تذکرہ۔ الہامات و کشوف و رؤیا حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانیؑ ۔ یونی کوڈ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ
تَذْکِرَہ
یعنی
وحیِ مقدّس
و
رؤیا و کشوف حضرت مسیح موعُودعلیہ الصّلٰوۃ والسّلام
زمانہ تحصیلِ علم
(ا1)رَأَیْتُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَّاَنَا غُلَامٌ حَدِیْثُ السِّنِّ کَاَنِّیْ فِیْ بَیْتٍ لَطِیفٍ نَّظِیْفٍ یُذْکَرُ فِیْھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ فَقُلْتُ اِیُھَاالنَّاسُ اَمْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمّ ۔ فَاَشَارُوْااِلٰی حُجْرَۃٍ ۔ فَدَخَلْتُ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ ۔ فَبَشَ بِیْ حِیْنَ وَافَیْتُہٗ ۔ وَحَیَّانِیْ بِاَحْسَنِ مَاحَیَّیْتُہٗ ۔ وَمَااَنْسٰی حُسْنَہٗ وَجَمَالَہٗ وَمَلَاحَتَہٗ وَتَحَنُّنَہ م اِلٰی یَوْمِیْ ھٰذَا ۔ شَغَفَنِیْ حُبًّاوَّجَذَبَنِیْ بِوَجْہٍ حَسِیْنٍ ۔ قَالَ مَاھٰذِا بِیَمِنْنِکَ یَااَحْمَدُ ۔ فَنَظَرْتُ فَاِذَا کِتِابٌ بِیَدِی الْیُمْنٰی وَخَطَرَ بِقَلْبِیْ
1 (ترجمہ از مرتب) اوائل ایامِ جوانی میں ایک رات میں نے (رؤیا میں) دیکھا کہ میں ایک عالی شان مکان میں ہوں ۔ جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت ﷺ کا ذکر اور چرچا ہورہا ہے۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور ﷺ کہاں تشریف فرما ہیں۔ انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اُس کے اندر چلا گیا۔ اور جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو حضور ﷺبہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا۔ آپ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپ کی پُر شفقت و پُر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے۔ اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔ آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کرلیا۔ اور آپ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا۔ اس وقت آپ نے مجھے فرمایا ۔ اے احمد! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے ۔ جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے
اَنَّہٗ مِنْ مُّصَنَّفَاتِیْ ۔ قُلْتُ یَارَسُوْلِ اللّٰہِ کِتَابٌ مِّنْ مُّصَنَّفَاتِیْ ۔ قَالَ مَااسْمُ کِتابِکَ فَنَظَرْتُ اِلَی الْکِتَابِ مَرَّۃً اُخْرٰی وَاَنَا کَالْمُتَحَیِّرِیْن ۔ فَوَجَدْتُّہٗ یُشَابِہُ کِتَابًا کَانَ فِیْ دَارِ کُتُبِیْ وَاسْمُہٗ قُطْبِیٌّ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِسْمُہٗ قُطْبِیٌّ ۔ قَالَ اَرِنِیْ کِتَابَکَ الْقُطْبِیَّ فَلَمَّا اَخَذَہٗ وَمَسَّتْہُ یَدُہٗ فَاِذَاھِیَ ثَمَرَۃٌ لَّطِیْفَۃٌ تَسُرُّالنَّاظِرِیْنَ ۔ فَشَقَّقَھَا کَمَایُشَقَّقُ الثَّمَرُ فَخَرَجَ مِنْھَاعَسَلٌ مُّصَفَّی کَمَآءٍ مُّعِیْنٍ ۔ وَرَاَیْتُ بِلَّۃَ الْعَسَلِ عَلٰی یِدِہِ الْیُمْنٰی مِنَ الْبَنَانِ اِلَی الْمِرْ فَقِ کَانَ الْعَسَلُ یَتَقَاطَرُمِنْھَا ۔ وَکَاَنَّہٗ یُرِیْنِیْ اِیَّاہُ لِیَجْعَلَنِیْ مِنَ الْمُتَعَجِّبِیْنَ ۔ ثُمَّ اُلْقِیَ فی قَلْبِی اَنَّ عِنْدَاُسْکُفَّۃِ الْبِیْتِ مَیِّتٌ قَدَّرَاللّٰہُ اِحْیَاءَ ہٗ بِھٰذِہِ الثَّمَرَۃِ وَقَدَّرَ اَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُحْیِیْنَ ۔ فَبَیْنَمَااَنَافِیْ ذٰلِکَ الْخیَیْالِ فَاِذَاالْمَیِّتُ جَآءَ نِیْ حَیّاً وَّھُوَیَسْعٰی وَقَامَ وَرَآءَ ظَھْرِیْ وَفِیْہِ ضُعْفٌ کَاَنَّہٗ مِنَ الْجِآئِعِیْنَ ۔ فَنَظَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیَّ مُتَبَسِّمًاوَّ جَعَلَ الثّمَرَۃَ قِطْعَاتٍ وَّاَکَلَ قِطُعَۃً مِّنْھَاوَاٰ تَانِیْ کُلَّ صَابَقِیَ وَالْعَسَلُ یَجْرِیْ مِنّ الْقِطْعَاتِ کُلِّھَاوَقَالَ یَااَحْمَدُ اَعْطِہٖ قِطْعَۃً مِّنْ ھٰذِہٖ لِیَاْکُلَ وَیَتَقَوّٰی فَاَعْطَیْتُہٗ فَاَخَذَیَاکُلُ عَلٰی مَقَامِہٖ کَالْحَرِیْصِیْنَ ۔ ثُمَّ رَاَیْتُ اَنَّ کُرْسِیَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسِلَّمَ قَدْرُفِعَ حِتّٰی قَرُبِ مِنَ السَّقْفِ وَرَاَیْتُہٗ فِاِذِاوَجْھُہٗ یَتَلَأ لَاُ ۔ کَاَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ذَرَّتَاعَلَیْہِ
اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی۔ میں نے عرض کیا۔ حضور ﷺ یہ میری ایک تصنیف ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا۔اس کتاب کا کیا نام ہے۔ تب میں نے حیران ہوکر کتاب کو دوبارہ دیکھا تو اسے اس کتاب کے مشابہ پایا جو میرے کتب خانہ میں تھی اور جس کا نام قطبی ہے۔ میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ اس کا نام قطبی ہے۔ فرمایا اپنی یہ کتاب قطبی مجھے دکھا۔جب حضور ﷺ نے اسے لیا تو حضو ر ﷺ کا مبارک ہاتھ لگتے ہی وہ ایک لطیف پھل بن گیا۔جو دیکھنے والوں کیلئے پسندیدہ تھا۔جب حضور ﷺنے اسے چیرا۔ جیسے پھلوں کو چیرتے ہیں تو اس سے بہتے پانی کی طرح مفّا شہد نکلا۔ اور میں نے شہد کی طراوت آنحضرت ﷺ کے داہنے ہاتھ پر انگلیوں سے کہنیوں تک دیکھی اور شہد حضور ﷺ کے ہاتھ سے ٹپک رہا تھا۔ اور آنحضرت ﷺ گویا مجھے اس لئے وہ دکھا رہے ہیں تا مجھے تعجب میں ڈالیں۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ دروازے کی چوکھٹ کے پاس ایک مردہ پڑا ہے جس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ نے اس پھل کے ذریعہ مقدر کیا ہوا ہے اور یہی مقدر ہے کہ نبی کریم ﷺ اس کو زندگی عطا کریں۔ میں اسی خیال میں تھا کہ دیکھا کہ اچانک وہ مُردہ زندہ ہوکر دوڑتا ہوا میرے پاس آگیا اور میرے پیچھے کھڑا ہوگیا مگر اس میں کچھ کمزوری سی تھی گویا وہ بھوکا تھا تب نبی کریم ﷺ نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اس پھل کے ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا ان میں سے حضور ﷺنے خود کھایا اور باقی سب مجھے دے دیئے ان سب ٹکڑوں سے شہد بہہ رہا تھا۔ اور فرمایا۔ اے احمد! اس مُردہ کو ایک ٹکڑا دے دو تا اسے کھا کر قوت پائے۔ میں نے دیا تو اس نے حریصوں کی طرح اسی جگہ ہی اسے کھانا شروع کردیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺکی کرسی اونچی ہوگئی ہے‘ حتیٰ کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ ﷺ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج
وَکُنْتُ اَنْظُرُ اِلَیْہِ وَعَبَرَالِّیْ جَارِیَۃٌ ذَوْقًاوَّوَ جْدًا ۔ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ وَاَنَامِنَ الْبَاکِیْنَ۔ فَاَلْقَی اللّٰہُ فِیْ قَلْبِیْ اِنَّ الْمَیِّتَ ھُوَالْاِسْلَامُ ۔ وَسَیُحْیِیْہِ اللّٰہُ عَلٰی یَدِیْ بِفُیُوْضٍ رُوْحَانِیَّۃٍ مِّنْ رُّسُوْلِ اللّٰہِ صِلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَایُدْ رِیْکُمْ لَعَلَّ الْوَقْتَ قَرِیْبٌ فَکُوْنُوْامِنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ وَفِیْ ھٰذِہِ الرُّؤْیِا رَبَّانِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیِدِہٖ وَکَلَامِہٖ وُاَنْوَارِہٖ وَھَدِیَّۃِ اَثْمَارِہٖ ۔1
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 548، 549)
(ب) ’’اِس اَحقر نے 1864 ء2یا 1865 عیسوی میں یعنی اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حِصّہ میں ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھا، جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ اوراُس وقت اِس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اِس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پُوچھا کہ تُو نے اِس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام مَیں نے قطبی رکھا ہے۔ جس نام کی تعبیر اَب اِس اشتہاری کتاب3 کے تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اورمستحکم ہے۔ جس کے کامل استحکام کو پیش کرکے دس10 ہزارروپیہ کا اِشتہار دیاگیا ہے۔
غرض آنحضرتؐ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی۔ اورجب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجنابؐ کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوشرنگ اورخوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدرِ تربُوزتھا۔ آنحضرت ﷺنے جب اُس میوہ کو تقسیم کرنے کیلئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہدنکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مِرفق تک شہد سے
اور چاند کی شعاعیں پڑرہی ہیں۔ میں آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور ذوق اور وجد کی و جہ سے میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر میں بیدار ہوگیا۔ اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مُردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اسے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا۔ اور تمہیں کیا پتہ شاید یہ وقت قریب ہو اس لئے تم اس کے منتظر رہو۔ اور اسرؤیامیں آنحضرت ﷺ نے اپنے دست ِ مبارک سے‘ اپنے پاک کلام سے اپنے انوار سے اور اپنے (باغِ قدس کے) پَھلوں کے ہدیہ سے میری تربیت فرمائی تھی۔
1 یہ رویاء براہین احمدیہ میں بھی مذکور ہے مگر اس میں اس کے شروع کا اور آخر کا حصہ اس تفصیل سے بیان نہیں ہؤا۔ اِس لئے اسے آئینہ کمالاتِ اسلام میں سے لیکر درج کیا گیا ہے۔ (مرتّب)
2 یہ تاریخ غالباً سرسری طورپر ایک موٹے اندازہ کی بناء پر لکھی گئ ہے کیونکہ یہ رؤیا حضور کے زمانہ آغازِ جوانی کا ہے جبکہ آپ ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھے جس کے بعد کچھ عرصہ آپ سیالکوٹ تشریف فرمارہے۔ اورتریاق القلوب صفحہ 57 سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ تیجاسنگھ صاحب کی وفات (جو 1862 میں ہوئی تھی۔ دیکھئے کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب)کا واقعہ انہی ایام کا ہے جب حضور سیالکوٹ میں رہتے تھے۔ پس یہ رؤیا دراصل 1864 سے کئی سال قبل کا ہے۔ واللہ علم بالصّواب۔ (مرتّب)
3 براہین احمدیہ (مرتّب)
بھر گیا۔ تب ایک مُردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا۔ آنحضرتؐ کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا۔ اور یہ عاجز آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اور آنحضرتؐ بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔
پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺ نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا۔ اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی۔ اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھاچکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی۔ اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں‘ ایسا ہی آنحضرت ﷺ کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی۔ کہ جو دین ِ اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی۔ تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھُل گئی۔ وَالْحَمْدُلِلہِ عَلیٰ ذٰلِک۔‘‘
)براہین احمدیہ حصہ سوم۔ صفحہ 248،249۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر1(
نوجوانی کے زمانہ میں
’’ وَرَاَیْتُ فِیْ غُلَوَآئِ شَبَابِیْ وَ عِنْدَ دَوَاعِی التَّصَابِیْ کَاَنِّیْ دَخَلْتُ فِیْ مَکَانٍ۔ وَفِیْہِ حَفَدَتِیْ وَخَدَمِیْ۔فَقُلْتُ طَھِّرُوْا فِرَاشِیْ۔ فَاِنَّ وَقْتِیْ قَدْ جَآئَ۔ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ۔ وَخَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ۔ وَذَھَبَ وَھْلِیْ اِلٰی اَنَّنِیْ مِنَ الْمَائِتِیْنَ۔1‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ 548)
1861ء (تخمیناً)
’’مجھے یاد ہے کہ شاید چونتیس برس کا عرصہ گذرا ہوگا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ شیطان سیاہ رنگ اور بدصورت کھڑا ہے۔ اوّل اس نے میری طرف توجہ کی۔ اور میں نے اس کو منہ پر طمانچہ مار کر کہا کہ دُور ہو اَے شیطان۔ تیرا مجھ میں حصہ نہیں۔ اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف گیا اور اس کو اپنے ساتھ کرلیا۔ اور جس کو اپنے ساتھ کرلیا اس کو میں جانتا تھا۔ اتنے میں آنکھ کھُل گئی۔
اسی دن یا اس کے بعد اس شخص کو مرگی پڑی۔ جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ شیطان نے اس کو ساتھ کرلیا تھا اور
1 (ترجمہ از مرتّب) میں نے ایک دفعہ اوائل ایام جوانی میں اور جب کہ کھیل کود کے اسباب کی طرف طبائع کا میلان ہوتا ہے‘ رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک مکان کے اندر داخل ہوا ہوں جس میں میرے خادم اور نوکر چاکر موجود ہیں۔میں نے انہیں کہا کہ میرے مکان کو درست اور میرے بستر کو پاک و صاف کرو۔کیونکہ اب میرا وقت آگیا ہے۔اس کے بعدمیری آنکھ کھُل گئی۔ اس وقت مجھ پر اپنی جان کے متعلق خطرہ و اندیشہ کی حالت طاری ہوئی۔اور میرا خیال اس طرف گیا کہ اب میری موت کا وقت آگیا ہے خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ ’’فان وقتی قد جَآءَ‘‘سے حضور نے اس وقت یہ تعبیر لی تھی کہ میرے مرنے کا وقت آگیا ہے۔مگر جیسا کہ بعد کے حالات سے ظاہر ہوا ‘ اس سے مراد یہ تھی کہ میری بعثت کا وقت آگیا ہے اور اس کی تائید آپ کے دوسرے الہام بخرام کے وقت ِتو نزدیک رسید سے بھی ہوتی ہے۔واللہ اَ علم بالصّواب۔
صرع کی بیماری میں گرفتار ہوگیا۔ اِس سے مجھے یقین ہوا کہ شیطان کی ہمراہی کی تعبیر مرگی ہے۔‘‘
(معیار المذاہب حاشیہ صفحہ 18‘ ملحقہ رسالہ نورالقرآن مطبوعہ اپریل 1896 ء)
1862ء
’’ لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے را جہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر ان کو اطلاع دی کہ وہ را جہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے۔ فوت ہوگئے ہیں اور انہو ں نے اس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا۔ اورجب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور انہوں نے آتے ہی مسٹرمکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست تیار ہونی چاہئے کیونکہ وہ کل بٹا لہ میں فوت ہوگئے۔ تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پاکر نہایت تعجب کیا کہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی۔ اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے دیکھو صفحہ 256۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 57، روحانی خزائن جلد نمبر 1حصہ سوم صفحہ 284)
1865ء (قریباً)
’’تیس برس کا عرصہ ہوا کہ مجھے صاف صاف مکاشفات کے ذریعہ سے اُن1کے حالات دریافت ہوئے تھے۔ اگر میں جزماً کہوں تو شاید غلطی ہو۔ مگر میں نے اُسی زمانہ میں ایک دفعہ عالمِ کشف میں اُن سے ملاقات کی۔ یا کوئی ایسی صورتیں تھیں جو ملاقات سے مشابہ تھیں۔ چونکہ زمانہ بہت گذر گیا ہے۔ اس لئے اصل صورت اُس کشف کی میرے ذہن سے فرو ہوگئی ہے۔‘‘
(ست بچن طبع اوّل صفحہ 29 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 141)
1865ء (قریباً)
’’چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ دشمن میری موت کی تمنا کریں گے۔ تا یہ نتیجہ نکالیں کہ جھوٹا تھا تبھی جلدی مر گیا۔ اس لئے پہلے ہی سے اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:۔
ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْ قَرِیْباً مِّنْ ذَالِکَ۔ اَوْتَزِیْدُ عَلَیْہِ سِنِیْناً۔ وَتَرٰی نَسْلاً بَعِیْداً۔
یعنی تیری عمر اَسّی برس کی ہوگی یا دو چار کم یا چند سال زیادہ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دُور کی نسل کو دیکھ لے گا۔ اور یہ الہام قریباً پینتیس برس سے ہوچکا ہے۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 29، 30 وضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 19 طبع اوّل، روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 66)
1 باوا نانک رحمتہ اللہ علیہ۔ (مرتّب)
1868ء
’’ یک مقدمہ میں کہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنے زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا۔ اس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اِس مقدمہ میں ڈگری ہوجائے گی۔ چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ1 کوکہ جو قادیان میں موجود ہے بتلا دی۔
پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مدعا علیہ مع اپنے چند گواہوں کے عدالت میں حاضر ہوا۔ اور اِس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہوا۔ شام کو مدعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا۔
اس خبر کو سنتے ہی وہ آریہ تکذیب اور استہزاء سے پیش آیا۔ اُس وقت جس قدر قلق اور کرب گذرا ‘ بیان میں نہیں آسکتا۔ کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہِ کثیر کا بیان جن میں بے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو۔ اس سخت حزن اور غم کی حالت میں نہایت شدت سے الہام ہوا۔ کہ جو آ ہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل ہوگیا۔ اور وہ یہ تھا:۔
ڈگری ہوگئی ہے۔ مسلمان ہے!
یعنی کیا تو باور نہیں کرتا۔ اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے؟
آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری2 ہی ہوئی تھی۔ اور فریق ثانی نے حکم سننے میں دھوکہ کھایا تھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم طبع اوّل صفحہ 551، 553 حاشیہ درحاشیہ نمبر4، روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 658، 659)
1868ء
’’ایک مرتبہ جب انہوں3 نے اس ضلع4 میں وکالت کا امتحان دیا۔ تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے اُن کو بتلایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا مقدر ہے کہ اس ضلع کے کُل اشخاص جنہوں نے وکالت یا مختاری کا امتحان دیا ہے۔ فیل ہوجائیں گے۔ مگر سب میں سے صرف تم ایک ہو کہ وکالت میں پاس ہوجاؤ گے۔ اور یہ خبر میں نے تیس 30کے قریب اور لوگوں کو بھی بتلائی۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور سیالکوٹ کی تمام جماعت کی جماعت جنہوں نے وکالت یا مختاری کاری کا امتحان دیا تھا فیل کئے گئے
1 لالہ شرمپت (تریاق القلوب صفحہ 37، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 206) (مرتّب)
2 حاکم مجوز نے جس کا نام حافظ ہدایت علی تھا صرف مدعا علیہ کے بیان پر کہ ہمیں حسب ِفیصلہ صاحب کمشنر درخت کاٹ لینے کا حق حاصل ہے مقدمہ کو خارج کردیا اور مدعا علیہ کو حکم سنا کر معہ اس کے گواہوں کے رخصت کردیا۔اس پر انہوں نے گاؤں میں آکر مشہور کردیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے۔لیکن جب وہ عدالت کے کمرہ سے نکل گئے تو اس وقت مِثل خواں نے جو اتفاقاً باہر گیا ہوا تھا حاکم کو کہا کہ آپ نے اس مقدمہ میں دھوکہ کھایا ہے اور جو فریق ثانی نے نقل روبکار صاحب کمشنر پیش کی ہے وہ حکم تو فنانشل صاحب کے حکم سے منسوخ ہوچکا ہے اور اس نے روبکار دکھلا دی۔تب ہدایت علی کی عقل نے چکر کھایا اور اسی وقت اپنی روبکار پھاڑ دی اور ڈگری کی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 143 ، 144)
3 لالہ بھیمؔ سین صاحب وکیل سیالکوٹ (مرتّب) 4 سیالکوٹ (مرتّب)
اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہوگئے.....اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے۔ دیکھو صفحہ 256۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 57 ، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 256)
1868ء(قریباً)
’’ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے بھائی غلام قادر صاحب سخت بیمار ہیں۔ سو یہ خواب بہت سے آدمیوں کو سنایا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ سخت بیمار ہوگئے۔
تب میں نے ان کیلئے دعا شروع کی۔ تو دوبارہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے ایک بزرگ فوت شدہ اُن کو بلا رہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیربھی موت ہوا کرتی ہے چنانچہ ان کی بیماری بہت بڑھ گئی۔ اور وہ ایک مُشتِ استخواں سے رہ گئے۔ اس پر مجھے سخت قلق ہوا۔ اور میں نے ان کی شفا ء کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی.......سو جب میں نے دعا میں مشغول ہوا تو میں نے کچھ دنوں کے بعد خواب میں دیکھا کہ برادرمذکورپورے تندرست کی طرح بغیر سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں۔ چنانچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اُن کو شفاء بخشی اور وہ اس واقعہ کے بعد پندرہ برس تک زندہ رہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 217 ، روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 595 )
1868ء(تخمیناً)
’’ایک شخص سہج رام نام امرتسر کی کمشنری میں سر رشتہ دار تھا اور پہلے وہ ضلع سیالکوٹ میں صاحب ڈپٹی کمشنر کا سر رشتہ دار تھا۔ اور وہ مجھ سے ہمیشہ مذہبی بحث کیا کرتا تھا۔ اور دین ِ اسلام سے فطرتاً ایک کینہ رکھتا تھا۔ اور ایسا اتفاق ہوا کہ میرے ایک بڑے بھائی تھے۔ انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا۔ اور امتحان میں پاس ہوگئے تھے۔ اوروہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے۔ اور نوکری کے امیدوار تھے۔ ایک دن میں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا ۔ جب میں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ اُلٹانا چاہا۔ تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سہج رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میرے پر رحم کرادو۔ میں نے اُس سے کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں۔ اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا۔ کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہوگیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی۔ بعد اس کے میں نیچے اترا۔ اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کی نوکری کے بارہ میں باتیں کررہے تھے۔ میں نے کہا کہ اگر پنڈت سہج رام فوت ہوجائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے۔ ان سب نے میری بات سن کر قہقہہ مارکر ہنسی کی کہ کیا چنگے بھلے کو مار تے ہو۔ دوسرے یا تیسرے دن خبر آگئی کہ اُسی گھڑی سہج رام ناگہانی موت سے اِس دنیا سے گذر گیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 296 ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 309 )
1868 ء یا 1869 ء
(ا) ’’1868 یا 1869 میں بھی ایک عجیب الہام اُردو میں ہوا تھا ..... اور تقریب اِس
1 میرزا غلام قادر صاحب کی وفات 1883 ء میں ہوئی تھی۔ (کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب) (مرتّب)
الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے۔ جب نئے نئے مولوی ہوکر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو اُن کے خیالات گراں گذرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کیلئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا۔ چنانچہ اس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو معہ ان کے والد صاحب کے مسجد میں پایا۔
پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کرلیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل ِ اعتراض ہو۔ اس لئے خاص اللہ کیلئے بحث کو ترک کیا گیا۔ رات کو خداوند ِ کریم نے اپنے الہام اور مخا طبت میں اسی ترکِ بحث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
تیرا خدا تیر ے اس فعل سے راضی ہوا۔ اور وہ تجھے بہت برکت دے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
پھر بعد اُس کے عالم ِ کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے۔
چونکہ خا لصاً خدا اور اس کے رسول کیلئے انکسار اور تذلل اختیار کیا گیا۔ اس لئے اس محسن ِ مطلق نے نہ چاہا کہ اس کو بغیر اجر کے چھوڑے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ صفحہ 520 ، 521 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 ، روحانی خزائن ، جلد نمبر1 صفحہ621 ، 622 )
(ب) مجھے اللہ جل شانہ‘ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا۔ اور مجھے اس نے فرمایا کہ
’’میں تجھے برکت پر برکت دوں گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ1 تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘
(برکات الدعاء صفحہ 30 طبع اوّل2، روحانی خزائن جلد نمبر6 صفحہ 35)
(ج) ’’یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے۔ اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہوگی۔
پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے۔ وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔ اور چھ سات سے کم نہ تھے۔ ‘‘
(الحکم جلد 6 نمبر 38 مورخہ 24 اکتوبر 1902 ء صفحہ 10 کالم نمبر 2 ، 3)
1 عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اورکہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جوأ اُٹھائیں گے اورخداانہیں برکت دے گا۔ (تجلیاتِ الٰہیہ حاشیہ صفحہ 21 طبع اوّل)
2 ( نیز تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 21 ، روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 409 ، 420)
(د) 1 اِ نِّیْ رَاَ یْتُ فِیْ مُبَشِّرَۃٍ اُرِیْتُھَا جمَاعَۃً مِّنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ وَالْمُلُوْکِ الْعَادِ لِیْنَ الصَّالِحِیْنَ۔ بَعْضُھُمْ مِنْ ھٰذَا الْمُلْکِ وَبَعْضُہُمْ مِنَ الْعَرَبِ وَبَعْضُہُمْ مِنْ فَارِسَ۔ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ بِلَادِ الشَّامِ۔ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ اَرْضِ الرُّوْمِ۔ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ بِلَادٍ لَّا اعْرِفُھَا۔ ثُمَّ قِیْلَ لِیْ مِنْ حَضْرَۃِ الْغَیْبِ اِنَّ ھٰٓؤُ لَآءِ یُصَدِّ قُوْ نَکَ وَ یُؤْ مِنُوْنَ بِکَ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ وَیَدْ عُوْنَ لَکَ۔ وَاُعْطِیْ لَکَ بَرَکَاتٍ حَتّٰی یَتَبَرَّکَ الْمُلُوْکُ بِثِیَا بِکَ وَ اُدْ خِلُھُمْ فِی الْمُخْلِصِیْنَ ھٰذَا رَاَیْتُ فِی الْمَنَامِ وَاُلْھِمْتُ مِنَ اللّٰہِ الْعَلَّامِ۔‘‘
(لُجّہّ النّور صفحہ 3 ،4 روحانی خزائن جلد نمبر 16 صفحہ 339 ، 340 )
1870ء
)ا) ’’عرصہ تخمیناًبارہ برس کا ہوا ہے کہ ایک ہندو 2صاحب کہ جو اَب آریہ سماج قادیان کے ممبر اور صحیح و سلامت موجود ہیں۔ حضرت خاتم الرّسل صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آنجناب کی پیشین گوئیوں سے سخت منکر تھا...... اس ہندو صاحب کا ایک عزیز 3کسی ناگہانی پیچ میں آکر قید ہوگیا۔ اور اُس کے ہمراہ ایک اور ہندو 4بھی قید ہوا۔ اور اُن دونوں کا چیف کورٹ میں اپیل گذرا۔ اُس حیرانی اور سرگردانی کی حالت میں ایک دن اُس آریہ صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی کہ غیبی خبر اِسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلاسکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے.........تب میرے دل میں خدا کی طرف سے یہی جوش ڈالا کہ خدا اُس کو اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لاجواب کرے۔ اور میں نے دعا کی کہ اے خداوند ِ کریم۔ تیرے نبی کریم کی عزت اور عظمت سے یہ شخص سخت منکر ہے۔ اور تیرے نشانوں اور پیشین گوئیوں سے جو تُونے اپنے رسول پر ظاہر فرمائیں۔ سخت انکاری ہے اور اس مقدمہ کی آخری حقیقت کھلنے سے یہ لاجواب ہوسکتا ہے۔ اور تو ہربات پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی امر تیرے علم محیط سے مخفی نہیں۔
1 (ترجمہ از مرتب) میں نے ایک مبشر خوا ب میں مخلص مومنوں اور عادل اور نیکوکار بادشاہوں کیایک جماعت دیکھی۔ جن میں سے بعض اسی ملک (ہند ) کے تھے اور بعض عرب کے۔ بعض فارس کے اور بعض شام کے بعض روم کے۔ اور بعض دوسرے بلاد کے تھے۔ جن کو میں نہیں جانتا۔ اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اورتیرے لئے دعائیں کریں گے۔ اور میں تجھے بہت برکتیں دوں گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اور میں ان کو مخلصوں میں داخل کروں گا۔ یہ وہ خواب ہے جو میں نے دیکھی اور وہ الہام ہے جو خدائے علّام کی طرف سے مجھے ہوا۔
2 لالہ شرمپت (مرتّب)
3 لالہ بشمبر داس (مرتّب)
4 خوشحال چَند نامی (مرتّب)
تب خدا نے جو اپنے سچے دین ِ اسلام کا حامی ہے۔ اور اپنے رسول کی عزت اور عظمت چاہتا ہے۔ رات کے وقت رؤیا میں کُل حقیقت مجھ پر کھول دی۔ اور ظاہر کیا کہ تقدیرِ الٰہی میں یوں مقدر ہے کہ اس کی مثل چیف کورٹ سے عدالت ِ ماتحت میں پھر واپس آئے گی۔ اور پھر اس عدالت ِ ماتحت میں نصف قید اُس کی تخفیف ہوجائے گی۔ مگر بَری نہیں ہوگا۔ ۔ اور جو اُس کا دوسرا رفیق ہے۔ وہ پوری قید بھُگت کر خلاصی پائے گا۔ اور بَری وہ بھی نہیں ہوگا۔
پس میں نے اس خواب سے بیدار ہوکر اپنے خداوند ِ کریم کا شکر کیا۔ جس نے مخالف کے سامنے مجھ کو مجبور ہونے نہ دیا۔ اور اسی وقت میں نے یہ رؤیاایک جماعت کثیر کو سنا دیا۔ اور اُس ہندو صاحب کو بھی اُسی دن خبر کردی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ سوم صفحہ 251 ، 252 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1 ، روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 277 ، 279 )
(ب) ’’ بشمبر داس بقید ایک سال مقید ہوگیا تھا۔ اور اس کے بھائی شرمپت نام نے جو سرگرم آریہ ہے۔ مجھ سے دعا کی التجا کی تھی۔ اور نیز یہ پوچھا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ میں نے دعا کی اور کشفی نظر سے میں نے دیکھا کہ میں اس دفتر میں گیا ہوں جہاں اس کی قید کی مثل تھی۔ میں نے اس مثل کو کھولا۔ اور برس کا لفظ کاٹ کر اس کی جگہ چھ مہینے لکھ دیا۔
اور پھر الہام الٰہی سے بتلایا۔ کہ مثل چیف کورٹ سے واپس آئیگی۔ اور برس کی جگہ چھ مہینے رہ جائے گی۔ لیکن بَری نہیں ہوگا۔ چنانچہ میں نے یہ تمام کشفی واقعات شرمپت آریہ کو جو اَب تک زندہ موجود ہے۔ نہایت صفائی سے بتلادیئے۔
اور جب میں نے بتلایا ۔ بعینہٖ وہ باتیں ظہور میں آگئیں۔ تو اُس نے میری طرف لکھا کہ آپ خدا کے نیک بندے ہو۔ اس لئے اس نے آپ پر غیب کی باتیں ظاہر کردیں۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 35 طبع اوّل ، روحانی خزائن جلد نمبر 12 صفحہ 37)
1870ء (تخمیناً)
(ا) ’’ اِس رؤیاصادقہ میں کہ ایک کشفِ صریح کی قسم تھی۔ یہ معلوم کرایا گیا تھا۔ کہ ایک کھتری ہندو بشمبر داس نامی جو اَ ب تک قادیان میں بقیدِ حیات موجو دہے۔ مقدمہ فوجداری سے بَری نہیں ہوگا۔ مگر آدھی قید تخفیف ہوجائے گی۔ لیکن اُس کا دُوسرا ہم قید خوشخال نامی کہ وہ بھی اب تک قادیان میں زندہ موجود ہے ساری قید بھگتے گا۔ سو اس جزوِ کشف کی نسبت یہ ابتلا پیش آیا کہ جب چیف کورٹ سے حسب پیشگوئی ایں عاجز مثل مقدمۂ مذکورہ واپس آئی۔ تو متعلقین مقدمہ نے اُس واپسی کو بریت پر حمل کرکے گاؤں میں یہ مشہور کردیا کہ دونوں ملزم جرم سے بَری ہوگئے ہیں۔ مجھ کو یاد ہے کہ رات کے وقت میں یہ خبر مشہور ہوئی۔ اور یہ عاجز مسجد میں عشاء کی نماز پڑھنے کو تیار تھا کہ ایک نے نمازیوں میں سے بیان کیا کہ یہ خبر بازار میں پھیل رہی ہے اور ملزمان گاؤں میں آگئے ہیں۔ سو چونکہ یہ عاجز اعلانیہ لوگوں میں کہہ چکا تھا۔ کہ دونوں مجرم ہرگز جرم سے بَری نہیں ہوں گے۔ اِس لئے جو کچھ غم اور قلق اور کرب اس وقت گذرا سو گذرا۔ تب خدا نے کہ جو اس عاجز بندہ کا ہریک حال میں حامی ہے۔ نماز کےا وّل یا عین نمازمیں بذریعہ الہام یہ بشارت دی
لَاتَخَفْ1 اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی
اور پھر فجر کو ظاہر ہوگیا کہ وہ خبر بَری ہونے کی سراسر جُھوٹی تھی اورانجام کار وہی ظہور میں آیا کہ جو اِس عاجز کو خبر دی گئی تھی۔ جس کو شرمپت نامی ایک آریہ اور چنددوسرے لوگوں کے پاس قبل از وقوع بیان کیا گیا تھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ چہارم صفحہ 550 ، 551 حاشیہ در حاشیہ نمبر 4 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 657 ، 658 )
(ب) ’’جب بشمیر داس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نمازِ عشاء کے وقت جب مَیں اپنی بڑی مسجد میں تھا،علی محمدنام ایک مُلّاں ساکن قادیان نے جو اَب تک زندہ اورہمارے سلسلہ کا مخالف ہے میرے پاس آکر بیان کیا کہ اپیل منظورہوگئی اور بشمبرداس بَری ہوگیا اور کہا کہ بازار میں اس خوشی کا ایک جوش برپا ہے۔ تب اس غم سے میرے پر وہ حالت گذری جس کو خدا جانتا ہے۔ اُس غم سے میں محسوس نہیں کرسکتا تھا کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا۔ تب اسی حالت میں نماز شروع کی گئی۔ جب میں سجدہ میں گیا۔ تب مجھے یہ الہام ہوا:۔
لَاتَحْزَنْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی
یعنی غم نہ کر تجھ کو ہی غلبہ ہوگا۔
تب میں نے شرمپت کو اس سے اطلاع دی۔ اور حقیقت یہ کھلی کہ اپیل صرف لیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ بشمبرداس بَری کیا گیا ہے۔‘‘ (قادیان کے آریہ اور ہم ۔ صفحہ 28 ، 29 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 657 ، 658 )
1871ء( تخمیناً)
’’تیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا۔ جب میں تپ سے سخت بیمار ہوا۔ اس قدر شدید تپ مجھے چڑھی ہوئی تھی۔ کہ گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ اس اثناء میں مجھے الہام ہوا:۔
وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ 2
(الحکم جلد 6 نمبر 28 مؤرخہ10 اگست1902 ء صفحہ11 کالم نمبر 2)
1872ء (تخمیناً)
فرمایا کہ ’’ شاید کوئی تیس برس کا عرصہ گذرا ہوگا کہ میں نے بھی ایک خواب دیکھا۔ کہ اَب جس مقام پر مدرسہ کی عمارت ہے ‘ وہاں بڑی کثرت سے بجلی چمک رہی ہے۔ بجلی چمکنے کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ وہاں آبادی ہوگی۔‘‘
(البدؔرجلد 1 نمبر8 مورخہ 19 دسمبر 1902 ء صفحہ 58 کالم نمبر 3)
1 (ترجمہ از مرتّب) خوف مت کر تُو ہی غالب رہے گا۔
2 مسجد اقصٰی (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اور جو وجود لوگوں کے لئے نفع رساں ہو وہ زمین پر زیادہ دیر تک قائم رہتا ہے۔
1872 ء (تخمیناً)
’’تخمیناً دس برس کا عرصہ ہوا ہے جو میں نے خواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا۔ اور مسیح نے اور میں نے ایک جگہ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا۔ اور کھانے میں دونوں ایسے بے تکلف اور بامحبت تھے کہ جیسے دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں اور جیسے قدیم سے دو رفیق اور دلی دوست ہوتے ہیں اور بعد اُس کے اسی مکان میں جہاں اَب یہ عاجز اس حاشیہ کو لکھا رہا ہے۔ میں اور مسیح اور ایک اور کامل اور مکمل سید آلِ رسول دالان میں خوشدلی سے ایک عرصہ تک کھڑے رہے اور سید صاحب کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ اُس میں بعض افراد خاصۂ اُمّتِ محمدیہ کے نام لکھے ہوئے تھے۔ اور حضرت ِ خداوند تعالیٰ کی طرف سے اُن کی کچھ تعریفیں لکھی ہوئی تھیں۔ چنانچہ سید صاحب نے اس کاغذ کو پڑھنا شروع کیا۔ جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسیح کو اُمّت ِ محمدیہ کے اُن مراتب سے اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ جو عنداللہ اِن کیلئے مقرر ہیں۔ اور اُس کاغذ میں عبارت تعریفی تمام ایسی تھی کہ جو خالص خدائے تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ سو جب پڑھتے پڑھتے وہ کاغذ اخیر تک پہنچ گیا۔ اور کچھ تھوڑا ہی باقی رہا۔ تب اِس عاجز کا نام آیا۔ جس میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ عبارت تعریفی عربی زبان میں لکھی ہوئی تھی:۔
ھُوَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ و تَفْرِیْدِیْ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔
یعنی وہ مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید۔ سو عنقریب لوگوں میں مشہور کیا جائے گا۔
یہ اخیر فقرہ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاس اسی وقت بطورِ الہام بھی القا ہوا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 253 ، 254 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 طبع اوّل روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 280 281)
1872 ء (تخمیناً)
’’ایک دفعہ میں نے باوا نانک صاحب کو خواب میں دیکھا کہ اُنہوں نے اپنے تئیں مسلمان ظاہر کیا ہے1اور میں نے دیکھا کہ ایک ہندو ان کے چشمہ سے پانی پی رہا ہے۔ پس میں نے اس ہندو کو کہا کہ یہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمے سے پانی پیو۔ تیس برس کا عرصہ ہوا ہے۔ جبکہ میں نے یہ خواب یعنی باوا نانک صاحب کو مسلمان دیکھا۔ اسی وقت اکثر ہندوؤں کو سنایا گیا تھا۔ اور مجھے یقین تھا کہ اس کی کوئی تصدیق پیدا ہوجائے گی۔ چنانچہ ایک مدت کے بعدوہ پیشگوئی بکمال صفائی پوری ہوگئی۔ اور تین سو برس کے بعد وہ چولہ ہمیں دستیاب ہوگیا کہ جو ایک صریح دلیل
1 ’’میری خواب میں جو باوا نانک صاحب نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اس سے یہی مراد تھی کہ ایک زمانہ میں ان کا مسلمان ہونا پبلک پر ظاہر ہوجاءے گا چنانچہ اِس امر کے لیے کتاب سَت بچن تصنیف کی گئی تھی اور یہ جو مَیں نے ہندوؤں کو کہا کہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمہ سے پانی پیؤاس سے یہ مراد تھی کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اہلِ ہنوداورکّھوں پر اِسلام کی حقانیت صاف طور سے کُھل جائے گی اورباوا صاحب کا چشمہ جس کو حال کے سکّھوں نے اپنی کم فہمی سے گدلا بنا رکھا ہے وہ میرے ذریعہ صاف کیا جائے گا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 205 طبع اوّل، روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 583)
باوا صاحب کے مسلمان ہونے پر ہے۔ یہ چولہ جو ایک قسم کا پیراہن ہے بمقام ڈیرہ نانک 1 باوا نانک صاحب کی اولاد کے پاس بڑی عزت اور حرمت سے بطور تبرک محفوظ ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 203 ، 204 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 581 ، 582)
(ب) ’’یہ بھی یاد رہے کہ میں نے دو مرتبہ باوا نانک صاحب کو کشفی حالت میں دیکھا ہے اور اُن کو اس بات کا اقراری پایا ہے کہ انہوں نے اُسی نور سے روشنی حاصل کی ہے۔ فضولیاں اور جھوٹ بولنا مُردار خواروں کا کام ہے۔ میں وہی کہتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا ہے۔ اسی و جہ سے میں باوا نانک صاحب کو عزت کی نظرسے دیکھتا ہوں۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ اس چشمے سے پانی پیتے تھے۔ جس سے ہم پیتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اُس معرفت سے بات کررہا ہوں کہ جو مجھے عطا کی گئی ہے۔‘‘ (از اشتہار مورخہ 18 اپریل 1897 ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 396 )
1872 ء (تخمیناً(
’’مارٹن کلارک والے مقدمہ سے قریباً پچیس سال پہلے میں ایک دفعہ خواب دیکھ چکا تھا کہ میں ایک عدالت میں کسی حاکم کے سامنے حاضر ہوں اور نماز کا وقت آگیا ہے۔ تو میں نے اُس حاکم سے نماز کے لئے اجازت طلب کی۔ تو اُس نے کشادہ پیشانی سے مجھے اجازت دے دی۔
چنانچہ اِس کے مطابق اس مقدمہ میں عین دورانِ مقدمہ میں جبکہ میں نے کپتان ڈگلس سے نماز کے لئے اجازت چاہی تو اس نے بڑی خوشی سے مجھے اجازت دے دی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 210 ، روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 588)
1872ء (قریباً)
’’میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ بٹالہ کے مکانات میں ایک حویلی ہے۔ اس میں ایک سیاہ کمبل پر میں بیٹھا ہوں اور لباس بھی کمبل کی ہی طرح کا پہنا ہوا ہے۔ گویا کہ دنیا سے الگ ہوا ہوں۔ اتنے میں ایک لمبے قد کا شخص آیا اور مجھے پوچھتا ہے کہ مرزا غلام ؔاحمد مرزا غلام مرتضیٰ کا بیٹا کہاں ہے؟ میں نےکہا کہ میں ہوں۔ کہنے لگا کہ میں نے آپ کی تعریف سنی ہے کہ آپ کو اسرار دینی اور حقائق اور معارف میں بہت دخل ہے۔ یہ تعریف سن کر ملنے آیا ہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا۔ اس پر اُس نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اور بہہ کر رخسار پر پڑتے تھے۔ ایک آنکھ اُوپر تھی اور ایک نیچے۔ اور اس کے منہ سے حسرت بھرے یہ الفاظ نکل رہے تھے:۔
’’ تہیدستانِ عشرت را ‘‘
اس کا مطلب میں نے یہ سمجھا۔ کہ یہ مرتبہ انسان کو نہیں ملتا۔ جب تک کہ وہ اپنے اوپر ایک ذبح اور ایک موت وارد نہ کرے۔اس مقام پر عرب 2صاحب نے حضرت کا یہ شعر پڑھا۔ جس میں یہ کلمہ منسلک تھا
2 ضلع گورداسپور (مرتب) 2 ابوسعید صاحب ( مرتّب)
کہ مے خواہدنگارِ من تہید ستانِ عشرت را ‘‘ 1
(البدر جلد 2 نمبر 3 مورخہ 6 فروری 1903 ء صفحہ 19 کالم نمبر 3 والحکم جلد 7 نمبر3 مورخہ 24 جنوری 1903 ء صفحہ 8 کالم نمبر1)
1873 ء (تخمیناً)
’’میں مرزا صاحب (والد صاحب) کے وقت میں زمینداروں کے ساتھ ایک مقدمہ پر امرتسر میں کمشنر کی عدالت میں تھا۔ فیصلہ سے ایک دن پہلے کمشنر زمینداروں کی حمایت رعایت کرتا ہوا اور ان کی شرارتوں کی پروا نہ کرکے عدالت میں کہتا تھا کہ یہ غریب لوگ ہیں۔ تم ان پر ظلم کرتے ہو۔ اس رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ انگریز ایک چھوٹے سے بچہ کی شکل میں میرے پاس کھڑا ہے۔ اور میں اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہوں۔
صبح کو جب ہم عدالت میں گئے۔ تو اُس کی حالت ایسی بدلی ہوئی تھی۔ کہ گویا وہ پہلا انگریز ہی نہ تھا۔ اُس نے زمینداروں کو بہت ہی ڈانٹا۔ اور مقدمہ ہمارے حق میں فیصلہ کیا۔ اور ہمارا سارا خرچہ بھی ان سے دلایا۔‘‘
(الحکم جلد5 نمبر22مؤرخہ 17 جون 1901ء صفحہ 3)
1874 ء (قریباً)
’’میں نے خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا۔ جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا اور اُس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا2 ، وہ نان اُس نے مجھے دیا اور کہا کہ
یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کیلئے ہے۔
یہ اس زمانہ کی خواب ہے۔ جبکہ میں نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعویٰ رکھتا تھا۔ اور نہ میرے ساتھ درویشوں کی کوئی جماعت تھی۔ مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنادیا ہے۔ اور اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیٰحدہ ہوکر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آآباد ہوئے ہیں۔
اور نان سے میں نے یہ تعبیر کی تھی کہ خدا ہمارا ‘ اور ہماری جماعت کا آپ متکفل ہوگا۔ اور رزق کی پریشانگی ہم کو پراگندہ نہیں کرے گی۔
چنانچہ سالہائے دراز سے ایسا ہی ظہور میں آرہا ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 206، 207 ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 585)
1 (ترجمہ از مرتّب) کیونکر میرا محبوب آرام طلبی کی زندگی سے الگ رہنے والے لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔
2 اور بہت بڑا تھا گویا چارنان کے مقدار پر تھا۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 277۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 290)
1874 ء (قریباً)
’’ مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے کہ جو کئی کوس تک چلی جاتی ہے ۔ اور اُس نالی پر ہزار ہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں۔ اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے۔ اس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت اُن کا خون نالی میں گرے۔ اور باقی حصہ اُن کے وجود کا نالی سے باہر رہے۔ اور نالی شرقاً غرباً واقع ہے۔ بھیڑوں کے سر نالی پر جنوب کی طرف سے رکھے گئے ہیں۔ اور ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے۔ اور اُن تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھُری ہے۔ جوہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے۔ اور آسمان کی طرف اُن کی نظر ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں۔ اور میں اس میدان میں شمالی طرف پھر رہا ہوں۔ اور دیکھتا ہوں۔ کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں۔ بھیڑوں کے ذبح کرنے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں۔ محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے۔ تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی:۔
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُ کُمْ
یعنی ان کو کہدے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے۔ اگر تم اس کی پرستش نہ کرواور اس کے حکموں کو نہ سنو۔
اور میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے سمجھ لیا۔ کہ ہمیں اجازت ہوگئی۔ گویا میرے منہ کے الفاظ خدا کے لفظ 1 تھے۔ تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ فی الفور اپنی بھیڑوں پر چُھریئیں پھیر دیں۔ اور چھُریوں کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک درد ناک( طور پر) تڑپنا شروع کیا۔ تب اُن فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں۔ اور کہا کہ تم چیز کیا ہو گوہ کھانے بھیڑیں ہی ہو۔
میں نے اس کی یہ تعبیر کی۔ کہ ایک سخت وبا ہوگی۔ اور اس سے بہت سے لوگ اپنی شامت اعمال سے مریں گے۔ اور میں نے یہ خواب بہتوں کو سنادی جن میں سے اکثر لوگ اب تک زندہ ہیں اور حلفاً بیان کرسکتے ہیں۔
پھر ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور پنجاب اور ہندوستان اور خاص کر امرتسر اور لاہور میں اس قدر ہیضہ پھُوٹا کہ لاکھوں جانیں اس سے تلف ہوئیں اور اس قدر موت کا بازار گرم ہوا۔ کہ مُردوں کو گاڑیوں پر لادکر لے جاتے تھے اور مسلمانوں کا جنازہ پڑھنا مشکل ہوگیا۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 60 ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 263 ، 264)
’’فطرتاًبعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے۔ اسی طرح میری روح اور سید القادر کی روح کو خمیر فطرت سے باہم ایک مناسبت ہے۔ جس پر کشوفِ2 صحیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے۔ اِس
1 حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں:۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ خلیفہ جو ہوتا ہے وہ آسمان سے ہوتا ہے اس لئے میں نے جو آواز دی تو انہوں نے سمجھا کہ حکم ہوگیا۔ اور جو آواز آسمان سے آنی تھی وہ میں نے کہی۔ ‘‘ (البدر جلد1نمبر 12 مورخہ 16 جنوری 1903 ء صفحہ 90)
2 اس جگہ ان کشوف کا تفصیلی ذکر نہیں ہے بلکہ ان کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے۔ (مرتب)
بات پر تیس برس کے قریب زمانہ گذر گیا ہےکہ جب ایک رات مجھے خدا نے اطلاع دی کہ اُس نے مجھے اپنے لئے اختیار کرلیا ہے۔ تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی۔ جس کی عمر قریباً اَسّی برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے۔ اور ساتھ اُن کے ایک اور بزرگ تھے۔ اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا۔ دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا۔ پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی۔ اور پھر مسجد کے باہر صحن میں نکل آئے۔ اور میں اُن کے پاس کھڑی تھی۔ اتنے میں مشرق کی طرف ایک چمکتا ہوا ستارہ نکلا۔ تب اُس ستارہ کو دیکھ کر سید عبدالقادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا۔ السَّلام علیکم اور ایسا ہی اُن کے رفیق نے السَّلام علیکم کہا۔ اور وہ ستارہ میں تھا۔ اَلْمُؤْمِنْ یَرٰی وَیُرٰی لَہ‘ ۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 65 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 224)
1875 ء (تخمیناً)
’’ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نمازِ مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غَیبتِ حِس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی۔ ایک عجیب عالم ظاہر ہوا۔ کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسے بسُرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی پیغمبرِخدا ﷺ و حضرت علی و حَسَنَین و فاطمہ زَہراء رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔
پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے۔ جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی 2 وہ تفسیر تجھ کودیتا ہے۔فالحمد لِلّٰہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 503 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598 ، 599 نیز دیکھئے تحفہ گولڑویہ صفحہ 31)
1 کتاب البریّہ کے صفحہ 166 حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف حضرت مسیح موعود علیہ الصّلٰوۃ والسّلام کے والد ماجد رحمتہ اللہ علیہ کی وفات سےکِسی قدر قبل کا ہے۔ (مرتّب)
2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کشف کی بعض تفصیلات جو دوسری جگہ بیان فرمائی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ (مرتب)
(الف) ’’ رَاَیْتُ اَنَّ عَلِیّاً رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُرِیْنِیْ کِتَاباً وَّ یَقُوْلُ ھٰذَا تَفْسِیْرُ الْقُرْاٰنِ اَنَا اَلَّفْتُہ‘ وَاَمَرَنِیْ رَبِّیْ اَنٰ اَعْطِیَکَ۔ فَبَسَطْتُّ اِلَیْہِ یَدِیْ وَاَخَذْتُہ‘۔ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرٰی وَیَسْمَعُ وَلَا یَتَکَلَّمُ وَکَاَ نَّہ‘ حَزِیْنٌ لِّاَ جَلِ بَعْضِ اَحْزَانِیْ۔ وَرَاَ یْتُہ‘فَاِذَا الْوَجْہُ ھُوَ الْوَجْہُ الَّذِیْ رَاَیْتُ مِنْ
1876ء (قریباً)
’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کازمانہ ٔ وفات بہت نزدیک تھا‘ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا۔ اور اُس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی
قَبْلُ اَنَارَتِ الْبَیْتُ مِنْ نُّورِہٖ۔ فَسُبْحَانَ اللّٰہِ خَالِقِ النُّوْرِ وَالنُّوْرَانِیِّیْنَ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 550۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 550)
(ترجمہ ازمرتب) میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھے ایک کتاب دکھاتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی تفسیر ہے جس کو میں نے تالیف کیا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو دوں۔ تب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے لے لیا اور رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے مگر آپ بولتے نہیں تھے۔ گویا آپ میرے بعض غموں کی وجہ سے غمگین تھے۔ اور میں نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کا وہی چہرہ تھا جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ آپ کے نور سے گھر روشن ہوگیا۔ پس پاک ہے وہ خدا جو نور اور نورانی وجودوں کا خالق ہے۔
(ب) ’’فَاَ عْطَانِیْ تَفْسِیْرَ کِتَابِ اللّٰہِ الْعَلَّامِ وَقَالَ ھٰذَا تَفْسِیْرِیْ۔ وَالْاٰنَ اُوْلِیْتَ فَھُنِّیْتَ بِمَا اُوْتِیْتَ فَبَسَطْتُّ یَدِیْ وَاَخَذْتُ التَّفْسِیْرَوَشَکَرْتُ اللّٰہَ الْمُعْطِیَ الْقَدِیْرَ۔ وَوَجَدْتُّہ‘ ذَاخَلْقٍ قَوِیْمٍ وَّخُلْقٍ صَمِیْمٍ وَّمُتَوَاضِعاً مُّنْکَسِرًا وَّمُتَھَلِّلاً مُّنَوَّرًا۔ وَاَقُوْلُ حَلْفًا اَ نَّہ‘ لَاقَانِیْ حِبّاً وَّ اَلْفاً۔ وَاُلْقِیَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّہ‘ یَعْرِفُنِیْ وَعَقِیْدَ تِیْ وَیَعْلَمُ مَا اُخَالِفُ الشِّیْعَۃَ فِیْ مَسْلَکِیْ وَمَشْرَبِیْ وَلٰکِنْ مَا شَمَخَ بِاَنْفِہٖ عَنْفًا وَّ مَانَاٰ بِجَانِبِہٖ اَنْفًا بَلْ وَافَانِیْ وَصَا فَانِیْ کَا لْمُحِبِّیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ۔ وَاَظْھَرَ الْمُحَبَّۃَ کَالْمُصَافِیْنَ الصَّادِقِیْنَ۔ وَکَانَ مَعَہُ الْحُسَیْنُ بَلِ الْحَسَنَیْنِ وَسَیِّدُ الرُّسُلِ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ۔ وَکانَتْ مَعَھُمْ فَتَاۃ’‘ جَمِیْلَۃً صَالِحَۃ’‘ جَلِیْلَۃ’‘ مُّبَارَکَۃ’‘ مُّطَھَّرَۃ’‘ مُّعَظَّمَۃ’‘مُؤَقَّرَۃ’‘ بَاھِرَۃُ النُفُوْرِ ظَاھِرَۃُ النُّوْرِ۔ وَوَجَدْ تُّھَا مُمْتَلَأَ ۃً مِّنَ الْحُزْنِ وَلٰکِنْ کَانَتْ کَاتِمَۃً۔ وَاَلْقِیَ نِیْ رُوْ عِیْ اَنَّھَا الزَّھْرَائُ فَاطِمَۃُ فَجَا ئَ تْنِیْ وَاَنَا مُضْطَجِع’‘ فَقَعَدَتْ وَوَضَعَتْ رَاْسِیْ عَلٰی فَخِذِ ھَاوَتَلَطَّفَتْ۔ وَرَاَیْتُ اَنَّھَا لِبَعْضِ اَخْزَا نِیْ تَحْزُنُ رَتَصْجَرُ وَتَتَحَنَّنُ وَتَقْلَقُ کَاُمَّھَاتٍ عِنْدَ مَصَائِبِ الْبَنِیْنَ۔ فَعُلِّمْتُ اَنِّیْ نَزَلْتُ مِنْھَا بِمَنْزِلَۃِ الْاِبْنِ فِیْ عِلْقِ الدِّیْنِ۔ وَخَطَرَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ حُزْنَھَا اِشَارَۃ’‘ اِلٰی مَاسَآرٰی ظُلْماً مِّنَ الْقَوْمِ وَاَ ھْلِ الْوَطَنَ وَالْمُعَادِیْنَ۔ ثُمَّ جَآئَ نِیْ الْحَسَنَانِ وَکَانَا یُبْدِاٰنِ الْمَحَبَّۃَ کَا لْاِخْوَانِ۔ وَوَافَیَانِیْ کَا لْمُوَاسِیْنَ۔ وَکَانَ ھٰذَاکَشْفاً مِّنْ کُشُوْفِ الْیَقْظَۃِ وَقَدْ مَضَتْ عَلَیْہِ بُرْھَۃ’‘ مِّنْ سِنِیْنَ۔‘‘
(سِرّالخلافۃ صفحہ 34 ، 35 ۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 358 ، 359 )
(ترجمہ از مرتّب) پس (حضرت علیؓ نے) مجھے کتاب اللہ کی تفسیر دی۔ اور کہا کہ یہ میری تفسیر ہے۔ اور اب آپ اس کے مستحق ہیں۔ آپ کو اس کتاب کا ملنا مبارک ہو۔ پھر میں نے ہاتھ بڑھا کر تفسیر لے لی۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو خوب تنومند اور اعلیٰ اخلاق کا مالک پایا۔ متواضع ‘ منکسرالمزاج چمکتے ہوئے روشن چہرے والا۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت اور شفقت سے ملے۔ اور میرے
کی پیشوائی کے لئے رکھنا سُنّتِ خاندانِ نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت ِ اہل ِ بیت رسالت کو بجا لاؤں۔
سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا..... اور ِاس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اُس زمانہ میں میرے پر کھلے۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس اُمت میں گذر چکے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی..... اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش دولستان طور پر نظر آتے تھے۔ جن کا بیان کرنا بالکل طاقت ِ تحریر سے باہر ہے۔ وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے۔ جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا۔ اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔
میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا۔ اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی۔ یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا اُن کو نہیں پہچان سکتی۔ کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے۔
غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے۔ وہ انواع و اقسام کے مکاشفات تھے..... لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے۔ اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا..... یاد رہے کہ میں نے کشف ِ صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجالانا چھوڑدیا۔ اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا۔‘‘
(کتاب البریہّ صفحہ 164 ۔ 167 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 197۔ 200 حاشیہ)
دل میں ڈالا گیا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیںاور آپ کو میرے عقیدہ کا بھی علم ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیںکہ میرا مسلک اور مشرب شیعوں کے مخالف ہے لیکن آپ اسے بُرا نہیں مناتے بلکہ آپ مجھ سے مخلص محبوں کی طرح ملے۔ اور بڑی محبت کا اظہار کیا۔ آپ کے ساتھ حسنین اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک خوبصورت عورت بھی جو صالحہ ‘ عالی مرتبہ ‘ نیک سیرت اور باوقار تھی جس کے چہرہ سے نور ٹپک رہا تھا اور میں نے اس کو غم سے بھرا ہوا پایا جسے وہ چھپا رہی تھی۔ میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بی بی فاطمۃ الزاہراء ہیں آپ میرے پاس آئیں۔ میں لیٹا ہوا تھا آپ بیٹھ گئیں اور میرا سر اپنی ران پر رکھا اور شفقت فرمانے لگیں۔ میں نے دیکھا کہ میرے بعض غموں کی و جہ سے آپ غمگین اور پریشان تھیں جیسے مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب کے وقت پریشان ہوتی ہیں۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ میری حیثیت دینی تعلق کے لحاظ سے بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ کے غم میں اس ظلم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہل ِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والا ہے۔ پھر حسنین میرے پاس آئے اور دونوں مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کا اظہار کرتے تھے اور شفیق ہمدردوں کی طرح مجھے ملے۔ اور یہ کشف بیداری والے کشوف میں سے تھا جس پر کئی سال گذر چکے ہیں۔
1876ء
’’ایک دفعہ میں نے فرشتوں کو انسانوں کی شکل پر دیکھا۔ یاد نہیں کہ دو تھے ‘ یا تین۔ آپس میں باتیں کرتے تھے۔ اور مجھے کہتے تھے کہ تُو کیوں اس قدر مشقت اُٹھاتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہوجائے۔ میں نے سمجھا کہ یہ جو 6ماہ کے روزے رکھے ہیں ان کی طرف اشارہ ہے1۔‘‘
(البدرجلد1 نمبر 12 مورخہ 16 جنوری 1903 ء صفحہ 90 ۔ الحکم جلد 7 نمبر2 مورخہ 17 جنوری 1903 ء صفحہ 5)
جون1876ء
’’ جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا۔ کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے۔میں اُس وقت لاہور میں تھا۔ جب مجھے یہ خواب آیا تھا۔ تب میں جلدی سے قادیان میں پہنچا۔ اور اُن کو مرضِ زحیر میں مبتلا پایا۔ لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہوجائیں گے۔ کیونکہ مرض کی شدت کم ہوگئی تھی۔ اور بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے۔ دوسرے دن شدتِ دوپہر کے وقت ہم سب عزیز اُن کی خدمت میں حاضر تھے۔ کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرا آرام کرلو۔ کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی۔ میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا۔ اور ایک نوکر پیر دبانے لگا۔ کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہوکر مجھے الہام ہوا۔
وَالسَّمَآئِ وَالطَّا رِقِ 2
یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضاء و قدر کا مبدء ہے۔ اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا۔
اور مجھے سمجھا یا گیا۔ کہ یہ الہام بطور عزا پُرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہوجائے گا۔ ..... اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے۔3 ‘‘
(کتاب البریہّ صفحہ159 ۔ 162 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 192۔ 195)
جون 1876 ء
’’جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہ‘ کی طرف سے یہ الہا م ہوا۔ جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ تو بشریت کی و جہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں۔ پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلا ہمیں پیش آئے گا۔ تب اُسی وقت یہ دوسرا الہام ہؤا:۔
1 اس مقام پر حضرت اقدس نے اپنا واقعہ مجاہدہ اور ششماہی روزہ کا بیان فرمایا ..... (اور) فرمایا:۔
’’ان روزوں کو میں نے مخفی طور پر رکھا۔ بعض دفعہ اظہار میں سلب ِ رحمت کا اندیشہ ہوتا ہے۔‘‘
(البدر جلد1 نمبر 12 مورخہ 16 جنوری 1903ء صفحہ 90)
2 دیکھو ذکر ِ حبیب ؑ مؤ لفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 224(مرتّب)
3 حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات 3 جون 1876ء کو ہوئی تھی۔ (مرتّب)
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَا فٍ عَبْدَہ‘
یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے۔ اور اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا۔ اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا۔ پس مجھے اُس خدا ئے عز وجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کرکے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا۔ میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفّل نہیں ہوگا۔‘‘
(کتاب البریہّ صفحہ161، 162 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 194، 195 حاشیہ)
1876 ء
’’بعض اوقات خواب یاکشف میں روحانی امور جسمانی شکل پر متشکل ہوکر مثل انسان نظر آتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب غفراللہ لہ‘ جو ایک معزز رئیس اور اپنی نواح میں عزت کے ساتھ مشہور تھے۔ انتقال کرگئے۔ تو اُن کے فوت ہونے کے بعد دوسرے یا تیسرے روز ایک عورت نہایت خوبصورت خواب میں مَیں نے دیکھی۔ جس کا حُلیہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اور اُس نے بیان کیا۔ کہ میرا نام رانی ہے۔ اور مجھے اشارات سے کہا۔ کہ میں اس گھر کی عزت اور وجاہت ہوں اور کہا کہ میں چلنے کو تھی مگر تیرے لئے رہ گئی۔‘‘ 1
(ازالہ اوہام صفحہ 213 ۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 205، 206)
’’رؤیا میں عورت سے مراد اقبال اور فتح مندی اور تائید ِ الٰہی ہوتی ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 24 مؤرخہ14 جون1906 ء صفحہ2 کالم نمبر 3)
1876 ء
’’ انہیں دنوں میں مَیں نے ایک نہایت خوبصورت مرد دیکھا۔ اور میں نے اسے کہا کہ تم ایک عجیب خوبصورت ہو۔ تب اُس نے اشارہ سے میرے پر ظاہر کیا۔ کہ میں تیرا بخت ِ بیدار ہوں۔
اور میرے اس سوال کے جواب میں کہ تُو عجیب خوبصورت آدمی اُس نے یہ جواب دیا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 213، 214 روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 206)2
1877 ء
’’ مرز ا اعظم بیگ سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے ہمارے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے ہماری جائیداد کی ملکیت میں حصہ دار بننے کے لئے ہم پر نالش دائر کی۔ اور ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنی فتح یابی کا یقین رکھ کر جواب دہی میں مصروف ہوئے۔ میں نے جب اس بارہ میں دعا کی۔ تو خدائے علیم کی طرف سے مجھے
1 دیکھئیے الحکم جلد 8 نمبر 22 مورخہ 10 جولائی 1904ء صفحہ 12
2 البدر جلد 3 نمبر 27 مورخہ 16 جولائی 1904ء صفحہ 4 و الحکم جلد 8 نمبر 22 مورخہ 10 جولائی 1904ء صفحہ 12
الہام ہوا کہ
اُجِیْبُ 1 کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآ ئِک
پس میں نے سب عزیزوں کو جمع کرکے کھول کر سنادیا کہ خدائے علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ تم اس مقدمہ میں ہرگز فتح یاب نہ ہوگے۔ اس لئے اس سے دست بردار ہوجانا چاہئے۔ لیکن انہوں نے ظاہری وجوہات اور اسباب پر نظر کرکے اور اپنی فتح یابی کو متیقن خیال کرکے میری بات کی قدر نہ کی۔ اور مقدمہ کی پیروی شروع کردی۔ اور عدالت ماتحت میں میرے بھائی کو فتح بھی ہوگئی۔ لیکن خدائے عالم الغیب کی وحی کے بر خلاف کس طرح ہوسکتا تھا۔ بالآخر چیف کورٹ میں میرے بھائی کو شکست ہوئی اور اس طرح اس الہام کی صداقت سب پر ظاہر ہوگئی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 212 ، 213۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 590، 591)
1877ء
’’ میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا۔ مگر شرکاء کے بارہ میں نہیں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ243، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 254)
’’اُردو میں بھی الہام ہوا تھا جو یہی2فقرہ ہے۔ اس الہام میں جس قدر خدا نے اپنے عاجز بندہ کو عزت دی ہے۔ وہ ظاہر ہے۔ ایسا فقرہ مقام محبت میں استعمال ہوتا ہے اورخاص شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہر ایک کے لئے استعمال نہیں ہوتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 243 روحانی خزائن جلد 22صفحہ254)
1877ء
’’ تخمیناً پندرہ یاسولہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا۔ یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو۔کہ اِس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا۔ اور امرتسر میں رہتا تھا اور اُس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں، بھیجا، اور اُس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا۔ چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا۔ اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت ِ مذہب کی و جہ سے افروختہ ہوا۔ اور اتفاقاً اُس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا۔ کہ کسی علیٰحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی۔ اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رُو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ
1 انجامِ آتھم صفحہ 181۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 181 میں یہ الہام یُوں مرقوم ہے یَا اَحْمَدُ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآ ئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآئِکَ۔ (مرتّب)
2 ’’یہی ‘‘ کے لفظ سے مراد اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآ ئِکَ کا ترجمہ ہےجسے حضورؑنے حقیقۃالوحی کے صفحہ 243، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 254کے متن میں درج فرمایا ہے اوروہیں سے لے کر یہاں درج کیا گیا ہے۔ (مرتّب)
تک قید1ہے۔ سو اس نے مخبر بن کر افسرانِ ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا۔
اور قبل اس کے جو مجھے اِس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو۔رؤیامیں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ یہ اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے۔
غرض میں اِس جرم میں صدر ضلع گورداسپور ہ میں طلب کیا گیا۔ اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا۔ اُنہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اِس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا۔ رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا۔ اور نیز بطور تسلی دہی کےکہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پرفیصلہ ہوجائے گا۔ اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریّت ہوجائے گی۔ ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے۔ اور کوئی طریق ِ رہائی نہیں۔ مگر میں نے اُن سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ جو ہو گا سو ہوگا۔تب اُسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور میرے مقابل پر ڈاک خانجات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا۔ اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟ تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے۔ اور میں نے اِس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا۔ مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بد نیتی سے یہ کام نہیں کیا۔ بلکہ میں نے اِس خط کو اس مضمون سے کچھ علیٰحدہ نہیں سمجھا۔ اور نہ اِس میں کوئی نج کی بات تھی۔ اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اِس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا۔ اور میرے مقابل پر افسر ڈاک خانجات نے بہت شور مچایا۔ اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا۔ مگر اِس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو۔ نو کرکے اُس کی سب باتوں کو ردّ کردیتا تھا۔ انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کرچکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا۔ تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی۔ اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا۔ اچھا آپ کیلئے رخصت۔ یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا۔ اور اپنے محسن ِ حقیقی کا شکر بجالایا۔ جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی۔ اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اُس بلا سے مجھ کو نجات دی۔
میں نے اُس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا۔ میں نے کہا۔ کیا
1 ڈاکخانہ یا یہ قانون آجکل نہیں ہے لیکن جس زمانہ کا یہ واقعہ ہے اُس زمانہ میں یہ قانون تھا۔ دیکھئیے 1866ء کے ایکٹ نمبر 14 دفعہ 12، 56 اور نیز گورنمنٹ آف انڈیا کے نوٹیفیکیشن نمبر 2424 مورخہ 7دسمبر 1877ء دفعہ 43 (مرتّب)
کرنے لگا ہے۔ تب اُس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے۔ خیر ہے۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 297، 299۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 297 ، 299)
1877ء (تخمیناً)
’’ایک پرانا الہام کوئی تیس سال کا جو پہلے حضرت نے کئی دفعہ سنایا ہے۔ اور آج پھر سنایا......
فَا رْ تَذَّا عَلیٰ1 اٰثَا رِ ھِمَا وَوُھِبَ لَہ‘ الْجَنَّۃُ
اتنے میں طاقت بالا اس کو کھینچ کر لے گئی یہودا اسکریوطی۔‘‘
(بدر جلد 6نمبر 4 مؤرخہ 24 ؍جنوری 1907ء صفحہ3 و الحکم جلد 11نمبر 3 مؤرخہ 24 ؍جنوری 1907ء صفحہ 1 حاشیہ )
1877ء (قریباً)
’’ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَ لُّوْنَ الدُّ بُرَ
یعنی آریہ مذہب کا انجام یہ ہوگا کہ خدا اُن کو شکست دے گا اور آخر وہ آریہ مذہب سے بھاگیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ اور آخر کالعدم ہوجائیں گے۔ یہ الہام مدت دراز کا ہے جس پر قریباً تیس برس کا عرصہ گذرا ہے جس سے اس جگہ کے ایک آریہ یعنی لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی تھی۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ167، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 607)
1878ء (قریباً)
’’عرصہ قریباً پچیس برس کا گذرا ہے کہ مجھے گورداسپور میں ایک رؤیاہوا۔ کہ میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں۔ اور اسی چار پائی پر بائیں طرف مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم بیٹھے ہیں۔ اتنے میں میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی۔ کہ میں مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتاردوں۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف کھسکنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ چارپائی سے اُتر کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں تین فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہوگئے جن میں سے ایک کا نام خیرائتی تھا۔ وہ تینوں بھی زمین پر بیٹھ گئے۔ اور مولوی عبداللہ بھی زمین پر تھے۔ اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔ تب میں نے اُن سب سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں تم سب آمین کہو۔ تب میں نے یہ دعا کی:۔
رَبِّ 2 اَذْھِبْ عَنِّی الرِّ جْسَ وَطَھِّرْ نِیْ تَطْھِیْراً
اس دعا پر تینوں فرشتوں اور مولوی عبداللہ نے آمین کہی۔ اس کے بعد وہ تینوں فرشتے اور مولوی عبداللہ آسمان کی اُڑ گئے اور میری آنکھ کھل گئی۔
1- (ترجمہ از مرتب) پھر وہ دونوں پچھلے پاؤں واپس لوٹ گئے اور اس کو جنت عطا کی گئی۔
2- (ترجمہ از مرتب) اے میرے ربّ مجھ سے ناپاکی کو دُور رکھ اور مجھے بالکل پاک کردے۔
آنکھ کھلتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ مولوی عبداللہ کی وفات قریب1ہے۔ اور میرے لئے آسمان پر ایک خاص فضل کا ارادہ ہے۔ اور پھر میں ہر وقت محسوس کرتا رہا کہ ایک آسمانی کشش میرے اندر کام کررہی ہے۔ یہان تک کہ وحی الٰہی کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ وہی ایک ہی رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے بتمام و کمال میری اصلاح کردی۔ اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہوگئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہوسکتی تھی2۔
مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبداللہ غزنوی اس نور کی گواہی کے لئے پنجاب کی طرف کھنچا تھا۔ اور اس نے میری نسبت گواہی دی۔ اور اس گواہی کو حافظ محمد یوسف اور ان کے بھائی محمد یعقوب نے بھی بیان کیا۔ مگر پھر دنیا کی محبت اُن پر غالب آگئی۔
اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا *** کا کام ہے کہ مولوی عبداللہ نے میرے خواب میں میرے دعویٰ کی تصدیق کی۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ قسم جھوٹی ہے تو اے قادر خدا مجھے ان لوگوں کی ہی زندگی میں جو مولوی عبداللہ صاحب کی اولاد یا اُن کے مرید یا شاگرد ہیں۔ سخت عذاب سے مار۔ ورنہ مجھے غالب کر اور ان کو شرمندہ یا ہدایت یافتہ۔ مولوی عبداللہ صاحب کے اپنے منہ کے یہ لفظ تھے کہ آپ کو آسمانی نشانوں اور دوسرے دلائل کی تلوار دی گئی ہے ۔ اور جب میں دنیا پر تھا۔ تو امید کرتا تھا کہ ایسا انسان خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا جائے گا۔ یہ میری خواب ہے۔ اِلْعَنْ مَنْ کَذَبَ وَاَ یِّدْ مَنْ صَدَقَ۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ236، 238 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 614، 616)
1878ء (تخمیناً)
’’ اور انہی 3دنوں میں شاید اس رات سے اوّل یا اس رات کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام
شیر علی
ہے۔ اُس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں۔ اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی۔ اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے۔ اور ایک مصفا نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا۔ مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا۔ اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنادیا ہے۔ اوریہ عمل کرکے پھر وہ شخص غائب ہوگیا۔
1- مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی وفات بروز منگل 15؍ ربیع الاوّل 1298 ھ مطابق 15؍ فروری 1881ء کو ہوئی۔ دیکھو اشاعۃ السنّۃ نمبر1،4 جلد4(مرتب)
2- یہ خواب تریاق القلوب صفحہ 94،95، روحانی خزائن جلد15 صفحہ 351، 352میں بھی درج ہے۔(مرتب)
3- یعنی جب رؤیا مذکورہ بالا دیکھا تھا۔ (مرتّب)
اور میں اُس کشفی حالت سے بیداری کی طرف منتقل ہوگیا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 95 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 352)
1878ء
’’ایک دفعہ ایک طالب العلم انگریزی خوان ملنے کو آیا۔ اُس کے رُو برو ہی یہ الہام ہوا:۔
دِس اِز مائی اَینیمی 1
یعنی یہ میرا دشمن ہے۔
اگرچہ معلوم ہوگیا تھا۔ کہ یہ الہام اُسی کی نسبت ہے۔ مگر اُسی سے یہ معنے بھی دریافت کئے گئے۔ اور آخر وہ ایسا ہی آدمی نکلا۔ اور اُس کے باطن میں طرح طرح کے خبث پائے گئے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 481حاشیہ در حاشیہ نمبر3 ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 572، 573)
1879ء
’’تین سال کے قریب عرصہ گذر اہوگا۔ کہ میں نے اسی2 کتاب کے لئے دعا کی۔ کہ لوگ اس کی مدد کی طرف متوجہ ہوں۔ تب..... الہام شدید الکلمات....... ان لفظوں میں ہوا :۔
بالفعل نہیں
........اور پھراُسی کے مطابق....... لوگوں کی طرف سے عدم توجہی رہی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 225 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 572، 573)
1880ء
’’ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا۔ یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرےوارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورۃ یٰسین سنائی جب تیسری مرتبہ سورۃ یٰسین سنائی گئی۔ تو میں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جو اَب وہ دنیا سے گذر بھی گئے۔ دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار د مبدم حاجت ہوکر خون آتا تھا۔ سولہ دن برابر ایسی حالت رہی۔ اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا۔ وہ آٹھویں دن راہی ملک ِ بقا ہوگیا۔ حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی۔ جیسی میری۔ جب بیماری کا سولہواں دن چڑھا تو اُس دن بکلی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورۃ یٰسین سنائی گی۔ اور تمام عزیزوں خے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا۔ تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے:۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِ ہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ
1- This is my enemy 2- براہین احمدیہ (مرتّب)
اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا۔ کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو۔ ہاتھ ڈال۔ اور یہ کلماتِ طیبہ پڑھ۔ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر۔ کہ اس سے تو شفاء پائے گا۔ چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا۔ اور میں نے اُسی طرح عمل کرنا شروع کیا۔ جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی۔ اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں درد ناک جلن تھی۔ اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر۔ تا اس حالت سے نجات ہو۔ مگر جب وہ عمل شروع کیا۔ تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفع ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے۔ اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلی مجھے چھوڑ گئی۔ اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا:۔
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّ لْنَا عَلٰی عَبْدِ نَا فَاْ تُوْا بِشِفَآئٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ
یعنی اگر تمہیں اُس نشان میں شک ہو۔ جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا۔ تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفاء پیش کرو۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ37، 38 ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 208، 209)
1880ء (تخمیناً)
’’کوئی 25، 26سال کا عرصۃ گذرا ہے۔ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا تھا۔ تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر 23 مؤرخہ 01؍ ستمبر 5091ء صفحہ 3)
1880ء (تخمیناً)
(ا) ’’سردار حیات خان (جج1)ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطل ہوگیا تھا۔ میرےبڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لئے دعا کرو۔ میں نے دعا کی۔ تو مجھے دکھا یا گیا کہ یہ کرسی پر بیٹھا ہوا عدالت کررہا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو معطل ہوگیا ہے۔ کسی نے کہا کہ اُس جہان میں معطل نہیں ہوا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بحال ہوجائے گا۔ چنانچہ اس کی اطلاع دی گئی۔ اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہوگیا۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر32 مؤرخہ10؍ ستمبر1902 ء صفحہ 6 کالم نمبر 3)
1 نواب سردار محمد حیات خان صاحب جج تھے جن پر گورنمنٹ کی طرف سے کئی الزام قائم کئے گئے تھے اورانہیں معطّل کرکے ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ اس موقع پر مرزا غلام قادر صاحب مرحوم نے ان کے لئے دُعا کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسّلام سے کہا۔ چنانچہ جب حضورؑنے ان کے لئے دُعا کی تو حضورؑ کو اُن کے متعلق بذریعہ کشف یہ بشارت ملی۔ (مرتّب)
(ب) ’’سردار محمد حیات خاں..............جو گورنمنٹ کے حکم سے ایک عرصہ دراز تک معطل رہے۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے زیادہ کچھ عرصہ گذرگیا ہوگا کہ جب طرح طرح کی مصیبتیں اور مشکلیں اور صعوبتیں اِس معطلی کی حالت میں اُن کو پیش آئیں۔ اور گورنمنٹ کا منشاء بھی کچھ بر خلاف سمجھا جاتا تھا اُنہیں دنوں میں اُن کے بَری ہونے ی خبر ہم کو خواب میں ملی۔ اور خواب میں مَیں نے اُن کو کہا۔ کہ تم کچھ خوف مت کرو خدا ہر یک چیز پر قادر ہے وہ تمہیں نجات دے گا۔ چنانچہ یہ خبر اِنہیں دنوں میں بیسیوں ہندؤں اور آریوں اور مسلمانوں کو سنائی گئی۔ جس نے سنا بعید از قیاس سمجھا اور بعض نے ایک امرِ محال خیال کیا۔ اور میں نے سنا ہے کہ اُنہیں ایام میں محمد حیات خان صاحب کو بھی یہ خبر کسی نے لاہور میں پہنچادی تھی۔ سو الحمدللہ والمنت کہ یہ بشارت بھی جیسی دیکھی تھی ویسی ہی پوری ہوئی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 252 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 279، 280)
1880ء
’’ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِ ھَا نَتَکَ۔یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ یہ ایک نہایت پُر شوکت وحی اور پیشگوئی ہے۔ جس کا ظہور مختلف پیرایوں اور مختلف قوموں میں ہوتا رہا ہے۔ اور جس کسی نے اس سلسلہ کو تذلیل کرنے کی کوشش کی۔ وہ خود ذلیل اور ناکام ہوا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 189 ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 567)
1881ء
’’ ایک بزرگ... جن کا نامِ نامی عبداللہ غزنوی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے اِس بزرگ کو خواب میں اُن کی وفات1کے بعد دیکھا کہ سپاہیوں کی صورت میں بڑی عظمت اور شان کے ساتھ بڑے پہلوانوں کی مانند مسلح ہونے کی حالت میں کھڑے2ہیں تب میں نے کچھ اپنے الہامات کا ذکر کرکے اُن سے پوچھا کہ مجھے ایک خواب آئی ہے۔ اُس کی تعبیر فرمائیے۔ میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ ایک تلوار3میرے ہاتھ ہے جس کا قبضہ میرے پنجہ میں اور نوک آسمان
1 حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی وفات بروز منگل 15؍ ربیع الاوّل1298 ھ مطابق 15؍ فروری1881ء کو ہوئی۔ دیکھئے اشاعۃ السنّۃ نمبر جلد 4، نمبر 1، 2۔ (مرتب)
2 حضور نزول المسیح میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’وہ ایک بازار میں کھڑے ہیں جو ایک بڑے شہر کا بازار ہے اور پھر میں ان کے ساتھ ایک مسجد میں گیا ہوں۔ اور اُن کے ساتھ ایک گروہ کثیر ہے اور سب سپاہیانہ شکل پر نہایت جسیم مضبوط وردیاں کسے ہوئے اور مسلح ہیں۔ اور اُنہیں میں سے ایک مولوی عبداللہ صاحب ہیں کہ جو ایک قوی اور جسیم جوان نظر آتے ہیں۔ وردی کسے ہوئے ہتھیار پہنے ہوئے اور تلوار میان میں لٹک رہی ہے۔ اور میں دل میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لو گ ایک عظیم الشان حکم کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اور میں خیال کرتا ہوں کہ باقی سب فرشتے ہیں مگر تیاری ہولناک ہے۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 238۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 616)
3 اس تلوار کی تعریف میں حضور کے الفاظ آئینہ کمالات اسلام میں یوں ہیں ولہ برق و لمعا ن یخرج منہ نورکقطراتٍ
تک پہنچی ہوئی ہے۔ جب میں اُس کو دائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزاروں مخالف اُس سے قتل ہوجاتے ہیں۔ اور جب میں بائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزارہا دشمن اُس سے مارے جاتے ہیں۔
تب حضرت عبداللہ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس میری خواب کو سن کر بہت خوش ہوئے اور بشاشت اور انبساط اور انشراح صدر کے علامات و امارات اُن کے چہرہ میں نمودار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا۔ اور یہ جو دیکھا کہ دائیں طرف تلوار چلا کر مخالفوں کو قتل کیا جاتا ہے اس سے مراد وہ اتمام حجت کاکام ہے کہ جو روحانی طور پر انوار و برکات کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوگا۔ اور یہ جو دیکھا کہ بائیں طرف تلوار چلا کرہزار ہا دشمنوں کو مارا جاتا ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے عقلی طور پر خدا ئے تعالیٰ الزام و اسکاتِ خصم کرے گا۔ اور دنیا پر دونوں طور سے اپنی حجت پوری کردے گا۔ پھر بعد اس کے اُنہوں نے فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں امیدوار تھا کہ خدائے تعالیٰ ضرور کوئی ایسا آدمی پیدا کرے گا۔ پھر حضرت عبداللہ صاحب مرحوم مجھ کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے۔ جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن سب کے سب مسلح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چُستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی جنگی خدمت بجالانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں۔ جو بہت جلد آنے والا ہے.........یہ رؤیاصالحہ جو درحقیقت ایک کشف کی قسم ہے۔ استعارہ کے طور پر اُنہیں علامات پر دلالت کررہی ہے۔ جو مسیح کی نسبت ہم ابھی بیان کر آئے ہیں۔ یعنی مسیح کا خنزیروں کو قتل کرنا اور علی العموم تمام کفّار کو مارنا اِنہیں معنوں کی رُو سے ہے کہ وہ حجت ِ الٰہی اُن پر پوری کرے گا۔ اور بیّنہ کی تلوار سے ان کو قتل کرے گا۔ واللہ اعلم با لصواب۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ83۔92حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 3، صفحۃ 143، 147 حاشیہ)
1881ء (قریباً)
(ا) ’’خدا نے اپنے الہامات میں میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے۔ اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک ایذا کے وقت ضرور ایک خزانہ نکلتا ہے۔ اور اس بارے میں الہام یہ ہے:۔
متنا زلۃ حیناً بعد حین۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 576۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 576) (ترجمہ از مرتّب) اور وہ نہایت چمکدار ہے۔ اس سے نور اس طرح نکل رہا ہے۔ گویا قطرے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اُتر رہے ہیں۔ اور حضور نزول المسیح میں فرماتے ہیں۔’’اور اس تلوار میں سے ایک نہایت تیز چمک نکلتی ہے جیسا کہ آفتاب کی چمک ہوتی ہے اور میں اسے کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں طرف چلاتا ہوںاور ہر ایک وار سے ہزار ہا آدمی کٹ جاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ تلوار اپنی لمبائی کی و جہ سے دنیا کے کناروں تک کام کرتی ہے اور وہ ایک بجلی کی طرح ہے جو ایک دم میں ہزاروں کوس چلی جاتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہاتھ تو میرا ہی ہے مگر قوت آسمان سے اور میں ہر ایک دفعہ اپنے دائیں اور بائیں طرف اس تلوار کو چلاتا ہوں اور ایک مخلوق ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرتی جاتی ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ238، 239۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 616، 617)
’’یکے پائے من مے بوسید و من مے گفتم کہ حجرِ اسود منم‘‘
(اربعین نمبر 4 صفحہ 15 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 444۔ 445)
(ب) ’’ایک پُرانا الہام قریباً پچیس سال کا:۔
’’شخصے پائے من بوسید ومن گفتم کہ سنگِ اسود منم‘‘1
(الحکم جلد10نمبر 37 مؤرخہ 24 ؍اکتوبر1906ء صفحہ 1)
1881ء (تخمیناً)
’’عرصہ تخمیناً اٹھارہ برس کا ہوا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر چند آدمیوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں سے اس بات کی خبر دی کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ
اِنَّا نُبَشِّرُ کَ بِغُلَامٍ حَسِیْنٍ۔
یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کے عطا کرنے کی خوشخبری دیتے ہیں۔
میں نے یہ الہام ایک شخص حافظ نور احمد امرتسری کو سنایا۔ جو اب تک زندہ ہے اوربباعث میرے دعویٰ مسیحیت کے مخالفوں میں سے ہے اور نیز یہی الہام شیخ حامد علی جو میرے پاس رہتا تھا سنایا۔ اور دو ہندوؤں کو جو آمدورفت رکھتے تھے۔ یعنی شرمپت اور ملاوا مل ساکنانِ قادیان کو بھی سنایا۔ اور لوگوں نے اس الہام سے تعجب کیا۔ کیونکہ میری پہلی بیوی کو عرصہ بیس سال سے اولاد ہونی موقوف ہوچکی تھی۔ اور دوسری کوئی بیوی نہ تھی لیکن حافظ نور احمد نے کہا کہ خدا کی قدرت سے کیا تعجب کہ وہ لڑکا دے۔ اس سے قریباً تین برس بعد .....دہلی میں میری شادی ہوئی اور خدا نے وہ لڑکا بھی دیا۔ اور تین اور عطا کئے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 34، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 200،201)
1881 ء(تخمیناً)
اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَئَیْتَ خَدِ یْجَتِیْ
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر4صفحہ 558 ۔روحانی خزائن جلد1صفحہ 666)
ترجمہ: میرا شکر کر کہ توُ نے میری خدیجہ کو پایا۔
’’یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا..... اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے۔ جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھااور نیز یہ اس طرف اشارہ تھاکہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہوگی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ146،147 ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 524، 525)
1 (ترجمہ از مرتب) ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما۔ اور میں نے (اُسے) کہا کہ حجرِ اسود میں ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ قَالَ الۡمُعَبِّرُوۡنَ اَنَّ الۡمُرَادَ مِنَ الۡحَجۡرِ ا لَاسۡوَدِ فِیۡ عِلۡمِ الرُّؤۡ یَا الۡمَرۡءِ الۡعَالِمُ الْفَقِیْہُ الۡحَکِیۡمُ۔‘‘
(الا ستفتاء عربی صفحہ 41)ترجمہ از مرتب:۔ معبرّین (خوابوں کی تعبیر بیان کرنے والے علماء) نے کہا ہے کہ علم رؤیا میں حجرِ اسود سے مراد عالم‘فقیہ اور حکیم ہوتا ہے۔
1881 ء(قریباً)
قریباً اٹھارہ برس سے ایک یہ پیشگوئی ہے :۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَ النَّسَبَ 1
ترجمہ:۔ وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے‘ کیا۔ اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا ۔ جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکّب ہے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 64، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ272، 273)
1881 ء(قریباً)
ایک مرتبہ مسجد میں بوقتِ عصر یہ الہام ہواکہ
میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا۔ اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی۔
اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے۔
ہر چہ باید نو عروسی راہماں ساماں کنم
وانچہ مطلوبِ شما باشد عطائے آں کنم2
اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے۔ چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی تعلق بخشا۔ سو قبل از ظہور یہ تمام الہام لالہ شرمپت کو سنا دیا گیا۔ پھر بخوبی اسے معلوم ہے کہ بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض خداتعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی۔ یعنی
1 ’’ صہر اور نسب اس الہام میں ایک ہی جَعَلَ کے نیچے رکھے گئے ہیں اور ان دونوں کو قریباً ایک ہی درجہ کا امر قابل ِ حمد ٹھہرایا گیا ہے اور یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ جس طرح صہر یعنی دامادی کو بنی فاطمہ سے تعلق ہے اسی طرح نسب میں بھی فاطمیت کی آمیزش والدات کی طرف سے ہے اور صہر کو نسب پر مقدم رکھنا اسی فرق کے دکھلانے کے لئے ہے کہ صہر میں خالص فاطمیت اور نسب میں اس کی آمیزش ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 19 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 117)
2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ ان اخراجات کی مجھ میں طاقت نہیں۔ تب یہ الہام ہوا کہ ؎
ہرچہ باید نو عروسی راہماں ساماں کنم
وانچہ درکارِ شما باشد عطائے آں کنم
یعنی جو کچھ تمہیں شادی کیلئے درکار ہوگا تمام سامان اس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتاً فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 235، 236۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 247)
نہایت نجیب اور شریف اور عالی نسب ......... بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلقِ قرابت اِس عاجز کو پیدا ہوا۔ اور اس نکاح کے تمام ضروری مصارف تیاری مکان وغیرہ تک ایسی آسانی سے خدا تعالیٰ نے بہم پہنچائے کہ ایک ذرّہ بھی فکر کرنا نہ پڑا اور اب تک اُسی اپنے وعدہ کو پورے کئے چلا جاتا ہے۔‘‘
(شحنہ حق صفحہ43، 44 روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 383، 384)
1881ء (قریباً)
’’اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیاگیا تھا جودہلی میں ہے اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی.....اور جیسا کہ لکھا گیا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندانِ سیادت میں میری شادی ہوگئی......سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا۔ اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا۔ جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔ اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے۔ دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے۔ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہربانو تھا۔ اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے۔ یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ64،65 ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 273، 275)
1881ء (قریباً)
’’تخمیناً اٹھارہ برس کے قریب عرصہ گذرا ہے کہ مجھے کسی تقریب سے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنۃ کے مکان پر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس نے مجھ سے دریافت کی کہ آجکل کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے اُس کو یہ الہام سنایا جس کو میں کئی دفعہ اپنے مخلصوں کو سنا چکا تھا اور وہ یہ ہے کہ
بِکْرٌ وَّ ثَیِّبٌ
جس کے یہ معنی ان کے آگے اور نیز ہر ایک کے آگے میں نے ظاہر کئے۔ کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا۔ ایک بِکر ہوگی اور دوسری بیوہ۔ چنانچہ یہ الہام جو بِکر کے متعلق تھا۔ پورا ہوگیا۔ اور اس وقت بفضلہٖ تعالیٰ چار پسر اس بیوی سے موجود ہیں اور بیوہ کے الہام کی انتظار1ہے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 34، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 201)
1 خاکسار کی رائے میں یہ الہام الٰہی اپنے دونوں پہلوؤں سے حضرت اُمّ المو منین کی ذات میں ہی پورا ہوا ہے جو بِکر یعنی کنواری آئیں اور ثَیِّب یعنی بیوہ رہ گئیں۔ واللہ اعلم۔ (مرتب)
1881ء
(ا) ’’ایک ہندو آریہ .......ایک مدت سے بہ مرضِ دق مبتلا تھا اور رفتہ رفتہ اُس کی مرض انتہا کو پہنچ گئی۔ اور آثار مایوسی کے ظاہر ہوگئے۔ ایک دن وہ میرے پاس آکر اور اپنی زندگی سے ناامید ہوکر بہت بے قراری سے رویا۔ میرا دل اُس کی عاجزانہ حالت پر پگھل گیا۔ اور میں نے حضرتِ احدیت میں اُس کے حق میں دُعا کی۔ چونکہ حضرتِ احدیت میں اُس کی صحت مقدر تھی اِس لئے دُعا کرنے کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا:۔
قُلْنَا یَا نَا رُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا
یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ توُ سرد اور سلامتی ہوجا۔ چنانچہ اُسی وقت اُس ہندو اور نیز کئی اور ہندوؤں کو کہ جو اَب تک اس قصبہ میں موجود ہیں اور اِس جگہ کے باشندہ ہیں اُس الہام سے اطلاع دی گئی۔ اور خدا پرکامل بھروسہ کرکے دعویٰ کیا گیا۔ کہ وہ ہندو ضرور صحت پاجائے گا۔ اور اس بیماری سے ہرگز نہیں مرے گا۔ چنانچہ بعد اِس کے ایک ہفتہ نہیں گذرا ہوگا کہ ہندو مذکور اُس جاں گداز مرض سے بکلّی صحت پاگیا۔ والحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ227، 228 حاشیہ در حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 252، 253)
(ب) ’’ملاوامل کو دق کی بیماری ہوگئی۔ جب وہ خطرہ کی حالت میں پڑگیا۔ تو اُس کے لئے دعا کی گئی۔ الہام ہوا:۔
قُلْنَا یَا نَا رُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا
یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہوجا۔
1881ء
’’پھر خواب میں دکھایا گیا کہ میں نے اس کو قبر سے نکال لیا ہے۔ یہ الہام اور خواب دونوں قبل از وقوع اس کو بتلائے گئے۔‘‘ (شحنہ ٔ حق صفحہ 42۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 381)
1881ء
’’جب پہلے الہام1کے بعد....... ایک عرصہ گذر گیا۔ اور لوگوں کی عدم توجہی سے طرح طرح دقتیں پیش آئیں۔ اور مشکل حد سے بڑھ گئی۔ تو ایک دن قریب مغرب کے خداوند ِ کریم نے یہ الہام کیا:۔
ھُزِّ 1 اِلَیْکَ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسَا قِطْ عَلَیْکَ رُطَبًا جَنِیًّا 3
1 ’’بالفعل نہیں‘‘ صفحہ31، (مرتّب)
2 یعنی کھجور کے تنا کو ہلا ۔ تیرے پرتازہ بتازہ کھجوریں گریں گی۔ (نزول المسیح صفحہ 161۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 539)
3 یہ حضرت مریم کو اس وقت وحی ہوئی تھی جب ان کا لڑکا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوا تھا اور وہ کمزور ہوئی تھیں۔ اور خدا تعالیٰ نے اسی کتا ب براہین احمدیہ میں میرا نام بھی مریم رکھا اور مریم صدیقہ کی طرح مجھے بھی حکم دیا کہ وَکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ الصِّدِّیْقِیْنَ۔ دیکھو صفحہ 242۔ براہین احمدیہ۔ پس یہ میری وحی یعنی ھُزِّ اِلَیْکَاس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کہ صدیقیت کا جو حمل تھا۔ اس سے بچہ پیدا ہوا۔ جس کا نام عیسیٰ رکھا گیا اور جب تک وہ کمزور رہا صفاتِ مریمیہ اس کی پرورش کرتی رہیں۔ اور جب وہ اپنی طاقت میں آیا۔ تو اس کو پکارا گیا۔ یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِنّیٓ ۔دیکھو صفحہ 556 براہین احمدیہ۔ یہ وہی وعدہ تھا جو سورۃ تحریم میں کیا
سو میں نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک کے اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہوگا...... اِس الہام کے بعد میں نے حسب الارشاد حضرتِ احدیت کسی قدر تحریک کی تو تحریک کرنے کے بعد ...... جس قدر اور جہاں سے خدا نے چاہا اُس حصہ کے لئے جو چھپتا تھا مدد پہنچ گئی۔ فا لحمد لِلّٰہِ علٰی ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 225، 226حاشیہ در حاشیہ نمبر1، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 250، 251)
1881ء
’’ایک دن صبح کے وقت کچھ تھوڑی غنودگی میں یکدفعہ زبان پر جاری ہو:۔
عبداللہ خاں ڈیرہ اسمٰعیل خاں
چنانچہ چند ہندو کہ جو اُس وقت میرے پاس تھے اور ابھی تک اسی جگہ موجود ہیں اُن کو بھی اُس سے اطلاع دی گئی اور اُسی دن شام کو جو اتفاقاً اُنہیں ہندوؤں میں سے ایک شخص1ڈاک خانہ کی طرف گیا۔ تو وہ ایک صاحب عبداللہ2خاں نامی کا ایک خط لایا۔ جس کے ساتھ ہی کسی قدر روپیہ بھی آیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 226، 227 حاشیہ در حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 251، 252)
1881ء
’’ایک دفعہ کشفی طور پر مجھے للع للعہ44 یا للعہ40 روپیہ دکھائے گئے اور پھر یہ الہام ہوا کہ:۔
ماجھے خاں کا بیٹا اور شمس الدین پٹواری ضلع لاہور بھیجنے والے ہیں
پھر بعد اس کے کارڈ آیا جس میں لکھا تھا۔ کہ للعہ40 ماجھے خان کے بیٹے کی طرف سے ہیں۔ اورلعہ4 ؍یاے5 ؍ شمس الدین پٹواری کی طرف سے ہیں۔ پھر اسی تشریح سے روپے آئے۔ (نزول المسیح صفحہ 202۔ روحانی خزائن جلد 18، صفحہ 580)
’’محرّم 1299ہجری کی پہلی3یا دوسری تاریخ میں ہم کو خواب میں یہ دکھائی دیا کہ کسی صاحب نے مدد کتاب کے لئے پچاس روپیہ روانہ کئے ہیں۔ اُسی رات ایک4آریہ صاحب نے ہمارے لئے خواب دیکھی کہ کسی نے مددِکتاب کے لئے ہزار روپیہ روانہ کیا ہے۔ اور جب انہوں نے خواب بیان کی تو ہم نے اُسی وقت اُن کو اپنی خواب بھی سنا دی اور یہ
گیا۔ اور ضرور تھا کہ اس وعدہ کے موافق اس امت میں سے کسی کا نام مریم ہوتا۔ اور پھر اس طرح پر ترقی کرکے اُس سے عیسیٰ پیدا ہوتا اور وہ ابن ِ مریم کہلاتا سو وہ میں ہوں وحی ھُزِّیْ اِلَیْکِ مریم کو بھی ہوئی۔ اور مجھے بھی۔ مگر باہم فرق یہ ہے کہ اُس وقت مریم ضعف ِبدنی میں مبتلا تھی۔ اور میں ضعف ِ مالی میں مبتلا تھا۔‘‘ (نزول المسیح 163۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 541)
1 بشنداس برہمن (مرتّب)
2 ای ۔ اے۔ سی۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان (مرتّب)
3 مطابق 23/24 نومبر 1881ء
4 لالہ شرمپت (مرتّب)
بھی کہہ دیا کہ تمہاری خواب میں اُنیس حصے جھوٹ مل گیا ہے۔ اور یہ اُسی کی سزا ہے کہ تم ہندو اور دین ِ اسلام سے خارج ہو۔ شاید اُن کو گراں ہی گذرا ہوگا مگر بات سچی تھی۔ جس کی سچائی پانچویں یا چھٹی محرم میں ظہور میں آگئی۔ یعنی پنجم یا ششم محرم الحرام میں مبلغ پچاس روپیہ جن کو جونا گڑھ سے شیخ محمد بہاؤالدین صاحب مدارالمہام ریاست نے کتاب کے لئے بھیجا تھا۔ کئی لوگوں اور ایک آریہ کے رُوبرو پہنچ گئے۔ والحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ255،256 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ 284)
1882ء
’’ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں۔ یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے۔ لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحْيٖ کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 صفحہ 502۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ 284)
’’اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْيٖ کوتلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اِس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا:۔
ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ
یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔
اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبت ِ رسول ہے۔ سو وہ اِس شخص میں متحقّق ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر3 صفحہ503۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598)
1882ء
’’وَکُنْتُ1 ذَاتَ لَیْلَۃٍ اَکْتُبُ شَیْئًا۔ فَنِمْتُ بَیْنَ ذَالِکَ فَرَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ وَجْھُہ‘ کَالْبَدْرِالتَّآمِّ فَدَ نَامِنِّیْ کَاَنَّہ‘ یُرِیْدُ اَنْ یُّعَا نِقَنِیْ فَکَانَ مِنَ الْمُعَانِقِیْنَ وَرَاَیْتُ اَنَّ الْاَنْوَارَ قَدْ سَطَعَتْ مِنْ وَّجْھِہٖ وَنَزَ لَتْ عَلَیَّ۔ کُنْتُ اَرَا ھَا کَا لْاَ نْوَارِ الْمَحْسُوْسَۃِ حَتّٰی اَیْقَنْتُ اَنِّیْ اُدٰرِکُمَابِالْحِسِّ لَابِبَصَرِ الرُّ وْحِ وَمَا رَاَیْتُ اَ نَّہُ انْفَصَلَ مِنِّیْ بَعْدَ الْمُعَانَقَۃِ
1 (ترجمہ از مرتب) اور ایک رات میں کچھ لکھ رہا تھا۔ کہ اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا اس وقت میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا آپ کا چہرہ بدرِ تام کی طرح درخشاں تھا۔ آپ میرے قریب ہوئے اور میں نے ایسا محسوس کیا۔ کہ آپ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے مجھ سے معانقہ کیا اور میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ سے نور کی کرنیں نمودار ہوئیں اور میرے اندر داخل ہوگئیں۔ میں ان انوار کو ظاہری روشنی کی طرح پاتا تھا اور یقینی طور پر سمجھتا تھا کہ میں انہیں محض روحانی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھ رہا ہوںاور اس معانقہ کے بعد
وَمَا رَاَیْتُ اَنَّہ‘ کَانَ ذَاھِبًا کَا لذَّاھِبِیْنَ۔ ثُمَّ بَعْدَ تِلْکَ الْاَیَّامِ فُتِحَتْ عَلَیَّ اَبْوَابُ الْاِلْھَامِ وَخَاطَبَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ ‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 550۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 550)
مارچ 1882ء
یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ ۔ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِن اللّٰہَ رَمٰی۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآ ؤُ ھُمْ۔ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْ ٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ 1 قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَا طِلُ اِنَّ الْبَا طِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَتَبَا رَکَ
(ترجمہ *) 1 اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ جو کچھ تُونے چلایا۔ یہ تُو نے نہیں چلایا۔ بلکہ خدا نے چلایا۔ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا۔ تاکہ تُو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے۔ اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے۔ کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں۔اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں کہہ حق آیا۔ اور باطل بھاگ گیا اور باطل بھاگنے والا ہی تھا۔ہر ایک برکت محمد ﷺ کی طرف سے ہے۔ پس بڑا مبارک وہ
نہ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ آپ مجھ سے الگ ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں۔ اس کے بعد مجھ پر الہام الٰہی کے دروازے کھول دیئے گئے۔ اور میرے رب نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا۔ یَآ اَحْمَدُ بَا رَکَ اللّٰہُ فِیْکَ الخ
☆ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی کتب سے لیا گیا ہے۔ (مرتّب)
1 ای اول تائب الی اللّٰہ بامراللّٰہ فی ھٰذا الزمان۔ او اول من یؤمن بھذا الامر۔ واللّٰہ اعلم۔
(براہین احمدیہ صفحہ حصہ سوم صفحہ 239 حاشیہ نمبر1 ۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 265)
(ترجمہ از مرتب) یعنی اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر اس کی طرف سب سے پہلا رجوع کرنے والا یا یہ کہ اس فرمان الٰہی پر سب سے پہلے ایمان لانے والا۔
(ا) مجھ کو یاد ہے کہ ابتدائے وقت میں جب میں مامور کیا گیا تو مجھے یہ الہام ہوا کہ جو براہین کے صفحہ 238 میں مندرج ہے۔ یا احمد بارک اللّٰہ فیک(تا) وانا اول المؤمنین۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 109 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 109)(ب) ’’ناگہاں عنایت ازلی سے مجھے یہ واقعہ پیش آیا کہ یکدفعہ شام کے قریب ..........مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے کچھ خفیف سی غنودگی ہوکر یہ وحی ہوئی۔‘‘ (نصرۃ الحق صفحہ51۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 66) (ج) جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا ‘ اورچودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدّد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہواکہ الرحمٰن علّم القرآن (تا) وانا اوّل المؤ منین۔‘‘ )کتاب البریہّ صفحہ 168حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ 201) (د) اس الہام کے رُو سے خدا نے مجھے علومِ قرآنی عطا کئے ہیں اور میرا نام اوّل المؤمنین رکھا اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھردیا ہے اور مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبت الٰہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں۔‘‘(ضرورۃ الامام صفحہ 13۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 502)
مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ‘ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ ھُوَالَّذِیْ ٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ‘عَلَ الدِّیْنِ کُلِّہٖ1۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ ظَلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِ ھِمْ لَقَدِیْرٌ۔ اِنَّاکَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ یَقُوْلُوْنَ اَ نّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۔ وَ اَعَانَہ‘عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۔ اَفَتَاْ تُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۔ ھَیْھَاتَ لِمَاتُوْعَدُوْنَ۔ مِنْ ھٰذَا الّذِیْ ھُوَ مَھِیْنٌ۔ وَّلَا یَکَا دُیُبِیْنُ۔ جَا ھِلٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۔ قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَا نَکُم اِنْ کُنْتُمْ
ہے جس نے تعلیم دی۔ اور جس نے تعلیم پائی۔ کہہ اگر میں نے افترا کیا ہے۔ تو میری گردن پر میرا گناہ ہے۔خدا وہ خدا ہے جس نے اپنا رسول اور اپنا فرستادہ اپنی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔ تا اس دین کو ہر قسم کے دین پر غالب کرے۔خدا کی باتوں کو ٹال نہیں سکتا۔ان پر ظلم ہوا۔ اور خدا ان کی مدد کرے گا۔اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی کرتے ہیں۔ ان کے لئے ہم کافی ہیں۔اور لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوگیا۔ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوگیا۔یہ جو الہام کرکے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ تو انسان کا قول ہےاور دوسروں کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اے لوگو کیا تم ایک فریب دیدہ و دانستہ میں پھنستے ہو۔جو کچھ تمہیں یہ شخص وعدہ دیتا ہے۔ اس کا ہونا کب ممکن ہے۔پھر ایسے شخص کا وعدہ جو حقیر اور ذلیل ہے۔ یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے۔ کہہ اس پر دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو یعنی مقابلہ کرکے دکھلاؤ۔ یہ
1 ’’اَیْ لَیُظْھِرَدِیْنَ الْاِسْلَامِ بِالْحُجَجِ الْقَاطِعَۃِ وَالْبَرَاھِیْنِ السَّاطِعَۃِ عَلٰی کُلِّ دِیْنٍ مَاسِوَاہُ ۔ اَیْ یَنْصُرُ اللّٰہَ الْمُؤْمِنِیْنَ الْمَظْلُوْمِیْنَ بِاِ شْرَاقِ دِیْنِنِھِمْ وَاِتْمَامِ حُجَّتِھِمْ۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 239 حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ265)
(ترجمہ از مرتّب) یعنی اللہ تعالیٰ دینِ اسلام کو دلائلِ قاطعہ اوربراہینِ ساطعہ کے ساتھ دیگر تمام ادیان پر غالب کرکے اور اس کی حُجّت دوسرے لوگوں پر قائم کرکے مظلوم مومنوں کی نصرت فرمائے گا۔ اِس وحیِ الٰہی کی تفسیر رسالہ اربعین نمبر 2 کے صفحات 10،11 اور 13 پر بیان ہوئی ہے اور اس کے ظہور کی تفصیل تریاق القلوب کے صفحات 47، 54 پر درج ہے۔ (مرتّب)
2 21 کا ترجمہ سہواً رہ گیا ہے۔ (ترجمہ از مرتّب) اور یہ بولنا بھی نہیں جانتا۔
صَادِقِیْنَ۔ ھٰذَا مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّکَ۔ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ۔ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُوْمِنِیْنَ۔ اَنْتَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَبِّکَ۔ فَبَشِّرْ وَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْ نِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ ھَلْ اُنَبِّئْکُمْ عَلٰ مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ 1 مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ 1 مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔ رَبِّ لَاتَذَرْنِیْ فَرْدًاوَّاَنْتَ خَیْرُالْوَارِثِیْنَ۔ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُالْفَاتِحِیْن۔ وَقُلِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ وَلَا تَقُوْلٓنَّ لِشَیْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذَالِکَ غَدًا۔ وَیُخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ اِنَّکَ بِاَ عْیُنِنَا۔ سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ
یہ مرتبہ تیرے رب کی رحمت سے ہے۔ وہ اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا۔ تاکہ لوگوں کے لئے نشان ہو۔ تو خدا کی طرف سے کھلی کھلی دلیل کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔پس تو خوشخبری دے۔ا ور خدا کے فضل سے تو دیوانہ نہیں ہے۔کہہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تاخدا بھی تم سے محبت رکھے۔ وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں۔ ان کے لئے ہم کافی ہیں۔کہہ کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ کن لوگوں پر شیطان اُترا کرتے ہیں۔ ہر ایک کذاب بدکار پر شیطان اُترتے ہیں۔
اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں۔ اُن کو کہہ کہ میرے پاس خد اکی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرو گے یا نہیں۔میرے ساتھ میرا رب ہے عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا۔ اے میرے رب مجھے دکھلا کہ تُو کیونکر مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔ اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر۔ اے میرے رب مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تُو خیرالوارثین ہے۔ اے میرے رب اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کردے اور تُو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ ور اُن کو کہہ کہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کے لئے عمل میں مشغول رہو۔ اور میں بھی عمل میں مشغول ہوں۔پھر دیکھو گے کہ کس کے عمل میں قبولیت پید اہوتی ہے2۔اورتُو کِسی کام کے متعلق یہ بات ہرگز نہ کہہ کہ مَیں کل اسے ضرور کروں گا۔ اللہ کے سوا تجھے اوروں سے ڈراتے ہیں۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں نے تیرانام متوکل رکھا ہے۔خدا
1۔ یہ فقرہ دو مرتبہ فرمایا گیا .... اس میں ایک شہادت سے مراد کسوفِ شمس ہے اور دوسری شہادت سے مراد خسوفِ قمر ہے۔ ‘‘ (اربعین نمبر3 صفحہ 27 ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 415، 416)
2۔ (ترجمہ از مرتب) اور تُو کسی کام کے متعلق یہ بات ہرگز نہ کہہ کہ میں کل اسے ضرور کروں گا۔
عَرْشِہٖ۔ نَحْمَدُکَ وَ نُصَلِّی۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطَفِئُوْ انُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ۔ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۔ اِذَاجَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَلْفَتْحُ وَانْتَھٰٓی اَمْرُالزَّمَانِ اِلَیْنَآ۔ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ۔ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُئْ یَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا۔ وَقَالُوْآ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ‘فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِ بًا۔ وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَ لَا النَّصٰارٰی۔ وَخَرَقُوْالَہ‘ بَنِیْن وَبَنَاتٍ م بِغَیْرِ عِلْمٍ۔ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد’‘۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ‘کُفُوًا اَحَدٌ۔ وَیَمکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُالْمَاکِرِیْن۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَافَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوْا الْعَزْمِ۔ وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ ۔ وَاِمَّانُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَ فَّیَنَّک ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ۔ اِنِّیْ مَعَکَ
عرش پر سے تیری تعریف کررہا ہے۔ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں مگر خدا اس نور کو نہیں چھوڑے گا۔ جب تک پورا نہ کرلے اگرچہ منکر کراہت کریں۔ ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈالیں گے۔ جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گا۔ تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا جیسا کہ تم نے سمجھا1۔میری پہلے کی رؤیاکی حقیقت ہے۔ جسے میرے رب نے پورا کرکے سچا ثابت کردیا۔2اور کہیں گے کہ یہ تو صرف ایک بناوٹ ہے۔کہہ خدا نے یہ کلا م اتارا ہے پھر ان کو لہو ولعب کے خیالات میں چھوڑ دے۔ کہہ اگر میں نے افتراء کیا ہے تو میری گردن پر میرا گناہ ہے۔ اور افتراء کرنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہے۔ پادری لوگ اور یہودی صفت مسلمان تجھ سے راضی نہیں ہوں گے۔اور خدا کے بیٹے اور بیٹیاں انہوں نے بنا رکھی ہیں ۔1ان کو کہدے کہ خدا وہی ہے جو ایک ہے اور بے نیاز ہے۔ نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ وہ کسی کا بیٹا۔ اور نہ کوئی اس کا ہم کفو۔اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا۔3ایک فتنہ برپا ہوگا پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا۔اور خدا سے اپنے صدق کا ظہور مانگ۔اور ہم قادر ہیں کہ تیری موت سے پہلے کچھ ان کو اپنا کرشمہ قدرت دکھا دیں جس کا ہم وعدہ کرتے ہیں یا تجھ کو وفات دیویں۔ اور خدا ایسا نہیں ہے کہ جن میں تو ہے 4
1۔ (ترجمہ از مرتّب) یہ میری پہلے کی رؤیا کی حقیقت ہے جسے میرے ربّ نے پورا کرکے سچا ثابت کردیا۔
2۔ (بقیہ ترجمہ از مرتّب) 57بغیر کسی ثبوت کے 3۔ (بقیہ ترجمہ از مرتب) 59 اور اللہ تعالیٰ سب سے اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔
حضور رسالہ دافع البلاء میں اس الہام کا ترجمہ یہ فرماتےہیں کہ’’ عیسائی لوگ ایذارسانی کے لئے مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے اور کہہ کہ خدایا پاک زمین میں مجھے جگہ دے‘‘ (دافع البلاء صفحہ 21۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 241)
4۔’’ ای ما کان اللّٰہ لیعذّ بھم بعذاب کامل وانت ساکن فیھم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 241حاشیہ نمبر 1۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 267)
(ترجمہ از مرتّب) یعنی ان کے اندر تمہاری موجودگی کی حالت میں اللہ تعالیٰ ان پر کامل عذاب ہرگز نہیں بھیجے گا۔
وَکُنْ مَّعَی اَیْنَمَاکُنْتَ۔ کُنْ مَّعَ 1 اللّٰہِ حَیْثُمَا کُنْتَ۔ اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَا فْتِخَارًا لِّلْمُؤْ مِنِیْنَ۔ وَلَا تَیْئَسْ مِن رَّوْحِ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ یَاْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ اِنَّا فَتَحْنَا لَکً فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ فَتْحُ الْوَلِیِّ فَتْحٌ وَّقَرَّبْنَاہُ نَجِیّاً۔ اَشْجَعُ النَّاسِ۔ وَلَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقاً بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ۔ اَنَارَ اللّٰہُ بُرْھَانَہٗ۔ یَآ اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا۔ یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہ‘عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ۔ 2 وَ وَجَدَکَ ضَآ لًّافَھَدٰی۔ وَنَظَرْنَآ اِلَیْکَ وَقُلْنَایَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ۔ خَزَا ئِنُ3 رَحْمَۃِ رَبِّکَ۔ یَآ اَیُّھَا الْمُدَّ ثِّرُقُمْ فَاَ نْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ یَا اَحْمَدُ یَتِمُّ اسْمُکَ
ان کو عذاب کرے۔میں تیرے ساتھ ہوں سو تو ہر ایک جگہ میرے ساتھ رہ تُو جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہ۔تم لوگ جدھر بھی رُخ کروگے اُدھر ہی اللہ تعالٰ کی توجّہ ہوگی۔ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے نکالے گئے ہو۔تم مومنوں کا فخر ہو اور تم خدا کی رحمت سے نا امید مت ہو۔ خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے۔وہ مدد ہر ایک دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گےگہرے ہوجائیں گے۔ اور اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گے۔خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ہم ایک کھلی کھلی فتح تجھ کو عطا کریں گے۔ولی کی فتح ایک بڑی فتح ہے اور ہم نے اس کو ایک ایسا قرب بخشا کہ ہمراز اپنا بنادیا۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ بہادر ہے۔اور اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تو وہیں سے جاکر اس کو لے لیتا۔خدا اس کی حجت روشن کرے گا۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی۔ تُو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تیرے پر پوری کرے گا۔اور ہم نے
1 (ترجمہ از مرتّب) تُو جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہ۔ تم لوگ جدھر بھی رُخ کروگے اُدھر ہی اللہ تعالٰ کی توجّہ ہوگی۔
2 (ترجمہ از مرتّب) اور اس نے تجھے طالبِ ہدایت پایا پس اس نے تیری رہنمائی کی۔
3 (ترجمہ از مرتّب) تیرے رب کی رحمت کے (ہرقسم کے) خزانے (تجھے دیئے جائیں گے) اے کپڑا اوڑھنے والے اُٹھ اور (لوگوں کو آنے والے خطرات سے) ڈرا اور اپنے ربّ کی بڑائی بیان کر۔
وَلَا یَتِمُّ اسْمِیْ1۔ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ۔ وَکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ الصِّدِّیْقِیْنَ۔ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ الصَّلٰوۃُ ھُوَ الْمُرَبِّیْ۔ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ فَاکْتُبْ وَلْیُطْبَعْ وَلْیُرْسَلْ فِی الْاَرضِ۔ خُذُواالتَّوْحِیْدَاالتَّوْحِیْدَیَآاَبْنَآئَ الْفَارِسِ۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ٓااَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَرَبِّھِمْ۔ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ مَّآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔ وَلَا تُصَعِرْلِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَاتَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ۔
تیری طرف نظر کی۔ اور کہا کہ اے آگ جو فتنہ کی آگ قوم کی طرف سے ہے اس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا۔ ۔اے احمدتیرا نام پورا ہوجائے گا اور میرا نام پورا نہیں ہوگا2۔ اور اپنی محبت تیرے پر ڈال دی۔ وہ خدا حقیقی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں3۔ توحید کو پکڑو۔ توحید کو پکڑو۔اے فارس کے بیٹو۔اور تُو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنا کہ ان کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے۔سو ان کو وہ وحی سنا دے جو تیری طرف سے تیرے رب سے ہوئی۔اور یاد رکھ کہ وہ زمانہ آتاہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے۔ سو تیرے پر واجب ہے کہ تو ان سے بدخلقی نہ کرے۔ اور تجھے لازم ہے کہ ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے۔ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے
1۔(الف) ای انت فان فینقطع تحمید ک۔ ولاینتہی محامد اللّٰہ۔ فانھا لاتعد ولا تحصی۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ242 بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 267)
(ترجمہ از مرتب)یعنی تم چونکہ فانی ہو۔ اس لئے تمہاری تحمید محدود ہے مگر اللہ تعالیٰ کے محامد غیر متناہی ہیں۔ کیونکہ وہ بے شمار اور بے انتہاء ہیں۔
(ب) وَاِذَا اَنَا رَالنَّاسَ بِنُوْرِ رَبِّہٖ اَوْبَلَّغَ الْاَمْرَبِقَدرِ الْکِفَایَۃِ فَحِیْنَئِذٍیَّتِمُّ اسْمُہ‘وَیَدْعُوْہُ رَبُّہ‘وَیُرْ فَعُ رُوْحُہ‘اِلٰی نُقْطَتِہِ النَّفْسِیَّۃِ۔
(ترجمہ) اور جب خلقت کو اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن کر چکا یا امر تبلیغ کو بقدر کفایت پورا کردیا پس اس وقت اس کا نام پورا ہوجاتا ہے اور اس کا رب اس کو بُلاتا ہے اور اس کی روح اس کے نقطۂ نفسی کی طرف اُٹھائی جاتی ہے۔ (خطبہ الہامیہ صفحہ 10روحانی خزائن جلد نمبر16 صفحہ 41)
2۔ تو دنیا میں ایسے طور پر رہ کہ گویا تو ایک غریب الوطن بلکہ ایک راہرو ہے۔ اور صالح اور راستباز لوگوں میں سے ہو۔ اور نیکی کی تحریک کر۔ اور بُری باتوں سے روک۔ اور محمدؐ اور محمدؐ کی آل پر درود بھیج۔ درود ہی تربیت کا ذریعہ ہے۔ میں تجھے رفعت دے کر اپنا خاص قرب بخشنے والا ہوں۔
3 (ترجمہ از مرتب) پس تُو لکھ اور اسے چھپوایا جائے اورتمام دُنیا میں بھیجا جائے۔
اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَآ اَدْرَاکَ مَآاَصحَابُ الصُّفَّۃِ تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِن الدَّمْعِ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ۔رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ وَدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ اَمْلُوْا۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ238تا242 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 265 تا 268)
1882ء
’’براہین کے صفحہ 242میں مرقوم ہے...... وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ....... اور اس کے بعد الہام ہوا:۔
وَوَسِّعُ مَکَا نَکَ
یعنی اپنے مکان کو وسیع کرلے
اس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنے والوں کا بہت ہجوم ہوجائے گا یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہوجائے گا۔ پس تُو نے اس وقت ملال ظاہر نہ کرنا۔ اورلوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا۔ سبحان اللہ یہ کس شان کی پیش گوئی ہے اور آج سے 17 برس پہلے اس وقت بتلائی گئی ہے کہ جب میری مجلس میں شاید دو تین آدمی آتے ہوں گے اور وہ بھی کبھی کبھی۔ اس سے کیسا علم غیب خدا کا ثابت ہوتاہے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ63، 64 روحانی خزائن جلد نمبر12 صفحہ 73)
تیرے حجروں میں آکر آباد ہوں گے۔ وہی ہیں جو خدا کے نزدیک اصحاب الصُفّہ1کہلاتے ہیں اور تُو کیا جانتا ہے کہ وہ کس شان اور کس ایمان کے لوگ ہوں گے جو اصحاب الصفہ کے نام سے موسوم ہیں۔ وہ بہت قوی الایمان ہوں گے۔ تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوں گے۔ وہ تیرے پر درود2بھیجیں گے۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی۔ جو ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے۔ سو ہم ایمان لائے۔ان تمام پیش گوئیوں کو تم لکھ لو کہ وقت پر واقع ہوں گی۔
1۔ ’’خدا تعالیٰ نے انہی اصحاب الصفہ کو تمام جماعت میں سے پسند کیا ہے اورجو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا اور کم سے کم یہ کہ یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا۔ اُس کی حالت کی نسبت مجھ کو بڑا اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے۔ اور یہ ایک پیش گوئی عظیم الشان ہے۔ اور ان لوگوں کی عظمت ظاہر کرتی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے علم میں تھے کہ وہ اپنے گھروں اور وطنوں اور املاک کو چھوڑیں گے۔ اور میری ہمسائیگی کے لئے قادیان میں بود و باش کریں گے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ60 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 262، 263)
2 انسانی عادت اور اسلامی فطرت میں داخل ہے کہ مومن کسی ذوق کے وقت اور کسی مشاہدہ کرشمہ قدرت کے وقت درود بھیجتا ہے۔ سو اس یُصَلُّوْنَ عَلَیکَ کے فقرہ میں اشارہ ہے کہ وہ لوگ جو ہر دم پاس رہیں گے وہ کئی قسم کے نشان دیکھتے رہیں گے۔ پس ان نشانوں کی تاثیر سے بسا اوقات ان کے آنسو جاری ہوجائیں گے۔ اور شدت ذوق اور رقت سے بے اختیار دُرود ‘ ان کے منہ سے نکلے گا۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آرہا ہے۔ اور یہ پیش گوئی بار بار ظہور میں آرہی ہے۔‘‘ (اربعین نمبر2 صفحہ 5 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 350)
1882ء یا اس سے قبل
’’ایک مرتبہ اس عاجز نے اپنی نظر کشفی میں سورۂ فاتحہ کو دیکھا کہ ایک ورق پر لکھی ہوئی اس عاجز کے ہاتھ میں ہے اور ایک ایسی ہی خوبصورت اوردلکش شکل میں ہے کہ گویا وہ کاغذ جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہے۔ سُرخ سُرخ اور ملائم گلاب کے پھولوں سے اس قدر لدا ہوا ہے کہ جس کا کچھ انتہا نہیں۔ اور جب یہ عاجز اس سورۃ کی کوئی آیت پڑھتا ہے تو اس میں سے بہت سے گلاب کے پھول ایک خوش آواز کے ساتھ پرواز کرکے اوپر کی طرف اُڑتے ہیں۔ اور وہ پھول نہایت لطیف اور بڑے بڑے اور سُندر اور تروتازہ اور خوشبودار ہیں۔ جن کے اُوپر چڑھنے کے وقت دل و دماغ نہایت معطر ہوجاتا ہے۔ اور ایک ایسا عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں۔ کہ جو اپنی بے مثل لذتوں کی کشش سے دنیا و مافیہا سے نہایت درجہ نفرت دلاتے ہیں۔
اس مکاشفہ سے معلوم ہوا۔ کہ گلاب کے پھول کو سورۃ فاتحہ کے ساتھ ایک روحانی مناسبت ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ نمبر11صفحہ 332 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 395، 396 حاشیہ نمبر11)
1882ء
’’کچھ عرصہ گذرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی۔ جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا....... اِس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرت ِ احدیت میں دعا کی جائے۔ تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے۔ اور دوسرے مخالفین کے لئے تائید الٰہی کا نشان پیدا ہو۔ ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں۔ سو اُسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے۔ تب یہ الہام ہوا:۔
دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ فِیْ شَآئِلٍ مِّقْیَاسٍ۔
دن وِل یُو گو ٹو امرت سر.1
یعنی دس دن کے بعد روپیہ آئے گا۔ خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اُٹھاتی ہے۔ تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے۔ ایسا ہی مدد الٰہی بھی قریب ہے۔ اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرت سر بھی جاؤ گے۔
تو جیسا اس پیش گوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورۂ بالا کے روبرو وقوع میں آیا۔ یعنی حسب منشاء پیش گوئی دس دن تک ایک خر مہرہ نہ آیا۔ اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے۔ اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے۔ اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوگیا۔ جس کی امید نہ تھی۔ اور اُسی روز کہ جب دس دن کے گذرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب
1 Then will you go to Amirtsar
وغیرہ کا روپیہ آیا۔ امرت سر بھی جانا پڑا۔ کیونکہ عدالت ِ خفیفہ امرت سر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اُسی روز ایک سمن آگیا۔‘‘
)براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 468،470حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 559، 561(
1882ء
’’کچھ عرصہ ہوا.........ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں۔ بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظِ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں۔ اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے......چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر اُنہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارے میں اُن کے دل میں تھی1 مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کردی۔ اس لئے دل میں بہت رنج گذرا۔ ہر چند معقول طور پر سمجھایا گیا کچھ اثر مترتب نہ ہوا۔ آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی۔ اور اُن کو قبل از ظہور پیش گوئی بتلایا گیا کہ خداوند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعا بہ پایہ ٔ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیش گوئی خداوند ِ کریم ظاہر فرما دے جس کو تم بچشمِ خود دیکھ جاؤ۔
سو اُس رات اِس مطلب کے لئے قادرِ مطلق کی جناب میں دعا کی گئی۔ علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایا گیا۔ جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے۔ اس خط میں انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے:۔
آئی ایم کو ٔرلر2
اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے:۔
ھٰذَا شَا ھِدٌ نَّزَّاغٌ
اور یہی الہام حکایتہ عنِ الکاتب القا کیا گیا۔ اور پھر وہ حالت جاتی رہی۔
چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا۔ اس جہت سے پہلےعلی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر اور اُس آنے والے خط سے مطلع کرکے پھر اُسی وقت ایک انگریزی خوان سے اُس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے۔ تو معلوم ہوا۔ کہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ میں جھگڑنے والا ہوں۔ سو اُس مختصر فقرہ سے یقینا یہ معلوم ہوگیا۔ کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے اور ھٰذَا شَاھِدٌ نَّزَّاعٌ کہ جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اُس کے یہ معنے کھلے کہ کاتب ِ خط نے کسی مقدمہ کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے۔
اُسی دن حافظ نور احمد صاحب بہ باعث ِ بارش باران امرت سر جانے سے روکے گئے۔ اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے اُن کا روکا جانا بھی قبولیت ِ دعا کی ایک جزتھی۔ تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی
1 کہ الہام انسان کے دماغی خیالات ہی کا نام ہے۔ (مرتّب)
2 I am quarreler
پیش گوئی کے ظہور کو بچشمِ خود دیکھ لیں۔ غرض اُس تمام پیش گوئی کا مضمون ان کو سنا دیا گیا۔ شام کو اُن کے روبرو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرتسر سے آیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کاتب پر جو اِسی کتاب کا کاتب ہے عدالت ِ خفیفہ میں نالش کی ہے۔ اور اِس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے۔ اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا۔ اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی ھٰذَا شَاھِدٌ نَّزَّاغٌ جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے۔ ان معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتمم مطبع سفیر ہند کے دل میں بہ یقین ِ کامل یہ مرکوز تھا کہ اس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہوگی بباعث و ثاقت اور صداقت اور نیز بااعتبار اور قابل ِ قدر ہونے کی و جہ سے سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی۔ اور اسی نیت سے مہتمم مذکور نے اس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاری کرایا۔
اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور امرت سرجانے کا سفر پیش آیا۔ وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا۔ سو وہ پہلی پیش گوئی بھی میاں نور احمد صاحب کے رُوبرو پوری ہوگئی۔ یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا۔ روپیہ آگیا۔ اور امرت سر بھی جانا پڑا۔ فا لحمدللّٰہ علی ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 471۔ 474حاشیہ در حاشیہ نمبر3روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 562۔565)
1882ء
’’ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ
آج حاجی ارباب محمد لشکر خاں کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے
یہ پیش گوئی بھی بدستورِ معمول اُسی وقت چند آریوں کو بتلائی گئی اور یہ قرار پایا کہ اُنہیں میں سے ڈاک کے وقت کوئی ڈاک خانہ میں جاوے۔ چنانچہ ایک آریہ ملاوامَل نامی اُس وقت ڈاک خانہ میں گیا اور یہ خبر لایا کہ ہوتی مردان سے دس عہ روپے آئے ہیں۔اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ یہ دس عہ روپیہ ارباب سرور خاں نے بھیجے ہیں۔ چونکہ ارباب کے لفظ سے اتحادِ قومی مفہوم ہوتا تھا۔ اس لئے اُن آریوں کو کہا گیاکہ ارباب میںدونوں صاحبوں کی شراکت ہونا پیش گوئی کی صداقت کے لئے کافی ہے۔ مگر بعض نے اُن میں سے اس بات کو قبول نہ کیا۔ اور کہا کہ اتحادِ قومی شے دیگر ہے اور قرابت شے دیگر۔ اور اس انکار پر بہت ضد کی۔ ناچار ان کے اصرار پر خط لکھنا پڑا۔ اور وہاں سے یعنی ہوتی مردان سے کئی روز کے بعد ایک دوست منشی الٰہی بخش نامی نے جو اُن دنوں ہوتی مردان میں اکونٹنٹ تھے خط کے جواب میں لکھا کہ ارباب سرور خاں ارباب محمد لشکر خاں کا بیٹا ہے۔ چنانچہ اُس خط کے آنے پر سب مخالفین لاجواب اور عاجز رہ گئے۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 474،475 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 565،566)
30دسمبر 1882ء
(الف) ’’ایک عجیب کشف سے جو مجھ کو30 ؍دسمبر 1882ء بروز شنبہ یک دفعہ ہوا۔ آپکے1شہر2کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص3نامعلوم الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی جو باشندۂ لدھیانہ ہے۔ اس عالمِ کشف میں اس کا تمام پتہ و نشان سکونت بتلادیا۔ جو اَب مجھ کو یاد نہیں رہا۔ صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لدھیانہ اور اُس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا:۔
سچا ارادتمند 4 اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَافِی السَّمَآءِ
یعنی اس کی ارادت ایسی قوی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ تزلزل ہے نہ نقصان ہے۔
(از مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 4خط بنام میر عباس علی صاحب)
(ب) میں نے قریب صبح کے کشف کے عالم میں دیکھا کہ ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا گیا۔ اس پر لکھا ہے۔ کہ
’’ایک ارادتمند لدھیانہ میں ہے۔‘‘
پھر اس کے مکان کا پتہ مجھے بتلایا گیا اور نام بھی بتلایا گیا جو مجھے یاد نہیں۔ اور پھر اس کی ارادت اور قوت ایمانی کی یہ تعریف اسی کاغذ میں لکھی ہوئی دکھائی۔
’’ اَصْلُھَا ثَا بِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ‘‘
1 میر عبّاس علی صاحب لدھیانوی 2 لدھیانہ
3 ’’لدھیانہ میں ایک صاحب میر عباس علی نام تھے۔ جو بیعت کرنے والوں میں داخل تھے۔ چند سال تک انہوں نے اخلاص میں ایسی ترقی کی کہ ان کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک دفعہ الہام ہوا۔اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْ عُھَا فِی السّمآءِ۔ اس الہام سے صرف اس قدر مطلب تھا کہ اس زمانہ میں وہ راسخ الاعتقاد تھے۔ سو ایسے ہی انہوں نے اس زمانہ میں آثار ظاہر کئے کہ ان کے لئے بجز میرے ذکر کے اور کوئی ورد نہ تھااور ہر ایک میرے خط کو نہایت درجہ متبرک سمجھ کر اپنے ہاتھ سے اس کی نقل کرتے تھے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے اور اگر ایک خشک ٹکڑا بھی دستر خوان کا ہو تو متبرک سمجھ کر کھاجاتے تھے اور سب سے پہلے لدھیانہ سے وہی قادیان میں آئے تھے ایک مرتبہ مجھ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھایا گیا کہ عباس علی ٹھوکر کھائے گا۔ اور برگشتہ ہوجائے گا۔ وہ میرا خط بھی اُنہوں نے میرے ملفوظات میں درج کرلیا۔ بعد اس کے جب اُن کی ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے مجھ کو کہا۔ کہ مجھ کو اس کشف سے جو میری نسبت ہوا بڑا تعجب ہوا۔ کیونکہ میں تو آپ کے لئے مرنے کو تیار ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ کے لئے مقدر ہے وہ پورا ہوگا۔ بعد اس کے جب وہ زمانہ آیا۔ کہ میں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ تو وہ دعویٰ اُن کو ناگوار گذرا۔ اوّل دل ہی دل میں پیچ تاب کھاتے رہے۔ بعد اس کے مباحثہ کے وقت جو مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب سے لدھیانہ میں میری طرف سے ہوا تھا۔ اور اس تقریب سے چند دن اُن کو مخالفوں کی صحبت بھی میسر آگئی تو نوشتہ ٔ تقدیر ظاہر ہوگیا۔ اور وہ صریح طور پر بگڑ گئے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 294۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 307)
4 (ترجمہ از مرتّب) اس کی جَڑ زمین میں مُحکم ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون شخص ہے مگر مجھے شک پڑتا ہے کہ شاید خداوند ِ کریم آپ1 ہی میں وہ حالت پیدا کرے یا کسی اور میں۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(مکتوب مسیح موعود علیہ السلام مؤرخہ 18؍ جنوری 1883ء بنام نواب علی محمد خان صاحب جھجرؓ)
(مندرجہ الفضل جلد2نمبر90مؤرخہ12؍ جنوری 1915ء صفحہ 8کالم نمبر1)
1883ء
’’ آنمخدوم کی تحریرات کے پڑھنے سے بہت کچھ حالِ صداقت و نجابت ِ آنمخدوم ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بنظرِ کشفی بھی کچھ ظاہر ہوا تھا۔ شاید کسی زمانہ میں خداوند کریم اس سے زیادہ اور کچھ ظاہر کرے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ17 فروری1883ء مطابق8؍ربیع الاوّل1300ھ۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ6)
1883ء
’’ جس روز آپ2کا خط آیا۔ اسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں۔ اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گے۔ یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک رابطہ بخشی ہے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ3؍مارچ1883ء ۔مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ6)
1883ء3
’’وقت ملاقات ایک گفتگو کے اثناء میں بہ نظر کشفی آپ4کی حالت ایسی معلوم ہوئی۔ کہ کچھ دل میں انقباض5 ہے۔
اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے۔ حضرت احدیت کی نظر میں درست نہیں تو اس پر الہام ہوا:۔
قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَا نَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ 2
.....اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ مگر بہت سی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اس کو دور کردے۔ مگر تعجب
1 مراد نواب علی محمد خان صاحب جھجر۔(مرتب)
2 میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔(مرتب)
3 کتاب حیات احمد جلد 2نمبر2 صفحہ 66سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اوائل1883ء کا مکاشفہ ہے واللہ اعلم۔(مرتب)
4 میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔(مرتب)
5 اس کشف کے مطابق میر عباس علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کے وقت برگشتہ ہوگئے اور اس حالت پر اُن کا انجام ہوا۔ اس مکتوب کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 22؍ستمبر1883ء کے مکتوب میں بھی اُنہیں اس آنے والے ابتلاء سے آگاہ کیا تھاجس کے الفاظ یہ ہیں:۔
’’خدا وند کریم آپ کی تائید میں رہے اور مکر وہاتِ زمانہ سے بچاوے۔ اس عاجز سے تعلق اور ارتباط کرنا کسی قدر ابتلاء کو چاہتا ہے سو اس ابتلاء سے آپ بچ نہیں سکتے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 65)
6 (ترجمہ از مرتب) کہہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔
نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے۔ جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے‘ تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اس گھر کی وضع قطع میں بعض اُمور اُس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں اس لئےمناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں۔ اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب نہ ہوں۔ تا یہ محبت کمال کے درجہ تک پہنچ جائے۔ یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حالت رکھتا ہے۔ جو زمانہ کی رسمیات سے بہت ہی دُور پڑی ہوئی ہے اور ابھی تک ہر ایک رفیق کو یہی جواب روح کی طرف سے ہے اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا۔ وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَالَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا۔ 1
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ15 مکتوب بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی)
1883ء
’’ پنڈت شیو نارائن نے جو برہمو سماج کا ایک منتخب معلّم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سوم2 کا ردّ لکھنا چاہتا ہوں۔ ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اس خط کا ظاہر کردیا۔ چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندو کو ہی جو آریہ ہے ڈاک خانہ بھیجا گیا تا گواہ رہے۔ وہی ہندو اُس خط کو ڈاک خانہ سے لایا۔ پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو۔ خدا نے اُسی کے ذریعہ سے تمہارے خط کی اطلاع دی۔ اور اُس کے مضمون سے مطلع کیا۔ اگر تم کو شک ہے تو خود قادیان آکر اُس کی تصدیق کرلو۔ کیونکہ تمہارے ہندو بھائی اس کے گواہ ہیں۔ ردّ لکھنے میں بہت سی تکلیف ہوگی اور اس طرح جلدی فیصلہ ہوجائے گا۔‘‘
( از مکتوب3؍مارچ1883ء مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 6، 7)
اپریل 1883ء
’’ ایک دفعہ اپریل1883ء میں صبح کے وقت بیداری ہی میں جہلم سے روپیہ روانہ ہونے کی اطلاع دی گئی۔ اور ......اُس روپیہ کے روانہ ہونے کے بارہ میں جہلم سے کوئی خط نہیں آیا تھا.......اور ابھی پانچ روز نہیں گذرے تھے جو پینتالیس روپیہ کا منی آرڈر جہلم سے آگیا۔ اور جب حساب کیا گیا تو ٹھیک ٹھیک اُسی دن منی آرڈر روانہ ہوا تھا جس دن خداوند عالم الغیب نے اُس کے روانہ ہونے کی خبر دی تھی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ475، 476 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 567، 568)
1883ء
’’ ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالی شان حاکم یا بادشاہ کاایک خیمہ لگا ہوا ہے۔ اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہورہے ہیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ د فتر کا عہدہ رکھتا ہے۔ اور جیسے د فتروں میں مثلیں ہوتی ہیں۔ بہت سی مثلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ د فتر کی طرح
1 الکھف : 68-69 2 مراد براہین احمدیہ حصّہ سوم (مرتّب)
ہے۔ اتنے میں ایک اردلی دوڑتا آیا۔ کہ مسلمانوں کی مثل پیش ہونے کا حکم ہے وہ جلد نکالو۔
پس یہ رؤیابھی دلالت کررہی ہے کہ عنایات الٰہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں۔ اور یقین کامل ہے کہ اس قوتِ ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہوگئے ہیں۔ پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتّع کرے گا۔ کہ ہر ایک برکت ظاہری اور باطنی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 19،20)
1883ء
’’ چند روز ہوئے کہ خداوند کریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا.......
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْ نِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یُوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ یَجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔1
اور یہ آیت کہ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یُوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ بار بار الہام ہوئی۔اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے۔ اور اس قدر ‘ زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہوگئی اس سے یقینا معلوم ہواکہ خداوند کریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا۔ اوران کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے۔ اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی۔ یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلّف نہیں کرے گا۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 12؍ جون1883ء ۔مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ24)
12جون 1883
’’آج قبل تحریر اس خط کے یہ الہام ہوا:۔
کَذَابَ عَلَیْکُمُ الْخَبِیْثُ۔ کَذَابَ عَلَیْکُمُ الْخِنْزِیْرُ۔ عِنَایَتُ اللّٰہِ حَافِظُکَ۔ اِنِّیْ مَعَکَ اَسْمَعُ وَاَریٰ۔ اَلَیْسَ اللّٰہ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ فَبَرَّا اَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْد اللّٰہِ
1 (ترجمہ از مرتب) کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔ اور میں تیرے تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔ لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا۔ کہہ وہ خدا عجیب ہے جس کو چاہتا ہے۔ اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔
وَجِیْھًا 1
ان الہامات میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی ناپاک طبع آدمی2اِس عاجز پر کچھ جھوٹ بولے گا یا جھوٹ بولا ہو۔ مگر عنایت الٰہی حافظ ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 12؍ جون1883ء مکتوباتِ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 23)
1883 یا اس سے قبل
’’کئی دفعہ اس عاجز کو نہایت صراحت سے الہام ہوا کہ
وید گمراہی سے بھرا ہوا ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 28)
1883 یا اس سے قبل
’’کچھ عرصہ ہوا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ حیدر آباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ لکھا ہے.....پھر تھوڑے دنوں کے بعد حیدر آباد سے خط آگیا۔ اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 477 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 568، 569)
1 (ترجمہ از مرتب) تم پر اس ناپاک نے جھوٹ باندھا ہے۔ تم پر اس خنزیر نے جھوٹ باندھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت تیری نگہبان ہے۔ میں تیرے ساتھ ہوں۔ میں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کو بَری ثابت کیا۔ اور وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے۔
2 (نوٹ از مرتب) یہ اس مقدمہ کی طرف اشارہ ہے جو مارٹن کلارک نے اگست 1897ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کھڑا کیا تھا۔ چنانچہ حضور اقدس تحریر فرماتے ہیں:۔’’اس مقدمہ کے ذریعہ سے جو خون کے الزام کا مقدمہ تھا۔ وہ الہامی پیش گوئی پوری ہوئی جو براہین احمدیہ میں اس مقدمہ سے 20 برس پہلے درج تھی اور وہ الہام یہ ہے:۔
فَبَرَّاَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا۔
یعنی خدا اس شخص کو اس الزام سے جو اس پر لگایا جائے گا بَری کردے گا کیونکہ وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے۔ سو یہ خدا تعالیٰ کا ایک بھاری نشان ہے کہ باوجود یکہ قوموں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے اتفاق کرلیا تھا مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب تھے ہندوؤں کی طرف سے لالہ رام بھجدت وکیل تھے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب مع اپنی تمام جماعت آئے اور جنگ احزاب کی طرح ان قوموں نے بالاتفاق میرے پر چڑھائی کی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے سب کو ذلیل کیا اور مجھے بَری کیا.........تا وہ بات پُوری ہو جس کی طرف اس الہامی پیش گوئی میں اشارہ تھا کہ بَرَّ اَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ200، 201 روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 578،579)
1883 یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں اوّل یہ الہام ہوا:۔
آئی لَوْ یُو1
یعنی میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔
پھر یہ الہام ہوا:۔
آئی ایم وِد یُو2
یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں۔
پھرالہام ہوا:۔
آئی شیل ہیلپ یُو3
یعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔
پھر الہام ہوا:۔
آئی کین وہٹ آئی وِل ڈُو3
یعنی میں کرسکتا ہوں جو چاہوں گا۔
پھر اس کے بعد بہت ہی زور سے جس سے بدن کانپ گیا یہ الہام ہوا:۔
وِی کین وَہٹ وِی وِل ڈُو 4
یعنی ہم کرسکتے ہیں جو چاہیں گے۔
اور اُس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے۔ جو سر پر کھڑا ہوا بول رہا ہے اور باجود پُر دہشت ہونے کے پھر اُس میں ایک لذت تھی جس سے رُوح کو معنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفی ملتی تھی۔ اور یہ انگریز ی زبان کا الہام اکثر ہوتا رہا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ480،481 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 571، 572)
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ صبح کے وقت بہ نظر کشفی چند ورق چھپے ہوئے دکھائے گئے کہ جو ڈاک خانہ
1. I love you. 2. I am with you.
3. I shall help you. 4. I can what I will do 5. We can what we will do.
سے آئے ہیں اور اخیر پر اُن کے لکھا تھا:۔
آئی ایم بائی عیسٰے 1
یعنی میں عیسٰے کے ساتھ ہوں
چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خوان سے دریافت کرکے دو ہندو آریہ کو بتلایا گیا جس سے یہ سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص عیسائی یا عیسائیوں کی طرز پر دین اسلام کی نسبت کچھ اعتراض چھپواکر بھیجے گا چنانچہ اُسی روز ایک آریہ کو ڈاک آنے کے وقت ڈاک خانہ میں بھیجا گیا تو وہ چند چھپے ہوئے ورق لایا۔ جس میں عیسائیوں کی طرز پر ایک صاحب خام خیال نے اعتراضات لکھے تھے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ481، 482 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 573، 575)
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ کسی امر میں جو دریافت طلب تھا خواب میں ایک درم نُقرہ جو بشکل بادامی تھا اِس عاجز کے ہاتھ میں دیا گیا۔ اُس میں دو سطریں تھیں۔ اوّل سطر میں یہ فقرہ لکھا تھا:۔
یس آئی ایم ہیپی2
اور دوسری سطر جو خطِ فارق ڈال کر نیچے لکھی ہوئی تھی وہ اُسی پہلی سطر کا ترجمہ تھا۔ یعنی یہ لکھا تھا کہ
ہاں میں خوش ہوں‘‘
)براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 482،483 حاشیہ در حاشیہ نمبر1روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 574،575(
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ کچھ حزن اور غم کے دن آنے والے تھے کہ ایک کاغذ پر بہ نظر کشفی یہ فقرہ انگریزی میں لکھا ہوا دکھایا گیا:۔
لائف آف پین 3
یعنی زندگی دُکھ کی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ483 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 575)
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ بعض مخالفوں کے بارہ میں جنہوں نے عنادِ دلی سے خواہ نخواہ قرآن شریف کی توہین کی تھی اور عداوتِ ذاتی سے جس کا کچھ چارہ نہیں، دین ِ متین اسلام پر بے جا اعتراضات اور بیہودہ تعرضات کئے
1. I am by Isa. 2. Yes, I am happy.
3. Life of pain.
تھے۔ دو فقرے انگریزی کے الہام ہوئے:۔
گاڈ اِز کمنگ بائی ہز آرمی1۔ ہی اِز وِد یُو ٹو کِل اینیمی2
یعنی خدا تعالیٰ دلائل اور براہین کا لشکر لے کر چلا آتا ہے۔ وہ دشمن کو مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 483، 484حاشیہ در حاشیہ نمبر 3روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 576، 577(
1883ء
’’ بُوْرِکْتُ یَآ اَحْمَدُ وَکَانَ مَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقّاً فِیْکَ
اے احمد تو مبارک کیا گیا ہے اور خدا نے جو تجھ میں برکت رکھی ہے۔ وہ حقانی طور پر رکھی ہے۔‘‘
شَاْنُکَ عَجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ
تیری شان عجیب ہے اور تیرا بدلہ نزدیک ہے
اِنِّیْ رَاضٍ مِّنْکَ۔ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ۔
میں تجھ سے راضی ہوں۔ میں تجھے اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں۔ زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہیں جیسے وہ میرے ساتھ ہیں۔
ھُوّ کا ضمیر واحد بتاویل مافی السمٰوات وا لارض ہے اور ان کلمات کا حاصل مطلب تلطفات اور برکاتِ الٰہیہ ہیں۔ جو حضرت خیرالرسل کی متابعت کی برکت سے ہرایک کامل مومن کے شامل حال ہوجاتی ہیں۔ اور حقیقی طور پر مصداق اِن سب عنایات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور دوسرے سب طفیلی ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 684تا 884 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
1883ء
پھر بعد اس کے فرمایا:۔
اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ
تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ میں نے تجھے اپنے لئے اختیار کیا۔
1- God is coming by his army.
2 – He is with you to kill enemy.
نوٹ: انگریزی زبان میں لفظ بائی byبمعنی togather with اورin company withیعنی معیّت اور ساتھ ہونے کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے
Dialect Dictionary by Joseph wright P.470
اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدیْ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفُ بَیْنَ النَّاسِ۔
تو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید1۔ سو وہ وقت آگیا۔ جو تیری مدد کی جائے۔ اور تجھ کو لوگوں میں معروف و مشہور کیا جائے۔
ھَلْ اَتَی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّ ھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا۔
کیا انسان پر یعنی تجھ پر وہ وقت نہیں گذرا کہ تیرا دنیا میں کچھ بھی ذکر و تذکرہ نہ تھا۔ یعنی تجھ کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کون ہے اور کیا چیز ہے اور کسی شمار و حساب میں نہ تھا یعنی کچھ بھی نہ تھا۔
یہ گذشتہ تلطفات و احسا نات کا حوالہ ہے۔ تا محسن حقیقی کے آئندہ فضلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی زَادَ مَجْدَکَ۔ یَنْقَطِعُ اٰبَآوئُ کَ وَیُبْدَئُ مِنْکَ۔
سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں۔ جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے۔ اُس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا۔ تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہوجائے گا۔ یعنی بطور مستقبل اُن کا نام نہیں رہے گا۔ اور خدا تجھ سے ابتداء شرف اور مجد کرے گا۔
نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ وَاُحْیِیْتُ بِا لصِّدْقِ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ۔ نُصِرْتَ وَقَالُوْ لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ
تو رعب کے ساتھ مدد کیا گیا۔ اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا اے صدیق۔ تو مدد کیا گیا۔ اور مخالفوں نے کہا کہ اب گریز کی جگہ نہیں۔ یعنی امدادِ الٰہی اُس حد تک پہنچ جائے گی کہ مخالفوں کے دل ٹوٹ جائیں گے اور اُن کے دلوں پر اِس مستولی ہوجائے گی اور حق آشکارا ہوجائے گا۔
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُتْرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْزَالْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ
اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے۔ جب تک وہ خبیث اور طیب میں صریح فرق نہ کرلے۔
وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ
اور خدا اپنے امر پر غالب ہے۔ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
1۔ ’’فرمایا کہ میرے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ شخص بہ منزلہ توحید کے ہوتا ہے جو کہ ایسے زمانہ میں آوے جبکہ توحید کی حقارت اور بے عزتی ہوتی ہے۔ اور شرک کی عظمت اور قدر کی جاتی ہو اس شخص مامورشدہ کو توحید کی پیاس ایسی لگائی جاتی ہے کہ وہ تمام اپنے اغراض اور مقاصد کو ایک طرف رکھ کر توحید کے کام کرنے میں خود ایک مجسم توحید ہوجاتا ہے اس کے اٹھنے بیٹھنے اور حرکت اور سکون اور ہر ایک قول و فعل اس توحید کی لو اُسے لگی ہوتی ہے۔ دنیا میں لوگوں نے اپنے مقاصد کو بُت بنارکھا ہے مگر جب تک خدا کسی کو یہ سوز و گداز توحیدکے واسطے نہ لگائے تب تک نہیں لگ سکتا جیسے لوگ اولاد اور اپنی دوسری اغراض کے لئے بے قرار ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض خود کشیاں کرلیتے ہیں۔ اسی طرح وہ توحید کے لئے بے قرار ہوتا ہے کہ خدا کی خواہشات اس کی توحید اور عظمت اور جلال غالب آویں۔ اس وقت کہا جاتا ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْ حِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ۔‘‘
(البدر جلد 2نمبر12 مؤرخہ10؍اپریل1903ء صفحہ91 کالم نمبر2)
اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔
جب مدد اور فتح الٰہی آئے گی اور تیرے رب کی بات پوری ہوجائے گی تو کفار اس خطاب کے لائق ٹھہریں گے کہ یہ وہی بات ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے۔
اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ اِنِّیْ جَا عِلٌ فِی الْاَرْضِ
یعنی میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا ارادہ کیا۔ سو میں نے آدم کو پیدا کیا۔ میں زمین پر کرنے والا ہوں۔یہ اختصاری کلمہ ہے یعنی اس کو قائم کرنے والا ہوں۔ اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لئے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو۔ خلافت ِ ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے........بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے۔ اور آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابوالبشر ہے مراد نہیں۔ بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے سلسلہ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہو کر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے۔ گویا وہ روحانی زندگی کے رُو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے۔ اور یہ ایک عظیم الشان پیش گوئی ہے۔ جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ اُس سلسلہ کا نام و نشان نہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 489 تا 493حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 581 تا 586)
1883ء
’’ پھر بعد اِس کے اُس روحانی آدم کا روحانی مرتبہ بیان فرمایا اور کہا:۔
دَنٰی فَتَدَ لّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی
جب یہ آیت شریفہ جو قرآن شریف کی آیت ہے۔ الہام ہوئی۔ تو اس کے معنے کی تشخیص اور تعیین میں تأمل تھا۔ اور اسی تأمل میں کچھ خفیف سی خواب آگئی۔ اور اُس خواب میں اس کے معنے حل کئے گئے۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔ کہ دنو ّسے مُراد قربِ الٰہی ہے...... اور تَدَلّٰی سے مراد وہ ہبوط اور نزول ہے کہ جب انسان تخلق باخلاق اللہ حاصل کرکے اُس ذاتِ رحمن و رحیم کی طرف شفقتہً علی العباد عالمِ خلق کی طرف رجوع کرے اور چونکہ کمالات د نو ّکے کمالات تدلّی سے لازم و ملزوم ہیں۔ پس تدلّی اُسی قدر ہوگی جس قدر د نو ّہے اور دنّو کی کمالیت اس میں ہے کہ اسماء اور صفاتِ الٰہی کے عکوس کا سالک کے قلب میں ظہور ہو۔ اور محبوب حقیقی بے شائبہ ظلّیت اور بے تواہم حالیّت و محلیّت اپنے تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ اُس میں ظہور فرمائے۔ اور یہی استخلاف کی حقیقت اور روح اللہ کے نفخ کی ماہیّت ہے اور یہی تخلق باخلاق اللہ کی اصل بنیاد ہے۔ اور جب کہ تدلّی کی حقیقت کو تخلق باخلاق اللہ لازم ہوا۔ اور کمالیّت فی التخلق اس بات کو چاہتی ہے کہ شفقت علی العباد اور اُن کے لئے بمقام نصیحت کھڑے ہونا اور ان کا بھلائی کے لئے بدل و جان مصروف ہوجانا اِس حد تک پہنچ جائے۔ جس پر زیادت متصور نہیں اس لئے داصل تام کو مجمع الاضداد ہونا پڑا۔ کہ وہ کامل طور پر روبخدا بھی ہو۔ اور پھر کامل طور پر روبخلق بھی۔ پس وہ اُن دونوں قوسوں الوہیّت اور انسانیت میں ایک وتر کی طرح واقعہ ہے۔ جودونوں سے
تعلق کامل رکھتا ہے....... پس جاننا چاہئے کہ اس جگہ ایک ہی دل میں ایک حالت اور نیت کے ساتھ دو قسم کا رجوع پایا گیا۔ ایک خدائے تعالیٰ کی طرف جو وجودِ قدیم ہے اور ایک اُس کے بندوں کی طرف جو وجودِ محدث ہے۔ اور دونوں قسم کا وجود یعنی قدیم اور حادث ایک دائرہ کی طرح ہے جس کی طرف اعلیٰ وجوب اور طرف اسفل امکان ہے۔ اب اُس دائرہ کے درمیان میں انسان بوجہ دنو ّاور تدلّی کے دونوں طرف اتصال محکم کرکے یوں مثالی طور پر صورت پیدا کرلیتا ہے۔ جیسے ایک وتر دائرہ کے دو قوسوں میں ہوتا ہے یعنی حق اور خلق میں واسطہ ٹھہر جاتا ہے پہلے اس کو دنو ّ اور قربِ الٰہی کی خلقت خاص عطا کی جاتی ہے۔ اور قرب کے اعلیٰ مقام تک صعود کرتا ہے اور پھر خلقت کی طرف اس کو لایا جاتا ہے۔ پس اس کا وہ صعود اور نزول دو قوس کی صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے اور نفس جامع التعلّقین انسان کامل کا اُن دونوں قوسوں میں قابِ قوسَین کی طرح ہوتا ہے۔ اور قاب عرب کے محاورہ میں کمان کے چِلّہ پر اطلاق پاتا ہے۔
پس آیت کے بطور تحت اللفظ یہ معنے ہوئے کہ نزدیک ہوا یعنی خدا سے۔ پھر اُترا یعنی خلقت پر۔ پس اپنے اس صعود اور نزول کی و جہ سے دو قوسوں کے لئے ایک ہی وتر ہوگیا۔
اور چونکہ اُس کا روبخلق ہونا چشمہ ٔ صافیہ تخلق باخلاق اللہ سے ہے۔ اس لئے اُس کی توجہ بمخلوق توجہ بخالق کی عین ہے یا یوں سمجھو کہ چونکہ مالک حقیقی اپنی غایت شفقت العباد کی و جہ سے اِس قدر بندوں کی طرف رجوع رکھتا ہے کہ گویا وہ بندوں کے پاس ہی خیمہ زن ہے۔ پس جبکہ سالک سیرالی اللہ کرتا کرتا اپنی کمال سیر کو پہنچ گیا۔ تو جہاں خدا تھا وہیں اُس کو لوٹ کر آنا پڑا۔ پس اِس و جہ سے کمال دُنو ّ یعنی قربِ تام اُس کی تدلّی یعنی ہبوط کا موجب ہوگیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ493 تا 496 حاشیہ در حاشیہ نمبر3
روحانی خزائن جلد نمبر1صفحہ 586 تا 590 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
1883ء
’’ یُحْیِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ
زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت کو
یَآ اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَامَرْیَمُ اسْکُنْ 1 اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَآ اَحْمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ نِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ
اے آدم۔ اے مریم۔ اے احمد تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے۔ جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہوجاؤ۔ میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے۔
1۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان الہامات کی تشریح فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔’’مریم سے مریم اُمّ عیسیٰ مراد نہیں اور نہ آدم سے آدم ابو البشر مراد ہے اور نہ احمد ؐ سے اس جگہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ والسلام مراد ہیں۔ اور ایساہی ان الہامات کے تمام مقامات
اس آیت میں بھی روحانی آدم کا و جہ تسمیہ بیان کیا گیا۔ یعنی جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بلاتوسط اسباب ہے۔ ایسا ہی روحانی آدم میں بلا توسط ِ اسباب ظاہر یہ نفخ روح ہوتاہے۔
اور یہ نفخ روح حقیقی طور پر انبیاء علیہم السلام سے خاص ہے۔ اور پھر بطور تبعیت اور وراثت کے بعض افراد خاصہ امت ِ محمدیہ کو یہ نعمت عطا کی جاتی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 496, 497 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1، صفحہ 590، 591(
1883ء
(الف) فَاَجَآ 1 ءَ ھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ۔ قَالَتْ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
(کشتی نوح صفحہ 47، روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51)
(ب) ’’ میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا اُسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا:۔
بقیہ حاشیہ: میں کہ جو موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں۔ اُن ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہے بلکہ ہر ایک جگہ یہی عاجز مراد ہے۔ اب جبکہ اس جگہ مریم کے لفظ سے مؤنث مراد نہیں بلکہ مذکر مراد ہے تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کے لئے صیغہ مذکر ہی لایا جائے۔ یعنی یا مریم اسکن کہا جائے..........اور زوج کے لفظ سے رفقاء اور قرباء مراد ہیں زوج مراد نہیں ہے۔ اور لغت میں یہ لفظ دنوں طور پر اطلاق پاتا ہے۔ اور جنت کا لفظ اس عاجز کے الہامات میں کبھی اُسی جنت پر بولا جاتا ہے کہ جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور کبھی دنیا کی خوشی اور فتح یابی اور سرور اورا ٓرام پر بولا جاتا ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ82 ، 83مکتوب مؤرخہ 12؍فروری 1884ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب)
1 کشتی نوح میں جو 1902ء کی تصنیف ہے حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:۔’’اس جگہ ایک اور الہام کا بھی ذکر کرتا ہوں اور مجھے یاد نہیں کہ میں نے وہ الہام اپنے کسی رسالہ یا اشتہار میں شائع کیا ہے یا نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ صدہا لوگوں کو میں نے سنایا تھا اور میری یادداشت کے الہامات میں موجود ہے اور وہ اس زمانہ کا ہے جبکہ خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا۔ اور پھر نفخ روح کا الہام کیا۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا فا جاء ھا المخاض الٰی جذع النخلۃ قالت یا لیتنی متّ قبل ھٰذا وکنت نسیًا منسیًّا یعنی پھر مریم کو مراد اِس عاجز سے ہے دروزہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی۔ یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علماء سے واسطہ پڑا جن کے پاس ایمان کا پھل نہ تھا جنہوں نے تکفیر و توہین کی۔ اور گالیاں دیں۔ اور ایک طوفان برپا کیا۔ تب مریم نے کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتی۔ اور میرا نام و نشان باقی نہ رہتا۔ یہ اس شور کی طرف اشارہ ہے جو ابتداء میں مولویوں کی طرف سے بہ ہیئت مجموعی پڑا۔ اور وہ اس دعویٰ کی برداشت نہ کرسکے۔ اور مجھے ہر ایک حیلہ سے انہوں نے فنا کرنا چاہا۔ تب اُس وقت جو کرب اور قلق ناسمجھوں کا شوروغوغا دیکھ کر میرے دل پر گذرا۔ اس کا اس جگہ خداتعالیٰ نے نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ‘‘
(کشتی نوح صفحہ 47، 48۔ روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51)
فَاَجَآئَ ہُ الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ۔ قَالَ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
مخاض سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جذع النخلۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولاد۔ مگر صرف نام کے مسلمان ہیں۔
بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ درد انگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہوجانا تھا۔ اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی۔ جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں۔ تب اُس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتا۔ اور بھولا بسرا ہوجاتا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ53 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 68، 69(
1883ء
’’اور اس کے متعلق اور بھی الہام تھے۔ جیسا:۔
لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا۔ مَاکَانَ اَبُوْکِ امْرَئَ سَوْئٍ وَّمَاکَانَتْ اُمَّکِ بَغِیًّا۔
...اور لوگوں نے کہا۔ کہ اے مریم۔ تُو نے یہ کیا مکروہ اور قابل ِ نفرین کام دکھلایا جو راستی سے دُور ہے۔ تیرا باپ1 اور تیری ماں تو ایسے نہ تھے۔‘‘ (کشتی نوح صفحہ 48، روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51)
1883ء
پھر بعد2اس کے فرمایا:۔
نُصِرْتَ وَقَا لُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ
تو مدد دیا گیا اور انہوں نے کہا کہ اب کوئی گریز کی جگہ نہیں۔
اِنَّ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہ‘
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ کے مزاحم ہوئے اُن کا ایک مرد فارسی الاصل نے ردّ لکھا ہے۔ اُس کی سعی کا خدا شاکر ہے۔
1۔ اس الہام پر مجھے یاد آیا۔ کہ بٹالہ میں فضل شاہ یا مہر شاہ نام ایک سید تھے جو میرے والد صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے اور بہت تعلق تھا۔ جب میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کی کسی نے ان کو خبر دی تو وہ بہت روئے اور کہا کہ ان کے والد صاحب بہت اچھے آدمی تھے یعنی یہ شخص کس پر پیدا ہوا۔ ان کا باپ تو نیک مزاج اور افتراء کے کاموں سے دُور اور سیدھا اور صاف دل مسلمان تھا۔ ایسا ہی بہتوں نے کہا کہ تم نے اپنے خاندان کو داغ لگایا کہ ایسا دعویٰ کیا۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ48 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51، 52)
2۔ یعنی الہام’’نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ نِّیْ رُوْحَ الصِّدْ قِ ‘‘ براہین احمدیہ حصّہ چہارم صفحہ 496 حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 591 (مرتّب)
کِتَابُ الْوَلِیِّ 1 ذُو الْفَقَارِ عَلِیٍّ
ولی کی کتاب علیؓ کی تلوار کی طرح ہے۔ یعنی مخالف کو نیست و نابود کرنے والی ہے۔ اور جیسے علیؓ کی تلوار نے بڑے بڑے خطرناک معرکوں میں نمایاں کاردکھلائے تھے ایسا ہی یہ بھی دکھلائے گی۔
اور یہ بھی ایک پیش گوئی ہے کہ جو کتاب2کی تاثیراتِ عظیمہ اور برکات عمیمہ پر دلالت کرتی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 497حاشیہ در حاشیہ نمبر 3، حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ 591 ، 592)
پھر بعد اس کے فرمایا:۔
وَلَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُرَیَّا لَنَا لَہ‘
اگر ایمان ثریا سے لٹکتا ہوتا۔ یعنی زمین سے بالکل اُٹھ جاتا۔ تب بھی شخص مقدم الذکر اُس کو پالیتا۔
یَکَا دُزَیْتُہ‘ یُضِیْٓ ئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ۔
عنقریب ہے کہ اُس کا تیل خود بخود روشن ہوجائے۔ اگرچہ آگ اُس کو چھو بھی نہ جائے۔
اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌسَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّ بُرَ۔ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً
1۔ (الف) ’’ایک زمانہ ذوالفقار کا تو وہ گذرگیا۔ کہ جب ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ‘ کے ہاتھ میں تھی مگر خدا تعالیٰ پھر ذوالفقار اس امام کو دیدے گا۔ اِس طرح پر کہ اُس کا چمکنے والاہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں ذوالفقار کرتی تھی۔ سو وہ ہاتھ ایسا ہوگا کہ گویا وہ ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ‘ ہے۔ جو پھر ظاہر ہوگئی ہے۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ امام سلطان القلم ہوگا اور اُس کی قلم ذوالفقار کاکام دے گی۔ (نعمت اللہ ولی) یہ پیش گوئی کہ (ید ِبیضاء کہ با اوتابندہ۔ باز باذوالفقار مے بینم۔ مرتب) بعینہٖ اِس عاجز کے اُس الہام کا ترجمہ ہے جو اِس وقت سے دس برس پہلے براہین احمدیہ میں چھپ چکا ہے۔ اور وہ یہ ہے:۔کتاب الولی ذوالفقار علی۔یعنی کتاب اس ولی کی ذوالفقار علی کی ہے۔ یہ اِس عاجز کی طرف اشارہ ہے اِسی بناء پر بارہا اِس عاجز کا نام مکاشفات میں غازی رکھا گیا ہے چنانچہ براہین احمدیہ کے بعض دیگر مقامات میں اِسی کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
(نشانِ آسمانی صفحہ15۔ روحانی خزائن جلد نمبر4 صفحہ 375)
(ب) ’’یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلے میں اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہرگز بیکار نہ بیٹھیں۔ مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہے جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اُسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے۔ اور وہ ہتھیار ہے قلم۔ یہی و جہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔‘‘
( الحکم جلد ۵ نمبر 22 مؤرخہ 17؍ جون1901ء صفحہ 2)
2۔ براہین احمدیہ (مرتّب)
یُّعْرُضُوْا وَیَقُوْلُوْاسِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔ وَاسْتَیْقَنَتْھَا اَنْفُسُھُمْ۔ وَقَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ۔ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ عَلَیْھِمْ۔ وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔ وَلَوْ اَنَّ قُراٰنًاسُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ۔
کیا کہتے ہیں کہ ہم ایک قوی جماعت ہیں۔ جواب دینے پر قادر ہیں۔ عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ جائے گی۔ اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ اور جب یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیں توکہتے1 ہیں کہ یہ ایک معمولی اور قدیمی سحر ہے۔ حالانکہ اُن کے دل اُن نشانوں پر یقین کر گئے ہیں۔ اور دلوں میں اُنہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اب گریز کی جگہ نہیں اور یہ خدا کی رحمت ہے کہ تو ان پر نرم ہوا۔ اور اگر تو سخت دل ہوتا۔ تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے۔ اور تجھ سے الگ ہوجاتے۔ اگرچہ قرآنی معجزات ایسے دیکھتے جن سے پہاڑ جنبش میں آجاتے۔
یہ آیات ان بعض لوگوں کے حق میں بطور الہام القاء ہوئیں۔ جن کا ایسا ہی خیال اور حال تھا۔ اور شاید ایسے ہی اور لوگ بھی نکل آویں۔ جو اس قسم کی باتیں کریں۔ اور بدرجہ ٔ یقین کامل پہنچ کر پھر منکر رہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 497 ، 498حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ592 ، 593)
1883ء
پھر بعد اس کے فرمایا:۔
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ2 وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَ بِا لْحَقِّ نَزَلَ۔ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ‘۔ وَکَانَ3 اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔
یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اِس الہام پُر از معارف و حقائق کو قادیان کے قریب اُتارا ہے۔ اور ضرورتِ حقہّ کے ساتھ اتارا ہے۔ اور بضرورتِ حقہ ّ اُترا ہے۔ خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی۔ کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدا نے چاہا تھا وہ ہونا ہی تھا۔
یہ آخری فقرات اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کے ظہور کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی
1۔ (ترجمہ از مرتّب) اس سے اِعراض کرتے۔ اور
2۔ ’’اس الہام پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیش گوئی کے پہلے لکھا گیا تھا...... اَب ایک نئے الہام سے یہ بات بپایہ ٔ ثبوت پہنچ گئی کہ قادیان کو خدائے تعالیٰ کے نزدیک دمشق سے مشابہت ہے تو اُس پہلے الہام کے معنے بھی اس سے کھل گئے.....اس کی تفسیر یہ ہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنْ مِنْ دِمَشْقَ بِطَرَفٍ شَرْقِیٍ عِنْدَالَمَنَارَۃِ الْبَیْضَآءِ ۔
کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ پر ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 73, 75 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 138، 139)
3۔ ازالہ اوہام میں یہ فقرہ یُوں ہے وَکَانَ وَعْدَ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً (ازالہ اوہام صفحہ 73)
حدیث......میں ارشاد فرما چکے ہیں۔ اور خدائے تعالیٰ اپنے کلامِ مقدس میں ارشاد فرما چکا ہے۔ چنانچہ وہ اشارہ حصہ سوم کے الہامات میں درج ہوچکا ہے اور فرقانی اشارہ اِس آیت میں ہے۔ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ498 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 593)
1883ء
’’جس روز وہ الہام مذکورہ بالا جس میں قادیان میں نازل ہونے کا ذکر ہے ہوا تھا۔ اُس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر1میرے قریب بیٹھ کربآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں۔ اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا۔کہ اِنَّآ اَنْزَلْنَا ہُ قَرِیْباً مِّنَ الْقَادِیَانِ تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے تب انہوں نے کہا۔ کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شایدقریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا۔ کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے۔ مکہ اور مدینہ اور قادیان۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 76، 77 روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 140)
1883ء
پھر بعد اس2کے جو الہام ہے وہ یہ ہے:
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِوُلْدِاٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِیْنَ
اور درُود بھیج محمدؐ اورآلِ محمدؐ پر جو سردارہے آدم کے بیٹوں کا اورخاتم الانبیاء ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اورتفضّلات اورعنایات اُسی کے طفیل سے ہیں اُسی سے محبّت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ ...اور ایسا ہی الہام متذکّرہ بالا میں جا آلِ رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اِس میں بھی یہ سِرّ ہے کہ افاضہء انوارِالٰہی میں محبّتِ اہلِ بَیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اورجو شخص حضرتِ احدیّت کے مقرّبین میں داخل ہوتا ہے وہ اِنہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اورتمام علوم ومعارف میں اُن کا وارث ٹھہرتا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ چہارم صفحہ 502، 503 حاشیہ درحاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1۔ صفحہ 597، 598)
1۔ ’’اس میں یہ بھید مخفی ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے میرے پر کھول دیا۔ کہ اُن کے نام سے اس کشف کی تعبیر کو بہت کچھ تعلق ہے۔ یعنی اُن کے نام میں جو قادر کا لفظ آتا ہے اِس لفظ کو کشفی طور پیش کرکے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قادرِ مطلق کا کام ہے۔ اِس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے عجائبات قدرت اسی طرف پر ہمیشہ ظہور فرما ہوتے ہیں۔ کہ وہ غریبوں اور حقیروں کو عزت بخشتا ہے اور بڑے بڑے معززوں اور بلند مرتبہ لوگوں کو خاک میں ملادیتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 77، 78 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 141 حاشیہ)
2۔ یعنی الہام ’’وَکَانَ اَمْرَاللٰہِ مَفْعُوْلَّا‘‘ مندرجہ صفحہ59 گذشتہ (مرتّب)
1883ء
’’اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غُربت اور انکسار اور توکّل اور ایثاراور آیات اور انوار کے رُو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے۔ اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے۔ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دوپھل ہیں اور بحدّی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے۔ اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادمِ دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے۔ اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 499 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 593، 594)
1883ء
1 وَمِنْ جُمْلَتِھَا اِلْھَامٌ اٰخَرُ خَاطَبَنِیْ رَبِّیْ فِیْہِ وَقَالَ اِنِّیْ خَلَقْتُکَ مِنْ جَوْھَرِ عِیْسٰی وَاِنَّکَ وَعِیْسٰی مِنْ جَوْھَرٍ وَّاحِدٍوَکَشَئ ءٍ وَّاحِدٍ 2
(حما متہ البشریٰ صفحہ14۔ روحانی خزائن جلد نمبر7 صفحہ 192)
1883ء
(الف) ’’اس مقام پر مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اِس عاجز نے اِس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اُس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اِس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے اُن میں سے کہا۔ کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمد کی طرف بھیجے تھے۔ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 502 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 598)
(ب) ’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا۔ کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے نہیں مل سکتیں۔ جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے۔ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ دو سقّے یعنی ماشکی آئے۔ اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل
1۔ (نوٹ از مرتب) اس الہام کو یہاں اس لئے درج کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی جگہ حمامتہ البشریٰ میں تحریر فرماتےہیں کہ یہ الہام براہین احمدیہ کی اشاعت سے پہلے کا ہے۔
2۔ (ترجمہ از مرتب) اور منجملہ ان کے ایک اور الہام بھی درج ہے جس میں مجھے اللہ مخاطب کرکے کہتا ہے کہ میں نے تجھ کو عیسیٰ کے جوہر سے پیدا کیا ہے۔ اور تُو اور عیسیٰ ایک ہی جوہر سے اور ایک ہی شَی کی مانند ہو۔‘‘
ہوئے اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔‘‘1
(حقیقتہ الوحی صفحہ128 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 131)
1883ء
پھر بعد اس2کے الہام ہوا۔
اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْوَاَعْرضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ۔
تو سیدھی راہ پر ہے۔ پس جو حکم کیا جاتا ہے۔ اُس کو کھول کر سنا اور جاہلوں سے کنارہ کر۔
وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۔ وَ قَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنَّ ھٰذَا لَمُکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ۔ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۔
اور کہیں گے کہ کیوں نہیں اُترا یہ کسی بڑے عالم فاضل پر۔ اور3شہروں میں سے اور کہیں گے کہ یہ مرتبہ تجھ کو کہاں سے ملا۔ یہ تو ایک مکر ہے جو تم نے شہر میں باہم مل کر بنالیا ہے۔ تیری طرف دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے۔ یعنی تو اُنہیں نظر نہیں آتا۔
تَاللّٰہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ
ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے اُمت ِ محمدیہ میں کئی اولیاء کامل بھیجے۔ پر شیطان نے اُن کے توابع کی راہ کو بگاڑ دیا۔ یعنی طرح طرح کی بدعات مخلوط ہوگئیں۔ اور سیدھا قرآنی راہ اُن میں محفوظ نہ رہا۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا۔ وَمَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہ‘۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ‘فَعَلَیَّ اِجْرَامٌ شَدِیْدٌ۔
کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو سو میری پیروی کرو۔ یعنی اتباع رسول مقبول کرو۔ تاخدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ اور جو شخص خدا کے لئے ہوجائے۔ خدا اُس کے لئے ہوجاتا ہے۔ کہہ اگر میں نے یہ افترا کیا ہے۔ تو میرے پر جرم شدید ہے۔
اِنَّکَ الْیُوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْمَتِیْ فِی الدُّ نْیَاوَالدِّیْنِ۔ وَاِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ۔
آج تو میرے نزدیک بامرتبہ اور امین ہے۔ اور تیرے پر میری رحمت دنیا اور دین میں ہے۔ اور تو مدد دیا گیا ہے۔
1۔ (ترجمہ ازمرتّب) یہ برکات اس درود کی و جہ سے ہیں جو تونے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا تھا۔
2۔ یعنی الہام صَلّ علٰی محمّد ٍ الخ ۔ (مرتب)
3۔ نقل مطابق اصل۔ لفظ ’د و ‘ چاہئے تھا۔ (مرتب)
یَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَیَمْشِیْ اِلَیْکَ
خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔
اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔
خبردار ہو خدا کی مدد نزدیک ہے۔
سُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا۔ یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جو رات سے مشابہ ہے۔ مقاماتِ معرفت اور یقین تک لَدُنّی طور پر پہنچایا۔
خَلَقَ اٰ دَمَ فَاَ کْرَمَہ‘
پیدا کیا آدم کو پس اکرام کیا اُس کا۔
جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ۔
جری اللہ نبیوں کے حُلّوں میں۔
اس فقرہ الہام کے یہ معنے ہیں کہ منصب ارشاد اور ہدایت اور موردِ وحی الٰہی ہونے کا دراصل حُلّۂ انبیاء ہے اور اُن کے غیر کو بطور مستعار ملتا ہے اوریہ حُلّۂ انبیاء اُمّتِ محمدیہ کے بعض افراد کو بغرضِ تکمیل ِناقصین عطا ہوتا ہے اور اُسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عُلَمَآئُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآئِ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ۔ پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں۔ پر نبیوں کاکام اُن کے سپرد کیا جاتا ہے۔
وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ فَاَ نْقَذَکُمْ مِنْھَا۔
اور تھے تم ایک گڑھے کے کنارے پر۔ سو اُس سے تم کو خلاصی بخشی یعنی خلاصی کا سامان عطا فرمایا۔
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَ عَلَیْکُمْ 1 وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَا فِرِیْنَ حَصِیْرًا۔
خدا یتعالیٰ کا ارادہ اِس بات کی طرف متوجہ ہے۔ جو تم پر رحم کرے۔ اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا۔ تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے۔ اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے........
تُوْبُوْ وَاَصْلِحُوْ وَاِلَی اللّٰہِ تَوَجَّھُوْا وَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلُوْا وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ
توبہ کرو اور فسق اور فجور اور کفر اور معصیت سے باز آؤ اور اپنے حال کی اصلاح کرو۔ اور خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ اور اُس پر توکّل کرو۔ اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ اس سے مدد چاہو۔ کیونکہ نیکیوں سے بدیاں دُور ہوجاتی ہیں۔
بُشْرٰی لَکَ یَآ اَحْمَدِیْ۔ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ غَرَسْتُ کَرَامَتَکَ بِیَدِیْ۔
1۔ حضرت اقدس نے اس الہام کو اربعین نمبر2 کے صفحہ 5 پر اور اس کے علاوہ کئی اور مقامات پر بھی بحوالہ براہین احمدیہ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ درج فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عَلَیْ کا لفظ سہو کتابت ہے۔(مرتب)
خوشخبری ہو تجھے اے میرے احمدؐ۔ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ میں نے تیری کرامت کو اپنے ہاتھ سے لگا یا ہے۔1
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذَالِکَ اَزْکٰی لَھُمْ۔
مومنین کو کہہ کہ اپنی آنکھیں نامحرموں سے بند رکھیں۔ اور اپنی سترگاہوں کو اور کانوں کو نالائق امور سے بچاویں۔ یہی ان کی پاکیزگی کے لئے ضروری اور لازم ہے۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہریک مومن کے لئے منہیات سے پرہیز کرنا اور اپنے اعضاء کو ناجائز افعال سے محفوظ رکھنا لازم ہے۔ اور یہی طریق اس کی پاکیزگی کا مدار ہے........
وَاِذْا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔
اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں۔ تو میں نزدیک ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔ اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے۔ کہ تاسب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں۔
لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ وَکَانَ کَیْدُھُمْ عَظِیْمًا۔
اور جو لوگ اہل ِ کتاب اور مشرکوں میں سے کافر ہوگئے ہیں۔ یعنی کفر پر سخت اصرار اختیار کرلیا ہے۔ اور اپنے کفر سے بجز اس کے باز آنے والے نہیں تھے۔ کہ اُن کو کھلی نشانی دکھلائی جاتی۔ اوراُن کا مکر ایک بھارا مکر تھا۔
یہ اس بات کی طر ف اشارہ ہے کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے آیا ت سماوی اور دلائل ِ عقلی سے اِس عاجز کے ہاتھ پر ظاہر کیا ہے۔ وہ اتمامِ حجت کے لئے نہایت ضروری تھا۔ اور اس زمانہ کے سیاہ باطن جن کو جہل اور خبث کے کیڑے نے اندر ہی اندر کھا لیا ہے‘ ایسے نہیں تھے جو بجز آیاتِ صریحہ و براہین قطعیہ اپنے کفر سے باز آجاتے۔ بلکہ وہ اُس مکر میں لگے ہوئے تھے کہ تا کسی طرح باغِ اسلام کو صفحۂ زمین سے نیست و نابود کردیں۔
اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیَا میں اندھیر پڑ جاتا
یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے جو دنیا کو ان آیات بیّنات کی نہایت ضرورت تھی۔ اور دنیا کے لوگ جو اپنے کفر
1 مکتوب مؤرخہ 13ستمبر1883ء بنام میر عباس علی صاحب میں اس الہام کو ذکر کرکے اس کے بعد فارسی زبان کا یہ فقرہ درج کیا گیا ہے جو اس الہام کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔’’بشارت باد ترا یا احمد من۔تو مراد مَنی و با مَنی نشاندم درخت بزرگی ترا بدست ِخود۔‘‘اور اس الہام کے ذکر سے پہلے لکھا ہے:۔
’’چونکہ یہ عاجز اعلان کا اذن بھی پاتا ہے۔ اس لئے کتاب میں یعنی حصہ چہارم میں درج بھی کیا جائے گا۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ55،56)۔ (مرتب)
اور خبث کی بیماری سے مجذوم کی طرح گداز ہوگئے ہیں۔ وہ بجز اِس آسمانی دوا کے جو حقیقت میں حق کے طالبوں کے لئے آبِ حیات تھی۔ تندرستی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۔ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۔ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَب۔
اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو۔ اور کفر اور شرک اور بد عقیدگی کو مت پھیلاؤ۔ تو وہ کہتے ہیں۔ کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے۔ اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں۔ خبردار رہو۔ یہی لوگ مفسد ہیں۔ جو زمین پر فساد کررہے ہیں۔ کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں۔
یعنی یہ زمانہ اپنے فسادِ عظیم کے رُو سے اندھیری رات کی مانند ہے۔ سو الٰہی قوتیں اور طاقتیں اِ س زمانہ کی تنویر کے لئے درکار ہیں۔ انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے۔
اِنِّیْ نَاصِرُکَ۔ اِنِّیْ حَافِظُکَ۔ اِنِّیْ جَا عِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ یَجْتَبِیْ مَنْ یُّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ وَتِلْکَ الْاَ یَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔
میں تیری مدد کروں گا۔ میں تیری حفاظت کروں گا۔ میں تجھے لوگوں کے لئے پیش رَو بناؤں گا۔ کیا لوگوں کو تعجب ہوا۔ کہہ خداوند ذوالعجائب ہے۔ ہمیشہ عجیب کام ظہور میں لاتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے۔ وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا۔ کہ ایسا کیوں کیا۔ اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔ اور ہم یہ دن لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔
یعنی کبھی کسی کی نوبت آتی ہے اور کبھی کسی کی۔ اور عنایاتِ الٰہیہ نوبت بہ نوبت اُمت ِ محمدیہ کے مختلف افراد پر وارد ہوتی رہتی ہیں۔
وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔اِذَا نَصَرَاللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ۔ فَالنَّارُ مَوْعِدُھُمْ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔
اور کہیں گے کہ یہ تجھ کو کہاں سے ؟اور یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ خدائے تعالیٰ جب مومن کی مدد کرتا ہے۔ تو زمین پر کئی اس کے حاسد بنادیتا ہے۔ سو جو لوگ حسد پر اصرار کریں۔ اور باز نہ آویں۔ تو جہنم اُن کا وعدہ گاہ ہے۔ کہہ یہ سب کاروبار خدا کی طرف سے ہیں۔ پھر اُن کو چھوڑدے۔ تا اپنے بے جا خوض میں کھیلتے رہیں۔
تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَتَرَحَّمْ عَلَیْھِمْ۔ اَنْتَ فِیْھِمْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی وَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ۔
لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ۔ اور اُن پر رحم کر۔ تو اُن میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے۔ اور اُن کی باتوں پر صبر کر۔
حضرت موسیٰ بُردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی۔ ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہ ٔعالیہ تک پہنچ سکے۔ توریت سے ثابت ہے جو حضرتِ موسیٰ رفق اور حلم اور اخلاقِ فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے۔ جیسا کہ گنتی باب دو از دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو رُوئے زمین پر تھے۔ زیادہ بُرد بار تھا۔ سو خدا نے توریت میں موسیٰ کی بُردباری کی ایسی تعریف کی۔ جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے۔ ہاں جو اخلاقِ فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے۔ وہ حضرت موسیٰ سے ہزار درجہ بڑھ کر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُن اخلاقِ فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے۔ اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ تو خلق عظیم پر ہے.......اور چونکہ اُمت ِ محمدیہ کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔ اس لئے الہام متذکرہ بالا میں اِس عاجز کی تشبیہہ حضرتِ موسیٰ سےدی گئی۔ اور یہ تمام برکات حضرت سید الرسل کے ہیں جو خداوند کریم اس کی عاجز اُمت کو اپنے کمال لطف اور احسان سے ایسے ایسے مخاطباتِ شریفہ سے یاد فرماتا ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ503 تا 509 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 599 تا 607)
1883ء
’’پھر بعد اِس کے یہ الہامی عبارت ہے۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآئُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآئُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ۔ وَیُحِبُّوْنَ اَنْ تُدْھِنُوْنَ۔ قُلْ یَآ اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۔ قِیْلَ ارْجِعَوْٓا اِلَی اللّٰہِ فَلَا تَرْجِعُوْنَ۔ وَقِیْلَ اسْتَحْوِذُوْا فَلَا تَسْتَحْوِذُوْنَ۔ اَمْ تَسْئَلُھُمْ مِّنْ خَرْجٍ فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ۔ بَلْ اٰتَیْنٰھُمْ بِالْحَقِّ فَھُمْ لِلْحَقِّ کَارِھُوْنَ۔ سُبْحَانَہ‘وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ۔اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَاُیُفْتَنُوْنَ۔ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا۔ وَلَا یَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ خَافِیَۃٌ۔ وَلَا یَصْلَحُ شَیْءٌ قَبْلَ اِصْلَا حِہٖ۔ وَمَنْ رُّدَّ مِنْ مَّطْبَعِہٖ فَلَا مَرَدَّ لَہ‘۔
اور جب ان کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ہی ایمان لاویں۔
جیسے بیوقوف ایمان لائے ہیں۔ خبردار ہو۔ وہی بیوقوف ہیں۔ مگر جانتے نہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ تم اُن سے مداہنہ کرو۔ کہہ اے کافرو میں اس چیز کی پرستش نہیں کرتا۔ جس کی تم کرتے ہو۔ تم کو کہا گیا کہ خدا کی طرف رجوع کرو۔ سو تم رجوع نہیں کرتے۔ اور تم کو کہا گیا۔ جو تم اپنے نفسوں پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہیں آتے۔ کیا تو اِن لوگوں سے کچھ مزدوری مانگتا ہے۔ پس وہ اس تاوان کی و جہ سے حق کو قبول کرنا ایک پہاڑ سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کو مفت حق دیا جاتاہے۔ اور وہ حق سے کراہت کررہے ہیں۔ خداے تعالیٰ ان عیبوں سے پاک و برتر ہے۔ جو وہ لوگ اس کی ذات پر لگاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بے امتحان کئے صرف زبانی ایمان کے دعویٰ سے چُھوٹ جاویں گے۔ چاہتے ہیں جو ایسے کاموں سے تعریف کئے جائیں۔ جن کو انہوں نے کیا نہیں۔ اور خداے تعالیٰ سے کوئی چیز چُھپی ہوئی نہیں۔ اور جب تک وہ کسی شے کی اصلاح نہ کرے اصلاح نہیں ہوسکتی۔ اور جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا جائے اس کو کوئی واپس نہیں لاسکتا۔
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۔ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ۔ یَآ اِبْرَاھِیْمُ اَغْرِضْ عَنْ ھٰذَا اِنَّہ‘عَبْدٌ1 غَیْرُ صَالِحٍ۔ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌوَمَا اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِمُسَیْطِرٍ۔
کیا تو اسی غم میں اپنے تئیں ہلاک کردے گا۔ کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔جس چیز کا تجھ کو علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ۔ اور اُن لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں میرے ساتھ مخاطبت مت کر۔ وہ غرق کئے جائیں گے۔ اے ابراہیم اس سے کنارہ کر۔ یہ صالح آدمی نہیں۔ تو صرف نصیحت دہندہ ہے۔ اِن پرداروغہ نہیں۔
یہ چند آیات جو بطورِ الہام القا ہوئی ہیں بعض خاص لوگو ں کے حق میں ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ509،510 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 607، 608)
1883ء
’’پھر آگے اس کے یہ الہام ہے۔
1 وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَاتَّخِذُوْ2 ا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی۔
اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد چاہو۔ اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو۔
1 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ88 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 115 سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وحی الٰہی کی دوسری قرأت اِنَّہ‘ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ہے۔ (مرتب)
2 ’’اِس مقام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجاگیا تم اپنی عبادتوں اورعقیدوں کو اس کی طرز پر بجالاؤ اورہرایک امر میں اُس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 20، 21۔ روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 68)
اس جگہ مقامِ ابراہیم سے اخلاقِ مرضیہ و معاملہ باللہ مراد ہے۔ یعنی محبت ِ الٰہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا۔ یہی حقیقی مقام ابراہیم کا ہے۔ جو امت ِ محمدیہ کو بطور تبعیّت و وراثت عطا ہوتا ہے۔ اور جو شخص قلب ِ ابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے۔
یُظِلُّ رَبُّکَ عَلَیْکَ وَیُغِیْثُکَ وَیَرْحَمُکَ۔ وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ فَیَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدہٖ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔
خدا تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا۔ اور نیز تیرا فریاد رس ہوگا۔ اور تجھ پر رحم کرے گا۔ اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں۔ مگر خدا تجھے بچائے گا۔ اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا۔ اگرچہ تمام لوگ دریغ کریں۔
یعنی خدا تجھے آپ مدد دے گا۔ اور تیری سعی کے ضائع ہونے سے تجھے محفوظ رکھے گا۔ اور اس کی تائیدیں تیرے شامل حال رہیں گی۔
وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْ کَفَرَ1۔ اَوْقِدْلِیْ یَاھَامَانُ لَعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ اِلیٰٓ اِلٰہِ مُوْسٰی وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہ‘مِنَ الْکٰذِبِیْنَ
یاد کر جب منکر نے بغرض کسی مکر کے اپنے رفیق کو کہا کہ کسی فتنہ یا آزمائش کی آگ بھڑکا۔ تا میں موسیٰ کے خدا پر یعنی اِس شخص کے خدا پر مطلع ہوجاؤں۔ کہ کیونکر وہ اُس کی مدد کرتا ہے۔ اور اُس کے ساتھ ہے یا نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔
یہ کسی واقعہ آیندہ کی طرف اشارہ ہے کہ خوبصورت گذشتہ بیان کیا گیا ہے۔
تَبَّتْ یَدَٓا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۔ مَاکَانَ لَہ‘ٓ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْھَآ اِلَّا خَآئِفًا۔ وَمَآ اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ۔
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے۔ اور وہ بھی ہلاک ہوا۔ اور اُس کو لائق نہ تھا کہ اِس کام میں بجز خائف اور ترساں ہونے کے یونہی دلیری سے داخل ہوجاتا اور جوتجھ کو پہنچے تو وہ خدا کی طرف سے ہے۔
1 (ا) یہ لفظ کفّر اور کفَر دونوں قرأتیں ہیں۔ کیونکہ کافر کہنے والا بہر حال منکر بھی ہوگا اور جو شخص اس (بقیہ حاشیہ) دعویٰ سے منکر ہے وہ بہرحال کافر ٹھہرائے گا۔ اور ھامان کا لفظ ہیمان کے لفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ہیمان اُسے کہتے ہیں جو کسی وادی میں اکیلا سرگرداں پھرے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 64حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 82)
(ب) ’’یادر ہے کہ اس وحی الٰہی میں دونوں قرأتیں ہیں۔ کَفَرَ بھی اور کَفَّرَ بھی۔ اور اگر کَفَرَ کی قرأت کی رو سے معنے لئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ پہلے شخص مُستَفْتِیْ میرے پر اعتماد رکھتا ہوگا۔ اور معتقدین میں داخل ہوگا۔ اور پھر بعد میں برگشتہ اور منکر ہوجائے گا۔ اور یہ معنی مولوی محمد حسین بٹالوی پر بہت چسپاں ہیں۔ جنہوں نے براہین احمدیہ کے ریویو میں میری نسبت ایسا اعتقاد ظاہر کیا۔ کہ اپنے ماں باپ بھی میری پر فدا کردیئے۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 354 حاشیہْ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 368 حاشیہ)
یہ کسی شخص کے شر کی طرف اشارہ ہے۔ جو بذریعہ تحریر یا بذریعہ کسی اور فعل کے اُس سے ظہور میں آوے1۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اَلْفِتْنَۃ ھٰھُنَا۔ فَاصْبِرْکَمَا صَبَرَ اُو لُوا الْعَزْمِ۔ اَلَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَمًّا حُبًّا مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِالْاَکْرَمِ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔
اس جگہ فتنہ ہے پس صبر کر۔ جیسے اولُو العزم لوگوں نے صبر کیا ہے۔ خبردار ہو۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے۔ تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے۔ اُس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں۔
شَاتَانِ تُذْ بَحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔
دو بکریاں2 ذبح کی جائیں گی۔ اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا۔ یعنی ہریک کیلئے قضاء و قدر درپیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں ....
وَلا تَھنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا اَلَیْسَ اللّٰہ بِکَافٍ عَبْدَہ‘ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا۔
اور سست مت ہو اور غم مت کرو۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر
1۔ ’’یہ پیش گوئی قریباً فتویٰ تکفیر سے بارہ برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے یعنی جبکہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے یہ فتویٰ تکفیر لکھا۔ اور میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کو کہا کہ سب سے پہلے اس پر مہر لگاوے۔ اور میرے کفر کی نسبت فتویٰ دیدے۔ اور تمام مسلمانوں میں میرا کافر ہونا شائع کردے۔ سو اس فتویٰ اور میاں صاحب مذکور کے مہر سے بارہ برس پہلے یہ کتاب تمام پنجاب اور ہندوستان میں شائع ہوچکی تھی اور مولوی محمد حسین جو بارہ برس کے بعد اوّل المکفرّین بنے۔ بانی تکفیر کے وُہی تھے۔ اور اس آگ کو اپنی شہرت کی و جہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین صاحب دہلوی تھے۔ اس جگہ سے خدا کا علمِ غیب ثابت ہوتا ہے کہ ابھی اس فتویٰ کا نام ونشان نہ تھا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب میری نسبت خادموں کی طرح اپنے تئیں سمجھتے تھے اُس وقت خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی جس کو کچھ بھی عقل اور فہم ہے وہ سوچے اور سمجھے کہ کیا انسانی طاقتوں میں یہ بات داخل ہوسکتی ہے کہ جو طوفان بارہ برس کے بعد آنے والا تھا جس کا پر زور سیلاب مولوی محمد حسین جیسے مدعی اخلاص کو درجہ ضلالت کی طرف کھینچ کر لے گیا اور نذیر حسین جیسے مخلص کو جو کہتا تھا کہ براہین احمدیہ جیسی اسلام میں کوئی کتاب تالیف نہیں ہوئی۔ اس سیلاب نے دبالیا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 75 روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 215، 216)
2 یہ پیشگوئی حضرت شہزادہ مولا ناسید عبداللطیف صاحب کابلی شہید و مولوی عبدالرحمن صاحب کابلی شہید رضی اللہ عنہ‘ کی شہادت سے پوری ہوئی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے کتاب تذکرۃ الشہادتین۔ (مرتب)
ہے۔ اور خدا ان لوگوں پر تجھ کو گواہ لائے گا۔
اَوْ فَی اللّٰہُ اَجْرَکَ۔ وَیَرْضٰی عَنْکَ رَبُّکَ وَیُتِمُّ اسْمَکَ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْ اشَیْئًا وَّھُوَ اشَرٌّ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْاشَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔
خدا تیرا بدلہ پورا دے گا۔ اور تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے اسم کو پورا کرے گا۔ اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو۔ اور اصل میں وہ تمہارے لئے بُری ہو۔ اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بُری سمجھو۔ اور اصل میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔ اور خدا تعالیٰ عواقب ِ امور جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے۔
کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ۔ اِنَّ السَّمٰوَات، وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا۔ وَ اِنْ یَّتَّخِذُ وْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا۔ اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ۔ قُلْ اِنَّمَا بَشَرٌ1 مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔ وَالْخَیْرُکُلُّہ‘فِی الْقُرْاٰنِ۔ لَا یَمَسُّہ‘ٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًامِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔
میں ایک خزانہ2پوشیدہ تھاسو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں۔ آسمان اور زمین دونوں بند تھے سو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا۔ اور تیرے ساتھ ہنسی سے ہی پیش آئیں گے۔ اور ٹھٹھا مار کرکہیں گے۔ کیا یہی ہے جس کو خدا نے اصلاح خلق کے لئے مقرر کیا۔ یعنی جن کا مادّہ ہی خبث ہے۔ اُن سے صلاحیت کی اُمید مت رکھ۔
اور پھر فرمایا۔ کہہ میں صرف تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں۔ مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے۔ کہ بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی تمہارا معبود نہیں۔ وہی اکیلا معبود ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرنا نہیں چاہئے۔ اور تمام خیر اور بھلائی قرآن میں ہے۔ بجز اُسکے اور کسی جگہ سے بھلائی نہیں مل سکتی۔ اور قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ
1 یہ وحی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اربعین نمبر 2 کے صفحہ8پر بحوالہ براہین احمدیہ یوں نقل فرمائی ہے۔’’قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ براہین احمدیہ میں بَشَرٌ سے پہلے ’’اَنَا‘‘ کا لفظ سہو کتابت سے رہ گیا ہے۔
(روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 354) (مرتب)
2 پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ فرماتے ہیں:۔’’میں نے ایک روز حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت کنت کَنْزًا الخ ...... کے معانی میں صوفیاء نے اور نیز دیگر علماء نے بہت کچھ زور لگائے۔ آپ فرمائیں کہ اس جملہ مبارک کے کیا معنی ہیں۔ فرمایا۔ آسان معنی اس کے یہی ہیں کہ جب دنیا میں ضلالت اور گمراہی اور کفر وشرک اور بدعات و رسومات مختر عات پھیل جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور اُس تک پہنچنے کی راہیں گُم ہوجاتی ہیں۔ اور دل سخت اور خشیت اللہ سے خالی ہوجاتے ہیں۔ تو ایسے وقت اور ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ
اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے۔ اور میں ایک1عمر تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں۔ کیا تم کو عقل نہیں....
قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَالْھُدٰی وَاِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ رَبِّ اغْفِرْوَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ۔ اِیْلِیْ اٰوس۔
کہہ ہدایت وہی ہے جو خدا کی ہدایت ہے۔ اور میرے ساتھ میرا رب ہے۔ عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا۔ اے میرے خدا آسمان سے رحم اور مغفرت کر۔ میں مغلوب ہوں۔ میری طرف سے مقابلہ کر۔ اے میرے خدا۔ اے میرے خدا۔ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔
آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اٰوس بباعث سُرعت ِورود مشتبہ رہا ہے اور نہ اس کے کچھ معنے کُھلے۔ واللہ
(بقیہ حاشیہ) مخفی خزانہ کی طرح ہوجاتا ہے تو اس کے بعد خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میں پھر دنیا پرظاہر ہوؤں اور دنیا مجھے پہچانے۔ تو خدا تعالیٰ کسی اپنے بندہ کو اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے اور اُس کو خلعتِ خلافت عطا فرماتا ہے اُس کے ذریعہ سے وہ شناخت کیا جاتا ہے وہ پسندیدہ اور برگزیدہ بندہ خدا تعالیٰ کی محبت ازسرِ نو خالی دلوں میں بھرتا اور اُس کی معرفت کے اسرار لوگوں پر ظاہر کرتا ہے ہر ایک زمانہ میں ابتدائے آفرینش سے یہی سنّت اللہ اور یہی طریقتہ اللہ رہا ہے۔ بالآخر ہمارے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ لوگ معرفت الٰہی کو کھو بیٹھے صفاتِ الٰہی میں کچھ کا کچھ اپنی طرف سے تصرف کیا۔ اسماء اللہ سے غافل ہوگئے اُس کی کتابوں اور صحیفوں کو ترک کر بیٹھے اُس کے ندّ اور شریک بنالئے۔ پس خدا تعالیٰ پوشیدہ خزانہ کی طرح ہوگیا۔ تو خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی معرفت اور محبت دے کر بھیجا۔ تا کہ دنیا کو راہِ راست پر لگایا جاوے۔ پس اسی واسطے ہم تحریر سے‘ تقریر سے‘ توجہ سے‘ دعا سے‘اپنے چال چلن سے پر ہیبت پیشگوئیوں اور اسرارِ غیب سے جو خدا نے ہمیں عطا کئے۔ اور معارف و حقائق و دقائق قرآنی سے رات دن لگے ہوئے ہیں۔ اور ہم کیا خداتعالیٰ نے ہمارے سب کاروبار اور اعضا اور ہاتھ اور زبان اور ہر ایک حرکت و سکون کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے جس طرح اُس کی مرضی ہوتی ہے وہ ہمیں چلاتا ہے اور ہم اُسی طرح چلتے ہیں۔ ہمارا اس میں کچھ اختیار نہیں۔‘‘ (الحکم جلد 6 نمبر23 مؤرخہ4 2؍ جون1902ء صفحہ 11)
1 ’’قریباً1882ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وحی سے مشرف فرمایا کہ ولَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ اوراس میں عالم الغیب خدا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی مخالف کبھی تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگاسکے گا۔ چنانچہ اس وقت تک جو میری عمر قریباً پینسٹھ سال ہے کوئی شخص دور یا نزدیک رہنے والا ہماری گذشتہ سوانح پر کسی قسم کا داغ ثابت نہیں کرسکتا۔ بلکہ گذشتہ زندگی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین سے بھی دلوائی ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت پُر زور الفاظ میں اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں کئی بار ہماری اور ہمارے خاندان کی تعریف کی ہے۔ اور دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کی نسبت اور اس کے خاندان کی نسبت مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہیں۔ اور پھر انصاف کی پابندی سے بقدر اپنی واقفیت کے تعریفیں کی ہیں۔ پس ایک ایسا مخالف جو تکفیر کی بنیاد کا بانی ہے۔ پیشگوئی وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ کا مصدِّق ہے۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 212۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 590)
اعلم بالصواب .........
یَا عَبْدَ الْقَادِرِ اِنِّیْ مَعَکَ اَسْمَعُ وَاَرٰی۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ۔ وَنَجَّیْنَا کَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنَّاکَ فُتُوْنًا۔ لَیَا تِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ھُدًی اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھَمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۔
اے عبدالقادر میں تیرے ساتھ ہوں۔ سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ تیرے لئے میں نے رحمت اور قدرت کو اپنے ہاتھ سے لگایا۔ اور تجھ کو غم سے نجات دی اور تجھکو خالص کیا۔ اور تم کو میری طرف سے مدد آئیگی۔ خبردار ہو لشکر خدا کا ہی غالب ہوتا ہے۔ اور خدا ایسا نہیں جو اُن کو عذاب پہنچادے جب تک تو اُن کے درمیان ہے یا جب وہ استغفار کریں۔
اَنَا بُدُّکَ اللَّازِمُ۔ اَنَا مُحْیِیْکَ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُنِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحبَّۃً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہ‘ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ۔
میں تیرا چارہ لازمی ہوں۔ میں تیرا زندہ کرنے والا ہوں۔ میں نے تجھ میں سچائی کی روح پھونکی ہے۔ اور اپنی طرف سے تجھ میں محبت ڈال دی ہے۔ تاکہ میرے روبرو تجھ سے نیکی کی جائے۔ سو تو اس بیج کی طرح ہے جس نے اپنا سبزہ نکالا۔ پھر موٹا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اپنی ساقوں پر قائم ہوگیا۔
ان آیات میں خدائے تعالیٰ کی اُن تائیدات اور احسانات کی طرف اشارہ ہے اور نیز اُس عروج اور اقبال اور عزت اور عظمت کی خبر دی گئی ہے کہ جو آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچے گی۔
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ۔
ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح عطا فرمائی ہے یعنی عطا فرمائیں گے۔ اور درمیان میں جو بعض مکروہات اور شدائد ہیں۔ وہ اس لئے ہیں تا خدائے تعالیٰ تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرمادے۔
یعنی اگر خدائے تعالیٰ چاہتا۔ تو قادر تھا کہ جو کام مدِّنظر ہے وہ بغیر پیش آنے کسی نوع کی تکلیف کے اپنے انجام کو پہنچ جاتا اور بآسانی فتح عظیم حاصل ہوجاتی لیکن تکالیف اِس جہت سے ہیں کہ تا وہ تکالیف موجب ترقی مراتب و مغفرت خطا یا ہوں........
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّاقَالُوْا وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھًا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ فَلَمَّا تجَلّٰی رَبُّہ‘ لِلْجَبَلِ جَعَلَہ‘ دَکًّا۔ وَاللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِالْکَافِرِیْنَ۔ بَعْدَ الْعُسْرِیُسْرٌ۔ وَلِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ وَلِنَجْعَلَہ‘ٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ قَوْلُ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَمْتَرُوْنَ۔
کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ پس خدا نے اُس کو اُن الزامات سے بَری کیا۔ جو اُس پر لگائے گئے تھے۔ اور خدا کے نزدیک وہ وجیہہ1 ہے۔کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں۔ پس جبکہ خدا نے پہاڑ پر تجلّی کی تو اُس کو پاش پاش کردیا۔ یعنی مشکلات کے پہاڑ آسان ہوئے۔ اور خدائے تعالیٰ کافروں کے مکر کو سست کردیگا اور اُن کو مغلوب اور ذلیل کرکے دکھلائے گا۔ تنگی کے بعد فراخی ہے۔ اور پہلے بھی خدا کا حکم ہے اور پیچھے بھی خدا کا ہی حکم ہے۔ کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں اور ہم اُس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنائیں گے۔ اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا یہ وہ سچی بات ہے جس میں تم شک کرتے ہو۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ‘ٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ۔ رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ۔ مَتَّعَ اللّٰہُ الْمُسْلِمِیْنَ بِبَرَکَاتِھِمْ فَانْظُرُوْٓا اِلٰٓی اٰثَارِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ۔ وَاَنْبِئُوْنِیْ مِنْ مِّثْلِ ھٰٓؤُ لَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ وَمَنْ یَّبْتَغْ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا لَّنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کار سول ہے اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں۔ وہ کفّار پر سخت ہیں۔ یعنی کفّار اُن کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں۔ اور اُن کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں۔ وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یادِ الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے۔ اور نہ بیع مانع ہوتی ہے۔ یعنی محبت ِ الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دُنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں۔ اُن کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں۔ خداے تعالیٰ اُن کے برکات سے مسلمانوں کو متمتع کرے گا۔ سو اُن کا ظہور رحمت ِ الٰہیہ کے آثار ہیں۔ سو اُن آثار کو دیکھو اور اگر اِن لوگوں کی کوئی نظیر تمہارے پاس ہے یعنی اگر تمہارے ہم مشربوں اور ہم مذہبوں میں سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ اِسی طرح تائیداتِ الٰہیہ سے مؤید ہوں۔ سو تم اگر سچے ہو تو ایسے لوگوں کو پیش کرو۔ اور جو شخص بجز دین ِ اسلام کے کسی اور دین کا خواہاں اور جویاں ہوگا۔ وہ دین ہرگز اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ زیاں کاروں میں ہوگا۔
یَآ اَحْمَدُ فَا ضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ اِنَّآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ1 فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔
1 ’’یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی کہ کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر کے وقت میں میرے پر خون کا الزام لگایا گیا۔ خدا نے مجھے اُس سے بَری کردیا اور پھر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کے وقت میں مجھ پر الزام لگایا گیا اُس سے بھی خدا نے مجھے بَری کردیا اور پھر مجھ پر جاہل ہونے کا الزام لگایا گیا۔ سو مخالف مولویوں کی خود جہالت ثابت ہوئی اور پھر مہرعلی نے مجھ پر سارق ہونے کا الزام لگایا۔ سو اس کا خود سارق ہونا ثابت ہوا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ131 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 509)
2 حضرت اقدس نزول المسیح میں اس کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں:۔’’ہم تجھے بہت سے ارادتمند عطا کریں گے اور ایک کثیر جماعت تجھے دی جاوے گی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 131۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 509)
وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ سِرُّکَ سِرِّیْ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِٓیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ وَجِیْھًافِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔
اے احمدتیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے ہم نے تجھ کو معارفِ کثیرہ عطا فرمائے ہیں ۔سو اُس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے۔ اور میری یاد کے لئے نماز کو قائم کر۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اُتار دیا ہے۔ اور تیرے ذِکر کو اونچا کردیا ہے۔ تُو سیدھی راہ پر ہے۔ دنیا اور آخرۃ میں وجیہہ اور مقربین میں سے ہے۔
حَمَاکَ اللّٰہُ۔ نَصَرَکَ اللّٰہُ۔ رَفَعَ اللّٰہُ حُجَّۃَ الْاِسْلَامِ۔ جَمَالٌ۔ ھُوَالَّذِیْ اَمْشَاکُمْ فِیْ کُلِّ حَالٍ۔ لَا تُحَاطُ اَسْرَارُ الْاَولِیَآئِ۔
خدا تیر ی حمایت کرے گا۔ خدا تجھ کو مدد دے گا۔ خدا حجت ِاسلام کو بلندکرے گا۔ جمالِ الٰہی ہے جس نے ہر حال میں تمہارا تنقیہ کیا ہے۔ خدائے تعالیٰ کو جو اپنے ولیوں میں اسرار ہے۔ وہ احاطہ سے باہر ہیں۔ کوئی کسی راہ سے اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور کوئی کسی راہ سے.........
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداے تعالیٰ میں دو صفتیں ہیں جو تربیت ِ عباد میں مصروف ہیں۔ ایک صفت رفق اور لطف اور احسان ہے اس کا نام جمال ہے۔ اور دوسری صفت قہر اور سختی ہے اِس کا نام جلال ہے۔ سو عادۃ اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جو لوگ اُس کی درگاہِ عالی میں بلائے جاتے ہیں۔ اُن کی تربیت کبھی جمالی صفت سے اور کبھی جلالی صفت سے ہوتی ہے۔ اور جہاں حضرت احدیّت کے تلطّفاتِ عظیمہ مبذول ہوتے ہیں۔ وہاں ہمیشہ صفت ِ جمالی کے تجلیات کا غلبہ رہتا ہے۔ مگر کبھی کبھی بندگانِ خاص کی صفاتِ جلالیہ سے بھی تادیب اور تربیت منظور ہوتی ہے جیسے انبیاء کرام کے ساتھ بھی خدا ے تعالیٰ کا یہی معاملہ رہا ہے کہ ہمیشہ صفاتِ جمالیہ حضرت احدیت کے اُن کی تربیت میں مصروف رہے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی اُن کی استقامت اور اخلاقِ فاضلہ کے ظاہر کرنے کے لئے جلالی صفتیں بھی ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ اور اُن کو شریر لوگوں کے ہاتھ سے انواع اقسام کے دکھ ملتے رہے ہیں۔ تا اُن کے وہ اخلاق فاضلہ جو بغیر تکالیف شاقہ کے پیش آنے کے ظاہر نہیں ہوسکتے۔ وہ سب ظاہر ہوجائیں۔ اور دنیا کے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ کچے نہیں ہیں۔ بلکہ سچے وفادار ہیں۔
وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنْ ھٰذَا اِلَّا سِحرٌ یُّؤْثَرُ۔ لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً۔ لَا یُصَدِّقُ السَّفِیْہُ اِلَّا سَیْفَۃَ الْھَلَاکِ۔ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّکَ قُلْ اَتٰٓی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ۔ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی۔
اور کہیں گے یہ تجھے کہاں سے حاصل ہوا۔ یہ تو ایک سحر ہے جو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم ہرگز نہیں مانیں گے۔
جب تک خدا کو بچشمِ خود دیکھ نہ لیں۔سفیہ بجز ضربہ ٔ ہلاکت کے کسی چیز کو باور نہیں کرتا۔ میرا اور تیرا دشمن ہے۔ کہہ خدا کا امر آیا ہے۔ سو تم جلدی مت کرو۔ جب خدا کی مدد آئے گی تو کہا جائے گا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں کہیں گے کہ کیوں نہیں۔
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَلَاتَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا۔ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُمْ رَءُوْفًا رَّحِیْمًا۔ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ تَمُوْتُ وَاَنَا رَاضٍ مِّنْکَ۔ فَادْخُلُوا الْجَنَّۃَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْ ھَآ اٰمِنِیْنَ سَلَامٌ عَلَیْکٌ جُعِلْتَ مُبَارَکًا سَمِعَ اللّٰہُ اِنَّہ‘سَمِیْعُ الدُّعَآئِ۔ اَنْتَ مُبَارَکٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔ اَمْرَاضُ النَّاسِ وَبَرَکَا تُہ‘اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ اُذْکُرْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ وَ اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ مَنَّ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ وَاَحْسَنَ اِلٰٓی اَحْبَابِکُمْ وَعَلَّمَکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْن۔ وَاِنْ تَعُدُّ و انِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا۔
میں تجھ کو پوری1نعمت دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں یعنی حقیقی طور پر اللہ و رسول کے مُتّبعین میں داخل ہوجائیں۔ اُن کو اُن کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ یعنی وہ لوگ حجت اور دلیل کے رُو سے اپنے مخالفوں پر غالب رہیں گے۔ اور صدق اور راستی کے انوار سا طعہ اُنہیں کے شامل حال رہیں گے۔ اور سُست مت ہو اور غم مت کرو۔ خدا تم پر بہت ہی مہربان ہے۔ خبردار ہو بہ تحقیق جو لو گ مقربان الٰہی ہوتے ہیں اُن پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم کرتے ہیں۔ تُو اس حالت میں مرے گا کہ جب خدا تجھ پر راضی ہوگا۔ پس بہشت میں داخل ہوانشاء اللہ امن کے ساتھ۔ تم پر سلام ہو۔ تم شرک سے پاک ہوگئے۔ سو تم امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہو۔ تجھ پر سلام۔ تو مبارک کیا گیا۔ خدانے دعا سن لی۔ وہ دعاؤں کو سنتا ہے۔ تو دنیا اور آخرت میں مبارک ہے.........لوگوں کی بیماریاں اور خدا کی برکتیں۔ یعنی مبارک کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے لوگوں کی روحانی بیماریاں دُور
1 ’’میں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے توفّی کے معنے ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں۔ جن کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں میں مانتا ہوں کہ وہ میری غلطی ہے الہامی غلطی نہیں۔ میں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلاً جیسا کہ سہو اور نسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں گو میں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر مجھے خدا تعالیٰ قائم نہیں رکھتا۔ مگر یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کرسکتا۔ خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کا کلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ سہو و نسیان لازمہ بشریّت ہے۔‘‘
(ایّام الصلح صفحہ41۔ روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 271، 272۔ نیز دیکھو براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ73 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 93)
ہوں گی اور جن کے نفس سعید ہیں۔ وہ میری باتوں کے ذریعہ سے رشد اور ہدایت پاجائیں گے اور ایسا ہی جسمانی بیماریاں اور تکالیف جن میں تقدیر مبرم نہیں1۔
اور پھر فرمایا کہ تیرا رب بڑا ہی قادر ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا کی نعمت کو یاد رکھ۔ اور میں نے تجھ کو تیرے وقت کے تمام عالموں پر فضیلت دی۔
اس جگہ جاننا چاہئے کہ یہ تفضیل طفیلی اور جزوی ہے۔ یعنی جو شخص حضرت ِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طور پر متابعت کرتا ہے۔ اُس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اُس کے تمام ہم عصروں سے بر تر و اعلیٰ ہے۔ پس حقیقی اور کلّی طور پر تمام فضیلتیں حضرت خاتم الانبیاء کو جناب احدیّت کی طرف سے ثابت ہیں۔ اور دوسرے تمام لوگ اُس کی متابعت اور اُس کی محبت کے طفیل سے علیٰ قدر متابعت و محبت مراتب پاتے ہیں۔فما اعظم شان کمالہ اللّٰھم صلّ علیہ واٰلہٖ۔
اب بعد اس کے بقیہ ترجمہ الہام یہ ہے۔ اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ۔ وہ تجھ پر راضی اور تو اُس پر راضی۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو۔ اور میری بہشت میں اندر آجا۔ خدا نے تجھ پر احسان کیا۔ اور تیرے دوستوں سے نیکی کی۔ اور تجھ کو علم بخشا جس کو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا۔ اور اگر تو خدا کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ تیرے لئے غیر ممکن ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ510 تا 521 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 608تا 623)
1883ء
’’پہلے اس2 سے چند مرتبہ الہامی طور پر خدائے تعالیٰ نے اِس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُبَارَکًا حَیْثُمَا کُنْتُ
یعنی اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کر۔ کہ ہر جگہ کہ میں بودو باش کروں۔ برکت میرے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا کہ جو آپ ہی فرمائی تھی۔ قبول فرمائی۔ اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اوّل آپ ہی
1 حضرت اقدس الہام امراض الناس وبرکاتہ‘ کی تشریح یوں فرماتے ہیں:۔’’یعنی لوگوں میں مرض پھیلے گی اور اس کے ساتھ ہی خدا کی برکتیں نازل ہوں گی اور وہ اس طرح پر کہ وہ بعض کو نشان کے طور پر اس بلا سے محفوظ رکھے گا اور دوسرے یہ کہ یہ بیماریاں جو آئیں گی یہ دینی برکات کا موجب ہوجائیں گی اور بہتیرے لوگ اُن خوفناک دنوں میں دینی برکات سے حصہ لیں گے اور سلسلہ حقہ میں داخل ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور طاعون کا خوفناک نظارہ دیکھ کر بڑے متعصّب اس سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ20۔ روحانی خزائن جلد نمبر18۔ صفحہ 398)
2 یعنی الہام جُعِلْتَ مُبَارَکًا مندرجہ صفحہ 75(مرتب)
الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا۔ اور پھر یہ کہنا کہ یہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 520 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 621)
1883ء
’’پھر ان الہامات کے بعد چند الہام فارسی اور اُردو میں اور ایک انگریزی میں ہوا...........اور وہ یہ ہے:۔
بخرام کہ 1 وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔پاک محمدؐمطفٰے نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کردیگا۔ اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اِس طرف توجہ کرے گا۔ اِس نشان کا مدّعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مُنہ کی باتیں ہیں2۔ جناب الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھُلا ہے۔ اور اُس کی پاک رحمتیں اِس طرف متوجہ ہیں۔ دی ڈیز شَلْ کم وِہْن گاڈ شیل ہَیلْپ یُو۔ گلوری بی ٹو دس لارڈ گَوڈ میکرآف ارتھ اینڈ ہیْون3۔
وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے ذوالجلال آفرینندۂ زمین و آسمان۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ521، 522 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 623)
1 (ترجمہ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ’’اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آگیا اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر اُن کا قدم پڑیگا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ133، روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 511)
2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ حضور کو جو الہام ہوا ہے ’’قرآن خدا کا کلام ہے اور میرے منہ کی باتیں‘‘ اس الہام الٰہی میں ’’میرے‘‘ کی ضمیر کس کی طرف پھرتی ہے یعنی کس کے منہ کی باتیں۔
فرمایا:۔ خدا کے منہ کی باتیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے منہ کی باتیں۔ اس طرح کے ضمائر کے اختلاف کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔
(بدر جلد 6نمبر 28۔ 11 جولائی 1907ء صفحہ 6)
3 9. The days shall come when God shall help you.
10. Glory be to This Lord God Maker of earth and heaven.
1883ء
’’ ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ یک دفعہ بعض امور میں تین طرح کا غم پیش آگیا تھاجس کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور بجز ہرج و نقصان اُٹھانے کے اور کوئی سبیل نمودار نہ تھی۔ اُسی روز شام کے قریب یہ عاجز اپنے معمول کے مطابق جنگل میں سیر کو گیا۔ اور اُس وقت ہمراہ ایک آریہ ملاوا مل نامی تھا۔ جب واپس آیا تو گاؤں کے دروازہ کے نزدیک یہ الہام ہوا۔
نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ
پھر دوبارہ الہام ہوا۔
نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ٌ
یعنی ہم تجھے اس غم سے نجات دیں گے۔ ضرور نجات دیں گے۔ کیا تو نہیں جانتا۔ کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
چنانچہ اسی قدم پر جہاں الہام ہوا تھا۔ اُس آریہ کو اُس الہام سے اطلاع دی گئی تھی۔ اور پھر خدا نے وہ تینوں طور کا غم دور کردیا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ553، 554 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 659، 660)
1883ء
1 دوہ آل مین شُڈ بی اینگری بٹ گوڈ از وِدّ یُو۔ 2ہِی شل ہیلپ یُو۔
3 ورڈس اوف گوڈ کین ناٹ ایکس چینج
یعنی اگرچہ تمام آدمی ناراض ہوں گے۔ مگر خدا تمہارے ساتھ ہے۔ وہ تمہاری مدد کریگا۔ خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ554 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ660، 661)
1883ء
اَلْخَیْرُکُلَّہ‘فِی الْقُرْاٰنِ کِتَابِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ اِلَیْہِ یُصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ۔
یعنی تمام بھلائی قرآن میں ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ وہی اللہ جو رحمان ہے اُسی رحمان کی طرف کلماتِ طیبہ صعود کرتے ہیں۔
1
1 Though all men should be angry but God is with you.
2 He shall help you.
3 Words of God can not exchange.
ھُوَالَّذِی یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ م بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنُشُرُ رَحْمَتَہ‘
اللہ وہ ذات کریم ہے کہ جو نا امیدی کے پیچھے مینہہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کو دنیا میں پھیلاتا ہے یعنی عین ضرورت کے وقت تجدید دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
یَجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عَبَادِہٖ
جس کو چاہتا ہے بندوںمیں سے چُن لیتا ہے۔
وَکَذَالِکَ مَنَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَالْفَحَشَآئَ۔ وَلِتَنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُ ھُمْ فَھُمْ غَافِلُوْنَ۔
اور اسی طرح ہم نے یوسف پر احسان کیا۔ تا ہم اُس سے بدی اور فحش کو روک دیں۔ اور تا تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادوں کو کسی نے نہیں ڈرایا سو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس جگہ یوسف کے لفظ سے یہی عاجز مراد ہے کہ جو باعتبار کسی روحانی مناسبت کے اطلاق پایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ554، 555 حاشیہ در حاشیہ نمبر4، روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 661، 662)
1883ء بعد اس کے فرمایا:۔
قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ رَبُّنَا عَاجٍ۔ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْ نَنِیْٓ اِلَیْہِ۔ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنْ غَمِّیْ۔ اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ۔کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ۔
کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان نہیں لاتے۔ یعنی خداے تعالیٰ کا تائیدات کرنا۔ اور اسرار غیبیہ پر مطلع فرمانا اور پیش از وقوع پوشیدہ خبریں بتلانا اور دعاؤں کو قبول کرنا۔ اور مختلف زمانوں میں الہام دینااور معارف اور حقائق الٰہیہ سے اطلاع بخشنا یہ سب خدا کی شہادت ہے۔ جس کو قبول کرنا ایماندار کا فرض ہے۔ پھر بقیہ الہامات ِ بالا کا (ترجمہ1)یہ ہے کہ بہ تحقیق میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے راہ بتلائے گا۔ اے میرے رب میرے گناہ بخش اور آسمان سے رحم کر۔ ہمارا رب عاجی ہے۔ (اس کے معنے ابھی تک معلوم نہیں ہوئے) جن نالائق باتوں کی طرف مجھ کو بُلاتے ہیں۔ اُن سے اے میرے رب مجھے زندان بہتر ہے۔ اے میرے خدا مجھ کو میرے غم سے نجات بخش۔ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُونے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ تیری بخششوں نے ہم کو گستاخ کردیا۔
یہ سب اسرار ہیں کہ جو اپنے اپنے اوقات پر چسپاں ہیں۔ جن کا علم حضرت عالم الغیب کو ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 555،556 حاشیہ در حاشیہ نمبر4، روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 662 تا 664)
1 ’’ترجمہ‘‘ کالفظ اصل میں موجود نہیں۔ یہ مرتّب کی طرف سے ہے۔
1883ء
پھر بعد اس کے فرمایا۔
ھُوَشَعْنَا ۔ نَعْسَا
یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں۔ اور اِن کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے1۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 556 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 664)
’’پھربعد اس کے دو فقرے انگریزی ہیں۔ جن کے الفاظ کی صحت بباعث سرعت ِ الہام ابھی تک معلوم نہیں۔ اور وہ یہ ہیں:۔
آئی لَوْ یُوْ۔ آی شل گِو یُو ءِ لارج پارٹی اَوف اِسلام2
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 556 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 664)
(ترجمہ) میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں تجھے ایک بڑا گروہ اسلام کا دوں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 80، روحانی خزائن جلدنمبر21 صفحہ 105)
1883ء
پھر بعد اس کے یہ الہام ہے:۔
یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مَتَوَفِیْکَ 1 وَرَافِعُکَ اِلَیَّ (وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا2 وَجَاعِلُ
1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں اس الہام کی تشریح میں تحریرفرمایا ہے۔
’’ ھُوَ شعْنا نَعْسَا:۔اے خدا میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات بخش اور مشکلات سے رہائی فرما۔ ہم نے نجات دیدی۔ یہ دونوں فقرے عبرانی زبان میں ہیں۔ اور یہ ایک پیش گوئی ہے جو دعا کی صورت میں کی گئی۔ اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا۔ اور اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی۔ بے کسی۔ ناداری۔ کسی آئندہ زمانہ میں وہ دور کردی جائیں گی۔ چنانچہ پچیس برس کے بعد یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام و نشان نہ رہا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 80۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 104)
(نوٹ از مرتب) فقرہ ھُوَ شعْنا متی21/9میں بھی آیا ہے جس کا ترجمہ حاشیہ میں یوں لکھا ہے۔ ’کرم کرکے نجات دے‘ دیکھیئے زبور118/45۔
نَعْسَاکا ترجمہ عبرانی میں ہے’’قبول ہوئی‘‘ (عربی عبرانی ڈکشنری)
2 I love you. I Shall give you a large party of Islam.
3 ’’الہام اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ اس قدر ہوا ہے جس کا خدا ہی شمار جانتا ہے۔ بعض اوقات نصف شب کے بعد فجر تک ہوتا رہا ہے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ67 مکتوب مؤرخہ20 نومبر1883ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب)
4 ’’یہ فقرہ سہو کاتب سے براہین میں رہ گیا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ73حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 94، 95)
الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَرْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔
اے عیسٰی 1میں تجھے کامل اجر بخشوں گا۔یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا۔ یا دنیا سے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔منکروں کے ہر ایک الزام اور تہمت سے تیرا دامن پاک کردوں گا۔ اور تیرے تابعین کو اِن پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ یعنی تیرے ہم عقیدوں اور ہم مشریوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا۔ پہلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک گروہ 2ہے۔ اس جگہ عیسیٰ کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 556، 557 حاشیہ در حاشیہ نمبر4روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 664، 665)
1883ء
’’اور پھر بعد اِس کے اُردو میں الہام فرمایا۔
میں اپنی چمکار3 دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔دنیا میں ایک نذیر آیا‘ پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اِسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ557حاشیہ در حاشیہ نمبر4 ۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 664، 665)
(ب) ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا۔ اس کی دوسری قرأت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔‘‘
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 1۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 207)
(ج) ’’دنیا میں ایک نبی آیا۔ مگر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔‘‘ نوٹ:۔’’ ایک قرأت اس الہام میں یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا۔ اور یہی قرأت براہین میں درج ہے۔ اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرأت درج نہیں کی گئی۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 7اگست1899ء مندرجہ الحکم جلد3 نمبر 29 مؤرخہ17؍اگست1899ء صفحہ6)
1 اس کے متعلق دیکھو حاشیہ نمبر1 متعلقہ ترجمہ وحی صفحہ75۔ (مرتب)
2 یعنی اس سلسلہ میں داخل ہونے والے دو فریق ہوں گے ایک پرانے مسلمان جن کا نام اوّلین رکھا گیا۔ جواب تک تین لاکھ کے قریب اس سلسلہ میں داخل ہوچکے ہیں اور دوسرے نئے مسلمان جو دوسری قوموں میں سے اسلام میں داخل ہوں گے۔ یعنی ہندوؤں اور سکھوں اور یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں میں سے۔ اور وہ بھی ایک گروہ اس سلسلہ میں داخل ہوچکا ہے اور ہوتے جاتے ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 82۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 108)
3 ’’یہ وہی چمکار ہے جو کوہِ طور کی چمکار سے مشابہت رکھتی ہے اور اس سے مراد جلالی معجزات ہیں۔ جیسا کہ کوہِ طور پر بنی اسرائیل کو جلالی معجزات دکھائے گئے تھے۔‘‘ (ضمیمہ چشمہ ٔ معرفت صفحہ27۔ روحانی خزائن جلدنمبر23 صفحہ 398)
1883ء
اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْلَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ۔
اس جگہ ایک فتنہ ہے۔ سو اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کر۔
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ‘ لِلْجَبَلِ جَعَلَہ‘ دَکًّا
جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلّی کرے گا تو انہیں پاش پاش کردے گا۔
قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الصَّمَدِ۔
یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندے کے لئے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا۔
مَقَامٌ لَّا تَتَرَتَّی الْعَبْدُ فِیْہِ بِسَعْیِ الْاَعْمَالِ۔
یعنی عبداللہ الصمد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبت خاص عطاہوتا ہے۔ کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔
یَا دَاو‘دُ عَامِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًا۔ وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَا۔ وَاَمَّا بِنِعْمَۃَ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔یُو مَسٹ ڈو وہاٹ آی ٹَولْڈ یُو1۔ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے۔ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَاَیْتَ خَدِیْجَتِیْ۔ اِنَّکَ الیَوْمَ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۔ اَنْتَ مُحَدَّثُ اللّٰہِ۔ فِیْکَ مَادَّۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ۔
اے داؤد خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر۔ اور سلام کا جواب احسن طور پر دے۔ اور اپنے رب کی نعمت کا لوگوں کے پاس ذِکر کر۔ میری نعمت کا شکر کر کہ تُونے اُس کو قبل از وقت پایا۔ آج تجھے حظِّ عظیم ہے۔ تُو محدّث اللہ ہے۔ تجھ میں مادّئہ فاروقی ہے۔
سَلَامٌ عَلَیْکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ۔ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ۔ ذُوْعَقْلٍ مَّتِیْنٍ۔ حِبُّ اللّٰہِ خَلِیْلُ اللّٰہِ اَسَدُ اللّٰہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی۔ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ۔ بَیْتُ الْفِکْرِ وَبَیْتُ الذِّکْرِ۔ وَمَنْ دَخَلَہ‘کَانَ اٰمِنًا۔
تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم! تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانت دار اور قوی العقل ہے اور دوست خدا ہے۔ خلیل اللہ ہے۔ اسد اللہ ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیج۔
یعنی یہ اُسی نبی کریم کی متابعت کا نتیجہ ہے۔
اور بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدا نے تجھ کو ترک نہیں کیا اور نہ وہ تجھ پر ناراضہے کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں
1 You must do what I told you
کھولا؟ کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی؟ کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا۔ اور جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبّد و صحت نیت و حُسن ایمان داخل ہوگا۔ وہ سوء خاتمہ سے امن میں آجائے گا۔
بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہ جو اُس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے۔
اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اسی مسجد1کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے۔ اور وہ یہ ہے۔
مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔
یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر ایک امر مبارک اِس میں کیا جائے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 557 تا 559حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلدنمبر1، 665 تا 667)
1883ء
’’پھر بعد اس کے اس عاجز کی نسبت فرمایا۔
1 (الف) ’’ اس مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا۔ منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے.............. فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِّلنَّاسِ۔ وَمَنْ دَخَلَہ‘کَانَ اٰمِنًا۔‘‘ (مکتوباتِ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 55)
(ب) ’’ایک مرتبہ میں نے اس مسجد کی تاریخ .........الہامی طور پر معلوم کرنی چاہی تو مجھے الہام ہوا۔ مبارک و مبارک و کل امر مبارک یجعل فیہ۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل صفحہ 186۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 190)
(ج) اس الہام میں تین قسم کے نشان ہیں۔ (1) اوّل یہ کہ اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مادّۂ تاریخ بنائے مسجد ہے۔ (2) دوم یہ کہ یہ پیش گوئی بتلارہی ہے کہ ایک بڑے سلسلہ کے کاروبار اسی مسجد میں ہوں گے چنانچہ اب تک اسی مسجد میں بیٹھ کر ہزار ہا آدمی بیعت توبہ کرچکے ہیں ‘ اسی میں بیٹھ کر صد ہا معارف بیان کئے جاتے ہیں اور اسی میں بیٹھ کر کتب ِ جدیدہ کی تالیف کی بنیاد پڑتی ہے اور اسی میں ایک گروہِ کثیر مسلمانوں کا پنج وقت نماز پڑھتا ہے اور وعظ سنتے ہیں اور دلی سوز سے دعائیں کی جاتی ہیں۔ اور بنائے مسجد کے وقت میں ان باتوں میں سے کسی بات کی علامت موجود نہ تھی۔(3) سوم یہ کہ یہ الہام دلالت کررہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں کوئی آفت آنے والی ہے اور جو شخص اخلاص کے ساتھ اس میں داخل ہوگا وہ اس آفت سے بچ جائے گا۔ اور براہین احمدیہ کے دوسرے مقامات سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ آفت طاعون ہے سو یہ پیش گوئی بھی اس سے نکلتی ہے کہ جو شخص پُوری ارادت اور اخلاص سے جس کو خدا پسند کر لیوے اس مسجد میں داخل ہوگا وہ طاعون سے بھی بچایا جائے گا۔ یعنی طاعونی موت سے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 147، 148۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 525، 526)
رُفِعْتَ وَجُعِلْتَ مُبَارَکًا
تو اونچا کیا گیا اور مبارک بنایا گیا۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَا نَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ۔
یعنی جو لوگ اُن برکات و انوار پر ایمان لائیں گے کہ جو تجھ کو خدائے تعالیٰ نے عطا کئے ہیں۔ اور ایمان اُن کا خالص اور وفاداری سے ہوگا۔ تو ضلالت کی راہوں سے امن میں آجائیں گے اور وہی ہیں جو خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں۔
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ۔ قُلِ اللّٰہُ حَافِظُہ‘عِنَایَۃُ اللّٰہِ حَافِظُکَ۔ نَحْنُ نَزَّلْنَاہُ وَاِنَّا لَہ‘ لَحَافِظُوْنَ۔ اَللّٰہُ خَیْرٌحَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ وَیُخَوِّ فُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ اَئِمَّۃُ الْکُفْرِ۔ لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْآعْلٰی۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ۔ اِنَّ یَوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ۔ بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ۔ نَصَرْتُکَ مِنْ لَّدُنِّیْ۔ اِنِّیْ مُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ۔ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ خَلَقْتُ لَکَ لَیْلًا وَّنَھَارًا۔ اِعْمَلْ مَاشِئْتَ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکَ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔
مخالف لوگ ارادہ کریں گے۔ کہ تاخدا کے نور کو بُجھا دیں۔ کہہ خدا اُس نو ُرکا آپ محافظ ہے۔ عنایت الٰہیہ تیری نگہبان ہے۔ ہم نے1 اُتارا ہے اور ہم ہی محافظ ہیں۔ خدا خیرالحافظین ہے۔ اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ اور تجھ کو اور اور چیزوں سے ڈرائیں گے۔ یہی پیشوایانِ کفر ہیں۔ مت خوف کر تجھی کو غلبہ ہے۔ یعنی حجت اور بر ہان اور قبولیت اور برکت کے رُو سے تو ُ ہی غالب ہے۔ خدا کئی میدانوںمیں تیری مدد کرے گا یعنی مناظرات و مجادلات بحث میں تجھ کو غلبہ رہے گا۔
پھرفرمایا کہ میرا دن حق اور باطل میں فرق بیّن کرے گا۔ خدا لکھ چکا ہے۔ کہ غلبہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو ہے۔ کوئی نہیں کہ جو خدا کی باتوں کو ٹال دے۔ یہ خدا کے کام دین کی سچائی کے لئے حجت ہیں۔ میں اپنی طرف سے تجھے مدد دوں گا۔ میں خود تیرا غم دُور کروں گا۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرے لئے میں نے رات اور دن پیدا کیا۔ جو کچھ تو چاہے کر کہ میں نے تجھے بخشا۔ تو مجھ سے وہ منزلت رکھتا ہے جس کی لوگوں کو خبر نہیں۔
1 سہوِ کاتب سے لفظ ’’اس کو‘‘ ترجمہ سے رہ گیا ہے۔ (مرتّب)
اس آخری فقرہ کا یہ مطلب نہیں کہ منہیاتِ شرعیہ تجھے حلال ہیں۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تیری نظر میں منہیات مکروہ کئے گئےہیں اور اعمالِ صالحہ کی محبت تیری فطرت میں ڈالی گئی ہے۔ گویا جو خدا کی مرضی ہے وہ بندہ کی مرضی بنائی گئی۔ اور سب ایمانیاتِ اِس کی نظر میں بطور فطرتی تقاضا کے محبوب کی گئیں۔ وَذالک فضل اللّٰہ یؤ تیہ من یشآئُ
وَقَالُوْٓا اِنْ ھُوَ(اِلَّا 1) اِفْکُ نِٰ فْتَریٰ۔ وَمَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ۔ وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ و فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔ اِجْتَبَیْنَاھُمْ وَاصْطَفَیْنَاھُمْ کَذَالِکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمَؤْ مِنیْنَ۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنَّ اَصْحَابَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْ مِنْ اٰیَا تِنَا عَجَبًا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ کُلَّ یُوْمٍ ھُوَفِیْ شَاْنٍ۔ فَفَھَّمْنَاھَا سُلَیْمَانَ۔ وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۔ قُلْ جَآئَ کُمْ نُوْرٌ مِّنَ اللّٰہِ فَلَا تَکْفُرُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ سَلَامٌ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ صَافَیْنَاہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ۔ تَفَرَّدْ نَا بِذَالِکَ فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَا ھِیْمَ مُصَلًّی۔
اورکہیں گے کہ یہ جھوٹ بنالیا ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوں میں یعنی اولیاء سلف میں یہ نہیں سنا۔ حالانکہ بنی آدم یکساں پیدا نہیں کئے گئے۔ بعض کو بعض پر خدا نے بزرگی دی ہے اور اُن کو دوسروں میں سے چُن لیا ہے۔ یہی سچ ہے تا مومنوں کے لئے نشان ہو۔ کیا تم خیال کرتے ہو۔ کہ ہمارے عجیب کام فقط اصحاب کہف تک ہی ختم ہیں۔ نہیں بلکہ خدا تو ہمیشہ صاحب عجائب ہے۔ اور اُس کے عجائبات کبھی منقطع نہیں ہوتے۔ ہر یک دن میں وہ ایک شان میں ہے۔ پس ہم نے وہ نشان سلیمان کو سمجھائے۔ یعنی اس عاجز کو۔ اور لوگوں نے محض ظلم کی راہ سے انکار کیا۔ حالانکہ اُن کے دل یقین کرگئے۔ سو عنقریب ہم اُن کے دلوں میں رُعب ڈال دیں گے۔ کہہ خدا کی طرف سے نور اُترا ہے۔ سو تم اگر مومن ہو تو انکار مت کرو۔ ابراہیم پر سلام۔ ہم نے اُس کو خالص کیا۔ اور غم سے نجات دی۔ ہم نے ہی یہ کام کیا۔ سو تم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو۔ یعنی رسول کریم کا طریقہ حقہ کہ جو حال کے زمانہ میں اکثر لوگوں پر مُشتبہ ہوگیا ہے اور بعض یہودیوں کی طرح صرف ظواہر پرست اور بعض مُشرکوں کی طرح مخلوق پرستی تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ طریقہ خداوند کریم کے اِس عاجز بندہ سے دریافت کرلیں اور اُس پر چلیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 559 تا 562 حاشیہ در حاشیہ نمبر4 روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 667تا671)
1 اس الہام میں اِلَّا کا لفظ سہو کتابت سے رہ گیا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اربعین نمبر2 طبع اوّل صفحہ 7 روحانی خزائن جلد نمبر17صفحہ 353 میں بحوالہ براہین احمدیہ یہی الہام درج فرمایا ہے اور اس میں لفظ اِلَّا موجود ہے۔ (مرتب)
اگست 1883ء
(الف) ’’ اُن1کے سفر آخرت کی خبر بھی کہ جو اُن کو تیس اکتوبر1883ء میں پیش آیا۔ تخمیناً تین ماہ پہلے خداوند کریم نے اِس عاجز کو دیدی تھی۔ چنانچہ یہ خبربعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 535 حاشیہ نمبر11۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 640 حاشیہ نمبر11)
(ب) ’’پنڈت دیانند کی بابت اس کی موت سے دو مہینے پہلے لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی۔ کہ اب وہ بہت ہی نزدیک مرے گا۔ بلکہ کشفی حالت میں مَیں نے اُس کو مُردہ پایا۔‘‘
(شحنہ حق صفحہ43۔ روحانی خزائن جلد نمبر2 صفحہ 382)
(ج) ’’اس ملک پنجاب میں جب دیانند بانی مبانی آریہ مذہب نے اپنے خیالات پھیلائے اورسِفلہ طبع ہندوؤں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیراورایسے ہی دوسرے انبیاء ؑ کی توہین پر چالاک کردیا۔ اور خود بھی قلم پکڑتے ہی اپنی شیطانی کتابوں میں جابجا خدا کے تمام پاک اور برگزیدہ نبیوں کی تحقیر اور توہین شروع کی۔ اور خاص اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں بہت کچھ جھوٹ کی نجاست کو استعمال کیا اور بزرگ پیغمبروں کو گندی گالیاں دیں تب مجھے اس کی نسبت الہام ہوا کہ
خدا تعالیٰ ایسے موذی کو جلد تر دنیا سے اُٹھالے گا۔‘‘
(تتمہ حقیقتہ الوحی صفحہ 167۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 607)
28 اگست 1883ء
’’شاید پرسوں کے دن یعنی بروز سہ شنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی تو اُسی وقت خداوند کریم کی طرف سے ایک فقرہ الہام ہوا اور وہ یہ ہے۔
فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِلنَّاسِ
یعنی اس میں لوگوں کیلئے برکتیں ہیں۔‘‘ (از مکتوب مؤرخہ30اگست 1883ء مکتوبات جلد اوّل صفحہ 45)
6ستمبر 1883ء ’’بتاریخ6 ؍ستمبر1883ء روز پنج شنبہ خداوند کریم نے عین ضرورت کے وقت میں اس عاجز کی تسلی کے لئے اپنے کلامِ مبارک کے ذریعہ یہ بشارت دی کہ
بِست ویک روپیہ آنے والے ہیں۔
کیونکہ اس بشارت میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ آنے والے روپیہ کی تعداد سے اطلاع دی گئی۔ اور کسی خاص تعداد سے مطلع کرنا ذاتِ غیب دان کا خاصہ ہے کسی اور کاکام نہیں ہے۔ دوسری عجیب بر عجیب یہ بات تھی کہ یہ تعداد غیر معہود طرز پر تھی۔ کیونکہ قیمت مقررہ کتاب سے اس تعداد کا کچھ تعلق نہیں۔ پس انہیں عجائبات کی و جہ سے
1 پنڈت دیانند صاحب (مرتّب)
یہ الہام قبل از وقوع بعض آریوں کو بتلایا گیا۔
10 ستمبر1883ء
پھر10؍ستمبر 1883ء کو تاکیدی طور پر سہ بارہ الہام ہوا کہ
بست ویک روپیہ آئے ہیں
جس الہام سے سمجھا گیا کہ آج اس پیش گوئی کا ظہور ہوجائے گا۔ چنانچہ ابھی الہام پر شاید تین منٹ سے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہوگا کہ ایک شخص وزیر سنگھ نامی بیمار دار آیا اور اُس نے آتے ہی ایک روپیہ نذر کیا۔ ہر چند علاج معالجہ اِس عاجز کا پیشہ نہیں اور اگر اتفاقاً کوئی بیمار آجاوے۔ تو اگر اُس کی دوا یاد ہو تو محض ثواب کی غرض سے لِلّٰہ فی اللہ دی جاتی ہے ۔ لیکن وہ روپیہ اس سے لیا گیا۔ کیونکہ فی الفور خیال آیا۔ کہ یہ اُس پیش گوئی کی ایک جُز ہے۔ پھر بعد اس کے ڈاک خانہ میں ایک اپنا معتبر بھیجا گیا اس خیال سے کہ شاید دوسری جُزبذریعہ ڈاک خانہ پوری ہو۔ ڈاک خانہ سے ڈاک منشی نے جو ایک ہندو ہے جواب میں یہ کہا کہ میرے پاس صرف ایک منی آرڈر پانچ روپیہ کا جس کے ساتھ ایک کارڈ بھی نتھی ہے۔ ڈیرہ غازیخاں سے آیا ہے سو ابھی تک میرے پاس روپیہ موجود نہیں۔ جب آئے گا تو دوں گا۔ اس خبر کے سننے سے سخت حیرانی ہوئی۔ اور وہ اضطراب پیش آیا۔ جو بیان نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ یہ عاجز اسی تردّد میں سربزانو تھا اور اِس تصوّر میں تھا کہ پانچ اور ایک مل چھ ہوئے۔ اب اکیس کیونکر ہوں گے‘ یا الٰہی یہ کیا ہوا۔ سو اسی استغراق میں تھا کہ یک دفعہ یہ الہام ہوا:۔
بست ویک آئے ہیں۔ اِس میں شک نہیں
اس الہام پر دوپہر نہیں گذرے ہوں گے کہ اسی روز ایک آریہ کہ جو ڈاک منشی کے پہلے بیان کی خبر سن چکا تھا ڈاک خانہ میں گیا اور اس کو ڈاک منشی نے کسی بات کی تقریب سے خبر دی کہ دراصل بست روپے آئے ہیں اور پہلے یونہی منہ سے نکل گیا تھاجو میں نے پانچ روپیہ کہہ دیا۔ چنانچہ وہی آریہ بیس روپیہ معہ ایک کارڈ کے جو منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کی طرف سے تھالے آیا اور معلوم ہوا کہ وہ کارڈ بھی منی آرڈر کے کاغذ سے نتھی نہ تھا اور نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ روپیہ آیا ہوا تھا اور نیز منشی الٰہی بخش صاحب کی تحریر سے جو بحوالہ ڈاکخانہ کی رسید کے تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ منی آرڈر 6؍ستمبر 1883ء کو یعنی اُسی روز جب الہام ہوا۔ قادیان میں پہنچ گیا تھا۔ پس ڈاک منشی کا سارا املا انشاء غلط نکلا اور حضرتِ عالم الغیب کا سارا بیان صحیح ثابت ہوا۔ پس اس مبارک دن کی یاد داشت کے لئے ایک روپیہ کی شیرینی لے کر بعض آریوں کو بھی دی گئی۔ فالحمد للّٰہ علی اٰلائہٖ ونعمائہٖ ظاھر ھا و باطنھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ522۔524حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 624۔ 626)
9اکتوبر1883ء
’’آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اِس عاجز نے شناخت نہیں کیا وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد1کے دروازہ کی پیشانی پر کچھ آیات لکھتے ہیں۔ ایسا سمجھا گیا ہے کہ فرشتے ہیں اور سبز رنگ اُن کے پاس ہے۔ جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں۔ اور خط ِ ریحانی میں جو پیچان اورمسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن آیات کو پڑھنا شروع کیا۔ جن میں سے ایک آیت یاد رہی اور وہ یہ ہے:۔
لَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ
اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے۔ جس عمارت کو وہ بنانا چاہے اس کو کون مسمار کرے۔ اور جس کو وہ عزت دینا چاہے اس کو کون ذلیل کرے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ9 اکتوبر1883ء بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 61)
22اکتوبر1883ء
’’آج اِس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا۔ بعالمِ کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ
فتح کا نقّارہ بجے
پھر ایک نے مسکرا کر اُن ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ
دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری
جب اِس عاجز نے دیکھا تو وہ اِسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی۔ مگر نہایت رُعب ناک۔ جیسے سپہ سالار مسلح فتحیاب ہوتے ہیں۔ اور تصویر کے یمین و یسار میں۔
حجتہ اللہ القادر و سُلطان احمد ِ مختار
لکھا تھا۔ اور یہ سوموار کا روز اُنیسویں ذوالحجہ1300ھ مطابق 22؍اکتوبر83ء اور ششم کا تک سم1940 بکرم ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ515، 516 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 615)
24اکتوبر1883ء سے قبل
’’ایک مرتبہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ
1 یعنی مسجد مبارک (مرتّب)
اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو مَیں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اُوپر سے مدد کرسکتا ہوں۔‘‘
(از مکتوب 24؍اکتوبر1883ء مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ63)
29 اکتوبر1883ء سے قبل
’’ بارہا اس عاجز کو حضرتِ احدیّت کے مخاطبات میں ایسے کلمات فرمائے گئے ہیں۔ جن کا ماحصل یہ تھا کہ سب دنیا پنجہ ٔ قدرت احدیّت میں مقہور اور مغلوب ہے۔ اور تصرّفاتِ الٰہیہ زمین و آسمان میں کام کررہے ہیں۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 29 اکتوبر1883ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 63)
29 اکتوبر1883ء سے قبل
’’ چند روز کا ذکر ہے کہ یہ الہام ہوا۔
اِنْ 1 یَّمْسَسْکَ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہ‘اِلَّاھُوَ۔ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللَّہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ لَاٰتٍ۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 29اکتوبر1883ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ63)
19،20 نومبر 1883ء
’’رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا۔ اور وہ یہ ہے:۔
قُلْ لِّضَیْفِکَ2 اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ۔ قُلْ لِاّ َخِیْکَ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ
یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا۔ اس کے معنے ......ہیں......جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے۔ اس کو کہدے
1 (ترجمہ از مرتب) اگر وہ (خداوند کریم) تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے۔ تو اس کے سوا کوئی بھی اُسے دُور نہیں کرسکتا۔ اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے۔ تو کوئی اس کے فضل کو رد بھی نہیں کرسکتا۔ کیا تم جانتے نہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہوگا۔
(نوٹ از مرتب) مکتوبات احمدیہ 29 اکتوبر1883ء صفحہ63 میں لفظ ان یمسَسْکَ کی بجائے ان تمسسک لکھا ہے جو سہوِ کاتب معلوم ہوتا ہے۔
2 حیاتِ احمد (مرتبہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) جلد 2 نمبر2 صفحہ 72 پر یہ الہام واضح طور پر بالفاظ قُلْ لِضَیْفِکَ الخ درج ہے لیکن مکتوبات جلد اوّل صفحہ 67 میں یہ لفظ ایسا صاف نہیں لکھا بلکہ کچھ ایسا لکھا (لضیفک) ہے کہ لِضَیْفِکَ کی بجائے لِفَیْضِکَ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور ترجمہ کے الفاظ ’’مورد فیض‘‘ اس احتمال کو اور بھی قوت دیتے ہیں۔ گو ضَیْف کے معنے بھی موردِ فیض سمجھے جاسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ انہی ایام میں حضور کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی وفات ہوئی تھی۔ ( مرتب)
کہ میں.........(تجھے) وفات دوں گا۔
معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے۔ اس قسم کے تعلقات کے کم وبیش کوئی لوگ ہیں۔ اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتےہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت ۔ اُن کے عُسریُسر کی نسبت۔ اُنکے حوادث کی نسبت۔ ان کی عمر کی نسبت ظاہر ہوتا رہتا ہے۔‘‘
(ازمکتوب مؤرخہ20؍نومبر1883ء مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ67، 68)
’’پندرہ 1برس کے بعد جب میرے بھائی2 کی وفات کا وقت نزدیک آیا۔ تو میں امرتسر میں تھا مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ اب قطعی طور پر اُن کی زندگی کا پیالہ پُر ہوچکا اور بہت جلد فوت ہونے والے ہیں۔ میں نے وہ خواب حکیم محمد شرؔیف کو جو امرت سر میں ایک حکیم تھے سنائی۔ اور پھر اپنے بھائی کو خط لکھا کہ آپ امور آخرت کی طرف متوجہ ہوں۔ کیونکہ مجھے دکھلایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں۔ انہوں نے عام گھر والوں کو اس سے اطلاع دے دی۔ اور پھر چند ہفتہ میں ہی اس جہانِ فانی سے گذر گئے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 39۔ روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 211، 212)
1883ء
’’اکسٹھواں نشان اپنے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغیر مجھے یہ الہام ہوا:۔
اے عَمّی بازیِ ٔ خویش کردی و مرا افسو س بسیار دادی۔3
یہ پیشگوئی بھی اسی شرمپت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی۔ اور اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بے وقت اور ناگہانی موت ہوگی جو موجب صدمہ ہوگی..........اور بعد اس کے میرے پر کھولا گیا۔ کہ یہ الہام میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ میرا بھائی دو تین دن کے بعد ایک ناگہانی طور پر فوت ہوگیا۔ اور
1 میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم سخت بیمار ہوگئے تھے۔ اور بالکل ایک مُشتِ استخواں سے رہ گئے تھے۔ حضرت اقدس ؑ نے ان کے لئے دعا کی تو خواب میں دکھایا گیا کہ آپ ایک پورے تندرست انسان کی طرف بغیر کسی سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں۔ چنانچہ حضور ؑ نے لکھا ہے۔ کہ برادر مذکور اس خواب کے پندرہ برس بعد تک زندہ رہے۔ مفصل دیکھو رؤیا نمبر10، 12 تذکرہ صفحہ نمبر 8، 9۔ (مرتب)
2 مراد مرزا غلام قادر صاحب برادر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اے چچا! تو اپنی جان پر کھیل گیا۔ اور مجھے بہت افسوس میں چھوڑ گیا۔
میرے اُس لڑکے کو اس کی موت کا صدمہ پہنچا۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 223۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 233)
1883ء
’’ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات سے ایک دن پہلے الہام ہوا
’’ جنازہ ‘‘
اور میں نے اس الہام کی بہت لوگوں کو خبر دے دی۔ چنانچہ دوسرے روز بھائی صاحب فوت ہوئے1۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 225۔ روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 603)
دسمبر 1883ء
’’اس ہفتہ میں بعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں................ اور وہ کلمات یہ ہیں:۔
پریشن۔ عمر۔ براطوس۔ یا پلا طوس
یعنے پڑطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور عمرؔ عربی لفظ ہے۔ اس جگہ برا طوؔس اور پریشن کے معنے دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں؟پھر دو الفاظ اور ہیں۔
ھُوْ شَعْنَا 2 نَعْسَا
معلوم نہیں کس زبان کے ہیں۔ اور انگریزی یہ ہیں۔ اوّل عربی فقرہ ہے۔
یَا دَاو‘ دُ عَامِلْ بالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًا
یُوْمَسْٹ ڈو وَہاٹ آئی ٹولڈ یُوْ 3۔تم کو وہ کرنا چاہئے۔ جو میں نے فرمایا ہے۔
1 خاکسار مرتب کے عرض کرنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت اُمّ المؤمنین سے دریافت کیا۔ کہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات کس سنہ میں ہوئی تھی۔ تو آپ نے فرمایا کہ میری شادی سے (جو1884ء میں ہوئی تھی) ایک سال قبل اُن کی وفات ہوچکی تھی۔ نیز کتاب پنجاب چیفس میں بھی سنہ وفات1883ء ہی لکھا ہے۔
2 (الف) ’’یہ ایک عبرانی لفظ ہے جس کے معنے ہیں’نجات دے۔‘ فرمایا کہ یا مسیح الخلق عدوانا کا مضمون اس سے ملتا جلتا ہے۔‘‘ (البدر جلد4نمبر16 پرچہ8مئی1903ء صفحہ 122 کالم نمبر 3)
(ب) ’’چونکہ یہ غیر زبان میں الہام ہے۔ اور الہام الٰہی میں ایک سرعت ہوتی ہے۔ اس لئے ممکن ہے۔ کہ بعض الفاظ کے ادا کرنے میں کچھ فرق ہو۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہ اللہ تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا۔ یا کسی اور زمانہ کے متروکہ محاورہ کو اختیار کرتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف و نحو کے ماتحت نہیں چلتا۔ اس کی نظیریں قرآن شریف میں بہت پائی جاتی ہیں مثلاً یہ آیت اِنَّ ھٰذَانِ لَسَا حِرَانِ انسانی نحو کی رُو سے اِنَّ ھٰذَیْنِ چاہئے۔‘‘ ( حقیقتہ الوحی صفحہ 304 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 317 حاشیہ)
3 You must do what I told you.
یہ اُردو عبارت بھی الہامی ہے۔ پھر بعد اس کے ایک اور انگریزی الہام ہے۔ اور ترجمہ اس کا الہامی نہیں........ فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تاخر بھی ہوجاتا ہے........ اور وہ الہام یہ ہیں:۔
دَو 8آل من شُڈ بی اَنگری بٹ گاڈ اِز وِد یُوْ۔ ہِی9 شل ہلپ یُو۔ وارڈس 10آف گاڈ ناٹ *کین ایکس چینج1۔
ترجمہ:۔ اگر تمام آدمی ناراض ہوں گے‘ لیکن خدا تمہارے ساتھ ہوگا۔ وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ کے کلام بدل نہیں سکتے۔
پھر بعد اس کے ایک دو اَور الہام انگریزی ہیں۔ جن میں سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہے۔
آئی شل ہلپ یُو2
مگربعد اس کے یہ ہے:۔
یُوہَیو ٹو گو امرت سر3
پھرایک فقرہ ہے جس کے معنے معلوم نہیں اور وہ یہ ہے:۔
ہِی ہل ٹس ان دی ضلع پشاور4
(مکتوب12 ؍دسمبر1883ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ68،69)
جنوری 1884ء
’’ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی۔ اس وقت اس کی کوئی اَور صورت تھی۔ پھر بعد اس کے قدرتِ الٰہیہ کی ناگہانی تجلّی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی۔ یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردۂ
1 8. Though all men should be angry but God is with you.
9. He shall help you
10. Words of God not can exchange.
☆ یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ یہی الہام صفحہ 78 پر بھی درج ہے جہاں Can not کے الفاظ ہیں۔ (مرتب)
2 میں تیری مدد کروں گا۔ I shall help you
3 تمہیں امرتسر جانا ہوگا۔ You have to go Amritsar
4 وہ ضلع پشاور میں قیام کرتا ہے۔ He halts in the Zilla Peshawar
Zilla’’ضلع‘‘ کا لفظ انگریزی زبان میں استعمال ہوتا ہے دیکھو Public Servants Inquiries Act sec 8 (دی پبلک سرونٹس انکوائریز ایکٹ دفعہ 8) نیز دی پنجاب کورٹس ایکٹ شائع کردہ شمیر چند 1923ء صفحہ 83 زیر دفعہ نمبر 32، The Punjab Courts Act نیز آکسفورڈ ڈکشنری زیر لفظ’’ضلع۔‘‘ (مرتب)
غیب سے اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی۔ سو اَبْ اس کتاب کا متولّی اور مہتمم ظاہراً وباطناً حضرت ربّ العالمین ہے۔‘‘
(ہم اور ہماری کتاب۔ آخری صفحہ ٔ ٹائٹل براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 673)
فرمایا یہ میرا ایک پرانا الہام ہے۔
’’ 1 اَفَلَایَتَدَبَّرُوْنَ اَمْرَکَ۔ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِغَیْرِ اللّٰہ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔‘‘
(البدر جلد1 نمبر5 مؤرخہ 28؍نومبر1902ء صفحہ 37)
جنوری 1884ء
’’کچھ دن گذرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمعِ زاہدین اور عابدین ہے۔ اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے وقت ایک شعر موزون اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور شہود وغیرہ آتا ہے۔ جیسے یہ مصرع
تمام شب گذرا نیم در قیام و سجود
چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھے ہیں۔ پھر اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے۔ مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی۔ اور جو شعر اس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہوگیا اور وہ یہ ہے۔
طریق ِ زہد و تعبد ندا نم اے زاہد
خدائے من قدمم راندبررہ داؤد ‘‘2
(از مکتوب مؤرخہ 7جنوری 1884ء بنام میر عباس علی صاحب مکتوبات جلد اوّل صفحہ 71)
3جنوری 1884ء
(الف) ’’آپ کے مبلغ پچاس روپیہ عین ضرورت کے وقت پہنچے۔ بعض آدمیوں کے بیوقوف تقاضا سے بالفعل پچاس روپیہ کی سخت ضرورت تھی۔ دُعاء کے لئے یہ الہام ہوا۔
بحسن قبولی دعاء بنگر کہ چہ زود دُعاء قبُول میکنم
1 (ترجمہ از مرتب) کیا یہ لوگ تیرے معاملہ میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ معاملہ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں وہ بہت اختلاف پاتے۔ (نوٹ) چونکہ البدر میں لکھا ہوا ہے کہ یہ پُرانا الہام براہین احمدیہ کے زمانہ کا ہے اس لئے اسے براہین کے بعد رکھا جاتا ہے۔(مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) اے زاہد ! میں تو کوئی زہد و تعبد کا طریق نہیں جانتا۔ میرے خدا نے خود ہی میرے قدم کو داؤد کے راستہ پر ڈال دیا ہے۔
3جنوری1884ء کو یہ الہام ہوا۔ 6 تاریخ کو آپ کا روپیہ آگیا۔ والحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ7جنوری1884ء بنام میر عباس علی صاحب۔ مکتوبات جلد اوّل صفحہ72)
(ب) ’’ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی۔ اور جیسا کہ اہل فقر اور توکل پر کبھی کبھی ایسی حالت گذرتی ہے۔ اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے۔ تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کویہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دُعا کریں۔ پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جاکر اس نہر کے کنارہ پر دُعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے۔ جب ہم دُعا کرچکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں
تب ہم خوش ہوکر قادیان کی طرف واپس آئے۔ اور بازار کا رُخ کیا تاکہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں۔ چنانچہ ہمیں ایک خط ملا۔ جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں۔ اور غالباً وہ روپیہ اُسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ234۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 612)
جنوری 1884ء
’’ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا، یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن کے سابق تعارف نہیں، ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ1 بھی ان کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے۔ اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو ان کو ناگوار گذری ہے،سو اُن سب کے دل منقطع ہوگئے۔ آپ نے اُس وقت مجھ کو کہاکہ وضع بدل لو۔ میں نے کہا کہ نہیں بدعت ہے۔ سو وہ لوگ بیزار ہوگئےاور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جاکر بیٹھ گئے۔ تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں، میں ان کے پاس گیا تا اپنی امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں۔ پھر بھی انہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن سے علیٰحدہ ہونا اور کنارہ کرنا چاہا اور باہر نکلنے کے لئے قدم اُٹھایا۔ معلوم ہوا کہ ان سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے۔ جب نظر اُٹھا کر دیکھا تو آپ ہی ہیں۔ اب اگرچہ خوابوں میں تعینات معتبر نہیں ہوتے اور اگر خدا چاہے تو تقدیرات معلّقہ کو مبدّل بھی کردیتا ہے لیکن اندیشہ گذرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ آپ ہی کا شہر نہ ہو۔ لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں۔ حقیقی شوق اور ارادت کہ جولغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے۔ لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے............. بہتر ہے کہ آنمخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف کشی کے لئےزورنہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے۔ یہ عاجز معمولی زاہدوں اور عابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ ان کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے۔ بلکہ ان کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ
1 میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔ (مرتّب)
اور دُور ہے۔ سیفعل اللّٰہ مایشآ ء ۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 18؍جنوری1884ء بنام میر عباس علی لود ھیانوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 72،73)
تخمیناً فروری 1884ء
’’مجھ کو یاد ہے اور شاید عرصہ تین ماہ یا کچھ کم و بیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزند1نے ایک خط لکھ کر مجھ کو بھیجا کہ جو میں نے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے۔ اُس کی نسبت دعا کریں کہ پاس ہوجاؤں2۔ اور بہت کچھ انکسار اور تذلّل ظاہر کیا کہ ضرور دعا کریں۔ مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے رحم کے غصہ آیا۔ کہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم اور غم ہے۔ چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی بہ تمام تر نفرت و کراہت چاک کردیا اور دل میں کہا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں۔ اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا کہ
’’پاس ہوجاوے گا۔‘‘
اور وہ عجیب الہام بھی اکثر لوگوں کو بتلایا گیا۔ چنانچہ وہ لڑکا پاس ہوگیا۔ فالحمدللہ۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ11؍مئی 1884ء بنام نواب علی محمد خانصاحب جھجر۔ الحکم جلد3نمبر34 مؤرخہ23؍ستمبر1899ء صفحہ1،2)
1884ء
’’ایک دفعہ نواب علی محمد3خاں مرحوم رئیس لودھیانہ نے میری طرف خط لکھا۔ کہ میرے بعض امور معاش بند ہوگئے ہیں۔ آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں۔ جب مَیں نے دعا کی۔ تو مجھے الہام ہوا کہ
کُھل جائیں گے
میں نے بذریعہ خط ان کو اطلاع دے دی۔ پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کُھل گئے اور اُن کو بشدّت اعتقاد ہوگیا۔‘‘
(حقیقتہ الوحی صفحہ246۔ روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 257)
1 خان بہادر مرزا سلطان احمدصاحب مرحوم مراد ہیں۔ (مرتّب)
2 الحکم میں ’’پاس ہوجاوے گا‘‘ لکھا ہے جو سہوِ کاتب ہے۔ (مرتّب)
3 نواب علی محمد خانصاحب مرحوم کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہ دراصل جھجر کے رئیس تھے مگر لدھیانہ میں رہائش رکھتے تھے اور آپ حضرت اقدس سے بہت اخلاص رکھتے تھے اور اکثر حضور سے اپنی مشکلات کے حل کروانے کیلئے دعا کروایا کرتے تھے ان کے متعلق جن نشانات کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے ان میں نہ تو کوئی ترتیب مدنظر ہے اور نہ ہی سوائے ایک دو کے کہ جن میں تاریخ درج ہے صحیح طور پر تاریخ کا کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہاں صرف قیاس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعات1884ء کے قریب قریب کے ہیں۔ (مرتب)
1884ء
’’پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض1اپنےپوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا۔ اور جس گھڑی انہوں نے خط ڈاک میں ڈالا۔ اُسی گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس مضمون کا خط اُن کی طرف سے آنے والا ہے۔ تب میں نے بلا توقف اُن کی طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط آپ روانہ کریں گے۔ دوسرے دن وہ خط آگیا۔ اور جب میرا خط اُن کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی۔ کیونکہ میرے اس راز کی خبر کسی کو نہ تھی۔ اور ان کا اعتقاد اس قدر بڑھا کہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہوگئے۔ اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یادداشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان متذکرہ بالا درج کردیئے اور ہمیشہ اُن کو پاس رکھتے تھے۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 246۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 257، 258)
تخمیناً 1884ء
’’ عالمِ کشف میں ان2 کا دوسرا خط مجھ کو ملا۔ جس میں بہت بیقراری ظاہر کی گئی تھی تو میں نے ...........اُن کے لئے دعا کی۔ اور مجھ کو الہام ہواکہ
کچھ عرصہ کے لئے یہ روک اُٹھادی جاوے گی۔ اور اُن کو اس غم سے نجات دی جائے گی۔
یہ الہام ان کو اسی خط میں لکھ کر بھیجا گیا تھا جو زیادہ تر تعجب کا موجب ہوا۔ چنانچہ وہ الہام جلد تر پور اہوا اور تھوڑے دنوں کے بعد اُن کی منڈی بہت عمدہ طور پر بارونق ہوگئی اور روک اُٹھ گئی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 219۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 597)
12 فروری1884ء
’’شایدپرسوں مکرر الہام ہوا تھا۔
یَا یَحْیٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ۔ خُذْھَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَ تَھَا الْاُوْلٰی 3
یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہوچکا ہے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 15؍فروری1884ء بنام میر عباس علی صاحب۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ74)
1 علی محمد خاں صاحب نواب جھجر نے لدھیانہ میں ایک غلّہ منڈی بنائی تھی کسی شخص کی شرارت کے سبب اُن کی منڈی بے رونق ہوگئی اور بہت نقصان ہونے لگا۔ تب انہوں نے دعا کے لئے میری طرف رجوع کیا لیکن پیشتر اس کے کہ نواب صاحب کی طرف سے میرے پاس کوئی خط اس خاص امر کے لئے دعا کے بارہ میں آتا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پائی۔ کہ اس مضمون کا خط نواب صاحب کی طرف سے آرہیگا۔ (نزول المسیح صفحہ 218 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 596)
2 نواب علی محمد خاں صاحب آف جھجر۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اے یحییٰ اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے۔ اسے پکڑلے اور خوف نہ کر۔ ہم اسے اس کی پہلی حالت کی طرف لَوٹا دیں گے۔
15فروری 1884ء
آج حضرت خداوند کریم کی طرف سے یہ الہام ہوا۔
یَا عَبْدَ الرَّافِعِ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ اِنِّیْ مُعِزُّکَ لَا مَانِعَ لِمَا اُعْطِیْ۔1
(از مکتوب مؤرخہ15؍فروری1884ء بنام میر عباس علی صاحب۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 74)
28 مارچ 1884ء
اس خط کی تحریر کے بعد یہ شعر کسی بزرگ کا الہام ہوا:۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما 2
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام منشی احمد جان ؒ۔ مؤرخہ 28 مارچ1884ء مطابق 29 جمادی الاوّل
1301ھ مندرجہ الحکم جلد37 نمبر7 مؤرخہ28 فروری1934ء صفحہ10)
9 مئی 1884ء
’’ حضرت خداوندکریم کی قبولیت کی ایک یہ نشانی ہے کہ بعض اوقات آپ1 کی توجہات کی مجھ کو وہ خبر دیتا رہا ہے اور پرسوں کے دن بھی ایک عجیب بات ہوئی۔ کہ ابھی آں مخدوم کا منی آرڈر نہیں پہنچا تھا۔ اور نہ خط پہنچا تھا۔ کہ ایک منی آرڈر آپ کی طرف سے برنگ زرد مجھکو حالت کشفی میں دکھلایا گیا۔ اور پھر آں مخدوم کے خط سے اس عاجز کو بذریعہ الہام اطلاع دی گئی۔ اور آپ کے مافی الضمیر سےاورخط کے مضمون سے مطلع کیا گیا۔ اس میں بہ پیرایہ الہامی عبارت بطور حکایت آں مخدوم کی طرف سے یہ بھی فقرہ تھا۔ میرے خیال میں یہ آپ کی توجہ کا اثر ہے۔چنانچہ یہ خط کا مضمون اور مافی الضمیر کا منشاء تین ہندوؤں اور بہت سے مسلمانوں کو بھی بتلایا گیا۔ ازاں بعد آں مخدوم کا منی آرڈر اور خط بھی آگیا۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 11مئی1884ء بنام نواب علی محمد خانصاحب آف جھجر ۔
مندرجہ الحکم جلد3 نمبر34 مؤرخہ23؍ستمبر1899ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) اے رفعت بخشنے والے خدا کے بندے۔ میں تجھے اپنی جناب میں رفعت بخشوں گا۔ میں تجھے عزت اور غلبہ دُوں گا۔ جو کچھ میں دُوں اُسے کوئی بند نہیں کرسکتا۔
2 (ترجمہ از مرتب) وہ شخص ہرگز نہیں مرتا۔ جس کا دل عشق سے زندہ ہوگیا۔ صفحہ ٔ عالم پر ہمارا دوام ثابت ہے۔
3 نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر مراد ہیں۔ (مرتب)
مئی 1884ء
’’ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ نواب1صاحب کی حالت غم سے خوشی کی طرف مبدّل ہوگئی ہے اور آسودہ حال اور شکر گذار ہیں اور نہایت عمدگی اور صفائی سے یہ خواب آئی اور یہ خواب بہ طور کشف تھی۔ چنانچہ اسی صبح کو نواب صاحب کو اس خواب سے اطلاع دی گئی۔‘‘
(مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب مؤرخہ 26مئی 1884ء ۔ مندرجہ الحکم جلد 3نمبر13 مؤرخہ 12 اپریل1899ء صفحہ8)
مئی 1884ء
’’پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک صاحب الٰہی بخش نام اکؤنٹنٹ نے کہ جو اس کتاب2کے معاون ہیں۔ کسی اپنی مشکل میں دعا کے لئے درخواست کی اور بطور خدمت پچاس روپیہ بھیجے اور جس روز یہ خواب آئی اس روز سے دو چار دن پہلے ان کی طرف سے دعا کے لئے الحا ح ہوچکا تھا۔ مگر یہ عاجز نواب3صاحب کے لئے مشغول تھا۔ اس لئے ان کے لئے دُعا کرنے کو کسی اور وقت پر موقوف رکھا اور جس روز نواب صاحب کے لئے بشارت دی گئی تھی تو اس دن خیال کیا کہ آج منشی الٰہی بخش کے لئے توجہ سے دعا کریں سو بعد نماز عصر جب وقت ِ صفا پایا اور دعا کا ارادہ کیا گیا تو پھر بھی دل نے یہی چاہا کہ اس دعا میں بھی نواب صاحب کو شامل کرلیا جائے سو اس وقت نواب صاحب اور منشی الٰہی بخش دونوں کے لئے دعا کی گئی۔ بعد دُعا اسی جگہ الہام ہوا۔
نُنَجِّیْھِمَا مِنَ الْغَمِّ
یعنی ہم دونوں کو غم سے نجات دیں گے..............پھر چند روز کے بعد نواب صاحب کا خط آگیا کہ سرائے کاکام جاری ہوگیا ہے۔‘‘
(مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب مؤرخہ 26مئی1884ء
مندرجہ الحکم جلد3 نمبر13 مؤرخہ 12 اپریل 1899ء صفحہ8 و نمبر41 مؤرخہ 19؍ اپریل 1899ء صفحہ 6)
نومبر1884ء
’’ایک ابتلاء مجھ کو اس شادی4کے وقت یہ پیش آیا کہ بباعث اس کے کہ میرا دل اور دماغ سخت کمزور تھا اور میں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا............میری حالت ِ مردمی کالعدم تھی۔ اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی اس لئے میری اس شادی پر میرے بعض دوستوں نے افسوس کیا..........کہ آپ بباعث سخت کمزوری اس لائق نہ تھے.........غرض اس ابتلاء کے وقت میں نے جنابِ الٰہی میں دُعا کی۔ اور مجھے اس نے دفع مرض کے لئے اپنے الہام کے ذریعے سے دوائیں بتلائیں۔ اور میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک فرشتہ وہ دوائیں میرے
1 نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر مراد ہیں۔ (مرتب) 2 براہین احمدیہ (مرتّب)
3 نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر مراد ہیں۔ (مرتب) 4 جو17؍ نومبر1884ء کو دہلی میں ہوئی۔ (مرتب)
منہ میں ڈال رہا ہے۔ چنانچہ وہ دوا میں نے طیّار کی۔ اور اس میں خدا نے اس قدرت برکت ڈال دی کہ میں نے دلی یقین سے معلوم کیا کہ وہ پُر صحت طاقت جو ایک پورے تندرست انسان کو دُنیا میں مل سکتی ہے وہ مجھے دی گئی۔ اور چار لڑکے مجھے عطا کئے گئے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ35، 36 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 203، 204)
اِنَّ اللّٰہَ بَشَّرَنِیْ فِیْٓ اَبْنَا ئِیْ بَشَارَۃً بَعْدَ بَشَارَۃٍ حَتّٰی بَلَّغَ عَدَدَھُمْ اِلٰی ثَلٰثَۃٍ وَّ اَنْبَاَنِیْ بِھِمْ قَبْلَ وُجُوْ دِھِمْ بِالْاِلْھَامِ۔1
(انجام آتھم صفحہ 182روحانی خزائن جلد نمبر11 صفحہ 182)
اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ قُلْ اُرْسِلْتُ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔2
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مؤرخہ 30دسمبر1884ء۔ مندرجہ الحکم جلد19 نمبر 3مؤرخہ 21؍جنوری 1915ء صفحہ3)
اوائل مارچ 1885ء
’’مصنّف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدّدِ وقت ہے۔ اور روحانی طور پر اُس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدّت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء و رسل کے نمونہ پر محض بہ برکت ِ متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اُن بہتوں پر اکابر اولیا سے فضلیت دی گئی ہے۔ کہ جو اس سے پہلے گذرچکے ہیں۔ اور اُس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد وحرمان ہے۔‘‘
(اشتہار ضمیمہ سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر2 صفحہ 319)
8 مارچ 1885ء
’’عاجز مؤلف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جلّ شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلّل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے
1 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے بیٹوں کے بارہ میں بشارت کے بعد بشارت دی یہاں تک کہ انکی تعداد تین تک پہنچائی۔ اور مجھے ان کی پیدائش سے پہلے الہام کے ذریعہ ان کی خبر دی۔ (نوٹ از مرتب) اس کے متعلق حضرت امّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے۔ فرمایا:۔’’ جب میری شادی ہوئی اور میں ایک مہینہ قادیان ٹھیر کر واپس دہلی گئی۔ تو ان ایام میں حضرت مسیح موعود نے مجھے ایک خط لکھا کہ میں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ 73)
2 (ترجمہ از مرتب) میں نے تجھ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ کہہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔
............ اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرضِ اتمام حجت یہ خط............ مع اشتہار انگریزی1.....شائع کیا جائے۔ اور اُس کی ایک کاپی بخدمت معز ز پادری صاحبان ..............اور بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان.............ارسال کی جاوے۔
یہ تجویز نہ اپنے فکر و اجتہا دسے قرار پائی ہے۔ بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچتے پر رجوع نہ کرینگے) ملزم و لاجواب و مغلوب ہوجائیں گے۔‘‘
(از چھٹی مطبوعہ مؤرخہ8مارچ1885ء ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ11مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 20)
6اپریل 1885ء
’’ آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلاء میں پڑا ہوں۔ اور میں نے اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا۔اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مواخذہ کرتا ہے۔ میں نے اُس کو کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے۔ اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہےکہ گرایا جائے گا۔ مَیں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالیٰ جلّ شانہ‘ کے تصرّف میں ہوں جہاں مجھ کو بٹھائے گا بیٹھ جاؤں گا اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا، کھڑا ہوجاؤں گا۔ اور یہ الہام ہوا۔
یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللّٰہِ مِنَ الْعَرَبِ
یعنی تیرے لئے ابدالِ شام کے دُعا کرتے ہیں۔ اور بندے خدا کے عرب میں سے دُعا کرتے ہیں۔
خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس 2کا ظہور ہو۔ وَاللّٰہ اَعلم بالصواب۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ6؍ اپریل1885ء ۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ86)
10 جولائی 1885ء
’’ایک مرتبہ مجھے یا دہے کہ میں نے عالمِ کشف میں دیکھا1کہ بعض احکام قضاء و قدر میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا۔ اور پھر اُس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند ِ قادرِ مطلق جلّ شانہ‘ کے
1 یعنی اشتہار ضمیمہ سُرمہ چشم ِ آریہ جو اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہو۔ (مرتب)
2 آج چالیس سال کے بعد خطہ ٔ شام اور ملک عرب اس الہام کی تصدیقی شہادت بصدائے عام کررہا ہے۔ اور آج وہاں سلسلہ کی کئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں۔ جو حضور اقدس کے کام میں ہاتھ بٹاتیں اور حضور پر درود اور سلام بھیجتی ہیں۔ (مرتب)
3 اس واقعہ کے متعلق حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو انہوں نے شہادت کے طور پر اخبار الفضل جلد 4 نمبر24مؤرخہ26؍ ستمبر1916ء میں شائع کرائی تھی درج ذیل ہے:۔
’’رمضان شریف میں یہ عاجز حاضر خدمت سراپا برکت تھا کہ آخری عشرہ میں 27؍تاریخ کو جمعہ تھا۔ اس جمعہ کی صبح نماز پڑھ کر
سامنے پیش کیا ہے (اور یاد رکھنا چاہئے کہ مکاشفات اوررؤیاصالحہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض صفاتِ جمالیہ یا جلالیہ الٰہیہ انسان کی شکل پر متمثل ہوکر صاحب کشف کو نظر آجاتے ہیں۔ اور مجازی طور پر وہ یہی خیال کرتا ہے کہ وہی خداوند قادرِ مطلق ہے۔ اور یہ امر ارباب کشوف میں شائع و متعارف و معلوم الحقیقت ہے۔ جس سے کوئی صاحب ِ کشف انکار نہیں کرسکتا) غرض وہی صفت جمالی جو بعالم کشف قوت ِ متخیّلہ کے آگے ایسی دکھلائی دی تھی جو خداوند قادر مطلق ہے، اُس ذاتِ بیچون و بیچگون کے آگے وہ کتاب قضاء قدر پیش کی گئی اور اُس نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثّل تھا، اپنے قلم کو سُرخی کی دوات میں ڈبو کر اوّل اُس سُرخی کو اِس عاجز کی طرف چھڑکا اور بقیہ سُرخی کا قلم کے
بقیہ حاشیہ:
حضرت اقدس حسب معمول حجرہ مذکور (یعنی مسجد مبارک کے ساتھ مشرق والا چھوٹا حجرہ) میں جاکر چارپائی پر لیٹ گئے۔ اور یہ عاجز پاس بیٹھ کر حسب معمول پاؤں مبارک دبانے لگ گیا۔ حتیٰ کہ آفتاب نکل آیا اور حجرہ میں بھی روشنی ہوگئی۔
حضرت اقدس اس وقت کروٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ اور منہ مبارک پر اپنا ہاتھ کہنی کی جگہ سے رکھا ہوا تھا۔ میرے دل میں اس وقت بڑے سرور اور ذوق سے یہ خیالات موجزن تھے کہ میں کیا خوش نصیب ہوں کیا ہی عمدہ موقعہ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے مجھے دیا ہے کہ مہینوں میں مہینہ مبارک رمضان شریف کا ہے اور تاریخ بھی جو 27 ہے مبارک ہے اور عشرہ بھی مبارک ہے اور دن بھی جمعہ ہے جو نہایت مبارک ہے اور جس شخص کے پاس بیٹھا ہوں وہ بھی نہایت مبارک ہے اللہ اکبر کس قدر برکتیں آج میرے لئے جمع ہیں۔ اگر خدا وند کریم اس وقت کوئی نشان حضرت اقدس کا مجھے دکھا دے تو کیا بعید ہے۔ میں اسی سرور میں تھا۔ اور پاؤں ٹخنہ کے قریب سے دبا رہا تھا کہ یکایک حضرت اقدس کے بدنِ مبارک پر لرزہ سا محسوس ہوا۔ اور اس لرزہ کے ساتھ ہی حضور نے اپنا ہاتھ مبارک منہ پر سے اُٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اُس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ شاید جاری بھی تھے۔ اور پھر اسی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر لیٹے رہے جب میری نظر ٹخنہ پر پڑی تو اُس پر ایک قطرہ سُرخی کا جو پھیلا ہوا نہیں بلکہ بستہ تھا۔ مجھے دکھلائی دیامَیں نے اپنی شہادت کی انگلی کا پھول اُس قطرہ پر رکھا تو وہ پھیل گیا اور سُرخی میری اُنگلی کو بھی لگ گئی۔ اس وقت میں حیران ہوا۔ اور میرے دل میں یہ آیت گذری۔صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً۔نیز یہ بھی دل میں گذرا کہ اگر یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں شاید خوشبو بھی ہو۔ چنانچہ میں نے اپنی انگلی سونگھی مگر خوشبو وغیرہ کچھ نہ تھی۔ پھر میں ٹخنہ کی طرف سے کمر کی طرف دبانے لگا۔ تو حضرت اقدس کے کُرتہ پر بھی چند داغ سُرخی کے گیلے گیلے دیکھے۔ مجھ کو نہایت تعجب ہوا۔ اور میں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اور حجرہ کی ہر جگہ کو خوب اچھی طرح دیکھا۔ مگر مجھے سُرخی کا کوئی نشان حجرہ کے اندر نہ ملا۔ آخر حیران سا ہوکر بیٹھ گیا۔ اور بدستور پاؤں دبانے لگ گیا۔ حضرت صاحب منہ پر ہاتھ رکھے لیٹے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر مسجد مبارک میں آکر بیٹھ گئے یہ عاجز بدستور پھر کمر وغیرہ دبانے لگ گیا۔
اس وقت میں نے حضور سے عرض کی کہ حضور یہ سرخی کہاں سے گری۔ پہلے تو ٹال دیا پھر اس عاجز کے اصرار پر وہ سارا واقعہ بیان فرمایا۔ جس کو حضرت اقدس تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج فرماچکے ہیں مگر بیان کرنے سے پہلے اس عاجز کو رویت باری تعالیٰ کا مسئلہ اور کشفی امور کا خارج میں وجود پکڑنا حضرت محی الدین عربی کے واقعات سنا کر خوب اچھی طرح سے
مونہہ میں رہ گیا۔ اُ س سے اُس کتاب پر دستخط1 کردیئے اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دُور ہوگئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا‘ تو کئی قطرات سُرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے۔ چنانچہ ایک صاحب عبداللہ نام جو سنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور اُس وقت اس عاجز کے پاس نزدیک ہوکر بیٹھے ہوئے تھے، دو یا تین قطرہ سُرخی کے اُن کی ٹوپی پر پڑے۔ پس وہ سُرخی جو ایک امر کشفی تھا وجود خارجی پکڑ کر نظر آگئی۔ اسی طرح اور کئی مکاشفات میں ‘ جن کا لکھنا موجب تطویل ہےمشاہدہ کیا گیا ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ صفحہ 131، 132حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر2 صفحہ 179، 180(
1885ء
’’میں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں اور منتظر ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہو اتنے میں جواب ملا۔
اِصْبِرْ سَنَفْرُ غُ یَا مِرْزَا 1 !
پھر ایک بار دیکھا کہ کچہری میں گیا ہوں تو اللہ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر عدالت کی کُرسی پر بیٹھا ہے اور ایک
بقیہ حاشیہ:۔
ذہن نشین کرادیا تھا کہ اس جہان میں کاملین کو بعض صفاتِ الٰہیہ جمالی یا جلالی متمثل ہوکر دکھلائی دے جاتی ہیں۔ پھر حضرت نے مجھے فرمایا کہ آپ کے کپڑوں پر بھی کوئی قطرہ گرا۔ میں نے اپنے کپڑے اِدھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیاکہ حضرت میرے پر تو کوئی قطرہ نہیں ہے فرمایا اپنی ٹوپی پر (جو سفید ململ کی تھی) دیکھو۔ میں نے ٹوپی اُتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا۔ مجھے اس وقت بہت ہی خوشی ہوئی کہ میرے پر بھی ایک قطرہ خدا کی روشنائی کا گرا۔ اس عاجز نے وہ کُرتہ جس پر سُرخی گری تھی تبرکاًحضرت اقدس سے باصرار تمام لے لیا۔ اس عہد پر کہ میں وصیت کر جاؤنگا کہ میرے کفن کے ساتھ دفن کردیا جاوے۔ کیونکہ حضرت اقدس اس و جہ سے اُسے دینے سے انکار کرتے تھے کہ میرے اور آپ کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اور لوگ اس کو زیارت گاہ بنا لیں گے اور اس کی پُوجا شروع ہوجائیگی۔ غرض کہ بہت ردّ و قدح کے بعد دیا جو میرے پاس اس وقت تک موجود ہے اور سُرخی کے نشان اس وقت تک بلا کم و کاست بعینہٖ موجود ہیں۔
یہ ہے سچی عینی شہادت! اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو لعنتہ اللہ علی الکاذبین کی وعید کافی ہے میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اور اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سراسر سچ ہے۔ اگر جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کی ***! ***!! ***!!! مجھ پر خد اکا غضب! غضب!!غضب!!!
عاجز عبداللہ سنوری‘‘
1 چونکہ عین آریہ صاحبوں کے مقابل پر یہ نشان تھا اس لئے میرے خیال میں یہ پنڈت لیکھرام کے مارے جانے کی طرف اشارہ تھا۔ اور طاعون کے وقوع کی طرف بھی اشارہ تھا۔‘‘ (نسیم دعوت صفحہ 62حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 427)
2 (ترجمہ از مرتب) مرزا! ٹھہرو ہم ابھی فارغ ہوتے ہیں۔
سر رشتہ دار کے ہاتھ میں ایک مثل ہے جو وہ پیش کررہا ہے۔ حاکم نے مثل دیکھ کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو میں نے غور سے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک خالی کرسی پڑی ہے، مجھے اُس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر میں بیدار ہوگیا۔‘‘
(الحکم جلد7 نمبر5 مؤرخہ7 فروری1903ء صفحہ14 و البدر جلد2 نمبر6 مؤرخہ27 فروری 1903ء صفحہ 42 کالم نمبر1)
5 اگست 1885ء
’’مرزا امام الدین و نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ اکتیس ماہ تک اُن پر ایک سخت مصیبت پڑے گی۔ یعنی ان کے اہل و عیال و اولاد میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہوجائے گا۔ جس سے اُن کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا۔ آج ہی کی تاریخ کے حساب جو تئیس ساون سم 1942 مطابق5اگست 1885ء ہے، یہ واقعہ ظہور میں آئے گا۔1 مرقوم5اگست1885ء ۔‘‘
(اعلان 20مارچ1888ء تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 102)
1885ء
(الف) ’’ قریباً چودہ برس کا عرصہ گذرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میری اس بیوی1کو چوتھا لڑکا پیدا ہوا ہےاور تین پہلے موجود ہیں۔ اور یہ بھی خواب میں دیکھا تھا کہ اس پسر چہارم کا عقیقہ بروز دو شنبہ یعنی پیر ہوا ہے اور جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا یعنی کوئی بھی نہیں تھا۔ اور خواب میں دیکھا تھا اس بیوی سے میرے چار لڑکے ہیں اور چاروں میری نظر کے سامنے موجود ہیں اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا ہے۔
اب جبکہ یہ لڑکا مبارک احمد پیدا ہوا تو وہ خواب بھول گئے اور عقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار میں عقیقہ کا سامان نہ ہوسکا اور ہر طرف حارج پیش آئے۔ ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا پھر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گذر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پیدا ہوگا اور اس کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا۔ تب وہ اضطراب ایک خوشی کے ساتھ مبدّل ہوگیا کہ کیونکر خدا تعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیااور ہم سب زور لگار ہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو مگر کچھ بھی پیش نہ گئی اور عقیقہ پیر کو ہوا۔ یہ پیشگوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا۔ انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک کہ چار لڑکے پیدا ہوسکیں ‘ زندہ بھی رہیں یہ خدا
1 چنانچہ عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی۔‘‘
(اعلان مؤرخہ20 مارچ1888ء مندرجہ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 103۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 144)
2 حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ (مرتب)
کے کام ہیں مگر افسوس کہ ہماری قوم دیکھتی ہے پھر آنکھ بند کرلیتی ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ27جون1899ء بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 26،27)
(ب)’’عرصہ چوداں برس کا ہوا ہے کہ ایک خواب آئی تھی۔ کہ چار لڑکے ہوں گے۔ اور چوتھے لڑکے کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا۔‘‘ (از مکتوب بنام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مؤرخہ26جون1899ء)
1885ء
’’میاں عبداللہ سنوری جو علاقہ پٹیالہ میں پٹواری ہیں، ایک مرتبہ ان کو ایک کام پیش آیا جس کے ہونے کے لئے انہوں نے ہر طرح سے کوشش کی اور بعض وجوہ سے ان کو اس کام کے ہوجانے کی امید بھی ہوگئی تھی۔ پھر انہوں نے دعا کے لئے ہماری طرف التجا کی۔ ہم نے جب دعا کی تو بلاتوقف الہام ہوا۔
’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘
تب میں نے ان کو کہدیا کہ یہ کام ہرگز نہیں ہوگا اور وہ الہام سنا دیا اور آخرکار ایسا ظہور میں آیا اور کچھ ایسے موانع پیش آئے کہ وہ کام ہوتا ہوتا رہ گیا۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 234روحانی خزائن جلد 18صفحہ 612)
28نومبر1885ء
’’28 نومبر1885ء کی رات کو یعنی اُس رات کو جو 28نومبر1885ء کے دن سے پہلے آئی تھی۔ اس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی۔ اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اُس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اُس کو بیان کرسکوں۔ مجھ کو یاد ہے کہ اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ
مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی 1
سو اُس رمی کو رمیِ شہب سے بہت مناسبت تھی۔
یہ شہبِ ثاقبہ کا تماشا جو28نومبر1885ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کی عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا۔ لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اس سے حظ اور لذّت اُٹھانے والا میں ہی تھا۔ میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں۔ اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہوگیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی و جہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میری دل میں الہاماً ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے۔
اور پھر اُس کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیح کے ظہو رکے وقت میں نکلا تھا۔
1 ’’جو کچھ تونے چلایا وہ تونے نہیں چلایا۔ بلکہ خدا نے چلایا۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 70۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 73)
میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ ستارہ بھی تیری صداقت کے لئے دوسر انشان ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 110 ، 111 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ110 ، 111)
نومبر1885ء
(الف)’’ہم پر خود اپنی نسبت‘ اپنے بعض جدّی اقارب کی نسبت‘ اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گو یا نجم الہند1ہیں اور ایک دیسی امیر نووارد2پنجابی الاصل کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلاء اور کسی کی موت و فوت اعِزّہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں۔ جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفیہ لکھی جائیں گی۔ منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں۔‘‘
(اشتہار 20فروری1886ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 99،100)
(ب) ’’ دلیپ سنگھ کی نسبت پیش از وقوع اُس3 کو بتلایا گیا۔ کہ مجھے کشفی4طور پر معلوم ہؤاہوا ہےکہ پنجاب کا آنا اُس
1 (الف)’’وہ پیشگوئی بھی بڑی ہیبت کے ساتھ پوری ہوئی اور ایک دفعہ ناگہانی طور سے ایک شریر انسان کی خیانت سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے نقصان کا آپ کو صدمہ پہنچا......آپ نے اس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی.......ایک مرتبہ غشی بھی ہوگئی۔‘‘ (اشتہار12؍مارچ1897ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 341، 342) اس اشتہار میں سر سید احمد خانصاحب مخاطب ہیں۔ (مرتب)
(ب) ’’اخیر عمر میں سید صاحب کو ایک جوان بیٹے کی موت کا جانکاہ صدمہ پہنچا۔‘‘
( نزول المسیح صفحہ 191۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 569)
2 (الف) ’’ ہم نے صد ہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف شہروں میں بتلادیا تھا کہ اس شخص پنجابی الاصل سے مراد دلیپ سنگھ ہے۔ جس کے پنجاب میں آنے کی خبر مشہورہورہی ہے لیکن اس ارادہ سکونت پنجاب میں وہ ناکام رہے گا۔ بلکہ اس سفر میں اُس کی عزت و آسائش یا جان کا خطرہ ہے..........بالآخر اُس کو مطابق اِسی پیشگوئی کے بہت حرج اور تکلیف اور سُبکی اور خجالت اُٹھانی پڑی۔ اور اپنے مدعا سے محروم رہا۔‘‘
(اشتہار محکّ اخیار و اشرار ضمیمہ سرمہ چشم آریہ صفحہ 1تا4۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 318 ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 90۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 131)
(ب) ’’دلیپ سنگھ عدن سےواپس 1ہوا۔ اور اس کی عزت و آسائش میں بہت خطرہ پڑا۔ جیسا کہ میں نے صدہا آدمیوں کو خبر دی تھی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 226۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 604)
(ج) ’’وہ فقرہ اشتہار20فروری1886ء جس میں لکھا ہے کہ امیر نووارد پنجابی الاصل کی نسبت متوحش خبریں‘ اس سے مراد دلیپ سنگھ ہے۔ ایسا ہی یہ خبر جابجا صدہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو جو پانچ سو سے کسی قدر زیادہ ہی ہوں گے۔ کئی شہروں میں پیش از وقوع بتلائی گئی تھی۔ اور اشتہارات 20فروری1886ء بھی دُور دُور ملکوں تک تقسیم کئے گئے تھے۔ پھر آخر کار جیسا کہ پیش از وقوع بیان کیا گیا اور لکھا گیا تھا۔ وہ سب باتیں دلیپ سنگھ کی نسبت پوری ہوگئیں۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ صفحہ 188۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 236)
3 لالہ شرمپت کو۔ (مرتّب) 4 (نوٹ از مرتب) مولوی جمال الدین صاحب سکنہ سیکھواں ضلع گورداسپور کی روایت
1 اخبار ریاضؔ ہند امرت سر مطبوعہ3؍مئی1886ء میں صفحہ 314 کالم نمبر1 پر مہارا جہ دلیپ سنگھ صاحب کے عدنؔ میں رہ جانے کی خبر شائع ہوئی۔ (مرتب)
کے لئے مقدر نہیں۔ یا تو یہ مرے گا اور یا ذلّت اور بے عزتی اُٹھائے گا اور اپنے مطلب سے ناکام رہے گا۔‘‘
(شحنہ حق صفحہ 43۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 382)
1886ء
(الف)’’خداوند کریم جلّ شانہ‘ نے اُس شہر کا نام بتادیا ہے کہ جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہئے۔ اور وہ ہوشیارپور1ہے۔ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم صفحہ10 مکتوب نمبر20بنام چودھری رستم علی صاحب ؓ)
(ب) ’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام مشہو رہوچکا ہے۔ بایں الفاظ یا بایں معنی ایک معاملہ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔‘‘ (بدر جلد 6 نمبر 36 مؤرخہ5ستمبر1907ء صفحہ 10)
جنوری 1886ء
* اِعْلَمْ اَنَّ زَوْجَۃَ اَحْمَدَ وَاَقَارِ بَھَاکَا نُوْا مِنْ عَشِیْرَتِیْ۔ وَکَا نُوْا لَا یَتَّخِذُوْنَ فِیْ سُبُلِ الدِّیْنِ وَتِیْرَتِیْ۔ بَلْ کَانُوْا یَجْتَرِئُ وْنَ عَلَی السَّیِّئَاتِ۔ وَاَنْوَاعِ الْبِدْعَاتِ۔ وَکَانُوْا فِیْھَا مُفْرِطِیْنَ۔ فَاُلْھِمْتُ مِنَ الرَّحْمَانِ اَنَّہ‘ مُعَذِّبُھُمْ لَوْ لَمْ یَکُوْنُوْا تَائِبِیْنَ۔ وَقَالَ لِیْ رَبِّیْ اِنَّھُمْ اِنْ لَّمْ یَتُوْبُوْا وَلَمْ یَرْجِعُوْا فَنُنَزِّلُ
☆ جا ننا چاہئے کہ احمد بیگ کی بیوی اور اس کے دیگر اقارب میرے رشتہ داروں میں سے تھے اور دینی امور کی راہوں میں میرا طریقہ اختیار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ہر قسم کی بدکرداریوں اور گوناگوں بدعتوں کا بڑی دلیری سے ارتکاب کرتے تھے۔ اور اس بات میں حد سے بڑھے ہوئے تھے پس
بقیہ حاشیہ:---------------------------------------------------------------
سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف حضور کو ماہ نومبر1885ء میں ہو اتھا۔ لکھتے ہیں:۔
’’یہ خاکسار درماہ نومبر1885ء کہ واسطے ملاقات جناب مرزا صاحب موصوف (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے گیا۔ اور اسی روز منجانب اللہ بابت مہاراجہ دلیپ سنگھ کے منکشف ہوا تھا وہ میرے پاس اور نیز کئی آدمی جو اس وقت موجود تھے۔ ظاہر کیا۔ کہ یہ لوگ آمدن دلیپ سنگھ صاحب کے (باعث)سرور و خوشی کررہے ہیں۔ یہ ان کو سرور حاصل نہ ہوگا۔ مجھ کو آج خدا کی طرف سے ظاہر ہوا ہے کہ جو وہ آئے گا۔ بہت شدائد و مصائب اُٹھائے گا۔ بلکہ یہاں تک اس وقت مرزا صاحب نے فرمایا۔ کہ اس کی لاش ایک صندوق میں مجھ کو دکھلائی گئی ہے۔‘‘
(روایات صحابہ صفحہ ج155/4 روایت مولوی جمال الدین صاحب سیکھوانیؓ )
1 میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ کی روایت ہے کہ پہلے حضورؑ کا ارادہ چلّہ کشی کے لئے سوجان پورضلع گورداسپور میں جانے کا تھا مگر بعد میں الہام ہؤا کہ ’’تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔‘‘
دیکھئے سیرۃ المہدی حصّہ اوّل صفحہ 69 (مرتّب)
عَلَیْھِمْ رِجْسًا مِّن السَّمٰوَاتِ۔ وَنَجْعَلُ دَارَھُمْ مَمْلُوَّۃً مِّنَ الْاَرَامِلِ وَالثَّیِّبَاتِ۔ وَنَتَوَفّٰہُمْ اَبَا تِرَمَخْذُوْلِیْنَ وَاِنْ تَابُوْ وَاَصْلَحُوْا فَنَتُوْبُ عَلَیْھِمْ بِالرَّحْمَۃِ۔ وَنُغَیِّرُ مَا اَرَدْنَا مِنَ الْعُقُوْبَۃِ۔ فَیَظْفَرُوْنَ بِمَا یَبْتَغُوْنَ فَرِحِیْنَ۔ فَنَصَحْتُ لَھُمْ اِتْمَا مًا لِّلْحُجَّۃِ۔ وَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ذِی الْمَغْفِرَۃِ۔ فَمَا سَمِعُوْا کَلِمَاتِیْ۔ وَزَادُوْا فِیْ مُعَادَا تِیْ۔ فَبَدَالِیْ اَنَ اُشِیْعَ الْاِشْتِھَارَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ۔ لَعَلَّھُمْ یَکُوْنُوْنَ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ۔
فَاَشَعْتُ الْاِ شْتِھَارَ۔ وَاَنَا فِی ھُشْیَارَ۔ فَنَبَذُوْہُ وَرَآئَ ظُھُوْرِھِمْ غَیْرَ مُبَالِیْنَ۔
(انجام آتھم صفحہ 211، 213۔ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 211۔213)
1886ء
(الف) فَلَمَّا 1 لَمْ یَنْتَھُوْا بِھٰذَا الْاِشْتِھَارِ۔ وَلَمْ یَتْرُکُوْا طَرِیْقَ التَّبَارِ۔ فَکَشَفَ اللّٰہُ عَلَیَّ اُمُوْرًا لِتِلْکَ الْفِتْنَۃِ وَاَنَا بَیْنَ النَّوْمِ وَالْیَقْظَۃِ۔ وَکَانَ ھٰذَا الْکَشْفُ تَفْصِیْلَ ذَالِکَ الْاِلْھَامِ فِی الْمَرَّۃِ الثَّانِیَۃِ۔ وَ بَیَانُہ‘ اَنِّیْ کُنْتُ اُرِیْدُ اَنْ اَرْقُدَ۔ فَاِذَا تَمَثَّلَتْ لِیْ اُمُّ زَوْجَۃِ اَحْمَدَ۔ وَرَاَیْتُھَا فِیْ شَانٍ اَحْزَنَنِیْ وَاُرْجِدَ۔ وَھُوَاَنِّیْ
مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہاماًبتایا گیا۔ کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی۔ تو اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب نازل کرے گا اور مجھے میرے پروردگار نے کہا۔ کہ اگر ان لوگوں نے توبہ نہ کی۔ اور اپنی بے راہیوں سے باز نہ آئے تو ہم اُن پر آسمان سے عذاب نازل کریں گے اور ان کے گھروں کو بیواؤں سے بھردیں گے اور اگر انہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کی۔ تو ہم رحمت کے ساتھ اُن کی طرف رجوع کریں گے اور سزا کے ارادہ کو تبدیل کردیں گے۔ پس جو کچھ وہ چاہتے ہیں۔ بخوشی خاطر دیکھیں گے۔ اور میں نے اُن کو اتمام حجت کے لئے نصیحت کی اور کہا کہ خداوند غفور سے مغفرت چاہو۔ مگر انہوں نے میری کوئی بات نہ سنی اور دشمنی میں اور بھی بڑھ گئے۔ پھر میرے دل میں آیا کہ اس بارہ میں اشتہار شائع کروں تا یہ لوگ ڈریں اور راہ صواب کی طرف رجوع کریں۔ اور خدائے تعالیٰ سے بخشش چاہیں۔
پس میں نے اشتہار شائع کردیا اور میں اس وقت ہوشیار پور میں تھا۔ مگر انہوں نے اس اشتہار کو بے پرواہی سے پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔
1 (ترجمہ از مرتب) پھر جب وہ اس اشتہار سے نہ رُکے اور ہلاکت کی راہ کونہ چھوڑا۔ تو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس خاندان کے متعلق چند امور ظاہر فرمائے۔ جبکہ میں نیند اور بیداری کے بَین بَین تھا۔ اور یہ کشف دوبارہ اس الہام کی تفصیل تھا جس کا واقعہ یوں ہے کہ میں جب سونے لگا تو احمد بیگ کی خوشدامنہ میرے سامنے متمثّل ہوئی۔ میں نے اُسے جس حال میں دیکھا۔ دیکھتے ہی میں غمگین ہوگیا
وَجَدْ تُّھَافِیْ فَزَعٍ شَدِیْدٍ عِنْدَالتَّلَاقِیْ۔ وَعَبَرَاتُھَا یَتَحَدَّرْنَ مِنَ الْمَاٰقِیْ۔ فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْئَ ۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقِبِکِ۔ اَیْ عَلٰی بِنْتِکِ وَبِنْتِ بِنْتِکِ۔ ثُمَّ تَنَزَّلْتُ مِنْ ھٰذَا الْمَقَامِ۔ وَفُھِّمْتُ مِنْ رَّبِّیْ اَنَّہٗ تَفْصِیْلُ الْاِلْھَامِ السَّابِقِ مِنَ اللّٰہِ الْعَلَّامِ۔
وَاُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ مَعْنَی الْعَقِبِ مِنَ الدَّیَّانِ۔ آنَّ الْمُرَادَھٰھُنَابِنْتُھَا وَ بِنْتُ بِنْتِھَا لَا اَحَدٌ مِّنَ الصِّبْیَانِ۔ وَنُفِثَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ الْبَلَآئَ بَلَآئَ انِ۔ بَلَآءٌ عَلٰی بِنْتِھَا وَبَلَآءٌ عَلٰی بِنْتِ الْبِنْتِ مِنَ الرَّحْمٰنِ وَ اِنَّھُمَا مُتَشَابِھَانِ مِنَ اللّٰہِ اَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 213، 214۔ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 213۔214)
(ب) ’’جنوری 1886ء میں بمقام ہوشیار پور ایک اور الہام عربی مرزا احمد بیگ1کی نسبت ہوا تھا۔ جس کو ایک مجمع میں جس میں بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ و مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی موجود تھے، سُناگیا ۔ جس کی عبارت یہ ہے:۔
1 رَئَیْتُ ھٰذِہِ الْمَرْئَۃَ وَاَثَرُ الْبُکَآئِ عَلٰی وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْئَ ۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقَبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ یَمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ۔‘‘
(اشتہار پانز 15دہم جولائی1888ء تیتمہ اشتہار دہم جولائی1888ء۔ تبلیغِ رسالت صفحہ 120۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 162)
اور میرا بدن لرز گیا۔ بوقت ِ ملاقات میں نے اسے سخت گھبراہٹ میں پایا اور دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ تب مَیں نے اُسے کہا ۔ اے عورت! توبہ کر۔ توبہ کر۔ کیونکہ تیری نسل پر مصیبت آنے والی ہے۔ یعنی تیری بیٹی اور نواسی پر۔ پھر مجھ پر سے وہ کشفی حالت جاتی رہی۔ اور مجھے اپنے رب کی طرف سے تفہیم ہوئی۔ کہ یہ خدائے علّام کی طرف سے پہلے الہام کی تفصیل ہے۔ اور عقب کے معنی کے متعلق میرے دل میں خدائے تعالیٰ کی طر سے یہ ڈالا گیا۔ کہ یہاں مراد اس کی بیٹی اور نواسی ہے۔ نہ کوئی اور بچہ۔ اورمیرے دل میں یہ پھونکا گیا۔ کہ بَلا سے مُراد دو مصیبتیں ہیں۔ ایک وہ مصیبت جو اس کی بیٹی پر آنے والی ہے۔ اور دوسری وہ جو اُس کی نواسی پر آئے گی۔ اور یہ دونوں خدائے احکم الحاکمین کی طرف سے باہم مشابہ ہیں۔
1 یعنی مرازا احمد بیگ ہوشیار پوری جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چچازاد بہن بیاہی گئی تھیں جن کے بطن سے محمدی بیگم پیدا ہوئیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) میں نے اس عورت (یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی ساس کو جو محمدی بیگم کی نانی اور مرزا امام الدین وغیرہ کی والدہ تھی)کو ایسے حال میں دیکھا کہ اس کے منہ پر گریہ و بُکا کے آثار تھے تب میں نے اُسے کہا کہ اے عورت! توبہ کر توبہ کر۔ کیونکہ بلا تیری نسل کے سر پر کھڑی ہے اور یہ مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے وہ شخص (یعنی مرزا احمد بیگ) مرے گا۔ اور اس کی و جہ سے کئی سگ سیرت لوگ (پیدا ہوکر) پیچھے رہ جائیں گے۔
20 فروری 1886ء
’’خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہریک چیز پر قادر ہے (جلّ شانہ‘ و عزّاسمہ‘) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا کہ
میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تونے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرّعات کو سنا۔ اور تیری دُعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لودھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا۔ تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں۔ موت کے پنجہ سے نجات پاویں۔ اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں۔ اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے۔ اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے۔ اور خدا اور خدا کے دین اور ا س کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک کھلی نشانی ملے۔ اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔
سو تجھے بشارت ہو۔ کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیّت و نسل ہوگا۔
خوبصورت پاک1 لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اُس کانام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس رُوح دی گئی ہے۔ اور وہ رِجس سے پاک ہے وہ نوراللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔
1 یہ عبارت کہ خوبصورت۔ پاک لڑکا تمہارا مہمان......جو آسمان سے آتا ہے یہ تمام عبارت .........چند روزہ زندگی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روزہ رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہوجائے اور بعد کا فقرہ مصلح موعود کی طرف اشارہ ہے اور اخیر تک اسی کی تعریف ہے...........بیس فروری1886ء کی پیش گوئی............دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی جو غلطی سے ایک سمجھی گئی۔ اور پھر بعد میں ..........الہام نے اس غلطی کو رفع کردیا۔‘‘
(مکتوب 4دسمبر 1888ء بنام حضرت خلیفۃ اوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحہ 43,44)
اس کے ساتھ فضل1 ہے جو اُس کےآنے کے ساتھ آئے گا ۔2
وہ صاحب ِ شکوہ اور عظمت اور دَولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئیگا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمتہ اللہ ہے۔ کیونکہ خدا کی رحمت و غیّوری نے اُسے کلمہ ٔتمجید سے بھیجا ہے وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔اور دل کا حلیم ۔ اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْھَرُ الْاَوّلِ وَالْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآئِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے
1 بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ ........مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اِس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا۔‘‘
(سبز اشتہار صفحہ 21 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 467، تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ141)
(نوٹ از مرتب) اس الہامی فقرہ کے مطابق مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے 7اگست1887ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ جو چند روزہ زندگی گذار کر نومبر1888ء میں اس دنیا کو چھوڑگیا۔ اور اپنے خدا سے جاملا۔ اور اس پیشگوئی کے اس فقرہ کے مطابق کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ اس کے بعد وہ لڑکا پید اہوا۔ جس کا نام اس پیشگوئی میں فضل رکھا گیا تھا۔ اور جس کا دوسرا نام الہام الٰہی نے محمود ؔ اور تیسرا نام بشیر ثانی بتایا تھا۔ اور جس کا ایک نام فضل عمر ظاہر کیا گیا تھا۔ آپ کی پیدائش12؍جنوری1889ء کو ہوئی۔ اور14؍مارچ 1914ء کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب ِ خلافت سے سرفراز فرمایا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
2 رسالہ التبلیغ ملحقہ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں مصلح موعود کے متعلق مزید اوصاف کا ذکر ہے۔
والفضل ینزل بنزولہ وھو نور و مبارک وطیب و من المطھرین۔ یُفشی البرکات و یغذی الخلق من الطیبات و ینصرالدین....... و انہ اٰیۃ من اٰیاتی و علم التائیداتی لیعلم الذین کذبوا انی معک بفضلی المبین......وھو فھیم و ذہین و حسین۔ قد ملئی قلبہ علمًا و باطنہ حلمًا و صدرہ سلمًا۔ واعطی لہ نفس مسیحی و بورک بالروح الامین۔ یوم الاثنین نواھًا لک یا یوم الاثنین یاتی فیک ارواح المبارکین۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام (التبلیغ) صفحہ 577، 578۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 577، 578)
(ترجمہ از مرتب) اور فضل اس کے آنے کے ساتھ آئیگا۔ اور وہ نور ہے اور مبارک اور پاک اور پاکبازوں میں سے ہے برکتیں پھیلائیگا اور مخلوق کو پاکیزہ غذائیں دیگا اور دین کا مددگار ہوگا..........اور وہ میرے نشانوں میں سے ایک نشان اور میری تائیدوں کا علم ہوگا۔ تا وہ لوگ جو جھٹلاتے ہیں جان لیں کہ میں اپنے کھلے فضل سے تیرے ساتھ ہوں........اور وہ فہیم اور ذہین اور حسین ہوگا۔ اس کا دل علم سے اور باطن حلم سے اور سینہ سلامتی سے بھرپور ہوگا۔ اور اسے مسیحی نفس عطا کیا گیا۔ اور روح امین سے برکت دیا گیا ہوگا۔ دو شنبہ! اے مبارک دوشنبہ تجھ میں مبارک روحیں آئیں گی۔
ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسُوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور اسیروں کی رُستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اور قومیں 1اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔‘‘
(اشتہار 20فروری1886ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 59،60۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 100 تا 102)
1886ء
’’پھر خدائے کریم نے مجھے بشارت دے کر کہا۔ کہ
تیرا گھربرکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کرونگا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریّت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دُونگا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گےاور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہریک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہوجائے گی 2۔اگر وہ توبہ نہ
1 ’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں۔ بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہ‘ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہےاور درحقیقت یہ نشان ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل و اَتم ہے۔ کیونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الٰہی میں دعا کرکے ایک روح واپس منگوایا جاوے۔ .......جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے............مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسا نہٖ و بہ برکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دُعا کو قبول کرکے ایسی بابرکت رُوح بھیجنے کا وعدہ فرمایا۔ جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ سو اگرچہ بظا ہر یہ نشان احیاء موتٰی کے برابر معلوم ہوتا ہے۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ بہتر ہے۔ مُردوں کی بھی رُوح ہی دُعا سے واپس آتی ہے۔ اور اس جگہ بھی دُعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے۔ مگر ان رُوحوں اور اس رُوح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔‘‘
(اشتہار22مارچ1886ء روز دو شنبہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 114، 115)
2 ’’جس وقت حضور نے دعویٰ کیا اس وقت آپ کے خاندان میں ستّر کے قریب مرد تھے۔ لیکن اب ان کے سوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں۔ ان ستّر میں سے کسی ایک کی بھی اولاد موجود نہیں۔‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ الحکم نمبر 19 تا 22 مؤرخہ 21 تا 28 مئی و 7 تا 12جون1943ء صفحہ10)
کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا۔ یہانتک کہ وہ نابود ہوجائیں گے اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں اِرد گِرد پھیلائے گا اورایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گاتیری ذریّت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سر سبز رہے گی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہوجائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اُٹھاؤں گا اور اپنی طرف بُلا لُونگا پر تیرا نام صفحہ ٔزمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلّت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے در پَے اور تیرے نابُود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامردی میں مریں گے۔ لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دیگا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دُوں گا اور اُن میں کثرت بخشونگا اور وہ مسلمانوں کے اس دو سرے گروہ پر تابروز قیامت غالب رہیں گے۔ جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا اُنہیں نہیں بھُولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اَجر پائیں گے۔ تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلّی طور پر اُن سے مشابہت رکھتا ہے) تُو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تُو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا، یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو۔ اگر تمہیں اُس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیاتو اس نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو۔ اگر تم سچّے ہواور اگر تم بھی پیش نہ کرسکو اور یاد رکھوکہ ہر گز پیش نہ کرسکو گے تو اُس آگ سے ڈروکہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے۔ فقط۔‘‘
(از اشتہار20؍فروری1886ء۔ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ60،62۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 102، 103)
1886ء
’’ شایدچار ماہ کا عرصہ ہوا ۔ کہ اس عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک فرزند قوی الطاقتین کامل الظاہر و الباطن تم کو عطا کیا جائے گا۔ سو اُس کا نام بشیرؔہوگا۔ اب تک میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ
سے ہوگا۔ اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہورہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمہیں کرنا پڑے گا۔ اور جناب الٰہی میں یہ بات قرار پاچکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرت اہلیہ تمہیں عطا ہوگی وہ صاحب ِ اولاد ہوگی۔ اس میں تعجب کی بات یہ ہے کہ جب الہام ہوا۔ تو ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے۔ تین ان میں سے تو آم کے تھے۔ مگر ایک پھل سبز رنگ کا بہت بڑا تھا۔ وہ اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا۔ اگرچہ ابھی یہ الہامی بات نہیں ہے۔ مگر میرے دل میں یہ پڑا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کے پھلوں میں سے نہیں ہے وہی مبارک لڑکا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مُراد اولاد ہے۔ اور جبکہ ایک پارسا طبع اہلیہ کی بشارت دی گئی۔ اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار پھل دیئے گئے۔ جن میں سے ایک پھل الگ وضع کا ہے تو یہی سمجھا جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ8جون1886ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ5، 6)
1886ء
’’ان دنوں اتفاقاً نئی شادی کے لئے دو شخصوں نے تحریک کی تھی۔ مگر جب ان کی نسبت استخارہ کیا گیا۔ تو ایک عورت کی نسبت جواب ملا۔ کہ اس کی قِسمت میں ذلّت و محتاجگی و بے عزتی ہے اور اس لائق نہیں کہ تمہاری اہلیہ ہو۔ اور دُوسری کی نسبت اشارہ ہوا کہ اس کی شکل اچھی نہیں۔ گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صاحب ِ صورت و صاحب ِ سیرت لڑکا جس کی بشارت دی گئی ہے وہ برعایت مناسبت ظاہری اہلیہ جمیلہ و پارسا طبع سے پیدا ہوسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ8جون1886ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ6)
مارچ1886ء
’’ اس عاجز کے اشتہار مؤرخہ20فروری1886ء...........میں ایک پیشگوئی دربارہ توَلُّد ایک فرزند صالح ہے۔ جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا............ایسا لڑکا بموجب وعدۂ الٰہی نو برس 1 کے عرصہ تک ضرور
1 (الف) ’’جن صفاتِ خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی میعاد سے گو نو برس سے بھی دو چند ہوتی۔ اُس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آسکتا۔ بلکہ صریح دلی انصاف ہریک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسی عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخصّ آدمی کے تولّد پر مشتمل ہے انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے اور دعا کی قبولیت ہو کر ایسی خبر کا ملنا بے شک یہ بڑا بھاری آسمانی نشان ہے۔ نہ یہ کہ صرف پیشگوئی ہے۔‘‘ (اشتہار8اپریل1886ء تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ75،76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 116، 117)
(ب) ’’وہ.......خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر 1888ء صفحہ 7حاشیہ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 127۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 116،117)
(ج) ’’میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھ سے معاملہ کریگا۔ اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا۔ تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا۔ اور اگر مدّتِ مقررہ سے ایک دن بھی باقی
پیدا ہوگا۔ خواہ جلد ہو‘ خواہ دیر سے۔ بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہوجائے گا۔‘‘
(اشتہار 22؍مارچ1886 ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ72، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 113)
8 اپریل 1886ء
(الف) ’’ بعد اشاعت اشتہار مندرجہ1بالا دوبارہ اس امر کے انکشاف کے لئے جناب الٰہی میں توجہ کی گئی۔ تو آج 8اپریل 1886ء میں اللہ جلّ شانہ‘ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا۔ کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب میں ہونے والا ہے جو ایک مدّتِ حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ اِس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہےیا بالضرور اُس کے قریب حمل میں ہے۔ لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیاکہ جو اَبْ پیدا ہوگایہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نوبرس کے عرصہ میں پیدا ہوگا۔‘‘
(اشتہار8اپریل 1886ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 117)
(ب) ’’عربی الہام کے یہ دو فقرہ ہیں:۔
نَازِلٌ مِّنَ السَّمَآئِ۔ وَنَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔
جو نزول یا قریب النزول پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘
(حاشیہ اشتہار8اپریل 1886ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 117)
(ج) پھر بعد میں اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ
’’انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں۔‘‘
(اشتہار8اپریل 1886ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 117)
1886ء
’’ جن 2دنوں لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ اور لوگوں نے غلط فہمی پیدا کرنے کیلئے شور مچایا۔ کہ پیشگوئی غلط نکلی ان
بقیہ حاشیہ: رہ جائیگا تو خدائے عزّوجلّ اُس دن کو ختم نہیں کریگا۔ جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ 12جنوری1989ء تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 148حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191)
1 اشتہار22 مارچ 1886ء۔ (مرتّب)
2 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں 15؍اپریل1886ء میں لڑکی پیدا ہوئی جس کانام عصمتؔ رکھا گیا اس لڑکی کی پیدائش پر مخالفین نے یہ شور مچایا۔ کہ لڑکے کے متعلق جو پیشگوئی تھی وہ غلط نکلی۔ کیونکہ موجودہ حمل سے لڑکی پیداہوئی ہے نہ کہ لڑکا۔ مگر یہ اعتراض بالکل غلط تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ موجودہ حمل سے ہی ضرور لڑکا پیدا ہوگا۔ بلکہ الہام 8اپریل 1886ء کی ذیل میں یہ صراحت کی گئی تھی کہ عنقریب ایک لڑکا ہوگا۔ خواہ موجودہ حمل سے ہو یا اس کے قریب آئندہ حمل سے۔ چنانچہ عصمت کی پیدائش کے بعد دوسرے حمل سے بشیر اوّل پیدا ہوگیا۔ (مرتب)
دنوں میں یہ الہام ہوا تھا:۔
دشمن کا بھی خوب وار نکلا :: تِسپر بھی وہ وار پار نکلا
یعنی مخالفوں نے تو یہ شور مچایا ہے کہ پیشگوئی غلط نکلی۔ مگر جلد فہیم لوگ سمجھ 1جائیں گے اور ناواقف شرمندہ ہوں گے۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر16 صفحہ7 مؤرخہ30؍اپریل1902ء)
26اپریل 1886ء
’’شیخ مہر علی کی نسبت ضرور قادیان میں 26اپریل1886ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی۔ جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی۔ چنانچہ ان ہی دنوں میں ان کو اطلاع بھی دی گئی تھی۔ خواب یہ تھی کہ اُن کی فرش نشست کو آگ لگ گئی اور ایک بڑا تہلکہ برپا ہوا اور ایک پُرہول شعلہ آگ کا اُٹھا اور کوئی نہیں تھا جو اُس کو بُجھاتا۔ آخر میں مَیں نے بار بار پانی ڈال کر اُس کو بجھادیا2۔پھر آگ نظر نہیں آئی مگر دھواں رہ گیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ کس قدر اُس آگ نے جلادیا۔ مگر ایسا ہی دل میں گذرا کہ کچھ تھوڑا نقصان ہوا۔ یہ خواب تھی۔ یہ
1 چنانچہ اس بشارت کے مطابق عصمتؔ کی پیدائش کے بعد 7اگست1887ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔ جس کی پیدائش سے 20فروری1886ء والے الہام کا یہ فقرہ پورا ہوا۔ کہ ’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔‘‘ نیز8اپریل کا یہ الہام پورا ہوا۔ کہ ’’ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے۔‘‘ (مرتب)
2 ’’اسی وقت میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہ یقین کامل یہ تعبیر ڈالی گئی۔ کہ شیخ صاحب پر اور اُن کی عزت پر سخت مصیبت آئے گی۔ اور میرا پانی ڈالنا یہ ہوگا کہ آخر میری ہی دُعا سے نہ کسی اور و جہ سے وہ بلا دُور ہوجائے گی..........آخر قریباً چھ ماہ گذرنے پر ایسا ہی ہوا۔ اور میں انبالہ چھاؤنی میں تھا کہ ایک شخص محمد بخش نام شیخ صاحب کے فرزند جان محمد کی طرف سے میرے پاس پہنچا اور بیان کیا کہ فلاں مقدمہ میں شیخ صاحب حوالات میں ہوگئے میں نے اُس شخص سے اپنے خط کا حال دریافت کیا جس میں چھ ماہ پہلے اس بلا کی اطلاع دی گئی تھی۔ تو اُس وقت محمد بخش نے اِس خط کے پہنچنے سے لاعلمی ظاہر کی۔ لیکن آخر خود شیخ صاحب نے رہائی کے بعد کئی دفعہ اقرار کیا کہ وہ خط ایک صندوق میں سے مل گیا۔ پھر شیخ صاحب تو حوالات میں ہوچکے تھے لیکن اُن کے بیٹے جان محمد کی طرف سے شاید محمد بخش کے دستخط سے جو ایک شخص ان کے تعلق داروں میں سے ہے کئی خط اِس عاجز کے نام دُعا کے لئے آئے اور اللہ جلّ شانہ‘ جانتا ہے کہ کئی راتیں نہایت مجاہدہ سے دُعائیں گی گئیں۔ اور اوائل میں صورت قضاء قدر کی نہایت پیچیدہ اور مبرم معلوم ہوتی تھی۔ لیکن آخر کار خدا تعالیٰ نے دعا قبول کی اور اُن کے بارے میں رہا ہونے کی بشارت دے دی اور اُس بشارت سے اُن کے بیٹے کو مختصر لفظوں میں اطلاع دی گئی .........
دعا بہت کی گئی اور آخر فقرہ میں بریّت اور فضل الٰہی کی بشارت دی گئی تھی وہ الفاظ اگرچہ بہت کم تھے مگرقَلَّ وَدَلَّ تھی۔‘‘
(ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام صفحہ 6از اشتہار 25فروری1893ء مع حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 653،654)
خط1شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد اُن کے گھر سے اُن کے بیٹے کو ملا۔ پھر بعد اس کے بھی ایک دو خواب ایسے ہی آئے جن میں اکثر حصہ وحشتناک اور کسی قدر اچھا تھا۔ میں تعبیر کے طور پر کہتا ہوں کہ شاید یہ مطلب ہے کہ درمیان میں سخت تکالیف ہیں اور انجام بخیر ہے مگر ابھی انجام کی حقیقت مجھ پر صفائی سے نہیں کھلی۔ جس کی نسبت دعوے سے بیان کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحب مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 22)
1886ء
نواب صدیق حسن خاں2.....نے غیر قوموں کو صرف مہدی کی تلوار سے ڈرایااور آخر پکڑے گئے۔ اور نواب ہونے سے معطّل کئے گئے اور بڑے انکسار سے میری طرف خط لکھا کہ میں اُن کے لئے دُعا کروں تب میں نے اُس کو قابل رحم سمجھ کر اُس کے لئے دُعا کی تو خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا:۔
سرکوبی سے اُس کی عزت بچائی گئی
..........آخر کچھ مدّت کے بعد اُن کی نسبت گورنمنٹ کا حکم آگیا کہ صدیق حسن خان کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ37۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 470)
1 یعنی جو خط اس خواب کی اطلاع کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کو لکھا تھا۔ (مرتب)
2 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ کے بعض شروع کے حصے نواب صدیق حسن خان کو بھیج کر انہیں تحریک کی تھی کہ وہ اس کتاب کی اشاعت میں حصہ لیں جس کے جواب میں نواب صاحب نے لکھا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا اُن میں کچھ مدد دینا خلافِ منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اِس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ اُمید نہ رکھیں۔ نواب صاحب کے اس جواب کا ذکر کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ حصہ چہارم کے ضمیمہ اشتہار ’’مسلمانوں کی نازک حالت اور انگریزی گورنمنٹ‘‘ میں تحریر فرمایا:۔’’ ہم بھی نواب صاحب کو اُمید گاہ نہیں بناتے بلکہ اُمید گاہ خداوند ِ کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے۔‘‘)
جس کے بعد نواب صاحب پر گورنمنٹ انگریزی کسی معاملہ میں ناراض ہوئی اور ان سے نوابی کا خطاب واپس لے لیا۔ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔’’نواب صاحب صدیق حسن خان پر جو ابتلاء پیش آیا۔ وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کرکے واپس بھیج دیا تھا میں نے دعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے۔ سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 37 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 470)
نواب صاحب کو جب اپنے قصور کا احساس ہوا تو حضرت اقدس کی خدمت میں خط کے ذریعہ دُعا کی درخواست کی۔ (مرتب)
1886ء
’’مرزا امام الدین و نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آریہ اور نیز لیکھرام پشاوری اور صدہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے کہ ہم نے اسی1کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے2والا ہے۔‘‘ (اشتہار 10جولائی1888ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159،160)
3اگست1886ء
’’ہم پر آج جو تیسری اگست 86 ء ہے منجانب اللہ اُس3 کی نسبت معلوم ہوا ہے کہ اگر وہ توبہ نہ کرےتو اُس کی بے راہیوں کا وبال جلد تر اُسے درپیش ہے اور اگر یہ معمولی رنجوں میں سے کوئی رنج ہو تو اُس کو پیشگوئی کا مصداق مت سمجھو لیکن اگر ایسا رنج پیش آیا جو کسی کے خیال و گمان میں نہیں تھا تو پھر سمجھنا چاہئے کہ یہ مصداق پیشگوئی ہے لیکن اگر وہ باز آنے والا ہے تو پھر بھی انجام بخیر ہوگا یا تنبیہہ کے بعد راحت پیدا ہوجائے گی۔‘‘(سرمہ چشم آریہ صفحہ190،191۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 238، 239)
13 فروری 1887ء
’’آج مجھے فجر کے وقت یُوں القا ہوا۔ یعنی بطور الہام
عبدالباسط
معلوم نہ تھا کہ یہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ آج آپ کے خط میں عبدالباسط دیکھا۔ شاید آپ کی طرف اشارہ ہو4۔ واللہ اعلم ۔‘‘
(از مکتوب13فروری1887ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر 2 صفحہ 20)
اپریل 1887ء
’’ چند روز ہوئے میں نے اس قرضہ کے تردُّد میں خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اُوپر چڑھنا چاہتا ہوں مگر ہاتھ نہیں پہنچتا۔ اتنے میں ایک بندۂ خدا آیا، اُس نے اوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اُوپر چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے۔
آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طور پر یہ جم گیا کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تردّد ہوام آپ ہی ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کے لئے دُعا کی ایسا ہی برقّتِ قلب خط کے پڑھنے سے آپ کے لئے مُنہ سے دلی دُعا نکل گئی۔ مُسْتَجَابٌ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔‘‘
(مکتوب 2مئی 1887ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر2 صفحہ 27)
1 یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری۔ (مرتب) 2 اس پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ 30ستمبر1892ء کو بمقام ہوشیار پور فوت ہوگیا۔ (مرتب) 3 یعنی مرزا امام الدین ۔ (مرتب)
4 (نوٹ از عرفانی صاحبؓ) حضرت حکیم الامت نے بارہا فرمایا کہ میرا الہامی نام عبدالباسط ہے۔ (مکتوبات جلد پنجم نمبر2 صفحہ 20)
1887ء
’’ ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک دوست انگریزی خواں نجف علی نام (جو کہ کابل میں بھی گیا تھا اور شاید اب بھی وہاں ہے) میرے پاس آیا اور اُس کے ہمراہ محبی مرزا خدا بخش1صاحب بھی تھے۔ ہم تینوں سیر کے لئے باہر گئے تو راستہ میں کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ نجف علی نے میری مخالفت اور نفاق میں کچھ باتیں کی ہیں۔ چنانچہ یہ کشف اُس کو سنایا گیاتو اُس نے اقرار کیا کہ یہ بات صحیح ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 206۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 584)
1887ء
’’ ایک دفعہ ہم ریل گاڑی پر سوار تھے۔ اور لدھیانہ کی طرف جارہے تھے۔ کہ الہام ہوا:۔
’’نصف ترا نصف عمالیق را‘‘
اور اس کے ساتھ یہ تفہیم ہوئی کہ امام بی بی2جو ہمارے جدی شرکاء میں سے ایک عورت تھی مرجائے گی اور اس کی زمین نصف ہمیں اور نصف دیگر شرکاء کو مل جائے گی۔
یہ الہام ان دوستوں کو جو اُس وقت ہمارے ساتھ تھے سنادیا گیا تھا۔ چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ عورت مذکور مر گئی اور اس کی نصف زمین ہمیں ملی اور نصف بعض دیگر شرکاء کو ملی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 213،214۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 591، 592)
1887ء (قریباً)
’’ایک دفعہ ہمیں موضع کُنجراں ضلع گورداسپور کو جانے کا اتفاق ہوا اور شیخ حامد علی ساکن تھِہ ؔغلام نبی ہمارے ساتھ تھا۔ جب صبح کو ہم نے جانے کا قصد کیا تو الہام ہوا کہ
اس سفر میں تمہارا اور تمہارے رفیق کا کچھ نقصان ہوگا
1 پیغام صلح جلد 23نمبر77 صفحہ4 سے مرزا خدابخش صاحب کے اپنے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اور مولوی نجف علی قادیان آئے۔ تو اُن دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی امریکہ کے ایک باشندہ الیگزنڈر رسل وِب کے ساتھ خط و کتابت ہورہی تھی حضور نے سیر میں یہ خواب سنائی۔ اور مولوی نجف علی نے اقرار کیا کہ واقعی مولوی محمد حسین بٹالوی سے اُن کی باتیں سن کر آپ کا سخت مخالف ہوگیا تھا اور میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ آپ کی کوئی بات قبول نہ کرونگا۔ اور شحنہ حق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ 1887ء کا ہے۔ کیونکہ اس میں الیگزنڈ رسل وِب کی خط و کتاب در ج ہے۔ (مرتب)
2 امام بی بی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی ہمشیرہ تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چچا زاد بھائی کی، جو مفقود الخبرہوچکا تھا، بیوہ تھی۔ (مرتب)
چنانچہ راستہ میں شیخ حامد علی کی ایک چادر اور ہمارا ایک رُومال گُم ہوگیا۔ اس وقت حامد علی کے پاس وہی چادر تھی۔ ‘‘
(نزول المسیح صفحہ 229،230۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 607،608)
1887ء
’’بیجناتھ برہمن ولد بھگت رام کو کشفی طور پر اطلاع دی گئی تھی کہ ایک برس کے عرصہ تک تجھ پر مصیبت نازل ہونے والی ہے اور کوئی خوشی کی تقریب بھی ہوگی۔ چنانچہ اس پیشگوئی پر اس کے دستخط کرائے گئے جو اَب تک موجود ہیں۔ پھر بعد ازاں ایک برس کے عرصہ میں اس کا باپ جوانی کی عمر میں ہی فوت ہوگیا۔ اور اسی دن انکی شادی کی تقریب بھی پیش تھی یعنی کسی کا بیاہ تھا۔‘‘ (شحنہ حق صفحہ44،45۔ روحانی خزائن جلد2صفحہ 384)
11جولائی 1887ء
’’ میں نے آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ ان کو کیا کھلائیں، آم تو خراب ہوگئے ہیں۔ تب اور آم غیب سے موجود ہوگئے۔ واللہ اعلم اس کی کیا تعبیر ہے۔‘‘
(مکتوب 11جولائی1887ء بنام چودھری رستم علی صاحب۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر3 صفحہ 42)
7اگست 1887ء
اِنَّآ اَرْسَلْنَاہُ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِ یْرًا کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآئِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّ بَرْقٌ کُلُّ شَیْئٍ تَحْتَ قَدَمَیْہِ۔
یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہدؔ اور مُبَشّر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے۔ اور یہ اُس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں۔ اور رعد اور برق بھی ہو۔ یہ سب چیزیں اُس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں1۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر1888ء صفحہ 16 تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ136۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 178)
1 الہامی عبارت میں جیسا کہ ظلمت کے بعد رعد اور روشنی کا ذکر ہے یعنی جیسا کہ اس کی عبارت کی ترتیب بیانی سے ظاہر ہوتا ہے۔کہ پسر متوفیٰ کے قدم اُٹھانے کے بعد پہلے ظلمت آئے گی اور پھر رعد اور برق۔ اسی ترتیب کے رو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا۔ یعنی پہلے بشیر کی موت کی و جہ سے ابتلاء کی ظلمت وارد ہوئی اور پھر اُس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے۔ اور جس طرح ظلمت ظہور میں آگئی۔ اسی طرح یقینا جاننا چاہئے کہ کسی دن وہ رعد اور روشنی بھی ظہور میں آجائے گی۔ جس کا وعدہ دیا گیا ہے۔ جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دیگی۔ اور جو جو اعتراضات غافلوں اور مُردہ دلوں کے مُنہ سے نکلے ہیں۔ ان کو نابود اور ناپدید کردیگی .............سو اَے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا۔ حیرانی میں مت پڑو۔ بلکہ خوش ہو۔ اور خوشی سے اُچھلو۔ کہ اس کے بعد اب روشنی آئیگی۔‘‘
(سبز اشتہار صفحہ 16،17 تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ136،137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179، 180)
1888ء
(الف) ’’اُس1 لڑکے کی پیدائش کے بعد اس کی طہارت باطنی اور صفائی استعداد کی تعریفیں الہام میں بیان کی گئیں اور پاک ؔ اور نورؔاللہ اور یداللہؔ اور مقدسؔ اور بشیر ؔ اور خداباماست اس کا نام رکھا گیا......... خدا تعالیٰ نے پسر متوفیٰ کے اپنے الہام میں کئی نام رکھے ان میں سے ایک بشیر ؔ اورایک عنمواؔئیل اور ایک خدا باؔماست و رحمت ِؔحق اور ایک یداللہ بجلالٍ وجمالٍ ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 4دسمبر1888ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر صفحہ41،50)
(ب) ’’خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا2 جو فوت ہوگیا ہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دُنیوی جذبات بکلّی اس کی فطرت سے مسلوب۔ اور دین کی چمک اِس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدّیقی رُوح اپنے اندر رکھتا ہے اور اُس کا نام بارانِ رحمت اور مبشرؔ اور بشیر ؔ اور یَداؔللہ بجلال وجمال وغیرہ اسماء بھی ہیں۔ سو جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اُس کی صفات ظاہر کی یہ سب اس کی صفائی استعداد کے متعلق ہیں، جن کے لئے ظہور فی الخارج کوئی ضروری امر نہیں۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر 1888ء صفحہ7،8 و تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ127،128۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 169)
1888ء
’’اور اُس3کی تعریف میں ایک یہ الہام ہوا۔ کہ
جَآئَ کَ النُّوْرُ وَھُوَ اَفْضَلُ مِنْکَ
یعنی کمالات ِ استعدادیہ میں وہ تجھ سے افضل ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ4دسمبر1888ء ۔ بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر5 صفحہ50)
5جنوری1888ء
’’چند روز کا ذکر ہے کہ پرانے کاغذات کو دیکھتے دیکھتے ایک پرچہ نکل آیا جو میں نے اپنے ہاتھ سے بطور یادداشت کے لکھا تھا۔ اُس میں تحریر تھا کہ یہ پرچہ 5جنوری 1888ء کو لکھا گیا ہے۔ مضمون یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے کسی امر میں مخالفت کرکے کوئی تحریر چھپوائی ہے اور اُس کی سُرخی میری نسبت ’’کمینہ ‘‘ رکھی ہے۔ معلوم نہیں اس کے کیا معنے ہیں اور وہ تحریر پڑھ کر کہا کہ آپ کو میں نے منع کیا تھا پھر آپ نے کیوں ایسا مضمون چھپوایا۔ھٰذَا مَارَاَیْتُ واللّٰہُ اَعْلَمُ بتاوِیْلہٖ۔‘‘
(مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مکتوبات جلد چہارم صفحہ 4)
1 بشیر اوّل جو 7اگست1887ء کو پیدا ہوا۔ اور4؍نومبر 1888ء کو فوت ہوگیا۔ (مرتب)
2، 3 یعنی بشیر اوّل۔ (مرتب)
14فروری1888ء
’’13،14فروری1888ء کی گذشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو ہولناک خوابیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہم ّ و غم مصیبت معلوم ہوتی تھی۔ میں نہایت وحشت و تردُّد میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا۔ چنانچہ کل سندرؔداس کی وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔معلوم ہوتا ہے یہ وہی غم تھا جس کی طرف اشارہ تھا۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ15فروری1888ء بنام چودھری رستم علی صاحب۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر3 صفحہ72،73)
1888ء (قریباً)
’’ایک دفعہ ہمیں لدھیاؔنہ سے پٹیالہؔ جانے کا اتفاق ہوا۔ روانہ ہونے سے پہلے الہام ہوا کہ
اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ ہم ّ و غم پیش آئے گا
اس پیشگوئی کی خبر ہم نے اپنے ہمراہیوں کو دے دی۔ چنانچہ جبکہ ہم پٹیالہ سے واپس آنے لگے تو عصر کا وقت تھا۔ ایک جگہ ہم نے نماز پڑھنے کے لئے اپنا چوغہ اُتار کرسید محمد ؔحسین خاں صاحب وزیر ریاست کے ایک نوکر کو دیا تا کہ وضو کریں۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوکر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے باندھے ہوئے تھے وہ رومال گر گیا ہے۔ تب ہمیں وہ الہام یاد آیا کہ اس نقصان کا ہونا ضروری تھا۔
پھر جب ہم گاڑی پر سوار ہوئے تو راستہ میں ایک سٹیشن دوراؔہہ پر ہمارے ایک رفیق کو کسی مسافر انگریز نے محض دھوکہ دہی سے اپنے فائدہ کے لئے کہہ دیاکہ لدھیانہ آگیا ہے۔ چنانچہ ہم اُس جگہ سب اُتر پڑے اور جب ریل چل دی تب ہم کو معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور سٹیشن تھا۔ اور ایک بیابان میں اُترنے سے سب جماعت کو تکلیف ہوئی اور اس طرح پر الہام مذکور کا دوسرا حصہ بھی پورا ہوگیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ231،232۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ 609،610)
مئی 1888ء
’’ایک بار فتح مسیح نام ایک عیسائی نے کہا تھا کہ مجھے الہام ہوتا ہے میں نے جب اُسے کہا کہ تو پیشگوئی کر، تو گھبرا یا اورمجھے کہا کہ ایک مضمون بند لفافہ میں رکھا جاوے اور آپ اس کا مضمون بتادیں مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی کہ
’’ تُواس کو قبول کرلے‘‘
جب میں نے اس کو بھی قبول کرلیا تو کئی سو آدمیوں کے مجمع میں آخر پادری وائٹ بریخٹ نے کہا کہ یہ فتح مسیح جھوٹا ہے۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر 5 مورخہ 7 فروری 1902ء صفحہ 4 کالم نمبر 3)
مئی 1888ء
(الف) 1’’اِنَّ اللّٰہَ رَآٰی اَبْنَآئَ عَمِّیْ وَغَیْرَ ھُمْ۔ مِنْ شُعُوْبِ اَبِیْ وَ اُمِّیٓ الْمَغْمُوْرِیْنَ فِی الْمُھْلِکَاتِ ......... وَالْمُنْکِرِیْنَ لِوُجُوْدِ اللّٰہِ وَمِنَ الْمُفْسِدِیْنَ...........وَرَآٰی اَنَّھُمْ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَالشَّرُوْرِ۔ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ.......... وَلَا یَتُوْبُوْنَ مِنْ سَبِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) بَلْ کَا نُوْا عَلَیْہِ مِنَ الْمُدَا وِمِیْنَ .......... وَبَیْنَمَاھُمْ کَذَا لِکَ اِذِاصْطَفَانِیْ رَبِّیْ لِتَجْدِیْدِ دِیْنِہٖ ........ وَرَزَقَنِیْ مِنَ الْاِلْھَامَاتِ وَالْمُکَالَمَاتِ وَ الْمُخَاطَبَاتِ وَالْمُکَاشَفَاتِ رِزْقًا حَسَنًا.........فَطَغَوْا وَبَغَوْا وَاسْتَدْعَوْا الْاٰیَاتِ اسْتِھْزَآئً وَّقَالُوْا لَانَعْلَمُ اِلٰھًایُکَلِّمُ اَحَدًا ........... فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ........ وَکَذَالِکَ سَدَرُوْا فِیْ غَلَوَاتِھِمْ وَجَمَعُوْا فی جَھَلَاتِھِمْ وَسَدَلُوْا ثَوْبَ الْخُیَلَآئِ یَوْمًا فَیَوْمًا۔ حَتّٰی بَدَانَھُمْ اَنْ یُّشِیْعُوْا خُزَعْبِلَاتِھِمْ وَ یَصْطَادُوا السُّفَھَآئَ بِتَلْبِیْسَاتِھِمْ۔ فَکَتَبُوْا کِتَابًا کَانَ فِیْہِ سَبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَبُّ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاِنْکَارُ وُجُوْدِالْبَارِیِٔ عَزَّاسْمُہ‘۔ وَمَعَذَالِکَ طَلَبُوْا فِیْہِ اٰیَاتِ صِدْقِیْ مِنِّیْ وَ اٰیَاتِ وُجُوْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاَرْسَلُوْا کِتَابَھُمْ فِی الْاٰفَاقِ وَالْاَقْطَارِ وَاَعَانُوْا بِھَاکَفَرۃَ الْھِنْدِ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا مَّا سُمِعَ مِثْلُہ‘ فِی الْفَرَاعِنَۃِ الْاَوَّلِیْنَ۔ فَلَمَّا بَلَغَنِیْ کِتَابُھُمُ الْذِيْ کَانَ قَدْصَنَّفَہ‘ کَبِیْرُھُمْ فِی الْخُبْثِ وَالْعُمُرِ
1 (ترجمہ ازمرتب) اللہ تعالیٰ نے میرے جدّی بھائیوں اور قریبیوں کو دیکھا۔ کہ وہ مہلک امور میں منہمک ہیں...........اور اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں اور مفسد ہیں ...............اور اُس نے دیکھا۔ کہ وہ لوگوں کو بدیوں اور شرارتوں کی طرف بلاتے اور نیکی کے کاموں سے روکتے ہیں ................اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بد زبانی سے باز نہیں آتے۔ بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں..........اسی دَوران میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دین کی تجدید کیلئے چُن لیا............اور اپنے الہامات ‘ مخاطبات اور مکاشفات سے مجھے بہرہ ور کیا..............جس پر اُنہوں نے سرکشی کی۔ اور تمسخر کے طور پر مجھ سے نشانات کا مطالبہ کیا۔ اور کہا۔ کہ ہمیں ایسے معبود کا کوئی علم نہیں جو کسی سے کلام کرتا ہو.............اور اگر یہ شخص سچا ہے تو ہمیں کوئی نشان دکھائے...............اسی طرح یہ لوگ اپنی حد سے بڑھ گئے۔ اور اپنی جہالتوں میں سرکش ہوتے گئے۔ اور ان کا تکبر روز بروز بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنے گندے خیالات کی اشاعت شروع کردی اور کم عقل لوگوں کو اپنے فریبوں کا شکار بنانے لگے۔ چنانچہ انہوں نے ایک گندہ اشتہار نکالا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیں اور قرآن کریم کے متعلق بد زبانی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت مانگا ہے۔ اور انہوں نے اپنا یہ اشتہار تمام اطرافِ عالم میں شائع کیا ہے۔ اور اس طرح سے ہندوستان بھر کے غیر مسلم لوگوں کو اسلام کے خلاف مدد دی ہے اور اس قدر تکبر کیا ہے۔ جو پہلے فراعنہ نے بھی نہیں کیا ہوگا۔ سو جب ان کے سرغنہ کا جو خباثت میں بھی اُن کا بڑا ہے۔ جیسا کہ عمر میں بڑا ہے۔ لکھا ہوا یہ اشتہار مجھے ملا
............ فَاِذَا الْکَلِمَاتُ کَلِمَاتٌ تَکَا دُالسَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْھَا............ فَغَلَّقْتُ الْاَبْوَابَ وَدَعَوْتُ الرَّبَّ الْوَھَّابَ۔ وَطَرَحْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ وَخَرَرْتُ اَمَا مَہ‘ سَاجِدًا.......... وَقُلْتُ یَارَبِّ یَارَبِّ انْصُرْ عَبْدَکَ وَاخْذُلْ اَعْدَآئِک۔ اِسْتَجِبْنِیْ یَا رَبِّ اسْتَجِبْنِیْ۔ اِلَامَ یُسْتَھْزَئُ بِکَ وَبِرَسُوْلِکَ۔ وَحَتَّامَ یُکَذِّبُوْنَ کِتَابَکَ وَیَسُبُّوْنَ نَبِیَّکَ۔ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا مُعِیْنُ۔
فَرَحِمَ رَبِّیْ عَلٰی تَضَرُّعَاتِیْ وَزَفَرَاتِیْ وَ عَبَرَاتِیْ وَنَادَانِیْ وَقَالَ
اِنِّیْ رَاَیْتُ عِصْیَانَھُمْ وَطُغْیَانَھُمْ فَسَوْفَ اَضْرِبُھُمْ بِاَنْوَاعِ الْاٰفَاتِ اُبِیْدُھُمْ مِّنْ تَحْتِ السَّمٰوٰتِ۔ وَسَتَنْظُرُمَا آفْعَلُ بِھِمْ وَکُنَّاعَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَادِرِیْنَ۔اِنِّیْٓ اَجْعَلُ نِسَآئَ ھُمْ اَرَامِلَ وَاَبْنَائَ ھُمْ یَتَامٰی وَ بُیُوْتَھُمْ خَرِبَۃً لِّیَذُوْقُوْا طَعْمَ مَا قَالُوْا وَمَا کَسَبُوْا۔ وَلٰکِنْ لَّآ اُھْلِکُھُمْ دَفْعَۃً وَّاحِدَۃً بَلْ قَلِیْلاً قَلِیْلاً لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ وَیَکُوْنُوْنَ مِنَ التَّوَّابِیْنَ اِنَّ لَعْنَتِیْ نَازِلَۃٌ عَلَیْھِمْ وَعَلٰی جُدْرَانِ بُیُوْتِھِمْ وَعَلٰی صَغِیْرِھِمْ وَکَبِیْرِھِمْ وَنِسَآءِ ھِمْ وَرِجَالِھِمْ وَ نَزِیْلِھِمُ الَّذِیْ دَخَلَ اَبْوَابَھُمْ۔ وَکُلُّھُمْ کَانُوْا مَلْعُوْنِیْنَ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَطَعُوْا تَعَلُّقَھُمْ مِّنْھُمْ وَبَعُدُوْا مِنْ مَّجَالِسِھِمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنَ الْمَرْحُوْمِیْنَ۔
.......... تو میں نے دیکھا کہ وہ الفاظ ایسے تھے کہ قریب تھا کہ آسمان ان کی و جہ سے پھٹ جائیں............اس پر میں نے دروازوں کو بند کرلیا۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر کر دُعا کی..............اور کہا کہ اے میرے ربّ! اپنے بندہ کی نصرت فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و رُسوا کر۔ اے میرے ربّ ! میری دُعا سن۔ اور اُسے قبول فرما۔ کب تک تجھ سے اور تیرے رسُول سے تمسخر کیا جائے گا۔ اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بد کلامی کرتے رہیں گے۔ اے ازلی ابدی۔ اے مددگار خدا ! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔
تب میرے ربّ نے میری گریہ و زاری اور میری آہوں کوسُنکر مجھ پر رحم فرمایا اور مجھے پکار کر فرمایا :
میں نے اُن کی نافرمانی اور سرکشی کو دیکھا ہے میں اُن پر طرح طرح کی آفات ڈال کر اُنہیں آسمان کے نیچے سے نابود کردوں گا۔ اور تم جلد دیکھو گے کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں۔ اور ہم ہر ایک بات پر قادر ہیں۔ میں اُن کی عورتوں کو بیوہ ‘ اُن کے بچوں کو یتیم اور اُن کے گھروں کو ویران کردوں گا اور اس طرح سے وہ اپنی باتوں کا اور اپنی کارروائیوں کا مزہ چکھیں گے۔ لیکن میں اُنہیں یکدم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تدریجاً پکڑوں گا۔ تاکہ اُنہیں رجوع اور توبہ کا موقع ملے۔ میری *** اُن پر۔ اُن کے گھروں پر‘ اُن کے چھوٹوں اور بڑوں پر‘ اُن کی عورتوں اور مَردوں پر۔ اُن کے اُس مہمان پر جو اُن کے گھر میں داخل ہوگا پڑے گی۔ اور اُن تمام پر *** برسے گی سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں۔ اور اُن سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ اور اُن کی مجالس سے دُوری اختیار کریں۔ پس وہی لوگ ہیں جن پر رحم کیا جائے گا۔
ھٰذِہٖ خَلَاصَۃُ مَآ اَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ۔ فَبَلَّغْتُ رَسَالَاتِ رَبِّیْ فَمَا خَافُوْا وَمَا صَدَّقُوْا۔ بَلْ زَادُوْاطُغْیَانًا وَّکُفَرًا وَّظَلُّوْایَسْتَھْزِئُ وْنَ کَاَعْدَآئِ الدِّیْنِ۔ فَخَاطَبَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
اِنَّا سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتٍ مُّبْکِیَۃً وَّنُنَزِّلُ عَلَیْھِمْ ھُمُوْمًا عَجِیْبَۃً۔ وَاَمْرَاضًا غَرِیْبَۃً۔ وَنَجْعَلُ لَھُمْ مَعِیْشَۃً ضَنَکًا۔ وَنَصُبُّ عَلَیْھِمْ مَصَآئِبَ فَلَایَکُوْنُ لَھُمْ اَحَدٌ مِّن النَّاصِرِیْنَ۔
فَکَذَالِکَ فَعَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِھِمْ وَاَنْقَضَ ظُھُوْرَ ھُمْ بِاَثْقَالِ الْھُمُوْمِ وَالدُّیُوْنِ وَالْحَاجَاتِ وَاَنْزَلَ عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْوَاعِ الْبَلَایَا وَالْاٰفَاتِ وَفَتَحَ عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ الْمَوْتِ وَالْوَفَاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ اَوْیَکُوْنُوْنَ مِنَ الْمُتَنَبِّھِیْنَ۔ وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ فَمَافَھِمُوْا وَمَاتَنَبَّھُوْا وَمَاکَانُوْا مِنَ الْخَآئِفِیْنَ۔
وَلَمَّا قَرُبَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْاٰ یَۃِ اتَّفَقَ فِیْ تِلْکَ الْاَیَّامِ اَنَّ وَاحِدًا مِّنْ اَعَزِّ اَعِزَّتِھِمُ الَّذِیْ کَانَ اسْمُہ‘ اَحْمَدْ بِیْک اَرَادَ اَنْ یَّمْلِکَ اَرْضَ اُخْتِہِ الَّتِیْ کَانَ بَعْلُھَا مَفْقُوْدَالْخَبَرِ مِنْ سِنِیْنَ۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلدنمبر5 صفحہ566،570)
(ب) ’’نامبردہ1کی ایک ہمشیرہ ہمارے چچا زاد بھائی غلامؔ حسین نام کو بیاہی گئی تھی۔ غلامؔ حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے۔ نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرادی گئی تھی۔ اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپور میں جاری ہے۔ نامبردہ یعنی
یہ میرے ربّ کی اس وحی کا خلاصہ ہے جو اُس نے مجھ پر نازل کی۔ پس میں نے اپنے پروردگار کے پیغامات اُن کو پہنچادیئے۔ لیکن نہ تو وہ ڈرے اور نہ ہی انہوں نے تصدیق کی بلکہ سرکشی اور انکار میں بڑھتے گئے۔ اور استہزاء میں دشمنانِ دین کا سا شیوہ اختیار کرلیا۔ پس میرے ربّ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:
ہم اُنہیں رُلانے والے نشانات دکھائیں گے۔اور اُن پر عجیب عجیب ہموم و امراض نازل کریں گے اور اُن کی معیشت تنگ کردیں گے اور اُن پر مصائب پر مصائب ڈالیں گے اور کوئی انہیں بچانیوالا نہیں ہوگا۔
پس اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ سلوک کیا۔ غموں ‘ قرضوں اور حاجات کے بوجھ سے ان کی پیٹھیں توڑ دیں۔ اور ان پر قِسم قِسم کے مصائب اور آفات نازل کئے اور موت فوت کے دروازے ان پر کھول دیئے تاکہ وہ باز آئیں۔ اور غفلت کو چھوڑ دیں۔ لیکن ان کے دل سخت ہوگئے پس وہ نہ سمجھے اور نہ بیدار ہوئے اور نہ ہی اُنہیں کوئی خوف لاحق ہوا۔
اور جب نشان کے ظہور کا وقت آیا۔ تو ان ایام میں ایسا اتفاق ہوا۔ کہ ان لوگوں کے ایک نہایت ہی قریبی رشتہ دار نے جس کا نام احمد بیگ تھا۔ ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین پر قبضہ کرلے۔ جس کا خاوند کئی سالوں سے مفقود الخبرہوگیا تھا۔
1 یعنی مرزا احمدبیگ ہوشیارپوری۔ (مرتّب )
ہمارے خط کے مکتوب الیہ نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرادیں۔ چنانچہ اُن کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضامندی کے بیکار تھا اس لئے مکتوب الیہ نے بتمام تر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا۔ تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کردیں۔ اور قریب تھا کہ دستخط کردیتے‘ لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدّت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جناب الٰہی میں استخارہ کرلینا چاہئے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔ پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آپہنچا تھا۔ جس کو خدائے تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کردیا۔
اُس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح1کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور اُن کو کہدے
1 وَاُنْبِئْتُ مِنْ اَخْبَارٍ مَّاذَھَبَ وَھْلِیْ قَطُّ اِلَیْھَا وَمَا کُنْتُ اِلَیْھَا مِنَ الْمُسْتَدْنِیْنَ۔ فَاَوْحَی اللّٰہُ اِلَیَّ اَنِ اخْطُبْ صَبِیَّتَۃُ الْکَبِیْرَۃَ لِنَفْسِکَ۔ وَقُلْ لَّہ‘ لِیُصَاھِرْکَ اَوَّلًا ثُمَّ لْیَقْتَبِسْ مِنْ قَبَسِکَ۔ وَقُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ لِاَھَبَکَ مَاطَلَبْتَ مِنَ الْاَرْضِ وَاَرْضًا اُخْرٰی مَعَھَاوَاُحْسِنَ اِلَیْکَ بِاِحْسَانَاتٍ اُخْرٰی عَلٰی اَنْ تُنْکِحَنِیْ اِحْدٰی بَنَاتِکَ الَّتِیْ ھِیَ کَبِیْرَتُھَا۔ وَذَالِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ۔ فَاِنْ قَبِلْتَ فَسَتَجِدُ نِیْ مِنَ الْمُتَقَبِّلِیْنَ۔ وَاِنْ لَّمْ تَقْبَلْ فَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اِنْکَاحَھَارَجُلاً اٰخَرَ لَایُبَارَکُ لَھَا وَ لَالَکَ فَاِنْ لَّمْ تَزْدَجِرْ فَیُصَبُّ عَلَیْکَ مَصَآئِبُ وَاٰخِرُ الْمَصَآئِبِ مَوْتُکَ فَتَمُوْتُ بَعْدَالنِّکَاحِ اِلٰی ثَلَاثِ سِنِیْنَ۔ بَلْ مَوْتَکَ قَرِیْبٌ وَّیَرِدُعَلَیْکَ وَاَنْتَ مِنَ الْغَافِلِیْنَ وَکَذَالِکَ یَمُوْتُ بَعْلُھَاالَّذِیْ یَصِیْرُ زَوْجَھَا اِلٰی حَوْلَیْنِ وَسِتَّۃِ اَشْھُرٍ قَضَآئً مِّنَ اللّٰہِ فَاصْنَعْ مَآ اَنْتَ صَانِعُہ‘ وَاِنِّیْ لَکَ لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ............ ثُمَّ کَتَبْتُ اِلَیْہِ مَکْتُوْبًا بِاِیْمَآئِ مَنَّانِیْ وَ اِشَارَۃِ رَحْمَانِی..........وَھَآ اَنَا کَتَبْتُ مَکْتُوْبِیْ ھٰذَا مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ لَا عَنْ اَمْرِی فَاحْفَظْ مَکْتُوْبِیْ ھٰذَا فِیْ صَنْدُوْقِکَ فَاِنَّہ‘ مِنْ صُدُوْقٍ آمِیْنٍ وَاللّٰہ یَعْلَمُ اَنَّنِیْ فِیْہِ صَادِقٌ وَکُلُّ مَا وَعَدْتُّ فَھُوَمِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَا قُلْتُ اِذْ قُلْتُ وَلٰکِنْ اَنْطَقَنِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِاِلْھَامِہٖ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر5 صفحہ572 تا 574)
(ترجمہ از مرتب) مجھے ایسے امور پر اطلاع دی گئی ‘ جن کی طرف کبھی میرا وہم بھی نہ گیا تھا اور نہ اُن کا مجھے کچھ پتہ تھا۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعہ سے حکم دیاکہ اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کر۔ اور اُسے کہہ۔ کہ پہلے وہ تم سے مصاہرت کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد وہ تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے۔ نیز اُسے کہہ کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو زمین تم نے مانگی ہے ‘ وہ میں تمہیں دے دوں۔ اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی۔ نیز تم پر اور کئی رنگ میں احسانات کروں بشرطیکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا رشتہ مجھ سے کردو۔ اور یہ تمہارے اور میرے درمیان ایک عہدو پیمان ہے جسے اگر تم قبول کروگے تو مجھے بہترین طور پر اسے قبول کرنے والا پاؤ گے۔ اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا
کہ تمام سلوک اور مروّت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا۔ اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20فروری1886ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی بُرا ہوگا۔ اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دُختر کا تین سال تک فوت ہوجائیگا۔ تین سال تک فوت ہونا روزِ نکاح کے حساب سے ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے۔ بلکہ بعض مکاشفات کے رُو سے مکتوب الیہ کا زمانہ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں۔ نزدیک1 پایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی۔ اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔
پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کررکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجامِ کار اِسی عاجز کے نکاح میں لادے گا اور بے دینوی کو مسلمان بنادے گا۔ اور گمراہوں میں ہدایت پھیلادے گا۔ چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے:۔
کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ ط فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَیَرُدُّ ھَآ اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ ط اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔
یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا۔ اور وہ پہلے سے ہنسی کررہے تھے۔ سو خدائے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا۔ اور انجام کار اُس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہوجاتا ہے تُو میرے
بقیہ حاشیہ:۔ ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہوگا نہ تمہارے حق میں۔ اور اگر تم اپنے ارادے سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے۔ اور آخر میں تمہاری موت ہوگی۔ اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مرجاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے اور وہ موت ایسے حال میں آئیگی کہ تو غافل ہوگا اور ایسا ہی اُس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مرجائیگا۔ یہ قضاء الٰہی ہے پس تم جو چاہو کرو میں نے تم کو نصیحت کردی ہے............پھر میں نے اُسے اللہ تعالیٰ کے اشارہ سے خط لکھا...............(اور اُسے یہ بھی لکھا کہ) لو میں نے یہ خط خدا کے حکم سے لکھا ہے اپنی رائے سے نہیں لکھا۔ پس اس خط کو اپنے صندوق میں محفوظ رکھ کہ یہ نہایت ہی سچّے امین کی طرف سے ہے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس معاملہ میں سچا ہوں اور جو وعدہ میں نے کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں نے نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھے بلوایا ہے۔
1 اس پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری 30ستمبر 1892ء کو بمقام ہوشیار پور فوت ہوگیا۔ (مرتب)
ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی۔ یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنّی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں۔ اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں۔ لیکن آخر کار خدائے تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی۔‘‘
(اشتہار10جولائی1888ء ۔ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 115 تا 117۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 157 تا159)
(ج) ’’1فَمِنْھَا مَا وَعَدَنِیْ رَبِّیْ فِیْ عَشِیْرَتِیَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ اِنَّھُمْ کَانُوْا یُکَذِّ بُوْنَ بِاٰیَآتِ اللّٰہِ وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔ وَیَکْفُرُوْنَ بِااللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔ وَقَالُوْا لَا حَاجَۃَ لَنَا اِلَی اللّٰہِ وَلَآ اِلٰی کِتَابِہٖ وَلَآ اِلٰی رَسُوْلِہٖ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ۔ وَقَالُوْا لَا نَتَقَبَّلُ اٰیَۃً حَتّٰی یُرِیَنَا اللّٰہُ اٰیَۃً فِیْ اَنْفُسِنَا وَ اِنَّالَا نُؤْمِنُ بِالْفُرْقَانِ وَلَا نَعْلَمُ مَا الرِّسَالَۃُ وَمَا الْاِیْمَانُ وَاِنَّا مِنَ الْکَافِرِیْنَ۔ فَدَعَوْتُ رَبِّیْ بِالتَّضَرُّعِ وَالْاِبْتِھَالِ وَمَدَدْتُّ اِلَیْہِ اَیْدِی السُّؤَالِ فَاَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
سَاُرِیْھِمْ اٰیَۃً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ
وَاَخْبَرَنِیْ وَقَالَ
اِنَّنِیْ سَاَجْعَلُ بِنْتًا مِّنْ بَنَاتِھِمْ اٰیَۃً لَّھُمْ
فَسَمَّاھَاوَقَالَ
اِنَّھَا سَیُجْعَلُ☆ ثَیِّبَۃً وَّیَمُوْتُ بَعْلُھَاوَ اَبُوْھَا اِلٰی ثَلٰثِ سَنَۃٍ مِّنْ یَّوْمِ النِّکَاحِ۔ ثُمَّ نَرُدُّ ھَا اِلَیْکَ بَعْدَ مَوْتِھِمَا وَلَا یَکُوْنُ اَحَدُھُمَا مِنَ الْعَاصِمِیْنَ۔
1 (ترجمہ از مرتب) پس منجملہ ان نشانات کے ایک وہ نشان ہے جو میرے رب نے میرے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں وعدہ کیا۔ وہ الٰہی نشانات کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ اور اس کی کتاب کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے رسول خاتم النبیینؐ کی حاجت ہے اور یہ بھی کہتے کہ ہم کوئی نشان اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک کہ خدا ہمیں اپنے آدمیوں میں کوئی نشان دکھائے اور ہمیں تو ان پر کوئی ایمان نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ رسالت اور ایمان کیا ہے۔ ہم ان کے منکر ہیں۔ تب میں نے اپنے ربّ سے تضرّع اور عاجزی کے ساتھ دُعا کی اور اس کی طرف سوال کا ہاتھ بڑھایا۔ تو میرے ربّ نے الہام کیا۔ اور فرمایا
میں انہیں اُن کے اپنے آدمیوں میں نشان دکھاؤں گا
اور بتایا کہ میں اُن کی ایک لڑکی کو اُن کے حق میں نشان بناؤں گا۔ اور اس کی تعیین کی اور فرمایا کہ وہ بیوہ ہوجائیگی اور اس کا خاوند اور اس کا باپ روزِ نکاح سے تین سال کے اندر اندر مرجائیں گے اور اُن کی موت کے بعد اُسے تیری
☆ غالباً سہوِکاتب ہے۔ سَتُجْعَلُ چاہیئے۔ واللہ اَعلم۔ (مرتّب)
وَقَالَ
اِنَّا رَآدُّوْھَآ اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔
(کرامات الصادقین ٹائٹل پیج آخری ورق۔ روحانی خزائن جلد نمبر7 صفحہ 162)
1888ء
’’اشتہار دہم جولائی 18871کی پیشگوئی کا انتظار کریں۔ جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے:۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ۔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہ‘ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۔ زَوَّجُنَا کَھَا لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِیْ۔ وَاِنْ یَرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔
اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے۔ کہہ ہاں مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح 2باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا۔ اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے۔ اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے۔‘‘
(اشتہار 27دسمبر 1891ء ملحق بہ آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4صفحہ 350۔
نیز تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ85، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 301)
جولائی1888ء
الہام3.......فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ........کی تفصیل مکرر توجہ سے یہ کھلی ہے کہ خدائے تعالیٰ ہمارے کُنبے اورقوم میں ایسے تمام لوگوں پر کہ جو اپنی بے دینی اور بدعتوں کی حمایت کی و جہ سے پیشگوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کریگا اور ان سے لڑیگا اور انہیں انواع و اقسام کے عذابوں میں مبتلا کردے گا اور وہ مصیبتیں اُن پر اتاریگا جن کی ہنوز اُنہیں خبر نہیں۔ اُن میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو
طرف لوٹائیں گے اور ان میں سے کوئی اسے بچا نہیں سکے گا۔ اور فرمایا کہ ہم اُسے تیری طرف لَوٹائیں گے اللہ تعالیٰ کی باتیں ٹل نہیں سکتیں تمہارا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
1 دراصل جولائی 1888ء ہے اور1887ء سہو کتابت ہے۔ (مرتب)
2 ’’یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے۔یہ درست ہے۔ مگر جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط یہ بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ ہے کہ اَیَّتُھَاالْمَرْئَ ۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقِبِکِ۔ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کردیا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ132،133۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 570)
3 مندرجہ اشتہار مؤرخہ دہم جولائی 1888ء۔ (مرتب)
اِس عقوبت سے خالی رہے کیونکہ انہوں نے نہ کسی اور و جہ سے بلکہ بے دینی کی راہ سے مقابلہ کیا۔ ‘‘
(اشتہار پانزدہم جولائی 1888ء مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 160، 161)
1888ء
’’ہمیں اس1 رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی، سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کردیا تھا۔ اولاد بھی عطا کی اور اُن میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ2ہوگا۔ بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدّت تک وعدہ دیا جس کا نام محمودؔ احمدؐ ہوگا اور اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا۔‘‘
(اشتہار 51؍جولائی 8881ء تتمہ اشتہار دہم جولائی 8881ء)
اگست 1888ء
اللہ جلّ شانہ‘ نے مجھے خبر دی کہ
یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ صُلَحَآئُ الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ۔ وَتُصَلِّیْ عَلَیْکَ الْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ۔ وَیَحْمَدُکَ اللّٰہُ عَنْ عَرْشِہٖ۔3
(از مکتوب حضرت اقدس ؑ مؤرخہ اگست1888ء مندرجہ الحکم جلد 5نمبر32مؤرخہ 31اگست 1901ء صفحہ6 کالم نمبر2)
1888ء
’’بارہا غوث اورقطب وقت میرے پر مکشوف کئے گئے جو میری عظمت مرتبت پر ایمان لائے ہیں‘ اور لائیں گے۔‘‘
(از مکتوب حضرت اقدس ؑ مؤرخہ اگست1888ء مندرجہ الحکم جلد 5نمبر32مؤرخہ 31اگست 1901ء صفحہ6 کالم نمبر2)
1 یعنی محمدی بیگم بنت مرزا احمد بیگ کے رشتہ کی۔ (مرتب)
2 یعنی بشیر اوّل جو 7اگست1888ء کو پیدا ہوا۔ اور4نومبر1888ء کو فوت ہوگیا اور ا س کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’دین کا چراغ‘‘ لکھا ہے یہ اُس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ابھی آپ پر یہ بات نہیں کھُلی تھی کہ20فروری1886اء والے الہام میں دراصل دو لڑکوں کی خبر دی گئی تھی۔ ایک وہ لڑکا جو مہمان کے طور پر آنے والا تھا اور اُس نے دوسرے لڑکے کیلئے بطور ارہاص کے ہونا تھا اور دوسرا وہ جو عمر پانے والا تھا اور بشیر اوّل کے لئے دین کے چراغ کا لفظ اُس کی ذاتی استعدادات کی بناء پر استعمال کیا گیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے صاحبزادے ابراہیم کے متعلق فرماتے ہیں۔ لَوْعَاش اِبْرَاھِیْمُ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔ یعنی اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو وہ ایسی استعداد رکھتا تھا کہ نبی ہوجاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 20فروری 1886ء والے الہام کی تشریح اپنے یکم دسمبر 1888ء والے ’’سبز اشتہار‘‘ میں فرمادی ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) تجھ پر عربؔ کے صلحاء اور شامؔ کے ابدال درود بھیجیں گے۔ زمین و آسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ عرش سے تیری تعریف کرتا ہے۔
1888ء
’’اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی‘ وہ جہنمی ہے۔‘‘
(از مکتوب حضرت اقدس ؑ مؤرخہ اگست1888ء مندرجہ الحکم جلد 5نمبر32مؤرخہ 31اگست 1901ء صفحہ6 )
1888ء
’’یہ بات کھُلی کھُلی الہام الٰہی نے ظاہر کردی کہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے وہ بے فائدہ نہیں آیا تھا۔ بلکہ اُس کی موت اُن سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوگی۔ جنہوں نے محض لِلّٰہ اُس کی موت سے غم کیا۔ اور اُس ابتلاء کی برداشت کرگئے کہ جو اُس کی موت سے ظہور میں آیا۔‘‘
(سبز اشتہار صفحہ 16،17 حاشیہ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ136،137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179)
1888ء
’’اس1کی موت کی تقریب پر بعض مسلمانوں کی نسبت یہ الہام ہوا:۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۔ وَقَالُوْا تَا للّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْھَالِکِیْنَ۔ شَاھَتِ الْوُجُوْہُ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ۔ اِنَّ الصَّابِرِیْنَ یُوَفّٰی لَھُمْ اَجْرُھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔
اب خداتعالیٰ نے اِن آیات میں صاف بتلادیا کہ بشیر کی موت لوگوں کی آزمائش کے لئے ایک ضروری امر تھا۔ اور جو کچے تھے وہ مصلح موعود کے ملنے سے نا اُمید ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ تُو اسی طرح اس یوسف کی باتیں ہی کرتا رہیگا۔ یہاں تک کہ قریب مرگ ہوجائیگا۔ یا مرجائیگا۔ سو خدا تعالیٰ نے مجھے فرمادیا کہ ایسوں سے اپنا منہ پھیر لے جب تک وہ وقت پہنچ جائے۔ اور بشیر ؔ کی موت پر جو ثابت قدم رہے اُن کے لئے بے اندازہ اجر کا وعدہ ہوا۔ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں۔ اور کوتہ بینوں کی نظر میں حیرتناک۔‘‘
(مکتوب 4دسمبر1888ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد 5 نمبر 5 صفحہ49،50)
1888ء
’’2 اِنّ لِیْ کَانَ اِبْنًا صَغِیْرًا وَّکانَ اسْمُہ‘ بَشِیْرًا فَتَوَفَّاہُ اللّٰہُ فِیْ اَیَّامِالرِّضَاعِ۔ وَاللّٰہُ خَیْرٌ
1 یعنی بشیر اوّل کی موت۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) میرا ایک لڑکا جس کا نام بشیر احمد تھا۔ شیر خوارگی کے ایام میں فوت ہوگیا۔ اور حق یہ ہے کہ جن لوگوں نے تقویٰ اور خشیت ِ الٰہی کے طریق کار کو اختیارکرلیا ہو۔ اُن کی نظر اللہ تعالیٰ پر ہی ہوتی ہے اس وقت مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم محض اپنے فضل اور احسان سے وہ تجھے واپس دینگے (یعنی اس کا مثیل عطا ہوگا۔ سو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا بیٹا عطا کیا۔)
وَّاَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰثَرُوْا سُبُلَ التَّقْوٰی وَالْاِرْتِیَاعِ فَاُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّیْ۔ اِنَّانَرُدُّہ‘ اِلَیْکَ تَفَضُّلاً عَلَیْکَ۔‘‘ (سِرّالخلافہ صفحہ53۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 381)
1888ء
(ا) ’’خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائیگا۔ جس کا نام محمود بھی ہے۔ وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا۔ یَخْلُقُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر1888ء صفحہ 17 حاشیہ و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179)
(ب) ’’ ایک الہام میں اس دوسرے فرزند کا نام بھی بشیرؔ رکھا۔ چنانچہ فرمایا کہ
دُوسرا بشیر تمہیں دیا جائےگا
یہ وُہی بشیرؔ ہے جس کا دوسرا نام محمودؔہے جس کی نسبت فرمایا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ یَخْلُقُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ۔‘‘ (مکتوب 4؍دسمبر1888ءبنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر5 صفحہ50)
(ج) ’’خدائے عزّوجلّ نے ............. اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا۔ جس کا نام محمود ؔ بھی ہوگا اور ا س عاجز کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ12جنوری1889ء۔ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 147،148۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحۃ 191)
1888ء
’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمودؔ ہے۔ ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ
محمود
تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھپایا۔ جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر 1888ء ۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 40، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ214)
1888ء ’’ مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا ؎
اےفخر رُسل قُرب تو معلومم شد :: دیر آمدۂٖ زراہِ دُور آمدۂٖ 1
(اشتہارتکمیل تبلیغ مؤرخہ 12؍جنوری1889ء و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ148، 149حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191۔ 193)
1 (ترجمہ از مرتب) اے رسُولوں کے فخر تیرا خدا کے نزدیک مقام قرب مجھے معلوم ہوگیا تُو دیر سے آیا ہے (اور) دُور کے راستہ سے آیا ہے۔
1888ء
(الف) ’’ خدائے تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا۔ کہ 20فروری1886ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی۔ اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ پہلے بشیرؔ کی نسبت پیشگوئی ہے۔ کہ جو رُوحانی طور پر نزولِ رحمت کا موجب ہوا۔ اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیرؔ کی نسبت ہے۔‘‘
(سبز اشتہار یکم دسمبر1888ء صفحہ17 حاشیہ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179)
(ب) ’’اور یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ جس پیشگوئی کا ذکر ہوا ہے۔ وہ مصلح موعود کے حق میں ہے کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفّٰی کے حق میں ہیں۔ اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے۔ وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گاپس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل ؔ رکھا گیا۔ اور نیز دوسرا نام اُس کا محمودؔ ہے اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے۔ اور ایک الہام میں اُس کا نام فضل ِ عمر ظاہر کیاگیا ہے۔ اور ضرور تھا کہ اُس کا آنا معرضِ التوا میں رہتا۔ جب تک یہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے۔ پیدا ہوکر پھر واپس اُٹھایا جاتا۔ کیونکہ یہ سب امور حکمت ِ الٰہیہ نے اُس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے۔ اور بشیر اوّل جو فوت ہوگیا ہے۔ بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا اِس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا۔‘‘1
(سبز اشتہار صفحہ12 حاشیہ و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ141،142)
1 مؤرخہ12؍جنوری1889ء کو جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ پیدا ہوئے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی پیدائش کی اطلاع اس اشتہار کے ذریعہ جس کا عنوان ’’تکمیل تبلیغ‘‘ تھا۔ یوں شائع فرمائی۔ خدائے عزّوجلّ نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی 1888ء اور اشتہار یکم دسمبر1888ء میں مندرج ہے اپنے لطف وکرم سے وعدہ دیا تھا۔ کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دُوسرا بشیر دیا جائیگا۔ جس کا نام محمود بھی ہوگا اور اِس عاجز کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے ‘ پیدا کرتا ہے۔ سو آج 12؍جنوری1889ء میں مطابق 9جمادی الاوّل1306ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہوگیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی۔ مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے۔ یا وہ کوئی اور ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا۔ اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا۔ تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا۔ اور اگر مدّتِ مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا۔ تو خدائے عزّوجلّ اُس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے۔ مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر جاری ہوا تھا ؎
اے فخر رسل قرب تو معلومم شد :: دیر آمدۂٖ زراہِ دُور آمدۂٖ
1888ء
(الف) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت ِ مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے
بقیہ حاشیہ:
پس اگر حضرت باری جلّ شانہ‘ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاؤل بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی۔ تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو ورنہ وہ بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آئے گا۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مطابق 12جنوری1889ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ147 ۔ 149حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 191، 192)
اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو ہی قرار دیا۔ اور تفاؤل کے طور پر نام بھی بشیر الدین محمود رکھا۔ مگر کامل انکشاف کے بعد صحیح اطلاع دینے کا وعدہ فرمایا۔ سو حضور علیہ السلام ایفائے عہد فرماتے ہیں اور اس امر کے متعلق مختلف کتب میں اطلاع دیتے ہیں۔
(الف) ’’محمود جو بڑا لڑکا ہے۔ اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی مع محمود نام کے موجود ہے جو پہلے لڑکے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا۔ جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجامِ آتھم صفحہ 15 مطبوعہ1897ء۔ روحانی خزائن جلد نمبر11 صفحہ 299)
(ب) ’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمودؔ کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اَب پیدا ہوگا۔ اور اُس کا نام محمود رکھا جائیگا۔ اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اَب تک موجود ہیں۔ اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا۔ اور اب نویں سال میں ہے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 31مطبوعہ1897ء ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 12 صفحہ 36)
(ج) ’’محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی1888ء اور نیز اشتہار یکم دسمبر1888ء میں جو سبز اشتہار کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا پیشگوئی کی گئی۔ اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمودؔ رکھا جائے گا۔ پھر جبکہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی.......تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے12جنوری1889ء کو بمطابق9جمادی الاوّل1306ھ میں بروز شنبہ محمود ؔپیدا ہوا۔ ‘‘
(تریاق القلوب صفحہ42، روحانی خزائن جلد نمبر15، صفحہ 219)
مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ12جنوری1889ء کے حاشیہ میں خیال ظاہر فرمایا تھا۔ اور بعض دوسرے مقامات پر بھی اشتہارات کئے ہیں۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں پوری ہوئی۔ چنانچہ جملہ واقعات اور کوائف اس پر شاہد ہیں۔ اور خود حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے صراحت کے ساتھ اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ چنانچہ حضور نے 28جنوری1944ء
بیعت1کریں۔
پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں اُنہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں اُن کا غمخوار ہوں گا۔ اور اُن کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا۔ اور خدا تعالیٰ میری دُعا اور میری توجہ میں اُن کے لئے برکت دیگا۔ بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان تیار ہوں گے۔ یہ ربّانی حکم ہے۔ جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔ اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے:۔
2 اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا۔ اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔‘‘
(یکم دسمبر1888ء سبز اشتہار صفحہ24 و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ145۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 188)
(ب) ’’اُس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا۔ کہ زمین میں طوفانِ ضلالت برپا ہے۔ تو اِس طوفان کے وقت میں یہ کشتی طیّار کر۔ جو شخص اِس کشتی میں سوا رہوگا و ہ غرق ہونے سے نجات پاجائے گا اور جو انکار میں رہے گا۔ اُس کے لئے موت درپیش ہے۔
اورفرمایا کہ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا۔ اُس نے تیرے ہاتھ میں نہیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ42،43مطبوعہ بار اوّل دسمبر و جنوری1890-91ء۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ24، 25)
1889ء
’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا.......کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ حاضر
بقیہ حاشیہ: بروز جمعتہ المبارک خطبہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم پاکر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا۔ حضور فرماتے ہیں:۔
(الف) ’’خداتعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت آخر اس امر کو ظاہر کردیا۔ اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں۔‘‘
(ب) ’’آج پہلی دفعہ میں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں۔ اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے۔‘‘
(الفضل یکم فروری1944ء)
1 بیعت ِ اولیٰ لدھیانہ میں 20رجب 1306ھ مطابق23مارچ 1889ء بروز شنبہ کو ہوئی۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) جب تو عزم کرلے۔ تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے ماتحت نظام جماعت کی کشتی طیّار کر (جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے) جو لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ وہ دراصل خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا۔
(ازالہ اوہام صفحہ 855۔ روحانی خزائن جلد 3صفحۃ 565)
ہوجاؤ۔ اور اپنے ربّ کریم کو اکیلا مت چھوڑو۔ جو شخص اُسے اکیلا چھوڑتا ہے وہ اکیلا چھوڑا جائے گا۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ 12جنوری1889ء و تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ148، 149۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191، 192)
مارچ 1889ء
’’مجھے معلوم ہوا ہے۔ کہ بعض فوائد و منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدّر ہیں۔ اِس انتظام پر موقوف ہیں۔ کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مُبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی طورمع کسی قدر کیفیّت کے (اگرممکن ہو) اندارج پاویں۔
(اشتہار گذارش ضروری مؤرخہ 4اپریل 1889ء مشمولہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ845،846۔
روحانی خزائن جلد نمبر3، صفحہ 558، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 193)
1889ء
’’یہ انتظام جس کے ذریعہ سے راستبازوں کا گروہ ایک ہی سلک میں منسلک ہوکر وحدت مجموعی کے پیرایہ میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہوگا۔ وہ اپنی سچائی کی مختلف المخرج شعاعوں کو ایک ہی خط ِ ممتد میں ظاہر کرے گا۔ خداوند عزّوجلّ کو بہت پسند آیا ہے۔‘‘
(اشتہار گذارش ضروری مؤرخہ 4مارچ1889ء مشمولہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ847۔
روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 559۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 194)
1889ء
’’خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں او راس ناچیز کی توجہ کو ان کی1پاک استعدادوں کے ظہور و برُوز کا وسیلہ ٹھہرادے۔ اور اس قدوس جلیل الذّات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہوجاؤں۔‘‘
(اشتہار گذارش ضروری مؤرخہ4 مارچ18891ء مشمولہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ850،
روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ562۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 197)
مارچ 1889ء
’’ منجملہ ان نشانوں کے جو پیشگوئی کے طور پر ظہور میں آئے وہ پیشگوئی ہے جو میں نے اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی ضلع گوجرانوالہ کے متعلق کی تھی..........اور وہ یہ ہے.........کہ قاضی صاحب آپ کو ایک سخت
1 یعنی بیعت کرنے والوں کی۔ (مرتب)
ابتلاء پیش آنے والا1ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 351 نشان نمبر 47۔ روحانی خزائن جلد15صفحہ 472)
1889ء
’’ایک دفعہ مجھے علی گڑھ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اور مرض ضعف دماغ کی و جہ سے جس کا قادیان میں بھی کچھ مدّت پہلے دورہ رہ چکا تھا۔ میں اس لائق نہیں تھا کہ زیادہ گفتگو یا اور کوئی دماغی محنت کاکام کرسکتا.....اس حالت میں علی گڑھ کے ایک مولوی صاحب محمد اسمٰعیل نام مجھ سے ملے اور انہوں نے نہایت انکساری سے وعظ کیلئے درخواست کی.....میں نے اس درخواست کو بشوقِ دل قبول کیا۔ اور چاہا کہ لوگوں کے عام مجمع میں اسلام کی حقیقت بیان کروں.... لیکن بعد اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روکا گیا۔
مجھے یقین ہے کہ چونکہ میری صحت کی حالت اچھی نہیں تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ زیادہ مغزخواری کرکے کسی جسمانی بلا میں پڑوں۔ اس لئے اُس نے وعظ کرنے سے مجھے روک دیا۔
ایک دفعہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی اتفاق ہوا تھا کہ میری ضعف کی حالت میں ایک نبی گذشتہ نبیوں میں سے کشفی طور پر مجھ کو ملے اور مجھے بطور ہمدردی اور نصیحت کے کہا کہ اس قدر دماغی محنت کیوں کرتے ہو۔ اس سے تو تم بیمار ہوجاؤ گے۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ 27،28 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 17، 18)
دسمبر 1890ء
کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اِس مسیح کے
جس کی مماثلت کو خدا نے بتادیا
حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب
خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا
(ٹائٹل رسالہ فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ1)
1890ء
’’حضرت عالی سیدنا و مولانا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بطور پیشگوئی فرماچکے ہیں۔ کہ اِس اُمّت پر ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں وہ یہودیوں سے سخت درجہ کی مشابہت پیدا کرلے گی..... تب فارسؔ کی اصل میں سے ایک ایمان کی تعلیم دینے والا پیدا ہوگا۔ اگر ایمان ثریّاؔ میں معلّق ہوتا ‘ تو وہ اُسے اس جگہ سے بھی پالیتا۔ یہ پیشگوئی
1 یہ پیشگوئی حضور ؑ نے اس وقت فرمائی جبکہ قاضی صاحب لدھیانہ میں حضورؑ کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ اور پھر جس طرح یہ ابتلاء پیش آیا۔ اور پیشگوئی پوری ہوئی اس کی تفصیل قاضی صاحب موصوف نے اپنے خط میں درج کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجی۔ چنانچہ حضور ؑ نے اس خط کو بھی اسی کتاب تریاق القلوب میں درج فرما دیا۔ تفصیل وہاں دیکھ لی جاوے۔ (مرتب)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جس کی حقیقت الہام الٰہی نے اِس عاجز پر کھول دی اور تصریح سے اُس کی کیفیت ظاہر کردی اور مجھ پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے کھول دیا کہ حضرت مسیح بن مریم بھی درحقیقت ایک ایمان کی تعلیم دینے والا تھا جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد پیدا ہوا.....پس جبکہ اس اُمّت کو بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے عہد پر چودہ سو برس کے قریب مدّت گذری تو وہی آفات ان میں بھی بکثرت پیدا ہوگئیں جو یہودیوں میں پیدا ہوئی تھیں۔ تا وہ پیشگوئی پوری ہو جو اِن کے حق میں کی گئی تھی۔ پس خدا تعالیٰ نے اِن کیلئے بھی ایک ایمان کی تعلیم دینے والا مثیلِ مسیح اپنی قدرتِ کاملہ سے بھیج دیا۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ13 ،15 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 9،10)
1890ء
’’ خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بشارت دی کہ
موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا
اور فرمایا کہ
جو لوگ خدا تعالیٰ کے مقر ّب ہیں ‘ وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجایا کرتے ہیں۔
اور فرمایا کہ
’’میں اپنی چمکار دکھلاؤنگا اور اپنی قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤنگا
پس میری اس دوبارہ زندگی سے مُراد بھی میرے مقاصد کی زندگی ہے۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ26 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 16 حاشیہ)
1890ء
’’ اس حکیم و قدیر نے اِس عاجز کو اصلاح خلائق کیلئے بھیج کر .....دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں1 پر امر تائید حق اور اشاعت ِ اسلام کو منقسم کردیا........... یہ پانچ طور کا سلسلہ جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا...........خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سب ضروری ہیں۔ اور جس اصلاح کے لئے اُس نے ارادہ فرمایا ہے۔ وہ اِصلاح بجز استعمال ان پانچوں طریقوں کے ظہور پذیر نہیں ہوسکتی۔‘‘ (فتح اسلام صفحہ17،18,43 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 11,12 ،25،26)
1 یہ پانچ شاخیں ہیں۔ جن کی تفصیل حضور اقدس نے آگے اسی کتاب میں فرمائی ہے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے دوسری اشتہارات۔ تیسری مہمانخانہ اور مہمانوں کی خاطر مدارات۔ چوتھی مکتوبات اور پانچویں شاخ سلسلہ بیعت ہے تفصیل کے لئے دیکھئے فتح اسلام صفحہ181 تا41۔روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 12تا 25)۔ (مرتب)
1890ء
’’ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بے دین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دین متین کے الفاظ استعمال کئے۔ غیرت دینی کی و جہ سے کسی قدر اس عاجز نے وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ پر عمل کیامگر چونکہ وہ ایک شخص کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی اس لئے الہام ہوا کہ
تیرے بیان میں سختی بہت ہے۔ رِفق چاہئے رِفق۔‘‘
(مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد چہارم صفحہ6)
جنوری 1891ء
توضیح مرام 1
(توضیح مرام ٹائٹل پیج)
1891ء
’’فضل الرحمن2کی نسبت اس عاجز کو پہلے سے ظن نیک ہے ایک دفعہ اس کی نسبت
سَیُھْدٰی3
کا الہام ہوچکا ہے۔‘‘ (از مکتوب مؤرخہ 9رچ1891ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ و مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ97)
1891ء
’’اللہ جلّ شانہ‘ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث ِ نبویہؐ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے۔‘‘
(از مکتوب بنام مولوی عبدالجبار صاحب۔ مؤرخہ11؍فروری1891ء و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ159۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 207)
1891ء
’’ کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھے ہوئے دیکھا۔ کہ
میں اکیلا ہوں‘ اور خدا میرے ساتھ ہے۔‘‘
1 اس رسالہ توضیح مرام کا نام الہامی ہے۔ (مرتب)
2 مفتی فضل الرحمن صاحب داماد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) وہ ضرور سیدھے راستہ پر ڈالا جائے گا۔
(نوٹ از عرفانی صاحب) مفتی فضل الرحمن صاحب کے رشتہ نکاح کے متعلق حضرت مولوی صاحب نے مشورہ پوچھا تھا.....حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مشورہ دیا اور الہام الٰہی نے اس کی تائید فرمائی (مکتوبات جلد پنجم نمبر2 صفحہ 98، 99)
اور اس کے ساتھ مجھے الہام ہوا۔
اِنِّیْ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ 1
سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کردیگا۔‘‘
(مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد چہارم صفحہ3)
11مارچ1891ء
’’شاید ایک ہفتہ ہوا۔ میں نے آپ2 کو خواب میں دیکھا۔ گویا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کیا کروں۔ تو میں نے آپ کو یہ کہا ہے ۔
خدا سے ڈر ۔ پھر جو چاہے کر۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بنام شیخ فتح محمد۔ مؤرخہ 18؍مارچ1891ء۔
مندرجہ الفضل جلد 31نمبر9 مؤرخہ8؍مئی1943ء صفحہ3)
1891ء
’’ہماری ایک لڑکی عصمت بی بی نام تھی۔ ایک دفعہ اس3کی نسبت الہام ہوا۔
کَرْمُ الْجَنَّۃِ دَوْحَۃُ الْجَنَّۃِ 4
تفہیم یہ تھی کہ وہ زندہ نہیں رہے گی۔ سو ایسا ہی ہوا۔ (نزول المسیح صفحہ 215روحانی خزائنجلدنمبر18صفحہ 593)
1891ء
’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں نعمت اللہ ولی کا وہ قصیدہ دیکھ رہا تھا جس میں اس نے میرے آنے کی بطور پیشگوئی خبر دی ہے اور میرا نام بھی لکھا ہے اور بتلایا ہے کہ تیرھویں صدی کے اخیر میں وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا اور میری نسبت یہ شعر لکھا ہے کہ
مہدیٔ وقت و عیسیٰ ٔ دوراں -:- ہر دورا شہسوار مے بینم
یعنی وہ آنے والا مہدی ؔبھی ہوگا اور عیسیٰ بھی ہوگا۔ دونوں ناموں کا مصداق ہوگا اور دونوں طور کے دعوے کرے گا۔
1 (ترجمہ از مرتب) میرے ساتھ میرا خدا ہے۔ وہ ضرور میرے لئے راستہ پیدا کردے گا۔
2 یعنی شیخ فتح محمد صاحب کو۔
3 نوٹ:۔سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 1۵1 سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبزادی عصمت بی بی کی وفات 1۹۸1ء میں ہوئی تھی اور یہ الہام اُس کی وفات سے پہلے کا ہے۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) انگور کی جنّتی بیل۔ جنت کا بڑا درخت۔
پس اِس اثناء میں کہ میں یہ شعر پڑھ رہا تھا عین پڑھنے کے وقت مجھے یہ الہام ہوا۔
از پئے آں محمد احسن را -:- تارکِ روزگار مے بینم1
یعنی میں دیکھتا ہوں کہ مولوی سید محمدؔ احسن امروہی اسی غرض کے لئے اپنی نوکری سے جو ریاست بھوپال میں تھی علیٰحدہ ہوگئے۔ تا خدا کے مسیح موعود کے پاس حاضر ہوں۔ اور اس کے دعوے کی تائید کے لئے خدمت بجالاوے۔ اور یہ ایک پیشگوئی تھی۔ جو بعد میں نہایت صفائی سے ظہور میں آئی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 333۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 346)
1891ء
’’جب یہ آیتیں اُتریں کہ مشرکین رجس ہیں‘ پلید ہیں‘ شرّالبریّہ ہیں‘ سفہا ہیں اور ذریّت شیطان ہیں اور اُن کے معبود وقود النار اور حصب جہنّم ہیں تو ابوطاؔلب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے ! اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں۔ اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔ تُونے اُن کے عقلمندوں کو سفیہ قرار دیا اور اُن کے بزرگوں کو شرّالبریّہ کہا اور ان کے قابل ِ تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنّم اور وقود النار رکھا اور عام طور پر ان سب کو رِجس اور ذریّت شیطان اور پلید ٹھہرایا۔ میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجا ورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ اے چچا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہارِ واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔ اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اِس موت کو قبول کرتا ہوں۔ میری زندگی اِسی راہ میں وقف ہے۔ میں موت کے ڈر سے اظہارِ حق سے رُک نہیں سکتا۔
اور اے چچا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا۔ بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکامِ الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رُکوں گا۔ مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہوکر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔ یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذّت ہے کہ اس کی راہ میں دُکھ اُٹھاؤں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کررہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رِقّت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کرچکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طاؔلب کے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا۔ تُو اورہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے۔ جا اپنے کام میں
1 یہ الہامی شعر نمونہ پرچہ القادیان یکم ستمبر1902ء میں بھی درج ہے۔ لیکن پہلے مصرعہ میں’’ از پۓ آں محمد احسن را‘‘ کی بجائے ’’ از برائیش محمد احسن را ‘‘ لکھا ہے۔ اگر یہ راوی کے حافظہ کی غلطی نہیں ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس الہامی شعر کی دو قرأتیں ہیں۔ واللہ اعلم۔ (مرتب)
لگا رہ۔ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 16,18روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 110،111)
’’یہ سب مضمون ابوطالب کے قصہ کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے جو خدائے تعالیٰ نے اِس عاجز کے دل پر نازل کی۔ صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اِس عاجز کی طرف سے ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 18,19روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 111،112)
1891ء
’’صحیح مسلم میں جو لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید شرقی کے پاس اُتریں گے.......دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزیدؔ پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں......مجھ پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دمشق کے لفظ سے دراصل وہ مقام مراد ہے جس میں یہ دمشق والی مشہور خاصیت پائی جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ نے مسیح کے اُترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو اپنی روحانی حالت کی رُو سے مسیح سے اور نیز امام حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے کیونکہ دمشق پایۂ تخت یزید ہوچکا ہے اور یزیدیوں کا منصوبہ گاہ جس سے ہزار ہا طرح کے ظالمانہ احکام نافذ ہوئے۔ وہ دمشق ہی ہے....... سو خدا تعالیٰ نے اُس دمشق کو جس سے ایسے پُر ظلم احکام نکلتے تھے اور جس میں ایسے سنگ دل اور سیاہ دروں لوگ پیدا ہوگئے تھے اِس غرض سے نشانہ بنا کر لکھا کہ اب مثیل دمشق عدل اور ایمان پھیلانے کا ہیڈ کوارٹر ہوگا کیونکہ اکثر نبی ظالموں کی بستی میں ہی آتے رہے ہیں اور خدا تعالیٰ *** کی جگہوں کو برکت کے مکانات بناتا رہا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 63تا70 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 138حاشیہ)
1891ء
’’قادیانؔ کی نسبت مجھے یہ بھی الہام ہوا کہ
اُخْرِجَ مِنْہُ الْیَزِیْدِ یُّوْنَ
یعنی اس میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ72 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 138 حاشیہ)
1891ء
(الف) ’’ایک صاف اور صریح کشف میں مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ ایک شخص حارثؔ نام یعنی حر ّ اث 1آنے والا ہے جو
1 حارث کے معنے زمیندار کے ہیں۔ اور حر ّاث ؔ سے مراد بڑا زمیندار ہے۔ اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں پائی جاتی ہے۔ (مرتب)
ابوداؤد کی کتاب میں لکھا ہے۔ یہ خبر صحیح ہے اور یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی درحقیقت یہ دونوں اپنے مصداق کے رُو سے ایک ہی ہیں۔ یعنی اِن دونوں کا مصداق ایک ہی شخص ہے۔ جو یہ عاجز ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 65حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 135)
(ب) ’’یہ پیشگوئی جو ابوداؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حر ّاث ماورائے نہر سے یعنی ثمر قند کی طرف سے نکلے گا۔ جو آلِ رسول کو تقویت دیگا جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہوگی۔ الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے۔ کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہوگا۔ دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں۔ اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 79 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 141حاشیہ)
1891ء
’’پھر وہ منصور1مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ
خوشحال ہے ۔ خوشحال ہے
مگر خدائے تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اُس کے پہچاننے سے قاصر رکھا۔ لیکن امید رکھتا ہوں۔ کہ کسی دوسرے وقت دکھایا جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ98،99حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 149)
1891ء
’’اس عبارت تک یہ عاجز پہنچا تھا کہ یہ الہام ہوا۔
قُلْ لَّوْ کَانَ الْآمْرُمِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدْتُّمْ فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔ قُلْ لَّوِاتَّبَعَ اللّٰہُ اَھْوَآئَ کُمْ لَفَسَدِتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَبَطَلَتْ حِکْمَتُہ‘۔ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَالْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔2
1 جس کا ذکر ابو داؤد کی حارث والی حدیث میں آتا ہے۔ یعنی حارث کی فوج کے مقدمۃ الجیش کا سردار جس کا نام حدیث میں منصور بیان ہوا ہے۔ اس کشف میں غالباً منصور سے مراد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) کہہ کہ اگر یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا۔ بلکہ غیر اللہ کی بناوٹ ہوتا۔ تو تم اس میں بہت اختلاف پاتے۔ کہہ کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے خیالاتِ باطلہ کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور ان کے اندر رہنے والی مخلوق میں فساد برپا ہوجاتا۔ اور حکمت الٰہی باطل ہوجاتی۔ اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے۔ کہہ کہ اگر سمندر میرے ربّ کی باتوں (کے لکھنے) کے لئے روشنائی بن جاتے تو میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجاتے۔ اگرچہ ہم اتنے ہی اور (سمندر) ان میں شامل
پھر اس کے بعد الہام کیا گیا کہ
اِن علماء نے میرے گھر کو بدل ڈالا۔ میری عبادت گاہ میں اِن کے چُولھے ہیں۔ میری پرستش کی جگہ میں ان کے پیالے اور ٹھوٹھیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اور چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کُتر رہے ہیں۔
(ٹھوٹھیاں وہ چھوٹی پیالیاں ہیں جن کو ہندوستانی میں سکوریاں کہتے ہیں عبادت گاہ سے مراد اس الہام میں زمانۂ حال کے اکثر مولویوں کے دل ہیں جو دُنیا سے بھرے ہوئے ہیں)۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 75،76حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 139، 140حاشیہ)
1891ء
’’کشفی حالت میں اِس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں، ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے۔ تب میں نےاُس شخص کو جو زمین پر تھا، مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چپ رہا اور اُس نے کچھ بھی جواب نہ دیا۔ تب میں نے اُس دُوسرے کی طرف رُخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اُسے میں نے مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے ۔ وہ میری اِس بات کو سُنکر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں۔ اُس وقت میں نے یہ آیت پڑھی۔ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئْۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 97,98 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 149حاشیہ)
1891ء
’ ’اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ جو بات اِس عاجز کی دعا کے ذریعہ سے ردّ کی جائے وہ کسی اَور سے قبول نہیں ہوسکتی اور جو دروازہ اس عاجز کے ذریعہ سے کھولا جائے وہ کسی اور ذریعہ سے بند نہیں ہوسکتا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 118حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 149حاشیہ)
1891ء
’’ اَنْتَ اَشَدُّ مُنَاسَبَۃً بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ خُلُقًا وَّ خَلْقًا وَّ زَمَانًا۔‘‘ 1
(ازالہ اوہام صفحہ 123،124۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 165)
بقیہ حاشیہ: کرکے انہیں بڑھاتے۔ کہہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) تُو کیا بلحاظ اخلاق اور کیا بلحاظ صورت و خِلْقَتْ اور کیا بلحاظ زمانہ عیسیٰ ابن ِ مریم کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مناسبت او مشابہت رکھتا ہے۔
1891ء
’’خدا یتعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے۔ کہ میری ہی ذرّیّت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی۔ وہ آسمان سے اُترے گا۔ اور زمین والوں کی راہ سیدھی کردے گا۔ وہ اسیروں کو رُستگاری بخشے گا۔ اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقیّد ہیں‘ رہائی دے گا۔ فرزند1 دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَآئِ۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 155،156۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 180)
1891ء
’’چند روز کا ذکر ہے کہ اِس عاجز نے اِس طرف توجہ کی۔ کہ کیا اس حدیث کا جو اَلآیَاتُ بَعْدَالْمِأَتَیْنہے۔ ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا۔ پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کررکھی تھی اور وہ نام یہ ہے:۔
غلام احمد قادیانی
اس نام کے عدد پورے تیرہ سو1300ہیں اور اس قصبہ قادیانؔ میں بجز اِس عاجز کے اور کسی شخص کا نام غلام ؔاحمد نہیں۔ بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اِس عاجز کے تمام دنیا میں غلامؔ احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں اور اِس عاجز کے ساتھ اکثر یہ عادت اللہ جاری ہے کہ وہ سبحانہ‘ بعض اسرار اعداد حروف تہجی میں میرے پر ظاہر کردیتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ185، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 189،190)
1891ء
(الف) ’’ ایک دفعہ میں نے آدم کے سن پیدائش کی طرف توجہ کی۔ تو مجھے اشارہ کیا گیا کہ ان اعداد پر نظر ڈال۔ جو سورۃ العصر کے حروف میں ہیں کہ انہیں میں سے وہ تاریخ نکلتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ186۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 190)
(ب) ’’ خداتعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد ِ نبوّت ہے۔ یعنی تیئیس برس کا تمام و کمال زمانہ یہ کل مدّت گذشتہ زمانہ کے ساتھ ملا کر 4739 برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ
1 (ترجمہ از مرتب) فرزند دلبند ۔ بزرگ اور اقبال مند۔ حق اور رفعت کا مظہر گویا کہ خدا آسمان سے اُتر آیا ہے۔
علیہ وسلم کے روزِ وفات تک قمری حساب1سے ہیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 93-95روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 251،252)
1891ء
’’ایک شخص کی موت کی نسبت خدا یتعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ
کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ
یعنی وہ کُتّا ہے اور کُتّے کے عدد پر مرے گا۔ جو باون 52 سال پر دلالت کررہے ہیں۔ یعنی اس کی عمر باون سال سے تجاوز نہیں کرے گی جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا۔ تب اُسی سال کے اندر اندر راہی مُلک بقا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ186،187۔ روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 190)
1891ء
’’ابھی تھوڑے دن گذرے ہیں کہ ایک مدقوق اور قریب الموت انسان مجھے دکھائی دیا اور اُس نے ظاہر کیا کہ میرا نام دین محمد ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ دین محمدی ہے جو مجسّم ہو کر نظر آیا ہے اور میں نے اس کو تسلّی دی کہ تو میرے ہاتھ سے شفا پاجائیگا۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 214، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 206)
1891ء
’’اور یہ جو میں نے مسمریزمی طریق کا عمل الترب1نام رکھا۔ جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک مشق رکھتے
1 اور شمسی حساب کے رُو سے4598 برس بعد آدم صفی اللہ حضرت نبیّنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے۔ ( تحفہ گولڑویہ صفحہ 92حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17صفحہ 247)
2 ترب کے معنی لغت میں ہم عمر یا مثیل کے لکھے ہیں۔ مگر اس لفظ میں تراب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’وَامّا التراب فاعلم ان ھدا اللفظ ماخوذ من لفظ التِرب۔ وتِرب الشیٔ الذی خلق مع ذالک الشیٔ عنداھل العرب۔ وقال ثعلب ترب الشیٔ مثلہ وما شابہ شیئًا فی الحسن والبھائ۔ فعلی ھذین المعنیین سمی التراب ترابًا لکونھافِی خلقھا ترب السمآئ۔ فان الارض خلقت مع السمآء فی ابتداء الزمان۔ وتشا بھا فی انواع صنع اللّٰہ المنّان۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ262، 263حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 11صفحہ 262،263)
(ترجمہ از مرتب) ’’لفظ تراب تِرب سے سے ماخوذ ہے اور عربوں کے نزدیک ترب الشیٔ کے معنی ہیں وہ چیز جو اس کے ساتھ پیدا ہو۔ اور ثعلب کا قول ہے کہ کسی چیز کی ترب وہ ہے جو خوبی میں اس کی مانند ہو۔ پس ان دونوں معنوں کی رُو سے مٹی کا نام تراب اس لئے رکھا گیا کہ وہ پیدائش میں آسمان کی ہم عمر یا مثیل ہے کیونکہ زمین ابتدائی زمانہ میں آسمان کے ساتھ ہی پیدا ہوئی ہے اور وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صنعت کے اقسام میں مشابہ ہیں۔‘‘
تھے۔ یہ الہامی نام ہے اور خدائے تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ عمل الترب ہے اور اِس عمل کے عجائبات کی نسبت یہ بھی الہام ہوا
ھٰذَا ھُوَا التِّرْبُ الذی لَا یَعْلَمُوْنَ
یعنی یہ وہ عمل الترب ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ312 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ259)
1891ء
’’ او رمجھے اُس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی اور اسی وقت کشفی طور پر یہ صداقت1 مذکورہ بالا میرے پر ظاہرکی گئی ہے۔ اور اسی مُعلّمِ حقیقی کی تعلیم سے میں نے وہ سب لکھا ہے۔ جو ابھی لکھا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ376، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 259)
1891ء
’’اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی۔ یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی۔ بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیّت بھی کردی گئی۔ اُس وقت گویا یہ پیشگوئی1 آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے۔ تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنے ہونگے جو میں سمجھ نہیں سکا۔ تب اُسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا۔
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ
یعنی یہ بات تیرے ربّ کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ398،روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 306)
بقیہ حاشیہ:۔ پس اس رُو سے وحی الٰہی میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ علم زمینی ہے نہ کہ آسمانی۔ اسے وہی لوگ استعمال کرتے ہیں۔ جو رُوحانیت سے کم حصہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
اولیاء اور اہل سلوک کی تواریخ اور سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاملین ایسے عملوں سے پرہیز کرتے رہے ہیں۔ مگر بعض لوگ اپنی ولایت کا ایک ثبوت بنانے کی غرض سے یا کسی اور نیت سے ان مشغلوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 308 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3۔ صفحہ 257 حاشیہ)
1 یعنی مَاقَتَلُوْوَمَاصَلَبُوْہُکی تفسیر۔ (مرتب)
2 یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری والی پیش گوئی۔ (مرتب)
1891ء
’’ خدا تعالیٰ نے آپ اپنے کلام میں میری طرف اشارہ کرکے فرمایا ہے:۔
نبی ناصری کے نمونہ پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ بندگانِ خدا کو بہت صاف کررہا ہے۔ اس سے زیادہ کہ کبھی جسمانی بیماریوں کو صاف کیا گیا ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ442، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 335)
1891ء
’’ ایک 1مدّت کی بات ہے جو اس عاجز نے خواب میں دیکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر مَیں کھڑا ہوں اور کئی لوگ مَر گئے ہیں یا مقتول ہیں اُن کو لوگ دفن کرنا چاہتے ہیں۔ اِسی عرصہ میں روضہ کے اندر سے ایک آدمی نکلا اور اُس کے ہاتھ میں ایک سرکنڈہ تھا اور وہ اُس سرکنڈہ کو زمین پر مارتا تھا اور ہر ایک کوکہتا تھا کہ تیری اِس جگہ قبر ہوگی۔ تب وہ یہی کام کرتا کرتا میرے نزدیک آیا اور مجھ کو دکھلا کر اور میرے سامنے کھڑا ہوکر روضۂ شریفہ کے پاس کی زمین پر اُس نے اپنا سرکنڈہ مارا اور کہا کہ تیری اس جگہ قبر ہوگی۔ تب آنکھ کھل گئی۔
اور میں نے اپنے اجتہاد سے اس کی تاویل کی کہ یہ معیّت معادی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ جو شخص فوت ہونے کے بعد روحانی طور پر کسی مقدس کےقریب ہوجائے۔ تو گویا اس کی قبر اُس مقدس کی قبر کے قریب ہوگی۔ واللہ اعلم وعِلْمُہ‘ اَحْکَم ُ۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ470،471۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 352)
1891ء
’’طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اُس پر بہرحال ایمان لاتے ہیں۔ لیکن اِس عاجز پر جو ایک رؤیامیں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنے رکھتا ہے کہ ممالک ِ مغربی جو قدیم سے ظلمت کفرو ضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منوّر کئے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصہ ملے گا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 515, روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 376،377)
1891ء
’’میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈنؔ میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مُدلّل بیان سے اسلامؔ کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہوگا۔
سو مَیں نے اِس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ مَیں نہیں مگر میری تحریریں اِن لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز
1 چونکہ مدّت کی مقدار معلوم نہیں ہوسکی اسلئے اسے اس کے وقت ِ ذکر کی رعایت سے 1891ء کے نیچے ہی رکھا جاتا ہے۔ (مرتب)
صداقت کا شکار ہوجائیں گے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ515،516۔ روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 377)
1891ء
’’اُس نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے۔ چنانچہ اُس کا الہام یہ ہے کہ
’’مسیح ابنِ مریم رسُول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے۔ وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنْتَ عَلَی الْحَقِّ الْمُبِیْنِ۔ اَنْتَ مُصِیْبٌ وَّمُعِیْنٌ لِلْحَقِّ۔‘‘ 1 (ازالہ اوہام صفحہ 561،562۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 402 )
1891ء
’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ
تو مغلوب ہوکر یعنے بظاہر مغلوبوں کی طرح حقیر ہو کر پھر آخرغالب ہوجائے گا اور انجام تیرے لئے ہوگا اور ہم وہ تمام بوجھ تجھ سے اُتار لیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی۔ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید ‘ تیری عظمت‘ تیری کمالیّت پھیلادے۔ خدا تعالیٰ تیرے چہرے کو ظاہر کرے گا اور تیرے سایہ کو لمبا کردے گا۔ دُنیا میں ایک نذیر آیا ، پَر دُنیا نے اُسے قبول نہیں کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچّائی ظاہر کردے گا۔ عنقریب اُسے ایک مُلک عظیم دیا جائیگا(........) اور خزائن اس پر کھولے جائیں گے(........) یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔ ہم عنقریب تم میں ہی اور تمہارے اردگرد نشان دکھلادینگے۔ حجت قائم ہوجائیگی اور فتح کھُلی کھُلی ہوگی۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک بھاری جماعت ہیں۔ یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ اگر لوگ تجھے چھوڑدینگے پَر مَیں نہیں چھوڑوں گا اور اگر لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر مَیں بچاؤنگا۔ مَیں اپنی چمکار دکھاؤنگا اور قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤنگا۔ اے ابراہیم تجھ پر سلام! ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چُن لیا۔ خدا تیرے سب کام درست کردیگا اور تیری ساری مرادیں تجھے دیگا۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید اور تفرید۔ خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑدے جب تک وہ خبیث کو طیّب سے جُدا نہ کرے۔ وہ تیرے مجد کو
1 (ترجمہ از مرتب) اور اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔ تُو میرے ساتھ ہے اور تُو روشن حق پر قائم ہے۔ تو راہِ صواب پر ہے اور حق کا مدد گار ہے۔
زیادہ کرے گا اور تیری ذریّت کو بڑھائے گا۔ اور مِن بَعد تیرے خاندان کا تجھ سے ہی ابتداء قرار دیا جائے گا۔ میں تجھے زمین کے کناروں تک عزّت کے ساتھ شہرت دُوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دُوں گا۔جَعَلْنَاکَ الْمسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ (ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا) ان کو کہدے کہ مَیں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں۔ یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سُنا۔ سو تو اِن کو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں خدا بہتر جانتا ہے۔ تم ظاہر لفظ اور ابہام پر قانع ہو اور اصل حقیقت تم پر مکشوف نہیں۔ جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت ِ الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرارِ ملکوتی سے حصہ ہے ایک اولی العزم پیدا ہوگا۔وہ حسن اور احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ تیری ہی نسل سے ہوگا۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند
مَظْھَرْ ُالْحَقِّ وَ الْعُلَآئِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ 1 یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَانٌ مُّخْتَلِفٌ بِاَزْوَاجٍ مُّخْتَلِفَۃٍ۔ وَتَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا۔ وَلَنُحْیِیَنَّک۔ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ط ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْقَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ
(ازالہ اوہام صفحہ632،635 روحانی خزائن جلد 3صفحہ 441،443)
1891ء
’’یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا۔ جو کمال طغیان اس کا اُس سَن ہجری میں شروع ہوگا۔ جو آیت وَاِنَّا عَلیٰ ذَھَابٍ بِہٖ لَقَادِرُوْنَ 2میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی 1274ھ ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ657۔روحانی خزائن جلدنمبر3صفحہ455)
1891ء
’’خدا تعالیٰ نے اپنے کشف ِ صریح سے اس عاجز پر ظاہر کیا ہے کہ قرآنِ کریم میں مثالی طور پر ابن ِ مریم کے آنے کا ذکر ہے۔3‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 667۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 460)
1891ء
’’اُس نے محض اپنے فضل سے بغیر وسیلہ کسی زمینی والد کے اُس ابن ِ مریم کو رُوحانی پیدائش اور روحانی
1 (ترجمہ از مرتب) تجھ پر مختلف ازواج (یعنی رفقاء) کے ساتھ مختلف زمانے آئیں گے اور تُو دُور کی نسل دیکھے گا اور ہم تجھے خوش زندگی نصیب کریں گے اسّی سال یاا س کے قریب۔
2 (ترجمہ از مرتب) یقینا ہم اُس کو لے جانے پر قادر ہیں۔
3 دیکھو آیت وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلاً اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ۔ (الزخرف:58 )
زندگی بخشی۔ جیسا کہ اُس نے خود اُس کو اپنے الہام میں فرمایا۔
ثُمَّ اَحْیَیْنَاکَ بَعْدَمَآ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی وَ جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔
یعنی پھر ہم نے تجھے زندہ کیا بعد اس کے جو پہلے فرقوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور تجھے ہم نے مسیح ابن ِ مریم بنایا۔ یعنی بعد اس کے جو عام طور پر مشائخ اور علماء میں موت روحانی پھیل گئی۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 674، روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 464)
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنِّیْ الْحَزَنَ وَ اٰتَانِیْ مَا لَمْ 1 یُؤْتَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ۔
احد من العالمین سے مراد زمانہ حال کے لوگ یا آیندہ زمانہ کے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ703،روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ479)
ترجمہ:۔ ’’اس خدا کی تعریف ہے جس نے میرا غم دُور کیا اور مجھ کو وہ چیز دی جو اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 107۔روحانی خزائن جلد نمبر22صفحہ110 )
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ
تَذْکِرَہ
یعنی
وحیِ مقدّس
و
رؤیا و کشوف حضرت مسیح موعُودعلیہ الصّلٰوۃ والسّلام
زمانہ تحصیلِ علم
(ا1)رَأَیْتُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَّاَنَا غُلَامٌ حَدِیْثُ السِّنِّ کَاَنِّیْ فِیْ بَیْتٍ لَطِیفٍ نَّظِیْفٍ یُذْکَرُ فِیْھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ فَقُلْتُ اِیُھَاالنَّاسُ اَمْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمّ ۔ فَاَشَارُوْااِلٰی حُجْرَۃٍ ۔ فَدَخَلْتُ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ ۔ فَبَشَ بِیْ حِیْنَ وَافَیْتُہٗ ۔ وَحَیَّانِیْ بِاَحْسَنِ مَاحَیَّیْتُہٗ ۔ وَمَااَنْسٰی حُسْنَہٗ وَجَمَالَہٗ وَمَلَاحَتَہٗ وَتَحَنُّنَہ م اِلٰی یَوْمِیْ ھٰذَا ۔ شَغَفَنِیْ حُبًّاوَّجَذَبَنِیْ بِوَجْہٍ حَسِیْنٍ ۔ قَالَ مَاھٰذِا بِیَمِنْنِکَ یَااَحْمَدُ ۔ فَنَظَرْتُ فَاِذَا کِتِابٌ بِیَدِی الْیُمْنٰی وَخَطَرَ بِقَلْبِیْ
1 (ترجمہ از مرتب) اوائل ایامِ جوانی میں ایک رات میں نے (رؤیا میں) دیکھا کہ میں ایک عالی شان مکان میں ہوں ۔ جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت ﷺ کا ذکر اور چرچا ہورہا ہے۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور ﷺ کہاں تشریف فرما ہیں۔ انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اُس کے اندر چلا گیا۔ اور جب میں حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو حضور ﷺبہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا۔ آپ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپ کی پُر شفقت و پُر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے۔ اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔ آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کرلیا۔ اور آپ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا۔ اس وقت آپ نے مجھے فرمایا ۔ اے احمد! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے ۔ جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے
اَنَّہٗ مِنْ مُّصَنَّفَاتِیْ ۔ قُلْتُ یَارَسُوْلِ اللّٰہِ کِتَابٌ مِّنْ مُّصَنَّفَاتِیْ ۔ قَالَ مَااسْمُ کِتابِکَ فَنَظَرْتُ اِلَی الْکِتَابِ مَرَّۃً اُخْرٰی وَاَنَا کَالْمُتَحَیِّرِیْن ۔ فَوَجَدْتُّہٗ یُشَابِہُ کِتَابًا کَانَ فِیْ دَارِ کُتُبِیْ وَاسْمُہٗ قُطْبِیٌّ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِسْمُہٗ قُطْبِیٌّ ۔ قَالَ اَرِنِیْ کِتَابَکَ الْقُطْبِیَّ فَلَمَّا اَخَذَہٗ وَمَسَّتْہُ یَدُہٗ فَاِذَاھِیَ ثَمَرَۃٌ لَّطِیْفَۃٌ تَسُرُّالنَّاظِرِیْنَ ۔ فَشَقَّقَھَا کَمَایُشَقَّقُ الثَّمَرُ فَخَرَجَ مِنْھَاعَسَلٌ مُّصَفَّی کَمَآءٍ مُّعِیْنٍ ۔ وَرَاَیْتُ بِلَّۃَ الْعَسَلِ عَلٰی یِدِہِ الْیُمْنٰی مِنَ الْبَنَانِ اِلَی الْمِرْ فَقِ کَانَ الْعَسَلُ یَتَقَاطَرُمِنْھَا ۔ وَکَاَنَّہٗ یُرِیْنِیْ اِیَّاہُ لِیَجْعَلَنِیْ مِنَ الْمُتَعَجِّبِیْنَ ۔ ثُمَّ اُلْقِیَ فی قَلْبِی اَنَّ عِنْدَاُسْکُفَّۃِ الْبِیْتِ مَیِّتٌ قَدَّرَاللّٰہُ اِحْیَاءَ ہٗ بِھٰذِہِ الثَّمَرَۃِ وَقَدَّرَ اَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُحْیِیْنَ ۔ فَبَیْنَمَااَنَافِیْ ذٰلِکَ الْخیَیْالِ فَاِذَاالْمَیِّتُ جَآءَ نِیْ حَیّاً وَّھُوَیَسْعٰی وَقَامَ وَرَآءَ ظَھْرِیْ وَفِیْہِ ضُعْفٌ کَاَنَّہٗ مِنَ الْجِآئِعِیْنَ ۔ فَنَظَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیَّ مُتَبَسِّمًاوَّ جَعَلَ الثّمَرَۃَ قِطْعَاتٍ وَّاَکَلَ قِطُعَۃً مِّنْھَاوَاٰ تَانِیْ کُلَّ صَابَقِیَ وَالْعَسَلُ یَجْرِیْ مِنّ الْقِطْعَاتِ کُلِّھَاوَقَالَ یَااَحْمَدُ اَعْطِہٖ قِطْعَۃً مِّنْ ھٰذِہٖ لِیَاْکُلَ وَیَتَقَوّٰی فَاَعْطَیْتُہٗ فَاَخَذَیَاکُلُ عَلٰی مَقَامِہٖ کَالْحَرِیْصِیْنَ ۔ ثُمَّ رَاَیْتُ اَنَّ کُرْسِیَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسِلَّمَ قَدْرُفِعَ حِتّٰی قَرُبِ مِنَ السَّقْفِ وَرَاَیْتُہٗ فِاِذِاوَجْھُہٗ یَتَلَأ لَاُ ۔ کَاَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ذَرَّتَاعَلَیْہِ
اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی۔ میں نے عرض کیا۔ حضور ﷺ یہ میری ایک تصنیف ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا۔اس کتاب کا کیا نام ہے۔ تب میں نے حیران ہوکر کتاب کو دوبارہ دیکھا تو اسے اس کتاب کے مشابہ پایا جو میرے کتب خانہ میں تھی اور جس کا نام قطبی ہے۔ میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ اس کا نام قطبی ہے۔ فرمایا اپنی یہ کتاب قطبی مجھے دکھا۔جب حضور ﷺ نے اسے لیا تو حضو ر ﷺ کا مبارک ہاتھ لگتے ہی وہ ایک لطیف پھل بن گیا۔جو دیکھنے والوں کیلئے پسندیدہ تھا۔جب حضور ﷺنے اسے چیرا۔ جیسے پھلوں کو چیرتے ہیں تو اس سے بہتے پانی کی طرح مفّا شہد نکلا۔ اور میں نے شہد کی طراوت آنحضرت ﷺ کے داہنے ہاتھ پر انگلیوں سے کہنیوں تک دیکھی اور شہد حضور ﷺ کے ہاتھ سے ٹپک رہا تھا۔ اور آنحضرت ﷺ گویا مجھے اس لئے وہ دکھا رہے ہیں تا مجھے تعجب میں ڈالیں۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ دروازے کی چوکھٹ کے پاس ایک مردہ پڑا ہے جس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ نے اس پھل کے ذریعہ مقدر کیا ہوا ہے اور یہی مقدر ہے کہ نبی کریم ﷺ اس کو زندگی عطا کریں۔ میں اسی خیال میں تھا کہ دیکھا کہ اچانک وہ مُردہ زندہ ہوکر دوڑتا ہوا میرے پاس آگیا اور میرے پیچھے کھڑا ہوگیا مگر اس میں کچھ کمزوری سی تھی گویا وہ بھوکا تھا تب نبی کریم ﷺ نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اس پھل کے ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا ان میں سے حضور ﷺنے خود کھایا اور باقی سب مجھے دے دیئے ان سب ٹکڑوں سے شہد بہہ رہا تھا۔ اور فرمایا۔ اے احمد! اس مُردہ کو ایک ٹکڑا دے دو تا اسے کھا کر قوت پائے۔ میں نے دیا تو اس نے حریصوں کی طرح اسی جگہ ہی اسے کھانا شروع کردیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺکی کرسی اونچی ہوگئی ہے‘ حتیٰ کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ ﷺ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج
وَکُنْتُ اَنْظُرُ اِلَیْہِ وَعَبَرَالِّیْ جَارِیَۃٌ ذَوْقًاوَّوَ جْدًا ۔ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ وَاَنَامِنَ الْبَاکِیْنَ۔ فَاَلْقَی اللّٰہُ فِیْ قَلْبِیْ اِنَّ الْمَیِّتَ ھُوَالْاِسْلَامُ ۔ وَسَیُحْیِیْہِ اللّٰہُ عَلٰی یَدِیْ بِفُیُوْضٍ رُوْحَانِیَّۃٍ مِّنْ رُّسُوْلِ اللّٰہِ صِلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَایُدْ رِیْکُمْ لَعَلَّ الْوَقْتَ قَرِیْبٌ فَکُوْنُوْامِنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ وَفِیْ ھٰذِہِ الرُّؤْیِا رَبَّانِی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیِدِہٖ وَکَلَامِہٖ وُاَنْوَارِہٖ وَھَدِیَّۃِ اَثْمَارِہٖ ۔1
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 548، 549)
(ب) ’’اِس اَحقر نے 1864 ء2یا 1865 عیسوی میں یعنی اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حِصّہ میں ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھا، جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ اوراُس وقت اِس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اِس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پُوچھا کہ تُو نے اِس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام مَیں نے قطبی رکھا ہے۔ جس نام کی تعبیر اَب اِس اشتہاری کتاب3 کے تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اورمستحکم ہے۔ جس کے کامل استحکام کو پیش کرکے دس10 ہزارروپیہ کا اِشتہار دیاگیا ہے۔
غرض آنحضرتؐ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی۔ اورجب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجنابؐ کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوشرنگ اورخوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدرِ تربُوزتھا۔ آنحضرت ﷺنے جب اُس میوہ کو تقسیم کرنے کیلئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہدنکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مِرفق تک شہد سے
اور چاند کی شعاعیں پڑرہی ہیں۔ میں آپ ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور ذوق اور وجد کی و جہ سے میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر میں بیدار ہوگیا۔ اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مُردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اسے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا۔ اور تمہیں کیا پتہ شاید یہ وقت قریب ہو اس لئے تم اس کے منتظر رہو۔ اور اسرؤیامیں آنحضرت ﷺ نے اپنے دست ِ مبارک سے‘ اپنے پاک کلام سے اپنے انوار سے اور اپنے (باغِ قدس کے) پَھلوں کے ہدیہ سے میری تربیت فرمائی تھی۔
1 یہ رویاء براہین احمدیہ میں بھی مذکور ہے مگر اس میں اس کے شروع کا اور آخر کا حصہ اس تفصیل سے بیان نہیں ہؤا۔ اِس لئے اسے آئینہ کمالاتِ اسلام میں سے لیکر درج کیا گیا ہے۔ (مرتّب)
2 یہ تاریخ غالباً سرسری طورپر ایک موٹے اندازہ کی بناء پر لکھی گئ ہے کیونکہ یہ رؤیا حضور کے زمانہ آغازِ جوانی کا ہے جبکہ آپ ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھے جس کے بعد کچھ عرصہ آپ سیالکوٹ تشریف فرمارہے۔ اورتریاق القلوب صفحہ 57 سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ تیجاسنگھ صاحب کی وفات (جو 1862 میں ہوئی تھی۔ دیکھئے کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب)کا واقعہ انہی ایام کا ہے جب حضور سیالکوٹ میں رہتے تھے۔ پس یہ رؤیا دراصل 1864 سے کئی سال قبل کا ہے۔ واللہ علم بالصّواب۔ (مرتّب)
3 براہین احمدیہ (مرتّب)
بھر گیا۔ تب ایک مُردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا۔ آنحضرتؐ کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا۔ اور یہ عاجز آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اور آنحضرتؐ بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔
پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺ نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا۔ اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی۔ اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھاچکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی۔ اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں‘ ایسا ہی آنحضرت ﷺ کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی۔ کہ جو دین ِ اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی۔ تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھُل گئی۔ وَالْحَمْدُلِلہِ عَلیٰ ذٰلِک۔‘‘
)براہین احمدیہ حصہ سوم۔ صفحہ 248،249۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر1(
نوجوانی کے زمانہ میں
’’ وَرَاَیْتُ فِیْ غُلَوَآئِ شَبَابِیْ وَ عِنْدَ دَوَاعِی التَّصَابِیْ کَاَنِّیْ دَخَلْتُ فِیْ مَکَانٍ۔ وَفِیْہِ حَفَدَتِیْ وَخَدَمِیْ۔فَقُلْتُ طَھِّرُوْا فِرَاشِیْ۔ فَاِنَّ وَقْتِیْ قَدْ جَآئَ۔ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ۔ وَخَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ۔ وَذَھَبَ وَھْلِیْ اِلٰی اَنَّنِیْ مِنَ الْمَائِتِیْنَ۔1‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ 548)
1861ء (تخمیناً)
’’مجھے یاد ہے کہ شاید چونتیس برس کا عرصہ گذرا ہوگا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ شیطان سیاہ رنگ اور بدصورت کھڑا ہے۔ اوّل اس نے میری طرف توجہ کی۔ اور میں نے اس کو منہ پر طمانچہ مار کر کہا کہ دُور ہو اَے شیطان۔ تیرا مجھ میں حصہ نہیں۔ اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف گیا اور اس کو اپنے ساتھ کرلیا۔ اور جس کو اپنے ساتھ کرلیا اس کو میں جانتا تھا۔ اتنے میں آنکھ کھُل گئی۔
اسی دن یا اس کے بعد اس شخص کو مرگی پڑی۔ جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ شیطان نے اس کو ساتھ کرلیا تھا اور
1 (ترجمہ از مرتّب) میں نے ایک دفعہ اوائل ایام جوانی میں اور جب کہ کھیل کود کے اسباب کی طرف طبائع کا میلان ہوتا ہے‘ رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک مکان کے اندر داخل ہوا ہوں جس میں میرے خادم اور نوکر چاکر موجود ہیں۔میں نے انہیں کہا کہ میرے مکان کو درست اور میرے بستر کو پاک و صاف کرو۔کیونکہ اب میرا وقت آگیا ہے۔اس کے بعدمیری آنکھ کھُل گئی۔ اس وقت مجھ پر اپنی جان کے متعلق خطرہ و اندیشہ کی حالت طاری ہوئی۔اور میرا خیال اس طرف گیا کہ اب میری موت کا وقت آگیا ہے خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ ’’فان وقتی قد جَآءَ‘‘سے حضور نے اس وقت یہ تعبیر لی تھی کہ میرے مرنے کا وقت آگیا ہے۔مگر جیسا کہ بعد کے حالات سے ظاہر ہوا ‘ اس سے مراد یہ تھی کہ میری بعثت کا وقت آگیا ہے اور اس کی تائید آپ کے دوسرے الہام بخرام کے وقت ِتو نزدیک رسید سے بھی ہوتی ہے۔واللہ اَ علم بالصّواب۔
صرع کی بیماری میں گرفتار ہوگیا۔ اِس سے مجھے یقین ہوا کہ شیطان کی ہمراہی کی تعبیر مرگی ہے۔‘‘
(معیار المذاہب حاشیہ صفحہ 18‘ ملحقہ رسالہ نورالقرآن مطبوعہ اپریل 1896 ء)
1862ء
’’ لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے را جہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر ان کو اطلاع دی کہ وہ را جہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے۔ فوت ہوگئے ہیں اور انہو ں نے اس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا۔ اورجب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور انہوں نے آتے ہی مسٹرمکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست تیار ہونی چاہئے کیونکہ وہ کل بٹا لہ میں فوت ہوگئے۔ تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پاکر نہایت تعجب کیا کہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی۔ اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے دیکھو صفحہ 256۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 57، روحانی خزائن جلد نمبر 1حصہ سوم صفحہ 284)
1865ء (قریباً)
’’تیس برس کا عرصہ ہوا کہ مجھے صاف صاف مکاشفات کے ذریعہ سے اُن1کے حالات دریافت ہوئے تھے۔ اگر میں جزماً کہوں تو شاید غلطی ہو۔ مگر میں نے اُسی زمانہ میں ایک دفعہ عالمِ کشف میں اُن سے ملاقات کی۔ یا کوئی ایسی صورتیں تھیں جو ملاقات سے مشابہ تھیں۔ چونکہ زمانہ بہت گذر گیا ہے۔ اس لئے اصل صورت اُس کشف کی میرے ذہن سے فرو ہوگئی ہے۔‘‘
(ست بچن طبع اوّل صفحہ 29 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 141)
1865ء (قریباً)
’’چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ دشمن میری موت کی تمنا کریں گے۔ تا یہ نتیجہ نکالیں کہ جھوٹا تھا تبھی جلدی مر گیا۔ اس لئے پہلے ہی سے اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:۔
ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْ قَرِیْباً مِّنْ ذَالِکَ۔ اَوْتَزِیْدُ عَلَیْہِ سِنِیْناً۔ وَتَرٰی نَسْلاً بَعِیْداً۔
یعنی تیری عمر اَسّی برس کی ہوگی یا دو چار کم یا چند سال زیادہ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دُور کی نسل کو دیکھ لے گا۔ اور یہ الہام قریباً پینتیس برس سے ہوچکا ہے۔‘‘
(اربعین نمبر 3 صفحہ 29، 30 وضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 19 طبع اوّل، روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 66)
1 باوا نانک رحمتہ اللہ علیہ۔ (مرتّب)
1868ء
’’ یک مقدمہ میں کہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنے زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا۔ اس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اِس مقدمہ میں ڈگری ہوجائے گی۔ چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ1 کوکہ جو قادیان میں موجود ہے بتلا دی۔
پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مدعا علیہ مع اپنے چند گواہوں کے عدالت میں حاضر ہوا۔ اور اِس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہوا۔ شام کو مدعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا۔
اس خبر کو سنتے ہی وہ آریہ تکذیب اور استہزاء سے پیش آیا۔ اُس وقت جس قدر قلق اور کرب گذرا ‘ بیان میں نہیں آسکتا۔ کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہِ کثیر کا بیان جن میں بے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو۔ اس سخت حزن اور غم کی حالت میں نہایت شدت سے الہام ہوا۔ کہ جو آ ہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل ہوگیا۔ اور وہ یہ تھا:۔
ڈگری ہوگئی ہے۔ مسلمان ہے!
یعنی کیا تو باور نہیں کرتا۔ اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے؟
آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری2 ہی ہوئی تھی۔ اور فریق ثانی نے حکم سننے میں دھوکہ کھایا تھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم طبع اوّل صفحہ 551، 553 حاشیہ درحاشیہ نمبر4، روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 658، 659)
1868ء
’’ایک مرتبہ جب انہوں3 نے اس ضلع4 میں وکالت کا امتحان دیا۔ تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے اُن کو بتلایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا مقدر ہے کہ اس ضلع کے کُل اشخاص جنہوں نے وکالت یا مختاری کا امتحان دیا ہے۔ فیل ہوجائیں گے۔ مگر سب میں سے صرف تم ایک ہو کہ وکالت میں پاس ہوجاؤ گے۔ اور یہ خبر میں نے تیس 30کے قریب اور لوگوں کو بھی بتلائی۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور سیالکوٹ کی تمام جماعت کی جماعت جنہوں نے وکالت یا مختاری کاری کا امتحان دیا تھا فیل کئے گئے
1 لالہ شرمپت (تریاق القلوب صفحہ 37، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 206) (مرتّب)
2 حاکم مجوز نے جس کا نام حافظ ہدایت علی تھا صرف مدعا علیہ کے بیان پر کہ ہمیں حسب ِفیصلہ صاحب کمشنر درخت کاٹ لینے کا حق حاصل ہے مقدمہ کو خارج کردیا اور مدعا علیہ کو حکم سنا کر معہ اس کے گواہوں کے رخصت کردیا۔اس پر انہوں نے گاؤں میں آکر مشہور کردیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے۔لیکن جب وہ عدالت کے کمرہ سے نکل گئے تو اس وقت مِثل خواں نے جو اتفاقاً باہر گیا ہوا تھا حاکم کو کہا کہ آپ نے اس مقدمہ میں دھوکہ کھایا ہے اور جو فریق ثانی نے نقل روبکار صاحب کمشنر پیش کی ہے وہ حکم تو فنانشل صاحب کے حکم سے منسوخ ہوچکا ہے اور اس نے روبکار دکھلا دی۔تب ہدایت علی کی عقل نے چکر کھایا اور اسی وقت اپنی روبکار پھاڑ دی اور ڈگری کی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 143 ، 144)
3 لالہ بھیمؔ سین صاحب وکیل سیالکوٹ (مرتّب) 4 سیالکوٹ (مرتّب)
اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہوگئے.....اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے۔ دیکھو صفحہ 256۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 57 ، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 256)
1868ء(قریباً)
’’ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے بھائی غلام قادر صاحب سخت بیمار ہیں۔ سو یہ خواب بہت سے آدمیوں کو سنایا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ سخت بیمار ہوگئے۔
تب میں نے ان کیلئے دعا شروع کی۔ تو دوبارہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے ایک بزرگ فوت شدہ اُن کو بلا رہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیربھی موت ہوا کرتی ہے چنانچہ ان کی بیماری بہت بڑھ گئی۔ اور وہ ایک مُشتِ استخواں سے رہ گئے۔ اس پر مجھے سخت قلق ہوا۔ اور میں نے ان کی شفا ء کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی.......سو جب میں نے دعا میں مشغول ہوا تو میں نے کچھ دنوں کے بعد خواب میں دیکھا کہ برادرمذکورپورے تندرست کی طرح بغیر سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں۔ چنانچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اُن کو شفاء بخشی اور وہ اس واقعہ کے بعد پندرہ برس تک زندہ رہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 217 ، روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 595 )
1868ء(تخمیناً)
’’ایک شخص سہج رام نام امرتسر کی کمشنری میں سر رشتہ دار تھا اور پہلے وہ ضلع سیالکوٹ میں صاحب ڈپٹی کمشنر کا سر رشتہ دار تھا۔ اور وہ مجھ سے ہمیشہ مذہبی بحث کیا کرتا تھا۔ اور دین ِ اسلام سے فطرتاً ایک کینہ رکھتا تھا۔ اور ایسا اتفاق ہوا کہ میرے ایک بڑے بھائی تھے۔ انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا۔ اور امتحان میں پاس ہوگئے تھے۔ اوروہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے۔ اور نوکری کے امیدوار تھے۔ ایک دن میں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا ۔ جب میں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ اُلٹانا چاہا۔ تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سہج رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میرے پر رحم کرادو۔ میں نے اُس سے کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں۔ اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا۔ کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہوگیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی۔ بعد اس کے میں نیچے اترا۔ اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کی نوکری کے بارہ میں باتیں کررہے تھے۔ میں نے کہا کہ اگر پنڈت سہج رام فوت ہوجائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے۔ ان سب نے میری بات سن کر قہقہہ مارکر ہنسی کی کہ کیا چنگے بھلے کو مار تے ہو۔ دوسرے یا تیسرے دن خبر آگئی کہ اُسی گھڑی سہج رام ناگہانی موت سے اِس دنیا سے گذر گیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 296 ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 309 )
1868 ء یا 1869 ء
(ا) ’’1868 یا 1869 میں بھی ایک عجیب الہام اُردو میں ہوا تھا ..... اور تقریب اِس
1 میرزا غلام قادر صاحب کی وفات 1883 ء میں ہوئی تھی۔ (کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب) (مرتّب)
الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے۔ جب نئے نئے مولوی ہوکر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو اُن کے خیالات گراں گذرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کیلئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا۔ چنانچہ اس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو معہ ان کے والد صاحب کے مسجد میں پایا۔
پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کرلیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل ِ اعتراض ہو۔ اس لئے خاص اللہ کیلئے بحث کو ترک کیا گیا۔ رات کو خداوند ِ کریم نے اپنے الہام اور مخا طبت میں اسی ترکِ بحث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ
تیرا خدا تیر ے اس فعل سے راضی ہوا۔ اور وہ تجھے بہت برکت دے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
پھر بعد اُس کے عالم ِ کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے۔
چونکہ خا لصاً خدا اور اس کے رسول کیلئے انکسار اور تذلل اختیار کیا گیا۔ اس لئے اس محسن ِ مطلق نے نہ چاہا کہ اس کو بغیر اجر کے چھوڑے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ صفحہ 520 ، 521 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 ، روحانی خزائن ، جلد نمبر1 صفحہ621 ، 622 )
(ب) مجھے اللہ جل شانہ‘ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا۔ اور مجھے اس نے فرمایا کہ
’’میں تجھے برکت پر برکت دوں گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ1 تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘
(برکات الدعاء صفحہ 30 طبع اوّل2، روحانی خزائن جلد نمبر6 صفحہ 35)
(ج) ’’یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے۔ اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہوگی۔
پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے۔ وہ گھوڑوں پر سوار تھے۔ اور چھ سات سے کم نہ تھے۔ ‘‘
(الحکم جلد 6 نمبر 38 مورخہ 24 اکتوبر 1902 ء صفحہ 10 کالم نمبر 2 ، 3)
1 عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اورکہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جوأ اُٹھائیں گے اورخداانہیں برکت دے گا۔ (تجلیاتِ الٰہیہ حاشیہ صفحہ 21 طبع اوّل)
2 ( نیز تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 21 ، روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 409 ، 420)
(د) 1 اِ نِّیْ رَاَ یْتُ فِیْ مُبَشِّرَۃٍ اُرِیْتُھَا جمَاعَۃً مِّنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ وَالْمُلُوْکِ الْعَادِ لِیْنَ الصَّالِحِیْنَ۔ بَعْضُھُمْ مِنْ ھٰذَا الْمُلْکِ وَبَعْضُہُمْ مِنَ الْعَرَبِ وَبَعْضُہُمْ مِنْ فَارِسَ۔ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ بِلَادِ الشَّامِ۔ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ اَرْضِ الرُّوْمِ۔ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ بِلَادٍ لَّا اعْرِفُھَا۔ ثُمَّ قِیْلَ لِیْ مِنْ حَضْرَۃِ الْغَیْبِ اِنَّ ھٰٓؤُ لَآءِ یُصَدِّ قُوْ نَکَ وَ یُؤْ مِنُوْنَ بِکَ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ وَیَدْ عُوْنَ لَکَ۔ وَاُعْطِیْ لَکَ بَرَکَاتٍ حَتّٰی یَتَبَرَّکَ الْمُلُوْکُ بِثِیَا بِکَ وَ اُدْ خِلُھُمْ فِی الْمُخْلِصِیْنَ ھٰذَا رَاَیْتُ فِی الْمَنَامِ وَاُلْھِمْتُ مِنَ اللّٰہِ الْعَلَّامِ۔‘‘
(لُجّہّ النّور صفحہ 3 ،4 روحانی خزائن جلد نمبر 16 صفحہ 339 ، 340 )
1870ء
)ا) ’’عرصہ تخمیناًبارہ برس کا ہوا ہے کہ ایک ہندو 2صاحب کہ جو اَب آریہ سماج قادیان کے ممبر اور صحیح و سلامت موجود ہیں۔ حضرت خاتم الرّسل صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آنجناب کی پیشین گوئیوں سے سخت منکر تھا...... اس ہندو صاحب کا ایک عزیز 3کسی ناگہانی پیچ میں آکر قید ہوگیا۔ اور اُس کے ہمراہ ایک اور ہندو 4بھی قید ہوا۔ اور اُن دونوں کا چیف کورٹ میں اپیل گذرا۔ اُس حیرانی اور سرگردانی کی حالت میں ایک دن اُس آریہ صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی کہ غیبی خبر اِسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلاسکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے.........تب میرے دل میں خدا کی طرف سے یہی جوش ڈالا کہ خدا اُس کو اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لاجواب کرے۔ اور میں نے دعا کی کہ اے خداوند ِ کریم۔ تیرے نبی کریم کی عزت اور عظمت سے یہ شخص سخت منکر ہے۔ اور تیرے نشانوں اور پیشین گوئیوں سے جو تُونے اپنے رسول پر ظاہر فرمائیں۔ سخت انکاری ہے اور اس مقدمہ کی آخری حقیقت کھلنے سے یہ لاجواب ہوسکتا ہے۔ اور تو ہربات پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی امر تیرے علم محیط سے مخفی نہیں۔
1 (ترجمہ از مرتب) میں نے ایک مبشر خوا ب میں مخلص مومنوں اور عادل اور نیکوکار بادشاہوں کیایک جماعت دیکھی۔ جن میں سے بعض اسی ملک (ہند ) کے تھے اور بعض عرب کے۔ بعض فارس کے اور بعض شام کے بعض روم کے۔ اور بعض دوسرے بلاد کے تھے۔ جن کو میں نہیں جانتا۔ اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اورتیرے لئے دعائیں کریں گے۔ اور میں تجھے بہت برکتیں دوں گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اور میں ان کو مخلصوں میں داخل کروں گا۔ یہ وہ خواب ہے جو میں نے دیکھی اور وہ الہام ہے جو خدائے علّام کی طرف سے مجھے ہوا۔
2 لالہ شرمپت (مرتّب)
3 لالہ بشمبر داس (مرتّب)
4 خوشحال چَند نامی (مرتّب)
تب خدا نے جو اپنے سچے دین ِ اسلام کا حامی ہے۔ اور اپنے رسول کی عزت اور عظمت چاہتا ہے۔ رات کے وقت رؤیا میں کُل حقیقت مجھ پر کھول دی۔ اور ظاہر کیا کہ تقدیرِ الٰہی میں یوں مقدر ہے کہ اس کی مثل چیف کورٹ سے عدالت ِ ماتحت میں پھر واپس آئے گی۔ اور پھر اس عدالت ِ ماتحت میں نصف قید اُس کی تخفیف ہوجائے گی۔ مگر بَری نہیں ہوگا۔ ۔ اور جو اُس کا دوسرا رفیق ہے۔ وہ پوری قید بھُگت کر خلاصی پائے گا۔ اور بَری وہ بھی نہیں ہوگا۔
پس میں نے اس خواب سے بیدار ہوکر اپنے خداوند ِ کریم کا شکر کیا۔ جس نے مخالف کے سامنے مجھ کو مجبور ہونے نہ دیا۔ اور اسی وقت میں نے یہ رؤیاایک جماعت کثیر کو سنا دیا۔ اور اُس ہندو صاحب کو بھی اُسی دن خبر کردی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ سوم صفحہ 251 ، 252 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1 ، روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 277 ، 279 )
(ب) ’’ بشمبر داس بقید ایک سال مقید ہوگیا تھا۔ اور اس کے بھائی شرمپت نام نے جو سرگرم آریہ ہے۔ مجھ سے دعا کی التجا کی تھی۔ اور نیز یہ پوچھا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ میں نے دعا کی اور کشفی نظر سے میں نے دیکھا کہ میں اس دفتر میں گیا ہوں جہاں اس کی قید کی مثل تھی۔ میں نے اس مثل کو کھولا۔ اور برس کا لفظ کاٹ کر اس کی جگہ چھ مہینے لکھ دیا۔
اور پھر الہام الٰہی سے بتلایا۔ کہ مثل چیف کورٹ سے واپس آئیگی۔ اور برس کی جگہ چھ مہینے رہ جائے گی۔ لیکن بَری نہیں ہوگا۔ چنانچہ میں نے یہ تمام کشفی واقعات شرمپت آریہ کو جو اَب تک زندہ موجود ہے۔ نہایت صفائی سے بتلادیئے۔
اور جب میں نے بتلایا ۔ بعینہٖ وہ باتیں ظہور میں آگئیں۔ تو اُس نے میری طرف لکھا کہ آپ خدا کے نیک بندے ہو۔ اس لئے اس نے آپ پر غیب کی باتیں ظاہر کردیں۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 35 طبع اوّل ، روحانی خزائن جلد نمبر 12 صفحہ 37)
1870ء (تخمیناً)
(ا) ’’ اِس رؤیاصادقہ میں کہ ایک کشفِ صریح کی قسم تھی۔ یہ معلوم کرایا گیا تھا۔ کہ ایک کھتری ہندو بشمبر داس نامی جو اَ ب تک قادیان میں بقیدِ حیات موجو دہے۔ مقدمہ فوجداری سے بَری نہیں ہوگا۔ مگر آدھی قید تخفیف ہوجائے گی۔ لیکن اُس کا دُوسرا ہم قید خوشخال نامی کہ وہ بھی اب تک قادیان میں زندہ موجود ہے ساری قید بھگتے گا۔ سو اس جزوِ کشف کی نسبت یہ ابتلا پیش آیا کہ جب چیف کورٹ سے حسب پیشگوئی ایں عاجز مثل مقدمۂ مذکورہ واپس آئی۔ تو متعلقین مقدمہ نے اُس واپسی کو بریت پر حمل کرکے گاؤں میں یہ مشہور کردیا کہ دونوں ملزم جرم سے بَری ہوگئے ہیں۔ مجھ کو یاد ہے کہ رات کے وقت میں یہ خبر مشہور ہوئی۔ اور یہ عاجز مسجد میں عشاء کی نماز پڑھنے کو تیار تھا کہ ایک نے نمازیوں میں سے بیان کیا کہ یہ خبر بازار میں پھیل رہی ہے اور ملزمان گاؤں میں آگئے ہیں۔ سو چونکہ یہ عاجز اعلانیہ لوگوں میں کہہ چکا تھا۔ کہ دونوں مجرم ہرگز جرم سے بَری نہیں ہوں گے۔ اِس لئے جو کچھ غم اور قلق اور کرب اس وقت گذرا سو گذرا۔ تب خدا نے کہ جو اس عاجز بندہ کا ہریک حال میں حامی ہے۔ نماز کےا وّل یا عین نمازمیں بذریعہ الہام یہ بشارت دی
لَاتَخَفْ1 اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی
اور پھر فجر کو ظاہر ہوگیا کہ وہ خبر بَری ہونے کی سراسر جُھوٹی تھی اورانجام کار وہی ظہور میں آیا کہ جو اِس عاجز کو خبر دی گئی تھی۔ جس کو شرمپت نامی ایک آریہ اور چنددوسرے لوگوں کے پاس قبل از وقوع بیان کیا گیا تھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ چہارم صفحہ 550 ، 551 حاشیہ در حاشیہ نمبر 4 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 657 ، 658 )
(ب) ’’جب بشمیر داس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نمازِ عشاء کے وقت جب مَیں اپنی بڑی مسجد میں تھا،علی محمدنام ایک مُلّاں ساکن قادیان نے جو اَب تک زندہ اورہمارے سلسلہ کا مخالف ہے میرے پاس آکر بیان کیا کہ اپیل منظورہوگئی اور بشمبرداس بَری ہوگیا اور کہا کہ بازار میں اس خوشی کا ایک جوش برپا ہے۔ تب اس غم سے میرے پر وہ حالت گذری جس کو خدا جانتا ہے۔ اُس غم سے میں محسوس نہیں کرسکتا تھا کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا۔ تب اسی حالت میں نماز شروع کی گئی۔ جب میں سجدہ میں گیا۔ تب مجھے یہ الہام ہوا:۔
لَاتَحْزَنْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی
یعنی غم نہ کر تجھ کو ہی غلبہ ہوگا۔
تب میں نے شرمپت کو اس سے اطلاع دی۔ اور حقیقت یہ کھلی کہ اپیل صرف لیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ بشمبرداس بَری کیا گیا ہے۔‘‘ (قادیان کے آریہ اور ہم ۔ صفحہ 28 ، 29 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 657 ، 658 )
1871ء( تخمیناً)
’’تیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا۔ جب میں تپ سے سخت بیمار ہوا۔ اس قدر شدید تپ مجھے چڑھی ہوئی تھی۔ کہ گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ اس اثناء میں مجھے الہام ہوا:۔
وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ 2
(الحکم جلد 6 نمبر 28 مؤرخہ10 اگست1902 ء صفحہ11 کالم نمبر 2)
1872ء (تخمیناً)
فرمایا کہ ’’ شاید کوئی تیس برس کا عرصہ گذرا ہوگا کہ میں نے بھی ایک خواب دیکھا۔ کہ اَب جس مقام پر مدرسہ کی عمارت ہے ‘ وہاں بڑی کثرت سے بجلی چمک رہی ہے۔ بجلی چمکنے کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ وہاں آبادی ہوگی۔‘‘
(البدؔرجلد 1 نمبر8 مورخہ 19 دسمبر 1902 ء صفحہ 58 کالم نمبر 3)
1 (ترجمہ از مرتّب) خوف مت کر تُو ہی غالب رہے گا۔
2 مسجد اقصٰی (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اور جو وجود لوگوں کے لئے نفع رساں ہو وہ زمین پر زیادہ دیر تک قائم رہتا ہے۔
1872 ء (تخمیناً)
’’تخمیناً دس برس کا عرصہ ہوا ہے جو میں نے خواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا۔ اور مسیح نے اور میں نے ایک جگہ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا۔ اور کھانے میں دونوں ایسے بے تکلف اور بامحبت تھے کہ جیسے دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں اور جیسے قدیم سے دو رفیق اور دلی دوست ہوتے ہیں اور بعد اُس کے اسی مکان میں جہاں اَب یہ عاجز اس حاشیہ کو لکھا رہا ہے۔ میں اور مسیح اور ایک اور کامل اور مکمل سید آلِ رسول دالان میں خوشدلی سے ایک عرصہ تک کھڑے رہے اور سید صاحب کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ اُس میں بعض افراد خاصۂ اُمّتِ محمدیہ کے نام لکھے ہوئے تھے۔ اور حضرت ِ خداوند تعالیٰ کی طرف سے اُن کی کچھ تعریفیں لکھی ہوئی تھیں۔ چنانچہ سید صاحب نے اس کاغذ کو پڑھنا شروع کیا۔ جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسیح کو اُمّت ِ محمدیہ کے اُن مراتب سے اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ جو عنداللہ اِن کیلئے مقرر ہیں۔ اور اُس کاغذ میں عبارت تعریفی تمام ایسی تھی کہ جو خالص خدائے تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ سو جب پڑھتے پڑھتے وہ کاغذ اخیر تک پہنچ گیا۔ اور کچھ تھوڑا ہی باقی رہا۔ تب اِس عاجز کا نام آیا۔ جس میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ عبارت تعریفی عربی زبان میں لکھی ہوئی تھی:۔
ھُوَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ و تَفْرِیْدِیْ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔
یعنی وہ مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید۔ سو عنقریب لوگوں میں مشہور کیا جائے گا۔
یہ اخیر فقرہ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاس اسی وقت بطورِ الہام بھی القا ہوا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 253 ، 254 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 طبع اوّل روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 280 281)
1872 ء (تخمیناً)
’’ایک دفعہ میں نے باوا نانک صاحب کو خواب میں دیکھا کہ اُنہوں نے اپنے تئیں مسلمان ظاہر کیا ہے1اور میں نے دیکھا کہ ایک ہندو ان کے چشمہ سے پانی پی رہا ہے۔ پس میں نے اس ہندو کو کہا کہ یہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمے سے پانی پیو۔ تیس برس کا عرصہ ہوا ہے۔ جبکہ میں نے یہ خواب یعنی باوا نانک صاحب کو مسلمان دیکھا۔ اسی وقت اکثر ہندوؤں کو سنایا گیا تھا۔ اور مجھے یقین تھا کہ اس کی کوئی تصدیق پیدا ہوجائے گی۔ چنانچہ ایک مدت کے بعدوہ پیشگوئی بکمال صفائی پوری ہوگئی۔ اور تین سو برس کے بعد وہ چولہ ہمیں دستیاب ہوگیا کہ جو ایک صریح دلیل
1 ’’میری خواب میں جو باوا نانک صاحب نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اس سے یہی مراد تھی کہ ایک زمانہ میں ان کا مسلمان ہونا پبلک پر ظاہر ہوجاءے گا چنانچہ اِس امر کے لیے کتاب سَت بچن تصنیف کی گئی تھی اور یہ جو مَیں نے ہندوؤں کو کہا کہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمہ سے پانی پیؤاس سے یہ مراد تھی کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اہلِ ہنوداورکّھوں پر اِسلام کی حقانیت صاف طور سے کُھل جائے گی اورباوا صاحب کا چشمہ جس کو حال کے سکّھوں نے اپنی کم فہمی سے گدلا بنا رکھا ہے وہ میرے ذریعہ صاف کیا جائے گا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 205 طبع اوّل، روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 583)
باوا صاحب کے مسلمان ہونے پر ہے۔ یہ چولہ جو ایک قسم کا پیراہن ہے بمقام ڈیرہ نانک 1 باوا نانک صاحب کی اولاد کے پاس بڑی عزت اور حرمت سے بطور تبرک محفوظ ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 203 ، 204 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 581 ، 582)
(ب) ’’یہ بھی یاد رہے کہ میں نے دو مرتبہ باوا نانک صاحب کو کشفی حالت میں دیکھا ہے اور اُن کو اس بات کا اقراری پایا ہے کہ انہوں نے اُسی نور سے روشنی حاصل کی ہے۔ فضولیاں اور جھوٹ بولنا مُردار خواروں کا کام ہے۔ میں وہی کہتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا ہے۔ اسی و جہ سے میں باوا نانک صاحب کو عزت کی نظرسے دیکھتا ہوں۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ اس چشمے سے پانی پیتے تھے۔ جس سے ہم پیتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اُس معرفت سے بات کررہا ہوں کہ جو مجھے عطا کی گئی ہے۔‘‘ (از اشتہار مورخہ 18 اپریل 1897 ء ۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 396 )
1872 ء (تخمیناً(
’’مارٹن کلارک والے مقدمہ سے قریباً پچیس سال پہلے میں ایک دفعہ خواب دیکھ چکا تھا کہ میں ایک عدالت میں کسی حاکم کے سامنے حاضر ہوں اور نماز کا وقت آگیا ہے۔ تو میں نے اُس حاکم سے نماز کے لئے اجازت طلب کی۔ تو اُس نے کشادہ پیشانی سے مجھے اجازت دے دی۔
چنانچہ اِس کے مطابق اس مقدمہ میں عین دورانِ مقدمہ میں جبکہ میں نے کپتان ڈگلس سے نماز کے لئے اجازت چاہی تو اس نے بڑی خوشی سے مجھے اجازت دے دی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 210 ، روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 588)
1872ء (قریباً)
’’میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ بٹالہ کے مکانات میں ایک حویلی ہے۔ اس میں ایک سیاہ کمبل پر میں بیٹھا ہوں اور لباس بھی کمبل کی ہی طرح کا پہنا ہوا ہے۔ گویا کہ دنیا سے الگ ہوا ہوں۔ اتنے میں ایک لمبے قد کا شخص آیا اور مجھے پوچھتا ہے کہ مرزا غلام ؔاحمد مرزا غلام مرتضیٰ کا بیٹا کہاں ہے؟ میں نےکہا کہ میں ہوں۔ کہنے لگا کہ میں نے آپ کی تعریف سنی ہے کہ آپ کو اسرار دینی اور حقائق اور معارف میں بہت دخل ہے۔ یہ تعریف سن کر ملنے آیا ہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا۔ اس پر اُس نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اور بہہ کر رخسار پر پڑتے تھے۔ ایک آنکھ اُوپر تھی اور ایک نیچے۔ اور اس کے منہ سے حسرت بھرے یہ الفاظ نکل رہے تھے:۔
’’ تہیدستانِ عشرت را ‘‘
اس کا مطلب میں نے یہ سمجھا۔ کہ یہ مرتبہ انسان کو نہیں ملتا۔ جب تک کہ وہ اپنے اوپر ایک ذبح اور ایک موت وارد نہ کرے۔اس مقام پر عرب 2صاحب نے حضرت کا یہ شعر پڑھا۔ جس میں یہ کلمہ منسلک تھا
2 ضلع گورداسپور (مرتب) 2 ابوسعید صاحب ( مرتّب)
کہ مے خواہدنگارِ من تہید ستانِ عشرت را ‘‘ 1
(البدر جلد 2 نمبر 3 مورخہ 6 فروری 1903 ء صفحہ 19 کالم نمبر 3 والحکم جلد 7 نمبر3 مورخہ 24 جنوری 1903 ء صفحہ 8 کالم نمبر1)
1873 ء (تخمیناً)
’’میں مرزا صاحب (والد صاحب) کے وقت میں زمینداروں کے ساتھ ایک مقدمہ پر امرتسر میں کمشنر کی عدالت میں تھا۔ فیصلہ سے ایک دن پہلے کمشنر زمینداروں کی حمایت رعایت کرتا ہوا اور ان کی شرارتوں کی پروا نہ کرکے عدالت میں کہتا تھا کہ یہ غریب لوگ ہیں۔ تم ان پر ظلم کرتے ہو۔ اس رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ انگریز ایک چھوٹے سے بچہ کی شکل میں میرے پاس کھڑا ہے۔ اور میں اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہوں۔
صبح کو جب ہم عدالت میں گئے۔ تو اُس کی حالت ایسی بدلی ہوئی تھی۔ کہ گویا وہ پہلا انگریز ہی نہ تھا۔ اُس نے زمینداروں کو بہت ہی ڈانٹا۔ اور مقدمہ ہمارے حق میں فیصلہ کیا۔ اور ہمارا سارا خرچہ بھی ان سے دلایا۔‘‘
(الحکم جلد5 نمبر22مؤرخہ 17 جون 1901ء صفحہ 3)
1874 ء (قریباً)
’’میں نے خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا۔ جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا اور اُس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا2 ، وہ نان اُس نے مجھے دیا اور کہا کہ
یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کیلئے ہے۔
یہ اس زمانہ کی خواب ہے۔ جبکہ میں نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعویٰ رکھتا تھا۔ اور نہ میرے ساتھ درویشوں کی کوئی جماعت تھی۔ مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنادیا ہے۔ اور اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیٰحدہ ہوکر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میں آآباد ہوئے ہیں۔
اور نان سے میں نے یہ تعبیر کی تھی کہ خدا ہمارا ‘ اور ہماری جماعت کا آپ متکفل ہوگا۔ اور رزق کی پریشانگی ہم کو پراگندہ نہیں کرے گی۔
چنانچہ سالہائے دراز سے ایسا ہی ظہور میں آرہا ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 206، 207 ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 585)
1 (ترجمہ از مرتّب) کیونکر میرا محبوب آرام طلبی کی زندگی سے الگ رہنے والے لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔
2 اور بہت بڑا تھا گویا چارنان کے مقدار پر تھا۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 277۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 290)
1874 ء (قریباً)
’’ مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے کہ جو کئی کوس تک چلی جاتی ہے ۔ اور اُس نالی پر ہزار ہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں۔ اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے۔ اس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت اُن کا خون نالی میں گرے۔ اور باقی حصہ اُن کے وجود کا نالی سے باہر رہے۔ اور نالی شرقاً غرباً واقع ہے۔ بھیڑوں کے سر نالی پر جنوب کی طرف سے رکھے گئے ہیں۔ اور ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے۔ اور اُن تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھُری ہے۔ جوہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے۔ اور آسمان کی طرف اُن کی نظر ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں۔ اور میں اس میدان میں شمالی طرف پھر رہا ہوں۔ اور دیکھتا ہوں۔ کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں۔ بھیڑوں کے ذبح کرنے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں۔ محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے۔ تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی:۔
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُ کُمْ
یعنی ان کو کہدے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے۔ اگر تم اس کی پرستش نہ کرواور اس کے حکموں کو نہ سنو۔
اور میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے سمجھ لیا۔ کہ ہمیں اجازت ہوگئی۔ گویا میرے منہ کے الفاظ خدا کے لفظ 1 تھے۔ تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ فی الفور اپنی بھیڑوں پر چُھریئیں پھیر دیں۔ اور چھُریوں کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک درد ناک( طور پر) تڑپنا شروع کیا۔ تب اُن فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں۔ اور کہا کہ تم چیز کیا ہو گوہ کھانے بھیڑیں ہی ہو۔
میں نے اس کی یہ تعبیر کی۔ کہ ایک سخت وبا ہوگی۔ اور اس سے بہت سے لوگ اپنی شامت اعمال سے مریں گے۔ اور میں نے یہ خواب بہتوں کو سنادی جن میں سے اکثر لوگ اب تک زندہ ہیں اور حلفاً بیان کرسکتے ہیں۔
پھر ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور پنجاب اور ہندوستان اور خاص کر امرتسر اور لاہور میں اس قدر ہیضہ پھُوٹا کہ لاکھوں جانیں اس سے تلف ہوئیں اور اس قدر موت کا بازار گرم ہوا۔ کہ مُردوں کو گاڑیوں پر لادکر لے جاتے تھے اور مسلمانوں کا جنازہ پڑھنا مشکل ہوگیا۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 60 ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 263 ، 264)
’’فطرتاًبعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے۔ اسی طرح میری روح اور سید القادر کی روح کو خمیر فطرت سے باہم ایک مناسبت ہے۔ جس پر کشوفِ2 صحیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے۔ اِس
1 حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں:۔
’’معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ خلیفہ جو ہوتا ہے وہ آسمان سے ہوتا ہے اس لئے میں نے جو آواز دی تو انہوں نے سمجھا کہ حکم ہوگیا۔ اور جو آواز آسمان سے آنی تھی وہ میں نے کہی۔ ‘‘ (البدر جلد1نمبر 12 مورخہ 16 جنوری 1903 ء صفحہ 90)
2 اس جگہ ان کشوف کا تفصیلی ذکر نہیں ہے بلکہ ان کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے۔ (مرتب)
بات پر تیس برس کے قریب زمانہ گذر گیا ہےکہ جب ایک رات مجھے خدا نے اطلاع دی کہ اُس نے مجھے اپنے لئے اختیار کرلیا ہے۔ تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی۔ جس کی عمر قریباً اَسّی برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے۔ اور ساتھ اُن کے ایک اور بزرگ تھے۔ اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا۔ دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا۔ پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی۔ اور پھر مسجد کے باہر صحن میں نکل آئے۔ اور میں اُن کے پاس کھڑی تھی۔ اتنے میں مشرق کی طرف ایک چمکتا ہوا ستارہ نکلا۔ تب اُس ستارہ کو دیکھ کر سید عبدالقادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا۔ السَّلام علیکم اور ایسا ہی اُن کے رفیق نے السَّلام علیکم کہا۔ اور وہ ستارہ میں تھا۔ اَلْمُؤْمِنْ یَرٰی وَیُرٰی لَہ‘ ۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 65 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 224)
1875 ء (تخمیناً)
’’ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نمازِ مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غَیبتِ حِس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی۔ ایک عجیب عالم ظاہر ہوا۔ کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسے بسُرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی پیغمبرِخدا ﷺ و حضرت علی و حَسَنَین و فاطمہ زَہراء رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔
پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے۔ جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی 2 وہ تفسیر تجھ کودیتا ہے۔فالحمد لِلّٰہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 503 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598 ، 599 نیز دیکھئے تحفہ گولڑویہ صفحہ 31)
1 کتاب البریّہ کے صفحہ 166 حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف حضرت مسیح موعود علیہ الصّلٰوۃ والسّلام کے والد ماجد رحمتہ اللہ علیہ کی وفات سےکِسی قدر قبل کا ہے۔ (مرتّب)
2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کشف کی بعض تفصیلات جو دوسری جگہ بیان فرمائی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ (مرتب)
(الف) ’’ رَاَیْتُ اَنَّ عَلِیّاً رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُرِیْنِیْ کِتَاباً وَّ یَقُوْلُ ھٰذَا تَفْسِیْرُ الْقُرْاٰنِ اَنَا اَلَّفْتُہ‘ وَاَمَرَنِیْ رَبِّیْ اَنٰ اَعْطِیَکَ۔ فَبَسَطْتُّ اِلَیْہِ یَدِیْ وَاَخَذْتُہ‘۔ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرٰی وَیَسْمَعُ وَلَا یَتَکَلَّمُ وَکَاَ نَّہ‘ حَزِیْنٌ لِّاَ جَلِ بَعْضِ اَحْزَانِیْ۔ وَرَاَ یْتُہ‘فَاِذَا الْوَجْہُ ھُوَ الْوَجْہُ الَّذِیْ رَاَیْتُ مِنْ
1876ء (قریباً)
’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کازمانہ ٔ وفات بہت نزدیک تھا‘ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا۔ اور اُس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی
قَبْلُ اَنَارَتِ الْبَیْتُ مِنْ نُّورِہٖ۔ فَسُبْحَانَ اللّٰہِ خَالِقِ النُّوْرِ وَالنُّوْرَانِیِّیْنَ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 550۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 550)
(ترجمہ ازمرتب) میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھے ایک کتاب دکھاتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی تفسیر ہے جس کو میں نے تالیف کیا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو دوں۔ تب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے لے لیا اور رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے مگر آپ بولتے نہیں تھے۔ گویا آپ میرے بعض غموں کی وجہ سے غمگین تھے۔ اور میں نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کا وہی چہرہ تھا جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ آپ کے نور سے گھر روشن ہوگیا۔ پس پاک ہے وہ خدا جو نور اور نورانی وجودوں کا خالق ہے۔
(ب) ’’فَاَ عْطَانِیْ تَفْسِیْرَ کِتَابِ اللّٰہِ الْعَلَّامِ وَقَالَ ھٰذَا تَفْسِیْرِیْ۔ وَالْاٰنَ اُوْلِیْتَ فَھُنِّیْتَ بِمَا اُوْتِیْتَ فَبَسَطْتُّ یَدِیْ وَاَخَذْتُ التَّفْسِیْرَوَشَکَرْتُ اللّٰہَ الْمُعْطِیَ الْقَدِیْرَ۔ وَوَجَدْتُّہ‘ ذَاخَلْقٍ قَوِیْمٍ وَّخُلْقٍ صَمِیْمٍ وَّمُتَوَاضِعاً مُّنْکَسِرًا وَّمُتَھَلِّلاً مُّنَوَّرًا۔ وَاَقُوْلُ حَلْفًا اَ نَّہ‘ لَاقَانِیْ حِبّاً وَّ اَلْفاً۔ وَاُلْقِیَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّہ‘ یَعْرِفُنِیْ وَعَقِیْدَ تِیْ وَیَعْلَمُ مَا اُخَالِفُ الشِّیْعَۃَ فِیْ مَسْلَکِیْ وَمَشْرَبِیْ وَلٰکِنْ مَا شَمَخَ بِاَنْفِہٖ عَنْفًا وَّ مَانَاٰ بِجَانِبِہٖ اَنْفًا بَلْ وَافَانِیْ وَصَا فَانِیْ کَا لْمُحِبِّیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ۔ وَاَظْھَرَ الْمُحَبَّۃَ کَالْمُصَافِیْنَ الصَّادِقِیْنَ۔ وَکَانَ مَعَہُ الْحُسَیْنُ بَلِ الْحَسَنَیْنِ وَسَیِّدُ الرُّسُلِ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ۔ وَکانَتْ مَعَھُمْ فَتَاۃ’‘ جَمِیْلَۃً صَالِحَۃ’‘ جَلِیْلَۃ’‘ مُّبَارَکَۃ’‘ مُّطَھَّرَۃ’‘ مُّعَظَّمَۃ’‘مُؤَقَّرَۃ’‘ بَاھِرَۃُ النُفُوْرِ ظَاھِرَۃُ النُّوْرِ۔ وَوَجَدْ تُّھَا مُمْتَلَأَ ۃً مِّنَ الْحُزْنِ وَلٰکِنْ کَانَتْ کَاتِمَۃً۔ وَاَلْقِیَ نِیْ رُوْ عِیْ اَنَّھَا الزَّھْرَائُ فَاطِمَۃُ فَجَا ئَ تْنِیْ وَاَنَا مُضْطَجِع’‘ فَقَعَدَتْ وَوَضَعَتْ رَاْسِیْ عَلٰی فَخِذِ ھَاوَتَلَطَّفَتْ۔ وَرَاَیْتُ اَنَّھَا لِبَعْضِ اَخْزَا نِیْ تَحْزُنُ رَتَصْجَرُ وَتَتَحَنَّنُ وَتَقْلَقُ کَاُمَّھَاتٍ عِنْدَ مَصَائِبِ الْبَنِیْنَ۔ فَعُلِّمْتُ اَنِّیْ نَزَلْتُ مِنْھَا بِمَنْزِلَۃِ الْاِبْنِ فِیْ عِلْقِ الدِّیْنِ۔ وَخَطَرَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ حُزْنَھَا اِشَارَۃ’‘ اِلٰی مَاسَآرٰی ظُلْماً مِّنَ الْقَوْمِ وَاَ ھْلِ الْوَطَنَ وَالْمُعَادِیْنَ۔ ثُمَّ جَآئَ نِیْ الْحَسَنَانِ وَکَانَا یُبْدِاٰنِ الْمَحَبَّۃَ کَا لْاِخْوَانِ۔ وَوَافَیَانِیْ کَا لْمُوَاسِیْنَ۔ وَکَانَ ھٰذَاکَشْفاً مِّنْ کُشُوْفِ الْیَقْظَۃِ وَقَدْ مَضَتْ عَلَیْہِ بُرْھَۃ’‘ مِّنْ سِنِیْنَ۔‘‘
(سِرّالخلافۃ صفحہ 34 ، 35 ۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 358 ، 359 )
(ترجمہ از مرتّب) پس (حضرت علیؓ نے) مجھے کتاب اللہ کی تفسیر دی۔ اور کہا کہ یہ میری تفسیر ہے۔ اور اب آپ اس کے مستحق ہیں۔ آپ کو اس کتاب کا ملنا مبارک ہو۔ پھر میں نے ہاتھ بڑھا کر تفسیر لے لی۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو خوب تنومند اور اعلیٰ اخلاق کا مالک پایا۔ متواضع ‘ منکسرالمزاج چمکتے ہوئے روشن چہرے والا۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت اور شفقت سے ملے۔ اور میرے
کی پیشوائی کے لئے رکھنا سُنّتِ خاندانِ نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت ِ اہل ِ بیت رسالت کو بجا لاؤں۔
سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا..... اور ِاس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اُس زمانہ میں میرے پر کھلے۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس اُمت میں گذر چکے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی..... اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش دولستان طور پر نظر آتے تھے۔ جن کا بیان کرنا بالکل طاقت ِ تحریر سے باہر ہے۔ وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے۔ جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا۔ اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔
میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا۔ اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی۔ یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا اُن کو نہیں پہچان سکتی۔ کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے۔
غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے۔ وہ انواع و اقسام کے مکاشفات تھے..... لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے۔ اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا..... یاد رہے کہ میں نے کشف ِ صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجالانا چھوڑدیا۔ اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا۔‘‘
(کتاب البریہّ صفحہ 164 ۔ 167 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 197۔ 200 حاشیہ)
دل میں ڈالا گیا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیںاور آپ کو میرے عقیدہ کا بھی علم ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیںکہ میرا مسلک اور مشرب شیعوں کے مخالف ہے لیکن آپ اسے بُرا نہیں مناتے بلکہ آپ مجھ سے مخلص محبوں کی طرح ملے۔ اور بڑی محبت کا اظہار کیا۔ آپ کے ساتھ حسنین اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک خوبصورت عورت بھی جو صالحہ ‘ عالی مرتبہ ‘ نیک سیرت اور باوقار تھی جس کے چہرہ سے نور ٹپک رہا تھا اور میں نے اس کو غم سے بھرا ہوا پایا جسے وہ چھپا رہی تھی۔ میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بی بی فاطمۃ الزاہراء ہیں آپ میرے پاس آئیں۔ میں لیٹا ہوا تھا آپ بیٹھ گئیں اور میرا سر اپنی ران پر رکھا اور شفقت فرمانے لگیں۔ میں نے دیکھا کہ میرے بعض غموں کی و جہ سے آپ غمگین اور پریشان تھیں جیسے مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب کے وقت پریشان ہوتی ہیں۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ میری حیثیت دینی تعلق کے لحاظ سے بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ کے غم میں اس ظلم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہل ِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والا ہے۔ پھر حسنین میرے پاس آئے اور دونوں مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کا اظہار کرتے تھے اور شفیق ہمدردوں کی طرح مجھے ملے۔ اور یہ کشف بیداری والے کشوف میں سے تھا جس پر کئی سال گذر چکے ہیں۔
1876ء
’’ایک دفعہ میں نے فرشتوں کو انسانوں کی شکل پر دیکھا۔ یاد نہیں کہ دو تھے ‘ یا تین۔ آپس میں باتیں کرتے تھے۔ اور مجھے کہتے تھے کہ تُو کیوں اس قدر مشقت اُٹھاتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہوجائے۔ میں نے سمجھا کہ یہ جو 6ماہ کے روزے رکھے ہیں ان کی طرف اشارہ ہے1۔‘‘
(البدرجلد1 نمبر 12 مورخہ 16 جنوری 1903 ء صفحہ 90 ۔ الحکم جلد 7 نمبر2 مورخہ 17 جنوری 1903 ء صفحہ 5)
جون1876ء
’’ جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا۔ کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے۔میں اُس وقت لاہور میں تھا۔ جب مجھے یہ خواب آیا تھا۔ تب میں جلدی سے قادیان میں پہنچا۔ اور اُن کو مرضِ زحیر میں مبتلا پایا۔ لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہوجائیں گے۔ کیونکہ مرض کی شدت کم ہوگئی تھی۔ اور بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے۔ دوسرے دن شدتِ دوپہر کے وقت ہم سب عزیز اُن کی خدمت میں حاضر تھے۔ کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرا آرام کرلو۔ کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی۔ میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا۔ اور ایک نوکر پیر دبانے لگا۔ کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہوکر مجھے الہام ہوا۔
وَالسَّمَآئِ وَالطَّا رِقِ 2
یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضاء و قدر کا مبدء ہے۔ اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا۔
اور مجھے سمجھا یا گیا۔ کہ یہ الہام بطور عزا پُرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہوجائے گا۔ ..... اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے۔3 ‘‘
(کتاب البریہّ صفحہ159 ۔ 162 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 192۔ 195)
جون 1876 ء
’’جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہ‘ کی طرف سے یہ الہا م ہوا۔ جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ تو بشریت کی و جہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں۔ پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلا ہمیں پیش آئے گا۔ تب اُسی وقت یہ دوسرا الہام ہؤا:۔
1 اس مقام پر حضرت اقدس نے اپنا واقعہ مجاہدہ اور ششماہی روزہ کا بیان فرمایا ..... (اور) فرمایا:۔
’’ان روزوں کو میں نے مخفی طور پر رکھا۔ بعض دفعہ اظہار میں سلب ِ رحمت کا اندیشہ ہوتا ہے۔‘‘
(البدر جلد1 نمبر 12 مورخہ 16 جنوری 1903ء صفحہ 90)
2 دیکھو ذکر ِ حبیب ؑ مؤ لفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 224(مرتّب)
3 حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات 3 جون 1876ء کو ہوئی تھی۔ (مرتّب)
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَا فٍ عَبْدَہ‘
یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے۔ اور اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا۔ اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا۔ پس مجھے اُس خدا ئے عز وجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کرکے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا۔ میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفّل نہیں ہوگا۔‘‘
(کتاب البریہّ صفحہ161، 162 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 194، 195 حاشیہ)
1876 ء
’’بعض اوقات خواب یاکشف میں روحانی امور جسمانی شکل پر متشکل ہوکر مثل انسان نظر آتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب غفراللہ لہ‘ جو ایک معزز رئیس اور اپنی نواح میں عزت کے ساتھ مشہور تھے۔ انتقال کرگئے۔ تو اُن کے فوت ہونے کے بعد دوسرے یا تیسرے روز ایک عورت نہایت خوبصورت خواب میں مَیں نے دیکھی۔ جس کا حُلیہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اور اُس نے بیان کیا۔ کہ میرا نام رانی ہے۔ اور مجھے اشارات سے کہا۔ کہ میں اس گھر کی عزت اور وجاہت ہوں اور کہا کہ میں چلنے کو تھی مگر تیرے لئے رہ گئی۔‘‘ 1
(ازالہ اوہام صفحہ 213 ۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 205، 206)
’’رؤیا میں عورت سے مراد اقبال اور فتح مندی اور تائید ِ الٰہی ہوتی ہے۔‘‘
(بدر جلد 2 نمبر 24 مؤرخہ14 جون1906 ء صفحہ2 کالم نمبر 3)
1876 ء
’’ انہیں دنوں میں مَیں نے ایک نہایت خوبصورت مرد دیکھا۔ اور میں نے اسے کہا کہ تم ایک عجیب خوبصورت ہو۔ تب اُس نے اشارہ سے میرے پر ظاہر کیا۔ کہ میں تیرا بخت ِ بیدار ہوں۔
اور میرے اس سوال کے جواب میں کہ تُو عجیب خوبصورت آدمی اُس نے یہ جواب دیا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 213، 214 روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 206)2
1877 ء
’’ مرز ا اعظم بیگ سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے ہمارے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے ہماری جائیداد کی ملکیت میں حصہ دار بننے کے لئے ہم پر نالش دائر کی۔ اور ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنی فتح یابی کا یقین رکھ کر جواب دہی میں مصروف ہوئے۔ میں نے جب اس بارہ میں دعا کی۔ تو خدائے علیم کی طرف سے مجھے
1 دیکھئیے الحکم جلد 8 نمبر 22 مورخہ 10 جولائی 1904ء صفحہ 12
2 البدر جلد 3 نمبر 27 مورخہ 16 جولائی 1904ء صفحہ 4 و الحکم جلد 8 نمبر 22 مورخہ 10 جولائی 1904ء صفحہ 12
الہام ہوا کہ
اُجِیْبُ 1 کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآ ئِک
پس میں نے سب عزیزوں کو جمع کرکے کھول کر سنادیا کہ خدائے علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ تم اس مقدمہ میں ہرگز فتح یاب نہ ہوگے۔ اس لئے اس سے دست بردار ہوجانا چاہئے۔ لیکن انہوں نے ظاہری وجوہات اور اسباب پر نظر کرکے اور اپنی فتح یابی کو متیقن خیال کرکے میری بات کی قدر نہ کی۔ اور مقدمہ کی پیروی شروع کردی۔ اور عدالت ماتحت میں میرے بھائی کو فتح بھی ہوگئی۔ لیکن خدائے عالم الغیب کی وحی کے بر خلاف کس طرح ہوسکتا تھا۔ بالآخر چیف کورٹ میں میرے بھائی کو شکست ہوئی اور اس طرح اس الہام کی صداقت سب پر ظاہر ہوگئی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 212 ، 213۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 590، 591)
1877ء
’’ میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا۔ مگر شرکاء کے بارہ میں نہیں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ243، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 254)
’’اُردو میں بھی الہام ہوا تھا جو یہی2فقرہ ہے۔ اس الہام میں جس قدر خدا نے اپنے عاجز بندہ کو عزت دی ہے۔ وہ ظاہر ہے۔ ایسا فقرہ مقام محبت میں استعمال ہوتا ہے اورخاص شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہر ایک کے لئے استعمال نہیں ہوتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 243 روحانی خزائن جلد 22صفحہ254)
1877ء
’’ تخمیناً پندرہ یاسولہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا۔ یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو۔کہ اِس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا۔ اور امرتسر میں رہتا تھا اور اُس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا۔ ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں، بھیجا، اور اُس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا۔ چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا۔ اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت ِ مذہب کی و جہ سے افروختہ ہوا۔ اور اتفاقاً اُس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا۔ کہ کسی علیٰحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی۔ اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رُو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ
1 انجامِ آتھم صفحہ 181۔ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 181 میں یہ الہام یُوں مرقوم ہے یَا اَحْمَدُ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآ ئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآئِکَ۔ (مرتّب)
2 ’’یہی ‘‘ کے لفظ سے مراد اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآ ئِکَ کا ترجمہ ہےجسے حضورؑنے حقیقۃالوحی کے صفحہ 243، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 254کے متن میں درج فرمایا ہے اوروہیں سے لے کر یہاں درج کیا گیا ہے۔ (مرتّب)
تک قید1ہے۔ سو اس نے مخبر بن کر افسرانِ ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا۔
اور قبل اس کے جو مجھے اِس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو۔رؤیامیں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ یہ اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے۔
غرض میں اِس جرم میں صدر ضلع گورداسپور ہ میں طلب کیا گیا۔ اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا۔ اُنہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اِس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا۔ رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا۔ اور نیز بطور تسلی دہی کےکہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پرفیصلہ ہوجائے گا۔ اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریّت ہوجائے گی۔ ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے۔ اور کوئی طریق ِ رہائی نہیں۔ مگر میں نے اُن سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ جو ہو گا سو ہوگا۔تب اُسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور میرے مقابل پر ڈاک خانجات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا۔ اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟ تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے۔ اور میں نے اِس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا۔ مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بد نیتی سے یہ کام نہیں کیا۔ بلکہ میں نے اِس خط کو اس مضمون سے کچھ علیٰحدہ نہیں سمجھا۔ اور نہ اِس میں کوئی نج کی بات تھی۔ اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اِس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا۔ اور میرے مقابل پر افسر ڈاک خانجات نے بہت شور مچایا۔ اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا۔ مگر اِس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو۔ نو کرکے اُس کی سب باتوں کو ردّ کردیتا تھا۔ انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کرچکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا۔ تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی۔ اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا۔ اچھا آپ کیلئے رخصت۔ یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا۔ اور اپنے محسن ِ حقیقی کا شکر بجالایا۔ جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی۔ اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اُس بلا سے مجھ کو نجات دی۔
میں نے اُس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا۔ میں نے کہا۔ کیا
1 ڈاکخانہ یا یہ قانون آجکل نہیں ہے لیکن جس زمانہ کا یہ واقعہ ہے اُس زمانہ میں یہ قانون تھا۔ دیکھئیے 1866ء کے ایکٹ نمبر 14 دفعہ 12، 56 اور نیز گورنمنٹ آف انڈیا کے نوٹیفیکیشن نمبر 2424 مورخہ 7دسمبر 1877ء دفعہ 43 (مرتّب)
کرنے لگا ہے۔ تب اُس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے۔ خیر ہے۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 297، 299۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 297 ، 299)
1877ء (تخمیناً)
’’ایک پرانا الہام کوئی تیس سال کا جو پہلے حضرت نے کئی دفعہ سنایا ہے۔ اور آج پھر سنایا......
فَا رْ تَذَّا عَلیٰ1 اٰثَا رِ ھِمَا وَوُھِبَ لَہ‘ الْجَنَّۃُ
اتنے میں طاقت بالا اس کو کھینچ کر لے گئی یہودا اسکریوطی۔‘‘
(بدر جلد 6نمبر 4 مؤرخہ 24 ؍جنوری 1907ء صفحہ3 و الحکم جلد 11نمبر 3 مؤرخہ 24 ؍جنوری 1907ء صفحہ 1 حاشیہ )
1877ء (قریباً)
’’ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَ لُّوْنَ الدُّ بُرَ
یعنی آریہ مذہب کا انجام یہ ہوگا کہ خدا اُن کو شکست دے گا اور آخر وہ آریہ مذہب سے بھاگیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ اور آخر کالعدم ہوجائیں گے۔ یہ الہام مدت دراز کا ہے جس پر قریباً تیس برس کا عرصہ گذرا ہے جس سے اس جگہ کے ایک آریہ یعنی لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی تھی۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ167، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 607)
1878ء (قریباً)
’’عرصہ قریباً پچیس برس کا گذرا ہے کہ مجھے گورداسپور میں ایک رؤیاہوا۔ کہ میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں۔ اور اسی چار پائی پر بائیں طرف مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم بیٹھے ہیں۔ اتنے میں میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی۔ کہ میں مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتاردوں۔ چنانچہ میں نے ان کی طرف کھسکنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ چارپائی سے اُتر کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں تین فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہوگئے جن میں سے ایک کا نام خیرائتی تھا۔ وہ تینوں بھی زمین پر بیٹھ گئے۔ اور مولوی عبداللہ بھی زمین پر تھے۔ اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔ تب میں نے اُن سب سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں تم سب آمین کہو۔ تب میں نے یہ دعا کی:۔
رَبِّ 2 اَذْھِبْ عَنِّی الرِّ جْسَ وَطَھِّرْ نِیْ تَطْھِیْراً
اس دعا پر تینوں فرشتوں اور مولوی عبداللہ نے آمین کہی۔ اس کے بعد وہ تینوں فرشتے اور مولوی عبداللہ آسمان کی اُڑ گئے اور میری آنکھ کھل گئی۔
1- (ترجمہ از مرتب) پھر وہ دونوں پچھلے پاؤں واپس لوٹ گئے اور اس کو جنت عطا کی گئی۔
2- (ترجمہ از مرتب) اے میرے ربّ مجھ سے ناپاکی کو دُور رکھ اور مجھے بالکل پاک کردے۔
آنکھ کھلتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ مولوی عبداللہ کی وفات قریب1ہے۔ اور میرے لئے آسمان پر ایک خاص فضل کا ارادہ ہے۔ اور پھر میں ہر وقت محسوس کرتا رہا کہ ایک آسمانی کشش میرے اندر کام کررہی ہے۔ یہان تک کہ وحی الٰہی کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ وہی ایک ہی رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے بتمام و کمال میری اصلاح کردی۔ اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہوگئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہوسکتی تھی2۔
مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبداللہ غزنوی اس نور کی گواہی کے لئے پنجاب کی طرف کھنچا تھا۔ اور اس نے میری نسبت گواہی دی۔ اور اس گواہی کو حافظ محمد یوسف اور ان کے بھائی محمد یعقوب نے بھی بیان کیا۔ مگر پھر دنیا کی محبت اُن پر غالب آگئی۔
اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا *** کا کام ہے کہ مولوی عبداللہ نے میرے خواب میں میرے دعویٰ کی تصدیق کی۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ قسم جھوٹی ہے تو اے قادر خدا مجھے ان لوگوں کی ہی زندگی میں جو مولوی عبداللہ صاحب کی اولاد یا اُن کے مرید یا شاگرد ہیں۔ سخت عذاب سے مار۔ ورنہ مجھے غالب کر اور ان کو شرمندہ یا ہدایت یافتہ۔ مولوی عبداللہ صاحب کے اپنے منہ کے یہ لفظ تھے کہ آپ کو آسمانی نشانوں اور دوسرے دلائل کی تلوار دی گئی ہے ۔ اور جب میں دنیا پر تھا۔ تو امید کرتا تھا کہ ایسا انسان خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا جائے گا۔ یہ میری خواب ہے۔ اِلْعَنْ مَنْ کَذَبَ وَاَ یِّدْ مَنْ صَدَقَ۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ236، 238 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 614، 616)
1878ء (تخمیناً)
’’ اور انہی 3دنوں میں شاید اس رات سے اوّل یا اس رات کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام
شیر علی
ہے۔ اُس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں۔ اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی۔ اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے۔ اور ایک مصفا نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا۔ مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا۔ اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنادیا ہے۔ اوریہ عمل کرکے پھر وہ شخص غائب ہوگیا۔
1- مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی وفات بروز منگل 15؍ ربیع الاوّل 1298 ھ مطابق 15؍ فروری 1881ء کو ہوئی۔ دیکھو اشاعۃ السنّۃ نمبر1،4 جلد4(مرتب)
2- یہ خواب تریاق القلوب صفحہ 94،95، روحانی خزائن جلد15 صفحہ 351، 352میں بھی درج ہے۔(مرتب)
3- یعنی جب رؤیا مذکورہ بالا دیکھا تھا۔ (مرتّب)
اور میں اُس کشفی حالت سے بیداری کی طرف منتقل ہوگیا۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 95 طبع اوّل ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 352)
1878ء
’’ایک دفعہ ایک طالب العلم انگریزی خوان ملنے کو آیا۔ اُس کے رُو برو ہی یہ الہام ہوا:۔
دِس اِز مائی اَینیمی 1
یعنی یہ میرا دشمن ہے۔
اگرچہ معلوم ہوگیا تھا۔ کہ یہ الہام اُسی کی نسبت ہے۔ مگر اُسی سے یہ معنے بھی دریافت کئے گئے۔ اور آخر وہ ایسا ہی آدمی نکلا۔ اور اُس کے باطن میں طرح طرح کے خبث پائے گئے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 481حاشیہ در حاشیہ نمبر3 ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 572، 573)
1879ء
’’تین سال کے قریب عرصہ گذر اہوگا۔ کہ میں نے اسی2 کتاب کے لئے دعا کی۔ کہ لوگ اس کی مدد کی طرف متوجہ ہوں۔ تب..... الہام شدید الکلمات....... ان لفظوں میں ہوا :۔
بالفعل نہیں
........اور پھراُسی کے مطابق....... لوگوں کی طرف سے عدم توجہی رہی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 225 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 572، 573)
1880ء
’’ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا۔ یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرےوارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورۃ یٰسین سنائی جب تیسری مرتبہ سورۃ یٰسین سنائی گئی۔ تو میں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جو اَب وہ دنیا سے گذر بھی گئے۔ دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار د مبدم حاجت ہوکر خون آتا تھا۔ سولہ دن برابر ایسی حالت رہی۔ اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا۔ وہ آٹھویں دن راہی ملک ِ بقا ہوگیا۔ حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی۔ جیسی میری۔ جب بیماری کا سولہواں دن چڑھا تو اُس دن بکلی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورۃ یٰسین سنائی گی۔ اور تمام عزیزوں خے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا۔ تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے:۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِ ہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ
1- This is my enemy 2- براہین احمدیہ (مرتّب)
اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا۔ کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو۔ ہاتھ ڈال۔ اور یہ کلماتِ طیبہ پڑھ۔ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر۔ کہ اس سے تو شفاء پائے گا۔ چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا۔ اور میں نے اُسی طرح عمل کرنا شروع کیا۔ جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی۔ اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں درد ناک جلن تھی۔ اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر۔ تا اس حالت سے نجات ہو۔ مگر جب وہ عمل شروع کیا۔ تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفع ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے۔ اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلی مجھے چھوڑ گئی۔ اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا:۔
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّ لْنَا عَلٰی عَبْدِ نَا فَاْ تُوْا بِشِفَآئٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ
یعنی اگر تمہیں اُس نشان میں شک ہو۔ جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا۔ تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفاء پیش کرو۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ37، 38 ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 208، 209)
1880ء (تخمیناً)
’’کوئی 25، 26سال کا عرصۃ گذرا ہے۔ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا تھا۔ تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر 23 مؤرخہ 01؍ ستمبر 5091ء صفحہ 3)
1880ء (تخمیناً)
(ا) ’’سردار حیات خان (جج1)ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطل ہوگیا تھا۔ میرےبڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لئے دعا کرو۔ میں نے دعا کی۔ تو مجھے دکھا یا گیا کہ یہ کرسی پر بیٹھا ہوا عدالت کررہا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو معطل ہوگیا ہے۔ کسی نے کہا کہ اُس جہان میں معطل نہیں ہوا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بحال ہوجائے گا۔ چنانچہ اس کی اطلاع دی گئی۔ اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہوگیا۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر32 مؤرخہ10؍ ستمبر1902 ء صفحہ 6 کالم نمبر 3)
1 نواب سردار محمد حیات خان صاحب جج تھے جن پر گورنمنٹ کی طرف سے کئی الزام قائم کئے گئے تھے اورانہیں معطّل کرکے ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ اس موقع پر مرزا غلام قادر صاحب مرحوم نے ان کے لئے دُعا کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسّلام سے کہا۔ چنانچہ جب حضورؑنے ان کے لئے دُعا کی تو حضورؑ کو اُن کے متعلق بذریعہ کشف یہ بشارت ملی۔ (مرتّب)
(ب) ’’سردار محمد حیات خاں..............جو گورنمنٹ کے حکم سے ایک عرصہ دراز تک معطل رہے۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے زیادہ کچھ عرصہ گذرگیا ہوگا کہ جب طرح طرح کی مصیبتیں اور مشکلیں اور صعوبتیں اِس معطلی کی حالت میں اُن کو پیش آئیں۔ اور گورنمنٹ کا منشاء بھی کچھ بر خلاف سمجھا جاتا تھا اُنہیں دنوں میں اُن کے بَری ہونے ی خبر ہم کو خواب میں ملی۔ اور خواب میں مَیں نے اُن کو کہا۔ کہ تم کچھ خوف مت کرو خدا ہر یک چیز پر قادر ہے وہ تمہیں نجات دے گا۔ چنانچہ یہ خبر اِنہیں دنوں میں بیسیوں ہندؤں اور آریوں اور مسلمانوں کو سنائی گئی۔ جس نے سنا بعید از قیاس سمجھا اور بعض نے ایک امرِ محال خیال کیا۔ اور میں نے سنا ہے کہ اُنہیں ایام میں محمد حیات خان صاحب کو بھی یہ خبر کسی نے لاہور میں پہنچادی تھی۔ سو الحمدللہ والمنت کہ یہ بشارت بھی جیسی دیکھی تھی ویسی ہی پوری ہوئی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 252 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 279، 280)
1880ء
’’ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِ ھَا نَتَکَ۔یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ یہ ایک نہایت پُر شوکت وحی اور پیشگوئی ہے۔ جس کا ظہور مختلف پیرایوں اور مختلف قوموں میں ہوتا رہا ہے۔ اور جس کسی نے اس سلسلہ کو تذلیل کرنے کی کوشش کی۔ وہ خود ذلیل اور ناکام ہوا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 189 ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 567)
1881ء
’’ ایک بزرگ... جن کا نامِ نامی عبداللہ غزنوی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے اِس بزرگ کو خواب میں اُن کی وفات1کے بعد دیکھا کہ سپاہیوں کی صورت میں بڑی عظمت اور شان کے ساتھ بڑے پہلوانوں کی مانند مسلح ہونے کی حالت میں کھڑے2ہیں تب میں نے کچھ اپنے الہامات کا ذکر کرکے اُن سے پوچھا کہ مجھے ایک خواب آئی ہے۔ اُس کی تعبیر فرمائیے۔ میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ ایک تلوار3میرے ہاتھ ہے جس کا قبضہ میرے پنجہ میں اور نوک آسمان
1 حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی وفات بروز منگل 15؍ ربیع الاوّل1298 ھ مطابق 15؍ فروری1881ء کو ہوئی۔ دیکھئے اشاعۃ السنّۃ نمبر جلد 4، نمبر 1، 2۔ (مرتب)
2 حضور نزول المسیح میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’وہ ایک بازار میں کھڑے ہیں جو ایک بڑے شہر کا بازار ہے اور پھر میں ان کے ساتھ ایک مسجد میں گیا ہوں۔ اور اُن کے ساتھ ایک گروہ کثیر ہے اور سب سپاہیانہ شکل پر نہایت جسیم مضبوط وردیاں کسے ہوئے اور مسلح ہیں۔ اور اُنہیں میں سے ایک مولوی عبداللہ صاحب ہیں کہ جو ایک قوی اور جسیم جوان نظر آتے ہیں۔ وردی کسے ہوئے ہتھیار پہنے ہوئے اور تلوار میان میں لٹک رہی ہے۔ اور میں دل میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لو گ ایک عظیم الشان حکم کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اور میں خیال کرتا ہوں کہ باقی سب فرشتے ہیں مگر تیاری ہولناک ہے۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 238۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 616)
3 اس تلوار کی تعریف میں حضور کے الفاظ آئینہ کمالات اسلام میں یوں ہیں ولہ برق و لمعا ن یخرج منہ نورکقطراتٍ
تک پہنچی ہوئی ہے۔ جب میں اُس کو دائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزاروں مخالف اُس سے قتل ہوجاتے ہیں۔ اور جب میں بائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزارہا دشمن اُس سے مارے جاتے ہیں۔
تب حضرت عبداللہ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس میری خواب کو سن کر بہت خوش ہوئے اور بشاشت اور انبساط اور انشراح صدر کے علامات و امارات اُن کے چہرہ میں نمودار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا۔ اور یہ جو دیکھا کہ دائیں طرف تلوار چلا کر مخالفوں کو قتل کیا جاتا ہے اس سے مراد وہ اتمام حجت کاکام ہے کہ جو روحانی طور پر انوار و برکات کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوگا۔ اور یہ جو دیکھا کہ بائیں طرف تلوار چلا کرہزار ہا دشمنوں کو مارا جاتا ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے عقلی طور پر خدا ئے تعالیٰ الزام و اسکاتِ خصم کرے گا۔ اور دنیا پر دونوں طور سے اپنی حجت پوری کردے گا۔ پھر بعد اس کے اُنہوں نے فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں امیدوار تھا کہ خدائے تعالیٰ ضرور کوئی ایسا آدمی پیدا کرے گا۔ پھر حضرت عبداللہ صاحب مرحوم مجھ کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے۔ جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن سب کے سب مسلح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چُستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی جنگی خدمت بجالانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں۔ جو بہت جلد آنے والا ہے.........یہ رؤیاصالحہ جو درحقیقت ایک کشف کی قسم ہے۔ استعارہ کے طور پر اُنہیں علامات پر دلالت کررہی ہے۔ جو مسیح کی نسبت ہم ابھی بیان کر آئے ہیں۔ یعنی مسیح کا خنزیروں کو قتل کرنا اور علی العموم تمام کفّار کو مارنا اِنہیں معنوں کی رُو سے ہے کہ وہ حجت ِ الٰہی اُن پر پوری کرے گا۔ اور بیّنہ کی تلوار سے ان کو قتل کرے گا۔ واللہ اعلم با لصواب۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ83۔92حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 3، صفحۃ 143، 147 حاشیہ)
1881ء (قریباً)
(ا) ’’خدا نے اپنے الہامات میں میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے۔ اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک ایذا کے وقت ضرور ایک خزانہ نکلتا ہے۔ اور اس بارے میں الہام یہ ہے:۔
متنا زلۃ حیناً بعد حین۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 576۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 576) (ترجمہ از مرتّب) اور وہ نہایت چمکدار ہے۔ اس سے نور اس طرح نکل رہا ہے۔ گویا قطرے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اُتر رہے ہیں۔ اور حضور نزول المسیح میں فرماتے ہیں۔’’اور اس تلوار میں سے ایک نہایت تیز چمک نکلتی ہے جیسا کہ آفتاب کی چمک ہوتی ہے اور میں اسے کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں طرف چلاتا ہوںاور ہر ایک وار سے ہزار ہا آدمی کٹ جاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ تلوار اپنی لمبائی کی و جہ سے دنیا کے کناروں تک کام کرتی ہے اور وہ ایک بجلی کی طرح ہے جو ایک دم میں ہزاروں کوس چلی جاتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہاتھ تو میرا ہی ہے مگر قوت آسمان سے اور میں ہر ایک دفعہ اپنے دائیں اور بائیں طرف اس تلوار کو چلاتا ہوں اور ایک مخلوق ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرتی جاتی ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ238، 239۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 616، 617)
’’یکے پائے من مے بوسید و من مے گفتم کہ حجرِ اسود منم‘‘
(اربعین نمبر 4 صفحہ 15 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 444۔ 445)
(ب) ’’ایک پُرانا الہام قریباً پچیس سال کا:۔
’’شخصے پائے من بوسید ومن گفتم کہ سنگِ اسود منم‘‘1
(الحکم جلد10نمبر 37 مؤرخہ 24 ؍اکتوبر1906ء صفحہ 1)
1881ء (تخمیناً)
’’عرصہ تخمیناً اٹھارہ برس کا ہوا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر چند آدمیوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں سے اس بات کی خبر دی کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ
اِنَّا نُبَشِّرُ کَ بِغُلَامٍ حَسِیْنٍ۔
یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کے عطا کرنے کی خوشخبری دیتے ہیں۔
میں نے یہ الہام ایک شخص حافظ نور احمد امرتسری کو سنایا۔ جو اب تک زندہ ہے اوربباعث میرے دعویٰ مسیحیت کے مخالفوں میں سے ہے اور نیز یہی الہام شیخ حامد علی جو میرے پاس رہتا تھا سنایا۔ اور دو ہندوؤں کو جو آمدورفت رکھتے تھے۔ یعنی شرمپت اور ملاوا مل ساکنانِ قادیان کو بھی سنایا۔ اور لوگوں نے اس الہام سے تعجب کیا۔ کیونکہ میری پہلی بیوی کو عرصہ بیس سال سے اولاد ہونی موقوف ہوچکی تھی۔ اور دوسری کوئی بیوی نہ تھی لیکن حافظ نور احمد نے کہا کہ خدا کی قدرت سے کیا تعجب کہ وہ لڑکا دے۔ اس سے قریباً تین برس بعد .....دہلی میں میری شادی ہوئی اور خدا نے وہ لڑکا بھی دیا۔ اور تین اور عطا کئے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 34، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 200،201)
1881 ء(تخمیناً)
اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَئَیْتَ خَدِ یْجَتِیْ
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر4صفحہ 558 ۔روحانی خزائن جلد1صفحہ 666)
ترجمہ: میرا شکر کر کہ توُ نے میری خدیجہ کو پایا۔
’’یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا..... اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے۔ جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھااور نیز یہ اس طرف اشارہ تھاکہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہوگی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ146،147 ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ 524، 525)
1 (ترجمہ از مرتب) ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما۔ اور میں نے (اُسے) کہا کہ حجرِ اسود میں ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ قَالَ الۡمُعَبِّرُوۡنَ اَنَّ الۡمُرَادَ مِنَ الۡحَجۡرِ ا لَاسۡوَدِ فِیۡ عِلۡمِ الرُّؤۡ یَا الۡمَرۡءِ الۡعَالِمُ الْفَقِیْہُ الۡحَکِیۡمُ۔‘‘
(الا ستفتاء عربی صفحہ 41)ترجمہ از مرتب:۔ معبرّین (خوابوں کی تعبیر بیان کرنے والے علماء) نے کہا ہے کہ علم رؤیا میں حجرِ اسود سے مراد عالم‘فقیہ اور حکیم ہوتا ہے۔
1881 ء(قریباً)
قریباً اٹھارہ برس سے ایک یہ پیشگوئی ہے :۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَ النَّسَبَ 1
ترجمہ:۔ وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے‘ کیا۔ اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا ۔ جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکّب ہے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 64، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ272، 273)
1881 ء(قریباً)
ایک مرتبہ مسجد میں بوقتِ عصر یہ الہام ہواکہ
میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا۔ اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی۔
اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے۔
ہر چہ باید نو عروسی راہماں ساماں کنم
وانچہ مطلوبِ شما باشد عطائے آں کنم2
اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے۔ چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی تعلق بخشا۔ سو قبل از ظہور یہ تمام الہام لالہ شرمپت کو سنا دیا گیا۔ پھر بخوبی اسے معلوم ہے کہ بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض خداتعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی۔ یعنی
1 ’’ صہر اور نسب اس الہام میں ایک ہی جَعَلَ کے نیچے رکھے گئے ہیں اور ان دونوں کو قریباً ایک ہی درجہ کا امر قابل ِ حمد ٹھہرایا گیا ہے اور یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ جس طرح صہر یعنی دامادی کو بنی فاطمہ سے تعلق ہے اسی طرح نسب میں بھی فاطمیت کی آمیزش والدات کی طرف سے ہے اور صہر کو نسب پر مقدم رکھنا اسی فرق کے دکھلانے کے لئے ہے کہ صہر میں خالص فاطمیت اور نسب میں اس کی آمیزش ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 19 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 117)
2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ ان اخراجات کی مجھ میں طاقت نہیں۔ تب یہ الہام ہوا کہ ؎
ہرچہ باید نو عروسی راہماں ساماں کنم
وانچہ درکارِ شما باشد عطائے آں کنم
یعنی جو کچھ تمہیں شادی کیلئے درکار ہوگا تمام سامان اس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتاً فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 235، 236۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 247)
نہایت نجیب اور شریف اور عالی نسب ......... بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلقِ قرابت اِس عاجز کو پیدا ہوا۔ اور اس نکاح کے تمام ضروری مصارف تیاری مکان وغیرہ تک ایسی آسانی سے خدا تعالیٰ نے بہم پہنچائے کہ ایک ذرّہ بھی فکر کرنا نہ پڑا اور اب تک اُسی اپنے وعدہ کو پورے کئے چلا جاتا ہے۔‘‘
(شحنہ حق صفحہ43، 44 روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 383، 384)
1881ء (قریباً)
’’اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیاگیا تھا جودہلی میں ہے اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی.....اور جیسا کہ لکھا گیا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقات قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندانِ سیادت میں میری شادی ہوگئی......سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا۔ اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا۔ جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔ اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے۔ دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے۔ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہربانو تھا۔ اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے۔ یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ64،65 ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 273، 275)
1881ء (قریباً)
’’تخمیناً اٹھارہ برس کے قریب عرصہ گذرا ہے کہ مجھے کسی تقریب سے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنۃ کے مکان پر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس نے مجھ سے دریافت کی کہ آجکل کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے اُس کو یہ الہام سنایا جس کو میں کئی دفعہ اپنے مخلصوں کو سنا چکا تھا اور وہ یہ ہے کہ
بِکْرٌ وَّ ثَیِّبٌ
جس کے یہ معنی ان کے آگے اور نیز ہر ایک کے آگے میں نے ظاہر کئے۔ کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا۔ ایک بِکر ہوگی اور دوسری بیوہ۔ چنانچہ یہ الہام جو بِکر کے متعلق تھا۔ پورا ہوگیا۔ اور اس وقت بفضلہٖ تعالیٰ چار پسر اس بیوی سے موجود ہیں اور بیوہ کے الہام کی انتظار1ہے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 34، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 201)
1 خاکسار کی رائے میں یہ الہام الٰہی اپنے دونوں پہلوؤں سے حضرت اُمّ المو منین کی ذات میں ہی پورا ہوا ہے جو بِکر یعنی کنواری آئیں اور ثَیِّب یعنی بیوہ رہ گئیں۔ واللہ اعلم۔ (مرتب)
1881ء
(ا) ’’ایک ہندو آریہ .......ایک مدت سے بہ مرضِ دق مبتلا تھا اور رفتہ رفتہ اُس کی مرض انتہا کو پہنچ گئی۔ اور آثار مایوسی کے ظاہر ہوگئے۔ ایک دن وہ میرے پاس آکر اور اپنی زندگی سے ناامید ہوکر بہت بے قراری سے رویا۔ میرا دل اُس کی عاجزانہ حالت پر پگھل گیا۔ اور میں نے حضرتِ احدیت میں اُس کے حق میں دُعا کی۔ چونکہ حضرتِ احدیت میں اُس کی صحت مقدر تھی اِس لئے دُعا کرنے کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا:۔
قُلْنَا یَا نَا رُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا
یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ توُ سرد اور سلامتی ہوجا۔ چنانچہ اُسی وقت اُس ہندو اور نیز کئی اور ہندوؤں کو کہ جو اَب تک اس قصبہ میں موجود ہیں اور اِس جگہ کے باشندہ ہیں اُس الہام سے اطلاع دی گئی۔ اور خدا پرکامل بھروسہ کرکے دعویٰ کیا گیا۔ کہ وہ ہندو ضرور صحت پاجائے گا۔ اور اس بیماری سے ہرگز نہیں مرے گا۔ چنانچہ بعد اِس کے ایک ہفتہ نہیں گذرا ہوگا کہ ہندو مذکور اُس جاں گداز مرض سے بکلّی صحت پاگیا۔ والحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ227، 228 حاشیہ در حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 252، 253)
(ب) ’’ملاوامل کو دق کی بیماری ہوگئی۔ جب وہ خطرہ کی حالت میں پڑگیا۔ تو اُس کے لئے دعا کی گئی۔ الہام ہوا:۔
قُلْنَا یَا نَا رُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا
یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہوجا۔
1881ء
’’پھر خواب میں دکھایا گیا کہ میں نے اس کو قبر سے نکال لیا ہے۔ یہ الہام اور خواب دونوں قبل از وقوع اس کو بتلائے گئے۔‘‘ (شحنہ ٔ حق صفحہ 42۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 381)
1881ء
’’جب پہلے الہام1کے بعد....... ایک عرصہ گذر گیا۔ اور لوگوں کی عدم توجہی سے طرح طرح دقتیں پیش آئیں۔ اور مشکل حد سے بڑھ گئی۔ تو ایک دن قریب مغرب کے خداوند ِ کریم نے یہ الہام کیا:۔
ھُزِّ 1 اِلَیْکَ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسَا قِطْ عَلَیْکَ رُطَبًا جَنِیًّا 3
1 ’’بالفعل نہیں‘‘ صفحہ31، (مرتّب)
2 یعنی کھجور کے تنا کو ہلا ۔ تیرے پرتازہ بتازہ کھجوریں گریں گی۔ (نزول المسیح صفحہ 161۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 539)
3 یہ حضرت مریم کو اس وقت وحی ہوئی تھی جب ان کا لڑکا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوا تھا اور وہ کمزور ہوئی تھیں۔ اور خدا تعالیٰ نے اسی کتا ب براہین احمدیہ میں میرا نام بھی مریم رکھا اور مریم صدیقہ کی طرح مجھے بھی حکم دیا کہ وَکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ الصِّدِّیْقِیْنَ۔ دیکھو صفحہ 242۔ براہین احمدیہ۔ پس یہ میری وحی یعنی ھُزِّ اِلَیْکَاس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ کہ صدیقیت کا جو حمل تھا۔ اس سے بچہ پیدا ہوا۔ جس کا نام عیسیٰ رکھا گیا اور جب تک وہ کمزور رہا صفاتِ مریمیہ اس کی پرورش کرتی رہیں۔ اور جب وہ اپنی طاقت میں آیا۔ تو اس کو پکارا گیا۔ یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِنّیٓ ۔دیکھو صفحہ 556 براہین احمدیہ۔ یہ وہی وعدہ تھا جو سورۃ تحریم میں کیا
سو میں نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک کے اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہوگا...... اِس الہام کے بعد میں نے حسب الارشاد حضرتِ احدیت کسی قدر تحریک کی تو تحریک کرنے کے بعد ...... جس قدر اور جہاں سے خدا نے چاہا اُس حصہ کے لئے جو چھپتا تھا مدد پہنچ گئی۔ فا لحمد لِلّٰہِ علٰی ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 225، 226حاشیہ در حاشیہ نمبر1، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 250، 251)
1881ء
’’ایک دن صبح کے وقت کچھ تھوڑی غنودگی میں یکدفعہ زبان پر جاری ہو:۔
عبداللہ خاں ڈیرہ اسمٰعیل خاں
چنانچہ چند ہندو کہ جو اُس وقت میرے پاس تھے اور ابھی تک اسی جگہ موجود ہیں اُن کو بھی اُس سے اطلاع دی گئی اور اُسی دن شام کو جو اتفاقاً اُنہیں ہندوؤں میں سے ایک شخص1ڈاک خانہ کی طرف گیا۔ تو وہ ایک صاحب عبداللہ2خاں نامی کا ایک خط لایا۔ جس کے ساتھ ہی کسی قدر روپیہ بھی آیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 226، 227 حاشیہ در حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 251، 252)
1881ء
’’ایک دفعہ کشفی طور پر مجھے للع للعہ44 یا للعہ40 روپیہ دکھائے گئے اور پھر یہ الہام ہوا کہ:۔
ماجھے خاں کا بیٹا اور شمس الدین پٹواری ضلع لاہور بھیجنے والے ہیں
پھر بعد اس کے کارڈ آیا جس میں لکھا تھا۔ کہ للعہ40 ماجھے خان کے بیٹے کی طرف سے ہیں۔ اورلعہ4 ؍یاے5 ؍ شمس الدین پٹواری کی طرف سے ہیں۔ پھر اسی تشریح سے روپے آئے۔ (نزول المسیح صفحہ 202۔ روحانی خزائن جلد 18، صفحہ 580)
’’محرّم 1299ہجری کی پہلی3یا دوسری تاریخ میں ہم کو خواب میں یہ دکھائی دیا کہ کسی صاحب نے مدد کتاب کے لئے پچاس روپیہ روانہ کئے ہیں۔ اُسی رات ایک4آریہ صاحب نے ہمارے لئے خواب دیکھی کہ کسی نے مددِکتاب کے لئے ہزار روپیہ روانہ کیا ہے۔ اور جب انہوں نے خواب بیان کی تو ہم نے اُسی وقت اُن کو اپنی خواب بھی سنا دی اور یہ
گیا۔ اور ضرور تھا کہ اس وعدہ کے موافق اس امت میں سے کسی کا نام مریم ہوتا۔ اور پھر اس طرح پر ترقی کرکے اُس سے عیسیٰ پیدا ہوتا اور وہ ابن ِ مریم کہلاتا سو وہ میں ہوں وحی ھُزِّیْ اِلَیْکِ مریم کو بھی ہوئی۔ اور مجھے بھی۔ مگر باہم فرق یہ ہے کہ اُس وقت مریم ضعف ِبدنی میں مبتلا تھی۔ اور میں ضعف ِ مالی میں مبتلا تھا۔‘‘ (نزول المسیح 163۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 541)
1 بشنداس برہمن (مرتّب)
2 ای ۔ اے۔ سی۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان (مرتّب)
3 مطابق 23/24 نومبر 1881ء
4 لالہ شرمپت (مرتّب)
بھی کہہ دیا کہ تمہاری خواب میں اُنیس حصے جھوٹ مل گیا ہے۔ اور یہ اُسی کی سزا ہے کہ تم ہندو اور دین ِ اسلام سے خارج ہو۔ شاید اُن کو گراں ہی گذرا ہوگا مگر بات سچی تھی۔ جس کی سچائی پانچویں یا چھٹی محرم میں ظہور میں آگئی۔ یعنی پنجم یا ششم محرم الحرام میں مبلغ پچاس روپیہ جن کو جونا گڑھ سے شیخ محمد بہاؤالدین صاحب مدارالمہام ریاست نے کتاب کے لئے بھیجا تھا۔ کئی لوگوں اور ایک آریہ کے رُوبرو پہنچ گئے۔ والحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ255،256 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ 284)
1882ء
’’ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں۔ یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے۔ لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحْيٖ کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر 3 صفحہ 502۔ روحانی خزائن جلد1 صفحہ 284)
’’اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحْيٖ کوتلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اِس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا:۔
ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ
یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔
اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبت ِ رسول ہے۔ سو وہ اِس شخص میں متحقّق ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر3 صفحہ503۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598)
1882ء
’’وَکُنْتُ1 ذَاتَ لَیْلَۃٍ اَکْتُبُ شَیْئًا۔ فَنِمْتُ بَیْنَ ذَالِکَ فَرَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ وَجْھُہ‘ کَالْبَدْرِالتَّآمِّ فَدَ نَامِنِّیْ کَاَنَّہ‘ یُرِیْدُ اَنْ یُّعَا نِقَنِیْ فَکَانَ مِنَ الْمُعَانِقِیْنَ وَرَاَیْتُ اَنَّ الْاَنْوَارَ قَدْ سَطَعَتْ مِنْ وَّجْھِہٖ وَنَزَ لَتْ عَلَیَّ۔ کُنْتُ اَرَا ھَا کَا لْاَ نْوَارِ الْمَحْسُوْسَۃِ حَتّٰی اَیْقَنْتُ اَنِّیْ اُدٰرِکُمَابِالْحِسِّ لَابِبَصَرِ الرُّ وْحِ وَمَا رَاَیْتُ اَ نَّہُ انْفَصَلَ مِنِّیْ بَعْدَ الْمُعَانَقَۃِ
1 (ترجمہ از مرتب) اور ایک رات میں کچھ لکھ رہا تھا۔ کہ اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا اس وقت میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا آپ کا چہرہ بدرِ تام کی طرح درخشاں تھا۔ آپ میرے قریب ہوئے اور میں نے ایسا محسوس کیا۔ کہ آپ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے مجھ سے معانقہ کیا اور میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ سے نور کی کرنیں نمودار ہوئیں اور میرے اندر داخل ہوگئیں۔ میں ان انوار کو ظاہری روشنی کی طرح پاتا تھا اور یقینی طور پر سمجھتا تھا کہ میں انہیں محض روحانی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھ رہا ہوںاور اس معانقہ کے بعد
وَمَا رَاَیْتُ اَنَّہ‘ کَانَ ذَاھِبًا کَا لذَّاھِبِیْنَ۔ ثُمَّ بَعْدَ تِلْکَ الْاَیَّامِ فُتِحَتْ عَلَیَّ اَبْوَابُ الْاِلْھَامِ وَخَاطَبَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ ‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 550۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 550)
مارچ 1882ء
یَآ اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ ۔ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِن اللّٰہَ رَمٰی۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآ ؤُ ھُمْ۔ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْ ٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ 1 قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَا طِلُ اِنَّ الْبَا طِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ فَتَبَا رَکَ
(ترجمہ *) 1 اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ جو کچھ تُونے چلایا۔ یہ تُو نے نہیں چلایا۔ بلکہ خدا نے چلایا۔ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا۔ تاکہ تُو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے۔ اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے۔ کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں۔اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں کہہ حق آیا۔ اور باطل بھاگ گیا اور باطل بھاگنے والا ہی تھا۔ہر ایک برکت محمد ﷺ کی طرف سے ہے۔ پس بڑا مبارک وہ
نہ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ آپ مجھ سے الگ ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں۔ اس کے بعد مجھ پر الہام الٰہی کے دروازے کھول دیئے گئے۔ اور میرے رب نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا۔ یَآ اَحْمَدُ بَا رَکَ اللّٰہُ فِیْکَ الخ
☆ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی کتب سے لیا گیا ہے۔ (مرتّب)
1 ای اول تائب الی اللّٰہ بامراللّٰہ فی ھٰذا الزمان۔ او اول من یؤمن بھذا الامر۔ واللّٰہ اعلم۔
(براہین احمدیہ صفحہ حصہ سوم صفحہ 239 حاشیہ نمبر1 ۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 265)
(ترجمہ از مرتب) یعنی اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر اس کی طرف سب سے پہلا رجوع کرنے والا یا یہ کہ اس فرمان الٰہی پر سب سے پہلے ایمان لانے والا۔
(ا) مجھ کو یاد ہے کہ ابتدائے وقت میں جب میں مامور کیا گیا تو مجھے یہ الہام ہوا کہ جو براہین کے صفحہ 238 میں مندرج ہے۔ یا احمد بارک اللّٰہ فیک(تا) وانا اول المؤمنین۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 109 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 109)(ب) ’’ناگہاں عنایت ازلی سے مجھے یہ واقعہ پیش آیا کہ یکدفعہ شام کے قریب ..........مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے کچھ خفیف سی غنودگی ہوکر یہ وحی ہوئی۔‘‘ (نصرۃ الحق صفحہ51۔ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 66) (ج) جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا ‘ اورچودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدّد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہواکہ الرحمٰن علّم القرآن (تا) وانا اوّل المؤ منین۔‘‘ )کتاب البریہّ صفحہ 168حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ 201) (د) اس الہام کے رُو سے خدا نے مجھے علومِ قرآنی عطا کئے ہیں اور میرا نام اوّل المؤمنین رکھا اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھردیا ہے اور مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبت الٰہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں۔‘‘(ضرورۃ الامام صفحہ 13۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 502)
مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ‘ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ ھُوَالَّذِیْ ٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ‘عَلَ الدِّیْنِ کُلِّہٖ1۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ ظَلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِ ھِمْ لَقَدِیْرٌ۔ اِنَّاکَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ یَقُوْلُوْنَ اَ نّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۔ وَ اَعَانَہ‘عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ۔ اَفَتَاْ تُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۔ ھَیْھَاتَ لِمَاتُوْعَدُوْنَ۔ مِنْ ھٰذَا الّذِیْ ھُوَ مَھِیْنٌ۔ وَّلَا یَکَا دُیُبِیْنُ۔ جَا ھِلٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۔ قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَا نَکُم اِنْ کُنْتُمْ
ہے جس نے تعلیم دی۔ اور جس نے تعلیم پائی۔ کہہ اگر میں نے افترا کیا ہے۔ تو میری گردن پر میرا گناہ ہے۔خدا وہ خدا ہے جس نے اپنا رسول اور اپنا فرستادہ اپنی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔ تا اس دین کو ہر قسم کے دین پر غالب کرے۔خدا کی باتوں کو ٹال نہیں سکتا۔ان پر ظلم ہوا۔ اور خدا ان کی مدد کرے گا۔اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی کرتے ہیں۔ ان کے لئے ہم کافی ہیں۔اور لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوگیا۔ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوگیا۔یہ جو الہام کرکے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ تو انسان کا قول ہےاور دوسروں کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اے لوگو کیا تم ایک فریب دیدہ و دانستہ میں پھنستے ہو۔جو کچھ تمہیں یہ شخص وعدہ دیتا ہے۔ اس کا ہونا کب ممکن ہے۔پھر ایسے شخص کا وعدہ جو حقیر اور ذلیل ہے۔ یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے۔ کہہ اس پر دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو یعنی مقابلہ کرکے دکھلاؤ۔ یہ
1 ’’اَیْ لَیُظْھِرَدِیْنَ الْاِسْلَامِ بِالْحُجَجِ الْقَاطِعَۃِ وَالْبَرَاھِیْنِ السَّاطِعَۃِ عَلٰی کُلِّ دِیْنٍ مَاسِوَاہُ ۔ اَیْ یَنْصُرُ اللّٰہَ الْمُؤْمِنِیْنَ الْمَظْلُوْمِیْنَ بِاِ شْرَاقِ دِیْنِنِھِمْ وَاِتْمَامِ حُجَّتِھِمْ۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 239 حاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ265)
(ترجمہ از مرتّب) یعنی اللہ تعالیٰ دینِ اسلام کو دلائلِ قاطعہ اوربراہینِ ساطعہ کے ساتھ دیگر تمام ادیان پر غالب کرکے اور اس کی حُجّت دوسرے لوگوں پر قائم کرکے مظلوم مومنوں کی نصرت فرمائے گا۔ اِس وحیِ الٰہی کی تفسیر رسالہ اربعین نمبر 2 کے صفحات 10،11 اور 13 پر بیان ہوئی ہے اور اس کے ظہور کی تفصیل تریاق القلوب کے صفحات 47، 54 پر درج ہے۔ (مرتّب)
2 21 کا ترجمہ سہواً رہ گیا ہے۔ (ترجمہ از مرتّب) اور یہ بولنا بھی نہیں جانتا۔
صَادِقِیْنَ۔ ھٰذَا مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّکَ۔ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ۔ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُوْمِنِیْنَ۔ اَنْتَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَبِّکَ۔ فَبَشِّرْ وَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْ نِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ ھَلْ اُنَبِّئْکُمْ عَلٰ مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ 1 مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ 1 مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔ رَبِّ لَاتَذَرْنِیْ فَرْدًاوَّاَنْتَ خَیْرُالْوَارِثِیْنَ۔ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُالْفَاتِحِیْن۔ وَقُلِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔ وَلَا تَقُوْلٓنَّ لِشَیْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذَالِکَ غَدًا۔ وَیُخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ اِنَّکَ بِاَ عْیُنِنَا۔ سَمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ۔ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ
یہ مرتبہ تیرے رب کی رحمت سے ہے۔ وہ اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا۔ تاکہ لوگوں کے لئے نشان ہو۔ تو خدا کی طرف سے کھلی کھلی دلیل کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔پس تو خوشخبری دے۔ا ور خدا کے فضل سے تو دیوانہ نہیں ہے۔کہہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تاخدا بھی تم سے محبت رکھے۔ وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں۔ ان کے لئے ہم کافی ہیں۔کہہ کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ کن لوگوں پر شیطان اُترا کرتے ہیں۔ ہر ایک کذاب بدکار پر شیطان اُترتے ہیں۔
اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں۔ اُن کو کہہ کہ میرے پاس خد اکی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرو گے یا نہیں۔میرے ساتھ میرا رب ہے عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا۔ اے میرے رب مجھے دکھلا کہ تُو کیونکر مُردوں کو زندہ کرتا ہے۔ اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر۔ اے میرے رب مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تُو خیرالوارثین ہے۔ اے میرے رب اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کردے اور تُو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ ور اُن کو کہہ کہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کے لئے عمل میں مشغول رہو۔ اور میں بھی عمل میں مشغول ہوں۔پھر دیکھو گے کہ کس کے عمل میں قبولیت پید اہوتی ہے2۔اورتُو کِسی کام کے متعلق یہ بات ہرگز نہ کہہ کہ مَیں کل اسے ضرور کروں گا۔ اللہ کے سوا تجھے اوروں سے ڈراتے ہیں۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں نے تیرانام متوکل رکھا ہے۔خدا
1۔ یہ فقرہ دو مرتبہ فرمایا گیا .... اس میں ایک شہادت سے مراد کسوفِ شمس ہے اور دوسری شہادت سے مراد خسوفِ قمر ہے۔ ‘‘ (اربعین نمبر3 صفحہ 27 ۔ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 415، 416)
2۔ (ترجمہ از مرتب) اور تُو کسی کام کے متعلق یہ بات ہرگز نہ کہہ کہ میں کل اسے ضرور کروں گا۔
عَرْشِہٖ۔ نَحْمَدُکَ وَ نُصَلِّی۔ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطَفِئُوْ انُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ۔ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۔ اِذَاجَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَلْفَتْحُ وَانْتَھٰٓی اَمْرُالزَّمَانِ اِلَیْنَآ۔ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْحَقِّ۔ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُئْ یَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا۔ وَقَالُوْآ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ‘فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِ بًا۔ وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَ لَا النَّصٰارٰی۔ وَخَرَقُوْالَہ‘ بَنِیْن وَبَنَاتٍ م بِغَیْرِ عِلْمٍ۔ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد’‘۔ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ‘کُفُوًا اَحَدٌ۔ وَیَمکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُالْمَاکِرِیْن۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَافَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوْا الْعَزْمِ۔ وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ ۔ وَاِمَّانُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَ فَّیَنَّک ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ۔ اِنِّیْ مَعَکَ
عرش پر سے تیری تعریف کررہا ہے۔ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں مگر خدا اس نور کو نہیں چھوڑے گا۔ جب تک پورا نہ کرلے اگرچہ منکر کراہت کریں۔ ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈالیں گے۔ جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گا۔ تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا جیسا کہ تم نے سمجھا1۔میری پہلے کی رؤیاکی حقیقت ہے۔ جسے میرے رب نے پورا کرکے سچا ثابت کردیا۔2اور کہیں گے کہ یہ تو صرف ایک بناوٹ ہے۔کہہ خدا نے یہ کلا م اتارا ہے پھر ان کو لہو ولعب کے خیالات میں چھوڑ دے۔ کہہ اگر میں نے افتراء کیا ہے تو میری گردن پر میرا گناہ ہے۔ اور افتراء کرنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہے۔ پادری لوگ اور یہودی صفت مسلمان تجھ سے راضی نہیں ہوں گے۔اور خدا کے بیٹے اور بیٹیاں انہوں نے بنا رکھی ہیں ۔1ان کو کہدے کہ خدا وہی ہے جو ایک ہے اور بے نیاز ہے۔ نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ وہ کسی کا بیٹا۔ اور نہ کوئی اس کا ہم کفو۔اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا۔3ایک فتنہ برپا ہوگا پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا۔اور خدا سے اپنے صدق کا ظہور مانگ۔اور ہم قادر ہیں کہ تیری موت سے پہلے کچھ ان کو اپنا کرشمہ قدرت دکھا دیں جس کا ہم وعدہ کرتے ہیں یا تجھ کو وفات دیویں۔ اور خدا ایسا نہیں ہے کہ جن میں تو ہے 4
1۔ (ترجمہ از مرتّب) یہ میری پہلے کی رؤیا کی حقیقت ہے جسے میرے ربّ نے پورا کرکے سچا ثابت کردیا۔
2۔ (بقیہ ترجمہ از مرتّب) 57بغیر کسی ثبوت کے 3۔ (بقیہ ترجمہ از مرتب) 59 اور اللہ تعالیٰ سب سے اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔
حضور رسالہ دافع البلاء میں اس الہام کا ترجمہ یہ فرماتےہیں کہ’’ عیسائی لوگ ایذارسانی کے لئے مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے اور کہہ کہ خدایا پاک زمین میں مجھے جگہ دے‘‘ (دافع البلاء صفحہ 21۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 241)
4۔’’ ای ما کان اللّٰہ لیعذّ بھم بعذاب کامل وانت ساکن فیھم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 241حاشیہ نمبر 1۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 267)
(ترجمہ از مرتّب) یعنی ان کے اندر تمہاری موجودگی کی حالت میں اللہ تعالیٰ ان پر کامل عذاب ہرگز نہیں بھیجے گا۔
وَکُنْ مَّعَی اَیْنَمَاکُنْتَ۔ کُنْ مَّعَ 1 اللّٰہِ حَیْثُمَا کُنْتَ۔ اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَا فْتِخَارًا لِّلْمُؤْ مِنِیْنَ۔ وَلَا تَیْئَسْ مِن رَّوْحِ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ یَاْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ۔ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ اِنَّا فَتَحْنَا لَکً فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ فَتْحُ الْوَلِیِّ فَتْحٌ وَّقَرَّبْنَاہُ نَجِیّاً۔ اَشْجَعُ النَّاسِ۔ وَلَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقاً بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ۔ اَنَارَ اللّٰہُ بُرْھَانَہٗ۔ یَآ اَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا۔ یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہ‘عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ۔ 2 وَ وَجَدَکَ ضَآ لًّافَھَدٰی۔ وَنَظَرْنَآ اِلَیْکَ وَقُلْنَایَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ۔ خَزَا ئِنُ3 رَحْمَۃِ رَبِّکَ۔ یَآ اَیُّھَا الْمُدَّ ثِّرُقُمْ فَاَ نْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ یَا اَحْمَدُ یَتِمُّ اسْمُکَ
ان کو عذاب کرے۔میں تیرے ساتھ ہوں سو تو ہر ایک جگہ میرے ساتھ رہ تُو جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہ۔تم لوگ جدھر بھی رُخ کروگے اُدھر ہی اللہ تعالٰ کی توجّہ ہوگی۔ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے نکالے گئے ہو۔تم مومنوں کا فخر ہو اور تم خدا کی رحمت سے نا امید مت ہو۔ خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے۔وہ مدد ہر ایک دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گےگہرے ہوجائیں گے۔ اور اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گے۔خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ہم ایک کھلی کھلی فتح تجھ کو عطا کریں گے۔ولی کی فتح ایک بڑی فتح ہے اور ہم نے اس کو ایک ایسا قرب بخشا کہ ہمراز اپنا بنادیا۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ بہادر ہے۔اور اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تو وہیں سے جاکر اس کو لے لیتا۔خدا اس کی حجت روشن کرے گا۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی۔ تُو میری آنکھوں کے سامنے ہے۔خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تیرے پر پوری کرے گا۔اور ہم نے
1 (ترجمہ از مرتّب) تُو جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہ۔ تم لوگ جدھر بھی رُخ کروگے اُدھر ہی اللہ تعالٰ کی توجّہ ہوگی۔
2 (ترجمہ از مرتّب) اور اس نے تجھے طالبِ ہدایت پایا پس اس نے تیری رہنمائی کی۔
3 (ترجمہ از مرتّب) تیرے رب کی رحمت کے (ہرقسم کے) خزانے (تجھے دیئے جائیں گے) اے کپڑا اوڑھنے والے اُٹھ اور (لوگوں کو آنے والے خطرات سے) ڈرا اور اپنے ربّ کی بڑائی بیان کر۔
وَلَا یَتِمُّ اسْمِیْ1۔ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ۔ وَکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ الصِّدِّیْقِیْنَ۔ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ الصَّلٰوۃُ ھُوَ الْمُرَبِّیْ۔ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ فَاکْتُبْ وَلْیُطْبَعْ وَلْیُرْسَلْ فِی الْاَرضِ۔ خُذُواالتَّوْحِیْدَاالتَّوْحِیْدَیَآاَبْنَآئَ الْفَارِسِ۔ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ٓااَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَرَبِّھِمْ۔ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ مَّآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔ وَلَا تُصَعِرْلِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَاتَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ۔
تیری طرف نظر کی۔ اور کہا کہ اے آگ جو فتنہ کی آگ قوم کی طرف سے ہے اس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا۔ ۔اے احمدتیرا نام پورا ہوجائے گا اور میرا نام پورا نہیں ہوگا2۔ اور اپنی محبت تیرے پر ڈال دی۔ وہ خدا حقیقی معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں3۔ توحید کو پکڑو۔ توحید کو پکڑو۔اے فارس کے بیٹو۔اور تُو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنا کہ ان کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے۔سو ان کو وہ وحی سنا دے جو تیری طرف سے تیرے رب سے ہوئی۔اور یاد رکھ کہ وہ زمانہ آتاہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے۔ سو تیرے پر واجب ہے کہ تو ان سے بدخلقی نہ کرے۔ اور تجھے لازم ہے کہ ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے۔ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے
1۔(الف) ای انت فان فینقطع تحمید ک۔ ولاینتہی محامد اللّٰہ۔ فانھا لاتعد ولا تحصی۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ242 بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر1۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 267)
(ترجمہ از مرتب)یعنی تم چونکہ فانی ہو۔ اس لئے تمہاری تحمید محدود ہے مگر اللہ تعالیٰ کے محامد غیر متناہی ہیں۔ کیونکہ وہ بے شمار اور بے انتہاء ہیں۔
(ب) وَاِذَا اَنَا رَالنَّاسَ بِنُوْرِ رَبِّہٖ اَوْبَلَّغَ الْاَمْرَبِقَدرِ الْکِفَایَۃِ فَحِیْنَئِذٍیَّتِمُّ اسْمُہ‘وَیَدْعُوْہُ رَبُّہ‘وَیُرْ فَعُ رُوْحُہ‘اِلٰی نُقْطَتِہِ النَّفْسِیَّۃِ۔
(ترجمہ) اور جب خلقت کو اپنے رب کے نور کے ساتھ روشن کر چکا یا امر تبلیغ کو بقدر کفایت پورا کردیا پس اس وقت اس کا نام پورا ہوجاتا ہے اور اس کا رب اس کو بُلاتا ہے اور اس کی روح اس کے نقطۂ نفسی کی طرف اُٹھائی جاتی ہے۔ (خطبہ الہامیہ صفحہ 10روحانی خزائن جلد نمبر16 صفحہ 41)
2۔ تو دنیا میں ایسے طور پر رہ کہ گویا تو ایک غریب الوطن بلکہ ایک راہرو ہے۔ اور صالح اور راستباز لوگوں میں سے ہو۔ اور نیکی کی تحریک کر۔ اور بُری باتوں سے روک۔ اور محمدؐ اور محمدؐ کی آل پر درود بھیج۔ درود ہی تربیت کا ذریعہ ہے۔ میں تجھے رفعت دے کر اپنا خاص قرب بخشنے والا ہوں۔
3 (ترجمہ از مرتب) پس تُو لکھ اور اسے چھپوایا جائے اورتمام دُنیا میں بھیجا جائے۔
اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَآ اَدْرَاکَ مَآاَصحَابُ الصُّفَّۃِ تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِن الدَّمْعِ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ۔رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ وَدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ اَمْلُوْا۔
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ238تا242 حاشیہ در حاشیہ نمبر1 روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 265 تا 268)
1882ء
’’براہین کے صفحہ 242میں مرقوم ہے...... وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ....... اور اس کے بعد الہام ہوا:۔
وَوَسِّعُ مَکَا نَکَ
یعنی اپنے مکان کو وسیع کرلے
اس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنے والوں کا بہت ہجوم ہوجائے گا یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہوجائے گا۔ پس تُو نے اس وقت ملال ظاہر نہ کرنا۔ اورلوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا۔ سبحان اللہ یہ کس شان کی پیش گوئی ہے اور آج سے 17 برس پہلے اس وقت بتلائی گئی ہے کہ جب میری مجلس میں شاید دو تین آدمی آتے ہوں گے اور وہ بھی کبھی کبھی۔ اس سے کیسا علم غیب خدا کا ثابت ہوتاہے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ63، 64 روحانی خزائن جلد نمبر12 صفحہ 73)
تیرے حجروں میں آکر آباد ہوں گے۔ وہی ہیں جو خدا کے نزدیک اصحاب الصُفّہ1کہلاتے ہیں اور تُو کیا جانتا ہے کہ وہ کس شان اور کس ایمان کے لوگ ہوں گے جو اصحاب الصفہ کے نام سے موسوم ہیں۔ وہ بہت قوی الایمان ہوں گے۔ تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوں گے۔ وہ تیرے پر درود2بھیجیں گے۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی۔ جو ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے۔ سو ہم ایمان لائے۔ان تمام پیش گوئیوں کو تم لکھ لو کہ وقت پر واقع ہوں گی۔
1۔ ’’خدا تعالیٰ نے انہی اصحاب الصفہ کو تمام جماعت میں سے پسند کیا ہے اورجو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا اور کم سے کم یہ کہ یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا۔ اُس کی حالت کی نسبت مجھ کو بڑا اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے۔ اور یہ ایک پیش گوئی عظیم الشان ہے۔ اور ان لوگوں کی عظمت ظاہر کرتی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے علم میں تھے کہ وہ اپنے گھروں اور وطنوں اور املاک کو چھوڑیں گے۔ اور میری ہمسائیگی کے لئے قادیان میں بود و باش کریں گے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ60 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 262، 263)
2 انسانی عادت اور اسلامی فطرت میں داخل ہے کہ مومن کسی ذوق کے وقت اور کسی مشاہدہ کرشمہ قدرت کے وقت درود بھیجتا ہے۔ سو اس یُصَلُّوْنَ عَلَیکَ کے فقرہ میں اشارہ ہے کہ وہ لوگ جو ہر دم پاس رہیں گے وہ کئی قسم کے نشان دیکھتے رہیں گے۔ پس ان نشانوں کی تاثیر سے بسا اوقات ان کے آنسو جاری ہوجائیں گے۔ اور شدت ذوق اور رقت سے بے اختیار دُرود ‘ ان کے منہ سے نکلے گا۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آرہا ہے۔ اور یہ پیش گوئی بار بار ظہور میں آرہی ہے۔‘‘ (اربعین نمبر2 صفحہ 5 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 350)
1882ء یا اس سے قبل
’’ایک مرتبہ اس عاجز نے اپنی نظر کشفی میں سورۂ فاتحہ کو دیکھا کہ ایک ورق پر لکھی ہوئی اس عاجز کے ہاتھ میں ہے اور ایک ایسی ہی خوبصورت اوردلکش شکل میں ہے کہ گویا وہ کاغذ جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہے۔ سُرخ سُرخ اور ملائم گلاب کے پھولوں سے اس قدر لدا ہوا ہے کہ جس کا کچھ انتہا نہیں۔ اور جب یہ عاجز اس سورۃ کی کوئی آیت پڑھتا ہے تو اس میں سے بہت سے گلاب کے پھول ایک خوش آواز کے ساتھ پرواز کرکے اوپر کی طرف اُڑتے ہیں۔ اور وہ پھول نہایت لطیف اور بڑے بڑے اور سُندر اور تروتازہ اور خوشبودار ہیں۔ جن کے اُوپر چڑھنے کے وقت دل و دماغ نہایت معطر ہوجاتا ہے۔ اور ایک ایسا عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں۔ کہ جو اپنی بے مثل لذتوں کی کشش سے دنیا و مافیہا سے نہایت درجہ نفرت دلاتے ہیں۔
اس مکاشفہ سے معلوم ہوا۔ کہ گلاب کے پھول کو سورۃ فاتحہ کے ساتھ ایک روحانی مناسبت ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ نمبر11صفحہ 332 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 395، 396 حاشیہ نمبر11)
1882ء
’’کچھ عرصہ گذرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی۔ جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا....... اِس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرت ِ احدیت میں دعا کی جائے۔ تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے۔ اور دوسرے مخالفین کے لئے تائید الٰہی کا نشان پیدا ہو۔ ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں۔ سو اُسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے۔ تب یہ الہام ہوا:۔
دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں۔ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ فِیْ شَآئِلٍ مِّقْیَاسٍ۔
دن وِل یُو گو ٹو امرت سر.1
یعنی دس دن کے بعد روپیہ آئے گا۔ خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اُٹھاتی ہے۔ تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے۔ ایسا ہی مدد الٰہی بھی قریب ہے۔ اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرت سر بھی جاؤ گے۔
تو جیسا اس پیش گوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورۂ بالا کے روبرو وقوع میں آیا۔ یعنی حسب منشاء پیش گوئی دس دن تک ایک خر مہرہ نہ آیا۔ اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے۔ اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے۔ اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوگیا۔ جس کی امید نہ تھی۔ اور اُسی روز کہ جب دس دن کے گذرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب
1 Then will you go to Amirtsar
وغیرہ کا روپیہ آیا۔ امرت سر بھی جانا پڑا۔ کیونکہ عدالت ِ خفیفہ امرت سر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اُسی روز ایک سمن آگیا۔‘‘
)براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 468،470حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 559، 561(
1882ء
’’کچھ عرصہ ہوا.........ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں۔ بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظِ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں۔ اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے......چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر اُنہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارے میں اُن کے دل میں تھی1 مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کردی۔ اس لئے دل میں بہت رنج گذرا۔ ہر چند معقول طور پر سمجھایا گیا کچھ اثر مترتب نہ ہوا۔ آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی۔ اور اُن کو قبل از ظہور پیش گوئی بتلایا گیا کہ خداوند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعا بہ پایہ ٔ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیش گوئی خداوند ِ کریم ظاہر فرما دے جس کو تم بچشمِ خود دیکھ جاؤ۔
سو اُس رات اِس مطلب کے لئے قادرِ مطلق کی جناب میں دعا کی گئی۔ علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایا گیا۔ جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے۔ اس خط میں انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے:۔
آئی ایم کو ٔرلر2
اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے:۔
ھٰذَا شَا ھِدٌ نَّزَّاغٌ
اور یہی الہام حکایتہ عنِ الکاتب القا کیا گیا۔ اور پھر وہ حالت جاتی رہی۔
چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا۔ اس جہت سے پہلےعلی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر اور اُس آنے والے خط سے مطلع کرکے پھر اُسی وقت ایک انگریزی خوان سے اُس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے۔ تو معلوم ہوا۔ کہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ میں جھگڑنے والا ہوں۔ سو اُس مختصر فقرہ سے یقینا یہ معلوم ہوگیا۔ کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے اور ھٰذَا شَاھِدٌ نَّزَّاعٌ کہ جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اُس کے یہ معنے کھلے کہ کاتب ِ خط نے کسی مقدمہ کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے۔
اُسی دن حافظ نور احمد صاحب بہ باعث ِ بارش باران امرت سر جانے سے روکے گئے۔ اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے اُن کا روکا جانا بھی قبولیت ِ دعا کی ایک جزتھی۔ تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی
1 کہ الہام انسان کے دماغی خیالات ہی کا نام ہے۔ (مرتّب)
2 I am quarreler
پیش گوئی کے ظہور کو بچشمِ خود دیکھ لیں۔ غرض اُس تمام پیش گوئی کا مضمون ان کو سنا دیا گیا۔ شام کو اُن کے روبرو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرتسر سے آیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کاتب پر جو اِسی کتاب کا کاتب ہے عدالت ِ خفیفہ میں نالش کی ہے۔ اور اِس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے۔ اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا۔ اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی ھٰذَا شَاھِدٌ نَّزَّاغٌ جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے۔ ان معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتمم مطبع سفیر ہند کے دل میں بہ یقین ِ کامل یہ مرکوز تھا کہ اس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہوگی بباعث و ثاقت اور صداقت اور نیز بااعتبار اور قابل ِ قدر ہونے کی و جہ سے سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی۔ اور اسی نیت سے مہتمم مذکور نے اس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاری کرایا۔
اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور امرت سرجانے کا سفر پیش آیا۔ وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا۔ سو وہ پہلی پیش گوئی بھی میاں نور احمد صاحب کے رُوبرو پوری ہوگئی۔ یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا۔ روپیہ آگیا۔ اور امرت سر بھی جانا پڑا۔ فا لحمدللّٰہ علی ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 471۔ 474حاشیہ در حاشیہ نمبر3روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 562۔565)
1882ء
’’ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ
آج حاجی ارباب محمد لشکر خاں کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے
یہ پیش گوئی بھی بدستورِ معمول اُسی وقت چند آریوں کو بتلائی گئی اور یہ قرار پایا کہ اُنہیں میں سے ڈاک کے وقت کوئی ڈاک خانہ میں جاوے۔ چنانچہ ایک آریہ ملاوامَل نامی اُس وقت ڈاک خانہ میں گیا اور یہ خبر لایا کہ ہوتی مردان سے دس عہ روپے آئے ہیں۔اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ یہ دس عہ روپیہ ارباب سرور خاں نے بھیجے ہیں۔ چونکہ ارباب کے لفظ سے اتحادِ قومی مفہوم ہوتا تھا۔ اس لئے اُن آریوں کو کہا گیاکہ ارباب میںدونوں صاحبوں کی شراکت ہونا پیش گوئی کی صداقت کے لئے کافی ہے۔ مگر بعض نے اُن میں سے اس بات کو قبول نہ کیا۔ اور کہا کہ اتحادِ قومی شے دیگر ہے اور قرابت شے دیگر۔ اور اس انکار پر بہت ضد کی۔ ناچار ان کے اصرار پر خط لکھنا پڑا۔ اور وہاں سے یعنی ہوتی مردان سے کئی روز کے بعد ایک دوست منشی الٰہی بخش نامی نے جو اُن دنوں ہوتی مردان میں اکونٹنٹ تھے خط کے جواب میں لکھا کہ ارباب سرور خاں ارباب محمد لشکر خاں کا بیٹا ہے۔ چنانچہ اُس خط کے آنے پر سب مخالفین لاجواب اور عاجز رہ گئے۔ فالحمدللّٰہ علی ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 474،475 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 565،566)
30دسمبر 1882ء
(الف) ’’ایک عجیب کشف سے جو مجھ کو30 ؍دسمبر 1882ء بروز شنبہ یک دفعہ ہوا۔ آپکے1شہر2کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص3نامعلوم الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی جو باشندۂ لدھیانہ ہے۔ اس عالمِ کشف میں اس کا تمام پتہ و نشان سکونت بتلادیا۔ جو اَب مجھ کو یاد نہیں رہا۔ صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لدھیانہ اور اُس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا:۔
سچا ارادتمند 4 اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَافِی السَّمَآءِ
یعنی اس کی ارادت ایسی قوی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ تزلزل ہے نہ نقصان ہے۔
(از مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 4خط بنام میر عباس علی صاحب)
(ب) میں نے قریب صبح کے کشف کے عالم میں دیکھا کہ ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا گیا۔ اس پر لکھا ہے۔ کہ
’’ایک ارادتمند لدھیانہ میں ہے۔‘‘
پھر اس کے مکان کا پتہ مجھے بتلایا گیا اور نام بھی بتلایا گیا جو مجھے یاد نہیں۔ اور پھر اس کی ارادت اور قوت ایمانی کی یہ تعریف اسی کاغذ میں لکھی ہوئی دکھائی۔
’’ اَصْلُھَا ثَا بِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ‘‘
1 میر عبّاس علی صاحب لدھیانوی 2 لدھیانہ
3 ’’لدھیانہ میں ایک صاحب میر عباس علی نام تھے۔ جو بیعت کرنے والوں میں داخل تھے۔ چند سال تک انہوں نے اخلاص میں ایسی ترقی کی کہ ان کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک دفعہ الہام ہوا۔اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْ عُھَا فِی السّمآءِ۔ اس الہام سے صرف اس قدر مطلب تھا کہ اس زمانہ میں وہ راسخ الاعتقاد تھے۔ سو ایسے ہی انہوں نے اس زمانہ میں آثار ظاہر کئے کہ ان کے لئے بجز میرے ذکر کے اور کوئی ورد نہ تھااور ہر ایک میرے خط کو نہایت درجہ متبرک سمجھ کر اپنے ہاتھ سے اس کی نقل کرتے تھے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے اور اگر ایک خشک ٹکڑا بھی دستر خوان کا ہو تو متبرک سمجھ کر کھاجاتے تھے اور سب سے پہلے لدھیانہ سے وہی قادیان میں آئے تھے ایک مرتبہ مجھ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھایا گیا کہ عباس علی ٹھوکر کھائے گا۔ اور برگشتہ ہوجائے گا۔ وہ میرا خط بھی اُنہوں نے میرے ملفوظات میں درج کرلیا۔ بعد اس کے جب اُن کی ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے مجھ کو کہا۔ کہ مجھ کو اس کشف سے جو میری نسبت ہوا بڑا تعجب ہوا۔ کیونکہ میں تو آپ کے لئے مرنے کو تیار ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ کے لئے مقدر ہے وہ پورا ہوگا۔ بعد اس کے جب وہ زمانہ آیا۔ کہ میں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ تو وہ دعویٰ اُن کو ناگوار گذرا۔ اوّل دل ہی دل میں پیچ تاب کھاتے رہے۔ بعد اس کے مباحثہ کے وقت جو مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب سے لدھیانہ میں میری طرف سے ہوا تھا۔ اور اس تقریب سے چند دن اُن کو مخالفوں کی صحبت بھی میسر آگئی تو نوشتہ ٔ تقدیر ظاہر ہوگیا۔ اور وہ صریح طور پر بگڑ گئے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 294۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 307)
4 (ترجمہ از مرتّب) اس کی جَڑ زمین میں مُحکم ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون شخص ہے مگر مجھے شک پڑتا ہے کہ شاید خداوند ِ کریم آپ1 ہی میں وہ حالت پیدا کرے یا کسی اور میں۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(مکتوب مسیح موعود علیہ السلام مؤرخہ 18؍ جنوری 1883ء بنام نواب علی محمد خان صاحب جھجرؓ)
(مندرجہ الفضل جلد2نمبر90مؤرخہ12؍ جنوری 1915ء صفحہ 8کالم نمبر1)
1883ء
’’ آنمخدوم کی تحریرات کے پڑھنے سے بہت کچھ حالِ صداقت و نجابت ِ آنمخدوم ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بنظرِ کشفی بھی کچھ ظاہر ہوا تھا۔ شاید کسی زمانہ میں خداوند کریم اس سے زیادہ اور کچھ ظاہر کرے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ17 فروری1883ء مطابق8؍ربیع الاوّل1300ھ۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ6)
1883ء
’’ جس روز آپ2کا خط آیا۔ اسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں۔ اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گے۔ یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک رابطہ بخشی ہے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ3؍مارچ1883ء ۔مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ6)
1883ء3
’’وقت ملاقات ایک گفتگو کے اثناء میں بہ نظر کشفی آپ4کی حالت ایسی معلوم ہوئی۔ کہ کچھ دل میں انقباض5 ہے۔
اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے۔ حضرت احدیت کی نظر میں درست نہیں تو اس پر الہام ہوا:۔
قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَا نَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ 2
.....اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ مگر بہت سی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اس کو دور کردے۔ مگر تعجب
1 مراد نواب علی محمد خان صاحب جھجر۔(مرتب)
2 میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔(مرتب)
3 کتاب حیات احمد جلد 2نمبر2 صفحہ 66سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اوائل1883ء کا مکاشفہ ہے واللہ اعلم۔(مرتب)
4 میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔(مرتب)
5 اس کشف کے مطابق میر عباس علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کے وقت برگشتہ ہوگئے اور اس حالت پر اُن کا انجام ہوا۔ اس مکتوب کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 22؍ستمبر1883ء کے مکتوب میں بھی اُنہیں اس آنے والے ابتلاء سے آگاہ کیا تھاجس کے الفاظ یہ ہیں:۔
’’خدا وند کریم آپ کی تائید میں رہے اور مکر وہاتِ زمانہ سے بچاوے۔ اس عاجز سے تعلق اور ارتباط کرنا کسی قدر ابتلاء کو چاہتا ہے سو اس ابتلاء سے آپ بچ نہیں سکتے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 65)
6 (ترجمہ از مرتب) کہہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ۔
نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے۔ جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے‘ تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اس گھر کی وضع قطع میں بعض اُمور اُس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں اس لئےمناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں۔ اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب نہ ہوں۔ تا یہ محبت کمال کے درجہ تک پہنچ جائے۔ یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حالت رکھتا ہے۔ جو زمانہ کی رسمیات سے بہت ہی دُور پڑی ہوئی ہے اور ابھی تک ہر ایک رفیق کو یہی جواب روح کی طرف سے ہے اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا۔ وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَالَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا۔ 1
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ15 مکتوب بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی)
1883ء
’’ پنڈت شیو نارائن نے جو برہمو سماج کا ایک منتخب معلّم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سوم2 کا ردّ لکھنا چاہتا ہوں۔ ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اس خط کا ظاہر کردیا۔ چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندو کو ہی جو آریہ ہے ڈاک خانہ بھیجا گیا تا گواہ رہے۔ وہی ہندو اُس خط کو ڈاک خانہ سے لایا۔ پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو۔ خدا نے اُسی کے ذریعہ سے تمہارے خط کی اطلاع دی۔ اور اُس کے مضمون سے مطلع کیا۔ اگر تم کو شک ہے تو خود قادیان آکر اُس کی تصدیق کرلو۔ کیونکہ تمہارے ہندو بھائی اس کے گواہ ہیں۔ ردّ لکھنے میں بہت سی تکلیف ہوگی اور اس طرح جلدی فیصلہ ہوجائے گا۔‘‘
( از مکتوب3؍مارچ1883ء مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 6، 7)
اپریل 1883ء
’’ ایک دفعہ اپریل1883ء میں صبح کے وقت بیداری ہی میں جہلم سے روپیہ روانہ ہونے کی اطلاع دی گئی۔ اور ......اُس روپیہ کے روانہ ہونے کے بارہ میں جہلم سے کوئی خط نہیں آیا تھا.......اور ابھی پانچ روز نہیں گذرے تھے جو پینتالیس روپیہ کا منی آرڈر جہلم سے آگیا۔ اور جب حساب کیا گیا تو ٹھیک ٹھیک اُسی دن منی آرڈر روانہ ہوا تھا جس دن خداوند عالم الغیب نے اُس کے روانہ ہونے کی خبر دی تھی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ475، 476 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 567، 568)
1883ء
’’ ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالی شان حاکم یا بادشاہ کاایک خیمہ لگا ہوا ہے۔ اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہورہے ہیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ د فتر کا عہدہ رکھتا ہے۔ اور جیسے د فتروں میں مثلیں ہوتی ہیں۔ بہت سی مثلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ د فتر کی طرح
1 الکھف : 68-69 2 مراد براہین احمدیہ حصّہ سوم (مرتّب)
ہے۔ اتنے میں ایک اردلی دوڑتا آیا۔ کہ مسلمانوں کی مثل پیش ہونے کا حکم ہے وہ جلد نکالو۔
پس یہ رؤیابھی دلالت کررہی ہے کہ عنایات الٰہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں۔ اور یقین کامل ہے کہ اس قوتِ ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہوگئے ہیں۔ پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتّع کرے گا۔ کہ ہر ایک برکت ظاہری اور باطنی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 19،20)
1883ء
’’ چند روز ہوئے کہ خداوند کریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا.......
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْ نِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یُوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ یَجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔1
اور یہ آیت کہ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یُوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ بار بار الہام ہوئی۔اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے۔ اور اس قدر ‘ زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہوگئی اس سے یقینا معلوم ہواکہ خداوند کریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا۔ اوران کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے۔ اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی۔ یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلّف نہیں کرے گا۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 12؍ جون1883ء ۔مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ24)
12جون 1883
’’آج قبل تحریر اس خط کے یہ الہام ہوا:۔
کَذَابَ عَلَیْکُمُ الْخَبِیْثُ۔ کَذَابَ عَلَیْکُمُ الْخِنْزِیْرُ۔ عِنَایَتُ اللّٰہِ حَافِظُکَ۔ اِنِّیْ مَعَکَ اَسْمَعُ وَاَریٰ۔ اَلَیْسَ اللّٰہ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ فَبَرَّا اَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْد اللّٰہِ
1 (ترجمہ از مرتب) کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔ اور میں تیرے تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔ لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا۔ کہہ وہ خدا عجیب ہے جس کو چاہتا ہے۔ اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔
وَجِیْھًا 1
ان الہامات میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی ناپاک طبع آدمی2اِس عاجز پر کچھ جھوٹ بولے گا یا جھوٹ بولا ہو۔ مگر عنایت الٰہی حافظ ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 12؍ جون1883ء مکتوباتِ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 23)
1883 یا اس سے قبل
’’کئی دفعہ اس عاجز کو نہایت صراحت سے الہام ہوا کہ
وید گمراہی سے بھرا ہوا ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 28)
1883 یا اس سے قبل
’’کچھ عرصہ ہوا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ حیدر آباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ لکھا ہے.....پھر تھوڑے دنوں کے بعد حیدر آباد سے خط آگیا۔ اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 477 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 568، 569)
1 (ترجمہ از مرتب) تم پر اس ناپاک نے جھوٹ باندھا ہے۔ تم پر اس خنزیر نے جھوٹ باندھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت تیری نگہبان ہے۔ میں تیرے ساتھ ہوں۔ میں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کو بَری ثابت کیا۔ اور وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے۔
2 (نوٹ از مرتب) یہ اس مقدمہ کی طرف اشارہ ہے جو مارٹن کلارک نے اگست 1897ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کھڑا کیا تھا۔ چنانچہ حضور اقدس تحریر فرماتے ہیں:۔’’اس مقدمہ کے ذریعہ سے جو خون کے الزام کا مقدمہ تھا۔ وہ الہامی پیش گوئی پوری ہوئی جو براہین احمدیہ میں اس مقدمہ سے 20 برس پہلے درج تھی اور وہ الہام یہ ہے:۔
فَبَرَّاَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا۔
یعنی خدا اس شخص کو اس الزام سے جو اس پر لگایا جائے گا بَری کردے گا کیونکہ وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے۔ سو یہ خدا تعالیٰ کا ایک بھاری نشان ہے کہ باوجود یکہ قوموں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے اتفاق کرلیا تھا مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب تھے ہندوؤں کی طرف سے لالہ رام بھجدت وکیل تھے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب مع اپنی تمام جماعت آئے اور جنگ احزاب کی طرح ان قوموں نے بالاتفاق میرے پر چڑھائی کی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے سب کو ذلیل کیا اور مجھے بَری کیا.........تا وہ بات پُوری ہو جس کی طرف اس الہامی پیش گوئی میں اشارہ تھا کہ بَرَّ اَ ہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ200، 201 روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 578،579)
1883 یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں اوّل یہ الہام ہوا:۔
آئی لَوْ یُو1
یعنی میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔
پھر یہ الہام ہوا:۔
آئی ایم وِد یُو2
یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں۔
پھرالہام ہوا:۔
آئی شیل ہیلپ یُو3
یعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔
پھر الہام ہوا:۔
آئی کین وہٹ آئی وِل ڈُو3
یعنی میں کرسکتا ہوں جو چاہوں گا۔
پھر اس کے بعد بہت ہی زور سے جس سے بدن کانپ گیا یہ الہام ہوا:۔
وِی کین وَہٹ وِی وِل ڈُو 4
یعنی ہم کرسکتے ہیں جو چاہیں گے۔
اور اُس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے۔ جو سر پر کھڑا ہوا بول رہا ہے اور باجود پُر دہشت ہونے کے پھر اُس میں ایک لذت تھی جس سے رُوح کو معنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفی ملتی تھی۔ اور یہ انگریز ی زبان کا الہام اکثر ہوتا رہا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ480،481 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 571، 572)
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ صبح کے وقت بہ نظر کشفی چند ورق چھپے ہوئے دکھائے گئے کہ جو ڈاک خانہ
1. I love you. 2. I am with you.
3. I shall help you. 4. I can what I will do 5. We can what we will do.
سے آئے ہیں اور اخیر پر اُن کے لکھا تھا:۔
آئی ایم بائی عیسٰے 1
یعنی میں عیسٰے کے ساتھ ہوں
چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خوان سے دریافت کرکے دو ہندو آریہ کو بتلایا گیا جس سے یہ سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص عیسائی یا عیسائیوں کی طرز پر دین اسلام کی نسبت کچھ اعتراض چھپواکر بھیجے گا چنانچہ اُسی روز ایک آریہ کو ڈاک آنے کے وقت ڈاک خانہ میں بھیجا گیا تو وہ چند چھپے ہوئے ورق لایا۔ جس میں عیسائیوں کی طرز پر ایک صاحب خام خیال نے اعتراضات لکھے تھے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ481، 482 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 573، 575)
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ کسی امر میں جو دریافت طلب تھا خواب میں ایک درم نُقرہ جو بشکل بادامی تھا اِس عاجز کے ہاتھ میں دیا گیا۔ اُس میں دو سطریں تھیں۔ اوّل سطر میں یہ فقرہ لکھا تھا:۔
یس آئی ایم ہیپی2
اور دوسری سطر جو خطِ فارق ڈال کر نیچے لکھی ہوئی تھی وہ اُسی پہلی سطر کا ترجمہ تھا۔ یعنی یہ لکھا تھا کہ
ہاں میں خوش ہوں‘‘
)براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 482،483 حاشیہ در حاشیہ نمبر1روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 574،575(
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ کچھ حزن اور غم کے دن آنے والے تھے کہ ایک کاغذ پر بہ نظر کشفی یہ فقرہ انگریزی میں لکھا ہوا دکھایا گیا:۔
لائف آف پین 3
یعنی زندگی دُکھ کی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ483 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 575)
1883ء یا اس سے قبل
’’ایک دفعہ بعض مخالفوں کے بارہ میں جنہوں نے عنادِ دلی سے خواہ نخواہ قرآن شریف کی توہین کی تھی اور عداوتِ ذاتی سے جس کا کچھ چارہ نہیں، دین ِ متین اسلام پر بے جا اعتراضات اور بیہودہ تعرضات کئے
1. I am by Isa. 2. Yes, I am happy.
3. Life of pain.
تھے۔ دو فقرے انگریزی کے الہام ہوئے:۔
گاڈ اِز کمنگ بائی ہز آرمی1۔ ہی اِز وِد یُو ٹو کِل اینیمی2
یعنی خدا تعالیٰ دلائل اور براہین کا لشکر لے کر چلا آتا ہے۔ وہ دشمن کو مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 483، 484حاشیہ در حاشیہ نمبر 3روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 576، 577(
1883ء
’’ بُوْرِکْتُ یَآ اَحْمَدُ وَکَانَ مَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقّاً فِیْکَ
اے احمد تو مبارک کیا گیا ہے اور خدا نے جو تجھ میں برکت رکھی ہے۔ وہ حقانی طور پر رکھی ہے۔‘‘
شَاْنُکَ عَجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ
تیری شان عجیب ہے اور تیرا بدلہ نزدیک ہے
اِنِّیْ رَاضٍ مِّنْکَ۔ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ۔
میں تجھ سے راضی ہوں۔ میں تجھے اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں۔ زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہیں جیسے وہ میرے ساتھ ہیں۔
ھُوّ کا ضمیر واحد بتاویل مافی السمٰوات وا لارض ہے اور ان کلمات کا حاصل مطلب تلطفات اور برکاتِ الٰہیہ ہیں۔ جو حضرت خیرالرسل کی متابعت کی برکت سے ہرایک کامل مومن کے شامل حال ہوجاتی ہیں۔ اور حقیقی طور پر مصداق اِن سب عنایات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور دوسرے سب طفیلی ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 684تا 884 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
1883ء
پھر بعد اس کے فرمایا:۔
اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ
تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے۔ میں نے تجھے اپنے لئے اختیار کیا۔
1- God is coming by his army.
2 – He is with you to kill enemy.
نوٹ: انگریزی زبان میں لفظ بائی byبمعنی togather with اورin company withیعنی معیّت اور ساتھ ہونے کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے
Dialect Dictionary by Joseph wright P.470
اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدیْ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفُ بَیْنَ النَّاسِ۔
تو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید1۔ سو وہ وقت آگیا۔ جو تیری مدد کی جائے۔ اور تجھ کو لوگوں میں معروف و مشہور کیا جائے۔
ھَلْ اَتَی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّ ھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا۔
کیا انسان پر یعنی تجھ پر وہ وقت نہیں گذرا کہ تیرا دنیا میں کچھ بھی ذکر و تذکرہ نہ تھا۔ یعنی تجھ کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کون ہے اور کیا چیز ہے اور کسی شمار و حساب میں نہ تھا یعنی کچھ بھی نہ تھا۔
یہ گذشتہ تلطفات و احسا نات کا حوالہ ہے۔ تا محسن حقیقی کے آئندہ فضلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے۔
سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی زَادَ مَجْدَکَ۔ یَنْقَطِعُ اٰبَآوئُ کَ وَیُبْدَئُ مِنْکَ۔
سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں۔ جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے۔ اُس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا۔ تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہوجائے گا۔ یعنی بطور مستقبل اُن کا نام نہیں رہے گا۔ اور خدا تجھ سے ابتداء شرف اور مجد کرے گا۔
نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ وَاُحْیِیْتُ بِا لصِّدْقِ اَیُّھَا الصِّدِّیْقُ۔ نُصِرْتَ وَقَالُوْ لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ
تو رعب کے ساتھ مدد کیا گیا۔ اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا اے صدیق۔ تو مدد کیا گیا۔ اور مخالفوں نے کہا کہ اب گریز کی جگہ نہیں۔ یعنی امدادِ الٰہی اُس حد تک پہنچ جائے گی کہ مخالفوں کے دل ٹوٹ جائیں گے اور اُن کے دلوں پر اِس مستولی ہوجائے گی اور حق آشکارا ہوجائے گا۔
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُتْرُکَکَ حَتّٰی یَمِیْزَالْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ
اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے۔ جب تک وہ خبیث اور طیب میں صریح فرق نہ کرلے۔
وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ
اور خدا اپنے امر پر غالب ہے۔ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
1۔ ’’فرمایا کہ میرے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ شخص بہ منزلہ توحید کے ہوتا ہے جو کہ ایسے زمانہ میں آوے جبکہ توحید کی حقارت اور بے عزتی ہوتی ہے۔ اور شرک کی عظمت اور قدر کی جاتی ہو اس شخص مامورشدہ کو توحید کی پیاس ایسی لگائی جاتی ہے کہ وہ تمام اپنے اغراض اور مقاصد کو ایک طرف رکھ کر توحید کے کام کرنے میں خود ایک مجسم توحید ہوجاتا ہے اس کے اٹھنے بیٹھنے اور حرکت اور سکون اور ہر ایک قول و فعل اس توحید کی لو اُسے لگی ہوتی ہے۔ دنیا میں لوگوں نے اپنے مقاصد کو بُت بنارکھا ہے مگر جب تک خدا کسی کو یہ سوز و گداز توحیدکے واسطے نہ لگائے تب تک نہیں لگ سکتا جیسے لوگ اولاد اور اپنی دوسری اغراض کے لئے بے قرار ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض خود کشیاں کرلیتے ہیں۔ اسی طرح وہ توحید کے لئے بے قرار ہوتا ہے کہ خدا کی خواہشات اس کی توحید اور عظمت اور جلال غالب آویں۔ اس وقت کہا جاتا ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ تَوْ حِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ۔‘‘
(البدر جلد 2نمبر12 مؤرخہ10؍اپریل1903ء صفحہ91 کالم نمبر2)
اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔
جب مدد اور فتح الٰہی آئے گی اور تیرے رب کی بات پوری ہوجائے گی تو کفار اس خطاب کے لائق ٹھہریں گے کہ یہ وہی بات ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے۔
اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ۔ اِنِّیْ جَا عِلٌ فِی الْاَرْضِ
یعنی میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا ارادہ کیا۔ سو میں نے آدم کو پیدا کیا۔ میں زمین پر کرنے والا ہوں۔یہ اختصاری کلمہ ہے یعنی اس کو قائم کرنے والا ہوں۔ اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لئے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو۔ خلافت ِ ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے........بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے۔ اور آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابوالبشر ہے مراد نہیں۔ بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے سلسلہ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہو کر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے۔ گویا وہ روحانی زندگی کے رُو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے۔ اور یہ ایک عظیم الشان پیش گوئی ہے۔ جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ اُس سلسلہ کا نام و نشان نہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 489 تا 493حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 581 تا 586)
1883ء
’’ پھر بعد اِس کے اُس روحانی آدم کا روحانی مرتبہ بیان فرمایا اور کہا:۔
دَنٰی فَتَدَ لّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی
جب یہ آیت شریفہ جو قرآن شریف کی آیت ہے۔ الہام ہوئی۔ تو اس کے معنے کی تشخیص اور تعیین میں تأمل تھا۔ اور اسی تأمل میں کچھ خفیف سی خواب آگئی۔ اور اُس خواب میں اس کے معنے حل کئے گئے۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔ کہ دنو ّسے مُراد قربِ الٰہی ہے...... اور تَدَلّٰی سے مراد وہ ہبوط اور نزول ہے کہ جب انسان تخلق باخلاق اللہ حاصل کرکے اُس ذاتِ رحمن و رحیم کی طرف شفقتہً علی العباد عالمِ خلق کی طرف رجوع کرے اور چونکہ کمالات د نو ّکے کمالات تدلّی سے لازم و ملزوم ہیں۔ پس تدلّی اُسی قدر ہوگی جس قدر د نو ّہے اور دنّو کی کمالیت اس میں ہے کہ اسماء اور صفاتِ الٰہی کے عکوس کا سالک کے قلب میں ظہور ہو۔ اور محبوب حقیقی بے شائبہ ظلّیت اور بے تواہم حالیّت و محلیّت اپنے تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ اُس میں ظہور فرمائے۔ اور یہی استخلاف کی حقیقت اور روح اللہ کے نفخ کی ماہیّت ہے اور یہی تخلق باخلاق اللہ کی اصل بنیاد ہے۔ اور جب کہ تدلّی کی حقیقت کو تخلق باخلاق اللہ لازم ہوا۔ اور کمالیّت فی التخلق اس بات کو چاہتی ہے کہ شفقت علی العباد اور اُن کے لئے بمقام نصیحت کھڑے ہونا اور ان کا بھلائی کے لئے بدل و جان مصروف ہوجانا اِس حد تک پہنچ جائے۔ جس پر زیادت متصور نہیں اس لئے داصل تام کو مجمع الاضداد ہونا پڑا۔ کہ وہ کامل طور پر روبخدا بھی ہو۔ اور پھر کامل طور پر روبخلق بھی۔ پس وہ اُن دونوں قوسوں الوہیّت اور انسانیت میں ایک وتر کی طرح واقعہ ہے۔ جودونوں سے
تعلق کامل رکھتا ہے....... پس جاننا چاہئے کہ اس جگہ ایک ہی دل میں ایک حالت اور نیت کے ساتھ دو قسم کا رجوع پایا گیا۔ ایک خدائے تعالیٰ کی طرف جو وجودِ قدیم ہے اور ایک اُس کے بندوں کی طرف جو وجودِ محدث ہے۔ اور دونوں قسم کا وجود یعنی قدیم اور حادث ایک دائرہ کی طرح ہے جس کی طرف اعلیٰ وجوب اور طرف اسفل امکان ہے۔ اب اُس دائرہ کے درمیان میں انسان بوجہ دنو ّاور تدلّی کے دونوں طرف اتصال محکم کرکے یوں مثالی طور پر صورت پیدا کرلیتا ہے۔ جیسے ایک وتر دائرہ کے دو قوسوں میں ہوتا ہے یعنی حق اور خلق میں واسطہ ٹھہر جاتا ہے پہلے اس کو دنو ّ اور قربِ الٰہی کی خلقت خاص عطا کی جاتی ہے۔ اور قرب کے اعلیٰ مقام تک صعود کرتا ہے اور پھر خلقت کی طرف اس کو لایا جاتا ہے۔ پس اس کا وہ صعود اور نزول دو قوس کی صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے اور نفس جامع التعلّقین انسان کامل کا اُن دونوں قوسوں میں قابِ قوسَین کی طرح ہوتا ہے۔ اور قاب عرب کے محاورہ میں کمان کے چِلّہ پر اطلاق پاتا ہے۔
پس آیت کے بطور تحت اللفظ یہ معنے ہوئے کہ نزدیک ہوا یعنی خدا سے۔ پھر اُترا یعنی خلقت پر۔ پس اپنے اس صعود اور نزول کی و جہ سے دو قوسوں کے لئے ایک ہی وتر ہوگیا۔
اور چونکہ اُس کا روبخلق ہونا چشمہ ٔ صافیہ تخلق باخلاق اللہ سے ہے۔ اس لئے اُس کی توجہ بمخلوق توجہ بخالق کی عین ہے یا یوں سمجھو کہ چونکہ مالک حقیقی اپنی غایت شفقت العباد کی و جہ سے اِس قدر بندوں کی طرف رجوع رکھتا ہے کہ گویا وہ بندوں کے پاس ہی خیمہ زن ہے۔ پس جبکہ سالک سیرالی اللہ کرتا کرتا اپنی کمال سیر کو پہنچ گیا۔ تو جہاں خدا تھا وہیں اُس کو لوٹ کر آنا پڑا۔ پس اِس و جہ سے کمال دُنو ّ یعنی قربِ تام اُس کی تدلّی یعنی ہبوط کا موجب ہوگیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ493 تا 496 حاشیہ در حاشیہ نمبر3
روحانی خزائن جلد نمبر1صفحہ 586 تا 590 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)
1883ء
’’ یُحْیِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ
زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت کو
یَآ اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَامَرْیَمُ اسْکُنْ 1 اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ یَآ اَحْمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ۔ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ نِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ
اے آدم۔ اے مریم۔ اے احمد تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے۔ جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہوجاؤ۔ میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے۔
1۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان الہامات کی تشریح فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔’’مریم سے مریم اُمّ عیسیٰ مراد نہیں اور نہ آدم سے آدم ابو البشر مراد ہے اور نہ احمد ؐ سے اس جگہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ والسلام مراد ہیں۔ اور ایساہی ان الہامات کے تمام مقامات
اس آیت میں بھی روحانی آدم کا و جہ تسمیہ بیان کیا گیا۔ یعنی جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بلاتوسط اسباب ہے۔ ایسا ہی روحانی آدم میں بلا توسط ِ اسباب ظاہر یہ نفخ روح ہوتاہے۔
اور یہ نفخ روح حقیقی طور پر انبیاء علیہم السلام سے خاص ہے۔ اور پھر بطور تبعیت اور وراثت کے بعض افراد خاصہ امت ِ محمدیہ کو یہ نعمت عطا کی جاتی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 496, 497 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1، صفحہ 590، 591(
1883ء
(الف) فَاَجَآ 1 ءَ ھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ۔ قَالَتْ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
(کشتی نوح صفحہ 47، روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51)
(ب) ’’ میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا اُسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا:۔
بقیہ حاشیہ: میں کہ جو موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں۔ اُن ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہے بلکہ ہر ایک جگہ یہی عاجز مراد ہے۔ اب جبکہ اس جگہ مریم کے لفظ سے مؤنث مراد نہیں بلکہ مذکر مراد ہے تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کے لئے صیغہ مذکر ہی لایا جائے۔ یعنی یا مریم اسکن کہا جائے..........اور زوج کے لفظ سے رفقاء اور قرباء مراد ہیں زوج مراد نہیں ہے۔ اور لغت میں یہ لفظ دنوں طور پر اطلاق پاتا ہے۔ اور جنت کا لفظ اس عاجز کے الہامات میں کبھی اُسی جنت پر بولا جاتا ہے کہ جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور کبھی دنیا کی خوشی اور فتح یابی اور سرور اورا ٓرام پر بولا جاتا ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ82 ، 83مکتوب مؤرخہ 12؍فروری 1884ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب)
1 کشتی نوح میں جو 1902ء کی تصنیف ہے حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں:۔’’اس جگہ ایک اور الہام کا بھی ذکر کرتا ہوں اور مجھے یاد نہیں کہ میں نے وہ الہام اپنے کسی رسالہ یا اشتہار میں شائع کیا ہے یا نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ صدہا لوگوں کو میں نے سنایا تھا اور میری یادداشت کے الہامات میں موجود ہے اور وہ اس زمانہ کا ہے جبکہ خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا۔ اور پھر نفخ روح کا الہام کیا۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا فا جاء ھا المخاض الٰی جذع النخلۃ قالت یا لیتنی متّ قبل ھٰذا وکنت نسیًا منسیًّا یعنی پھر مریم کو مراد اِس عاجز سے ہے دروزہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی۔ یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علماء سے واسطہ پڑا جن کے پاس ایمان کا پھل نہ تھا جنہوں نے تکفیر و توہین کی۔ اور گالیاں دیں۔ اور ایک طوفان برپا کیا۔ تب مریم نے کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتی۔ اور میرا نام و نشان باقی نہ رہتا۔ یہ اس شور کی طرف اشارہ ہے جو ابتداء میں مولویوں کی طرف سے بہ ہیئت مجموعی پڑا۔ اور وہ اس دعویٰ کی برداشت نہ کرسکے۔ اور مجھے ہر ایک حیلہ سے انہوں نے فنا کرنا چاہا۔ تب اُس وقت جو کرب اور قلق ناسمجھوں کا شوروغوغا دیکھ کر میرے دل پر گذرا۔ اس کا اس جگہ خداتعالیٰ نے نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ‘‘
(کشتی نوح صفحہ 47، 48۔ روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51)
فَاَجَآئَ ہُ الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ۔ قَالَ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا
مخاض سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جذع النخلۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولاد۔ مگر صرف نام کے مسلمان ہیں۔
بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ درد انگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہوجانا تھا۔ اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی۔ جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں۔ تب اُس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتا۔ اور بھولا بسرا ہوجاتا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ53 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 68، 69(
1883ء
’’اور اس کے متعلق اور بھی الہام تھے۔ جیسا:۔
لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا۔ مَاکَانَ اَبُوْکِ امْرَئَ سَوْئٍ وَّمَاکَانَتْ اُمَّکِ بَغِیًّا۔
...اور لوگوں نے کہا۔ کہ اے مریم۔ تُو نے یہ کیا مکروہ اور قابل ِ نفرین کام دکھلایا جو راستی سے دُور ہے۔ تیرا باپ1 اور تیری ماں تو ایسے نہ تھے۔‘‘ (کشتی نوح صفحہ 48، روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51)
1883ء
پھر بعد2اس کے فرمایا:۔
نُصِرْتَ وَقَا لُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ
تو مدد دیا گیا اور انہوں نے کہا کہ اب کوئی گریز کی جگہ نہیں۔
اِنَّ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہ‘
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ کے مزاحم ہوئے اُن کا ایک مرد فارسی الاصل نے ردّ لکھا ہے۔ اُس کی سعی کا خدا شاکر ہے۔
1۔ اس الہام پر مجھے یاد آیا۔ کہ بٹالہ میں فضل شاہ یا مہر شاہ نام ایک سید تھے جو میرے والد صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے اور بہت تعلق تھا۔ جب میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کی کسی نے ان کو خبر دی تو وہ بہت روئے اور کہا کہ ان کے والد صاحب بہت اچھے آدمی تھے یعنی یہ شخص کس پر پیدا ہوا۔ ان کا باپ تو نیک مزاج اور افتراء کے کاموں سے دُور اور سیدھا اور صاف دل مسلمان تھا۔ ایسا ہی بہتوں نے کہا کہ تم نے اپنے خاندان کو داغ لگایا کہ ایسا دعویٰ کیا۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ48 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر19 صفحہ 51، 52)
2۔ یعنی الہام’’نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ نِّیْ رُوْحَ الصِّدْ قِ ‘‘ براہین احمدیہ حصّہ چہارم صفحہ 496 حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 591 (مرتّب)
کِتَابُ الْوَلِیِّ 1 ذُو الْفَقَارِ عَلِیٍّ
ولی کی کتاب علیؓ کی تلوار کی طرح ہے۔ یعنی مخالف کو نیست و نابود کرنے والی ہے۔ اور جیسے علیؓ کی تلوار نے بڑے بڑے خطرناک معرکوں میں نمایاں کاردکھلائے تھے ایسا ہی یہ بھی دکھلائے گی۔
اور یہ بھی ایک پیش گوئی ہے کہ جو کتاب2کی تاثیراتِ عظیمہ اور برکات عمیمہ پر دلالت کرتی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 497حاشیہ در حاشیہ نمبر 3، حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ 591 ، 592)
پھر بعد اس کے فرمایا:۔
وَلَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُرَیَّا لَنَا لَہ‘
اگر ایمان ثریا سے لٹکتا ہوتا۔ یعنی زمین سے بالکل اُٹھ جاتا۔ تب بھی شخص مقدم الذکر اُس کو پالیتا۔
یَکَا دُزَیْتُہ‘ یُضِیْٓ ئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ۔
عنقریب ہے کہ اُس کا تیل خود بخود روشن ہوجائے۔ اگرچہ آگ اُس کو چھو بھی نہ جائے۔
اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌسَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّ بُرَ۔ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً
1۔ (الف) ’’ایک زمانہ ذوالفقار کا تو وہ گذرگیا۔ کہ جب ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ‘ کے ہاتھ میں تھی مگر خدا تعالیٰ پھر ذوالفقار اس امام کو دیدے گا۔ اِس طرح پر کہ اُس کا چمکنے والاہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں ذوالفقار کرتی تھی۔ سو وہ ہاتھ ایسا ہوگا کہ گویا وہ ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ‘ ہے۔ جو پھر ظاہر ہوگئی ہے۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ امام سلطان القلم ہوگا اور اُس کی قلم ذوالفقار کاکام دے گی۔ (نعمت اللہ ولی) یہ پیش گوئی کہ (ید ِبیضاء کہ با اوتابندہ۔ باز باذوالفقار مے بینم۔ مرتب) بعینہٖ اِس عاجز کے اُس الہام کا ترجمہ ہے جو اِس وقت سے دس برس پہلے براہین احمدیہ میں چھپ چکا ہے۔ اور وہ یہ ہے:۔کتاب الولی ذوالفقار علی۔یعنی کتاب اس ولی کی ذوالفقار علی کی ہے۔ یہ اِس عاجز کی طرف اشارہ ہے اِسی بناء پر بارہا اِس عاجز کا نام مکاشفات میں غازی رکھا گیا ہے چنانچہ براہین احمدیہ کے بعض دیگر مقامات میں اِسی کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
(نشانِ آسمانی صفحہ15۔ روحانی خزائن جلد نمبر4 صفحہ 375)
(ب) ’’یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلے میں اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہرگز بیکار نہ بیٹھیں۔ مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہے جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اُسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے۔ اور وہ ہتھیار ہے قلم۔ یہی و جہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا۔‘‘
( الحکم جلد ۵ نمبر 22 مؤرخہ 17؍ جون1901ء صفحہ 2)
2۔ براہین احمدیہ (مرتّب)
یُّعْرُضُوْا وَیَقُوْلُوْاسِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔ وَاسْتَیْقَنَتْھَا اَنْفُسُھُمْ۔ وَقَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ۔ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ عَلَیْھِمْ۔ وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔ وَلَوْ اَنَّ قُراٰنًاسُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ۔
کیا کہتے ہیں کہ ہم ایک قوی جماعت ہیں۔ جواب دینے پر قادر ہیں۔ عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ جائے گی۔ اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ اور جب یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیں توکہتے1 ہیں کہ یہ ایک معمولی اور قدیمی سحر ہے۔ حالانکہ اُن کے دل اُن نشانوں پر یقین کر گئے ہیں۔ اور دلوں میں اُنہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اب گریز کی جگہ نہیں اور یہ خدا کی رحمت ہے کہ تو ان پر نرم ہوا۔ اور اگر تو سخت دل ہوتا۔ تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے۔ اور تجھ سے الگ ہوجاتے۔ اگرچہ قرآنی معجزات ایسے دیکھتے جن سے پہاڑ جنبش میں آجاتے۔
یہ آیات ان بعض لوگوں کے حق میں بطور الہام القاء ہوئیں۔ جن کا ایسا ہی خیال اور حال تھا۔ اور شاید ایسے ہی اور لوگ بھی نکل آویں۔ جو اس قسم کی باتیں کریں۔ اور بدرجہ ٔ یقین کامل پہنچ کر پھر منکر رہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 497 ، 498حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ592 ، 593)
1883ء
پھر بعد اس کے فرمایا:۔
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ2 وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَ بِا لْحَقِّ نَزَلَ۔ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ‘۔ وَکَانَ3 اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔
یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اِس الہام پُر از معارف و حقائق کو قادیان کے قریب اُتارا ہے۔ اور ضرورتِ حقہّ کے ساتھ اتارا ہے۔ اور بضرورتِ حقہ ّ اُترا ہے۔ خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی۔ کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدا نے چاہا تھا وہ ہونا ہی تھا۔
یہ آخری فقرات اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کے ظہور کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی
1۔ (ترجمہ از مرتّب) اس سے اِعراض کرتے۔ اور
2۔ ’’اس الہام پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیش گوئی کے پہلے لکھا گیا تھا...... اَب ایک نئے الہام سے یہ بات بپایہ ٔ ثبوت پہنچ گئی کہ قادیان کو خدائے تعالیٰ کے نزدیک دمشق سے مشابہت ہے تو اُس پہلے الہام کے معنے بھی اس سے کھل گئے.....اس کی تفسیر یہ ہے کہ اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنْ مِنْ دِمَشْقَ بِطَرَفٍ شَرْقِیٍ عِنْدَالَمَنَارَۃِ الْبَیْضَآءِ ۔
کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ پر ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 73, 75 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 138، 139)
3۔ ازالہ اوہام میں یہ فقرہ یُوں ہے وَکَانَ وَعْدَ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً (ازالہ اوہام صفحہ 73)
حدیث......میں ارشاد فرما چکے ہیں۔ اور خدائے تعالیٰ اپنے کلامِ مقدس میں ارشاد فرما چکا ہے۔ چنانچہ وہ اشارہ حصہ سوم کے الہامات میں درج ہوچکا ہے اور فرقانی اشارہ اِس آیت میں ہے۔ ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ498 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 593)
1883ء
’’جس روز وہ الہام مذکورہ بالا جس میں قادیان میں نازل ہونے کا ذکر ہے ہوا تھا۔ اُس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر1میرے قریب بیٹھ کربآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں۔ اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا۔کہ اِنَّآ اَنْزَلْنَا ہُ قَرِیْباً مِّنَ الْقَادِیَانِ تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے تب انہوں نے کہا۔ کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شایدقریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا۔ کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے۔ مکہ اور مدینہ اور قادیان۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 76، 77 روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 140)
1883ء
پھر بعد اس2کے جو الہام ہے وہ یہ ہے:
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّاٰلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِوُلْدِاٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِیْنَ
اور درُود بھیج محمدؐ اورآلِ محمدؐ پر جو سردارہے آدم کے بیٹوں کا اورخاتم الانبیاء ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اورتفضّلات اورعنایات اُسی کے طفیل سے ہیں اُسی سے محبّت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ ...اور ایسا ہی الہام متذکّرہ بالا میں جا آلِ رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اِس میں بھی یہ سِرّ ہے کہ افاضہء انوارِالٰہی میں محبّتِ اہلِ بَیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اورجو شخص حضرتِ احدیّت کے مقرّبین میں داخل ہوتا ہے وہ اِنہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اورتمام علوم ومعارف میں اُن کا وارث ٹھہرتا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ چہارم صفحہ 502، 503 حاشیہ درحاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1۔ صفحہ 597، 598)
1۔ ’’اس میں یہ بھید مخفی ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے میرے پر کھول دیا۔ کہ اُن کے نام سے اس کشف کی تعبیر کو بہت کچھ تعلق ہے۔ یعنی اُن کے نام میں جو قادر کا لفظ آتا ہے اِس لفظ کو کشفی طور پیش کرکے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قادرِ مطلق کا کام ہے۔ اِس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ اس کے عجائبات قدرت اسی طرف پر ہمیشہ ظہور فرما ہوتے ہیں۔ کہ وہ غریبوں اور حقیروں کو عزت بخشتا ہے اور بڑے بڑے معززوں اور بلند مرتبہ لوگوں کو خاک میں ملادیتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 77، 78 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 141 حاشیہ)
2۔ یعنی الہام ’’وَکَانَ اَمْرَاللٰہِ مَفْعُوْلَّا‘‘ مندرجہ صفحہ59 گذشتہ (مرتّب)
1883ء
’’اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غُربت اور انکسار اور توکّل اور ایثاراور آیات اور انوار کے رُو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے۔ اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے۔ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دوپھل ہیں اور بحدّی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے۔ اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادمِ دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے۔ اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 499 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 593، 594)
1883ء
1 وَمِنْ جُمْلَتِھَا اِلْھَامٌ اٰخَرُ خَاطَبَنِیْ رَبِّیْ فِیْہِ وَقَالَ اِنِّیْ خَلَقْتُکَ مِنْ جَوْھَرِ عِیْسٰی وَاِنَّکَ وَعِیْسٰی مِنْ جَوْھَرٍ وَّاحِدٍوَکَشَئ ءٍ وَّاحِدٍ 2
(حما متہ البشریٰ صفحہ14۔ روحانی خزائن جلد نمبر7 صفحہ 192)
1883ء
(الف) ’’اس مقام پر مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اِس عاجز نے اِس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اُس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اِس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے اُن میں سے کہا۔ کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمد کی طرف بھیجے تھے۔ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 502 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 598)
(ب) ’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا۔ کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے نہیں مل سکتیں۔ جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے۔ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ دو سقّے یعنی ماشکی آئے۔ اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل
1۔ (نوٹ از مرتب) اس الہام کو یہاں اس لئے درج کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی جگہ حمامتہ البشریٰ میں تحریر فرماتےہیں کہ یہ الہام براہین احمدیہ کی اشاعت سے پہلے کا ہے۔
2۔ (ترجمہ از مرتب) اور منجملہ ان کے ایک اور الہام بھی درج ہے جس میں مجھے اللہ مخاطب کرکے کہتا ہے کہ میں نے تجھ کو عیسیٰ کے جوہر سے پیدا کیا ہے۔ اور تُو اور عیسیٰ ایک ہی جوہر سے اور ایک ہی شَی کی مانند ہو۔‘‘
ہوئے اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔‘‘1
(حقیقتہ الوحی صفحہ128 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 131)
1883ء
پھر بعد اس2کے الہام ہوا۔
اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْوَاَعْرضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ۔
تو سیدھی راہ پر ہے۔ پس جو حکم کیا جاتا ہے۔ اُس کو کھول کر سنا اور جاہلوں سے کنارہ کر۔
وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۔ وَ قَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنَّ ھٰذَا لَمُکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ۔ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۔
اور کہیں گے کہ کیوں نہیں اُترا یہ کسی بڑے عالم فاضل پر۔ اور3شہروں میں سے اور کہیں گے کہ یہ مرتبہ تجھ کو کہاں سے ملا۔ یہ تو ایک مکر ہے جو تم نے شہر میں باہم مل کر بنالیا ہے۔ تیری طرف دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے۔ یعنی تو اُنہیں نظر نہیں آتا۔
تَاللّٰہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ
ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے اُمت ِ محمدیہ میں کئی اولیاء کامل بھیجے۔ پر شیطان نے اُن کے توابع کی راہ کو بگاڑ دیا۔ یعنی طرح طرح کی بدعات مخلوط ہوگئیں۔ اور سیدھا قرآنی راہ اُن میں محفوظ نہ رہا۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا۔ وَمَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہ‘۔ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہ‘فَعَلَیَّ اِجْرَامٌ شَدِیْدٌ۔
کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو سو میری پیروی کرو۔ یعنی اتباع رسول مقبول کرو۔ تاخدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ اور جو شخص خدا کے لئے ہوجائے۔ خدا اُس کے لئے ہوجاتا ہے۔ کہہ اگر میں نے یہ افترا کیا ہے۔ تو میرے پر جرم شدید ہے۔
اِنَّکَ الْیُوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْمَتِیْ فِی الدُّ نْیَاوَالدِّیْنِ۔ وَاِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ۔
آج تو میرے نزدیک بامرتبہ اور امین ہے۔ اور تیرے پر میری رحمت دنیا اور دین میں ہے۔ اور تو مدد دیا گیا ہے۔
1۔ (ترجمہ ازمرتّب) یہ برکات اس درود کی و جہ سے ہیں جو تونے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا تھا۔
2۔ یعنی الہام صَلّ علٰی محمّد ٍ الخ ۔ (مرتب)
3۔ نقل مطابق اصل۔ لفظ ’د و ‘ چاہئے تھا۔ (مرتب)
یَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَیَمْشِیْ اِلَیْکَ
خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔
اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔
خبردار ہو خدا کی مدد نزدیک ہے۔
سُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا۔ یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جو رات سے مشابہ ہے۔ مقاماتِ معرفت اور یقین تک لَدُنّی طور پر پہنچایا۔
خَلَقَ اٰ دَمَ فَاَ کْرَمَہ‘
پیدا کیا آدم کو پس اکرام کیا اُس کا۔
جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ۔
جری اللہ نبیوں کے حُلّوں میں۔
اس فقرہ الہام کے یہ معنے ہیں کہ منصب ارشاد اور ہدایت اور موردِ وحی الٰہی ہونے کا دراصل حُلّۂ انبیاء ہے اور اُن کے غیر کو بطور مستعار ملتا ہے اوریہ حُلّۂ انبیاء اُمّتِ محمدیہ کے بعض افراد کو بغرضِ تکمیل ِناقصین عطا ہوتا ہے اور اُسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عُلَمَآئُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآئِ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ۔ پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں۔ پر نبیوں کاکام اُن کے سپرد کیا جاتا ہے۔
وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ فَاَ نْقَذَکُمْ مِنْھَا۔
اور تھے تم ایک گڑھے کے کنارے پر۔ سو اُس سے تم کو خلاصی بخشی یعنی خلاصی کا سامان عطا فرمایا۔
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَ عَلَیْکُمْ 1 وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَا فِرِیْنَ حَصِیْرًا۔
خدا یتعالیٰ کا ارادہ اِس بات کی طرف متوجہ ہے۔ جو تم پر رحم کرے۔ اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا۔ تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے۔ اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے........
تُوْبُوْ وَاَصْلِحُوْ وَاِلَی اللّٰہِ تَوَجَّھُوْا وَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلُوْا وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ
توبہ کرو اور فسق اور فجور اور کفر اور معصیت سے باز آؤ اور اپنے حال کی اصلاح کرو۔ اور خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ اور اُس پر توکّل کرو۔ اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ اس سے مدد چاہو۔ کیونکہ نیکیوں سے بدیاں دُور ہوجاتی ہیں۔
بُشْرٰی لَکَ یَآ اَحْمَدِیْ۔ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ غَرَسْتُ کَرَامَتَکَ بِیَدِیْ۔
1۔ حضرت اقدس نے اس الہام کو اربعین نمبر2 کے صفحہ 5 پر اور اس کے علاوہ کئی اور مقامات پر بھی بحوالہ براہین احمدیہ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ درج فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عَلَیْ کا لفظ سہو کتابت ہے۔(مرتب)
خوشخبری ہو تجھے اے میرے احمدؐ۔ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ میں نے تیری کرامت کو اپنے ہاتھ سے لگا یا ہے۔1
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذَالِکَ اَزْکٰی لَھُمْ۔
مومنین کو کہہ کہ اپنی آنکھیں نامحرموں سے بند رکھیں۔ اور اپنی سترگاہوں کو اور کانوں کو نالائق امور سے بچاویں۔ یہی ان کی پاکیزگی کے لئے ضروری اور لازم ہے۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہریک مومن کے لئے منہیات سے پرہیز کرنا اور اپنے اعضاء کو ناجائز افعال سے محفوظ رکھنا لازم ہے۔ اور یہی طریق اس کی پاکیزگی کا مدار ہے........
وَاِذْا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔
اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں۔ تو میں نزدیک ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔ اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے۔ کہ تاسب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں۔
لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ وَکَانَ کَیْدُھُمْ عَظِیْمًا۔
اور جو لوگ اہل ِ کتاب اور مشرکوں میں سے کافر ہوگئے ہیں۔ یعنی کفر پر سخت اصرار اختیار کرلیا ہے۔ اور اپنے کفر سے بجز اس کے باز آنے والے نہیں تھے۔ کہ اُن کو کھلی نشانی دکھلائی جاتی۔ اوراُن کا مکر ایک بھارا مکر تھا۔
یہ اس بات کی طر ف اشارہ ہے کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے آیا ت سماوی اور دلائل ِ عقلی سے اِس عاجز کے ہاتھ پر ظاہر کیا ہے۔ وہ اتمامِ حجت کے لئے نہایت ضروری تھا۔ اور اس زمانہ کے سیاہ باطن جن کو جہل اور خبث کے کیڑے نے اندر ہی اندر کھا لیا ہے‘ ایسے نہیں تھے جو بجز آیاتِ صریحہ و براہین قطعیہ اپنے کفر سے باز آجاتے۔ بلکہ وہ اُس مکر میں لگے ہوئے تھے کہ تا کسی طرح باغِ اسلام کو صفحۂ زمین سے نیست و نابود کردیں۔
اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیَا میں اندھیر پڑ جاتا
یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے جو دنیا کو ان آیات بیّنات کی نہایت ضرورت تھی۔ اور دنیا کے لوگ جو اپنے کفر
1 مکتوب مؤرخہ 13ستمبر1883ء بنام میر عباس علی صاحب میں اس الہام کو ذکر کرکے اس کے بعد فارسی زبان کا یہ فقرہ درج کیا گیا ہے جو اس الہام کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔’’بشارت باد ترا یا احمد من۔تو مراد مَنی و با مَنی نشاندم درخت بزرگی ترا بدست ِخود۔‘‘اور اس الہام کے ذکر سے پہلے لکھا ہے:۔
’’چونکہ یہ عاجز اعلان کا اذن بھی پاتا ہے۔ اس لئے کتاب میں یعنی حصہ چہارم میں درج بھی کیا جائے گا۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ55،56)۔ (مرتب)
اور خبث کی بیماری سے مجذوم کی طرح گداز ہوگئے ہیں۔ وہ بجز اِس آسمانی دوا کے جو حقیقت میں حق کے طالبوں کے لئے آبِ حیات تھی۔ تندرستی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۔ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۔ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَب۔
اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو۔ اور کفر اور شرک اور بد عقیدگی کو مت پھیلاؤ۔ تو وہ کہتے ہیں۔ کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے۔ اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں۔ خبردار رہو۔ یہی لوگ مفسد ہیں۔ جو زمین پر فساد کررہے ہیں۔ کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں۔
یعنی یہ زمانہ اپنے فسادِ عظیم کے رُو سے اندھیری رات کی مانند ہے۔ سو الٰہی قوتیں اور طاقتیں اِ س زمانہ کی تنویر کے لئے درکار ہیں۔ انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے۔
اِنِّیْ نَاصِرُکَ۔ اِنِّیْ حَافِظُکَ۔ اِنِّیْ جَا عِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ یَجْتَبِیْ مَنْ یُّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ۔ وَتِلْکَ الْاَ یَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ۔
میں تیری مدد کروں گا۔ میں تیری حفاظت کروں گا۔ میں تجھے لوگوں کے لئے پیش رَو بناؤں گا۔ کیا لوگوں کو تعجب ہوا۔ کہہ خداوند ذوالعجائب ہے۔ ہمیشہ عجیب کام ظہور میں لاتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے۔ وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا۔ کہ ایسا کیوں کیا۔ اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔ اور ہم یہ دن لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔
یعنی کبھی کسی کی نوبت آتی ہے اور کبھی کسی کی۔ اور عنایاتِ الٰہیہ نوبت بہ نوبت اُمت ِ محمدیہ کے مختلف افراد پر وارد ہوتی رہتی ہیں۔
وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔اِذَا نَصَرَاللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ۔ فَالنَّارُ مَوْعِدُھُمْ۔ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ۔
اور کہیں گے کہ یہ تجھ کو کہاں سے ؟اور یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ خدائے تعالیٰ جب مومن کی مدد کرتا ہے۔ تو زمین پر کئی اس کے حاسد بنادیتا ہے۔ سو جو لوگ حسد پر اصرار کریں۔ اور باز نہ آویں۔ تو جہنم اُن کا وعدہ گاہ ہے۔ کہہ یہ سب کاروبار خدا کی طرف سے ہیں۔ پھر اُن کو چھوڑدے۔ تا اپنے بے جا خوض میں کھیلتے رہیں۔
تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَتَرَحَّمْ عَلَیْھِمْ۔ اَنْتَ فِیْھِمْ بِمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی وَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ۔
لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ۔ اور اُن پر رحم کر۔ تو اُن میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے۔ اور اُن کی باتوں پر صبر کر۔
حضرت موسیٰ بُردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی۔ ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہ ٔعالیہ تک پہنچ سکے۔ توریت سے ثابت ہے جو حضرتِ موسیٰ رفق اور حلم اور اخلاقِ فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے۔ جیسا کہ گنتی باب دو از دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو رُوئے زمین پر تھے۔ زیادہ بُرد بار تھا۔ سو خدا نے توریت میں موسیٰ کی بُردباری کی ایسی تعریف کی۔ جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے۔ ہاں جو اخلاقِ فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے۔ وہ حضرت موسیٰ سے ہزار درجہ بڑھ کر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُن اخلاقِ فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے۔ اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ تو خلق عظیم پر ہے.......اور چونکہ اُمت ِ محمدیہ کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں۔ اس لئے الہام متذکرہ بالا میں اِس عاجز کی تشبیہہ حضرتِ موسیٰ سےدی گئی۔ اور یہ تمام برکات حضرت سید الرسل کے ہیں جو خداوند کریم اس کی عاجز اُمت کو اپنے کمال لطف اور احسان سے ایسے ایسے مخاطباتِ شریفہ سے یاد فرماتا ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ503 تا 509 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 599 تا 607)
1883ء
’’پھر بعد اِس کے یہ الہامی عبارت ہے۔
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآئُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآئُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ۔ وَیُحِبُّوْنَ اَنْ تُدْھِنُوْنَ۔ قُلْ یَآ اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۔ قِیْلَ ارْجِعَوْٓا اِلَی اللّٰہِ فَلَا تَرْجِعُوْنَ۔ وَقِیْلَ اسْتَحْوِذُوْا فَلَا تَسْتَحْوِذُوْنَ۔ اَمْ تَسْئَلُھُمْ مِّنْ خَرْجٍ فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ۔ بَلْ اٰتَیْنٰھُمْ بِالْحَقِّ فَھُمْ لِلْحَقِّ کَارِھُوْنَ۔ سُبْحَانَہ‘وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ۔اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَاُیُفْتَنُوْنَ۔ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا۔ وَلَا یَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ خَافِیَۃٌ۔ وَلَا یَصْلَحُ شَیْءٌ قَبْلَ اِصْلَا حِہٖ۔ وَمَنْ رُّدَّ مِنْ مَّطْبَعِہٖ فَلَا مَرَدَّ لَہ‘۔
اور جب ان کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ہی ایمان لاویں۔
جیسے بیوقوف ایمان لائے ہیں۔ خبردار ہو۔ وہی بیوقوف ہیں۔ مگر جانتے نہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ تم اُن سے مداہنہ کرو۔ کہہ اے کافرو میں اس چیز کی پرستش نہیں کرتا۔ جس کی تم کرتے ہو۔ تم کو کہا گیا کہ خدا کی طرف رجوع کرو۔ سو تم رجوع نہیں کرتے۔ اور تم کو کہا گیا۔ جو تم اپنے نفسوں پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہیں آتے۔ کیا تو اِن لوگوں سے کچھ مزدوری مانگتا ہے۔ پس وہ اس تاوان کی و جہ سے حق کو قبول کرنا ایک پہاڑ سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کو مفت حق دیا جاتاہے۔ اور وہ حق سے کراہت کررہے ہیں۔ خداے تعالیٰ ان عیبوں سے پاک و برتر ہے۔ جو وہ لوگ اس کی ذات پر لگاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بے امتحان کئے صرف زبانی ایمان کے دعویٰ سے چُھوٹ جاویں گے۔ چاہتے ہیں جو ایسے کاموں سے تعریف کئے جائیں۔ جن کو انہوں نے کیا نہیں۔ اور خداے تعالیٰ سے کوئی چیز چُھپی ہوئی نہیں۔ اور جب تک وہ کسی شے کی اصلاح نہ کرے اصلاح نہیں ہوسکتی۔ اور جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا جائے اس کو کوئی واپس نہیں لاسکتا۔
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۔ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ۔ یَآ اِبْرَاھِیْمُ اَغْرِضْ عَنْ ھٰذَا اِنَّہ‘عَبْدٌ1 غَیْرُ صَالِحٍ۔ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌوَمَا اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِمُسَیْطِرٍ۔
کیا تو اسی غم میں اپنے تئیں ہلاک کردے گا۔ کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔جس چیز کا تجھ کو علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ۔ اور اُن لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں میرے ساتھ مخاطبت مت کر۔ وہ غرق کئے جائیں گے۔ اے ابراہیم اس سے کنارہ کر۔ یہ صالح آدمی نہیں۔ تو صرف نصیحت دہندہ ہے۔ اِن پرداروغہ نہیں۔
یہ چند آیات جو بطورِ الہام القا ہوئی ہیں بعض خاص لوگو ں کے حق میں ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ509،510 حاشیہ در حاشیہ نمبر3 روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 607، 608)
1883ء
’’پھر آگے اس کے یہ الہام ہے۔
1 وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَاتَّخِذُوْ2 ا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی۔
اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد چاہو۔ اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو۔
1 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ88 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 115 سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وحی الٰہی کی دوسری قرأت اِنَّہ‘ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ہے۔ (مرتب)
2 ’’اِس مقام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجاگیا تم اپنی عبادتوں اورعقیدوں کو اس کی طرز پر بجالاؤ اورہرایک امر میں اُس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 20، 21۔ روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 68)
اس جگہ مقامِ ابراہیم سے اخلاقِ مرضیہ و معاملہ باللہ مراد ہے۔ یعنی محبت ِ الٰہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا۔ یہی حقیقی مقام ابراہیم کا ہے۔ جو امت ِ محمدیہ کو بطور تبعیّت و وراثت عطا ہوتا ہے۔ اور جو شخص قلب ِ ابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے۔
یُظِلُّ رَبُّکَ عَلَیْکَ وَیُغِیْثُکَ وَیَرْحَمُکَ۔ وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ فَیَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدہٖ۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ۔
خدا تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا۔ اور نیز تیرا فریاد رس ہوگا۔ اور تجھ پر رحم کرے گا۔ اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں۔ مگر خدا تجھے بچائے گا۔ اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا۔ اگرچہ تمام لوگ دریغ کریں۔
یعنی خدا تجھے آپ مدد دے گا۔ اور تیری سعی کے ضائع ہونے سے تجھے محفوظ رکھے گا۔ اور اس کی تائیدیں تیرے شامل حال رہیں گی۔
وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْ کَفَرَ1۔ اَوْقِدْلِیْ یَاھَامَانُ لَعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ اِلیٰٓ اِلٰہِ مُوْسٰی وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہ‘مِنَ الْکٰذِبِیْنَ
یاد کر جب منکر نے بغرض کسی مکر کے اپنے رفیق کو کہا کہ کسی فتنہ یا آزمائش کی آگ بھڑکا۔ تا میں موسیٰ کے خدا پر یعنی اِس شخص کے خدا پر مطلع ہوجاؤں۔ کہ کیونکر وہ اُس کی مدد کرتا ہے۔ اور اُس کے ساتھ ہے یا نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔
یہ کسی واقعہ آیندہ کی طرف اشارہ ہے کہ خوبصورت گذشتہ بیان کیا گیا ہے۔
تَبَّتْ یَدَٓا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۔ مَاکَانَ لَہ‘ٓ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْھَآ اِلَّا خَآئِفًا۔ وَمَآ اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ۔
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے۔ اور وہ بھی ہلاک ہوا۔ اور اُس کو لائق نہ تھا کہ اِس کام میں بجز خائف اور ترساں ہونے کے یونہی دلیری سے داخل ہوجاتا اور جوتجھ کو پہنچے تو وہ خدا کی طرف سے ہے۔
1 (ا) یہ لفظ کفّر اور کفَر دونوں قرأتیں ہیں۔ کیونکہ کافر کہنے والا بہر حال منکر بھی ہوگا اور جو شخص اس (بقیہ حاشیہ) دعویٰ سے منکر ہے وہ بہرحال کافر ٹھہرائے گا۔ اور ھامان کا لفظ ہیمان کے لفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ہیمان اُسے کہتے ہیں جو کسی وادی میں اکیلا سرگرداں پھرے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 64حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 82)
(ب) ’’یادر ہے کہ اس وحی الٰہی میں دونوں قرأتیں ہیں۔ کَفَرَ بھی اور کَفَّرَ بھی۔ اور اگر کَفَرَ کی قرأت کی رو سے معنے لئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ پہلے شخص مُستَفْتِیْ میرے پر اعتماد رکھتا ہوگا۔ اور معتقدین میں داخل ہوگا۔ اور پھر بعد میں برگشتہ اور منکر ہوجائے گا۔ اور یہ معنی مولوی محمد حسین بٹالوی پر بہت چسپاں ہیں۔ جنہوں نے براہین احمدیہ کے ریویو میں میری نسبت ایسا اعتقاد ظاہر کیا۔ کہ اپنے ماں باپ بھی میری پر فدا کردیئے۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 354 حاشیہْ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 368 حاشیہ)
یہ کسی شخص کے شر کی طرف اشارہ ہے۔ جو بذریعہ تحریر یا بذریعہ کسی اور فعل کے اُس سے ظہور میں آوے1۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اَلْفِتْنَۃ ھٰھُنَا۔ فَاصْبِرْکَمَا صَبَرَ اُو لُوا الْعَزْمِ۔ اَلَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَمًّا حُبًّا مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِالْاَکْرَمِ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔
اس جگہ فتنہ ہے پس صبر کر۔ جیسے اولُو العزم لوگوں نے صبر کیا ہے۔ خبردار ہو۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے۔ تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے۔ اُس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں۔
شَاتَانِ تُذْ بَحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔
دو بکریاں2 ذبح کی جائیں گی۔ اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا۔ یعنی ہریک کیلئے قضاء و قدر درپیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں ....
وَلا تَھنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا اَلَیْسَ اللّٰہ بِکَافٍ عَبْدَہ‘ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا۔
اور سست مت ہو اور غم مت کرو۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر
1۔ ’’یہ پیش گوئی قریباً فتویٰ تکفیر سے بارہ برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے یعنی جبکہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے یہ فتویٰ تکفیر لکھا۔ اور میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کو کہا کہ سب سے پہلے اس پر مہر لگاوے۔ اور میرے کفر کی نسبت فتویٰ دیدے۔ اور تمام مسلمانوں میں میرا کافر ہونا شائع کردے۔ سو اس فتویٰ اور میاں صاحب مذکور کے مہر سے بارہ برس پہلے یہ کتاب تمام پنجاب اور ہندوستان میں شائع ہوچکی تھی اور مولوی محمد حسین جو بارہ برس کے بعد اوّل المکفرّین بنے۔ بانی تکفیر کے وُہی تھے۔ اور اس آگ کو اپنی شہرت کی و جہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین صاحب دہلوی تھے۔ اس جگہ سے خدا کا علمِ غیب ثابت ہوتا ہے کہ ابھی اس فتویٰ کا نام ونشان نہ تھا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب میری نسبت خادموں کی طرح اپنے تئیں سمجھتے تھے اُس وقت خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی جس کو کچھ بھی عقل اور فہم ہے وہ سوچے اور سمجھے کہ کیا انسانی طاقتوں میں یہ بات داخل ہوسکتی ہے کہ جو طوفان بارہ برس کے بعد آنے والا تھا جس کا پر زور سیلاب مولوی محمد حسین جیسے مدعی اخلاص کو درجہ ضلالت کی طرف کھینچ کر لے گیا اور نذیر حسین جیسے مخلص کو جو کہتا تھا کہ براہین احمدیہ جیسی اسلام میں کوئی کتاب تالیف نہیں ہوئی۔ اس سیلاب نے دبالیا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 75 روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 215، 216)
2 یہ پیشگوئی حضرت شہزادہ مولا ناسید عبداللطیف صاحب کابلی شہید و مولوی عبدالرحمن صاحب کابلی شہید رضی اللہ عنہ‘ کی شہادت سے پوری ہوئی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے کتاب تذکرۃ الشہادتین۔ (مرتب)
ہے۔ اور خدا ان لوگوں پر تجھ کو گواہ لائے گا۔
اَوْ فَی اللّٰہُ اَجْرَکَ۔ وَیَرْضٰی عَنْکَ رَبُّکَ وَیُتِمُّ اسْمَکَ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْ اشَیْئًا وَّھُوَ اشَرٌّ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْاشَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔
خدا تیرا بدلہ پورا دے گا۔ اور تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے اسم کو پورا کرے گا۔ اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو۔ اور اصل میں وہ تمہارے لئے بُری ہو۔ اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بُری سمجھو۔ اور اصل میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔ اور خدا تعالیٰ عواقب ِ امور جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے۔
کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ۔ اِنَّ السَّمٰوَات، وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا۔ وَ اِنْ یَّتَّخِذُ وْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا۔ اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ۔ قُلْ اِنَّمَا بَشَرٌ1 مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۔ وَالْخَیْرُکُلُّہ‘فِی الْقُرْاٰنِ۔ لَا یَمَسُّہ‘ٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًامِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔
میں ایک خزانہ2پوشیدہ تھاسو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں۔ آسمان اور زمین دونوں بند تھے سو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا۔ اور تیرے ساتھ ہنسی سے ہی پیش آئیں گے۔ اور ٹھٹھا مار کرکہیں گے۔ کیا یہی ہے جس کو خدا نے اصلاح خلق کے لئے مقرر کیا۔ یعنی جن کا مادّہ ہی خبث ہے۔ اُن سے صلاحیت کی اُمید مت رکھ۔
اور پھر فرمایا۔ کہہ میں صرف تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں۔ مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے۔ کہ بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی تمہارا معبود نہیں۔ وہی اکیلا معبود ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرنا نہیں چاہئے۔ اور تمام خیر اور بھلائی قرآن میں ہے۔ بجز اُسکے اور کسی جگہ سے بھلائی نہیں مل سکتی۔ اور قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ
1 یہ وحی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اربعین نمبر 2 کے صفحہ8پر بحوالہ براہین احمدیہ یوں نقل فرمائی ہے۔’’قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ براہین احمدیہ میں بَشَرٌ سے پہلے ’’اَنَا‘‘ کا لفظ سہو کتابت سے رہ گیا ہے۔
(روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 354) (مرتب)
2 پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ فرماتے ہیں:۔’’میں نے ایک روز حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت کنت کَنْزًا الخ ...... کے معانی میں صوفیاء نے اور نیز دیگر علماء نے بہت کچھ زور لگائے۔ آپ فرمائیں کہ اس جملہ مبارک کے کیا معنی ہیں۔ فرمایا۔ آسان معنی اس کے یہی ہیں کہ جب دنیا میں ضلالت اور گمراہی اور کفر وشرک اور بدعات و رسومات مختر عات پھیل جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور اُس تک پہنچنے کی راہیں گُم ہوجاتی ہیں۔ اور دل سخت اور خشیت اللہ سے خالی ہوجاتے ہیں۔ تو ایسے وقت اور ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ
اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے۔ اور میں ایک1عمر تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں۔ کیا تم کو عقل نہیں....
قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَالْھُدٰی وَاِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ رَبِّ اغْفِرْوَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ۔ اِیْلِیْ اٰوس۔
کہہ ہدایت وہی ہے جو خدا کی ہدایت ہے۔ اور میرے ساتھ میرا رب ہے۔ عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا۔ اے میرے خدا آسمان سے رحم اور مغفرت کر۔ میں مغلوب ہوں۔ میری طرف سے مقابلہ کر۔ اے میرے خدا۔ اے میرے خدا۔ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔
آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اٰوس بباعث سُرعت ِورود مشتبہ رہا ہے اور نہ اس کے کچھ معنے کُھلے۔ واللہ
(بقیہ حاشیہ) مخفی خزانہ کی طرح ہوجاتا ہے تو اس کے بعد خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میں پھر دنیا پرظاہر ہوؤں اور دنیا مجھے پہچانے۔ تو خدا تعالیٰ کسی اپنے بندہ کو اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے اور اُس کو خلعتِ خلافت عطا فرماتا ہے اُس کے ذریعہ سے وہ شناخت کیا جاتا ہے وہ پسندیدہ اور برگزیدہ بندہ خدا تعالیٰ کی محبت ازسرِ نو خالی دلوں میں بھرتا اور اُس کی معرفت کے اسرار لوگوں پر ظاہر کرتا ہے ہر ایک زمانہ میں ابتدائے آفرینش سے یہی سنّت اللہ اور یہی طریقتہ اللہ رہا ہے۔ بالآخر ہمارے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ لوگ معرفت الٰہی کو کھو بیٹھے صفاتِ الٰہی میں کچھ کا کچھ اپنی طرف سے تصرف کیا۔ اسماء اللہ سے غافل ہوگئے اُس کی کتابوں اور صحیفوں کو ترک کر بیٹھے اُس کے ندّ اور شریک بنالئے۔ پس خدا تعالیٰ پوشیدہ خزانہ کی طرح ہوگیا۔ تو خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی معرفت اور محبت دے کر بھیجا۔ تا کہ دنیا کو راہِ راست پر لگایا جاوے۔ پس اسی واسطے ہم تحریر سے‘ تقریر سے‘ توجہ سے‘ دعا سے‘اپنے چال چلن سے پر ہیبت پیشگوئیوں اور اسرارِ غیب سے جو خدا نے ہمیں عطا کئے۔ اور معارف و حقائق و دقائق قرآنی سے رات دن لگے ہوئے ہیں۔ اور ہم کیا خداتعالیٰ نے ہمارے سب کاروبار اور اعضا اور ہاتھ اور زبان اور ہر ایک حرکت و سکون کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے جس طرح اُس کی مرضی ہوتی ہے وہ ہمیں چلاتا ہے اور ہم اُسی طرح چلتے ہیں۔ ہمارا اس میں کچھ اختیار نہیں۔‘‘ (الحکم جلد 6 نمبر23 مؤرخہ4 2؍ جون1902ء صفحہ 11)
1 ’’قریباً1882ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وحی سے مشرف فرمایا کہ ولَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ اوراس میں عالم الغیب خدا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی مخالف کبھی تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگاسکے گا۔ چنانچہ اس وقت تک جو میری عمر قریباً پینسٹھ سال ہے کوئی شخص دور یا نزدیک رہنے والا ہماری گذشتہ سوانح پر کسی قسم کا داغ ثابت نہیں کرسکتا۔ بلکہ گذشتہ زندگی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین سے بھی دلوائی ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت پُر زور الفاظ میں اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں کئی بار ہماری اور ہمارے خاندان کی تعریف کی ہے۔ اور دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کی نسبت اور اس کے خاندان کی نسبت مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہیں۔ اور پھر انصاف کی پابندی سے بقدر اپنی واقفیت کے تعریفیں کی ہیں۔ پس ایک ایسا مخالف جو تکفیر کی بنیاد کا بانی ہے۔ پیشگوئی وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ کا مصدِّق ہے۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 212۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 590)
اعلم بالصواب .........
یَا عَبْدَ الْقَادِرِ اِنِّیْ مَعَکَ اَسْمَعُ وَاَرٰی۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ۔ وَنَجَّیْنَا کَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنَّاکَ فُتُوْنًا۔ لَیَا تِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ھُدًی اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ۔ وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھَمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۔
اے عبدالقادر میں تیرے ساتھ ہوں۔ سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ تیرے لئے میں نے رحمت اور قدرت کو اپنے ہاتھ سے لگایا۔ اور تجھ کو غم سے نجات دی اور تجھکو خالص کیا۔ اور تم کو میری طرف سے مدد آئیگی۔ خبردار ہو لشکر خدا کا ہی غالب ہوتا ہے۔ اور خدا ایسا نہیں جو اُن کو عذاب پہنچادے جب تک تو اُن کے درمیان ہے یا جب وہ استغفار کریں۔
اَنَا بُدُّکَ اللَّازِمُ۔ اَنَا مُحْیِیْکَ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُنِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحبَّۃً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہ‘ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ۔
میں تیرا چارہ لازمی ہوں۔ میں تیرا زندہ کرنے والا ہوں۔ میں نے تجھ میں سچائی کی روح پھونکی ہے۔ اور اپنی طرف سے تجھ میں محبت ڈال دی ہے۔ تاکہ میرے روبرو تجھ سے نیکی کی جائے۔ سو تو اس بیج کی طرح ہے جس نے اپنا سبزہ نکالا۔ پھر موٹا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اپنی ساقوں پر قائم ہوگیا۔
ان آیات میں خدائے تعالیٰ کی اُن تائیدات اور احسانات کی طرف اشارہ ہے اور نیز اُس عروج اور اقبال اور عزت اور عظمت کی خبر دی گئی ہے کہ جو آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچے گی۔
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ۔
ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح عطا فرمائی ہے یعنی عطا فرمائیں گے۔ اور درمیان میں جو بعض مکروہات اور شدائد ہیں۔ وہ اس لئے ہیں تا خدائے تعالیٰ تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرمادے۔
یعنی اگر خدائے تعالیٰ چاہتا۔ تو قادر تھا کہ جو کام مدِّنظر ہے وہ بغیر پیش آنے کسی نوع کی تکلیف کے اپنے انجام کو پہنچ جاتا اور بآسانی فتح عظیم حاصل ہوجاتی لیکن تکالیف اِس جہت سے ہیں کہ تا وہ تکالیف موجب ترقی مراتب و مغفرت خطا یا ہوں........
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّاقَالُوْا وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھًا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ فَلَمَّا تجَلّٰی رَبُّہ‘ لِلْجَبَلِ جَعَلَہ‘ دَکًّا۔ وَاللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِالْکَافِرِیْنَ۔ بَعْدَ الْعُسْرِیُسْرٌ۔ وَلِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ‘۔ وَلِنَجْعَلَہ‘ٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ قَوْلُ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَمْتَرُوْنَ۔
کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ پس خدا نے اُس کو اُن الزامات سے بَری کیا۔ جو اُس پر لگائے گئے تھے۔ اور خدا کے نزدیک وہ وجیہہ1 ہے۔کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں۔ پس جبکہ خدا نے پہاڑ پر تجلّی کی تو اُس کو پاش پاش کردیا۔ یعنی مشکلات کے پہاڑ آسان ہوئے۔ اور خدائے تعالیٰ کافروں کے مکر کو سست کردیگا اور اُن کو مغلوب اور ذلیل کرکے دکھلائے گا۔ تنگی کے بعد فراخی ہے۔ اور پہلے بھی خدا کا حکم ہے اور پیچھے بھی خدا کا ہی حکم ہے۔ کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں اور ہم اُس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنائیں گے۔ اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا یہ وہ سچی بات ہے جس میں تم شک کرتے ہو۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ‘ٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ۔ رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ۔ مَتَّعَ اللّٰہُ الْمُسْلِمِیْنَ بِبَرَکَاتِھِمْ فَانْظُرُوْٓا اِلٰٓی اٰثَارِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ۔ وَاَنْبِئُوْنِیْ مِنْ مِّثْلِ ھٰٓؤُ لَآئِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ وَمَنْ یَّبْتَغْ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا لَّنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کار سول ہے اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں۔ وہ کفّار پر سخت ہیں۔ یعنی کفّار اُن کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں۔ اور اُن کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں۔ وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یادِ الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے۔ اور نہ بیع مانع ہوتی ہے۔ یعنی محبت ِ الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دُنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں۔ اُن کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں۔ خداے تعالیٰ اُن کے برکات سے مسلمانوں کو متمتع کرے گا۔ سو اُن کا ظہور رحمت ِ الٰہیہ کے آثار ہیں۔ سو اُن آثار کو دیکھو اور اگر اِن لوگوں کی کوئی نظیر تمہارے پاس ہے یعنی اگر تمہارے ہم مشربوں اور ہم مذہبوں میں سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ اِسی طرح تائیداتِ الٰہیہ سے مؤید ہوں۔ سو تم اگر سچے ہو تو ایسے لوگوں کو پیش کرو۔ اور جو شخص بجز دین ِ اسلام کے کسی اور دین کا خواہاں اور جویاں ہوگا۔ وہ دین ہرگز اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ زیاں کاروں میں ہوگا۔
یَآ اَحْمَدُ فَا ضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ۔ اِنَّآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ1 فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔
1 ’’یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی کہ کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر کے وقت میں میرے پر خون کا الزام لگایا گیا۔ خدا نے مجھے اُس سے بَری کردیا اور پھر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کے وقت میں مجھ پر الزام لگایا گیا اُس سے بھی خدا نے مجھے بَری کردیا اور پھر مجھ پر جاہل ہونے کا الزام لگایا گیا۔ سو مخالف مولویوں کی خود جہالت ثابت ہوئی اور پھر مہرعلی نے مجھ پر سارق ہونے کا الزام لگایا۔ سو اس کا خود سارق ہونا ثابت ہوا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ131 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 509)
2 حضرت اقدس نزول المسیح میں اس کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں:۔’’ہم تجھے بہت سے ارادتمند عطا کریں گے اور ایک کثیر جماعت تجھے دی جاوے گی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 131۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 509)
وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ سِرُّکَ سِرِّیْ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِٓیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ وَجِیْھًافِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔
اے احمدتیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے ہم نے تجھ کو معارفِ کثیرہ عطا فرمائے ہیں ۔سو اُس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے۔ اور میری یاد کے لئے نماز کو قائم کر۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اُتار دیا ہے۔ اور تیرے ذِکر کو اونچا کردیا ہے۔ تُو سیدھی راہ پر ہے۔ دنیا اور آخرۃ میں وجیہہ اور مقربین میں سے ہے۔
حَمَاکَ اللّٰہُ۔ نَصَرَکَ اللّٰہُ۔ رَفَعَ اللّٰہُ حُجَّۃَ الْاِسْلَامِ۔ جَمَالٌ۔ ھُوَالَّذِیْ اَمْشَاکُمْ فِیْ کُلِّ حَالٍ۔ لَا تُحَاطُ اَسْرَارُ الْاَولِیَآئِ۔
خدا تیر ی حمایت کرے گا۔ خدا تجھ کو مدد دے گا۔ خدا حجت ِاسلام کو بلندکرے گا۔ جمالِ الٰہی ہے جس نے ہر حال میں تمہارا تنقیہ کیا ہے۔ خدائے تعالیٰ کو جو اپنے ولیوں میں اسرار ہے۔ وہ احاطہ سے باہر ہیں۔ کوئی کسی راہ سے اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور کوئی کسی راہ سے.........
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خداے تعالیٰ میں دو صفتیں ہیں جو تربیت ِ عباد میں مصروف ہیں۔ ایک صفت رفق اور لطف اور احسان ہے اس کا نام جمال ہے۔ اور دوسری صفت قہر اور سختی ہے اِس کا نام جلال ہے۔ سو عادۃ اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جو لوگ اُس کی درگاہِ عالی میں بلائے جاتے ہیں۔ اُن کی تربیت کبھی جمالی صفت سے اور کبھی جلالی صفت سے ہوتی ہے۔ اور جہاں حضرت احدیّت کے تلطّفاتِ عظیمہ مبذول ہوتے ہیں۔ وہاں ہمیشہ صفت ِ جمالی کے تجلیات کا غلبہ رہتا ہے۔ مگر کبھی کبھی بندگانِ خاص کی صفاتِ جلالیہ سے بھی تادیب اور تربیت منظور ہوتی ہے جیسے انبیاء کرام کے ساتھ بھی خدا ے تعالیٰ کا یہی معاملہ رہا ہے کہ ہمیشہ صفاتِ جمالیہ حضرت احدیت کے اُن کی تربیت میں مصروف رہے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی اُن کی استقامت اور اخلاقِ فاضلہ کے ظاہر کرنے کے لئے جلالی صفتیں بھی ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ اور اُن کو شریر لوگوں کے ہاتھ سے انواع اقسام کے دکھ ملتے رہے ہیں۔ تا اُن کے وہ اخلاق فاضلہ جو بغیر تکالیف شاقہ کے پیش آنے کے ظاہر نہیں ہوسکتے۔ وہ سب ظاہر ہوجائیں۔ اور دنیا کے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ کچے نہیں ہیں۔ بلکہ سچے وفادار ہیں۔
وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا۔ اِنْ ھٰذَا اِلَّا سِحرٌ یُّؤْثَرُ۔ لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً۔ لَا یُصَدِّقُ السَّفِیْہُ اِلَّا سَیْفَۃَ الْھَلَاکِ۔ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّکَ قُلْ اَتٰٓی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ۔ اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی۔
اور کہیں گے یہ تجھے کہاں سے حاصل ہوا۔ یہ تو ایک سحر ہے جو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم ہرگز نہیں مانیں گے۔
جب تک خدا کو بچشمِ خود دیکھ نہ لیں۔سفیہ بجز ضربہ ٔ ہلاکت کے کسی چیز کو باور نہیں کرتا۔ میرا اور تیرا دشمن ہے۔ کہہ خدا کا امر آیا ہے۔ سو تم جلدی مت کرو۔ جب خدا کی مدد آئے گی تو کہا جائے گا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں کہیں گے کہ کیوں نہیں۔
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ وَلَاتَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا۔ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُمْ رَءُوْفًا رَّحِیْمًا۔ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ تَمُوْتُ وَاَنَا رَاضٍ مِّنْکَ۔ فَادْخُلُوا الْجَنَّۃَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْ ھَآ اٰمِنِیْنَ سَلَامٌ عَلَیْکٌ جُعِلْتَ مُبَارَکًا سَمِعَ اللّٰہُ اِنَّہ‘سَمِیْعُ الدُّعَآئِ۔ اَنْتَ مُبَارَکٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔ اَمْرَاضُ النَّاسِ وَبَرَکَا تُہ‘اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ اُذْکُرْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ وَ اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ مَنَّ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ وَاَحْسَنَ اِلٰٓی اَحْبَابِکُمْ وَعَلَّمَکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْن۔ وَاِنْ تَعُدُّ و انِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا۔
میں تجھ کو پوری1نعمت دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں یعنی حقیقی طور پر اللہ و رسول کے مُتّبعین میں داخل ہوجائیں۔ اُن کو اُن کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ یعنی وہ لوگ حجت اور دلیل کے رُو سے اپنے مخالفوں پر غالب رہیں گے۔ اور صدق اور راستی کے انوار سا طعہ اُنہیں کے شامل حال رہیں گے۔ اور سُست مت ہو اور غم مت کرو۔ خدا تم پر بہت ہی مہربان ہے۔ خبردار ہو بہ تحقیق جو لو گ مقربان الٰہی ہوتے ہیں اُن پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم کرتے ہیں۔ تُو اس حالت میں مرے گا کہ جب خدا تجھ پر راضی ہوگا۔ پس بہشت میں داخل ہوانشاء اللہ امن کے ساتھ۔ تم پر سلام ہو۔ تم شرک سے پاک ہوگئے۔ سو تم امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہو۔ تجھ پر سلام۔ تو مبارک کیا گیا۔ خدانے دعا سن لی۔ وہ دعاؤں کو سنتا ہے۔ تو دنیا اور آخرت میں مبارک ہے.........لوگوں کی بیماریاں اور خدا کی برکتیں۔ یعنی مبارک کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے لوگوں کی روحانی بیماریاں دُور
1 ’’میں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے توفّی کے معنے ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں۔ جن کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں میں مانتا ہوں کہ وہ میری غلطی ہے الہامی غلطی نہیں۔ میں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلاً جیسا کہ سہو اور نسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں گو میں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر مجھے خدا تعالیٰ قائم نہیں رکھتا۔ مگر یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کرسکتا۔ خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کا کلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ سہو و نسیان لازمہ بشریّت ہے۔‘‘
(ایّام الصلح صفحہ41۔ روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 271، 272۔ نیز دیکھو براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ73 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 93)
ہوں گی اور جن کے نفس سعید ہیں۔ وہ میری باتوں کے ذریعہ سے رشد اور ہدایت پاجائیں گے اور ایسا ہی جسمانی بیماریاں اور تکالیف جن میں تقدیر مبرم نہیں1۔
اور پھر فرمایا کہ تیرا رب بڑا ہی قادر ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا کی نعمت کو یاد رکھ۔ اور میں نے تجھ کو تیرے وقت کے تمام عالموں پر فضیلت دی۔
اس جگہ جاننا چاہئے کہ یہ تفضیل طفیلی اور جزوی ہے۔ یعنی جو شخص حضرت ِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طور پر متابعت کرتا ہے۔ اُس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اُس کے تمام ہم عصروں سے بر تر و اعلیٰ ہے۔ پس حقیقی اور کلّی طور پر تمام فضیلتیں حضرت خاتم الانبیاء کو جناب احدیّت کی طرف سے ثابت ہیں۔ اور دوسرے تمام لوگ اُس کی متابعت اور اُس کی محبت کے طفیل سے علیٰ قدر متابعت و محبت مراتب پاتے ہیں۔فما اعظم شان کمالہ اللّٰھم صلّ علیہ واٰلہٖ۔
اب بعد اس کے بقیہ ترجمہ الہام یہ ہے۔ اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ۔ وہ تجھ پر راضی اور تو اُس پر راضی۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو۔ اور میری بہشت میں اندر آجا۔ خدا نے تجھ پر احسان کیا۔ اور تیرے دوستوں سے نیکی کی۔ اور تجھ کو علم بخشا جس کو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا۔ اور اگر تو خدا کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ تیرے لئے غیر ممکن ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ510 تا 521 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 608تا 623)
1883ء
’’پہلے اس2 سے چند مرتبہ الہامی طور پر خدائے تعالیٰ نے اِس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُبَارَکًا حَیْثُمَا کُنْتُ
یعنی اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کر۔ کہ ہر جگہ کہ میں بودو باش کروں۔ برکت میرے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا کہ جو آپ ہی فرمائی تھی۔ قبول فرمائی۔ اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اوّل آپ ہی
1 حضرت اقدس الہام امراض الناس وبرکاتہ‘ کی تشریح یوں فرماتے ہیں:۔’’یعنی لوگوں میں مرض پھیلے گی اور اس کے ساتھ ہی خدا کی برکتیں نازل ہوں گی اور وہ اس طرح پر کہ وہ بعض کو نشان کے طور پر اس بلا سے محفوظ رکھے گا اور دوسرے یہ کہ یہ بیماریاں جو آئیں گی یہ دینی برکات کا موجب ہوجائیں گی اور بہتیرے لوگ اُن خوفناک دنوں میں دینی برکات سے حصہ لیں گے اور سلسلہ حقہ میں داخل ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور طاعون کا خوفناک نظارہ دیکھ کر بڑے متعصّب اس سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ20۔ روحانی خزائن جلد نمبر18۔ صفحہ 398)
2 یعنی الہام جُعِلْتَ مُبَارَکًا مندرجہ صفحہ 75(مرتب)
الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا۔ اور پھر یہ کہنا کہ یہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 520 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 621)
1883ء
’’پھر ان الہامات کے بعد چند الہام فارسی اور اُردو میں اور ایک انگریزی میں ہوا...........اور وہ یہ ہے:۔
بخرام کہ 1 وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔پاک محمدؐمطفٰے نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کردیگا۔ اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اِس طرف توجہ کرے گا۔ اِس نشان کا مدّعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مُنہ کی باتیں ہیں2۔ جناب الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھُلا ہے۔ اور اُس کی پاک رحمتیں اِس طرف متوجہ ہیں۔ دی ڈیز شَلْ کم وِہْن گاڈ شیل ہَیلْپ یُو۔ گلوری بی ٹو دس لارڈ گَوڈ میکرآف ارتھ اینڈ ہیْون3۔
وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے ذوالجلال آفرینندۂ زمین و آسمان۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ521، 522 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 623)
1 (ترجمہ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ’’اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آگیا اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر اُن کا قدم پڑیگا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ133، روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 511)
2 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ حضور کو جو الہام ہوا ہے ’’قرآن خدا کا کلام ہے اور میرے منہ کی باتیں‘‘ اس الہام الٰہی میں ’’میرے‘‘ کی ضمیر کس کی طرف پھرتی ہے یعنی کس کے منہ کی باتیں۔
فرمایا:۔ خدا کے منہ کی باتیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے منہ کی باتیں۔ اس طرح کے ضمائر کے اختلاف کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔
(بدر جلد 6نمبر 28۔ 11 جولائی 1907ء صفحہ 6)
3 9. The days shall come when God shall help you.
10. Glory be to This Lord God Maker of earth and heaven.
1883ء
’’ ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ یک دفعہ بعض امور میں تین طرح کا غم پیش آگیا تھاجس کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور بجز ہرج و نقصان اُٹھانے کے اور کوئی سبیل نمودار نہ تھی۔ اُسی روز شام کے قریب یہ عاجز اپنے معمول کے مطابق جنگل میں سیر کو گیا۔ اور اُس وقت ہمراہ ایک آریہ ملاوا مل نامی تھا۔ جب واپس آیا تو گاؤں کے دروازہ کے نزدیک یہ الہام ہوا۔
نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ
پھر دوبارہ الہام ہوا۔
نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ٌ
یعنی ہم تجھے اس غم سے نجات دیں گے۔ ضرور نجات دیں گے۔ کیا تو نہیں جانتا۔ کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
چنانچہ اسی قدم پر جہاں الہام ہوا تھا۔ اُس آریہ کو اُس الہام سے اطلاع دی گئی تھی۔ اور پھر خدا نے وہ تینوں طور کا غم دور کردیا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ553، 554 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 659، 660)
1883ء
1 دوہ آل مین شُڈ بی اینگری بٹ گوڈ از وِدّ یُو۔ 2ہِی شل ہیلپ یُو۔
3 ورڈس اوف گوڈ کین ناٹ ایکس چینج
یعنی اگرچہ تمام آدمی ناراض ہوں گے۔ مگر خدا تمہارے ساتھ ہے۔ وہ تمہاری مدد کریگا۔ خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ554 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ660، 661)
1883ء
اَلْخَیْرُکُلَّہ‘فِی الْقُرْاٰنِ کِتَابِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ اِلَیْہِ یُصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ۔
یعنی تمام بھلائی قرآن میں ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ وہی اللہ جو رحمان ہے اُسی رحمان کی طرف کلماتِ طیبہ صعود کرتے ہیں۔
1
1 Though all men should be angry but God is with you.
2 He shall help you.
3 Words of God can not exchange.
ھُوَالَّذِی یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ م بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنُشُرُ رَحْمَتَہ‘
اللہ وہ ذات کریم ہے کہ جو نا امیدی کے پیچھے مینہہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کو دنیا میں پھیلاتا ہے یعنی عین ضرورت کے وقت تجدید دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
یَجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عَبَادِہٖ
جس کو چاہتا ہے بندوںمیں سے چُن لیتا ہے۔
وَکَذَالِکَ مَنَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَالْفَحَشَآئَ۔ وَلِتَنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُ ھُمْ فَھُمْ غَافِلُوْنَ۔
اور اسی طرح ہم نے یوسف پر احسان کیا۔ تا ہم اُس سے بدی اور فحش کو روک دیں۔ اور تا تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادوں کو کسی نے نہیں ڈرایا سو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس جگہ یوسف کے لفظ سے یہی عاجز مراد ہے کہ جو باعتبار کسی روحانی مناسبت کے اطلاق پایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ554، 555 حاشیہ در حاشیہ نمبر4، روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 661، 662)
1883ء بعد اس کے فرمایا:۔
قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ رَبُّنَا عَاجٍ۔ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْ نَنِیْٓ اِلَیْہِ۔ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنْ غَمِّیْ۔ اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ۔کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ۔
کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان نہیں لاتے۔ یعنی خداے تعالیٰ کا تائیدات کرنا۔ اور اسرار غیبیہ پر مطلع فرمانا اور پیش از وقوع پوشیدہ خبریں بتلانا اور دعاؤں کو قبول کرنا۔ اور مختلف زمانوں میں الہام دینااور معارف اور حقائق الٰہیہ سے اطلاع بخشنا یہ سب خدا کی شہادت ہے۔ جس کو قبول کرنا ایماندار کا فرض ہے۔ پھر بقیہ الہامات ِ بالا کا (ترجمہ1)یہ ہے کہ بہ تحقیق میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے راہ بتلائے گا۔ اے میرے رب میرے گناہ بخش اور آسمان سے رحم کر۔ ہمارا رب عاجی ہے۔ (اس کے معنے ابھی تک معلوم نہیں ہوئے) جن نالائق باتوں کی طرف مجھ کو بُلاتے ہیں۔ اُن سے اے میرے رب مجھے زندان بہتر ہے۔ اے میرے خدا مجھ کو میرے غم سے نجات بخش۔ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُونے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ تیری بخششوں نے ہم کو گستاخ کردیا۔
یہ سب اسرار ہیں کہ جو اپنے اپنے اوقات پر چسپاں ہیں۔ جن کا علم حضرت عالم الغیب کو ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 555،556 حاشیہ در حاشیہ نمبر4، روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 662 تا 664)
1 ’’ترجمہ‘‘ کالفظ اصل میں موجود نہیں۔ یہ مرتّب کی طرف سے ہے۔
1883ء
پھر بعد اس کے فرمایا۔
ھُوَشَعْنَا ۔ نَعْسَا
یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں۔ اور اِن کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے1۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 556 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 664)
’’پھربعد اس کے دو فقرے انگریزی ہیں۔ جن کے الفاظ کی صحت بباعث سرعت ِ الہام ابھی تک معلوم نہیں۔ اور وہ یہ ہیں:۔
آئی لَوْ یُوْ۔ آی شل گِو یُو ءِ لارج پارٹی اَوف اِسلام2
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 556 حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 664)
(ترجمہ) میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں تجھے ایک بڑا گروہ اسلام کا دوں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 80، روحانی خزائن جلدنمبر21 صفحہ 105)
1883ء
پھر بعد اس کے یہ الہام ہے:۔
یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مَتَوَفِیْکَ 1 وَرَافِعُکَ اِلَیَّ (وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا2 وَجَاعِلُ
1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں اس الہام کی تشریح میں تحریرفرمایا ہے۔
’’ ھُوَ شعْنا نَعْسَا:۔اے خدا میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات بخش اور مشکلات سے رہائی فرما۔ ہم نے نجات دیدی۔ یہ دونوں فقرے عبرانی زبان میں ہیں۔ اور یہ ایک پیش گوئی ہے جو دعا کی صورت میں کی گئی۔ اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا۔ اور اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی۔ بے کسی۔ ناداری۔ کسی آئندہ زمانہ میں وہ دور کردی جائیں گی۔ چنانچہ پچیس برس کے بعد یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام و نشان نہ رہا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 80۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 104)
(نوٹ از مرتب) فقرہ ھُوَ شعْنا متی21/9میں بھی آیا ہے جس کا ترجمہ حاشیہ میں یوں لکھا ہے۔ ’کرم کرکے نجات دے‘ دیکھیئے زبور118/45۔
نَعْسَاکا ترجمہ عبرانی میں ہے’’قبول ہوئی‘‘ (عربی عبرانی ڈکشنری)
2 I love you. I Shall give you a large party of Islam.
3 ’’الہام اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ اس قدر ہوا ہے جس کا خدا ہی شمار جانتا ہے۔ بعض اوقات نصف شب کے بعد فجر تک ہوتا رہا ہے۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ67 مکتوب مؤرخہ20 نومبر1883ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب)
4 ’’یہ فقرہ سہو کاتب سے براہین میں رہ گیا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ73حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 94، 95)
الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَرْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔
اے عیسٰی 1میں تجھے کامل اجر بخشوں گا۔یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا۔ یا دنیا سے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔منکروں کے ہر ایک الزام اور تہمت سے تیرا دامن پاک کردوں گا۔ اور تیرے تابعین کو اِن پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا۔ یعنی تیرے ہم عقیدوں اور ہم مشریوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا۔ پہلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک گروہ 2ہے۔ اس جگہ عیسیٰ کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 556، 557 حاشیہ در حاشیہ نمبر4روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 664، 665)
1883ء
’’اور پھر بعد اِس کے اُردو میں الہام فرمایا۔
میں اپنی چمکار3 دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔دنیا میں ایک نذیر آیا‘ پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اِسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ557حاشیہ در حاشیہ نمبر4 ۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 664، 665)
(ب) ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا۔ اس کی دوسری قرأت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔‘‘
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 1۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 207)
(ج) ’’دنیا میں ایک نبی آیا۔ مگر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔‘‘ نوٹ:۔’’ ایک قرأت اس الہام میں یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا۔ اور یہی قرأت براہین میں درج ہے۔ اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرأت درج نہیں کی گئی۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 7اگست1899ء مندرجہ الحکم جلد3 نمبر 29 مؤرخہ17؍اگست1899ء صفحہ6)
1 اس کے متعلق دیکھو حاشیہ نمبر1 متعلقہ ترجمہ وحی صفحہ75۔ (مرتب)
2 یعنی اس سلسلہ میں داخل ہونے والے دو فریق ہوں گے ایک پرانے مسلمان جن کا نام اوّلین رکھا گیا۔ جواب تک تین لاکھ کے قریب اس سلسلہ میں داخل ہوچکے ہیں اور دوسرے نئے مسلمان جو دوسری قوموں میں سے اسلام میں داخل ہوں گے۔ یعنی ہندوؤں اور سکھوں اور یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں میں سے۔ اور وہ بھی ایک گروہ اس سلسلہ میں داخل ہوچکا ہے اور ہوتے جاتے ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 82۔ روحانی خزائن جلد نمبر21 صفحہ 108)
3 ’’یہ وہی چمکار ہے جو کوہِ طور کی چمکار سے مشابہت رکھتی ہے اور اس سے مراد جلالی معجزات ہیں۔ جیسا کہ کوہِ طور پر بنی اسرائیل کو جلالی معجزات دکھائے گئے تھے۔‘‘ (ضمیمہ چشمہ ٔ معرفت صفحہ27۔ روحانی خزائن جلدنمبر23 صفحہ 398)
1883ء
اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْلَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ۔
اس جگہ ایک فتنہ ہے۔ سو اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کر۔
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ‘ لِلْجَبَلِ جَعَلَہ‘ دَکًّا
جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلّی کرے گا تو انہیں پاش پاش کردے گا۔
قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الصَّمَدِ۔
یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندے کے لئے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا۔
مَقَامٌ لَّا تَتَرَتَّی الْعَبْدُ فِیْہِ بِسَعْیِ الْاَعْمَالِ۔
یعنی عبداللہ الصمد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبت خاص عطاہوتا ہے۔ کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔
یَا دَاو‘دُ عَامِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًا۔ وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَا۔ وَاَمَّا بِنِعْمَۃَ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔یُو مَسٹ ڈو وہاٹ آی ٹَولْڈ یُو1۔ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے۔ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَاَیْتَ خَدِیْجَتِیْ۔ اِنَّکَ الیَوْمَ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ۔ اَنْتَ مُحَدَّثُ اللّٰہِ۔ فِیْکَ مَادَّۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ۔
اے داؤد خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر۔ اور سلام کا جواب احسن طور پر دے۔ اور اپنے رب کی نعمت کا لوگوں کے پاس ذِکر کر۔ میری نعمت کا شکر کر کہ تُونے اُس کو قبل از وقت پایا۔ آج تجھے حظِّ عظیم ہے۔ تُو محدّث اللہ ہے۔ تجھ میں مادّئہ فاروقی ہے۔
سَلَامٌ عَلَیْکَ یَآ اِبْرَاھِیْمُ۔ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ۔ ذُوْعَقْلٍ مَّتِیْنٍ۔ حِبُّ اللّٰہِ خَلِیْلُ اللّٰہِ اَسَدُ اللّٰہِ وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ۔ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی۔ اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ۔ بَیْتُ الْفِکْرِ وَبَیْتُ الذِّکْرِ۔ وَمَنْ دَخَلَہ‘کَانَ اٰمِنًا۔
تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم! تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانت دار اور قوی العقل ہے اور دوست خدا ہے۔ خلیل اللہ ہے۔ اسد اللہ ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیج۔
یعنی یہ اُسی نبی کریم کی متابعت کا نتیجہ ہے۔
اور بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدا نے تجھ کو ترک نہیں کیا اور نہ وہ تجھ پر ناراضہے کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں
1 You must do what I told you
کھولا؟ کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی؟ کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا۔ اور جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبّد و صحت نیت و حُسن ایمان داخل ہوگا۔ وہ سوء خاتمہ سے امن میں آجائے گا۔
بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہ جو اُس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے۔
اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اسی مسجد1کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے۔ اور وہ یہ ہے۔
مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔
یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر ایک امر مبارک اِس میں کیا جائے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 557 تا 559حاشیہ در حاشیہ نمبر4۔ روحانی خزائن جلدنمبر1، 665 تا 667)
1883ء
’’پھر بعد اس کے اس عاجز کی نسبت فرمایا۔
1 (الف) ’’ اس مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا۔ منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے.............. فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِّلنَّاسِ۔ وَمَنْ دَخَلَہ‘کَانَ اٰمِنًا۔‘‘ (مکتوباتِ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 55)
(ب) ’’ایک مرتبہ میں نے اس مسجد کی تاریخ .........الہامی طور پر معلوم کرنی چاہی تو مجھے الہام ہوا۔ مبارک و مبارک و کل امر مبارک یجعل فیہ۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اوّل صفحہ 186۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 190)
(ج) اس الہام میں تین قسم کے نشان ہیں۔ (1) اوّل یہ کہ اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مادّۂ تاریخ بنائے مسجد ہے۔ (2) دوم یہ کہ یہ پیش گوئی بتلارہی ہے کہ ایک بڑے سلسلہ کے کاروبار اسی مسجد میں ہوں گے چنانچہ اب تک اسی مسجد میں بیٹھ کر ہزار ہا آدمی بیعت توبہ کرچکے ہیں ‘ اسی میں بیٹھ کر صد ہا معارف بیان کئے جاتے ہیں اور اسی میں بیٹھ کر کتب ِ جدیدہ کی تالیف کی بنیاد پڑتی ہے اور اسی میں ایک گروہِ کثیر مسلمانوں کا پنج وقت نماز پڑھتا ہے اور وعظ سنتے ہیں اور دلی سوز سے دعائیں کی جاتی ہیں۔ اور بنائے مسجد کے وقت میں ان باتوں میں سے کسی بات کی علامت موجود نہ تھی۔(3) سوم یہ کہ یہ الہام دلالت کررہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں کوئی آفت آنے والی ہے اور جو شخص اخلاص کے ساتھ اس میں داخل ہوگا وہ اس آفت سے بچ جائے گا۔ اور براہین احمدیہ کے دوسرے مقامات سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ آفت طاعون ہے سو یہ پیش گوئی بھی اس سے نکلتی ہے کہ جو شخص پُوری ارادت اور اخلاص سے جس کو خدا پسند کر لیوے اس مسجد میں داخل ہوگا وہ طاعون سے بھی بچایا جائے گا۔ یعنی طاعونی موت سے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 147، 148۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 525، 526)
رُفِعْتَ وَجُعِلْتَ مُبَارَکًا
تو اونچا کیا گیا اور مبارک بنایا گیا۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَا نَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ۔
یعنی جو لوگ اُن برکات و انوار پر ایمان لائیں گے کہ جو تجھ کو خدائے تعالیٰ نے عطا کئے ہیں۔ اور ایمان اُن کا خالص اور وفاداری سے ہوگا۔ تو ضلالت کی راہوں سے امن میں آجائیں گے اور وہی ہیں جو خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں۔
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ۔ قُلِ اللّٰہُ حَافِظُہ‘عِنَایَۃُ اللّٰہِ حَافِظُکَ۔ نَحْنُ نَزَّلْنَاہُ وَاِنَّا لَہ‘ لَحَافِظُوْنَ۔ اَللّٰہُ خَیْرٌحَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ وَیُخَوِّ فُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ۔ اَئِمَّۃُ الْکُفْرِ۔ لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْآعْلٰی۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ۔ اِنَّ یَوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ۔ بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ۔ نَصَرْتُکَ مِنْ لَّدُنِّیْ۔ اِنِّیْ مُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ۔ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ خَلَقْتُ لَکَ لَیْلًا وَّنَھَارًا۔ اِعْمَلْ مَاشِئْتَ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکَ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ۔
مخالف لوگ ارادہ کریں گے۔ کہ تاخدا کے نور کو بُجھا دیں۔ کہہ خدا اُس نو ُرکا آپ محافظ ہے۔ عنایت الٰہیہ تیری نگہبان ہے۔ ہم نے1 اُتارا ہے اور ہم ہی محافظ ہیں۔ خدا خیرالحافظین ہے۔ اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ اور تجھ کو اور اور چیزوں سے ڈرائیں گے۔ یہی پیشوایانِ کفر ہیں۔ مت خوف کر تجھی کو غلبہ ہے۔ یعنی حجت اور بر ہان اور قبولیت اور برکت کے رُو سے تو ُ ہی غالب ہے۔ خدا کئی میدانوںمیں تیری مدد کرے گا یعنی مناظرات و مجادلات بحث میں تجھ کو غلبہ رہے گا۔
پھرفرمایا کہ میرا دن حق اور باطل میں فرق بیّن کرے گا۔ خدا لکھ چکا ہے۔ کہ غلبہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو ہے۔ کوئی نہیں کہ جو خدا کی باتوں کو ٹال دے۔ یہ خدا کے کام دین کی سچائی کے لئے حجت ہیں۔ میں اپنی طرف سے تجھے مدد دوں گا۔ میں خود تیرا غم دُور کروں گا۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرے لئے میں نے رات اور دن پیدا کیا۔ جو کچھ تو چاہے کر کہ میں نے تجھے بخشا۔ تو مجھ سے وہ منزلت رکھتا ہے جس کی لوگوں کو خبر نہیں۔
1 سہوِ کاتب سے لفظ ’’اس کو‘‘ ترجمہ سے رہ گیا ہے۔ (مرتّب)
اس آخری فقرہ کا یہ مطلب نہیں کہ منہیاتِ شرعیہ تجھے حلال ہیں۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تیری نظر میں منہیات مکروہ کئے گئےہیں اور اعمالِ صالحہ کی محبت تیری فطرت میں ڈالی گئی ہے۔ گویا جو خدا کی مرضی ہے وہ بندہ کی مرضی بنائی گئی۔ اور سب ایمانیاتِ اِس کی نظر میں بطور فطرتی تقاضا کے محبوب کی گئیں۔ وَذالک فضل اللّٰہ یؤ تیہ من یشآئُ
وَقَالُوْٓا اِنْ ھُوَ(اِلَّا 1) اِفْکُ نِٰ فْتَریٰ۔ وَمَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ۔ وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ و فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔ اِجْتَبَیْنَاھُمْ وَاصْطَفَیْنَاھُمْ کَذَالِکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمَؤْ مِنیْنَ۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنَّ اَصْحَابَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْ مِنْ اٰیَا تِنَا عَجَبًا۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَجِیْبٌ۔ کُلَّ یُوْمٍ ھُوَفِیْ شَاْنٍ۔ فَفَھَّمْنَاھَا سُلَیْمَانَ۔ وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَآ اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ۔ قُلْ جَآئَ کُمْ نُوْرٌ مِّنَ اللّٰہِ فَلَا تَکْفُرُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ سَلَامٌ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ صَافَیْنَاہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ۔ تَفَرَّدْ نَا بِذَالِکَ فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَا ھِیْمَ مُصَلًّی۔
اورکہیں گے کہ یہ جھوٹ بنالیا ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوں میں یعنی اولیاء سلف میں یہ نہیں سنا۔ حالانکہ بنی آدم یکساں پیدا نہیں کئے گئے۔ بعض کو بعض پر خدا نے بزرگی دی ہے اور اُن کو دوسروں میں سے چُن لیا ہے۔ یہی سچ ہے تا مومنوں کے لئے نشان ہو۔ کیا تم خیال کرتے ہو۔ کہ ہمارے عجیب کام فقط اصحاب کہف تک ہی ختم ہیں۔ نہیں بلکہ خدا تو ہمیشہ صاحب عجائب ہے۔ اور اُس کے عجائبات کبھی منقطع نہیں ہوتے۔ ہر یک دن میں وہ ایک شان میں ہے۔ پس ہم نے وہ نشان سلیمان کو سمجھائے۔ یعنی اس عاجز کو۔ اور لوگوں نے محض ظلم کی راہ سے انکار کیا۔ حالانکہ اُن کے دل یقین کرگئے۔ سو عنقریب ہم اُن کے دلوں میں رُعب ڈال دیں گے۔ کہہ خدا کی طرف سے نور اُترا ہے۔ سو تم اگر مومن ہو تو انکار مت کرو۔ ابراہیم پر سلام۔ ہم نے اُس کو خالص کیا۔ اور غم سے نجات دی۔ ہم نے ہی یہ کام کیا۔ سو تم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو۔ یعنی رسول کریم کا طریقہ حقہ کہ جو حال کے زمانہ میں اکثر لوگوں پر مُشتبہ ہوگیا ہے اور بعض یہودیوں کی طرح صرف ظواہر پرست اور بعض مُشرکوں کی طرح مخلوق پرستی تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ طریقہ خداوند کریم کے اِس عاجز بندہ سے دریافت کرلیں اور اُس پر چلیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 559 تا 562 حاشیہ در حاشیہ نمبر4 روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 667تا671)
1 اس الہام میں اِلَّا کا لفظ سہو کتابت سے رہ گیا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اربعین نمبر2 طبع اوّل صفحہ 7 روحانی خزائن جلد نمبر17صفحہ 353 میں بحوالہ براہین احمدیہ یہی الہام درج فرمایا ہے اور اس میں لفظ اِلَّا موجود ہے۔ (مرتب)
اگست 1883ء
(الف) ’’ اُن1کے سفر آخرت کی خبر بھی کہ جو اُن کو تیس اکتوبر1883ء میں پیش آیا۔ تخمیناً تین ماہ پہلے خداوند کریم نے اِس عاجز کو دیدی تھی۔ چنانچہ یہ خبربعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 535 حاشیہ نمبر11۔ روحانی خزائن جلد نمبر1 صفحہ 640 حاشیہ نمبر11)
(ب) ’’پنڈت دیانند کی بابت اس کی موت سے دو مہینے پہلے لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی۔ کہ اب وہ بہت ہی نزدیک مرے گا۔ بلکہ کشفی حالت میں مَیں نے اُس کو مُردہ پایا۔‘‘
(شحنہ حق صفحہ43۔ روحانی خزائن جلد نمبر2 صفحہ 382)
(ج) ’’اس ملک پنجاب میں جب دیانند بانی مبانی آریہ مذہب نے اپنے خیالات پھیلائے اورسِفلہ طبع ہندوؤں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیراورایسے ہی دوسرے انبیاء ؑ کی توہین پر چالاک کردیا۔ اور خود بھی قلم پکڑتے ہی اپنی شیطانی کتابوں میں جابجا خدا کے تمام پاک اور برگزیدہ نبیوں کی تحقیر اور توہین شروع کی۔ اور خاص اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں بہت کچھ جھوٹ کی نجاست کو استعمال کیا اور بزرگ پیغمبروں کو گندی گالیاں دیں تب مجھے اس کی نسبت الہام ہوا کہ
خدا تعالیٰ ایسے موذی کو جلد تر دنیا سے اُٹھالے گا۔‘‘
(تتمہ حقیقتہ الوحی صفحہ 167۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 607)
28 اگست 1883ء
’’شاید پرسوں کے دن یعنی بروز سہ شنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی تو اُسی وقت خداوند کریم کی طرف سے ایک فقرہ الہام ہوا اور وہ یہ ہے۔
فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِلنَّاسِ
یعنی اس میں لوگوں کیلئے برکتیں ہیں۔‘‘ (از مکتوب مؤرخہ30اگست 1883ء مکتوبات جلد اوّل صفحہ 45)
6ستمبر 1883ء ’’بتاریخ6 ؍ستمبر1883ء روز پنج شنبہ خداوند کریم نے عین ضرورت کے وقت میں اس عاجز کی تسلی کے لئے اپنے کلامِ مبارک کے ذریعہ یہ بشارت دی کہ
بِست ویک روپیہ آنے والے ہیں۔
کیونکہ اس بشارت میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ آنے والے روپیہ کی تعداد سے اطلاع دی گئی۔ اور کسی خاص تعداد سے مطلع کرنا ذاتِ غیب دان کا خاصہ ہے کسی اور کاکام نہیں ہے۔ دوسری عجیب بر عجیب یہ بات تھی کہ یہ تعداد غیر معہود طرز پر تھی۔ کیونکہ قیمت مقررہ کتاب سے اس تعداد کا کچھ تعلق نہیں۔ پس انہیں عجائبات کی و جہ سے
1 پنڈت دیانند صاحب (مرتّب)
یہ الہام قبل از وقوع بعض آریوں کو بتلایا گیا۔
10 ستمبر1883ء
پھر10؍ستمبر 1883ء کو تاکیدی طور پر سہ بارہ الہام ہوا کہ
بست ویک روپیہ آئے ہیں
جس الہام سے سمجھا گیا کہ آج اس پیش گوئی کا ظہور ہوجائے گا۔ چنانچہ ابھی الہام پر شاید تین منٹ سے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہوگا کہ ایک شخص وزیر سنگھ نامی بیمار دار آیا اور اُس نے آتے ہی ایک روپیہ نذر کیا۔ ہر چند علاج معالجہ اِس عاجز کا پیشہ نہیں اور اگر اتفاقاً کوئی بیمار آجاوے۔ تو اگر اُس کی دوا یاد ہو تو محض ثواب کی غرض سے لِلّٰہ فی اللہ دی جاتی ہے ۔ لیکن وہ روپیہ اس سے لیا گیا۔ کیونکہ فی الفور خیال آیا۔ کہ یہ اُس پیش گوئی کی ایک جُز ہے۔ پھر بعد اس کے ڈاک خانہ میں ایک اپنا معتبر بھیجا گیا اس خیال سے کہ شاید دوسری جُزبذریعہ ڈاک خانہ پوری ہو۔ ڈاک خانہ سے ڈاک منشی نے جو ایک ہندو ہے جواب میں یہ کہا کہ میرے پاس صرف ایک منی آرڈر پانچ روپیہ کا جس کے ساتھ ایک کارڈ بھی نتھی ہے۔ ڈیرہ غازیخاں سے آیا ہے سو ابھی تک میرے پاس روپیہ موجود نہیں۔ جب آئے گا تو دوں گا۔ اس خبر کے سننے سے سخت حیرانی ہوئی۔ اور وہ اضطراب پیش آیا۔ جو بیان نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ یہ عاجز اسی تردّد میں سربزانو تھا اور اِس تصوّر میں تھا کہ پانچ اور ایک مل چھ ہوئے۔ اب اکیس کیونکر ہوں گے‘ یا الٰہی یہ کیا ہوا۔ سو اسی استغراق میں تھا کہ یک دفعہ یہ الہام ہوا:۔
بست ویک آئے ہیں۔ اِس میں شک نہیں
اس الہام پر دوپہر نہیں گذرے ہوں گے کہ اسی روز ایک آریہ کہ جو ڈاک منشی کے پہلے بیان کی خبر سن چکا تھا ڈاک خانہ میں گیا اور اس کو ڈاک منشی نے کسی بات کی تقریب سے خبر دی کہ دراصل بست روپے آئے ہیں اور پہلے یونہی منہ سے نکل گیا تھاجو میں نے پانچ روپیہ کہہ دیا۔ چنانچہ وہی آریہ بیس روپیہ معہ ایک کارڈ کے جو منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کی طرف سے تھالے آیا اور معلوم ہوا کہ وہ کارڈ بھی منی آرڈر کے کاغذ سے نتھی نہ تھا اور نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ روپیہ آیا ہوا تھا اور نیز منشی الٰہی بخش صاحب کی تحریر سے جو بحوالہ ڈاکخانہ کی رسید کے تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ منی آرڈر 6؍ستمبر 1883ء کو یعنی اُسی روز جب الہام ہوا۔ قادیان میں پہنچ گیا تھا۔ پس ڈاک منشی کا سارا املا انشاء غلط نکلا اور حضرتِ عالم الغیب کا سارا بیان صحیح ثابت ہوا۔ پس اس مبارک دن کی یاد داشت کے لئے ایک روپیہ کی شیرینی لے کر بعض آریوں کو بھی دی گئی۔ فالحمد للّٰہ علی اٰلائہٖ ونعمائہٖ ظاھر ھا و باطنھا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ522۔524حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 624۔ 626)
9اکتوبر1883ء
’’آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اِس عاجز نے شناخت نہیں کیا وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد1کے دروازہ کی پیشانی پر کچھ آیات لکھتے ہیں۔ ایسا سمجھا گیا ہے کہ فرشتے ہیں اور سبز رنگ اُن کے پاس ہے۔ جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں۔ اور خط ِ ریحانی میں جو پیچان اورمسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن آیات کو پڑھنا شروع کیا۔ جن میں سے ایک آیت یاد رہی اور وہ یہ ہے:۔
لَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ
اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے۔ جس عمارت کو وہ بنانا چاہے اس کو کون مسمار کرے۔ اور جس کو وہ عزت دینا چاہے اس کو کون ذلیل کرے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ9 اکتوبر1883ء بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 61)
22اکتوبر1883ء
’’آج اِس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا۔ بعالمِ کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ
فتح کا نقّارہ بجے
پھر ایک نے مسکرا کر اُن ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ
دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری
جب اِس عاجز نے دیکھا تو وہ اِسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی۔ مگر نہایت رُعب ناک۔ جیسے سپہ سالار مسلح فتحیاب ہوتے ہیں۔ اور تصویر کے یمین و یسار میں۔
حجتہ اللہ القادر و سُلطان احمد ِ مختار
لکھا تھا۔ اور یہ سوموار کا روز اُنیسویں ذوالحجہ1300ھ مطابق 22؍اکتوبر83ء اور ششم کا تک سم1940 بکرم ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ515، 516 حاشیہ در حاشیہ نمبر3۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 615)
24اکتوبر1883ء سے قبل
’’ایک مرتبہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ
1 یعنی مسجد مبارک (مرتّب)
اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو مَیں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اُوپر سے مدد کرسکتا ہوں۔‘‘
(از مکتوب 24؍اکتوبر1883ء مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ63)
29 اکتوبر1883ء سے قبل
’’ بارہا اس عاجز کو حضرتِ احدیّت کے مخاطبات میں ایسے کلمات فرمائے گئے ہیں۔ جن کا ماحصل یہ تھا کہ سب دنیا پنجہ ٔ قدرت احدیّت میں مقہور اور مغلوب ہے۔ اور تصرّفاتِ الٰہیہ زمین و آسمان میں کام کررہے ہیں۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 29 اکتوبر1883ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 63)
29 اکتوبر1883ء سے قبل
’’ چند روز کا ذکر ہے کہ یہ الہام ہوا۔
اِنْ 1 یَّمْسَسْکَ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہ‘اِلَّاھُوَ۔ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ۔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللَّہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ لَاٰتٍ۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 29اکتوبر1883ء۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ63)
19،20 نومبر 1883ء
’’رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا۔ اور وہ یہ ہے:۔
قُلْ لِّضَیْفِکَ2 اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ۔ قُلْ لِاّ َخِیْکَ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ
یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا۔ اس کے معنے ......ہیں......جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے۔ اس کو کہدے
1 (ترجمہ از مرتب) اگر وہ (خداوند کریم) تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے۔ تو اس کے سوا کوئی بھی اُسے دُور نہیں کرسکتا۔ اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے۔ تو کوئی اس کے فضل کو رد بھی نہیں کرسکتا۔ کیا تم جانتے نہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہوگا۔
(نوٹ از مرتب) مکتوبات احمدیہ 29 اکتوبر1883ء صفحہ63 میں لفظ ان یمسَسْکَ کی بجائے ان تمسسک لکھا ہے جو سہوِ کاتب معلوم ہوتا ہے۔
2 حیاتِ احمد (مرتبہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) جلد 2 نمبر2 صفحہ 72 پر یہ الہام واضح طور پر بالفاظ قُلْ لِضَیْفِکَ الخ درج ہے لیکن مکتوبات جلد اوّل صفحہ 67 میں یہ لفظ ایسا صاف نہیں لکھا بلکہ کچھ ایسا لکھا (لضیفک) ہے کہ لِضَیْفِکَ کی بجائے لِفَیْضِکَ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور ترجمہ کے الفاظ ’’مورد فیض‘‘ اس احتمال کو اور بھی قوت دیتے ہیں۔ گو ضَیْف کے معنے بھی موردِ فیض سمجھے جاسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ انہی ایام میں حضور کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی وفات ہوئی تھی۔ ( مرتب)
کہ میں.........(تجھے) وفات دوں گا۔
معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے۔ اس قسم کے تعلقات کے کم وبیش کوئی لوگ ہیں۔ اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتےہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت ۔ اُن کے عُسریُسر کی نسبت۔ اُنکے حوادث کی نسبت۔ ان کی عمر کی نسبت ظاہر ہوتا رہتا ہے۔‘‘
(ازمکتوب مؤرخہ20؍نومبر1883ء مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ67، 68)
’’پندرہ 1برس کے بعد جب میرے بھائی2 کی وفات کا وقت نزدیک آیا۔ تو میں امرتسر میں تھا مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ اب قطعی طور پر اُن کی زندگی کا پیالہ پُر ہوچکا اور بہت جلد فوت ہونے والے ہیں۔ میں نے وہ خواب حکیم محمد شرؔیف کو جو امرت سر میں ایک حکیم تھے سنائی۔ اور پھر اپنے بھائی کو خط لکھا کہ آپ امور آخرت کی طرف متوجہ ہوں۔ کیونکہ مجھے دکھلایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں۔ انہوں نے عام گھر والوں کو اس سے اطلاع دے دی۔ اور پھر چند ہفتہ میں ہی اس جہانِ فانی سے گذر گئے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ 39۔ روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 211، 212)
1883ء
’’اکسٹھواں نشان اپنے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغیر مجھے یہ الہام ہوا:۔
اے عَمّی بازیِ ٔ خویش کردی و مرا افسو س بسیار دادی۔3
یہ پیشگوئی بھی اسی شرمپت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی۔ اور اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بے وقت اور ناگہانی موت ہوگی جو موجب صدمہ ہوگی..........اور بعد اس کے میرے پر کھولا گیا۔ کہ یہ الہام میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ میرا بھائی دو تین دن کے بعد ایک ناگہانی طور پر فوت ہوگیا۔ اور
1 میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم سخت بیمار ہوگئے تھے۔ اور بالکل ایک مُشتِ استخواں سے رہ گئے تھے۔ حضرت اقدس ؑ نے ان کے لئے دعا کی تو خواب میں دکھایا گیا کہ آپ ایک پورے تندرست انسان کی طرف بغیر کسی سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں۔ چنانچہ حضور ؑ نے لکھا ہے۔ کہ برادر مذکور اس خواب کے پندرہ برس بعد تک زندہ رہے۔ مفصل دیکھو رؤیا نمبر10، 12 تذکرہ صفحہ نمبر 8، 9۔ (مرتب)
2 مراد مرزا غلام قادر صاحب برادر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اے چچا! تو اپنی جان پر کھیل گیا۔ اور مجھے بہت افسوس میں چھوڑ گیا۔
میرے اُس لڑکے کو اس کی موت کا صدمہ پہنچا۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 223۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 233)
1883ء
’’ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات سے ایک دن پہلے الہام ہوا
’’ جنازہ ‘‘
اور میں نے اس الہام کی بہت لوگوں کو خبر دے دی۔ چنانچہ دوسرے روز بھائی صاحب فوت ہوئے1۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 225۔ روحانی خزائن جلد نمبر 18 صفحہ 603)
دسمبر 1883ء
’’اس ہفتہ میں بعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں................ اور وہ کلمات یہ ہیں:۔
پریشن۔ عمر۔ براطوس۔ یا پلا طوس
یعنے پڑطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور عمرؔ عربی لفظ ہے۔ اس جگہ برا طوؔس اور پریشن کے معنے دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں؟پھر دو الفاظ اور ہیں۔
ھُوْ شَعْنَا 2 نَعْسَا
معلوم نہیں کس زبان کے ہیں۔ اور انگریزی یہ ہیں۔ اوّل عربی فقرہ ہے۔
یَا دَاو‘ دُ عَامِلْ بالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًا
یُوْمَسْٹ ڈو وَہاٹ آئی ٹولڈ یُوْ 3۔تم کو وہ کرنا چاہئے۔ جو میں نے فرمایا ہے۔
1 خاکسار مرتب کے عرض کرنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت اُمّ المؤمنین سے دریافت کیا۔ کہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات کس سنہ میں ہوئی تھی۔ تو آپ نے فرمایا کہ میری شادی سے (جو1884ء میں ہوئی تھی) ایک سال قبل اُن کی وفات ہوچکی تھی۔ نیز کتاب پنجاب چیفس میں بھی سنہ وفات1883ء ہی لکھا ہے۔
2 (الف) ’’یہ ایک عبرانی لفظ ہے جس کے معنے ہیں’نجات دے۔‘ فرمایا کہ یا مسیح الخلق عدوانا کا مضمون اس سے ملتا جلتا ہے۔‘‘ (البدر جلد4نمبر16 پرچہ8مئی1903ء صفحہ 122 کالم نمبر 3)
(ب) ’’چونکہ یہ غیر زبان میں الہام ہے۔ اور الہام الٰہی میں ایک سرعت ہوتی ہے۔ اس لئے ممکن ہے۔ کہ بعض الفاظ کے ادا کرنے میں کچھ فرق ہو۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہ اللہ تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا۔ یا کسی اور زمانہ کے متروکہ محاورہ کو اختیار کرتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف و نحو کے ماتحت نہیں چلتا۔ اس کی نظیریں قرآن شریف میں بہت پائی جاتی ہیں مثلاً یہ آیت اِنَّ ھٰذَانِ لَسَا حِرَانِ انسانی نحو کی رُو سے اِنَّ ھٰذَیْنِ چاہئے۔‘‘ ( حقیقتہ الوحی صفحہ 304 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 317 حاشیہ)
3 You must do what I told you.
یہ اُردو عبارت بھی الہامی ہے۔ پھر بعد اس کے ایک اور انگریزی الہام ہے۔ اور ترجمہ اس کا الہامی نہیں........ فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تاخر بھی ہوجاتا ہے........ اور وہ الہام یہ ہیں:۔
دَو 8آل من شُڈ بی اَنگری بٹ گاڈ اِز وِد یُوْ۔ ہِی9 شل ہلپ یُو۔ وارڈس 10آف گاڈ ناٹ *کین ایکس چینج1۔
ترجمہ:۔ اگر تمام آدمی ناراض ہوں گے‘ لیکن خدا تمہارے ساتھ ہوگا۔ وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ کے کلام بدل نہیں سکتے۔
پھر بعد اس کے ایک دو اَور الہام انگریزی ہیں۔ جن میں سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہے۔
آئی شل ہلپ یُو2
مگربعد اس کے یہ ہے:۔
یُوہَیو ٹو گو امرت سر3
پھرایک فقرہ ہے جس کے معنے معلوم نہیں اور وہ یہ ہے:۔
ہِی ہل ٹس ان دی ضلع پشاور4
(مکتوب12 ؍دسمبر1883ء بنام میر عباس علی شاہ صاحب۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ68،69)
جنوری 1884ء
’’ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی۔ اس وقت اس کی کوئی اَور صورت تھی۔ پھر بعد اس کے قدرتِ الٰہیہ کی ناگہانی تجلّی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی۔ یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردۂ
1 8. Though all men should be angry but God is with you.
9. He shall help you
10. Words of God not can exchange.
☆ یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ یہی الہام صفحہ 78 پر بھی درج ہے جہاں Can not کے الفاظ ہیں۔ (مرتب)
2 میں تیری مدد کروں گا۔ I shall help you
3 تمہیں امرتسر جانا ہوگا۔ You have to go Amritsar
4 وہ ضلع پشاور میں قیام کرتا ہے۔ He halts in the Zilla Peshawar
Zilla’’ضلع‘‘ کا لفظ انگریزی زبان میں استعمال ہوتا ہے دیکھو Public Servants Inquiries Act sec 8 (دی پبلک سرونٹس انکوائریز ایکٹ دفعہ 8) نیز دی پنجاب کورٹس ایکٹ شائع کردہ شمیر چند 1923ء صفحہ 83 زیر دفعہ نمبر 32، The Punjab Courts Act نیز آکسفورڈ ڈکشنری زیر لفظ’’ضلع۔‘‘ (مرتب)
غیب سے اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی۔ سو اَبْ اس کتاب کا متولّی اور مہتمم ظاہراً وباطناً حضرت ربّ العالمین ہے۔‘‘
(ہم اور ہماری کتاب۔ آخری صفحہ ٔ ٹائٹل براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 673)
فرمایا یہ میرا ایک پرانا الہام ہے۔
’’ 1 اَفَلَایَتَدَبَّرُوْنَ اَمْرَکَ۔ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِغَیْرِ اللّٰہ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔‘‘
(البدر جلد1 نمبر5 مؤرخہ 28؍نومبر1902ء صفحہ 37)
جنوری 1884ء
’’کچھ دن گذرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمعِ زاہدین اور عابدین ہے۔ اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے وقت ایک شعر موزون اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور شہود وغیرہ آتا ہے۔ جیسے یہ مصرع
تمام شب گذرا نیم در قیام و سجود
چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھے ہیں۔ پھر اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے۔ مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی۔ اور جو شعر اس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہوگیا اور وہ یہ ہے۔
طریق ِ زہد و تعبد ندا نم اے زاہد
خدائے من قدمم راندبررہ داؤد ‘‘2
(از مکتوب مؤرخہ 7جنوری 1884ء بنام میر عباس علی صاحب مکتوبات جلد اوّل صفحہ 71)
3جنوری 1884ء
(الف) ’’آپ کے مبلغ پچاس روپیہ عین ضرورت کے وقت پہنچے۔ بعض آدمیوں کے بیوقوف تقاضا سے بالفعل پچاس روپیہ کی سخت ضرورت تھی۔ دُعاء کے لئے یہ الہام ہوا۔
بحسن قبولی دعاء بنگر کہ چہ زود دُعاء قبُول میکنم
1 (ترجمہ از مرتب) کیا یہ لوگ تیرے معاملہ میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ معاملہ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں وہ بہت اختلاف پاتے۔ (نوٹ) چونکہ البدر میں لکھا ہوا ہے کہ یہ پُرانا الہام براہین احمدیہ کے زمانہ کا ہے اس لئے اسے براہین کے بعد رکھا جاتا ہے۔(مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) اے زاہد ! میں تو کوئی زہد و تعبد کا طریق نہیں جانتا۔ میرے خدا نے خود ہی میرے قدم کو داؤد کے راستہ پر ڈال دیا ہے۔
3جنوری1884ء کو یہ الہام ہوا۔ 6 تاریخ کو آپ کا روپیہ آگیا۔ والحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ7جنوری1884ء بنام میر عباس علی صاحب۔ مکتوبات جلد اوّل صفحہ72)
(ب) ’’ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی۔ اور جیسا کہ اہل فقر اور توکل پر کبھی کبھی ایسی حالت گذرتی ہے۔ اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے۔ تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کویہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دُعا کریں۔ پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جاکر اس نہر کے کنارہ پر دُعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے۔ جب ہم دُعا کرچکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں
تب ہم خوش ہوکر قادیان کی طرف واپس آئے۔ اور بازار کا رُخ کیا تاکہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں۔ چنانچہ ہمیں ایک خط ملا۔ جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں۔ اور غالباً وہ روپیہ اُسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ234۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 612)
جنوری 1884ء
’’ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا، یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن کے سابق تعارف نہیں، ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ1 بھی ان کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے۔ اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو ان کو ناگوار گذری ہے،سو اُن سب کے دل منقطع ہوگئے۔ آپ نے اُس وقت مجھ کو کہاکہ وضع بدل لو۔ میں نے کہا کہ نہیں بدعت ہے۔ سو وہ لوگ بیزار ہوگئےاور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جاکر بیٹھ گئے۔ تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں، میں ان کے پاس گیا تا اپنی امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں۔ پھر بھی انہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن سے علیٰحدہ ہونا اور کنارہ کرنا چاہا اور باہر نکلنے کے لئے قدم اُٹھایا۔ معلوم ہوا کہ ان سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے۔ جب نظر اُٹھا کر دیکھا تو آپ ہی ہیں۔ اب اگرچہ خوابوں میں تعینات معتبر نہیں ہوتے اور اگر خدا چاہے تو تقدیرات معلّقہ کو مبدّل بھی کردیتا ہے لیکن اندیشہ گذرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ آپ ہی کا شہر نہ ہو۔ لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں۔ حقیقی شوق اور ارادت کہ جولغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے۔ لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے............. بہتر ہے کہ آنمخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف کشی کے لئےزورنہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے۔ یہ عاجز معمولی زاہدوں اور عابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ ان کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے۔ بلکہ ان کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ
1 میر عباس علی صاحب لدھیانوی۔ (مرتّب)
اور دُور ہے۔ سیفعل اللّٰہ مایشآ ء ۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 18؍جنوری1884ء بنام میر عباس علی لود ھیانوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 72،73)
تخمیناً فروری 1884ء
’’مجھ کو یاد ہے اور شاید عرصہ تین ماہ یا کچھ کم و بیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزند1نے ایک خط لکھ کر مجھ کو بھیجا کہ جو میں نے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے۔ اُس کی نسبت دعا کریں کہ پاس ہوجاؤں2۔ اور بہت کچھ انکسار اور تذلّل ظاہر کیا کہ ضرور دعا کریں۔ مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے رحم کے غصہ آیا۔ کہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم اور غم ہے۔ چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی بہ تمام تر نفرت و کراہت چاک کردیا اور دل میں کہا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں۔ اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا کہ
’’پاس ہوجاوے گا۔‘‘
اور وہ عجیب الہام بھی اکثر لوگوں کو بتلایا گیا۔ چنانچہ وہ لڑکا پاس ہوگیا۔ فالحمدللہ۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ11؍مئی 1884ء بنام نواب علی محمد خانصاحب جھجر۔ الحکم جلد3نمبر34 مؤرخہ23؍ستمبر1899ء صفحہ1،2)
1884ء
’’ایک دفعہ نواب علی محمد3خاں مرحوم رئیس لودھیانہ نے میری طرف خط لکھا۔ کہ میرے بعض امور معاش بند ہوگئے ہیں۔ آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں۔ جب مَیں نے دعا کی۔ تو مجھے الہام ہوا کہ
کُھل جائیں گے
میں نے بذریعہ خط ان کو اطلاع دے دی۔ پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کُھل گئے اور اُن کو بشدّت اعتقاد ہوگیا۔‘‘
(حقیقتہ الوحی صفحہ246۔ روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 257)
1 خان بہادر مرزا سلطان احمدصاحب مرحوم مراد ہیں۔ (مرتّب)
2 الحکم میں ’’پاس ہوجاوے گا‘‘ لکھا ہے جو سہوِ کاتب ہے۔ (مرتّب)
3 نواب علی محمد خانصاحب مرحوم کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہ دراصل جھجر کے رئیس تھے مگر لدھیانہ میں رہائش رکھتے تھے اور آپ حضرت اقدس سے بہت اخلاص رکھتے تھے اور اکثر حضور سے اپنی مشکلات کے حل کروانے کیلئے دعا کروایا کرتے تھے ان کے متعلق جن نشانات کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے ان میں نہ تو کوئی ترتیب مدنظر ہے اور نہ ہی سوائے ایک دو کے کہ جن میں تاریخ درج ہے صحیح طور پر تاریخ کا کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہاں صرف قیاس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعات1884ء کے قریب قریب کے ہیں۔ (مرتب)
1884ء
’’پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض1اپنےپوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا۔ اور جس گھڑی انہوں نے خط ڈاک میں ڈالا۔ اُسی گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس مضمون کا خط اُن کی طرف سے آنے والا ہے۔ تب میں نے بلا توقف اُن کی طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط آپ روانہ کریں گے۔ دوسرے دن وہ خط آگیا۔ اور جب میرا خط اُن کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی۔ کیونکہ میرے اس راز کی خبر کسی کو نہ تھی۔ اور ان کا اعتقاد اس قدر بڑھا کہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہوگئے۔ اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یادداشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان متذکرہ بالا درج کردیئے اور ہمیشہ اُن کو پاس رکھتے تھے۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 246۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 257، 258)
تخمیناً 1884ء
’’ عالمِ کشف میں ان2 کا دوسرا خط مجھ کو ملا۔ جس میں بہت بیقراری ظاہر کی گئی تھی تو میں نے ...........اُن کے لئے دعا کی۔ اور مجھ کو الہام ہواکہ
کچھ عرصہ کے لئے یہ روک اُٹھادی جاوے گی۔ اور اُن کو اس غم سے نجات دی جائے گی۔
یہ الہام ان کو اسی خط میں لکھ کر بھیجا گیا تھا جو زیادہ تر تعجب کا موجب ہوا۔ چنانچہ وہ الہام جلد تر پور اہوا اور تھوڑے دنوں کے بعد اُن کی منڈی بہت عمدہ طور پر بارونق ہوگئی اور روک اُٹھ گئی۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 219۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 597)
12 فروری1884ء
’’شایدپرسوں مکرر الہام ہوا تھا۔
یَا یَحْیٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ۔ خُذْھَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَ تَھَا الْاُوْلٰی 3
یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہوچکا ہے۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 15؍فروری1884ء بنام میر عباس علی صاحب۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ74)
1 علی محمد خاں صاحب نواب جھجر نے لدھیانہ میں ایک غلّہ منڈی بنائی تھی کسی شخص کی شرارت کے سبب اُن کی منڈی بے رونق ہوگئی اور بہت نقصان ہونے لگا۔ تب انہوں نے دعا کے لئے میری طرف رجوع کیا لیکن پیشتر اس کے کہ نواب صاحب کی طرف سے میرے پاس کوئی خط اس خاص امر کے لئے دعا کے بارہ میں آتا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پائی۔ کہ اس مضمون کا خط نواب صاحب کی طرف سے آرہیگا۔ (نزول المسیح صفحہ 218 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر18 صفحہ 596)
2 نواب علی محمد خاں صاحب آف جھجر۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) اے یحییٰ اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے۔ اسے پکڑلے اور خوف نہ کر۔ ہم اسے اس کی پہلی حالت کی طرف لَوٹا دیں گے۔
15فروری 1884ء
آج حضرت خداوند کریم کی طرف سے یہ الہام ہوا۔
یَا عَبْدَ الرَّافِعِ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔ اِنِّیْ مُعِزُّکَ لَا مَانِعَ لِمَا اُعْطِیْ۔1
(از مکتوب مؤرخہ15؍فروری1884ء بنام میر عباس علی صاحب۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ 74)
28 مارچ 1884ء
اس خط کی تحریر کے بعد یہ شعر کسی بزرگ کا الہام ہوا:۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما 2
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام منشی احمد جان ؒ۔ مؤرخہ 28 مارچ1884ء مطابق 29 جمادی الاوّل
1301ھ مندرجہ الحکم جلد37 نمبر7 مؤرخہ28 فروری1934ء صفحہ10)
9 مئی 1884ء
’’ حضرت خداوندکریم کی قبولیت کی ایک یہ نشانی ہے کہ بعض اوقات آپ1 کی توجہات کی مجھ کو وہ خبر دیتا رہا ہے اور پرسوں کے دن بھی ایک عجیب بات ہوئی۔ کہ ابھی آں مخدوم کا منی آرڈر نہیں پہنچا تھا۔ اور نہ خط پہنچا تھا۔ کہ ایک منی آرڈر آپ کی طرف سے برنگ زرد مجھکو حالت کشفی میں دکھلایا گیا۔ اور پھر آں مخدوم کے خط سے اس عاجز کو بذریعہ الہام اطلاع دی گئی۔ اور آپ کے مافی الضمیر سےاورخط کے مضمون سے مطلع کیا گیا۔ اس میں بہ پیرایہ الہامی عبارت بطور حکایت آں مخدوم کی طرف سے یہ بھی فقرہ تھا۔ میرے خیال میں یہ آپ کی توجہ کا اثر ہے۔چنانچہ یہ خط کا مضمون اور مافی الضمیر کا منشاء تین ہندوؤں اور بہت سے مسلمانوں کو بھی بتلایا گیا۔ ازاں بعد آں مخدوم کا منی آرڈر اور خط بھی آگیا۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ 11مئی1884ء بنام نواب علی محمد خانصاحب آف جھجر ۔
مندرجہ الحکم جلد3 نمبر34 مؤرخہ23؍ستمبر1899ء صفحہ1)
1 (ترجمہ از مرتب) اے رفعت بخشنے والے خدا کے بندے۔ میں تجھے اپنی جناب میں رفعت بخشوں گا۔ میں تجھے عزت اور غلبہ دُوں گا۔ جو کچھ میں دُوں اُسے کوئی بند نہیں کرسکتا۔
2 (ترجمہ از مرتب) وہ شخص ہرگز نہیں مرتا۔ جس کا دل عشق سے زندہ ہوگیا۔ صفحہ ٔ عالم پر ہمارا دوام ثابت ہے۔
3 نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر مراد ہیں۔ (مرتب)
مئی 1884ء
’’ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ نواب1صاحب کی حالت غم سے خوشی کی طرف مبدّل ہوگئی ہے اور آسودہ حال اور شکر گذار ہیں اور نہایت عمدگی اور صفائی سے یہ خواب آئی اور یہ خواب بہ طور کشف تھی۔ چنانچہ اسی صبح کو نواب صاحب کو اس خواب سے اطلاع دی گئی۔‘‘
(مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب مؤرخہ 26مئی 1884ء ۔ مندرجہ الحکم جلد 3نمبر13 مؤرخہ 12 اپریل1899ء صفحہ8)
مئی 1884ء
’’پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک صاحب الٰہی بخش نام اکؤنٹنٹ نے کہ جو اس کتاب2کے معاون ہیں۔ کسی اپنی مشکل میں دعا کے لئے درخواست کی اور بطور خدمت پچاس روپیہ بھیجے اور جس روز یہ خواب آئی اس روز سے دو چار دن پہلے ان کی طرف سے دعا کے لئے الحا ح ہوچکا تھا۔ مگر یہ عاجز نواب3صاحب کے لئے مشغول تھا۔ اس لئے ان کے لئے دُعا کرنے کو کسی اور وقت پر موقوف رکھا اور جس روز نواب صاحب کے لئے بشارت دی گئی تھی تو اس دن خیال کیا کہ آج منشی الٰہی بخش کے لئے توجہ سے دعا کریں سو بعد نماز عصر جب وقت ِ صفا پایا اور دعا کا ارادہ کیا گیا تو پھر بھی دل نے یہی چاہا کہ اس دعا میں بھی نواب صاحب کو شامل کرلیا جائے سو اس وقت نواب صاحب اور منشی الٰہی بخش دونوں کے لئے دعا کی گئی۔ بعد دُعا اسی جگہ الہام ہوا۔
نُنَجِّیْھِمَا مِنَ الْغَمِّ
یعنی ہم دونوں کو غم سے نجات دیں گے..............پھر چند روز کے بعد نواب صاحب کا خط آگیا کہ سرائے کاکام جاری ہوگیا ہے۔‘‘
(مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب مؤرخہ 26مئی1884ء
مندرجہ الحکم جلد3 نمبر13 مؤرخہ 12 اپریل 1899ء صفحہ8 و نمبر41 مؤرخہ 19؍ اپریل 1899ء صفحہ 6)
نومبر1884ء
’’ایک ابتلاء مجھ کو اس شادی4کے وقت یہ پیش آیا کہ بباعث اس کے کہ میرا دل اور دماغ سخت کمزور تھا اور میں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا............میری حالت ِ مردمی کالعدم تھی۔ اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی اس لئے میری اس شادی پر میرے بعض دوستوں نے افسوس کیا..........کہ آپ بباعث سخت کمزوری اس لائق نہ تھے.........غرض اس ابتلاء کے وقت میں نے جنابِ الٰہی میں دُعا کی۔ اور مجھے اس نے دفع مرض کے لئے اپنے الہام کے ذریعے سے دوائیں بتلائیں۔ اور میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک فرشتہ وہ دوائیں میرے
1 نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر مراد ہیں۔ (مرتب) 2 براہین احمدیہ (مرتّب)
3 نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر مراد ہیں۔ (مرتب) 4 جو17؍ نومبر1884ء کو دہلی میں ہوئی۔ (مرتب)
منہ میں ڈال رہا ہے۔ چنانچہ وہ دوا میں نے طیّار کی۔ اور اس میں خدا نے اس قدرت برکت ڈال دی کہ میں نے دلی یقین سے معلوم کیا کہ وہ پُر صحت طاقت جو ایک پورے تندرست انسان کو دُنیا میں مل سکتی ہے وہ مجھے دی گئی۔ اور چار لڑکے مجھے عطا کئے گئے۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ35، 36 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ 203، 204)
اِنَّ اللّٰہَ بَشَّرَنِیْ فِیْٓ اَبْنَا ئِیْ بَشَارَۃً بَعْدَ بَشَارَۃٍ حَتّٰی بَلَّغَ عَدَدَھُمْ اِلٰی ثَلٰثَۃٍ وَّ اَنْبَاَنِیْ بِھِمْ قَبْلَ وُجُوْ دِھِمْ بِالْاِلْھَامِ۔1
(انجام آتھم صفحہ 182روحانی خزائن جلد نمبر11 صفحہ 182)
اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ قُلْ اُرْسِلْتُ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔2
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مؤرخہ 30دسمبر1884ء۔ مندرجہ الحکم جلد19 نمبر 3مؤرخہ 21؍جنوری 1915ء صفحہ3)
اوائل مارچ 1885ء
’’مصنّف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدّدِ وقت ہے۔ اور روحانی طور پر اُس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدّت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء و رسل کے نمونہ پر محض بہ برکت ِ متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اُن بہتوں پر اکابر اولیا سے فضلیت دی گئی ہے۔ کہ جو اس سے پہلے گذرچکے ہیں۔ اور اُس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد وحرمان ہے۔‘‘
(اشتہار ضمیمہ سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر2 صفحہ 319)
8 مارچ 1885ء
’’عاجز مؤلف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جلّ شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلّل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے
1 (ترجمہ از مرتب) اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے بیٹوں کے بارہ میں بشارت کے بعد بشارت دی یہاں تک کہ انکی تعداد تین تک پہنچائی۔ اور مجھے ان کی پیدائش سے پہلے الہام کے ذریعہ ان کی خبر دی۔ (نوٹ از مرتب) اس کے متعلق حضرت امّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے۔ فرمایا:۔’’ جب میری شادی ہوئی اور میں ایک مہینہ قادیان ٹھیر کر واپس دہلی گئی۔ تو ان ایام میں حضرت مسیح موعود نے مجھے ایک خط لکھا کہ میں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ 73)
2 (ترجمہ از مرتب) میں نے تجھ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ کہہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔
............ اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرضِ اتمام حجت یہ خط............ مع اشتہار انگریزی1.....شائع کیا جائے۔ اور اُس کی ایک کاپی بخدمت معز ز پادری صاحبان ..............اور بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان.............ارسال کی جاوے۔
یہ تجویز نہ اپنے فکر و اجتہا دسے قرار پائی ہے۔ بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچتے پر رجوع نہ کرینگے) ملزم و لاجواب و مغلوب ہوجائیں گے۔‘‘
(از چھٹی مطبوعہ مؤرخہ8مارچ1885ء ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ11مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 20)
6اپریل 1885ء
’’ آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلاء میں پڑا ہوں۔ اور میں نے اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا۔اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مواخذہ کرتا ہے۔ میں نے اُس کو کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے۔ اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہےکہ گرایا جائے گا۔ مَیں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالیٰ جلّ شانہ‘ کے تصرّف میں ہوں جہاں مجھ کو بٹھائے گا بیٹھ جاؤں گا اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا، کھڑا ہوجاؤں گا۔ اور یہ الہام ہوا۔
یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللّٰہِ مِنَ الْعَرَبِ
یعنی تیرے لئے ابدالِ شام کے دُعا کرتے ہیں۔ اور بندے خدا کے عرب میں سے دُعا کرتے ہیں۔
خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس 2کا ظہور ہو۔ وَاللّٰہ اَعلم بالصواب۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ6؍ اپریل1885ء ۔ مکتوبات احمدیہ جلد اوّل صفحہ86)
10 جولائی 1885ء
’’ایک مرتبہ مجھے یا دہے کہ میں نے عالمِ کشف میں دیکھا1کہ بعض احکام قضاء و قدر میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا۔ اور پھر اُس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند ِ قادرِ مطلق جلّ شانہ‘ کے
1 یعنی اشتہار ضمیمہ سُرمہ چشم ِ آریہ جو اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہو۔ (مرتب)
2 آج چالیس سال کے بعد خطہ ٔ شام اور ملک عرب اس الہام کی تصدیقی شہادت بصدائے عام کررہا ہے۔ اور آج وہاں سلسلہ کی کئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں۔ جو حضور اقدس کے کام میں ہاتھ بٹاتیں اور حضور پر درود اور سلام بھیجتی ہیں۔ (مرتب)
3 اس واقعہ کے متعلق حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو انہوں نے شہادت کے طور پر اخبار الفضل جلد 4 نمبر24مؤرخہ26؍ ستمبر1916ء میں شائع کرائی تھی درج ذیل ہے:۔
’’رمضان شریف میں یہ عاجز حاضر خدمت سراپا برکت تھا کہ آخری عشرہ میں 27؍تاریخ کو جمعہ تھا۔ اس جمعہ کی صبح نماز پڑھ کر
سامنے پیش کیا ہے (اور یاد رکھنا چاہئے کہ مکاشفات اوررؤیاصالحہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض صفاتِ جمالیہ یا جلالیہ الٰہیہ انسان کی شکل پر متمثل ہوکر صاحب کشف کو نظر آجاتے ہیں۔ اور مجازی طور پر وہ یہی خیال کرتا ہے کہ وہی خداوند قادرِ مطلق ہے۔ اور یہ امر ارباب کشوف میں شائع و متعارف و معلوم الحقیقت ہے۔ جس سے کوئی صاحب ِ کشف انکار نہیں کرسکتا) غرض وہی صفت جمالی جو بعالم کشف قوت ِ متخیّلہ کے آگے ایسی دکھلائی دی تھی جو خداوند قادر مطلق ہے، اُس ذاتِ بیچون و بیچگون کے آگے وہ کتاب قضاء قدر پیش کی گئی اور اُس نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثّل تھا، اپنے قلم کو سُرخی کی دوات میں ڈبو کر اوّل اُس سُرخی کو اِس عاجز کی طرف چھڑکا اور بقیہ سُرخی کا قلم کے
بقیہ حاشیہ:
حضرت اقدس حسب معمول حجرہ مذکور (یعنی مسجد مبارک کے ساتھ مشرق والا چھوٹا حجرہ) میں جاکر چارپائی پر لیٹ گئے۔ اور یہ عاجز پاس بیٹھ کر حسب معمول پاؤں مبارک دبانے لگ گیا۔ حتیٰ کہ آفتاب نکل آیا اور حجرہ میں بھی روشنی ہوگئی۔
حضرت اقدس اس وقت کروٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے۔ اور منہ مبارک پر اپنا ہاتھ کہنی کی جگہ سے رکھا ہوا تھا۔ میرے دل میں اس وقت بڑے سرور اور ذوق سے یہ خیالات موجزن تھے کہ میں کیا خوش نصیب ہوں کیا ہی عمدہ موقعہ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے مجھے دیا ہے کہ مہینوں میں مہینہ مبارک رمضان شریف کا ہے اور تاریخ بھی جو 27 ہے مبارک ہے اور عشرہ بھی مبارک ہے اور دن بھی جمعہ ہے جو نہایت مبارک ہے اور جس شخص کے پاس بیٹھا ہوں وہ بھی نہایت مبارک ہے اللہ اکبر کس قدر برکتیں آج میرے لئے جمع ہیں۔ اگر خدا وند کریم اس وقت کوئی نشان حضرت اقدس کا مجھے دکھا دے تو کیا بعید ہے۔ میں اسی سرور میں تھا۔ اور پاؤں ٹخنہ کے قریب سے دبا رہا تھا کہ یکایک حضرت اقدس کے بدنِ مبارک پر لرزہ سا محسوس ہوا۔ اور اس لرزہ کے ساتھ ہی حضور نے اپنا ہاتھ مبارک منہ پر سے اُٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اُس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ شاید جاری بھی تھے۔ اور پھر اسی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر لیٹے رہے جب میری نظر ٹخنہ پر پڑی تو اُس پر ایک قطرہ سُرخی کا جو پھیلا ہوا نہیں بلکہ بستہ تھا۔ مجھے دکھلائی دیامَیں نے اپنی شہادت کی انگلی کا پھول اُس قطرہ پر رکھا تو وہ پھیل گیا اور سُرخی میری اُنگلی کو بھی لگ گئی۔ اس وقت میں حیران ہوا۔ اور میرے دل میں یہ آیت گذری۔صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً۔نیز یہ بھی دل میں گذرا کہ اگر یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں شاید خوشبو بھی ہو۔ چنانچہ میں نے اپنی انگلی سونگھی مگر خوشبو وغیرہ کچھ نہ تھی۔ پھر میں ٹخنہ کی طرف سے کمر کی طرف دبانے لگا۔ تو حضرت اقدس کے کُرتہ پر بھی چند داغ سُرخی کے گیلے گیلے دیکھے۔ مجھ کو نہایت تعجب ہوا۔ اور میں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اور حجرہ کی ہر جگہ کو خوب اچھی طرح دیکھا۔ مگر مجھے سُرخی کا کوئی نشان حجرہ کے اندر نہ ملا۔ آخر حیران سا ہوکر بیٹھ گیا۔ اور بدستور پاؤں دبانے لگ گیا۔ حضرت صاحب منہ پر ہاتھ رکھے لیٹے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر مسجد مبارک میں آکر بیٹھ گئے یہ عاجز بدستور پھر کمر وغیرہ دبانے لگ گیا۔
اس وقت میں نے حضور سے عرض کی کہ حضور یہ سرخی کہاں سے گری۔ پہلے تو ٹال دیا پھر اس عاجز کے اصرار پر وہ سارا واقعہ بیان فرمایا۔ جس کو حضرت اقدس تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج فرماچکے ہیں مگر بیان کرنے سے پہلے اس عاجز کو رویت باری تعالیٰ کا مسئلہ اور کشفی امور کا خارج میں وجود پکڑنا حضرت محی الدین عربی کے واقعات سنا کر خوب اچھی طرح سے
مونہہ میں رہ گیا۔ اُ س سے اُس کتاب پر دستخط1 کردیئے اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دُور ہوگئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا‘ تو کئی قطرات سُرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے۔ چنانچہ ایک صاحب عبداللہ نام جو سنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور اُس وقت اس عاجز کے پاس نزدیک ہوکر بیٹھے ہوئے تھے، دو یا تین قطرہ سُرخی کے اُن کی ٹوپی پر پڑے۔ پس وہ سُرخی جو ایک امر کشفی تھا وجود خارجی پکڑ کر نظر آگئی۔ اسی طرح اور کئی مکاشفات میں ‘ جن کا لکھنا موجب تطویل ہےمشاہدہ کیا گیا ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ صفحہ 131، 132حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر2 صفحہ 179، 180(
1885ء
’’میں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں اور منتظر ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہو اتنے میں جواب ملا۔
اِصْبِرْ سَنَفْرُ غُ یَا مِرْزَا 1 !
پھر ایک بار دیکھا کہ کچہری میں گیا ہوں تو اللہ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر عدالت کی کُرسی پر بیٹھا ہے اور ایک
بقیہ حاشیہ:۔
ذہن نشین کرادیا تھا کہ اس جہان میں کاملین کو بعض صفاتِ الٰہیہ جمالی یا جلالی متمثل ہوکر دکھلائی دے جاتی ہیں۔ پھر حضرت نے مجھے فرمایا کہ آپ کے کپڑوں پر بھی کوئی قطرہ گرا۔ میں نے اپنے کپڑے اِدھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیاکہ حضرت میرے پر تو کوئی قطرہ نہیں ہے فرمایا اپنی ٹوپی پر (جو سفید ململ کی تھی) دیکھو۔ میں نے ٹوپی اُتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا۔ مجھے اس وقت بہت ہی خوشی ہوئی کہ میرے پر بھی ایک قطرہ خدا کی روشنائی کا گرا۔ اس عاجز نے وہ کُرتہ جس پر سُرخی گری تھی تبرکاًحضرت اقدس سے باصرار تمام لے لیا۔ اس عہد پر کہ میں وصیت کر جاؤنگا کہ میرے کفن کے ساتھ دفن کردیا جاوے۔ کیونکہ حضرت اقدس اس و جہ سے اُسے دینے سے انکار کرتے تھے کہ میرے اور آپ کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اور لوگ اس کو زیارت گاہ بنا لیں گے اور اس کی پُوجا شروع ہوجائیگی۔ غرض کہ بہت ردّ و قدح کے بعد دیا جو میرے پاس اس وقت تک موجود ہے اور سُرخی کے نشان اس وقت تک بلا کم و کاست بعینہٖ موجود ہیں۔
یہ ہے سچی عینی شہادت! اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو لعنتہ اللہ علی الکاذبین کی وعید کافی ہے میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اور اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سراسر سچ ہے۔ اگر جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کی ***! ***!! ***!!! مجھ پر خد اکا غضب! غضب!!غضب!!!
عاجز عبداللہ سنوری‘‘
1 چونکہ عین آریہ صاحبوں کے مقابل پر یہ نشان تھا اس لئے میرے خیال میں یہ پنڈت لیکھرام کے مارے جانے کی طرف اشارہ تھا۔ اور طاعون کے وقوع کی طرف بھی اشارہ تھا۔‘‘ (نسیم دعوت صفحہ 62حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 427)
2 (ترجمہ از مرتب) مرزا! ٹھہرو ہم ابھی فارغ ہوتے ہیں۔
سر رشتہ دار کے ہاتھ میں ایک مثل ہے جو وہ پیش کررہا ہے۔ حاکم نے مثل دیکھ کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو میں نے غور سے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک خالی کرسی پڑی ہے، مجھے اُس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر میں بیدار ہوگیا۔‘‘
(الحکم جلد7 نمبر5 مؤرخہ7 فروری1903ء صفحہ14 و البدر جلد2 نمبر6 مؤرخہ27 فروری 1903ء صفحہ 42 کالم نمبر1)
5 اگست 1885ء
’’مرزا امام الدین و نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ اکتیس ماہ تک اُن پر ایک سخت مصیبت پڑے گی۔ یعنی ان کے اہل و عیال و اولاد میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہوجائے گا۔ جس سے اُن کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا۔ آج ہی کی تاریخ کے حساب جو تئیس ساون سم 1942 مطابق5اگست 1885ء ہے، یہ واقعہ ظہور میں آئے گا۔1 مرقوم5اگست1885ء ۔‘‘
(اعلان 20مارچ1888ء تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 102)
1885ء
(الف) ’’ قریباً چودہ برس کا عرصہ گذرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میری اس بیوی1کو چوتھا لڑکا پیدا ہوا ہےاور تین پہلے موجود ہیں۔ اور یہ بھی خواب میں دیکھا تھا کہ اس پسر چہارم کا عقیقہ بروز دو شنبہ یعنی پیر ہوا ہے اور جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا یعنی کوئی بھی نہیں تھا۔ اور خواب میں دیکھا تھا اس بیوی سے میرے چار لڑکے ہیں اور چاروں میری نظر کے سامنے موجود ہیں اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا ہے۔
اب جبکہ یہ لڑکا مبارک احمد پیدا ہوا تو وہ خواب بھول گئے اور عقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار میں عقیقہ کا سامان نہ ہوسکا اور ہر طرف حارج پیش آئے۔ ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا پھر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گذر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پیدا ہوگا اور اس کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا۔ تب وہ اضطراب ایک خوشی کے ساتھ مبدّل ہوگیا کہ کیونکر خدا تعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیااور ہم سب زور لگار ہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو مگر کچھ بھی پیش نہ گئی اور عقیقہ پیر کو ہوا۔ یہ پیشگوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا۔ انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک کہ چار لڑکے پیدا ہوسکیں ‘ زندہ بھی رہیں یہ خدا
1 چنانچہ عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی۔‘‘
(اعلان مؤرخہ20 مارچ1888ء مندرجہ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 103۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 144)
2 حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ (مرتب)
کے کام ہیں مگر افسوس کہ ہماری قوم دیکھتی ہے پھر آنکھ بند کرلیتی ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ27جون1899ء بنام سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ 26،27)
(ب)’’عرصہ چوداں برس کا ہوا ہے کہ ایک خواب آئی تھی۔ کہ چار لڑکے ہوں گے۔ اور چوتھے لڑکے کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا۔‘‘ (از مکتوب بنام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مؤرخہ26جون1899ء)
1885ء
’’میاں عبداللہ سنوری جو علاقہ پٹیالہ میں پٹواری ہیں، ایک مرتبہ ان کو ایک کام پیش آیا جس کے ہونے کے لئے انہوں نے ہر طرح سے کوشش کی اور بعض وجوہ سے ان کو اس کام کے ہوجانے کی امید بھی ہوگئی تھی۔ پھر انہوں نے دعا کے لئے ہماری طرف التجا کی۔ ہم نے جب دعا کی تو بلاتوقف الہام ہوا۔
’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘
تب میں نے ان کو کہدیا کہ یہ کام ہرگز نہیں ہوگا اور وہ الہام سنا دیا اور آخرکار ایسا ظہور میں آیا اور کچھ ایسے موانع پیش آئے کہ وہ کام ہوتا ہوتا رہ گیا۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ 234روحانی خزائن جلد 18صفحہ 612)
28نومبر1885ء
’’28 نومبر1885ء کی رات کو یعنی اُس رات کو جو 28نومبر1885ء کے دن سے پہلے آئی تھی۔ اس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی۔ اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اُس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اُس کو بیان کرسکوں۔ مجھ کو یاد ہے کہ اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ
مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی 1
سو اُس رمی کو رمیِ شہب سے بہت مناسبت تھی۔
یہ شہبِ ثاقبہ کا تماشا جو28نومبر1885ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کی عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا۔ لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اس سے حظ اور لذّت اُٹھانے والا میں ہی تھا۔ میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں۔ اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہوگیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی و جہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میری دل میں الہاماً ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے۔
اور پھر اُس کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیح کے ظہو رکے وقت میں نکلا تھا۔
1 ’’جو کچھ تونے چلایا وہ تونے نہیں چلایا۔ بلکہ خدا نے چلایا۔‘‘ (حقیقتہ الوحی صفحہ 70۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 73)
میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ ستارہ بھی تیری صداقت کے لئے دوسر انشان ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 110 ، 111 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ110 ، 111)
نومبر1885ء
(الف)’’ہم پر خود اپنی نسبت‘ اپنے بعض جدّی اقارب کی نسبت‘ اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گو یا نجم الہند1ہیں اور ایک دیسی امیر نووارد2پنجابی الاصل کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلاء اور کسی کی موت و فوت اعِزّہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں۔ جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفیہ لکھی جائیں گی۔ منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں۔‘‘
(اشتہار 20فروری1886ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 99،100)
(ب) ’’ دلیپ سنگھ کی نسبت پیش از وقوع اُس3 کو بتلایا گیا۔ کہ مجھے کشفی4طور پر معلوم ہؤاہوا ہےکہ پنجاب کا آنا اُس
1 (الف)’’وہ پیشگوئی بھی بڑی ہیبت کے ساتھ پوری ہوئی اور ایک دفعہ ناگہانی طور سے ایک شریر انسان کی خیانت سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے نقصان کا آپ کو صدمہ پہنچا......آپ نے اس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی.......ایک مرتبہ غشی بھی ہوگئی۔‘‘ (اشتہار12؍مارچ1897ء مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 341، 342) اس اشتہار میں سر سید احمد خانصاحب مخاطب ہیں۔ (مرتب)
(ب) ’’اخیر عمر میں سید صاحب کو ایک جوان بیٹے کی موت کا جانکاہ صدمہ پہنچا۔‘‘
( نزول المسیح صفحہ 191۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 569)
2 (الف) ’’ ہم نے صد ہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف شہروں میں بتلادیا تھا کہ اس شخص پنجابی الاصل سے مراد دلیپ سنگھ ہے۔ جس کے پنجاب میں آنے کی خبر مشہورہورہی ہے لیکن اس ارادہ سکونت پنجاب میں وہ ناکام رہے گا۔ بلکہ اس سفر میں اُس کی عزت و آسائش یا جان کا خطرہ ہے..........بالآخر اُس کو مطابق اِسی پیشگوئی کے بہت حرج اور تکلیف اور سُبکی اور خجالت اُٹھانی پڑی۔ اور اپنے مدعا سے محروم رہا۔‘‘
(اشتہار محکّ اخیار و اشرار ضمیمہ سرمہ چشم آریہ صفحہ 1تا4۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 318 ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 90۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 131)
(ب) ’’دلیپ سنگھ عدن سےواپس 1ہوا۔ اور اس کی عزت و آسائش میں بہت خطرہ پڑا۔ جیسا کہ میں نے صدہا آدمیوں کو خبر دی تھی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 226۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 604)
(ج) ’’وہ فقرہ اشتہار20فروری1886ء جس میں لکھا ہے کہ امیر نووارد پنجابی الاصل کی نسبت متوحش خبریں‘ اس سے مراد دلیپ سنگھ ہے۔ ایسا ہی یہ خبر جابجا صدہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو جو پانچ سو سے کسی قدر زیادہ ہی ہوں گے۔ کئی شہروں میں پیش از وقوع بتلائی گئی تھی۔ اور اشتہارات 20فروری1886ء بھی دُور دُور ملکوں تک تقسیم کئے گئے تھے۔ پھر آخر کار جیسا کہ پیش از وقوع بیان کیا گیا اور لکھا گیا تھا۔ وہ سب باتیں دلیپ سنگھ کی نسبت پوری ہوگئیں۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ صفحہ 188۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 236)
3 لالہ شرمپت کو۔ (مرتّب) 4 (نوٹ از مرتب) مولوی جمال الدین صاحب سکنہ سیکھواں ضلع گورداسپور کی روایت
1 اخبار ریاضؔ ہند امرت سر مطبوعہ3؍مئی1886ء میں صفحہ 314 کالم نمبر1 پر مہارا جہ دلیپ سنگھ صاحب کے عدنؔ میں رہ جانے کی خبر شائع ہوئی۔ (مرتب)
کے لئے مقدر نہیں۔ یا تو یہ مرے گا اور یا ذلّت اور بے عزتی اُٹھائے گا اور اپنے مطلب سے ناکام رہے گا۔‘‘
(شحنہ حق صفحہ 43۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 382)
1886ء
(الف)’’خداوند کریم جلّ شانہ‘ نے اُس شہر کا نام بتادیا ہے کہ جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہئے۔ اور وہ ہوشیارپور1ہے۔ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر سوم صفحہ10 مکتوب نمبر20بنام چودھری رستم علی صاحب ؓ)
(ب) ’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام مشہو رہوچکا ہے۔ بایں الفاظ یا بایں معنی ایک معاملہ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔‘‘ (بدر جلد 6 نمبر 36 مؤرخہ5ستمبر1907ء صفحہ 10)
جنوری 1886ء
* اِعْلَمْ اَنَّ زَوْجَۃَ اَحْمَدَ وَاَقَارِ بَھَاکَا نُوْا مِنْ عَشِیْرَتِیْ۔ وَکَا نُوْا لَا یَتَّخِذُوْنَ فِیْ سُبُلِ الدِّیْنِ وَتِیْرَتِیْ۔ بَلْ کَانُوْا یَجْتَرِئُ وْنَ عَلَی السَّیِّئَاتِ۔ وَاَنْوَاعِ الْبِدْعَاتِ۔ وَکَانُوْا فِیْھَا مُفْرِطِیْنَ۔ فَاُلْھِمْتُ مِنَ الرَّحْمَانِ اَنَّہ‘ مُعَذِّبُھُمْ لَوْ لَمْ یَکُوْنُوْا تَائِبِیْنَ۔ وَقَالَ لِیْ رَبِّیْ اِنَّھُمْ اِنْ لَّمْ یَتُوْبُوْا وَلَمْ یَرْجِعُوْا فَنُنَزِّلُ
☆ جا ننا چاہئے کہ احمد بیگ کی بیوی اور اس کے دیگر اقارب میرے رشتہ داروں میں سے تھے اور دینی امور کی راہوں میں میرا طریقہ اختیار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ہر قسم کی بدکرداریوں اور گوناگوں بدعتوں کا بڑی دلیری سے ارتکاب کرتے تھے۔ اور اس بات میں حد سے بڑھے ہوئے تھے پس
بقیہ حاشیہ:---------------------------------------------------------------
سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف حضور کو ماہ نومبر1885ء میں ہو اتھا۔ لکھتے ہیں:۔
’’یہ خاکسار درماہ نومبر1885ء کہ واسطے ملاقات جناب مرزا صاحب موصوف (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے گیا۔ اور اسی روز منجانب اللہ بابت مہاراجہ دلیپ سنگھ کے منکشف ہوا تھا وہ میرے پاس اور نیز کئی آدمی جو اس وقت موجود تھے۔ ظاہر کیا۔ کہ یہ لوگ آمدن دلیپ سنگھ صاحب کے (باعث)سرور و خوشی کررہے ہیں۔ یہ ان کو سرور حاصل نہ ہوگا۔ مجھ کو آج خدا کی طرف سے ظاہر ہوا ہے کہ جو وہ آئے گا۔ بہت شدائد و مصائب اُٹھائے گا۔ بلکہ یہاں تک اس وقت مرزا صاحب نے فرمایا۔ کہ اس کی لاش ایک صندوق میں مجھ کو دکھلائی گئی ہے۔‘‘
(روایات صحابہ صفحہ ج155/4 روایت مولوی جمال الدین صاحب سیکھوانیؓ )
1 میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ کی روایت ہے کہ پہلے حضورؑ کا ارادہ چلّہ کشی کے لئے سوجان پورضلع گورداسپور میں جانے کا تھا مگر بعد میں الہام ہؤا کہ ’’تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔‘‘
دیکھئے سیرۃ المہدی حصّہ اوّل صفحہ 69 (مرتّب)
عَلَیْھِمْ رِجْسًا مِّن السَّمٰوَاتِ۔ وَنَجْعَلُ دَارَھُمْ مَمْلُوَّۃً مِّنَ الْاَرَامِلِ وَالثَّیِّبَاتِ۔ وَنَتَوَفّٰہُمْ اَبَا تِرَمَخْذُوْلِیْنَ وَاِنْ تَابُوْ وَاَصْلَحُوْا فَنَتُوْبُ عَلَیْھِمْ بِالرَّحْمَۃِ۔ وَنُغَیِّرُ مَا اَرَدْنَا مِنَ الْعُقُوْبَۃِ۔ فَیَظْفَرُوْنَ بِمَا یَبْتَغُوْنَ فَرِحِیْنَ۔ فَنَصَحْتُ لَھُمْ اِتْمَا مًا لِّلْحُجَّۃِ۔ وَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ذِی الْمَغْفِرَۃِ۔ فَمَا سَمِعُوْا کَلِمَاتِیْ۔ وَزَادُوْا فِیْ مُعَادَا تِیْ۔ فَبَدَالِیْ اَنَ اُشِیْعَ الْاِشْتِھَارَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ۔ لَعَلَّھُمْ یَکُوْنُوْنَ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ۔
فَاَشَعْتُ الْاِ شْتِھَارَ۔ وَاَنَا فِی ھُشْیَارَ۔ فَنَبَذُوْہُ وَرَآئَ ظُھُوْرِھِمْ غَیْرَ مُبَالِیْنَ۔
(انجام آتھم صفحہ 211، 213۔ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 211۔213)
1886ء
(الف) فَلَمَّا 1 لَمْ یَنْتَھُوْا بِھٰذَا الْاِشْتِھَارِ۔ وَلَمْ یَتْرُکُوْا طَرِیْقَ التَّبَارِ۔ فَکَشَفَ اللّٰہُ عَلَیَّ اُمُوْرًا لِتِلْکَ الْفِتْنَۃِ وَاَنَا بَیْنَ النَّوْمِ وَالْیَقْظَۃِ۔ وَکَانَ ھٰذَا الْکَشْفُ تَفْصِیْلَ ذَالِکَ الْاِلْھَامِ فِی الْمَرَّۃِ الثَّانِیَۃِ۔ وَ بَیَانُہ‘ اَنِّیْ کُنْتُ اُرِیْدُ اَنْ اَرْقُدَ۔ فَاِذَا تَمَثَّلَتْ لِیْ اُمُّ زَوْجَۃِ اَحْمَدَ۔ وَرَاَیْتُھَا فِیْ شَانٍ اَحْزَنَنِیْ وَاُرْجِدَ۔ وَھُوَاَنِّیْ
مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہاماًبتایا گیا۔ کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی۔ تو اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب نازل کرے گا اور مجھے میرے پروردگار نے کہا۔ کہ اگر ان لوگوں نے توبہ نہ کی۔ اور اپنی بے راہیوں سے باز نہ آئے تو ہم اُن پر آسمان سے عذاب نازل کریں گے اور ان کے گھروں کو بیواؤں سے بھردیں گے اور اگر انہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کی۔ تو ہم رحمت کے ساتھ اُن کی طرف رجوع کریں گے اور سزا کے ارادہ کو تبدیل کردیں گے۔ پس جو کچھ وہ چاہتے ہیں۔ بخوشی خاطر دیکھیں گے۔ اور میں نے اُن کو اتمام حجت کے لئے نصیحت کی اور کہا کہ خداوند غفور سے مغفرت چاہو۔ مگر انہوں نے میری کوئی بات نہ سنی اور دشمنی میں اور بھی بڑھ گئے۔ پھر میرے دل میں آیا کہ اس بارہ میں اشتہار شائع کروں تا یہ لوگ ڈریں اور راہ صواب کی طرف رجوع کریں۔ اور خدائے تعالیٰ سے بخشش چاہیں۔
پس میں نے اشتہار شائع کردیا اور میں اس وقت ہوشیار پور میں تھا۔ مگر انہوں نے اس اشتہار کو بے پرواہی سے پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔
1 (ترجمہ از مرتب) پھر جب وہ اس اشتہار سے نہ رُکے اور ہلاکت کی راہ کونہ چھوڑا۔ تو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس خاندان کے متعلق چند امور ظاہر فرمائے۔ جبکہ میں نیند اور بیداری کے بَین بَین تھا۔ اور یہ کشف دوبارہ اس الہام کی تفصیل تھا جس کا واقعہ یوں ہے کہ میں جب سونے لگا تو احمد بیگ کی خوشدامنہ میرے سامنے متمثّل ہوئی۔ میں نے اُسے جس حال میں دیکھا۔ دیکھتے ہی میں غمگین ہوگیا
وَجَدْ تُّھَافِیْ فَزَعٍ شَدِیْدٍ عِنْدَالتَّلَاقِیْ۔ وَعَبَرَاتُھَا یَتَحَدَّرْنَ مِنَ الْمَاٰقِیْ۔ فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْئَ ۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقِبِکِ۔ اَیْ عَلٰی بِنْتِکِ وَبِنْتِ بِنْتِکِ۔ ثُمَّ تَنَزَّلْتُ مِنْ ھٰذَا الْمَقَامِ۔ وَفُھِّمْتُ مِنْ رَّبِّیْ اَنَّہٗ تَفْصِیْلُ الْاِلْھَامِ السَّابِقِ مِنَ اللّٰہِ الْعَلَّامِ۔
وَاُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ مَعْنَی الْعَقِبِ مِنَ الدَّیَّانِ۔ آنَّ الْمُرَادَھٰھُنَابِنْتُھَا وَ بِنْتُ بِنْتِھَا لَا اَحَدٌ مِّنَ الصِّبْیَانِ۔ وَنُفِثَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ الْبَلَآئَ بَلَآئَ انِ۔ بَلَآءٌ عَلٰی بِنْتِھَا وَبَلَآءٌ عَلٰی بِنْتِ الْبِنْتِ مِنَ الرَّحْمٰنِ وَ اِنَّھُمَا مُتَشَابِھَانِ مِنَ اللّٰہِ اَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ 213، 214۔ روحانی خزائن جلد 11صفحہ 213۔214)
(ب) ’’جنوری 1886ء میں بمقام ہوشیار پور ایک اور الہام عربی مرزا احمد بیگ1کی نسبت ہوا تھا۔ جس کو ایک مجمع میں جس میں بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ و مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی موجود تھے، سُناگیا ۔ جس کی عبارت یہ ہے:۔
1 رَئَیْتُ ھٰذِہِ الْمَرْئَۃَ وَاَثَرُ الْبُکَآئِ عَلٰی وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْئَ ۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقَبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ یَمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ۔‘‘
(اشتہار پانز 15دہم جولائی1888ء تیتمہ اشتہار دہم جولائی1888ء۔ تبلیغِ رسالت صفحہ 120۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 162)
اور میرا بدن لرز گیا۔ بوقت ِ ملاقات میں نے اسے سخت گھبراہٹ میں پایا اور دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ تب مَیں نے اُسے کہا ۔ اے عورت! توبہ کر۔ توبہ کر۔ کیونکہ تیری نسل پر مصیبت آنے والی ہے۔ یعنی تیری بیٹی اور نواسی پر۔ پھر مجھ پر سے وہ کشفی حالت جاتی رہی۔ اور مجھے اپنے رب کی طرف سے تفہیم ہوئی۔ کہ یہ خدائے علّام کی طرف سے پہلے الہام کی تفصیل ہے۔ اور عقب کے معنی کے متعلق میرے دل میں خدائے تعالیٰ کی طر سے یہ ڈالا گیا۔ کہ یہاں مراد اس کی بیٹی اور نواسی ہے۔ نہ کوئی اور بچہ۔ اورمیرے دل میں یہ پھونکا گیا۔ کہ بَلا سے مُراد دو مصیبتیں ہیں۔ ایک وہ مصیبت جو اس کی بیٹی پر آنے والی ہے۔ اور دوسری وہ جو اُس کی نواسی پر آئے گی۔ اور یہ دونوں خدائے احکم الحاکمین کی طرف سے باہم مشابہ ہیں۔
1 یعنی مرازا احمد بیگ ہوشیار پوری جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چچازاد بہن بیاہی گئی تھیں جن کے بطن سے محمدی بیگم پیدا ہوئیں۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) میں نے اس عورت (یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی ساس کو جو محمدی بیگم کی نانی اور مرزا امام الدین وغیرہ کی والدہ تھی)کو ایسے حال میں دیکھا کہ اس کے منہ پر گریہ و بُکا کے آثار تھے تب میں نے اُسے کہا کہ اے عورت! توبہ کر توبہ کر۔ کیونکہ بلا تیری نسل کے سر پر کھڑی ہے اور یہ مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے وہ شخص (یعنی مرزا احمد بیگ) مرے گا۔ اور اس کی و جہ سے کئی سگ سیرت لوگ (پیدا ہوکر) پیچھے رہ جائیں گے۔
20 فروری 1886ء
’’خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہریک چیز پر قادر ہے (جلّ شانہ‘ و عزّاسمہ‘) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا کہ
میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تونے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرّعات کو سنا۔ اور تیری دُعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لودھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا۔ تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں۔ موت کے پنجہ سے نجات پاویں۔ اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں۔ اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے۔ اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے۔ اور خدا اور خدا کے دین اور ا س کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک کھلی نشانی ملے۔ اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔
سو تجھے بشارت ہو۔ کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیّت و نسل ہوگا۔
خوبصورت پاک1 لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اُس کانام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس رُوح دی گئی ہے۔ اور وہ رِجس سے پاک ہے وہ نوراللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔
1 یہ عبارت کہ خوبصورت۔ پاک لڑکا تمہارا مہمان......جو آسمان سے آتا ہے یہ تمام عبارت .........چند روزہ زندگی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روزہ رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہوجائے اور بعد کا فقرہ مصلح موعود کی طرف اشارہ ہے اور اخیر تک اسی کی تعریف ہے...........بیس فروری1886ء کی پیش گوئی............دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی جو غلطی سے ایک سمجھی گئی۔ اور پھر بعد میں ..........الہام نے اس غلطی کو رفع کردیا۔‘‘
(مکتوب 4دسمبر 1888ء بنام حضرت خلیفۃ اوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر پنجم صفحہ 43,44)
اس کے ساتھ فضل1 ہے جو اُس کےآنے کے ساتھ آئے گا ۔2
وہ صاحب ِ شکوہ اور عظمت اور دَولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئیگا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمتہ اللہ ہے۔ کیونکہ خدا کی رحمت و غیّوری نے اُسے کلمہ ٔتمجید سے بھیجا ہے وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔اور دل کا حلیم ۔ اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْھَرُ الْاَوّلِ وَالْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآئِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے
1 بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ ........مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اِس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا۔‘‘
(سبز اشتہار صفحہ 21 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 467، تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ141)
(نوٹ از مرتب) اس الہامی فقرہ کے مطابق مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے 7اگست1887ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ جو چند روزہ زندگی گذار کر نومبر1888ء میں اس دنیا کو چھوڑگیا۔ اور اپنے خدا سے جاملا۔ اور اس پیشگوئی کے اس فقرہ کے مطابق کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ اس کے بعد وہ لڑکا پید اہوا۔ جس کا نام اس پیشگوئی میں فضل رکھا گیا تھا۔ اور جس کا دوسرا نام الہام الٰہی نے محمود ؔ اور تیسرا نام بشیر ثانی بتایا تھا۔ اور جس کا ایک نام فضل عمر ظاہر کیا گیا تھا۔ آپ کی پیدائش12؍جنوری1889ء کو ہوئی۔ اور14؍مارچ 1914ء کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب ِ خلافت سے سرفراز فرمایا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
2 رسالہ التبلیغ ملحقہ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں مصلح موعود کے متعلق مزید اوصاف کا ذکر ہے۔
والفضل ینزل بنزولہ وھو نور و مبارک وطیب و من المطھرین۔ یُفشی البرکات و یغذی الخلق من الطیبات و ینصرالدین....... و انہ اٰیۃ من اٰیاتی و علم التائیداتی لیعلم الذین کذبوا انی معک بفضلی المبین......وھو فھیم و ذہین و حسین۔ قد ملئی قلبہ علمًا و باطنہ حلمًا و صدرہ سلمًا۔ واعطی لہ نفس مسیحی و بورک بالروح الامین۔ یوم الاثنین نواھًا لک یا یوم الاثنین یاتی فیک ارواح المبارکین۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام (التبلیغ) صفحہ 577، 578۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 577، 578)
(ترجمہ از مرتب) اور فضل اس کے آنے کے ساتھ آئیگا۔ اور وہ نور ہے اور مبارک اور پاک اور پاکبازوں میں سے ہے برکتیں پھیلائیگا اور مخلوق کو پاکیزہ غذائیں دیگا اور دین کا مددگار ہوگا..........اور وہ میرے نشانوں میں سے ایک نشان اور میری تائیدوں کا علم ہوگا۔ تا وہ لوگ جو جھٹلاتے ہیں جان لیں کہ میں اپنے کھلے فضل سے تیرے ساتھ ہوں........اور وہ فہیم اور ذہین اور حسین ہوگا۔ اس کا دل علم سے اور باطن حلم سے اور سینہ سلامتی سے بھرپور ہوگا۔ اور اسے مسیحی نفس عطا کیا گیا۔ اور روح امین سے برکت دیا گیا ہوگا۔ دو شنبہ! اے مبارک دوشنبہ تجھ میں مبارک روحیں آئیں گی۔
ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسُوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور اسیروں کی رُستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اور قومیں 1اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔‘‘
(اشتہار 20فروری1886ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 59،60۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 100 تا 102)
1886ء
’’پھر خدائے کریم نے مجھے بشارت دے کر کہا۔ کہ
تیرا گھربرکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کرونگا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریّت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دُونگا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گےاور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہریک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہوجائے گی 2۔اگر وہ توبہ نہ
1 ’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں۔ بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہ‘ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہےاور درحقیقت یہ نشان ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل و اَتم ہے۔ کیونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الٰہی میں دعا کرکے ایک روح واپس منگوایا جاوے۔ .......جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے............مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسا نہٖ و بہ برکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دُعا کو قبول کرکے ایسی بابرکت رُوح بھیجنے کا وعدہ فرمایا۔ جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ سو اگرچہ بظا ہر یہ نشان احیاء موتٰی کے برابر معلوم ہوتا ہے۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ بہتر ہے۔ مُردوں کی بھی رُوح ہی دُعا سے واپس آتی ہے۔ اور اس جگہ بھی دُعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے۔ مگر ان رُوحوں اور اس رُوح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔‘‘
(اشتہار22مارچ1886ء روز دو شنبہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 114، 115)
2 ’’جس وقت حضور نے دعویٰ کیا اس وقت آپ کے خاندان میں ستّر کے قریب مرد تھے۔ لیکن اب ان کے سوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں۔ ان ستّر میں سے کسی ایک کی بھی اولاد موجود نہیں۔‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ الحکم نمبر 19 تا 22 مؤرخہ 21 تا 28 مئی و 7 تا 12جون1943ء صفحہ10)
کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا۔ یہانتک کہ وہ نابود ہوجائیں گے اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں اِرد گِرد پھیلائے گا اورایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گاتیری ذریّت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سر سبز رہے گی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہوجائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اُٹھاؤں گا اور اپنی طرف بُلا لُونگا پر تیرا نام صفحہ ٔزمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلّت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے در پَے اور تیرے نابُود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامردی میں مریں گے۔ لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دیگا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دُوں گا اور اُن میں کثرت بخشونگا اور وہ مسلمانوں کے اس دو سرے گروہ پر تابروز قیامت غالب رہیں گے۔ جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا اُنہیں نہیں بھُولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اَجر پائیں گے۔ تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلّی طور پر اُن سے مشابہت رکھتا ہے) تُو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تُو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا، یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو۔ اگر تمہیں اُس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیاتو اس نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو۔ اگر تم سچّے ہواور اگر تم بھی پیش نہ کرسکو اور یاد رکھوکہ ہر گز پیش نہ کرسکو گے تو اُس آگ سے ڈروکہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے۔ فقط۔‘‘
(از اشتہار20؍فروری1886ء۔ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ60،62۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 102، 103)
1886ء
’’ شایدچار ماہ کا عرصہ ہوا ۔ کہ اس عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک فرزند قوی الطاقتین کامل الظاہر و الباطن تم کو عطا کیا جائے گا۔ سو اُس کا نام بشیرؔہوگا۔ اب تک میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ
سے ہوگا۔ اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہورہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمہیں کرنا پڑے گا۔ اور جناب الٰہی میں یہ بات قرار پاچکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرت اہلیہ تمہیں عطا ہوگی وہ صاحب ِ اولاد ہوگی۔ اس میں تعجب کی بات یہ ہے کہ جب الہام ہوا۔ تو ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے۔ تین ان میں سے تو آم کے تھے۔ مگر ایک پھل سبز رنگ کا بہت بڑا تھا۔ وہ اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا۔ اگرچہ ابھی یہ الہامی بات نہیں ہے۔ مگر میرے دل میں یہ پڑا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کے پھلوں میں سے نہیں ہے وہی مبارک لڑکا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مُراد اولاد ہے۔ اور جبکہ ایک پارسا طبع اہلیہ کی بشارت دی گئی۔ اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار پھل دیئے گئے۔ جن میں سے ایک پھل الگ وضع کا ہے تو یہی سمجھا جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ8جون1886ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ5، 6)
1886ء
’’ان دنوں اتفاقاً نئی شادی کے لئے دو شخصوں نے تحریک کی تھی۔ مگر جب ان کی نسبت استخارہ کیا گیا۔ تو ایک عورت کی نسبت جواب ملا۔ کہ اس کی قِسمت میں ذلّت و محتاجگی و بے عزتی ہے اور اس لائق نہیں کہ تمہاری اہلیہ ہو۔ اور دُوسری کی نسبت اشارہ ہوا کہ اس کی شکل اچھی نہیں۔ گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صاحب ِ صورت و صاحب ِ سیرت لڑکا جس کی بشارت دی گئی ہے وہ برعایت مناسبت ظاہری اہلیہ جمیلہ و پارسا طبع سے پیدا ہوسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(از مکتوب مؤرخہ8جون1886ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ6)
مارچ1886ء
’’ اس عاجز کے اشتہار مؤرخہ20فروری1886ء...........میں ایک پیشگوئی دربارہ توَلُّد ایک فرزند صالح ہے۔ جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا............ایسا لڑکا بموجب وعدۂ الٰہی نو برس 1 کے عرصہ تک ضرور
1 (الف) ’’جن صفاتِ خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی میعاد سے گو نو برس سے بھی دو چند ہوتی۔ اُس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آسکتا۔ بلکہ صریح دلی انصاف ہریک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسی عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخصّ آدمی کے تولّد پر مشتمل ہے انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے اور دعا کی قبولیت ہو کر ایسی خبر کا ملنا بے شک یہ بڑا بھاری آسمانی نشان ہے۔ نہ یہ کہ صرف پیشگوئی ہے۔‘‘ (اشتہار8اپریل1886ء تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ75،76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 116، 117)
(ب) ’’وہ.......خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر 1888ء صفحہ 7حاشیہ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 127۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 116،117)
(ج) ’’میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھ سے معاملہ کریگا۔ اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا۔ تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا۔ اور اگر مدّتِ مقررہ سے ایک دن بھی باقی
پیدا ہوگا۔ خواہ جلد ہو‘ خواہ دیر سے۔ بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہوجائے گا۔‘‘
(اشتہار 22؍مارچ1886 ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ72، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 113)
8 اپریل 1886ء
(الف) ’’ بعد اشاعت اشتہار مندرجہ1بالا دوبارہ اس امر کے انکشاف کے لئے جناب الٰہی میں توجہ کی گئی۔ تو آج 8اپریل 1886ء میں اللہ جلّ شانہ‘ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا۔ کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب میں ہونے والا ہے جو ایک مدّتِ حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ اِس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہےیا بالضرور اُس کے قریب حمل میں ہے۔ لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیاکہ جو اَبْ پیدا ہوگایہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نوبرس کے عرصہ میں پیدا ہوگا۔‘‘
(اشتہار8اپریل 1886ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 117)
(ب) ’’عربی الہام کے یہ دو فقرہ ہیں:۔
نَازِلٌ مِّنَ السَّمَآئِ۔ وَنَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔
جو نزول یا قریب النزول پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘
(حاشیہ اشتہار8اپریل 1886ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 117)
(ج) پھر بعد میں اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ
’’انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں۔‘‘
(اشتہار8اپریل 1886ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ76۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 117)
1886ء
’’ جن 2دنوں لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ اور لوگوں نے غلط فہمی پیدا کرنے کیلئے شور مچایا۔ کہ پیشگوئی غلط نکلی ان
بقیہ حاشیہ: رہ جائیگا تو خدائے عزّوجلّ اُس دن کو ختم نہیں کریگا۔ جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ 12جنوری1989ء تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ 148حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191)
1 اشتہار22 مارچ 1886ء۔ (مرتّب)
2 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں 15؍اپریل1886ء میں لڑکی پیدا ہوئی جس کانام عصمتؔ رکھا گیا اس لڑکی کی پیدائش پر مخالفین نے یہ شور مچایا۔ کہ لڑکے کے متعلق جو پیشگوئی تھی وہ غلط نکلی۔ کیونکہ موجودہ حمل سے لڑکی پیداہوئی ہے نہ کہ لڑکا۔ مگر یہ اعتراض بالکل غلط تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ موجودہ حمل سے ہی ضرور لڑکا پیدا ہوگا۔ بلکہ الہام 8اپریل 1886ء کی ذیل میں یہ صراحت کی گئی تھی کہ عنقریب ایک لڑکا ہوگا۔ خواہ موجودہ حمل سے ہو یا اس کے قریب آئندہ حمل سے۔ چنانچہ عصمت کی پیدائش کے بعد دوسرے حمل سے بشیر اوّل پیدا ہوگیا۔ (مرتب)
دنوں میں یہ الہام ہوا تھا:۔
دشمن کا بھی خوب وار نکلا :: تِسپر بھی وہ وار پار نکلا
یعنی مخالفوں نے تو یہ شور مچایا ہے کہ پیشگوئی غلط نکلی۔ مگر جلد فہیم لوگ سمجھ 1جائیں گے اور ناواقف شرمندہ ہوں گے۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر16 صفحہ7 مؤرخہ30؍اپریل1902ء)
26اپریل 1886ء
’’شیخ مہر علی کی نسبت ضرور قادیان میں 26اپریل1886ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی۔ جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی۔ چنانچہ ان ہی دنوں میں ان کو اطلاع بھی دی گئی تھی۔ خواب یہ تھی کہ اُن کی فرش نشست کو آگ لگ گئی اور ایک بڑا تہلکہ برپا ہوا اور ایک پُرہول شعلہ آگ کا اُٹھا اور کوئی نہیں تھا جو اُس کو بُجھاتا۔ آخر میں مَیں نے بار بار پانی ڈال کر اُس کو بجھادیا2۔پھر آگ نظر نہیں آئی مگر دھواں رہ گیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ کس قدر اُس آگ نے جلادیا۔ مگر ایسا ہی دل میں گذرا کہ کچھ تھوڑا نقصان ہوا۔ یہ خواب تھی۔ یہ
1 چنانچہ اس بشارت کے مطابق عصمتؔ کی پیدائش کے بعد 7اگست1887ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔ جس کی پیدائش سے 20فروری1886ء والے الہام کا یہ فقرہ پورا ہوا۔ کہ ’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔‘‘ نیز8اپریل کا یہ الہام پورا ہوا۔ کہ ’’ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے۔‘‘ (مرتب)
2 ’’اسی وقت میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہ یقین کامل یہ تعبیر ڈالی گئی۔ کہ شیخ صاحب پر اور اُن کی عزت پر سخت مصیبت آئے گی۔ اور میرا پانی ڈالنا یہ ہوگا کہ آخر میری ہی دُعا سے نہ کسی اور و جہ سے وہ بلا دُور ہوجائے گی..........آخر قریباً چھ ماہ گذرنے پر ایسا ہی ہوا۔ اور میں انبالہ چھاؤنی میں تھا کہ ایک شخص محمد بخش نام شیخ صاحب کے فرزند جان محمد کی طرف سے میرے پاس پہنچا اور بیان کیا کہ فلاں مقدمہ میں شیخ صاحب حوالات میں ہوگئے میں نے اُس شخص سے اپنے خط کا حال دریافت کیا جس میں چھ ماہ پہلے اس بلا کی اطلاع دی گئی تھی۔ تو اُس وقت محمد بخش نے اِس خط کے پہنچنے سے لاعلمی ظاہر کی۔ لیکن آخر خود شیخ صاحب نے رہائی کے بعد کئی دفعہ اقرار کیا کہ وہ خط ایک صندوق میں سے مل گیا۔ پھر شیخ صاحب تو حوالات میں ہوچکے تھے لیکن اُن کے بیٹے جان محمد کی طرف سے شاید محمد بخش کے دستخط سے جو ایک شخص ان کے تعلق داروں میں سے ہے کئی خط اِس عاجز کے نام دُعا کے لئے آئے اور اللہ جلّ شانہ‘ جانتا ہے کہ کئی راتیں نہایت مجاہدہ سے دُعائیں گی گئیں۔ اور اوائل میں صورت قضاء قدر کی نہایت پیچیدہ اور مبرم معلوم ہوتی تھی۔ لیکن آخر کار خدا تعالیٰ نے دعا قبول کی اور اُن کے بارے میں رہا ہونے کی بشارت دے دی اور اُس بشارت سے اُن کے بیٹے کو مختصر لفظوں میں اطلاع دی گئی .........
دعا بہت کی گئی اور آخر فقرہ میں بریّت اور فضل الٰہی کی بشارت دی گئی تھی وہ الفاظ اگرچہ بہت کم تھے مگرقَلَّ وَدَلَّ تھی۔‘‘
(ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام صفحہ 6از اشتہار 25فروری1893ء مع حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 653،654)
خط1شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد اُن کے گھر سے اُن کے بیٹے کو ملا۔ پھر بعد اس کے بھی ایک دو خواب ایسے ہی آئے جن میں اکثر حصہ وحشتناک اور کسی قدر اچھا تھا۔ میں تعبیر کے طور پر کہتا ہوں کہ شاید یہ مطلب ہے کہ درمیان میں سخت تکالیف ہیں اور انجام بخیر ہے مگر ابھی انجام کی حقیقت مجھ پر صفائی سے نہیں کھلی۔ جس کی نسبت دعوے سے بیان کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحب مکتوبات احمدیہ جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 22)
1886ء
نواب صدیق حسن خاں2.....نے غیر قوموں کو صرف مہدی کی تلوار سے ڈرایااور آخر پکڑے گئے۔ اور نواب ہونے سے معطّل کئے گئے اور بڑے انکسار سے میری طرف خط لکھا کہ میں اُن کے لئے دُعا کروں تب میں نے اُس کو قابل رحم سمجھ کر اُس کے لئے دُعا کی تو خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا:۔
سرکوبی سے اُس کی عزت بچائی گئی
..........آخر کچھ مدّت کے بعد اُن کی نسبت گورنمنٹ کا حکم آگیا کہ صدیق حسن خان کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ37۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 470)
1 یعنی جو خط اس خواب کی اطلاع کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کو لکھا تھا۔ (مرتب)
2 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ کے بعض شروع کے حصے نواب صدیق حسن خان کو بھیج کر انہیں تحریک کی تھی کہ وہ اس کتاب کی اشاعت میں حصہ لیں جس کے جواب میں نواب صاحب نے لکھا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا اُن میں کچھ مدد دینا خلافِ منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اِس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ اُمید نہ رکھیں۔ نواب صاحب کے اس جواب کا ذکر کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ حصہ چہارم کے ضمیمہ اشتہار ’’مسلمانوں کی نازک حالت اور انگریزی گورنمنٹ‘‘ میں تحریر فرمایا:۔’’ ہم بھی نواب صاحب کو اُمید گاہ نہیں بناتے بلکہ اُمید گاہ خداوند ِ کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے۔‘‘)
جس کے بعد نواب صاحب پر گورنمنٹ انگریزی کسی معاملہ میں ناراض ہوئی اور ان سے نوابی کا خطاب واپس لے لیا۔ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔’’نواب صاحب صدیق حسن خان پر جو ابتلاء پیش آیا۔ وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کرکے واپس بھیج دیا تھا میں نے دعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے۔ سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔‘‘
(تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ 37 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 470)
نواب صاحب کو جب اپنے قصور کا احساس ہوا تو حضرت اقدس کی خدمت میں خط کے ذریعہ دُعا کی درخواست کی۔ (مرتب)
1886ء
’’مرزا امام الدین و نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آریہ اور نیز لیکھرام پشاوری اور صدہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے کہ ہم نے اسی1کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے2والا ہے۔‘‘ (اشتہار 10جولائی1888ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 159،160)
3اگست1886ء
’’ہم پر آج جو تیسری اگست 86 ء ہے منجانب اللہ اُس3 کی نسبت معلوم ہوا ہے کہ اگر وہ توبہ نہ کرےتو اُس کی بے راہیوں کا وبال جلد تر اُسے درپیش ہے اور اگر یہ معمولی رنجوں میں سے کوئی رنج ہو تو اُس کو پیشگوئی کا مصداق مت سمجھو لیکن اگر ایسا رنج پیش آیا جو کسی کے خیال و گمان میں نہیں تھا تو پھر سمجھنا چاہئے کہ یہ مصداق پیشگوئی ہے لیکن اگر وہ باز آنے والا ہے تو پھر بھی انجام بخیر ہوگا یا تنبیہہ کے بعد راحت پیدا ہوجائے گی۔‘‘(سرمہ چشم آریہ صفحہ190،191۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 238، 239)
13 فروری 1887ء
’’آج مجھے فجر کے وقت یُوں القا ہوا۔ یعنی بطور الہام
عبدالباسط
معلوم نہ تھا کہ یہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ آج آپ کے خط میں عبدالباسط دیکھا۔ شاید آپ کی طرف اشارہ ہو4۔ واللہ اعلم ۔‘‘
(از مکتوب13فروری1887ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر 2 صفحہ 20)
اپریل 1887ء
’’ چند روز ہوئے میں نے اس قرضہ کے تردُّد میں خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اُوپر چڑھنا چاہتا ہوں مگر ہاتھ نہیں پہنچتا۔ اتنے میں ایک بندۂ خدا آیا، اُس نے اوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اُوپر چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے۔
آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طور پر یہ جم گیا کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تردّد ہوام آپ ہی ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کے لئے دُعا کی ایسا ہی برقّتِ قلب خط کے پڑھنے سے آپ کے لئے مُنہ سے دلی دُعا نکل گئی۔ مُسْتَجَابٌ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔‘‘
(مکتوب 2مئی 1887ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر2 صفحہ 27)
1 یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری۔ (مرتب) 2 اس پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ 30ستمبر1892ء کو بمقام ہوشیار پور فوت ہوگیا۔ (مرتب) 3 یعنی مرزا امام الدین ۔ (مرتب)
4 (نوٹ از عرفانی صاحبؓ) حضرت حکیم الامت نے بارہا فرمایا کہ میرا الہامی نام عبدالباسط ہے۔ (مکتوبات جلد پنجم نمبر2 صفحہ 20)
1887ء
’’ ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک دوست انگریزی خواں نجف علی نام (جو کہ کابل میں بھی گیا تھا اور شاید اب بھی وہاں ہے) میرے پاس آیا اور اُس کے ہمراہ محبی مرزا خدا بخش1صاحب بھی تھے۔ ہم تینوں سیر کے لئے باہر گئے تو راستہ میں کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ نجف علی نے میری مخالفت اور نفاق میں کچھ باتیں کی ہیں۔ چنانچہ یہ کشف اُس کو سنایا گیاتو اُس نے اقرار کیا کہ یہ بات صحیح ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 206۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 584)
1887ء
’’ ایک دفعہ ہم ریل گاڑی پر سوار تھے۔ اور لدھیانہ کی طرف جارہے تھے۔ کہ الہام ہوا:۔
’’نصف ترا نصف عمالیق را‘‘
اور اس کے ساتھ یہ تفہیم ہوئی کہ امام بی بی2جو ہمارے جدی شرکاء میں سے ایک عورت تھی مرجائے گی اور اس کی زمین نصف ہمیں اور نصف دیگر شرکاء کو مل جائے گی۔
یہ الہام ان دوستوں کو جو اُس وقت ہمارے ساتھ تھے سنادیا گیا تھا۔ چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ عورت مذکور مر گئی اور اس کی نصف زمین ہمیں ملی اور نصف بعض دیگر شرکاء کو ملی۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 213،214۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 591، 592)
1887ء (قریباً)
’’ایک دفعہ ہمیں موضع کُنجراں ضلع گورداسپور کو جانے کا اتفاق ہوا اور شیخ حامد علی ساکن تھِہ ؔغلام نبی ہمارے ساتھ تھا۔ جب صبح کو ہم نے جانے کا قصد کیا تو الہام ہوا کہ
اس سفر میں تمہارا اور تمہارے رفیق کا کچھ نقصان ہوگا
1 پیغام صلح جلد 23نمبر77 صفحہ4 سے مرزا خدابخش صاحب کے اپنے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اور مولوی نجف علی قادیان آئے۔ تو اُن دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی امریکہ کے ایک باشندہ الیگزنڈر رسل وِب کے ساتھ خط و کتابت ہورہی تھی حضور نے سیر میں یہ خواب سنائی۔ اور مولوی نجف علی نے اقرار کیا کہ واقعی مولوی محمد حسین بٹالوی سے اُن کی باتیں سن کر آپ کا سخت مخالف ہوگیا تھا اور میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ آپ کی کوئی بات قبول نہ کرونگا۔ اور شحنہ حق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ 1887ء کا ہے۔ کیونکہ اس میں الیگزنڈ رسل وِب کی خط و کتاب در ج ہے۔ (مرتب)
2 امام بی بی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی ہمشیرہ تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چچا زاد بھائی کی، جو مفقود الخبرہوچکا تھا، بیوہ تھی۔ (مرتب)
چنانچہ راستہ میں شیخ حامد علی کی ایک چادر اور ہمارا ایک رُومال گُم ہوگیا۔ اس وقت حامد علی کے پاس وہی چادر تھی۔ ‘‘
(نزول المسیح صفحہ 229،230۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 607،608)
1887ء
’’بیجناتھ برہمن ولد بھگت رام کو کشفی طور پر اطلاع دی گئی تھی کہ ایک برس کے عرصہ تک تجھ پر مصیبت نازل ہونے والی ہے اور کوئی خوشی کی تقریب بھی ہوگی۔ چنانچہ اس پیشگوئی پر اس کے دستخط کرائے گئے جو اَب تک موجود ہیں۔ پھر بعد ازاں ایک برس کے عرصہ میں اس کا باپ جوانی کی عمر میں ہی فوت ہوگیا۔ اور اسی دن انکی شادی کی تقریب بھی پیش تھی یعنی کسی کا بیاہ تھا۔‘‘ (شحنہ حق صفحہ44،45۔ روحانی خزائن جلد2صفحہ 384)
11جولائی 1887ء
’’ میں نے آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ ان کو کیا کھلائیں، آم تو خراب ہوگئے ہیں۔ تب اور آم غیب سے موجود ہوگئے۔ واللہ اعلم اس کی کیا تعبیر ہے۔‘‘
(مکتوب 11جولائی1887ء بنام چودھری رستم علی صاحب۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر3 صفحہ 42)
7اگست 1887ء
اِنَّآ اَرْسَلْنَاہُ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِ یْرًا کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآئِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّ بَرْقٌ کُلُّ شَیْئٍ تَحْتَ قَدَمَیْہِ۔
یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہدؔ اور مُبَشّر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے۔ اور یہ اُس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں۔ اور رعد اور برق بھی ہو۔ یہ سب چیزیں اُس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں1۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر1888ء صفحہ 16 تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ136۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 178)
1 الہامی عبارت میں جیسا کہ ظلمت کے بعد رعد اور روشنی کا ذکر ہے یعنی جیسا کہ اس کی عبارت کی ترتیب بیانی سے ظاہر ہوتا ہے۔کہ پسر متوفیٰ کے قدم اُٹھانے کے بعد پہلے ظلمت آئے گی اور پھر رعد اور برق۔ اسی ترتیب کے رو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا۔ یعنی پہلے بشیر کی موت کی و جہ سے ابتلاء کی ظلمت وارد ہوئی اور پھر اُس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے۔ اور جس طرح ظلمت ظہور میں آگئی۔ اسی طرح یقینا جاننا چاہئے کہ کسی دن وہ رعد اور روشنی بھی ظہور میں آجائے گی۔ جس کا وعدہ دیا گیا ہے۔ جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دیگی۔ اور جو جو اعتراضات غافلوں اور مُردہ دلوں کے مُنہ سے نکلے ہیں۔ ان کو نابود اور ناپدید کردیگی .............سو اَے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا۔ حیرانی میں مت پڑو۔ بلکہ خوش ہو۔ اور خوشی سے اُچھلو۔ کہ اس کے بعد اب روشنی آئیگی۔‘‘
(سبز اشتہار صفحہ 16،17 تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ136،137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179، 180)
1888ء
(الف) ’’اُس1 لڑکے کی پیدائش کے بعد اس کی طہارت باطنی اور صفائی استعداد کی تعریفیں الہام میں بیان کی گئیں اور پاک ؔ اور نورؔاللہ اور یداللہؔ اور مقدسؔ اور بشیر ؔ اور خداباماست اس کا نام رکھا گیا......... خدا تعالیٰ نے پسر متوفیٰ کے اپنے الہام میں کئی نام رکھے ان میں سے ایک بشیر ؔ اورایک عنمواؔئیل اور ایک خدا باؔماست و رحمت ِؔحق اور ایک یداللہ بجلالٍ وجمالٍ ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ 4دسمبر1888ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر صفحہ41،50)
(ب) ’’خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا2 جو فوت ہوگیا ہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دُنیوی جذبات بکلّی اس کی فطرت سے مسلوب۔ اور دین کی چمک اِس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدّیقی رُوح اپنے اندر رکھتا ہے اور اُس کا نام بارانِ رحمت اور مبشرؔ اور بشیر ؔ اور یَداؔللہ بجلال وجمال وغیرہ اسماء بھی ہیں۔ سو جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اُس کی صفات ظاہر کی یہ سب اس کی صفائی استعداد کے متعلق ہیں، جن کے لئے ظہور فی الخارج کوئی ضروری امر نہیں۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر 1888ء صفحہ7،8 و تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ127،128۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 169)
1888ء
’’اور اُس3کی تعریف میں ایک یہ الہام ہوا۔ کہ
جَآئَ کَ النُّوْرُ وَھُوَ اَفْضَلُ مِنْکَ
یعنی کمالات ِ استعدادیہ میں وہ تجھ سے افضل ہے۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ4دسمبر1888ء ۔ بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر5 صفحہ50)
5جنوری1888ء
’’چند روز کا ذکر ہے کہ پرانے کاغذات کو دیکھتے دیکھتے ایک پرچہ نکل آیا جو میں نے اپنے ہاتھ سے بطور یادداشت کے لکھا تھا۔ اُس میں تحریر تھا کہ یہ پرچہ 5جنوری 1888ء کو لکھا گیا ہے۔ مضمون یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے کسی امر میں مخالفت کرکے کوئی تحریر چھپوائی ہے اور اُس کی سُرخی میری نسبت ’’کمینہ ‘‘ رکھی ہے۔ معلوم نہیں اس کے کیا معنے ہیں اور وہ تحریر پڑھ کر کہا کہ آپ کو میں نے منع کیا تھا پھر آپ نے کیوں ایسا مضمون چھپوایا۔ھٰذَا مَارَاَیْتُ واللّٰہُ اَعْلَمُ بتاوِیْلہٖ۔‘‘
(مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مکتوبات جلد چہارم صفحہ 4)
1 بشیر اوّل جو 7اگست1887ء کو پیدا ہوا۔ اور4؍نومبر 1888ء کو فوت ہوگیا۔ (مرتب)
2، 3 یعنی بشیر اوّل۔ (مرتب)
14فروری1888ء
’’13،14فروری1888ء کی گذشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو ہولناک خوابیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہم ّ و غم مصیبت معلوم ہوتی تھی۔ میں نہایت وحشت و تردُّد میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا۔ چنانچہ کل سندرؔداس کی وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔معلوم ہوتا ہے یہ وہی غم تھا جس کی طرف اشارہ تھا۔‘‘
(مکتوب مؤرخہ15فروری1888ء بنام چودھری رستم علی صاحب۔ مکتوبات جلد پنجم نمبر3 صفحہ72،73)
1888ء (قریباً)
’’ایک دفعہ ہمیں لدھیاؔنہ سے پٹیالہؔ جانے کا اتفاق ہوا۔ روانہ ہونے سے پہلے الہام ہوا کہ
اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ ہم ّ و غم پیش آئے گا
اس پیشگوئی کی خبر ہم نے اپنے ہمراہیوں کو دے دی۔ چنانچہ جبکہ ہم پٹیالہ سے واپس آنے لگے تو عصر کا وقت تھا۔ ایک جگہ ہم نے نماز پڑھنے کے لئے اپنا چوغہ اُتار کرسید محمد ؔحسین خاں صاحب وزیر ریاست کے ایک نوکر کو دیا تا کہ وضو کریں۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوکر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے باندھے ہوئے تھے وہ رومال گر گیا ہے۔ تب ہمیں وہ الہام یاد آیا کہ اس نقصان کا ہونا ضروری تھا۔
پھر جب ہم گاڑی پر سوار ہوئے تو راستہ میں ایک سٹیشن دوراؔہہ پر ہمارے ایک رفیق کو کسی مسافر انگریز نے محض دھوکہ دہی سے اپنے فائدہ کے لئے کہہ دیاکہ لدھیانہ آگیا ہے۔ چنانچہ ہم اُس جگہ سب اُتر پڑے اور جب ریل چل دی تب ہم کو معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور سٹیشن تھا۔ اور ایک بیابان میں اُترنے سے سب جماعت کو تکلیف ہوئی اور اس طرح پر الہام مذکور کا دوسرا حصہ بھی پورا ہوگیا۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ231،232۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ 609،610)
مئی 1888ء
’’ایک بار فتح مسیح نام ایک عیسائی نے کہا تھا کہ مجھے الہام ہوتا ہے میں نے جب اُسے کہا کہ تو پیشگوئی کر، تو گھبرا یا اورمجھے کہا کہ ایک مضمون بند لفافہ میں رکھا جاوے اور آپ اس کا مضمون بتادیں مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی کہ
’’ تُواس کو قبول کرلے‘‘
جب میں نے اس کو بھی قبول کرلیا تو کئی سو آدمیوں کے مجمع میں آخر پادری وائٹ بریخٹ نے کہا کہ یہ فتح مسیح جھوٹا ہے۔‘‘
(الحکم جلد6 نمبر 5 مورخہ 7 فروری 1902ء صفحہ 4 کالم نمبر 3)
مئی 1888ء
(الف) 1’’اِنَّ اللّٰہَ رَآٰی اَبْنَآئَ عَمِّیْ وَغَیْرَ ھُمْ۔ مِنْ شُعُوْبِ اَبِیْ وَ اُمِّیٓ الْمَغْمُوْرِیْنَ فِی الْمُھْلِکَاتِ ......... وَالْمُنْکِرِیْنَ لِوُجُوْدِ اللّٰہِ وَمِنَ الْمُفْسِدِیْنَ...........وَرَآٰی اَنَّھُمْ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَالشَّرُوْرِ۔ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ.......... وَلَا یَتُوْبُوْنَ مِنْ سَبِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) بَلْ کَا نُوْا عَلَیْہِ مِنَ الْمُدَا وِمِیْنَ .......... وَبَیْنَمَاھُمْ کَذَا لِکَ اِذِاصْطَفَانِیْ رَبِّیْ لِتَجْدِیْدِ دِیْنِہٖ ........ وَرَزَقَنِیْ مِنَ الْاِلْھَامَاتِ وَالْمُکَالَمَاتِ وَ الْمُخَاطَبَاتِ وَالْمُکَاشَفَاتِ رِزْقًا حَسَنًا.........فَطَغَوْا وَبَغَوْا وَاسْتَدْعَوْا الْاٰیَاتِ اسْتِھْزَآئً وَّقَالُوْا لَانَعْلَمُ اِلٰھًایُکَلِّمُ اَحَدًا ........... فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ اِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ........ وَکَذَالِکَ سَدَرُوْا فِیْ غَلَوَاتِھِمْ وَجَمَعُوْا فی جَھَلَاتِھِمْ وَسَدَلُوْا ثَوْبَ الْخُیَلَآئِ یَوْمًا فَیَوْمًا۔ حَتّٰی بَدَانَھُمْ اَنْ یُّشِیْعُوْا خُزَعْبِلَاتِھِمْ وَ یَصْطَادُوا السُّفَھَآئَ بِتَلْبِیْسَاتِھِمْ۔ فَکَتَبُوْا کِتَابًا کَانَ فِیْہِ سَبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَبُّ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاِنْکَارُ وُجُوْدِالْبَارِیِٔ عَزَّاسْمُہ‘۔ وَمَعَذَالِکَ طَلَبُوْا فِیْہِ اٰیَاتِ صِدْقِیْ مِنِّیْ وَ اٰیَاتِ وُجُوْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاَرْسَلُوْا کِتَابَھُمْ فِی الْاٰفَاقِ وَالْاَقْطَارِ وَاَعَانُوْا بِھَاکَفَرۃَ الْھِنْدِ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا مَّا سُمِعَ مِثْلُہ‘ فِی الْفَرَاعِنَۃِ الْاَوَّلِیْنَ۔ فَلَمَّا بَلَغَنِیْ کِتَابُھُمُ الْذِيْ کَانَ قَدْصَنَّفَہ‘ کَبِیْرُھُمْ فِی الْخُبْثِ وَالْعُمُرِ
1 (ترجمہ ازمرتب) اللہ تعالیٰ نے میرے جدّی بھائیوں اور قریبیوں کو دیکھا۔ کہ وہ مہلک امور میں منہمک ہیں...........اور اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں اور مفسد ہیں ...............اور اُس نے دیکھا۔ کہ وہ لوگوں کو بدیوں اور شرارتوں کی طرف بلاتے اور نیکی کے کاموں سے روکتے ہیں ................اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بد زبانی سے باز نہیں آتے۔ بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں..........اسی دَوران میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دین کی تجدید کیلئے چُن لیا............اور اپنے الہامات ‘ مخاطبات اور مکاشفات سے مجھے بہرہ ور کیا..............جس پر اُنہوں نے سرکشی کی۔ اور تمسخر کے طور پر مجھ سے نشانات کا مطالبہ کیا۔ اور کہا۔ کہ ہمیں ایسے معبود کا کوئی علم نہیں جو کسی سے کلام کرتا ہو.............اور اگر یہ شخص سچا ہے تو ہمیں کوئی نشان دکھائے...............اسی طرح یہ لوگ اپنی حد سے بڑھ گئے۔ اور اپنی جہالتوں میں سرکش ہوتے گئے۔ اور ان کا تکبر روز بروز بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنے گندے خیالات کی اشاعت شروع کردی اور کم عقل لوگوں کو اپنے فریبوں کا شکار بنانے لگے۔ چنانچہ انہوں نے ایک گندہ اشتہار نکالا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیں اور قرآن کریم کے متعلق بد زبانی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت مانگا ہے۔ اور انہوں نے اپنا یہ اشتہار تمام اطرافِ عالم میں شائع کیا ہے۔ اور اس طرح سے ہندوستان بھر کے غیر مسلم لوگوں کو اسلام کے خلاف مدد دی ہے اور اس قدر تکبر کیا ہے۔ جو پہلے فراعنہ نے بھی نہیں کیا ہوگا۔ سو جب ان کے سرغنہ کا جو خباثت میں بھی اُن کا بڑا ہے۔ جیسا کہ عمر میں بڑا ہے۔ لکھا ہوا یہ اشتہار مجھے ملا
............ فَاِذَا الْکَلِمَاتُ کَلِمَاتٌ تَکَا دُالسَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْھَا............ فَغَلَّقْتُ الْاَبْوَابَ وَدَعَوْتُ الرَّبَّ الْوَھَّابَ۔ وَطَرَحْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ وَخَرَرْتُ اَمَا مَہ‘ سَاجِدًا.......... وَقُلْتُ یَارَبِّ یَارَبِّ انْصُرْ عَبْدَکَ وَاخْذُلْ اَعْدَآئِک۔ اِسْتَجِبْنِیْ یَا رَبِّ اسْتَجِبْنِیْ۔ اِلَامَ یُسْتَھْزَئُ بِکَ وَبِرَسُوْلِکَ۔ وَحَتَّامَ یُکَذِّبُوْنَ کِتَابَکَ وَیَسُبُّوْنَ نَبِیَّکَ۔ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا مُعِیْنُ۔
فَرَحِمَ رَبِّیْ عَلٰی تَضَرُّعَاتِیْ وَزَفَرَاتِیْ وَ عَبَرَاتِیْ وَنَادَانِیْ وَقَالَ
اِنِّیْ رَاَیْتُ عِصْیَانَھُمْ وَطُغْیَانَھُمْ فَسَوْفَ اَضْرِبُھُمْ بِاَنْوَاعِ الْاٰفَاتِ اُبِیْدُھُمْ مِّنْ تَحْتِ السَّمٰوٰتِ۔ وَسَتَنْظُرُمَا آفْعَلُ بِھِمْ وَکُنَّاعَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَادِرِیْنَ۔اِنِّیْٓ اَجْعَلُ نِسَآئَ ھُمْ اَرَامِلَ وَاَبْنَائَ ھُمْ یَتَامٰی وَ بُیُوْتَھُمْ خَرِبَۃً لِّیَذُوْقُوْا طَعْمَ مَا قَالُوْا وَمَا کَسَبُوْا۔ وَلٰکِنْ لَّآ اُھْلِکُھُمْ دَفْعَۃً وَّاحِدَۃً بَلْ قَلِیْلاً قَلِیْلاً لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ وَیَکُوْنُوْنَ مِنَ التَّوَّابِیْنَ اِنَّ لَعْنَتِیْ نَازِلَۃٌ عَلَیْھِمْ وَعَلٰی جُدْرَانِ بُیُوْتِھِمْ وَعَلٰی صَغِیْرِھِمْ وَکَبِیْرِھِمْ وَنِسَآءِ ھِمْ وَرِجَالِھِمْ وَ نَزِیْلِھِمُ الَّذِیْ دَخَلَ اَبْوَابَھُمْ۔ وَکُلُّھُمْ کَانُوْا مَلْعُوْنِیْنَ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَطَعُوْا تَعَلُّقَھُمْ مِّنْھُمْ وَبَعُدُوْا مِنْ مَّجَالِسِھِمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنَ الْمَرْحُوْمِیْنَ۔
.......... تو میں نے دیکھا کہ وہ الفاظ ایسے تھے کہ قریب تھا کہ آسمان ان کی و جہ سے پھٹ جائیں............اس پر میں نے دروازوں کو بند کرلیا۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر کر دُعا کی..............اور کہا کہ اے میرے ربّ! اپنے بندہ کی نصرت فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و رُسوا کر۔ اے میرے ربّ ! میری دُعا سن۔ اور اُسے قبول فرما۔ کب تک تجھ سے اور تیرے رسُول سے تمسخر کیا جائے گا۔ اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بد کلامی کرتے رہیں گے۔ اے ازلی ابدی۔ اے مددگار خدا ! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔
تب میرے ربّ نے میری گریہ و زاری اور میری آہوں کوسُنکر مجھ پر رحم فرمایا اور مجھے پکار کر فرمایا :
میں نے اُن کی نافرمانی اور سرکشی کو دیکھا ہے میں اُن پر طرح طرح کی آفات ڈال کر اُنہیں آسمان کے نیچے سے نابود کردوں گا۔ اور تم جلد دیکھو گے کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں۔ اور ہم ہر ایک بات پر قادر ہیں۔ میں اُن کی عورتوں کو بیوہ ‘ اُن کے بچوں کو یتیم اور اُن کے گھروں کو ویران کردوں گا اور اس طرح سے وہ اپنی باتوں کا اور اپنی کارروائیوں کا مزہ چکھیں گے۔ لیکن میں اُنہیں یکدم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تدریجاً پکڑوں گا۔ تاکہ اُنہیں رجوع اور توبہ کا موقع ملے۔ میری *** اُن پر۔ اُن کے گھروں پر‘ اُن کے چھوٹوں اور بڑوں پر‘ اُن کی عورتوں اور مَردوں پر۔ اُن کے اُس مہمان پر جو اُن کے گھر میں داخل ہوگا پڑے گی۔ اور اُن تمام پر *** برسے گی سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں۔ اور اُن سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ اور اُن کی مجالس سے دُوری اختیار کریں۔ پس وہی لوگ ہیں جن پر رحم کیا جائے گا۔
ھٰذِہٖ خَلَاصَۃُ مَآ اَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ۔ فَبَلَّغْتُ رَسَالَاتِ رَبِّیْ فَمَا خَافُوْا وَمَا صَدَّقُوْا۔ بَلْ زَادُوْاطُغْیَانًا وَّکُفَرًا وَّظَلُّوْایَسْتَھْزِئُ وْنَ کَاَعْدَآئِ الدِّیْنِ۔ فَخَاطَبَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
اِنَّا سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتٍ مُّبْکِیَۃً وَّنُنَزِّلُ عَلَیْھِمْ ھُمُوْمًا عَجِیْبَۃً۔ وَاَمْرَاضًا غَرِیْبَۃً۔ وَنَجْعَلُ لَھُمْ مَعِیْشَۃً ضَنَکًا۔ وَنَصُبُّ عَلَیْھِمْ مَصَآئِبَ فَلَایَکُوْنُ لَھُمْ اَحَدٌ مِّن النَّاصِرِیْنَ۔
فَکَذَالِکَ فَعَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِھِمْ وَاَنْقَضَ ظُھُوْرَ ھُمْ بِاَثْقَالِ الْھُمُوْمِ وَالدُّیُوْنِ وَالْحَاجَاتِ وَاَنْزَلَ عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْوَاعِ الْبَلَایَا وَالْاٰفَاتِ وَفَتَحَ عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ الْمَوْتِ وَالْوَفَاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ اَوْیَکُوْنُوْنَ مِنَ الْمُتَنَبِّھِیْنَ۔ وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ فَمَافَھِمُوْا وَمَاتَنَبَّھُوْا وَمَاکَانُوْا مِنَ الْخَآئِفِیْنَ۔
وَلَمَّا قَرُبَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْاٰ یَۃِ اتَّفَقَ فِیْ تِلْکَ الْاَیَّامِ اَنَّ وَاحِدًا مِّنْ اَعَزِّ اَعِزَّتِھِمُ الَّذِیْ کَانَ اسْمُہ‘ اَحْمَدْ بِیْک اَرَادَ اَنْ یَّمْلِکَ اَرْضَ اُخْتِہِ الَّتِیْ کَانَ بَعْلُھَا مَفْقُوْدَالْخَبَرِ مِنْ سِنِیْنَ۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلدنمبر5 صفحہ566،570)
(ب) ’’نامبردہ1کی ایک ہمشیرہ ہمارے چچا زاد بھائی غلامؔ حسین نام کو بیاہی گئی تھی۔ غلامؔ حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے۔ نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرادی گئی تھی۔ اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپور میں جاری ہے۔ نامبردہ یعنی
یہ میرے ربّ کی اس وحی کا خلاصہ ہے جو اُس نے مجھ پر نازل کی۔ پس میں نے اپنے پروردگار کے پیغامات اُن کو پہنچادیئے۔ لیکن نہ تو وہ ڈرے اور نہ ہی انہوں نے تصدیق کی بلکہ سرکشی اور انکار میں بڑھتے گئے۔ اور استہزاء میں دشمنانِ دین کا سا شیوہ اختیار کرلیا۔ پس میرے ربّ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:
ہم اُنہیں رُلانے والے نشانات دکھائیں گے۔اور اُن پر عجیب عجیب ہموم و امراض نازل کریں گے اور اُن کی معیشت تنگ کردیں گے اور اُن پر مصائب پر مصائب ڈالیں گے اور کوئی انہیں بچانیوالا نہیں ہوگا۔
پس اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ سلوک کیا۔ غموں ‘ قرضوں اور حاجات کے بوجھ سے ان کی پیٹھیں توڑ دیں۔ اور ان پر قِسم قِسم کے مصائب اور آفات نازل کئے اور موت فوت کے دروازے ان پر کھول دیئے تاکہ وہ باز آئیں۔ اور غفلت کو چھوڑ دیں۔ لیکن ان کے دل سخت ہوگئے پس وہ نہ سمجھے اور نہ بیدار ہوئے اور نہ ہی اُنہیں کوئی خوف لاحق ہوا۔
اور جب نشان کے ظہور کا وقت آیا۔ تو ان ایام میں ایسا اتفاق ہوا۔ کہ ان لوگوں کے ایک نہایت ہی قریبی رشتہ دار نے جس کا نام احمد بیگ تھا۔ ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین پر قبضہ کرلے۔ جس کا خاوند کئی سالوں سے مفقود الخبرہوگیا تھا۔
1 یعنی مرزا احمدبیگ ہوشیارپوری۔ (مرتّب )
ہمارے خط کے مکتوب الیہ نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرادیں۔ چنانچہ اُن کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضامندی کے بیکار تھا اس لئے مکتوب الیہ نے بتمام تر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا۔ تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کردیں۔ اور قریب تھا کہ دستخط کردیتے‘ لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدّت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جناب الٰہی میں استخارہ کرلینا چاہئے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا۔ پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا۔ وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آپہنچا تھا۔ جس کو خدائے تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کردیا۔
اُس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح1کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور اُن کو کہدے
1 وَاُنْبِئْتُ مِنْ اَخْبَارٍ مَّاذَھَبَ وَھْلِیْ قَطُّ اِلَیْھَا وَمَا کُنْتُ اِلَیْھَا مِنَ الْمُسْتَدْنِیْنَ۔ فَاَوْحَی اللّٰہُ اِلَیَّ اَنِ اخْطُبْ صَبِیَّتَۃُ الْکَبِیْرَۃَ لِنَفْسِکَ۔ وَقُلْ لَّہ‘ لِیُصَاھِرْکَ اَوَّلًا ثُمَّ لْیَقْتَبِسْ مِنْ قَبَسِکَ۔ وَقُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ لِاَھَبَکَ مَاطَلَبْتَ مِنَ الْاَرْضِ وَاَرْضًا اُخْرٰی مَعَھَاوَاُحْسِنَ اِلَیْکَ بِاِحْسَانَاتٍ اُخْرٰی عَلٰی اَنْ تُنْکِحَنِیْ اِحْدٰی بَنَاتِکَ الَّتِیْ ھِیَ کَبِیْرَتُھَا۔ وَذَالِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ۔ فَاِنْ قَبِلْتَ فَسَتَجِدُ نِیْ مِنَ الْمُتَقَبِّلِیْنَ۔ وَاِنْ لَّمْ تَقْبَلْ فَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اِنْکَاحَھَارَجُلاً اٰخَرَ لَایُبَارَکُ لَھَا وَ لَالَکَ فَاِنْ لَّمْ تَزْدَجِرْ فَیُصَبُّ عَلَیْکَ مَصَآئِبُ وَاٰخِرُ الْمَصَآئِبِ مَوْتُکَ فَتَمُوْتُ بَعْدَالنِّکَاحِ اِلٰی ثَلَاثِ سِنِیْنَ۔ بَلْ مَوْتَکَ قَرِیْبٌ وَّیَرِدُعَلَیْکَ وَاَنْتَ مِنَ الْغَافِلِیْنَ وَکَذَالِکَ یَمُوْتُ بَعْلُھَاالَّذِیْ یَصِیْرُ زَوْجَھَا اِلٰی حَوْلَیْنِ وَسِتَّۃِ اَشْھُرٍ قَضَآئً مِّنَ اللّٰہِ فَاصْنَعْ مَآ اَنْتَ صَانِعُہ‘ وَاِنِّیْ لَکَ لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ............ ثُمَّ کَتَبْتُ اِلَیْہِ مَکْتُوْبًا بِاِیْمَآئِ مَنَّانِیْ وَ اِشَارَۃِ رَحْمَانِی..........وَھَآ اَنَا کَتَبْتُ مَکْتُوْبِیْ ھٰذَا مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ لَا عَنْ اَمْرِی فَاحْفَظْ مَکْتُوْبِیْ ھٰذَا فِیْ صَنْدُوْقِکَ فَاِنَّہ‘ مِنْ صُدُوْقٍ آمِیْنٍ وَاللّٰہ یَعْلَمُ اَنَّنِیْ فِیْہِ صَادِقٌ وَکُلُّ مَا وَعَدْتُّ فَھُوَمِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَا قُلْتُ اِذْ قُلْتُ وَلٰکِنْ اَنْطَقَنِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِاِلْھَامِہٖ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر5 صفحہ572 تا 574)
(ترجمہ از مرتب) مجھے ایسے امور پر اطلاع دی گئی ‘ جن کی طرف کبھی میرا وہم بھی نہ گیا تھا اور نہ اُن کا مجھے کچھ پتہ تھا۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعہ سے حکم دیاکہ اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کر۔ اور اُسے کہہ۔ کہ پہلے وہ تم سے مصاہرت کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد وہ تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے۔ نیز اُسے کہہ کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو زمین تم نے مانگی ہے ‘ وہ میں تمہیں دے دوں۔ اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی۔ نیز تم پر اور کئی رنگ میں احسانات کروں بشرطیکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا رشتہ مجھ سے کردو۔ اور یہ تمہارے اور میرے درمیان ایک عہدو پیمان ہے جسے اگر تم قبول کروگے تو مجھے بہترین طور پر اسے قبول کرنے والا پاؤ گے۔ اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا
کہ تمام سلوک اور مروّت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا۔ اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار 20فروری1886ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی بُرا ہوگا۔ اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دُختر کا تین سال تک فوت ہوجائیگا۔ تین سال تک فوت ہونا روزِ نکاح کے حساب سے ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے۔ بلکہ بعض مکاشفات کے رُو سے مکتوب الیہ کا زمانہ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں۔ نزدیک1 پایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی۔ اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔
پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کررکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجامِ کار اِسی عاجز کے نکاح میں لادے گا اور بے دینوی کو مسلمان بنادے گا۔ اور گمراہوں میں ہدایت پھیلادے گا۔ چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے:۔
کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ ط فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَیَرُدُّ ھَآ اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ ط اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَا مَعَکَ۔ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا۔
یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا۔ اور وہ پہلے سے ہنسی کررہے تھے۔ سو خدائے تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا۔ اور انجام کار اُس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہوجاتا ہے تُو میرے
بقیہ حاشیہ:۔ ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہوگا نہ تمہارے حق میں۔ اور اگر تم اپنے ارادے سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے۔ اور آخر میں تمہاری موت ہوگی۔ اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مرجاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے اور وہ موت ایسے حال میں آئیگی کہ تو غافل ہوگا اور ایسا ہی اُس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مرجائیگا۔ یہ قضاء الٰہی ہے پس تم جو چاہو کرو میں نے تم کو نصیحت کردی ہے............پھر میں نے اُسے اللہ تعالیٰ کے اشارہ سے خط لکھا...............(اور اُسے یہ بھی لکھا کہ) لو میں نے یہ خط خدا کے حکم سے لکھا ہے اپنی رائے سے نہیں لکھا۔ پس اس خط کو اپنے صندوق میں محفوظ رکھ کہ یہ نہایت ہی سچّے امین کی طرف سے ہے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس معاملہ میں سچا ہوں اور جو وعدہ میں نے کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں نے نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھے بلوایا ہے۔
1 اس پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری 30ستمبر 1892ء کو بمقام ہوشیار پور فوت ہوگیا۔ (مرتب)
ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی۔ یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنّی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں۔ اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں۔ لیکن آخر کار خدائے تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی۔‘‘
(اشتہار10جولائی1888ء ۔ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 115 تا 117۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 157 تا159)
(ج) ’’1فَمِنْھَا مَا وَعَدَنِیْ رَبِّیْ فِیْ عَشِیْرَتِیَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ اِنَّھُمْ کَانُوْا یُکَذِّ بُوْنَ بِاٰیَآتِ اللّٰہِ وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِئُ وْنَ۔ وَیَکْفُرُوْنَ بِااللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔ وَقَالُوْا لَا حَاجَۃَ لَنَا اِلَی اللّٰہِ وَلَآ اِلٰی کِتَابِہٖ وَلَآ اِلٰی رَسُوْلِہٖ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ۔ وَقَالُوْا لَا نَتَقَبَّلُ اٰیَۃً حَتّٰی یُرِیَنَا اللّٰہُ اٰیَۃً فِیْ اَنْفُسِنَا وَ اِنَّالَا نُؤْمِنُ بِالْفُرْقَانِ وَلَا نَعْلَمُ مَا الرِّسَالَۃُ وَمَا الْاِیْمَانُ وَاِنَّا مِنَ الْکَافِرِیْنَ۔ فَدَعَوْتُ رَبِّیْ بِالتَّضَرُّعِ وَالْاِبْتِھَالِ وَمَدَدْتُّ اِلَیْہِ اَیْدِی السُّؤَالِ فَاَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ
سَاُرِیْھِمْ اٰیَۃً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ
وَاَخْبَرَنِیْ وَقَالَ
اِنَّنِیْ سَاَجْعَلُ بِنْتًا مِّنْ بَنَاتِھِمْ اٰیَۃً لَّھُمْ
فَسَمَّاھَاوَقَالَ
اِنَّھَا سَیُجْعَلُ☆ ثَیِّبَۃً وَّیَمُوْتُ بَعْلُھَاوَ اَبُوْھَا اِلٰی ثَلٰثِ سَنَۃٍ مِّنْ یَّوْمِ النِّکَاحِ۔ ثُمَّ نَرُدُّ ھَا اِلَیْکَ بَعْدَ مَوْتِھِمَا وَلَا یَکُوْنُ اَحَدُھُمَا مِنَ الْعَاصِمِیْنَ۔
1 (ترجمہ از مرتب) پس منجملہ ان نشانات کے ایک وہ نشان ہے جو میرے رب نے میرے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں وعدہ کیا۔ وہ الٰہی نشانات کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ اور اس کی کتاب کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے رسول خاتم النبیینؐ کی حاجت ہے اور یہ بھی کہتے کہ ہم کوئی نشان اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک کہ خدا ہمیں اپنے آدمیوں میں کوئی نشان دکھائے اور ہمیں تو ان پر کوئی ایمان نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ رسالت اور ایمان کیا ہے۔ ہم ان کے منکر ہیں۔ تب میں نے اپنے ربّ سے تضرّع اور عاجزی کے ساتھ دُعا کی اور اس کی طرف سوال کا ہاتھ بڑھایا۔ تو میرے ربّ نے الہام کیا۔ اور فرمایا
میں انہیں اُن کے اپنے آدمیوں میں نشان دکھاؤں گا
اور بتایا کہ میں اُن کی ایک لڑکی کو اُن کے حق میں نشان بناؤں گا۔ اور اس کی تعیین کی اور فرمایا کہ وہ بیوہ ہوجائیگی اور اس کا خاوند اور اس کا باپ روزِ نکاح سے تین سال کے اندر اندر مرجائیں گے اور اُن کی موت کے بعد اُسے تیری
☆ غالباً سہوِکاتب ہے۔ سَتُجْعَلُ چاہیئے۔ واللہ اَعلم۔ (مرتّب)
وَقَالَ
اِنَّا رَآدُّوْھَآ اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔
(کرامات الصادقین ٹائٹل پیج آخری ورق۔ روحانی خزائن جلد نمبر7 صفحہ 162)
1888ء
’’اشتہار دہم جولائی 18871کی پیشگوئی کا انتظار کریں۔ جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے:۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ۔ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہ‘ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۔ زَوَّجُنَا کَھَا لَامُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِیْ۔ وَاِنْ یَرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔
اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے۔ کہہ ہاں مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح 2باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا۔ اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے۔ اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے۔‘‘
(اشتہار 27دسمبر 1891ء ملحق بہ آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4صفحہ 350۔
نیز تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ85، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 301)
جولائی1888ء
الہام3.......فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ........کی تفصیل مکرر توجہ سے یہ کھلی ہے کہ خدائے تعالیٰ ہمارے کُنبے اورقوم میں ایسے تمام لوگوں پر کہ جو اپنی بے دینی اور بدعتوں کی حمایت کی و جہ سے پیشگوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کریگا اور ان سے لڑیگا اور انہیں انواع و اقسام کے عذابوں میں مبتلا کردے گا اور وہ مصیبتیں اُن پر اتاریگا جن کی ہنوز اُنہیں خبر نہیں۔ اُن میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو
طرف لوٹائیں گے اور ان میں سے کوئی اسے بچا نہیں سکے گا۔ اور فرمایا کہ ہم اُسے تیری طرف لَوٹائیں گے اللہ تعالیٰ کی باتیں ٹل نہیں سکتیں تمہارا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
1 دراصل جولائی 1888ء ہے اور1887ء سہو کتابت ہے۔ (مرتب)
2 ’’یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے۔یہ درست ہے۔ مگر جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط یہ بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ ہے کہ اَیَّتُھَاالْمَرْئَ ۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآئَ عَلٰی عَقِبِکِ۔ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کردیا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ132،133۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 570)
3 مندرجہ اشتہار مؤرخہ دہم جولائی 1888ء۔ (مرتب)
اِس عقوبت سے خالی رہے کیونکہ انہوں نے نہ کسی اور و جہ سے بلکہ بے دینی کی راہ سے مقابلہ کیا۔ ‘‘
(اشتہار پانزدہم جولائی 1888ء مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 160، 161)
1888ء
’’ہمیں اس1 رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی، سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کردیا تھا۔ اولاد بھی عطا کی اور اُن میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ2ہوگا۔ بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدّت تک وعدہ دیا جس کا نام محمودؔ احمدؐ ہوگا اور اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا۔‘‘
(اشتہار 51؍جولائی 8881ء تتمہ اشتہار دہم جولائی 8881ء)
اگست 1888ء
اللہ جلّ شانہ‘ نے مجھے خبر دی کہ
یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ صُلَحَآئُ الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ۔ وَتُصَلِّیْ عَلَیْکَ الْاَرْضُ وَالسَّمَآئُ۔ وَیَحْمَدُکَ اللّٰہُ عَنْ عَرْشِہٖ۔3
(از مکتوب حضرت اقدس ؑ مؤرخہ اگست1888ء مندرجہ الحکم جلد 5نمبر32مؤرخہ 31اگست 1901ء صفحہ6 کالم نمبر2)
1888ء
’’بارہا غوث اورقطب وقت میرے پر مکشوف کئے گئے جو میری عظمت مرتبت پر ایمان لائے ہیں‘ اور لائیں گے۔‘‘
(از مکتوب حضرت اقدس ؑ مؤرخہ اگست1888ء مندرجہ الحکم جلد 5نمبر32مؤرخہ 31اگست 1901ء صفحہ6 کالم نمبر2)
1 یعنی محمدی بیگم بنت مرزا احمد بیگ کے رشتہ کی۔ (مرتب)
2 یعنی بشیر اوّل جو 7اگست1888ء کو پیدا ہوا۔ اور4نومبر1888ء کو فوت ہوگیا اور ا س کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’دین کا چراغ‘‘ لکھا ہے یہ اُس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ابھی آپ پر یہ بات نہیں کھُلی تھی کہ20فروری1886اء والے الہام میں دراصل دو لڑکوں کی خبر دی گئی تھی۔ ایک وہ لڑکا جو مہمان کے طور پر آنے والا تھا اور اُس نے دوسرے لڑکے کیلئے بطور ارہاص کے ہونا تھا اور دوسرا وہ جو عمر پانے والا تھا اور بشیر اوّل کے لئے دین کے چراغ کا لفظ اُس کی ذاتی استعدادات کی بناء پر استعمال کیا گیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے صاحبزادے ابراہیم کے متعلق فرماتے ہیں۔ لَوْعَاش اِبْرَاھِیْمُ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔ یعنی اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو وہ ایسی استعداد رکھتا تھا کہ نبی ہوجاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 20فروری 1886ء والے الہام کی تشریح اپنے یکم دسمبر 1888ء والے ’’سبز اشتہار‘‘ میں فرمادی ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) تجھ پر عربؔ کے صلحاء اور شامؔ کے ابدال درود بھیجیں گے۔ زمین و آسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ عرش سے تیری تعریف کرتا ہے۔
1888ء
’’اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی‘ وہ جہنمی ہے۔‘‘
(از مکتوب حضرت اقدس ؑ مؤرخہ اگست1888ء مندرجہ الحکم جلد 5نمبر32مؤرخہ 31اگست 1901ء صفحہ6 )
1888ء
’’یہ بات کھُلی کھُلی الہام الٰہی نے ظاہر کردی کہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے وہ بے فائدہ نہیں آیا تھا۔ بلکہ اُس کی موت اُن سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوگی۔ جنہوں نے محض لِلّٰہ اُس کی موت سے غم کیا۔ اور اُس ابتلاء کی برداشت کرگئے کہ جو اُس کی موت سے ظہور میں آیا۔‘‘
(سبز اشتہار صفحہ 16،17 حاشیہ۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ136،137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179)
1888ء
’’اس1کی موت کی تقریب پر بعض مسلمانوں کی نسبت یہ الہام ہوا:۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۔ وَقَالُوْا تَا للّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْھَالِکِیْنَ۔ شَاھَتِ الْوُجُوْہُ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ۔ اِنَّ الصَّابِرِیْنَ یُوَفّٰی لَھُمْ اَجْرُھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔
اب خداتعالیٰ نے اِن آیات میں صاف بتلادیا کہ بشیر کی موت لوگوں کی آزمائش کے لئے ایک ضروری امر تھا۔ اور جو کچے تھے وہ مصلح موعود کے ملنے سے نا اُمید ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ تُو اسی طرح اس یوسف کی باتیں ہی کرتا رہیگا۔ یہاں تک کہ قریب مرگ ہوجائیگا۔ یا مرجائیگا۔ سو خدا تعالیٰ نے مجھے فرمادیا کہ ایسوں سے اپنا منہ پھیر لے جب تک وہ وقت پہنچ جائے۔ اور بشیر ؔ کی موت پر جو ثابت قدم رہے اُن کے لئے بے اندازہ اجر کا وعدہ ہوا۔ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں۔ اور کوتہ بینوں کی نظر میں حیرتناک۔‘‘
(مکتوب 4دسمبر1888ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد 5 نمبر 5 صفحہ49،50)
1888ء
’’2 اِنّ لِیْ کَانَ اِبْنًا صَغِیْرًا وَّکانَ اسْمُہ‘ بَشِیْرًا فَتَوَفَّاہُ اللّٰہُ فِیْ اَیَّامِالرِّضَاعِ۔ وَاللّٰہُ خَیْرٌ
1 یعنی بشیر اوّل کی موت۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) میرا ایک لڑکا جس کا نام بشیر احمد تھا۔ شیر خوارگی کے ایام میں فوت ہوگیا۔ اور حق یہ ہے کہ جن لوگوں نے تقویٰ اور خشیت ِ الٰہی کے طریق کار کو اختیارکرلیا ہو۔ اُن کی نظر اللہ تعالیٰ پر ہی ہوتی ہے اس وقت مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم محض اپنے فضل اور احسان سے وہ تجھے واپس دینگے (یعنی اس کا مثیل عطا ہوگا۔ سو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا بیٹا عطا کیا۔)
وَّاَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰثَرُوْا سُبُلَ التَّقْوٰی وَالْاِرْتِیَاعِ فَاُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّیْ۔ اِنَّانَرُدُّہ‘ اِلَیْکَ تَفَضُّلاً عَلَیْکَ۔‘‘ (سِرّالخلافہ صفحہ53۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 381)
1888ء
(ا) ’’خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائیگا۔ جس کا نام محمود بھی ہے۔ وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا۔ یَخْلُقُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ۔‘‘
(سبز اشتہار مؤرخہ یکم دسمبر1888ء صفحہ 17 حاشیہ و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179)
(ب) ’’ ایک الہام میں اس دوسرے فرزند کا نام بھی بشیرؔ رکھا۔ چنانچہ فرمایا کہ
دُوسرا بشیر تمہیں دیا جائےگا
یہ وُہی بشیرؔ ہے جس کا دوسرا نام محمودؔہے جس کی نسبت فرمایا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ یَخْلُقُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ۔‘‘ (مکتوب 4؍دسمبر1888ءبنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ۔ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر5 صفحہ50)
(ج) ’’خدائے عزّوجلّ نے ............. اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا۔ جس کا نام محمود ؔ بھی ہوگا اور ا س عاجز کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ12جنوری1889ء۔ تبلیغِ رسالت جلد اوّل صفحہ 147،148۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحۃ 191)
1888ء
’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمودؔ ہے۔ ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ
محمود
تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھپایا۔ جس کی تاریخ اشاعت یکم دسمبر 1888ء ۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 40، روحانی خزائن جلد نمبر15 صفحہ214)
1888ء ’’ مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا ؎
اےفخر رُسل قُرب تو معلومم شد :: دیر آمدۂٖ زراہِ دُور آمدۂٖ 1
(اشتہارتکمیل تبلیغ مؤرخہ 12؍جنوری1889ء و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ148، 149حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191۔ 193)
1 (ترجمہ از مرتب) اے رسُولوں کے فخر تیرا خدا کے نزدیک مقام قرب مجھے معلوم ہوگیا تُو دیر سے آیا ہے (اور) دُور کے راستہ سے آیا ہے۔
1888ء
(الف) ’’ خدائے تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا۔ کہ 20فروری1886ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی۔ اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ پہلے بشیرؔ کی نسبت پیشگوئی ہے۔ کہ جو رُوحانی طور پر نزولِ رحمت کا موجب ہوا۔ اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیرؔ کی نسبت ہے۔‘‘
(سبز اشتہار یکم دسمبر1888ء صفحہ17 حاشیہ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ137۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 179)
(ب) ’’اور یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ جس پیشگوئی کا ذکر ہوا ہے۔ وہ مصلح موعود کے حق میں ہے کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفّٰی کے حق میں ہیں۔ اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے۔ وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گاپس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل ؔ رکھا گیا۔ اور نیز دوسرا نام اُس کا محمودؔ ہے اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے۔ اور ایک الہام میں اُس کا نام فضل ِ عمر ظاہر کیاگیا ہے۔ اور ضرور تھا کہ اُس کا آنا معرضِ التوا میں رہتا۔ جب تک یہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے۔ پیدا ہوکر پھر واپس اُٹھایا جاتا۔ کیونکہ یہ سب امور حکمت ِ الٰہیہ نے اُس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے۔ اور بشیر اوّل جو فوت ہوگیا ہے۔ بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا اِس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا۔‘‘1
(سبز اشتہار صفحہ12 حاشیہ و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ141،142)
1 مؤرخہ12؍جنوری1889ء کو جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ پیدا ہوئے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی پیدائش کی اطلاع اس اشتہار کے ذریعہ جس کا عنوان ’’تکمیل تبلیغ‘‘ تھا۔ یوں شائع فرمائی۔ خدائے عزّوجلّ نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی 1888ء اور اشتہار یکم دسمبر1888ء میں مندرج ہے اپنے لطف وکرم سے وعدہ دیا تھا۔ کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دُوسرا بشیر دیا جائیگا۔ جس کا نام محمود بھی ہوگا اور اِس عاجز کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے ‘ پیدا کرتا ہے۔ سو آج 12؍جنوری1889ء میں مطابق 9جمادی الاوّل1306ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہوگیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی۔ مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے۔ یا وہ کوئی اور ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا۔ اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا۔ تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا۔ اور اگر مدّتِ مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا۔ تو خدائے عزّوجلّ اُس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے۔ مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر جاری ہوا تھا ؎
اے فخر رسل قرب تو معلومم شد :: دیر آمدۂٖ زراہِ دُور آمدۂٖ
1888ء
(الف) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت ِ مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے
بقیہ حاشیہ:
پس اگر حضرت باری جلّ شانہ‘ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاؤل بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی۔ تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو ورنہ وہ بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آئے گا۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مطابق 12جنوری1889ء۔ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ147 ۔ 149حاشیہ۔ مجموعہ اشتہارات جلداوّل صفحہ 191، 192)
اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو ہی قرار دیا۔ اور تفاؤل کے طور پر نام بھی بشیر الدین محمود رکھا۔ مگر کامل انکشاف کے بعد صحیح اطلاع دینے کا وعدہ فرمایا۔ سو حضور علیہ السلام ایفائے عہد فرماتے ہیں اور اس امر کے متعلق مختلف کتب میں اطلاع دیتے ہیں۔
(الف) ’’محمود جو بڑا لڑکا ہے۔ اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی مع محمود نام کے موجود ہے جو پہلے لڑکے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا۔ جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجامِ آتھم صفحہ 15 مطبوعہ1897ء۔ روحانی خزائن جلد نمبر11 صفحہ 299)
(ب) ’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمودؔ کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اَب پیدا ہوگا۔ اور اُس کا نام محمود رکھا جائیگا۔ اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اَب تک موجود ہیں۔ اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا۔ اور اب نویں سال میں ہے۔‘‘
(سراج منیر صفحہ 31مطبوعہ1897ء ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 12 صفحہ 36)
(ج) ’’محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی1888ء اور نیز اشتہار یکم دسمبر1888ء میں جو سبز اشتہار کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا پیشگوئی کی گئی۔ اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمودؔ رکھا جائے گا۔ پھر جبکہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی.......تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے12جنوری1889ء کو بمطابق9جمادی الاوّل1306ھ میں بروز شنبہ محمود ؔپیدا ہوا۔ ‘‘
(تریاق القلوب صفحہ42، روحانی خزائن جلد نمبر15، صفحہ 219)
مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ12جنوری1889ء کے حاشیہ میں خیال ظاہر فرمایا تھا۔ اور بعض دوسرے مقامات پر بھی اشتہارات کئے ہیں۔ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں پوری ہوئی۔ چنانچہ جملہ واقعات اور کوائف اس پر شاہد ہیں۔ اور خود حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے صراحت کے ساتھ اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ چنانچہ حضور نے 28جنوری1944ء
بیعت1کریں۔
پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں اُنہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں اُن کا غمخوار ہوں گا۔ اور اُن کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا۔ اور خدا تعالیٰ میری دُعا اور میری توجہ میں اُن کے لئے برکت دیگا۔ بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان تیار ہوں گے۔ یہ ربّانی حکم ہے۔ جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔ اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے:۔
2 اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا۔ اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔‘‘
(یکم دسمبر1888ء سبز اشتہار صفحہ24 و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ145۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 188)
(ب) ’’اُس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا۔ کہ زمین میں طوفانِ ضلالت برپا ہے۔ تو اِس طوفان کے وقت میں یہ کشتی طیّار کر۔ جو شخص اِس کشتی میں سوا رہوگا و ہ غرق ہونے سے نجات پاجائے گا اور جو انکار میں رہے گا۔ اُس کے لئے موت درپیش ہے۔
اورفرمایا کہ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا۔ اُس نے تیرے ہاتھ میں نہیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ42،43مطبوعہ بار اوّل دسمبر و جنوری1890-91ء۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ24، 25)
1889ء
’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا.......کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ حاضر
بقیہ حاشیہ: بروز جمعتہ المبارک خطبہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم پاکر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا۔ حضور فرماتے ہیں:۔
(الف) ’’خداتعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت آخر اس امر کو ظاہر کردیا۔ اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں۔‘‘
(ب) ’’آج پہلی دفعہ میں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں۔ اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے۔‘‘
(الفضل یکم فروری1944ء)
1 بیعت ِ اولیٰ لدھیانہ میں 20رجب 1306ھ مطابق23مارچ 1889ء بروز شنبہ کو ہوئی۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) جب تو عزم کرلے۔ تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے ماتحت نظام جماعت کی کشتی طیّار کر (جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے) جو لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ وہ دراصل خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا۔
(ازالہ اوہام صفحہ 855۔ روحانی خزائن جلد 3صفحۃ 565)
ہوجاؤ۔ اور اپنے ربّ کریم کو اکیلا مت چھوڑو۔ جو شخص اُسے اکیلا چھوڑتا ہے وہ اکیلا چھوڑا جائے گا۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مؤرخہ 12جنوری1889ء و تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ148، 149۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191، 192)
مارچ 1889ء
’’مجھے معلوم ہوا ہے۔ کہ بعض فوائد و منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدّر ہیں۔ اِس انتظام پر موقوف ہیں۔ کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مُبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی طورمع کسی قدر کیفیّت کے (اگرممکن ہو) اندارج پاویں۔
(اشتہار گذارش ضروری مؤرخہ 4اپریل 1889ء مشمولہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ845،846۔
روحانی خزائن جلد نمبر3، صفحہ 558، مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 193)
1889ء
’’یہ انتظام جس کے ذریعہ سے راستبازوں کا گروہ ایک ہی سلک میں منسلک ہوکر وحدت مجموعی کے پیرایہ میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہوگا۔ وہ اپنی سچائی کی مختلف المخرج شعاعوں کو ایک ہی خط ِ ممتد میں ظاہر کرے گا۔ خداوند عزّوجلّ کو بہت پسند آیا ہے۔‘‘
(اشتہار گذارش ضروری مؤرخہ 4مارچ1889ء مشمولہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ847۔
روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 559۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 194)
1889ء
’’خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں او راس ناچیز کی توجہ کو ان کی1پاک استعدادوں کے ظہور و برُوز کا وسیلہ ٹھہرادے۔ اور اس قدوس جلیل الذّات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہوجاؤں۔‘‘
(اشتہار گذارش ضروری مؤرخہ4 مارچ18891ء مشمولہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ850،
روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ562۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 197)
مارچ 1889ء
’’ منجملہ ان نشانوں کے جو پیشگوئی کے طور پر ظہور میں آئے وہ پیشگوئی ہے جو میں نے اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی ضلع گوجرانوالہ کے متعلق کی تھی..........اور وہ یہ ہے.........کہ قاضی صاحب آپ کو ایک سخت
1 یعنی بیعت کرنے والوں کی۔ (مرتب)
ابتلاء پیش آنے والا1ہے۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ 351 نشان نمبر 47۔ روحانی خزائن جلد15صفحہ 472)
1889ء
’’ایک دفعہ مجھے علی گڑھ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اور مرض ضعف دماغ کی و جہ سے جس کا قادیان میں بھی کچھ مدّت پہلے دورہ رہ چکا تھا۔ میں اس لائق نہیں تھا کہ زیادہ گفتگو یا اور کوئی دماغی محنت کاکام کرسکتا.....اس حالت میں علی گڑھ کے ایک مولوی صاحب محمد اسمٰعیل نام مجھ سے ملے اور انہوں نے نہایت انکساری سے وعظ کیلئے درخواست کی.....میں نے اس درخواست کو بشوقِ دل قبول کیا۔ اور چاہا کہ لوگوں کے عام مجمع میں اسلام کی حقیقت بیان کروں.... لیکن بعد اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روکا گیا۔
مجھے یقین ہے کہ چونکہ میری صحت کی حالت اچھی نہیں تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ زیادہ مغزخواری کرکے کسی جسمانی بلا میں پڑوں۔ اس لئے اُس نے وعظ کرنے سے مجھے روک دیا۔
ایک دفعہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی اتفاق ہوا تھا کہ میری ضعف کی حالت میں ایک نبی گذشتہ نبیوں میں سے کشفی طور پر مجھ کو ملے اور مجھے بطور ہمدردی اور نصیحت کے کہا کہ اس قدر دماغی محنت کیوں کرتے ہو۔ اس سے تو تم بیمار ہوجاؤ گے۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ 27،28 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 17، 18)
دسمبر 1890ء
کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اِس مسیح کے
جس کی مماثلت کو خدا نے بتادیا
حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب
خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا
(ٹائٹل رسالہ فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ1)
1890ء
’’حضرت عالی سیدنا و مولانا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بطور پیشگوئی فرماچکے ہیں۔ کہ اِس اُمّت پر ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں وہ یہودیوں سے سخت درجہ کی مشابہت پیدا کرلے گی..... تب فارسؔ کی اصل میں سے ایک ایمان کی تعلیم دینے والا پیدا ہوگا۔ اگر ایمان ثریّاؔ میں معلّق ہوتا ‘ تو وہ اُسے اس جگہ سے بھی پالیتا۔ یہ پیشگوئی
1 یہ پیشگوئی حضور ؑ نے اس وقت فرمائی جبکہ قاضی صاحب لدھیانہ میں حضورؑ کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ اور پھر جس طرح یہ ابتلاء پیش آیا۔ اور پیشگوئی پوری ہوئی اس کی تفصیل قاضی صاحب موصوف نے اپنے خط میں درج کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجی۔ چنانچہ حضور ؑ نے اس خط کو بھی اسی کتاب تریاق القلوب میں درج فرما دیا۔ تفصیل وہاں دیکھ لی جاوے۔ (مرتب)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جس کی حقیقت الہام الٰہی نے اِس عاجز پر کھول دی اور تصریح سے اُس کی کیفیت ظاہر کردی اور مجھ پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے کھول دیا کہ حضرت مسیح بن مریم بھی درحقیقت ایک ایمان کی تعلیم دینے والا تھا جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد پیدا ہوا.....پس جبکہ اس اُمّت کو بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے عہد پر چودہ سو برس کے قریب مدّت گذری تو وہی آفات ان میں بھی بکثرت پیدا ہوگئیں جو یہودیوں میں پیدا ہوئی تھیں۔ تا وہ پیشگوئی پوری ہو جو اِن کے حق میں کی گئی تھی۔ پس خدا تعالیٰ نے اِن کیلئے بھی ایک ایمان کی تعلیم دینے والا مثیلِ مسیح اپنی قدرتِ کاملہ سے بھیج دیا۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ13 ،15 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 9،10)
1890ء
’’ خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بشارت دی کہ
موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا
اور فرمایا کہ
جو لوگ خدا تعالیٰ کے مقر ّب ہیں ‘ وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجایا کرتے ہیں۔
اور فرمایا کہ
’’میں اپنی چمکار دکھلاؤنگا اور اپنی قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤنگا
پس میری اس دوبارہ زندگی سے مُراد بھی میرے مقاصد کی زندگی ہے۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ26 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 16 حاشیہ)
1890ء
’’ اس حکیم و قدیر نے اِس عاجز کو اصلاح خلائق کیلئے بھیج کر .....دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں1 پر امر تائید حق اور اشاعت ِ اسلام کو منقسم کردیا........... یہ پانچ طور کا سلسلہ جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا...........خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سب ضروری ہیں۔ اور جس اصلاح کے لئے اُس نے ارادہ فرمایا ہے۔ وہ اِصلاح بجز استعمال ان پانچوں طریقوں کے ظہور پذیر نہیں ہوسکتی۔‘‘ (فتح اسلام صفحہ17،18,43 ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 11,12 ،25،26)
1 یہ پانچ شاخیں ہیں۔ جن کی تفصیل حضور اقدس نے آگے اسی کتاب میں فرمائی ہے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے دوسری اشتہارات۔ تیسری مہمانخانہ اور مہمانوں کی خاطر مدارات۔ چوتھی مکتوبات اور پانچویں شاخ سلسلہ بیعت ہے تفصیل کے لئے دیکھئے فتح اسلام صفحہ181 تا41۔روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 12تا 25)۔ (مرتب)
1890ء
’’ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بے دین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دین متین کے الفاظ استعمال کئے۔ غیرت دینی کی و جہ سے کسی قدر اس عاجز نے وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ پر عمل کیامگر چونکہ وہ ایک شخص کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی اس لئے الہام ہوا کہ
تیرے بیان میں سختی بہت ہے۔ رِفق چاہئے رِفق۔‘‘
(مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد چہارم صفحہ6)
جنوری 1891ء
توضیح مرام 1
(توضیح مرام ٹائٹل پیج)
1891ء
’’فضل الرحمن2کی نسبت اس عاجز کو پہلے سے ظن نیک ہے ایک دفعہ اس کی نسبت
سَیُھْدٰی3
کا الہام ہوچکا ہے۔‘‘ (از مکتوب مؤرخہ 9رچ1891ء بنام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ و مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر2 صفحہ97)
1891ء
’’اللہ جلّ شانہ‘ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث ِ نبویہؐ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے۔‘‘
(از مکتوب بنام مولوی عبدالجبار صاحب۔ مؤرخہ11؍فروری1891ء و تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ159۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 207)
1891ء
’’ کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھے ہوئے دیکھا۔ کہ
میں اکیلا ہوں‘ اور خدا میرے ساتھ ہے۔‘‘
1 اس رسالہ توضیح مرام کا نام الہامی ہے۔ (مرتب)
2 مفتی فضل الرحمن صاحب داماد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ۔ (مرتب)
3 (ترجمہ از مرتب) وہ ضرور سیدھے راستہ پر ڈالا جائے گا۔
(نوٹ از عرفانی صاحب) مفتی فضل الرحمن صاحب کے رشتہ نکاح کے متعلق حضرت مولوی صاحب نے مشورہ پوچھا تھا.....حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مشورہ دیا اور الہام الٰہی نے اس کی تائید فرمائی (مکتوبات جلد پنجم نمبر2 صفحہ 98، 99)
اور اس کے ساتھ مجھے الہام ہوا۔
اِنِّیْ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ 1
سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کردیگا۔‘‘
(مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مکتوبات احمدیہ جلد چہارم صفحہ3)
11مارچ1891ء
’’شاید ایک ہفتہ ہوا۔ میں نے آپ2 کو خواب میں دیکھا۔ گویا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کیا کروں۔ تو میں نے آپ کو یہ کہا ہے ۔
خدا سے ڈر ۔ پھر جو چاہے کر۔‘‘
(مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بنام شیخ فتح محمد۔ مؤرخہ 18؍مارچ1891ء۔
مندرجہ الفضل جلد 31نمبر9 مؤرخہ8؍مئی1943ء صفحہ3)
1891ء
’’ہماری ایک لڑکی عصمت بی بی نام تھی۔ ایک دفعہ اس3کی نسبت الہام ہوا۔
کَرْمُ الْجَنَّۃِ دَوْحَۃُ الْجَنَّۃِ 4
تفہیم یہ تھی کہ وہ زندہ نہیں رہے گی۔ سو ایسا ہی ہوا۔ (نزول المسیح صفحہ 215روحانی خزائنجلدنمبر18صفحہ 593)
1891ء
’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں نعمت اللہ ولی کا وہ قصیدہ دیکھ رہا تھا جس میں اس نے میرے آنے کی بطور پیشگوئی خبر دی ہے اور میرا نام بھی لکھا ہے اور بتلایا ہے کہ تیرھویں صدی کے اخیر میں وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا اور میری نسبت یہ شعر لکھا ہے کہ
مہدیٔ وقت و عیسیٰ ٔ دوراں -:- ہر دورا شہسوار مے بینم
یعنی وہ آنے والا مہدی ؔبھی ہوگا اور عیسیٰ بھی ہوگا۔ دونوں ناموں کا مصداق ہوگا اور دونوں طور کے دعوے کرے گا۔
1 (ترجمہ از مرتب) میرے ساتھ میرا خدا ہے۔ وہ ضرور میرے لئے راستہ پیدا کردے گا۔
2 یعنی شیخ فتح محمد صاحب کو۔
3 نوٹ:۔سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 1۵1 سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبزادی عصمت بی بی کی وفات 1۹۸1ء میں ہوئی تھی اور یہ الہام اُس کی وفات سے پہلے کا ہے۔ (مرتب)
4 (ترجمہ از مرتب) انگور کی جنّتی بیل۔ جنت کا بڑا درخت۔
پس اِس اثناء میں کہ میں یہ شعر پڑھ رہا تھا عین پڑھنے کے وقت مجھے یہ الہام ہوا۔
از پئے آں محمد احسن را -:- تارکِ روزگار مے بینم1
یعنی میں دیکھتا ہوں کہ مولوی سید محمدؔ احسن امروہی اسی غرض کے لئے اپنی نوکری سے جو ریاست بھوپال میں تھی علیٰحدہ ہوگئے۔ تا خدا کے مسیح موعود کے پاس حاضر ہوں۔ اور اس کے دعوے کی تائید کے لئے خدمت بجالاوے۔ اور یہ ایک پیشگوئی تھی۔ جو بعد میں نہایت صفائی سے ظہور میں آئی۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ 333۔ روحانی خزائن جلد نمبر22 صفحہ 346)
1891ء
’’جب یہ آیتیں اُتریں کہ مشرکین رجس ہیں‘ پلید ہیں‘ شرّالبریّہ ہیں‘ سفہا ہیں اور ذریّت شیطان ہیں اور اُن کے معبود وقود النار اور حصب جہنّم ہیں تو ابوطاؔلب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے ! اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں۔ اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔ تُونے اُن کے عقلمندوں کو سفیہ قرار دیا اور اُن کے بزرگوں کو شرّالبریّہ کہا اور ان کے قابل ِ تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنّم اور وقود النار رکھا اور عام طور پر ان سب کو رِجس اور ذریّت شیطان اور پلید ٹھہرایا۔ میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجا ورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ اے چچا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہارِ واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔ اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اِس موت کو قبول کرتا ہوں۔ میری زندگی اِسی راہ میں وقف ہے۔ میں موت کے ڈر سے اظہارِ حق سے رُک نہیں سکتا۔
اور اے چچا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا۔ بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکامِ الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رُکوں گا۔ مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہوکر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔ یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذّت ہے کہ اس کی راہ میں دُکھ اُٹھاؤں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کررہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رِقّت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کرچکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طاؔلب کے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا۔ تُو اورہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے۔ جا اپنے کام میں
1 یہ الہامی شعر نمونہ پرچہ القادیان یکم ستمبر1902ء میں بھی درج ہے۔ لیکن پہلے مصرعہ میں’’ از پۓ آں محمد احسن را‘‘ کی بجائے ’’ از برائیش محمد احسن را ‘‘ لکھا ہے۔ اگر یہ راوی کے حافظہ کی غلطی نہیں ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس الہامی شعر کی دو قرأتیں ہیں۔ واللہ اعلم۔ (مرتب)
لگا رہ۔ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 16,18روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 110،111)
’’یہ سب مضمون ابوطالب کے قصہ کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے جو خدائے تعالیٰ نے اِس عاجز کے دل پر نازل کی۔ صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اِس عاجز کی طرف سے ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 18,19روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 111،112)
1891ء
’’صحیح مسلم میں جو لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید شرقی کے پاس اُتریں گے.......دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزیدؔ پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں......مجھ پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دمشق کے لفظ سے دراصل وہ مقام مراد ہے جس میں یہ دمشق والی مشہور خاصیت پائی جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ نے مسیح کے اُترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو اپنی روحانی حالت کی رُو سے مسیح سے اور نیز امام حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے کیونکہ دمشق پایۂ تخت یزید ہوچکا ہے اور یزیدیوں کا منصوبہ گاہ جس سے ہزار ہا طرح کے ظالمانہ احکام نافذ ہوئے۔ وہ دمشق ہی ہے....... سو خدا تعالیٰ نے اُس دمشق کو جس سے ایسے پُر ظلم احکام نکلتے تھے اور جس میں ایسے سنگ دل اور سیاہ دروں لوگ پیدا ہوگئے تھے اِس غرض سے نشانہ بنا کر لکھا کہ اب مثیل دمشق عدل اور ایمان پھیلانے کا ہیڈ کوارٹر ہوگا کیونکہ اکثر نبی ظالموں کی بستی میں ہی آتے رہے ہیں اور خدا تعالیٰ *** کی جگہوں کو برکت کے مکانات بناتا رہا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 63تا70 حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 138حاشیہ)
1891ء
’’قادیانؔ کی نسبت مجھے یہ بھی الہام ہوا کہ
اُخْرِجَ مِنْہُ الْیَزِیْدِ یُّوْنَ
یعنی اس میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ72 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 138 حاشیہ)
1891ء
(الف) ’’ایک صاف اور صریح کشف میں مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ ایک شخص حارثؔ نام یعنی حر ّ اث 1آنے والا ہے جو
1 حارث کے معنے زمیندار کے ہیں۔ اور حر ّاث ؔ سے مراد بڑا زمیندار ہے۔ اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں پائی جاتی ہے۔ (مرتب)
ابوداؤد کی کتاب میں لکھا ہے۔ یہ خبر صحیح ہے اور یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی درحقیقت یہ دونوں اپنے مصداق کے رُو سے ایک ہی ہیں۔ یعنی اِن دونوں کا مصداق ایک ہی شخص ہے۔ جو یہ عاجز ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 65حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 135)
(ب) ’’یہ پیشگوئی جو ابوداؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حر ّاث ماورائے نہر سے یعنی ثمر قند کی طرف سے نکلے گا۔ جو آلِ رسول کو تقویت دیگا جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہوگی۔ الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے۔ کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہوگا۔ دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں۔ اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 79 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 141حاشیہ)
1891ء
’’پھر وہ منصور1مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ
خوشحال ہے ۔ خوشحال ہے
مگر خدائے تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اُس کے پہچاننے سے قاصر رکھا۔ لیکن امید رکھتا ہوں۔ کہ کسی دوسرے وقت دکھایا جائے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ98،99حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 149)
1891ء
’’اس عبارت تک یہ عاجز پہنچا تھا کہ یہ الہام ہوا۔
قُلْ لَّوْ کَانَ الْآمْرُمِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدْتُّمْ فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔ قُلْ لَّوِاتَّبَعَ اللّٰہُ اَھْوَآئَ کُمْ لَفَسَدِتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَبَطَلَتْ حِکْمَتُہ‘۔ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَالْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔2
1 جس کا ذکر ابو داؤد کی حارث والی حدیث میں آتا ہے۔ یعنی حارث کی فوج کے مقدمۃ الجیش کا سردار جس کا نام حدیث میں منصور بیان ہوا ہے۔ اس کشف میں غالباً منصور سے مراد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ (مرتب)
2 (ترجمہ از مرتب) کہہ کہ اگر یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا۔ بلکہ غیر اللہ کی بناوٹ ہوتا۔ تو تم اس میں بہت اختلاف پاتے۔ کہہ کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے خیالاتِ باطلہ کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور ان کے اندر رہنے والی مخلوق میں فساد برپا ہوجاتا۔ اور حکمت الٰہی باطل ہوجاتی۔ اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے۔ کہہ کہ اگر سمندر میرے ربّ کی باتوں (کے لکھنے) کے لئے روشنائی بن جاتے تو میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجاتے۔ اگرچہ ہم اتنے ہی اور (سمندر) ان میں شامل
پھر اس کے بعد الہام کیا گیا کہ
اِن علماء نے میرے گھر کو بدل ڈالا۔ میری عبادت گاہ میں اِن کے چُولھے ہیں۔ میری پرستش کی جگہ میں ان کے پیالے اور ٹھوٹھیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اور چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کُتر رہے ہیں۔
(ٹھوٹھیاں وہ چھوٹی پیالیاں ہیں جن کو ہندوستانی میں سکوریاں کہتے ہیں عبادت گاہ سے مراد اس الہام میں زمانۂ حال کے اکثر مولویوں کے دل ہیں جو دُنیا سے بھرے ہوئے ہیں)۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 75،76حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 139، 140حاشیہ)
1891ء
’’کشفی حالت میں اِس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں، ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے۔ تب میں نےاُس شخص کو جو زمین پر تھا، مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چپ رہا اور اُس نے کچھ بھی جواب نہ دیا۔ تب میں نے اُس دُوسرے کی طرف رُخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اُسے میں نے مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے ۔ وہ میری اِس بات کو سُنکر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدا تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں۔ اُس وقت میں نے یہ آیت پڑھی۔ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئْۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 97,98 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 149حاشیہ)
1891ء
’ ’اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ جو بات اِس عاجز کی دعا کے ذریعہ سے ردّ کی جائے وہ کسی اَور سے قبول نہیں ہوسکتی اور جو دروازہ اس عاجز کے ذریعہ سے کھولا جائے وہ کسی اور ذریعہ سے بند نہیں ہوسکتا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 118حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 149حاشیہ)
1891ء
’’ اَنْتَ اَشَدُّ مُنَاسَبَۃً بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ خُلُقًا وَّ خَلْقًا وَّ زَمَانًا۔‘‘ 1
(ازالہ اوہام صفحہ 123،124۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 165)
بقیہ حاشیہ: کرکے انہیں بڑھاتے۔ کہہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
1 (ترجمہ از مرتب) تُو کیا بلحاظ اخلاق اور کیا بلحاظ صورت و خِلْقَتْ اور کیا بلحاظ زمانہ عیسیٰ ابن ِ مریم کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مناسبت او مشابہت رکھتا ہے۔
1891ء
’’خدا یتعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے۔ کہ میری ہی ذرّیّت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی۔ وہ آسمان سے اُترے گا۔ اور زمین والوں کی راہ سیدھی کردے گا۔ وہ اسیروں کو رُستگاری بخشے گا۔ اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقیّد ہیں‘ رہائی دے گا۔ فرزند1 دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَآئِ۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 155،156۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 180)
1891ء
’’چند روز کا ذکر ہے کہ اِس عاجز نے اِس طرف توجہ کی۔ کہ کیا اس حدیث کا جو اَلآیَاتُ بَعْدَالْمِأَتَیْنہے۔ ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا۔ پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کررکھی تھی اور وہ نام یہ ہے:۔
غلام احمد قادیانی
اس نام کے عدد پورے تیرہ سو1300ہیں اور اس قصبہ قادیانؔ میں بجز اِس عاجز کے اور کسی شخص کا نام غلام ؔاحمد نہیں۔ بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اِس عاجز کے تمام دنیا میں غلامؔ احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں اور اِس عاجز کے ساتھ اکثر یہ عادت اللہ جاری ہے کہ وہ سبحانہ‘ بعض اسرار اعداد حروف تہجی میں میرے پر ظاہر کردیتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ185، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 189،190)
1891ء
(الف) ’’ ایک دفعہ میں نے آدم کے سن پیدائش کی طرف توجہ کی۔ تو مجھے اشارہ کیا گیا کہ ان اعداد پر نظر ڈال۔ جو سورۃ العصر کے حروف میں ہیں کہ انہیں میں سے وہ تاریخ نکلتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ186۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 190)
(ب) ’’ خداتعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد ِ نبوّت ہے۔ یعنی تیئیس برس کا تمام و کمال زمانہ یہ کل مدّت گذشتہ زمانہ کے ساتھ ملا کر 4739 برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ
1 (ترجمہ از مرتب) فرزند دلبند ۔ بزرگ اور اقبال مند۔ حق اور رفعت کا مظہر گویا کہ خدا آسمان سے اُتر آیا ہے۔
علیہ وسلم کے روزِ وفات تک قمری حساب1سے ہیں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 93-95روحانی خزائن جلد نمبر17 صفحہ 251،252)
1891ء
’’ایک شخص کی موت کی نسبت خدا یتعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ
کَلْبٌ یَمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ
یعنی وہ کُتّا ہے اور کُتّے کے عدد پر مرے گا۔ جو باون 52 سال پر دلالت کررہے ہیں۔ یعنی اس کی عمر باون سال سے تجاوز نہیں کرے گی جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا۔ تب اُسی سال کے اندر اندر راہی مُلک بقا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ186،187۔ روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 190)
1891ء
’’ابھی تھوڑے دن گذرے ہیں کہ ایک مدقوق اور قریب الموت انسان مجھے دکھائی دیا اور اُس نے ظاہر کیا کہ میرا نام دین محمد ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ دین محمدی ہے جو مجسّم ہو کر نظر آیا ہے اور میں نے اس کو تسلّی دی کہ تو میرے ہاتھ سے شفا پاجائیگا۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 214، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 206)
1891ء
’’اور یہ جو میں نے مسمریزمی طریق کا عمل الترب1نام رکھا۔ جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک مشق رکھتے
1 اور شمسی حساب کے رُو سے4598 برس بعد آدم صفی اللہ حضرت نبیّنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے۔ ( تحفہ گولڑویہ صفحہ 92حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 17صفحہ 247)
2 ترب کے معنی لغت میں ہم عمر یا مثیل کے لکھے ہیں۔ مگر اس لفظ میں تراب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’وَامّا التراب فاعلم ان ھدا اللفظ ماخوذ من لفظ التِرب۔ وتِرب الشیٔ الذی خلق مع ذالک الشیٔ عنداھل العرب۔ وقال ثعلب ترب الشیٔ مثلہ وما شابہ شیئًا فی الحسن والبھائ۔ فعلی ھذین المعنیین سمی التراب ترابًا لکونھافِی خلقھا ترب السمآئ۔ فان الارض خلقت مع السمآء فی ابتداء الزمان۔ وتشا بھا فی انواع صنع اللّٰہ المنّان۔‘‘
(انجام آتھم صفحہ262، 263حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 11صفحہ 262،263)
(ترجمہ از مرتب) ’’لفظ تراب تِرب سے سے ماخوذ ہے اور عربوں کے نزدیک ترب الشیٔ کے معنی ہیں وہ چیز جو اس کے ساتھ پیدا ہو۔ اور ثعلب کا قول ہے کہ کسی چیز کی ترب وہ ہے جو خوبی میں اس کی مانند ہو۔ پس ان دونوں معنوں کی رُو سے مٹی کا نام تراب اس لئے رکھا گیا کہ وہ پیدائش میں آسمان کی ہم عمر یا مثیل ہے کیونکہ زمین ابتدائی زمانہ میں آسمان کے ساتھ ہی پیدا ہوئی ہے اور وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صنعت کے اقسام میں مشابہ ہیں۔‘‘
تھے۔ یہ الہامی نام ہے اور خدائے تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ عمل الترب ہے اور اِس عمل کے عجائبات کی نسبت یہ بھی الہام ہوا
ھٰذَا ھُوَا التِّرْبُ الذی لَا یَعْلَمُوْنَ
یعنی یہ وہ عمل الترب ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ312 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ259)
1891ء
’’ او رمجھے اُس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی اور اسی وقت کشفی طور پر یہ صداقت1 مذکورہ بالا میرے پر ظاہرکی گئی ہے۔ اور اسی مُعلّمِ حقیقی کی تعلیم سے میں نے وہ سب لکھا ہے۔ جو ابھی لکھا ہے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ376، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 259)
1891ء
’’اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی۔ یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی۔ بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیّت بھی کردی گئی۔ اُس وقت گویا یہ پیشگوئی1 آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے۔ تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنے ہونگے جو میں سمجھ نہیں سکا۔ تب اُسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا۔
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ
یعنی یہ بات تیرے ربّ کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ398،روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 306)
بقیہ حاشیہ:۔ پس اس رُو سے وحی الٰہی میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ علم زمینی ہے نہ کہ آسمانی۔ اسے وہی لوگ استعمال کرتے ہیں۔ جو رُوحانیت سے کم حصہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
اولیاء اور اہل سلوک کی تواریخ اور سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاملین ایسے عملوں سے پرہیز کرتے رہے ہیں۔ مگر بعض لوگ اپنی ولایت کا ایک ثبوت بنانے کی غرض سے یا کسی اور نیت سے ان مشغلوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 308 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 3۔ صفحہ 257 حاشیہ)
1 یعنی مَاقَتَلُوْوَمَاصَلَبُوْہُکی تفسیر۔ (مرتب)
2 یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری والی پیش گوئی۔ (مرتب)
1891ء
’’ خدا تعالیٰ نے آپ اپنے کلام میں میری طرف اشارہ کرکے فرمایا ہے:۔
نبی ناصری کے نمونہ پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ بندگانِ خدا کو بہت صاف کررہا ہے۔ اس سے زیادہ کہ کبھی جسمانی بیماریوں کو صاف کیا گیا ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ442، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 335)
1891ء
’’ ایک 1مدّت کی بات ہے جو اس عاجز نے خواب میں دیکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر مَیں کھڑا ہوں اور کئی لوگ مَر گئے ہیں یا مقتول ہیں اُن کو لوگ دفن کرنا چاہتے ہیں۔ اِسی عرصہ میں روضہ کے اندر سے ایک آدمی نکلا اور اُس کے ہاتھ میں ایک سرکنڈہ تھا اور وہ اُس سرکنڈہ کو زمین پر مارتا تھا اور ہر ایک کوکہتا تھا کہ تیری اِس جگہ قبر ہوگی۔ تب وہ یہی کام کرتا کرتا میرے نزدیک آیا اور مجھ کو دکھلا کر اور میرے سامنے کھڑا ہوکر روضۂ شریفہ کے پاس کی زمین پر اُس نے اپنا سرکنڈہ مارا اور کہا کہ تیری اس جگہ قبر ہوگی۔ تب آنکھ کھل گئی۔
اور میں نے اپنے اجتہاد سے اس کی تاویل کی کہ یہ معیّت معادی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ جو شخص فوت ہونے کے بعد روحانی طور پر کسی مقدس کےقریب ہوجائے۔ تو گویا اس کی قبر اُس مقدس کی قبر کے قریب ہوگی۔ واللہ اعلم وعِلْمُہ‘ اَحْکَم ُ۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ470،471۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 352)
1891ء
’’طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اُس پر بہرحال ایمان لاتے ہیں۔ لیکن اِس عاجز پر جو ایک رؤیامیں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنے رکھتا ہے کہ ممالک ِ مغربی جو قدیم سے ظلمت کفرو ضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منوّر کئے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصہ ملے گا۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 515, روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 376،377)
1891ء
’’میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈنؔ میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مُدلّل بیان سے اسلامؔ کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہوگا۔
سو مَیں نے اِس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ مَیں نہیں مگر میری تحریریں اِن لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز
1 چونکہ مدّت کی مقدار معلوم نہیں ہوسکی اسلئے اسے اس کے وقت ِ ذکر کی رعایت سے 1891ء کے نیچے ہی رکھا جاتا ہے۔ (مرتب)
صداقت کا شکار ہوجائیں گے۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ515،516۔ روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 377)
1891ء
’’اُس نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے۔ چنانچہ اُس کا الہام یہ ہے کہ
’’مسیح ابنِ مریم رسُول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے۔ وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً۔ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنْتَ عَلَی الْحَقِّ الْمُبِیْنِ۔ اَنْتَ مُصِیْبٌ وَّمُعِیْنٌ لِلْحَقِّ۔‘‘ 1 (ازالہ اوہام صفحہ 561،562۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 402 )
1891ء
’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ
تو مغلوب ہوکر یعنے بظاہر مغلوبوں کی طرح حقیر ہو کر پھر آخرغالب ہوجائے گا اور انجام تیرے لئے ہوگا اور ہم وہ تمام بوجھ تجھ سے اُتار لیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی۔ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید ‘ تیری عظمت‘ تیری کمالیّت پھیلادے۔ خدا تعالیٰ تیرے چہرے کو ظاہر کرے گا اور تیرے سایہ کو لمبا کردے گا۔ دُنیا میں ایک نذیر آیا ، پَر دُنیا نے اُسے قبول نہیں کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچّائی ظاہر کردے گا۔ عنقریب اُسے ایک مُلک عظیم دیا جائیگا(........) اور خزائن اس پر کھولے جائیں گے(........) یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔ ہم عنقریب تم میں ہی اور تمہارے اردگرد نشان دکھلادینگے۔ حجت قائم ہوجائیگی اور فتح کھُلی کھُلی ہوگی۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک بھاری جماعت ہیں۔ یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے۔ اگر لوگ تجھے چھوڑدینگے پَر مَیں نہیں چھوڑوں گا اور اگر لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر مَیں بچاؤنگا۔ مَیں اپنی چمکار دکھاؤنگا اور قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤنگا۔ اے ابراہیم تجھ پر سلام! ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چُن لیا۔ خدا تیرے سب کام درست کردیگا اور تیری ساری مرادیں تجھے دیگا۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید اور تفرید۔ خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑدے جب تک وہ خبیث کو طیّب سے جُدا نہ کرے۔ وہ تیرے مجد کو
1 (ترجمہ از مرتب) اور اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔ تُو میرے ساتھ ہے اور تُو روشن حق پر قائم ہے۔ تو راہِ صواب پر ہے اور حق کا مدد گار ہے۔
زیادہ کرے گا اور تیری ذریّت کو بڑھائے گا۔ اور مِن بَعد تیرے خاندان کا تجھ سے ہی ابتداء قرار دیا جائے گا۔ میں تجھے زمین کے کناروں تک عزّت کے ساتھ شہرت دُوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دُوں گا۔جَعَلْنَاکَ الْمسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ (ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا) ان کو کہدے کہ مَیں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں۔ یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سُنا۔ سو تو اِن کو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں خدا بہتر جانتا ہے۔ تم ظاہر لفظ اور ابہام پر قانع ہو اور اصل حقیقت تم پر مکشوف نہیں۔ جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت ِ الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرارِ ملکوتی سے حصہ ہے ایک اولی العزم پیدا ہوگا۔وہ حسن اور احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ تیری ہی نسل سے ہوگا۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند
مَظْھَرْ ُالْحَقِّ وَ الْعُلَآئِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآئِ 1 یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَانٌ مُّخْتَلِفٌ بِاَزْوَاجٍ مُّخْتَلِفَۃٍ۔ وَتَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا۔ وَلَنُحْیِیَنَّک۔ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ط ثَمَانِیْنَ حَوْلاً اَوْقَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ
(ازالہ اوہام صفحہ632،635 روحانی خزائن جلد 3صفحہ 441،443)
1891ء
’’یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا۔ جو کمال طغیان اس کا اُس سَن ہجری میں شروع ہوگا۔ جو آیت وَاِنَّا عَلیٰ ذَھَابٍ بِہٖ لَقَادِرُوْنَ 2میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی 1274ھ ۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ657۔روحانی خزائن جلدنمبر3صفحہ455)
1891ء
’’خدا تعالیٰ نے اپنے کشف ِ صریح سے اس عاجز پر ظاہر کیا ہے کہ قرآنِ کریم میں مثالی طور پر ابن ِ مریم کے آنے کا ذکر ہے۔3‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ 667۔ روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ 460)
1891ء
’’اُس نے محض اپنے فضل سے بغیر وسیلہ کسی زمینی والد کے اُس ابن ِ مریم کو رُوحانی پیدائش اور روحانی
1 (ترجمہ از مرتب) تجھ پر مختلف ازواج (یعنی رفقاء) کے ساتھ مختلف زمانے آئیں گے اور تُو دُور کی نسل دیکھے گا اور ہم تجھے خوش زندگی نصیب کریں گے اسّی سال یاا س کے قریب۔
2 (ترجمہ از مرتب) یقینا ہم اُس کو لے جانے پر قادر ہیں۔
3 دیکھو آیت وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلاً اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ۔ (الزخرف:58 )
زندگی بخشی۔ جیسا کہ اُس نے خود اُس کو اپنے الہام میں فرمایا۔
ثُمَّ اَحْیَیْنَاکَ بَعْدَمَآ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی وَ جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔
یعنی پھر ہم نے تجھے زندہ کیا بعد اس کے جو پہلے فرقوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور تجھے ہم نے مسیح ابن ِ مریم بنایا۔ یعنی بعد اس کے جو عام طور پر مشائخ اور علماء میں موت روحانی پھیل گئی۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ 674، روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ 464)
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنِّیْ الْحَزَنَ وَ اٰتَانِیْ مَا لَمْ 1 یُؤْتَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ۔
احد من العالمین سے مراد زمانہ حال کے لوگ یا آیندہ زمانہ کے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘
(ازالہ اوہام صفحہ703،روحانی خزائن جلد نمبر3صفحہ479)
ترجمہ:۔ ’’اس خدا کی تعریف ہے جس نے میرا غم دُور کیا اور مجھ کو وہ چیز دی جو اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 107۔روحانی خزائن جلد نمبر22صفحہ110 )