حضرت بابانانک ؒ صاحب مسلمان ولی اﷲ تھے
ہمارا عقیدہ ہے کہ جناب بابا نانک صاحب رحمۃ اﷲ علیہ پکّے مسلمان اور ولی اﷲ تھے اور اس کی بنیاد ہمارے آقا و پیشوا سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا وہ کشف ہے جس میں حضورؑکو باباصاحب ؒ بحالت اسلام دکھائے گئے (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۱ تا ۵۸۴ و تذکرہ صفحہ ۱۵ ایڈیشن چہارم) اور پھر وہ دلائل ہیں جو آپ ؑنے بابا صاحب کے اسلام کے ثبوت میں ۱۸۹۵ء میں کتاب ’’ست بچن‘‘اور اس کے بعد ’’چشمہ معرفت‘‘ (روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۳۵۰تا۳۶۸) میں تحریر فرمائے۔ علاوہ ازیں سلسلہ احمدیّہ کے علماء کی طرف سے بھی کئی ایک ٹریکٹ اور کتابیں اس موضوع پر شائع ہو چکی ہیں۔ذیل میں ہم یکجائی طور پر بغیر کسی حاشیہ آرائی کے وہ امور درج کرتے ہیں جو اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔
بابا صاحبؒ کے مسلمان ہونے کے عقیدہ کی ابتداء
بابا نانک صاحب ؒکے مسلمان ہونے کا عقیدہ آپ کے زمانۂ زندگی ہی سے مسلمانوں میں چلا آتا ہے۔یعنی بابا صاحب کی زندگی میں مسلمان آپ کو ولی اﷲ کہتے تھے (جنم ساکھی بالا صفحہ ۱۳۲و جنم ساکھی منی سنگھ صفحہ ۱۰۸ و صفحہ ۱۱۰و تواریخ گُرو خالصہ صفحہ ۲۴وصفحہ ۴۴مصنفہ پروفیسر سندر سنگھ، سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ۳) بلکہ آپ کو ولی عارف یقین کرتے تھے (تواریخ گُرو خالصہ صفحہ ۴۰۳، سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ۳) اور نانک درویش کے نام سے پکارتے تھے (جنم ساکھی بالا صفحہ ۱۳۶وجنم ساکھی سری گُرو سنگھ سبھاصفحہ ۲۴۸، سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ۳)
مسلمانوں میں باباصاحب ؒ کی یادگاریں
پھر لکھا ہے کہ آپ حاجی درویش بن کر مکّے میں حج کے لئے گئے (جنم ساکھی بھائی بالاصفحہ ۱۳۱ ایڈیشن دوم ساکھی نمبر ۳۷ صفحہ ۲۱۶ ، سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ۴) اور ممالک اسلامی میں آپ کے مقامات کو نانک قلندر یا ولی ہند کے دائرہ کے نام سے پکارا جاتا ہے (تواریخ گُرو خالصہ صفحہ ۳۹۶ مصنفہ گیانی گیان سنگھ ، سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ۴) قلندر مسلمان فقیروں کے لیے مشہور لفظ ہے (ناواں تے تھاواں داکوش مصنفّہ ماسٹر متاب سنگھ) اور گیانی گیان سنگھ نے لکھا ہے کہ مکّہ شریف میں بابا نانک ؒ کا مکانمسجد کی شکل پر بنا ہوا ہے جو ولی ہند کے نام سے مشہور ہے (تواریخ گُرو خالصہ صفحہ ۴۴۲ بحوالہ ہمارا نانک اور عباد اﷲ گیانی صفحہ ۳۷) اور عرب میں بابا صاحب ولی ہند کے نام سے مشہور ہیں اور آپ کے مکانات مسجدوں کی شکل میں بنے ہوئے ہیں (تواریخ گُروخالصہ صفحہ ۴۴۵و ناواں تے تھاواں دا گوش صفحہ ۳۵۰ بحوالہ ہمارا نانک اور عباد اﷲ گیانی صفحہ ۳۷) اور بغداد کے مسلمان بابا صاحب کو مسلمان پیر خیال کرتے ہیں (تواریخ گُروخالصہ صفحہ ۶۲مصنفہ گیانی گیان سنگھ مطبوعہ وزیر ہند پریس امرتسر ۱۹۲۳ء) اور ہزارہ کے علاقہ میں ایسے لوگ آباد ہیں جو اپنے آپ کو نانک ولی کے مرید بتاتے ہیں۔ (تواریخ گُروخالصہ صفحہ ۴۶۴)
بابا صاحب کی وفات پر مسلمانوں کا دعویٰ
بابا صاحب کی وفات پر بھی مسلمانوں نے پُر زور اصرار کیا کہ ہم آپ کی لاش مبارک کو جلانے نہیں دیں گے اور اس کی و جہ یہ بتائی کہ آپ پکّے مسلمان اور حاجی ہیں (تواریخ گُروخالصہ صفحہ ۶۳ مصنفہ پروفیسر سندر سنگھبحوالہ سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ ۵۹) سردار خزان سنگھ صاحب نے بھی مسلمانوں کے اس اصرار کی و جہ یہی بتائی ہے کہ وہ آپ کو مسلمان یقین کرتے تھے۔ (ہسٹری اینڈ دی فلاسفی آف دی سکھ ریلیجن صفحہ ۱۰۶ بحوالہ سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ۵۹)
بابا نانک ؒصاحب کے اسلام پر ایک شہادت
گُوردوارا کے ٹربیونل کے ججوں نے مقدمہ نانک کے فیصلہ میں لکھا ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے (دیکھو ہیوز صاحب کی ڈکشنری آف اسلام صفحہ ۵۸۳تا۵۹۱) کہ گُرو نانک صاحب نے اپنے خاص اصول اسلام سے لئے ہیں۔یہ بات پکّی ہے کہ بابا صاحب نے اپنے آپ کو اسلام کا مخالف ظاہر نہیں کیااور اس نے ایک مسلمان فقیر کی شکل میں مکّے کی یا ترا کی ۔ (اداسی سکھ نہیں صفحہ ۲۲ بحوالہ بحوالہ ہمارا نانک اور عباد اﷲ گیانی صفحہ ۱۵۴)
بابا نانک ؒ صاحب کا نام مسلمانوں کا ساتھا
گیانی گیان سنگھ صاحب لکھتے ہیں کہ مسلمان بابا صاحب کو ’’نانک شاہ‘‘کے نام سے پکارتے تھے (تواریخ گُروخالصہ صفحہ ۱۲۸ بحوالہ سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ۳) اور جنم ساکھی بالا میں ’’نانک شاہ ملنگ‘‘لکھا ہے ۔ (جنم ساکھی بالاصفحہ ۲۰۸ بحوالہ سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ۳) یاد رہے کہ ملنگ مسلمان فقیروں کے ایک فرقہ کا نام ہے (مہاں گوش مصنفہ سردار کاہن سنگھ صاحب آف نابھہ) اور ولی اﷲ، درویش، ملنگ یہ سب مسلمان فقیروں کے مخصوص القاب ہیں (ملاحظہ ہو وراں بھائی گورداس وار ۲۳۔پوڑی ۳۰ بحوالہ سکھ گورُو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ از عباد اﷲ گیانی صفحہ۳)
بابا نانکؒ صاحب کی تعلیم
گیانی گیان سنگھ صاحب کا بیان ہے کہ مسٹر کنیگم نے اسلامی تاریخوں کے حوالجات سے تحریر کیا ہے کہ بابا نانک صاحب کے ہمسایہ میں سید میر حسن صاحب نے جو اس علاقہ میں اولیاء کرامتی کی صلح کل اور بے لاگ پیر مانے ہوئے تھے اپنا سارا دینی و دنیاوی علم بابا نانک ؒ صاحب کو پڑھایااور بڑے بڑے راہ حق کے بھید بتائے (حاشیہ تواریخ گُروخالصہ صفحہ ۸۶بحوالہ ہمارا نانک اور عباد اﷲ گیانی صفحہ ۵) اور یہ بھی لکھا ہے کہ جناب بابا نانک ؒ صاحب نے سرسہ شریف میں خواجہ عبدالشکور صاحب کے مزار پر چِلّہ کیا۔ (تواریخ گُروخالصہ صفحہ ۲۲۴)
بابا نانک صاحب کا السّلام علیکم کہنا
قرآن شریف میں مرقوم ہے :۔ (النساء:۹۵) یعنی نہ کہو اس شخص کو جو تمہیں السلام علیکم کہے کہ تو مسلمان نہیں۔اس ارشاد کے مطابق جو ہم کو السلام علیکم کہے گا ہم اسے مسلمان کہنے پر مجبور ہیں۔بھائی گورداس جی نے بھی لکھا ہے کہ آپس میں ملتے وقت السلام علیکم کہنا مسلمانوں کا کام ہے (وار۲۳۔پوڑی۳۰) اور یہ ثابت ہے کہ جناب بابا صاحب نے مسلمانوں کو ملتے وقت السلام علیکم کہا جس کے جواب میں ہر دو فریق نے وعلیکم السلام کہا۔ (جنم ساکھی بالاصفحہ ۱۳۷و صفحہ ۴۷۶و صفحہ ۵۱۲و جنم ساکھی میکالف والی صفحہ ۱۳۸ بحوالہ ہمارا نانک اور عباد اﷲ گیانی صفحہ ۱۷۸) اس سے صاف ثابت ہے کہ مسلمان بابا نانک صاحبؒ کو مسلمان یقین کرتے تھے اور وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے ۔یاد رہے کہ گُروگوبند سنگھ صاحب سے پہلے گُرو صاحبان اور ان کے سکھوں میں پَیریں پونا کہا جاتا تھا (وار۲۳۔پوڑی۲۰۔مصنّفہ گورداس و گورمت سدھاکرصفحہ ۱۲۸مصنّفہ سردار کاہن سنگھ) یہ بالکل ثابت نہیں کہ جناب بابا صاحب نے کبھی ’’پَیریں پونا‘‘استعمال کیا ہو۔
بابا نانک ؒ صاحب کا اذان کہنا
اذان دینا بھی ایک پکّے مسلمان کی علامت ہے۔بابا صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اذان کہی (جنم ساکھی بالا صفحہ ۲۰۳، خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبد الرحمان صفحہ ۸۲۔۸۳) نیز بھائی گورداس نے آپ کا بغداد اور مکّہ شریف میں اذان کہنا بتایا ہے۔ملاحظہ ہو (وار پہلی صفحہ ۱۳۔ ۱۴ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبد الرحمان صفحہ ۸۲۔۸۳) اور مسٹر میکالف نے لکھا ہے کہ :۔
’’جب کبھی وقت آیا تو گُرو نانکؒ صاحب نے حضرت محمدؐصاحب کے ماننے والے پکّے مسلمانوں کی طرح بانگ دی‘‘۔(میکالیف اتہاس صفحہ ۱۴۷ خالصہ دھرم کے گوروؤں کی تاریخ از عبد الرحمان صفحہ ۸۲۔۸۳)
اذان کہنے والا بلند آواز سے خدا تعالیٰ کی بزرگی اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتا ہوا مسلمانوں کو نماز کے لئے مسجد کی طرف بُلاتا ہے ۔پس بابانانک صاحب ؒ کے اذان دینے سے ثابت ہوا کہ وہ رسالت ِ محمدؐیّہ کے اقراری تھے۔