• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 21

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 21



1
رسول کریم ﷺ کی ایک اہم وصیت جس کی اشاعت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے
)فرمودہ5جنوری 1940ء(
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘ میں چونکہ گزشتہ ایام میں انفلوئنزا کی تکلیف سے بیمار رہا ہوں بلکہ ابھی تک گلے میں بہت سی خراش باقی ہے اس وجہ سے نہ تو میں اونچا بول سکتا ہوں اور نہ ہی زیادہ دیر تک بول سکتا ہوں۔ لیکن چونکہ اب ایک نئے سال کا شروع ہے اور نیا سال اپنے ساتھ نئی امنگیں اور نئے ارادے لے کر آیا کرتا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ باوجود تکلیف اور بیماری کے خطبہ مَیں ہی پڑھاؤں تاکہ آئندہ سال کے متعلق جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلا سکوں۔
اس سال جلسہ سالانہ پر ایک چھوٹا سا اشتہار میری طرف سے شائع ہؤا ہے جس میں رسول کریم ﷺ کی ایک وصیت درج ہے جو آپ ﷺ نے اپنی وفات کی خبر ملنے پر مسلمانوں کو کی۔ وہ وصیت یہ ہے کہ اِنَّ دِمَآءَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا۔1 یعنی مکہ مکرمہ میں حج کے ایام میں جو عزت خدا نے حج کے دن کو دی ہے وہی عزت تم آپس میں ایک دوسرے کی جانوں، ایک دوسرے کے مالوں اور ایک دوسرے کی عزتوں کو دو۔ یعنی کسی کی عزت پر حملہ نہ کرو۔ اس پر اتہام نہ لگاؤ، اسے بدنام نہ کرو، اسے ذلیل نہ کرو، اسے بُرا بھلا نہ کہو۔ اسی طرح کسی کے مال پر حملہ نہ کرو یعنی امانتوں میں خیانت نہ کرو، کسی کا حق غصب نہ کرو، کسی کے مال اور جائداد میں ناجائز تصرف نہ کرو۔ اسی طرح کسی کی جان پر حملہ نہ کرو۔ یعنی کسی کو مارو نہیں، کسی کو پیٹو نہیں، کسی کو قتل نہ کرو اور کسی سے لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد نہ کرو۔ یہ رسول کریم ﷺ کی وصیت ہے اور آپ نے اس وصیت کے بیان کرنے کے بعد دو دفعہ فرمایا کہ میں نے یہ وصیت تمہیں کی ہے جس شخص کے کان میں میری یہ بات پڑے اسے چاہئے کہ وہ آگے دوسرے لوگوں کے کان تک میری اس وصیت کو پہنچا دے اور انہیں چاہئے کہ وہ اَور آگے بیان کریں۔ گویا ہر شخص جو یہ حدیث سنے اسے رسول کریم ﷺ کا یہ حکم ہے کہ وہ آگے دوسرے مسلمان بھائیوں تک اسے پہنچا دے۔
مَیں نے اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے دوستوں کو نصیحت کی کہ وہ بھی رسول کریم ﷺ کی اس وصیت کے ماتحت اس حدیث کو دوسروں تک پہنچاتے چلے جائیں۔ یہاں تک کہ یہ حدیث چکر کھا کر پھر اُن تک پہنچے اور پھر دوبارہ وہ شاہد بن جائیں اور دوبارہ ان پر یہ فرض عائد ہو جائے کہ وہ اسے غائب تک پہنچا دیں کیونکہ رسول کریم ﷺ کے الفاظ یہ ہیں کہ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ شاہد غائب تک اسے پہنچا دے۔ یعنی جس کے کان میں یہ حدیث پہنچے وہ اسے اس شخص کے کان تک پہنچا دے جو اس مجلس میں موجود نہیں تھا۔ رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ فَلْیُبَلِّغِ الْعَالِمُ الْجَاھِلَ کہ جس شخص کو اس حدیث کا علم ہو وہ اسے اس شخص تک پہنچا دے جسے اس حدیث کا علم نہ ہو۔ اگر آپ یہ فرماتے تو اس کے معنے اور ہو جاتے اور رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد کا صرف یہ مطلب ہوتا کہ جن لوگوں کو اس حدیث کا علم ہو انہیں تو یہ نہ پہنچائی جائے۔ البتہ جو اس حدیث سے ناواقف ہوں ان تک اس حدیث کو پہنچایا جائے۔ اس صورت میں جب کوئی شخص اس حدیث کو سن لیتا تو وہ سمجھ لیتا کہ اب کسی اور کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ پھر دوبارہ مجھے وہ یہ حدیث پہنچائے اور نہ مجھ پر یہ فرض ہے کہ میں ہر شخص کے آگے اسے بیان کروں بلکہ جو اس حدیث سے ناواقف ہو گا صرف اسے رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بتاؤں گا اور اگر کوئی اسے یہ حدیث پہنچاتا تو وہ کہہ سکتا تھا کہ مجھے تو پہلے سے ہی یہ حدیث معلوم ہے اور رسول کریم ﷺ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ فَلْیُبَلِّغِ الْعَالِمُ الْجَاھِلَ۔ مَیں عالم ہوں اس حدیث سے ناواقف نہیں۔ پس تم میرے سامنے یہ حدیث کیوں بیان کرتے ہو؟ مگر رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا کہ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ کہ جب کسی مجلس میں یہ حدیث بیان کی جائے تو جو اس حدیث کو سن رہا ہو، یہ نہیں کہ وہ اس حدیث کو جانتا نہ ہو چاہے وہ پہلے سے جانتا ہو، بہرحال جب وہ کسی مجلس میں ایک شاہد کی حیثیت میں اس حدیث کو سنے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے الغائب یعنی اس شخص کے کانوں تک پہنچا دے جو مجلس میں موجود نہیں تھا۔ یہاں بھی یہ نہیں کہا کہ اس شخص کو حدیث پہنچاؤ جو اس حدیث کوجانتا نہ ہو بلکہ غائب کا لفظ رکھ کر بتا دیا کہ چاہے وہ اس حدیث کو جانتا ہی کیوں نہ ہو جب وہ اس مجلس میں موجود نہ ہو جس مجلس میں اس حدیث کو بیان کیا جا رہا ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم اسے پہنچاؤ کیونکہ اصل غرض اس حدیث کے پہنچانے سے یہ نہیں کہ لوگوں کو اس تعلیم کا علم ہو جائے بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ یہ تعلیم لوگوں کے سامنے بار بار آ کر ان کے ذہن نشین ہو جائے اور ان کے دل اور دماغ پر اس کا نقش ہو جائے ۔ دنیا میں کئی باتیں انسان کے علم میں ہوتی ہیں مگر بسا اوقات وہ دل اور دماغ پر نقش نہیں ہوتیں اس وجہ سے باوجود علم کے ان پر عمل کرنے میں کوتاہی ہو جاتی ہے مگر جب کوئی بات بار بار دہرائی جائے تو وہ دل اور دماغ پر نقش ہو جاتی ہے اور عمل کا ایک جزو بن جاتی ہے۔
پس کسی تعلیم کا صرف پڑھ لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور عمل کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ بار با رتعلیم دہرائی جائے۔ اسی حکمت کے ماتحت رسول کریم ﷺ نے یہ حدیث آگے اور پھر آگے بیان کرنے کی وصیت کی۔ ورنہ یہ تو نہیں کہ اس حدیث اور اس مفہوم کو مسلمان پہلے جانتے نہ تھے۔ مسلمان پہلے بھی اس بات کو جانتے تھے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے ساری عمر یہی تعلیم دی کہ تم بلاوجہ کسی کا مال نہ لو ، بلاوجہ کسی کی جان پر حملہ نہ کرو، بلاوجہ کسی کو دکھ اور اذیت نہ پہنچاؤ۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ نے ہمیشہ یہ تعلیم دی کہ جھوٹے اتہامات مت لگاؤ، کسی کو ذلیل اور رسوا نہ کرو، کسی سے تکبر کے ساتھ پیش نہ آؤ، کسی کی عیب چینی نہ کرو، تجسس اور غیبت نہ کرو، اور یہی اس حدیث کا خلاصہ ہے۔ پس اس حدیث میں جو کچھ کہا گیا وہ کوئی نئی بات نہیں۔ رسول کریم ﷺ کی تعلیم میں پہلے سے یہ تمام باتیں موجود تھیں۔ قرآن کریم میں بھی ہر بات کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے۔ البتہ اس وصیت میں اس تعلیم کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہے ورنہ مضمون وہی ہے صرف اس وقت کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر رسول کریم ﷺ نے یہ وصیت کی۔ آپ نے سوچا کہ جب مَیں دنیا سے چلا جاؤں گا تو مسلمانوں کو یہ اہم سبق یاد دلانے والے بہت کم رہ جائیں گے بلکہ بعض صورتوں میں تو ممکن ہے کہ کوئی بھی یہ سبق یاد دلانے والا نہ رہے۔ پس کیوں نہ میں ہر مسلمان کو دوسروں کا ناصح بنا دوں تا یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی خلیفہ ان تک یہ بات پہنچائے، یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی معلّم ان تک بات پہنچائے، یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی واعظ ان تک بات پہنچائے، یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی بڑا بزرگ اسے بیان کرے، یہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی باپ اسے بیان کرے یا ماں بیان کرے یا کسی کا کوئی دوست اور عزیز بیان کرے بلکہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے سامنے اس حدیث کو بیان کرے اور بیان کرتا چلا جائے اور یقینا نصیحت کو پھیلانے کا اس سے بڑھ کر لطیف گُر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
پس رسول کریم ﷺ نے یہ فرما کر کہ اِنَّ دِمَآءَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا۔یہ نہیں فرمایا کہ فَلْیُبَلِّغِ الْعَالِمُ الْجَاھِلَ۔ اگر آپ یہ فقرہ آخر میں دہرا دیتے تو ممکن ہے اس کا مطلب یہ لے لیا جاتا کہ یہ حدیث امت محمدیہ کے ایسے ہی افراد تک پہنچانا ہمارا فرض ہے جن تک یہ حدیث پہلے نہ پہنچی ہو بلکہ ممکن ہے مسلمان یہی مفہوم سمجھتے اور وہ کہتے کہ رسول کریم ﷺ نے صرف یہ حکم دیا ہے کہ اے مسلمانو! تم ان لوگوں تک اس حدیث کو پہنچاؤ جو اس سے ناواقف ہیں۔ اگر کوئی اس حدیث کو پہلے جانتا ہو تو اسے پہنچانے کی ضرورت نہیں مگر رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ اور شاہد کے معنی عالم کے نہیں بلکہ شاہد کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص جو اس مجلس میں بیٹھا ہؤا ہو جس میں یہ حدیث بیان کی جا رہی ہو۔ اور غائب کے معنی جاہل کے نہیں بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس مجلس میں موجود نہ ہوں جس میں یہ حدیث بیان کی گئی ہو۔ مثلاً اِس وقت خطبہ جمعہ میں جو لوگ شامل ہیں وہ سب شاہد ہیں اور جو احمدی یہاں نہیں بیٹھا چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو، چاہے وہ اس حدیث کو سند کے ذریعہ رسول کریم ﷺ تک روایت کرتا ہو وہ غائب ہے کیونکہ وہ اس مجلس میں نہیں۔
پس اس حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ ایک تعلیم ہے جو ناواقفوں تک پہنچاؤ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک تعلیم ہے جو واقفوں اور ناواقفوں تک پہنچاؤ اور وہ اگلے واقفوں یا ناواقفوں تک پہنچائیں اور وہ اس سے اگلے واقفوں یا ناواقفوں تک پہنچائیں اور پھر پہنچاتے چلے جائیں۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا تغیّر ہے کہ عالم کی جگہ شاہد اور جاہل کی جگہ غائب کا لفظ رکھ دیا گیا ہے مگر یہ چھوٹا ساتغیّر ایک حکیم ہستی کا تغیّر ہے جو یہ سمجھتی تھی کہ ان دو چھوٹے سے تغیّرات کے ساتھ مَیں اپنی امت میں اس تعلیم کے متواتر پھیلائے جانے کی بنیاد قائم کر رہا ہوں۔ پس اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں کہ عالموں کو چاہیے کہ ناواقفوں تک اسے پہنچا دیں بلکہ اس حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ ہر اس دوسرے مسلمان تک جو اس مجلس میں شامل نہیں یہ حدیث پہنچا دے اور پھر آگے اس کا فرض ہے کہ وہ اسی طرح اور لوگوں تک اس حدیث کو پہنچاتا چلا جائے اور جبکہ اس حدیث میں یہ شرط عائد کر دی گئی ہے کہ جس مجلس میں یہ حدیث بیان کی جائے اس میں بیٹھنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ان لوگوں تک اس حدیث کو پہنچائیں جو اس مجلس میں موجود نہ ہوں تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ قیامت تک یہ حدیث ایک دوسرے کو پہنچائی جائے گی کیونکہ کوئی ایسی مجلس نہیں ہو سکتی جس میں دنیا کے تمام مسلمان بیٹھے ہوں اور سب کے سامنے ایک وقت میں یہ حدیث بیان کی جا سکے ۔ لازماً ہر مجلس میں کچھ مسلمان ہوں گے اور کچھ نہیں ہوں گے۔ پس اس شرط کے ماتحت ہمیشہ ان لوگوں کا جو کسی مجلس میں اس حدیث کو سنیں گے یہ فرض رہے گا کہ وہ دوسروں تک اسے پہنچائیں اور اس طرح قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گااور بفرضِ محال کوئی ایسی مجلس قائم بھی ہو سکے جس میں روئے زمین کے تمام مسلمان اکٹھے ہو جائیں اور سب کے سامنے ایک وقت میں اس حدیث کو بیان کر دیا جائے اور ان میں سے کوئی غائب نہ ہو تو بھی اس حدیث کا دوسروں تک پہنچانا صرف عارضی طور پر ختم ہو گا کیونکہ جب نئے بچے پیدا ہوں گے تو ان کے متعلق پھر اس بات کی ضرورت پیش آئے گی کہ انہیں اس حدیث کے مفہوم سے آگاہ کیا جائے۔ فرض کرو رُوئے زمین کے تمام مسلمان بیس کروڑ ہیں یا چالیس کروڑ ہیں یا ایک ارب ہیں اور اتفاقاً وہ ایک مجلس میں جمع ہو جاتے ہیں اور سب کو یہ حدیث پہنچا دی جاتی ہے تو بھی اس حدیث کو آگے پہنچانے کا سلسلہ عارضی طور پر ہی بند ہو گادائمی طور پر نہیں کیونکہ دس پندرہ سال کے بعد ان کے جو بچے پیدا ہو کر بڑے ہو چکے ہوں گے ان کو اس حدیث کا علم نہیں ہو گا اور اس وقت رسول کریم ﷺ کا یہ حکم پھر تازہ ہو جائے گا کہ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ۔ پس یہ ایک ایسا گُر رسول کریم ﷺ نے ایجاد کیا ہے جس کومدنظر رکھتے ہوئے کبھی مسلمان اس حدیث سے ناواقف نہیں رہ سکتے اور کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کے کان میں کم سے کم سال میں تین چار بار یہ حدیث نہ پڑے۔ اگر اس حدیث کا محض پڑھ لینا یا اس کا ایک دو دفعہ سن لینا کافی ہوتا تو انسان بخاری میں اس حدیث کو پڑھ سکتا تھا اور جو دینی مدارس کے اساتذہ ہیں وہ اپنے شاگردوں کو یہ حدیث پڑھاتے ہی ہیں بلکہ شائد دس دس دفعہ ان کے پڑھانے میں یہ حدیث آ جاتی ہو گی لیکن مَیں کہتا ہوں کہ پڑھنے اور دوسروں کو پہنچانے میں بہت بڑا فرق ہے۔ اگر رسول کریم ﷺ یہ نہ فرماتے کہ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ تو پڑھانے والے کے دل پر وہ اثر نہ ہو سکتا جو اَب ہوتا ہے۔ اس صورت میں پڑھانے والا اسے محض ایک حدیث سمجھتا مگر اب جب وہ رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد کو ساتھ ہی دیکھتا ہے تو وہ اسے صرف حدیث نہیں سمجھتا بلکہ وہ اس حدیث کو ایک ذمہ داری اور امانت سمجھتا ہے اور وہ اس حدیث کو پڑھنا یا پڑھانا کافی خیال نہیں کرتا بلکہ اس امانت کی ادائیگی کو بھی ضروری سمجھتا ہے۔ پس اس حدیث نے پڑھانے والے کے ذہن میں بھی بیداری پیدا کردی اور پڑھنے والے کے ذہن میں بھی بیداری پیدا کر دی۔
پس یہ ایک عظیم الشان نکتہ ہے جسے رسول کریم ﷺ نے ہمارے فائدہ کے لئے بتایا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرف توجہ دلا دی کہ رسول کریم ﷺ کا ان الفاظ سے یہ منشاء نہیں تھا۔ اُس وقت آپ کی مجلس میں جو لوگ موجود تھے وہ ان لوگوں تک اسے پہنچا دیں جو اُس وقت موجود نہیں تھے کیونکہ آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’اس مجلس کا شاہد‘‘ بلکہ آپ نے شاہد کا لفظ بغیر اضافت کے فرمایا ۔ اگر آپ یہ فرماتے کہ فَلْیُبَلِّغْ شَاھِدُ مَجْلِسِنَا ھٰذَا کہ اس مجلس میں جو لوگ موجود ہیں وہ دوسروں تک میری یہ بات پہنچا دیں تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ اس حدیث کا دوسروں تک پہنچانا صرف اُنہی کا فرض تھا ہمارا فرض نہیں۔ مگر آپ نے صرف فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ فرمایا اور غائب کے لئے بھی آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اَلْغَائِبُ عَنْ مَجْلِسِنَا ھٰذَا بلکہ اَلْغَائِبَ کا لفظ استعمال کیا۔ گویا رسول کریم ﷺ نے شَاہِد کا لفظ بھی بغیر اِضافت اور قید کے استعمال کیا اور غائب کا لفظ بھی بغیر اضافت اور قید کے استعمال کیا۔ پس جب آپ نے شاہد کا لفظ فرمایا تو اس سے مراد وہ مسلمان نہیں تھے جو اُس مجلس میں موجود تھے اور جب آپ نے غائب کا لفظ استعمال فرمایا تو اس سے مراد بھی وہ مسلمان نہیں تھے جو اُس وقت مجلس میں موجود نہیں تھے بلکہ شاہد سے مراد وہ شخص ہے جس کے سامنے یہ حدیث بیان کی جائے اور غائب سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کے سامنے اس وقت حدیث بیان نہ ہوئی ہو۔ چاہے اس حدیث کا اسے علم ہی کیوں نہ ہو۔
پس جلسہ سالانہ پر ایک تو مَیں نے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اس حدیث کے مضمون کو پھیلانے کی طرف توجہ کریں اور رسول کریم ﷺ کی اس وصیت کو دہراتے رہیں یہاں تک کہ یہ امر ان کی عادت میں داخل ہو جائے اوران کے دل میں اتنا راسخ ہو جائے کہ ان کا ہاتھ کسی مسلمان کے خلاف نہ اٹھے ، ان کی زبان کسی مسلمان کے خلاف نہ کھلے اور ان کی آنکھ کسی مسلمان کے مال کی طرف نہ اٹھے۔ گویا دوسرے کی جان، مال اور آبرو پر حملے کا خیال بھی ان کے دل میں نہ آئے۔ اور ان کی دیانت و امانت ایسے اعلیٰ پایہ کی ہو کہ کسی مسلمان کے مال کی طرف ہاتھ اٹھنا تو الگ رہا ان کی نگاہ بھی نہ اٹھے اور دنیا اس یقین پر قائم ہو جائے کہ ایک مسلمان کے لئے کسی دوسرے مسلمان کا مال اٹھانا یا اس کی عزت اور جان پر حملہ کرنا بالکل ناممکن ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیرمسلموں کے مال، جان اور آبرو پر حملہ کرنا جائز ہے ۔ وہ بھی ویسا ہی ناجائز ہے جیسے کسی مسلمان کے مال، جان اور عزت پر حملہ کرنا۔ البتہ اس حدیث میں زیادہ زور اِسی بات پر دیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی عزت پر حملہ نہ کرے، اس کے مال پر حملہ نہ کرے، اس کی جان پر حملہ نہ کرے۔ غیرمسلموں کا اس لئے ذکر نہیں کیا گیا کہ جب مسلمانوں کو یہ عادت ہو جائے گی اور اپنے بھائیوں کے خلاف نہ ان کا ہاتھ اٹھے گا، نہ ان کی آنکھ اٹھے گی اور نہ ان کی زبان حرکت کرے گی تو وہ غیر اقوام کے لوگوں کو بھی دکھ دینے سے خودبخود اجتناب کریں گے اور چونکہ وہ دوسری آیات اور احادیث سے یہ جانتے ہیں کہ اسلام نے غیرمسلموں پر بھی حملہ کرنا ناپسندیدہ امرقرار دیا ہے اوران کو حملہ نہ کرنے کی پختہ عادت ہو چکی ہو گی وہ کسی غیرمسلم کو بھی نہیں پیٹیں گے، وہ کسی غیرمسلم کا بھی مال نہیں کھائیں گے اور وہ کسی غیرمسلم کی عزت پر بھی حملہ نہیں کریں گے ، جس طرح مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو پر وہ حملہ نہیں کریں گے۔
دوسری بات جلسہ سالانہ پر مَیں نے یہ بیان کی تھی کہ گزشتہ سال مَیں نے دوستوں کو نصیحت کی تھی کہ ہر احمدی کم سے کم ایک نیا احمدی سال میں ضرور بنائے مگر میری یہ نصیحت اتنی کامیاب نہیں ہوئی جتنی کامیابی کی توقع تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سال پہلے کی نسبت بیعت زیادہ ہوئی ہے مگر یہ زیادتی دس پندرہ فیصدی ہے اور دس پندرہ فیصدی کی زیادتی کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔ اس لئے مَیں آج کے خطبہ میں پھر قادیان کے دوستوں کو اور باہر کے دوستوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس سال پھر ہر احمدی کم سے کم ایک نیا احمدی بنانے کی کوشش کرے اور چونکہ اگر انسان نے وعدہ کیا ہؤا ہو تو اسے اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے اس لئے ہر احمدی تحریراً مجھے اطلاع دے کہ وہ اس سال کتنے نئے احمدی بنانے کا وعدہ کرتا ہے تاکہ اول اسے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کا خیال رہے اور اگر بفرضِ محال وہ اپنے وعدہ کو پورا نہ کر سکے تو اس کے نفس میں شرمندگی پیدا ہو اور وہ آئندہ اپنی گزشتہ کمی کو زیادہ جدوجہد سے پورا کرنے کی کوشش کرے۔ بہرحال یہ ایک مفید چیز ہو گی سلسلہ کی ترقی کے لحاظ سے بھی کیونکہ جب وہ تحریری طور پر وعدہ کریں گے تو وہ توجہ سے اس وعدہ کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور ان کے اپنے نفس کے لئے بھی کیونکہ اگر وہ وعدہ پورا نہ کر سکے تو ان کے نفس میں غیرت پیدا ہو گی اور آئندہ وہ اس کوتاہی کا ازالہ کرنے کے لئے زیادہ جدوجہد سے کام لیں گے۔ غرض وعدہ کرنا ان کے لئے بھی مفید ہے اور سلسلہ کے لئے بھی مفید ہے۔ پس جو دوست نئے احمدی بنانے کی نیت کریں وہ مجھے بھی اپنی نیت سے آگاہ کردیں اور بتا دیں کہ اس سال کتنے نئے احمدی بنانے کی وہ کوشش کریں گے؟ اگر وہ اپنے لئے کوئی خاص علاقہ یا تبلیغ کے لئے کسی خاص قوم کو مخصوص کرنا چاہتے ہوں تو اس کی بھی مجھے اطلاع دے دیں کہ فلاں علاقہ یافلاں قوم میں چونکہ احمدیت نہیں اس لئے ہم اس علاقہ یا اس قوم کی ہدایت کے لئے تبلیغی جدوجہد کریں گے۔
مَیں سمجھتا ہوں ہماری جماعت اگر فریضۂ تبلیغ کی ادائیگی کی طرف پورے طور پر توجہ کرے تو جماعت کی ساری مشکلات چند دنوں میں دور ہو سکتی ہیں بلکہ جماعت کیا ساری دنیا کی مشکلات دور ہو سکتی ہیں کیونکہ احمدیت ہی ہے جو دنیا کی مشکلات کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اگر احمدیت آج دنیا میں پھیلی ہوئی ہوتی تو جرمنی اور برطانیہ اور روس اور فن لینڈ کے جھگڑے ہی کیوں ہوتے؟ یہ سب جھگڑے اِسی لئے ہیں کہ احمدیت کی تعلیم ابھی تک دنیا میں نہیں پھیلی۔ پس آج دنیا کے تمام جھگڑے انتظار کر رہے ہیں احمدیت کے انتشار اور اس کی اشاعت کا ،اور دنیا کے تمام جھگڑے انتظار کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی حکومت قائم ہونے کا اور اللہ تعالیٰ کی حکومت دنیا میں اُس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک احمدیت پھیل نہیں جاتی۔ پس اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور وفاداری بھی یہی چاہتی ہے کہ احمدیت کو ہم دنیا میں جلد سے جلد پھیلائیں اور بنی نوع انسان کی محبت اور ان کی خیرخواہی بھی یہی چاہتی ہے کہ احمدیت کو ہم دنیا میں جلد سے جلد پھیلائیں تاکہ جھگڑے اور فساد دور ہوں اور دنیا میں امن قائم ہو جائے۔
مَیں یہ نہیں کہتا کہ احمدیت کی اشاعت کے بعد کامل امن ہو جائے گا اور لڑائی جھگڑے کُلّیۃً مفقود ہو جائیں گے۔ انفرادی جھگڑے رہتے ہی ہیں جیسے احمدیوں میں بھی بعض دفعہ جھگڑے ہوجاتے ہیں مگر وہ ایک حد کے اندر محدود رہتے ہیں اور ان لڑائیوں اور جھگڑوں کے دور کرنے کا ذریعہ وہی حدیث ہے جو مَیں نے بتائی ہے۔ اگر اس حدیث کو اپنا دستور العمل بنا لیا جائے تو اس قسم کے جھگڑے بھی پیدا نہیں ہو سکتے لیکن بہرحال احمدیوں کے جھگڑے محدود ہیں، ان کے اثرات محدود ہیں اور ان جھگڑوں کو روکنے کے سامان موجود ہیں۔ اگر بعض احمدیوں میں لڑائی ہو جائے تو ایک نظام موجود ہے جو ان کے فتنہ کو روک دیتا ہے، ایک ہاتھ موجود ہے جو اس ہاتھ کو پکڑ لیتا ہے جو کسی دوسرے کو مارنے کے لئے اٹھتا ہے اور ایک آواز موجود ہے جس کے سامنے اور تمام آوازیں دب جاتی ہیں۔ پس اس وجہ سے دوسروں کی نسبت ہماری جماعت لڑائی جھگڑوں اور ان کے خطرناک نتائج سے بہت حد تک محفوظ رہتی ہے اور وہ جو فیصلہ کر لیتا ہے کہ مَیں نے ضرور لڑنا ہے اُس کا پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کرہم سے جُدا ہو جاتا ہے اور جب وہ ہمارے نظام سے آزاد ہو جاتا ہے تو پھر جو جی چاہے کرنے لگ جاتا ہے لیکن اس قسم کے لوگ بھی جماعت سے الگ ہو کر فتنہ پیدا کرنے کی اُسی وقت جرأت کر سکتے ہیں جب تک ہماری جماعت زیادہ پھیلی ہوئی نہ ہو۔ ورنہ جب جماعت دنیا میں کثیر تعداد میں پھیل جائے گی تو اُس وقت اِس قسم کے مفسد اور فتنہ پرداز بھی سمجھ جائیں گے کہ اب ہمارا باہر نکلنا بھی مفید نہیں کیونکہ ہر طرف احمدی ہی احمدی ہیں۔ پس لازماً وہ اندر رہیں گے اور جب اندر رہیں گے توخواہ ان کی پوری اصلاح نہ ہو بہرحال ان کا فتنہ ایک نظام کی وجہ سے دبا رہے گا اور وہ دنیا کے لئے زیادہ مُضِر ثابت نہیں ہوں گے۔ پس مَیں دوستوں کوان کے اس فرض کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں۔‘‘ (الفضل 19 جنوری 1940ء)
1 بخاری کتاب المغازی باب حجۃ الوداع

2
خلافت جوبلی کی تقریب سے پیدا شدہ نئی ذمہ داریاں جوش اور توجہ سے ادا کرو
)فرمودہ12جنوری 1940ء(
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’میں آج ایک اہم امر کے متعلق خطبہ پڑھنا چاہتا تھا اور مَیں اس بات کی ضرورت سمجھتا تھا کہ اس مضمون کو زیادہ بسط کے ساتھ بیان کیا جائے لیکن جلسہ کے بعد جو انفلوئنزا کا حملہ مجھ پر ہؤا پیچھے اس میں بہت حد تک کمی آ جانے کے بعد پرسوں سے پھر دوبارہ میرے سینہ پرنزلہ گرنا شروع ہو گیا ہے اور اس کی وجہ سے مَیں زیادہ نہیں بول سکتا اور نہ ہی اونچا بول سکتا ہوں مگر مضمون کی اہمیت اور اس کا موقع یہ چاہتا ہے کہ مَیں اسے پیچھے نہ ڈالوں اور جلد سے جلد اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار جماعت کے سامنے کر دوں۔ اس لئے باوجود طبیعت کی خرابی کے مَیں نے یہی مناسب سمجھا کہ مَیں آج خطبہ میں اسی مضمون کو بیان کروں۔
ہماری جماعت نے اس جلسہ کو جو ابھی گزرا ہے ایک خوشی اور شکریہ کا جلسہ قرار دیا ہے۔ کیا بلحاظ اس کے کہ باوجود دنیا بھر کی مخالفتوں کے وہ نبوت کا پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں لائے تھے اور جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری بڑی مشکلات میں سے ایک نبوت کا مسئلہ بھی رہا ہے کیونکہ لوگ اس مسئلہ کے سمجھنے کی قابلیت کم رکھتے تھے اور غلط خیالات اور غلط عقائد نے لوگوں کے دماغوں پر ایسا قبضہ جما لیا تھا کہ وہ اس عقیدہ میں کسی اصلاح کے لئے تیار نہ تھے۔ باوجود دنیا کی مخالفت کے پچاس سالہ عرصہ میں برابر دنیا میں پھیلتا چلا گیا ہے اور جس عقیدہ کے متعلق لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ وہ کسی صورت میں تسلیم کئے جانے کے قابل نہیں وہ دنیا کے ہر گوشہ میں تسلیم کیا جانے لگا ہے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے تمام براعظموں میں اس عقیدہ کے ماننے والے لوگ موجود ہیں۔ اور دوسرے اس وجہ سے اس جلسہ کو ایک خوشی کا جلسہ قرار دیا گیا کہ وہ خلافت جو تابع نبوت ہوتی ہے اس کے متعلق بھی لوگوں میں ایسے ہی خیالات موجود تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ خلافت کا خیال دنیا میں قائم نہیں رہ سکتا اور اس آزادی اور نام نہاد ڈیماکرسی کی موجودگی میں خلافت دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
یہ خیال زیادہ تر دوسری خلافت کے شروع میں پیش کیا گیا اور اس پر بہت کچھ زور دیا گیا۔ مگر باوجود اس کے گزشتہ پچیس سال میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کی عظمت قائم کی اور اس کے دامن سے جو لوگ وابستہ تھے انہیں ہرمیدان میں فتح دی اور ان کا قدم ترقی کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ پچیس سال میں جماعت کہیں کی کہیں پہنچ گئی۔
ہماری جماعت کی ترقی اور اس کی رفتار کی تیزی اس امر سے ہی سمجھی جا سکتی ہے کہ آج ہم ایک معمولی جمعہ کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں جس میں کوئی خاص خصوصیت نہیں۔ صرف قادیان اور چند اردگرد کے دیہات کے لوگ شامل ہیں مگر باوجود اس کے اس مسجد میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی مسجد سے چار گُنے سے بھی زیادہ ہو چکی ہے تمام لوگ بھرے ہوئے ہیں اور ابھی مستورات کے لئے علیحدہ انتظام ہے۔ وہ حصہ ا س سے قریباً تہائی ہو گا۔ اور وہ بھی تمام کا تمام بھرا ہؤا ہوتا ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے آخری سال میں جو جلسہ سالانہ ہؤا اُس میں جو احمدی شامل ہوئے وہ اس مسجد کے چوتھے حصہ میں سما گئے تھے۔ ہمارے دادا کی جو قبر ہے یہ انتہائی اور آخری حد تھی اور میرے بائیں طرف دو تین گز چھوڑکر جو ستون ہے وہ اس کی ابتدائی حد تھی۔ میرے دائیں طرف مسجد کا کُل حصہ ، اسی طرح بائیں طرف کا برآمدہ اور قبر سے لے کر مشرق کی طرف کا سب حصہ ، یہ سب زائد ہیں۔ اس نسبت سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ حلقہ اُس وقت کے اجتماع سے چار گُنے سے بھی زیادہ ہو گا۔یہ اس وقت کے جلسہ کے لوگوں کی کُل تعداد تھی اور اس تعداد کو اتنا اہم سمجھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جلسہ میں متواتر فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام دنیا میں ختم ہو چکا ہے۔ مگر آج ہمارے ایک معمولی جمعہ میں اس سے چار گُنا بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی موجود ہیں۔ تو یہ دونوں باتیں چونکہ ہماری جماعت کے لئے خوشی کا موجب تھیں اس لئے انہوں نے اس سالانہ جلسہ کو دو خوشیوں کا موجب قرار دیا۔ ایک خوشی تو یہ کہ پیغامِ نبوت پچاس سالہ کامیابی کے ساتھ باوجود دشمنوں کی مخالفت کے ایسی شان و شوکت پیدا کر چکا ہے کہ دنیا اس کی اہمیت تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ دوسری خوشی یہ کہ پیغامِ خلافت پچیس سالہ مخالفت بلکہ شروع خلافت کے وقت کے جماعت کے عمائدین کی مخالفت کے باوجود ترقی کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ آج خداتعالیٰ کے فضل سے وہ دنیا کے تمام حصوں کو منظم کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔
دنیا میں جب کسی شخص کو کوئی خوشی پہنچتی ہے یا جب کوئی شخص ایسی بات دیکھتا ہے جو اس کے لئے راحت کا موجب ہوتی ہے تو اگر وہ اللہ تعالیٰ پریقین رکھتا ہے تو وہ ایسے موقع پر یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑ اشکر ہے کہ ہم کو یہ بات حاصل ہوئی اور جب کسی مسلمان کو ایسی خوشی پہنچتی ہے تو وہ اس مفہوم کو عربی زبان میں ادا کرتا اور کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلہ۔ تو اس جلسہ پرہماری جماعت نے جو خوشی منائی اس کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ یہی بنے گا کہ پیغامِ نبوت اور پیغامِ خلافت کی کامیابی پر ہماری جماعت نے اس سال اَلْحَمْدُ لِلہ کہا۔ مگر باقی دنیا اور اسلام کی تعلیم میں ایک فرق ہے۔ باقی دنیا اَلْحَمْدُ لِلہ کو اپنی آخری آواز سمجھتی ہے مگر اسلام اَلْحَمْدُ لِلہ کو نہ صرف آخری آواز قرار دیتا ہے بلکہ اس کو ایک نئی آواز بھی قرار دیتا ہے ۔ اسلامی تعلیم کے مطابق اَلْحَمْدُ لِلہ کائنات کے آدم اول کی بھی آواز تھی جیسا کہ وہ کائنات کے آدم آخر کی آواز ہے۔ اور اس طرح اسلام اَلْحَمْدُ لِلہ کے ساتھ اگر ایک سلسلہ اور ایک کڑی کو ختم کرتا ہے تو ساتھ ہی دوسرے سلسلہ اور دوسری کڑی کو شروع کر دیتا ہے۔ چنانچہ سورۂ فاتحہ میں ہم کو یہی بتایا گیا ہے۔ وہ اَلْحَمْدُ لِلہ سے شروع ہوتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کامیابی اور خوشی دیکھ کر ایک مسلم کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلہ۔ مگر اَلْحَمْدُ للہسورۂ فاتحہ کی آخری آیت نہیں بلکہ سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت ہے اور جب ہم اسے پڑھتے چلے جاتے ہیں تو اس کے درمیان ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔ 1یعنی اے ہمارے رب اَلْحَمْد کے نتیجہ میں ایک اور پروگرام ہمارے سامنے آ گیا ہے اور ایک نئے کام کی بنیاد ہم نے ڈال دی ہے۔ ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پورے طور پر اس کام کو چلانے کی کوشش کریں گے اور ہم تجھ سے چاہتے ہیں کہ تُو اس راہ میں ضروری سامان ہمیں مہیا کر اور ہماری نصرت اور تائید فرما۔ پس اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کو پہلے رکھ کر اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کو بعد میں رکھ کر اسلام نے یہ بتایا ہے کہ کوئی حمد اُس وقت تک حقیقی حمد نہیں کہلا سکتی جب تک اس کے ساتھ ایک نئے کام کی بنیاد نہ ڈالی جائے۔ ہر حمد جو حمد پر ختم ہو جاتی ہے وہ درحقیقت حمد نہیں بلکہ ناشکری ہے۔ لفظ چاہے حمد کے ہوں مگر حقیقت اس میں ناشکری کی پائی جاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں اس کی ایک مثال پائی جاتی ہے۔ آپ رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے اور بعض دفعہ اتنی لمبی دیر نماز میں کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤںسوج جاتے ۔ جب آپ بوڑھے اور کمزور ہو گئے اور آپ میں اتنی طاقت نہ رہی کہ آپ اس مجاہدہ کوآسانی سے برداشت کر سکیں تو ایک دفعہ آپ کی ایک بیوی نے کہا کہ آپ اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ کیا آپ کی نسبت خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں نے تیرے اگلے پچھلے ذنوب معاف فرما دیئے ہیں ؟ اور کیا آپ کے ساتھ اس کی بخشش کے وعدے نہیں؟ جب ہیں تو آپ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں؟ رسول کریم ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ اے عائشہ (حضرت عائشہؓ کی طرف سے ہی یہ سوال تھا) أَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔2 کیا میں خداتعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ جب خدا نے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اور اس کا یہ احسان تقاضا کرتا ہے کہ میں آگے سے بھی زیادہ اس کی عبادت کروں اور آگے سے بھی زیادہ خداتعالیٰ کے دین کی خدمت میں لگ جاؤں ۔ رسول کریم ﷺ نے اس میں یہی بتایا ہے کہ انعام کے نتیجہ میں اَلْحَمْد مومن کا آخری قول نہیں ہوتا بلکہ وہ آخری قول بھی ہوتا ہے اور نئے کام کی بنیاد بھی ہوتا ہے۔ بہت لوگ جو اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں ان پر جب کوئی احسان ہوتا ہے تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے بڑا کام کر لیا اور یہ کہ اب ان کا کام ختم ہو گیا مگر اسلام ایسا نہیں کہتا ۔ محمد رسول اللہ ﷺ ایسا نہیں کہتے بلکہ اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان ہوتا ہے تو اس کے بعد بندوں پر نئی ذمہ داریاں رکھی جاتی ہیں۔ اگر وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار ہوں تب وہ مستحق ہوتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہنے کے اور تبھی ان کی اَلْحَمْد سچی اَلْحَمْد کہلا سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم کام ختم کر دیتے ہیں یا اس کی قدر نہیں کرتے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہماری حمد جھوٹی تھی کیونکہ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہ کام جس پر ہم نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہا ایسا اچھا نہ تھا ۔ اگر اچھا ہوتا تو اسے جاری رکھتے بلکہ اسے بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرتے۔
پس یہ جو خوشی کا جلسہ ہؤا اس نے درحقیقت ہماری ذمہ داریوں کو بہت بڑھا دیا ہے۔ ممکن ہے اگر یہ جلسہ نہ ہوتا تو لوگ کہہ دیتے کہ ہم نہیں سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ کا ہم پر اتنا بڑا احسان ہے۔ مگر اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے۔ اب ہر شخص نے اس امر کا اقرار کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا اور جب خدانے احسان کیا ہے تو اس کو اب بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے یا ختم کرنے کی؟ پس میرے نزدیک اس جلسہ نے ہماری جماعت پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد کر دی ہے۔ یوں تو ہر روز خداتعالیٰ کی جماعت کو خوشیاں پہنچتی ہی رہتی ہیں مگر ہر روز جشن نہیں منائے جاتے۔ ایک خاص جلسے کے منانے کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ ایک منزل پر پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے کام میں ایک درجہ کو حاصل کر لیا ہے۔ پس اس کے بعد ایک نئی ولادت کی ضرورت ہے۔ گویا پہلا سلسلہ ختم ہؤا اور اب ایک نیا سلسلہ شروع ہو گا۔ جیسے ایک دانہ بویا جاتا ہے تو اس سے مثلاً ستّر یا سَو دانے نکل آتے ہیں۔ اب ستر اور سَو دانوں کا نکل آنا اپنی ذات میں ایک بڑی کامیابی ہے مگر وہ پہلے بیج کا ایک تسلسل ہوتا ہے اور زمیندار اسے کوئی نیا کام نہیں سمجھتا بلکہ وہ سمجھتا ہے میرے پہلے کام کا ہی سلسلہ جاری ہے۔ لیکن جب زمیندار ان نئے دانوں کو پھر زمین میں ڈال دیتا ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اب میرے کام کا نیا دور شروع ہؤا۔ کام تو وہی ہے مگر اب وہ کام کے دور میں فرق کرنے لگ جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرا پہلا کام ختم ہؤا اور اب ایک نیا کام شروع ہے۔
اسی طرح جب ہماری جماعت نے اس جلسہ کو خوشی کا جلسہ قرار دیا تو بالفاظ دیگر انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہمار اپہلا بیج جو بویا ہؤا تھا اس کی فصل پک گئی اب ہم نیا بیج بو رہے ہیں اور نئی فصل تیار کرنے میں مصروف ہو رہے ہیں۔ یہ اقرار بظاہر معمولی نظر آتا ہے لیکن اگر جماعت کی حالت کو دیکھا جائے تو اس اقرار کی اہمیت بہت بڑھ جاتی اور اس پر ایسی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ اگر اس کے افراد رات دن کوشش نہ کریں تو اس ذمہ داری سے کبھی عُہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔
اس پچاس سالہ دور کے متعلق ہم نے جو خوشی منائی ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اس دور کی پہلی فصل کس طرح شروع ہوئی تھی؟ جب ہم اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس پہلی فصل کا بیج صرف ایک انسان تھا ۔ رات کو دنیا سوئی۔ ساری دنیا اس بات سے ناواقف تھی کہ خدا اس کے لئے کل کیا کرنے والا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت کل کیا ظاہر کرنے والی ہے؟ یہ آج سے پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ ایک فرد بھی دنیا کا نہیں تھا جس کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یکدم بغیر اس کے کہ پہلے کوئی انتباہ ہو ، بغیر اس کے کہ پہلے کوئی انذار ہو، بغیر اس کے کہ پہلے کوئی اعلان ہو، ایک شخص جس کو خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟ خدا نے اس کو جگایا اور کہا کہ ہم دنیا میں ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنانا چاہتے ہیں اور تم کو اس زمین اور آسمان کے بنانے کے لئے معمار مقرر کرتے ہیں۔ اس کے لئے یہ کتنی حیرت کی بات ہو گی؟ اس وسیع دنیا میں بڑی بڑی حکومتیں قائم تھیں ، بڑے بڑے نظام قائم تھے۔ پھر اس وسیع دنیا میں باوجود مسلمانوں کے سابقہ شوکت کھو چکنے کے آج سے پچاس سال پہلے ان کی حکومتیں موجود تھیں، ٹرکی ابھی ایک بڑی طاقت سمجھتی جاتی تھی، مصر ابھی آزاد تھا، ایران اور افغانستان آزاد تھے اور یہ اسلامی حکومتیں اسلام کی ترقی اور اس کی تہذیب کا گہوارہ کہلاتی تھیں مگر یہاں وہ آواز پیدا نہیں ہوئی۔ خدا نے ترکوں کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی۔ خدا نے مصر کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی۔ خدا نے ایران کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی۔ خدا نے افغانستان کے بادشاہ سے یہ بات نہیں کہی۔ خدا نے ترکی اور مصر وغیرہ کے جو شیخ الاسلام کہلاتے یا علماء کے رئیس کہلاتے تھے ان سے یہ نہیں کہا بلکہ ہندوستان کے ایک شخص سے خدا نے یہ بات کہی اور ہندوستان میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلکتہ یا بمبئی کے کسی بڑے رئیس یا عالم سے یہ بات نہیں کہی، لاہور یا امرتسر کے کسی بڑے رئیس یا عالم سے یہ بات نہیں کہی ، کسی ظاہری مرکز یا علمی اور سیاسی مرکز میں رہنے والے سے یہ بات نہیں کہی بلکہ خدا نے ریل سے دور، تمدن سے دور، تعلیمی مرکزوں سے دور قادیان میں ، ایک ایسی بستی میں جو کور دیہہ کہلانے کی مستحق تھی اور جس کے رہنے والے بالکل جاہل تھے اور تہذیب و تمدن سے کوسوں دور تھے۔ ایک ایسے شخص سے جو نہ عالم سمجھا جاتا تھا ، نہ فاضل سمجھتا جاتا تھا، نہ مالدار تھا، اس کے گھر میں اور اسکے کان میں یہ بات کہی۔ ہم کسی صورت میں بھی اندازہ نہیں کرسکتے اس کیفیت کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں اُس وقت پیدا ہوئی ہو گی۔ جس لڑائی کی آپ کو خبر دی گئی تھی وہ یقینا اس جنگ سے بہت اہم تھی اور ہے جو آجکل جرمنی اور برطانیہ و فرانس میں جاری ہے۔ تم میں سے آج اگر کسی بچہ کو خواب میں یہ کہا جائے کہ تمہارا فرض ہے کہ جاؤ اور جرمنی کو فتح کرو تو وہ نہایت حیران ہو کر صبح اپنے دوستوں اور ملنے والوں سے کہے گا کہ آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے اور جب وہ بیان کرے گا تو لوگ ہنستے ہوئے کہیں گے کہ معلوم ہوتا ہے رات تم زیادہ کھا گئے ہو گے جس کی وجہ سے تمہیں بدہضمی ہو گئی اور ایسا خواب آگیا۔ وہ خواب کی طرف کبھی توجہ نہیں کرے گا۔ ہاں کبھی کبھی ہنس کر اپنے دوستوں سے کہہ دے گا کہ مَیں نے ایک دفعہ ایک عجیب بے ہودہ سا خواب دیکھا تھا۔ مگر اسی قسم کی کیفیت میں قادیان میں ایک شخص کو الہام ہوتا ہے اور اسے جس جنگ کی خبر دی جاتی ہے وہ اس جنگ سے بہت زیادہ اہم ہے۔ پس اس کے قلب کی جو کیفیت ہوئی ہو گی اس کا اندازہ ہم نہیں کرسکتے۔ اگرتو وہ اس الہام کو اُس رنگ میں لے لیتا جیسے میں نے بچہ کی مثال دی ہے اور وہ سمجھتا کہ مجھے بدہضمی ہو گئی ہے یا مَیں نے زیادہ کھا لیا تھا جس کے نتیجہ میں اس قسم کا خواب آیا یا بخار کی کیفیت تھی یا نزلہ اس کا باعث تھا تب بھی سمجھ آ سکتا ہے کہ اس نے اس عظیم الشان خبر کو سن کراسے برداشت کر لیا ہو گا۔ تبھی تو اس نے توجیہہ کر لی کہ یہ محض وہم ہے، دماغی خیال یا کسی بیماری کا نتیجہ ہے۔ مگر اس نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ الہام کسی دماغی خرابی کا نتیجہ ہے، اس نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ کسی بیماری کا نتیجہ ہے، اس نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ کسی بدہضمی کا نتیجہ ہے۔ اس نے اسے خدا ہی کی آواز قرار دیا۔ جیسا کہ وہ فی الحقیقت خدا کی طرف سے تھی اور اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ اتفاقی آواز ہے جو میرے کان میں پڑ گئی ہے بلکہ وہ فوراً اس آواز کا جواب دینے کے لئے تیار ہو گیا اور اس نے کہا اے میرے رب! میں تیری طرف سے لڑائی کے لئے حاضر ہوں ۔ اگر وہ اس آواز کے جواب میں اپنے نفس کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتا کہ یہ میرا وہم ہے یا کسی اندرونی نقص اور بیماری کا نتیجہ ہے تو بے شک اس کے دل کو صبر آسکتا تھا اور ہم کہہ سکتے تھے کہ اس کی طبیعت میں اضطراب تو پیدا ہؤا ہو گا مگر حد درجہ کا نہیں۔ مگر اس نے جس رنگ میں اس کلام کو لیا اور اسکی اہمیت کو سمجھا وہ بتلا تا ہے کہ اس نے اسے کھیل نہیں سمجھا، اس نے اسے بیماری نہیں سمجھا، اس نے اسے بدہضمی نہیں سمجھا، اس نے اسے دماغی خرابی نہیں سمجھا بلکہ اس نے نہایت یقین اور وثوق کے ساتھ یہ سمجھا کہ خدا نے واقع میں یہ کام میرے سپرد کیا ہے۔ پس وہ تاریک گھڑیاں اور اس کی بقیہ رات اس پر کیسی گزری ہو گی؟ اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔
ابھی تمہیں وہ مقام حاصل نہیں کہ تم بڑے لوگوں کی مجلسوں میں جا سکو۔ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یہ موقع مل سکتا ہو کہ وہ فرانس کے کمانڈر انچیف کے پاس رات گزارے۔ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یہ موقع مل سکتا ہو کہ وہ انگلستان کے کمانڈر انچیف کے پاس رات گزارے۔ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے یہ موقع مل سکتا ہو کہ وہ جرمنی کے کمانڈر انچیف کے پاس رات گزارے مگر باوجود اس کے کہ وہ بہت چھوٹی سی جنگ کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، باوجود اس کے کہ ان کے پاس سامان موجود ہیں، باوجود اس کے کہ ان کے پاس فوجیں موجود ہیں، باوجود اس کے کہ ان کا تمام ملک ان کی مدد کے لئے کھڑا ہے پھر بھی ان کی راتیں اور دن جس کرب سے گزرتے ہیں اور جس بھاگ دوڑ سے وہ کام لے رہے ہیں اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کو کبھی تھوڑی دیر کے لئے ان کے پاس جانے اور رہنے کا موقع ملا ہو۔ مگر یہ شخص جس پر رات آئی اس کے پاس وہ سامان نہ تھے جو آج انگلستان کے کمانڈر انچیف کو حاصل ہیں، اس کے پاس وہ سامان نہ تھے جو آج فرانس کے کمانڈر انچیف کو حاصل ہیں، اس کے پاس وہ سامان نہ تھے جو آج جرمنی کے کمانڈر انچیف کو حاصل ہیں ۔ پھر ان لوگوں کے پاس صرف سامان ہی نہیں بلکہ ملک کی متحدہ طاقت ان کے ساتھ ہے۔ انگلستان کا کمانڈر انچیف جاتا ہے کہ اگر میرے پاس گولہ بارود ختم ہو گیا تو بھی پرواہ نہیں انگلستان کی تمام طاقت میرے ساتھ ہے اور اس کا بچہ بچہ میرے حکم پر کٹ مرنے کے لئے تیار ہے۔ فرانس کا کمانڈر انچیف صرف ان سامانوں کو نہیں دیکھتا جو اس کے پاس ہیں بلکہ وہ جانتا ہے کہ ملک کی تمام آبادی میرے حکم پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہے اور جب میں کہوں گا کہ گولہ بارود لاؤ تو وہ گولہ بارود اکٹھا کر دیں گے ۔ جب کہوں گا کہ جانی قربانی کرو تو وہ بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے سر کٹانے کے لئے آگے آ جائیں گے اور اگر اَور سامانوں کا مطالبہ کروں گا تو وہ حاضر کر دیں گے۔ پھر ان کے سامنے اپنی کامیابیوں کی ایک تاریخ موجود ہے، لمبی اور مسلسل تاریخ۔ فرانس کے کمانڈرانچیف کے سامنے فرانس کی کامیابیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے اور انگلستان کے کمانڈر انچیف کے سامنے انگلستان کی کامیابیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ کس طرح برّی اور بحری جنگوں میں کُودے اور ہر میدان میں وہ فاتح اور کامیاب رہے۔ یہ ساری چیزیں ان کے سامنے موجود ہیں مگر باوجود اس کے وہ گھبراتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس جنگ کا کیا نتیجہ ہو گا؟ حالانکہ یہ جنگ صرف تلوار کی جنگ ہے دلوں کو فتح کرنے کی جنگ نہیں جو تلوار کی جنگ سے بہت زیادہ اہم اور بہت زیادہ کٹھن ہوتی ہے۔ اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ آواز جو اس کے کان میں پڑی اس نے اس کے دل میں کیا تغیر پیدا کیا ہو گا۔ مگر اس نے اس آواز کو ہنسی میں نہیں ڈالا، اس نے اسے پاگلانہ خیال نہیں سمجھا، اس نے اسے بیماری کا نتیجہ قرار نہیں دیا بلکہ اس نے اسے خدا ہی کی آواز قرار دیا اور کہا اے خدا! میں حاضر ہوں۔ اس جواب کے بعد اس نے اپنی باقی رات کس طرح گزاری ہو گی اس کا اندازہ دنیا کا کوئی شخص نہیں لگا سکتا۔ ایک بلبلہ جس طرح سمندر کی سطح پر نمودار ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ دنیا کے سامنے ظاہر ہؤا بلکہ بلبلہ اور سمندر کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ ایک چھوٹا سا بیج تھا جو بہت بڑے جنگل میں ڈال دیا گیاجہاں خشکی ہی خشکی تھی اور پانی کا ایک قطرہ نہ تھا۔ جہاں ریت ہی ریت تھی اور مٹی کا ایک ذرّہ نہ تھا۔ بلکہ وہ بیج جو بیابان میں ڈال دیا جائے ایسے ریگستان میں ڈال دیا جائے جہاں پانی نہیں اور جہاں مٹی کا ایک ذرّہ نہیں اس کے لئے بھی بڑھنے کا کچھ نہ کچھ موقع ہو سکتا ہے۔ اس بلبلے کو بھی کچھ دیر زندہ رہنے کا موقع مل جاتا ہے جسے سمندر کی ہوائیں اِدھر اُدھر لے جاتی ہیں۔ مگر اس کے لئے تو اتنی بھی امید نہ تھی جتنی بلبلے کے متعلق سمندر کی لہروں میں امید کی جاتی ہے اور اس کے لئے اتنی بھی امید نہ تھی جتنی اس بیج کے متعلق کی جا سکتی ہے جو ایک وسیع ریگستان میں ڈال دیا جائے۔ پھر کوئی شخص نہ تھا جس سے وہ مشورہ کر سکتا ۔ اور وہ مشور ہ کرتا تو کس سے کرتا؟ یہ انسانی آواز نہ تھی کہ اس کے متعلق کسی انسان سے مشورہ لیا جاتا ۔ اگر انسانی آواز ہوتی تو کسی دوسرے سے مشورہ لیا جا سکتا تھا اور کہا جا سکتا تھا کہ ایک انسان نے مجھے یہ بات کہی ہے ۔ تمہار ے بھی جذبات چونکہ ایسے ہی ہیں جیسے اس کے۔ اس لئے مجھے مشورہ دو کہ میں کیا کروں اور کس طرح دنیا کا مقابلہ کروں؟ مگر یہ آواز خدا کی آواز تھی اس لئے وہ کسی بندے سے مشورہ نہیں کر سکتا تھا اور نہ کوئی بندہ ایسا تھا جو اسے مشورہ دے سکتا۔
آنحضرت ﷺ کو بھی جب پہلی دفعہ یہ آواز آئی تو اس وقت آپ کی جو قلبی کیفیت ہوئی اس کا پتہ حدیثوں سے لگتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس آواز کے بعد آپ گھر تشریف لائے۔ آپ بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ جسم کانپ رہا تھا، کندھوں کا گوشت شدتِ ہیبت سے ہِل رہا تھا اور رنگ اڑا ہو اتھا۔ آپ کی وفادار بیوی حضرت خدیجہؓ نے جب آپ کو اس حال میں دیکھا تو انہوں نے گھبرا کر کہا کہ مَیں آپ کو کس حال میں دیکھتی ہوں؟ آپ کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خدیجہ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کیا ہو گیا؟ مجھے یہ آواز آئی ہے اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ ۔خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔3 آسمان کے خدا نے مجھے بلایا ہے تاکہ مَیں اس کے نام کو لوں اور اسے دنیا میں پھیلاؤں۔ مَیں حیران ہوں کہ مَیں اس کام کو کس طرح کروں گا؟ خدائی آواز چونکہ اپنے ساتھ یقین کے انوار رکھتی ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ مجھے بیماری ہو گئی ہے۔ آپ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کوئی دماغی عارضہ ہے یا بدہضمی کا نتیجہ ہے بلکہ آپ نے فرمایا کہ یہ ہے تو آسمان کی آواز مگر جو کام میرے سپرد کیا گیا ہے مَیں حیران ہوں کہ اسے کس طرح کروں گا؟ حضرت خدیجہؓ آخر آپؐ کی صحبت میں ہی رہنے والی تھیں انہوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے اس کا بہت ہی لطیف جواب دیا ۔ وہ ہے تو عورتوں والا جواب مگر بہت ہی ایمان افزا ہے ۔ عورتیں عموماً سامانوں کو نہیں دیکھیں بلکہ ان کا ایمان ایمان العجائز ہوتا ہے ۔ وہ یہ نہیں دیکھتیں کہ سامان بھی میسر ہیں یا نہیں بلکہ وہ کہتی ہیں کہ کام ہو جائے گا۔ کس طرح ہو گا اس کا انہیں کوئی علم نہیں ہوتا۔ خدیجہؓ کا جواب بھی ویسا ہی جواب ہے۔ انہوں نے فرمایا کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا۔4آپؐ کیوں گھبراتے ہیں ۔ مجھے خدا کی قسم ہے کہ خدا آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ جب اس نے آپؐ کے سپرد ایک کام کیا ہے تو وہ خود آپ کی مدد کرے گااور آپؐ کی کامیابی کے لئے سامان مہیا کرے گا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ فقرہ تاریخ میں محفوظ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ فقرہ یہی نہیں کہ تاریخ میں محفوظ ہے بلکہ ان فقروں میں سے ہے جن کو تاریخ بھی مٹا نہیں سکتی۔ کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا۔ وہی ایمان العجائز ہے ، وہی یقین اور وہی وثوق ہے۔ بغیر اس کے کہ وہ عواقب کو دیکھتیں، بغیر اس کے کہ وہ سامانوں پر نظر دوڑاتیں۔ پس اس واقعہ سے رسول کریم ﷺ کی قلبی کیفیت کا کسی قدر اندازہ ہو جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی الہامات نازل ہوئے کہ اٹھو اور دنیا کو میری طرف بلاؤ اور دنیا میں پھر میرے دین کو قائم کرو۔ ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہی کیفیت آپؑ کی بھی ہوئی ہو گی۔ آپ بھی حیران ہوئے ہوں گے کہ کہاں مَیں اور کہاں یہ کام۔ قادیان جیسی جگہ میں، میرے جیسے انسان کو آج خدا یہ کہہ رہا ہے کہ دنیا، مہذب دنیا ، طاقتور دنیا، سامانوں والی دنیا مجھ سے دور پڑی ہوئی ہے، اتنی دور کہ دنیا اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی۔ جاؤ اور ان گناہ کے قلعوں کو پاش پاش کر دو جو اسلام کے مقابلہ میں بنائے گئے ہیں۔ اور جاؤ اور ان شیطانی حکومتوں کو مٹا دو جو میری حکومت کے مقابلہ میں قائم کی گئی ہیں اور ان تمام بے دینی کے قلعوں اور شیطانی حکومتوں کی جگہ میری حکومت اور دین کی بادشاہت قائم کرو۔ اگر کوئی شخص دوربین نگاہ رکھتا ہے ، اگر کوئی شخص حقیقت کو سمجھ سکتا ہے تو مَیں کہوں گا کہ یہ مطالبہ اس سے بھی زیادہ مشکل تھا جیسے کسی کو چاند دکھایا جائے اور کہا جائے کہ جاؤ اور اس چاند کو جا کر توڑ ڈالو۔ وہ تو وہاں جا بھی نہیں سکتا پھر اس سے یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس کو توڑ ڈالے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تو وہاں پہنچ بھی نہ تھی جہاں خدا آپ کو پہنچانا چاہتا تھا۔ بھلا کون سے ذرائع آپ کے پاس ایسے موجود تھے کہ آپ امرتسر کے لوگوں تک ہی اپنی آواز پہنچا سکتے یا لاہور، بمبئی اور کلکتہ کے لوگوں تک یہ الٰہی پیغام پہنچا سکتے۔ یا کون سے ذرائع آپ کے پاس ایسے موجود تھے کہ آپ عرب کے لوگوں کو بیدار کر سکتے۔یا آپ انگلستان اور امریکہ تک اپنی اواز پہنچا سکتے؟ہزاروں آوازیں دنیا میں گونج رہی تھیں، ہزاروں قومیں دنیا میں موجود تھیں، بیسیوں حکومتیں دنیا میں پائی جاتی تھیں جن کی نگاہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتنی بھی تو عزت نہ تھی جتنی دنیاوی حکومت کے سیکرٹریٹ کے چپڑاسی کی ہوتی ہے مگر خدا نے کہا اُٹھ اور دنیا کو میرا پیغام پہنچا دے اور اس نے کہا اے میرے رب! مَیں حاضر ہوں۔ اس نے یہ بھی تو نہیں سوچا کہ یہ کام کیونکر ہو گا؟ اس کا جسم کانپا ہو گا، یقیناً اس کے دل پر رعشہ طاری ہؤا ہو گا۔ یقیناً وہ حیران ہؤا ہو گا، یقیناً ۔ مگر اس نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کام کیونکر اور کس طرح ہو گا ۔ اس کے دل کے تقویٰ اور محبت الٰہی نے اسے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اس کے جذبۂ فدائیت نے یہ پوچھنے ہی نہیں دیا کہ اے میرے رب! یہ کس طرح ہو گا؟ اس نے پہلے کہا ہاں اے میرے رب! مَیں حاضر ہوں اور پھر اس نے سوچا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں یہ کام کس طرح ہو گا؟ یہی وہ حقیقی اطاعت کا جوش ہے جو لبیک پہلے کہلوا دیتا ہے اور فکر پیچھے پیدا ہوتا ہے۔
صحابہؓ کی مجلس کا ہی ایک واقعہ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں سچی محبت ہوتی ہے وہاں تعمیل پہلے ہوتی اور فکر بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ اہل عرب شراب کے سخت عادی تھے۔ ایسے عادی کہ بہت کم لوگ ان کی طرح شراب کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کا تمام لٹریچر، شعر، نثر اور خطبے شراب کے ذکر سے بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ مسلمان بھی چونکہ انہی میں سے آئے تھے اس لئے ان میں بھی وہی عادتیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت شروع میں شراب حرام نہیں کی۔ مکہ کا سارا زمانہ گزر گیا اور شراب حلال رہی۔ مدینہ میں بھی چند سال اِسی طرح گزر گئے اور شراب کی حرمت نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ سے فرمایا کہ اب شراب حرام کی جاتی ہے۔ آپؐ مسجد میں آئے اور جو لوگ اُس وقت موجود تھے ان سے کہا کہ اب خدا نے شراب حرا م کر دی ہے اور ایک شخص سے کہا کہ جاؤ مدینہ کی گلیوں میں شراب کی حرمت کا اعلان کر دو۔ اُس وقت مدینہ میں ایک خوشی کی مجلس منعقد ہو رہی تھی اور حسبِ دستور اس مجلس میں شراب کے مٹکے رکھے ہوئے تھے۔ لوگ باتیں کرتے، گاتے بجاتے اور شرابیں پیتے جاتے تھے۔ ایک بہت بڑا مٹکا وہ ختم کر چکے تھے اور دو مٹکے شراب کے ابھی باقی تھے۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ جہاں شراب کا ایک مٹکا ختم ہو چکا ہو وہاں دماغوں کی کیا کیفیت ہوگی؟ اُس وقت وہ لوگ نشہ میں آئے ہوئے تھے اور ان کے ہوش و حواس بہت کچھ زائل ہو چکے تھے کہ بازار میں سے اس شخص کی یہ آواز آئی کہ محمد ﷺ نے شراب حرام کر دی ہے۔ انہی شراب سے مدہوش لوگوں میں سے ایک شخص گھبرا کر اٹھا اور کہنے لگا میرے کان میں ایک آواز آئی ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے شراب حرام کر دی ہے۔ میں باہر نکل کر دیکھوں تو سہی یہ آواز کیسی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر اتنے پر ہی بس ہو جاتی تو یہ رسول کریم ﷺ کی اس محبت کا جو صحابہؓ کے دلوں میں تھی معجزانہ نمونہ ہوتا۔ شراب کے نشہ میں بھلا کون دیکھتا ہے کہ کیسی آواز آ رہی ہے! عام حالات میں تو وہ ہنستے اور کہتے کہ شراب کو کون حرام کر سکتا ہے؟ پس اگر بات یہیں تک رہتی تب بھی یہ رسول کریم ﷺ کی محبت کا ایک معجز نما ثبوت ہوتی مگر اسی پر بس نہیں۔ جب اس نے یہ کہا کہ مَیں دیکھوں تو سہی یہ آواز کیسی آ رہی ہے تو ایک اَور آدمی جو شراب کے نشہ میں مست بیٹھا ہؤا تھا اور شراب پی پی کر اس کے دماغ میں نشہ غالب آ رہاتھا یکدم اس حالت سے بیدار ہؤا اور بولا کیا کہا تم نے؟ ہمارے کان میں آواز پڑتی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے شراب حرام کر دی اور تم کہتے ہو تحقیق کرواس کی بات کہاں تک سچ ہے۔ خدا کی قسم! میں ایسا نہیں کروں گا میں پہلے شراب کا مٹکہ توڑوں گا بعد میں پوچھوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے سونٹا پکڑ کر زور سے مٹکوں کو مارا اور انہیں توڑ دیا اور شراب صحن میں پانی کی طرح بہنے لگی ۔ اس کے بعد اس نے دروازہ کھول کر اعلان کرنے والے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے بتایاکہ مجھے رسول کریم ﷺ نے حکم دیا ہے کہ اعلان کر دوں کہ شراب حرام کر دی گئی ہے۔ اس نے کہا ہم تو پہلے ہی شراب کے مٹکے توڑ چکے ہیں۔5
خدا کی رحمتیں ہوں اس شخص پر اس نے عشق کا ایک ایسا نمونہ قائم کیا کہ قیس اور مجنوں کا عشق اگر اس میں کوئی حقیقت تھی بھی اِس کے عشق کے مقابل پر مرجھا کر رہ جاتا ہے۔ اس حقیقی محبت کے مظاہرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں دلیلیں نہیں پوچھی جاتیں۔ وہاں انسان پہلے اطاعت کا اعلان کرتا ہے پھر یہ سوچتا ہے کہ میں اس حکم پر کس طرح عمل کروں۔ یہی کیفیات انبیاء کی ہوتی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کا پہلا کلام اترتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں اتنی ہوتی ہے اتنی ہوتی ہے کہ وہ دلیل بازی نہیں کرتے اور جب خدا کی آواز ان کے کانوں میں پہنچتی ہے تو وہ یہ نہیں کہتے کہ اے ہمارے رب! کیا تُو ہم سے ہنسی کر رہا ہے؟ کہاں ہم اور کہاں یہ کام۔ بلکہ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! بہت اچھا اور یہ کہہ کر کام کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد سوچتے ہیں کہ اب انہیں کیا کرنا چاہئے۔ یہی آنحضرت ﷺ نے کیا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رات کیا ۔ خدا نے کہا اٹھ اور دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا ہو اور وہ فوراً کھڑے ہو گئے اور پھر سوچنے لگے کہ اب مَیں یہ کام کس طرح کروں گا؟
پس آج سے پچاس سال پہلے کی وہ تاریخی رات جو دنیا کے آئندہ انقلابات کے لئے زبردست حربہ ثابت ہونے والی ہے، جو آئندہ بننے والی نئی دنیا کے لئے ابتدائی رات اور ابتدائی دن قرار دی جانے والی ہے اگر ہم اس رات کا نظارہ سوچیں تو یقینا ہمارے دل اس خوشی کو بالکل اور نگاہ سے دیکھیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ خوشی انہیں کس گھڑی کے نتیجہ میں ملی، یہ مسرت انہیں کس پل کے نتیجہ میں حاصل ہوئی اور کس رات کے بعد ان پر کامیابی و کامرانی کا یہ دن چڑھا۔ یہ خوشی اور یہ مسرت اور یہ کامیابی و کامرانی کا دن ان کو اس گھڑی اور اس رات کے نتیجہ میں ملا جس میں ایک تن تنہا بندہ جو دنیا کی نظروں میں حقیر اور تمام دنیوی سامانوں سے محروم تھا اسے خدا نے کہا کہ اٹھ اور دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا ہو۔ اور اس نے کہا اے میرے رب! میں کھڑا ہو گیا۔ یہ وہ وفاداری تھی ، یہ وہ محبت کا صحیح مظاہرہ تھا جسے خدا نے قبول کیا اور اس نے اپنے فضل اور رحم سے اس کو نوازا۔ رونا اورہنسنا دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی شان سے بعید ہیں لیکن محبت کی گفتگو میں اور محبت کے کلاموں میں یہ باتیں آ ہی جاتی ہیں۔
پس مَیں کہتا ہوں اگر خدا کے لئے بھی رونا ممکن ہوتا، اگر خدا کے لئے بھی ہنسنا ممکن ہوتا تو جس وقت خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ مَیں تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کرتا ہوں اور آپ فوراً کھڑے ہو گئے اور آپ نے یہ سوچا تک نہیں کہ یہ کام مجھ سے ہو گا کیونکر؟ اگر اس وقت خدا کے لئے رونا ممکن ہوتا تو مَیں یقینا جانتا ہوں کہ خدا رو پڑتا اور اگر خدا کے لئے ہنسنا ممکن ہوتا تو وہ یقینا ہنس پڑتا۔ وہ ہنستا بظاہر اس بے وقوفی کے دعوے پر جوتمام دنیا کے مقابلہ میں ایک نحیف و ناتواں وجود نے کیا اور وہ رو پڑتا اس جذبۂ محبت پر جو اس تن تنہا روح نے خدا کے لئے ظاہر کیا۔ یہی سچی دوستی تھی جو خدا کو منظور ہوئی اور اسی رنگ کی سچی دوستی ہی ہوتی ہے جو دنیا میں کام آیا کرتی ہے۔
مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہی یہ واقعہ سناہوا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو ہمیشہ یہ نصیحت کیا کرتا تھا کہ تم جلدی لوگوں کو دوست بنا لیتے ہو یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ سچے دوست کا ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور وہ کہتا کہ آپ کو غلطی لگی ہوئی ہے میرے دوست سب سچے ہیں اور خواہ مجھ پر کیسی ہی مصیبت کا وقت آئے یہ میری مدد سے گریز نہیں کریں گے۔ اس نے بہتیرا سمجھایا مگر بیٹے پر کوئی اثر نہ ہوا۔ باپ نے کہا کہ مَیں ساٹھ ستّر سال کی عمر کو پہنچ گیا مگر مجھے تو اب تک صرف ایک ہی دوست ملا ہے اور وہ بھی فلاں غریب شخص جسے اس کا بیٹا حقارت سے دیکھا کرتا تھا اور اپنے باپ سے کہا کرتا کہ آپ اتنے بڑے ہو کر اس سپاہی سے کیوں محبت رکھتے ہو؟ اور باپ ہمیشہ یہی کہتا کہ مجھے تمام عمر میں اگر کوئی سچا دوست ملا ہے تو یہی ہے۔ آخر ایک دن اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم میری بات نہیں مانتے تو تجربہ کر لو اور اپنے دوستوں سے جا کر کہو کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے۔ میرے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں ، میرے لئے رہائش اور خوراک کا انتظام کر دو۔ اس نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ وہ ایک ایک کے پاس گیا۔ مگر جس دوست کے پاس بھی جاتا وہ پہلے تو کہتا کہ آپ نے بڑی عزت افزائی فرمائی سنائیے آپ کا کیسے آنا ہؤا؟ اور جب یہ کہتا کہ میرے باپ نے مجھے نکال دیا ہے اب میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ میری رہائش وغیرہ کا انتظام کر دیں تو وہ یہ سنتے ہی کوئی بہانہ بنا کر اندر چلا جاتا۔ غرض اسی طرح اس نے سارے دوستوں کا چکر لگا لیا اور آخر باپ کے پاس آ کر کہا کہ آپ کی بات ٹھیک نکلی۔ میرے دوستوں میں سے ایک بھی تو نہیں جس نے مجھے مُنہ لگایا ہو۔ باپ نے کہا اچھا تم نے اپنے دوستوں کا تو تجربہ کر لیا اب آج کی رات میرے دوست کا بھی تجربہ کر لینا ۔چونکہ وہ امیر آدمی تھا اس لئے وہ اپنے دوست کے مکان پر نہیں جایا کرتا تھا اکثر وہی اس کے مکان پر آ جاتا مگر اس رات وہ اچانک بیٹے کوساتھ لے کر اپنے دوست کے مکان پر گیا اور دروازہ پر دستک دی۔ آدھی رات کا وقت تھا اس نے پوچھا کون؟ اس نے اپنا نام بتایا کہ میں ہوں۔ وہ کہنے لگا بہت اچھا ذرا ٹھہرئیے مَیں آتا ہوں۔ یہ باہر انتظار کرنے لگ گئے مگر کافی وقت گزر گیا اور وہ اندر سے نہ نکلا۔ یہ دیکھ کر بیٹا کہنے لگا جناب!آپ کا دوست بھی آخر ویسا ہی نکلا ۔ باپ کہنے لگا ذرا ٹھہرو، مایوس نہ ہو دیر لگانے کی کوئی وجہ ہو گی۔ آخر کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد وہ دوست باہر نکلا ۔ اس کی حالت یہ تھی کہ اس نے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی ایک ہاتھ میں روپوں کی تھیلی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا ہؤا تھا اور کہنے لگا معاف کیجئے مجھے دیر ہو گئی۔ اصل بات یہ ہے کہ جب مجھے آپ کی آواز آئی تو مَیں نے سمجھا کہ ضرور کوئی بڑا کام ہے جس کے لئے آپ رات کو میرے پاس آئے ہیں۔ مَیں نے سوچا کہ آخر آپ کو مجھ سے اِس وقت کیا کام ہو سکتا ہے؟ اور میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ دنیا میں مصیبتیں آتی رہتی ہیں اور بعض دفعہ بڑے بڑے امیر آدمی بھی بلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ پس مَیں نے سمجھا کہ شاید کوئی بیمار ہے جس کی خدمت کے لئے مجھے بلایا ہے اس لئے میں نے فوراً اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ میرے ساتھ چل ممکن ہے کسی خدمت کی ضرورت ہو۔ پھر مَیں نے سوچا ممکن ہے کسی دشمن سے مقابلہ ہو جس میں میری جان کی ضرورت ہو سو اِس خیال کے آنے پر میں نے تلوار نکال کر گلے میں لٹکا لی کہ اگر جانی قربانی کی ضرورت ہو تو میں اس کے لئے بھی حاضر ہوں۔ پھر میں نے سوچا کہ آپ امیر تو ہیں ہی مگر بعض دفعہ امراء پر بھی ایسے اوقات آ جاتے ہیں کہ وہ روپوں کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ پس میں نے سوچا کہ شاید اس وقت آپ کو روپوں کی ضرورت ہو مَیں نے ساری عمر تھوڑا تھوڑا جمع کر کے کچھ روپیہ حفاظت سے رکھا ہؤا تھا اور اسے زمین میں ایک طرف دبا دیا تھا اس خیال کے آنے پر مَیں نے زمین کو کھود کر اس میں سے تھیلی نکالی اور اب یہ تینوں چیزیں حاضر ہیں۔ فرمائیے آپ کا کیا ارشاد ہے؟
دنیا کی زبان میں یہ دوستی کی نہایت ہی شاندار مثال ہے اور انسان ایسے جذبات کو دیکھ کر بغیر اس کے کہ وہ اپنے دل میں شدید ہیجان محسوس کرے نہیں رہ سکتا۔ مگر اس دوستی کااظہار اس دوستی کے مقابلہ میں کچھ بھی تو نہیں جو نبی اپنے خدا کے لئے ظاہر کرتے ہیں۔ وہاں قدم قدم پر مشکلات ہوتی ہیں۔ وہاں قدم قدم پر قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں اور وہاں قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہونا پڑتاہے۔ پس نبیوں کا جواب اپنے خدا کو ویسا ہی ہوتا ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر جیسے اس غریب آدمی نے امیر آدمی کو دیا۔ بیشک اگر ہم معقولات کی نظر سے اس کو دیکھیں اور منطقی نقطہ نگاہ سے اس پر غور کریں تو اس غریب آدمی کی یہ حرکت ہنسی کے قابل نظر آتی ہے کیونکہ اس امیر کے ہزاروں نوکر چاکر تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے اس کی بیوی نے کیا زائد خدمت کر لینی تھی؟ اسی طرح وہ لاکھوں کا مالک تھا اس کو سو ڈیڑھ سو روپیہ کی تھیلی کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی؟ اور خود اس کے کئی پہرہ دار اور محافظ تھے اس کو اس دوست کی تلوار کیا نفع پہنچا سکتی تھی؟ مگر محبت کے جوش میں اس نے یہ نہیں سوچا کہ میری تلوار کیا کام دے گی، میرا تھوڑا سا روپیہ کیا فائدہ دے گا اور میری بیوی کیا خدمت سرانجام دے سکے گی؟ اس نے اتنا ہی سوچا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ مجھے حاضر کر دینا چاہئے۔
ایسے ہی بے وقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے ۔ کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کر کے مَیں ہنسا بھی ہوں اور بسا اقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آ گئے ہیں۔ مگر مَیں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنے زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک رات ہم سب صحن میں سو رہے تھے گرمی کا موسم تھا کہ آسمان پر بادل آیا اور زور سے گرجنے لگا ۔ اسی دوران میں قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گر گئی مگر اس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے۔ ہمارے مدرسہ میں ہی ایک واقعہ ہؤا جس کو یاد کر کے لڑکے مدتوں ہنستے رہے اور وہ یہ کہ فخر دین ملتانی جو بعد میں مرتد ہوگیا وہ اس وقت طالب علم تھا اور بورڈنگ ہاؤس میں رہا کرتا تھا۔ جب بجلی کی زور سے کڑک ہوئی تو اس نے اپنے متعلق سمجھا کہ بجلی شاید اس پر گری ہے اور وہ ڈر کے مارے چارپائی کے نیچے چھپ گیا اور زور زور سے آواز دینے لگا کہ بلّی بلّی۔ بجلی کا لفظ اس کے مُنہ سے نکلتا ہی نہیں تھا۔ ڈر کے مارے بلی بلی کہنے لگ گیا۔ پہلے تو سارے ہی لڑکے بھاگ کر کمروں میں چلے گئے مگر پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے تو اسے چارپائی کے نیچے چھپا ہؤا پایا اور دیکھا کہ وہ بلی بلی کر رہاہے۔ آخر پوچھا تو اس کے ہوش ٹھکانے آئے اور کہنے لگا مجھ پر بجلی گر پڑی ہے ۔ تو وہ اتنی زور کی کڑک تھی کہ ہر شخص نے یہ سمجھا کہ اسی کے قریب بجلی گری ہے۔ اس کڑک کی وجہ سے اور کچھ بادلوں کی وجہ سے تمام لوگ کمروں میں چلے گئے۔ جس وقت بجلی کی یہ کڑک ہوئی اس وقت ہم بھی جو صحن میں سو رہے تھے اٹھ کر اندر چلے گئے۔ مجھے آج تک وہ نظارہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اندر کی طرف جانے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر رکھ دیئے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے ان پر نہ گرے۔ بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ بجلی سے محفوظ رہتے۔ میں سمجھتا ہوں میری وہ حرکت ایک مجنون کی حرکت سے کم نہیں تھی مگر مجھے ہمیشہ خوشی ہؤا کرتی ہے کہ اس واقعہ نے مجھ پر بھی اس محبت کو ظاہر کردیا جو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھی ۔ بسا اوقات انسان خود بھی نہیں جانتا کہ مجھے دوسرے سے کتنی محبت ہے۔ جب اس قسم کا کوئی واقعہ ہو تو اسے بھی اپنی محبت کی وسعت اور اس کی گہرائی کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔ تو جس وقت محبت کا انتہائی جوش اٹھتا ہے عقل اس وقت کام نہیں کرتی۔ محبت پرے پھینک دیتی ہے عقل کو، اور محبت پرے پھینک دیتی ہے فکر کو اور وہ آپ سامنے آ جاتی ہے۔ جس طرح چیل جب مرغی کے بچوں پرحملہ کرتی ہے تو مرغی بچوں کو جمع کر کے اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے اور بعض دفعہ تو محبت ایسی ایسی حرکات کرا دیتی ہے کہ دنیا اسے پاگل پنے کی حرکات قرار دیتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جنون دنیا کی ساری عقلوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور دنیا کی ساری عقلیں اس ایک مجنونانہ حرکت پر قربان کی جا سکتی ہیں کیونکہ اصل عقل وہی ہے جو محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ نبی کو بھی جب آواز آتی ہے کہ خدا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا خدا، خدا عزت و شوکت کو پیدا کرنے والا خدا، بادشاہوں کو گدا اور گداؤں کو بادشاہ بنانے والا خدا، حکومتوں کو قائم کرنے اور حکومتوں کو مٹانے والا خدا، دولتوں کے دینے اور دولتوں کو لے لینے والا خدا، رزق کے دینے اور رزق کو چھیننے والا خدا، زمین و آسمان کے ذرّہ ذرّہ اور کائنات کا مالک خدا آواز دیتا ہے ایک کمزور ناتوان اور نحیف انسان کو کہ مَیں مدد کا محتاج ہوں میری مدد کرو۔ تو وہ کمزور اور ناتوان اور نحیف بندہ عقل سے کام نہیں لیتا وہ یہ نہیں کہتا کہ حضور کیا فرما رہے ہیں؟ کیا حضور مدد کے محتاج ہیں؟ حضور تو زمین و آسمان کے بادشاہ ہیں۔ مَیں کنگال ، غریب اور کمزور آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ وہ یہ نہیں کہتا بلکہ وہ نحیف و نزار اور کمزور جسم کو لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے مَیں حاضر ہوں، مَیں حاضر ہوں، مَیں حاضر ہوں۔ کون ہے جو ان جذبات کی گہرائیوں کا اندازہ کر سکتا ہے؟ سوائے اس کے جسے محبت کی چاشنی سے تھوڑا بہت حصہ ملا ہو۔
آج سے پچاس سال پہلے اسی خدا نے پھر یہ آواز بلند کی اور قادیان کے گوشۂ تنہائی میں پڑے ہوئے ایک انسان سے کہا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے۔ مجھے دنیا میں ذلیل کر دیا گیا ہے، میری دنیا میں کوئی عزت نہیں، میرا دنیا میں کوئی نام لیوا نہیں، مَیں بے یار ومددگار ہوں اے میرے بندے میری مدد کر۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ کہنے والا کون ہے اور جس سے خطاب کیا جاتا ہے وہ کون ہے۔ اس کی عقل نے یہ نہیں کہا کہ مجھے بلانے والے کے پاس تمام طاقتیں ہیں میں بھلا اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ اس کی محبت نے اس کے دل میں ایک آگ لگا دی اور وہ دیوانہ وار جوش میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا میرے رب! مَیں حاضر ہوں۔ میرے رب مَیں حاضر ہوں، میرے رب مَیں بچاؤں گا، میرے رب۱ مَیں بچاؤں گا۔ یہی تو وہ ساعت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِخَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ۔6 اس رات پر ہزاروں راتیں قربان ہیں اور چونکہ بار بار ایسی راتیں آ جاتی ہیں اس لئے خدا نے خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ کہا۔ ورنہ اگر ایک ہی رات ہوتی تو دنیا کی ساری راتیں اس ایک رات، اس ایک گھنٹے، اس ایک منٹ اور اس ایک سیکنڈ پر قربان کی جا سکتی ہیں۔ جب ایک کمزور بندہ اپنی محبت کے جوش میں بغیر سوچے سمجھے اور بغیر عواقب پر غور کئے تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا اور خدا کے اردگرد پہرہ دینے لگ جاتا ہے۔ وہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوتا ہے جب قادروقدیر خدا جب زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا خدا ایک نحیف و نزار جسم کے ساتھ چارپائی پر لیٹا ہؤا ہوتا ہے اور ایک نحیف و نزار انسان جو اپنی کمر بھی سیدھی نہیں کر سکتا وہ تلوار لے کر اس کے اردگرد پہرہ دے رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے میں اسے بچاؤں گا مَیں اسے بچاؤںگا۔ اس سے زیادہ محبت کا شاندار نظارہ کبھی نظر نہیں آ سکتا اور کبھی نظر نہیں آ سکتا۔ یہی رات ہمارے زمانہ میں بھی آئی اور خدائے قادر نے آواز دی کہ کوئی بندہ ہے جو مجھے بچائے۔ تب زمین کے گوشوں میں سے ایک کمزور شخص آگے بڑھا اور اس نے کہا اے میرے رب! مَیں حاضر ہوں۔ عقلمند انسان چاہے اسے بے وقوفی قرار دیں اور فلاسفر چاہے اسے نادانی قرار دیں مگر جیسا کہ مَیں نے ابھی کہا ہے ہزاروں عقلیں اس بیوقوفی پر قربان کی جا سکتی ہیں اور ہزاروں فلسفے کے خیالات اس بظاہر نادانی کے خیال پر قربان کئے جا سکتے ہیں۔
پھر اس کا وہ اعلان محض وقتی اعلان نہ تھا۔ اس کا اظہار محبت ایک وقتی جوش نہ تھا۔ وہ کھڑا ہو گیا اور کھڑا ہی رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے مقصود کو حاصل کر لیا۔ کیا تم نے کبھی گھروں میں نہیں دیکھا کہ وہاں بعض دفعہ کیا تماشہ ہؤا کرتا ہے؟ مَیں نے تو اس قسم کا تماشہ کئی دفعہ دیکھا اورمَیں سمجھتا ہوں ہر گھر میں کبھی نہ کبھی ایسا ہو جاتا ہو گا کہ کبھی کبھی مائیں ہنسی کے طور پر کپڑا مُنہ میں ڈال کر رونے لگ جاتی ہیں اور اُوں اُوں کرتے ہوئے اپنے کسی بڑے بھائی یا خاوند یا کسی دوسرے عزیز رشتہ دار کا نام لے کر بچے سے کہتی ہیں کہ وہ مجھے مارتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ ڈیڑھ سال کا بچہ کُود کرکھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ گویا وہ اس شخص کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جس کے متعلق اس کی ماں کہتی ہے کہ وہ مجھے مارتا ہے۔ حالانکہ ماں کو بچانا تو الگ رہا بعض دفعہ وہ اپنا ہاتھ بھی اچھی طرح نہیں اٹھا سکتا مگر جانتے ہو یہ کیا ہوتا ہے؟ یہ محبت کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ بچہ یہ نہیں دیکھتا میں کمزور اور ناتواں ہوں بلکہ ماں جب اسے آواز دیتی ہے تو وہ اپنی کمزور حالت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی مدد کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے ۔ یہی حالت اس رات، اس گھڑی، اس سیکنڈ اور اس پَل میں نبیوں کی ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ کہتا ہے اے میرے بندے! مجھے دنیا نے دھتکار دیا اور مجھے اپنے گھر سے نکال دیا کوئی ہے جو مجھے بچائے اور وہ ناتواں اور نحیف بندہ چھوٹے سے نادان بچے کی طرح مٹھیاں بھینچ کر کھڑ اہو جاتا ہے اور کہتا ہے مَیں بچاؤں گا، مَیں بچاؤں گا۔ پھر وہ صرف کہتا ہی نہیں بلکہ اس کو بچانے میں لگ جاتا ہے۔ اس بچہ کا تو عشق کامل نہیں ہوتا ۔ اگر واقع میں جو شخص ہنسی کر رہا ہوتا ہے وہ اس بچے کو تھپڑ مارے تو اس نے ماں کو تو کیا بچانا ہے وہ خود ماں سے لپٹ جائے گا اور دوڑ کر اس کی گود میں چلا جائے گا۔ مگر یہ شخص ایسا ہوتا ہے کہ دنیا اسے مارتی ہے ، ہاتھوں سے بھی اور لاتوں سے بھی اور دانتوں سے بھی اور چاروں طرف سے اس پر *** اور پھٹکار ڈالی جاتی ہے مگر وہ اپنے جسم کو ہلاتا نہیں ، وہ چیختا نہیں، وہ چِلّاتا نہیں بلکہ برابر مقابلہ کئے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خداتعالیٰ کی رحمتیں نازل ہونے لگتی ہیں اور ایک ایک کر کے، ایک ایک کر کے بندوں کو وہ خداتعالیٰ کے دربار میں لانا شروع کر دیتا ہے۔ وہ کمزور بازو طاقت پکڑنے لگ جاتے ہیں ، وہ لڑکھڑانے والی زبان مضبوط ہونے لگ جاتی ہے، وہ دبی ہوئی آواز طاقت و قوت پکڑتی جاتی ہے اور وہ نہایت ہی ذلیل نظر آنے والا وجود اپنے اندر ایسی ہیبت پیدا کر لیتا ہے کہ لوگ اس سے کانپنے اور اس کے سامنے کھڑا ہونے سے لرزتے ہیں۔ اور وہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے، کرتا چلا جاتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ایک جماعت کو لا ڈالتا ہے اور زمین و آسمان کا خدا جسے لوگوں نے اپنے گھروں میں سے نکال دیا تھا اس کے لئے نئے نئے محلات بننے لگ جاتے ہیں۔ کوئی یہاں، کوئی وہاں، کوئی اِدھر، کوئی اُدھر اور وہ خدا جو مسیحؑ کی طرح اپنے نبی کو یہ آواز دیتا ہے کہ اے میرے بندے! لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر میرے لئے تو سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں۔ اس کے لئے وہ سب سے پہلے اپنے دل کا دروازہ کھول دیتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب! یہ گھر حاضر ہے۔ پھر وہ اور گھروں کے تالے کھولتا ہے اور دیوانہ وار اور مجنونانہ وار کھولتا چلاجاتا ہے یہاں تک کہ ایک گھر کی بجائے خدا کے کئی گھر ہو جاتے ہیں اور خدا کی حکومت زمین پر اسی طرح قائم ہو جاتی ہے جس طرح وہ آسمان پر قائم ہے۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتا جاتا ہے، بڑھتا جاتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے جب خدا اپنے بندے سے کہتا ہے کہ میرے بندے تُو نے بہت خدمت کر لی اور مَیں سمجھتا ہوں تُو نے اپنی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ پس جس طرح تُو نے اپنے دل کو میرے لئے کھولا تھا اور اپنے دل کو میرا گھر بنایا تھا اسی طرح آج میں تجھ کو اپنے گھر میں بلاتا ہوں آ اور میرے پاس بیٹھ۔ پس خدا اس کو اپنے پاس بلا لیتا اور وہ دنیا کی تکلیفوں اور شورشوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
اس نبی کے بلائے جانے کے بعد دنیا میں جو بیج بوئے ہوئے ہوتے ہیں وہ پھر نئی جدوجہد شروع کر دیتے ہیں۔ نبوت خلافت کا جامہ پہن لیتی ہے اور خلافت کے ذریعہ پھر خدا کے لئے نئے قلوب کی فتح شروع ہو جاتی ہے۔ یہی اِس زمانہ میں ہؤا اور جب ہم نے ایک جشن منایا ، ایک خوشی کی تقریب سرانجام دی تو کسان کی زبان میں ہم نے یہ کہا کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی مگر کیا جانتے ہو کہ دوسرے لفظوں میں ہم نے کیا کہا ؟ دوسرے لفظوں میں ہم نے یہ کہا کہ آج سے پچاس سال پہلے جو ایک بیج بویا گیا تھا اس بیج کی فصل ہم نے کاٹ لی۔ اب ہم ان بیجوں سے جو پہلی فصل سے تیار ہوئے تھے ایک نئی فصل بونے لگے ہیں۔ اس عظیم الشان کام کے آغاز کے بعد تم سمجھ سکتے ہو کہ تم پر کتنی عظیم الشان ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں۔ تم نے اب اپنے اوپر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ جس طرح ایک بیج بڑھ کر اتنی بڑی فصل ہو گیا اسی طرح اب تم ان بیجوں کو بڑھاؤ گے جو اس فصل پر تم نے بوئے ہیں اور اسی رنگ میں بڑھاؤ گے جس رنگ میں پہلی فصل بڑھی۔ پس ہم نے جشنِ مسرت منا کر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ جس طرح ایک بیج سے لاکھوں نئے بیج پیدا ہو گئے تھے اسی طرح اب ہم ان لاکھوں بیجوں کو از سر نو زمین میں بوتے ہیں۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ پچھلے پچیس یا پچاس سال میں جس طرح سلسلہ نے ترقی کی ہے اسی طرح اتنے ہی گُنےاگلے پچیس یا پچاس سال میں ہم آج کی جماعت کو بڑھا دیں گے۔ یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں جو تم نے اپنے اوپر عائد کی۔ گزشتہ پچاس سال میں ایک بیج سے لاکھوں بیج بنے تھے۔ اب جب تک اگلے پچاس سال میں ان لاکھوں سے کروڑوں نہیں بنیں گے اس وقت تک ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں سمجھے جائیں گے۔ اگر ہم جشن نہ مناتے ، اگر ہم یہ نہ کہتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہنے کا زمانہ آ گیا تو ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا زمانہ بھی پیچھے ڈال سکتے تھے مگر جب ہم نے جشن منا لیا اور پہلی فصل کاٹ لی تو بالفاظ دیگر ہم نے دوسری فصل کو بو دیا اور ہمارا کام از سر نو شروع ہو گیا اور جبکہ ایک بیج سے اتنے دانے نکلے تھے تو کیا اب ہمارا فرض نہیں کہ ہم ان بیجوں کو اتنے گُنے بڑھائیں جتنے گُنے وہ ایک بیج بڑھا اور پھولا اور پھلا۔ پس یقینا اس جشن کے بعد ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو چکی ہے کیونکہ کیا بلحاظ جانی قربانیوں کے، کیا بلحاظ مالی قربانیوں کے، کیا بلحاظ علمی ترقیات کے، کیا بلحاظ تبلیغ کے، کیا بلحاظ تعلیم و تربیت کے اور کیا بلحاظ کثرتِ تعداد اور زیادتِ نفوس کے ، غرض ہر رنگ میں ہم نے پہلی فصل کے کاٹنے اور دوسری فصل کے بونے کا اعلان کیا ہے مگر پہلی فصل صرف ایک بیج سے شروع ہوئی تھی اور اس دوسری فصل کی ابتدا لاکھوں بیجوں سے ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک ہم یہ ارادہ نہ کر لیں کہ ان لاکھوں بیجوں کو اتنی ہی تعداد سے ضرب دیں گے جتنی تعداد سے اس ایک بیج نے ضرب کھائی تھی اُس وقت تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لیا ہے۔مالی لحاظ سے وہ فصل خالی خزانے سے شروع ہوئی تھی اور لاکھوں تک پہنچ گئی۔ مگر یہ فصل اب لاکھوں سے شروع ہوئی ہے۔ اسی طرح وہ فصل ایک کلمہ سے شروع ہوئی تھی اور سینکڑوں کتابوں تک پہنچ گئی اور یہ فصل سینکڑوں کتابوں سے شروع ہوئی ہے۔ پس جب تک اب لاکھوں روپیہ سے کروڑوں روپیہ اور سینکڑوں کتابوں سے ہزاروں اور لاکھوں کتابیں نہ بن جائیں اُس وقت تک ہمارا کام ختم نہیں ہو سکتا۔
غرض اس جشن کے منانے سے ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی اور نئے سِرے سے اس سے حاصل شدہ بیجوں کو زمین میں ڈال دیا۔ میرا تو جسم کا ذرّہ ذرّہ کانپ جاتا ہے جب مجھے یہ خیال آتا ہے کہ کتنی اہم ذمہ داری ہے جو جماعت نے اپنے اوپر عائد کی۔ اگر ہم پہلی فصل نہ کاٹتے تو ہماری ذمہ داریاں کم رہتیں مگر جب ہم نے اس فصل کو کاٹ کر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہا تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا سامان بھی ہمیں مہیا کرنا پڑا۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اس جلسہ کے نتیجہ میں ہم نے لاکھوں نئے بیج زمین میں بو دئیے ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ اگلے پچیس یا پچاس سال میں ہم جماعت میں حیرت انگیز طور پر تغیر پیدا کریں۔ کیا بلحاظ آدمیوں کی تعداد کے اور کیا بلحاظ مالی قربانی کے اور کیا بلحاظ تبلیغ کے اور کیا بلحاظ تربیت کے اور کیا بلحاظ تعلیم کے۔ آج سے مثلاً پچیس یا پچاس سال کے بعد اگر ہم نئی فصل کے ویسے ہی شاندار نتائج نہ دکھائیں جیسے پہلی پچاس سالہ فصل کے نتائج نکلے تو ہماری اَلْحَمْد بے معنی اور ہماری اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ جھوٹی ہو جاتی ہے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس جلسہ کے بعد ان کو اپنی نئی ذمہ داریاں بہت جوش اور توجہ کے ساتھ ادا کرنی چاہئیں۔ اب ہماری پہلی فصل کے جو نتائج رونما ہوئے ہیں ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اگر اس سے زیادہ نہیں تو کم سے کم اتنے ہی گُنے نتائج نئی فصل کے ضرور رونما کر دیں اور اگر پہلے ایک سے لاکھوں ہوئے تو آج سے پچاس سال کے بعد وہ کروڑوں ضرور ہو جائیں۔ اگر آج سے پچیس سال پہلے جماعت دس بارہ گُنے بڑھی تھی تو اگلے پچیس سال میں کم سے کم دس بارہ گُنے ضرور بڑھ جانی چاہئے مگر یہ کیونکر ہو سکتا ہے جب تک ہر احمدی کیا مرد اور کیا عورت اور کیا بچہ اور کیا بوڑھا اور کیا کمزور اور کیا مضبوط اپنے ذمہ یہ فرض عائد نہ کر لے کہ مَیں احمدیت کی ترقی کے لئے اپنے اوقات صَرف کروں گا اور اپنی زندگی کا اولین مقصد اشاعتِ دین اور اشاعتِ احمدیت سمجھوں گا۔ اسی طرح علمی طور پر کب ترقی ہو سکتی ہے جب تک ہماری جماعت کا ہر فرد دین سیکھنے اور دینی باتیں سننے اور پڑھنے کی طرف توجہ نہ کرے۔ اسی طرح مالی قربانی میں کب ترقی ہو سکتی ہے جب تک ہماری جماعت نہ صرف قربانیوں میں بیش از بیش ترقی کر لے بلکہ اپنے اخراجات میں بھی دیانتداری سے کام لے۔
مال ہمیشہ دونوں طرح سے بڑھتا ہے۔ زیادہ قربانیوں سے بھی بڑھتا ہے اور زیادہ دیانتداری سے خرچ کرنے سے بھی بڑھتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ ایک شخص کو ایک دینار دیا اور فرمایا جا کر قربانی کے لئے کوئی عمدہ سا بکرا لا دو۔ اس نے کہا بہت اچھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ حاضر ہؤا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! یہ بکرا موجود ہے اور ساتھ ہی اس نے دینار بھی رسول کریم ﷺ کو واپس کر دیا۔ رسول کریم ﷺ حیران ہوئے اور فرمایا یہ کس طرح؟ وہ کہنے لگا یا رسول اللہ! مدینہ میں شہر کی وجہ سے چیزیں گراں ملتی ہیں۔ میں دس بارہ میل باہر نکل گیا۔ وہاں آدھی قیمت پر بکرے فروخت ہو رہے تھے۔ میں نے ایک دینار میں دو بکرے لے لئے اور واپس چل پڑا۔ جب میں آ رہا تھا تو راستہ میں ایک شخص مجھے ملا اسے بکرے پسند آئے اور کہنے لگا اگر فروخت کرنا چاہو تو ایک بکرا مجھے دے دو۔ مَیں نے ایک بکرا ایک دینار میں اسے دے دیا۔ پس اب بکرا بھی حاضر ہے اور دینار بھی۔ رسول کریم ﷺ اس سے بہت ہی خوش ہوئے اور آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی کہ خدا تجھے برکت دے۔ صحابہؓ کہتے ہیں اس دعا کے نتیجہ میں اسے ایسی برکت ملی کہ اگر وہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتا تو وہ سونا بن جاتی اور لوگ بڑے اصرار سے اپنے روپے اسے دیتے اور کہتے کہ یہ روپیہ کہیں تجارت پر لگا دو۔7
غرض کروڑوں کروڑ روپیہ اسے آیا۔ تو اچھی طرح خرچ کرنے سے بھی مال بڑھتا ہے۔ مال بڑھنے کی صرف یہی صورت نہیں ہوتی کہ ایک کے دو بن جائیں بلکہ اگر تم ایک روپیہ کا کام اٹھنّی میں کرتے ہو تو بھی تمہارے دو بن جاتے ہیں۔ بلگہ اگر تم روپیہ کا کام اٹھنّی میں کرتے ہو اور ایک روپیہ زائد بھی کما لیتے ہو تو تمہارے دو نہیں بلکہ چار بن جائیں گے۔ پس صرف یہی کوشش نہیں ہونی چاہئے کہ مالی قربانیوں میں زیادتی ہو بلکہ اخراجات میں کفایت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور مَیں کارکنوں کو بالخصوص اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک روپیہ کا کام اٹھنّی میں کرنے کی کوشش کیا کریں۔
غرض اب جو ہمارے پاس جماعت موجود ہے ، اب جو ہمارے پاس روپیہ ہے، اب جو ہمارے پاس تبلیغی سامان ہیں، اب جو ہمارے دنیا میں مشن قائم ہیں، اب جو ہماری تعلیم اور اب جو ہماری تربیت ہے ان سب کو نیا بیج متصور کر کے آئندہ پچاس سال میں ہمیں جماعت کی ترقی کے لئے سرگرم جدوجہد کرنی چاہئے تاکہ آئندہ پچاس سال میں موجودہ حالت سے ہماری تعداد بھی بڑھ جائے ، ہمارا مال بھی بڑھ جائے، ہمار اعلم بھی بڑھ جائے، ہماری تبلیغ بھی بڑھ جائے اور اُسی نسبت سے بڑھے جس نسبت سے وہ پہلے پچاس سال میں بڑھا۔ اگر ہم اس رنگ میں کوشش نہیں کریں گے تو اُس وقت تک ہماری نئی فصل کبھی کامیاب نہیں کہلا سکتی۔ مگر یہ کام ویسا ہی ناممکن ہے جیسے آج سے پچاس سال پہلے نظر آتا تھا ۔ پھر اُس وقت خدا کا ایک نبی کھڑا تھا ، بیشک اُس وقت کوئی احمدی نہ تھا مگر خدا کا نبی دنیا میں موجود تھا جو اس پیغام کو لے کر دنیا میں کھڑا تھا مگر آج وہ نبی ہم میں موجود نہیں اور اس وجہ سے ہماری آواز میں وہ شوکت نہیں جو اُس کی آواز میں شوکت تھی۔پس آج ہمیں اُس سے زیادہ آواز بلند کرنی پڑے گی اور ہمیں اُس سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گے۔ اس کے لئے دعائیں بھی کرو اور اللہ تعالیٰ کے دروازہ کو کھٹکھٹاؤ اور یاد رکھو کہ جب تک جماعت دعاؤں پر یقین رکھے گی، جب تک تم ہر بات میں اللہ تعالیٰ سے امداد کے طالب رہو گے اس وقت تک تمہارے کاموں میں برکت رہے گی۔ مگر جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ کام تم نے کیا، جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ نتائج تمہاری محنت سے نکلے اور جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ ترقی تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے اس دن تمہارے کاموں سے برکتیں بھی جاتی رہیں گی۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ آج دنیا میں تم سے بہت زیادہ طاقتور قومیں موجود ہیں مگر ان سے کوئی نہیں ڈرتا اور تم سے سب لوگ ڈرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ تمہاری مثال اس تار کی سی ہے جس کے پیچھے بجلی کی طاقت ہوتی ہے ۔ اب اگر تار یہ خیال کرے کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں تو یہ اس کی حماقت ہو گی کیونکہ لوگ تار سے نہیں بلکہ اس بجلی سے ڈرتے ہیں جو اس تار کے پیچھے ہوتی ہے۔ جب تک اس میں بجلی رہتی ہے ایک طاقتور آدمی بھی اگر تار پر ہاتھ رکھے تو وہ اس کے ہاتھ کو جلا دے گی لیکن اگر بجلی نہ رہے تو ایک کمزور انسان بھی اس تار کو توڑ پھوڑ سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھو اور اس بجلی کو اپنے اندر سے نکلنے نہ دو بلکہ اسے بڑھاؤ اور ترقی دو۔ تبھی اور تبھی تم کامیابی کو دیکھ سکتے اور نئی فصل زیادہ شان اور زیادہ عمدگی کے ساتھ پیدا کرسکتے ہو لیکن اگر یہ بجلی نکل گئی تو پھر تم کچھ بھی نہیں رہو گے۔ ہاں اگر یہ بجلی رہی تو دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور اس صورت میں تمہارا یہ عزم کہ تم اگلے پچاس سال میں تمام دنیا پر چھا جاؤ ناممکن نہیں ہو گا کیونکہ کام خدا نے کرنا ہے اور خدا کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں۔ ‘‘ (الفضل 25جنوری 1940ء)

1 الفاتحۃ:5
2 بخاری کتاب التہجد باب قیام النبی ﷺ اللیل حتی ورم قدماہ
3 العلق: 2،3
4 بخاری کتاب التعبیر باب اول ما بدیٔ بہ
5 بخاری کتاب المظالم باب صب الخمر فی الطریق
6 القدر:4
7 بخاری کتاب المناقب باب سؤال المشرکین ان یریھم النبی ﷺ آیۃ فأراھم

3
خدام الاحمدیہ مؤذّنوں کو درست اذان سکھائے
یوم الحج سے کس طرح فائدہ اٹھانا چاہئے
(فرمودہ 19 جنوری 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں نے غالباً ایک سال کا عرصہ ہؤا خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ قادیان میں جو لوگ اذانیں دیتے ہیں ان کی اذانوں کی اصلاح کر دیں۔ اب تو ان میں بہت سے مولوی فاضل بھی شامل ہو چکے ہیں۔خود ان کے صدر مولوی فاضل اور حافظ ہیں اس لئے یہ کام ان کے لئے بہت آسان ہے مگر اب یہ مرض بجائے کم ہونے کے زیادہ شاندار ہو رہا ہے۔ ابھی جو اذان کہی گئی ہے یوں معلوم ہوتا تھا کہ مؤذن کے حلق میں آلو پھنسا ہؤا ہے۔ وہ ہر لفظ کو آؤں کہہ کر ادا کرتا ہے پہلے تو مَیں نے توجہ دلائی تھی کہ حَیَّ کو حَایَا کہا جاتا ہے مگر آج صرف حَیْ کہا گیا ہے یعنی دوسری یاء اُڑ گئی ہے۔
اذان کا درست طور پر یاد کر لینا معمولی سی بات ہے اور اس کے خوبصورت یا بدصورت ہونے کا طبائع پر اثر پڑتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ ایک مسجد کے پاس ایک سکھ رئیس رہا کرتا تھا اس نے ایک دفعہ اس مسجد میں اذان دینے والے کو کچھ تحفہ دیا۔ پگڑی اور دس بارہ روپے اسے دیئے اور کہا کہ یہ نذر ہے اس لئے کہ آپ آئندہ اذان کہنی چھوڑ دیں۔ اس نے پوچھا کہ کیوں؟ تو وہ کہنے لگا کہ آپ کی آواز ایسی اچھی ہے کہ میری بیٹی کہتی ہے کہ مجھے مسلمانوں کا مذہب اچھا لگتا ہے اس لئے یہ نذر لے لو، اَور بھی میں پیش کرتا رہوں گا اور اذان کہنا چھوڑ دو۔ وہ بے چارا معمولی حیثیت کا آدمی تھا لالچ میں آ گیا اور اذان کہنی چھوڑ دی۔ دوسرا جو اس کی جگہ مقرر ہؤا اس کی آواز نہایت مکروہ تھی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ چند روز کے بعد اس سکھ رئیس کی لڑکی نے کہا کہ اباجی معلوم ہوتا ہے میری رائے غلط تھی مسلمانوں کا مذہب کوئی ایسا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔
تو ظاہری باتوں کا بھی طبائع پر بہت اثر ہوتا ہے۔ ہندوستانی ل سے پہلے ایک آؤ کی آواز نکالتے ہیں اور اس طرح پورا زور لگا کر اس آؤ کو نکالتے ہیں جس طرح مزدور کہا کرتے ہیں کہ لادے زور مگر عربی طریق یہ نہیں۔ وہ ال کہیں گے جیسے برتن میں کوئی چیز ڈالی جائے تو اس سے جھنکار پیدا ہوتی ہے۔
یہ عربی زبان کی ایک خوبی ہے کہ اس میں ایک موسیقی پائی جاتی ہے اور کسی زبان میں یہ بات نہیں اور عربی کی اس خوبی کابہترین نمونہ قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔ دنیا کی کوئی اور ایسی کتاب نہیں جس کی نثر ترتیل کے ساتھ پڑھی جا سکے جس طرح کہ قرآن کریم پڑھا جا سکتا ہے۔ اردو ، انگریزی یا کسی اَور زبان کی کوئی اَور ایسی کتاب نہیں جس کی عبارت اس طرح پڑھی جا سکے جس طرح ہم ترتیل کے ساتھ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 1 پڑھتے ہیں۔ اس کی بجائے اگر انگریزی کی یہ عبارت ہم ترتیل کے ساتھ پڑھیں I will go there تو وہ اس قدر مضحکہ خیز ہو جائے گی کہ ہر سننے والا ہنس پڑے گا مگر عربی کے الفاظ ایسے ہیں کہ ان کا اُتارچڑھاؤ بالکل نظم کا سا ہوتا ہے۔ اس کی حرکات اپنے اندر خصوصیات رکھتی ہیں اور جب تک ان کی اتباع نہ کریں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا مُنہ چِڑا رہے ہیں۔ اکسنٹ (ACCENT) پر جتنا زور عربی نے دیا ہے اور کسی زبان نے نہیں دیا۔ ہر لفظ کی اس کے اتار چڑھاؤ سے اچھی یا بری شکل بن جاتی ہے اور ان کی کمی بیشی سے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ مثلاً ل کے معنی ضرور کے ہیں۔ لیکن اگر ذرا سا لمبا کر دیں اور لا کہیں تو اس کے معنی ‘‘نہیں’’ ہوں گے۔ تو حرکت کے ذرا چھوٹا بڑا کر دینے سے معنی بالکل بدل جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں یَتَّقُوْنَ اور یَتَّقُوْنِ کے الفاظ آتے ہیں۔ یَتَّقُوْنَ کے معنی ہیں وہ ڈرتے ہیں اور یَتَّقُوْنِ کے معنی ہو جائیں گے وہ مجھ سے ڈرتے ہیں۔ تو زبر اور زیر کے فرق سے معنوں میں بہت سا فرق پڑ جائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک مرتبہ ایک پادری آیا اس نے کہا کہ عربی زبان کوئی ایسی زبان نہیں کہ جس میں خدا کا کلام نازل ہو۔ یہ تو بدؤوں کی زبان ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں خداتعالیٰ کا کلام بیان کرنے کی جو استعداد عربی زبان میں ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں مگر اس پادری کا دعویٰ تھا کہ انگریزی کا مقابلہ عربی زبان ہرگز نہیں کر سکتی۔ آپ نے اسے کہا کہ خداتعالیٰ کے کلام کو بیان کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ زبان ایسی ہو جو بڑے سے بڑ امضمون چھوٹے سے چھوٹے الفاظ میں ادا کر سکے۔ اس نے کہا ہاں انگریزی میں ہی یہ خصوصیت ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا اگر ‘‘میرا پانی’’ کہنا ہو تو انگریزی میں کیا کہیں گے؟ اس نے کہا مائی واٹر۔ آپ نے فرمایا عربی میں صرف مَائِیْ کہہ دینا کافی ہو گا۔ گویا انگریزی میں واٹر زائد ہے۔ آپ کا یہ فرمانا بالکل خدائی تصرف کے ماتحت تھا ورنہ آپ تو انگریزی جانتے ہی نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کے مُنہ سے ایسا فقرہ کہلوا دیا جس سے عربی کا اختصار انگریزی کے مقابلہ میں واضح ہوگیا۔ حالانکہ شاذ کے طور پر کوئی ایسا فقرہ بھی ہو سکتا ہے جس کا انگریزی ترجمہ عربی سے مختصر ہو مگر آپ کے مُنہ سے اسی فقرہ کا نکلنا تصرفِ الٰہی کے ماتحت تھا۔ پھر یہ بھی تصرف ہی کے ماتحت تھا کہ ایسا فقرہ آپ کے مُنہ سے نکلا کہ جس کا آدھا حصہ ہی عربی میں انگریزی کے پورے فقرے کے معنی دیتا ہے۔ تو عربی زبان میں کئی خصوصیات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی نثر ترتیل کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے اور زبانوں میں یہ بات نہیں۔ ان کو اگر اس رنگ میں پڑھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ مُنہ چِڑایا جا رہا ہے۔
پس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ تمام مساجد کے مؤذنوں کو درست اذان سکھائیں اور ان کو الفاظ پر بلاوجہ زور دینے اور گولائی دینے سے روکیں۔
اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج کا دن حج کا دن ہے۔ آج سب حاجی عرفات کے میدان میں جمع ہیں تا خدا کے حضور دعائیں کریں اور اپنے اخلاص کا ہدیہ پیش کریں۔ اِس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ لوگ منیٰ سے چلے جا رہے ہیں اور لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔ کیا ہی عجیب نظارہ ہے ! یہ الفاظ رسول کریم ﷺ نے اس موقع کے لئے ایسے رکھے ہیں کہ گویا خداتعالیٰ سامنے ہے اور اپنے بندوں کو بلا رہا ہے اور اس کے بندے اے میرے رب! میں حاضر ہوں کہتے ہوئے اس کی طرف چلے جا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ تیرا کوئی شریک نہیں صرف تُو ہی اس امر کا مستحق ہے کہ بندوں کو آواز دے اور تیرے بلانے پر ہم تیرے حضور حاضر ہیں۔ یہ الفاظ نہایت سادہ ہیں مگر نہایت شاندار مفہوم ادا کر رہے ہیں اور یہ الفاظ مُنہ سے کہتے ہوئے لوگ وہاں جاتے ہیں جہاں خداتعالیٰ نے اپنا جلوہ دکھانے کا وعدہ کیا ہؤا ہے۔ مگر جو لوگ وہاں جاتے ہیں کیا وہ سب اس جلوہ کو دیکھتے ہیں؟ کیا ان سب حاجیوں کو جو وہاں پہنچتے ہیں یہ جلوہ دکھائی دیتا ہے؟ بالکل نہیں۔ کیونکہ وہ اخلاص کے ساتھ نہیں جاتے۔ اگر اخلاص اور تقویٰ سے وہاں جائیں تو ان میں سے کوئی بھی خالی نہ لَوٹے۔ حقیقت یہ ہے کہ سینکڑوں میں سے شاید ہی کوئی یہ جھلک دیکھ کر لَوٹتا ہے اور باقی خالی ہاتھ جاتے ہیں اورخالی ہاتھ آ جاتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ بھری ہوئی جیبوں کے ساتھ جاتے اور خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں۔ جب وہ حج کے لئے جاتے ہیں تو ان کی مالی حالت اچھی ہوتی ہے مگر جب وہ حج پر روپیہ خرچ کرنے کے بعد آتے ہیں تو ان کے پاس نہ دین ہوتا ہے نہ دنیا۔ دنیا کا روپیہ وہ خرچ کر آتے ہیں اور دین ملتا نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حج کو جانے والوں میں سے بہت سے خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔ گوبعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خالی ہاتھ واپس نہیں آتے ۔ نیک زمانہ میں تو ہزاروں جاتے اور ہزاروں ہی بھرے ہوئے دامن کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ مگر بدزمانہ میں ہزاروں جاتے اور ان میں سے بہت تھوڑے خداتعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو کر آتے ہیں۔
بہرحال آج کا دن وہ دن ہے جب خداتعالیٰ خود دینے پر آتا ہے اور اس سے بہتر موقع لینے کا اور کوئی نہیں ہوتا جب دینے والا خود دینے پر آئے ۔ بعض اوقات ایک شخص کے پاس کروڑوں روپیہ ہوتا ہے اور کوئی اس سے ایک پیسہ مانگتا ہے تو وہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ مگر کوئی وقت ایسا ہوتا ہے کہ اس نے لاکھوں کمائے ہوتے ہیں اور کروڑوں کی امید ہوتی ہے ۔ اُس وقت اگر کوئی مانگے تو وہ بیس، پچاس ، سَو بلکہ ہزار بھی دے دیتا ہے۔ تو دینے کے لئے صرف روپیہ یا چیز کی موجودگی کا ہی سوال نہیں بلکہ حالات کا بھی دخل ہوتا ہے۔ ایک وقت دینے والا خوشی میں بیٹھا ہوتا ہے تو مانگنے والے کو مل جاتا ہے۔ لیکن دوسرے وقت وہ ناراض ہوتا ہے اور اس وقت کچھ بھی نہیں مل سکتا۔ اسی طرح بعض دنوں میں اللہ تعالیٰ زیادہ دینے کے لئے تیار ہوتا ہے ان دنوں میں سے ایک یہ دن ہے۔ اس دن کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کے ذریعہ جو دعا سکھلائی اس کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آج خداتعالیٰ اپنا جلوہ دکھانے کے لئے تیار ہے۔ الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خداتعالیٰ بندے کو بلا رہا ہے اور بندہ آواز دیتا ہؤا اس کی طرف جا رہا ہے۔ اس لئے یہ موقع مانگنے کے لئے نہایت موزوں ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ہم کس طرح اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ لیکن میں ان کو بتاتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ ایک مرتبہ جہاد کے لئے تشریف لے گئے۔ کچھ لوگ آپ کے ساتھ تھے آپ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے کئی بھائی ایسے ہیں جو مدینہ میں بیٹھے ہیں مگر کوئی ثواب ایسا نہیں جو تم کو ملتا اور وہ اس سے محروم رہتے ہوں۔ تم جو نیک کام بھی کرتے ہو اس کا ثواب ان کو بھی پہنچتا ہے۔ صحابہؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ !یہ کیا بات ہے۔ تکالیف ہم اٹھائیں اور وہ گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہمارے برابر ثواب حاصل کرلیں؟ آپ نے فرمایاکہ ان کو ثواب کا مستحق وہ ولولہ اور شوق بناتا ہے جو ان کے دلوں میں بھرا ہؤا ہے اور اگر مجبوریاں نہ ہوتیں تو وہ ضرور یہاں ہوتے۔2
پس ہر وہ شخص جس کے دل میں جوش اور خواہش ہے کہ حج کو جائے اگر آج یہاں بیٹھا ہے تو رسول کریم ﷺ کے فرمائے ہوئے اس اصول کے مطابق وہ خداتعالیٰ کے حضور ان لوگوں میں ہی شامل سمجھا جائے گا جو آج میدانِ عرفات میں جمع ہیں خواہ وہ دنیا کے کسی کونہ میں ہوں۔ خداتعالیٰ کی نظر انسان کے دل پر ہوتی ہے۔ انسان عمل میں منافقت کر سکتا ہے مگر دلی خیالات میں نہیں۔ تم چاہو تو ایک منٹ میں کہہ سکتے ہو کہ میں نے اپنی ساری جائداد فلاں شخص کو دے دی مگر اس سے ہزارواں حصہ نفرت یا محبت کسی کو نہیں دے سکتے۔ محبت یا نفرت پیدا کرنے کے لئے خاص سامانوں اور محرکات کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بعد وہ آپ ہی آپ پیدا ہوتی ہے۔ وہ تمہارے اختیار کی بات نہیں۔ اپنی لاکھوں کی جائداد یا مال کا دے دینا تمہارے اختیار میں ہے مگر محبت یا نفرت تمہارے اختیار میں نہیں۔ تم دل کے ساتھ منافقت نہیں کر سکتے اعمال میں کر سکتے ہو۔ ممکن ہے اس سے کوئی شخص یہ سمجھ لے کہ پھر عمل تو کوئی چیز نہ ہؤا مگر نہیں ۔ حقیقی نیت خود بخود عمل پیدا کر لیتی ہے ۔ پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ نیت کے مقابلہ میں عمل کمزور چیز ہے تو میرا مطلب اس سے عمل کی حیثیت کو گرانا نہیں بلکہ یہ ظاہر کرنا ہے کہ خالص ارادوں اور اچھی نیتوں سے عمل علیحدہ رہ نہیں سکتا۔ خالص نیت ایک مقناطیس ہے اور عمل لوہا ہے۔ جہاں مقناطیس ہو اگرلوہا موجود ہو تو وہ خود بخود اس کی طرف کھنچاچلا جائے گا۔ اور اگر عمل کی طاقت ہے ہی نہیں تو پھر کوئی اعتراض کی بات ہی نہیں۔زکوٰۃ فرض ہے مگر جس کے پاس مال نہ ہو اس پر نہیں، روزہ فرض ہے مگر بیمار کے لئے نہیں، نماز ضروری فرض ہے مگر بے ہوش کے لئے نہیں۔ پس اگر نیت خالص ہے اور عمل کی طاقت ہے تو عمل خود بخود کھنچے چلے جائیں گے۔ لیکن اگر عمل کی طاقت ہی نہ ہو تو پھر عمل کے نہ ہونے پرکوئی اعتراض ہی نہیں۔ پس ہر وہ شخص جو دل میں حج کی نیت رکھتا تھا مگر خداتعالیٰ کی طرف سے اسے اس کی توفیق نہیں مل سکی اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ اس حدیث کے ماتحت یقینا آج اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا شمار انہی لوگوں میں ہے جو عرفات میں جمع ہیں۔ خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہو۔ اور آج لوگ جہاں بھی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں گے وہ اُس برکت سے حصہ پائیں گے جو عرفات والوں کے لئے مقدر ہے۔ اور رسول کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق خداتعالیٰ ان کو انہی لوگوں میں شامل کرے گا۔
پس آج کے دن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ لوگ خوب دعائیں کریں۔ اسلام کی ترقی کے لئے، سلسلہ کی ترقی کے لئے، سلسلہ کی ہر قسم کی مشکلات کے لئے، افراد اور جماعت کی علمی ، تمدنی، اخلاقی، تہذیبی اور روحانی ترقی کے لئے اور افراد اور جماعت کی ہر قسم کی مشکلات کے دور ہونے کے لئے ۔ پھر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ سلسلہ کی ترقی کے سامان پیدا کرے اور ہمارے ہاتھوں وہ مقصد پوار ہو جو وہ حج سے قائم کرنا چاہتا ہے۔ یعنی دنیا کی مختلف اقوام کو ایک جگہ جمع کرنا۔ پس وہ اس مقصد کو عملی رنگ میں پورا کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہم دنیا کو ایک جگہ جمع کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔‘‘
(الفضل 3 فروری 1940ء)

1 الفاتحۃ:2
2 بخاری کتاب الجہاد والسیر باب من حبسہ العذر

4
بیت الذکر کی آبادی اور صفائی
(بیت احمدیہ ناصر آباد سندھ میں پہلا خطبہ جمعہ اور نماز۔فرمودہ یکم مارچ 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ استاد کا شاگرد پراور شاگرد کا استاد پر ، والدین کا بچہ پر اور بچہ کا والدین پر حق ہوتا ہے۔ اگر کو ئی شخص جنگل میں مکان بناتا ہے تو دوسروں پر اس کا یہ حق ہے کہ اسے لُوٹیں نہیں۔ اسی طرح مساجد کا حق ہے کہ انہیں آباد اور صاف رکھا جائے۔ اس میں بدبوردار چیز کے ساتھ نہیں آنا چاہیئے۔ اگر اس بات پر عمل کیا جائے تو ہمارے دیہات میں صفائی پیدا ہو سکتی ہے۔ دیہاتی لوگ اس وقت تک بدن سے کپڑا نہیں اتارتے جب تک پھٹ نہ جائے حالانکہ ان کو دھو کر صاف کرتے رہنا چاہیئے۔ عرب کے لوگ خواہ امیر ہوں یا غریب، کپڑے صاف رکھتے ہیں۔ اب جبکہ مسجد بن گئی ہے اس کا حق ادا کرنا چاہئے۔
آنحضرت ﷺ سے ایک نابینا شخص نے اجازت چاہی کہ وہ گھر میں نماز پڑھ لیا کرے مسجد آتے وقت ٹھوکریں لگتی ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ اگر اذان سنائی دیتی ہے تو خواہ گھٹنوں کے بل آنا پڑے مسجد میں آیا کرو۔1
چونکہ زمینداروں نے باہر جا کر کام کرنا ہوتا ہے اس لئے وقت مقرر کر لینا چاہیئے تا ان کے کام میں بھی حرج نہ ہو اور وہ نماز باجماعت بھی اد اکر سکیں۔‘‘ (الفضل 6 مارچ 1940ء)
1 صحیح مسلم کتاب المساجد باب یجب اتیان المسجد علی من سمع النداء

5
دینی اور دنیاوی کاموں میں ہمیشہ سچ اختیار کرو
(فرمودہ 15 مارچ 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’ انبیاء کی جماعتوں کی علامتوں میں سے ہمیشہ ایک علامت راست بازی ہوتی ہے اور یہ علامت ایسی ہے جو اپنی ذات میں بہت ہی اہمیت رکھتی ہے۔ اگر ایک طرف اس کے ذریعہ جماعت کی عزت بڑھتی ہے دوسری طرف اس سے تبلیغ کے لئے بھی رستے کھلتے ہیں۔ مگر بہت لوگ ہیں جو راست بازی کی قدر کو نہیں سمجھتے۔ خصوصاً عورتوں میں یہ مرض بہت زیادہ ہے۔ مردوں میں بھی ہے مگر عورتوں میں بالخصوص زیادہ ہے۔ وہ بات کرتی ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور چھپا لیتی ہیں یا اگر بات مُنہ سے نکل جائے تو تحقیقات کے وقت اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مردوں میں بھی اس زمانہ میں یہ مرض کافی مقدار میں ہے کیونکہ یہ زمانہ مداہنت اور نفاق کا زمانہ ہے۔
تہذیب کے معنے آجکل یہ سمجھے جاتے ہیں کہ بات کرنے والا دوسرے کے خیالات کا اس حد تک خیال رکھے کہ سچائی بھی چھپانی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔ ایک دوست کے متعلق جو انگلستان میں تبلیغ کرنے کے بعد واپس آئے ہیں کسی نے سنایا کہ وہ کہتے تھے وہاں ایک گلی سے دوسری گلی میں جانے تک سات بار جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ وہاں رواج ہے کہ جب کسی سے ملتے ہیں تو موسم کا حال ضرور دریافت کرتے ہیں۔ پہلا سوال عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ موسم کیسا ہے؟ حالانکہ سارے اسی جگہ رہتے ہیں مگر پھر بھی ملیں گے تو موسم کا حال ضرور پوچھیں گے ۔ اسی رواج کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک ہندوستان میں بھی یہ حالت تھی کہ جب علاقہ کے زمیندار کبھی ڈپٹی کمشنر سے ملتے تو وہ ہر ایک سے موسم کا حال ضرور دریافت کرتا اور پوچھتا بارش ہوئی ہے یا نہیں؟ موسم کیسا ہے؟ اور اس طرح ملاقات کا قریباً آدھا وقت اسی میں گزار دیتا۔ ملنے والا حیران ہوتا کہ دو منٹ کی تو ملاقات تھی جس میں سے ایک منٹ موسم کا حال دریافت کرنے میں گزار دیا ۔ ادھر افسر یہ سمجھتا کہ اگر میں یہ دریافت نہ کروں تو بدتہذیب سمجھا جاؤں گا۔ وہ چاہتا کہ میں اپنا دُکھڑا سناؤں۔ اور یہ بارش اور موسم کے متعلق دریافت کرنے میں ہی وقت گزار دیتا۔ ڈپٹی کمشنر تو اپنی طرف سے اس کی خاطرداری کرتا اور زمیندار کے دل میں اس طرح وقت کے ضائع ہونے پر شکوہ پیدا ہو رہا ہوتا۔ یہ انگلستان کے رواج کے مطابق بات تھی۔ وہاں ملتے وقت موسم کا حال ضرور دریافت کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں موسم بڑی جلدی جلدی بدلتا رہتا ہے۔ جس طرح سندھیوں اور بلوچیوں میں یہ طریق ہے کہ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک کہتا ہے حال دے اور وہ سنانا شروع کرتا ہے کہ فلاں کا یہ حال ہے فلاں کا یہ حال ہے اور اس طرح سب تفاصیل بیان کرنے کے بعد اسے کہتا ہے کہ تُو حال دے اور پھر وہ اپنی کہانی سناتا ہے اور جب سب کچھ اُگل دیتا ہے تو دوسرے سے کہتا ہے حال دے اور اس طرح اس کا پیٹ خالی کراتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے سے پوچھتے جاتے ہیں ختم نہیں کرتے اور یہ عادت اس قدر عام ہے کہ مجھے ایک پولیس کے افسر نے بتایا کہ یہاں یہ حال ہے کہ اِدھر چور کو پکڑنے کے لئے نکلو اور اُدھر اسے خبر پہنچ جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اگر ایک بھی سندھی کو پتہ لگ جائے تو دوسرے سے ملنے پر جب وہ حال دریافت کرتا ہے تو سب باتیں بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی کہہ دے گا کہ فلاں تھانیدار فلاں چور کو پکڑنے جا رہا ہے اور راستہ میں اسے جو جو ملے گا اور حال دریافت کرے گا وہ ہر ایک کو یہ بات بھی بتائے گا اور پھر ان میں سے جسے بھی دوسرے کو حال بتانے کاموقع آئے وہ یہ بات بھی اسے ضرور سنائے گا۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ تھانیدار تو بعد میں پہنچے گا مگر یہ خبر پہلے ہی سارے ضلع میں پہنچ جائے گی اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں چور بھلا کیوں بیٹھا رہے گا؟ اس پولیس افسر نے بتایا کہ یہاں یہ بڑی سخت دقّت ہے ہمیں چھپ چھپ کر جانا پڑتا ہے۔
انگلستان میں اس حال دے کے بجائے موسم کا حال پوچھنے کا رواج ہے۔ تم اگر گھر سے نکلو اور راستہ میں تمہیں ایک ایسا شخص ملے جسے دردوں کا عارضہ ہے یا گنٹھیا کی شکایت ہے اور سردی کی وجہ سے اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہے گا کیسا برا موسم ہے اور تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ چاہے خود اُس وقت لطف ہی آرہا ہو مگر تم کہو یہی کہ بہت ہی برا موسم ہے۔ آگے گئے تو ایک اور شخص ملا جو ہٹا کٹا تندرست مشٹنڈا ہے۔ اس پر سردی بُرا اثر نہیں کرتی اور وہ کہتا ہے کہ اوہ! کیسا نفیس موسم ہے۔ اُس وقت تمہارا فرض ہے کہ کہو کہ ہاں بہت ہی اچھا موسم ہے۔ آگے جا کر ایک نے کہا کہ آج بارش ضرور ہو گی تو تم کو کہنا پڑے گا ہاں ضرور ہو گی۔ لیکن اور آگے جا کر کوئی اور ملا اور اس نے کہا کہ آج تو بارش کے کوئی آثار نہیں۔ تو تم چند قدم پیچھے جو یہ کہہ چکے ہو کہ ضرور بارش ہو گی اب یہ کہنے پر مجبور ہو کہ نہیں ہرگز نہیں ہو گی۔ آج تو بارش کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ تو یہ بات دراصل تہذیب سمجھی جاتی ہے کہ جس کے ساتھ بات کی جائے اس کا دل خوش کرنے کا اتنا خیال رکھا جائے کہ خواہ اس کے لئے صداقت چھوڑنی پڑے اس میں تأمل نہ ہو ۔ یہاں ہندوستان میں بھی اب یہ بات بہت پیدا ہو رہی ہے۔ بعض احمدی کسی تعلیم یافتہ آدمی کو کئی کئی سال تبلیغ کرتے رہتے ہیں اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ وہ بہت ہی قریب آ چکا ہے لیکن جب کوئی موقع پیدا ہو وہ شدید دشمن ثابت ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ یورپین تہذیب کے مطابق وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ جب اسے کہا جائے کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے ہیں تو وہ بھی یہی بات کہے اور جب کہا جائے کہ حضرت مرزا صاحب نے فلاں فلاں معجزات دکھائے، وہ خداتعالیٰ کے محبوب اور مُحِبّ تھے تو تہذیب کے خلاف سمجھتا ہے کہ اس بات کی تردید کی جائے لیکن جب مقابلہ کا وقت آتا ہے تو اس کا اندرونہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ لیکن یورپ میں جہاں یہ نقص ہے وہاں بعض خوبیاں بھی ہیں۔ وہاں بعض اصول مقرر ہیں اور وہ لوگ اس طرح ان کی پابندی کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ بسااوقات وہ اصول متضاد بھی ہوتے ہیں مثلاً جہاں یہ دستور ہے کہ موسم کے معاملہ میں کوئی جو کچھ کہے اس کی تائید کر دی جائے وہاں یہ بات بھی ہے کہ عام حالات میں وہ لوگ سچ بولنے کے عادی ہیں۔
موسم کا حال بیان کرنے میں تو ایک انگریز بے شک غلط بیانی کرے گا مگر گواہی کے معاملہ میں نسبتاً سچ بولے گا اور عدالت کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ ہمارے ملک میں یہ بات نہیں۔ یہاں عدالتوں میں بھی بہت دغا اور فریب ہوتا ہے۔ سچابھی عدالت میں جا کر جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹا بھی، پولیس بھی جھوٹ بولتی ہے اور گواہ بھی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مجسٹریٹوں کو بھی بعض اوقات جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ ہرطرف جھوٹ کا ایک طوفان بپا ہوتا ہے۔ سچائی کو سچ ثابت کرنے کے لئے بھی ضرور جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص کسی سرکاری عدالت میں سچ کے ساتھ مقدمہ نہیں جیت سکتا خواہ اس کا کیس بالکل ہی سچاکیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے جھوٹ کی بنیاد ایسے اصول سے قائم کی گئی ہے کہ جھوٹ مجبوراً بولنا پڑتا ہے۔ اگر کسی شخص کے خلاف دس بارہ جھوٹے گواہ پیش ہو جائیں جو کہیں اس نے فلاں شخص کو مارا ہے تو گو اس نے نہ مارا ہو جب تک وہ بھی ایسے گواہ پیش نہ کرے جو کہیں اس نے نہیں مارا وہ سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اور ضروری نہیں کہ سچے کے پاس گواہ موجود ہوں اس لئے اسے ضرور جھوٹے گواہ بنانے پڑتے ہیں۔ اگر تو مارنے والا خود ہی سچا بیان دے دے کہ اس نے گالی دی اور میں نے مارا تو عدالت کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اسے صرف یہ دیکھنا باقی رہ جاتا ہے کہ اشتعال کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ کافی ہے یا نہیں؟ اگر تو وہ سمجھے کہ اشتعال ایسا تھا کہ اس کے مقابلہ میں اتنا مارنا زیادہ نہیں تو وہ سزا میں کمی کر سکتا ہے اور اگر اس کے نزدیک اشتعال کافی نہ ہو تو سزا سخت دے سکتا ہے۔ اور یورپ میں عام طریق یہی ہے مگر یہاں یہ حال ہے کہ اگر دو آدمی اکیلے لڑ پڑیں تو فوراً ایک کے دس بارہ دوست جھوٹی گواہی دینے پر تیار ہو جائیں گے کہ ہم وہاں موجود تھے اور فلاں شخص نے ہمارے سامنے فلاں کو مارا تھا۔ اب اگر سچ بولنے والا اکیلا ہی ان کے مقابلہ میں کہتا جائے کہ مَیں نے نہیں مارا تو مجسٹریٹ اس کی ہرگز نہیں سنے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کے سچ کی تائید کے لئے بھی اتنے ہی گواہ ہوں۔ یہاں فیصلہ اس کے حق میں ہوتا ہے جو زیاد ہ سے زیادہ جھوٹی شہادت مہیا کر سکے۔ اگر تو جس نے مارا ہے وہ زیادہ معززین کو جھوٹا بنا سکے تو وہ کامیاب ہو جائے گا اور اگر نہ مارنے والا زیادہ معززین کو جھوٹا بنا سکے گا تو وہ جیت جائے گا۔ جیت کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ کون شخص زیادہ تعداد میں اور معزز آدمیوں کو جھوٹا بنا سکا ہے۔ مجسٹریٹ بھی آخر انسان ہوتا ہے اور قانون یہ ہے کہ شہادت کے مطابق فیصلہ کرے۔ اس لئے بسا اوقات وہ سمجھتا بھی ہے کہ کیس جھوٹا ہے مگر وہ مجبور ہوتا ہے کہ سچے کے خلاف فیصلہ کرے۔ بعض ممالک مثلاً فرانس وغیرہ میں یہ قاعدہ ہے کہ مجسٹریٹ خود بھی تحقیقات کرے۔ اسلام کا قانون بھی یہی ہے اور فرانس چونکہ اسلامی حکومت کے قریب تھا اس لئے شاید اس نے وہاں سے یہ طریق لیا ہو لیکن انگریزی قانون یہ ہے کہ شہادت کے مطابق فیصلہ کیا جائے مجسٹریٹ کوئی دخل نہ دے بلکہ اگر وہ دخل دے تو اسے متعصب سمجھا جاتا ہے اور اس وجہ سے بعض اوقات مجسٹریٹ یہ جاننے کے باوجود کہ بات جھوٹ ہے سزا دے دیتا ہے کیونکہ قانون یہی ہے۔ مَیں نے کئی پولیس والوں سے سنا ہے کہ ہم نے کبھی جھوٹا مقدمہ نہیں بنایا۔ پہلے اطمینان کر لیتے ہیں کہ مقدمہ سچا ہے اور پھر اس کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹے گواہ بناتے ہیں ۔ اگر کوئی چور خود ہی مال پولیس کے حوالے کر دے تو عدالت اسے چھوڑ دے گی۔ اس لئے پولیس کو مجبوراً یہ کہانی بنانی پڑتی ہے کہ یہ مال فلاں جگہ دفن تھا جو فلاں فلاں ذیلدار ، نمبردار یا زمیندار کے روبرو ملزم نے نکال کر دیا اور ظاہر ہے کہ جب ملک کے عام حالات یہ ہوں تو سچ کو قائم رکھنا بہت ہی مشکل ہے۔
دنیا میں آج تک جتنے انبیاء گزرے ہیں مَیں سمجھتا ہوں ان سب کی امتوں سے زیادہ اس زمانہ میں سچائی کے ساتھ وابستگی کو قائم رکھنا مشکل ہے۔ صحابہ کرام کی حالت اور تھی۔ عرب میں پہلے بھی سچ کی عادت تھی۔ گو عرب لوگ چوری، ڈاکہ، زنا، شراب خوری، جوا بازی وغیرہ جرائم میں انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے مگر سچائی کے پابند تھے۔ بہت سی بُری عادات کے ساتھ ان میں ایک خوبی یہ تھی کہ سچ کے پابند تھے اور پھر مہمان نواز بھی تھے، چور بھی تھے ، ڈاکو بھی، شرابی اور زانی اور جواری بھی مگر ساتھ مہمان نواز اور سچ بولنے والے بھی تھے۔
حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص نے خود اُن سے بیان کیا کہ حج کو جاتے ہوئے رستہ میں مَیں قافلہ سے الگ ہو گیا۔ میرا سامان قافلہ کے ساتھ چلا گیا اور میرے پاس کچھ نہ تھا۔ کئی روز کے فاقہ کے بعد مجھے ایک بدوی ملا۔ ریگستانی علاقوں میں دس دس بیس بیس میل پر چھوٹے چھوٹے سرسبز قطعات بھی ہوتے ہیں اور بدو وہیں اپنی رہائش رکھ لیتے ہیں۔ کنال دو کنال کا ٹکڑا ہوتا ہے جہاں زمین کے اندر پانی کی دھاریاں اس طرح چلتی ہیں کہ وہ علاقہ سرسبز رہتا ہے، بدوی وہاں رہائش رکھتے ہیں۔ اس شخص نے بیان کیا کہ جب وہاں پہنچا تو ایک بدوی بیٹھا تھا۔ اس نے تربوز بوئے ہوئے تھے۔ ایسی جگہوں میں بدو لوگ ایسی چیزیں ہی بوتے ہیں جو دور شہر میں لے جا کر فروخت کی جا سکیں اور جلدی گل سڑ نہ جائیں۔ یہ شخص وہاں پہنچتے ہی گر گیا اور اشارہ سے کہا کہ مجھے کچھ کھانے کو دو۔ بدوی کے پاس اور کچھ کھانے کو تو تھا نہیں بکریوں کا دودھ تھا جو اس نے اسے پلایا۔ اس کے بعد اس خیال سے کہ یہ دودھ سیال چیز ہے کوئی ٹھوس چیز بھی اسے کھلانی چاہیئے وہ تربوزوں میں داخل ہؤا اور کئی تربوز توڑ توڑ کر پھینکتا گیا کیونکہ وہ ابھی پکے نہ تھے۔ آخر ایک پکا ہؤا تربوز تلاش کر کے اسے کھلایا اور اس کے بعد تلوار نکال کر کھڑا ہو گیا۔ یہ شخص بہت حیران ہؤا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ بدو نے کہا کپڑے اتارو اور کرتہ وغیرہ اتروا کر اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ پاس کوئی چیز ہے تو نہیں اور پھر کہنے لگا کہ یہ تربوز جو مَیں نے تمہاری خاطر توڑ کر پھینک دئیے ہیں میرے بیوی بچوں کی سال بھر کی غذا تھی۔ دراصل وہ لوگ گزارہ تو دودھ وغیرہ پر ہی کر لیتے ہیں اور یہ تربوز وغیرہ شہر میں لے جا کر فروخت کر کے کچھ پیسے بالائی ضروریات کے لئے حاصل کر لیتے ہیں۔ بدوی نے اس سے کہا کہ جب تم میرے پاس آ گئے تو یہ بات میری مہمان نوازی کی شان کے خلاف تھی کہ میں پہلے تم سے کچھ پوچھتا۔ لیکن اب اگر معلوم ہو جاتا کہ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے اور تمہارے پاس مال ہے تو مَیں تمہیں ضرور مار ڈالتا۔ مَیں نے اپنے تمام تربوز تمہاری خاطر اُجاڑ دئیے ہیں اور بظاہر اب میر ے بیوی بچوں کے لئے موت ہے۔
تو گو وہ لوگ قاتل تھے، شرابی اور زانی تھے مگر سچائی اور مہمان نوازی ان میں عام تھی۔ دیکھو رسول کریم ﷺ کے متعلق قیصر کے سامنے ابوسفیان نے کس طرح سچی شہادت دے دی ۔ باوجودیکہ وہ اُس وقت کافر تھے۔ گو وہ کہتے ہیں کہ اگر میرا بس چلتا تو میں جھوٹ بھی بول دیتا مگر پیچھے قوم کے دوسرے لوگ کھڑے تھے اور مَیں سمجھتا تھا اگر میں نے جھوٹ بولا تو یہ لوگ فوراً میری تردید کر دیں گے مگر اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہ حیثیت قوم وہ لوگ سچے تھے۔
اب کیا حالت ہے کہ اگر ایک غیر احمدی مولوی جھوٹ بولتا ہے تو سب اس کی تائید شروع کر دیتے ہیں ۔ مگر ابوسفیان سمجھتا تھا کہ اگر مَیں نے جھوٹ بولا تو میرے ساتھی اسے برداشت نہیں کریں گے اس لئے صاف طور پر اقرار کیا کہ محمد (ﷺ) بڑے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ قیصر نے دریافت کیا کہ کیا اس نے کبھی کوئی معاہدہ کر کے اسے خود ہی توڑ بھی دیا ہے؟ ابوسفیان نے کہا کبھی نہیں۔ پھر اس نے پوچھا کیا اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا بڑھ رہے ہیں۔ پھر قیصر نے دریافت کیا کہ اس کا تعلق کیسے خاندان سے ہے؟ ابوسفیان نے کہا بڑے اعلیٰ خاندان سے۔ قیصر نے دریافت کیا کہ اس کے ساتھ شامل ہونے والا کوئی شخص اس وجہ سے بھی الگ ہؤا ہے کہ اسے اسلام کے اصول پسند نہیں آئے؟ کسی شکوہ شکایت لڑائی جھگڑے کی وجہ سے علیحدگی اور بات ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کیا کوئی ایسا شخص بھی علیحدہ ہؤا ہے جسے اسلام کے عقائد پسند نہ آئے ہوں؟ ابوسفیان نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا۔1 تو اس زمانہ میں سچائی عام تھی مگر آج جھوٹ عام ہے۔
مجھے ہمیشہ اس واقعہ سے حیرت ہوتی ہے رسول کریم ﷺ ایک مرتبہ وحی لکھوا رہے تھے۔ کاتبِ وحی لکھ رہا تھا۔ ایک مقام پر پہنچ کر کاتب کے مُنہ سے فوراً یہ فقرہ بے اختیار نکل گیا کہ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔ اتفاقاً اگلی آیت یہی تھی۔ اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بس یہی الہام ہے لکھ لو۔ اس بات پر اسے ٹھوکر لگ گئی۔ اس نے سمجھا کہ میرا فقرہ پسند آ گیا تو اسے ہی الہام میں داخل کر لیا اور وہ مرتد ہو کر مخالفوں میں جا ملا۔ مخالف ہونے کے بعد وہ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ اور بھی ایسے فقرے مجھ سے آپؐ قرآن کریم میں لکھوا لیتے رہے ہیں۔2 مگر نہیں وہ صرف یہی ایک واقعہ بیان کرتا تھا۔ تو عرب بحیثیت قوم جھوٹے نہ تھے مگر آج حالات بالکل مختلف ہیں۔ آج اگر کوئی شخص مرتد ہو تو وہ فوراً کچھ کی کچھ بات بنا دے گا۔
ایک دفعہ یہاں ایک شخص طالب علم کی حیثیت سے حیدرآباد سے آیا۔ آج وہ لیڈر بنا ہؤا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد یہاں کسی سے اس کا جھگڑا ہو گیا اور وہ لاہور جا پہنچا۔ جھگڑا اس کا غالباً ہوسٹل والوں سے ہؤا تھا مگر لاہور جا کر اس نے اعلان کیا کہ مَیں قادیان گیا تھا۔ شروع شروع میں تو مجھ سے اصل بات پردہ میں رکھی گئی مگر کچھ عرصہ کے بعد جب خلیفہ صاحب کو یقین ہو گیا کہ میں مخلص احمدی بن گیا ہوں تو مجھے بیت الفکر کے ایک کونہ میں بٹھا کر کہنے لگے کہ آج مَیں تم پر مخلص احمدی کا راز منکشف کرنا چاہتا ہوں جو یہ ہے کہ ہمارا اصل عقیدہ یہی ہے کہ مرزا صاحب آنحضرت ﷺ سے افضل ہیں۔ حالانکہ جب وہ یہاں سے گیا تو دیانتداری سے اصل بات بھی بتا سکتا تھا کہ میرا ان لوگوں سے اتفاق نہیں ہو سکا۔ اس لئے ان میں نہیں رہ سکا۔ لیکن اسے چھپا کر اس نے اتنا بڑا فتراء کیا جو زبان سے نکالتے ہوئے ایک شیطان خصلت انسان کا دل بھی کانپ جاتا ہے۔ یہ ہندوستانی ذہنیت ہے کہ جھوٹ بولنے میں دریغ نہیں کیا جاتا۔ باقی مرتدین کو بھی دیکھ لو۔ اِدھر مرتد ہوئے اور اُدھر سینکڑوں قصے گھڑ لیتے ہیں۔ حالانکہ سوال قرضہ یا مقدمہ یا نوکری یا کسی بچے کی نوکری یا شادی بیاہ کا ہوتا ہے مگر ہزاروں باتیں پاس سے ہی بنا کر ایسا گورکھ دھندا پیش کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ تو آجکل جھوٹ بہت عام ہے اور سچ کے قیام کے لئے بہت سی مشکلات درپیش ہیں لیکن اگر قوم سچ کے لئے تیار ہو جائے تو اس کا اثر بھی بہت بڑا ہو گا۔ اگر یہ مشکل کام ہماری جماعت کر لے تو اس کے نتائج نہایت شاندار ہوں گے۔ اگر ہر فردِ جماعت سچ کی پابندی اختیار کرے، عورتیں بچوں کو سچ بولنا سکھائیں، بہنیں بھائیوں کو بھائی بہنوں کو اورباپ بیٹوں کو اور چاہے کسی عزیز ترین رشتہ دار کے متعلق سچی گواہی دینی پڑے اس میں دریغ نہ کریں تو اس کے نتائج نہایت شاندار ہوں گے۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ بعید ترین واقف کے لئے بھی جھوٹ بولنے میں تأمل نہیں کرتے۔
میرا تجربہ یہی ہے کہ ہماری جماعت میں دوسروں کی نسبت سچائی بہت زیادہ ہے اور فیصلوں میں بالعموم وہ دقتیں پیش نہیں آتیں جو دوسرے لوگوں کے معاملات میں آتی ہیں مگر پھر بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو جھوٹ بول لیتے ہیں۔ لیکن ایک نقص ہماری جماعت میں بہت عام ہے اور وہ بدظنی ہے۔ میں نے دیکھا ہے ہر شخص یہی کہتا ہے کہ جی قاضی نے عمداً غلط فیصلہ کیا حالانکہ مَیں نے سو فیصدی اس بات کو غلط پایا ہے کہ جان بوجھ کر کسی قاضی نے بددیانتی کی ہو۔ مگر مجھے کوئی فیصلہ کرانے والا شاید ہی ایسا ملا ہو جس نے یہ نہ کہا ہو کہ قاضی نے بددیانتی کی ہے یا رعایت کی ہے یا توجہ نہیں کی۔ یہ سب الفاظ قریباً ہم معنی ہیں مگر میرے تجربہ میں یہی آیا ہے کہ یہ بات غلط ہوتی ہے ۔ مَیں نے دیکھا ہے قاضیوں کے فیصلے غلط بھی ہوئے ہیں، بعض نے گواہی پوری نہیں لی ہوتی یا ایسی جرح ہونے دی ہے جو نہیں چاہیئے تھی مگر یہ سب باتیں عام حالات کے ماتحت تھیں۔ یہ مَیں نے نہیں دیکھا کہ جان بوجھ کر کسی نے کوئی بددیانتی کی ہو۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ کبھی کسی قاضی نے کوئی حرکت بددیانتی سے نہیں کی ہو گی۔ ممکن ہے کی ہو مگر وہ ایسی ہی ہو گی جو مجھے نظر نہیں آئی۔ انسان کمزور ہے کمزوریاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی مگر وہ ایسی باریک کہ ان کا پکڑنا مشکل ہے۔ تو بیشتر حصہ جماعت کا سچ ہی بولنے والا ہے مگر کئی لوگ ایسے بھی میں نے دیکھے ہیں جو جھوٹ بول لیتے ہیں اور سچی بات ان کے مُنہ سے اسی طرح نکالنی پڑتی ہے جس طرح شیر کے مُنہ میں سے گوشت کا لوتھڑا۔ جس میں ہاتھ بھی زخمی ہو جائیں۔ وہ چبا چبا کر بات کریں گے اور پھر جرح پر کوئی بات بتائیں تو بتائیں گے اور پھر جب دریافت کیا جائے کہ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہیں گے کہ جی خیال نہیں کیا تھا۔ دھیان نہیں تھا۔ ان کے مُنہ سے سچی بات کہلوانا ایسا ہی مشکل ہوتا ہے جیسا شیر کے مُنہ سے گوشت کا لوتھڑا نکالنا مگر بیشتر حصہ سچ بولنے والا ہے۔ گو وہ بھی سچائی کے اس معیار پر نہیں جو قرآن کریم قائم کرنا چاہتا ہے مگر نسبتاً دوسروں سے اچھے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ جب تک وہ سچائی کا کامل معیار اختیار نہیں کرتے دوسروں پر ان کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔
سچائی کے قیام کے لئے پہلے خود مثال قائم کرنی چاہیئے۔جو ماں بچہ کے سامنے خود جھوٹ بولتی ہے اس کی نصیحت کا بچہ پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ بعض مائیں بچوں کو ایسی تعلیم دیتی ہیں جو جھوٹ ہو مثلاً کہہ دیا کہو اماں گھر نہیں ہیں یا ہاتھ سے روپوؤں کی پوٹلی باندھتی جاتی ہے اور بچہ سے کہتی جاتی ہے کہ کہہ دو ہمارے ہاں روپیہ نہیں ہے۔ اس کا بچہ سچ بولنا کبھی نہیں سیکھ سکتا۔ پس سچائی کی تعلیم دینے کے لئے خود بھی سچ اختیار کرنا ضروری ہے۔
مذہبی مسائل میں بھی یہی طریق اختیار کرنا چاہیئے۔ مجھے آج یہ بات بیان کرنے کا خیال ‘‘الفضل’’ میں مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری کا مضمون پڑھ کر ہؤا۔ مَیں نے دیکھا ہے ان کے مضمون میں ایک بے ساختہ پن ہے وہ صاف کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک غلطی ہوئی مگر جب مجھے پتہ لگ گیا میں نے اصلاح کر لی لیکن ان کے مقابل پر مولوی محمد علی صاحب بھی مضامین لکھتے ہیں اور کہتے ہیں نہیں آپ کو غلطی نہیں لگی تھی حالانکہ مولوی غلام حسن خان صاحب کی پوزیشن بالکل مضبوط ہے۔ انہوں نے ایک وقت بیعت نہیں کی تھی اور دوسرے وقت کر لی۔ اور جو شخص یہ مان لے کہ پہلے میں غلطی پرتھا اس پر اعتراض کیا ہو سکتا ہے؟ مگر مولوی محمد علی صاحب برابر اعتراض کرتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنی جلدی تبدیلی آپ کے اندر کیونکر پیدا ہو گئی؟ وہ اس بیعت پر بدظنی کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں شاید ان کا کوئی فائدہ ہے حالانکہ اگر بیعت کر لینے میں کوئی فائدہ نظر آتا تو وہ حضرت خلیفہ اول کی بیعت کیوں نہ کر لیتے؟ پہلے میرا خیال تھا کہ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بیعت کی ہوئی تھی۔ سندھ کے سفر میں بھی کسی دوست نے پوچھا تھا تو میں نے کہا تھا کہ میرا خیال ہے کی ہوئی تھی مگر آج ان کے مضمون سے پتہ لگا ہے کہ نہیں کی تھی۔ مولوی غلام حسن خان صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو جواب دیا ہے کہ آپ کو علم ہے مَیں نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت بھی نہیں کی تھی۔ اگر میرے دل میں کوئی بددیانتی ہوتی تو مَیں اُسی وقت کیوں نہ بیعت کر لیتا مگر میں نے اس وقت بھی دلیری سے کام لیا اور نہ کی ۔ لیکن اب کہ مَیں نے سمجھا بیعت ضروری ہے مَیں نے کر لی اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ پہلے میں غلطی پر تھا۔ اب اس میں اعتراض کی بات ہی کون سی ہے؟ یا تومولوی محمد علی صاحب یہ فیصلہ کر دیں کہ انسان کبھی غلطی کر ہی نہیں سکتا اور اگر کر سکتا ہے تو اس کی اصلاح کونسا جرم ہے؟ اور ان کے مقابلہ میں خود مولوی محمد علی صاحب کی کیا پوزیشن ہے؟ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بیعت کی اور ان کے احباب نے یہ اشتہار دیا کہ یہ بیعت مطابق الوصیت ہے۔ مگر آج وہ خلافت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ الوصیت کسی ایک فرد کی خلافت کے خلاف ہے۔ لیکن یہ کہنے کی جرأت نہیں کرتے کہ ہم نے اس وقت الوصیت کے مطابق خلافت سمجھی تھی مگر اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہ عقیدہ غلط تھا۔ اسی طرح وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تو آپ کو نبی اور رسول لکھتے رہے ، عدالت میں حلفیہ بیان دیا اور کہا کہ میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب نبی ہیں مگر اب کہہ رہے ہیں کہ ہم لوگ تو شروع سے ہی آپ کو نبی نہیں مانتے تھے۔ حالانکہ اگر وہ سچائی سے کام لیتے تو ان کی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط ہوتی۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم پہلے ایسا سمجھتے تھے اس لئے اس کا اظہار بھی کرتے تھے مگر اب پتہ لگ گیا ہے کہ وہ ہماری غلطی تھی مگر وہ ایک واقعہ کا جو ہو چکا ہے انکار کرتے ہیں جس سے ان کی پوزیشن کس قدر خراب ہو جاتی ہے۔ ہم یہ معاملہ کسی ثالث کے سامنے پیش کرنے کو تیار ہیں۔ مذہبی مسائل میں تو ہم ثالثوں کے قائل نہیں مگر یہ کوئی مذہبی سوال نہیں بلکہ بعض عبارتوں کے مفہوم کا سوال ہے اور اردو ادب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے تیار ہیں کہ ادیبوں سے اس بات کا فیصلہ کرا لیا جائے ۔ ہم ان کی پہلی تحریریں ان کے پیش کردیں گے کہ ان کا پہلا عقیدہ یہ تھا اور وہ کہہ دیں کہ میں پہلے بھی نبی نہیں مانتا تھا۔ اس کے بالمقابل وہ کہتے ہیں کہ میں پہلے نبی نہیں مانتا تھا اب ماننے لگا ہوں۔ اس کے متعلق وہ بھی جو تحریریں چاہیں پیش کر دیں اور مَیں ان کا جواب لکھ دوں گا اور پھر فیصلہ کرا لیا جائے کہ ان سب تحریروں کے مفہوم وہ صحیح ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں یا جو وہ کہتے ہیں۔ اگر ثالث یہ فیصلہ کر دیں کہ مولوی صاحب کا عقیدہ پہلے بھی وہی تھا جو اَب ہے تو ہم مان لیں گے کہ وہ صحیح کہتے ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کبھی اس فیصلہ کی طرف نہیں آئیں گے۔ ان کی غرض ایسی باتوں سے صرف یہ ہے کہ ان کے پہلے عقائد اور خیالات پر پردہ پڑ جائے جیسے ملزم جب پکڑا جاتا ہے تووہ اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دشمنوں نے خواہ مخواہ مجھ پر الزام لگا دیا ہے۔ ان کی تحریریں موجود ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نبی آخر الزمان ہیں، مجددین اور ان میں یہ فرق ہے۔ مگر آج کہتے ہیں کہ میں نے کبھی یہ بات کہی ہی نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر پہلے بھی آپ نبی نہ کہتے تھے اور آپ کی تحریروں سے نبوت کا ثبوت نہیں ملتا تو ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں اور یہ کیوں کہتے ہیں کہ کسی کی تحریر یا قول کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہیں تو چاہیئے کہ خود تحریک کر کے دوسروں کو ان کی طرف متوجہ کریں ۔ وہ چونکہ جانتے ہیں کہ لوگ ان تحریروں کو پڑھ کر ضرور متاثر ہوں گے اس لئے کہتے جاتے ہیں کہ زید یا بکر کے قول کا کوئی اعتبار نہیں اور وہ حجت نہیں ہو سکتا ۔ جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی کمزوری کو چھپاتے ہیں۔ مولوی غلام حسن خان صاحب کے مضمون کو دیکھ کر صاف پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے سچائی کے ساتھ واقعہ بیان کر دیا ہے جو اس قابل ہے کہ اس پر اعتبار کیا جائے۔ لیکن مولوی محمد علی صاحب جو مضامین لکھتے ہیں اور جس رنگ میں نبی ماننے یا نہ ماننے کا سوال پیش کرتے ہیں اس میں ایک اخفاء کا پہلو نظر آتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں اس سوال کو جانے دو کہ مَیں یا کوئی اور اس زمانہ میں کیا خیال کرتا تھا۔ حالانکہ یہ سوال نہایت اہم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کے درجہ کے متعلق لوگوں کا کیا خیال تھا۔ ایک شخص تو غلطی کر سکتا ہے ، دو کر سکتے ہیں، چار کر سکتے ہیں مگر جو مجموعی عقیدہ اس زمانہ میں پھیلا ہؤا تھا اور جس کی اخبارات ، اشتہارات اور رسالوں میں اشاعت ہوتی رہتی تھی اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی تردید نہیں کرتے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اس عقیدہ کو درست سمجھتے تھے ورنہ کیوں اس کی تردید نہ فرماتے۔ یا اُس وقت جماعت میں جو لوگ بڑے تھے انہوں نے اس کا ردّ کیوں نہ کیا؟ یہ باتیں مولوی محمد علی صاحب کی پوزیشن کو کمزور کرنے والی ہیں۔
سچائی ہی ہے جو ہر میدان میں انسان کوکامیاب کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے لکھا تھا کہ مسیح ناصری زندہ ہے مگر بعد میں وفات پیش کی اور جب لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ نے صاف طور پر فرمایا دیا کہ وہ میری غلطی تھی۔ جب تک مجھے علم نہ تھا میں وہی کہتا رہا جو جمہور مسلمانوں کا عقیدہ تھا مگر جب اللہ تعالیٰ نے مجھے حقیقت سے آگاہ کر دیا تو میں نے اسے بیان کر دیا۔ اسی طرح پہلے آپ لکھتے رہے کہ میں نبی نہیں ہوں مگر بعد میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو یہ نہیں فرمایا کہ میرا تو پہلے بھی یہی مطلب تھا کہ میں نبی ہوں۔ نہیں کا لفظ کاتب نے غلطی سے لکھ دیا بلکہ سادگی سے اقرار کر لیا کہ مسلمانوں کے پرانے عقیدہ کے مطابق میں اپنے آپ کو نبی نہیں سمجھتا تھا مگر خداتعالیٰ کی بارش کی طرح وحی نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہیں رہنے دیا ۔ اسی طرح اگر مولوی محمد علی صاحب بھی یہی پوزیشن اختیار کرتے تو ان پر بھی کوئی اعتراض نہ ہو سکتا مگر وہ تو کہتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی حضرت مرزا صاحب کو نبی نہیں سمجھا۔ ایک طرف تو یہ لوگ ہم پر شرک کا الزام لگاتے ہیں دوسری طرف ان کا یہ حال ہے کہ نبیوں اور ماموروں کی طرف غلطی کا منسوب کرنا تو جائز سمجھتے ہیں مگر اپنی صریح غلطی ماننے کے لئے تیار نہیں۔ حالانکہ صریح لکھے ہوئے حوالے موجود ہیں ۔ ایسی واضح تحریروں سے انکار دراصل ان پر اللہ تعالیٰ کی گرفت ہے ورنہ اگر یہ کہتے کہ ہاں ہم نے نبی لکھا ہے اور ضرور لکھا ہے مگر وہ غلطی تھی اب بات ہماری سمجھ میں آ گئی ہے تو ان کی بات معقول سمجھی جاتی مگر ان کی موجودہ پوزیشن کو دیکھ کر تو ہر شخص یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتاہے کہ وہ سچائی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
پس دینی اور دنیاوی ہر قسم کے معاملات میں سچائی کو مقدم رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ بات ہر میدان میں انسان کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ ماں باپ اور استادوں کو چاہیئے کہ بچوں میں سچائی کی عادت پیدا کریں۔ اکثر بچے جھوٹ ماں باپ یا استاد سے ہی سیکھتے ہیں۔ دس فیصدی دوسروں سے اور نوے فیصدی ماں باپ یا استادوں سے سیکھتے ہیں۔ ہمسایہ لڑکوں سے بھی سیکھتے ہیں مگر چونکہ ان کے لئے ان کے دلوں میں ادب اور احترام نہیں ہوتا اس لئے ان کا اثر اتنا گہرا نہیں ہوتا جتنا ماں باپ اوراستادوں کاہوتا ہے۔ صرف دس فیصدی مثالیں ایسی ملیں گی کہ بچوں نے ہمسایہ بچوں سے جھوٹ سیکھا یا نوکروں سے سیکھ لیا ورنہ نوے فیصدی ماں باپ اور استادوں سے سیکھتے ہیں۔ جو ماں باپ ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ نقصان کے باوجود سچ بولتے ہیں ان کے شریف الطبع بچے اکثر سچے ہوتے ہیں۔ اسی طرح استاد کا اثر بھی بہت ہوتا ہے کیونکہ بچے کے دل میں ان تینوں کا احترام ہوتا ہے۔ غور کر کے دیکھ لو ہر انسان جو حرکتیں کرتا ہے ان میں سے اکثر اس کے ماں باپ یا استاد میں ہوں گی اور اس نے ان کی نقل میں وہ حرکت اختیار کی ہو گی۔ بعض لوگ ایک خاص طرح کندھا ہلاتے ہیں یا سر ہلاتے ہیں یا ایسی ہی اور حرکات کے عادی ہوتے ہیں اور اگر تحقیق کی جائے تو یہ ثابت ہو گا کہ یہ حرکات اکثر انہوں نے ماں باپ یا استاد کی نقل میں اختیار کی ہوں گی۔ بچہ بوجہ احترام ہمیشہ ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے یہ بڑے ہیں میں بھی ان کی نقل کر کے بڑا بن جاؤں گا۔ تو اگر ماں باپ اور استاد سچائی پر قائم ہو جائیں تو نوّے فیصدی سچ دنیا میں قائم ہو سکتا ہے۔باقی صرف دس فیصدی جھوٹ رہ جائے گا جو دوسرے ذرائع سے قائم ہوتا ہے اور اس کا علاج بہت آسان ہے۔
پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسی اخلاقی تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ جب محکمہ قضاء کے سامنے جواب دہی یا گواہی کے لئے کوئی پیش ہو تو سچ سچ بات کہہ دے۔ مذہبی معاملات میں بھی یہی طریق اختیار کرنا چاہیئے۔ اگر کسی بات کا جواب ایک وقت نہیں آتا تو بناوٹی جواب دینے کی کوشش نہ کرو مَیں تو اسی طرح کرتا ہوں۔
ایک شخص نے ایک خط میرے سامنے پیش کیا جو غیر احمدی کے جنازہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لکھا ہؤاتھا۔ میں نے اسے دیکھ کر کہہ دیا کہ اس وقت اس کا کوئی جواب میرے ذہن میں نہیں۔ آپ کے باقی حوالوں سے میں یہی سمجھتا ہوں کہ غیراحمدی کا جنازہ پڑھنا منع ہے مگر اس خط کا میں ابھی کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ کئی دفعہ مجھے چیلنج بھی دیا گیا کہ اس کا جواب دو مگر میں نے کبھی بناوٹی جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ اس میں ہتک کی کوئی بات ہے۔ ممکن ہے یہ خط بعض مخصوص حالات میں لکھا گیا ہو جو مجھے معلوم نہیں مگر بہرحال دوسرے حوالے ایسے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ غیراحمدی کا جنازہ آپ جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اس خط کو دیکھ کر میں نے یہی کہا کہ اس کا کوئی جواب میں نہیں دے سکتا اور اس میں حرج ہی کیا ہے کہ انسان سچی بات صاف صاف کہہ دے۔
ایک دفعہ لاہور میں دو شخص مجھ سے ملنے آئے۔ ایک نے دریافت کیا کہ آپ نے کس مدرسہ میں تعلیم پائی ہے؟ اس کا مطلب دیوبند وغیرہ علمی مدارس سے تھا۔ میں نے کہا کسی مدرسہ میں نہیں۔ اس نے کہا کسی سے کوئی سند حاصل کی ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ کون کون سے علوم پڑھے ہیں؟ میں نے کہا کوئی نہیں۔ اس کی غرض ان سوالات سے صرف یہ تھی کہ ظاہر کرے کہ یہ تو جاہل آدمی ہے اس سے ہم کیا گفتگو کریں۔ میں اسے یہ جواب بھی دے سکتا تھا کہ تمہیں ان سوالات کا کیا حق ہے مگر وہ پوچھتا گیا اور میں جواب دیتا گیا۔ دوست بیٹھے تھے اور وہ ایسے سوالات کرنے سے اسے روکنا بھی چاہتے تھے مگر میں نے کہا نہیں پوچھنے دو۔ اس نے اپنے ساتھی سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ تو خود مانتے ہیں کہ جاہل ہیں پھر ان سے کیا سوال کریں۔ میں نے کہا کہ ایک سوال آپ نے نہیں کیا؟ وہ بات مَیں خود بتا دیتا ہوں۔ وہ کہنے لگے کیا؟ مَیں نے کہا میں انگریزی مدرسہ میں پڑھتا تھا اور پرائمری میں بھی فیل ہؤا اور مڈل میں بھی اور انٹرنس میں بھی مگر ان سب باتوں کے باوجود میں ایک چیز پڑھا ہؤا ہوں۔ میں نے وہ پڑھا ہے جو محمد (ﷺ) نے پڑھا تھا اور میں نے قرآن کریم پڑھا ہے۔ گو محمدؐ رسول اللہ ﷺ کا مقام اعلیٰ تھا اور میرا ادنیٰ۔ بے شک میں نے دنیا کا کوئی علم نہیں پڑھا مگر نہ پڑھنے کے باوجود میرا دعویٰ ہے کہ دنیا کا کوئی علم نہیں کہ جس کے رو سے قرآن کریم یا اسلام پر اس کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر کوئی اعتراض کرے اور میں اس کا جواب نہ دے سکوں۔ یہ بات سن کر اس شخص کے ساتھی نے کہا کہ مَیں نے تم کو اشارہ نہ کیا تھا کہ ان کے جواب میں کوئی اور بات ہے اور میں نے تمہیں پہلے منع کیا تھا کہ یہ سوالات نہ کرو۔ بعض پیغامی بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی ہیں ۔ یہ کیا ہیں؟ مجھے اقرار ہے کہ میرے پاس کوئی سند نہیں مگر پھر بھی میرا یہ دعویٰ ہے کہ مجھے قرآن کریم آتا ہے جو چاہے میرے اس دعویٰ کو پرکھ لے۔ میں نے کبھی کسی سے یہ نہیں کہا کہ مجھے فلسفہ خوب آتا ہے مجھ سے پڑھ لو یا حساب بہت آتا ہے وہ پڑھ لو۔ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ قرآن کریم مجھ سے ہی پڑھ سکتے ہو اور میرا کسی اور علم کا ماہر نہ ہونا کوئی ہتک کی بات نہیں۔ ایک نجار اگر لوہار کا کام نہیں جانتا تو اس میں اس کی کوئی ہتک نہیں یا اگر ایک جولاہا نائی کا کام نہیں جانتا تو اسے جاہل نہیں کہا جا سکتا۔ جو شخص جس فن کو جانتا ہے اس کے علم کا امتحان اسی فن میں کیا جا سکتا ہے اس سے باہر نہیں۔ پس میرے قرآن کریم کے سوا کسی علم میں ماہر نہ ہونے کو کوئی اگر جہالت قرار دیتا ہے تو بڑے شوق سے دے میرے لئے اس میں ہتک کی کوئی بات نہیں۔
لوگوں نے کوشش بھی کی ہے کہ مجھ سے دعویٰ کرائیں کہ میں مصلح موعود ہوں۔ مگر میں نے کبھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔ مخالف کہتے ہیں آپ کے مرید آپ کو مصلح موعود کہتے ہیں مگر آپ خود د عویٰ نہیں کرتے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ مجھے دعویٰ کی ضرورت کیا ہے؟ اگر میں مصلح موعود ہوں تو میرے دعویٰ نہ کرنے سے میری پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آ سکتا۔ جب میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیشگوئی غیرمامور کے متعلق ہو اس کے لئے دعویٰ کرنا ضروری نہیں ہوتا تو پھر دعویٰ کی مجھے کیا ضرورت ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ریل کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی ۔ کیا ضروری ہے کہ ریل دعویٰ کرے؟ دجال کی پیشگوئی موجود ہے مگر کیا دجال کا دعویٰ کرنا ضروری ہے؟ ہاں مامور کی پیشگوئی میں دعویٰ کی ضرورت ہوتی ہے۔ باقی غیرمامور کو تو خواہ پتہ بھی نہ ہو کہ وہ پیشگوئی اس کی ذات میں پوری ہو گئی کوئی حرج کی بات نہیں۔
امت مسلمہ میں مجددین کی جو فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھانے کے بعد شائع ہوئی ہے ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا ہو؟ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے تو اورنگ زیب بھی اپنے زمانہ کا مجدد نظر آتا ہے۔ مگر کیا اس نے کوئی دعویٰ کیا؟ عمربن عبدالعزیز کو مجدد کہا جاتا ہے کیا ان کا کوئی دعویٰ ہے؟ پس غیرمامور کے لئے دعویٰ ضروری نہیں۔ دعویٰ صرف مامورین کے متعلق پیشگوئیوں میں ضروری ہے۔ غیرمامور کے صرف کام کو دیکھنا چاہئے۔ اگر کام پورا ہوتا نظر آ جائے تو پھر اس کے دعویٰ کی کیا ضرورت ہے؟ اس صورت میں تو وہ انکار بھی کرتا جائے تو ہم کہیں گے کہ وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔ اگر عمر بن عبدالعزیز مجدد ہونے سے انکار بھی کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے زمانہ کے مجدد ہیں کیونکہ مجدد کے لئے کسی دعویٰ کی ضرورت نہیں۔ دعویٰ صرف ان مجددین کے لئے ضروری ہے جو مامور ہوں۔ ہاں جو غیرمامور اپنے زمانہ میں گرتے ہوئے اسلام کو کھڑا کرے، دشمن کے حملوں کو توڑ دے اسے چاہے پتہ بھی نہ ہو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجدد ہے۔ ہاں مامور مجدد وہی ہو سکتا ہے جو دعویٰ کرے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا۔ پس میری طرف سے مصلح موعود ہونے کے دعویٰ کی کوئی ضرورت نہیں اور مخالفوں کی ایسی باتوں سے گھبراہٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ اس میں کوئی ہتک کی بات نہیں۔ اصل عزت وہی ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ چاہے دنیا کی نظروں میں انسان ذلیل سمجھا جائے۔ اگر وہ خداتعالیٰ کے رستہ پر چلے تو اس کی درگاہ میں وہ ضرور معزز ہو گا۔ اور اگر کوئی شخص جھوٹ سے کام لے کر اپنے غلط دعویٰ کو ثابت بھی کر دے اور اپنی چستی یا چالاکی سے لوگوں میں غلبہ بھی حاصل کر لے تو خداتعالیٰ کی درگاہ میں وہ عزت حاصل نہیں کر سکتا۔ اور جسے خداتعالیٰ کے دربار میں عزت حاصل نہیں وہ خواہ ظاہری لحاظ سے کتنا معزز کیوں نہ سمجھا جائے اس نے کچھ کھویا ہی ہے حاصل نہیں کیا اور آخر ایک دن وہ ذلیل ہو کر رہے گا۔
پس دینی و دنیوی کاموں میں ہمیشہ سچ کو اختیار کرو۔ جو شخص سچ کے لئے نقصان اٹھاتا ہے وہ دراصل فائدہ میں رہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب آتھم کی پیشگوئی پرمخالفوں نے شور مچایاکہ وہ پوری نہیں ہوئی تو ایک دن نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی جو اغلباً موجودہ نواب صاحب کے دادا تھے اس موضوع پر باتیں ہونے لگیں اور تمسخر اُڑایا جانے لگا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ نواب صاحب کے پیر حضرت غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی تشریف فرما تھا وہ خاموش بیٹھے رہے مگر کچھ عرصہ بعد نواب صاحب بھی اس گفتگو میں دخل دینے لگے تو وہ جوش میں آ گئے اور فرمانے لگے کہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ ایک عیسائی کی تائید اور مسلمان کے خلاف باتیں کرتے ہو۔ تم لوگ کہتے ہو کہ آتھم زندہ ہے یہ بالکل غلط ہے وہ مر چکا ہے اور مجھے تو وہ مُردہ ہی نظر آتا ہے۔3
پس جب کوئی شخص سچ کے لئے کھڑا ہو تو ہر شریف انسان اس کی عزت کرے گا ۔ اگر کمینے اس کی عزت کو نہ پہچانیں تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں۔ پس کبھی کسی دشمن کے اعتراض سے ڈر کر حق نہ چھپاؤ کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو تم اپنی عزت قائم کرنا چاہو گے اور خداتعالیٰ اور رسول کی بے عزتی کرنے والے بنو گے اور اس صورت میں تم ان کی دعاؤں کے مستحق نہیں بنو گے بلکہ ان کی ناراضگی کے مورد ہو گے۔ پس سچ کو قائم کرو کیونکہ جس دن تم اسے قائم کر لو گے احمدیت کی شان اور اس کا مرتبہ بہت ہی بلند و بالا ہو جائے گا۔ ‘‘
(الفضل 23 مارچ 1940ء)

1 بخاری کتاب الجہاد والسیر باب دعاء النبی ﷺ الی الاسلام
2 تفسیر القرطبی جلد 12 صفحہ 110 زیر آیت فتبارک اللہ احسن الخالقین
3 تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 340

6
کوشش کرو کہ جتنا ہم زمین میں پھیلیں اس سے زیادہ آسمان میں پھیلیں
(فرمودہ 22 مارچ 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’دنیا میں جتنی بڑائیاں ہیں وہ سب کی سب نہایت چھوٹے بیجوں سے پیدا ہوئی ہیں۔ آم کے کتنے بڑے بڑے درخت کتنی چھوٹی چھوٹی گٹھلیوں سے پیدا ہوتے ہیں، بیری کے درخت کتنی چھوٹی گٹھلیوں سے پیدا ہوتے ہیں، یوکلپٹس کے درخت کتنے چھوٹے پودوں سے پیدا ہوتے ہیں، بڑ کے درخت کے بیج کا دانہ کتنا چھوٹا ہوتا ہے، یہی حالت انسانوں میں بھی ہے مگر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بڑے ہو کر چھوٹے ہونے کی حالت کو بھول جاتے ہیں۔ عام طور پر بڑے آدمی چھوٹوں کو دیکھ کر نہایت حقارت سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ کیسے نادان ہیں مگر ان کو یاد نہیں رہتا کہ وہ خود کبھی ان جیسے ہی بلکہ ان سے بھی زیادہ نادان تھے۔ ایک ترقی کے اعلیٰ مقام پر پہنچا ہؤا انسان اپنے ماتحت کو جو ترقی کے لئے قربانی کر رہا ہوتا ہے اور ترقی کے ابتدائی زینوں پر قدم مار رہا ہوتا ہے کیسی حقارت سے کہہ دیتا ہے کہ وہ کتنا چھوٹا آدمی ہے اور اسے یاد نہیں رہتا کہ کبھی وہ اس سے بھی نیچے تھا اور اسے کیا معلوم ہے کہ اس کا وہ ماتحت ترقی کرتے کرتے اس سے بھی آگے نہیں نکل جائے گا۔
جب محمد رسول اللہ ﷺ دنیا کے پاس صداقت کا پیغام لے کر آئے، جب عرب کے ایک شریف خاندان مگر دنیوی حیثیت کے لحاظ سے نہایت ہی غریب خاندان کے ایک نوجوان نے جس کے ماں باپ بچپن میں ہی فوت ہو گئے اور جس نے اپنے چچا کے گھر میں پرورش پائی تھی یہ اعلان کیا کہ مجھے خداتعالیٰ نے نبی بنا کر بھیجا ہے اور نبی بھی وہ جو سب نبیوں کا سردار ہے تو یہود نے اس وقت اسے کتنی حقارت کی نظر سے دیکھا اور کہا کہ بھلا یہ موسیٰ کی خوبیوں تک پہنچ سکتا ہے؟ عیسائیوں نے بھی اسے حقارت سے دیکھا اور کہا کہ یہ عیسیٰ کا سردار کس طرح ہو سکتا ہے؟ یہی حال دوسری قوموں کا بھی تھا۔ انہوں نے بھی اسے حقارت کی نظر سے دیکھا اور یہی خیال کیا کہ یہ ابراہیم، اسماعیل، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کا سردار کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ ایک طرف ان نبیوں کے اس زمانہ کے بلند مرتبہ کو دیکھتے اور دوسری طرف رسول کریم ﷺ کی کسمپرسی کو۔ لیکن یہ خیال نہ کرتے تھے کہ موسیٰ موسیٰ بننے سے قبل کیا حیثیت رکھتا تھا؟ کیا موسیٰ ابتداء میں اپنی قوم کے مظالم سے تنگ آ کر بھاگا نہ تھا؟ کیا اسے ابتدائی ایام میں فرعون کی روٹیوں پر بسر نہ کرنی پڑی تھی؟ کیا عیسیٰ ایک بڑھئی کا بیٹا نہ تھا جسے شاید بچپن میں لوگوں کی پیڑھیاں اور چارپائیاں ٹھونکنی پڑی ہوں؟ پھر کیا ابراہیم ایک ایسے تاجر کا بیٹا نہ تھا جو بُت بیچا کرتا تھا؟ وہ ان سب نبیوں کی ابتدائی حالت کو بھول جاتے تھے مگر آنحضرت ﷺ کی اس گھڑی کو دیکھتے تھے جب وہ ایک یتیم کی حیثیت میں اپنے چچا کے گھر میں پلتے تھے۔ وہ عیسیٰ کی تو دعویٰ سے پانچ سو سال بعد کی حالت کو دیکھتے تھے مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کے سال کو وہ موسیٰ اور ابراہیم کی پیدائش کے زمانہ کو بھول کر ان کی جوانی کو دیکھتے تھے مگر آنحضرت ﷺ کی پیدائش کو۔ اور وہ یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ بچپن اور جوانی میں کتنا فرق ہے۔ ایک بچہ خواہ وہ رستمِ دیار ہی کیوں نہ ہونے والا ہو، ایک جوان کوڑھی سے بہرحال کمزور ہوتا ہے کیونکہ ابھی وہ بچہ ہوتا ہے اور اس کی طاقت کا زمانہ ابھی شروع نہیں ہؤا ہوتا۔ تو مکہ کے لوگ آنحضرت ﷺ کی ابتدائی حالت سے اُس وقت اندازہ کر رہے تھے اس لئے اُن کو آپ کمزور نظر آتے تھے لیکن آج اگر مکہ کے ان لوگوں کو واپس دنیا میں آنے کا موقع ملے اور ان یہودیوں کو دنیا میں لایا جائے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو اتنی قبولیت حاصل کس طرح ہو گئی؟ ابتدائی حالت میں مسلمانوں کی طاقت ہی کیا تھی؟ اُس وقت صرف اڑھائی مسلمان ہی تھے۔ یعنی ابوبکرؓ، خدیجہؓ اور علیؓ جو صرف گیارہ سال عمر کے تھے۔ حضرت خدیجہ ؓایک عورت تھیں اور عورت نصف مرد کے برابر سمجھی جاتی ہے۔ اس طرح کُل اڑھائی ہوئے۔ اس وقت جب آنحضرت ﷺ کہتے ہوں گے کہ ہم مسلمانوں کی جماعت دنیا پر غالب آ جائے گی تو ان کی مراد انہی اڑھائی مسلمانوں سے تھی یعنی حضرت ابوبکرؓ ایک جوان آدمی ، حضرت علی ؓگیارہ سال کا بچہ اور خدیجہؓ ایک عورت۔ اور ان اڑھائی مومنوں کی اس بات کو سن کر یہودی جو اس وقت تمام دنیا کی تجارت پرقابض تھے ، دمشق میں بھی ان کی تجارت تھی، مصر، فلسطین اور ایران کی تجارت پر بھی وہی قابض تھے، تمام بادشاہوں کے دربار میں ان کو عزت حاصل تھی۔ جوہری بھی یہودی تھے اور کپڑے کے تاجر بھی وہی تھے۔ ہندوستان تک ان کی تجارت اور شہرت پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت ان کا ذلیل سے ذلیل آدمی بھی مسلمانوں کا یہ فقرہ سن کر مسکرا دیتا ہو گا اور سمجھتا ہو گا کہ ان کا دماغ خراب ہو چکا ہے کہ یہ اپنے غلبہ کے خواب دیکھ رہے ہیں اور دنیوی نقطۂ نگاہ سے وہ ایسا خیال کرنے میں بالکل حق بجانب تھے کیونکہ کُجا اڑھائی کروڑ کے قریب وہ لوگ جن کے قبضہ میں ساری دنیاکی تجارت تھی اور کُجا یہ اڑھائی مسلمان۔ اور جب رسول کریم ﷺ کہتے ہوں گے کہ ‘‘ہم مسلمانوں کی جماعت’’ تو جس حقارت سے ایک عیسائی یا ایک یہودی اس پر مسکراتا ہو گا اس کا اندازہ ہم ہی کر سکتے ہیں، دوسرے نہیں کر سکتے۔ اسی طرح قریش کے لوگ بھی ان مسلمانوں سے رتبہ میں بہت بڑے تھے۔ مسلمانوں کی اس وقت حیثیت ہی کیا تھی ؟ حضرت علیؓ بچہ تھے اور رسول کریم ﷺ کے گھر میں رہتے تھے۔ آپ نے چونکہ پہلے ان کے گھر میں پرورش پائی تھی اس لئے حضرت علیؓ کو اپنے ہاں رکھ لیا تھا کہ یہ میرے ہاں کھایا پیا کرے گا۔ حضرت ابوبکرؓ بے شک تاجر تھے مگر ایسے تاجر کہ کپڑے کی گٹھڑیاں پیٹھ پر اٹھا کر دیہات میں جا کر بیچا کرتے تھے۔ گویا پھیری کرنے والے تاجر تھے۔ آپ کے پاس چند ہزار روپیہ ضرور تھا مگر کوئی بڑے امیر نہ تھے۔ آپ کی ایک پھیری والے اچھے تاجر کی حیثیت تھی اور بعض پھیری کرنے والے بھی متمول ہوتے ہیں۔ آپ خود کپڑا اٹھا کر بیچنے جایا کرتے تھے یا ایک دو غلام رکھے ہوتے تھے انہیں اٹھوا کر لے جاتے تھے۔ اور ایسا تاجر اگر دس بارہ روپیہ بھی روز کما لے تو زیادہ سے زیادہ تین چار سو روپیہ ماہوار کی آمد تھی اور اس حیثیت میں وہ عرب کے رؤساء کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ پس جب رسول کریم ﷺ کہتے ہوں گے کہ ‘‘ہم مسلمان’’ تو یہ لوگ کس حقارت سے کہتے ہوں گے کہ یہ لوگ بھی اپنے آپ کو ہم کہتے ہیں۔ لیکن آج اگر قریش کے ان سرداروں بلکہ بادشاہوں کو بھی کوئی لا کر کھڑا کر دے کہ وہی اڑھائی مسلمان آج دنیا میں چالیس کروڑ ہو گئے ہیں تو وہ کبھی یہ بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوں گے۔ ابوجہل اگر آج زندہ ہو جائے اور خانۂ کعبہ میں قسم اٹھا کر بھی اسے بتایا جائے کہ یہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے ماننے والے ہیں اور دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں مسلمان آباد نہ ہوں۔ ہندوستان میں بھی ہیں، ایران میں بھی اور مغربی افریقہ کے ساحل کے ساتھ ساتھ بھی پھیلے ہوئے ہیں اور ہر جگہ پائے جاتے ہیں تو وہ یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔
مسلمان آج گو کتنے خراب کیوں نہ ہوں اس میں کیا شک ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت ضرور کرتے ہیں اور آپ کے عشق کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کو لا کر آج ہر جگہ پھراتے جاؤ تو وہ اسے خواب سمجھیں گے یا جنون۔ اور کبھی یہ نہیں مانیں گے کہ یہ اسی محمد ﷺ کے غلام ہیں جو ایسی کمزور حالت میں تھے اور اگر ان کو عتبہ، شیبہ، ابوجہل اور قریش کے بڑے بڑے کفار کے خاندانوں میں لے جایا جائے اور وہ دیکھیں کہ کس طرح آج ان کی اولادیں اسلام پر کاربند ہیں تو ان کا دماغ پریشان ہو جائے کہ یہ کیا دیکھ رہے ہیں؟ ان لوگوں نے کس طرح اسلام کی مخالفت میں اپنی عمریں گنوا دیں۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ آج ان کی اولادیں نہ صرف محمد ﷺ بلکہ آپ کے غلاموں کی خدمت پر فخر کرتی ہیں۔
پھر دوسرے نقطۂ نگاہ سے دیکھو کہ ایک زمانہ میں جب عیسائی خداتعالیٰ سے سچی محبت کرتے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سچے دل سے اطاعت کرتے تھے اور دین کی خدمت میں تکالیف برداشت کرتے تھے اُس وقت آسمان پر ان کی کتنی عزت تھی مگر آج گو ان کی حکومت تو بڑی وسیع ہے مگر آسمان پر ان کے لئے سوائے ملامت کے اور کچھ نہیں۔ اسی طرح یہود نے جو حضرت موسیٰ کی امت ہیں دنیوی لحاظ سے بہت ترقی کی، کروڑوں روپیہ کمایا اور اقتصادی دنیا میں بے حد اہمیت حاصل کر لی حتّٰی کہ دنیا میں کوئی جنگ یا صلح اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک حضرت موسیٰ ؑ کے نام لیواؤں کی انگلی بھی اس پر نہ رکھی ہوئی ہو۔ مگر آسمان پر ان کے لئے کوئی جگہ نہیں بلکہ فرشتے اُس جگہ کو صاف کرتے ہیں جہاں موسائیوں کی ہوا بھی پہنچ جائے۔ اور اس میدان میں ان کی ترقی کو دیکھ کر جب ان کے تنزّل پر نگاہ ڈالی جائے تو دل کانپ اٹھتا ہے۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے آج اگر ابوجہل اور کفارِ مکہ کے دوسرے سرداروں کو لاکر مسلمانوں کی ترقی دکھائی جائے تو وہ حیرت زدہ ہو جائیں۔ اسی طرح اگر محمد رسول اللہ ﷺ یہ دیکھیں کہ یہ میری امت ہے تو آپؐ کبھی یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوں کیونکہ نقشہ ہی بدل چکا ہے۔ ان میں نہ وہ اخلاق ہیں اور نہ روحانیت جو آپ اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت بالکل مفقود ہے۔ وہ تقدس نہیں، علم نہیں، دیانت نہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ پیدا کرنا چاہتے تھے۔
اسی طرح آج ہماری جماعت بھی بہت ادنیٰ حالت سے ترقی کر رہی ہے۔ دنیا آج ہماری طرف دیکھ کرحقارت سے مسکراتی ہے اور کہتی ہے کہ ان لوگوں کی بساط ہی کیا ہے جو ہمارا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے کانوں سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ یہ لوگ بھی اپنے آپ کو اقلّیت سمجھتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی اقلّیت ہیں۔ مگر یہ کہنے والوں کی مثال وہی ہے جو مکہ والوں کی تھی ا ور عیسائیوں اور یہودیوں کی تھی۔ وہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی جوانی سے آنحضرت ﷺ کے بچپن کا مقابلہ کرتے تھے۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے اپنے ایک چھوٹے بچہ کی مثال یاد آ جاتی ہے۔ اس کا رنگ کچھ سیا ہ ہے اور اس کے چھوٹے بھائی کا گورا۔ اور جب اسے کہا جائے کہ اس کا بھائی گورا اور وہ کالا ہے تو وہ اپنا ہاتھ اور اپنے بھائی کے بال دکھا کر کہتا ہے کہ دیکھو میں کتنا گورا ہوں اور وہ سیاہ ہے۔ ہر شخص اس بچے کی بات پر ہنس دے گا مگر کیا وہ لوگ ہنسی کے قابل نہیں ہیں جو محمد ﷺ کے بچپن کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جوانی سے مقابلہ کرتے ہیں؟ یہی حال ہمارے مخالفوں کا ہے جو ہماری کمزوری پر ہنستے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری مثال ابھی چھوٹے بچہ کی ہے اور ہم نے ترقی کرنی ہے۔ ہم خداتعالیٰ کے فضل سے ضرور ترقی کریں گے اور جب جوانی کو پہنچیں گے تو ہمارے اس بچپن کو دیکھنے والوں کو یہ یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ وہی جماعت ہے۔ مگر ہماری جماعت کو یہ سبق کبھی نہیں بھلانا چاہیئے کہ قومیں جب تعداد میں بڑھتی ہیں تو اخلاق میں گرنے لگتی ہیں۔ وہ جب زمین میں پھیلتی ہیں تو آسمان پر سکڑنے لگتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ بدنصیب کوئی نہیں ہو سکتا جو زمین میں پھیلتا مگر آسمان میں سکڑتا ہے۔ آج ہم شوریٰ کے لئے جمع ہوئے ہیں پس ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم جتنا زمین میں پھیلیں اس سے زیادہ آسمان میں پھیلتے جائیں اور ہمارا خدا ہم سے خوش ہو۔‘‘ (الفضل 29 مارچ 1940ء)

7
غیرمبائعین کو تبلیغ کرنے کے متعلق خاص ہدایت
(فرمودہ 29 مارچ 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’بوجہ انفلوئنزا کے دورہ کے مَیں اونچا نہیں بول سکتا اور گو آج حرارت میں مجھے نسبتاً کل سے افاقہ ہے لیکن گلے اور سر میں درد ابھی تک باقی ہے مگر لاؤڈ سپیکر کی وساطت سے میں امید کرتا ہوں کہ باوجود آہستہ بولنے کے میری آواز تمام جماعت تک پہنچ جائے گی۔
مَیں آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اس وقت تک یہ وعدہ نہایت صفائی سے پورا ہوتا چلا آیا ہے کہ وہ ہم لوگوں کو جیسے بیرونی دشمنوں پر فتح اور نصرت عطا فرمائے گا اسی طرح جو اندرونی باغی ہیں ان پر بھی وہ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہمیں غلبہ عطا فرماتا رہے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے ابھی نہ کوئی خلافت کا سوال تھا نہ اس قسم کا نظام جماعت کے سامنے تھا کہ مجھے الہام ہؤا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابھی زندہ ہی تھے جب مجھے یہ الہام ہؤا۔اور جب میں نے آپ کو یہ الہام سنایا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے الہاموں کی کاپی میں یادداشت کے طور پر اسے درج فرما لیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں یقینا ان کو جو تیرے متبع ہوں گے ان لوگوں پر جو تیرے مخالف ہو ں گے ہمیشہ غالب رکھوں گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا۔ چنانچہ اس وقت تک ہم اس الہام کے پورا ہونے کا نظارہ کئی دفعہ دیکھ چکے ہیں۔
پیغامی کس زور سے اٹھے ، کس شان سے اٹھے، کن زبردست ارادوں سے اٹھے، کیا کیا تدبیریں تھیں جو انہوں نے ہمیں زیر کرنے کے لئے اختیار نہ کیں اور کیا کیا منصوبے تھے جو انہوں نے ہمیں ذلیل کرنے کے لئے نہ باندھے۔ جو شوکت اور جو رتبہ اس وقت ان لوگوں کو جماعت میں حاصل تھا آج جو بعد میں آنے والے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ شاید یہی سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ہی غالب رہے ہیں اور وہ ہمیشہ ہی مغلوب رہے ہیں۔ حالانکہ ان ایام میں ان کو اتنا رتبہ اور زور حاصل تھا کہ بہت سے لوگوں کے دل ڈرتے تھے کہ نہ معلوم کیا ہو جائے گا اور بعض تو یہ خیال کرتے تھے کہ شاید وہ ہمیں قادیان سے ہی نکال دیں گے۔ دُنیوی سامان جس قدر ہؤا کرتے ہیں وہ سب ان کے ساتھ تھے۔ صدر انجمن احمدیہ کا نظام ان کے قبضہ میں تھا، خزانہ ان کے قبضہ میں تھا، رسالے اور اخبار ان کے قبضہ میں تھے یعنی وہ جو انجمن کے ماتحت تھے بیرونی دنیا میں انہی کا نام روشن تھا۔ جماعت پر ان کو اقتدار حاصل تھا اور بہت سے لوگ اس دُبدہ اور شک میں پڑے ہوئے تھے کہ کیا اتنے بڑے لوگ بھی غلطی کرسکتے ہیں؟ پھر وہ ایک عرصہ سے اپنے متعلق جماعت میں پروپیگنڈا کر رہے تھے اور ‘‘پیغام صلح’’ اِسی غرض کے لئے انہوں نے جاری کیا ہؤا تھا۔
غرض جماعت میں ایک ہیجان پیدا تھا اور وہ خود دنیوی سامانوں کی کثرت کی وجہ سے اس قدر مغرور تھے کہ انہوں نے ایک دفعہ لکھا کہ ابھی تک تو جماعت کے بیسویں حصہ نے بھی بیعت نہیں کی۔ گویا خود ان کے اقرار کے مطابق جماعت کے انیس حصے اُن کے ساتھ تھے اور صرف ایک حصہ ہمارے ساتھ تھا لیکن جبکہ جماعت کے انیس حصے ان کے ساتھ تھے اور صرف ایک حصہ ہمارے ساتھ تھا۔لیکن جبکہ جماعت کی تمام اہم چیزیں انہی کے قبضہ میں تھیں جبکہ جماعت کے تمام اہم ادارے انہی کے پاس تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور کرم کے ساتھ مجھ پر الہام نازل کیا اور فرمایا کہ ’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘۔ اور میں نے یہ الہام اسی وقت اشتہارات کے ذریعہ شائع کر دیا جو آج تک دوستوں کے پاس موجود ہوں گے۔ اسی طرح اس نے مجھے الہاماً فرمایا کہ لَیُمَزِّقَنَّھُمْ کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا، انہیں پراگندہ کر دے گا اور ان میں اختلاف پیدا کر کے ان کی طاقت کو توڑ دے گا۔ مجھے اِس وقت صحیح طور پر یاد نہیں کہ الہام لَیُمَزِّقَنَّھُمْ تھا یا لَنُمَزِّقَنَّھُمْ تھا۔ یعنی الہام میں یا غائب کی ضمیر استعمال کی گئی تھی یا متکلم کی مگر بہرحال اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ خدا ان کی طاقت کو توڑ دے گا اور ان میں اختلاف پیدا کر کے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔
اُس وقت ان لوگوں کے زور کی یہ حالت تھی کہ انہی لوگوں میں سے ایک صاحب نے مدرسہ ہائی کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا تھا کہ یہ عمارتیں ہم نے بنائی تھیں اور ہم ہی ان کی حفاظت کر رہے تھے مگر اب جماعت نے غلطی کی جو اس نے ایک بچہ کو خلیفہ بنا لیا۔ اب ہم تو یہاں سے جاتے ہیں مگر ابھی دس سال نہیں گزریں گے کہ ان عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب چھبیس سا ل گزر چکے ہیں اور ہمارا ان عمارتوں پر پہلے سے بھی زیادہ قبضہ ہے۔ عمارتیں بنتی ہیں اور بگڑتی ہیں اور سوائے ایسی عمارتوں کے جو خداتعالیٰ کے خاص نشانوں میں سے ہوں جیسے خانہ کعبہ وغیرہ باقی عمارتیں ایسی نہیں ہوتیں کہ ان کا کسی وقت کسی جماعت کے قبضہ سے نکل جانا کوئی قابلِ اعتراض بات ہو۔ سوال جماعتی ترقی کا ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ ہی ہمیں حاصل رہی ہے۔ پس گو خود ان عمارتوں کا ہمارے پاس رہنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو کیا سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح عیسائیوں کو غلبہ دینے کی بجائے ہمیں غلبہ دیا اور اسلام کی خدمت کی توفیق دی۔ لیکن جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہمیں اطمینان دلاتا ہے کہ ہم غالب رہیں گے وہاں ایک اور بات کی طرف بھی ہمیں توجہ دلاتا ہے جو فکر والی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ قیامت تک میرے ماننے والے منکرینِ خلافت پر غالب رہیں گے، بتاتا ہے کہ مخالفینِ خلافت اور اندرونی مخالفینِ سلسلہ قیامت تک کسی نہ کسی صورت میں باقی رہیں گے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ضرور پیغامیوں کی شکل میں رہیں گے، ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ضرور مصریوں کی شکل میں رہیں گے ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ خواہ وہ پیغامیوں کی شکل میں رہیں یا مصریوں کی شکل میں، خارجیوں کی شکل میں رہیں یا شیعوں کی شکل میں یا خارجیوں اور شیعوں اور پیغامیوں اور مصریوں سب کی صورت میں۔ بہرحال کسی نہ کسی رنگ میں رہیں گے اور یہ بات یقینا فکر والی ہے۔ کیونکہ اگر دشمن نے کسی نہ کسی رنگ میں رہنا ہے اور اگر مخالف نے کسی نہ کسی رنگ میں ہمیشہ ہمارے رستہ میں روڑے اٹکاتے رہنا ہے تو ہمارے لئے بھی ہمیشہ ہی اس کے مقابلہ کا انتظام کرتے رہنا ضروری ہو گا کیونکہ انسانی جسم میں اگر کوئی مرض رہے تو بہرحال اس کا علاج کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک شخص کو نزلہ ہوتا ہے اور چند دنوں کے بعد وہ اچھا ہوجاتا ہے تو وہ اتنے ہی دن دوائی کھاتا ہے جتنے دن بیماررہتا ہے۔ ایک اور شخص کو بخار ہوتا ہے اور وہ اچھا ہو جاتا ہے تو وہ بھی صرف اتنے ہی دن دوائی کھاتا ہے جتنے دن بیمار رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مرض ایسا ہو جو خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو مگر ہمیشہ ساتھ رہے تو اس کے متعلق انسان ہمیشہ دوائی استعمال کرتا رہتا ہے تاکہ مرض دبا رہے اور وہ جسم پر غلبہ نہ پا لے۔ پس صرف اس بات پر خوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ ہم غالب رہیں گے کیونکہ اگر کوئی فتنہ ایسا ہے جس نے ہمیشہ دین کے راستہ میں روک بنناہے تو چاہے وہ صرف ایک شخص کو ہی ہدایت سے روکنے کا موجب بن سکے بہرحال وہ فتنہ ایسا نہیں کہ ہم اس کی طرف سے غافل ہو سکیں۔
رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے علیؓ تیرے ہاتھ سے ایک شخص کا ہدایت پا جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تجھے ایک بہت بڑی وادی جانوروں سے بھری ہوئی مل جائے۔1اور جب ایک شخص کا ہدایت پا جانا اس قدر بہتر ہے تو صاف ظاہر ہے کہ ایک شخص کا کسی فتنہ سے گمراہ ہونا بھی اتنی ہی خطرناک بات ہے ۔ پس یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ تھوڑے ہیں اور ہم زیادہ بلکہ دیکھنا یہ چاہیئے کہ اگر ان کے ذریعہ ایک شخص بھی گمراہ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے کیونکہ اگر ہم بہت ہو کر بھی کسی کو ان کی طرف جانے دیتے ہیں تو یہ امر ہماری بے توجہی پر دلالت کرتا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ مصری فتنہ سے طاقت پا کر گزشتہ ایام سے غیرمبائعین پھر سراٹھا رہے ہیں اور وہ اپنے دل میں یہ امیدیں قائم کر رہے ہیں کہ وہ جماعت میں پھر کوئی فتنہ پیدا کر سکیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایک علیحدہ اخبار ‘‘ینگ اسلام’’ اسی غرض سے جاری کیا ہؤا ہے اور ان کے بعض آدمی بھی وقتاً فوقتاً قادیان میں آتے اور بعض منافقین سے ملتے رہتے ہیں اور وہ اپنے دل میں پھر یہ خیال کرنے لگ گئے ہیں کہ اس رنگ میں وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر میں یہ جانتا ہوں کہ وہ یقینا ناکام رہیں گے ۔ پس چاہے وہ کتنا زور لگائیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰکا وعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو ناکام کرے گا اور یہ ہو کیونکر سکتا ہے کہ یہ لوگ کامیاب ہو جائیں جبکہ ان لوگوں کے کامیاب ہونے کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے جس مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا ہے اس میں آپ کی کھلی کھلی ہتک ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جتنی خصوصیات اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے تھے غیرمبائعین ان سب کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ غیروں کے پیچھے نماز پڑھنا وہ جائز قرار دیتے ہیں گو پڑھتے خود بھی نہیں کیونکہ ان کے دل میں چور ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر خداتعالیٰ نے ہم سے پوچھا تو ہم کہہ دیں گے کہ ہم نے کبھی غیروں کے پیچھے نماز نہیں پڑھی لیکن دوسروں کے ایمان پر ضرور ڈاکہ ڈالیں گے اور انہیں کہیں گے کہ غیروں کے پیچھے نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح غیر احمدی کو لڑکیاں دینے کا معاملہ ہے۔ گو ان میں جتنے بڑے آدمی ہیں انہوں نے آج تک کسی غیراحمد ی کو اپنی لڑکی نہیں دی مگر یوں کہتے رہتے ہیں کہ غیراحمدیوں کو لڑکیاں دینا جائز ہے حالانکہ اگر جائز ہے تو دیتے کیوں نہیں؟ وہ اسی لئے نہیں دیتے کہ جانتے ہیں ابھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھنے والے لوگ زندہ ہیں اور اگر ہم نے غیراحمدیوں کو اپنی لڑکیاں دینی شروع کر دیں تو ایک طبقہ بغاوت اختیار کرے گا ۔ بہرحال وہ کرتے وہی ہیں جو ہم کرتے ہیں مگر زبان سے یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ غیراحمدیوں کو لڑکیاں دینا جائز ہے۔ مگر یہ عجیب جائز ہے کہ ہے تو جائز مگر جماعت کے اکابر میں سے کوئی بھی اس پر عمل نہیں کرتا۔ ہم نے سَہْلُ الْمُمْتَنِع تو سنا ہؤا تھا مگر یہ حَلَالُ الْمُمْتَنِع اب سنا کہ ایک بات حلال بھی ہے مگر اسے عمل میں بھی نہیں لایا جاتا۔ غرض ان معاملات میں انہوں نے اپنی طرف سے ایسی پچ لگا دی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو پرانے صحابی ہیں وہ بھی اعتراض نہ کر سکیں اور جو غیراحمدی ہیں وہ بھی خوش ہو جائیں۔ لیکن یہ حملہ معمولی حملہ نہیں بلکہ جب بھی ان کی جماعت سے ان لوگوں کا اثر دور ہؤا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت اٹھائی ہوئی ہے وہ اپنی ساری جماعت کو غیروں کے قدموں میں ڈال دیں گے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس قدر کوششیں اپنی جماعت کے قیام کے لئے کیں غیرمبائعین ان تمام کو تباہ کرنے والے ہیں۔
پھر امت محمدیہ پر روحانیت کا دروازہ بھی انہوں نے بند کر دیا ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ آج امت محمدیہ میں کوئی ایسا انسان نہیں ہو سکتا جو وہ مقام حاصل کر سکے جو پہلے لوگوں نے حاصل کیا۔ بظاہر وہ اس طرح ہم پر حملہ کرتے ہیں لیکن دراصل وہ امت محمدیہ کی ہتک کرتے ہیں اور امت محمدیہ کی ہی نہیں رسول کریمﷺ کی بھی ہتک کرتے ہیں کیونکہ امت محمدیہ کے لوگوں کے دلوں سے امید کا نکال دینا اسے قتل کردینے کے مترادف ہے انسان کی تمام زندگی امید پر ہوتی ہے تم کسی انسان کے دل سے امید نکال دو اس کی تمام ترقی یکدم رک جائے گی۔
مدت ہوئی میں نے ایک کہانی پڑھی تھی کہ فرانس کے کسی ہوٹل کا ایک باورچی تھا جو دو تین ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ لیتا اوراپنے فن میں اس قدر مہارت رکھتا کہ دور دور سے لوگ اس ہوٹل میں آتے اور اس کا پکا ہؤا کھانا کھا کر محظوظ ہوتے۔ ایک دفعہ وہ بیمار ہؤا اور روزبروز کمزور ہوتاچلا گیا حتّٰی کہ وہ اتنا کمزور ہو گیا کہ چارپائی سے اٹھ بھی نہ سکتا۔ ڈاکٹروں نے اسے دیکھاتو کہاکہ اب آہستہ آہستہ یہ اس رنگ میں کمزور ہوتاجا رہا ہے کہ اس کا نتیجہ سوائے موت کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔مگر وہ اس کی بیماری کی تشخیص نہ کر سکے۔ صرف یہی کہتے تھے کہ روزبروز کمزور ہورہا ہے اور یہ کمزوری چونکہ بڑھتی چلی جارہی تھی اس لئے زندگی کی اب زیادہ امید نہیں ہوسکتی۔ ایک دن اس ہوٹل کے منیجر نے ڈاکٹرسے بات کی اور کہا کہ کیا کوئی صورت اس کی زندگی کی نہیں ہوسکتی؟ ڈاکٹر نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اس کے دل میں مایوسی پیدا ہو چکی ہے۔ کسی طرح تم اس کی مایوسی کو دور کر دو تو اس کے اندر طاقت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی۔ منیجر نے کہا تمہیں یہ کس طرح معلوم ہوا؟ وہ کہنے لگا مَیں نے اس سے باتیں کی ہیں اور میں نے یہ معلوم کرنے کی بہت کوشش کی ہے کہ آخر اسے کیا صدمہ ہے جس کی وجہ سے یہ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ بہت غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ باورچی کا جو فن تھا اسے میں نے کمال تک پہنچا دیا ہے اور اب چونکہ اس میں ترقی نہیں ہو سکتی اس لئے میرا دنیا میں کوئی کام نہیں رہا۔ اگر اس کے دل پر کسی طرح یہ اثر ڈال دیا جائے کہ ابھی تمہارا کام ختم نہیں ہؤا اور تم اس فن میں اور زیادہ ترقی کر سکتے ہو تو ممکن ہے اس کی یہ حالت بدل جائے۔ وہ منیجر ذہین آدمی تھا اس نے یہ سنتے ہی فوراً اسسٹنٹ باورچی کو بلایا اور کہا کہ فلاں جیلی جو یہ باورچی بنایا کرتا تھا اور دوسرے اس کے خاص نسخوں کے مطابق پکنے والے کھانے اس کے لئے فوراً تیار کرو اور یہ حکم دے کر وہ باورچی کے پاس گیا اور کہنے لگا ہم نے یہ تجویز کیا ہے کہ آخری دفعہ ہوٹل کی طرف سے تمہاری ایک شاندار دعوت کر دی جائے۔ تم کہا کرتے ہو کہ میں نے اپنے شاگرد کو تمام علم سکھا دیا ہے اور کوئی کھانا ایسا نہیں رہا جس کی تیاری کی ترکیب اسے نہ بتا دی ہو۔ اس رنگ میں نہ صرف تمہارے اس شاگرد کا امتحان ہو جائے گا اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس نے تمہارا فن کہاں تک سیکھا بلکہ ہوٹل کی طرف سے تمہاری دعوت بھی ہو جائے گی۔ پھر اس نے کہا وہ جو تم جیلی تیار کیا کرتے تھے اور جو پینتالیس ذائقوں والی ہؤا کرتی تھی میں نے وہ بھی تمہارے شاگرد کو تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح اور کھانے بھی تیار کر کے تمہارے سامنے لائے جائیں گے تاکہ تم اندازہ لگا سکو کہ اس نے یہ فن کہاں تک سیکھا ہے۔ اس نے کہا یہ بڑی اچھی بات ہے اس طرح مجھے بھی پتہ لگ جائے گا کہ میرا ماتحت جیلی اور دوسرے کھانے کیسے پکاتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا آیا اور جب اس نے دیکھا کہ اسسٹنٹ باورچی جیلی تیار کر رہا ہے تو اس کی نظر بچا کر اس نے ایک تیز خوشبو اس جیلی میں ڈال دی تاکہ وہ بدمزہ ہو جائے اور جب باورچی اسے کھائے تو اسے یقین ہو جائے کہ یہ کھانا پکانا پوری طرح سمجھا نہیں اور میرے لئے دنیا میں ابھی کچھ کام باقی ہے چنانچہ جب جیلی اور دوسرے کھانے تیار کر کے اس کے سامنے لائے گئے تو اس نے پہلے جیلی اٹھائی اور جب اسے کھانے لگا تو چونکہ ایک تیز خوشبو کی وجہ سے وہ بدمزہ ہو چکی تھی اس لئے اسے چکھتے ہی فوراً اٹھ بیٹھا اور بے تحاشا اس اسسٹنٹ باورچی کو گالیاں دینے لگ گیا کہ نالائق تُو نے میری ساری عمر کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ میں ہمیشہ تجھے کھانا پکانے کے طریق سمجھاتا رہا اور میرا خیال تھا کہ تُو اس فن کو پوری طرح سیکھ گیا ہو گا مگر آج مجھے معلوم ہؤا کہ تُو جیلی پکانا جانتا ہی نہیں تو نے میری ساری عمر کی محنت برباد کر دی ہے اور تو بڑا ہی نالائق اور نکمّا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ یک دم چارپائی سے کُودا اور کہنے لگا میں سمجھ گیا، سمجھ گیا، میرے ذہن میں اب چھیالیس ذائقوں والی جیلی بنانے کی ترکیب آ گئی ہے اور یہ کہہ کر وہ باورچی خانہ کی طرف دوڑ پڑا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا اور اسے یہ خیال تک نہ رہا کہ وہ کمزور یا بیمار تھا۔
یہ ہے تو کہانی مگر دنیا میں اس قسم کے بیسیوں واقعات ملتے ہیں۔ تم کسی کو مایوس کر دو فوراً اس کے حالات بدل جائیں گے اور اگر کسی کے دل میں امید پیدا کر دو تو اسی وقت اس کی اور حالت ہو جائے گی۔ روٹی وہی ہو گی جو انسان روزانہ کھاتا ہے، پانی وہی ہو گا جو انسان روزانہ پیتا ہے، ہواوہی ہو گی جو انسان روزانہ استعمال کرتا ہے، لباس وہی ہو گا جو انسان روزانہ پہنتا ہے لیکن اگر کسی اچھے بھلے انسان کو تم کہہ دو کہ آج شام تک تم مر جاؤ گے تو باوجود اس کے کہ کھانا وہی ہو گا، پینا وہی ہوگا، ہوا وہی ہو گی، لباس وہی ہو گا اس کی حالت غیر ہو جائے گی اور وہ شام سے پہلے ہی مرنے لگ جائے گا۔ اِسی طرح ایک انسان مایوس بیٹھا ہو، اس کی طاقت زائل ہو چکی ہو اور وہ سخت فکر میں مبتلا ہو۔ فرض کرو وہ کوئی مقروض ہے اور قرض کی وجہ سے اس کا دیوالہ نکل رہا ہے اور اس بات کا فکر اسے کھائے جا رہا ہے تو اس وقت اگر تم اسے جھوٹ موٹ بھی کہہ دو کہ فلاں شخص تمہارے لئے روپیہ لا رہا ہے تو اس کے چہرہ پر خون دوڑنے لگ جائے گا اور اس کا کمزور اور پژمردہ جسم طاقت پکڑنے لگ جائے گا۔
تو دنیا میں تمام کام امید سے ہوتے ہیں۔ اگر ایک جماعت کو تم یہ کہہ دو کہ تم ہو تو تمام جماعتوں کی سردار مگر تمہارے لئے وہ درجات مقدر نہیں جوپہلوں کو مل چکے بلکہ تم ہمیشہ پھسڈی رہو گے تو یہ اس جماعت کو قتل کر دینے کے مترادف ہو گا کیونکہ تم اس کی امید کے پہلو کو کچل دیتے ہو۔ لیکن اگر تم ان کو یہ کہو کہ ہمارا رسول سب رسولوں سے افضل ہے اور تم جو اس رسول کی بہترین امت ہو اپنے رسول کی پیروی سے اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی انعامات حاصل کر سکتے ہو بلکہ تم ان انعامات کو بھی حاصل کر سکتے ہو جو پہلے نبیوں کو ملے تو ان کی ترقی کی رفتار میں غیرمعمولی تیزی پیدا ہو جائے گی۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:۔
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
کہ اے رسول! بے شک میں نے ایسا دعویٰ کیا ہے جو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا اور بے شک وہ حیرت سے مجھے کہتے ہیں کہ ایک امتی ایسا اعلیٰ مقام کیونکر حاصل کر سکتا ہے؟ مگر اے محمد رسول اللہ! یہ تعجب کی کوئی بات نہیں تُو جب تمام نبیوں سے آگے رہنے والا رسول ہے تو تیرے پیچھے چلنے والا سپاہی بھی تو دوسروں سے آگے ہی رہے گا۔ تو یہ امید کو کچلنے اور امنگ کو مٹا دینے والی قوم ہے۔ آج بے شک وہ شکست خوردہ مسلمانوں سے اپنی تعریف کروا لیں ، آج بے شک وہ مایوس مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کر لیں لیکن جب ترقی کے میدان میں بڑھنے والی اور اپنے دلوں میں امنگیں اور ولولے رکھنے والی قومیں آئیں گی تو وہ ان لوگوں کو سخت ملامت کریں گی اور کہیں گی کہ انہوں نے لوگوں کی ترقی کے راستے روک دئیے۔ حالانکہ رسول کریم ﷺ لوگوں کو ترقی دینے کے لئے آئے تھے نہ کہ ان کی ترقی کو روکنے کے لئے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا درجہ انہوں نے کس قدر گرا دیا۔ خلافت کے زمانہ کے شروع میں جب آپس میں بحثا بحثی ہوئی تو ان کے ایک مضمون نگار نے لکھا کہ بھلا یہ بھی کوئی جھگڑے کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کیا درجہ ہے؟ آؤ ہم بتائیں کہ آپ کا کیا درجہ ہے۔ بات یہ ہے کہ خلفائے اربعہ کے بعد سب سے افضل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ گویا ابوبکرؓ بھی بڑے، عمرؓ بھی بڑے، عثمانؓ بھی بڑے، علیؓ بھی بڑے۔ ہاں حضرت علیؓ کے بعد آپ کا مقام ہے۔ پھر اس نے لکھا جیسے کسی نے کہا ہے:
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اسی طرح ہم آپ کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ :
بعد از علی بزرگ توئی قصہ مختصر
کہ قصہ مختصر یہ ہے کہ علیؓ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا درجہ ہے لیکن اگر یہ کسی ایسے ملک میں چلے جائیں جس پر سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کے ماننے والوں کا غلبہ ہو یا حضرت امام مالکؒ کے ماننے والوں کا غلبہ ہو یا حضرت امام ابوحنیفہؒ کو ماننے والوں کو حکومت حاصل ہو تو یہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہہ دیں گے کہ :
بعد از سید عبدالقادر بزرگ توئی قصہ مختصر
یا :
بعد از امام مالک بزرگ توئی قصہ مختصر
یا :
بعد از امام ابوحنیفہ بزرگ توئی قصہ مختصر
یہ تو کثرت اور طاقتور لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جیسے لوگ دیکھے ویسی بات کہہ دی۔ گویا نعوذ باللّٰہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک ڈیوڑھی ہیں کہ جو گھر ہؤا اس کے آگے اسے کھڑا کر دیا ۔ غرض ان کا اصل مقام مقامِ تنقیص ہے ۔ محمد ﷺ کی انہوں نے تنقیص کر دی کیونکہ یہ کہہ دیا کہ ان کی قوت قدسیہ سے کوئی اعلیٰ شاگرد پیدا نہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تنقیص انہوں نے کر دی کیونکہ آپ کے متعلق کہہ دیا کہ :
بعد از علی بزرگ توئی قصہ مختصر
امت محمدیہ کی تنقیص انہوں نے کر دی کیونکہ کہہ دیا کہ اِس امت میں سے کسی کو کوئی بلند روحانی مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔ غرض ان کا کام تباہی اور بربادی ہے اور تعریف اپنی یہ کرتے ہیں کہ ہم غلو کرنے والے نہیں حالانکہ جس طرح غلو کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اسی طرح تنقیص کرنے والا بھی گنہگار ہوتا ہے۔ اگر کوئی محمد ﷺ کو خدا کہہ دے تو وہ بھی ویسا ہی گنہگار ہو گا جیسے خدا کے متعلق کوئی کہہ دے کہ وہ بندہ ہے۔ پس غلو اور تنقیص دونوں ہی گناہ ہوتے ہیں اور جیسے محمد ﷺ کو خدا کہنا گناہ ہے اسی طرح خدا کو بندہ کہنا بھی گناہ ہے۔ غرض ان کا فتنہ جب بھی سر اٹھائے گا امت محمدیہ کے لئے تباہی کا موجب بنے گا کیونکہ یہ اپنے عمل سے غیراحمدیوں کو ہدایت سے محروم رکھتے ہیں اور جب انہیں کہتے ہیں کہ تم بھی اچھے اور نیک ہو تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سست ہو جاتے ہیں اور ان کے دل میں جو جوش پیدا ہونا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جلدی قبول کریں وہ پیدا نہیں ہوتا۔
پس یہ فتنہ معمولی نہیں اور چونکہ آجکل پھر ان لوگوں میں ایک جوش نظر آتا ہے اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت کو ہر جگہ غیرمبائعین کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اس کے متعلق سب سے پہلے میں تمام جماعتوں کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ ہرجماعت میں ایک سیکرٹری اصلاح مابین کے کام کے لئے مقرر کیا جائے جس کا یہ فرض ہو کہ وہ ان لوگوں سے ملے جُلے ، انہیں تبلیغ کرے، پرانا لٹریچر مہیا کرے اور جماعت کو اس لٹریچر سے آگاہ کرے۔ مجھے حیرت آتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ بعض نئے لوگ جو سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں وہ اس لٹریچر کا مطالعہ نہیں کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہی سوالات جو بیسیوں دفعہ حل ہو چکے ہیں وہ پھر پیش کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا جواب دیجئے۔ حالانکہ ان سوالات کے متواتر جواب دئیے جا چکے ہیں اور وہ ان جوابات کے بعد خاموش ہو چکے ہیں۔ لیکن اب اٹھارہ بیس سال کے بعد ان میں پھر جوش پیدا ہؤا ہے اور وہ وہی سوالات دہرانے لگ گئے ہیں جن کے بیسیوں مرتبہ نہایت مُسکت جوابات دئیے جا چکے ہیں۔
پس ایک تو ہر جگہ ایک سیکرٹری مقرر کیا جائے جس کا یہ فرض ہو کہ وہ ان لوگوں سے ملے جُلے، انہیں تبلیغ کرے، لٹریچر مہیا کرے اور اس لٹریچر کو نہ صرف خود پڑھے بلکہ دوسروں کو بھی پڑھنے کی تاکید کرے اور ایسے آدمی تیار کرے جو ان لوگوں کا مقابلہ کر سکیں اور جنہیں تمام ضروری حوالے اچھی طرح یاد ہوں۔
دوسرے مَیں جماعتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں جہاں غیرمبائعین موجود ہیں وہ ان کی لسٹیں مجھے بھجوا دیں تاکہ براہ راست ان کو مرکز سے بھی تبلیغی لٹریچر بھجوایا جا سکے۔ یہ کام بہت جلد ہوجانا چاہیئے اور اس میں کسی قسم کے تساہل اور سستی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جو جماعتیں کام کرنے کی روح اپنے اندر رکھتی ہیں وہ اس قسم کی لسٹوں کے بھجوانے میں دیر نہیں لگائیں گی اور فوراً اپنے اپنے مقام کے پیغامیوں کے ناموں اور ان کے مکمل پتوں سے بھی مجھے اطلاع دیں گی۔ اگر انہیں صرف اتنا معلوم ہو کہ فلاں شہر یا گاؤں میں چندپیغامی رہتے ہیں تو وہ اتنا ہی لکھ دیں کہ فلاں شہر یا فلاں گاؤں میں بعض پیغامی رہتے ہیں۔ ہم خود کسی آدمی کو بھیج کر ان کے ناموں اور پتوں کی اطلاع حاصل کر لیں گے۔ بہرحال تمام جماعتیں اپنے اپنے مقام پر غیرمبائعین کا اچھی طرح پتہ لگائیں اور جہاں بھی انہیں کسی غیرمبائع کا علم حاصل ہو اس کے نام اور پتہ سے مجھے اطلاع دیں اور اس قسم کی لسٹیں جلد سے جلد تیار کر کے مجھے بھجوائی جائیں۔
خصوصیت سے میں لاہور کی جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً ایک جلسہ منعقد کریں اور اپنے آدمیوں میں سے پچاس، ساٹھ، ستر یا سَو ایسے آدمی تیار کریں جو غیرمبائعین میں سے ایک ایک دو دو کو اپنے سامنے رکھ کر انہیں تبلیغ کرنی شروع کر دیں۔ لاہور کی جماعت سرحد پر ہے اور اس لحاظ سے تمام جماعتوں میں سے پہلا فرض اس کا ہے کہ وہ غیرمبائعین کو تبلیغ کرنے میں حصہ لے۔ لاہور کی جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے ایسے لوگ موجود ہیں جو غیرمبائعین کے متعلق بکثرت حوالے جانتے ہیں۔ ایک ہمارے دوست میاں محمد سعید صاحب سعدی مرحوم ہؤا کرتے تھے ۔ وہ تو غیرمبائعین کے متعلق حوالہ جات جمع کرنے اور نکالنے کے فن میں اتنے ماہر تھے کہ انہوں نے اس فن کو کمال تک پہنچایا ہؤا تھا۔ سید دلاور شاہ صاحب گو بیمار ہیں مگر ان کو بھی بہت سے حوالے یاد ہیں۔ اسی طرح عبدالعزیز صاحب مغل جوسعدی مرحوم کے بڑے بھائی اور میاں چراغ الدین صاحب مرحوم کے بیٹے ہیں انہیں بھی بہت سے حوالے یاد ہیں۔ اسی طرح لاہور کے اور نوجوانوں کو اگر منظم کیا جائے تو ان میں سے پچاس ساٹھ بلکہ سَو ایسے نوجوان مل سکتے ہیں جو غیرمبائعین میں بخوبی تبلیغ کر سکتے ہیں اور میرا یہ ہمیشہ سے تجربہ ہے کہ جب بھی ہم نے غیرمبائعین کی طرف توجہ کی ہے ان میں سے کئی لوگوں کو ہدایت حاصل ہوئی ہے اور وہ غیرمبائعین میں سے نکل کر ہم میں شامل ہو گئے ہیں۔ چنانچہ لاہور میں ہی گزشتہ چند سال کے عرصہ میں ملک غلام محمد صاحب اور ڈاکٹر غلام حیدر صاحب انہی لوگوں میں سے نکل کر میری بیعت میں شامل ہوئے ہیں اور یہ لوگ دُنیوی لحاظ سے بھی اور سمجھ کے لحاظ سے بھی اور ایمانی جوش کے لحاظ سے بھی اچھے ہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر یہ لوگ غیرمبائعین میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہیں تو اور لوگ اگر ہم ان کی طرف توجہ کریں تو ہمارے ساتھ شامل نہ ہوں۔ پس مَیں لاہور کی جماعت کو خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو منظم کر کے اس قسم کی لسٹیں مجھے جلد بھجوائیں جن میں یہ صراحت ہو کہ انہوں نے اس غرض کے لئے فلاں فلاں آدمی مقرر کر دئیے ہیں۔ اسی طرح جو مفید اور کارآمد حوالے ہوں وہ سب لوگوں کو لکھا دینے چاہئیں تاکہ وقت پر وہ ان کے کام آ سکیں۔
اس کے ساتھ ہی میں مرکز میں نظارت دعوۃ و تبلیغ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس قسم کے علماء اور انگریزی خوانوں کی ایک لسٹ تیار کرے جو غیرمبائعین کے متعلق مفید مضامین لکھ سکتے ہوں اور پھر انہیں اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھنے کی تحریک کرے۔ مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ خواہ غیرمبائعین کے متعلق مضامین لکھے جائیں، خواہ انہیں زبانی تبلیغ کی جائے دوستوں کو محبت اور پیار سے کام لینا چاہیئے اور کبھی بھی سختی نہیں کرنی چاہیئے۔ یاد رکھو سختی سے تم دوسرے کو چپ کرا سکتے ہو، سختی سے تم دوسرے کو شرمندہ کر سکتے ہو، سختی سے تم دوسرے کو ذلیل کر سکتے ہو مگر سختی سے تم دوسرے کے دل کو فتح نہیں کر سکتے۔ اگر تم دل فتح کرنا چاہتے ہو تو تمہارے اپنے دل میں یہ اخلاص اور درد ہونا چاہیئے کہ میرا ایک بھائی گمراہ ہو رہا ہے اسے کسی طرح میں ہدایت پر لاؤں۔ جب تک یہ احساس اور یہ جذبہ تمہارے اندر نہ ہوگا کہ جو شخص گمراہ ہو رہا ہے وہ تمہارا پیارا ہے، تمہارا بھائی اور تمہارا عزیز ہے اور یہ کہ اس کا دکھ تمہارا دکھ اور اس کی تکلیف تمہاری تکلیف ہے اس وقت تک تمہاری تبلیغ مؤثر نہیں ہو سکتی۔ چاہے بظاہر تمہیں وہ شاندار معلوم ہو اور چاہے بظاہر جب تم مضمون لکھو تو لوگ کہیں کہ خوب مضمون لکھا۔ کیونکہ کامیابی یہ نہیں کہ لوگ تمہاری تعریف کریں بلکہ کامیابی یہ ہے کہ دوسروں کی ہدایت کا موجب بنو۔ پس جو مضمون لکھنے والے ہیں انہیں بھی میں کہتا ہوں کہ سنجیدگی اور محبت سے مضامین لکھو اور جو زبانی تبلیغ کرنے والے ہوں انہیں بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ سنجیدگی اور محبت سے تبلیغ کرو۔ اسی طرح جو سیکرٹری مقرر ہوں ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ جب انہیں مرکز سے ٹریکٹ وغیرہ بھجوائے جائیں تو وہ محنت سے انہیں غیرمبائعین کے گھروں تک پہنچائیں تا ان میں سے جو سعید لوگ ہیں وہ سلسلہ کی طرف توجہ کریں۔
درحقیقت اب جو اُن میں بیداری پید اہوئی ہے یہ ہماری بے توجہی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہہ ہے۔ خداتعالیٰ نے اس رنگ میں ہمیں سمجھایا ہے کہ تم ان لوگوں کو تھوڑے سمجھ کر اپنے فرض سے غافل ہو رہے تھے۔ اب دیکھ لو پھر ان میں بیداری پیدا ہو رہی ہے اور پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ تم اپنی غفلت کو دور کرو اور ان لوگوں کی طرف محبت اور پیار سے توجہ کرو۔ پس جماعت کو درد اور اخلاص کے ساتھ ان لوگوں کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اور میں جماعت کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت اس طرف توجہ کرے گی تو اسے یقیناً کامیابی حاصل ہو گی۔
میں نے متواتر رؤیا میں دیکھا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب میرے پاس آئے ہیں اور وہ نہایت محبت اور اخلاص سے مجھے ملے ہیں۔ اس خواب کے مطابق ظاہری رنگ میں مولوی محمد علی صاحب آئیں یا نہ آئیں اس کی یہ تعبیر تو ظاہر ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہمراہیوں یا ان کے خاندان کے لوگوں میں سے بعض کو کھینچ کر ہماری طرف لائے گا اور وہ خواہ کتنا ہی شور مچائیں فتح ہماری ہی ہو گی۔
پس میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ جب بھی اٹھے فتح آپ کی ہی ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقدر یہی ہے اور خدا جب کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بندے خواہ کتنی ہی دولت و ثروت رکھنے والے ہوں، کتنے ہی اچھے بولنے والے ہوں، کتنا ہی اثر اور اقتدار رکھنے والے ہوں، ہوتا وہی ہے جو خداکا منشاء ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ جو مقابلہ پر ہوتے ہیں اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جس طرح ہنڈیا کا جوش ابلنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ پس خواہ وہ قادیان پر حملہ کریں، خواہ وہ ہمارے مرکز میں آئیں، خواہ وہ ہمارے خلاف ٹریکٹ اور کتابیں شائع کریں اور خواہ ہمارے خلاف وہ اخبارات شائع کریں جس وقت ہماری طرف سے جواب شروع ہو گا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کا یہی نتیجہ نکلے گا کہ ہم انہیں کھینچ کر لے آئیں گے اور وہ مُنہ دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے۔ اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالیٰ۔ وَمَا ذَالِکَ عَلَی اللہِ بِبَعِیْدٍ وَآخِرُ دَعوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ ‘‘ (الفضل 5 اپریل 1940ء)

1 بخاری کتاب الجہاد باب دعاء النبی ﷺ الی الاسلام والنبوۃ

8
تحریک جدید کے ماتحت ہماری قربانیاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہیں
(فرمودہ 5 اپریل 1940 ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مَیں آج کے خطبہ میں جماعت کو تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ میں کئی بار اچھی طرح یہ امر واضح کر چکا ہوں کہ یہ چندے صرف وقتی تبلیغ پر ہی خرچ نہیں ہوتے بلکہ وہ تبلیغ کے لئے ایک مستقل بنیاد قائم کرنے پر بھی خرچ ہو رہے ہیں ۔ واقفینِ زندگی کی ایک جماعت جس میں بہت سے نوجوان علماء میں سے لئے گئے ہیں اور کچھ انگریزی خوان نوجوانوں میں سے تبلیغِ اسلام کے کام کے لئے تیار کی جا رہی ہے۔ علماء کو تیار کیا جا رہا ہے کہ وہ انگریزی علوم سے واقفیت حاصل کریں اور اس کے ساتھ مذہبی علوم میں بھی زیادہ وسعت پیدا کریں اور انگریزی خوان نوجوانوں کے متعلق یہ کوشش کی جاتی ہے کہ انہوں نے جہاں علوم جدیدہ پڑھے ہیں وہاں وہ دینیات سے بھی اچھی طرح واقف ہو جائیں۔ اس کام کے علاوہ جو تحریک جدید کے چندوں سے تبلیغ کا دوسرے ذرائع سے ہورہا ہے یہ حصہ ایسا ہے جو جماعت کو نظر نہیں آتا اور ابھی نظر آ نہیں سکتا کیونکہ یہ حصہ ابھی تیار ی میں ہے۔ شاید ایک دو سال کے اندر جب وہ نوجوان تیار ہوں اور ان ضرورتوں کو پورا کریں جو دیر سے محسوس تو ہو رہی تھیں مگر سامان نہ ہونے کی وجہ سے پوری نہ ہو سکتی تھیں اور بہت اہمیت رکھتی ہیں تو جماعت کو اس کام کا احساس ہو سکے گا۔
اس وقت تک جو مبلغ تیار کئے گئے ان میں اس امر کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بہت سے کارآمد اور مخلص وجود نکلے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود میرے بار بار توجہ دلانے کے جامعہ احمدیہ ایسے طالب علم تیار نہیں کر سکا جو علاوہ مذہبی علوم کے ایسی زبانیں بھی جانتے ہوں جو دنیا میں تبلیغ کے لئے مفید ہو سکیں اور جن کے بغیر ساری دنیا میں تبلیغ نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت تک جو مبلغ جامعہ تیار کرتا ہے وہ یا تو عرب میں کام کر سکتے ہیں یا پھر پنجاب اور یوپی میں۔ کیونکہ یہی صوبے ہیں جن میں اردو اچھی طرح بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں بھی مثلاً مدراس بنگال، بمبئی اور آسام وغیرہ میں وہ کام نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں کے لوگ اردو بہت کم جانتے ہیں۔ اس لئے وہاں ان مبلّغوں کا حلقۂ عمل بہت محدود ہوتا ہے۔ اتنی اردو تو وہ لوگ جانتے ہیں کہ چھوٹی موٹی بات سمجھ سکیں مگر اتنی نہیں کہ تقریریں سمجھ سکیں۔ سمندر کے سفر میں مَیں نے دیکھا ہے کہ بندرگاہوں پر آباد ہندو اور مقامی لوگ بھی ٹوٹی پھوٹی اردو بول اور سمجھ لیتے ہیں مگر اتنی نہیں جانتے کہ اردو میں تقریریں سمجھ لیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مدراس، بنگال ، بمبئی ، مالابار اور بمبئی کے دوسرے علاقوں کے لوگ جب لیکچرار مانگتے ہیں تو ساتھ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ انگریزی خوان مبلغ بھیجے جائیں۔ مگر ہم ایسے مبلغ نہیں دے سکتے اس وجہ سے ان علاقوں میں ہماری تبلیغ بہت محدود رہ گئی ہے اور صرف پنجاب اور اس کے اردگرد کے علاقہ پر ہی زور ہے۔ حالانکہ جس طرح پنجاب میں ایسی روحیں ہیں جو صداقت کے لئے اپنے دل میں تڑپ رکھتی ہیں اسی طرح دوسرے ملکوں اور علاقوں میں بھی ضرور ہیں لیکن ان علاقوں میں جب ہمارے مبلغ جاتے بھی ہیں تو تبلیغ کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے۔
ابھی ایک مبلغ برما میں بھیجا گیا ہے جو جامعہ احمدیہ کا فارغ التحصیل ہے اور وہ مفید کام بھی کر رہا ہے۔ مگر متواتر اپیل پر اپیل آ رہی ہے کہ کوئی انگریزی دان مبلغ یہاں بھیجا جائے تو بہت اچھا ہو کیونکہ یہاں ایک بہت بڑا طبقہ انگریزی دانوں کا ہے جن تک موجودہ مبلغ نہیں پہنچ سکتا۔ تو تحریک جدید کے ماتحت یہ ضروری کام بھی کیا جا رہا ہے کہ ایسے مبلغ تیار کیے جاتے ہیں جو ساری دنیا میں تبلیغ کا کام کر سکیں۔ بعض علماء ہیں جن کو انگریزی پڑھانے کے علاوہ دینی علوم میں بھی وسعت پیدا کی جا رہی ہے اور بعض انگریزی خواں ہیں جن کو عربی پڑھائی جاتی اور دینی علوم سکھائے جاتے ہیں تا وہ دونوں باہم سموئے جائیں اور ہماری ضرورتوں کو پورا کر سکیں ۔اس میں شک نہیں کہ انگریزی کے علاوہ اور بھی بہت سی زبانیں ہیں جن کا سیکھنا تبلیغ کے لئے ضروری ہے اور میری سکیم یہی ہے کہ مختلف زبانیں نوجوانوں کو سکھائی جائیں مگر سرِدست انگریزی ہی سکھائی جاتی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں اسی کے ذریعہ ہمارے لئے تبلیغ کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا اور ایک نیا طبقہ تبلیغ کے لئے ہمارے قریب ہو جائے گا۔ فی الحال اس سکیم کے ماتحت 5، 6 گریجوایٹ اور 10، 12 مولوی فاضل تیار کیے جا رہے ہیں۔ مولوی فاضلوں کو فی الحال انٹرنس کا امتحان دلوایا گیا ہے اور انگریزی میں اس سے زیادہ قابلیت ا ن کے اندر پیدا کرنے کے سامان بھی کئے جا رہے ہیں۔ ان واقفین میں سے ایک کو لنڈن بھیج کر میں نے انگریزی کی تعلیم دلوائی تھی اور اب اسے افریقہ کے ایک علاقہ میں کام کرنے کے لئے لگایا گیا ہے۔ بظاہر دیکھنے والوں کو تو یہی نظر آ رہا ہے کہ پچھلے دو تین سالوں میں نئے مشن نہیں کھولے گئے مگر حقیقت یہی ہے کہ تبلیغ کے لئے ایسے نوجوانوں کا تیار کیا جانا اشد ضروری ہے۔ ابتداء میں ہم نے عارضی طور پر ایسے آدمی لگا لئے تھے جن کو دینی علوم کی واقفیت گہری نہ تھی اور اس میں شک نہیں کہ انہوں نے اپنے اخلاص کی وجہ سے اور سلسلہ کے اردو لٹریچر کی مدد سے جتنی تبلیغ وہ کر سکتے تھے اتنی کی اور بعض جگہ اس کے عملی نتائج بھی ظاہر ہوئے مگر ان سے غلطیاں بھی ہوئی تھیں۔ مجھے چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے بتایا کہ ایک ایسے ہی مبلغ نے کسی مسئلہ میں قیاس کر کے جواب دے دیا جو درحقیقت غلط تھا۔ ان لوگوں سے عارضی کام لیا گیا مگر مستقل طور پر ایسے لوگوں سے کام نہیں لیا جا سکتا تھا۔ ورنہ مختلف مقامات پر ایسا دین پیدا ہو جاتا جو احمدیت سے بالکل مختلف ہوتا۔ ان لوگوں سے صرف آواز پہنچانے کا کام لے لیا گیا لیکن یہ ہمارا ضروری فرض ہے کہ ایسی جماعت تیار کریں جو دین سے واقف ہو اور باہر جا کر ایسی تعلیم پھیلائے جو احمدیت اور اسلام کی حقیقی تعلیم ہو اور ظاہر ہے کہ ایسی جماعت تیار کرنے کے لئے وقت کی ضرورت ہے۔ عام لوگ گھبراتے ہیں کہ کام نہیں ہو رہا ۔ بعض لوگ جلدی بازی کے عادی ہوتے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ بعض کاموں میں جلد بازی انہیں رحمانی کی بجائے شیطانی بنا دیا کرتی ہے۔ اسی جنگ میں دیکھ لو انگلستان دو سال سے والنٹیر تیار کر رہا تھا مگر اب تک وہ دو دو چار چار ہزار کر کے ہی میدان میں بھیجے جاتے ہیں اور اچھے افسروں کی ٹریننگ کے لئے تین تین چار چار بلکہ پانچ پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ پس اگر ہم بھی تین چار یا پانچ سال لگا کر ایسے علماء کی ایک جماعت تیار کر سکیں جو تین چار یا پانچ سال میں عربی، دینی اور انگریزی علوم سے واقفیت حاصل کر سکیں ، دین کے ماہر ہوں اور دین کی تفاصیل سے آگاہ ہوں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ بیس پچیس سال کے لئے جماعت کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور مبلغین کی ٹریننگ کے لئے ایک ایسی لائن تیار ہو سکے گی کہ جس پر چل کر نئے مبلغ تیار کرنے آسان ہو جائیں گے۔
دوسرا حصہ تحریک جدید کے چندوں کا جیسا کہ میں کئی بار بیان کر چکا ہوں مستقل جائداد پیدا کرنے پر خرچ کیا گیا ہے ۔ ایسی زمینیں خریدی گئی ہیں جن کی قیمت قسط وار ادا کی جا رہی ہے اور قسط ہمیں قریباً ستّر ہزار روپیہ سالانہ دینی پڑتی ہے۔ ان جائدادوں کے پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ تحریک کے عارضی چندہ کو ہم مستقل نہیں کر سکتے اور نہ یہ مستقل طور پر ادا کیا جا سکتا ہے۔ بے شک مستقل کر دینے کی صورت میں بھی بعض مخلصین اسے ادا کرتے رہیں گے لیکن ساری جماعت نہیں کر سکتی ۔ اگر ساری جماعت انہیں ادا کرے تو صدر انجمن احمدیہ کے چندوں پر بُرا اثر پڑے گا۔ گو محاسب صاحب اور ناظر صاحب بیت المال تو اَب بھی کہہ رہے ہیں کہ انجمن کے چندوں پر اثر پڑ رہا ہے مگر میں ان کی اس رائے سے متفق نہیں ہوں کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ انجمن کا چندہ اسی طرح بڑھ رہا ہے جس طرح کہ پہلے بڑھتا تھا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ اگر ان عارضی چندوں کو مستقل کر دیا گیا تو اس کے نتیجہ میں ایک لمبے عرصہ کے بعد انجمن کے چندوں میں ترقی رُک جائے گی اور ادھر یہ کام ایسا ہے کہ اسے ہم چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ تبلیغ کو کسی وقت بھی بند نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ کوئی ایسا انتظام کر دیا جائے کہ جس سے معمولی اخراجات پورے ہو سکیں اور بجٹ پورا ہوتا رہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی خاص ضرورت پیش آئی تو چندہ لے لیا ورنہ نہیں۔ کارکنوں کے گزاروں اور دفتری اخراجات کے لئے مستقل آمد سے کام ہوتا رہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر خداتعالیٰ چاہے تو اس سے پچاس ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ کی آمد ہوتی رہے گی اور اس طرح دفتری اخراجات اور کارکنوں کے گزارہ کے لئے جماعت سے چندہ لینے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ اس زمین کی اقساط بیس سال میں ادا ہوں گی لیکن مجھے امید ہے کہ اگر حالات ایسے ہو جائیں کہ زمینداروں کی پیدا کردہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں تو اس تحریک کے عرصہ کے اندر اندر ہی ادا ہو سکتی ہیں۔ بہرحال یہ ایسی مستقل بنیادیں ہیں کہ جن سے تبلیغ کا دروازہ بہت وسیع ہو سکتا ہے اور یہ ایسا مستقل فنڈ ہے کہ جو تبلیغ کے کام کو بڑھانے کے سامان اپنے اندر رکھتا ہے مگر ہم اس کام کو آرام اور فراغت کے ساتھ اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ جماعت کے دوست اپنے وعدوں کو پورا نہ کریں اور وعدے پیش کرنے میں دلیری اور جرأت سے کام نہ لیں۔
میں نے مجلس شوریٰ میں یہ بات بیان کی تھی کہ اس سال کے وعدے گزشتہ سال سے کچھ کم ہیں گو وہ 1938ء کی نسبت تو زیادہ ہیں مگر 1939ء کی نسبت سے کم ہیں۔ بے شک ابھی بیرون ہند کی جماعتوں کے سب وعدے نہیں آئے جو کئی ہزار کے ہوتے ہیں مگر ان ہزاروں کو شامل کر کے بھی تین چار ہزار کی کمی رہ جائے گی اور یہ بہت نقص کی بات ہے۔ مومنوں کی جماعت کا ہر قدم آگے ہونا چاہیئے پیچھے نہیں۔ مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ مجلس شوریٰ کے موقع پر میرے اس بیان کے بعد بعض دوست توجہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب نے جو میرے بھتیجے اور داماد بھی ہیں خط لکھا ہے کہ آپ جب یہ ذکر کر رہے تھے کہ اِس سال وعدوں میں کچھ کمی ہے تو میرے دل پر اس کا اتنا اثر ہؤا کہ میں نے اُسی وقت فیصلہ کیا کہ میں اپنے وعدہ میں اضافہ کروں گا چنانچہ میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا چندہ دو سَو کی جگہ اڑھائی سَو کرتا ہوں۔
اس کے علاوہ وعدوں کی ادائیگی میں بھی کسی قدر سستی پائی جاتی ہے۔ ہر سال کچھ نہ کچھ وعدے ادا ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ چندہ طوعی ہے وعدہ کے بعد اس کے ادا نہ ہونے کے کوئی معنی ہی نہیں سوائے اس کے کہ کسی شخص کے حالات ایسے بدل جائیں کہ وہ ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ ایسا شخص تو معذور ہے اور نادہند نہیں۔ ایسا شخص اگر اطلاع دے دے تو اس کا نام رجسٹر سے کاٹ دیا جائے گا۔
پھر میں نے یہ بھی بارہا کہا ہے کہ جو شخص نہ دے سکتا ہو وہ معافی لے لے تا نادہندگی کے گناہ سے بچ جائے مگر باوجود اس کے جو نہ تو معافی لیتا ہے اور نہ ادا کرتا ہے وہ خواہ مخواہ گنہگار بنتا ہے۔ دفتر تحریک جدید والے اب ہر ایک کے نام رجسٹری خطوط بھیج رہے ہیں گو میرے خطبہ کی تعمیل انہوں نے بہت دیر سے کی مگر اب یہ خطوط بھیجے جا رہے ہیں تا ہر ایک پر حجت قائم ہو جائے اور بعد میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے اطلاع نہ تھی۔ اب بھی ان لوگوں کے لئے موقع ہے کہ جوادا نہ کر سکتے ہوں وہ معافی لے لیں اس طرح ان کا نام رجسٹر سے کاٹ دیا جائے گا۔ لیکن جو نہ تو معافی لے اور نہ ادا کرے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ خداتعالیٰ اور سلسلہ سے کھیل اور تمسخر کرنا چاہتا ہے۔ وہ جھوٹی بڑائی کا خواہشمند ہے، اس کے اندر غرور اور تکبر پایا جاتا ہے اور وہ محض جھوٹی عزت کے لئے اپنا نام لکھوا دیتا ہے۔ ورنہ شروع دن سے ہی اس کا ارادہ ادا کرنے کا نہ تھا۔ ان کے سوا بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو ادائیگی میں سستی کرتے ہیں۔ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ آخری دن ادا کر دیں گے حالانکہ مومن کو چاہئے کہ پہلے ہی دن ادا کرے یا پھر ہر ماہ کرتا جائے۔ کیا پتہ ہے کہ وہ آخری دن تک زندہ بھی رہے یا نہ رہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں اگست میں ادا کر دوں گا اسے کیا علم کہ وہ اگست تک زندہ بھی رہے گا یا نہیں؟ لیکن جس نے نومبر میں وعدہ لکھوایا اور پھر کچھ دسمبر میں ادا کیا، کچھ جنوری میں، کچھ فروری میں اور بعد میں فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ ادا کرنے والوں میں شمار ہو گا نادہندوں میں نہیں کیونکہ جب تک وہ زندہ رہا برابر ادا کرتا رہا لیکن جو شخص ایک بھی قسط ادا نہیں کرتا وہ اگر فوت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور دریافت کرے گا کہ تم نے ادائیگی کے لئے کیا تیاری کی تھی؟ پس دوست تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی میں عجلت سے کام لیں اور جو یکمشت ادا نہیں کر سکتے وہ آہستہ آہستہ ادا کرتے جائیں ۔سارے ہی اگر آخری دن ادا کرنے پر رہیں تو ہم زمین کی قسط کہاں سے ادا کر سکتے ہیں؟ یہ قسط مئی میں اد کرنی پڑتی ہے اور اگر دوست اپنے وعدے ادا نہ کریں تو یہ کہاں سے ادا ہو سکتی ہے؟ اگر وقت پر یہ قسط ادا نہ ہو تو دس روپیہ سینکڑہ جرمانہ ہو جاتا ہے جو گویا بروقت چندہ ادا نہ کرنے والے کی سستی سے ہؤا اور اس صورت میں اس کا سَو روپیہ چندہ خداتعالیٰ کے ہاں نوّے روپیہ سمجھا جائے گا کیونکہ دس روپیہ جرمانہ اس کی سُستی سے ہوا ہے۔
پس دوست توجہ کریں اور اپنے وعدے جلد پورے کریں اور جو نہیں دے سکتے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بیان کیا ہے اب بھی ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ معافی لے لیں اور جو طاقت رکھتے ہیں مگر ادا نہیں کر سکے وہ اپنی اس غلطی کا ازالہ کریں بلکہ کفارہ کے طور پر کچھ زیادہ دیں۔ جو دینے کا وعدہ کر چکے ہیں اور ارادہ رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ ساتھ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ادا کرتے جائیں تا سلسلہ کے کام میں نقص نہ واقع ہو۔ میں جانتا ہوں کہ احمدیوں پر بوجھ زیادہ ہیں، ان کی قربانیاں دوسروں سے بڑھی ہوئی ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ ان کے لئے جو انعامات مقدر ہیں وہ بھی دوسروں کے لئے نہیں۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ قربانیاں تو ہم کرتے ہیں مگر دنیوی انعام اور آرام و آسائش دوسروں کو حاصل ہیں۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ ان قربانیوں کے بدلہ میں ان کو تو خدا ملتا ہے اور دوسروں کو بھیڑ بکریاں۔ رسول کریم ﷺ نے جب مکہ کو فتح کیا تو بہت سے نئے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے اور اس کے بعد جو جنگ ہوئی اس میں کچھ اموال آئے تو آپؐ نے وہ مکہ کے نَومسلموں میں تقسیم کر دئیے۔ مدینہ کا ایک نوجوان انصاری اپنی ناسمجھی کی وجہ سے صبر نہ کر سکا اور اس نے کہہ دیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور فتح ہماری وجہ سے ہوئی ہے مگر اموال رسول کریم ﷺ نے مکہ والوں میں تقسیم کر دئیے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کو بھی خبر پہنچی تو آپ نے انصار کو جمع کیا ۔ ان کو بھی علم ہو چکاتھا کہ ایسی رپورٹ آپ کو پہنچ چکی ہے۔ وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ! ہمیں علم ہے کہ آپ نے ہمیں کیوں بلوایا ہے مگر ہم سب اس نوجوان کی اس بات کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا انصار! جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ انصار! تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جب محمد کو اس کی قوم نے وطن سے نکال دیا، جب اپنے شہر میں اس پر زندگی تلخ کر دی اس وقت ہم نے اس کے لئے اپنے شہر کے دروازے کھول دئیے اور اسے یہاں لے آئے۔ پھر ہم اس کے دشمنوں کے ساتھ لڑے اور قربانیاں کرتے رہے حتّٰی کہ فتح حاصل کر لی مگر جب فتح حاصل ہو گئی تو اس نے اموال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دئیے اور ہم خالی ہاتھ رہ گئے۔ آپؐ نے فرمایا اے انصار! بیشک تم یہ کہہ سکتے ہو ۔ یہ بات سن کر انصار جو اخلاص و قربانی کا ایک ہی نمونہ تھے بلکہ بعض رنگ میں ان جیسی قربانی کرنے والی کوئی اور قوم ملتی ہی نہیں ۔ بے شک مہاجرین نے بھی بڑی قربانیاں کی ہیں مگر وہ قربانی جس کا بدلہ دنیا میں نہیں ملا وہ انصار ہی کی ہے۔ رسول کریم ﷺ کی یہ بات سن کر ان کے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی یہ ظاہر ہے۔ وہ بے اختیار رونے لگے اور عرض کیا یارسول اللہ! ایک نوجوان کی غلطی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ یہ بات تم کہہ سکتے ہو مگر تم ایک اَور بات بھی کہہ سکتے ہو اور وہ یہ کہ محمدﷺ مکہ میں پیدا ہؤا اور اس کی پیدائش سے اللہ تعالیٰ نے مکہ کو عظمت عطا کی مگرمکہ والوں نے اس نعمت کی ناشکری کی اور اس کی ناشکری کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ اسے مکہ سے مدینہ لے گیا اور اس پر اپنے فضلوں کی بارش کی اور وہ اور اس کے ساتھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے بڑھنے لگے حتّٰی کہ انہوں نے مکہ کو فتح کر لیا۔ پھر مکہ والوں نے یہ امید کی کہ شاید اب ہمارا محمد (ﷺ) ہمیں دوبارہ مل جائے گا مگر ہؤا کیا؟ فتح کے بعد مکہ والے تو بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہانک کر لے گئے اور انصار خداتعالیٰ کے رسول کر اپنے ساتھ لے گئے۔1
پس میں بھی وہی کہتا ہوں جو میرے آقا محمد مصطفےٰ ﷺ نے فرمایا تھا کہ دوسرے لوگوں کو تو مال و دولت مل جاتا ہے مگر تم جو قربانیاں کرتے ہو ان کے نتیجہ میں تمہارا خداتمہیں ملتا ہے اور یہ انعام کوئی معمولی انعام نہیں ہے۔ اپنا اپنا نقطۂ نگاہ ہے جو نادان اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کی قربانیوں کے عوض ان کو دنیوی عزت اور مال ودولت حاصل ہو ان کا کوئی علاج میرے پاس نہیں۔ جس کی روحانی نظر تیز ہے اس کے لئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور پھر اگر دیکھا جائے تو ظاہری لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل ہم پر زیادہ ہو رہے ہیں۔پہلے سے بہت زیادہ مالدار لوگ اب ہم میں موجود ہیں۔ پہلے سے بہت بڑے عہدیدار ہم میں شامل ہیں اور پہلے سے بہت زیاد ہ عزت والے لوگ آج ہم میں موجود ہیں۔ پھر غریبوں اور مسکینوں کے لئے جو انتظام یہاں ہیں وہ دنیا میں اور کسی جگہ نہیں۔ اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو وہ محض حسد کی وجہ سے ہے۔ ایک شخص سمجھتا ہے مجھے دس روپے ملنے چاہئیں مگر ملتے صرف دو ہیں ۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اگر وہ کسی اور جگہ ہوتا تو یہ دو بھی نہ مل سکتے اور حسد کی وجہ سے شکایت کرنے لگتا ہے۔ میں کہتا ہوں دنیا کا کوئی اور ایسا شہر تو بتاؤ جہاں اس طرح لوگوں کے کھانے اور کپڑے کا انتظام ہوتا ہو جیسا یہاں ہوتا ہے۔ کوئی مال دار سے مال دار قوم ایسی نہیں جو غریبوں کی اس طرح پرورش کرتی ہو جیسی ہم کرتے ہیں۔ بے شک ہمارے ذرائع محدود ہیں اس لئے ہم محدود امداد ہی کر سکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اسلامی حکومت میں ہر شخص کے لئے کھانے، پہننے اور مکان کا انتظام حکومت کے ذمہ ہوتا ہے اوراگر خداتعالیٰ ہمیں فراخی عطا کرے تو ہم بھی ایسا کریں گے مگر بہرحال دوسری قوموں کی نسبت ہماری موجودہ حالت اچھی ہے۔ بعض لوگ نسبت نہیں دیکھتے بلکہ شان کا مقابلہ شان سے کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جس شخص کو دس روپیہ میں آٹھ روپیہ کا مال ملے وہ اچھا ہے یا جسے ایک پیسہ میں دو پیسہ کا مال مل جائے۔ اس کے دس روپیہ میں ایسی نحوست ہے کہ اسے اس میں آٹھ روپیہ کامال ملتا ہے اور ہمارے ایک پیسہ میں اتنی برکت ہے کہ اس میں دو پیسہ کا مال ملتا ہے۔ بے شک اس کے پاس روپے زیادہ ہیں مگر برکت تو ہمارے مال میں زیادہ ہے۔ جن کی آنکھیں ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ہر جہت سے ترقی کر رہے ہیں۔ ہمارے نظام میں بھی بہتری پیدا ہو رہی ہے۔ اگر ہم قربانی اور ایثار میں ترقی کریں اور تبلیغ کو وسیع کریں تو وہ دن بھی دور نہیں جب حکومت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری ہو گی۔ کیونکہ حاکم لوگ بھی تو آخر ہدایت کے محتاج اور خواہشمند ہیں لیکن اگر اس وقت ہمارے دلوں میں خداتعالیٰ کی محبت نہ ہوئی تو وہ دن برکت والے نہ ہوں گے اور ایک مومن تو اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ مر جائے بہ نسبت اس کے کہ اس کے دل سے خداتعالیٰ کی محبت کم ہو جائے۔
حضرت ابوذر غفاری رسول کریم ﷺ کے ایک صحابی تھے ان کو دنیوی مال و دولت سے اس قدر نفرت تھی کہ جب مسلمانوں کو مال بکثرت ملنے لگے تو وہ ہر ایک سے لڑتے تھے کہ تم مال کیوں رکھتے ہو؟ آخر حضرت عثمانؓ نے اُن سے کہا کہ آپ کسی گاؤں میں جا بیٹھیں تا نہ یہ چیزیں دیکھیں اور نہ لوگوں سے لڑیں۔ تواللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کوظاہری شان سے نفرت ہوتی ہے اور وہ صبر و قناعت میں ہی خوش رہتے ہیں۔ مگر کامل مومن کا اصل مقام یہی ہے کہ خداتعالیٰ جس حال میں رکھے اُس میں خوش رہے۔ اگر خداتعالیٰ لاکھوں روپے دے دے تو اس میں خوش رہے اور اگر بھوکا رکھے تو اس حالت میں بھی خوش رہے۔
پس جماعت پر اللہ تعالیٰ کے جو فضل نازل ہو رہے ہیں اور جس مقام پر اس نے ہمیں کھڑا کیا ہے ہم سے جو کام لے رہا ہے اور جو لے گا اس کے پیش نظر کسی بھی قربانی کو بڑا نہ سمجھو۔ ہماری قربانیاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہیں۔ پس جو دوست اب تک سُستی کرتے رہے ہیں وہ اب چست ہو جائیں اور جو چست ہیں وہ اپنے اندر اور چستی پیدا کریں۔
ضمناً میں یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے اپنی طاقت اور حیثیت سے کم وعدے کئے ہیں چونکہ چندوں میں کمی ہے اس لئے وہ اگر بڑھا دیں تو زیادہ ثواب پائیں گے۔ عہدیداروں اوردوسرے کام کرنے والوں کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی چستی سے کام کریں۔ ممکن ہے یہ کمی ان کی سستی کی وجہ سے ہو۔ میں یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ پچھلے دنوں ڈاک دفتر میں جاتی تھی اور میرے پاس خلاصے آتے تھے اس لئے ممکن ہے بعض وعدے نظر انداز ہوگئے ہوں بلکہ میرا غالب گمان یہ ہے کہ بعض وعدے نظر انداز ہو گئے ہیں اس لئے جن دوستوں کو ان کے وعدے پہنچ جانے کی اطلاع نہ ملی ہو وہ پھر بھیج دیں اور اس طرح ممکن ہے جو کمی ہے وہ ان وعدوں کے مل جانے پر پوری ہو جائے۔‘‘
(الفضل 11 اپریل 1940ء)

1 بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الطائف

9
مسئلہ خلافت اور انگریزی ترجمۂ قرآن کے متعلق اہم سوالات
(فرمودہ 12اپریل 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ غیرمبائعین جہاں بھی ہوں ان کے ناموں اور پتوں سے مرکز سلسلہ کواطلاع دی جائے اور خود بھی ہرجگہ ایسے سیکرٹری مقرر کئے جائیں جن کا کام غیرمبائعین میں تبلیغ اور ان کے خیالات کی اصلاح کرناہو۔ میری اس تحریک پر بعض جماعتوں نے اس امر کی طرف توجہ کی ہے اور انہوں نے غیرمبائعین کے پتے بھجوانے شروع کردئیے ہیں لیکن بعض جماعتوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی یا ممکن ہے ان کی رپورٹیں میرے سامنے پیش نہ ہوئی ہوں کیونکہ کچھ رپورٹس براہ راست شاید دعوت و تبلیغ کو بھی جا رہی ہیں۔ بہرحال یہ کام شروع ہوگیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت اپنی ذمہ داری کوسمجھتے ہوئے اس کام کو اس عمدگی کے ساتھ انجام تک پہنچائے گی کہ ہمارے مخالفین کو یہ محسوس ہو جائے گا کہ حق کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں ہوتی اور جس طرح گزشتہ ایام میں جب کبھی ان لوگوں نے ہماری جماعت کا مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ہی فتح حاصل ہوئی اور ہم ہی ان کے آدمیوں کو کھینچ کر لائے۔ اسی طرح اب بھی یہ سبق دوبارہ ان کے لئے تازہ ہو جائے گا۔
مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے بعض دوست پرانے لٹریچر کو نہیں پڑھتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض باتوں کا جواب اگرچہ بارہا دیا جا چکا ہے مگر وہ اس شبہ میں رہتے ہیں کہ شاید ان باتوں کا جواب ابھی تک ہماری طرف سے نہیں دیا گیا۔ حالانکہ سب باتوں کا جواب پوری تفصیل کے ساتھ ہماری طرف سے دیا جا چکا ہے۔
آج اسی سلسلہ میں مَیں جماعت کے دوستوں کی راہنمائی کے لئے انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ درحقیقت یہ اختلاف مذہبی بعد میں بنا ہے پہلے یہ صرف دنیوی اختلاف تھا۔ یعنی صدرانجمن احمدیہ کے بعض ممبروں کا خیال تھا کہ حضرت خلیفۂ اول کی خلافت غاصبانہ ہے اور ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ خلافت کے عہدہ پر متمکن ہوتے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحیح جانشین اور قائمقام صدر انجمن احمدیہ ہے۔
چنانچہ وہ لوگ جو اُس زمانہ کے ہیں اُن کومعلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد جو پہلا جلسہ سالانہ ہؤا اس میں متواتر صدر انجمن احمدیہ کے ممبروں کی تقریروں میں اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ خداتعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین اورخلیفہ صدر انجمن احمدیہ ہے اور بار بار اپنے لیکچروں میں اس کا ذکر کیا جاتا۔ غرض 1908ء میں دسمبر کے ایام میں جو جلسہ سالانہ ہوااور جس کاانتظام مدرسہ احمدیہ کے صحن میں کیا گیاتھا اس وقت کے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس جلسہ کی تقریروں میں بڑے زور سے اس بات کو دہرایا کہ خداتعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین صدر انجمن احمدیہ ہے ، خداتعالیٰ کے مامور کی قائم مقام صدر انجمن احمدیہ ہے، خداتعالیٰ کے مامور کی خلیفہ صدر انجمن احمدیہ ہے اور اس کی اطاعت تمام جماعت کے لئے ضروری ہے۔ حضرت مولوی صاحب ہمارے پیر ہیں لیکن خلیفہ صدر انجمن احمدیہ ہے جس کے وہ صدر ہیں لیکن ان کی یہ تقریریں اب ان کے لئے فائدہ بخش نہیں ہوسکتی تھیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد سب سے پہلے انہی لوگوں نے حضرت خلیفۂ اول کی خدمت میں درخواست کی تھی کہ آپ خلافت کے بوجھ کو اٹھائیں اور پھر انہی لوگوں نے یہ اعلان کیا جو اُس وقت کے اخبارات میں بھی شائع ہؤا کہ:۔
‘‘ مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتقٰی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوۂ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر
چہ خوش بودے اگر ہریک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگرہر یک پُر از نورِ یقیں بودے
سے ظاہر ہے کے ہاتھ پراحمدکے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا تھا۔’’1
اس اعلان کے بعد وہ جماعت جو صداقت کی شیدا تھی جس نے بڑی بڑی قربانیوں اور اپنے رشتہ داروں کو خداتعالیٰ کے لئے چھوڑنے کے بعد ایمان کی دولت حاصل کی تھی کب ان لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو سکتی تھی؟ چنانچہ جتنا زیادہ یہ لوگ اس بات کو دہراتے کہ خداتعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ خلیفہ اور جانشین صدر انجمن احمدیہ ہے اتنا ہی زیادہ جماعت میں جوش پیدا ہوتا چلا جاتا کیونکہ وہ حیران تھی کہ پہلے انہی لوگوں نے یہ کہا تھا کہ خلافت کا انتخاب الوصیت کے مطابق ہے اور اب یہی کہہ رہے ہیں کہ اصل جانشین اور خلیفہ صدر انجمن احمدیہ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ان لوگوں کے ہاتھ پہلے ہی کاٹ کررکھ دئیے تھے۔ ممکن ہے اگر انہوں نے یہ اعلان نہ کیا ہؤا ہوتاتو جماعت کوان کی تقریروں کی وجہ سے ٹھوکر لگ جاتی مگر چونکہ یہ لوگ خود ایک اعلان شائع کر چکے تھے اس لئے اب جو اس کے خلاف انہوں نے تقریریں کیں تو لوگوں میں جوش پیدا ہؤا اورانہوں نے سمجھ لیا کہ ان کی اصل غرض حضرت خلیفۂ اول کوخلافت سے جواب دینا ہے اور ان کی نیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تعلیم کوجماعت میں قائم کرنا نہیں بلکہ فتنہ وفساد اورتفرقہ پیدا کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انبیاء جب وفات پاتے ہیں تواللہ تعالیٰ ان کے بعد نشان کے طور پر خلافت کو قائم کیا کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جس طرح اس نے نبی کی شخصی زندگی کوالہام سے شروع کیا اسی طرح وہ اس کی قومی زندگی کوبھی الہام سے شروع کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی نبی فوت ہوتا ہے تو خداتعالیٰ کا مخفی الہام قوم کے دلوں کو اس زندگی کی تفصیلات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد بھی ان لوگوں کے دل اس قدر مرعوب اور خائف ہو گئے تھے کہ اس وقت یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ اب کسی خلیفہ کے بغیر جماعت کا اتحاد اوراس کی ترقی ناممکن ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۂ اول کا انتحاب عمل میں آیا۔ یوں مُنہ سے ان لوگوں کا اپنے آپ کو یا صدرانجمن احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خلیفہ اورجانشین کہنا اور بات ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ انجمن کے یہ ممبر جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خلیفہ اور جانشین قرار دیتے تھے وہ دل گردہ کہاں سے لاتے جو خداوندتعالیٰ کے خلیفہ کے لئے ضروری ہے۔ منہ سے تو ہرشخص جوجی چاہے دعویٰ کر سکتا ہے خواہ حقیقت اس کے اندر کوئی ہو یا نہ ہو۔
کہتے ہیں کوئی شخص تھا جسے بہادری کا بہت بڑا دعویٰ تھا۔ ایک دفعہ اس نے اپنی بہادری کے نشان کے طور پر اپنے بازو پر شیر گوداناچاہا۔ وہ گودنے والے کے پاس گیا اور کہنے لگا میرے بازو پر شیر گودو۔ اس نے کہا بہت اچھا اور یہ کہہ کر اس نے سوئی جو ماری تو اسے درد ہؤا اور کہنے لگا یہ کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے کہا شیر گودنے لگا ہوں۔ وہ کہنے لگا شیر کا کون سا حصہ؟ اس نے بتایا کہ دایاں کان۔ اس نے کہا اگر دایاں کان نہ ہوتو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا رہتا کیوں نہیں۔ اس نے کہا اچھا تو پھر اس دائیں کان کو چھوڑو اور آگے گودو۔ اس نے پھر دوسرا کان بنانے کے لئے سوئی ماری تو اسے پھر درد ہؤا اور یہ پھر چلّا کر کہنے لگا اسے چھوڑو اور آگے چلو۔ اس نے اسے بھی چھوڑا۔ اس کے بعدجس عضو کے بنانے کے لئے وہ سوئی مارتا تو یہ شخص چِلّا کر اسے منع کردیتا۔ آخر گودنے والے نے سوئی رکھ دی اور جب اس نے پوچھا کہ کام کیوں نہیں کرتے تو اس نے جواب دیا کہ میں کان گودنے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑو۔ سر گودنے لگا تو تم نے کہا اس کوچھوڑو، مُنہ گودنے لگا تو تم نے کہا اس کوچھوڑ دو، پیٹھ گودنے لگا تو تم نے کہا اس کو چھوڑو، ٹانگیں گودنے لگا تو تم نے کہا اس کوچھوڑو۔ جب تمام چیزیں میں نے چھوڑتے ہی چلے جانا ہے تو شیر کا باقی کیا رہ گیا۔
تو مُنہ سے دعویٰ کرنا اور بات ہے اور اللہ تعالیٰ سے طاقت اور قوت کا ملنا بالکل اور بات۔ جو شخص خداتعالیٰ کا سچا خلیفہ تھا وہ تو دلیر اور بہادر تھا اور ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ قدم قدم پر ان لوگوں کے دل ڈرتے تھے۔ ایک طرف انہیں یہ ڈر تھا کہ جماعت میں ہمارے خلاف کوئی جوش پیدا نہ ہو جائے دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ کہیں حضرت خلیفہ اول ان سے ناراض نہ ہو جائیں تیسری طرف وہ اس بات سے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں اس کے نتیجہ میں یہ تو نہیں ہو گا کہ نہ ہم اِدھر کے رہیں نہ اُدھر کے اور نہ احمدی رہیں نہ غیراحمدی۔ غرض بات بات پر ان کا دل ڈرتا تھا کیونکہ ان کے دل میں خدا نہیں بول رہا تھا بلکہ نفسانی خواہشات جوش مار رہی تھیں اور نفسانی خواہشات حوصلے بڑھایا نہیں کرتیں بلکہ حوصلوں کو پست کیا کرتی ہیں۔ گویا ان لوگوں کی جرأت اور پھرخلافت کے دعویٰ کی مثال ایسی ہی تھی جیسے بنیا جب کسی سے لڑتا ہے تو پنسیری اٹھا کر کہتا ہے میں یہ مارکرتیرا سر پھوڑ دوں گا مگر یہ کہنے کے ساتھ ہی بجائے اس کے کہ وہ دوقدم آگے بڑھے دو قدم پیچھے کُود کرچلاجاتا ہے جس سے صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ جب اس نے یہ کہا کہ مَیں پنسیری مار کر تیرا سر پھوڑ دوں گا تو اس وقت اس کا دل نہیں بول رہا تھا بلکہ صرف زبان بول رہی تھی۔ ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو کوئی یہ کہے کہ میں مار کر تیرا سر پھوڑ دوں گا اور دوسری طرف وہ بجائے آگے بڑھنے کے کُود کر دو قدم پیچھے چلا جائے۔
اسی طرح یہ لوگ بھی ایک طرف تو یہ کہتے تھے کہ ہم خلیفہ ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صدر انجمن احمدیہ کو ہی اپنا جانشین قرار دیا ہے اور دوسری طرف ڈرتے تھے کہ خبر نہیں کہیں جماعت ناراض نہ ہو جائے، کہیں حضرت مولوی صاحب ہم پرناراضگی کا اظہار نہ کردیں، کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی کوئی ایسے سامان نہ ہو جائیں جو ہمیں اپنی کوششوں میں ناکام و نامراد کردیں۔ غرض قدم قدم پر ان لوگوں کو خوف و ہراس نے گھیر رکھا تھا مگر بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد ان لوگوں نے حضرت خلیفۂ اول کی بیعت کی اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان لوگوں نے اخباراتِ سلسلہ میں ایک اعلان شائع کرایا جس میں لکھا کہ ہم نے الوصیت کی ہدایات کے مطابق خلافت کا انتخاب کیا ہے۔
حضرت خلیفۂ اول کی بیعت پر ابھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کے سامنے مجھ سے سوال کیا کہ میاں صاحب خلافت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ میں نے کہا آپ کا اس سوال سے کیا منشاء ہے؟ کہنے لگے یہی کہ خلیفہ کے کیا اختیارات ہیں؟ میں نے کہا خواجہ صاحب وہ دن گئے۔ اب اختیارات کے فیصلہ کا کوئی وقت نہیں۔ اختیارات کے فیصلے کا وقت وہ تھا جب ہم نے حضرت خلیفہ اول کی ابھی بیعت نہیں کی تھی۔ مگر جب ہم نے آپ کی بیعت کر لی تو اب بیعت کرنے کے بعد ہمارا کیا حق بنتا ہے کہ ہم خلیفہ کے اختیارات پر بحث کریں۔ جب خلافت کا انتخاب عمل میں آ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ کون شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جانشین بننے کا اہل ہے تو اس کے بعد ہمارا یہی کام ہے کہ ہم آپ کی اطاعت کریں ۔ یہ کام نہیں کہ ہم آپ کے اختیارات پر بحث کریں۔ میرے اس جواب پر انہوں نے فوراً اپنی بات کا رخ بدل لیا اور کہا کہ بات تو ٹھیک ہے ۔ میں نے تو یونہی علمی طور پر یہ بات دریافت کی تھی۔ اور ترکوں کی خلافت کا حوالہ دے کر کہا کہ چونکہ آجکل لوگوں میں اس کے متعلق بحث شروع ہے اس لئے میں نے بھی آپ سے اس کا ذکر کر دیا یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آپ کی کیا رائے ہے اور اس پر ہماری گفتگو ختم ہو گئی۔ لیکن بہرحال اس سے مجھ پر ان کا عندیہ ظاہر ہو گیا اور میں نے سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے دلوں میں حضرت خلیفۂ اول کا کوئی ادب اور احترام نہیں۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح خلافت کے اس طریق کو مٹا دیں جو ہمارے سلسلہ میں جاری ہؤا ہے۔
پس اصل اختلاف یہاں سے شروع ہؤا مگر جب انہوں نے محسوس کیا کہ جماعت نے چونکہ حضرت خلیفۂ اول کی بیعت کی ہوئی ہے اور اس وجہ سے اسے بیعت سے منحرف کرنا آسان کام نہیں تو انہوں نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ لوگوں میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت خلیفۂ اول تو بڑے بزرگ انسان ہیں ان سے جماعت کو کوئی خطرہ نہیں ہاں اگر کل کو کوئی بچہ خلیفہ ہو گیا تو پھر کیا ہوگا؟ اور اس بچہ سے مراد میں تھا مگر مجھے اس وقت اس بات کا کوئی علم نہیں تھا۔
جماعت میں جب یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ کچھ لوگ تو یہ کہنے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقرر کردہ جانشین انجمن ہے اور کچھ اس پر اعتراض کرنے لگے تو میر محمد اسحاق صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں بعض سوالات لکھ کر پیش کئے جن میں خلافت کے مسئلہ پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی مگر مجھے ان سوالات کا کوئی علم نہیں تھا۔ اسی دوران میں مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا مکان ہے اور اس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ تو مکمل ہے اور دوسرا نامکمل ہے۔ نامکمل حصے پر چھت پڑ رہی ہے ، بالے رکھے ہوئے ہیں مگر ابھی اینٹیں یا تختیاں رکھ کر مٹی ڈالنی باقی ہے۔ رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ چھت کے ننگے حصہ پر ہم چار پانچ آدمی کھڑے ہیں اور عمارت دیکھ رہے ہیں انہیں میں ایک میر محمد اسحاق صاحب بھی ہیں اور وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر عمارت دیکھ رہے ہیں کہ وہاں کڑیوں پر ہمیں کچھ بھوسہ پڑا ہؤا دکھائی دیا۔ میر محمد اسحاق صاحب کے ہاتھ میں ایک دیا سلائی کی ڈبیہ تھی۔ انہوں نے اس میں سے ایک دیا سلائی نکال کر کہا میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس بُھس کو جلا دوں۔ میں نے انہیں کہا یہ بھوسہ جلایا تو جائے گا ہی مگر ابھی وقت نہیں آیا۔ آپ اس بھوسے کو مت جلائیں، کڑیاں ابھی ننگی ہیں ایسا نہ ہو کہ بُھس کے ساتھ ہی بعض کڑیوں کو بھی آگ لگ جائے مگر وہ پھر کہتے ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں اس بُھس کو جلا دوں۔ میں پھر انہیں روکتا ہوں اور کہتا ہوں ایسا نہ کرنا اس پر وہ پھر کہنے لگے مَیں چاہتا ہوں کہ اس بُھس کو ضرور آگ لگا دوں مگر میں نے پھر انہیں روکا اور یہ سمجھ کر کہ اب میر صاحب اس بُھس کو آگ نہیں لگائیں گے دوسری طرف متوجہ ہو گیا لیکن چند ہی لحظہ کے بعد مجھے کچھ شور سا معلوم ہؤا میں مُنہ پھیر کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر محمد اسحاق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں مگر وہ جلتی نہیں۔ ایک کے بعد دوسری تیلی نکال کر اسے جلانے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اس پھونس کو آگ لگا دیں۔ مَیں یہ دیکھ کر ان کی طرف دوڑا مگر میرے پہنچنے سے پہلے پہلے انہوں نے بھوسے کو آگ لگا دی مَیں یہ دیکھ کرآگ میں کود پڑا اور جلدی سے اسے بجھا دیا مگر اس عرصہ میں چند کڑیوں کے سرے جل گئے۔
مَیں نے جب یہ رؤیا دیکھا تو حیرا ن ہؤا کہ نہ معلوم اس کی کیا تعبیر ہے۔ ان دنوں میں حضرت خلیفہ اول سے بخاری پڑھا کرتا تھا اور مسجد مبارک کو گلی میں سے جو سیڑھیاں چڑھتی ہیں ان کے پاس ہی آپ دروازہ کے پاس مسجد میں بیٹھا کرتے تھے۔ میں نے ایک خط لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے سامنے پیش کیا جس میں لکھا کہ رات میں نے یہ عجیب خواب دیکھا ہے جو جماعت کے متعلق معلوم ہوتا ہے مگر ہے منذر۔ مجھے معلوم نہیں اس کی کیا تعبیر ہے؟ حضرت خلیفہ اول نے اس خواب کو پڑھتے ہی میری طرف دیکھ کر فرمایا خواب تو پوری ہو گئی۔ مَیں حیران ہؤا کہ خواب کس طرح پوری ہو گئی ۔ چنانچہ میں نے عرض کیا کہ کس طرح؟ آپ فرمانے لگے میاں تمہیں معلوم نہیں ۔ اور یہ کہہ کر کاغذ کی ایک سلپ پر آپ نے لکھا۔ میر محمد اسحاق نے کچھ سوالات لکھ کر دئیے ہیں ۔ وہ سوال میں نے باہر جماعتوں کو بھجوا دیے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس سے خوب آگ لگے گی۔ مجھے اس پر بھی کچھ معلوم نہ ہؤا کہ میر محمد اسحاق صاحب نے کیا سوالات کئے ہیں لیکن مَیں نے ادب کی وجہ سے دوبارہ آپ سے دریافت نہ کیا۔ البتہ بعد میں شیخ یعقوب علی صاحب اور بعض اور دوستوں سے پوچھاتو انہوں نے ان سوالات کا مفہوم بتایا۔ بعد میں جب جماعتوں کی طرف سے ان کے جوابات آگئے اور بعض مَیں نے دیکھے تو اس وقت مجھے معلوم ہؤا کہ وہ سوالات خلافت کے متعلق تھے اور ان میں اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی درخواست کی گئی تھی۔ میر صاحب کے ان سوالات کی وجہ سے جو گویا بُھس میں آگ لگانے کے مترادف تھے جماعت میں ایک شور پیدا ہوگیا اور چاروں طرف سے ان کے جوابات آنے شروع ہو گئے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں یہ تو معلوم ہی ہو گیا تھا کہ جماعت کو بیعت کرنے کے بعد خلافت سے پھرانا سخت مشکل ہے اس لئے اب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہی خیالات (نعوذ باللّٰہ) حضرت خلیفہ اول کے ہیں اور کہتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ فتنہ ابھی ظاہر ہو گیا اور سب کو معلوم ہو گیا کہ ایک بچہ کو خلیفہ بنا کر بعض لوگ جماعت کو تباہ کرنا چاہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ایسے بے نفس آدمی کے وقت میں یہ سوال پیدا ہؤا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ وہ میری ویسی ہی اطاعت کرتا ہے جیسے نبض حرکت قلب کی کرتی ہے۔2 ایسے بے نفس آدمی کے زمانہ میں اس سوال کا پیدا ہو جانا بڑی بابرکت بات ہے۔ ان کے بعد ہوتا تو نہ معلوم کیا فساد کھڑا ہوتا۔ گویا جماعت کو یہ یقین دلایا جانے لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے اور یہ کہ ان خیالات میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول بھی ان سے متفق ہیں۔ لاہور میں توخصوصیت سے خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے مکان پر ایک جلسہ کیا جس میں تمام جماعت لاہور کو بلایا گیا اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ سلسلہ پر یہ ایک ایسا نازک وقت ہے کہ اگر دوراندیشی سے کام نہ لیا گیا تو سلسلہ کی تباہی کاخطرہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل جانشین انجمن ہی ہے اور اگر یہ بات نہ رہی تو جماعت (نعوذ باللہ) تباہ ہو جائے گی اور سب لوگوں سے اس بات پر دستخط لئے گئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان کے مطابق انجمن ہی آپ کی جانشین ہے اور لاہور کی جماعت نے انہی تاثرات کی وجہ سے کہ حضرت خلیفہ اول کے بھی یہی خیالات ہیں اس پر دستخط کر دئیے۔ صرف (اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے) حکیم محمد حسین صاحب قریشی مرحوم نے ان کی اس بات کو بالکل ردّ کردیا اور کہا کہ ہم تمہارے کہنے سے اس پر دستخط نہیں کر سکتے۔ یہ تمہارے خیالات ہیں حضرت خلیفہ اول کے خیالات نہیں اور ہم ایسے محضرنامہ پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم جب ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اور وہ ہم سے زیادہ عالم اور زیادہ خشیت اللہ رکھنے والا ہے تو جو کچھ وہ کہے گا وہی ہم کریں گے تمہارے خیالات کی ہم تصدیق نہیں کریں گے۔ چنانچہ ان کی دیکھا دیکھی ایک دو اور دوست بھی رک گئے مگر بہرحال لاہور کی اکثر جماعت نے دستخط کر دئیے۔
آخر حضرت خلیفہ اول نے ایک تاریخ مقرر کی جس میں بیرونی جماعتوں کے نمائندگان کو بھی بلایا اور ہدایت فرمائی کہ اس دن مختلف جماعتوں کے قائمقام قادیان میں جمع ہوجائیں تا سب سے اس کے متعلق مشورہ لے لیا جائے۔ چنانچہ لوگ جمع ہوئے۔ اس دن صبح کی نماز کے وقت مَیں بیت الفکر کے پاس کے دالان میں نماز کے انتظار میں ٹہل رہاتھا ۔ مسجد بھری ہوئی تھی اور حضرت خلیفہ اول کی آمد کا انتظار کیا جا رہا تھا کہ میرے کان میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی آواز آئی کہ وہ مسجد میں بڑے جوش سے کہہ رہے ہیں ہم کسی بچہ کی بیعت کس طرح کر لیں۔ ایک بچہ کے لئے جماعت میں فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ اسے خلیفہ بنا کر جماعت کو تباہ کر دیں۔ میں اس وقت ان حالات سے اتنا ناواقف تھا کہ میں ان کا یہ فقرہ سن کر سخت حیران ہؤا اور میں سوچنے لگا کہ یہ بچے کا ذکر کیا شروع ہو گیا ہے اور وہ کون سابچہ ہے جسے لوگ خلیفہ بناناچاہتے ہیں۔ اس کے متعلق بھی مجھے بعد میں حضرت خلیفہ اول سے ہی معلوم ہؤا کہ بچہ سے ان کی کیا مراد ہے اور وہ اس طرح کہ اس روز صبح کی نماز کے بعد میں بھی بعض باتیں لکھ کر حضرت خلیفہ اول کے پاس لے گیا اور گفتگو کے دوران میں مَیں نے ذکر کیا کہ خبر نہیں آج مسجد میں کیا باتیں ہو رہی تھیں کہ شیخ رحمت اللہ صاحب بلند آواز سے کہہ رہے تھے ایک بچہ کی ہم بیعت کس طرح کر لیں؟ ایک بچہ کی وجہ سے جماعت میں یہ تمام فتنہ ڈالا جا رہا ہے نہ معلوم یہ بچہ کون ہے۔ حضرت خلیفہ اول میری اس بات کو سن کر مسکرائے اور فرمانے لگے تمہیں معلوم نہیں وہ بچہ کون ہے؟ وہ تمہیں تو ہو۔
خیر اس کے بعد میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ کے متعلق بھی مَیں نے ایک رؤیا دیکھا تھا جو حضرت خلیفہ اول کو میں نے سنا دیا تھا اور دراصل یہی رؤیا بیان کرنے کے لئے میں صبح کے وقت حضرت خلیفہ اول کے پاس گیاتھا۔
مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مسجدمیں جلسہ ہو رہا ہے ا ور حضرت خلیفہ اول تقریر فرما رہے ہیں مگر آپ اس حصۂ مسجد میں کھڑے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنوایا تھا۔ اس حصۂ مسجد میں کھڑے نہیں ہوئے جو بعد میں جماعت کے چندہ سے بنوایا گیا تھا۔آپ تقریر مسئلہ خلافت پر فرما رہے ہیں اور میں آپ کے دائیں طرف بیٹھا ہوں ۔ آپ کی تقریر کے دوران میں خواب میں ہی مجھے رقت آ گئی اور بعد میں کھڑے ہو کر میں نے بھی تقریر کی جس کا خلاصہ قریباً اس رنگ کا تھا کہ آپ پر ان لوگوں نے اعتراض کر کے آپ کو سخت دکھ دیا ہے مگر آپ یقین رکھیں کہ ہم نے آپ کی سچے دل سے بیعت کی ہوئی ہے اورہم آپ کے ہمیشہ وفادار رہیں گے۔ پھر خواب میں ہی مجھے انصار کا وہ واقعہ یاد آ گیا جب ان میں سے ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یارسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہؤا نہ گزرے۔ 3 اسی رنگ میں مَیں بھی کہتا ہوں کہ ہم آپ کے وفادار ہیں اور لوگ خواہ کتنی بھی مخالفت کریں ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ کے پاس اس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہم پر حملہ کر کے پہلے ہمیں ہلاک نہ کر لے ۔ قریباً اسی قسم کا مضمون تھا جو رؤیا میں مَیں نے اپنی تقریر میں بیان کیا مگر عجیب بات یہ ہے کہ جب حضرت خلیفہ اول تقریر کرنے کے لئے مسجدمیں تشریف لائے تو اس وقت میرے ذہن سے یہ رؤیا بالکل نکل گیااور بجائے دائیں طرف بیٹھنے کے بائیں طرف بیٹھ گیا۔ حضرت خلیفہ اول نے جب مجھے اپنے بائیں طرف بیٹھے دیکھا تو فرمایا میرے دائیں طرف آ بیٹھو۔ پھر خود ہی فرمانے لگے تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا ہے؟ میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں ۔آپ نے فرمایا تمہیں اپنی خواب یاد نہیں رہی تم نے خود ہی خواب میں اپنے آپ کو میرے دائیں طرف دیکھا تھا۔
اس وقت تک ان لوگوں نے جماعت پر مسلسل یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس امر کا فیصلہ کیا ہو اہے کہ میرے بعد انجمن جانشین ہوگی اور یہ کہ حضرت خلیفہ اول بھی اس سے متفق ہیں۔ چنانچہ ان میں سے بعض لوگ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل ہؤا کہ انجمن کی جانشینی کاسوال ایسے بے نفس آدمی کے زمانہ میں اٹھا۔ آج مولوی صاحب فوراً یہ فیصلہ کردیں گے کہ اصل خلیفہ انجمن ہی ہے۔ بعد میں اٹھتا تو نہ معلوم کیا مشکلات پیش آتیں اور اس قسم کے پروپیگنڈا سے ان کی غرض لوگوں کو یہ بتانا تھی کہ حضرت خلیفہ اول ان کے خیالات سے متفق ہیں۔ بہرحال حضرت خلیفۂ اول تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ تم نے اپنے عمل سے مجھے اتنا دکھ دیا ہے کہ میں اس حصۂ مسجد میں بھی کھڑا نہیں ہواجوتم لوگوں کا بنایا ہؤا ہے بلکہ میں اپنے پیر کی مسجد میں کھڑا ہؤا ہوں۔
لوگوں نے جب حضرت خلیفہ اول کے جب یہ خیالات معلوم کئے تو گو جماعت کے بہت سے دوست ان کے ہم خیال بن کر آئے ہوئے تھے مگران پر اپنی غلطی واضح ہو گئی اور انہوں نے رونا شروع کردیا ۔ چنانچہ جو لوگ اس جلسہ کے حالات کواپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ مجلس اس وقت ایسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسے شیعوں کے مرثیہ کی مجالس ہوتی ہیں۔ اس وقت لوگ اتنے کرب اوراتنے درد سے رو رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ مسجد ماتم کدہ بنی ہوئی ہے اور بعض تو زمین پر لیٹ کر تڑپنے لگ گئے ۔ پھر آپ نے فرمایا کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھانا یا جنازہ یا نکاح پڑھا دینا اوریاپھر بیعت لے لینا ہے یہ کام تو ایک ملّا بھی کر سکتا ہے اس کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اور مَیں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں۔ بیعت وہی ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور جس میں خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔ آپ کی اس تقریر کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کے دل صاف ہو گئے اوران پرواضح ہو گیا کہ خلافت کی کیا اہمیت ہے۔ تقریر کے بعد آپ نے خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ وہ دوبارہ بیعت کریں۔ اسی طرح آپ نے فرمایا مَیں ان لوگوں کے طریق کو بھی پسند نہیں کرتاجنہوں نے خلافت کے قیام کی تائیدمیں جلسہ کیا ہے اور فرمایا جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا تھا تو ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ الگ جلسہ کرتے۔ ہم نے ان کو اس کام پر مقررنہیں کیا تھا پھر جبکہ مجھے خود خداتعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ مَیں اس فتنہ کومٹا سکوں توانہوں نے یہ کام خود بخود کیوں کیا۔چنانچہ شیخ یعقوب علی صاحب سے جو اس جلسہ کے بانی تھے انہیں بھی آپ نے فرمایا کہ آپ دوبارہ بیعت کریں۔ چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب ، مولوی محمدعلی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب سے دوبارہ بیعت لی گئی۔ مَیں نے اس وقت یہ سمجھ کر کہ یہ عام بیعت ہے اپنا ہاتھ بھی بیعت کے لئے بڑھادیا مگر حضرت خلیفہ اول نے میرے ہاتھ کو پرے کردیااور فرمایا یہ بات تمہارے متعلق نہیں۔ اس موقع پر دوچار سَوآدمی جمع تھے اور تمام لوگوں نے یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے مگر ان لوگوں کی دیانت اور ایمانداری کا یہ حال ہے کہ خواجہ صاحب نے بعد میں لوگوں سے بیان کیا کہ ہم سے جو دوبارہ بیعت لی گئی تھی یہ بیعتِ ارشاد تھی جو پیر اس وقت لیتا ہے جب وہ اپنے مرید کے اندر اعلیٰ درجہ کے روحانی کمالات دیکھتا ہے۔ گویا حضرت خلیفۂ اول نے یہ بیعت ان کی روحانی ترقی کی بناء پر خاص طور پر ان سے لی اور یہ بیعت ‘‘بیعتِ ارشاد’’ تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ ہم سے بیعتِ ارشاد لی گئی مگر جب میاں نے بھی بیعت کرنی چاہی تو ان کو ہٹا دیا۔
یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی انگریز کا کوئی باورچی تھا جو کھانا بہت خراب پکایا کرتا تھا مگر وہ جہاں کہیں بیٹھتا بڑیں ہانکنی شروع کر دیتا اور کہتا کہ میں اتنا لذیذ کھانا پکاتا ہوں کہ بس یہی جی چاہتا ہے کہ انسان کھاتے چلا جائے۔ ایک دفعہ اس نے اپنے آقا کے لئے کھانا جو پکایا تو وہ اسے سخت بدمزہ معلوم ہؤا اور اس نے باورچی کو کمرہ کے اندر بلا کر خوب چپتیں لگائیں ۔ باورچی نے سمجھا کہ اب میں باہر نکلوں گا تو میری بڑی ذلت ہو گی اس لئے کوئی ایسا طریق سوچنا چاہیئے جس سے لوگوں کا ذہن کسی اور طرف منتقل ہو جائے چنانچہ وہ باہر نکلا اور اس نے بڑے زور سے قہقہے لگانے شروع کر دئیے ساتھ ہی وہ ہاتھ پر ہاتھ مارتا چلا جائے ۔ لوگوں نے پوچھا کیاہوا؟ وہ کہنے لگا کہ آج تو کھانا اتنا لذیذ تھا کہ صاحب ہاتھ پر ہاتھ مارتا تھا اور کہتا تھا اتنا مزیدار کھانا مَیں نے آج تک کبھی نہیں کھایا۔ گویا انگریز نے تو اسے چپتیں لگائیں اور اس نے یہ فسانہ بنا لیا کہ انگریز ہاتھ پر ہاتھ مارتاتھا اور کہتا تھاآج خوب کھانا پکایا۔
یہی حال ان لوگوں کا ہے۔ یہ بھی جب یہاں سے نکلے تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم سے تو بیعتِ ارشاد لی گئی تھی جو پیر اپنے مرید سے اس وقت لیتا ہے جب وہ اعلیٰ درجہ کی منازل روحانی طے کر لیتا ہے اور یہ بیعت ہمیں نصیب ہوئی میاں کو نصیب نہیں ہوئی۔ حالانکہ اول تو یہ بات ہی غلط ہے اور ہر شخص جو واقعات کو جانتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ بیعتِ ارشاد تھی یا نہیں لیکن اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ بیعتِ ارشاد تھی تو پھر یہ بیعتِ ارشاد تو شیخ یعقوب علی صاحب سے بھی لی گئی تھی ان پر یہ لوگ کیوں ٹوٹے پڑتے تھے؟ بہرحال جب جلسہ ختم ہؤا اورلوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے مگر یہ لوگ جو حضرت خلیفۂ اول کی دوبارہ بیعت کر چکے تھے اپنے دلوں میں اور زیادہ منصوبے سوچنے لگے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہماری اس قدر ہتک کی گئی ہے کہ اب ہم قادیان میں نہیں ٹھہر سکتے۔ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم اس وقت ان لوگوں سے خاص تعلق رکھتے تھے اور مولوی محمد علی صاحب کو وہ جماعت کاایک بہت بڑا ستون سمجھتے تھے ۔ ایک دفعہ مَیں حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھا ہؤا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس طرح گھبرائے ہوئے آئے کہ گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے اور آتے ہی سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت خلیفۂ اول سے کہا کہ بڑی خطرناک بات ہو گئی ہے۔ آپ جلدی کوئی فکر کریں۔ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا مولوی محمدعلی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میری یہاں سخت ہتک ہوئی ہے اور میں اب قادیان میں نہیں رہ سکتا۔ آپ جلدی سے کسی طرح ان کو منوا لیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قادیان سے چلے جائیں۔ حضرت خلیفۂ اول نے فرمایا ڈاکٹرصاحب میری طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو جا کر کہہ دیں کہ اگر انہوں نے کل جانا ہے تو آج ہی قادیان سے تشریف لے جائیں ۔ ڈاکٹر صاحب جو سمجھتے تھے کہ مولوی محمدعلی صاحب کے جانے سے نہ معلوم کیا ہو جائے گا۔ آسمان ہل جائے گا یا زمین لرز جائے گی ۔ انہوں نے جب یہ جواب سنا تو ان کے ہوش اڑ گئے اور انہوں نے کہا میرے نزدیک تو پھر بڑا فتنہ ہو گا ۔حضرت خلیفۂ اول نے فرمایا ڈاکٹر صاحب میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اگر فتنہ ہو گا تو میرے لئے ہو گا آپ کیوں گھبراتے ہیں۔ آپ انہیں کہہ دیں کہ وہ قادیان سے جانا چاہتے ہیں تو کل کی بجائے آج ہی چلے جائیں۔ غرض اسی طرح یہ فتنہ بڑھتا چلا گیا اور جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح ہماری دال نہیں گلتی تو انہوں نے غیروں میں تبلیغ کرنی شروع کر دی اور سمجھا کہ عزت اور شہرت کے حاصل کرنے کا یہ ذریعہ زیادہ بہتر ہو گا۔ اس تبلیغ کے سلسلہ میں کہیں انہوں نے نبوت کے مسائل میں ایسا رنگ اختیار کرنا شروع کر دیا جس سے غیراحمدی خوش ہو جائیں، کہیں کفر و اسلام کے مسئلہ میں انہوں نے مداہنت سے کام لینا شروع کردیا۔ چنانچہ یہ نبوت اور کفر و اسلام وغیرہ مسائل 1910ء کے شروع میں پیدا ہوئے ہیں بلکہ ان مسائل نے اصل زور 1910ء و 1911ء میں پکڑا ہے۔ اس سے پہلے 1908ء اور 1909ء میں صرف خلافت کا جھگڑا تھا۔ کفر و اسلام اور نبوت وغیرہ کے مسائل کے باعث اختلاف نہیں تھے۔ اس وقت ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ ایک شخص کو خلیفہ مان کر اور اس کی اطاعت کا اقرار کر کے ہم سے غلطی ہوئی ہے اب کسی طرح اس غلطی کو مٹانا چاہیئے تا جماعت دوبارہ اس کا ارتکاب نہ کرے۔ اس مسئلہ کے متعلق ایک سوال ہے جو ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہیئے اور ہمیشہ ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ یہی لوگ جو آج کہتے ہیں کہ الوصیت سے خلافت کا کہیں ثبوت نہیں ملتا ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے ایک اعلان شائع کیا ہؤا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفۂ اول کی بیعت کے وقت انہوں نے کیا۔ اس اعلان میں ان لوگوں نے صاف طور پر لکھا ہؤا ہے کہ:۔
‘‘مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدقِ دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتقٰی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوۂ حسنہ قرار فرما چکے ہیں جیسا کہ آپ کے شعر
چہ خوش بودے اگر ہریک زِ امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگرہر یک پُر از نورِ یقیں بودے
سے ظاہر ہے ،کے ہاتھ پراحمدکے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا تھا۔‘‘
پس جماعت کے دوستوں کوان لوگوں سے یہ سوال کرنا چاہیئے اور پوچھا چاہیئے کہ تم ہمیں ‘‘الوصیت’’ کاوہ حکم دکھاؤ جس کے مطابق تم نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی تھی اس کے جواب میں یا تو وہ کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ بولا اور یا کہیں گے کہ الوصیت میں ایسا حکم موجود ہے اور یہ دونوں صورتیں ان کے لئے کھلی شکست ہیں۔ یعنی یا تو وہ یہ کہیں گے کہ ایسا حکم الوصیت میں موجود ہے ایسی صورت میں ہم ان سے کہہ سکتے ہیں کہ جب الوصیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نظام خلافت کی تائید کی ہے تو تم اس نظام کے کیوں مخالف ہو اور یا پھر یہ کہیں گے کہ ہم نے اس وقت گھبرا کر اور دشمنوں کے حملہ سے ڈر کر حضرت خلیفۂ اول کی بیعت کر لی تھی۔ ہمیں معلوم تو یہی تھا کہ صدر انجمن خلیفہ ہے اور ہمیں یقین اسی بات کا تھا کہ خداتعالیٰ کے مامور کی مقرر کردہ جانشین انجمن ہی ہے مگر ہم نے سمجھا دشمن اس وقت زور میں ہے اور وہ احمدیت پر تیر چلا رہا ہے بہتر یہی ہے کہ ان تیروں کے آگے حضرت مولوی صاحب کو کھڑا کر دیا جائے چنانچہ وہ کھڑے ہو گئے اور جب ہم نے دیکھا کہ امن قائم ہو گیا ہے تو ہم اپنا حصہ لینے کے لئے آ گئے جیسے قرآن کریم میں بعض لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ جب انہیں جہاد میں شامل ہونے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ بھاگ جاتے ہیں لیکن جب مسلمانوں کو فتح ہو جاتی ہے اوروہ مال غنیمت لے کر میدان جنگ سے واپس لوٹتے ہیں تو وہ بھی دوڑ کر ان کے ساتھ آ ملتے ہیں اور کہتے ہیں ہم بھی تمہارے ساتھی ہیں ۔ ہمیں بھی مال غنیمت میں سے حصہ ملنا چاہئے۔ بہرحال کوئی صورت ہو تو ہر حال میں ان کو شکست ہی شکست ہے۔ اگر الوصیت میں خلافت کے متعلق کوئی حکم پایا جاتا ہے اور جیسا کہ ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے اعلان کیا کہ پایا جاتا ہے تو پھر اس حکم سے ان کا انحراف ان پر حجت قائم کرنے کے لئے کافی ہے اور اگر کوئی حکم نہ پائے جانے کے باوجود انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو آگے کر دیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب حملے کا وقت تھا اس وقت تو یہ پیچھے بیٹھے رہے مگر جب حملے کا وقت گزر گیا اور امن قائم ہو گیا تو اس وقت یہ لوگ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمیں بھی مال غنیمت میں سے حصہ ملنا چاہیئے حالانکہ اللہ تعالیٰ اسی کو عزت دیتا ہے جو قربانیوں کے میدان میں بھی آگے سے آگے قدم بڑھاتا ہے مگر ان لوگوں نے قربانیوں میں تو کوئی حصہ نہ لیا اور خداتعالیٰ کی دی ہوئی عزت کے حصے بخرے کرنے میں مشغول ہو گئے۔ یہ سوال ہے جو بار بار ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیئے اور ان سے پوچھنا چاہیئے کہ وہ بتائیں الوصیت میں وہ کون سے الفاظ ہیں جن کے مطابق حضرت خلیفۂ اول کو خلیفہ منتخب کر کے ان کی بیعت کی گئی تھی اور جس کے ماتحت حضرت خلیفۂ اول کی اطاعت ویسی ہی ضروری تھی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت ضروری تھی کیونکہ اس اعلان میں یہ بھی درج ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا فرمان ہمارے لئے آئندہ ایسا ہی ہو گا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہؤا کرتا تھا ۔ پس ان سے پوچھنا چاہیئے کہ ‘‘الوصیت’’ کے ہمیں وہ الفاظ دکھلائیں اور پھر ان سے یہ پوچھنا چاہیئے کہ اب ہمیں ‘‘الوصیت’’ سے وہ دوسرے احکام دکھاؤ جن میں یہ لکھا ہؤا ہے کہ حضرت خلیفۂ اول کے بعد پہلا حکم منسوخ ہو جائے گا۔
دوسری بات جو اِن کے سامنے پیش کرنی چاہیئے اور جس کے متعلق ان کا دعویٰ بھی سب سے زیادہ ہے وہ قرآن شریف کا ترجمہ ہے اور ان لوگوں کو ہمارے مقابلہ میں سب سے زیادہ اگر کسی بات کا دعویٰ ہے تو وہ یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا ہے حالانکہ قرآن کا یہ ترجمہ انجمن کے روپیہ اور ان تنخواہوں کو وصول کر کے کیا گیا ہے جو سلسلہ کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو دی جاتی تھی پھر سلسلہ کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب کو صرف تنخواہ ہی نہیں ملتی تھی بلکہ پہاڑ پر جانے کے اخراجات بھی انہیں ملتے تھے اور پھر تنخواہ اور پہاڑ پر جانے کے اخراجات ہی مولوی محمد علی صاحب کو نہیں دئیے جاتے تھے بلکہ ہزاروں روپیہ کی کتب بھی سلسلہ کی طرف سے ان کو منگا کر دی گئیں تاکہ وہ ان کی مدد سے ترجمہ تیار کر سکیں اور جیسا کہ اس وقت کے اخبارات سے معلوم ہوتا ہے ترجمہ اور قرآن کریم کے نوٹس قریباً مکمل ہو چکے تھے کیونکہ اس کی اشاعت کے لئے چندہ کی تحریک شروع کر دی گئی تھی ۔ پس قریباً تمام کا تمام ترجمہ اور تفسیر وہی ہے جو صدر انجمن احمدیہ سے کئی سال تک تنخواہیں وصول کرنے اور ہزاروں روپیہ کتب پر صَرف کرانے کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے کیا۔ بعد میں سوائے اس کے کہ انہوں نے کچھ پالش کر دی ہو اور کچھ نہیں کیا۔ ترجمہ اور تفسیر کا کام درحقیقت حضرت خلیفۂ اول کی زندگی میں ہی ختم ہو چکا تھا۔ بعد میں صرف چند مہینے انہوں نے کام کیا ہے۔ شاید دو یا چار مہینے ورنہ اصل کام جس قدر تھا وہ اس سے پہلے ختم ہو چکا تھا اور چار سال تک مولوی محمد علی صاحب کو اس کے عوض صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے تنخواہ ملتی رہی تھی پس یہ ترجمہ صدر انجمن احمدیہ کا تھا اور صدر انجمن احمدیہ ہی اس کی مالک تھی مگر اب یہ ترجمہ مولوی محمد علی صاحب کی ذاتی ملکیت بن چکا ہے اور اس کی آمد میں سے نہ صرف ان کو حصہ ملتا ہے بلکہ شاید انہوں نے اپنے بیوی بچوں کے حق میں بھی اس کی وصیت کر دی ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ سلسلہ کے ایک مال پر تصرف کرنے کا مولوی محمد علی صاحب کو کہاں سے حق حاصل ہو گیا؟ اور یہ کہاں کا تقویٰ ہے کہ ایک ترجمہ وہ صدر انجمن احمدیہ سے سالہا سال تک تنخواہ وصول کر کے کریں اور پھر وہ ان کی ذاتی ملکیت بن جائے۔ وہ ہم پر ہزاروں قسم کے اعتراضات کرتے ہیں وہ ہماری مخفی زندگی کے عیوب بھی تلاش کر کر کے لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں جو بات ہم پیش کر رہے ہیں وہ تو بالکل کھلی اور واضح ہے وہ کسی مخفی زندگی کے متعلق نہیں بلکہ ایک ایسی بات ہے جو رجسٹروں میں آ چکی ہے، جو پبلک کے سامنے پیش ہو چکی ہے۔ پس وہ بتائیں کہ سلسلہ احمدیہ نے ترجمۂ قرآن پر اپنا جو روپیہ خرچ کیا تھا اس کے متعلق مولوی محمد علی صاحب کو یہ کہاں سے حق حاصل تھا کہ وہ اس کو اپنی ذاتی جائداد تصوّر کر لیتے؟ بعض پیغامی اس کا یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ اس روپیہ میں جو مولوی محمد علی صاحب کو بطور تنخواہ ملا کرتا تھا ہمارا چندہ بھی شامل تھا اور اس وجہ سے ہم نے علیحدگی پر ضروری سمجھا کہ اپنے چندہ کے معاوضہ کے طور پر ترجمۂ قرآن کو بھی ساتھ لیتے آئیں کیونکہ جو روپیہ اس پر خرچ ہؤا اس میں ہمارا بھی حصہ تھا حالانکہ اول تو اصولاً یہ بات ہی غلط ہے کہ جس کے ہاتھ کوئی چیز لگے وہ اس بہانہ کی آڑ لے کر اسے ہتھیا لے کہ چونکہ میں بھی چندہ دیا کرتا تھا اس لئے میرے لئے جائز ہے کہ میں یہ چیز اپنے گھر لے جاؤ لیکن اگر یہ اصول درست ہے تو کیا وہ پسند کریں گے کہ جو لوگ ان میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہیں اور جو اس زمانہ میں جبکہ وہ ان کے ساتھ شامل تھے انہیں سینکڑوں روپے بطور چندہ دیتے رہے ہیں وہ اب ان کی انجمن کی چیزیں اٹھا کر لے آئیں اور دلیل یہ دیں کہ چونکہ ہم غیرمبائعین کو ایک زمانہ میں کافی چندہ دیتے رہے ہیں اور ان چیزوں پر ہمارا چندہ بھی خرچ ہؤا ہے اس لئے ہمیں حق حاصل ہے کہ ان میں سے ہمیں جو چیز پسند آئے وہ اٹھا لے جائیں۔ مثلاً لاہور میں ہی پندرہ بیس احمدی غیرمبائعین میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ میں نے ایک پچھلے خطبہ میں ہی ان میں سے بعض کے نام بھی لئے تھے جیسے ملک غلام محمد صاحب ہیں۔ اسی طرح ملک غلام محمد صاحب کے تین جوان لڑکے ان کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ پھر ڈاکٹر غلام حیدر صاحب بھی انہی لوگوں میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو غیرمبائعین کو کافی چندہ دیتے رہے ہیں۔ پس کیا یہ جائز ہو گا کہ یہ لوگ غیرمبائعین کی انجمن کے دفتر میں سے چیزیں اٹھا کر لے آئیں۔ اگر وہ اسے جائز تسلیم نہیں کریں گے تو ان کی یہ دلیل کیونکر معقول سمجھی جا سکتی ہے کہ چونکہ اس ترجمۂ قرآن میں ہمارے چندہ کا روپیہ بھی شامل تھا اس لئے اگر ترجمہ ہم اپنے ساتھ لے آئے تو کیا برا ہؤا۔
مجھے یاد ہے مولوی محمد علی صاحب جس وقت ترجمۂ قرآن اور کئی ہزاروں روپیہ کا سامان کتب وغیرہ کی شکل میں ساتھ لے کر قادیان سے گئے تو اس وقت قاضی امیر حسین صاحب مرحوم تو اس قدر جوش کی حالت میں تھے کہ وہ بار بار پنجابی میں کہتے تھے ’’ نیک بختو ایہہ سلسلہ دا مال لَے چلیا ہے مَیں سچ کہنداں ہاں اس نے پھر مُڑ کے نہیں آناں‘‘۔ اور مَیں انہیں جواب دیتا تھا کہ قاضی صاحب اگر یہ لے جاتے ہیں تو لے جانے دیں آپ کو اس موقع پر صبر سے کام لینا چاہیئے اور انہیں یہ ترجمہ اور سامان وغیرہ اپنے ساتھ لے جانے سے نہیں روکنا چاہیئے کیونکہ اگر ہم نے کہا کہ ترجمہ اور کتابیں وغیرہ اپنے ساتھ نہ لے جائیں تو یہ ساری دنیا میں شور مچاتے پھریں گے کہ انہوں نے قرآن کریم کے ترجمہ میں روک ڈالی۔ پس کتابوں اور ترجمہ وغیرہ کا کیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ چیزیں پھر دے دے گا لیکن اس وقت اگر ہم نے ان کو روکا تو یہ سارے جہاں میں ہمیں یہ کہہ کر بدنام کرتے رہیں گے کہ انہوں نے قرآن کے ترجمہ میں روک ڈالی۔
پھر میں نے انہیں وہ مثال دی جو حضرت خلیفۂ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک بیوہ عورت تھی مگر تھی بڑی محنتی۔ ہمیشہ چرخہ کاتتی اور چرخہ کات کات کر گذارہ کرتی۔ ایک دفعہ اس نے کئی سال تک محنت مزدوری کرنے اور تھوڑا تھوڑا روپیہ پیسہ جمع کرنے کے بعد سونے کے کنگن بنوائے اور اپنے ہاتھوں میں پہن لئے۔ کچھ دنوں کے بعد اس کے مکان میں رات کے وقت کوئی چور آ گیا اور اس نے اس عورت کو مار پیٹ کر اور ڈرا دھمکا کر اس کے کنگن اتار لیے اورچھین کر چلا گیا۔ وہ کنگن چونکہ اس عورت نے کئی سال کی محنت مزدوری کے بعد پیسہ پیسہ جمع کر کے بنوائے تھے اس لئے وہ چور اسے بھولتا نہیں تھا اور ہر وقت آنکھوں کے سامنے اس کی شکل پھرتی رہتی تھی۔ اس کے بعد پانچ سات سال کا عرصہ اور گذر گیا اور اس عورت نے پھر تھوڑ ابہت جمع کر کر کے سونے کے کنگن بنوا لئے۔ ایک دن وہ اسی طرح چرخہ کات رہی تھی کہ اس نے پھر اسی چور کو کہیں پاس سے گذرتے دیکھا اس نے ایک لنگوٹی باندھی ہوئی تھی اور کسی کام کے لئے جا رہا تھا۔ عورت نے جونہی اسے دیکھا آواز دے کر اسے کہنے لگی بھائی ذرا بات سن جانا۔ اس نے خیال کیا کہ کہیں یہ مجھے پولیس کے سپرد نہ کرا دے اس لئے اس نے تیز تیز قدم اٹھا کر وہاں سے غائب ہو جانا چاہا۔ اس پر اس عورت نے پھر اسے آواز دی اور کہا بھائی میں کسی سے نہیں کہتی تم میری ایک بات سن جاؤ۔ چنانچہ وہ شخص آ گیا عورت اپنا ہاتھ نکال کر اسے کہنے لگی دیکھ لو ان ہاتھوں میں تو پھر سونے کے کنگن پڑ گئے ہیں اور تمہارے جسم پر کنگن چرا کر بھی لنگوٹی کی لنگوٹی ہی رہی ۔
تو مَیں نے کہا قاضی صاحب آپ گھبرائیں نہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے اور بہت کچھ دے گا لیکن آپ سمجھ لیں کہ ہم کتنے خطرناک الزام کے نیچے آ سکتے ہیں ۔اگر ہم انہیں یہ سامان لے جانے سے روک دیں کل کو لوگوں میں یہ کہتے پھریں گے کہ صرف دو مہینے کے لئے ترجمہ قرآن کرنے کی خاطر مَیں یہ کتابیں اور سامان اپنے ساتھ لے چلا تھا مگر ان لوگوں نے دو مہینہ کے لئے بھی یہ چیزیں نہ دیں اور اس طرح ترجمۂ قرآن میں انہوں نے روک ڈالی۔ پس اگر ہم یہ سامان لے جانے سے انہیں روکیں گے تو ساری عمر کے لئے ہماری پیشانی پر داغ لگ جائے گا۔ اور اگر مولوی صاحب ان چیزوں کو واپس نہیں کریں گے تو وہ الزام کے نیچے آ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اور سامان دے دے گا۔ تو قاضی صاحب کو اس موقع پر بڑا طیش آیا مگر میں نے انہیں سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا لیکن بات ان کی ٹھیک نکلی کہ وہ کئی ہزار روپیہ کا سامان ترجمۂ قرآن کے نام سے اپنے ساتھ لے گئے۔ پس اگر یہ اصول درست ہے کہ چونکہ چندہ میں ان کا بھی حصہ تھا اس لئے انہیں اس بات کا حق حاصل تھا کہ وہ ترجمہ قرآن اور دوسرا سامان اپنے ساتھ لے جاتے تو پھر وہ اس بات کی ہمیں بھی اجازت دے دیں تا ہماری جماعت کے وہ دوست جو ان میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور جو انہیں ایک لمبے عرصہ تک چندے دیتے رہے ہیں وہ ان کی انجمن کی چیزیں اٹھا اٹھا کر لے آئیں۔ چونکہ ان چیزوں کی تیاری میں ان کے چندہ کا بھی دخل ہے اور اگر وہ اس بات کی اجازت نہیں دیں گے تو دنیا جان لے گی کہ انہوں نے جو جواب دیا ہے وہ غلط ہے اور انہیں اس بات کا قطعاً کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ انجمن کی کسی چیز کو اس طرح لے جاتے اور اگر وہ اس بات کو جائز سمجھتے ہیں تو اس کا اعلان کر دیں ۔ میں ان لوگوں کی ایک لسٹ پیش کر دوں گا جو ان میں سے نکل کر ہمارے ساتھ شامل ہوئے اور کافی رقوم انہیں چندے میں دیتے رہے ہیں۔ میں ان تمام کو ایک وفد کی صورت میں ان کے پاس بھیجنے کے لئے تیار ہوں۔ وہ اپنی انجمن کے دروازے ان کے لئے کھول دیں تاکہ وہ جس چیز کو اپنے لئے ضروری سمجھیں اٹھا لیں کیونکہ ان کے چندہ میں وہ بھی حصہ دار رہ چکے ہیں لیکن اگر وہ اس بات کے لئے تیار نہیں تو پھر ان کا یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ چونکہ ہمارے چندے بھی قادیان میں آتے تھے اس لئے ہم اپنے چندہ کے عوض ترجمہ قرآن اور دوسرا سامان لے آئے۔
پھر مَیں کہتا ہوں ایک منٹ کے لئے اگر اس بات کو فرض بھی کر لیا جائے کہ اس وجہ سے سلسلہ کا ایک مال اپنے قبضہ میں کر لینا ان کے لئے جائز تھا تو سوال یہ ہے کہ یہ مال تو سلسلہ کا تھا مولوی محمد علی صاحب کو اس بات کی کس نے اجازت دی کہ وہ اس مال کو اپنی ذاتی جائیداد قرار دے لیں۔ مان لیا کہ وہ ترجمۂ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو شیخ رحمت اللہ صاحب دیا کرتے تھے، مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب دیا کرتے تھے مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب دیا کرتے تھے۔ ہم نے ان تمام باتوں کو تسلیم کر لیا مگر سوال یہ ہے کہ دنیا کا وہ کون سا قانون ہے جس کے مطابق قوم کے چندہ اور قوم کے روپیہ سے تیار ہونے والی چیز مولوی محمد علی صاحب کی ذاتی ملکیت بن جائے۔
یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص باغ سے انگور کا ٹوکرا اٹھا کر گھر کو لئے جا رہا تھا کہ باغ کے مالک کی اس پر نظر پڑ گئی اور اس نے پوچھا کہ تم میرے باغ سے انگو رتوڑ کر اور ٹوکرے میں بھر کر کس کی اجازت سے اپنے گھر لئے جا رہے ہو؟ وہ کہنے لگا پہلے میری بات سن لیجئے اور اگر کوئی الزام مجھ پر عائد ہو سکتا ہو تو بے شک مجھ پر عائد کیجئے ۔ مالک آدمی تھا شریف اس نے کہا بہت اچھا پہلے اپنی بات سناؤ؟ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ میں راستہ پر چلا جا رہا تھا کہ ایک بگولا آیا اور اس نے اڑا کر مجھے آپ کے باغ میں لا ڈالا۔ اب بتائیے اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ مالک بہت رحم دل تھا اس نے کہا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں بلکہ مجھے تم سے ہمدردی ہے ۔ وہ کہنے لگا آگے سُنئیے اتفاق ایسا ہؤا کہ جہاں میں گرا وہاں جا بجا انگوروں کی بیلیں لگی ہوئی تھیں۔ ایسے وقت میں آپ جانتے ہیں کہ انسان اپنی جان بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارا کرتا ہے مَیں نے بھی ہاتھ پاؤں مارے اور انگوروں نے گرنا شروع کر دیا۔ بتائیے اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ وہ کہنے لگا قصور کیسا اگر تمہاری جان بچانے کے لئے میراسارا باغ بھی اجڑ جاتا تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہ ہوتی۔ پھر وہ کہنے لگا کہ جب انگور گرنے لگے تو نیچے ایک ٹوکرا پڑا تھا انگور ایک ایک کر کے اس ٹوکرے میں اکٹھے ہو گئے۔ فرمائیے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ مالک نے کہا یہ تم عجیب بات کہتے ہو میں نے مانا کہ بگولا تمہیں اڑا کر میرے باغ میں لے گیا، میں نے مانا کہ تم ایسی جگہ گرے جہاں انگور کی بیلیں تھیں، میں نے مانا کہ تم نے اپنی جان بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے تو انگور گرنے لگے، میں نے مانا کہ اس وقت وہاں کوئی ٹوکرا پڑا تھا جس میں انگوراکٹھے ہوتے چلے گئے مگر تمہیں یہ کس نے کہا تھا کہ ٹوکرا سر پر اٹھا کر اپنے گھر کی طرف لے جاؤ۔ وہ کہنے لگا بس یہی بات میں بھی سوچتا آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ۔
تو مَیں نے مان لیا کہ یہ لوگ چندے دیا کرتے تھے، مَیں نے مان لیا کہ ان چندوں کی وجہ سے ان لوگوں کو اس بات کا حق حاصل تھا کہ انجمن کی ایک چیز کو غاصبانہ طور پر اپنے ساتھ لے جائیں مگر مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ میں وہ ترجمہ دے کر انہیں یہ کس نے کہا تھا کہ وہ اسے اپنے گھر لے جائیں؟ اگر ترجمۂ قرآن کی تمام آمد انجمن اشاعت اسلام لاہور کے کاموں پر خرچ ہوتی اور مولوی محمد علی صاحب کو اس سے ایک حبّہ بھی نہ ملتا تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ انجمن کی چیز تھی اور انجمن کے پاس ہی رہی مگر وہ ترجمہ قرآن جس کے حقوق ملکیت یا تو ہمیں حاصل تھے یا بطریق تنزل انجمن اشاعت اسلام لاہور کو۔ اس کے حقوق مولوی محمد علی صاحب کو کیونکر مل گئے اور ان کے لئے یہ کیونکر جائز ہو گیا کہ وہ اس کی آمد کو اپنے آپ پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کریں؟ یہ سوال ہے جو غیرمبائعین کے سامنے پیش کرنا چاہیئے کہ دوسروں پر اعتراض کرنے سے پہلے تم اپنے گھر کا تو جائزہ لو اور بتاؤ کہ مولوی محمد علی صاحب کو کس طرح یہ حق حاصل تھا کہ وہ ترجمہ قرآن اٹھا کر اپنے گھر لے جاتے اور پھر ساتھ ہی ان سے یہ بھی پوچھ لو کہ آیا ہمیں بھی اس بات کی اجازت حاصل ہے کہ جو لوگ ہماری جماعت میں تم میں سے نکل کر شامل ہوئے ہیں اور تمہیں سینکڑوں روپے بطور چندہ دیتے رہے ہیں وہ تمہارا مال اٹھا لیں اور کیا تم اس پر بُرا تو نہیں مناؤ گے؟ اور کیا اسی قانون کے مطابق انہیں غیرمبائعین کی چیزیں ہتھیا لینے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟
اسی طرح ان کے جو نئے دوست مصری صاحب پیدا ہوئے ہیں ان کے متعلق بھی جماعت کو بعض ضروری باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ مصری صاحب اب دراصل انہی کی پارٹی میں ہیں گو ظاہر وہ یہ کرتے ہیں کہ ان کا غیرمبائعین کے عقائد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ پیغامی لوگ بھی ان کی باتیں اپنے اخبارات کے ذریعہ خوب پھیلاتے رہتے ہیں۔ ان کے متعلق ‘‘فاروق’’ میں ایک مضمون شائع ہؤا ہے جو بہت ہی لطیف ہے۔ سید احمد علی صاحب مولوی فاضل اس مضمون کے لکھنے والے ہیں۔ اس میں انہوں نے دو حوالے ایسے جمع کر دئیے ہیں جو بہت ہی کارآمد ہیں اور جماعت کے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ ان حوالوں کو یاد رکھیں۔ ان میں سے ایک حوالہ میں انہوں نے غیرمبائعین کو غلطی پر قرار دیا ہے اور دوسرے حوالہ میں انہوں نے ہمیں غلطی پر قرار دیا ہے۔ اب جبکہ مصری صاحب کے نزدیک ہم بھی غلطی پر ہوئے اور غیرمبائعین بھی غلطی پر ہوئے تو سوال یہ ہے کہ پھر سچائی پر کون قائم ہے اور وہ کون سی جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحیح تعلیم کی حامل ہے؟ اس صورت میں تو گویا نہ ہماری جماعت اس تعلیم پر قائم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی اور نہ غیرمبائعین اس تعلیم پر قائم ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی۔ صرف مصری صاحب اور ان کے بیٹے ہی باقی رہ جاتے ہیں اور غالباً ان کے نزدیک وہی ہیں جو سچائی پر قائم ہیں۔
پس یہ سوال بھی نہایت اہم ہے اور اس قابل ہے کہ ان سے دریافت کیا جائے کہ آخر وہ کون سی جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قائم کر گئے تھے اور جو آپ کے بتائے ہوئے صحیح راستہ پر چل رہی ہے۔ جب ایک طرف وہ ہمیں غلطی پر قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف غیرمبائعین کو غلطی پر قرار دے چکے ہیں تو وہ کون سی جماعت رہ گئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے اور جس کے متعلق وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سچائی پر قائم ہے ۔ یا تو وہ یہ کہیں کہ اب دلائل سے انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ غیرمبائعین ہی حق پر ہیں اور نبوت وغیرہ مسائل کے متعلق جو عقائد وہ پہلے رکھتے تھے وہ درست نہیں تھے اس صورت میں بے شک وہ سوال قائم نہیں رہے گا جو موجودہ حالت میں ان پر عائد ہو سکتا ہے لیکن اس صورت میں مومنوں کی طرح دلیری سے کام لیتے ہوئے انہیں کہہ دینا چاہیئے کہ پہلے مَیں غلطی پر تھا اب مجھے پتہ لگ گیا کہ غیرمبائعین ہی حق پر ہیں۔ ہمارے متعلق تو وہ بار بار کہتے ہیں کہ مَیں مومنانہ جرأت کی وجہ سے ان باتوں کو چھپا نہیں سکتا جو میرے علم میں آئیں پھر کیوں یہی مومنانہ جرأت غیرمبائعین کے متعلق ان سے ظاہر نہیں ہوتی؟ پس اگر وہ سمجھتے ہیں کہ غیرمبائعین کے عقائد درست ہیں اور وہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحیح تعلیم کے حامل ہیں تو وہ جرأت سے کام لیتے ہوئے ایسا اعلان کر دیں مگر جب تک وہ ایسا اعلان نہیں کرتے یہ سوال بدستور قائم رہے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ کون سی جماعت ہے جو صحیح رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کو پورا کر رہی ہے؟ کوئی اس بات کو اچھا کہے یا بُرا یہ ایک حقیقت ہے اور اس کاکوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پیغامی کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں انہوں نے اپنے مبلغ بھی بھیجے ہوئے ہیں لٹریچر اور کتابیں بھی شائع کرتے رہتے ہیں اور تبلیغ اسلام کے لئے بھی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ہم ہیں ہم پر بھی کوئی لاکھ اعتراض کرے ہمارے کام کو اچھا کہے یا بُرا یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم بھی کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنے مبلغ دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوائے ہوئے ہیں۔ کوئی چین میں تبلیغ کر رہا ہے ، کوئی جاپان میں تبلیغ کر رہا ہے، کوئی یورپ میں تبلیغ کر رہا ہے، کوئی امریکہ میں تبلیغ کر رہا ہے۔ اسی طرح ہم اپنا لٹریچر اور کتابیں شائع کرتے رہتے ہیں۔ یہ کام اچھا ہے یا بُرا اس سے قطع نظر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس وقت دو جماعتیں ہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ کام کر رہی ہیں مگر یہ دونوں مصری صاحب کے نزدیک غلط راہ پر ہیں۔ چنانچہ غیرمبائعین کے متعلق وہ آج سے اٹھارہ سال قبل کہہ چکے ہیں کہ وہ خوارج کے گروہ کی طرح ہیں اور ہمارے متعلق انہوں نے اب کہا ہے کہ یہ بھی خوارج کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ پس جب دونوں جماعتیں ہی صحیح راستہ سے منحرف ہیں تو اب سوال یہ ہے کہ پھر دنیا میں صرف ایک ہی جماعت رہ گئی جو صداقت پر قائم ہے اور وہ مصری صاحب اور ان کے بیٹے ہیں۔ پس ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ انہوں نے اسلام کی اشاعت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے کیا کیا۔ مصری صاحب جب سے علیحدہ ہوئے ہیں ان کا سارا زور ہمارے خلاف صَرف ہو رہا ہے۔ نہ وہ آریوں کے خلاف لکھتے ہیں ، نہ وہ عیسائیوں کے خلاف لکھتے ہیں، نہ وہ ہندوؤں کے خلاف لکھتے ہیں، نہ وہ پیغامیوں کے خلاف لکھتے ہیں۔ گویا آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) کوئی نام لیوا دنیا میں باقی نہیں اور جو مصریوں کی شکل میں باقی ہیں وہ بھی اسلام کی خدمت کا کوئی کام سرانجام نہیں دے رہے۔ مصری صاحب کہہ سکتے ہیں کہ میرا یہ بھی کام ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مومن کو اپنی نگاہ ہر طرف رکھنی چاہیئے۔ پس اگر انہیں ہم میں نقائص دکھائی دیتے ہیں تو وہ بے شک ہم پر اعتراض کریں کیونکہ میرے نزدیک اگر ہم انہیں یہ کہیں کہ ہم پر اعتراض نہ کرو، احرار پر کرو یا ہم پر اعتراض نہ کرو عیسائیوں پر کرو یا ہم پر اعتراض نہ کرو آریوں پر کرو۔ تو یہ کسی صورت میں درست نہیں ہو گا۔ مومن کا کام ہے کہ وہ ہر طرف توجہ رکھے ۔ پس ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ہم پر اعتراض نہ کریں بلکہ اگر وہ ہمیں غلطی پر سمجھتے ہیں تو یقینا ان کا حق ہے کہ وہ ہمارے خلاف جدوجہد کریں لیکن ایک سوال ہے جس کو وہ کبھی حل نہیں کر سکتے کہ کیا یہ فتنہ جو مصری صاحب کے نزدیک بڑا فتنہ ہے یہ تو اس بات کا حق رکھتا ہے کہ مصری صاحب اپنی تمام کوششیں اس کو مٹانے کے لئے وقف کر دیں مگر وہ فتنے جنہیں خدا اور اس کے رسول نے بڑا قرار دیا ہے ان کو مٹانے کے لئے مصری صاحب کے لئے کسی قسم کی جدوجہد کرنا جائز نہیں۔ کیا مصری صاحب کو کبھی آریوں کے خلاف کچھ لکھنے کی بھی توفیق ملی یا عیسائیوں کے خلاف بھی انہوں نے کچھ لکھا یا احرار کے متعلق ہی کبھی انہوں نے دو چار مضمون لکھے؟ انہوں نے کبھی آریوں کے خلاف کچھ نہیں لکھا، انہوں نے کبھی عیسائیوں اور احرار وغیرہ کے خلاف کچھ نہیں لکھا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ان کے خلاف لکھا تو ان کی جتھہ بندی ٹوٹ جائے گی اور وہ مدد جو انہیں احرار اور پیغامیوں سے مل رہی ہے وہ جاتی رہے گی مگر کیا خدا اور رسول کا یہ حق نہیں کہ جن فتنوں کو انہوں نے بڑا فتنہ قرار دیا ہے انہیں بڑا سمجھا جائے اور کیا یہ مصری صاحب کو ہی حق حاصل ہے کہ جس فتنہ کو وہ بڑا سمجھیں وہ بڑا بن جائے ؟
قرآن کریم نے دجالی فتنہ کو بہت بڑا فتنہ قرار دیا ہے حتی کہ قرآن کریم میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ قریب ہے اس فتنہ سے آسمان پھٹ جائے، زمین تہہ وبالا ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔4 رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے دجالی فتنہ سے بڑا فتنہ کوئی نہیں ہوا۔ 5 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آریوں کے فتنہ کو بہت بڑا فتنہ قرار دیا ہے لیکن وہ کبھی آریوں کے خلاف نہیں لکھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر میں نے آریوں کے خلاف کچھ لکھا قادیان کے آریوں سے جو مدد مل رہی ہے وہ بند ہو جائے گی۔ اسی طرح وہ کبھی عیسائیوں، ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے خلاف نہیں لکھتے اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس غرض کے لئے دنیا میں مبعوث فرمائے گئے تھے وہ آج کہیں پوری نہیں ہو رہی کیونکہ مصری صاحب کے نزدیک ہم بھی گمراہ اور مصری صاحب کے نزدیک غیرمبائعین بھی گمراہ اور پھر خود مصری صاحب بھی گمراہ کیونکہ ان کی توجہ اس کام کی طرف ہے ہی نہیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث فرمائے گئے تھے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ مصری صاحب کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی وفات کے بعد جو کچھ چھوڑا وہ گمراہی ہی گمراہی تھی جو قادیان میں بھی ظاہر ہوئی ، جو لاہور میں بھی ظاہر ہوئی اور جو مصری صاحب کے گھر میں بھی ظاہر ہوئی۔
کیا کوئی بھی معقول انسان تسلیم کر سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کا وہ مسیح جس کی نوحؑ نے خبر دی ، خداتعالیٰ کا وہ مسیحؑ جس کی ابراہیمؑ نے خبر دی، خداتعالیٰ کا وہ مسیحؑ جس کی موسیٰ ؑ نے خبر دی خداتعالیٰ کا وہ مسیحؑ جس کی عیسیٰ ؑ نے خبر دی، خداتعالیٰ کا وہ مسیحؑ جس کی رسول کریم ﷺ نے خبر دی، جس کی یاد میں ہزاروں نہیں لاکھوں ائمہ دین اور صلحاء و اولیاء دعائیں کرتے ہوئے اس جہان سے گذر گئے۔ وہ اس جہان میں آیا اور چلا گیا اور سوائے گمراہی اور ضلالت کے دنیا میں کچھ چھوڑ نہیں گیا۔ پس یا تو غیرمبائعین مصری صاحب سے یہ اعلان کروا دیں کہ انہوں نے پیغامیوں کے متعلق جو کچھ لکھا تھا وہ صحیح نہیں تھا اور یہ کہ اب انہیں غور کرنے کے بعد معلوم ہؤا ہے کہ پیغامی ہی حق پر ہیں۔ اس صورت میں بے شک ان کا پہلو مضبوط ہو سکتا ہے اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس جماعت کو سچائی پر قائم کیا اور جوصحیح معنوں میں آپؑ کی جماعت کہلا سکتی ہے وہ غیرمبائعین کی ہے لیکن جب تک وہ یہ اعلان نہیں کرتے کہ پیغامی حق پر ہیں اس وقت تک گویا ان کے نزدیک اس وقت روئے زمین پر کوئی جماعت بھی ایسی نہیں جو صداقت اور راستی پر قائم ہو کیونکہ غیرمبائعین کی گمراہی کے متعلق ان کا پہلا عقیدہ اب تک قائم ہے اور ہماری گمراہی کے متعلق ان کے موجودہ اعلانات موجود ہیں اور ان کی اپنی گمراہی اس طرح ظاہر ہے کہ وہ اپنا سارا زور اس فتنہ کے مٹانے کے لئے صَرف کررہے ہیں جو اُن کے نزدیک بڑا ہے مگر جنہیں خدا اور اس کے رسول نے بڑا فتنہ قرار دیا ہے ان کے استیصال اور اسلام کی اشاعت کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے مبعوث نہیں فرمایا تھا کہ آپ کے ذریعہ پہلے ایک جماعت قائم کرے اور پھر آپ کی وفات کے ساتھ ہی اس میں بگاڑ پیدا کر دے اور کچھ عرصہ کے بعد اس کی اصلاح کے لئے کسی کو کھڑا کر دے۔ کیا دنیامیں کوئی شخص ایسا بھی ہؤا کرتا ہے جو مکان بنائے اور پھر توڑ ڈالے اور توڑنے کے بعد پھر اسے بنانا شروع کر دے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض صرف یہ تھی کہ آپؑ دنیا کی اصلاح کریں اور یہی کام ہے جو آپ کی جماعت کے سپرد ہے۔ پس جب ہم بھی گمراہ ہیں ، جب غیرمبائعین بھی گمراہ ہیں اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحیح تعلیم پر صرف مصری صاحب اوران کے بیٹے ہی قائم ہیں تو کیا ان کا فرض نہیں تھا کہ وہ اس تین سالہ عرصہ میں عیسائیوں کے خلاف لکھتے، آریوں کے خلاف لکھتے، مذاہب باطلہ کا ردّ کرتے اور اسلام کی شوکت اور عظمت ان پر ظاہر کرتے۔ مگر کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس تین سال کے عرصہ میں انہوں نے کیا اصلاح کی اور کتنے آریوں اور عیسائیوں پر اتمام حجت کی یا کیا وہ اب اس بات کے لئے تیار ہیں کہ آریوں اور احرار وغیرہ کے خلاف لکھیں گے؟ یقینا وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کے اس فتنہ کی بنیاد ہی آریوں اور احرار کی مدد پر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ وہ انہی کی مدد پر جی رہے ہیں۔ اگر وہ ان کے خلاف لکھیں تو ان کا خدا ہی مر جائے۔پس ان کے خلاف لکھنے کی وہ کبھی جرأت نہیں کر سکتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم کے ماتحت کوئی جماعت بھی کام نہیں کر رہی۔ ہم نہیں کر رہے کیونکہ مصری صاحب کے نزدیک ہم گمراہ ہیں، غیرمبائعین نہیں کر رہے کیونکہ مصری صاحب کے نزدیک وہ بھی گمراہ ہیں اور میں بتا چکا ہوں کہ خود مصری صاحب بھی یہ کام نہیں کررہے ۔ پس وہ بھی گمراہ ہوئے اور جب تمام کے تمام لوگ گمراہی پر قائم ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ جماعت کون سی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم کی تھی اور جسے آپ کی بتائی ہوئی تعلیم کے ماتحت دنیا میں کام کرنا چاہیئے تھا؟
غرض یہ وہ باتیں ہیں جو جماعت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنی چاہئیں اور وقتاً فوقتاً ان لوگوں کے سامنے انہیں پیش کرتے رہنا چاہیئے۔ پھر اس امر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ مخالف کے سوالات کا جواب دینے سے پہلے دلائل پر پوری طرح غور کر لیا جائے اور سوچ کر اور سمجھ کر اور فکر سے کام لے کر سوالات کا جواب دیا جائے۔ بعض دفعہ غور سے کام نہیں لیا جاتا اور یونہی جواب دے دیا جاتا ہے یہ درست طریق نہیں۔ مثلاً آجکل ذریّتِ مبشرہ کے متعلق بحث ہو رہی ہے میرے نزدیک سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ لُغت کے لحاظ سے اس پر بحث کی جاتی۔ اگر ہماری جماعت کے دوست لغت کے لحاظ سے اس پر بحث کرتے تو اس بحث کا خاتمہ ہی ہو جاتا۔ اسی طرح بعض اور سوالات کا جواب دیتے وقت بھی میرے نزدیک پرانے لٹریچر کو نہیں پڑھا گیا۔ اسی طرح ایک اور بحث بھی ہے مگر میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا تاکہ مخالف ہوشیار نہ ہو جائے مگر اس کے متعلق بھی ایسے رنگ میں بحث کی جا سکتی تھی کہ مخالف اپنے مُنہ سے آپ ہی مجرم بن جاتا ہے۔
پھر یہ بات بھی یاد رکھو کہ گناہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک ظاہر گناہ ہوتے ہیں اور ایک مخفی گناہ۔ جو گناہ کسی کے باطن سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق شریعت نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ ہم ان کے بارہ میں جستجو نہ کیا کریں لیکن جو ظاہر گناہ ہوتے وہ چونکہ ہر ایک کو دکھائی دیتے ہیں اس لئے ان کے بارہ میں تجسس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب دیکھو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہ نئی پارٹی جو ہمارے خلاف نکلی ہے۔ اسی طرح جو پیغامی ہمارے خلاف مضامین لکھتے رہے ہیں ان میں سے اکثر ڈاڑھی منڈے ہوتے ہیں۔ اب بتاؤ کیا اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کا جوش انہی لوگوں میں زیادہ ہؤا کرتا ہے جو شریعت کی اس طرح کھلے طور پر ہتک کرنے والے ہوں۔ وہ اصلاح کا دعویٰ کرتے ہوئے اٹھے ہیں مگر ان کے اپنے بیٹے اور رشتہ دار اور دوسرے قریبی سب ڈاڑھیاں منڈواتے ہیں۔ وہ ہمارے خلاف جب لکھنے پراترتے ہیں تو وہ ہمارے ان گناہوں کے متعلق بھی لکھ جاتے ہیں جو مخفی ہوتے ہیں اور جن کے متعلق شریعت انہیں یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ان کا ذکر کریں مگر کیا انہوں نے اپنا مُنہ کبھی شیشہ میں نہیں دیکھا اور کیا مصلح ایسے ہی ہؤا کرتے ہیں؟ ممکن ہے وہ کہہ دیں کہ ہم نے کبھی شیشہ استعمال نہیں کیا مگر خدا نے ان کو آنکھیں تو دی ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں اور دوسرے رشتہ داروں کی کیا صورت ہے اور کیا ایسی صورتیں ہی لوگوں کی اصلاح کیا کرتی ہیں؟
پھر ان لوگوں کے اخلاق کی حالت یہ ہے کہ میں ابھی سندھ میں ہی تھا کہ وہاں مجھے ایک رسالہ ملا جس میں لکھنے والے نے یہ ذکر کیا تھا کہ میں نے ایک دفعہ رجسٹرڈ خط آپ کو بھجوایا تھا جس میں فلاں بات میں نے بیان کی تھی مگر اس کا کوئی مجھے جواب نہیں ملا حقیقت یہ ہے کہ وہ خط دفتر نے میرے سامنے پیش ہی نہیں کیا تھا کیونکہ جیسا کہ انہوں نے مجھے بتایا انہوں نے اس کے پیش کرنے کی ضرورت نہ سمجھی اور دفتر متعلقہ میں بھجوا دیا۔ بہرحال وہ رسالہ شیخ غلام محمد صاحب کا تھا جو انہی پیغامیوں میں سے الگ ہو کر آجکل مصلح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ میں ان دنوں چونکہ کسی قدر فارغ تھا اس لئے میں نے اس رسالہ کو کھولا اور اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ اس رسالہ میں لکھا ہواتھا کہ ایک پیغامی ڈاکٹر یہ بیان کرتا ہے کہ میں مرزامحمود احمد صاحب سے قادیان ملنے گیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے۔ جب انہیں پتہ لگا کہ میں ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں تو وہ ڈرے کہ نشہ چڑھا ہؤا ہے ایسا نہ ہو کہ اسے پتہ لگ جائے۔ چنانچہ انہوں نے ملاقات میں دو تین گھنٹے دیر لگا دی اور کہہ دیا کہ میں ابھی نہیں مل سکتا۔ دو تین گھنٹے کے انتظار کے بعد انہوں نے مجھے بلوایا اور میں نے جاتے ہی فوراً پہچان لیا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی کیونکہ ان کے مُنہ سے شراب کی بُو آ رہی تھی مگر انہوں نے اس بات کو چھپانے کے لئے عطر مَل رکھا تھا۔ شیخ غلام محمد صاحب نے اس رسالہ میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں نے اس مضمون کا رجسٹری خط امام جماعت احمدیہ کو بھجوایا تھا مگر مجھے اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اب میں انہیں اس رسالہ کے ذریعہ توجہ دلاتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ پیغامیوں کے حلقہ میں آپ کے متعلق یہ بات زور سے پھیلی ہوئی ہے ۔ میں نے پرائیویٹ سیکرٹری کو ہدایت دی کہ آپ اس پیغامی ڈاکٹر کو ایک رجسٹرڈ خط لکھیں جس میں ان سے دریافت کریں کہ یہ بات جو شائع ہوئی ہے کہاں تک درست ہے۔ ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم خود بخود یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے واقع میں یہ کہا ہو گا لیکن چونکہ یہ بات شائع ہو چکی ہے اس لئے آپ ہمیں بتائیں کہ یہ بات صحیح ہے یا غلط۔ میری غرض یہ تھی کہ اگر انہوں نے جواب دیا تو اصل بات خود ان کی زبان سے معلوم ہو جائے گی اور اگر جواب نہ دیا تو یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ انہوں نے واقع میں یہ بات کہی ہے۔ ایک مہینہ گذرنے کے بعد میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے دریافت کیا کہ کیا ان کا کوئی جواب آیا تو انہوں نے بتایا کہ کوئی جواب نہیں آیا۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کی اخلاقی حالت کس قدر گری ہوئی ہے۔
حالانکہ واقعہ صرف یہ تھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب کواپنے ہمراہ لے کر وہ میری ملاقات کے لئے آئے۔ پرائیویٹ سکرٹری نے کہا کہ آجکل ملاقاتیں تو بند ہیں مگر چونکہ آپ خاص طور پر ملاقات کے لئے ہی آئے ہیں اس لئے میں اطلاع کرا دیتا ہوں۔ انہوں نے مجھے اطلاع کی اس وقت میری بیوی ایک خادمہ کے ساتھ مل کر کمروں کی صفائی کر رہی تھی اور گردو غبار اڑ رہا تھا۔ میں نے خیال کیا کہ اگر برآمدہ میں بھی ہم بیٹھے تو مٹی اور گرد کی وجہ سے انہیں تکلیف ہو گی اس لئے بہتر یہی ہے کہ پہلے کمروں کی صفائی کر لی جائے۔ چنانچہ میں نے انہیں کہا کہ کمروں کی صفائی ہو رہی ہے اور اس وقت گردوغبار اڑ رہا ہے صفائی ہو لے تو میں ان کو بلوا لوں گا۔ انہیں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے جا کر یہ بات کہی تو وہ کہنے لگے کہ اچھا اس دوران میں ہم مقبرہ بہشتی وغیرہ دیکھ آتے ہیں۔ چنانچہ وہ چلے گئے اور میں نے ساتھ مل کر جلدی جلدی مکان کو صاف کیا اور پھر گھنٹی بجائی۔ پرائیویٹ سکرٹری آئے تو میں نے انہیں کہا کہ اب انہیں ملاقات کے لئے لے آئیے۔ وہ کہنے لگے ابھی تو وہ آئے نہیں جب آئیں گے تو میں اطلاع کر دوں گا۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد وہ آ گئے اور میں نے انہیں ملاقات کے لئے بلا لیا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک ان سے باتیں کرتا رہا۔ مگر باوجود اس کے کہ میں نے ان سے ان دنوں میں ملاقات کی جبکہ سب دوستوں سے ملاقاتیں بند ہیں اور باوجود اس کے کہ میں نے ان کے لئے اپنے وقت میں سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قربان کیا اور باوجود اس کے کہ میں نے انہی کی خاطر جلدی جلدی مکان کو صاف کرایااور خود بھی اس صفائی میں شریک ہو گیا اور گردوغبار میں مَیں نے انہیں اس لئے نہ بلایا کہ انہیں تکلیف ہو گی انہوں نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ چونکہ ملاقات کرنے میں انہوں نے دیر لگائی تھی اس لئے معلوم ہؤا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی۔ اگر یہ اصول درست ہے تو اس کے بعد ہمارا بھی حق ہو گا کہ مولوی محمدعلی صاحب سے اگرکوئی مبائع ملنے کے لئے جائے اور وہ نہ ملیں یا ملنے میں دیرلگا دیں تو ہم کہہ دیں کہ مولوی محمد علی صاحب نے شراب پی ہوئی تھی اس لئے انہوں نے دیر لگا دی۔ اور اگر رسول کریم ﷺ کی اس سنت پر کہ آپ عطر ملا کرتے تھے اور عطر کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ وہ مجھے بہت ہی محبوب ہے عمل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عطر لگانے والے نے شراب پی ہوئی ہے تو پھر ہمارا بھی حق ہو گا کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کو جب عطر لگائے ہوئے دیکھیں کہہ دیں کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی جس کی بُو کو دورکرنے کے لئے انہوں نے عطر لگا لیا۔ حالانکہ عطر وہ چیز ہے جس کے متعلق رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے دنیا میں جو چیزیں محبوب ہیں ان میں ایک عطر بھی ہے6
مجھے بھی عطر بڑا محبوب ہے اور میں ہمیشہ کثرت کے ساتھ عطر لگایا کرتا ہوں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں بخاری ہاتھ میں لئے حضرت خلیفہ اول سے پڑھنے کے لئے جا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا کہاں جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا حضرت مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے جا رہا ہوں۔ فرمانے لگے مولوی صاحب کو میری طرف سے کہنا کہ ایک حدیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ جمعہ کے دن نئے کپڑے بدلتے اور عطر لگایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول اپنی سادگی میں بعض دفعہ بغیر کپڑے بدلے جمعہ کے لئے تشریف لے آیا کرتے تھے۔ میں نے جاکر اسی رنگ میں ذکرکردیا۔ حضرت مولوی صاحب یہ سن کر ہنس پڑے اور فرمانے لگے حدیث تو ہے مگر یونہی کچھ غفلت ہو جاتی ہے۔ تو عطر لگانا رسول کریم ﷺ کی سنت ہے مگر ان کے نزدیک جو شخص عطر مَلتا ہے وہ اس بات کا ثبوت مہیا کرتا ہے کہ گویا اس نے شراب پی ہوئی تھی جس کی بُو کو زائل کرنے کے لئے اس نے عطر لگا لیا۔ ایسے لوگوں کو ملاقات کا موقع دینا میرے نزدیک ظلم ہے کیونکہ عقلمند لوگ کہا کرتے ہیں کہ جو لوگ اہل نہ ہوں ان پر احسان بھی نہیں کرنا چاہیئے۔
پس یہ لوگ اس قسم کے اخلاق کے مالک ہیں کہ ان کے ساتھ شرافت اورخوش خُلقی کے ساتھ پیش آنا بھی اپنا نقصان آپ کرنا ہے۔ ذرا غور کرو کہ ملاقاتیں بند تھیں میں اپنی جماعت کے دوستوں سے بھی نہیں ملتا تھا،گھر میں صفائی ہو رہی تھی، گرد اڑ رہی تھی، سامان ادھر اُدھر بکھرا ہواتھا اور مَیں محض اس لئے کہ ایک پیغامی دوست ملنے کے لئے آئے ہیں جلدی جلدی صفائی کروانے لگا خود بھی اس صفائی میں شریک ہؤا اور جب ان صاحب کو ملاقات کا موقع دیا تو وہ گھر جا کر کہنے لگ گئے کہ انہوں نے شراب پی ہوئی تھی تبھی ملنے میں دیر لگائی۔ یہ لوگ اگر دنیا کی اصلاح کرنے والے ہیں تو پھر اصلاح ہو چکی۔ مگر اس قسم کے صرف چند لوگ ہی ہیں مَیں نہیں سمجھتا کہ سارے غیرمبائعین ایسے ہی ہوں۔ آخر ان میں شریف اور نیک لوگ بھی ہیں تبھی بعض شریف الطبع لوگ ان سے علیحدہ ہو کر ہم میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ پس اس قسم کی عداوت رکھنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہو تو بڑے بڑے معاندین کو بھی ہدایت نصیب ہو جاتی ہے۔
ابھی سیالکوٹ میں ایک دوست احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔ شیخ روشن الدین صاحب تنویر ان کا نام ہے اور وکیل ہیں۔ جب مجھے ان کی بیعت کا خط آیا تو میں نے سمجھا کہ کالج کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے کوئی نوجوان ہوں گے مگر اب جو وہ ملنے کے لئے آئے اورشوریٰ کے موقع پر میں نے انہیں دیکھا تو ان کی ڈاڑھی میں سفید بال تھے۔ میں نے چوہدری اسد اللہ خان صاحب سے ذکر کیا کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان ہیں اور ابھی کالج میں سے نکلے ہیں مگر ان کی تو ڈاڑھی میں سفید بال آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تو دس بارہ سال کے وکیل ہیں پہلے احمدیت کے سخت مخالف ہؤا کرتے تھے مگر احمدی ہو کر تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کایا ہی پلٹ دی ہے۔
اسی طرح قادیان کا ہی ایک واقعہ ہے جوحافظ روشن علی صاحب نے سنایا۔ وہ فرماتے تھے کہ مَیں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں مدرسہ احمدیہ کی طرف سے آ رہا تھا کہ میں نے دیکھا ایک چھوٹی سی ٹولی جس میں چار پانچ آدمی ہیں مہمان خانہ کی طرف سے آ رہی ہے اور دوسر ی طرف ایک بڑی ٹولی جس میں چالیس پچاس آدمی ہیں باہر کی طرف سے آ رہی ہے۔ وہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو دیکھ کر ٹھہر گئیں اور پھر انہوں نے آگے بڑھ کر آپس میں لپٹ کر رونا شروع کر دیا وہ کہتے کہ مجھ پر اس نظارے کا عجیب اثر ہؤا اور میں نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھا کہ تم روتے کیوں ہو؟ اس پر وہ جو زیاد ہ تھے انہوں نے بتایا کہ بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو آپ کوتھوڑے نظر آ رہے ہیں یہ ہمارے گاؤں میں سب سے پہلے احمدی ہوئے۔ ہم لوگوں کو ان کا احمدیت میں داخل ہونا اتنا بُرا معلوم ہؤا ، اتنا بُرا معلوم ہؤا کہ ہم نے ان پر ظلم کرنے شروع کر دیئے اور یہاں تک ظلم کئے کہ یہ اپنی جائیدادیں اور مکان وغیرہ چھوڑ کر دورکسی اور شہر میں جابسے۔ کچھ عرصہ کے بعد ہمیں بھی خداتعالیٰ نے ہدایت دی اور ہم بھی احمدیت میں داخل ہو گئے لیکن نہ ہمیں ان کی خبر تھی کہ یہ کہاں ہیں اور نہ انہوں نے پھر ہمارے متعلق کوئی خبر حاصل کی۔ آج جلسہ سالانہ پر ہم آئے ہوئے تھے کہ اِدھر سے ہم آ نکلے اور اُدھر سے یہ آ نکلے اور ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ ہمیں ان کو دیکھ کر وہ وقت یاد آگیا جب ہم ان پر ظلم و ستم کیاکرتے تھے اور جب خدا کی آواز پر لبیک کہنے کی وجہ سے ہم نے ان کو ان کے گھروں سے نکال دیا اور انہیں بھی وہ زمانہ یاد آگیا جب ہم نے انہیں دکھ دئیے تھے اور ہم دونوں بے تاب ہو کر رونے لگ گئے۔ تو بڑے بڑے دشمن ہدایت پا جاتے ہیں اور بڑے بڑے مخالف راہ راست پر آ جاتے ہیں۔ پس تم یہ مت سمجھو کہ چونکہ غیرمبائعین تمہارے دشمن ہیں اس لئے انہیں ہدایت نہیں مل سکتی ۔ ہدایت خداتعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل جب نازل ہو تو تمام کدورتیں دل سے دُھل جاتی ہیں۔ ہاں بے شک انہوں نے جماعت میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کو انہوں نے اپنے اوپر ناراض کیا ہے مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش وسیع ہے اوراس کی رحمتوں کا کوئی شمار نہیں۔ پس تم ناامید مت ہو اور تبلیغ میں لگے رہو اور صداقت ان کے سامنے متواتر پیش کرتے رہو تا ان میں سے جو سعید روحیں ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کوکھینچ کر ہماری طرف لے آئے اور اس فتنہ کو جس کے متعلق یہ مقدر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ اور کسی نہ کسی صورت میں ضرور قائم رہے گا جس حد تک کم ہو سکتا ہو کم کر دے تا ہدایت کو قبول کرنے کے راستہ میں جو روکیں حائل ہیں وہ زیادہ سے زیادہ دور ہو جائیں اور ہدایت کی تائید میں جو سامان ہیں وہ زیاد ہ سے زیادہ ترقی کر جائیں۔‘‘ (الفضل 20 اپریل 1940ء)
1 بدر 2 جون 1908ء صفحہ 6
2 آئینہ کمالات اسلام ،روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 586
3 بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدر
4 تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا (مریم:91)
5 مسلم کتاب الفتن باب بقیۃ من احادیث الدجال
6 مستدرک حاکم کتاب النکاح جلد 2 صفحہ 174 بیروت 1990ء

10
غیرمبائعین میں تبلیغ محبت اورنرمی سے کی جائے
(فرمودہ 19 اپریل0194ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ ایک تو مجھے آج نزلہ کی شکایت ہے، گلا خراب ہے دوسرے لاؤڈ سپیکر کا آلہ بھی خراب ہو گیا ہے لیکن میں جہاں تک ہو سکا اپنے گلے پر زور ڈال کر کوشش کروں گا کہ آواز دوستوں تک پہنچ جائے۔
میں نے گزشتہ دو خطبات میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ غیرمبائعین میں تبلیغ کے متعلق نئے سرے سے جدوجہد کریں ا ور کوشش کریں کہ ان میں سے جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت مقدر کی ہو اُن کو ہدایت دے کر اس فتنہ کے زور کو توڑے اور جو روحیں صحیح رستہ سے دور ہو کر بھٹک رہی ہیں ان کو قبولِ حق کی توفیق ملے۔ میری اس تحریک کے مطابق بعض دوستوں نے مضامین لکھنے شروع کئے ہیں یا ممکن ہے وہ پہلے کے ہی لکھے ہوئے ہوں جو اَب شائع ہو ئے ہوں۔ بہرحال میں دیکھتا ہوں کہ دوستوں میں اب زیادہ توجہ نظر آتی ہے اور جن کو لکھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی ہے وہ مضامین لکھ رہے ہیں اور غورو فکر کر رہے ہیں لیکن ایک بات جس کی طرف میں جماعت کو پہلے بھی بار ہا توجہ دلا چکا ہوں اب پھر کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ محض فتح مومن کے لئے خوشی کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ وہ فتح خوشی کا موجب ہوتی ہے جس میں خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو۔ پس اگر ہم ان طریقوں کو استعمال میں لائیں جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہو اور ان کے نتیجہ میں فتح حاصل ہو تو یہ فتح بے شک خوشی کا موجب ہو گی بلکہ ان طریقوں کو استعمال میں لاتے ہوئے اگر شکست بھی ہو جائے تو وہ بھی خوشی کا ہی موجب ہو گی۔ بعض دفعہ ایسی شکست عظیم الشان کامیابیوں کا موجب ہو جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ کا ایک ایسا واقعہ ہے جسے خداتعالیٰ نے قبول فرمایا بلکہ وہ سلسلہ کی بنیاد کا محرک ہو گیا۔ آپ ایک مرتبہ جوانی کے ایام میں بٹالہ تشریف لے گئے ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میں آپ کے مُکفِّر بن گئے نئے نئے حدیث کا علم پڑھ کر بٹالہ آئے تھے اور نیا نیا جوش تھا وہ ہر مجلس میں حنفیوں کو بُرا بھلا کہتے تھے اور حنفیوں میں بھی ان کے مقابلہ کا بہت جوش تھا مگر ان کا کوئی مولوی ان کے سامنے ٹھہرتا نہیں تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو اتفا ق سے بٹالہ تشریف لے گئے تو ایک شخص نے ان سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کے لئے آپ کو مجبور کیا اور کہا کہ وہ کفر کی باتیں کرتے ہیں اور اسلام کے خلاف عقائد رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا چلو دیکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ تشریف لے گئے، لوگ بہت جمع تھے اور بڑا ہجوم ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مولوی محمد حسین صاحب آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ آپ نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ کا کیا دعویٰ ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ سب سے مقدم قرآن کریم ہے اور اس کے بعد آنحضرت ﷺ کا قول اور اس کے مقابل پر ہم کسی اور انسان کے قول کو نہیں لے سکتے۔ آپ نے یہ بات سن کر فرمایا کہ آپ کی یہ بات تو معقول ہے۔ اس پر لوگوں نے شور مچا دیا کہ ہار گئے ، ہار گئے۔ جو لوگ آپ کو ساتھ لے گئے تھے وہ بڑے غصہ میں آئے کہ آپ نے ہم کو ذلیل کر دیا مگر آپ نے کسی بات کی پرواہ نہ کی اور فرمایا کہ کیا میں یہ کہوں کہ امت کے کسی فرد کا قول محمد مصطفےٰ ﷺ کے قول پر مقدم ہے۔ اور اس طرح خاص اللہ تعالیٰ کے لئے بحث کو ترک کر دیا۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسی ترکِ بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ‘‘تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہؤا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔’’ 1
پھر بعد اس کے عالمِ کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے۔2 چونکہ آپ نے خالصۃً خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار اور تذلّل اختیار کیا اس لئے اس محسنِ مطلق نے نہ چاہا کہ آپ کے اس فعل کو بغیر اجر کے چھوڑے۔
تو بعض اوقات شکست زیادہ بہتر ہوتی ہے اُس فتح سے جس میں خداتعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو۔ یہ بات میں نے پہلے بھی کئی بار کہی ہے اور اب پھر اسے دہرا دیتا ہوں کہ غیرمبائعین کے مقابلہ پر ایسے ذرائع اختیار کرو جو خداتعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی خوشنودی کا موجب ہوں۔ میں نے بار بار سخت کلامی سے روکا ہے ۔ مجھے سخت کلامی کبھی پسند نہیں خواہ وہ میرے شدید سے شدید مخالف کے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔ بے شک بعض حقائق کے بیان کرنے میں بعض سخت الفاظ کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو دوسرے کے لئے ناگوار ہوتے ہیں مگران کے بیان میں بھی جہاں تک ممکن ہو سخت الفاظ سے بچنا چاہیئے اور ایسے رنگ میں بات کو بیان نہ کیا جائے کہ دوسر اسمجھے کہ اس کے دل میں غصہ اور بُغض ہے جو یہ نکال رہا ہے۔ ایک ہی بات کو سخت الفاظ میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے اور اسی کو نرم الفاظ میں بھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ لاہور میں ایک خاندان فقیروں کا مشہور ہے۔ ہمارے خاندان کے ساتھ ان کے تعلقات پرانے چلے آتے ہیں۔ ہمارے بڑے بھائی خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم اور اس خاندان کے آخری رئیس بھائی بھائی بنے ہوئے تھے۔ ان کے دادا مہاراجہ رنجیب سنگھ کے وزیر تھے اور وہ بہت بلند پایہ طبیب تھے اور اس وجہ سے بہت اثر رکھتے تھے۔ گو اُس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی مگر انہیں طب کی وجہ سے اور ذاتی قابلیت کے باعث بہت رسوخ حاصل تھا۔ مسلمانوں کو اُس زمانہ میں چونکہ مصائب کا شکار ہونا پڑتا تھا اس لئے جس کسی کو کوئی مصیبت پیش آتی ان کے پاس امداد کے لئے پہنچ جاتا تھا اور آپ ہر ایک کی کچھ نہ کچھ مدد کر دیتے اور جو تھوڑی بہت رقم ممکن ہوتی دے دیتے۔ اُس زمانہ میں پیسہ کی بہت قیمت تھی۔ روپیہ کا دس دس من غلبہ ملتا تھا۔ ایک دفعہ ان کے پاس کوئی محتاج آیا وہ بیٹھے کام کر رہے تھے اور اپنے نوکر سے کہہ دیا کہ میاں اسے آٹھ آنہ کے پیسے دے دو۔ نوکر نے دیئے تو اس نے شور مچا دیا کہ اتنے بڑے آدمی ہو کر آپ مجھے صرف آٹھ آنے دئیے ہیں۔ حالانکہ اُس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے یہ بھی کافی تھے۔ روپیہ مہنگا تھا اور میرا خیال ہے کہ وزیر کی تنخواہ بھی اس وقت دو تین سو روپیہ ہی ہوتی ہو گی مگر باوجود اس کے وہ مخیر آدمی تھے اور جو حاجت مند آتا جو کچھ ممکن ہوتا اسے دے دیتے مگر اس محتاج نے شور مچا دیا اور کام کرنا مشکل کر دیا۔ آپ نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا اور کام میں حرج کرنے لگا آخر مجبور ہو کر آپ نے نوکر سے کہا کہ اسے پولے پولے (نرم نرم) دھکّے مار کر باہر نکال دو۔ گو وہ مجبور ہو گئے کہ دھکّے مار کر اسے نکالیں مگر شرافت کی وجہ سے پولے پولے دھکّے مارنے کی ہدایت بھی ساتھ ہی کر دی ۔ تو اگر انسا ن نرمی اور محبت کو اپنا شعار بنا لے تو لڑائی میں بھی ایسے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں کہ جو سخت نہ ہوں۔ جس طرح فقیر صاحب کی مثال میں نے دی ہے۔
یاد رکھنا چاہیئے کہ سخت کلامی اخلاص پر دلالت نہیں کرتی ۔ اس کی ایک تازہ مثال آپ لوگوں کے سامنے ہے یعنی میاں فخر الدین ملتانی کی۔ ان کی ٹھوکر کا موجب ہی ان کی یہ سخت کلامی ہوئی۔ وہ ہمیشہ پیغامیوں کے خلاف سخت مضامین لکھا کرتے تھے ۔ میں نے ڈانٹا کہ یہ طریق مجھے پسند نہیں کہ مضامین میں گالیاں دی جائیں خواہ وہ میرے شدید مخالفوں کو ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ بات ان کو بُری لگی کہ مَیں تو ان کے لئے قربانی کرتا ہوں، ان کے مخالفوں کا مقابلہ کرتا ہوں اور یہ ناراض ہوتے ہیں۔ انہوں نے پھر ویسا ہی مضمون لکھا اور میں نے پھر ڈانٹا اور ان کو پھر بُرا لگا ۔ دو تین بار ایسا ہی ہؤا آخر میں نے ان کو کہا کہ اگر پھر ایسا مضمون لکھا تو سزا دوں گا۔ اس پران کے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ یہاں کام کرنے والوں کی کوئی قدر نہیں ان کے نزدیک قدر کے یہی معنے تھے کہ میں خدا، رسول، اسلام اور اخلاق کی کوئی پرواہ نہ کرتا اور اس پر خوش ہو جاتا کہ یہ شخص میر ی مدد کرتا ہے۔ حالانکہ اصل چیز تو خداتعالیٰ کی خوشنودی ہے اور میں تو خداتعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں۔ اگر وہی ناراض ہو کہ میں نے گالیاں دلوائیں تو میں فخر دین صاحب کی امداد کو کیا کرتا۔ اس بات سے ان کو ٹھوکر لگ گئی اور یہی سخت کلامی ابتلاء کا موجب ہو گئی۔ چنانچہ بعد میں جب ان کے بیان لئے گئے تو یہی معلوم ہؤا کہ اصل ٹھوکر کا موجب یہی بات ہوئی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب مجھے معلوم ہؤا کہ حضرت صاحب ناراض ہیں تو میں نے دو تین باریہ دریافت کرایا کہ ناراضگی کا باعث کیا ہے ؟تو معلوم ہؤا کہ میرے جو مضامین فاروق میں شائع ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ناراض ہیں۔ اور بھی کئی شخص میں نے دیکھے ہیں کہ جن کو اسی بات سے ٹھوکر لگی کہ وہ سمجھتے ہم تائید کررہے ہیں اور میں اسے ناپسند کرتا۔ ایسی تائید جو غلط طریق سے ہو وہ مجھے کبھی پسند نہیں آئی اور میں کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ اس رنگ میں میری مدد کی جائے اور کوئی انسان مدد کر بھی کیا سکتا ہے اگر خداتعالیٰ ناراض ہو جائے۔ اصل جواب دہی تو خداتعالیٰ کے سامنے کرنی ہوتی ہے۔ اگر اسلام، احمدیت اور اخلاق جاتے رہیں تو خواہ کروڑوں مضامین لکھے جائیں ان کی قیمت اتنی بھی نہیں جتنی ان کاغذوں کی جن پر وہ لکھے جاتے ہیں۔
پس مَیں دوستوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ جو مضمون بھی لکھیں نرمی اور محبت سے لکھیں۔ یہ صحیح ہے کہ جہاں کوئی تلخ مضمون آئے گا اس کی کچھ نہ کچھ تلخی تو باقی رہے گی لیکن جہاں تک ہو سکے الفاظ نرم استعمال کرنے چاہئیں۔ مثلاً کسی نے چوری کی ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے فلاں چیز بلااجازت اٹھا لی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ وہ چور ہے تو اس بات میں تلخی ضرور پیدا ہو جائے گی اس لئے ایسی بات کو بھی نرم الفاظ میں ادا کرنا چاہیئے۔
مَیں مانتا ہوں کہ پیغامیوں کی طرف سے ہمیشہ سختی کی جاتی ہے اس لئے بعض دوست جواب میں سختی سے کام لیتے ہیں مگر مجھے یہ طریق سخت ناپسند ہے۔ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ شدید سے شدید دشمن کے متعلق بھی سخت کلامی مجھے پسند نہیں۔ میرے نزدیک مولوی ثناء اللہ صاحب ہمارے اشد ترین دشمن ہیں مگر میں نے کئی بار دل میں غور کیا ہے ان کے متعلق بھی اپنے دل میں کبھی بغض نہیں پایا اور میں سمجھتا ہوں اگر کسی دشمن کے متعلق دل میں بغض رکھا جائے تو اس سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ میرا دل کالا ہو۔ ہر شخص کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ اگر کسی کو سزا دینی ہے تو اس نے اور اگر کسی کو بخشنا ہے تو اس نے۔ میں کیوں اپنے دل میں بغض رکھ کر اسے سیاہ کروں۔ پس دل میں بغض اور کینہ رکھ کر کام نہ کرو بلکہ محبت و اخلاص رکھ کر کرو۔ جوش اور اخلاص کے ساتھ ضروری نہیں کہ کینہ شامل ہو۔ خداتعالیٰ سے زیادہ صداقت کے لئے کس کو جوش ہو سکتا ہے؟ محمد رسول اللہ ﷺ سے زیادہ جوش کسے ہو سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ کسے ہو سکتا ہے؟ مگر دیکھ لو انہوں نے سختی سے کام نہیں لیا۔ وہ سوائے اس کے کہ جہاں مجبور ہیں کہ صداقت کو بیان کریں کبھی سختی سے کام نہیں لیتے۔ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ دے دیتے ہیں کہ آپ نے فلاں جگہ یہ لفظ استعمال کیا ہے مگر یہ نہیں سوچتے کہ آپ کی ایک پوزیشن مجسٹریٹ کی ہے۔ مجسٹریٹ کو مجبوراً اپنے فیصلہ میں بعض الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ مثلاً جب اس کے سامنے کسی چور کا مقدمہ پیش ہو تو اسے سزا دیتے وقت اسے لکھنا پڑتا ہے کہ تم نے چوری کی ہے اس لئے میں تمہیں چھ ماہ قید کی سزادیتا ہوں۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ تم نے دو رکعت نماز ادا کی ہے اس لئے چھ ماہ قید کی سزا دیتا ہوں اسے مجبوراً چور کا لفظ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ مجسٹریٹ نہ ہوتا تو ممکن ہے وہ چور کا لفظ استعمال نہ کرتا مگر چونکہ سرکاری قانون چوری کی سزا مقرر کرتا ہے اس لئے اسے یہ لفظ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حَکَم تھے اس لئے بعض دفعہ آپ نے بعض موقعوں پر بعض لوگوں کی حقیقت بیان کرنے کے لئے مجبوراً بعض الفاظ استعمال کئے ہیں مگر وہ مجسٹریٹ کی حیثیت سے کئے ہیں اور چونکہ ہماری یہ پوزیشن نہیں اس لئے ہمیں ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ ہمارے لئے ان الفاظ کا استعمال اسوہ نہیں ہے۔ ہمارے لئے اسوہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ آپ نے ذاتی حیثیت سے جو جواب دئیے ہیں وہ ایسے نرم ہیں کہ پڑھنے والے کے دل پراثر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اِسی طرح قرآن مجید کے بعض الفاظ کو سخت کلامی کی تائید میں پیش کرنا درست نہیں کیونکہ وہ بھی حقیقت کے بیان کے طور پر ہیں اور پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض الفاظ دوسرے کلام سے مل کرنرم ہو جاتے ہیں اور اگر دوسرے کلام سے علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو سخت معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم ابراہیم کے فرزند نہیں ہو بلکہ تمہارا باپ ابلیس ہے۔ اب یہ سخت لفظ ہے لیکن اس کے استعمال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے متعلق یہود نے بعض ایسے الفاظ استعمال کئے تھے کہ یہ خداتعالیٰ کے مقبول بندے نہیں اور کہا تھا کہ تُو سامری ہے اور تجھ میں بدروح ہے۔ آپ نے ان کوجواب دینا تھا اوربتانا تھا کہ میں جو تعلیم لایا ہوں یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے شیطان کی طرف سے نہیں۔ آپ نے ان کے جواب میں اس مثال کو دہرانا تھا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ’’اگر خداتمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے۔ اس لئے کہ مَیں خدا سے نکلا اور آیا ہوں کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا ۔ تم میری باتیں کیوں نہیں سمجھتے؟ اس لئے کہ میرا کلام سن نہیں سکتے تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔3 اب اگر اس سارے واقعہ کو علیحدہ کر کے صرف اسی کو لے لیا جائے کہ تم اپنے باپ ابلیس سے ہو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گالی دی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں۔ تو بعض دفعہ کوئی لفظ اگر الگ کر کے دیکھا جائے تو وہ سخت معلوم ہوتا ہے مگر اپنی جگہ پر وہ سخت نہیں ہوتا۔
پس دوستوں کو چاہیئے کہ ہمیشہ نرم الفاظ استعمال کیا کریں۔ بے شک ان کی سخت کلامی کو دیکھ کر طبیعت میں غصہ آ جاتا ہے مگر اس غصہ کے نکالنے کی میں ایک اور ترکیب بتا دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بجائے ان کو گالیاں دینے کے ان کی دی ہوئی گالیوں کو جمع کر دیا جائے اور پھر ان کو شائع کر دیا جائے ۔ یہ بہت مؤثر طریق ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ سخت کلامی کرتے ہیں اور پھر یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ مبائعین سختی کرتے ہیں اس لئے جس دوست کے دل میں ان کی سخت کلامی کی وجہ سے غصہ پیدا ہو وہ بجائے جواب میں سختی کرنے کے ان کی گالیوں کو جمع کر دے۔ ان کے مضامین اور کتابوں میں کافی گالیاں ہمیں دی گئی ہیں۔
ایک دفعہ میں ڈلہوزی میں تھا کہ مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری ، دلاور خان صاحب جو صوبہ سرحد میں اسسٹنٹ کمشنر ہیں اور سید عبدالجبار شاہ صاحب جو پہلے سوات کے بادشاہ تھے مگر اب معزول ہیں تینوں یا ان میں سے کوئی دو وہاں میرے پاس پہنچے۔ یہ تینوں اُس زمانہ میں پیغامی تھے اور اب ان میں سے دو تو بیعت کر چکے ہیں او رتیسرے یعنی عبدالجبار شاہ صاحب کسی کی طرف بھی نہیں۔ گو پیغامی ان کو اپنی طرف ظاہر کرتے ہیں بہرحال وہ ہماری جماعت میں شامل نہیں ہیں۔ یہ لوگ میرے پاس آئے اور بیان کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صلح ہو جائے۔ میں نے کہا صلح سے بہتر کیا چیز ہے مجھے منظور ہے۔ آپ صلح کی تجاویز پیش کریں۔ انہوں نے غور و فکر کے بعد کہا کہ فی الحال اور صلح تو ممکن نہیں یہ ممکن ہے کہ ایک دوسرے کو برا بھلا نہ کہا جائے۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ یہ لوگ مولوی محمد علی صاحب کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے مولوی صاحب بھی ڈلہوزی میں ہی تھے۔ آخرفیصلہ ہؤا کہ ایک دوسرے کو بُرا بھلا نہ کہنے کے متعلق سمجھوتہ ہو جائے۔ چنانچہ سمجھوتہ ہواا ور لکھا گیا۔ اسکے بعد میں نے مولوی محمد علی صاحب کی دعوت کی اور مولوی صاحب نے میری کی اور فیصلہ ہو گیا کہ اخباروں کو روک دیا جائے کہ ایک دوسرے کو بُرا بھلا نہ کہیں۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد پیغام صلح میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا ایک مضمون نکلا جو بہت سخت تھا۔ اس پرمَیں نے ان صلح کرانے والوں کو توجہ دلائی اور مجھے سیدعبدالجبار صاحب کا خط آیا کہ میں نے مولوی غلام حسن خان صاحب سے بات چیت کی ہے اور ہم دونوں کی یہی رائے ہے کہ پیغام صلح نے زیادتی کی ہے اور معاہدہ کو توڑا ہے۔ دلاور خان صاحب تو جلدی ہی بعد میں بیعت میں شامل ہو گئے اور مولوی غلام حسن خان صاحب نے اب بیعت کر لی ہے۔سیدعبدالجبار شاہ صاحب نے دو کشتیوں میں پیر رکھے ہیں۔ یہ میری رائے ظاہری لحاظ سے ہے دل کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
اسی ضمن میں مجھے ایک لطیفہ بھی یاد آ گیا ۔ دلاور خان صاحب سرعبدالقیوم صاحب کے جو صوبہ سرحد میں پہلے وزیراعظم تھے اب فوت ہو چکے ہیں داماد ہیں۔ دراصل وہ ان کی بہن کے داماد ہیں مگر چونکہ بہن کی اولاد کو سر موصوف نے ہی اپنے طور پر پالا تھا اس لئے سرموصوف دلاور خان صاحب کو اپنی اولاد ہی کی طرح چاہتے تھے۔ وہ وائسرائے کی کونسل کے ممبر تھے اور اس سلسلہ میں شملہ آئے ہوئے تھے کہ میری ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ایک چچازاد بھائی بھی احمدی ہیں۔ بھائی سے تو ان کو کچھ رقابت تھی مگر خان صاحب سے محبت تھی۔ میں اسمبلی دیکھنے گیا تووہ وہاں مجھے ملے اور کہنے لگے کہ میرا بھائی آپ کا غالی مرید ہے۔ بات کرتے وقت اتنا جوش میں آ جاتا ہے کہ اسے سمجھ نہیں رہتی دلیل کیا ہوتی ہے۔ دلاور خان سے اس کی بحث ہوئی۔ دلاور خان تو ٹھنڈی باتیں کرتے رہے مگر اسے طیش آ گیا۔ دراصل اپنے بھائی کے متعلق ان کا جو خیال پہلے سے تھا اس رائے میں بھی وہ غالب تھا۔ اُس وقت اسمبلی کے بعض اور ممبر بھی کھڑے تھے اوروہ اس رنگ میں بات کر رہے تھے کہ گویا آپ کے مرید کو شکست ہوئی مگر مجھے خداتعالیٰ نے شرمندگی سے بچانا تھا میرے پاس ایک ہی دن پہلے دلاور خان صاحب کا بیعت کا خط آ چکا تھا ۔ میں نے کہا سرعبدالقیوم صاحب! بے شک آپ کے خیال میں ہمارے آدمی کو شکست ہوئی مگر دیکھنا تو نتائج کو چاہیئے۔ دلاور خان صاحب کا بیعت کا خط کل مجھے مل چکا ہے۔ یہ بات سن کر وہ کہنے لگے کہ اچھا! اب اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا ہے مَیں پھر آپ سے بات کروں گا۔ تو فتح کے سامان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ ڈلہوزی میں جو صلح ہوئی تھی میں نے اس کی پابندی کی اور نرمی سے کام لیا مگر پیغامیوں نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پھر سخت کلامی شروع کر دی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ صلح کرانے والوں میں سے دو آدمی اِس وقت تک بیعت میں شامل ہو چکے ہیں۔ سید عبدالجبار صاحب پر بھی حجت تو پوری ہو چکی ہے مگر ابھی تک انہوں نے بیعت نہیں کی ۔ ان کو اپنی بہن پر بڑا اعتقاد ہے اور ان کی بہن کو اپنی خوابوں پر بڑا اعتقاد ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان کے پاس جن آتے ہیں اور باتیں وغیرہ کرتے ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ جو جن آتے ہیں وہ میری ہی بیعت کرتے ہیں اور سید صاحب ہنس کر کہا کرتے ہیں کہ جن تو آپ کی بیعت ہی کرتے ہیں۔ وہ جن ہیں یا فرشتے؟ جو بھی ہیں بہرحال ان کا میری بیعت کرنا ان کے لئے حجت ہے مگر انہوں نے ابھی تک بیعت نہیں کی۔
پس ہمیشہ نرمی سے کام لو اورمحبت دکھاؤ۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ دیو دعاؤں اورروزوں سے نکلا کرتے ہیں۔ دیو سے مراد تعصب ہے اور روزہ بھی دراصل دعا کا ہی حصہ ہے کیونکہ روزہ سے دعا میں طاقت پید اہوتی ہے اور روزہ دعا کو زبردست کر دیتا ہے۔ قرآن کریم نے بھی بتایا ہے کہ روزہ کے ایام میں جو دعائیں کی جائیں وہ قبول ہوتی ہیں۔
پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس کام کو اختیار کرتے وقت تقویٰ اور خشیتِ الٰہی سے کام لیں۔ فتح وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے اور جس میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو۔ جس فتح میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو اُس سے شکست بہتر ہے جو اس کی رضا کے ماتحت ہو۔
حضرت خلیفہ اول مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کا جو امرتسر کے غزنوی خاندان کے مورث تھے ایک واقعہ سنایا کرتے تھے ۔ وہ اہلحدیث تھے ۔ حنفیوں کے بھی ایک بڑے مولوی امرتسر میں تھے۔ لوگ ان کو مولوی عبداللہ صاحب کے پاس بحث کرنے کے لئے لے گئے اور جا کر کہا کہ یہ آپ سے سوال کریں گے آپ جواب دیں۔ مولوی عبداللہ صاحب نے کہا کہ اگر نیت بخیر باشد۔ حنفی مولوی بھی نیک آدمی تھے مولویانہ رنگ میں لوگوں کے ساتھ چلے گئے تھے۔ یہ فقرہ سن کر ان پر اتنا اثر ہؤا کہ کہنے لگے میں ان سے بحث نہیں کرتا۔ بحث نیتِ خیر کہاں رہنے دیتی ہے۔ تو ان کے اس نیک نیتی کے فقرہ کا ایسا اثر ہؤا کہ دوسرے نے بحث سے ہی انکار کر دیا۔
پس آپ لوگ بھی تقویٰ سے کام لیں اور کوشش کریں کہ جو فتح حاصل ہو وہ ہماری نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی فتح قرار دے۔ ایسی فتح جسے خداتعالیٰ پھینک دے اور کہے کہ یہ میری فتح نہیں بلکہ شیطان کی ہے کسی کام کی نہیں۔ پس ایسے ذرائع استعمال کرو کہ ان کے نتیجہ میں جو فتح ہو وہ خداتعالیٰ کی ہو اور اس کی خوشنودی کا موجب ہو۔ اگر کبھی سختی بھی کرنی پڑے اور کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو کہ اس میں حقیقت کا اظہار مخالف کو ناگوار ہونا لازمی ہو تو بھی الفاظ ایسے استعمال کرو جو کم سے کم برے لگیں۔ بعض مسائل ایسے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے میں نے بھی جب کبھی ان کو بیان کیا پیغامیوں نے شور مچایا ہے کہ ہمیں گالیاں دی گئی ہیں۔ ایک بات وہی ہے جومیں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کی تھی کہ مولوی محمد علی صاحب صدرانجمن سے تنخواہ لے کر قرآن کریم کا ترجمہ کرتے رہے، انجمن کے خرچ پر پہاڑ پرجاتے رہے مگر یہاں سے جاتے ہوئے اس ترجمہ کو ساتھ لے گئے اور اب اس کی فروخت پر حقِ ملکیت بھی لے رہے ہیں۔ بلکہ میں نے سنا ہے کہ اپنے بعد اس حق کی وصیت اپنی بیوی بچوں کے نام کر دی ہے۔ یہ ایسی بات ہے کہ اسے کتنے ہی نرم الفاظ میں بیان کیا جائے بہرحال ان کو بُری لگے گی۔ مگرہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ نرم الفاظ میں اسے بیان کریں۔
ابھی ایک غیرمبائع دوست کی طرف سے مجھے شکایت آئی ہے کہ مولوی ابوالعطاء صاحب نے ہم پر بہت سختی کی ہے۔ ابھی مجھے یہ تو پتہ نہیں لگا کہ کیا سختی کی ہے۔ انہوں نے تین چار باتیں لکھی ہیں جو مولوی صاحب نے ان سے کیں اور میں نے دریافت کرایا ہے کہ ان میں سے کون سی بات کرنے میں مولوی صاحب نے سختی سے کام لیا۔ مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض باتیں ہی ایسی ہیں کہ ان کو بیان کیا جائے تو سختی معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً یہی کہ یہ لوگ کہتے ہیں غیراحمدیوں کولڑکیاں دینی جائز ہیں۔ اس پر اگر سوال کیا جائے کہ آپ میں سے کس کس نے لڑکیاں غیراحمدیوں کو دی ہیں۔ تو یہ ان کو بری لگتی ہے مگر ہم یہ اس لئے کہتے ہیں کہ ان کا نہ دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ عقیدۃً ہم سے متفق ہیں۔ صرف مصلحتاً یہ بات کہتے ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ اگر وہ دل میں بھی اس کو جائز سمجھتے ہیں تو اس پر عمل نہیں کرتے جبکہ بات یہ ہے کہ جیسے لڑکے احمدیوں میں ان کو مل سکتے ہیں ویسے ہی بلکہ ان سے اچھے دنیوی لحاظ سے غیراحمدیوں میں بھی مل سکتے ہیں۔ اگر تو کسی امیر سے کہا جائے کہ اپنی لڑکی کا رشتہ کسی فقیر کودے دو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میری لڑکی کو جیسی عادتیں ہیں ان کے ہوتے ہوئے کسی فقیر کے ہاں اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ یاکسی تعلیم یافتہ لڑکی کا گزارہ جاہل خاندان میں مشکل ہے۔ مگر یہ باتیں ایسی ہیں کہ ان کے لحاظ سے احمدیوں اور غیراحمدیوںمیں فرق نہیں۔ اگر ایک احمدی سید ہے توغیراحمدی بھی ہے۔ اگر ایک احمدی سیدامیر ہے تو غیراحمدی سید بھی امیر ہے۔ اگر ایک احمدی سید، امیر، تعلیم یافتہ ہے تو غیراحمدی بھی سید، امیر اورتعلیم یافتہ مل سکتا ہے۔ اگر کوئی احمدی سید،امیر ، تعلیم یافتہ، اچھے اخلاق اور عمدہ آداب والا ہے تو غیراحمدی بھی ایسا ہی مل سکتا ہے۔ وہاں کفو کا کوئی سوال نہیں جس پر اعتراض ہو سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اچھے سے اچھا سید غیر احمدیوں میں بھی مل سکتا ہے تو جو لوگ ان کو لڑکی دینا جائز سمجھتے ہیں وہ دیتے کیوں نہیں؟ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے دل یہی مانتے ہیں کہ جائز نہیں۔صرف غیراحمدیوں کو خوش کرنے اور ان سے چندے لینے کے لئے یہ کہتے ہیں۔ یہ بات ایسی ہے کہ اگر کہی جائے تو وہ ضرور چِڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں۔ حالانکہ جب یہ بات ا ن کے نزدیک جائز ہے تو گالی کیسے ہو گئی؟ اس غیرمبائع نے لکھا ہے کہ مولوی ابوالعطاء صاحب نے گالیاں دیں اور کہا کہ تم غیرمبائعین یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ غیرمبائعین کولڑکیاں دینی جائز ہیں۔ ممکن ہے انہیں تم کا لفظ بُرا لگا ہو۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ عقیدہ نہ رکھتے ہوں اس لئے یہ بات بُری لگی ہو اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ مولوی صاحب نے کہا ہو تم دیتے کیوں نہیں؟ اور یہ بات بُری لگی ہو۔ بہرحال میں نے دریافت کرایا ہے کہ مولوی صاحب نے کون سی گالی دی۔بہرحال بعض باتیں ایسی ہیں کہ جو بیان کی جائیں تو ان کو بُری لگتی ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب وہ اس قسم کے ازدواج کو جائز سمجھتے ہیں تو پھر لڑکیاں دیتے کیوں نہیں جبکہ غیراحمدیوں میں بھی قوم، تعلیم اوراخلاق کے لحاظ سے ایسے لڑکے مل سکتے ہیں جیسے احمدیوں میں۔ اور ان کا ایسا نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو وہ دل میں اسے جائز نہیں سمجھتے اور یاان کے دماغ تو اس کو جائز سمجھتے ہیں مگر دل ڈرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو گا اور یہ ایسی بات ہے کہ جب بھی کی جائے ان کو بُری لگے گی۔ مگر مسئلہ کو سمجھانے کے لئے ہم بھی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تاہم میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کوئی ایسی بات کرنی بھی پڑے تو نرم الفاظ میں کی جائے۔
پس میں جہاں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ غیرمبائعین کا مقابلہ پورے زور سے کیا جائے وہاں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ ایسا طریق اختیار کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاموجب ہو اور اسے ناراض کرنے والا نہ ہو۔ اور یہ بات کہہ کر میں خداتعالیٰ کے حضور سبکدوش ہوتاہوں۔ یہی طریق ہے جس میں دین کی فتح ہو سکتی ہے اور جس میں خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوسکتی ہے۔ ورنہ جس فتح میں خداتعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو اس کی طرف تو مومن کونگاہ اٹھا کر بھی کبھی نہ دیکھنا چاہیئے۔‘‘ (الفضل یکم مئی 1940ء)
1 ،2 تذکرہ صفحہ 10 ایڈیشن چہارم
3 یوحنا باب 8 آیت 42 تا 44

11
اس وقت تبلیغ کا جہاد ہر مومن پر فرض ہے
(فرمودہ 26 اپریل 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ میں بیماری کی وجہ سے نہ تو زیادہ دیرکھڑا ہو سکتا ہوں اورنہ ہی اونچابول سکتا ہوں اس کے علاوہ آج لاؤڈ سپیکر بھی نہیں ہے اور ابھی تک وہ درست ہو کر نہیں آ سکاکیونکہ اس کے بعض پُرزے نہیں مل سکے اس لئے دوستوں کو جس حدتک میری آوازپہنچ سکے اُسی حد تک انہیں اکتفا کرنا پڑے گا۔
میں نے جماعت کو تحریک جدید کے ماتحت ایک یہ بھی تحریک کی تھی کہ دوست اپنی زندگیاں تبلیغ اسلام کے لئے وقف کریں خواہ یہ وقف چند ہفتوں کے لئے ہو یا چند مہینوں کیلئے اور ساری کی ساری جماعت ایک قانون اور نظام کے ماتحت تبلیغ احمدیت میں مصروف ہو جائے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت تک جماعت نے اس ہدایت پر پورے طور پرعمل نہیں کیا اور شاید ابھی سَو میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جس نے اس کے مطابق عمل کیا ہو ۔ حالانکہ انسان کے ایمان کی آزمائش سب سے زیادہ جہاد فی سبیل اللہ میں ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ دوطرح ہوتا ہے کبھی تلوار کے ذریعہ سے اور کبھی تبلیغ اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے ذریعہ سے۔ موجودہ زمانہ میں چونکہ وہ حالات موجود نہیں جن میں تلوار کا جہاد ضروری ہوتا ہے اس لئے اب تلوار کے جہاد کا وقت نہیں بلکہ تبلیغِ اسلام کے جہاد کا وقت ہے۔ مگر ہماری جماعت نے ایک طرف تو یہ کہہ دیا اور اس نے اپنے پاس سے نہیں کہا بلکہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت کہا کہ وہ جہاد جو تلوار کا تھا اِس زمانہ میں منسوخ ہو چکا ہے۔ گویا اس جہاد سے ہم اس طرح سبکدوش ہو گئے ہیں کہ خدااور اس کے رسول نے اِس زمانہ میں یہ جہاد منسوخ کر دیا ہے کیونکہ اِس زمانہ میں وہ حالات موجود نہیں جن حالات کے ماتحت تلوار کا جہاد مومنوں پر فرض ہؤا کرتا ہے۔ جب دوبارہ و ہ حالات پیدا ہو گئے تو پھر نئے سرے سے یہ جہاد مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کیونکہ وہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے جسے عارضی طور پر ملتوی تو کیا جا سکتا ہے اور ایک زمانہ کے لئے وہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے تحت منسوخ تو ہو سکتا ہے مگر کُلی طور پر نہیں مٹ سکتا۔ کیونکہ قرآن کریم کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جو ہمیشہ کے لئے متروک اور ناقابلِ عمل قرار دی جا سکے۔
قرآن کریم نے ہمیں جس قدر تعلیمیں دی ہیں وہ دو قسم کی ہیں۔ بعض تعلیمیں تو ایسی ہیں جو ہر زمانہ میں قائم رہتی ہیں اور بعض تعلیمیں ایسی ہیں جو وقتاً فوقتاً جاری ہوتی ہیں۔ یہ تعلیم بھی جو تلوار کے جہاد کے ساتھ تعلق رکھتی ہے انہی تعلیموں میں سے ہے جو وقتاً فوقتاً جاری ہوتی ہیں اور اس کی ہماری شریعت میں اور بھی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔
بعض نادان یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جہاد کے متعلق حرام کا لفظ کیوں استعمال فرمایا؟ چنانچہ حال ہی میں ایک شخص کا میں نے یہ اعتراض دیکھا ہے کہ جب یہ جہاد حالات کے بدلنے پر جائز ہے تو پھر موجودہ زمانہ میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حرام کیوں قرار دیا؟ حرام تو وہی چیز ہؤا کرتی ہے جو ہمیشہ کے لئے حرام ہو۔ مگر یہ بالکل بیہودہ اور لغو بات ہے۔ نماز حرام ہے جب سورج نکل رہا ہو، نماز حرام ہے جب سورج سر پر ہو، نماز حرام ہے جب سورج ڈوب رہا ہو مگر کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ نماز بالکل حرام ہے اور ہمیشہ کے لئے اس کا پڑھنا ناجائز ہے؟ اسی طرح روزہ حرام ہے عید کے دن۔ مگر کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ روزہ ہمیشہ کے لئے حرام ہے اور کیا دوسرے وقتوں میں اگر کوئی روزہ رکھے تو اسے کہا جا سکتا ہے کہ جب عید کے دن روزہ حرام تھا تو بعد میں تم نے کیوں رکھا؟ تو ہماری شریعت میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات بعض باتیں جائز ہوتی ہیں مگر وہی باتیں دوسرے وقت میں ناجائز ہوتی ہیں مگر وہی باتیں دوسرے وقت میں جائز بلکہ بعض دفعہ فرض ہو جاتی ہیں۔ جیسے روزہ حرام ہے عید کے دن، روزہ جائز ہے گیارہ مہینے اور روزہ فرض ہے رمضان میں۔ اسی طرح نماز حرام ہے جب سورج نکل رہا ہو، نماز حرام ہے جب سورج سر پر ہو، نماز حرام ہے جب سورج ڈوب رہا ہو۔ مگر نماز جائز ہے اشراق سے لے کر اس وقت تک کہ سورج نصف النہار تک پہنچنے والا ہو، نماز جائز ہے ظہر اور عصر کے درمیان، نماز جائز ہے مغرب اور عشاء کے درمیان، نماز جائز ہے عشاء اور فجر کے درمیان اور نماز جائز ہے صبح صادق سے لے کر نماز صبح تک۔ لیکن یہی نماز فرض ہے صبح کے وقت، نماز فرض ہے ظہر کے وقت، نمازفرض ہے عصر کے وقت، نماز فرض ہے مغرب کے وقت اور نماز فرض ہے عشاء کے وقت۔ ان دونوں مثالوں میں دیکھ لو بعض صورتوں میں ایک چیز جائز ہے، بعض صورتوں میں فرض ہے اور بعض صورتوں میں بالکل حرام ہے۔اسی طرح تلوار کا جہاد حرام ہے جب اس کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں اور یقینا ایسی صورت میں ہم اس کے متعلق حرام کا لفظ ہی استعمال کریں گے مگر جب پھر کسی زمانہ میں وہ شرائط پائی جائیں تو وہی حرام چیز نہ صرف حلال بلکہ فرض ہو جائے گی۔ تو تلوار کے جہاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس زمانہ کے حالات کے ماتحت شرعی احکام کے مطابق حرام قرار دیا ہے۔ پس یہ جہاد تو یوں حرام ہو گیا۔ اب رہ گیا دوسرا جہاد جو تبلیغ اسلام کا ہے سو وہ یقینا ایسا جہاد ہے جو ہماری جماعت کے ہر فرد پر فرض ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ تبلیغی جہاد جس میں ہماری جماعت کے ہر فرد کا حصہ لینا ضروری ہے اس کو ہماری جماعت کس طرح سرانجام دے رہی ہے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ ہم چندہ دیتے ہیں، چندے سے کتابیں چھپتی ہیں اور کتابوں سے تبلیغ ہوتی ہے مگر اس طرح تو صحابہؓ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم روپیہ دیتے ہیں، روپیہ سے سپاہی تیار ہوتے ہیں اور سپاہی ہم سب کی طرف سے جہاد کرتے ہیں مگر کیا ان میں سے ایک صحابی نے بھی کبھی ایسا کہا؟ اور کیا اس جواب کے بعد وہ مومن سمجھا جا سکتا تھا؟ بے شک بعض حالات میں یہ جائز ہوتا ہے کہ انسان اپنی طرف سے دوسرے کو جہاد کے لئے بھیج دے مگر یہ اُسی وقت جائز ہوتا ہے جب شریعت اِس کی اجازت دیتی ہو۔ یا کسی کی معذوری ایسی واضح ہو جس کے علاج کی کوئی صورت نہ ہو۔ جیسے روپے دے کر اپنی طرف سے کسی کو تبلیغ کے لئے مقرر کر دینا صرف اس کے لئے جائز ہو گا جو گونگا ہو اور جس کے مُنہ میں زبان نہ ہو۔ اس کے لئے یہ بے شک جائز ہو گا کہ وہ اپنی طرف سے کسی اورکو تبلیغ کے لئے مقرر کردے اور اس کے اخراجات کو خود برداشت کرے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اگر کوئی شخص اپنی کسی معذوری کی وجہ سے حج کے لئے نہیں جا سکتا تو وہ اپنی طرف سے کسی اور کو روپیہ دے کر حج کرا سکتا ہے مگر جو شخص حج کے لئے جا سکتا ہو اور اس کے لئے کسی قسم کی روک نہ ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی اور کو اپنی طرف سے حج کے لئے بھیج دے اور اگر وہ کسی کو روپیہ دے کر اپنی طرف سے حج کرواتا ہے تو اس کا حج ہرگز قبول نہیں ہو گا۔
پس جبکہ تبلیغ ایک جہاد ہے اور یہ جہاد ہر شخص پر فرض ہے تو جو شخص اتنے اہم فریضے کو ترک کرتا ہے اس کے گنہگار ہونے میں کیا شبہ رہ سکتا ہے۔ اگر اس تبلیغ کی حیثیت محض نوافل کی سی ہوتی تب بھی اس میں شمولیت حصول ثواب کے لئے ضروری تھی مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ جہاد ہے اور جہاد فرض ہؤا کرتا ہے نفل نہیں ہوتا۔
پس ہر احمدی جو اپنی زبان سے دوسروں کو تبلیغ کرنے کی طاقت رکھتا ہے مگر وہ اپنے اوقات میں سے تبلیغ کے لئے کوئی وقت نہیں دیتا وہ یقینا ایک فریضہ کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے ایسا ہی گنہگار ہے جیسے نماز کا تارک گنہگار ہے، ایسا ہی گنہگار ہے جیسے روزہ کا تارک گنہگار ہے، ایسا ہی گنہگار ہے جیسے حج کا تارک گنہگار ہے اور ایسا ہی گنہگار ہے جیسے زکوٰۃ کا تارک گنہگار ہے۔ پس اس مسئلہ کی اہمیت جماعت کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے اور یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ اِس وقت تلوار کے جہاد کی بجائے تبلیغ اسلام کا جہاد ہر مومن پر فرض ہے اور اگر یہ بات غلط ہے کہ تلوار کا جہاد اس وقت حرام ہے تو ایسی صورت میں تمہارا فرض ہے کہ تلوار لو اور کفار کو مارنا شروع کر دو ۔ لیکن اگر تلوار کا جہاد اس وقت حرام ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ایسے وقت میں تبلیغ اسلام کا جہاد شروع ہو جاتا ہے۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ جہاد میں اپنا قائمقام دینے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی بلکہ ذاتی طور پر ہر شخص کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس جہاد میں شامل ہو۔ ہم نے تو جماعت کے دوستوں کے لئے اتنی سہولت پیدا کر دی ہے کہ ان پر یہ پابندی ہی نہیں رکھی کہ وہ ضرور دو دو یا تین تین مہینے تبلیغ کے لئے وقف کریں بلکہ اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص پندرہ دن تبلیغ کے لئے دے سکتا ہو تو پندرہ دن ہی دے دے، تین ہفتے دے سکتا ہو تو تین ہفتے دے مہینہ دے سکتا ہو تو مہینہ دے، دو مہینے دے سکتا ہو تو دو مہینے دے۔ بہرحال ہم نے اپنی جماعت کے دوستوں کی سہولت کے لئے اس حکم کو بہت نرم کر دیا ہے بلکہ اب میں کہتا ہوں کہ جو دو ہفتے دینے سے معذور ہوں محکمہ ان کی طرف سے ایک ہفتہ ہی منظور کر لے۔ پس چاہیئے کہ ہر شخص اس سے فائدہ اٹھائے اورتبلیغ کے لئے سال میں سے پندرہ دن یا مہینہ یا دو مہینے وقف کرے۔ ورنہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہر شخص جو اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک فریضہ کا تارک ہے اور اس کا گناہ ویسا ہی ہے جیسے نماز کے ترک کرنے کا، جیسے روزہ کے ترک کرنے کا، جیسے حج اورزکوٰۃ کے ترک کرنے کا۔ پس میں جماعت کو آج پھر اس اہم امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ آج میں نے اس مسئلہ کوزیادہ واضح کر دیا ہے تاکہ کسی کو اس کے سمجھنے میں دقّت نہ ہو۔ تم خود ہی غور کرو کہ اگر یہ جہاد ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا یہ جہاد ہے تو پھر جہاد میں قائمقام دینا جائز نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر شخص کا ذاتی طور پر فرض ہوتا ہے کہ وہ اس میں حصہ لے۔ اس لئے اگر کوئی شخص اس تبلیغ کے فریضہ کو ادا نہیں کرے گا تو وہ گنہگار ہو گا۔
پس ہر جگہ کی جماعت کو اس کے متعلق فوری طور پر انتظام کرنا چاہیئے۔ جو جماعت اس کے متعلق کوئی انتظام نہیں کرے گی وہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر سمجھی جائے گی۔ خصوصاً قادیان کے دوستوں کو میں اس اہم امر کی طرف متوجہ کرتا ہوں وہ قادیان میں ہجرت کر کے آئے ہوئے ہیں اور ہجرت کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے اپنا پورا وقت خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے دینے کا عہد کیا ہؤا ہے۔ پس مہاجر ہونے کے لحاظ سے ان پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں ہجرت کر کے آیا ہوں اور پھر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں اپنا وقت خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے دینے کوتیار نہیں وہ مہاجر نہیں بلکہ تارکِ وطن ہے۔ جیسے انگریز بعض دفعہ اپنا وطن ترک کر کے امریکہ چلے جاتے ہیں یا آسٹریلیا چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ بھی مہاجر نہیں بلکہ تارکِ وطن ہیں جنہوں نے اپنے وطن کی رہائش ترک کر کے قادیان کی رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔ پس ہر شخص جو ہجرت کے مفہوم کو سمجھنا اورصحیح معنوں میں مہاجر کہلانا چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے اوقات کو ایسے طور پر خرچ کرے کہ ان کا زیادہ سے زیادہ حصہ دین کی خدمت میں صَرف ہو۔ یہی ہجرت کی غرض ہوتی ہے اور یہی غرض انہیں ہمیشہ اپنے پیش نظررکھنی چاہیئے۔ پس قادیان کی جماعت کو میں خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اوقات زیادہ سے زیادہ وقف کریں۔
میں نے بتایا ہے کہ ہم نے دوستوں کی سہولت کے لئے شرائط کو بہت سخت نہیں رکھا۔ بلکہ ہفتہ ہفتہ بھی اگر مجبوری ہو تو محکمہ قبول کرسکتا ہے۔ البتہ میرے نزدیک تبلیغ کوزیاد ہ نتیجہ خیز اور مؤثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سوائے اشد مجبوری کے کم از کم دوہفتے ہر شخص سے وقت لیا جائے۔ پس میرے نزدیک دوستوں کودوہفتہ سے لے کر دو تین مہینہ تک وقت دینا چاہیئے اور یہ کوئی ایسا زیادہ وقت نہیں جس کا بارہ مہینوں میں سے نکالنا مشکل امر ہو۔ اگر کوئی شخص سال کے بارہ مہینوں میں سے کم از کم دو ہفتے بھی اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے صَرف نہیں کرسکتا تو وہ جہاد جیسے فریضہ کو بُھلا دینے والا ہو گا۔ سوائے ان لوگوں کے جومصنّف ہیں یا مبلغ ہیں یا مقرر، واعظ اورخطیب ہیں انہیں چونکہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بھی جہاد کا موقع ملتا رہتا ہے اس لئے وہ اس فریضہ کے تارک نہیں سمجھے جائیں گے۔ مگر دوسرے لوگ جنہیں اس قسم کے مواقع نہیں ملتے وہ اگر تبلیغ میں حصہ نہیں لیتے تو وہ ایک اہم فریضہ کوادا نہ کرنے والوں میں شمار ہو کرخداتعالیٰ کے حضور گنہگار ٹھہرتے ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں خداتعالیٰ کے فضل سے لوگوں پر اس قدر اتمامِ حجت ہوچکی ہے کہ اگر ایک نظام کے ماتحت ہماری تمام جماعت تبلیغ میں لگ جائے تو پانچ سات سال کے اندر ہی کئی اضلاع کی اکثریت احمدی ہوسکتی ہے۔ جو نئے علاقے ہیں ان میں بے شک احمدیت کی تبلیغ کرتے وقت مشکلات پیش آتی ہیں مگر جوعلاقے احمدیت کی تعلیم سے واقف ہو چکے ہیں ان کے متعلق دیکھا گیا ہے کہ ذرا زور دینے سے ان میں سے سینکڑوں لوگ احمدیت میں داخل ہونے کے لئے تیارہو جاتے ہیں۔ پس ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے دینااور لوگوں کو اپنی پوری کوشش سے کلمۂ حق نہ پہنچانا اسلام اور احمدیت پر بہت بڑا ظلم ہے۔
پس قادیان کی جماعت کو خصوصاً اور بیرونی جماعتوں کوعموماً مَیں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اس فریضہ کو پہچانتے ہوئے جماعت کے نظام کے ماتحت اپنے اپنے علاقوں میں تبلیغ کووسیع کریں تا اللہ تعالیٰ جلد سے جلد سلسلہ اوراسلام کی اشاعت کے سامان پیدا کرے اور اسلام ہماری آنکھوں کے سامنے جبکہ ہم میں صحابہؓ اور تابعین موجود ہیں ایسی صورت میں قائم ہو جائے کہ بعدمیں اس میں کسی کو رخنہ اندازی کا موقع نہ ملے۔‘‘
(الفضل 3 مئی 1940ء)

12
ملک میں قیامِ امن کے متعلق ضروری ہدایات
صداقتِ احمدیت سے متعلق ایک تازہ عظیم الشان نشان
(فرمودہ 31 مئی 1940ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ میں آج جماعت کو ملک کے امن کے متعلق بعض ہدایات دینی چاہتا ہوں۔ یہ زمانہ اشاعت کازمانہ ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کے متعلق بعض اولیاء کی خبروںمیں آتا ہے کہ آپ سلطان القلم ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں جیسا کام قلم سے نکلتا ہے یا زبان سے نکلتا ہے کہ وہ بھی ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ قلم کی طرح وسیع ہو گئی ہے ویسا کام تلوار سے نہیں نکلتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مُنہ سے میں نے ایک واقعہ کئی دفعہ سنا ہے وہ ایک کہانی ہے لیکن اس زمانے میں اس کی تصدیق ایسے رنگ میں ہوئی ہے کہ اس کی بہترین مثالیں اس زمانے میں ملنے لگ گئی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ رستم مشہور پہلوان گزرا ہے ایک دفعہ اس کے گھر میں رات کے وقت چور آ گیا اور اتفاقاً ۔رستم کی آنکھ بھی کھل گئی اور اس نے چور کو پکڑ لیا او ر دونوں میں کشتی شروع ہوگئی وہ چور رستم سے بھی زیادہ طاقتور تھا اس نے رستم کو گرا لیا اور اس کی چھاتی پر چڑھ کر خنجر نکال لیا تاکہ اسے قتل کر دے۔ جب رستم نے دیکھا کہ اس کی طاقت اور اس کا زور اس کے کسی کام نہیں آیا اور اس کی جان خطرے میں گھری ہوئی ہے تو اُس نے اُس وقت جب اس کی طاقت اسے جواب دے چکی تھی اپنے رعب سے کام لینا چاہا اور جونہی چور نے خنجر نکال کر اسے مارنا چاہا۔ اس نے کہا ‘‘آ گیا رستم’’، ‘‘آ گیا رستم’’ وہ چور جس نے رستم کو گرایا ہؤا تھا ‘‘آگیا رستم’’ کے الفاظ سن کر اسے چھوڑ کر دوڑ پڑا کیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ جس شخص کو اس نے نیچے گرایا ہؤا ہے وہ رستم کا کوئی نوکر ہے ورنہ اگر اسے ابتداء میں ہی معلوم ہوتا کہ میرا مدّمقابل رستم ہے تو شاید وہ اس کا مقابلہ ہی نہ کرتا۔ گویا رستم کا نام رستم سے زیادہ پر رعب تھا۔
تو رعب انسانوں کو ناکارہ کردیتا ہے اورمایوسی سے زیادہ کسی قوم کو تباہ کرنے والی اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے میں نے اپنی خلافت کے ایام میں ہمیشہ جماعت کو بُری خبریں پھیلانے اورقوم کے اندر مایوسی اور بددلی پیدا کرنے والی باتوں سے روکا ہے اور مَیں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ایسی باتیں قوم کو تباہ کرنے والی ہوتی ہیں اور میرے مخالف لوگ میرے خلاف جو الزامات لگاتے رہے ہیں ان میں سے ایک الزام مجھ پر یہ بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ میں لوگوں کی حُریتِ ضمیر کو سلب کرتا ہوں۔ کچھ سادہ لوح بے شک ان کی باتوں میں آئے ہوں گے اور انہوں نے سمجھا ہو گا کہ واقع میں یہ حریتِ ضمیر کو سلب کرتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں ان کے یہ الزمات اللہ تعالیٰ کے حضور میرے نیک کاموں میں شمار ہوں گے کیونکہ جو کام میں نے کیا وہ جماعت کی ترقی اور اس کی بہبودی کے لئے ضروری تھا۔ اگر ایسانہ کیا جاتا تو لوگوں کا جماعت کو تباہ کر دینا بالکل آسان ہوتا۔ چھوٹی جماعتوں کا تو کیا بڑی بڑی جماعتیں ان غلطیوں سے برباد ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مَنْ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْمُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ۔ 1کہ جو شخص یہ کہے کہ قوم ہلاک ہو گئی وہ خود اس قوم کو ہلاک کرنے والا ہوتا ہے ۔ کیونکہ جب بھی کسی جماعت کے متعلق کہا جائے کہ وہ مر گئی مر گئی تو وہ مرنے لگ جاتی ہے اور جب کسی قوم کو بہادر بنانا ضروری ہو اور اسے کہا جائے کہ وہ خوب ترقی کر رہی ہے اور گو اس قوم کے بعض افراد پہلے سست ہی ہوں اس کے نتیجہ میں اس کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔
ترقی کی اور بھی تدبیریں ہیں جیسے اخلاقِ فاضلہ ہیں یا ایمان کامل کا حصول ہے۔ یہ چیزیں بھی قوم کی ہمت کو بڑھاتی ہیں مگر جب کوئی قوم پھیلتی ہے تو اس کے سارے افراد ایک جیسا ایمان نہیں رکھتے۔ کچھ زیادہ ایمان والے ہوتے ہیں جو ہر وقت ایمان کی چاردیواری میں محفوظ ہوتے ہیں ان کو خواہ کوئی کتنا ہی کہے کہ جماعت ہلاک ہو گئی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ان کے حوصلوں میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے مگر ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں وہ جب سنتے ہیں کہ جماعت مر گئی تو وہ خود بھی مرنے لگ جاتے ہیں۔ اور بعض حالات میں اس کے مخالف نظریہ بھی درست ہوتا ہے۔
ایک دفعہ قادیان میں مولوی عبداللہ صاحب تیماپوری مدعی نبوت آئے اور انہوں نے مسجد میں ہی ڈیرہ لگا دیا اور زور شور سے لوگوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی۔ ہمارے ایک دوست جوش میں آ گئے اور انہوں نے پہلے تو ان سے بحث کی مگر آخر کہا کہ آؤ مجھ سے مباہلہ کر لو۔ چنانچہ انہوں نے مباہلہ کر لیا مگر وہ دوست دل کے کمزور تھے اِدھر انہوں نے مباہلہ کیا اور اُدھر ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ خبر نہیں اب کیا ہو جائے گا۔ میں خود تو اس وقت موجود نہیں تھا مگر حضرت خلیفۂ اول نے مجھے سنایا کہ فلاں شخص میرے پاس آیا اوروہ بڑا گھبرایا ہؤا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ تم ضرور مر جاؤ گے۔ جب تم مباہلہ کے بعد اتنے ڈر رہے ہو تو تمہاری تو اس ڈر سے ہی موت واقع ہو جائے گی تمہیں مباہلہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ مباہلہ تو اس شخص کو کرنا چاہئیے جس کا قلب مضبوط ہو۔ تو بسااوقات انسان اپنے خیال ہی کے اثر سے تباہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے پرانے اطبّاء لکھتے ہیں کسی شخص کو یہ وہم ہو گیا تھا کہ وہ نمک کا بن گیا ہے۔ ایک دفعہ وہ پانی میں داخل ہؤاتو پگھل گیا۔ کسی انسان کاپانی میں داخل ہوکر پگھل جانا تو ایک خلافِ عقل بات ہے مگر معلوم ہوتا ہے انہوں نے تمثیلی زبان میں واقعہ بیان کیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس خیال سے کہ وہ پگھلا جا رہا ہے اس کی جان نکل گئی۔ یہ بالکل قرینِ قیاس ہے کہ جسے یہ وہم ہو جائے کہ وہ نمک کا بن گیا ہے وہ اگر پانی میں داخل ہوگاتو اس کادل بیٹھ جائے گا اوروہ زندہ نہیں رہ سکے گا۔
موجودہ جنگ میں اسی پروپیگنڈا یا قوتِ واہمہ کو انگیخت کرنے سے کام لیا جا رہا ہے اور جرمن اس ہتھیار کوخاص طور پر استعمال کررہے ہیں اور خداتعالیٰ کی قدرت ہے کہ ان کو ایسا موقع بھی میسر آ گیا ہے کہ ان کی باتیں دلوں پر زیادہ اثر کرنے لگ گئی ہیں۔ پہلے انہوں نے پولینڈ پرحملہ کیا جہاں انگریز پہنچ نہیں سکتے تھے اور اس ملک کو انہوں نے تہہِ تیغ کر کے فتح کر لیا۔ پھرانہوں نے ڈنمارک پر حملہ کیا اور اسے راتوں رات لے گئے۔ کہتے ہیں کیا پدّی اور کیا پدی کا شوربہ۔ ڈنمارک کی فوج صرف چند ہزار تھی اورجرمنی کی اسّی لاکھ ہے۔ چنانچہ ڈنمارک کے بادشاہ نے اعلان کر دیا کہ چُپ کر کے گھر میں بیٹھ رہو اور جرمنوں کا مقابلہ نہ کرو۔ چنانچہ ڈنمارک بھی گیا۔ اس کے بعد انہوں نے ناروے پر حملہ کیااوروہاں بھی انہیں بہت حد تک کامیابی ہوئی۔ پھر ہالینڈ پرحملہ کیا اور اسے بھی جیت لیا۔ پھرجرمنی نے بیلجیئم پرحملہ کردیااور یہاں اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اتحادیوں سے ایک ایسی غلطی ہو گئی جس کا وہ اب تک خمیازہ بھگت رہے ہیں مگر بہرحال بیلجیئم کو بھی جرمنی نے فتح کر لیا۔ وہ غلطی جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان سے اپنی طاقت کے خیال کی وجہ سے ہوئی۔ فرانسیسی کمان یہ یقین رکھتی تھی کہ اس کے پاس اتنے سامان ہیں کہ وہ جب بھی چاہے گی ان سامانوں کو استعمال کر کے جرمنوں کوآگے بڑھنے سے روک دے گی۔ مگر یہ بات غلط ثابت ہوئی کیونکہ جہاں ان کے پاس سامان زیادہ تھا وہاں انہوں نے اس سامان کو پورے طور پر استعمال نہیں کیا تھا اور جرمنی کے پاس گو سامان کم تھا مگر جو کچھ بھی تھا وہ سب کاسب اپنے استعمال میں لا رہاتھا۔ مثلاً جرمنی کے پاس لوہا کم تھا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے جرمنی میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ ہر جرمن کا یہ فرض ہے کہ وہ ہٹلر کو سالگرہ کاتحفہ پیش کرے اور تحفہ یہ ہو کہ اس کے گھر میں جو لوہے کی چیز ہووہ قوم کے لئے دے دے۔ اگر کسی کے گھر زنجیر پڑی ہو تووہ زنجیر لے آئے، لوہے کا کوئی کنڈا بے کار پڑا ہو تو وہی لے آئے، برتن ہیں تو وہی لے آئے، انگیٹھیاں ہیں تو وہ پیش کر دے۔ غرض لوہے کی جو چیز بھی کسی کے پاس موجود ہو وہ ہٹلر کو ہدیۃً پیش کر دے۔ اب اتنے بڑے ملک میں جس کی آٹھ کروڑ کی آبادی ہو تم سمجھ سکتے ہو کہ لوگوں کے گھروں میں کتنا لوہا ہو گا ۔ بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ ان ملکوں میں لوہے کا استعمال نسبتاً زیادہ کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ لوگوں نے اپنے دروازے توڑ دئیے، جنگلے توڑ دئیے ، چھتیں توڑ دیں اور لوہے کے ڈھیر لگا دئیے۔حکومت نے اس تمام لوہے کولیا اور اس سے ٹینک اور جہاز وغیرہ بنا لئے۔ اتحادیوں کے پاس لوہا زیادہ تھا مگر اس کی زیادتی ان کے کس کام آ سکتی تھی جب تک وہ ٹینکوں اورہوئی جہازوں وغیرہ میں تبدیل نہ ہو جاتا۔ اس غلطی کی وجہ سے انہیں یہ خیال رہا کہ ہم جرمنی کو آگے بڑھنے نہیں دیں گے مگر ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ اب اتحادی بیلجیئم اور ہالینڈ وغیرہ پرالزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے ہٹلر پر کیوں اعتبار کیا اور کیوں یہ سمجھ لیا کہ وہ ان کی غیرجانبداری کا احترام کرے گا۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ خود اتحادی بھی یہی خیال کرتے تھے کہ جرمنی بیلجیئم اور ہالینڈ کے راستہ سے حملہ آور نہیں ہو گا ورنہ انہیں چاہیئے تھا کہ ان کے سامنے بھی میجینولائن بناتے مگر فرانس نے بیلجیئم کی حدتک میجینو لائن بنا کر اسے چھوڑ دیا اور یہ سمجھ لیا کہ ایک دفعہ تو جرمنی بیلجیئم کی راہ سے حملہ آور ہو چکا ہے مگر آئندہ اس راہ سے نہیں آئے گا۔ پس یہ خود بھی یہی سمجھتے تھے کہ جرمنی اس راستہ سے حملہ آور نہیں ہوگاورنہ وہ علاقہ کیوں بالکل ننگا پڑا ہواتھااور اگر ان کے دل میں ذرہ بھر بھی شبہ ہوتا تو وہ ضرور اس کا کوئی نہ کوئی انتظام کرتے۔ جب جرمنی نے عملی طور پر اس راستہ سے حملہ کردیا تو گو یہ اس حملہ کوروکنے کے لئے تیار نہ تھے ان کے پاس ابھی سامان بھی مکمل نہیں تھا لیکن تمام دنیا میں چونکہ یہ شور پڑا ہؤا تھا کہ برطانیہ اور فرانس چھوٹی چھوٹی قوموں کو لڑائی کے لئے ابھار تو دیتے ہیں مگر خود ان کی کوئی مدد نہیں کرتے انہوں نے سمجھا اس وقت ہمیں فوری طور پر ہالینڈ اور بیلجیئم کی مدد کرنی چاہیئے اور اس اعتراض کو دور کرنا چاہیئے جو تمام دنیا میں ہم پر کیا جاتا ہے کہ ہم مدد کا وعدہ تو کر دیتے ہیں مگر عملی رنگ میں کوئی مدد نہیں کرتے حالانکہ اگر کبھی بدنامی سے بے پرواہ ہونے کا کوئی وقت ہو سکتا تھا تو یہی وقت تھا اور برطانیہ اور فرانس کا فرض تھا کہ وہ اس اعتراض کی ذرّہ بھر بھی پرواہ نہ کرتے اور اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلتے جب تک تیار نہ ہو جاتے مگر وہ اس وقت ایک رو میں بہہ گئے اور انہوں نے کہا لوگ ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ایبے سینیا پر حملہ ہؤا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی ، البانیہ پر حملہ ہؤا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی، آسٹریا پر حملہ ہؤا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی، فن لینڈ پر حملہ ہؤا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی، چیکوسلواکیا پرحملہ ہوامگر تم نے کوئی مدد نہ کی، پولینڈ پرحملہ ہؤا مگرتم نے کوئی مدد نہ کی، ڈنمارک پرحملہ ہؤا مگر تم نے کوئی مدد نہ کی۔ گویا ایبے سینیا، البانیہ آسٹریا، فن لینڈ، چیکوسلواکیا، پولینڈ اورڈنمارک کی سات مثالیں ان کے سامنے موجود تھیں اور لوگوں کے یہ اعتراضات بھی ان کے سامنے تھے کہ ان تمام ممالک پرحملے ہوئے مگر اتحادیوں نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب ناروے ، ہالینڈ اور بیلجیئم پر حملہ ہؤا تو انہوں نے سمجھا اگر اب بھی ہماری فوجیں ان کی مدد کو نہ پہنچیں تو یہ اعتراض اور بھی پختہ ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے اس اعتراض سے گھبرا کر اپنی فوجیں آگے کی طرف دھکیل دیں جس کے نتیجہ میں ان کے شمالی مورچے بالکل خالی ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی جس جرنیل کو انہوں نے بلجیئم کی سرحد پر بھیجا اس سے ایک خطرناک نادانی یہ ہوئی کہ اس نے دریا کے پُل نہ اڑائے۔ حالانکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب فوج کے ڈیفنس کا پہلو اختیار کرنا ہو تو وہ دریاؤں کے پل فوراً اڑا دیتی ہے تاکہ دشمن ان پلوں کے ذریعہ سے ملک کی حدود میں داخل نہ ہو جائے مگر اس جرنیل نے پلوں کو نہ اڑایا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ چونکہ جرمنوں کی توپوں سے ان کی توپیں اوران کے ٹینکوں سے ان کے ٹینک کم تھے۔ ابتدائی بمبارڈمنٹ کے بعد ہی اتحادیوں کی فوجوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور جرمن فوج بغیر کسی روک کے فلنڈرز (Flinders) میں گھس آئی۔ دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انہوں نے فوج کے پیچھے دوسری ڈیفنس لائن نہیں بنائی تھی۔ حالانکہ جو فوج ڈیفنس کر رہی ہو اس کے لئے ایک دوسری ڈیفنس لائن ضروری ہوتی ہے تا اگر دشمن کسی جگہ سے پہلے مورچوں کوتوڑ دے تو اسے آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔ مگر ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے ڈیفنس کی ایک ہی لائن پر اکتفا کی اور جب دشمن نے پہلی صفوں کو توڑ دیا تو اب مقابلہ کے لئے کوئی اور فوج اس کے سامنے نہیں تھی اور سارا فرانس اس کے سامنے کھلا پڑا تھا۔ غرض اس جنگ میں ایسے اتفاقات جمع ہو گئے کہ جن کے نتیجہ میں جرمنی کا رعب آپ ہی آپ قائم ہوتا چلا گیا اور لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ جہاں بھی ہاتھ مارتا ہے جیت جاتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہے کہ عام طورپرجنگی فنون سے ناواقفیت کی وجہ سے خیال کیا جاتا ہے کہ جرمنوں کی خبریں زیادہ صحیح ہوتی ہیں اورانگریزوں اورفرانسیسیوں کی خبریں غلط ہوتی ہیں۔ حالانکہ میرا تجربہ اس کے بالکل الٹ ہے میں جرمنی کی خبریں بھی سنتا ہوں اور انگریزوں اور فرانسیسیوں کی خبریں بھی سنتا ہوں۔ مگر مجھ پر یہی اثر ہے کہ ان کی خبریں زیادہ صحیح ہوتی ہیں اور جرمن کی خبروں میں نسبتاً زیادہ جھوٹ ہوتا ہے اور میں تو سمجھتا ہوں اگر کوئی عقلمند انسان صرف ان خبروں کو لے لے جو جرمنی سے ریڈیو کے ذریعہ ہندوستان کے متعلق نشر کی جاتی ہیں تو وہ ان کو سن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان کی خبروں میں کس حدتک صداقت پائی جاتی ہے۔
چند مہینے کی بات ہے کہ جرمنی سے ریڈیو کے ذریعہ یہ خبر سنائی گئی کہ پنجاب میں سخت بغاوت پھوٹ پڑی ہے جگہ جگہ ڈاکے پڑ رہے ہیں اور انگریزوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ حالانکہ ان دنوں چند وزیریوں نے سرحد افغانستان پر کوئی ڈاکہ ڈالا تھا جوایک معمولی بات تھی مگر اسے پنجاب اور تمام صوبۂ سرحد پرپھیلا کر اس رنگ میں بیان کیا گیا کہ گویا پنجاب اور سرحد میں طوائف الملوکی کی حالت ہو گئی ہے۔ تو لوگ عام طور پر جرمنی کی خبروں کو زیادہ وقعت دے دیتے ہیں اورانگریزوں اور فرانسیسیوں کی خبروں کو اپنی نادانی سے غلط سمجھتے ہیں اورپھر ان خبروں کو بھی ایسے مبالغہ آمیز رنگ میں بیان کرتے ہیں کہ بات کچھ کی کچھ بن جاتی ہے اور یہ ہمارے ملک میں عام دستور ہے کہ لوگ بات کو بڑھا کر کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں۔ مثلاً فرض کرو ایک شخص نے کسی بات پر غصہ میں آ کر دوسرے کو چپیڑ مار دی اب کوئی دوسر اشخص جو اس کے رشتہ دار کو خبر دینے جائے گا تو وہ یہ خبر نہیں دے گا کہ فلاں نے اسے چپیڑ ماری بلکہ وہ جاتے ہی کہے گا کہ اس نے مار مار کے اس کا بھرکس نکال دیا ہے اور اگر اتفاق سے وہ کوئی دور کا رشتہ دار ہؤا اور بھائی یا کسی اور قریبی رشتہ دار کو یہ خبر اس نے پہنچائی ہے تو وہ وہاں جا کر یہ نہیں کہے گا کہ فلاں نے اسے مار مارکراس کا بھرکس نکال دیا ہے بلکہ وہ کہے گا کہ وہ تمہارا رشتہ دار کوئی دم کا مہمان ہے اور اگرابھی ماں یاباپ رہتے ہوں اور انہیں یہ خبر نہ پہنچی ہو تو یہ نیا خبررساں انہیں جاکریہ نہیں کہے گا کہ وہ مضروب کوئی دم کا مہمان ہے بلکہ یہ روتا ہؤا جائے گا اور کہے گا کہ تمہارے لڑکے کو فلاں شخص نے مار دیا ہے۔ غرض یہاں معمولی خبر بڑھتے بڑھتے کچھ کی کچھ بن جاتی ہے۔ ذرا خبر بنی اور مبالغہ آمیزی کے ساتھ اسے کچھ کا کچھ بنا دیا۔ یہاں تک کہ پتہ ہی نہیں چلتا اصل بات کیا ہوئی۔
میں نے تم کو کئی دفعہ اپنے سامنے کا ایک واقعہ سنایا ہے۔ ایک دفعہ جماعت سے یہاں کے ہندوؤں کابعض باتوں میں اختلاف ہوگیا اور بعض ہندوؤں نے فساد کی نیت سے اپنی چھابڑیاں اٹھا کر پھینک دیں اوریہ مشتہر کر دیا کہ احمدیوں نے انہیں لوٹ لیا ہے۔ اس پر افسرآئے اور انہوں نے تحقیقات کی جس پر یہ بات غلط ثابت ہوئی مگر ابھی یہ بدمزگی جاری تھی کہ ایک دن جبکہ میں اپنے کوٹھے پر بیٹھاہواتھا مجھے گلی میں سے شور کی آواز آئی جیسے زور سے لوگوں کے دوڑنے کی آواز آتی ہے۔ میں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا ہؤا گلی کی طرف جھانکا تو میں نے دیکھا کہ دو تین نوجوان بھاگے جا رہے ہیں اور سب سے آگے مولوی رحمت علی صاحب ہیں جو اَب مبلغ سماٹرا اورجاوا ہیں اورآجکل قادیان آئے ہوئے ہیں۔ ان دنوں یہ طالب علم تھے ۔ میں نے زور سے کہا کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگے خبر آئی ہے کہ نیر صاحب کو ہندوؤں نے بازار میں قتل کر دیا ہے اور بعض اوراحمدی زخمی تڑپ رہے ہیں۔ نیر صاحب ان دنوں غالباً بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ تھے یا سکول میں مدرّس۔ میں بھی آخر قادیان کا ہی رہنے والا تھا اور میں یہاں کے ہندوؤں کو جانتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ چاہے انہیں ہمارے خلاف کتنا ہی جوش کیوں نہ ہو اب تک وہ اس حد تک نہیں پہنچے کہ ہم میں سے کسی کو قتل کر دیں۔ چنانچہ میں نے انہیں کہا ٹھہرو یہ بات غلط معلوم ہوتی ہے۔ وہ کہنے لگے نہیں ابھی خبر آئی ہے کہ نیر صاحب مارے گئے ہیں اور کئی احمدی زخمی تڑپ رہے ہیں۔ میں نے کہا میں اس کی تحقیقات کراؤں گا۔ تم اس طرف مت جاؤ۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا قاضی عبداللہ صاحب وہاں سے گزررہے ہیں ۔ میں نے کہا قاضی صاحب آپ ذرا بازار میں تشریف لے جائیں اور مجھے رپورٹ کریں کہ وہاں کوئی فساد ہؤا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اس طرح انہیں اطمینان دلا کر میں کمرہ میں ٹہلنے لگ گیا کہ اتنے میں پھر مجھے زورسے قدموں کی آواز آئی اورمیں نے دیکھا کہ مولوی رحمت علی صاحب اوردوسرے نوجوان پھر بے تحاشا بازار کی طرف دوڑ پڑے ہیں۔ میں نے کہا مولوی رحمت علی ٹھہرو۔ مگر انہوں نے میری آواز کو نہ سنا ۔ میں نے انہیں پھرآواز دی اور کہا ٹھہرو مگر وہ پھر بھی نہ رکے یہاں تک کہ وہ اس موڑ تک پہنچ گئے جو مسجد اقصیٰ کی طرف لوٹتا ہے۔ میں نے اس وقت سمجھا کہ اب اگر ذرا بھی اوردیر ہوئی اور یہ موڑ سے دوسری طرف ہو گئے تو میری نگاہ سے اوجھل ہو جائیں گے اورپھرمیرا ان پرکوئی اختیار نہیں رہے گا اور انہوں نے جاکر یہ تحقیقات تو نہیں کرنی کہ کوئی فسادہوا ہے یا نہیں بلکہ جوش کی حالت میں جو ہندو یا سکھ ان کے سامنے آیا اس کے سر میں انہوں نے سونٹا مار دینا ہے۔چنانچہ ایسی حالت میں مَیں نے اسی ہتھیار سے کام لیا جو ہمارا روحانی ہتھیارہے اور میں نے کہا مولوی رحمت علی اگر تم ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں تمہیں اپنی جماعت سے خارج کر دوں گا۔ ان کی اس وقت کی حالت آج تک میری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ سر سے لے کر پیر تک ان کا تمام جسم کانپ رہا تھا اور نہ معلوم طالب علم ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں اس وقت کیا کچھ خیالات اٹھے ہوں گے کہ یہ اچھا خلیفہ ہے احمدیوں کے مارے جانے پر ہمیں توجوش آ رہا ہے اور اسے کچھ احساس ہی نہیں۔ مگر بہرحال وہ ٹھہر گئے اور انہوں نے لجاجت سے مجھے کہناشروع کردیا کہ حضور ابھی آدمی آیا ہے وہ کہتا ہے کہ نیر صاحب مارے گئے اور کئی احمدی زخمی تڑپ رہے ہیں۔میں نے کہا اس کے تم ذمہ دار نہیں میں ذمہ دار ہوں۔ اتنے میں قاضی عبداللہ صاحب بھی آ گئے اورانہوں نے بتایا نہ کوئی مارا گیا ، نہ کوئی زخمی ہؤا اور نہ کوئی تڑپ رہا ہے۔ سب لوگ آرام سے اپنے اپنے کا م میں مشغول ہیں۔ میں سمجھتاہوں اگرخداتعالیٰ مجھے اس دن وہاں نہ لے آتا تویقیناً دوچارہندوؤں یا سکھوں کاخون ہو جاتا کیونکہ جس طرح ایک صحابیؓ نے یہ کہا تھا کہ میں شراب کا مٹکا پہلے توڑوں گا اور یہ دریافت بعد میں کروںگا کہ ڈھنڈورہ دینے والے نے کیا کہا اسی طرح مولوی رحمت علی صاحب نے دو چار ہندوؤں یا سکھوں کو پہلے مارناتھا اورنیرصاحب کی لاش اورزخمی احمدیوں کو بعد میں تلاش کرنا تھا۔ جس شخص نے لوگوں میں یہ خبر پھیلائی مجھے اس کا بھی علم ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے وہ ہمارا رشتہ دار تھا اور بعد میں احمدی بھی ہو گیا۔ میں نے اسے خود دیکھا کہ وہ سر نکال نکال کر احمدیوں سے کہہ رہا تھا کہ تم یہاں کھڑے ہو اور وہاں کئی احمدی مارے گئے ہیں۔ گویا غیراحمدی ہو کر اسے احمدیوں کے متعلق زیادہ جوش تھا۔
تو دنیا میں اس قسم کی کئی خبریں نکلتی رہتی ہیں جو بالکل بے پَرکی ہوتی ہیں۔ میرا اپنا قادیان کا تجربہ تمہارے سامنے ہے کہ پہلے یہ خبر آئی کہ نیر صاحب مارے گئے ہیں۔ پھر یہ خبر آئی کہ بہت سے اور احمدی بھی زخمی ہو چکے ہیں اور وہ زخموں کی شدت سے تڑپ رہے ہیں۔ مگر واقعہ یہ تھا کہ نہ کوئی مارا گیا اور نہ کوئی زخمی ہؤا۔
اسی طرح یہاں ایک دفعہ ایک میلہ ہؤا ایک شخص جو نام کے لحاظ سے تواحمدی تھا مگر دراصل وہ منافق تھا۔ مغرب کی نماز کے وقت میرے پاس آیا اور کہنے لگا الگ ہو کر مجھ سے ایک بات سن لیجئے۔ میں نے کہا کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگا ابھی ایک معتبر آدمی کے ذریعہ یہ خبر پہنچی ہے کہ بہشتی مقبرہ سے پرے پانچ سَو آدمی بندوقیں اور لاٹھیاں لئے کھڑے ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ قادیان پر حملہ کر دیں۔ وہ جیسا احمدی تھا اسے میں اچھی طرح جانتا تھا۔ اس لئے میں نے کہا ٹھہرو میں تحقیقات کراتا ہوں۔ چنانچہ میں نے ایک آدمی کو بلایا اور کہا کہ فلاں جگہ جاؤ اور دیکھو کہ وہاں کوئی اجتماع ہے؟ وہ گیا اور آ کر کہنے لگا کہ پانچ سَو چھوڑ وہاں پانچ آدمی بھی نہیں ہیں۔ حالانکہ خبر سنانے والے نے کہا تھا کہ ایک معتبر آدمی نے اسے یہ بات بتائی ہے مگر میں ذاتی طور پر جانتا تھا کہ مجھ تک بات پہنچانے والا منافق ہے اور اس کامنشاء یہ ہے کہ جماعت فوری اشتعال کے نتیجہ میں کسی پر حملہ کر دے اور اس طرح فساد ہو جائے اس لئے اس کے دھوکے میں نہ آیا۔
تو اس قسم کی خبریں ہمیشہ نکلا کرتی ہیں اور لوگوں میں پھیل بھی جاتی ہیں جس سے نادان متأثر ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے قرآن کریم میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تم کوئی بری خبر سنو تو اسے فوری طور پر لوگوں میں پھیلانا شروع نہ کر دو بلکہ اولی الامر تک پہنچاؤ جو استنباط کرنے اور بات کو سمجھنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ عوام الناس تک بات پہنچانے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ان کو برانگیختہ کر دیا جائے اور لوگوں میں فساد ڈلوایا جائے۔
جنگ کے متعلق بھی میں دیکھتا ہوں کہ عام طور پر خبریں آتی اور لوگوں میں پھیلتی رہتی ہیں اور طبعی طور پر بوجہ اس کے کہ انگریزوں سے ہندوستانیوں کو منافرت ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ انگریز بلاوجہ ان کے ملک پر حکومت کر رہے ہیں ان کے خلاف جو بات بھی ہو اُسے وحیٔ جبرائیل کی طرح ہر قسم کے جھوٹ، دھوکا اور فریب سے پاک سمجھتے ہیں بلکہ آجکل کے مسلمان تو قرآن کریم پر یہ اعتراض کر دیں گے کہ اس کی فلاں بات درست نہیں۔ مگر جرمن براڈکاسٹ میں اگر وہ کوئی خبر سن لیں تو اس کی صداقت میں انہیں کسی قسم کا شک نہیں رہتا۔ حالانکہ ان خبروں میں اول تو بہت کچھ جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے پھر ان خبروں کا ایک حصہ درست ہو کر بھی ایسا ہوتا ہے جسے ہندوستانی سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتے۔ ابھی چند دن ہوئے میرا ایک عزیز جو وقف کنندہ بھی ہے گھر پر آیا اور کہنے لگا کہ کَیلے بھی فتح ہو گیا۔ میں نے کہا کَیلے تو اب تک فتح نہیں ہؤا۔ کہنے لگا جرمن براڈکاسٹ میں خبر آ گئی ہے کہ کَیلے کو جرمنوں نے فتح کر لیا ہے۔ میں نے کہا جرمن براڈ کاسٹ میں بے شک یہ خبر آ چکی ہے مگر ابھی تک برطانیہ اور فرانس نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ وہ کہنے لگا ان کا کیا ہے یہ تو اپنی شکست کا کبھی اعتراف ہی نہیں کرتے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ کَیلے آج تک بھی فتح نہیں ہؤا۔ یہ محض اس کی جہالت تھی جسے اس نے دوسرے کی طرف منسوب کر دیا۔
اصل بات یہ ہے کہ جنگی اطلاعات دینے میں یہ قاعدہ ہؤا کرتا ہے کہ حملہ آور قوم جب کسی شہر کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے تووہ اعلان کر دیتی ہے کہ اس نے وہ شہر فتح کر لیا مگر دوسری قوم جو لڑ رہی ہوتی ہے وہ اپنی شکست کا اعتراف نہیں کرتی کیونکہ وہ ابھی لڑ رہی ہوتی ہے اور سمجھتی ہے کہ آج اگر دشمن اس شہرکی حدود میں داخل ہو گیا ہے تو ممکن ہے کل ہم اسے مار کر باہر نکال دیں۔ پس جنگی اطلاعات کے قواعد کے رو سے دونوں باتیں صحیح ہوتی ہیں۔ حملہ آور قوم جب کہتی ہے کہ اس نے فلاں شہر فتح کر لیا تو وہ بھی درست کہتی ہے کیونکہ جب کوئی قوم مضافات پر قابض ہو جاتی ہے تو اس کا اس شہر پر ایک حدتک قبضہ ہو چکا ہوتا ہے۔ مگر وہ قوم جو مقابلہ کر رہی ہوتی ہے اس کے نقطۂ نگاہ سے ابھی وہ شہر اس کے اپنے قبضہ میں ہے کیونکہ کئی دفعہ مضافات لے کر بھی حملہ آور پسپا ہو جاتا ہے۔ تو کَیلے کو جرمنی اب تک پوری طرح فتح نہیں کر سکا۔
اسی طرح ڈنکرک(DUNKIRK) 2 کے مضافات پر پہلے جرمنی نے قبضہ کیا حتّٰی کہ برطانیہ و فرانس نے بھی اس کو تسلیم کر لیا مگر پھر انہیں آگے بڑھنے کا موقع مل گیا اور ان کی فوجیں ڈنکرک پر قابض ہو گئیں اور اب وہ اس بندگارہ کے ذریعہ سے اپنی افواج واپس لا رہے ہیں۔ تو قاعدہ یہ ہے کہ حملہ آور قوم جب مضافات لے لیتی ہے تو وہ شہر کی فتح کا اعلان کر دیتی ہے مگر جو فوج اس شہر کی گلیوں میں لڑ رہی ہوتی ہے وہ کہتی ہے کہ ابھی یہ شہر کہا ں فتح ہؤا ۔ ممکن ہے کل ہی کوئی چانس مل جائے اور ہم پھر ان کے قبضہ کو توڑ دیں۔ اس لئے گو حملہ آور قوم کسی شہر کی فتح کا اعلان کر دے جب تک دوسری قوم اس کے مقابلہ میں لڑرہی ہو اس وقت تک وہ اس کی فتح کو تسلیم نہیں کرتی مگر ہندوستانی ان باتوں کو تو جانتا نہیں اور وہ آپ ہی آپ جس سے منافرت ہو اس کے خلاف خبر کو لے دوڑتا اور اسے لوگوں میں پھیلانا شروع کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس قسم کی خبروں کے پھیلنے کی وجہ سے آج ملک میں بغاوت کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے ’’سِول‘‘ میں پڑھا ہے کہ سکھوں نے اعلان کیا ہے کہ بارہ ڈویژن کی قومی فوج بھرتی کی جائے۔ مطلب یہ کہ سکھ ڈیڑھ لاکھ کی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں سے خاکسار بھرتی ہو رہے ہیں اور وہ اپنی ایک الگ فوج بنا رہے ہیں۔ گویا ہمارے ملک کے لوگوں کی وہی مثال ہو رہی ہے کہ ؂
آب نہ دیدہ موزہ از پاکشیدہ
پانی کے آثار ابھی نظر نہیں آئے اور جرابیں ابھی سے اتارنی شروع کر دی گئی ہیں۔ آپ ہی آپ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ برطانیہ و فرانس کو جرمنوں کے مقابلہ میں شکست ہو گئی ہے۔ انہوں نے کَیلے کو بھی فتح کر لیا ، انہوں نے ڈنکرک کو بھی فتح کر لیا، انہوں نے فلنڈرز کو بھی جیت لیا، انہوں نے انگلستان کے دارالحکومت پر بھی قابو پا لیا، انہوں نے پیرس بھی لے لیا اور اب انگریز جرمنوں کے مقابلہ میں بھاگتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی فرض کر لیا گیا کہ ہندوستان میں ان کی کوئی طاقت نہیں رہی اور حکومت بالکل بے دست و پا ہو گئی ہے۔ اس لئے آؤ اب ہم لُوٹ مار شروع کر دیں۔ اس قسم کے خیالات کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلا کرتا۔ اور ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ ان حالات کو درست کرنے کی کوشش کرے اور ملک میں امن قائم رکھنے کی خاطر اس قسم کی باتوں سے احتراز کرے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ انگریز اِنْشَاءَ اللہ نہیں ہاریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے لیکن اگر ہم سے ان باتوں کے سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو بھی وہ وقت بہت دُور ہے بلکہ جنگ میں برطانیہ و فرانس کو اب پہلے سے بہت زیادہ مضبوط پوزیشن حاصل ہو چکی ہے۔ اس مہینہ کی چودہ تاریخ کو کس طرح سمجھا جاتا تھا کہ شاید ایک یا دودن میں انگریز اور فرانسیسی ہتھیار ڈال دیں گے اورکس طرح عام طور پر یہ احساس تھا کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کے لئے اب ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ خود فرانسیسی وزیراعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کو اب معجزہ کے سوا کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خود فرانسیسیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ فرانس اب کہاں بچ سکتا ہے۔ صفیں ٹوٹ گئیں ہیں اور فوجیں پسپا ہو رہی ہیں مگر جہاں برطانیہ وفرانس کی صفیں ٹوٹیں وہاں جرمن فوجیں جو اپنے مورچوں سے سینکڑوں میل آگے نکل چکی تھیں ان کو سامانِ رسد پہنچنا بھی کوئی آسان نہ تھا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اِدھر برطانیہ وفرانس کی فوجیں پسپا ہوئیں اور ادھر جرمنوں نے اپنے اندر کمزوری محسوس کی اور انہوں نے سمجھا کہ سامان کی کمی کی وجہ سے اگر ہم اس وقت آگے بڑھے تو مارے جائیں گے۔ چنانچہ اِدھرجرمن فوجیں ٹھہریں اور اُدھر برطانیہ وفرانس نے اس التواء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً نئے مورچے بنانے شروع کر دئیے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ چودہ پندرہ تاریخ کو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی جو حالت تھی اس سے آج ۳۱ تاریخ کو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی حالت بہت زیادہ بہتر ہے۔ اس دن خود انگریزوں اور فرانسیسیوں میں بے چینی پیدا ہو چکی تھی مگر آج وہ اطمینان کاسانس لے رہے ہیں اور اب پھر انہوں نے فتح کے نعرے لگانے شروع کر دئیے ہیں اور گو یہ پسندیدہ بات نہیں مگر قومی رواج کے ماتحت وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ انگریزی وزیرِاشاعت نے تو ایک تقریر کرتے ہوئے کھلے طور پر کہہ دیا ہے کہ ہٹلر کے لئے پہلے صلح کی مجلس میں ہم نے ایک کرسی رکھی ہوئی تھی مگر اب اسے معلوم ہوناچاہیئے کہ وہ کرسی اٹھا دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم میں سامانوں کے جمع ہو جانے اور بیداری و ہوشیاری کی وجہ سے اس بات کا احساس پیداہو چکا ہے کہ اب وہ شکست نہیں کھا سکتے۔ اس کے مقابلہ میں جرمنی کوبھی اس بات کا احساس ہوتا چلا جارہا ہے کہ جتنی جلدی فتح کی امیدیں اس نے ابتداء میں لگائی تھیں وہ درست نہیں تھیں۔ چنانچہ آج سے پندرہ بیس دن پہلے جرمن براڈکاسٹ میں مَیں نے یہ خبر سنی کہ فرانسیسی فوج ہماری فوج کے مقابلہ میں بھاگ رہی ہے اور اب جلد ہی اس لڑائی کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ ایک جرمن وزیر نے تو کچھ عرصہ پہلے تقریر کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ شمالی فرانس کی پہاڑیوں پر جو لوگ اس دفعہ گرمیاں گزارنے کی خواہش رکھتے ہوں یا ان پہاڑوں کی سیر کا انہیں شوق ہو انہیں چاہیئے کہ اپنے نام لکھا دیں مگر اب جرمنی کے براڈکاسٹنگ میں یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہماری قوم کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔ یہ ایک بڑی بھاری لڑائی ہے جو لڑی جا رہی ہے۔ ہمیں بے شک کامیابی کی امید رکھنی چاہیئے لیکن بہت جلد کامیابی حاصل کر لینے کا خیال درست نہیں۔ حالانکہ آپ ہی تقریر کی تھی جو مَیں نے خود سنی کہ جو لوگ فرانسیسی الپس پرگرمیاں گزارناچاہیں یاسیر کا شوق رکھتے ہوں وہ اپنے نام لکھا دیں۔ غرض اب جرمن بھی یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ یہ لڑائی اتنی جلدی ختم ہونے والی نہیں جتنی جلد ختم ہونے کی انہوں نے امید کی ہوئی تھی۔ بہرحال تمام گھبراہٹ اضطراب اورتشویش کا موجب ملک کے وہ نادان لوگ ہیں جن کو حالات کا صحیح علم نہیں ہوتا اور جو جنگی فنون سے ناواقفیت کی وجہ سے خبروں کو کچھ کا کچھ بنا کرلوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
مجھے خوب یاد ہے کہ میں بچپن میں بھی ایسے بیوقوفوں کے قابو کبھی نہیں آیا اور میں نے ہمیشہ ان کے خیالات کو ردّ کیا ہے۔ چنانچہ ہندوستانی سپاہیوں سے میں نے بارہا سنا وہ جب سرحد وغیرہ پر لڑنے کے لئے جاتے تو واپس آ کر کہا کرتے کہ انگریز سپاہی تو وہاں صابن پی پی کر بیمار ہو جاتے ہیں مگر ہم دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور مجھے آج تک اپنا یہ جواب بھی خوب یاد ہے کہ اگر انگریز سپاہی ایسے بزدل اور کمزور ہیں تویہ ہندوستان میں کس طرح آگئے اوراُس وقت تم نے ان کا کیوں مقابلہ نہ کیا؟ غرض یہ بہت ہی بُرا طریق ہے کہ بغیر سوچے سمجھے انگریزوں پراعتراض کیا جائے اور ان کی کمزوری کی غلط خبریں لوگوں میں پھیلائی جائیں۔ انگریزی فوج جس دلیری سے اس جنگ میں لڑ رہی ہے اس کا اعتراف تو خود جرمنی کو بھی ہے۔ چنانچہ جرمن براڈکاسٹنگ سے کہا گیا ہے کہ انگریزی فوج کے متعلق جو امید کی جاتی تھی اس سے بہت زیادہ شاندار طور پروہ لڑ رہی ہے۔یہ ایک ایسے دشمن کااعتراف ہے جوخود بھی بہادر ہے اور جس کے اندر اگر جرأت نہیں تو تہوّر ضرور ہے۔
پس یہ نہایت ہی غلط طریق ہے کہ قیاسات سے کام لے کر ملک میں بدامنی پیدا کی جائے اور سِول وار کے سامان پیدا کئے جائیں۔ یہ انگریزوں سے نہیں ہندوستان سے دشمنی ہو گی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں ان حالات کی اصلاح کی کوشش کی جائے وہاں ان خرابیوں کوبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے جو اس قسم کی غلط خبروں کی اشاعت سے پیدا ہو گئی ہیں۔ اگر بعض لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ انگریزی طاقت کمزور ہو چکی ہے اور اگر ملک میں اندر ہی اندر ملکی امن برباد کرنے کے لئے سازشیں ہو رہی ہیں تو وہ قوم سخت بے وقوف ہو گی جو اس کے مقابلہ کے لئے تیار نہ ہو۔ ان کو ذہنی طور اس بات کے لئے تیار رہنا چاہیئے کہ اگر کسی وقت کوئی ایسا خطرہ رونما ہو تو وہ اس کا پورے زور سے مقابلہ کریں گے۔ پچھلی جنگ میں بھی ایسا ہؤا تھا ۔ چنانچہ جھنگ کے ایک آدمی نے جب دیکھا کہ فرانس لڑائی میں مُردہ ہورہا ہے اور انگریز جرمن کے مقابلہ میں پسپا ہو رہے ہیں تو اس نے اعلان کردیا کہ میں اپنے علاقہ کا بادشاہ ہوں اور ضلع میں فساد پیدا کر دیا۔ اس جنگ میں بھی اس قسم کے واقعات پیداہو سکتے ہیں اور ایسے موقع پر ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایسے فسادیوں کا مقابلہ کرے۔ ہماری جماعت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ مومن بزدل نہیں ہوتا۔ مومن کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ مومن دو کا مقابلہ کرتا ہے اور اگر کوئی زیادہ پختہ مومن ہو تو وہ اکیلا دس کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اسلامی تاریخ تو بتاتی ہے کہ ایک مسلمان بعض بعض دفعہ دودو سو کے مقابلہ میں بھی کھڑا ہؤا ہے۔ انگریزی حکومت بھی کہتی ہے کہ وہ ہرخطرہ کے موقع پر ہندوستان کی مدد کرے گی اور ہم حکومت کے وعدوں پریقین رکھتے ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ احمدیت کامرکز ہندوستان میں ہے اورہماری زیادہ تر جماعت یہیں پائی جاتی ہے میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ اس ملک کوطوائف الملوکی میں مبتلا نہیں کرے گا۔ تاہم حالات کو چونکہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اس لئے اگر کسی وقت ہندوستان میں کوئی فساد ہو جائے تو ہماری جماعت کے دوستوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جو لوگ ان پر حملہ آور ہوں ان کے مقابلہ کے لئے وہ ان سے نصف آدمی کھڑے کریں اس سے زیادہ نہیں۔ ممکن ہے جیسے پچھلی جنگ کے موقع پر جھنگ کے ایک شخص نے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا اسی طرح اورضلعوں میں بھی ایسے بادشاہ کھڑے ہو جائیں ۔ ایسی صورت میں جن لوگوں پر حملہ کیا جائے اگر وہ احمدی ہوں تو میں انہیں نصیحت کروں گا کہ وہ کبھی بھی سَو کے مقابلہ میں اپنے میں سے ساٹھ آدمی نہ بھیجیں بلکہ سَو کے مقابلہ میں پچاس آدمی جائیں اور اگر سَو کے مقابلہ میں دس آدمی کھڑے ہوں تو یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ جاہل اورمنافق اورایمان سے ناواقف انسان کہے گا کہ میں جماعت کو کیسی بے عقلی کی تعلیم دے رہا ہوں مگر قرآن کریم کی تعلیم یہی ہے اورحقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر علم النفس کے ماتحت اس قدر حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ اگر کوئی قوم اس کے مطابق عمل کرے تو اس کی کایا پلٹ جائے اور وہ اتنی طاقت حاصل کر لے کہ جس کا مقابلہ کرنا لوگوں کے لئے بہت مشکل ہو۔ فوجی نقطۂ نگاہ سے بھی یہ بدترین پالیسی ہوتی ہے کہ تمام لوگ لڑنے لگ جائیں اور اس سے زیادہ حماقت کی اور کوئی بات نہیں ہوتی کہ توقع یہ رکھی جائے کہ کوئی آدمی بھی ایسا نہ رہے جو میدانِ جنگ سے باہر ہو۔ جیسے ہمارے ملک کے احمق نوجوان جب آپس میں بیٹھ کرباتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ادھر فرانسیسیوں نے جرمن حملہ کوروکا ہؤا ہے ادھرجنرل دیگان چُپ کر کے بیٹھا ہؤا ہے ۔ وہ کیوں جرمنوں پرجوابی حملہ نہیں کردیتا؟ حالانکہ یہ کمال حماقت کی بات ہے اور محض جنگی فنون کی ناواقفیت کی وجہ سے اس قسم کے اعتراضات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وقفہ کو خداتعالیٰ کی نعمت سمجھ رہے ہیں کیونکہ صاف بات ہے جب فرانسیسی اور انگریزی فوجیں اپنے مورچوں سے ہٹ گئیں اورجرمن فوجوں کے مقابلہ میں انہوں نے پسپا ہونا شروع کر دیا تو پسپا شدہ فوج کبھی ایک جگہ ٹک نہیں سکتی۔ اس کے لئے خداتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یہی ہوتی ہے کہ چند دن کی اسے مہلت مل جائے تاکہ وہ اپنے مورچوں کو اس دوران میں مضبوط کر لے۔ چنانچہ جرمنی نے جب شمالی فرانس پرحملہ کردیا اورچاہا کہ وہ انگلش چینل تک پہنچ جائے تو اتحادیوں نے اپنی فوج کاایک حصہ اس کے مقابلہ کے لئے رہنے دیا اور باقی فوج کواپنے مورچے مضبوط کرنے کے لئے پیچھے ہٹا لیا اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو فتح ہوتی ہے اور کس کو شکست مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ معقول بات ہے کہ بجائے اس کے کہ ساری فوج شمالی حصہ کی جنگ میں شامل ہوتی انہوں نے شمالی فوج کو جنگ کازور برداشت کرنے کے لئے چھوڑ دیا اور جنوبی فوجوںکو نئے مورچوں کی مضبوطی کے کام پرلگا دیا تاکہ جب شمال سے فارغ ہو کر دشمن جنوب پر حملہ کرے تو وہ اپنے سامنے ایک سدّ سکندری کھڑی پائے مگر نادانی کی وجہ سے ہمارے نوجوان بعض دفعہ اس بات پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں۔گویا وہ جرنیلوں سے بھی زیادہ سمجھدار واقع ہوئے ہیں۔حالانکہ اگر انہیں فوج میں لگایا جائے تو وہ سپاہی کا کام بھی نہ کر سکیں ۔ غرض جنوبی فوجوں کو بالمقابل حملہ سے باز رکھنے کی حکمت جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہی ہے کہ اتحادی اپنے مورچوں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اور اگر وہ تمام فوج کو اس لڑائی میں دھکیل دیتے تو انہیں جنوب میں نئے مورچے بنانے اور مضبوط کرنے کی فرصت نہیں مل سکتی تھی اور چونکہ جرمن پہلے حملہ میں کامیاب ہو چکا تھااتحادیوں کی فوج کو کسی جگہ ٹِک کر لڑنے کا موقع نہیں مل سکتا تھا۔ پس انہوں نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے فوج کے ایک بڑے حصہ کو تو جنوب میں جمع کرنے اور مضبوط مورچوں میں بٹھانے کو جھوٹی بڑائی پر مقدم سمجھا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ گو بظاہرفرانسیسی کمان پر یہ اعتراض ہے کہ اس نے شمالی فوج کو اس کے حال پر چھوڑ کر جرمن فوج کے لئے زیادہ خطرہ پیدا کر دیا کیونکہ بوجہ بالکل گِھر جانے کے اس فوج نے جرمن فوج کا نہایت سختی سے مقابلہ کیا اور ان کا بہت نقصان کردیا۔ ایسا حملہ وہی سپاہی کر سکتے ہیں جو موت کواپنے سامنے کھڑا دیکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ فرانسیسی کمان نے جنوبی فوج کے لئے سانس لینے کا وقت نکال لیا اور انہیں مورچے مضبوط کرنے کا موقع دے دیا۔ شمالی فوج کو جس بے بسی میں چھوڑا گیا اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اس فوج کا ہر سپاہی جرمن حملوں کا مقابلہ کر رہا ہے کیونکہ ایک جرمن کے سامنے صرف فتح کا خیال ہے مگر ایک اتحادی کے سامنے صرف فتح کا ہی سوال نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی سوال ہے ، بلکہ اس کی عزت ، اس کی قوم اور اس کے ملک کے خطرات بھی اس کے سامنے ہیں مگر اس کے علاوہ ہر سپاہی سمجھتا ہے کہ اگر ایک دفعہ بھی اس کی آنکھ جھپک گئی تووہ زندہ نہیں رہے گا۔ اس وجہ سے ایک ایک اتحادی چار چار پانچ پانچ جرمن سپاہیوں کا مقابلہ کر رہا ہے اور جنوبی فوجوں پرجرمن حملے کا جو زور تھا وہ رک گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فرانسیسی اور انگریز نئے مورچے بنا رہے ہیں اور انہیں مضبوط سے مضبوط تر بناتے جا رہے ہیں۔
غرض ان باتوں میں دخل دینا جن سے انسان کلیۃً ناواقف ہو سخت احمقانہ فعل ہؤا کرتا ہے۔ یوں تو جنگی فنون کے لحاظ سے میں بھی ویسا ہی ناواقف ہوں جیسے تم مگر خدا تعالیٰ نے مجھے ان علوم کو سمجھنے کا ملکہ دیا ہے اور گو میں سپاہی نہیں مگر سپاہیوں کے فوجی علم کے مطالعہ کا ہمیشہ شوق رکھتا ہوں اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ ہمارا فوجی خاندان ہے مجھے ان باتوں سے دلچسپی ہے کیونکہ فوجی خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ روح میرے اندر پائی جاتی ہے جو فوجیوں کے اندر ہؤا کرتی ہے۔
پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ بُری خبروں کو لے کر دوڑنا، انہیں لوگوں میں پھیلانا اور اُن پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا بہت بڑے گناہ کی بات ہے اور انہی باتوں کے نتیجہ میں ملک کا امن برباد ہؤا کرتا ہے۔ اگر کسی وقت ملک میں فساد ہو گیا اور لوگوں نے جتھے بنابنا کر ایک دوسرے پر حملہ کرنا اور دوسروں کو لوٹنا شروع کر دیا تو اس کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے لوگوں میں اس قسم کی بری خبریں پھیلائیں۔ اور اگر کسی جگہ ایک احمدی بھی ان فسادات کے نتیجہ میں مارا گیا تو اس کا تمام گناہ ان گندی فطرت کے احمدیوں پر عائد ہو گا جو اس قسم کی خبروں پر خوشی مناتے اور لوگوں کو ہنس ہنس کر سناتے ہیں۔ وہ خداتعالیٰ کے حضور سخت گنہگار اور مجرم ہوں گے اور وہ غیر احمدیوں سے زیادہ قصور وار ہوں گے کیونکہ ان خبیث الفطرت لوگوں کو سمجھایا بھی گیا مگر وہ پھر بھی نہ سمجھے۔ ان کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور دعاؤں میں لگے رہیں۔ ایسے اوقات میں ہنسی اور مذاق اور مخول اور عدم سنجیدگی سے کام لینا سخت کمینگی کی بات ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا کی عزت کا سوال ہے۔ اس وقت دنیا کے امن چین راحت اور زندگی کا سوال ہے۔ پس کیسا ہی بے شرم اور بے حیا وہ شخص ہے جو گھر میں بیٹھ کر خبریں سنتا اور کبھی اس پر تمسخر اڑا دیتا ہے اور کبھی اس پر اور یہ نہیں دیکھتا کہ اس وقت پندرہ بیس لاکھ آدمی چاہے وہ جرمنی کے ہوں کہ آخر وہ بھی انسان ہیں، چاہے وہ برطانیہ کے ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں، چاہے وہ فرانس کے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں، چاہے وہ پولش ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں اور چاہے وہ کسی اورقوم سے تعلق رکھتے ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں۔ بہرحال پندرہ بیس لاکھ انسان رات اور دن بغیر دم لئے لڑ رہے اور ٹینکوں اور موٹرگاڑیوں کے نیچے کٹتے چلے جا رہے ہیں۔ تمہاری مائیں اور بہنیں اگر تم دس میل کے سفر پر بھی جاتے ہو تو آنسوؤں سے تمہیں رخصت کرتی ہیں مگر تمہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ لاکھوں گھر اس وقت ایسے ہیں جن میں مائیں اور بہنیں اور بیٹیاں اور بیویاں اس انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں کہ کب تار آتا ہے جس میں یہ لکھا ہو گا کہ آج تمہارا بیٹا مارا گیا، آج تمہارا خاوند مارا گیا، آج تمہارا باپ یا تمہارا بھائی مارا گیا۔ کیا یہ واقعات ہنسی مذاق کی اجازت دے سکتے ہیں؟ اور کیا یہ خبریں ہنسی اور مذاق سے سننے کے قابل ہیں؟ یا کیا ان خبروں کو سننے کے بعد تمہارے لئے جائز ہو سکتا ہے کہ تم گپیں ہانکنے لگ جاؤ اور کہو کہ فلاں نے یہ کیا اور فلاں نے وہ جس شخص کے دل میں ایک ذرّہ بھر بھی ایمان ہو، جس شخص کے دل میں ایک ذرّہ بھر بھی شرافت ہو، جس شخص کے دل میں ایک ذرّہ بھر بھی انسانیت کا جذبہ ہو وہ کبھی ان باتوں کو ہنسی مذاق میں نہیں اڑ اسکتا۔ ہاں اگر کوئی کمینہ فطرت اور خبیث الطبع انسان ہو تو اس کا ایسے موقع پر بھی دل نہیں کانپتا۔ آخر جیسے تمہاری ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں کے دل ہیں ویسے ہی اُن کی ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں کے دل ہیں اور ایک ایک قدم پر ان کے بیٹے ، اُن کے بھائی اور ان کے باپ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں حتّٰی کہ ایک سیکنڈ بھی ایسا نہیں گزرتا جس سیکنڈ میں پندرہ بیس آدمی وہاں نہیں مرتے۔ جتنی دیر مجھے اس وقت خطبہ پڑھتے ہوئی ہے اتنی دیر میں وہاں ہر ایک سپاہی پچاس ساٹھ آدمیوں کو اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھ لیتا ہے کچھ اپنی فوج میں سے اور کچھ دشمنوں کی فوج میں سے اور پھر موت بھی کیسی کہ جس پر کوئی آنسو بہانے والا نہیں۔ بھائی کے سامنے بھائی مرتا ہے مگر اسے اتنی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اس کی لاش کو اٹھائے بلکہ ادھر مرنے والے مرتے ہیں اور ادھر فوج کو حکم ملتا ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹو ۔ پھر اَور آدمی مرتے ہیں تو پھر حکم ملتا ہے کہ ایک قدم اور پیچھے ہٹو۔ اسی طرح وہ لاشوں کے انبار کو چھوڑتے ہوئے پیچھے کو ہٹتے چلے جاتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے دشمن کے ٹینک آتے ہیں اور وہ ان مُردوں کی ہڈیوں کو مسل دیتے ہیں، ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے عزیزوں کا بھیجا نکل رہا ہوتا ہے ،پیٹ پھٹ رہا ہوتا ہے، ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں اور وہ بے گور و کفن وہاں پڑے ہوتے ہیں۔ مگر ان میں کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ ایک آنسو بھی بہائے یا ایک قدم بھی رک جائے۔ کیا یہ باتیں اس قسم کی ہیں کہ انسان ان کا ذکر سن کر ہنسی مذاق میں مشغول ہو جائے یا اس قسم کی ہیں کہ انسان کا دل ان کا ذکر سن کر خداتعالیٰ کی خشیت اور اس کے خوف سے بھر جائے؟ اگر ایسے موقع پر بھی کسی انسان کے دل میں خداتعالیٰ کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور اگر ایسے موقع پر بھی کوئی شخص ہنسی مذاق سے باز نہیں آتا تو وہ ہرگز انسان کہلانے کا مستحق نہیں بلکہ وہ مجسم شیطان ہے جو دنیا میں چل پھر رہا ہے۔
دوسری بات جس کی طرف مَیں تمہیں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہی مسجد ہے جس میں خداتعالیٰ نے تمہیں ایک بہت بڑا نشان دکھایا۔ آج سے پانچ دن پہلے اتوار کے روز اسی مسجد میں کھڑے ہو کر میں نے تمہیں اپنا یہ الہام سنایا تھا کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ایک بادشاہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزارا گیا اور پھر مجھے الہام ہؤا کہ ایبڈی کیٹڈ (Abdicated) اور میں نے بتایا تھا کہ اس کی تعبیر میرے ذہن میں یہ آتی ہے کہ کوئی بادشاہ اس جنگ میں معزول کیا جائے گا یا کسی معزول بادشاہ کے ذریعہ سے کوئی تغیر واقع ہو گا۔ چنانچہ اس الہام پر ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ خداتعالیٰ نے بیلجیئم کے بادشاہ لیوپولڈ کو ناگہانی طور پر معزول کروا دیا۔ انگلستان کا امیر البحر کہتا ہے کہ میں رات کو اس کے پاس بیٹھا ہؤا تھا مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ صبح ہوتے ہیں اس نے یہ فیصلہ کر دینا ہے۔ ایبڈی کیٹڈ کے لغت میں یہ معنے لکھے ہیں کہ کوئی ایسا شخص جو اپنے اختیارات کو چھوڑ دے۔ By Announcement (کسی اعلان کے ذریعہ سے) or default (یا عملاً اپنے فرائض منصبی کو ادا نہ کر سکنے کے ذریعہ سے( گویا یا تو وہ خود کہہ دے کہ میں بادشاہ نہیں رہا یا ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ وہ بادشاہت کے فرائض ادا نہ کر سکے۔ بعینہٖ یہی الفاظ بیلجیئم گورنمنٹ نے استعمال کئے ہیں اور اس نے کہا ہے کہ ہمارا بادشاہ جرمن قوم کے ہاتھ میں ہے اور وہ اب اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا۔ پس اب بیلجیئم کی قانونی گورنمنٹ ہم ہیں نہ کہ لیوپولڈ۔ پس بیلجیئم کے لوگوں کو جہاں کہیں ہوں لیوپولڈ کی بات نہیں ماننی چاہیئے بلکہ ہماری بات ماننی چاہیئے۔ تم غور کرو یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے جو خداتعالیٰ نے تمہیں دکھایا۔ جمعہ اور ہفتہ کی درمیابی رات اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی اور منگل کی رات کو بغیر اس کے کہ کسی اور کو خبر ہو بیلجیئم کے بادشاہ نے اپنے آپ کو جرمنوں کے سپرد کر دیا۔ کیا کوئی انسان ہے جو اس قسم کا غیب معلوم کر سکتا ہے؟ وہ لوگ جو اُس کے پہلو بہ پہلو رہے وہ جرنیل جو اُس کے دائیں بائیں رہے اور وہ وزراء جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے وہ کہتے ہیں کہ آخری وقت تک ہمیں اس بات کا علم نہیں ہؤا کہ لیوپولڈ نے یہ فیصلہ کیا ہؤا ہے۔ ممکن ہے اگر بعد میں زیادہ تحقیقات کی جائے تو لیوپولڈ کے اس فیصلہ کی وہی تاریخ ثابت ہو جس تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس واقعہ کی اطلاع دی۔ گویا ہفتہ اور اتوار کی رات کو ادھر بیلجیئم کے بادشاہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو جرمن قوم کے حوالے کر دے اور ادھر جبکہ اس فیصلہ سے اس کے وزراء تک ناواقف تھے اللہ تعالیٰ نے ہزاروں میل کے فاصلہ پر کراچی میل میں آتے آتے مجھ پر اس راز کا انکشاف کر دیا اور بتا دیا کہ لو ہم تمہیں خبر دیتے ہیں کہ جنگ سے تعلق رکھنے والا ایک بادشاہ معزول کیا گیا ہے۔ کتنی زبردست طاقتوں کامالک ہمار اخدا ہے اور کس قدر وہ علیم اور خبیر ہے کہ جس بات سے قومیں ناواقف ہیں ، جس بات سے حکومت کے وزراء ناواقف ہیں، جس بات سے ایک بادشاہ کے پہلو بہ پہلو رہنے والے بے خبر ہیں اس کے متعلق خداتعالیٰ قبل از وقت مجھے اطلاع دے دیتا ہے اور تین دن کے اندر اندر وہ بات پوری ہو جاتی ہے۔
یہ خداتعالیٰ کے علم غیب کا ایک زبردست ثبوت ہے اور ہمیشہ ہی خداتعالیٰ ہمیں علمِ غیب کی خبریں دیتا رہتا ہے جو احمدیت کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہیں مگر پھر بھی بہت سے نادان احمدی دنیا کی طرف اپنی نگاہیں رکھتے ہیں اور پھر خداتعالیٰ کی طرف ان کی نگاہ کبھی نہیں اٹھتی۔ وہ نام کے لحاظ سے تو بے شک ہمار ے ساتھ شامل ہیں مگر حقیقتاً ہم میں شامل نہیں کیونکہ ان کا خدا پر ایمان نہیں۔
جب گزشتہ جنگ ہوئی اور بیلجیئم پر حملہ ہؤا تو مجھے یاد ہے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بعض غیب کی خبروں کا انکشاف کیا تھا۔ مثلاً میں نے دیکھا کہ ایک طرف انگریز اور فرانسیسی ہیں اور دوسری طرف جرمن۔ اور دونوں میں فٹ بال کا میچ ہو رہا ہے۔ جرمن فٹبال کو لاتے لاتے گول کے قریب پہنچ گئے مگر گول ہو نہیں سکا۔ اتنے میں پھر اتحادی ٹیم نے طاقت پکڑ لی اور انہوں نے فٹ بال کو دوسری طرف دھکیل دیا۔ جرمن یہ دیکھ کر واپس دوڑے اور انگریز بھی فٹ بال کو لے کر دوڑنے لگے مگر جب وہ گول کے قریب پہنچ گئے تو وہاں انہوں نے کچھ گول گول سی چیزیں بنا لیں جس کے اندر وہ بیٹھ گئے اور باہر یہ بیٹھ گئے۔ بعینہٖ اسی طرح جرمن لشکر نے جب حملہ کیا تو وہ پیرس تک پہنچ گیا مگر پھر اسے واپس لوٹنا پڑا اور جب سرحد پر واپس لوٹ آیا تو وہاں اس نے ٹرنچز (Trenches) بنا لیں اور اس کے اندر بیٹھ گئے اور اس طرح چار پانچ سال تک وہاں لڑائی ہوتی رہی۔
تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جب چاہتا ہے غیب کی خبریں دیتا ہے ۔ اس جنگ کے متعلق تو اتنی کثرت سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر امور غیبیہ کا اظہار کیا ہے کہ پچھلی جنگ میں اس کا عُشرِعشیر بھی نہیں تھا۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ واقعات ویسا ہی رنگ اختیار کر رہے ہیں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس الہام کو کسی اور رنگ میں بھی پورا کر دے کیونکہ بعض دفعہ الہام کئی کئی رنگوں میں پورا ہو جاتا ہے۔ مگر بہرحال اس وقت تک جو واقعات ظاہر ہوئے ہیں ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایبڈی کیٹڈ سے مراد بیلجیئم کے بادشاہ کا عملاً معزول کیا جانا تھا جو بعد میں ممکن ہے اعلان کے ذریعہ سے بھی معزول کر دیا جائے۔ ابتداء میں جب مجھے یہ الہام ہؤا تو میں حیران ہؤا کہ نہ معلوم اس سے کون سا بادشاہ مراد ہے۔ پہلے خیال آیا کہ کہیں اس سے ہمارے بادشاہ ہی مراد نہ ہوں۔ پھر خیال آیا کہ ممکن ہے سابق کنگ ایڈورڈ ہشتم مراد ہوں۔ ایک اور بادشاہ کی طرف بھی بعض دوستوں کا ذہن منتقل ہؤا مگر واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ الہام بیلجیئم کے بادشاہ کے متعلق تھا۔ چنانچہ اس نے جرمن فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس کی قوم نے یہ اعلان کر دیا کہ یہ اس کا ایک ذاتی فعل ہے جس کے ہم ذمہ دار نہیں وہ عملی طور پر اب بادشاہت سے الگ ہے اور اس کے حکم کو ماننا ہم پر واجب نہیں۔
تو مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف نگاہ رکھنی چاہیئے اور بجائے اس کے کہ انسان یہ معلوم کرنے کا شائق رہے کہ جرمن براڈکاسٹ کیا کہتا ہے۔ اسے خداتعالیٰ کا ریڈیو سننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ 1914ء میں اسی مسجد میں مَیں نے الہام کی تھیوری بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا الہام ہر وقت نازل ہوتا رہتا ہے اور انسانی دماغ میں ایسی کلیں موجود ہیں کہ جن سے اگر کام لیا جائے تو انسان اللہ تعالیٰ کی آواز کو سن سکتا ہے۔ اس وقت ریڈیو کا نام و نشان بھی نہ تھا اور میں نے سادہ زبان میں مفہوم بیان کر دیا تھا کہ انسان کے دماغ میں ایسی کل موجود ہے کہ جسے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف پھرایا جائے تو اللہ تعالیٰ کے الہام کو وہ سن سکتاہے۔ پس انسان کیوں نہ اپنے دماغ کو ایساصاف رکھے کہ وہ خداتعالیٰ کی خبروں کو سن سکے۔ انسانی خبروں میں تو جھوٹ سچ ملا ہؤا ہوتا ہے پھر بندے آج کچھ کہتے ہیں اور کل کچھ مگر خداتعالیٰ کے کلام کے ساتھ ایک طاقت اور قوت ہوتی ہے اور جو بات اس کی طرف سے ظاہر ہو وہ کبھی بدل نہیں سکتی۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ براہ راست خداتعالیٰ سے علم حاصل کرنے کی کوشش کیا کریں اور اس مقصد کے لئے قرآن کریم، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو پڑھا کریں۔ میرے نزدیک تو وہ نہایت ہی بے شرم انسان ہے جو ازالۂ اوہام میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر پڑھتا ہے کہ:۔
’’ ہر یک سعادت مند مسلمان کو دعا کرنی چاہیئے کہ اس وقت انگریزوں کی فتح ہو کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں اور سلطنت برطانیہ کے ہمارے سر پر بہت احسان ہیں۔ سخت جاہل اور سخت نادان اور سخت نالائق وہ مسلمان ہے جو اس گورنمنٹ سے کینہ رکھے۔ اگر ہم ان کا شکر نہ کریں تو پھر ہم خداتعالیٰ کے بھی ناشکر گزار ہیں۔’’3
اور پھر اس تحریر کو پڑھنے کے بعد وہ باہر نکلتا ہے اور خبریں سن کر کہتا ہے کہ آہا ہا انگریزوں کو فلاں مقام پر شکست ہوئی۔ اس سے زیادہ بے ایمان اور کون شخص ہو سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کا مسیح تو کہتا ہے کہ ہر ایک مسلمان کو انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کرنی چاہیئے اور یہ کہتا ہے کہ دعا کی کیا ضرورت ہے؟ انگریزوں کو شکست ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ میں تو ایسے احمدی کو *** سمجھتا ہوں اور میں تو یقین رکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا بہرحال قبول ہو گی اور اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء کسی اور بڑی حکمت کے ماتحت اس دعا کو قبول کرنے کا نہ بھی ہؤا تو بھی اس شخص پر ضرور *** پڑ جائے گی کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس صف میں کھڑا کیا جو خداتعالیٰ کے مسیح کے دشمنوں کی ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر ہمار اذرہ ذرہ اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتا جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں رنگین کرنا چاہتے تھے تو پھر ایمان کس چیز کا نام ہے اور اگر ہم ایسے امور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اختلاف رکھنا جائز قرار دیں تو یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے کہتے ہیں کہ کسی پٹھان کے سامنے کسی نے سینہ پر ہاتھ باندھنے یا آمین بالجہر کہنے کا مسئلہ بیان کیا تو وہ کہنے لگا میں ان باتوں کو نہیں مانتا۔ اس پر اس نے کہا کہ تم تو سید عبدالقادر جیلانی کو مانتے ہو اور یہ عقیدہ ان کا بھی تھا۔ وہ کہنے لگا ہمارے پیر کا مذہب اَور ہمارا مذہب اَور۔ تو ایک مسائل کا اختلاف ہوتا ہے اور ایک مقصود اور مدعا میں اختلاف ہوتا ہے۔ مسائل میں بعض جگہ جبکہ شریعت اجازت دیتی ہو ایک حد تک پیر سے اختلاف جائز ہوتا ہے مگر مقصود اور مدعا میں اختلاف جائز نہیں ہوتا۔
بعض نادان کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نواب محمد علی خان صاحب کو اجازت دی تھی کہ وہ اس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ حضرت علیؓ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم سے افضل تھے آپ کی بیعت کر سکتے ہیں اور اس سے استنباط کرتے ہیں کہ عقائد میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ درست نہیں کیونکہ یہ عقیدہ ایسا نہیں تھا جس کا موجود ہ زمانہ سے کوئی تعلق ہو۔ حضرت علیؓ بھی فوت ہو چکے ہیں حضرت ابوبکرؓ بھی فوت ہو چکے ہیں اور حضرت عمر ؓبھی فوت ہو چکے ہیں اور حضرت عثمانؓ بھی فوت ہو چکے ہیں اور اب اس بحث کا کوئی فائدہ ہی نہیں کہ کون افضل ہے اور کون نہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ عقیدہ رکھنے کے باوجود نواب صاحب کو بیعت کی اجازت دے دی مگر مقصود اور مدعا میں اختلاف کبھی جائز نہیں ہو سکتا۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اصل مقصد اسلام کی فتح تھی اب اگر کوئی کہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مرید تو ہوں مگر میرا مقصد اسلام کی فتح نہیں بلکہ عیسائیت کی فتح ہے تو اسے ہم اُلو ہی سمجھیں گے۔ تو مقصود میں اختلاف کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہوتا۔ مسائل کا اختلاف بالکل اور چیز ہے اور اس کے متعلق بھی حد بندیاں ہیں کہ کس وقت وہ اختلاف جائز ہوتا ہے اور کس حد تک جائز ہوتا ہے مگر اب وقت نہیں کہ میں ان حدبندیوں کو بیان کر سکوں۔ پس مسائل میں اختلاف اور بات ہے اور مقصود اور مدعا میں اختلاف بالکل اور بات ہے۔ اور اگر کوئی شخص مقصود اور مدعا میں اختلاف رکھتا ہو تو وہ ہرگز مرید کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ پس ہماری جماعت کے دوستوں کو یہ امر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ حکومت برطانیہ کے متعلق اگر وہ غیر ذمہ دارانہ رنگ میں باتیں کرتے رہیں گے تو وہ دین کو نقصان پہنچانے والے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمنوں کی صف میں کھڑے ہونے والے سمجھے جائیں گے۔ اگر انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہو تو ان کی مرضی ہمیں تو یہ بات اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ ‘‘ (الفضل 5 جون 1940ء)

1 مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب النھی عن قول ھلک الناس
2 ڈنکرک:(DUNKIRK ) ڈنکرک کی جنگ، جنگ عظیم دوم کے دوران جرمنی اور اتحادیوں کے مابین لڑی گئی ۔
3 ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ373

13
(1)تحدیث بالنعمت
(2) تحریک جدید کے سالانہ جلسے
(3) فتنے کس طرح مٹ سکتے ہیں
(فرمودہ 7 جون 1940ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ سب سے پہلے تو میں تحدیث بالنعمت کے طورپر اپنے گزشتہ خطبہ کے ایک فقرہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ میں نے بیان کیا تھا کہ گو شاہِ بیلجیئم نے پیر اور منگل کی درمیانی رات کو ظاہر میں ہتھیار رکھے ہیں مگرکیاتعجب ہے کہ 24 اور 25 تاریخ کی درمیانی رات کو جب مجھے یہ الہام ہؤا درحقیقت یہ فیصلہ اسی وقت کا ہؤااور اللہ تعالیٰ نے اس وقت جبکہ وہ یہ سمجھوتہ کر رہا ہو مجھے بتا دیا ہو کہ یہ واقعہ ہو رہا ہے۔ اسی سلسلہ میں کل یا پرسوں کا تار ہے کہ بیلجیئم گورنمنٹ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جب بادشاہ نے ہتھیار رکھے ہیں اس سے دو روز قبل اس نے یہ سمجھوتہ کر لیا تھا کیونکہ 25 کو اس نے تار دیا تھا کہ میرے بیٹے جو فرانس میں ہیں انہیں سپین بھیج دیا جائے۔ اس کے معنے یہی ہیں کہ 24 اور 25 کی درمیانی رات کو اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا اور یہی وہ رات ہے جب مجھے یہ الہام ہؤا۔ اس تار سے میرے خیال کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ 25 کی صبح کو اس کا یہ تار دینا بتاتا ہے کہ اس سے پہلی رات وہ ایسا فیصلہ کرچکا تھا جو اسے فرانس کا مخالف بنا دینے والا تھا۔ اس لئے وہ نہ چاہتا تھا کہ اس کے بچے فرانس میں رہیں۔ میرا یہ الہام رات کے قریباً ایک دو بجے کے درمیان کا ہے اور یورپ کے وقت کو مدنظررکھتے ہوئے یہ وہاں نو بجے رات کا وقت تھا۔ معلوم ہوتا ہے اس نے اسی وقت یہ فیصلہ کیا تھا اور اس کے ماتحت اس نے 25 کویہ تار دیا کہ میرے بچے فرانس سے سپین بھیج دیئے جائیں۔
اس کے بعد مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف تو جہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے چندے اور دوسرے مطالبات جو ہیں ان کے متعلق میں ہر سال ایک جلسہ کرایا کرتا ہوں جس میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ایک تو اس سے پہلے پہلے جماعتیں اپنے تمام چندے یاان کا اکثر حصہ ادا کر دیں اور دوسرے ان جلسوں میں تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق تقریریں کی جاتی ہیں تا جماعت میں جولوگ نئے جوان ہوئے ہیں وہ آگاہ ہو سکیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ باتیں کئی سال سے دُہرائی جاتی ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ جو باتیں انسان پر بوجھ ہوتی ہیں وہ متواتر یاد دلانے سے ہی یاد رہ سکتی ہیں ورنہ اگر دس سال کے بعد بھی یاد نہ دلایا جائے تو بھول جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کا حکم بار بار دیا ہے۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اور اَللہُ اَکْبَرُ کے کلمات دن میں کئی بار دہرانے کا حکم دیا ہے جو ہمارے عقیدہ کا اعلان ہیں اور ان کو دن میں کئی کئی بار دہرایا جاتا ہے تا دنیا کو پتہ لگتا رہے اور علم ہوتا رہے کہ اب بھی ہماری دینی حالت وہی ہے جو صبح تھی۔ انسانی حالت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اس زمانہ کے متعلق خصوصیت سے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ انسان رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کافر اٹھے گا اور رات کو کافر سوئے گا اور صبح مومن اٹھے گا۔1
پس اس زمانہ میں جبکہ ایسے ایسے جلد تغیرات کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہے بار بار یاددہانی کی ضرورت واضح ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ مصری صاحب پہلے تو ایسے اچھے تھے اب انہیں کیا ہو گیا؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جو شخص پوشیدہ چالیں چلتا ہو اس کے حالات کا علم توایک عرصہ کے بعد ہی ہؤا کرتا ہے۔ دوسرے انہیں سمجھنا چاہیئے کہ یہ تو پیشگوئی پوری ہو رہی ہے۔ اگرایسے تغیّرات نہ ہوں تو پیشگوئی کیسے پوری ہو یہ پیشگوئی بھی تو ہمارے ہی ذریعہ پوری ہونی تھی۔ اگر ہم میں ایسے لوگ نہ ہوتے تو کیا یہ پیشگوئی عیسائیوں کے ذریعہ پوری ہوتی یا یہودیوں کے ذریعہ پوری ہوتی یا سکھوں اور ہندوؤں کے ذریعہ پوری ہوتی یا زرتشتیوں اور بُدھوں کے ذریعہ پوری ہوتی یا یہ ان مسلمانوں کے ذریعہ پوری ہوتی جو پہلے ہی ایک مامور کاانکار کر کے اپنے آپ کو اسلام کی صحیح تعریف سے خارج کر چکے ہیں۔ اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زمانہ اس قدر منافقت کا ہو گا اور شیطان کا ایسا غلبہ ہوگا کہ انسان رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کافر اٹھے گا مگر اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا بھی ایسا جوش اس زمانہ کے لئے رکھا ہے کہ رات کو ایک شخص کافر سوئے گا اور صبح کو مومن اٹھے گا۔ گویا ایک طرف سے اگر پانی نکلے گا تو دوسری طرف سے ذخیرہ پورا بھی ہوتا رہے گا اور جب خصوصیت سے اس زمانہ کے متعلق یہ پیشگوئی ہے تو اس امر کی کتنی ضرورت ہے کہ ہم ہر وقت یہ اعلان کریں کہ ہم کون ہیں تا کسی کوہمارے متعلق شبہ نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خداتعالیٰ کے حکم سے دن میں پانچ بار اذان کا حکم دیا۔ (یاد رہے کہ اذان الہامی ہے بلکہ بعض صحابہ کو بھی رؤیا میں اس کے الفاظ سکھائے گئے تھے) اور اس کے ذریعہ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اپنے عقائد کا اعلان کرتے ہیں۔ مؤذن ہر مرتبہ دنیا کو بتاتا ہے کہ اس رات سے اٹھنے کے بعد بھی میں مومن ہوں اور اب بھی میرا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ﷺ)اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے کام کاج میں لگ جاتا ہے اور قسم قسم کے ابتلا اس کے سامنے آتے ہیں۔ کئی لوگ اسے فریب دینا چاہتے ہیں اور غیرمذاہب کے لوگ بھی آ آ کر طرح طرح کی باتیں اس سے کرتے ہیں اور اسے اپنے عقائد سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب ظہر کا وقت ہوتا ہے تو وہ پھر کھڑا ہو کر اعلان کرتا ہے کہ بے شک میرے سامنے کئی لالچ آئے، لوگوں نے مجھے ورغلاناچاہا مگر پھر بھی میرا عقیدہ وہی ہے جو صبح تھا۔ پھر عصر کا وقت آتا ہے جب وہ کام کاج سے تھک جاتا ہے اور تکان سے چُور ہو جاتا ہے، کاروبار کے گھاٹے اس کے سامنے آتے ہیں، کئی قسم کی مایوسیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس وقت مسلمان کھڑا ہو کرپھر وہی فقرے دہراتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ گویا عصر کا وقت آ گیا مگر میرے ایمان میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد اندھیرا ہو جاتا ہے اور دنیا میں ایک تغیّر ہوتا ہے یعنی دن کے بعد رات شروع ہو جاتی ہے مگر وہ پھر اعلان کرتا ہے کہ گو رات آ گئی اور دنیا میں اندھیرا ہوگیا مگر اب بھی میرا وہی عقیدہ ہے جو صبح تھا۔ میرے ایمان اور عقائد میں کوئی تغیّر نہیں آیا۔ پھر عشاء ہوتی ہے لوگ سونے لگتے ہیں، نئی نئی امیدیں باندھتے ہیں کہ آج کاروبار میں گو گھاٹا ہؤا مگر صبح یوں کام کریں گے ۔ اس کے ساتھ چور ڈاکو اورقاتل اپنے دلوں میں بُرے منصوبے سوچنے میں مشغول ہوتے ہیں مگر اس وقت بھی مسلمان اعلان کرتا ہے کہ اَللہُ اَکْبَرُ اَللہ اَکْبَرُ۔ مَیں اب بھی اللہ تعالیٰ کو بڑا سمجھتا ہوں اور محمد (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ کا رسول سمجھتا ہوں۔ اگر کوئی چوری، ڈاکہ یا قتل کی نیت کرتا ہے تو مَیں اس سے بَری ہوں ۔ میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر سونے لگا ہوں ۔ غرض یہ اعلان مسلمانوں سے دن میں پانچ مرتبہ کرایا گیا ہے اس لئے کہ انسان کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اعلان کرے کہ مَیں اب بھی ویسا ہی ہوں جیسا صبح تھا۔ اسلام کوئی خفیہ مذہب نہیں وہ عَلَی الْاِعْلَان اپنے ماننے والے سے اس کے عقائد کا اعلان کراتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ مسجدوں میں کھڑے ہو کر شور کرو کہ ہم مسلمان ہیں۔ پس جب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں یہ اعلان ضروری تھا تو آج جس کے متعلق یہ بتایا گیا کہ اس زمانہ میں ایک شخص رات کو مومن سوئے گا اور صبح کافر اٹھے گا اور رات کو کافر سوئے گا اور صبح مومن اٹھے گا۔
اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمارے عقائد کیا ہیں۔ اسی لئے میں ہر سال تحریک جدید کے متعلق یہ جلسے کرایا کرتاہوں تا ہم دنیا کو بتا سکیں کہ ہم آج بھی ان باتوں پر قائم ہیں اور تا ہمارے اپنے نفس بھی ان باتوں کو یاد کر لیں۔ پھر جو نئے بچے اس عرصہ میں جوان ہوئے ہیں وہ بھی ان باتوں کوذہن نشین کر لیں۔ اس تحریک پر آج چھ سال گزر چکے ہیں ۔ کئی بچے جو اس وقت دس سال کے تھے اور اس وجہ سے ان باتوں کو نہ سمجھتے تھے آ ج سولہ سال کے جوان ہیں اور ان باتوں کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ کئی بچے ذہین ہوتے ہیں اور دس سال کی عمر میں بات سمجھ سکتے ہیں۔وہ اس وقت چار سال کے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے مگر آج سمجھنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ اس لئے ان کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ پھر بعض بچے غیرمعمولی طور پر ذہین ہوتے ہیں اور چھ سال کی عمر میں ہی بات سمجھ لیتے ہیں ۔ جب یہ تحریک شروع ہوئی وہ اس کے قریب میں ہی پیدا ہوئے تھے یا چند ماہ کے تھے۔ اب وہ چھ سال کے ہو گئے ہیں وہ ان تقریروں کوسنیں گے تو یہ باتیں ان کے ذہن نشین ہو جائیں گی۔
پس مَیں اس سال کے ان جلسوں کے لئے گیارہ اگست کی تاریخ مقرر کرتا ہوں۔٭ اس روز جلسے کر کے تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق تقریریں کی جائیں اور ان کی ضرورتیں اورفوائدبیان کئے جائیں۔ جنگ نے ان ضرورتوں کو آج بالکل واضح کردیا ہے۔ میں امید کرتاہوں کہ احباب بالخصوص عہدہ داران ان جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے اور سلسلہ کے اخبارات بھی اس کی اہمیت کومتفرق پیرایوں میں جماعت کے سامنے پیش کرتے رہیں گے۔ مَیں یہ بھی ہدایت کرتا ہوں کہ اس جلسہ سے قبل جماعت کے مردوں ، عورتوں اور بچوں کے علیحدہ علیحدہ جلسے کر کے بار بار یہ باتیں ان کے سامنے پیش کی جائیں۔ سیکرٹریان تحریک جدید ہفتہ وار رپورٹیں بھجواتے رہیں کہ اس کے لئے انہوں نے کس طرح چھوٹے چھوٹے جلسے منظم کئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کوشش کی جائے کہ اس وقت تک چندے بھی پورے کے پورے ادا ہو جائیں یا ان کا اکثر حصہ ادا ہو جائے اور جماعت کااکثر حصہ ادا کرچکا ہو۔ اعداد کے لحاظ سے چونکہ یہ چھٹا سال ہے یہ سُستی کے سال بھی ہوتے ہیں اور چُستی کے بھی۔ بعض لوگ تھک جاتے ہیں اور ان کا قدم سُست پڑنے لگتا ہے مگر کئی سمجھتے ہیں کہ اب کام ختم ہونے لگا ہے ۔ تحریک اختتام کو پہنچنے والی ہے اس لئے زیادہ جوش سے حصہ لینا چاہیئے۔
اس کے بعد میں دوستوں سے بعض آدمیوں کے فتنہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ سندھ جانے سے پہلے میں نے ان کے متعلق ایک خطبہ میں بیان کیا تھا اور آج پھر بعض باتیں ان کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں۔ بعض دوست ان کی تقریریں نوٹ کر کے مجھے بھیج دیتے ہیں۔ چند روز ہوئے ان کی تقریروں کا خلاصہ مجھے پہنچا جسے پڑھ کر مجھے بے حد حیرت ہوئی۔ ایک نے ان میں سے اپنی تقریر میں کہا کہ کتنا ظلم ہے کہ خلیفۃ المسیح نے اپنے ایک خطبہ میں

٭خطبہ میں مَیں نے 28 جولائی کا اعلان کیا تھا مگر دفتر تحریک کی سفارش پر کہ وقت تھوڑا ہے بیرون ہند کے لوگ تیاری نہ کر سکیں گے میں گیارہ اگست کااتوار اس دن کے لئے مقرر کرتا ہوں۔
جہاد کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر نوٹ کرنے والے نے اس کا مفہوم صحیح سمجھا ہے تو جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے ایک دفعہ پھر یہ حقیقت ثابت ہو گئی کہ جو شخص سلسلہ کو چھوڑتا ہے وہ جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے۔ بعض دفعہ کوئی شخص کوئی پوشیدہ بات کہتا ہے اور اس کے متعلق کسی کو دھوکا لگ جاتا ہے۔
ایک دفعہ یہاں حیدر آباد سے ایک طالب علم آیا۔ میں نے مبلّغین کلاس یہاں جاری کرا رکھی تھی وہ اس میں پڑھنے لگا۔ وہاں بعض لوگوں سے اس کی لڑائی ہو گئی اور اس کا قصور ثابت ہو گیا۔ اسے ڈر تھا کہ اب مجھے سزا ملے گی اس لئے وہ جَھٹ یہاں سے چلا گیا اور لاہور جا پہنچا اور پیغامیوں نے جیسا کہ ان کا قاعدہ ہے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس نے ایک مضمون لکھا کہ میں قادیان سے اس لئے آ گیا ہوں کہ پہلے تو وہاں مجھے عام اسلامی باتیں ہی بتائی جاتی تھیں مگر جب دیکھا کہ ایمان پکا ہو گیا ہے اور خلیفہ نے یہ محسوس کر لیا کہ اب یہ کہیں جا نہیں سکتا تو ایک روز مجھے بیت الفکر میں جو مسجد کے پاس ایک کمرہ ہے بلایا اور کہا کہ اب تمہارے متعلق اطمینان ہو گیا ہے اس لئے اب تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں حقیقت بتا دی جائے۔ اصل میں ہمارا عقیدہ یہ ہے خاتم النبیین محمد مصطفی ﷺ نہیں بلکہ مرزا صاحب ہیں۔ اس کا بیان تھا کہ یہ بات میں نے اسے بیت الفکر میں علیحدہ لے جا کر کہی تھی۔ اس سے ناواقف لوگوں کو دھوکا لگنے کا امکان تھا لیکن جو لوگ ہمیں جانتے ہیں، دن رات ہماری تقریریں سنتے اور پڑھتے ہیں وہ جانتے اور سمجھتے تھے کہ یہ بات جھوٹ ہے۔ باقی لوگوں کو سمجھانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا کیونکہ اس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ بات اس سے بیت الفکر میں کہی گئی۔ یہ بھی خطرناک جھوٹ تھا مگر یہ جھوٹ جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ خطبہ تو ہزاروں آدمیوں کے سامنے دیا جاتا ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ اس شخص نے اپنی تقریر میں دلائل بھی دینے شروع کر دئیے کہ میر ایہ حکم ناجائز ہے 2اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد ناجائز ہے اور خلیفہ نے حضرت مسیح موعود کی تعلیم کو بھی چھوڑ دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے یہ سب کچھ ہمارے قتل کے لئے ہو رہا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جو شخص جماعت سے خارج ہوتا ہے وہ اپنی پوزیشن ایسی سمجھ لیتا ہے کہ گویا ساری جماعت چھوٹے سے لے کر بڑے تک اس سے کانپ رہی ہے اور سب چاہتے ہیں کہ اسے مٹا دیں۔
یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے جو میں نے اندھے او ر سوجاکھے کی کئی دفعہ سنائی ہے۔ ایک اندھا اور ایک سوجاکھا کھانا کھانے بیٹھے۔ اندھے نے خیال کیا کہ سوجاکھا ضرور جلدی جلدی کھاتا ہو گا میں تو دیکھ نہیں سکتا اس لئے جس قدر جلدی چاہے کھا رہا ہو گا۔ یہ سوچ کر اُس نے بھی جلدی جلدی کھانا شروع کر دیا۔ پھر اس نے خیال کیا کہ اس نے مجھے جلدی جلدی کھاتے دیکھ لیا ہے اس لئے پہلے سے بھی زیادہ جلدی سے کھانے لگا ہو گااس لئے وہ اور بھی جلدی جلدی کھانے لگا۔ پھر اس نے خیال کیا کہ اس طرح جلدی کھاتے بھی اس نے دیکھ لیا ہے اس لئے اب اور کوئی تدبیر اس نے نکالی ہو گی اور وہ غالباً یہ ہو گی کہ یہ دونوں ہاتھوں سے کھانے لگ گیا ہو گا اور یہ سوچ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا۔ پھر اس نے خیال کیا کہ اس بینا نے اب کوئی اور ترکیب سوچ لی ہو گی جس کے ذریعہ سے کھانے میں سے مجھ سے زیادہ حصہ لے سکے اور خیال کیا کہ وہ ترکیب یہی ہو سکتی ہے کہ ایک ہاتھ سے کھاتا جاتا ہو گا اور دوسرے ہاتھ سے کھانا جھولی میں ڈالتا جاتا ہو گا۔ چنانچہ اس نے بھی اسی طرح کرنا شروع کر دیا مگر پھر بھی اس کے دل کا وسوسہ نہ گیا۔ مگر اور کوئی بات اس کے ذہن میں نہ آئی جس کے ذریعہ سے وہ اس آنکھوں والے کے ساتھ نپٹ سکے۔ آخر گھبرا کر اس نے پلاؤ کا طبق اٹھا لیا اور بولا کہ بس بھئی اب میرا ہی حصہ رہ گیا ہے۔ لیکن اس سارے عرصہ میں آنکھوں والا اس کی حرکات کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہا تھا اور اس نے کھانا بالکل چھوڑ رکھا تھا۔ یہی حالت ان لوگوں کی ہے۔ کوئی بات ہو یہ سمجھتے ہیں ہمیں قتل کرنے کے لئے کی جا رہی ہے۔ کسی کو سائیکل پر جاتے دیکھا تو کہا یہ ہمیں مارنے کو آیا ہے، کسی کے ہاتھ میں سوٹی دیکھی تو کہہ دیا یہ ہمارے مارنے کے لئے ہے، کوئی مسکرا رہا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ ہمیں مارنا چاہتا ہے۔ گویا رات دن جو بات بھی ہوتی ہے وہ ان کو مارنے کے لئے ہوتی ہے۔
ابھی یہ جماعت سے نکالے نہیں گئے تھے کہ مَیں نے ایک خواب دیکھا۔ پہلے تو مَیں سمجھتا تھا کہ اس کا مطلب کچھ اور ہے مگر اب میں سمجھتا ہوں شاید یہ ان کے اور ان کے قماش کے دوسرے لوگوں کے متعلق ہو۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک چارپائی ہے جس پر مَیں بیٹھا ہوں۔ سامنے ایک بڑھیا عورت جو بہت ہی کَرِیْہُ الْمَنْظر ہے کھڑی ہے۔ اس نے دو سانپ چھوڑے ہیں جو مجھے ڈسنا چاہتے ہیں۔ وہ چارپائی کے نیچے ہیں اور سامنے نہیں آتے تا جب میں نیچے اتروں تو پیچھے سے کود کر ڈس لیں۔ میرا احساس یہ ہے کہ ان میں سے ایک چارپائی کے ایک سرے پر ہے اور دوسرا دوسرے سرے پر۔ تا میں جدھر سے جاؤں حملہ کر سکیں۔ میں کھڑا ہو گیا ہوں اور جلدی جلدی کبھی پائنتی کی طرف جاتا ہوں اور کبھی سرہانے کی طرف۔ میں خیال کرتا ہوں کہ جب میں پائنتی کی طرف جاؤں گا تو سرہانے کی طرف کا سانپ اس طرف دوڑے گا اور جب سرہانہ کی طرف آؤں گا تو پائنتی والا اس طرف آئے گا اور اس طرح میں ان کو جھانسہ دے کر نکل جاؤں گا۔ پانچ سات مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب دونوں سانپ ایک ہی طرف ہیں اور میں دوسری طرف سے کُود پڑا۔ جب نیچے اترا تو میں نے دیکھا کہ واقعی وہ دونوں دوسری طرف تھے۔ میں فوراً ان کی طرف مُنہ کر کے کھڑا ہو گیا ان میں سے ایک نے مجھ پر حملہ کیا اور میں نے اسے مار دیا۔ پھر دوسرے نے حملہ کیا اورمیں نے اسے مارا مگر میں سمجھتا ہوں ابھی وہ کچھ زندہ سا ہی ہے۔ اسی جگہ کے پہلو میں ایک علیحدہ جگہ ہے میں ہٹ کر اس کی طرف چلا گیا ہوں۔ وہاں ایک نہایت خوبصورت نوجوان ہے جو میں سمجھتا ہوں فرشتہ ہے اور گویا میری مدد کے لئے آیا ہے۔ وہ عورت چاہتی ہے کہ اس سانپ کو پکڑ کر مجھ پر پھینکے مگر وہ نوجوان میرے آگے آ گیا اور میری حفاظت کرنے لگا۔ عورت نے نشانہ تاک کر اس پر مارا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی فوق العادت طاقت کا ہے۔ اس نے اسے سر سے پکڑ لیا اور چاقو نکال کر اس کی گردن کاٹ دی۔ اس عورت نے پھر اسی کٹی ہوئی گردن کو اٹھایا اور ہماری طرف پھینکنا چاہتی ہے کبھی اس کی طرف نشانہ باندھتی ہے اور کبھی میری طرف مگر اس فرشتہ نے مجھے پیچھے کر دیا اور خود آگے ہو گیا اور اسے پھینکنے کا موقع نہیں دیتا۔ آخر ایک دفعہ اس عورت نے پھینکا مگر فرشتہ آگے سے ایک طرف ہو گیا سامنے کچی دیوار تھی وہ اس دیوار میں لگا اور اس میں سوراخ ہو گیا اور وہ اس سوراخ کے اندر ہی گھس گیا۔ میری پیٹھ اس طرف ہے وہ فرشتہ ایک کمرہ کی طرف جو پہلو میں ہے اشارہ کر کے مجھ سے کہتا ہے کہ تم ادھر ہو جاؤ اس سوراخ میں سے یہ سانپ پھر نکلیں گے۔ (گویا ان کی موت مجازی تھی اور جسمانی موت نہ تھی اور ابھی وہ حقیقتاً زندہ تھے) میں نے دیکھا کہ کبھی وہ اس سوراخ میں سے سر نکالتا ہے اور کبھی زبان ہلاتا ہے ، کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر رخ کرتا ہے۔ گویا چاہتا ہے کہ ہم ذرا غافل ہوں تو حملہ کر دے۔ جونہی وہ سرنکالتا ہے فرشتہ اس کو ڈراتا ہے اور وہ جھٹ اندر چلا جاتا ہے۔ اتنے میں یکدم یوں معلوم ہؤا کہ ایک کی بجائے دو سانپ ہیں اور گویا دوسرا سانپ جسے میں نے مردہ سمجھا تھا وہ بھی درحقیقت زندہ تھا۔ چنانچہ پہلے تو ایک ہی سوراخ تھا مگر یکدم ایک اور نمودار ہو گیا اور دونوں سانپ ان سوراخوں میں سے کُودے اور زمین پر گرتے ہی آدمی بن گئے جو بڑے قوی الجثہ ہیں۔ اس پر فرشتہ نے کسی عجیب سی زبان میں کوئی بات کی جسے میں نہیں سمجھ سکا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس نے کسی زبان میں جسے میں نہیں جانتا دعائیہ الفاظ کہے ہیں اور وہ الفاظ ‘‘ہاکی پاکی’’ کے الفاظ سے مشابہہ ہیں مگر چونکہ وہ غیرزبان ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہی الفاظ ہیں یا ان سے ملتے جلتے کوئی اور الفاظ۔ اس کے دعائیہ الفاظ کا اس کی زبان سے جاری ہونا تھا کہ میں نے دیکھا دونوں حملہ آور قید ہوگئے اور ان میں سے جو میرے قریب تھا میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اوپر اٹھے اور ان میں ہتھکڑیاں پڑ گئیں۔ مگر اس طرح کہ ایک کلائی دوسری کے اوپر ہے اور دایاں ہاتھ بائیں طرف کر دیا گیا ہے اور بایاں دائیں طرف کر دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ ایک کمان دونوں ہاتھوں پر رکھی گئی ہے ۔ اس کے ایک سرے سے ایک ہاتھ کی انگلیاں اور دوسرے سرے سے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں باندھ دی گئی ہیں۔ دوسرے آدمی کو کس طرح قید کیا گیا ہے میں اچھی طرح نہیں دیکھ سکا ۔ پھر فرشتہ نے مجھے اشارہ کیا کہ باہر آ جاؤ۔ یہ خواب جب میں نے دیکھا یہ لوگ ابھی پوشیدہ تھے اور اندر ہی اندر اتحاد عالمین کے نام سے اپنی گدی بنانے کی سکیمیں بنا رہے تھے۔ ان کے اندر خودپسندی اورخودستائی تھی اور اپنی ولایت بگھارتے پھرتے تھے۔ لوگوں سے کہتے تھے ہم سے دعائیں کراؤ حالانکہ خلافت کی موجودگی میں اس قسم کی گدیوں والی ولایت کے کوئی معنے ہی نہیں۔ جیسے گوریلا وار کبھی جنگ کے زمانہ میں نہیں ہؤا کرتی ، چھاپے اسی وقت مارے جاتے ہیں جب باقاعدہ جنگ کا زمانہ نہ ہو۔ خلفاء کے زمانہ میں اس قسم کے ولی نہیں ہوئے۔ نہ صرف حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں کوئی ایسا ولی ہؤا نہ حضرت عمرؓ یا حضرت عثمانؓ یا حضرت علیؓ کے زمانہ میں ۔ ہاں جب خلافت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ نے ولی کھڑے کئے کہ جو لوگ ان کے جھنڈے تلے جمع ہو سکیں انہیں کر لیں تا قوم بالکل ہی تتر بتر نہ ہو جائے۔ لیکن جب خلافت قائم ہو اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے جب منظم فوج موجود ہو تو گوریلا جنگ نہیں کی جاتی۔ پس خلافت کی موجودگی میں ایسی ولایت کا وسوسہ دراصل کبر اور بڑائی ہے۔
اس خواب میں جو سانپ میں نے دیکھے ہیں میں سمجھتا ہوں ان میں سے ایک سے مراد اندرونی فتنہ ہے اور ایک سے بیرونی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں قسم کے فتنے اس وقت مل کر حملہ کررہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ دونوں کو دور کر دے گا اور فرشتوں کے ذریعہ ان کے ہاتھ بند کر دے گا۔ انسانی ہتھکڑیاں کوئی چیز نہیں اصل وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لگائی جائیں۔ حکومتیں کسی کو نظربند کرتی ہیں تو اس کے ساتھی موجود رہتے ہیں جو اس کی آواز کو پہنچاتے رہتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کسی کو ہتھکڑی لگائے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس تحریک کو کامیابی نہیں ہو سکتی۔ ایسے فتنے دراصل جماعت کی بیداری کے لئے ہوتے ہیں۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو احمدیت میں داخلہ کے بعد روحانی ترقی کی طرف بہت کم توجہ کرتا ہے وہ اس طرح دنیا کے کاموں میں لگے رہتے ہیں جس طرح احمدیت میں داخلہ سے پہلے تھے۔ اسلام دنیا کے کاموں سے روکتا نہیں بلکہ اجازت دیتا ہے ۔ انبیاء بھی یہ کام کرتے رہے ہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے کام ثابت ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کام ثابت ہیں وہ زراعت بھی کرتے تھے۔ اولیاء اور صحابہ کا کام کرنا بھی ثابت ہے اسلام جس چیز سے منع کرتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اسی کام کا ہو جائے۔ بعض لوگ قادیان میں ہجرت کر کے آتے ہیں مگر یہاں آ کر دنیا کے کاموں میں ہی لگ جاتے ہیں اور دین کا کام بالکل نہیں کرتے۔ میں نے خطبہ پڑھا کہ ہر احمدی تبلیغ کے لئے وقت دے۔ مجھے رپورٹ پہنچی ہے کہ بعض دکانداروں نے کہا ہے کہ ہم تبلیغ کے لئے چلے جائیں تو پندرہ روز میں تو ہماری دکان ہی بند ہو جائے گی۔ یہ بات کہتے وقت وہ اس بات کو بالکل بھول جاتے ہیں کہ ان کی دکان تو چلی ہی احمدیت کے طفیل ہے۔ اگر وہ سال میں 350 دن احمدیت کے طفیل روٹی کھاتے ہیں تو اگر پندرہ دن اس کے لئے بھی قربان کر دیں تو کون سی بڑی بات ہے؟
حضرت لقمان کا ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا۔ آپ ابھی بچے تھے کہ قید ہو گئے۔ ڈاکو اٹھا کر کہیں لے گئے اور کسی امیر کے پاس بیچ دیا۔ کہتے ہیں ان کے آقا نے ان کو نوکروں کے ساتھ باغ میں انگور توڑنے کے لئے بھیجا۔ وہ توڑ کر لائے تو بہت ہی کم تھے۔ آقا نے وجہ دریافت کی کہ اس قدر کم انگور کیوں اترے ہیں ؟ وہ سب بڑی عمر کے لوگ تھے اور حضرت لقمان کی عمر صرف اس وقت آٹھ دس سال کی تھی۔ انہوں نے کہا آپ نے اس لڑکے کو ساتھ بھیج دیا تھا یہ بڑابدمعاش ہے۔ ہم جو انگور توڑتے یہ کھا جاتا تھا۔ حضرت لقمان گو بچے تھے مگر تھے ذہین۔ آپ نے کہا کہ سب کو قے کرائی جائے تا معلوم ہو سکے کہ کس نے کھائے ہیں۔ آقا نے ایسا ہی کیا تو ان سب کے معدوں سے انگور نکلے مگر حضرت لقمان کا معدہ بالکل خالی تھا۔ اس وجہ سے آپ اپنے آقا کو بہت پیارے لگنے لگے اور وہ اپنے بیٹوں کی طرح آپ سے محبت کرنے لگا۔ ایک دفعہ اس کے کسی گماشتے نے کہیں دور دراز سے اسے بے موسم کا خربوزہ بھیجا۔ سردے کا قاعدہ ہے کہ اگر وہ خراب ہو جائے تو شدید کڑوا ہوتا ہے۔ آقا نے اس سردے سے ایک کاش کاٹی اور حضرت لقمان کو محبت سے دی۔ آپ نے اسے بڑے مزے سے کھایا ۔ آقا نے سمجھا بہت لذیذ ہے اور ایک اور دی۔ آپ نے وہ بھی بڑے مزے لے لے کر کھائی اور اس نے ایک اور دی۔ وہ بھی آپ نے اسی طرح کھائی۔ اس پر آقا نے خیال کیا کہ ایسی اچھی چیز میں خود بھی کھاؤں۔ اس نے اسے چکھا تو وہ سخت کڑوی تھی۔اس نے آپ سے کہا کہ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ہے کہ یہ اس قدر کڑوی چیز ہے۔ آپ نے کہا کہ اس سے زیادہ بے حیائی اور کیا ہو سکتی تھی کہ جس ہاتھ سے میں نے اتنی میٹھی کاشیں کھائی ہیں اس سے اگر دو تین کڑوئی کھانی پڑیں تو چلّا اٹھتا۔
پس اگر غیرتِ اسلامی نہ ہو ، دین کی محبت نہ ہو، تب بھی شریف آدمی کی حیثیت سے قادیان کے تاجروں کا یہ فرض تھا کہ جس کی طفیل وہ سال کے 350 دن کماتے ہیں اس کی خاطر پندرہ روز کی قربانی کا مطالبہ ہو تو پس و پیش نہ کریں۔ قادیان کا کوئی ایک بھی تاجر ایسا نہیں جو گھر سے کھاتا پیتاآیا ہو۔ سب کے سب ایسے ہیں جنہوں نے یہیں آ کر کمائیاں کی ہیں۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں کہ جب یہاں آئے تو ان کی حیثیت پانچ سات روپیہ کی بھی نہ تھی۔ بے شک بعض ہزار دو ہزار کی حیثیت کے تھے مگر اب ان کی حیثیت اس سے بہت زیادہ ہے اور اگر ان کے اندر غیرت دینی نہ بھی ہو اور احمدیت و اسلام کی محبت بالکل نہ ہو تو بھی حضرت لقمان کی بات کے پیش نظر ان کو چاہیئے تھا کہ جس کے طفیل 350دن روٹی کھاتے ہیں اس کے لئے پندرہ دن قربانی کرنے سے دریغ نہ کریں۔ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس کی ایک ہندو اور عیسائی سے بھی امید کی جاتی ہے۔
انگلستان اس وقت لڑائی میں شامل ہے وہاں کسی کی نہ تجارت باقی ہے نہ جائداد۔ سب پر حکومت کا قبضہ ہو چکا ہے اور پھر ان لوگوں کی قربانیوں کے واقعات چھپتے ہیں تو پڑھ کر حیرت ہو جاتی ہے۔ ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بوڑھا آدمی نیوی سے ریٹائر ہو چکا تھا حکومت کی طرف سے سے جب اعلان کیا گیا کہ ڈنکرک سے فوجوں کو نکالنے کے لئے ہر قسم کے جہازوں اور ملاحوں کی ضرورت ہے تو چھ گھنٹہ کے اندر اندر ہزاروں لوگ اپنی اپنی کشتیاں لے کر حاضر ہو گئے کہ ہمیں بھیج دیا جائے اور ان میں سے ایک کشتی کا مالک وہ بڈھا تھا ۔ ان سب کو بھیج دیا گیا اور وہ دن رات کام کرتے رہے ۔ یہ بوڑھا بھی بار بار سپاہیوں کو اپنی کشتی میں بٹھا کر لایا اور دن رات ایسی سخت محنت کی کہ اس کے پاؤں پر فالج گرا مگر پھر بھی اس نے اپنا کمپاس نہ چھوڑا اور اس فالج کی حالت میں بھی آخری پھیرا لایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو محض دنیا کے لئے کام کرتے ہیں روحانیت سے ان کو واسطہ نہیں مگر ہم میں سے بعض احمدیت کے لئے معمولی سی قربانی میں بھی تامل کرتے ہیں حالانکہ احمدیت کے طفیل دنیوی لحاظ سے بھی ان کو کافی فائدہ پہنچا ہؤا ہے۔ ہم میں سے کون ہے جسے احمدیت سے روحانی ، جسمانی اور مالی فوائد حاصل نہ ہوئے ہوں ۔ ہمیں خود فائدہ پہنچا ہے، ہم زمیندار ہیں مگر ہماری زمینوں کی قیمت پہلے اتنی نہ تھی جتنی اب ہے۔ ہم کہتے تو ہیں کہ ہم سلسلہ کے اموال میں سے کچھ نہیں لیتے مگر اس طرح دیکھا جائے تو بہرحال ہمیں سلسلہ کے طفیل فائدہ پہنچا ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ نواب محمد علی خان صاحب سے فرمایا کہ یہاں کے چوہڑوں کی طرف سے بہت تکلیف پہنچ رہی ہے۔ والد صاحب کے زمانہ میں ان کو صرف آٹھ آنہ ماہوار اور روٹی ملتی تھی اور وہ سارا سارا دن کام کرتے تھے مگر اب دو روپے اور روٹی ملتی ہے مگر وہ کام نہیں کرتے۔ لیکن احمدیت کی وجہ سے آج یہ حالت پہنچ گئی ہے کہ اب بارہ چودہ روپیہ اور روٹی دینی پڑتی ہے ۔ یہ کتنا بڑا فرق ہے ۔ یہی حال دھوبیوں کا ہے۔ ان کو سوائے اس کے کہ فصل کے موقع پر مالکوں کی طرف سے غلہ وغیرہ دے دیا جاتا تھا یا سوائے اس کے کہ کسی کی کوئی خدمت وغیرہ کر کے کچھ حاصل کر لیں کوئی آمد نہ تھی مگر اب وہ یہاں 25، 30 بلکہ چالیس چالیس روپیہ ماہوار کماتے ہیں۔ یہی حال ترکھانوں اور لوہاروں وغیرہ کا ہے۔ پہلے یہاں ان کی مزدوری چھ سات آنہ روزانہ تھی مگر اب ڈیڑھ دو روپیہ ہے۔ تو خواہ قادیان کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے تاجر ہوں یا مزدور یا کوئی اور کام کرنے والے، سب پر احمدیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوئے ہیں۔ پھر جو لوگ پنشن لے کر یہاں آ جاتے ہیں ان کو بھی دنیوی لحاظ سے اور دینی لحاظ سے بھی کافی فائدے پہنچتے ہیں۔ یہاں تعلیم کا جیسا انتظام ہے باہر ویسا ان کے لئے نہیں ہو سکتا۔ پھر یہاں ان کے بیوی بچے بے فکری سے رہتے ہیں کئی لوگ بیوی بچوں کو یہاں چھوڑ کر خود باہر چلے جاتے ہیں بلکہ ہندوستان سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کے بعد ان کے بیوی بچے بڑے آرام اور چین سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ سَو میں سے کسی ایک کو کوئی تکلیف بھی پہنچتی ہو گی مگر عام طور پر بہت آرام پہنچتا ہے۔ لاہور میں ایک سکھ پروفیسر نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ جب ملک میں عام خطرہ ہو تو احمدیوں میں جائے پناہ مل سکتی ہے۔ پس ان فضلوں کے باوجود جو احمدیت کی وجہ سے دینی دنیوی، روحانی اور علمی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر کئے ہیں، کئی ہیں جو اِن فضلوں کے مقابلہ میں احمدیت کے لئے بہت ہی کم جدوجہد کرتے ہیں اور ان کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ایسے فتنے پیدا کرتا رہتا ہے ۔ جب کوئی فتنہ اٹھتا ہے تو ایسے کمزور لوگوں میں بھی جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ان مخالفوں کا خوب مقابلہ کرنا چاہیئے۔ خوب تقریریں ہوں اور رسالے لکھے جائیں حالانکہ اگر وہ پہلے ہی تقریروں اور رسالوں کا انتظام کرتے تو وہ فتنہ پیدا ہی نہ ہوتا اور اب بھی اگر وہ اپنی اصلاح کر لیں اور اپنے اندر بیداری پیدا کر لیں تو اللہ تعالیٰ فتنوں کے سلسلہ کو روک سکتا ہے۔ یہ فتنے تو محض جگانے کے لئے ہوتے ہیں جب کوئی شخص نیند سے بیدار نہ ہو تو ہم اسے بلاتے ہیں، پھر بھی ہوش میں نہ آئے تو پانی کا چھینٹا دیتے ہیں اور پھر بھی نہ جاگے تو چارپائی الٹا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح کرتا ہے۔
پس جماعت کو چاہیئے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرے۔ تبلیغ میں لگ جائے، نمازوں کی پابند ہو اور ہر لحاظ سے اپنی اصلاح کرے۔ پھر یہ لوگ آپ ہی آپ خاموش ہو جائیں گے۔ ان کی نہ تو علم کے لحاظ سے کوئی حیثیت ہے اور نہ خداتعالیٰ کی طرف سے ان کو کوئی تائید یا نصرت حاصل ہے۔ وہ جانتے بھی نہیں کہ تقویٰ کیا ہے ان کو صرف بڑائی کا خیال ہے۔ جماعت کو چاہیئے کہ ان کی باتوں کی طرف کوئی دھیان ہی نہ دے۔ وہ آپ ہی آپ جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ اپنی اصلاح میں لگ جائے، دین سیکھنے اور سکھانے کی طرف متوجہ ہو، زبان کو پاک رکھا جائے، گالی گلوچ نہ کی جائے، نمازوں کی پابندی کی جائے کیونکہ ان باتوں کے بغیر خداتعالیٰ کا فضل حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر جماعت اپنی اصلاح کرے اور تبلیغ میں لگ جائے تو ان لوگوں کے فتنے خود بخود مٹ جائیں گے کیونکہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بولنے والا کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ (الفضل 16 جون 1940ء)

1 صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علی المبادرۃ بالاعمال۔۔۔۔
2 ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 77

41
جمعہ کی نماز میں اور جمعرات کو روزہ رکھنے کے بعد دعا
کی جائے کہ خدا دنیا کو ہلاکت اور تباہی سے بچا کر
صراطِ مستقیم دکھائے
(فرمودہ 14 جون 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ مَیں پیچش کی شکایت کی وجہ سے آ تو نہیں سکتا تھا لیکن حالات اس قسم کے ہیں کہ ان کی وجہ سے میں نے مناسب سمجھا کہ خواہ مرض بعد میں زیادہ ہی کیوں نہ ہو جائے خطبہ مجھے خود پڑھانا چاہیے۔
وہ احباب جو اخبارات پڑھا کرتے ہیں انہیں معلوم ہو گا کہ جنگ کے حالات زیادہ سے زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں اور اب تو ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ قریب ہے ہندوستان بھی اس کی لپیٹ میں آ جائے۔
1938ء کی مجلس شوریٰ کے موقع پر میں نے ذکر کیا تھا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ہم ایک کشتی میں بیٹھے ہیں جوسمندر میں ہے اور سمندر بہت وسیع ہے اس کے ایک طرف اٹلی کی مملکت ہے اور دوسری طرف انگریزوں کی۔ اٹلی کی مملکت شمال مغربی طرف معلوم ہوتی ہے اورانگریزی علاقہ مشرق کی طرف اور جنوب کی طرف ہٹ کر۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کشتی اُس جانب سے آ رہی ہے جس طرف اٹلی کی حکومت ہے اور اُس طرف جا رہی ہے جس طرف انگریزوں کی حکومت ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ یکدم شور اٹھا اور گولہ باری کی آواز آنے لگی اور اتنی کثرت اور شدت سے گولہ باری ہوئی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک گولے اوردوسرے گولے کے چلنے میں کوئی فرق نہیں ہے اور یکساں شور ہو رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ گولے متواتر پڑ رہے تھے اور اتنی کثرت سے پڑ رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا ان گولوں سے جَوّ بھراہؤا ہے۔ یہ ایک لمبا رؤیا ہے جو شائع شدہ ہے۔ 1
اس سے اور بعض اور خوابوں سے جو مَیں نے دیکھی ہوئی ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا پر ایک خطرناک مصیبت کا وقت آ گیا ہے مگر ان خوابوں کا عام ذکر مَیں مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ الٰہی علم قبل از وقت ہوتا ہے اور لوگ ان باتوں کو سن کر یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہمارے متعلق تخویف سے کام لیا جا رہا ہے اور بلاوجہ ڈرایا اور خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ اسی لئے جس رؤیا یا الہام کے متعلق اللہ تعالیٰ خود نہ فرمائے کہ اسے ضرور شائع کرو غیرمامور کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اس رؤیا یا الہام کو بیان کرے۔ مامور کا الہام تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر اسے حکم دیا جائے کہ اسے شائع نہ کرو یا اجازت دی جائے کہ اگر چاہو تو شائع کر دو اور اگر چاہوتو نہ شائع کرو تو ان دو صورتوں میں وہ اسے شائع نہ کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی اشاعت کی ممانعت نہ ہو یا الہام کے ساتھ یہ اجازت نہ ہو کہ اگر چاہو تو اسے شائع کر دو اور اگر چاہو تو نہ شائع کرو تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس الہام کو شائع کرے لیکن غیرمامور کو کسی الہام اور رؤیا کے متعلق اگر خدا یہ حکم دے کہ اسے شائع کر دیا جائے تب تو وہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ اسے شائع کرے ورنہ وہ اس کی اشاعت یا عدمِ اشاعت کے متعلق کُلّی اختیار رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی غیرمامور کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ جب وہ کسی رؤیا یا الہام کو شائع کرے تو یہ بھی دیکھ لے کہ وہ کسی مامور کے الہام یا حکم کے خلاف تو نہیں کیونکہ مامورین کی وحی کے خلاف غیرمامور کا کوئی رؤیا یا الہام درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال اگر غیرمامور کو کسی خواب یا الہام کے متعلق یہ حکم نہ دیا جائے کہ اسے ضرور شائع کر دو تو اسے اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسے شائع کرے اور اگر چاہے تو نہ کرے۔
موجودہ جنگ کے متعلق گزشتہ نو ماہ میں اللہ تعالیٰ نے متواتر اور کثرت کے ساتھ مجھ پر غیب کی خبروں کا اظہار کیا ہے مگر میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کی عام اشاعت کروں۔ گو قریباًقریباً تمام رؤیا اور کشوف مَیں بعض دوستوں کو بتا چکاہوں مگر ان کا عام اظہار میں اس لئے مناسب نہیں سمجھتا کہ اس سے ملک میں بے چینی پیدا ہو گی اور لوگ اسے تخویف اور انذار سمجھ کر یہ خیال کر لیں گے کہ انہیں خواہ مخواہ مرعوب اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی عام اشاعت سے ممکن ہے حکومت کو بھی شکوہ پیدا ہو اس لئے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کو کھلے طورپر بیان کروں۔
جن دوستوں کو میں نے وہ رؤیا و کشوف بتائے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت جبکہ اتحادی ابھی بالکل امن میں تھے اور جبکہ انہیں اپنی طاقتوں پر کامل اطمینان اور بھروسہ تھا مجھے بڑی بڑی تباہیوں ، بڑی بڑی ہلاکتوں اور بڑے بڑے تغیرات کی خبر دی گئی تھی اور ان رؤیا و کشوف اور الہامات کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ ابھی مصائب کا دروازہ اور زیادہ وسیع ہو گا لیکن جس حدتک مصائب میں وسعت ظاہر ہو چکی ہے وہ بھی ایسی ہے کہ ہر عقل و سمجھ رکھنے والے اور خداتعالیٰ کی خشیت اور اس کا خوف اپنے دل میں محسوس کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائے اور دعاؤں میں مشغول ہو جائے۔ ہمارے قیاسات اور ہماری عقلیں بہت ہی محدود رنگ رکھتی ہیں۔ ایک خیال کرلیتا ہے کہ اس وقت جرمنی کا ترقی کرنا بہتر ہے، دوسرا قیاس کر لیتا ہے کہ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی ترقی دنیا کے لئے مفید ہے ۔ کوئی کسی کی فتح کو مفید سمجھتا ہے اور کوئی کسی کی شکست کو دنیا کے لئے ضروری سمجھتا ہے؟ مگر سوال یہ ہے کہ خواہ کسی کا جتنا بہتر تصور کیا جائے انگریزوں اور فرانسیسیوں کا یا جرمنی اور اطالیہ کا۔ دنیا کی تباہی اور بربادی میں تو کوئی شبہ نہیں ۔ وہ بہتری جس کی لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں وہ تو شاید سینکڑوںسال میں ظاہر ہو مگر آج کی جنگ میں جس طرح لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، جس طرح تباہی اور بربادی چاروں طرف محیط ہو رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہی تو دنیا میں سَو میں سے شاید دس پندرہ آدمی ہی زندہ رہیں گے باقی سب فنا ہو جائیں گے۔
احادیث سے بھی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بھی اس قسم کی پیشگوئیاں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کا یہ آخری فتنہ نہایت ہی ہیبت ناک ہے۔ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں اس قدر تباہی ہو گی کہ ایک ایک مرد کے مقابلہ میں چار چار عورتیں رہ جائیں گی اور دس دس آدمیوں میں سے سات سات مر جائیں گے اور دنیا میں اتنی لاشیں کھلی پڑی ہوں گی کہ ان کے تعفّن کی وجہ سے وبائیں پھوٹ پڑیں گی کیونکہ مُردوں کو اٹھانے اور ان کو دفن کرنے والے کوئی نہیں رہیں گے۔2
رسول کریم ﷺ نے یہ باتیں جوبیان فرمائی ہیں ان کے پورا ہونے کے آثار اب ظاہر ہو رہے ہیں اور سخت قابلِ رحم حالت ہے ان ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی جو روزانہ میدانِ جنگ میں زخمی ہوتے اور تباہ و برباد ہوتے جا رہے ہیں۔ پھر تعجب یہ کہ اس لڑائی کی وجہ کوئی اعلیٰ درجہ کے روحانی اصول نہیں جن کی خاطر اس قسم کی لڑائی کو جائز قرار دیا جا سکے۔ وہ اس لئے نہیں لڑ رہے کہ خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کریں، وہ اس لئے نہیں لڑ رہے کہ شرک اور کفر کو مٹا دیں اور ایمان لوگوں کے دلوں میں قائم کر دیں، وہ اس لئے نہیں لڑ رہے کہ دنیا کی روحانی یااخلاقی ترقی میں جوروکیں حائل ہیں ان کو دور کر دیا جائے بلکہ محض دنیا کے لئے، کچھ تجارتی میدانوں کے لئے، کچھ زمینوں اور کچھ ملکوں کے لئے یہ تمام لڑائی ہو رہی ہے۔ اور اس آگ کے اردگرد ایک بگولہ چکر لگا رہا ہے جوچاروں طرف کے لوگوں کو اپنے ساتھ لپیٹ کر اس آگ میں گرا رہا ہے اور حالات اس قسم کے ہیں کہ اس بگولے سے بچنا عقلی طور پر بالکل ناممکن ہے۔ دونوں طرف سے ایسے رنگ میں باتیں پیش کی جاتی ہیں کہ ہر انسان اس بات پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جس خیال کی تائید میں پائے اس کی حمایت کے لئے کھڑا ہو جائے۔ ایسے حالات میں یہ لڑائی جتنی بڑھے گی اتنی ہی زیادہ دنیا میں تباہی اور بربادی پھیلے گی۔پس اس تباہی و بربادی سے بچنے اور بنی نوع انسان پر رحم کرنے کے لئے ایک مومن کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گرے اور اسی کے سامنے اپنے دکھ کی فریاد کرے۔
ہماری جماعت کے لوگوں میں یہ وہم ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں ہماری جماعت ہمیشہ پھولوں کی سیج پر ترقی کرتی چلی جائے گی۔ جو لوگ منافق طبع ہیں وہ تو کچھ بھی خیال نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں ان کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ روٹی کمائی، کھائی اور زندگی کے دن پورے کر لئے مگر جو لوگ مخلص ہیں وہ اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ ہماری جماعت مشکلات میں سے گزرے بغیر اس ترقی کو حاصل کر لے گی جو پہلے انبیاء کی جماعتوں نے حاصل کی۔ میں اس ناواقفیت اور تجاہل کے متعلق کیا کہوں؟ مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اس غلط فہمی میں کیوں مبتلا ہیں؟ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات سے صاف ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ بڑے بڑے ابتلاؤں میں سے گزرے گی۔ وہ ابتلاء سیاسی بھی ہوں گے، وہ ابتلاء اقتصادی بھی ہوں گے، وہ ابتلاء مالی بھی ہوں گے، وہ ابتلاء علمی بھی ہوں گے، وہ ابتلاء قومی بھی ہوں گے۔ غرض ہر قسم کے ابتلاؤں کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات میں ہے۔ حکومتوں کی طرف سے تشدد اور جھگڑوں کا بھی ان الہامات میں ذکر ہے، اقوام کی طرف سے تشدد اور سختیوں کا بھی ان میں ذکر ہے۔ بعض سیاسی ابتلاؤں کا بھی الہامات میں ذکر ہے، بعض ہجرتوں کا بھی ذکر ہے، اسی طرح قتلوں اور طرح طرح کے دکھوں سے جماعت احمدیہ کے ستائے جانے کا بھی ذکر ہے۔ لیکن باوجود اس کےکہ میں نے بار بار کہا ہماری جماعت کے دوست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے الہامات کو پڑھنے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور جو پڑھتے ہیں ان میں یہ مرض ہے کہ وہ سارے الہامات گزرے ہوئے واقعات پر چسپاں کر دیتے ہیں اور یہ ایک نہایت ہی خطرناک نقص ہے۔
میں نے ایک دفعہ ایک دوست کوایک زلزلہ کے متعلق مضمون لکھنے کے لئے کہا تو انہوں نے زلزلوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے تمام الہامات اس ایک زلزلہ پر ہی چسپاں کر دئیے۔ میں نے انہیں کہا کہ اس کے تو یہ معنے ہوئے کہ آئندہ کسی زلزلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا کوئی الہا م نہیں رہا۔ غرض بہت سے الہامات آئندہ رونما ہونے والے واقعات کے متعلق ہوتے ہیں مگر ہم غلطی سے ان الہامات کو کسی گزرے ہوئے واقعہ پر چسپاں کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔
دراصل انسان کی یہ عادت ہے کہ خوشی چاہے چھوٹی ہی ہو وہ اسے وسیع طور پر منانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس عادت کے مطابق ہماری جماعت کے دوستوں کو بھی جب کسی الہام کے پورا ہونے سے خوشی ہوتی ہے تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ سارے الہامات گھسیٹ کر اسی ایک واقعہ پر چسپاں کر دیں۔ حالانکہ بسا اوقات وہ الہامات اتنے عظیم الشان ہوتے ہیں کہ جن واقعات پر ہماری جماعت کے دوست ان کو چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی الہامات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
پس بڑے بڑے ابتلاء آنے والے ہیں کیونکہ ہماری جماعت کے سپرد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا کام کیا گیا ہے۔ ان حالات میں ہماری جماعت کے دوستوں کو محض اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہیئے کہ ہمارے لئے پھولوں کی سیج بچھی ہوئی ہے اور ہم اسی پر چلتے جائیں گے تکالیف ہمارے سامنے کبھی نہیں آئیں گی کیونکہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے ۔ مومن ہمیشہ مشکلات کو دیکھا کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے سینکڑوں الہامات اس بارے میں موجود ہیں۔ میں نے بھی بیسیوں رؤیا و کشوف دیکھے ہیں جن میں جماعت پر کئی قسم کے ابتلاؤں کے آنے کا ذکر ہے۔ اسی طرح جماعت کے اور بہت سے دوستوں نے خوابیں دیکھی ہوئی ہیں اور یہ ساری باتیں بے معنی نہیں بلکہ اپنے وقت پر پوری ہونے والی ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کے لئے ترقی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جیسے پہلی جماعتوں پر ابتلاء آئے اسی طرح ہماری جماعت پر بھی آئیں گے اور اسے بھی ان ابتلاؤں کی آگ میں سے گزرنا پڑے گا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ۔ 3 کہ کیا کوئی مذہبی جماعت ہے جو یہ خیال کرتی ہو کہ وہ ہمیشہ امن میں رہے گی وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ اور اللہ تعالیٰ اسے فتنوں اور عذابوں میں نہیں ڈالے گا؟ فرماتا ہے یہ بات غلط ہے نہ پہلے کبھی ایسا ہؤا اور نہ آئندہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے۔ پھر یہ صرف قرآن نے ایک قاعدہ کُلّیہ کے رنگ میں ہی بات بیان نہیں کی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھی یہ الہام ہؤا ہے ۔4
بہرحال قرآن کریم نے ایک قاعدہ کے رنگ میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ انبیاء کی جماعتوں پر ہمیشہ ابتلاء آیا کرتے ہیں۔ وہ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ یہ نہیں فرمایا اَتَحْسَبُوْنَ تاکہ اسے صحابہؓ کے لئے مخصوص نہ سمجھ لیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہؓ کے متعلق بھی یہ قرآنی آیت ہے مگر اللہ تعالیٰ نے الفاظ ایسے رکھے ہیں جو قاعدے پر دلالت کرتے ہیں۔چنانچہ فرمایا اَحَسِبَ النَّاسُ کیا انسان یہ گمان کرتا ہے؟ اَتَحْسَبُوْنَ نہیں فرمایا۔ اسی طرح اَفَحَسِبْتُمْ نہیں فرمایا بلکہ اَحَسِبَ النَّاسُ فرمایا یعنی کیا لوگوں کا یہ خیال ہے کہ صرف ایمان کا دعویٰ کر دینا ان کے لئے کافی ہے اور وہ کبھی ابتلاؤں میں سے نہیں گزریں گے؟ غرض اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جتنے الفاظ استعمال کئے ہیں وہ سب اس کے قاعدہ کلیہ ہونے کے شاہد ہیں۔ پس یہ ایک اصول ہے جو ہر نبی کی جماعت پر چسپاں ہوتا ہے اور یہ ایک قاعدہ ہے جس کا ہر زمانہ میں پورا ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر یہ قاعدہ ہے کہ انبیاء کی جماعتیں ابتلاؤں میں سے ضرور گزرتی ہیں تو یہ بھی قاعدہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ یا تو آنیوالے ابتلاؤں کو ٹال دیتا ہے یا ان کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دکھ سے خوش نہیں ہوتا بلکہ ان ابتلاؤں کے ذریعہ وہ بندوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح ماں کا دل چاہتا ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اس کا بچہ اس کی طرف آئے اور اگر وہ زیادہ دیر تک اس کے پاس نہ آئے تو کبھی وہ اس کو سرزنش بھی کرتی ہے جیسے بچہ اگر کھیل میں مشغول ہو اور ماں چاہتی ہو کہ وہ اس کے پاس آئے تو وہ بچے کو مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ میں تجھے مٹھائی نہیں دوں گی اور اس سے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کا بچہ کھیل کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کبھی کبھی اپنے بندوں کو انعامات سے محروم کر دیا کرتا ہے تاکہ وہ اس کی طرف توجہ کریں کیونکہ اس کی محبت ماں کی محبت سے بہت زیادہ ہے۔ اگر بندے اپنے اوپر یہ امر لازم کر لیں کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف جھکتے رہیں اور اس کے حضور عاجزی اور گریہ و زاری سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ آنے والے ابتلاؤں کو یا تو ٹال دیتا ہے یا ان کی شدت کو کم کر دیتا ہے اور یا انہیں کلیۃً مٹا دیتا ہے۔ گویا دعاؤں کے نتیجہ میں کبھی تو اللہ تعالیٰ ابتلاؤں کو پیچھے ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ انسان کے اندر قوتِ برداشت پیدا ہو جاتی ہے کبھی ان کو بالکل مٹا دیتا ہے اور کبھی ان کے زور کو کم کر دیتا ہے۔ یا تو اس رنگ میں کہ عذاب کی شدت کم ہو جاتی ہے یا اس رنگ میں کہ اس کو برداشت کرنے کی ہمت انسان کے اندر بڑھ جاتی ہے۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس نازک وقت میں وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خاص طور پر دعاؤں میں مشغول ہو جائیں۔ اس کے لئے میں جماعت کے تمام مخلص دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جولائی کے آخر تک ہر نمازِجمعہ کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد امام کے ساتھ مل کر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان فتنہ کی بربادیوں سے اپنے غریب بندوں کو بچائے۔ خصوصاً جماعت احمدیہ کو محفوظ رکھے اور اس فتنہ کا نتیجہ سچ اور راستی کے لئے اچھا ہو اور جھوٹ اور مکر کے لئے بُرا ہو۔ اسی طرح میں اپنے دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ جولائی کے آخر تک ہر جمعرات کو روزہ رکھیں اور روزہ کے خاتمہ پر جن کو توفیق ہو وہ اپنے اپنے مقام پرجمع ہو کر اسی رنگ میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حق اور راستی کو فتح دے اور دنیا سے ظلم، فریب اور دغا کومٹا کر اپنے کمزور بندوں کوتباہی و بربادی سے محفوظ رکھے اور بجائے اس کے کہ عذاب میں مبتلا ہو کر وہ تباہ ہو جائیں خداتعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور انہیں ہدایت کی طرف متوجہ کرے کیونکہ آخر جو تباہ ہو رہے ہیں وہ بھی ہمارے بھائی ہیں، جو مظلوم ہیں وہ بھی ہمارے بھائی ہیں اور جوظالم ہیں وہ بھی ہمارے بھائی ہیں اور رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ جب رسول کریم ﷺ نے یہ بات بیان کی تو احادیث میں لکھا ہے بعض صحابہ نے کہا یا رسول اللہ! مظلوم کی مدد تو ہماری سمجھ میں آسکتی ہے مگر ظالم کی مدد کرنے کا ارشاد سمجھ نہیں آیا۔ آپؐ نے فرمایا ظالم بھائی کی مدد یہ ہے کہ تُو اسے ظلم سے روک دے۔5 پس اگر ہم یہ دعا کرتے ہوئے کہ خداتعالیٰ سچائی کو فتح دے، ظلم کو دنیا سے مٹا دے اور لوگوں کو بجائے عذاب سے تباہ کرنے کے ظالموں کی ہدایت کے سامان کرے اور مظلوموں کو ظلم سے محفوظ رکھے تو ہم ظالم کی بھی مدد کرتے ہیں اور مظلوم کی بھی۔ اور ہم اپنے رب سے وہ چیز طلب کرتے ہیں جس کا نتیجہ خیر ہی خیر ہے اور جس میں شرّ کا کوئی پہلو نہیں۔
پس دعائیں کرو اور کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ خداتعالیٰ مظلوم کو طاقت دے، اس کی کمر کو قوت بخشے ، اس کے دماغ کو مضبوط بنائے اور اس کے اعضاء میں ایسی طاقت بھر دے کہ وہ ظالم کے ہاتھ کو بہادری سے روک سکے۔ ساتھ ہی تم ظالم کے لئے بھی دعائیں کرو کہ خداتعالیٰ اسے ہدایت دے اور اسے ظلم ، دھوکا، فریب اوردغا سے بچائے۔ پس ہر ایک کے لئے دعا کرو تا خداتعالیٰ کا فضل دنیا کی ہر قوم پر نازل ہو کیونکہ ایمان کسی ایک قوم کا حصہ نہیں بلکہ انگریز اور فرانسیسی اورجرمنی اور اطالوی اور روسی اور جاپانی سب اس کے حصہ دار ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ کوئی قوم بھی اس سے محروم رہے مگر ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی قوم ظالم بن کر دنیا کو تباہ کر دے۔‘‘
(الفضل 18 جون 1940ء)

1 الفضل 26 جولائی 1938ء
2 صحیح بخاری کتاب النکاح باب یقل الرجال ویکثر النساء
3 العنکبوت: 3
4 تذکرہ صفحہ 240 طبع چہارم
5 بخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ انہ اخوہ۔(الخ )


51
اب دعاؤں کے سوا کوئی چارہ نہیں
ایک بہت بڑا نشان جوحیرت انگیز رنگ میں پورا ہؤا
فرمودہ21 جون1940ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ میں نے گزشتہ خطبہ میں جماعت کو روزے رکھنے اور دعائیں کرنے کی تحریک کی تھی۔ خصوصاً جمعہ کی نماز میں آخری رکعت کے رکوع کے بعد اور اس طرح روزوں کے اختتام پر بھی۔ کل دوستوں نے روزہ رکھا مگر ایک حادثہ کی وجہ سے دعا کے لئے جمع نہ ہو سکے اور میں تو بیماری کی وجہ سے روزہ بھی نہ رکھ سکا بہرحال آئندہ روزوں میں ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ مساجد میں جمع ہو کر روزہ کھولیں اور وہیں اکٹھے ہو کر دعائیں کریں۔ اسی طرح جمعہ کی نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ روزہ میں دعا کی قبولیت زیادہ ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔1 اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جمعہ میں ایک ساعت ایسی آتی ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی دعائیں سنتا ہے۔2
پس ان وقتوں میں خصوصیت سے دعائیں کی جائیں۔ اس دوران میں جنگ کی حالت اور بھی خراب ہو گئی ہے۔ حکومت فرانس نے ہتھیاررکھ دئیے ہیں اور گو ابھی کوئی ایسی خبر نہیں آئی مگر جس رنگ میں کارروائی ہو رہی ہے شبہ ہے کہ جرمنی کوشش کرے گا کہ فرانس کا بحری بیڑہ اسے مل جائے اور اگر ایسا ہو جائے جیسا کہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لئے کوشش کی جائے گی تو اطالوی اور فرانسیسی بیڑا مل کر برطانوی بیڑے سے زیادہ طاقتور ہو جائے گا اور برطانیہ کے لئے اپنے جزائر کی حفاظت مشکل ہو جائے گی۔ اس وقت تک تو برطانوی بیڑے کی طاقت اطالوی بیڑے سے بہت زیادہ ہے حتّٰی کہ وزیر اعظم برطانیہ نے اطالوی بیڑے کو چیلنج دیا ہے کہ آ کر مقابلہ کرے بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ ہم اسے رستہ دے دیتے ہیں وہ حملہ کر کے دیکھ لے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ فرانسیسی بیڑا بھی مل جائے تو اس کی طاقت بہت بڑھ جائے گی۔ میرا شروع سے یہی خیال ہے کہ جرمنی کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ فرانسیسی بیڑا لے اور اب یہ شبہ اور بھی قوی ہوتا جا رہا ہے۔ جرمنی نے فرانس کے نمائندوں کو صلح کی شرائط بتا دی ہیں مگر کہا یہ ہے کہ انہیں ابھی شائع نہ کیا جائے۔ اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں شرائط کی اشاعت سے اسے اسی نقصان کا خطرہ ہے کہ ایسا نہ ہو فرانسیسی بحری بیڑے یا ہوائی بیڑے کے افسر اپنے ملک سے وفاداری کے لحاظ سے جہازوں کو تباہ کر دیں یا برطانوی بیڑا سے جا ملیں۔ فرانس کے بہت سے فوجی افسر ابھی مقابلہ کی طرف متوجہ ہیں اور غیرممالک میں فرانسیسیوں کی نوآبادیوں کے رہنے والے بھی جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں اور انہوں نے فرانسیسی گورنمنٹ کو تاریں دی ہیں کہ ہم اپنی ساری جائدادیں بیچ کر دے دینے کو تیار ہیں جنگ کو بند نہ کیا جائے اور ان حالات میں اگر یہ خبریں قبل از وقت نکل جائیں تو اس بات کا امکان ہے کہ فرانسیسی بحری افسر یا تو اپنے بیڑے کو تباہ کر دیں گے یا پھر انگریزوں سے جا ملیں گے۔ جرمنی کی اس کوشش کی کہ شرائط صلح کو مخفی رکھا جائے یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ فرانسیسی افسر جو صلح کے خلاف ہیں وہ اور انگریز کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ وہ خود فرانسیسی بحری اور ہوائی بیڑا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر یہ خبر شائع ہو جائے تو ایک طرف تو انگریز فرانسیسی افسروں کو اکسائیں گے کہ اس طرح تمہارا ملک ہمیشہ کے لئے تباہ ہو جائے گا اور دوسری طرف کئی باغیرت فرانسیسی افسر یہ کوشش کریں گے کہ اپنے جہاز لے کر برطانوی بیڑے سے جا ملیں یا پھر اپنے جہازوں کو تباہ کر دیں۔ پس حالات ایسے ہیں کہ جرمنی کوشش کر رہا ہے کہ فرانس سے برطانیہ کے خلاف مدد حاصل کرے اور بظاہر اسے دو ہی فائدوں کی توقع ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ اس کے بحری اور ہوائی بیڑا سے فائدہ اٹھائے اور یا پھر یہ کہ برطانوی نوآبادیوں کے ساتھ جو فرانسیسی نوآبادیاں ہیں ان پر قبضہ کر لے۔ مثلاً یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شام میں جرمن فوجیں چوری چوری پہنچا دی جائیں اور پھر فرانسیسی ان لوگوں کو جرمنوں کے حوالہ کر کے خود اس ملک پر قبضہ چھوڑ دیں لیکن کوئی بھی صورت ہو انگریزوں کے لئے بہت خطرناک ہو سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ ان حالات میں اور بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اب حالات ایسی صورت اختیار کر گئے ہیں کہ یہ اب اللہ تعالیٰ کے ہی ہاتھ میں ہے کہ اس طوفان کو بند کرے کسی انسان کی طاقت میں اب یہ امر نہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ؂
کوئی کشتی اب بچا سکتی نہیں اس سیل سے
حیلے سب جاتے رہے اک حضرت توّاب ہے3
عین ممکن ہے کہ یہ اسی جنگ کی طرف اشارہ ہو ۔ اس وقت یہ حالت ہے کہ سب حیلے جاتے رہے ہیں اور اب ایک توّاب بادشاہ ہی کی بارگاہ ہے جو اس مصیبت سے نجات دلا سکتی ہے۔ جن لوگوں پر اصل مصیبت ہے وہ تو ابھی غافل ہیں اور ابھی عیسائیت ہی کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ توحید کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں مگر چونکہ ان کی بلائیں ہم پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمیں بھی ان سے حصہ پہنچتا ہے اس لئے ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور اگر ہم حضرتِ توّاب کی بارگاہ میں جھکیں تو ممکن ہے ہماری دعا سے ہی اللہ تعالیٰ ان بلاؤں کو ٹال دے۔
اب دعاؤں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہر وہ شخص جس کے دماغ میں عقل ہو اور جو فکرِ صحیح کا مادہ رکھتا ہو سمجھ سکتا ہے کہ انسانی تاریخ کے موجودہ دور میں ایسا نازک اور اس قدر تکلیف دہ وقت کبھی نہیں آیا۔ اس سے سَوسال پہلے بھی نہیں آیا اور سَو سال بعد بھی آنے کی امید نہیں۔ دنیا تباہی کے سرے پر کھڑی ہے اور غلامی دنیا کو اپنا شکار بنانے کے لئے جھانک رہی ہے۔ آزادی کے خواب جو انسان دیکھ رہا تھا وہ بالکل باطل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور آثار ایسے ہیں کہ پہلے سے زیادہ سخت قسم کی غلامی دنیا کو اپنا شکار بنانے والی ہے۔ پہلی غلامی تو صرف جسمانی غلامی تھی مگر اب جو حالات ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جسمانی کے ساتھ روحانی غلامی بھی ہو گی اور اغلباً مذہبی امور میں بھی دست اندازی کی جائے گی اور ایسے خطرات کے وقت میں مومن کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے رب کے حضور جھک جائے اور کہے کہ اے خدا دنیا پر شدید مصائب کا وقت آ گیا ہے۔ میرے پاس کوئی سامان نہیں اور دشمن نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ ہمیں آئندہ کی باتوں کا کوئی علم نہیں تُو ہی غیب کا جاننے والاہے۔ ظاہر حالات میں تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ دن بہت بُرے ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو ہم بے بسوں اور بے کسوں کی طرف سے تُو ہی کافی ہو جا اور ان بلاؤں کو دور کر دے۔ لیکن اگر تیرے علم میں یہ حالات اچھے ہیں اور ان خرابیوں کا نتیجہ اچھا نکلنے والا ہے تو تُو ہمیں دُبدا اور شک میں نہ رکھ اور اپنے الہام اور وحی سے ہمیں بتا دے تا ہماری گھبراہٹ دور ہو ۔ پس دعائیں کرو، دعائیں کرو اور دعائیں کرو۔ گھبراہٹ میں کئی لوگ دفاعی انجمنیں بنا رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس علاقہ کے بعض لوگوں نے بھی کوئی ایسی انجمن بنائی ہے اور بعض نے شکایت کی ہے کہ دیکھو احمدی ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوتے۔ اصل بات یہ ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ خود ایسی انجمنیں بنائے گی اور ہم اس کے منتظر ہیں۔ پس یہ درست نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ احمدی ہمارا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ وہ اس بات پر مغرور ہیں کہ ان کی تعداد زیادہ ہے مگر یہ بات بالکل غلط ہے۔ کسی ایک قصبہ کی تعداد کی زیادتی کس طرح غرور کا موجب ہو سکتی ہے ۔ ہمارے اردگرد تمام سکھوں کے گاؤں ہیں۔ ایک سَو نوّے دیہات سکھوں کے ہیں جو امرتسر اور سیالکوٹ کے اضلاع تک پھیلے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے کہ اتنے وسیع دیہات میں ایک بستی والے خواہ وہ وہاں زیادہ تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں اپنے آپ کو زیادہ نہیں سمجھ سکتے۔ پس اگر ہم کسی انجمن میں اب تک شامل نہیں ہوئے تو یہ کسی غرور کی وجہ سے نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سب باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے اور گورنمنٹ کو موقع دیا جائے کہ ایسی انجمنیں بنائے۔ حملہ کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ایک بیرونی حملہ اور دوسری ملکی بدامنی۔ اگر کوئی بیرونی دشمن حملہ آور ہو تو ظاہر ہے کہ ہندو ، سکھ، مسلمان احمدی، غیر احمدی سب ملک کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بھلا توپوں، مشین گنوں اور ہوائی جہازوں کے مقابلہ میں ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے کیا بنتا ہے؟ ایسی صورت میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی بچا سکتا ہے ایسی کمیٹیاں نہیں بچا سکتیں لیکن اگر ملکی فسادات کا خیال ہو تو حکومت اعلان کر چکی ہے کہ وہ اس کے متعلق انتظامات کر رہی ہے اور ہمیں اس کو موقع دینا چاہیئے کہ وہ اپنی نگرانی میں یہ کام کرے تا ملک میں فساد بڑھے نہیں لیکن اگر حکومت سُستی کرے اور سوال بیرونی حملہ کا نہ ہو بلکہ اندرونی بدامنی، ڈاکے اور لوٹ مار کا ہو تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے باہمی جھگڑے اور اختلافات ایسے معاملات میں روک نہیں بن سکتے۔ اگر فسادات، ڈاکے اور طوائف الملوکی کا وقت آئے تو ہم ہندوؤں،سکھوں، احرار بلکہ مصری جیسے لوگوں کی بھی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنی۔ اپنی حفاظت کے لئے جو انتظامات کریں گے ویسے ہی ان کے لئے بھی کریں گے۔ اس وقت ہمارے سامنے آریہ سکھ، احراری یا مصری کا سوال نہیں ہو گا بلکہ انسانیت کا سوال ہو گا۔ ہم ان کی اور ان کے بیوی بچوں کی حفاظت بھی اسی طرح کریں گے جس طرح اپنوں کی۔ یہ تو آگے اللہ تعالیٰ کو ہی علم ہے کہ ہم ایسا کر بھی سکیں گے یا نہیں لیکن ہماری طرف سے کوشش یہی ہوگی کہ ہر ایک کی حفاظت کریں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ کوشش کر رہی ہے اس لئے پہلے اسے موقع دینا چاہیئے۔ ہاں اگر وہ سُستی کرے تو پھر خود مل کر انتظام کرنا چاہیئے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصل حفاظت اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔ کوئی خواہ ہندو ہو یا سکھ یا غیر احمدی سب کو یہی سمجھ لینا چاہیئے کہ ایسے مصائب میں اللہ تعالیٰ ہی مدد گار ہو سکتا ہے۔ اس لئے سب کو اسی کی طرف جھکنا چاہیئے۔ ہر شخص کو انفرادی طور پر پہلے اس کے حضور جھکنا چاہیئے اور پھر متفقہ طور پر اور قومی رنگ میں کوئی کوشش کرنی چاہیئے کیونکہ اگر دل خداتعالیٰ کی طرف نہ جھکیں تو ہاتھ کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے لیکن اگر دل خداتعالیٰ کی طرف جُھک جائیں تو ہاتھ اگر کمزور بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو طاقت دے دے گا۔
یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسے مصائب جو عالمگیر عذاب کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں انفرادی کوششوں سے دور نہیں ہؤا کرتے۔ انفرادی تکلیفوں میں انفرادی کوششوں سے لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس میں کافر اور مومن کا بھی سوال نہیں ہوتا۔ کوششوں سے کافر بھی جیت جاتے ہیں اور فاسق و فاجر بھی مگر جو مصائب خداتعالیٰ کی طرف سے عذاب کے طور پر آتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور جھکنے کے بغیر دور نہیں ہؤا کرتے۔
پس اِس وقت دنیا پر جو مشکل او رنازک وقت آیا ہؤا ہے اس کے حل کا یہی طریق ہے کہ سب لوگ خداتعالیٰ کی طرف جھک جائیں اور بہت دعائیں کریں ۔ اس موقع پر میں ایک اور نشان کا ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی ہفتہ ظاہر ہؤا ہے اور جس کی طرف میں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ میں اشارہ کیاتھا۔ وہ رؤیا مَیں نے مفصّل طور پر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب اور عزیز مکرم میاں مظفر احمد صاحب کو بھی سنایا تھا اور چند روز ہوئے خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ میں نے انہیں بھی سنایا تھا۔ ٭میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور مُنہ مشرق کی طرف ہے۔ میرے سامنے حکومت برطانیہ کی خفیہ خط و کتابت پیش کی جا رہی ہے۔ یہ چٹھیاں انگریزی حکومت کی طرف سے فرانسیسی حکومت کے نام ہیں۔ ایک چٹھی میرے سامنے آئی جس میں حکومت برطانیہ نے فرانسیسی حکومت کو لکھا ہے کہ ہمارا ملک سخت خطرہ میں پڑ گیا ہے جرمنی اس پر حملہ آور ہونے والا ہے اور قریب ہے کہ اسے مغلوب کرے۔ اس لئے ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ انگریزی حکومت اور فرانسیسی حکومت کا الحاق کر دیا جائے۔ یہ چٹھی پڑھ کر میں بہت گھبرایا اور قریب تھا کہ میری آنکھ کھل جاتی کہ یکدم آواز آئی کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ظاہری حالات میں ایسی درخواست وہی ملک کر سکتا ہے جو بہت کمزور ہو جائے۔ اس رؤیا کی بناء پر میں خیال کرتا تھا کہ جرمنی فرانس کے شمالی حصہ کو لے کر انگلستان پر حملہ کر دے گا اور اس حملہ کی وجہ سے انگلستان جب سخت خطرہ میں گِھر جائے گا تو وہ فرانس سے درخواست کرے گا کہ ہماری حکومت اور اپنی حکومت کو ملا دو ۔ میں اس کی یہی تعبیر سمجھتا تھا کیونکہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ جو ملک مغلوب ہونے لگتا ہے وہ دوسرے سے امداد کی درخواست کرتا ہے۔ آج تک جب سے دنیا شروع ہوئی ایسا کبھی نہیں ہؤا کہ کسی ایسے ملک سے جو شکست کھا چکا ہو اس سے طاقتو رکسی ملک نے مدد کی درخواست کی ہو
٭ خطبہ کے بعد بعض اور دوستوں نے بھی اطلاع دی ہے جنہیں یہ رؤیا سنایا گیا تھا۔
مگر اللہ تعالیٰ نے میرے اس رؤیا کو ایسے عجیب رنگ میں پورا کیا ہے کہ آج تک جب سے آدم پیدا ہؤا کبھی ایسا نہیں ہؤا۔ جب فرانس گرنے لگا تو برطانیہ نے خیال کیا کہ اگر فرانس صلح نہ کرے تو کچھ نہ کچھ مزاحمت اس کی طرف سے ہوتی رہے گی اس کے جہاز بھی لڑتے رہیں گے، نو آبادیاں بھی جنگ کو کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھیں گی لیکن اگر وہ صلح کرے تو اس کے جہاز بھی جرمنی کو مل جائیں گے ، نوآبادیاں بھی مل جائیں گی اور اس صورت میں جرمنی کے حملہ کا سارا زور ہم پر پڑے گا اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت برطانیہ نے وہ کام کیا جس کی نظیر آج تک جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی کوئی نہیں ملتی یعنی اس نے فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق کر دیا جائے۔ حکومت ایک ہو، پارلیمنٹیں بھی ملا دی جائیں، خوراک کے ذخائر اورخزانہ بھی ایک ہی سمجھا جائے اور یہ وہ تحریک ہے جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی ۔ گو مَیں نے غلطی سے اس کی تعبیر یہ سمجھی کہ فرانس کی حکومت طاقتور رہے گی۔ پہلے حملہ برطانیہ پر ہو گا اور پھر برطانیہ فرانس سے مدد کی درخواست کرے گا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے بالکل عجیب رنگ میں پورا کیا۔ پہلے فرانس پر حملہ ہؤا اور وہ بالکل گر گیا۔ انگلستان نے سمجھا کہ گو وہ طاقتور ہے مگر اس کی طاقت اسی صورت میں اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے کہ فرانس سے اس کو تھوڑی بہت مدد ملتی رہے اور اس لئے اس نے فرانس سے یہ درخواست کی کہ دونوں حکومتوں کو ایک کر دیا جائے۔ یہی وہ بات تھی جس کا ذکر میں نے گزشتہ خطبہ میں مختصراً کیا تھا کہ برطانیہ خطرہ کی حالت میں دوسرے ملکوں سے امداد کی اپیل کرے گا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے دھرم سالہ میں مَیں نے اس کا ذکر پہلے عزیز مکرم میاں مظفر احمد صاحب سے کیا۔ پھر باہر آیا تو اس جگہ جہاں ڈاکٹرحشمت اللہ صاحب دوائیاں دیتے تھے ان سے اس کا ذکر کیا۔ پھر جہاں تک یاد پڑتا ہے چوہدری سرظفر اللہ خان صاحب کو بھی یہ رؤیا سنائی پھر اس سفر کراچی میں بعض دوستوں کو یہ رؤیا سنائی۔ دو دن ہوئے خان صاحب فرزند علی صاحب نے بتایا کہ ان کو بھی یہ خواب میں نے سنائی تھی اور بھی بعض لوگوں کو سنائی تھی۔٭اور یہ بہت بڑا نشان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں
٭ چنانچہ خطبہ کے بعد بعض دوستوں کی طرف سے اس کی اطلاع مجھے ملی ہے۔
دکھایا ہے اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ اس رنگ میں پورا ہؤا ہے کہ جس کی نظیر جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی کوئی نہیں ملتی٭ تو ایمان اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ پھر یہ رؤیا اس وقت کا ہے جب ابھی لڑائی شروع بھی نہ ہوئی تھی اور اتحادی اپنی طاقت کے بہت دعوے کرتے تھے۔ یہ رؤیا دھرم سالہ میں جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں مَیں نے دیکھا تھا اور جنگ ستمبر میں شروع ہوئی۔ اس وقت یہ خیال بھی نہ ہو سکتا تھا کہ برطانیہ اتنا کمزور ہو سکتا ہے اور جب فرانس شکست کھانے لگا تو میں نے خیال کیا کہ اس خواب کی تعبیر کوئی اور ہو گی کیونکہ کسی گرے ہوئے ملک کو کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ مل جاؤ مگر برطانیہ نے جب دیکھا کہ فرانس جتنا مقابلہ کر سکتا تھا کر چکا اور اب اگر اس نے صلح کر لی تو ہمارے لئے بہت خطرناک ثابت ہو گا تو اس نے اسے تحریک کی کہ آؤ دونوں ملکوں کا الحاق کر دیں۔ جنگ کے دوران میں یہی حالت رہے اور جب فتح ہوجائے گی تو پھر دیکھا جائے گا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے رؤیا کو ایسے رنگ میں پورا کیا کہ دنیا کی ہزاروں سال کی تاریخ میں اس کی ایک بھی مثال نہیں ملتی اور جس بات کی دنیا میں کوئی ایک مثال بھی نہ ہو اُسے دماغ خود نہیں بنا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دیکھے کہ میں نے پگڑی باندھی ہوئی ہے یا میں گھوڑے پرسوار ہوں کیونکہ لوگ روزانہ پگڑی باندھتے ہیں اور گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں۔ ایسی مثالیں روزانہ دیکھنے میں آتی ہیں مگر یہ تو ایسی بات تھی جس کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ عالم میں نہیں ملتی اور پھر یہ ایسے حالات میں دکھائی گئی کہ جب اتحادی کہتے تھے کہ ہم پانچ سال تک جنگ کو جاری رکھیں گے اور ان کے مقابلہ پر ہٹلر کہتا تھا کہ میں نے سات سال تک جنگ جاری رکھنے کی تیاری کی ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ ایسی غلطیاں ہوئیں کہ منٹوں میں کچھ کا کچھ ہوتا چلا گیا اور لشکر تباہ ہوتے گئے۔ بعض ایسی ایسی غلطیاں ہوئی ہیں کہ ہم بھی انہیں پڑھ کر حیران ہوتے ہیں کہ جرنیلوں نے کس طرح ایسی غلطیاں کر دیں۔ ان غلطیوں کے نتیجہ میں ایسے حالات پیدا ہوتے گئے کہ برطانیہ کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر فرانس نے جرمنی سے صلح کر لی تو ہمارے لئے بہت مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ یہ جو فرمایا کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے اس کے گو بُرے معنی بھی
٭چنانچہ خطبہ کے بعد ریڈیو پر یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ اس پیشکش کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
ہو سکتے ہیں مگر اس کے اچھے معنی بھی ہیں اور جب تک تعبیر ظاہر نہ ہو تعبیر کا عام قاعدہ یہی ہے کہ اچھے معنی لئے جائیں اور اس لئے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ اب مصیبت ٹل گئی ہے اور چونکہ برطانیہ نے دونوں حکومتوں کے الحاق کی پیشکش 15 جون کو کی تھی اس لئے ہو سکتا ہے کہ 15 دسمبر تک ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ برطانیہ کے لئے اتنا خطرہ نہ رہے۔ اس کی بُری تعبیر بھی ہو سکتی ہے مگر وہ معنی بہت باریک ہیں اور پھر قاعدہ بھی یہ ہے کہ جب تک تعبیر ظاہر نہ ہو اچھے معنی ہی لئے جاتے ہیں اور اس لئے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ فقرہ اچھے رنگ میں کہا گیا ہے۔ ہاں جیسا کہ میں نے کہا ہے اس کے بُرے معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے اس کے بعد خطرہ وقوعہ کی صورت میں بدل چکا اور جب ایک چیز ہو چکی پھر اس سے ڈرنے کا کیا فائدہ؟ بہرحال یہ ایک بہت بڑا نشان ہے جو ظاہر ہؤا۔
آخر میں مَیں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان حالات میں ایسے تغیّر کر دے کہ وہ احمدیت کے لئے کمزوری کا موجب نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ جماعت کو کسی ایسے ابتلاء میں نہ ڈالے جو اس کی طاقت سے بالا ہو۔ پس دعائیں کرو کہ اے اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو اور جو قربانیاں تیری منشاء کے مطابق ہوں ہمیں وہ خوشی سے پیش کرنے کی توفیق عطا فرما اور اپنے فضل سے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے سامان پیدا کر۔‘‘ (الفضل 28 جون 1940ء)
1 وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ البقرۃ: 187
2 صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ
3 درثمین اردو صفحہ 68

61
جماعت احمدیہ کی کامیابی کا صحیح راستہ
(فرمودہ 28 جون 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ ہرایک شخص اور ہر ایک کام کے لئے خداتعالیٰ نے ایک رستہ مقرر کیا ہؤا ہے اور چونکہ دنیا میں مختلف نوعیت کے کام اور مختلف لوگ ہیں اس لئے مختلف کاموں اور مختلف مقامات میں رہنے والے انسانوں کے لئے مختلف رستے ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کسی مکان کی طرف جانا چاہتا ہے اور وہ اس مکان کے شمال کی طرف رہتا ہے تو اس مکان تک پہنچنے کے لئے اس کا رستہ جنوب کی طرف ہو گا اور ایک شخص جو اس مکان کے جنوب کی طرف رہتا ہے اور وہ اس مکان کی طرف آنا چاہے تو اس کا رستہ شمال کی طرف ہو گا۔ اسی طرح مشرق میں رہنے والا اگر اس مکان کی طرف آنا چاہتا ہے تو اس کا رستہ مغرب کی طرف ہو گا اور مغرب میں رہنے والا اس مکان کی طرف آنا چاہتا ہے تو اس کا رستہ مشرق کی طرف ہو گا۔ مکان ایک ہے لیکن مختلف آدمیوں کے لئے اس تک پہنچنے کے رستے مختلف ہیں۔ شمال کے ساکن کے لئے جنوب کی طرف جانا ضروری ہے اور جنوب کے ساکن کے لئے شمال کی طرف جانا ضروری ہے۔ اسی طرح مشرق کے ساکن کے لئے مغرب کی طرف جانا ضروری ہے اور مغرب کے ساکن کے لئے مشرق کی طرف جانا ضروری ہے۔ کسی اور غیرمعلوم مکان کے ذکر کی کیا ضرورت ہے؟ اپنی نمازوں کو ہی دیکھ لو ہندوستان کے عام آدمی بوجہ اپنی جہالت اور ناواقفیت کے خیال کرتے ہیں کہ ساری دنیا مغرب کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتی ہے۔ حالانکہ کعبہ کی طرف مُنہ کرنے کے لئے کچھ حصہ دنیا کا مغرب کی طرف مُنہ کرتا ہے اور کچھ حصہ دنیا کا مشرق کی طرف مُنہ کرتا ہے۔ اسی طرح کچھ حصہ دنیا کا ایسا ہے جو جنوب کی طرف مُنہ کرتا ہے اور کچھ حصہ دنیا کا ایسا ہے جو شمال کی طرف مُنہ کرتا ہے۔ یمن کے رہنے والے اور عدن میں بسنے والے جب نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ مغرب کی طرف مُنہ نہیں کرتے بلکہ خانہ کعبہ اور بیت اللہ سے اپنا تعلق رکھنے کے لئے شمال کی طرف مُنہ کرتے ہیں کیونکہ وہ جنوب میں رہتے ہیں۔ اسی طرح شام، دمشق اور فلسطین کے لوگ جب نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو وہ ہماری طرح مغرب کی طرف مُنہ نہیں کرتے اور اگر کریں تو ان کا مُنہ قبلہ کی طرف نہیں ہو گا۔ اسی طرح وہ یمنیوں اور عدنیوں کی طرح شمال کی طرف مُنہ کر کے بھی نماز نہیں پڑھتے بلکہ وہ چونکہ مکہ سے شمال کی طرف رہتے ہیں اس لئے وہ جنوب کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ایبے سینیا اور ایسٹ افریقہ کے لوگ جہاں ہمارے احمدی دوست بھی اکثر جاتے اور ملازمتیں یا تجارتیں وغیرہ کرتے ہیں ہماری طرح مغرب کی طرف مُنہ کر کے نماز نہیں پڑھتے۔ وہ یمنیوں اور عدنیوں کی طرح شمال کی طرف بھی اپنا مُنہ نہیں کرتے۔ وہ شامیوں ، دمشقیوں اور فلسطینیوں کی طرح جنوب کی طرف مُنہ کر کے بھی نماز نہیں پڑھتے بلکہ وہ مشرق کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ مکہ سے مغرب کی طرف رہتے ہیں۔ پس ہم چار ملکوں کے لوگ چار مختلف جہات کی طرف مُنہ کرتے ہیں مگر ہم سب اس ایک بات میں متحد ہیں کہ ہمارا مُنہ قبلہ کی طرف ہوتا ہے۔ جب ہم مغرب کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو ہمارا مُنہ قبلہ کی طرف ہوتا ہے۔ جب یمنی اور عدنی شمال کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو ان کا مُنہ قبلہ کی طرف ہوتا ہے۔ جب شامی ، دمشقی اور فلسطینی جنوب کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو ان کا مُنہ قبلہ کی طرف ہوتا ہے اور جب ایبے سینیا، ایسٹ افریقہ اور نیروبی کے لوگ مشرق کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے ہیں تو ان کا مُنہ بھی قبلہ کی طرف ہوتا ہے۔ غرض مختلف ملکوں میں رہنے والے مختلف آدمیوں کے لئے خانۂ کعبہ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے مختلف رستے ہیں۔ ہم اگر تعلق پیدا کرنا چاہیں تو ہمارا رستہ مغرب کی طرف ہے ۔ یمنی اور عدنی خانۂ کعبہ سے تعلق پیدا کرنا چاہیں تو ان کا رستہ شمال کی طرف ہے ۔ دمشق، شام اور فلسطین کے لوگ خانۂ کعبہ سے اپنا تعلق پیدا کرنا چاہیں تو ان کا رستہ جنوب کی طرف ہے اور اگر ایبے سینیا، نیروبی اور ممباسہ وغیرہ کے لوگ خانۂ کعبہ سے اپنا تعلق پیدا کرنا چاہیں تو ان کا رستہ مشرق کی طرف ہے۔
غرض دنیا میں مختلف آدمی ہیں اور ہر ایک کے لئے الگ الگ رستہ مقرر ہے۔ اگر ایک ہندوستانی یہ کہے کہ جب میں نیروبی میں تھا تو مشرق کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھا کرتا تھا اب ہندوستان میں آ کر میں مغرب کی طرف کیوں مُنہ کروں تو وہ خداتعالیٰ کی حکم عدولی کرنے والا ہو گا۔ اسی طرح اگر ہندوستان کے رہنے والے نیروبی اور ممباسہ میں جائیں اور کہیں کہ ہم مغرب کی طرف مُنہ کر کے ہی نماز پڑھیں گے مشرق کی طرف مُنہ نہیں کریں گے تو ان کی نماز نہیں ہو گی کیونکہ اس وقت ان کا رستہ مشرق کی طرف ہے نہ کہ مغرب کی طرف۔ یہی حال باقی جہات کا ہے۔ پھر جہات کے علاوہ کونے ہیں۔ کوئی شمال مشرق کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور کوئی جنوب مشرق کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتا ہے، کوئی شمال مغرب کی طرف اپنا مُنہ کرتا ہے اور کوئی جنوب مغرب کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتا ہے۔ پھر کونے در کونے ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان سے جہات بہت کچھ بدل جاتی ہیں۔ ہندوستان میں بہت سے ایسے علاقے ہیں جن کا قبلہ کچھ جنوب کی طرف ہے مگر ہندوستان میں بالعموم مغرب کی طرف مساجد کا محراب بنا دیا جاتا ہے اور یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ قبلہ کا صحیح رخ کون سا ہے حالانکہ اگر پنجاب سے ایک سیدھی لکیر کھینچی جائے تو اس کے عین مغرب میں دمشق آئے گا خانۂ کعبہ نہیں آئے گا۔ خانہ کعبہ پنجاب سے کچھ جنوب کی طرف ہے اور اگر پندرہ ڈگری کے قریب جنوب کی طرف جھکا جائے تب خانۂ کعبہ صحیح سمت میں آتا ہے ورنہ نہیں۔
بہرحال چونکہ جہت کا پورا اندازہ عام حالات میں ناممکن ہوتا ہے اس لئے علماء نے اندازہ کی خفیف غلطی پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر ملک کے اندر کئی کئی ٹکڑے ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے ہی بعض ٹکڑے ایسے ہیں جہاں کے رہنے والوں کا مُنہ اگر نماز کے وقت عین مغرب کی طرف ہو تو صحیح طور پر قبلہ کی طرف ہو گا لیکن کچھ حصے ایسے ہیں جن کا قبلہ جنوب کی طرف کچھ جھکتا ہؤا ہے اور کچھ حصے ایسے ہیں جن کا قبلہ اور زیادہ جنوب کی طرف جھکتا ہؤا ہوتا ہے۔
غرض مختلف انسانوں اور مختلف کاموں کے لئے مختلف رستے مقرر ہیں۔ مثلاً اگر کسی نے عام مکان میں داخل ہونا ہو تو اس کی صورت یہی ہے کہ دروازہ میں سے داخل ہو لیکن اگر کسی نے مثلاً اہم سرکاری دفتر میں داخل ہونا ہو تو اس کے لئے صرف اتنا کافی نہیں ہوگا کہ دروازہ میں سے داخل ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ داخل ہونے سے پہلے پرمٹ اور اجازت حاصل کرے۔ غرض مختلف لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف رستے مقرر کئے ہوئے ہیں مگر بعض لوگ نادانی سے یہ خیال کرلیتے ہیں کہ فلاں رستہ چونکہ فلاں نے اختیار کیا تھا اوراس پر چل کر وہ کامیاب ہوگیا اس لئے ہمارے لئے بھی اسی رستہ پر چلنا مفید ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑی مصیبت یہی ہے ۔
دنیا میں ترقی کرنے والی قومیں اپنی ترقی کے لئے مختلف تدابیر عمل میں لاتی ہیں۔ وہ تعلیم میں بڑھتی ہیں، وہ سائنس میں ترقی کرتی ہیں، وہ اپنے جتھا کو مضبوط بناتی ہیں، وہ دوسری قوموں سے سمجھوتے کرتی ہیں، وہ خوشامدیں کرتی ہیں، وہ مداہنت سے کام لیتی ہیں، وہ دھوکا اور فریب سے اپنے مقصود کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور مسلمان خیال کر لیتے ہیں کہ شاید ان کی کامیابی کا رستہ بھی یہی ہے کہ کچھ دین میں مداہنت کر لی، کچھ عقائد میں تبدیلی کر لی، کچھ فریب کاری اور ملمع سازی اختیار کر لی تاکہ یورپین اقوام اور حاکم ان سے خوش رہیں۔ اگر ہندوستان میں اس بات کا زور ہؤا کہ مسلمانوں کو جہاد کرنا چاہیئے تو مسلمان علماء بھی یہی کہنے لگ گئے کہ جہاد ضرور ہونا چاہیئے اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ اس وقت جہاد ضروری نہیں تو جن لوگوں سے ہمیں روٹیاں ملتی ہیں ان سے روٹیاں ملنی بند ہو جائیں گی لیکن اگر گاندھی جی کا زور ہؤا اور لوگوں نے کہا کہ ‘‘اہنسا’’1 کامیابی کا ذریعہ ہے تو وہی مسلمان یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ جہاد کسی صورت میں جائز نہیں حالانکہ گاندھی جی جس ‘‘اہنسا’’ کے قائل ہیں وہ سارے زمانوں کے لئے ہے۔ وہ اسلام کی طرح یہ نہیں کہتے کہ بعض اوقات تلوار اٹھانا ضروری ہوتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ تلوار کو کسی حالت اور کسی زمانہ میں بھی نہیں اٹھانا چاہیئے مگر مسلمان مولویوں کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ گاندھی جی کی تعلیم اسلام کے خلاف ہے یا اس کے مطابق بلکہ انہوں نے جب دیکھا کہ ہندوستان میں ‘‘اہنسا’’ ‘‘اہنسا’’ کا شور مچ رہا ہے تو انہوں نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ جہاد کسی صورت میں جائز نہیں۔ حالانکہ ایک وقت وہ تھا جب یہی علماء یہ کہا کرتے تھے کہ کوئی وقت بھی ایسا نہیں ہوتا جب جہاد لوگوں پر واجب نہ ہو مگر دوسرا وقت انہی علماء پر ایسا آیا کہ انہوں نے کہہ دیا جہاد کسی وقت بھی جائز نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ دونوں ایسی خطرناک باتیں ہیں کہ جن کے ماتحت مسلمان کہلانے والوں نے رسول کریم ﷺ کی آدھی زندگی بالکل کچل کر رکھ دی ہے۔ اگر جہاد ہر وقت فرض ہوتا ہے تو محمد ﷺ کی مکی زندگی قابلِ اعتراض ٹھہرتی ہے اور اگر جہاد کسی وقت بھی فرض نہیں ہوتا تو محمد ﷺ کی مدنی زندگی پر اعتراض وارد ہوتا ہے۔ غرض جس طرح بعض لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ انہوں نے الٰہی کتاب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ۔2 اسی طرح انہوں نے محمد ﷺ پر حملہ کر کے آپ کی پاک اور مطہر زندگی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ کبھی کہہ دیا کہ جہاد ہر وقت فرض ہوتا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ جہاد بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے اور کوئی وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب جہاد کرنا جائز نہ ہو وہ کافر اور اسلام سے خارج ہے۔ گویا ان کے نزدیک محمد ﷺ کی مکی زندگی قابلِ اعتراض تھی اور وہ نَعُوْذُ بِاللہ خداتعالیٰ کے منشاء کے خلاف گزری۔ اور کبھی گاندھی جی کے اثر کے ماتحت کہہ دیا کہ ‘‘اہنسا’’ اور عدم تشدد ہی اصل چیز ہے ۔ گویا رسول کریم ﷺ کی مدنی زندگی نَعُوْذُ بِاللہ گناہوں سے ملوث تھی۔
غرض ان لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی روحانی زندگی کے دو ٹکڑے کر دئیے اور کبھی ایک کو قبول کر لیا اور دوسرے کو پھینک دیا اور کبھی دوسرے کو قبول کر لیا اور پہلے کو پھینک دیا۔ حالانکہ وسطی طریق وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمایا کہ یہ جہاد بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے جب وہ شرائط پائی جائیں تواس وقت جہاد کرنا ضروری ہوتا ہے اور جو جہاد نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گنہگار ہوتا ہے لیکن بعض زمانوں میں جب وہ شرائط مفقود ہوں یہ جہاد ناجائز ہوتا ہے اور اس وقت جو شخص جہاد کرتا ہے وہ گنہگار ہوتا ہے۔ یہ وہ طریق ہے جس نے محمد ﷺ کی مکی زندگی کو بھی ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا اور محمد ﷺ کی مدنی زندگی کو بھی ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا ۔ اگر کوئی کہے کہ بعض زمانوں میں جہاد کرنا انصاف کے خلاف ہوتا ہے تو ہم کہیں گے بے شک یہ درست بات ہے ۔ ہمارے محمد ﷺ نے بھی مکی زندگی میں جہاد نہیں کیا اور اگر کوئی کہے کہ کبھی انصاف کے قیام اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے تلوار اٹھانا بھی ضروری ہوتا ہے تو ہم کہیں گے یہ بالکل درست ہے۔ ہمارے محمد ﷺ نے بھی انصاف کے قیام اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے مدینہ میں تلوار اٹھائی۔ گویا ہمارے سامنے جو تعلیم بھی پیش کی جائے اس کے متعلق رسول کریم ﷺ کا کوئی نہ کوئی اسوہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گا۔ اگر محبت اور پیار سے کام لینے اور صبر کے ساتھ دوسروں کے مظالم برداشت کرنے کا سوال ہو تو لوگوں کے سامنے محمد ﷺ کی مکی زندگی پیش کر سکتے ہیں کہ کس طرح متواتر تیرہ سال تک آپ نے کفار کے مظالم او ران کی تکالیف کو برداشت کیا اور اگر کوئی شخص ہمارے سامنے یہ بات پیش کرے کہ بعض ایسے گندے اور بدفطرت لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جو بغیر اس کے کہ ان کا مُنہ توڑا جائے اپنے ناپاک عزائم سے باز نہیں آتے اور وہ نیکی اور تقویٰ کو دنیا سے مٹانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا علاج مقابلہ کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا۔ تو ہم کہیں گے محمد ﷺ کی ذات میں یہ اسوہ بھی موجود ہے۔
آج کانگرس کو دیکھ لو اس نے کس طرح مجبور ہو کر اسی اصل کو اختیار کیا ہے جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا او رکس طرح اسی نے گاندھی جی کے ‘‘اہنسا’’ کے اصول کو کلیۃً تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یا تو یہ حالت تھی کہ گاندھی جی کو تمام کانگرسیوں نے اپنا لیڈر بنایا ہؤا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ‘‘اہنسا’’ ایک کامیاب ہتھیار ہے اور یا آج یہ حالت ہے کہ اسی ہفتہ میں کانگرس نے ایک ریزولیوشن پاس کیا ہے جس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ کانگرس ‘‘اہنسا’’ کو اس حد تک تسلیم نہیں کر سکتی جس حد تک گاندھی جی اسے منوانا چاہتے ہیں اور چونکہ گاندھی جی ملک پر بیرونی حملہ کے وقت میں بھی ‘‘اہنسا’’ سے ہی کام لینا ضروری خیال کرتے ہیں اور کانگرس کو اس سے اتفاق نہیں اس لئے کانگرس گاندھی جی کو لیڈری سے سبکدوش کرتی ہے اور کانگرس کا کام ورکنگ کمیٹی اپنے ہاتھ میں لیتی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں یہ سب کچھ گاندھی جی کے مشورہ سے ہی ہؤا ہو گا انہوں نے کہا ہو گا کہ تم مجھے بڑھاپے میں لوگوں کے سامنے کیوں شرمندہ کرتے ہو میں ساری عمر لوگوں کو ‘‘اہنسا’’ کا سبق دیتا چلا آیا ہوں اب اگر میں نے ہی اس کے خلاف کہا تو لوگ مجھے کیا کہیں گے اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم مجھے لیڈری سے سبکدوش کر دو اور خود جو چاہو پروگرام بنا لو۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ انہوں نے تو لڑنا ہی نہیں۔ لڑنا تو ملک کے دوسرے لوگوں نے ہے۔ پس ان کی علیحدگی سے کام کا نقصان تو کوئی ہوگا نہیں۔ چنانچہ انہوں نے کہہ دیا کہ بجائے اس کے کہ تم میرے مُنہ سے یہ کہلواؤ کہ اب ‘‘اہنسا’’ سے کام لینے کا وقت نہیں رہا تم مجھے ‘‘اہنسا اہنسا’’ کرنے دو اور خود ملکی دفاع کے لئے تلواریں جمع کرتے رہو۔ لوگ کہتے ہیں کہ گاندھی جی کامیاب لیڈر ہیں مگر یہ کون سی کامیابی ہے کہ ایک شخص ساری عمر ‘‘اہنسا اہنسا’’ کا شور مچاتا رہتا ہے مگر جب اس کی عمر میں ہندوستان پر ایک ہی نازک وقت آتا ہے تو اس وقت سارے ہندوستان کے لوگ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اب ‘‘اہنسا’’ سے کام نہیں چل سکتا اور وہ اس بات پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ’’اہنسا‘‘ کے خلاف آواز اٹھائیں اور ایک شخص بھی ایسا نہیں رہتا جو گاندھی جی کا ساتھ دے۔ فارورڈ بلاک والے پہلے ہی الگ تھے اب کانگرس کا دوسرا حصہ بھی گاندھی جی سے الگ ہوگیا اور اس نے بھی علی الاعلان کہہ دیا کہ ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ہر حالت اور ہرزمانہ میں اہنسا سے کام لیا جا سکتا ہے بلکہ ملک کو جب بیرونی حملے کا خطرہ ہو تو اس وقت اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ تلوار کا تلوار سے مقابلہ کیا جائے اور چونکہ اس اصول میں ہمیں گاندھی جی سے اختلاف ہے اس لئے ہم انہیں لیڈری سے سبکدوش کرتے ہیں اور تمام کام اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ گویا وہی تعلیم آ گئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لوگوں کے سامنے پیش فرمائی ۔ اب وہی مولوی جو یہ کہا کرتے تھے کہ ‘‘اہنسا’’ ہی اصل چیز ہے یہ کہنے لگ جائیں گے کہ ‘‘اہنسا’’ ہر حالت میں قابل عمل نہیں۔ بعض دفعہ سختی سے کام لینا بھی ضروری ہوتا ہے مگر کون شخص ہے جو اس عرصہ میں اپنی جگہ سے نہ ہلا؟ وہ کون شخص ہے جس کی تعلیم پچاس سال تک ایک انچ بھی ادھر ادھر نہ ہوئی؟ وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں۔ کبھی آپ کی قوم کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کہ یہ تعلیم ہمارے کام نہیں آ سکتی اس میں تبدیلی ہونی چاہیے جیسے گاندھی جی کی قوم نے ان سے کہہ دیا۔ بھلا اس سے زیادہ ناکامی کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ساری عمر کی محنت، ساری عمر کی کوشش، ساری عمر کی جدوجہد اور ساری عمر کی تلقین اور تعلیم کے بعد اس کے اپنے اَتباع، اس کے نائب اور اس کی قوم کے افراد اسے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم آپ کے اصول کو ہر حالت میں ماننے کے لئے تیار نہیں۔ چاہے یہ مخالفت کتنے ہی نرم الفاظ میں کی جائے، چاہے کتنے ہی ریشمی کپڑوں میں لپیٹ کر کی جائے بہرحال یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے گاندھی جی سے کہہ دیا کہ ہم آپ کی یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس وجہ سے ہم آپ کو لیڈری سے سبکدوش کر کے خود اپنے ہاتھ میں تمام کام لیتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کے جو معنے کئے تم بتاؤ کہ اسے کب منسوخ کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ وہ نہ آج سے دس سال پہلے منسوخ ہوئی نہ آج منسوخ ہے اور نہ آئندہ کبھی منسوخ ہو سکتی ہے ۔ کتنی صاف سیدھی واضح اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے کہ جب تم پر کوئی ظلم کرے تو اسے برداشت کرو اور برداشت کرتے چلے جاؤ مگر جب وہ تمہارے مذہب میں دست اندازی کرے اور جبراً تمہارا مذہب تم سے چھڑانا چاہے اور ان اعمال میں دخل دے جو افراد کی مذہبی آزادی سے تعلق رکھتے ہیں تو اس وقت تمہارا خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم کھڑے ہو جاؤ اور تلوار کا مقابلہ تلوار سے اور سختی کا مقابلہ سختی سے کرو۔ مگر اسلام ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی روح کبھی پاک نہیں ہو سکتی جب تک وہ قربانی اور صبر سے کام نہ لے۔ بے شک تلوار کا چلانا انسان کو بہادر بنا سکتا ہے، بے شک تلوار کا چلانادوسروں کو مرعوب کر سکتا ہے، بے شک تلوار کا چلانا انسان کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا سکتا ہے جیسے ہٹلر اور مسولینی کا نام آج بچے بچے کی زبان پر ہے مگر تلوار کا چلانا انسانی روح کو پاک نہیں بنا سکتا۔ اگر کسی کو روح کی پاکیزگی کی خواہش ہو تو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اپنے اندر صبر اور استقلال اور قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرے اور لوگوں کے مظالم کو خوشی سے برداشت کرے۔
پس اگر خالی تلوار چلانا ہی رکھا جاتا تو روح کی پاکیزگی کا سامان بہت کمزور ہو جاتا۔
بے شک نماز بھی انسانی روح کو پاک کرتی ہے، بے شک روزہ بھی انسانی روح کو پاک کرتا ہے، بیشک حج بھی انسانی روح کو پاک کرتا ہے، بے شک زکوٰۃ بھی انسانی روح کو پاک کرتی ہے مگر روح کو مکمل پاک کرنے کے لئے نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ کے ساتھ صبر اور برداشت کے مادہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک یہ نہ ہو انسانی روح پورے طور پر پاک نہیں ہو سکتی۔
پس اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ انسانوں کو پاک کرنے کے یہ دونوں طریق رکھ دئیے ۔ چنانچہ ابتدائے اسلام میں ایک زمانہ تو وہ گزرا ہے جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اعلیٰ درجہ کی روحانی تکمیل کے لئے حکم دے دیا کہ ماریں کھاؤ اور صبر کرو، گالیاں سنو اور برداشت کرو مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جب کفار کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بات کی اجازت دے دی کہ تلوار کا تلوار سے مقابلہ کیا جائے۔3تاکہ جرأت اور بہادری کے اخلاق بھی ان میں پیدا ہوں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ کمال کے اعلیٰ درجہ تک پہنچاناچاہتا تھااور اس نے ان امتحانوں میں سے گزار کر انہیں بہت بڑے روحانی مقامات عطا فرمائے ۔ اگر کہو کہ جب اسلام غالب آ گیا اور اس کی حکومت قائم ہو گئی تو پھر صبر کا نمونہ دکھانے کا کون سا موقع ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو غلبہ کی صورت میں بھی خود اپنے لوگوں کے ساتھ معاملات میں صبر کے مواقع نکلتے رہتے ہیں لیکن اس کے علاوہ اسلام نے غلبہ کے وقت میں بھی لڑائیوں پر حد بندیاں لگا کر صبر اور برداشت کی طاقت پیدا کرنے کے سامان کر دئیے ہیں۔ وہ مسلم کو حکم دیتا ہے کہ جب کوئی دشمن صلح کے لئے ہاتھ بڑھائے تو انکار نہ کرو۔ 4 اسی طرح لڑائی کے متعلق ایسے قواعد مقرر کیے ہیں جو انسان کو نفسانی غصہ نکالنے سے باز رکھتے ہیں۔ اس کے برخلاف اب جو لڑائیاں ہوتی ہیں وہ بالکل اور اصول پر لڑی جاتی ہیں۔ مثلاً اب لڑائی میں جب کوئی فریق ہتھیار رکھ دیتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ جب تک تم بالکل ہمارے تابع نہ ہو جاؤ اس وقت تک لڑائی ہم تم سے بند نہیں کر سکتے۔ جیسے جرمنی اور فرانس کے مقابلہ میں جب فرانس والوں نے کہا کہ ہم ہتھیار رکھتے ہیں ہم سے صلح کر لی جائے تو جرمنی نے کہا کہ ہرگز نہیں جب تک تم اپنے تمام ہتھیار اور سامان حرب ہمارے قبضہ میں نہ دے دو ہم تم سے لڑائی بند کرنے کے لئے تیار نہیں۔ لیکن قرآن یہ کہتا ہے کہ جنگ کی حالت میں جب دشمن تمہیں صلح کا پیغام دے تو فوراً اس کو قبول کر لو اور اسی وقت لڑائی بند کر دو۔ اور یہ امر انسانی نفس پر جس قدر گراں گزرتا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ ایک فاتح جرنیل جب اپنی فوج لئے دشمن کے علاقہ کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اور دشمن شکست پر شکست کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے مقابلہ کو جاری رکھا تو میں اسے کلی طور پر ذلیل اور رسوا کر دوں گا اس وقت اگر دشمن صلح کی درخواست کرے تو اسلام کہتا ہے اس کے بعد تمہارے لئے لڑائی کرنا کسی صورت میں جائز نہیں اور خواہ تمہارے دلوں میں کتنا ہی جوش پیدا ہو تمہارا فرض ہے کہ لڑائی بند کر دو اور اگر جاری رکھو گے تو گنہگار ٹھہرو گے۔ ایسے مواقع پر طبائع میں جس قدر جوش پیدا ہوتا ہے اس کا پتہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگ سکتا ہے۔
رسول کریم ﷺ ایک دفعہ صحابہؓ سمیت مدینہ سے مکہ کو عمرہ کے لئے تشریف لے گئے۔ اہل مکہ اس وقت بالکل بے بس تھے۔ ان کا لشکر تھوڑا تھا اور ان کے مددگار دور دور تھے۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس ایک ایسی حجت تھی کہ اگر اس وقت لڑائی ہو جاتی تو ساری دنیا اہل مکہ پر *** کرتی اور وہ یہ کہ آپ لڑائی کے لئے نہیں بلکہ عمرہ کے لئے تشریف لے جا رہے تھے۔ غرض مکہ والے مقابلہ کی تیاری کررہے تھے اور آپ مکہ کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ایک مقام پر آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ صحابہ نے اس کو اٹھانا چاہا تو آپ نے انہیں روک دیا اور فرمایا جس خدا نے اصحاب الفیل کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا اسی خدا نے میری اس اونٹنی کو روکا ہے۔ 5مطلب یہ کہ خدا نہیں چاہتا کہ دشمن سے لڑائی ہو۔ ہمیں اس وقت بغیر عمرہ اور طواف کئے واپس چلے جانا چاہیئے۔ صحابہؓ نے اس وقت بہت جوش دکھایا اور ان کی حالت اس قسم کی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا اُن کی روحیں متزلزل ہو گئی ہیں۔ حضرت عمرؓ جیسا ایماندار انسان یہ دیکھ کر بے تاب ہو گیا اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ کو یہ رؤیا نہیں ہؤا تھا کہ ہم مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور ہم نے عمرہ کیا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عمرؓ خدا نے یہ کب کہا تھا کہ اسی سال یہ رؤیا پورا ہو گا۔ جب وقت آئے گا خداتعالیٰ ہمیں عمرے کا موقع دے دے گا مگر اب انہوں نے صلح کی درخواست کی ہے جسے ہم رد نہیں کر سکتے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم واپس چلے جائیں۔ اسی طرح وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گئے اور انہوں نے بھی ایسا ہی جواب دیا۔6
غرض اسلام صبر کی دونوں حالتوں میں تلقین کرتا ہے ۔ اس وقت بھی جب دشمن کی طرف سے ظلم ہو رہا ہو اور اس وقت بھی جب انسان لڑائی کرتے ہوئے دشمن پر غالب آ رہا ہو مگر وہ صلح کی درخواست کر دے۔ ایسی حالت میں بھی اسلام یہی نصیحت کرتا ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیتے ہوئے لڑائی کو فوراً بند کر دیا جائے اور دشمن سے انتقام لینے کے لئے اسے ذلیل اور رسوا نہ کیا جائے۔ جہاد کے متعلق یہ اسلامی ہدایات اسی زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں پر جہاد فرض ہوتا ہے مگر بعض زمانے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں سالہا سال تک لڑائی جھگڑوں سے مجتنب رہنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مسیحی صفت انبیاء ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے زمانہ میں کُلّی طور پرنسلوں کی نسلوں اور قوموں کی قوموں کو خاموشی سے دن گذارنے پڑتے ہیں جیسے حضرت مسیح ناصری کی امت نے سینکڑوں سال اسی حالت میں گذارے۔
یہی حال اب ہمارا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور جنہیں آپ کی صحابیت کا شرف حاصل ہؤا ان کا کثیر حصہ فوت ہو چکا ہے اور اب بہت ہی کم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ رہ گئے ہیں۔ زیادہ تر ان لوگوں کی ہی تعداد ہے جو بعد میں پیدا ہوئے مگر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کثیر صحابہ فوت ہو چکے ہیں اور باوجود اس کے کہ اب کثرت اس نسل کی ہے جو بعد میں پیدا ہوئی ابھی ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ صبر کرو استقلال دکھاؤ اور گریہ و زاری اور دعاؤں سے کام لو کیونکہ ہماری کامیابی کا یہی رستہ ہے کہ ہم دعاؤں سے کام لیں،تلواروں کے ذریعہ ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی مگر ہماری جماعت کے سب لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے اور نہ سب اپنی کامیابی کے اس طریق پر یقین رکھتے ہیں۔ میں تو دیکھتا ہوں جماعت کے بعض دوستوں کے دلوں میں یہ وسوسے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ حکومتیں نہیں آئیں، وہ طاقتیں نہیں آئیں جن حکومتوں اور جن طاقتوں کے ملنے کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی تمام قوت اور ان کی تمام طاقت خداتعالیٰ نے دعاؤں میں ہی رکھی ہے نہ کہ حکومتوں اور سطلنتوں میں۔ تمہاری مثال درحقیقت اس بچہ کی سی ہے جو ابھی دودھ پی رہا ہوتا ہے اور ماں اسے اپنی چھاتی سے چمٹائے پھرتی ہے۔ اور وہ لوگ جو دشمن سے لڑائی کیا کرتے ہیں ان کی مثال اس جوان کی سی ہوتی ہے جو اپنی ماں کے پہلو میں کھڑا ہو کر اس کی حفاظت کے لئے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس شخص کی حالت رشک کے قابل ہوتی ہے جو اپنی ماں کی حفاظت کے لئے لڑ رہا ہو مگر کبھی اس کے دل میں بھی اس بات پر رشک پیدا ہوتا ہے کہ جیسے چھوٹے بچے کو ماں نے اپنی چھاتی سے لگا رکھا ہے اسی طرح وہ بھی اپنی ماں کی گود میں ہوتا۔ پس تم کیوں سمجھتے ہو کہ وہ حالت قابلِ رشک ہے اور یہ نہیں۔ جیسے وہ حالت قابلِ رشک ہے اسی طرح یہ حالت بھی قابلِ رشک ہے کہ خداتعالیٰ نے ہمارے تمام کام اپنے ذمہ لئے ہوئے ہیں۔ بے شک چھوٹا بچہ بعض دفعہ اپنی ماں سے کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو میں خود چلنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی دوسروں کی طرح اکڑوں اور دوسروں کی طرح چل پھر کر کام کاج کروں مگر جب وہ اکڑتا یا تھوڑی دیر کے لئے ہی چلتا پھرتا ہے تو گر پڑتا ہے کیونکہ ابھی وہ اسی قابل ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں بیٹھا رہے اور اس کی چھاتی سے دودھ پئے۔
مسیحی صفت انبیاء کے ابتدائی زمانوں میں بھی خداتعالیٰ اپنی جماعت کو اپنی گود میں بٹھاتا اور اسے رحمت اور عرفان کا دودھ پلاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آ جاتا ہے جب دنیوی برکات سے بھی اسے متمتع کر دیا جاتا ہے مگر روحانی برکات کے مقابلہ میں دنیوی برکات کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔
پس ہماری جماعت کو اپنا مقام سمجھتے ہوئے دعاؤں اور نمازوں کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیئے۔ اس غرض کے لئے ہر محلہ میں اس بات کی نگرانی ہونی چاہیئے کہ لوگ مساجد میں نماز باجماعت کے لئے آتے ہیں یا نہیں؟ اور جو لوگ مسجدوں میں آنے میں سست ہوں انہیں نصیحت کرنی چاہیئے کہ وہ باجماعت نماز پڑھا کریں۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ جماعت کے اندر بہت سی اصلاح ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ مساجد میں پہلے سے زیادہ لوگ نمازیں پڑھنے آتے ہیں مگر پھر بھی ابھی بہت کچھ توجہ کی ضرورت ہے۔ بُری صحبت نوجوانوں کو بہت خراب کر دیا کرتی ہے اس لئے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ جو بچے جوانی کی عمر کو پہنچ جائیں انہیں بدصُحبتوں سے بچا کر مساجد سے ان کا تعلق بڑھایا جائے۔ ذکر الٰہی کی عادت ڈالی جائے اور بجائے اس کے کہ وہ گپیں ہانک کر اپنے وقت کو ضائع کیا کریں انہیں تسبیح و تحمید اور رسول کریمﷺ پر درود بھیجنے کی تلقین کی جائے۔ جس دن ہماری جماعت میں یہ باتیں پیدا ہو جائیں گی اسی دن ان کی دعاؤں میں بھی برکت پیدا ہو جائے گی۔ اب کئی لوگ دعائیں تو کرتے ہیں مگر بعد میں شکایت کرتے ہیں کہ نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مساجد سے ان کا تعلق نہیں ہوتا اور نہ ذکر الٰہی کی طرف ان کی توجہ ہوتی ہے۔ اگر وہ مسجدوں میں باقاعدہ آیا کریں تو ان کی دعاؤں میں بھی تاثیر پیدا ہو جائے کیونکہ خداتعالیٰ سے کچھ مانگنے کا اصل مقام خداتعالیٰ کا گھر ہے اور خداتعالیٰ کا گھر مسجدیں ہیں۔ اگر تم اپنے کسی دوست سے کوئی چیز مانگو اور فرض کرو کہ اس کا نام جلال الدین ہو تو تمہارے لئے ضروری ہو گا کہ تم اس کے گھر پر پہنچ کر اسے آواز دو اور اپنی حاجت اس کے سامنے پیش کرو لیکن اگر تم اپنے گھر میں بیٹھ کر ہی کہتے رہو کہ میاں جلال دین مجھے روٹی دینا، میاں جلال دین مجھے پانی دینا تو تمہیں روٹی اور پانی نہیں مل سکے گا۔ ہاں اگر تم اس کے گھر پر جا کر دستک دو اور روٹی اور پانی کا مطالبہ کرو تو وہ تمہیں فوراً دے دے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر مقام پر مومن کی دعا کو سن لیتا ہے مگر جب اسی نے یہ شرط لگا دی ہے کہ اگر تم میرے گھر میں دعائیں مانگو گے تو مَیں انہیں زیادہ قبول کروں گا، تو تمہارے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے گھر جاؤ اور اس سے مانگو تاکہ وہ تم پر زیادہ سے زیادہ رحم کرے ۔ پس مسجدیں اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں ان کو ہمیشہ نمازوں اور دعاؤں اور ذکرِ الٰہی سے آباد رکھو اور بالخصوص اپنی اولاد کو مساجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا پابند بناؤ۔ اگر تم خود دن رات عبادت میں مشغول رہتے ہو مگر تمہاری اولادیں اس طرف متوجہ نہیں اور نہ تمہیں ان کا کوئی خیال ہے تو درحقیقت تم نے اپنی اولاد پر بہت بڑا ظلم کیا ہے اور تم سے بڑھ کر اُن کا اور کوئی دشمن نہیں۔ اسی طرح وہ عورتیں بھی اپنی اولاد کی دشمن ہیں جن کے بچوں کو اگر بخار یا سردرد ہو جاتا ہے تو انہیں علاج کا فکر ہو جاتا ہے مگر جب خداتعالیٰ کی عبادت کا سوال آتا ہے تو وہ اپنے بچہ کے متعلق کہہ دیتی ہیں کہ اسے کیا کہنا ہے یہ تو ابھی ‘‘نیانا’’ ہے۔ اس طرح بچہ اور ‘‘نیانا’’ کہہ کر وہ اس کی عمر کو برباد کر دیتیں اور اسے ساری عمر نیک کاموں سے محروم رہنے والا بنا دیتی ہیں۔
پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ رستہ اختیار کریں جو اس زمانہ میں خداتعالیٰ نے ان کی کامیابی کے لئے مقرر کیا ہؤا ہے۔ جب تک وہ صحیح رستہ اختیار نہیں کریں گے ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہو گی جیسے ہندوستان میں بیٹھ کر نماز پڑھتے وقت کوئی شخص مشرق کی طرف مُنہ کر لے یا یمن اور عدن میں رہنے والا جنوب کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دے یا شام ، دمشق اور فلسطین میں رہنے والا شمال کی طرف مُنہ کر لے یا ایبے سینیا اور ایسٹ افریقہ میں رہنے والا مغرب کی طرف مُنہ کر لے۔ جس طرح ان لوگوں کی نماز قبول نہیں ہو گی اسی طرح اگر کوئی شخص اس راستہ کو اختیار نہیں کرتا جو اس کی کامیابی کے لئے خداتعالیٰ نے مقرر کیا ہؤا ہے تو اسے بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ اور میں نے بتایا ہے کہ ہمارے لئے کامیابی کا رستہ یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑ کر اس کے پاس بیٹھ جائیں اور اسے کہیں کہ ہم نے جو کچھ لینا ہے تجھی سے لینا ہے۔ اگر ہم یہ طریق اختیار کر لیں تو ہماری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہو گا۔دنیا میں خواہ کوئی تغیر آئے، خواہ کتنے بڑے مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں اگر ہم اس راستہ پر چلتے چلے جائیں گے تو ہماری کامیابی قطعی اور یقینی ہو گی لیکن اگر ہم خداتعالیٰ کا رستہ چھوڑ دیں اور دوسری قوموں کی طرف دیکھ کر یہ خیال کریں کہ جس رنگ میں انہوں نے ترقی کی ہے اسی رنگ میں ہم بھی ترقی کر سکتے ہیں تو ہماری تمام کوششیں اول تو ہیں ہی حقیر اور بے حقیقت لیکن اگر دنیا کی ساری طاقتیں بھی ہمارے ساتھ مل جائیں اور ہم ان تمام طاقتوں کو استعمال میں بھی لے آئیں تب بھی ہماری ناکامی میں کوئی شبہ نہیں ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہی راستہ رکھا ہے کہ ہم اس کا دامن پکڑیں اور اس سے دعائیں کرتے چلے جائیں۔ پس اس راہ کو اختیار کرو جو خدانے تمہارے لئے تجویز کیا ہؤا ہے۔ اگر تم اس کو چھوڑ دو گے تو کبھی کامیاب نہیں ہو گے اور اگر اسے اختیار کرو گے تو سب روکوں کے باوجود کامیاب او ربامراد ہوگے۔ انشاء اللہ۔‘‘
(الفضل 5 جولائی 1940ء)

1 اہنسا: ایک ہمہ گیر اخلاقی کُلّیہ جو تمام جانداروں پر لاگو ہوتا ہے۔ اس کے مطابق انسان کو
سادہ زندگی گزارنی چاہیئے، کسی جاندار کو تکلیف نہیں دینی چاہیئے، تمام انسانوں کو بھائی بھائی
بن کر رہنا چاہیئے اور ہر قسم کے تشدد، ظلم اور جنگ و جدل سے گریز کرنا چاہیئے۔
(اردو انسائیکلو پیڈیا)
2 اَلَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ۔ (الحجر:92)
3 اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْر۔ (الحج:40)
4 فَاِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَاَلْقَوْا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْھِمْ
سَبِیْلًا۔(النسآء:91) ، وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ ھُوَ
السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ (الانفال:62)
5 صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اھل الحرب
6 صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اھل الحرب

71
صرف اعتراض کرنا کافی نہیں
غیرمبائعین مقابلہ میں قبولیتِ دعا کا نشان دکھائیں
(فرمودہ 5 جولائی 1940 ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ 26 مئی 1940ء کو بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں ایک تقریر کرتے ہوئے میں نے بیان کیا تھا کہ:۔
’’مجھے تو یقین کامل ہے کہ اگر انگریز سچے طور پر توحید کا اقرار کر کے مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی فتح کے سامان پیدا کر دے گا۔ ’’ 1
جو لوگ روحانی امور سے ناواقف ہیں اور ان باتوں سے بالکل جاہل ہیں ان کا ایسی باتوں پر تمسخر اور ہنسی کرنا کوئی بعید امر نہیں اور اس سے قبل میں یہ بھی کہہ چکا ہوں کہ:۔
’’ ابھی ان کے دماغ اس مقام پر نہیں آئے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھیں بلکہ اس وقت اگر کسی انگریز کے سامنے میری اس تقریر کا یہ حصہ رکھ دیا جائے تو وہ کہے گا کہ یہ کوئی پاگل ہے جو پاگل خانے سے چھوٹ کر آیا ہے۔ کیا ہماری حفاظت کے لئے ہمارے پاس توپ خانے اور بحری بیڑے اور ہوائی جہاز اور بڑے بڑے اسلحہ موجود نہیں اور اگر ان ہتھیاروں کے باوجود ہمیں فتح حاصل نہ ہو تو اس کی دعا سے کس طرح ہو سکتی ہے۔’’ 2
لیکن اس کے متعلق انگریزی قوم کے کسی فرد کی طرف سے تو کچھ نہیں کہا گیا اور شاید وہ کچھ نہ کہیں کیونکہ ان تک ہماری آواز اچھی طرح پہنچی بھی نہ ہو گی۔ ہاں ایک ذمہ دار افسر کے متعلق مجھے اطلاع ملی ہے کہ اس کے سامنے جب یہ بات پیش ہوئی کہ مجھے دعا کے لئے لکھا جائے تو برطانیہ کو اللہ تعالیٰ فتح دے دے گا تو اس کے بعض مشیروں نے کہا کہ شاید اس طرح ہندوستان کی باقی اقوام میں بدمزگی پیدا ہو کہ ان کو کیوں لکھا گیا ہے اور بعض انگریز افسروں کی طرف سے یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ اگر جماعت کی طرف سے کوئی ایسی تحریک کی جائے تو پھر حکومت کی طرف سے بھی لکھا جا سکتا ہے مگر ہمارا اپنا کوئی ایسی بات لکھناتو بیوقوفی کی بات ہے۔ ایسی بات عام رنگ میں تو کہی جا سکتی ہے مگر معیّن صورت میں یہ کہنا کہ ہمیں دعا کے لئے لکھا جائے اس کی غرض کو باطل کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے اتنا علم ہے کہ انگریز قوم نے اس پر ہنسی نہیں اڑائی بلکہ نہایت ذمہ دار افسروں کے سامنے جب یہ بات پیش ہوئی تو انہوں نے اس پر نیم آمادگی کا اظہار کیا اور صرف اس بات سے ڈرے کہ دوسری قومیں یہ نہ کہیں کہ صرف احمدیوں کو دعا کی درخواست کے لئے کیوں چُنا گیا ہے مگر باوجود اس بُعد کے جو اس قوم کو روحانی امو رسے ہے اور باوجود اس بُعد کے جو اس قوم کی شان و شوکت کو ہماری بے کسی اور بے سروسامانی سے ہے ان کا دعا کی طرف اتنا رجحان بھی ممکن ہے اللہ تعالیٰ کو پسند آ جائے اور وہ اسی وجہ سے ان پر رحم کر دے۔ بہرحال انہوں نے اس بات کی ہنسی نہیں اڑائی۔ ہاں بعض ہندوستانیوں نے بھی جو سچائی سے ویسے ہی دور ہیں جیسے یہ لوگ اس پر ہنسی اڑائی ہے مگر وہ چونکہ ناواقف اور جاہل ہیں اس لئے مجھے ان پر تعجب نہیں لیکن ’’الفضل‘‘ میں یہ پڑھ کر مجھے تعجب ہؤا کہ ہمارے پیغامی بھائی صاحبان نے بھی اس خیال کی ہنسی اڑائی ہے کہ کسی کی دعا قبول ہو سکتی ہے۔ تعجب ہے کہ وہ قوم جس نے رات دن معجزات دیکھے، وہ قوم جو رات دن دعا کی قبولیت کے نشان دیکھتی رہی، وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺ کی باتوں کو پڑھتے اور ان کی تفسیریں اور تشریحیں لکھتے ہیں، وہ جنہوں نے آپ کا وہ فقرہ کئی بار پڑھا ہو گا کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے جسم پر مٹی پڑی ہوتی ہے ، ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں مگر جب وہ خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہو گا تو اللہ تعالیٰ ویسا ہی کر دیتا ہے اور ان کی بات کو پورا کر کے چھوڑتا ہے۔3 اس قسم کا تمسخر کرتی ہے۔ یہ بات کسی نبی، رسول یا مامور کے متعلق نہیں بلکہ عام مومن کے متعلق ہے۔ مگر یہ وہ لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کا کلام پڑھتے ہیں، اس کی تفسیریں شائع کرتے ہیں اور پھر ان کو بیچ کر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی روٹی کماتے ہیں۔ جو اس میں پڑھتے ہیں کہ أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ 4 اور اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ 5 مگر پھر بھی بے پرواہ ہو کر اس پر سے گزر جاتے ہیں۔ خداتعالیٰ کے کلام کے ساتھ ان کو صرف اتنا ہی واسطہ ہے کہ اسے بیچ کر اس سے روٹی کما لیں اور پیٹ بھر لیں اور اس میں خداتعالیٰ کے جو وعدے مومنوں سے ہیں اور جس رنگ میں اس کی قدرتیں ظاہر ہوتی ہیں ا ن کو وہ نظر انداز کر دیتے اور بھول جاتے ہیں۔ ان کی نگاہ ہماری ظاہری حالت پر پڑتی ہے جو ہندوستان میں ادنیٰ سے ادنیٰ اقوام کے برابر بھی نہیں۔ ہریجنوں کے ریزولیوشن حکومت کے نزدیک زیادہ وقیع ہوتے ہیں مگر ہمارے نہیں حالانکہ ہریجن وہی لوگ ہیں جنہیں چوہڑے اور چمار کہا جاتا ہے۔ حکومت صرف تعداد کو دیکھتی ہے وہ ہندوستان میں سات کروڑ ہیں اور اگر حکومت کو ضرورت پیش آئے تو اسے سات لاکھ والنٹیر مہیا کر سکتے ہیں اور حکومت کی نظر میں دل کے اخلاص اور تقویٰ سے یہ چیز زیادہ قیمتی ہے۔ اس لئے وہ احمدیوں سے زیادہ ہریجنوں کی قدر کرتی ہے۔
1917ء میں ایک جگہ احمدی سپاہیوں کو تکلیف تھی۔ میں شملہ میں تھا اور میں نے ذوالفقار علی خان صاحب یا چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو ایڈجوٹنٹ جنرل(ADJUTANT GENRAL) کے پاس بھیجا کہ ان کے سامنے احمدیوں کی یہ تکالیف پیش کر کے ازالہ کرائیں اور ان کو بتائیں کہ یہ لوگ حکومت کے وفادار ہیں، انہوں نے ساری عمریں فوجی سروس میں گزار دی ہیں اور اب بعض افسر دوسرے لوگوں کے شور مچانے پر ان کو نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ ملے اور یہ باتیں پیش کیں۔ ایڈجوٹنٹ جنرل نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کی جماعت کے لوگوں پر ظلم ہوتے ہیں اور کہ وہ مدد کے مستحق ہیں لیکن ہمیں ہندوستان میں تین لاکھ فوج چاہیئے ۔ اگر ہم آپ لوگوں کی پرواہ کریں تو دوسرے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ ہم آپ کو خوش کر دیتے ہیں مگر کیا آپ لوگ ہمیں تین لاکھ سپاہی مہیا کر دیں گے۔ اس بات کا جواب وہ کیا دے سکتے تھے۔ تو گورنمنٹ پر جن باتوں کا اثر ہو سکتا ہے وہ چونکہ ہمارے پاس نہیں اس لئے اس کے نزدیک ہریجن بھی ہم سے زیادہ وقیع ہیں اور اس لحاظ سے ہم خود محسوس کرتے ہیں کہ ہماری کمزوری اور ناتوانی سب قوموں سے زیادہ ہے۔ ہندو ملک میں کافی طاقتور ہیں مگر مسلمانوں کی تعداد بھی سات آٹھ کروڑ ہے۔ اس لئے ان کی آواز بھی بے اثر نہیں۔ بعض صوبوں میں مسلمانوں کی طاقت زیاد ہ ہے۔ پنجاب میں سکھوں کی آواز بھی بے اثر نہیں کیونکہ ان کی تعداد تیس چالیس لاکھ ہے۔ ادنیٰ اقوام کہلانے والے غریب ہیں مگر ان کی آواز بھی بے اثر نہیں کیونکہ ان کی تعداد سات کروڑ ہے۔ حکومتوں کو ہر وقت روپیہ ہی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات آدمیوں کی بھی ہوتی ہے۔ روپیہ کے لئے جہاں اسے سرمایہ داروں ساہوکاروں اور کارخانہ داروں کی ضرورت پڑتی ہے وہاں فوجی بھرتی کے وقت اسے مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کی ضرورت ہوتی ہے اور مزدوری نیز کئی اور فوجی کاموں کے لئے ہریجنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کی کون سی ضرورت ایسی ہے جسے احمدی جماعت پورا کر سکتی ہے۔ ہم حکومت کو روپیہ نہیں دے سکتے، فوجی سپاہی نہیں دے سکتے، مزدور نہیں دے سکتے۔ پھر وہ ہماری کیسے مدد کر سکتی ہے؟ کیونکہ جن چیزوں کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ان میں سے کوئی بھی ہم مہیا نہیں کر سکتے۔ قومی لیڈروں کو بھی ان چیزوں کی ہی ضرورتیں پیش آتی ہیں۔ ان کو روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ روپیہ والوں سے صلح پر مجبو رہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی اپنے چرخہ6 کے باوجود مسٹر برلا کے ہی مہمان ٹھہرتے ہیں اور کچھ عرصہ ہؤا جب ایکسچینج مارکیٹ کے متعلق سوال ہؤا تو آپ نے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر میں ان تاجروں کی مخالفت کروں تو گاندھی نہیں رہ سکتا۔ وہ ہریجنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ بھی ان کی طاقت کو بڑھانے کا موجب ہیں مگر کون سی چیز ہمارے پاس ایسی ہے جس کے لئے سیاسی لیڈر ہماری طرف توجہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس نہ روپیہ ہے اور نہ آدمی اور نہ ہی ہماری آواز کوئی اثر رکھتی ہے۔ پھر ظاہری مذہبی لیڈر ہوتے ہیں ان کے لئے بھی اسی قسم کی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ کوئی فتویٰ دیں تو ہزاروں، لاکھوں لوگ لٹھ لے کر ان کی تائید میں کھڑے ہو جائیں لیکن اگر وہ احمدیوں سے صلح رکھیں تو لوگ ان سے دور بھاگ جائیں۔ پھر وہ کس طرح ہماری طرف توجہ کر سکتے ہیں؟ پھر علمی لیڈروں کی نگاہ میں بھی احمدی محض بے کار ہیں۔ وہ لوگ جس فلسفہ اور علم النفس کو دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں ، جن اخلاق کی پابندی کرانا چاہتے ہیں، جو حریت و آزادی دماغوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان میں سے ہر ایک چیز کی احمدیت دشمن ہے۔پھر اگر وہ اس کی قدر کریں تو کیونکر؟ اس لئے وہ بھی اسے بے کار سمجھتے ہیں اور یہ لوگ ایسا سمجھنے میں کچھ معذور بھی ہیں کیونکہ ان کا نقطۂ نگاہ بالکل مختلف ہے۔ مگر جو شخص احمدی کہلاتا ہے اسے اس بات کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھنا چاہیئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں اس لئے مبعوث ہوئے ہیں کہ بنی نوع انسان کا تعلق خداتعالیٰ سے دوبارہ قائم کر دیں اور دوبارہ دنیا کو دعا کی قبولیت کا قائل کریں۔ اس لئے اس کا یہ تو حق تھا کہ کہتا تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف چلنے والے ہو اس لئے خداتعالیٰ تمہاری دعا کبھی نہیں سن سکتا۔ اگر اہل برطانیہ جنگ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئیے مولوی محمد علی صاحب سے دعا کرائیں کیونکہ ہر احمدی کا یہ ایمان ہونا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کوئی نمونہ تو چھوڑا ہے اسے یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس غرض کے لئے مبعوث ہوئے تھے اس میں ناکام رہے اور یا پھر یہ ماننا ہو گا کہ کوئی نہ کوئی فریق ایسا ہے جس کی دعائیں اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے۔ خواہ وہ مَیں اور میرے ساتھی ہوں یا مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء۔
پس جب مَیں نے یہ بات کہی تھی تو ان کا یہ حق تھا کہ کہتے تم نے احمدیت کو بگاڑ دیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے تمہاری دعا اللہ تعالیٰ نہیں سنے گا اور مضمون نگار صاحب یا خود مولوی محمد علی صاحب اعلان کر دیتے کہ میری دعا اللہ تعالیٰ سنے گا مگر افسوس کہ انہوں نے اس چیز کی تردید کی جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ اب بھی یہ مضمون نگار بڑی خوشی سےیہ کہہ سکتا ہے کہ خداتعالیٰ تمہاری دعا نہیں سنے گا بلکہ میری سنے گا یا ان کا کوئی لیڈر اعلان کر دے کہ میری سنے گا اور پھر معلوم ہو جائے گا کہ خداتعالیٰ کس کی سنتا ہے۔خداتعالیٰ کے سننے کے آثار بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔
مجھے اس جنگ کے متعلق اس نے بیسیوں ایسی باتیں قبل از وقت بتائیں جن کے سینکڑوں لوگ گواہ ہیں اور وہ باتیں اب پوری ہو رہی ہیں۔ ان کے اعلان کے بعد اگر اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ اخبار غیبیہ سے آگاہ کرے تو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سچے اَتباع و ہ ہیں کیونکہ خداتعالیٰ جس سے کام لینا چاہتا ہے اس کو پیش آنے والے حالات سے آگاہ بھی کرتا ہے۔ میں نے بتایاتھا کہ ایک بادشاہ رؤیا میں مجھے دکھایا گیا اور الہام ہؤا:۔
Abdicated
اس کے بعد ایک اَور بادشاہ کے متعلق مجھے خبر دی گئی کہ اس کی فلاں بیماری ایک دوسری بیماری کے نتیجہ میں ہے اور اس کی خبر اسے دے دی گئی ہے۔ اسی طرح انگلستان کا فرانس کو اتحاد کا پیغام سخت خطرہ کی حالت میں دینا بھی مجھے قبل از وقت بتایا گیا جو غیرمعمولی رنگ میں پورا ہؤا۔
تواللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیتِ دعا کے آثار بھی ظاہر ہو جایا کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس کی دعائیں سنتا ہے۔ اور پیغامی یہ طریق اختیار کر سکتے تھے کہ میرے مقابل پر اپنی دعاؤں کی قبولیت کا اعلان کر دیتے۔ یہ طریق ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت بھی قائم ہوتی اور ان کی صداقت بھی ظاہر ہو جاتی مگر افسوس کہ تلوار ہم پر نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پرچلاتے ہیں۔ جس طرح ابن زبیر نے کہا تھا کہ اُقْتُلُوْنِیْ وَمَالِکاً 7 یعنی مجھے اور مالک کو اکٹھے مار دو۔ اس نے تو نیک کام کے لئے کہا تھا مگر یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مارناچاہتے ہیں۔ جب بھی یہ کوئی حملہ کرتے ہیں ایسے رنگ میں کرتے ہیں کہ ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر بھی پانی پھر جائے۔
رسول کریم ﷺ اور صحابہ کو شعائر اللہ کا کتنا خیال رہتا تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مکہ کے شعراء جب ایسی نظمیں جن میں آنحضرت ﷺ اور آپ کے خاندان کی سخت ہتک ہوتی تھی لکھنے میں حد سے بڑھ گئے تو ایک روز حضرت حسّان نے آپ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ! اب تو یہ توہین حد سے بڑھ گئی اور ناقابلِ برداشت ہو گئی ہے۔ اس لئے مجھے اجازت دیجئے کہ میں بھی جواب دوں ۔ اہلِ عرب اچھی زبان پر مرتے تھے اور اچھا شعر خواہ کسی کا ہو سارے ملک میں پھیل جاتا تھا۔ آپ نے فرمایا حسّان مَیں جواب کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں؟ میرے اور ان لوگوں کے باپ دادا ایک تھے۔ ان کے باپ دادا کے لئے جو لفظ استعمال کیا جائے گا وہ میرے باپ دادا کو بھی لگے گا۔ حضرت حسّان نے عرض کیا یارسول اللہ! میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں مگر میں حضور اور حضور کے خاندان سے ان لوگوں کو اس طرح باہر رکھوں گا جس طرح مکھن سے بال علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ مگر ان لوگوں کا طریق یہ ہے کہ جب بھی کوئی حملہ کرتے ہیں وہ صرف مجھ پر ہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی ہوتا ہے۔ آپ کا مرتبہ نبی اور رسول نہ سہی مجدد اور مامور ہی سہی ۔ مگر کیا مجدد اور مامور دنیا میں نیکی کا کوئی نشان چھوڑتے ہیں یا ان کے بعد تاریکی ہی تاریکی باقی رہ جاتی ہے۔ یہاں نبوت اور رسالت کا سوال نہیں، کسی بڑے عہدے کا سوال نہیں لیکن اس سے وہ انکار نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان حدیثوں کو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے جن میں تمام انبیاء نے ایک مامورکی خبر دی ہے۔ مگر میں کہتا ہوں تم آپ کو نبی اور رسول نہ کہو، مجدد اور مامور بھی نہ کہو۔ ایسا مسلمان ہی کہہ لو جس کی آمد کی سب نبیوں نے خبر دی ہے اور پھر بتاؤ کہ کیا ایسا مسلمان اپنے پیچھے کوئی نیکی بھی چھوڑے گا یا تاریکی ہی تاریکی۔ تم اس نیکی کے مقام کو پیش کر دو اور کہو کہ یہ مقام ہمیں حاصل ہے۔ ہمارے متعلق کہہ دو کہ تم تاریکی میں پڑے ہوئے اور پھر وہ تائیدات اور نصرتیں پیش کرو جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دی تھیں۔ یہ تائیدات ایسی نہ سہی جیسی آپ کو حاصل تھیں ، ان سے بہت کم سہی ۔ ہم مانتے ہیں کہ کسی مامور کے اتباع کا درجہ وہی نہیں ہو سکتا جو اس کو حاصل ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعاؤں کی قبولیت کا نشان جو آپ نے نیچریوں اور دہریوں کے مقابل پر پیش کیا وہ کچھ نہ کچھ تو دنیا کے سامنے پیش کرو۔ اگر یہ نشان آپ کی ذات پر ہی ختم ہو چکا تو آنحضرت ﷺ کی دعاؤں کی قبولیت کے بعد آپ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اگر قصوں پر ہی مدار تھا تو پھر وہ پہلے قصے ہی کافی تھے لیکن یاد رکھنا چاہیئے کہ عرفان کو قائم رکھنے کے لئے ایسے نشانات ہر وقت ضروری ہوتے ہیں جو کامل مومن اور صالح مومن بھی اپنے بعد چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے مومن کا بھی کچھ نہ کچھ نشان قائم رہنا چاہیئے۔ مولوی محمد علی صاحب نے جو تفسیر قرآن لکھی ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کاسہ لیسی میں کئی جگہ یہ بات دیگر مذاہب کے بالمقابل پیش کی ہے کہ کیا خداتعالیٰ سو گیا ہے کہ اب بندے ہی سب کام کریں گے، اس نے کوئی نہیں کرنا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار یہ بات اپنی کتابوں میں پیش کی ہے اور بتایا ہے کہ دوسرے مذاہب سب بندوں کے کام ہی پیش کرتے ہیں خداتعالیٰ کا کوئی فعل پیش نہیں کرتے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ 8 ہے۔ ایک مومن اور متقی انسان جب اپنے خدا کو پکارتا ہے تو وہ بھی اسے جواب دیتا ہے یہ ایک اسلام کا امتیازی نشان آپ نے پیش کیا ہے اور مولوی محمد علی صاحب نے اپنی تفسیر میں بیسیوں آیات کی تشریح میں یہ بات پیش کی ہے۔ اگر ان کے نزدیک تفسیر ہی سب سے بڑا کام ہے جس کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی تو کیا اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے بھی ان کی طرف ہاتھ بڑھانا تھا یا نہیں۔ کیا اس کے لئے کوئی کام ضروری تھا یا نہیں؟ ہمیں تو کوئی ضد نہیں ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تردید نہ کرو۔ آپ کی تائیدات اور نصرتوں کا حامل بے شک مولوی محمد علی صاحب یا اپنے کسی اور لیڈر کو ثابت کرو اور اسے پیش کر دو کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سنتا ہے ۔ صرف مجھ پر اعتراضات کر دینا کافی نہیں میری تو طبیعت ایسی ہے کہ ذرا سا زیادہ لقمہ کھانے سے بھی خراب ہو جاتی ہے۔ کام کرتے ہوئے ذرا سا فاقہ کرنا پڑے تو خراب ہو جاتی ہے کیونکہ بچپن سے ہی میری صحت کمزور چلی آتی ہے۔ لوگ مجھ پر اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ خود کیوں بیمار ہوتے ہیں۔ کوئی بچہ یا اور عزیز بیمار ہو گیا یا کوئی فوت ہو گیا تو اعتراض کر دیا حالانکہ میری دعائیں کتنی ہی کیوں نہ مقبول ہوں آنحضرت ﷺ سے زیاد ہ تو نہیں ہو سکتیں اور گو آپ کی صحت غیرمعمولی طور پر اچھی تھی مگر پھر بھی آپ بیمار ہوتے تھے اور آپ کے رشتہ دار بھی اور آپ کے کئی بچے فوت ہوئے۔ پس یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ اگر تمہاری دعا اس قدر مقبول ہے تو خود کیوں بیمار رہتے ہو یا رشتہ دار کیوں بیمار ہوتے یا فوت ہوتے ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ اس معترض نے میرے اس اعلان پر تمسخر اڑاتے ہوئے یہ خیال نہ کیا کہ دعاؤں کے متعلق قرآن کریم میں وسیع قانون بیان ہیں۔ بعض دعائیں یقینی طور پر قبول ہو جاتی ہیں، بعض یقینی طور پر ردّ ہوتی ہیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو قبول کر لے اور چاہے تو ردّ کر دے۔ پھر جو قبول ہوتی ہیں ان کے متعلق بھی بعض شرائط ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بعض سنتیں اور بعض قدرتیں ہوتی ہیں۔ جو دعائیں یقینی طور پر قبول ہو جاتی ہیں وہ وہی ہوتی ہیں جو سنت اللہ یا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مطابق ہوں اور جو ردّ ہوتی ہیں وہ ان کے خلاف ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ 9 مجھے اپنی ذات کی قسم ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ یہ خداتعالیٰ کا قانون ہے مگر کیا اس کے لئے دعا ناواجب ہے؟ کیا آنحضرت ﷺ اپنی فتح کے لئے دعائیں نہیں کرتے تھے؟ کیا آپ یہ دعا نہ کرتے تھے رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ۔ 10 پھر کیا یہ دعا لغو تھی جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون موجود تھا کہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ پس ان چیزوں کی تائید میں بھی دعائیں ہوتی ہیں اور وہ جزئیات کے لحاظ سے مفید بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر وہ فتح دس سال میں ہونی ہے تو اس دعا کے ذریعہ نو سال یا آٹھ سال میں ہو جائے گی اور اس وجہ سے یہ دعائیں بھی بے اثر نہیں ہوتیں۔ بہرحال جو دعائیں خداتعالیٰ کی قدرت اور سنت کے مطابق ہوں وہ ضرور قبول ہو جاتی ہیں اور جو خلاف ہوں وہ ضرور ردّ ہو جاتی ہیں۔ مثلاً کوئی شخص خواہ کتنا نیک کیوں نہ ہو اپنی جہالت کی وجہ سے اگر مُردے کے پاس بیٹھ کر دعائیں کرے کہ وہ زندہ ہو جائے تو یہ کبھی نہ ہو گا خواہ وہ ناک رگڑ رگڑ کر مر جائے کیونکہ یہ خداتعالیٰ کی سنت اور اس کی قدرت کے خلاف ہے۔ تو بعض دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں، بعض ضرور ردّ ہوتی ہیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں جو کبھی قبول ہو جاتی ہیں اور کبھی ردّ ۔ بعض دفعہ تو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ یہ دعائیں بھی ضرور قبول ہونے والی ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ ایسے حالات ہوتے ہیں کہ وہ ضرور ردّ ہونے والی ہو جاتی ہیں۔ مثلاً وہ دعائیں جو پیشگوئیوں کے مطابق ہوں وہ قبول ہو جاتی ہیں۔ جیسے زید یا بکر کا اپنے دشمنوں پر فتح پانا یا کسی کے ہاں لڑکا ہو جانا یا مہلک مرض سے شفا پانا کوئی قانون الٰہی نہیں لیکن اگر کسی ایسی بات کے متعلق کوئی پیشگوئی ہو تو اس کے متعلق دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ گویا جب خداتعالیٰ کی تقدیر سے دعا مل جائے تو وہ قبول ہو جاتی ہے۔ مثلاً کسی شخص کے ہاں شادی کے بعد گیارھویں برس لڑکا ہونا ہوتا ہے تو اس کے دل میں دسویں سال دعا کی تحریک ہوتی ہے اور اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ خداتعالیٰ چاہتا تھا کہ اس کی عزت قائم ہو اور اس کے ذریعہ اس کا فضل ظاہر ہو۔ یہ کوئی قانون نہیں کہ گیارھویں سال بیٹا ہو بلکہ مختلف میعادوں کے بعد ہوتے ہیں۔ ابھی ایک دوست کے ہاں اٹھارہ سال کے بعد اولاد ہوئی۔ پس جو وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کام کے متعلق ہوتا ہے اس کے ساتھ اگر دعا مطابقت کھا جائے تو وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے فیصلہ سے آ ملی۔ اس کی یہی خوبی ہے کہ وہ ایسے وقت کے ساتھ شامل ہو گئی ہے جب خداتعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ؂
چل رہی ہے نسیم رحمت کی
جو دعا کیجئے قبول ہے آج 11
یہ خداتعالیٰ کی رحمت کی نسیم تھی اور اس نے فیصلہ کیا تھا کہ آج ہم دعائیں قبول کریں گے اور اس نے اپنے مسیح کوبھی اس سے آگاہ کر دیا کہ یہ تقدیر ہے اس سے فائدہ اٹھا لو۔ اب میں نے جو یہ کہا کہ اگر انگریز قوم سچے دل سے توحید پر قائم ہو کر مجھ سے دعا کی درخواست کرے تو اسے فتح حاصل ہو گی۔ یہ خداتعالیٰ کی پیشگوئیوں ، اس کے کلام اور میری رؤیاؤں کے عین مطابق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس قوم کے لئے بہت دعائیں کی ہیں مگر ان قوموں نے خداتعالیٰ کے تخت پر ایک بندے کو بٹھایا ہؤا ہے اس لئے خداتعالیٰ ان کو ابتلاؤں میں ڈال رہا ہے۔ پیغامی انکار کریں تو بے شک کریں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق جو جو دعائیں کی ہیں ان کے قبول ہونے میں روک ان کا شرک ہی ہے۔ اگر یہ روک جزواً یا کُلاً دور ہو جائے تو یہ دعائیں فوراً قبولیت کا جامہ پہن لیں گی۔ میں نے کئی رؤیا ایسے دیکھے ہیں کہ میری دعاؤں سے ان کی مصیبتیں ٹل سکتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں جو دعا کرتا ہوں وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ اگر میرے اختیار میں یہ بات ہوتی تو میں ان تکلیفوں کو ہی کیوں نہ ٹال دیتا جو خود ہمیں آتی ہیں۔ قرآن کریم میں ہے کہ کفار آنحضرت ﷺ سے کہتے تھے کہ اگر تم خداتعالیٰ کے اتنے ہی محبوب ہو تو کیوں تمہارا فلاں کام نہیں ہو جاتا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمدؐ !ان سے کہہ دے کہ اگر میرے اختیار کی بات ہوتی تو میں سب بھلائیاں اپنے ہی لئے نہ جمع کر لیتا؟12
پس اگر آنحضرت ﷺ کے لئے یہ قانون نہ تھا تو میرے لئے کیونکر ہو سکتا ہے؟ جب آنحضرت ﷺ کے لئے بھی یہی قانون تھا کہ جب خداتعالیٰ دعا قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور کسی نشان کے ذریعہ آپ کی عزت قائم کرنا چاہے تو وہ ضرور قبول کر لیتا ۔ تو میرے لئے یا کسی اور کے لئے اس کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے؟ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انگریزوں کی طاقت میں ہے کہ چاہیں تو ہمیں پھانسی دے دیں یا قید کر دیں۔ حالانکہ اس وقت وہ دشمن کے مقابلہ میں کمزور نظر آتے ہیں مگر باوجود اس کے میرا دعویٰ ہے کہ میری دعا سے ان کی مشکلات دور ہو سکتی ہیں کیونکہ انگریزوں کا ہماری جانوں پر تصرف اَور قانون کے ماتحت ہے اور اس بارہ میں دعا کی قبولیت ایک اَور قانون کے ماتحت ہے۔ آنحضرت ﷺ کو پکڑنے کے لئے ایران کے بادشاہ نے ارادہ کیا تھا مگر ابھی پکڑنے والے نہ آئے تھے صرف پیغام لے کر یمن کے گورنر کے آدمی پہنچے تھے مگر آپ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اپنے آقا سے کہہ دو کہ ہم نہیں آتے، تمہارے خداکو ہمارے خدا نے مار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کے لڑکے کو تحریک کی اور اس نے اپنے باپ کو مار دیا۔13 مگر اُحد کی جنگ میں دشمن نے آپ پر حملہ کیا پتھر مارے، آپ کے دانت ٹوٹ گئے، سر زخمی ہو گیا اور خَود کی کیلیں سر میں کُھب گئیں آپؐ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور آپؐ کے اوپر بعض اور زخمی صحابہ گرے 14اور صحابہ نے خیال کر لیا کہ آپ شہید ہو گئے۔15
اب کوئی کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو آپ کی اتنی عزت منظور تھی کہ آپ کی خاطر ایران کے بادشاہ کو اتنی دور مروا دیا تو اس نے اُحد کے میدان میں کافروں کو آپ کو اس طرح پتھر کیوں مارنے دئیے؟ تو یہ اعتراضات درست نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ یہ راز ہیں۔ بعض مواقع پر وہ تھوڑی سی بات پر پکڑ لیتا ہے ، بعض دفعہ کسی مصلحت کے ماتحت ڈھیل دیتا ہے تا انسان کی بے بسی اور بے سروسامانی ظاہر ہو۔ پس میں اگر کوئی دعویٰ کرتا ہوں تو اسی جگہ جب خداتعالیٰ کہے ورنہ نہیں۔ میں تو کمزور انسان ہوں یہ کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ وہ میرے لئے ایسی قدرت دکھائے جو اس کی طرح وسیع ہو بلکہ ایسی وسیع قدرتیں تو خداتعالیٰ خود اپنے لئے بھی نہیں دکھاتا۔ کیا دنیا میں خداتعالیٰ کی توہین اور تحقیر کرنے والے نہیں؟ بعض لوگوں کو یونہی فالج ہو جاتا ہے مگر روس میں ایسے ڈرامے کئے جاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا ایک مجسمہ بنا کر بٹھایا جاتا ہے اور ایک شخص لینن بن کر اس کے متعلق فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے اور لوگ خداتعالیٰ کے متعلق اس کے سامنے یہ باتیں پیش کرتے ہیں کہ یہ بڑی ظالم ہستی ہے اس نے دنیا پر کئی قسم کے عذاب نازل کئے ہیں ، یہ قحط نازل کرتا ہے، وبائیں بھیجتا ہے اور لینن فیصلہ کرتا ہے کہ اسے پھانسی دے دیا جائے اور پھر اس مجسمہ کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے مگر ان پر خداتعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوتا لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے مُنہ سے کوئی چھوٹا سا جملہ بھی نکل جاتا ہے تو وہ تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہ مضمون بڑا وسیع ہے جس کا یہ خطبہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم نے اسے کھول کر بیان کیا ہے۔ پس میں اس نادان معترض سے کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ نہ کرو۔آپ اسی قسم کے نشان دکھانے آئے تھے اور ایسے بندے پیدا کرنا آپ کا ایک مقصد تھا جن کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات پیدا کردے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ :۔
چو پیش او بروی کارِیک دعا باشد 16
اس کا مطلب یہی ہے کہ جو کام ساری دنیا نہیں کر سکتی وہ ایک دعا سے ہو جاتا ہے مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کو ضرور قبول کر لیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صاحبزادہ مبارک احمد فوت ہؤا ۔ مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہوئے۔ آپ نے دعائیں بھی کیں مگر وہ فوت ہو گئے اور یہ بھی آپ کا ایک نشان ہے کیونکہ مرزا مبارک احمد صاحب کے متعلق آپ نے قبل از وقت بتا دیا تھا اور جب کوئی بات قبل از وقت کہہ دی جاتی ہے تو وہ نشان بن جاتی ہے۔ پس نہ تو یہ ہوتا ہے کہ ہر دعا قبول ہو جاتی ہے اور نہ ہر ردّ ہوتی ہے۔ ہاں جو دعا وہ قبول کرنے کا فیصلہ کرے وہ ضرور قبول ہوتی ہے اسے کوئی ردّ نہیں کر سکتا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے 17
بہرحال اللہ تعالیٰ کے جو فضل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئے ان کا جاری رہنا ضروری ہے۔ پیغامیوں کا یہ حق تو ہے کہ کہہ دیں یہ تمہارے ذریعہ جاری نہیں ہو سکتے مگر یہ ضروری ہے کہ وہ میرے مقابلہ پر اپنے امام یا لیڈر کو پیش کریں اور کہیں کہ اس کے ذریعہ ان فضلوں کا اظہار ہوتا ہے۔ اور اگر واقعی خداتعالیٰ اس کے ذریعہ آئندہ کے امور کے متعلق خبریں ظاہر کرے اور اس کی دعاؤں کو غیرمعمولی طور پر سنے تو ہم مان لیں گے کہ ہم گو غلطی پر تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہے مگر یہ لوگ تو دروازہ ہی بند کرتے ہیں۔ کیا عجیب بات ہے کہ ان کے عقیدہ کے مطابق آنحضرت ﷺ آئے تو نبوت بند ہو گئی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تو دعا کی قبولیت کا دروازہ بند ہو گیا اور اب کوئی تیسرا مامور آیا تو شاید ایمان بھی بند ہو جائے گا اور دنیا میں صرف کفر ہی کفر رہ جائے گا۔ خداتعالیٰ کی مہر تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام سے ثابت ہے رحمت کے دروازے کھول دیتی ہے مگر مولوی محمد علی صاحب نے ایک ایسی مُہر ایجاد کی ہے کہ ہر بھلائی اور خیر کا دروازہ بند کیا جا رہا ہے۔‘‘ (الفضل 12 جولائی 1940ء)
1 الفضل 4 جون 1940ء
2 الفضل 6 اکتوبر 1939ء
3 سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب البراء بن مالک
4 النمل:63
5 المؤمن:61
6 چرخہ: کمزوری، ضعف
7 تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 250-251 مطبوعہ بیروت 1965ء
8 البقرۃ:3
9 المجادلۃ:22
10 الاعراف:90
11 نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 603
12 وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ ۔ (الاعراف:189)
13 تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ 247 تا 249 مطبوعہ بیروت 1987ء
14 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ84-85 مطبوعہ مصر 1936ء
15 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ88 مطبوعہ مصر 1936ء
16 درثمین فارسی صفحہ 190 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ
17 درثمین اردو صفحہ 158


81
قبولیت دعا کے خلاف ایک ٹریکٹ کا جواب
(فرمودہ 12 جولائی1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ مجھے پرسوں ایک ٹریکٹ بھجوایا گیا ہے جس میں میری اس تقریر پر اعتراضات کئے گئے ہیں جو میں نے گزشتہ دنوں موجودہ جنگ کے متعلق کی تھی اور جس میں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ اگر انگریز سچے دل سے توحید کا اقرار کرکے مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان مصیبت کے ایام کو ان کے سروں پر سے ٹال دے گا اور ان کی فتح اور نصرت کے سامان پیدا کر دے گا۔یہ خداتعالیٰ کی قدرت ہے کہ پچھلے جمعہ کے خطبہ میں ہی ان اعتراضات کا اصولی جواب آ چکا ہے تاہم میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آج بھی اسی سلسلہ میں بعض ایسے امور جو دعا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں بیان کر دوں۔
اس ٹریکٹ کا لکھنے والا ایک ایسا شخص ہے جو دین سے قطعاً ناواقف ہے اور اس کو خدائی احکام یا خدائی سنتوں سے کوئی آگاہی اور واقفیت نہیں۔ اس نے اپنے اس ٹریکٹ میں چند واقعات ایسے گنائے ہیں جن کے متعلق اس کا خیال ہے کہ ان کے بارے میں میری دعائیں قبول نہیں ہوئیں۔ مگر وہ واقعات اس قسم کے ہیں کہ ان کے بارے میں اس نے پہلے آپ ہی یہ فرض کر لیا ہے کہ ان کے متعلق میں نے دعائیں کیں اور پھر آپ ہی یہ فرض کر لیا ہے کہ میری وہ دعائیں قبول نہیں ہوئیں اور پھر آپ ہی یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ چونکہ ان امور کے متعلق میری دعائیں قبول نہیں ہوئیں اس لئے میرا یہ دعویٰ کرنا کہ اگر انگریز توحید کا اقرار کر کے مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی فتح کے سامان پیدا کر دے گابالکل غلط ہے۔یہ تو الٰہی تقدیر ہے کہ ان اعتراضات کے شائع ہونے سے پہلے ہی اصولی رنگ میں میری طرف سے ان وساوس کا جواب دیا جا چکا ہے۔ چنانچہ مَیں یہ امر کھول کر بیان کر چکا ہوں کہ کسی شخص کا یہ دعویٰ کرنا کہ اس کی فلاں دعا ضرور قبول ہو گی یہ معنے نہیں رکھتا کہ اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ پر بھی یہی اعتراض ہؤا کہ تم جو کہتے ہو کہ اگر میں دعا کروں تو اس طرح ہو جائے اگر اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتا ہے تو تم پر فلاں مصیبت کیوں آئی؟ اور تمہارے فلاں رشتہ دار کو کیوں تکلیف پہنچی؟ رسول کریم ﷺ نے اس اعتراض کا یہی جواب دیا کہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں۔ جب خداتعالیٰ کی تقدیر مجھے معلوم ہوتی ہے تو میں کہہ دیتا ہوں کہ ایسا ہو جائے گا اور جب معلوم نہیں ہوتی تو میں کہتا ہوں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے۔ وہ اگر چاہے تو دعا قبول کر لے اور اگر چاہے تو ردّ کر دے۔ پس اگر یہی بات صحیح ہو کہ دعاؤں کی قبولیت کا دعویٰ وہی شخص کر سکتا ہے جس کی ہر دعا قبول ہو یا جس پر کبھی کوئی مصیبت اور بلاء نازل نہ ہو تو ایسا شخص انبیاء میں بھی کوئی نظر نہیں آ سکتا۔
اول تو ٹریکٹ لکھنے والے نے جو مثالیں دی ہیں ان میں سے سوائے ایک کے کوئی امر ایسا نہیں جس کے متعلق مَیں نے یہ بھی کہا ہو کہ مَیں نے اس کے متعلق دعا کی ہے۔ صرف اس نے قیاس کرلیا ہے کہ چونکہ جماعت پر فلاں وقت فلاں مصیبت آئی اس لئے تم نے ضرور اس کے متعلق دعا کی ہو گی۔ حالانکہ دعا بالکل اور چیز ہوتی ہے اور توجہ الی اللہ اور چیز ہے۔
بندہ جب بھی کوئی مشکل دیکھتا ہے ہمیشہ خداتعالیٰ کی طرف جھکتا اور اس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کی مشکل کو دور فرمادے مگر اسے دعا نہیں کہتے بلکہ اسے انابت کہتے ہیں۔ دعا تو وہ ہوتی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ ‘‘جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جائے’’۔ یہ دعا ہر روز نہیں ہوتی اور نہ ہر بات کے متعلق ہوتی ہے مگر لوگوں نے اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے دعا کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ محض سجدے میں اپنا سر جھکا دینا اور کہنا کہ خدایا فلاں مصیبت ٹل جائے یا فلاں بیمار اچھا ہو جائے یہ دعا ہے حالانکہ یہ دعا نہیں بلکہ یہ ایک انابت ہے، یہ ایک عبادت ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ بندے کا فرض ہے کہ جب بھی وہ کوئی مصیبت دیکھے خداتعالیٰ کے حضور جھکے اور اس کے آگے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے ہوئے التجا کرے کہ وہ اس مصیبت کو دور کر دے مگر دعا کی کیفیت تو انسان پر ایسی حاوی ہوتی اور اس کے رگ و ریشہ اور جسم اور روح کے ذرہ ذرہ پر ایسی طاری ہوتی ہے کہ کسی دوسری طرف انسان کو توجہ ہی نہیں ہوتی۔ اگر ہر امر کے متعلق انسان دعا مانگنے لگے تو پھر تو شاید سال بھر میں صرف ایک دن کی ضرورتوں کے متعلق ہی دعا کی جا سکے۔
امتِ محمدیہ کے تمام بزرگ کہتے چلے آئے ہیں کہ جو کچھ مانگنا ہو اپنے خدا سے مانگو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر تمہیں اپنی جوتی کے تسمہ کی بھی ضرورت ہو تو خدا سے طلب کرو۔ اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت غور کر کے دیکھ لو کہ دن رات میں کتنی ضرورتیں ہیں جو انسان کو پیش آتی ہیں اور کتنی دفعہ اسے خداتعالیٰ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کی ضرورتیں پوری ہو جائیں۔ ایک مکھی اگر انسان کے جسم پر بیٹھ جائے تب بھی اس اصول کے مطابق ہم خدا سے ہی کہیں گے کہ وہ اسے ہٹائے۔ اگر چیونٹیاں کسی کھانے کی چیز کو چمٹی ہوئی ہوں گی تو ہم خدا سے ہی کہیں گے کہ وہ ان چیونٹیوں کو دور کرے۔ اگر دھوپ کی شعاعیں ہمارے مکان کو نقصان پہنچا رہی ہوں گی تو ہم اس دھوپ کی ہر شعاع سے خدا کی ہی پناہ طلب کریں گے اور اگر بارش کثرت سے برسنے لگے اور وہ ہمارے لئے نقصان کا موجب بن جائے تو بارش کے ہر قطرے سے بھی ہم اللہ تعالیٰ کی ہی پناہ طلب کریں گے۔ اسی طرح کھانے کے متعلق، پینے کے متعلق، بیوی بچوں کے متعلق، پڑھائی کے متعلق، گھر کی صفائی کے متعلق، رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق، قرض داروں کے متعلق، غرض بیسیوں امور کے متعلق ہمیں روزانہ ضروریات پیش آتی رہتی ہیں اور سینکڑوں واقعات ایسے سامنے آ جاتے ہیں کہ ہم اپنے ایمان کی بناء پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان کے بارہ میں خداتعالیٰ سے استعانت طلب کریں۔ اب اگر ان امور میں سے ہر امر کے متعلق اسی قسم کی دعا کی جائے جو ضرور قبول ہو جاتی ہے تو صرف ایک دن کے کاموں کے لئے ہی بعض دفعہ سال بھر کی دعا کی ضرورت ہو گی۔
پس دعا اور چیز ہے اور انابت اور چیز۔ روزانہ اپنی پیش آمدہ ضروریات کے لئے جب انسان خداتعالیٰ کے حضور جھکتا ہے تو گو اس کے دل میں یہ یقین اور توکل ہوتا ہے کہ کام سب خدا نے ہی کرنے ہیں لیکن وہ ان کو اتنا اہم نہیں سمجھتا کہ خداتعالیٰ کے دامن کو پکڑ لے اور کہے کہ میں اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک میرا مقصد پورا نہ ہو لے اور دعا دراصل یہی ہوتی ہے کہ جب کوئی امر انسان خداتعالیٰ سے منوانا چاہے تو پھر اس وقت تک ہٹے نہیں جب تک خداتعالیٰ اس کی مراد کو پورا نہ کر دے۔ پس یہ ایک شدید غلطی ہے جو عام طور پر لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے کہ وہ دعا اور انابت میں فرق نہیں کرتے۔
قرآن کریم نے دعا اور انابت کو الگ الگ رکھا ہے چنانچہ ایک مقام پر تو فرماتا ہے کہ اَنِیْبُوْا اِلٰى رَبِّکُمْ۔1اور دوسرے مقام پر فرماتا ہےاُدْعُوْْ نِيْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۔2 انابت ہمارے دل میں ہر وقت ہوتی ہے اور ہم ہر وقت اس سے کام لے سکتے ہیں۔ مثلاً ہمیں پیاس لگتی ہے تو ہم دل میں کہتے ہیں کہ اللہ میاں آپ ہی ہمیں پانی پلا سکتے ہیں حالانکہ نوکر بھی موجود ہوتا ہے اور پانی بھی گھڑوں میں موجود ہوتا ہے اورہم نوکر کو پانی لانے کے لئے کہہ بھی دیتے ہیں۔ ہم کیوں دل میں کہتے ہیں کہ اے اللہ تُو ہی پانی پلا سکتا ہے۔ اس لئے تُو ہی مجھے پانی پلا۔ اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ نوکر بھی اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے اور وہ اگر پانی پلائے گا تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور اس کے منشاء کے ماتحت ہی پلائے گا یا اگر نوکر نہ ہو اور بیوی موجود ہو تو ہم اسی کو کہہ دیں گے کہ ہمیں پانی پلانا مگر اس کے ساتھ ہی ہمارے دل میں یہ یقین ہو گا کہ پانی پلانے والا خدا ہی ہے۔ اگروہ نہ چاہے تو بیوی بچوں یا نوکروں کی کیا طاقت ہے کہ کسی کو پانی کا ایک گھونٹ بھی دے سکیں۔ پس ایسی حالت میں یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف ہم اپنے کسی نوکر یا بیوی بچے کو آواز دیتے ہیں اور دوسری طرف خداتعالیٰ کی طرف توجہ کر لیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ فضل نازل کرنے والا وہی ہے مگر ہم یہ نہیں کرتے کہ سجدے میں گر جائیں اور کہیں کہ ہم اس وقت تک اپنا سر نہیں اٹھائیں گے جب تک خدا ہمیں پانی نہیں پلائے گا ۔ یہ انابت بعض دفعہ ایک سیکنڈ کی ہوتی ہے اور بعض دفعہ کچھ زیادہ وقت بھی لے لیتی ہے مگر بہرحال اس کا سلسلہ صبح سے شام تک ہمارے تمام کاموں میں چلتا ہے۔ لیکن دعا بہت بڑا وقت چاہتی ہے۔ بسااوقات وہ سالوں چاہتی ہے، بسا اوقات مہینوں چاہتی ہے، بسا اوقات ہفتوں چاہتی ہے بسااوقات دنوں چاہتی ہے اور بسا اوقات گھنٹوں چاہتی ہے اور کبھی جب وہ دعا اللہ تعالیٰ کے الہام کے ماتحت ہوتی ہے تو منٹوں میں بھی قبول ہو جاتی ہے۔ ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے کہ میرا بندہ مُنہ سے ایک فقرہ کہہ دے مَیں فوراً اسے قبول کر لوں گا اور درحقیقت یہ بھی دعا نہیں ہوتی بلکہ ایک ناز ہوتا ہے ۔ ایسا ہی ناز جیسے عاشق اور معشوق کے درمیان ہوتا ہے یا جیسے بچوں کے متعلق بعض دفعہ ماں باپ چاہتے ہیں کہ انہیں مٹھائی کی ڈلی یا کھانے کے لئے کوئی پھل دے دیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ بچہ اپنی زبان سے چیز مانگے۔ چنانچہ وہ مٹھائی کی ڈلی یا پھل اسے دکھا کر کہتے ہیں کہ کہو یہ ہمیں دے دواور مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچہ ادھر مانگے اور اُدھر اسے دے دیا جائے۔ ایسی حالت میں بچہ بعض دفعہ ضد کر کے نہیں مانگتا تو ماں باپ اصرار کرتے چلے جاتے ہیں کہ نہیں ضرور مانگو کیونکہ ان کا اپنا دل چاہتا ہے کہ بچہ مانگے اور وہ دیں۔ اسی طرح کبھی اللہ تعالیٰ کا بھی دل چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس سے مانگے اور وہ کہتا ہے اے میرے بندے مجھ سے مانگ تا تجھے دوں۔ چنانچہ مُنہ سے نکالنے کی دیر ہوتی ہے کہ بندے کو اس کی مانگی ہوئی چیز مل جاتی ہے۔
پس ایک ہوتی ہے انابت ، ایک ہوتا ہے ناز اور ایک ہوتی ہے دعا۔ انابت توکّل کا ایک حصہ ہے اور یہ ہر وقت مومن کے ساتھ رہتی ہے۔ حتّٰی کہ اگر کسی کے دل میں انابت نہ ہو تو وہ مومن ہی نہیں ہو سکتا۔ اگر اسے پیاس لگتی ہے تو اس انابت کی وجہ سے اسے یقین ہوتا ہے کہ خدا ہی پانی پلائے گا، بھوک لگتی ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ خدا ہی کھانا کھلائے گا، مکان کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ خدا ہی مکان مہیا کرے گا، کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ خدا ہی اسے کپڑے پہنائے گا۔ بے شک وہ کئی کاموں میں بیوی سے بھی مدد لیتا ہے، مثلاً وہ بیوی سے کھانا پکواتا ہے، کپڑے سلواتا ہے، پانی پینے کی ضرورت ہو تو اسے کہتا ہے کہ پانی لا دو اور اسی طرح بیوی کے بہت سے کام یہ کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ بیوی کی زندگی خدا کے اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں۔ اگر بیوی کو وہ وفات دے دے تو میں اسے کس طرح زندہ کر سکتا ہوں ۔ یا فرض کرو بیوی کو مجھ سے شدید نفرت ہو جائے اور وہ قاضی کے پاس خلع کی درخواست کر دے تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔ ایسی حالت میں بالکل ممکن ہے کہ خاوند کہے کھانا تیار کرو اور بیوی کہے کہ کھانا کیسا؟ میں تو قاضی کے پاس خلع کی درخواست لے کر چلی ہوں۔ پس چونکہ تمام سامان خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور وہی ہر کام کے لئے اسباب مہیا کرتا ہے اس لئے مومن ہر مشکل کے وقت خدا کی طرف جھکتا ہے اور اس سے اپنی مصیبت کے دور ہونے کی التجا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ ظاہری سامانوں سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے لیکن بہرحال یہ انابت ہوتی ہے دعا نہیں ہوتی۔
پس اول تو یہ نادان شریعت سے ناواقفیت کی وجہ سے سمجھتے ہی نہیں کہ دعا کیا چیز ہوتی ہے؟ پھر اسی ناواقفیت کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کی ہر دعا ضرور قبول ہونی چاہیئے۔ حالانکہ اگر یہ اصول درست ہو کہ ہر مشکل کے وقت جب کوئی شخص دعا کرے تو اس کی دعا کو ضرور قبول ہو جانا چاہیئے تو ماننا پڑے گا کہ آج تک کوئی نبی بھی قبولیت کے مقام پر کھڑا نہیں ہؤا۔ آخر سوچنا چاہیئے کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو مشکلات پیش آئی تھیں یا نہیں؟ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جنگل میں وفات پا گئے جس کے سامنے وہ موعود ملک تھا، جس کے متعلق خدا کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ وعدہ تھا کہ اس میں تُو اور تیری قوم داخل ہو گی۔ اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس ملک میں داخل ہونے کے متعلق دعائیں نہیں کی ہوں گی۔ یقینا کی ہوں گی مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وہ دعائیں قبول نہ ہوئیں۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے جب ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ تھی کہ ان کے بھائی ان کی مخالفت کریں گے تو کیا حضرت یعقوب علیہ السلام نے دعائیں نہیں کی ہوں گی کہ میرے بچے یوسفؑ کی مخالفت نہ کریں اور خدا ان کو تقویٰ و طہارت اور پاکیزگی سے زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مگر کیا یہ دعا قبول ہوئی؟ اور کیا انہی بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو شدید تکالیف نہیں پہنچائیں؟ پھر انجیل میں صاف لکھا ہے کہ صلیب دیے جانے سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام رات اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہے کہ:
‘‘ اے میرے باپ ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔’’3
مگر یہ پیالہ ٹلا تو نہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دشمنوں نے صلیب پر لٹکا ہی دیا۔
پھر خود رسول کریم ﷺ کے گیارہ بچے فوت ہوئے ۔ کیا اس قسم کے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ان کے لئے دعائیں نہیں کی ہوں گی؟ آپؐ کو اپنی اولاد سے جو محبت تھی اور آپؐ کے دل میں ان کے متعلق جس قسم کا درد پایا جاتا تھا اس کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ جب ابراہیم جو آپ کی نرینہ اولاد میں سے سب سے آخری بچہ تھا فوت ہؤا تو آپ نے اس کی لاش کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ 4 پھر آپؐ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: جا اپنے بھائی عثمانؓ بن مظعون کے پاس۔حضرت عثمانؓ بن مظعون ایک صحابی تھے جو سترہ اٹھارہ سال بلکہ اس سے بھی کم عمر میں رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے ان کے ماں باپ ان کے شدید مخالف ہو گئے۔ اتنے شدید کہ ان کی ماں ان کے ہاتھ سے پانی تک نہیں پیتی تھی مگر باوجود ا س شدید محبت کے جو انہیں اپنی والدہ کے ساتھ تھی انہوں نے اسلام چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ آخر ان کے ماں باپ نے انہیں اپنے گھر سے نکال دیا اور کہہ دیا کہ جب تک محمد (ﷺ) کو نہیں چھوڑو گے ہم تجھے اپنے گھر میں نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے خوشی سے اپنے گھر کو چھوڑ دیا اور کہہ دیا کہ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ میرا باپ بھی محمد ہے اور میری ماں بھی محمد ہے (ﷺ) ۔ اور ایک مجلس میں اسلامی تعلیم کی تائید میں بول کر ایسی مار کھائی کہ آپ کی ایک آنکھ جاتی رہی۔5 ان کی اس قربانی کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کو ان سے بہت محبت تھی اور آپؐ انہیں اپنے بچوں جیسا عزیز سمجھتے تھے۔ بعد میں وہ ایک جنگ میں شہید ہو گئے۔ جب رسول کریم ﷺ کا بیٹا ابراہیم فوت ہؤا تو آپ نے انہی عثمان بن مظعون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جا اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس۔
غرض بعض روایات کے مطابق رسول کریم ﷺ کے گیارہ بچے فوت ہوئے اور لازماً ہر بچہ کے متعلق رسول کریم ﷺ نے دعائیں کی ہوں گی مگر آخر اللہ تعالیٰ کی مشیت غالب آئی اور وہی ہؤا جو اس نے چاہا تھا۔
ایک دفعہ آپ قبرستان کے پاس سے گزررہے تھے کہ آپ نے ایک بڑھیا کو دیکھا کہ وہ ایک قبر پر بیٹھی بین ڈال رہی ہے۔ رسول کریم ﷺ اس کے قریب گئے اور فرمایا بڑھیا کیا ہؤا؟ اس نے کہا میرا بچہ فوت ہو گیا ہے۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا بڑھیا صبر کرو خدا کی یہی مشیت تھی۔ بڑھیا نے شدتِ غم میں آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا کہ کون شخص اس سے باتیں کررہا ہے۔ اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ ایسی حالت میں انسان کی آنکھوں میں آنسو آئے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اپنے سر کو جھکائے ہوئے ہوتا ہے اس نے رسول کریم ﷺ کو پہچانا نہیں تھا۔ کہنے لگی میاں دوسروں کے لئے نصیحت ہوتی ہے ورنہ جس کے دل کو لگتی ہے وہی جانتا ہے کہ یہ صدمہ کتنا سخت ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مائی میرے گیارہ بچے فوت ہو چکے ہیں اور یہ کہہ کر آپ اپنے مکان کی طرف تشریف لے گئے۔ بعد میں کسی نے اسے بتایا کہ بدبخت وہ تو رسول کریم ﷺ تھے۔ وہ یہ سنتے ہی دوڑتی ہوئی آپ کے پاس پہنچی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ؐ میں نے صبر کیا ۔ آپ نے فرمایا اَلصَّبْرُ لِاَوَّلِ وَھْلَۃٍ صبر تو وہی ہے جو شروع میں کیا جائے ورنہ رو دھو کر تو سب کو صبر آ جاتا ہے۔6
ایک دفعہ آپ کا ایک نواسہ فوت ہو گیا۔ رسول کریم ﷺ نے جب اسے دیکھا تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگ گئے۔ ایک صحابی کہنے لگا یا رسول اللہ آپ تو دوسروں کو صبر کی تلقین کیا کرتے ہیں اور خود روتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری آنکھیں روتی ہیں اور یہ رحمت کی علامت ہے۔7 اگر تمہارا دل خدا تعالیٰ نے سخت بنا دیا ہے تو میں کیا کروں؟
غرض درد آپؐ کے دل میں تھا اور اس وجہ سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے بچوں کے لئے دعائیں نہیں کی ہوں گی مگر باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ نے ان بچوں کے لئے دعائیں کیں آپ کے گیارہ بچے فوت ہو گئے۔ (روایات میں اختلاف ہے بعض میں کم تعداد کا ذکر ہے۔)
اس ٹریکٹ کے لکھنے والے نے میری بھی گیارہ دعائیں ایسی شمار کی ہیں جو اس کے خیال میں قبول نہیں ہوئیں اور رسول کریم ﷺ کے بھی گیارہ بچے ہی فوت ہوئے تھے۔ اب کیا یہ کہا جائے گا کہ آپ نے ان کے متعلق دعائیں نہیں کی تھیں یا یہ کہا جائے گا کہ رسول کریم ﷺ نے دعائیں تو کیں مگر وہ قبول نہ ہوئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی بیماری میں ان کی صحت کے لئے کتنی دعائیں کیں۔ ہمارے سلسلہ کے اخبارات کے فائل اس پر گواہ ہیں مگر کیا مولوی عبدالکریم صاحب تندرست ہو گئے؟ اور کیا اس کے باوجود آپ نے دنیا کو چیلنج دیا ہے یا نہیں کہ مجھے قبولیت دعا کا معجزہ دیا گیا ہے اور اس نشان میں میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اب کیا کوئی مخالف اگر یہی بات پیش کرے کہ جب مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق آپ کی دعا قبول نہ ہوئی تو آپ نے قبولیت دعا کے نشان میں مقابلہ کرنے کا چیلنج کس طرح دیا؟ تو کیا اس کی یہ بات معقول ہو گی؟ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی صحت کے لئے بہت دعائیں کیں اور آپ کو ان سے اس قسم کا تعلق تھا کہ جب وہ فوت ہوئے تو گو آپ کی عادت میں یہ بات داخل تھی کہ آپ ہمیشہ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ جاتے اور عشاء تک مختلف دینی مسائل پر باتیں کرتے رہتے۔ (مولوی عبدالکریم ایسے موقع پر ہمیشہ آپ کے دائیں طرف بیٹھا کرتے تھے) جب مولوی صاحب کی وفات ہو گئی تو آپ نے مغرب کے بعد مسجد میں بیٹھنا بند کر دیا۔
ایک دفعہ بعض لوگوں نے عرض کیا کہ حضور پہلے مغرب کے بعد مسجد میں تشریف رکھا کرتے تھے اور مختلف دینی مسائل بیان کیا کرتے تھے جس سے آنے والے مہمانوں اور دوسرے لوگوں کو بہت کچھ فائدہ ہوتا تھا مگر اب حضور نے بیٹھنا بند کردیا ہے ہماری خواہش ہے کہ حضور پھر اس سلسلہ کو جاری فرما دیں کیونکہ لوگوں کو حضور کے نہ بیٹھنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اب مجھ سے بیٹھنا برداشت نہیں ہو سکتا کیونکہ جب میری نظر اس طرف جاتی ہے جہاں مولوی عبدالکریم صاحب بیٹھا کرتے تھے تو میرے دل کو سخت تکلیف ہوتی ہے ۔
اسی طرح ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد جب بیمار ہؤا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے لئے کتنی ہی دعائیں کیں مگر ان دعاؤں کے باوجود وہ بھی فوت ہو گیا کیونکہ خدا کی مشیّت یہی تھی۔ اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ پہلے مولوی عبدالکریم صاحب کے لئے آپ نے دعائیں کیں مگر وہ قبول نہ ہوئیں اور مولوی صاحب فوت ہو گئے۔ پھر مبارک احمد کے لئے آپ نے دعائیں کیں مگر وہ بھی قبول نہ ہوئیں اور مبارک احمد فوت ہو گیا۔ ایسی حالت میں دنیا کو چیلنج دینے کے معنی کیا ہوئے؟ اور کس طرح معلوم ہؤا کہ آپ کی دعائیں زیادہ سنی جاتی ہیں؟ بلکہ اس سے بھی پہلے بشیر اول فوت ہؤا اور آپ نے اس کے لئے بہت دعائیں کیں۔ یہ تو آپ کو اس کی وفات پر معلوم ہؤا کہ جس لڑکے کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی ہے اس کا مصداق بشیر اول نہیں لیکن جب تک وہ زندہ رہا آپ کا یہی خیال تھا کہ وہی موعود لڑکا ہے اور آپ نے نہ صرف خود اس کے لئے دعائیں کیں بلکہ دوسروں سے بھی کروائیں مگر پھر بھی وہ فوت ہو گیا۔
پھر آتھم کے متعلق پیشگوئی کے وقت جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں۔ میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا اور میری عمر کوئی پانچ ساڑھے پانچ سال کی تھی مگر مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب اور اضطراب سے دعائیں کی گئیں۔ میں نے تو محرم کا ماتم بھی کبھی اتنا سخت نہیں دیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک طرف دعا میں مشغول تھے اور مولوی عبدالکریم صاحب اور سلسلہ کے بعض اور بزرگ مسجد میں جمع ہو کر دعا کر رہے تھے اور تیسری طرف بعض نوجوان (جن کی اس حرکت پر بعد میں بُرا بھی منایا گیا) جہاں حضرت خلیفۂ اول مطب کیا کرتے تھے اور آجکل مولوی قطب الدین صاحب بیٹھے ہیں وہاں اکٹھے ہو گئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں اس طرح انہوں نے بین ڈالنے شروع کر دئیے۔ ان کی چیخیں سو سو گز تک سنی جاتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اللہ آتھم مر جائے یا اللہ آتھم مر جائے۔ مگر اس کہرام اور آہ و زاری کے نتیجہ میں آتھم تو نہ مرا۔ پھر کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ جب ایسے معاملات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں قبول نہ ہوئیں تو آپ کا دنیا کو قبولیت دعا کے نشان میں مقابلہ کا چیلنج دینا ناجائز تھا؟
غرض اگر یہ صحیح ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کا دعویٰ اسی شخص کا صحیح سمجھا جا سکتا ہے جس کا کبھی کوئی نقصان نہ ہؤا ہو اور نہ اسے کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہو تو پھر تو کوئی نبی بھی ایسا نہیں جس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہو کہ اس کی دعائیں قبول ہوئیں۔ سب سے بڑے نبی آنحضرت ﷺ ہیں مگر میں بتا چکا ہوں کہ آپ کی اولاد بھی فوت ہوئی۔ اسی طرح آپؐ کی ایک بیوی فوت ہوئی حالانکہ وہ آپ کو اتنی پیاری تھیں کہ اس کی مثال اور کسی بیوی میں نظر نہیں آتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول کریم ﷺ کو بڑی محبت تھی مگر ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے ہی کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کو کسی بیوی کے متعلق کبھی غیرت بھی آئی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ زندہ بیویوں میں سے تو کسی کے متعلق مجھے کبھی غیرت نہیں آئی مگر ایک بیوی جو وفات پا چکی ہے اس کے متعلق مجھے ضرور غیرت آ جاتی ہے کیونکہ کبھی کبھی رسول کریم ﷺ اس کی اتنی تعریف کرتے، اتنی تعریف کرتے کہ میں کہتی یا رسول اللہ کیا وہ بڑھیا آپ کو اس جوان سے اچھی لگتی ہے؟ اور رسول کریم ﷺ فرماتے کہ عائشہؓ ! تجھے کیا معلوم خدیجہؓ کیا تھی؟ اور یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور فرماتے اس نے میری اتنی خدمت کی ہے اور اس نے اس طرح اپنے آپ کو میرے لئے قربان کر دیا کہ میں اس کی خدمت اور اس کے درجہ کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ 8
ایک دفعہ آپ مجلس میں بیٹھے وعظ و نصیحت کر رہے تھے۔ عورتیں آپ کے اردگرد بیٹھی تھیں اور ان عورتوں میں بڑے بڑے معزز خاندانوں کی مستورات شامل تھیں کہ اچانک ایک بڑھیا پھٹے پرانے کپڑوں میں آ گئی۔ آپ اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور اپنے نیچے جو کپڑا بچھا ہؤا تھا وہ اٹھا کر اس کی خاطر بچھا دیا اور فرمایا آ گئی میری خدیجہؓ کی سہیلی ، آ گئی میری خدیجہؓ کی سہیلی۔ 9
اس قسم کی محبت کی موجودگی میں تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ حضرت خدیجہؓ کی بیماری کے دنوں میں رسول کریم ﷺ نے ان کے لئے کتنے درد اور کتنے سوز سے دعائیں کی ہوں گی مگر پھر وہ دعائیں قبول تو نہ ہوئیں اور رسول کریم ﷺ ہی کو خدا کی مشیت پر صبر کرنا پڑا۔
اسی طرح ابوطالب کے متعلق آپ نے کس قدر دعائیں کیں کہ خدایا اسے ہدایت دے دے مگر ان دعاؤں کے باوجود ابوطالب کو ہدایت نہ ملی۔ غرض رسول کریم ﷺ کی بیوی بھی فوت ہوئی، بچے بھی فوت ہوئے اور پھر چچا، ایسا محبت کرنے والا چچا جس نے باوجود مذہبی اختلاف رکھنے کے اور باوجود اس کے کہ اپنی قوم کی دشمنی اس نے اپنے سر لے لی اور اپنی تمام عمر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں صرف کر دی۔ اس کی ہدایت کے لئے آپؐ نے دعائیں کیں مگر خداتعالیٰ کی مشیت کے مطابق وہ قبول نہ ہوئیں اور آپ نے خداتعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم رکھا۔ 10
اسی طرح آپؐ کا ایک اور جوان چچا جس نے اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے رشتہ داروں کو آپؐ کی خاطر چھوڑ دیا تھا وہ آپ کے سامنے اس طرح مارا گیا کہ دشمن نے اس کا کلیجہ نکال کر دانتوں سے چبا لیا۔ پھر آپؐ کا ایک اور چچیرا بھائی دور میدانوں میں ، سینکڑوں میل دور مدینہ سے پرے، غربت کی حالت میں وطن سے الگ بلکہ دو وطنوں سے علیحدہ ہونے کی حالت میں کیونکہ وہ پہلے مکہ سے مدینہ آیا اور پھر مدینہ سے شام کے میدانوں میں گیا ، جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ مدینہ میں جب جنگ میں شہید ہونے والوں کے متعلق اطلاع پہنچی تو تمام لوگوں نے اپنے اپنے مُردوں پر رونا شروع کر دیا۔ آپ کو بھی اپنے چچیرے بھائی کی وفات کا جس کا نام جعفرؓ تھا سخت صدمہ ہؤا اور اسی صدمہ کی حالت میں آپ مدینہ کی گلیوں میں سے گزرے تو بعض گھروں میں سے رونے کی آواز آئی۔ مگر جب حضرت جعفرؓ کے مکان کے پاس سے گزرے تو وہاں کوئی رونے والا نہیں تھا۔ رسول کریم ﷺ یہ تو نہیں کہ رونے کو پسند کرتے تھے یا صحابہؓ بلند آواز سے رویا کرتے تھے مگر ایسے موقع پر چونکہ آواز کو بعض دفعہ پوری طرح دبایا نہیں جا سکتا خصوصاً نوجوان لڑکیوں سے ، اس لئے بعض گھروں سے رونے کی آواز آ رہی تھی لیکن جعفرؓ کے مکان کے پاس بالکل خاموشی تھی۔ جب آپ وہاں پہنچے تو آپ کے دل میں درد پیدا ہؤا اور آپ نے فرمایا افسوس جعفرؓ کو رونے والا بھی کوئی نہیں۔ انصار (اللہ تعالیٰ کی ان پر بڑی بڑی رحمتیں ہوں) رسول کریم ﷺ کا کوئی لفظ ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ جونہی انہوں نے رسول کریم ﷺ کے یہ الفاظ سنے وہ بھاگ کر اپنے گھروں کو گئے اور انہوں نے اپنی عورتوں سے کہا کہ نیک بختو! تم اپنے مُردوں کو روتی ہو اور محمد ﷺ کے فوت شدہ عزیز کو نہیں روتیں فوراً جعفرؓ کے گھر جاؤ اور وہاں رونا شروع کر دو۔ چنانچہ مدینہ کی تمام عورتیں حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر اکٹھی ہو گئیں اور انہوں نے ایک کُہرام مچا دیا۔ رسول کریم ﷺ نے سنا تو فرمایا کیا ہؤا؟ انصار نے کہا یارسول اللہ ﷺ آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفرؓ پر کوئی رونے والا نہیں؟ ہم نے اپنی عورتوں کو جعفرؓ کے گھر بھجوا دیا ہے اور وہ سب اس جگہ اکٹھی ہو کر رو رہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا میرا یہ مطلب تو نہیں تھا میں نے تو محض اپنے غم کا اظہار کیا تھا۔ اس پر ایک صحابیؓ دوڑتے ہوئے ان عورتوں کی طرف گئے اور کہا کہ مت رؤو ،رسول کریم ﷺ منع کرتے ہیں۔ وہ اس وقت جوش میں بھری ہوئی تھیں انہوں نے کہا ہم تو روئیں گی یہ سن کر وہ پھر رسول کر یم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہؤا اور کہنے لگا یَارَسُولَ اللہ! وہ تو باز نہیں آتیں۔ اس پر آپ نے فرمایا ڈالو ان کے منہ پر مٹی ۔ یہ عرب کا ایک محاورہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دو۔ اس وقت وہ جوش کی حالت میں ہیں تھوڑی دیر کے بعد وہ خود ہی خاموش ہو جائیں گی مگر وہ شخص ظاہری الفاظ کا زیادہ پابند تھا اس نے جھولی میں مٹی ڈالی اور جا کر ان عورتوں کے مونہوں پر ڈالنی شروع کر دی۔ حضرت عائشہؓ کو معلوم ہؤا تو آپ سخت ناراض ہوئیں اور فرمایا رسول کریم ﷺ کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ ان کے مُنہ پر مٹی ڈالنی شروع کر دو۔ آپ کا تو یہ مطلب تھا کہ اب زیادہ کچھ نہ کہو وہ خود ہی خاموش ہو جائیں گے۔ 11
غرض رسول کریم ﷺ کے سامنے آپ کے بعض عزیز اور رشتہ دار شہید ہوئے اور بعض کی شہادت کے متعلق تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو قبل از وقت اطلاع بھی دی گئی اور اس وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے ان کے لئے ضرور دعائیں کی ہوں گی۔ مگر خداتعالیٰ کی جو مشیّت تھی وہی ہؤا۔ اب کیا کوئی بدبخت کہہ سکتا ہے کہ چونکہ رسول کریم ﷺ کی بعض دعائیں قبول نہیں ہوئیں اس لئے آپ کو قبولیت دعا کا منصب حاصل نہ تھا۔ اس بدبخت کو مَیں کہوں گا کہ اے جاہل اللہ تعالیٰ کا تعلق اپنے بندوں سے دوستوں کا سا ہوتا ہے کبھی وہ ان کی سنتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے۔ اے جاہل! تجھے وہ بیسیوں باتیں تو نظر آتی ہیں جن میں خداتعالیٰ نے اپنی منوائی مگر وہ لاکھوں کروڑوں امور نظر نہیں آتے جن میں محمد رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں کو سن کر خدا نے پورا کیا اور اس کی عبودیت پر اپنے عمل سے مہر لگائی۔
میں نے جیسا کہ بتایا ہے اس ٹریکٹ میں جو مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے اکثر ایسی ہیں جن کے متعلق میں نے کبھی دعا نہیں کی۔ مثلاً لکھا ہے :۔
’’ جب آپ نے احمدیہ سٹور قوم کے ہزاروں روپیہ کے سرمایہ سے جاری کیا تھا ا ور اس میں آپ نے اپنی ذمہ داری پر لوگوں سے روپیہ لیا تھا کیا اس کی کامیابی کے لئے دعائیں نہ کی تھیں؟ اگر کی تھیں تو سٹور کیوں تباہ و برباد ہؤا۔’’
حالانکہ مجھے کیا مصیبت پڑی تھی کہ میں سٹور کے لئے دعا کرتا۔ پھر مَیں نے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے تھے انہیں مشورہ دیتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ قادیان میں بیس ہزار روپیہ سے زیادہ کی تجارت نہیں چل سکتی اور اگر چلائی جائے گی تو نقصان ہو گا۔ انہوں نے میری اس بات کو نہ مانا اور 80 ہزار روپیہ جمع کر لیا جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ اتنا روپیہ چونکہ قادیان میں لگ نہیں سکتا تھا اس لئے انہیں نقصان ہو گیا۔ مگر بہرحال سٹور کوئی دینی چیز نہیں تھی جس کے لئے میں دعا کرتا اور نہ میں نے اس کے لئے کبھی دعا کی سوائے انابت کی قسم کی دعا کے۔
پھر لکھتا ہے:۔
‘‘ کیا جناب کو یاد نہیں کہ جب آپ کے نہایت قیمتی گھوڑے چور لے گئے اور آپ نے ان کی واپسی کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ گھوڑے تو واپس کیا آنے تھے الٹا آپ سے بھونگے کی رقم بھی لے کر کھا گئے۔ اس وقت آپ کی دعاؤں کو کیا ہؤا؟‘‘
یہ بات بھی ویسی ہی غلط ہے جیسی پہلی۔ کیونکہ خود بخود یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ چونکہ میرے گھوڑے چوری ہو گئے تھے اس لئے میں نے ان کی دستیابی کے لئے ضرور دعا کی ہو گی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان دنوں ایک دوست غالباً چودھری فتح محمد صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر یہ گھوڑے نہ ملے تو ہماری اس علاقہ میں بہت ذلت ہو گی۔ آپ دعا کریں کہ ہمیں گھوڑے مل جائیں۔ میں نے انہیں کہا کہ میں ایسے امر کے لئے دعا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ میرے لئے اس سے بہت اہم امور دعا کے لئے موجود ہیں وہی میرے لئے بس ہیں۔ دعا نہایت مقدس چیز ہے اس کو ایسی ذلیل باتوں کے لئے استعمال کرنا مجھے سخت ناپسند ہے۔ ہاں بعض دفعہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک گھوڑے کے چوری ہونے پر بھی کسی کو دعا کی ضرورت محسوس ہو۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی ساری پونجی گھوڑا ہی ہو ایسی حالت میں اگر وہ گھوڑے کے لئے دعا کرتا ہے تو جائز ہو گا ۔ یا کوئی اور شخص ہے جس نے جہاد کے لئے گھوڑا رکھا ہؤا ہے اور وہی گھوڑا چور چرا کر لے جاتے ہیں تو ایسی حالت میں اگر وہ دعا کرتا ہے کہ خدایا میرا گھوڑا مجھے مل جائے تو یہ بالکل جائز ہو گا کیونکہ اگر نہ ملے تو وہ جہاد سے محروم رہتا ہے۔ مگر میں نے وہ گھوڑے کون سے جہاد کے لئے رکھے ہوئے تھے کہ میں ان کے گم ہو جانے پر دعا کرتا کہ وہ مجھے مل جائیں۔ وہ میرے لئے قطعاً کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے بلکہ ایک تو سَو یا سَوا سَو روپیہ کا تھا جو میں نے خود خریداتھا اور دوسری گھوڑی تھی جو ایک دوست مجھے بطور تحفہ دے گئے تھے۔ بہرحال میرے لئے ان کا چوری چلے جانا کوئی زیادہ اہم نہ تھا۔ پھر یہ کہنا کہ الٹا وہ بھونگے کی رقم بھی لے کر کھا گئے یہ بھی درست نہیں۔ پولیس نے چوروں کو پکڑ لیا تھا پھر بھنگا دینے کے کیا معنی؟ اور وہ ان کو گرفتار کر کے قادیان لے آئے تھے۔ دو تین دن بعد انہوں نے مجھ سے کہا یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر آپ ان کو چھوڑ دیں تو یہ گھوڑے آپ کوواپس کر دیں گے۔ میں نے سمجھا کہ پولیس کو رشوت کی تو عادت ہوتی ہے انہوں نے کچھ کھا لیا ہو گا اور یہ خود ایک سزا ہے جو ان چوروں کو مل گئی ہے اس لئے میں نے کہہ دیا کہ اچھا چھوڑ دو اور مجھ سے دراصل وہ اسی لئے کہلوانا چاہتے تھے کہ وہ ڈرتے تھے کہ بطور خود چھوڑا تو یہ افسروں سے شکایت کریں گے۔ اب ان کے لئے صرف یہی صورت تھی کہ میری زبان سے کوئی فقرہ نکلوا کر انہیں چھوڑ دیں۔ چنانچہ وہ چھوٹ کر چلے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دئیے بغیر نہ چھوڑا۔ چنانچہ وہ لوگ جو ان کے ناموں سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ وہی لوگ جنہوں نے میرے گھوڑے چرائے تھے ایک اور جُرم میں پکڑے گئے اور ان پر مقدمہ چلا۔ ڈپٹی کمشنر جو انگریز تھا اسے کسی نے بتا دیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مرزا صاحب کے گھوڑے چرائے تھے۔ اس نے فیصلہ کرتے ہوئے لکھا کہ میں تمہیں صرف دو دو سال قید کی سزا دینا چاہتا تھا مگر چونکہ تم نے مرزا صاحب کے گھوڑے چرائے تھے اور پھر واپس نہیں کئے اس لئے میں تمہیں پانچ پانچ سال قید کی سزا دیتا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انہیں سزا ملی وہ الگ ہے۔ ان میں سے ایک کی بیوی نکل گئی۔ دوسرے کا بیٹا مارا گیا اور پھر جلد ہی وہ خود بھی مر گیا۔ تیسرے شخص کے بارہ میں مجھے یاد نہیں کہ اسے کیا سزا ملی مگر جہاں تک مجھے یاد ہے وہ بھی سخت سزا میں مبتلا ہؤا تھا اور اردگرد کے واقف لوگوں میں اس واقعہ کو ایک نشان سمجھا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں جب میں سندھ گیا تو وہاں دو سندھیوں نے میری بیعت کی اور انہوں نے بتایا کہ ہمارے بیعت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی چوری کسی کو ہضم نہیں ہوتی۔ چنانچہ وہ کہنے لگے یہاں سندھ میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ پنجابی پیر کی کوئی چوری نہیں کر سکتا۔ اور اگر کرے تو وہ اسے ہضم نہیں ہوتی۔ سندھیوں کے لئے اپنے پرانے پیروں کو چھوڑنا بڑا مشکل ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے وہاں بعض ایسے نشانات دکھائے جن کے ماتحت وہ اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اپنے پیروں کو چھوڑ کر میری بیعت کریں۔
چنانچہ بعض واقعات انہوں نے مجھے بھی سنائے جو واقع میں حیرت انگیز تھے۔ مثلاً ایک نے بتایا کہ ایک شخص آپ کا کچھ غلہ چُرا کر لے گیا۔ کھوج اس کے ڈیرہ تک پہنچا مگر اس نے تسلیم نہ کیا۔ اس کے خسر نے اسے کہا کہ ان کی چوری پچا نہیں کرتی تم اپنے جُرم کا اقرار کر لو مگر اس نے نہ مانا۔ خدا کا کرنا ایسا ہؤا کہ وہ ادھر جواب دینے کے لئے پنچایت کے پاس آیا اور ادھر اس کے ہمسایہ کے ساتھ اس کی بیوی بھاگ گئی۔ اس قسم کے اَور کئی واقعات ہوئے جس کی وجہ سے عام طور پر لوگوں پر ایک ہیبت ہے۔
غرض یہ دنیوی چیزیں ہیں جن کے متعلق عام حالات میں مَیں دعا کرنا پسند نہیں کرتا۔ دعا تو ایک بہت ہی اعلیٰ اور ارفع چیز ہے۔ اس سے تو ہم دین کی مشکلات کے دور ہونے اور جماعت کو بحیثیت مجموعی ترقی کے لئے کام لیتے ہیں نہ یہ کہ گھوڑے چوری ہوں تو ہم دعا کرنے لگ جائیں مگر معلوم ہوتا ہے اس نے اپنے اوپر قیاس کر لیا چونکہ اس کی اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کی حالت ایسی ہی ہے۔ ‘‘ نقصاں جو ایک پیسے کا دیکھیں تو مرتے ہیں۔’’ اس لئے اس نے اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے خیال کر لیا کہ ہماری بھی یہی حالت ہے۔ گویا وہی اندھے اور سوجاکھے والی بات آ گئی جو میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں۔
میں نے بتایا ہے کہ جو واقعات اس ٹریکٹ میں پیش کئے گئے ہیں ان میں سے بعض امور ایسے ہیں کہ ان کے متعلق میں نے دعا کی ہی نہیں بلکہ گیارہ میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے متعلق میں نے کبھی دعا نہیں کی۔ صرف ایک واقعہ ایسا ہے جس کے متعلق میں نے دعا کی تھی مگر جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں ہی بیان کیا تھا اگر ایک چھوڑ میری سو دعائیں بھی ایسی نکل آئیں جو قبول نہ ہوئی ہوں تو اس سے مجھ پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا کیونکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ انسان کی ہر دعا قبول نہیں ہوتی ورنہ بتایا جائے کہ کیا رسول کریم ﷺ کے گیارہ بچے فوت نہیں ہوئے اور کیا آپؐ نے ان میں سے ہر ایک کے متعلق دعا نہیں کی تھی۔ اسی طرح آپ کی بیوی فوت ہوئی، آپ کے کئی رشتہ دار فوت ہوئے، آپ کے کئی صحابہؓ فوت ہوئے اور آپ نے لازماً ان میں سے ہر ایک کے متعلق دعا کی ہو گی مگر خداتعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ مرنے والے مرتے جائیں گے اور جن کا نقصان مقدر ہے ان کا نقصان ہوتا چلا جائے گا۔ یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ مومن کا نقصان نہیں ہوتا یا مومن پر کبھی کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی بلکہ بحیثیت مجموعی مومن ترقی کرتا ہے اور بحیثیت مجموعی وہ مصائب اور مشکلات سے محفوظ رہتا ہے ۔
گویا مومن کے نقصان کی مثال ویسی ہی ہوتی ہے جیسے حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے کئی سال مزدوری کر کے سونے کے کڑے بنوائے۔ ایک دن کوئی چور آیا اور اس کے کڑے اتار کر لے گیا۔ سال دو سال کے بعد ایک دن وہ عورت اپنے مکان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ اس نے دیکھا وہی چور جس نے اس کے کڑے اتارے تھے پاس سے گزر رہا ہے۔ اس نے اسے آواز دی اور کہا بھائی ذرا میری بات سن جانا۔ اس نے جب دیکھا کہ وہی عورت اسے آواز دے رہی ہے جس کے کڑے وہ اتار کر لے گیا تھا تو اس نے جلدی جلدی وہاں سے بھاگنا چاہا تاکہ وہ اسے پکڑوا نہ دے مگر اس نے پھر آواز دی اور کہا بھائی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ میں کسی کو کچھ کہوں گی نہیں تو میرے پاس آ کر میری ایک بات سن جا۔ چنانچہ وہ آیا تو وہ عورت اسے کہنے لگی دیکھ میرے ہاتھوں میں پھر سونے کے کڑے پڑے ہوئے ہیں مگر تیری وہی لنگوٹی ہی رہی ۔ تو مومن اور کافر میں یہی فرق ہے۔ یہ نہیں کہ مومن کا نقصان نہیں ہوتا اور کافر کا ہوتا ہے بلکہ نقصان دونوں کا ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں صاف طور پر لکھا ہؤا ہے کہ کبھی تم ان کا نقصان کر دیتے ہو اور کبھی وہ تمہارا نقصان کر دیتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تمہارے لئے کامیابی مقدر ہے مگر کفار کے لئے کامیابی مقدر نہیں۔ تم نقصان کے باوجود بڑھتے چلے جاؤ گے اور ان کا نہ صرف نقصان ہو گا بلکہ وہ اور زیادہ گھٹتے چلے جائیں گے۔12
پھر مَیں نے بتایا ہے کہ اگر اسی اصول کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ قبولیتِ دعا کا دعویٰ وہی شخص کر سکتا ہے جس کی کوئی دعا بھی قبول ہونے سے نہ رہے تو اس کی زد حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی پڑتی ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ آپ کو قبولیت دعا کا نشان بخشا گیا ہے آپ کی چار دعائیں قبول نہ ہوئیں۔ مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق آپ نے دعا کی اور وہ قبول نہ ہوئی، بشیر اول کے متعلق آپ نے دعا کی اور وہ قبول نہ ہوئی، آتھم کے متعلق آپ نے دعا کی اور وہ قبول نہ ہوئی، مبارک احمد کے متعلق آپ نے دعا کی اور وہ قبول نہ ہوئی۔
اب میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی چالیس اور ایسی دعائیں بتاتا ہوں جو گو ہمارے نزدیک قبول ہوئیں اور اِنْشَاءَ اللّٰہ قبول ہوں گی مگر اس ٹریکٹ کے لکھنے والے اور اس کے استاد مصری اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک قبول نہیں ہوئیں ۔ اس ٹریکٹ کے لکھنے والے کا دعویٰ یہ ہے کہ میں (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) دھوکے باز ہوں، میں جھوٹ بولتا ہوں، میں فریب کرتا ہوں اور میں ہدایت سے محروم ہوں۔ چنانچہ وہ اپنے ٹریکٹ کے آخر میں مجھے مباہلہ کا چیلنج دیتا ہے اور مباہلہ کا چیلنج اسی کو دیا جاتا ہے جو ہدایت سے محروم ہو۔ پس اگر یہ صحیح ہے کہ میں ہدایت سے محروم اور ضلالت میں گرفتار ہوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چالیس دعائیں اس کے اپنے دعویٰ کے مطا بق (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) خدا تعالیٰ نے ردّ کردیں اور وہ قبولیت کا شرف نہیں پا سکیں۔ یہ دعائیں دونوں آمینوں میں درج ہیں۔
(1) پہلی دعا جو بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ردّ ہوئی وہ یہ ہے ‘‘دے ان کو دین و دولت’’۔ دولت کو تم جانے دو کیونکہ اصل چیز دین ہے لیکن دین ہی وہ چیز ہے جو اس ٹریکٹ کے لکھنے والے کے قول کے مطابق ہمیں نہیں ملا بلکہ ہم اس قابل ہیں کہ ہم سے مباہلہ کیا جائے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے متعلق جو دعا کی تھی کہ الٰہی ان کو دین و دنیا دے وہ ردّ ہو گئی۔
(2) دوسری دعا اس کے قول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘ کر ان کی خود حفاظت۔’’ آپ فرماتے ہیں کہ خدا خود ان کی حفاظت کرے۔ اب بھلا جو شخص مباہلہ سے ہلاک ہو سکتا ہے اس کی خدا کس طرح حفاظت کرے گا؟
(3)تیسری دعا بزعم ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی ‘‘ ہو اِن پہ تیری رحمت’’ کیونکہ جو بے دین ہو ، جو لوگوں کو دھوکا و فریب دیتا رہتا ہو اور جو ٹریکٹ لکھنے والے کی تحریر کے مطابق حسن بن صباح کی چالیں چلتا رہتا ہو اس پر خدا تعالیٰ کی رحمت کس طرح ہو سکتی ہے؟
(4)چوتھی دعا بقول مصریوں کے اور پیغامیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ ‘‘دے رُشد’’ کیونکہ اس کے قول کے مطابق رُشد کی بجائے گمراہی اور ضلالت ہمارے حصہ میں آئی ہے۔
(5)پانچویں دعا بقول مصریوں اورپیغامیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘دے ہدایت ۔‘‘
(6)چھٹی دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ ‘‘دے عزت’’ کیونکہ وہ میرے متعلق اسی ٹریکٹ میں لکھتا ہے کہ:۔
‘‘جس پر اس قسم کے الزامات لگ جائیں اس کی تو اپنی پوزیشن خاک میں مل جاتی ہے جب تک وہ الزامات سے بریّت ثابت نہ کرے۔‘‘
گویا ان الزامات کی وجہ سے میری عزت خاک میں مل گئی اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) ردّ ہو گئی کہ خدایا ان کو عزت دے۔
(7)ساتویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘شیطاں سے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو۔’’
(8)آٹھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘جاں پُر زِنور رکھیو۔’’
(9)نویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘میری دعائیں ساری کریو قبول باری۔’’
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ دعا کی تھی کہ خدایا میری ساری دعائیں قبول کرنا مگر ان کے خیال کے مطابق خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بارہ میں ساری دعائیں ردّ کر دیں۔
(10)دسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘ کر دور ہر اندھیرا۔’’
(11)گیارہویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘دن ہوں مرادوں والے پُر نور ہو سویرا۔ ’’
(12)بارھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘کر فضل سب پہ یکسر رحمت سے کر معطر۔‘‘
(13)تیرھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے۔‘‘
(14)چودھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے۔‘‘
(15)پندرھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے۔‘‘
(16)سولہویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘یہ فضل کر کہ ہوویں نیکو گہر یہ سارے۔‘‘
(17)سترھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘دے بخت جاودانی۔‘‘
(18)اٹھارھویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘اور فیض آسمانی۔‘‘
(19)انیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرے منہ کے واری ۔‘‘
(20)بیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘اپنی پنہ میں رکھیو سن کر یہ میری زاری۔‘‘
(21)اکیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
’’ تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا۔‘‘
(22)بائیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘یہ تینوں تیرے چاکر ہوویں جہاں کے رہبر۔‘‘
(23)تیئسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘یہ ہادیٔ جہاں ہوں۔‘‘
(24)چوبیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘یہ ہوویں نور یکسر۔‘‘
(25)پچیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘یہ ہوویں مہر انور۔‘‘
(26)چھبیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘اہلِ وقار ہوویں۔‘‘
(27)ستائیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘فخر دیار ہوویں۔‘‘
(28)اٹھائیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘حق پر نثار ہوویں۔‘‘
(29)انتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘مولیٰ کے یار ہوویں۔‘‘
(30)تیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘بنا ان کو نکوکار۔‘‘
(31)اکتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘کرم سے ان پہ کر راہِ بدی بند۔‘‘
(32)بتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘ہدایت کر انہیں میرے خداوند۔‘‘
(33)تینتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے۔‘‘
(34)چونتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے۔‘‘
(35)پینتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘نجات ان کو عطا کر گندگی سے۔‘‘
(36)چھتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘براءت ان کو عطا کر بندگی سے۔‘‘
(37)سینتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘بچانااے خدا بدزندگی سے۔‘‘
(38)اڑتیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی۔‘‘
(39)انتالیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
‘‘نہ آوے ان کے گھر تک رُعبِ دجال۔‘‘
(40)چالیسویں دعا بقول ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ردّ ہوئی کہ
’’نہ چھوڑیں وہ ترا یہ آستانہ
مرے مولیٰ انہیں ہر دم بچانا‘‘
اب بقول مصری صاحب کے ان چیلوں اور پیغامیوں کے اگر ان چالیس دعاؤں کے ردّ ہونے کے بعد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قبولیت دعا کے مدعی رہ سکتے ہیں تو میری اگر گیارہ دعائیں ردّ ہو گئیں تو کون سی بڑی بات ہوئی مگر حق یہ ہے کہ دعا کے صحیح مفہوم کے ماتحت نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعائیں یا دوسری دعائیں ردّ ہوئیں اور نہ خداتعالیٰ کے فضل سے میری ہی دعائیں ردّ ہوئیں اور یہ معترض جھوٹے اور حاسد ہیں۔ یہ شور مچاتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ سلسلہ کو ترقی دیتا چلا جائے گا اور اس کے کام ان کے شور مچانے سے نہیں رکیں گے۔ اِنْشَاء َاللہ تَعَالیٰ۔ ‘‘
(الفضل 20 جولائی 1940ء)
1 الزمر: 55
2 المومن:61
3 متی باب 26 آیت 39
4 بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی ﷺ انا بک لمحزونون
5 اسد الغابۃ حالات عثمانؓ بن مظعون جلد اول صفحہ 493 تا 495 الطبعۃ الاولیٰ 1998ء
6 بخاری کتاب الجنائز باب زیارۃ القبور
7 بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی ﷺ یعذب المیت ببعض بکاء اھلہا
8 بخاری کتاب المناقب باب تزویج النبی ﷺ خدیجۃ
9 شعب الایمان للبیہقی کتاب فی رد الاسلام باب فصل فی المکافأۃ بالضائع
10اسد الغابۃ جلد اول صفحہ 606 الطبعۃ الاولٰی 1998ء مطبع دارالفکر بیروت لبنان
11بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عند المصیبۃ یعرف فیہ الحزن



19
عقائد کا فیصلہ کسی بورڈ سے نہیں کرایا جا سکتا
(فرمودہ 19 جولائی1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ میرے سامنے اخبار پیغام صلح کے ایک مضمون کا ایک خلاصہ پیش کیا گیا ہے جس میں مولوی محمد علی صاحب نے اس با ت پر زور دیا ہے کہ میں تین ماہ سے فیصلہ کا ایک آسان طریق پیش کر رہا ہوں مگر اسے قبول نہیں کیا جاتا اور وہ طریق یہ ہے کہ اختلافی مسائل کا تصفیہ دونوں جماعتوں کے امام آپس میں کر لیں اور فیصلہ کے لئے ایک بورڈ مقرر کر لیا جائے جس میں دس ممبر ہوں۔ پانچ مَیں ان کی جماعت میں سے چُن لوں اور پانچ وہ ہماری جماعت میں سے چن لیں اور پھر یہ بورڈ فیصلہ کر دے کہ کس کے عقائد صحیح ہیں۔
مولوی صاحب کا خیال یہ ہے کہ وہ یہ طریق تین ماہ سے پیش کر رہے ہیں مگر جہاں تک مجھے یاد ہے وہ غالباً1915ء سے یہ طریق پیش کر رہے ہیں اور اس طرح تین ماہ نہیں بلکہ 23سال ان کی اس تجویز پر گزر چکے ہیں۔ اور میں نے اس 23سال کے عرصہ میں اسے قبول نہیں کیا بلکہ کئی دفعہ اس کا جواب بھی دے چکا ہوں۔ اس تجویز پر اول تو مجھے یہ اعتراض ہے کہ مذہبی عقائد کا فیصلہ کوئی دوسرا شخص کرے وہ پانچ آدمی تو الگ رہے جو وہ ہماری جماعت سے منتخب کریں گے اور وہ بھی الگ رہے جو میں ان کی جماعت سے کروں گا میں تو مذہبی عقائد کے بارہ میں اپنی بیوی، بیٹوں اور بھائیوں کا فیصلہ بھی منظور کرنے کو تیار نہیں۔ مجھے شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی کہ خداتعالیٰ کے سامنے میرے عقائد کے متعلق کوئی دوسرا شخص جوابدہ ہو سکے گا۔ خداتعالیٰ کے سامنے میرے عقائد کے متعلق نہ کوئی بھائی جوابدہ ہو سکتا ہے نہ بیٹا اور نہ بیوی اور نہ کوئی اور عزیز۔ اس کے لئے میں خود ہی جوابدہ ہو سکتا ہوں۔ میرے عقیدہ کا سوال میرے ہی لئے ہے اور میں اس میں کسی دوسرے کا فیصلہ کیوں قبول کروں اور اس سے یہ معلوم کروں کہ میرا عقیدہ غلط ہے یا صحیح؟ جو اسے غلط سمجھتا ہے وہ تو پہلے ہی اسے غلط کہتا ہے اور جو صحیح سمجھتا ہے وہ پہلے ہی صحیح سمجھتا ہے۔ پھر فیصلہ کرنے کے وقت کون سی کوئی ایسی نئی بات مولوی صاحب پیش کریں گے کہ وہ اپنا خیال تبدیل کر لے گا۔ آخر ایسے پنچ انہی لوگوں میں سے مقرر کئے جا سکتے ہیں جو عالم ہوں اور جو عالم ہیں انہوں نے پہلے ہی کافی غور کر لیا ہؤا ہے ۔ وہ اپنے خیال کو تبدیل کیونکر کر سکیں گے۔ یا تو مولوی صاحب اعلان کریں کہ انہوں نے کوئی ایسے نئے حوالے دریافت کئے ہیں جو پہلے پیش نہیں ہوئے اور اگر یہ بات نہیں تو پھر پہلے ہی حوالوں سے وہ لوگ اپنے عقیدہ کو کس طرح تبدیل کر لیں گے جو اِن پر سالہا سال تک غور کر چکے ہیں اور عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَت اپنے ایمان پر قائم ہیں اور جو لوگ ایسے نہ ہوں وہ میرے نمائندے کس طرح ہو سکتے ہیں؟ یا کیا پھر مولوی صاحب ایسے لوگ چنیں گے جن کو پہلے ان حوالوں کا بھی پتہ نہیں جو آئے دن پیش ہوتے رہتے ہیں۔ اگر یہی بات ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ گویا دو عالموں پر چند جاہل فیصلہ کرنے کے لئے مقرر کئے جائیں گے اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ کیا فیصلہ کر سکیں گے۔ پھر کسی انسان کے فیصلہ کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔
عقیدہ کے معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کہا ہے اور ہماری جماعت میں سے ان کے چُنے ہوئے پانچ آدمی تو درکنار اگر سو فیصدی جماعت بھی اس کے خلاف فیصلہ کرے تو مَیں کبھی نہیں مانوں گا بلکہ صاف کہہ دوں گا کہ تم لوگ جدھر مرضی ہے جاؤ میرا عقیدہ یہی رہے گا۔ پس مَیں کسی کا یہ حق نہیں سمجھتا خواہ اسے مولوی محمد علی صاحب نے ہماری جماعت سے چُنا ہو یا میں نے ان کے گروہ سے کہ میرے عقائد کے متعلق فیصلہ کرے کہ صحیح ہیں یا غلط اور جب مَیں اسے جائز ہی نہیں سمجھتا تو اس طریق کو اختیار کیسے کر سکتا ہوں اور جس فیصلہ کی میرے نزدیک قیمت ہی کوئی نہیں میں دوسروں کے سامنے اسے پیش کر کے کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ اس کی قدر کرو۔ انتظامی اور دنیوی امور میں تو ججوں کی ضرورت ہوتی ہے اور لوگ ان کے فیصلوں کو مانتے بھی ہیں مگر دینی امو ر میں نہیں۔ دنیوی امور میں عقیدہ کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ وہاں صرف حقوق کا سوال ہوتا ہے۔ اس میں جج غلطی بھی کر سکتا ہے مگر چونکہ شخصی حقوق پر قومی امن مقدّم ہوتا ہے باوجود ججوں سے غلطی کے امکان کے ان کے فیصلوں کو مانا جاتا ہے اور منوایا جاتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ فیصلے ضرور درست ہیں بلکہ اس لئے کہ خواہ وہ غلط ہوں ان پر عمل کرنے سے ہی ملکی امن قائم رہتا ہے۔ رسول کریم ﷺ بھی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کوئی شخص اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہو مگر اپنی چرب زبانی سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے۔ اسے یاد رکھنا چاہیئے کہ میرا اس کے حق میں فیصلہ کر دینا اسے خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا۔ اگر دیدہ دانستہ وہ دوسرے کا حق لے گا تو قیامت کے دن وہ ضرور اس کی سزا پائے گا۔1پس جبکہ آنحضرت ﷺ بھی قضاء کے فیصلوں کی نسبت فرماتے ہیں کہ دھوکا دے کر مجھ سے بھی غلط فیصلہ کرایا جا سکتا ہے تو اور کون سا جج ہو سکتا ہے جس سے غلطی نہ ہو سکے مگر باوجود اس کے افراد سے یہ امید کی جاتی ہے کہ خواہ وہ فیصلہ ان کے نزدیک درست ہو یا غلط اس کو تسلیم کر لیں اور یہ ایک قربانی ہے جو قومی امن کے قیام کی خاطر ان سے طلب کی جاتی ہے مگر دین کے معاملہ میں ایسا نہیں ہو سکتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانہ میں ایک دفعہ شیخ یعقوب علی صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ مَیں نے خواجہ صاحب سے کہا تھا کہ باہم اختلاف درست نہیں۔ چنانچہ میری نصیحت کا اثر ہؤا ہے اور انہوں نے مجھے بھجوایا ہے کہ آؤ صلح کر لیں۔ مَیں نے انہیں جواب دیا کہ میرا ا ور خواجہ صاحب کا اختلاف کیا ہے؟ کیا کسی دنیوی معاملہ پر اختلاف ہے؟ اگر ایسا ہے تو صلح کا کوئی سوال نہیں وہ مجھ سے جو بھی مطالبہ کرتے ہیں میں اسے منظور کرتا ہوں۔ میری کوئی چیز اگر وہ لینا چاہیں تو بے شک لے لیں۔ مجھ سے پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں لیکن اگر اختلاف دینی ہے تو پھر نہ میرا کوئی اختیار ہے کہ اس میں سے کوئی چیز چھوڑ دوں اور نہ ان کا ۔ اگر چھوڑیں گے تو پہلے اگر ایک بے دین ہے تو پھر دونوں بے دین ہو جائیں گے۔ تو عقائد کے بارہ میں کسی کے فیصلہ کے کوئی معنی ہی نہیں۔ دینی امور میں فیصلہ ہر شخص اپنی ذات کے لئے خود کرتا ہے۔ ہم میں سے جو لوگ اس وقت جماعت میں شامل ہیں انہوں نے خود اپنے متعلق فیصلہ کیا تھا۔ کیا پہلے کوئی دس اشخاص کا بورڈ مقرر ہؤا تھا جس نے فیصلہ کیا کہ مرزا صاحب اپنے دعاوی میں سچے ہیں اور پھر انہوں نے مانا تھا ہرگز نہیں۔ عقائد کے بارہ میں دس تو کیا سو آدمیوں کا بورڈ ہو تو بھی انسان کے دل کو تسلی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے دینی امور میں فیصلہ کا طریق یہی ہے کہ انسان کے ضمیر کو تسلی ہو جائے اور دل مان لے۔ دوسروں کے فیصلہ کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ کیا آج بھی کروڑوں لوگ ایسے نہیں جو یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب (نَعُوْذُ بِاللہ) سچے نہیں ہیں مگر کیا ہم ان کے اس فیصلہ کو مان لیتے ہیں یا ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ اور جب دل آپ کی صداقت پر مطمئن ہو جاتا ہے تو تسلیم کر لیتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک ایسا ہے جس نے کروڑوں انسانوں کے فیصلہ کو ردّ کیا اور صرف اپنی ضمیر اور دل کے فیصلہ کو درست مانتے ہوئے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیا ہے۔ تو دینی امور میں دوسروں کے فیصلہ کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے۔ ہاں دنیوی معاملات میں ان کو مان لیا جاتا ہے بلکہ اگر کوئی نہ مانے تو سب اسے یہی کہتے ہیں کہ قوم کی اکثریت کے فیصلہ کو کیوں چھوڑتے ہو۔ دنیوی امور میں اُخروی زندگی پر اثر نہیں پڑتا۔ ان کا تعلق صرف اس عارضی زندگی سے ہوتا ہے اس لئے اگر اس میں غلطی بھی ہو جائے تو چنداں مضائقہ نہیں۔ مگر دین کا تعلق چونکہ اخروی زندگی سے ہے اس لئے دینی امور کا فیصلہ کرنے کے لئے کوئی قاضی یا جج مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ پس اگر مولوی محمد علی صاحب چاہتے ہیں کہ اپنی جماعت میں سے ان کے منتخبہ پانچ اور ان کی جماعت میں سے اپنے منتخبہ پانچ اشخاص سے مَیں اپنے عقائد کا فیصلہ کراؤں اور پھر اسے مان لوں یا اسے دنیا کے سامنے پیش کروں تو مَیں اس کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ دینی عقائد کا فیصلہ ہمیشہ انسان کی کانشنس ہی کرتی ہے اور خداتعالیٰ کے سامنے اسی کے فیصلہ کے مطابق انسان اپنے ایمان کا اقرار کرتا ہے۔ اگر تو وہ جھوٹ کہتا ہے تو اس کا ٹھکانا جہنم میں ہو گا لیکن اگر سچے طور پر داخل ہوتا ہے تو اگر اس کا فیصلہ غلط بھی ہو گا تو خداتعالیٰ کی بخشش اسے ڈھانپ لے گی۔ دنیوی امور میں فیصلہ کا یہی طریق آدم سے لے کر اب تک چلا آتا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی قاعدہ نہیں اور اس کے خلاف کوئی نیا قاعدہ تجویز کرنے کے نہ مولوی محمد علی صاحب مجاز ہیں اور نہ مَیں۔ یہی طریق پہلے تھا اور یہی طریق اب ہے۔ اس کے سوا کوئی طریق اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں اگر اس بورڈ سے مولوی صاحب کا یہ مطلب ہے کہ وہ انتظامی معاملات کا فیصلہ کرے ۔ وقت کی تعیین، مجلس مناظرہ میں شرکت کے لئے موزوں اشخاص کو ٹکٹ دینا وغیرہ وغیرہ اور اس کی متعلقہ شرائط کی پابندی کرانا، تو یہ نہایت ضروری ہے اور ایسا بورڈ ضرور ہونا چاہیئے۔ دُنیوی اور انتظامی امور میں ہم اس کی بات کو پوری طرح تسلیم کریں گے یا ایسے امور میں اس کا فیصلہ مان لیں گے جن کا ہمارے یا کسی اور کے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر عقائد کے بارہ میں اس کے فیصلہ کو نہیں مان سکتے۔
مولوی محمد علی صاحب نے اس بورڈ کا طریق انتخاب جو پیش کیا ہے اس کے متعلق میں نے ہمیشہ یہ جواب دیا ہے کہ یہ غیر طبعی ہے۔ ایسے لوگوں کا انتخاب اپنی اپنی طرف سے ہونا چاہیئے۔ یہ نہیں کہ ہماری جماعت میں سے وہ منتخب کریں اور ان کی جماعت میں سے ہم ۔ بلکہ ہم اپنے آدمی منتخب کریں اور وہ اپنے۔ ان کی طرف سے یہ شرط بیس سال سے زائد عرصہ سے پیش ہو رہی ہے اور اسے پیش کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ گویا بڑا تیر مارا ہے اور میں نے ہمیشہ اس کا جواب دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہم میں سے منافق چُن لیں اس کا جواب وہ یہ دیا کرتے ہیں کہ جن کو ہم منافق کہہ دیں گے ان کو وہ چھوڑ دیں گے مگر مَیں اس طرح منافقوں کا اظہار کر کے ان کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کیوں دوں۔ ہم میں جو منافق ہیں ان کو نکال کر وہ اب تک اپنے ساتھ تو شامل نہیں کر سکے مگر چاہتے ہیں کہ ہم اپنوں میں سے بعض کو منافق کہہ کر ان کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیں مگر وہ یاد رکھیں کہ ایسے لوگوں کے ذریعہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ایسے لوگ کسی کام نہیں آیا کرتے۔ اب تک جتنے لوگ ہم میں سے نکلے ہیں مثلاً مستری اور مصری پارٹی وغیرہ ان میں سے کتنوں نے ان کو فائدہ دیا ہے؟ یہ بات کہ ہم خود کہہ دیں کہ فلاں منافق ہے بالکل فضول ہے۔ یہ میں نہیں کر سکتا۔ اس معاملہ میں مَیں کتنا ہی دلیر کیوں نہ ہوں محمد رسول اللہ ﷺ سے تو زیادہ دلیر نہیں ہو سکتا۔ آپؐ نے مدینہ کے منافقوں کے نام حذیفہ بن الیمان کو مخفی طور پر بتائے تھے اور صحابہؓ ہمیشہ ان سے پوچھتے رہے مگر انہوں نے ہمیشہ ہی بتانے سے انکار کیا اور یہی کہتے رہے کہ یہ میرے محبوب کا راز ہے جو میں ظاہر نہیں کر سکتا۔ چنانچہ جب صحابہ نے یہ پتہ لگانا ہوتا کہ کون منافق ہے تا اس کا جنازہ نہ پڑھیں تو وہ دیکھ لیتے کہ حذیفہ نے اس کا جنازہ موقع ملنے کے باوجود پڑھا ہے یا نہیں۔ جس کا جنازہ وہ نہ پڑھتے صحابہ بھی نہیں پڑھتے تھے۔ 2
دراصل منافقوں کے نام کا اخفاء ان کے ایمان کی حفاظت کے پیش نظر ہوتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص آج منافق ہو مگر بعد میں اس کی حالت درست ہو جائے۔ انسان کے دل کی کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ عین ممکن ہے کہ کوئی منافق بعد میں درست ہو جائے۔ اس لئے ان کے نام کا اظہار مناسب نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ اکثر منافقوں کا علم غیر فریق کو ہوتا ہے اپنوں کو نہیں۔ منافق کے تو معنے ہی یہ ہوتے ہیں کہ ایک جماعت میں شامل رہتے ہوئے اس کے مخالفوں سے پوشیدہ تعلقات رکھے۔ اس لئے ہم میں جو منافق ہیں ان میں سے اکثر کا پتہ ہمارے دشمن کو ہی ہو سکتا ہے۔ ہمیں کیا پتہ ہو سکتا ہے؟ پس اگر وہ منافقین کو چن لیں تو ہم کو ان کا کیا علم ہو سکتا ہے یہ تو ان کو ہی پتہ ہو سکتا ہے کیونکہ انہی سے مخفی تعلقات کا نام تو نفاق ہے۔ بے شک مجھے بعض کا علم ہے مگر شریعت مجھے اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ان کی ہدایت کے تمام ذرائع استعمال کئے بغیر ان کے نام کا اظہار کر دوں۔ کیونکہ کئی جو آج منافق ہیں ہو سکتا ہے کل درست ہو جائیں۔ اس لئے اگر مجھے علم ہو تو بھی مجھے ان کے ناموں کے اظہار کی اجازت نہیں، نہ آنحضرت ﷺ نے ان کے نام ظاہر کئے، نہ صحابہؓ نے اور نہ میں کر سکتا ہوں۔ جب تک کہ وہ خود جماعت کے مقابل پر کھڑے ہو کر ظاہر نہ ہو جائیں۔ میں خود ان کو ظاہر کر کے انہیں مخالفوں کی صف میں کیوں کھڑا کروں اور ان کی ہدایت کے امکانات کیوں ختم کر دوں؟
حدیث میں آتا ہے کہ ایک روز آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص کے متعلق ذکر کر رہے تھے کہ وہ ایسا بُرا ہے، اس نے یہ خرابی کی یہ کی۔ اتنے میں وہی شخص آ گیا آپ نے اٹھ کر دروازہ کھولا، اسے بٹھایا اور اس سے باتیں کرنے لگے۔ حضرت عائشہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ بھی ایسا کرتے ہیں؟ ابھی تو آپ اس کی مذمت کر رہے تھے اور ابھی اس کا اعزاز کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی کیا ضرورت ہے کہ میں اس کے شر کو بے موقع ظاہر ہونے دوں۔ 3 اور اس طرح آپؐ نے بتایا کہ جب تک کسی کے شر کے اظہار کا وقت نہ آئے اسے خود ظاہر کر کے دشمن بنا لینا ضروری نہیں۔ ممکن ہے وہ ایمان ہی لے آوے۔ آنحضرت ﷺ کا یہ فعل دو وجوہ سے ہی ہو سکتا ہے ایک تو یہ کہ آپؐ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ اس سے ڈرتے تھے کہ یہ مجھے نقصان پہنچائے گا مگر اس قسم کا خیال آپ کے متعلق نہیں کیا جا سکتا اور دوسرے اس وجہ سے کہ پیشتر اس کے کہ اس کا شر ظاہر ہو میں اسے دشمنوں کی صف میں کیوں کھڑا کر لوں اور اصل وجہ یہی ہے ۔ یہ دراصل رحمت کی وجہ سے ہے اور آپ نے جو کچھ کیا اس کے یہی معنے تھے کہ اس کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا رہے۔ اور آپ کا یہی طریق مجھے بھی مجبور کرتا ہے کہ اگر مجھے علم ہو تو بھی مَیں کسی کا نام ظاہر نہ کروں۔ جب تک کہ یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ علم ہو جائے کہ اب اسے ہدایت نہیں ہو گی اور یا پھر وہ خود ظاہر نہ ہو جائے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ مجھے سب کا علم ہو۔
باقی رہا ان کا یہ اعتراض کہ اس سے معلوم ہؤا ہماری جماعت میں منافق ہیں اور ان میں نہیں۔ سو اِس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ میں فطرتاً منافقوں کی تلاش سے معذور ہوں اور وہ فطرتاً منافقوں کی تلاش میں ماہر ہیں۔ ان میں تجسّس اور ٹوہ لگانے کی عادت ہے جو مجھ میں نہیں۔ وہ ہمیشہ اس بات کی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ ہم میں سے کمزوروں کا کھوج لگائیں مگر میری طبیعت ایسی ہے کہ میرے پاس ان کے قریب ترین عزیزوں کی چِٹھیاں آئیں کہ ہم ان سے بیزار ہیں مگر میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ ایمان کو کھیل مت بناؤ۔ ابھی ٹھہرو اور صبر کرو اور خداتعالیٰ سے دعائیں کرو۔ میری فطرت ہی ایسی نہیں کہ میں ایسے جوڑ توڑ کرتا رہوں کہ ان میں سے کون ان کا مخالف ہے اور کون کمزور ہے مگر وہ فطرتاً مجبور ہیں کہ ایسے لوگوں کی ٹوہ میں رہیں اور ان کو اپنے گردوپیش جمع رکھیں۔ چنانچہ تجربہ اس بات پر گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ان لوگوں کو جو ہماری جماعت سے نکلے اپنے گرد اکٹھا کیا ۔ انہوں نے مستریوں کو مدد دی مصریوں کو دی۔ اس پر ان کی جماعت کے ریکارڈ گواہ ہیں گو وہ مُنہ سے اس کا انکار ہی کرتے ہیں مگر ہمارے پاس اس بات کی قطعی اور یقینی شہادتیں ہیں کہ وہ ان لوگوں کی امداد کرتے رہے۔ ان کی بغداد کی جماعت کے سیکرٹری نے خود بیان کیا کہ میرے پاس مرکز لاہور سے ان لوگوں کے اشتہار اور ٹریکٹ تقسیم کے لئے آتے رہے ہیں تو وہ ہمیشہ اشاعت کے ذریعہ سے بھی اور روپے سے بھی ان لوگوں کی مدد کرتے رہے ہیں مگر میرا طریق یہ ہے کہ میں ان سے بیزار ہونے والوں کو ہمیشہ یہی نصیحت کرتا رہا ہوں کہ اپنے دین کی اصلاح کی طرف توجہ کرو۔ گالیاں دینے کو مذہب نہ بناؤ ورنہ تمہیں نہ وہاں ہدایت نصیب ہوئی ہے اور نہ یہاں ہو گی۔ پس یہ بات نہیں کہ منافق ہماری جماعت میں ہی ہیں ان میں نہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ ان کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ ہمارے کمزوروں کی جستجو کرتے رہتے ہیں مگر ہمارا یہ طریق نہیں اور میں فطرتاً ایسا نہیں کر سکتا۔ پس بورڈ کے انتخاب کا جو طریق وہ اختیار کرتے ہیں وہ بالکل غیرطبعی ہے اور کوئی معقول انسان اسے قبول نہیں کرے گا۔ وہ کہتے ہیں وہ تین ماہ سے یہ بات پیش کر رہے ہیں اور میں نے کہا ہے قریباً 23 سال سے وہ یہ کہہ رہے ہیں لیکن اگر سو سال بھی کہتے رہیں تو یہ نہیں مانی جا سکتی کہ ہم عقائد کا فیصلہ کسی بورڈ سے کرائیں۔ ہاں انتظامی امور کی نگرانی کے لئے بورڈ ہو سکتا ہے مگر ہمارے نمائندے وہ ہوں گے جن کو ہم منتخب کریں اور ان کے وہ جنہیں مولوی محمد علی صاحب یا اور کوئی جسے ان کی انجمن اختیار دے منتخب کریں۔ پس اگروہ اس طریق پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو میں نے اس کا جواب دے دیا ہے۔ وہ چاہیں تو اس طرح کر سکتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں ان کا ہمیشہ سے یہی طریق ہے اور وہ ہمیشہ ایسی تدابیر کرتے رہتے ہیں جس سے دوسروں کو ہدایت سے محروم رکھ سکیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ صداقت آخر غالب آ کر رہے گی اور ان کی ساری تدابیر ھباء ہو کر اُڑ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی روشنی ان کی کمزوریوں کو خود ظاہر کر کے دوسروں کے لئے ہدایت کے سامان کر دے گی۔ اگر مولوی محمد علی صاحب کو سچائی کے اظہار کی ضرورت ہے تو اس سے بہتر ترکیب میں نے کئی بار ان کے سامنے پیش کی ہے ۔ وہ اسے کیوں اختیار نہیں کرتے؟ میں نے کئی بار کہا ہے کہ صحیح عقائد وہی ہو سکتے ہیں جن کا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں عَلَی الْاِعْلَان اظہار کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں وہ جن عقائد کا اظہار کیا کرتے تھے مَیں ان کی تحریروں سے نکال کر ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور وہ ان کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی میرا عقیدہ یہی ہے اور وہ میری اس زمانہ کی تحریروں سے میرے عقائد نکال دیں اور میں لکھ دوں گا کہ آج بھی میرے عقائد یہی ہیں ہم دونوں مُنہ سے یہی کہتے ہیں کہ ہمارے عقائد آج بھی وہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تھے۔ پس اس طرح اس زمانہ کی تحریرات سے ہم ایک دوسرے کے عقائد نکال کر پیش کر دیں اور دونوں اپنے اپنے عقائد کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے عقائد یہی ہیں اور پھر دونوں کے عقائد کتاب کی صورت میں شائع کر دئیے جائیں اور ساتھ ہی دونوں کی یہ تحریریں بھی چھپ جائیں کہ ہمارے عقائد آج بھی یہی ہیں ۔ یہ ایسا سادہ طریق ہے کہ نہ ہمیں ان کے آدمی تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ان کو ہمارے۔ صرف ایک دوسرے کی تحریرات کے اقتباس شائع کر دئیے جائیں۔ ہاں چونکہ یہ ممکن ہے کہ کسی کی تحریر کا کوئی اقتباس ناقص ہو اس لئے ہر فریق کو حق ہو گا کہ وہ مطالبہ کرے کہ میری تحریر کا اقتباس ناقص ہے فلاں حصہ اس کے ساتھ شامل کیا جائے یا فلاں دوسری جگہ پر میرے اس کلام کی شرح موجود ہے اسے شامل کیا جائے ، اس کا یہ مطالبہ پورا کیا جائے ۔ (ان تشریحی عبارتوں کے لئے بھی یہ شرط ہو گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی شائع شدہ ہوں) اس طرح کسی پر ظلم نہ ہو گا۔ ان کو حق ہو گاکہ ان کی کسی تحریر کا حل اگر کسی دوسری جگہ موجود ہو تو اس کے ساتھ شامل کرنے کا وہ مطالبہ کریں اور اسی طرح میری کسی تحریر کا حل اگر دوسری جگہ ہو تو میرا حق ہو گا کہ اس کے ساتھ شامل کرنے کا میں مطالبہ کروں اور یہ حل بھی ساتھ شامل کر لئے جائیں۔ یہ ایک آسان طریق ہے کہ نہ بورڈ مقرر کرنے کی ضرورت ہے اور نہ مناظروں کی۔ صرف دونوں فریق کی وہ تحریرات جو زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہیں اکٹھی شائع کر دی جائیں اور دونوں ان پر لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے عقائد یہی ہیں۔ اس کے بعد دنیا خود فیصلہ کر لے گی کہ اس زمانہ میں میرے عقائد اور تھے یا مولوی محمد علی صاحب کے؟ اگر یہ ثابت ہو جائے گا کہ میں نے اب اپنے عقائد بگاڑ لئے ہیں تو میرا اثر جاتا رہے گا اور اگر یہ ثابت ہو گا کہ ان کے عقائد اس زمانہ میں اور تھے تو ان کے ساتھیوں کے لئے یہ بات ہدایت کا موجب ہو جائے گی اور وہ یہ سمجھ جائیں گے کہ مولوی محمد علی صاحب کے زمانۂ صحابیت کے عقائد اور تھے اور آج اور ہیں۔ یہ نہایت آسان طریق ہے اور بہترین طریق ہے۔ اگر وہ اس پر متفق ہوں تو فیصلہ نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مباحثہ ہو گا جو گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شہادت ساتھ رکھتا ہو گا۔ باقی رہا جزئیات یا تفاصیل کا سوال کہ اس وقت کسی حوالہ کا علم نہ تھا اور وہ اب ملا ہے یا کہ اس وقت کسی لفظ کے معنی محقق نہ تھے جو اب ہوئے ہیں یہ غیر ضروری چیزیں ہیں۔ اصل سوال عقیدہ کا ہے کہ اس وقت کیا تھا ۔
میرا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں جس کے معنے ہیں کہ وہ نبی بھی ہیں اور ساتھ ہی محمد رسول اللہ ﷺ کے امتی بھی۔ اور وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں ان معنوں میں کہ وہ امتی تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں۔ میں ان کی تحریروں میں سے یہ نکال دوں گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کیا عقیدہ رکھتے تھے اور وہ میری تحریروں سے نکال دیں کہ اس زمانہ میں میرا عقیدہ کیا تھا۔ اور اس طرح فیصلہ نہایت آسان ہو جائے گا۔ پچیس سال سے یہ جھگڑا چل رہا ہے لیکن اگر مولوی صاحب میری اس تجویز پر عمل کریں تو فیصلہ آسانی سے ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اس آسان طریق کو ماننے کو بھی تیار نہ ہوں تو ان کی مرضی۔ زمانہ خود ہی صداقت پر سے پردہ اٹھاتا جائے گا۔
اس بارہ میں ایک لطیفہ بھی میں بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ مولوی محمد علی صاحب کے ساتھیوں میں سے ایک معزز نوجوان اس مجلس شوریٰ کے موقع پر یا شاید جلسہ سالانہ پر قادیان آئے تو چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ان کے سامنے چند حوالے پڑھنے شروع کئے کہ یہ ہمارے عقائد ہیں۔ اور وہ حوالے سنا کر انہوں نے بتایا کہ یہ مولوی محمد علی صاحب کی تحریروں کے اقتباس ہیں۔ تو وہ کہنے لگے ہمیں تو مولوی صاحب نے کبھی نہیں یہ بتایا کہ پہلے ان کے عقائد یہ تھے۔ پس فیصلہ کا آسان طریق یہی ہے کہ میں ان کی تحریروں کے وہ حوالے پیش کر دیتا ہوں جن سے ظاہر ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی سمجھتے تھے اور وہ میرے ایسے حوالے پیش کر دیں جن سے ان کے نزدیک یہ نکلتا ہے کہ میں اس زمانہ میں آپ کو نبی نہیں سمجھتا تھا۔ اور پھر اگر اس زمانہ کی بعض تحریروں سے ان حوالہ جات پر کوئی ایسی روشنی پڑتی ہو جو مصنف کے نزدیک اس کے صحیح عقیدہ کو ظاہر کر رہی ہو تو اس کے مطالبہ پر اسے بھی ان اقتباسات کے ساتھ شامل کر دیا جائے۔ پھر دونوں کے حوالہ جات کو بصورت کتاب چھاپ دیا جائے۔ دنیا خود فیصلہ کر لے گی کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔‘‘
(الفضل 24 جولائی 1940ء)

1 بخاری کتاب المظالم باب اثم من خاصم فی باطل
2 اسد الغابۃجلد اول صفحہ 532 ،533 الطبعۃ الاولٰی 1998ء مطبع دارالفکر بیروت لبنان
3 ترمذی ابواب البروالصلۃ با ما جاء فی المداراۃ

20
مجلس انصار اللہ کا قیام اور دیگر تنظیموں کے متعلق
اہم نصائح
(فرمودہ 26 جولائی 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے متعلق ایک دعا کی تھی جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے اور وہ دعا یہ تھی کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ1 ۔اے میرے رب ! تُو ان میں ایک نبی مبعوث فرما جس کا کام یہ ہو کہ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وہ تیری آیتیں انہیں پڑھ کر سنائے وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ اور شریعت کے احکام اور ان کی حکمتیں انہیں سمجھائے وَ يُزَكِّيْهِمْ اور انہیں پاک کرے یا يُزَكِّيْهِمْ کے دوسرے معنوں کے مطابق انہیں ادنیٰ حالتوں سے ترقی دیتے دیتے اعلیٰ مقامات تک پہنچا دے۔
یہ دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے ۔ اس کے بالمقابل انہوں نے اپنی اولاد کے متعلق ایک عام دعا بھی کی ہے ۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے بعض احکام کی انہوں نے فرمانبرداری کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خدمت کو قبول کیا اور فرمایا کہ ہم تم کو امام بناتے ہیں تو اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا 2کی خبر سننے کے بعد انہوں نے فرمایا وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ 3 ۔ میری امامت تو میرے زمانہ کے لوگوں تک ختم ہو جائے گی لیکن دنیا تو اماموں کی ہمیشہ محتاج رہے گی اور جب دنیا ہمیشہ اماموں کی محتاج رہے گی تو اے خدا میری ذریت میں سے بھی امام مقرر کئے جائیں۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ کوئی نبی ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا کے لئے رہبر نہیں رہ سکتا بلکہ بار بار خداتعالیٰ کی طرف سے امام آنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار امام آنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی اولاد میں سے متواتر امام بنانے کی درخواست کرتے ہیں اور دوسری طرف مکہ سے تعلق رکھنے والے سلسلہ کے متعلق یوں دعا فرماتے رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ کہ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہاں انہوں نے صرف ایک رسول مبعوث کئے جانے کی کیوں دعا کی جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک رسول کافی نہیں ہوتا بلکہ دنیا ہمیشہ رسولوں کی محتاج رہتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ میری امامت کبھی اچھے نتیجے پیدا نہیں کر سکتی جب تک میری اولاد میں سے بھی امام نہ ہوں اور جب تک ہدایت کا وہ بیج جو میرے ہاتھوں سے بویا جائے اس کا بعد میں بھی نشوونما نہ ہوتا رہے۔ میں تو امام ہوگیا لیکن اگر بعد میں دنیا گمراہ ہو گئی تو میری امامت کیا نتیجہ پیدا کرے گی؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آپ کی ذریت سے تعلق رکھنے والے اماموں میں سے ایک امام ہیں ان کے متعلق بھی قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ قیامت کے دن جب خداتعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ تیری قوم جس شرک میں مبتلا ہوئی کیا اس کی تُو نے لوگوں کو تعلیم دی تھی اور کیا تُو نے یہ کہا تھا کہ میری اور والدہ کی پرستش کرو تو اس کے جواب میں وہ کہیں گے وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ 4 کہ جب تک میں ان میں رہا ان کی نگرانی کرتا رہا مگر جب مجھے وفات دے دی گئی تو حضور پھر میں کیا کر سکتا تھا؟ اور مجھے کیونکر معلوم ہو سکتا تھا کہ میری قوم بگڑ گئی ہے؟ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یہ امر تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کا اثر ایک عرصہ تک ہی چلتا ہے اس کے بعد اگر قوم بگڑ جاتی ہے توكُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ خداتعالیٰ کو ان کی ہدایت کا کوئی اور سامان کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی تصدیق ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی کہ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ یعنی میری ذریت میں سے بھی ایسے لوگ ہونے چاہئیں ورنہ دنیا کی ہدایت قائم نہیں رہ سکتی۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بیان ایک اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا دو۔ یہ اس بات کے شاہد ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی کہ دنیا میں ہدایت کے قیام کے لئے متواتر اماموں کا ہونا ضروری ہے۔ جب متواتر اماموں کا ہونا ضروری ہے اور اس کے بغیر ہدایت قائم نہیں رہ سکتی تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کے یہی معنی ہوئے کہرَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج۔ پھر تو انہیں یہ دعا مانگنی چاہیئے تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رُسُلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُوْنَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکُّوْنَہُمْ اے میرے رب ان میں بہت سے انبیاء بھیجیئو جو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر انہیں سنائیں اور تیری شریعت کے احکام اور ان کی حکمتیں انہیں بتائیں اور انہیں اپنی قوت قدسیہ سے پاک کرتے رہیں۔ مگر وہ تو یہی دعا کرتے ہیں کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج ۔ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وہ تیری آیتیں پڑھے نہ کہ پڑھیں وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وہ ان کو کتاب اور حکمت سکھائے نہ کہ سکھائیں۔ وَ يُزَكِّيْهِمْاور وہ ان کو پاک کرے نہ کہ پاک کریں مگر خود ہی دوسرے موقع پر دعا کے ذریعہ اس امر کا اقرار کر چکے ہیں کہ میری نبوت کا فی نہیں ہو سکتی جب تک میری اولاد میں سے بھی انبیاء نہ ہوں اور جب تک نبیوں کا ایک لمبا سلسلہ دنیا میں قائم نہ ہو۔ اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کیوں دعا کی کہ ان میں ایک نبی مبعوث کیجیئو۔ یہ ایک سوال ہے جس کو اگر ہم قرآن کریم سے ہی حل نہ کر سکیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر خطرناک الزام آتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی دعا کی جس سے دنیا کو ہدایت کامل نہیں مل سکتی تھی اور دنیا کے لئے نور کا ایک رستہ کھولتے ہوئے انہوں نے اسے معاً بند کر دیا ۔ تو کہا جا سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذہن آگے کی طرف گیا ہی نہیں ۔ انہوں نے صرف یہ چاہا کہ میرے بعد ایک نبی آ جائے اور آئندہ کے متعلق وہ خود دعا کرتا رہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا نے بتا دیا کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا اور انہوں نے اس کے متعلق دعا بھی کی چنانچہ فرمایا کہ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ کہ میری اولاد میں سے بھی ائمہ ہوتے رہیں۔ تو یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بعد کے زمانہ کی ضروریات کی طرف ذہن ہی نہیں گیا بالکل غلط ہے کیونکہ ان کی دوسری دعا نے بتا دیا کہ انہیں قیامت تک لوگوں کی ہدایت کا خیال تھا اور جب انہیں اس امر کا خیال تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ائمہ کا ہمیشہ آتے رہنا ضروری ہے تو پھر اس دعا پر انہوں نے کیوں کفایت کی کہ خدایا ان میں ایک رسول بھیج جو انہیں تیری آیات پڑھ پڑھ کر سنائے ، انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔ اس سوال کا جواب ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے چنانچہ سورۂ جمعہ میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔ يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ 5 یہ وہی الفاظ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے استعمال کئے تھے۔ فرماتا ہے وہ خدا بڑی بلند شان والا ہے جس نے ابراہیمؑ کی دعا کو سن کر اُمیین میں اپنا رسول مبعوث کیا۔ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے۔ وَ يُزَكِّيْهِمْ اور ان کو پاک کرتا ہے يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ اور ان کو آسمانی کتاب سمجھاتا اور شرائع کی باریک در باریک حکمتیں بتاتا ہے۔ یہ بتا کر کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہو گئی اور اب اس اعتراض کا ازالہ کرتا ہے جو بعض طباع میں پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا نامکمل ہے کیونکہ جہاں اپنی اولاد کے متعلق عام دعا انہوں نے یہ کی تھی کہ ان میں متواتر رسول آتے رہیں وہاں مکہ والوں کے متعلق انہوں نے صرف یہ دعا کی کہ ان میں سے ایک رسول مبعوث ہو۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۔6 ان دعاؤں میں بے شک ایک فرق ہے مگرا س کی وجہ یہ ہے کہ ابراہیمی اولاد کے بعض حصوں میں ایسے نبی آنے تھے جنہوں نے اپنی ذات میں مستقل ہونا تھا مگر ابراہیمؑ نے مکہ والوں کے متعلق جو دعا کی وہ صرف ایسے رسول کے متعلق تھی جس نے ایک ہی رہنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدّر تھا کہ آئندہ دنیا میں ہمیشہ اس کے اظلال و اتباع پیدا ہوتے رہیں۔ پس چونکہ یہ خدا کا فیصلہ تھا کہ اس رسول نے بار بار متبع اظلال کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوتے رہنا ہے اس لئے بہ الفاظِ دیگر اماموں کا سلسلہ بھی ہمیشہ قائم رہنا تھا اور رسول بھی ایک ہی رہنا تھا۔ کیونکہ ان کی امامت اور رسالت جداگانہ نہیں ہونی تھی بلکہ محمد ﷺ کی نبوت و رسالت میں شامل ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ اس دعا کے نتیجہ میں چونکہ ایک ایسا رسول آنا مقدر تھا جس نے بار بار اپنے اظلال کے ذریعہ دنیا میں آنا تھا اس لئے رُسُلًا کہنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ رَسُوْلًا ہی کہنا چاہیئے تھا۔ تو اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْمیں اس اعتراض کا جواب دے دیا گیا ہے کہ جہاں انہوں نے اپنی اولاد کے متعلق عام دعا کی وہاں تو ان میں بار بار رسول اور امام بھیجنے کی التجا کی مگر جہاں مکہ والوں کے متعلق خاص طور پر دعا کی تو وہاں صرف ایک رسول بھیجنے کی دعا کر دی۔ اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ بے شک مکہ والوں کے متعلق انہوں نے بھی دعا کی تھی کہ ان میں ایک رسول مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ آئے مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ رسول ایسا کامل تھا کہ اس پر اس قسم کی موت آ ہی نہیں سکتی تھی کہ اس کی تعلیم کا اثر لوگوں کی طبائع پر سے کلیۃً جاتا رہے بلکہ مقدر یہ تھا کہ جب بھی طبعی طور پر یہ اثر جاتا رہے گا خدا اسی رسول کو دوبارہ مبعوث کر دے گا اور چونکہ اس رسول نے اپنے متبع اظلال کے ذریعہ بار بار دنیا میں آنا تھا اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت سے رسول مانگنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ غرض اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ دعا کی تھی کہ کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ تو اس رَسُوْلًا مِّنْهُمْ سے مراد خاتم النبیین تھا اور چونکہ خاتم النبیین کی نبوت میں بعد میں آنے والے تمام نبیوں اور رسولوں کی نبوت شامل تھی اس لئے یہ ضرورت ہی نہ تھی کہ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ کی بجائے رُسُلًا مِّنْھُمْ کہا جاتا۔ پس ہمیں اس آیت سے یہ نکتہ معلوم ہؤا کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت اپنی ذات میں ہی بعد میں آنے والے رسولوں اور اماموں کی خبر دیتی تھی۔ آپ کے علاوہ دنیا میں اور کوئی ایسا رسول نہیں جو اپنی ذات میں آنے والے انبیاء کی خبر دیتا ہو۔ موسیٰ کا نفس اپنی ذات میں منفرد تھا، داؤد کا نفس اپنی ذات میں منفرد تھا۔ اسی طرح اور انبیاء کے نفوس اپنی اپنی ذات میں منفرد تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیاء آئے مگر وہ ان کے ظِلّ نہیں تھے بلکہ تابع تھے۔ عیسیٰ ؑ موسیٰ ؑ کے ظِلّ ان معنوں میں نہیں تھے جن معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم ﷺ کے ظِلّ ہیں۔ یوں تو ظِلّ پہلوں کے بھی ہوتے رہے ہیں مگر اس ظلیت کے معنے صرف مشابہت کے ہؤا کرتے تھے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام الیاسؑ کے ظِلّ تھے مگر ظِلّ کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ الیاسؑ کے ماتحت تھے۔ وہاں ایک تابع ہو سکتا تھا جو ظِلّ نہ ہو اور ایک ظِلّ ہو سکتا تھا جو تابع نہ ہو۔ عیسیٰ ؑ ظِلّ تھے الیاسؑ کے مگر الیاسؑ کے تابع نہ تھے بلکہ تابع وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے۔ تو ظلیت اور اتباع الگ الگ چیزیں ہؤا کرتی تھیں۔ ظلیت کے معنے صرف ‘‘اس جیسا’’ کے ہؤا کرتے تھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خبر دی کہ میرے بعد ایک میرے جیسا رسول آئے گا ۔7 اب اس سے مراد رسول کریم ﷺ تھے مگر رسول کریم ﷺ حضرت موسیٰ ؑ کے تابع نہیں تھے۔
پس پہلے انبیاء میں یہ تو ہو سکتا تھا کہ ایک نبی کسی دوسرے نبی کا ظل تو ہو مگر تابع نہ ہو یا تابع تو ہو مگر ظل نہ ہو جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تابع تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مگر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ظل نہیں تھے۔ اسی طرح وہ ظل تھے الیاسؑ کے مگر وہ ان کے تابع نہ تھے بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تھے۔
مگر یہاں جو خبر دی گئی ہے کہ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ اس میں کام بھی وہی رکھا گیا ہے جو محمد ﷺ نے کیا اور نام بھی وہی رکھا گیا ہے جو آپ کا تھا کیونکہ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۔ وہی رسول پھر آخرین میں مبعوث ہو گا اور ‘‘وہی رسول’’ کے معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ صفات بھی ویسی ہوں گی ، کام بھی وہی ہو گا اور نام بھی وہی ہوگا۔ گویا صفات کے لحاظ سے وہ ظِلّ ہو گا رسول کریم ﷺ کا اور کاموں کے لحاظ سے وہ تابع ہو گا رسول کریم ﷺ کا۔ جس طرح وہ نمازیں پڑھا کرتے تھے اسی طرح یہ نمازیں پڑھے گا، جس طرح وہ روزے رکھا کرتے تھے اسی طرح یہ روزے رکھے گا، جس طرح وہ زکوٰۃ دیا کرتے تھے اسی طرح یہ زکوٰۃ دے گا، جس طرح وہ احکام الٰہیہ پر چلتے تھے اسی طرح یہ احکام الٰہیہ پر چلے گا۔ یہ تابعیت ہے جو اسے رسول کریم ﷺ کی حاصل ہوگی اور دوسری طرف جو آپ کی خصلتیں ہوں گی وہی اس کی خصلتیں ہوں گی اور جو آپ کے اخلاق ہو ں گے وہی اس کے اخلاق ہوں گے اور یہ اس کے ظِلّ ہونے کا ثبوت ہو گا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے الیاس ؑ والے کام نہیں کئے۔ الیاسؑ نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی۔ پس گو وہ ظل تھے الیاسؑ کے مگر الیاسؑ کے تابع نہیں تھے بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے لیکن محمد ﷺ کے متعلق فرما دیا کہ آپ کی نیابت میں جو لوگ کھڑے ہوں گے وہ آپ کے ظل بھی ہوں گے اور آپ کے تابع بھی ہوں گے۔ اور یہ دونوں باتیں ان میں پائی جاتی ہوں گی۔ اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بارہا اپنے متعلق یہ ذکر فرمایا ہے کہ میں امتی نبی ہوں یعنی محمد ﷺ کے نقطۂ نگاہ سے میں امتی ہوں مگر تم لوگوں کے نقطۂ نگاہ سے میں نبی ہوں۔ جہاں میرے اور تمہارے تعلق کا سوال آئے گا وہاں تمہیں میری حیثیت وہی تسلیم کرنی پڑے گی جو ایک نبی کی ہوتی ہے۔ جس طرح نبی پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے اسی طرح مجھ پر ایمان لانا ضروری ہوگا جس طرح نبی کے احکام کی اتباع فرض ہوتی ہے اسی طرح میرے احکام کی اتباع تم پر فرض ہو گی مگر جب میں محمد ﷺ کی طرف مُنہ کر کے کھڑا ہوں گا تو اس وقت میری حیثیت ایک امتی کی ہو گی اور محمد ﷺ کا ہر فرمان میرے لئے واجب التعمیل ہو گا اور آپ کی رضا اور خوشنودی کا حصول میرے لئے ضروری ہو گا ۔ گویا جس طرح ایک ہی وقت میں دادا اور باپ اور پوتا اکٹھے ہوں تو جو حالت ان کی ہوتی ہے وہی محمد ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے۔ ایک باپ جب اپنے باپ کی طرف مُنہ کرتا ہے تو وہ باپ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن وہی باپ جب اپنے بیٹے کی طرف مُنہ کر کے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی حیثیت باپ کی ہو جاتی ہے اور بیٹے کا فرض ہوتا ہے کہ اس کا ہر حکم مانے ۔ بیٹا یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تم اپنے باپ کی طرف مُنہ کر کے کھڑے تھے تو اس وقت تمہاری حیثیت بیٹے کی تھی نہ کہ باپ کی تو اب تمہاری حیثیت باپ کی کس طرح ہو سکتی ہے کیونکہ اب اس کا مُنہ اپنے باپ کی طرف نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی طرف ہوگا۔ یہی حیثیت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی عطا فرمائی ہے۔ وہ امتی بھی ہیں اور نبی بھی۔ وہ نبی ہیں ہم لوگوں کی نسبت سے اور وہ امتی ہیں محمد ﷺ کی نسبت سے۔ عیسیٰ ؑ نبی تھے موسیٰ ؑ کی طرف مُنہ کر کے بھی صرف اپنی امت کی طرف مُنہ کر کے ہی نبی نہیں تھے۔ اسی طرح داؤد نبی تھے موسیٰ کی طرف مُنہ کر کے بھی ، صرف اپنی امت کی طرف مُنہ کر کے نبی نہیں تھے۔ اسی طرح سلیمانؑ ، زکریاؑ اور یحییٰ نبی تھے موسیٰ ؑ کی طرف مُنہ کر کے بھی۔ یہ نہیں کہ صرف اپنی امت کی طرف مُنہ کر کے نبی ہوں اور موسیٰ کی طرف مُنہ کر کے امتی۔ مگر رسول کریم ﷺ کے ذریعہ یہ عجیب قسم کی نبوت جاری ہوئی کہ ایک ہی نبی جب ہماری طرف مخاطب ہوتا ہے تو وہ نبی ہوتا ہے اور جب محمد ﷺ سے مخاطب ہوتا ہے تو امتی بن جاتا ہے اور وہ کسی ایسے کام کا دعوے دار نہیں ہو سکتا جو محمد ﷺ نے نہیں کیا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ اسی کام کو چلائے جس کام کو محمد ﷺ نے چلایا کیونکہ فرماتا ہے کہ وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ اللہ تعالیٰ اسے آخرین میں بھی مبعوث کرے گا جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ گویا محمد ﷺ کی دوبارہ بعثت ہو گی اور یہ ظاہر ہے کہ محمد ﷺ کے دو کام نہیں ہو سکتے۔ وہی کام جو آپ نے پہلے زمانہ میں کئے وہی آخری زمانہ میں کریں گے۔
اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح ناصری کے بھی ظل یا مثیل تھے مگر آپ سے ان کو صرف ظلیت کا تعلق تھا تابعیت کا نہیں کیونکہ گو آپ کو نام مسیح کا دیا گیا تھا کام مسیح کا نہیں دیا گیا تھا۔ کام آپ کو محمد رسول اللہ ﷺ کا سپرد کیا گیا تھا جیسا کہ سورۂ جمعہ سے ثابت ہے۔ پس حضرت مسیح موعودؑ کو جومشابہت آنحضرت ﷺ سے حاصل ہے وہ زیادہ شدید ہے بہ نسبت اس کے جو آپ کو مسیح ناصری سے حاصل ہے ۔ اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب
گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار 8
پس ہماری جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لاتی ہے اس کے افراد کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہیئے کہ یا تو وہ یہ دعویٰ کریں کہ حضرت مرزا صاحب کو وہ کوئی ایسا نبی سمجھتے ہیں جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی اتباع اور آپ کی غلامی سے آزاد ہو کر مقامِ نبوت حاصل کیا ہے ۔ اس صورت میں وہ بے شک کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارا نبی آزاد ہے اس لئے ہم نئے قانون بنائیں گے۔ اور جو کام ہماری مرضی کے مطابق ہو گا وہی کریں گے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کریں گے۔ پس اگر ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ ہمارا نبی مستقل ہے اور وہ رسول کریم ﷺ کی غلامی اور آپ کے احکام کی اتباع سے آزاد ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم ﷺ یا صحابہؓ کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت نہیں۔ جو باتیں ہمیں اچھی لگیں گی اور جو ہماری مرضی کے مطابق ہوں گی صرف ان میں حصہ لیں گے باقی کسی میں حصہ نہیں لیں گے لیکن اگر ہمارا یہ دعویٰ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سورۂ جمعہ کے مطابق امتی نبی ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ رسول کریم ﷺ ہی وہ رسولًا ہیں جن کی نبوت و رسالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت شامل ہے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ محمد ﷺ نے جو کام کئے وہی کام مسیح موعود کے بھی سپرد ہیں اور جو کام صحابہ نے کئے وہی کام جماعت احمدیہ کے ذمہ ہیں۔ مگر میں تعجب سے دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو ہماری جماعت کے دوست یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم ﷺ کے کامل ظل اور امتی نبی ہیں اور وہی شریعت جو رسول کریم ﷺ نے قائم فرمائی اسی کو دوبارہ قائم کرنا ہماری جماعت کا فرض ہے اور دوسری طرف جماعت کا ایک حصہ صحابہؓ کے طریق عمل کی جگہ ایک نئی راہ پر چلنا چاہتا ہے اور اس راستہ کو اختیار ہی نہیں کرتا جو رسول کریم ﷺ کے صحابہ نے اختیار کی۔ گویا ان کی مثال بالکل شتر مرغ کی سی ہے کہ جہاں درجوں اور انعامات کا سوال آتا ہے وہاں تو کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسول کریم ﷺ سے کوئی الگ وجود نہیں بلکہ آپ کی بعثت درحقیقت رسول کریم ﷺ کی ہی بعثت ثانیہ ہے۔ اس وجہ سے جو صحابہؓ کا مقام وہی ہمارا مقام۔ چنانچہ وہ اس قسم کے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں آتا ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ 9 کہ جیسے اولین میں سے ایک بہت بڑی جماعت نے خدا کا قرب حاصل کیا اسی طرح آخرین خدا کی بہت بڑی رحمتوں کے مستحق ہوں گے۔ پس جیسے صحابہؓ کی جماعت تھی ویسی ہی ہماری جماعت ہے۔ جیسے وہ رسول کریم ﷺ کی بعثتِ اولیٰ سے مستفیض ہوئے اسی طر ح ہم رسول کریم ﷺ کی بعثتِ ثانیہ سے مستفیض ہوئے۔ پس ہم میں او رصحابہؓ میں کوئی فرق نہیں مگر جب قربانی کا سوال آتا ہے تو ایسے لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے۔ گویا وہ بالکل شتر مرغ کی طرح ہیں جو اپنی دونوں حالتوں سے فائدہ تو اٹھا لیتا ہے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
کہتے ہیں کسی شتر مرغ سے کسی نے کہا کہ آؤ تم پر اسباب لادیں کیونکہ تم شتر ہو (شتر کے معنی اونٹ ہیں اور مرغ کے معنی ہیں پرندہ) وہ کہنے لگا کیا پرندوں پر بھی کسی نے اسباب لادا ہے؟ اس نے کہا اچھا تو پھر اڑ کر دکھاؤ کہنے لگا کبھی اونٹ بھی اڑا کرتے ہیں؟ پس جس طرح شتر مرغ اڑنے کے وقت اونٹ بن جاتا ہے اور اسباب لادتے وقت پرندہ اسی طرح ہماری جماعت کا جو حصہ کمزور ہے کرتا ہے۔ یعنی جب قربانی کا وقت آتا ہے تو وہ کہتا ہے ہمارا حال اور ہے اور صحابہ کا حال اور مگر جب درجوں اور انعامات اور جنت کی نعماء کا سوال آتا ہے تو کہتا ہے سُبْحَانَ اللہِ حضرت صاحب تو رسول کریم ﷺ کے ظِلّ تھے۔ پس جو حال صحابہؓ کا وہی حال ہمارا۔ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ کوئی پوربیا مر گیا تھا۔ پوربیے عام طور پر دھوبی ہوتے ہیں۔ اس کی عورت نے باقی دھوبیوں کو اطلاع دی اور سب اکٹھے ہو گئے۔ رسم و رواج کے مطابق عورت نے ان سب کے سامنے رونا پیٹنا شروع کر دیا ۔ ان میں طریق یہ ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو عورتیں اور لڑکیاں اکٹھی ہو کر پیٹتی ہیں اور مرد انہیں تسلی دیتے ہیں۔ اس پوربیے کی عورت نے بھی رونا پیٹنا شروع کر دیا اور روتے روتے اس قسم کی باتیں شروع کیں کہ ارے اس نے فلاں جگہ سے اتنا روپیہ لینا تھا اسے اب کون وصول کرے گا۔ ایک پوربیا آگے بڑھ کر کہنے لگا اری ہم ری ہم۔ وہ کہنے لگی ارے اس نے ادھیارے پر گائے دی ہوئی تھی اب اسے کون لائے گا؟ وہی پوربیا پھر بولا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم۔ پھر وہ روئی اور کہنے لگی ارے اس کی تین ماہ کی تنخواہ مالک کے ذمہ تھی اب وہ کون وصول کرے گا؟ وہ پوربیا پھر آگے بڑھا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم۔ پھر وہ عورت رو کر کہنے لگی ارے اس نے فلاں کا دو سو روپیہ قرض دینا تھا اب وہ قرض کون دے گا؟ اس پر وہ پوربیا باقی قوم کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا ارے بھئی میں ہی بولتا جاؤں گا یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا۔ ان کمزور احمدیوں کی بھی یہی حالت ہے ۔ جہاں جنت کی نعماء اور مدارج کا سوال آتا ہے وہاں تو کہتے ہیں ارے ہم رے ہم مگر جب یہ کہا جاتا ہے کہ صحابہؓ نے بھی قربانیاں کی تھیں تم بھی قربانیاں کرو تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم ہی بولتے جائیں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا؟ یہ حالت بالکل غیرمعقول ہے اور اسے کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مستقل نبی تھے تو بے شک کسی نئی شریعت، نئے نظام اور نئے قانون کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن اگر وہ محمد ﷺ کے تابع اور امتی نبی ہیں تو پھر جو محمد ﷺ کا حال تھا وہی مسیح موعود کا حال ہے۔ اور جو ان کے صحابہؓ کا حال تھا وہی ہمارا حال ہے۔ مگر یہ کمزور لوگ جب اپنی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو اس وقت تو قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پڑھ پڑھ کر اپنے سر ہلاتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لئے یہ انعام بھی ہے اور ہمارے لئے وہ انعام بھی ہے مگر جب کام کا سوال آتا ہے تو کوئی یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ اگر میں کام پر گیا تو میری دکان خراب ہو جائے گی اور کوئی یہ عذر کرنے لگ جاتا ہے کہ میں اپنے بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ حالانکہ صحابہؓ کی بھی دکانیں تھیں اور صحابہؓ کے بھی بیوی بچے تھے مگر انہوں نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی۔ پھر اگر ہم بھی صحابہؓ کے نقش قدم پر ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسول کریم ﷺ کے نقش قدم پر تو ان باتوں سے ڈرنے اور گھبرانے کے معنے کیا ہوئے؟ ہمارا مذہب یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسول کریم ﷺ کے ظِلّ اور آپؐ کے تابع تھے۔ ان کی تمام عزت اور ان کا تمام رتبہ اسی میں تھا کہ خدا نے ان کو محمد ﷺ کا عکس بنا دیا تھا اور وہ اسی کام کے لئے مبعوث کئے گئے تھے جس کام کے لئے محمد ﷺ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے مبعوث ہوئے۔ بلکہ قرآنی اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد ﷺ دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے اور یہ ایک بہت بڑی عزت کی بات ہے۔ مگر ساتھ ہی بہت بڑی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اگر محمد ﷺ دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے ہیں تو صحابہؓ کو بھی تو دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آ جانا چاہیئے۔
پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کام کئے ہیں جو رسول کریم ﷺ نے کئے تھے تو ہمارے کام وہ ہیں جو صحابہؓ نے کئے۔ صحابہؓ کو ہر سال چار چار پانچ پانچ لڑائیاں لڑنی پڑتی تھیں اور بعض لڑائیوں میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ صَرف ہو جاتا تھا۔ گویا بعض سالوں میں انہیں آٹھ آٹھ نو نو مہینے گھروں سے باہر رہنا پڑا ہے ۔ پھر انہیں کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا۔ دال ، روٹی اور نمک کے لئے بھی پیسہ تک نہیں ملتا تھا۔ بیوی کا کام تھا کہ وہ بعد میں اپنی روزی آپ کمائے اور جانے والوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے خرچ پر جائیں۔ حتّٰی کہ لڑائی پر جانے والوں کو راشن تک نہیں ملتا تھا بلکہ ہر شخص کا فرض ہوتا تھا کہ وہ اپنی روٹی کا آپ انتظام کرے۔ اس کے مقابلہ میں مَیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ان باتوں کا احساس ہی نہیں۔ یہ تو میں نہیں کہتا کہ سب میں احساس نہیں مگر بہرحال جن کے دلوں میں یہ احساس ہے ان کے مقابلہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں میں کوئی احساس نہیں اور اس وجہ سے ہم محض اس بات سے تسلی نہیں پا سکتے کہ جماعت کے ایک حصہ میں ان باتوں کا احساس ہے۔ جب تک جماعت کا ایک حصہ ہمیں ایسا بھی نظر آتا ہے جو اس احساس سے بالکل خالی ہے اور دعوے یہ کرتا ہے کہ اسے صحابہؓ کی مماثلت حاصل ہے خواہ وہ کتنا بھی تھوڑا ہے جب تک اس کے اس غیرمعقول رویہ کی اصلاح نہ کی جائے گی اس وقت تک ہم چین اور آرام سے نہیں بیٹھ سکتے۔
میں نے سب نوجوانوں کی اصلاح اور دوسروں کو مفید دینی کاموں میں لگانے کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی تھی مگر ان کی رپورٹ ہے کہ بعض نوجوان ایسے ہیں کہ جب ہم کوئی کام ان کے سپرد کرتے ہیں تو پہلا قدم ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کام کے کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر زور دیاجائے تو وہ مان تو لیتے ہیں اور کہتے ہیں اچھا ہم یہ کام کریں گے مگر پھر دوسرا قدم ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو کرتے نہیں۔ یہی کہتے رہتے ہیں کہ ہم کریں گے ، کریں گے مگر عملی رنگ میں کوئی کام نہیں کرتے۔ اس کے بعد جب ان کے لئے سزا مقرر کی جاتی ہے تو وہ اس سزا کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم استعفیٰ دے دیں گے مگر سزا برداشت نہیں کریں گے۔ اس قسم کے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ سچے احمدی نہیں۔ کیا منافقوں کے سوا مخلص صحابہؓ میں سے تم کوئی مثال ایسی پیش کر سکتے ہو کہ ان میں سے کسی نے کام کرنے سے اس طرح انکار کر دیا ہو یا کیا رسول کریم ﷺ نے کبھی اس بات کو برداشت کیا؟ پھر اس جماعت میں سے ایسا نمونہ دکھانے والوں کو ہم صحابہؓ کا نمونہ کس طرح قرار دے سکتے ہیں ہم تو ان کو انہی میں شامل کریں گے جو صحابہؓ کے زمانہ میں ایسے کام کرتے رہے ہیں یعنی منافق لوگ۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں تلوار کا جہاد تھا اور آج تلوار کا جہاد نہیں لیکن ہر زمانہ کا جہاد الگ الگ ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں تلوار کا جہاد تھا اور ممکن ہے اس قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اگر کسی وقت تلوار کے جہاد کا موقع آیا تو وہ سب سے آگے آگے ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کبھی تلوار کے جہاد کا موقع آیا تو ایسے لوگ سب سے پہلے بھاگنے والے ہوں گے۔ پس جب وہ کہتے ہیں کہ یہاں کون سا تلوار کا جہاد ہو رہا ہے اگر تلوار کا جہاد ہو تو وہ شامل ہو جائیں۔ تو یا تو وہ اپنے نفس کودھوکا دیتے ہیں یا جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور میرے خیال میں تو وہ جھوٹ ہی بول رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مہینہ میں دو دن دکان بند کرنے کے لئے تو تیار نہ ہو اور وہ جہاد کے لئے سال میں سے آٹھ ماہ گھر سے باہر رہ سکتا ہو۔ یہ فیصلہ کرنا کہ اس زمانہ میں کس قسم کے جہاد کی ضرورت ہے خدا کا کام ہے اور یہ خدا کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو ہمارے ہاتھ میں تلوار دے دے ، چاہے توقلم دے دے اور چاہے تو تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا جہاد مقرر کر دے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں تلوار کا جہاد نہیں رکھا بلکہ تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا جہاد رکھا ہے۔ اور یہی وہ جہاد ہے جس کا سورۂ جمعہ کی ان آیات میں ذکر ہے جن میں رسول کریم ﷺ کی بعثت ثانیہ کی خبر دی گئی ہے۔ چنانچہ یَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ میں ہر مومن کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے نشاناتِ الٰہیہ کو بیان کرے یعنی انہیں تبلیغ کرے۔ یُزَکِّیْہِمْ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ انہیں پاک کرے یعنی دعاؤں کے ذریعہ تزکیہ نفوس کرے۔ یا یُزَکِّیْہِمْ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگوں کو بڑھائے۔ اگر وہ دنیوی علوم میں دوسروں سے پیچھے ہوں تو اس میدان میں ان کو آگے لے جائے، تعداد میں کم ہوں تو تعداد میں بڑھائے، مالی حالت کمزور ہو تو اس میں بڑھائے۔ غرض جس رنگ میں بھی کمی ہو انہیں بڑھاتا چلا جائے ۔ گویا لوگوں کی مالی اور اقتصادی ترقی میں حصہ لے۔ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ان کو قرآن سکھائے۔ وَالْحِکْمَۃَ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ احکام شریعت کی حکمتوں اور ان کے اسرار سے لوگوں کو آگاہ کرے ۔
اس آیت کے اور بھی معنے ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی اس تقریر میں بیان کیا ہؤا ہے جو خلافت کے آغاز میں مَیں نے کی تھی اور جو ‘‘منصبِ خلافت’’ کے نام سے چھپی ہوئی ہے۔ لیکن یہ پانچ موٹی موٹی باتیں ہیں۔
(1) تبلیغ کرنا
(2)قرآن پڑھانا
(3)شرائع کی حکمتیں بتانا
(4)اچھی تربیت کرنا
(5) قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کر کے انہیں ترقی کے میدان میں بڑھانا۔
یہ پانچ ذمہ داریاں صحابہؓ پر تھیں اور یہی پانچوں ذمہ داریاں ہم پر عائد ہیں۔ تبلیغ ہمارے ذمہ ہے، تعلیم ہمارے ذمہ ہے اور احکام کی حکمتیں بتانا ہمارے ذمہ ہے اور جماعت کی مالی اور اقتصادی حالت کی درستی اور اس کی پستی کودور کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ اگر ہم یہ پانچ کام نہیں کرتے تو ہم جھوٹے اور کذّاب ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو صحابی کہتے ہیں انہی کاموں میں سے ایک کام کے متعلق میں نے کچھ عرصہ ہؤا قادیان کی جماعت کو توجہ دلائی تھی اور میں نے کہا تھا کہ کم سے کم قادیان میں کوئی اَن پڑھ نہیں رہنا چاہیئے مگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے رپورٹ ملی ہے کہ جہاں باقی سب محلوں نے کام ختم کر لیا ہے وہاں مسجد فضل سے تعلق رکھنے والے تعاون نہیں کر رہے۔ (اس سے مراد دارالفضل والے نہیں بلکہ وہ محلہ ہے جسے محلہ آرائیاں بھی کہتے ہیں) اس محلہ کے لوگ نہ تو نمازوں کے لئے باقاعدہ جمع ہوتے ہیں نہ پڑھانے کے لئے جاتے ہیں اور نہ ہی پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ اسی طرح مجھے بیس لوگوں کی ایسی لسٹ دی گئی ہے جنہیں اس محلہ کے اَن پڑھوں کو تعلیم دینے کے لئے مقرر کیا گیا مگر کسی نے کوئی عذر کر دیا اور کسی نے کوئی اور۔ جس نے مان بھی لیا وہ بھی پڑھانے کے لئے نہیں گیا۔ اور جب ان میں سے بعض کو کہا گیا کہ تمہیں اس جرم کی سزا دی جائے گی تو ان میں سے دو نے کہا ہم خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ دے دیں گے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیئے وہ خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ نہیں دے سکتے بلکہ انہیں احمدیت سے استعفیٰ دینا پڑے گا۔ یہ پانچ کام ہیں جو محمد ﷺ نے کئے۔ یہی پانچ کام ہیں جو صحابہ نے کئے اور یہی پانچ کام ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئے۔ ہر شخص جو یَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ کے مطابق تعلیم قرآن کا کام نہیں کرتا بلکہ تعلیم قرآن کے کام سے گریز کرتا ہے وہ اس سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے۔ ہر شخص جو تبلیغ سے گریز کرتا ہے وہ تبلیغ سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے۔ ہر شخص جو دوسروں کی تربیت سے گریز کرتا ہے وہ تربیت کرنے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے۔ ہر شخص جو شرائع کی حکمتیں بتانے سے گریز کرتا ہے وہ شرائع کی حکمتیں بتانے سے گریز نہیں کرتا بلکہ وہ احمدیت سے گریز کرتا ہے اور ہر شخص جو تزکیۂ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز کرتا ہے وہ تزکیۂ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے۔ ایسے شخص کی نہ احمدیت کو کوئی ضرورت ہوسکتی ہے اور نہ اس کے لئے کوئی وجہ ہے کہ وہ احمدیت میں داخل رہے۔ وہ یہ کہہ کر کہ وہ احمدی ہے اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے یا اگر اپنے نفس کو دھوکا نہیں دیتا تو جھوٹااور مکار ہے اور ہرگز اس قابل نہیں کہ وہ مومنوں کی جماعت میں شامل رہ سکے۔ یہ پانچ کام ضروری ہیں اور جماعت کے ہر فرد کو ان میں حصہ لینا پڑے گا اور جب تک وہ طوعًا یا کرہًا ان کاموں میں حصہ نہیں لیں گے وہ کبھی صحیح معنوں میں صحابہؓ کے مثیل نہیں کہلا سکیں گے۔ آخر تمہیں غور کرنا چاہیئے کہ کیا صحابہؓ اپنی مرضی سے ہی تمام کام کیا کرتے تھے؟ وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرتے تھے بلکہ رسول کریم ﷺ کے احکام کی متابعت میں تمام کام کرتے تھے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے تھے جہاد کے لئے چلو اور سب چل پڑتے تھے اور جو نہ چلتا تھا اسے جبری طور پر لے جایا جاتا تھا۔
مَیں نے چاہا تھا کہ طوعی طور پر جماعت کو ان قربانیوں میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کیا جائے مگر معلوم ہوتا ہے ساری جماعت طوعی طور پر قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ منافقوں پر مشتمل ہے اور وہ ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ ہم اسے اپنی جماعت میں سے خارج کر دیں یا اگر وہ منافق نہیں تو ایسے کُودن لوگ ہیں جو ڈنڈے کے محتاج ہیں اور جیسے رسول کریم ﷺ نے ان لوگوں کو سزا دی تھی جو جہاد کے لئے نہیں گئے تھے اسی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں سزا دی جائے اور جبراً ان سے احکام کی تعمیل کرائی جائے۔ ڈنڈے سے میری مراد سوٹا نہیں بلکہ جبراور حکم مراد ہے۔ بہرحال ان لوگوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں جماعت کے سامنے یہ اعلان کر دوں کہ آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہو گا۔ ہر وہ احمدی جس کی پندرہ سے چالیس سال تک عمر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے۔ اگر 15 سے 40 سال تک کی عمر کا کوئی احمدی 15 دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھائے گا تو پہلے اسے سزا دی جائے گی اور اگر اس سے بھی اس کی اصلاح نہ ہوئی تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ اس کے لئے کسی کو تحریک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خدام الاحمدیہ ہرگز کسی کے پاس نہ جائیں۔ ہاں ہر مسجد میں وہ اپنے بعض آدمی مقرر کر دیں اور ہر نماز کے بعد اعلان ہوتا رہے کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک ہمارا آدمی مسجد میں بیٹھے گا جس نے خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھانا ہو وہ اسے نام لکھا دے اور محلّوں کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ اس کے متعلق خدام الاحمدیہ کی طرف سے جو بھی اعلانات آئیں ان کے سنانے کا فوری طور پر انتظام کریں۔ جو پریذیڈنٹ یا سیکرٹری اس میں غفلت سے کام لے گا وہ مجرم سمجھا جائے گا اور اسے سزا دی جائے گی۔
غرض تمام مساجد میں خدام الاحمدیہ اعلان کرا دیں کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک اس مسجد میں ہمارا فلاں آدمی بیٹھے گا اسے نام لکھا دیا جائے بلکہ انہیں اپنے بعض آدمی قریب کے دیہات میں بھی مقرر کر دینے چاہئیں جیسے نواں پنڈ وغیرہ ہے۔ اس پندرہ دن کے عرصہ میں جو شخص خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھائے گا ہم پہلے اس پر کیس چلائیں گے اگر کوئی معذور ثابت ہؤا مثلاً ان دنوں وہ قادیان میں موجود نہ تھا یا چارپائی سے ہل نہیں سکتا تھا تو اس کو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کا دوبارہ موقع دیتے ہوئے باقی ہر ایک کو جس نے ان دنوں خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھایا ہو گا سزا دی جائے گی اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو گا تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ہم سزا نہیں لیتے ، ہم خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں رہنا چاہتے ان کے متعلق خدام الاحمدیہ فوراً ایک کمیٹی بٹھا دیں جو تحقیق کرے کہ ان پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ پھر جن کا جُرم ثابت ہو جائے انہیں تین تین دن کے مقاطعہ کی سزا دی جائے۔ ان تین دنوں میں کسی کو اجازت نہیں ہو گی کہ ان سے بات چیت کرے۔ نہ باپ کو اجازت ہو گی، نہ ماں کو اجازت ہو گی، نہ بیوی کو اجازت ہو گی نہ بیٹے کو اجازت ہو گی اور نہ کسی اور قریبی رشتہ دار اور دوست کو اجازت ہو گی۔ اسی طرح ان دنوں میں انہیں قادیان سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ مبادا وہ خیال کر لیں کہ ان دنوں وہ قادیان سے چلے جائیں گے اور اس طرح اپنی شرم کو چھپا لیں گے بلکہ انہیں قادیان میں رہتے ہوئے یہ تین دن پورے کرنے پڑیں گے اور ان کی کسی قریب ترین ہستی کو بھی ان سے بولنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ہاں انہیں صبح شام روٹی پہنچانا خدام الاحمدیہ کا کام ہوگا۔ اسی طرح جن لوگوں نے وعدہ کر کے کام نہیں کیا (سوائے دسویں جماعت کے طلباء کے جن کو مقرر کرنے میں خود خدام الاحمدیہ کے افسروں کی غلطی ہے) ان کے الزام کی بھی تحقیق کی جائے اور جب الزام ان پر ثابت ہو جائے تو ان کو ایک ایک دن کے مقاطعہ کی سزا دی جائے۔ اس عرصہ میں ماں اور باپ اور بیوی اور بچوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں کا فرض ہے کہ جس طرح ایک گندا چیتھڑا اپنے گھر سے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح وہ اسے اپنے گھر سے نکال دیں۔ باپ بچے کو نکال دے۔ بھائی دوست وغیرہ سب اس دن کے لئے اس سے قطع تعلق کر لیں اور وہ گھر کو چھوڑ کر مسجد یا کسی اور مناسب مقام پر چلا جائے اور چوبیس گھنٹے تک لگاتار وہیں رہے۔ ہاں ان لوگوں کو بھی کھانا پہنچانا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا مگر میں سمجھتا ہوں کام کی ذمہ داری صرف پندرہ سے چالیس سال کی عمر والوں پر ہی نہیں بلکہ اس سے اوپر اور نیچے والوں پر بھی ہے۔ اس لئے میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں اور اطفالِ احمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کر کے ان کے لئے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے ۔ اسی طرح چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں۔ ان کے لئے بھی لازمی ہو گا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمتِ دین کے لئے وقف کریں۔ اگر مناسب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں تین دن یا کم وبیش اکٹھے بھی لئے جا سکتے ہیں مگر بہرحال تمام بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر کسی استثناء کے قادیان میں منظم ہو جانا لازمی ہے۔
مجلس انصار اللہ کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے کے لئے میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد ، چوہدری فتح محمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں۔ تین سیکرٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلّوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھا دینے چاہئیں اور چالیس سال سے اوپر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہیئے۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہیئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہو سکتی ہے اور جو شخص جس کام کے لئے موزون ہو اس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے۔ یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا جا سکتا ہے یا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں دو چار دن لے لئے جائیں۔ جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کر لیں اس دن میری منظوری سے نیا پریذیڈنٹ اور نئے سیکرٹری مقرر کئے جا سکتے ہیں۔ سردست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لئے ہے جب تک سب لوگ منظّم نہ ہو جائیں۔ جب منظم ہو جائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنا سکتے ہیں مگر میری منظوری اس کے لئے ضروری ہو گی۔ میرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہو گا جیسے مربی کا تعلق ہوتا ہے۔ اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہو گی یا جو بھی خلیفۂ وقت ہو۔ میرا اختیار ہو گا کہ جب بھی میں مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلا لوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں۔ یہ اعلان پہلے صرف قادیان والوں کے لئے ہے۔ اس لئے ان کو میں پھر متنبّہ کرتا ہوں کہ کوئی فرد اپنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا۔ سوائے اس کے کہ جو اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہتا ہو۔ ہر شخص کو حکماً اس تنظیم میں شامل ہونا پڑے گا اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اورکاموں کے اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو۔ سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کے لئے باہر جانا پڑتا ہے۔ گو ایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہیئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجد میں نماز باجماعت پڑھ سکیں۔ اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہی ہیں اب انہیں ہرجگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصار اللہ قائم کرنی چاہئیں۔ ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصار اللہ کے قواعد ہوں گے مگر سرِدست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طور پر نہیں ہو گا بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہو گا لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیر یا سیکرٹری ہیں ان کے لئے لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں۔ کوئی امیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ کوئی پریذیڈنٹ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو اور کوئی سیکرٹری نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اگر اس کی عمر 15 سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری ہو گا اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لئے انصاراللہ کا ممبر ہونا ضروری ہو گا۔ اسی طرح سال ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں شامل ہونا لازمی کر دیا جائے گا کیونکہ احمدیت صحابہؓ کے نقش قدم پر ہے۔ صحابہؓ سے جب جہاد کا کام لیا جاتا تھا تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جاؤ اور کام کرو۔ مرضی کے مطابق کام کرنے کا میں نے جو موقع دیناتھا وہ قادیان کی جماعت کو میں دے چکا ہوں اور جنہوں نے ثواب حاصل کرنا تھا انہوں نے ثواب حاصل کر لیا ہے۔ اب 15 سے 40 سال تک کی عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا لازمی ہے اور اس لحاظ سے اب وہ ثواب نہیں رہا جو طوعی طور پر کام کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتا تھا۔ بے شک خدمت کا اب بھی ثواب ہو گا لیکن جو طوعی طور پر داخل ہوئے اور وفا کا نمونہ دکھایا وہ سابق بن گئے۔ البتہ انصار اللہ کی مجلس چونکہ اس شکل میں پہلے قائم نہیں ہوئی اور نہ کسی نے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے اس میں جو بھی شامل ہو گا اسے وہی ثواب ہو گا جو طوعی طور پر نیک تحریکات میں شامل ہونے والوں کو ہوتا ہے۔
مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کے کمزور حصہ کو اس امر کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں کہ دیکھو شتر مرغ کی طرح مت بنو جو کچھ بنو اس پر استقلال سے کاربند رہو۔ اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کے مثیل ہو تو تمہیں اپنے اندر صحابہؓ کی صفات بھی پیدا کرنی چاہئیں اور صحابہؓ کے متعلق یہی ثابت ہے کہ ان سے دین کا کام حکماً لیا جاتا تھا۔ پس جب صحابہؓ کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ دینی احکام کے متعلق کسی قسم کی چُون و چرا کریں تو تمہیں یہ اختیار کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟ یا تو یہ کہو کہ حضرت مرزا صاحب نبی نہیں تھے اور چونکہ وہ نبی نہیں تھے اس لئے ہم صحابی بھی نہیں اور نہ صحابہؓ سے ہماری مماثلت کے کوئی معنے ہیں مگر اس صورت میں تمہارا مقام قادیان میں نہیں بلکہ لاہور میں ہو گا کیونکہ وہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب رسول کریم ﷺ کے ظِلّ کامل نہیں تھے جس کے لازمی معنے یہ بنتے ہیں کہ جب مرزا صاحب نبی نہیں تھے تو وہ صحابی بھی نہیں۔ مگر ان میں بھی شترمرغ والی بات ہے کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ مرزا صاحب رسول کریم ﷺ کے ظلِّ کامل یعنی نبی نہیں تھے مگر کہتے اپنے آپ کو صحابی ہی ہیں۔ حالانکہ اگر مرزا صاحب نبی نہیں تو وہ صحابی کس طرح ہو گئے؟ چنانچہ بار بار ہمارے مقابلہ میں غیرمبائعین نے اپنے اکابر کو صحابہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ گویا مولوی محمد علی صاحب تو صحابی بن گئے مگر مرزا صاحب ان کے نزدیک ‘‘مخصوص عالم’’ ہی رہے۔ پس ایسے لوگوں کا مقام لاہور ہے قادیان نہیں۔ ہر چیز جہاں کی ہو وہیں سجتی ہے۔ ان کو بھی چاہیئے کہ قادیان سے اپنا تعلق توڑ کر لاہور سے اپنا تعلق قائم کر لیں۔ پھر ہم ان کاموں کے متعلق ان سے کچھ نہیں کہیں گے۔ مگر جب تک وہ ہم میں شامل رہیں گے ہم ان سے دین کی خدمت کا کام نظام کے ماتحت ضرور کرائیں گے اور اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ ایسے کمزور لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج کر دیں۔ میں نے متواتر بتایا ہے کہ کوئی جماعت کثرتِ تعداد سے نہیں جیتتی۔ قرآن کریم نے بھی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ 10 یعنی کئی دفعہ قلیل التعداد جماعتیں کثیر تعداد رکھنے والی اقوام پر غالب آ جایا کرتی ہیں۔ پس محض کثرت کچھ چیز نہیں اگر اس کثرت میں ایمان اور اخلاص نہیں۔ پھر میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہم میں شامل ہی رہیں تو کسی قوم کے مقابلہ میں بھلا ہمیں کون سی غیرمعمولی فوقیت حاصل ہو سکتی ہے۔ ہندوستان میں سب سے کم تعداد سکھوں کی سمجھی جاتی ہے مگر وہ بھی تیس چالیس لاکھ ہیں اور ہم تو ان سکھوں کے مقابلہ میں بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
آج سے چھ سال پہلے مئی 1934ء میں سردار کھڑک سنگھ صاحب جو سکھوں کے بے تاج بادشاہ کہلایا کرتے تھے یہاں آئے اور انہوں نے بسراواں میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا قادیان میں احمدی سکھوں پر سخت ظلم کر رہے ہیں ۔ اگر احمدی اس ظلم سے باز نہ آئے توقادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی بلکہ ان کے ایک ساتھی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی۔ مجھے جب یہ رپورٹ پہنچی تو میں نے ایک اشتہار لکھا جس میں مَیں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کے مظالم کی داستان بالکل غلط ہے ۔ اگر آپ اس علاقہ کے سکھوں کو قسم دے کر پوچھیں تو ان میں سے ننانوے فیصدی آپ کو یہ بتائیں گے کہ میں اور میرا خاندان اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے ہمیشہ سکھوں سے محبت کا برتاؤ کرتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ میں نے اپنے حسنِ سلوک کے کئی واقعات تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے پیش کئے۔
اسی ضمن میں مجھے یہ رپورٹ بھی ملی کہ ایک احراری نے ان کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سکھ بڑے بے غیرت ہیں کہ احمدی ان کے گرو کو مسلمان کہہ کر ان کی ہتک کرتے ہیں اور پھر بھی ان کو جوش نہیں آتا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں دو ہی گروہ ہیں یا مسلمان یا کافر۔ اس احراری کے نزدیک باوا صاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے تو اس سے پوچھیں کہ وہ باوا صاحب کو کیا سمجھتا ہے؟ اگر تو وہ مسلمان ولی اللہ سے بڑھ کر باوا صاحب کو کوئی درجہ دے تو آپ سمجھ لیں کہ وہ آپ کا خیرخواہ ہے اور اگر اس کا یہ مطلب ہو کہ باوا صاحب چونکہ بانیٔ اسلام ﷺ کے منکر تھے اس لئے کافر تھے تو آپ بتائیں کہ باوا صاحب کی ہتک کرنے والا وہ ہؤا یا ہم۔ ہم تو انہیں مسلمان ولی اللہ کے معنوں میں کہتے ہیں اور مسلمان ولی اللہ سے اوپر مسلمانوں کے نزدیک صرف رسول اور پیغمبر ہی ہوتے ہیں ۔ پس ہمارا ان کو مسلمان کہنا کسی تحقیر کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم ان کو ویسا ہی قابل عزت سمجھتے ہیں جیسے ہمارے نزدیک مسلمان اولیاء قابل عزت ہوتے ہیں۔ ہمارا انہیں مسلمان کہنے سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ نَعُوْذُ بِاللہِ ان ادنیٰ لوگوں کی طرح تھے جو سکھوں کے گاؤں میں بستے ہیں اور گو مسلمان کہلاتے ہیں مگر اسلام سے انہیں کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ ہم ان کی دنیوی حیثیت سے ان کو مسلمان نہیں کہتے بلکہ ان کو دینی لحاظ سے مسلمان کہتے ہیں اور دینی لحاظ سے مسلمان کے معنے ولی اللہ کے ہؤا کرتے ہیں مگر عام طور پر چونکہ سکھوں کے گاؤں میں مسلمان کمیں ہؤا کرتے ہیں اور دنیاداروں کی نگاہ میں کمّیں حقیر خیال کئے جاتے ہیں اس لئے وہ خیال کر لیتے ہیں کہ جیسے ہمارے گاؤں کے کمّیں مسلمان ہیں ویسا ہی مسلماں یہ ہمارے باوا صاحب کو سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہم اس نقطۂ نگاہ سے انہیں مسلمان نہیں کہتے بلکہ مسلمان کا لفظ ان کے ولی اللہ ہونے کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ لفظ بُرا محسوس ہوتا ہے تو آپ ہی بتائیں کہ ہم انہیں کیا کہیں؟ ہمارے نزدیک تو مسلمانوں کے سوا جتنے لوگ ہیں سب کافر ہیں اور دو ہی اصطلاحیں مسلمانوں میں رائج ہیں۔ یا کافر کی اصطلاح یا مسلمان کی اصطلاح۔ اگر باوا صاحب مسلمان بمعنے ولی اللہ نہیں تو دوسرے لفظوں میں وہ نَعُوْذُ بِاللہِ کافر اور خدا سے دور تھے۔ اب آپ ہی سوچ لیں کہ باوا صاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے یا ان کو مسلمان نہ کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے ۔احرار کا تو اس اعتراض سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ احمدی باوا صاحب کی تعریف کیوں کرتے ہیں؟ مگر سکھ ناواقفیت کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ احرار ان کی تائید کر رہے ہیں اور احمدی انہیں گالی دے رہے ہیں۔ میں نے جب یہ اشتہار شائع کیا تو چونکہ وہ آدمی سمجھدار تھے اس لئے انہوں نے دوسرے ہی دن جلسہ گاہ میں سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا کہ تم نے مجھے سخت ذلیل کرایا ہے کیونکہ جو باتیں تم نے مجھے بتائی تھیں وہ اَور تھیں اور جو باتیں اس اشتہار میں لکھی ہیں وہ بالکل اور ہیں۔
میرا منشاء اس مثال سے یہ ہے کہ باوجود اس بات کے کہ سکھ تمام قوموں میں سے کم ہیں پھر بھی وہ اپنے آپ کو اتنا طاقتور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک موقع پر ہمیں یہ نوٹس دے دیا کہ وہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی۔ تو قومی لحاظ سے غیر اقوام کے مقابلہ میں ہم پہلے ہی تھوڑے ہیں۔ پھر اگر ان منافق طبع لوگوں کو اپنی جماعت سے نکال دینے پر بھی ہم تھوڑے ہی رہتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنے سے زیادہ نہیں ہو سکتے تو کوئی وجہ نہیں کہ جب ان کا وجود دوسرے لوگوں کے لئے مُضر ثابت ہو رہا ہو انہیں جماعت سے خارج نہ کیا جائے لیکن اگر خدا کے رسولوں کی جماعتیں کثرت تعداد کی بناء پر نہیں بلکہ خدا کی نصرت اور اس کی مدد کے ساتھ جیتا کرتی ہیں تو اس صورت میں خواہ یہ لوگ نکل جائیں پھر بھی گو ہم موجودہ وقت سے تھوڑے ہو جائیں گے مگر شکست نہیں کھا سکتے۔ ممکن ہے پیغامی یہ کہنا شروع کر دیں کہ پہلے تو اپنے زیادہ ہونے کو صداقت کی دلیل قرار دیتے تھے اب کہتے ہیں کہ تھوڑے ہو کر بھی ہم حق ہی پر رہیں گے۔ ایک ہی وقت میں یہ تمہاری دونوں باتیں کس طرح درست ہو سکتی ہیں؟ سو انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ میری دونوں باتیں درست ہیں۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہ کھائیں گے اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کرتا ہوں اور جب میں کہتا ہوں کہ ہم زیادہ ہیں اس لئے ہم حق پر ہیں تو اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کیا کرتا ہوں۔ ہم تھوڑے ہیں غیر اقوام کے مقابلہ میں اور ہم زیادہ ہیں اس لحاظ سے کہ نبی کی جماعت کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔
پس جب میں نے یہ کہا کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہیں کھا سکتے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا زیادہ حصہ ہم سے الگ ہو جائے گا اور قلیل حصہ ہمارے ساتھ رہ جائے گا کیونکہ جماعت کی اکثریت بہرحال ہمارے ساتھ رہے گی اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبی کی جماعت کی اکثریت گمراہ ہو جائے۔ اگر کسی وقت اکثریت کو غلطی لگے تو وہ غلطی پر قائم نہیں رہ سکتی بلکہ چند دنوں میں ہی اسے غلطی کی اصلاح کا موقع مل جاتا ہے۔ جیسا کہ صحابہؓ کے زمانہ میں حضرت علیؓ کی خلافت کے عہد میں ہوا۔ پس میں نے اپنے آپ کو تھوڑا دنیا کی اور اقوام کے مقابلہ میں قرار دیا ہے اور میں نے یہ نہیں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت قلیل رہ جائے گی کیونکہ جب تک جماعت کے دلوں میں نور ایمان باقی ہے یہ ناممکن ہے کہ اس کی اکثریت بگڑ جائے۔ پھسلنے والے پھسلیں گے، گرنے والے گریں گے اور جدا ہونے والے جدا ہوں گے مگر اکثریت پھر بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گی۔ پس پیغامی یا ان کے گماشتے مصری میرے ان الفاظ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ اگر بعض منافق یا کمزور طبع لوگ اپنی ایمانی کمزوری کا ثبوت دیتے ہوئے ہم سے الگ ہو جائیں تو وہ پھر بھی اکثریت قرار نہیں پائیں گے بلکہ اکثریت ہمارے ساتھ رہے گی اور وہ ہمارے مقابلہ میں تھوڑے ہی رہیں گے کیونکہ نبیوں کی جماعتوں کے اندر شروع زمانہ میں منافق اور فتنہ و فساد پیدا کرنے والے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں اور مومن زیادہ ہوتے ہیں۔ پس جب میں اپنے متعلق تھوڑے کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ ہم احمدی کہلانے والوں کے مقابلہ میں تھوڑے ہیں بلکہ غیر اقوام مراد ہوتی ہیں اور میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کے مقابلہ میں بالکل قلیل ہیں لیکن احمدی کہلانے والے غیرمبائعین کے مقابلہ میں ہم زیادہ ہیں اور زیادہ ہی رہیں گے۔ انشاء اللہ
پس مَیں اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو پوزیشن ہم نے دیانتداری کے ساتھ تسلیم کی ہوئی ہے ہمیں اس کے مطابق اپنے اعمال میں بھی تغیر پیدا کرنا چاہیئے۔ اسی طرح صحابہؓ کی جو پوزیشن ہمارے نزدیک مسلّم ہے وہی پوزیشن ہمیں اختیار کرنی چاہیئے۔ صحابہؓ کی پوزیشن یہ تھی کہ انہیں حکم دیا جاتا اور وہ فوراً اطاعت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور یہی پوزیشن ہماری ہونی چاہیئے۔ جو شخص یہ پوزیشن اختیار نہیں کرتا ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو امتی نبی مانتا ہے کیونکہ امتی نبی ماننے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ جو کچھ صحابہؓ نے کیا وہی ہم کریں اور اگر کوئی شخص صحابہؓ کے سے کام نہیں کرتا تو اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آزاد نبی مانتا ہے۔ اس صورت میں اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم جسے مسیح موعود تسلیم کرتے ہیں وہ رسول کریم ﷺ کا امتی ہے۔ ہم کسی ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں جو اپنے آپ کو مستقل نبی قرار دے اور رسول کریم ﷺ کی غلامی سے آزاد ہو کر نبوت کا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کرے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے کیونکہ آپ کو خدا نے بھی نبی قرار دیا ہے اور اس کے رسول نے بھی نبی قرار دیا ہے اور ہمارے نزدیک ایسا شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو کلیۃً تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے وہ خداکو بھی جھوٹا کہتا ہے اور خدا کے رسول کو بھی جھوٹا کہتا ہے۔ اس لئے ان کا راستہ اور ہے اور ہمارا راستہ اور۔
پس میں قادیان کی جماعت کو آئندہ تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہوں۔
اول: اطفال احمدیہ۔ 8 سے 15 سال تک
دوم: خدام الاحمدیہ ۔15 سے 40 سال تک
سوم: انصار اللہ۔ 40 سے اوپر تک
ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی عمر کے مطابق ان میں سے کسی نہ کسی مجلس کا ممبر بنے۔ خدام الاحمدیہ کا نظام ایک عرصہ سے قائم ہے۔ مجالس اطفال احمدیہ بھی قائم ہیں۔ البتہ انصار اللہ کی مجلس اب قائم کی گئی ہے اور اس کے عارضی انتظام کے طور پر مولوی شیر علی صاحب کو پریذیڈنٹ اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے ، خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب کو سیکرٹری بنایا گیا ہے۔ یہ اگر کام میں سہولت کے لئے مزید سیکرٹری یا اپنے نائب مقرر کرنا چاہیں تو انہیں اس کا اختیار ہے۔ ان کا فرض ہے کہ تین دن کے اندر اندر مناسب انتظام کر کے ہر محلہ کی مسجد میں ایسے لوگ مقرر کر دیں جو شامل ہونے والوں کے نام نوٹ کرتے جائیں اور پندرہ دن کے اندر اندر اس کام کو تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اس کے لئے قطعاً اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محلّوں میں پھر کر لوگوں کو شامل ہونے کی تحریک کریں بلکہ وہ مسجد میں بیٹھ رہیں جس نے اپنا نام لکھانا ہو وہاں آ جائے اور جس کی مرضی ہو ممبر بنے اور جس کی مرضی ہو نہ بنے۔ جو ہمارا ہے وہ آپ ہی ممبر بن جائے گا اور جو ہمارا نہیں اسے ہمارا اپنے اندر شامل رکھنا بے فائدہ ہے۔ پندرہ دن کے بعد مردم شماری کر کے یہ تحقیق کی جائے گی کہ کون کون شخص باہر رہا ہے۔ اگر تو کوئی شخص دیدہ دانستہ باہر رہا ہو گا تو اسے کہا جائے گا کہ چونکہ تم باہر رہے ہو اس لئے اب تم باہر ہی رہو مگر جو کسی معذوری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکا ہو گا اسے ہم کہیں گے کہ گھر کے اندر تمہارے تمام بھائی بیٹھے ہیں آؤ اور تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ اس طرح پندرہ دن کے اندر اندر قادیان کی تمام جماعت کو منظم کیا جائے گا اور ان سے وہی کام لیا جائے گا جو رسول کریم ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے لیا گیا ۔ یعنی کچھ تو اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو تبلیغ کریں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو قرآن اور حدیث پڑھائیں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کریں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ تعلیم و تربیت کا کام کریں اور کچھ یُزَکِّیْھِمْ کے دوسرے معنوں کے مطابق اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کی دنیوی ترقی کی تدابیر عمل میں لائیں۔ یہ پانچ کام ہیں جو لازماً ہماری جماعت کے ہر فرد کو کرنے پڑیں گے۔ اسی طرح جس طرح جماعت فیصلہ کرے اور جس طرح نظام ان سے کام کا مطالبہ کرے۔ جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتا مثلاً وہ مفلوج ہے یا اندھا ہے یا ایسا بیمار ہے کہ چل پھر نہیں سکتا ایسے شخص سے بھی اگر عقل سے کام لیا جائے تو فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے الَّا مَا شَاءَ اللہ۔ مثلاً اسے کہہ دیا جائے کہ اگر تم کچھ اور نہیں کر سکتے تو کم سے کم دو نفل روزانہ پڑھ کر جماعت کی ترقی کے لئے دعا کر دیا کرو۔ پس ایسے لوگوں سے بھی اگر کچھ اور نہیں تو دعا کا کام لیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو کوئی نہ کوئی کام نہ کر سکے۔ قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں وہی شخص زندہ رکھا جاتا ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں کام کر کے دوسروں کے لئے اپنے وجود کو فائدہ بخش ثابت کر سکتا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ حرکت کا کام جس میں جسمانی محنت سب سے کم برداشت کرنی پڑتی ہے دعا ہے۔ ہاں بعض کے کام بالواسطہ بھی ہوتے ہیں جیسے پاگل نہ دعا کر سکتے ہیں اور نہ کچھ اور کام کر سکتے ہیں۔ ایسے لوگ صرف عبرت کا کام دیتے اور لوگ انہیں دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ مگر ایسا معذور میرے خیال میں قادیان میں کوئی نہیں۔ نیم فاتر العقل دو چار ضرور ہیں مگر پورا پاگل میرے خیال میں قادیان میں کوئی نہیں۔ لیکن یہ لوگ بھی اتنا کام تو ضرور کر رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے عبرت کا موجب بنے ہوئے ہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے ایسے رنگ میں کام کریں گے کہ ان میں سے کوئی بھی باغیوں کی صف میں کھڑا نہیں ہو گا ۔ اگر کوئی شخص ان مجالس میں سے کسی مجلس میں بھی شامل نہیں ہو گا تو وہ ہرگز جماعت میں رہنے کے قابل نہیں سمجھا جائے گا۔ پس ان مجالس میں شامل ہونا درحقیقت اپنے ایمان کی حفاظت کرنا اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا عملی رنگ میں اقرار کرنا ہے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہم پر عائد ہیں اور خدا اور اس کے رسول نے جو احکام دئیے ہیں ان کے نفاذ اور اجراء میں حصہ لینا صرف میرا فرض نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے۔ آخر میں نے (نَعُوْذُ بِاللہِ) محمد رسول اللہ ﷺ کو رسول بنا کر نہیں بھیجا تھا نہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو (نَعُوْذُ بِاللہِ) رسول کریم ﷺ کا آخری مظہر بنا کر بھیجا ، نہ صحابہؓ کو میں نے بنایا اور نہ تم کو میں نے بنایا۔ یہ خدا کا کام ہے جو اس نے کیا۔ میرا کام تو صرف ایک مزدور کا سا ہے اور میرا فرض ہے کہ خدا نے جس فقرہ کو جہاں رکھا ہے وہاں اس کو رکھ دوں۔ پس میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا نے کہا۔ اگر کوئی شخص اسے تسلیم نہیں کرتا تو اسے ثابت کرنا چاہیئے کہ وہ بات خدا نے نہیں کہی ورنہ وہ میرا انکار نہیں کرتا بلکہ خداتعالیٰ کا انکار کرتا ہے۔‘‘ (الفضل یکم گست 1940ء)
1 البقرۃ:130
2 البقرۃ:125
3 البقرۃ:125
4 المائدۃ: 118
5 الجمعۃ: 3،2
6 الجمعۃ:4
7 استثناء باب 18 آیت 18
8 درثمین اردو صفحہ 131
9 الواقعۃ: 41،40
10 البقرۃ: 250



21
تحریک جدید کے چندہ کی ادائیگی میں سُستی اور غفلت کو ترک کر دیں
(فرمودہ 2 اگست 1940ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچنے والا وہی نیک کام ہؤا کرتا ہے جو استقلال کے ساتھ کیا جائے اور جس کے کرنے سے کرنے والے کے ایمان میں زیادتی ہوتی جاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی کام کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا جواب نہ دیا جائے۔ معمولی غیرت والا کوئی شریف انسان بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ دوسرے انسان کے احسان کے نیچے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ بندہ اس پر احسان کرتا جائے اور وہ خاموش بیٹھا رہے۔ وہ ضرور اس کا بدلہ دیتا ہے۔ ہاں اس کا بدلہ ہر شخص کے حال کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ 1یعنی ہم امداد کرتے ہیں ، مدد دیتے ہیں، نصرت اور تائید کرتے ہیں ہر ایک کی۔ کافر کی مدد کرتے ہیں کافر کے رنگ میں اور مومن کی مومن کے رنگ میں۔ کافر چونکہ جتنے کام کرتا ہے دنیا کی خاطر کرتا ہے اس لئے ہم اسے دنیا دیتے ہیں اور ایک سچا مومن چونکہ جو کام کرتاہے وہ خداتعالیٰ کے لئے کرتا ہے اس لئے ہم اس کے بدلہ میں اسے ایمان دیتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم مدد تو کرتے ہیں کافر کی بھی اور مومن کی بھی مگر دونوں کی مدد کے رنگ علیحدہ علیحدہ ہیں۔
بعض دفعہ کمزور اور جاہل مومن بھی یہ دھوکا کھا جاتے ہیں کہ کافروں کو اتنا مال کیوں ملتا ہے؟ ان کو یہ پتہ نہیں کہ یہ مال ان کی بہتری کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ تا وہ آزمائش میں اور امتحان میں کچے ثابت ہوں اور پھر خداتعالیٰ کا غضب ان پر بھڑک اٹھے۔ بعض نیکی کے کام جو مومن کرتے ہیں وہ کافر بھی کرتے ہیں مثلاً کافر بھی سچ بولتے ہیں، کافر بھی خیرات کرتے ہیں، دوسروں کے لئے قربانیاں کرتے ہیں، غرباء کی تعلیم میں امداد کرتے ہیں، یتیموں اور بیواؤں کے کام آتے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک کام وہ اس لئے کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ان کو دنیوی بدلہ ملے۔ اوراللہ تعالیٰ کا چونکہ وعدہ ہے کہ كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ یعنی ہم نے بہرحال کسی کے نیک کام کو ضائع نہیں کرنا اس لئے ہم ہر ایک کو اس کے رنگ میں بدلہ دیتے ہیں۔ کافر چونکہ دنیا کے لئے کرتا ہے اس لئے اس کے عوض ہم اسے دنیا دیتے ہیں لیکن مومن چونکہ خداتعالیٰ کے لئے کرتا ہے اس لئے اس کو ہم ایماناً زیادہ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں اس کے ایمان میں زیادتی ہو جاتی ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ مومن کو دنیا ملتی ہی نہیں ۔ ملتی ہے مگر وہ زائد انعام کے طور پر ملتی ہے۔ وہ اس کے کام کا طبعی نتیجہ نہیں ہوتا ۔ کافر اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس لئے کہ اسے دنیوی طور پر ترقی ملے اور اس لئے یہ اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ عیسائیوں کے متعلق تو مجھے زیادہ تجربہ نہیں مگر ہندوؤں میں سے بیسیوں کے ساتھ اس قسم کے تعلقات ہیں وہ دعا کے لئے کہتے رہتے ہیں مگر ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ دعا کریں ہماری فلاں تجارت میں ترقی ہو جائے، مال بڑھ جائے یا بعض ایسی دعائیں جن کا نتیجہ یہ ہو کہ مال بڑھ جائے۔ ایسے ہی لوگوں کو مدنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ یعنی ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں اور اسی رنگ میں مدد کرتے ہیں جس رنگ میں وہ نیک کام کرتے ہیں مگر مومن کی حالت اس سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ نیکی اس لئے نہیں کرتا کہ اس کا مال بڑھ جائے، وہ نماز اس لئے نہیں پڑھتا ، روزہ اس لئے نہیں رکھتا کہ تجارت میں ترقی ہو، زکوٰۃ اس لئے نہیں دیتا کہ اس کا کاروبار بڑھ جائے بلکہ جو نیکی بھی کرتا ہے اس لئے کہ خداتعالیٰ اسے مل جائے اور اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ اسے مل جاتا ہے۔ بے شک اسے دنیوی انعامات بھی ملتے ہیں مگر وہ زائد انعام کے طور پر ہوتے ہیں۔ صحابہؓ نے جو عبادتیں کیں ، جو نمازیں پڑھیں، روزے رکھے یا جہاد کیا وہ اس لئے نہیں کیا تھا کہ دنیا کا مال و زر حاصل ہو جائے بلکہ اس لئے کہ خداتعالیٰ کا نام دنیا میں قائم ہو اور ان کا خدا ان سے راضی ہو اور یہ چیز اُن کو حاصل ہو گئی۔ دنیا بھی ان کو ملی مگر وہ ایک زائد انعام کے طور پر تھی ان کی نیکیوں کا بدلہ نہ تھا۔ تو مومن جو کام کرتا ہے وہ خدا کے لئے کرتا ہے لیکن کافر دنیا کے لئے کرتا ہے۔
پس مومن کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس نے جو نیکی کی ہے اس کے نتیجہ میں اس کا ایمان بڑھتا ہے یا نہیں ۔ اگر تو ایمان میں زیادتی ہو اور مزید نیکی کی توفیق ملے تو سمجھ لے کہ اس کی قربانی قبول ہو چکی ہے ورنہ نہیں اور اس کی قربانی صحیح معنوں میں قربانی نہیں تھی۔ اگر وہ دیکھے کہ کل جس بشاشت سے اس نے چندہ دیا تھا وہ آج نہیں ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ کل اس نے جو قربانی کی تھی وہ ناقص تھی اور اللہ تعالیٰ نے نور ایمان اس سے چھین لیا ہے۔ اگر اس کی آج کی نماز کل سے بہتر نہیں، آج کا روزہ کل سے بہتر نہیں ، آج کی زکوٰۃ کل سے بہتر نہیں۔ تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی پہلی عبادت میں نقص تھا کیونکہ مومن جو نیکی کرتا ہے وہ خدا کے لئے کرتا ہے اور اس کے بدلہ میں اسے خدا ملنا چاہیئے اور خدا کے ملنے کے یہ معنے ہیں کہ اس کی عبادت میں ترقی ہو۔ وہ نیکی اور قربانی میں اور بڑھے۔ مومن جو کام خدا کے لئے کرتا ہے اس کے نتیجہ میں خدا اس کے ایمان کو بڑھاتا ہے اور زیادہ نیک اعمال کی توفیق اسے دیتا ہے۔ اگر اس کی آج کی عبادت اور نیکی مقبول ہوئی ہے تو لازماً کل اسے پھر توفیق ملے گی اور اس کی کل کی نیکی اور عبادت آج سے اچھی ہو گی اور پرسوں کی کل سے بہتر ہو گی اور چوتھے دن کی تیسرے دن سے اچھی ہو گی اور اسی کا نام استقلال ہے۔ استقلال ایمان کا جزو ہے اور اس کا لازمی حصہ ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی مومن صحیح معنوں میں قربانی کرے اور پھر اسے مزید نیکی کی توفیق نہ ملے۔ دراصل استقلال نام ہے نیک عمل کے مقبول ہونے کا اور جسے استقلال حاصل نہیں ہوتا اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی نیکی مقبول نہیں ہوئی ورنہ اسے زیادہ نیکی کی توفیق ضرور ملتی۔ پھر مومن کو نیک عمل میں لذت حاصل ہوتی ہے اور اس لئے وہ ایک نیک عمل کے بعد دوسرے کا موقع ملنے کا منتظر رہتا ہے اور تیار رہتا ہے کہ جب موقع آئے فوراً اسے ادا کرے۔ مثلاً آموں کا موسم آتا ہے تو غریب سے غریب انسان بھی اپنی حیثیت کے مطابق اس سے لذت اندوز ہوتا ہے حتّٰی کہ جن غریبوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے وہ وہی اٹھا کر کھا لیتے ہیں جو دکاندار گلے سڑے ہونے کی وجہ سے گلیوں میں پھینک دیتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ غرباء کے بچے دوسروں کے چُوسے ہوئے آموں کی گٹھلیاں اٹھا کر چوسنے لگتے ہیں۔ گویا موسم آتے ہی خود بخود آم کھانے کا شوق دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کو کون کہنے جاتا ہے کہ موسم آ گیا ہے آم خریدو اور کھاؤ بلکہ موسم شروع ہوتے ہی لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ معلوم نہیں آم کب تک آئیں۔ ان کو کسی کی طرف سے تحریک کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ خودبخود تحریک پیدا ہوتی ہے۔ یہی حال خربوزوں کا ہے۔ پہلے ہی لوگ دریافت کرنے لگتے ہیں کہ خربوزے ابھی پکے ہیں یا نہیں؟ بے موسم کے آم، خربوزے اور ترکاریاں ہمیشہ زیادہ قیمت پاتی ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ چونکہ خریدنے کے لئے اپنے اندر ایک تحریک پاتے ہیں اس لئے جن کی فصل کچھ پہلے تیار ہو جاتی ہے لوگ اسے خریدنے کے لئے دوڑتے ہیں اس لئے اس کی قیمت زیادہ دینی پڑتی ہے۔ پس جس چیز کی لذت سے انسان آشنا ہو اس کے لئے کسی دوسرے کو کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لوگ خود بخود اس کے انتظار میں رہتے ہیں کہ وقت آئے تو پہلا موقع جو ملے اس پر اسے حاصل کر لیں۔ یہی حال نیکی کا ہے اگر مومن اس کی لذت سے آشنا ہو تو وہ کسی بیرونی تحریک کے بغیر اسے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اصل ایمان وہی ہے کہ جس میں انسان کسی کی یاددہانی کے بغیر نیکی کے کام کرتا ہے اور پھر اس نیکی کے مقبول ہونے کی علامت یہی ہے کہ اور نیکیوں کی توفیق اسے ملے اور نیکی کرنے میں اسے لذت حاصل ہو۔ یہ ایک ایسا معیار ہے جس کے مطابق ہر انسان اپنے ایمان کی آزمائش نہایت آسانی سے کر سکتا ہے۔ بیسیوں لوگ ہیں جو اپنے ایمان کی آزمائش سے غافل رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دن بے ایمان ہو جاتے ہیں اور پتہ بھی نہیں لگتا کہ کیا ہؤا حالانکہ اگر وہ روزانہ آزمائش کرتے رہتے تو ہلاکت سے بچ جاتے۔ اس طریق پر ہر شخص اپنے ایمان کی آزمائش روزانہ کر سکتا ہے اور پتہ لگا سکتا ہے کہ وہ ایمان میں ترقی کر رہا ہے یا نیچے گررہا ہے۔ اگر وہ دیکھے کہ مستقل طور پر وہ ایمانی لذت اور نیکی کی بشاشت سے محروم ہو رہا ہے تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیئے۔ ایک عارضی کیفیت ہوتی ہے جو ہر مومن پر کسی نہ کسی وقت وارد ہوتی ہے ۔ صحابہؓ نے ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جب ہم آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں تو ہمارے ایمان تیز ہو جاتے ہیں مگر جب باہر جاتے ہیں تو یہ کیفیت نہیں رہتی۔ آپ نے فرمایا کہ ہر وقت دوزخ تمہاری نظروں کے سامنے رہے تو مر نہ جاؤ۔2 پس یہ عارضی غفلت اور ہے۔ کسی نہ کسی وقت آدمی کا دل آرام کرنے کو بھی چاہتا ہے۔ کسی وقت وہ چاہتا ہے کہ اپنے بیوی بچوں میں بیٹھ کر باتیں کرے۔ یہ اور بات ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے برسات کے موسم میں غریب سے غریب لوگ بھی کبھی نہ کبھی پکوڑے پکا لیتے ہیں مگر اسے کھانے میں عیاشی نہیں کہا جا سکتا۔ کوئی شخص ان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ بڑے عیاش ہیں۔ فلاں دن بارش ہو رہی تھی اور ان کے گھر میں پوڑے پک رہے تھے۔ یہ عیاشی نہیں عیاشی وہ ہے کہ انسان صبح اٹھتے ہی کھانے پینے میں لگ جائے اور شام تک اسی شوق میں لگا رہے ۔ کسی نہ کسی غریب کا پکوڑے، پراٹھے یا چاول وغیرہ پکا لینا عیاشی میں داخل نہیں۔ یہ تو غذا کا تنوّع ہے جس سے صحت اچھی رہتی ہے۔ یہی بات دینیات اور روحانیات میں ہے۔ بالکل ہی غافل ہو جانا عیاشی ہے مگر کسی وقت اگر آدمی چاہے کہ آرام کرے یا بیوی بچوں میں بیٹھ کر باتیں کرے تو یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کبھی کوئی غریب آدمی پوڑے یا پراٹھے پکا لے۔ جس طرح وہ عیاشی نہیں اسی طرح یہ بھی غفلت نہیں کہلا سکتی۔ غفلت وہ ہے کہ دل پر ان چیزوں کی محبت غالب ہو جائے اور دین کی محبت اور لذت دل میں نہ رہے۔ جیسے کھانے میں عیاشی اس کا نام ہے کہ انسان ہر وقت کھانے پینے کے اہتمام میں لگا رہے اور اپنے آپ کو کھانے میں ہی مقروض کر لے۔ کبھی سال میں دو چار بار اچھی چیز پکا کر کھا لینا یا عید کے موقع پر کوئی کپڑا بنا لینا عیاشی نہیں کہلا سکتی۔ اسی طرح کبھی آرام کی طرف مائل ہو جانا دین میں سستی نہیں کہلا سکتی۔ قبض کی حالت بھی مومنوں پر آتی ہے اور یہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے مگر دینی کاموں میں بحیثیت مجموعی سستی اور غفلت کا پیدا ہو جانا ایسی بات ہے جس کا آسانی سے پتہ لگ سکتا ہے اور انسان معلوم کر سکتا ہے کہ اس کے ایمان کا درجہ کیا ہے۔
یہ تمہید میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ تحریک جدید کے اس سال کے اعلان پر آٹھ ماہ گزر چکے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی اس سال کی نصف رقم وصول نہیں ہوئی۔ ابھی آتے وقت مجھے ایک فہرست دی گئی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں جن کے احمدیوں کی مجموعی تعداد 6، 7 ہزار سے زیادہ نہ ہو گی ستر کے قریب ایسی ہیں کہ جن کی طرف سے ابھی کوئی پیسہ بھی وصول نہیں ہؤا۔ یہ جماعتیں بہت چھوٹی چھوٹی ہیں۔ بعض میں چھ سات سے زیادہ احمدی نہیں اور بعض دور دراز گوشوں میں ہیں۔ ان کی طرف سے ابھی ایک پیسہ بھی وصول نہیں ہؤا۔ پھر ایک خاصی تعداد ایسی ہے جن کی وصولی 33 فیصدی سے زیادہ نہیں یعنی ان میں سے کسی کی وصولی دس فیصدی ہے ، کسی کی بارہ فیصدی، کسی کی بیس ، کسی کی تیس اور کسی کی 33 فیصدی۔ پھر بعض وہ ہیں جن کا 33 سے پچاس فیصدی کے درمیان چندہ وصول ہؤا ہے اور کچھ وہ ہیں جن کا پچاس سے ستر فیصدی تک اور بہت تھوڑی جماعتیں ایسی ہیں جن کو قریباً سارا یا بہت سا حصہ وصول ہو چکا ہے۔ حالانکہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ ادا نہیں کر سکتے وہ اپنے نام نہ لکھوائیں۔ ایسے لوگ جماعت کی ترقی کا موجب نہیں ہوتے بلکہ نقصان کا موجب ہوتے ہیں۔ مومن کے وعدے پر اعتبار کر لیا جاتا ہے اور وعدوں کی مجموعی رقم کے مطابق پروگرام بنا لیا جاتا ہے لیکن اگر ان میں سے کچھ وعدے پورے نہ ہوں تو نقصان لازمی ہے۔ فرض کرو دس آدمی وعدہ کرتے ہیں اور ان کے وعدے کے مطابق پروگرام بنا لیا جاتا ہے اب اگر ان میں سے چار اپنا وعدہ پورا نہ کریں تو اس کام کو جو نقصان پہنچے گا اس کا گنا ہ انہی لوگوں پر ہو گا جنہوں نے دھوکا دیا۔ اگر وہ نام نہ لکھواتے تو سلسلہ مقروض نہ ہوتا۔ سلسلہ نے ان کو ایماندار سمجھا اور ان کے وعدوں پر اعتبار کیا مگر دراصل وہ بے ایمان تھے اور دھوکا دینے والے تھے اس لئے سلسلہ کو مقروض ہونا پڑا۔ میں نے بار بار کہا ہے کہ ثواب اس سے نہیں کہ آدمی اپنا نام لکھوا دے بلکہ یہ تو عذاب حاصل کرنے کا طریق ہے ۔اس سے جتنا بوجھ سلسلہ پر پڑے گا اس کا عذاب انہی لوگوں پر ہو گا جو نام لکھوا دیتے ہیں مگر وعدہ پورا نہیں کرتے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے وعدہ پورا نہ کرنے کی وجہ سے بدنامی ساری جماعت کی ہوتی ہے مگر خداتعالیٰ کے ہاں اس کا عذاب صرف ان لوگوں پر ہے جنہوں نے نام تو لکھوا لئے مگر وعدے پورے نہ کئے۔ انہوں نے لوگوں میں جھوٹی عزت تو حاصل کر لی مگر خداتعالیٰ کی *** کے مورد ہو گئے۔ میں نے اس امر کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے مگر پھربھی میں دیکھتا ہوں کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو اس روش سے باز نہیں آتا۔ وہ نام تو لکھوا دیتے ہیں مگر وعدوں کو پورا نہیں کرتے اور ادا کرنے میں غافل رہتے ہیں۔ ان کا یہ فعل ہرگز مستحسن نہیں بلکہ صریح خسران کا موجب ہے۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی انسان اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کاٹ دے۔ دشمن اگر کسی کی ناک کاٹ دے تو یہ بھی بری بات ہے اور جب وہ گزرے تو لوگ کہتے ہیں کہ نکٹا جا رہا ہے مگر یہ لوگ تو ایسے ہیں کہ جیسے کوئی اُسترا لے کر اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کاٹ دے اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص بالکل دیوانہ یا فاتر العقل ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جس چندہ میں پابندی کی کوئی شرط نہیں اس میں جو شخص اپنی مرضی سے پہلے نام لکھواتا ہے اور پھر عدم ادائیگی سے جماعت کو ذلیل کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی دیوانہ اور فاتر العقل ہے جیسے اُسترا لے کر اپنی ناک خود کاٹنے والا۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اس چندہ میں وعدے صرف وہی لوگ لکھوائیں جو خداتعالیٰ کے دربار میں سَابِقُوْن میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ لوگوں میں جھوٹی عزت حاصل کرنے کے شائق نام نہ لکھوائیں مگر میں نے دیکھا ہے کہ پھر کئی لوگ یونہی نام لکھوا دیتے ہیں۔ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ اسے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچے اور وہ خداتعالیٰ کا مقرب بھی ہو جائے یہ ناممکن ہے۔ قربانی کے بغیر اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہونا ناممکن ہے۔
اس وقت جنگ ہو رہی ہے دیکھو ہزاروں لوگ جنگ میں قربانیاں کر رہے ہیں۔ آجکل جنگ کا وہ طریق نہیں رہا کہ تلوار ہاتھ میں لے کر ایک بہادر میدان میں نکل آتا تھا کہ آئے کون میرے مقابلہ پر آتا ہے۔ آج تو یہ حالت ہے کہ لوگ آرام سے گھروں میں بیٹھے ہوتے ہیں کسی کو علم بھی نہیں ہوتا اور اوپر سے ایک بم گرتا ہے اور کئی لوگ وہیں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ نہ کسی کو مقابلے کا موقع ملتا ہے ، نہ کوئی روک پیدا کر سکتا ہے۔ دل کے ارمان اور حوصلے نکالنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی مگر باوجود ایسے خطرات کی حالت کے کئی ایسے لوگ ہیں جو ہمت و استقلال کے ساتھ کام کرتے ہیں اور جنگ میں ایسے ایسے کارنامے کرتے ہیں کہ پڑھ کر حیرت آتی ہے۔
پہلے بھی ایک واقعہ مَیں سنا چکا ہوں اب پھر اخباروں میں ایک واقعہ شائع ہؤا ہے کہ ایک افسر سخت زخمی ہو گیا جہاں وہ پڑا تھا وہاں جرمن فوج کا قبضہ ہو چکا تھا۔ اس کا ایک ماتحت افسر تلاش میں نکلا کہ تا وہ ملے تو اسے لے آئے۔ اس نے اپنے ہیڈ کوارٹر میں فون کیا کہ میں اس کی تلاش میں جانا چاہتا ہوں ایک لاری بھیج دی جائے۔ وہاں سے جواب آیا کہ ہم تمہیں ایسی خطرناک جگہ پربھیج نہیں سکتے کیونکہ وہا ں جانے میں ننانوے فیصدی گمان مارے جانے یا کم سے کم قید ہونے کا تھا۔ اس لئے اسے جواب دیا گیا کہ ہم حکم نہیں دیتے اپنی مرضی سے جانا چاہو تو چلے جاؤ۔ اس نے کہا کہ میں اپنی مرضی سے جانا چاہتا ہوں تا اگر ممکن ہو تو اپنے افسر کو بچا کر لے آؤں۔ چنانچہ وہ لاری لے کر فوجی پہروں سے بچتا ہؤا وہاں پہنچا اسے تلاش کر کے لاری پر ڈال لیا۔ اور بھی دو چار زخمی مل گئے ان کو بھی اس نے ساتھ لے لیا اور بچ کر نکل آیا۔ اس کا ایسے حالات میں اس جگہ جانا جہاں دشمن کا قبضہ ہو چکا تھا گویا یقینی طور پر موت کے مُنہ میں جانے کے مترادف تھااور یہ محض اتفاق تھا کہ بچ کر آ گیا مگر اس شخص نے اس قربانی کے لئے خود اپنے آپ کو پیش کیا۔
تو جنگ میں لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر رہے ہیں اور ایسے ایسے خطرات میں اپنے آپ کو ڈالتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اور روزانہ بیسیوں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ یہ مثالیں تو اپنوں کے لئے قربانی کی ہیں۔ غیروں کے لئے قربانی کی بھی شاندار مثالیں ملتی ہیں۔ حال ہی میں ایک واقعہ ہؤا ہے۔ ایک برطانوی جہاز جرمن قیدیوں کو لے کر جارہاتھا کہ جرمنوں نے بے وقوفی سے اسے خود ہی غرق کر دیا۔ تارپیڈو بوٹ نے اس پر حملہ کیا اور وہ غرق ہو گیا۔ جن لوگوں کو کشتیوں پر جگہ مل سکی وہ تو سوار ہو گئے ۔ جہاز میں جو لوگ سوار ہوں ان کے پاس ایسی پیٹیاں بھی ہوتی ہیں جسے باندھ کر آدمی دو دو دن پانی پر تیرتا رہتا ہے اور اس اثناء میں ممکن ہوتا ہے کہ کوئی جہاز اسے آ کر اٹھا لے۔ جن لوگوں کو کشتیوں میں جگہ نہ ملے وہ یہ پیٹیاں پہن لیتے ہیں۔ اس جہاز کے ایک انگریز افسر نے دیکھا کہ ایک جرمن قیدی ایسا ہے کہ نہ اسے کشتی میں جگہ ملی ہے اور نہ اس کے پاس پیٹی ہے۔ اس افسر نے اپنی پیٹی اسے دے دی اور خود جا کر کپتان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ جہاز غرق ہؤا اور وہ بھی کپتان کے ساتھ غرق ہو گیا۔ گویا اس نے دشمن کی جان بچانے کے لئے اپنی جان دے دی۔
ہم ایسے واقعات کو آج اس لئے حیرت سے پڑھتے ہیں کہ اس زمانہ کے مسلمانوں میں ایمان کی وہ شان نہیں رہی جو پہلے زمانہ کے مسلمانوں کی تھی۔ اس لئے ان میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں ورنہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں ایسی ایسی شاندار مثالیں ملتی ہیں کہ یہ واقعات ان کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمن کو شکست دی سخت گرمی کا موسم تھا۔ مقابلہ بڑے معرکہ کا تھا۔ ایک ایک مسلمان کو دو دو سو کا مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ اس لئے بعض مسلمان چور ہو کر گر گئے تھے۔ ایک شخص وہاں پہنچا اس نے ایک صحابیؓ کو دیکھا کہ زخمی پڑے تھے ان کے ہونٹ خشک ہیں اور اس سے پوچھا کہ کیا پانی ہے؟ اس کے پاس چھاگل تھی اس نے اس میں سے پانی لیا اور ان کو دیا وہ پینے لگے تو دیکھا کہ تھوڑے فاصلہ پر ایک اور مسلمان پڑا تھا۔ اس صحابی نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے اسے زیادہ پیاس ہے اس لئے پہلے اسے پلاؤ۔ وہ پانی لے کر اس کے پاس پہنچا تو اس نے ایک اور کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ پیاسا معلوم ہوتا ہے اس لئے پہلے اسے پلا دو اور اس طرح یہ سلسلہ دس آدمیوں تک پہنچا لیکن جب پانی والا دسویں آدمی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا۔ اس پر وہ لوٹا اور جس جس کے پاس پہنچا وہ فوت ہو چکا تھا۔ غور کرو یہ کتنی بڑی قربانی ہے۔ موت سامنے ہے، سانس رک رہا ہے اور شدید پیاس ہے مگر ہر ایک کی کوشش یہی ہے کہ پہلے میرا بھائی پانی پئے تو مَیں پھر پیوں۔3 مگر آج مسلمانوں کی یہ حالت نہیں۔ ان کے پاس حکومت نہیں، نورِ ایمان نہیں، اس لئے ہمیں ایسی مثالیں کافروں میں سے دینی پڑتی ہیں اور یہ ہمارے لئے زیادہ غیرت کا موجب ہونی چاہئیں کہ جب کافر ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں تو ہمارے نوجوانوں کو تو اس سے بہت زیادہ شاندار مثالیں پیش کرنی چاہئیں۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ تحریک جدید کے چندے طوعی ہیں اس لئے ان کو پورا کرنے کے لئے ان کو پوری کوشش کرنی چاہیئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ اگر انہیں اس قربانی کی توفیق نہیں ملتی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ خداتعالیٰ نے ان کی پہلی قربانیوں کو بھی قبول نہیں کیا ورنہ آج ان سے سستی سرزد نہ ہوتی۔ سستی کے معنے ہی یہ ہیں کہ پہلے عمل ضائع ہو چکے ۔ پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دوست سستی اور غفلت کو ترک کر دیں کیونکہ اس سے ان کی پہلے سالوں کی قربانیاں بھی ضائع ہو جائیں گی۔ یہ تو زمانہ اس قسم کا ہے کہ انسان کے سامنے سے ایک منٹ کے لئے بھی موت اوجھل نہیں ہونی چاہیئے۔ میں ابھی لاہور سے آ رہا ہوں وہاں ہوائی جہازوں کے لئے لوگوں میں چندہ کی تحریک کرنے کے لئے ہوائی جہازوں نے اشتہار پھینکے جن میں لکھا تھا کہ ممکن تھا اس اشتہار کی جگہ جو تم اٹھا رہے ہو بم گرتا جو جرمن یا روسیوں کا ہوتا۔ غور کرو اگر ایسا ہوتا تو تمہاری کیا حالت ہوتی۔ اس لئے اس وقت کی اہمیت کو پہچانیں اور جلد چندہ دیں تا اس سے ہوائی جہاز شہر کی حفاظت کے لئے خریدے جائیں۔ اب دنیا میں فاصلہ کا سوال بالکل مٹ چکا ہے۔ ہوائی جہاز دو دو تین تین ہزار میل پر جا کر حملہ کرتے ہیں اور پھر واپس آ جاتے ہیں اور دشمنوں کو ایسے مواقع حاصل ہیں کہ اگر چاہیں تو ہندوستان پر حملہ کر دیں۔ گو ابھی کیا نہیں مگر ہندوستان میں شدید خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ اُدھر چین میں اور جاپان میں جنگ شروع ہے۔ امریکہ الگ کھڑا رہا ہے اور یورپ میں تو جنگ ہو ہی رہی ہے۔ ہر طرف خطرات ہی خطرات ہیں اور خطرات بھی ایسے کہ بہادری سے ان کا مقابلہ کرنے کا کوئی موقع نہیں اور کوئی شخص سینہ تان کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئے کون میرے مقابلہ پر آتا ہے۔ ہوائی جہاز اوپر سے حملہ کرتے ہیں اور بعض اوقات نظر بھی نہیں آتے۔ وہ تیس تیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہے ہوتے ہیں۔ چیل نظر آتی ہے مگر جہاز نہیں۔ صرف بم گرتے ہیں اور جب موت اس قدر قریب ہو تو مومن اگر اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھے تو بہت افسوس کا مقام ہے۔ پس میں احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور موقع کی نزاکت کے لحاظ سے قربانیوں میں تیز ہوں نہ کہ سست۔ جو لوگ ایسے نازک وقت میں بھی خداتعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے ایسے سنگدل لوگ گو بظاہر جماعت میں شامل ہوں مگر خداتعالیٰ کے نزدیک ان کا شمار مومنوں میں نہیں ہوتا اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کو خداتعالیٰ کا فضل بچائے۔ ایسے لوگ باوجود مومنوں کی جماعت میں شامل ہونے کے خداتعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو بغداد میں ایک بزرگ رہتے تھے۔ لوگ ان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ بغداد کو ہلاکت سے بچائے۔ اس بزرگ نے کہا کہ میں کیا دعا کروں؟ میں جب بھی دعا کرنے لگتا ہوں مجھے فرشتوں کی یہ آوازیں آتی ہیں کہ یَا اَیُّھَا الْکُفَّارُ اُقْتُلُوا الْفُجَّارَ۔یعنی اے کافرو! ان مسلمانوں کو جو بے دین ہو چکے اور دین سے بالکل غافل ہیں قتل کر دو۔ تو جب ایسے نازک اور خشّیت کے موقع پر بھی کوئی شخص دین کی خدمت سے غافل رہتا ہے اور قربانی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے باوجود کہ ان قربانیوں کے نتیجہ میں مرنے کے بعد اسے جنت ملے گی اور خداتعالیٰ کے انعام اس پر ہوں گے تو وہ کس منہ سے ایمان کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ جنگ میں جو لوگ قربانیاں کرتے ہیں ان کو موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت یا کسی انعام کی امید نہیں۔ کوئی جرمنی کے لئے قربانی کرتا ہے، کوئی فرانس کے لئے اور کوئی انگلستان کے لئے۔ لیکن جو بدقسمت خود وعدہ کرنے کے باوجود اور اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ سے انعامات کے وعدہ کے ہوتے ہوئے خداتعالیٰ کے لئے قربانی میں تامل کرتا ہے وہ کس طرح امید کر سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کا فضل اسے ڈھانپ لے گا؟ اللہ تعالیٰ بھی اسے کہے گا کہ تمہارے سامنے ایسے لوگ تھے جنہوں نے بغیر کسی انعام کے وعدہ کے محض دنیوی عزت اور چند روزہ آرام کے لئے قربانیاں کیں اور جانیں تک دے دیں مگر تم نے دین کے لئے قربانی نہ کی۔ پھر تم کس طرح امید رکھ سکتے ہو کہ میرے فضلوں کے وارث ہو؟ ہٹلر کس لئے لڑ رہا ہے؟ اس لئے کہ یورپ کو فتح کرے مگر یورپ دنیا کا کتنا حصہ ہے۔ وہ آبادی، پیداوار اور علاقہ ہر لحاظ سے ادنیٰ ہے۔ تمام قیمتی پیداواریں یا تو ایشیاء میں پیدا ہوتی ہیں یا امریکہ اور افریقہ میں۔ مگر اس ادنیٰ سے ملک پر غلبہ کے لئے دیکھ لو جرمن کتنی قربانیاں کر رہے ہیں۔ مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن کی جنت سارے زمین و آسمان کے برابر ہو گی۔4 اور آج تک دنیا میں کوئی ایسا آدمی نہیں گزرا جس کی بڑی سے بڑی امنگ اور امید ادنیٰ مومن کے ہزارویں حصہ کے بھی برابر ہو اور انعامات کے اس قدر فرق کے باوجود اگر کوئی شخص قربانی سے دریغ کرتا ہے تو سوائے اس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس کا دل نور ایمان سے بالکل خالی ہے۔’ ‘ (الفضل 18 ستمبر 1940ء)

1 بنی اسرائیل: 21
2 مسلم کتاب التوبۃ باب دوام الذکر والفکر
3 الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ جز 3 صفحہ 191 الطبعۃ الاولٰی 1995ء
مطبع دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان
4 مسلم کتاب الامارۃ باب ثبوت الجنۃ للشھید

22
اپنے عملی نمونہ کو اسلام کے مطابق بناؤ اور دین کی خدمت کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے چلے جاؤ
(فرمودہ23 اگست 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ دوستوں کو معلوم ہے کہ میں نے جماعت کو تین حصوں میں منظم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ایک حصہ اطفالِ احمدیہ کا یعنی پندرہ سال تک کی عمر کے لڑکوں کا، ایک حصہ خدام الاحمدیہ کا یعنی سولہ سے چالیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا اور ایک حصہ انصار اللہ کا جو چالیس سال سے اوپر کے ہوں خواہ کسی عمر کے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ نوجوان جو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا ہے لیکن وہ اس میں شامل نہیں ہؤا اس نے ایک قومی جُرم کا ارتکاب کیا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو چالیس سال سے اوپر کی عمر رکھتا ہے مگر وہ انصار اللہ کی مجلس میں شامل نہیں ہؤا تو اس نے بھی ایک قومی جُرم کا ارتکاب کیا ہے اور اگر کوئی بچہ اطفالِ احمدیہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا تھا اور اس کے ماں باپ نے اسے اطفالِ احمدیہ میں شامل نہیں کیا تو اس کے ماں باپ نے بھی ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ مگر مجھے امید رکھنی چاہیئے کہ ایسے لوگ یا تو بالکل نہیں ہوں گے یا ایسے قلیل ہوں گے کہ ان قلیل کو کسی صورت میں بھی جماعت کے لئے کسی دھبّہ یا بدنامی کا موجب قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ قلیل استثناء کسی جماعت کے لئے بدنامی کا موجب نہیں ہؤا کرتے۔
آج ہم صحابہؓ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور بسااوقات کہتے ہیں کہ وہ سب کے سب ایسے تھے۔ حالانکہ ان صحابہؓ کہلانے والوں میں سے بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کا نام قرآن کریم میں منافق رکھا گیا ہے۔ پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ سارے صحابی ایسے تھے اور کیوں ان کا نام زبان پر آتے ہی ان کے لئے ہم دعائیں کرنے لگ جاتے ہیں؟ اسی لئے کہ منافق نہایت قلیل تھے اور قلیل التعداد ہونے کی وجہ سے وہ کسی شمار میں نہیں آ سکتے تھے۔ ایک حسین انسان کسی خفیف سے جسمانی نقص کی وجہ سے مثلاً اگر اس کی انگلی پر مسّا نکلا ہؤا ہو یا فرض کرو اس کی کمر پر کوئی داغ ہو بدصورت نہیں کہلا سکتا اور نہ مسّے یا داغ کی وجہ سے اس کے حسن میں کوئی فرق آ سکتا ہے۔ اگر ہم ایسے شخص کو حسین کہیں تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ تم نے اس بات کا استثنیٰ نہیں کیا کہ اس کی کمر پر داغ ہے یا اس بات کا استثنیٰ نہیں کیا کہ اس کی انگلی کی پشت پر مسّا نکلا ہؤا ہے۔ بے شک مسّا ایک نقص ہے ، بے شک داغ ایک نقص ہے لیکن ایسے مقام پر مسّے یا داغ کا ہونا جہاں نظر نہ پڑ سکے یا خاص طور پر وہ حسن کو بگاڑ کر نہ رکھ دے حسن کے خلاف نہیں ہوتا۔ ایک شخص جسے سال دو سال میں ایک دو دن کے لئے نزلہ ہو جاتا ہے یا چھینکیں آنے لگ جاتی ہیں اسے لوگ بیمار نہیں کہتے بلکہ تندرست ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی جماعت میں منافقوں کی قلیل تعداد موجود ہو تو اس قلیل تعداد کی بناء پر وہ خراب نہیں کہلاتی۔ غرض ہم صحابہؓ کو اس لئے اچھا کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ بعض ظاہر میں صحابہ کہلانے والے ایسے تھے جو منافق تھے پھر بھی منافقوں کی تعداد نہایت قلیل تھی ورنہ ظاہری طور پر جس طرح انصار اور مہاجر رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے تھی اسی طرح منافق ایمان لائے تھے۔ وہ اسی زمانہ میں ایمان لائے جس زمانہ میں صحابہؓ ایمان لائے۔ انہوں نے بیعت کے وقت وہی کلمات کہے جو صحابہؓ نے کہے اور انہوں نے بھی اسی رنگ میں اظہارِ عقیدت کیا جس رنگ میں صحابہؓ نے کیا مگر صحابہؓ تو کچھ عرصہ کے بعد اپنے اخلاص میں اور بھی ترقی کر گئے لیکن منافق اپنے اخلاص میں کم ہوتے چلے گئے۔ پس کوئی ایسا ظاہری فرق نہیں جس کی بناء پر ایک کو ہم صحابی کہیں اور دوسرے کو نہ کہیں۔ سوائے اس کے کہ ایک نے اپنی منافقت کے اظہار سے بتا دیا کہ وہ صحابی کہلانے کے مستحق نہیں اور دوسرے نے اپنے ایمان اور اخلاص کے اظہار سے بتا دیا کہ وہ صحابی کہلانے کا مستحق ہے۔ ورنہ ظاہری طور پر منافق بھی نمازوں میں شامل ہو جاتے تھے اور منافق بھی صحابہؓ کے ساتھ جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ چنانچہ صریح طور پر حدیثوں میں آتا ہے کہ بعض غزوات میں منافق بھی شامل ہوئے۔ غزوۂ تبوک میں بھی بعض ایسے شقی القلب اور منافق لوگ تھے جو آگے بڑھ کر راستہ میں اس لئے چھپ کر بیٹھ گئے تھے کہ اگر رسول کریم ﷺ اکیلے آتے ہوں تو آپ کو قتل کر دیں اور وہ غزوۂ تبوک میں صحابہؓ کی صف میں شامل ہوئے مگر باوجود اس کے صحابہؓ کی تعریف میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا اور ہر مسلمان کا دل صحابہؓ کی محبت اور ان کی تعریف سے لبریز ہوتا ہے کیونکہ منافقوں کی تعداد اتنی قلیل اور صحابہؓ کی تعداد اتنی کثیر تھی اور پھر صحابہؓ اپنے اخلاص اور اپنی محبت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ منافق پیٹھ کے پیچھے چُھپے ہوئے ایک داغ یا انگلی کے ایک مسّا سے بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اور ایسا داغ یا مسّا کسی حسین کے حسن میں کوئی فرق نہیں لایا کرتا۔
پس میں امید کرتا ہوں کہ اس قسم کے لوگ تھوڑے ہوں گے کیونکہ خدا نے ہماری جماعت کو صحابہؓ کے نقشِ قدم پر بنایا ہے اور یقینا ہم میں منافقوں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ وہ جماعت کے لئے کسی صورت میں بدنامی کا موجب نہیں ہو سکتے۔ بے شک میں جماعت کو اور زیادہ پاک کرنے، اسے روحانی ترقی کے میدان میں پہلے سے اور زیادہ قدم آگے بڑھانے اور اسے اپنے جسم سے معمولی سے معمولی دھبّے اور داغ دور کرنے کی ہمیشہ تلقین کیا کرتا ہوں اور جماعت کو اپنے خطبات کے ذریعہ ہمیشہ نصیحت کرتا رہتا ہوں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جماعت کے معتدبہ حصہ میں نقص پائے جاتے ہیں یا جماعت ان کمزوروں کی وجہ سے بدنام سمجھی جا سکتی ہے معترضین کی نگاہ میں تو جماعت ہر وقت بدنام ہی ہوتی ہے اور جو شخص اعتراض کرنے پر ایک دفعہ تُل جائے وہ بہانے بنا بنا کر اعتراض کیا کرتا ہے مگران کی نگاہ میں جماعت کی جو بدنامی ہوتی ہے وہ شرفاء کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ پس جب میں کہتا ہوں کہ جماعت ان لوگوں کی وجہ سے بدنام نہیں ہو سکتی تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ شرفاء کے طبقہ میں جماعت بدنام نہیں ہو سکتی ورنہ مخالف کی نگاہ میں تو ہم ہمیشہ بدنام ہی ہیں خواہ ہم میں بعض کمزور افراد ہوں یا نہ ہوں ا ور دراصل ایسے لوگوں کی نگاہ میں تو محمد رسول اللہ ﷺ بھی بدنام ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بدنام ہیں اور اسی طرح اور تمام انبیاء اور مامورین بدنام ہیں بلکہ انبیاء تو کیا ان کی نگاہ میں خداتعالیٰ بھی بدنام ہے۔ تم بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں کی مجلسوں میں بیٹھ کر دیکھ لو وہ ہمیشہ اس قسم کے سوالات کرتے ہوئے دکھائی دیں گے کہ خدا نے اس دکھ کی دنیا میں ہمیں کیوں پیدا کیا ؟ پھر وہ بَرملا کہتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللہِ خدا قحط ڈالتا ہے، وہ بیماریاں پیدا کرتا ہے، وہ زلزلے بھیجتا ہے، وہ ظلم کرتا ہے، وہ امن برباد کرتا ہے۔ غرض لوگ تو کہا کرتے ہیں ‘‘پانچوں عیب شرعی’’ مگر ان کے نزدیک سینکڑوں عیب خداتعالیٰ میں پائے جاتے ہیں اور جن کی نگاہ میں خداتعالیٰ میں بھی عیب ہی عیب ہوں ان کے نزدیک اس کے انبیاء کب عیوب سے پاک سمجھے جا سکتے ہیں۔ پس میں ایسے شقی القلب لوگوں کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ انسانیت سے دور چلے گئے اور انصاف کا دامن انہوں نے چھوڑ دیا۔ میں صرف شریف الطبع لوگوں کا ذکر کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی نگاہ میں چند منافقوں کے پائے جانے کی وجہ سے ہماری جماعت بدنام نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ دیکھ لو باوجود اس کے کہ ہماری جماعت میں بعض لوگ ایسے موجود ہیں جو سست ہیں پھر بھی غیراحمدی شرفاء یہی کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ سے بڑھ کر دین کی خدمت کرنے والی اور کوئی جماعت نہیں۔ اسی طرح احمدیوںمیں بعض بے نماز بھی ہوتے ہیں مگر وہ یہ نہیں کہتے کہ احمدیوں میں سو میں سے ایک یا دو بے نماز ہیں بلکہ لوگوں کا سمجھدار اور شریف الطبع طبقہ یہی کہتا ہے کہ احمدی بڑے نمازی ہوتے ہیں۔ اسی طرح سارے احمدی تو باقاعدہ چندے نہیں دیتے۔ کچھ لوگ سست بھی ہیں مگر تم شریف الطبع لوگوں سے یہی سنو گے کہ احمدی بڑا چندہ دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جماعت کی اکثریت نیکی پر قائم ہے اور وہ بعض افراد کی کمزوری کو دیکھ کر ساری جماعت پر الزام عائد نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو اپنے اندر شرافت نہیں رکھتے وہ کسی ایک کمزور احمدی کو دیکھ کر ہی کہنے لگ جاتے ہیں کہ احمدی بے نماز ہیں یا احمدی چندوں میں سست ہیں۔ بے شک ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا مُنہ بند کرنے کی کوشش کریں، ہمارا فرض ہے کہ ہم جماعت کی ایسی تربیت کریں کہ اس میں ایک شخص بھی ایسا دکھائی نہ دے جو چندہ نہ دیتا ہو۔ اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو نماز کا پابند بنائیں اور اس قدر کوشش کریں کہ ایک بھی بے نماز نہ رہے اور اس مقصد کے لئے میں اگر کوئی خطبہ پڑھوں اور جماعت کو بیدار کرنے اور اس کی قوتِ عملیہ میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش کروں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں بلکہ اچھی بات ہے کیونکہ ایک خرابی بھی ہم میں کیوں موجود رہے؟ لیکن اس نیکی کو سو فیصدی مکمل کرنے کے لئے ہم اپنی طرف سے جو کوشش کریں اس کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ ہماری جماعت میں نیکی ہی نہیں۔ نیکی تو موجود ہے اور جماعت کی اکثریت میں موجود ہے مگر اسے تمام پہلوؤں سے مکمل کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وقتاً فوقتاً بعض کمزور لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے۔ غیراحمدیوں سے ہی پوچھ کر دیکھ لو جہاں جہاں احمدی موجود ہیں وہ ان کے متعلق یہی رائے دیں گے کہ احمدی بڑے سچے ہوتے ہیں، احمدی بڑے نیک ہوتے ہیں، احمدی بڑے نمازی اور خداتعالیٰ کے دین کے لئے قربانی کرنے والے ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان احمدیوں میں کمزور بھی ہوتے ہیں لیکن شریف الطبع لوگوں کا یہی دستور ہے کہ وہ اکثریت کی نیکی کا ذکر کرتے ہیں اور بعض افراد کی کمزوری کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کا نمونہ ایسا ہی ہو گا اور جیسا کہ میرے پاس رپورٹیں پہنچتی رہی ہیں ان میں سے غالب اکثریت نے اس تنظیم میں اپنے آپ کو شامل کر لیا ہے۔ لیکن میں دوستوں سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ محض ظاہری شمولیت کافی نہیں جب تک وہ عملی رنگ میں بھی کوئی کام نہ کریں۔
میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے عملی نمونہ سے یہ ثابت کر دیں گے کہ دنیا میں خداتعالیٰ کی واحد جماعت آپ ہی ہیں اور یہ ثبوت اسی طرح دیا جا سکتا ہے کہ آپ لوگ اپنے اوقات کی قربانی کریں، اپنے مالوں کی قربانی کریں، اپنی جانوں کی قربانی کریں اور خداتعالیٰ کے دین کی اشاعت اور احمدیت کی ترویج کے لئے دن رات کوشش کرتے رہیں۔ اگر ہم یہ نہیں کرتے اور محض اپنا نام لکھا دینا کافی سمجھتے ہیں تو ہم اپنے عمل سے خداتعالیٰ کی محبت کا کوئی ثبوت نہیں دیتے۔ پس صرف ان مجالس میں شامل ہونا کافی نہیں بلکہ اپنے اعمال ان مجالس کے اغراض و مقاصد کے مطابق ڈھالنے چاہئیں۔ خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے خدمتِ احمدیت کو ثابت کر دیں۔ انصاراللہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے دینِ اسلام کی نصرت نمایاں طور پر کریں اور اطفالِ احمدیہ کا فرض ہے کہ ان کے اعمال اور ان کے اقوال تمام کے تمام احمدیت کے قالب میں ڈھلے ہوئے ہوں۔ جس طرح بچہ اپنے باپ کے کمالات کو ظاہر کرتا ہے اسی طرح وہ احمدیت کے کمالات کو ظاہر کرنے والے ہوں۔ یہی غرض اس نظام کو قائم کرنے کی ہے اور یہی غرض انبیاء کی جماعتوں کے قیام کی ہؤا کرتی ہے۔
مگر مجھے یہ دیکھ کرحیرت ہوئی کہ ہماری اس تنظیم سے بعض لوگوں میں ایک بے چینی سی پیدا ہو گئی ہے۔ چنانچہ تھوڑے ہی دن ہوئے کسی اخبار کا ایک مضمون میرے سامنے پیش کیا گیا جس میں اس بات پر بڑے غصے کا اظہار کیا گیا تھا کہ انہوں نے کہا ہے جو شخص خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے سے دور بھاگے گا وہ خدام الاحمدیہ سے دور نہیں بھاگے گا بلکہ احمدیت سے دور بھاگے گا۔ کہتے ہیں ’’ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے‘‘ بھلا ان کو احمدیوں سے کیا واسطہ۔ ایک جماعت کا امام ایک نظام کا حکم دیتا ہے اور جماعت والے اس نظام کو قبول کر لیتے ہیں وہ اپنی جماعت سے راضی اور جماعت اپنے امام سے راضی پھر ان کو بیٹھے بٹھائے کیوں پیچ و تاب اٹھنے لگتے ہیں؟ میں اگر کسی کو کہتا ہوں کہ اس نے فلاں بات پر عمل نہ کیا تو جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا تووہ میری بات کو خوشی سے سنتا اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح میں بوجہ جماعت کا امام ہونے کے وہی بات کہہ سکتا ہوں جس میں لوگوں کا فائدہ ہو پھر جبکہ جماعت بھی اپنے فائدہ کو سمجھتی ہوئی ایک بات پر عمل کرتی ہے اور امام بھی وہی بات کہتا ہے جس میں جماعت کا فائدہ ہو تو کسی دوسرے کو اس میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ علاوہ ازیں یہ بھی تو سوچنا چاہیئے کہ میں جس کے ساتھ جماعت کا تعلق ہے اگر جماعت کے بعض افراد کو ان کی کوتاہی کو دور کرنے کے لئے کوئی تنبیہہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ عمل نہ کیا تو وہ ہماری جماعت میں نہیں رہیں گے تو اس پر انہیں تو بجائے ناراض ہونے کے خوش ہونا چاہیئے کہ اب جماعت کم ہو جائے گی مگر ہؤایہ کہ وہ مخالفت میں اور بھی بڑھ گئے۔
میں نے جیسا کہ ابھی کہا ہے جماعت کی اصلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ خدام الاحمدیہ یا دوسری مجالس میں شامل نہ ہوئے تو ان کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہے گا اور انہیں جماعت سے الگ سمجھا جائے گا۔ یہ فقرہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں کہ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں، جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہؤا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں، جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں اور جو شخص اپنے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ اب اس کے یہ معنے نہیں کہ جو شخص بھی ایسا ہو گا اسے ہم اپنی جماعت سے نکال دیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کا میرے ساتھ کوئی حقیقی تعلق نہیں ہو گا۔ پھر یہ عجیب بات ہے کہ کبھی تو ان کی طرف سے یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ عجیب پیری مریدی ہے کہ مرید کے عقیدے کچھ ہوں اور پیر کے عقیدے کچھ اور۔ اس کی بناء یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں میاں صاحب نے اس امر کی اجازت دے رکھی ہے کہ میرے خلاف عقیدہ رکھ کر بھی ایک شخص بیعت میں شامل ہو سکتا ہے اور کبھی یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اگر کوئی ایک بات بھی نہیں مانتا تو اسے جماعت سے نکال دیتے ہیں اور اس وقت حریت اور آزادیٔ ضمیر کی کوئی پرواہ نہیں کرتے جو اسلام نے ہر مومن کو دے رکھی ہے ۔ حالانکہ اگر یہ اعتراض درست ہے کہ ہماری جماعت میں حریت اور آزادیٔ ضمیر کی کوئی پروا نہیں کی جاتی تو وہ اعتراض کیوں کیا تھا کہ اس جماعت میں پیر کے عقیدے کچھ ہیں اور مریدوں کے کچھ اور۔ اختلافِ عقائد رکھنے کے باوجود لوگوں کو بیعت میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔ اور اگر یہ درست ہے کہ بعض باتوں میں اختلاف رکھتے ہوئے بھی ایک شخص ہمارے نظام میں شامل رہ سکتا ہے تو اس اعتراض کے کیا معنے ہوئے کہ حریت اور آزادیٔ ضمیر کو کچل دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظام کی درستی کے لئے اتحادِ خیالات کا ایک دائرہ ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک اختلاف بڑا نظر آئے لیکن اگر وہ کسی فتنے کا موجب نہ ہو تو اس اختلاف رکھنے والے کو جماعت میں شامل ہونے کی اجازت دے دی جائے لیکن ایک دوسرا شخص خواہ اس سے کم اختلاف رکھتا ہو لیکن اس کا اختلاف کسی فتنے کا موجب ہو تو اسے جماعت سے نکال دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک دفعہ ایک دوست نے پوچھا کہ میں ابھی شیعیّت سے نکل کر آیا ہوں اور حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے افضل سمجھتا ہوں۔پس کیا اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے میں آپ کی بیعت کر سکتا ہوں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں لکھا کہ آپ بیعت کر سکتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ چند آدمیوں کو قادیان سے باہر چلے جانے کاحکم دے دیا اور ان کے بارہ میں اشتہار بھی شائع کیا مگر وجہ صرف یہ تھی کہ وہ پنجوقتہ نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ ان کی مجلسوں میں حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا۔
اب بتاؤ حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکرؓ سے افضل سمجھنے اور حقہ پینے میں سے کون سی بات بڑی ہے؟ لازماً ہر شخص یہی کہے گا کہ حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکرؓ سے افضل سمجھنا بڑی بات ہے اور حقہ پینا چھوٹی بات ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بڑا اختلاف رکھنے کے باوجود ایک شخص کو اپنی بیعت کی اجازت دے دی اور حقہ پینے اور ہنسی ٹھٹھا میں مشغول رہنے پر دوسروں کو مرکز سے چلے جانے کی ہدایت فرمائی حالانکہ ایک دعوت کے موقع پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا انتظام کیا تھا۔ چنانچہ ترکوں کا سفیر حسین کامی جب قادیان میں آیا اور اس کے لئے دعوت کا انتظام کیا گیا تو جماعت کے خرچ پر اس کے لئے سگار اور سگریٹ منگوائے گئے۔ میں اس وقت چھوٹا تھا مگر مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مجلس میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے ذکر کیا کہ یہ لوگ سگریٹ کے عادی ہوتے ہیں اگر ہم نے کوئی انتظام نہ کیا تو اسے تکلیف ہوگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کوئی حرج نہیں اس کے لئے سگریٹ منگو الئے جائیں کیونکہ یہ ایسی حرام چیزوں میں سے نہیں جیسے شراب وغیرہ ہوتی ہے۔ پس آپ نے وہ چیز جو اس قسم کی حرمت نہیں رکھتی جیسے شراب اپنے اندر حرمت رکھتی ہے۔ استعمال کرنے پر تو ایک شخص کو جماعت سے خارج کر دیا اور وہ جس نے یہ کہا تھا کہ میں حضرت ابوبکرؓ سے حضرت علیؓ کو افضل سمجھتا ہوں ۔ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ حضرت علیؓ سے افضل ہیں اسے بیعت کرنے کی اجازت دے دی۔ درحقیقت بعض باتیں وقتی فتنہ کے لحاظ سے بڑی ہوتی ہیں حالانکہ وہ اصل میں چھوٹی ہوتی ہیں۔ اور بعض باتیں وقتی فتنہ کے لحاظ سے چھوٹی ہوتی ہیں حالانکہ اصل میں بڑی ہوتی ہیں۔ پس وقتی فتنہ کے لحاظ سے کبھی بڑی بات کونظر انداز کر دیا جاتا ہے اور چھوٹی بات پر ایکشن لے لیا جاتا ہے مگر ان لوگوں نے کبھی عقل سے کام نہیں لیا۔ ان کا مقصد صرف اعتراض کرنا ہوتا ہے لیکن میں کہتا ہوں اگر وہ ہماری اس تنظیم کو دیکھ کر برا مناتے ہیں تو تم انہیں برا منانے دو اور خود سلسلہ کے لئے ہر قسم کی قربانیوں میں بڑھتے چلے جاؤ۔ خداتعالیٰ تم سے یہ کبھی نہیں کہے گا کہ تم نے ان کا دل کیوں دُکھایا بلکہ وہ تم پر خوش ہوگا اور تمہیں ثواب دے گا۔ بے شک ہم چاہتے ہیں کہ وہ حسد کی آگ میں نہ جلیں بلکہ جس جنت کے ہم وارث ہیں اسی جنت کے وہ بھی وارث بن جائیں لیکن اگر انہیں اس جنت میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ملی تو گو ہم پھر بھی یہی دعا کریں گے کہ خدا انہیں ایمان نصیب کرے۔ لیکن اگر انہیں ایمان نصیب نہ ہو تو ہم ان کے لئے اپنا ایمان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ ‘‘
(الفضل 13 ستمبر 1961ء)


23
صرف دوسروں پر ہی اعتراض نہ کرو بلکہ اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دو
(فرمودہ6ستمبر 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ منتظم مساجد کو چاہیئے کہ لاؤڈ سپیکر کے متعلق ایسا انتظام کریں کہ یا تو یہ خطبہ سے پہلے لگا کرے اور یا پھر نہ لگا کرے۔ رسول کریم ﷺ نے خطبہ کے وقت تمام حرکات اور افعال کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن ہمارے یہاں دھڑلّے سے کام ہوتا ہے اور ذرا پرواہ نہیں کی جاتی۔ پس یہ لاؤڈ سپیکر یا تو پہلے لگ جایا کرے اور یا بالکل نہ لگا کرے۔ یہ اپنی ذات میں کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کی وجہ سے محمد مصطفےٰ ﷺ کے احکام کو توڑ دیا جائے۔
اس کے بعد میں جماعت کی توجہ ایک ایسے واقعہ کی طرف پھرانا چاہتا ہوں جو آج ہی قادیان میں ہؤا ہے۔ میں اپنے کمرہ (دفتر) میں بیٹھا ہؤاتھا کہ مجھے کچھ نعروں کی آواز سنائی دی۔ پہلے تو وہ نعرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور میرے متعلق زندہ باد کے تھے اس کے بعد کچھ اور الفاظ تھے جو میں صحیح طور پر نہیں سن سکا مگر اس قسم کے تھے کہ ایسے ناظر ہمیں نہیں چاہئیں۔ میں نے دفترڈاک کے ذریعہ ان لوگوں کے حالات معلوم کرائے ہیں جو بازار میں بیٹھتے ہیں یعنی دکانوں وغیرہ والے ۔ ایسے لوگوں کی دس گیارہ شہادتیں میرے پاس آئی ہیں جن سے اصل واقعات پر روشنی پڑتی ہے۔ یوں تو مجھے کل شام سے ہی یہ پتہ تھا کہ اس قسم کا مظاہرہ ہو نے والا ہے۔ میں نے اطلاع دہندہ کو منع کر دیا تھاکہ اس میں کوئی دخل نہ دیں اور واقعہ ہونے دیں لیکن مجھے جس رنگ میں اطلاع تھی اس سے کسی قدر فرق کے ساتھ یہ ہؤا ہے۔ مجھے یہ اطلاع تھی کہ سید منظور علی شاہ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ ہمارے مکانات کے گرد چکر لگائیں گے اور نعرے بلند کریں گے۔ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق زندہ باد کے نعرے لگائیں گے پھر میرے متعلق اور پھر یہ کہ ہمیں ایسے ناظر نہیں چاہئیں۔ مجھے جو اطلاع ملی اس میں یہ بات نہ تھی کہ مصری پارٹی اور احراری بھی اس میں شامل ہوں گے اور چونکہ یہ ایک شخص کاانفرادی فعل تھا اور جماعت کا اندرونی معاملہ تھا میں نے نہ چاہا کہ اسے روکا جائے اور میں نے کہا کہ اگر کوئی شخص دیوانگی کی کوئی حرکت کرنا چاہتا ہے تو کرے مگر وقوعہ کسی اور رنگ میں ہؤا ہے اور احراریوں نیز مصری صاحب کے ساتھیوں نے بھی اس میں حصہ لیا ہے اور میرے متعلق مُردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے ہیں اور ان گلیوں میں لگائے گئے ہیں جن میں احمدیوں کی کثرت ہے۔ ایسا ہی واقعہ اگر کسی دوسرے بازار میں جہاں غیراحمدیوں کی کثرت نہیں بلکہ معمولی تعداد بھی ہو اگر احمدیوں کی طرف سے کیا جاتا تو گورنمنٹ بے تاب ہو جاتی لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ حکومت کیا ایکشن لیتی ہے اور اگر اس نے کوئی ایکشن نہ لیا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ایسی حرکات جائز ہیں اور اس لئے اگر احمدیوں نے کبھی ایسا کیا تو حکومت کو اعتراض کا حق نہ ہو گا اور اگر وہ ہم پر اعتراض کرے گی تو دنیاکی نظروں میں ظالم قرار پائے گی۔
اب میں اصل واقعہ کی طرف آتا ہوں یہ فعل کرنے والا احمدی کہلاتا ہے۔ اس کا باپ ایک مخلص احمدی تھا اور اس کی والدہ اس کے والد سے بھی زیادہ مخلص تھی اور انہی کے اخلاص کی وجہ سے میں نے اس معاملہ کے متعلق بھی فوری قدم نہیں اٹھایا۔ورنہ مرکز سلسلہ میں نہیں اور سلسلہ کے نظام کے خلاف نہیں بلکہ علیگڑھ کالج کے منتظمین کے خلاف ایک مرتبہ لڑکوں نے مظاہرے کئے اور نعرے لگائے تو ہمارے بھتیجے مرزا عزیز احمد صاحب بھی ان سے مل گئے وہ اس وقت نوجوان تھے اور طالب علمی کی زندگی تھی ۔ لڑکوں کو شکایت تھی کہ روٹی اچھی نہیں ملتی اس لئے مظاہرے اور ہڑتال کرنے لگے اور مرزا عزیز احمد صاحب بھی ان میں شامل ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس فعل کو اس قدر ناپسند کیا کہ مرزا عزیز احمد صاحب کو جماعت سے خارج کر دیا۔ اللہ تعالیٰ مرزا سلطان احمد صاحب کی مغفرت فرمائے وہ گو اُس وقت غیراحمدی تھے مگر جب سنا کہ مرزا عزیز احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت سے خارج کر دیا ہے تو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا کہ میں تم سے خوش ہو کر تب بولوں گا جب تم پھر بیعت کر کے آؤ گے۔ خیر وہ ایک بچپن کا ابتلاء تھا جو جاتا رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سمجھ دی ، فراست دی، اخلاص دیا اور انہوں نے اپنی بہت سی اصلاح کر لی۔ تو اس قسم کے افعال سلسلہ کی روایات اور تعلیم کے بالکل خلاف ہیں اور ایک ایسے ہی فعل کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پوتے کو جماعت سے خارج کر دیا تھاحالانکہ اس کا وہ فعل نظام سلسلہ کے خلاف نہ تھا بلکہ علی گڑھ کالج کے چند افسروں کے خلاف تھا۔ پس حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے اس عمل کے مطابق اگر میں ان کو جماعت سے خارج بھی کر دیتا تو یہ بالکل جائز ہوتا لیکن ان کے باپ کے اخلاص کی وجہ سے کہ وہ مخلص احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے بھی پہلے کے دوست تھے اور ان کی والدہ کی وجہ سے کہ وہ مخلص، نیک اور متقی خاتون تھیں میں نے کوئی فوری اقدام نہیں کیا اور سب سے پہلے میں ان کو موقع دیتا ہوں کہ 24 گھنٹہ کے اندر اندر اپنے اس فعل پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے توبہ کریں ورنہ پھر مناسب رنگ میں جماعتی طریق پر عمل کیا جائے گا۔ اسی فعل کے سلسلہ میں مَیں مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر کو کمیشن مقرر کرتا ہوں۔ وہ تحقیقات کریں کہ جو دوسرے احراری اور مصری صاحب کے ساتھی ان کے ساتھ شامل ہوئے وہ کیسے ہوئے۔ میں نے سنا ہے انہوں نے ان کو روکا اور کہاتھا کہ تم ہمارے ساتھ کیوں شامل ہوتے ہو۔ مرزا صاحب یہ تحقیقات کریں کہ آیا ان کا روکنا حقیقی رنگ میں تھا اور دوسروں کا شامل ہونا زبردستی تھا اور اس فعل کی تفاصیل کس حد تک سلسلہ کے وقار اور عزت کے منافی یا موافق تھیں۔ جہاں تک اصول کا سوال ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عام فتویٰ میں نے بیان کر دیا ہے ۔ مجھے معلوم نہیں اصل واقعہ کیا ہے اور ان کی شکایات کیا ہیں۔ جہاں تک مجھے خبر پہنچی ہے ان کو چوہدری فتح محمد صاحب کے خلاف کوئی شکایت تھی اور شکایتیں دنیا میں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ بھائیوں کو بھائیوں سے، باپ کو بیٹے سے اور بیٹے کو باپ یا ماں سے، بہنوں کو بھائیوں سے اور بھائیوں کو بہنوں سے بھی شکایتیں ہو جاتی ہیں لیکن ان کی وجہ سے انسان عقل سے باہر نہیں ہو جاتا۔ احمدی جماعت کے لئے ایسے مواقع پر یہ رستہ کھلا ہے ہم نے قضاء کا محکمہ اسی واسطے بنایا ہؤا ہے کہ جب کسی کو کسی کے خلاف کوئی شکایت ہو تو وہ قضاء میں جا سکتا ہے اور اگر شکایت اس قسم کی ہو کہ قضاء اس کا ازالہ نہ کر سکتی ہو تو وہ بہ اجازت سلسلہ عدالت میں جاسکتا ہے اور اگر جُرم قابلِ دست اندازی پولیس ہے تو وہ سلسلہ کو اطلاع دے کر پولیس میں جا سکتا ہے۔ یہ اطلاع اس لئے ضروری رکھی ہے کہ کوئی شخص یہ سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے کہ یہ فعل قابلِ دست اندازی پولیس ہے ۔ ممکن ہے جو اسے قابلِ دست اندازی سمجھے لیکن حقیقتاً وہ نہ ہو ۔ چونکہ انسان اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے اس لئے یہ اطلاع ضروری رکھی ہے کہ تا اگر سلسلہ مناسب سمجھے تو اپنی ذمہ داری پر اسے روک دے۔ اس صورت میں گورنمنٹ کے سامنے جوابدہ سلسلہ خود ہو گا وہ نہیں۔ یہ اصول مقرر ہیں اور جو انہیں تسلیم نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے خود کوئی رستہ تجویز کرتا ہے وہ گویا اپنے فعل سے سلسلہ کا باغی اپنے آپ کو قرار دے لیتا ہے۔ یہ مسجد ہے اور اس میں داخل ہونے کے لئے دروازے ہیں لیکن جو شخص دروازہ سے اندر نہیں آتا بلکہ دیواریں کھودنے لگتا ہے اور کہتا یہ ہے کہ میں مسجد میں آنا چاہتا ہوں اس کے اس دعویٰ کو کوئی شخص سچ نہیں سمجھے گا بلکہ ہر کوئی یہی کہے گا کہ وہ فساد کرنا چاہتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ مقرر کردہ رستہ سے مسجد میں نہیں آتا۔ اسی طرح ہم نے قضاء کا محکمہ قائم کر رکھا ہے جسے کسی سے کوئی تکلیف پہنچے وہ قضاء میں دعویٰ دائر کر سکتا ہے لیکن جو ایسا نہیں کرتا بلکہ کوئی دوسرا طریق اختیار کرتا ہے وہ گویا اپنے فعل سے بغاوت کا اعلان کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی کہے مجھے قضاء پر اعتبار نہیں تو مرافعہ کر سکتا ہے اور دو قاضی اس کا کیس سنتے ہیں پھر اگر ان پر بھی اسے اعتماد نہ ہو تو آخری اپیل خلیفہ خود یا اس کا مقرر کردہ بورڈ جو زیادہ ذمہ دار اور مخلص احمدیوں پر مشتمل ہوتا ہے سنتا ہے اور جو کہے کہ مجھے ان پر بھی اعتماد نہیں تو میں کہوں گا کہ تم جماعت میں شامل ہی کیوں ہو؟ جب یہ ساری جماعت ہی برے لوگوں اور بدمعاشوں کی ہے اگر تم جماعت کو سچا سمجھتے ہو تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ سارے کے سارے غلطی کریں اور دیدہ دانستہ ظلم کریں اور اگر ایک دو سے ظلم کا اندیشہ ہو تو کہیں نہ کہیں پہنچ کر اس کی اصلاح کا یقین ہونا چاہیئے لیکن اگر ساری جماعت میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں کہ جو قابلِ اعتبار ہو تو یہ بڑی بے شرمی کی بات ہے کہ انسان اس جماعت میں شامل ہو جس کے اوپر سے لے کر نیچے تک سب ظالم ہوں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ 1 ۔اگر سارا نظام ہی خراب ہے اور سب ظالم ہیں تو اس میں شامل رہنا گویا دین و دنیا دونوں کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ جب سلسلہ کی طرف سے ایک طریق مقرر ہے تو جو اسے اختیار نہیں کرتا وہ اگر ناواقف ہے تو اسے سمجھانا چاہیئے اور اگر ناواقف نہیں تو بہ تکرار خود سزا کا مستحق ہے۔ چونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور بھی ایسے لوگ ہوں جن کو شبہات ہوں ان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے اگر کسی کو کسی سے کوئی شکایت ہے تو اس کے لئے قضاء کا دروازہ کھلا ہے۔ شکایت خواہ کسی ناظر کے خلاف ہو یا ناظر اعلیٰ کے ، اس میں کوئی استثنیٰ نہیں۔ جسے کوئی تکلیف کسی سے پہنچے وہ قضاء میں جا سکتا ہے اور اگر جرم قابلِ دست اندازی پولیس ہو تو اطلاع دے کر پولیس میں جا سکتا ہے لیکن اس قسم کے مظاہروں کی اجازت کسی صورت میں نہیں دی جا سکتی اور نہ ان کا کوئی فائدہ ہے ۔اگر کوئی شخص نعرے لگانا تو درکنار میرے دروازہ پر بیٹھ کر چیختا رہے تو خواہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختا رہے حتّٰی کہ گلا بیٹھ جائے خواہ ساری عمر نعرے لگاتا رہے اگر میں اس سے متاثر ہو جاؤں تو ان اصول کے مطابق جن کو میں صحیح سمجھتا ہوں میں خلافت کا مستحق نہیں ہوں گا۔ نعرے لگانا تو الگ رہا اگرکوئی فاقہ کشی کرے حتّٰی کہ مر بھی جائے تب بھی اسلامی اصول کے مطابق وہ توجہ کے قابل نہیں کیونکہ یہ نظام میں دخل اندازی ہے۔ یہ ایک قسم کا دباؤ ہے۔ جو اسے قبول کرتا ہے وہ بزدل ہے اور اللہ تعالیٰ کے اعتماد کا ہرگز اہل نہیں۔
مَیں تو حکومت کو بھی یہی مشورہ دیتا رہتا ہوں کہ اگر وہ کانگرس کے کسی مطالبہ کو درست سمجھتی ہے تو اسے پہلے ہی مان لے لیکن اگر وہ صحیح نہیں سمجھتی تو ایک گاندھی چھوڑ ہزار گاندھی بھی فاقے کریں اسے متاثر نہیں ہونا چاہیئے۔ سچائی کو ہر حال میں قبول کرنا حکومت کا فرض ہے۔ اسے کسی بڑے آدمی کے فاقہ کی وجہ سے قبول نہیں کرنا چاہیئے بلکہ سچائی سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔ کانگرس جو بات کہتی ہے اگر وہ درست ہے تو گاندھی جی تو خیر لیڈر ہیں اگر کوئی چمار بھی کہے تو اسے مان لینی چاہیئے لیکن اگر وہ بات ناحق ہے تو اسے گاندھی جی کی فاقہ کشی سے ڈر کر نہیں ماننا چاہیئے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتی اور جب میں دنیوی گورنمنٹ کے لئے بھی اس بات کو جائز نہیں سمجھتا تو آسمانی کے لئے کس طرح سمجھ سکتا ہوں ۔اگر ایسی باتوں سے میں متاثر ہو جاؤں تو پھر ایسے سلسلہ کی ضرورت ہی کیا ہے جسے ہم خداتعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں۔ ایسے افعال شریعت کے خلاف ہیں۔ یہ خیال کرنا کہ ایسی باتوں سے مجھ تک آواز پہنچائی جا سکے گی یا میں متاثر ہو جاؤں گا بالکل غلط ہے۔ اگر میں خداتعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں تو ایسی باتوں سے ہرگز متاثر نہیں ہو سکتا اور جو ایسی باتوں سے متاثر ہوتا ہے وہ خداتعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ خداتعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ وہی ہو سکتا ہے جو خداتعالیٰ پر توکل کرے ، جو یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ سلسلہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہےاور خود خداتعالیٰ اس کا حافظ ہے۔ ہمارا کام خداتعالیٰ کی عظمت کو قائم کرنا ہے نہ کہ اپنی نیک نامی ۔ اگر ہمیں اپنی نیک نامی مطلوب ہو تو اس سلسلہ میں رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر آج ہم کانگرس میں شامل ہو جائیں تو ہماری کتنی نیک نامی ہو سکتی ہے، اگر آج حکومت کے خلاف ہو جائیں تو آزاد طبقہ بوجہ اس کے کہ ہم ایک منظم جماعت ہیں ہماری کتنی قدر کرے گا؟ اگر وہی رسوم اور بدعات کی تائید کرنے لگیں جو غیراحمدیوں میں رائج ہیں تو کس طرح وہ خوش ہو کر ہماری تعریفیں کریں گے؟ پس دنیا میں نیک نامی کے وہی ذرائع ہیں جو خداتعالیٰ اور اس کے سول سے دور پھینکتے ہیں اور ان کو قبول کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ ہماری نیک نامی اسی میں ہے جس میں خداتعالیٰ خوش ہو ،چاہے دنیا میں کتنی بدنامی ہو۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو لوگ عمر بھر پاگل کہتے رہے لیکن اگر وہ ان باتوں کو اختیار کر لیتے جن سے لوگ خوش ہوتے تو سب ان کی تعریفیں کرتے۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کو لوگوں نے پاگل کہا مگر کیا وہ ان باتوں سے ڈر گئے؟ پس مومن ان چیزوں سے کبھی نہیں ڈرتا اور جو مومن ہو وہ ان چیزوں سے ڈراتا بھی نہیں اور ایسے نعرے اور مظاہرے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ڈرایا جائے۔ لیکن جو شخص ایسا کرتا ہے وہ مجھے کس چیز سے ڈرانا چاہتا ہے؟ کیا اس سے کہ جماعت مرتد ہو جائے گی؟ لیکن اگر میں کسی وقت بھی جماعت کے علیحدہ ہو جانے سے ڈر جاؤں تو اسی وقت کافر ہو جاؤں۔ کیا اگر میں جماعت کی قدر او رعزت کرتا ہوں تو اس وجہ سے کہ یہ لاکھ دولاکھ لوگ ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس وجہ سے کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بات کہتے ہیں لیکن اگر وہ خداتعالیٰ کی بات کہنا چھوڑ دیں تو وہ بھی ایسے ہی ہو جائیں گے جیسے دوسرے غیراحمدی اور پھر میرے نزدیک ان کی کیا عزت ہو سکتی ہے؟ایسے وقت میں انسان کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی رائے اپنے متعلق بدلنے کی کوشش کرے اور اس کے لئے نعروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اپیل رات کی تاریکیوں میں اور اس کے آگے سجدوں میں گر گر کر رونے کی صورت میں ہوتی ہے۔
اس کے بعد ایک اور معاملہ ہے جس کے متعلق بھی میں اپنے خیالات کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں اور وہ بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی کی تلاشی کا واقعہ ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس معاملہ میں بھی امور عامہ سے کچھ بے احتیاطیاں ہوئی ہیں۔ اصل واقعات کے متعلق میں ابھی کوئی بات کرنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ ابھی زیر تحقیق ہیں تاہم اس حدتک میں تحقیقات کر چکا ہوں کہ امور عامہ سے بعض غلطیاں ہوئی ہیں یا اگر محتاط الفاظ استعمال کروں تو بعض بے احتیاطیاں ہوئی ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ ان پر متنبہ ہوتے ان میں ایک چِڑ سی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے متعلق بھی میں ایک کمیشن مقرر کرنے والا ہوں۔ امور عامہ سے میں جواب طلبی کر چکا ہوں اور کاغذات میرے پاس پہنچ چکے ہیں۔ ممکن ہے امور عامہ کے پاس کچھ اور دلائل بھی ہوں جو اس نے ابھی پیش نہ کئے ہوں اور کمیشن کے سامنے پیش کریں ۔ بہرحال جو جواب امور عامہ کی طرف سے دیا گیا ہے اس کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ بے احتیاطی سے کام لیا گیا ہے۔ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور اس لئے ہم ان اصولوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو خداتعالیٰ نے مذہبی جماعتوں کے لئے مقرر کئے ہیں۔ ہم کوئی مادر پدر آزاد جماعت نہیں ہیں کہ اپنے لئے خود کوئی قانون بناتے پھریں بلکہ ہمارے قانون اسلامی ہیں جن کو خداتعالیٰ نے بنایا ہے۔ اور خداتعالیٰ نے جو قانون انبیاء کی جماعتوں کے لئے مقرر کئے ہیں ان میں ان لوگوں کی خاص طور پر عزت قائم کی گئی ہے جو ابتداء میں ایمان لائے اور قربانیاں کرتے رہے اور یہ ایک ایسا حق ہے جسے ہم کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ دنیوی جماعتیں پرانے لوگوں کو نظرانداز کر سکتی ہیں اور کہہ سکتی ہیں کہ اب ہم میں زیادہ عقلمند اور زیادہ صاحب حیثیت لوگ شامل ہو گئے ہیں مگر خداتعالیٰ کی مقرر کردہ جماعتیں ایسا نہیں کر سکتیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہؓ اور سَابِقُوْن کا خاص درجہ قرار دیا ہے جس کی نظیر دنیوی جماعتوں میں نہیں مل سکتی۔ یہ حقوق صحابہؓ کو اتنے یاد کرائے جاتے تھے کہ وہ جوش کی حالت میں بھی ان کو نہ بھول سکتے تھے۔ جب باغی حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے کے لئے دیوار پھاند کر ان کے مکان کے اندر داخل ہوئے تو ان میں ایک غلطی خوردہ نوجوان حضرت ابوبکرؓ کا لڑکا بھی تھا وہ آگے بڑھا اور اس نے حضرت عثمانؓ کی داڑھی کو پکڑ لیا۔ حضرت عثمانؓ نے ا سکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا اور کہا کہ ابوبکرؓ اس جگہ پر یہ کام نہ کر سکتا۔ اور کسی سے آپ نے کچھ نہیں کہا لیکن اسے یہ بات کہی اور اس کا اس پر یہ اثر ہؤا کہ وہ فوراً وہاں سے لوٹ گیا۔ وہ حضرت عثمانؓ کا شدید ترین مخالف تھا اور لوگوں کو آپ کے خلاف ابھارتا پھرتا تھا۔ وہ خود نیک تھا مگر دھوکا میں آ چکا تھا اور سمجھتا تھا کہ اسلام کو آزاد کرا رہا ہے اور اس کانٹے کو نکال رہا ہے جو اسلام کی بغل میں چبھا ہؤا تھا لیکن عین اس وقت جبکہ وہ انتہائی جوش کی حالت میں تھا حضرت عثمانؓ نے اسے یہ یاد دلایا کہ ابوبکرؓ بھی یہ جرأت نہ کر سکتا جو تم کرنے لگے ہو تو اس پر اتنا اثر ہؤا کہ وہ پیچھے ہٹا اور فوراً لوٹ گیا۔ جہاں تک بھائی عبدالرحمن صاحب کے مکان کی تلاشی کا سوال ہے اس میں کسی کی ذمہ داری نہیں۔ تلاشی گورنمنٹ کا حق ہے اور اگر وہ قانون کے مطابق کسی کی تلاشی لیتی ہے تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں۔ تلاشی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی ہوئی تھی تو کیا بھائی عبدالرحمن صاحب آپؑ سے بھی بڑے ہیں۔ پس تلاشی لینے پر ناراضگی کا اظہار عبث ہے۔ گورنمنٹ کا حق ہے کہ کسی پر شبہ ہوتو اس کی تلاشی لے لے اور ہمار احق نہیں کہ اس کے اس حق میں دست اندازی کریں۔ ہاں اگر وہ تلاشی لینا ناجائز ہو تو بعد میں اس کے خلاف پروٹسٹ کیا جا سکتا ہے لیکن اس وقت یہی فرض ہے کہ قانون کی پابندی کرتے ہوئے افسروں کو اپنے فرائض بجا لانے کا موقع دیں۔ اگر ہم جانتے ہیں کہ کوئی شخص قاتل نہیں تو ہم حکومت کو اسے پھانسی دینے سے ہرگز نہیں روکیں گے بلکہ اسے پھانسی چڑھنے دیں گے مگر بعد میں پروٹسٹ ضرور کریں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ یہ ظالمانہ فعل ہے۔ پس جہاں تک تلاشی کا سوال ہے اس میں ناراضگی کا کوئی پہلو نہیں۔ اس کی وجہ سے اگر کسی کی غیرت کو ٹھیس لگتی ہے تو اس کی کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آ سکتی اور نہ اعتراض کا کوئی موقع ہے۔ اس کے علاوہ امور عامہ پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس نے صحابہ کے مقام کو نہیں سمجھا۔ اگر صحابہ کا جائز اعزاز قادیان میں نہ ہو اور سلسلہ کے محکمے نہ کریں تو یہ ہمارے لئے رونے کا مقام ہے ۔ اس کے باوجود میں لوگوں کو متنبّہ کروں گا کہ خودبخود کوئی نتائج نہ نکالیں۔ اس نے کس حد تک غلطی کی ہے اس کی میں تحقیقات کر رہا ہوں۔ ابھی میں اس کی کوئی غلطی بتاتا نہیں ہوں اس کا فیصلہ کمیشن کرے گا جو میں مقرر کرنے والا ہوں۔ اس وقت میں صرف احتیاط کے پہلو کو لیتا ہوں اور صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ خداتعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھائی عبدالرحمن قادیانی اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے جب دنیا آپ کو کافر اور فاسق و فاجر کہہ رہی تھی اور خون کی پیاسی تھی۔ وہ ایسے تکلیف کے وقت میں آپؑ کے ساتھ رہے اور اگر آج ہمارے نوجوان ایسے لوگوں کا اعزاز نہ کریں تو میں یہ کہوں گا کہ ان میں غیرتِ ایمانی بہت کم ہے۔ ناظر امور عامہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے والد بھی جو بہت نیک اور مخلص انسان تھے اور میرے خسر تھے ابھی وہ بھی ایمان نہیں لائے تھے جب بھائی عبدالرحمان قادیانی خدمات بجا لا رہے تھے۔ ہم ابھی بچے تھے اور پوری طرح ہوش بھی نہ سنبھالا تھا جب ہم نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمات بجا لاتے اور آپؑ کے گرد پروانہ وار فدا ہوتے دیکھا۔ یہ آپؑ کی تکلیف کی گھڑیوں اور مصیبت کی ساعتوں میں ساتھ رہے اور اگر ایسے لوگوں کا اعزاز قائم نہ ہو تو میں مجبور ہوں گا کہ ایسے لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لوں ۔ ہمارے تمام محکمے سلسلہ کی عزت کے قیام کے لئے ہیں نہ کہ انصاف کے ایک غلط نام کی پیروی کے لئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو فعل ہؤا ہے وہ ناجائز ہؤا ہے۔ میں اس یقین کے وجوہ رکھتاہوں کہ جو فعل ہؤا اس کی تمام تر ذمہ داری ایک فریق پر نہیں لیکن یہ بہرحال دکھ کی بات ہے کہ قادیان میں وہ حزم اور احتیاط نہ برتی جائے جو صحابہ کے متعلق برتی جانی چاہیئے۔ میں تو وہ شخص ہوں کہ جن لوگوں نے اپنے فعل سے اپنے آپ کو صحابیت سے خارج کر لیا ان کے خلاف بھی میں نے کبھی کسی کو کوئی کام نہیں کرنے دیا۔ مولوی محمد علی صاحب یہاں سے جاتے ہوئے قریباً تین ہزار کی کتابیں لے گئے ۔ قاضی امیر حسین صاحب مرحوم میرے پاس آئے کہ ان کو روکنا چاہیے مگر میں نے کہا کہ میں ان کو روکنا نہیں چاہتا۔ پھر مجھے معلوم ہؤا کہ بعض بچے آپس میں کہہ رہے تھے کہ آؤ ان پر کنکریاں پھینکیں اور میں نے ان کو سختی سے ڈانٹا اور مولوی صاحب کو کہلا بھیجا کہ آپ کوئی فکر نہ کریں میں ذمہ دار ہوں کہ کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکے گا اور اگر کوئی کچھ کہے تو میں ہر سزا کے لئے تیا رہوں ۔گو بعد میں اس واقعہ کو بہت رنگ آمیزی سے پیش کیا جاتا رہا اور کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہی ہے ۔ تو جن لوگوں نے اپنے فعل سے اپنے آپ کو صحابیت سے خارج کر لیا میں آج تک ان کا بھی احترام کرتا ہوں ۔ ان کی طرف سے مجھ پر گندے سے گندے الزامات لگائے گئے۔ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے متعلق میرے پاس بھی ایسی روایات پہنچیں مگر میں نے ان کی اشاعت کو کبھی پسند نہیں کیا۔ پس اگر ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی عزت کو قائم کرنا ہمارا فرض ہے اور وہ کی جائے گی۔ دشمن ان باتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چنانچہ یہاں کے ہندوؤں نے رات کے وقت ایک ہندو لڑکے کو بھائی جی کے لڑکے کے پاس بھجوایا کہ آپ لوگوں پر بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ اگر آپ واقعات بتائیں تو ہم ہندو اخبارات میں چھپوا دیں گے۔ بھائی جی کا بیان یہ تھا کہ صبح ہی انہوں نے آ کر مجھے کہا کہ رات ہمارے ہاں شیطان آیا تھا۔ ان کی یہ باتیں ایک اچھا نمونہ تھا مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان کا سارا نمونہ اچھا نہ تھا۔ اگر وہ اس ابتلاء سے بے داغ نکلتے تو مجھے بڑی خوشی ہوتی مگر افسوس ہے کہ وہ بے داغ نہ نکلے۔ مجھے متعدد رپورٹیں پہنچی ہیں کہ وہ راتوں کو گلی کوچوں میں یہ شور کرتے پھرے کہ
اے منارے والے! ہم نے تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہے ۔ ان کا یہ فعل بہت ہی ناجائز ہے۔ کیا ان کی یہ تلاشی اس وجہ سے ہوئی ہے کہ وہ احمدی تھے پھر میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ منارے والے کی خاطر کس طرح ہؤا؟ کسی نے جھوٹ یا سچ یہ الزام لگایا کہ ان کے لڑکے نے چوری کی ہے۔ اگر یہ الزام سچ ہو تو بھائی جی کے یہ کہنے کے معنے گویا یہ ہوئے کہ منارے والا نَعُوْذُ بِاللہِ چوریاں کرواتا تھا اور اگر یہ نہیں تو پھر اس کے لئے یہ با رکس طرح اٹھایا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاطر اس میں کیا بات تھی۔ یہ فرض کر لو کہ امور عامہ سے بے احتیاطی ہوئی مگر کیا اس نے یہ اس لئے کہا کہ بھائی جی صحابی تھے؟ ہرگز نہیں۔ بھائی جی خود بھی یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ اس بے احتیاطی کی وجہ یہ تھی کہ ناظر امور عامہ کٹر احراری تھے اور چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی کی بے عزتی ہو۔ اپنے انتہائی غصہ کے باوجود بھائی جی یہ بات نہیں کہہ سکتے۔ پس یہ ان کی غلطی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ آج کے مظاہرہ کی ذمہ داری ان پر ہے۔ اگر وہ ایسے ذمہ داری کے مقام پر ہوتے ہوئے یہ شعر نہ پڑھتے پھرتے تو آج کا مظاہرہ نہ ہوتا۔ ہم ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی نوجوانوں کے لئے نمونہ ہیں جس کی انہیں پیروی کرنی چاہیئے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور میرا نام وضاحت سے گو نہ لیا تھا مگر آج کا مظاہرہ کرنے والے نے لیا۔ پس جہاں مجھے افسوس ہے کہ ایسے صحابی کا جس نے بڑی خدمات کا موقع پایا اور جس کی ہتک کو میں اپنی ہتک سمجھتا ہوں مناسب عزت قائم نہ کی جا سکی۔ وہاں مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ بھائی جی اس ابتلاء سے بے داغ نہ نکل سکے۔ اگر ان کی تلاشی ہوئی تو کیا تھا؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تلاشی نہ ہوئی تھی؟ ان کو چاہیئے تھا کہ ہنستے ہوئے اس واقعہ پر سے گزر جاتے۔ ان کو شکایت لے کر میرے پاس آنا بھی نہ چاہیئے تھا۔ وہ دوسرے دن میرے پاس آئے حالانکہ میں اس وقت تمام تحقیقات کر چکا تھا۔ انہوں نے آ کر خود اپنی سُبکی کرائی۔ جو بات میں ان کے آنے سے بھی پہلے کر چکا تھا اس کے لئے انہیں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اپنے مقام کے لحاظ سے انہیں اس بات کے لئے میرے پاس آنا بھی نہ چاہیئے تھا۔ اور خداتعالیٰ پر توکّل کرنا چاہیئے تھا۔ ان کی شان یہ تھی کہ دل میں بھی اس بات کا کوئی احساس نہ کرتے اور لب پر ذکر تک نہ لاتے۔ اگر ان کے بیٹے سے ایسا فعل ہؤا تو کیا اس سے ان کی عزت میں کوئی فرق آ سکتا ہے؟ اور اگر نہیں ہؤا تو ان کی عزت اور بھی بڑھ جاتی۔ رسول کریم ﷺ کے عشرہ مبشرہ میں سے ایک کا لڑکا امام حسینؓ کا قاتل تھا۔ ان کے بیٹے کے افعال کی ذمہ داری ان پر نہیں آ سکتی۔ اگر ان کا بیٹا مجرم ثابت نہ ہوتا تو ان کی عزت زیادہ ہو جاتی نہ کہ کم۔ چونکہ وہ ایسے مقام پر ہیں کہ ان کے فعل سے دوسرے بھی غلطی کر سکتے ہیں اس لئے مجھے یہ بات کہنی پڑی۔
مَیں آدھی رات کے وقت دفتر سے کام کر کے گھر آیا میری بیوی بیمار تھیں انہوں نے کہا کہ آپ نے کچھ سنا؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ بچے گھبرائے ہوئے آئے تھے کہ بھائی عبدالرحمن صاحب کی تلاشی ہو رہی ہے۔ میں نے تکلیف کے ساتھ رات گذاری اور صبح اٹھتے ہی تحقیقات شروع کرا دی اور ان کے آنے سے پہلے جس حد تک میرا فرض تھا تحقیقات مکمل کر چکا تھا اور اپنے ذہن میں ایک نتیجہ پر پہنچ چکا تھا۔ پس ان کو تو میرے پاس آنے کی بھی ضرورت نہ تھی۔ شکایت لے کر تو وہ آتا ہے جسے اعتبار نہ ہو۔ جسے اعتبار ہو وہ شکایت کرتا ہی نہیں۔ ایسے معاملہ کے متعلق شکایت کی ضرورت ہوتی ہے جو مخفی ہو یا پھر وہ شکایت کرتا ہے جس کے دل میں گھبراہٹ ہو لیکن یہاں تو میں ان کے آنے سے قبل اپنے ذہن میں اس فیصلہ پر پہنچ چکا تھا کہ کمیشن بٹھا کر اس معاملہ کی تحقیقات کراؤں گا۔
اس کے بعد میں پھر امور عامہ اور دوسرے محکموں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس لئے بنائے گئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور شعائر اللہ کی عزت قائم کریں۔ اس لئے نہیں کہ بے احتیاطی کے ساتھ ان چیزوں کے خلاف کوئی اقدام کریں۔کسی شخص کا ناظر امور عامہ ہونا یا میرا رشتہ دار ہونا اسے کسی سرزنش یا سزا سے نہیں بچا سکتا۔ سلسلہ کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے ایسے لوگوں کو سزا دینا میرا فرض ہے۔ خوا ہ وہ کوئی ہو۔ میرا رشتہ دار حقیقی وہی ہے اور حقیقی کارکن بھی وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خدام اور سلسلہ کی عزت قائم کرے۔ جو سلسلہ کی عزت قائم نہیں کرتا، صحابہؓ کی عزت قائم نہیں کرتا اور کارکنوں کی عزت قائم نہیں کرتا وہ میرا دوست یا رشتہ دار ہرگز نہیں۔ تمام محکموں کو چاہیئے کہ ہر کام میں اس بات کو مدنظر رکھیں جس طرح قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ تم جدھر سے بھی جہاد کے لئے نکلو تمہارا منہ قبلہ کی طرف ہونا چاہیئے ۔ 2 اسی طرح ہمارے محکمے بھی جو کام کریں اس میں یہ بات مدنظر رکھیں کہ سلسلہ، سلسلہ کے کارکنوں اور خدام کی عزت قائم ہو اور صحابہ کے اعزاز کا خاص خیال رہے۔ باقی خالص تلاشی پر اگر کوئی ناراض ہوتا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے۔ یہ قانون ہے اور ہمارے مذہب کی یہی ہدایت ہے کہ حکومت کے قانون کا احترام کریں۔ ہاں اگر کوئی افسر قانون کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اسے سزا دلوائی جا سکتی ہے لیکن یہ حق نہیں کہ کوئی حاکم اگر اپنے حق کا استعمال کرتا ہے تو اس پر ناراض ہوں۔ گو یہ ہم ضرور دیکھیں گے کہ اس نے کس رنگ میں اس فرض کو ادا کیا ہے۔ میرے پاس یہ شکایت بھی پہنچی ہے کہ تلاشی لینے والوں نے سختی کی۔ ہم اس کی بھی تحقیقات کریں گے اور اگر یہ بات ثابت ہو گئی تو اس معاملہ میں بھی مناسب کارروائی کریں گے۔ بہرحال تلاشی لینا ایک جائز فعل ہے۔ گو مجھے یہ بھی خیال ہے کہ سلسلہ کے وقار کو صدمہ پہنچانے کے لئے پچھلے دنوں میں معمولی معمولی باتوں پر احمدیوں کی تلاشیاں لی جاتی رہی ہیں حالانکہ ویسے ہی واقعات غیراحمدیوں میں بھی ہوئے مگر کسی کی تلاشی نہیں ہوئی۔ میں ا س بات کی بھی تحقیقات کر رہا ہوں اور اگر میں اس نتیجہ پر پہنچا جو اس وقت میر اخیال ہے تو میں اس کے خلاف بھی آواز اٹھاؤں گا مگر اس کے ساتھ میں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اعمال میں ایسی تبدیلی کریں کہ ان میں سے کسی پر کوئی اعتراض ہو ہی نہ سکے۔ اپنے بُروں کی اصلاح کرے۔ ہمارے پاس بھی بعض لوگوں کے متعلق شکایتیں پہنچتی رہتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی اصلاح ہر احمدی اپنا فرض سمجھے۔ اپنے محلہ کے لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے بیٹے اور بیٹیاں سمجھ کر ہر رنگ میں ان کی اصلاح کا خیال رکھا جائے اور کوشش کریں کہ ایسے لوگ جماعت میں پیدا ہی نہ ہوں جو قابلِ اعتراض افعال کے مرتکب ہوں۔ اگر کوئی ایسا فعل ہو ہی نہیں تو دشمن کو اعتراض کی جرأت ہی نہیں ہو سکتی۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھو۔ صرف دوسروں پر ہی اعتراض نہ کرو بلکہ اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرو اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں کرو کہ وہ ہمیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ ہم بتیس دانتوں میں زبان کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح زبان کے ہر وقت کسی نہ کسی دانت کے نیچے آ جانے کا خطرہ ہوتا ہے اسی طرح ہم بھی ہر وقت دشمنوں کی طرف سے خطرات سے گھِرے ہوئے ہیں اور ان خطرات سے اللہ تعالیٰ ہی ہماری حفاظت کر سکتا ہے۔ پس دعائیں کرتے رہو کہ وہ ہمارا حافظ و ناصر ہو اور ایسے افعال سے بچائے جو دین و دنیا میں ذلیل کرنے والے ہوں اور ایسے ایمان کی توفیق دے جو اس کی نیز دنیا کی نگاہوں میں بھی عزت قائم کرنے والے ہوں۔ ’’ (از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)

1 ہود: 114
2 وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔(البقرۃ: 150)


24
نظام جماعت سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ افراد اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کی اصلاح کریں
خلیفۂ وقت کے مقرر کردہ عہدیداروں کی اطاعت بھی ضروری ہے
(فرمودہ13 ستمبر 1940ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ نظام جہاں اپنے اندر بہت سی برکات رکھتا ہے اور دینی و دنیوی ترقیات کے لئے ایک نہایت ضروری چیز ہے۔ وہاں ا س میں بہت سی پیچیدگیاں بھی ہوتی ہیں اور جتنا نظام بڑھتا چلا جاتا ہے اتنی ہی اس میں پیچیدگیاں بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں جتنی کوئی چیز منفرد اور اکیلی ہو اتنی ہی وہ سادہ ہوتی ہے۔ پس جہاں نظام کے ذریعہ قوموں اور مذہبوں کو فوائد پہنچتے ہیں وہاں اس کی وجہ سے بعض دفعہ غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں اور جو لوگ نظام سے سچا فائدہ اٹھانا چاہیں ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان غلطیوں کی اصلاح کریں اور اصلاح کرتے چلے جائیں۔ اگر ان غلطیوں کی وہ اصلاح نہ کریں تو آہستہ آہستہ وہی نظام جو نہایت مفید ہوتا ہے کسی وقت لوگوں کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔ یہ جو آجکل ڈکٹیٹر شپ نازی ازم اور فیسی ازم رائج ہیں یہ بھی نظام کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں۔ یہ جو کمیونزم اور بالشوزم کہلاتے ہیں یہ بھی نظام کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں۔ ہیں وہ نظام ہی لیکن ان کی کَل ٹیڑھی چل گئی اور کَل کے بگڑ جانے کی وجہ سے ان میں ایسی خرابیاں پیدا ہو گئیں کہ وہ دنیا کے لئے مصیبت اور عذاب بن گئے۔ اسلام نے بھی ایک نظام قائم کیا ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ نہایت ہی اعلیٰ نظام ہے مگر جس طرح باقی نظام پیچیدہ ہیں ویسے ہی وہ بھی پیچیدہ ہے۔ چنانچہ مسلّمہ میں سے ہی وہ ایک گروہ کو اٹھاتا ہے اور اسے اٹھا کر دوسروں کے لئے ان کی اطاعت واجب کر دیتا ہے۔ بعض لوگ غلط فہمی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف خلیفہ ہی واجب الاطاعت ہوتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے صاف طور پر ایسا نظام بتایا ہے جس میں صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ خلیفہ کے مقرر کردہ عہدیدار بھی واجب الاطاعت ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۔ 1 اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ کئے گئے ہیں کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کے بعد اُولِی الْاَمْر کی۔ مگر اس کے معنے یہ بھی ہیں بلکہ قریب ترین معنے یہی ہیں کہ تم اللہ کی اطاعت کرو، تم رسول کی اطاعت کرو اور تم اس زمانہ کے اُولِی الْاَمْر کی بھی اطاعت کرو ۔ گویا اللہ بھی موجود ہے، رسول بھی موجود ہے اور اُولِی الْاَمْر کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ اور یہ وہ معنے ہیں جن کی قرآن کریم کی متعدد آیات سے تصدیق ہوتی ہے۔ مثلاً جہاں خبروں کے پھیلانے کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ کیوں تم ان لوگوں تک خبریں نہیں پہنچاتے جو بات کو سمجھنے کے اہل ہیں اور جن کے سپرد اس قسم کے امور کی نگرانی ہے۔ 2 تو یا وہ ایک جماعت تھی جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں موجود تھی اور لوگوں کو حکم تھا کہ بجائے پبلک میں غیرذمہ دارانہ طور پر خبریں پھیلانے کے اسے پہنچائی جائیں۔ پس یہ آیت بتاتی ہے کہ خود رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو عام لوگوں سے ایک امتیاز رکھتے تھے اور لوگوں کو حکم تھا کہ وہ ضروری باتیں ان تک پہنچائیں۔ پھر ایک اور دلیل اس بات پر کہ اُولِی الْاَمْر کی اطاعت اللہ اور رسول کی موجودگی میں ہی ضروری ہے یہ ہے کہ اللہ کے بعد رسول کی اطاعت نہیں ہوتی بلکہ اس کی موجودگی میں ہی رسول کی اطاعت ضروری ہوتی ہے۔ یہ معنے نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاللہِ فوت ہو جائے تو تم رسول کی اطاعت کرو اور رسول فوت ہو جائے تو اُولِی الْاَمْر کی اطاعت کرو بلکہ اللہ کی موجودگی میں ہی اُولِی الْاَمْر کی اطاعت اور ان کی فرمانبرداری کا حکم ہے۔
ممکن ہے کوئی اعتراض کر دے کہ رسول کی اطاعت کا تو حکم ہؤ امگر خلیفہ کی اطاعت کا کہاں حکم ہے؟ سو ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ خلیفہ رسول کا قائم مقام ہوتا ہے۔ چنانچہ خلیفہ کے معنے نائب کے ہیں مگر وہ نائب اور قائم مقام اُولِی الْاَمْر کا نہیں بلکہ رسول کا ہوتا ہے۔ پس قرآن کریم کا یہ حکم ہے کہ اللہ او ررسول کی اطاعت کرو اور جب رسول فوت ہو جائے تو تم اس کے خلیفہ کی اطاعت کرو اور اس زمانہ میں اُولِی الْاَمْر کی بھی اطاعت کرو کیونکہ کوئی نظام اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک خلیفہ کے مقرر کردہ عہدیداروں کی اطاعت لوگ اپنے لئے ضروری خیال نہ کریں۔ اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَ مَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ۔ 3 یعنی جس نے میرے مقرر کردہ حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی کیونکہ میں ہر جگہ نہیں پہنچ سکتا۔ مجھے لازماً کام کو عمدگی سے چلانے کے لئے اپنے نائب مقرر کرنے پڑیں گے اور لوگوں کے لئے ضروری ہو گا کہ ان کی اطاعت کریں۔ اگر وہ اطاعت نہیں کریں گے تو نظام ٹوٹ جائے گا۔ پس ان کی اطاعت درحقیقت میری اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ۔ تو اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ میں ایک ایسا مکمل نظام پیش کیا گیا ہے جس کے تحت ایک ہی زمانہ میں اللہ کی اطاعت بھی ضروری ہے، رسول کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اگر رسول نہ ہو تو اس کے خلیفہ کی اطاعت ضروری ہے اور اس زمانہ میں اُولِی الْاَمْر کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ اللہ ایک ہے ، رسول ایک ہے، خلیفہ بھی ایک ہی ہو گا لیکن اُولِی الْاَمْر کئی ہو سکتے ہیں اس لئے اُولِی الْاَمْر میں جمع کا صیغہ رکھا گیا ہے کیونکہ یہ کئی ہوں گے اور گو خلیفہ ایک ہو گا مگر اس کے تابع بہت سے عہدیدار ہوں گے۔
یہ اسلامی نظام ہے جسے قرآن کریم پیش کرتا ہے اور وہ امت محمدیہ کو حکم دیتا ہے کہ اُولِی الْاَمْر کی اطاعت کرو لیکن اس میں بعض دفعہ ایک بگاڑ بھی پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ غلطی سے اُولِی الْاَمْر یہ خیال نہیں کرتے کہ لوگوں پر ان کی جو اطاعت فرض ہے وہ اُولِی الْاَمْر ہونے میں ہے، زید اور بکر ہونے میں نہیں، زید اور بکر ہونے میں تو رسول کی اطاعت بھی نہیں۔ یوں تو رسول کا مقام ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہی حکم دیتا ہے کہ اس کی اطاعت کرو مگر خدا نے انہیں جو حق دیا ہے وہ ہر بات میں نہیں اور نہ ہر بات میں انہوں نے کبھی اپنے حق کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً رسول کریم ﷺ کو یہ حق نہیں تھا اور نہ آپ نے کبھی ایسا دعویٰ کیا کہ کسی کی بیٹی کا اپنی مرضی سے کسی دوسرے سے نکاح کر دیں۔ اسی طرح آپ نے کبھی کسی سے نہیں کہا کہ اپنا مکان فلاں کو دے دو بلکہ آپ نے ان امور میں ان کے اختیارات کو بحال رکھا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک لڑکی جو غلام تھی اور اس کا خاوند بھی غلام تھا کچھ عرصہ کے بعد آزاد ہوئی تو اسے شریعت کے ماتحت اس امر کا اختیار دیا گیا کہ چاہے تو وہ اپنے غلام خاوند کے نکاح میں رہے اور چاہے تو نہ رہے۔ اتفاق کی بات ہے بیوی کو اپنے خاوند سے شدید نفرت تھی اور ادھر خاوند کی یہ حالت تھی کہ اسے بیوی سے عشق تھا۔ جب وہ آزاد ہوئی اور غلام نہ رہی تو اس نے کہا کہ مَیں اب اس کے پاس نہیں رہ سکتی۔ خاوند کو چونکہ اس کے ساتھ شدید محبت تھی اس لئے جہاں وہ جاتی وہ پیچھے پیچھے چلا جاتا اور رونا شروع کر دیتا۔ رسول کریم ﷺ نے اسے اس حالت میں دیکھا تو آپ کو رحم آیا اور آپ نے اس لڑکی سے کہا کہ اگر تم اس کے پاس رہو تو تمہارا کیا حرج ہے۔ اس نے کہا یا رسول اللہ یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ؟ آپ نے فرمایا مشورہ ہے حکم نہیں۔ کیونکہ اب تم آزاد ہو چکی ہو اور شریعت کی طرف سے تمہیں اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ چاہو تو تم اپنے غلام خاوند کے پاس رہو اور چاہو تو نہ رہو۔ اس نے کہا یَا رَسُوْلُ اللہ! اگر یہ آپ کا مشورہ ہے تو پھر میں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ مجھے اس سے نفرت ہے۔ 4 تو ذاتی معاملات میں رسول کریم ﷺ کبھی دخل نہیں دیتے تھے۔
اسی طرح خلفاء نے بھی کبھی ذاتی معاملات میں دخل نہیں دیا۔ خود میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری لڑکی کا آپ جہاں چاہیں نکاح پڑھا دیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا مگر باوجود اس کے کہ آج تک مجھے سینکڑوں لوگوں نے ایسا کہا ہو گا میں نے کسی ایک کی بات بھی نہیں مانی۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ مجھ پر کیا آگے ذمہ داریاں کم ہیں کہ اب میں اور ذمہ داریوں کو بھی اٹھا لوں۔ ممکن ہے میں انتخاب میں کوئی غلطی کر جاؤں اور اس طرح قیامت کے روز خداتعالیٰ کے حضور مجھے جوابدہ ہونا پڑے۔ پس میں کیوں اس بوجھ کو برداشت کروں۔ شاید ماں باپ یہ سمجھتے ہوں کہ لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی مگر میرے نزدیک والدین پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اور دعاؤں سے کام لینے کے بعد اپنی لڑکیوں کا نکاح کیا کریں۔ اگر وہ بے احتیاطی سے کام لیں گے تو یقینا وہ خداتعالیٰ کے حضور جوابدہ ہوں گے۔ پس جبکہ نکاح کرانا ایک خاص ذمہ داری کا کام ہے تو بالکل ممکن ہے مجھ سے کسی کے معاملہ میں کوئی بے احتیاطی ہو جائے اور قیامت کے دن باپ تو آزاد ہو جائے اور میں اس کا جوابدہ ٹھہر جاؤں۔ پس باوجود اس کے کہ میرے زمانہ خلافت میں سینکڑوں لوگوں نے مجھے یہ کہا ہو گا کہ آپ جہاں چاہیں میری لڑکیوں کا نکاح کر دیں مجھے اس وقت ایک مثال بھی ایسی یاد نہیں جس میں مَیں نے دخل دیا ہو اور اپنی مرضی سے ان کی لڑکیوں کا کہیں نکاح کر دیا ہو۔ مَیں ہمیشہ انہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ جب مجھے کسی رشتہ کا علم ہؤا تو آپ کو اطلاع دے دوں گا۔ آگے یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ غور کر لیں کہ وہ رشتہ ان کے لئے موزون ہے یا نہیں۔ ایسے موقع پر بعض لوگ اصرار بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے اپنی لڑکیوں کا معاملہ آپ کے سپرد کر دیا ہے مگر میں یہی کہتا ہوں کہ میں اس کے لئے تیار نہیں۔ ہاں جب بھی مجھے رشتوں کا علم ہو گا میں لڑکے آپ کے سامنے پیش کر تا چلا جاؤں گا۔ آپ کو پسند آئیں تو لیتے جائیں اور اگر پسند نہ آئیں تو ردّ کرتے جائیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اُولِی الْاَمْر کو جو حکومت دی ہے وہ ذاتی معاملات میں نہیں قومی معاملات میں ہے۔ رسول کو بھی اورخلیفہ کو بھی اور اُولِی الْاَمْر کو بھی یہ قطعاً حق حاصل نہیں کہ وہ ذاتی معاملات میں لوگوں پر رعب جتائیں۔ مثلاً مجھے یہ حق حاصل نہیں کہ میں جماعت کے کسی آدمی سے یہ کہوں کہ میں چونکہ خلیفہ ہوں اس لئے تم میری نوکری کرو اور جو تنخواہ میں دوں وہ قبول کرو۔ یہ خلافت کا کام نہیں بلکہ ایک دنیوی کام ہے اور دوسرے شخص کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تو انکار کر دے۔ چاہے یہی کہے کہ میں نوکر نہیں ہونا چاہتا اور چاہے یہ کہے کہ جو تنخواہ آپ دیتے ہیں وہ مجھے منظور نہیں۔ اسے کوئی گناہ نہیں ہو گا کیونکہ شریعت نے ان معاملات میں اسے آزادی بخشی ہے۔ یا فرض کرو میں اپنا مکان بنانے کے لئے کسی دوست سے کوئی زمین خریدنا چاہتا ہوں تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اگر چاہے تو انکار کر دے مثلاً یہی کہہ دے کہ جو قیمت آپ دینا چاہتے ہیں اس پر میں زمین فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں یا یہ کہہ دے کہ میں زمین بیچنا ہی نہیں چاہتا۔ بہرحال یہ اس کا حق ہے جسے وہ استعمال کر سکتا ہے۔ یہی حال اُولِی الْاَمْر کا ہے۔ ہماری جماعت میں بھی کچھ ناظر ہیں اور کچھ ناظروں کے ماتحت عہدیدار مقرر ہیں۔ ان ناظروں اور عُہدہ داروں کو بھی وہی محدود اختیارات حاصل ہیں جو جماعتی نظام سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں ایسے کاموں کا سوال آ جائے گا جو نظام جماعت سے تعلق نہیں رکھتے وہاں اگر بعض لوگ ان کے کرنے سے انکار کر دیں تو یہ ان کا حق سمجھا جائے گا۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے پاس ایسی رپورٹیں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض آدمی ذاتی کام لیتے وقت اپنے عہدہ کے جتانے کے عادی ہیں اور وہ بات کرتے وقت دوسروں سے کہہ دیتے ہیں کہ تم جانتے ہو میں کون ہوں۔ میں ناظر امور عامہ ہوں یا ناظر تعلیم و تربیت ہوں یا ناظر اعلیٰ ہوں یا فلاں عہدے دار ہوں۔ اس قسم کے الفاظ کا دہرانا یقینا اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے خلاف ہے جس کا اسلام ان سے مطالبہ کرتا ہے۔ ہر شخص جسے خدا نے بعض معاملات میں آزادی دے رکھی ہے اس کے متعلق ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ اس کی آزادی کو سلب کریں۔ رسول کریم ﷺ کی مثال موجود ہے۔ آپ نے ذاتی معاملات میں کبھی دخل نہیں دیا۔ آپ نے بریرہ سے یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ تم میری بات مان لو بلکہ فرمایا کہ یہ میرا ذاتی مشورہ ہے، اسے ماننا یا نہ ماننا تمہارے اختیار کی بات ہے۔ اسی طرح بعض سودے ہوئے جن کے متعلق آپؐ نے صحابہؓ سے یہی فرمایا کہ لوگوں سے مشورہ کر لو اور جو کچھ صحیح سمجھو اس کے مطابق کام کرو۔
تو جماعت کے ذمہ دار کارکنوں کو میں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے عہدے لوگوں کو ڈرانے کے لئے استعمال نہ کیا کریں۔ جو شخص کسی جھگڑے کے موقع پر یہ کہتا ہے کہ تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ میں ناظر امور عامہ ہوں یا ناظر تعلیم و تربیت ہوں یا ناظر اعلیٰ ہوں وہ اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نظارت کو دوسرے معاملات میں بالا سمجھتا ہے حالانکہ نظارت کا اپنا ایک محدود دائرہ ہے۔ اس دائرہ سے باہر اس کے اختیارات نہیں یا سلسلہ کا کوئی مربی اور کارکن ایسے مواقع پر اگر یہ کہتا ہے کہ تم جانتے ہو میں کون ہوں۔ میں سلسلہ کا مربی ہوں یا سلسلہ کا کارکن ہوں تو وہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔ مثلاً دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے ہوں تو اگر ایک ایسا شخص جسے نظام نے لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر نہیں کیا وہاں جا کر کہتاہے کہ میں سلسلہ کا مربی ہوں یا سلسلہ کا کارکن ہوں تو اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا عہدہ دوسروں پر رعب جتانے کے لئے استعمال کیا ہے کیونکہ مربی کا کام لوگوں کی تربیت و اصلاح کرنا ہے نہ کہ جھگڑوں کا فیصلہ کرنا۔ اس کا یہ ہرگز حق نہیں کہ وہ لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے یا اپنا فیصلہ لوگوں سے منوائے۔ ہاں اگر کوئی قاضی ہو تو وہ ایسا کہہ سکتا اور اپنا فیصلہ بھی اس جھگڑے کے متعلق دے سکتا ہے تو یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے۔
پس میں جماعت کے تمام عہدیداروں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس بار ہ میں احتیاط ملحوظ رکھیں اور عَلَی الْاِعْلَان خطبۂ جمعہ میں مَیں نے اس کا اظہار اس لئے کیا ہے تا دوسرے لوگ بھی نگران رہیں اور جب سلسلہ کے کارکنوں میں سے کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کی فوری طور پر میرے پاس رپورٹ کریں۔
میں اس بارہ میں اپنا ہی ایک واقعہ سنا دیتا ہوں جس میں میرا نام ایک موقع پر ناجائز طور پر استعمال کیا گیا تھا مگر جب مجھے معلوم ہؤا تو میں نے اس افسر کو سختی سے ڈانٹا۔ وہ واقعہ یہ ہے جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ہم قادیان کے اردگرد دیہات میں اپنے لئے زمینیں خریدتے رہتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ہماری طرف سے ایک زمین کا سودا ہؤا مگر ابھی یہ سودا ہو ہی رہا تھا کہ ننگل کے ایک شخص نے ہم سے زیادہ قیمت دے کر اس زمین کو خرید لینا چاہا۔ اس پر ہمارے مختار نے اسے کہا کہ تم خلیفۃ المسیح الثانی کا مقابلہ کرتے ہو یہ تمہارے لئے اچھی بات نہیں۔ مجھے جب اس بات کا علم ہؤا تو میں نے انہیں ڈانٹا اور کہا کہ اس میں خلیفۃ المسیح کا کیا تعلق ہے۔ یہ سودا ‘‘خلیفۃ المسیح’’ سے نہیں بلکہ مرزا محمود سے ہو رہا تھا اور دوسرا فریق اس بات کا حق رکھتا تھا کہ اگر وہ چاہے تو سودے سے انکار کر کے کسی دوسرے سے سودا شروع کر دے۔ یہ زمیندارہ معاملہ ہے اور اس میں دوسرا شخص اختیار رکھتا ہے کہ وہ چاہے تو مان لے اور چاہے تو نہ مانے ۔ اس میں خلافت یا خلیفۃ المسیح کا کوئی سوال نہیں اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دوسرے نے خلیفۃ المسیح کا مقابلہ کیا۔ گو اخلاقی طور پر میرے نزدیک دوسرے فریق کی ہی غلطی تھی کیونکہ جب کوئی شخص سودا کر رہا ہو تو دوسرے کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیئے مگر شریعت میں چونکہ یہ بھی مسئلہ ہے کہ جب تک کچھ پیشگی رقم نہ دے دی جائے اس وقت تک سودا مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے دوسرے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو سودے سے انکار کر دے اور کسی دوسرے شخص کو زیادہ قیمت پر دے دے۔ بہرحال ہمارے ملک میں چونکہ عام طور پر لوگوں کو اپنے عہدے جتانے کی عادت ہے جیسے تحصیلدار کہہ دیا کرتے ہیں کہ تم جانتے ہو ہم کون ہیں ہم تحصیلدار ہیں یا ڈپٹی کمشنر کہہ دیا کرتے ہیں تم جانتے ہو ہم کون ہیں ہم ڈپٹی کمشنر ہیں۔ اسی طرح انہوں نے بھی دھمکی دے دی اور کہا کہ تم جانتے ہو یہ سودا خلیفۃ المسیح کر رہے ہیں۔ پس تم کسی اور سے نہیں بلکہ خلیفۃ المسیح کا مقابلہ کر رہے ہو۔ حالانکہ یہ زمین خلیفۃ المسیح نہیں بلکہ مرزا محمود احمد خرید رہا تھا اور مرزا محمود احمد کے مقابلہ میں ایسے معاملات میں ہر شخص خواہ وہ احمدی ہو یا نہ ہو اس بات کا حق رکھتا ہے کہ و ہ اگر چاہے تو انکار کر دے۔ غرض اخلاقی طور پر گو اس سے غلطی ہوئی مگر میں نے پسند نہ کیا کہ میں واقف ہو کر اس کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھا لوں۔ تو لوگ بلا وجہ اپنے عہدوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح جو عہدیدار ہیں ان کی عورتوں کے متعلق میرے پاس شکایات آتی رہتی ہیں کہ وہ بھی دوسروں پر رعب جمانا چاہتی ہیں ۔ گویا جو احترام ناظر امور عامہ کو حاصل ہے وہی ناظر امور عامہ کی بیوی بھی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اور جس طرح ملکہ کو ایک حق حاصل ہوتا ہے اسی طرح وہ بھی اپنا حق جتانا چاہتی ہے۔ حالانکہ ناظر امور عامہ کی بیوی کو کوئی حق نہیں کہ وہ لوگوں پر رعب جتائے۔ وہ جماعت میں محض ایک فرد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر جماعت سے لوگ اس لحاظ سے کہ اس کا خاوند قوم کا ایک خادم ہے اس کی عزت کریں تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ وہ ناظر امور عامہ کی بیوی ہے یا ناظر امور خارجہ کی بیوی ہے یا ناظر ضیافت کی بیوی ہے یا ناظر بیت المال کی بیوی ہے یا ناظر تعلیم و تربیت کی بیوی ہے یا ناظر اعلیٰ کی بیوی ہے اس کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ دوسروں پر رعب جتائے۔ وہ جماعت کا ایک ویسا ہی فرد ہے جیسے کوئی معمولی سے معمولی شخص کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بعض لوگوں کو حکومت اور رتبہ دیا ہے وہ کام کے لحاظ سے دیا ہے اور ان سے تعلق رکھنے والوں کو یہ قطعاً حق حاصل نہیں کہ وہ ان کے رتبہ سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں پر اپنی حکومت جتانی شروع کر دیں۔ (الفضل 27 جولائی 1960ء)
میری جب وصیت شائع ہوئی تو بعض انگریزی اخبارات کے نمائندے مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ ان کے آنے کی بڑی غرض یہ تھی کہ وہ مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے تھے کہ میرے بعد یا تو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب خلیفہ ہوں گے یا میرا بیٹا ناصر احمد۔ وہ بار بار ادھر ادھر کی باتیں کر کے پھر یہی سوال میرے سامنے پیش کر دیتے اور کہتے کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہو گا؟ کیا چوہدری ظفر اللہ خان ہوں گے یا ناصر احمد؟ میں نے انہیں کہا کہ خلافت تو خدا تعالیٰ کی ایک دین ہے۔ اس میں چوہدری ظفراللہ خان اور ناصر احمد کا ویسا ہی حق ہے جیسے ایک نومسلم چوہڑے کا۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے کیا معلوم اللہ تعالیٰ میرے بعد یہ مرتبہ کس کو دے گا۔ کسی بڑے آدمی کو یا ایک معمولی اور حقیر نظر آنے والے انسان کو۔ مگر وہ دنیاداری کے لحاظ سے سمجھتے تھے کہ میرے بعد خلافت کے اہل یا تو چوہدری ظفر اللہ خان ہیں یا ناصر احمد۔ چنانچہ چکر کھا کر وہ پھر یہی سوال کر دیتے کہ اچھاتو پھر آپ کے بعد کیا صورت ہو گی؟ مگر میں انہیں یہی کہتا رہا کہ مجھے کچھ علم نہیں اللہ تعالیٰ میرے بعد یہ نعمت کس کو عطا کرے گا۔ آخر انہیں میرے جوابوں سے اتنی مایوسی ہوئی کہ انہوں نے ملاقات کا ذکر شائع کرتے وقت اس سوال کو ہی اڑا دیا۔ ایک اخبار والے نے تو میرے ساتھ اس سوال پر بڑی بحث کی اور کہا کہ آخر کچھ تو کہیں۔ میں نے کہا میں اس بارہ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ حضرت خلیفہ اول جب فوت ہوئے اور جماعت میں خلافت کے متعلق جھگڑ اشروع ہؤا تو بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ شاید میں نے اپنی خلافت کے لئے یہ جھگڑا کھڑا کر رکھا ہے۔ میں نے اُسی وقت اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا ، ان رشتہ داروں میں میرے بزرگ بھی تھے ، میرے برابر کے بھی تھے اور مجھ سے چھوٹے بھی تھے۔ نانا جان صاحب مرحوم بھی موجود تھے، میرے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب بھی موجود تھے، اسی طرح میرے چھوٹے بھائی بھی تھے اور گھر کے دوسرے افراد بھی۔ میں نے ان سب کو جمع کر کے کہا کہ دیکھو یہ وقت ایسا نہیں کہ ہم ذاتیات کا سوال لے بیٹھیں اس وقت جو لوگ خلافت کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں یہ وہم ہو گیا ہے کہ چونکہ خلافت سے ہم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اس لئے ہم یہ جھگڑا پیدا کر رہے ہیں۔ یہ وہم خواہ کیسا ہی غلط اور بے بنیاد ہو ہمیں اپنے وجود سے سلسلہ میں تفریق پیدا نہیں کرنی چاہیئے اور اگر وہ اس بات پر متفق ہیں کہ کسی نہ کسی کو ضرور خلیفہ ہونا چاہیئے تو اول تو یہی مناسب ہے کہ اس کے متعلق لوگوں کی عام رائے لے لی جائے لیکن اگر انہیں اس سے اتفاق نہ ہو تو ایسے لوگوں کو چھوڑ کر جیسے خواجہ کمال الدین صاحب یا مولوی محمد علی صاحب ہیں کسی ایسے آدمی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر وہ اسے بھی نہ مانیں تو پھر ان لوگوں میں سے ہی کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے۔ میں نے اس پر اتنا زور دیا کہ میں نے اپنے رشتہ داروں سے کہا اگر آپ لوگ میری اس بات کو نہیں مانتے تو پھر میں باہر جاتا ہوں اور باہر جا کر عام لوگوں کے سامنے اپنی اس بات کو پیش کر دیتا ہوں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ سب میری بات پر متفق ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ اول تو یہی کوشش کرنی چاہیئے کہ دونوں فریق کسی ایسے آدمی کے ہاتھ پر اکٹھے ہوں جو واضح طور پر گزشتہ جھگڑوں میں شامل نہ ہؤا ہو اور جو دونوں کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر اتحاد کے خیال سے انہی لوگوں میں سے کسی کو منتخب کر لیا جائے۔ تو میں نے اسے کہا کہ میں نے تو حضرت خلیفہ اول کی وفات پر بھی خلیفہ کے انتخاب میں اسی حد تک دخل دیا تھا اور کسی کا نام بالتصریح نہیں لیا تھا پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ اب میں کسی کا نام لے لوں گا اور اس کے متعلق کہہ دوں گا کہ وہ میرے بعد خلیفہ ہو گا۔ پھر اس میں میری مرضی کا بھی سوال نہیں۔ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جب خلیفہ بنانا خدا نے اپنے ذمہ لیا ہؤا ہے تو میرا اس میں دخل دینا کیسی حماقت ہو گی۔ پھر اس نے کہا کہ کیا آپ کو یہ اختیار حاصل ہے یا نہیں کہ آپ اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں؟ میں نے کہا اختیار تو ہے مگر میں اس اختیار کو استعمال نہیں کرنا چاہتا اور آئندہ کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ حالات کیا صورت اختیار کریں۔ غرض ان کی ساری کوشش اسی امر پر مرکوز رہی کہ میں یا تو اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کے متعلق کہہ دوں کہ میرے بعد وہ خلیفہ ہو گا یا دنیوی لحاظ سے ان کی نگاہ چونکہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب پر پڑ سکتی تھی اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اگر کوئی رشتہ دار خلیفہ نہ ہؤا تو شاید وہ ہو جائیں مگر میں نے انہیں کہا کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں انتخاب کرتا پھروں۔ یہ خدا کا کام ہے اور میں تو محض سلسلہ کے ایک خادم کے طور پر کام کر رہا ہوں۔
غرض ہم میں سے کوئی بھی نہیں جسے اس قسم کا اختیار حاصل ہو ۔ ہمیں جو حکومت حاصل ہے وہ شریعت کے ماتحت اُولِی الْاَمْر ہونے کے لحاظ سے ہے۔ پس جتنا امر ہو گا اتنی ہی حکومت ہو گی اور جو شخص اس حکومت کے دائرہ کو وسیع کرے گا وہ نظام کا دشمن قرار پائے گا۔ پس عام دنیوی معاملات میں دوسروں سے یہ کہنا کہ میں ناظر امور عامہ ہوں یا ناظر اعلیٰ ہوں نظارت کے جامہ کی ہتک ہے۔ وہاں وہ ناظر نہیں بلکہ ایک فرد کی حیثیت رکھے گا اور اسے دوسروں پر کوئی تفوّق حاصل نہیں ہو گا۔ اسلام میں اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خلفاء پر دیوانی نالشیں ہوئیں اور انہیں قضاء میں جواب کے لئے بلایا گیا۔ اب فرض کرو کہ کسی کو میرے خلاف کوئی شکایت ہو مثلاً وہ کہے کہ انہوں نے میرا اتنا روپیہ دینا ہے مگر دیتے نہیں یا اتنا دیا ہے اور اتنا نہیں دیا تو اسے اس بات کا پور احق ہے کہ وہ اگر چاہے تو قضاء میں میرے خلاف دعویٰ دائر کر دے ۔ وہاں مجھے اسی طرح جواب دینا پڑے گا جس طرح ایک عام شخص قضاء کے سامنے جوابدہ ہو تا ہے لیکن جہاں خدا نے مجھے کوئی حق دیا ہے وہاں وہ میرا حق چھین نہیں سکتا۔’’ (از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
پس جماعت کے دوستوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ نظام کی برکتیں اس کی پیچیدگیوں کو حل کرنے سے حاصل ہوتی ہیں ورنہ نظام کے لفظ کا اندھا دھند استعمال خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ جیسے ہمارے مختار نے ایک زمین کے معاملہ میں دوسرے سے کہہ دیا کہ تمہارا مقابلہ خلیفۃ المسیح سے ہے حالانکہ وہاں خلافت کا کوئی سوال نہ تھا بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں میری طرف سے ایک سودا ہو رہا تھا اور ایسی صورت میں دوسرے فریق کا حق تھا کہ وہ اگر چاہتا تو زمین زیادہ قیمت پر دوسرے کو دے دیتا۔ اگر میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا ہوں تو میری حیثیت خلیفہ کی ہوتی ہے، اگر میں جماعت کو کوئی حکم دیتا ہوں تو میری حیثیت خلیفہ کی ہوتی ہے لیکن اگر میں اپنے لئے یا اپنے خاندان کے لئے کوئی زمین خریدتا ہوں تو اس میں میری حیثیت خلیفہ کی نہیں ہوتی اور دوسرا اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ سودے سے انکار کر دے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ترکاری بکنے لگے تو ایک طرف سے میرا آدمی ترکاری لینے کے لئے چلا جائے اور دوسری طرف سے جماعت کا کوئی اور آدمی ۔ اب ایسے موقع پر اگر میرا آدمی دوسرے سے یہ کہے کہ تم ترکاری مت خریدو کیونکہ خلیفۃ المسیح یہ ترکاری لینا چاہتے ہیں تو یہ اس کی غلطی ہو گی کیونکہ جیسے میرا حق ہے کہ ترکاری لوں اسی طرح اس کا حق ہے کہ وہ ترکاری لے۔ اگر وہ پہلے پہنچ جاتا ہے تو یقینااسی کو حق ہے۔ گو بعض دفعہ شریفانہ رنگ میں ایک دوسرے کی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اگر اس کی ضرورت زیادہ اہم ہو گی تو میرا آدمی اپنا حق چھوڑ سکتا ہے اور اگر میرے آدمی کی ضرورت زیادہ ہو گی تو دوسرا اپنا حق چھوڑ سکتا ہے۔
پس جماعت کے عہدیداروں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر چیز کو اس کی حد کے اندر رکھو۔ اگر تم اسے حد سے بڑھا دو گے تو وہ چیز خواہ کتنی ہی اعلیٰ ہو بُری بن جائے گی۔ ایک شاعر کا ایک شعر ہے جو مجھے یاد تو نہیں رہا مگر اس کا مفہوم یہ ہے کہ تِل بڑی خوبصورت چیز ہے لیکن جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو مسّا بن جاتا ہے۔ پس ہر چیز کو اس کی حد کے اندر رکھو۔ نظام کو بھی اور انفرادی معاملات کو بھی۔ اور کبھی اپنے عہدوں کا نام لے کر ذاتی معاملات میں دوسروں پر رعب نہ ڈالو۔’’ (الفضل 27 جولائی 1960ء)
پس جماعت کے عہدیداروں کو میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ رعب کا کوئی جائز طریق نہیں۔ محض ناظر ہونا تمہیں یہ حق نہیں دے دیتا کہ تم درست معاملات میں بھی لوگوں پر اپنی نظارت کا رعب ڈالو۔ رعب ناظر ہونے میں نہیں بلکہ اُولِی الْاَمْر ہونے اور شریعت کے مطابق چلنے میں ہے۔ اگر میری اس نصیحت کے بعد بھی کسی کے متعلق میرے پاس یہ رپورٹ پہنچی کہ اس نے اپنے عہدہ کا ناجائز استعمال کیا ہے تو میں اسے سخت سزا دوں گا۔
اس کے بعد میں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص نے ایک اخبار میرے سامنے پیش کیا ہے جس میں ایک شادی کے سلسلہ میں ایک احمدی عورت کے یہ الفاظ شائع ہوئے ہیں کہ اس کی مثال عائشہؓ جیسی ہے۔ میں نے وہ اخبار خود بھی پڑھا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ یہ غلطی ہے مگر میں نے اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ جب جماعت کے اور دوستوں کے نوٹس میں بھی یہ بات آئی اور انہوں نے اس کے متعلق مجھے بعض خطوط لکھے تو انہیں پڑھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ جیسے دو چار آدمیوں کے دلوں میں یہ شبہات پیدا ہوئے ہیں ممکن ہے ایسے ہی شبہات بعض اور لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوئے ہوں اس لئے ضروری ہے کہ میں اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دوں ۔اگر اخبار میں یہ بات نہ آتی تو اس کی حیثیت بالکل اور ہوتی اور ذاتی طور پر اس کی اصلاح کی جا سکتی تھی مگر اب چونکہ یہ بات اخبا رمیں آ گئی ہے اور اخبار میں آ جانے کی وجہ سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کی نظروں سے یہ بات گزری ہو گی اس لئے میں اس بارہ میں کھلے طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ویسا ہی غلو ہے جیسے ناظر یہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ ناظر ہیں اس لئے دنیوی معاملات میں بھی وہ لوگوں کے حکمران ہیں حالانکہ ان معاملات میں وہ ویسی ہی حیثیت رکھتے ہیں جیسے جماعت کا کوئی اور فرد ، چاہے وہ کیسی ہی ادنیٰ حالت کیوں نہ رکھتا ہو۔ اسی طرح اس معاملہ میں بھی غلو سے کام لیا گیا ہے۔
میرے پاس سال ڈیڑھ سال ہؤا یہ بات پہنچی کہ ہماری جماعت کے دو مبلغ جن میں سے ایک ریٹائرڈ ہیں اور دوسرے ابھی کام کر رہے ہیں مگر وہ دونوں ہی بڑی عمر رکھتے ہیں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ جب ان کی یہ بات لوگوں میں پھیلی تو قادیان میں ایک طوفان بے تمیزی برپا ہو گیا اور میرے پاس رقعوں پر رقعے آنے لگ گئے کہ بھلا بڈھے آدمیوں کو شادی کی کیا ضرورت ہے، انہیں اس بات سے روکا جائے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ بڈھے آدمی کو تو شادی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اسے کسی ایسے مونس و غمگسار ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی خدمت کرے۔ بیوی صرف شہوانی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی بلکہ اور بھی بہت سے کام سرانجام دیتی ہے۔ اگر شادی صرف شہوانی ضروریات کے لئے ہی کی جاتی ہے تو کیا لوگ یہ پسند کریں گے کہ ان کی بیویاں رات کو صرف ایک گھنٹہ کے لئے ان کے پاس آ جایا کریں اور پھر چلی جایا کریں۔ اگر شہوانی ضرورتوں کے لئے ہی شادی ہوتی ہے تو پھر بیوی کا مرد کے پاس رات کو صرف ایک گھنٹے کے لئے آ جانا کافی ہے بلکہ وہ لوگ جن میں یہ قوت نسبتاً کم ہوتی ہے ان کے لئے تو صرف اتنا ہی کافی ہو سکتا ہے کہ ہفتہ میں ایک دفعہ بیوی ان کے پاس ایک گھنٹہ کے لئے آ جائے مگر کیا کوئی بھی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی بیوی ہفتہ میں صرف ایک گھنٹہ کے لئے اس کے پاس آئے او رباقی اوقات میں اس کے پاس نہ رہے۔ اگر نہیں تو معلوم ہؤا کہ شادی صرف شہوانی ضروریات کے لئے ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی جب کوئی شخص شادی کا خواہشمند ہو تو یہ نہیں کہا کرتا کہ شہوانی ضرورت کے لئے میں شادی کرنا چاہتا ہوں بلکہ وہ یہی کہا کرتا ہے کہ ‘‘روٹی ٹک’’ کی بڑی تکلیف ہے ، کہیں رشتہ ہو جائے تو بڑی اچھی بات ہے۔ شہوانی ضرورت کا وہ نام تک نہیں لیتا۔ پس جبکہ ہمارے ملک میں شادی کی ہی اس لئے جاتی ہے کہ روٹی ٹُک کی تکلیف نہ ہو تو کیا بڈھوں کو روٹی ٹک کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اگر ہم غور سے کام لیں تو بڈھے کو تو روٹی ٹک کی زیادہ تکلیف ہوتی ہے کیونکہ وہ اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اس کے لئے ایسے نرم نرم پُھلکے پکیں جو آسانی سے حلق سے نیچے اتر جائیں۔ اسی طرح وہ کبھی حلوہ چاہتا ہے اور کبھی کھچڑی اور خُشکا اور اسے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ گھر میں کوئی روٹی پکانے والی ہو۔ پس یہ ایسی احمقانہ بات تھی کہ جب میرے پاس پہنچی تو میں نے اسے نہایت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔ بے شک اگر کوئی بڈھا کسی لڑکی پر دباؤ ڈال کر جبراً اس سے شادی کرتا ہے تو یہ قابلِ اعتراض امر ہے لیکن اگر ایک عورت یہ سمجھتی ہے کہ وہ ایک بڈھے آدمی کے ساتھ آسانی سے گذارہ کر سکے گی تو اس سے زیادہ کمینہ اور کون شخص ہو سکتا ہے جو یہ کہے کہ بڈھے کو شادی کی کیا ضرورت ہے؟ یہ عورت کا کام ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ وہ ایک بڈھے کے ساتھ گذارہ کر سکتی ہے یا نہیں اور اگر وہ اس بات کا فیصلہ کر لیتی ہے کہ وہ بڈھے کے ساتھ گذارہ کر سکتی ہے تو اسے شادی سے روکنا نہ صرف حماقت ہو گی بلکہ لوگوں میں بداخلاقی اور بے دینی پیدا کرنے والی بات ہو گی۔ اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ تمام بڈھے شہوانی قوتوں سے محروم ہوتے ہیں۔ میں بیسیوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اٹھارہ اٹھارہ انیس انیس سال کی عمر کے ہیں مگر ان میں قطعاً شہوانی قوت نہیں اور میں بیسیوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو ستّر ستّر یا اسّی اسّی سال کے ہیں اور ان کے شہوانی قویٰ نوجوانوں جیسے ہیں یا اچھے خاصے ہیں۔ میں نے طب پڑھی ہوئی ہے اور چونکہ کئی دوست مجھ سے طبی مشورہ لیتے رہتے ہیں اس لئے ایسے حالات میرے سامنے آتے رہتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض آدمی بظاہر بڑے مضبوط نوجوان دکھائی دیتے ہیں مگر طاقتِ مردمی ان میں بالکل نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ ایسے آدمی شکل و صورت سے بھی پہچانے جاتے ہیں مگر بعض دفعہ خود ہم بھی ان کی صورت کو دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں اور جب وہ بتاتے ہیں کہ ان میں ایسی کمزوری پائی جاتی ہے تو حیرت آتی ہے ۔ اس کے مقابلہ میں کئی ایسے بڈھے ہوتے ہیں جو لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں مگر ان کے شہوانی قویٰ خوب مضبوط ہوتے ہیں اور ان کے بچے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ پس یہ بالکل غلط خیال ہے کہ شہوانی قویٰ بڈھوں میں نہیں ہوتے بلکہ دنیا میں بعض امراض ایسے ہیں جن کے نتیجہ کے طور پر بڑھاپے میں انسان کے اندر شہوت بڑھ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ فیصلہ کر دینا کہ بڈھوں کو شادی نہیں کرنی چاہیے انہیں بداخلاقی اور گناہ کے گڑھے میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ جو شخص تقویٰ شعار ہے وہ تو گذارہ کر لے گا مگر جس کے اندر تقویٰ کم ہو گا وہ ناجائز رنگ میں اپنی شہوات کو پور ا کرے گا اور اس طرح نہ صرف اس کو بلکہ تمام قوم کو نقصان پہنچے گا۔ پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خالی شہوانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہی شادی نہیں کی جاتی بلکہ اس لئے شادی کی جاتی ہے کہ ہر انسان کو ایک مونس و غمگسار کی ضرورت ہوتی ہے یا پنجابی محاورہ کے مطابق روٹی ٹک کے لئے انسان شادی کرتا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کی احتیاج جوانی میں ہی نہیں بلکہ بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے۔ پس میں نے لوگوں کی ان باتوں کو نہایت ہی حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور میں نے کہا کہ اگر ہماری جماعت میں ایسی عورتیں موجود ہیں جو بڈھوں کے ساتھ گذارہ کر سکتی ہیں تو ہمیں تو خداتعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہئے کہ ان کو جس چیز کی ضرورت تھی اس کو خدا نے خود اپنے فضل سے پورا کر دیا نہ یہ کہ الٹا ہم ناراض ہوں اور ان کے رستے میں روڑے اٹکائیں۔ پس جہاں ان کے راستہ میں لوگوں کی طرف سے رکاوٹیں ڈالی گئیں انہیں میں نے نہایت ہی ناپسند کیا ۔ وہاں میں نے اس بات پر بھی نہایت بُرا منایا کہ کوئی نوجوان لڑکی کسی بڈھے سے شادی کر کے اپنے آپ کو عائشہ قرار دے لے کیونکہ عائشہؓ اس وجہ سے عائشہؓ نہیں کہ انہوں نے محمد ﷺ سے شادی کی بلکہ اس وجہ سے عائشہؓ ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی امت سے فرمایا کہ تم آدھا دین عائشہؓ سے سیکھو۔ 5 ہم تو کسی کو عائشہؓ کہلانے سے نہیں روک سکتے۔ اگر کوئی عورت ہمیں عائشہؓ کی طرح آدھا دین سکھا دے تو ہم تو سار ادن اسے عائشہؓ ،عائشہؓ کہتے رہیں گے لیکن جب کسی کو دین کی واقفیت نہ ہو اور نہ یہ رتبہ اور مقام اسے حاصل ہو اور پھر وہ عائشہؓ سے اپنی نسبت قرار دے دے تو یہ عائشہ کی ہتک تو کیا ہو گی البتہ اس بات کا ایک ثبوت ہو گا کہ ایسے معاملات میں نہایت دیدہ دلیری سے بات کی جاتی ہے درحقیقت ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں جن سے دشمن کو بعض دفعہ سلسلہ پر اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے اور خود بھی انسانی قلب پر زنگ لگ جاتاہے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک دوست کی کسی دوسرے دوست سے کسی مسئلہ پر بحث ہوئی۔ باتوں باتوں میں وہ نہایت جوش سے کہنے لگے کہ میں نے اپنی تمام زندگی تمہارے اندر گزاری ہے کیا تم مجھ پر کوئی بھی الزام لگا سکتے ہو؟ یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کی بات ہے۔ میں نے جب یہ بات سنی تو میں نے انہیں کہا کہ یہ معیار تو محمد ﷺ کی صداقت کا خداتعالیٰ نے پیش کیا ہے کیونکہ آپ کی تمام زندگی لوگوں کے سامنے گزری تھی اور انہیں معلوم تھا کہ آپ کیا کیا کرتے تھے مگر تمہاری زندگی کا کتنے لوگ مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ تمہارے تو شاید ہمسائے بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ تم کیسی زندگی بسر کرتے ہو ؟ پس جبکہ تمہاری زندگی کا آج تک کسی نے مطالعہ ہی نہیں کیا تو تم لوگوں کو کس طرح چیلنج دے سکتے ہو کہ میں نے اپنی زندگی تم میں گزاری ہے کیا تم کوئی الزام مجھ پر لگا سکتے ہو؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ایک پردہ کے پیچھے بیٹھا ہؤا انسان کہنا شروع کر دے کہ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں کالا ہوں۔ اب ہمیں کیا معلوم کہ وہ کالا ہے یا گورا ہے۔ وہ پردہ سے نکلے تو اس کے متعلق کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جس شخص کی زندگی تاریکی کے پردوں میں چھپی ہوئی ہو وہ یہ دعویٰ کس طرح کر سکتا ہے کہ مجھ پر کوئی شخص الزام عائد نہیں کر سکتا۔ اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کی زندگی پبلک زندگی تھی اور آپ اس بات کا حق رکھتے تھے کہ لوگوں کو چیلنج کریں کہ تم میں سے کوئی مجھ پر الزام عائد نہیں کر سکتا۔ تو یہ غلو ہے جس سے عزت نہیں بڑھتی بلکہ دشمن کو خواہ مخواہ ہنسی کا موقع ملتا ہے۔ اگر کوئی عائشہؓ بننا چاہتی ہے تو وہ عائشہؓ کی طرح ہمیں آدھا دین سکھا دے۔ جس دن ہماری جماعت میں کوئی ایسی عورت پیدا ہو جائے گی جو ہم کو اسی طرح پڑھانے کے لئے تیار ہو جائے گی جس طرح عائشہؓ نے ابوبکرؓ کو پڑھایا، جس طرح عائشہؓ نے عمرؓ کو پڑھایا، جس طرح عائشہؓ نے عثمانؓ کو پڑھایا، جس طرح عائشہؓ نے علیؓ کو پڑھایا اور جب کوئی ایسی عورت پیدا ہو جائے گی جو خود مجھے آ کر دین سکھا سکے گی اس دن میں اس کے متعلق کہہ دوں گا کہ وہ عائشہؓ ہے۔ آخر جب قرآن کہتا ہے کہ اے لوگو! تم محمد ﷺ کی نقل کرو یہاں تک کہ تم محمد ﷺ کا کامل نمونہ بن جاؤ تو ہمارے لئے اس میں کون سی حرج کی بات ہے کہ ہم اپنی عورتوں سے کہیں کہ تم عائشہؓ بنو اور جب کوئی عائشہؓ بن کر دکھا دے تو اسے کہہ دیں کہ وہ عائشہؓ کی طرح ہو گئی۔ لیکن دین کے متعلق تو کوئی واقفیت نہ ہو اور محض ایک بڈھے سے شادی کر کے اپنے آپ کو عائشہؓ قرار دے لیا جائے یہ دین سے تمسخر اور استہزاء ہے۔
پھر بڈھے سے کسی نوجوان لڑکی کا شادی کرنا کوئی ایسی بات بھی نہیں جس کی دنیا میں مثال نہ ملتی ہو۔ موجودہ زمانہ میں ہی دنیا میں ہزاروں ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں اور گذشتہ تیرہ سو سال میں تو اس کی لاکھوں مثالیں مل سکتی ہیں۔ قریب کی مثالوں میں سے مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی مثال ہے۔ ان کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ وہ بڑھاپے تک شادیاں کرتے چلے گئے تھے یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ وفات سے تین چار دن پہلے انہوں نے اپنے بعض شاگردوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں تم میری کوئی اور شادی کرا دو تاکہ سنت نبوی پر عمل ہو جائے۔ ان کے پاس دنیا نہیں تھی صرف دین تھا اور لوگ اسی وجہ سے اپنی لڑکیاں ان سے شادی کے لئے پیش کر دیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی شادی بھی اسی قسم کی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر پچاس سال سے زائد تھی اور ہماری والدہ بہت چھوٹی عمر کی تھیں۔ دلّی والے تو شہروں میں بھی بڑی عمر کے مردوں سے اپنی لڑکیوں کو نہیں بیاہتے سوائے اس کے کہ وہ بہت مالدار ہوں اور گاؤں کے رہنے والوں سے تو شادی کرتے ہی نہیں مگر پھر بھی یہ شادی ہو گئی۔ اسی طرح اور بھی کئی مثالیں مل سکتی ہیں اور تیرہ سو سال میں تو یقینا ایسی لاکھوں مثالیں موجود ہوں گی مگر ان لاکھوں میں سے کوئی بھی عائشہؓ نہیں کہلا سکتی کیونکہ عائشہؓ ان قربانیوں کی وجہ سے عائشہؓ بنی تھی جو اس نے دین کے سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کے لئے کیں اور وہ عائشہؓ اس وجہ سے کہلائی کہ امت محمدیہ نے اس سے نصف دین سیکھا۔ کیا ہی وہ سمجھ دار عورت تھی اور کیسا شاندار اس کا بلند علمی مقام تھا کہ حضرت جعفرؓ کی شہادت پر جب رسول کریم ﷺ نے ایک درد کی حالت میں فرمایا کہ جعفرؓ پر تو رونے والا بھی کوئی نہیں تو صحابہؓ اپنے اپنے گھروں کو گئے اور انہوں نے عورتوں سے کہا کہ اپنے مُردوں پر رونا چھوڑو اور جعفرؓ کے گھر جا کر روؤکیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جعفرؓ پر تو رونے والا بھی کوئی نہیں۔ اس پر مدینہ کی تمام عورتیں جعفر کے گھر اکٹھی ہو گئیں اور انہوں نے بَین ڈالنے شروع کر دیے۔ رسول کریم ﷺ نے سناتو فرمایا کیا ہوا؟ صحابہؓ نے عرض کیا آپؐ نے جو فرمایا تھا کہ جعفرؓ پر رونے والا بھی کوئی نہیں ہم نے اپنی عورتوں کو جعفرؓ کے گھر بھیج دیا ہے اور سب مل کر رو رہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا جاؤ اور ان کو روکو میرا اس سے یہ منشاء نہیں تھا۔ ایک صحابی گیا اور اس نے ان عورتوں کو رونے سے منع کیا مگر وہ کب رکنے والی تھیں۔ انہوں نے کہا تم ہمیں کون منع کرنے والے آئے ہو؟ رسول کریم ﷺ نے خود یہ فرمایا ہے کہ جعفرؓ پر تو رونے والا بھی کوئی نہیں۔ اس نے جب دیکھا کہ وہ کسی طرح خاموش ہونے میں نہیں آتیں تو وہ پھر رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یَا رَسُوْلَ اللہ وہ تو خاموش نہیں ہوتیں۔ آپؐ نے فرمایا ڈالو ان کے مونہوں پر مٹی۔ مطلب یہ تھا کہ تم انہیں ان کے حال پر رہنے دو۔ وہ خود ہی رو دھو کر خاموش ہو جائیں گی مگر اس صحابی نے اپنی جھولی میں مٹی بھر لی اور جا کر ان عورتوں کے مُنہ پر ڈالنا شروع کر دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کاعلم ہؤا تو آپ نے اسے سختی سے روکا اور فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم ان عورتوں کے مُنہ پر مٹی ڈال رہے ہو۔ اس نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ان کے مُنہ پر مٹی ڈالو۔ آپؓ نے فرمایا تم نے رسول کریم ﷺ کا مطلب نہیں سمجھا۔ آپؐ کا تو یہ مطلب ہے کہ اس بات کو جانے دو۔ خود ہی خاموش ہو جائیں گی مگر تم نے مٹی ڈالنی شروع کر دی ہے۔ 6
پھر عائشہؓ وہ تھی جس نے تیرہ سو سال کے علماء کو یہ کہہ کر شکست دی کہ قُوْلُوْا اِنَّہٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ 7 بے شک تم رسول کریم ﷺ کو خاتم النبیین کہو مگر یہ مت کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔۔ ۔ ۔ ’’
(از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
1 النساء: 60
2 وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ؕ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى
اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ ۔(النساء:84)
3 بخاری کتاب الصیام باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ
4 بخاری کتاب الطلاق باب شفاعۃ النبی ﷺ علی زوج بریرۃ
5 البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر جز 3 صفحہ 129 الطبعۃ الاولٰی 1996
مطبع مکتبۃ المعارف بیروت لبنان
6 سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی البکاء علی المیت
7 در منثور جلد 5 صفحہ 386الطبعۃ الاولٰی 1990 مطبع دارالکتب
العلمیۃ بیروت لبنان

25
اذان کے پُرحکمت کلمات میں کامیابی کے
دو عظیم الشان گُر
(فرمودہ20 ستمبر 1940ء بمقام شملہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں قرآن کریم کے دوسرے محاسن بیان کئے ہیں وہاں یہ بھی فرمایا ہے قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا1 کہ یہ عربی قرآن ہے۔ عربی کے معنی فصیح کے بھی ہیں اور یہ عربی زبان کا نام بھی ہے۔ کسی زبان میں کسی کلام کا اترنا بجائے خود کوئی فضیلت نہیں رکھتا۔ ایک بات کو پیش کرنے والے اور اس قوم کی جس کے سامنے وہ بات پیش کی جا رہی ہے اگر وہی زبان ہو تو اس زبان میں بولنا مجبوری ہے۔ مثلاً انگریز انگریزی دان طبقے کے سامنے انگریزی میں تقریر کرے تو یہ کوئی خوبی کی بات نہیں۔ اسی طرح قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا میں اگر عربی کے لفظ کو عربی زبان کی حد تک دیکھیں تو یہ لفظ کوئی خاص خوبی نہیں رکھتا۔ اس لئے یہ لفظ یہاں فصاحت کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے لیکن عربی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے دونوں معنے ہیں اور یہ بھی ایک خوبی ہے۔ عربی میں نام خصوصیتوں کے لحاظ سے ہوتے ہیں اور محض علامت نہیں بلکہ وصف پر دلالت کرتے ہیں۔ اسی طرح عربی کا نام ہے یہ صرف نام نہیں بلکہ اس میں بتایاگیا ہے کہ یہ ایک فصیح زبان ہے۔ یہ صرف عربی کی خصوصیت ہے کہ یہ اپنے مطالب خود بیان کر دیتی ہے۔ عربی میں نام اپنے طبعی فعل کے علاوہ اس کی خصوصیت بھی بیان کر دیتا ہے۔
میرے ذہن میں آج کوئی خاص مضمون خطبہ کے لئے نہ تھا لیکن اذان سنتے ہوئے عربی زبان کی ایک ایسی ہی خصوصیت میرے ذہن میں آئی اور آج کے خطبہ کے لئے ایک مضمون میرے ذہن میں آ گیا اور وہ مضمون حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کے متعلق تھا۔ عربی زبان میں جہاں نام با معنی ہوتے ہیں وہاں الفاظ کے معانی میں مختلف صِلوں سے بھی وسعت پیدا کر دی جاتی ہے اور لطیف اور جدید مضمون پیدا کر دئیے جاتے ہیں۔ چنانچہ جب مؤذن نے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہا تو مجھے خیال آیا کہ عربی میں فاصلے کے لئے ایک اِلٰی کا لفظ ہوتا ہے مگر یہاں عَلٰی آیا ہے۔ چنانچہ عربی میں جب کہنا ہو کہ میں لاہور گیا تو ذَھَبْتُ اِلٰی لَاھُوْرَ یا سَافَرْتُ اِلٰی لَاھُوْرَ کہیں گے اور اِلٰی کا صلہ استعمال کریں گے ۔ یا کہنا ہو میں تیرے پاس آیا جِئْتُ اِلَیْکَ کہیں گے۔ پس مجھے خیال آیا کہ بظاہر حَیَّ کے بعد اِلٰی کا صلہ استعمال ہونا چاہیئے لیکن ہوتا عَلٰی کا صلہ ہے۔ آخر عربوں نے یہ تغیر کیوں کیا اور آنے کے لئے جو اور الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کو چھوڑ کر اذان میں یہ لفظ کیوں رکھا گیا جس کا صلہ عَلٰی استعمال ہوتا ہے؟ یہ سوال پیدا ہوتے ہی میرے دل میں اس کا یہ جواب آیا کہ عَلٰی اِلٰی سے زیادہ قُرب پر دلالت کرتا ہے اور یہ مضمون پیدا کرتا ہے کہ گویا آنے والا اس چیز پر جا پڑا جس کے پاس وہ جانا چاہتا تھا۔ اور یہ حالت کہ انسان دوسری شے پر جا پڑے جلدی، شوق اور بے تابی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس نماز چونکہ ایسی اعلیٰ درجہ کی شے ہے کہ صرف آنے کی طالب نہیں بلکہ یہ چاہتی ہے کہ جس طرح کوئی عاشق محبوب کے لئے بے قرار ہو کر دوڑ پڑتا ہے اسی طرح نماز کے لئے بے تاب ہو کر آؤ اور دوڑتے ہوئے آؤ جیسے کبھی ماں دیر سے اپنے پیارے بچے کو ملتی ہے یا باپ تو وہ صرف ملتے ہی نہیں بلکہ دوڑ کر دوسرے کے سینے پر جا پڑتے ہیں۔ وہ صرف گلے ملنا نہیں ہوتا بلکہ چمٹ جانا ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو جذب کر لینے کی کوشش ہوتی ہے۔ وہی کیفیت اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نماز کے متعلق بندہ کے دل میں پیدا ہو اور اس وجہ سے اذان میں اور الفاظ کی بجائے جو بلانے کے لئے آتے ہیں حَیَّ عَلٰی کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان درمیانی روکوں کو نہ دیکھیں اور بے پرواہ ہو کر نماز کی طرف دوڑے چلے آئیں۔ یہ شوق ہے جو اذان سکھاتی ہے۔ مؤذن صرف نماز کے لئے نہیں بلاتا بلکہ بے تابی اور درمیانی روکوں سے بے پرواہ ہو کر دوڑ پڑنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ وہ ولولہ ہے جو اسلام مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اذان میں جس جوش کا حکم دیا ہے اگر اس طرح نہ کیا جائے تو وہ حقیقی نماز نہ ہو گی۔ چاہیئے کہ شوق سے (نہ کہ جسمانی طور پر دوڑ کر، جسمانی طور پر دوڑ کر نماز کے لئے آنا منع ہے کیونکہ اس سے سانس پھول جاتا ہے اور انسان نماز کی طرف پوری توجہ نہیں کر سکتا۔ نیز جو دوڑ کر آتا ہے پہلے گھر میں بیٹھا رہتا ہے اور عین وقت پر نماز کے لئے چلتا ہے اور یہ شوق کی زیادتی پر نہیں بلکہ شوق کی کمی پر دلالت کرتا ہے) گرتے پڑتے پہنچو اور نماز کو لے لو۔ اس وقت سب کچھ بھول جاؤ اور دماغ میں اور چیزوں کی طرف سے تعطل پیدا ہو جائے۔
پس عربی کی یہ خصوصیت ہے کہ الفاظ چھوٹے ہوتے ہیں مگر مطالب وسیع ہوتے ہیں اور یہی حال قرآن شریف کا ہے بلکہ قرآن کریم نے تو تمام اچھے الفاظ چُن لئے ہیں۔ جس طرح تلوار شمشیر زن کے ہاتھ میں کام کرتی ہے اسی طرح عربی میں سے بھی جو الفاظ خداتعالیٰ نے چُن لئے وہ نہایت وسیع مطالب کے حامل ہیں۔ ایک مثال ہے کہ ایک شمشیرزن نے ایک ہی وار میں گھوڑے کے چاروں پاؤں اڑا دیئے۔ اس ملک کے شہزادے نے جو دیکھا تو سپاہی سے تلوار مانگی کہ مجھے یہ دے دو۔ سپاہی نے نہ دی۔ شہزادے نے بادشاہ سے شکایت کی۔ بادشاہ غصے ہؤا اور سپاہی نے تلوار دے دی لیکن جب شہزادے نے اس تلوار کو استعمال کیا تو گھوڑے کے پاؤں پر اثر بھی نہ ہؤا۔ یہی فرق دوسرے لوگوں کی عربی اور قرآن کریم کی عربی میں ہے۔ بے شک عربی زبان اپنی ذات میں اعلیٰ خصوصیات رکھتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں آ کر وہ خصوصیات ایسی شاندار ہو گئی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس سے اُتر کر ان الہامات کا درجہ ہے جو قرآن کریم کے علاوہ محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئے ہیں جیسے اذان ہے۔
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کے بعد اذان میں حَیَّ عَلَی الْفَلَاح آتا ہے جس کے معنی ہیں کامیابی کی طرف جلدی آؤ، والہانہ آؤ، گرتے پڑتے آؤ۔ ان الفاظ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کامیابی کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ کام کو کل پر ڈال دیتے ہیں حالانکہ مخالف جلدی کرتا ہے اور وہ اپنے کام کو کل پر نہیں ڈالتا کیونکہ اسے ناکامی کا خوف ہوتا ہے۔ وہ یقینا اس کے رستے میں روکیں ڈالے گا۔
آجکل کس زور سے جنگ ہو رہی ہے ۔ ہٹلر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہمارے بادشاہوں کی ناکامی کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ دیر سے تیاریاں کرتے رہتے تھے اور مخالف بھی ان تیاریوں کو دیکھ کر تیاری کرتا تھا ۔ حالانکہ تیاری فوری ہونی چاہیئے اور حملہ اچانک ہونا چاہیئے۔ اسی خیال کے ماتحت اس نے اپنی قوم کو ترقی دی۔ چنانچہ 1934ء سے لے کر پانچ سال کے عرصہ میں اس قدر جلدی ترقی دی کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ اب وہ چاہے ناکام ہو جائے لیکن اس کی تیاری ایسی ہے اور حملہ ایسا اچانک ہے کہ آج الٰہی علم کے بغیر کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ انگریز جیتیں گے۔ ایک معمولی انسان اٹھا اور کس طرح جلدی جلدی اس نے اپنی قوم کو تیاری کرا دی۔ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح میں یہی بتایا گیا ہے کہ اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو جلدی کرو۔ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو۔ بعض دفعہ شیطان وسوسہ ڈال دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنے سے روک دیتا ہے اور اس طرح انسان کئی نیکیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔
پس کامیابی کے حصول کا ایک گُر یہ ہے کہ فوری طور پر نیکی کرو۔ جب خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے اس گُر پر عمل کرنا ضروری ہے تو بندوں کے ساتھ سلوک میں اس سے بھی زیادہ احتیاط سے اس گُر کے استعمال کی ضرورت ہے۔ چنانچہ مسلمان چاہتے تھے کہ مکہ پر فتح پائیں اور کفار بھی مسلمانوں کو گرانا چاہتے تھے اور وہ بھی تیاریاں کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جدھر سے بھی تم نکلو اپنی توجہ مکہ کی طرف رکھو 2 یعنی اگر فتح پانا چاہتے ہو تو اپنے خیالات کا مرکز فتح مکہ بنا لو۔ تب جو جوش تمہارے اس ارادہ میں پیدا ہو گا تم کو فاتح بنا دے گا۔ مسلمانوں نے اس پر عمل کیا اور نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ غالب آئے اپنی قربانیوں اور ایثار کی وجہ سے۔ انہیں مقصود کی محبت تھی وہ بے پرواہ ہو کر لڑے، بے تاب اور والہانہ جوش کے ساتھ لڑے اور غالب آئے۔
پس اسلام سکھاتا ہے کہ وقت ضائع نہ کرو اور جب کوشش کرو تو بے تابانہ کرو، والہانہ کرو اور بے پرواہ ہو کر کرو۔ اور اس بات کو مت بھولو کہ دشمن بھی تیاری کر رہا ہے۔ یہ صرف سیاسی مسئلے نہیں بلکہ مذہبی بھی ہیں۔ تبلیغ میں سست ہونے سے بعض دفعہ نتیجہ خراب ہوتا ہے اور ایک شخص احمدیت کے قریب پہنچ کر ذرا سی سستی سے دور جا پڑتا ہے اور بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ مخالف ہو جاتا ہے۔
نواب سیف اللہ خاں صاحب جو ڈیرہ اسماعیل خان کے رئیس تھے ، اب فوت ہو گئے ہیں ایک دفعہ جلسہ پر آئے مجھ سے بھی ملاقات ہوئی اور باتیں ہوتی رہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ ان پر صداقت کھل گئی۔ ایک دن ان کے میزبان میرے پاس آئے اور پوچھا کہ نواب صاحب نے بیعت کر لی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تو مجھے کہہ کر آئے تھے کہ میں بیعت کرنے جا رہا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے جب ان سے پوچھا تو نواب صاحب نے کہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سچا تسلیم کرتا ہوں اور ان کی ہر بات مانتا ہوں اور بیعت کرنے کے لئے گیا تھا لیکن فلاں شخص جو میرے ساتھ آیا ہے اس نے یاد دلایا کہ وہاں کے لوگوں نے چلتے ہوئے کہا تھا کہ قادیان میں جادو کیا جاتا ہے۔ اب اگر ہم نے بیعت کر لی تو لوگ اس عقیدہ میں پکے ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے میں نے بیعت ملتوی کر دی ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ نواب صاحب چونکہ سلسلہ کا لٹریچر پڑھ رہے تھے مخالفوں نے اس سے ڈر کر کہ کہیں بیعت نہ کر لیں ساتھ ایک ٹھیکیدار کر دیا جو ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے یہ بہانہ بنا کر ان کو بیعت سے روک دیا۔ چنانچہ وہ قادیان سے بغیر بیعت کئے چلے گئے اور آہستہ آہستہ ان کے دل پر زنگ لگ گیا اور وہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی نعمت سے محروم رہ گئے۔ اگر وہ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر عمل کرتے یا کوئی ان کا دوست انہیں اس پر عمل نہ کرنے کے خطرات سے آگاہ کر دیتا تو کبھی ایسا نہ ہوتا۔
عام تجربہ بھی بتاتا ہے کہ جن علاقوں میں تبلیغ شروع کی جاتی ہے پہلے پہلے لوگ جلدی جلدی احمدیت میں داخل ہوتے ہیں لیکن بعد میں مخالفین اپنی شرارتوں سے روکیں ڈال دیتے ہیں۔ پس حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر عمل کرتے ہوئے چاہیئے کہ جلدی کی جائے اور دشمن سے پہلے ہی سارا کام کر لیا جائے اور وہ علاقہ فتح کر لیا جائے۔ علاقہ ملکانہ میں بھی ہماری کامیابی اسی میں تھی۔ اگر اُس وقت مَیں تین چار مولویوں کو بھیج دیتا توکچھ کام نہ ہو سکتا۔ میں نے جماعت سے واقفین کا مطالبہ کیا اور سینکڑوں نے وقف کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ پانچ چھ ماہ میں آریہ ناکام ہو گئے اور صلح کی تجویزیں کرنے لگے۔ گاندھی جی نے برت رکھ لیا۔ ان کی زندگی کو بچانے کے لئے دہلی میں ایک کانفرنس بلائی گئی کہ آپس میں صلح ہو جانی چاہیئے۔ ہمارے کسی آدمی کو نہ بلایا گیا۔ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری جو اَب سخت مخالف ہیں میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ جماعت کی سخت ہتک ہے۔ ہمارا کوئی آدمی انہوں نے نہیں بلایا ان کو توجہ دلانی چاہیئے۔ میں نے کہا کہ کبھی خود بھی عزت کروایا کرتے ہیں۔ وہ ہمارے بغیر صلح نہیں کر سکتے وہ آپ کو بھی بلائیں گے۔ چنانچہ اُسی دن یا دوسرے دن مولانا ابوالکلام صاحب آزاد ، حکیم اجمل خان صاحب اور ڈاکٹر انصاری صاحب کی تار آئی کہ اپنا نمائندہ بھجوائیں۔ مغربی لوگوں نے ایک طریقِ اصلاح ایجاد کیا ہے جسے STATUS COکہتے ہیں۔ یعنے آئندہ لڑائی بند کر دی جائے اور جو کچھ ہو گیا ہے بس اس کو بڑھایا نہ جائے۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ اسی قسم کی صلح کی درخواست پیش کریں گے کہ آئندہ کے لئے دونوں اقوام تبلیغ بند کر دیں۔ حالانکہ اس عرصہ میں آریوں نے بیس ہزار مسلمانوں کو ہندو بنا لیا تھا ۔ میں نے اپنے نمائندوں کو بتایا کہ وہ یہ تجویز پیش کریں گے لیکن تم یہ کہنا کہ اس وقت تک ہندو بیس ہزار مسلمانوں کو ہندو بنا چکے ہیں۔ پس سٹیٹس کو یہ نہیں کہ آج صلح کی جائے۔ STATUS CO یہ ہے کہ جو ہندو ہو چکے ہیں ان کو دوبارہ مسلمان کر دیا جائے۔ پھر بے شک صلح کر لیں۔ لیکن جب تک وہ آریہ ہیں ہم وہاں رہیں گے۔ چنانچہ اس کانفرنس میں شردھانند جی نے یہی تجویز پیش کی۔ جمعیۃ العلماء کے ممبروں نے کہا کہ واہ واہ بالکل درست تجویز ہے مگر ہمارے آدمیوں نے وہی کہا جو میں نے سمجھایا تھا اور کہا کہ اِس کا تو مطلب یہ ہے کہ جو چھاپہ مارے وہ فائدے میں رہے اور جو شرافت سے سلوک کرے وہ نقصان اٹھائے۔ اُس وقت شردھانند جی نے ایک فقرہ کہا جو ہماری جماعت کے لحاظ سے ایک تاریخی فقرہ ہے۔ جب مفتی کفایت اللہ صاحب نے کہا کہ احمدیوں کو جانے دو ان کی پرواہ نہ کرو ہمارے ساتھ صلح کر لو تو شردھانند جی نے جواب میں کہا کہ مجھے آپ کے ہزار مبلغ کا ڈر نہیں لیکن جب تک احمدیوں کا ایک بھی مبلغ وہاں ہے ہم صلح نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ہماری ملکانے میں کوشش کے نتیجہ میں چار پانچ ہزار واپس آ گئے۔ یہ ہمارے فوری حملے کا نتیجہ تھا۔ چنانچہ ان کا پروگرام تھا کہ ملکانے سے پھر وہ پنجاب میں بھی آتے کیونکہ گوڑگانواں وغیرہ میں بھی اس قسم کے لوگ آباد ہیں لیکن آئندہ ملکانے کی تحریک بھی بند ہو گئی اور ادھر کا رُخ بھی وہ نہ کر سکے۔
پس حَیَّ عَلَی الْفَلَاح میں بتایا گیا ہے کہ صرف تدابیر کافی نہیں بلکہ جلدی سے جلدی کام شروع کرنا چاہیئے اور زور کے ساتھ کرنا چاہیئے۔ یہ دو گُر ہیں جن پر اگر مسلمان قائم ہو جائیں تو کامیاب ہو جائیں۔
الغرض خداتعالیٰ نے بتایا کہ عبادت رغبت سے کرو ، سُستی نہ کرو اور جب دینی ترقیات کے لئے کوشش کرو تو بے تابی سے،جلدی سے اور والہانہ طور پر کرو۔ اس کو ایک لمبے عرصے پر نہ پھیلاؤ ہو سکتا ہے کہ شیطان تمہیں قابو کر لے اور تم نیکیوں سے محروم ہو جاؤ۔ یہ کامیابی کے دو عظیم الشان گُر ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘‘
(الفضل 15اکتوبر 1940ء)

1 یوسف: 3
2 مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔(البقرۃ:151)

26
غیرمبائعین اور منافقین
(فرمودہ18اکتوبر 1940ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ گو ابھی کمزوری کی وجہ سے میری لاتیں کانپ رہی ہیں اور میں سہولت کے ساتھ جمعہ کے لئے نہیں آ سکتا تھا لیکن چونکہ یہ رمضان کے دن ہیں اس لئے اس مبارک مہینہ کے ایک اور جمعہ کو ضائع کرنا میری طبیعت نے پسند نہ کیا اور میں نے مناسب سمجھا کہ جس طرح بھی ہو جمعہ خود جا کر پڑھاؤں۔
انسان کے ساتھ بیماری اور صحت کے دور لگے ہوئے ہیں۔ وہ بیمار بھی ہوتا ہے اور تندرست بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی اس سے خالی نہیں، اللہ تعالیٰ کے اولیاء بھی اس سے خالی نہیں۔ اسی طرح صلحاء بھی اس سے خالی نہیں اور اشقیاء بھی اس سے خالی نہیں۔ لیکن یہی بیماریاں جب ایک مومن پر آتی ہیں تو اس کے اور اس کے دوستوں کے لئے فائدہ کا موجب بن جاتی ہیں اور یہی بیماریاں جب غیرمومن پر آتی ہیں تو اس کے اور اس کے دوستوں کے لئے ابتلاء اور ٹھوکر کا موجب بن جاتی ہیں۔ مجھے ان ایام میں کئی خطوط باہر سے بھی آئے ہیں اور یہاں سے بھی آئے ہیں۔ باہر سے جو خط آئے ہیں ان میں سے بعض میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ غیرمبائعین آجکل میرے متعلق یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی عمر باون سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ اس عرصہ میں وہ ضرور فوت ہو جائیں گے۔ زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر غیرمبائعین یہ کہتے ہیں تو بہتر ہے وہ اس کو تحریر میں لے آئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو جھوٹا کر کے دکھلا دے گا۔
اسی طرح بعض منافقوں کی نسبت مجھے معلوم ہؤا ہے کہ انہوں نے میرے متعلق کہا کہ اس بیماری سے یہ اب نہیں اٹھیں گے۔ میں نے بتایا ہے کہ بیماری اور صحت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور اسی کے مصالح کے ماتحت آتی ہے۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جوکبھی بیمار نہیں ہؤا اور دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو موت سے محفوظ رہ سکتا ہو۔ لوگ بیمار بھی ہوتے چلے آئے ہیں اور مرتے بھی چلے آئے ہیں بلکہ دنیا میں صرف ایک ہی انسان ایسا تھا جسے زندہ سمجھا جاتا تھا مگر ہماری جماعت نے تو اس کی موت پر بھی زور ہی دیا ہے لیکن باوجود اس کے ان منافقین کو خدا نے یہ خوشی کا موقع نہ دیا اور ان کے دعوے یونہی چلے گئے۔
اس کے بعد میں آج کے خطبہ میں ان روزوں کے متعلق اعلان کرنا چاہتا ہوں جو ہر سال رمضان کے علاوہ ہماری جماعت کی طرف سے رکھے جاتے ہیں۔ میرے مُنہ سے جو بیماری کی وجہ سے رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ رہا کچھ زیب تو نہیں دیتا کہ میں روزوں کی تحریک کروں مگر جماعتی نظام کے لحاظ سے ایک قوم کے لیڈر کو بعض دفعہ ایسے موقع پر بھی حکم دینا پڑتا ہے جبکہ وہ خود معذور ہوتا ہے۔
پس میں اللہ تعالیٰ سے اپنی ان خطاؤں کے متلق عفو کی درخواست کرتے ہوئے جن کی وجہ سے مجھے یہ روزے چھوڑنے پڑے ہیں اعلان کرتا ہوں کہ اس دفعہ بھی اِنْشَاءَ اللہُتَعَالٰی رمضان کے بعد شوال کے مہینہ میں سات روزے رکھیں جائیں گے۔ (یہ روزے سابق کی طرح ہر پیر اور جمعرات کو رکھے جائیں گے اور عید کے بعد پہلے پیر سے شروع ہوں گے) ان روزوں میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کے دوستوں کو میں تاکید کرتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں کہ دنیا کی موجودہ فضا جو جنگ کی وجہ سے بگڑی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدنتائج سے اسلام اور احمدیت کو محفوظ رکھے۔ جو لوگ حقائق سے ناواقف ہیں وہ اس امر کو نہیں جانتے کہ حالات کیسا رنگ اختیار کر چکے ہیں مگر جو حقائق سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ دنیا کے حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ بہ نسبت ان حالات کے جو سطح پر نظر آتے ہیں اور جیسا کہ میں نے گزشتہ سال ستمبر یا اکتوبر کے خطبہ میں بیان کیا تھا ظاہر میں نظر آنے والے اتحادوں سے بہت زیادہ اندرونی اتحاد ہیں اور پھر ان میں بھی تغیر ہوتا رہتا ہے۔ کبھی ایک سے اتحاد ہوتا ہے اور کبھی دوسرے سے۔ اگر یہ تمام اندرونی سازشیں دنیا کے سامنے آ جائیں تو لوگ حیران ہو جائیں اور وہ گھبرا کر کہہ اٹھیں کہ نہ معلوم اب کیا ہونے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بارہ میں بہت سی غیب کی خبریں بتائی ہوئی ہیں۔ جن میں سے اکثر مَیں اپنے بعض دوستوں کے سامنے بیان کر چکا ہوں اور ان میں سے بعض باتیں پوری بھی ہو چکی ہیں مگر یہ موقع ان کے بیان کرنے کا نہیں۔ اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں بہت سے خطرات پیدا ہو چکے ہیں اور ان خطرات سے ہندوستان بھی محفوظ نہیں بلکہ بہت زیادہ ان کی زد میں ہے۔ اس وقت قومیں گویا جوئے کی بازی لگا رہی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ اگر انہیں جان بچانے کے لئے بعض ممالک دوسروں کے حوالے کرنے پڑیں تو بھی اس میں انہیں دریغ نہیں ہونا چاہیئے۔ حکومتیں آپس میں ملکوں کی تقسیم کر رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس ملک کا فلاں حصہ تم لے لو اور ہماری مدد کرو، فلاں حصہ وہ لے لے اور وہ ہماری مدد کرے۔ گویا انسانوں کی جانیں اور ملک اس وقت ایسی ہی حیثیت رکھتے ہیں جیسی دونّیوں اور چونّیوں کی حیثیت ہوتی ہے بلکہ اس جرأت اور دلیری سے تو کوئی شخص چونّی بھی اپنے ہاتھ سے دوسرے کو نہیں دیتا جس جرأت اور دلیری سے آج ملکوں، جانوں اور عزتوں کی قربانی پیش کی جا رہی ہے۔ ایسے موقع پر ہندوستان جس کے پاس نہ تو کافی سامانِ جنگ ہے اور نہ اس میں مقابلہ کی طاقت اور ہمت ہے۔ اس کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ جن ممالک کے پاس فوجیں ہیں، جن کے پاس ہوائی جہاز ہیں، جن کے پاس بحری جہاز ہیں، جن کے پاس خشکی اور تری کی فوجیں ہیں، جن کے پاس توپیں اور بڑے بڑے ٹینک ہیں وہ بھی آج تقسیم ہو رہے ہیں۔ پھر اس نہتّے اور بے کس ملک کے متعلق کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ دشمن کا مقابلہ کر سکے گا۔ یہاں کے اکثر ہندو گائے کو پوجتے ہیں اور گائے کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے جو شخص بھی کان سے پکڑ لے وہ اس کے ساتھ چل پڑتی ہے اور جس قیمت پر بھی وہ فروخت کرنا چاہے اس قیمت پر وہ فروخت کر دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں شاید اسی شرک کی اللہ تعالیٰ نے ہندوستانیوں کو یہ سزا دی ہے اور شاید اسی وجہ سے اسکی مشیّت نے فیصلہ کیا کہ تم چونکہ گائے کو ہمارا شریک ٹھہراتے ہو اس لئے ہم تمہیں بھی گائے کی طرح بنا دیتے ہیں۔ جاؤ اور دنیا میں دوسروں کے ہاتھ بکتے پھرو۔ اگر ہندوستان اس شرک سے پاک ہوتا اور اگر یہاں کے رہنے والے عقل سے کام لیتے اور گائے کی پرستش کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتے تو ممکن تھا اللہ تعالیٰ گائے کی بجائے انسانیت کا کوئی اچھا مرتبہ انہیں عطا کر دیتا مگر چونکہ انہوں نے شرک کیا اس لئے جس طرح گائے بکتی پھرتی ہے اسی طرح ہندوستانی بکتے رہتے ہیں۔ اور جس طرح گائے دوسروں کو تو دودھ دیتی ہے اور خود بھوسہ کھا کر گزارہ کرتی ہے اسی طرح ہندوستان سے دوسری قومیں تو فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہندوستانیوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔
پس ہندوستان کے لئے بہت زیادہ خطرات ہیں اور اس کے پاس اپنی حفاظت کے پورے سامان بھی موجود نہیں۔ اس کا پتہ اس امر سے لگ سکتا ہے کہ وہ سامانِ جنگ جن کے متعلق ہندوستانی ہمیشہ یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ ان کے تیار کرنے میں گورنمنٹ اسراف سے کام لے رہی ہے آج اتنے حقیر نظر آتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے گویا گورنمنٹ نے ابھی ہندوستان کی حفاظت کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس سامانِ حرب کی اس قدر قلت ہے کہ اگر کوئی بڑی طاقت اس پر حملہ آور ہو تو دو دن بھی یہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ مہلت دے دے اور لڑائی لمبی ہو جائے اور وہ ہوائی جہاز جو امریکہ سے حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ حاصل ہو جائیں۔ اسی طرح ٹینک اور ہوائی پائلٹ وغیرہ تیار ہو جائیں تو اور بات ہے ورنہ موجودہ حالت تو ایسی ہے کہ ہندوستان صرف انگلستان کے رُعب کی وجہ سے بچا ہؤا ہے ورنہ اگر اس ملک پر کوئی قوم حملہ آور ہو تو یہ اس کا پوری طرح مقابلہ نہیں کر سکتا۔
دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں کو موجودہ مصیبت سے نجات دے۔ پس نادان ہیں وہ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ آج انگلستان سے الگ ہو کر ہندوستان کوئی طاقت حاصل کر سکتا ہے۔ آج ہندوستان اور انگلستان کی قسمت ایک ہی پلڑے میں ہے۔ ایک جھکا تو دوسرا بھی جھکے گا اور اگر ایک اونچا ہؤا تو دوسرا بھی اونچا ہو گا۔ یہ سوال نہیں کہ ان حالات کی ذمہ داری کس پر ہے۔ ذمہ داری کسی پر ہو موجودہ صورت حالات یہ ہے کہ ہندوستان کی حفاظت کی ذمہ داری انگلستان پر عائد ہے اور اس جنگ میں انگلستان کی کمزوری ہندوستان کے لئے سخت نقصان رساں اور مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔
پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ وہ سامان پیدا کرے جو اسلام کے لئے، احمدیت کے لئے اور خود ہمارے ملک کے لئے مفید ہوں۔ اسی طرح وہ اس بات کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان مصیبت کی گھڑیوں میں انگلستان کی مدد کرے کیونکہ جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے میں یہ نہیں جانتا کہ تمہاری عقل بھی یہی کہتی ہے یا اس کے خلاف۔ اس لئے میں ‘‘ہماری عقل’’ کی بجائے ‘‘میری عقل’’ کے الفاظ استعمال کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ جہاں تک میری عقل کام کرتی ہے مجھے انگلستان مظلوم نظر آتا ہے اور جو اس کے مقابل میں ہیں وہ ظالم نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے میری یہ بات غلط ہو۔ اصل حالات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن میری عقل اس وقت تک یہی کہتی ہے کہ انگریز مظلوم ہیں۔ پس جن جن دوستوں کی عقل بھی یہی کہتی ہو کہ جرمنی ظالم ہے اور برطانیہ مظلوم ان سے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ وہ جہاں یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مذہب ہمارے سلسلہ اور ہمارے دین کی حفاظت کرے اور اس جنگ کو اس کی ترقی کا موجب بنائے وہاں وہ انگلستان کے لئے بھی جس سے ہندوستان کی قسمت وابستہ ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے اور موجودہ مشکلات سے اسے نجات بخشے۔
دعا کوئی ایسا امر نہیں جو حکماً کرایا جا سکے۔ دنیا میں سے کوئی شخص تمہارے دل سے یہ آواز نہیں نکلوا سکتا خواہ میں ہی ہوں یا کوئی اور بلکہ اللہ تعالیٰ بھی اس قسم کی آواز کسی کے دل سے نہیں نکلواتا جب تک انسان اس کے سامنے اپنے آپ کو کُلّیۃً ڈال نہ دے۔ یہ بات صرف تمہارے دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور تم اس امر کا اختیار رکھتے ہو کہ چاہوتو دعا کرو اور چاہو تو نہ کرو۔
پس میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص دعا کرے ۔ جو دعا اسلام اور احمدیت کے متعلق ہے اس کے متعلق تو میں یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ ہماری جماعت میں سے کوئی ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جو وہ دعا مانگنے کے لئے تیار نہ ہو کیونکہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ اسلا م اگر تباہ ہوتا ہے تو ہو جائے، احمدیت کے مٹنے کا اگر امکان ہے تو بے شک وہ مٹ جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں تو وہ احمدی ہی نہیں اور نہ ایسے شخص کا احمدی کہلانا اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتا ہے۔
پس میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ہماری جماعت میں سے کوئی شخص ایسا ہو سکتا ہے جو اسلام اور احمدیت کے لئے بھی دعا مانگنے کے لئے تیار نہ ہو۔ اسی طرح انسان کی خودغرضی کو دیکھتے ہوئے میں یہ امید بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ہندوستان اگر تباہ ہوتا ہے تو بے شک ہو جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ پس ان معاملات کے متعلق میں یہ نہیں کہتا کہ اگر تم مجھ سے متفق ہو تو دعا کرو کیونکہ ان امور کے متعلق اس لئے نہیں کہ میں حکم دیتا ہوں اور تم میرا حکم ماننے پر مجبور ہو بلکہ اس لئے کہ یہ دعا خودبخود تمہارے دل سے نکل رہی ہو گی۔ (اور اگر تم میں اتنی عقل و خرد بھی نہیں کہ تم اسلام اور احمدیت اور اپنے ملک کے مفاد کو سمجھ سکو تو پھر تم میرے مخاطب نہیں بلکہ ایسی حالت میں تم کسی کے بھی مخاطب نہیں ہو سکتے۔ نہ میرے ، نہ خدا اور اس کے رسول کے کیونکہ خدا بھی انسان کو اسی وقت مخاطب کرتا ہے جب اس کے اندر عقل موجود ہو) لیکن دوسرے حصہ کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اگر تم مجھ سے متفق ہو تو یہ دعا بھی کرو کہ اللہ تعالیٰ انگریزی قوم کو موجودہ مصیبت سے نجات دے۔
ممکن ہے بعض سیاسی نقطۂ نگاہ سے یہ خیال کرتے ہوں کہ انگریزوں کی شکست اِس وقت ہندوستان کے لئے مفید ہے اور گو مَیں انہیں غلطی پر ہی سمجھوں گا مگر میں ان سے یہ نہیں کہوں گا کہ وہ برطانیہ کی کامیابی کے لئے دعا کریں کیونکہ کسی کے مُنہ کی دعا خداتک نہیں پہنچ سکتی جب تک دل کا درد اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور میں یہ تماشا نہیں کرانا چاہتا کہ کسی کا دل تو برطانیہ کی کامیابی کو نہ چاہے اور مُنہ سے وہ اسکی کامیابی کے لئے دعا کر رہا ہو۔ مگر جو اس بارہ میں مجھ سے متفق ہوں ان سے میں کہتا ہوں کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی اشاعت انگریزوں کی حکومت میں زیادہ عمدگی کے ساتھ ہو سکتی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ برطانیہ کی کامیابی کے لئے دعا کریں۔ اس قسم کی حکومتیں اور بھی ہیں یہ نہیں کہ انگریز ہم سے کوئی خاص رعایت کرتے ہیں بلکہ بعض دفعہ یہ بھی ہم سے الجھ جاتے ہیں لیکن باوجود اس کے ان کے ممالک میں تبلیغ زیادہ آسانی سے ہو سکتی ہے کیونکہ ان میں سے کچھ تو مذہب سے بیگانہ ہیں اور اس وجہ سے مذہبی معاملات میں زیادہ دخل نہیں دیتے اور کچھ لوگ واقع میں وسیع الحوصلہ ہیں اور روادار ہیں۔ پس ان کی مذہب سے یہ بے اعتنائی اور بعض کی رواداری ہمارے کام آ جاتی ہے جیسا کہتے ہیں
خدا شرّے بر انگیزد کہ خیرے مادراں باشد
ان کی مذہب سے بے اعتنائی بھی ان کی قوم کے لئے ایک شر ہے مگر یہ بے اعتنائی ہمارے کام آ جاتی ہے اور ہم سہولت کے ساتھ اپنے مذہب کی اشاعت کرتے چلے جاتے ہیں۔
پس جو دوست اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کے ملکوں اور علاقوں میں احمدیت اچھی طرح پھیل سکتی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ ان کی کامیابی کے لئے دعا بھی کریں۔ جو شخص یہ سمجھنے کے باوجود کہ ان کی مذہب سے بے اعتنائی یا تعصب سے خالی ہونا ہمارے کام آ رہا ہے اور سلسلہ اور اسلام کو فائدہ پہنچا رہا ہے پھر بھی ان کی کامیابی کے لئے دعا نہیں کرتا میں سمجھتا ہوں وہ اپنے عمل سے دین کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دین کا فائدہ ان کی کامیابی میں ہے مگر ان کی کامیابی کے لئے دعا نہ کر کے دین کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ہاں جو شخص یہ نہیں سمجھتا گو میرے نزدیک وہ غلطی پر ہے مگر میں اسے دعا کے لئے نہیں کہتا کیونکہ جب وہ اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتا کہ دین کا فائدہ ان کی کامیابی میں ہے تو اسے دعا کے لئے کس طرح کہا جا سکتا ہے؟
دوسری چیز جو اِن دعاؤں میں یاد رکھنی چاہیئے وہ تحریک جدید کے چندہ کے مطالبہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ میں یہ کوشش کر رہا ہوں (اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اس کوشش میں کامیاب ہوتا ہوں یا نہیں اور میری اس جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔ ابھی تو اس میں بہت سی مشکلات اور روکیں حائل ہو رہی ہیں) کہ تحریک جدید کے چندہ سے ایک ایسا مستقل فنڈ قائم کر دیا جائے جس کے نتیجہ میں تبلیغ کا کام عام چندوں کے بڑھنے گھٹنے کے اثر سے آزاد ہو جائے۔ جو لوگ اس کام میں حصے لے رہے ہیں وہ اشاعتِ دین کی ایک مستقل بنیاد قائم کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس میں کامیاب کر دیا تو وہ عملی طور پر اس بنیاد کو قائم کرنے والے ہوں گے اور اگر میری ان کوششوں میں اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت کامیابی نہ ہوئی تب بھی خداتعالیٰ کے نزدیک وہ ایسے ہی سمجھے جائیں گے جیسے مستقل بنیاد رکھنے والے۔ پس ایسی قربانی کرنے والے دوست اس بات کے مستحق ہیں کہ جماعت کے تمام لوگ ان کے لئے دعا کریں۔ جو لوگ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہے اپنی مجبوریوں کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ طوعی تحریک ہے اور اس میں شمولیت انہوں نے ضروری نہیں سمجھی۔ ان کا کم سے کم فرض یہ ہے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے، ان کے قدم کو نیکیوں میں بڑھائے اور ان کا انجام بخیر کرے۔ درحقیقت صحیح معنوں میں نیک وہی ہے جس کا انجام نیک ہو اور بد وہی ہے جس کا انجام بُرا ہو۔ قرآن کریم نے اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام کی یہ وصیت بیان فرمائی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹوں کو کی کہ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ1اس کا یہ مطلب نہیں کہ درمیانی زندگی میں تم بے شک بدمعاش رہنا صرف مرتے وقت خدا کی طرف متوجہ ہو جانا بلکہ حضرت یعقوب علیہ السلام یہ فرماتے ہیں کہ میں تو تمہارے انجام کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے تمہاری درمیانی نیکیوں سے کوئی غرض نہیں۔ اگر تم بالفرض زندگی میں نیکیاں بھی کرتے رہے لیکن تمہارا انجام لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پر نہ ہؤا تو پھر تم کسی اور طرف جاؤ گے اور میں کسی اور طرف جاؤں گا۔ دنیا میں کوئی باپ ایسا نہیں جو یہ خواہش نہ رکھتا ہو کہ اس کی اولاد اس کے پاس رہے۔ دنیا میں ہر انسان کے اندر یہ خواہش پائی جاتی ہے اور اگلے جہان میں بھی یہ خواہش موجود ہو گی بلکہ یہاں تو کئی قسم کی مجبوریوں کی وجہ سے اولاد اپنے ما ںباپ سے جدا بھی رہتی ہے لیکن اگلے جہان میں ایسا نہیں ہو گا بلکہ وہاں اللہ تعالیٰ ماں باپ کی اس خواہش کا ایسا احترام کرے گا کہ اپنے عام قانون کو بھی بدل دے گا اور اولاد کو خواہ وہ ایمان کے کسی درجہ پر ہوں ان کے ماں باپ کے پاس رکھے گا۔ فرض کرو جنت کے ایک کروڑدرجے ہوں اور بچہ تو دسویں حصہ کا مستحق ہو اور باپ کروڑویں حصہ کا تو اللہ تعالیٰ اس خواہش کے احترام میں دس والے کو اٹھا کر کروڑ والے کے مقام تک پہنچا دے گا اور یہ برداشت نہیں کرے گا کہ باپ کو یہ صدمہ رہے کہ اس کا بچہ اس سے جدا ہے۔ پس وہاں ماں باپ کی اس محبت کا انتہائی احترام کیا جائے گا اور بچوں کو اپنے ماں باپ کے پاس رکھا جائے گا۔ اور اگر کسی کے بچے جنت کے اعلیٰ مقام پر ہوئے اور ماں باپ ادنیٰ مقام پر تو اللہ تعالیٰ ماں باپ کو بلند کر کے ان کے بچے کے پاس لے جائے گا۔ بہرحال جذباتِ پدری اور جذباتِ مادری کا احترام وہاں انتہاء تک پہنچا ہؤا ہو گا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ کہ اے میرے بیٹو! مرنے کے بعد ہم تو یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہوں گے کہ ابھی ہمارے بیٹے ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم اکٹھے جنت میں رہیں گے لیکن اگر تمہارے اعمال اچھے نہ ہوئے تو ہماری یہ امیدیں دل ہی دل میں رہ جائیں گی اور تم تو کہیں جا رہے ہو گے اور ہم کہیں جا رہے ہوں گے۔ اس لئے اے میرے بیٹو! تم میری اس وصیت کو یاد رکھو کہ جب تمہاری موت کا وقت آئے تو اس وقت تمہارا خاتمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پر ہی ہونا چاہیئے تاکہ ہم اگلے جہان اکٹھے رہیں اور ہم میں کوئی جدائی واقع نہ ہو تو انجام پر ہی سارا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لئے دوسرے کے لئے بہترین دعا یہ ہوتی ہے کہ خدا اس کا انجام بخیر کرے کیونکہ جس کی موت اچھی ہو گئی اس کی ساری زندگی اچھی ہو گئی اور جس کی موت خراب ہو گئی اس کی ساری زندگی خراب ہو گئی۔
پس جو لوگ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکے ان کا فرض ہے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کے لئے دعائیں کریں کہ خدا ان کا انجام بخیر کرے اور ان کی نیتوں اور ارادوں کو احسن طور پر پورا کرے۔ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کو بھی چاہیئے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور وہ ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کے مفید نتائج پیدا فرمائے۔
اسی طرح ان روکوں اور مشکلات کے دور ہونے کے لئے بھی دعائیں کی جائیں۔ جو تبلیغِ اسلام کے لئے ایک مستقل فنڈ قائم کرنے کی راہ میں حائل ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کی جائے کہ وہ ایسا مستقل فنڈ قائم کرنے میں ہماری مدد کرے جو دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ پہنچانے میں مُمد ہو اور پھر یہ بھی دعا کریں کہ وہ لوگ جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا یا حصہ تو لیا مگر اپنی طاقت سے کم لیا ہے یا حصہ تو اپنی طاقت کے مطابق لیا ہے مگر ابھی تک انہوں نے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا اللہ تعالیٰ ان کے قصوروں کو معاف کر کے ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور انہیں ان لوگوں میں شامل نہ کرے جو چشمہ کے پاس پہنچ کر اپنی بدقسمتی سے پیاسے لَوٹ جاتے ہیں۔
اس کے بعد مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں نے جلسہ سالانہ پر قرآن کریم کی تفسیر کی اشاعت کا وعدہ کیا تھا ۔ پہلے میرا ارادہ تھا کہ قرآن کریم کی تفسیر کا کام ابتداء سے شروع کروں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مَیں نے بہت سا کام کیا اور کئی سو صفحے نوٹوں کے تیار بھی ہو گئے مگر پھر مجھے خیال آیا کہ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک حصہ کئی سال سے اڑھائی سو صفحہ تک چھپا ہؤا موجود ہے کیوں نہ پہلے اسے ہی مکمل کر کے شائع کر دیا جائے۔ یہ تفسیر دس سے پندرہ پاروں تک چھاپنے کا ارادہ تھا اور اڑھائی سوصفحہ اس تفسیر کاچھپا ہؤا موجود ہے۔ میں نے خیال کیا کہ اگر پہلے پارہ سے تفسیر شروع کی گئی تو یہ حصہ یونہی پڑا رہے گا لیکن اگر اسے شائع کر دیا گیا تو کاغذ بھی ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور کام بھی جلد مکمل ہو جائے گا۔ چنانچہ تفسیر کے اس حصہ کو مکمل کر دیا گیا ہے۔ یہ حصہ اگرچہ سورۂ یونس سے شروع ہوتا ہے مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ جہاں سے بھی پڑھا جائے اس میں نور اور ہدایت ہوتی ہے۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ 2 کہ میرے تمام صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ تم ان میں سے جس کی بھی اتباع کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ یہی حال قرآن کریم کا ہے کہ اسے جہاں سے بھی پڑھا جائے اس میں سے انسان کی ہدایت کے خزانے نکلتے چلے آتے ہیں۔ میں نے اس کام کا بڑا حصہ خدا کے فضل سے مکمل کر لیا ہے اور دسمبر تک ایک جلد جو بڑے سائز کے سات آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہو گی شائع ہو جائے گی۔ اگر حقیقۃ الوحی کے سائز پر اسے پھیلایا جائے تو تیرہ چودہ سو صفحات کی کتاب بنتی ہے۔ جلسہ سالانہ تک اِنْشَاءَ اللہُ یہ جلد شائع ہو جائے گی۔ اس کے متعلق ایک اعلان تو میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے اس کی قیمت پیشگی ادا کی ہوئی ہے اور ان کو اس حصہ کا ایک جزو برائے مطالعہ بھجوا دیا گیا تھا جو 456 صفحات پر مشتمل تھا اب وہ اس حصہ کو واپس کر دیں تاکہ بقیہ حصہ اس کے ساتھ شامل کر کے اور کتاب کو مجلّد کرا کے جلسہ سالانہ پر انہیں دی جا سکے۔ اگر وہ تفسیر کا سابقہ حصہ ہمیں واپس نہیں کریں گے تو گو بقیہ حصہ پھر بھی ہم انہیں دے دیں گے لیکن بوجہ ناقص ہونے کے وہ مجلّد نہیں ہو گا اور جِلد انہیں خود کرانی پڑے گی۔ پس جن دوستوں نے تفسیر کا پہلا حصہ منگوالیا تھا وہ اب دفتر تحریک جدید کو واپس بھجوا دیں۔ جلسہ سالانہ پر بقیہ حصہ شامل کر کے سات آٹھ سو صفحات پر مشتمل ایک مکمل جلد اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالٰی انہیں دے دی جائے گی۔ آجکل کاغذ سخت مہنگا ہو گیا ہے ۔ پریس کے اخراجات بھی پہلے سے زیادہ ہو گئے ہیں مگر باوجود اس کے کہ اخراجات میں کئی لحاظ سے زیادتی ہو چکی ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس تفسیر کی قیمت زیادہ نہ رکھی جائے۔ چنانچہ مجلّد تفسیر کی قیمت میں نے پانچ روپے تجویز کی ہے سات آٹھ سو صفحات پر وہ مشتمل ہو گی۔ سائز بڑا ہو گا اور جِلد بندی ہوئی ہو گی۔
میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ ہر جگہ کی جماعتیں اپنی اپنی جگہ اس تفسیر کی خریداری کا انتظام کریں اور کوشش کریں کہ جلسہ سالانہ پر یہاں سے اکٹھی کئی کئی جلدیں خرید کر لے جائیں۔ اگر وہ بذریعہ ڈاک منگوائیں گے تو ایک جلد پر بارہ چودہ آنے ڈاک کا خرچ آ جائے گا اور اس طرح انہیں زیادہ اخراجات کا متحمل ہونا پڑے گا لیکن اگر وہ اپنی اپنی جگہ تحریک کر کے جلسہ سالانہ پر کتابیں خرید کر لے جائیں گے تو خرچ ڈاک سے بچ جائیں گے۔
ہمارے دوستوں کی طرف سے بالعموم یہ شکوہ ہوتا رہا ہے کہ تفسیر ِقرآن کی اشاعت میں تاخیر سے کام لیا جا رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اب وہ اس شکوہ کے دور ہونے پر خریداری کی کثرت سے اپنے جذبات کا اظہار کریں گے اور نہ صرف خود خریدار بنیں گے بلکہ دوسروں کو بھی تحریک کریں گے کہ وہ اس کے خریدار بنیں۔ اسی طرح وہ دوست جو اثرورسوخ رکھنے والے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ غیراحمدیوں میں بھی اس کی خریداری کی تحریک کریں۔ قرآن کریم ایک ایسی چیز ہے جس کی اشاعت ہماری تبلیغ میں بہت ممد ہو سکتی ہے کیونکہ لوگ جہاں ہماری دوسری کتب کے بارہ میں تعصب رکھتے ہیں قرآن کریم کو شوق سے لے لیتے ہیں۔ اگر انہیں لوگوں کو سلسلہ کا لٹریچر پڑھنے کے لئے دیا جائے تو گو اس میں بھی اسلام اور قرآن کی ہی باتیں ہوتی ہیں مگر وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے سلسلہ کا لٹریچر خریدا تو لوگ اعتراض کریں گے۔ لیکن قرآن کریم کے متعلق لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اس کا صحیح ترجمہ اور صحیح مفہوم انہیں نہیں مل رہا اور وہ بے تابی سے اس بات کے منتظر ہیں کہ اگر انہیں قرآن کریم کا کوئی صحیح ترجمہ اور اس کی اچھی تفسیر ملے تو اسے پڑھیں۔ پس یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کام کیا ہے اس سے آسانی سے تمام مسلمانوں کو روشناس کرایا جا سکتا ہے اور لوگ بغیر کسی خوف کے ان خیالات کو پڑھ سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم اپنے مطالب مضمون کے لحاظ سے بیان کرتا ہے اور اس میں اس طرح بحثیں نہیں ہوتیں جس طرح دوسری کتب میں ہوتی ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم کے مطالب پر ہی ہمارے سلسلہ کی بنیاد ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں جو کچھ ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر ہی ہے۔ نادان کہتے ہیں کہ ہم نے تو قرآن کریم کی تفسیر لکھ دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کوئی تفسیر نہیں لکھی۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام کتابیں قرآن کریم کی تفسیر ہی ہیں۔ جیسے حضرت عائشہؓ نے رسول کریم ﷺ کے متعلق فرمایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہٗ کُلُّہُ الْقُرْاٰنُ 3 یعنی آپ کے اخلاق اگر معلوم کرنے ہوں تو قرآن کریم پڑھ لو۔ جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہی آپ کے اخلاق سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم کامل سچائی کے ساتھ بغیر کسی قسم کے مبالغہ کے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں قرآن کریم کی تفسیر ہیں اور دراصل ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ بھی آپ کی بیان کردہ باتوں سے ہی مستنبط ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض آیات کی تفسیر نہیں کی مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم ان آیات کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ اسی نور کی برکت سے کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمایا۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی لیمپ سے جنگل میں سے کوئی چیز تلاش کی جائے۔ اب بے شک وہ چیز اس لیمپ والے نے تلاش نہیں کی بلکہ خود اس نے کی ہو گی مگر اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ اگر اس کا لیمپ اس کے پاس نہ ہوتا تو یہ اس چیز کوتلاش نہ کر سکتا۔ اسی طرح انبیاء اپنے ماننے والوں میں ایک ایسا ملکہ پیدا کر جاتے ہیں جس سے کام لے کر وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تفسیریں کر سکتے ہیں اور یہ ملکہ اپنی اہمیت کے لحاظ سے تفسیر سے کئی گُنے بڑھ کر ہوتا ہے۔
انبیاء کا علم تو بہت وسیع ہوتا ہے میں نے تو اپنے متعلق دیکھا ہے کہ جب میں کسی آیت کی تفسیر لکھنے بیٹھتا ہوں تو اس کے بیسیوں مطالب مجھ پر کھلتے چلے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ان تمام کو لکھ ڈالوں مگر پھر سوچتا ہوں کہ اگر ان تمام باتوں کو بیان کروں تو تفسیر کے محدود صفحات ان کے کہاں متحمل ہو سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند مطالب لکھ دئے جاتے ہیں اور باقی چھوڑ دئے جاتے ہیں اور یہ تو ایک وقت کا حال ہے۔ دوسرے وقت پھر اس آیت کے بیسیوں معانی منکشف ہو جاتے ہیں اور انہیں کسی ایک تفسیر میں لکھ دینا بالکل ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ پس یہ خیال کر لینا کہ کسی ایک انسان کی تفسیر بھی اس کے علم کے لحاظ سے مکمل کہلا سکتی ہے صحیح نہیں۔ روزانہ ہمیں نئے نئے علوم ملتے رہتے ہیں اور یہ تو میری حالت ہے۔ انبیاء جو خاص طور پر مُؤَیّد مِنَ اللہ ہوتے ہیں ان کے علوم تو بہت ہی غیرمحدود ہوتے ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر قرآن کریم کی کوئی تفسیر لکھتے تو بھی ہزاروں باتیں رہ جاتیں ہزاروں مطالب تشنۂ تکمیل رہتے اور ہزاروں باتیں ایسی ہوتیں جو آپ بیان نہ کر سکتے کیونکہ تفسیر محدود چیز ہے اور قرآنی علم غیرمحدود ہے۔ اسی وجہ سے آپ نے قرآن کریم کی کوئی مستقل تفسیر نہیں لکھی۔ ہاں آپ نے ہمیں وہ ملکہ عطا کر دیا ہے جس سے ہم قرآن کریم کی تفسیر کر سکتے ہیں اور آپ نے ہمیں وہ گُر بتا دئے ہیں جن سے قرآن کریم کی تفسیر ہمیں آ گئی اور ایسی آئی کہ اب وہ مکمل طور پر اگر ہم لکھنا بھی چاہیں تو نہیں لکھ سکتے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں قرآن کریم کی سمجھ دی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی تفسیر مکمل نہیں کہلا سکتی ۔ ایک میرے ہی دماغ کی باتیں جب تفسیر میں نہیں آ سکتیں تو ہماری جماعت میں اور ہزاروں لاکھوں جو احمدی ہیں ان کے علوم کسی ایک کتاب میں کس طرح بیان ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح آئندہ زمانوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن پر قرآن کریم کے نئے سے نئے علوم منکشف ہوتے رہیں گے اور یہ بالکل ناممکن ہوگا کہ ان سب کو کسی تفسیر میں یکجائی طور پر بیان کیا جا سکے۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا چلا جائے گا جب تک جماعت احمدیہ کے افراد اس یقین پر قائم رہیں گے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس کے اندر غیرمحدود علوم اور معارف پنہاں ہیں ۔ اس یقین کی موجودگی میں قرآن کبھی بند کتاب کی طرح نہیں رہے گا بلکہ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں اس میں سے نئے سے نئے علوم نکلتے آئیں گے مگر جس دن لوگوں نے قرآن کریم کے علوم کو محدود سمجھ لیا، جس دن انہوں نے خیال کر لیا کہ قرآن اتنے رکوعوں، اتنی سورتوں اور اتنے پاروں کی کتاب ہے اور اس کے متعلق فلاں نے یہ لکھا ہے اور فلاں نے وہ اور یہ کہ اس سے زیادہ اب کوئی معرفت کی بات قرآن کریم سے نہیں نکل سکتی اُس دن قرآن لوگوں کے لئے بند ہو جائے گا اور اس میں سے کوئی نور اور معرفت کا نیا نکتہ انہیں نہیں سوجھے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے اندر یہی ایمان پیدا فرمایا ہے کہ قرآن غیرمحدود معارف کا حامل ہے اور جس طرح خداتعالیٰ کی طاقتیں انسانی حد بست سے بالا ہیں اسی طرح قرآنی معارف کا بھی کوئی شخص احاطہ نہیں کر سکتا۔ یہ معارف قرآن میں سے نکلتے چلے آئے ہیں اور ضرورت زمانہ کے متعلق ہمیشہ نکلتے چلے جائیں گے۔ یہ دروازہ نہ پہلے کبھی بند ہؤا اور نہ آئندہ کبھی بند ہوگا۔ قرآن کے متعلق یہی ایمان ہے جو اصل چیز ہے باقی سب تفاسیر اس کی جزئیات ہیں۔ جب تک تمہارے دلوں میں یہ ایمان رہے گا قرآن کے وسیع علوم تم پر کھلتے چلے جائیں گے مگر جس دن یہ ایمان تمہارے دلوں سے نکل گیا اس دن تم قرآن کو تو کھولو گے اور اسے پڑھو گے بھی مگر جس طرح گنّے کو چوس کر اس کے چھلکے کو الگ پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح تمہیں قرآن کے الفاظ اس چھلکے کی طرح دکھائی دیں گے جس کا رس چوس لیا گیا ہو مگر اس ایمان کی موجودگی میں جب تم قرآن کو پڑھو گے تو تمہاری حالت اس پیاسے کی سی ہو گی جو سخت پیاس کی حالت میں دریائے سندھ یا برہم پتر کو اپنا مُنہ لگا دے اور خیال کرے کہ وہ تمام دریا ایک ہی سانس میں پی جائے گامگر ایک دو چلّو پانی پینے کے بعد ہی اس کی پیاس بجھ جائے اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جائے کہ دریا تو اسی شان سے بہتا چلا جا رہا ہے اور اس کی پیاس دو چلّو پانی سے ہی بجھ گئی ہے۔
میں اپنے جوش میں کہیں سے کہیں کا نکل گیا۔ میری غرض تو اس وقت یہ اعلان کرناتھا کہ جن دوستوں نے اس تفسیرکا پہلا حصہ منگوا لیا تھا وہ اب دفتر تحریک جدید میں واپس بھجوا دیں تاکہ بقیہ حصہ اس کے ساتھ شامل کر کے اور جلد بندھوا کر جلسہ سالانہ پر انہیں مکمل کتاب دی جا سکے اور دوسرے دوستوں کو توجہ دلانا کہ وہ دسمبر سے پہلے پہلے ہر جگہ پر خریداری کی تحریک کر کے معقول تعداد خریداروں کی پیدا کر چھوڑیں۔ میں نے اس کے متعلق بعض دوستوں کو زبانی بھی یہ تحریک کی ہے کہ وہ لوگوں کو اس تفسیر کا خریدار بنانے کی کوشش کریں اور اب اس خطبہ کے ذریعہ عام اعلان کرتا ہوں کہ تمام دوست اپنے اپنے مقام پر اس کی خریداری کے متعلق پُرزور تحریک کریں بلکہ ہر جگہ دوست اپنے آپ کو بطور والنٹیر پیش کریں اور وہ والنٹیر ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں پھر کر احمدیوں، غیراحمدیوں اور غیرمسلموں سب میں اس کی خریداری کی تحریک کریں۔ ان سے سرِدست روپیہ لینے کی ضرورت نہیں۔ صرف خریداری کا وعدہ لے لیا جائے اور ان کے نام نوٹ کر لئے جائیں۔ جلسہ سالانہ پر ان کے لئے اکٹھی کتابیں یہاں سے خریدی جا سکتی ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس کے متعلق مستعدی سے کام لیں گے اور اس تفسیر کے زیادہ سے زیادہ خریدار پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ اگر وہ روپیہ جو اس کی طبع و اشاعت پر خرچ آئے گا کتاب جلد فروخت ہو کر ہمیں واپس نہیں ملے گا تو اگلی جلد کی اشاعت میں خواہ مخواہ تاخیر واقع ہو گی۔’’
(الفضل 24 اکتوبر 1940ء)

1 البقرۃ: 133
2 مشکٰوۃ باب مناقب الصحابۃ
3 مسند احمد بن حنبل جلد 4 مطبوعہ بیروت 1313ھ

27
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی عظیم الشان برکات اور نوجوانوں کی ایک غلط فہمی کا ازالہ
(فرمودہ25 اکتوبر1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ آجکل رمضان کا آخری عشرہ شروع ہے اور جیسا کہ احباب واقف اور آگاہ ہیں یہ دن خصوصیت کے ساتھ دعاؤں کے ہیں اور ان ایام میں اللہ تعالیٰ مومنوں کی دعائیں زیادہ سنتا اور ان کی گریہ و زاری کو قبول فرماتا ہے۔ پس ان ایام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اپنی ہی خوش بختی کی دلیل اور علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا بندہ اس سے کچھ مانگتا ہے یا نہیں۔ اس نے تو دینا ہے اور دینے والے کو کیا حاجت ہؤا کرتی ہے۔ جس نے لینا ہے حاجت تو اسے ہوتی ہے مگر باوجود اس کے وہ دینے والا تو پکارتا ہے اور جس نے لینا ہے وہ سُستی دکھاتا ہے ۔ ہم کتنا ہنستے ہیں اس واقعہ کو سن کر جو ایک مثل کے طور پر ہمارے ملک میںمشہور ہے کہ کوئی سرد ملک کا باشندہ گرمی کے موسم میں سخت تیز اور تپتی ہوئی دھوپ میں بیٹھا تھا، پسینہ ٹپک رہا تھا، مُنہ سرخ ہو رہا تھا، آنکھیں لال ہو رہی تھیں، سانس پھولا ہؤاتھا اور پاس ہی اس کے ایک دیوار یا درخت کا سایہ تھا جہاں بیٹھ کر اس کی ساری تکلیفیں رفع ہو سکتی تھیں۔ کوئی شریف آدمی جو وہاں سے گزرا اور اس نے اس کی اس حالت کو دیکھا تو اس نے کہا میاں! اس دھوپ میں کیوں بیٹھے ہو؟ کیوں نہیں اٹھ کر اس سائے کے نیچے بیٹھ جاتے جہاں سے تم کو آرام اور آسائش حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر اس شخص نے اپنے ہاتھ بڑھا دئیے اور کہا کہ میں بیٹھ تو جاتا ہوں پر تم مجھے کیا دو گے؟ ہم کتنا اس بات کو مضحکہ خیز سمجھتے ہیں مگر کس طرح ہم میں سے کئی یہی بات روزمرہ اپنے معاملات میں عملاً کر کے دکھاتے ہیں اور اس پر انہیں ذرا بھی تعجب نہیں آتا۔
رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں آسمان سے اترتا ہے اور اس کے فرشتے لوگوں کو آوازیں دیتے پھرتے ہیں کہ مانگو تمہیں دیا جائے گا، دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے لئے کھولا جائے گا 1 مگر کتنے ہیں جو اس آواز کو سن کر دوڑ پڑتے ہیں کہ یہ مانگنے کا وقت ہے ہم مانگیں گے، یہ کھٹکھٹانے کا وقت ہے ہم کھٹکھٹائیں گے۔ کیا وہ اس سے زیادہ احمق نہیں جو دھوپ میں بیٹھا ہؤا اس امید میں تھا کہ کوئی مجھے پیسے دے تو میں سائے میں بیٹھ جاؤں۔ اسی طرح تم میں سے بہت ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم نے اگر نماز پڑھی یا روزہ رکھا تو یہ ہم خدا پر احسان کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کا خالق اور مالک ہے اور وہ اپنی محبت کے لئے ہم کو بلاتا اور احسان کرنے کے لئے ہمیں پکارتا ہے۔ پس بجائے اس کے کہ وہ اس کے احسان کی قدر کریں اور اس کے اس انعام کی شکرگزاری کریں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے نماز پڑھ کر یا روزہ رکھ کر خدا پر احسان کر دیا۔
میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے نماز چھوڑی ہوئی تھی اور جب میں نے اس بارہ میں بعض دوستوں سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا خیال ہے میں بڑی تہجد گزاری کر چکا ہوں اور نمازیں بھی خوب پڑھ چکا ہوں اب مجھے ضرورت نہیں کہ میں نمازیں پڑھوں یا روزے رکھوں۔ گویا ایک قرضہ تھا جو اس نے ادا کر دیا اور جب دو سو یا تین سو یا چار سو یا پانچ سو نمازیں اس نے پڑھ لیں تو وہ قرض اتر گیا۔ اب کیا ضرورت رہی کہ وہ نمازیں پڑھے۔ اور میں نے دیکھا کہ وہ شخص قریباً بلاناغہ سینما جاتا اور سمجھتا تھا کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ گویا جو اپنے نفس کا عیش تھا اس کے لئے تو اسے وقت مل جاتا تھا اور اس کے لئے جانا وہ کسی دوسرے پر احسان نہیں سمجھتا تھا مگر جو خدا کے حضور حاضر ہونے اور نماز پڑھنے کا معاملہ تھا اس میں وہ سمجھتا تھا کہ اس کے ذمہ ایک قرض تھا جو اس نے ادا کر دیاہے۔
تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لئے رحمت اور برکت کے دروازے کھولتا ہے یہ رحمت اور برکت کے دروازے جن دنوں میں کھلتے ہیں ان سے فائدہ اٹھانا ایک عقلمند انسان کی علامت ہے اس میں ہرگز کسی ایمان کا دخل نہیں، کسی خاص صلاحیت کا دخل نہیں۔ اگر کسی شخص میں معمولی سے معمولی عقل بھی ہو تو وہ اس موقع کو غنیمت سمجھے گا اور کوئی پاگل ہی ہو گا جو ایسے موقع کو ضائع کر دے۔
مجھے روزوں کے متعلق بتایا گیا ہے کہ میرے کسی سابق خطبے کی وجہ سے جو کئی سال ہوئے میں نے پڑھا تھا بعض نوجوان ہٹّے کٹّے اور مشٹنڈے اس بناء پر روزے نہیں رکھتے کہ روزہ رکھنے کے لئے میں نے 18 سال عمر کی شرط لگائی ہے اور چونکہ وہ ابھی اس عمر کو نہیں پہنچے اس لئے وہ روزہ بھی نہیں رکھ سکتے۔ یہ کہ میں نے روزہ رکھنے کے لئے 18 سال عمر کی شرط لگائی ہوئی ہے یہ درست نہیں۔ میں نے وہ خطبہ تو نہیں دیکھا مگر اس کا مضمون مجھے اچھی طرح یاد ہے جو کچھ میں نے اس خطبہ میں کہا تھا وہ یہ تھا کہ 18 سال کی عمر تک نشوونما کا زمانہ ہوتا ہے اور اس وقت کا قانون 18 سال کے بعد کے قانون سے مختلف ہے۔ اس نشوونما کے زمانہ میں اگر کوئی شخص روزہ نہیں رکھتا بوجہ اس کے کہ اس کی صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے یا اس کو اپنے اندر کوئی ایسی کمزوری محسوس ہوتی ہے جس کے ہوتے ہوئے وہ خیال کرتا ہے کہ روزہ رکھنا میری صحت کو اور زیادہ نقصان پہنچا دے گا تو میرے نزدیک اس نشوونما کے زمانہ میں اگر وہ دیانتداری کے ساتھ اس یقین پر قائم ہے کہ روزہ رکھنا اس کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے یا اسے غیرمعمولی طور پر کمزور کر دیتا ہے تو روزہ نہ رکھنا اس کے لئے جائز ہے مگر اس بات میں اور اس بات میں کہ 18 سال کی عمر تک روزہ رکھنا معاف ہے زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ میرا منشاء صرف یہ تھا کہ 18 سال سے پہلے اور بعد کی عمر میں بلحاظ قانون فرق ہے۔ 18 سال کی عمر کے بعد کسی کی طرف سے کمزوری کا عذر ہونا ہرگز کوئی عذر نہیں سمجھا جا سکتا۔ سوائے اس کمزوری کے جوبیماری کے مترادف ہو اور جس کے متعلق ڈاکٹر یہ کہے کہ یہ شخص ایسا کمزور ہے کہ اگر اس نے روزے رکھے تو اسے سِل یا دِق یا کوئی اور مرض ہو جائے گا۔ گویا 18 سال کے بعد کوئی شخص محض اس عذر کی بناء پر روزہ نہیں چھوڑ سکتا کہ روزہ رکھنے سے اسے ضُعف ہوتا ہے کیونکہ رمضان اس لئے نہیں آتا کہ جس طرح گھوڑے کو خوید دی جاتی ہے اور وہ موٹا ہو جاتا ہے اسی طرح انسان موٹا تازہ ہو جائے بلکہ روزے رکھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان دُبلا ہو اور اسے مشقت برداشت کرنے کی عادت پڑے مگر 18 سال سے پہلے کی عمر میں جب روزے رکھنے سے ایسی کمزوری ہو جانے کا احتمال ہو جو نشوونما میں روک بن جائے یا ایسی کمزوری پیدا ہونے کا خطرہ ہو خواہ سل یا دق وغیرہ کا خطرہ نہ ہو تو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ البتہ 18 سال کے بعد اگر کوئی رمضان کے تیس روزوں میں سے ایک روزہ بھی بیماری یا سفر کے سوا نہیں رکھتا تو وہ گنہگار بنتا ہے۔ جیسے تم روزکی پانچ نمازوں میں سے ایک نماز بھی چھوڑ نہیں سکتے ۔ تم ہفتہ کی پینتیس نمازوں میں سے ایک نماز بھی نہیں چھوڑ سکتے، تم سال کی 1825 نمازوں میں سے ایک نماز بھی نہیں چھوڑ سکتے۔اسی طرح تم رمضان کے تیس روزوں میں سے ایک روزہ بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ بغیر اس کے کہ تم بیمار ہو، بغیر اس کے کہ تم سفر پر ہو، بغیر اس کے کہ تم میں اس قسم کی کمزوری ہو جو بیماری کے قریب قریب ہوتی ہے جیسے شدید بڑھاپا ہے یا دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کا روزہ نہ رکھنا ہے۔ وہاں کوئی بیماری تو نہیں ہوتی مگر چونکہ ان ایام کی کمزوری ماں یا بچہ میں بیماری پیدا کرتی ہے اس لئے انہیں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ تو روزہ رکھنے میں صرف وہی کمزوری روک بنتی ہے جو بیماری پیدا کرنے والی ہو مثلاً ایک شخص دُبلا پتلا ہے اس کا سینہ کمزور ہے اور ڈاکٹر کہتا ہے کہ اگر اس نے روزے رکھے تو اسے سِل ہو جائے گی ایسے انسان کے لئے روزے رکھنے جائز نہیں کیونکہ گو سرِدست اسے صرف کمزوری کی شکایت ہے مگر ڈاکٹر کی رائے میں اگر وہ کمزور ہؤا تو اسے سل کی مرض لگ جائے گی۔
غرض جب انسان کی 18 سال کی عمر ہو جائے اور 18 سال کی بھی شرط نہیں جب انسان بلوغ کو پہنچ جائے خواہ کسی عمر میں پہنچے تو اس کے بعد اگر کوئی شخص محض اس وجہ سے روزہ نہیں رکھتا کہ روزہ رکھنے سے اسے کمزوری ہو جاتی ہے تو وہ خداتعالیٰ کے حضور گنہگار ہو گا سوائے اس کے کہ ڈاکٹر نے اسے یہ کہا ہو کہ اگر تم روزہ رکھو گے تو بیمار ہو جاؤ گے یا بیماری سے اٹھا ہؤا مریض ہو اور مرض کے دوبارہ ہو جانے کا ابھی خطرہ موجود ہو مثلاً ایک شخص کو بخار ہے تو اب جس روز اس کا بخار اترے گا اسی روز اس کے لئے روزہ رکھنا فرض نہیں ہو جائے گا بلکہ جب بخار سے پیدا شدہ کمزوری دور ہو جائے گی تو اس وقت اس کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہو گا لیکن جو بلوغت سے پہلے کا زمانہ ہوتا ہے اور جسے نیم بلوغت کا زمانہ کہا جا سکتا ہے اس میں انسان کبھی کبھی روزہ چھوڑ بھی سکتا ہے تا اس کی طاقتیں اس قدر نشوونما حاصل کر لیں کہ بعد کی زندگی میں اسے کوئی تکلیف محسوس نہ ہو۔ اسی لئے میں نے اس خطبہ میں کہا تھا کہ بچوں کو گیارہ بارہ اور تیرہ سال کی عمر سے کچھ نہ کچھ روزے رکھوانے شروع کر دینے چاہئیں کیونکہ اگر کوئی شخص 18 سال تک ایک روزہ بھی نہیں رکھے گا تو اس سے یہ امید نہیں کی جا سکے گی کہ وہ انیسویں سال رمضان کے سارے روزے رکھ لے ۔ بھلا جس شخص نے اٹھارہ سال تک کوئی روزہ نہیں رکھا اس کے اندر انیسویں سال ایسی طاقت کہاں سے آ جائے گی کہ وہ سارے روزے رکھنے شروع کر دے گا۔ اس کی صورت یہی ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ بیس بائیس یا پچیس، چھبیس روزے رکھے اور انیسویں سال سارے روزے رکھ لے۔ ہاں اگر کوئی بہت زیادہ کمزور ہو جیسے خلقی طور پر بعض بچے اچھے قویٰ لے کر نہیں آتے وہ اگر انیس سال سے پہلے پندرہ سولہ یا سترہ اٹھارہ روزے بھی رکھ لیتے ہیں اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو یہ ان کے لئے جائز ہو گا لیکن عام طور پر ایسے کمزور بچے نہیں ہوتے۔ خلقی طور پر کمزور اور بیمار بچے بہت کم ہوتے ہیں اور بالعموم پندرہ سولہ سال کے بعد بچوں میں اچھی خاصی طاقت آ جاتی ہے۔ تاہم اس عمر میں سب بچوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ لازمی طور پر تمام روزے رکھیں اور کسی ایک روزہ کو بھی ترک نہ کریں درست نہیں اور اسی بات سے میں نے دوستوں کو منع کیا تھا کیونکہ اس طرح اعضاء اور قوتوں کا نشوونما رُک جائے گا۔ اور جب کسی کی طاقتیں کمزور ہو جائیں گی تو آئندہ عمر میں اسے سارے روزے چھوڑنے پڑیں گے۔ لیکن یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں۔ دنیا میں ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو گو چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں مگر ان کی طاقتیں اتنی اچھی ہوتی ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ تمام روزے رکھ سکتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ پندرہ سال کے تھے جب انہوں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں سارا سال روزے رکھتا چلا جاؤں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایاسارا سال روزے رکھنے جائز نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا اچھا تو پھر میں مہینہ میں سے دس دن چھوڑ دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا یہ بھی جائز نہیں۔ آخر ان کے بڑے اصرار اور بار بار کہنے کے بعد رسول کریم ﷺ نے انہیں صرف اتنی اجازت دی کہ ایک دن روزہ رکھ لیا کرو اور دوسرے دن نہ رکھا کرو۔ جب وہ بوڑھے ہو گئے تو وہ کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسول کریم ﷺ کے حضور ایسی گستاخی کا ارتکاب نہ کرتا کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مجھے اپنے عہد کو نباہتے ہوئے التزام کے ساتھ ہر دوسرے دن روزہ رکھنا پڑتا ہے مگر اب میری قوت اس بوجھ کو برداشت نہیں کرتی۔ 2 تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پندرہ سال کی عمر میں ہی ایسے مضبوط قویٰ تھے کہ وہ سمجھتے تھے میں اگر سارا سال بھی روزے رکھتا چلا جاؤں تو رکھ سکتا ہوں۔ ایسی قوتیں رکھنے والا اگر آج بھی کوئی نوجوان موجود ہو اور وہ ابھی اٹھارہ سال کی عمر کو نہ پہنچا ہو تو اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی رمضان کے سارے روزے رکھ سکتا ہے۔ اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے فتویٰ دیا ہؤا ہے کہ اٹھارہ سال سے پہلے کوئی نوجوان سارے روزے نہ رکھے سخت نادانی اور حماقت ہو گی۔ اگر تو روزہ ایک چٹّی ہو تو پھر تو اسے بے شک بہانوں سے ٹالا جا سکتا ہے لیکن اگر روزہ خداتعالیٰ کا فضل، احسان اور انعام ہے تو پھر اس کو چھوڑنے میں اسی کا نقصان ہے جو روزہ رکھنے سے گریز کرتا ہے۔
پس یاد رکھو میرا فتویٰ گناہ کے متعلق ہے۔ یعنی ایسا انسان جو ابھی بلوغتِ تامہ کو نہیں پہنچا وہ محض کمزوری کی وجہ سے اگر روزہ چھوڑتا ہے تو وہ گناہ گار نہیں لیکن بلوغتِ تامہ کے بعد صرف کمزوری کے خوف سے اگر کوئی ایک روزہ بھی چھوڑتا ہے تو وہ گنہگار ہے۔ وہ صرف اس کمزوری کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے جس کا لازمی نتیجہ بیماری ہو ورنہ اگر کسی کے قویٰ اچھے ہوں اور روزوں سے اسے کوئی تکلیف نہ ہوتی ہو تو چاہے وہ اٹھارہ سال کی عمر کو نہ پہنچا ہو اُسے چاہیئے کہ وہ روزے رکھے۔
تھوڑے ہی دن ہوئے ایک عورت نے اپنے ایک عزیز کے متعلق جو گیارہ بارہ سال کا ہے مجھ سے پوچھا کہ وہ روزے رکھتا ہے اور منع کرنے سے باز نہیں آتا اور یوں اس کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں تو کیا ہم اسے روزے رکھنے دیں؟ تو میں نے جواب دیا کہ جب صحت پر کوئی بھی بُرا اثر نہیں تو روزے رکھنے دو۔ ہاں اگر کمزوری نظر آئے تو چھڑوا دینا۔ تو ایسے بچے اٹھارہ سال سے کم عمر میں بھی روزے رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی بچہ دوسروں کی نقالی میں روزے رکھتا ہے یا بچوں کے دکھاوے کے لئے روزے رکھتا ہے اور اس سے اس کی طاقتوں پر بُرا اثر پڑتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اسے روزے رکھنے سے روکیں کیونکہ ہمارا کام جہاں یہ ہے کہ ہم بچوں کو روزے رکھوائیں وہاں یہ بھی ہمارا ہی کام ہے کہ اگر ہمارا بچہ کمزور یا بیمار ہو تو اسے روزے نہ رکھنے دیں۔ بچوں میں عام طور پر یہ شوق ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہیں ‘‘تُوں کتنے روزے رکھے۔’’ اور وہ جواب دیتا ہے کہ دس۔ اس پر دوسرا پوچھتا ہے کہ ‘‘تُوں کتنے روزے رکھے’’ اور جب یہ جواب دیتا ہے کہ آٹھ تو شرمندہ ہو جاتا ہے اور دوسرے کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ میں نے زیادہ روزے رکھے۔ تو بچوں میں ایک قسم کی رقابت ہوتی ہے ۔ اگر محض رقابت کی وجہ سے کوئی بچہ روزے رکھتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ اسے روکیں کیونکہ اگر ہم اس عمر میں اسے روزے رکھنے سے نہیں روکیں گے تو بلوغت کے بعد جو اسے تیس یا چالیس یا پچاس سال عمر ملے گی اس میں وہ اپنی طاقت کی کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے گا اور اسی طرح دین کے دوسرے کاموں میں بھی عمدگی سے حصہ نہیں لے سکے گا۔ پس اس وجہ سے کہ وہ بعد کی عمر میں دین کی خدمت زیادہ عمدگی سے کر سکے اس عمر میں جو نشوونما کی عمر ہوتی ہے کمزور بچوں کو مسلسل روزے رکھنے سے روکنا ہمارا فرض ہے اور یہ امر دین کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے عین مطابق ہے۔
ایک دفعہ رسول کریم ﷺ جہاد کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے اعلان فرمایا کہ آج روزہ داروں سے بے روزہ بڑھ گئے۔ درحقیقت اس سفر میں بعض صحابہؓ نے نفلی روزہ رکھا ہؤا تھایا ابھی سفر میں روزہ رکھنے کی ممانعت کا حکم نازل نہیں ہؤا تھا۔ مجھے اس وقت صحیح یاد نہیں ۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب منزل پر پہنچے اور افطاری کا وقت ہو گیا تو جو روزہ دار تھے وہ تو روزے کھول کر لیٹ گئے اور جو بے روزہ تھے انہوں نے خیمے لگائے، خندقیں کھودیں اور لشکر کے لئے لکڑی پانی وغیرہ کا انتظام کیا۔ رسول کریم ﷺ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ آج روزہ داروں سے بے روز بڑھ گئے۔ 3 یعنی جس کام کے لئے ہم نکلے تھے اس کا موقع ان کو ملا جو بے روز تھے ان کو نہ ملا جو روزہ دار تھے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص میدان جہاد میں روزہ رکھ لیتا اور افطاری کے وقت پانی پی پی کر پیٹ بھر لیتا ہے اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ روزہ رکھ کر اس نے نیکی کی بلکہ ہم کہیں گے کہ اس نے بدی کی کیونکہ ہر کام کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اور اگر ایک نیکی کسی دوسری نیکی میں روک بن جاتی ہے تو وہ نیکی یا تو بدی بن جاتی ہے یا ادنیٰ درجہ کی نیکی کہلاتی ہے۔ وہاں چونکہ ابھی لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی اس لئے رسول کریم ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ روزہ داروں سے بے روز بڑھ گئے لیکن فرض کرو اگر اس وقت جہاد ہو رہا ہوتا اور مسلمانوں کو جاتے ہی کفار سے لڑائی کرنی پڑتی اور روزہ دار بوجہ روزہ رکھنے کے لڑائی میں شامل نہ ہو سکتے تو ان کا روزہ ان کے لئے گناہ بن جاتا۔ تو موقع اور محل ہوتا ہے جس کے ماتحت کوئی نیکی بڑھ جاتی ہے اور کوئی کم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ سے جب کوئی پوچھتا کہ میں نیکی کا کون سا کام کروں تو آپ ہمیشہ اس کے مناسب حال نیکی کا کام بتایا کرتے تھے۔ مثلا ایک نے پوچھا کہ سب سے بڑی نیکی کون سی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا ماں کی خدمت۔ ایک اور نے پوچھا کہ سب سے بڑی نیکی کون سی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا نماز کا اپنے وقت پر ادا کرنا۔ 4 پھر تیسرے نے پوچھا کہ سب سے بڑی نیکی کون سی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا جہاد۔ 5 گویا کسی کو کچھ جواب دے دیا اور کسی کو کچھ۔ اب ایک نادان تو یہ سمجھے گا کہ رسول کریم ﷺ نے نَعُوْذُ بِاللہ غلط جواب دیا۔ کسی کو کوئی بڑی نیکی بتا دی اور کسی کو کوئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ موقع اور محل دیکھ کر نیکی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ وہ شخص جسے آپ نے یہ فرمایا کہ تیرے لئے سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ تو اپنی ماں کی خدمت کیا کر، ممکن ہے اس کی ماں بڑھیا ہو اور اس کی طبیعت ایسی ہو کہ بیوی بچوں کی طرف اسے زیادہ رغبت ہو اور ماں کی خدمت کو وہ کوئی زیادہ اہمیت نہ دیتا ہو۔ رسول کریم ﷺ نے اس کے اس نقص کو دیکھ کر یہ فرما دیا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ تم اپنی ماں کی خدمت کیا کرو۔ اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص تھا جو اپنی ماں سے تو محبت رکھتا تھا ۔ آجکل بھی بعض لوگ اپنی ماؤں کے لئے جانیں دے دیتے ہیں، لیکن وہ جہاد میں جانے سے ہچکچاتا تھا۔ رسول کریم ﷺ نے اسے فرما دیا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی جہاد ہے۔ اسی طرح جو نماز میں سست تھا اسے رسول کریم ﷺ نے یہ فرما دیا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی نماز کا اپنے وقت پر ادا کرنا ہے۔ اسی طرح کسی کے لئے سب سے بڑی نیکی زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی۔ کسی کے لئے سب سے بڑی نیکی چندہ دینا ہو گی اور کسی کے لئے سب سے بڑی نیکی حج کرنا ہو گی۔
آجکل کے امراء کے لئے حج میں سمجھتا ہوں سب سے بڑی نیکی ہے کیونکہ باوجود مال و دولت کے وہ کبھی حج کے لئے نہیں جاتے اور جولوگ حج پر جاتے ہیں ان میں سے سو میں سے ننانوے ایسے ہوتے ہیں جن پر حج واجب نہیں ہوتا۔ میں جب حج کے لئے گیا تو ایک حاجی میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کچھ مانگا۔ حضرت نانا جان صاحب مرحوم میرے ساتھ تھے۔ انہوں نے اسے کہا کہ اگر تمہارے پاس کچھ تھا نہیں تو تم حج کے لئے آئے کیوں؟ وہ کہنے لگا میرے پاس بہت روپے تھے مگر سب خرچ ہو گئے۔ حضرت نانا جان مرحوم نے پوچھا کہ کتنے روپے تھے ۔ وہ کہنے لگے جب میں بمبئی پہنچا تھا تو میرے پاس پینتیس روپے تھے اور میں نے ضروری سمجھا کہ حج کر آؤں۔ تو وہ پینتیس روپوں کو ہی بہت سمجھتا تھا مگر مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پینتیس ہزار بلکہ پینتیس پینتیس لاکھ روپے رکھتے ہیں اور پھر وہ حج کے لئے نہیں جاتے۔ ہندوستان میں چھ سو سے اوپر ریاستیں ہیں۔ ان میں پینتیس چھتیس کے قریب مسلمانوں کی ریاستیں ہیں اور یہ تمام ریاستیں پچیس تیس ہزار سے بارہ کروڑ روپیہ تک کی آمدن کی ہیں مگر ان ریاستوں کے مالکوں میں سے شاید کسی کو بھی حج نصیب نہیں ہؤا۔ پھر مسلمانوں میں بڑے بڑے تعلقہ دار ہیں اور وہ بھی آٹھ دس ہزار سے لے کر چالیس پچاس لاکھ روپیہ تک کی سالانہ آمد رکھتے ہیں مگر ان میں سے شاید سو میں سے ایک یا ہزار میں سے ایک حاجی ہوتا ہو۔ لیکن غرباء میں بہت حاجی نظر آتے ہیں۔ ایک شخص ساری عمر تھوڑا تھوڑا روپیہ جمع کرتا رہتا ہے اور جب دو تین سو روپیہ اس کے پاس اکٹھا ہو جاتا ہے تو وہ تمام عمر کا اندوختہ لے کر حج کے لئے چل پڑتا ہے حالانکہ اسی روپیہ پر اس کے بیوی بچوں کی آئندہ زندگی کا مدار ہوتا ہے ۔ وہ اگر اس روپیہ سے اچھے بیل خرید لے یا کچھ ایکڑ زمین لے لے تو اس کے بیوی بچوں کے لئے سہولت پیدا ہو سکتی ہے لیکن وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور روپیہ اٹھاتا اور حج کے لئے چل پڑتا ہے۔ تو امراء کے لئے سب سے بڑی نیکی حج ہے کیونکہ حج میں وہ سب سے زیادہ کوتاہی کرتے ہیں۔ اسی طرح امراء میں یہ نقص بھی ہوتا ہے کہ وہ نمازیں نہیں پڑھتے۔ سارا دن شطرنج کھیلیں گے ، ٹینس کھیلیں گے، بیڈمنٹن کھیلیں گے، برج وغیرہ انگریزی کھیلیں کھیلتے رہیں گے مگر نماز نہیں پڑھیں گے اور جب ان سے پوچھا جائے تو وہ کہہ دیں گے کہ کیا کریں فرصت ہی نہیں ملتی۔ پھر کچھ امراء اس وہم میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہمارا کپڑا پاک نہیں۔ ایک دفعہ حیدر آباد کے ایک بڑے نواب صاحب جو نظام حیدرآباد کے رشتہ داروں میں سے ہیں مجھ سے ملنے آئے۔ میں نے ان کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ آپ نمازیں پڑھا کریں۔ وہ کہنے لگے میں نماز تو پڑھتا ہوں ہاں سفر میں نماز رہ جاتی ہے کیونکہ سفر میں پوری صفائی نہیں ہوتی اور اس طرح نماز چھوڑ دینی پڑتی ہے۔ چنانچہ کہنے لگے دیکھئے سفر میں پوری صفائی کہاں ہو سکتی ہے ریل کے گدیلے پر بیٹھا جاتا ہے اور وہ کہاں صاف ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاخانے صاف نہیں ہوتے اور نجاست کے چھینٹے کپڑوں پر آ پڑتے ہیں۔ اس وجہ سے نمازیں پڑھنی مشکل ہو جاتی ہیں۔ میں نے کہا آپ کا یہ خیال غلط ہے آپ کو نماز بہرحال پڑھنی چاہیئے۔ بے شک کپڑوں کی صفائی بھی ضروری ہے لیکن اگر صفائی کسی وجہ سے نہ ہو سکے تو انہی کپڑوں سے نماز پڑھ لیں اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر آپ کے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا ہو اور وہ پیشاب میں ڈوبا ہؤا ہو اور اتنا وقت نہ ہو کہ آپ صفائی کر سکیں تو انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لینی چاہیئے۔ بے شک صفائی بھی ضروری چیز ہے لیکن جب تک صفائی کا وقت ہو اس وقت تک صفائی کریں اور جب نماز کا وقت آ جائے تو اس وقت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں خواہ کپڑوں سے کتنی ہی غلاظت لگی ہوئی ہو کیونکہ نماز تمام چیزوں سے مقدم ہے اور اسے کسی صورت بھی ترک کرنا جائز نہیں۔ غرض میں نے نماز پڑھنے کے متعلق بہت ہی زور دیا اور اس کا ان پر اتنا اثر ہؤا کہ انہوں نے اپنے نوکروں کو حکم دے دیا کہ صبح مجھے نماز کے لئے ضرور جگا دیا جائے اور اگر میں نہ اٹھوں تو بے شک مجھے چارپائی سے گرا دینا کیونکہ اس نصیحت کے بعد آج نماز نہ پڑھنا میں بہت بڑا گناہ سمجھتا ہوں۔ امراء عموماً جلدی سو جایا کرتے ہیں مگر اس روز وہ مجھ سے کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اس لئے انہیں کافی رات گئے سونا پڑا۔ جب صبح کا وقت ہؤا تو نوکروں نے انہیں اٹھایا وہ بڑی مشکل سے اٹھ تو بیٹھے مگر پھر لیٹ گئے۔ انہوں نے پھر اٹھایا تو وہ پھر لیٹ گئے۔ آخر پکڑ پکڑا کر وہ انہیں نماز کے لئے چھوٹی مسجد میں لائے۔ مسجد میں بیٹھ کر بھی وہ اونگھتے ہی رہے اور اونگھتے اونگھتے ہی انہوں نے نماز پڑھی۔ لطیفہ یہ ہؤا کہ جب نماز کے بعد وہ جانے لگے تو نیند کی حالت میں کسی کی پرانی سڑی ہوئی جوتی پہن کر چل پڑے۔ رستہ میں نوکر نے جو ان کو کسی کی پھٹی پرانی جوتی پہنے دیکھا تو کہا حضور آپ نے یہ کیا پہنا ہؤا ہے؟ اس آواز پر وہ کچھ بیدار ہوئے اور اپنے پاؤں کی طرف دیکھ کر حیران ہو گئے۔ آخر اپنے نوکر سے کہنے لگے کہ جلدی سے یہ جوتی وہاں جا کر رکھ آؤ کسی نے دیکھ لیا تو وہ یہ نہ کہے کہ مَیں مسجد سے جوتی چُرا لایا ہوں حالانکہ ان کا اپنا جوتا پچیس تیس روپے کا ہو گا اور وہ جوتی پھٹی پرانی تھی۔ کوئی کہہ ہی کس طرح سکتا تھا کہ انہوں نے پچیس تیس روپے جوتے کے بدلہ میں ایک پھٹی پُرانی جوتی چُرا لی مگر انہوں نے نوکر سے کہا جلدی جانا ایسا نہ ہو کہ کوئی مجھے یہ کہہ دے کہ میں اس کی جوتی چُرا لایا ہوں۔ آخر نوکر مسجد میں آیا اور وہاں سے جوتا بدل کر لے گیا۔ تو بعض لوگ اس وہم کی وجہ سے نماز نہیں پڑھا کرتے کہ شاید ان کے کپڑے صاف نہیں۔ حالانکہ یہ کوئی معقول عذر نہیں۔ پھر امراء کا میں کیا کیا عیب گنواؤں ان کے لئے تو روزہ رکھنا بھی بڑی مشکل چیز ہے۔
کہتے ہیں کوئی امیر آدمی تھا اس نے ایک دن کسی مولوی کے وعظ سے متاثر ہو کر روزہ رکھ لیا مگر ابھی ظہر ہی ہوئی تھی کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگا۔ بھلا ایک دن میں جنہیں بیس بیس مرتبہ کھانے کی عادت ہو وہ کس طرح صبر کر سکتے ہیں۔ آخر تنگ آ کر اس نے نوکر کو آواز دی اور کہا کہ دیکھو شام کی اذان ہوئی ہے یا نہیں۔ اس نے کہا حضور ابھی شام کہاں ابھی تو سورج نصف النہار پر کھڑا ہے۔ کہنے لگا پھر تو میری موت آ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر نوکر کو آواز دی اور کہا دیکھنا مغرب کی اذان تو نہیں ہوئی ۔اس نے کہا ابھی تو مغرب میں بہت دیر ہے۔ کہنے لگا اچھا ملّا کو بلاؤ۔ مُلّاآیا تو کہنے لگا روزہ کس وقت کھولا جاتا ہے۔ اس نے کہا شام کے وقت ۔ وہ کہنے لگا پھر میرا کیا بنے گا میں تو اس وقت تک مر جاؤں گا۔ مُلّا نے کہا پھر میں کیا کر سکتا ہوں۔ اس نے کہا اچھا یہ بتاؤ اگر میں روزہ توڑ دوں تو میرے لئے کیا سزا ہے۔ اس نے کہا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ وہ یہ سن کر بہت خوش ہؤا اور کہنے لگا اس مُلّا کو انعام دو اور ساٹھ مسکینوں کے کھانے کا ابھی انتظام کر دو۔ میں روزہ توڑ دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے روزہ توڑ دیا اور کہنے لگا اَلْحَمْدُ لِلہِ اسلام بھی کیسا بابرکت مذہب ہے کہ اس نے انسان کو ہر قسم کی سہولتیں دے رکھی ہیں اور کسی موقع پر بھی کوئی تکلیف پیش نہیں آتی۔ اس نے اپنی طرف سے سمجھا کہ روزانہ گھر میں کئی کئی کھانے تو پہلے ہی پکتے ہیں آج اگر ساٹھ مسکینوں کو میں نے کھانا کھلا دیا تو کون سی بڑی بات ہو گی حالانکہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی سزا اس کے لئے ہے جو جذباتِ نفسانی کے جوش کے ماتحت غلطی سے روزہ توڑ دیتا ہے۔ اس کے لئے نہیں جو دیدۂ دانستہ روزہ توڑ لے اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا کر سمجھ لے کہ چھٹی ہو گئی۔ اب اس کا کوئی جرم نہیں رہا۔ جو شخص دیدۂ دانستہ روزہ چھوڑتا ہے وہ خداتعالیٰ کا مجرم ہے اور کوئی ظاہری سزا اس کا کفارہ نہیں ہو سکتی۔ تو امراء کے لئے میں کون کون سی چیز گناؤں۔ ان کے لئے تو ساری عبادتیں ہی بڑی نیکیاں ہیں مگر پھر بھی چونکہ دنیا میں مُخْتَلِفُ الْاَنْوَاع لوگ رہتے ہیں اس لئے کسی کے لئے حج بڑی نیکی ہے، کسی کے لئے زکوٰۃ بڑی نیکی ہے، کسی کے لئے روزہ بڑی نیکی ہے، کسی کے لئے نماز بڑی نیکی ہے۔ اس اصل کے ماتحت جو لوگ روزہ رکھنے میں سستی کرتے ہوں ان کے لئے روزہ رکھنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ اگر وہ اپنے نفس میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان سے روزہ رکھنے میں سستی ہو جاتی ہے تو انہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ ان کے لئے بڑی عبادت روزہ ہے۔ اگر وہ روزے رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے قرب کو زیادہ جلدی حاصل کر لیں گے یہ نہیں کہ ان کے لئے دوسری عبادتیں معاف ہو جائیں گی ۔ معاف تو کوئی عبادت بھی نہیں ہو سکتی البتہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا حصول زیادہ تر روزوں پر ہی مبنی ہو گا اور اس نیکی کا انہیں اور نیکیوں کے مقابلہ میں زیادہ ثواب ملے گا۔ پس نیکیوں میں سے کسی ایک نیکی کا ترک کرنا بھی گناہ ہے لیکن نیکیوں میں سے اس نیکی کو اختیار کرنے میں زیادہ ثواب ہے جس کے بجا لانے میں انسان سے سستی ہو جایا کرتی ہو۔ پس وہ لوگ جو روزہ رکھنا اپنے لئے ایک قسم کا بوجھ سمجھتے ہیں انہیں روزہ رکھنے کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اس بہانہ سے اس حکم کو ٹالنا نہیں چاہیئے کہ روزہ رکھنے سے انہیں کمزوری ہو جاتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ میں نے پہلے کہا اور جو کچھ میں آ ج بھی کہتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ 18 سال سے پہلے صرف کمزوری کی بناء پر کبھی کبھی روزہ رکھنا جائز ہے مگر کمزوری سے میرا مراد معمولی ضُعف نہیں جو عام طور پر روزوں کے نتیجہ میں پیدا ہؤا ہی کرتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو ایسا محسوس ہو کہ وہ روزہ برداشت نہیں کر سکے گا۔ پس جب تک بلوغت تامہ نہ ہو اس وقت تک محض اس وجہ سے کسی نہ کسی دن روزہ چھوڑ دینا جائز ہے اور وہ لوگ جو پابندی کے ساتھ اپنے بچوں سے جو ابھی بلوغتِ تامہ کو نہیں پہنچے رمضان کے تمام روزے رکھواتے ہیں ان کے متعلق میں آج بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ وہ گنہگار ہیں کیونکہ آج تو وہ دباؤ ڈال کر اپنے بچوں سے روزے رکھوا لیں گے مگر اس کے نتیجہ میں وہ ایسے کمزور ہو جائیں گے کہ بقیہ ساری عمر روزے رکھنے سے محروم رہیں گے۔ پس کمزور بچوں کو محض کمزوری کی وجہ سے روزوں میں ناغے کر لینے جائز ہیں لیکن بلوغت کے بعد محض کمزوری کی بناء پر روزوں میں ایک ناغہ کرنا بھی جائز نہیں۔ اس وقت صرف ایسی ہی کمزوری کی وجہ سے روزہ چھوڑا جا سکتا ہے جس کے متعلق ڈاکٹر کی یہ رائے ہو کہ اگر اس حالت میں روزہ رکھا گیا تو یہ بیمار ہو جائے گا۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں نے خود کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو روزہ نہیں رکھتے اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں نہیں رکھاتو جواب دیتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے ہمیں بڑا ضعف ہو جاتا ہے حالانکہ روزہ تو شریعت نے مقرر ہی اس لئے کیا ہے کہ انسان کچھ کمزور ہو۔ اس لئے تو مقرر نہیں کیا کہ روزہ رکھنے والا پہلے سے زیادہ موٹا ہو جائے۔ مگر ہمارے ملک کے مسلمان امراء کی یہ حالت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے ان کے روزے ان کے لئے خوید کا کام دیتے ہیں یعنی جس طرح گھوڑے کو خوید دی جائے تو وہ موٹا ہو جاتا ہے اسی طرح رمضان کے ایام میں انہیں دن رات کھانے کا فکر رہتا ہے۔ شام ہوتی ہے تو سحری کے لئے تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور صبح ہوتی ہے تو انہیں افطاری کا فکر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ نوکروں میں سے کوئی تو پکوڑے تَل رہا ہوتا ہے، کوئی سویاں پکا رہا ہوتا ہے، کوئی بادام اور پستہ تیار کر رہا ہوتا ہے، کوئی فرنی بنا رہا ہوتا ہے، کوئی یخنی بنانے میں مشغول ہوتا ہے اور کوئی یاقوتی تیار کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ غرض سارا دن گھر میں ایک آفت بپا رہتی ہے اور جب خدا خدا کر کے روزہ افطار ہوتا ہے تو اسی وقت سے سحری کا فکر ہو جاتا ہے اور وہ نوکروں کو ہدایات دینی شروع کر دیتے ہیں کہ صبح مرغا تیار ہو، ساتھ پراٹھے پکائے جائیں اور مکھن وغیرہ کا بھی انتظام ہو۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزے رکھانے سے شریعت کی تو یہ غرض ہوتی ہے کہ انسان کچھ ریاضت کا عادی ہو جائے اور غرباء کی حالت کا اسے علم حاصل ہو جائے مگر وہ ان روزوں کے بعد پہلے سے دو گنے موٹے ہو جاتے ہیں۔ پس روزوں کی یہ غرض نہیں بلکہ روزوں کی غرض یہ ہے کہ انسان کے اندر بھوک اور پیاس کی تکلیف کو برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہو اور امراء کو اپنے غریب بھائیوں کی امداد کا احساس ہو۔ جو شخص کبھی بھوکا نہ رہے اسے غرباء کی امداد کا کہاں خیال آ سکتا ہے لیکن جو شخص خود روزہ رکھے گا اور بھوک کی تکلیف کو محسوس کرے گا اسے غریب بندوں کی تکلیف کا بھی احساس ہو گا۔
پس امراء پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے۔ وہ شریعت کے ان احکام کو اُس قدرومنزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جس قدرومنزلت کی نگاہ کے ساتھ انہیں ان احکام کو دیکھنا چاہیئے بلکہ بعض امراء تو دین کی حقیقت سے اتنے ناواقف ہوتے ہیں کہ وہ افطاری اور سحری تو ضروری سمجھتے ہیں مگر روزہ رکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ تو یہ چیز ایسی ہے جس سے بچنا چاہیئے۔ مگر ایسے کمزور بچوں کو جن کی طاقتوں اور قوتوں نے ابھی پورے طور پر نشوونما حاصل نہ کیا ہو روزوں میں وقفہ دے دینا شریعت کے خلاف نہیں بلکہ اگر کوئی اس پر اعتراض کرتا ہے تو وہ میرے نزدیک کٹھ حجت ملّا ہے کیونکہ وہ چند روزوں کی خاطر اس کی تمام عمر برباد کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں وہ نوجوان جس میں کافی طاقت پائی جاتی ہے اور پھر بھی وہ روزہ نہیں رکھتا محض اس وجہ سے کہ اس کی عمر ابھی اٹھارہ سال کی نہیں ہوئی وہ بھی بے دین ہے کیونکہ خداتعالیٰ نے اسے جو سہولت دی تھی اس سے وہ ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ پس یہ دونوں ہی غلط راستہ پر ہیں۔ وہ جو کسی کمزور بچے سے زبردستی روزے رکھواتا ہے اور اس سے یہ امید کرتا ہے کہ وہ ایک روزہ کا بھی ناغہ نہ کرے وہ بھی ظالم اور کٹھ حجّت مُلّا ہے اور وہ جو طاقت کے باوجود محض اس بہانہ کی آڑ میں روزہ نہیں رکھتا کہ ابھی اس کی عمر کم ہے وہ بھی دین سے تمسخر کرتا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی بجائے اس کی دشمنی مول لیتا ہے۔
ہاں یہ یاد رکھو کہ روزوں میں عادت کا بھی بہت کچھ دخل ہوتا ہے۔ بیشک 18 سال سے قبل ہم ہر بچہ سے توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ تمام روزے رکھے گا مگر ماں باپ کا یہ فرض ضرور ہے کہ وہ اس عمر میں انہیں روزے رکھنے کی عادت ڈالیں کیونکہ اگر ان رخصت کے ایام میں انہیں روزے رکھنے کی عادت نہیں ہو گی تو انیسویں سال وہ کبھی سارے رمضان کے روزے نہیں رکھ سکیں گے۔ انیسویں سال وہی شخص رمضان کے تمام روزے رکھ سکتا ہے جس نے گیارہ بارہ سال سے روزے رکھنے کی مشق شروع کر دی ہو اور اٹھارویں سال تک قریباً تمام روزے رکھنے کا عادی ہو گیا ہو ورنہ اگر وہ اس رخصت سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا تو شاید ساری عمر ہی بہانے بناتا رہے گا اور کبھی بھی سارے روزے نہیں رکھ سکے گا۔
میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ قادیان میں ایسے کئی نوجوان موجود ہیں جو معمولی معمولی بہانوں کی آڑ میں روزہ چھوڑ دیتے ہیں مثلاً کوئی کہہ دیتا ہے کہ روزہ رکھنے سے مجھے پیچش ہو جاتی ہے، کوئی کہتا ہے مجھے کمزوری اور ضُعف ہو جاتا ہے اور یہ صرف بہانہ ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رخصت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ا چھے تندرست لوگوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی سب لوگوں کو ابتدائی روزوں میں کوئی نہ کوئی تکلیف ضرور ہو جاتی ہے ۔ خود میری یہ حالت ہے کہ شروع سے ایک دو روزوں میں مجھے شام کے وقت سردرد کا دورہ ہو جایا کرتا ہے۔ میرے معدے میں ترشی زیادہ ہے اور فاقہ کی وجہ سے اس ترشی کا زور دماغ کی طرف ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سردرد شروع ہو جاتا ہےمگر ایک دو دن کے بعد وہ ترشی ماری جاتی ہے اور پھر سردرد نہیں ہوتا۔ اب اگر اس قسم کے سردرد کو میں بیماری قرار دے دوں تو شاید ایک دو روزوں کے سوا کبھی کوئی روزہ نہ رکھ سکوں۔ تو اس قسم کے بہانوں کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔ مگر بلاوجہ سختی کر کے یونہی خیال کر کے کہ فلاں بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں ہی بالغ ہو گیا ہے اس سے تمام روزے رکھوانا بھی جائز نہیں۔ بلکہ بارہ تیرہ سال کی بھی شرط نہیں مَیں تو یہ بھی مان سکتا ہوں کہ کوئی شخص آٹھ سال کی عمر میں ہی بالغ ہو جائے مگر یہ کوئی قانون نہیں ہو گا۔ طبی طور پر جو ایک مسلمہ قانون ہے وہ یہی ہے کہ 18 سال کی عمر بلوغت تامہ کا زمانہ ہے۔ بعض کی بلوغت تامہ بائیس سال کی عمر میں بھی ہوتی ہے مگر ایسے لوگ بہت قلیل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر جن بچوں نے اپنا قد نکالنا ہوتا ہے وہ اٹھارہ سال تک نکال لیتے ہیں اور ان کی قوتیں بھی نشوونما حاصل کر لیتی ہیں۔ بعد میں بھی گو ایک خاص عمر تک ان قوتوں میں نشوونما ہوتا رہتا ہے مگر وہ بہت کم ہوتا ہے۔ اس نشوونما کے زمانہ میں بچے پر یہ زور دینا کہ وہ ضرور تیس روزے رکھے اس کی صحت کو خراب کرنا اور اسے آئندہ کے لئے کام کے ناقابل بنانا ہے۔ مگر جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں اس عمر کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اگر اس کو ضائع کر دیا گیا تو اس کا بھی بچے کو نقصان پہنچے گا بلکہ جیسے مدرسہ کی پڑھائی میں تدریجاً اضافہ کیا جاتا ہے اسی طرح ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اس زمانہ میں اپنے بچوں کو ہر سال کچھ نہ کچھ روزے رکھواتے چلے جائیں۔ کچھ روزے بارہ سال کی عمر میں رکھوائیں۔ پھر کچھ روزے بڑھا کرتیرہ سال کی عمر میں رکھوائیں۔ اسی طرح چودھویں ، پندرھویں، سولہویں اور سترھویں سال اس کے روزوں میں اضافہ کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ اٹھارویں سال اگر وہ طاقتور ہے تو اسے تمام روزے رکھوائے جائیں اور اگر کمزور ہے تو دو چار چُھڑا دئیے جائیں تاکہ جب وہ اپنی عمر کے انیسویں سال میں داخل ہو تو ایک روزہ بھی نہ چھوڑے۔ اگر اس طرح اسے پہلے سے روزوں کی عادت نہیں ہو گی تو انیسویں سال وہ کبھی سارے روزے نہیں رکھ سکے گا بلکہ کچھ روزے رکھے گا اور کچھ چھوڑ دے گا ۔ اسی طرح بیسویں سال کچھ روزے رکھے گا اور کچھ چھوڑ دے گا اور کئی سال کے بعد وہ اس حالت پر آئے گا کہ رمضان کے تمام روزے رکھے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس عرصہ میں اس کے دل پر زنگ لگ جائے اور جو روزے وہ چھوڑ دے انہیں دوبارہ نہ رکھے۔ تم غور کر کے دیکھ لو اپنے دوستوں اور ہمسائیوں پر بھی نظر دوڑا کر معلوم کر لو کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جن سے اگر کوئی روزہ رہ جاتا ہے تو وہ بعد میں رکھ لیتے ہیں۔ نماز کے متعلق تو ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ جب کسی سے کوئی نماز رہ جاتی ہے تو وہ دوسری نماز کے وقت اسے ادا کر لیتا ہے لیکن رمضان کے روزوں کے متعلق ہمیں یہ تعہّد نظر نہیں آتا۔ جو لوگ تقویٰ شعار ہوتے ہیں وہ تو بعد میں روزے رکھ لیتے ہیں مگر عام طور پر اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی یا زیادہ سے زیادہ لوگ یہ کر لیتے ہیں کہ شوّال میں ان سے جتنے روزے رکھے جا سکتے ہیں رکھ لیتے ہیں اور باقی روزے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ نتیجہ اسی بات کا ہے کہ نوجوانوں کو آغاز جوانی سے روزے رکھنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصتوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
پس میں اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کے تمام دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سہولتیں رکھی ہوئی ہیں ان کا ادب کرو، اس کی رخصتوں کا احترام کرو اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے جس میں کسی کو اپنے جانور چرانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح خدا کی بھی ایک رکھ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رکھ اس کے محارم ہیں۔ جو شخص ان محارم کے قریب اپنے نفس کو چراتا ہے وہ ایک نہ ایک دن خداتعالیٰ کی رکھ میں گھس جائے گا اور اس کی ناراضگی اور غضب کا مورد بن جائے گا۔ 6 پس تم اللہ تعالیٰ کی رخصتوں سے ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ کیونکہ خداتعالیٰ نے ان رخصتوں کو تقویٰ کی ترقی کا ذریعہ بنایا ہے نہ کہ تقویٰ کی تباہی کا۔‘‘
(الفضل 6 نومبر 1940ء)

1 بخاری کتاب التہجد باب الدعا والصلٰوۃ من اٰخر اللیل (الخ)
2 بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم
3 بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الخدمۃ فی الغزو
4 بخاری کتاب التوحید باب وسمی النبی ﷺ الصلٰوۃ عملا
5 سنن النسائی کتاب الایمان باب ذکر افضل الاعمال
6 بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدینہ


28
ہر قوم اور ہر جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات کو احسن طریق سے دنیا میں پھیلائے
اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان دلائل و شواہد پر اپنے معتقدات کی بنیاد رکھے
(فرمودہ یکم نومبر 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ آج دوست معمول سے زیادہ تعداد میں جمع ہیں اور مستورات بھی پہلے سے زیادہ معلوم ہوتی ہیں کیونکہ ان کی طرف سے اس قدر شور و ہنگامہ کی آوازیں آ رہی ہیں کہ غالباً دائیں طرف کے ایک حصہ کے لئے خطبہ کا سننا بالکل ناممکن ہو جائے گا۔ یہ اجتماع ہمارے عام محاورہ کے مطابق رمضان کو وداع کرنے کے لئے ہے۔ چنانچہ آپ لوگوں میں سے کئی تو وہ ہیں جنہوں نے رمضان کا استقبال کیا اور پھر رمضان کی صحبت میں مہینہ بھر رہے اور اس کی برکتوں کو انہوں نے حاصل کیا ۔ وہ آج اس شوق سے یہاں جمع ہوئے ہیں کہ جس مہینہ نے ہم پر اتنابڑا احسان کیا ہے آؤ ہم اس کو رخصت بھی کریں تا وہ ہماری محبت کے جذبہ کو دیکھ کر ہمیں اپنی برکتوں سے پھر بھی حصہ دے اور اپنی روحانی نعمتوں سے ہمیں پھر بھی مالا مال کرے مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے رمضان کا استقبال نہیں کیا تھا اور نہ انہوں نے اس کی برکات سے کوئی فائدہ اٹھایا۔ وہ بھی آج اس مہینہ کو رخصت کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں مگر ان کا آنا بالفاظ دیگر اس لئے ہے کہ وہ رمضان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہؤا جو تم جا رہے ہو۔ تمہارے آنے کی وجہ سے ہم ایک مصیبت میں پھنس گئے تھے اور ہمیں خواہ مخواہ لوگوں کی شرمندگی سے بچنے کے لئے بھوکا اور پیاسا رہنا پڑتا تھا اب اچھا ہؤا جو تم جا رہے ہو اور ہمیں اس بَلا سے نجات ملی۔ دونوں قسم کے لوگ اپنی اپنی نیتوں کے مطابق پھل کھا لیں گے۔ وہ جس نے رمضان کو پایا اور اس کی برکات سے اس نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اس کا وداع برکت والا وداع ہے اور وہ ایسا ہی وداع ہے جیسے ایک دوسرے دوست کو الوداع کہتا ہے اس کا وداع اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ اپنے دوست سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس لئے اسے وداع کرنے جاتا ہے تا اس کا دوست اس پر پھر بھی مہربان رہے اور وہ پھر بھی اس کے پاس آتا رہے۔ مگر وہ جنہوں نے رمضان سے تو کوئی فائدہ نہیں اٹھایا مگر آج اسے وداع کرنے کے لئے آ گئے ہیں ان کے وداع کے معنے یہ ہیں کہ اچھا ہؤا جو تجھ سے چھٹکارا حاصل ہؤا۔ ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ان کی نیتوں کے مطابق بدلہ ملے گا۔ وہ جو پہلا گروہ ہے جس نے رمضان سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور جو محبت اور اخلاص کے جذبات کے ساتھ اسے وداع کرنے کے لئے آیا اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے لئے دعا کریں گے اور کہیں گے خدا تجھے اور بھی کئی رمضان نصیب کرے اور تجھے توفیق دے کہ تو اس کی برکتوں سے فائدہ حاصل کرے مگر وہ جو آج رمضان کو اس نیت سے الوداع کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ انہیں ایک مصیبت سے نجات ملی ان کو آج کی نماز کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی کیونکہ وہ رمضان کی عزت کرنے نہیں بلکہ اس کی ہتک کرنے آئے ہیں۔
اس کے بعد میں ایک اور امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ چند دن ہوئے ہماری جماعت کے ایک دوست نے مجھے ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ مجھے ایک مخالف شخص نے کچھ ٹریکٹ دینے چاہے جن کے لینے سے مَیں نے انکار کر دیا لیکن اس نے اصرار کیا اور کہا کہ آپ لوگوں کو چاہیئے کہ ہماری باتوں کو سنیں اور ٹریکٹ لینے سے انکار نہ کریں۔ اس دوست نے لکھا ہے کہ مجھے ایک عام اعلان کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو ایسے لوگوں کا لٹریچر پڑھنے سے روک دینا چاہیئے کیونکہ اس طرح جماعت کا کمزور طبقہ متاثر ہوتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔
میں اس بارہ میں پہلے بھی اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں اور اب پھر کہتا ہوں کہ میرے نزدیک پبلک جگہوں میں یا ایسے مقامات جہاں کسی خاص قوم کو کوئی امتیازی حق حاصل نہ ہو وہاں اس کا کوئی جتھا نہ ہو اور بظاہر امن میں خلل واقع ہونے کا کوئی اندیشہ نہ ہو ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کو پھیلانے کا حق رکھتا ہے اور اگر ہم اسے روک دیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ بیرونی مقامات میں جب ہمارا کوئی احمدی ٹریکٹ وغیرہ تقسیم کرنے لگے اور دوسرے لوگ اسے روک دیں یا ٹریکٹ لینے اور پڑھنے سے انکار کر دیں تو وہ بھی اپنے رویہ میں حق بجانب سمجھے جائیں۔ حالانکہ اگر کسی جگہ ہمارا کوئی احمدی اپنے ٹریکٹ تقسیم کرتا ہے اور لینے والا نہیں لیتا تو یہ امر اس کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے مگر بہرحال ہم غیروں کو اپنے ٹریکٹ دیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو جو حق ہمیں حاصل ہے وہی حق دوسروں کو بھی حاصل ہونا چاہیئے۔ مذہب دنیا میں امن پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں فساد پیدا کرنے کے لئے نہیں آتے اور اگر ہم ایک سچے مذہب پر قائم ہیں تو لازماً ہمیں دنیا کو وہ حریت اور آزادی دینی ہو گی جس کے بغیر دنیا کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ یہ تو لینے والے کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے۔ مثلاً فرض کرو کسی کے ہاتھ میں پہلے ہی بہت سی کتابیں ہوں یا اور کوئی سامان اس نے اٹھایا ہؤا ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میں اس وقت نہیں لے سکتا۔ یا ممکن ہے وہ ٹریکٹ اس نے پڑھا ہؤا ہو تو اس صورت میں بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے اس ٹریکٹ کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح اگر اسے پڑھنے کی فرصت ہی نہیں تو اس عذر کی بناء پربھی وہ کوئی ٹریکٹ لینے سے انکار کر سکتا ہے لیکن اگر دینے والا دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دوسرا شخص غلطی پر ہے اور میرا فرض ہے کہ میں اس کی اصلاح کروں تو اگر دیانتداری کے ساتھ اس کی نیت اسی حد تک ہے اور وہ دوسرے کی خیرخواہی و اصلاح کے جذبہ کے ماتحت اپنا کوئی ٹریکٹ دوسرے کو پڑھنے کے لئے دیتا ہے توکوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے تقسیم کرنے یا اپنی جماعت کے دوستوں کو ان کے لینے اور پڑھنے سے منع کریں۔ جس چیز کو اسلام ناجائز قرار دیتا ہے اور جسے ہم ناپسند کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اشتہار بازی یا ٹریکٹوں کی تقسیم وغیرہ سے کوئی فتنہ اٹھایا جائے اور یا پھر ہم اس امر کو ناپسند کرتے ہیں کہ کوئی شخص رات کو اٹھ کر کسی کے خلاف کارٹون لگا دے۔ اگر اس میں جرأت اور دلیری ہے تو وہ کیوں اپنی پنچایت، اپنی مجلس، اپنی جماعت اور اپنی قوم کے بزرگوں کے سامنے اس معاملہ کو نہیں رکھتا اور انہیں کیوں نہیں بتاتا کہ فلاں خرابی کو دور کرنا چاہیئے اس کے معنی تو یہ ہیں کہ اس نے ایک بے دلیل بات بیان کردی مگر جو جواب دینے والا ہے وہ حیران ہے کہ وسوسہ ڈال کر وہ بھاگ کہاں گیا۔ تو یہ چیزیں ہیں جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں لیکن عَلَی الْاِعْلَان کسی کو اشتہار یا ٹریکٹ دینا ہرگز کوئی ناپسندیدہ طریق نہیں۔ بشرطیکہ اس میں گالیاں نہ ہوں اور بشرطیکہ اس کی نیت فساد کی نہ ہو۔ اگر اس طریق کو روک دیا جائے تو مذہب دنیا میں کبھی پھیل ہی نہیں سکتا۔ آخر رسول کریم ﷺ کے جو مخالف تھے انہیں آپؐ کی باتیں سننا ناگوار ہی گزرتا تھا مگر کیا اس وجہ سے انہیں حق تھا کہ وہ رسول کریم ﷺ کو اپنی باتوں کے پھیلانے سے روک دیتے یا اس زمانہ میں تو پریس نہیں تھا مگر کیا موجودہ زمانہ میں غیراحمدیوں کو حق حاصل تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہتے کہ آپؑ ہم میں اپنے اشتہار یا ٹریکٹ کیوں تقسیم کراتے ہیں۔ پس اس قسم کی باتوں کو روکنا حماقت کی بات ہے۔ ہر قوم کا حق ہے کہ وہ اپنے خیالات کو احسن طریق پر دنیا میں پھیلائے اور چاہے تو اشتہار تقسیم کرے اور چاہے تو ٹریکٹ دے۔ یہ لینے والے کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے۔ مگر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کو اپنے لٹریچر کی تقسیم سے روک دے۔ یہ تو اشاعت لٹریچر کے متعلق میں نے ایک اصول بیان کیا ہے لیکن میں اسی حد تک اپنی بات کو محدود نہیں رکھتا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ میرے نزدیک کسی قوم کو بُھورے میں بٹھا دینا اس سے انتہاء درجہ کی دشمنی اور اس کی ترقی کی جڑ پر اپنے ہاتھوں سے تبر رکھنا ہے ۔ جو قوم بُھورے میں بند کر کے بٹھا دی جائے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی اور نہ کبھی عزت اور عروج کو حاصل کر سکتی ہے۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو گھروں میں سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں اور انہیں تاکید کرتے رہتے ہیں کہ دیکھنا باہر نہ جانا ، دیکھنا فلاں فلاں سے نہ ملنا وہ اپنے ماں باپ کی موجودگی میں تو الگ تھلک رہتے ہیں لیکن جب ان کے سروں سے ماں باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے تو وہ اول درجہ کے آوارہ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ نہ معلوم فلاں فلاں لڑکے میں کیا بات ہے کہ ہمارے ماں باپ ہمیں ان سے ملنے نہیں دیتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ماں باپ سر پر نہیں رہتے تو چونکہ ان کے دل میں مدتوں سے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں وہ ان سے ایسے شوق اور ایسی محبت سے ملتے ہیں کہ بہت جلد خراب ہو جاتے ہیں لیکن دوسرا لڑکا جس کی گو جائز نگرانی کی جاتی ہو مگر اسے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بھی منع نہ کیا جاتا ہو وہ جب آوارہ لڑکوں کو دیکھتا اور ان کے انجام پر نظر دوڑاتا ہے تو کبھی غلطی نہیں کرتا اور بالعموم اس کا ایسا مضبوط کیریکٹر رہتا ہے کہ لوگ اس پر ڈورے نہیں ڈال سکتے۔ مسلمانوں کے تنزّل کا بھی زیادہ تر یہی سبب ہؤا کہ وہ غیرمذاہب کی کتب کے پڑھنے سے غافل ہو گئے۔ چنانچہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان کسی عیسائی کی کتاب نہیں پڑھیں گے ، کسی ہندو کی کتاب نہیں پڑھیں گے، کسی اور مذہب والے کی کتاب نہیں پڑھیں گے۔ صرف اپنے ہی مذہب کی کتاب پڑھتے رہیں گے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ عیسائی کیا کہتے ہیں، ہندو کیا باتیں پیش کرتے ہیں۔ اس لئے جب ہندو یا عیسائی ان سے کسی مذہبی مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ آسانی سے ان کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن عیسائی دوسرے مذاہب کی کتب کو خوب غور سے پڑھتے ہیں اور خواہ ان کے سامنے کتنی ہی زبردست دلیلیں پیش کی جائیں ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پس بجائے اس کے کہ میں اس قسم کے لٹریچر کی اشاعت کو ناپسند کروں اور جماعت کو اس کے پڑھنے سے روک دوں۔ میں تحریک کرتا ہوں کہ جماعت کو اپنی فرصت کے اوقات میں اس قسم کا لٹریچر ضرور پڑھنا چاہیئے اگر تمہیں معلوم ہی نہیں کہ مخالف کیا کہتا ہے تو تم اس کا جواب کیا دو گے؟ اور اگر ہماری جماعت کے بعض لوگ اتنے ہی کمزور ہیں کہ وہ مخالف کی ایک کتاب پڑھ کر اپنا ایمان چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے تو ایسے لوگوں کو سنبھالنے سے کیا فائدہ؟ ایک شاعر نے طنزاً کہا ہے کہ
کیا ڈیڑھ چُلّو پانی سے ایمان بہہ گیا
اس نے تو ایک ناجائز چیز کا ذکر کر کے کہا ہے کہ کیا میں اس کا ڈیڑھ چُلّو پی کر ہی کافر ہو گیا مگر جو جائز باتیں ہیں ان کے متعلق ہم یہ کہاں فرض کر لیں کہ ہماری جماعت میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کا ایمان مخالفوں کا ایک اشتہار یا صرف ایک ٹریکٹ یا ایک کتاب پڑھنے سے ہی ضائع ہو جائے گا اور وہ ایسا متاثر ہو گا کہ احمدیت کو چھوڑ دے گا اور اگر کوئی متاثر ہو گا تو اسی وجہ سے کہ ہم نے اسے احمدیت کی حقانیت کے دلائل پوری طرح نہیں سمجھائے ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قوم دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ اپنی اس ذمہ داری کو جو قوم کے تمام افراد کو صحیح تعلیم دینے سے تعلق رکھتی ہے ادا کرنے میں سست ہو جاتی ہے۔ اس قوم کے افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ جب ہم نے دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے اپنی تمام قوم کو منع کر دیا ہے تو وہ غیر کے اثرات سے متاثر ہی کب ہو گی گویا وہ اصلاح کا ایک شارٹ کٹ تجویز کرتے ہیں حالانکہ اس سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن راستہ اور کوئی نہیں۔ جب ہم اپنی جماعت کے افراد کو یہ آزادی دیں گے کہ وہ دوسرے کے لٹریچر کو بھی پڑھیں تو لازماً ہمیں یہ فکر رہے گا کہ ہم دوسروں کے پیدا کردہ شبہات کا بھی ازالہ کریں اور اس کے تردیدی دلائل ان کے ذہن نشین کریں۔ لیکن اگر ہم انہیں دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے ہی منع کر دیں گے تو لازماً ہم تعلیمی پہلو میں سست ہو جائیں گے اور ہمیں یہ احساس نہیں رہے گا کہ دوسروں کے دلائل کا جواب بھی اپنے افراد کو سکھانا چاہیئے۔ چنانچہ فرض کرو اگر ہم کہہ دیں کہ جماعت کا کوئی شخص دوسروں کا لٹریچر نہ پڑھے تو چونکہ حیاتِ مسیح کے دلائل جو وہ پیش کرتے ہیں انہی کی کتب میں سے مل سکتے ہیں اس لئے یہ دلائل ہماری جماعت کی نظروں سے مخفی رہیں گے اور ان کا کوئی جواب ہمارے افراد کو نہیں آئے گا۔ اسی طرح ہم وفات مسیح کے دلائل بھی زیادہ توجہ سے اپنے افراد کو نہیں سکھا سکیں گے کیونکہ وفات مسیح کے دلائل کی ضرورت بھی حیات مسیح کے دعویٰ کے مقابلہ میں ہی پیش آیا کرتی ہے لیکن اگردوسرا شخص حیات مسیح کے دلائل پیش کرے اور وہ دلائل ہماری جماعت کے افراد کے سامنے آتے رہیں تو ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ انہیں وفات مسیحؑ کے دلائل بھی سمجھائیں۔ اسی طرح اگر ہم کہہ دیں کہ مسئلہ نبوت کے بارہ میں کسی مخالف کی کوئی کتاب نہ پڑھی جائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی جماعت کو اپنے عقیدہ کے دلائل بتانے میں بھی ہم سست ہو جائیں گے اور جو لوگ وفات مسیح یا مسئلہ نبوت کو ہم میں ماننے والے ہوں گے وہ بھی عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَتْ ان مسائل پر قائم نہیں ہوں گے بلکہ تقلیدی رنگ میں ہوں گے حالانکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان دلائل اور شواہد کی بناء پر اپنے تمام اعتقادات رکھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کا یہی دعویٰ بیان ہؤا ہے کہ میں اور میرے متبع دلائل سے اسلام کو مانتے ہیں مگر تم اپنی باتوں پر بے دلیل قائم ہو اور جو قوم کسی بات کو بے دلیل مان لیتی ہے وہ کبھی برکت حاصل نہیں کر سکتی۔ برکت اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بادلیل مانے، چاہے وہ سچے مذہب میں ہی کیوں شامل نہ ہو۔ اگر ایک مسلمان اس لئے خدا کو ایک سمجھتا ہے کہ اس کے ماں باپ خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھتے تھے۔ اگر ایک مسلمان اس لئے نمازیں پڑھتا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ کو ہمیشہ نمازیں پڑھتے دیکھا ۔ اگر ایک مسلمان اس لئے روزے رکھتا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ اور اپنی قوم کے افراد کو روزے رکھتے دیکھا ۔ اگر ایک مسلمان اس لئے زکوٰۃ دیتا ہے کہ اس کی قوم زکوٰۃ دیتی ہے اور اگر ایک مسلمان اس لئے حج کرتا ہے کہ اور لوگوں کو بھی وہ حج کرتے دیکھتا ہے تو قیامت کے دن اس کی توحید ، اس کی نمازیں، اس کے روزے، اس کی زکوٰۃ اور اس کا حج اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ بلکہ خدا کہے گا کہ بے شک تم نے توحید کے عقیدہ پر ایمان رکھا مگر میں اس کا ثواب تمہارے ماں باپ کو دوں گا جنہوں نے دلائل سے میری وحدانیت پر ایمان رکھا تھا۔ اسی طرح بے شک تم نے نمازیں بھی پڑھیں ، تم نے روزے بھی رکھے، تم نے زکوٰۃ بھی دی، تم نے حج بھی کیا مگر چونکہ یہ تمام اعمال تم نے دوسروں کو دیکھ کر کئے اور خود ان اعمال کی حقیقت اور حکمت کو نہ سمجھا اس لئے جو لوگ نمازیں سمجھ کر پڑھا کرتے تھے ، روزے سمجھ کر رکھا کرتے تھے، زکوٰہ سمجھ کر دیا کرتے تھے اور حج سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ میں ان تمام نیکیوں کا ثواب ان کو دوں گا نہ کہ تمہیں۔ اس طرح ہر نیکی کا ثواب مارا جائے گا اور وہ ان لوگوں کو دیا جائے گا جنہوں نے سوچ سمجھ کر نیکیاں کی ہوں گی۔
پس یہ طریق بڑا خطرناک ہے جو قوموں کو تباہ و برباد کرنے والا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جس کو جلد سے جلد دور کرنا چاہیئے۔ بے شک ایسی باتیں جن سے فتنہ پیدا ہونے کا امکان ہو اُن سے روکنا ہمارے لئے ضروری ہوتا ہے مگر لٹریچر ایسی چیز نہیں کہ اس کے پڑھنے سے کسی کو روکا جا سکے۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہماری جماعت کے افراد میں سے جن کو بھی فرصت ہو وہ مخالفین کے لٹریچر کو ضرور پڑھیں۔ ہاں ہمارا یہ مطالبہ ہر وقت رہے گا کہ وہ صرف مخالفانہ لٹریچر کو ہی نہ پڑھیں بلکہ اپنے لٹریچر کو بھی بار بار پڑھیں۔ پس مَیں تمہیں دوسروں کے اشتہارات یا پمفلٹ یا کتب پڑھنے سے منع نہیں کرتا بلکہ مَیں تمہیں کہتاہوں کہ تم عیسائیوں کی کتابیں بھی پڑھو، تم یہودیوں کی کتابیں بھی پڑھو، تم آریوں کی کتابیں بھی پڑھو اور جتنی جتنی تمہیں فرصت ہو اس کے مطابق ان کے لٹریچرکا مطالعہ جاری رکھو۔ یہ مطالعہ تمہارے لئے مُضِر نہیں بلکہ مفید ہے اور جتنا زیادہ یہ مطالعہ بڑھے گا اتنا ہی تمہارا کیریکٹر مضبوط ہو گا اور دوسروں کے حملوں سے تم محفوظ رہو گے۔ کیونکہ تم جانتے ہو گے کہ تمہارا مخالف کیا کہتا ہے اور تمہارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ اب اگر میرے سامنے کوئی عیسائی آئے اور کہے کہ مسیح ابن اللہ تھے تو مجھ پر اس کی اس بات کا کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مسیحؑ کو کن معنوں میں ابن اللہ کہا گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ مسیحؑ ایک بشر تھا۔ میں جانتا ہوں کہ اس کے ابن اللہ ہونے کے کیا دلائل ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جن قرآنی آیات سے وہ مسیحؑ کے ابن اللہ ہونے کا استدلال کرتے ہیں ان کا کیا مفہوم ہے؟ میں نے ان کے اعتراضوں کو پڑھا ان کے جوابات کو سمجھا اور مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ جن آیات سے وہ حضرت مسیحؑ کے ابن اللہ ہونے کا استدلال کرتے ہیں ان کے معنے وہ نہیں جو وہ کرتے ہیں بلکہ اور ہیں۔ مثلاً اگر کوئی عیسائی کہے کہ قرآن میں حضرت مسیحؑ کے متعلق رُوْحٌ مِّنْہُ 1 کے الفاظ آتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ روح اللہ تھے۔ تو میں اس سے قطعاً نہیں گھبراؤں گا کیونکہ مجھے اس اعتراض کا جواب آتا ہے اور جب آتا ہے تو میرے لئے گھبرانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ تو غیروں کی باتوں کا پڑھنا بشرطیکہ جس مذہب میں انسان داخل ہو اس کی اسے پوری واقفیت حاصل ہو نہ صرف جائز ہے بلکہ نہایت ضروری اور مفید ہے بلکہ اگر کبھی فرصت ہو تو اس قسم کے ٹریکٹوں کو مساجد میں پڑھ کر سنا دینا چاہیئے اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہیئے کہ دوسروں نے یہ یہ اعتراض کیا ہے اور ان اعتراضات کے یہ یہ جوابات ہیں۔ مگر اس قسم کے ٹریکٹوں کا سنانا باقی تمام ضروریات پر مقدم نہیں کر لینا چاہیئے یعنی یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ قرآن کا درس چھوڑ دیا جائے، حدیث کا درس چھوڑ دیا جائے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس چھوڑ دیا جائے۔ اسی طرح اور وعظ و نصیحت کی باتوں کو چھوڑ دیا جائے اور مخالف ٹریکٹوں کو سنانا شروع کر دیا جائے یہ سخت بددیانتی ہے کہ انسان جس مذہب میں شامل ہو اس کے متعلق تو ابھی اسے پوری واقفیت حاصل نہ ہو اور دوسروں کے لٹریچر کو پڑھنے میں وہ مشغول ہو جائے۔ تم پہلے اپنی جماعت کے لٹریچر کو پڑھو اور جب احمدیت کے عقائد ، احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کے دلائل سے تم پوری طرح آگاہ ہو جاؤ تو پھر تمہارا حق ہے کہ دوسروں کی کتابوں کو بھی پڑھو۔ اور اگر تمہیں اپنے مذہب کی تعلیم پر غور کرتے ہوئے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ تمہارا مذہب سچا نہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم سچائی کی کسی اور مذہب میں تلاش کرو تاکہ اگر تم سچ پر قائم نہیں تو کم از کم تم خدا سے یہ کہہ سکو کہ تم نے سچ کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔
میں اس بارہ میں جماعت کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لئے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ہر سال ایک ہفتہ ایسا منایا کریں جس میں وہ جماعت کے افراد کے سامنے مختلف تقاریر کے ذریعہ نہ صرف اپنی جماعت کے عقائد بیان کیا کریں بلکہ یہ بھی بیان کیا کریں کہ دوسروں کے کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا جوابات ہیں؟ ہر مسجد میں اس قسم کی تقریریں ہونی چاہئیں اور جماعت کے دوستوں کو بتاناچاہیئے کہ لوگ یہ یہ اعتراضات کرتے ہیں اور ان اعتراضات کے یہ جوابات ہیں۔ فرض کرو خلافت کا مسئلہ جس رنگ میں ہماری جماعت کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے وہ غلط ہے تو کیوں کسی کا حق نہیں کہ وہ ہمیں سمجھائے۔ یا فرض کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں تو جو شخص ہمیں سمجھاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں وہ ہمارا محسن ہے نہ کہ دشمن بشرطیکہ وہ شرارت یا بددیانتی نہ کر رہا ہو مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے بعض مخالف سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ بات نہیں کرتے اور پھر جو حوالے پیش کرتے ہیں ان میں بھی دیانت سے کام نہیں لیا جاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ لکھا ہوتا ہے اور وہ کسی اور رنگ میں اسے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر وہ شرافت کے ساتھ اپنے عقائد کو پیش کریں تو ہم ان کی باتیں خوشی کے ساتھ سننے کو تیار ہیں۔
قادیان میں ایک دفعہ آریوں کے جلسہ پر دیانند کالج کے ایک پروفیسر صاحب آئے۔ ان دنوں مَیں اسی مسجد اقصیٰ میں درس دیا کرتا تھا۔ جلسہ سے فارغ ہو کر مجھے ملنے کے لئے اسی مسجد میں آ گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ قادیان ایسا مقام ہے جس میں ہماری تعداد دوسروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے ۔ پس یہاں آپ کا آنا اسی صورت میں فائدہ بخش ہو سکتا تھا جب آپ اپنے خیالات سے ہمیں آگاہ کرتے ورنہ آپ کے اپنے آدمی تو جانتے ہی ہیں کہ آپ کے کیا عقائد ہیں اور ان عقائد کے کیا دلائل ہیں۔ اگر یہاں آ کر بھی آپ نے اپنے آدمیوں کے سامنے ہی ایک تقریر کر دی تو اس کا کیا فائدہ ہوا۔ فائدہ تو تب ہوتا جب آپ ہمیں بتاتے کہ آپ کے مذاہب کی کیا تعلیم ہے؟ وہ کہنے لگے بات تو ٹھیک ہے مگر میں نے سمجھا کہ آپ اپنے آدمیوں کو ہماری باتیں سننے کے لئے کب اکٹھا کر سکتے ہیں؟ میں نے ان سے کہا یہ غلط ہے۔ مسجد ہمارا سب سے مقدس مقام ہوتا ہے اور پھر یہ مسجد تو وہ ہے جسے ہم مسجد اقصیٰ قرار دیتے ہیں۔ آپ آئیں اور اس مسجد میں تقریر کریں۔ میں اپنی جماعت کے دوستوں سے کہوں گا کہ وہ آپ کی تقریر کو سنیں۔ چنانچہ اس مسجد میں دیانند کالج کے پروفیسر صاحب نے تقریر کی اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ان سے تبادلۂ خیالات کیا تو خیالات کا تبادلہ بڑی بابرکت چیز ہے۔ اگر ہماری جماعت التزام کے ساتھ دوسروں کے خیالات کو سنے، ان کے لٹریچر کو پڑھے اور ان کے دلائل کو معلوم کر کے ان کے جوابات کو جماعت کے ہر فرد کے ذہن میں اچھی طرح راسخ کر دے تو خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا ہر فرد ایمانی لحاظ سے اتنا مضبوط ہو جائے کہ کوئی شخص اسے ورغلا نہ سکے۔ اگر خداتعالیٰ کی ہستی کے متعلق اسے کوئی دھوکا دینا چاہے گا تو وہ فوراً ہوشیار ہو جائے گا اور کہے گا مجھے خوب معلوم ہے کہ تم اعتراض کرناچاہتے ہو تم بے شک اعتراض کرو مگر مجھے ان کے جوابات بھی معلوم ہیں اور ان جوابات کے مقابلہ میں تمہارے اعتراضات کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ اسی طرح خداتعالیٰ کی قدرت اور اس کی صفات کے متعلق اگر کوئی اعتراض کرے گا تو وہ گھبرائے گا نہیں بلکہ ان کا جواب دینے کے لئے فوراً تیار ہو جائے گا۔ اسی طرح رسول کریمﷺ کی رسالت ، اسلام کی صداقت، حضرت مسیح موعود کی نبوت اور جماعت احمدیہ کی حقانیت کے متعلق جب بھی کوئی اس کے دل میں وسوسہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا وہ عمدگی کے ساتھ اس کے وساوس کا ازالہ کر دے گا اور اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہو گا۔ یہ وہ مقام ہے جس پر اگر ہم اپنی جماعت کو کھڑا کر دیں تو ہم اس سے حقیقی نیکی کرنے والے ہوں گے۔ یہ کوئی نیکی نہیں کہ ہم پچاس یا ساٹھ یا سو آدمیوں کو دوسروں سے چھپا کر خداتعالیٰ کے پاس لے جائیں کیونکہ خدا چوروں کی طرح دوسروں کی نظر سے چُھپ چُھپ کر آنے والوں کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ ان کو پسند کرتا ہے جو دھڑلّے سے سب کے سامنے آئیں اور عَلَی الْاِعْلَان آئیں۔ اگر تم خدا کے پاس ایک بھی ایسا شخص لے کر حاضر ہوتے ہو جسے دنیا کا کوئی آدمی گمراہ نہیں کر سکتا تو خدا بہت زیادہ خوش ہو گا بہ نسبت اس کے کہ تم سو یا ہزار ایسے آدمی اس کے سامنے پیش کرو جنہیں دوسروں کے عقائد سے بے خبر رکھا گیا ہو اور جنہیں چوری چُھپے اپنے مذہب میں شامل کر لیا گیا ہو۔ خداتعالیٰ تعداد کی زیادتی کو دیکھ کر خوش نہیں ہو گا بلکہ وہ کہے گا کہ میں ان سَو یا ہزار کو کیا کروں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں سے تو ہر شخص آسانی سے دوسروں کا شکار ہو سکتا اور گمراہی اور ضلالت کے گڑھے میں گر سکتا ہے۔
پس یاد رکھو خدا کے حضور وہی مقبول ہوتے ہیں جن کا ایمان عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَتْ ہو اور جو دوسرے کے ہر اعتراض کا جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے۔ قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ 2 کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ تو لوگوں سے کہہ دے کہ میری سچائی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تم جو باتیں کہتے ہو اس کی تمہارے اپنے آدمی کوئی دلیل نہیں جانتے۔ اس کے مقابلہ میں مَیں اور میرے پَیرو ہر بات کی دلیل رکھتے ہیں اس لئے ہم سچے ہیں اور تم سچے نہیں۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کا ایمان بصیرت پر قائم کریں اور یہ وہ ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کی گئی ہے اور ذمہ داری سے بچنا نیکی نہیں ہوتی بلکہ ذمہ داری کو ادا کرنا نیکی ہوتی ہے۔ پس ہمارے ذمہ یہ فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو دینی مسائل سے آگاہ کریں اور انہیں ان مسائل میں ایسا پختہ کریں کہ انہیں کوئی گمراہ نہ کر سکے۔ اگر ہم افراد کی اس رنگ میں تربیت نہیں کریں گے اور پھر یہ امید رکھیں گے کہ کسی مخالف کی باتوں سے وہ متاثر بھی نہ ہوں تو یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے کہتے ہیں کہ ‘‘آپے مَیں رجّی پُجی۔ آپے میرے بچے جیون۔’’ یعنی خودبخود گھر میں بیٹھے فرض کر لیا کہ ہمارا ہر فرد دینی مسائل سے آگاہ ہے اور پھر خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا کہ اب انہیں کوئی گمراہ نہیں کر سکتا حالانکہ جب تک انہیں دوسرے کے لٹریچر کا علم نہیں ہو گا اور انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ اس کے اعتراضات کے کیا جوابات ہیں اس وقت تک بالکل ممکن ہے کہ وہ اس کا شکار ہو جائیں اور اس کی فتنہ انگیز باتوں سے متاثر ہو جائیں۔
پس ہماری جماعت کے افراد کو شکاری پرندے بننا چاہیئے۔ انہیں وہ باز بننا چاہیئے جو روحانی لحاظ سے اپنے شکار پر حملہ آور ہوتا اور اسے اپنے قبضہ و تصرف میں لے آتا ہے۔ چوہوں کی طرح اپنی بِلوں میں سر چھپانے والی قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی بلکہ کامیاب وہی قوم ہؤا کرتی ہے جو بازوں اور شِکروں کی طرح ہوتی ہے۔ مجھے حضرت خلیفۂ اول کے عہد میں جب کبھی باہر تقریر کے لئے جانا پڑتا تو مجھے یہ بات بیان کرتے وقت ہمیشہ مزا آ جاتا کہ لوگ یہ شور مچاتے ہیں کہ انہوں نے مرزا صاحبؑ کو شکست دے دی حالانکہ جب آپؑ نے دعویٰ کیا اس وقت آپؑ اکیلے تھے مگر جس طرح شیر بھیڑوں کے گلے پر حملہ کرتا اور ان میں سے کئی بھیڑیں اٹھا کر لے جاتا ہے اسی طرح حضرت مرزا صاحبؑ نے ہزاروں نہیں لاکھوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اب فرض کرو بھیڑیں ایک کروڑ ہوں اور شیر صرف ایک ہو لیکن وہ ان کروڑ بھیڑوں میں سے سو کو اٹھا کر لے جائے تو بہرحال فاتح شیر ہی کہلائے گا نہ کہ بھیڑیں۔ اسی طرح بے شک مخالف زیادہ ہیں اور احمدی کم۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا جس کثرت کے ساتھ غیراحمدیوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آدمی کھینچے اس کا سینکڑواں حصہ بھی کوئی مخالف ہم میں سے لوگوں کو لے گیا۔ اگر نہیں تو کامیاب وہ کس طرح ہو گئے؟ کامیاب تو وہی ہؤا جو اکیلا اٹھا اور لاکھوں کو اس نے اپنے ساتھ ملا لیا۔ پھر اگر کوئی برگشتہ بھی ہؤا تو خدا نے اس کی جگہ ہمیں کئی مخلصین دے دئیے۔ قرآن کریم خود سچے سلسلہ کی صداقت کا معیار یہ بیان فرماتا ہے کہ اگر اس میں سے ایک شخص بھی مرتد ہوتا ہے تو اس کی جگہ ہم ایک قوم کو لے آتے ہیں 3 اور ہم دیکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا یہ سلوک ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے۔ پس یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ کیونکہ ہم تھوڑے ہو کر جیتتے چلے جاتے ہیں اور وہ زیادہ ہو کر ہارتے چلے جاتے ہیں۔ آخری زمانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرتسر تشریف لے گئے تو بڑی سخت مخالفت ہوئی اور لوگوں نے آپؑ پر پتھر پھینکے۔ ان دنوں امرتسر میں ہماری جماعت کے ایک دوست تھے جو کچھ پڑھے لکھے تو نہیں تھے مگر یوں سمجھدار آدمی تھے ۔ پرانے زمانہ میں ایک دستور تھا جسے شاید آجکل کے احمدی نہ جانتے ہوں اور وہ یہ کہ جب لڑکے والے لڑکی لینے جاتے تھے تو جو مستورات لڑکی والوں کے گھر میں اکٹھی ہوتی تھیں وہ لڑکے والوں کو خوب گالیاں دیا کرتی تھیں۔ ان گالیوں کو پنجابی میں سٹھنیاں کہا کرتے تھے۔ وہ خیال کرتی تھیں کہ ان سٹھنیوں سے نکاح بابرکت ہو جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب امرتسر تشریف لے گئے تو وہاں کے ایک رئیس محمد شریف صاحب کے ہاں ٹھہرے جو کشمیری خاندان میں سے تھے۔ لوگوں کو جب آپؑ کی آمد کا علم ہؤا تو انہوں نے آپؑ کو خوب گالیاں دیں، سیاپے کئے اور جہاں آپؑ ٹھہرے ہوئے تھے وہاں بھی آ آ کر گالیاں دیتے رہے۔ جب آپؑ وہاں سے تشریف لے آئے تو کسی مخالف نے اس احمدی سے کہا کہ دیکھا تمہارے مرزا کو کیسی گالیاں ملیں۔ وہ کہنے لگا گالیوں کا کیا ہے آخر تم میں سے ہی اتنے آدمیوں نے بیعت بھی تو کی ہے؟ رہا گالیاں سو ان کا کیا ہے۔ سٹھنیاں تو تم نے دینی ہی تھیں کیونکہ مرزا صاحب تمہارے آدمی جو لے گئے۔ تو جو قوم خداتعالیٰ کی برکت کے نیچے ہوتی ہے وہ لوگوں کو کھینچے چلی جاتی ہے۔ ہم دوسروں کے مقابلہ میں مال و دولت اور تعداد کے لحاظ سے بہت ہی کمزور ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغِ اسلام کے میدان میں ہمارا اس قدر رُعب ہے کہ چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے ایک کمیٹی اس غرض کے لئے بٹھائی گئی تھی کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رک گئی ہے؟ اس کمیٹی نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں سات مقامات پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ احمدی اب لوگوں کو عیسائی نہیں ہونے دیتے بلکہ جو عیسائی ہو چکے ہیں ان کو بھی ہم سے چھین کر لے جاتے ہیں۔ چرچ آف انگلینڈ کی سالانہ آمد ساٹھ کروڑ روپیہ تک ہے مگر ہمیں ہزاروں روپے بھی بمشکل میسر آتے ہیں اور پھر ہمیں ان ممالک میں کام کرنا پڑتا ہے جہاں سینکڑوں سال سے عیسائی اپنی تبلیغ کرتے چلے آ رہے ہیں مگر باوجود اس کے سات جگہ انہوں نے تسلیم کیا کہ احمدیوں نے ان کی ترقی بند کر دی ہے۔ تو کثرت سے اس قسم کی مثالیں پائی جاتی ہیں جہاں عیسائیوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ احمدیت نے عیسائیت کو بڑھنے سے روک دیا ہے۔ حالانکہ عیسائی چالیس کروڑ کے قریب ہیں ۔ پھر انہیں حکومت حاصل ہے، ان کے پاس روپیہ اور طاقت ہے مگر پھر بھی ہر جگہ انہیں شکست ہوتی چلی جاتی ہے۔ ابھی سیرالیون میں مَیں نے اپنا ایک مبلغ بھجوایا تھا جس کی رپورٹیں الفضل میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ ان رپورٹوں میں بھی یہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں عیسائی رئیس مسلمان ہو گیا اور فلاں معزز عیسائی نے اسلام کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ پادریوں نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ کمشنر کے پاس پہنچے اور پہلے تو یہ کہا کہ یہ باغی ہیں اور پھر یہ شور مچایا کہ ان کی تقریروں سے ملک میں فتنہ پیدا ہوتا ہے انہیں روکا جائے۔ اس پر ہمارے مبلغوں نے جب اصل حقیقت بتائی تو کمشنر نے کہا کہ میں اب اس علاقہ کا دورہ کروں گا اور پادریوں کو ڈانٹوں گا کہ وہ آپ لوگوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیوں کرتے ہیں۔ اگر انہیں مقابلہ کا شوق ہے تو مذہبی رنگ میں مقابلہ کر لیں۔ یہی حال یہاں ہے ۔ چنانچہ کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جس میں چار پانچ ہزار کے قریب آدمی ان میں سے نکل کر ہم میں شامل نہ ہو جاتے ہوں لیکن ہم میں سے شاذو نادر کے طور پر ہی کوئی ادھر جاتا ہے اور اگر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اور کوئی آدمی بھجوا دیتا ہے۔ یہ فوقیت اور برتری جوہماری جماعت کو حاصل ہے درحقیقت اس علم کی وجہ سے ہے جو جماعت کو دیا جاتا ہے اور جس کے بعد کوئی شخص دوسروں کے فریب میں نہیں آتا ۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو دوسروں کے دلائل سے آگاہ رکھیں اور ہر فرد کے یہ ذہن نشیں کریں کہ دوسرا کیا کہتا ہے اور اس کے اعتراضات کا کیا جواب ہے اور مَیں اس غرض کے لئے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں کہ وہ سال میں ایک ایسا ہفتہ مقرر کریں جس میں ان کی طرف سے یہ کوشش ہو کہ وہ جماعت کے ہر فرد کو نہ صرف اپنی جماعت کے مسائل سے آگاہ کریں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ دوسروں کے کیا کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا کیا جوابات ہیں۔ یہ تعلیم کا سلسلہ زبانی ہونا چاہیئے اور پھر زبانی ہی ان کا امتحان بھی لینا چاہیے۔ تا جماعت میں بیداری پیدا ہو اور وہ دوسروں کے ہر حملہ سے اپنے آپ کو پوری ہوشیاری سے بچا سکے مگر یہ نہ ہو کہ تم اپنی کتابیں پڑھنی چھوڑ دو اور دوسروں کی کتابیں پڑھنے میں ہی مشغول ہو جاؤ۔ پہلے اپنے سلسلہ کی کتابیں پڑھو، ان کو یاد کرو، ان کے مضامین کو ذہن نشین کرو اور جب تم اپنے عقائد میں پختہ ہو جاؤ تو مخالفوں کی کتابیں پڑھو اور سب کے سامنے پڑھو بلکہ عَلَی الْاِعْلَان پڑھو اور پھر مخالف دلائل کا پوری مضبوطی سے ردّ کرو اور دوسروں کے مقابلہ میں ایک شیر کی طرح کھڑے ہو جاؤ تا تمہارے متعلق کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ دوسرا تمہیں ورغلا سکے گا بلکہ جب وہ تمہیں چھیڑے تو ہر شخص کا دل اس یقین سے بھرا ہؤا ہو کہ اب تم ضرور کوئی نہ کوئی شکار پکڑ کر لے آؤ گے۔ پس تم اپنے آدمیوں کو شیر کی طرح دلیر بناؤ انہیں بِلوں میں چھپنے والے چوہے نہ بناؤ۔ تم تجربہ کے بعد خودبخود دیکھ لو گے کہ اس کے بعد جماعت روحانی لحاظ سے کتنی مضبوطی حاصل کر لیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس سچائی ہے تو ہمیں مخالف کی کسی بات کا کیا خوف ہو سکتا ہے۔ وہ لاکھ اعتراض کرے خدا اس کے تمام اعتراضات کو باطل کر دے گا۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ مخالف خواہ کیسا ہی اعتراض کرے خدا تعالیٰ اس کا کوئی نہ کوئی جواب ضرور سمجھا دیتا ہے۔
تھوڑا ہی عرصہ ہؤا چھوٹی مسجد میں ایک شخص آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میں نے آپ سے ایک سوال کرنا ہے۔ میں نے کہا کرو۔ وہ کہنے لگا میں چاہتا ہوں کہ آپ مرزا صاحبؑ کی صداقت قرآن کریم سے ثابت کریں۔ میں نے کہا سارا قرآن مرزا صاحبؑ کی صداقت سے بھرا پڑا ہے۔ میں کس کس آیت کو پڑھوں۔ وہ کہنے لگا آخر کوئی آیت تو پڑھیں۔ میں نے کہا جب ہم نے کہہ دیا ہے کہ سارا قرآن ہی آپؑ کی صداقت سے بھرا ہؤا ہے تو کسی ایک آیت کا سوال ہی کیا ہے۔ تم خود کوئی آیت پڑھ دو میں اسی سے حضرت مرزا صاحبؑ کی صداقت ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ قرآن کی بعض آیتیں لمبے چکر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت بنتی ہیں اور بعض آیتوں سے سیدھے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے مگر مجھے یقین تھا کہ خدا اس کی زبان پر کوئی ایسی آیت ہی لائے گا جس سے وہ فوراً پکڑا جائے گا۔ چنانچہ اس نے جھٹ یہ آیت پڑھ دی کہ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ 4 اور کہا کہ اس سے مرزا صاحبؑ کی صداقت ثابت کیجئے۔ میں نے کہا اس آیت میں کن لوگوں کا ذکر ہے۔ کہنے لگا مسلمانوں کا۔ میں نے کہا جب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مسلمان بگڑ سکتے تھے تو اب کیوں نہیں بگڑ سکتے اور جب آج بھی مسلمان بگڑ سکتے ہیں تو ان کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کسی کو آنا چاہیے یا نہیں؟ تمہاری دلیل یہی ہے کہ محمد ﷺ کے بعد کسی مصلح اور مامور کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے مگر قرآن کہتا ہے کہ محمد ﷺ کے بعد تو کیا محمد ﷺ کے زمانہ میں بھی بعض لوگ گمراہ تھے اور جب آپؐ کے زمانہ میں بھی بعض لوگ گمراہ تھے تو آپؐ کے بعد تو بدرجۂ اولیٰ مسلمان گمراہ ہو سکتے ہیں اور جب گمراہ ہو سکتے ہیں تو لازماً خدا کی طرف سے مصلح بھی آ سکتا ہے پس یا تو یہ مانو کہ امتِ محمدیہ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا کہو تو یہ قرآن کے منشا کے خلاف ہو گا کیونکہ جو آیت تم نے پڑھی ہے اس میں یہی ذکر ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں مگر حقیقت میں وہ مومن نہیں اور جب امتِ محمدیہ گمراہ ہو سکتی ہے تو اس کی اصلاح کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور بھی آسکتا ہے۔ یہ بات جو میں نے اس کے سامنے کہی یونہی مشغلہ کے طور پر نہیں کہہ دی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہے۔ جس طرح تورات کا جتنا سچا حصہ ہے وہ سارے کا سارا رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ثبوت ہے ، جس طرح انجیل کا جتنا سچا حصہ ہے وہ سارے کا سارا رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ثبوت ہے اسی طرح قرآن سارے کا سارا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت ہے۔ قرآن سارے کا سارا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت ہے۔ قرآن سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہے جس طرح قرآن سارے کا سارا رسول کریم ﷺ کی صداقت کا ثبوت ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ۔5 یعنی قرآن اور محمد ﷺ میں کوئی فرق نہیں بلکہ قرآن کی ہر آیت محمدﷺ کی صداقت ثابت کرتی ہے۔
پس جماعت میں بیداری پیدا کرو، انہیں دینی اور مذہبی مسائل سکھاؤ، انہیں دوسروں کے خیالات کو پڑھنے دو اور اگر وہ خود نہیں پڑھتے تو خود انہیں پڑھ کر سناؤ اور پھر ان کے ہر اعتراض کا انہیں جواب بتاؤ، مگر بالعموم ایک غلطی یہ کی جاتی ہے کہ اپنے جواب کو تو مضبوط رنگ میں بیان کیا جاتا ہے اور دوسروں کے اعتراض کو بودا کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب لوگ اصل اعتراض کو دیکھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ ہمارے لوگ بھی جھوٹ بولتے ہیں ۔ یہ طریق بالکل غلط ہے تمہیں چاہیئے کہ مخالف کی دلیل کو پوری مضبوطی سے بیان کرو اور اس کا کوئی پہلو بھی ترک نہ کرو تا اپنے اور بیگانے یہ نہ کہہ سکیں کہ اعتراض کے ایک حصہ کو تو لے لیا گیا ہے اور دوسرے حصوں کو چھوڑ دیا گیاہے۔
مَیں ایک دفعہ لاہور گیا اور وہاں ‘‘مذہب کی ضرورت’’ پر مَیں نے ایک تقریر کی۔ ابتدائی تقریر میں مَیں نے بیان کیا کہ مذہب پر آجکل کیا کیا حملے کئے جا رہے ہیں اور کون کون سے اعتراضات کئے جاتے ہیں جن کی رو سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ دنیا کو مذہب کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد میں نے ان تمام اعتراضات کے جواب دیے۔ اسی دن شام کو یا دوسرے دن ایک ایم اے کا غیراحمدی سٹوڈنٹ مجھے ملنے کے لئے آیا اور کہنے لگا میں نے کل آپ کی تقریر سنی ہے آپ نے جو اعتراضات بیان کئے تھے وہ تو اتنے زبردست تھے کہ میں نے سمجھا کہ جتنے اعتراض مذہب پر کئے جاتے ہیں وہ سب کے سب بیان کر دیے گئے ہیں مگر آپ کے بعض جوابات سے میری تشفّی نہیں ہوئی۔ میں نے اسے کہا کہ اپنی تشفّی کو سرِدست رہنے دو مگر یہ بتاؤ کہ کوئی اعتراض میں نے چھپایا تو نہیں ۔ کہنے لگا ہم نے تو جس قدر اعتراضات مذہب کے متعلق سنے ہوئے تھے وہ سب کے سب آپ نے بیان کر دیئے ہیں۔ مَیں نے کہا تو خیر جواب کسی اور وقت سمجھ آ جائیں گے۔ تو مخالف کے دلائل کو پورے طور پر کھول کر بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً کفارے کا مسئلہ ہے۔ اسے جس رنگ میں ہمارے علماء کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے وہ بالکل اور ہے۔ آجکل عیسائی کفارہ کو اس طریق پر پیش نہیں کرتے بلکہ انہوں نے آہستہ آہستہ اسے فلسفیانہ مضمون بنا دیا ہے۔ اسی طرح تناسخ کا مسئلہ بیان کرتے وقت عام طور پر سنی سنائی باتیں بیان کر دی جاتی ہیں حالانکہ جس رنگ میں آجکل تناسخ کا مسئلہ پیش کیا جاتا ہے وہ بالکل اور ہے ۔ اسی طرح شرک کے مسئلہ کو فلسفیانہ رنگ دے دیا گیا ہے مثلاً فلسفی دماغ والے بت پرست آجکل یہ نہیں کہتے کہ ہم ان کو سجدہ کرتے ہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ قائم رکھنے کے لئے بت کی طرف اپنا مُنہ کر تے ہیں۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ یہ بت خدا کی بعض صفات کے قائمقام ہیں۔ اب اگر شرک کے مسئلہ کو صرف اسی رنگ میں بیان کر دیا جائے کہ بعض لوگ خدا کی بجائے بتوں کی پرستش کرتے ہیں تو اس سے بت پرستوں کی پوری تسلی نہیں ہو سکتی۔ پس مخالفین کے اعتراضات کو کھول کھول کر بیان کرنا چاہیے اور ان کے اعتراض کی کسی شق کو چھپانا نہیں چاہیے۔ اس اعتراض کے لئے میں نے اعلان کیا ہے کہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو ہر سال ایک ہفتہ ایسا منانا چاہیئے جس میں خداتعالیٰ کی ہستی، رسول کریم ﷺ کی نبوت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت، خلافت اور دیگر مسائل اسلامی کے متعلق احمدیت کے عقائد کو دلائل کے ساتھ بیان کیا جائے اور پھر بتایا جائے کہ ان اعتقادات پر مخالفین کی طرف سے یہ یہ اعتراضات کئے جاتے ہیں اوران اعتراضات کے یہ یہ جوابات ہیں ۔ اس کے بعد لوگوں کا زبانی امتحان لیا جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ انہوں نے ان باتوں کو کہا ںتک یاد رکھا ہے۔ چونکہ صرف ایک ہفتہ میں ان تمام مسائل کے متعلق جماعت کے دوستوں کو پوری واقفیت حاصل نہیں ہو سکتی اس لئے ہر سال یہ طریق جاری رہنا چاہیے اور کبھی کوئی مسائل بیان کر دئیے جائیں اور کبھی کوئی۔ یہاں تک کہ ہماری جماعت کا ہر فرد اتنا ہوشیار ہو جائے کہ اگر اسے کسی وقت مخالفین کی لائبریری میں بھی بٹھا دیا جائے تب بھی وہ وہاں سے فاتح ہو کر نکلے مفتوح اور مغلوب ہو کر نہ نکلے۔‘‘
(الفضل 17اگست 1960ء)
1 النسآء: 172
2 یوسف: 109
3 من یرتد منکم عن دینہ فسوف یأتی اللہ بقوم۔ (المائدۃ: 55)
4 البقرۃ: 9
5 مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 91 مطبوعہ 1313ھ

29
چندہ جلسہ سالانہ اور تحریک جدید کی ادائیگی میں
ہمہ تن مشغول ہو جائیں
(فرمودہ8 نومبر 1940ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ غالباً آج ہی کے ‘‘الفضل’’ میں مَیں نے ایک اعلان ناظروں کی طرف سے پڑھا ہے جس میں انہوں نے جلسہ سالانہ کے چندہ کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی ہے۔ میں متواتر کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے اخراجات اس کی آمد سے بڑھ جاتے ہیں اور سال بھر کوشش کرتے کرتے تھوڑا بہت قرض جو انجمن اتارتی ہے وہ جلسہ سالانہ کے قریب پھر اپنی جگہ آ جاتا بلکہ پہلے سے کچھ بڑھ ہی جاتا ہے۔ پچھلے سال بھی غالباً دس ہزار کے قریب خرچ آمد سے زیادہ رہا اور اس دفعہ بھی جیسا کہ اس اعلان سے ظاہر ہوتا ہے قریباً چارہزار روپیہ اس وقت تک آیا ہے حالانکہ جلسہ سالانہ کے اخراجات کا اندازہ بوجہ اس کے کہ اجناس کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں 25 ہزار روپیہ ہے اور یہ اندازہ بھی گزشتہ سے پیوستہ سال کے خرچ کے مطابق ہے، گزشتہ سال کے اخراجات کے اندازہ پر مبنی نہیں۔ اگر گزشتہ سال کے اخراجات پر ہی اندازہ لگایا جاتا تو چالیس ہزار روپیہ تک خرچ کا اندازہ ہوتا۔ گزشتہ سال چونکہ جوبلی کا جلسہ تھا اور لوگ کثرت سے قادیان آئے تھے اس لئے انہوں نے اس سال کے اخراجات کی بنیاد گزشتہ جلسہ جوبلی سے پہلے سال کے اخراجات پر رکھی ہے لیکن پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ پہلے سے زیادہ جلسہ سالانہ پر آتے ہیں اور ہر سال لوگوں کا زیادہ آنا بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت ہر سال بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح جو بیعتوں کی فہرستیں چھپتی رہتی ہیں ان کا اندازہ لگا کر اور جو نسل بڑھ رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے بھی یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ ہماری جماعت میں آٹھ دس ہزار آدمی سالانہ بڑھ جاتے ہیں۔
یہ زیادتی جو ہر سال ہو رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ چاہیئے تو یہ تھا کہ آمد بھی بڑھتی جاتی مگر بجائے اس کے کہ آمد بڑھتی وہ قریباً ہر سال ایک جگہ پر ہی قائم رہتی ہے یعنی آمد پندرہ سولہ سترہ یا اٹھارہ ہزار روپیہ ہوتی ہے اور اخراجات ہمیشہ بیس پچیس ہزار روپے ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال تو یہ اخراجات بہت زیادہ ہوئے تھے۔ اس طرح ہر سال پانچ چھ ہزار روپیہ سے لے کر آٹھ دس ہزار روپیہ تک سلسلہ پر بار پڑ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے دلوں میں جہاں جلسہ سالانہ میں شمولیت کی اہمیت ہے وہاں جلسہ سالانہ کے اخراجات برداشت کرنے کی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں حالانکہ اگر اخراجات اسی طرح بڑھتے چلے جائیں تو آئندہ جلسہ سالانہ کے انتظام میں بہت سے خطرات پیدا ہونے کا امکان ہو سکتا ہے ۔ بعض دوستوں نے انہی مشکلات کو دیکھ کر متواتر یہ مشورہ دیا ہے کہ جلسہ سالانہ پر کھانے کا انتظام جماعت کی طرف سے نہ ہو بلکہ لوگ اپنے اپنے کھانے کا انتظام خود کیا کریں۔ بادی النظر میں یہ تجویز گو اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر اس طرح کیا جائے تو گو انجمن ہر سال آٹھ دس ہزار کے بار سے بچ جائے گی مگر جماعت چالیس پچاس ہزار کے مزید بار کے نیچے دب جائے گی۔ کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ جو لوگ بازار سے خرید کر کھانا کھائیں گے انہیں نسبتاً زیادہ خرچ کرنا پڑے گا اور اس طرح جماعت ایک مزید بار کے نیچے آ جائے گی ۔ جو لوگ چندہ دیتے ہیں وہ تو سمجھ لیں گے کہ جو کچھ انہوں نے چندہ دینا تھا وہ کھانے میں سے منہا ہو گیا لیکن ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں جن کا چندہ اخراجاتِ جلسہ کے برابر ہو۔ میرا خیال ہے کہ جلسہ سالانہ پر جتنے لوگ آتے ہیں ان میں سے دو تین سَو سے زیادہ لوگ ایسے نہیں ہوتے جن کا چندہ ان کے اخراجاتِ جلسہ سے زیادہ ہو اور صرف چند آدمی ایسے ہوتے ہیں جو غیرمعمولی طور پر زیادہ چندہ دے دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ بالعموم جماعتیں اس چندہ کی طرف توجہ نہیں کرتیں اور افراد بھی اس میں بہت کم حصہ لیتے ہیں۔
پس آج میں تمام جماعتوں کو بالخصوص قادیان والوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ ہم لوگ میزبان ہیں اور باہر سے آنے والے مہمان ہیں۔ پس ہم پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے۔ کئی موقعوں پر لوگوں کے گھروں میں مہمان آجاتے ہیں اس وقت وہ جانتے ہیں کہ انہیں اپنے مہمانوں کے لئے کتنے بوجھ اٹھانے پڑتے ہیں۔ اسی طرح شادیوں کے موقع پر یا جب کوئی بچہ پیدا ہو یا کسی کی وفات ہو جائے تو دس دس، پندرہ پندرہ، بیس بیس مہمان آ جاتے ہیں اور لوگ خوشی سے اس بوجھ کو برداشت کرتے ہیں۔ اگر ایک بڑھیا فاقوں مر رہی ہو اور اس کے پھٹے پرانے کپڑے ہوں اور اتفاقاً اس کا داماد آجائے تو وہ یہ نہیں کہتی کہ اب میں اپنے داماد کو کہاں سے کھلاؤں بلکہ چاہے وہ قرضہ اٹھائے، چاہے اپنی کوئی چیز فروخت کرے یا گروی رکھے اخراجات ضرور برداشت کرتی ہے۔ تو اگر ذمہ داری کا وہ احساس جو ہر غریب کو بھی ہوتا ہے اس سے نصف احساس بھی ہماری جماعت کے دلوں میں پیدا ہو جائے تو وہ کئی گُنے زیادہ اس چندہ میں حصہ لے سکتی ہے۔
قادیان کے لوگوں کے متعلق عام طور پر یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ وہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں اپنے کھانے کا بوجھ بھی سلسلہ پر ڈال دیتے ہیں اور اگر جلسہ سالانہ کے مہمانوں پر بیس پچیس ہزار کے قریب روپیہ خرچ آتا ہے تو اس میں سے چار پانچ ہزار کے قریب قادیان والوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اگر قادیان کے تمام لوگ اپنے کھانے کا گھروں میں انتظام کریں تو جلسہ سالانہ کے اخراجات سولہ سترہ ہزار میں پورے ہو سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بات درست ہے مگر اس میں بہت سی دقتیں اور مشکلات حائل ہیں۔ ان دنوں سارے آدمی کام پر لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ مرد بھی اور عورتیں بھی اور اس وجہ سے گھروں میں کھانے کا انتظام نہیں ہو سکتا۔ ہم نے کئی دفعہ چاہا ہے کہ اس بات کی سختی سے پابندی کی جائے کہ قادیان کے رہنے والے اپنے کھانے کا اپنے گھروں میں خود انتظام کریں مگر جب ہم نے غور کیا تو ہمیں معلوم ہؤا کہ اگر ایسا کیا جائے تو مہمان نوازی نہیں ہو سکے گی کیونکہ لازماً کھانے کی تیاری وغیرہ کے لئے عورتوں کو اپنے گھروں میں رہنا پڑے گا اور جب وہ اپنے گھروں میں رہیں گی تو جلسہ سالانہ پر آنے والی عورتوں کو کھانا کون کھلائے گا، ان کی نگرانی کون کرے گا اور جلسے کا انتظام کون کرے گا۔ اسی طرح اگر مرد گھر کے کاموں سے پوری طرح فارغ نہ ہوں تو وہ بھی جلسہ سالانہ کے کاموں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ صرف ایسے ہی لوگ اس بوجھ کو اٹھا سکتے ہیں جن کے گھروں میں ملازم ہوتے ہیں مثلاً ہمارے گھروں میں ناشتہ وغیرہ گھر سے ہی مہمانوں کو دے دیا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ہماری عورتیں زیادہ کام کرتی ہیں بلکہ وہ گھر کا کام نوکروں کے سپرد کر کے خود جلسہ سالانہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں اور اس طرح ہمارے گھروں میں ان دنوں میں بھی کھانا تیار ہوتا ہے مگر وہ ہزاروں لوگ جن کے گھروں میں کوئی نوکر نہیں ہوتے اگر ان کی عورتیں گھر کا کام کریں گی تو جلسہ سالانہ کا کام نہیں کر سکیں گی اور اگر جلسہ سالانہ کا کام کریں گی تو گھر کا کام نہیں کر سکیں گی۔ غرض عورتیں چونکہ ان دنوں اپنے گھر کا کام نہیں کر سکتیں اس لئے ان کے بچے، خاوند اور دیگر رشتہ دار اپنا کھانالنگر سے منگواتے ہیں اور خود جلسہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اور گو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے مگر ایسے کمزوروں یا منافقوں کا وجود ہر جماعت میں پایا جاتا ہے۔ ورنہ جس طرح مخلص مرد اِن دنوں کام میں مشغول ہوتے ہیں اسی طرح مخلص عورتیں کام میں مشغول ہوتی ہیں اگر انہیں کام سے فارغ کر دیا جائے تو جلسہ سالانہ کا انتظام نہیں ہو سکتا اور اگر انہیں کام پر رکھا جائے تو سلسلہ پر ان کے کھانے کا بوجھ پڑنا یقینی بات ہے۔لیکن ایک چیز ایسی ہے جسے اگر قادیان کے رہنے والے اختیار کر لیں تو باوجود سلسلہ پر ان کے کھانے کا بار ہونے کے وہ بوجھ زیادہ تکلیف دہ صورت اختیار نہیں کر سکتا اور وہ یہ کہ جتنابوجھ ان کی وجہ سے سلسلہ پر پڑتا ہے اُتنا ہی بوجھ وہ جلسہ سالانہ کے چندہ میں حصہ لے کر اٹھا لیں تب یقینا وہ روک جو آمد کی کمی کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے دور ہو جائے۔
پس سب سے پہلے مَیں قادیان کی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس چندہ میں زیادہ حصہ لے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت پر پہلےہی کئی قسم کے بار ہیں مگر یہ بار بھی انہی باروں میں سے ہے جن کو جماعت نے اٹھانا ہے اور یہ اسی طرح دور ہو سکتا ہے کہ یا تو اس کام کو بند کر دیا جائے اور یا پھر چندہ میں فراخ دلی سے حصہ لیا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جلسہ سالانہ کو کسی صورت میں بھی بند نہیں کیا جا سکتا۔ پس جب اسے بند نہیں کیا جا سکتا تو یہی صورت رہ جاتی ہے کہ ہم اس بوجھ کو اپنی طاقت کے مطابق اٹھا لیں۔ اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس چندہ کی طرف خاص طور پر توجہ کریں۔ جس طرح تحریک جدید کے چندہ کے متعلق بار بار تحریکات ہوتی رہتی ہیں اسی طرح اگر صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے متواتر ہفتہ میں دو تین دفعہ ایسے اعلانات ہوتے رہیں کہ فلاں فلاں جماعت نے جلسہ سالانہ کا چندہ دے دیا ہے اور فلاں فلاں جماعت نے نہیں دیا یا بہت کم دیا ہے ، اسی طرح چندہ میں نمایاں طور پر حصہ لینے والی جماعتوں کے نام شائع ہوتے رہیں تو میں سمجھتا ہوں جو جماعتیں سُست ہیں وہ ہوشیار ہو جائیں اور جو جماعتیں چُست تو ہیں مگر ان کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سست ہیں ان کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ ہوشیار ہو جائیں۔ آخر وجہ کیا ہے کہ جلسہ سالانہ کے اخراجات کے لئے ایک آدھ اعلان کافی سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کے متعلق بار بار تحریکات نہیں کی جاتیں۔ بیس پچیس ہزار کا بار معمولی نہیں ہوتا۔ جماعت کو خاص طور پر قربانیاں کر کے یہ بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے اور مزید برآں انہیں اپنے کرایہ کے لئے بھی کچھ روپیہ بچانا پڑتا ہے۔ اس لئے جماعتوں کو صرف ایک چٹھی لکھ دینا کافی نہیں ہو سکتا اس کے لئے تو اس طرح شور ڈال دینا چاہیئے کہ جماعت کے ہر فرد کو یہ احساس ہو جائے کہ مجھے اپنے فرض کی ادائیگی کا فکر کرنا چاہیئے۔ میں نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ صدر انجمن احمدیہ نے اس طرح چندہ جلسہ سالانہ کے حصول کے لئے جدوجہد کی ہو۔ بالعموم صرف ایک دو چٹھیاں لکھنے پر کفایت کر لی جاتی ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ آپ ہی آپ چندہ آجائے گا حالانکہ یہ سال کے آخری دن ہوتے ہیں اور ان دنوں میں ایک طرف لوگوں نے جلسہ سالانہ کے لئے قادیان آنا ہوتا ہے اور اس کے لئے انہیں اخراجات کی فکر ہوتی ہے ۔ دوسری طرف اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے انہیں یہ فکر ہوتا ہے کہ اب سردی آ گئی ہے ان کے لئے گرم کپڑوں کا انتظام کرنا چاہیئے ۔ تیسری طرف ان کے سامنے چندہ جلسہ سالانہ کی تحریک ہوتی ہے۔ چوتھی طرف ماہوار چندوں میں باقاعدگی کی بھی ان سے امید کی جاتی ہے۔ غرض ان ایام میں ان سے زبردست قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور قربانی ہی ہے جو جماعت کی ترقی کا موجب بنتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو ایسی پسند آتی ہے کہ وہ کہتا ہے جو جماعت یہ قربانی کر رہی ہے میں اسے ضرور ترقی دوں گا۔ اگر ہر ترقی کے ساتھ جماعت اپنی قربانی میں بھی اضافہ کرتی چلی جائے تو جماعت کی ترقی کی رفتار بہت زیادہ تیز ہو جائے۔ تم ایک طرف اگر صدر انجمن احمدیہ کی تحریکات کو رکھو اور دوسری طرف تحریک جدید کے متعلق جو مختلف اوقات میں نوٹ مضامین اور اعلانات وغیرہ شائع ہوتے رہتے ہیں وہ رکھو تو تمہیں صدر انجمن احمدیہ کی تحریکات دسواں حصہ بھی نظر نہیں آئیں گی۔ پس انہیں چاہیئے کہ وہ اس نقص کا ازالہ کریں اور متواتر اخبار میں یہ اعلان کراتے رہا کریں کہ فلاں فلاں جماعت کی طرف سے چندہ آیا ہے اور فلاں فلاں جماعت کی طرف سے چندہ نہیں آیا۔ اسی طرح جنہوں نے زیادہ اخلاص سے کام لیا ہو اُن کا نمایاں طور پر ذکر کیا جائے تاکہ اگر جماعت سست ہے تو اس کے کارکن اسے ہوشیار کر دیں اور اگر کارکن سست ہیں تو جماعت ان کو بیدار کر دے۔ اگر اس طرح تمام جماعتوں میں زندگی اور بیداری پیدا کی جائے تو کوئی تعجب نہیں کہ چندہ کی نہ صرف تمام رقم پوری ہو جائے بلکہ مطلوبہ رقم سے زیادہ چندہ اکٹھا ہو جائے۔ لیکن اگر مطالبہ تو 25 ہزار کا ہو اور وصول 15،16 ہزار ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ چندہ کی وصولی میں چالیس فیصدی کمی ہے اور یہ کمی کسی صورت میں بھی برداشت نہیں ہو سکتی۔ یہ مان لیا کہ دو یا تین فیصدی ہماری جماعت میں کمزور لوگ بھی ہیں مگر 25 ہزار کا مطالبہ کیا جائے اور آئے 15،16 ہزار۔ یہ بتاتا ہے کہ اس چندہ کے لئے کبھی پورے طور پر زور نہیں دیا گیا۔ پس میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس امر کی طرف خاص طور پر متوجہ کرتا ہوں کہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ ان پر بوجھ پڑا ہؤا ہے ۔ انہوں نے ہی بوجھ اٹھانا ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ کسی تحریک میں بھی سست نہ ہوں۔ ماہوار چندوں کی ادائیگی کی بھی پوری پوری کوشش کریں۔ چندہ جلسہ سالانہ میں بھی حصہ لیں، چندہ تحریک جدید میں بھی حصہ لیں اور اسی طرح جلسہ سالانہ پر نہ صرف خود آئیں بلکہ اپنے دوستوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی لائیں کیونکہ خالی روپیہ کا انتظام کافی نہیں جب تک کثرت سے لوگ جلسہ میں شمولیت کے لئے نہ آئیں۔ پس دوستوں کو اس چندہ کی وصولی کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور یہ بھی کوشش کرنی چاہئیے کہ جلسہ سالانہ پر وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں۔
اس کے بعد میں تحریک جدید کے چندہ کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس مہینہ میں اور اس سے پچھلے ڈیڑھ مہینہ میں جماعت نے اس چندہ کی طرف خاص توجہ کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ اس سال نہ صرف گزشتہ سال کے برابر وصولی ہو گئی ہے بلکہ آمد میں خفیف سا اضافہ ہو گیا ہے۔ ٭ اڑھائی مہینے پہلے تو وصولی میں پچاس فیصدی تک کمی تھی مگر ان اڑھائی ماہ میں توجہ کرنے کا نتیجہ یہ ہؤا کہ چندۂ تحریک جدید کی آمد خداتعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال سے دو چار سو روپیہ بڑھ گئی ہے مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ چونکہ 31 اکتوبر کی تاریخ گزر چکی ہے اس لئے اب جماعت کو اس کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لینی چاہیئے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کے متعلق پہلے کافی زور دیا جا چکا ہے اس لئے اب مزید زور دینا مناسب نہیں۔ مگر جہاں تک میں نے سوچا ہے یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ جنہوں نے چندہ دے دیا ہے ان سے ہم نے دوبارہ چندہ نہیں لینا بلکہ جنہوں نے ابھی تک چندہ نہیں دیا صرف ان سے چندہ وصول کرنا ہے۔ بے شک گزشتہ اڑھائی مہینہ میں جماعت نے بہت قربانی سے کام لیا ہے مگر یہ قربانیاں جنہوں نے کیں انہوں نے ہی کی ہیں سب نے نہیں کیں۔ اور ہمارا فرض ہے کہ جنہوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا ان کو بھی حصہ لینے کی تحریک کریں۔ ممکن ہے بعض کارکن یہ خیال کرتے ہوں کہ ہم نے اڑھائی مہینہ تو خوب محنت سے کام کیا ہے اب مہینہ دو مہینے ہمیں آرام کرنا چاہیئے مگر میں امید کرتا ہوں کہ وہ خالص ایمان جو مومن کی ہمت کو بڑھاتا ہے اس سے کام لیتے ہوئے وہ اُس وقت تک چین اور آرام نہیں کریں گے جب تک تمام لوگوں سے تحریک جدید کا چندہ وصول نہ کر لیں۔
ابھی تک تحریک جدید کے چندہ میں 32 ہزار روپیہ کی وصولی باقی ہے اور بیس بائیس ہزار گزشتہ سالوں کے چندہ میں سے رہتا ہے۔ اس تمام روپیہ کی وصولی کے لئے ان لوگوں پر زور دینا چاہیئے جنہوں نے تاحال اپنے وعدہ کو پورا نہیں کیا۔ وہ مخلصین جنہوں نے گزشتہ
٭ اس خطبہ کے بعد کے ایام میں پھر کچھ کمی آ گئی ہے۔ منہ
اڑھائی ماہ میں اس چندہ کی ادائیگی کی طرف توجہ کی اور جنہوں نے اپنے وعدوں کو پورا کر دیا ان کے لئے تو بے شک وقفہ ہو سکتا ہے مگر اب جو تحریک جماعت کے کارکن کریں گے اس کا بوجھ ان لوگوں پر پڑے گا جنہوں نے گیارہ مہینے غفلت سے گزار دئیے اور انہوں نے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا کوئی خیال نہ کیا۔ پس گیارہ مہینے دوسروں سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے وہ کسی آرام کے مستحق نہیں بلکہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں بیدار کیا جائے۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تحریک جدید کے چندہ میں قادیان کی جماعت کی وصولی نہ صرف پچھلے سال سے کم ہے بلکہ باہر کی کئی جماعتوں سے بھی کم ہے اور یہ پہلا سال ہے جس میں قادیان کی جماعت بعض دوسری جماعتوں سے پیچھے رہی۔ اس میں بہت سا دخل میری ایک بیوی کی بیماری کا بھی ہے جو لجنہ اماء اللہ کی سیکرٹری ہیں اور جو بیمار رہنے کی وجہ سے ہی چندہ کی وصولی کا اہتمام نہیں کر سکیں۔ مگر میں اس بات کا قائل نہیں کہ کوئی زندہ جماعت ایسی بھی ہو سکتی ہے جس کے کسی کام کا انحصار صرف ایک آدمی پر ہو اور اگر وہ بیمار ہو جائے یا خدانخواستہ فوت ہو جائے تو کام بند ہو جائے۔ اس وقت ہمیں جو کارکن میسر ہیں کیا ان کے متعلق کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ اور جب وہ ہمیشہ زندہ نہیں رہیں گے تو کیا ان کی وفات کے بعد سلسلہ کا کام بند ہو جائے گا؟ زندہ سلسلہ کی علامت یہی ہؤا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں کام کرنے والے آدمی پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور اس سلسلہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ انبیاء کی وفات کے بعد ان کے سلسلہ کو زیادہ ترقی دیتا ہے تا دنیا کو یہ بتائے کہ میرے سلسلہ کا انحصار انبیاء کے وجود پر بھی نہیں۔ حالانکہ خداتعالیٰ کے دین کے لئے سب سے زیادہ قربانی کرنے والے انبیاء ہی ہوتے ہیں مگر خداتعالیٰ یہ بتانے کے لئے کہ اس کے دین کی ترقی کا انحصار کسی شخصِ واحد کی ذات پر نہیں انبیاء کی وفات کے بعد ان کے قائم کردہ سلسلہ کو اور زیادہ ترقیات دینی شروع کر دیتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کو اپنے زمانہ میں بڑی کامیابی ہوئی مگر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اس سے بھی زیادہ کامیابی ہوئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اس سے زیادہ۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ابوبکرؓ اور عمرؓ نَعُوْذُ بِاللہِ رسول کریم ﷺ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مقرب تھے ۔ ان کا قُرب رسول کریم ﷺ کے قُرب کے مقابلہ میں بالکل کم ہے اور ان کی قربانیاں رسول کریم ﷺ کی قربانیوں کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بتانے کے لئے کہ یہ دین میرا ہے کسی انسان کا قائم کردہ نہیں ان کی حقیر کوششوں میں برکت زیادہ ڈال دی۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو عام طور پر یہ خیال کیاجاتا تھا کہ اب سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور دشمن خوش تھا کہ چندہ آنا اب بند ہو جائے گا اور جماعت کی ترقی رُک جائے گی مگر جب لوگوں نے ایک دو سال کے بعد دیکھا کہ جماعت افراد کی تعداد کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے ، قربانی کے لحاظ سے بڑھ گئی ہے اور اشاعتِ دین کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے تو انہوں نے یہ نئی بات بنا لی کہ اصل میں مولوی نور الدین صاحب جماعت میں ایک بہت بڑے عالم ہیں اور سلسلہ کی تمام ترقی کا انحصار انہی پر ہے۔ مرزا صاحب کی زندگی میں تمام کام مولوی صاحب ہی کرتے تھے ۔ گو ظاہر میں مرزا صاحب کا نام رہتا تھا۔ چنانچہ کئی مولوی طرز کے لوگ جو ظاہری علوم کی قدر زیادہ کیا کرتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہی کہا کرتے تھے کہ اس سلسلہ کو مولوی نور الدین صاحب چلا رہے ہیں۔ انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد دیکھا کہ مولوی صاحب کے زمانہ میں سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر رہا ہے تو انہوں نے خوش ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ ہم نہ کہتے تھے تمام کام مولوی نور الدین صاحب کا ہے۔ غرض حضرت خلیفۂ اول کے وقت سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر گیا اور مخالفوں نے یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دینی شروع کر دی کہ یہ تمام کارروائی نور الدین کی ہے اس کی وفات کے بعد یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا۔ حضرت خلیفۂ اول جب وفات پا گئے تو ان کے بعد اگر جماعت کے وہ مشہور لوگ جو اثر اور رسوخ رکھتے تھے جیسے خواجہ کمال الدین صاحب یا ریویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری کے لحاظ سے مولوی محمد علی صاحب خلیفہ منتخب ہو جاتے تو انگریزی دان طبقہ یہ خیال کرتا کہ اب جماعت کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ کوئی انگریزی میں دسترس رکھنے والا خلیفہ ہو گیا ہے کیونکہ یہ مغربی علوم کے غلبہ کا ہی زمانہ ہے مولویوں اور ملانوں سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ جیسے حضرت خلیفۂ اول بعض دفعہ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ ہمیں غصہ سے قُلْ اَعُوْذِئے ملّا کہہ دیا کرتے ہیں تو اگر ان میں سے کوئی خلیفہ ہو جاتا تو انگریزی دان طبقہ پھر بھی یہ خیال کر سکتا تھا کہ ممکن ہے جماعت کی ترقی انہی کی وجہ سے ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس الزام کو دور کرنے کے لئے کہ یہ سلسلہ انسانوں پر چل رہا ہے اس انسان کو خلافت کے لئے چُنا جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ نالائق ہے ، ناتجربہ کار ہے، کم علم ہے اور وہ جماعت کو تباہ کر دے گا تا دنیا پر یہ ظاہر کرے کہ یہ خدا کا سلسلہ ہے کسی انسان کا قائم کردہ سلسلہ نہیں۔ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خداتعالیٰ کے مقرب تھے مگر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ سلسلہ ان کا بھی نہیں بلکہ میرا تھا اور بے شک حضرت مولوی نور الدین صاحب ایک بہت بڑے عالم تھے مگر ان کا علم بھی میرے فضل کا نتیجہ تھا اور سلسلہ ان کا نہیں بلکہ میرا تھا اور اس کے بعد خدا نے اس انسان کو خلافت کے لئے چُنا جس کے متعلق دنیا یہ حقارت سے کہتی تھی کہ وہ نہ ظاہری علوم سے آگاہ ہے نہ باطنی علوم جانتا ہے، نہ اس کی صحت اچھی ہے نہ اسے کوئی رعب اور دبدبہ حاصل ہے اور نہ ہی کسی اور رنگ میں وہ لوگوں میں مشہور ہے اور اس طرح خدا نے ظاہر کر دیا کہ اس سلسلہ کو ترقی دینا میرا کام ہے اور میں اگر چاہوں تو مٹی سے بھی بڑے بڑے کام لے سکتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے خدائی مدد پر چلتے ہیں کسی انسان کی وجہ سے نہیں چلتے اور اگر ہماری جماعت کسی وقت یہ سمجھ لے کہ فلاں شخص کے بیمار ہونے یا چلے جانے یا وفات پا جانے سے سلسلہ کے کام میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس نے توکل کو چھوڑ دیا۔ جب تک ہماری جماعت میں یہ توکل رہے گا ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نئے سے نئے آدمی کام کرنے والے پیدا نہ کرے۔ آخر ہماری جماعت میں لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں مگر کیا کبھی بھی ہمارے کاموں میں رخنہ پڑا؟ ہم نے تو دیکھا ہے کہ جب بھی ایسا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فوراً ایسے آدمی کھڑے کر دیتا ہے جو اِن کے کام کو سنبھال لیتے ہیں۔
حضرت خلیفۂ اول کو علمی لحاظ سے دنیا میں خاص شہرت حاصل تھی۔ اسی طرح مولوی سید محمد احسن صاحب بھی بہت مشہور تھے۔ مولوی سید سرور شاہ صاحب اور قاضی سید امیر حسین صاحب بھی بڑے پایہ کے عالم تھے گو باہر ان کی علمی شہرت نہیں تھی مگر حضرت خلیفۂ اول کی وفات کی وجہ سے ایک عالِم تو اس طرح ختم ہو گیا اور دوسرا عالِم سلسلہ خلافت سے مرتد ہو گیا ۔ تب وہی لوگ جو دس دن پہلے گمنام زندگی بسر کر رہے تھے یکدم آگے آ گئے۔ چنانچہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم، میر محمد اسحاق صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم نمایاں ہونے شروع ہوگئے۔ ان میں سے ایک کتابوں کے حوالے یاد رکھنے کی وجہ سے اور باقی دو اپنے مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے اُس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحاق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا۔ حالانکہ چند مہینے پہلے حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں انہیں کوئی خاص عزت حاصل نہیں تھی۔ میر محمد اسحاق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور حافظ روشن علی صاحب گو جماعتوں کے جلسوں پر آنے جانے لگ گئے تھے مگر لوگ زیادہ تر یہی سمجھتے تھے کہ ایک نوجوان ہے جسے دین کا شوق ہے اور وہ تقریروں میں مشق پیدا کرنے کے لئے آ جاتا ہے مگر حضرت خلیفۂ اول کی وفات کے بعد چند دنوں میں ہی انہیں خداتعالیٰ نے وہ عزت اور رُعب بخشا کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ ان کے بغیر اب کوئی جلسہ کامیاب ہی نہیں ہو سکتا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد جب اِدھر میر محمد اسحاق صاحب کو نظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی اور اُدھر حافظ روشن علی صاحب وفات پا گئے تو کیا اس وقت بھی کوئی رخنہ پڑا؟ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابو العطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں۔ غرض کبھی بھی ایسا نہیں ہؤا کہ ہماری جماعت کے کسی آدمی کے ہٹنے یا اس کے مر جانے کی وجہ سے سلسلہ کے کاموں میں کوئی رخنہ پڑا ہو بلکہ جب بھی بعض لوگ ہٹے ،بغیر ہماری کوشش اور سعی کے اللہ تعالیٰ گمناموں میں سے بعض آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر آگے لاتا رہا۔ اسی طرح میں سمجھتا ہوں مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا ہے وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی مگر بعد میں جیسے یکدم کسی کوپستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے اسی طرح خدا نے ان کو مقبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ ، دلوں پر اثر کرنے والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں مَیں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی جو رات کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی۔ تقریر کے بعد ایک ہندو اُن کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر چلیں آپ کی وجہ سے ہمارے گھر میں برکت نازل ہو گی۔ تو اللہ تعالیٰ نے کب ہمارا ساتھ چھوڑا ہے جو اَب ہم اس کے متعلق بدگمانی کریں اور یہ خیال کریں کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو جائے یا وفات پا جائے تو سلسلہ کا کام رک جائے گا۔
پس لجنہ اماء اللہ کو چاہیئے تھا کہ جب سیکرٹری بیمار ہوئی تھی تو فوراً کسی اور کو سیکرٹری بنا لیا جاتا اور محلہ وار چندہ کی وصولی پر زیادہ زور دیا جاتا۔ عورتوں کے اندر سلسلہ کے متعلق جو اخلاص پایا جاتا ہے اس کے لحاظ سے کوئی بعید بات نہیں تھی کہ اگر وہ تندہی سے کام شروع کر دیتیں تو تحریک جدید کے چندہ کی وصولی میں مردوں سے بڑھ کر نہ رہتیں۔ مگر انہوں نے توکل سے کام نہ لیا اور سمجھ لیا کہ چونکہ ان کی سیکرٹری بیمار ہے اس لئے انہیں اس کام میں بھی التواء ڈال دینا چاہیئے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ نیک نامی جو برابر پانچ سال سے ان کو حاصل ہو رہی تھی اس سال اس نیک نامی کے حصول سے وہ محروم رہیں۔
اسی طرح قادیان کے مردوں کو میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان کی چندہ تحریک جدید کی ادائیگی میں سستی بھی زیادہ تر کمی توکل کی وجہ سے ہے۔ اس دفعہ لڑائی شروع تھی اس لئے لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ ہمیں اکٹھی کھانے پینے کی چیزیں خرید لینی چاہئیں تاکہ غلّہ مہنگا نہ ہو جائے مگر واقعات نے بتا دیا کہ ان کے خیالات غلط ثابت ہوئے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تک ہماری جماعت کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اُس وقت تک ہمیں یقین ہے کہ وہ ان خطرات کو دور رکھے گا اور کبھی ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دے گا جو جماعت کو تباہ و برباد کرنے والے ہوں۔ اور اگر بالفرض کسی وقت ایسے خطرات پیدا ہو جائیں تو اس وقت ہمارے جمع کئے ہوئے غلّے ہمارے کس کام آ سکتے ہیں۔ وہ تو بہرحال دشمن کے ہی کام آئیں گے کیونکہ دشمن صرف روپیہ ہی نہیں بلکہ غلّہ پر بھی قبضہ کیا کرتا ہے۔ جرمنی کے لوگ اِس وقت بھوکے مر رہے ہیں۔ اگر وہ ہندوستان پر قبضہ کر لیں تو سب سے زیادہ حرص کے ساتھ وہ غلہ پر ہی قبضہ کریں گے۔ تو یہ امر بھی توکل کے خلاف تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر جماعت نے ایسا کیا تھاتو اسے چندہ کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ رکھنی چاہیئے تھی اور اس میں کوئی کمی نہیں آنے دینی چاہیئے تھی۔
پس وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک چندہ تحریک جدید ادا نہیں کیا میں انہیں خاص طور پر اس کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اب تحریک جدید کے سال ششم میں قریباً ایک مہینہ باقی ہے۔ انہیں چاہیئے کہ وہ اپنی سستی کا ازالہ کر کے چندہ کی کمی کو پورا کریں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریں کہ وہ ان پر فضل کرے گا اور انہیں دشمن کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑے گا۔
اسی طرح میں باہر کی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں بالخصوص تحریک جدید کے کارکنوں اور امراء اور پریذیڈنٹوں کو کہ وہ تحریک جدید کے بقائے ادا کرنے اور وعدوں کے پورا کرنے کی طرف توجہ کریں۔ مجھے بعض بیرونی جماعتوں کے خطوط سے معلوم ہؤا ہے کہ بعض امراء اور پریذیڈنٹ اس میں تساہل سے کام لے رہے ہیں۔ انہیں اپنی اس غفلت کو دور کرنا چاہیئے اور پوری تندہی اور جانفشانی سے اس میں حصہ لینا چاہیے۔ اب تحریک جدید کے چھ سال گزرنے والے ہیں اور صرف چار سال باقی رہتے ہیں۔ گویا ہماری منزل نصف سے زیادہ طے ہو چکی ہے۔ اس لئے اب ہماری کوششوں کی رفتار پہلے سے بہت زیادہ تیز ہو جانی چاہیئے تاکہ اگر پہلے سالوں میں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ ہمارے اچھے انجام کو دیکھ کر اسے دور کر دے۔
دیکھو حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک نصیحت آپ نے یہ بھی کی کہ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ 1 کہ تم پر موت ایسی حالت میں آنی چاہئیے جبکہ تم خداتعالیٰ کے کامل فرمانبردار ہو ۔ کیونکہ موت ہی انسان کی زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے اور کام کے انجام ہی اصل چیز ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے اَلْاُمُوْرُ بِخَوَاتِیْمِھَا کہ کام اپنے انجام کے لحاظ سے ہوتے ہیں یعنی کاموں کا اچھا یا برا ہونا انجام پر منحصر ہوتا ہے۔
پس اب تحریک جدید کے چندہ کی ادائیگی میں زیادہ جوش، زیادہ اخلاص اور زیادہ مستعدی سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ جو شخص ان آخری سالوں میں زیادہ اخلاص دکھلائے گا اگر بالفرض اس سے پہلے سالوں میں کوئی سستی بھی ہوئی ہو گی تو خداتعالیٰ کہے گا کہ جیسے موت کے وقت کے اخلاص کی مَیں قدر کیا کرتا ہوں اِسی طرح میں اس اخلاص کی قدر کروں گا اور اس کی پچھلی تمام کوتاہیوں کو معاف کر دوں گا۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے بدلہ دیا جائے گا۔ 2یعنی جب اسے نمازوں کا ثواب دیا جائے گا تو یوں نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کمزور نمازوں کا الگ ثواب دے اور اس نماز کا جو اس نے اخلاص سے پڑھی ہے الگ ثواب دے بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو بہتر سے بہتر نماز پڑھی ہو گی اللہ تعالیٰ اس نماز کے مطابق اسے تمام نمازوں کا بدلہ دے گا۔ اسی طرح یہ نہیں ہو گا کہ روزوں کے اجر کی بنیاد اس کے کمزور روزوں پر رکھی جائے بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو بہتر سے بہتر روزہ رکھا ہو گا خداتعالیٰ اس پر اس کے روزہ کے اجر کی بنیاد رکھتے ہوئے تمام روزوں کا ثواب اسی کے مطابق دے گا۔ اسی طرح اگر اس نے ایک سے زیادہ حج کئے ہیں اور بعض ان میں سے کمزور ہیں تو خداتعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ فلاں کمزور حج کا اسے اتنا ثواب دو اور فلاں اچھے حج کا اسے اتنا ثواب دو بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو بہتر سے بہتر حج کیا ہو گا خداتعالیٰ حج کا سارا انعام اسی کے مطابق دے گا۔ غرض زندگی کے احسن اعمال پر اجر کی بنیاد رکھی جائے گی اور کمزور اعمال کا اجر بھی اچھے اعمال کے مطابق دیا جائے گا۔ تو آخری ایام میں کام کو زیادہ احسن رنگ میں سرانجام دینا پہلی تمام کمزوریوں کو مٹا کر انسانی زندگی کے تمام اعمال کو احسن بنا دیتا ہے۔
پس میں جماعت کو ان دونوں امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ چندہ جلسہ سالانہ کی طرف بھی اور چندہ تحریک جدید کی ادائیگی کی طرف بھی۔ اور سب دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان چندوں کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں تا تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان سے پہلے پہلے تمام رقمیں پوری ہو جائیں۔ بالخصوص قادیان والوں کو اس امر کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیئے اور ان کی قربانیاں دوسروں سے نمایاں ہونی چاہئیں ۔ ساتھ ہی ضمنی طور پر میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلا چکا ہوں کہ ان چندوں میں زیادہ جوش سے حصہ لینے کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیئے کہ جلسہ سالانہ پر آنے میں لوگ سستی سے کام لیں۔
ہماری جماعت کا ہرقدم خداتعالیٰ کے فضل سے ترقی کی طرف اٹھ رہا ہے اور جتنی جماعت بڑھتی چلی جاتی ہے اتنی ہی قادیان میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ بے شک یہ ایک بوجھ ہے مگر آخر ہم نے ہی اس بوجھ کو اٹھانا ہے اور یہی وہ بوجھ ہیں جن کے اٹھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل ہؤا کرتی ہیں۔ دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ہم کسی کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں تو وہ ہم پر خوش ہوتا ہے اسی طرح جب ہم خداتعالیٰ کے دین کا بوجھ اٹھائیں گے تو خدا اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی ہمارے تمام بوجھ اٹھا لے گا۔ جب دنیا میں تمہارا کوئی بوجھ اٹھاتا ہے تو تم اسے مزدوری دیتے ہو ، پھر تم کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ تم خدا کے لئے اس کے دین کا بوجھ اٹھاؤ اور وہ تمہیں کوئی مزدوری نہ دے۔ خداتعالیٰ اس بوجھ کے اٹھانے کی ہمیشہ اپنی جماعتوں کو مزدوری دیتا چلا آیا۔ اور دیتا چلا جائے گا اور اس کی مزدوری یہی ہے کہ جب ہم اس جہان میں اس کے دین کے بوجھ کو اٹھاتے ہیں تو وہ اگلے جہان میں ہمارے بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ جہاں دائمی اور ابدی زندگی ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ یہ کتنا سستا سودا ہے کہ ہم اپنی عمر کے تیس یا چالیس یا پچاس یا ساٹھ سال اس کا بوجھ اٹھائیں اور وہ لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں ارب سال کی زندگی میں ہمارے تمام بوجھ خود اٹھا لے۔ اگر اتنے سستے سَودے کی طرف بھی کسی کو توجہ نہیں ہوتی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے دل پر زنگ لگ چکا ہے اور اب اس کے لئے دعا کے سوا کوئی چارہ نہیں اور خدا ہی ہے جو اس کے اس زنگ کو دور کرے۔ پس اگر کوئی شخص دین کے اس کام کے لئے بھی اپنے دل میں بشاشت نہیں پاتا تو اسے سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ وہ وضو کرے اور نفل پڑھنے کے لئے کھڑا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے خدا! دین کے کاموں کے متعلق میرے دل میں بشاشت پیدا نہیں ہوتی اور نہ دین کا بوجھ اٹھانے کی مجھے توفیق ملتی ہے تُو اپنے فضل سے میرے دل میں دین کے کاموں کے لئے رغبت پیدا کر اور مجھے ان بوجھوں کے اٹھانے کی توفیق عطا فرما تاکہ قیامت کے دن تُو خود میرے تمام بوجھ اٹھا لے۔‘‘ (الفضل 19 نومبر 1940ء)

1 البقرۃ: 133
2 لِیَجْزِیَھُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا کَانُوْ یَعْمَلُوْنَ۔ (التوبۃ: 121)


30
جو اپنے بزرگوں کی عزت کرانا چاہتے ہیں ان کو چاہیئے کہ دوسروں کے بزرگوں کی بھی عزت کریں
(فرمودہ22 نومبر 1940ء)
(غیرمطبوعہ)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ اس ہفتہ میں بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے ہماری جماعت کے بعض احباب کے دلوں میں بعض حکّام یا دوسری اقوام کی نسبت شکوہ پیدا ہؤا ہے۔ اس لئے میں آج ان امور کے متعلق اپنے خطبہ میں بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں۔ گزشتہ اتوار کو سکھوں کا ایک جلسہ قادیان کے پاس کوئی ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہؤا تھا اور اس جلسہ کے موقع پر ان کی طرف سے ایک جلوس نکالا گیا تھا جو کہ اپنا رستہ چھوڑ کر سٹیشن سے پہلے قادیان میں داخل ہؤا پھر جو بڑا ہندو بازار کہلاتا ہے اور جس میں اب بہت سی دکانیں احمدیوں کی بھی ہیں میں سے ہوتا ہؤا اس بازار سے جو چھوٹا بازار کہلاتا ہے گزرا اور پھر قصبہ کے اوپر سے ہوتا ہؤا اس گلی میں سے جو عام طور پر شیخ یعقوب علی صاحب والی گلی کہلاتی ہےگزرا اور پھر دارالانوار سے ہوتا ہؤا جلسہ گاہ کو گیا۔ جب اس جلوس کی تجویز جماعت کو معلوم ہوئی تو جماعت کے ذمہ دار افسروں نے حکّام کو توجہ دلائی کہ جن بازاروں میں سے جلوس کو گزارنے کی تجویز ہے وہ اصل رستہ نہیں۔ اصل رستہ باہر سے جاتا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اسے شہر کی گلیوں میں سے گزارا جائے اور پھر کوئی وجہ نہیں کہ ان گلیوں سے اسے گزرنے کی اجازت دی جائے جن میں کثرتِ آبادی احمدیوں کی ہے۔ حکّام نے اس اعتراض کو قبول نہ کیا کہ کوئی وجہ نہیں اسے شہر کی گلیوں میں سے گزارا جائے اور کہا کہ شہروں کی گلیاں چلنے پھرنے کے لئے ہوتی ہیں اور اس لئے ہم لوگوں کو ان میں چلنے سے کیسے روک سکتے ہیں۔ البتہ اسے ان علاقوں سے نہیں گزرنے دیا جائے گا جن میں کثرت آبادی احمدیوں کی ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جلوس مغرب سے ہوتا ہؤا شمال کی طرف چلا جائے گا اور پھر باہر ہی باہر مشرق کی طرف جلسہ گاہ میں پہنچ جائے گا۔ مگر جب وہ مغربی رستہ کو طے کر کے شمال کی طرف پہنچا تو حکّام کے تجویز کردہ رستہ کو اختیار کرنے کی بجائے پولیس کی صفوں کو توڑ کر احمدی محلّوں کی طرف ہو گیا۔ یہ بات حکّام کے وعدہ کے سراسر خلاف تھی اور اس وجہ سے بعض دوستوں کو شکوہ پیدا ہؤا ہے اور انہوں نے اظہارِ رنج کیا ہے۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری نسبت حکام کے لئے زیادہ اظہار رنج کا موجب ہے جنہوں نے پہلے ایک بات کہی اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے اسے توڑ دیا گیا۔ پہلے تو پولیس لائن بنا کر ان کے سامنے کھڑی ہوئی اور پھر معاً ان کے آگے آگے چل پڑی۔ یہ قانون شکنی کا ایسا مظاہرہ ہے جس سے حکام اور حکومت دونوں کی عزت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ جو ڈنڈا دکھائے حکومت اس کے آگے جھک جاتی ہے۔ ایسی حکومت جو اپنے احکام کی پابندی نہیں کرا سکتی اسے قانون اور انتظام کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا کوئی حق نہیں۔ قانون اور انتظام کو ہاتھ میں رکھنے کا دعویدار وہی ہو سکتا ہے جو اپنے احکام کا نفاذ بھی کرا سکے۔
حکام اور اہلِ جلوس کی یہ جنگ ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہیں کہ کسی جگہ کوئی پٹھان تھا جس کی مونچھیں بہت بڑی بڑی تھیں اور اس کا دعویٰ تھا کہ اس جگہ مونچھیں رکھنے کا حق صرف مجھ کو ہی ہے۔ اور وہ شہر میں سب کو ڈراتا تھا کہ خبردار اگر کسی نے مونچھیں اونچی کیں۔ انسانی فطرت ہے کہ جس بات سے اسے روکا جائے اس کی طرف وہ ضرور مائل ہوتا ہے اور مقابلہ کرتا ہے۔ اور جب تک طبائع خود مائل نہ ہوں اس بات کو قبول نہیں کیا جاتا۔ اس لئے کئی لوگوں نے مونچھیں اونچی رکھنی شروع کیں مگر اس نے ہر ایک کو دو دو تین تین تھپڑ لگائے۔ اس لئے سب نے ڈر کر یہ خیال چھوڑ دیا۔ وہاں ایک جولاہا زیرک اور ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے کئی دنوں تک مونچھوں کو اونچا رکھنے کی مشق کی اور پھر ایک روز تلوار ہاتھ میں لے کر بازار میں ٹہلنے لگا ۔ کسی نے اس پٹھان کو بھی جا بتایا کہ آج ایک اور شخص بھی مونچھیں اونچی کئے پھر رہا ہے۔ یہ سن کر وہ آیا جونہی اسے دیکھا آگے بڑھ کر کہا کہ اپنی مونچھیں نیچی کرو۔ یہاں میرے سوا کوئی شخص مونچھیں اونچی نہیں رکھ سکتا۔ جولاہے نے جواب دیا کہ اب تو یہاں میری مونچھیں ہی اونچی رہیں گی اور کسی کی نہیں۔ پٹھان نے کہا کہ اچھا آؤ پھر تلوار سے فیصلہ کر لیں کہ کسے اونچی رکھنے کا حق ہے۔ جولاہے نے کہا کہ اس طرح ٹھیک نہیں۔ مقابلے میں دونوں میں سے ایک ضرور مارا جائے گا اور مصیبت اس کے بیوی بچوں پر پڑے گی اور وہ بھوکے مریں گے جو ظلم ہے۔ پٹھان نے پوچھا کہ پھر اس کی تدبیر کیا ہے؟ جولاہے نے جواب دیا کہ پہلے ایسا کریں کہ تم اپنے بیوی بچوں کو مار آؤ اور میں اپنوں کو مار آتا ہوں پھر فیصلہ کریں گے۔ پٹھان فوراً جوش کی حالت میں چلا گیا اور جا کر سب کو قتل کر دیا لیکن جولاہا وہیں کسی دکان پر بیٹھ کر اس کا منتظر رہا۔ جب وہ واپس آیا تو اس سے دریافت کیا کہ کیا تم سب کو مار آئے ہو؟ پٹھان نے کہا کہ ہاں میں تو مار آیا ہوں۔ تم بھی مار آئے ہو؟ تو اس نے کہا کہ نہیں۔ تمہارے جانے کے بعد میری رائے تو بدل گئی تھی اور لو میں مونچھیں نیچی کر لیتا ہوں۔
یہی حال یہاں حکام کا ہؤا ہے۔ حکومت کے دبدبہ کو قائم رکھنے کے لئے حکام کا فرض یہ ہے کہ یا تو وہ کوئی حکم دیں نہیں اور اگر دیں تو پھر اس کی تعمیل کرائیں۔ ایسا نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا جاتا ہے کہ حکومت ڈراوے کو مانتی ہے اور اس لئے جو دوسری قومیں ہوں ان میں بھی یہ جوش پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی ذرا حکومت کو ڈرائیں۔ چنانچہ پچھلے سالوں میں جب حکومت کے ساتھ ہمارے اختلافات تھے ہماری جماعت کے بعض لوگ مجھے بار بار لکھتے تھے کہ آپ ہمیں کچھ کرنے کی اجازت دیں کیونکہ یہ حکومت دھمکی کے بغیر مانا نہیں کرتی۔ مگر میں مشکل سے ان کو روکتا تھا اور اس اشتعال کا باعث دراصل حکام کے بعض ایسے ہی احکام تھے جن کی وہ تعمیل نہیں کرا سکتے تھے۔ اس موقع پر بھی اگر سکھوں کے بجائے کوئی اور قوم ہوتی تو حکام اسے ضرور مجبور کرتے کہ ہمارا حکم مانو مگر سکھوں سے وہ دب گئے۔ یہ واقعہ ان ہزاروں لوگوں کے سامنے ہؤا جو جلوس میں شامل تھے اور ان سینکڑوں لوگوں نے دیکھا جو تماش بین کی حیثیت سے موجود تھے اور انہوں نے اس بات کو دیکھا کہ حکام اپنے فیصلہ کو منوا نہیں سکے بلکہ آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے رہے۔ ان کے احکام کو توڑا جا رہا تھا اور ان کو توفیق نہ ہوئی کہ ان کو روک سکیں۔ یہ واقعہ ان ہزاروں لوگوں کے دلوں میں لازماً یہ احساس کرانے کا موجب ہؤا ہو گا کہ حکّام بالکل بے بس ہیں اور ان میں اپنے احکام کی تعمیل کرانے کی طاقت نہیں اور ایسے احساسات سے ملک کے آئندہ امن پر جو اثر پڑ سکتا ہے وہ ظاہر ہے۔حکومت ملک میں ہونے والے فسادات پر ہمیشہ شکوہ کرتی ہے اور ہم بھی کرتے ہیں۔ بلکہ ہر شریف ہندو، سکھ، مسلمان اور احمدی کو ان پر افسوس ہے اور حکومت ان کو روکنا بھی چاہتی ہے اور اس کے لئے کوشش بھی کرتی ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ جب تک اس کے احکام کے پیچھے وہ روح نہ ہو جس کی وجہ سے نظام کا ادب لوگوں کے دلوں میں قائم ہوتا ہے امن کا قیام ممکن بھی ہے؟ اگر حکّام ایسے ہی حکم دیتے رہیں جنہیں وہ منوا نہ سکیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں اس کی بدنامی ہو جائے گی۔ اور اس کے لئے ملک میں امن قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
پچھلے دنوں جب کانگرس نے انفرادی سول نافرمانی کا اعلان کیا تو میں نے ایک سرکاری آفیشل سے یہ بیان کیا کہ حکومت کو یہ مشورہ دینا چاہئے کہ شروع میں ہی وہ طریقِ عمل اختیار کرے جس پر بعد میں قائم رہ سکے۔ اور اگر اس نے بعد میں اپنی بات پر قائم نہیں رہنا تو اسے چاہئے کہ کانگرس کی بات ابھی مان لے۔ اس سے اس کی عزت رہ جائے گی ۔ لیکن اگر وہ مقابلہ کے لئے کھڑی ہو گئی اور گاندھی جی نے برت رکھ لیا اور تاریں آنے لگیں کہ ان کی جان جا رہی ہے، ان کی بات فوراً مانی جائے۔ اور اس لئے اسے مان لیا تو پہلے ہی اس کی کافی بے رُعبی ہو رہی ہے اس سے اور بھی ہو جائے گی۔ اس لئے اسے چاہیئے کہ پہلے ہی سوچ لے کہ وہ مقابلہ کر سکتی ہے یا نہیں۔ اگر سول نافرمانی شروع ہوئی تو گاندھی جی روزہ تو ضرور رکھیں گے اور اگر اس نے پھر اپنی بات کو چھوڑ دیناہے تو یہی بہتر ہے کہ پہلے ہی مقابلہ شروع نہ کرے اور یا پھر یہ فیصلہ کرے کہ گاندھی جی خواہ زندہ رہیں اور خواہ مریں وہ اپنی بات پر قائم رہے گی۔ اگر سِول نافرمانی شروع ہوئی تو عدمِ تعاون کرنے والے حکومت کا مقابلہ کریں گے اور حکومت ان کا کرے گی۔ اور یہ تو پتہ ہی ہے کہ اس صورت میں گاندھی جی روزہ ضرور رکھیں گے اور اگر پھر اس نے ان کی بات کو مان لینا ہے تو اس لڑائی کے شروع کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ میں تو ہمیشہ سے حکومت کو یہی مشورہ دیتا رہا ہوں کہ وہ حکام کے اچھی طرح ذہن نشین کر دے کہ وہ وہی حکم دیں جسے پورا کرا سکیں۔ سوائے اس کے کہ ان پر واضح ہو جائے کہ ان کا حکم ناواجب تھا۔ ایسی صورت میں ضرور ان کو یہ تسلیم کر لینا چاہیئے کہ ان کی غلطی تھی اور اپنے حکم کو واپس لے لینا چاہیئے۔ مگر یہ امر کہ حکم کو توڑا جائے اور وہ خاموش رہیں اس کی بے رُعبی کا موجب ہے اور ملک میں فسادات کو بڑھانے والی بات ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں جو فسادات ہوں گے ان کی ذمہ داری حکومت پر بھی ہو گی۔ جس زمانہ میں سر مائیکل اڈوائر گورنر تھے اس وقت سے میں یہ بات پیش کر رہا ہوں کہ ایجی ٹیشن سے دَبنا ملک میں فسادات کا موجب ہے۔ بعض لوگ حکومت کے پاس ایک معقول شکایت لے کر جاتے ہیں مگر وہ جواب دیتی ہے کہ اس کے متعلق تو کوئی ایجی ٹیشن نہیں۔ اس صورت میں ان لوگوں کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ پہلے جا کر ایجی ٹیشن کرائیں۔ حالانکہ اگر بات معقول ہو تو حکومت کو چاہیے کہ اسے پہلے ہی مان لے اور اس کے متعلق ایجی ٹیشن کا انتظار نہ کرے۔
ہمارے پاس یہ قیاس کرنے کے وجوہ ہیں کہ یہاں جو انتظام ہؤا وہ لوکل حکام کی طرف سے نہ تھا بلکہ بالا افسران کے مشورہ سے ہؤا۔ ممکن ہے یہ خیال غلط ہو مگر ہمارے پاس اس کے وجوہ ہیں۔ اس صورت میں حکومت کو یہاں اتنی کافی پولیس بھی بھیجنی چاہیے تھی جو انتظام کر سکتی اور اس کے حکام کے احکام کی تعمیل کرا سکتی۔ جلوس میں ہزاروں لوگ ٹکوے، تلواریں اور لاٹھیاں ہؤا میں لہرا رہے تھے جس کے معنے یہ تھے کہ ہم چیلنج کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں 25 یا 50 پولیس مین ان کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے۔ یا پھر یہ چاہئے تھا کہ حکام حکم ہی وہ دیتے جو منوا سکتے۔ احکام دے کر ان کی تعمیل نہ کرا سکنے کے یہ معنے ہیں کہ کچھ لوگ تو یہ سمجھیں کہ حکومت کمزور ہے اور وہ اپنی بات کو منوا نہیں سکتی اور کچھ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ اگر حکومت سے کوئی بات منوانی ہو تو اسے لٹھ دکھانا چاہیئے۔ اور ایسے خیالات حکومت اور ملک دونوں کے لئے مُضر ہیں بلکہ حکومت کی نسبت یہ خیالات ملک کے لئے زیادہ مُضر ہیں۔ حکومت کرنے والے انگریز تو یہاں باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ اگر حالات بدل جائیں تو وہ تو بوریا بستر اٹھا کر یہاں سے چلے جائیں گے اور ملک میں جو طوائف الملوکی اور فسادات پھیلیں گے ان کا اثر زیادہ تر ہندوستان پر ہو گا۔ بہرحال یہ شکوہ ہمارے دلوں میں پیدا ہونے کے بجائے حکام کے دلوں میں زیادہ پیدا ہونا چاہیئے اور میں حکومت کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ ہمیشہ وہی بات کہے جسے منوا سکے ورنہ نہ کہے۔ اس طرح گو احکام کم دئیے جا سکیں گے مگر حکومت کی عزت ضرور قائم ہو جائے گی۔ اس موقع پر بھی مثلاً حکام اگر ہم سے کہہ دیتے کہ ہم بے بس ہیں، سکھوں کا زور ہے تو اغلب ہے کہ ہم کہہ لیتے اچھا ان کو گزرنے دیا جائے اور اس طرح لوگوں پر بُرا اثر بھی نہ ہوتا اور حکومت کی عزت بھی رہ جاتی۔ پھر حکام نے یہ جو دلیل دی کہ لوگ گلیوں سے گزرتے ہی ہیں اور اس سے کسی کو کیسے روکا جا سکتا ہے درست نہیں۔ جلوس سارے ملک میں نکلتے ہیں اور ہر جگہ اس کے لئے رستے مقرر ہیں۔ انفرادی طور پر لوگوں کا گزرنا اور بات ہے لیکن جلوسوں کا گزرنا اور ہے۔ اور ہر جگہ جلوسوں کے لئے رستے مقرر ہوتے ہیں۔ پھر یہ کیا بات ہے کہ سارے ملک میں تو جلوسوں کے متعلق اور قانون ہو اور قادیان میں اَور۔ ہم برابر دیکھ رہے ہیں کہ جب کوئی ایسا موقع ہوتا ہے تو حکام کہہ دیتے ہیں کہ باہر جو قانون استعمال ہوتا ہے وہ غلط ہے لیکن باہر والے کہتے ہیں کہ یہاں جو ہوتا ہے وہ غلط ہے۔ اب کون سی عدالت ہے جس سے اس امر کا فیصلہ کرایا جا سکے کہ جس قانون پر باہر عمل ہوتا ہے وہ صحیح ہے یا جس پر یہاں ہوتا ہے ۔ یا تو ہر جگہ اور ہر قوم کو یہ اختیار ہونا چاہئے کہ وہ جس شہر میں اور جس رستہ سے چاہے اپنا جلوس گزار سکے اور یا پھر قادیان میں بھی رستہ مقرر ہونا چاہیئے۔ کیا جلوس صرف قادیان میں ہی نکلتے ہیں؟ ہر شہر میں جلوس نکلتے ہیں۔ امرتسر لاہور، دہلی، لکھنؤ، میرٹھ، الٰہ آباد، ہر جگہ نکلتے ہیں اور بیسیوں واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں کہ کسی شہر میں ہندوؤں نے کسی رستہ سے جلوس گزارنا چاہا لیکن مسلمانوں نے نہ گزرنے دیا یا مسلمانوں نے گزرنا چاہا تو ہندوؤں نے نہ گزرنے دیا۔ تو ہر جگہ جلوسوں کے رستے مقرر ہیں لیکن قادیان میں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ گلیاں لوگوں کے گزرنے کے لئے ہی ہوتی ہیں اور ہم کسی کو کس طرح گزرنے سے روک سکتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ سب جگہ کے لئے ایک ہی قانون ہو۔ یا تو ہر جگہ ہر قوم کے جلوس کو سب رستوں سے گزرنے کی اجازت ہونی چاہیئے اور یا پھر قادیان میں بھی رستے مقرر ہونے چاہئیں۔ اگر امنِ عامہ کے پیش نظر باہر جلوسوں کے رستوں کو مقرر کرتے وقت وہ بعض اصول مدنظر رکھتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ قادیان میں ان اصولوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ سب جگہ کے لئے ایک ہی قاعدہ ہو اور سب کو اطلاع دے دی جائے کہ یہ دستور ہے۔ ہم اقلّیت میں ہیں۔ وہ جو بھی قاعدہ مقرر کرے اس پر اعتراض کا ہمیں کوئی حق نہیں اور ہمیں منظور ہو گا۔ خواہ وہ یہ کر دے کہ ہر جگہ ہر قوم کے جلوس کو ہر بازار سے گزرنے کا حق ہے ۔ اور یا پھر یہ کہ بعض شرائط کے ماتحت رستے مقرر ہو سکتے ہیں۔ ہماری طرف سے اس کے متعلق کوئی مطالبہ نہیں لیکن یہ ضرور ہونا چاہیئے کہ ہر جگہ ایک ہی قانون ہو۔ یہ درست نہیں کہ لکھنؤ ، کلکتہ، میرٹھ، لاہور یا امرتسر کے لئے تو قانون دوسرا ہو اور قادیان کے لئے دوسرا۔
دوسری بات جو اس ضمن میں مَیں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس کانفرنس کے متعلق جو اشتہار شائع کیا گیا اس میں ہم پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ہم قادیان کے نواحی علاقہ میں دس دس میل تک اپنی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے حکومت کو تین کروڑ روپیہ دیا جائے گا۔ بعض نے احتیاط کی تو یہ کہا ہے کہ ایک کروڑ دیا جائے گا۔ ہماری مالی حالت ظاہر ہے۔ ہمارا بجٹ مجلس شوریٰ میں پیش ہوتا ہے اور اس پر بحث کی جاتی ہے۔ وہ کوئی مخفی چیز نہیں۔ اور اسے دیکھ کر ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ اس وقت بھی جماعت پر دو لاکھ سے زیادہ روپیہ کا بار ہے۔ اور اس کی وجہ سے ہم کارکنوں کا قلیل معاوضہ بھی جو گزارہ کے طور پر مقرر کیا جاتا ہے بعض اوقات تین تین یا چار چار ماہ تک ادا نہیں کر سکتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو قرض لے کر۔ اور اگر قرض نہ لیا جائے تو شاید ایک سال کی تنخواہیں بقایا میں رہیں۔ ان حالات میں کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ ہم تین کروڑ یا ایک کروڑ ہی حکومت کو دے سکتے ہیں۔ پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا حکومت اس طرح کروڑوں روپے لے کر علاقے دیا کرتی ہے۔ کیا اس کی کوئی ایک مثال بھی پائی جاتی ہے؟ جب تک تو انگریزی حکومت باقاعدہ قائم نہیں ہوئی تھی اس وقت تو بعض ایسے سودے ہوئے ہیں مثلاً کشمیر کا صوبہ ایک کروڑ روپیہ میں دے دیا گیا تھا۔ سکھوں پر تاوان لگایا گیا اور اسے موجودہ مہاراجہ کے دادا کے ذمہ لگا کر یہ علاقہ دے دیا گیا۔ اور پھر تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ روپیہ ادا بھی ہؤا۔ ممکن ہے کچھ ہؤا ہو اور جب کشمیر جیسا بڑا علاقہ ایک کروڑ میں بکا تو قادیان کے اردگرد دس میل کا علاقہ جسے آج جبکہ موٹرکاریں اور گاڑیاں ایجاد ہو چکی ہیں انسان پھونک مار کر پار کر جاتا ہے تین کروڑ میں لے کر کوئی کیا کرے گا۔ دس میل کے علاقہ کی آبادی میرے نزدیک 30۔35 ہزار ہو گی۔ زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار سہی۔ اس سارے ضلع کی آبادی دس لاکھ ہے۔ اس میں سے احمدیوں کی آبادی تو بہت ہی تھوڑی ہے۔ اس دس میل کے علاقہ میں احمدی میرے نزدیک بارہ تیرہ ہزار یا زیادہ سے زیادہ چودہ ہزار ہوں گے جو ساری آبادی کا چوتھا یا تیسرا حصہ ہو گا۔ اور ظاہر ہے کہ اتنی اقلّیت ایسی کثرت پر حکومت کیونکر آسانی کے ساتھ کر سکتی ہے۔ اس زمانہ میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو ملک تباہ ہوئے ہیں انہیں غیرملکی اقلیتوں نے ہی تباہ کیا ہے اور ایسی اقلیتیں جو اِن کی تباہی کا باعث بنیں بیس فیصدی سے زیادہ نہ تھیں۔ مگر انہوں نے حکومت کا قافیہ ایسا تنگ کیا کہ وہ ٹوٹ گئی۔ ان حالات میں احمد ی کیونکر یہ امید کر سکتے ہیں کہ اتنی بڑی اکثریت پر کامیابی سے حکومت کر سکیں گے۔ ہم پر الزام لگانے والے ذرا خود سوچیں کہ وہ کیا چیز پیش کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اس سے انکار کیوں نہیں کیا۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ہمیں ایسی بات کی تردید کی ضرورت کیا ہے جو ہو ہی نہ سکتی ہو۔ اگر کل کو کوئی کہہ دے کہ میں نے ہٹلر کو گھر میں چھپا رکھا ہے تو کیا میرا فرض ہے کہ اس کی بھی تردید کروں۔ ایسی باتیں ملک میں بدامنی کا موجب ہوتی ہیں۔ اور قیامِ امن کا ذمہ دار مَیں نہیں حکومت ہے۔ اور اس کا جواب دینا اس کا فرض تھا اور تردید بھی اسے کرنی چاہیئے تھی۔ ہم اگر کہیں کہ ہم ریاست نہیں لیتے تو افسرکہہ سکتے ہیں کہ بیوقوفو تمہیں دیتا کون ہے۔ پس نہ تو ہم مانگتے ہیں اور نہ کوئی دیتا ہے۔ اس لئے ہم انکار کیوں کریں۔ ہاں حکومت کا فرض تھا کہ اعلان کرتی کہ یہ بات غلط ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ سکھوں میں کئی ایسے لوگ ہیں جو موجودہ کانسٹی ٹیوشن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ انگریزوں کو یہ حق ہی نہیں کہ کسی کو کوئی علاقہ دے دیں۔ صرف وزراء کی مرضی سے ہی ایسا ہو سکتا ہے۔ آخر یہ کوئی مذہبی بات تو ہے نہیں بلکہ قانون کا سوال ہے۔ اور ان کے ہاں بھی قانون کے ماہر موجود ہیں۔ چاہئیے تھا کہ ان سے پوچھتے کہ انگریزوں کو اس کا حق بھی ہے یا نہیں۔ بلکہ وزراء بھی نہیں دے سکتے۔ پہلے کوئی ایسی بات اسمبلی میں پیش ہو گی۔ اوپر ہی اوپر یہ بات ممکن ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سرظفر اللہ خان صاحب نے وائسرائے سے اوپر ہی اوپر یہ بات منوا لی ہے۔ مگر ان کو معلوم نہیں کہ وائسرائے کو پنجاب کے معاملات میں دخل کا کوئی حق ہی نہیں۔ اب ہر صوبہ آزاد ہے۔ پنجاب گورنمنٹ چاہے تو دے سکتی ہے۔ مگر وہ بھی خود نہیں بلکہ پہلے اس بات کو اسمبلی میں بطور مسوّدہ پیش کرے گی اور پھر اس کی منظوری سے کوئی ایسی بات کر سکتی ہے۔ یہ بات تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ موضع بُٹر کا فلاں لالہ ریاست پٹیالہ فلاں ساہو کار کو دے رہا ہے۔ بھلا اسے ریاست پٹیالہ پر دخل ہی کیا ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ
پہ خوش گفت است سعدی در زمینی
اَلَا یَا اَیُّہَا السَّاقِیْ اَدْرِ کَأْسًا وَّنَاوِلْہَا
دوسرا مصرعہ حافظ کے ایک شعر کا ہے جو فارسی کا مشہور شاعر تھا اور‘‘ زلیخا’’ جامی کی تصنیف ہے۔ مگر اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ سعدی نے زلیخا میں کیا خوب لکھا ہے کہ ساقی پیالہ ادھر لا اور اسے گردش دے ۔ حالانکہ سعدی نے زلیخا لکھی ہی نہیں۔ پس پنجاب کا کوئی علاقہ کسی کو دینے کا اختیار حکومت ہند کو ہے ہی نہیں بلکہ پنجاب گورنمنٹ کو بھی نہیں۔ اسمبلی کو ہے۔ اس میں بھی ایسا مسودہ پیش کرنے کے لئے پہلے غالباً حکومت ہند سے منظوری لینی ضروری ہے۔ پس نہ حکومت کو دینے کا اختیار ہے نہ لینے والوں کے ذہن میں کوئی ایسی بات ہے۔ یہ تو محض پروپیگنڈا ہے جو بعض احراری ملانوں نے سکھوں میں اشتعال پیدا کرنے کے لئے کیا ہے اور سکھ ان کے دھوکا میں آ گئے۔ چاہئیے تو یہ تھا کہ جب انہوں نے یہ بات ان کے سامنے پیش کی تھی تو وہ ان سے کہتے کہ کیا تم ہم کو بیوقوف سمجھتے ہو۔ ماسٹر تارا سنگھ صاحب سکھوں کے بڑے لیڈروں میں سے ہیں ہمارے آدمی ان سے ملنے گئے اور جب ان کو یہ بات بتائی تو وہ ہنس پڑے اور کہا کہ ریاست تو بادشاہ بھی نہیں دے سکتا۔ تو سکھوں نے اسے پیش کر کے عقلمندوں کو اپنے اوپر ہنسی کا موقع دیا ہے۔ باقی رہا تردید کا سوال سو وہ حکومت کو کرنی چاہیئے تھی، ضلع کے افسروں کو کرنی چاہیئے تھی کیونکہ جس بات سے امن میں خلل کا احتمال ہو حکومت کا فرض ہے کہ اس کی تردید کرے۔ جب لاہور میں مسجد شہید گنج گرائی گئی تو یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ چودھری افضل حق صاحب نے حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اگر شہید گنج کو مسجد سے گوردوارہ میں تبدیل کر دیا جائے تو مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ اس وقت حکومت نے اس خبر کی تردید کی تھی۔ اور جب چودھری افضل حق صاحب کی عزت کی حفاظت حکومت نے ضروری سمجھی تو کیا ضلع کے امن کے پیش نظر اس کے لئے یہ ضروری نہ تھا کہ اس افواہ کی تردید کرتی۔
پھر اس جلسہ میں سلسلہ کے متعلق بھی بہت کچھ کہا گیا۔ سخت اشتعال انگیز نظمیں پڑھی گئیں اور تقریریں کی گئیں۔ اور اگر سکھ ایسی باتوں کو اس وجہ سے جائز سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے مقابلہ میں زیادہ ہیں تو ان کو مسلمانوں پر اعتراض کا کیا حق ہے؟ اور وہ پاکستان کی مخالفت کس اصول کے ماتحت کرتے ہیں؟ اگر وہ محض اس وجہ سے کہ وہ ہم سے زیادہ ہیں ہم کو گالیاں دے سکتے ہیں تو مسلمان اگر ان سے یہی سلوک کریں تو ان کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ تمام شرفاء ہندو ، سکھ، مسلمان ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ اگر امن قائم رکھنا ہے تو وہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ سب کے جذبات کا خیال رکھا جائے اور اس بات کی بنیاد عقل پر ہے۔ کسی کو دوسرے پر زیادتی کا حق محض اس وجہ سے نہیں دیا جا سکتا کہ اس کی تعداد دوسرے کی نسبت کچھ زیادہ ہے۔ تھپڑ مارنا صرف بچے کے لئے ہی ناجائز نہیں بلکہ پہلوان کے لئے بھی ناجائز ہے۔ یہ جبر ہے کہ پہلوان تو تھپڑ مار سکتا ہے مگر بچہ نہیں مار سکتا۔
ایک شخص نے اپنی تقریر میں کہا کہ مرزا صاحب گیدڑ تھے (نعوذ باللہ) کیا یہ انصاف کی بات ہے؟ ان کے گُروؤں کے متعلق اگر کوئی شخص یہی بات کہے تو کیا وہ برداشت کر سکتے ہیں؟ کیا وہ ایسی باتیں کہنے میں اپنے آپ کو اس وجہ سے حق بجانب سمجھتے ہیں کہ ان کے اس علاقہ میں نوے گاؤں ہیں یا پنجاب میں ان کی تعداد تیس لاکھ ہے اور احمدی تھوڑے ہیں۔ یہ بات بالکل غیر موزوں ہے اور میں سمجھتا ہوں خود ان کی قوم کے شرفاء بھی اسے قابلِ اعتراض قرار دیں گے۔ اگر ہم سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو ہمارے بزرگوں کے متعلق ایسے الفاظ کا حق ہے تو ان سے زیادہ تعداد والوں کو ان کے بزرگوں کے متعلق بھی ایسے الفاط استعمال کرنے کا حق ہونا چاہیئے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گیدڑ کہنے سے ان کے گُروؤں کی عزت بڑھ جاتی ہے؟ ایسی باتوں کانتیجہ کیا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ اگر ہم بھی دوسروں کی طرح ہوں تو فساد ہو جائے۔ اسی طرح بعض اور بھی گندے الفاظ استعمال کئے گئے۔ ایسے گندے کہ جن کو انسان برداشت نہیں کر سکتا۔ اور اس کی وجہ جواز اُن کے لئے سوائے اس کے اور کیا ہے کہ ہم تعداد میں زیادہ ہیں لیکن اگر اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ لیکن یہ بات انصاف کے سراسر خلاف ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ان باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ شیر کو گیدڑ کہنے سے وہ گیدڑ بن نہیں جاتا۔ جس طرح کہ سورج کو رات کہنے کا کوئی اثر نہیں وہ برابر طلوع کرتا رہتا ہے۔ جسے خداتعالیٰ نے شیر بنایا ہے کسی کے گیدڑ کہنے سے اس کی شیری میں فرق نہیں آ سکتا۔ گیدڑ وہی احراری ہیں جو سکھوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں کیونکہ وہ سب لوگ جو اس وقت احمدی ہیں حضرت مرزا صاحب انہی میں سے چھین کر لائے ہیں۔ وہ اکیلے تھے جب انہوں نے دعویٰ کیا اور پھر اکیلے نے سارے ہندوستان پر غلبہ پایا۔ روحانیت سے حملہ کر کے کسی دنیوی حملہ سے نہیں اور لاکھوں کو ان مولویوں کے پنجہ سے چھین کر لے آئے۔ ان سے پوچھا جائے کہ کیا گیدڑ ایسے ہی ہوتے ہیں ؟ آپ کے شیر ہونے کی علامت روزانہ الفضل میں شائع ہوتی ہے کہ آج اتنے احمدی ہوئے، آج اتنے ہوئے۔ دنیا میں کوئی ایسا شیر نہیں جو تین چار سو سے زیادہ شکار سال میں کر سکتا ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہر سال چار پانچ سو آدمیوں کو ان لوگوں سے چھین لیتے ہیں اور ایسے وقت میں لاتے ہیں جب آپ فوت ہو چکے ہیں۔ ہم تو ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور ہمیں یقین ہے کہ خود ان میں سے شریف طبقہ بھی اس کی تردید کرے گا۔ انہیں خود سوچنا چاہیئے کہ اگر ان گالیوں کا دسواں حصہ بھی ان کے گُروؤں کے متعلق استعمال کیا جائے تو ان کی کیا حالت ہو گی؟ ان کو غصہ آئے گا یا نہیں؟ اگر وہ اپنے بزرگوں کی عزت کرانا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ دوسروں کے بزرگوں کی بھی عزت کریں۔
بعض تقریروں میں کہا گیا ہے کہ ہمارا خاندان اس علاقہ کا قاضی تھا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ہمارے دادا کو جائداد دی تھی۔ ممکن ہے یہ کہنے والا باہر سے آیا ہو مگر اس علاقہ کے بڑے بوڑھوں سے دریافت کرو کہ ہمارا خاندان قاضی تھا یا حاکم۔ اگر ہمارے بزرگ ملانے تھے تو کیا سکھوں کی چار مسلیں اکٹھی ہو کر مُلانوں سے مقابلہ کے لئے آئی تھیں۔ سکھوں کی کل مسلیں پندرہ سولہ تھیں جن میں سے چار نے مل کر قادیان پر حملہ کیا تھا اور اب بھی بسراواں میں قلعوں وغیرہ کے نشانات ہیں جن پر توپیں وغیرہ نصب کی گئی تھیں۔ کیا یہ چار پانچ مسلیں مل کر کسی مسجد کے امام یا مُلا سے مقابلہ کے لئے آئی تھیں۔ ہمارا خاندان خداتعالیٰ کے فضل سے پہلے سے اس علاقہ کا حاکم تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کا زمانہ تو بعد کا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کی ہتک کی ہے۔ مگر یہ بات بھی بالکل غلط ہے۔ میں نے سکھ تاریخ پوری طرح نہیں پڑھی مگر میرے دل میں مہاراجہ صاحب کی عزت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کی تعریف سنی ہے۔ جن سکھوں کے خلاف آپ نے لکھا ہے وہ طوائف الملوکی کے زمانہ کے تھے اور ایسے زمانہ کو ہر قوم بُرا کہتی ہے۔ اور خود سکھ بھی بُرا سمجھتے ہیں۔ مگر جب مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ایک منظم حکومت قائم کر لی تو اس زمانہ کی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعریف ہی سنی ہے اور اس وجہ سے میرے دل میں ان کی عزت ہے۔ انہوں نے ایک معمولی زمیندار کا فرزند ہو کر ایسی عقلمندی دکھائی کہ پنجاب میں ایک منظم حکومت قائم کر دی۔ پس یہ بالکل غلط ہے کہ ہم ان کی ہتک کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مہاراجہ صاحب نے ہی یہ گاؤں واپس کیا۔ پس جن کو بُرا کہا گیا ہے وہ طوائف الملوکی کے زمانہ کے سکھ ہیں۔ بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گاؤں واپس کیا لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی۔ جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دئیے اور یہی وجہ ہے کہ آج ان کی جاگیریں موجود ہیں۔ یہاں سے پندرہ بیس میل کے فاصلہ پر سکھوں کا ایک گاؤں بھاگووال ہے وہاں سکھ سردار ہیں مگر وہ بھی انگریزوں سے مل گئے تھے۔ تو اس وقت بڑے بڑے سکھ خاندانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور مہاراجہ کے خاندان سے غداری کی مگر ہمارے دادا صاحب نے کہا کہ میں نے اس خاندان کا نمک کھایا ہے اس سے غداری نہیں کر سکتا۔ کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں تو قائم ہیں مگر ہماری چھین لی گئی۔ اس غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کے خلاف ان کا ساتھ نہ دیا تھا۔
تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مہاراجہ صاحب نے سات گاؤں واپس کئے تھے۔ پھر وہ کہاں گئے؟ وہ اس وجہ سے انگریزوں نے ضبط کر لیے کہ ہمارے دادا صاحب نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے مہاراجہ صاحب کی نوکری کی ہے ان کے خاندان سے غداری نہیں کر سکتے۔ بھاگووال کے ایک اسّی پچاسی سالہ بوڑھے سکھ کپتان نے مجھے سنایا کہ میرے دادا سناتے تھے کہ ان کو خود سکھ حکومت کے وزیر نے بلا کر کہا کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے ساتھ صلح کر لوخواہ مخواہ اپنے آدمی مت مرواؤ مگر ہمارے دادا صاحب نے مہاراجہ صاحب کے خاندان سے بے وفائی نہ کی اور اسی وجہ سے انگریزوں نے ہماری جائداد ضبط کر لی۔ بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا مگر کیا ملا قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی۔ باقی بھینی، ننگل اور کھارا کا مالکانِ اعلیٰ قرار دے دیا گیا۔ مگر یہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیا ہے؟ یہ برائے نام ملکیت ہے جو اشک شوئی کے طور پر دی گئی۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دادا صاحب نے غداری پسند نہ کی۔ ہاں جب انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تو پھر ان سے وفاداری کی ہے۔ پس یہ تعریف کے قابل بات تھی۔
سکھ لیکچراروں کو کہنا چاہئیے تھا کہ ہمارے دادا صاحب نے مسلمان ہونے کے باوجود سکھوں سے غداری نہیں کی مگر کہا یہ گیا کہ وہ گھاس منہ میں لے کر مہاراجہ صاحب کے پاس پہنچے کہ کچھ دیا جائے ۔ یہ کہنے والے کو معلوم نہیں کہ ہمارے پاس آج تک وہ تحریر موجود ہے جو شاہ فرخ سِیر نے ہمارے پردادا صاحب کو لکھی ہے اور اس میں ان کو عضدالدولہ کا خطاب اور سات ہزار فوج رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ اگر ہماری جاگیر مہاراجہ صاحب کی دی ہوئی ہے تو ان سے بہت پہلے یہ مناصب کیونکر حاصل ہو گئے۔ فرخ سِیر تو اورنگ زیب سے قریبی زمانہ میں گزرے ہیں۔ پس ایسی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہؤا کرتا۔ سینکڑوں لوگ ابھی تک اس علاقہ میں ایسے موجود ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادوں سے سنا ہو گا کہ ہمارا خاندان یہاں مُلّاں تھا یا حاکم۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی تو ہمارے تایا صاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فرو کیا تھا اور اسی وقت سے ٹوانوں اور نون خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں۔ پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت سے نہایت دیانتداری کا برتاؤ کیا اور اس کی سزا کے طور پر انگریزوں نے ہماری جائداد ضبط کر لی۔ ورنہ سری گوبندر پور کے پاس اب تک ایک گاؤں موجود ہے جس کا نام ہی مغلاں ہے اور وہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اور اس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی۔ اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب سے پہلے کی بات ہے۔ آج اگر گالیاں دی جائیں تو اس سے کچھ نہیں بنتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اس علاقہ کے حاکم تھے اور سکھوں کا قادیان پر حملہ کرنا ہی بتاتا ہے کہ یہاں حکومت تھی۔ ہمارے دادا صاحب کپورتھلہ کی ریاست میں چلے گئے تو مہاراجہ کپورتھلہ نے ان کو دو گاؤں پیش کئے ۔ گو انہوں نے لئے نہیں مگر کیا ایسے تحفے مُلانوں کو پیش کئے جاتے ہیں؟ اسی احراری مُلاں سے پوچھو کہ آج بھی وہاں کسی مُلانے کو دو گاؤں پیش کئے جا سکتے ہیں۔ عنایت اللہ صاحب خود ملاں ہیں اور قاضی بھی کہلاتے ہیں۔ پھر ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا سارے علاقہ پر رعب ہے۔ وہ خود وہاں چلے جائیں اور دیکھ لیں کہ مہاراجہ کپورتھلہ ان کو دو گاؤں پیش کرتے ہیں۔ اگر وہ اس طرح ملانوں کو دو دو گاؤں دینے لگیں تو دو سال میں ان کی ریاست ختم ہو جائے۔ زیادہ سے زیادہ 3،4سو گاؤں اس ریاست میں ہوں گے اور اگر وہ دو دو گاؤں تقسیم کرنے لگیں تو دو سو روز میں ان کی ریاست ختم ہو جائے۔ پس ایسی باتوں سے جو تاریخ اور عقل دونوں کے خلاف ہوں کچھ فائدہ نہیں۔ بات وہ کرنی چاہئیے جو تاریخ اور عقل کے مطابق ہو اور جس سے امن پیدا ہوتا ہو۔ ہم ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہیں اس لئے ہمارے درمیان فساد والی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ کسی کا یہ خیال کرنا کہ احمدی تھوڑے ہیں اور کوئی قوم ان کو مار سکتی ہے اور ان کے مکان اور جائدادیں تباہ کر سکتی ہے بالکل غلط خیال ہے۔ ایک بچہ کو بھی اگر زبردست پہلوان کنویں میں پھینکنا چاہے تو وہ بھی مقابلہ کرتا اور اسے دق کر دیتا ہے ۔ پھر ہمارا تو کسی طاقت پر بھروسہ نہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا حافظ ہے۔ تلواروں، ٹکوؤں اور لاٹھیوں کا رُعب ہمیں دبا نہیں سکتا۔ اور نہ ہم کسی کو دبانا چاہتے ہیں۔ گو یہ لوگ ہمارے شدید دشمن ہیں مگر ہم پھر بھی ان سے اور ان کی اولادوں سے محبت کرتے ہیں۔ ہم نے ان پر غلبہ ضرور حاصل کرنا ہے مگر تلوار یا بندوق سے نہیں بلکہ دلائل اور پیار سے۔
تقریروں میں کہا گیا ہے کہ ہم ظلم کرتے ہیں مگر میں کہتا ہوں جا کر علاقہ میں سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں سے پوچھو کہ ہم ان پر کیا ظلم کرتے ہیں۔ علاقہ کے سکھوں اور ہندوؤں کے ساتھ ہمارا لین دین ہے۔ ہم ان سے برابر چیزیں خریدتے ہیں۔ قادیان میں حالات مختلف ہیں۔ اگر ان کو اس وجہ سے غصہ ہے کہ ہم یہاں کے بعض ہندواور سکھ دکانداروں سے بعض چیزیں نہیں خریدتے تو ان کو ہندوؤں پر غصہ کیوں نہیں آتا جنہوں نے ایک لاکھ سال سے دوسری قوموں سے سودا وغیرہ خریدنا بند کر رکھا ہے۔ پہلے ان کو چاہیئے کہ اس ظلم کو دور کریں۔ بہادر قوم ہمیشہ بڑا کام کیا کرتی ہے۔ سکھ بھی اپنے آپ کو بہادر کہتے ہیں اس لئے ان کو چاہیے کہ پہلے ہندوؤں کے اس ظلم کو دور کریں اور اس ناانصافی کا خاتمہ کریں جو وہ اتنے لمبے عرصے سے کر رہے ہیں۔ ہم کسی جگہ کوئی دکان کھولتے ہیں ہم پر اعتراض کرنے والے ہندوؤں اور سکھوں کو لائیں کہ وہاں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدیں۔ ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں یہ بات موجود ہے کہ ہندو اور سکھ مسلمانوں سے کھانے پینے کی چیزیں نہیں خریدتے اور جب سارے ملک میں یہ بات موجود ہے تو ان کا سارا غصہ قادیان پر ہی کیوں ہے۔ اگر اس وجہ سے وہ قادیان کے مکانات گرانے پر آمادہ ہوتے ہیں تو ان کا اولین فرض ہے کہ پہلے بنارس کی دکانیں اور مکانات گرائیں، کاشی کے گرائیں، بمبئی میں گرائیں جہاں ہندو محلّوں میں مسلمانوں کو کرایہ پر بھی مکانات نہیں دئیے جاتے ۔
میں ایک دفعہ بمبئی گیا تو وہاں رہنے کے لئے کرایہ پر مکان ملنا مشکل ہو گیا مہاراجہ اندور1 کے پرائم منسٹر وہاں آئے ہوئے تھے۔ ان کا مکان جو ساحل سمندر کے پاس تھا۔ حضرت اماں جان میرے ساتھ تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ ساحل کے قریب کسی مکان میں رہیں۔ میں اندور کے پرائم منسٹر صاحب کے پاس گیا اور پوچھا کہ آپ کب تک یہاں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رہنا تو ابھی پندرہ روز اور تھا مگر آپ کو ضرورت ہے اور آپ ہمارے علاقہ کے رئیس ہیں (وہ پنجاب کے رہنے والے تھے) اس لئے میں آپ کی خاطر پہلے ہی مکان خالی کر دیتا ہوں۔ مگر جب ہمارے آدمی سامان وغیرہ رکھنے کے لئے گئے تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ محلہ کے سارے ہندو جمع ہو کر میرے پاس آئے ہیں کہ آپ ایک مسلمان کو مکان دینے لگے ہیں ۔ پس جن لوگوں کو ہم پر غصہ آتا ہے اور اس وجہ سے ہمارے مکان ڈھانا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ پہلے بمبئی جا کر وہاں کے ہندوؤں کے مکانات ڈھائیں۔ پھر قادیان پر ان کا حملہ اچھا لگے گا۔ ہم نے قادیان میں جو بعض پابندیاں لگا رکھی ہیں وہ بعض مخصوص حالات کی وجہ سے ہیں اور ان کا مقصد صرف امن قائم رکھنا ہے۔ ہم نے یہ محض اس شرارت کی وجہ سے لگا رکھی ہیں جو یہاں کے ہندو اور سکھ دکانداروں نے ایک مرتبہ کی تھی کہ اپنی دکانوں کا سامان باہر پھینک کر مشہور کر دیا کہ احمدیوں نے ہماری دکانیں لوٹ لی ہیں۔ ورنہ سکھ دیہات میں جا کر پوچھو کہ ہم سکھوں سے چیزیں لیتے ہیں یا نہیں۔ قادیان میں خاص معاملہ ہے جس کی وجہ انہیں دریافت کرنی چاہیے تھی۔ اور اگر یہ ظلم ہے تو یہ ظلم سارے ہندوستان میں ہندو اور سکھ کر رہے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر صرف ہم پر حملہ کرنے کی وجہ کیا صرف یہ ہے کہ ہم تھوڑے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں علاقہ کے ہندوؤں اور سکھوں کے اخلاق اور انصاف کا تقاضا تھا کہ وہ خود بخود ان باتوں کی تردید کرتے اور اب بھی انصاف اور اخلاق ان سے ان باتوں کی تردید کا تقاضا کرتے ہیں۔ کیا گاؤں کے سِکھ سِکھ نہیں ہیں؟ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ قادیان کے سکھوں کی نسبت وہ زیادہ پکے سکھ ہیں۔ وہ زیادہ قربانیاں کرتے ہیں۔ قادیان کے سکھ ہمیشہ ان سے امداد حاصل کرتے ہیں۔ پھر ان کے زیادہ پکے سکھ ہونے کے باوجود ہم ان کے ساتھ کیوں معاملات کرتے ہیں۔ پس قادیان کے سکھوں اور ہندوؤں سے اگر ہم چیزیں نہیں لیتے تو یہ اور بات ہے اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے ہے۔ ورنہ ہم سکھوں اور ہندوؤں سے برابر لین دین کرتے ہیں اور ہمیں خواہ مخواہ بدنام کیا جاتا ہے۔ بعض ایسے دیہات میں جہاں احمدیوں کی کثرت ہے سکھ رہتے ہیں۔ ضلع سیالکوٹ میں بعض ایسے گاؤں ہیں اور بعض سکھ جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں آتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ احمدیوں کے گاؤں میں ہمارے لئے بڑا امن ہے۔ اگر ہم سکھوں کے دشمن ہوتے تو ان دیہات میں ان سے بُرا سلوک کیوں نہ کرتے؟ پس ہر شریف سکھ اور ہندو کا فرض ہے کہ ان باتوں کی تردید کرے۔ وہ اس امر کے عینی شاہد ہیں کہ ہم کسی پر کوئی ظلم نہیں کرتے۔
اس موقع پر میں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اشتعال میں ہرگز نہ آئے۔ سکھوں کو ایک یہ رعایت حاصل ہے کہ ہم ان کے گُروؤں کو بزرگ سمجھتے ہیں اور اس لئے ان کو بُرانہیں کہہ سکتے۔ ہمارے بزرگوں کو وہ جو گالیاں دیتے ہیں ان کا غصہ اتارنے کا یہی طریق ہو سکتا تھا کہ ہم بھی ان کے بزرگوں کو انہی الفاظ سے یاد کرتے مگر ہم تو حضرت بابا نانک ؒ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ ہم ان کو گالی کس طرح دے سکتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ دو بھائی آپس میں لڑیں ۔ ایک ماں کی گالی دے تو دوسرا ا س کا جواب نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری گالی میری ماں کو لگے گی۔ پس ہمیں یہ مجبوری ہے۔ یہ بہت بیوقوفی ہو گی کہ ایک طرف تو ہم اپنے بزرگوں کو سکھوں سے گالیاں دلوائیں اور پھر خود اپنے بزرگوں کو گالیاں دیں۔ پس ان حالات میں ہمارے لئے سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں کیونکہ بدلہ کا جو طریق ہے اسے ہم اختیار نہیں کر سکتے۔ ہم رام اور کرشن کو اپنا بزرگ سمجھتے ہیں۔ ہندو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں مگر ہم ان کے بزرگوں کو گالی نہیں دے سکتے کیونکہ وہ ہمارے بھی بزرگ ہیں۔ پس ہمارے لئے صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جب ہم اپنے کسی بزرگ کو گالی سنتے ہیں اور غصہ کے باوجود ان کے کسی بزرگ کو گالی اس لئے نہیں دیتے کہ خداتعالیٰ کے ایک بزرگ کی اس طرح ہتک ہوتی ہے ۔تو ہمارا خدا ہمیں ضرور اس کا اجر دے گا۔ پس ہمارے لئے افسردگی کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ ہم نے غصہ کے باوجود خداتعالیٰ کے لئے اپنی زبان کو روکا اور اس وقت گالی نہ دی جب ہم دے سکتے تھے۔ محض اس وجہ سے کہ اس سے خداتعالیٰ کے ایک بزرگ کی توہین ہوتی ہے اور اس صبر کا اجر ہمیں اللہ تعالیٰ ضرور دے گا۔ پس صبر کرو اور دوسروں سے پہلے سے بھی زیادہ محبت کا مظاہرہ کرو۔ ممکن ہے تم میں سے کسی نے پہلے کسی ہندو یا سکھ سے بُرا سلوک کیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو آئندہ بہت احتیاط کرو۔ قادیان کے حالات جیسا کہ میں نے بتایا ہے مختلف ہیں۔ لیکن بعض دکانوں سے سودا خریدنے کی ممانعت کے باوجود یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں سے بھی محبت کا سلوک کرو۔ کوئی ہندو ، سکھ یا غیراحمدی بھوکا ہو تو اس کے لئے بھی کھانے کا اسی طرح فکر کرو جیسا اپنے احمدی بھائی کے لئے کرتے ہو۔ کوئی ننگا ہو تو اس طرح اس کے لئے بھی کپڑے کا خیال رکھو ۔ میرا اپنا معاملہ تو یہ ہے کہ میں نے سکھوں کوتعلیمی وظائف بھی دئیے ہیں۔ انہیں گھر کے اخراجات کے لئے بھی امداد دی ہے۔ بعض اوقات کفن دفن کے اخراجات بھی دئیے ہیں ۔ پس ہندوؤں سے بھی میں ویسا سلوک کرتا رہا ہوں۔ گو کسی کے نام کا اظہار مناسب نہیں کہ اس طرح ہتک ہوتی ہے۔ پس آپ لوگوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ یہاں کے ڈاکٹروں اور طبیبوں کو ہندو اور سکھ مریضوں کا اسی طرح علاج کرنا چاہیئے جس طرح احمدیوں کا کرتے ہیں۔ قادیان میں بھی اور باہر بھی ان سے اچھا ہی سلوک کرنا چاہیئے۔ ان سے لین دین میں کوئی روک نہیں اور گو اس طرح ہمارا پیسہ ان کے گھروں میں جاتا ہے مگر اس کی کوئی پرواہ نہ کرو کہ وہ بھی ہمارے ویسے ہی بھائی ہیں جیسے احمدی یا دوسرے مسلمان۔‘‘ (از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
1 اندور: ہندو مہاراجوں کی سابق ہندوستانی ریاست جو ہندوستان کے تقریبًا وسط میں واقع تھی۔1948ء میں مدھیہ پردیش میں ضم ہوگئی ۔اندور شہر میں بہت سے کالج اور ایک خوبصورت محل ہے۔یہ محل مہاراجہ کے استعمال میں تھا۔(اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد اول صفحہ 140مطبوعہ لاہور 1987ء


31
تحریک جدید کے ساتویں سال کا آغاز
(فرمودہ 29 نومبر 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ میری طبیعت پیچش کی وجہ سے خراب ہے ساتھ ہی کچھ حرارت کی شکایت بھی ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا لیکن چونکہ نومبر کا آخر آ گیا ہے اور یہ وہی ایّام ہیں جبکہ تحریکِ جدید کے نئے سال کے متعلق اعلان کیا جاتا ہے اس لئے مَیں آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب وہ ساتویں سال کی تحریک کے لئے اپنے وعدے لکھوانے شروع کر دیں۔
میں سمجھتا ہوں اس تحریک کے متعلق اتنی بار اور اتنے رنگ میں اور اتنے تواتر سے تحریک ہو چکی اور اس کی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں کہ درحقیقت اب کسی لمبے خطبے اور واضح بیان کی ضرورت نہیں ہے۔ جو لوگ اس قابل ہیں کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں یا جو لوگ اس قابل ہیں کہ اس تحریک کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھ سکیں وہ تو اس میں شامل ہو چکے ہیں اور میں سمجھتا ہوں اس وعدہ کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ دس سال تک اس تحریک میں انشاء اللہ شامل رہیں گے۔ اور جو لوگ اس قابل نہیں کہ اس تحریک میں شامل ہو سکیں یا قابل تو ہیں مگر اس تحریک کی ضرورت اور اہمیت سمجھنے کے قابل نہیں یا اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی گناہ اور شامتِ اعمال کی وجہ سے اس میں حصہ لینے سے محروم کر رکھا ہے۔ ایسے لوگوں کو میری کوئی تقریر یا خطبہ یا کسی اور کی کوئی تقریر اور خطبہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
رسول کریم ﷺ نے جس وقت دعویٰ کیا اس وقت مکہ کے لوگ تو اس بات میں مشغول ہو گئے تھے کہ یہ ہمارے دین اور نظام میں رخنہ پیدا کررہا ہے۔ آؤ اسے تباہ کر دیں۔ وہ نہ خود آپ کی باتیں سنتے اور نہ دوسروں کو سننے دیتے۔ بلکہ اگر کسی مجلس میں آپ اپنی باتیں سنانے جاتے تو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار ایک دوسرے سے کہتے کہ سب مل کر شور مچا دو تا اس کی باتیں کوئی شخص سننے نہ پائے۔ 1 چنانچہ وہ شور مچاتے ، تالیاں پیٹتے، گالیاں دیتے اور بُرا بھلا کہتے اور اس طرح جو لوگ آپ کی باتیں سننا چاہتے تھے وہ بھی شور کی وجہ سے کچھ نہ سن سکتے تھے۔ مگر جب مکہ کے لوگ رسول کریم ﷺ سے یہ سلوک کر رہے تھے اس وقت دور، میلوں میل دور، منزلوں دور غفار قبیلے کا ایک شخص ابوذرؓ کسی سے سنتا ہے کہ مکہ میں ایک ایسا دیوانہ پیدا ہؤا ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ انہیں خود ایک ضروری کام تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنے بھائی کو بلایا اور کہا کہ اونٹ لو اور مکہ جاؤ۔ وہ کہنے لگا کہ ایسا کون سا ضروری کام پیش آ گیا ہے جس کی وجہ سے میرا ابھی مکے جانا ضروری ہے؟ انہوں نے کہا کہتے ہیں وہاں ایک دیوانہ پیدا ہؤا ہے جو کہتا ہے کہ مَیں خدا کا رسول ہوں۔ اے میرے بھائی جو کوئی ایسی بات کہتا ہے وہ جھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور سچا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر تو وہ جھوٹا ہے تو تمہارا اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ تم مکہ سے پھر آؤ گے اور اگر وہ سچا ہے اور ہم اپنی جگہ بیٹھے رہے تو ہم ثواب کے اس عظیم الشان موقع سے محروم رہیں گے اس لئے تم فوراً مکہ جاؤ اور اس بات کا پتہ لگاؤ۔ چنانچہ ان کا بھائی مکہ کو چل پڑا۔ حسب دستور مکہ کے دروازوں پر قریش کے بڑے بڑے سردار اسے ملے اور کہنے لگے کہ کچھ تم نے سنا ہمارا ایک رشتہ دار پاگل ہو گیا ہے۔ کسی نے کہا پاگل تو نہیں بلکہ اس نے اپنی ایک دکان کھول لی ہے۔ وہ کہنے لگا سنا تو میں نے بھی ہے ۔ پھر انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ وہ ہمارا اپنا عزیزاور رشتہ دار ہے۔ ہمیں اس سے کوئی دشمنی نہیں مگر چونکہ اب وہ پاگل ہو گیا ہے اس لئے ہم دوسروں کو یہی نصیحت کیا کرتے ہیں کہ وہ اس پاگل کے قریب نہ پھٹکیں۔ کسی نے کہہ دیا کہ پاگل نہیں محض شرارت کر رہا ہے اور لوگوں میں فتنہ برپا کر رہا ہے۔ آخر انہوں نے روئی لی اور اس کے کانوں میں ٹھونس دی اور کہا کہ اول تو تمہارا یہی فرض ہے کہ اس سے ملنے کے لئے نہ جاؤ لیکن چونکہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ خود تم سے باتیں کرنے لگ جائے اس لئے ہم نے تمہارے کانوں میں روئی ڈال دی ہے کہ تمہارے کانوں میں اس کی باتیں نہ پڑیں۔ ورنہ تمہارا دین خراب ہو جائے گا اور تم بھی اسی کی طرح گمراہ ہو جاؤ گے۔ بھائی کے دل میں چونکہ وہ نور نہیں تھا جو ابوذرؓ کے دل میں تھا اس لئے وہ مکہ میں آیا اور پھرپھرا کر واپس چلا گیا۔ ابوذرؓ نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ اس مدعی نبوت سے ملے تھے۔ وہ کہنے لگا بھئی وہ تو پاگل ہے اس کا کیا پوچھتے ہو۔ اسی طرح کوئی اسے شرارتی کہتا ہے اور کوئی دکاندار۔ ابوذرؓ کہنے لگے کہ کیا تم خود اس کے پاس گئے تھے۔ وہ کہنے لگا مَیں تو گیا ہی نہیں۔ جاتے ہی مجھے پتہ لگ گیا تھا کہ وہ پاگل ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی یہ باتیں تو ہمیں یہاں بھی پہنچ گئی تھیں۔ تمہیں خود جانا چاہیئے تھا اور اپنے کانوں سے اس کی باتیں سننی چاہئے تھیں مگر خیر مَیں اب خود جاتا ہوں۔ چنانچہ وہ تیار ہوئے اور مکہ میں پہنچ گئے۔ جب قریش مکہ کو ان کی آمد کا علم ہؤا تو وہ جمگھٹا کر کے ان کے پاس پہنچے اور رسول کریم ﷺ کے خلاف انہوں نے آپ کے کان بھرنے شروع کر دئیے۔ کسی نے کہا پاگل ہے، کسی نے کہا دکاندار ہے، کسی نے کہا ہمارے معبودوں کی طرف سے اس پر *** پڑ گئی ہے۔ غرض کئی قسم کی باتیں لوگ کرتے رہے۔ آخر ان کے کانوں میں بھی انہوں نے روئی ڈال دی اور کہا کہ اس کی باتیں نہ سننا۔ انہوں نے روئی ڈلوا لی اور خیال کیا کہ مجھے خواہ مخواہ اس بات پر ان سے جھگڑنے کی کیا ضرورت ہے مگر جب وہ چلے گئے تو انہوں نے روئی نکال کر پھینک دی اور فیصلہ کیا کہ وہ خود تمام حالات معلوم کریں گے مگر اس سے انہیں اتنی بات ضرور معلوم ہو گئی کہ سارا مکہ اس شخص کا دشمن ہے۔ اگر میں نے کسی سے کوئی بات پوچھی تو ممکن ہے وہ غلط جواب دے۔ اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ مَیں پوچھوں گا کسی سے نہیں بلکہ آپ ہی تمام حال دریافت کروں گا۔ چنانچہ وہ سارا دن چکر لگاتے رہے ۔ کبھی پھرتے پھراتے ایک طرف نکل جاتے اور کبھی دوسری طرف اور انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ ہر انسان ڈرتا ہے آپؐ کا ذکر کرنے سے۔ اور ہر انسان گھبراتا ہے آپؐ کا نام زبان پر لانے سے ۔خانۂ کعبہ میں آنا تو آپ کے لئے ممنوع تھا ہی۔ اس لئے یہ صورت بھی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ خانۂ کعبہ میں رسول کریم ﷺ کو کبھی دیکھ لیں۔ حضرت علیؓ جو ابھی چھوٹے بچے ہی تھے اور جن کی تیرہ سال کی عمر تھی انہوں نے جو بار بار آپ کو اِدھر اُدھر پھرتے دیکھا تو انہیں تعجب سا ہؤا کہ اسے کوئی کام نہیں جو یونہی بازار میں پھر رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ آپ کیوں پھر رہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں مکہ میں ایک کام کے لئے آیا ہوں۔ عربوں میں مہمان نوازی کا وصف خاص طور پر پایا جاتا ہے۔ حضرت علیؓ یہ سنتے ہی انہیں اپنے گھر لے گئے۔ یوں وہ خود تو رسول کریم ﷺ کے پاس رہتے تھے مگر یا اس وقت وہ انہیں اپنے گھر لے گئے یا یہ کہ رسول کریم ﷺ کے گھر ان کی رہائش بعد میں شروع ہوئی ہے۔ بہرحال بعض روایات میں ہے کہ وہ انہیں گھر لئے گئے، کھانا کھلایا۔ دوسرے دن انہوں نے پھر چکر کاٹنے شروع کر دیئے۔ حضرت علیؓ نے پھر ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ آپ یہاں کس طرح پھر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا ابھی کام ہؤا نہیں اس لئے ادھر ادھر پھر رہا ہوں۔ خیر حضرت علیؓ پھر شام کو انہیں اپنے ہمراہ لے گئے اور کھانا کھلایا۔ تیسرے دن انہوں نے پھر دیکھا کہ وہ بدستور ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ آخر حضرت علیؓ نے ان سے کہا کہ مَیں آپ کا میزبان رہا ہوں اور میزبان کا بھی مہمان پر کسی قدر حق ہوتا ہے۔ آپ بتائیں کہ آپ کو یہاں کیا کام ہے اور آپ کیوں ادھر ادھر پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا بات تو مخفی ہے مگر آپ پر اعتبار کر کے بتا دیتا ہوں کہ مَیں نے سنا ہے یہاں کوئی شخص ہے جس نے رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے لوگ اسے پاگل کہتے ہیں۔ میرے دل میں یہ بات سنتے ہی خیال آیا کہ جب تک اس بات کی تصدیق نہ کر لی جائے کہ وہ پاگل ہے یا نہیں ہے اس وقت تک اسے جھوٹا کہنا جائز نہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میری اس سے ملاقات ہو جائے۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ تم نے پہلے دن ہی یہ کیوں نہ بتا دیا۔ میں تو انہی کے ساتھیوں میں سے ہوں۔ اب چلو میں تمہیں وہاں لے چلتا ہوں۔ مگر ان دنوں مکہ میں اس قدر شدید مخالفت تھی کہ حضرت علیؓ نے سمجھا اگر لوگوں نے اسے میرے ساتھ دیکھ لیا تو انہیں ضرور شبہ گزرے گا اور وہ اسے تکلیف پہنچائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ میں آگے آگے چلتا ہوں تم کچھ فاصلہ پر میرے پیچھے پیچھے رہنا۔ اگر راستہ میں مجھے کوئی شدید مخالف نظر آیا تو مَیں کسی اور کام میں مشغول ہو جاؤں گا اور تم کسی اور کام میں مشغول ہو جانا تا اسے یہ خیال ہی نہ آئے کہ مَیں تمہیں رسول کریم ﷺ کی طرف لے جا رہا ہوں۔ آخر وہ اس گھر میں پہنچے جہاں رسول کریم ﷺ مقیم تھے اور جو تبلیغِ اسلام کا ان دنوں مرکز تھا۔ ابوذرؓ نے اپنے آنے کا سارا قصہ بیان کیااور کہا کہ آپ اپنا دعویٰ بتائیں۔ رسول کریم ﷺ نے مختصراً اپنا دعویٰ بیان کیا اور قرآن کریم کی چند آیات سنائیں۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ میری تسلی ہو گئی ہے اور یہ کہتے ہوئے وہ مسلمان ہو گئے۔ پھر انہوں نے عرض کیا کہ میرے علاقہ میں کوئی بھی مسلمان نہیں۔ یہاں تو پھر بھی دس بیس مسلمان ہیں مگر وہ تو بالکل بدوی ہیں۔ انہیں جب یہ معلوم ہو گا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ ضرور شور مچائیں گے ۔ اس لئے اگر اجازت ہو تو کچھ عرصہ کے لئے میں اپنے اسلام کو چھپا لوں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اچھا اجازت ہے۔ بیعت کرنے اور اسلام کو چھپانے کی اجازت لے کر وہ باہر آئے اور خانہ کعبہ کے طواف کے لئے گئے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ صحنِ کعبہ میں رؤسائے قریش کی ایک مجلس لگی ہوئی ہے اور رسول کریم ﷺ کو بڑے بڑے تبرّے اور گالیاں دی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ بڑا عقلمند پیدا ہو گیا ہے جو کہتا ہے کہ ہمارے معبود جھوٹے ہیں۔ گویا ہمارے باپ دادے سب جھوٹے تھے اور یہ شخص سچا ہے۔ جب ان کے کان میں یہ آوازیں پڑیں تو باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ سے وہ یہ اجازت لے کر آئے تھے کہ میں اپنے قبولِ اسلام کا اعلان نہیں کروں گا بلکہ اس بات کو چھپائے رکھوں گا تاکہ لوگ مخالفت نہ کریں۔ جب انہوں نے اسلام اور رسول کریم ﷺ کی توہین ہوتی دیکھی تو ان کی برداشت کی طاقت جاتی رہی اور انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ ٗ۔ کفار یہ سنتے ہی آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسی خطرناک گستاخی ہے کہ عین اس وقت جب ہم تردید کر رہے ہیں یہ باہر کا رہنے والا ہمارے خلاف کھڑا ہو گیا اور اس نے ہمارے شہر میں فساد پیدا کرناچاہا ہے۔ اس پر کچھ نوجوان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے انہیں پکڑ کر خوب مارا۔ وہ ابھی مار ہی رہے تھے کہ حضرت عباسؓ آ گئے۔ حضرت عباس ابھی اسلام نہیں لائے تھے اور ان کی عمر ابھی چھوٹی ہی تھی۔ گو رسول کریم ﷺ سے ایک سال بڑے تھے یعنی رسول کریم ﷺ کی عمر اُس وقت 42 سال تھی اور آپ کی 43 سال مگر ان کی عقل کا سکّہ لوگوں کے قلوب پر بیٹھا ہؤا تھا اور مکہ کے بڑے بڑے لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ ان کی بات معقول ہوتی ہے۔ انہوں نے سمجھایا کہ تمہیں پتہ نہیں مکہ میں جتنا غلہ آتا ہے سب اس کے علاقہ میں سے گزر کر آتا ہے۔ اگر اس کے قبیلے والوں کو معلوم ہؤا کہ مکہ کے آدمیوں نے اسے مارا ہے تو وہ اس ذلت کو برداشت نہیں کر سکیں گے اور غلے کو روک لیں گے۔ پھر تم کھاؤ گے کہاں سے؟ اس پر انہوں نے ابوذرؓ کو چھوڑ دیا مگر دوسرے دن انہوں نے پھر قریشِ مکہ کو اسلام اور رسول کریم ﷺ کے خلاف باتیں کرتے دیکھا تو پھر بلند آواز سے کلمۂ توحید پڑھ دیا اور پھر نوجوان انہیں مارنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اس پر پھر حضرت عباسؓ نے ہی ان کو چُھڑایا۔ غرض اسی طرح مسلسل تین دن ہوتا رہا۔ اس کے بعد اسلام کو چھپانے کا کوئی سوال ہی نہ رہا۔ ابوذرؓ اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار بن گیا اور پھر یہ تلوار موت تک میان میں نہیں گئی۔ ان کی طبیعت بعد میں بھی ایسی جوشیلی رہی کہ ذرا سی بات بھی اگر وہ ناپسند دیکھتے تو فوراً شور مچا دیا کرتے تھے۔ 2
اب دیکھو ایک تو وہ شخص تھا جس نے منزلوں دور یہ اُڑتی ہوئی خبر سنی کہ ایک پاگل ہے جس نے مکہ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خدا کا رسول ہے اور وہ یہ سنتے ہی گھر سے نکل کھڑا ہؤا اور اس نے سمجھا کہ خدا کی طرف اپنے دعوے کو منسوب کرنے والے کی بات ضرور سننی چاہیئے۔ مگر خود مکہ میں رہنے والے محروم رہے۔ بہت تھے جو دو دو سال نہیں، چار چار سال نہیں، آٹھ آٹھ سال نہیں، بارہ بارہ سال نہیں، بیس بیس، اکیس اکیس سال تک مخالف رہے اور پھر یا تو تباہ ہو گئے یا بہت بعد اسلام میں داخل ہوئے۔ تو متواتر ربع صدی یا خمس صدی کے قریب انہوں نے مخالفتیں کیں اور ان کو رسول کریم ﷺ کے قرب کا کوئی فائدہ نہ ہؤا کیونکہ خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی اور جن کے دلوں پر مہر لگ جائے خدا انہیں اپنی برکات سے حصہ نہیں دیتا۔ یہ مُہر علیٰ قدرِ مراتب لگتی ہے۔ یہ نہیں کہ کفرکی وجہ سے لگے بلکہ جس طرح کفر کی شدت کی وجہ سے انسانی قلب پر مُہر لگتی ہے اسی طرح کبھی ایمان کی قلت کی وجہ سے انسانی قلب پر مُہر لگ جاتی ہے اور یہ مُہر انسان کواعلیٰ نیکی سے محروم کر دیتی ہے۔
تو جن لوگوں کو اس تحریک میں اب تک حصہ لینے کا موقع نہیں ملا خواہ کسی گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس میں حصہ لینے سے محروم رکھا ہے اور خواہ سستی اور غفلت کی وجہ سے باوجود توفیق کے انہوں نے اس میں حصہ لینا ضروری نہیں سمجھا ۔ انہیں اس کے متعلق اب کچھ کہنا فضول ہے۔ اور جن کو اس تحریک میں حصہ لینے کی توفیق ہی نہیں وہ معذور ہیں۔ اور انہیں بھی کچھ کہنا لاحاصل ہے۔ اگر وہ اس تحریک میں شامل ہونے کی سچی خواہش اور تڑپ رکھتے ہیں مگر غربت اور مالی تنگی کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکتے تو خداتعالیٰ کے حضور بھی اور اس کے سمجھ دار بندوں کے نزدیک بھی وہ انہی لوگوں میں شامل ہیں جو باقاعدہ چندہ دیتے ہیں کیونکہ گو انہیں توفیق نہیں کہ وہ اس میں حصہ لے سکیں مگر ان کے دل اپنی اس محرومی پر دُکھتے ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہوتا اور وہ بھی اس تحریک میں شامل ہوتے۔
پس چونکہ خدا جانتا ہے کہ وہ بہانہ نہیں بنا رہے بلکہ محض غربت کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکے اور ان کے دل اپنی اس محرومی پر دکھ رہے ہیں۔ اس لئے خدا انہیں انہی لوگوں میں شامل کرے گا جنہوں نے اس میں حصہ لیا۔ وہ ایسا نہیں کہ محض اس وجہ سے کہ کسی شخص نے عملاً حصہ نہیں لیا اسے ثواب سے محروم کر دے۔ خداتعالیٰ کی طرف سے ثواب قلب کی حالت پر آتا ہے ظاہری فعل پر نہیں آتا۔ ظاہری فعل تو محض ایک دلیل ہوتا ہے جیسے آگ جب جل رہی ہو تو اس میں سے دھواں نکلتا ہے۔ یہ دھواں اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ آگ جل رہی ہے۔ اگر دھویں کے بغیر بھی آگ ہو سکتی تو ہم دھوئیں کو نہ دیکھتے بلکہ محض آگ کو دیکھتے۔ اسی طرح عمل بغیر ایمان کے نہیں ہو سکتا۔ ایمان کا دھواں عمل ہے اور جب یہ دھواں اٹھ رہا ہو تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ایمان کی آگ فلاں شخص کے دل میں موجود ہے اور جب یہ دھواں نہیں اٹھتا تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ایمان کی آگ فلاں شخص کے قلب میں نہیں۔ اسی کی طرف شاید قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ3 کہ عمل صالح ایمان کو بلند کرتا ہے اور عمل صالح سے ہی کسی کے ایمان کا پتہ لگتا ہے۔ جس طرح دھوئیں سے آگ کا پتہ لگتا ہے۔
تو ایسے لوگ جن کو اس تحریک میں حصہ لینے کی توفیق نہیں مگر ان کے دل میں بار بار درد اٹھتا ہے اور انہیں اس بات پر افسوس آتا ہے کہ دوسرے لوگ تو حصہ لے رہے ہیں مگر وہ اپنی غربت کی وجہ سے اس ثواب میں شریک نہیں ہو سکے اور کم از کم وہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے خدا! گو تُو نے ہمیں اس میں شامل ہونے کی توفیق نہیں بخشی مگر ہمارے دل اس درد سے بھرے ہوئے ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ تُو اس تحریک میں برکت ڈال اور اس میں حصہ لینے والوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب کر۔تو ایسے لوگوں کو خدا علیحدہ نہیں رکھ سکتا بلکہ انہی لوگوں میں ان کو شامل کرے گا جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا۔ اور ہر شخص اپنے اپنے درد اور کرب کے درجہ کے مطابق اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرے گا۔ مثلاً ایک شخص نے اس تحریک میں پانچ روپے دیئے ہیں، دوسرے نے دس، تیسرے نے بیس اور چوتھے نے سو۔ پھر کسی نے دو سو روپے دیئے ہیں اور کسی نے پانچ سو۔ اور فرض کرو کہ سب کی مالی حالت یکساں تھی تو ان سب کو ان کے چندہ کی نسبت سے ثواب ملے گا۔ یعنی جس نے پانچ روپے دئیے ہیں اسے جو ثواب ملے گا اس سے دوگنا ثواب دس روپے دینے والے کو ملے گا اور دس روپے دینے والے کو جو ثواب ملے گا اس سے دوگنا ثواب بیس روپے دینے والے کو ملے گا۔ اور بیس روپے دینے والے سے بہت زیادہ ثواب سو یا دو سو یا پانچ سو روپے دینے والے کو ملے گا۔ مگر وہ جو ظاہری طور پر چندہ میں حصہ نہ لینے کے باوجود اس لسٹ میں آ جائیں گے جو چندہ میں حصہ لینے والوں کی خداتعالیٰ کے حضور تیار ہو گی انہیں ان کا ثواب ان کے دکھ اور ان کے کرب کے مطابق ملے گا۔ جسے دکھ کم ہو گا اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مثلاً پانچ روپے دینے والے کو ملے گا اور جس کے دل میں اس سے زیادہ درد ہؤا اسے وہ ثواب ملے گا جو مثلاً دس روپے دینے والے کو ملے گا اور جس کے دل میں اس سے بھی زیادہ درد ہؤا اور اسے اس غم نے نڈھال کر دیا کہ کیوں وہ اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکا اسے مثلاً پچاس یا سو یا دو سو روپے چندہ دینے والے کے برابر ثواب مل جائے گا۔ اسی طرح بڑھتے بڑھتے جو انسان اپنے قلب میں بہت زیادہ سوزش اور جلن محسوس کرے گا اور اللہ تعالیٰ سے اس تحریک کی کامیابی کے متعلق متواتر دعائیں کرتا رہے گا خداتعالیٰ اسے ان لوگوں میں شامل کرے گا جنہوں نے اس کے دین کے لئے اعلیٰ درجہ کی قربانیاں کیں۔ تو بندوں کی لسٹ اور ہے اور خداتعالیٰ کی لسٹ اور ۔ خداتعالیٰ کی لسٹ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے عملاً اس تحریک میں کوئی حصہ نہیں لیا مگر ان کے دل اس درد سے بھرے ہوئے ہیں کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہوتا اور کاش وہ بھی کچھ مالی قربانی کر سکتے۔ پس ایسے لوگوں کو بھی تحریک کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نہ انہیں توفیق ہے کہ وہ اس میں حصہ لیں اور نہ ہی وہ عذر کر رہے ہیں۔
تیسرا گروہ وہ ہے جو چھ سال سے باقاعدہ چندے دے رہا ہے۔ اس گروہ میں شامل ہونے والوں کو بھی درحقیقت کسی خاص تحریک کی ضرورت نہیں کیونکہ چھ سال گزر چکے اور ساتواں سال شروع ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی نادان ہی ہو گا جو کمند کو اس وقت توڑ دے جب دو چار ہاتھ لبِ بام رہ جائے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا 4 کہ تم اس عورت کی طرح مت بنو جو سوت کو کات کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کرتی تھی ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ تم ایسا نہ کرو کہ ایک نیک کام شروع کرو مگر پیشتر اس کے کہ وہ ختم ہو اُسے چھوڑ دو۔ پس ایسے لوگوں کو بھی میرے نزدیک چنداں تحریک کی ضرورت نہیں۔ وہ پہلے اس میں شامل ہو چکے ہیں اور میرے کہنے سے زیادہ ان کے گزشتہ چھ سال انہیں دھکے دے کر اس تحریک میں شامل کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اور جس کے دل میں کسی قسم کی قبض ہو گی اسے بھی اس کے پچھلے چھ سال تحریک کرنے کے لئے کافی ہوں گے۔ اور وہ کہیں گے کہ کیا اگلے چار سالوں کی خاطر تم ہمیں بھی برباد کرنے لگے ہو۔ وہ چھ سال اسے کہیں گے کہ تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا پہلا سال۔ تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا دوسرا سال۔ تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا تیسرا سال۔ تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا چوتھا سال۔ تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا پانچواں سال مگر جب تم پانچویں سال میں آئے تو تم نے نصف منزل میں اپنا قدم رکھ دیا اور جب چھٹے میں شامل ہوئے تو تم اس منزل کے دوسرے نصف میں داخل ہو گئے۔ اب تمہارے لئے رکنے کا کون سا موقع ہے اور اگر رُکو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تم اگلے چار سال کی خاطر ہمیں بھی برباد کرنا چاہتے ہو۔تو مجھ سے زیادہ ان کے پچھلے سال انہیں تحریک کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس لئے وہ بھی اس بات کے زیادہ محتاج نہیں کہ انہیں اس کی تحریک کی جائے۔
البتہ ایک گروہ ایسا ہے جو تحریک کا محتاج ہے اور اس گروہ میں وہ بچے شامل ہیں جو پہلے نابالغ تھے مگر اب بلوغت کو پہنچ گئے ہیں۔ یا وہ طالب علم شامل ہیں جو پہلے برسرِکار نہیں تھے مگر اب تعلیم ختم کر کے کہیں ملازم ہو چکے یا کوئی اور کام شروع کر چکے ہیں۔ یا وہ لوگ شامل ہیں جن کے پاس پہلے مال نہیں تھا مگر اب خدا نے انہیں مال دے دیا ہے۔ یا وہ لوگ شامل ہیں جو پہلے مقروض ہونے کی وجہ سے اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکے مگر اب قرض اُتار چکے اور اس قابل ہو چکے ہیں کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں۔ یا وہ لوگ ہیں جو پہلے احمدی نہ تھے مگر اب احمدی ہو گئے ہیں۔ غرض اس قسم کے لوگ جو پہلے معذور تھے مگر اب ان کی معذوری دور ہو چکی ہے یا پہلے بے سامان تھے مگر اب خداتعالیٰ نے انہیں باسامان کر دیا ہے۔ صرف وہ کسی نئی تحریک کے محتاج ہیں اور میں آج انہی کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ وہ اب پچھلا سفر طے کر کے ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں۔ اگر اس وقت وہ شامل ہو جائیں تو گزشتہ چھ سال کا بقایا انہیں ادا کرنا پڑے گا لیکن اگر اب بھی وہ اس میں شامل نہ ہوئے تو ان کے لئے اس میں شمولیت اور بھی کٹھن ہو جائے گی۔ پس وہ آج ہی اس تحریک میں شامل ہو جائیں تا پچھلے سفر کو بھی وہ طے کر سکیں ورنہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا ان کا بوجھ بڑھتا جائے گا۔ اور پھر مجاہدین کے اس سفر میں ان کا شامل ہونا مشکل ہو جائے گا۔
رسول کریم ﷺ نے جب تبوک کی طرف کُوچ کیا تو بعض مسلمان اس خیال سے پیچھے رہ گئے تھے کہ بعد میں تیاری کر کے لشکر سے جا ملیں گے۔ انہی لوگوں میں سے ابوخیثمہ نامی صحابی بھی تھے۔ یہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ (بعض روایت میں ہے کہ مدینہ میں ہی تھے اور اس خیال میں تھے کہ بعد میں جا کر مل جاؤں گا) جب واپس گھر پہنچے تو داخل ہوتے ہی اپنی بیوی سے پوچھا کہ رسول کریم ﷺ چلے گئے ہیں یا ابھی نہیں گئے؟ بعض دفعہ عورت کا دل مرد کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے اور اس کی محبت و موانست کے جذبات جوش میں ہوتے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ مرد اس کے پاس بیٹھے اور اس سے باتیں کرے۔ اس نے بھی نہا دھو کر بناؤ سنگھار کیا ہؤا تھا اور وہ چاہتی تھی کہ ابوخیثمہ اس سے باتیں کریں۔ چنانچہ جب انہوں نے پوچھا کہ رسول کریم ﷺ جہاد کے لئے تشریف لے گئے ہیں یا نہیں تو اس نے عورتوں والی چال چلنی شروع کر دی اور پاس بیٹھ کر محبت کا اظہار کرنے لگ گئی اور کہنے لگی پہلے کچھ باتیں تو کر لو۔ انہوں نے کہا باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی پہلے یہ بتاؤ کہ محمد ﷺ چلے تو نہیں گئے۔ وہ پھر باتوں میں مشغول کرنے لگی مگر انہوں نے اصرار کیا کہ پہلے رسول کریم ﷺ کا حال بتاؤ۔ آخر اس نے بتایا کہ آپ کل لشکر سمیت چلے گئے ہیں۔ ابوخیثمہ نے جب یہ سنا تو کہا ہمارے لئے شرم کا مقام ہے کہ خدا کا رسول تو دھوپ میں سفر کر رہا ہو اور میں اپنی بیوی کے پاس آرام سے بیٹھا باتیں کر رہا ہوں۔ یہ کہتے ہی انہوں نے گھوڑے پر زین ڈالی اور چل پڑے۔ رسول کریم ﷺ کو بھی اپنے ساتھیوں کے اخلاص اور ان کی محبت کا پتہ تھا۔ آپ کے دل میں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ ابوخیثمہ نہیں آیا۔ وہ بڑا مخلص آدمی ہے۔ معلوم نہیں اس کے آنے میں کیا روک حائل ہو گئی۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ آپ تھوڑی دور تک چلتے اور پھر مڑ کر دیکھتے اور فرماتے ابوخیثمہؓ نہیں آیا۔ پھر کچھ سفر طے کرتے تو پیچھے کی طرف مُنہ موڑ کر دیکھتے اور ذرا بھی گردوغبار اڑتی نظر آتی تو فرماتے ابوخیثمہ نہیں آیا۔ اس جنگ میں رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو قیصر جو عیسائی بادشاہ تھا اس کے مقابلہ میں جانا تھا۔ اور رسول کریم ﷺ جلد جلد منزلیں طے کرتے ہوئے جا رہے تھے تا عیسائی لشکر کو تیاری کرنے کا موقع نہ مل جائے اور ابوخیثمہؓ چونکہ چوبیس گھنٹے پیچھے رہ گئے تھے اس لئے ان کا لشکر کے ساتھ جلد آ ملنا مشکل تھا۔ وہ اپنی سواری کو ایڑیاں مارتے ہوئے تیزی کے ساتھ سفر طے کر رہے تھے۔ آخر تیسرے دن اسلامی لشکر کو دور سے گرد اُڑتی دکھائی دی اور انہوں نے کہا کہ گرد اُڑتی نظر آ رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کوئی سوار آ رہا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا کُنْ اَبَاخَیْثَمَۃ یعنی تُو ابوخیثمہ ہو جا۔ یہ عربی کا ایک محاورہ ہے جس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ کسی انسان کی شکل بدل جائے اور وہ ہو تو کوئی اور مگر اس کی شکل کسی اور انسان کی طرح ہو جائے۔ بلکہ اس محاورہ کے معنے یہ تھے کہ کاش یہ آنے والا ابوخیثمہؓ ہو۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ابوخیثمہ دوڑے چلے آتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ابوخیثمہ آخر تم آ ہی ملے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں پیچھے رہ سکتا تھا؟ میں باہر گیا ہؤا تھا۔ جب واپس آیا اور مجھے پتہ لگا کہ آپ چلے گئے ہیں تو میں اسی وقت سوار ہو کر چل پڑا اور منزلیں مارتا ہؤا یہاں پہنچ گیا۔ اس زمانہ میں اکیلے سفر کرنا نہایت خطرناک ہؤا کرتا تھا مگر انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم ﷺ کی ذات سے تھا منزلیں طے کرتے ہوئے لشکر سے آ ملے۔ 5 اسی طرح مدینہ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جو اس خیال میں رہے کہ آج نہیں تو کل چل پڑیں گے ۔ کل خیال کر لیا کہ پرسوں روانہ ہو جائیں گے۔ آخر جب تین دن گزر گئے تو انہوں نے خیال کیا کہ اب اتنا لمبا سفر ہم سے کہاں طے ہو سکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ اس جہاد میں شامل ہونے سے محروم رہ گئے ۔ 6 تو وقت کو ضائع کرنا بہت بڑی حماقت ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے بھی اس وقت تحریک جدید کا ایک جہاد ہے جس کا سفر دس منزلوں پر مشتمل ہے۔ ان دس منزلوں میں سے چھ منزلیں طے ہو چکی ہیں اور صرف چار منزلیں باقی رہتی ہیں۔ جو لوگ اب تک اس میں شامل نہیں ہوئے ان کے لئے بے شک چھ منزلیں اکٹھی طے کرنا مشکل ہے مگر سات منزلیں اکٹھی طے کرنا ان کے لئے اور بھی مشکل ہو گا۔ اور آٹھ یانو یا دس منزلیں اکٹھی طے کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہو گا۔ بے شک جنہوں نے یہ سفر پہلے طے نہیں کیا ان پر اب ان منزلوں کو یکدم طے کرنا گراں گزرے گا مگر انہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر اس وقت انہوں نے اس بوجھ کو برداشت نہ کیا تو یہ گرانی سال بسال بڑھتی چلی جائے گی۔
پس میں ان نوجوانوں کو جو اس سال کے دوران میں برسرکار ہوئے ہیں یا ان غرباء کو جنہیں خداتعالیٰ نے اب وسعت دے دی ہے یا ان لڑکوں کو جو پہلے بالکل چھوٹے تھے مگر اب وہ بڑے ہو گئے ہیں اور انہیں اس تحریک کی اہمیت کا علم ہو گیا ہے یا انہیں اپنے ماں باپ کی جائداد میں سے کوئی حصہ مل گیا ہے یا ان لوگوں کو جو پہلے احمدی نہیں تھے مگر اس عرصہ میں وہ احمدی ہو گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انہیں اس تحریک میں شامل ہونے کی توفیق بھی ہے توجہ دلاتا ہوں کہ منزل قریب آ رہی ہے ، سفر خاتمہ کے قریب پہنچ گیا ہے اور چوٹی پر پہنچ کر اب مجاہدین کا لشکر نیچے اتر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ منزل ختم ہو جائے اور تمہارے لئے حسرت کے سوا کچھ باقی نہ رہے۔
مَیں اس امر کی طرف بھی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے ہر مومن اور مخلص کو چاہیئے کہ وہ اپنی توفیق کے مطابق ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دے۔ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ پہلے سال سے بڑھ کر چندہ دینے کے یہ معنے نہیں کہ انسان پانچ یا دس یا بیس یا سو روپے زیادہ دے بلکہ زیادتی ہر شخص کی مالی حیثیت پر منحصر ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے سابقہ چندے پر ایک پیسہ بھی بڑھاتا ہے تو خداتعالیٰ کے نزدیک وہ اضافہ ہی ہے۔ اس لئے اپنے چندے بڑھانے میں سستی سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیئے کہ اس کا چندہ پہلے سالوں سے بڑھ کر رہے۔ خداتعالیٰ کو اس سے غرض نہیں کہ کسی کا اضافہ تھوڑا ہے یا بہت۔ بلکہ جو بھی اپنے چندے پر اضافہ کرتا ہے خواہ وہ کیسا ہی قلیل کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ سابقون کے زمرہ میں لکھا جاتا ہے۔ اور جبکہ یہ امتیاز اور فخر ایک پیسہ یا دھیلہ کی زیادتی سے بھی تمہیں حاصل ہو سکتا ہے تو کیسا نادان وہ شخص ہے جو اتنا اضافہ بھی نہ کرے اور اس طرح سابقون میں شامل ہونے سے محروم رہے۔ وہ شخص جو پانچ یا دس روپے چندہ دیتا ہے اس کے لئے ایک پیسہ کی زیادتی ایسی نہیں ہو سکتی جس کے متعلق وہ یہ کہہ سکے کہ وہ یہ اضافہ نہیں کر سکتا۔ غرباء بھی اگر چاہیں تو ایک پیسہ دے کر سابقون میں شامل ہو سکتے ہیں۔
پس جماعت کے ہر دوست کو کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لے اور کوشش کرنی چاہیئے کہ ہر سال کا چندہ پہلے سال سے بڑھ کر ہو خواہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ اضافہ کیا جائے تاکہ ہماری جماعت میں کوئی بھی شخص ایسا نہ رہے جو سباق سے محروم ہو۔ وہ غرباء جو پانچ روپیہ چندہ دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ان کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ اگر ان کا دل دردمندہے اور وہ یہ تڑپ رکھتے ہیں کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہوتا اور وہ اس میں شریک ہو سکتے تو وہ خداتعالیٰ کے حضور چندہ دہندگان میں ہی شامل ہیں۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم سے ایک روپیہ لے لیا جائے اور ہمیں اس تحریک میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے۔ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ اگر ان کے دل میں واقع میں یہ تڑپ موجود ہے تو خداتعالیٰ کے نزدیک وہ پہلے ہی اس تحریک میں شامل ہیں۔ انہیں چاہیئے کہ وہ یہ روپیہ کسی اور نیک کام پہ صرف کر دیں اور اپنے متعلق اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھیں کہ وہ انہیں ایسا ہی ثواب دے گا جیسے ان لوگوں کو دے گا جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا۔ اگر بالفرض وہ ایک روپیہ دے کر اس تحریک میں شامل بھی ہو جائیں تو انہیں ثواب تو ایک روپیہ کا ہی ملے گا لیکن اگر وہ غربت کی وجہ سے اس تحریک میں حصہ نہیں لیں گے مگر ان کے دل تڑپ رہے ہوں گے کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہوتا اور وہ بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح اس میں حصہ لیتے تو اس کے بدلہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے علیٰ قدر مراتب انہیں ایسا ہی ثواب ملے گا جیسے تحریک جدید میں اور حصہ لینے والوں کو ملے گا۔ اور مزید برآں وہ اس ایک روپیہ کو نیکی کے کسی اور کام میں صرف کر کے اللہ تعالیٰ سے اور زیادہ ثواب حاصل کر سکیں گے۔ پس انہیں اس تحریک سے اپنے آپ کو مستثنیٰ سمجھنا چاہیئے۔ باقی ہر ایک دوست کو چاہئے کہ وہ اضافہ کے ساتھ اپنا چندہ لکھوائے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس نے گزشتہ سال پانچ روپیہ کا وعدہ کیا تھا وہ اب چھ روپیہ کا وعدہ لکھوائے بلکہ وہ ایک پیسہ اور ایک آنہ دے کر بھی سابقون میں شامل ہو سکتا ہے۔ اور جبکہ مَیں نے سابقون میں شامل ہونے کا راستہ ہر ایک کے لئے کھول دیا ہے اور مَیں نے اجازت دی ہوئی ہے کہ قلیل سے قلیل ایزادی سے بھی انسان سابقون کا ثواب حاصل کر سکتا ہے۔ تو اس اجازت کے بعد کوئی ایسا شخص ہی سابقون کے ثواب سے محروم رہ سکتا ہے جسے یا تو اس بات کا علم نہ ہو اور یا اس کے دل میں سابقون کے زمرہ میں شامل ہونے کی کوئی قدر نہ ہو۔
پس ہر مومن کو چاہیئے کہ وہ اپنے پچھلے سال کے چندہ پر حسب توفیق دھیلہ، پیسہ، دو پیسے ، آنہ، دو آنے یا اس سے زیادہ رقم بڑھا دے تاکہ وہ سابقون میں شامل ہو جائے اور اس کی ہر منزل پہلی منزل سے زیادہ بہتر ہو۔ پھر ایک اور ذریعہ بھی سابقون میں شامل ہونے کا ہے اور وہ یہ کہ اسلامی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ تو انفرادی زندگی کہلاتا ہے اور دوسرا حصہ جماعتی زندگی کہلاتا ہے۔ پس میرے نزدیک نہ صرف افراد کو یہ احساس ہونا چاہیئے کہ ان کا چندہ پہلے سال سے زیادہ ہو بلکہ جماعتوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہیئے کہ ان کے وعدوں کی لسٹیں افراد کے لحاظ سے بھی اور وعدوں کے لحاظ سے بھی پہلے سالوں سے بڑھ کر ہوں۔
درحقیقت قومی عزت بھی عزت ہی ہوتی ہے بلکہ اگر ہم غور کریں تو وہ بعض دفعہ ذاتی عزت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ مثلاً زید قادیان کا باشندہ اگر اپنے وعدہ کی تمام شرائط کو پورا کر دیتا اور سابقون کے زمرہ میں آ جاتا ہے لیکن قادیان کی جماعت پھسڈّی رہ جاتی ہے تو زید کو بھی اس داغ میں سے کچھ حصہ ملے گا۔ اسی طرح فرض کرو کہ بکر لاہور میں چندہ دینے میں خوب چُست ہے اور وہ ہمیشہ اضافہ کے ساتھ وعدہ کرتا اور وقت کے اندر اسے پورا کرتا ہے لیکن لاہور کی جماعت چندہ میں پیچھے رہ جاتی ہے تو لاہور کی جماعت کو جو داغ لگے گا وہ اس کو بھی لگے گا۔ باوجود اس بات کے کہ ذاتی طور پر وہ چندہ میں سب سے آگے ہو گا۔ تو جماعتی لحاظ سے بھی سابقون میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وعدہ کرنے والے افراد کی تعداد پہلے سال سے زیادہ ہو۔ اسی طرح ان کی موعودہ رقوم بھی گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ ہوں۔ چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں بے شک یہ مشکل پیش آ سکتی ہے کہ افراد کے لحاظ سے ان میں کوئی خاص زیادتی نہیں ہو سکتی ۔ کسی جگہ اگر ایک سال پانچ سات احمدی ہیں تو دوسرے سال بھی پانچ سات احمدی ہی ہوں گے مگر بڑی بڑی جماعتوں میں مقابلہ کا راستہ کھلا ہے۔ اس سے ان کی عزت بہت بڑھ سکتی ہے اور اس مقابلہ سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سی جماعتیں پیچھے رہی ہیں۔ جب یہ فہرستیں کتابی صورت میں شائع ہو جائیں گی تو اس وقت ہر ایک کے لئے تمام فہرست کا پڑھنا سخت مشکل ہو گا ۔ لیکن یہ بات آسانی سے دیکھی جا سکے گی کہ کون سی جماعت چندوں میں بڑھ کر رہی اور کون سی جماعت پیچھے رہی۔ اور چونکہ اس بات کا معلوم کرنا آسان ہو گا اس لئے جو جماعتیں چندہ میں بڑھ کر رہیں گی ان کے لئے سینکڑوں سال دعائیں ہوتی چلی جائیں گی اور خدا سے جو انہیں ثواب ملے گا وہ الگ ہو گا۔ گویا خدا کے ثواب کے بعد ایسی جماعتیں بندوں کی دعاؤں سے بھی سینکڑوں ہزاروں سال تک حصہ لیتی چلی جائیں گی۔ اس فہرست میں کم و بیش پانچ ہزار نام ہوں گے اور پانچ ہزار نام پڑھنا آسان کام نہیں لیکن اتنی بات ہر کوئی پڑھ لے گا کہ فلاں فلاں جماعتیں اس چندہ میں اول رہی ہیں۔ پس جماعتی لحاظ سے بھی کوشش کرنی چاہیئے کہ افراد اور وعدوں کے لحاظ سے لسٹیں گزشتہ سال سے بڑھ کر رہیں تاکہ اس حصۂ ثواب میں وہ دوسروں سے بڑھ جائیں۔
مَیں اس موقع پر ایک دفعہ پھر ان لوگوں کو جنہوں نے ادائیگی چندہ کا اقرار کیا ہؤا ہے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بغیر کسی کی تحریک کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی فکر رکھا کریں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سال کے آغاز میں پہلے تین چار ماہ تو دوستوں کی توجہ اس چندہ کی طرف رہی مگر پھر ان پر غفلت طاری ہو گئی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں 25 ہزار کے قریب چندہ میں کمی آ گئی۔ اس کے بعد مَیں نے پھر توجہ دلائی تو دوستوں میں بیداری پیدا ہوئی مگر ستمبر کا مہینہ ختم ہونے پر دس پندرہ دن کے اندر اندر پانچ سات ہزار کی پھر کمی ہو گئی۔ اس کے بعد پھر توجہ دلائی گئی تو اب یہ حالت ہے کہ آمد قریباً قریباً گزشتہ سال کے برابر ہے۔ صرف کسی دن کی وصولی پچھلے سال سے کم ہو جاتی ہے اور کسی دن کی وصولی پچھلے سال سے بڑھ جاتی ہے۔ یہ طریق بھی انسان کے لئے ثواب کی کمی کا موجب ہوتا ہے ا ور یوں بھی یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ انسان اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ بھی دے اور پھر ذرا سی غفلت سے اس کے ثواب میں کمی آ جائے اور اس کی سستی سلسلہ کے لئے پریشانی کا موجب بن جائے۔ پس ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیئے کہ وعدہ کے بعد جلد سے جلد اپنے وعدے کو پورا کر دے۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے ذمہ گزشتہ سالوں کا بقایا رہتا ہے انہیں بھی اپنے بقائے صاف کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ مَیں نے بار بار کہا ہے کہ اگر وہ چندہ نہیں دے سکتے تو مجھ سے معافی لے لیں اور اگر دے سکتے ہیں تو جلد سے جلد دینے کاانتظام کریں۔ وہ شخص جو چندہ دینے کی طاقت تو نہیں رکھتا مگر معافی بھی نہیں مانگتا وہ متکبر ہے کیونکہ وہ دنیا کو یہ دکھاناچاہتا ہے کہ اس نے چندہ دینے کا وعدہ کیا ہؤا ہے اور وہ اسے ادا کر دے گا مگر حالت یہ ہے کہ وہ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا یا ادا کرنا چاہتا نہیں اور پھر ریاء اس پر اس قدر غالب ہے کہ معافی بھی نہیں مانگتا۔ پس وہ متکبر ہے اور وہ جو توفیق کے باوجود ادا نہیں کرتا نادہند ہے۔ اسے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا کہ اس تحریک میں اپنا وعدہ لکھوائے۔ سوائے ایسی تحریک کے جیسے ایک مومن دوسرے مومن کو کرتا ہے۔ پس اس تحریک میں شامل ہونا اس کی خوشی پر منحصر تھا اور جبکہ اس نے طوعی طور پر چندہ لکھوایا تو یہ نہایت ہی قابلِ شرم بات ہے کہ ایک انسان وعدہ تو اپنی مرضی اور خوشی سے کرے مگر اسے پورا نہ کرے۔
پس مَیں ان تمام لوگوں کو جن کے ذمہ گزشتہ سالوں کے بقائے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے بقائے پورے کریں تاکہ ثواب کی جگہ انہیں عذاب نہ ملے۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے بقائے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے بقائے تیس ہزار کے قریب ہوں گے اور یہ وہ بقائے ہیں جن کی ادائیگی کا دوستوں نے وعدہ کیا ہؤا ہے۔ پس اپنے وعدوں کو پورا کریں۔ اور بقایوں کو جلد سے جلد صاف کریں۔ وعدہ بڑی قیمتی چیز ہوتا ہے اور پھر مومن کا وعدہ تو اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص مومن کہلا کر بھی اپنا وعدہ پورا نہ کرے تو اس کا ایمان اسے کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ وعدہ تو ایسی چیز ہے کہ بسا اوقات کافر بھی اسے پورا کرنے کا فکر رکھتا ہے اور جبکہ کافر بھی وعدہ کو پورا کیا کرتا ہے تو مومن کو خیال رکھنا چاہیئے کہ اس کا قدم کم سے کم کافر سے نیچے تو نہ پڑے۔ عرب میں وعدوں کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔ اس زمانہ میں تو مسلمان کہلانے والے چاہتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو دوسروں کا نقصان ہو۔ انہیں نہ اپنے وعدوں کا خیال ہوتا ہے نہ لین دین کا احساس ہوتا ہے۔ مگر اہلِ عرب میں وعدوں کو پورا کرنے کا اتنا احساس تھا کہ باوجود کفر کے وہ اپنے وعدوں کو پورا کر کے دکھا دیتے تھے۔ چنانچہ مکہ میں ایک دفعہ خبر پہنچی کہ ایرانی فوجوں سے رومی فوج شکست کھا گئی ہے۔ مکہ والے چونکہ مشرک تھے اور ایران والے بھی مشرک تھے۔ اس لئے مکہ کے بت پرست اس سے بہت خوش ہوئے۔ مشرک تو عیسائی بھی تھے مگر وہ چونکہ مسلم اہل کتاب تھے اس لئے مکہ والوں نے شور مچا دیا کہ یہ محمد (ﷺ) جو عیسیٰ کو مانتا ہے اس کا تعلق عیسائیوں سے ہے اور ہمارا تعلق ایرانیوں سے ہے۔ اس جنگ میں چونکہ ایرانیوں کو فتح ہوئی ہے اور رومی شکست کھا گئے ہیں اس لئے یہ ہمارے لئے ایک نیک فال ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بھی فتح پائیں گے اور مسلمان ہمارے مقابلہ میں شکست کھا جائیں گے۔ غرض مکہ میں ایک شور برپا ہو گیا کہ چونکہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے دی ہے اس لئے اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو شکست دے دی۔ جب کوئی رَو چلتی ہے تو چلتی چلی جاتی ہے اور طبائع خود بخود اس سے متاثر ہوتی جاتی ہیں۔ یہ رَو بھی ایسی چلی کہ ہر جگہ اس کا تذکرہ رہنے لگا۔ مسلمانوں نے اس پر بحثیں کرنی شروع کر دیں۔ کوئی کہتا کہ فال کوئی چیز ہی نہیں ہوتی۔ کوئی کہتا کہ یہ محض وہم اور خیال ہے اور کوئی یہ کہتا کہ فال لینے کا یہ طریق غلط ہے۔ آخراللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ پر وحی نازل کی کہ رومیوں کو گو اب شکست ہو چکی ہے مگر بِضْعِ سِنِيْنَ 7 میں وہ پھر غالب آ جائیں گے اور ایرانی ان کے مقابلہ میں شکست کھا جائیں گے۔ اور یہ خبر تم کو ایسے وقت میں پہنچے گی جب تم بھی ان دشمنوں کو ایک شکست دے چکے ہو گے۔ چنانچہ رومیوں کی فتح کی خبر مسلمانوں کو بدر کے موقع پر پہنچی۔ جب کفار کا لشکر مسلمانوں کے مقابلہ میں شکستِ فاش کھا چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب یہ وحی نازل ہوئی تو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اُبی بن خلف جو مکہ کا رئیس تھا اس کے پاس پہنچے اور فرمانے لگے کہ کچھ تم نے سنا۔ ہمارے آقا کو الہام ہؤا ہے کہ بِضْعِ سِنِيْنَ میں رومی ایرانیوں پر پھر غالب آ جائیں گے۔ اس نے کہا اگر یہ بات ہے تو آؤ اور کوئی شرط باندھ لو۔ حضرت ابوبکر نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ دس دس اونٹوں کی شرط ہو گئی۔ بِضْعِ سِنِيْنَ کے معنے تین سے دس سال تک کے ہوتے ہیں یعنی تین سال سے لے کر نویں سال کے اختتام تک۔ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کا خیال نہ رہا اور انہوں نے تین سال کی مدت مقرر کر دی اور کہا کہ اگر تین سال میں ایرانیوں نے رومیوں کے ہاتھوں شکست نہ کھائی تو میں تمہیں دس اونٹ دوں گا اور اگر وہ شکست کھا گئے تو تمہیں دس اونٹ دینے ضروری ہوں گے۔ اس کے بعد وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ مَیں تو آپ کی وحی پر شرائط باندھ آیا ہوں اور کہہ آیا ہوں کہ اگر ایرانیوں کو اب کی دفعہ شکست نہ ہوئی تو میں دس اونٹ دوں گا۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مدت کیا مقرر کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ تین سال۔ آپ نے فرمایا بِضْعِ سِنِيْنَ تو تین سے نوسال تک ہوتے ہیں۔ یہ آپ نے غلطی کی جو تین سال کی حدّ مقرر کر دی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اب اس غلطی کی تلافی اس طرح کرو کہ اُبَی بن خلف کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم شرط اور زمانہ دونوں بڑھا دیتے ہیں۔ شرط سو سو اونٹ رکھ لو اور مدت نو سال کے اختتام تک بڑھا دو۔ چنانچہ وہ پھر اُبَی بن خلف کے پاس گئے اور یہی بات اس کے سامنے پیش کر دی۔ اسے چونکہ یقین تھا کہ ایرانیوں کی طاقت بہت بڑی ہے اور ناممکن ہے کہ رومی انہیں شکست دے سکیں اس لئے اس نے فوراً خوشی سے اس بات کو قبول کر لیا اور کہا کہ بے شک زمانہ نو سال تک بڑھاؤ اور شرط سو سو اونٹوں کی رکھ لو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رومیوں کے حالات میں تبدیلی پیدا کرنی شروع کر دی اور نو سال کے اندر اندر ان میں ایک باہمت بادشاہ پیدا ہؤا اور اس نے اپنے ملک کو متحد کر کے ایرانیوں پر ایسا شدید حملہ کیا کہ ان کے لئے بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ایرانی شکست کھا گئے اور رومیوں کو فتح حاصل ہو گئی۔ جب یہ خبر مسلمانوں کو پہنچی اس وقت ہجرت ہو چکی تھی۔ اُبَی بن خلف مر چکا تھا۔ اور کفارمکہ سے مسلمانوں کی لڑائیاں شروع ہو چکی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کے وارثوں کو کہلا بھیجا کہ تمہیں وہ شرط یاد ہے جو اُبَی بن خلف نے مجھ سے کی تھی۔ انہوں نے کہا یاد ہے اور اسی وقت سو اونٹ بھجوا دئیے ۔8 تو کافر بھی اپنے وعدے کا پاس کیا کرتا ہے۔ کُجا یہ کہ مومن ایک وعدہ کرے اور اسے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کا کوئی خیال نہ آئے۔ کیا ہو سکتا ہے کہ اُبَی بن خلف جیسے شدید دشمنِ اسلام کی اولاد تو محمدﷺ کے اتباع کے متعلق اپنے وعدہ کو پورا کر دے اور ایک احمدی سلسلہ کے ساتھ کئے گئے وعدہ کو پورا نہ کرے۔ اگر ایسا ہو تو یہ ایک نہایت ہی افسوسناک بات ہو گی۔ اِس وقت تحریک جدید کے چھٹے سال کے وعدوں میں سے بھی چھبیس ستائیس ہزار کی رقم رہتی ہے۔٭ دوستوں کو چاہیئے کہ دسمبر کے مہینہ میں ہی اسے ادا کرنے کی کوشش کریں۔
نئے سال کے وعدوں کے متعلق مَیں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ سات جنوری 1941ء تک وعدوں کی لسٹیں مرکز میں پہنچ جانی چاہئیں اور آج سے ہی تحریک جدید کے کارکنوں کو اس کام میں مشغول ہو جانا چاہیئے۔ ہو سکے تو جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے لسٹیں مکمل کر کے پہنچا دی جائیں۔ ممکن ہے بعد میں یہ وقت بڑھانا پڑے مگر مَیں سمجھتا ہوں لمبا وقت اگر دے دیا جائے تو کارکنوں میں مستعدی پیدا نہیں ہو سکتی اور وہ خیال کر لیتے ہیں کہ ابھی کافی وقت پڑا ہے اس کام کو بعد میں کر لیا جائے گا۔ پس مَیں چاہتا ہوں کہ دسمبر میں ہی لسٹیں تیار ہو جائیں اور زیادہ سے زیادہ سات جنوری تک یہاں پہنچا دی جائیں۔ بعض لوگ جلسہ سالانہ پر آ کر لسٹیں تیار کیا کرتے ہیں کیونکہ یہاں ان دنوں تمام آدمی اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے دوستوں کو بھی چاہیئے کہ جلسہ سالانہ تک لسٹیں مکمل کر کے پہنچا دیں اور اگر پھر بھی بعض لوگ رہ جائیں تو ان کا وعدہ سات جنوری تک پہنچا دیا جائے۔ بہرحال سات جنوری تک کا وعدہ ہی قبول کیا جائے گا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ممکن ہے اس وقت میں بعد میں زیادتی بھی کرنی پڑے مگر اصل میعادیہی ہے اور مخلصین
٭ اس وقت خطبہ کو دیکھتے وقت کوئی انیس بیس ہزار کی رقم باقی ہے
جو ثواب حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں اسی مدت میں کوشش کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہیں۔
پس مَیں قادیان کی جماعت کو بھی اور باہر کی جماعتوں کو بھی تحریک کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں وہ اپنی لسٹیں مکمل کر کے دفتر میں پہنچا دیں۔ افراد کو چاہیئے کہ وہ اس چندہ میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ لیں اور جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ نہ صرف افراد کے لحاظ سے ان کی لسٹیں پہلے سالوں سے بڑھ کر ہوں بلکہ چندہ کے لحاظ سے بھی ان میں زیادتی ہو۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہوئے مَیں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اس کام میں برکت ڈالے اور ہمیں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ایک ایسی بنیاد قائم کرنے میں مدد دے جو اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کرنے والی ہو۔ اسی طرح احمدیت پر جو دشمن اعتراضات کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس تحریک کے ذریعہ ان اعتراضات کو پاش پاش کر دے تا اسلام اور احمدیت تمام قلوب پر چھا جائیں اور دنیا کی تمام قومیں دین کے جھنڈے کے نیچے ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں۔‘‘ ( الفضل7 دسمبر0 194ء)
1 وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۔( حٰمٓ السجدۃ: 27)
2 مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل ابی ذر (الخ)
3 فاطر: 11
4 النحل :93
5 سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 163 ،164 مطبوعہ مصر 1936ء
6 مسلم کتاب التوبۃ باب حدیث کعب بن مالک وصاحبیہ
7 غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ۔ (الروم: 3 تا 5)
8 ترمذی ابواب التفسیر تفسیر سورۃ الروم ، تفسیر ابن کثیر جلد 6 صفحہ30 زیر آیت وَعْدَ اللہِ لَایُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ۔ مطبوعہ 1999ء

32
مخلص اور تعلیم یافتہ احمدی نوجوان اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لئے وقف کریں
(فرمودہ 6دسمبر 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ تحریک جدید کے مختلف شعبوں میں سے ایک اہم شعبہ وقفِ زندگی کا بھی ہے۔ جب مَیں نے پہلے سال اعلان کیا تھا تو اس کے لئے کوئی شرط نہیں لگائی تھی کہ کس تعلیم اور لیاقت کے نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں۔ اس لئے اس وقت بہت سے نوجوانوں نے اپنے نام پیش کر دئیے تھے جن کی تعداد اڑھائی سو سے اوپر تھی۔ اس کے بعد جوں جوں وقتی ضرورتیں پوری ہوتی گئیں لازمی طور پر کام کی اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے شرائط بھی زیادہ سخت کی جاتی رہیں اور موجودہ وقت میں یہ شرط ہے کہ وقف کنندہ گریجوائیٹ ہو یا انٹرنس پاس مولوی فاضل ہو۔ اس کے علاوہ ایک اور حصہ بھی ہے جس کے لئے مولوی فاضل یا گریجوائیٹ کی شرط نہیں اور سائنس کے سٹوڈنٹ ہیں جنہوں نے تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک پاس کیا ہو۔ ان کے وقف صرف انٹرنس پاس کرنے کے بعد بھی قبول کئے جا سکتے ہیں کیونکہ میں نے غور کر کے معلوم کیا ہے کہ مسلمانوں کی توجہ سائنس کی تعلیم کی طرف بہت کم ہے۔ حالانکہ یہ ایک ایسا علم ہے جس کی طرف قرآن کریم نے بار بار توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ زمینوں میں پھرو اور دیکھو۔1 آسمانوں، چاند، ستاروں اور سورج کی بناوٹ پر غور کرو۔ زمین میں سے ظاہر ہونے والی اور اپنے اردگرد کی چیزوں پر غور کرو اور یہی سائنس ہے مگر اس کی طرف مسلمانوں کی توجہ بہت کم ہے۔ خصوصاً اس کے عملی حصہ کی طرف مسلمانوں کی توجہ بہت ہی کم ہے۔ حالانکہ یورپ میں آج بھی مسلمانوں کی جو یادگاریں ہیں وہ کیمسٹری اورہندسے یعنی حساب ہی ہیں۔ اہلِ یورپ اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ حساب کے علم کی پختہ بنیاد مسلمانوں نے ہی رکھی ہے اور الجبرا تو کُلّی طور پر مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ اس کے علاوہ میتھمیٹکس کے بہت سے مسائل بھی مسلمانوں کے زمانہ کی ایجاد ہیں۔ جو آجکل کالجوں میں مختلف ناموں سے پڑھائے جاتے ہیں۔ مثلاً مساحت 2 ہے اسے ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر مسلمانوں نے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی طرح اور علوم کو بھی انتہائی ترقی دی مگر آج مسلمان کے معنے یہ سمجھے جاتے ہیں کہ جسے حساب نہ آتا ہو۔ گویا مسلمانوں نے حساب کے فن کو کمال تک پہنچا کر اسے دوسروں کے سپرد کر دیا۔ جس طرح یتیم کا مال جب وہ بڑا ہو جائے تو اس کے سپرد کر دیا جاتا ہے مسلمانوں نے بھی حساب کے علم کو یتیم کا مال سمجھا، اسے بڑھایا، ترقی دی اور پھر دوسری قوموں کے سپرد کر دیا کہ سنبھال لو۔ آج کہا جاتا ہے کہ مسلمان کا دماغ حساب کے لئے موزوں ہی نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس گئے گزرے زمانہ میں بھی جب کوئی مسلمان اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس میں نمایاں اور ممتاز ترقی کرتا ہے۔ مثلاً ایک صاحب سرسلیمان ہیں جو فیڈرل کورٹ کے جج ہیں ۔ پہلے وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جج تھے۔ پیشہ ان کا قانون ہے اور گزارہ ملازمت پر ہے لیکن وہ اپنے طور پر حساب کا شوق رکھتے ہیں اور اس شوق میں انہوں نے اس درجہ کمال پیدا کیا ہے کہ اس زمانہ کے مشہور فلسفی اور حساب کے ماہر آئن سٹائن کی بھی جس نے نظریہ اضافت کی دریافت کی ہے انہوں نے غلطیاں نکالی ہیں۔ آئن سٹائن اس زمانے کا بڑا فلسفی حساب دان مانگا گیا ہے مگر سرسلیمان نے اپنی تحقیقات سے اس کی غلطیاں ثابت کی ہیں۔ اگر ہندوؤں میں کوئی ایسا شخص ہوتا تو وہ اسے آسمان پر اٹھا لیتے ۔ گزشتہ سورج گرہن کے متعلق انہوں نے قبل از وقت لکھا تھا کہ اگر آئن سٹائن کی تھیوری صحیح ہے تو گرہن اس طرح لگنا چاہیئے اور اگر میری تھیوری صحیح ہے تو اس طرح لگے گا اور جب گرہن لگا تو یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے تسلیم کیا کہ سرسلیمان کی رائے صحیح تھی۔ آئن سٹائن اس وقت سائنس کے میدان میں حکومت کرتا ہے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے بہترین دماغوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یورپ والے آج تک نیوٹن کو سب سے بڑا حساب دان مانتے آئے ہیں مگر اب بعض کا خیال ہے کہ آئن سٹائن اس سے بڑھ گیا ہے۔ لیکن سرسلیمان نے جن کا پیشہ ججی ہے اس کے نظریوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اگر ایسا شخص ہندوؤں میں ہوتا تو معلوم نہیں وہ اس کو کتنی شہرت دیتے۔ مگر مسلمانوں نے اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں کی۔ مجھے ساری عمر کبھی بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ٹیگور کے شعروں میں کیا خوبی ہے لیکن ہندوؤں نے ان کا اس قدر پروپیگنڈا کیا کہ جہاں بیٹھے ان کا ذکر شروع کر دیا نتیجہ یہ ہؤا کہ یورپ والے بھی ان کو بڑا سمجھنے لگے اور ان کی کتابوں کے تراجم اپنی زبانوں میں کئے اور یہ سب ہندوؤں کے پروپیگنڈا کا نتیجہ ہے۔ دنیا میں باتوں سے بھی مسمریزم ہو جاتا ہے۔
بچپن میں میرے گلے میں مخمل کا ایک فیتہ باندھا گیا تھا اور میرے بھائیوں کے گلوں میں بھی۔ خیال یہ تھا کہ اس کے باندھنے سے دانت بآسانی نکل آتے ہیں۔ اس زمانہ میں یہ فیتہ لاکھوں روپے کا بکا ۔ بیس لاکھ روپے کی بکری چند سالوں میں ہو گئی۔ اور اس شخص نے اس سے دس پندرہ لاکھ روپیہ کمایا۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد حکومت کو شک ہؤا اور اس نے ایک کمیشن بٹھایا جس نے رپورٹ کی کہ یہ صرف ایک ٹین کی تار ہے جس کے اوپر مخمل لپیٹی گئی ہے لیکن یہی چیز پہلے امریکہ میں مشہور ہوئی ۔ وہاں سے یورپ اور یورپ سے ہندوستان آ پہنچی اور پھر یہاں کے دیہات تک میں پھیل گئی حتّٰی کہ ڈاکٹر اپنے نسخوں میں اسے تجویز کرتے تھے اور چونکہ یہ عام خیال پیدا ہو گیاتھا کہ یہ مفید چیز ہے اس خیال کی وجہ سے بعض لوگوں کو فائدہ بھی ہوتا تھا لیکن دراصل یہ کوئی مفید چیز نہ تھی۔ آخر اس کے موجد پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے امریکہ کو چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ اس قسم کے واقعات دنیا میں کثرت سے ہوتے ہیں کچھ لوگ ایک بات کی تائید کرتے ہیں اور اس سے متاثر ہو کر دوسرے بھی بغیر غور کرنے کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ مگر یہ ہندوؤں کا حال ہے۔ مسلمان تو اپنے لائق آدمیوں کی بھی قدر نہیں کرتے۔ گاندھی جی نے جب عدمِ تشدّد کا فلسفہ پیش کیا تو مَیں واحد شخص تھا جس نے آج سے بیس سال قبل یہ آواز اٹھائی کہ یہ کس طرح کا عدمِ تشدّد ہے جو یہ پیش کرتے ہیں۔ اس میں تو تشدّد کا پہلو پایا جاتا ہے۔ حالانکہ اس وقت ہر ہندو اور مسلمان یہ کہہ رہا تھا کہ یہ ایک عجیب ایجاد ہے مگر آج کئی لوگ اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں جسے مَیں نے پیش کیا تھا۔ تو کسی خیال کی تائید میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کا لگ جانا دوسروں پر بھی یہ اثر پیدا کرتا ہے کہ یہ واقعی اچھی چیز ہے۔ پس اگر مسلمان بھی اپنے عالموں اور مختلف علوم سے واقف لوگوں کی عزت کریں تو دنیا میں ان کی شُہرت قائم ہو سکتی ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ اس سے میری غرض صرف یہ بیان کرنا ہے کہ آج بھی جو مسلمان حساب کی طرف توجہ کرے وہ انتہائی درجہ پر پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح علم کیمیا بھی مسلمانوں کی ایجاد ہے ۔ کیمیا سے مراد سونا بنانا نہیں بلکہ کیمسٹری ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ علم پہلے بھی موجود تھا لیکن اس کا بیشتر حصہ مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اس میں انہوں نے انتہائی ترقی کی اور بہت سے مرکبات جو آج بھی استعمال ہوتے ہیں وہ اس زمانہ کے مسلمانوں کے ایجاد کردہ ہیں۔ تمام ٹینکچر الکحل میں بنتے ہیں اور الکحل مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ وہ اسے روح کہتے تھے۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ الکحل کا لفظ بھی ان میں مستعمل تھا۔ اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں جو دوائیوں یا رنگوں میں کام آتی ہیں مسلمانوں کی ایجاد ہیں۔ رنگوں میں جتنی ترقی مسلمانوں کے زمانہ میں ہوئی کسی زمانہ میں نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے رنگوں والے تمام کپڑے عرب سے یورپ میں جاتے تھے حتّٰی کہ آج تک انگریزی میں ان کے نام وہی ہیں۔ مثلاً تافتہ ہے اسے انگریزی میں ٹیفٹ کہتے ہیں۔ آج نوجوان اسے دیکھتے اور کہتے ہیں کیا اچھی ایجاد ہے مگر انہیں علم ہی نہیں کہ یہ پہلے عرب میں بنتا اور تافتہ کہلاتا تھا۔ ڈمسکس(DAMASCUS) کا نام بھی دمشق کے نام پر ہے یعنی دمشق میں بننے والا۔ ململ بے شک ہندوستان کی بھی مشہور تھی مگر اعلیٰ درجہ کی ململ موصل میں تیار ہوتی تھی اور اسی وجہ سے اسے مسولین کہا جاتا ہے اور یہ کپڑے گو آج انگلستان اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں بننے لگے ہیں مگر ان کے نام وہی ہیں۔ اگرچہ لہجہ بدل گیا ہے۔ تجارت کی وجہ سے ساری دنیا مسلمانوں سے دبتی تھی کیونکہ ان کی تیارکردہ چیزوں کی وہ محتاج تھی۔ لیکن اس کے بعد مسلمانوں نے کیمسٹری کو چھوڑ دیا حتّٰی کہ ان میں نام کو بھی کیمیا کا کوئی ماہر نہیں ملتا۔ سونا بنانے والے کیمیادان تو ملیں گے مگر کیمسٹری کا ماہر کوئی نہیں۔ یہاں بھی ایک دوست رہا کرتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے۔ وہ جوانی میں اسی سونا بنانے کے خبط میں مبتلا رہے تھے۔ آخری عمر میں کئی دفعہ ان کی مدد کی گئی لیکن ادھر ان کو کوئی روپیہ دیا جاتا ادھر وہ بھٹی چڑھا دیتے کہ شاید اب کے سونا بن جائے۔ ان کے ایک بھائی بھی ان کی مدد کرتے تھے مگر ان سے بھی جو کچھ ملتا وہ اس میں صرف کر دیتے تھے۔ جن لوگوں کو یہ دُھن ہوتی ہے وہ ساری عمر اسی میں ضائع کر دیتے ہیں مگر سونا نہیں بنتا۔ مگر انگریزوں نے سونا چھوڑ ہیرے بنا لئے ہیں۔ وہ بوٹ بناتے ہیں، چھریاں، چاقو اور ہزاروں دوسری چیزیں بناتے ہیں اور پھر ان سے ہزاروں روپیہ کماتے ہیں۔ کوئی شخص اگر کیمیا کے ذریعہ سونا بنا بھی لے تو کتنا بنا سکتا ہے مگر انگریزوں نے سونا چھوڑ ہیرے بنا لئے ہیں۔ مسلمانوں نے ان علوم کو بالکل چھوڑ دیا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ وہ پھر اس طرف متوجہ ہوں اور اسلامی علوم کا دوبارہ احیاء کیا جائے اور چونکہ جو لوگ دنیاوی کاموں میں لگ جاتے ہیں ان کے لئے دین کی طرف آنا مشکل ہو جاتا ہے اس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی ایک الگ جماعت تیار کی جائے۔ پس جن نوجوانوں نے سائنس لے کر میٹرک کا امتحان تعلیم الاسلام ہائی سکول سے پاس کیا ہو اُن کو بھی لیا جا سکتا ہے۔ ایسے نوجوانوں کے والدین اور رشتہ دار اگر ان کی مزید تعلیم کا بوجھ برداشت کر سکیں تو وہ اپنی تعلیم مکمل کریں۔ جن کو پورا خرچ دینے والا کوئی نہ ہو ان کو ہم مدد دے کر تکمیل تعلیم کرائیں گے۔ اور جن کے لئے بالکل ہی خرچ کا انتظام نہ ہو سکے ان کو اپنے خرچ پر تعلیم دلوائیں گے۔ تا ایک جماعت ایسی پیدا ہو جو اپنی جماعت میں بھی اور دوسروں میں بھی اپنے علم اور صنعت و حرفت میں ترقی کی بناء پر اس طرف توجہ پیدا کر سکے۔ پس گریجوایٹ یا انٹرنس پاس مولوی فاضل کی شرط میں یہ استثنیٰ ہے اور ان شرائط کے ماتحت میں پھر اعلان کرتا ہوں کہ نوجوان اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں اور ثواب کے اس غیرمعمولی موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے ہمیشہ ہی کھلے رہتے ہیں مگر انبیاء کے زمانہ میں ایسے کھلتے ہیں کہ دوسرے زمانوں میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ انبیاء کے زمانہ میں غیرمعمولی طور پر یہ دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اس زمانہ کی قربانیاں بہت قیمت رکھتی ہیں۔ مسلمانوں میں ایسے بادشاہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے بادشاہتیں ترک کر دیں اور فقیر ہو گئے مگر اکثر لوگ ان کے نام سے بھی آگاہ نہیں ہیں۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ نے ہزار دو ہزار روپے کی جائدادیں دیں اور سب لوگ اس قربانی سے واقف ہیں۔ مالی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ان سے بہت زیادہ قربانیاں کرنے والے بھی موجود ہیں مگر ان کی وہ قدرومنزلت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے حالات میں بڑا فرق ہے۔ جب بعض باشاہوں نے بادشاہتیں چھوڑیں تو اس وقت مسلمان بادشاہ تھے اور بادشاہت چھوڑنے والے یہ جانتے تھے کہ ہماری اس قربانی سے ہماری قوم کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے جب قربانی کی تو جانتے تھے کہ بظاہر وہ اپنا اور اپنی اولاد کا خون کر رہے ہیں۔ اسی طرح آج جو نوجوان سلسلہ کے لئے زندگی وقف کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ایسا شخص جو تیرنا نہ جانتا ہو سمندر میں کود پڑے۔ اس وقت چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہیں اور اس لئے دین کا کام کرنا بڑی بہادری کی بات ہے۔ بزدل تو سمجھے گا کہ میں مارا جاؤں گا مگر جس کے دل میں ایمان ہے اور جرأت ہے وہ سمجھتا ہے میں سمندر میں گر کر ہلاک نہیں ہو رہا بلکہ حفاظتِ اسلام کی مضبوط عمارت کی بنیادی اینٹ بن رہا ہوں۔ اس لئے اس کی یہ قربانی اپنے ساتھ ایسی برکات رکھتی ہے جس کا مقابلہ کوئی دوسری قربانی نہیں کر سکتی۔ کون شخص ہے جو آج اسے عقلمند کہے گا جو احمدیت کے لئے قربانی کرتا ہے۔ اس وقت تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ چند پاگل لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں دنیا کا مقابلہ کر لیں گے لیکن مومن سمجھتا ہے کہ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک آواز آئی ہے جس کا میں جواب دے رہا ہوں۔ یہ تو علیحدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں کامیابی کا وعدہ دیا گیا ہے لیکن اگر یہ وعدہ نہ بھی ہو تو بھی میرا فرض ہے کہ اس آواز پر لبیک کہوں۔ دنیا میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کے لئے مر جاتی ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہؤا کہ بچہ بیمار ہؤا۔ ماں اس کی تیمارداری کرتی رہی۔ بچہ تو صحت یاب ہو گیا مگر ماں مر گئی۔ کیا یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ماں کو اس خدمت کے صلہ کی امید ہوتی ہے۔ ہرگز نہیں۔ اور جب ایک ماں اپنے بچہ کے لئے بغیر کسی صلہ کے لالچ کے جان دے سکتی ہے تو کیا مومن ہی خداتعالیٰ کے لئے کسی بدلہ کے خیال کے بغیر قربانی نہیں کر سکتا؟
پس یہ غلط ہے کہ مومن اس لئے قربانی کرتا ہے کہ اسے ترقیات کی امید ہوتی ہے۔ اگر ترقیات کے وعدے نہ ہوتے ، فرض کرو حیات بَعْدَ الْمَوْت نہ ہو، جنت دوزخ بھی نہ ہو تب بھی مومن خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنے میں کبھی تامل نہ کرے گا۔ عام لوگ جو قوم کے لئے قربانیاں کرتے ہیں یا ملک کے لئے کرتے ہیں کیا ان کو یقین ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کا کوئی صلہ انہیں ملے گا۔ سَو میں سے ایک بھی اس بات کا قائل نہ ہو گا مگر پھر بھی دیکھو لوگ کس طرح جانیں دیتے ہیں۔ پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ مومن کی قربانی صلہ کے لالچ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ انبیاء کے ابتدائی زمانہ میں تو صلہ کی امید کا خیال بھی غلطی ہے۔ اس لئے یہ زمانہ قربانی کے لئے بہترین زمانہ ہوتا ہے۔ دوسروں کی قربانیاں ملک و قوم کے لئے ہوتی ہیں مگر ان کی قربانیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ تم نے ملک کے لئے قربانیاں کیں اور تم جانتے تھے کہ تمہارا ملک شوکت و عظمت رکھتا ہے اس لئے اس کے لئے قربانی تمہارے لئے عزت کا موجب ہے۔ قوم کے لئے قربانی بھی عزت کا موجب ہے۔ جو لوگ قوم کے لئے مر جاتے ہیں ان کی کس قدر عزت ہوتی ہے۔ ایسی موت تو آدمی کو قومی لیڈر بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگوں کی اولاد کے لئے بھی ترقی یافتہ قومیں انتظام کرتی ہیں اور ایسے لوگوں کو یہ تو اطمینان ہوتا ہے کہ ہماری اولاد خراب نہ ہو گی۔ سینکڑوں واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ کسی سے کسی کی دشمنی ہوتی ہے مگر وہ کسی چوہڑے وغیرہ سے اپنے دشمن کو قتل کرا دیتا ہے۔ زمیندار کہتا ہے کہ فلاں آدمی کو مار ڈالو۔ اوّل تو میں تمہیں مقدمہ سے بچانے کی کوشش کروں گا لیکن اگر سزا پا جاؤ گے تو تمہارے بیوی بچوں کے گزارہ کا انتظام کر دوں گا۔ وہ سمجھتا ہے اول تو ضروری نہیں کہ میں پکڑا ہی جاؤں یا اگر پکڑا جاؤں تو سزا بھی پا جاؤں۔ اور اگر سزا بھی ہو جائے تو کیا ہے بیوی بچے تو آرام سے گزارہ کریں گے۔ اس لئے اس لالچ میں آ کر وہ یہ فعل کر لیتا ہے۔ پس لوگ ایسی قربانیاں کرتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ ملک وقوم کے لئے قربانیاں کرتے ہیں مگر ان کو اپنی اس قربانی کی کامیابی کا یقین ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کا صلہ ان کو یا ان کے بیوی بچوں کو ملے گا اور ایسی قربانیاں مشکل نہیں لیکن دین کے لئے آج قربانی کرنا مشکل ہے کیونکہ موجودہ حالات میں یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس رستہ پر چلنا ایسا ہی ہے جیسےانسان دریا کے ایسے کنارے پر چلے جو اندر دھنستا جا رہا ہو اور گرتا جاتا ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسے کنارے پر کوئی ظاہر بین کبھی عمارت نہیں بنایا کرتا کیونکہ دریا کا پانی وہاں غار بنا رہا ہوتا ہے۔ ایسی جگہ عمارت بنانا کسی ہمت والے کا ہی کام ہے۔ پس یہی وقت قربانی کا ہے ۔ جو نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں چاہیئے کہ ان کا اخلاق اور عملی نمونہ اچھا ہو اور وہ پختہ عزم کر کے آئیں۔ میری غرض ان واقفین سے یہ ہے کہ ان میں سے ہی قاضی تیار کروں۔ ان میں سے ہی مفتی تیار کروں اور ان میں سے ہی مدرس ہوں۔ ان میں سے ہی مربّی اور تعلیم و تربیت دینے والے ہوں۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جو نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں وہ اخلاقی طور پر اپنے آپ کو مفید وجود بنائیں۔ جب ان میں سے کسی کو قاضی بنایا جائے تو وہ ایسا نمونہ دکھائے کہ لوگ تسلیم کریں کہ وہ انصاف سے کام کرتا ہے۔ جب کسی کو مفتی بنایا جائے تو لوگ محسوس کریں کہ اس نے جو فتویٰ دیا ہے صحیح ہے اور جب کوئی مربّی بنے تو لوگ محسوس کریں کہ وہ جو بات بھی کرتا ہے خداتعالیٰ کے دین کی خاطر کرتا ہے نہ کہ دشمن کو زیر کرنے کے لئے ۔ یہ نہ ہو کہ وہ نفسانی رَو میں بہہ جائے۔ دراصل تمسخر وہی کرتا ہے جو دلیل نہیں دے سکتا۔ یہ چیز اس کی علمی کمی کا ثبوت ہوتی ہے۔ بے شک لطیفہ گو اور تمسخر کرنے والا بعض اوقات مجلس پر چھا جاتا ہے لیکن اس مجلس سے نکلنے کے بعد اس کے اپنے دل پر بھی اور سامعین کے دل پر بھی زنگ لگا ہؤا ہوتا ہے۔ بے شک اس وقت وہ مجلس کو خوش کر لیتا ہے مگر جب وہاں سے نکلتا ہے تو خداتعالیٰ کو چھوڑ چکا ہوتا ہے اور شیطان اس کی گردن پر سوار ہو چکا ہوتا ہے۔ حقیقی مبلغ وہی ہے جس کے دل میں ہار جیت کا کوئی سوال نہ ہو۔ جس کو ہر وقت یہ خیال رہے کہ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو خداتعالیٰ کے نزدیک قابلِ گرفت ہو ۔
کئی دفعہ پہلے بھی یہ واقعہ میں سنا چکا ہوں۔ جس زمانہ میں مولوی محمد حسین صاحب تعلیم حاصل کر کے بٹالہ آئے تو ان کے خلاف بہت شور تھا کہ پیروں فقیروں کے منکر ہیں۔ لوگ ان کی بہت مخالفت کرتے تھے۔ انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی وہاں تشریف لے گئے۔ بعض حنفیوں نے سوچا کہ ہمارے ایک حنفی عالم آ گئے ہیں ان کو مولوی محمد حسین صاحب کے مقابلہ پر لے چلیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی کہا کرتے تھے۔ آپ سے لوگوں نے کہا تو آپ نے فرمایا اچھا چلتے ہیں اگر کوئی بات ہوئی تو کریں گے۔ لوگ مجلس میں اکٹھے ہوئے۔ آپ بھی تشریف لے گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم کو اہلِ حدیث کے متعلق زیادہ واقفیت اس زمانہ میں نہ تھی۔ اس لئے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کے عقائد کیا ہیں تاکہ بحث سے پہلے یہ تو معلوم ہو کہ آپ کہتے کیا ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر بیان کیا کہ ہم خدا کو مانتے ہیں، رسول کو مانتے ہیں، قرآن کو خدا تعالیٰ کا کلام مانتے ہیں، قرآن کریم کو حدیث پر مقدم کرتے ہیں اور حدیث کو خیالی آراء پر مقدم کرتے ہیں۔ غالی اہلحدیثوں کا عقیدہ تو اس سے سخت ہوتا ہے ۔ پھر ممکن ہے مولوی محمد حسین صاحب نے مصلحتِ وقت کے تحت یہ بات کہہ دی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ باتیں سن کر فرمایا کہ یہ باتیں تو بالکل معقول ہیں۔ میں ان کا جواب کیا دوں۔ چونکہ اس جواب سے حنفیوں کو کچھ ذلت محسوس ہوئی اس لئے انہوں نے بہت برا بھلا کہنا شروع کیا اور طنزیں کرنے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہم وہاں سے آ گئے اور خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اس ترکِ بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا‘‘ تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہؤا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔’’ 3
پس میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے جو مربّی تیار ہوں وہ بھی تقویٰ کے ماتحت کام کریں، سنجیدگی کا دامن کبھی نہ چھوڑیں اور خدتعالیٰ کی خوشنودی کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ ان کا مقصد بحث کبھی نہ ہو بلکہ ایسا نمونہ پیش کریں کہ دوسروں میں جو خرابیاں ہیں وہ دور ہو سکیں اور وہ ایسی سدِّ سکندری کا کام دیں جو یاجوج ماجوج کے حملوں کو روک دے۔ پس اس کام کے متعلق اپنی زندگیاں وقف کرنے کی تحریک مَیں جماعت کے نوجوانوں کو کرتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے لئے گریجوایٹ کی شرط ہے لیکن اگر کوئی آخری سالوں میں تعلیم پا رہا ہو تو وہ بھی اپنا نام پیش کر سکتا ہے۔ وہ اپنی تعلیم جاری رکھے۔ پاس ہونے کے بعد انتخاب کے لئے ہم اسے بلا لیں گے۔ انٹرنس پاس مولوی فاضل بھی اپنے نام دے سکتے ہیں اور اسی طرح یہاں کے سکول میں تعلیم پانے والے وہ میٹرک جنہوں نے سائنس کی ہوئی ہو۔ باہر میٹرک پاس کرنے والے کام نہیں دے سکتے کیونکہ یہاں پڑھنے والوں کو تھوڑا بہت قرآن کریم اور عربی آ جاتی ہے باہر نہیں۔ پس ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں۔ طالب علم بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں جنہیں امتحان پاس کرنے کے بعد انتخاب کے لئے بلایا جائے گا۔ پس نوجوان اپنے آپ کو ان شرائط کے ماتحت وقف کریں تا اس جماعت کو اور آگے بڑھایا جا سکے۔
دوسری بات جس کی طرف مَیں جماعت کے دوستوں کو اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ سادہ زندگی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات دنیا میں پیدا کر دئیے ہیں کہ جن لوگوں کی نقل کر کے ہمارے ملک کے لوگ عیش پر ستی میں مبتلا ہوئے وہ جنگ کے مصائب میں مبتلا ہو کر مجبوراً سادگی اختیار کر رہے ہیں اور اب تو ان کی سادگی ہماری اختیار کردہ سادگی سے بھی بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ ہم نے یہ تو کہا ہے کہ ایک سالن کھاؤ مگر یہ نہیں کہ چار پُھلکے ہی کھاؤ۔ مگر یورپ کے ممالک میں تو اب آٹے کا راشن ملتا ہے۔ ایک شخص مقررہ مقدار سے زیادہ نہیں لے سکتا۔ ہم نے سالن میں گھی ڈالنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی کوئی شخص جتنا ڈال سکے ڈال لے مگر وہاں تو ایک چھٹانک سارے ہفتہ کے لئے مل سکتا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اور وہ گھی کی صورت میں نہیں بلکہ کچھ گھی کچھ تیل اور کچھ چربی ہوتی ہے۔ اندازاً دو تولہ چربی دو تولہ تیل اور ایک تولہ مکھن ملتا ہے۔ یہی حال لباس اور دوسری چیزوں کا ہے۔ جب ان لوگوں کی یہ حالت ہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہمیں کس قدر سادگی کی ضرورت ہے۔ پس دوستوں کو ہمیشہ ایک کھانے کا التزام رکھنا چاہیئے۔ ہاں جمعہ کے روز یا مہمان وغیرہ آنے پر دو ہو سکتے ہیں یا مہمان کی عادت کے مطابق اس کے لئے انتظام ہو سکتا ہے۔ غیراحمدی معززین آ جائیں تو کئی کئی کھانوں کے بغیر ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں اجازت ہے ورنہ ایک پر ہی کفایت کرنی چاہیے۔ اور پھر اس میں بھی سادگی کا پہلو مدنظر رکھنا چاہیئے تا غریب بھائیوں اور دوسروں میں یکسانیت پیدا ہو سکے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص ایک ہی کھانا کھائے مگر روزانہ پلاؤ ہی کھاتا رہے مگر یہ بھی جائز نہیں۔ اور پھر اس سے صحت بھی خراب ہو جائے گی۔ انسان کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے چاول گوشت پھل سبزی وغیرہ ہر چیز ضروری ہے اور ان سب چیزوں کا استعمال ہونا چاہیئے۔ یہ نہیں کہ روز ایک ہی چیز کھائی جائے۔ جو شخص کہے کہ میں روز ہی روغن جوش استعمال کروں گا وہ اسراف کے علاوہ بیمار بھی ہو جائے گا۔ ایک دوست کے متعلق مجھے معلوم ہے کہ ان کی صحت بہت خراب رہتی تھی۔ کئی علاج کئے مگر آرام نہ ہؤا۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ان دنوں ابھی پٹیالہ میں تھے یہاں نہ آئے تھے وہ ان کے پاس گئے ۔ وہاں سے انہوں نے لکھا کہ اب مجھے افاقہ ہے اور یقین ہو گیا ہے کہ اچھا ہو جاؤں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے میری بیماری سمجھ لی ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ ان کو متواتر کثرت کے ساتھ مرغن کھانے کھانے سے تکلیف تھی۔ تو اس قسم کی غذائیں صحت کو برباد کر دیتی ہیں۔ اگر کوئی شخص کہے کہ میں روزانہ گھی پیا کروں گا تا موٹا ہو جاؤں تو اس کا دماغ مارا جائے گا۔ پس ایک کھانے میں بھی سادگی ضروری ہے۔ سادگی قوم کو مستقل طور پر قربانی کرنے کے لئے تیار کر دیتی ہے۔ اس سادگی میں لباس کی سادگی بھی شامل ہے، زیور کی بھی۔ میرے سامنے کئی مثالیں ہیں کہ بعض دوست پہلے سے بڑھ کر اب قربانیاں کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ پہلے ان کے اخراجات زیادہ تھے مگر سادگی اختیار کرنے کی وجہ سے اخراجات کم ہو گئے اور وہ زیادہ قربانی کرنے کے قابل ہو گئے۔ پس سادہ زندگی اختیار کرنے سے دین کے لئے زیادہ قربانی کی توفیق حاصل ہو سکتی ہے۔ اور اس طرح سے عورتیں اور بچے بھی ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ غذا میں کمی کر کے بچوں کی صحت خراب کر دی جائے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ قومی فرائض سے ایک اہم ترین فرض بچوں کی صحیح طریق پر پرورش کرنا بھی ہے کیونکہ قوم کا آئندہ بوجھ ان کے کندھوں پر پڑنے والا ہوتا ہے۔ اگر وہ کمزور ہوں تو اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکیں گے۔ اس لئے ان کو خوراک پوری دینی ضروری ہے۔ ہاں اس میں سادگی کا خیال رکھنا چاہیئے اور فضول خرچی کی عادت نہیں ڈالنی چاہیئے۔ ان کو دینی ارکان کا پابند بنایا جائے۔ بلوغت سے قبل کبھی کبھی روزہ بھی رکھوانا چاہیے اس سے ان کی صحت خراب نہیں ہوتی بلکہ یہ صحت کے لئے فائدہ بخش چیز ہے۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ بچوں کو نماز کے لئے نہیں جگاتے۔ وہ سمجھتے ہیں ابھی نیانا (بچہ) ہے۔ یہ درست نہیں ان کو نمازوں کی باقاعدگی کا عادی بنانا چاہیئے۔ پھر ورزش کی عادت بھی ڈالنی چاہیئے ۔ کئی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ خدام الاحمدیہ والے ورزش کراتے ہیں۔ یہ شکایت ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص کو جو دھوپ میں بیٹھا ہؤا تھا کسی نے کہا تھا کہ اٹھ کر سایہ میں ہو جاؤ تو اس نے کہا تھا کہ کیا دو گے۔ بچوں کے ورزش کرنے سے خدام الاحمدیہ والوں کو کیا ملتا ہے۔ اس سے تمہارا ہی فائدہ ہے کہ تمہارے بچوں کی صحت درست ہو جائے گی ، اخلاق درست ہوں گے اور چُستی و چالاکی پیدا ہو گی۔ اگر وہ تندرست و توانا ہو کر زیادہ کمائیں گے توکیا خدام الاحمدیہ والوں کو کچھ دے دیں گے۔ ہمارے ملک میں بچوں کو محنت کا عادی نہیں بنایا جاتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر بھی نکمے ثابت ہوتے ہیں۔ یورپ میں بچوں کو محنت کا عادی بنایا جاتا ہے جس سے بڑے ہو کر بھی وہ کام کے قابل ہوتے ہیں۔ پس دوست اس بات کا خیال رکھیں کہ جہاں بچوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے کہ ان کی صحت بگڑ جائے وہاں ان کی تربیت کا بھی خیال رکھا جائے ۔ انہیں محنت و مشقت کا عادی بنایا جائے۔ مشکلات کے برداشت کرنے کی مشق کرائی جائے اور انہیں اپنے اوقات کو ضائع کرنے سے روکا جائے کیونکہ جن نوجوانوں میں یہ عیوب ہوں وہ ملک، قوم بلکہ ساری دنیا کے لئے مصیبت کا موجب ہوتے ہیں اور جو شخص تمہارے بچہ کی ایسی تربیت کرنے میں مدد دیتا ہے جس سے وہ محنت اور مشقت کا عادی ہو وہ تمہارا دشمن نہیں بلکہ دلی دوست ہے اور اگر تم اسے چھوڑتے ہو تو پھر کوئی دوست تمہیں نہیں ملے گا۔‘‘
(الفضل 6 جولائی 1960ء)
1 سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا۔ (اٰل عمران: 138)
2 مساحت: زمین کی پیمائش۔
3 تذکرہ صفحہ 10ایڈیشن چہارم

33
تفسیر القرآن کی تکمیل کے لئے تحریکِ دعا
جلسہ سالانہ کے مہمانوں اور میزبانوں کو ہدایات
(فرمودہ 13دسمبر 1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ میری طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل رہتی ہے اور چونکہ قرآن شریف کے ترجمہ اور تفسیر کے کام کا بہت بڑا بوجھ ان دنوں ہے اور جلسہ تک دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں مگر ابھی کوئی ایک سَو صفحہ کتاب کا یا چار سو کالم مضمون کا لکھنا باقی ہے اور آجکل اکثر ایام مَیں رات کے 3،4 بلکہ 5 بجے تک بھی کام کرتا رہتا ہوں۔ اس لئے اس قسم کی جسمانی کمزوری محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر بوجھ طبیعت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی۔ چونکہ جلسہ تک دن تھوڑے رہ گئے ہیں اس لئے دوستوں سے چاہتا ہوں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ خیریت سے اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ وہ لوگ جو میرے ساتھ کام کر رہے ہیں اور جن کا کام کتابت، کاپیوں کی تصحیح کرنا اور مضمون صاف کر کے لکھنا وغیرہ ہے وہ بھی بہت محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اتنی دیر تک روزانہ کام کرنے کی انہیں عادت نہیں۔ پھر بھی 2،3 بجے رات تک کام کرتے ہیں۔ ممکن ہے اس سے بھی زیادہ دیر تک کام کرتے ہوں مگر 2،3 بجے تک تو کئی دفعہ بات پوچھنے کے لئے میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کاپیاں لکھنے والے کاتب ہیں۔ بے شک وہ اُجرت پر کام کرتے ہیں مگر جس قسم کی محنت انہیں کرنی پڑتی ہے اور وہ کر رہے ہیں وہ اخلاص کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ روزانہ کام کیا جائے، معمول سے دُگنا کیا جائے اور اچھا کیا جائے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ کاتب کا کام آنکھوں کا تیل نکالنا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک منٹ کے لئے بھی آنکھ اوپر نہیں اٹھا سکتا۔ آنکھ کاغذ پر اور قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھا رہتا ہے اور بیٹھنا بھی ایک خاص طریق سے ہوتا ہے۔ مَیں تو اس کام کے متعلق سمجھتا ہوں کہ عمر قید کی سزا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ کاتب لوگ بہت جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں کیونکہ کتابت کے کام میں انہیں سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ آنکھیں ہر وقت ایک ہی طرف لگی رہتی ہیں اس وجہ سے ان کی صحت ضائع ہو جاتی ہے۔ ہم لوگ جو تصنیف کا کام کرتے ہیں ان سے زیادہ وقت کام میں دیتے ہیں مگر اس حصہ میں ان کا کام زیادہ مشقت طلب ہوتا ہے۔ ہم تو کبھی پڑھ رہے ہوتے ہیں کبھی بیٹھ جاتے ہیں کبھی کوئی حوالہ تلاش کرنے لگتے ہیں کبھی لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر جو کچھ لکھتے ہیں وہ مضمون ہمارے ذہن میں ہوتا ہے ۔ اگر ہم آنکھیں بند بھی کر لیں تو لکھ سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ سطریں ٹیڑھی ہو جائیں گی مگر کاتب بیچارے کو دو طرف نظر رکھنی پڑتی ہے ۔ ادھر وہ ہمارے لکھے ہوئے کو دیکھتا ہے اور ادھر کاپی پر نظر جمائے رکھتا ہے۔ پھر ہم تو جو چاہیں لکھتے جائیں لیکن کاتب کو اجازت نہیں ہوتی کہ اپنی طرف سے کچھ کرے اور کاتبوں کو اتنا علم بھی نہیں ہوتا کہ مضمون میں دخل دے سکیں۔ یہ ایک کاتب کے متعلق مشہور ہے کہ اسے کسی نے قرآن مجید لکھنے کو دیا تو کہہ دیا کہ یہ خدا کا کلام ہے اس میں دخل نہ دینا۔ اس نے کہا نہیں ہرگز دخل نہیں دوں گا۔ جب وہ لکھ کر لایا تو لکھانے والے نے پوچھا کہیں دخل تو نہیں دیا۔ کاتب نے کہا مَیں نے کوئی دخل نہیں دیا مگر ایک آیت جو غلط لکھی تھی وہ درست کر دی ہے۔ اصل میں خَرِ عِیْسٰی ہے مگر آیت میں خَرِ مُوْسٰی لکھا تھا۔ چونکہ یہ صریح غلطی ہے اس لئے میں نے اس کی اصلاح کر دی ہے۔ اس نے کہا آیت میں خَرَّ ہے خَرِ نہیں کہ خَرِ عِیْسٰی لکھا جائے۔ تو کاتب کی لیاقت بھی عموماً اتنی نہیں ہوتی کہ اگر مضمون لکھنے والے سے کوئی غلطی ہو جائے جلدی لکھتے وقت میں، سے ، کو، وغیرہ الفاظ چُھوٹ بھی جاتے ہیں اور ایسی غلطیاں مصنّف سے ہو جاتی ہیں تو کاتب کو یہ اجازت نہیں کہ مصنّف سے جو غلطی ہو جائے اسے درست کر دے کیونکہ اگر یہ اجازت ہو تو نہ معلوم کسی بات کو کیا سے کیا بنا دے۔ غرض کاتبوں کی حالت قابلِ رحم ہوتی ہے اور اس وقت جو کاتب کام کر رہے ہیں ان پر کام کا بڑا بار ہے۔ کاتب اگر اچھا لکھے تو 6 سے 8 صفحے روزانہ لکھ سکتا ہے۔ مگر اب کام کی زیادتی کی وجہ سے 12 سے 16 صفحے تک روزانہ ایک ایک کاتب سے لکھوایا جا رہا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کریں تو کام جلسہ تک ختم نہ ہو سکے گا۔
اس کے بعد اہم کام چھپوائی کا ہے مگرخداتعالیٰ نے اس کے لئے بہت کچھ سہولت عطا کر رکھی ہے۔ ایک وقت تو وہ تھا جب کہ دستی پریس چلانا بھی مشکل تھا مگر اب دو پریس کام کر رہے ہیں اور ایک میں دو مشینیں چل رہی ہیں ۔ کجا تو یہ کہ دستی پریس بھی نہ تھا اور کجا یہ کہ مشینیں کام کر رہی ہیں اور بجلی سے دو دو پریس چل رہے ہیں۔ پریس والوں نے وعدہ کیا ہے کہ 48 صفحے روزانہ چھاپ کر دیتے رہیں گے۔ اس وقت تک ساڑھے سات سو صفحے چَھپ چکے ہیں اور پونے دو سو کے قریب چَھپنے باقی ہیں۔ مگر ان کے متعلق کوئی فکر نہیں ہے۔ البتہ کاتبوں کا کام ایسا ہے کہ اگر ایک کی بھی صحت خراب ہو گئی تو کام رک جانے کا اندیشہ ہے۔
پھر جلدسازی کا مرحلہ طے ہونا باقی ہے۔ جلد ساز سے عہد لے لیا گیا ہے کہ تمام کاپیاں چھپ جانے کے بعد کم از کم 75 جلدیں روزانہ کے حساب سے دے گا اور اس لحاظ سے 30، 31 دسمبر تک 8،9 سو کتابیں مجلّد مل سکتی ہیں اور باقی بعد میں بھیجی جا سکتی ہیں۔ مگر جلدساز ایسے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو بہانہ سازی میں بڑے مشّاق ہوتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے کہ نواب محمد علی خان صاحب سے مَیں نے ایک کتاب مانگی۔ انہوں نے کہا جلد ساز کے پاس گئی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر مانگی تو نواب صاحب نے وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا۔ پھر سال دو سال کے بعد مانگی تب بھی انہوں نے یہی کہا کہ جلد ساز کے پاس ہے۔ اس پر مَیں نے کہا کیا آپ نے وہ کتاب جلد ساز کے لئے خریدی تھی۔ اتنے عرصہ سے مانگ رہا ہوں اور آپ کہتے ہیں جلد ساز کے پاس ہے۔ نواب صاحب نے کہا کہ وہ تو 18 سال سے اس کے پاس پڑی ہے۔ کتب خانہ کی کچھ کتابوں کی جلدیں چوہے خراب کر گئے تھے۔ وہ جلدساز کے حوالے کی گئی تھیں کہ جلدیں ٹھیک کر دے مگر ابھی تک اس نے واپس نہیں دیں۔ آخر ایک لمبے عرصے کے بعد جلد ساز نے وہ کتابیں لا کر واپس کر دیں کہ آپ اتنی جلدی کرتے ہیں تو اپنی کتابیں واپس لے لیں۔ مَیں اتنی جلدی کام نہیں کر سکتا۔ تو جلد سازوں سے یہ ڈر آتا ہے ۔ احباب دعا کریں خداوندتعالیٰ اس مرحلہ کو بھی عمدگی سے طے کرا دے۔
غرض اس وقت کئی مرحلے ہمارے رستہ میں پڑے ہیں۔ دوست دعا کریں خداتعالیٰ سب مراحل کو طے کرنے کی توفیق عطا کرے۔ ابھی سورہ کہف کی تفسیر لکھنے کا کام میرے ذمہ ہے۔ سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف کی کتابت کاتبوں کے ذمہ ہے ۔ سورہ نحل، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف کی چھپائی پریس کے ذمہ ہے۔ کاپیوں اور پروفوں کا پڑھنا اور میرے مضمون کو صاف کر کے لکھنا میرے مددگاروں کے ذمہ ہے۔ اس کے بعد جلدساز کے قبضہ میں جانے والے ہیں۔ وہ بھی ایک بڑا مرحلہ ہے۔ اس کے متعلق ضروری شرائط طے کر لی گئی ہیں اور پیشگی روپیہ بھی دے دیا ہے مگر انسانی تجاویز کا کیا ہے جب تک خداتعالیٰ کی تائید حاصل نہ ہو۔ پس بہت ہی دعاؤں کی ضرورت ہے۔
اس کام کی وجہ سے دو ماہ سے انتہائی بوجھ مجھ پر اور ایک ماہ سے میرے ساتھ دوسرے کام کرنے والوں پر پڑا ہؤا ہے۔ یہ بوجھ عام انسانی طاقت سے بڑھا ہؤا ہے اور زیادہ دیر تک برداشت کرنا مشکل ہے جب تک خداتعالیٰ کا فضل اور نصرت نہ ہو۔ پس دوست دعا کریں کہ خداتعالیٰ کامیابی عطا کرے۔
جلسہ سالانہ پھر مَیں دوستوں کی توجہ جلسہ سالانہ کی طرف دلاتا ہوں جو سر پر کھڑا ہے۔ دوست دعائیں کریں کہ خداتعالیٰ لوگوں کے دلوں میں جلسہ میں شریک ہونے کی تحریک کرے اور جلسہ کے برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور قادیان کے دوستوں کو یہ دعا کرنی چاہیئے کہ مکانوں، روپے، وقت، تقویٰ، اخلاص اور خیرخواہی کے لحاظ سے باہر سے آنے والوں کے خدمت گزار اور اچھے میزبان ثابت ہوں۔ اگر قادیان کے لوگ یہ دعا کرتے رہیں تو میرے وعظ اور نصیحت کے بغیر اپنے فرائض ان کے سامنے آتے رہیں گے۔ مثلاً جو یہ دعا کرے گا کہ جن کے پاس مکان ہیں انہیں مہمانوں کے لئے دینے کی توفیق حاصل ہو تو اس کا نفس اسے کہے گا تمہیں خود بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اسی طرح جب ایک شخص یہ دعا کرے گا کہ دوسروں کو مالی قربانیاں کرنے کی توفیق ملے تو اس کا نفس اسے کہے گا کہ دوسروں کے لئے جب دعا کرتے ہو تو تم بھی ایسا ہی کرو۔ پس جو دوست دوسروں کے لئے دعا کریں گے ان کے نفس میں تغیّر پیدا ہو کر انہیں خود بھی نیکی کرنے کی توفیق حاصل ہو جائے گی۔ تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ دعائیں نفس کی اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں کیونکہ جو شخص دوسروں کے لئے کوئی دعا مانگتا ہے خود بھی چاہتا ہے کہ ایسا ہی بنوں اور یہی تحریک کسی نیکی کے حاصل کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
اسی طرح باہر کے دوست جب دوسروں کے لئے یہ دعا کریں گے کہ خداتعالیٰ انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں قادیان جانے کی توفیق عطا کرے تو ان کا نفس انہیں کہے گا کہ جب دوسروں کے لئے جانے کی توفیق طلب کرتے ہو تو خود بھی اس پر عمل کرو۔
غرض دعا ایک طرف تو اپنے نفس کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور دوسری طرف خداتعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا باعث۔ اور جب یہ دونوں باتیں حاصل ہو جائیں تو کامیابی میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔
مَیں اس سے زیادہ اس وقت کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس وقت میری یہ حالت ہے کہ مجھے متلی ہو رہی ہے، مُنہ کڑوا ہے، سردی لگ رہی ہے اور اتنا بولنا بھی دوبھر ہے۔ مَیں پھر ان دونوں باتوں کے لئے دعائیں کرنے کی تحریک کرتا ہوں یعنی خداتعالیٰ جلسہ سالانہ تک مجھے تفسیر القرآن کے کام کو خیروخوبی اور صحت کے ساتھ ختم کرنے کی توفیق دے اور جو میرے ساتھ کام کر رہے ہیں انہیں اپنے فضل اور رحم سے اپنے پاس سے اجر عطا فرمائے۔ اسی طرح مقامی احمدیوں کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق بخشے۔باہر کے دوستوں کو قادیان آنے اور دوسروں کو ساتھ لانے کی توفیق دے تاکہ آنے والا جلسہ سابقہ جلسوں کی نسبت زیادہ کامیابی کے ساتھ منعقد ہو اور یہ ثابت ہو کہ خداتعالیٰ کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ان سے بندوں کو وافر سے وافر برکتیں اور نصیحتیں ملتی رہتی ہیں اور ملتی رہیں گی۔‘‘
(الفضل 17 دسمبر 1940ء)

34
تفسیر القرآن کا کام نہایت ہی اہم ہے
(فرمودہ20 دسمبر1940ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ انسانی دماغ کی بھی عجیب بناوٹ ہے۔ بعض اوقات اس کے خیالات کا تسلسل آپ ہی آپ اس کی زبان کے ذریعہ سے جاری ہو جاتا ہے۔ مَیں جو اس وقت خطبہ کے لئے کھڑا ہؤا تو میرا ارادہ تفسیر القرآن کے متعلق کچھ کہنے کا تھا ۔ وہ مضمون دماغ میں آ رہا تھا اور اس غلبہ کی وجہ سے تلاوت کرتے وقت اختتامی کلمات ذہن سے نکل گئے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 1 زبان پر جاری ہو گیا۔ بہرحال یہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہنے کا ہی کام ہے ۔ اگر یہ صحیح ہو اور اگر اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو ورنہ اگر انسان خداتعالیٰ کے کلام کی غلط تشریح کرنے لگے تو اس کے لئے بہت خطرے کا مقام ہے۔ اس کے لئے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ 2 آخر میں رکھا گیا ہے۔ جس کے بار بار پڑھنے سے انسان کے گناہوں کا ازالہ ہوتاہے۔ تفسیر کا کام بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر اس میں دیر ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ فطرتاً مَیں اس سے بہت گھبراتا ہوں اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی ٹڈا ہمالیہ پہاڑ کو اٹھانے کی کوشش کرے اور مَیں نے مجبوراً اور جماعت کے اندر اس کے لئے شدید خواہش کو دیکھتے ہوئے اس میں ہاتھ ڈالنے کی جرأت کی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اس کے لئے مجبور ہؤا ہوں ورنہ قرآن کریم کی تفسیر ایسا کام نہیں جسے مومن دلیری سے اختیار کر سکے۔ قرآن کریم تو ایک سمندر ہے اور اس کی تفسیر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص پیالہ ہاتھ میں لے کر یہ خیال کرے کہ میں اس سے سمندر کا پانی کھینچ کر لے آؤں گا۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص بے وقوف اور احمق ہو گا۔ اسی طرح قرآن کریم ایک ایسا سمندر ہے کہ اس کے مضامین کو کوئی شخص باہر نکال ہی نہیں سکتا۔ جس طرح کوئی شخص کنویں سے پینے کے لئے پانی تو لے سکتا ہے مگر سب پانی کو باہر نہیں لا سکتا یا سمندر سے لوٹا بھر کر تو لا سکتا ہے مگر سمندر کو نہیں لا سکتا ۔ سمندر کے پاس یا کنویں کے پاس اسے خود جانا پڑے گا۔ کنویں یا سمندر کو وہ اپنے پاس نہیں لا سکتا۔ اسی طرح قرآن کریم ایک روحانی سمندر ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص تمہیں کوئی بات اس میں سے بتا سکے اور کوئی تفسیر سنا دے مگر یہ ناممکن ہے کہ قرآن کریم کے سارے علوم بیان ہو سکیں۔ اور اگر کوئی قرآنی علوم سمجھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے اسے خود ہی غوطہ لگانا پڑے گا۔ ہم جب لکھتے ہیں تو ایک سے دوسرا ، دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا اور چوتھے سے پانچواں مضمون ذہن میں آتا جاتا ہے اور اگر اسی طرح لکھیں تو پڑھنے والا پاگل خیال کرے گا کہ کہاں سے کہاں چلا گیا۔ مگر اس کا ایسا خیال کرنا خود اس کے جنون کی علامت ہو گی نہ کہ ہمارے پاگل ہونے کی کیونکہ یہ سلسلہ تو اسی طرح چلتا ہے ۔ پانی پینے کی چیز ہے مگر جب ایک سائنس دان اسے پھاڑتا ہے تو لازماً اس کا ذہن ان دو گیسوں کی طرف جائے گا جن سے پانی مرکب ہے۔ اور پھر گیسوں سے ان کی طرف جن سے وہ گیسیں بنتی ہیں اور پھر ان سے قدرتاً اس کا ذہن بجلی کی ان لہروں کی طرف منتقل ہو گا جن کی وجہ سے مختلف ذرات ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔
پس خیالات کے اس سلسلہ کی وجہ سے سائنس کے محقق کو کوئی شخص پاگل نہیں کہے گا۔ یہی حال قرآن کریم کی تفسیر کا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا ۔ 3 اس کا جو بھی ٹکڑا تم لے لو اس پر غور کرتے ہوئے جس چیز کی طرف بھی تمہارا ذہن منتقل ہو گا۔ ہوا، پانی، آسمان، زمین، چاند، سورج، ستارے، شیر، ہاتھی، انسان غرضیکہ جس چیز پر بھی تم غور کرو گے آخر دیکھو گے کہ تم اپنے رب کے پاس کھڑے ہو۔ یہ سلسلہ وار مضامین سب اسی لئے ہیں کہ آخر انسان کو خداتعالیٰ تک پہنچاویں۔ قرآن کریم کا کوئی حصہ لے لو وہ خداتعالیٰ تک پہنچا دے گا اور اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا کی صداقت ظاہر ہو جائے گی۔
مَیں بیان کر رہا تھا کہ قرآن کریم کی پوری تفسیر کوئی انسان نہیں کر سکتا۔ کوئی انسان کا بچہ ایسا پیدا نہیں ہؤا جو قرآن کریم کی تفسیر بیان کر سکے۔ جو کوئی کچھ بیان کرے گا وہ انسانوں کے لحاظ سے مکمل تفسیر ہو گی قرآن کریم کے لحاظ سے نہیں۔ پس یہ کام ایسا نہیں کہ آسانی سے اس میں انسان ہاتھ ڈال سکے۔ اور اگر ڈالے تو ذمہ داری کے بوجھ تلے دبتا نہ جائے۔ مفسر پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس زمانہ کے بھی اور آئندہ زمانہ کے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اس تفسیر نے علوم کو ختم کر دیا۔ غور کرو کہ ایسا خیال دین میں کتنے بڑے رخنہ کا موجب ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ قرآنی علوم کی انتہا کو کون پہنچ سکتا ہے۔ اس کا پورا علم اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے کسی نبی یا غیرنبی کو نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی بعض پیشگوئیوں کی حقیقت آنحضرت ﷺ پر بھی نہ کھلی ہو گی۔ بعض احادیث کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ ممکن ہے یہ حدیث غلط ہو یا اگر حدیث صحیح ہو تو ممکن ہے رسول کریم ﷺ پر اس کی حقیقت کا انکشاف نہ ہؤا ہو۔ 4 اس پر مولویوں نے بہت شور مچایا کسی نے آپ کو کافر کہا کسی نے کچھ۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ پر روحانی اور دینی لحاظ سے تو سارے معارف کھل گئے لیکن جو حصہ پیشگوئیوں کے متعلق ہے خصوصاً جو آئندہ زمانوں کے متعلق تھیں اغلب بلکہ یقینی ہے کہ ان میں سے بعض کی تاویل آپ پر ظاہر نہیں ہوئی تا وہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کے لئے امتحان ہوں جسے پاس کر کے وہ خداتعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔ اسی طرح قرآن کریم کے کئی مطالب ہیں جو آج نہیں کھلے لیکن آج سے دو سو، چار سو، پانچ سو برس بعد کھلیں گے۔ آج کے زمانہ کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں ان کے ظاہر ہونے پر آج ہم پھولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں کہ جو بات ہماری سمجھ میں آئی ہے وہ پہلوں نے نہیں لکھی اور ہم آج اسے لکھتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ پہلوں کے لئے اس کے لکھنے کا موقع ہی کب آیا۔ مثلاً یاجوج ماجوج کے جو معنی آج ظاہر ہوئے ہیں وہ پہلے مفسّر کس طرح بیان کر سکتے تھے۔ وہ معذور تھے۔ ان کے سامنے یہ چیز ہی نہ تھی۔یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں سمجھ دے دی مگر یہ ہماری پہلوں پر فضیلت نہیں۔ جو مطالب سمجھنے کا ان کے لئے موقع تھا ان کے لحاظ سے تو ان پر ہمیں بے شک فضیلت ہے۔ دینی تشریحات اور روحانی معارف اگر ان سے زیادہ ہوں تو یہ تو بے شک زائد چیز ہے اور فضل ہے لیکن اگر آج ہم پر ان پیشگوئیوں کے مطالب کھلتے ہیں جو اس زمانہ کے متعلق ہیں تو اس بارہ میں ان کو بے وقوف اور جاہل کہنا ہماری اپنی بے وقوفی اور جہالت ہے کیونکہ یہ ان کے زمانہ کی بات ہی نہ تھی۔ کیا رطب و یابس قصے ہیں جو پہلوں نے بیان کر دیئے ہیں کہ یاجوج ماجوج کے کان اتنے بڑے بڑے ہوں گے کہ ایک کو نیچے بطور بستر بچھا لے گا اور دوسرے کو بطور لحاف اوپر لے لے گا۔ وہ دیواریں چاٹے گا اور مُردے کھائے گا۔ انہوں نے یہود کی ان روایات کو اس لئے مان لیا کہ ان کے پرکھنے کا ذریعہ ان کے پاس نہ تھا۔ آج ہم ان باتوں کو اس لئے حل کر لیتے ہیں کہ یہ امور ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں سے جب کوئی کسی یہودی سے اس قسم کی باتیں سنتا ہو گا تو بڑا خوش ہوتا ہو گا اور خیال کرتا ہو گا کہ آج کوئی شاگرد حقیقت دریافت کرے تو اسے بتاؤں۔ اسی طرح ممکن ہے کہ بعض پیشگوئیاں جو آئندہ کے متعلق ہیں ہم ان کی کوئی تاویل کریں جو غلط ہو اور جب ان کے مطالب کھلیں تو آئندہ زمانہ کے مفسّر ہمارے متعلق کہیں کہ کتنے بے وقوف لوگ تھے کہ ان کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے۔ پس خداتعالیٰ کے کلام کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اور اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مَیں قرآن کریم کی مکمل تفسیر سمجھ گیا ہوں تو وہ غلط کہتا ہے۔ ہم جو تفسیر کرتے ہیں وہ کلامِ الٰہی کی نہیں بلکہ صرف ان پہلوؤں کی تفسیر ہے جو ہمارے زمانہ سے متعلق ہے۔ پس قرآن کریم کی تفسیر ایسی ذمہ داری کا کام ہے کہ مَیں ہمیشہ اس میں ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا ہوں اور ترجمہ سے تو بہت ہی ڈرتا ہوں۔ لکھتا ہوں، پھر کاٹتا ہوں۔ لکھتا ہوں، پھر کاٹتا ہوں۔ شائع ہونے والی جلد کا ترجمہ پہلے میں نے شروع کیا۔ پھر مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم کے سپرد کر کے خود نظرثانی کی۔ ترجمہ سے تو بہت ہی ڈرتا ہوں کیونکہ اگر کسی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو عوام کہیں گے کہ یہ خلیفۃ المسیح الثانی کا لکھا ہؤا ترجمہ ہے غلط نہیں ہو سکتا اور یہ خیال نہیں کریں گے کہ انسان سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ عقلمند انسان تو سمجھ جاتا ہے کہ بعض اوقات کاتب سے غلطی ہو جاتی ہے۔ چھپنے میں کوئی غلطی ہو جاتی ہے مگر عام لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ وہ تو کہتے ہیں کہ بس جی خلیفۃ المسیح الثانی نے یہی لکھا ہے اور ہم یہی مانیں گے۔
عوام کی ذہنیت بھی عجیب ہوتی ہے۔ ضلع گجرات میں ایک دفعہ مناظرہ ہؤا۔ وہاں ایک احمدی تھا غیر احمدی اسے پکڑ کر لے گئے کہ چلو مولویوں کو چھوڑو ہم خود مناظرہ کرتے ہیں۔ مگر وہاں جا کر مولوی کو اس کے مقابل کر دیا۔ مولوی نے کہا اچھا قرآن کھولو۔ سب لوگ اَن پڑھ تھے۔ مولوی نے سوچا کہ احمدی بھی اَن پڑھ ہے اسے یونہی قابو کر لوں گا۔ اس نے کہا کہ دیکھو قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ رَافِعُکَ یہ حضرت مسیح کے متعلق ہے۔ اور رفع کے معنی اوپر اٹھانے کے ہیں۔ رفع یدین سب لوگ جانتے ہیں کہ ہاتھ اوپر اٹھانے کو کہتے ہیں۔ رَافِعُکَ کے معنی صاف ہیں کہ ‘‘تینوں چُکاں گا’’ یعنی اوپر اٹھاؤں گا۔ سب لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کر دیں اور احمدی سے کہنے لگے کہ بس اب توبہ کرو۔ وہ بھی سمجھ گیا کہ یہاں اب سیدھی طرح کوئی بات نہیں سنے گا۔ اس نے کہا مولوی صاحب رَافِعُکَ کی ف کے نیچے لکیر سی کیسی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا یہ زیر ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زیر کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ مولوی صاحب فرمانے لگے ‘‘ہیٹھاں’’ یعنی نیچے۔ اس پر وہ احمدی بولا کہ بس یہی بات ہے۔ رَافِعُکَ تو اوپر لے جاتا ہے مگر یہ زیر اوپر نہیں جانے دیتی اور اس دلیل کو سن کر جو دوسرے زمیندار تھے انہوں نے سمجھ لیا کہ بس معاملہ پھر شکّی ہو گیا ہے۔
تو عام لوگ زیادہ باریک باتوں کو نہیں دیکھتے۔ ان کو علم ہوتا نہیں وہ تو یہی کہتے ہیں کہ بس یہی لکھا ہے۔ یہی درست ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ بعض اوقات کتابت کی غلطی ہو جاتی ہے ۔ بعض اوقات مؤلف سے سہو ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ ایسی ذمہ داری ہے کہ اسے اٹھانا موت قبول کرنا ہے اور یہ موت دراصل ہر انسان آپ ہی قبول کرے تو فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جیسے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ نجات وہی پائے گا جو اپنی صلیب آپ اٹھائے گا۔ 5 اس کا مطلب یہی ہے کہ نجات وہی پائے گا جو خداتعالیٰ کی راہ میں صلیب پائے گا۔ میری صلیب کو پُوجنے سے نجات نہیں ہو سکتی۔ تو ہر انسان خود قرآن پڑھے، سوچے ،سمجھے تو صحیح علم حاصل کر سکتا ہے ۔ باقی تفاسیر تو ایسی ہی ہیں جیسے کسی جگہ پہنچنے کے لئے کوئی سواری پر چڑھ جاتا ہے، کوئی ریل پر، کوئی موٹر پر، کوئی ہوائی جہاز پر، کوئی گھوڑے پر، کوئی سائیکل پر، کوئی ٹانگہ پر، کوئی گڈّے پر۔ بعض علاقوں میں شتر مرغ بلکہ بکرے سے بھی سواری کا کام لے لیا جاتا ہے۔ تو یہ تفسیریں تو سواری کی طرح ہیں اور صرف تقریب کا ذریعہ ہیں۔ کامل تفسیر اِن میں نہیں۔ کوئی سواری کسی قلعہ کے دروازہ تک تو پہنچا سکتی ہے مگر اس سے دروازہ نہیں کھل سکتا۔ اور جب تک دروازہ نہ کھلے دیواروں تک پہنچنے سے کیا فائدہ۔ فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مومن ان ذرائع کو تقریب سے زیادہ اہمیت نہ دے بلکہ خود آگے بڑھے اور سوچے سمجھے۔
پس جہاں تک ان نو سورتوں کا تعلق ہے یعنی سورہ یونس سے شروع کر کے سورۂ کہف تک پرسوںمَیں نے کام ختم کر دیا ہے اور پرسوں شام تک پریس والے ختم کر دیں گے۔ ہم نے 7،8 سو صفحات حجم کا اندازہ کیا تھا ۔ پھر اندازہ لگانے والوں نے کہا کہ آٹھ، نو سو کے درمیان صفحات ہوں گے۔ پھر 9،10 سو صفحات کا اندازہ کیا گیا اور اب رپورٹ ملی ہے کہ 1006 صفحات ہو جائیں گے۔ جس محنت کے ساتھ کام کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ آخری حصہ ایسا اچھا نہیں چَھپ سکتا جیسا کہ ارادہ تھا۔ کاتبوں سے دن رات کام لیا گیا ہے۔ اسی طرح پریس والوں سے بھی۔ انسانی طاقت جتنابوجھ اٹھا سکتی ہے اسے اٹھانے کا بہت اعلیٰ نمونہ کارکنوں نے دکھایا ہے مگر اس محنت کے باوجود کتابت وغیرہ کی بعض غلطیاں ہوں گی ۔ میں دوبارہ تو پروف دیکھ ہی نہیں سکا اور اس لئے مجھے خیال ہے کہ بعض جگہ ضرور غلطیاں رہ گئی ہوں گی۔ لکھتے ہوئے بعض اوقات مَیں نوٹ دے دیتا ہوں کہ حوالہ دے دیا جائے یا فلاں معنے لغت سے نکال کر لکھ دئیے جائیں۔ عین ممکن ہے ان میں سے کوئی حوالہ لکھنا رہ جائے یا معنے نقل کرنے رہ جائیں۔ بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تمام کارکنوں نے بہت محنت اور اخلاص سے کام کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بعض غلطیاں رہ گئی ہوں گی۔ ہم غلط نامہ کی اشاعت کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں آخری حصہ میں پہلے سے کم غلطیاں ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب عالم تو بہت تھے مگر ان کو کاپی اور پروف دیکھنے کی مشق نہ تھی اس لئے اس حصہ میں بہت غلطیاں رہ گئی ہیں ۔ کوئی حصہ کہیں چھوٹ گیا ہے، کوئی غلط جوڑ دیا گیا ہے۔ ہم نے اس کی درستی بھی کی ہے۔ بعض جگہ علیحدہ پرچیاں چھپوا کر لگا دی گئی ہیں۔ غلط نامہ بھی چھپ جائے گا اور اس طرح صحت کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے۔
اب جماعت کا فرض ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے قرآن کریم کی تفسیر تو کوئی انسان نہیں لکھ سکتا اور اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قرآنی مطالب سارے یا آدھے یا سوواں حصہ بلکہ ہزاروں حصہ بھی بیان کر دئیے گئے ہیں کیونکہ قرآن غیرمحدود خدا کا کلام ہے۔ اس لئے اس کے علوم بھی غیرمحدود ہیں۔ اور اس نسبت سے ہم اس کے مطالب کا نہ کروڑواں اور نہ اربواں حصہ بیان کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری باتوں پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ مجھے اس خیال سے شدید ترین نفرت ہے کہ تفاسیر میں سب کچھ بیان ہو چکا ہے۔ ایسے خیال رکھنے والوں کو مَیں اسلام کا بدترین دشمن خیال کرتا ہوں اور احمق سمجھتا ہوں۔ گو وہ کتنے بڑے بڑے جبے اور پگڑیوں والے کیوں نہ ہوں اور جب میرا دوسری تفسیروں کے متعلق یہ خیال ہے تو مَیں اپنی تفسیر کی نسبت یہ کیونکر کہہ سکتا ہوں ۔ ہم یہ تو کوشش کر سکتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے علوم ایک حد تک بیان کر دیں مگر یہ کہ قرآن کریم کے یا اپنے زمانہ کے بھی سارے علوم بیان کر دیں اس کا تو مَیں خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا۔ قرآن کریم کے نئے نئے معارف ہمیشہ کھلتے رہتے ہیں۔ آج سے سو سال کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ ایسے معارف بیان کر سکتے ہیں جو آج ہمارے ذہن میں بھی نہیں آ سکتے۔ اور پھر دو سو سال بعد غور کرنے والوں کو اور معارف ملیں گے۔ بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ اس طرح کہنے سے لوگوں کی توجہ تفسیر کی طرف سے ہٹ جائے گی۔ اور بعض دفعہ بعض نادان یہ کہہ بھی دیا کرتے ہیں کہ انہوں نے تو خود کہہ دیا ہے کہ یہ کچھ نہیں۔ مگر مَیں قرآن کریم کے متعلق سچائی کے بیان کو ہر چیز سے زیادہ ضروری خیال کرتا ہوں۔ لاکھوں کا تفسیر نہ پڑھنا بہت کم نقصان دہ ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک بھی شخص ہو جو یہ خیال کرے کہ اس تفسیر میں سب کچھ آ چکا ہے۔ اگر دس کروڑ آدمی بھی یہ خیال کر لیں کہ اس میں کچھ نہیں تو کوئی نقصان نہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک بھی یہ خیال کرے کہ اس میں سب کچھ آ گیا ہے۔ جو یہ خیال کرے گا کہ اس میں کچھ نہیں وہ تو میرے کلام سے محروم رہے گا لیکن یہ سمجھنے والا کہ اس میں سب کچھ آ گیا ہے خداتعالیٰ کے کلام سے محروم رہ جائے گا۔
پس مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ لوگ یہ خیال کریں کہ اس میں کچھ نہیں لیکن یہ مَیں برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک شخص بھی یہ خیال کرے کہ اس میں سب کچھ آ گیا ہے۔ اس لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اس میں جو کچھ ہے وہ محض اس زمانہ کے متعلق بعض باتیں ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ قرآن کریم کے نئے نئے علوم ہمیشہ کھلتے رہیں گے جو آج ہمیں معلوم نہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ اس زمانہ کے متعلق بھی بعض غلطیاں لگ سکتی ہیں مگر چونکہ یہ خدائی تائید سے لکھی گئی ہے اس لئے مَیں کہہ سکتا ہوں کہ اس میں اس زمانہ یا آئندہ زمانہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی دینی اور روحانی باتیں جو لکھی گئی ہیں وہ صحیح ہیں۔ ہاں بعض آئندہ ہونے والی باتوں کے متعلق یہ احتمال ضرور ہے کہ ہم ان کے اور معنے کریں اور جب وہ ظاہر ہوں تو صورت اور نکلے۔پس جہاں تک علوم، اخلاق، روحانی اور دین کا تعلق ہے مَیں امید کرتا ہوں کہ یہ بہتوں کے لئے ہدایت کا اور ان کو گمراہی سے بچانے کا موجب ہو گی۔ گو یہ عین ممکن ہے کہ آئندہ کے متعلق کسی بات کے سمجھنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق قرآن کریم میں پیشگوئیاں تھیں مگر کسی کو خیال بھی نہ تھا۔ سورۂ نساء میں اور سورۂ فاتحہ میں نبوت کا ثبوت موجود تھا مگر کسی کے ذہن میں نہیں آیا اور بھی بیسیوں پیشگوئیاں ہیں جن کو پہلے لوگوں نے نہیں سمجھا۔ اسی طرح ہم بھی ممکن ہے آئندہ زمانوں کے متعلق بعض پیشگوئیوں کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکیں اور غلطی کھا جائیں مگر جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ خداتعالیٰ کی تائید سے لکھی گئی ہیں اور جو بات خداتعالیٰ کی تائید سے لکھی جائے اس سے گمراہی پیدا نہیں ہوسکتی۔
اس تمہید کے بعد میں جماعت کو اس کی خریداری کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ قادیان میں بھی اور باہر بھی جہاں تک ہو سکے دوستوں کو اس کی اشاعت کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ اس وقت تک دفتر میں چھ سو احباب کی طرف سے اطلاعات آ چکی ہیں۔ بعض براہ راست میرے پاس بھی آئی ہیں اور وہ ملا کر کل تعداد آٹھ سو تک ہو گی مگر تین ہزار تعداد چھپوائی گئی ہے۔ اور جماعت کی کثرت کے لحاظ سے اور ان دوستوں کی نسبت کے لحاظ سے جو عام طور پر کتابیں خریدتے ہیں میرا خیال ہے کہ اس کی اشاعت دس پندرہ ہزار ضروری ہونی چاہیئے۔ اس وقت تک اس کی اشاعت کے لئے جدوجہد بہت ہی کم ہوئی ہے۔ میرے علم میں سوائے چوہدری سرظفر اللہ خان صاحب کے اور کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ انہوں نے دو سو خریدار کی اس وقت تک اطلاع دی ہے۔ ان کے علاوہ کسی کی طرف سے کوئی جدوجہد میرے علم میں نہیں۔ یا ایک صاحب نے جن کی ترقی ہوئی گیارہ خریداروں کی قیمت مبلغ پچپن روپیہ ارسال کی ہے۔ بس اور کسی کا مجھے علم نہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ میں اس کام کو بوجھ محسوس کرتا ہوں مجھ سے یہ کام کروا کے جماعت کا اس طرف سے غفلت برتنا بہت ہی افسوسناک بات ہے۔ یہ کوئی اخبار ‘‘الفضل’’ تو نہیں کہ کسی سے مانگ کر پڑھ لیا۔ یہ تو ایسی چیز ہے کہ گھر میں رکھ کر ہی اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ آدمی اسے سارا پڑھے اور پھر ضرورت کے مطابق حوالہ وغیرہ دیکھ لے۔کتاب سے فائدہ اٹھانے کی یہی صورت ہو سکتی ہے۔ ایسا حوالہ جو ضرورت کے مطابق مل جائے میخ کی طرح دل میں گڑ جاتا ہے۔ قادیان کی احمدی بالغوں کی آبادی 13،14 سو ہے اور اس لحاظ سے یہاں چار پانچ سو خریدار ہونے چاہئیں مگر ہوئے صرف چالیس پچاس ہیں۔ اسی طرح لاہور، سیالکوٹ، جہلم، راولپنڈی، فیروزپور، امرتسرا ور پنجاب کے دوسرے اضلاع ہیں ۔ پھر صوبہ سرحد کے اضلاع ہیں۔ یوپی اور اس سے آگے بنگال ہے اور ہر شہر میں پانچ دس بیس پچاس سَو دو سَو خریدار پیدا ہو سکتے ہیں مگر جماعت نے اس کی طرف کوئی توجہ اب تک نہیں کی۔ اس لئے مَیں پھر ایک دفعہ یہ اعلان کرتے ہوئے کہ جتنا کام میرے ذمہ تھا وہ ختم ہو چکا ہے۔ پریس کا کام بھی کل یا پرسوں تک ختم ہو جائے گا، جلد ساز بھی حسب وعدہ کام کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ابھی مجھے میر محمد اسحاق صاحب نے بتایا ہے کہ جلدساز کہتے ہیں کہ ہم عام جلد سازوں کی طرح نہیں کریں گے بلکہ مقررہ تعداد سے بھی زیادہ تیار کر کے روزانہ دیا کریں گے۔ اور اگر خداتعالیٰ ان کو توفیق دے تو 23 یا 24 کی شام تک ایک سو ساٹھ یا اس سے بھی زیادہ جلدیں تیار ہو جائیں گی۔ میرا ارادہ ہے کہ قادیان کے لوگ بعد میں حاصل کریں۔ پہلے باہر والوں کو دے دی جائیں۔ پندرہ بیس دن تک سب کو مل جائیں گی۔ اس لئے زیادہ گھبراہٹ کی ضرورت نہیں۔
اس کے بعد مَیں دعا کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہوئی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس سے گمراہی کا بیج نہ بوئے اور ہدایت والے حصوں کو زیادہ مفید بنائے تا اس سے خداتعالیٰ کے کلام کی صداقت ظاہر ہو اور احمدیت کی مضبوطی ہو۔‘‘
(الفضل 26 دسمبر 1940ء)
1 الفاتحۃ: 2
2 الفاتحۃ: 7
3 النازعات: 45
4 ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 307
5 متی باب 16 آیت 24
 
Top