروں نے مجھے کہا تھا کہ آپ اُسے ضرور دکھائیں۔ گو اُس کے پاس خطابات نہیں ہیں مگر بہت ہوشیار ڈاکٹر ہے۔ اسے ہم نے بتایا نہیں کہ چارلس سائمنڈ نے کیا رائے دی تھی مگر اس نے بھی یہی کہا کہ یہ آرٹری بالکل ٹھیک چل رہی ہے۔ پھر زیورک میں واپسی پر ڈاکٹر کرائین بُل (KRAYEN BULL) نے بھی میرا معائنہ کیا۔اُس نے پشت کی طرف کھڑے ہو کر جب آرٹری کی حرکت کو محسوس کیا تو مرزا منور احمد نے مجھے بتایا کہ یورپین طریق کے مطابق وہ کندھا مار کر مسکرایا اور کہنے لگا سر چارلس سائمنڈ نہایت قابل آدمی ہیں مگر میں حیران ہوں کہ انہوں نے یہ رائے کس طرح دی ہے۔ اس بیماری کی صرف یہی ایک علامت نہیں بلکہ اَور بھی بہت سی علامات ہوتی ہیں جو ان میں نہیں پائی جاتیں۔ ڈاکٹر روسئی نے بھی یہی کہا کہ ایسے مریض میں بعض اَور بھی علامتیں پائی جاتی ہیں جو آپ میں موجود نہیں۔ بہرحال اُن کی رائے یہ تھی کہ عام حالات میں اب یہ بیماری زندگی کے لئے خطرناک نہیں ہے مگر اس کے لئے سب سے زیادہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ پورا آرام کیا جائے اور فکر اور تشویش کو اپنے قریب نہ آنے دیا جائے۔ ڈاکٹر چارلس سائمنڈ نے تو یہ کہا تھا کہ آپ چلیں پھریں بھی کم اور اگر کچھ دیر چلیں تو فوراً دو گھنٹہ کے لئے لیٹ جائیں مگر اَور سب ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ بے شک چلیں پھریں اور کام بھی کریں لیکن ایک حد تک، اور یہ مدنظر رہے کہ تھکان نہ ہو۔ پس ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت چلنا پھرنا میرا علاج ہے مگر ہمارے ملک میں عام طور پر جب لوگ کسی کو چلتا پھرتا دیکھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ اب وہ پوری طرح تندرست ہو گیا ہے اب ہمیں اس سے کام لینا چاہیئے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ بیماری کا علاج کیا جا رہا ہے اور اگر چلیں پھریں گے نہیں تو بیماری بڑھے گی۔ بلکہ وہ چلتے پھرتے دیکھ کر فوراً ملاقات کے لئے آ جائیں گے۔ ایسے موقع پر اگر انکار کر دیا جائے تو دوستوں کو تکلیف ہوتی ہے اور میری طبیعت بھی ایسی ہے کہ دوسروں کے خیال سے میں بسا اوقات اپنے نفس پر بوجھ برداشت کر لیتا ہوں جو بعد میں میرے لئے تکلیف کا موجب ہو جاتا ہے۔
پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ دوستوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دیں کہ ہمارے ملک میں بعض چیزیں تندرستی کی علامت سمجھی جاتی ہیں حالانکہ وہ تندرستی کی علامت نہیں بلکہ مرض کو کم کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں اس لئے چلتے پھرتے دیکھ کر انہیں مجھ پر زیادہ بوجھ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ میں نے ڈاکٹروں سے یہ بھی پوچھا کہ میرے لئے کیسی آب و ہؤا مفید ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ کے لئے ایسی جگہ مفید ہے جہاں نہ زیادہ ٹھنڈک ہو اور نہ زیادہ گرمی گویا معتدل آب و ہوا ہو۔ میں جب قادیان میں تھا تو صحت کی بحالی کے لئے عموماً ڈلہوزی چلا جایا کرتا تھا۔ اُس وقت بھی بعض لوگ اعتراض کر دیا کرتے تھے اور میرے کانوں میں اس قسم کی آوازیں آیا کرتی تھیں کہ سیر کے لئے وہاں چلے جاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ انہیں نہ تو اتنا کام کرنا پڑتا ہے جتنا مجھے کام کرنا پڑتا ہے اور نہ ان کی صحت اتنی کمزور ہے جتنی میری کمزور ہے۔ وہ بجائے میرے کام اور میری صحت پر قیاس کرنے کے اپنے کام اور اپنی صحت پر قیاس کر کے مجھ پر اعتراض کر دیا کرتے تھے۔ ربوہ آنے کے بعد بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ مری چلے جایا کریں مگر چونکہ اُس وقت ایک نئے مرکز کی تعمیر ضروری تھی اس لئے میں باہر نہیں جاتا تھا نتیجہ یہ ہؤا کہ میری صحت کمزور ہوتی چلی گئی۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ اَن پڑھ آدمی کے منہ سے بھی بڑے پتہ کی بات نکل جاتی ہے۔ بیماری کے حملہ سے آٹھ دس دن پہلے مجھے ایک زمیندار دوست نے لکھا کہ آپ کو پتہ ہے پہلے آپ جلسہ سالانہ کے معاً بعد اپنے گھر کے افراد کو ساتھ لے کر دریا پر چلے جایا کرتے تھے اور چند دن وہاں گزار آتے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ آپ سارا سال اچھے رہتے۔ اب آپ جلسہ سالانہ کے بعد گھر پر ہی رہتے ہیں اور میں ہمیشہ دیکھتا ہوں کہ آپ جلسہ کے بعد ہی بیمار ہوتے ہیں اس لئے آپ کو اپنی صحت کی بحالی کے لئے ضرور کہیں جانا چاہیئے۔ میں نے سمجھا کہ یہ آدمی اگرچہ اَن پڑھ ہے مگر خداتعالیٰ نے اسے عقل دی ہے اور اس نے بڑے پتہ کی بات کہی ہے۔ چنانچہ چند دن کے بعد ہی مجھ پر بیماری کا حملہ ہو گیا۔ بہر حال وہ وقت تو گزر گیا بیماری آئی اور چلی گئی لیکن آئندہ کے لئے بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہماری مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کہتے ہیں کہ کوئی مرغی سونے کا انڈہ دیا کرتی تھی۔ اس کے مالک نے اسے دوگنی خوراک دینی شروع کر دی تا کہ ایک کی بجائے دو انڈے وہ روزانہ دیا کرے مگر اِس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ مرغی مر گئی اور وہ ایک انڈہ بھی جاتا رہا۔ اگر واقع میں جماعت نے مجھ سے کوئی کام لینا ہے تو آئندہ اسے بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا پڑے گا تا کہ مجھ پر زیادہ بار نہ پڑے۔ اب بھی بیماری کے حملہ کے بعد سب ڈاکٹروں نے ہمارے ڈاکٹروں کو ملامت کی کہ کیوں انہوں نے وقت پر مجھے کام کرنے سے نہ روکا۔ اِس غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے انہوں نے اپنے فرض کو بھی ادا نہ کیا اور دوسروں کو بھی تکلیف میں ڈالا۔ کرنل الٰہی بخش صاحب جب مجھے دیکھنے آئے تو انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے ڈاکٹروں پر سخت غصہ آتا ہے کہ کیوں انہوں نے آج سے سولہ سال پہلے آپ کو کام کرنے سے نہیں روک دیا۔ اگر وہ روک دیتے تو اس بیماری کا حملہ نہ ہوتا۔ پھر انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی چالیس سالہ پریکٹس میں جتنی اچھی آرٹریز آپ کی دیکھی ہیں اتنی اچھی آرٹریز آپ سے سولہ سال کم عمر والوں کی بھی میں نے نہیں دیکھیں۔ پس یہ بیماری آپ کو ہِلا ہی نہیں سکتی تھی اگر ذرا بھی احتیاط سے کام لیا جاتا۔ بیماری کے حملہ کے وقت میری عمر چھیاسٹھ سال تھی۔ انہوں نے کہا کہ پچاس سالہ عمر والے آدمیوں کی آرٹریز بھی میں نے اپنی چالیس سالہ پریکٹس میں اتنی اچھی نہیں دیکھیں جتنی آرٹریز آپ کی اچھی ہیں۔ اس لئے اگر احتیاط سے کام لیا جاتا تو یہ ناممکن تھا کہ آپ پر اس بیماری کا حملہ ہو جاتا۔
اس بیماری کا دوسرا اثر میری بینائی پر پڑا ہے کیونکہ اس بیماری کا حملہ میری دائیں آنکھ کے بائیں کونے پر ہؤا تھا مگر اوپر کے کونہ پر نہیں بلکہ نچلے کونہ پر۔ ڈاکٹر روسئی نے پہلے بھی میری آنکھ کا معائنہ کیا تھا اور اب پھرآتی دفعہ میں نے معائنہ کروایا ہے۔ دوسرے معائنہ پر اس نے کہا ہے کہ آپ کی نظر پہلے سے کافی ترقی کر چکی ہے۔ پہلے تو میں ایک دو سطر بھی نہیں پڑھ سکتا تھا مگر اب خطوط پڑھ لیتا ہوں اور اخبار پڑھنے کی بھی میں کوشش کرتاہوں۔ مگر دو تین صفحوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکتا کیونکہ پڑھتے پڑھتے نگاہ گھبرانے لگتی ہے اور بعض جگہ نظر اُچٹ کر دوسرے مقام پر جا پڑتی ہے.........٭ مجھے اس بارہ میں وضاحت کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ دوستوں کو ابھی احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے صحت ہے مگر ہمارے ملک میں تعلیم اتنی کم ہے کہ جب کسی کے متعلق وہ یہ سنیں کہ اسے صحت ہو گئی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اب وہ عام آدمی سے پانچ سو گنا زیادہ کام کر سکتا ہے حالانکہ اس کے صرف اتنے معنی ہوتے ہیں کہ وہ عام آدمی سے دو سو حصہ کم کام کر سکتا ہے۔ اِسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ ابھی صحت اچھی نہیں تو اس سے دوستوں کو صدمہ پہنچنے کا ڈر ہوتا ہے اور یہ بھی خیال آتا ہے کہ دشمنوں کے لئے خوشی کا موقع پیدا ہو جائے گا۔ گویا دونوں
پہلوؤں کے لحاظ سے ہمارے لئے دقّت ہوتی ہے۔ اگر چپ رہیں تب مشکل اور اگر بولیں
٭ مسودہ میں اِس جگہ چند الفاظ واضح نہیں۔
تب مشکل۔ اگر یہ کہا جائے کہ بالکل اچھے ہیں تو یہ جھوٹ بن جاتا ہے اور اگر کہا جائے کہ طبیعت اچھی نہیں تو اس سے دوستوں کو صدمہ پہنچنے کا ڈر ہوتا ہے۔ اور پھر بعض لوگ پوچھتے بھی ایسے وقت ہیں جب طبیعت خراب ہوتی ہے۔ اُس وقت مجبوراً یہی کہنا پڑتا ہے کہ طبیعت اچھی نہیں اور یہ سن کر انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ اور اگر دوسرے وقت یہ کہا جائے کہ طبیعت اچھی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ کام کے بالکل قابل ہیں ان پر جس قدر بوجھ ڈالا جا سکتا ہے ڈال دینا چاہئے۔ جیسے بیمار بیل اگر ذرا بھی منہ ہِلادے تو زمیندار اُس پر ہل رکھ دیتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹری مشورہ یہی ہے کہ میں آرام کروں اور کسی قسم کا فکر اپنے قریب نہ آنے دوں۔ دوستوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کو یہ باتیں اچھی طرح سمجھا دیں۔ ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کا فاتح بنایا ہے اور فاتح بننے والی جماعت کے افراد کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ فاتحین والا علم بھی ان میں دیا جائے۔
حضرت خلیفہ اوّل مجھے طب پڑھایا کرتے تھے ۔ مجھے خوب یاد ہے آپ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ جماعت کے امام کے لئے طب پڑھنا بھی نہایت ضروری ہے۔ آپ کی عادت تھی کہ آپ ایسی طرز پر بات کرتے تھے کہ کسی کو معیوب بھی نہ لگتی اور بات بھی ہو جاتی۔ آپ بجائے یہ کہنے کے کہ تمہارے لئے یہ مقدر ہے کہ تم ایک دن جماعت کے امام بنو یوں فرمایا کرتے تھے کہ جماعت کے امام کے لئے طب پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے ایسے کام لے جو اُن کی طاقت سے باہر ہوں اور اس طرح انہیں نقصان پہنچا دے۔ ہماری جماعت نے بھی جب دنیا کو فتح کرنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔
چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے اِس دفعہ کہا کہ آپ ایک احسان یہ کریں کہ ربوہ پہنچ کر ناظروں کیلئے یہ بات لازمی کر دیں کہ وہ دس پندرہ دن چُھٹی لے کر کسی پہاڑی مقام پر گزارا کریں۔ اور یہ بات اُن کیلئے اختیاری نہ ہو بلکہ اُنہیں مجبور کر کے بھیجا جائے ورنہ ان کی صحتیں بالکل تباہ ہو جائیں گی۔ میاں بشیر احمد صاحب بھی بیمار رہتے ہیں اور اس طرح دوسروں کی صحتیں بھی گر رہی ہیں اس کا علاج یہی ہے کہ ہر ناظر کو پندرہ بیس دن کی لازمی طور پر چُھٹی دی جائے اور اُس کا فرض قرار دیا جائے کہ وہ ان ایام میں کوئی کام نہ کرے اور تبدیلیٔ آب و ہؤا کے لئے کسی صحت افزا مقام پر چلا جائے۔ امریکہ میں یہ حالت ہے کہ خطرناک موقعوں پر بھی جب سارے ملک میں شور پڑا ہؤا ہوتا ہے امریکہ کا پریذیڈنٹ جہاز میں بیٹھ کر سیر کے لئے نکل جاتا ہے اور وہ اِس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا کہ ملک کا کیا بنے گا۔ پچھلی دفعہ بھی جب جنگ کے خطرات تھے وہ جہاز میں بیٹھ کر سیر کے لئے نکل گیا۔ اس پر ملک میں بڑا شور اٹھا مگر بڑے طبقہ نے پریذیڈنٹ کی تائید کی اور کہا کہ اگر وہ اپنے دماغ کو سکون نہیں پہنچائیں گے تو ملک کا کام کس طرح کر سکیں گے۔ پس سیر بھی اپنی ذات میں بیماری کے علاج کا ایک اہم حصہ ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ میرا اصل علاج ڈاکٹر روسئی نے کیا۔ اس نے بیس دن مسلسل میرا معائنہ کیا اور میرے لئے علاج تجویز کیا۔ مگر بیس دن معائنہ کرنے کے بعد اس نے ہم سے صرف ساڑھے آٹھ سَو فرانک لئے جو بہت کم فیس تھی۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ کچھ اَور فیس لے لے مگر اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس سے زیادہ نہیں لے سکتا۔ اب بھی جب میں واپسی پر زیورک پہنچا تو وہ چُھٹی پر تھا مگر جب میرا پیغام پہنچا تو وہ کہنے لگا کہ وہ بے شک آ جائیں میں نے انہیں بہرحال دیکھنا ہے۔ چنانچہ چُھٹی کے باوجود وہ دیکھنے کے لئے آ گیا حالانکہ اُس کی سیکرٹری اُس وقت رخصت پر تھی اور وہ نہیں آئی۔ میں جب نیورمبرگ(NUREMBERG) میں گیا تو چونکہ ڈاکٹر روسئی نے کہا تھا کہ کبھی کبھی اپنا معائنہ ڈاکٹروں سے کراتے رہا کریں اس لئے مجھے خیال آیا کہ یہاں بھی کسی کو دکھا لینا چاہئے۔ وہاں آرلنگن یونیورسٹی کے اعصابی بیماریوں کے ایک بہت بڑے ماہر ڈاکٹر فلوگل ہیں ہم نے انہیں فون کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ بارہ بجے آ جائیں میں اس سے پہلے ایک اَور بیمار کو دیکھنے کے لئے جا رہا ہوں۔ ہم بارہ بجنے سے کچھ دیر پہلے وہاں پہنچ گئے۔ ڈاکٹر فلوگل اس وقت 135 میل دور کسی مقام پر گئے ہوئے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ بمبارڈ منٹ سے وہ یونیورسٹی اِس طرح تباہ ہو چکی تھی کہ اُس میں کمرہ کمرہ کے برابر گڑھے پڑے ہوئے تھے اور دیواروں میں بھی بڑے بڑے خلا تھے۔ جب ہم اندر گئے تو کمرہ کے اندر ایک دو ٹوٹی ہوئی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں اور ایک ردّی سی چارپائی بچھی تھی مگر اُس پر جو ڈاکٹر بیٹھے کام کر رہے تھے وہ اِس طرح ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا گویا اُن کا کوئی عید کا دن ہے۔ مجھے بھی ایک ادنیٰ سی کرسی پر بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر فلوگل بڑی تیزی سے اپنا موٹر دوڑاتے ہوئے 135 کلومیٹر سے وہاں پہنچا اور آتے ہی بغیر سانس لیے اس نے مجھے اشارہ کیا اور چارپائی پر لٹا کر اس نے میرا معائنہ شروع کر دیا۔ معائنہ کرنے کے بعد ہم نے اسے فیس پیش کی تو اس نے فیس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ مذہبی لیڈر ہیں اس لئے میں ان سے کوئی فیس نہیں لوں گا۔ منور نے ان سے کہا کہ آپ نے ہماری خاطر بڑی تکلیف اٹھائی ہے آپ کچھ نہ کچھ فیس ضرور قبول کر لیں مگر اس نے پھر بھی فیس نہیں لی۔ پھر میں نے اس کے سیکرٹری سے کہا اور اس نے فیس کے لئے کہا تو ڈاکٹر فلوگل نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ میں نے ایک دفعہ جو کہہ دیا ہے کہ میں فیس نہیں لوں گا۔ پھر ہم نے اپنے مبلغ کے ذریعے انہیں کہلوایا کہ ہم پاکستان سے صرف علاج کرانے کے لئے یہاں آئے ہیں اور روپے خرچ کر رہے ہیں آپ بھی فیس لے لیں۔ مگر اُس نے پھر بھی یہی کہا کہ یہ مذہبی لیڈر ہیں میں نے ان سے کچھ نہیں لینا۔ غرض پندرہ بیس منٹ تک کوشش کی گئی مگر اس نے فیس نہیں لی۔ وہاں سے ہم ہمبرگ پہنچے تو وہاں ڈاکٹر یُنکر کو دکھایا گیا۔ یہ اتنا مشہور ڈاکٹر ہے کہ امریکہ سے بھی لوگ اس کے پاس علاج کرانے کے لئے آتے ہیں مگر اس نے بھی فیس نہیں لی۔ اُسے بہتیرا کہا گیا کہ فیس لے لیں مگر اُس نے بھی فیس لینے سے انکار کر دیا۔ چاقو کی نوک جو اندر رہ گئی تھی اُس کے متعلق اس نے کہاکہ بے شک نوک اندر موجود ہے مگر نیچر نے اسے کَور (COVER) کر دیا ہے اس لئے اب اسے نکالنا مناسب نہیں۔ اگر اسے نکالا گیا تو ساری ریڑھ کی ہڈی کاٹنی پڑے گی اور یہ خطرناک چیز ہے۔ اس لئے نوک کے بارہ میں کوئی فکر نہ کریں قدرت نے خود بخود اس پر جھلی بنا دی ہے اس لئے اب وہ جسم کے لئے خطرناک نہیں رہی۔ پھر یہ خیال کر کے کہ کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مَیں ٹلا رہا ہوں کہنے لگا کہ مَیں ٹلا نہیں رہا۔ اگر میرے باپ کے جسم کے اندر بھی یہ نوک ہوتی تو میں اُس کا آپریشن کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا کیونکہ قدرت نے خود اس کو کَور(COVER) کر دیا ہے۔ اس نوک کو نکالنے کے یہ معنے ہیں کہ ساری پیٹھ کاٹ دی جائے اور یہ میں نہیں کر سکتا۔ بہرحال اس نے بھی میرے مذہبی لیڈر ہونے کی وجہ سے ہم سے فیس نہیں لی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر مذہب کی طرف رجحان پایا جاتا ہے اور وہ مذہبی لوگوں کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔’’
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)




افریقن احمدیوں کے نام
انقلاب آفرین پیغام









از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین پیغام

حضور نے قیامِ پاکستان کے بعد براہِ راست افریقن احمدیوں کے نام بھی ایک نہایت اُمید افزا پیغام دیا جو رسالہ ‘‘The Review of Religions’’ کے ستمبر 1955ء کے ایشوع میں چھپا۔ یہ پیغام MR. J.C.AL-HASN ATTA پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ اشانٹی ریجن (کماسی۔ غانا) کے توسط سے ارضِ بلال تک پہنچا اور اُس نے افریقن احمدیوں میں زبردست بیداری پیدا کر دی۔ اس انقلاب آفرین پیغام کے الفاظ یہ تھے:۔
“I am reading the writing on the wall that there is a great future for your race. God does not forsake a race for all the times to come. Sometime, He gives opportunity to one nation and one continent and then He offers the same opportunity to another nation and another continent. Now is your time. You have been oppressed and ruled by others for a very long time. Rest assured that your glorious time is fast approaching. People were made to think that yours is an inferior race. I can say about myself that in my young age, when I used to read books, in English I used to think about your race as inferior one. But when I grew up and read the traditions and the Holy Quran, I came to know that it was all wrong. God has not made an exception of your people. God mentions all races and nations as equals. When He sends any prophet in the world, He gives sufficient intelligence also to the men, who are addressed, to accept that prophet. If you have not sufficient intelligence, or in other words, are an inferior race, then God forbid, it is His fault who sent a prophet to a people who have no intelligence to accept him. But this is not the case. Islam says that Europeans, Americans, Asiatics, Africans and people in far off islands are equal. All of them have the same power of understanding, learning, memorising and inventing. Americans consider themselves as supper men. They even hate Europeans. The Europeans hate Asiatics. As far as Ahmadiyyat goes, I assure you that we, (and when I say we, I mean myself and all the Ahmadies who follow me), consider all the people on earth as equal. All of us are equal and have the same powers.
I assure you that during my life time I am not going to allow any Ahmadi to adopt the aforesaid mistaken ideas as prevalent in the world. Just as the Holy Prophet said that he would crush such ideas under his heels, so I assure you that I will also crush such ideas under my heels.
“ So, go and prove yourselves true Ahmadies. Tell your brothers that you went to Pakistan and Rabwah and found that in Pakistan also there are brothers who feel for you and consider all Ahmadies as equal, and that you did not see Pakistanees rather Africans in different colours. They are looking towards their African brothers as there own kith and kin. I am expecting the same sacrifice from Africans and ask you to preach and convey the message of Islam to every corner of your country.
“ Rabwah will always look forward to you to bring every body in the Gold Coast into the fold of Ahmadiyyat, or the true Islam, the religion of God.”
(The Review of Religions, September, 1955, page: 532,533)






مجلس انصار اﷲ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ء میں خطابات



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مجلس انصار اﷲ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں خطابات
افتتاحی خطاب
(فرمودہ 18نومبر 1955ء بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘آج انصار اللہ کی پہلی میٹنگ ہے۔ انصار کس جذبہ اور قربانی سے کام کرتے ہیں یہ تو آئندہ سال ہی بتائیں گے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصاراللہ کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں۔ جب کسی قوم کے دماغ، دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ پس میں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو یا صحابی ہیں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں۔ اس لئے جماعت میں نمازوں، دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا ان کا کام ہے۔ ان کو تہجد، ذکرِ الٰہی او رمساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہئے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں۔ اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں تہجد، دعا اور ذکرِ الٰہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی ہوتا ہے لیکن عام طور پر جوانی کے زمانہ میں موت اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے اِس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر نوجوانی میں کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہوتا ہے۔ پس ایک طرف تو میں انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں۔ اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نَسْلاً بَعْدَ نَسْلٍ اسلام کی روح زندہ رہے۔ اسلام اپنی ذات میں تو کامل مذہب ہے لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ شربت کے لئے بھی کسی گلاس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلام کی روح کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے کسی گلاس کی ضرورت ہے اور ہمارے خدام الاحمدیہ وہ گلاس ہیں جن میں اسلام کی روح کو قائم رکھا جائے گا اور ان کے ذریعہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے گا۔
دیکھو آخر ہم بھی انسان ہیں اور یہودی بھی انسان ہیں۔ ہمارا دین ان کے دین سے بہتر ہے اور ہمارا رسولؐ ان کے رسول سے افضل ہے مگر یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا گیا تو وہ اسے دو ہزار سال تک نہیں بُھولے۔ بلکہ اتنے لمبے عرصہ تک انہیں یہ یاد رہا کہ انہوں نے فلسطین میں دوبارہ یہودی اثر کو قائم کرنا ہے اور آخر وہ دن آگیا۔ اب وہ فلسطین پر قابض ہیں۔ ہمیں اس بات پر غصہ تو آتا ہے اور ہم حکومتوں کو اس طرف توجہ بھی دلاتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو انہیں توجہ دلاتے رہیں گے کہ اب یہ اسلامی علاقہ ہے یہودیوں کا نہیں اس لئے یہ مسلمانوں کو ملنا چاہیئے مگر ہم اس بات کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہودیوں نے دو ہزار سال تک اس بات کو یاد رکھا جو دوسری قومیں بعض دفعہ بیس سال یا سو سال تک بھی یاد نہیں رکھ سکتیں۔ پس یاد رکھو کہ اشاعتِ دین کوئی معمولی چیز نہیں۔ یہ بعض دفعہ جلدی بھی ہو جاتی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں 23 سال میں ہو گئی اور پھر مزید اشاعت کوئی 50 سال میں ہو گئی۔ مگر کبھی کبھی یہ سینکڑوں سال بھی لے لیتی ہے جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں اس نے ایک سو سال کا عرصہ لیا۔ اور کبھی یہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی لے لیتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو یہودیوں کا دنیوی نفوذ تو بہت کم عرصہ میں ہو گیا تھا لیکن دوسری قوموں کی ہمدردی انہیں دو ہزار سال بعد جا کر حاصل ہوئی۔ جب لوگوں کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ کوئی قوم اپنے آثار اور اپنی تعلیمات کو قائم رکھنے کے لئے ہر وقت تیار ہے اور آئند ہ بھی تیار رہے گی تو اُس قوم کے دشمن بھی اُس کے ہمدرد ہو جاتے ہیں ۔ کیا یہ لطیفہ نہیں کہ عیسائیوں نے ہی یہودیوں کو فلسطین سے باہر نکالا تھا اور اب عیسائی ہی انہیں فلسطین میں واپس لائے ہیں۔ دیکھو یہ کیسی عجیب بات ہے آج سب سے زیادہ یہودیوں کے خیر خواہ امریکہ اور انگلینڈ ہیں اور یہ دونوں ملک عیسائیوں کے گڑھ ہیں۔ فلسطین سے یہودیوں کو نکالا بھی عیسائیوں نے ہی تھا مگر وہی آج ان کے زیادہ ہمدرد ہیں گویا ایک لمبی قربانی کے بعد ان کے دل بھی پسیج گئے۔
پس ہمیشہ ہی اسلام کی روح کو قائم رکھو،اس کی تعلیم کو قائم رکھو اور یاد رکھو کہ قومیں نوجوانوں کی دینی زندگی کے ساتھ ہی قائم رہتی ہیں۔ اگر آنے والے کمزور ہو جائیں تو وہ قوم گر جاتی ہے۔ مگر کوئی انسان یہ کام نہیں کر سکتا صرف اللہ ہی یہ کام کر سکتا ہے۔ انسان کی عمر تو زیادہ سے زیادہ 60،70،80 سال تک چلی جائے گی مگر قوموں کی زندگی کا عرصہ تو سینکڑوں ہزاروں سال تک جاتا ہے۔ دیکھو! مسیح علیہ السلام کی قوم بھی دو ہزار سال سے زندہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم 1300 سال سے زندہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جب تک دنیا قائم رہے گی یہ بڑھتی چلی جائے گی۔ تم بھی ایک عظیم الشان کام کے لئے کھڑے ہوئے ہو پس اِس روح کو قائم رکھنا، اسے زندہ رکھنا اور ایسے نوجوان جو پہلوں سے زیادہ جوشیلے ہوں پیدا کرنا تمہارا کام ہے۔ ایک بہت بڑا کام تمہارے سپرد ہے۔ عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا اِس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے جتنا عیسائی دنیا کو یہودیوں کا ہمدرد بنانا۔ کیونکہ عیسائی دنیا کو ہمدرد بنانے میں تو صرف دماغ کو فتح کیا جاتا ہے لیکن عیسائیوں کو مسلمان بنانے میں دل اور دماغ دونوں کو فتح کرنا پڑے گا اور یہ کام بہت زیادہ مشکل ہے۔
پس دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے کام کو تا قیامت زندہ رکھو۔ محاورہ کے مطابق میرے منہ سے ''تاقیامت'' کے الفاظ نکلتے ہیں لیکن میں کہتاہوں ''تاقیامت'' بھی درست نہیں۔ قیامتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ پس میں تو کہوں گا کہ تم اسے ابدی زمانہ تک قائم رکھو کیونکہ تم ازلی اور ابدی خدا کے بندے ہو۔ اس لئے ابد تک اس نور کو جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے قائم رکھو۔ اور محمدی نور کو دنیا میں پھیلاتے چلے جاؤ یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے لگ جائے اور یہ دنیا بدل جائے اور خداتعالیٰ کی بادشاہت جو آسمان پر ہے زمین پر بھی آ جائے۔
میں بیمار ہوں زیادہ لمبی تقریر نہیں کر سکتا۔ اس لئے میں مختصر سی دعا کر کے رخصت ہو جاؤں گا۔ میں نے اپنی مختصر تقریر میں خدام کو بھی نصیحت کر دی ہے اور انصار اللہ کو بھی۔مجھے امید ہے کہ دونوں میری ان مختصر باتوں کو یاد رکھیں گے، اپنے اپنے فرائض کو ادا کریں گے اور اپنے اپنے علاقوں میں ایسے اعلیٰ نمونے پیش کریں گے کہ لوگ ان کے نمونے دیکھ کر ہی احمدیت میں داخل ہونے لگ جائیں۔ مجھے تو یہ دیکھ کر گھبراہٹ ہوتی ہے کہ تحریک جدید کا چندہ دو تین لاکھ روپے سالانہ ہوتا ہے اور وہ بھی بڑا زور لگا لگا کر حالانکہ کام کے لحاظ سے دو تین کروڑ بھی تھوڑا ہے۔
صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ چندہ دس گیارہ لاکھ روپیہ ہوتا ہے حالانکہ کام کے پھیلاؤ کو تو جانے دو جو صدر انجمن احمدیہ کے ادارے ہیں اُن کو بھی صحیح طور پر چلانے کے لئے 30،40 لاکھ روپے چندہ ہونا چاہیئے۔ مگر 30،40 لاکھ چندہ تو تبھی ہو گا جب جماعت چار پانچ گنے زیادہ بڑھ جائے۔ مگر اب تو ہمارے مبلغ ایسے پَست ہمت ہیں کہ جب کسی مبلغ سے پوچھا جائے کہ تبلیغ کا کیا حال ہے؟ تو وہ کہتا ہے جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے اِس سال جماعت میں دو آدمی اَور شامل ہو گئے ہیں۔ اگر تبلیغ کی یہی حالت رہی تو کسی ایک ملک میں دولاکھ احمدی بنانے کے لئے ایک لاکھ سال چاہئیں۔
پس دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کے حضور میں اتنا گڑ گڑاؤ اور اتنی کوششیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تمہاری مدد کے لئے اُتر آئیں۔ انسانی زندگیاں محدود ہیں مگر ہمارا خدا ازلی ابدی خدا ہے۔ اس لئے اگر وہ یہ بوجھ جو ہم نہیں اٹھا سکتے آپ اٹھا لے تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ جب تک ہم یہ کام انسان کے ذمہ سمجھتے ہیں تب تک فکر رہے گا کیونکہ انسان تو کچھ مدت تک زندہ رہے گا پھر فوت ہو جائے گا مگر خدا تعالیٰ خود اس بوجھ کو اٹھا لے تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ اُسی کا کام ہے اور اُسی کو سجتا ہے اور جب خدا تعالیٰ خود اس بوجھ کو اٹھا لے گا تو پھر اس کے لئے زمانہ کا کوئی سوال نہیں رہے گا۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے ساتھ صدیاں تعلق نہیں رکھتیں اِن کا تعلق تو ہمارے ساتھ ہے ورنہ خداتعالیٰ تو ازلی ابدی خدا ہے۔ پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہم ثواب حاصل کریں۔ لیکن جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ یہ بوجھ خود اٹھا لے تا کہ آئندہ ہمارے لئے کوئی فکر کی بات نہ رہے۔''(الفضل 15دسمبر 1955ء)
تیسرے دن کا خطاب
(فرمودہ 20 نومبر 1955ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘کل چونکہ پہلی دفعہ انصار اور خدام کا اکٹھا جلسہ ہؤا تھا اس لئے ملاقات کے وقت میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی تھی۔ صحیح طور پر نہ انصار میں انتظام ہو سکا اور نہ خدام میں ہؤا۔ اس لئے میں نے چاہا کہ آج مَیں پھر خدام میں آؤں اور یہ بھی مناسب سمجھا کہ کچھ الفاظ بھی کہہ دوں۔
احباب کو علم ہے کہ اِس سال کے شروع میں مجھ پر ایک نہایت ہی خطرناک بیماری کا حملہ ہؤا تھا اور اب تک اس بیماری کے آثار چلے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دماغ کو اتنا صدمہ پہنچا ہؤا ہے کہ میں بڑی جلدی تھک جاتا ہوں۔ دو منٹ بھی بات کروں تو دماغ میں کوفت محسوس ہوتی ہے۔ یوں تو عقیدتاً دعا پر ہمارا ایمان ہے ہی مگر واقعاتی طور پر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی جماعت کے بعض دوستوں نے خاص طور پر دعائیں کی ہیں اُس دن میری طبیعت اچھی ہو گئی ہے۔ اِس جلسہ کے ایام میں انصار خصوصیت کے ساتھ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کل کی کوفت کے باوجود آج صبح مَیں نے اپنی طبیعت بہت ہی خوش محسوس کی اور میری آواز بھی اونچی نکلتی رہی۔ ملاقاتیں بھی میں نے کیں اور کام کی ایسی طاقت مجھے اپنے اندر معلوم ہوتی تھی کہ میں عام دستور سے زیادہ کام کرنے کی توفیق پاتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب بھی بیماری کے صدمہ کا اثر دماغ سے زائل ہوتا ہے طبیعت میں سکون پیدا ہو جاتا ہے اور یہی ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آپ دماغ سے اس اثر کو زائل کرنے کی کوشش کریں لیکن دماغ سے اثر کا زائل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ مگر بہرحال جب دعاؤں کے ذریعہ سے دماغ سے وہ اثر زائل ہوتا ہے تو گو ایسی تندرستی تو نہیں ہوتی جیسے بیماری کے حملہ سے پہلے تھی مگر اُس وقت یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماری کا ایسا تصرف جسم پر نہیں ہے جیسا کہ وہ بعض وقت محسوس ہوتاہے۔
آج جو انصار اللہ کی رپورٹ میرے پاس آئی ۔ اُس میں لکھا تھا کہ کسی دوست نے ایک سوال کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ سب سے اعلیٰ مقام توکّل کا مقام ہے۔ وہاں جواب تو دیئے گئے مگر میں سمجھتا ہوں کہ کچھ مَیں بھی اِس بارہ میں کہوں۔ توکّل کے معنے ہوتے ہیں انسان اپنی بات خداکے سپرد کر دے۔ مگر مسلمانوں میں اس لفظ کا بڑا غلط استعمال ہؤا ہے۔ خدا تعالیٰ کے سپرد کرنے کے تو یہ معنی تھے کہ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قاعدہ کے مطابق چلے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہاتھ پیر بھی دیئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں دماغ بھی دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بعض دنیوی سامان بھی دیئے ہیں۔ ایسی صورت میں خدا کے سپرد کرنے کے یہی معنی ہیں کہ جو کچھ خدا نے جس کام کے لئے دیا ہے اس کو ہم استعمال کریں۔ پس توکّل کا پہلا مقام یہ ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے ہم کو دیا ہے جسمانی ہو یا مالی ہو یا اخلاقی ہو اس کو ہم زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ اس کے بعد جو کمی رہ جائے وہ خدا کے سپرد کر دیں اور یقین رکھیں کہ خدا اُس کمی کو ضرور پورا کر دے گا۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا۔ آپ نے بدر کے موقع پر صحابہؓ کی ایک ترتیب قائم کی۔ ان کو اپنی اپنی جگہوں پر کھڑا کیا۔ انہیں نصیحتیں کیں کہ یوں لڑنا ہے اور اس کے بعد ایک عرشہ پر بیٹھ کر دعائیں کرنے لگ گئے۔1 یہ نہیں کیا کہ صحابہؓ کو مدینہ میں چھوڑ جاتے اور بیٹھ کر دعائیں کرنے لگ جاتے۔ بلکہ پہلے صحابہؓ کو لے کر مقامِ جنگ پر پہنچے پھر ان کو ترتیب دی اور ان کو نصیحتیں کیں کہ یوں لڑنا ہے اس کے بعد عرشہ پر بیٹھ گئے اور دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ یہ توکّل ہے۔ ہر وہ شخص جو اُن سامانوں سے کام نہیں لیتا جو خدا تعالی ٰنے اس کو بخشے ہیں اور کہتا ہے کہ میں خدا پر چھوڑتا ہوں وہ جھوٹا ہے، وہ خدا سے تمسخر کرتا ہے۔ اور ہر وہ شخص جو سامانوں سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے اب یہ کام میں کروں گا وہ بھی جھوٹا ہے وہ خدا پر اعتبار نہیں کرتا۔ کام آسان ہوں یا مشکل آخر ان کی کنجی خدا کے اختیار میں ہے۔ میں سارے یورپ میں پِھرا۔ ہر جگہ مَیں ڈاکٹروں سے یہی پوچھتا تھا کہ بتاؤ مجھے یہ دورہ کیوں ہؤا؟ مگر کوئی جواب نہیں دے سکا۔ ڈاکٹر یہی کہتے تھے کہ آخر کچھ قدرت کے بھی تو سامان ہوتے ہیں۔ ہم ڈاکٹری طور پر آپ کو نہیں بتا سکتے کہ یہ بیماری آپ کوکیوں ہوئی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قدرت نے بھی کچھ باتیں اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہیں۔ کوئی چیز ایسی آ گئی کہ اس کی وجہ سے آپ کو یہ دورہ ہو گیا۔ تو توکّل کا مفہوم یہ ہے کہ جہاں تک خدا نے تم کو طاقتیں دی ہیں اُن کو پورا استعمال کرو بلکہ ایک دنیا دار سے بھی زیادہ استعمال کرو۔ اور اس کے بعد صوفی سے زیادہ خدا پر اعتبار کرو اور یہ کہو کہ جو کمی رہ گئی وہ خدا پوری کرے گا۔ اور چاہے انتہائی مایوسی کا عالَم ہو پھر بھی ڈٹ کے بیٹھ جاؤ کہ نہیں میرا خدا مجھے نہیں چھوڑے گا۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ ثور میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللہَ مَعَنَا2 ہمارا کام یہ تھا کہ دشمن کو دھوکا دے کر وہاں سے نکل آتے سو نکل آئے۔ اب دشمن ہمارے سر پر آ پہنچا ہے۔اب یہ خدا کا کام ہے کہ وہ ہمیں بچائے۔ سو لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللہَ مَعَنَا ڈرنے کی کوئی بات نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے۔ یہ ہے توکّل۔ پورے سامان استعمال کرو اور اس کے بعد خدا پر پورا یقین رکھو اور چاہے کچھ بھی ہو جائے یہ سمجھ لو کہ خدا ہمیں نہیں چھوڑے گا۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم احتیاطیں کرتے تھے صحابہؓ بھی آپ کے پہرے دیتے تھے۔ ایک دن ایک دشمن چُھپ کر آپ کے سر پر آ کھڑا ہؤا۔ آپ کی ہی تلوار کہیں لٹکی ہوئی تھی اس نے وہ اٹھا لی اور اٹھا کر کہنے لگا اب بتاؤ کون آپ کو مجھ سے بچا سکتا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا اللہ۔3 ایسے توکّل کے ساتھ آپ نے یہ بات کہی کہ اُس کے ہاتھ کانپ گئے اور تلوار گر گئی۔ سو یہ ہے توکّل۔ اگر تم اس توکّل پر قائم رہو اور ہمیشہ اپنے دوستوں کو اور اپنی نسلوں کو اس پر قائم رکھتے جاؤ تو قیامت تک کوئی شخص تم پر انشاء اللہ تعالیٰ غالب نہیں آئے گا۔ بلکہ ہمیشہ تم ہی دشمن پر غالب آ جاؤ گے کیونکہ خدا تمہارے ساتھ ہو گا۔
پھر میں ایک اَور بات کہنی چاہتا ہوں۔ کل میں نے تم کو بھی دیکھا اور انصار کو بھی دیکھا۔ شاید کچھ اس بات کا بھی اثر ہو گا کہ فالج کی وجہ سے میری نظر کمزور ہو گئی ہے اور میں پوری طرح دیکھ نہیں سکا ہوں گا لیکن بہرحال مجھے نظر یہ آیا کہ جیسے چہرے افسردہ افسردہ ہیں اور جُھلسے جُھلسے سے ہیں۔ میں نے سمجھا شاید میری بیماری کے خیال سے ایسا ہے۔ چنانچہ میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا طوفان کی وجہ سے لوگوں کی مالی حالت خراب ہو گئی ہے اِس وجہ سے ان کے چہرے افسردہ ہیں۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اگر میری بیماری اِس کی وجہ ہو تو میں تو ایک انسان ہوں۔ آخر انسان کب تک تمہارے اندر رہے گا۔ اس کے بعد آخر خدا ہی سے واسطہ پڑنا ہے۔ کیوں نہ خدا ہی سے شروع سے واسطہ رکھو۔ دیکھو حضرت ابوبکرؓ نے کیا سچائی بیان کی تھی کہ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللہَ فَإِنَّ اللہَ حَیٌّ لَایَمُوْتُ۔4 اگر خدا پر توکّل کرو گے تومعلوم نہیں تمہارا اس دنیا کے ساتھ ہزار سال واسطہ پڑنا ہے یا دو ہزار سال واسطہ پڑنا ہے۔ بہرحال ہزار دو ہزار سال کا عرصہ خدا کے لئے تو کچھ بھی نہیں مگر اس توکّل کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا۔
اس بیماری میں مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ کچھ خیر خواہ دوستوں کی بیوقوفیوں کی سزا بھی مجھے ملی ہے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ''خدا آپ کو عمرِ نوح دے'' عمرِ نوح تو ہزار سال کہتے ہیں۔ میں تو ستاسٹھ سال میں اپنے جسم کو ایسا کمزور محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میری روح گویا قید کی ہوئی ہے۔ اگر بجائے عمرِ نوح کی دعا کرنے کے وہ یہ دعا کرتے کہ یا اللہ! تُو ہمارے خلیفہ کو اتنی عمر دے جس میں وہ بشاشت کے ساتھ کام کر سکے اور تیری مدد اس کے ساتھ ہو تو مجھے کتنا فائدہ ہوتا۔ اگر وہ مجھے عمرِ نوح ہی دے تو ہزار سال کی تو قوم نہیں ہؤا کرتی۔ قومیں تو دو دو ہزار سال چلتی ہیں پھر بھی تو ہزار سال کے بعد میں تم سے جدا ہو جاتا۔ تو ایسی غلط دعا مانگنے سے کیا فائدہ تھا۔ دعا یہ مانگنی تھی کہ یا اللہ! تُو ان کو ایسی عمر دے جس میں ان کا جسم اس کام کا بوجھ اٹھا سکے اور بشاشت سے یہ تیرے دین کی خدمت کر سکیں۔ اور ہمارے اندر وہ طاقت پیدا کر کہ جو کام تُو اِن سے لے رہا ہے وہ ہم سے بھی لیتا چلا جا۔ یہ دعا میرے لئے بھی ہوتی اور تمہارے لئے بھی ہوتی اور اسلام کے لئے بھی ہوتی۔
سو میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خوش رہو۔ آج ہی جب میں نے یہ واقعہ اپنے گھر میں سنایا تو انہوں نے بتایا کہ ریڈرز ڈائجسٹ میں ایک امریکن کا مضمون شائع ہؤا ہے۔ ریڈرز ڈائجسٹ امریکہ کا ایک بڑا مشہور رسالہ ہے جو دو کروڑ کے قریب شائع ہوتا ہے جس میں اس نے لکھا کہ میں نیوزی لینڈ گیا وہاں میں افسردہ رہنے لگ گیا۔ ایک دن میں بیٹھا تھا کہ ایک نیا شادی شدہ جوڑا جو ہنستا ہؤا آ رہا تھا وہ میرے آگے کھڑا ہو کر کہنے لگا ہماری خاطر ایک دفعہ مسکرا دو۔ کہنے لگا کہ میں جو مسکرایا تو پھر یوں مسکرانے لگا کہ مجھے اپنا وطن بھول ہی گیا اور میں مسکراتا ہی رہا۔ تم بھی خدا اور اس کے رسول کی خاطر مسکراؤ، اپنے چہرے پر رونے کو کبھی نہ آنے دو اور مسکراتے چلے جاؤ تا کہ ساری دنیا تمہاری وجہ سے مسکراتی چلی جائے۔ مگر ایسا مسکراؤ کہ اس کے ساتھ شیطان نہ مسکرائے۔ خدا مسکرائے۔ ایک مسکراہٹ ایسی ہوتی ہے جو خدا سے غافل کر دیتی ہے اس کے ساتھ شیطان مسکراتا ہے۔ اور ایک مسکراہٹ وہ ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ خدا بھی مسکراتا ہے۔ پھر جس شخص نے یہ کہا کہ غربت آ گئی ہے طوفان آئے ہیں۔ اس نے بھی غلطی کی۔ صحابہؓ میں دیکھو ایک صحابیؓ عمرہ کے موقع پر اکڑ اکڑ کر طواف کر رہا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو اس کو بلایا اور فرمایا۔ اکڑنا خدا کو بڑا ناپسند ہے لیکن تمہارے اکڑنے پر خدا خوش ہؤا ہے۔ تم کیوں اکڑے تھے؟ کہنے لگا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں اس لئے اکڑا تھا کہ ملیریا کی وجہ سے سب کی کمریں ٹیڑھی ہو گئی تھیں۔ میں نے کہا کافر ہمارا طواف دیکھ رہے ہیں، کہیں وہ ہماری ٹیڑھی کمریں دیکھ کر خوش نہ ہو جائیں کہ مسلمانوں کی کمریں ٹوٹ گئیں ہیں اس لئے میں اکڑ اکڑ کر چلتا تھا کہ اُن کو بتاؤں کہ ہم خدا کے فضل سے بیماریوں سے ڈرنے والے نہیں ہم اکڑ کر چلیں گے۔ آپؐ نے فرمایا خدا کو تمہاری یہ ادا بڑی پسند آئی ہے5۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک پر آفت آئے تو مومن سے زیادہ اور کون غمگین ہو گا مگر اپنے غم کا تحفہ رات کے وقت خدا کے آگے نذر کے طور پر پیش کرو اور اپنی مسکراہٹیں دن کے وقت خدا اور اس کے رسول کے آگے پیش کرو تا کہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ ان طوفانوں نے تمہاری کمریں توڑ ڈالی ہیں۔
یاد رکھو خدا نے اِس زمین میں کمائی کی بڑی قابلیتں رکھی ہیں۔ میں نے بارہا زمینداروں کو کہا ہے کہ ہمارا ایک وفد جاپان گیا تھا انہوں نے بتایا کہ چھ ہزار روپیہ فی ایکڑ جاپانی کما رہے ہیں۔ میں نے اٹلی سے دریافت کیا تومعلوم ہؤا کہ چودہ سو روپیہ فی ایکڑ اٹلی والے کما رہے ہیں۔ میں نے ہالینڈ سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ تین ہزار روپیہ فی ایکڑ ہالینڈ والے کما رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی اوسط زمین دو تین ایکڑ فی شخص بنتی ہے۔ تین ہزار فی ایکڑ کے لحاظ سے چھ ہزار کی آمدن یعنی پانچ سو روپیہ ایک مہینے کی آمد بنتی ہے۔ گویا اس کی ای۔اے ۔سی کے برابر تنخواہ ہو جاتی ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ ہمارے آدمی محنت کریں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کی زمینوں میں سے سونا اُگلوائے۔ تاجر ایسی دیانت سے کام کریں کہ دنیا بیس بیس میل سے ان سے سودا لینے آئے، نوکر ایسی دیانت سے کام کریں کہ افسر کہے کہ میں نے رکھنا ہے تو احمدی رکھنا ہے، یہ بڑے دیانتدار ہوتے ہیں۔ غرض اچھے سے اچھا کام کرو، زیادہ سے زیادہ محنت کرو اور خواہ زمیندارہ ہو،تجارت ہو، ملازمت ہو اپنے اعلیٰ نمونے پیش کرو۔ اور جب خدمتِ خلق کا وقت آئے تو سب سے بڑھ کر خدمتِ خلق کرو۔
دیکھو عذاب تو عذاب ہی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ہمارے ملک کو عذابوں سے بچائے۔ لیکن اِس عذاب کے وقت میں تم کو جو خدمت کی توفیق ملی ہے تو یہ تو مسکرانے والی بات ہے۔ بہر حال خدمت کی توفیق ملنے کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو۔ اور جب کسی شکل میں بھی ملک پر کوئی مصیبت آئے تو سب سے آگے اپنی جان کو خطرہ میں پیش کرو تا کہ دنیا محسوس کرے کہ تم دنیا کے لئے ایک ستون ہو اور تمہارے ذریعہ سے ملک کی چھت قائم ہے۔ اگر تم اپنے اندر یہ تغیر پیدا کر لوگے تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو گا، تمہارے اہلِ ملک بھی خوش ہوں گے اور ملک بھی ترقی کرے گا اور لوگوں کے دلوں سے تمہاری دشمنیاں نکل جائیں گی اور تمہاری محبتیں لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائیں گی۔
پس خدمت کرو اور کرتے چلے جاؤ تمہارا نام خدامِ احمدیہ ہے۔ خدامِ احمدیہ کے یہ معنی نہیں کہ تم احمدیت کے خادم ہو۔ خدامِ احمدیہ کے معنی ہیں تم احمدی خادم ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سَیدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ6قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے۔ اگر تم واقع میں سچے احمدی بنو گے اور سچے خادم بھی بنو گے تو تھوڑے دنوں میں ہی خدا تم کو سیّد بنا دے گا۔ ہر شخص تمہارا ادب اور احترام کرے گا۔ اور لوگ سمجھیں گے کہ ملک کی نجات ان کے ساتھ وابستہ ہے۔ دیکھو یہ کس طرح اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر ملک کی خدمت کرتے ہیں۔ سو اپنے اس مقام کو ہمیشہ یاد رکھو اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہو کہ تمہارے ذریعہ سے دنیا کا ہر غریب اور امیر فائدہ اٹھائے۔ نہ امیر سمجھے کہ تم اُس کے دشمن ہو نہ غریب سمجھے کہ تم اُس کے دشمن ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے غریب بھی بندے ہیں اور امیر بھی بندے ہیں۔ ہزاروں باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں امیر بھی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں اور ہزاروں مواقع ایسے آتے ہیں کہ غریب بھی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں ۔تم دونوں کی خدمت کرو کیونکہ احمدیت غریب اور امیر میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ بالشویک غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور کیپیٹلسٹ (CAPITALIST) امیروں کی خدمت کرتے ہیں۔ تم خدامِ احمدیہ ہو تمہارا کام یہ ہے کہ امیر مصیبت میں ہو تو اس کی خدمت کرو اور غریب مصیبت میں ہو تو اُس کی خدمت کرو یہاں تک کہ ہر فردِبشر یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اُس کی نجات کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی قومی ترقیات تم حاصل کرو گے اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی۔ اور یاد رکھو کہ جہاں جہاں جاؤ خدام کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرو۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ تمام احمدیوں کا چالیس فیصدی خدام ہونے چاہییں۔ سو اپنی جماعت کو جمعہ کے دن اور عید کے دن دیکھو کہ کتنی تھی اور پھر دیکھو کہ کیا اس کا چالیس فیصدی خدام ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو ہر ایک کے پاس جاؤ اور اُس کو تحریک کرو کہ وہ بھی آئے اور خدام میں شامل ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تم کو سچے طور پر خدامِ احمدیہ بننے کی توفیق دے۔ کیونکہ ملک کو خدامِ احمدیہ کی ضرورت ہے۔
جیسے میں نے بتایا ہے خدامِ احمدیہ جب ہم نے نام رکھا تھا تو اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ تم احمدیوں کے خادم ہو۔ اگر تم یہ معنی کرو گے تو بڑی غلطی کرو گے اور ہم پر ظلم کرو گے۔ خدامِ احمدیہ سے مراد تھا احمدیوں میں سے خدمت کرنے والا گروہ۔ تم خادم تو دنیا کے ہر انسان کے ہو لیکن ہو احمدیوں میں سے خادم۔ اس لئے اس کایہ مطلب نہیں تھا کہ تم احمدیوں کی خدمت کرو بلکہ مطلب یہ تھا کہ احمدی سٹینڈرڈ کے مطابق خدمت کرو۔ چنانچہ دیکھ لو لاہور میں طوفان آیا، مکان گرے تو اس موقع پر جو احمدی معمار ہم نے بھیجے۔ ان کے متعلق پولیس نے اور محلے والوں نے اقرار کیاکہ یہ آدمی نہیں یہ تو جِنّ ہیں۔ یہ تو منٹوں میں مکان تعمیر کر دیتے ہیں۔ تو یہ احمدی سٹینڈرڈ تھا۔ سو اپنا احمدی سٹینڈرڈ قائم کرو اور اسے بڑھاتے جاؤ۔ دیکھو آج تو تم خدمت کرتے ہو کل دوسروں کو بھی تحریک ہو گی۔ لیکن اگر احمدی سٹینڈرڈ کے مطابق تم خدمت کرنے والے ہو گے تو دوسرے تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ وہ ہزار ہوں گے اور تم پچاس ہو گے لیکن تم پچاس اُن ہزار سے زیادہ کام کر جاؤ گے کیونکہ تمہارا سٹینڈرڈ احمدی سٹینڈرڈ ہو گا اور اُن کا سٹینڈرڈ اوّل تو احمدی سٹینڈرڈ نہیں ہو گا دوسرے وہ فرق کریں گے کہ یہ ہمارا دشمن ہے اور یہ ہمارا دوست ہے۔ تم نے کہنا ہے کہ ہم نے تو خدمت کرنی ہے۔ چاہے مخالف ہو یا دوست۔ اِس طرح آپ ہی آپ تمہارا کام دوسروں سے بلند ہوتا چلا جائے گا اور تم ملک کے لئے ایک ضروری وجود بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے تم پر فضل نازل ہوں گے۔
جیسا کہ شروع میں مَیں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرو، دعاؤں پر خاص زور دو اور اپنی اصلاح کی فکر کرو۔ جوانی میں تہجد پڑھنے والے اور جوانی میں دعائیں کرنے والے اور جوانی میں سچی خوابیں دیکھنے والے بڑے نادر وجود ہوتے ہیں۔ تم نے ابدال کا ذکر سنا ہو گا۔ ابدال درحقیقت وہی ہوتے ہیں جو جوانی میں اپنے اندر تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کر لیتے ہیں کہ بڈھے بڈھے بھی آ کر کہتے ہیں کہ حضور ہمارے لئے دعا کیجئے۔ تمہارے احمدیوں کے بڈھے تو اقطاب ہونے چاہئیں اور احمدیوں کے جوان ابدال ہونے چاہئیں۔ وہ خوب دعائیں مانگیں اور اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کریں کہ وہ اپنے فضل سے ان سے بولنے لگ جائے اور وہ جوانی میں ہی صاحبِ کشف و کرامات ہو جائیں۔ اور محلہ کے لوگوں کو جب مصیبت پیش آئے وہ دوڑے دوڑے ایک خادمِ احمدیت کے پاس آئیں اور آ کر کہیں کہ دعا کرو ہماری یہ مصیبت ٹل جائے۔ جب تم جذبۂ اخلاص سے ان کے لئے دعا کرو گے تو پھر خدا تمہاری دعائیں بھی زیادہ قبول کرنے لگ جائے گا اور لوگوں کو ماننا پڑے گا کہ تمہاری دعا ایک بڑی قیمتی چیز ہے۔
بہرحال ان نصیحتوں کے بعد میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ مصافحہ تو میں کر چکا ہوں۔ اب آپ لوگوں کے لئے دعا کر کے آپ لوگوں کو رخصت کرتا ہوں۔ باقی کام آپ کے منتظمین سر انجام دیں گے۔ میں آپ کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور قیامت تک آپ لوگ اور آپ کی نسلیں دین کی خادم رہیں، خدا کی مُحب رہیں، خدا سے تم محبت کرنے والے ہو اور خدا تم سے محبت کرنے والا ہو۔ کبھی تمہارا دشمن تم پر غالب نہ آئے بلکہ تم خدا کی مدد اور اس کی نصرت سے نیکی اور تقویٰ کے ساتھ لوگوں پر غالب آؤ۔ شرارت اور فساد کے ساتھ نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کے ساتھ تا کہ اسلام تمہاری ترقی سے فائدہ اٹھائے اور کسی کو تمہاری ترقی سے نقصان نہ پہنچے اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔
دیکھو! میں نے کہا تھا توکّل کرو۔ سو توکّل کے معنی ہیں احمدیت کا صحیح مقام ۔ اس کے لحاظ سے مَیں کہتا ہوں کہ کہو احمدیت زندہ باد۔ اور میں نے کہا تھا کہ خدمت احمدیت کے سٹینڈرڈ پر کرو جس کے معنی یہ ہیں کہ انسانیت کو زندہ رکھنے کی کوشش کرو ۔ سو اس کے مطابق میں کہتا ہوں کہ تمہارا نعرہ یہ ہونا چاہیئے۔ انسانیت زندہ باد۔ اللہ تعالیٰ تم کو وہ سٹینڈرڈ قائم رکھنے کی توفیق دے جس سے وہ اعلیٰ جذبات انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا۔7 کے مطابق پیدا کی ہیں وہ قائم رہیں اور انسان کی وہ شکل دنیا کو نظر آئے جس کے متعلق قرآن میں خدا کہتا ہے کہ میں نے بنائی ہے۔ وہ شکل نظر نہ آئے جو شیطان نے بنائی ہے بلکہ تمہارے ذریعہ سے وہ شکل انسانیت کی دنیا کو نظر آئے جو خداتعالیٰ نے پیدا کی ہے اور جس کے متعلق وہ فرماتا ہے کہ فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ
فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْہَا۔'' (الفضل 4مارچ 1956ء)
1 سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 278، 279 مطبوعہ مصر 1936ء
2 بخاری کتاب المناقب باب مناقب المہاجرین وَ فَضْلِھِمْ
3 مسلم کتاب الفضائل باب توَکُّلِہٖ عَلَی اللہِ تعالٰی (الخ)
4 بخاری کتاب المناقب باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا
5 صحیح مسلم کتاب الحج باب استحباب الرّمل فی الطّواف (مفہوماً)
6 کنز العمال جلد 6 صفحہ710 مطبوعہ بیروت 1979ء
7 الروم:31








افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء

(فرمودہ 26دسمبر 1955ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘اب میں اس سال کے جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں۔ کتنا عظیم الشان فرق بارہ مہینے میں پڑا ہے۔ بارہ مہینے پہلے میں بالکل تندرست تھا مگر اس کے بعد میں ایک سخت بیماری میں مبتلا ہؤا جس کے اثرات اب تک باقی ہیں۔ اس بیماری کا جو ظاہری جسمانی حصہ پر اثر تھا اس میں تو کمی ہے۔ ہاتھ پیر ہلاتا ہوں، چل لیتا ہوں لیکن ابھی کئی قسم کے اثرات باقی ہیں۔ مثلاً نظر بہت کم کام کرتی ہے گو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ موتیا بند نہیں ہے لیکن کوئی اعصابی مرض ہے۔ تھوڑا سا بھی پڑھوں تو سر چکرا جاتا ہے جس کی وجہ سے سارا دن گھبراہٹ میں گزرتا ہے۔ جب تک میری بیوی مجھے ڈاک وغیرہ سناتی رہے یا قرآنِ شریف کے نوٹ لکھتی رہے طبیعت ٹھیک رہتی ہے۔ بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کئی ڈاکٹروں نے حتّٰی کہ یورپین ڈاکٹروں نے بھی جو دین کے اتنے قائل نہیں کہا کہ آپ کی صحت معجزانہ ہے حالانکہ وہ دین کے قائل نہیں ہیں مگر ان کے منہ سے بھی ایسا فقرہ نکل گیا۔ چنانچہ مجھے یادہے جرمنی میں ایک ڈاکٹر مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ Your care was miraculous اِسی طرح یہاں کے بھی کئی ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ایک معجزانہ بات تھی۔ اب اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس معجزہ کو کامل کر دے اور وہ جو اَب تک میرے دماغ پر بوجھ ہے اُس کو دور کر دے۔ بعض دفعہ خدا تعالیٰ کا فضل ایسا ہوتا ہے کہ یہ بوجھ بالکل دور ہو جاتا ہے۔ کل ہی کی بات ہے نماز مغرب اور عشاء مَیں نے گھر میں جمع کر کے پڑھی اس سے پہلے میری طبیعت میں بڑی تشویش سی تھی اور سر چکراتا تھا مگر سلام پھیر کر میں کھڑا ہؤا تو مجھے یوں معلوم ہؤا کہ میں بالکل تندرست ہوں اور ساری تکلیف اور کوفت دور ہو گئی۔ تو اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک اشارہ کے ساتھ اس کو ٹھیک کر سکتا ہے اور پھر مجھے خدمتِ دین کی توفیق دے سکتا ہے۔
بہرحال جہاں تک سلسلہ کی ضرورتوں کا سوال ہےیہ تو اگر خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی تو کل تقریر میں بیان کروں گا۔اِس وقت دوستوں کواتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں پہلے بھی ایک خطبے میں بیان کر چکا ہوں میری بیماری زیادہ تر اعصابی رہ گئی ہے۔ جہاں تک اصل بیماری کا سوال تھا ڈاکٹروں کا یہی خیال ہے کہ وہ جا چکی ہے صرف اعصابی تکلیف باقی ہے۔ چنانچہ سوئٹزر لینڈ کا ایک مشہور ڈاکٹر جسے بوسٹن میڈیکل کالج امریکہ والے بھی جو وہاں کا بڑا بھاری کالج ہے تقریر کے لئے بلایا کرتے ہیں اور جس کے متعلق ہمارے دوستوں نے بھی وہاں سے مشورہ کر کے تار کے ذریعہ ہمیں لکھا تھا کہ اسے ضرور دکھاؤ۔ اُس کا یہ فقرہ تھا کہ اب یہ بیماری آپ کے اختیار میں ہے آپ زور لگائیں اور بھول جائیں۔ میں نے کہا مَیں بھولوں کس طرح؟ اِس کا بھی علاج بتاؤ۔ کہنے لگا اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کی صحت بیماری کے حملہ سے پہلے بہت اچھی تھی اب یکدم اس چیز میں جو کمی آئی ہے وہ آپ کو بہت محسوس ہوتی ہے اور آپ اس کو بُھلا نہیں سکتے۔ پھر جب میں اٹھا تو یورپین لوگوں کے طریق کے مطابق میرے سینہ کی طرف اپنا ہاتھ کر کے اور انگلی ہِلا کر کہنے لگا کہ میری نصیحت آپ کو یہ ہے کہ Be optimistic Be optimistic اپنی امید مضبوط کرو پھر یہ بیماری جاتی رہے گی۔ وہ کہنے لگا جہاں تک طبّی سوال ہے میرے نزدیک بیماری چلی گئی ہے لیکن آپ اپنے نفس پر قابو کر کے اسے بُھلا دیں گو آپ کے لئے یہ مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی صحت پہلے بہت اچھی تھی یکدم جو آپ آ کے ناکارہ ہو گئے تو جو صدمہ آپ کے دماغ کو پہنچا ہے اس کی وجہ سے آپ بیماری کو بُھلا نہیں سکتے مگر کوشش کریں کیونکہ علاج یہی ہے۔ جس دن آپ اپنی طبیعت پر غالب آ جائیں گے جہاں تک جسمانی مرض کا سوال ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ یہ بہت بڑا فرق ہے جو میری صحت میں واقع ہؤا۔ کُجا بارہ مہینے پہلے کی حالت اور کُجا آج کی حالت۔ سوائے اِس کے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض دفعہ ایسا وقت بھی آتا ہے کہ میں اپنے آپ کو بالکل تندرست محسوس کرتا ہوں۔ پچھلے مہینہ میں نومبر کے آخر میں یا دسمبر کے شروع میں پندرہ دن ایسے رہے کہ میں کمرہ میں ٹہلتا تھا۔ آخر ٹہلنا پڑتا ہے کیونکہ گھبراہٹ ہوتی ہے اور یہ بھی غالباً اس بیماری کے نتیجہ میں ہے۔ چونکہ پہلے چلنا پھرنا بند ہو گیا تھا طبیعت اندرونی طور پر محسوس کرتی ہے کہ میں چل کے دیکھوں کہ چل سکتا ہوں یا نہیں۔ تو ٹہلتا ہوں اور ٹہلتا چلا جاتا ہوں یہاں تک کہ پیر تھک جاتے ہیں۔ غرض پندرہ دن ایسے رہے کہ میرا دماغ بالکل یوں محسوس کرتا تھا کہ اس پر کوئی بوجھ نہیں اور نماز میں مجھے بھولنا بھی بند ہو گیا تھا۔ شروع شروع میں جب میں کراچی گیا ہوں تب تو یہ حال تھا کہ پاس آدمی بیٹھتے تھے جو بتاتے جاتے تھے کہ اب سجدہ کریں، اب سجدہ سے اٹھیں۔ یہاں بھی آ کر کچھ بُھولا مگر پھر ٹھیک ہو گیا۔ مگر اس کے بعد پھر یہی کیفیت ہو گئی جس پر میں نے اپنے ساتھ ایک آدمی کھڑا رکھنا شروع کیا کہ تم کھڑے ہو جاؤ گے تو مجھے پتہ لگ جائے گا کہ کھڑا ہونا ہے، بیٹھ جاؤ گے تو مجھے پتہ لگ جائے گا کہ مجھے بیٹھنا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے طبیعت پر ایسا قابو دے دیاکہ بغیر اُس کے بیٹھنے یا قطع نظر اُس کے کھڑا ہونے کے مَیں آپ ہی آپ کھڑا ہو جاتا تھا اور رکوع کرتا تھا اور تشہد پڑھتا تھا۔ اِسی طرح گھر میں نماز پڑھتا ہوں تو بیوی کو بٹھا لیتا ہوں کہ دیکھتے جانا میں غلطی تو نہیں کرتا۔ مگر کئی دفعہ ایسے وقت بھی آتے ہیں کہ نماز بالکل ٹھیک پڑھتا ہوں اور کوئی بات نہیں بھولتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض دعاؤں کا نتیجہ ہے اور دعاؤں کے ساتھ ہی اِس کا تعلق ہے۔ مجھے خدا تعالیٰ نے خواب میں بھی یہی بتایا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اِس جلسہ کو مبارک کرے اور آئندہ سینکڑوں جلسوں کے لئے اس سے برکت کا سلسلہ قائم کرے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ السلام نے فرمایا ہے کہ مجھ سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تین سو سال تک تمہاری جماعت بڑی طاقتور اور مضبوط ہو جائے گی۔1 تین سو سال کا عرصہ بڑا لمبا عرصہ ہے۔ یوں تو مومن کو قیامت تک کے لئے عزم کرنا چاہئے لیکن کم سے کم تین سو سال تک تو ہماری آئندہ نسلوں کو یہ عزم کرنا چاہئے کہ یکے بعد دیگرے ہم سلسلہ کا بوجھ اٹھاتے چلے جائیں گے اور اسلام کی اشاعت میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ اِس وقت میں دیکھتا ہوں کہ نئے خاندانوں میں سے تو لوگ وقف کی طرف آ رہے ہیں مگر پرانے خاندانوں میں سے کم آ رہے ہیں۔ پس سلسلہ کے لئے بھی دعا کرو اور ان لوگوں کے لئے بھی کرو جن کو خدا تعالیٰ نے پہلے احمدیت کی خدمت کی توفیق دی تھی کہ اﷲ تعالیٰ ان کے خاندانوں کو بھی اس کی توفیق دیتا رہے۔
قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعد میں آنے والے مومن ہمیشہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ یا اللہ! ہمیں بھی بخش اور اُن کو بھی بخش جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں2 تو ان لوگوں کا بھی ایک حق ہے کیونکہ ان کے ذریعہ سے ہی ایمان آپ تک پہنچا ہے۔ اِس طرح آپ لوگ کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ آپ میں ایمان قائم رکھے اور ایسا ایمان قائم رکھے کہ وقف کے ذریعہ سے جماعت کی ترقی کے لئے آپ لوگ ہمیشہ کوشاں رہیں۔ بے شک خدمات کے کئی ذرائع ہیں۔ قومی طور پر تو یہی ذریعہ ہے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط رکھا جائے۔ جیسے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سارے لوگ وقف نہیں کر سکتے کچھ لوگ کر سکتے ہیں۔ سارے لوگوں کا وقف یہی ہے کہ تمام لوگ اپنے ایمانوں کو پختہ رکھیں اور اپنی قربانی کو بڑھاتے چلے جائیں۔ اگر سارے لوگ اپنے ایمانوں کو پختہ نہ رکھیں اور قربانی کو نہ بڑھاتے چلے جائیں تو وقف کرنے والے کھائیں گے کہاں سے؟ ان کے کھانے پینے کا تبھی سامان ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دیتا چلا جائے اور ان کے چندے بڑھتے چلے جائیں۔ آخر یہ سلسلہ بڑھے تو ہمیں دس پندرہ ہزار واقفین چاہئیں۔ ملک کا معیارِ زندگی اتنا بڑھتا چلا جاتا ہے کہ جو اچھی دینی یا دنیوی تعلیم والے ہوں گے اُن کو اپنے ہمسایوں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کم سے کم چار پانچ سو روپیہ ماہوار کی ضرورت ہو گی۔ اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اگر دس ہزار واقفین ہوں تو چالیس پچاس لاکھ روپیہ ماہوار کی آمدنی ہونی چاہئے۔ یعنی چھ کروڑ روپیہ سالانہ۔ تب جاکے اتنے واقفین مل سکتے ہیں جو سلسلہ کی ساری ضرورتوں کو پورا کر سکیں۔ اگر آپ لوگ اپنی نسلوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ تم میں سے جو وقف کرے دوسرے لوگ اس کی خدمت کیا کریں تو یہ کام بڑی آسانی سے ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے چندے بڑھاؤ اور صرف اپنے ہی نہ بڑھاؤ اپنے دوستوں کے بھی بڑھواؤ۔ اور جو غیر احمدی دوست ہیں اُن سے بھی چندے لو۔ ان میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے اندر دین کا درد ہے۔
مجھے یاد ہے میر محمد اسحق صاحب مرحوم جب بچے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے میرناصرنواب صاحب مرحوم کوجو ہمارے نانا تھے فرمایا کہ اسحق کو میرے پاس بھیجا کریں میں اس کو قرآن حدیث پڑھاؤں گا۔ وہ تھے تو اہلحدیث مگر طبیعت بڑی جوشیلی تھی کہنے لگے اسماعیل ڈاکٹر ی میں پڑھتا ہے اسحاق اگر آپ کے پاس قرآن حدیث پڑھے گا تواس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیشہ میرا ایک بیٹا میرے دوسرے بیٹے کے آگے ہاتھ پھیلائے گا کہ میرے لئے کچھ کھانے کا سامان کرو۔ حضرت خلیفہ اوّل فرمانے لگے کہ میر صاحب! آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ میرا ایک بیٹا دوسرے بیٹے کے آگے ہاتھ پھیلائے گا؟ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ میرے اس بیٹے کے طفیل خدا دوسرے بیٹے کو رزق دے گا۔ تو اپنی اولاد کو آپ لوگ یہ احساس پیدا کرائیں کہ جو تم میں سے واقفِ زندگی ہو تمہارا فرض ہے کہ اپنی آمدنوں میں سے ایک معقول حصہ اُس کی خدمت کے لئے دیا کرو تا کہ اُس کی فکرِ معیشت دور ہو جائے۔ سو ایک طرف جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے لڑکے ہیں اُن کو یہ تعلیم دیں اور جو دوسرے ہیں اُن کودینی تعلیم دلائیں۔ اور اصل چیز تو یہ ہے کہ قرآن شریف اور حضرت مسیحؑ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں پڑھ پڑھ کے آپ لوگ خود اپنی تعلیم اتنی مکمل کریں کہ اپنے گھروں میں ہی ہر شخص واقف ہوجائے۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو صحابہؓ تھے وہ کون سے شاہد پاس تھے۔ بس ایک آگ اُن کے دلوں میں لگی ہوئی تھی۔ وہ آگ لگ جائے تو سب کام آپ ہی آپ ہو جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو غور سے پڑھتے ہیں، سلسلہ کا لٹریچر غور سے پڑھتے ہیں قرآن شریف اور حدیث غور سے پڑھتے ہیں بغیر اِس کے کہ اُن کو کوئی بڑا علم آتا ہو وہ دنیا کے بڑے سے بڑے عالم پر غالب آ جاتے ہیں اور کوئی شخص ان کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔
مجھے یاد ہے لندن میں ہمارے ایک مبلغ ہو تے تھے چودھری ظہور احمد باجوہ۔ وہ آجکل ناظر رشد و اصلاح ہیں اُن کے ساتھ بعض دفعہ لوگوں کی گفتگو ہوتی تھی۔ بعض دفعہ انگریزوں کی اور بعض دفعہ جو بڑے بڑے ہوشیار اور جہاندیدہ پیغامی مبلغ ہیں اُن کی۔ جب وہ سوال و جواب آتا تو ہمیشہ ان کا خط پڑھ کر میرا دل کانپتا تھا کہ یہ کوئی غلطی نہ کربیٹھیں مگر ہمیشہ ہی میں نے دیکھا کہ جب میں ان کا جواب پڑھتا تھا تو دل خوش ہو جاتا تھا۔ وہ ایسا مکمل اور اعلیٰ جواب ہوتا تھا کہ میرا دل مانتا تھا کہ اس شخص کی اللہ تعالیٰ نے مدد کی ہے۔ تو سلسلہ کا لٹریچر پڑھو۔ عام طور پر سلسلہ کا لٹریچر چھاپنے والوں کوشکایتیں ہیں کہ لوگ ہم سے کتابیں نہیں لیتے حالانکہ یاد رکھو روٹی نہ لوتو کوئی حرج نہیں لیکن سلسلہ کی کتابیں لینا اور ان کو پڑھنا بڑی اہم چیز ہے۔ پس ان کتابوں کو پڑھو تا کہ اپنی زندگی میں خود بھی فائدہ اٹھاؤ اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچاؤ۔
اب میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو برکت والا کرے اور جو باتیں اس میں کہی جائیں۔ وہ سب نیک او رمفید ہوں جو تقریر کرنے والے ہیں ان کو خدا تعالیٰ توفیق دے کہ نیک اور صحیح اور اچھی باتیں کہیں۔ اور سننے والے ان تمام نیک اور صحیح اور اچھی باتوں کو اپنے دل میں اس طرح داخل کر لیں کہ پھر وہ وہاں سے نہ نکلیں اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کے اور ان کی نسلوں کے کام آتی رہیں۔ اور ہمارے نوجوان خصوصاً جو بچے وغیرہ آئے ہیں اُن کو خدا تعالیٰ ایسی توفیق دے کہ جب وہ جلسہ سے اٹھیں تو وہ عمر میں تو بچے ہوں لیکن عقل اور ایمان میں بُڈھے ہو چکے ہوں تا کہ ان کے ذریعہ ایک نئی ابراہیمی نسل چلے۔ تم میں سے ہر بچہ اگر اپنے دل میں یہ عہد کر لے کہ میں نے ابراہیم بننا ہے، میں نے علی بننا ہے، میں نے یحییٰ بننا ہے تو پھر وہی کچھ وہ بن جائے گا۔
حضرت ابراہیمؑ کوئی نو دس سال کے تھے ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ان کے والد فوت ہو گئے تھے اور چچا بت بیچا کرتے تھے۔ چچا نے ان کو کمائی کے لئے جو بتوں کی دکان تھی اُس میں اپنے بیٹوں کے ساتھ لگا دیا۔ ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بڈھا آدمی جو کوئی اسّی نوے سال کا تھا آیا اور آ کے کہنے لگا کہ مجھے ایک بُت چاہئے۔ وہ سب بُت پرست لوگ تھے انہوں نے کہا کہ پسند کر لو۔ اس نے ایک بُت جو نیا بن کے آیا تھا اور جو ذرا خوبصورت بنا ہؤا تھا اور جسے انہوں نے بتوں کے اوپر رکھا ہؤا تھا پسند کیا۔ چچا زاد بھائیوں نے ابراہیم کو کہا کہ تم ذرا اٹھ کے اُتار دو۔ انہوں نے وہ بُت اس کو اتار کر دیا تو ان کو سارا واقعہ یاد آ گیا کہ یہ کب بنا ہے۔ وہ دراصل ایک دن پہلے ہی بن کے آیا تھا۔ جب اس بڈھے نے وہ بُت لینا چاہا تو وہ اس کو دیکھ کر ہنس پڑے۔ وہ کہنے لگا بچے! تم کیوں ہنستے ہو؟ انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ تم نوے سال کے ہو اور یہ بت ابھی چند گھنٹے ہوئے بنا ہے تمہیں اس کے آگے سر جھکائے اور اس کے آگے بیٹھے ہوئے شرم نہیں آئے گی؟ اُس کو اتنا غصہ آیا کہ اُس نے وہ بُت وہیں پھینکا اور کہنے لگا کہ یہ لڑکا بڑا شرارتی ہے۔ اس نے تو مجھے ڈانواں ڈول کر دیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔ بھائیوں نے اپنے باپ کے پاس آ کر جو ان کے چچا تھے شکایت کی اور اس نے انہیں خوب مارا کہ تُو میری دکان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اِس طرح تو دکان تباہ ہو جائے گی۔ مگر دیکھو وہ ابراہیم کتنی برکتوں کا موجب ہؤا کہ آج بھی ہم کہتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ۔ تو تم میں سے ہر بچہ ابراہیمی نمونہ کی نقل کر سکتا ہے۔ آخر وہ اُس وقت دس سال کے قریب کے ہی بچے ہوں گے۔ گویا ابراہیم ؑ کے دین کی بنیاد اور ابراہیمی برکتوں کی بنیاد نو دس سال کی عمر میں ہی پڑی۔ پس خدا تمہیں بھی ان باتوں کے سننے کے بعد ابراہیمی ایمان بخشے۔
اِسی طرح حضرت علی کا واقعہ ہے۔ وہ بھی گیارہ سال کے تھے جب وہ دین کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی ہوئی تو آپ نے ایک دعوت کی جس میں مکہ کے تمام بڑے بڑے امراء کو بلایا اور انہیں کھانا کھلایا پھر آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں کچھ اپنے دعویٰ کی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر سارے اٹھ کر بھاگ گئے۔ یہ دیکھ کر حضرت علیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے اے بھائی! آپ نے یہ کیا کیا؟ آپ جانتے ہیں کہ یہ بڑے دنیا دار لوگ ہیں۔ ان کو پہلے سنانا تھا اور پھر کھانا کھلانا تھا یہ بے ایمان تو کھانا کھا کر بھاگ گئے کیونکہ یہ کھانے کے بھوکے ہیں۔ اگر آپ پہلے باتیں سناتے تو چاہے دو گھنٹہ سناتے وہ ضرور بیٹھے رہتے پھر ان کو کھانا کھلاتے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس طرح کیا پھر دوبارہ ان کو بلایا اور ان کی دعوت کی لیکن پہلے کچھ باتیں سنا لیں اور پھر کھانا کھلایا۔ اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا اے لوگو! میں نے تمہیں خدا کی باتیں سنائی ہیں کیا کوئی تم میں سے ہے جو میری مدد کرے اور اس کام میں میرا ہاتھ بٹائے؟ مکہ کے سارے بڑے بڑے آدمی بیٹھے رہے۔ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اے میرے چچا کے بیٹے! میں ہوں۔ میں آپ کی مدد کروں گا۔ آپ نے سمجھا کہ یہ تو بچہ ہے چنانچہ پھر آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! کیا تم میں سے کوئی ہے جو میری مدد کرے؟ پھر سارے بڈھے بڈھے بیٹھے رہے اور وہ گیارہ سال کا بچہ کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ میرے چچا کے بیٹے! میں جو ہوں میں تیری مدد کروں گا۔3 پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا پھر خدا کے نزدیک جوان یہی گیارہ سالہ بچّہ ہے باقی بڈھے سب بچے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ان کو اپنے ساتھ ملا لیااور پھر وہی علیؓ آخر تک آپ کے ساتھ رہے اور پھر آپ کے بعد خلیفہ بھی ہوئے اور انہوں نے دین کی بنیاد ڈالی۔ اسی طرح آپ کی نسل کو بھی اللہ تعالیٰ نے نیک بنایا اور بارہ نسلوں تک برابر ان میں بارہ امام پیدا ہوئے۔
یہ بھی ابراہیمی ایمان تھا۔ ابراہیم ؑ کی نسل میں بھی ان کے ایک بیٹے سے بارہ امام بنے تھے۔ اِسی طرح حضرت علیؓ سے بھی بارہ امام پیدا ہوئے۔ مگر کتنا افسوس ہے کہ بعض مخلص لوگ فوت ہوتے ہیں تو ان کے بیٹے ہی خراب ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات پوتا خراب ہو جاتا ہے۔ مگر علیؓ کے اندر کیسا ابراہیمی ایمان تھا اور ابراہیم ؑ کے اندر کیسا ایمان تھا کہ بارہ نسلوں تک برابر ان میں یہ ذمہ داری کا احساس چلتا چلا گیا کہ ہم نے دین کی خدمت کرنی ہے۔ اگر تمہارے بچّے بھی یہ ارادہ کر لیں تو پھر کوئی فکر نہیں۔ بڈھوں نے تو آخر مرنا ہے۔ خدا تعالیٰ نے آدم کے زمانہ سے لے کر آج تک ہر ایک کے لئے موت مقرر کی ہوئی ہے مگر جب یہی بچّے بڈھے بن جائیں گے تو پھر کوئی فکر نہیں ہو گی کہ دین کا کیا بنے گا۔ یہی نو دس سال کے بچے ایسے طاقتور پہاڑ بنیں گے کہ اگر دنیا ان سے ٹکرائے گی تو دنیا کا سر پاش پاش ہو جائے گا مگر یہ اپنے مقام سے نہیں ہٹیں گے اور احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا کے رہیں گے۔ لیکن یہ سارے کام دعاؤں سے ہو سکتے ہیں۔ ہمارے اختیار میں تو خود اپنا دل بھی نہیں ہوتا۔ لیکن خدا کے اختیار میں ہمارا بھی دل ہے، ہماری اولادوں کا بھی دل ہے اور اولادوں کی اولادوں کا بھی دل ہے۔ ہمیں تو دس بارہ نسلیں کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کیونکہ نظر تو یہ آتا ہے کہ بارہ تک پہنچنا بھی ہمارے اختیار میں نہیں۔ اگر یہ دریا کی نہر ہمارے دہانے میں سے گزرے تو خبر نہیں بارہ نسلوں تک پہنچے گی بھی کہ نہیں۔ مگر خدا کی یہ طاقت ہے کہ وہ بارہ ہزار نسلوں تک پہنچا دے ۔اس لئے آؤ ہم خدا سے دعا کریں کہ وہ اِس جلسہ کو بابرکت کرے اور اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کوہزاروں پُشتوں تک دین کا بوجھ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیشہ ان میں ایسے کامل انسان پیدا ہوں جو اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق رکھنے والے ہوں اور اس کے دین کی اشاعت کرنے والے ہوں تا کہ احمدیت اور اسلام کا پیغام دنیا میں پھیل جائے اور ہم خداتعالیٰ کے سامنے سر خرو ہو جائیں۔ اپنی طاقت سے نہیں، اپنی قوت سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیونکہ یہ طاقت خدا میں ہے ہم میں نہیں۔ ہمارا دعویٰ کرنا باطل ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہماری اولاد میں سے کسی کو خدمتِ دین کی توفیق ملتی ہے تو ہماری وجہ سے نہیں ملتی خدا کی وجہ سے ملتی ہے۔ ہم میں اِس کی توفیق نہیں ہے۔ اگر ہم میں توفیق ہوتی تو ہم اپنی ساری اولادوں کو کیوں نہ ٹھیک کر لیتے۔ اب میں دعا کروں گا مگر اس سے پہلے مختلف مقامات سے دوستوں کی جو تاریں دعا کے لئے آئی ہوں وہ اختر صاحب پڑھ کر سنا دیں گے۔ ’’
اس کے بعد مکرم اختر صاحب نے تاریں پڑھ کر سنائیں۔ تاروں کے سنائے جانے کے بعد حضور پھر کھڑے ہوئے اور فرمایا۔
‘‘اب میں دعا کروں گا۔ میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ خصوصیت سے قادیان کے لئے، قادیان والوں کے لئے اور ہندوستان کی جماعتوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کا حافظ و ناصر ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ چندہ دینے والے لوگ اِدھر آ گئے ہیں اور وہاں صرف کھانے والے رہ گئے ہیں۔ اُن لوگوں کو گزارہ کی بڑی دقتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے اپنے فضل سے سامان پیدا کرے۔ جس کی یہی صورت ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھا دے اور پھر ہمارے جو دوست قادیان میں ہیں ان کے حوصلے بڑھائے اور وہ تبلیغ کی طرف توجہ کریں۔
اِسی طرح سے قادیان کے باہر ہندوستان میں جو جماعتیں ہیں وہ بھی بڑی مشکلات میں ہیں یعنی ان کو کاروباری دقتیں ہیں کیونکہ مسلمان کم ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کا رسوخ بھی کم ہو گیا ہے۔ اسی طرح بعضوں کی تجارت کو نقصان پہنچا ہے اور بعضوں کے کارخانوں کو نقصان پہنچا ہے۔ پس دوست ان سب کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کی مشکلات کو دور کرے اور سب کو اتنی برکتیں بخشے کہ وہ آپ بھی خوش رہیں اور قادیان والوں کی بھی امداد کر سکیں۔ ہندوستان میں چالیس کروڑ کی آبادی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ہمیں ایک کروڑ بھی ان میں سے مل جائے تو قادیان کی آبادی کے لئے یہ بڑا کافی ہو جاتا ہے۔ مگر ہم تو اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک کروڑ کہتے ہیں ورنہ اصل میں چالیس میں سے اکتالیس ملنے چاہئیں۔ چالیس تو وہ جو اَب ہیں اور ایک وہ جو اُس وقت تک پیدا ہوجائے گا۔سو اللہ تعالیٰ فضل کرے کہ اگر اب احمدیت اور اسلام کو ایک ملک میں پھیلا دے تو یہ جو سیاسی روکیں ہیں یہ آپ ہی آپ دور ہو جاتی ہیں۔ اگر سارے دل اکٹھے ہو جائیں، سارا ہندوستان مسلمان ہو جائے تو پاکستان اور ہندوستان کا دل ایک ہو جائے گا۔ آج تو لوگ کہتے ہیں ہندوستان میں یہ تقریر پاکستان کے خلاف ہوئی اور ہندوستان والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ تقریر ہندوستان کے خلاف ہوئی لیکن اگر دونوں کے دلوں میں ایمان پیدا ہو جائے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں تو ایک دوسرے کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس طرح دلوں کو آپس میں صاف کر دے کہ ایک دوسرے کے حق بھی مل جائیں اور پھر ایمان میں بھی متحد ہو جائیں اور سارے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہو جائیں اور سب ہی ہم کو پیارے ہو جائیں کیونکہ اصل حکومت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہندوستان میں قائم ہو جائے تو پاکستان اور ہندوستان کے اختلاف آپ ہی ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حکومت میں کوئی باڈر نہیں وہ ساری ایک ہے۔ ہم تو کسی زمانہ میں ایک وطنی تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ میرے مذہب میں کالے گورے کی کوئی تمیز نہیں۔ ایرانی اور رومی اور عرب میں کوئی تمیز نہیں۔ پس اگر خدا تعالیٰ ان سب کو مسلمان بنا دے اور خدا تعالیٰ سے یہ کوئی بعید بات نہیں تو یہ سارے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں اور ہمارے دونوں ملک اتحاد اور اتفاق کے ساتھ بہت سی ترقیات حاصل کر سکتے ہیں جو اِس اختلاف کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔’’
اس کے بعد حضور نے لمبی دعا کروائی۔دعا سے فارغ ہونے پر حضور نے پہلے تو یہ اعلان فرمایا کہ میں نماز مسجد مبارک میں پڑھوں گا اور اس کے بعد فرمایا: -
‘‘اِس دفعہ ملاقاتیں مختصر کی گئی ہیں امید ہے کہ دوست اس کی پروا نہیں کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تو ملاقاتیں ہؤا ہی نہیں کرتی تھیں۔ آپ سیر کو جاتے تھے دوست دیکھ لیتے تھے۔ اور اگر بعض کو موقع ملتا تو مصافحہ بھی کر لیتے تھے۔ تقریریں بھی مختصر ہوتی تھیں۔ حضرت خلیفہ اوّل کی تقریر تو پندرہ بیس پچیس منٹ ہو تی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری جلسہ کی تقریر مجھے یاد ہے کہ پچاس یا پچپن منٹ کی ہوئی تھی اور ہم بڑی باتیں کرتے تھے کہ آج بڑی لمبی تقریر ہوئی ہے اور جماعت میں بڑا شور پڑا کہ آج حضور نے بڑی لمبی تقریر کی ہے۔ آپ لوگوں کو چھ چھ گھنٹے سننے کی عادت پڑی ہوئی ہے اب بیس پچیس یا تیس منٹ کی تقریر ہو تو بڑے مایوس ہو جاتے ہیں کہ بہت چھوٹی تقریر ہوئی ہے۔ لیکن اصل تقریر تو وہی ہے جس کو آپ اپنے دل میں رکھ لیں۔ جو میرے منہ سے نکل کر ہوا میں اُڑ جائے وہ کوئی تقریر نہیں چاہے وہ آٹھ گھنٹے کی ہو یا بیس گھنٹے کی ہو۔ اور جو آپ اپنے دل میں رکھ لیں وہ پانچ منٹ کی بھی بڑی ہے۔ سو دعائیں کرتے رہو، جلسہ کے ایام میں ذکرِ الٰہی کرو اور یہ بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جو مجھے بولنے کی توفیق دے وہ صحت کے ساتھ دے۔
میں نے خدام کے جلسہ میں کہا تھا کہ اب تو مجھے کوئی ''زندہ باد'' کہتا ہے تو میرا دل گھٹنے لگ جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بیماری میں ''زندہ باد'' کا کیا فائدہ ہے۔ دوست یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دے اور صحت کے ساتھ اپنی خوشنودی کے مطابق کام کرنے کی توفیق دے۔ اور صحت کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ کام کرنے کی توفیق ملے تو تھوڑے سال بھی بڑے کافی ہوتے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں صرف آٹھ سال ملے۔ مگر آٹھ سال میں آپ نے سارا عرب فتح کر لیا۔ ہمارا کام بے شک اس لحاظ سے مشکل ہے کہ ہم نے دل فتح کرنے ہیں اور دلوں کو فتح کرنے میں ذرا دیر لگتی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دل فتح کرنے میں دیر لگی تھی۔ چنانچہ دیکھ لو جو مکہ والے مسلمان ہوئے وہ تیرہ سالہ تبلیغ کے بعد ہوئے تھے اور وہ بھی تھوڑے سے تھے۔ لیکن فتح مکہ کے بعد لوگ بڑی کثرت سے اسلام میں داخل ہوگئے مگر وہ دس یا پندرہ یا پندرہ ہزار جتنے بھی داخل ہوئے اُن ساروں کا ایمان اِتنی بھی قیمت نہیں رکھتا تھا جتنا ابوبکرؓ کے ایمان کا ہزارواں حصہ رکھتا تھا۔ سو ہمارا کام مشکل ہے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو کھول دے۔ اِس وقت یورپ اور امریکہ کے دل اسلام کی طرف مائل ہیں۔ خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کے دل جلد سے جلد اسلام کی طرف مائل کرے اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیں کہ وہ ملک جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تردید میں لگے ہوئے ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں۔ یہ اگرہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہمارے ہاتھوں سے ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہماری زندگیوں میں ہو جائے تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری زندگیاں بڑی خوش ہو جاتی ہیں، پھر دنیا کی کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ پھر ہمیں نظر آ جائے گا خدا ہم سے خوش ہو گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فعل سے بتا دیا ہے کہ وہ غفور الرحیم ہمیں معاف بھی کر رہا ہے اور اپنی رحمت کے سامان بھی کر رہا ہے۔ پس ان دعاؤں میں لگے رہو۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔’’
تقریر کے آخر میں حضور نے اعلان فرمایا کہ:-
‘‘ چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی لڑکی کے نکاح کی تقریب پر کچھ دوستوں کو چائے کے لئے بلایا ہے۔ میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ فتویٰ جماعت میں مشہور ہے کہ رخصتانہ کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے لوگوں کو کھانے کی دعوت نہ دی جایا کرے پس اس لئے کہ لوگوں کو یہ شبہ پیدا نہ ہو مَیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ جو فتویٰ ہے وہ بارات کے آنے کے متعلق ہے اور آج بارات وغیرکا کوئی سوال نہیں۔ آج تو صرف نکاح ہؤا ہے بارات نہیں آئی۔ دوسرے چودھری صاحب خود باہر رہتے ہیں اور وہ اِس وقت باہر سے ہی آئے ہیں۔ وہ فتویٰ مقامی لوگوں کے متعلق ہے۔ پس کوئی یہ نہ سمجھے کہ چودھری صاحب نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ خلاف ورزی نہیں بلکہ یہ صورت بالکل اَور ہے۔ اوّل تو یہ نکاح ہے۔ دوسرے چونکہ وہ باہر سے آئے ہیں جو دوست ان کے ملنے والے اور ان سے تعلق رکھنے والے ہیں اُن کے متعلق بہرحال دل میں خواہش ہوتی ہے کہ انہیں ایسی تقریب میں خاص طور پر شامل کیا جائے اس لئے ان کا یہ فعل اس فتویٰ کے خلاف نہیں بلکہ یہ استثنائی صورت رکھتا ہے اور اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ جو فتویٰ ہے وہ یہ ہے کہ بارات آئے تو اُس کی دعوت کر کے کھانا کھلانا ایک رسم ہے مگر یہ شادی نہیں نکاح ہے۔ ہمارے ملک میں تو یہ قاعدہ ہے کہ عام طور پر ایسی تقریبوں میں اُسی وقت نکاح اور اُسی وقت رخصتانہ کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں احمدیوں میں یہ دستور ہے کہ نکاح الگ ہو جاتا ہے اس لئے یہ چیز ہی الگ ہے جو رسم کے نیچے نہیں آتی۔ کیونکہ جو لوگ رسمیں بناتے ہیں اُن کا یہ قاعدہ ہی نہیں کہ وہ نکاح الگ پڑھائیں۔ وہ نکاح اور شادی اکٹھی کرتے ہیں اور پھر شادی کے ساتھ ہی باراتیوں کو کھانا کھلانے کا ایک بڑا خرچ انہوں نے نکالا ہؤا ہے جس سے ہم نے اپنی جماعت کو منع کیا ہوا ہے۔ پس چودھری صاحب کا جو فعل ہے یہ اس اعتراض کے نیچے نہیں آتا اور نہ اس رسم سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے اس کے نیچے آتا ہے۔ ’’
(روزنامہ الفضل ربوہ 10فروری 1956ء)
1 تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20صفحہ 67مفہوماً
2 وَالَّذِیْنَ جَآءُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ (الحشر:11)
3 تفسیر طبری سورۃ الشعراء زیر آیت ‘‘وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ’’۔







متفرق امور
(27 دسمبر 1955ء)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

متفرق امور

(فرمودہ 27دسمبر 1955ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘آج صبح تو میری طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور مجھے یہ وہم پیدا ہونے لگا تھا کہ آیا میں دوستوں کے سامنے چند منٹ بھی بول سکوں گا یا نہیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے بعد میں افاقہ ہونا شروع ہؤا۔ گو اب بھی ڈاکٹروں کا اور جو دوست مرض میں میرے ساتھ رہے ہیں اُن کا زور اِس بات پر ہے کہ میں چند منٹ سے زیادہ تقریر نہ کروں۔ گو ڈاکٹروں کی رائے کا یہ اختلاف میری سمجھ میں نہیں آتا۔ لندن میں ڈاکٹر نے مجھے یہ پیغام بھیجا تھا کہ جتنی چاہو لمبی تقریر کرو کچھ پروا نہیں۔ صرف اپنی تھکان کو دیکھا کرو۔ اگر تھکان محسوس ہو تو چھوڑ دو ورنہ ڈاکٹری لحاظ سے کوئی روک نہیں ہے۔ کراچی میں بھی میں نے ایک گھنٹہ سے زیادہ کی تقریر کی اور ایک دفعہ زیورک میں بھی ایک گھنٹہ سے زیادہ کی تقریر کی اور اس کی ایک خصوصیت بھی تھی۔ اُس وقت طبیعت پر ایک بوجھ بھی تھا کیونکہ ان لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ انگریزی میں تقریر کریں اور انگریزی میں تقریر کرنے کا میں عادی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ترجمان مقرر کئے ہوئے ہیں جو فوراً مختلف زبانوں میں اِس کا ترجمہ کر کے اس کو ساری بلڈنگ میں پھیلا دیں گے اور ہرزبان والا آدمی ہیڈ فون لگا کے وہ تقریر سن لے گا۔ اور ایک ایسی زبان میں تقریر کرنا جس کی عادت نہ ہو اور بھی بوجھ ہوتا ہے مگر پھر بھی کوئی ایک گھنٹہ سولہ منٹ تک وہ تقریر اور سوال و جواب جاری رہا۔ لیکن یہاں آکر میں سمجھتا ہوں کہ میری طبیعت پر وہی اثر ہے جس کے متعلق ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ آپ کی بیماری زیادہ تر اعصابی رہ گئی ہے۔ چنانچہ یہی مجلس ہؤا کرتی تھی اور اس جگہ پر بڑے بڑے مجمع کے سامنے بغیر تھکان کے میں چھ چھ سات سات گھنٹے تقریر کر جاتا تھا۔ اب وہ بات یاد آتی ہے تو طبیعت پر اثرہوتا ہے کہ اب مجھے کہا جاتا ہے کہ چند منٹ سے زیادہ تقریر نہ کرنا۔اِس وجہ سے طبیعت میں قدرتاً گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے ورنہ پرسوں شام کو اور کل صبح ایسے وقت بھی آئے جب طبیعت میں بالکل ایسا اطمینان پیدا تھا کہ جیسے مجھے کوئی بیماری ہے ہی نہیں۔ مگر بعد میں تھکان کی وجہ سے یا پھر اِس مجمع میں آنے کی گھبراہٹ کی وجہ سے طبیعت شام سے خراب ہو گئی۔ صبح پھر کچھ دیر خراب رہنے کے بعد اچھی ہونی شروع ہوئی۔ بہرحال میں کوشش کروں گا کہ دوستوں تک اپنے خیالات کو پہنچا سکوں۔
کل بھی میں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لمبی تقریریں نہیں ہؤا کرتی تھیں۔ لوگ عمل زیادہ کرتے تھے اور باتیں سننے کے کم عادی تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل کی تقریر عام طور پر پندرہ بیس منٹ ہوتی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آخری تقریر جو 1907ء میں ہوئی وہ 45یا 50 منٹ کے قریب ہوئی تھی اور بڑا شور پڑ گیا تھا کہ آج تو بڑی لمبی تقریر تھی۔ آجکل زبان کا چسکا پڑ گیا ہے اب آپ لوگ زبان کے چسکا کو چھوڑ دیں اور عمل کی طرف توجہ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے آپ جلدی جلدی اس کا م کو طے کر لیں جو کہ آپ کے ذمہ لگایا گیاہے۔ بڑی مشکل یہ ہے کہ سب سے زیادہ اثر اِس بیماری کا میری آنکھوں پر پڑا ہے۔ شروع میں تو اس کا پتہ بھی نہیں لگا لیکن آہستہ آہستہ پتہ لگا اب میں پڑھ نہیں سکتا۔ یہ مطلب نہیں کہ حرف نظر نہیں آتے۔ حرف تو نظر آتے ہیں بلکہ اب بھی اگر پڑھنے والی عینک لگا لوں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ بغیر عینک کے مجھے زیادہ آرام رہتا ہے لیکن طبیعت میں پریشانی شروع ہو جاتی ہے۔ لائل پور میں ایک بڑے لائق ڈاکٹر ہیں۔ میں نے اُن کو یہاں بلوایا اور میں نے کہا کہ دیکھئے میں نے قرآن شریف کا ایک سیپارہ ہی پڑھا تھا کہ میری طبیعت گھبرا گئی۔ اُس بیچارے کو تو قرآن شریف پڑھنے کی عادت نہیں تھی۔ کہنے لگا ایک سیپارہ بھی تو بڑی چیز ہے۔ میں نے کہا آپ میرا حال تو نہیں جانتے۔ میں نے تو تندرستی میں بعض دفعہ رمضان شریف میں پندرہ پندرہ سولہ سولہ سیپارے ایک سانس پڑھے ہیں۔ پس میری تو ایک سیپارہ پر گھبراہٹ سے جان نکلتی ہے کہ مجھے ہو کیا گیا ہے کہ یا تو پندرہ سولہ سیپارے پڑھنے اور ساتھ ہی زبان سے بھی پڑھتے جانا اور آنکھوں سے بھی دیکھتے جانا اور کُجا یہ کہ ایک سیپارے کے ساتھ ہی گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے۔ وہ بیچارہ اِس پر کہنے لگا کہ یہ تو بہت بڑا کام ہے۔ غرض لکھے ہوئے نوٹ پڑھنے مجھے مشکل نظر آتے ہیں یوں تو میں انشاء اللہ تعالیٰ پڑھ لوں گا لیکن یہ ڈر آتا ہے کہ نظر پر بوجھ پڑنے کی وجہ سے گھبراہٹ نہ شروع ہو جائے۔
پہلا مضمون تو میں جماعت کے سامنے یہ لیتا ہوں کہ خدمتِ خلق مومن کا ایک خاصہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اسلام کا خلاصہ ہے تعلق باللہ اور شفقت علیٰ خلقِ اللہ۔ یعنی انسان خدا سے محبت کرے اور اس کے بندوں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرے۔ پچھلے سیلابوں کے وقت میں پاکستان کے خدام نے نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا ہے۔ اِسی طرح قادیان کے خدام نے بھی اچھا نمونہ دکھایا ہے اور اس کا لوگوں کی طبیعتوں پر بڑا اثر ہؤا ہے۔
یاد رکھو کہ اِس وقت تک یورپ کے لوگ مسلمانوں کو یہی طعنہ دیتے چلے آئے ہیں کہ یہ منہ سے تو بڑی اچھی تعلیمیں بیان کرتے ہیں لیکن عملاً ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ یہ کبھی بھی بنی نوع انسان کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم محض زبانی ہے عملی نہیں۔ وہ تو حکومت کے متعلق کہتے ہیں کہ کہنے کو تو حکومت کے متعلق بہت اچھے قانون ہیں مگر کون سی اسلامی حکومت ہے جس نے اسلام پر عمل کیا ہے۔ مگر وہ تو ہمارے بس کی بات نہیں نہ ہمارے پاس حکومت ہے اور نہ ہم وہ نمونہ دکھا سکتے ہیں۔ اگر کسی ملک میں اللہ تعالیٰ نے حکومت دی اور وہاں کے احمدیوں کے اندر اخلاص قائم رہا اور انہوں نے نمونہ دکھایا تو پھر ان کا منہ بند ہو گا۔ مگر کم سے کم جو ہمارے اندر خدمتِ خلق کی طاقت ہے اُس کا تو ہم نمونہ دکھائیں۔
پس ہمیں ہر موقع پر خدمتِ خلق کو پیش کرنا چاہئے۔ مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انتظار کرنا کہ کوئی طوفان آئیں تو پھر خدمتِ خلق کریں یہ بُری بات ہے۔ یہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا طوفان نہ لائے۔ خدمت کے ہر وقت مواقع ہوتے ہیں۔ مثلاً بیوائیں دنیا میں ہوتی رہتی ہیں، یتامیٰ ہوتے ہی رہتے ہیں۔ان کے لئے بیماریوں میں نسخے لا دینا، دوائیاں لا دینی، گھر کا سامان خرید کے لا دینا یہ چیز ہر وقت ہو سکتی ہے۔ پس خدام الاحمدیہ کو طوفانوں کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ دوسرے دنوں کے لئے بھی کام نکالنے چاہئیں جن میں خدمتِ خلق ہو سکے اور لوگوں کی تکلیف کو وہ دور کر سکیں۔ پس اس کو ہمیشہ یاد رکھو جیسا کہ میں نے بتایا ہے آج تک یورپ اور امریکہ اِس خدمتِ خلق کی روح کو اسلام کے خلاف اپنی عظمت میں پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں عیسائی بڑی خدمت کرتے ہیں مسلمان نہیں کرتے۔ اور شرم کی بات ہے کہ ہم ان کا جواب نہیں دے سکتے۔ اگر ہماری جماعت کے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ خدمتِ خلق کا اعلیٰ درجہ کا نمونہ پیش کریں تو ہم یورپ اور امریکہ کے منہ بند کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ جو تم خدمت کرتے ہو اُس سے بڑھ کر خدمت کرنے والے ہم ہیں۔
یہ مت خیال کرو کہ لوگ قدر نہیں کرتے۔ قدر کرنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر خان صاحب جو ہمارے وزیر اعلیٰ ہیں۔ وہ سیالکوٹ گئے تو خدام نے ان کی طرف ایک رقعہ لکھا کہ ہم اس طرح کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے جیسا کہ افسروں کا قاعدہ ہوتا ہے وہ رقعہ ڈپٹی کمشنر کو دے دیا۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا ہاں واقع میں یہ بہت خدمت کر رہے ہیں۔ اِس پر ڈاکٹر خان صاحب نے کہا کہ افسوس ہے کہ یہ لوگ خدمتِ خلق کرتے ہیں لیکن لوگ اِن کو آگے نہیں آنے دیتے۔ تو دیکھو وزیر اعلیٰ کو تسلیم کرنا پڑا کہ تم خدمتِ خلق کر رہے ہو۔ ہمارے پاکستان میں تو مولویوں کے ڈر سے افسر بڑے ڈرتے ہیں اور وہ ہماری تعریف نہیں کر سکتے۔ ڈرتے ہیں کہ مولوی پیچھے پڑجائیں گے۔ لیکن ہندوستان میں یہ بات نہیں وہاں ہندو سمجھتا ہے کہ میری حکومت ہے مجھے مولویوں کا کیا ڈر ہے۔ یہاں ہم نے سیلاب کے موقع پر پچاس ساٹھ ہزار سے زیادہ روپیہ خرچ کیا اور سینکڑوں آدمی دو مہینے کام پر لگے رہے مگر صرف ڈاکٹر خان صاحب کو توفیق ملی کہ انہوں نے پبلک میں ( پبلک سے مراد تقریر نہیں بلکہ یہ کہ وہاں لوگ موجود تھے) یہ کہا کہ یہ جماعت خدمتِ خلق کرنا چاہتی ہے پر معلوم نہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ان کو آگے نہیں آنے دیتے۔ لیکن وہاں قادیان میں ہمارے کُل تین سو آدمی ہیں۔ یہاں ایک ضلع میں ہمارا آٹھ آٹھ سو آدمی گیا ہے مگر وہاں ہے ہی ساری آبادی تین سو۔ تین سو میں سے پچاس ساٹھ آدمی طوفان کے موقع پر باہر گئے تھے لیکن دو وزراء نے تحریراًشکریہ کے خطوط بھجوائے کہ آپ لوگوں نے بڑی خدمت کی ہے۔ اِسی طرح انسپکٹر جنرل پولیس نے شکریہ ادا کیا اور بعض اخبارات نے اس پر نوٹ لکھے۔ اخبارات نے تو یہاں بھی شرافت سے کام لیا اور وہ جماعت کی خدمت کو پیش کرتے رہے گو ڈرتے بھی رہے۔ وہ ساتھ ساتھ دوسری جماعتوں کا نام بھی لکھ دیتے تھے جن کے بعض دفعہ کچھ بھی آدمی نہیں ہوتے تھے۔ پس خدمت کی اس روح کو قیامت تک جاری رکھو۔ یاد رکھو کہ زندگی کا مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ سے محبت کی جائے اور بنی نوع انسان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے۔ اگر اس روح کو قائم رکھو گے تو تمہاری کامیابی اور تمہاری ترقی میں کوئی شبہ نہیں۔
لوگ تو عمل کو دیکھتے ہیں۔ بے شک نماز بھی بڑی قیمتی چیز ہے، روزہ بھی بڑی قیمتی چیز ہے لیکن تمہاری نماز تمہارے گھر میں دیکھنے کے لئے کون آتا ہے۔ مسجد میں بھی نماز پڑھو گے تو تمہارے ساتھی اور ہمسائے ہی دیکھیں گے دوسری قوموں کے لوگ تو تمہیں دیکھنے کے لئے مسجد میں نہیں آنے کے۔ ان کو تبھی پتہ لگے گا جب تم بیواؤں اور مسکینوں کی خدمت کرو گے، بیماروں کی تیمارداری کروگے اورطوفانوں اور مصیبتوں کے وقت میں باہر نکل کر کام کروگے پھر ان کو پتہ لگے گا کہ یہ لوگ کام کررہے ہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے نماز اور دعائیں بھی بڑی اہم چیز ہیں اور مومن کی تو جان ہیں ان پر بھی زور دیتے رہواور کبھی ان سے غفلت نہ کرو۔یاد رکھو کہ علاوہ اس کے کہ نماز اور دعا سے خدا سے تعلق بڑھتا ہے یہ مومن کی حفاظت کا بھی موجب ہوتا ہے۔ جب کبھی کوئی نئی جماعت شروع ہوتی ہے تو لوگ اُس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اُس وقت اس بات کی بڑی ضرورت ہوتی ہے کہ خدا ہر وقت اُس کے ساتھ رہے اور ہر وقت اُس کی مدد کرے۔
اِس کے بعد میں جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہماری جماعت پر ہے جس سے ہم بڑی غفلت کر رہے ہیں۔ اور وہ ذمہ داری حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم پر یہ لگائی تھی کہ ریویو آف ریلیجنز کی دس ہزار اشاعت کی جائے لیکن اب تک وہ ایک ہزار چھپتا ہے۔ اور ایک ہزار پرچہ کی بھی آدھی قیمت تحریک دیتی ہے اور آدھی صدر انجمن احمدیہ دیتی ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے اب ہماری لاکھوں کی جماعت ہے اور لاکھوں کی جماعت میں دس ہزار ریویو آف ریلیجنز چھپنا کون سی بڑی بات ہے۔ دس روپیہ اِس کی قیمت ہے۔ اگر آہستہ آہستہ باقاعدہ کوشش رہے تو خریداری بڑھ سکتی ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نے تحریک کی اور پھر خاموشی ہو گئی۔ اگر یہ تحریک جاری رہے تو ایک دو سال میں دس ہزار خریدار ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ بہرحال میں پھر اپنی ذمہ داری کو ادا کرتا ہوں اور یہ اعلان کرتا ہوں کہ انشاء اللہ پچاس سے سو پرچہ تک مفت جاری کرنے کے لئے مَیں بھی رقم دینے کی کوشش کروں گا۔ یورپ اور امریکہ میں تبلیغ کا ذریعہ اب ہمارے پاس صرف انگریزی لٹریچر ہی ہے۔ باہر سے جو خبریں آ رہی ہیں باوجود اس کے کہ ابھی تک ہم اُس کو پورا منظّم نہیں کر سکے وہ بڑی خوش کُن ہیں۔ یورپ میں تو ایک ایک ماہوار علمی رسالہ پر چھ چھ سات سات ایڈیٹر ہوتے ہیں۔ ہم صرف ایک ایڈیٹر مقرر کرتے ہیں اور اُسی کو کہتے ہیں کہ پروف بھی تُو ہی پڑھ اور مضمون بھی مہیا کر اور لکھ بھی۔ غرض سارا کام تُو کر۔ پھر وہ بیچارہ جو کچھ لکھے گا وہ آخر اس کی حیثیت کے مطابق ہو گا۔ پرانے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ریویو میں مضمون دیتے ہیں اور ان مضامین کے ترجمے ہو جاتے تھے۔ اب وہ بات تو نہیں ہے مگر باہر سے جو رپورٹیں آئیں ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس حالت میں بھی یہ بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ مثلاً انڈونیشیا کے ایک مبلغ نے لکھا ہے کہ وہ وہاں کی مذہبی اور پولیٹیکل پارٹیوں کے ایک بہت بڑے لیڈر سے ملنے کے لئے گیا (میں اُس کا نام نہیں لیتا کہ اِس طرح شور پڑ جائے گا اور شاید بعض غیراحمدی اس کو تاریں دینے لگ جائیں کہ تم یہ کیا غضب کرتے ہو کہ ریویو پڑھتے ہو) تو اس کے سیکرٹری نے بتایا کہ وہ باقاعدہ ریویو کی جلدیں بندھوا کے اپنی لائبریری میں رکھتا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ جولائی سے اس کو پرچہ نہیں ملا اس کا اس کو بڑا افسوس ہے۔ وہ تو میں نے ہدایت دے دی ہے کہ پرچے باقاعدہ جایا کریں لیکن تم اتنا تو کرو کہ ایک ہزار پرچہ انجمن اور تحریک چھپواتی ہے اور ایک ہزار پر دس ہزار روپیہ خرچ آتاہے تم دو ہزار سے ہی ابتدا کر دو اور پھر اگلے سال اس کو چار پانچ ہزار بنانے کی کوشش کرو۔ اس طرح سارا سال لگے رہو تو انشاء اللہ آہستہ آہستہ دس ہزار تک پہنچ جائے گا۔ اِسی طرح ایک اَور پاکستانی علاقہ سے اطلاع آئی ہے کہ یہاں کے جو بڑے بڑے علماء اور امراء ہیں ان کی لائبریریوں میں ہم گئے تو انہوں نے ریویو رکھے ہوئے تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم اسے باقاعدہ پڑھتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے بھی یہ شکایت کی ہمیں کچھ مہینے سے یہ رسالہ نہیں مل رہا۔ اب میں نے پھر تاکید کر دی ہے کہ کسی معقول طریق پر کام کرو۔یہ نہیں کہ ایک غیر احمدی کو رسالہ بھیجتے رہے اور ایک دن آ کر اس کو کہہ دیا کہ قیمت بھیج، نہ بھیجے تو بند کر دیا۔ بلکہ اپنے دوستوں میں اس کی خریداری بڑھانے کی کوشش کرو۔ کوئی نہ کوئی خدا کا بندہ ایسا نکل آئے گا جو قیمت دے دے گا۔ یورپ میں بھی کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ ہم باقاعدہ ریویو کو پڑھنے والے ہیں۔
ایک اَور بات کی طرف بھی میں جماعت کوتوجہ دلاتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے انگریزی ترجمہ اور تفسیر کی بڑی جلد ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے۔ انگریزی کی مثل ہے کہ مصیبت اکیلی نہیں آتی۔ گو ہمارے ہاں بڑی اچھی مثل بھی ہے۔ہمارے ہاں یہ مثل ہے کہ ''جب خدا دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کے دیتا ہے'' خدا کرے ہماری مثل ہی ہم پر صادق آئے۔ وہ انگریزی مثل ہم پر صادق نہ آئے۔ اُدھر درد صاحب فوت ہوئے، صوفی مطیع الرحمن صاحب فوت ہوئے جو ریویو کے ایڈیٹر تھے اور اِدھر اطلاع ملی ہے کہ ملک غلام فرید صاحب جو قرآنِ شریف کے نوٹوں کا ترجمہ کر رہے ہیں اُن کی صحت سخت خراب ہے اور ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آپ کے دل پر بڑا سخت حملہ ہؤا ہے۔ غرض قرآن شریف کی انگریزی تفسیر کی بڑی ضرورت ہے۔ یورپ میں مَیں جہاں بھی گیا سب جگہ پر لوگوں نے اِس کے متعلق سوال کیا اور کہا کہ جلدی بھیجو۔ غیر ملکوں سے بھی مطالبہ آیا ہے کہ اس کو مکمل کرو۔ اِس نام کے لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ جس شخص کا میں نام لوں گا وہ مولویوں سے ڈرنے والا نہیں وہ نیشنلسٹ ہے۔ میری مراد پریذیڈنٹ سکارنو (SUKARNO) سے ہے جو انڈونیشیا کے پریذیڈنٹ ہیں۔ ہماری جماعت کے مبلغ کو انہوں نے بلا کر کہا کہ اپنے امام کو لکھو کہ انگریزی ترجمۂ قرآن کے ساتھ انڈیکس ہونا ضروری ہے ورنہ اس میں سے مضمون نکالنے کی کون محنت کرتا ہے۔ پہلے انڈیکس ہوتا تھا مگر اب نہیں۔ مجھے پہلے تو یہ پڑھ کر بڑی گھبراہٹ ہوئی کہ کہاں انڈیکس تھا۔ مگر پھر پتہ لگا کہ وہ انڈیکس مولوی محمدعلی صاحب کی طرف سے تھا۔ وہ کہیں انہوں نے دیکھا تھا۔ انہوں نے سمجھا کہ شاید ہمارے ہی قرآن شریف میں پہلے انڈیکس ہوتا تھا اس لئے انہوں نے کہا کہ اب بھی انڈیکس لگوائیں۔ انڈیکس کی کوشش تو ہم کر رہے ہیں مگر بہرحال قرآن شریف کی اب تیسری جلد کی بڑی ضرورت ہے۔ چوتھی جلد سے یہ انشاء اللہ مکمل ہو جائے گا۔ اِس بیماری کے باوجود میرے دل میں اس کے متعلق گھبراہٹ ہوتی ہے اور میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ اِسی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے کہ دسمبر میں اِدھر جلسہ قریب آ رہا تھا اور اُدھر میں نے تفسیر لکھوانی شروع کر دی۔ اور بعض دفعہ گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹے تفسیر لکھاتا چلا گیا۔ ممکن ہے اس کا بھی میرے دماغ پر اثر پڑا ہو۔ بس اِسی گھبراہٹ میں کہ خبر نہیں زندگی کتنی ہے کسی طرح تفسیر مکمل ہو جائے میں نے کام شروع کر دیا۔ پس ملک صاحب کے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو شفا دے۔ میرے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے نوٹ مکمل کرنے کی توفیق دے اور ان کو اس کا ترجمہ مکمل کرنے کی توفیق دے تا کہ یہ بڑی بھاری ذمہ داری ہم سے ادا ہو جائے۔
پھر میں جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ بہت بڑے کام ہمارے ذمہ ہیں۔ اِس وقت یورپ میں ہماری طرف سے پانچ مشن ہیں، انگلینڈ میں مشن ہے، سپین میں مشن ہے جس کو ہم کوئی خرچ نہیں دیتے۔ جرمنی میں مشن ہے، سوئٹزرلینڈ میں مشن ہے، ہالینڈ میں مشن ہے۔ اب ہم سکنڈے نیویا میں مشن کھول رہے ہیں جس کے لئے مختلف جماعتوں سے چندے مانگے گئے ہیں۔ دوستوں کی طرف سے وعدے تو آ گئے ہیں لیکن نقد رقم بہت کم وصول ہوئی ہے حالانکہ میں نے کہا تھا کہ وہ وعدہ نہ کرو جو فوراً پورا نہ کر سکو۔ چنانچہ وعدے تو چھبیس ستائیس ہزارکے ہیں لیکن نقد رقم اِس وقت تک صرف سات ہزار وصول ہوئی ہے اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ میں نے کہا تھا کہ جو وعدہ کرے وہ اُتنا ہی کرے جو فوراً دے سکے۔ اور ابھی تو اَور بہت سے ملک ہیں جن میں ہم نے اپنے مشن قائم کرنے ہیں۔ مثلاً بیلجیئم ہے، فن لینڈ ہے، سویڈن ہے اس میں ہم ایک مشن تو سکنڈے نیویا کے نام سے قائم کر رہے ہیں مگر بہرحال یہ اتنا بڑا ملک ہے کہ اِس میں تین مشن ہونے چاہئیں۔ اِسی طرح ڈنمارک ہے، پھر اٹلی ہے جو بڑا اہم ملک ہے کیونکہ عیسائیت نے وہیں ترقی کی ہے اور وہ عیسائیت کا گہوارہ ہے۔ غرض یہ ممالک ابھی پڑے ہوئے ہیں جن میں ہم نے مشن کھولنے ہیں۔ اور ایک ایک مشن کم سے کم دوچار ہزار روپیہ ماہوار کا خرچ چاہتا ہے۔
پھر مساجد ہیں۔ ہالینڈ کی مسجد تو عورتوں کی ہمت سے بن گئی مگر ابھی ان کی ہمت نامکمل ہے کیونکہ ابھی بہت سی رقم اس کی دینی ہے۔ اس لئے میں عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنا باقی چندہ دیں۔ کوئی تیس چونتیس ہزار روپیہ وہ اَور دے دیں تو انشاء اللہ ہالینڈ کی مسجد مکمل ہو جائے گی۔ مگر ابھی تو اَور بھی کئی مسجدیں بننی ہیں۔ مثلاً ہیمبرگ میں گورنمنٹ نے مسجد کے لئے ہمارے پاس زمین بیچی ہے۔ وہاں بھی انشاء اللہ جلد مسجد بنانے کا ارادہ ہے۔ جس پر ستّر ہزار روپیہ کے خرچ کا اندازہ ہے۔ زیورک میں بھی میں آتی دفعہ کہہ آیا تھا کہ وہاں زمین خرید لو وہاں بھی مسجد بنائیں گے۔ پھر فرانس بھی ہے۔ اِسی طرح واشنگٹن میں دیر سے زمین خریدی ہوئی ہے وہاں بھی مسجد بنانی ہے۔ وہاں تو کوئی دو لاکھ کے قریب رقم لگے گی۔ بہرحال یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے لئے جماعت کو اپنی آمدنیں بڑھانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ اور اپنے چندے بڑھانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ اب ہماری صدر انجمن احمدیہ کا چندہ اور تحریک جدید کا چندہ پچیس پچیس لاکھ تک پہنچ جانا چاہئے۔ اگر پچیس پچیس لاکھ تک یہ چندے پہنچ جائیں تو امید ہے کہ اِدھر ہم مرکزی اداروں کومضبوط کر سکیں گے اور ریویو کی اشاعت بھی بڑھا سکیں گے اور دوسرے یورپین ممالک میں جہاں جہاں ضرورت ہے وہاں تحریک جدید نئے مشن بھی قائم کر سکے گی۔
میرے نزدیک سب سے بڑی ذمہ داری زمینداروں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ زمیندار ہی ہماری جماعت میں سب سے زیادہ ہیں۔اسّی فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہماری جماعت میں زمیندار ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے اور ہماری جماعت پر رحم کرے کہ نہایت نکمّا اور سُست ہے۔ میں چونکہ خود بھی زمیندار ہوںمیں یورپ میں ہر جگہ پوچھتا پھرتا تھا کہ یہاں زمیندار کی کیا آمد ہے؟ مجھے معلوم ہؤا کہ اٹلی میں فی ایکڑچودہ سو روپیہ پیدا کیا جاتا ہے اور ہالینڈ والوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں تو تین ہزارگلڈرز یعنے تین ہزار روپیہ فی ایکڑ پیدا کیا جاتاہے۔ ہمارے بعض وزراء جاپا ن گئے تھے تو انہوں نے آکر بیان کیا کہ وہاں چھ ہزار روپیہ فی ایکڑ پیدا کیا جاتا ہے اور ہمارے ملک میں چھ یا سات سو روپے فی ایکڑ پیدا کیا جاتا ہے۔ گویا جاپان سے ہزارواں حصہ کم، اٹلی سے دوسواں حصہ کم اور ہالینڈ سے پانچ سواں حصہ کم آمد پید اکی جاتی ہے۔ ہمارے زمیندار نہ تو وقت پر ہل چلاتے ہیں، نہ اچھا بیج لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ''چلو بی ہی سٹنا ہے کتھوں لبھ پیا سہی''۔
میں نے ایک دفعہ ایک رسالہ میں پڑھا کہ مکئی کی فصل امریکہ میں بڑی کامیاب ہوئی ہے اور ایک بیج انہوں نے ایسا نکالا ہے جس کی پیداوار اچھی زمین میں قریباً175 من فی ایکڑ ہوتی ہے۔ اب دیکھ لو 175من مکئی اگر چھ روپیہ فی من بھی بِکے۔ اوّل تو اس سے زیادہ ہی بِکتی ہے لیکن اگر چھ روپیہ پر بھی بِکے تو گویاگیارہ سو روپیہ فی ایکڑ آمد ہو جاتی ہے۔ پھر اَور فصلیں بھی ہوتی ہیں۔ میں نے بھی وہ بیج منگوایا مجھے تو یقین نہیں آتا تھا مگر میں نے اپنے مبلغ کو لکھا انہوں نے لکھا۔ وہ بیج دینے کو تو تیار ہیں مگر اس بیج میں نقص یہ ہے کہ پہلے زمین کا کیمیاوی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ کیمیاوی ٹیسٹ کے بعد جب وہ بویا جاتا ہے تو پھر اس سے اتنی پیداوار ہوتی ہے۔ آپ اپنی زمین کی مٹی بھجوا دیں تو وہ ٹیسٹ کر دیں گے۔ میں نے کہا اتنا بکھیڑا کون کرے تم بھیج دو ہم تجربہ کر لیں گے۔ انہوں نے چند پاؤنڈ بیج بھجوا دیا جو اُن لوگوں نے مفت دیا۔ وہ اِس وقت پاکستان کی بہت مدد کر رہے ہیں۔ میں نے وہ بیج سندھ میں اپنی زمینوں میں بونے کے لئے بھیج دیا۔ اِس پر مجھے جو رپورٹ آئی وہ یہ تھی کہ یا تو ہمارے ہاں بارہ تیرہ من مکئی ہوتی تھی یا چوالیس من فی ایکڑ ہوئی ہے۔ گویا اس کی پیداوار اُتنی تو نہ ہوئی جتنی اُن کی ہوتی ہے مگر بہرحال پہلے سے قریباً چار گُنا ہوئی۔ مگر اس بیج میں نقص یہ ہے کہ ہر دفعہ نیا منگوانا پڑتا ہے۔ دوبارہ اس میں سے صرف بھوسہ ہی نکلتا ہے۔ چنانچہ دوسری دفعہ ہم نے یہاں ربوہ کے پاس وہ بیج بو دیا تو جو مکئی نکلی یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے اندر کوئی پھیکا سا چُونا پڑا ہؤا ہے اور پھر اتنی پیداوار بھی نہ ہوئی لیکن پہلی دفعہ اس سے چوالیس من مکئی پیدا ہو گئی۔ پس اگر ہمارے ملک میں بھی کوشش کی جائے تو آمدنیں زیادہ ہو سکتی ہیں۔ باہر تو لوگ بڑی بڑی پیداوار کر تے ہیں۔
ہمارے ایک دوست اٹلی میں مبلغ تھے، ان کی شادی بھی وہی ہوئی ہے ان کا خسر زمیندار تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ گزارہ کس طرح ہوتا ہے؟ دراصل ہم نے ان کو فارغ کر دیا تھا۔ وہ کہنے لگے میرا خسر میری امداد کرتا ہے۔ میں نے سمجھا ان کا خسر بڑا مالدار ہو گا۔ مگر وہ کہنے لگے کہ میرے خسر کا باپ قنصل تھا۔ اس نے کچھ زمین خریدی تھی جو وہ اپنی بیٹی کو دے گیا اور بیٹے کو محروم کر گیا کیونکہ وہ اپنے بیٹے پر خوش نہیں تھا۔ بیٹی نے آگے وہ زمین اپنے بھائی کے سپرد کر دی کیونکہ وہ مالدار ہے اور اُسے کہا کہ تُو اس سے گزارہ چلا۔ میں نے کہا کتنی زمین ہے؟ کہنے لگے چودہ ایکڑ۔ میں نے کہا جس رنگ میں وہاں گزارے ہوتے ہیں اُس کے لحاظ سے تو ہمارے ہاں چودہ ایکڑ سے اُن کے نوکر کی تنخواہ بھی نہیں نکلتی ۔ وہ کہنے لگے چودہ ایکڑ زمین سے میرا اور میرے بیوی بچوں کا گزارہ بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنا بھی گزارہ کرتا ہے اور گو بہن نے اُس کو زمین دے دی ہے مگر وہ اس کو بھی کچھ روپیہ بھیجتا ہے۔ اور پھرا س چودہ ایکڑ پر چھ یا سات مزارعے ہیں۔ ان کا بھی یورپین سٹینڈرڈ کے مطابق گزارہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا اِتنی آمد کس طرح ہوتی ہے؟ وہ کہنے لگے وہاں ہر زمیندار ایک فارم بنا لیتا ہے اور اس کے ارد گرد پھل دار درختوں کی باڑ بناتا ہے جس سے ایک باغ بن جاتا ہے اور وہ اس کے پھل بیچتا ہے۔ پھر ہمارے ہاں تو بھیڑیں پالتے ہیں اُن کے ہاں سؤر پالتے ہیں۔ وہ بھی سؤر پالتا ہے اور سال میں سؤروں کی ایک خاصی تعداد ہو جاتی ہے جس سے اس کو ہزار بارہ سو یا پندرہ سو روپیہ مل جاتا ہے۔ پھر وہ شہد کی مکھیاں پالتا ہے اور ان کا شہد بیچتا ہے۔ پھر پھول لگاتا ہے اور ان پھولوں کو بیچتا ہے۔ اِسی طرح اُس نے گائیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں جن کا دودھ اور گھی بیچتا ہے۔ اِس طرح اس کی آمد زیادہ ہوتی ہے؟ میں نے کہا فی ایکڑ کیا آمد ہوتی ہے۔ وہ کہنے لگے چودہ سو روپیہ۔ گویا اچھی زمین کی وہاں عام اوسط آمدن چودہ سو روپیہ فی ایکڑ سمجھی جاتی ہے۔ اِس لحاظ سے اُنیس ہزار روپیہ اُس کی آمد ہو گی۔ اِس میں سے تین چار ہزار روپیہ اُس نے اپنے داماد کو دے دیا، چار پانچ ہزار روپیہ آپ خرچ کیا، چار پانچ ہزار اپنی بہن کو دے دیا۔ تو چودہ ایکڑ میں سب کا گزارہ ہو گیا۔
ہمارے ملک میں چودہ ایکڑ والے زمیندار سے پوچھو تو کہے گا:
‘‘بس بُھکّے ہی مر دے ہاں۔ ساگ مکئی دی روٹی تے پا کے کھالیندے ہاں۔ بس لون سلونا ہی ملدا ہے کوئی ہور تے کھان نو چیز نہیں ملدی’’۔
ہمارے کہتے ہیں کہ اوسط چھ ایکڑ ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اٹلی کے حساب سے 8400 روپیہ سالانہ کی آمد ہونی چاہئے۔ گویا 700 روپیہ مہینہ۔ ہمارا زمیندار خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ سے زیادہ ہے سات سو روپیہ مہینہ کے حساب سے سات کروڑ روپیہ آمد بنتی ہے۔ سات کروڑ کا اگر عام چندہ ہی رکھو (گو بیچ میں وصیت کرنے والے بھی ہوتے ہیں) تب بھی بیالیس لاکھ بنتا ہے۔ گویا بیالیس لاکھ روپیہ چندہ صرف زمیندار دے سکتے ہیں۔
اسی طرح وہاں کا تاجر ہے بالکل معمولی حیثیت سے کام شروع کرتاہے اور کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔ بعض لوگ تو معمولی حیثیت سے ترقی کر کے کروڑپتی بن جاتے ہیں۔میں نے راک فیلر وغیرہ کی ہسٹر یاں پڑھی ہیں۔ شروع میں ان کے بہت چھوٹے چھوٹے کام تھے اور اب انہوں نے اربوں ارب روپیہ صدقات میں دیا ہؤا ہے۔ پس ایک تو زمیندار کو کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے اور انہیں ہمیشہ اچھا بیج تلاش کرنا چاہئے۔بیج پر بڑی بنیاد ہوتی ہے۔ اسی طرح کھاد بڑی ضروری چیز ہے ۔ ہمارے ہاں زمین خراب ہو رہی ہے کیونکہ زمیندار کھاد نہیں دیتے ۔میری سندھ میں کچھ زمیندار ی ہے۔وہاں یہی تماشا بنا رہتا ہے۔ ہم انہیں زمین کا ایک حصہ ہمیشہ برسیم کے لئے دیتے ہیں کیونکہ برسیم کے بعد کپاس کئی گُنے زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس طرح گندم وغیرہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مصر میں مَیں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ برسیم کے کھیت اتنے اونچے تھے کہ برسیم قدِ آدم تک نکلی ہوئی تھی۔ اور ریل کی کھڑکیوں میں سے برسیم کے پودے اندر آ جاتے تھے۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ یہ تم کب سے لگاتے ہو؟ انہوں نے کہا سینکڑوں سال سے۔ گویا سینکڑوں سال سے وہاں برسیم بوئی جار ہی ہے اور سینکڑوں سال سے اُسی میں کپاس بوئی جا رہی ہے اور پھر وہاں سارے ملک کی اوسط پچیس من ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں چھوٹے چھوٹے زمیندار بھی چالیس چالیس پچاس پچاس من فی ایکڑ پیدا کرتے ہیں اور اس کپاس کی قیمت ہمارے ملک سے بہت زیادہ ہے۔ یہ سمجھ لو وہ قریباً سولہ سو، اٹھارہ سو یا دو ہزار روپیہ صرف کپاس سے پیدا کر لیتے ہیں علاوہ دوسری فصلوں کے اُس کو دیکھتے ہوئے ہم نے بھی برسیم لگوائی ہے۔ میں نے سمجھا کہ اس سے فصل کو فائدہ پہنچے گا۔ مگر مینجر کہنے لگا ہم بہتیرا شور مچاتے رہتے ہیں مگر یہ لوگ زمین میں کھاد کے طور پر اسے دفن ہی نہیں کرتے کاٹ کے جانوروں کو کِھلا دیتے ہیں اور پھر فصل ویسی کی ویسی رہ جاتی ہے۔ غرض برابر دس بارہ سال سے ہم وہاں زور لگا رہے ہیں مگر ابھی تک ہمارے احمدی زمیندار اِس طرف متوجہ نہیں ہوئے حالانکہ اِس میں زمیندار کا اپنا فائدہ ہے اگر اس جگہ پر پچیس من کپاس پیدا ہو گی تو ساڑھے بارہ من تو زمیندار کی ہو گی۔ گویا قریباً چار سو روپیہ فی ایکڑ اس کو ملیں گے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنی فصل کو ضائع کرتا ہے اور اس میں گرین مینورینگ1 (GREEN MANURING) نہیں کرتا جس کی وجہ سے بجائے فائدہ کے اسے نقصان ہو جاتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو ہم نے دیکھا ہے کہ ایک روپیہ فی ایکڑ بھی آمدن نہیں ہوتی حالانکہ یورپ کے لحاظ سے ڈیڑھ ہزار روپیہ فی ایکڑ ہمیں ملنا چاہئے اور ڈیڑھ ہزار روپیہ فی ایکڑ اُس کو ملنا چاہئے۔ اٹلی کا حساب بھی لگا لیا جائے تو سات سو روپیہ فی ایکڑ مجھے ملنا چاہئے یا انجمن کو ملنا چاہئے جس کی زمین ہے اور سات سوروپیہ فی ایکڑ ہر احمدی زمیندار کو ملنا چاہئے۔ اگر اِس طرح آمد ہو نے لگے تو صرف سندھ کے جو احمدی مزارع ہیں اُن سے ہی دس لاکھ روپیہ سالانہ چندہ آ سکتا ہے بشرطیکہ وہ فصل یورپین طرز پر بوئیں۔ پس جماعت کے زمینداروں کو توجہ کرنی چاہئے۔ اس طرح ملازموں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے فرائض کو ایسی تندہی سے ادا کریں کہ اُن کو ترقی ملے۔ طالبعلموں کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایسا اچھا پڑھیں کہ اچھے سے اچھے عہدے ان کو ملیں۔ایک دفعہ میں لاہور میں تھا کہ ایک مخالف اخبار کا ایڈیٹر آیا اور کہنے لگا کہ احمدیوں کو نوکریاں مل جاتی ہیں کیونکہ احمدی افسر اِن کو نوکریاں دلا دیتے ہیں۔ میں نے کہا یہ غلط بات ہے کون سا احمدی اس عہدہ پر ہے جس میں نوکریاں ملتی ہیں ایک ظفر اللہ خان ہی بڑے تھے۔ میں نے کہا کہ ان کے دفتر میں تو کوئی نوکری ہے ہی نہیں۔ وہ تو گورنمنٹ نے ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے جو نوکریاں دیتی ہے۔ ظفر اللہ خان بیچارے کا تو نام بدنام ہے۔ دراصل ان کو نوکری اس لئے ملتی ہے کہ میں نے ان کو سینما سے روکا ہؤا ہے، میں نے ان کو لغو باتوں سے روکا ہؤا ہے۔ وہ پڑھتے ہیں اور تمہارے لڑکے سینما دیکھتے ہیں۔ تمہارے لڑکوں کو سینما مل جاتا ہے اور اِن کو نوکریاں مل جاتی ہیں۔ اِس میں اعتراض کی کون سی بات ہے۔ اگر ہمارے نوجوان تعلیم کی طرف توجہ کریں تو آہستہ آہستہ اعلیٰ نوکریاں ان کو ملیں گی اور پھر وہ زیادہ چندے بھی دے سکیں گے۔ پس ماں باپ کو چاہئے وہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کیا کریں۔ آخر ماں باپ نے ان کو پالا ہے۔ وہ کہیں بیٹا! تمہارا فرض ہے کہ بڑھاپے میں ہماری خدمت کرو لیکن یہ جو ہم تمہیں کہہ رہے ہیں یہ اپنے لئے نہیں کہہ رہے بلکہ خدا کے لئے بھی کہہ رہے ہیں۔ اگر تمہاری آمد زیادہ ہو گی تو ہم پر بھی خرچ کرو گے اور خدا کے دین پر بھی خرچ کرو گے۔ پس اپنے بچوں کے اندر زیادہ چندے دینے کی عادت پیدا کریں۔ محنت کرنے کی عادت ڈالیں۔خصوصاً ہر باپ اپنے بچہ کو تحریکِ جدید کے چندے کی عادت ڈالے۔ ہر تحریکِ جدید کا چندہ دینے والا فیصلہ کر لے کہ میں اپنے دو تین اَور احمدی بھائیوں کو یا اگر مجھ سے غیراحمدی دلچسپی رکھتے ہیں تو اُن کو بھی تحریک کروں گا کہ اِس ذریعہ سے خدا کا نام بلند کیا جا رہا ہے تم بھی چندے دو۔ اور لوگ دیتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے طبیعت پر ذرا بھی اثر ہو تو لوگ دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ کراچی میں میرا ریسپشن (RECEPTION)ہؤا تو اس کے بعد ایک ڈیپارٹمنٹ کے انڈر سیکرٹری نے اپنے ایک احمدی کلرک کو بلایا اور اُس کو پچاس روپے دیئے کہ یہ اپنے حضرت صاحب کو بھجوا دو کہ میری طرف سے کہیں دے دیں۔ میں نے کہا غیر احمدی کا چندہ ہے کہیں دینے کا کیا مطلب ہے اشاعتِ اسلام میں ہی جانا چاہئے اور یہی اُس کا حق ہے چنانچہ میں نے وہ روپیہ اشاعتِ اسلام کے لئے تحریکِ جدید میں بھجوا دیا۔ اُسے بھی اطلاع دی گئی۔ وہ بڑا خوش ہؤا اور کہنے لگا کہ بڑی اچھی جگہ چندہ بھجوایا ہے۔
اِسی طرح میں نے سیکنڈے نیوین مشن کی تحریک کی اور اس کے بعد میں لاہور گیا تو چودھری اسد اللہ خان صاحب نے اڑھائی ہزار یا نامعلوم کتنی رقم میرے ہاتھ میں دی اور کہنے لگے کہ اِس میں سے ساڑھے پانچ سو روپیہ چندہ ایک غیر احمدی کا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ جب اُس کو پتہ لگا کہ یہ تحریک اشاعتِ اسلام کے لئے ہے تو اس نے خود آ کر چندہ دیا اور کہا کہ یہ میری طرف سے بھی دے دیں۔ تو اگر ان لوگوں کو تحریک کی جائے تو وہ تو کروڑوں کروڑ ہیں۔ ان کروڑوں کروڑ میں سے اگر صرف ایک کروڑ سے تمہیں پچاس پچاس بھی ملیں تو پچاس کروڑ تو تمہارا مانگا ہؤا چندہ ہو سکتا ہے۔ خواجہ کمال الدین صاحب کو میں نے دیکھا ہے وہ غیر احمدیوں سے چندہ لیتے تھے اور دو دو لاکھ روپیہ سال کا چندہ ہو جاتا تھا۔ اُن کے ساتھی تو بہت کم تھے ہمارے ساتھی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے سارے پاکستان اور ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر ہر احمدی یہ عادت ڈال لے کہ اپنے دوست کو کہے کہ یہ اشاعتِ اسلام کا کام ہے اگر اسلام تمہارا بھی ہے اور تم کو اِس سے محبت ہے تو تمہیں کون روکتا ہے تم بھی یہ عزت حاصل کرو اور اس ثواب میں شامل ہو جاؤ تو میں سمجھتا ہوں کہ تھوڑی سی تحریک سے بھی چندہ آ سکتا ہے۔ اور پھر جو ایک دفعہ دے گا اس کو چاٹ پڑ جائے گی اور پھر وہ ہر سال دے گا۔ پہلی دفعہ تو آپ کو پندرہ منٹ اُس سے بحث کرنی پڑے گی کہ دیکھو! یہ خدا اور رسول کا کام ہے، دین کی اشاعت کا کام ہے اِس میں حصہ لو۔ لیکن اگلے سال وہ خود تمہاری تلاش کرے گا اور تمہیں آ کے ڈھونڈے گا اور کہے گا کہ میرا چندہ لو۔ پس اگر احمدی اپنی ذمہ داری سمجھیں تو پچیس پچیس لاکھ یعنی پچاس لاکھ روپیہ سالانہ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کا چندہ جمع ہو جانا خدا تعالیٰ کے فضل سے کوئی بعید بات نہیں۔ غرض زمیندار اپنا فرض سمجھیں اور محنت کر کے کام کریں تو ان کی آمدنیں موجودہ آمد سے سَو گُنے زیادہ ہو سکتی ہیں اور ان کا چندہ بھی سَو گُنے بڑھ سکتا ہے۔ لیکن اگر یہی ہونا ہے کہ میں نے بیماری میں بات کی اور کوفت اٹھائی اور تم نے گھر میں جا کر آرام سے اپنا حُقہ پکڑ لیا تو پھر یہ سب بیکارہے۔
مَیں نے کئی دفعہ پہلے بھی سنایا ہے کہ ایک دفعہ قادیان میں مَیں سیر کرنے نکلا تو مجھے ایک کھیت بڑا اچھا نظر آیا۔ اُس کی فصل بڑی عمدہ تھی۔ جو دوست میرے ساتھ تھے اُن سے میں نے کہا کہ یہ کسی سکھ کا ہے۔ کہنے لگے آپ کو کس طرح پتہ ہے؟ میں نے کہا سکھ کا ہی ہے۔ بلاؤ کسی ایسے آدمی کو جو اس کا واقف ہو۔ انہوں نے بلایا۔ میں نے پوچھا کس کی زمین ہے؟ وہ کہنے لگا فلاں سکھ کی ہے۔ وہ بہت حیران ہوئے کہ آپ کو کس طرح پتہ لگا؟ میں نے کہا مجھے فصل نظر آ رہی تھی کہ یہ کسی سکھ کی ہی ہو سکتی ہے۔ مسلمان تو تہجد کے وقت حُقہ پکڑ کر آگ سلگانے بیٹھ جاتا ہے اس کی فصل کیا ہونی ہے سکھ ہے جس نے حُقہ چھوڑا ہؤا ہے۔ اس کی برکت خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ مل رہی ہے کہ اس کی فصل اچھی ہوتی ہے۔ مسلمان حُقہ کے لئے آگ جلا رہا ہوتا ہے اور یہ اُس وقت ہل چلا رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ جانتے ہو سکھ بیچارہ بڑا سیدھا سادہ ہوتا ہے۔
ایک دفعہ ریل میں ایک سکھ تحصیلدار میرے ساتھ بیٹھا ہؤا تھا کہنے لگا آپ کا عقیدہ ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ کہنے لگا پھر ایک بات مجھے سمجھائیں۔ میں نے کہا وہ کیا؟ کہنے لگا اسلام عالمگیر مذہب جو ہؤا تو مرد عورت سب کے لئے ہؤا۔ میں نے کہا ہاں۔ کہنے لگا تو پھر مرد تو ختنہ کرتے ہیں عورت کیاکرے؟ میں نے کہا سردار صاحب! آپ کا مذہب بھی عالمگیر ہے یا نہیں؟(وہ ہے تو نہیں مگر لوگ تو اپنے مذہب کو عالمگیر کہنے سے نہیں رُکتے بلکہ وہ اس پر فخر کرتے ہیں) کہنے لگا۔ نہیں جی ہمارا مذہب بھی عالمگیر ہے۔ میں نے کہا سردار صاحب! آپ کے ہاں داڑھی مونچھ رکھنے کا حکم ہے تو مرد نے تو رکھ لی عورت کیا کرے؟ کہنے لگا ''جی اوہدی ہوندی ہی نہیں'' میں نے کہا آپ اِس سے ہی سمجھ جائیں۔ کہنے لگا اچھا ''ہن سمجھ آئی''۔ میں نے کہا شکر ہے جلدی سمجھ آ گئی۔ مگر دیکھو باوجود اِس کے وہ سادہ ہے اپنے کام میں بڑا ہوشیار ہے۔ وہ زمینداری میں اور پیشہ میں آگے بڑھا ہؤا ہے۔
چنانچہ سارے لوہار اور ترکھان سکھ ہیں اور ایسی تجارت کرتے ہیں کہ دوردور تک ان کے بنے ہوئے مال جاتے ہیں اور پھر اب تو انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ عقل بھی ان کی ایسی کمزور نہیں۔ مثلاً افریقہ سے ہمیں خط آ رہے ہیں کہ سب سے زیادہ سکھ ہم سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے پارٹیشن کے موقع پر آپ کی نصیحت نہیں مانی۔ ہم سے یہ بڑی بیوقوفی ہوئی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ بعض سکھ تو چندے بھی دیتے ہیں اور اپنی محبت اور اپنا تعلق بھی ظاہر کرتے ہیں۔ میں نے کہا اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ خدا تعالیٰ نے ایک موقع پیدا کیا ہے۔ بہرحال یہ کام یہاں کا سکھ کر رہا ہے، اٹلی کا زمیندار کر رہا ہے، جاپان کا زمیندار کر رہا ہے، امریکہ کا زمیندار کر رہاہے، ہالینڈ کا زمیندار کر رہا ہے تم کیوں نہ کرو۔ وہ اپنے پیٹ کے لئے کرتے ہیں تم خدا کے لئے کرو۔ اچھی محنت کرو وقت پر پانی دو۔
میں جب سندھ جاتا ہوں تو چونکہ مجھے گاؤٹ 2 (GOUT) کا دورہ ہوتا رہتا ہے۔ مجھے زمینوں میں پھرنے کے لئے موٹر میں جاناپڑتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ چلتے چلتے موٹر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پوچھتا ہوں کیوں کھڑے ہو گئے؟ کہتے ہیں آگے سڑک ٹوٹی ہوئی ہے۔ میں پھر پوچھتا ہوں سڑک کیوں ٹوٹی ہوئی ہے؟ وہ کہتے ہیں پانی ٹوٹ گیا ہے۔ میں کہتا ہوں پانی کیوں ٹوٹ گیا؟ وہ کہتے ہیں فلاں زمیندار کی رات کو باری تھی مگر وہ گھر سے نہیں نکلا کہ ''ہن رات نوں کون کھیچل کرے''۔ کون دیکھ بھال کرے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ پانی ٹوٹ گیا اور ساری سڑکیں خراب ہوگئیں۔
غرض ہمارا زمیندار نہ رات کو پانی دینے کے لئے نکلتا ہے نہ وقت پر ہل چلانے کے لئے نکلتا ہے نہ اچھے بیج کی تلاش کرتا ہے۔ اگر گرین مینورینگ (GREEN MANURING) کرتا ہے تو غلط طریق پر۔ اوّل تو جانور کی مینورینگ بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے مگر جانور کا جتنا گوبر نکلتا ہے یہ اُس کو پاتھ کر اُس کی آگ جلاتا ہے اور بڑا خوش ہوتا ہے کہ بالن مل گیا۔ حالانکہ یہ نہیں سمجھتا کہ ''بالن تے مل گیا پر سٹھ من غلہ برباد ہو گیا''۔غرض سب کام اندھا دھند کرتا ہے۔ تم کو خدا نے احمدی بنایا ہے، دین کا وارث بنایا ہے تم عقل کرو۔ خدا کے لئے کمائی کرو اور دین میں دو۔ اگر پچیس لاکھ تمہاری صدر انجمن احمدیہ کا چندہ ہو تو ابھی دو تین کالج اَوربن جائیں۔ پچیس لاکھ تحریک جدید کی آمد ہو جائے تو ہم خدا کے فضل سے پچاس مشن اَور کھول دیں گے اور اسلام جلدی جلدی ترقی کرنے لگ جائے گا۔
پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے درد صاحب بیچارے فوت ہو گئے، ملک صاحب بیمار ہیں، صوفی مطیع الرحمن صاحب فوت ہو گئے، صحابہؓ فوت ہو رہے ہیں۔ پچھلے لوگوں کو دیکھو باوجود یہ کہ اُن لوگوں میں اتنا علم نہیں تھا اُنہوں نے اِس چیز کی بڑی قدر کی اور صحابہ رضی اﷲ عنہم کے حالات پر بڑی بڑی ضخیم کتابیں دس دس جلدوں میں لکھیں۔ ہمارے ہاں بھی صحابہ کے حالا ت محفوظ ہونے چاہئیں۔ ملک صلاح الدین صاحب لکھ رہے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں سینکڑوں روپے کا مقروض ہو گیا ہوں۔ وہ کتابیں کوئی نہیں خریدتا۔ اوّل تو میں سمجھتا ہوں ان کی غلطی ہے۔ اگر وہ لکھ کے انجمن کو دے دیتے یہ لالچ نہ کرتے کہ شاید پانچ سو خرچ کیا تو آٹھ سو آ جائے گا تو قرض نہ ہوتا مگر اب پانچ سو بھی نہ آیا اور وہ بھی ضائع چلا گیا۔ لیکن کم سے کم احمدیوں کو چاہئے تھا کہ اپنے آباء کے نام یاد رکھتے۔ آپ لوگ تو قدر نہیں کرتے۔ جس وقت یورپ اور امریکہ احمدی ہؤا تو انہوں نے آپ کو بُرا بھلا کہنا ہے کہ حضرت صاحب کے صحابہ اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے حالات بھی ہمیں معلوم نہیں۔ وہ بڑی بڑی کتابیں لکھیں گے جیسے یورپ میں بعض کتابوں کی بیس بیس چالیس چالیس پاؤنڈ قیمت ہوتی ہے اور بڑی بڑی قیمتوں پر لوگ ان کو خریدیں گے۔ مگر ان کا مصالحہ ان کو نہیں ملے گا اور وہ غصہ میں آ کے تم کو بددعائیں دیں گے کہ ایسے قریبی لوگوں نے کتنی قیمتی چیز ضائع کر دی۔ ہم نے تو اب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت بھی مکمل نہیں کی۔ بہرحال صحابہ کے سوانح محفوظ رکھنے ضروری ہیں۔ جس جس کو کوئی روایت پتہ لگے اُس کو چاہئے کہ لکھ کر اخباروں میں چھپوائے، کتابوں میں چھپوائے اور جن کو شوق ہے اُن کو دے تا کہ وہ جمع کریں اور پھر وہ جو کتابیں چھاپیں۔ ان کو ضرور خریدیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں۔
صحابہ میں جو رنگ تھا اور اُن لوگوں میں جو قربانی تھی وہ ہمارے اندر نہیں ہے۔ مگر ہمارے اندر بھی وہ طبقہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی تھی بڑا مخلص تھا اوران میں بڑی قربانی تھی۔ اگر وہی اخلاص آجکل نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو جماعت ایک سال میں کہیں سے کہیں نکل جائے ۔ ایک درجن کے قریب تو وہ آد می تھے جو قادیان سے کوئی سَو میل پر رہتے تھے،سڑک کوئی نہیں تھی،ریل کوئی نہیں تھی مگر وہ ہر اتوار کو چھٹی پر قادیان آپہنچتے تھے ۔اب یہاں پاس گوجرانوالہ ہے، شیخوپورہ ہے اور ربوہ عین سڑک پر ہے ڈیڑھ دو گھنٹے میں لوگ پہنچ سکتے ہیں لیکن نوجوانوں کو چھٹی ملتی ہے تو جھٹ اپنے گھر گھس جاتے ہیں یہاں کوئی نہیں آتا،ہم سے آکر کوئی نہیں ملتا۔ میں بیمار ی کی وجہ سے درس تو نہیں دے سکتا لیکن دین کی کوئی بات اگر مجھ سے پوچھنا چاہیں توپوچھ سکتے ہیں۔ مثلاًچودھری ظفر اللہ خان صاحب ہیں ان کود ین کی خدمت کا ایک عشق ہے۔ یورپ کے سفر میں وہ میرے ساتھ تھے اور میرا دل بہلانے کے لئے اپنا کام چھوڑکر آگئے تھے۔ میں نے دیکھا موٹر میں کہیں جا رہے ہوتے تو انہوں نے ذرا پیچھے منہ موڑنا اور کہنا کہ فلاں مضمون کے متعلق کوئی آیت ہو یا کوئی نکتہ ہو تو مجھے بتایا جائے۔ میں مضمون کی تیاری کر رہا ہوں۔ اِس طریق پر تم بھی اتنا علم حاصل کر سکتے ہو کہ بیس کتابوں میں بھی تم کو نہیں مل سکتا۔ مثلاً میں نماز پڑھنے نکلا تو جب نماز کے بعد مَیں مسجد میں بیٹھ جاؤں تم پیش کرو کہ یہ سوال ہے یہ حل نہیں ہوتا۔ اِس طرح تم اپنا علم بڑھاتے چلے جاؤ۔ میرا تو اِس بیماری کی وجہ سے حافظہ بڑا خراب ہو گیا ہے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ابھی بہت کچھ یاد ہے۔ تم آ کر پوچھتے رہو اِس سے علم تازہ ہو جاتا ہے۔ اور اگر کوئی بات بھولی ہوئی ہو تو پاس علماء بیٹھے ہوتے ہیں اُن سے کہہ دیا کہ فلاں بات حدیث سے نکال دو۔ اِس سے میرا بھی علم تازہ ہو جائے گا اور تمہارا بھی علم بڑھے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ربوہ سے سو سو دو دو سومیل کے اندر جتنے لوگ ہیں ان کو تو یہ اقرار کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی طرح ہم نے تین چار دفعہ مہینہ میں ضرور پہنچنا ہے۔ وہ ہراتوار کو آپہنچتے تھے۔ مفتی محمد صادق صاحب کو تو تم نے دیکھا ہے۔ ان کی صحت کتنی کمزور ہے مگر وہ کمزور شخص ہر اتوار کو بٹالہ سے بارہ میل پیدل چل کر قادیان آ پہنچتا تھا۔ اسی طرح منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم کپور تھلہ سے چلتے تھے اور قادیان آتے تھے۔ اُس وقت ان کی تنخواہ صرف پانچ چھ روپے ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تو وہ آئے اورآ کر مجھے پیغام بھیجا کہ ملنا ہے۔ میں باہر آیا تو انہوں نے مصافحہ کیا اور تین یا چار اشرفیاں میرے ہاتھ میں دے دیں اور پھر رونے لگے۔ میں نے سمجھا کہ شاید حضرت صاحب کی وفات کی وجہ سے رو رہے ہیں مگر ان کی چیخیں نکلتی چلی گئیں اور ہچکی بندھ گئی۔ میں نے سمجھا کہ اس کے علاوہ کچھ اَور بات بھی ہے اور انہیں کوئی اَور واقعہ یاد آیا ہے۔ میں اُن کو تسلی دیتا چلا جاؤں کہ صبر کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کی یہی مشیت تھی۔ آخر بڑی مشکل سے چپ ہوئے۔ مگر چپ کر کے دوبارہ ہچکی لی اور رونے لگ گئے۔ میری طبیعت بھی کچھ گھبرائی مگر میں نے صبر کیا۔ آخر کہنے لگے میری ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ میں حضرت صاحب کو سونا نذرانہ کے طور پر پیش کروں۔ میں سارا مہینہ پیسے جمع کرتا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے قادیان بھی ضرور جانا ہے مگر پیدل جاؤں گا تو پیسے جمع کروں گا اس لئے کہ حضرت صاحب خدا تعالیٰ کے بڑے مقرب اور مسیح موعودؑ ہیں اُن کو نذرانہ دینا ہے تو سونا دینا ہے مگر سونا کبھی نہیں ہوتا تھا۔باوجود یکہ میں پیدل آتا تھا پھر بھی روپے بنتے تھے سونا نہیں بنتا تھا (اُس وقت وہ تحصیلدار ہو گئے تھے مگر ریاستوں میں تحصیلداروں کی تنخواہ بھی کم ہوتی ہے۔ بہرحال اُن کی تنخواہ اُس وقت اتنی تھی کہ وہ قربانی کر کے سونا بنا سکتے تھے) انہوں نے یہ کہا اور پھر ہچکی لی اور پھر چیخیں مار کر رونے لگ گئے۔ پھر کہنے لگے ''ساری عمر جوڑ جوڑ کے اِس انتظار وچ رہے کہ حضرت صاحب نوں ملاں گے تو سونا نذرانہ دیاں گے۔ جب تک حضرت صاحب رہے سونا نہیں لبھیا۔ جدوں سونا لبھیا تے حضرت صاحب نہیں رہے'' پھر مجھے پتا لگا کہ اس شخص کے دل میں کتنا اخلاص اور کتنی محبت تھی۔ تو چاہئے کہ تم بھی صحابہ والا رنگ اختیار کرو، زیادہ سے زیادہ ربوہ آؤ اور زیادہ سے زیادہ مجھ سے مل کر اور دوسرے دوستوں سے مل کر کوشش کرو کہ تمہارا علم بڑھے۔ اور پھر سلسلہ کی کتابیں خریدو اور ان کو پڑھو۔ ہمارے سلسلہ کی کتابوں میں علم کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتابیں اور سلسلہ کی دوسری کتابیں پڑھ لے اس کے مقابلہ میں دنیا میں کوئی آدمی نہیں ٹھہر سکتا۔
آجکل بہائی لوگ بڑا جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ جہاں دیکھتے ہیں کہ کسی کو کوئی چیز پسند ہے وہیں کہہ دیتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے۔ آجکل انڈونیشیا پر انہوں نے زور دیا ہؤا ہے۔ وہاں ان کے کچھ پروفیسر چلے گئے ہیں۔ میرا لڑکا رفیع احمد بھی وہاں تبلیغ کے لئے گیا ہؤا ہے۔ اس نے مجھے لکھا کہ میں نے ان کو یوں جواب دیا تو انہوں نے کہا یہ جھوٹ ہے ہماری کتاب میں یہ نہیں ہے۔ میں نے لکھا یہ جھوٹ بات ہے ان کی کتابوں میں یہ بات موجود ہے۔ پھر میں نے مولوی ابوالعطاء صاحب کو وہ خط بھیج دیا کہ آپ حوالے نکال دیں۔ میں نے تو لکھ دیا ہے کہ جھوٹ ہے لیکن آپ حوالے نکال کر بھجوا دیں۔ انہوں نے حوالے دیئے۔ جس پر اس نے ایک رسالہ لکھا اور اسے شائع کیا۔ مولوی عبدالواحد صاحب انڈونیشین مبلغ عربی پڑھنے کے لئے دمشق گئے تھے وہاں سے آتے ہوئے وہ تہران میں ٹھہرے تو انہوں نے بتایا کہ میں تہران میں انڈونیشین ایمبیسیڈر سے ملنے گیا۔ وہ مرزا رفیع احمد کی بڑی تعریف کرتا تھا کہ میں نے بہائیوں کے متعلق ان کا مضمون پڑھا ہے نہایت عمدہ ردّ کیا ہے۔ اور کہتا تھا کہ چونکہ میں یہاں ایسے علاقہ میں ہوں جہاں بہائیوں کا زور ہے اِس لئے اِس مضمون کو پڑھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ بس بہائیوں کا منہ بند ہو گیا۔ تو ہمارے بچے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کی کتابیں پڑھ کے ایسا علم حاصل کرلیتے ہیں کہ ان کو بڑے سے بڑے دشمن کے مقابلہ کی توفیق مل جاتی ہے۔
پس یہاں آنے کی عادت ڈالو۔ یہ باتیں چھوڑ دو کہ جلسہ پر آئے ایک دو دن رہے اور چلے گئے۔ جو دور ہیں وہ تو مجبور ہیں۔ مثلاً ہندوستان سے آنے والے خواہش رکھتے ہیں تو بعضوں کو پاسپورٹ ہی نہیں ملتا۔ یا بہت دور دور کے علاقہ کے لوگ ہیں۔ مثلاً اب ماریشس سے بعض ایسے دوست آئے ہیں جو میری جوانی میں احمدی ہوئے تھے۔ بڑی خواہش کے بعد اب ان کو یہاں آنے کی توفیق ملی ہے مگر پھر کچھ ایسے حادثات ہو گئے کہ وہ جلدی واپس جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان احمدیدُاللہ ہیں۔ وہاں جماعت میں کچھ فتنہ ہے۔ دوست ان کے لئے بھی دعا کریں۔ انہوں نے اپنی زمین میں سے کچھ زمین شہر کے پاس مسجد کے لئے دے دی ہے جہاں اب مسجد بنائی جائے گی۔ دوست دعا کریں کہ جس طرح انہوں نے خدا کا گھر بنانے کے لئے قربانی کی ہے اللہ تعالیٰ ان کا بھی گھر بنائے۔آمین
ایک طریق چندہ بڑھانے کا یہ بھی ہے کہ تحریک جدید کی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے کچھ چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ ہمارے احمدی دوست ان کو خریدیں اور دوسرے دکانداروں کو تحریک کریں کہ وہ بھی خریدیں۔ اِس طریق سے بھی بہت سا نفع آ جائے گا۔ مثلاً تحریک نے ایک بوٹ پالش ایجاد کی ہے جس کا نام ''شائینو بوٹ پالش'' ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیاب ہے اور اس کی بہت تعریفیں آ رہی ہیں۔ وہ فوج میں بھی دی گئی تھی۔ فوج کی لیبارٹری نے اس کو ٹیسٹ کر کے کہاہے کہ یہ سو فیصدی ٹھیک ہے اور آرڈر دیئے ہیں۔ اِس طرح بعض احمدیوں کو اللہ تعالیٰ اخلاص دے دیتا ہے حالانکہ میں کہہ تو سارے احمدیوں کو رہا ہوں لیکن ایک احمدی راولپنڈی میں دکاندار کے پاس گیا اور اس نے ان کو تحریک کی اور پچاس گُرس3 (GROSS) کا آرڈر لا کر دیا۔ اور اس نے کہا کہ اور بھی میں کوشش کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو کافی آرڈر آ جائیں گے۔ اگر فوج نے آرڈر دینے شروع کر دیئے جیسے انہوں نے منظوری دے دی ہے تو انشاء اللہ اَور ترقی ہو جائے گی۔
اسی طرح انہوں نے ایک نائیٹ لیمپ ایجاد کیا ہے۔ یہ لیمپ قادیان میں میاں محمد احمد نے بنایا تھا اور اس کا نام میک لائیٹ رکھا ہؤا تھا۔ وہ ساری رات بھی جلتا رہے تو مہینہ بھر میں کوئی آٹھ آنے کی بجلی جلتی تھی۔ یہ کتنے بڑے نفع کی چیز تھی۔ اِس کا اتنا اثر تھا کہ کراچی میں مجھے بعض مسلمان افسر ملے، بعض ہندو بھی ملے جنہوں نے وہ استعمال کیا ہؤا تھا اور انہوں نے مجھے کہا کہ قادیان کی میک لائٹ بڑی عمدہ چیز ہوتی تھی وہ اب نہیں ملتی حالانکہ ہم نے بڑی تلاش کی ہے۔ بمبئی میں ایک بڑا افسر رہا ہے وہ کہنے لگا کہ مجھے میک لائٹ کی بڑی تلاش ہے۔ میں نے کہا ان بیچاروں کا تو کارخانہ ہی تباہ ہو گیا ہے۔ لیکن اب وہ لیمپ تحریک نے نکال لیا ہے اور اس کا نام انہوں نے نائیٹ لائٹ رکھا ہے۔ وہ چھوٹا سا بلب ہے اور وہ اتنی تھوڑی بجلی خرچ کرتا ہے کہ ساری رات جلاتے رہو تو پھر بھی کوئی آٹھ آنے خرچ ہوتے ہیں۔ روشنی کی روشنی رہتی ہے اور رات کو اندھیرے کی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ پس اگر تم تحریک کا مال خریدو یا اَور مصنوعات جو ربوہ کی ہیں وہ خریدو تو لازماً اِس سے چندہ بڑھے گا۔ ربوہ کی انڈسٹری کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے نفع میں تحریک کا اور سلسلہ کا حصہ رکھے تا کہ میری تحریک دنیوی نہ بنے بلکہ دینی بنے۔یہاں خداتعالیٰ کے فضل سے کئی چیزیں ایسی بننے لگ گئی ہیں جن میں سے بعض ہندوستان میں بھی نہیں بنتیں۔
لاہور میں ہمارے ایک دوست ہیں انہوں نے سگریٹ دیا سلائی ایجاد کی ہے۔ یورپ میں اِس کا بہت رواج ہے اور سگریٹ والے اسے عام طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ سگریٹ والوں میں اتنی سخاوت ہوتی ہے کہ کوئی دیا سلائی مانگے تو انکار نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈبیا پوری دینی پڑتی ہے اور یہ سستی چیز ہے۔ یہ دے دی تو کوئی حرج نہیں۔ دوسرے جیب میں کھڑکھڑاتی نہیں۔ غرض انہوں نے بہت محنت کر کے وہ بنائی ہے۔ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے مجھے بڑے بڑے آرڈر دیئے ہیں کہ ہم سے دس دس ہزار بیس بیس ہزار پیشگی لے لو اور ہمارے لئے ریزرو رکھو۔ تو دوستوں کو چاہئے کہ وہ یہاں کے مال خریدنے کی کوشش کریں۔ اور یہاں کے کارخانہ داروں کو چاہئے کہ وہ علاوہ چندہ کے اپنے نفع میں بھی سلسلہ کا حصہ رکھیں تا کہ ہم بھی دوستوں کو کہتے ہوئے شرمندگی محسوس نہ کریں۔ ہم کہیں کہ دیکھو! تم جو کچھ خریدو گے اُس کا نفع سلسلہ کو جائے گا۔
غرض اگر اِس طرح جماعت محنت کر کے کام کرے، طالبعلم اچھی طرح تعلیم حاصل کریں تا کہ بڑے عہدوں پر پہنچیں۔ جو عہدوں پر ہیں وہ اچھی وفاداری کے ساتھ گورنمنٹ کی خدمت کریں تا کہ اُن کو اَور زیادہ ترقیاں ملیں، زمیندار محنت کر کے اچھی زمینداری کریں، تاجر محنت کر کے دیانتداری سے اپنے آپ کو پاپولر (PAPULAR) بنائیں تو پچیس تیس بلکہ چالیس پچاس لاکھ روپیہ سالانہ جمع ہونا بھی کوئی بڑی بات نہیں۔ میں صدر انجمن احمدیہ اور تحریک کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی غفلت کی وجہ سے اسلام کو نقصان پہنچے۔ وہ بے شک لوگوں میں تحریک کرتے رہیں اور اُنہیں یاد دلاتے رہیں مگر یہ طریق مجھے پسند نہیں کہ تحریک والے لکھ دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو خلیفۃ المسیح کے سامنے لسٹ پیش کی جائے گی۔ مجھے یہ ناپسند لگتا ہے۔ جو خدا کے لئے دیتا ہے وہ خدا کے لئے دے خلیفہ کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اگرتم نے چندے خلیفہ کے نام سے لئے تو ایک دن محروم ہو جاؤ گے۔ خدا کے نام پر لو جو ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ لوگوں میں یہ عادت ڈالو کہ وہ خدا کے لئے دیں۔ پس چندے بڑھاؤ اور کوشش کرو کہ کم سے کم پچیس تیس لاکھ روپیہ سالانہ دونوں صیغوں کا ہو جائے بلکہ اِس سے بھی بڑھے۔ کیونکہ ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے۔
خدا تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے لئے بھی رستہ کھول رہا ہے۔ مثلاً مجھے بڑی خواہش تھی کہ امریکہ میں گورے بھی اسلام قبول کریں۔ خدا کے بندے تو سارے ہیں کالے بھی اور گورے بھی مگر میری خواہش ہوتی تھی کہ امریکہ میں گورے بھی اسلام قبول کرنا شروع کر دیں۔ اب کے خلیل ناصر صاحب آئے تو میں نے اُن کو تحریک کی۔ اِس کے معاً بعد وہاں سے گوروں کی بیعتوں کے خط آنے شروع ہو گئے۔ ایک گورے کے خط کا تو اقتباس بھی چھپا ہے جو بڑے جوش سے بھرا ہؤا ہے۔ قرآن شریف سے پہلے جو میرا ''دیباچہ'' لکھا ہؤا ہے وہ اس نے پڑھا اور اس کے پڑھنے کے بعد اُس نے لکھا کہ
“After reading most of the book I felt that I would be not only a fool but an idiot if I do not accept completely the teachings of Islam, as revealed by the Holly Prophet.”
یعنی اِس کتاب کو پڑھنے کے بعد مَیں محسوس کرتا ہوں کہ اگر مَیں اسلام کی صداقت پر ایمان نہ لایا تو یہ میری بیوقوفی اور حماقت ہو گی۔ اِسی طرح سینٹ لوئی میں دوبیعتیں پہلے ہو چکی تھیں آج تیسری بیعت کی اطلاع آئی ہے۔ واشنگٹن میں اس ایک ہفتہ کے اندر تین نئے آدمیوں نے بیعت کی ہے جن کی آمدن اڑھائی ہزار روپیہ ماہوارہے اِسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ اَور لوگ بھی توجہ کر رہے ہیں اور ان کی طرف سے اطلاعیں آ رہی ہیں۔ بڑی مدت سے لبنان میں کوئی تعلیم یافتہ آدمی احمدی نہیں ہؤا تھا وہاں ہمارا جو مبلغ ہے آج ہی اُس کا خط آیا ہے جس میں اُس نے ایک بیرسٹر کی بیعت کی اطلاع بھجوائی ہے۔ وہ ہے بھی ذرا بڑی حیثیت کا آدمی۔ ڈرتا ہے کہ لوگوں میں میری بدنامی نہ ہو اِس لئے اُس نے کہا ہے کہ میرا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ لیکن بہرحال اس نے بیعت کی ہے اور سلسلہ کا لٹریچر اس نے پڑھا ہے۔
جرمنی میں مَیں نے بتایا تھا کہ جب میں بیماری کی حالت میں پہنچا تو ایک شخص تین سَو میل سے میری خبر سن کے وہاں پہنچا اور آ کے کہنے لگا کہ میں نے الگ بات کرنی ہے۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ میں کمرہ میں لے گیا۔ کہنے لگا باقی سب کو یہاں سے نکال دیں۔ میں نے سب دوستوں سے کہہ دیا کہ چلے جائیں۔ وہ چلے گئے۔ اس نے کچھ باتیں پوچھیں اور اس کے بعد کہنے لگا میں نے بیعت بھی کرنی ہے مگر ابھی مخفی رکھی جائے۔ میں نے کہا کوئی حرج نہیں مخفی رکھیں گے۔ وہ انٹرنیشنل فیم4 (INTERNATIONAL FAME) کا آدمی ہے اور مشہور اورئنٹیلسٹ ہے؟ اس کے مضامین جرمنی میں کثرت سے شائع ہوتے ہیں اور امریکہ میں بھی نقل کئے جاتے ہیں اور یورنیورسٹی نے اس کو اسلام پر کتاب لکھنے کے لئے مقرر کیا ہؤا ہے۔ غرض اس نے بیعت کر لی۔ پھر نماز کے وقت مقامِ نماز میں نماز کے لئے آیا۔ جب نماز سے میں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ وہ جماعت میں بیٹھا ہؤا تھا۔ میں نے اپنے مبلغ سے کہا کہ اس سے جرمنی میں پوچھو کہ تُو تو کہتا تھا کہ بیعت مخفی رکھو اور یہاں تُو نماز پڑھ رہا ہے؟ بیعت مخفی کس طرح رہے گی؟ انہوں نے کہا میں نے پہلے بھی اس سے پوچھا تھا اور کہا تھا کہ تم نماز پڑھنے آ گئے ہو یہ ٹھیک نہیں۔ اِس طرح تمہاری بیعت کا سب لوگوں کو پتہ لگ جائے گا۔ تو کہنے لگا اِن خلیفۃ المسیح نے کب بار بار جرمنی میں آنا ہے اِس لئے یہ موقع جو اِن کے پیچھے نماز پڑھنے کا مجھے ملا ہے میں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اب اس نے جرمنی میں مضمون لکھ کے ہمارے سوئس (SUIS) رسالہ میں بھی بھیجا اور اطلاع آئی ہے کہ چھپ رہا ہے۔
اِسی طرح لگانو5 سے ایک شخص آیا جو کہ یو۔ این۔ او کی طرف سے کوریا میں ہائی کمشنر تھا وہاں جماعت نے ایک ریسپشن (RECEPTION) دیا تھا جس میں وہ میرے بائیں طرف بیٹھا ہؤا تھا۔ پاس ہی خلیل ناصر صاحب تھے۔ بعد میں میرا ایک رسالہ اس نے اپنی جیب سے نکالا جس کا نام ''Why I Believe in Islam'' ہے اور کہنے لگا یہ آپ کا رسالہ ہے جو مجھے بڑا پیارا ہے۔ اِس کو پڑھ کر اسلام کے متعلق میری بڑی غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں اور میں نے سینکڑوں لوگوں میں یہ تقسیم کیا ہے۔ میں کوریا میں یو۔این۔او کی طرف سے مقرر تھا۔ وہاں بھی میں نے جاپانیوں میں بڑا تقسیم کیا ہے۔ اس رسالہ کا جرمن ترجمہ کرنے کی مجھے اجازت دی جائے۔ میں نے کہا کر لو۔ یہ ہے ہی اِسی لئے۔ کہنے لگا میں کر تو لوں مگر میں ابھی مسلمان نہیں، بدھ ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ میں غلطی کر جاؤں اور پوری طرح اسلام کو سمجھوں نہیں۔ میں نے کہا ہمارا یہاں مبلغ بیٹھا ہے اِس سے مشورہ کر لینا (بعد میں پتہ لگا کہ اس کا جرمن ترجمہ ہو چکا تھا) پھر وہ واپس گیا اور دوسرے دن ہی اُس کا خط آیا۔ حالانکہ میرے خیال میں وہ مکان زیورک سے کوئی دو سو میل دور ہو گا۔ ایک خط خلیل ناصر صاحب کو آیا اور ایک شیخ ناصر صاحب مبلغ کو آیا۔ شیخ ناصر صاحب کے خط میں اُس نے لکھا کہ میں اب تک مسلمان نہیں لیکن میری فطرت یہ ہے کہ جب میں یہ دیکھوں کہ کسی پر ظلم ہو رہا ہے تو میں اُس کی تائید میں اپنی جان لڑا دیتا ہوں۔ اِس رسالہ کو پڑھ کر مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ اسلام پر بڑا ظلم ہو رہا ہے اس لئے میں نے اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ آپ یہاں آئیں اور تقریر کریں۔ میں کوشش کروں گا اَور ہزاروں آدمی آپ کی تقریر کے سننے کے لئے جلسہ میں آئیں گے۔ اب خط آیا ہے کہ اُس نے جلسہ کا انتظام کر لیا ہے اور ہمارے مبلغ کو بلایا ہے کہ آ کر تقریر کرو۔ اِسی طرح اَور ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ خود بخود سامان کر رہا ہے مثلاً ابھی انڈونیشیا سے ایک احمدی کا خط آیا کہ میں بازار میں جا رہا تھا کہ جمعیۃ العلماء کا ایک چوٹی کا لیڈر مجھے ملا۔ (جس طرح یہاں علماء کی ایک انجمن ہے اِسی طرح وہاں بھی جمعیۃ العلماء ہے) میں پہلے اسے سلام کیا کرتا تھا تو وہ منہ پھیر لیتا تھا مگر اُس روز اُس نے رستہ چھوڑ کر مجھ سے آ کر مصافحہ کیا اور بڑی محبت سے ملا۔ اُس نے دیکھا میرا رنگ متغیر ہو گیا ہے۔ کہنے لگا کیوں بات کیا ہے؟ میں نے کہا میں تو سلام کیا کرتا تھا اور آپ منہ پھیر لیا کرتے تھے۔ اب آپ نے خود مصافحہ کیا اور بڑے شوق سے ملے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا بھائی! وہ پرانی باتیں بھول جاؤ۔ اب اسلام ایسے نازک دور میں ہے کہ اگر ہم نے صلح نہ کی تو اسلام تباہ ہو جائے گا۔ اس لئے اب آئندہ وہ باتیں نہیں ہوں گی۔ اب ہم تم سے محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ شدید دشمن تھا اور جمعیۃ العلماء کا ممبر تھا۔
اِسی طرح میں نے ایک مبلغ کو بورنیو بھیجا (بورنیو کو انڈونیشین زبان میں کالی منتن KALIMANTANکہتے ہیں) وہ مبلغ لکھتا ہے کہ جب میں یہاں پہنچا تو ایک دوست کا انٹروڈکشن کا خط ایک گورنر کے سیکرٹری کے نام لے گیا۔ اُس کو ملا تو وہ کہنے لگا کہ کل آنا میں تمہیں گورنر سے ملا دوں گا۔ دوسرے دن گیا تو اتفاقاً وہ گورنر اُس روز دورہ پر تھا اُس سے تو ملاقات نہ ہو سکی لیکن اس سیکرٹری سے بڑی لمبی ملاقات ہوئی۔ وہ سیکرٹری کہنے لگا میں آپ کو گورنر سے ملوانا چاہتا ہوں اور خود بھی میں نے آپ سے باتیں کی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ میرا سارا خاندان احمدی ہے لیکن مَیں ہی بدقسمت ہوں جو احمدی نہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنی بدعملی کی وجہ سے ابھی تک احمدی نہیں ہؤا ورنہ میرا سارا خاندان احمدی ہے اور میرا باپ اور بھائی وغیرہ سب آپ کی جماعت میں شامل ہیں۔ پھر انہوں نے لکھا کہ دوسرے دن ہی وہاں کی ایک بہت بڑی مجلس اسلامی جو کبھی احمدیوں کو قریب نہیں آنے دیتی تھی اُس نے ایک جلسہ کیا جس میں ہزاروں آدمی آئے تھے اور انہوں نے مجھے کہا کہ آپ تقریر کریں۔
اِسی طرح نارتھ بورنیو جو انگریزوں کے ماتحت ہے وہاں سے چٹھی آئی ہے کہ وہاں کاایک رئیس احمدی ہو گیا ہے اور وہ اپنی زمین میں مسجد بنوا رہا ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ انگریز اپنی عادت کے خلاف ( جو دوسری جگہ پر ہے) سختی سے مخالفت کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بڑے بڑے لیڈروں کی ایک میٹنگ بلوائی اور اُن سے ایسے قوانین پاس کروانے چاہے کہ جن کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ رُک جائے۔ لیکن وہ شخص ابھی تک خداتعالیٰ کے فضل سے احمدیت پر قائم ہے اور تبلیغ ہو رہی ہے بلکہ آخری اطلاع یہ تھی کہ وہاں اَور بھی احمدی ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر گورنمنٹ دخل نہ دے تو شاید سارے کا سارا علاقہ اور قبیلہ احمدی ہو جائے گا۔ احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ وہاں کے انگریز حکام کو عقل دے اور وہ خواہ مخواہ دین کے راستہ میں روکیں نہ ڈالیں۔ اور اللہ تعالیٰ ہمارے نَو مسلموں کے دلوں کو مضبوط کرے اور وہ عیسائیوں اور حکومت کے دباؤ سے مرعوب نہ ہوں۔
ویسٹ افریقہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت مضبوط ہو رہی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہاں بھی انگریز مخالفت کر رہا ہے۔ گیمبیا کے علاقہ میں ہمارے مبلغ نے جانا تھا وہاں ایک بڑا معزز خاندان ہے۔ اس خاندان کا ایک آدمی جو احمدی نہیں ہے گورنمنٹ کا سیکرٹری ہے۔ انہوں نے ہم سے مبلغ مانگا ہے۔ جب مبلغ نے درخواست دی تو وہاں کے گورنر نے ایک میٹنگ بلائی جس میں تمام علماء بلوائے اور ان سے کہا کہ کیا احمدیت کی تبلیغ کی اجازت ہے؟ تو انہوں نے کہا نہیں۔ پھر کہہ دیا کہ چونکہ علماء کہتے ہیں کہ اجازت نہیں اِس لئے میں اجازت نہیں دیتا۔ ویسٹ افریقہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اِس وقت تک چار پانچ احمدی اسمبلی کے ممبر ہو چکے ہیں اور ایک صوبہ کا وزیر تعلیم احمدی ہے۔ اب ہم نے وہاں اَور قابل اور عربی دان مبلغ بھجوانے ہیں کیونکہ گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر ہم وہاں عربی کالج قائم کریں تو وہ آرڈر دے دیں گے کہ کسی سکول میں اِس کالج کے پڑھے ہوئے طلباء کے علاوہ کوئی اُستاد نہ لیا جائے۔
جماعت کو میں نصیحت کرتا ہوں (چودھری ظفر اللہ خان صاحب بھی یہاں بیٹھے ہیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں) کہ ہمارے نظام میں ابھی کچھ کمزوریاں ہیں۔ یورپین نظام ایسا ہے کہ خرابی ہوتی ہے تو پبلک دباؤ کے ساتھ حکومت ٹھیک ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اب تک پبلک دباؤ کی کوئی صورت نہیں نکالی گئی۔ پس ایسی کوئی تجویز سوچیں کہ آئندہ جماعت کے اندر بیداری پیدا ہو اور وہ زور ڈال کے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کو ٹھیک کیا کرے، فتنہ و فساد بھی نہ ہو، خلافت کا مقام بھی قائم رہے اور جماعت کو ایسا موقع بھی ملے کہ وہ اپنی رائے کے ساتھ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک کو مجبور کر سکیں کہ صحیح کام کرو اور وقت پر کام کیا کرو۔ اِس طرح دوستوں کو وقف کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اب کام اتنا بڑھ چکا ہے کہ بغیر اِس کے سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ میری بیماری میں بڑا خطرہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اُس نے ناصر احمد میرے لڑکے کو توفیق دے دی اور اختر صاحب کو وقف کی توفیق دی کہ وہ نوکری سے فارغ ہو کر آ گئے اور ان لوگوں نے میرے پیچھے کام سنبھال لیا۔ اب خدا کے فضل سے انجمن کا کام بڑی خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ دوسرے نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔
میں نوجوان کہہ رہا ہوں۔ پینشن والے تو نوجوان نہیں رہتے مگر بہرحال روح نوجوانوں کی ہی ہوتی ہے جو کام آتی ہے۔ پس ان کو بھی چاہئے کہ اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ کم سے کم پینشن کے قریب PREPARATORY RETIREMENTرخصت لے کر ہی آجائیں۔ ایک راما صاحب آئے ہیں جنہوں نے بیت المال کا کام سنبھالا ہے۔ اور ایک چودھری احمد جان صاحب آئے ہیں۔ وہ بھی ملٹری میں اچھے عہدہ پر تھے۔ اَور لوگ بھی آئیں، اَور نوجوان بھی وقف کریں۔ کیونکہ اب وقت ایسا آ گیا ہے کہ اعلیٰ قابلیتوں کے لوگ کثرت کے ساتھ ہمارے عہدوں پر قائم ہونے چاہییں تا کہ زیادہ سے زیادہ جماعت منظم ہو۔
میرے نزدیک اب یہ بھی وقت آ گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ''الوصیت'' میں جو رستہ کھولا تھا اُس کو بھی جاری کر کے دیکھا جائے۔ یعنی چالیس مومن جس کے ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں اس کو بیعت کی اجازت دی جائے۔ خلافت کا نظام قائم رکھنے کے لئے یہ رکھا جائے کہ خلیفہ کی منظوری سے ایسا ہو۔ اِس طرح خلافت کا نظام بھی پکّا رہے گا اور لوگوں میں بھی ایک نیاجوش پیدا ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں اگر امریکہ اور افریقہ میں اِس قسم کے آدمی مقرر کر دیئے جائیں جن کو بیعت کا اختیار مقامی لوگوں کے انتخاب کے ساتھ دیا جائے تو ان میں اخلاص اَور زیادہ ترقی کر جائے گا۔ گویا خلافت ایک رنگ میں وہاں بھی پیدا ہو جائے گی۔ آخر جماعتوں میں امیر اور نائب امیر ہوتے ہیں۔ اِس طرح اس بات کو مدِ نظررکھتے ہوئے کہ خلیفہ دور ہے اگر ایسے لوگ بیعت لینے پر مقرر کر دیئے جائیں تو جماعتی لحاظ سے بہت مفید ہو سکتا ہے۔ لوگوں کو بڑا شوق ہوتا ہے کہ ہم نے ہاتھ پر بیعت کرنی ہے۔ اگر یہ اجازتیں دی جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کا بڑا فائدہ ہو گا۔ میں نے خلیل احمد صاحب ناصر سے مشورہ کیا تھا۔ کہنے لگے کہ امریکہ میں تو یقیناً اثر ہو گا کیونکہ نیگروز 6میں اس کا بڑا احساس ہوتا ہے۔ اگر ان کو پتہ لگے کہ یہیں ایک آدمی ہمارے انتخاب کے بعد سلسلہ کی طرف سے مقرر کیا گیاہے تا کہ وہ بیعت لے تو ان میں جوش بہت بڑھ جائے گا۔
اِس طرح میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے۔ کہ ''الوصیت'' کاوہ حکم بھی پورا کیا جائے کہ بیرونی ملکوں میں لوگ وصیتیں کریں تو اِس مقبرہ بہشتی کے قائمقاموہاں بھی مقبرے بنائے جائیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو امریکہ میں لوگ اس کے خواہش مند ہیں بلکہ مجھے وہاں سے اس کے متعلق درخواست بھی آ چکی ہے۔ افریقہ کے لوگ بھی اِس معاملہ میں بڑے جوشیلے ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک وہاں لوگ بڑی بڑی جائدادیں وقف کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور اِس طرح سلسلہ کے فنڈز بہت مضبوط ہو جائیں گے۔ پس مختلف ملکوں میں جہاں جماعتوں کی تعداد کافی ہو جائے مقبرہ بہشتی کی نیابت میں اور اس کے قائم مقام مقبرہ بہشتی قائم کرنے چاہئیں اور وہاں کے لوگوں کی وصیت میں یہ رکھا جائے کہ وہ اس جگہ دفن کئے جایا کریں۔ اور یہ بھی رکھا جائے کہ جو اس جگہ وصیت کرے گا اُس کا حق ہو گا کہ جب کبھی اس کے ورثاء مالدار ہوں۔ (ابھی تو ہمارے آدمی غریب ہیں لیکن کروڑ پتیوں کا زمانہ بھی تو آنے والا ہے) تو وہاں سے اُس کی لاش لا کر ہمارے یہاں مقبرہ میں دفن کی جائے۔ اِس طرح ان میں اَور بھی جوش پیدا ہو جائے گا۔ اِس طرح وہ قادیان میں بھی دفن ہو سکیں گے۔ اِس طرح ممکن ہے امریکہ سے لوگ اپنی لاشوں کو لے کر قادیان میں کثرت سے جانے لگ جائیں اور اِس طرح قادیان والوں کی مضبوطی کا بھی سامان ہو جائے اور ربوہ کی مضبوطی کا بھی سامان ہو جائے۔
ایک بات میں جماعت کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے مسجد فنڈ کی تحریک کی تھی ابھی .........٭ کہ مسجدوں کی بہت ضرورت ہے مگر جماعت کی طرف سے مسجد فنڈ میں بڑی سستی ہوئی ہے۔ پس میں جماعت کو پھر کہتا ہوں کہ اس طرف توجہ کریں۔ بہت تھوڑی تھوڑی رقم ان کے ذمہ ڈالی گئی تھی جس کے ساتھ لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ
آسکتا تھا اور مسجدیں بن سکتی تھیں مگر جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ میں دوستوں کو
٭ مسودہ میں اِس جگہ چند الفاظ واضح نہ ہیں۔
پھر اِس تحریک میں حصہ لینے کی نصیحت کرتا ہوں تا کہ جلد سے جلد بیرونی ممالک میں مساجد قائم کی جا سکیں۔
پھر میں نصیحت کرتا ہوں کہ ربوہ میں انڈسٹریاں قائم کی جائیں۔ اب تک سارا ربوہ انجمن کی آمد پر آباد ہے اور یہ بڑی خطرناک چیز ہے۔ شہر اچھی طرح تبھی بنتے ہیں جب اُن کے اندر انڈسڑی ہو۔ پس یہاں انڈسٹریاں قائم کرنی چاہییں اور جن کو کوئی فن آتا ہو وہ یہاں آ کر کام کریں۔
ایک اہم کام یہ ہے کہ روسی ترجمہ قرآن جلد شائع کیاجائے۔ روس میں آٹھ کروڑ مسلمان ہیں مگر وہ لوگ اسلام سے دور جا چکے ہیں۔ ہمارے ایک دوست تھے جو امریکہ کی طرف سے کسی عہدہ پر مقرر تھے انہیں ایک روسی کرنیل ملا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے نام سے تو پتہ لگتا ہے کہ تم مسلمان ہو۔ کیا تم قرآن پڑھا کرتے ہو؟ کہنے لگا میری دادی تو پڑھا کرتی تھی لیکن مجھے کچھ نہیں پتہ کیونکہ ہمیں اب یہ زبان نہیں آتی۔ اس لئے ہم اب قرآن نہیں پڑھتے۔ ابھی کچھ لوگ امریکہ اور مصر سے وہاں گئے تھے انہوں نے بھی بتایا کہ وہاں نوجوانوں کو قرآن کا بالکل پتہ ہی نہیں۔ صرف بڈھے پڑھتے ہیں اور مسجدوں میں نمازوں کے لئے آتے ہیں۔ اب وہاں عربی کا رواج نہیں رہا۔ اب اگر قرآن کا روسی ترجمہ وہاں چلا جائے تو یہ آٹھ کروڑ مسلمان بچ سکتا ہے۔ پس آٹھ کروڑ مسلمانوں کے بچانے کے لئے روسی ترجمہ قرآن بڑی جلدی شائع ہونا چاہئے۔ میں نے اس کے لئے ہدایتیں دے دی ہیں اور چودھری صاحب کو بھی کہا ہے۔ وہ امریکہ جاتے رہتے ہیں۔ وہ کوشش کریں کہ کوئی اچھا لائق آدمی روسی زبان کا ماہر مل جائے۔ مبلغوں کو بھی میں نے لکھوایا ہے۔ یہ خرچ بہت بڑا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شاید آٹھ دس لاکھ روپیہ میں یہ ترجمہ چھپے گا مگر بہرحال اپنی اپنی جگہ پر اِس کے متعلق تحریک کرو۔ اگر ترجمہ قرآن کرنے والے احتیاط سے ترجمہ کریں اور خواہ مخواہ رستہ چھوڑ کر روسی نظام پر حملہ نہ کریں صرف اس اخلاقی اور روحانی تعلیم پر زور دیں جو قرآن کریم میں ہے تو اس اخلاقی اور روحانی تعلیم میں وہ لوگ خود بخود سموئے جائیں گے اور دنیا کو فائدہ پہنچ جائے گا۔ خواہ مخواہ اٹیک (ATTACK) سے ایک قسم کا بُغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر اس طرح کام کیا جائے تو میرے نزدیک بہت مفید ہو سکتا ہے اور بلاواسطہ اِس سے یورپین لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اُن کو دشمنی روسیوں سے کم ہو جائے گی۔ اور روس بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ اس سے دوسرے ملکوں میں محبت پیدا ہو جائے گی۔ پس روسی ترجمہ قرآن کی طرف بہت جلد توجہ چاہئے۔ مولوی عبد المنان صاحب اورینٹل ریلیجس کمپنی کے چیئر مین ہیں۔ اُن کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے او رمجھے بار بار رپورٹیں بھیجتے رہنا چاہئے۔
ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ربوہ کی تعمیر میں بڑی دیر ہو رہی ہے۔ میں نے چودھری صاحب کو تحریک کی تو انہوں نے کہا کہ میں تو پہلے ہی فکر میں تھا۔ اب انہوں نے ارادہ کیا ہے کہ اگلے سال کے شروع میں ان کا مکان بننا شروع ہو جائے۔ باقی دوستوں کو بھی جلد جلد مکان بنانے چاہییں۔ زمینیں بھی اب محکمہ والوں نے سستی کر دی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس زمینیں نہیں ہیں اُن کو زمینیں لینی چاہییں تا کہ جلد سے جلد ربوہ کی تعمیر ہو جائے۔ مرکز اگر مضبوط ہو جائے تو اس کے کئی فوائد ہوتے ہیں۔ چندے کی نگرانی بھی اچھی طرح ہو سکتی ہے اور کالج اور سکولوں کی آبادی بھی ہو جاتی ہیں۔ پس دوستوں کو ربوہ میں جلد سے جلد زمینیں خریدنی چاہئیں۔ اب زمینیں سستی ہو گئی ہیں اور قسطیں بھی مقرر ہو گئی ہیں۔ اِسی طرح جنہوں نے زمینیں خریدی ہوئی ہیں وہ تعمیر کا انتظام کریں۔ اور جن کو کوئی انڈسٹری آتی ہے وہ یہاں انڈسٹریاں کھولیں۔ اور جو پہلے سے ربوہ میں انڈسٹریاں جاری ہیں خصوصاً تحریک کی اُن کا مال خریدنے اور دوسروں کو خریدنے کی تحریک کرنے کو بھی ایک دینی خدمت سمجھیں تا کہ ان کے ذریعہ سے جماعت کے اموال بڑھیں اور اسلام کی تبلیغ ترقی کرے۔
اب میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ڈاکٹری مشورہ سے بہت زیادہ تقریر کر لی۔ پس میں اِسی پر آج کی تقریرکو ختم کرتا ہوں۔ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کل بھی کچھ بولنے کی توفیق دے دے اور جلسہ خیروعافیت سے ختم ہو جائے۔ اب آخر میں آ کر میرا سر کچھ چکرانے لگا ہے ورنہ شروع میں تو میں اچھی طرح برداشت کرتا رہا ہوں۔ آئندہ بھی اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس سے کچھ بعید نہیں۔''
(الفضل 14تا 22فروری 1956ء)
1 گرین مینورینگ: (GREEN MANURING) سبز کھاد۔ سبز پودوں کے کھیت میں ہل چلا کر انہیں کھاد کے طور پر زمین میں دبا دیا جاتا ہے تا کہ زرخیزی میں اضافہ ہو۔
2 گاؤٹ: (GOUT) گھٹیا۔ جوڑوں کی بیماری جس میں وافر یُورک ایسڈ خون میں شامل ہو جاتا ہے اور جوڑ متورم ہو جاتے ہیں۔ نقرس۔ وجع المفاصل
3 گُرُس: (GROSS) 12 درجن ، 144 عدد (فیروز اللغات)
4 انٹرنیشنل فیم: (INTERNATIONAL FAME) بین الاقوامی شہرت/ مقبولیت
5 لگانو: (LUGANO) سوئٹزر لینڈ کا ایک شہر
6 نیگروز: (NEGRO) سیاہ فارم۔ حبشی نژاد







سیر روحانی (9)
(28 دسمبر 1955ء)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

سیر روحانی (9)

(فرمودہ 28دسمبر 1955ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اصل مضمون ''سیرروحانی'' شروع کرنے سے قبل متفرق امور کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
‘‘کل مجھے ضعف تو ہؤا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے طبیعت بعد میں ٹھیک ہو گئی۔ ضعف کے ساتھ مجھے گھبراہٹ بھی رہی کیونکہ مجھے پتہ نہیں لگتا تھا کہ میرا دماغ تھک گیا ہے یا نہیں تھکا۔ کچھ بے حسّی سی پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے کمزوری ہوئی۔ آج صبح طبیعت اچھی تھی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کل کی نسبت بہت اچھی رہی۔
عورتوں کے جلسہ گاہ کے متعلق ہدایت
مگر میں جلسہ کے منتظمین کو توجہ دلاتا ہوں کہ جس جگہ
پر مَیں رہتا ہوں وہ عورتوں کے جلسہ گاہ کے بالکل سامنے ہے۔ مردوں کے جلسہ گاہ کی آواز تو مجھے نہیں آتی تھی مگر عورتوں کی تقریریں مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہتھوڑے مار رہی ہیں۔ بے تحاشا وہ آواز اُس برآمدہ میں گھستی تھی جو میرے کمرہ کے سامنے ہے اور متواتر بڑے زور و شور سے سنائی دیتی تھی۔ ہمارے ملک میں ایک مثل مشہور ہے اس پر عورتیں بے چاری عمل کرتی ہیں۔ کہتے ہیں:''بھکے جٹ کٹورا لبھا پانی پی پی آپھریا ''عورتوں کو کوئی بولنے نہیں دیا کرتا تھا۔
ہمارے ملک میں رواج تھا۔ کہتے تھے کہ عورت کی آواز نہ نکلے اس کا پردہ ہے۔ حقیقت میں تو آواز کا کوئی پردہ نہیں لیکن ہمارے ملک کے لوگوں نے ایک مسئلہ بنایا ہؤا تھا کہ عورت کی آواز نہ نکلے اس کو اندر بند کر دو۔ ذرا کہیں عورت بولتی تھی تو جھٹ دروازے کے آگے کھڑے ہو کر مرد کہتے ''ہولی بولو ہولی بولو باہر آدمی ہن'' گویا عورتیں آدمی ہی نہیں جِنّات ہیں۔ صرف اپنے آپ کو وہ آدمی سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ''باہر آدمی ہن ہولی بولو'' ہم نے ان کو موقع دیا کہ ہولی نہ بولو تقریریں کرو اور پھر تقریریں ہی نہ کرو لاؤڈ سپیکر پر تقریریں کرو۔ تو وہ ''پانی پی پی آپھرنے لگ گئیں''۔ پھر وہ اِتنا گلا پھاڑتی ہیں کہ مرد بیچاے شرمندہ ہو جاتے ہیں اور وہ ان کے سامنے بالکل ہیچ ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ مردوں کی تقریریں ہوتی رہیں لیکن کوئی لفظ کان میں نہیں پڑا لیکن عورتوں کا جلسہ گاہ سامنے ہے۔ آئندہ منتظم جلسہ گاہ عورتوں کے لاؤڈ سپیکر کا منہ دوسری طرف کریں ہمارے مکان کی طرف نہ کریں تا کہ اپنے کان پھڑوانے کا کچھ حصہ دوسرے محلہ والے بھی لے لیں سارا میرے حصہ میں نہ آئے۔ میں نے اِس سال کافی حصہ لے لیا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ مجھے پھر کوئی جلسہ دیکھنے کی توفیق دے تو یہ کان پھاڑنے والا حصہ اس محلہ والوں کو ملے میرے حصہ میں نہ آئے کیونکہ اِس بیماری کی وجہ سے میرے کان بھی کمزور ہو گئے ہیں جیسے آنکھ کمزور ہوئی ہے۔ پس بار بار اور متواتر آواز پڑنے کی وجہ سے بھی سخت صدمہ پہنچتا ہے اور تشویش سی پیدا ہو جاتی ہے۔ چیزیں ٹھیک نظر نہیں آتیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ تو آئندہ کے لئے بجائے لاؤڈ سپیکروں کے منہ اِدھر کوٹھی کی طرف کرنے کے دوسری طرف کریں تا کہ وہ آواز پرے کی طرف جائے۔
اِسی طرح کسی دوست نے شکایت کی ہے کہ عورتیں کہتی ہیں کہ ہم کو تو کوئی زیارت کا موقع نہیں ملا۔اب تو میں بیمار ہوں جب تندرست تھا تب بھی میں کہتا تھا کہ مجھے عورتوں میں تقریر کرنے دو مگر کرنے نہیں دیتے تھے کہ کوئی شرارتی شرارت نہ کرے۔ مگر اتنا ڈرنا بھی اچھا نہیں ہوتا۔ اصل میں تو کوئی بے احتیاطی ہوئی ہے ورنہ بیعت تین دفعہ ہو چکی ہے۔ میں برآمدہ میں جا کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور بیعت کے الفاظ بولتا چلا جاتا ہوں۔ میری بیوی اُن الفاظ کو دُہراتی جاتی ہیں۔ نیچے ایک اَور خاتون اونچی آواز سے دُہراتی جاتی ہیں اور عورتیں بیعت کر لیتی ہیں۔ عورتوں کی بیعت آخر یہی ہوتی ہے۔ عورتوں نے ہاتھ میں ہاتھ تو دینا نہیں ہوتا بلکہ آج تو مردوں نے بھی پگڑیوں پر ہی بیعت کی ہے۔ ہاتھوں پر نہیں کی۔ تو موقع تو ان کو زیارت کا مل چکا ہے سوائے بعض عورتوں کے۔ یعنی بعض ایسی عورتیں ہیں جن کے متعلق مجھے شکایت پہنچی ہے کہ اُن کی نظر بہت کمزور تھی۔ مجھے بھی باوجود عینک کے وہ جگہ تک نظر نہیں آتی تھی جہاں عورتیں بیٹھی تھیں۔ تو جن کی نظر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو اُن کو تو واقعی میری شباہت نظر نہیں آ سکتی۔ لیکن یہ تو مجبوری ہے مگر پھر بھی میں ان کو کہہ دیتا ہوں کہ ان کو موقع دینا میں ان کا حق سمجھتا ہوں۔ جس طرح مردوں کا حق سمجھتا ہوں۔ مردوں میں بھی میں نے تاکید کی تھی کہ چونکہ انہیں خواہش ہوتی ہے کہ میرا چہرہ دیکھیں اِس لئے سائبان ذرا اونچا لگانا تا کہ لوگ شکل دیکھ سکیں۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ اِتنی دور سے آ کے محروم رہ جائیں۔ سو عورتوں کے متعلق بھی میں پھر اپنی بیویوں وغیرہ کو ہدایت کرتا ہوں۔ اِسی طرح دوسری منتظمات کو ہدایت کرتا ہوں کہ جو عو رتیں رہ گئی ہیں بے شک اُن کو کہیں وہ وقت مقرر کرا دیں گی۔ وہ ہمارے گھروں میں نیچے صحن میں بیٹھ جائیں گی میں اوپر برآمدہ میں کھڑے ہو کر ان کو سلام کروں گا اور دل میں ان کے لئے دعا کر دوں گا۔ اِس طرح ان کی غرض پوری ہو جائے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ محروم رہیں۔ لیکن اِس کا علاج یہی ہے کہ وہ بجائے مردوں کو کہنے کے مستورات سے کہیں۔ اور اب تو انہوں نے خود بھی سن لیا ہے وہ میرا حوالہ دے دیں کہ دیکھو جی انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے لئے انتظام کیا جائے۔ وہ نیچے صحن میں جا کر بیٹھ جائیں اوپر برآمدہ میں کھڑے ہو کر میں اُن کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ دوں گا۔ وہ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہہ دیں گی۔ بیعت کرنے والی عورتوں نے بیعت بھی اِس طرح کی ہے۔ پھر سلام خود ہی دعا ہے۔ مزید دعا کی ضرورت نہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ سے بڑی دعا اور کیا ہو گی۔ بہرحال اِس طرح ان کی خواہش پوری ہو جائے گی۔
میں نے بتایا ہے کہ عورتوں کے جلسہ نے برابر ڈیڑھ دو بجے تک دم نہیں لینے دیا۔ تقریر پر تقریر ہوتی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ مَیں ہی اِس بات کا محتاج ہوں کہ عورتوں کی نصیحت سنوں اَور کوئی محتاج نہیں۔ نصیحت پر نصیحت میرے کان میں آتی تھی گو بوجہ دوری کے اور لاؤڈ سپیکر کے شور کے اور میرے کانوں کی خرابی کے میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ وہ مجھے کیا نصیحت کر رہی ہیں۔ مگر ان کی آواز لہجہ اور شدت اور سختی سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ آج مجھے پوری طرح قائل کرنا چاہتی ہیں۔ پس اوّل تو انہوں نے کوئی موقع ہی نہیں دیا کہ مَیں کام کر سکتا۔ اس شور کی وجہ سے میرا دماغ بالکل پراگندہ تھا بلکہ اس کا یہ بھی نتیجہ ہؤا کہ میری بھوک بالکل بند ہو گئی۔ شاید ایک لقمہ بمشکل مَیں کھا سکا۔ اس کے بعد جلسے کا وقت قریب آیا تو میں نے اُس تقریر کے نوٹ نکالے جس کو ہم علمی تقریر کہا کرتے ہیں۔ اِس کا خدا تعالیٰ نے یہ سامان کر دیا کہ پچھلے سال میری تقریر لمبی ہو گئی اور میں تھک گیا جس کی وجہ سے ایک حصہ جو میں نے بیان کیا تھا گو وہ بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکا تھا مگر دوسرا حصہ پڑا رہ گیا اس لئے وہ آج کام آ گیا ہے۔ بہرحال میں نے وہ نوٹ نکال کر انہیں پڑھنا چاہا کیونکہ اس میں بہت سی آیتیں آتی ہیں اس لئے ضروری تھا کہ میں ایک دفعہ پھر ان کو پڑھ جاؤں اور ترتیب کے لحاظ سے بھی ضروری تھا کہ میں پڑھوں تا کہ مجھے ترتیب یاد ہو جائے مگر جیسا کہ کل میں نے بتایا تھا آنکھ لگانے سے میری طبیعت تھک جاتی ہے اور بڑی جلدی دماغ کمزور ہو جاتا ہے۔ پس اس وجہ سے بھی طبیعت میں تھکان پیدا ہوئی اور دماغ میں ایک تشویش سی پیدا ہوئی۔ ڈاکٹروں نے میری آنکھ کے متعلق کہا ہے کہ اس میں ذاتی طور پر کوئی نقص نہیں یہ اعصابی کمزوری ہے۔ جب آپ کو پریشانی ہوتی ہے تو آنکھ میں بھی کمزوری آ جاتی ہے۔ چنانچہ جب میں نے وہ نوٹ پڑھے تو دماغی پریشانی پیدا ہوئی اور ساتھ ہی کانوں اور آنکھوں میں بھی نقص پیدا ہو گیا اور اس وجہ سے بھی تشویش ہوئی۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ آیا میں ترتیب کو نبھا سکوں گا یا نہیں۔ لیکن بہرحال میں اپنی طرف سے کوشش کروں گا۔
سیر روحانی کا ایک سلسلۂ مضامین
میں نے پچھلے چند سالوں سے ‘‘سیرروحانی’’ کا ایک سلسلہ مضامین
جاری کر رکھا ہؤا ہے جو زیادہ لمبا ہو گیا ہے مگر بہرحال آپ لوگوں کو ہر سال ایک نیامضمون سننے کا موقع مل جاتا تھا۔ گو افسوس ہے کہ وہ لیکچر جلدی دیکھے نہ گئے۔ اگر جلدی دیکھے جاتے تو اَب تک کتابیں چَھپ جاتیں۔ میرا آج کا مضمون بھی اِسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ میرا خیال تھا کہ یہ سارے مضامین مکمل ہو چکے ہیں لیکن جب میں نے اس کے متعلق پوچھا تو مجھے مولوی محمد یعقوب صاحب نے بتایا کہ ابھی تین مضمون باقی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء ہؤا تواگلے سال یا دورانِ سال میں کسی وقت ان کو بیان کر دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ آپ نے جو مضامین بیان کئے تھے ان میں سے لنگر، کتب خانے اور باغات رہ گئے ہیں۔
پچھلے سال جو میں نے نوٹ لکھے تھے ان میں سے ایک نہروں کا مضمون تھا جو رہ گیا تھا۔ وہ نہروں کے نوٹ لکھے ہوئے میرے پاس تھے۔ وہ بھی میں نے ٹھیک کروائے اور آیتیں بتا دیں جو انہوں نے خوشخط لکھوا دیں۔ گو بہرحال جب دوسرا شخص لکھتا ہے تو چونکہ اُس کے ذہن میں مضمون نہیں ہوتا وہ آگے پیچھے کر دیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا کہ مضمون کے اندر مضمون خلط کر دیا۔ میں نے اس کو ٹھیک کرنے کی تو کوشش کی ہے لیکن بیمار آدمی کتنا ٹھیک کر سکتا ہے۔ پھر بھی کچھ خلط باقی رہ گیا تھا جس کے متعلق میں نے آج کوشش کی کہ اسے دور کروں۔ بہرحال میں کوشش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے آج اس مضمون کو بیان کروں۔
اﷲ تعالیٰ کی صفات
لیکن اس سے پہلے میں ایک اَور مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں جو درحقیقت اِس مضمون کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہ
مضمون بھی اللہ تعالیٰ کی صفات اور قرآن کریم کے کمالات کے متعلق ہے اور وہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی صفات اور قرآن کریم کے کمالات کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے۔
ہماری نجات کا یہی ذریعہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے عیوب اور کمزوریوں کو بھلادے
آج جس وقت ایک نوجوان قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا اور اس نے یہ آیت پڑھی کہ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ1 کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اُس کے ذرہ ذرہ کا واقف ہے
تو میرے دل نے کہا کہ نیک بخت! یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کامل ہے۔ پر اگر اللہ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ہے تو ہمارا بیڑا غرق ہو گیا۔ہم سے تو ہزاروں کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ اگر اللہ کو ذرے ذرے کا علم ہے تو پھر ہم تو گئے۔ قرآن شریف بھی دوسری جگہ فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے گرفت کرنے لگے تو دنیا پر کوئی جاندار باقی نہ رہے۔2 پس میرا دل کانپ گیا اور میں نے کہا کہ الٰہی! خبیر ہونا تو تیری صفت ہے اگر تُو خبیر نہ ہوتا تو تُو ناقص ہوتا۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ خدایا! تُو خبیر نہ ہو۔ پس تیرا خبیر ہونا تو ضروری ہے۔ لیکن اگر تُو خبیر ہے تو تیرے بندوں کا بیڑا غرق ہو گیا۔ کیونکہ ان میں تو کمزوریاں ہیں۔ تُو نے کوئی بات چھوڑنی نہیں۔ ساری کی ساری تجھے پتہ لگ جانی ہیں اگر اُن کے دل میں کوئی بُرا خیال آ گیا، کوئی عمل بُرا ہو گیا، کوئی زبان سے بُری بات نکل گئی تو وہ بیچارے تو مارے گئے۔ تُو نے تو قرآن میں کہا ہے کہ میں نے ہر چیز کا علاج رکھا ہے تو کیا اس کا بھی کوئی علاج ہے؟ تیری کوئی ایسی بھی صفت ہونی چاہئے جو تیری صفتِ خبیر پر بھی پردہ ڈال دے ورنہ تیرے بندوں کی خیر نہیں۔ اِس پر معاً (حالانکہ میں بیمار ہوں مگر موقع پر اللہ تعالیٰ مجھے اب بھی آیتیں سمجھا دیتا ہے) مجھے ایک آیت یاد آ گئی جو ہے تو اَور مطلب کے لئے قرآن میں استعمال ہوئی لیکن یہاں بھی وہ استعمال ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میرے بعض بندوں نے مجھے بُھلا دیا سو میں نے بھی ان کو بُھلا دیا۔3 میں نے کہا خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس میں قدرت ہے کہ وہ جو چیز چاہے بُھلا دے۔ اِس پر لوگ اعتراض کیا کرتے تھے خصوصاً عیسائی اور ہندو اعتراض کرتے تھے کہ یہ اچھا خدا ہے کہ بھولنا بھی اِس کی صفت ہے۔ میں نے سمجھا کہ بھولنے سے زیادہ اچھی صفت اور کون سی ہو گی۔ ہماری بد اعمالیاں اگر اس میں بھولنے کی طاقت ہے تو ہم بچ گئے اور اگر اس میں بھولنے کی صفت نہیں ہے تو پھر ہم مارے گئے۔ خبیر تو وہ ہے مگر اس میں یہ بھی طاقت ہے کہ اپنی خبیر ہستی پر پردہ ڈال دے جس طرح انسان کپڑے پہن کے اپنے جسم کو ڈھانپ لیتا ہے تو اُس وقت جسم تو اس کا کامل ہوتا ہے لیکن کپڑے پہن کے اس کو ڈھانک لیتا ہے۔ پس اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ سے میرا دل لرز گیا کہ یا اللہ! تیرے اتنے بندے بیٹھے ہیں جو تیرے دین کی خاطر یہاں آئے ہیں۔ ان غریبوں کا اگر قیامت کے دن تُو نے اپنے خَبِیْرٌ ہونے کے لحاظ سے حساب لینا شروع کیا تو یہ تو سارے مارے گئے۔ نہ روزے ان کے کام آئیں گے، نہ زکوٰتیں کام آئیں گی، نہ حج کام آئیں گے، نہ اَور کوئی چیز کام آئے گی کیونکہ انسان کے ساتھ کمزوری لگی ہوئی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شیطان اِس طرح انسان کے ساتھ ہے جس طرح کہ اس کے جسم میں خون چلتاہے۔4 تو یہ بیچارے غریب تو مارے گئے۔ تیرے ساتھ محبت بھی کرتے ہیں، پیار بھی کرتے ہیں، تیرے دین سے محبت کرتے ہیں، تیرے رسول سے بھی محبت کرتے ہیں، تیری کتاب سے بھی محبت کرتے ہیں پر آخر تُو نے ان کو کمزور بندہ پیدا کیا ہے۔ وہ بیچارے اپنی کمزوریاں کہاں لے جائیں۔ ان کمزوریوں کے ساتھ تو ان کا بیڑا غرق ہو جائے گا کیونکہ تُو خبیر ہے۔ تو جھٹ مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ قرآنِ کریم میں یہ بھی تو آتا ہے کہ فَنَسِیَھُمْ خدا اُن کو بھول گیا۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا میں یہ بھی طاقت ہے کہ وہ اپنی علم والی طاقتوں پر بھی پردہ ڈال دے اور کہے چلو ہم نے اس بات کو بُھلا دیا۔
ایک حدیث میں آتا ہے (گو خدا کی طرف سے نہیں آتا بندے کی طرف سے آتا ہے پر اِس کا ہے اِسی مضمون کے ساتھ تعلق) کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک بندے کے متعلق اس کی کسی نیکی کی وجہ سے فیصلہ کرے گا کہ اس کو بخشنا ہے لیکن اس کے اعمال ایسے ہوں گے کہ وہ دوزخ میں جائے۔ اللہ تعالیٰ اُس کو بلائے گا اور کہے گا اے میرے بندے! تُو نے فلاں جگہ پر یہ بدی کی تھی انکار کرنے کی تو گنجائش نہیں ہو گی۔ کہے گا حضور! یہ ٹھیک ہے میں نے کی تھی۔ فرمائے گا جا اِس بدی کے بدلہ میں مَیں نے تیرے لئے دو نیکیاں لکھ دیں۔ وہ کہے گا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ تیری یہی شان ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک اور گناہ گنائے گا اور فرمائے گا تُو نے یہ بھی بدی کی تھی۔کہے گا ہاں حضور کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا چل اِس بدی کے بدلہ میں بھی میں نے تیرے لئے پانچ نیکیاں لکھ دیں۔پِھر ایک اَوربدی گنائے گا اور کہے گاچلو اِس کے بدلہ میں مَیں نے تیرے لئے دس نیکیاں لکھ دیں ۔اِسی طرح گِناتا چلاجائے گا۔ جب کئی دفعہ گِناچکے گا اور بات ختم کر ے گا توبندہ دلیر ہوجائے گاا ور آگے بڑھ کر کہے گا۔ حضور! آپ توبھولا نہیں کرتے میری تو بہت سی بدیاں باقی ہیں اور میرے تو اِس سے بہت بڑے بڑے گناہ باقی ہیں۔ اِن چھوٹی چھوٹی بدیوں کے بدلہ میں آپ نے پانچ پانچ دس دس نیکیاں دی ہیں تو اِس طرح تو میری ہزاروں نیکیاں ابھی باقی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میرا بندہ میرے عفو کو دیکھ کر کتنا دلیر ہو گیا ہے اب آپ ہی اپنے گناہ گِنانے لگ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو فرمائے گا میرے اِس بندے کو جنت کے دروازوں پر لے جاؤ (جنت کے کئی دروازے مختلف درجوں کے لوگوں کے لئے ہوں گے) اور اِس بندے کو اختیار دینا کہ جس دروازہ میں چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔5
تو دیکھو! خدا تعالیٰ کے بُھلانے کی صفت بھی کتنی کمال کی ہے۔ جس طرح یاد رکھنے کی صفت ایسی ہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہوسکتا اِسی طرح بُھلانے کی طاقت بھی اس میں کمال درجے کی ہے۔ ہم بُھلانا چاہیں تو نہیں بُھلا سکتے۔ فکر لگتی ہے تو لگتی ہی چلی جاتی ہے۔ جیسے مجھے بیماری میں ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ بُھلا دو اور میں ان سے کہتا ہوں بھلاؤں کس طرح ؟ کوئی اِس کی دوائی بھی ہے؟ وہ کہتے ہیں اِس کی دوائی تو کوئی نہیں آپ زور لگائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت ہے وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم بعض چیزوں کو بُھلا دیں گے کیونکہ ہم نہیں چاہیں گے کہ وہ ہمارے سامنے آئیں۔ گو وہ آیت ہے تو دشمنانِ دین کے متعلق اور کفار کے متعلق مگر اِس سے اتنا تو پتا لگ گیاکہ خد امیں بُھلانے کی صفت ہے۔ وہ صفت جو کافروں کے لئے ہے وہ ہمارے بھی کام آ سکتی ہے۔
تو اللہ تعالیٰ خبیرہے لیکن اُس میں یہ بھی طاقت ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے بُھلا دے۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات مومن بندے کے لئے بڑی خوشی کا موجب ہو جاتی ہے۔ جب وہ یہ سوچتا ہے کہ میں بڑا گناہ گار ہوں، بڑا کمزور ہوں پر میرا مالک اور میرا آقا جہاں خبیر اور علیم ہے۔ وہاں ناسی بھی ہے بُھول بھی جاتا ہے۔ یونہی تونہیں بُھولتا۔ مرضی ہوتی ہے تو بھلا دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ پر تو یہ مثال چسپاں نہیں ہوتی۔ بظاہر گستاخی لگتی ہے مگر ہمارے ملک والوں نے ایک مثال بنائی ہے کہتے ہیں ۔ ''ایہہ ہے یملا جٹ'' یعنی جٹ بعض دفعہ اپنے آپ کو ایسا سادہ بناتا ہے کہ دیکھنے والا حیران ہو جاتا ہے کہ کیا واقع میں یہ نہیں جانتا۔ تو ''یملا جٹ'' ہمارے ملک میں اس کو کہتے ہیں جو جانتا تو ہے پر اَنجان بن جاتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ بھی سب کچھ جانتا ہے مگر وہ بعض دفعہ اَنجان بھی بن سکتا ہے۔
ایک قصہ مجھے ایک دفعہ کسی دوست نے سنایا کہ ایک تھانیدار نے کسی زمیندار کی بے عزتی کی اور وہ بہت ذلیل ہؤا۔ وہ پاگل بن گیا اور کئی سال پاگل بن کر پھرتا رہا۔ جب اُس نے دیکھا کہ سارے ملک کو پتہ لگ گیا ہے کہ میں پاگل ہوں تو ایک دن ڈپٹی کمشنرکے ہاں چلا گیا اور جا کے کہا کہ میں نے ملنا ہے۔ وہ ڈپٹی کمشنر کچھ مذاقی طبیعت کا تھا کہنے لگا۔ بُلا لو۔ یہ گیا تو ڈپٹی کمشنر نے کُرسی دی اور یہ اس پر بیٹھ گیا۔ پھر کہنے لگا صاحب! ‘‘تیرا جیہڑا تھانیدار ہے اس دی کی تنخواہ ہوندی ہے’’؟ اُس وقت تھانیدار کی بہت تھوڑی تنخواہ ہؤا کرتی تھی اُس نے مثلاً کہا پچاس روپے۔ وہ کہنے لگا کہ ‘‘اے جیہڑاتحصیلدار ہے اُس دی کی تنخواہ ہے؟ اُس نے مثلاً کہہ دیا سو روپیہ ہے۔ پھر کہنے لگا ''ڈپٹی دی کی تنخواہ ہے؟'' اس نے کہا اس کی اڑھائی سو تنخواہ ہے۔ آخر میں کہنے لگا ''تیری کی تنخواہ ہے؟'' اس نے کہا میری پندرہ سو تنخواہ ہے۔ کہنے لگا کہ ‘‘ایڈا جھوٹ۔ میں بیوقوف ہی سہی مینوں سودائی کہندے ہو میں سودائی ہی سہی۔ پر اینی گل بھی نہیں سمجھدا’’۔ ڈپٹی کمشنر کہنے لگا نہیں نہیں ہماری پندرہ سو روپیہ تنخواہ ہے۔ کہنے لگا ‘‘اوہدی پنجاہ کہندا ایں تے اوہدے گھر تے چھ مہیاں بنھیاں پیاں ہن تے بیوی دے کن ٹنڈے ہن سونے دے زیوراں نال تے گلے دے وچ سونے دے ہار پائے ہوئے۔ تے گھوڑیاں اپنی رکھیاں ہوئیاں، نوکر اپنے رکھے ہوئے، تے ایناں سامان ہے۔ تیرے گھر تے کچھ وی نظر نہیں آندا۔ میں کس طرح من لواں کہ پندرہ سو تنخواہ ہے’’۔ غرض ایسی سیدھی بات کہی کہ ڈپٹی کمشنر کے دل میں شک پیدا ہو گیا۔ اُس نے اُسی وقت ایک دیانتدار ڈپٹی کو بلا کر بھیجا کہ جا کے دیکھو یہ ٹھیک ہے؟ اور اس کے گھر میں دیکھو کہ گھوڑیاں ہیں؟ بھینسیں ہیں؟ نوکر ہیں؟ اندر عورت بھیجو جو دیکھے کہ بیوی کے پاس زیور ہے؟ اُس نے آ کے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اُس نے اُسی دن اُس تھانیدار کو ڈسمس کر دیا اور نکال دیا۔
اب دیکھو وہ پاگل بنا اور اُس نے اپنا بدلہ لے لیا مگر یہ تو جٹ کے متعلق کہتے ہیں۔ اللہ تو ہمارا کامل ہے وہ تو نہ سیّد ہے نہ پٹھان ہے نہ مغل ہے، نہ جٹ ہے۔ مگر قرآن کہتا ہے اُس میں یہ بھی صفت ہے کہ وہ جب چاہے بات کو بُھلا دیتا ہے۔ اور پھر خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ 6میری رحمت ساری چیزوں پر حاوی ہے اگر اللہ تعالیٰ کافروں کے متعلق بُھلا دے گا تو مومنوں کے متعلق کیوں نہ بھلائے گا۔ اُس کی تو رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ پس ہماری نجات کا ذریعہ یہی ہے کہ خدا ہمارے خیالات کو بُھلا دے، ہماری کمزوریوں کو بُھلا دے، ہمارے نقصوں کو بُھلا دے اور اس وقت ایسا بن جائے کہ وہ کہہ دے مجھے نہیں پتہ میرے بندے نے کیا کیا ہے۔ جیسے احادیث میں آتا ہے کہ اِعْمَلُوْامَاشِئْتُمْ 7 جاؤ جاؤ جو مرضی ہے کرو میں دیکھتا ہی نہیں، میں نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
تو مجھے اِس تلاوت سے یہ نقطہ سُوجھا۔ پہلے طبیعت گھبرائی پھر دل نے کہا کہ تیرا واسطہ اسی خدا سے نہیں جو کہ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ہے۔ بلکہ اُس خدا سے بھی ہے جو اپنے متعلق کہتا ہے کہ فَنَسِیَھُمْ وہ ان کفار کو بھول گیا اگر وہ ان کفار کو بھول گیا تو مومن پر رحمت کرنے کے لئے جب کہ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ آیا ہے وہ کیوں نہ اس کے گناہ بھول جائے گا۔ وہ بھی کہہ دے گا کہ جاؤ ہم نے آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے پتہ تو ہے پر آج ہم ایسے اَنجان بن جاتے ہیں کہ گویا ہمیں کچھ پتہ نہیں۔
اخبارات و رسائل خریدنے کی تحریک
کل کی تقریر میں مَیں نے الفضل کے متعلق تحریک کرنی
تھی کہ الفضل ہمارے سلسلہ کا بڑا اہم آرگن ہے اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے لیکن میں بھول گیا۔ میں تو اس لئے بھول گیا کہ بیماری میں مجھے بھولنے کی مرض ہو گئی ہے۔ ہمارا خدا سب کچھ جانتا ہے۔ وہ بھی کبھی کبھی مصلحتاً بندوں کے فائدہ کے لئے بھول جاتا ہے یااپنے غناء کو ظاہر کرنے کے لئے بھول جاتا ہے اور میں تو کمزور انسان ہوں۔ دوستوں کو چاہئے کہ الفضل کی اشاعت کی طرف توجہ کریں کیونکہ مرکز کا آرگن اگر پہنچتا رہے تو مرکز سے تعلق قائم رہتا ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ آپ لوگوں کو بار بار ربوہ آنا چاہئے۔ آپ یہ تو نہیں کرتے کم سے کم الفضل پڑھ کے ہی آیا کریں اِس سے بھی کچھ تعلق ہو جائے گا مگر الفضل کافی نہیں۔ بیشک الفضل خریدیں بھی اور لوگوں کو پڑھوائیں بھی لیکن اس کے علاوہ خود عادت ڈال لیں کہ چاہے کچھ تنگی اٹھانی پڑے، کام کو کچھ تھوڑا بہت نقصان پہنچے پھر بھی بار بار یہاں آتے رہیں اور بغیر میری طبیعت پر بوجھ ڈالنے کے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ وہ طریق یہی ہے کہ نماز کے لئے میں گیا تو وہاں بات کر لی اور کوئی مسئلہ پوچھ لیا۔
اِسی طرح عورتوں نے لکھا ہے کہ مصباح کے متعلق تحریک کریں۔ عورتیں خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں اب پچاس ساٹھ ہزار ایسی ہیں جو کہ مصباح خرید سکتی ہیں۔ کم سے کم پندرہ بیس ہزار بلکہ تیس چالیس ہزار تو پڑھی ہوئی ہوں گی۔ اگر وہ باوجود پڑھے ہوئے ہونے کے اور مقدرت رکھنے کے مصباح کو نہیں خریدتیں جو ان کا اپنا رسالہ ہے تو میری نصیحت ان پر کیا اثر کر سکتی ہے۔ سنا ہے اس کی چھ سات سو اشاعت ہے گویا سَوعورتیں جو خرید سکتی ہیں ان میں سے ایک بھی نہیں خریدتی۔
اِسی طرح فرقان والوں نے کہا ہے کہ ہمارا رسالہ انصار اللہ کا رسالہ ہے اس کے متعلق بھی تحریک کریں۔ اب میں نہیں سمجھتا کہ اگر انصار اللہ جو اللہ کے مدد گار بنتے ہیں وہ اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے تو انہوں نے خدا کی کیا مدد کرنی ہے۔ گو انصار اللہ کے حقیقی معنی یہ نہیں ہیں کہ ''خدا کے مددگار''۔ بلکہ اِس کے معنی یہ ہوتے ہیں۔ اَنْصَارٌ لِلّٰہِ وہ خدا کی خاطر دین کی مدد کرتے ہیں۔ مگر جو خدا کی خاطر دین کی مدد نہیں کرنا چاہتا وہ میری خاطر کیوں کرے گا۔ انصار اللہ کے پرچہ فرقان کی تھوڑی سی قیمت ہے وہ تو میرے خیال میں پچیس تیس چالیس پچاس ہزار بلکہ لاکھ چھپنا چاہئے۔ اگر نہیں چھپتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں میں اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں۔ اور جس میں ذمہ داری کا احساس نہیں اُسے میرے کہنے سے کیا بنتا ہے۔
آخری پارہ کی تفسیر اور سیرروحانی جلد 2
اِسی طرح اب قرآن شریف کے آخری پارہ کی تفسیر چھپ رہی ہے۔ اب کے میں نے آتے ہی اِس خیال سے کہ کسی طرح یہ آخری پارہ تو ختم ہو مولوی
نور الحق صاحب کو اپنے نوٹ لکھوانے شروع کر دیئے تھے اور اُن سے کہا تھا کہ تم ذرا کھول کے ان کو لمبا کرکے لکھ دو۔ انہوں نے لکھ دیا ہے اور اب وہ تفسیر چھپنے والی ہے۔
اِسی طرح سیرروحانی کی دوسری جلد بھی چھپ رہی ہے۔ ایک جلد تو پہلے چھپ چکی ہے۔ دوسری جلد جس میں تین لیکچر آ گئے ہیں وہ بھی لکھی جا رہی ہے او رمیں نے سن کر اس کی درستی کر دی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آج مضمون بیان کرنے کی توفیق دے دی تو پھر شاید تیسری جلد بھی مکمل ہو کر شائع ہو جائے گی۔ پس دوستوں کو قرآن کریم کی تفسیر کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور ‘‘سیر روحانی’’ کی طرف کہ اس کے اندر بہت سے مضامین خداتعالیٰ کے فضل سے آ گئے ہیں۔
درمیان میں خدام الاحمدیہ نے بھی اپنا رقعہ دے دیا ہے اِس لئے میں تقریر کو روک کر اِس کو بیان کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ کام کے لحاظ سے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی اول آئی ہے ۔اس کو جھنڈا ملے گا ۔اِسی طرح دیہاتی مجالس میں سے نصرت آباد سندھ کی مجلس اوّل آئی ہے۔ اس کو سرٹیفکیٹ ملے گا جس پر کل مجھ سے دستخط کروائے گئے ہیں۔ سَو میں یہ اعلان کر دیتا ہوں۔ باقی جھنڈا جہاں سے ملتا ہے وہاں جا کر لے لیں۔
میں یہ کہہ رہا تھا کہ قرآن شریف کی تفسیر چھپ رہی ہے۔ اس کے متعلق مجھے بعض غیراحمدیوں کے بھی خط آئے ہیں۔ چنانچہ سورۃ یونس سے سورۃ کہف تک کی جو تفسیر ہے اس کے متعلق ایک غیر احمدی کا مجھے خط آیاکہ ایک احمدی نے مجھے یہ جلد دی تھی جسے وہ واپس مانگ رہا ہے۔ میں سو روپیہ دیتا ہوں مگر وہ تفسیر نہیں دیتا ۔ آپ مجھے سو روپیہ پر لے دیں۔ میں نے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ ابھی اس کی ایک جلد ایک سو پچیس روپے میں بِکی ہے۔ میں نے کہا تم سَو سمجھ کے کہتے ہو گے کہ تم بڑی قربانی کر رہے ہو وہ تو 125روپے کی ابھی بِکی ہے حالانکہ پہلے چار چار روپیہ میں یہ کتاب بِکی تھی مگر اُس وقت لوگوں نے نہیں لی اب ایک سو پچیس ایک سو پچیس او ر سو سو کو غیر احمدی بھی لے رہے ہیں۔ اب یہ آخری پارہ کی چوتھی جلد چھپے گی گویا یہ سورتیں آخری سورتیں ہیں۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وقت پر اِس کتاب کو خریدیں۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں ان کی نسلیں محروم رہ جائیں یا ان کو چار پانچ روپیہ کی جگہ سو روپیہ لگانا پڑے۔
قرآن مجید کا گورمکھی
اور ہندی میں ترجمہ
اِسی طرح ایک ضروری بات یہ تھی کہ اِس وقت ہندوستان اور پاکستان کے الگ ہو جانے کی وجہ سے گورمکھی اور ہندی زبان کی زیادہ اہمیت ہو گئی ہے
اوراس ملک میں تبلیغ اسلام کا کام بڑا ضروری ہے۔ اگر آپ لوگ قادیان کی عزت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس ملک میں تبلیغ وسیع کرنی پڑے گی۔ پس فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتابوں کا گورمکھی اور ہندی میں ترجمہ ہو جانا چاہئے اور قرآن شریف کا گورمکھی اور ہندی میں ترجمہ ہو جانا چاہئے۔ میں ‘‘اورینٹل ریلیجس بُک سوسائٹی’’ کو توجہ دلاتا ہوں کہ گورمکھی ترجمہ ہؤا ہی ہے غالباً ہندی بھی ہو چکا ہے اِن دونوں کو وہ فوراً شائع کریں۔ مجھے افسوس ہے کہ باوجود اِس کے کہ اِس کمپنی میں زیادہ حصہ تحریکِ جدید کا ہے اور انجمن کے اور میرے حصے ملا کر قریباً نوے فیصدی ہمارے حصے ہیں۔ اس لئے اگر نفع بھی آئے گا تو نوّے فیصدی انجمن کو جائے گا یا تحریک کو جائے گا یا کچھ مجھے مل جائے گا ان پر تجارت کا اتنا غلبہ ہے کہ وہ کہتے ہیں اگر وہ مجھے یقین دلائیں کہ وہ دونوں تراجم کی ہزار ہزار کاپی خرید لیں گے تو پھر میں ان کو چھاپتا ہوں۔ حالانکہ ہم نے جو یہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ لگایا ہے تو اشاعتِ اسلام کے لئے لگایا ہے پیسوں کے لئے نہیں لگایا۔ گو پیسے بھی اگر یہ بِک جائے گا تو آ جائیں گے نہ بِکے گا تو نہ آئیں۔ آخر ہمیں کیا شوق تھا خواہ مخواہ کی کمپنی بنانے کا۔ ہم نے تو اسے پیسوں کے لئے نہیں بنایا اشاعتِ اسلام کے لئے بنایا ہے۔ اس لئے اورینٹل ریلیجس بُک سوسائٹی کو میں کہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے چیئرمین سے زیادہ اُن نمائندوں پر بھی ذمہ داری ہے جو انجمن کی طرف سے اور تحریک کی طرف سے اور میری طرف سے اس کمپنی میں ہیں۔ وہ OVER RULE کر دیں چیئر مین کی رائے کو۔ وہ کہدیں ہم نہیں جانتے تجارت کیا ہوتی ہے فوراً چھاپو۔ بِک جائے گا تو اَلْحَمْدُ ِﷲِ خدا کا فضل ہے۔ نہ بِکے گا تو جس ثواب کے لئے ہم نے کمپنی بنائی تھی وہ حاصل ہو جائے گا۔ پس قرآن شریف کا گورمکھی اور ہندی ترجمہ فوراً شائع ہونا چاہئے۔ ورنہ یہ سمجھو کہ قادیان کی خیر کوئی نہیں۔ تم جب آنکھوں میں جھوٹے آنسو لا کے مجھے آکر کہتے ہو کہ قادیان کب ملے گی تو یہ محض جھوٹ ہوتا ہے۔ کیونکہ قادیان ملے نہ ملے قادیان کے بچنے کی صورت یہی ہے کہ وہاں کے ہندو اور سکھ مسلمان ہو جائیں۔ اِس کے سوا اور کوئی صورت نہیں۔ میرا ایک بچہ وہاں رہتا ہے۔ ایک بچے کو انڈونیشا میں تبلیغ کے لئے بھیجا ہؤا ہے۔ بعض دفعہ بیماری میں دل میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کہ وہ بچہ تو وہیں رہ جائے گا۔ اُس کی شکل بھی نہیں دیکھوں گا۔ پھر میں نے تذکرہ پڑھا تو اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا یہ الہام لکھا تھا کہ میں تیری نسل کو دور دور ملکوں میں پھیلا دوں گا۔ 8میں نے سمجھا اب میرا ایک بچہ انڈونیشیا میں بیٹھا ہے، ایک انڈیا میں بیٹھا ہے۔ وہ دور دور ملکوں میں پھیل گئے۔ قادیان بظاہر میلوں کے لحاظ سے دور نہیں مگر جو پاسپورٹ کی دقتیں دونوں گورنمنٹوں کے جھگڑے کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہیں اُس کی وجہ سے انڈیا یورپ سے بھی زیادہ دورہے۔ جنیوا کا ڈاکٹر شمٹ جو قادیان کے پاس بھی رہ گیا ہے (وہ سری گوبند پور میں آ کر دو سال ٹھہر کر گیاہے) اور جس کے پاس مَیں علاج کے لئے گیا تھا اُس نے مجھے کہا ڈاکٹر جے چند کا لڑکا میرا شاگرد ہے (ڈاکٹر جے چند لاہور کا بڑا مشہور ڈاکٹر تھا) اور اُس پر میں ایسا ہی اعتبار کرتا ہوں جیسے اپنے آپ پر۔ اِس لئے آپ کو ضرورت ہو تو آپ اس سے مشورہ لے لیں۔ میں نے کہا دلّی جانا ہم لوگوں کے لئے زیادہ مشکل ہے اور جنیوا آنا آسان ہے۔ تو انڈیا بھی اب دور کا ملک بن گیا ہے لیکن انڈونیشیا تو ہے ہی دور۔ پس جب میں نے پڑھا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور پیشگوئی ہے تو میں نے سمجھا کہ یہ تو ہمارے لئے معجزہ ہو گیا کہ پیشگوئی پوری ہو گئی اور میں نے اپنے دل کو کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نشان ہے اور خدا تعالیٰ کے نشانوں پر گھبرانے کی بات نہیں۔ اس کے کئی نشان ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوں گے۔ تو اس ملک کی اور احمدیت کی نجات اس میں ہے کہ وہاں احمدیت پھیلے۔ اس کے لئے گورمکھی اور ہندی ترجمہ شائع کرنا ضروری ہے۔ جب یہ ترجمہ چھپے گا خدا آپ اس کے بِکنے کا سامان کر دے گا۔ یہ نادانی ہے اور اس سلسلہ کے روپیہ کا غلط استعمال ہے جس نے ڈیڑھ لاکھ روپیہ اس کمپنی میں لگایا ہے۔ میں نے بھی شاید پانچ ہزار کے حصے خریدے ہوئے ہیں لیکن میں نے تو کسی پیسے کے لئے نہیں خریدے۔ فرض کرو اگر سَو پر دس روپے بھی آ جائیں تو پانچ ہزار پر مجھے پانچ سو آ جائے گا۔ گویا چالیس روپیہ مہینہ ہوئے۔ میرے گھر کے افراد سَو سے زیادہ ہیں۔ چالیس روپیہ مہینہ مجھے آ گیا تو تین تین آنے فی آدمی آئے گا۔ تین تین آنے سے میرا کیا بنتا ہے۔ میں نے وہ پانچ ہزار اس لئے دیا تھا کہ اشاعتِ اسلام ہو گی، اپنے فائدہ کے لئے نہیں دیا تھا کیونکہ وہ کتنا بھی نفع لائے تب بھی مجھے کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی اس پیسے سے کچا آٹا بھی پھانکنے کے لئے میرے گھر کے افراد کو نہیں مل سکتا۔ تو گورمکھی اور ہندی ترجمہ فوراً چھپنا چاہئے اور جماعت کو چاہئے کہ وہ کمپنی والوں کے پیچھے پڑ جائے۔
تحریک کا روپیہ
تحریک کا روپیہ آخر آپ لوگوں نے ہی دیا ہے۔ تحریک نے کوئی جھوٹے نوٹ تو نہیں بنائے۔ تو آپ کہئے تحریک والا روپیہ
ہمارا روپیہ ہے، انجمن کا روپیہ جو انجمن نے لگایا ہے وہ ہمارا ہے۔ کیوں تم گورمکھی اور ہندی ترجمہ نہیں چھاپتے؟ نہیں بِکتا تو بے شک پڑا رہے لیکن ہندوستان میں تبلیغ ہونی چاہئے تا کہ قادیان بچ جائے۔ اگر قادیان کو کوئی خطرہ ہؤا تو اے اورینٹل ریلیجس بُک سوسائٹی! تمہاری گردنیں ہم پکڑیں گے اور تم ذمہ دار ہو گے اِس چیز کے۔ تو جماعت سانس نہ لے۔ ہر ہفتہ ایک خط لکھ دیں کہ چھپا ہے کہ نہیں چھپا؟ نہیں تو ان کے خلاف الفضل میں مضمون لکھنے شروع کریں کہ کتنے سلسلہ سے غداری کرنے والے لوگ ہیں کہ ایسے اہم کام کو بھی نہیں کرتے۔ اور الفضل کا فرض ہے کہ ایسے مضمونوں کو چھاپے۔ میں نے کل ہی کہا تھا کہ جماعت کو موقع ملنا چاہئے کہ وہ انجمن اور تحریک پر زور ڈال سکے۔
زمینداروں کی اصلاح اور ان کی ترقی
کے متعلق صدر انجمن احمدیہ کو ہدایات
اِسی طرح ایک اَور ضروری بات تھی جو کل مَیں بھول گیا۔ میں نے کہا تھا کہ ہمارے زمینداروں
کو اپنی پیداوار بڑھانی چاہئے مگر زمیندار بیچارہ کچھ ایسا دماغ رکھتا ہے کہ بات سمجھنی اس کے لئے بڑی مشکل ہوتی ہے۔ اس کو یہ بتانا کہ کون سا موسم اچھا ہوتا ہے اور کس طرح فصل کی جاتی ہے نہایت ضروری بات ہے۔ جب تک کوئی اسے بار بار یہ باتیں نہ بتائے وہ سمجھ نہیں سکتا۔ میرے خیال میں صدر انجمن احمدیہ جس کی زیادہ تر ذمہ داری ہے اِس کو چاہئے کہ اپنی ایک نظارت زراعت بنائے اور وہ زراعت کے ماہرین کا دورہ مقرر کرے۔ پہلے جماعتوں میں سیکرٹری زراعت مقرر کرائے اور وہ تمام احمدیوں سے اقرار لیں کہ ہم کو جو ہدایات دی جائیں گی ہم اس کے مطابق فصلیں کریں گے۔ پھر یہ نظارت زراعت کا کوئی ماہر مقرر کرے جو دورہ کرے اور جا کر دیکھے کہ کس کس علاقہ میں کون کون سی فصل ہو سکتی ہے اور اس فصل کے بڑھانے کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ پھر اس کے اوپر ایک افسر ہو جو اُس کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ اِس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔ گویا جیسے کوآپریٹو سوسائٹیاں ہوتی ہیں اِسی طرح ایگریکلچرل سوسائٹیاں بنائی جائیں اور سارے احمدی ممبر وعدہ کریں کہ ہمیں جو ہدایتیں دی جائیں گی ہم ان کی تعمیل کریں گے۔ انہیں بتایا جائے کہ اتنے ہل دینے ضروری ہیں۔ فلاں فلاں موقع پر اتنے ہل دینے ہیں، فلاں موقع پر پانی دینا ہے، اتنے پانی دینے ہیں، فلاں بیج بونا ہے اور فلاں فلاں فصل بونی ہے۔ پھر جس طرح چندے کی وصولی ہوتی ہے اِسی طرح باقاعدگی سے یہ کام کروائیں۔ ہمارے سب سے زیادہ احمدی سیالکوٹ میں ہیں اور اِس وقت تو جو وکیل الزراعت ہیں وہ بھی سیالکوٹ کے ہی رہنے والے ہیں۔ یعنی چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔ اور اسی طرح سید عبد الرزاق شاہ صاحب جونائب وکیل ہیں نہایت ذہین اور ہوشیار نوجوان ہیں۔ وہ سیالکوٹ کے باشندے تو نہیں لیکن ان کے والد ساری عمر سیالکوٹ میں نوکر رہے ہیں۔وہ بدوملہی کے پاس رعیّہ میں ہوتے تھے۔ وہیں یہ پیدا ہوئے تھے۔ اگر سید عبدالرزاق شاہ صاحب اور چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے ہوتے ہوئے سیالکوٹ کے زمینداروں کی طرف توجہ نہ کی جائے تو کتنی افسوس کی بات ہے۔ لیکن اس کے بعد پھر لائلپور اور سرگودھا وغیرہ میں کوشش کی جائے۔
میں نے بتایا ہے کہ دوسرے ملکوں میں چودہ چودہ سو، پندرہ پندر ہ سو روپے فی ایکڑ کم سے کم پیداوار کی جا رہی ہے۔ یہ تو خود ایک احمدی نے مجھے بتایا لیکن اِس کے علاوہ ایک وفد جاپان گیا تھا جس میں دولتانہ صاحب بھی تھے۔ وہاں سے واپس آکے اس وفد کے ایک ممبر نے کہا کہ جاپان کی دو ہزار روپیہ فی ایکڑ آمد ہے لیکن دولتانہ صاحب نے کہا نہیں چھ ہزار آمد ہے وہاں تین تین سو من چاول پیدا ہو جاتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں فصل میں کھاد اچھی ڈالی جاتی ہے۔ حیوانی کھاد بھی یعنی گوبر بھی اور نباتاتی کھاد بھی۔ مگر ہمارے ملک میں گوبر کی کھاد نہیں ڈالی جاتی گوبر کا گند ڈالا جاتا ہے۔ گوبر کی کھاد کا اصول یہ ہے کہ ایک بڑا سا گڑھا کھودا جائے جو کم سے کم چھ فٹ گہرا ہو۔ اصل میں تو پندرہ بیس فٹ گہرا ہونا چاہئے۔ اس کے نیچے شاخوں کی یا پتوں کی یا لکڑی کی راکھ ڈالی جائے۔ اس کے اوپر گوبر ڈالا جائے۔ اس گوبر پر پھر ایک تہہ آدھ انچ راکھ کی ڈالی جائے جو درختوں کی لکڑی کی راکھ ہو یا پتوں کی راکھ ہو۔ اس پر پھر دو فٹ تک گوبر ڈالاجائے اور پھر ایک آدھ انچ کی یا ایک انچ کی راکھ کی تہہ دی جائے۔ پھر گوبر ڈالا جائے۔ اور پھر اس کے اوپر ایک راکھ کی تہہ دی جائے۔ پھر گوبر ڈالا جائے۔ اس طرح تین چار لیئرز (LAYERS)میں (ایک لیئر تین تین چار چار فٹ کی ہو) اسے سطح زمین تک لائیں۔ اُس کے بعد اس کو پانی دے دیں اور اُسے بند کر دیں اور پندرہ بیس دن پڑا رہنے دیں۔ پندرہ بیس دن کے بعد کھول کر پھر پانی دے دیں پھر کچھ مدت تک پڑا رہنے دیں پھر کھول کر پانی دے دیں۔ اس طرح تین مہینے تک اس کو زمین میں دفن رہنے دیں مگر اوپر مٹی پڑی ہوئی ہو تا کہ اس میں سے ایمونیا ضائع نہ ہو۔ کھاد کا جو سب سے اچھا حصہ ہوتا ہے وہ ایمونیا ہوتا ہے۔ یہ جو مصنوعی کھاد آتی ہے یہ بھی ایمونیم سلفیٹ ہی ہوتی ہے خدا تعالیٰ نے جانور کے پیٹ میں کچھ ایسے مادے رکھے ہیں کہ وہ گھاس کھا کے جو گوبر پھینکتا ہے اُس سے ایمونیا کافی مقدار میں بنتا ہے۔ غرض دو تین مہینے کے بعد جب بالکل گل جائے تو پھر وہ کھیت میں ڈالی جائے۔ اِسی طرح جو نباتاتی کھاد ہے اس کا بھی یہ طریق ہے کہ بونے کے بعد جس وقت وہ اتنی بڑی ہو جائے کہ ابھی اس کو پھلی نہ لگے تو اس میں گہرا ہل چلا دیا جائے۔ مثلاً گوارہ ہے، جنتر ہے یا سن ہے۔ یہ اچھی کھاد والی فصلیں ہیں۔ جس وقت یہ کچھ اونچی ہو جائیں، بالکل کچی نہ رہیں، بس نیم پختہ ہو جائیں تو ان میں گہرا ہل چلایا جائے اور اِس کو گرا دیا جائے۔ پھر اس کے اوپر خوب مٹی ڈالی جائے تاکہ وہ دفن ہو جائے۔ پھر اس کو پانی دیا جائے یہاں تک کہ وہ اندر ہی گل جائے۔ اِس طرح پانچ چھ مہینے کے بعد وہ اعلیٰ درجہ کی کھاد ہو جاتی ہے بشرطیکہ اس کے اندر کچھ تھوڑی سی جانور کی کھاد بھی ملا لی جائے۔ پھر تو وہ بہت زیادہ قیمتی ہو جاتی ہے۔
سائنس دانوں کا تجربہ ہے کہ جانور کی کھا دچھ سال تک اثر کرتی ہے اور نباتاتی کھاد کوئی تین فصلوں تک اثر کرتی ہے اس کے بعد بے کار ہو جاتی ہے۔ اس کھا دمیں جو پیداوار ہوتی ہے وہ بڑی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے۔ پس وہ افسر جائیں اور جا کر ان کو طریق بتائیں اور پھر ان کی نگرانی کریں۔ جس طرح چندے کی وصولی کے لئے انسپکٹر جاتے ہیں اِسی طرح زراعت دیکھنے کے لئے بھی انسپکٹر جانے چاہئیں۔ جو دیکھیں کہ احمدی زمیندار جس نے وعدہ کیا تھا اس نے اپنے وعدہ کے مطابق عمل کیا ہے یا نہیں۔ یا ہمارے سندھ کے احمدی زمینداروں کی طرح جب موقع آتا ہے تو برسیم کاٹ کے جانوروں کو ڈال دیتے ہیں اور اس کا جو مڈھ ہوتاہے یعنی بے کار لکڑی اُس پر ہل چلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہاں جی! ہم نے برسیم کی تھی حالانکہ'' برسیم کی'' کے صرف اتنے معنی ہوتے ہیں کہ برسیم بوئی تھی پھر ہم اس کو لے گئے تھے اور اپنے جانوروں کو کھلا دیا تھا۔ تو اگر ایک نظارت زراعت ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے زمینداروں کی اخلاقی حالت بھی اچھی ہو جائے گی، ان کی مالی حالت بھی اچھی ہو جائے گی اور سلسلہ کی مالی حالت بھی اچھی ہو جائے گی۔ آخر ہماری جماعت میں سب سے زیادہ زمیندار ہیں جو نوّے فیصدی کے قریب ہیں۔ اگر نوّے فیصدی کی مالی حالت کمزور ہو گی تو ہمیں روپیہ کہاں سے ملنا ہے۔
میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت جو ہمارے مزارعوں میں سے تھی میرے پاس آئی۔ وہ یوں مزارع نہیں تھی موروثی تھے اور ان کا زمین پر قریباً مالک جیسا اختیار ہوتا ہے۔ صرف وہ اسے مکانوں کے لئے بیچ نہیں سکتے۔ جلسہ کے دن تھے وہ آئی اور دروازہ کے آگے بیٹھ گئی اور کہنے لگی۔ جی! میں نے ایک گل کہنی ہے’’۔ میں نے کہا سناؤ۔ کہنے لگی ''پھرتُسیں ذرا صبر نال سنو'' میں نے کہا اچھا۔ پھر کہنے لگی ''میں ایس وقت بڑی مصیبت وچ ہاں۔ میں کچھ امداد منگن آئی ہاں''۔ میں نے کہا اچھا بی بی سناؤ۔ غرض بڑی تمہیدیں باندھ کے اور سانس لے لے کے اُس نے بات کی۔ میں اپنے دل میں یہ سمجھا کہ خبر نہیں یہ کتنے روپے مانگے گی۔ اور اتنے روپے دینے کی مجھےتوفیق بھی ہوگی کہ نہیں۔ اپنے ذہن میں مَیں نے اندازہ لگایا کہ اتنی لمبی تمہید بتاتی ہے کہ یہ چار پانچ سو سے کم نہیں مانگے گی۔ پر خیر مجھے خدا جو کچھ توفیق دے گا میں اس کو دے دونگا۔ بہر حال میں اس کوشہہ دیتا گیا کہ بی بی ڈرو نہیں بیان کرتی جاؤ۔ مگر وہ بیچاری کانپتی ہانپتی اورآہیں بھرتی چلتی چلی گئی اور آخر کہنے لگی ''ایس وقت اک آٹھ آنے دی ضرورت پیش آ گئی ہے''۔میرا تو دل ہی بیٹھ گیا۔ میں نے کہا یا اللہ! ہمارا ملک کتنا غریب ہو گیا ہے کہ اس عورت کو آٹھ آنے منہ سے نکالتے ہوئے ڈر آتا ہے کہ شاید میں دھتکار کر اس کو نکال دوں گا۔ خیر میں نے اُسے ایک دو روپے دے دیئے اور وہ بیچاری دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی مگر میرے دل میں اس کا بڑا زخم لگا اور وہ آج تک نہیں بھولتا۔ آٹھ آنے مانگنے کے لئے اس نے ڈرتے ڈرتے تمہیدیں باندھیں۔ پندرہ بیس منٹ صَرف کئے اور کہا ''جی! صبر نال سنو'' گویا مجھے آٹھ آنے کا اتنا صدمہ پہنچے گا کہ میں سمجھوں گا اس نے گویا قارون کا خزانہ مانگا ہے۔ تو جس بیچاری نے آٹھ آنے نہ ہونے کو مصیبت سمجھا اور جس نے آٹھ آنے مانگنے میں یہ سمجھا کہ خبر نہیں میں اس سے کتنا خفا ہو جاؤں گا کہ تُو اتنی رقم مجھ سے لینے آ گئی۔ اُس غریب نے چندہ کیا دینا ہے۔
زمینداروں کی حالت سدھارنے
کے لئے نظارت زراعت کا قیام
غرض زمینداروں کی حالت کو سدھارنا انجمن کا کام ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ فوراً ایک نظارت زراعت
بنائیں اور تحریک والے بھی انجمن کے ساتھ ہی جائیں۔ بے شک وہ وکیل الزراعت ہیں لیکن اگر بعض صیغوں کو ملادیا جائے تو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے۔ اور وہ بڑا اچھا کام کرنا جانتے ہیں۔ خود اچھے بڑے زمیندار ہیں، نواب محمد دین صاحب کے بھتیجے ہیں اور ان کے لائلپور میں مربعے ہیں اور ولایت میں بھی رہے ہیں۔ میرے نزدیک وہ ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔ اور سید عبد الرزاق شاہ صاحب کو بھی میں نے دیکھا ہے ان معاملات میں بہت ہی سمجھدار ہیں۔ ان کو میں نے سندھ میں زراعت پر لگایا ہؤا تھا۔ وہ ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ پھر وکالت کے پاس زراعت کا ایک گریجوایٹ بھی ہے اس نے لائلپور کالج میں زراعت کی تعلیم حاصل کی ہے اور اس نے زندگی وقف کی ہوئی ہے۔ بے شک ابھی وہ ناتجربہ کار بچہ ہے لیکن شروع میں بچے ایسے کام کر لیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ تجربہ کار ہو جاتے ہیں۔ تو سکیم بنائی جائے کہ کس کس علاقہ میں کیا کیا فصل ہو سکتی ہے اور اس فصل کے اعلیٰ پھل پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ پھر ہر زمین والوں کو کہہ دیا جائے کہ تم نے یہی فصل یہاں بونی ہے جو اچھی ہو سکتی ہے۔
دیکھو! روس نے اِس طریق سے اپنے ملک میں سَو گُنا زیادہ پیداوار کر لی ہے۔ وہ ڈنڈے کے زور سے کرتے ہیں تم ایمان کے زور سے کر لو گے۔ انہوں نے اپنے سارے علاقے تقسیم کر لئے ہیں کہ یہاں گندم اچھی ہوتی ہے، یہاں چاول اچھا ہوتا ہے، یہاں گنّا اچھا ہوتا ہے، یہاں کپاس اچھی ہوتی ہے اور گندم بونے والے علاقہ میں سب کو قانوناً حکم دے دیتے ہیں کہ گندم کے سوا تم نے کپاس بوئی تو ہم تمہیں قید کر دیں گے، اگر تم نے چاول بویا تو تمہیں قید کر دیں گے، اگر کوئی اَور چیز بوئی تو قید کر دیں گے۔ کپاس والوں کو کہتے ہیں کہ اگر تم نے گندم بوئی تو قید کر دیں گے۔ چنانچہ جس علاقہ میں کپاس اچھی ہوتی ہے اُس علاقہ میں سب کپاس کاشت کرتے ہیں۔ جس میں گندم اچھی ہوتی ہے اس میں سارے گندم بوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کا یہ طریق ہے کہ چودھری صاحب کے پاس تین گھماؤں زمین ہے۔ اس میں سے وہ دو کنال گندم بوئے گا، ایک کنال کماد، ایک کنال چارہ، کوئی ایک کنال یا دس مرلے چاول، کوئی دو چار مرلے ساگ۔ بس ایسی چیزیں بو کے وہ ایک گھماؤں میں سے ساری دنیا کی ضرورتیں پوری کرنا چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اگر وہ کام کو تقسیم کریں تو وہ کہیں کہ میری گندم اگر بجائے پانچ من کے سو من ہو گی تو میں تین میل سے سبزیاں اور ترکاریاں خرید کر لے آؤں گا۔ کیونکہ میرے پاس روپیہ ہو گا میں اپنی زمین کیوں ضائع کروں۔ تو یہ بڑا اہم معاملہ ہے جو جماعت کو بڑھنے اور اس کو ترقی دینے کے لئے نہایت ضروری ہے۔
نظارت تعلیم کو ضروری ہدایت
اِسی طرح نظارت تعلیم کو چاہئے کہ وہ جو انسپکٹر بھیجتے ہیں اُن پر اور کاموں کے علاوہ
ایک یہ ذمہ داری بھی ڈالیں کہ وہ دیکھیں کہ جماعت کا ہر لڑکا پڑھ رہا ہے۔ اب وہ بھیجتے ہیں تو اس لئے کہ فلاں جگہ پر پرائمری سکول کھول آئے حالانکہ ہر ضلع میں دو ہزار گاؤں ہوتا ہے اور صرف پنجاب کے سولہ اضلاع تھے۔بتیس ہزار گاؤں میں سے کسی ایک گاؤں میں پرائمری سکول کھول کر ہم کون سا تیر مار لیں گے۔ لیکن اگر ہمارا آدمی جا کر ہر احمدی کو مجبور کرے کہ اپنے بیٹے کو پڑھا تو کوئی نہ کوئی سرکاری سکول یا قومی سکول، پرائمری یا مڈل پاس ہو گا۔ اس میں وہ اسے تعلیم کے لئے بھجوا سکتا ہے۔ پس بجائے اِس کے کہ وہ کوئی پرائمری سکول کھولیں لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنے لڑکوں کو قریب کے سکول میں بھیجا کریں یا جو لڑکے پڑھ رہے ہوں ان کو کتابیں لے دیا کریں، کسی کو فیس دے دیا کریں۔ یہ پرائمری سکول کھولنے سے زیادہ اچھا طریق ہے۔ اِسی طرح ایک مولوی علاقہ میں مقرر کریں جو پِھر پِھر کے لوگوں کو وعظ اور تبلیغ کیا کرے اور بچوں کی تربیت کرے، ان کو قرآن پڑھائے، اِسی طرح عورتوں کو بھی قرآن پڑھائے۔ اگر اس طریق پر عمل کیا جائے تو پھر بے شک نظارت تعلیم کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارے زمیندار میں چودھرایت کا شوق ہوتا ہے۔ وہ آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے پرائمری سکول کھولنا ہے۔ وہ صرف یہ فخر حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ کہیں کہ چودھری صاحب نے اپنے علاقہ میں پرائمری سکول کھولا ہے۔ یہ نہیں دیکھیں گے کہ قوم نے کتنا فائدہ اٹھایا ہے صرف یہ دیکھیں گے کہ اس طرح ہمارا نام روشن ہوتا ہے۔ حالانکہ نام روشن کرنے کی بجائے اگر کتابیں دی جائیں، فیسیں دی جائیں تو اس سے بہت زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ پس انجمن نظارت تعلیم کے طریق کار کو بھی بدلے اور نظارت زراعت قائم کرے اور سارے زمینداروں کو منظم کرے۔ سارے علاقوں کے متعلق گورنمنٹ کے گزٹ پڑھے، گورنمنٹ کی رپورٹیں پڑھے اور دیکھے کہ کس علاقہ میں کپاس ہوتی ہے اور پھر کس قسم کی ہوتی ہے۔ کیونکہ زمیندارہ میں ایک ایک چیز آگے قسم در قسم چلتی ہے۔ مثلاً بعض علاقے ایسے ہیں جن میں دیسی کپاس اچھی ہوتی ہے، بعض میں امریکن کپاس اچھی ہوتی ہے۔ جس زمین میں امریکن کپاس اچھی ہوتی ہے اس میں دیسی کپاس بونا ظلم ہے اور جس میں دیسی کپاس اچھی ہوتی ہے اُس میں امریکن کپاس بونا ظلم ہے۔ ہمارا زمیندار یہ خیال کر لیتا ہے کہ چونکہ امریکن کپاس مثلاً تیس روپے من بِکتی ہے اور دیسی کپاس بیس روپے من بِکتی ہے۔ اس لئے ضرور امریکن کپاس بونی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس علاقہ میں امریکن کپاس تو تین من ہوتی ہے اور دیسی کپاس اٹھارہ من ہوتی ہے۔ اگر دیسی کپاس بیس روپے من بھی ہوئی تب بھی تین سو ساٹھ روپے کی ہوئی۔ اور امریکن کپاس اگر تیس روپے من ہوئی تب بھی نوّے روپے کی ہوئی۔ وہ صرف یہ دیکھ لیتا ہے کہ منڈی میں کس کی قیمت زیادہ ہے۔ پس ان کو بتایا جائے کہ تم وہ چیز بوؤ جو تمہارے علاقہ میں زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ اور یہ کام ہمارے دفتروں کا ہے کہ وہ گزٹ پڑھیں، زمیندارہ کے متعلق گونمنٹ کی رپورٹیں پڑھیں اور جو چیز جس جگہ زیادہ ہو سکتی ہو وہاں اس کے متعلق جا کر کہیں کہ یہ چیز بوؤ۔ پھر دیکھو خدا تعالیٰ کے فضل سے اُس علاقہ کی کایا پلٹ جائے گی۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ پر تل نہیں ہوتے۔ اگر وہ بوئے جائیں تو دس پندرہ سیر نکلیں گے۔ لیکن زمیندار اس لئے کہ ''گھر دی تل شکر ہی کھاواں گے''۔ ضرور ایک کنال تل بو دیتا ہے چاہے اندر سے کچھ بھی نہ نکلے۔ وہ کہتا ہے۔ ''گھر دے تِل ہون گے وچ شکر پا کے اوہ کھاواں گے''۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اگر میرے ہاں اچھی گندم پیدا ہوتی ہے اور وہ پچاس من آ جائے گی تو میں اس سے دس گُنے تل خرید لوں گا۔ یہ خیال اُس کو نہیں آتا۔ پس یہ محکمہ بنا ہؤا ہو جو تمام علاقوں کی پیداوار کے لحاظ سے تقسیم کرے اور مجھے آ کے بتائے کہ کس کس علاقہ میں کیا کیا فصل اچھی ہوتی ہے۔ پھر ان کے آدمی جائیں جو لوگوں کو تحریک کریں کہ وہ وہی فصلیں بوئیں جو ان علاقوں میں اچھی ہوتی ہے۔ جیسے روس نے انتظام کیا ہؤا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہؤا ہے کہ اب روس کی پیداوار پہلے سے کئی گنے بڑھ گئی ہے۔مجھے ایک دفعہ امریکہ کا ایک قونصل جنرل ملنے آیا وہ ایک قسم کا سفیر ہی ہوتا ہے بڑا عہدہ دار ہوتا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تمہارے ملک میں لوگ اتنے امیر ہوتے ہیں کہ زمیندار کا جو نوکر ہوتا ہے وہ اس کو ہزار ہزار روپیہ مہینہ کی تنخواہ دیتے ہیں۔ لیکن ہم تو پندرہ روپے دیتے ہیں تو پھر بھی ہمیں گھاٹا پڑتا ہے آخر تم کیا کرتے ہو؟ یا تو یہ ہوتا ہے کہ تمہارے ملک میں پچاس روپے من گندم بِک رہی ہوتی پھر بے شک ہم کہتے کہ تمہیں قیمت زیادہ ملتی ہے۔ تمہیں قیمت تو ہم سے بھی کم ملتی ہے پھر اس کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگا ہماری پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارا آدمی اتنی محنت کرتا ہے کہ آپ کے دس پندرہ مزدور کے برابر وہ محنت کرتا ہے۔ اور پھر ہم وہی چیزیں بوتے ہیں جو وہاں زیادہ اچھی ہو سکتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چاہے قیمت ہمیں آپ کے برابر ملتی ہے مگر پیداوار کی مالی حیثیت کے لحاظ سے وہ آپ سے سَو گُنے زیادہ ہو جاتی ہے۔ اِس لئے ہم ہزار روپیہ دے کر بھی کماتے ہیں اور آپ پندرہ روپے دے کر بھی دکھ اٹھاتے ہیں۔پس زراعت کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے۔
گورمکھی اور ہندی ترجمے جلد سے جلد شائع ہونے چاہئیں۔ روسی ترجمہ کی طرف جلد توجہ ہونی چاہئے۔ چودھری صاحب نے کل کہا تھا کہ وہاں آٹھ کروڑ کے قریب مسلمان ہیں۔ بائیس کروڑ ساری آبادی ہے۔ مجھے تو یاد پڑتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد اِس سے زیادہ ہے لیکن ممکن ہے وہ غلط ہو۔ لیکن اگر وہ آٹھ کروڑ بھی نہیں صرف ایک لاکھ ہوں تو کیا ایک لاکھ مسلمان تھوڑا ہوتا ہے کتنی مدّت میں لاکھ آدمی ملتا ہے۔''
(الفضل 8،14،15،17 اپریل 1956ء)
اس کے بعد حضور نے اصل مضمون ''سیر روحانی'' پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:-
عالَمِ روحانی کی نہریں
'' آج میں دوستوں کے سامنے اُسی مضمون کی ایک کڑی بیان کرنا چاہتا ہوں جو 1938ء سے جاری ہے اور جس کا تعلق میر ے حید ر آباد او ر دہلی کے سفر کے سا تھ ہے۔ میں بتا چکا ہوں کہ اِس سفر میں مَیں نے سو لہ چیزیں دیکھی تھیں جن کا میری طبیعت پر گہر ا اثر ہؤا ۔ آج میں انہی میں سے ایک اَور چیز کا ذکر کرنا چا ہتا ہوں ۔
میں نے اِس سفر میں جو نظا رے دیکھے او ر جن عجا ئبات نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اُن میں بڑے بڑے با دشا ہوں کے تیا ر کردہ قلعوں اور مسجدوں اور میناروں وغیرہ کے علا وہ کچھ نہریں بھی تھیں جوایک علا قہ سے دوسرے علاقہ میں پانی پہنچاتی تھیں اور جو پیا سی فصلوں اوردرختوں کے لئے ایک نئی زند گی کا مو جب ہوتی تھیں۔
پیاسی دنیا کی سیرابی کاانتظام
مَیں نے ان نہروں کو دیکھا اور غور کیاکہ کیا اِن دُنیوی نہروں کے مقا بلہ میں اللہ تعالیٰ نے
عالَمِ روحانی میں بھی پیا سی دنیا کی سیرابی کے لئے کو ئی نہریں بنا ئی ہیں یا نہیں؟ اور اگر بنا ئی ہیں تو وہ دنیا کو کس طرح سیراب کر رہی ہیں۔
دُنیوی نہروں کے فو ائد
اِس نقطہ نگا ہ کے مطا بق جب میں نے سو چا تو میرے دل میں سوال پید اہؤا کہ نہروں کا کیاکا م ہوتا ہے؟
او ر پھر میر ے دل نے خود ہی اِس سوال کا یہ جواب دیا کہ نہروں کا کام لو گوں کے لئے پا نی مہیّا کرنا ہو تا ہے جس سے کھیتوں کو بھی پا نی ملتا ہے، پینے کے لئے بھی پانی مہیّا ہو تا ہے اورپھر پا نی کا ذخیرہ بھی جمع رہتا ہے اور یہی فوائد روحانی دنیا میں دینی علوم اور معارف سے حاصل ہوتے ہیں۔ اِسی وجہ سے قرآن کریم میں دینی علوم اور معارف کانام بھی نہریں رکھا گیا ہے۔ چنا نچہ اللہ تعالیٰ سورۂ بقرہ میں فرما تا ہے ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً١ؕ وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ9 یعنی مخا لفینِ اسلام کے دل پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے ہیں کیو نکہ پتھروں میں سے تو بعض ایسے بھی ہو تے ہیں کہ اُن کے نیچے سے پانی بھی نکل آتا ہے لیکن اِن کے دلوں میں سے کو ئی ایمان کاقطرہ نہیں نکلتا ۔ اِس آیت کے یہ معنے نہیں کہ پانی ان پتھروں میں سے نکلتا ہے بلکہ ا س میں یہ بتایا گیا ہے کہ اُن کے پیچھے پانی ہوتاہے جو اُن پتھروں کو پھا ڑ دیتا ہے اور پھر اُن میں سے نہر بہنے لگ جاتی ہے۔ مگر یہ کُفّار ایسے سخت دل ہیں کہ اِن کے دلوں کے پیچھے جو روحانی پانی ہے وہ اُن میں سے بہنے کا کو ئی راستہ نہیں پاتا۔
جسمانی اور روحانی علوم بھی
نہروں سے مشا بہت رکھتے ہیں
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ دلو ں کے پیچھے بھی پانی ہو تا ہے اور سخت دل انسان بھی بعض دفعہ اُس کا مقابلہ نہ کر کے اُس کے آگے
جُھک جا تے ہیں اور اُن میں سے پانی نکلنے لگ جاتاہے۔پس پانی کے معنے گویا روحانی اور جسمانی علوم کے ہیں ۔ ایک اَور جگہ اللہ تعالیٰ اِسی حقیقت کا اِن الفاظ میں ذکر فرماتاہے کہ اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُ١ؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّيَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَيْهَاۤ١ۙ اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَيْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِيْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠۔10 یعنی دنیا کی زندگی کی مثال ایک پانی کی طرح ہے کہ ہم آسمان سے اُتارتے ہیں۔ پھر اُس سے زمین کا سبزہ مل جا تا ہے جس کو لو گ بھی کھاتے ہیں اور جا نور بھی کھا تے ہیں او ر زمین بڑ ی سر سبز ہو جا تی ہے۔ او ر لوگ سمجھتے ہیں کہ اَب وہ اُس کھیتی پر قبضہ کر لیں گے مگر اچانک دن کو یا رات کو خدا تعالیٰ کا کو ئی عذاب نا زل ہو جا تاہے اور وہ اِس طرح تباہ ہو جا تی ہے کہ گویا کَل یہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ اور جو لوگ غور و فکر سے کام لیتے ہیں اُن کے لئے ہم اِسی طرح اپنی آیات کھو ل کر بیان کر تے ہیں۔
اس سے معلو م ہؤا کہ دینی یا دُنیوی علوم تو پانی کی طرح صاف ہوتے ہیں لیکن لوگوں کے وہ بدخیالات جو زمین کی نباتات کی طرح ہو تے ہیں اور جو ان کے دماغوں میں اُٹھتے رہتے ہیں جو دین یا دنیا کو تباہ کر دیتے ہیں اور وہ علوم بجائے فائدہ بخش ہونے کے لوگوں کے لئے حسرت کا موجب ہو جا تے ہیں۔
اِسی طرح فر ماتا ہے هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔11 وہ خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ اوقات میں پیدا کیا ہے اور خداتعالیٰ کا عرش یعنی اُس کی حکو مت اس سے پہلے پانی پر تھی۔ اگر اِس آیت کے دُنیوی معنے لو تو اِس کے معنے وہی ہیں جو وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ 12میں بیان کئے گئے ہیں۔یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ خالقیت پانی کے ذریعہ سے ظاہر کی ہے۔ اور اگر دینی معنے لو تو مَآء کے معنے وحیِ الٰہی کے ہیں اور اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان پر حکومت اپنی وحی کے ذریعہ سے ظاہرکی ہے۔ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا تاکہ وہ تمہا ری آزما ئش کرے اور یہ ظا ہر کر دے کہ تم میں سے کون زیا دہ اچھے کام کر تا ہے۔پس پانی سے مراد علوم ہوتے ہیں دینی بھی اور دُنیوی بھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
ایک زبر دست بارش سے مشابہت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنےمتعلق فرماتے ہیں کہ مَثَلُ مَابَعَثَنِیَ اللہُ بِہٖ مِنَ الْھُدٰی وَالْعِلْمِ
کَمَثَلِ الْغَیْثِ الْکَثِیْرِ اَصَابَ اَرْضاً فَکَانَ مِنْھَا نَقِیَّۃً قَبِلَتِ الْمَاءَ فَاَنْبَتَتِ الْکَلَاءَ وَالْعُشْبَ الْکَثِیْرَ وَ کَانَتْ مِنْھَا اَجَادِبَ اَمْسَکَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللہُ بِھَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا۔13 یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مجھے ہدایت اورعلم دیکر بھیجا ہے اُس کی مثا ل ایک بادل کی طرح ہے جس سے بڑی بارش ہو تی ہے مگر جب وہ کسی ز مین پر پڑتی ہے تو کچھ تو اچھی زمین ہوتی ہے وہ پا نی کو قبول کر لیتی ہے اور بڑا سبزہ نکا لتی ہے۔ اور کچھ ایسی زمینیں ہو تی ہیں کہ وہ پانی تو لے لیتی ہیں لیکن ان کا کام صرف اتنا ہو تا ہے کہ وہ اس پانی کو جمع رکھتی ہیں۔ چنا نچہ لو گ اُس ذخیرہ سے پانی پیتے اور آگے کھیتوں کو بھی پانی دیتے ہیں۔
انجیل میں روحانی خوراک اور
روحانی پانی کے محاورہ کا استعمال
پھر یہ محاورہ صرف قرآن کریم میں ہی نہیں بلکہ انجیل میں بھی بیان ہؤا ہے ۔ انجیل میں لکھا ہے کہ:
''سبھوں نے ایک ہی روحانی خوراک کھا ئی اور سبھوں نے ایک ہی روحانی پانی پیا کیو نکہ انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پا نی پیا اور وہ چٹان مسیح تھی۔'' 14
ان آیاتِ قرآنیہ، رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور انجیل کے حوالہ سے یہ بات ثابت ہے کہ روحانی کتا بوں میں پانی سے مراد علمِ روحانی ہو تاہے اور اس کی مشا بہت میں کبھی دُنیوی علوم بھی مراد ہوتے ہیں۔مگر دیکھو کہ قرآن کریم کے عِلم اور مسیح کے حواریوں کے علم میں کتنا عظیم الشان فرق ہے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ چٹان کے پیچھے پانی ہو تا ہے جو چٹان کو پھا ڑ کر نکل آتا ہے اور مسیح کے حواری کہتے ہیں کہ:-
''سبھوں نے ایک ہی روحانی پانی پیا کیو نکہ انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پانی پیا۔''
یہ ایک خیا لی مثا ل ہے جس کی کو ئی تصدیق نہیں ملتی۔ لیکن چٹانوں کے پیچھے سے پانی کے چشمے نکلنے کی تو ہر پہاڑ پر مثا لیں مو جو د ہیں۔ پس یہ ایک سچی اور طبعی مثال ہے۔ مگر انجیل کی مثال نہایت مضحکہ خیز ہے۔ انجیل کہتی ہے کہ:-
''انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پانی پیا۔''
اب بتاؤ وہ کو نسی چٹان ہے جو سا تھ ساتھ چلتی ہے اور لوگ اُس سے پانی پیتے ہیں؟ کوئی بھی نہیں۔ لیکن جن چٹانوں کا قرآن کریم ذکر کر تا ہے ایسی ہزاروں چٹانیں موجو د ہیں اور ہر شخص جا نتا ہے کہ وہ چٹانیں پھٹتی ہیں تو اُن کے پیچھے سے پانی نکل پڑتا ہے۔
پھر مسیحیوں نے بڑا زور مارا تو کہا کہ ''وہ چٹان مسیح تھی۔''جو اُن کے ساتھ ساتھ چلی اور جس کے پیچھے سے انہوں نے پانی پیا۔ مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر مؤمن خواہ وہ چھو ٹا ہویا بڑا ایک چٹان ہوتا ہے جس کے پیچھے پانی ہوتا ہے اور جس سے لوگ فا ئدہ حاصل کرتے ہیں۔ گویا قرآن کریم اس پانی کو ہر انسان کے دل تک پہنچاتا ہے اور انجیل والے اس کو صرف مسیح پر پہنچ کر ختم کر دیتے ہیں۔
قرآن کریم کے ذریعہ ہزار ہا علمی نہروں کا اجراء
مگر جیسا کہ میں نے بتایا یہ نہریں
کبھی خالص روحانی ہوتی ہیں اور کبھی دُنیوی علوم پر مشتمل ہوتی ہیں۔ چنا نچہ جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ دینی علوم بخشنے کے قرآن کریم نے سابق علوم کو بھی زندہ رکھنے کا سامان کیاہے اور وہ علمی نہریں چلا دی ہیں جو پہلے کسی زمانہ میں چلتی تھیں یا کبھی بھی نہیں چلتی تھیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخا طب کر کے فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے وہ کچھ سکھا یا ہے جو پہلوں کو نہیں ملا تھا15۔ پس قرآن کریم کے ذریعہ جو عظیم الشان نہریں جاری ہوئی ہیں اُن کی مثال سا بق مذا ہب میں بھی نہیں دکھا ئی دیتی۔
عِلمِ کا ئنات کی نہر
چنانچہ پہلی دنیوی نہر جو اُس نے چلا ئی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے قانونِ قدرت کی طرف توجہ دلائی اوراس سے ایک علم
کی نہر بہہ گئی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۔16 یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے بہت بڑے نشان ہیں۔ یعنی اگر وہ پیدائشِ سماوی اور ارضی پر غور کریں تو اُنہیں اِس سے ایک بہت بڑا علم میسر آسکتا ہے ۔ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اِسی طرح رات دن کے باقاعدہ آگے پیچھے آنے میں بھی انہیں کئی نشان ملیں گے۔ کیو نکہ اگر کو ئی قانون نہیں تو کیا وجہ ہے کہ روزانہ سورج ایک وقت میں چڑھتا ہے اور ایک وقت میں ڈوبتا ہے اور ہر مو سم کے مطابق اُسکے طلوع وغروب کا وقت بدلتا چلا جا تا ہے یہ چیز بتا تی ہے کہ کوئی قانونِ قدرت مو جود ہے جس کے ما تحت یہ سلسلہ جا ری ہے۔
پھر فر ماتا ہے وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ١ۙ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ وَ النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۔17 یعنی اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو تمہا رے فا ئدے کے لئے لگایا ہؤا ہے اور سورج اور چاند کو بھی اُس نے تمہاری خدمت پر مقرر کیا ہؤاہے۔ اگر تم اِن امور پر غور کرو تو تم اس سے بڑا علم حا صل کر سکتے ہو ۔
غر ض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ دُنیوی علوم بھی پھیلا ئے ہیں۔ یعنی بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ فلا ں فلا ں علم ہے اس کو حا صل کرنے کی کوشش کرو۔ مثلاًپہلے تو اُس نے قانونِ قدرت کی طرف توجّہ دلائی۔ اِس ایک علم کی طرف توجہ دلانے سے ہی اُس نے تمام جادؤوں اور ٹو نے ٹو ٹکوں کو باطل کر کے رکھ دیا۔ کیو نکہ اگر اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ والی آیت ٹھیک ہے تو جتنے جا دو، ٹو نے اور ٹوٹکے ہیں یہ سب باطل ہو جا تے ہیں۔ کیونکہ جا دو اور ٹونے ٹو ٹکے کے معنے یہ ہیں کہ قانون کو ئی نہیں چُھومنتر کیا اور بات ہو گئی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے کہ ایک قانون ہے تم اس کی تلا ش کر و اور اس سے فائدہ اُٹھا ؤ۔
عِلمِ جُغر ا فیہ کی نہر
اِسی طرح قرآن کریم نے جن علوم کی طرف توجہ دلائی ہے اُن میں سے ایک عِلمِ جغرا فیہ بھی ہے۔اللہ تعالیٰ قومِ لوط کی
ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے۔اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ۔وَ اِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ۔اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۔18 کہ ان بستیوں میں سمجھداروں اور عقلمندوں کیلئے بڑے نشا نات ہیں ۔ پھر فرما تا ہے کہ یہ بستیاں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں عرب میں سے گزرنے والے ایک ایسے راستہ پر ہیں جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ چنا نچہ تاریخ سے ثا بت ہے کہ اگر انطاکیہ کی طرف عرب قافلے جا ئیں تو قومِ لوط کی بستیاں اُن کے راستہ پر آتی ہیں اور پھر وہ راستہ ایسا ہے جو ہمیشہ آباد رہتا ہے ۔ بعض رستے ایسے ہوتے ہیں جو کچھ وقتوں میں متروک ہو جا تے ہیں لیکن وہ ایک ایسا راستہ ہے جو ہمیشہ آباد رہتا ہے۔ گو یا اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جغر افیہ کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ تمام شہروں اور وادیوں پر نشان لگاؤ اور پتہ لگاؤ کہ وہ کہاں کہاں واقع ہیں۔
اِسی طرح فرماتاہے وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ۔19 یعنی عاد اور ثمود میں بھی بڑے بھا ری نشا نات ہیں۔انہوں نے جو شہر بسائے تھے اُن کا تمہیں علم ہے۔ لیکن ایک دوسرے مقام پر فرماتاہے کہ وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًا١ؕ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ20 یعنی کتنی ہی بستیاں ہیں جو اپنی معیشت پر اِترا رہی تھیں مگر ہم نے انکو ہلاک کر دیا۔ سو یہ اُن کے ویران مکا نات پڑے ہیں جو اُن کے بعد آباد ہی نہیں ہوئے اوراُن کے بعد ہم ہی اُن کے وارث ہوئے۔
گویا دونوں قسم کے نشانات مو جود ہیں۔کچھ بستیاں اور قلعے ایسے ہیں جو شہری آبادیوں کے درمیان ہیں تم اُن کو تلاش کرو۔ لیکن کچھ ایسی بھی بستیاں نکلیں گی جو با لکل ویران جگہوں پر ہیں۔
عاد اور ثمود کے متعلق قرآنی معلومات
کا ایک عیسائی محقق کو اعتراف
یہ عجیب بات ہے کہ عاد اور ثمود کے متعلق قرآن کریم میں جو ذکر آتا ہے اُس کے متعلق بعض
متعصب عیسائی تک تسلیم کرتے ہیں کہ اِس سے زیا دہ ہمیں اُنکی کو ئی حقیقت معلوم نہیں۔چنا نچہ جُر جی زیدان جیسے سخت متعصب عیسائی نے جغر افیۂ عرب پر ایک کتاب لکھی ہے اُس میں وہ لکھتا ہے کہ عاد اور ثمود کے متعلق یو نا نیوں نے بھی کتابیں لکھی ہیں اور رومیوں نے بھی ان کا بعض جگہ پر ذکر کیا ہے۔ اِسی طرح جغرافیہ کے دوسرے ماہرین کا کچھ لٹر یچر بھی موجود ہے مگر سا رے لٹر یچر پڑھنے کے بعد مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عاد اور ثمود کے متعلق جو کچھ قرآن کریم میں لکھا ہے اُس سے ایک لفظ بھی زیادہ ہمیں معلوم نہیں۔ باقی جو کچھ لکھا گیا ہے سب جھو ٹ ہے۔عاد اور ثمود کی صحیح تاریخ صرف قرآن کریم سے ملتی ہے۔21
اِن آیات میں صراحتاً جغرافیہ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عاد کی بستیاں بعض ایسی جگہوں پر پائی جا تی ہیں جو ویران ہو چکی ہیں اور بعض ایسی جگہوں پرپائی جاتی ہیں جہاں ابھی ویرانی نہیں آئی۔
علْمِ جہازرانی کی نہر
پھر عِلمِ جہا ز رانی کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ
بِاَمْرِهٖ١ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ۔22 یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کشتیاں مسخر کی ہیں تاکہ وہ خدا کے حکم سے سمندروں میں چلیں۔اِسی طرح اُس نے نہریں مسخر کی ہیں۔ یعنی یہ بھی ایک علم ہے جو تمہارے لئے فائدہ بخش ہے۔ تم نہروں کے متعلق دیکھو کہ وہ کِس طرح چکّر کھا تے ہوئے گزرتی ہیں۔ اور پھر کو ئی نہر کسی ایسے سمند ر میں جا کر گرتی ہے جہا ں سے منزلِ مقصود بہت دُور ہوجا تی ہے اور کوئی ایسی جگہ سے گزرتی ہے جو منزل کے قریب ہوتی ہے۔مثلاً یورپ میں بعض نہریں ایسی ہیں جو بحیرۂ روم میں آکر گِر جا تی ہیں او ر بعض بحر شمالی میں جاگرتی ہیں۔اگر کو ئی بے وقوفی کرے تو اُس نے جہاں جانا ہے اُ س سے ہزاروں میل پرے چلا جا ئیگا۔پس فرماتا ہے اُس کی رفتار اور رُخ وغیرہ کو یاد رکھنا چاہئے اور دیکھتے رہنا چاہئے کہ نہر جاتی کدھر ہے۔ کیو نکہ بالکل ممکن ہے کہ وہ نہر تمہیں کہیں کا کہیں پہنچادے۔اِسی طرح سمندروں کو دیکھو کہ سمندر تمہارے کام آنے والی چیز ہیں لیکن اُن پر بھی ایک قانون حاوی ہے او ر خاص ہو ائیں چلتی رہتی ہیں۔اگر ان ہؤاؤں کو مدِّنظر نہ رکھو گے تو وہی سمندر تمہارے لئے تباہی کا مو جب ہو جائیں گے۔ یا مثلاً اس کے اندر چٹانیں بھی ہیں اگر ان چٹانوں کو مدنظر نہ رکھو گے تو تمہا رے جہا ز تباہ ہو جا ئیں گے۔ چنا نچہ فرماتا ہے۔ وَ مِنْ اٰيٰتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِؕ۔اِنْ يَّشَاْ يُسْكِنِ الرِّيْحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلٰى ظَهْرِهٖ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ۔23 یعنی سمندر میں ہم ہو ائیں چلاتے ہیں۔ اگر وہ چلتی رہیں تو جہا ز چلتے رہیں گے لیکن اگر ہوائیں ٹھہر جائیں تو پھر جہازنہیں چل سکتے۔تم کو یا د رکھنا چاہئے کہ اگر تم نے سمندروں میں کامیاب ہونا ہے تو تمہیں ہمیشہ یہ معلومات حا صل کر تے رہنا چا ہئے کہ ہو ائیں کِس کِس وقت چلتی ہیں اور کِس کِس رُخ چلتی ہیں ۔اگر تم یہ علم ایجا د کر لو گے تو تمہارے جہا ز ٹھیک چلیں گے اور اگر اس علم سے واقفیت پید ا نہیں کرو گے تو تمہا رے جہا ز یا تو تم کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچائیں گے یادیر سے پہنچائیں گے۔
عِلمِ طِبّ کی نہر
چوتھا عِلمِ طِبّ ہے جس کی طرف قرآن کریم میں توجہ دلا ئی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَخْرُجُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ
اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠۔24 یعنی شہد کی مکھیوں کے پیٹ میں سے مختلف قسم کے شہد نکلتے ہیں اور اُن کے کئی رنگ ہوتے ہیں اور ہر قسم کا شہد کسی خا ص بیماری کے لئے مفید ہو تا ہے۔مگر فر ما یا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠۔ یہ نہیں فرمایا کہ جو ہما ری اس بات کو مان کرکسی کو شہد پِلا دے اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے بلکہ فرمایا کہ ہم نے صرف ایک اشارہ کیا ہے آگے تمہیں خود غور کرنا پڑے گا۔ چنا نچہ اب اِس کی تحقیقات ہوئی ہے اور پتہ لگا ہے کہ شہد کی مکھی جس قسم کے درختوں سے شہد لیتی ہے اُسی قسم کا فائدہ اُس شہد سے پہنچتا ہے۔مثلاً بعض جگہ شہد کی مکھی ایسے درختوں سے شہد لیتی ہے جن میں جلاب کامادہ ہو تا ہے۔ وہ شہد کھا ؤ تو جلاب لگ جا تے ہیں۔ بعض ایسی بُوٹیوں سے لیتی ہیں جو ملیریا کو دُور کرنے والی ہوتی ہیں وہ شہد کھا ؤ تو ملیریا کوفا ئد ہ پہنچتا ہے۔ غرض مختلف قسم کے شہد مختلف قسم کی بیماریوں کا علاج ہیں ۔ اِسی لئے قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ شہد میں فائدہ ہے بلکہ فرمایا ہے اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠ ۔ہم نے تو اشارہ کر دیا ہے اب یہ تمہارا کا م ہے کہ تم تحقیقات میں لگو۔ اگرتم غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ مختلف رنگ کے شہد مختلف امراض کا علا ج ہیں۔ چنا نچہ جب مَیں علاج کے سِلسلہ میں لندن گیا تو ایک بڑے خاندان کی ایک اُستانی تھیں، لارڈاِرون جو ہندوستان کے وائسرائے رہ چکے ہیں اُن کی ماں سے اُس کی ماں کی بڑی دوستی تھی۔کہتی تھی کہ اُس کے کئی خط میر ے پاس اب تک پڑے ہیں۔ ایک دن وہ شہد لے کر آئی جو خاص بُو ٹیو ں میں سے نکلا ہؤا تھا اور کہنے لگی یہ شہد آپ استعمال کریں یہ آپ کے لئے بہت مفید ہے۔مَیں نے کہا ۔مجھے تو شہد مو افق نہیں ۔ کہنے لگی آسڑیلین شہد تو معلوم نہیں کِس کِس چیز کا ہو تا ہے مگریہ تو ہمارے ہا ں بعض لو گ خا ص طور پر اُن بُو ٹیوں سے بنا تے ہیں جو امراض کے علاج میں خا ص طور پر مفید ہیں۔
اِسی طرح ہمارے پُرانے اطباء لکھتے ہیں کہ آم اور پھر خا ص قسم کے آموں کا شہد لیا جائے تو وہ دل کی تقویت کا مو جب ہوتا ہے۔ اِسی طرح بعض اَور امراض میں بھی مفید ہو تا ہے۔ تو شہد بے شک مفید ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ شہد کے فوائد کا صرف اُسی کو پتہ لگے گا جو تفکر کر نیوالا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مختلف شہد مختلف بیما ریوں کو فا ئد ہ پہنچاتے ہیں ۔یہ عِلمِ طِبّ کا کتنا عظیم الشان باب ہے جو قرآن کریم کی ایک چھو ٹی سی آیت کے ذریعہ کھو ل دیا گیا ہے۔
عِلمِ ہندسہ کی نہر
پھر عِلمِ ہندسہ کو بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے چنا نچہ فرماتاہے هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ
لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَ الْحِسَابَ ۔25 یعنی خدا تعالیٰ نے سورج کو ذاتی روشنی والا اور قمر کو نو ر والا بنایا ہے اور اُن کی کئی منازل مقرر کی ہیں ۔ وہ اپنے اپنے منازل میں چلتے ہیں تا کہ تم کو سا لو ں اور حساب کا علم ہو۔گویا اس ذریعہ سے اللہ تعا لیٰ نے عِلمِ حساب کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ پھر فرماتا ہے اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۪۔وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ يَسْجُدٰنِ۔26 یعنی سورج اور چاند ایک مقررہ قاعدہ اور قانون اور حساب کے ما تحت چل رہے ہیں اور جڑی بُو ٹیاں اور درخت بھی خدا تعالیٰ کے آگے سرنِگوں ہیں۔
عِلمِ ادب کی نہر
اسی طرح عِلمِ ادب کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔ فرماتاہے وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ١ؕ لِسَانُ
الَّذِيْ يُلْحِدُوْنَ اِلَيْهِ اَعْجَمِيٌّ وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ۔27 یعنی ہم خوب جا نتے ہیں کہ یہ کُفّار کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا انسان ہے جسے کسی اَور شخص نے سکھایا ہے قرآ ن اِس کا اپنا نہیں ۔ فر ما تا ہے جس شخص کی طرف وہ یہ بات منسوب کرتے ہیں وہ تو عجمی ہے وَّ هٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ او ر یہ کلا م عربی زبان میں ہے اور اس میں جو بات بھی کہی گئی ہے اس کی دلیل دی گئی ہے ۔ اگر یہ جھو ٹ ہے تو جھو ٹ کی تائید میں تو دلیل نہیں ہؤا کرتی۔اور اگر کہو کہ عجمی نے سکھا یا ہے تو محمد ؐ رسول اللہ تو عربی کے سِوا کچھ جا نتا نہیں۔ اور اگر کہو کہ عربی نے سکھایا ہے تو قرآن کریم کی صرف عربی معجزہ نہیں بلکہ قرآن کا عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ ہونے میں معجزہ ہے۔ یعنی اس کی زبان ایسی ہے کہ اس کے اند ر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ ہم کیو ں حکم دیتے ہیں ، خدا کو کیوں منواتے ہیں، فرشتوں کو کیوں منواتے ہیں، رسولوں کو کیو ں منواتے ہیں، جھو ٹ سے کیو ں منع کرتے ہیں، سچ کی کیو ں تائید کرتے ہیں، ظلم سے کیوں روکتے ہیں، انصاف کی کیو ں تائید کرتے ہیں۔ غرض یہ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ میں ہے اور اپنے احکام کی دلیلیں بھی دیتا ہے۔ جھوٹا آدمی دلیلیں کہاں سے لے آئے گا ۔پس تمہاری دونو ں باتیں غلط ہیں ۔ تم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اسے کسی عجمی نے سکھا یا ہے کیو نکہ محمد ؐرسول اللہ تو عجمی نہیں یہ تو عربی ہے اِس کو تو کسی اَور زبان کا پتہ ہی نہیں۔ اور تم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اسے کسی عربی نے سکھا یا ہو کیو نکہ اگر کسی عربی نے سکھا یا ہو تو بہر حال قرآن جھو ٹ تو ہؤا۔ اور اگر قرآن جھوٹا ہو گا تو اس میں دلیلیں کہاں سے آجائیں گی حا لانکہ تم جا نتے ہو کہ یہ کلام مُبین ہے۔ مُبِيْنٌ کے معنے ہوتے ہیں ظا ہر کرنے والی۔ یعنی جو بات بھی کہتی ہے اُسکوکھو ل کر رکھ دیتی ہے اور اُس کی معقولیت کے دلا ئل دیتی ہے۔
عِلمِ معانی کی نہر
پھرعِلمِ معانی کی طرف بھی اُس نے توجہ دلائی ہے۔معانی کے معنے ہوتے ہیں مو قع کے مطابق کلام بیان کرنا۔ جو کتاب موقع
کے مطابق ہر بات بیان کرے اور کسی مر حلہ پر بھی کسی بے مو قع بات کا اُس میں ذکر نہ ہو اُس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ عِلمِ معانی کے مطا بق ہے۔قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ اس کتاب میں عِلمِ معانی موجود ہے چنانچہ فرماتاہے کہ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا ۔28 اگر تم کو ہماری اِس تعلیم پر جو ہم نے قرآن میں نازل کی ہے کچھ شبہ ہے تو فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ29 تم اِس قسم کی کوئی اَور سورۃ پیش کرو۔ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔30 او ر اپنے غیر اللہ مدد گا روں کو بھی اپنی مدد کے لئے بُلا لو اگر تم سچے ہو ۔مگر وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے اسلئے کہ وہ جو بات بھی کریں گے چو نکہ جھو ٹ کی تائید میں ہو گی اس لئے کبھی موقع کے مطابق نہیں ہو گی محض اوٹ پٹا نگ بات کریں گے مگر قرآن جو بات بھی کرے گامو قع کے مطابق ہو گی۔
عِلمِ بیان کی نہر
اِسی طرح قرآن کریم نے عِلمِ بیان کا بھی ذکر کیا ہے فرماتا ہے۔ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى
لِلْمُسْلِمِيْنَ۠31 یعنی ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتا ب نازل کی ہے جس میں تمام ضروری مطالب اور مضامین بیان کردیئے گئے ہیں۔بیان کے معنے ہو تے ہیں ایک مطلب کو مختلف رنگوں میں بیان کرنا۔ اور قرآن کریم یہی فرماتاہے کہ وَ كُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا۔32 یعنی ہم نے اِس کتاب میں تمام با توں کو اِس طرح کھو ل کھو ل کر اور مختلف پیرایوں میں بیان کیاہے کہ ہر بات دل میں گڑ جا تی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ جو دلیل چاہیے تھی وہ ٹھیک طور پر بیان کر دی گئی ہے۔
عِلمُ النفس کی نہر
پھر قرآن کریم میں عِلمُ النفس کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرما تاہے۔ اِنْ حِسَابُهُمْ اِلَّا عَلٰى رَبِّيْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ۔33
کہ اگر تم اپنے دلی جذبات کو سمجھو تو تمہیں معلوم ہوکہ ان کا حساب لینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ علمُ النفس کے معنے ہو تے ہیں دلی جذبات کو سمجھنا۔ اور شعور بھی اُسی جذبہ کو کہتے ہیں جو اندر سے پیدا ہوتاہے۔ گویا قرآ ن کریم یہ بتا تا ہے کہ اگر انسان اپنے دلی جذبات کو سمجھے تو پِھر اُسے قرآن کا علم سمجھ میں آتا ہے۔ اور اس طرح بنی نوع انسان کو نصیحت کی ہے کہ اگر تم نے قرآنی باتوں کو سمجھنا ہو تو تمہیں اپنے دل کے جذبات پر غور کرنا چاہئے۔ تمہیں سمجھ آجا ئے گی کہ قرآ ن کریم کی تمام باتیں سچی ہیں۔ ورنہ اگرتم اپنے نفس پر غور نہیں کر و گے تو قرآ ن بھی سمجھ نہیں آئے گا۔
عِلمِ کیمیاکی نہر
پھرقرآن کریم میں عِلمِ کیمیا کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے فرماتاہےمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ
اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔34 یعنی جو لوگ اپنے ما لوں کواللہ تعا لیٰ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک دانہ ہو جس میں سے سات بالیں نکلیں اور ہربالی میں سَو سَو دانہ ہو۔ اور خدا چاہے تو وہ اِس سے بھی بڑھا دے ۔اِس آیت میں اُن کیمیا وی تغیر ات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جودانے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ زمیندار تو اتنا ہی سمجھتا ہے کہ میں نے دانہ بویا تھا جو اُگ آیا۔ مگر سا ئنس دان سمجھتا ہے کہ خالی دانہ نہیں اُگا بلکہ دانہ کے اُ گانے کے لئے اگر وہ کیمیاوی اجزاء زمین میں موجود ہیں جن سے دانہ اُ گتا ہے تب تو وہ اُگے گا ورنہ نہیں ۔آخر وجہ کیا ہے کہ کسی زمین میں تِل اُ گتا ہے اور کسی میں نہیں اُ گتا ، کسی میں گنّا اُ گتا ہے اور کسی میں نہیں اُ گتا ، کسی میں کپاس اچھی اُگتی ہے اور کسی میں نہیں اُگتی، کسی میں گندم اچھی اُگتی ہے اور کِسی میں نہیں اُگتی۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ گندم بعض خا ص کیمیاوی چیزوں سے بنتی ہے اگر وہ کیمیاوی چیزیں زمین میں موجو د ہو ں تب تو گندم اُگے گی ورنہ نہیں ۔ اِسی طرح کپاس بعض خا ص چیزوں سے بنتی ہے۔ اگر وہ کیمیاوی اجزاء زمین میں موجود ہو نگے تب تو اچھی کپا س نکلے گی ورنہ نہیں ۔تو اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے کہ ایک دانہ سے سات سَو دانہ تک پیدا ہو سکتا ہے۔
پنجا ب یو نیو رسٹی کے ایک پروفیسر سے ملاقات
پنجاب یو نیو رسٹی کا ایک پروفیسر تھا
جس کا نام مسٹر پُوری تھا۔ وہ ایک دفعہ قادیان آیا۔ وہ گو رنمنٹ کی طرف سے اِسی تحقیقات پر مقرر کیا گیا تھا کہ اپنے ملک کے زمینی اجزاء دیکھ کر معلوم کرے کہ اُن میں کیمیاوی اجزاء کتنے ہیں اور وہ کس حد تک گندم یادوسری چیزیں پیدا کر سکتے ہیں ۔ وہ مجھے مِلااور کہنے لگا کہ میر ا علم اسبارہ میں بڑا وسیع ہے اور آپ کو مجھ جیسا کوئی اَور آدمی نہیں مِلاہو گا۔ مجھے گورنمنٹ نے خاص طور پراس کام کے لئے مقرر کیا ہے۔ اور میری تحقیقات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اڑھا ئی سَومن تک فی ایکڑ گندم پیدا ہو سکتی ہے او ر مجھے اپنی اِس تحقیق پر بڑا ناز ہے۔اُس نے لاہور کے پاس ایک بہت بڑی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بنا ئی تھی وہی جگہ بعد میں ہمیں بھی الاٹ ہو ئی تھی اور کچھ عرصہ تک ہماری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی وہیں رہی۔ جب اُس نے یہ بات کہی تو میں نے کہا اڑھا ئی سَومن؟ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ سات سَو من تک پیداوار ہوسکتی ہے۔ وہ یہ سُن کر بالکل گھبرا گیااور کہنے لگا قرآن کریم میں یہ لکھا ہے؟ میَں نے کہا ہاں!قرآن میں ذکر ہے۔کہنے لگا پھر مجھے وہ آیت لکھوا دیں ۔چنانچہ میں نے اپنے سیکرٹری کوبُلا کر کہا کہ یہ آیت اسے لکھ کر دیدیں۔ وہ کہنے لگا مجھے اِس کا بالکل علم نہیں تھا یہ تو بالکل نیا علم ہے اور ابھی ہندوستان میں شروع بھی نہیں ہؤا۔ مَیں پہلا آدمی ہوں جس نے اس کی تحقیقات شروع کی ہے اور یورپ کی سٹڈی(STUDY) کر کے مجھے اِس کا م پر مقرر کیا گیا ہے۔ میں نے کہا۔ سات سَو من ہی نہیں قرآن کریم کہتا ہے کہ وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ اللہ تعا لیٰ چاہے تو سات سَوسے بھی بڑھا دے ۔کہنے لگا میری تحقیقات اِسوقت تک صرف اِتنی ہی ہے کہ ہمارے ملک میں اتنے کیمیا وی اجزاء موجود ہیں کہ فی ایکڑ اڑھائی سَو من تک گندم پیدا ہو سکتی ہے۔ مگر جو باہر کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں اُن سے چار سَومن تک پتہ چلتا ہے۔میں نے کہا۔پھر اُن کتابوں سے بھی بڑھ کرقرآن کریم میں علم موجود ہے قرآن کہتاہے کہ فی ایکڑ سات سَو من تک گندم ہو سکتی ہے ۔
اب دیکھو اِس میں عِلمِ کیمیا کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ہم زمین کو دیکھیں کہ وہ اجزاء جن سے گندم پیدا ہو تی ہے یا کپاس پیدا ہوتی ہے زمین میں کسقدر موجود ہیں۔ اور گندم کا دانہ یا کپاس کابیج اُن اجزاء سے آگے کتنے زیادہ بیج پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔اِسی طرح فرماتا ہے وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۠ خَلْقًا جَدِيْدًا۔قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِيْدًاۙ۔اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِيْ صُدُوْرِكُمْ١ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ مَنْ يُّعِيْدُنَا١ؕ قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ۔35 یعنی کفار کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیا ں ہو جا ئینگے اورچُورا ہو جا ئینگے تو کیا پھر ہم کو ایک نئی پیدائش میں اُٹھا یا جا ئے گا ؟ تُو اُن کو کہہ دے کہ ہڈیا ں اور چُورا ہونا تو الگ بات ہے ا گر پتھر بھی بن جا ؤ یا لوہا بھی بن جاؤ تب بھی خدا تعالیٰ تمہیں پیداکرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
مرورِزمانہ سے انسانی جسم کا پتھر بن جانا
اب بظاہر یُوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِایک ڈھکوسلا ہے کہ
پتھر بن جاؤ یا لو ہا بن جاؤ پھر بھی خدا تعالیٰ تمہیں زندہ کر ے گا ۔ ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ آدمی نے پتھر کس طرح بننا ہے یو نہی قرآن نے ایک ڈھکوسلا مار دیا ہے۔ لیکن ابھی کوئی دو ہفتے ہو ئے روس کی ایک خبر اخبارات میں چَھپی ہے کہ روس میں آدمیوں کے بعض پُرانے ڈھا نچے ملے ہیں جو کہتے ہیں کہ کئی لاکھ سال کے ہیں اور اُن کی ہڈیا ں پتّھر بن چکی ہیں ۔اِس سے معلوم ہؤا کہ انسان کے لئے مرورِ زمانہ سے پتّھر بننا ممکن تھا۔ یوں تو پہلے کہتے تھے کہ پتّھر کا کوئلہ بھی درحقیقت درختوں سے ہی بنا ہے مگر انسانوں کے متعلق اِس وقت تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی تھی۔ اب یہ تازہ علم نکلاہے کہ انسانوں کے بعض پُرانے ڈھا نچے ملے ہیں جن کی ہڈیا ں پتّھر بن چکی ہیں۔ اور یہ بھی قرآ ن کہتا ہے کہ ارے میاں! اِس میں تعجب کی کیا بات ہے ہڈیا ں تو الگ رہیں وہ تو اِسی انسانی جسم کا حصّہ ہیں تم پتّھر بھی بن جا ؤ تب بھی خدا تمہیں پیدا کر سکتا ہے۔
عِلمِ فلسفہ کی نہر
پھر عِلمِ فلسفہ ہے۔فلسفہ کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کی حکمت بیان کرنا۔ اللہ تعا لیٰ عِلمِ فلسفہ کی طرف بھی توجہ دلا تاہے اور
فرماتا ہے وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ١ؕ وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا۔36 اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتا ب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے وہ کچھ علم سکھایا ہے جو پہلے تُو نہیں جانتا تھا ۔اِس میں بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کی حکمت ہؤا کر تی ہے وہ حکمت سیکھنے کی کو شش کرو۔ اِسی حکمت کو فلسفہ کہتے ہیں جو قرآ ن کریم میں بیان ہے۔مثلاً تاریخ تو یہ ہے کہ اورنگ زیب کوئی بادشاہ تھا، اکبر کوئی بادشاہ تھا اوریہ بحث کہ اکبر تُرک تھا یا مغل؟ وہ ہندوستان میں کیو ں آیا؟ اس کے ملک میں کیا حالات پیدا ہوئے تھے جن کی وجہ سے وہ اپنا ملک چھو ڑکر ہندوستان آیا؟ اور کونسے حالات پیدا ہوئے کہ جن کی وجہ سے اُس نے تھو ڑی سی فوج سے جو صرف چند ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی چا لیس کروڑ کے ملک کو فتح کر لیا؟ (گو اُسوقت توچالیس کروڑ نہیں تھے صرف دو کروڑ کی آبادی تھی)یہ چیز ہے جو فلسفہ کہلاتی ہے۔اِسی طرح یہ مواد کہ اُن کے ملک میں اچھی غذا نہیں ہوتی تھی، اچھی زمینیں نہیں تھیں اور اِدھر ہندوستان میں لڑائیاں تھیں، فساد تھے، جھگڑے تھے جنکی وجہ سے اُس کی فوج تھوڑی دیر میں ہی غا لب آگئی یہ فلسفہ ہے۔غرض فلسفۂ تاریخ اَور چیز ہے اور تاریخ اَور چیز ہے۔ دیباچہ ابن خلدون جو ہماری ایک مشہور کتاب ہے اُس میں فلسفۂ تاریخ پر ہی بحث ہے۔ایک انگریز پروفیسر ایک دفعہ مجھے قادیان میں ملنے آیا تو میں نے اُس سے کہا کہ فلسفۂ تاریخ پر اگر کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ کتاب تم کو معلوم ہے تو بتاؤ ۔وہ کہنے لگا کہ دیباچہ ابن خلدون سے بڑھ کر یو رپ اور امریکہ میں کوئی کتاب نہیں۔ جو کچھ فلسفہ اس نے بیان کیا ہے اس سے بڑھ کر ہم بیان نہیں کرسکتے وہ سب سے اعلیٰ کتاب ہے۔ مگر ابن خلدون نے فلسفۂ تاریخ کوکیوں بیان کیا؟ اسی لئے کہ قرآن کریم میں اس نے پڑھا تھا کہ ہر چیز کا فلسفہ معلوم کرو۔جب تم معلوم کرو گے تو تمہیں اصل راز کا پتہ لگ جا ئے گا۔اُس نے سو چا کہ اسلامی حکومتیں کیوں تباہ ہوئیں؟ دوسرے ملک کیوں تباہ ہوئے؟ اور اُس نے فلسفۂ سیا ست پر غور کیا تو یہ دیباچہ لکھا۔ مگر اُسے اس علم کا قرآن کریم سے ہی پتہ لگا کیو نکہ قرآن کریم نے ہی اس علم کی طرف توجہ دلائی ہے۔
عِلمِ منطق کی نہر
پھر عِلمِ منطق کو لو وہ بھی قرآن کریم بیان کرتاہے۔ فرماتا ہے وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ
اٰبَآءَنَا١ؕاَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَيْـًٔا وَّ لَا يَهْتَدُوْنَ۔37 یعنی جب اُن سے کہا جا تا ہے کہ جو کچھ اللہ تعا لیٰ نے نازل کیا ہے اُس کی فرمانبرداری کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس کی فرمانبرداری کرینگے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے تھے۔ فرماتا ہے تمہارے باپ دادا چاہے بیوقوف ہی ہوں تب بھی اُن کے پیچھے چلو گے؟ یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارے باپ دادا عقلمند تھے اس لئے ہم اُن کی بات ما نیں گے مگر یہ کہنا کہ چاہے وہ بیوقوف تھے یا عقلمند ہم نے چلنا اُن کے پیچھے ہے یہ عقل کے خلاف بات ہے۔ اور منطق اِسی کوکہتے ہیں کہ دلیل کے ساتھ ثابت کیا جائے کہ کو نسی بات زیا دہ معقول ہے اور کونسی غیر معقول۔ یہاں منطقی دلیل سے قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ جو بات معقول ہو اُس کو ماننا چاہئے او ر جو غیر معقول بات ہو اس کو نہیں ما ننا چاہئے۔
عِلمِ موازنۂ مذاہب کی نہر
اِسی طرح عِلمِ موازنہء مذاہب کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔فرماتاہے
يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ مَاۤ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىةُ وَ الْاِنْجِيْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ ۔38 یعنی بعض لوگ اپنے آباء کی عزّت کرنے کے لئے یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہوئے کب ہیں۔ محض جوش میں آکر کہہ دیتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے مذہب پر تھے۔ مثلاًکہہ دیتے ہیں کہ ابراہیمؑ بھی یہودی تھا یا ابراہیم ؑ بھی عیسائی تھا ۔ فرماتا ہے تم اتنا نہیں سو چتے کہ تورات اور انجیل تو بعد میں آئی ہیں پھر وہ یہودی یا عیسائی کس طرح ہو گیا۔
ایک عیسائی پادری سے گفتگو
میں بچہ تھا کہ ایک دفعہ ایک عیسائی پادری سے میر ی بحث ہوئی ۔میں نے کہا تم جو کہتے
ہو کہ مسیحؑ کے کفارہ پر ایمان لائے بغیر کسی کی نجا ت نہیں تو ابراہیم ؑ کی نجا ت کس طرح ہوئی؟ کہنے لگا ابراہیمؑ بھی کفارہ پر ایمان رکھتا تھا۔میں نے کہامسیحی کفا رہ تو اُس کے دوہزار سال بعد ہؤا وہ پہلے کس طرح ایمان لے آیا تھا؟ مگر اِس کا وہ کوئی جواب نہ د ے سکا۔بس ایک گپ ہانک دی کہ ابراہیم ؑ کفارہ پر ایمان رکھتا تھا۔
ایک مخلص نو جوان کا لطیفہ
ایک مخلص نو جوان جو سیّد تھا اورعلی گڑھ میں پڑھا کرتاتھا بچپن میں میر ا دوست تھا۔ اب تو وہ
فوت ہو چکاہے۔ بہت سیدھا سادہ آدمی تھا۔ایک دفعہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپ سے ایک بات پوچھنی ہے۔ ایک شبہ ہے جو میرے دل میں پیدا ہؤا ہے۔میَں نے کہا کیا؟ کہنے لگا شیعہ سُنّی کا بڑا جھگڑا ہے یہ تو فرمائیے حضرت ابو بکر ؓ اور عمرؓ شیعہ تھے کہ سُنّی؟ میں نے کہا اُن کے شیعہ سُنّی ہو نے کا کیا سوال ہے شیعیّت او ر سُنّیت تو بعد میں پیدا ہوئی ہیں ۔ اصل بحث تو یہ ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ خلیفہ تھے یا نہیں؟ کیو نکہ اِسی کی وجہ سے شیعیّت اور سُنّیت پیدا ہوئی ہیں۔کہنے لگا اچھا! مجھے یہ خیال نہیں آیا تھا۔ تو وہ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کوبھی جو پہلے گزر چکے تھے شیعہ سُنّی بنانا چاہتا تھا۔
عِلمِ نباتات کی نہر
پھرعِلمِ نباتات کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔ فرماتا ہے وَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۔39
یعنی زمین میں جسقدر نباتات ہیں اُن میں جو ڑا جوڑا ہوتا ہے۔ کچھ نر ہو تے ہیں اور کچھ مادہ ہوتے ہیں۔جب نر اور مادہ کو ٹھیک طرح ملایا جائے تو فصل بڑی اعلیٰ ہو تی ہے۔ اِسی لئے ماہرینِ زراعت نے کہا ہے کہ باغوں میں شہد کی مکھیا ں رکھنی چاہیئں۔ وہ نردرخت پر بیٹھ کر اور اُس نر درخت کا نُطفہ لے کر ما دہ درخت پر رکھ دیتی ہیں تو پھل زیا دہ لگتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کاایک واقعہ
عرب لوگ ہمیشہ نر اور مادہ درختوں
کو آپس میں ملایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزررہے تھے کہ آپؐ نے دیکھاکہ کچھ لوگ کھجوروں کے نروں کو کھجور کے مادہ سے ملا رہے ہیں۔آپ کو اس کا علم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نبا تات کو جو ڑا جوڑا بنایا ہے۔یہ بھی قرآن کریم کی سچائی کا ایک ثبوت ہے۔ اگر آپ کے علم میں یہ بات ہو تی تو مخالف کہتے کہ قرآن کریم میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خود یہ بات لکھ دی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کا کو ئی علم نہیں تھا ۔جب آپؐ نے انہیں نر او ر ما دہ کو آپس میں ملاتے دیکھا تو فرمایا کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا یَارَسُولَ اللہِ! ہم نر کو مادہ پر ڈا لتے ہیں تا کہ فصل اچھی رہے۔ آپؐ نے فرمایا یہ لغو بات ہے جو پھل پیدا ہونا ہے اُس نے تو پیدا ہونا ہی ہے اِس سے کیا بنتا ہے۔ انہوں نے چھوڑ دیا ۔ اگلے سال وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یَارَسُولَ اللہِ! ہماری تو فصل ماری گئی ہے اب کے کھجور اچھی نہیں ہوئی۔آپ نے فرمایا کیوں ؟ انہوں نے کہا آپؐ نے جومنع فرمایا تھا کہ نرکا مادہ مادینہ کھجور پر نہ ڈالو۔آپؐ نے فرمایا میں توتمہاری طرح کاایک انسان ہوں یہ علم تم جانتے ہو میں نہیں جا نتا تمہیں میری بات نہیں ماننی چاہئے تھی40 تو دیکھو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارہ میں کوئی ذاتی علم نہیں تھا۔مگر قرآن کریم فرماتا ہے وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ۔ یعنی نر مادہ صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ ہرچیز میں ہیں۔ نباتات میں بھی ہیں بلکہ جمادات میں بھی ہیں۔ کچھ مدت ہوئی مَیں نے پڑھا کہ ٹین41 کے متعلق تحقیقات ہوئی ہے کہ ٹین کی بعض قسمیں نر ہیں اور بعض مادہ ہیں۔ غرض عِلمِ نباتات کی طرف بھی قرآن نے توجہ دلائی ہے۔
عِلمِ توافق بَیْنَ المخلوقات کی نہر
اِسی طرح عِلمِ توافق بَیْنَ المخلوقات کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔
یعنی مختلف مخلو قات کی مختلف ضرورتیں ہوتی ہیں فرماتاہے وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ۔42 یعنی ہم نے زمین کو پھیلا یا ہے اور اُس میں پہاڑ بنا ئے ہیں اور اس میں مختلف چیزیں اُگائی ہیں جو ضرورت کے مطابق ہیں۔ یعنی انسان کی ضرورت بھی اُن سے پوری ہو جا تی ہے اور جانوروں کی ضرورت بھی اُن سے پوری ہو جا تی ہے۔کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق لوگ کہا کرتے تھے کہ بے غر ض پیدا ہو گئی ہیں ۔اگر کو ئی خدا ہوتا تو بے ضرورت چیزیں کیوں پیدا کرتا۔ لیکن اب تحقیقات سے معلوم ہؤا ہے کہ بعض قسم کے کیڑے جوبعض وبائی کیڑوں کو مارتے ہیں وہ ان غذاؤں کو کھاتے ہیں۔ تو كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اُس نے ہر ایسی چیز پیدا کر دی ہے جس کی کسی انسان یا جانور کو ضرورت ہے۔ اُن میں سے بعض کی ایسے خوردبینی کیڑوں کو ضرورت ہوتی ہے جو آنکھوں سے بھی نظر نہیں آتے۔ اگر وہ چیز نہ ہو تی جس کو ہم لغو سمجھتے ہیں تو وہ کیڑے بھی پید ا نہ ہوتے۔ اور اگر وہ کیڑے نہ پیدا ہو تے تو وہ وبائیں بھی نہ جا تیں جو اُن کیڑوں کی وجہ سے دُور ہوتی ہیں۔
عِلمِ حیوانات کی نہر
پھر عِلمِ حیوانات کی طرف بھی اُس نے توجہ دلائی ہے۔فرماتا ہے۔ وَ فِيْ خَلْقِكُمْ وَ مَا يَبُثُّ مِنْ دَآبَّةٍ اٰيٰتٌ
لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ 43 یعنی تمہاری پیدائش میں بھی اور خدا تعالیٰ نے جو اَور جانور زمین میں پھیلائے ہیں اُن میں بھی ایک یقین رکھنے والی قوم کے لئے بڑے نشان ہیں۔
پھر فرماتا ہے وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۔44 یعنی یہ جو زمین میں چلتے پھرتے جانور تمہیں نظر آتے ہیں اور ہواؤں میں اُڑتے ہوئے پرندے دکھائی دیتے ہیں یہ بھی تمہاری طرح کے گروہ ہیں۔ اُمَمٌ سے یہ مراد نہیں کہ نبیوں کی اُمّت ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اُن کے اندر بھی کوئی قانون جاری ہے۔ چنانچہ ایسے ایسے قانون اُن کے اندر جاری ہیں کہ حیرت آجاتی ہے۔دیکھو! مَگھ اور مرغابی وغیر ہ ایک خاص مو سم میں ایک خاص ملک سے جو کئی ہزار میل پر ہے اُڑتی ہے اور یہاں آکر بیٹھ جاتی ہے ۔اورپھر ایک خاص وقت میں جبکہ ابھی موسمیات کے ما ہروں کو بھی پتہ نہیں لگتا مرغابی اُڑنے لگ جا تی ہے اور اِس سے پتہ لگ جا تا ہے کہ اَب فلا ں قسم کی ہو ائیں چلیں گی یا بارشیں ہو نگی۔ تو فرماتا ہے تمہا ری طرح اِن میں بھی کچھ قوانین چل رہے ہیں۔ تم سمجھتے ہوکہ یہ بے عقل پرندے ہیں حالانکہ اگر تم ان پرندوں پر غور کرو تو اس سے بھی بڑے بڑے علوم نکل آئیں گے اور تم کو پتہ لگے گا کہ خدا تعالیٰ نے اِن کے اند ر کتنی حکمتیں رکھی ہیں۔
چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں نظام
مثلاً میں نے چیو نٹیوں اور مکھیوں کےمتعلق کتابیں پڑھی ہیں جن سے
معلوم ہو تا ہے کہ شہد کی مکھیوں او ر چیو نٹیوں میں اتنا نظام ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔ امر یکہ کے ایک رسالہ میں مَیں نے پڑھاکہ اودبلاؤ45 جو ایک جا نور ہے اور پانی میں رہتا ہے اور دریا کے کنارے پر مٹی کے گھر بنا تا ہے۔اِتفاقاً ایک جگہ پر اس کے کچھ بچے بہہ کر آگئے۔ اُ ن کو چو نکہ گھر بنا نے کاعلم نہیں تھا اس لئے وہاں سے ایک بچہ بہہ کر اُس جگہ گیا جہا ں پُرانے اودبلاؤ رہتے تھے اور وہاں سے اُس نے ایک بڈھے اودبلاؤ کو بلایا اور اُس اودبلا ؤ نے آکر ان کومکان بنانے سکھا ئے اور پھر وہ واپس چلا گیا ۔
اِسی طرح یہ ثابت ہؤا کہ بعض جا نو ر ایسے ہیں جن کے گھو نسلے پہلے اور شکل کے ہوتے تھے مگر اب اور شکلیں بننے لگ گئی ہیں ۔ جس سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کی طرح وہ بھی ترقی کررہے ہیں۔
ایک عجیب تجربہ
میر ا اپنا ایک عجیب تجربہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس سفر میں لاہور میں فوت ہوئے ہیں اس سفر میں
میر ے پاس ایک ہوائی بندوق تھی۔ میں نے اُس سے ایک فاختہ ماری۔ جب میں نے اسے ذبح کرنے کے لئے اُٹھا یا تو میں نے دیکھا کہ اُس کے پیٹ کے پاس درخت کی ایک شاخ سے گِرہ بندھی ہوئی تھی۔میں نے وہ گِرہ کھو لی تو معلوم ہؤا کہ اُس کو کبھی زخم لگا تھا جسے اُس نے ڈاکٹر کی طرح سِیا ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے اپنی چونچ سے یا کسی دوسری فاختہ کی چونچ سے وہ زخم سِلوایا ۔ جب میں نے اُس کا شکا ر کیا تو وہ زخم بالکل مُندمل ہو چکا تھا ۔چنانچہ جب میں نے گِرہ کھولی تو میں نے دیکھا کہ وہ زخم بالکل ٹھیک ہو چکا تھا اور نیچے سے خشک چمڑا نکل آیا تھا۔
اِسی طرح عِلمِ حیوانات کے متعلق فرماتاہے اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَاۤ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ۔وَ ذَلَّلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَ مِنْهَا يَاْكُلُوْنَ۔وَ لَهُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ وَ مَشَارِبُ١ؕ اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ۔46 یعنی کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ کئی قسم کی ہیں ۔ بعض پروہ سواریاں کرتے ہیں، بعض کو وہ کھا تے ہیں اور بعض سے وہ اَور فوائد حا صل کرتے ہیں ۔مثلاً ان کے چمڑے وغیرہ کئی کام آتے ہیں اور بعض جا نو روں کے دودھ پیتے ہیں ۔ کیا وہ ان نعمتوں پر خدا کا شکر ادا نہیں کرتے؟ یعنی جانور کوبھی صرف دیکھنا نہیں چاہئے بلکہ غور کرنا چا ہئے کہ اس کے گوشت میں کوئی زہرتو نہیں ہے۔
بچپن کا ایک واقعہ
مجھے یاد ہے بچپن میں مجھے ہو ائی بندوق کے شکا ر کا شوق ہؤا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بھی شکار
پسند تھا کیو نکہ یہ طاقت قائم رکھتا ہے۔میں آپ کے لئے فاختائیں مار کر لا یاکرتاتھا۔ ایک دفعہ فا ختہ نہ ملی تو طوطا ما ر کرلے آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے رکھ تو لیا مگر تھو ڑی دیر کے بعد مجھے آواز دی کہ محمود! اِدھر آؤ ۔میں گیا تو آپ نے طوطا اُٹھا یا اور فرمایا دیکھو محمود! اللہ تعالیٰ نے سارے جانور کھا نے کے لئے نہیں بنائے،کچھ دیکھنے کے لئے بھی بنا ئے ہیں۔ طوطا ایک خو بصورت جانورہے یہ خدا نے دیکھنے کے لئے بنا یا ہے۔تم نے سمجھا کہ ہر ایک جا نور کھا نے کے لئے ہے۔یہی قرآن کریم فرماتا ہے کہ جا نوروں پر بھی غور کرو ۔ اُن کی خاصیتیں الگ الگ ہیں۔ کچھ کھا نے کے لئے اچھے ہیں، کچھ دیکھنے کے لئے اچھے ہیں، کچھ بولنے کے لحاظ سے اچھے ہیں جیسے مینا اور طوطا بولتے ہیں یا بیے47 ہیں وہ بھی بولتے ہیں۔ تو مختلف قسم کے فائدے ہیں جو اُن سے پہنچتے ہیں۔اِسی طرح کوئی سواری کے کام آتا ہے، کسی کا چمڑا اچھا ہوتا ہے، کوئی کھانے کے کام آتا ہے، کسی سے پوستینیں، جُوتے اور بُوٹ بنتے ہیں۔
عِلمِ معیشت کی نہر
پھر علمِ معیشت کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے۔ چنا نچہ اللہ تعا لیٰ حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔ لَيْسَ
عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ۔48 یعنی تمہارے لئے یہ کوئی گنا ہ کی بات نہیں کہ تم حج کے ایّام میں تجا رت کے ذریعہ اپنے ربّ سے اس کا کوئی اَور فضل بھی مانگ لو ۔
اِسی طرح فرماتا ہے۔ فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ۔49 جب جمعہ کی نماز پڑھ لو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تمہارا سارا وقت حج اور نماز کے لئے نہیں ہو تا بلکہ تمہیں عِلمِ معیشت بھی سیکھنا چاہئے۔ اور اپنے اوقات کو اِس طرح تقسیم کرنا چاہئے کہ کچھ وقت نمازوں میں لگاؤاور کچھ دنیا کے کاموں میں لگاؤ تاکہ تمہارے خاندان اور تمہارے ملک کی حا لت اچھی ہو جا ئے۔
عِلْمُ الْاِ قتصاد کی نہر
پھرعِلمُ الْاِقتصاد کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے فرماتا ہے وَ لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ
مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ۔50 کہ تُواپنے ہا تھ کو بالکل روک نہ لے اورگردن کے ساتھ نہ باندھ لے اورنہ اتنا پھیلا کہ سارا مال ضا ئع ہو جا ئے۔ گو یا نہ تو بخل سے کام لے اور نہ اسراف سے کام لے۔کیو نکہ کئی مواقع انسان پر ایسے بھی آتے ہیں جب اس کو پھر مال کی ضرورت پیش آجاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص جوانی میں کمائی کر تا او ر اُسے عیا شی میں اُڑا دیتا ہے تو بعد میں اگر وہ خود بیمار ہو تا ہے یا اس کے بیوی بچے بیمار ہوتے ہیں تو اُسے علاج کے لئے کوئی پیسہ نہیں ملتا۔ پس فرمایا کہ اپنے اموال کو ہمیشہ اِس طرح تقسیم کرنا چاہئے کہ کچھ بچاؤ او ر کچھ خرچ کرو۔
اِسی طرح فرماتا ہے يَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا يُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ ۔51لوگ تجھ سے پو چھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ حا لانکہ خود حکم دیتا ہے کہ خرچ کرو۔مگر فرماتا ہے تم وہ خرچ کرو جو ضرورت سے زیادہ ہو ۔جس کی تمہیں کَل کو ضرورت پیش آنی ہے اُسے خرچ نہ کرو۔
حدیثوں میں آتاہے کہ ایک دفعہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ نے وصیت کرنی چاہی او ر کہا کہ مَیں اپنا سارا مال غر یبوں کو دیتا ہوں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارا مال غریبوں کو دے دینا اچھا نہیں کیو نکہ خدا تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تیرے بچے تیرے بعد لو گوں کے آگے ہا تھ پھیلاتے پھریں۔ کچھ ان کے لئے بھی رکھو اور کچھ اپنے وارثوں کے لئے بھی رکھو تاکہ وہ بھی عزت سے گزارہ کریں۔52
علمِ شہریت کی نہر
پھر علمِ شہریت کی طرف بھی قرآن کریم میں توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ جَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقُرَى
الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَّ قَدَّرْنَا فِيْهَا السَّيْرَ ۔53 یعنی ہم نے قومِ سبا کی بستیوں اور بنی اسرائیل کی بستیوں کے درمیان بڑے بڑے شہر بسائے تھے جس کی وجہ سے لوگ تھو ڑے تھو ڑے فاصلہ پر آبا دیوں میں چلے جا تے تھے اور انہیں کھانا پینا مل جا تاتھا ۔ گویا بتا یا کہ مدنیت یعنی شہر بسا نا ملک کی ترقی کا موجب ہوتا ہے کیونکہ اِس سے ملک کے لو گوں کے باہمی تعلقات بڑے آسان ہو جا تے ہیں ۔ اگر کسی ملک میں صرف گا ؤں ہو ں تو ان کے تعلقات وسیع نہیں ہوتے اور انکی تعلیم اور تجا رت وغیر ہ بھی کمزور ہو جا تی ہے۔
عِلمِ تاریخ کی نہر
پھر عِلمِ تاریخ کی طرف بھی قرآن کریم توجہ دلا تا ہے۔ فرماتاہے ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْقُرٰى نَقُصُّهٗ عَلَيْكَ مِنْهَا قَآىِٕمٌ وَّ حَصِيْدٌ ۔54
یعنی ہم نے اِس قرآن میں تیرے پاس پچھلی قوموں کے جو حا لات بیان کئے ہیں اُن میں سے بعض کے نشانات اب تک موجود ہیں اور بعض کے نشانات بالکل مٹ چکے ہیں۔
علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ تاریخیں دو قسم کی ہیں ۔ ایک تاریخ ہسٹارک (HISTORIC) کہلاتی ہے اور ایک پر ی ہسٹارک (PRE-HISTORIC) یعنی زمانۂ تاریخ سے قبل کے حالات۔ یہی بات قرآن کریم نے اِس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ پچھلی قوموں کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں اُن میں سے بعض کے نشانات تو اب تک مو جود ہیں یعنی وہ ہسٹارک ہیں۔ اور بعض پری ہسٹارک ہیں اُن کے نشانات مٹ چکے ہیں اور کوئی تاریخ اُن پر روشنی نہیں ڈالتی۔
عِلمِ بدءِ عا لَم کی نہر
پھر علمِ بدءِ عالَم بھی قرآن کریم بیان فرماتا ہے۔ جسے اصطلاحاً ایتھنالوجی (ETHNOLOGY)کہتے ہیں ۔ یعنی زمین
کس طرح بنی ہے، آسمان کس طرح بنے ہیں اور پید ائشِ عالَم کس طرح ہوئی ہے۔ فرماتا ہے۔ قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ۔55 یعنی تم زمین میں ذرا پھر کر تو دیکھو۔ پھر تمہیں پتہ لگے گا کہ پیدائشِ عالَم کس طرح ہوئی تھی۔ اِسی کو ایتھنا لو جی کہتے ہیں یعنی مختلف قومو ں کے جو آثا ر ہیں اُن سے نتیجہ نکا ل کر تاریخ کا پتہ لگانا ۔ فرما تا ہے اگر تم نے دنیا کی تاریخ کا پتہ لگا نا ہے تو یہ تمہیں کسی ایک ملک سے نہیں لگے گا، مختلف ملکوں میں مختلف تہذیبیں مختلف قوموں نے اختیا ر کی ہیں ۔ پس اگر تم پچھلی قومو ں کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے ہو تو ساری دنیا میں پِھر و ۔کسی ایک ملک سے تمہیں دنیا کی تاریخ کاپتہ نہیں لگے گا۔ بلکہ مختلف ملکوں میں جا کر تمہیں پتہ لگے گا کہ کسی صدی میں ہند وستان میں تہذیب پھیلی ،کسی صدی میں ایران میں پھیلی، کسی صدی میں روم میں پھیلی، کسی صدی میں عرب میں پھیلی ،کسی صدی میں شام میں پھیلی، کسی صدی میں مصر میں پھیلی، کسی صدی میں کسی اور ملک میں پھیلی۔ توا یتھنالوجی کے علم کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کی سیر کرو۔
اِسی طرح بدءِ عالَم یعنی ساری دنیا کی پیدائش کے متعلق فرما تا ہے۔ اَوَ لَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ١ؕ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ۔56 یعنی کیاکافر یہ نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین پہلے ایک گُچھا سا بنے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے ان کو کھولا ۔
مو لوی نذیر احمد صاحب دہلوی نے اِس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ :-
''کیا جو لوگ منکر ہیں اُنہوں نے اِس بات پر نظر نہیں کی کہ آسمان اور زمین دونوں کا ایک بِھنڈا سا تھا تو ہم نے (اُسکو توڑ کر) زمین وآسمان کو الگ الگ کیا۔''57
یعنی جیسے ایک گول سا ڈھیر یا خشک ڈلا ہوتا ہے اِسی طرح وہ بنے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے اس کو کھولا۔ چنا نچہ عِلمِ ہیئت سے یہی پتہ لگتا ہے کہ دنیا میں پہلے ذرّات پیدا ہوتے ہیں پھر وہ ذرّات سمٹنے شروع ہوتے ہیں اور مرکز میں ذرّات کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا ہے۔پھر وہ چکر کھانے لگتا ہے اور اس چکّر سے جو اِردگِرد کے ذرّات ہو تے ہیں اُن کو دھکّا لگتاہے اور وہ دُور جا پڑتے ہیں۔ اور ہو ا میں دُور جانے کی وجہ سے اُن میں گرمی پید ا ہوتی ہے اور اَبْخرے پیدا ہوتے ہیں۔ پھر بارش آتی ہے جو اُن کو ٹھنڈا کرتی ہے اور اِس طرح ایک کرّہ بن جاتا ہے۔ وہی نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اگر تم نے بدءِ عالَم کا پتہ لگانا ہے تو اِس بات پر غور کرو جو ہم تمہارے سامنے بیان کر رہے ہیں۔
عِلمِ مو سمیات کی نہر
پھر علمِ مو سمیات کو دیکھو تو وہ بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے چنانچہ فرماتا ہے۔ وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِۙ۔ وَ الْاَرْضِ
ذَاتِ الصَّدْعِۙ۔اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌۙ۔وَّ مَا هُوَ بِالْهَزْلِ۔58 یعنی تم بادل کو دیکھو جو بار بار برستا ہے او ر زمین کو دیکھو جو پھٹتی ہے تو اس میں سے پھل وغیر ہ نکلتا ہے۔ اگر تم ان باتوں پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ہر چیز کے لئے خدا نے ایک موسم مقرر کیا ہے۔کسی میں پانی اُترتا ہے، کسی میں کو ئی خا ص تر کا ری اُگتی ہے۔ اگر تم اس طرح غور کرو گے تو تمہیں اس سے بھی بڑے بڑے علوم حا صل ہو جا ئیں گے۔
غر ض قرآن کریم نے ان تمام علوم کی طرف جو دنیا میں جا ری ہیں اشارہ کیا ہے او ر اُن کے سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اُن کا منبع بتایا ہے کہ فلا ں فلاں جگہ سے تم ان علوم کو نکال سکتے ہو ۔پس جس قدر دُنیوی علوم ہیں اُن کا مأخذ قرآن کریم ہے اور ان کی طرف اس نے بار بار توجہ دلائی ہے۔
علومِ دینیہ کی نہر
مگر اِس کے علاوہ اُس نے دینی علوم کی نہریں بھی جا ری کی ہیں اور درحقیقت یہی نہریں روحانی نقطہء نگاہ سے زیا دہ اہمیت
رکھتی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا زیادہ تر دین سے ہی تعلق ہے۔
عا لَمِ روحانی کے سب سے بڑے سمندر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر اُن سے آگے دنیا میں کئی قسم کی روحانی نہریں جا ری ہوئیں۔ چنانچہ دیکھ لو ایک نہر شریعت کی چلی۔ پھر اُسی نہر میں سے ایک حنفی نہر نکلی ، ایک شافعی نہر نکلی ،ایک ما لکی نہر نکلی،ایک حنبلی نہر نکلی۔یہ مختلف قسم کی نہریں ہیں جو شریعت کی نہر میں سے جا ری ہوئیں۔پھر ایک شیعوں کی نہر جاری ہوئی،ایک سُنّیوں کی نہر جاری ہوئی،ایک خارجیوں کی نہر جاری ہوئی او ران کے ذریعہ سے شریعت کے مختلف پہلو زیرِ بحث آتے رہے۔پھر ایک تصوّف کی نہر چلی، ایک فلسفہء شریعت کی نہر چلی جس کے بہت بڑے بانی ہمارے شاہ ولی اللہ صاحبؒ اورامام ابن تیمیہؒ تھے۔ اور آخر میں سب سے زیادہ اہم کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا۔ پھر سیا ست کی ایک نہر چلی جو حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ سے شروع ہوئی اور پھر وہ آگے نکلتی چلی گئی۔ اور اِس طرح یہ روحانی سلسلہ جو سیا ست ِ مذہبی اور فلسفہء مذہبی اوراحکامِ شریعت کی حکمتوں اور ان کی ضرورتوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا دنیا میں وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا گیا۔پھر اخلاقِ فا ضلہ کی ایک نہر جا ری ہوئی جسے امام غزالیؒ نے اَور بھی لمبا کیا اور اس سے زمین کو سیراب کیا۔اِسی طرح تصوّف میں جنید ؒ۔شبلیؒ۔حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ۔ بہاؤالدین صاحب نقشبندیؒ۔ شہاب الدین صا حب سہر وردیؒ وغیرہ جیسے عظیم الشان لوگ گزرے۔ اور پھر یہ ساری نہریں حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں آکر مد غم ہو گئیں۔ اور پھر ایک نئی نہر دُنیا میں چل پڑی اور آپ کے ذریعہ سے پُرانی روحانی نہریں بھی جاری رہیں۔پُرانے زمانہ کے بادشاہوں نے جتنی نہریں بنائی تھیں وہ سب کی سب ختم ہو گئیں لیکن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہر اب تک چلی جا رہی ہے۔
دُنیوی اورروحانی نہروں میں بعض نمایا ں فرق
اب دیکھو دنیا کی نہریں تو خشک ہو
جا تی ہیں مگر یہ نہریں وہ ہیں جو خشک نہیں ہوتیں۔دُنیوی نہروں سے جسمانی غلّہ پکتا ہے مگر ان سے تقویٰ کا دانہ پکتا ہے۔ دُنیوی نہروں کا تیار کردہ غلّہ ایک وقت کام آتا ہے اور پھر سڑ جاتا ہے مگر یہ وہ نہرہے جس کا غلّہ ابدالآباد تک کام آتا ہے۔فرماتا ہے اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِيْنَةُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ۚ وَ الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَيْرٌ اَمَلًا ۔59 یعنی دنیا کی نہروں کے مال اوراس سے پیدا کئے ہوئے غلّے اور نسلِ انسانی کے افراد صرف دنیا میں کام آتے ہیں آخرت میں کام نہیں آتے۔مگر جو قرآنی نہر سے پکا ہؤا غلّہ ہے وہ قیامت تک کام آتا چلا جا ئیگا۔ حضرت مسیحؑ ناصری نے بھی کہا ہے کہ اِس دنیا کے خزانہ کو کیڑا کھا جا تا ہے مگر آسمان کا خزانہ محفوظ ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
''اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اورجہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیں بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کروجہا ں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چُراتے ہیں۔''60
غرض وہ مال جو اِس پانی سے پیدا ہو تا ہے اور وہ بیٹے جو اس مال کو کھا کر بڑھتے ہیں اِسی دُنیا میں ختم ہوجا تے ہیں۔ لیکن وہ چیزیں (اَلْبَا قِیَاتُ الصَّا لِحَاتُ) جو قرآنی نہر سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چلائی ہو ئی نہر سے پلتے ہیں وہ قیا مت تک زندہ رہتے ہیں اور ابدی زندگی پاتے ہیں۔ کیو نکہ مومن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نہر کا پھل ہے اور مومن کو ابدی زندگی کا وعدہ ہے۔ اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہر کا پیدا کیا ہؤا پھل قیامت تک چلے گا اور وہ کبھی خراب نہیں ہو گا۔
دیکھو! ابو جہل کے مال نے جو مادی پانی سے حا صل ہؤا تھاجو کچھ پیدا کیا وہ ختم ہو گیا مگر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے پانی سے پید ا ہؤا وہ ابدی زندگی پا گیا۔
عمر ؓ کا واقعہ دیکھو کیسی سنگلاخ زمین تھی مگر پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تا ثیر سے اُس میں سے کیسی نہر چلی بلکہ اُس سے پہلے ابو بکری نہر چلی،پھر عمرؓکی نہر چلی،پھر عثمانی نہر چلی، پھر علوی نہر چلی۔پھر اُس سے آگے قادری ،چشتی، نقشبندی اور سہروردی نہریں جا ری ہوئیں۔ سیّد عبدالقادر صاحب جیلانیؒ ،مولانا رومؒ، ابراہیم ادھمؒ،امام غزالیؒ،حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ، حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت بختیار کاکیؒ،حضرت فریدالدین صاحب شکرگنج ؒ، حضرت نظام الدین صاحب اولیاء ؒ ، حضرت خواجہ سلیم چشتیؒ،حضرت سید احمد صاحب سرہندیؒ، حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ، حضرت خواجہ میر درد صاحبؒ، حضرت سید احمد صاحب بریلویؒ اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰو ۃ والسلام کی نہربھی اِسی نہر میں سے نکلی ہوئی نہریں تھیں۔ بتا ؤ وہ اَور کو نسی نہر ہے جو اِتنے زمانہ تک اور ا تنے ملکوں میں پھیلی ہو۔ کوئی نہر دوسَومیل چلتی ہے، کوئی چار سَو، کوئی سَو سال چلتی ہے، کو ئی ڈیرھ سَو سال مگر محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نہر عرب سے نکلی اور شمال میں بڑھتے ہوئے قسطنطنیہ سے ہوتے ہوئے پولینڈ تک چلی گئی۔ دوسری طرف یورپ میں سے ہو تے ہوئے سسلی تک جا پہنچی ۔مغرب میں مصر سے ہوتے ہوئے تیونس،مراکش، الجیریا اور سپین تک چلی گئی ۔ پھر سیرالیون ،گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا تک چلی گئی۔ مشرق میں ایران، بخارا، چین، ہندوستان اور برما تک چلی گئی ۔ جنو ب میں انڈونیشیا اور فلپائن تک چلی گئی۔ دوسری نہریں خشکی تک چلتی ہیں اور آگے بند ہو جا تی ہیں سمندر آیا اورنہر ختم۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہرسمندر بھی پار کر گئی اور پھر اگلی خشکی میں جا ری ہوگئی۔ یہ نہر عرب سے آئی مگر عرب پر ختم نہیں ہو گئی بلکہ بحیرہ عرب کو بھی کُود کر گزر گئی اور ہندوستان میں آگئی، ہندوستان سے چلی اور ہما لیہ پہاڑ پر جا کر ختم نہیں ہو گئی جیسا کہ دُنیوی نہریں پہاڑ سے نکلتی ہیں اور خشکی میں جا کر ختم ہو جا تی ہیں۔مگر یہ نہر آئی اور ہما لیہ پہاڑ کو بھی پھاند کر پرے چلی گئی اور اوپر جا کر سنکیانگ وغیر ہ کے علاقوں تک میں اسلام کو پھیلا دیا۔
ایک سوال کا جواب
یہاں سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا مسیحیت نہیں پھیلی ؟ اِسکا جواب یہ ہے کہ نہیں،کیو نکہ نہر سے سبزی پیدا ہو تی
ہے او ر مسیحیت سے سبزی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اُجاڑ پیدا ہؤا او ر مسیحیت نے سارے ملکوں کو تباہ کر دیا۔
مادی اور روحانی نہروں میں بعض اَور فرق
پھر مادی نہروں میں کشتیاں ڈوبتی ہیں مگر یہ نہر
کشتیا ں تیراتی ہے۔مادی نہریں سڑنے والی مچھلیاں کھلا تی ہیں مگر یہ نہر کبدِ حوت کے جنتی کباب کھلا تی ہے۔ چنا نچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ اَوَّلُ طَعَامٍ یَاْکُلُہٗ اَھْلُ الْجَنَّۃِ زِیَادَۃُ کَبِدِ حُوْتٍ۔61 یعنی پہلا کھا نا جو جنتیوں کو ملے گا وہ مچھلی کے جگر کا زائد حصّہ ہو گا جو نہایت اعلیٰ حصّہ ہوتاہے۔
روحانی نہریں کبھی کا فوری اور کبھی زنجبیلی
کبھی دودھ اور کبھی شہد کی شکل میں
پھر دوسری نہریں اِس دنیا میں ختم ہو جاتی ہیں مگر یہ نہر سمندر پارہی نہیں جا تی بلکہ
موت پاربھی جا تی ہے۔ اور کبھی کا فوری شکل میں ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا۔62 خدا تعالیٰ کے نیک بندے ایسے پیا لے پئیں گے جن میں کا فو ر کی ملونی ہو گی۔ اور کبھی زنجبیلی شکل میں ظا ہر ہو تی ہے جیسا کہ فرمایا وَيُسْقَوْنَ فِيْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيْلًا۔63 مؤمنو ں کو جنتوں میں ایسے گلا سوں سے پانی پلا یا جائے گا جن میں زنجبیل ملی ہوئی ہوگی۔
پھر کبھی دودھ کی شکل میں یہ نہر چل پڑتی ہے جیسا کہ فر ماتا ہے مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ فِيْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ١ۚ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهٗ۔64 یعنی یہ جو قرآنی تعلیم کی نہر ہے۔ یہ ایک دن جنت میں نہروں کی شکل میں ظاہر ہو گی۔مگر وہاں کئی نہریں ہونگی کسی میں پانی ہو گا مگر وہ پانی سڑنے والا نہیں ہو گا۔ اور کچھ نہروں میں دودھ ہو گامگر دودھ کا مزہ تو بِگڑ جا تا ہے اُن کا مزہ کبھی خراب نہیں ہو گا۔ پھر کبھی یہ نہر شہد کی شکل میں چل پڑتی ہے ۔جیسے فرمایا۔ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۔65 یعنی وہا ں خا لص اور مصفّٰی شہد کی بھی نہریں ہونگی۔
محمدی نہر کو ثر کی شکل میں
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کبھی محمدؐی نہر قیا مت میں کو ثر کی شکل میں ظاہر ہو جا تی ہے جیسا کہ وہ
فرماتا ہے۔ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۔فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ۔اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۔66 اے محمد ؐرسول اللہ! یقیناً ہم نے تجھے کو ثر عطا کیا ہے سو تُو اس کے شکریہ میں اپنے ربّ کی کثرت کے ساتھ عبادت کر اور اُسی کی خا طر قربانیاں کر۔ اور یقین رکھ کہ تیرا مخالف ہی نرینہ اولاد سے محروم ثابت ہو گا۔
حدیث میں بھی آتا ہے۔ سُئِلَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْکَوْثَرِ فَقَالَ ھُوَ نَھْرٌ اَعْطَانِیْہِ اللہُ فِی الْجَنَّۃِ۔67 یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کو ثر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا ۔وہ ایک نہر ہے جو خدا نے مجھے جنت میں بخشی ہے۔
غرض دیکھو یہ نہر کیا کیا شکلیں بد لتی چلی جا تی ہے۔ کبھی یہ کا فوری نہر کہلا تی ہے، کبھی زنجبیلی نہر کہلا تی ہے ،کبھی دودھ کی نہر ہوتی ہے ،کبھی شہد کی نہر ہوتی ہے ، کبھی کو ثرکی نہر ہوتی ہے۔پھر کبھی وہ اِس دنیا میں چلتی ہے ، کبھی اگلے جہا ن میں چلتی ہے، کبھی عرب میں چلتی ہے ، کبھی سمندرکُود کے ہندوستان میں آجا تی ہے، پھر ہندوستان کے پہاڑ کُودتی ہے اور چین وغیر ہ ملکوں میں چلی جا تی ہے۔ اِسی طرح پہاڑی علاقوں میں چلی جاتی ہے۔ غرض دنیا کی ہر خشکی اور ہر تَری پر سےکُودتی پھا ندتی چلی جا تی ہے۔ اِس دنیا کو کُودتی ہے، موت کو کُودتی ہے ، کہیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔اب بتاؤ !اِس نہر اور دنیا کی نہروں کا کیا مقابلہ ہے۔ پس کہا ں دُنیوی بادشاہوں کی بنا ئی ہوئی نہریں اور کہا ں قرآن کی نہر۔
اسلام اور کفر کی نہریں متوازی چلتی چلی جائینگی
یہ نہر یں جو ش میں آکر ایک دوسرے
کو کا ٹ دیتی ہیں اور اگرایک کا پانی گندہ ہو تو وہ دوسرے کے پانی کو بھی گندہ کر دیتی ہے۔ مگر قرآنی نہر کا یہ حال ہے کہ اِس پر ایک زمانہ تو وہ آتا ہے کہ دوسری نہریں خواہ کتنا زور لگائیں اُس کے ساتھ نہیں مل سکتیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ۔68
ہم نے دوسری نہروں اور اِس نہر کے درمیان ایک روک بنا دی ہے۔ وہ اِس کے اندر داخل ہوکر اس کے پانی کو گندہ نہیں کر سکتی ۔ یعنی دوسرے مذاہب کو شش کرینگے کہ اسلام کو خراب کریں مگر آخر اسلام ہی جیتے گا۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے مجدد مبعوث فرمائے گاجو اسلا م کی تعلیم کو پاک کر کے پھر اسلام کے پانی کو صاف کردینگے۔ اور باقی دنیا کے مذاہب سارا زور لگانے کے باوجود اسلام کو خراب نہیں کر سکیں گے۔
کفر اور ایما ن کی آخری ٹکّر میں
آخر اسلام ہی دنیا پر غالب آئیگا
غرض اِدھر اسلام کی نہرہوگی اوراُدھر کفر کی نہر اور دونوں ایک وقت تک متوازی چلتی چلی جا ئیں گی۔ اور ایک
دوسرے میں داخل نہیں ہونگی۔ مگر آخر ایک وقت آئے گا کہمَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ۔69 یہ دونوں سمندر یعنی اسلامی سمندر اور کفر کا سمندر آپس میں مل جا ئیں گے۔ یعنی یہ دونوں آپس میں گتھم گتّھا ہو جا ئیں گے اور اسلام اور کفر کی آخری ٹکّر ہو جائیگی۔ لیکن اِس آخری ٹکر میں بھی کفر کی نہر اسلام کی نہر کو گندہ نہ کر سکے گی بلکہ آخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۔70 یعنی آخر اسلام کی نہر ہی جیتے گی۔ پس اے مسلمانو! بتاؤ یہ ہما را کتنا بڑا احسان ہے کہ آخری فتح تمہاری ہو گی۔ آخری فتح عیسائیت کی نہیں ہو گی بلکہ آخری فتح اسلام کی ہو گی۔پس اے کا لی او ر گوری نسلوں کے لوگو!اسلام کی نہر آخر غا لب آجا ئے گی اورکفر کی نہر اس میں مد غم ہو کر اپنا نام کھو بیٹھے گی۔ اب بولو کہ تم خداتعالیٰ کی کس کس نعمت کا انکا ر کرو گے۔فَسُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ وَ سُبْحَا نَ اللہِ الْعَظِیْمِ۔''
(سیر روحانی جلد سوم ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
''سیر روحانی'' پر تقریر مکمل کرنے کے بعد آخر پر دُعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:-
''باہر کے مبلغین کے لئے بھی دوست دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو طاقت دے اور ان کے ذریعہ سے اسلام جلد جلد پھیلے۔ اور یہ بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو ہندوستان میں بھی پھیلائے او ر وہاں پھر اسلام کی تعلیم غالب آ جائے اور ہندو اور سکھ اور عیسائی اسلام قبول کر یں اور اس ملک میں پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ غالب آئے۔ اور اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کے مسلمانوں کو بھی اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے وہ صرف منہ سے ہی اسلامی حکومت نہ مانگیں بلکہ دل سے بھی مانگیں اور صرف ظاہر میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش نہ رکھیں بلکہ اپنے دلوں پر اسلامی حکومت قائم کریں۔ اور یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو صحت عطا فرمائے تا کہ جو بھی میرے دن باقی ہیں ان میں اسلام کی خدمت کر سکوں۔ گو میری عمر بھی زیادہ ہے اور بیماری خطرناک ہے مگر اُس میں یہ طاقت ہے کہ میں اپنی زندگی میں اسلام کو دوسرے مذہبوں پر غالب ہوتا دیکھوں۔ اور میں دیکھوں کہ یورپ اور امریکہ بجائے اسلام کی مخالفت کرنے کے اُس کی غلامی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ سو دوست رستہ میں بھی دعائیں کرتے جائیں کیونکہ مسافر کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جن دنوں میں بھی دوست دعائیں کریں میری صحت اچھی ہونے لگ جاتی ہے اور ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ آپ کی بیماری اعصابی رہ گئی ہے جسمانی بیماری کوئی نہیں۔ پس دعائیں ہی اِس کا علاج ہیں ڈاکٹروں کے پاس کوئی دوائیں نہیں ہیں۔
پھر میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ کثرت سے ربوہ آنے کی کوشش کیا کریں۔ میں نے چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے بھی کہا ہے وہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگلے سال سے میں اپنا پروگرام ایسا بناؤں گا کہ ایک دو مہینے آ کر ربوہ میں رہ سکوں۔ مکان تو انہوں نے بنوانا شروع کرنا ہے کیونکہ ربوہ مرکز ہے اور اگر مرکز میں خرابی پیدا ہو تو باہر بھی خرابی پھیل جاتی ہے۔ اس لئے ہر مؤمن کو ربوہ آنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ مرکز کے ذریعہ سے باقی ساری دنیا میں ایمان اور اخلاص کو قائم رکھا جا سکے۔ یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے اس میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔ جو شخص اس میں کوتاہی کرے گا وہ خدا اور اس کے رسول کے سامنے جوابدہ ہو گا۔ اب تم میں سے ہرشخص کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ تم کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ خدمت کا موقع دے تا کہ تمہارے ذریعہ سے اسلام پھیلے۔ اور یاد رکھو کہ اسلام آدمیوں کا محتاج نہیں۔ جب وہ آدمی کا محتاج ہو گا خدا خود آدمی پیدا کر دے گا۔ تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو سچا مسلمان بنائے تا کہ تمہارے ذریعہ سے اسلام کی اشاعت ہمیشہ ہمیش ہوتی رہے۔ دین کے لئے زیادہ سے زیادہ کماؤ اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرو اور پھر دیکھو کہ تمہارا روپیہ دین کی اشاعت میں صحیح طور پر خرچ ہوتا ہے۔ مگر لڑائی اور فساد مت کرو۔
قادیان کی حفاظت کا خیال ہمیشہ رکھو۔ قادیان میں اور ہندوستان میں جماعت بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔ پس ہمیشہ ان کے لئے دعا کرو تا کہ وہ آرام اور اطمینان کے ساتھ تبلیغِ اسلام کر سکیں اور قادیان جانے کے لئے ہمیشہ کوشش کیا کرو۔ اب کے قافلہ میں بہت تھوڑے لوگ گئے ہیں۔ یہ بڑی بُری بات تھی۔ سارا سال پاسپورٹ بنوانے میں لگے رہو تا کہ اُس وقت سو، دو سو، تین سو آدمی جائیں اور وہاں لوگوں کے دل مطمئن ہوں۔ میرا ارادہ ہے کہ اگلے سال اُن کے جلسہ کی تاریخیں الگ کر دوں۔ ربوہ میں چونکہ زیادہ جماعت ہوتی ہے اس لئے دوستوں کی خواہش ہوتی ہے کہ جلسہ کے دنوں میں یہاں آئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر کردہ تاریخیں بے شک متبرک ہیں لیکن کام چلانا اس سے بھی زیادہ متبرک ہے۔ پس میرا خیال یہ ہے کہ بجائے 26،27، 28 کے اگر مناسب ہو تو وہاں جلسہ کے لئے 24، 25، 26 کی تاریخیں رکھ دی جائیں یا دو دن کر دیئے جائیں تا کہ قافلے میں جانے والے پھر یہاں آ کے وقت پر جلسہ میں شامل ہو سکیں۔
پس دعائیں کرو،دعائیں کرو، دعائیں کرو۔ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اپنے محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اسلام کے لئے اور ہمارے لئے بہتر ہی کرے گا۔ یہ کام اُس کا ہے ہمارا نہیں ہے۔ ہم یہ کام نہیں کر سکتے وہی کر سکتا ہے۔ پس جس نے یہ کام چلایا ہے اس کے ذمہ ہے۔ بے شک ہمارا کام بھی ہے کہ ہم اپنے ٹُوٹے ہوئے ہاتھ پاؤں ہلاتے چلے جائیں مگر وہ طاقتور خدا جو ہے اصل ذمہ داری اس کی ہے کیونکہ یہ سلسلہ اور اسلام اُسی نے قائم کیا ہے۔ کجا خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نبیوں کا سردار اور کُجا یہ کہ مسیح ناصری علیہ السلام جو اس کے غلاموں سے بھی کم ہے اُس کی بادشاہت دنیا میں قائم ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سردار ہے آج دنیا کی نگاہ میں غلاموں کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ سو دعائیں کرو کہ خدا کو غیرت آ جائے۔ دعائیں کرو کہ اے خدا! کیا تُو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس لئے بھیجا تھا کہ وہ دشمنوں کی گالیاں کھائے؟ تُو نے تو یہ کہا تھا کہ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى71 تیرا آخری زمانہ پہلے سے اچھا ہو گا۔ مگر اے خدا! پہلے زمانہ میں تُو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کم سے کم عرب کا بادشاہ تسلیم کیا گیا تھا مگر اِس زمانہ میں تو ایک چھوٹی ریاست بھی حقیقی طور پر اس کے پاس نہیں اور ساری دنیا کی حکومتیں مسیح علیہ السلام کے پاس ہیں۔ اے غیرت مند خدا! اپنی غیرت کو بھڑکا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُتر کہ آج دنیا میں سب سے مظلوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ اس پر اپنا فضل کر اور اپنا مقام بخش اور اپنا عہدہ پھر اس کو واپس کر دے۔ جس کام کے لئے تُو نے اس کو بھیجا تھا اس کے مناسب حال اور اس کے مناسب شان عہدہ اس کو عطا کر۔ اور اگر تیرافضل ہو جائے اور کرم ہو جائے تو ہم غریب جنہوں نے بے بسی کی حالت میں اُس کے دین کی خدمت کرنی چاہی ہے ہمارے ہاتھوں سے یہ کام کروا دے تا کہ ہمارے بھی گناہ بخشے جائیں، ہماری کمزوریاں معاف ہو جائیں اور قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری شفاعت کے لئے آگے بڑھیں۔ اور تجھ سے کہیں کہ اے میرے رب! یہ لوگ بے شک گنہگار ہیں اور کمزور ہیں مگر میرے دین کی خدمت کے لئے انہوں نے کمزوری کے باوجود کوشش کی۔ اگر تجھے میرا پاس ہے تو میری عزت کے لئے ان کو بخش دے اور ان کو اپنے انعامات کا وارث کر دے کیونکہ ان کو اگر سزا ملے تو اِس میں میری ذلّت ہے کہ جن لوگوں نے میری عزت بچائی اُن کو آج دنیا کے سامنے ذلیل ہونا پڑا ہے۔ آمین اب اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ خدا آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو۔ ''
(الفضل 9 فروری1961ء)
1 الحشر :12
2 وَ لَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ (فاطر:46)
3 نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ (التوبة:67)
4 بخاری کتاب الاعتکاف باب زِیَارَة المرأة زَوْجَھَا (الخ)
5 صحیح مسلم کتاب الایمان باب ادنیٰ اھل الجنۃِ منزِلۃ فِیْھَا
6 الاعراف :156
7 بخاری کتاب المغازی باب فَضْل مَنْ شَھِدَ بَدْرًا
8 تذکرہ صفحہ 140 ایڈیشن چہارم میں ‘‘ تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی۔’’ کے الفاظ ہیں
9 البقرہ :75 10 یونس :25 11 ھود : 8
12 الانبیاء : 31
13 بخاری کتا ب العلم باب فَضْل مَنْ عَلِمَ وَ عَلَّمَ
14 1۔کرنتھیوں باب 10 آیت 3 ، 4 ۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء
15 وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنْتُمْ وَ لَاۤ اٰبَآؤُكُمْ (الانعام:92)
16 اٰل عمران:191 17 النحل:13 18 الحجر:76تا78
19 العنکبوت:39 20 القصص:59
21 العرب قبل الاسلام مؤلفہ جرجی زیدانصفحہ
22 ابراھیم:33 23 الشوریٰ:33، 34 24 النحل:70
25 یونس:6 26 الرحمن:6 ، 7 27 النحل:104
28 تا 30 البقرہ:24 31 النحل:90 32 بنی اسرائیل:13
33 الشعراء:114 34 البقرہ:262 35 بنی اسرائیل:50تا52
36 النسآء:114 37 البقرہ:171 38 اٰل عمران:66
39 الذٰریٰت:50
40 مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ شرعًا
41 ٹین (Tin) ۔ ایک سفید نرم دھات (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور)
42 الحجر:20 43 الجاثیہ:5 44 الانعام:39
45 اودبلاؤ: پانی کا ایک جانور جو مچھلیاں کھاتا ہے (علمی اردو لغت) یہ نیولے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ سوائے آسٹریلیا کے تمام براعظموں میں پایا جاتا ہے۔ (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ١ صفحہ 154 مطبوعہ لاہور 1987ء)
46 یٰس:72تا74
47 بیّے : مفرد بیّا: چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ۔ اس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے۔
48 البقرہ:199 49 الجمعہ:11 50 بنی اسرائیل:30
51 البقرہ:220
52 بخاری کتاب الفرائض باب میراث البنات
53 سبا:19 54 ھود:101 55 العنکبوت : 21
56 الانبیاء:31
57 ترجمہ قرآن مولوی نذیر احمد صاحب صفحہ 391 مطبوعہ کراچی 1961ء
58 الطارق: 12 تا15 59 الکھف:47
60 متی باب6آیت19 ،20 پاکستان بائبل سوسائٹی مطبوعہ 1994ء لاہور۔
61 بخاری کتاب الرقاق باب صفۃ الجنّۃ و النّار
62 الدھر:6 63 الدھر:18 64 ،65 محمد:16
66 الکوثر:2تا4
67 ترمذی کتاب تفسیر القرآن۔ باب وَ مِنْ سُورة الکوثر (مفہوماً)
68 الرحمٰن:21 69 الرحمٰن:20 70 الرحمٰن:22
71 الضحیٰ :5



ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے
احمدی احباب کے نام پیغام




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

ریاستہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احباب
کے نام پیغام
(تحریر کردہ جنوری 1956ء)

‘‘میرے امریکہ کے عزیز بھائیو!
جیسا کہ آپ سب لوگوں کو معلوم ہو گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے دو سال قبل وصیت کے طور پر ضروری ہدایات اِس دستاویز کی شکل میں شائع فرما دی تھیں جو ''الوصیت'' کے نام سے موسوم ہے۔ یہ دستاویز بہت اہم ہے ہر احمدی کو چاہیئے کہ وہ اِس کا ضرور مطالعہ کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب نے اِس کا انگریزی ترجمہ بغور مطالعہ کر لیا ہو گا۔ اگر اس کا انگریزی ترجمہ آپ لوگوں کو بآسانی دستیاب نہ ہو سکتا ہو تو مَیں برادرم خلیل احمد ناصر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے ''الوصیت'' کا جلد از جلد ترجمہ کر کے آپ سب میں اسے تقسیم کرا دیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس دستاویز کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ میں سے ہر ایک میں یہ شدید خواہش پیدا ہو گی کہ وہ بھی اِس عظیم الشان تحریک میں جو اِس میں بیان کی گئی ہے اور جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے نہایت درجہ اہمیت کی حامل ہے شامل ہونے کی سعادت حاصل کرے۔
اِس دستاویز کا مطالعہ کرنے پر آپ لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اس میں جو سکیم بیان کی گئی ہے اس کے مطابق جماعت کے ہر اُس فرد سے جو اِس میں حصہ لینا چاہتا ہے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جائداد کے دسویں حصہ یا جائداد کی قیمت کے دسویں حصہ کے برابر نقد رقم بحق صدر انجمن احمدیہ وصیت کرے۔ یا اگر اُس کی کوئی قابلِ ذکر جائداد نہ ہوتو وہ اپنی زندگی میں اپنی ہفتہ وار یا ماہوار آمد کا دسواں حصہ اشاعتِ اسلام اور انسانی فلاح و بہبود کی خاطر صدر انجمن احمدیہ کو ادا کرتا رہے۔ یہ ضروری ہے کہ اِس تحریر میں جو جائداد کی وصیت کے طور پر لکھی جائے یا جس کے ذریعہ چندہ وصیت کی ادائیگی کا وعدہ کیا جائے یہ امربالصراحت مذکور ہو کہ جائداد کی وصیت یا چندہ وصیت کی ادائیگی اِن میں سے جو بھی صورت ہو ہر قسم کی شرائط اور پابندیوں سے آزاد ہو گی اور موصی یا اُس کے وارث یا اُس کے مقرر کردہ مُنصرم وصیت کردہ جائداد یا آمدنی کے مصرف یا خرچ پر کوئی اعتراض نہ کر سکیں گے۔
صدر انجمن احمدیہ یا کوئی اور بااختیار ادارہ جو اِس سلسلہ میں قائم کیا جائے اِس تحریک کے اغراض و مقاصد کے تحت جائداد یا وصول شدہ چندہ جات کو خرچ کرنے کا پوری طرح مجاز ہو گا۔
بہ تمام و کمال اور بغور مطالعہ کرنے کے بعد اِس دستاویز کا عظیم الشان مقصد اور اِس کی اغراض آپ لوگوں کو معلوم ہو جائیں گی۔ تاہم میں برادرم خلیل احمد ناصر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اِس بات کا انتظام کریں کہ آپ کے مختلف مراکز میں سلسلہ کے نمائندے ''الوصیت'' کا مقصد اور اِس کی اغراض تفصیل کے ساتھ آپ لوگوں کو سمجھا دیں۔ ''الوصیت'' کے منشاء کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جماعت احمدیہ جتنی جلدی ممکن ہو سکا کسی مرکزی علاقے میں ایک موزوں قطعہ زمین خریدنے کا انتظام کرے گی۔ یہ قطعہ زمین قبرستان کے طور پر اُن لوگوں کے لئے مخصوص ہو گا جو ''الوصیت'' میں بیان کردہ شرائط اور ان قواعد کے مطابق جو امام جماعت احمدیہ اور صدرانجمن اور تحریک جدید کی طرف سے نافذ ہوں وصیت کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ریاست ہائے متحدہ میں ایک دفعہ جاری ہونے کے بعد یہ سکیم اِنْشَاءَ اللہ تقویت حاصل کرے گی اور رفتہ رفتہ تمہارے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہم وطن اِس میں شامل ہو جائیں گے۔ اور اِس طرح اُن لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا چلا جائے گا جو اپنی مساعی اور اپنی آمدنیوں اور جائدادوں کا ایک معقول حصہ ''الوصیت'' کے اغراض و مقاصد کے لئے وقف کریں گے۔ جوں جوں ایسے مخلص اور فدائی احمدیوں کی تعداد بڑھے گی اِس امر کی ضرورت محسوس ہو گی کہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے ہی قبرستان قائم کئے جائیں۔ چنانچہ حسبِ ضرورت مختلف اوقات میں ایسے قبرستانوں کا قیام عمل میں آتا رہے گا۔
ایسی وصیت کردہ جائداد سے اس کی فروخت یا چندہ جات سے جو آمدنی ہو گی اُس کو حسبِ ذیل طریق پر خرچ کیا جائے گا۔
(الف) اس آمدنی کا نصف حصہ مرکزی اداروں کو چلانے اور دنیا بھر میں اشاعتِ اسلام کا کام کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کو ارسال کیا جائے گا۔ اِس میں امریکہ بھی شامل ہو گا۔ کیونکہ امریکہ میں ابھی لمبے عرصہ تک اسلام کے ایسے خادموں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی جو خاص طور پر مرکز کے تربیت یافتہ ہوں۔ وہ مرکزی ادارے جن کے ذمہ اشاعتِ اسلام کا کام ہے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغِ اسلام کی غرض سے مذکورہ بالا آمدنی کا جو حصہ مرکز میں ارسال کیا جائے گا اُسے امام جماعت احمدیہ کی اُن ہدایات کے مطابق جو وہ وقتاً فوقتاً جاری کریں گے۔ اِن دونوں اداروں میں تقسیم کیا جائے گا۔
(ب) آمدنی کے باقی نصف حصے میں سے تین چوتھائی رقم ریاست ہائے متحدہ میں تبلیغِ اسلام پر خرچ کی جائے گی۔ باقی کی چوتھائی رقم ہمارے غریب اور پسماندہ بھائیوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف ہو گی۔ جہاں کہیں بھی ایسے بھائی ہوں گے اُن پر یہ رقم خرچ کی جائے گی اور اِس ضمن میں اُن کی تعلیم و تربیت کے انتظام کو مقدم رکھا جائے گا۔
جونہی جماعت کے نمائندوں کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملے گی کہ آپ لوگوں میں سے ایک خاصی تعداد ایسے احباب کی ہے جو ''الوصیت'' کی بیان کردہ تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں مَیں ایک کمیٹی قائم کرنے کا انتظام کروں گا۔ اس کے قیام کا مقصد یہ ہو گا کہ اِس سکیم کے تحت اولین قبرستان کے لئے جگہ منتخب کی جائے۔ اور اس سکیم پر عمل درآمد کے لئے ضروری اور ابتدائی انتظامات کئے جائیں۔ اور اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ اس سکیم اور اس کے مقاصد کو مؤثر طریق پر ہمیشہ کے لئے جاری رکھا جا سکے۔ ہر وہ شخص جو وصیت کرے گا یا اِس سکیم کے قواعد کے بموجب کم سے کم شرح کے مطابق چندہ دینے کا وعدہ کرے گا وہ اِس شرط پر کہ اُس کی وصیت پوری ہو جائے یا حسبِ قواعد چندہ جات کی ادائیگی عمل میں آ جائے، اِن دونوں صورتوں میں اِس بات کا حقدار ہو گا کہ اسے ایسے قبرستانوں میں سے کسی ایک قبرستان میں دفن کیا جائے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اِس غرض کے لئے قائم کئے جائیں گے۔ اور اِس صورت میں کہ اُس کی وفات ہندوستان میں واقع ہو تو وہ قادیان کے قبرستان میں یا اگر پاکستان میں ہو تو ربوہ کے قبرستان میں دفن ہو سکے گا۔ لیکن یہ ضروری ہو گا کہ اُس کی نعش اِن قبرستانوں میں سے کسی ایک قبرستان تک پہنچانے کے اخراجات اُس کے اپنے ترکہ یا جائداد میں سے پورے کئے جائیں اور اِس کی راہ میں کوئی قانونی یا کوئی اَور رکاوٹ حائل نہ ہو۔ وصیت یا چندہ جات کے وعدے کے ضمن میں جو تحریر لکھی جائے گی اُس میں یہ صراحت کی جائے گی کہ اِس شرط کے پورا نہ ہو سکنے کا یہ مطلب نہ ہو گا کہ وصیت کو ناجائز یا خلافِ قاعدہ قرار دیا جا سکے گا یا اس کی جائز یا قانونی حیثیت پر کوئی حرف آ سکے گا یا ادا کردہ چندوں کے بارے میں کسی مطالبہ یا دعوے کا جواز پیدا ہو سکے گا۔ صدر انجمن ایسے تمام اشخاص کے نام جنہوں نے اس سکیم میں شامل ہونے کے بعد اِس کی تمام شرائط کو پورا کر دیا ہو گا قادیان یا ربوہ کے قبرستانوں میں مناسب جگہ پر کندہ کرانے کا انتظام کرے گی۔ نیز ان کے نام ایک ریکارڈ کی شکل میں محفوظ رکھے جائیں گے۔ جن کی نقول بڑے بڑے احمدیہ مراکز میں بھی رکھی جائیں گی تا کہ احمدیوں کی آنے والی نسلوں کو اپنے ان وفات یافتہ بھائیوں کی روحوں کے واسطے دعا کی تحریک ہوتی رہے جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اموال کو اسلام اور انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کیا۔
یہ امر بہت ضروری ہے اور اِس بارے میں پوری احتیاط لازم ہے کہ اِس تمام سکیم پر عملدرآمد کے وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے رائج الوقت قوانین کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے تا اِس بناء پر کسی وقت بھی کوئی اعتراض پیدا ہو کر اِس سکیم یا اِس کے مقاصد کو ناکام نہ بنا سکے۔
جیسا کہ ''الوصیت'' میں بیان کیا گیا ہے وصیت کی اس سکیم کے فوائد اَور رنگ میں بھی ظاہر ہوں گے اور بِالآخر یہ انسانیت کے کمزور طبقوں کو اٹھانے اور انسانی فلاح و بہبود اور خوشحالی کو ترقی دینے کا ذریعہ ثابت ہو گی۔ کوئی نظام بھی جس کی بنیاد جبر و اکراہ پر ہو اِس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ الوصیت میں جو سکیم پیش کی گئی ہے خالصتاً طوعی اور رضاکارانہ ہے اور خدمتِ اسلام کے ایک اجر کا درجہ رکھتی ہے۔ اِس لحاظ سے جو اخلاقی اور روحانی فوائد اِس تحریک کے ساتھ وابستہ ہوں گے تمام دوسرے نظام اِن سے محروم ہیں۔ رفتہ رفتہ ایک ملک کے بعد دوسرا ملک اِس تحریک کو اپنانے کے لئے آگے آتا رہے گا۔ اور اِس طرح ان لوگوں کی طرف سے جو اِس سکیم کے ذریعہ روحانی، اخلاقی او رمادی فوائد سے متمتع ہوں گے دنیا میں خدا کا نام بلند ہوتا رہے گا۔ اِس تحریک پر پاکستان اور ہندوستان میں پہلے سے عمل ہو رہا ہے۔ میری خواہش ہے اور میں اِس کے لئے دعا بھی کرتا ہوں کہ تحریک کو اپنانے والے ممالک میں سے امریکہ تیسرا ملک ثابت ہو۔ اور اِس طرح وہ وسیع سے وسیع تر پیمانے پر انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس کی ترقی کی بنیادیں استوار کرنے میں حصہ لے۔ آمین
برادران! ہم کمزور اور ناتواں ہیں لیکن ہمارا خدا طاقتور اور ہمہ قوت ہے۔ ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے لیکن وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ یقین رکھو کہ اس کی مدد تمہاری طرف دوڑی آ رہی ہے۔ بلا شبہ وہ خود تمہارے دروازے پر کھڑا ہے اور اندر داخل ہونا چاہتا ہے۔ پس اٹھو اور اپنے دروازے کھول دو تا کہ وہ اندر آ جائے۔ جب وہ تمہارے گھروں میں داخل ہو جائے گا اور تمہارے دلوں میں سما جائے گا تو زندگی تمہارے لئے منور ہو جائے گی اور دنیا میں تم اُسی طرح عزت دیئے جاؤ گے جس طرح آسمانوں میں اس کو عزت اور عظمت حاصل ہے۔ خدا تمہارے ساتھ ہو۔ آمین ’’
(روزنامہ الفضل 9فروری 1956ء)
 
Top