• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 6

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 6


1
خدا کے فضل کے مقابلہ میں ہماری کوشش
(فرمودہ4 جنوری 1918ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
''ہم پر اﷲ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل اور احسان ہے کہ وہ بغیر ہماری کسی کوشش اور محنت کے اپنے انعامات اور فضلوں سے ہمیشہ حصہ وافر دیتا رہتا ہے۔ ہم اگر اپنی محنتوں اور کوششوں کو دیکھیں یا اس کی بجائے بہتر الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم اپنی غفلتوں، سُستیوں اور کاہلیوں کو دیکھیں تو ان کے مقابلہ میں اﷲتعالیٰ کے جو فضل اور انعام نظر آرہے ہیں وہ حیرت ہی میں ڈال دیتے ہیں۔ ہماری کوشش کیا ہے اور ہماری قربانیاں کیا حقیقت رکھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کے فضلوں کے مقابلہ میں ایک حقیر چیز ہیں بلکہ میرے نزدیک تو ان کو حقیر چیز کہنا بھی بڑا دعویٰ ہے۔ ان کے لئے مناسب الفاظ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کے مقابلہ میں کوئی چیز بھی نہیں ہیں۔ ان کو حقیر چیز کہنا بھی درحقیقت ان کی بڑائی بیان کرنا ہے۔ یقیناً یقیناً وہ اﷲتعالیٰ کے فضلوں کے مقابلہ میں کچھ چیز بھی نہیں ہیں۔ پھر جب خدا تعالیٰ بغیر ہماری محنتوں اور کوششوں کے ہم پر اس قدر فضل اور احسان اور انعام کر رہا ہے تو کیا یہ ہمیں اس طرف متوجہ نہیں کرتے کہ وہ وقت آگیا ہے جبکہ ہمیں بھی کوشش اور محنت سے کام لینا چاہئے۔ پھر کیا یہ اﷲتعالیٰ کے فضل اور عنایتیں ہمیں اس طرف متوجہ نہیں کرتیں کہ درحقیقت خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے بہت بڑی بڑی نعمتیں مقدر کر رکھی ہیں اور جو کچھ ہمیں حاصل ہو رہا ہے وہ ایک طُعمہ کی طرح ہے جو کھونٹی کے آگے مچھلی پکڑنے کے لئے لگایا جاتا ہے۔یا یہ ایک ایسا ہی انعام ہے جیسا کہ ماں باپ بچہ کو پڑھنے کے لئے بھیجتے وقت پیسہ یا مٹھائی دے دیا کرتے ہیں۔ جس طرح وہ پیسہ یا مٹھائی بچہ کے لئے درحقیقت نشان ہوتا ہے اس بات کا کہ اگر تم تعلیم حاصل کرو گے تو بہت زیادہ انعام اور آرام حاصل کرو گے اور یہ چیزیں اُن انعاموں کا حصہ نہیں ہوتیں جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہیں بلکہ وہ ان کے حاصل کرنے کے لئے تحریص دلانے اور برانگیختہ کرنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس وقت ہم پر جو خدا تعالیٰ کے فضل ہو رہے ہیں وہ آنے والے فضلوں کا حصہ نہیں بلکہ ان کے حصول کے لئے برانگیختہ کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اب تم خود سوچ لو کہ جہاں یہ ذریعہ ایسا عالیشان ہے وہاں اصل انعام کس رتبہ اور پایہ کے ہوں گے۔ جو کچھ نسبت اُن چند پیسوں یا مٹھائی کی ڈلیوں کو ان سکّوں اور انعاموں سے ہوتی ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتے ہیں وہی موجودہ فضلوں کو آئندہ ہونے والے فضلوں پر قیاس کر لو بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ۔ جس طرح وہ قلم یا پنسل یا نِب یا مٹھائی جو ایک اُستاد یا باپ لڑکے کو اس لئے دیتا ہے کہ تعلیم حاصل کرے وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کے فوائد سے کچھ بھی نسبت نہیں رکھتیں اسی طرح ہم پر جو خدا کے فضل اور انعام ہو رہے ہیں وہ بھی آئندہ ملنے والے انعام کے مقابلہ میں معمولی ہیں۔ پس اُن ملنے والے انعاموں کو حاصل کرنے کے لئے ہماری جماعت کو چاہئے کہ موجودہ انعامات کی قدر کرے۔
دُنیامیں اسلام کے پھیلانے اور ہدایت کے پہنچانے کے لئے ہماری کیا کوششیں ہیں مگر ان کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو دیکھو کہ ہر لمحہ اور ہر گھڑی ہمارا قدم آگے ہی آگے پڑ رہا ہے۔ ہمارے راستہ میں مصیبتیں اور مشکلات تو ایسی ہیں کہ بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے ہٹنا چاہئے اور بوجھ اتنے ہیں کہ بجائے کھڑا ہونے کے بیٹھ جانا چاہئے مگر جب ایک سال گزرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم کہاں تھے اور اب کہاں پہنچ گئے ہیں۔ گو ہم سورہے تھے اپنی کوششوں میں بہت سُست بلکہ غافل تھے مگر کسی طاقتور ہستی نے ہمیں پہلے کی نسبت بہت آگے بڑھادیا ہے۔ ہماری مخالفت کا تو یہ حال ہے کہ جس طرح دریا کی ایک رَو چلتی ہے اور اوپر کی طرف نہیں جانے دیتی اسی طرح بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ زور کے ساتھ ہمارے مقابلہ میں چل رہی ہے۔ کوئی انسان ایک دریا کی رَو کے مقابلہ میں نہیں چل سکتا مگرہمارے مقابلہ میں تو ساری دُنیا کے دریاؤں کے دہانے کھول دیئے گئے ہیں۔ پھر ہماری کوششوں کا یہ حال ہے کہ گویا ہم سو رہے ہیں مگر جب ایک وقت گزر جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے قدم پیچھے نہیں ہٹے بلکہ اور زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قدم ہماری کوششوں سے نہیں بڑھ رہے بلکہ کوئی اور ہی طاقت ہے جو انہیں بڑھا رہی ہے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے خدا کا شکر ادا کریں۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ1
کہ اگر تم شکر کرو گے تو اور زیادہ دُوں گا اور اگر کُفر کرو گے تو میرے پاس سخت عذاب بھی ہے۔
اﷲتعالیٰ کے فضل جس قدر ہم پر ہو رہے ہیں ان کا ایک نمونہ تو یہی جلسہ ہے جو ابھی ہؤا ہے۔ اس دفعہ بعض واقف کاروں نے کہا تھا کہ پہلے کی نسبت نصف لوگ آئیں گے اور اس کی وجوہات یہ بیان کی تھیں کہ :-
(1) مختلف قسم کی بیماریاں اور عوارض کی کثرت ہے۔
(2)قحط سالی ہے۔
(3) پہلے جلسوں میں تو کرایہ میں تخفیف ہو جایا کرتی تھی مگر اب کے اَور بڑھ گیا ہے۔
(4) بعض جگہ کی ریلیں بند کر دی گئی ہیں۔
یہ تو انسانی اندازے تھے مگر اﷲتعالیٰ نے ہماری جماعت میں جو اخلاص اور جوش پیدا کر دیا ہے اس کی وجہ سے اب کے پہلے کی نسبت کئی سَو آدمی زیادہ آیا ہے۔ پھر جماعت کے اخلاص، قربانی اور جوش میں بھی پہلے کی نسبت بہت زیادتی ہوئی ہے۔ کیا یہ ہماری کسی کوشش اور سعی کا نتیجہ ہے۔ نہیں! بلکہ خدا کے فضل اور احسان کا نتیجہ ہے مگر اﷲ تعالیٰ کہتا ہے اگر انعام حاصل ہونے پر میرا شکر کرو گے تو میں اسے اَور بڑھادوں گا اور اگر نہیں کروگے تو پھر یہی نہیں کہ وہ انعام ہی چھین لوں گا بلکہ عذاب میں مبتلا کردوں گا۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں کئی لوگ ایسے ہیں جو صرف جلسہ کے قریب دومہینے جاگتے ہیں اور باقی سارا سال سوئے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ یہاں بھی ہیں اور باہر بھی۔ انہیں اس عرصہ میں خیال تک نہیں آتا کہ ہمارا بھی کوئی فرض ہے اور ہمارے ذمہ بھی خدا نے کوئی کام رکھا ہے۔ وہ ایک لمبا عرصہ سوئے رہتے ہیں اور اس دیو کی طرح سوتے ہیں جس کے متعلق ہم بچپن میں سنا کرتے تھے کہ چھ ماہ سوتا تھا اور چھ ماہ جاگتا۔ مگر یہ تو دس ماہ سوتے ہیں اور دو ماہ جاگتے ہیں۔ وہ دیکھ لیں کہ ان کے دو ماہ جاگنے پر جب خداتعالیٰ اس قدر انعام اور فضل کرتا ہے تو اگر وہ سارا سال جاگیں تو کس قدر کرے گا مگر کئی لوگ ہیں کہ جب جلسہ سے واپس جاتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ بس ہمارا فرض ادا ہو گیا۔ اب اگلے جلسہ پر ہی کچھ کریں گے فی الحال آرام کر لیں۔
میں ایسے لوگوں کو بتا نا چاہتا ہوں کہ ہمارے لئے اس دُنیا میں آرام سے بیٹھنے کے دن گئے۔ مومن کو یوں تو ہر وقت اور ہر حالت میں ہی آرام رہتا ہے۔ کیا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو آرام حاصل نہ تھا؟ جو آرام ان کو تھا اس کا تو اندازہ ہی کرنا مشکل ہے لیکن کیا اُنہوں نے تلواروں کے نیچے اپنی گردنیں نہیں ڈال دی تھیں؟ کیا وہ دین کے لئے گھر سے بے گھر، وطن سے بے وطن، رشتہ داروں سے جُدا نہیں ہوئے تھے؟ کیا ان کی جان اور مال خدا کی راہ میں صَرف نہیں ہؤا تھا؟ یہ سب کچھ ہؤا تھا لیکن باوجود اِس کے انہیں آرام اور اطمینان حاصل تھا مگر آجکل آرام کے معنی نکمّا اور بیکار رہنے کے سمجھے جاتے ہیں۔ جو آرام نہیں بلکہ سُستی اور عیش پرستی کہلاتی ہے اور یہ مومن کے لئے حرام ہے۔ اس لئے مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ کام کے دن گزر گئے ہیں اور اب نکمّا بیٹھنے کے دن آئے ہیں کیونکہ ان دنوں نے تو انہیں خوب اچھی طرح آگاہ کر دیا ہے کہ تمہارے لئے پہلے سے بھی زیادہ مصروفیت کے دن آگئے ہیں اور اس طرف بھی متوجہ کر دیا ہے کہ جب تمہیں کوئی کوشش نہ کرنے کی صورت میں اس قدر انعام مل رہے ہیں تو جب ہم کوشش کریں گے اُس وقت کس قدر ملیں گے۔ پس جہاں میں اﷲتعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس سال ہمارا قدم پہلے سے بہت آگے ہے وہاں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جاکر سو نہ رہیں بلکہ جاگیں اور کام میں لگ جائیں۔
اس کے بعد میں اُن دوستوں کو جنہوں نے دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اِسی خطبہ میں آگاہ کرتا ہوں کہ وہ کل صبح کی نماز کے بعد مسجد میں جمع ہوں تاکہ ان کے جو فرائض مَیں نے سونپے ہیں ان سے آگاہ کیا جائے اور آئندہ کے لئے کام کرنے کا طریق تجویز کیا جائے۔ بیرونی احباب کو بعد میں اطلاع دے دی جائے گی۔ بعض بچوں نے بھی اس سلسلہ میں شامل ہونے کی درخواستیں دی ہیں لیکن ان کے متعلق اسی وقت غور ہو سکتا ہے جبکہ وہ بڑے ہو جائیں اور اس وقت بھی ان میں یہی جوش پایا جائے۔ اِس لئے جن کی عمر 16سال سے کم ہے وہ نہ آئیں اور جن کی اس سے زیادہ ہے اور اُنہوں نے درخواستیں دی ہیں وہ آجائیں تاکہ ان کے کام کے متعلق غور اور مشورہ کیا جاوے۔’’
(الفضل 26جنوری 1918ء)
1 ابراہیم: 8



2
مومن بنو
(فرمودہ 11 جنوری 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:-
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اِنْ تُطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْـًٔا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ۔قُلْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِيْنِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۔يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا١ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ١ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۔اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔1
اور فرمایا:
‘‘اِس زمانہ میں جہاں اﷲ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے بہت سی آسانیاں اور سہولتیں میسّر ہوئی ہیں اور بہت سے آرام اور آسائش کے سامان نکل آئے ہیں، وہ مشکلات اور تکلیفیں جو قدیم زمانہ میں ہوتی تھیں اب نہیں ہیں وہاں نہایت افسوس کے قابل یہ امر بھی ہے کہ بجائے اس کے کہ لوگ ان آسانیوں کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو بہت زیادہ مضبوط کرتے ان کے ایمانوں میں بہت زیادہ کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں اور آجکل ایمان کو ایک حقیر اور ذلیل چیز سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ ایمان تو ایک ایسا بیش بہا لعل، ایسا قیمتی موتی اور ایسا لاثانی جوہر ہے کہ اس کی صحیح قیمت ڈالنا تو الگ رہا قیمت ڈالنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ذرا کسی شخص کو کہہ تو دیکھو کہ تو کتنے روپوں پر اپنے بیٹے کو ذبح کرائے گا؟ اس کا کیا نتیجہ ہو گا یہی کہ اگر مخاطب متحمل مزاج اور اپنے جوش کے دبانے پر قادر نہیں تو اس فقرہ کے پورا ہونے سے قبل ہی اس کا ہاتھ کہنے والے کی گردن میں ہو گا اور جس طرح پانی سے بھری ہوئی مشک کا بند کھل جاتا ہے اور زور سے پانی نکلنا شروع ہو جاتا ہے اِس طرح اس کے منہ کا بند کھل جائے گا اور ہزاروں قسم کی گالیاں دینی شروع کر دے گا اور اگر کوئی سمجھدار اور دانا ہو گا تو اس فقرہ کو نہایت ناپسندیدگی اور ناراضگی کی نظر سے دیکھے گا یا اگر بے اختیار ہو کر کہنے والے پر حملہ آور نہیں ہو گا تو اسے یہ ضرور کہے گا کہ کیسی نادانی اور جہالت کی بات کرتے ہو، یا اگر اتنا بھی نہ کرے گا تو دل میں ضرور غصّہ سے بھر جائے گا، یا کہنے والے کو پاگل اور مجنون سمجھے گا۔ پس اُس وقت جھگڑا اس بات پر نہیں ہو گا کہ اس کے بیٹے کی قیمت لاکھ روپے ہے یا کروڑ روپیہ۔ بلکہ یہ بات سُن کر اس کے ذہن میں ہی نہیں آسکے گا کہ میرے بیٹے کی کچھ قیمت ڈالی جاسکتی ہے اور وہ ناراضگی اور غصّہ سے بھر جائے گا کہ کیوں ایسا کہا گیا ہے؟ تو کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی قیمت ڈالنے میں اختلاف نہیں ہوتا بلکہ ان کی قیمت ڈالنا ہی ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پھر ایمان جو ہزاروں لاکھوں روپوں سے زیادہ قیمتی، ہزاروں جانوں، سارے عزیزوں اور رشتہ داروں سے زیادہ عزیز چیز ہے اِس کی قیمت ڈالنے کا کس طرح خیال آسکتا ہے۔ جب ایک بچہ کی قیمت نہیں پڑ سکتی تو ایمان کی کہاں پڑ سکتی ہے جو اس سے کروڑوں کروڑ نہیں اربوں ارب گُنا زیادہ قیمتی اور عزیز شَے ہے۔ ایک ایماندار انسان کے سامنے اگر ساری دُنیا بھی ذبح کردی جائے جو اسے اپنے ماں باپ، بہنوں بھائیوں اور بیٹوں کی طرح پیاری اور عزیز ہو تو وہ ایک منٹ کے لئے بھی اس کے لئے تیار نہیں ہو گا کہ اپنا ایمان دے کر اسے بچالے کیونکہ یہ ایک ایسی قیمتی چیز ہے کہ جس کی کوئی قیمت پڑہی نہیں سکتی مگر باوجود اس کے ایسی قیمتی اور لاثانی چیز ہونے کے دُنیا میں ایسے لوگ پائے ہی جاتے ہیں جو اس بے بہا گوہر کی قیمت مقرر کرتے اور اس لاثانی موتی کو بیچنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نسبت سوائے اسکے اَور کیا کہاجاسکتا ہے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ ایمان کیا چیز ہے اور کتنی قیمتی شَے ہے۔
دیکھو اگر کسی کو کوئی کہے کہ میں تیرے بیٹے کو ذبح کرنا چاہتا ہوں۔ بتا اس کی کیا قیمت لے گا اور وہ دس روپے مانگے تو سُننے والے فوراً کہہ دیں گے کہ اگر یہ شخص پاگل نہیں تو یہ اِس کا بیٹا ہی نہیں جس کی اس نے یہ قیمت مقرر کی ہے بلکہ کسی اور کا ہے اور یہ دھوکا سے اپنا بیٹا کہہ رہا ہے۔ اسی طرح جوشخص اپنے ایمان کی کوئی قیمت مقرر کرتا ہے اس کےمتعلق یقیناً یہی کہا جائے گا کہ اس میں ایمان ہے ہی نہیں اور وہ دھوکا دینا چاہتا ہے کہ میرے پاس ایمان ہے اور اس طرح جو کچھ اسے ملے اسے مفت سمجھ کر لے لینا چاہتا ہے کیونکہ اس کے اندر ایمان تو ہے ہی نہیں اور اس کے خریدنے والا بھی سمجھتا ہے کہ اگر اس کی چیز ناقص ہے تو مَیں جو کچھ دینے لگا ہوں وہ اس سے بھی زیادہ ناقص ہے۔ یہ اپنی آخرت کو برباد کررہا ہے۔ میرا اگر دُنیا کا کچھ نقصان ہو گیا تو کیا ہؤا۔ اِس خیال سے دونوں میں سودا ہو جاتا ہے اور ان کی مثال اس واقعہ میں ایسی ہوتی ہے جو یوں مشہور ہے کہ ایک قافلہ کہیں جارہا تھا اس میں سے ایک شخص بازار گیا اور جاکر بزاز سے ایک کپڑے کا تھان مانگا۔ بزاز نے ایک ایسا تھان جو اندر سے پھٹا ہؤا تھا اور اوپر ثابت تہیں تھیں تھوڑی سی قیمت پر اس کے سامنے پیش کیا تاکہ جلدی سے خریدے اور اسے کھول کر نہ دیکھے۔ چنانچہ اس نے فوراً خرید لیا اور قیمت دے کر چلا گیا۔ بزاز نے جلدی سے روپے لے کر رکھ لئے۔ جب وہ چلا گیا تو بزاز کو اس کے نفس نے ملامت کی اور وہ خریدنے والے کے پیچھے چلا تاکہ تھان واپس لے آئے اور اس کے روپے اسے واپس کر دے۔ جب جاکر اسے مِلا تو کہا یہ تھان میں نے تم کو دھوکا سے دے دیا تھا دراصل یہ اندر سے پھٹا ہؤا ہے یہ مجھے واپس کر دو اور اپنی قیمت لے لو۔ اس نے کہا اس بات کا کوئی فکر نہ کرو میں نے جو تمہیں دام دیئے تھے وہ بھی کھوٹے ہی تھے۔ یہی حال ایمان بیچنے اور خریدنے والوں کا ہوتا ہے۔ بیچنے والا ایک چیز دینے کا اقرار کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس ہوتی ہی نہیں یا ناقص ہوتی ہے مگر باوجود اس قسم کے سودے کرنے کے یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں۔اﷲتعالیٰ فرماتا ہے قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ کہ بدوی لوگوں میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو کہتی ہے ہم ایمان لے آئے۔ ان کو کہہ دو تم یہ مت کہو کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تم تو کبھی ایمان لائے ہی نہیں تمہاری ایسی قسمت کہاں۔ ہاں یہ کہو کہ ہم مسلمان کہلانے لگ گئے ہیں کیونکہ ایمان تو تمہارے اندر داخل نہیں ہؤا اور جب ایمان داخل ہی نہیں ہؤا تو پھر تمہارا کوئی حق نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ایماندار کہو۔ ایمان کے آثار تو تم میں پیدا ہی نہیں ہوئے۔ دیکھو ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کا کچھ نہ کچھ نتیجہ نکلتا ہے۔ ایک عالِم ہوتا ہے گو عِلم اس کے دماغ میں ہوتا ہے مگر پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ عالم ہے۔ اسی طرح گو ایمان قلب سے تعلق رکھنے والی چیز ہے جسے اﷲ ہی جانتا ہے لیکن انسان بھی اس کے اثرات اور اظلال سے پتہ لگا لیتا ہے کہ ہے یا نہیں اور ایمان تو خود بخود ظاہر ہو جاتا ہے اس کے متعلق کسی کے بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ تو فرمایا ایمان تو تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہؤا پھر تم کیوں اپنے آپ کو مومن کہتے ہو۔ ہاں یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا مسلمان کہلانے لگ گئے ہیں۔ باقی تمہاری حالتیں بتا رہی ہیں کہ تم میں ایمان داخل ہی نہیں ہؤا کیونکہ تم میں اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کا مادہ نہیں پیدا ہؤا اور ان کے احکام سے جو محبت اور اُلفت ہونی چاہئے وہ تم میں نہیں پائی جاتی۔ اس کا تم میں نشان بھی نہیں ملتا، تمہیں تو دُنیا ہی مطلوب ہے وہی تمہارا خدا اور وہی تمہارا رسول ہے اور تم سمجھتے ہو کہ اگر ہم اس رنگ میں ایمان لے آئیں جس رنگ میں دوسرے لائے ہیں تو گھاٹے اور نقصان میں رہیں گے۔’’
‘‘یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ تمہارے اندر ایمان داخل ہی نہیں ہؤا ورنہ کیا کوئی ایماندار یہ خیال کر سکتا ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کا یہ نتیجہ ہو سکتا ہے کہ وہ ذلیل ہو اور نقصان میں رہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے خدا اعمال کو ضائع نہیں کرتا اور نہ ہی ناکام رکھتا ہے بلکہ خدا تو آگے بڑھاتا اور بہت بڑھ چڑھ کر کامیابی عطا کرتاہے۔
ایک مومن نہیں چاہتا کہ دُنیا کی نظروں کے سامنے آئے مگر خدا تعالیٰ اُسے ایسی بلند اور اونچی جگہ پر کھڑا کر دیتا ہے کہ جہاں ساری دُنیا کی نظریں اس پر پڑتی ہیں۔ وہ نیچے بیٹھتا ہے مگر خدا اُسے بلند مقام پر بٹھا دیتا ہے، وہ اپنے منہ کو ڈھانپتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کی نقاب کو پھاڑپھاڑ کر دُنیا پر ظاہر کرتا ہے۔ یہ ہوتا ہے خدا اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا نتیجہ لیکن وہ جو خدا اور اس کے رسول کا محض نام لے کر خود نفع اُٹھانا چاہتا ہے، دُنیا میں عزت اور شُہرت کو چاہتا ہے خدااس کی پرواہ نہیں کرتا اور اسے ذلت اور ناکامی کے گڑھے میں گِرا دیتا ہے۔ پس وَاِنْ تُطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْـًٔا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔ اگر تم اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال سے تمہیں کچھ کم نہیں دے گا۔ یا یہ نہیں کہ وہ تمہیں ذلیل اور رسوا ہونے دے گا بلکہ خود تمہارا کفیل ہو گا اور تمہاری کامیابی کے خود سامان مہیا کر دے گا۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اﷲ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہے۔
یہ کیا عجیب دلیل ہے اس بات کے متعلق کہ اﷲ تمہارے اعمال میں کمی نہیں کرے گا بلکہ پورا بدلہ دے گا۔ فرمایا وہ غفور ہے وہ تو گنہگار اور غلطی کرنے والوں کو بھی جبکہ وہ توبہ کرتے ہیں بخش دیتا ہے اور ان پر اپنا فضل کرتا ہے۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم اس کے لئے عمل کرو اور وہ تمہیں اِس کے بدلہ میں نقصان میں رہنے دے۔ کیا وہ جو پشیمان کو معاف کرتا اور اسے انعام سے مالامال کرتا ہے وہ اپنے اطاعت شعار اور فرمانبردار بندوں پر فضل نہیں کرے گا۔ ضرور کرے گا اِس لئے تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ اگر تم اس کے اور اس کے رسول کے احکام پر چلو گے تو گھاٹے میں رہو گے۔ پھر وہ رحیم ہے کسی کو اس کے عمل سے کم دینا تو الگ رہا وہ تو اتنے اعلیٰ اور زیادہ بدلے دینے والا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے۔
اس طرح ان کے غلط خیال کی تردید کی ہے کہ تمہیں معلوم ہی نہیں کہ کِس خدا سے تمہارا پالا پڑا ہے۔ وہ وہ خدا ہے جو تمہارے اعمال کو کم ہی نہیں کرے گا بلکہ تمہارے اعمال میں جو کمیاں رہ جائیں گی ان کو بھی پورا کر دے گا اور تمہارے اعمال کے مطابق تمہیں بدلا دینا تو الگ رہا وہ تو اتنا بڑھ چڑھ کر دے گا کہ جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔ پھر کیا تم اس خدا کی نسبت یہ خیال کرتے ہو کہ تمہارے اعمال میں کمی کر دے گا اور تمہیں ذلیل اور رسوا ہونے دے گا۔
مگر دیکھو باوجود اس کے کہ قرآنِ کریم میں ایسی تشریح کے ساتھ ایمان کی حالت بتائی گئی ہے۔ آج ایمان کی کیا حالت ہے؟ ذرا ذرا اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ ایمان بیچنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ مَیں نے کئی بار بتایا ہے کہ ایک شخص اتنی سی بات پر مُرتد ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں بیٹھا کرتے تھے اور لوگ کوشش کرتے تھے کہ جس قدر جلدی ہو سکے ہم آپ کے پاس پہنچیں تاکہ قریب جگہ حاصل کر سکیں۔ ایک دن جو آپ نماز کے بعد بیٹھے اور اس شخص کے پاس سے کوئی جلدی سے گزرا جس کی کُہنی اُسے لگ گئی تو اسی پر وہ ناراض ہو گیا اور مُرتد ہو کر چلا گیا۔ پھر آجکل میں دیکھتا ہوں کہ بعض ایسے لوگ ہیں جو جب تک ملازم ہوتے ہیں بڑا اخلاص ظاہر کرتے ہیں لیکن جب انہیں ملازمت سے ہٹا دیا جائے تو اِدھر وہ علیحدہ ہوتے ہیں اور اُدھر انہیں نئے نئے علوم اور دلائل حاصل ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ پہلے تو جب تک وہ پندرہ یا بیس روپیہ کے ملازم تھے حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات اور حضرت مسیح موعود ؑ کے نبی ہونے کے دلائل قرآن اور احادیث سے انہیں معلوم تھے لیکن جب تنخواہ ملنی بند ہوئی تو اس کے خلاف فوراً ہی انہیں حیاتِ مسیح یا مسیح موعود ؑ کے نبی نہ ہونے کے دلائل قرآن سے معلوم ہو گئے۔ پھر کئی لوگوں کو اسی پر ابتلا آجاتا ہے کہ کسی انجمن کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ہونے سے ہٹا دیا گیا۔ اگر تو انہیں پردھان بنا دیا جائے تب تو سلسلہ احمدیہ سچّا اور وہ بڑے مخلص اور اگر یہ نہیں تو پھر قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا کہ حضرت مرزاصاحب کا دعویٰ ہی باطل ہے۔ یہ اور اسی قسم کے اور آثار و اظلال بتاتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں ایمان ہی نہیں ہوتا اور ان کانٹوں سے پتہ لگتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے دل میں کیکر بوئے ہوئے ہیں انگور نہیں کیونکہ انگور کی بیل میں کانٹے نہیں ہوتے۔ کیا یہ ایمان کے نتائج ہو سکتے ہیں؟ کیا ایمان کے دلائل میں سے یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ جب تک پندرہ بیس روپے ملتے رہیں یا کوئی عہدہ حاصل ہو، یا کوئی خاص کام سُپرد رہے اُس وقت تک تو ایمان ہے اور جب یہ نہیں تو ایمان بھی نہیں۔ اگر یہ کوئی دلیل ہے تب تو ہم ایسے لوگوں کو حق پر سمجھ لیں گے اور اگر یہ نہیں تو پھر یہ ثابت ہو گیا کہ ان میں ایمان ہی نہیں۔ دیکھو صحابہ نے وطن چھوڑے، عزیزوں اور رشتہ داروں کو ترک کیا، بہنوں، بھائیوں، بیوی بچوں سے الگ ہوئے اور دین کی راہ میں اپنا مال اور جانیں قربان کردیں اِن کے مقابلہ میں اس وقت کے منافق بدتر تھے کیونکہ اُنہوں نے ایسا نہ کیا مگر اس زمانہ کے کئی مومن کہلانے والوں سے اچھے تھے کیونکہ ان کا ایمان اس سے وابستہ نہیں ہوتا تھا کہ ہمیں کچھ ملتا ہے یا نہیں بلکہ انہیں یہ خیال ہوتا تھا کہ ہمارا نہ کچھ جاتا رہے مگر آج یہ خیال نہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ ملتا ہے یا نہیں -اگر ملے تو ایمان قائم اور اگر نہ ملے تو کچھ بھی نہیں۔ اگر یہی معیار منافقت کا قرار دیا جائے تو رسول کریم ﷺ کے وقت تو کوئی منافق رہتا ہی نہیں۔ عبداﷲ ابن ابی ابن سلول کو اس لئے اختلاف نہ تھا کہ مجھے کچھ کیوں نہیں دیا جاتا۔ وہ ایک امیر آدمی تھا۔ بلکہ اس لئے تھا کہ جو کچھ میرا ہے وہ مجھ سے نہ لیا جائے۔ پھر اس وقت کے منافق کچھ نہ کچھ تو دیتے تھے البتہ انتہائی نصرت نہ کرنے کی وجہ سے منافق رہے مگر آج ان سے بھی کم خرچ کرنے والے کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت بڑھ گئے ہیں اور ہمیں پورا پورا ایمان حاصل ہو گیا ہے۔ یہ آیت ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ کوئی ایمان نہیں لائے، ہاں مسلمانوں میں داخل ہو گئے ہیں۔
اور کئی باتیں ہیں جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ہمارا ایمان جاتا رہا حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی انسان مومن تب بنتا ہے جبکہ اسے بشاشتِ ایمان حاصل ہو اور یہ مومن بننے کی چھوٹی سے چھوٹی تعریف ہے۔ جس طرح مدرسے میں نام لکھانے سے پہلی جماعت کا لڑکا بھی طالبِ علم کہلاسکتا ہے اِسی طرح مومن کہلانے کے لئے یہ بات ہے کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن نام رکھانے کا مستحق انسان اُس وقت بنتا ہے جبکہ اس میں بشاشتِ ایمان پائی جائے۔ صحابہ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہی کہ اگر آگ میں ڈالا جائے تو ایمان نہ چھوڑے۔2 یہ ایک ادنیٰ درجہ ہے مومن کا اور اس کے آگے اور ترقی حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام بشاشتِ ایمان ہے۔
اسلام کوئی انجمن یا سوسائٹی نہیں اور احمدیت بھی چونکہ اسلام ہی ہے اس لئے یہ بھی کسی انجمن اور سوسائٹی کا نام نہیں ہے اور عہدوں کا سوال سوسائٹیوں اور انجمنوں میں ہؤا کرتا ہے نہ کہ مذہب میں۔ مذہب کا ہر کام خدا کے لئے ہوتا ہے۔ پس جو خدا کے لئے کام کرتا ہے اُسے اس بات کی کیا پرواہ ہے کہ فلاں انجمن یا سوسائٹی اسے کوئی عزت اور عُہدہ دیتی ہے یانہیں۔ کیا وہ خدا سے ملنے کی کچھ اُمید نہیں رکھتا کہ کسی انجمن یا سوسائٹی سے عُہدہ اور عزت چاہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ اِنْ تُطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْـًٔا١ؕ ۔ اگر تم اﷲ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا کہ تمہیں بندوں سے مانگنے کی ضرورت ہو اور دین کا کام کر کے ان پر احسان جتلاؤ کہ ہماری قدر نہیں کی جاتی، ہماری عزت نہیں کی جاتی، ہمیں عُہدے نہیں دیئے جاتے۔کوئی کہے کہ یہ معنی کہاں سے لئے گئے؟ اس کے متعلق خدا تعالیٰ ساتھ ہی فرماتا ہے کہ يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا١ؕ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ١ۚ ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جو اسلام لا کر تم پر احسان جتلاتے ہیں ان کو کہہ دو کہ مجھ پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ جتلاؤ۔ پس جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر کوئی اسلام لانے کا احسان نہیں جتلا سکتا جو بانیٔ اسلام ہیں تو دوسروں پر کیا جتلا سکتا ہے اور جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو فرماتے ہیں کہ تمہارا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے تو پھر حضرت مسیح موعود ؑ اور ان کے خلیفہ یا کسی انجمن پر کسی کا کیا احسان ہو سکتا ہے؟
اب خدا تعالیٰ رہ جاتا ہے کہ اس پر احسان جتلایا جائے اگر اس پر احسان کیا ہے تو جو کچھ کہنا ہے اسے کہو اور اس سے مانگو نہ کہ انسانوں سے جن پر احسان ہی نہیں کیا۔ تو خدا سے مطالبہ ہو سکتا تھا کہ ہم نے اسلام میں آکر آپ پر احسان کیا ہے پھر کیا وجہ ہے ہمیں عزت نہیں دی گئی اور ہماری قدر نہیں کی جاتی مگر اس کا جواب بھی خدا نے دے دیا ہے کہ تم جو اسلام لانے کا احسان جتلاتے ہو اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ درحقیقت تم اسلام لائے ہی نہیں۔ اگر اسلام نہیں لائے تو پھر تم کوئی مطالبہ ہی نہیں کر سکتے اور محض جھوٹ بولتے ہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اگر یہ بات ہے تو تم بجائے کچھ حاصل کرنے کے مجرم ہو اور سزا کے قابل ہو اور اگر واقع میں ایمان لائے ہو تو بتلاؤ کہ یہ ہمارا تم پر احسان ہے یا تمہارا ہم پر؟ یہ تو ہم نے تم پر احسان کیا کہ تمہیں اسلام لانے کی توفیق بخشی۔ اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم تم سے کچھ مانگیں نہ کہ یہ تمہارا احسان ہے کہ ایمان لائے ہو اور ہم سے مطالبہ کرتے ہو۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جس طرح مشہور ہے کہ ایک شخص سخت دھوپ میں بیٹھا ہؤا تھا کسی نے اسے کہا بھائی! سایہ میں بیٹھ جا۔ وہ کہنے لگا اگر میں سایہ میں بیٹھوں تو کیا دوگے؟ تو فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو اس طرح تمہارا مطالبہ باطل ہو جاتا ہے اور اگر سچّے ہو تو پھر ہمارا تم پر احسان ہے کہ ہم نے تمہیں اسلام کے قبول کرنے کی توفیق دی نہ کہ اُلٹا تمہارا احسان ہے۔
اِس وقت مَیں آپ لوگوں کو جو یہاں بیٹھے ہو اور جو باہرہیں بتلانا چاہتا ہوں کہ یہ بڑے دُکھ اور رونے کا مقام ہے کہ اتنی آسانیوں اور سہولتوں کے باوجود ایمان کی کچھ قدر نہیں کی جاتی حالانکہ اگر کوئی سب سے زیادہ قدر کے قابل چیز ہے تو وہ ایمان ہی ہے لیکن اس کی کچھ قدر نہیں کی جاتی بلکہ اسے ایک حقیر چیز سمجھا جاتا ہے، اسے ایک سودا سمجھا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ہم جو ایمان لائے ہیں اس کا ہمیں کوئی بدلہ اور معاوضہ ملنا چاہئے۔ بعض طبیعتوں میں کچھ خصوصیات ہوتی ہیں۔ میری اپنی طبیعت ایسی ہے کہ مَیں اور بہت سی باتوں کو برداشت کرلیتا ہوں اور بہت سے معاملات میں چشم پوشی سے کام لیتا ہوں مگر کسی کو ایمان کا سودا کرتے ہوئے دیکھ کر بالکل مجبور ہو جاتا ہوں اور مجھے سر سے لے کر پاؤں تک آگ سی لگ جاتی ہے۔ مَیں سخت سے سخت مجرم کو معاف کرنے کے لئے تیار رہتا ہوں اور معاف کرتا ہوں مگر ایسا مجرم اگر معافی بھی مانگتا ہے تو دل نہیں چاہتا کہ اس کی بات بھی سُنوں۔ ایسے کئی لوگ ٹھوکریں کھا کھا کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی معاف کر دیا جائے مگر میرا دل معاف کرنے کی طرف آتا ہی نہیں۔ پس مَیں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں اور دردِ دل سے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو۔ کئی لوگوں میں اپنے ایمانوں کا سودا کرنے کی مرض پائی جاتی ہے اور انہیں ٹھوکریں لگ جاتی ہیں انہیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اگر ایمان کے مقابلہ میں ہر چیز پر لات مارنے کے لئے تیار ہو تو یہ ایمان ہے اور اگر ایسا نہیں تو کوئی ایمان نہیں اور جو مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اﷲ تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتا ہے لیکن وہ یاد رکھے کہ اﷲکبھی دھوکا نہیں کھا سکتا۔
پس جن کے دلوں میں کوئی کمزوری ہو وہ خوب سوچیں، سمجھیں اور دیکھیں کہ اِن کے اندر ایمان ہے یا نہیں؟ اس سے زیادہ دُکھ اور مصیبت اور کوئی نہ ہو گی کہ جس کو انہوں نے ایمان سمجھا ہؤا ہے وہ درحقیقت ایمان نہ ہو۔ دیکھو اگر ایک شخص کپڑے میں لپٹی ہوئی گول لکڑی کو روٹی سمجھ کر اُٹھا لے اور جب جنگل میں جاکر اُسے بھُوک لگے اور کھانے بیٹھے تو اسے معلوم ہو کہ یہ روٹی نہیں بلکہ لکڑی ہے اُس وقت اس کی کیا حالت ہو گی۔ وہ تو پھر بھی گرتا پڑتا گھر کی طرف لوٹ سکتا ہے مگر مرنے کے بعد کوئی انسان واپس نہیں آسکتا۔ پس اگر تم نے ایک چیز کو ایمان سمجھا ہؤا ہے حالانکہ وہ ایمان نہیں ہے تو خوب یاد رکھو کہ خدا کے سامنے جاکر تم واپس نہیں لوٹ سکو گے اس لئے ابھی سے اپنے ایمانوں کی فکر کرو۔ خدا تعالیٰ تمہیں اس کی توفیق دے۔ ’’ (الفضل 29جنوری 1918ء)
1 الحجرات: 15تا 19
2 بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان









3
استخارہ کیا ہے؟
(فرمودہ18 جنوری1918ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مجھے یہ بات معلوم کر کے بہت تعجب ہؤا کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ استخارہ کیا ہوتا ہے حالانکہ استخارہ اسلام کے اعلیٰ رُکنوں میں سے ایک رُکن ہے اور اتنا بڑا رُکن ہے کہ ہر ایک مسلمان کے لئے فرض کیا گیا ہے اور بغیر اس کے اس کی عبادت مکمل ہی نہیں ہوسکتی کہ ایک دن رات میں پانچ وقت اور ہر ایک رکعت میں ایک بار استخارہ نہ کرے۔ تو یہ ایک ایسا ضروری اور لازمی رُکن ہے کہ اسلام نے اس کے لئے ایک دن رات میں پانچ اوقات مقرر کئے ہیں اور ہر وقت میں جتنی رکعت پڑھی جاتی ہیں اتنی ہی بار استخارہ کیا جاتا ہے۔ پھر سُنن اور نوافل میں بھی استخارہ ہوتا ہے۔ پس جب یہ ایسا ضروری اور اہم ہے تو اس سے ناواقفیت نہایت تعجب اور افسوس کا مقام ہے۔ استخارہ کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرنا اور اﷲ تعالیٰ سے یہ چاہنا کہ وہ کام جو مَیں کرنے لگا ہوں اس کے کرنے کا سیدھا اور محفوظ رستہ دکھایا جائے۔ سورۃ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اس میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہاَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِۙ۔مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ۔اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُؕ۔اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ۔صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ١ۙ۬ۦغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَؒ۔ 1
پہلے اﷲ تعالیٰ کی تعریف کی جاتی ہے پھر تعریف کے بعد اپنی عبودیت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے بعد انسان اﷲ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اے میرے خدا! جس طرح تو اپنے خاص بندوں کی راہنمائی کیا کرتا ہے اسی طرح میری راہنمائی فرما اور اس راہ پر چلنے سے مجھے بچا جس پر وہ لوگ چلے جو کہ ایک وقت تک تو تیرے حکم کے ماتحت رہے لیکن پھر انہوں نے اس راہ کو چھوڑ دیا۔ یہ ہے سورہ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس کے پڑھنے کے بغیر نماز ہی نہیں ہو سکتی۔2 یہی استخارہ ہے صرف نام کا فرق ہے۔ اسی کو سورۃ فاتحہ کہا جاتا ہے اور دوسرے وقت اسی کا نام استخارہ رکھا جاتا ہے۔ استخارہ کے معنی خیر مانگنا ہے اور اس خیر مانگنے کا طریق سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے اس لئے استخارہ کرنا اور سورۃ فاتحہ پڑھنا ایک ہی ہے۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھتے وقت ہر ایک بات، ہر ایک معاملہ اور ہر ایک کام کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے مگر استخارہ کرتے وقت کسی خاص معاملہ کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے۔
تو اسلام نے سب عبادتوں کی جڑ استخارہ ہی کو مقرر کیا ہے۔ خدا کی تعریف بیان کرکے اپنی عبودیت کا اظہار کرنا کیا ہوتا ہے یہی کہ انسان خدا تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار ہو جائے اور وہی کام کرے جو خدا اسے بتائے اور جو خدا کی منشاء کے ماتحت ہو۔ سورہ فاتحہ میں یہی بتایا گیا ہے کہ خدا سے پوچھو کہ فلاں کام ہم کس طرح کریں۔ اگرچہ کرنے والے کاموں کے متعلق شریعت نے احکام بتا دیئے ہیں لیکن وہ عام طور پر ہیں اور عام باتیں خاص لوگوں کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ ان کو خاص طور پر بتائی جاتی ہیں۔ انہیں کے دریافت کرنے کے لئے سورہ فاتحہ میں درخواست کی جاتی ہے اور انسان خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ مَیں اپنے متعلق خود کوئی راستہ اختیار نہیں کرتا جو آپ بتائیں گے اسی پر چلوں گا۔ یہی استخارہ ہوتا ہے جو ہررکعت میں کیا جاتا ہے۔
بعض لوگوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ جب کسی امر کے متعلق استخارہ کیا جائے تو ضرور ہے کہ اس کے بارے میں خدا کی طرف سے انہیں آواز کے ذریعہ بتایا جائے کہ کرو یا نہ کرو لیکن کیا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد انہیں کوئی آواز آیا کرتی ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس میں برکت ڈالی جاتی ہے اور جو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں ان سے روکا جاتا ہے۔ یہی بات استخارہ میں ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ سے دُعا کی جاتی ہے کہ اگر فلاں کام میرے لئے مفید اور فائدہ بخش ہے تو اس کے کرنے کی توفیق دے اور اگر نہیں تو اس سے مجھے باز رکھ لے۔ مَیں نہیں جانتا کہ اس کے متعلق تیری کیا مرضی ہے ممکن ہے مَیں اسے تیری رضا کے ماتحت سمجھوں اور ہو اس کے خلاف۔ اس لئے میں تیری رضا کے آگے اپنے آپ کو ڈال دیتا ہوں۔ جس طرح تیری مرضی ہے اس کے مطابق مجھے چلا۔ یہ استخارہ ہوتا ہے۔ اس پر خداتعالیٰ کبھی بتا بھی دیتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ بتائے کیونکہ خداتعالیٰ انسانوں کے ماتحت نہیں بلکہ آقا ہے اور آقا کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ نوکر کو ہرایک کام کے متعلق کہے تب وہ کرے ورنہ نہ کرے۔ اکثر اوقات آقا کی خاموشی ہی حکم ہوتا ہے۔ تو استخارہ کے لئے کسی خواب یا الہام کے آنے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن کئی لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں خوابیں آئیں حالانکہ ایسی خوابیں جو خواہش پر آئیں کسی مصرف کی نہیں ہوتیں۔ دیکھو اگر ایک شخص اپنے دوست کی ملاقات کے لئے جائے گا تو اس کا دوست مقدور بھر اسے اچھی خوراک کھلائے گا اور اس کی خاطر تواضع کرے گا لیکن اگر وہ ملاقات کی نیّت سے نہ جائے کہ آپس میں پیار اور محبت کے تعلقات مضبوط ہوں بلکہ اس خیال سے جائے کہ وہاں مجھے اچھا کھانا ملے گا تو وہ ایک بیہودہ اور لغو انسان ہو گا کیونکہ اگر وہ ملنے کی نیّت سے جاتا تب بھی اسے اچھا کھانا مل جاتا اور اب جبکہ صرف کھانے کی خاطر آیا ہے تب بھی مل گیا ہے لیکن یہ کھانا ا س کے لئے کسی فخر کا باعث نہیں بلکہ ذلّت کا موجب ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو اس لئے استخارہ کرتا ہے کہ مجھے خوابیں آئیں وہ ایک بیہودہ حرکت کرتا ہے اور ایسی خوابیں اُس کے لئے کچھ بھی مفید نہیں ہوں گی۔ پھر اگر استخارہ کرنے پہ خوابوں کا آنا ضروری ہے تو چاہئے کہ انسان کو ہر رات خوابیں ہی آتی رہیں۔ ہر بات کے متعلق اسے اسی طرح آگاہ کیا جایا کرے کیونکہ ہر روز نمازوں میں کئی کئی بار وہ استخارہ کرتا ہے لیکن استخارہ کے لئے خوابوں کا آنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ یہ تو دُعا ہے۔ اس کے کرنے کے بعد جو خدا دل میں ڈالے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اگرخداتعالیٰ اس کام کے متعلق انشراح کر دے تو کر لیا جائے اور اگر قبض پیدا ہو تو نہ کیا جائے۔'' (الفضل 5فروری1918ء)
1 الفاتحۃ :2تا 7
2 بخاری کتاب الاذان باب وجوب القِرَاءَ ۃلِلْاِمَامِ و المأموم فی الصَّلَوات کُلّھا(الخ)


4
کامیابی کے لئے انتظام اور اتحاد کی ضرورت
(فرمودہ 25 جنوری 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''انسانی کوششیں اورمحنتیں ایک حد تک بہت سے عظیم الشان نتائج پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے اس کی کوششوں کو ترقیات کا اعلیٰ ذریعہ بنایا ہے مگر یہ ترقی اور کامیابی اُس وقت بہت بڑھ جاتی ہے جبکہ کسی انتظام کے ماتحت ہو۔ ایک کام اگر بدانتظامی سے ہو تو اس کے اور نتائج نکلتے ہیں لیکن وہی کام اگر انتظام کے ماتحت ہو تو بہت عالیشان نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ پس جہاں انسانوں کے مدنظر یہ بات ہوتی ہے کہ کسی کام کے لئے محنت اور کوشش کریں وہاں یہ بھی ہونا چاہئے کہ وہ کام ایک انتظام کے ماتحت ہو۔ مسلمانوں کو جس قدر نقصان پہنچے اور ان پر جتنی تباہیاں آئی ہیں ان کے اگر اکثر حصہ کو دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کی وجہ دنیاوی سامانوں میں انتظام کی کمی ہی ہے لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ جس کا خدا تعالیٰ نے شریعت کے ماتحت ایسا انتظام کیا تھا کہ جس کی نظیر اور کسی شریعت میں نہیں ملتی اس کی تباہی اور بربادی بد انتظامی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ شریعتِ موسوی میں یا ہندوؤں، عیسائیوں، زرتشتیوں وغیرہ میں شریعت کے ماتحت خاص الہام سے کوئی انتظام اور سلسلہ قائم نہیں کیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان میں بھی انتظام کئے تھے مگرایسا انتظام کہ جو خاص حکم اور وعدہ کے ماتحت ہؤا ہو وہ نہیں۔ مگر باوجود اس کے ان میں ایک انتظام رہا اور اس سے اُنہوں نے بڑے بڑے فوائد حاصل کئے۔ اپنی کمزوریوں اور تباہیوں کے وقت بھی اس سے فائدہ اُٹھاتے رہے مگر مسلمان جن کو قرآن میں حکم دیا گیا تھا کہ ایک انتظام کے ماتحت رہیں اور خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ اور سورہ نور میں وعدہ فرمایا تھا کہ اسی انتظام کے ماتحت تمہیں ترقی اور کامیابی حاصل ہو گی وہی سب سے زیادہ انتظام کے توڑنے والے ہوئے ہیں جس کا جو کچھ نتیجہ ان کے حق میں نکلا وہ دُنیا جانتی ہے۔ دشمنوں نے پراگندہ کرکے تباہ و برباد، مغلوب و مقہور کر دیا مگر پھر بھی انہیں ہوش نہ آئی اور اپنی بربادی سے آگاہ نہ ہوئے۔ یورپ میں ایک دفعہ مذہبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہؤا تھا اور سارا یورپ اس بات کے لئے تیار ہو گیا تھا کہ اسلام کو صفحۂ دُنیا سے مٹا دے۔ اس کے لئے یورپ کے بڑے پوپ نے ایک اعلان عام کیا کہ لڑنے کی طاقت رکھنے والوں کا فرض ہے کہ مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں اور جو لڑ نہیں سکتے ان کا فرض ہے کہ لڑنے والوں کی ہر طرح سے مدد کریں۔ اس پر بڑے بڑے نوابوں اور امیروں نے اپنی جائدادیں فروخت کر کے مدد دی، خود لڑنے لگے اور یہاں تک کہ چونکہ انجیل میں آتا ہے کہ بچے خدا کی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں۔1 کیونکہ وہ بے گناہ ہوتے ہیں اس لئے اُنہوں نے کئی ہزار نابالغ بچے لڑائی میں بھیج دیئے کہ قُربان ہو جائیں۔ اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ اپنے ارادہ کو کتنی بڑی بڑی قُربانیاں کر کے پورا کرنا چاہتے تھے اور اس پر کیسے قائم اور مستحکم تھے۔ انہیں کامیابی تو کیا ہونی تھی مگر ان کا یہ فعل دلالت کرتا ہے کہ اُنہوں نے ہر ایک وہ تدبیر جو کامیابی کے لئے ان کے خیال میں آسکتی تھی اس پرعمل کیا اور تمام فرقے جو آپس میں سخت عداوت اور دشمنی رکھتے تھے اور لڑتے جھگڑتے رہتے تھے ایک ہو کر مسلمانوں کو مٹانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے لیکن اُس وقت مسلمانوں میں جن کو حکم تھا کہ ایک انتظام کے ماتحت رہیں وہ ایک ایسی قوم کے مقابلہ میں جس نے اپنا انتظام اپنے طور پر بنایا ہؤا تھا اور جو مکّہ مدینہ اور بیت المقدس کو تباہ و برباد کرنے کے لئے حملہ آور ہو رہی تھی مسلمانوں میں ایک سے زیادہ مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ مسلمان بادشاہوں نے عیسائیوں کو خطوط لکھے کہ ہم تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہیں اگر چاہو تو ہم اپنا لشکر لے کر آجائیں۔ پھر انہوں نے خفیہ سامان اور مال بھیجے۔ مسلمانوں کے خلاف جہاں تک ہو سکتا تھا ریشہ دوانیاں کیں۔ اﷲ تعالیٰ نے عیسائیوں کے اس حملہ کو روک دیا جو اُنہوں نے ایسے مذہبی جوش کی وجہ سے کیا تھا جس سے ان میں عدل و انصاف مِٹ چکا تھا۔ رحم اور خدا ترسی سے خالی ہو چکے تھے جب کوئی علاقہ فتح کرتے تو اس میں رہنے والی عورتوں اور بچوں تک کو جلا دیتے اور ہر ایک قسم کے مظالم کرتے تھے۔ مگر باوجود اس کے کئی مسلمان اس بات کے لئے تیار تھے کہ ان کی مدد کریں اور مسلمان مقابلہ کرنے والوں کو تباہ وبرباد کرنے میں حصہ لیں۔ اس وقت اﷲتعالیٰ نے اپنی خاص نصرت اور تائید سے عیسائی حملہ آوروں کو اپنے ارادہ میں ناکام رکھا مگر مسلمانوں کی طاقت جو دن بدن بڑھتی جارہی تھی نہ صرف رُک گئی بلکہ پاش پاش ہو گئی۔ عیسائیوں کو تو اس لئے ناکامی ہوئی کہ اُنہوں نے اسلام کو مٹانے کا ارادہ کیا تھا مگر مسلمان چونکہ اپنی شامتِ اعمال سے اس قابل نہ رہے تھے کہ آگے ترقی کرتے اس لئے خداتعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا کہ جاؤ تباہ و برباد ہو۔ یا تو وہ آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے یا گھٹتے گھٹتے تباہ ہو گئے اور اب کیسا اُلٹا زمانہ آیا کہ ایک تو وہ وقت تھا کہ مسلمان دُنیاجہان کے لوگوں کو سبق دیتے پھرتے تھے، اُنہیں علوم سکھاتے تھے، تہذیب پھیلاتے تھے لیکن اب یہ حال ہے کہ ہر بات میں دوسروں کے محتاج ہیں۔ دوسروں کو علم سکھانا تو الگ رہا خود ہی سب کچھ بھلا چکے ہیں ہر طرح کی ذلّت اور نکبت ان پر چھائی ہوئی ہے۔ عام لوگوں کو تو جانے دو ان کی جو حکومتیں ہیں ان کی حالت دیکھو۔ ایران کی حکومت جس کا ایک زمانہ میں دُنیا میں ڈنکا بج چکا ہے اُس نے ایک دفعہ پندرہ لاکھ روپیہ ایک دوسری حکومت سے قرض مانگا تو اُسے کہا گیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ روپیہ ادا کر دیا جائے گا۔ حالانکہ ہندوستان کے شہروں میں کئی ایسے سوداگر ہیں کہ اگر وہ کروڑ روپیہ بھی قرض لینا چاہیں تو آسانی سے لے سکتے ہیں لیکن ایک حکومت کو پندرہ لاکھ روپیہ بھی قرض نہیں مل سکتا۔ یہ انجام ہے بدانتظامی کا۔
ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ نے اتحاد اور اتفاق قائم کیا ہے اور پھر اس ترقی کی اُمید دلائی ہے جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھا ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ ہماری جماعت کے ذریعہ اسلام دُنیا میں پھیلائے لیکن بجائے اس کے کہ حملہ آوروں کو تلوار سے روکا اور اپنے آگے جھکایا جائے اب منشاء الٰہی یہ ہے کہ دلائل اور براہین کے ساتھ مقابلہ کیا جائے اور اسی طرح اسلام ترقی کرے مگر باوجود اس کے کہ اس زمانہ میں مقابلہ کا رنگ بدل گیا ہے اور تلوار کی بجائے براہین سے شوکتِ اسلام ظاہر ہوگی۔2 وہ بات اسی طرح قائم ہے کہ تمام کامیابیاں اسی وقت حاصل ہو سکیں گی جبکہ ہم ایک انتظام کے ماتحت ہر ایک قُربانی کرنے کے لئے تیار رہیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ ہر ایک قُربانی خدا کے فضل سے کرنے کی توفیق ملتی ہے مگر خدا کا فضل جذب کرنے کے لئے بھی کچھ سامان ہوتے ہیں اس لئے ان کا مہیا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور وہ اتحاد و اتفاق اور ایک انتظام کے ماتحت کام کرنا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بات بڑی حد تک ہماری جماعت میں پائی جاتی ہے مگر ہم اس کو کافی نہیں کہہ سکتے۔ ابھی اس کی بہت ضرورت ہے۔ آپ لوگوں کو یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ جس جماعت میں اتفاق اور اتحاد نہیں ہوتا اس کی تمام کوششیں خدا کے دین کی ترقی کے لئے صرف نہیں ہوتیں وہ خدا کے انعام کی مستحق نہیں ہو سکتی۔ بے شک ترقی کرنے کے اور بھی ذرائع ہیں مگر وہ دنیاوی ہیں لیکن خدا کی راہ میں ترقی وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ایسے اعمال کریں جو خدا کے فضل کو جذب کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ہمارے پاس دنیاوی سامان تو ہیں نہیں اِس لئے جب تک ہم خدا کا خاص فضل جذب کرنے والے اعمال نہ کریں اس وقت تک ترقی کس طرح کر سکتے ہیں۔ پس اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہر جگہ کے لوگ آپس میں خاص طور پر اتحاد و اتفاق کر کے دکھلائیں۔ بعض اوقات بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہو جاتی ہے۔ نااتفاقی اور تفرقہ کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے، نمازیں الگ پڑھنی شروع کر دی جاتی ہیں، معاملات میں قطع تعلق کر لیا جاتا ہے حالانکہ تفرقہ اور نااتفاقی کی اگر وجہ کو دیکھا جائے تو بہت معمولی اور ردّی ہوتی ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ افراد کی لڑائیاں اور نااتفاقیاں ہیں حالانکہ افراد سے جماعت بنتی ہے اور جب افراد میں لڑائی ہوئی تو جماعت میں ہی ہوئی۔ تو مَیں دیکھتا ہوں کہ ہر ایک مقام پر وہ اتفاق اور اتحاد ابھی پیدا نہیں ہؤا جو خدا کے خاص فضل حاصل کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں سے بہت زیادہ اتفاق اور اتحاد ہوتا ہے جن سے لوگ نکل کر ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں مگر اتنا کافی نہیں ہو سکتا۔ اس سے بہت زیادہ کی ضرورت ہے اورہمارے لئے یہ خوشی کی بات نہیں ہے کہ دوسروں سے زیادہ ہم میں اتفاق ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا جتنے اتفاق کی ہم کو ضرورت ہے وہ ہے یا نہیں؟ اگر اتنا نہیں تو پھر اس فائدہ کے حاصل ہونے کا موجب نہیں ہو سکتا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوںکو چاہئے کہ اس اتحاد کے پیدا کرنے کے لئے خاص قربانی کرنا سیکھیں اور نااتفاقی کے خیالات کو ترک کرنا اختیار کریں تاکہ خدا کے فضل حاصل ہوں۔ اگر کسی وجہ سے جماعت کے اتحاد اور اتفاق میں فرق آنے کا خوف ہو تو چاہئے کہ اپنے ذاتی اغراض او رفوائد کو قربان کر دیا جائے کیونکہ جماعت کی تباہی لوگوں کی اپنی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوتی ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مکان کے اندر کھڑا ہو کر اپنے سر پر ہاتھ رکھ لے اور چھت کو اس لئے گرانا شروع کر دے کہ مَیں تو بچ جاؤں گا اور دوسرے ہلاک ہو جائیں گے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو وہ نادان اور بیوقوف ہو گا کیونکہ اگر چھت گری تو وہ خود بھی ہلاک ہو جائے گا۔ یہی حال جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرنے کا ہوتا ہے کہ فساد پیدا کرنے والا خود بھی ہلاک اور تباہ ہو جاتا ہے۔ اﷲتعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کو یہ سمجھنے کی توفیق دے کہ جماعت کی تباہی ان کی اپنی تباہی ہو گی اور وہ اس بات کے لئے تیار ہو جائیں کہ اپنے ذاتی فوائد کو جماعت کے اغراض کے مقابلہ میں قربان کرنے میں ذرا پس و پیش نہ کریں خواہ کتنے بڑے کیوں نہ ہوں کیونکہ عدل اور انصاف اور ان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ جماعت کے فوائد کے مقابلہ میں ذاتی فوائد کو قربان کردیں۔’’
(الفضل9فروری1918ء)
1 متی باب 19آیت 14برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن 1887ء (مفہوماً)
2 گورنمنٹ انگریزی اور جہاد صفحہ 15۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 15 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

5
صحیح طریق سے کوشش کرنے پر کامیابی حاصل ہوتی ہے
(فرمودہ یکم فروری 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْۤا اُولِي الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ الْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا١ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌرَّحِيْمٌ۔1
اور فرمایا:-
''مَیں آج بوجہ بیماری اور علالت کے کچھ زیادہ نہیں بیان کر سکوں گا مگر مختصر الفاظ میں ایک نہایت اہم اور ضروری امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔
دُنیا میں اکثر ناکامیاں اور بہت سی نامرادیاں اس وجہ سے نہیں ہوتیں کہ لوگ اپنے مقصد اور مدعا کے حاصل کرنے کی کوشش اور سعی نہیں کرتے بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ اکثر لوگ ان طریقوں اور سامانوں سے واقف نہیں ہوتے جن کے ذریعہ اس کام میں کہ جس کے پیچھے وہ لگتے ہیں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ پس چونکہ وہ ان قواعد سے واقف نہیں ہوتے جن کے نتیجہ میں کامیابی ہوتی ہے اور ان سامانوں سے آگاہ نہیں ہوتے جن کے مہیا کرنے کے بعد مراد کا منہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے اس لئے ان کی کوشش اور سعی بے سود رہتی ہے کیونکہ جب تک انسان ان ذرائع کو استعمال نہ کرے جو کامیابی کے لئے مقرر ہیں اس وقت تک وہ خواہ کتنی ہی کوشش کرے مراد حاصل نہیں کر سکتا۔
مثلاً ایک شحص پیاسا ہے اور اُسے پانی کی ضرورت ہے۔ اب یہ نہیں ہو گا کہ ایک خاص حد تک کوشش کرنے سے اسے پانی مل جائے گا۔ گو پانی اس کے پاس ہی موجود ہو اور اس تک اس کا ہاتھ بھی پہنچ سکتا ہو لیکن اگر وہ اس طریق سے پانی کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے گا جس سے وہ حاصل ہو سکتا ہے تو خواہ اس کوشش سے ہزار درجہ بھی زیادہ محنت اور مشقت اپنے اوپر ڈال لے پانی حاصل نہیں کر سکے گا۔ مثلاً ایک شخص کے پاس ہی پانی کا بھرا ہؤا گھڑا موجود ہو اس کے لئے پانی حاصل کرنے کا صحیح طریق تو یہ ہے کہ گھڑے کے پاس جاکر اسے اُلٹائے اور خواہ برتن میں خواہ چُلّو میں پانی لے لیکن اگر وہ اس گھڑے کے پاس نہیں جاتا اور اس سے ایک گز دُور بیٹھ کر ہاتھ جوڑتا اور بڑی عاجزی اور فروتنی سے کہتا ہے اے پانی! میرے منہ میں آجا اور اس کے لئے روتا چِلّاتا اور بڑی آہ و زاری کرتا ہے اور وہ بھی ایک دن نہیں، دو دن نہیں بلکہ متواتر کئی دن۔ اس طرح اُسے اس شخص کی نسبت جس نے گھڑا اُلٹاکر پانی لے لیا ہو تکلیف تو بہت اُٹھانی پڑے گی لیکن کیا اس کو پانی حاصل ہو جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ اس نے پانی حاصل کرنے کے لئے وہ طریق اختیار کیا ہے جو غلط ہے اور اس کے زیادہ تکلیف اور مشقّت اُٹھانے اور زیادہ وقت خرچ کرنے سے پانی نہیں مل جائے گا۔ پانی اس کو ملے گا جس نے گھڑے کو اُلٹا کر اس سے پانی نکالا ہو گا۔ اُس کی پیاس بُجھ جائے گی مگر اس کی اور زیادہ ہو گی کیونکہ ہر ایک وہ کام جس سے انسان کے جسم سے رطوبت خارج ہوتی ہے پیاس بڑھانے والا ہوتا ہے اور چونکہ رونے سے بھی رطوبت خارج ہوتی ہے اس لئے پیاس بڑھتی ہے۔ تو کامیابی ایک حد تک مصیبت اور مُشکل اُٹھانے کا نام نہیں بلکہ ان ذرائع کے استعمال کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے جو خدا نے کسی کام کے لئے مقرر کئے ہوتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر خواہ کوئی کتنی محنت اور مشقت اپنے اُوپر رکھ لے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مذاہب یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک ہی مذہب ایسا ہو سکتا ہے جس پر چل کر اصل مقصد اور مدعا حاصل ہو سکتا ہے۔ اِسی لئے ہر ایک مذہب والے کہتے ہیں کہ ہمارا ہی مذہب سچّا ہے اور باقی سب جھوٹے ۔ گو بعض مذہب والوں نے اس کو وسیع کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اور مذاہب کے ذریعہ بھی خدا تک انسان پہنچ سکتا ہے لیکن جب ان سے گفتگو کی جائے تو وہ بھی یہی ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ دراصل ایک ہی مذہب ایسا ہو سکتا ہے جس پر چل کر انسان کو کامیابی نصیب ہو سکتی ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک مذہب والا جو اپنے مذہب کے احکام کے مطابق کام کر رہا ہے کیا وجہ ہے کہ اسے نجات نہ ملے؟ ان کے اس خیال کا اگر ازالہ ہو سکتا ہے تو اسی بات سے کہ کسی کام میں کامیابی محض محنت اور مشقّت برداشت کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے صحیح اور درست طریق کو اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ دیکھو ایک شخص مدرسہ میں جاتا ہے اور علم حاصل کر لیتا ہے اور ایک دوسرا شخص جنگل میں جاکر لکڑیاں کاٹتا ہے تو کیا وہ اس وجہ سے کہ مدرسہ جانے والے سے زیادہ محنت اور تکلیف برداشت کرتا ہے علم حاصل کر لے گا؟ نہیں بلکہ علم وہی حاصل کرے گا جو اس طریق پر عمل کرے گا جو علم کے حاصل کرنے کے لئے مقرر ہے۔ تو اس طرح ہر ایک مذہب والے کو یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ تمام مذاہب میں سے ایک ہی مذہب سچّا ہو سکتا ہے، سارے کے سارے نہیں۔ کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مختلف طریق پر محنت مشقت کرنے والوں کو ایک ہی نتیجہ حاصل ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو قانونِ قدرت میں بھی اس کی کوئی مثال پائی جاتی کہ ایک شخص جو لکڑیاں کاٹتا رہتا ہے وہ صرف علم کی خواہش رکھنے کی وجہ سے عالم بن جاتا ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہؤا اور نہ ہو سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہؤا کہ خدا کا قانون یہ نہیں ہے کہ ہر محنت و مشقت ایک ہی نتیجہ پیدا کرے اور اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کسی مقصد اور مدعا میں اُسی وقت کامیابی ہو سکتی ہے جبکہ صحیح اور دُرست طریق پر عمل کیا جائے۔
پس ہر ایک کام جس میں کامیابی حاصل کرنی ہو اس کے لئے یہی ضروری نہیں کہ اس کے لئے محنت کریں، راتوں کو جاگیں، جسموں کو تھکادیں، ارادوں کو قُربان کر دیں، مالوں کو خرچ کر دیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ان صحیح ذرائع کو استعمال کریں جو خدا نے اس کے لئے مقرر کئے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب سے دُنیا کا سلسلہ شروع ہؤا ہے اس وقت سے مذہب بدلے اور بدلتے چلے آرہے ہیں اور اسلام سب سے آخری مذہب ہے مگر جس طرح کسی وقت یہ نہیں بدلا کہ خدا ایک ہے اِسی طرح شروع سے یہ بات چلی آئی ہے اور کبھی نہیں بدلی کہ کسی کام میں انہیں ذرائع سے کامیابی ہو سکتی ہے جو اس کے لئے خدا نے مقرر کئے ہوں اِن کے علاوہ کبھی نہیں۔ خواہ کتنی ہی محنت و مشقت کیوں نہ برداشت کر لی جائے صحیح ذرائع سے تھوڑی سی محنت کر کے انسان کامیاب ہو سکتا ہے مگر غلط طریق سے اس سے ہزار گُنا محنت کر کے بھی کچھ نہیں حاصل کر سکتا۔ مثلاً علم حاصل کرنے کے جو طریق ہیں ان پر عمل کرے تو علم حاصل کر لے گا لیکن اس کی بجائے اگر وہ اپنے تمام عزیزوں اور رشتہ داروں کو قتل کر دے، چھت سے اُلٹا لٹکا رہے، بھُوکا پیاسا بیٹھا رہے اور پھر کہے اﷲ منصف نہیں کیونکہ فلاں تو صرف مدرسے جاتا اور کتابیں پڑھتا رہتا ہے اسے علم دے دیا ہے اور مَیں جس نے اتنی قربانیاں کیں، اتنی تکلیفیں اُٹھائیں مجھے تو ایک لفظ بھی حاصل نہیں ہؤا۔ کیا اس کی یہ بات درست ہو گی؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ ظالم نہیں لیکن چونکہ اس نے ان ذرائع پر عمل نہیں کیا جو خدا نے اس کام کے لئے مقرر کئے ہیں اس لئے کامیاب نہیں ہو سکا۔
بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صحیح طریق پر تو عمل نہیں کرتے۔ ہاں بڑی محنت اور مشقّت کو کامیابی کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں اور اس طرح باوجود بہت زیادہ محنت اور مشقّت برداشت کرنے کے ناکام اور نامراد رہتے ہیں۔
اس وقت میرا اس لمبی تمہید کے بیان کرنے سے ایک خاص منشاء ہے اور وہ یہ کہ ہم لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ اسلام ہے جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم لائے اور ہم خواہش رکھتے ہیں کہ اس ایمان کو حاصل کریں جو حقیقی ایمان ہے۔ یہ ہم میں سے ہرایک کی خواہش ہے اور ہر ایک اس کے لئے مقدور بھر محنت اور کوشش بھی کرتا ہے۔ مگر مَیں نے بتایا ہے کہ کوئی کام صرف محنت اور کوشش سے نہیں ہؤا کرتا بلکہ اس کا نتیجہ حسبِ منشاء اُسی وقت نکل سکتا ہے جبکہ اس کے لئے صحیح ذرائع سے محنت کی جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو محنت و مشقّت خواہ کتنی برداشت کر لی جائے کچھ فائدہ اور نفع نہیں ہو سکتا۔ پس آپ لوگوں کا جہاں یہ خیال ہے کہ اسلام اور ایمان کے لئے خواہ کوئی قُربانی کرنی پڑے اس سے دریغ نہیں ہے اور خدا کے لئے ہر ایک محبوب اور مرغوب چیز کے چھوڑنے کے لئے تیار ہو وہاں اس چھوڑنے کا عمل ان ذرائع سے ہونا چاہئے جو خدا نے مقرر کئے ہیں۔ بہت لوگوں کو دیکھا گیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ خدا سے انہیں ایسا مضبوط تعلق ہو جائے کہ جسے کوئی چیز نہ کاٹ سکے اور ان کے جسم کے ذرّے ذرّے میں خدا کی محبت اور اُلفت بھری ہوئی ہو لیکن باوجود اس خواہش کے کہ بہت ہیں جو بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں مگر وہ مُدعا حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی کوشش اور سعی اس طریق پر نہیں ہو رہی کہ کامیابی حاصل ہو سکے کیونکہ اﷲتعالیٰ ظالم نہیں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان کو اس سے تعلق پیدا کرنے کی سچی خواہش بھی ہو اور وہ صحیح ذرائع سے اس کے لئے کوشش بھی کرتا ہو مگر کامیاب نہ ہو۔ بعض باتوں میں ایسا ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کام کے لئے خدا نے سب کو پیدا نہیں کیا ہوتا مثلاً ایک شخص پہلوان ہے اُس کا جسم خوب مضبوط اور طاقتور ہے اور ایک اَور ہے جس کے جسم کی بناوٹ کمزور ہے۔ اب یہ خواہ کتنی ورزشیں کرے، خوراکیں کھائے، جسم کے فربہ ہونے کے قواعد کی پابندی کرے، اس سے کچھ تو اس کا جسم مضبوط ہو جائے گا مگر یہ نہیں ہو گا کہ پہلوان ہو جائے کیونکہ سب انسان پہلوان بننے کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔ ہاں سب انسان ایماندار بننے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کو ایماندار بننے کی خواہش بھی ہو اور وہ اس کے لئے کوشش بھی کرتا ہو اور وہ کوشش صحیح طور پر بھی ہو مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اگر ایسا ہو تو پھر خدا ظالم ٹھہرتا ہے کیونکہ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ انسانوں میں عرفان حاصل کرنے کا مادہ ہی نہیں ہے لیکن ایمان کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ تمام انسان خواہ وہ کہیں کے رہنے والے ہوں، کوئی زبان بولنے والے ہوں، کسی مذہب کے پابند ہوں ان میں ایمان اور ایقان حاصل کرنے کی قوت رکھی گئی ہے کیونکہ اسی لئے خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ پس اگر خواہش اور کوشش کے باوجود نتیجہ نہیں نکلتا تو یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ اس کے لئے وہ ذرائع استعمال نہیں کئے گئے جو صحیح ہیں اور جن کا یہ حال ہو ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کی کوششیں ضائع اور محنتیں اکارت گئیں کیونکہ انہوں نے ان طریق پر عمل نہیں کیا جو خدا نے مقرر کئے ہیں۔
ایمان اور ایقان کے حاصل کرنے کے طریق دو قسم کے ہوتے ہیں مثلاً علم پڑھنے میں ظاہری سامان تو یہ ہیں کہ انسان مدرسہ جاتا رہے، کتابیں اس کے پاس ہوں، یہ تو اس کے اختیار میں ہے لیکن یہ اختیار میں نہیں کہ ہر ایک وہ بات جو اُسے بتائی جائے وہ اس کی سمجھ میں بھی آجائے۔ یہ مدرسہ جانے کا نتیجہ تو ہے لیکن اس کے اختیار کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح حصولِ ایمان کے لئے دو قسم کی باتیں ہیں۔ ایک وہ جن پر انسان کو اختیار ہے اور جن کے لئے وہ اپنے نفس کو مجبور کر سکتا ہے اور دوسری وہ جن پر اسے کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی نفس کو ان کے لئے مجبور کر سکتا ہے۔ ہاں وہ پہلی قسم کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں تو گویا یوں کہنا چاہئے کہ حصول ایمان کے لئے وہ ذرائع ہیں جن میں سے ایک کے لئے تو انسان بِلا واسطہ مجبور ہے اور دوسرے کے لئے بِالواسطہ۔ پس ایمان کے لئے عرفان کی ضرورت ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص بِلاواسطہ نفس پر زور دے کر پیدا کر لے بلکہ یہ ان ظاہری اسباب پر عمل کرنے کا نتیجہ ہو گا جو انسان کے اختیار میں ہیں یعنی وہ کام جن کے کرنے کا اُسے حکم دیا گیا ہے ان کو عمل میں لائے اور جن سے روکا گیا ہے ان سے باز رہے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس صورت میں لازمی نتیجہ عرفان پیدا ہو گا اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو اِس کے بغیر ایمان نصیب نہیں ہو سکے گا۔ تو عرفان پیدا کرنے کا انسان کو حکم ہے مگر اس کے لئے وہ اپنے نفس کو مجبور نہیں کر سکتا۔ ہاں جن اسباب سے وہ پیدا ہوتا ہے ان کے لئے مجبور کر سکتا ہے۔
کئی لوگ ان اسباب کو کام میں لائے بغیر عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ناکام رہتے ہیں۔ بعض صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں خدا سے محبت ہے اِس لئے عرفان حاصل ہو جانا چاہئے حالانکہ محض محبت کا اقرار کرنے سے عرفان حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ محبت کے ظہور کی بھی ضرورت ہے۔ تو بعض لوگ اس لئے کامیاب نہیں ہوتے کہ غلط طریق اختیار کرتے ہیں اور صحیح کو چھوڑ دیتے ہیں اور بعض اس لئے کہ تمام طریقوں پر عمل نہیں کرتے بعض پر کرتے ہیں اس لئے ان کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک شخص مکان تعمیر کرنے کے لئے دو دیواروں کو تو پچاس پچاس فٹ بلند کر دے اور باقی دو کو بالکل چھوڑ دے۔ اس کا مکان کبھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔ ہاں وہ شخص جو چاروں دیواروں کو دس دس فٹ بلند کر لیتا ہے اس کا مکان مکمل ہو جائے گا۔ تو بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں اور صحیح ذرائع ہوتے ہیں مگر چونکہ سارے نہیں ہوتے اس لئے جس طرح بعض دیواروں کے بلند کر لینے سے مکان مکمل نہیں ہو سکتا اِسی طرح ایمان بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے نہایت ضروری ہے کہ سارے ذرائع پر عمل کیا جائے۔ یہ نہیں کہ دن رات نمازیں ہی پڑھتا رہے مگر روزے چھوڑ دے یا سارا سال روزے رکھا کرے مگر نمازیں ترک کر دے۔ بے شک یہ ذرائع ہیں اور درست ذرائع ہیں مگر ایک کو چھوڑ کر دوسرے پر زیادہ زور دینے سے کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پس ایمان کو جو دیواریں مکمل کرتی ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی پورا نہیں کیا جاتا تو کامیابی نہیں ہو سکتی۔
مَیں نے جو آیت اس وقت پڑھی تھی اس سے ایمان کو قائم کرنے والی ایک دیوار بتانا چاہتا تھا مگر وقت نہیں رہا اِس لئے پھر جب اﷲ تعالیٰ توفیق دے گا بیان کروں گا۔''
(الفضل 16فروری 1918ء)
1 النور : 23


6
کامل ایمان کس طرح حاصل ہوتا ہے؟
(فرمودہ 8فروری 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْۤا اُولِي الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ الْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا١ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌرَّحِيْمٌ۔1
اور فرمایا:-
‘‘مَیں نے پچھلے جمعہ اس امر کے متعلق بیان کیا تھا کہ جب تک کسی کام کے لئے صحیح ذرائع کو استعمال نہ کیا جائے اور ان سامانوں سے کام نہ لیا جائے جو خدا تعالیٰ نے اس کام کے لئے مہیا فرمائے ہوں اُس وقت تک کوئی شخص اس کام میں کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی کا محض کوشش کرنا اور شوق رکھنا دلیل نہیں ہے کہ جس مقصد کے لئے وہ ایسا کرتا ہے اس میں کامیاب بھی ہو جائے گا کیونکہ اگر طریق عمل صحیح نہیں تو پھر کامیابی بھی نہیں۔ جس طرح ایک لکڑی کاٹنے والا اور لوہار باوجود ایک طالبعلم سے زیادہ محنت کرنے کے علم حاصل نہیں کرسکتااگرچہ تکلیف زیادہ اُٹھاتا ہے کیونکہ یہ طریق علم حاصل کرنے کا نہیں۔ اسی طرح کوئی شخص ایک ایسا طریق اختیار کر کے جس میں گو محنت اور مشقّت زیادہ برداشت کرنی پڑے لیکن وہ اس کام کے لئے مقرر نہ ہو کسی کام میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دیکھو لکڑہارے اور طالبعلم میں سے کہ ایک باوجود زیادہ کوشش اور محنت کرنے کے علم حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور دوسرا کم محنت کے ساتھ کامیاب ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر کوئی کروڑ پتی اپنی ساری دولت لوگوں کو لٹا دے کہ اسے علمِ سائنس آجائے تو نہیں آئے گا مگر ایک دوسرا شخص جو سکول کی بہت تھوڑی فیس دے اور باقاعدہ سائنس کی تعلیم حاصل کرے وہ سائنسدان ہو جائے گا کیونکہ یہ ان ذرائع سے کام لے گا جو خدا نے سائنس کے حصول کے لئے بنائے ہیں۔ پس اسی طرح تقویٰ اور عرفان کے حصول کے جو ذرائع ہیں جب تک ان سے کام نہ لیا جائے اور تفصیلی طور پر ان طریقوں پر نظر نہ کی جائے جو خدا یا اس کے رسول نے بتائے ہیں تو کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اگر کوئی شخص ایمان کے بعض حصوں کو مکمل نہیں کرتا تو وہ محفوظ نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کوئی شخص مکان تعمیر کرے اور صرف دو دیواریں اونچی کھڑی کر دے اور کہے کہ میرا مکان مکمل ہو گیا تو یہ اس کا دعویٰ غلط ہو گا کیونکہ جب تک چار دیواریں نہ ہوں اور ان پر چھت نہ ہو مکان نہیں کہلا سکتا۔ اِسی طرح جب تک ایمان کے تفصیلی اجزاء کو نہ معلوم کیا جائے اور ان پر عمل نہ ہو ایمان کو مکمل و کامل نہیں کہا جاسکتا۔
پس ضرورت ہے کہ ہر ایک شخص اجزاءِ ایمان پر نظر رکھے۔ ایک شخص سارا دن نماز پڑھے مگر باوجود صاحبِ نصاب ہونے کے زکوٰۃ نہ دے یا زکوٰۃ دے مگر صحت اور راستہ کے پُر امن ہونے کے باوجود حج نہ کرے اس کو کامل ایمان نہیں نصیب ہو گا۔ بعض لوگ صرف خدا سے محبت رکھتے ہیں اور بعض کسی خاص جزو کے متعلق اپنے اندر غلو بھی پاتے ہیں مثلاً صدقہ میں ہی اس قدر بڑھتے ہیں کہ ان کی دادوسَتَد2کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا سینہ خدا کی محبت کے جوش سے پُر ہے مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ وہ ایمان کے ثمرات سے بے نصیب ہوتے ہیں اور عرفانِ الٰہی سے نامراد۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی حصہ پر ان کا سارا زور ہوتا ہے اور باقی حصوں سے بے تعلق ہوتے ہیں اور تفصیلی حصوں پر نظر نہیں کرتے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ وہ ابتلاء میں پڑ جاتے ہیں حالانکہ یہ ان کی اپنی غلطی ہوتی ہے۔ پس ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ ایمان کی تفصیل پر نظر ڈالے جب تک تفاصیل پر نظر نہ ہو کامیابی نہیں ہو سکتی۔ صحیح ذرائع پرعمل نہ کرنے کی وجہ سے لوگ کسی بات پر توجہ نہیں کر سکتے۔
بعض لوگوں کے دلوں میں عشقِ الٰہی کی ایک آگ سی لگی ہوتی ہے لیکن دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ یہ شخص ابھی عرفانی مقامات سے بہت نیچے ہے۔ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ صحیح ذرائع کو استعمال نہیں کرتے۔ یا بعض صحیح ذرائع کو استعمال کرتے ہیں اور بعض کو نہیں کیونکہ بعض کے متعلق خیال کر لیا جاتا ہے کہ معمولی ہیں اور جب ایک ذریعہ کو معمولی خیال کر لیا گیا تو پھر اس پر سے توجہ اُٹھ جاتی ہے اور اس پرعمل نہیں رہتا لیکن اس کے چھوڑنے کی وجہ سے اسی قدر ایمان کم ہو جاتا ہے جتنا اس کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے اور اسی طرح جتنے ذرائع کو چھوڑا جائے اتنا ہی زیادہ ایمان میں نقص اور کمی پیدا ہوتی جاتی ہے اور بالآخر وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ ایک مثال مشہور ہے کہتے ہیں ایک شخص کو خیال تھا کہ مَیں بڑا بہادر ہوں۔ اس نے سوچا کہ بہادری کی کوئی علامت بھی تو ہونی چاہئے اس کے لئے اس نے شیر کی تصویر بازو پر گُدوانی چاہی۔ پچھلے زمانہ میں گُدوانے کا بہت رواج تھا۔ وہ گودنے والے کے پاس گیا اور جاکر کہا کہ میرے بازو پر شیر کی تصویر بنا دے۔ جب وہ بنانے لگا اور سوئی سے بازو پر ایک دو کچوکے دیئے تو پوچھنے لگا کیا بناتے ہو؟ اُس نے کہا شیر کی دُم بناتا ہوں۔ اس نے کہا اگر شیر کی دُم نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ جواب ملا کیوں نہیں۔ کہنے لگا پھر چھوڑ دُم کو کچھ اور بنا۔ اس نے جو سوئی چبھوئی اور اسے تکلیف ہوئی تو پوچھا کیا بناتے ہو؟ جواب ملا کہ شیر کا بایاں کان بناتا ہوں۔ کہنے لگا کیا اگر بایاں کان نہ ہو تو شیر نہیں ہو سکتا؟ اس نے کہا کیوں نہیں۔ کہنے لگا اس کو بھی چھوڑ اور آگے بنا۔ غرض جب وہ سوئی لگائے اور تکلیف ہو تو پوچھے کیا بنانے لگے ہو؟ وہ کسی عضو کا نام لے دے اور وہ کہہ دے کہ اس کے بغیر بھی شیر رہ سکتا ہے یا نہیں؟ جواب ملے کہ ہاں۔ وہ کہے اس کو چھوڑ دے اور دوسرا عضو بنا۔ اسی طرح جب سارے اعضاء کے متعلق ہو چکا تو گودنے والے نے کہا جائیے اپنے گھر کی راہ لیجئے کیونکہ ایک ایک کر کے سارے اعضاء جاتے رہے تو پھر شیر کیا رہا۔ وہ شخص گودنے والے سے یہ تو نہیں پوچھتا تھا کہ اگر کوئی بھی عضو نہ رہے تو کیا شیر رہ سکتا ہے؟ بلکہ وہ پوچھتا تھا کہ فلاں عضو نہ رہے تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب تو یہی تھا کہ ہاں اگر یہ نہ ہو تو شیر رہ جاتا ہے لیکن شیر نام تمام اعضاء کے مجموعہ کا ہے۔ جب وہ نہیں تو شیر نہیں اور جب یہ کہا جائے کہ فلاں عضو بھی نہ سہی، فلاں بھی نہ سہی، تو یہی کیوں نہ کہا جائے کہ کچھ بھی نہ سہی اور اس طرح شیر تو کیا چوہیا بھی نہیں رہتی۔ نتیجہ کیا ہؤا؟ یہی کہ کچھ بھی نہیں۔ ایسے ہی کئی انسان ہوتے ہیں وہ تفصیل میں رہ جاتے ہیں۔ جب وہ ایک ایک جزو کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں تو باقی کچھ بھی نہیں رہتا کیونکہ ایمان تو ان کے مجموعہ کا نام ہے۔
بعض لوگ داڑھی نہیں رکھتے۔ اگر ان کو کہا جائے کہ کیوں منڈاتے ہو تو کہیں گے کیا ایمان داڑھی کے رکھنے میں آگیا ہے۔ داڑھی رکھی تو کیا نہ رکھی تو کیا۔ پھر آگے قدم اُٹھتا ہے ۔ بعض کہہ دیتے ہیں سُنتیں کیا ضروری ہیں، فرائض ہی اصل ہیں۔ سُنتیں نہ پڑھیں تو نہ سہی۔ پھر بعض آگے فرائض کا بھی صفایا کرتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہیں؟ دل کی یاد ہی کافی ہے۔ بعض اس سے بھی آگے قدم بڑھاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جھوٹ نہ بولو۔3 بس انسان کو چاہئے کہ جھوٹ نہ بولے۔ روزہ کی کیا ضرورت ہے؟ بھُوکے مرنے کی کچھ حاجت نہیں۔ پھر کہتا ہے کہ تقویٰ ﷲ اصل میں ایک الگ چیز ہے اس کے لئے صدقہ و زکوٰۃ کی کیا ضرورت ہے؟ غرباء کی پرورش صدقہ و زکوٰۃ پر تھوڑا ہی منحصر ہے۔ رزق تو سب کو خدا نے پہنچانا ہے وہی ان کو پہنچائے گا۔
غرض اسی طرح وہ ہر ایک چیز کا انکار کر دیتے ہیں اور خالی رہ جاتے ہیں۔ پھر ایمان بھی ندارد ہو جاتا ہے کیونکہ ایمان تو ان سب اجزاء کے مجموعہ کا نام ہے اور ہر ایک چیز کی یہی حالت ہے کہ اس کے تمام اجزاء کا مجموعہ وہ چیز ہو گا نہ اس کا کوئی جزو۔ نادانی ہے کہ کوئی کہہ دے کہ کیا عرب میں حج کے لئے جانے کا نام ایمان ہے یا زکوٰۃ کے چند روپے دینے کا نام ایمان ہے کیونکہ اس طرح اس کا سارا ایمان ایک ایک جزو کے ترک کرنے سے بہہ جاتا ہے۔
مثلاً کوئی شخص آدمی کے متعلق تحقیقات کرے کہ اس میں مٹی ہے، لوہا ہے وغیرہ وغیرہ اور کہے کہ لو جی آدمی، آدمی کہتے تھے کیا مٹی آدمی ہے؟ کیا لوہا آدمی ہے؟ یہ تو سچ ہے کہ مٹی اور لوہا وغیرہ تو آدمی نہیں مگر ان سب کے مجموعہ کا نام آدمی ہے۔
اجزائے ایمان جو ہیں وہ بطور غلاف کے ہیں۔ اگر اجزاء کو چھوڑ دیا جائے تو باقی کچھ بھی نہیں رہتا۔ ہر ایک انسان کو چاہئے کہ تمام اجزاء کو دیکھے اور پھر اپنے نفس پر غور کرے۔ اگر تمام اجزاء اس میں موجود ہوں تو ایمان ہے ورنہ نہیں۔ مثلاً کسی برتن میں چھید کر دیا جائے اور پھر پانی اس میں ڈالا جائے تو پانی اس میں نہیں رہے گا۔ اسی طرح ایمان کے اجزاء میں سے اگر کسی جزو کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی کمی ہو جائے گی اور اس وجہ سے اس میں سے ایمان کا مغز بہہ جائے گا۔
پس نہایت ضروری ہے کہ کوئی جزوِ ایمان چھوٹ نہ جائے۔ اِس وقت میں نے جو آیت پڑھی تھی وہ تو رہ ہی گئی۔ اﷲ تعالیٰ چاہے گا تو اگلے جمعہ دیکھا جائے گا۔’’
(الفضل 19فروری 1918ء)
1 النور :23
2 داد و سَتَد: لین دین۔ خرید فروخت۔ باہمی معاملہ۔ باہمی حساب کتاب
3 بخاری کتاب الشھادات باب مَا قِیْلَ فِی شَھادۃِ الزور


7
کامیابی کے لئے صحیح ذرائع کی ضرورت ہے
(فرمودہ 15فروری 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:-
وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْۤا اُولِي الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ الْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا١ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌرَّحِيْمٌ۔1
اور فرمایا:-
''مَیں نے پہلے دو جمعوں میں اس امر کے متعلق کہ مومن کو اپنے ایمان کی درستگی کے لئے نہ صرف اپنے اعمال پر اجمالی طور پر نظر ڈالنی چاہئے بلکہ تفصیلی طور پر دیکھنا چاہئے کیونکہ اکثر دفعہ محض اجمالی نظر پر اکتفا کرنا تفصیل میں جاکر غلطیاں پیدا کر دیتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اجمال میں تو ایک بات درست نظر آتی ہے مگر تفصیل میں جاکر اس میں غلطیاں ہوتی ہیں اور جب تک تمام ذرائع صحیح اور پورے نہ ہوں اُس وقت تک نتائج غلط یا ناقص نکلا کرتے ہیں اور جب تفصیل سے دیکھا جائے تو نقائص نظر آجاتے ہیں۔
مثلاً کوئی بیمار ہو جو اپنی عام کمزوری کو دیکھ کر بغیر کسی طبیب کو دکھائے جو کامل معائنہ بھی کرے اور مریض کے ہر عضو کو دیکھ کر نقص کا پتہ لگائے اور پھر علاج کرے۔ ایک مقوی دوائی شروع کر دے مگر باوجود اس دوائی کے اس کی طاقت بحال نہ ہو تو اس دوائی کا کچھ قصور نہیں ہو گا مثلاً فرض کرو کمزوری تو ہے قلب میں اور وہ دوائی یا علاج ہے جگر کا۔ یا مرض ہے کان سے متعلق اور دوائی ڈالی گئی آنکھ میں تو مرض کیونکر دُور ہو سکتا ہے۔ یا اسی طرح کسی اور عضو میں تکلیف ہو لیکن علاج ان کی بجائے کسی اور کا کیا جائے تو صحت نہیں ہو گی۔
صحت اُس وقت ہو گی جبکہ اصل نقص کو معلوم کر کے علاج کیا جائے گا۔ یا کسی خاص عضو میں مرض ہو گا اور انسان اس کا پتہ لگا ئے گا اور پھر علاج کرے گا۔
اسی طرح ایک ایسا انسان جو اپنے ایمان میں نقص دیکھتا ہے وہ خیرات میں ترقی کرتا ہے اور دس روپیہ کی بجائے بیس روپیہ خیرات کرتا ہے لیکن فرض کرو کہ اس کے ایمان میں جو کمی ہے وہ صدقہ نہ دینے کی وجہ سے نہیں بلکہ فرائض میں کوتاہی کے سبب سے ہے تو اس کی کوشش رائیگاں جائے گی۔ یا کسی اور عمل کے ترک کرنے کی وجہ سے ہو مگر وہ فرائض کے ماسوانوافل اور تہجد کا بھی بہت اہتمام کرتا ہے۔ ان اعمال کا نتیجہ کسی اور رنگ میں تو اسے ملے گا مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اصلی نقص جس کے باعث اسے ایمانی لذّت میں کمی ہے وہ دُور ہو ، وہ اسی طرح رہے گی۔
میرے پاس بہت سی شکایات اس قسم کی باہر سے آئی ہیں اور یہاں بھی سُنی ہیں۔ مَیں نے اِن سب کو سن کر پسند کیا کہ اس امر کے متعلق بتاؤں کہ ایمان کس طرح کامل ہوتا ہے اور ایمانی سرور اور لذّت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔
پس یاد رکھنا چاہئے کہ روحانی امراض میں بھی اسی طرح شفا حاصل ہوتی ہے جس طرح جسمانی امراض سے۔ میرے دونوں خطبوں سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ لوگ کس طرح غلطی کھاتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص اپنے میں خشیتِ الٰہی اور تقویٰ اﷲ نہیں پاتا اور اس کو وہ اطمینان حاصل نہیں ہوتا جو ایمان کا نتیجہ ہے تو وہ مثلاً نمازیں زیادہ پڑھنی شروع کرتا ہے، صدقات میں بھی زیادتی کرتا ہے لیکن ضرورت یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اصل نقص کیا ہے؟ نماز، روزہ،صدقہ، خیرات۔ ان میں ہر ایک ایمان کا جزو ہے۔ ان میں سے کسی ایک پر بِلا سوچے زور دینا اصل نقص کو دُور نہیں کر سکتا۔ مثلاً آنکھوں میں سرمہ ڈالے اور درد ہو کان میں تو کچھ نتیجہ نہ ہو گا۔ یا انگلی میں درد ہو اور زنک لوشن یا نیلا تھوتھا ڈالے آنکھ میں تو اس کا کچھ بھی فائدہ نہ ہو گا۔ ضرورت تو مرض کے مطابق علاج کرنے کی ہے۔
ایک عمارت جو اعلیٰ درجہ کی ہو اس میں روشن دان نہ ہو مَنفذ تو ہو مگر شیشے نہ لگائے گئے ہوں جن سے بارش کی بوچھاڑ اور ہوا کے جھونکے رُک سکیں اور صاحبِ مکان خیال کرے کہ اس مکان کے گارڈر نہایت عمدہ ہیں، چھت بھی بہت پختہ ہے پھر ان بادوباراں کے حملوں سے کیوں تکلیف ہوتی ہے تو یہ اس کی غلطی ہے۔ کیونکہ اس کمی کی اصلاح گارڈروں وغیرہ کا مضبوط ہونا نہیں کر سکتا جو سوراخوں میں شیشے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص نماز میں نہایت چُست ہو، روزوں میں باقاعدہ ہو اور صدقہ و خیرات میں نہایت پابند احکامِ شرع ہو تا ہم اس کے ایمان میں کچھ کمی ہو جس کو وہ شخص محسوس کرتا ہو۔ اگر وہ تفصیلی طور پر اپنے اعمال پر نظر ڈالے گا تو وہ معلوم کرلے گا کہ میرے فلاں حصّۂ ایمان میں کمی ہے اور وہ اس کی اصلاح کر لے گا۔ بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ صحیح تشخیص کے بعد تھوڑی دوائی بھی مرض کو دُور کر دیتی ہے لیکن عدمِ تشخیص کی صورت میں ایک بڑی قیمتی دوائی بھی کچھ فائدہ نہیں دیتی۔
اسی طرح گو وہ اعمال جن پر ایمان کی کمی محسوس کرتے ہوئے لوگ زور دیتے ہیں کتنے ہی مفید اور اعلیٰ درجہ کے کیوں نہ ہوں مگر ان نتائج میں وہ چیز حاصل نہیں ہو گی جس کی کمی انہیں محسوس ہوتی ہے۔ ہاں کبھی تو صحیح نتیجہ نکل سکتا ہے لیکن ہمیشہ نتائجِ صحیحہ مرتب نہیں ہو سکتے۔
پس اگر ایمان کی تکمیل کی ضرورت ہے تو انسان کو چاہئے کہ اپنے اعمال کی تفصیل پر نظر کرے۔ ہر ایک عمل کو لے کر اﷲ تعالیٰ کے احکام کو دیکھے۔ پہلے اپنے ایک عمل کو لے پھر اس کے متعلق قرآن میں دیکھے کہ کیا میرا یہ عمل قرآن کے حکم کے مطابق ہے یا خلاف ؟ پھر دوسرے کسی عمل کو دیکھے، پھر تیسرے کو دیکھے۔ مثلاً بخل ہے۔ ایک شخص زکوٰۃ مقررہ دیتا ہے، نماز روزہ کا بھی پابند ہے مگر اس کا دل مطمئن نہیں ہو گا کیونکہ بخل جو ہے وہ اِس میں پایا جاتا ہے جس کی قرآن پاک مذمت کرتا ہے کیونکہ بخل جو ہے وہ انسان کو منافقت کی طرف لے جاتا ہے۔ یا کوئی اور شخص ہو وہ اور تو تمام احکامِ شرعیہ پر عامل ہو مگر ظُلم کرتا ہو تو وہ بھی ایمانی لذّت سے محروم رہے گا اور ایمان کا کمال نہیں پیدا کر سکے گا۔ اس کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ میرے ایمان میں کوئی کمی ہے۔
غرض تفصیلات کے دیکھنے سے انسان میں بصیرت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب کوئی انسان اعمال یا عقائد پر تفصیلی نظر کرتاہے تو اس کو وہ سوراخ نظر آجاتا ہے جس کے باعث اس کا ایمان ناقص ہوتا ہے۔ اس وقت وہ اس کی اصلاح کر لیتاہے۔
اس لئے اس تمہید کے بعد میں چاہتا ہوں کہ تفصیلی طور پر ایمان کے متعلق بتلاؤں۔ تفصیل دو قسم کی ہے۔ (1) اعمال میں۔ (2) عقائد میں۔ ان میں سے کسی ایک میں بھی نقص ہو تو عرفان میں نقص ہو گا۔ ایمان صرف عقائدِ صحیحہ کا ہی نام نہیں بلکہ اس میں اعمالِ صالحہ بھی داخل ہیں۔ دل میں عقیدہ ہو اور اس عقیدہ کا اظہار ہو اور اس کے مطابق عمل ہو، یہ ایمان ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ان تینوں چیزوں کے مجموعہ کا نام ایمان رکھا ہے۔ پس ایمان جب ہی مکمل ہو گا جب یہ تینوں حصّے قائم ہوں۔ ایسی حالت میں انسان پر خدا کے عرفان کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور وہ اس میں خدا کے جلال کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس پر ایک موت وارد کی جاتی ہے۔
ممکن ہے بعض لوگوں کو اس طریق سے مستثنیٰ کیا جائے اور خود خدا ان کو اپنی طرف کھینچ لے مگر عام قاعدہ یہی ہے کہ ایمان کا حصول قواعد کے ماتحت ہوتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ پہلے دل میں عقائد پر یقین ہو اور اس کا اظہار ہو اور اس پر عمل ہو۔ ایک ایمان تو صرف مان لینے کا نام ہے مگر میری ایمان سے مراد وہ ایمان ہے جو ثمرات والا ایمان ہے، زبانی ایمان نہیں۔ اس درختِ ایمان سے مراد ہے جس کے ساتھ ضروری ہے کہ عقائد صحیحہ ہوں، اظہار ہو اور اعمال ہوں۔
اب معلوم ہونا چاہئے کہ تفاصیل میں بعض فروعات ہیں اور بعض اصول ہیں۔ فروعات کے نقائص اعلیٰ مدارج میں روک ہوتے ہیں لیکن اصول میں کمی آنا ایمان کو زائل کر دیتا ہے کیونکہ اصول سے تو ایمان پیدا ہوتا ہے۔ فروعات میں سے اگر کسی شخص میں کچھ نقص ہے تو پھر مقابلہ اس طرح ہو گا کہ جتنی کسی فرع میں کمی ہو گی وہ اتنا ہی نیچے درجہ میں ہو گا اور جس نے جس قدر فروعات کو پورا کیا ہو گا وہ درجاتِ عرفان میں بلند ہو گا۔ یہ مقابلہ ایسا ہی ہو گا جیسا کہ آم کے دو اعلیٰ درجہ کے درختوں میں ہو کہ ایک میں پھل زیادہ آئیں اور دوسرے میں کم۔ یعنی مقدار کا مقابلہ ہوگا۔
ایک مکان نہایت اعلیٰ درجہ کا تعمیر کیا جائے جو نہایت خوبصورت ہو اس میں بظاہر کوئی نقص بھی نہ معلوم ہوتا ہو مگر جب اس کو کوئی انجینئر دیکھے اور دقّتِ نظر کے بعد بتائے کہ کچھ نقص ہے تو وہ نقص فروعی ہو گا۔ ایسا نقص عمارت کی شان میں مضبوطی اور آرام میں کوئی نقص پیدا نہیں کرے گا۔ پس اُصول کی موجودگی میں ایمان ہے اور فروعات کی موجودگی میں مدارجِ عالیہ حاصل ہوتے ہیں۔
اب اظہارِ عقیدہ کے متعلق کچھ بیان کی ضرورت نہیں۔ سوائے مختصر کے کہ کس طرح اظہار کرے مگر ضرورت اعمال کے متعلق بیان کرنے کی ہے۔
چونکہ اعمال ایسے ہیں جو صاف نظر آتے ہیں اس لئے مَیں پہلے اعمال کے حصّہ کو بیان کروں گا۔ اِنْشَاءَ اﷲ۔ ارادہ ہے کہ ایک دو عمل لے کر جب تک مناسب ہو ان کی تفصیل بیان کر دیا کروں لیکن بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا اثر دل پر پڑتا ہے۔ صوفیاء کا طریق تھا کہ دل سے دل کو پڑھاتے تھے۔ وہ تمام سبق اسی طرح پڑھتے تھے۔ وہ بات زبان سے حاصل نہیں ہو سکتی جو ایک قلب سے دوسرے قلب کو بجلی کی رَو کی طرح حاصل ہوتی ہے۔ الفاظ کا اثر کانوں کے ذریعہ ہوتا ہے مگر الفاظ بعض کیفیات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اصل سبق تو وہی تھے جو قلوب کے ذریعہ توجہ سے ہوتے تھے مگر آجکل کے جھوٹے صوفیوں نے جن کا نام توجہ رکھا ہے یہ نہیں۔ وہ سچی خواہش اور کامل تزکیہ سے حاصل ہوتی ہے جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظلّ اور بروز رکھا ہے۔ ایک شخص خواہ کیسا ہی فصیح البیان ہو الفاظ کے ذریعہ ایک تصویر کو نہیں دکھا سکتا لیکن اگر فوٹو سامنے رکھ دیا جائے تو فوراً تصویر کی تمام چیزیں نظر آجائیں گی۔ یہ سبق نہایت کارآمد اور اہم ہے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی۔ پس بعض تفصیلات الفاظ کے ذریعہ ادا نہیں ہو سکتیں بلکہ بروز کے طور پر آتی ہیں۔ مثلاً کوئی شخص کہتا چلا جائے کہ ناک ایسی ہے، کان ایسے ہیں، آنکھ ایسی ہے مگر کوئی چیز ہو بہو سمجھ میں نہیں آسکتی۔ ہاں فوٹو کے ذریعہ سب کچھ سمجھ میں آجاتا ہے۔
قرآن میں ایسے الفاظ کو لیا گیا ہے جو دیکھنے کے ساتھ ہی ظاہرًا الفاظ سے کہیں زیادہ دل پر اثر کرتے ہیں اور عجیب حقائق و معارف دل پر ان بعض الفاظ سے کھلتے ہیں۔ یہ بات میں نے حضرت صاحب کے کلام میں بھی دیکھی ہے۔ آپ کی کتاب کو پڑھتے ہوئے عجب عالم ہوتا ہے۔ آپ کے کلام سے الفاظ کے علاوہ اور عجب کیفیت دل پر طاری ہوتی ہے جو تمام الفاظ کے ذریعہ ظاہر نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح قرآن مجید کو پڑھئے تو قلب میں ایک خاص حالت پیدا ہوجائے گی۔
مَیں نے حضرت صاحب کی کتاب براہینِ احمدیہ پڑھی۔ مَیں ہر ایک کتاب کوتھوڑے وقت میں بہت پڑھ سکتا ہوں لیکن براہین احمدیہ کو میں بہت دیر میں بہت ہی تھوڑا پڑھ سکتا تھا۔ وجہ یہ کہ ایک ایک سطر پر دل کی حالت اَور سے اَور ہوتی جاتی تھی اور نہیں معلوم ہوتا تھا کہ ہجومِ مضامین کے باعث مَیں کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہوں۔ پس ان الفاظ میں معنی مخفی ہوتے ہیں جو دل پر کھلتے ہیں ان کے پڑھنے کے بھی اُصول ہیں۔
غرض تفاصیل میں ایسے حصّے ہیں جن کو الفاظ میں ادا نہیں کیا جاسکتا وہ قلبی طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ خاموشی میں ہی وہ حاصل ہوتے ہیں۔ تاہم میں نمونہ کے طور پر اعمال و عقائد کے متعلق کچھ بیان کروں گا لیکن وقت آج بھی نہیں رہا انشاء ﷲ اگلے جمعہ مَیں بیان کروں گا۔ '' (الفضل 26فروری 1918ء)
1 النور : 23

8
اعمال کی تقسیم
(فرمودہ 22فروری 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''مَیں نے پچھلے جمعہ کے خطبے میں ایمان کی تکمیل کے لئے اس بات کو بیان کیا تھا کہ تفصیلِ ایمان جب تک انسان کو مدّنظر نہ ہو اور اس کے مطابق وہ (1)اپنے عقائد (2) اپنے اقوال (3) اپنے اعمال کو درست نہ کرے اُس وقت تک ایمان کامل نہیں ہوتا اور مَیں نے بتایا تھا کہ میرا منشاء ہے کہ ایک حد تک اختصار کے ساتھ نمونہ اور مثال کے طور پر اس مضمون کے متعلق بعض تفاصیل مختلف خطبوں میں سناؤں تاکہ اس سے دوسری باتوں کے متعلق بھی آپ لوگ نتیجہ نکال لیں اور اُن لوگوں کو ایمان کے مکمل کرنے کا طریقہ معلوم ہو جو واقف نہیں اور وہ اپنے ایمان کو مکمل کرنے کی کوشش کریں۔ کامیابی اور ناکامی کا سوال علیحدہ ہے مگر جب تک کسی کام کے کرنے کا طریق اور طرز ہی معلوم نہ ہو انسان اس کے متعلق کوشش بھی نہیں کر سکتا۔ کامیابی اور ناکامی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ کتنی کوشش کی گئی لیکن کامیابی کی اُمید اسی وقت ہو سکتی ہے جبکہ صحیح ذرائع اور درست طریق سے کوشش کی جائے۔ پس صحیح ذرائع پر مطلع کرنے کے لئے میرا منشاء ہے کہ اُن تین حصوں کی تفصیل بیان کروں جن کا ابھی ذکر ہو چکا ہے اور ان میں سب سے پہلے اعمال کو لیتا ہوں۔
لیکن اعمال کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے یہ نہایت ضروری ہے کہ دیکھیں کہ اعمال کتنی اقسام کے ہوتے ہیں کیونکہ انسان کی عادت ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اس کے دماغ کو ایسا ہی بنایا ہے کہ وہ متفرق اور پراگندہ اشیاء کو ایسی خوبی اور عمدگی سے آسانی کے ساتھ نہیں سمجھ سکتا تھا جیسا کہ منقسم اور مرتب شدہ کو۔ جب اشیاء ایک انتظام اور ترتیب کے ماتحت سامنے لائی جائیں تو اس وقت انسان نہایت آسانی کے ساتھ ان کو سمجھتا اور اپنے ذہن میں محفوظ رکھ سکتا ہے اور جب محفوظ رکھ لیتا ہے تو ان سے فائدہ اُٹھانا بھی اس کے لئے بہ نسبت پراگندہ اور منتشر اشیاء کے نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے مختلف علوم کے جو ماہر ہیں وہ ان علوم کو ابواب میں تقسیم کر کے پیش کیا کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹری ایک علم ہے۔ اب یہ نہیں ہو گا کہ ایک ڈاکٹر جو اس علم کے متعلق کوئی کتاب لکھنے لگے وہ پہلے ہاتھ کے متعلق لکھے کہ اس میں اتنی ہڈیاں اور اتنی نسیں ہوتی ہیں اور اس سے اگلا فقرہ یہ ہو کہ ملیریا میں کونین کھلانی مفید ہوتی ہے، پھر یہ کہ آنکھیں دُکھتی ہوں تو یہ دوائی ڈالنی چاہئے، پھر یہ کہ معدہ میں درد ہو تو یہ علاج کرنا چاہئے، پھر یہ کہ سر میں اتنی ہڈیاں ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کوئی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اگر ایسا کیا جائے تو پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ باتیں محفوظ نہیں رہ سکتیں۔ اس لئے ان کا پہلا کام یہی ہوتا ہے کہ پڑھنے والوں کی آسانی اور سہولت کے لئے اور فائدہ اُٹھانے کی خاطر علم کو مختلف ابواب میں تقسیم کر دیں۔ اس کے لئے ایک تو وہ علمِ تشریح قرار دیں گے، ایک مفردات کے خواص کا باب رکھیں گے، ایک مرکبات کا حصّہ ہو گا، پھر ایک تشخیص مرض کا باب ہو گا، دوائی تجویز کرنے اور مریض کے ساتھ سلوک کرنے کا علیحدہ، پھر ان تمام علوم کے حصّے کر دیں گے۔ مثلاً تشریح میں کہیں انگلی، کہیں ناک، کہیں کان اور کہیں پیٹ کا ذکر نہیں کریں گے بلکہ اس کے لئے بھی ایک ترتیب قرار دیں گے اور اس کے ماتحت بیان کریں گے۔ چنانچہ ہمارے دیسی اطباء نے یہی ترتیب رکھی ہے کہ پہلے سر اور پھر اس کے متعلقہ اجزاء کو لیتے ہیں، پھر نیچے کے اجزاء کو اسی ترتیب سے لیتے ہیں جو خدا نے رکھی ہے اور پاؤں تک پہنچتے ہیں یا علمی طور پر ڈاکٹروں کو جو ترتیب پسند آئے وہ رکھ لیتے ہیں۔ اسی طرح ادویہ کے متعلق کرتے ہیں۔ مثلاً پُرانے زمانہ میں مفردات کو علاجوں کے لئے تقسیم کر لیتے تھے کہ کان کے علاج کے لئے فلاں اور سر کے لئے فلاں، ناک کے لئے فلاں۔ یہ تو میں نے ایک علم کی مثال دی ہے اس کے علاوہ دیکھو مدارس میں مختلف زبانیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں بھی یہی بات مدّنظر رکھی جاتی ہے۔ مثلاً صرف و نحو ہے اس کے متعلق یہ نہیں ہو گا کہ اس کے قواعد کو یونہی بکھیر دیا جائے گا کہیں ورب (VERB) کا ذکر اور اس کو بیچ میں ہی چھوڑ کر پروناؤن (PRONOUN) اور پھر ADVERB کا یا یہ کہ فاعل مفعول، حال استثنا، جار وغیرہ کو آپس میں گڈمڈ کر دیا جائے بلکہ ان سب کو علیحدہ علیحدہ بابوں میں اور الگ الگ کر کے بیان کیا جائے گا اور کسی کتاب کی خوبی کے لئے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ آیا اس کے لکھنے والے نے مضمون کو طبعی ترتیب کے مطابق تقسیم بھی کیا ہے یا نہیں۔ یہی بات تمام کاموں میں ہوتی ہے۔ حتّٰی کہ زمینداروں کو دیکھو تو وہ بھی اپنے کاموں کو کئی حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً جب وہ ہل جوتتے ہیں تو یہ نہیں کرتے کہ کچھ ہل ایک جگہ چلائیں اور باقی کھیت چھوڑ کر کچھ دوسری اور پھر تیسری، چوتھی جگہ بلکہ وہ حصّے تقسیم کرتے ہیں اور ان میں باری باری ہل چلاتے ہیں۔ اسی طرح بونے میں بھی ایک ترتیب ان کے مدّنظر ہوتی ہے اور اس کے چھوڑنے سے بہت سے نقائص پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح مکانات ہیں اگر ایک مکان ہزار کمرہ کا ہو مگر کسی ترتیب سے کمرے بنے ہوں تو ایک نظر دیکھ کر انسان اس کا نقشہ بتا دے گا لیکن اگر سَو کمرہ بھی ایسی بے ترتیبی سے بنا ہو کہ کسی کا کسی طرف رُخ ہو اور کسی کا کسی طرف تو خواہ ایک ایک کمرہ دیکھ لیا جائے تو بھی ذہن میں پورا نقشہ نہیں جم سکے گا۔ مثلاً ہمارا بورڈنگ ہاؤس ہے اس کو ایک نظر دیکھ کر انسان بتا سکتا ہے کہ کس صورت کا ہے لیکن اگر اتنے ہی کمرے پراگندہ اور بے ترتیب طریق سے بنے ہوں تو نہیں بتاسکے گا۔ تو ترتیب بڑی ضروری ہے اور کسی چیز کے ذہن میں قائم رکھنے اور سمجھنے کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اسے مختلف ابواب میں تقسیم کیا جائے اور پھر فصول میں۔ کیونکہ اس طرح انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ اسی لئے اعمال کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اعمال کی ترتیب مقرر کر لی جائے اور جب ترتیب مقرر ہو جائے گی تو بہت سی باتیں جو یوں ذہن سے نکل جاتی ہیں محفوظ ہو جائیں گی اور آسانی سے سمجھ میں آجائیں گی۔
میرے نزدیک ایک موٹی تقسیم اعمال کے ابواب کی اس طرح ہو سکتی ہے کہ ایک تو ہم پہلی بڑی تقسیم یوں کریں کہ کچھ اوامر ہیں اور کچھ نواہی۔ یعنی بعض جگہ تو یہ حکم ہے کہ انسان فلاں کام کرنے کے لئے آگے بڑھے اور بعض جگہ یہ ہے کہ فلاں کام اگر سامنے آجائے تو اس سے پیچھے ہٹ جائے۔ پس کسی کام کے کرنے سے پیچھے ہٹنے کا نام نہی اور اس کے کرنے کے لئے آگے بڑھنے کا نام امر ہے۔ شریعت کے یہ دو بڑے بڑے ستون ہیں جن میں سے ایک اوامر یعنی کچھ کام کرنے کے متعلق ہے اور دوسرا نواہی یعنی کچھ کاموں سے رُکنے کے متعلق۔ یہ تو دو بڑے بڑے حصّے ہوئے اور جس طرح علماء نے علمِ نحو کے ایک حصّہ کا نام صَرف اور دوسرے کا نام نحو رکھ دیا ہے اسی طرح اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کی تکمیل کے لئے جو انسانوں کو اعمال کے متعلق ہدایتیں ملی ہیں ان کو دو حصوں میں منقسم کر دیا گیا ہے جن میں سے ایک حصّہ کا نام اوامر اور دوسرے کا نواہی ہے۔ پھر ان کی آگے تقسیم کی گئی ہے۔
لیکن اوامر کے بڑے بڑے حصّے دو ہیں۔ ایک وہ جو بندہ کے خدا کی مخلوق کے تعلقات کے متعلق ہیں۔ یعنی وہ احکامِ شریعت جن میں بتایا گیا ہے کہ بندہ کو اﷲ تعالیٰ کی مخلوق سے کیا اور کس طرح معاملہ کرنا چاہئے۔ اس مخلوق میں اس کا اپنا وجود بھی شامل ہے اور دوسرے تمام انسان بھی خواہ وہ کسی مذہب و ملّت کے ہوں۔ پھر ہر قسم کے جانور، ملائکہ، انبیاء غرضیکہ تمام چھوٹی بڑی مخلوق شامل ہے اور دوسرا حصّہ وہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بندہ کو خدا سے کیا معاملہ کرنا چاہئے۔ یہ تو اوامر کے حصّے ہوئے۔
اسی طرح نواہی بھی دو حصّوں میں منقسم ہے۔ ایک یہ کہ ایک انسان کو دوسری مخلوق سے کیا کیا معاملات اور سلوک نہیں کرنے چاہئیں اور دوسرے یہ کہ ایک انسان کو خدا کے متعلق کیا کیا بات نہیں کرنی چاہئے۔ پھر ان کی آگے تقسیمیں ہیں۔ احکام کی بھی اور نواہی کی بھی۔
مثلاً یہ کہ بندہ کو مخلوق سے کیا سلوک کرنے چاہئیں۔ اس کی تقسیم یوں ہے کہ ایک تو وہ سلوک ہیں جن میں انسان کو کوئی تکلیف کسی قسم کی نہیں اُٹھانی پڑتی اور اس کے کرنے میں اس کا کوئی حرج اور نقصان نہیں ہوتا لیکن دوسرے کو فائدہ پہنچ جاتا ہے۔ دوسرے وہ ہیں کہ جن میں اس کا تو پہلی طرح ہی نہ کچھ حرج ہوتا ہے نہ نقصان لیکن کسی اور مخلوق کا اس سلوک کے نہ کرنے سے نقصان ہو جاتا ہے۔ تیسرے وہ ہیں کہ جن میں اس کا بھی فائدہ ہوتا ہے اور کسی اور مخلوق کا بھی اور چوتھے وہ ہیں کہ جن میں اس کا نقصان ہوتا ہے اور دوسرے کا فائدہ۔
پہلا تو یہ کہ اس کے کرنے سے انسان کا اپنا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ مگر دوسرے کو فائدہ پہنچ جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن نہ کرنے سے دوسرے کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ اس میں اس کا اپنا بھی فائدہ ہوتا ہے اور دوسرے کا بھی۔ چوتھے یہ کہ اس کا اپنا نقصان ہوتا ہے مگر دوسرے کو فائدہ پہنچ جاتا ہے اور یہ حصّہ پہلے تینوں سے زیادہ قابلِ قدر اور لائقِ تعریف ہے کیونکہ پہلے درجہ میں اس کا کچھ نقصان نہیں تھا مگر دوسرے کو فائدہ تھا اور دوسرے درجہ میں اس کا کچھ نقصان نہیں تھا مگر دوسرے کا تھا اور تیسرے درجہ میں اس کا اپنا بھی فائدہ تھا اور دوسرے کا بھی لیکن چوتھا درجہ وہ تھا کہ جس میں اس کا نقصان تھا اور دوسرے کا فائدہ۔ یہ چار قسم کے اعمال ہوتے ہیں اور انہیں میں سارے اعمال تقسیم ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح نواہی کی تقسیم ہے۔ ایک تو اس کام سے روکا جاتا ہے کہ جس کو اگر انسان کرے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن کسی اور کو اس سے نقصان پہنچ جاتا ہے۔ دوسرے وہ کام کہ جس کو اگر کرے تو اس کی ذات کو نقصان پہنچ جاتا ہے گو کسی اور کو پہنچے یا نہ پہنچے۔ تیسرے وہ کام کہ جس کے کرنے سے اس کی ذات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور دوسرے کو بھی اور چوتھے وہ کام کہ جس کے کرنے سے اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے لیکن اس سے دوسرے کا نقصان ہو جاتا ہے۔ پس جس طرح اوامر کی قسمیں ہیں نواہی کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ پھر ایک اور بھی تقسیم ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک وہ اعمال جو انسان کے جسم سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک وہ جو عقائد اور خیال سے۔ ایک وہ جو رشتہ داروں اور عزیزوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک وہ جو دشمنوں اور مخالفوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں بھی اوامر اور نواہی ہیں۔ جب اس رنگ میں اعمال کو تقسیم کر کے دیکھیں تو آسانی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کون سے اعمال قابلِ اصلاح ہیں یا کن پر توجہ نہیں ہے یا کن میں نقص پایا جاتا ہے لیکن اگر پراگندہ طور سے ان پر نظر کریں تو پھر مشکل پیش آجاتی ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ یہاں یہ لوگ جو بیٹھے ہیں کہ ان کو اگر کوئی گننے لگے تو اس کے لئے بہت مشکل ہو گا اور بعض کو وہ کئی کئی بارگن جائے گا یا بعض رہ جائیں گے لیکن جب یہی آدمی صفیں باندھ کے کھڑے ہوتے ہیں اس وقت ایک بچہ بھی آسانی کے ساتھ گن سکتا ہے۔ تو بعض لوگ اعمال کو ترتیب کے ساتھ نہیں دیکھتے اس لئے کئی اعمال ان کی نظر سے رہ جاتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے پوری توجہ اور غور سے کام لیتے ہیں مگر ان اعمال کا پتہ نہیں لگا سکتے جن میں نقص ہوتا ہے یا جو زیرِ عمل ہی نہیں آتے لیکن اگر وہ ابواب میں تقسیم کر لیں تو پھر آسانی سے پتہ لگاسکیں گے کہ کون سے کام کرنے کے ہیں جنہیں ہم نہیں کرتے یا پوری طرح نہیں کرتے اور کون سے کام نہیں کرنے کے ہیں جنہیں ہم کرتے ہیں۔
پس چونکہ تکمیلِ ایمان کے لئے اعمال کی تقسیم ضروری ہے اِس لئے ہر ایک انسان کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اعمال کی تقسیم کر کے انہیں دیکھے اس سے اسے کئی اعمال ایسے معلوم ہو جائیں گے کہ یوں کبھی اس کے خیال میں بھی نہ آتے کہ کرنے چاہئیں۔ اسی طرح کئی ایسے معلوم ہو جائیں گے جن کا ترک کرنا ضروری ہے اور یہ پہلا سبق ہے اس کے بغیر تکمیلِ ایمان مُشکل اور بہت مُشکل ہے اس لئے نہایت ضروری ہے کہ انسان اعمال کی تقسیم کرے، انہیں بابوں میں تقسیم کر کے پھر ان کی فصلیں بنائے۔ لکھے پڑھے انسان تو سمجھتے ہیں کہ باب اور فصلیں کیا ہوتی ہیں لیکن اَن پڑھ زمیندار نہ سمجھتے ہوں گے اس لئے وہ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح وہ اپنی آسانی کے لئے زمین کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرتے اور پھر ان میں کیارے بناتے ہیں اسی طرح یہ ہے۔ کیاروں کا وہ بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں بویا ہؤا چارہ کتنے دنوں کے لئے کافی ہو گا لیکن اگر چھوٹے چھوٹے حصّوں میں تقسیم نہ کیا جاوے تو جس طرح ٹھیک اور آسانی کے ساتھ اندازہ نہیں لگ سکتا اسی طرح تکمیلِ ایمان کے لئے ضروری ہے کہ اعمال کی تبویب اور تقسیم کریں، حصّے بنائیں اور پھر ان کی جو شاخیں ہیں ان پر غور کریں کہ ان میں کون سے کام کئے ہیں اور کون سے نہیں اور کون سے نہیں کرنے چاہئیں۔ اس سے نہایت آسانی کے ساتھ پتہ لگ جائے گا اور جس حصّہ میں کمی ہو گی اس کا علم ہو جائے گا۔ دیکھو ایک گاؤں کے آدمی گننے کے لئے اگر کوئی یونہی بغیر کسی تقسیم اور ترتیب کے گِننا شروع کر دے تو کئی آدمی اس کی گنتی سے رہ جائیں گے اور اس طرح اسے مُشکل بھی پیش آئے گی لیکن اگر پہلے وہ یہ دیکھے کہ کتنے گھر ہیں اور پھر یہ کہ ہر ایک گھر میں کتنے آدمی ہیں تو اس طرح آسانی کے ساتھ سب کو گن لے گا۔ یہی حال اعمال کا ہے۔ ان کے محاسبہ کے لئے ضروری ہے کہ ابواب میں تقسیم کیا جائے۔ اس کے بعد ہر ایک باب میں دیکھا جائے کہ کتنی باتیں ہیں۔ پس محاسبہ کرنے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے پیشتر اس کے کہ خدا تمہارا محاسبہ کرے تم خود اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو۔1 کیا پتہ ہے کہ ایک ایسی چیز جو تمہارے پاس نہیں چاہئے تھی وہ آگئی ہو اور جو چاہئے تھی اسے تم بھول گئے ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ پہلے خود اس کا محاسبہ کرو اور اس کے لئے مَیں نے بتایا ہے کہ جب تک اعمال کے کئی حصّے نہ مقرر کئے جائیں اور پھر ان کے جو اجزاء ہیں ان کو نہ لیا جائے اس وقت تک محاسبہ ہو ہی نہیں سکتا۔
پس انسان کو چاہئے کہ ان سب کو سامنے لائے اور دیکھے کہ کن باتوں کے کرنے کا اسے حکم دیا گیا ہے مگر وہ نہیں کرتا یا کن سے اُسے روکا گیا ہے مگر وہ نہیں رُکتا اس کے بعد اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ کون سی شگافیں اور دراڑیں ہیں کہ جن کی وجہ سے مکان کا پورا پورا فائدہ اُسے نہیں پہنچتا تھا کیونکہ بعض ضروری اور اہم مسائل رہ گئے تھے۔ بعض کام کرنے کے تھے جو نہیں کرتا تھا اور بعض نہیں کرنے کے تھے جو کرتا تھا۔ تو چونکہ تکمیلِ ایمان کے لئے محاسبہ ضروری ہے اور محاسبہ اُس وقت تک ہو نہیں سکتا جب تک کہ اعمال کو تقسیم نہ کیا جائے اس لئے تقسیمِ اعمال ضروری ہے۔
میرا منشاء ہے کہ اس تقسیم میں سے پہلے میں اوامر کو لوں اور اوامرمیں سے بھی ان کو پہلے بیان کروں جو بندوں کےمخلوق کےمعاملات کےمتعلق ہیں کیونکہ یہ درحقیقت ان معاملات کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں جو بندہ کو خدا کے لئے کرنے پڑتے ہیں۔ پھر اﷲ تعالیٰ چاہے تو اس حصّہ کے متعلق کچھ مثالیں بیان کروں گا جو بندوں کے خدا کے معاملات کے متعلق ہیں۔ پھر نواہی میں سے پہلے ان کو لے لیا جائے گا جو بندوں کے مخلوق کے ساتھ ہیں۔ پھر وہ جو بندوں کے خدا کے ساتھ ہیں۔ یا ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلے ان اوامر کو لیا جائے جو بندوں کے بندوں کے ساتھ ہیں پھر ان نواہی کو لے لیا جائے جو بندوں کے بندوں کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد بندوں کے خدا کے متعلق جو اوامر ہیں ان کو لیا جائے اور پھر خدا کے متعلق جو نواہی ہیں ان کو لے لیا جائے لیکن پہلے میں اوامر کو لیتا ہوں پھر نواہی کو لوں گا۔
اوامر کے متعلق جو نہایت اہم اور ضروری احتیاط ہے اور نواہی کے متعلق بھی یہی ہے بلکہ تمام اعمال کے متعلق یہی ہے کہ انسان کسی چیز کو چھوٹا نہ سمجھے کیونکہ درحقیقت کوئی چیز چھوٹی ہے نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کسی چیز کے کیا نتائج نکلیں گے۔ بہت دفعہ ایک چیز کو نہایت معمولی اور چھوٹی سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے نتائج بہت بڑے اور خطرناک نکل آتے ہیں۔ اسی طرح کئی بار ایک چیز کو بڑا اور غیر معمولی قرار دیا جاتا ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے بہت چھوٹی ثابت ہو جاتی ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ چھوٹی یا بڑی چیز کا لحاظ اس کے نتائج پر ہوتا ہے۔ ایک ایسی چیز جو بظاہر چھوٹی نظر آتی ہے لیکن اس کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں وہ چھوٹی نہیں بلکہ بڑی ہے۔ اسی طرح ایک ایسی چیز جو بظاہر بڑی نظر آتی ہے لیکن اِس کے نتائج بہت معمولی نکلتے ہیں وہ بڑی نہیں بلکہ چھوٹی ہے۔ مگر نادان انسان ان کے ظاہر کو دیکھ کر بڑی چھوٹی قرار دے لیتا ہے جو بالکل غلط اور نادرست ہے کیونکہ نتائج کو دیکھے بغیر ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ اسی طرح کئی لوگ اعمال کے ظاہر کو دیکھ کر ان کو چھوٹا بڑا قرار دے لیتے ہیں حالانکہ اعمال کے چھوٹے بڑے ہونے کے اور ہی معنے ہیں جو عام طور پر لوگ نہیں سمجھتے۔ دیکھو کرنے یا نہ کرنے کے لحاظ سے چھوٹی بات بڑے اور بڑی چھوٹے نتائج پیدا کیا کرتی ہے۔ اس لئے اعمال کے لئے ضروری ہے کہ کسی کو چھوٹا نہ سمجھے۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جو ایک کے لئے چھوٹی مگر دوسرے کے لئے بڑی ہوتی ہے۔
بات یہ ہے کہ دُنیا میں بعض لوگ لَا اُبَالِیْ طبیعت کے ہوتے ہیں اور بعض بُزدل اور سُست۔ ان دونوں قسم کی طبیعتوں کے لحاظ سے چھوٹی بات بڑی اور بڑی چھوٹی ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ جولَا اُبَالِیْ طبیعت رکھتے ہیں ان کے لئے وہ چیزیں جنہیں دُنیا چھوٹی سمجھتی ہے بڑی ہوتی ہیں اور جن کو دُنیا میں بڑا سمجھا جاتا ہے وہ ان کے لئے چھوٹی۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو سُست اور کسل مند ہوتے ہیں ان کے لئے وہ اشیاء جن کو بڑا کہا جاتا ہے بڑی ہوتی ہیں اور جن کو چھوٹا کہا جاتا ہے وہ چھوٹی۔ تو درحقیقت بڑی اور چھوٹی چیزیں انسان کے اعمال کے لحاظ سے ہوتی ہیں یعنی جس کو انسان کر سکے وہ چھوٹی اور جس کو نہ کر سکے یا مشکل سے کر سکے وہ بڑی ہوتی ہے۔ مثلاً ایک چیز ایک انچ زمین پر پڑی ہو اور دوسری دس انچ زمین پر۔ اب ایک انچ جگہ گھیرنے والی چیز ہلکی ہو گی اور دس انچ جگہ گھیرنے والی بھاری لیکن اُٹھانے کے لحاظ سے ایک انچ والی بڑی ہو جائے گی اور دس انچ والی چھوٹی کیونکہ دس انچ والی کی نسبت ایک انچ والی زیادہ مُشکل اور محنت سے اُٹھائی جائے گی۔ تو بڑی چھوٹی چیز انسان کی اپنی طاقت اور ہمت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ لوگ جو لَا اُبَالِیْ طبیعت کے ہوتے ہیں گو دلیر اور بہادر ہوتے ہیں مگر بعض باتوں کو چھوٹا سمجھ کر ان کو عمل میں نہیں لاتے اس لئے وہی ان کے لئے بڑی ہو جاتی ہیں اور جو کاہل اور سُست ہوتے ہیں اور بُزدل ہوتے ہیں ان کے لئے بظاہر چھوٹی باتیں چھوٹی اور بظاہر بڑی، بڑی ہوتی ہیں۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ وہی باتیں جو ایک کے لئے چھوٹی ہوتی ہیں دوسرے کے لئے بڑی ہو جاتی ہیں اور وہ جو دوسرے کے لئے بڑی ہوتی ہیں وہ ایک کے لئے چھوٹی ہو تی ہیں۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مقام سے گزر رہے تھے تو فرمایا۔ یہ جو دو قبریں ہیں ان میں دفن ہونے والوں کو جن باتوں پر عذاب دیا جارہا ہے وہ چھوٹی ہیں مگر پھر بھی بڑی ہیں۔ فرمایا ایک تو وہ ہے جو پیشاب کرتا تھا اور اس کے چھینٹوں سے پرہیز نہ کرتا تھا اور دوسرا وہ ہے جو چغلخوری کرتا تھا۔2 تو فرمایا کہ دو چھوٹی باتوں کی وجہ سے عذاب دیئے جارہے ہیں مگر ہیں وہ بڑی۔ اب اس کے متعلق کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ عجیب بات ہے۔ ایک چیز چھوٹی بھی ہو اور پھر بڑی بھی ۔ اگر وہ چھوٹی ہے تو بڑی کس طرح ہوئی اور اگر بڑی ہے تو پھر چھوٹی کس طرح۔ مگر یہ اس طرح کہ بعض وہ لوگ جو ہمّت اور استقلال اور بہادری رکھتے ہیں وہ بڑے بڑے کاموں کو تو کرتے ہیں لیکن وہ باتیں جو ان کی نظر میں معمولی اور چھوٹی ہوتی ہیں ان کو لَااُبَالِیْ طبیعت کی وجہ سے ترک کر دیتے ہیں اور ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور بعض وہ لوگ جو بُزدل ،کمزور اور سُست اور کم حوصلہ ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے متعلق تو بڑی احتیاط کرتے ہیں مگر بڑی بڑی کو بالکل چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کی مثال عام طور پر دُنیا میں مل جاتی ہے۔
کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا مال و جان دین کے لئے دینے کو تیار ہوں گے، نمازیں باقاعدہ اور بِلاناغہ پڑھیں گے، روزے رکھیں گے، زکوٰۃ دیں گے مگر ساتھ داڑھیاں منڈوائیں گے یا شریعت میں جتنی بھی رکھنے کا حکم ہو اتنی نہ رکھیں گے حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے داڑھی منڈوانے سے منع فرمایا۔ یہ ان کا لَااُبَالِیْ پن ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بڑے بڑے احکام مانتے ہیں تو داڑھی کا کیا ہے؟ کیا ایمان داڑھی کے بالوں پر آرہا ہے کہ اگر نہیں ہوں گے تو ایمان بھی نہیں ہو گا۔ یہ تو ہوئی لَااُبَالِیْ طبیعت کے لوگوں کی مثال۔
دوسری قسم کے لوگوں کی مثال یہ ہے کہ بعض ایسے ہوں گے جو دوسروں کے مال کھاجائیں گے، دھوکا اور فریب کر گزریں گے، ظلم و ستم سے باز نہ آئیں گے لیکن اگر کسی کا پاجامہ ٹخنے سے نیچے دیکھ لیں گے تو آگ بگولا ہو جائیں گے۔ اگر سجدہ میں ہاتھ کھلے نہ ہوں گے تو فتویٰ لگا دیں گے کہ نماز ہی باطل ہو گئی ہے۔ اس قسم کی باتیں ادنیٰ طبیعت اور کمزور طبائع کے لوگ کیا کرتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا بنا کر دکھاتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ ہم بھی کچھ کر رہے ہیں۔ مثلاً داڑھی کے متعلق کہیں گے کہ یہی سارا اسلام ہے، پاجامہ ٹخنہ چھوڑ پنڈلی سے بھی اوپر چڑھالیں گے اور کسی کو انگریزی وضع کا کوٹ پہنے ہوئے دیکھیں گے تو جھٹ فتویٰ لگا دیں گے کہ یہ سُنت کے خلاف ہے۔ رسولِ کریم کے وقت ایسا کوٹ نہیں پہنا جاتا تھا لیکن یوں دین کے لئے ایک پیسہ خرچ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوں گے اور ذرا ذرا سی باتوں پر اسلام کو پسِ پشت پھینک دیں گے۔ تو ایسے لوگ چھوٹی باتوں کو بڑا اور اہم قرار دیا کرتے ہیں تاکہ اس طرح اپنی بُزدلی اور کم ہمتی کو چھپائیں۔ گو اس بات کا ان کے دل میں احساس نہ بھی ہو مگر بات یہی ہے کہ ان کے اندر کمزوری اور بُزدلی اور سُستی کا جو مادہ ہوتا ہے وہ انہیں اس طرف لے جاتا ہے اور وہ معمولی معمولی باتوں کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اسلام کے لئے ہر ایک تکلیف اور مُشکل اُٹھانے کے لئے تیار ہوں گے، جان و مال خرچ کر دیں گے اور ہر ایک قُربانی کرنے پر آمادہ ہوں گے لیکن بعض باتوں کو چھوٹا اور معمولی سمجھ کر ان کی طرف توجہ نہیں کریں گے۔ کئی ایسے ہی انسان داڑھیاں منڈوائیں گے یا اور اسی قسم کی کوئی بات کریں گے حالانکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی معرفت جہاں شریعت کے دوسرے احکام پہنچے ہیں وہاں آپ ہی نے داڑھی رکھنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔ 3
تو احکام کی تفصیل پر نظر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کو مدّ نظر رکھا جائے کہ کسی حکم کو چھوٹا اور معمولی نہ سمجھا جائے اور چھوٹائی بڑائی کا انحصار اس پر نہ رکھا جائے کہ فلاں مولوی یا صوفی نے فلاں فعل کو بڑا قرار دے دیا ہے اس لئے وہ بڑا ہے یا فلاں کو چھوٹا قرار دیا ہے اس لئے وہ چھوٹا ہے بلکہ اپنی طبیعت کو دیکھے کہ کس کام کے کرنے کی طرف میری طبیعت مائل ہوتی ہے اور کس کی طرف نہیں لیکن اگر ایسا فعل ہے جس کو چھوٹا قرار دیا گیا ہے لیکن وہ نہیں کرتا تو اس کے لئے وہ بڑا ہے اور اگر ایک ایسا فعل ہے جسے بڑا قرار دیا گیا ہے مگر وہ اس کو عمل میں لاتا ہے تو وہ اس کے لئے چھوٹا ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اعمال کی اس تقسیم میں کسی کو صغیرہ اور کسی کو کبیرہ اس لئے نہ قرار دے کہ فلاں مولوی اور فلاں صوفی نے ایسا کیا ہے بلکہ اپنی طبیعت پر غور کرے اور دیکھے کہ کس کس فعل کو مَیں آسانی سے کر سکتا ہوں اور کس کو مُشکل سے۔ جس کو وہ آسانی سے کر سکے وہ اس کے لئے چھوٹا ہے خواہ نماز ہی کیوں نہ ہو اور جس کو مُشکل سے کر سکے وہ اس کے لئے بڑا ہے خواہ داڑھی رکھنا ہی ہو۔ یہی بات نواہی کے متعلق ہے مثلاً ایک شخص اسے دُکھ دیتا ہے، تنگ کرتا ہے، نقصان پہنچاتا ہے مگر باوجود اس کے اس کی طبیعت خدا کے خوف سے اسے قتل کرنے سے بچتی ہے لیکن ایک اور شخص ہے اس کے ساتھ ہنس کر بولنا بھی اس کے لئے مُشکل ہے اور اس کی طبیعت گوارہ نہیں کرتی تو وہ یہ نہ سمجھے کہ قتل گناہِ کبیرہ تھا اس سے تو میں بچ گیا ہوں اور ہنس کر نہ بولنا صغیرہ گناہ ہے یہ اگر کر لیا تو کیا ہؤا۔ اس کے لئے یہی کبیرہ ہے اور قتل کرنا صغیرہ۔ اسی طرح ہر ایک بات کے متعلق انسان دیکھ سکتا ہے اور اپنے لئے کبائر اور صغائر کا پتہ لگا سکتا ہے اور جب کوئی اعمال کی اس تقسیم کو مدّ نظر رکھے گا تو اس کے لئے محاسبہ میں بہت آسانی اور سہولت ہو جائے گی۔ (باقی آئندہ انشاء اﷲ)’’ (الفضل 5مارچ 1918ء)
1 ترمذی ابواب صفۃ القیامۃ باب حدیث الکیس مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ (الخ)
2 بخاری کتاب الوضوء باب من الکبائر اُن لا یستترمن بولہٖ
3 سنن ابی داؤد کتاب التّرجل باب فی اخذ الشارب

9
دُعاؤں پر خاص زور دو
(فرمودہ یکم مارچ 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَ لْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ۔1
اور فرمایا:-
''مَیں نے پچھلے چار جمعوں میں اس امر کے متعلق کہ ایمان کے کامل کرنے کے لئے کن امور پر عمل کرنا ضروری ہے بیان کیا تھا اور ارادہ ظاہر کیا تھا کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو بعض تفاصیل بیان کروں لیکن ایک خاص ضرورت سے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ مضمون تفصیل چاہتا ہے اور آج میرے حلق میں درد ہے ایک اور امر کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
اِس موسم میں اکثر ہندوستان میں طاعون پھیلا کرتی ہے اور اب بھی جیسا کہ مختلف جگہوں کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے طاعون پھیل رہی ہے۔ پنجاب کی اموات بھی ترقی کر رہی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں بھی زیادہ پھیلے گی کیونکہ ہماری جماعت کے افراد ایک جگہ نہیں۔ بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں پر ایک ایک دو دو کر کے رہتے ہیں لہٰذا طاعون جہاں بھی ہو وہاں ہمارے آدمی بھی ضرور ہیں۔ پس ضرورت ہے کہ اس مرض سے بچنے کے لئے تمام جماعت دُعاؤں میں لگ جائے۔ قرآن شریف اور سنّت اﷲ سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کے آنے سے پہلے جو دعائیں کی جائیں وہ قبول ہؤا کرتی ہیں۔ اگر وہاں کے لوگ جہاں طاعون نہیں وہاں کے لوگوں کے لئے دُعائیں کریں جہاں طاعون ہے تو اب جبکہ سخت حملہ نہیں ہؤا مَیں اُمید کرتا ہوں کہ اِنْشَاءَ اﷲ دُور ہو جائے گی اور جہاں پڑ گئی ہے وہاں کے لوگوں کو تو بالخصوص دُعاؤں میں لگ جانا چاہئے۔
موت تو ہر ایک انسان کو آنی ہے لیکن چونکہ طاعون حضرت صاحب کی پیشگوئی کے ماتحت آئی ہے اِس لئے اگر کوئی احمدی اس میں مبتلا ہوتا ہے تو لوگوں کو ابتلاء آتا ہے کیونکہ یہ مرض غیروں کے لئے بطور عذاب کے ہے۔ اگرچہ اس میں ہمارے بعض آدمیوں کا مبتلا ہونا کوئی بات نہیں ہے۔ دیکھو صحابہ رِضْوَانُ اﷲِ عَلَیْہِمْ کے وقت میں تلوار کفّار کے لئے بطور عذاب کے تھی مگر اس تلوار کی جنگ میں صحابہ ؓ بھی مارے جاتے تھے مگر ان کے لئے عذاب نہ تھی کیونکہ اس وقت تلوار سے مرنا دشمنوں کے لئے تباہی تھی۔ صحابہ ؓ کے لئے تباہی نہیں تھی کیونکہ صحابہ ؓ مرنے سے کم نہیں ہوتے تھے بلکہ بڑھتے تھے اور دُشمن مرتے تھے اور کم ہوتے چلے جاتے تھے۔
پس جس مرنے سے کوئی قوم بڑھ جائے وہ اُس کے لئے عذاب نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی جو ناواقف لوگ ہوتے ہیں وہ ابتلاء میں پڑجاتے ہیں کہ جب یہ مرض بطور عذاب کے ہے تو احمدی کیوں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو ابتلاء سے بچانے کے لئے دُعاؤں کی ضرورت ہے کہ اﷲ تعالیٰ جماعت کو محفوظ رکھے۔ مختلف ذریعوں سے معلوم ہؤا ہے کہ طاعون کا حملہ سخت ہے۔ قادیان کے چاروں طرف طاعون ہے۔ پس دوستوں کوچاہئے کہ اپنے لئے بھی اور دوسرے بھائیوں کے لئے بھی دُعائیں کریں کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب ایک شحص دوسرے کے حق میں دُعا کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی دُعا کو قبول کرتا ہے اور دُعا کرنے والے کے کام بھی درست کرتا ہے۔2 خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب ایک شخص مخلوق ہو کر دوسرے کے لئے اس قدر کوشش کرتا ہے تو مَیں تو خالق ہوں مَیں کیوں نہ اس پر فضل کروں۔ پس ایک دوسرے کے لئے دُعائیں کرنے سے دُعائیں بہت قبول ہوتی ہیں۔
طاعون خدا کا ایک عذاب ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ کی تائید کے لئے بھیجی گئی ہے۔ اگر ہماری جماعت کی رفتار ترقی کو دیکھا جائے تو ثابت ہو گا کہ ساٹھ ستّر فیصدی آدمی طاعون کی وجہ سے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں۔ مجھ کو یاد ہے کہ طاعون کے دنوں میں پان پان سَو ہزارہزار آدمی کی بیعت کے خطوط حضرت صاحب کے پاس روزانہ آتے تھے۔تو چونکہ یہ احمدیت کی صداقت کا ایک نشان ہے اور جب تک جماعت کی حفاظت نشان کے طور پر نہ ہو یہ نشان کامل تجلّی کے ساتھ ظاہر نہیں ہو سکتا۔ اس لئے دُعا کرنی چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ امتیازی طور پر ہماری جماعت کو اس مرض سے بچائے۔
دوسرے ہمیں اس سے ایک اور فائدہ بھی اُٹھانا چاہئے۔ خدا کا وعدہ ہے کہ وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ… (الخ) کہ جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو کہہ دو کہ مَیں قریب ہوں کیونکہ میں دُعا مانگنے والوں کی دُعا قبول کرتا ہوں۔ اس کے خزانہ میں دُعا کرنے سے کمی نہیں آجاتی بلکہ انسان ہی دُعائیں کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔
پس جماعت کے لوگوں کو دُعاؤں کے ساتھ ہی اس نشان پر زور دینا چاہئے تاکہ احمدیت خوب پھیلے۔ جانتے ہو کہ اگر گرم لوہے پر چوٹ مارو تو اس کو جس شکل پر چاہو ڈھال لو لیکن ٹھنڈے لوہے پر کچھ اثر نہیں ہؤا کرتا۔ ان دنوں چونکہ دل پگھلے ہوئے ہیں اس لئے احمدیت کے سانچے میں ڈھل جائیں گے۔ طاعون بھی خدا کی طرف سے ایک بھٹی بنائی گئی ہے جس میں دل پگھلائے جاتے ہیں۔ پس تم صداقت کے قالبوں میں ان کو ڈھال لو۔ یہ دن تبلیغ کے دن ہیں۔ دونوں باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔''
(الفضل 9مارچ 1918ء)
1 البقرۃ:187
2 صحیح مسلم کتاب الذکر وَالدعاء باب فَضْل الدعاءِ لِلْمُسْلِمیْنَ بِظَھْرِ الْغَیْبِ


10
ہر ایک چیز میں تغیر ہے اچھے تغیر کے لئے دُعائیں کرو
(فرمودہ 8مارچ1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''اﷲ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت مَیں آج بھی مجبوری کی وجہ سے وہ مضمون جو مَیں نے شروع کیا ہؤا تھا نہیں بیان کر سکتا۔ چونکہ ابھی تک میرا حلق اس قابل نہیں ہؤا کہ سب تک اپنی آواز پہنچا سکوں اس لئے آج مَیں پھر اسی مضمون کو جس کے متعلق پچھلے جمعہ توجہ دلائی تھی کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
سورۃ فاتحہ میں علاوہ ان تمام معارف اور حقائق کے جو بیان کئے گئے ہیں ایک معرفت کا نکتہ یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق کی حالت یکساں نہیں رہتی۔ مخلوق کی تغیر پذیری کہاں سے ثابت ہے؟ سو یاد رہے کہ یہ بات اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ1سے ثابت ہوتی ہے۔ ربّ کے معنے ہیں کہ جو پہلے پیدا کر کے اور پھر اس کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف ترقی دیتا ہؤا لے جائے، پھر اس کی ضروریات کے مطابق آہستہ آہستہ اس کو کمال تک پہنچائے۔ یہ معنی ربّ کے ہیں اور اس سورۃ میں بتلایا گیا ہے کہ تمام جہانوں کا ربّ اﷲ ہے خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین پر، نباتات ہو یا جمادات سب کا ربّ اﷲ ہی ہے۔
ایویلیوشن تھیوری اپنی اصلی صورت میں یہی ہے اِس کے استعمال میں غلطی لگی ہے کہ آیا بندر سے انسان نے ترقی کی ہے یا کیا؟ یورپ نے اس تھیوری کو اب ایجاد کیا ہے لیکن قرآن نے آج سے ساڑھے تیرہ سو برس پیشتر اس حقیقت کو ظاہر کر دیا تھا۔ یورپ کی حیرت انگیز ایجادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر ایک چیز ادنیٰ حالت سے اعلیٰ مدارج پر پہنچتی ہے کیونکہ اگر کوئی ایسی چیز ہو جو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف نہ جاتی ہو تو خدا ربّ العالمین نہیں رہتا۔ اس نکتہ کو ہمیں قرآن نے بتا دیا کہ ہر ایک چیز خواہ کہیں ہو اس میں تغیّر کرنے والا خدا ہے۔
سورۃ فاتحہ تمہید ہے اس تفسیر کی جو خداوند عالم نے انسان کے سامنے دھری ہے۔ پہلے فرمایا کہ ہر ایک چیز میں تغیّر ہے۔ پھر فرمایا الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ2خدا تعالیٰ کے انعام کے دو طریق ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ بغیر کسی محنت کے انعام کرتا ہے۔ دوسرے کسی محنت کے بعد انعامات عنایت فرماتا ہے۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِمیں ربوبیت دو قسم کی بتلائی ہے۔ ایک ربوبیت تو بغیر محنت اور دوسری بعد محنت۔
پھر فرمایا۔ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ3 یعنی جو اس ربّ کی ربوبیت ہے وہ لغو نہیں بلکہ اس نے جزاء و سزا رکھی ہے۔ ربوبیت کے بعد نتائج نکلتے ہیں۔پھر فرمایا۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ4 وہی ربوبیت جو الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِمیں بیان کی تھی وہی اس جگہ دوسری طرح بیان کی گئی ہے۔ اس جگہ رحیمیت کو پہلے رکھا ہے اور رحمانیت کو بعد میں۔ رحیمیت یہ ہے کہ انسان کچھ کرتے ہیں اور بعد میں خدا کی طرف سے انعامات کا صدور ہوتا ہے۔
اس کے متعلق ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب خدا کی طرف سے یونہی بغیر کسی محنت کے رحمانیت کے ماتحت انعام ہو رہا ہے تو پھر اس سوال سے کیا مطلب ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں۔ یعنی صفتِ رحیمیت کے ماتحت سوال کرتے ہیں جبکہ رحمانیت کے ماتحت خودبخود انعامات حاصل ہو رہے ہیں۔
پس رحیمیت پہلے کیوں رکھی گئی ہے؟ یہ ایک خاص نکتہ ہے جس کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے قرآن کریم پر اِس رنگ میں غور کیا ہے کہ قرآن شریف میں کوئی لفظ بیہودہ نہیں۔ اس میں اﷲ تعالیٰ نے ایک لطیف بات بیان کی ہے۔ اس خیال کے مطابق تو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ وَ اِيَّاكَ نَعْبُدُ چاہئے تھا کوئی کہہ سکتا ہے کہ قافیہ ملانے کے لئے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ دیا لیکن اگر کوئی انسان غور کرے گا تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ قرآن قافیہ نہیں ملاتا بلکہ یہ اور ہی باتیں مدِّنظر رکھتا ہے۔ ہاں اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ قافیہ بھی مل جاتا ہے۔ پس اب غور کرنا چاہئے کہ اس میں کیا وجہ اور حکمت ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ رحمانیت دو قسم کی ہوتی ہے ایک جو رحیمیت کے بغیر ہوتی ہے اور دوسری وہ جو رحیمیت کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ عام ہے اس میں کافر و مسلم کی تمیز نہیں۔ مثلاً انسان کو آنکھیں دی گئی ہیں مگر بعض اوقات کوئی مسلمان نابینا ہو گا اور کافر سوجاکھا۔ غرض ساری مخلوق کے ساتھ عام ہے۔ یہ رحمانیت جب تک ہر انسان کے ساتھ نہ ہو وہ کچھ بھی کام نہیں کر سکتا۔ منہ میں زبان ہو گی تو بولے گا، کان ہوں گے تو سُنے گا، ہاتھ ہوں گے تو کام کرے گا، پَیر ہوں گے تو چلے گا پھرے گا۔ اگر ہاتھ نہ ہوں آگ لگ جائے تو آگ کیونکر بُجھائے گا۔ یہ وہ رحمانیت ہے جس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ پس ملی ہوئی چیز کا مانگنا تحصیل حاصل ہے۔ اس عام رحمانیت کے مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو اُس وقت دے دی جاتی ہے جس وقت ہم ابھی دُنیا میں آئے بھی نہیں ہوتے۔ دوسرا قدم رحیمیت ہے اور پھر تیسرا رحمانیت جو خاص مومن سے تعلق رکھتی ہے۔ تین درجے ہیں اوّل رحمٰن، دوم رحیم، پھر تیسرا درجہ رحمٰن۔ پہلے رحمانیت ہوتی ہے اور پھر رحیمیت، اس کے بعد خاص رحمانیت اور یہ رحمانیت جو آخری درجہ کی ہوتی ہے اور مومنوں سے ہی خاص ہوتی ہے اس کو بھی اﷲ تعالیٰ کسی اعمال اور نیکی کے بدلہ میں نہیں لانا چاہتا۔ مثلاً نبوت جو ہے وہ ایک موہبت ہے اور یہ رحمانیت ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کسی کافر مشرک اور بدکار کو نبی بنادے بلکہ اس رحمانیت کا نزول نیک اور پاک بندوں پر ہی ہوتا ہے ۔ نبوت تو بڑا درجہ ہے۔ الہام کا درجہ بھی موہبت سے ہی ملتا ہے۔ قرآن شریف میں آتا ہے۔ اَلرَّحْمٰنُۙ۔ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ۔خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ۔عَلَّمَهُ الْبَيَانَ۔5 پس یہ رحمانیت خاص ہوتی ہے۔ ورنہ پہلی قسم کی رحمانیت میں بعض کافر انبیاء کی نسبت زیادہ موٹے تازہ اور جسیم ہوتے ہیں۔ ان کی صحت بھی بوجہ بے فکری کے زیادہ اچھی ہوتی اور نبی کمزور اور بیمار ہوتے ہیں۔ چونکہ پہلی رحمانیت کو بیان کر دیا گیا تھا اس لئے فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۔ اب رحیمیت کے ماتحت کام ہو گا اور بعد میں پھر رحمانیت شروع ہو گی۔
پھر جو مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کی صفت آتی ہے۔ اس میں تغیّر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو پیدا کیا جائے گا۔ اب تغیر دو ہی قسم کا ہوسکتا ہے۔ نیک اور مفید۔ یا دوسرا وہ جو سزا کے باعث ہو۔
تو سورۃ فاتحہ میں ایک عظیم تغیر کا ہونا بیان کیا گیا ہے۔ تغیر تو ہو گا کیونکہ تمام انسان تغیر پذیر ہیں۔ اچھا بھی تغیر ہوگا اور بُرابھی۔ اور یہ دونوں تغیّر ربوبیت کے ماتحت آسکتے ہیں۔ خراب کو وہ کاٹ دیتا ہے اور عُمدہ کو برقرار رکھتا ہے۔
اگر کوئی مالی باغ کے درختوں میں سے بعض کو کاٹ دے اور بعض کی شاخوں کو الگ کر دے تو کوئی نہیں کہے گا کہ یہ مالی باغ کو برباد کر رہا ہے۔ پس ربوبیت دو قسم کی ہوئی کہ بعض دفعہ گرا کر ہی تغیر پیدا کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی طبیب کسی مریض کو دست آوردوائی دیتا ہے تو وہ نادان ہے جو یہ کہے کہ طبیب نے تو اُلٹا اس مریض کو کمزور کر دیا اور اس کی اگلی طاقت کو بھی کھودیا۔یہ کمزوری نہیں پیدا کی گئی بلکہ آئندہ طاقت پیدا کرنے کے لئے ایک ذریعہ اختیار کیاہے۔ پس تغیر دوقسم کے ہوسکتے ہیں۔ اچھے بھی اور بُرے بھی۔ اس لئے آپ لوگوں کو دُعا کرنی چاہئے اور چوکس رہنا چاہئے کہ آپ میں جو تغیر ہو وہ اچھا ہو۔
مَیں نے پچھلے جمعہ بتایا تھا کہ آجکل عذاب کس طرح بڑھ رہے ہیں۔ قحطوں، زلزلوں، بیماریوں وغیرہ کے رنگ میں آرہے ہیں اور آجکل متواتر ڈاک کھولنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ طاعون کثرت سے پھیل رہی ہے۔ یہ ایک تغیر کرنے کا ذریعہ ہے جو خدا نے اختیار کیا ہے اِس لئے اِس تغیّر کے وقت میں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے لئے اچھا تغیر ہو اور باغبان اپنے باغ کی حفاظت کے لئے ہمیں نہ کاٹ دے۔
پس خدا کے حضور دُعائیں کرو اور خُوب کرو۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کے لئے دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی ہر قسم کی آفات سے بچائے اور جماعت کی ترقی ہو۔ آمین'' (الفضل 16مارچ 1918ء)
1: الفاتحۃ :2 2: الفاتحۃ :3 3: الفاتحۃ :4
4: الفاتحۃ :5 5: الرحمٰن :2 تا 5

11
اتّفاق واتحاد کے قیام کے لئے نصیحت
(فرمودہ 22مارچ 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:-
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۔1
اور فرمایا:-
''دُنیا میں نہایت اہم اور ضروری باتوں میں سے اتحاد و اتفاق و اجتماع کا خیال ہے لیکن باوجود اس کے کہ جس طرح فساد و افتراق کے نقصانات ظاہر ہیں اور کسی چیز کے شاید نہیں اور باوجود اس کے کہ اتفاق و اتحاد کے فوائد بیّن اور ظاہر ہیں شاید ہی کسی اور چیز کے ہوں گے مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کھلی کھلی باتوں اور بیّن علامات کے ہوتے ہوئے اتفاق کو حاصل کرنے اور فساد کو ترک کرنے کی لوگ کوشش نہیں کرتے۔
دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قوموں نے اتفاق کے ذریعہ ہی ترقی حاصل کی ہے اور وہ جماعتیں جو گومالدار ہوں اور کثرتِ افراد کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہوں وہ تفرقہ اور نفاق کی وجہ سے ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں جن میں جتھا اور اجتماع اور اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن جماعتوں نے ایک جان ہو کر پورے اتفاق و اتحاد سے اپنے سے بڑی بڑی طاقتوں اور جماعتوں کا مقابلہ کیا ہے وہ ضرور کامیاب ہوئی ہیں اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکا۔
اس سے اتفاق کے فوائد اور فساد کے نقصانات ظاہر ہیں لیکن لوگ باوجود اس کے اتفاق کے حاصل کرنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں اور بہت چھوٹے چھوٹے شخصی فوائد کے مقابلہ میں قومی فوائد کی کچھ پرواہ نہیں کرتے جوبہت ہی حیرت کی بات ہے۔ وہ بات جو پوشیدہ ہو اور اس کے نتائج ظاہر نہ ہوں اگر اس میں اختلاف کیا جائے یا اس کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو انسان کو مجبور کہا جاسکتا ہے لیکن جو اس قدر ظاہر ہو اور مشاہدہ میں آتی ہو اس میں ایسی سُستی اور اس سے اتنی لاپرواہی بہت ہی تعجب انگیز ہے۔
مثلاً اﷲتعالیٰ کا انکار ایک مذہبی معاملہ ہے اور اس کا اقرار دلائل چاہتا ہے کہ اگر اﷲ ہے تو اس کے ہونے کے کیا دلائل ہیں مگر بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں جو قلوب سے متعلق اور قوانینِ نیچر کی طرح مبرہن ہوتی ہیں اور انہیں میں سے ایک اتفاق ہے۔ اس کے متعلق خواہ دہریوں سے پوچھو یا ہندوؤں سے، خواہ برہموؤں سے پوچھو یا پارسیوں سے، عیسائیوں سے پوچھو یا یہودیوں سے ،سکھوں سے پوچھو یا بدھوں سے۔ غرض دُنیا کی کسی قوم سے پوچھو یہی جواب ملے گا کہ اتفاق و اتحاد ہی مفید اور فائدہ بخش چیز ہے۔ پس تمام لوگ اس کی ضرورت کو تسلیم کریں گے۔
ہاں بعض افراد ہوں گے جو بحیثیت جماعت نہیں بلکہ انفرادی طور پر اتفاق و اتحاد پر فساد و فتنہ کو ترجیح دیں گے لیکن یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ذاتی فوائد کو جماعت کے فوائد پر مقدم سمجھتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر باقی تمام دُنیا کا عمومیت کے ساتھ اتفاق و اتحاد کی ضرورت اور فضیلت پر متفق ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اس کے فوائد بھی ظاہر ہیں اور فسادو فتنہ کے نقصانات بھی ظاہر ہیں اور اگرچہ جس قدر خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت اور براہین صاف اور واضح ہیں ان کے مقابلہ میں ان کو کچھ نسبت نہیں۔ تاہم دُنیا کی نظروں میں خدا کی ہستی کے بھی ایسے دلائل نہیں جیسے اتفاق و اتحاد کے فوائد اور نااتفاقی و شقاق کے نقصانات ظاہر ہیں کیونکہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کو تمام دُنیا کے لوگ مانتے ہیں حالانکہ بہت لوگ ایسے ہیں جو خدا کی ہستی کے مُنکر ہیں تو ان کو انسان اس طرح مانتے ہیں جس طرح دیگر قوانینِ نیچر مثلاً بھُوک اور پیاس کو۔
کوئی مذہب یہ نہیں کہے گا کہ جب بھُوک لگے تو کپڑا پہن لینے سے پیٹ بھر جاتا ہے یا پیاس لگے تو دوڑنے سے دُور ہو جاتی ہے۔ اب کوئی یہ ایسا مسئلہ نہیں جس کے لئے آسمانی قانون کی ضرورت ہو۔ قانونِ نیچر اس کے لئے کافی ہے۔ اسی طرح اتفاق بھی ہے اور ہم تجربہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ بھی کسی قانونِ شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ قانونِ قدرت کے ماتحت ہے۔
اور اس دُنیا میں قانونِ قدرت کی خلاف ورزی کی سزائیں معیّن ہوتی ہیں لیکن قانونِ شریعت کی نہیں۔ اگر کوئی قانونِ شریعت کے کسی جُرم کا ارتکاب کرے گا تو مثلاً اس کی اولاد مرجائے گی یا جائداد ضائع ہو جائے گی، یا کوئی اور ذلّت اسے پہنچ جائے گی، یا اس کے دل کا امن جاتا رہے گا۔ اسی قسم کی بہت سی سزائیں ہیں جو قانونِ شریعت کے خلاف کرنے والوں کو ملتی ہیں ان میں سے کوئی نہ کوئی سزا انہیں ضرور ملے گی مگر یہ نہیں ہو گا کہ ان کے لئے کوئی خاص سزا اسی طرح معیّن ہو جس طرح قوانینِ نیچر کے خلاف کرنے والوں کے لئے سزائیں مقرر ہیں۔ مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ کوئی شخص آگ میں ہاتھ ڈالے تو اس کی ماں مر جائے بلکہ آگ میں ہاتھ ڈالنے والے کا لازماً ہاتھ ہی جلے گا کیونکہ ایسا کرنے والے کے لئے قانونِ قدرت نے یہی سزا مقرر کی ہے۔ پھر شریعت کے قانون کے ماتحت جو سزائیں ہوتی ہیں وہ کئی قسم کی ہوتی ہیں اور ہر درجہ کی سزا الگ ہوتی ہے۔ ایک بخیل کی سزا اس کا بچہ مرنا نہیں کیونکہ اس کو اولاد کی محبت ہی نہیں۔ اس کا تو اگر مال ضائع ہو تب اس کو دُکھ ہو گا۔ اِس لئے اس کے لئے سزا مال کا ضائع ہونا ہے کیونکہ قانونِ شریعت میں سزا کی غرض اس شخص کو دُکھ پہنچانا ہوتا ہے مگر قانونِ نیچر کے ماتحت دُکھ پہنچانا غرض نہیں ہوتا بلکہ ایک نتیجہ نکالنا مدِّ نظر ہوتا ہے خواہ اس میں اس کو تکلیف ہو یا نہ ہو۔ اگر ایک ایسا مومن جو مال کی ضرورت نہیں سمجھتا بلکہ خواہش رکھتا ہے کہ میرے ہاں اولاد ہو جو دین کی خدمت کرے اب تو قانونِ شریعت کے ماتحت اس کو مال دینا اور اولاد سے محروم رکھنا درست نہ ہو گا بلکہ اس کو اولاد ہی دی جائے گی کیونکہ اس کو خوش کرنا مدِّنظر ہو گا لیکن قانونِ قدرت میں ایسا نہیں ہو گا۔ اس میں کسی فعل کا جو نتیجہ مقرر ہو گا وہی نکلے گا۔
تو اتفاق قوانینِ قدرت میں سے ہے کیونکہ اگر اتفاق مٹ جائے تو رُعب جاتا رہتا ہے۔ حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے، عزت برباد ہو جاتی ہے۔ پھر جب اس کے ساتھ شریعت کا تعلق بھی ہو گا تو اس کے مٹنے سے نتائج اور بھی خطرناک نکلیں گے۔
پس اتفاق و اتحاد کے اثرات ظاہر ہیں اور تمام دُنیا ان کو جانتی ہے لیکن پھر بھی بہت لوگ اس کی قدر نہیں کرتے۔ چنانچہ دُنیا میں ایسی قومیں کثرت سے ہیں جن میں اتفاق نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس قانون کی ضرورت کو مانتے تو ہیں مگر شخصی فوائد جب درمیان آجاتے ہیں تو اس کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے۔
لیکن مَیں نے بتایا ہے اور میرے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ اتفاق و اتحاد کا پیدا ہونا نہایت مُشکل امر ہے اور یہ محض خدا کا فضل ہوتا ہے اور جب کسی جماعت میں یہ پیدا ہو جائے تو اس کی حفاظت کی بہت سخت ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ اتفاق بغیر خدا کے فضل کے پیدا نہیں ہو سکتا اس لئے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ایک نعمت قرار دیا ہے اور افتراق و شِقاق کا نام آگ کے کنارے کھڑا ہونا رکھا ہے۔ جس طرح آگ میں پڑا ہؤا انسان ہلاکت سے نہیں بچ سکتا اِسی طرح نااتفاقی کے جو نتائج ہیں ان سے بھی نہیں بچ سکتا۔ پس نا اتفاقی کا عذاب ایسا ہی عذاب ہے جیسا کہ آگ میں پڑجانے کا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو ہم نے اتفاق و اتحاد اپنے فضل سے پیدا کیا ہے۔ تم خواہ کتنا ہی مال خرچ کرتے تب بھی اتفاق نہیں پیدا کر سکتے تھے۔ لاکھوں دلوں کا جمع کرنا اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ انسانی کوششوں کا بھی اس میں دخل ہوتا ہے لیکن اتفاق پیدا کرنا انسان کے بس کا نہیں ہوتا۔ خدا اسے اپنے فضل سے ہی کر دیتا ہے کیونکہ اسباب اس قدر نہیں ہوتے جس قدر وہ نتائج عطا فرماتا ہے۔ پس کوشش کے نتیجہ میں اتفاق پیدا نہیں ہوتا بلکہ فضل کے طور پر اﷲ تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے۔ جب اس مُشکل سے یہ بات حاصل ہوتی ہے تو اس کی بے قدری کتنی بڑی غلطی ہے۔ جب یہ انسانی کوششوں سے ملتی ہی نہیں بلکہ محض خدا کے فضل سے ہی ہے تو چاہئے کہ اس کے ملنے پر لوگ اس کی قدر کریں مگر نہیں ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ غالب نے کہا ہے ؎
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِجم سے مِرا جامِ سفال اچھا ہے 2
کہتا ہے کہ میرا مٹّی کا پیالہ ٹوٹ گیا تو اور بازار سے لے آؤں گا کیونکہ اس کا ملنا کچھ مُشکل نہیں۔ اس لئے یہ جامِ جم سے بہتر ہے کیونکہ اگر وہ ٹوٹ جائے تو اس کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ جو چیز سستی اور آسانی سے مل جائے اس کی قدر نہیں کی جاتی۔ افسوس کہ اتفاق کو ایسا ہی سمجھ کر قدر نہیں کی جاتی حالانکہ جب یہ توڑ دیا جائے پھر اس کا جُڑنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہاں جب اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک بہت لمبے عرصہ کے بعد اس کے لئے خاص سامان مہیا کرتا ہے۔ تب جاکر اتفاق پیدا ہوتا ہے۔
خدا تعالیٰ کی قدیم سے یہ سُنت ہے کہ جب اس نے کسی جماعت کو نااتفاقی سے بچانا ہوتا ہے تو اس میں سے فساد کرنے والے حصّہ کو نکال دیتا ہے جیسا کہ ہماری جماعت میں جب ایک ایسا عنصر پیدا ہو گیا جو اتفاق و اتحاد کو توڑنے والا تھا تو اﷲ تعالیٰ نے اِس کو جماعت سے نکال دیا۔ اس سے غرض یہ تھی کہ ہم میں پھر نااتفاقی نہ پیدا ہو مگر باوجود خدا کے اس فضل کے بعض لوگ اس کی قدر نہیں کرتے اور ایسے طریق پر چلتے ہیں جس سے فساد ہو۔
اس زمانہ میں سوائے احمدیوں کے اور کوئی جماعت نہیں جس میں مذہب کی خاطر اتفاق ہو اور لوگ جن میں اتفاق ہے وہ دُنیا کے لئے ہے مگر دین کے لئے صرف احمدیوں میں ہی ہے اور احمدی ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کی خاطر شقاق و نفاق کو اپنے سینوں سے نکال دیا ہے۔ پس جب ان میں خدا کے فضل سے اتفاق و اتحاد پیدا ہو گیا ہے تو نہایت ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کریں۔
دُنیا میں اس وقت اسلام کی جو حالت ہے وہ کسی عقلمند سے پوشیدہ نہیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کی ترقی اور کامیابی کے وعدے نہ ہوتے تو یہ سو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا مہمان نظر نہ آتا۔ اگرچہ ایسے نادان اور جاہل لوگ بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ سلطانِ روم جس وقت گھوڑے پر سوار ہوتا ہے تو تمام یورپ کے بادشاہ نوکروں کی طرح اس کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہیں مگر ان کو کیا معلوم ہے کہ سلطانِ روم یورپ کے بادشاہوں کے لئے اس پائیدان کی طرح ہے جس سے کمرہ میں داخل ہوتے وقت پاؤں پونچھے جاتے ہیں۔ پھر بعض کہا کرتے ہیں کہ شاہِ کابل کے پاس اتنی فوج ہے کہ جس کا مقابلہ دُنیا میں کوئی نہیں کر سکتا اور انگریز ڈر کر اس کو روپیہ دیتے ہیں حالانکہ نہیں جانتے کہ کابل ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس کو انگریزوں نے ہی قائم رکھا ہؤا ہے۔ اگر ایسے لوگ اسلام کی موجودہ حالت کو قابلِ اطمینان بتائیں تو بے شک بتائیں مگر جن کو پتہ ہے وہ نہیں کہہ سکتے۔ وہ تو دیکھتے ہیں کہ اسلام آج کا نہیں توکل کا مہمان ہے۔ ایسی حالت میں جو اسلام کی ترقی کے سامان ہیں اگر ہم ان کو ضائع کر دیں تو کتنے بڑے افسوس کی بات ہو گی۔
مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ہاں انجمنیں قائم کرتے ہیں اصلاح کے لئے اور کام کرنے کے لئے لیکن ان میں فساد اور جھگڑے کھڑے کر دیتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا بات ہے۔ مسلمانوں کو قرآن میں حکم ہے۔وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا کہ اﷲ کی حبل کو مضبوط پکڑلو اور پراگندہ نہ بنو۔ اﷲ تعالیٰ نے حفاظتِ اسلام کے لئے جو حبلُ اﷲ تجویز کئے ہیں ان میں سے انبیاء اور ان کے خلفاء بھی ہیں کہ ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنی چاہئے لیکن کئی لوگ عصیان اور سرکشی کرتے ہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اطاعت کا نام تولیتے ہیں لیکن اطاعت نہیں کرتے۔ معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے کھڑے کر دیتے ہیں۔
کیا جب جہاز ڈوب رہا ہو تو جہاز کے آدمی آپس میں لڑیں گے؟ ہر گز نہیں۔ اس وقت تو خواہ کوئی کسی دوسرے کا روپوؤں سے بھرا ہؤا بٹوا بھی اُٹھالے تو بھی وہ نہیں لڑے گا کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اگر یہ بٹوا لیتا ہے تو لے لے ابھی چند منٹ میں تو زندگی ختم ہونے والی ہے پھر لڑائی کیسی؟ مگر یہاں ایک جہاز نہیں لاکھوں جہاز ڈوب رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دین کا جہاز ڈوب رہا ہے اور لوگ پرواہ نہیں کرتے لڑائیوں اور جھگڑوں میں لگے ہوئے ہیں۔ شاید یہ خیال کرتے ہوں کہ ہم اپنی جان بچالیں گے مگر اگر یہی حالت قائم رہی اور اتفاق و اتحاد نہ رہا تو پھر کوئی ترقی نہیں جو وہ کر سکیں اور کوئی طاقت نہیں جو ان میں اتفاق پیدا کر سکے مگر جب اﷲ چاہے۔
پس چاہئے کہ تمام لوگ اپنے کاموں کو سوچ سمجھ کر کیا کریں اور کوئی بات ایسی نہ کیا کریں جس سے اتفاق و اتحاد کو نقصان پہنچتا ہو۔
معمولی معمولی باتوں پر جھگڑنا نہایت خطرناک ہوتا ہے مگر جب دیکھو ایسی ہی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں حالانکہ یہ وقت ایسی بیہودہ باتوں پر لڑائی کر کے ضائع کرنے کا نہیں ہے کیونکہ اس وقت اسلام کی موت و حیات کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس قسم کی بے ادبیوں اور سرکشیوں سے جو ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں ظاہر کی جاتی ہیں پارٹیاں بن جاتی ہیں اور وہ نعمت جس کو اتفاق و اتحاد کہا جاتا ہے اور جو محض خدا کے فضل سے ہی ملتی ہے بے وجہ ضائع ہو جاتا ہے اور مجموعی قوت جو جماعت میں ہوتی ہے ان پارٹی بازیوں اور تفرقہ پردازیوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے۔
پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑنا اور ذرا ذرا سی باتوں پر بحث و تکرار اور بے ادبی و سرکشی اور نفس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے اور وہ وقت جو اس قسم کے جھگڑوں میں ضائع کیا جاتا ہے اگر قرآن کریم کی کسی آیت پر غور کرنے میں صرف کیا جائے تو ممکن ہے کہ کوئی نکتہ ہاتھ آجائے۔’’ (الفضل 2اپریل 1918ء)
1: اٰل عمران:104
2: دیوان غالب صفحہ 203 مکتبہ اعجاز لاہور 1998ء





12
مصائب میں قدم آگے ہی بڑھے
(فرمودہ 21جون1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:-
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١ٞ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًا1
اور فرمایا:-
''اﷲ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت تین مہینہ کے بعد مجھ کو آپ لوگوں کو کچھ سنانے کا موقع ملاہے۔ خطبہ جمعہ درحقیقت مُسلمانوں کو ان کے فرائض سے آگاہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے جسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے۔ اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا خود خدا نے ہی مقررفرمایا ہے۔ درحقیقت انسان کی عادت کو ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے فرائض سے بار بار آگاہ نہ کیا جائے تو غافل ہو جاتا ہے سوائے اس شخص کے جس کا دل ایسا مصفّٰی اور مجلّٰی ہوجائے اور اس کو رؤیت کا مقام حاصل ہو جائے۔ ایسے شخص کے علاوہ باقی تمام انسان بار بار کی آگاہی اور تنبیہہ کے محتاج ہیں۔ حتّٰی کہ اﷲ کے رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ بھی اس کے محتاج تھے۔
ایک صحابی ؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا کہ مَیں تو منافق معلوم ہوتا ہوں۔ آپ ؐ نے فرمایا کِس طرح؟ اس نے کہا جب حضور کے سامنے آتا ہوں تو دوزخ اور جنّت دونوں میرے سامنے آجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنّت ہے۔ اگر مَیں خدا کی اطاعت کروں گا تو اس میں مجھ کو جگہ دی جائے گی اور اگر اس کی نافرمانی کروں گا تو یہ دوزخ ہے اس میں مجھے ڈال دیا جائے گا لیکن جب حضور ؐ کے پاس سے چلا جاتا ہوں تو یہ حالت نہیں رہتی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری ہر وقت ایک سی حالت رہے تو پھر تم ہلاک نہ ہو جاؤ۔2 اب دیکھئے وہ کیا چیز تھی جو اس صحابی ؓ کے سامنے دوزخ اور جنت کو لا کھڑا کرتی تھی۔ وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صورت مبارک تھی جس کو دیکھ کر اقرار کرنا پڑتا تھا کہ کوئی ضرور خدا ہے جس نے اس شخص کو اپنا رسول بنا کر ہماری اصلاح و ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور جو ہمیشہ اپنے رسولوں کو بھیجا کرتا ہے جو آکر لوگوں کو ہلاکت سے بچاتے ہیں۔ جس طرح واعظ خطبہ سے دوسروں کو کسی امر کی طرف توجہ دلاتا ہے اور الفاظ کو اپنے خیالات اور منشاء کے ادا کرنے کا ذریعہ بناتا ہے اسی طرح خدا کے نبی اپنی شکل کے ذریعہ سے وعظ کرتے ہیں۔ ان کی شکل و صورت مجسم وعظ ہوتی ہے۔ وہ شخص جس کو یہ درجہ حاصل نہیں ہے بیشک اس کے لئے ضروری ہے کہ کھڑا ہو کر وعظ کرے اور الفاظ کے ذریعہ دوسروں کو متأثر کرے۔ مگر وہ جس کا جسم اس کے الفاظ ہوں اور جس کے الفاظ اس کے اعمال ہوں اس کے لئے ضروری نہیں کہ منبر پر چڑھ کر ہی وعظ کرے بلکہ جب اس پر کسی کی نظر پڑتی ہے تو اسے وہ مجسم وعظ نظر آتا ہے جس کا اثر اس پر پڑتاہے۔ تو وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود مبارک ہی تھا جو دوزخ و جنّت دونوں کو سامنے لاکھڑا کرتا تھا مگر لوگوں کے فہم کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ لوگ بھی خطبہ سے کام لیتے ہیں اور ان کو سمجھا دیتے ہیں۔ پھر زبانی واعظ کا سلسلہ اس لئے جاری کیا گیا کہ ہر واعظ کی وہ حالت نہیں ہؤا کرتی جو خدا کے خاص بندوں کی ہؤا کرتی ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم علاوہ اس تعلیم کے جس کے بغیر نجات نہیں آپؐ کا وجودِ مبارک بھی مجسم وعظ تھا مگر اور واعظ جو کھڑا ہوتا ہے تو اس کا وجود اس بات کے لئے کافی نہیں ہوتا اس لئے وہ زبانی بھی کہتا ہے اور اسی کا نام خُطبہ ہے۔ پس خطبات کے ذریعہ مُسلمانوں کو اسلام کے احکام کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہ وہ حکمت ہے جو اسلام نے خطبات میں رکھی ہے۔
خطبات تمام اہم ہیں۔ عیدین کے خطبے، حج کا خطبہ مگر جمعہ کا خطبہ بھی اپنی اہمیت کے لحاظ سے کچھ کم نہیں۔ سو یہ اﷲ تعالیٰ کی کوئی حکمت تھی جس کے ماتحت تین مہینہ تک مجھ کو خطبہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ ڈیڑھ مہینہ کے قریب تو سفر میں گزر گیا اور اس سے پہلے اسی قدر عرصہ تک بیماری کی وجہ سے موقع نہیں مل سکا۔ اس عرصہ میں بیماری کے علاوہ صحت کے قیام کے لئے ڈاکٹر ضروری سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں کہ فکر اور جوش پیدا کرنے والے کسی کام میں حصّہ نہ لوں۔ چنانچہ اس عرصہ میں مَیں نے جماعت کے کاموں میں اس طرح حصّہ نہیں لیا جس طرح پہلے لیتا تھا۔ گویا یہ عرصہ میں نے کسی اَور ہی دُنیا میں گزارا ہے مگر تاہم جماعت کے اعمال اور حالات میری نظر سے پوشیدہ نہیں رہے۔
مَیں آپ لوگوں کے سامنے اس بات پر افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہماری جماعت میں ابھی ایسے لوگ ہیں جو ہر وقت نگرانی چاہتے ہیں اور ان کی حالت ایسے بچوں کی سی ہے کہ جن سے ماں باپ نے ذرا غفلت کی اور اپنی نگرانی کو ہٹایا تو لڑنے جھگڑنے میں لگ گئے۔ یہ یہیں کی حالت نہیں باہر کی جماعتوں کی بھی یہی حالت ہے۔ ذرا توجہ ہٹی تو ان کے قادیان کے ساتھ تعلقات میں سُستی پیدا ہو گئی۔ گویا وہ ایک انتظام کے ماتحت تو جھاڑو کی سینکوں کی طرح بندھے ہوئے ہیں مگر توجہ ہٹنے کے ساتھ ہی تنکوں کی طرح بکھر جاتے ہیں۔
ان ایّام میں بیرونجات سے ایسے خط آئے ہیں کہ ہمیں اب خوب سمجھ آگئی ہے کہ خلافت کی ضرورت ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے کہ ان کو خلافت کی ضرورت معلوم ہو گئی ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ خلافت سے فوائد حاصل کریں۔
میں یہاں کے دوستوں اور بیرونی احباب کو بتلانا چاہتا ہوں کہ خدائی سلسلوں کا کسی خاص شخص سے تعلق نہیں ہؤا کرتا۔ بڑے سے بڑا وجود جو دُنیا میں آیا اور آسکتا تھا وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجودِ مبارک تھا مگر باوجود اس قدر بلند شان کے آپ کی وفات سے بھی اسلام مٹ نہیں گیا، خدا کی طاقت کمزور نہیں ہو گئی۔ وہی خدا جو پہلے تھا اب بھی ہے، وہی اس کی قدرت نمائیاں ہیں۔ خدا کی قدیم سے دو سُنتیں ہیں کہ انبیاء اور ان کے ماننے والے ابتداءً دُنیا وی لحاظ سے بڑی حیثیت اور مال والے لوگ نہیں ہوتے، ان کی فوجیں اور مُلک نہیں ہوتے، کیونکہ اگر وہ لوگ بڑے بڑے مُلکوں اور فوجوں والے ہوں تو لوگوں کو یہ خیال ہو کہ شاید یہ ان فوجوں کے ذریعہ ترقی پاگئے۔ چونکہ غیّور خدا اس امر کو پسند نہیں کرتا کہ اس کے کام کسی انسان کی طرف منسوب کئے جائیں اس لئے اس کے انبیاء اور ان کے متبعین ابتدا میں دنیاوی شان و شکوہ کے مالک نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کی نظر میں حقیر ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی دوسری یہ سنت ہے کہ اپنی کامل قدرت نبی کی وفات کے بعد دکھاتا ہے اور تھوڑی سی اس کی زندگی میں بھی ظاہر کرتا ہے تاکہ جھوٹ اور سچ میں امتیاز ہو سکے اور حق کو ڈھونڈنے والوں کے لئے ایک ذریعہ مہیا ہو جائے۔ نبیوں کے بعد پورے طور پر وہ اپنی قدرت نمائی اس لئے کرتا ہے کہ اگر انبیاء کی زندگی ہی میں خدا کی قدرت کا پوری طرح ظہور ہو تو بعض لوگوں کو خیال ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ چُست اور چالاک تھے اس لئے اپنی تدابیر میں کامیاب ہو گئے ورنہ ان کی کامیابی سے حق و باطل کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اگر وہ اس قدر ہوشیار ہوتے اور خدا کا ہاتھ ان کے ساتھ نہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ اپنی زندگی میں پورے کامیاب ہوتے لیکن ان کے بعد ان کی جماعت کا کامیاب ہونا ظاہر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہی کے فضل اور تائید سے ان کو کامیابی ہوتی ہے کسی کی ہوشیاری اور چالاکی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔
پس وہ تمام وعدے جو کسی نبی سے کئے جاتے ہیں وہ سارے کے سارے اس کے ہاتھ پر اور اس کی زندگی میں پورے نہیں کئے جاتے بلکہ وہ تمام ترقیات جو موعود ہوتی ہیں انبیاء کی وفات کے بعد ظہور میں آتی ہیں۔ رسول کا وجود بہت بڑی برکتوں اور انعاموں کا موجب ہوتا ہے اور اس کی وفات کے بعد بہت سی کمیاں پیدا ہو جاتی ہیں مثلاً خدا تعالیٰ کی وحی جو کہ نبی کے وقت میں بارش کی طرح ہوتی ہے بند ہو جاتی ہے مگر خدا کے قہری نشان جن کا خدا نے اپنے نبی سے وعدہ کیا ہوتا ہے بہت وسیع پیمانہ پر بعد میں ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں اگر صرف قہری نشانات نے مُلک عرب میں ظہور کیا تو حضور کی وفات کے بعد نشانات قریباً تمام دُنیا میں وسیع ہو گئے اور خدا نے ان مُمالک کو جن میں بہت مضبوط لاکھوں کی تعداد میں فوجیں تھیں تہہ و بالا کر ڈالا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدائی سلسلوں کی ترقی کا تعلق آدمیوں سے نہیں۔ پس کسی شخص کا بیمار ہونا یا مرنا یا تنزل و ترقی کسی خدائی سلسلہ کو درہم برہم نہیں کر سکتا۔ اس کے متعلق جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور چونکہ خدا میں کوئی تغیر نہیں آسکتا اس لئے خدا کے قائم کردہ سلسلہ میں کوئی نقص نہیں آسکتا۔
اس وقت جوضروری بات میں آپ لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جیسا کہ مَیں نے ابھی بیان کیا نبیوں کے وقت میں خدا اپنی قدرت نمائی کیا کرتا ہے جیسا کہ حضرت مرزاصاحب کے وقت اس نے کی کہ دُشمنوں تک نے اقرار کیا کہ یہ ہر میدان میں بڑھ رہے ہیں لیکن یہ ترقی موعودہ ترقیوں کے لئے پیش خیمہ کے طور پر ہوتی ہے۔ نبی کے وقت کی ترقی وہ ترقی نہیں ہوتی جو اس کے اَتباع کے لئے مقدر کی ہوتی ہے بلکہ وہ ایک بیج کی طرح ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ایک بیج کو حجم اور سائز کے لحاظ سے بَڑ کے درخت سے کیا نسبت ہے؟ لیکن کیا اس سے انکار ہو سکتا ہے کہ وہ درخت اس چھوٹے بیج سے ہی پیدا ہوتا ہے۔
لیکن ہر ایک ترقی کے ساتھ مخالفت کا ہونا لازمی ہے کیونکہ جس طرح کسی کا حُسن معلوم نہیں ہو سکتا جب تک کوئی بد صورت چیز موجود نہ ہو۔ اسی طرح جب تک مخالفت نہ ہو فتح عظیم نہیں ہوتی ہمیشہ فتح وہی عظیم کہلاتی ہے جس میں مقابلہ بھی بہت ہی عظیم طاقت سے ہو اور بہادری اسی کی ظاہر ہوتی ہے جس کا دُشمن بھی قوی اور مضبوط ہو۔ بہادری اس کا نام نہیں کہ کوئی مقابلہ ہی نہ کرے اور اس کو مار لیا جائے۔ کوئی کسی جرنیل کی یوں کبھی تعریف نہیں کرے گا کہ وہ ایسا بہادر ہے کہ اس نے فلاں ایسا مُلک فتح کیا جس میں کوئی فوج نہ تھی کیونکہ اس سے اس کی بہادری ظاہر نہیں ہوتی۔ یا کوئی یہ کہے کہ مَیں نے فلاں قلعہ فتح کیا جو کہ بالکل خالی پڑا تھا تو یہ بھی اس کی فتح مندی نہیں کہلائے گی۔ پس کسی فوج کی بہادری اس وقت ظاہر ہوتی ہے جس وقت اس کا مقابلہ بھی نہایت سختی سے کیا جائے۔ ایسے ہی ترقی بھی نہیں ہو سکتی جب تک کہ مخالفت بڑے زور کے ساتھ نہ ہو۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جس وقت مبعوث ہوئے تو عرب کے لوگ آپ ؐ کے مقابلہ میں آئے اور وہ یہودی و نصرانی جو اس علاقہ میں رہتے تھے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے۔ آپ ؐ ایک آدمی تھے اور آپؐ کا مارنا کچھ مُشکل نہ تھا لیکن دُشمن دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے جب وہ اکیلا شخص (صلی اﷲ علیہ وسلم) مُلک عرب کے بہادروں کو پچھاڑ کے سب کو اپنے ماتحت لے آیا۔ پس آپؐ کی کامیابی اگر اس لحاظ سے دیکھی جائے کہ آپ اکیلے تھے تو واقعی بہت بڑی تھی مگر اس کامیابی کے مقابلہ میں جو حضور کی وفات کے بعد حضور کے اتباع کو ملی بہت کم تھی اور یہی قدیم سے سُنت اﷲ ہے۔ اگر آپؐ نے اپنی زندگی میں مُلک عرب کو زیر فرمایا تو آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کے اتباع نے ان مُمالک پر قبضہ کیا جو کہ ساری معلومہ دُنیا میں قابلِ ذکر تھے۔ ایرانی سلطنت وہ سلطنت تھی جس کا اثر چین تک تھا اور ہندوستان پر بھی اس کا اثر تھا۔ کابل و بلوچستان وغیرہ اس کے ماتحت تھے۔ تو ایرانی سلطنت کو زیر کر کے گویا مُسلمانوں نے سارے ایشیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور اِدھر دوسری طرف رومی سلطنت وہ تھی جس کے ماتحت تمام ایشیائے کوچک، بلگیریا، مصر، آسٹریا کے علاقہ اٹلی، طرابلس، مراکش، الجزائر، جرمن کے بعض علاقے، پولینڈ وغیرہ تک قبضہ تھا تو گویا یورپ سارے پر صرف ایک رومی سلطنت کو فتح کر کے مُسلمانوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
پس اسی طرح تم یہ مت سمجھو کہ اگر تم نے محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اﷲ کو شکست دے لی تو اپنا کام ختم کر لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف پنجاب کے لئے نہیں تھے اور نہ وہ صرف مُسلمانوں کے لئے ہی تھے بلکہ آپ کی بعثت تمام دنیا اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے تھی اس لئے جب تک پادریوں کو ،ہندوؤں کو ، سکھوں کے عالموں کو دلائل کی رُوسے شکست نہ ہو جائے اس وقت تک گویا ہم نے مذہباً پنجاب کو بھی شکست نہیں دی۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف پنجاب کے لئے ہی نہ آئے تھے بلکہ ہندوستان کے لئے بھی آئے تھے اِس لئے تمام ہندوستان میں جس قدر مذاہب ہیں جب تک ان کو شکست نہ ہولے اس وقت تک ہم اپنے تئیں فتحیاب اور کامیاب نہیں کہہ سکتے لیکن ابھی تک ہندوستان میں بھی بہت سے علاقے ہیں جن سے مقابلہ نہیں ہؤا اور ان کو دلائل و براہین حقہ سے شکست نہیں دی گئی۔ پھر حضرت صاحب ہندوستان کے لئے ہی نہ تھے بلکہ آپ افغانستان، ایران، شام، عرب اور یورپ کے تمام ممالک، امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے دیگر ممالک کے لئے بھی آئے تھے اِس لئے ان تمام مُلکوں کے لوگ جب تک ہم سے مذہبی مقابلہ میں شکست نہ کھائیں ان کی کوئی شکست نہیں اور ہماری کوئی فتح نہیں۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شیطان کے مرکز کو اپنی حیاتِ طیّبہ میں ہی توڑ دیا تھا اور شیطان کو میدان سے بھگادیا تھا مگر اب وہ قلعوں میں پناہ گزیں ہو گیا ہے۔ ہماری گورنمنٹ کے بڑے بڑے جرنیلوں نے اپنی اپنی تقریروں میں ظاہر کیا تھا کہ جنگ اصل میں اس وقت ہو گی جس وقت ہم جرمن کے مُلک میں گھسیں گے اور وہ مختلف قلعوں میں بیٹھے بیٹھے لڑائی کریں گے۔ موجودہ جنگ جبکہ دُشمن کھلے میدان میں مقابلہ کے لئے اپنی فوجیں لئے کھڑا ہے اس کی نسبت آسان ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرکزی طور پر اور اُصولاً تمام مذاہب کو شکست دے دی ہے لیکن خطرناک جنگ تو اس وقت ہو گی جس وقت ہر جگہ اور ہر مقام پر مقابلے ہوں گے۔ ساری دُنیا کو دلائل کے زور سے فتح کرنا ہے اور جب تک دُنیا کو اسلام کے ماتحت نہ لے آویں ہمارا کام ختم نہیں ہوتا اور جب تک مخالفین اقرار نہ کر لیں اس وقت تک ہمارے لئے رُکنے کا مقام نہیں۔
پس جس قدر ہمارا کام زیادہ ہو گا مخالفت بھی زیادہ ہو گی اور وہ وقت آگیا ہے کہ ہماری ہر طرف سے سخت مخالفت ہو اور ہمیں ہر طرح تکلیف اور دُکھ دیا جائے۔ اس وقت ہمارا کیا کام ہو گا۔ اس آیت میں جو مَیں نے پڑھی ہے اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١ٞ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًا کہ جب مومنین نے اپنے مخالفین کو گروہ در گروہ دیکھا تو وہ اس نظارے اور مخالفت کے جوش اور دُشمنوں کی تعداد سے گھبرا نہیں گئے بلکہ کہا کہ یہ تو وہی ہے جس کی اﷲ اور اس کے رسول نے ہمیں قبل از وقت اطلاع دے دی تھی اور جو کچھ اﷲ اور اس کے رسول نے کہا تھا وہ سب سچ اور حق ہے اور اس نظارے سے بجائے ایمان میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہونے کے وہ ایمان اور تسلیم میں اور زیادہ بڑھ گئے۔
مومن کی کیا شان ہے؟ یہی کہ جوں جوں اس پر خدا کی راہ میں شدائد و مصائب کا زور ہو وہ اپنے قدم کو آگے ہی آگے بڑھائے اور ثابت قدمی سے ثابت کر دے کہ ایمان یہ چیز ہے۔ بُزدل آدمی کا قاعدہ ہوتا ہے کہ گھر میں بیٹھ کر بہت باتیں بنایا کرتا ہے اور کہتا ہے اگر فلاں میرادُشمن آئے تو مَیں یوں اُس کا مقابلہ کروں یوں اُسے ماروں لیکن جب وہ آدمی سامنے آجاتاہے تو اس کا رنگ فَق ہو جاتا ہے مگر بہادر کی حالت بُزدل سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ وہ گھر باتیں نہیں بناتا بلکہ میدان میں زور دکھاتا ہے اور جس قدر مُشکلات میں پڑتا ہے اسی قدر اس کی شجاعت اور دلیری زیادہ صفائی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ پس مومن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ مُشکلات سے گھبرا کر نہ رُکتا ہے نہ ہٹتا ہے بلکہ اور زیادہ تیزی سے آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے اور جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا ہے وہی لوگ دُنیا میں شاد کام اور کامیاب ہوئے ہیں۔
اہلِ یورپ نے سیاست کو خوب سمجھا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ شدائد میں وہ سُست ہونے کی بجائے زیادہ ہمت اور جرأت سے کام کرتے ہیں۔ فرانس میں کچھ لوگ پیدا ہو گئے تھے جو صلح کرنا چاہتے تھے اور باقی مُلک تلوار سے دُشمن سے فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔ دونوں قسم کے لوگ خیرخواہِ مُلک تھے مگر جب جرمن نے بڑھ بڑھ کرحملے کرنے شروع کئے تو وہ لوگ جو صلح چاہتے تھے انہوں نے بھی مُلک کی حفاظت کے لئے تلوار سے فیصلہ کرنے کو ہی زبانی باتوں سے صلح کرنے پر ترجیح دی۔ اگرچہ صلح پسندوں کو بزدل کہا جاتا تھا مگر جب جرمن نے زور سے حملہ شروع کیا تو وہی لوگ جن کو بُزدل خیال کیا جاتا تھا میدان میں دُشمن سے مقابلہ میں مصروف ہو گئے اور اس طرح اُنہوں نے ثبوت دے دیا کہ ہم جو صلح کے طالب تھے تو بُزدلی کی وجہ سے نہ تھے بلکہ مُلک کی خیر خواہی ہمارے خیال میں صلح کی صورت میں تھی۔
مُسلمانوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس وقت دشمنوں نے ان پر زیادہ سختی کی اور نہایت خطرناک صورت پیدا ہو گئی اور دُشمن گروہوں کے گروہ بڑھے چلے آئے تو اس وقت وہ گھبرائے نہیں بلکہ مقابلہ کو ہی انہوں نے اپنے بچاؤ کی صورت خیال کیا اور اُنہوں نے کہا کہ یہ تو وہی ہے جس کا ہمیں اﷲ اور اس کے رسول ؐ کی طرف سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا۔ پس اگر آج ہم پر ہمارے مخالفین طرح طرح کے حملے کر رہے ہیں تو ہم اس سے کیسے گھبرا سکتے ہیں۔ ہم تو خوش ہیں کہ سبحان اﷲ آج سے تیرہ برس پیشتر حضرت مسیح موعود ؑ نے الوصیت میں ہمیں بتلا دیا تھا کہ ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے حتّٰی کہ بعض بدقسمت ارتداد کی راہ اختیار کر لیں گے۔ پس ہمارے لئے تو خوشی کا مقام ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک اور پیشگوئی پوری ہوئی۔ اﷲ اور اس کے رسول کے وعدے سچ اور حق ہیں۔
بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو زبانی کہا کرتے ہیں ہم کسی کی کیا پرواہ کرتے ہیں مگر جب مقابلہ پڑے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن یہاں خدا تعالیٰ مومنوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جب مقابلہ پڑتا ہے اسی وقت ان کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ یہ موقع ہمارے لئے گھبرانے اور تشویش کرنے کا نہیں کیونکہ یہ حملے اور سختیاں تو خدا اور رسول کے فرمودہ کے بموجب ہیں۔ پھر گھبرانے اور پریشان ہونے کی کیا وجہ ہے۔
مصائب اور ابتلاء ہی جھوٹے اور سچے میں فرق کیا کرتے ہیں اور تکالیف میں ہی یہ حقیقت ظاہر ہؤا کرتی ہے کہ حقیقی ایمان کس کا ہے اور کون ایمان سے خالی ہے۔ یوں تو ابوبکرؓ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دربار میں اور نورالدین مسیح موعود علیہ السلام کے حضور میں کبھی خود آگے بڑھ کر نہیں بیٹھتے تھے بلکہ سر جھُکائے پیچھے بیٹھے رہتے تھے۔ برخلاف اس کے عبداﷲ ابن ابی ابن سلول رسول اﷲ کے حضور اور وہ لوگ جو الگ ہو گئے ہیں مسیح موعود کے حضور آگے آگے ہو کر بیٹھتے تھے لیکن جنگ اور ابتلاء کے وقت میں کسی نے دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ کہاں اور عبداﷲ بن ابی کہاں تھا؟ عبداﷲ بن ابی تو حضور ؐ کو روکتا ہے اور کہتا ہے جنگ سے فائدہ ہی کیا؟ مگر ابوبکر رضی اﷲ عنہ نبی کریم ؐ کے آگے آگے ہیں۔ پس جو بہادر آدمی ہوتے ہیں وہ وقت پر اپنے جوہر دکھلاتے ہیں اور جو بزدل ہوتے ہیں وہ اپنی چال ڈھال سے تو بہادری ظاہر کرنا چاہتے ہیں مگر اپنے اس اظہار میں جھوٹے ہوتے ہیں۔ وہ خطرہ سے پہلے ایمان ایمان کا شور مچاتے ہیں مگر جب خطرہ آتا ہے تو ایمان کو چھوڑ چھاڑ بیٹھتے ہیں۔ ہاں وہ لوگ جو درحقیقت ایماندار ہوتے ہیں خطرہ سے پہلے خاموش رہتے ہیں اور جب خطرہ آجاتا ہے تو پھرجان تک لڑادیتے ہیں۔ پس بزدل اور ایمان میں کچّے، خطرے اور مصائب سے پہلے دعاوی بہت کرتے ہیں مگر وقت پر بودے نکلتے ہیں اور ایمان دار پہلے اپنی کمزوریوں کا اقرار کرتے ہیں اور کوئی بڑائی کی بات نہیں کہتے بلکہ خطرے کے وقت ان سے کوئی کمزوری ظاہر نہیں ہوتی۔
تو جس قدر ابتلاؤں اور سختیوں میں شدّت ہوتی جائے گی جو سچّے ایماندار ہیں ان کے ایمان میں زیادتی ہو گی اور ان کی قربانیاں بڑھتی جائیں گی اور ان کو اَور دین کی خدمت کا جوش ہو گا اور اخلاص بڑھتا چلاجائے گا اور جو کمزور ہوں گے وہ الگ ہو جائیں گے۔
حضرت نظام الدین دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق آیا ہے کہ آپ ایک دفعہ رستہ میں چلے جارہے تھے اور مریدین ساتھ تھے۔ رستہ میں ایک چھوٹا بچہ ملا آپ نے اس کا منہ چُوم لیا۔ تمام مُرید جو ساتھ تھے اُنہوں نے بھی بچہ کا منہ چوما لیکن آپ کے بعد جو آپ کے خلیفہ ہوئے وہ خاموش کھڑے رہے۔ باقی مریدوں نے ان پر نفاق کا فتویٰ لگایا مگر وہ خاموش رہے۔ اسی طرح پھر حضرت نظام الدین راستہ میں چلے جارہے تھے کہ ایک بھٹیارہ آگ جلا رہا تھا۔ آپ نے بڑھ کر اس آگ کو چُوم لیا۔ جو آپ کے خلیفہ ہوئے اُنہوں نے بھی ایسا ہی کیا مگر اور جو مُرید تھے وہ خاموش کھڑے دیکھتے رہے۔ ان کے ہونے والے خلیفہ نے کہا اب کیوں نہ تم نے آگ کا بوسہ لے لیا؟ اگرپِیر کی اتباع ہی کرنا تھی تو آگ پر جھکنا تھا۔
غرض مصائب اور مُشکلات میں ہی انسان کی آزمائش ہوتی ہے۔ مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں ہماری ترقی ہوئی مگر وہ اس ترقی کے مقابلہ میں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے ہمیں وعدہ دیا گیا ہے بہت کم ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ جب تک میں نہ جاؤں قدرت ثانی نہیں آسکتی۔ اس کے آنے کے لئے میرا جانا ضروری ہے اور قدرتِ ثانی کے ذریعہ ترقیاں خدا کی طرف سے ظہور میں آئیں گی۔ پس کوئی مصیبت اور تکلیف اور سختی مومن کے قدم کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت کے پہلے سال میں بجٹ بناتے ہوئے خواجہ صاحب وغیرہ کی طرف سے کہا گیا کہ اس سال قحط ہے اس لئے بجٹ تھوڑا بنایا جائے۔ جس پر حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا نہیں چونکہ اس دفعہ قحط ہے اس لئے بجٹ زیادہ بنایا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ مومن مصائب اور تکالیف سے گھبرا کر دینی کاموں میں سُست نہیں ہؤا کرتا۔ پس یہ سچائی جیسے اُس وقت سچائی تھی آج بھی سچائی ہے۔
تو مَیں آپ لوگوں کو جو یہاں ہیں اور ان کو جو بیرونجات میں ہیں آگاہ کرتا ہوں کہ ہمارے مخالف بہت زور کے ساتھ اور اپنے تمام سامانوں کے ساتھ اُٹھے ہیں کہ ہم کو کُچل ڈالیں لیکن یہ آزمائش کا وقت ہے اِس لئے ہمیں پہلے سے زیادہ استقامت اور قربانی دکھانی چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس امتحان میں پورا فرماوے اور اس کے فضل اور رحمتیں ہمارے شاملِ حال ہوں۔ ہم اس کے فضلوں اور انعاموں کے وارث ہو جائیں۔ آمین''
(الفضل 9جولائی 1918ء)
1 : الاحزاب: 23
2 : صحیح مسلم کتاب التوبہ باب فضل دوام الذکرو الفکر فی امور الاخرۃ و المراقبۃ و جواز ترک ذلک فی بعض الاوقات(الخ)میں یہ الفاظ ہیں لَصَا فَحَتْکُمُ الْمَلَا ئکَۃُ عَلٰی فُرُشِکُمْ


13
عبودیت ہی تمام کامیابیوں کی کلید ہے
(فرمودہ 28جون 1918ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
''سورۃ فاتحہ میں جہاں اور عظیم الشان بلکہ غیر محدود نصائح اور مواعظ بیان کئے گئے ہیں وہاں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اور پھر ان کے ذریعہ ساری دنیا کو اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ کوئی چیز مفید یا بابرکت یا کوئی خوشی اور راحت، کوئی ترقی یا کمال، کوئی درجہ یا رُتبہ ایسا حاصل نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کے قوانین کے خلاف چل کر حاصل ہو بلکہ تمام کامیابیوں کا ذریعہ عبودیت ہے۔
جب کبھی وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا خواہ منہ سے کرے جیسا کہ بعض بیوقوف کرتے ہیں یا اپنے اعمال سے ایسے ظاہر کرے وہ یقیناً ناکام و نامراد رہے گا۔ نبی کا دعویٰ کرنے والے کے لئے تو فرمایا۔وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلۙ۔ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِۙ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَٞ۔ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِزِيْنَ۔1
ہم اس کی رگ جان پکڑ کر کاٹ دیتے مگر خدائی دعویٰ کرنے والے کے لئے ایسا نہیں کہا اس لئے کہ وہ تو فوراً پتہ لگ جاتا ہے۔ ''ہاتھ کنگن کو آرسی کیا''۔
مشہور ہے کہ ایک شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ ایک زمیندار چاہتا تھا کہ اس کو اس دعویٰ سے ہٹاؤں۔ مولوی اس سے مباحثہ کرتے تو وہ بھی حجتیں کرتا اور دلائل دیتا۔ آخرزمیندار ایک دن اسے اکیلا پاکر گیا اور پوچھا کہ تم نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ زمیندار نے گردن پکڑ کر نیچے گرا لیا اور کہا میں تو تم کو عرصہ سے تلاش کرتا تھا۔ تم ہی نے میرے باپ کو مارا ہے اور یہ کہہ کر ایک مُکّا زور سے اس کے مارا اور پھر کہا کہ تم نے ہی میری ماں کو مارا ہے اور پھر ایک مُکّا مارا۔ پھر اپنے ایک ایک رشتہ دار کا نام لیتا جاتا اور مُکّے مارتا جاتا۔ آخر اس نے ہاتھ جوڑے اور کہا مَیں اس دعویٰ سے باز آیا۔
نبی کو اگر کوئی مارے تو حقیقت مشتبہ ہو سکتی ہے کیونکہ وہ تو انسان ہیں اور ماریں کھاتے ہیں۔ لوگ انہیں ہر قسم کے دُکھ دیتے ہیں اور ان دکھوں اور تکلیفوں کے ذریعہ ہی ان کی سچائی روشن ہو جاتی ہے اور یہ اُن کی ترقی کا ذریعہ ہو جاتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنی تائیدونصرت سے دکھادیتا ہے کہ وہ اسی کی طرف سے ہیں۔
مگر خدائی کا دعویٰ بےوقوفوں کے سوا کون کر سکتا ہے۔ پھر یہ دعویٰ کرنے والے دوقسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو مُنہ سے ایسا دعویٰ کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو عملاً کرتے ہیں حکومت و اقتدار کے لحاظ سے، مال و دولت کے لحاظ سے، علم و فن کے لحاظ سے۔ کسی کو کوئی رُتبہ ملتا ہے تو وہ اپنی ہستی سے باہر ہو جاتے ہیں۔ وہ اس قسم کے دعوے عمل سے کرتے ہیں اور یہی دعوے آخر ان کی ذلّت و نامرادی کا موجب ہو جاتے ہیں۔ گو اسے اس وقت کوئی نہ سمجھے مگر حقیقی ترقی عبودیت میں ہے۔ جس قدر انسان عبد بنتا ہے اسی قدر اس کی ترقی اور معرفت کے دروازے کھلتے جاتے ہیں کیونکہ اپنے علم، اپنی ذات، اپنی عقل اور تدبیر پر کوئی ناز نہیں ہوتا اِس لئے اس کی کوشش، ہمت اور تدبیر میں سُستی نہیں ہوتی اور خدا تعالیٰ اسے برکت دیتا ہے لیکن جہاں کسی قوم نے خدائی کا دعویٰ کیا جو عملاً ہوتا ہے تو یہ دعویٰ اس کے تنزّل کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ پھر وہ نیچے گرنے لگتی ہے۔ گو اس کا یہ تنزل کسی کو نظر نہ آتا ہو لیکن آخر ایک بار ہی ایسی گرتی ہے کہ پھر اس کی بربادی اور تنزّل بالکل ظاہر ہو جاتا ہے۔
بر خلاف اس کے ترقی کرنے والی قوموں میں انکسار اور عبودیت ہوتی ہے اِسی طرح ان کی ترقی کی رفتار بھی بہت دھیمی ہوتی ہے مگر آخر اس کی رفتار میں بھی نمایاں ترقی نظر آتی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ عملاً خدائی کا دعویٰ کرنے والی قوموں کا تنزّل ابتداءً نظر نہیں آتا مگر اس کے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ نظر نہیں آتے۔ جس طرح پر ایک مکان ٹپکتا ہو تو وہ نظر آتا ہے اور انسان اس کی مرمت کر کے بند کر دیتا ہے لیکن جب کسی مکان کی بنیاد میں اندر ہی اندر پانی پڑتا ہو اس کا پتہ نہیں لگتا اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ یکدم بیٹھ جاتا ہے اور یہ زیادہ خطرناک ہوتاہے۔ پس ان لوگوں کی حالت جو عملاً خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اس مکان کی سی ہے جس کی بنیادوں میں پانی پڑ رہا ہے۔ اِسی واسطے قرآن مجید میں جہاں سخت سزا کا ذکر ہے۔ فرمایافَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ2پس انسان کبھی عبودیت سے باہر نہ جائے۔ یہ کبھی نہ سمجھے کہ اس کے لئے کسی پابندی اور اطاعت کی ضرورت نہیں اور نہ کوئی اتباع ہے، نہ فرمانبرداری ہے۔ یہ ہلاکت کی راہ ہے اِس سے بچو۔ یہ شیطانی خیال ہے اس سے دُور بھاگو۔ حقیقی کامیابی کی راہ عبودیت ہی میں ہے اِس کے سوا اور کوئی راہ نہیں۔ فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ3 پہلے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ4 کہہ کر بتادیا کہ ہر چیز اسی کی مخلوق ہے اور اسی کے ماتحت ہے اور تمام فضلوں اور برکات کا وہی سرچشمہ ہے۔ پھر بتایا کہ عبودیت کرو گے تو سب کچھ دیں گے۔ انعامات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک جسمانی اور ایک روحانی۔
جسمانی انعامات کے لئے بھی اطاعت اور فرمانبرداری کی ضرورت ہے۔ جو قواعد اور قوانین ان انعامات کے لئے مقرر کئے ہیں جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ انعامات سے حصّہ لے گا۔ یورپ کے لوگوں سے بڑھ کر کون نیچر کی اطاعت کرے گا اور دیکھ لو وہ انعام بھی پاتے ہیں۔
روحانی قواعد کی پابندی وہ نہیں کرتے اور اس کے انعامات بھی نہیں پاتے۔ پس ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کے پورے فرمانبردار ہو جاؤ کہ سارے انعامات اسی کی اطاعت میں ہیں اور یہی مقامِ عبودیت تمام ترقیوں کی کلید ہے۔ انسان بعض وقت ذرا سے رُتبہ، مال اور حکومت سے ابلیس کی طرح دعویٰ کر بیٹھتا ہے مگر کامیابی اور ترقی عبودیت ہی میں ہے۔ یہ ایسا نکتہ ہے کہ ہرشخص کو یاد رکھنا چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے۔ آمین’’
(الفضل 16جولائی1918ء)
1 : الحاقۃ: 45تا 48 2: النحل: 27 3: الفاتحۃ :5 4: الفاتحۃ :2

14
ایک آیتِ قرآنی کی لطیف تفسیر
اطاعت کے قابل اکثر نہیں ہوتے بلکہ کم ہوتے ہیں
(فرمودہ 5جولائی 1918ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی:-
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۔1
اور فرمایا:-
''قرآن شریف ایک دُنیا ہے۔ جس طرح ہماری زمینی دُنیا ہے، مادی دُنیا ہے اور جس طرح اس زمین کے علاوہ اور عالم ہیں جن کو سیّارے کہتے ہیں یا یہ زمین اور اس کے متعلقات چاند، سورج، ستارے، سیّارے۔ ہر ایک بجائے خود ایک دُنیا ہے۔ اِسی طرح ایک رُوحانی دُنیا ہے اور پھر اس میں قرآنِ مجید بھی ایک دُنیا ہے۔
قرآنِ مجید علمی یا عرفانی دُنیا ہے۔ جس طرح اس زمین کے اندر بڑی بڑی کانیں ہیں اور انسان جس جس قدر اپنے مادی علوم میں ترقی کرتا جاتا ہے اور جَوف الارض کے عجائبات سے واقف ہوتا جاتا ہے اُس قدر مخفی خزانے کھُلتے جاتے ہیں۔ ان کانوں میں سے کسی کو بھی انسان کبھی ختم نہیں کر سکا۔ سینکڑوں سال ہوئے جب سے علمُ الاقتصاد کے ماہر کوئلے کے متعلق آواز بلند کر رہے ہیں کہ وہ ختم ہونے والا ہے مگر وہ نکلتا ہی چلا آتا ہے۔ جب سے تاریخ کا پتہ لگتا ہے سونا چلا آتا ہے مگر ختم ہونے میں نہیں آتا۔ یہی حال اور دھاتوں کا ہے۔ اس قدر انسان ان کو استعمال کرتا ہے کہ معمولی عقل کا آدمی اس خرچ کو دیکھ کر شاید بول اُٹھے کہ بہت جلد یہ چیز ختم ہو جائے گی مگر وہ ختم نہیں ہوتی۔ کروڑوں، اربوں بلکہ لا انتہا ٹن ایک ایک دھات خرچ ہوتی ہے اور ختم نہیں ہوتی۔
اسی طرح قرآن کریم کی ایک دُنیا ہے اور وہ اس مادی دُنیا سے کہیں بڑھ کر کیونکہ مادیات بالآخر محدود ہوتی ہیں بمقابلہ عرفانی اور علمی دُنیا کے لیکن جب مادی دُنیا باوجود اپنی حدودو قیود کے ہمارے علم میں حدود و قیود نہیں رکھتی جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں سال سے انسان دھاتوں کا استعمال کرتا چلا آتا ہے اور وہ ختم ہونے میں نہیں آتی ہیں تو پھر قرآنِ مجید کے عجائبات اور معارف کے متعلق ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں جگہ پر وہ ختم ہو گئے۔ یہ بالکل سچّی بات ہے کہ قرآن مجید کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ہر شخص جو مطہر قلب لے کر اخلاص کے ساتھ خدا تعالیٰ میں محو ہو کر مجاہدہ کرتا ہے وہ قران مجید کے حقائق و معارف سے اپنی استعداد کے مطابق حصّہ پالیتا ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے لوگ ہوتے ہیں جو ہر صدی کے سر پر آتے ہیں وہ وقتی ضرورتوں کے لحاظ سے قرآن مجید کے خزانوں سے حصّہ لیتے ہیں اور جس جس قدر ضرورتیں وسیع ہوں اور آنے والے کی استعداد قوی ہو اسی قدر وہ ان خزانوں سے زیادہ حصّہ لیتا ہے۔ مگر لوگوں کی عجیب حالت ہے کہ وہ ہرموقع پر سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن مجید کے عجائبات اور معارف کا خزانہ ختم ہو گیا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ختم نہیں ہوتے۔ ایک اور آتا ہے جو اِن علوم کا وارث ہوتا ہے اور وہ جدید معارف و حقائق کا خزانہ پیش کردیتا ہے اور یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف ختم ہو گئے اس نے نہ قرآن مجید کی حقیقت کوسمجھا اور نہ اس نے اِس دُنیا کا کچھ مزہ چکھا۔ وہ بالکل ناآشنا اور بیگانہ ہے۔
غرض قرآنی دنیا کے اندر جو کانیں اور ذخائر ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مگر بڑے افسوس اور تعجب کی بات ہے کہ بہت لوگ ہیں جو تدبر سے قاصر ہیں اور باوجود ایسے خزانوں اور ذخائر کی موجودگی کے وہ تدبر نہیں کرتے بلکہ دیکھا ہے کہ بعض آیات سینکڑوں زبانوں پر ہیں جو اپنے کثیر الاستعمال کی وجہ سے مثال یا ضرب المثل کا رنگ رکھتی ہیں۔ جیسے بعض شعر ہوتے ہیں کہ عام طور پر زبان زد ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض آیات ہیں جو مثال کے طور پر زبان زد ہیں نہ صرف مُسلمان بلکہ عیسائی اور دوسرے لوگ بھی مضمون کو وسعت دے کر استعمال کر لیتے ہیں۔ ایسی بہت سی آیات ہیں جو مثال کے طور پر رائج ہیں اور باوجود اس کے وہ عام طور پر پڑھی جاتی ہیں مگر پھر بھی تھوڑے ہیں جو حقیقت کے ماہر ہوں بلکہ ایک لاکھ میں سے شاید ایک بھی ہو تو بہت ہے۔
اس قسم کی آیات میں سے ایک یہ آیت بھی ہے جو مَیں نے ابھی پڑھی ہے۔ اس زمانہ میں اِس کا استعمال عام طور پر مُسلمانوں میں کم ہے مگر اسلامی لٹریچر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں اس کا استعمال ہوتا آیا ہے۔ دشمنوں کے مقابلہ میں یہود اور عیسائیوں میں بھی یہ خیال پھیلا ہے۔ اب ہماری جماعت میں بھی اس آیت کا استعمال ہوتا ہے لیکن لوگوں نے تو جہ نہیں کی۔ ایک فریق دوسرے پر حملہ کرتا ہے مگر مضمون سے ناواقف ہے۔
ایک مفہوم، ایک غیر معیّن خیال، ایک غیر ممتاز اثر ان کے دلوں پر ہوتا ہے مگر وہ اس کی تعیین و تبیین نہیں کر سکتے۔ اس کا ایک مفہوم دلوں میں پیدا ہوتا ہے مگر حد بندی کے بغیر استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض کو خیال ہو گیا ہے کہ اس آیت کے مفہوم کے موافق اکثر حصّہ گمراہ ہوتا ہے۔
لیکن یہ خیال بالکل باطل ہے۔ اگر یہی مفہوم ہو تو پھر اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِکے یہ معنی ہوں گے کہ دُنیا میں جس مذہب کے زیادہ پابند ہیں وہ جھوٹا ہے۔ پھر احمدیوں پر یہ کس طرح عائد ہو گی کیونکہ یہاں یہ نہیں فرمایا اَکْثَرَ مَنْ یَّتَبِعُوْنَ الْاِسْلَام، یہ نہیں فرمایا کہ مُسلمانوں، احمدیوں، سُنیوں یا شیعوں میں سے جن کی تعداد زیادہ ہو وہ گمراہ ہے۔ یا دو فریق باہم جھگڑیں اور ان میں سے جن کی تعداد زیادہ ہو وہ گمراہ یا دو فریق باہم جھگڑیں اور ان میں سے جن کی تعداد زیادہ ہو وہ گمراہ ہو۔ پس یہ مفہوم پیدا کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہو سکتا۔ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِکے معنوں کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو دُنیا میں سب سے زیادہ ہوں وہ گمراہ ہیں اور وہ عیسائی یا بُدھ ہیں۔ مگر سیاق و سباق میں نہ عیسائیوں کا ذکر ہے نہ بُدھوں کا۔ پس اگر فی الحقیقت اس آیت کا یہ مفہوم ہوتا تو الفاظ زیادہ سے زیادہ اس بات کے متحمل ہو سکتے تھے کہ زمین میں جو سب سے زیادہ آباد ہیں وہ گمراہ ہیں کیونکہ لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اگر تُو اطاعت کرے گا زمین پر بسنے والوں میں سے ان کی جو اکثر ہیں وہ اﷲ کی راہ سے گمراہ کر دیں گے۔
تو ان الفاظ کے یہ معنے ہوئے کہ سب سے زیادہ جو مذہب ہے وہ گمراہ ہے حالانکہ یہ غلط ہے۔ کیونکہ اگر یہی مطلب ہوتا تو پھر اسلام کے متعلق یہ پیشگوئیاں ہیں کہ وہ سب پر غالب اور سب سے زیادہ ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی یہی بتایا گیا کہ باقی مذاہب اس قدر کم ہو جائیں گے کہ گویا وہ رہے ہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تو بعثت ہی اس غرض کے لئے ہوئی ہے۔ تو اس حالت میں نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اسلام ہی جھوٹا ہے۔ (نَعُوْذُ بِا للّٰہِ مِنْ ذَالِکَ)
یہاں کسی مذہب کی تعداد کا ذکر نہیں اور نہ کثرت و قلّت کی بحث ہے بلکہ قرآن مجید کو یہ تعلیم دینا مقصود ہے کہ اطاعت کے قابل اکثر نہیں ہوتے بلکہ کم ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کی ایک تعداد قرار دینی پڑے گی۔ خواہ احمدی ہوں ، خواہ ان سے پہلے کے مگر ہر مسلمان اس قابل نہیں کہ وہ مطاع ہو اور اس کی اطاعت کی جاوے۔ کروڑوں مسلمان ایسے ملیں گے جو اس لئے اسلام کو مانتے ہیں کہ ان کے ماں باپ مسلمان تھے اور اس سے زیادہ ان کو کوئی خبر نہیں۔ تو کیا کوئی شخص یہ تسلیم کرنے کو تیار ہو جائے گا کہ ہر ایسے شخص کی اطاعت کی جاوے؟ اگر ایسا ہو تو اس کا نتیجہ بجز گمراہی کے اور کیا ہو گا؟
اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ اطاعت تو اس کی ہوتی ہے جس میں عرفان ہو، تقویٰ ہو اور وہ اس قابل ہو کہ صراطِ مستقیم پر دوسروں کو لے جاسکے۔ غرض اس آیت میں قابلِ اطاعت لوگوں کا ذکر ہے۔ ماننے والوں کی تعداد کی قلّت و کثرت کی بحث نہیں۔ پس اس آیت سے قلّت و کثرت کو معیارِ صداقت قرار دینا غلطی ہے۔
بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ بدوں غور وفکر کے یونہی کسی نے بکواس کی اِس کے ماننے کے لئے تیار ہو گئے مگر قرآن مجید اِس سے منع کرتا ہے اور اِس آیت میں تو خصوصیت کے ساتھ وہ اِس اصل کو بیان کرتا ہے کہ اطاعت کے قابل تھوڑے ہوتے ہیں بلکہ اَقَلّ کی اطاعت ہوتی ہے خواہ سب کے سب سچّے ہی ہوں لیکن وہ سب اس قابل نہیں ہوتے کہ مطاع ہو سکیں۔ مثلاً احمدی ہیں۔ کیا وہ سب کے سب گمراہ ہیں؟ ہر گز نہیں۔ لیکن کیا ہر احمدی سے فتویٰ پوچھا جائے گا اور اسے یہ درجہ دیا جائے گا کہ وہ شریعت کے احکام بتائے اور نماز روزہ کے مسائل اس سے بطور فتویٰ پوچھے جائیں؟ کبھی نہیں۔ اگر ایسا ہو گا تو ٹھوکر لگنے کا احتمال ہوگا۔ وہ ایک مسلمان ہے کیونکہ مَیں احمدی اور مُسلمان کا ایک ہی مفہوم سمجھتا ہوں۔ وہ ناجی ہے۔ قرآن مجید اور رسولوں پر یقین لاتا ہے، جزا و سزا اور قیامت کو مانتا ہے، اﷲ اور اس کے ملائکہ پر ایمان لاتا ہے، مسئلہ قدر کو مانتا ہے، پچھلی اور آنے والی وحی پر ایمان لاتا ہے مگر بایں ہر شخص میں یہ طاقت نہیں کہ وہ مطاع ہو سکے۔ پس خوب یاد رکھو کہ یہاں ہدایت یافتہ یا گمراہ کا ذکر نہیں بلکہ قابلِ اطاعت کا ذکر ہے۔
چنانچہ فرمایا وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِاگر تم اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ کی اطاعت کرو گے تو وہ خدا تعالیٰ کی راہ سے تمہیں دُور لے جائیں گے۔ ہر شخص جس کو عرفان یا علم نہیں وہ کیا بتائے گا ؟جو شخص ایک عالم باﷲ کی موجودگی میں جب ایسے شخص سے فتویٰ پوچھے گا جو اہل نہیں تو قابلِ الزام ہو گا اور اس کا نتیجہ گمراہی کے سوا کیا ہو گا؟
یہ بھی یاد رکھو کہ جس موقع پر یہ آیت ہے وہاں مشرکوں کا ذکر ہے لیکن اگر مُسلمانوں کا ذکر ہو تو وہ گمراہ نہیں مگر اطاعت کے بھی قابل نہیں۔ ہاں وہ ساتھی ہیں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مطاع تھے باقی احمدی جس قدر تھے وہ باہم بھائی تھے۔ حضرت صاحب کے مطاع اور ہمارے مطیع ہونے سے ہمارے گمراہ ہونے کا نتیجہ نہیں نکلتا۔ یاپھر باقیوں میں سے فتویٰ وغیرہ کے لحاظ سے اور مطاع تھے مثلاً حضرت مولوی عبدالکریم ، حضرت مولوی نور الدین مگر باوجود اس کے یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ باقی سب گمراہ تھے کیونکہ وہ علم و عرفان ان میں نہ تھا۔ کیوں؟
اکثر لوگ علم پڑھے ہوئے نہیں ہوتے اور پڑھے ہوئے بھی ہوں تو اس کے ساتھ تقویٰ اور عرفان ضروری چیز ہے۔ اس لئے ایسے لوگ جو پڑھے ہوئے نہ ہوں یا علم و عرفان نہ ہو وہ ظن کی پیروی کرتے ہیں، قیاس کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ وہ علم صحیح کی بناء پر تبیین نہیں کر سکتے اور اس طرح پر حقیقی تشریح نہیں ہوتی۔ بہت لوگوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہیں گے کہ میرے خیال میں یوں ہے۔ یہ نہیں کریں گے کہ قرآن مجید کی بیّنات کی بناء پر کہتے ہوں۔
علم اور عرفان کی کمی کی وجہ سے یہ بات ہوتی ہے۔ غرض جو علم و عرفان والا ہو اس کی اتباع کر و۔ اِس آیت میں مسلمانوں کو اِسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ گمان کرنے والے اٹکل پچو باتیں بنانے والے نہ بنو واقفیت علم کی ان سے حاصل کرو جو علم و عرفان سے ماہرہوں۔ اگر کوئی شخص کسی جاہل سے پوچھ کر عمل کرے تو اس کا یہ کہہ دینا کہ مَیں نے فلاں سے پوچھ لیا تھا حُجت نہیں ہو گا۔ پس یاد رکھو کہ قابلِ اطاعت قلیل ہی ہوتے ہیں خواہ بلحاظ مسائل اُصولی کے خواہ بلحاظ مسائل تفصیلی کے۔
دیکھو اگر ایک جاہل زمیندار سے خدا تعالیٰ کے موجود ہونے اور اس کی ذات یا عرش کے متعلق سوال کرو وہ یونہی کچھ خیالات ظاہر کر دے اور تم یقین کر لو تو یقینا اس کا نتیجہ گمراہی ہو گی۔ پس یہاں یہی تعلیم ہے کہ قابلِ اطاعت قلیل بلکہ اَقَلّ ہوتے ہیں۔
اگر یہ اصول قرار دیاجائے گا کہ اکثر حصّہ گمراہ ہوتا ہے تو اِس سے اسلام پر سخت حملہ ہو گا اِس لئے اِس حقیقت پر غور کرو جو اِس میں بیان کی گئی ہے۔
اِس میں شک نہیں کہ لاکھوں کی زبان پر یہ آیت جاری ہے مگر اس کے مضمون پر غور نہیں کیا گیا۔اِس لئے ہمیشہ اس اُصول کو مضبوط پکڑے رکھو کہ جو شخص قرآن مجید، حدیث کا علم اور عرفان نہیں رکھتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام پر اس نے تفقّہ نہیں کیا اِس کا حق نہیں کہ وہ فتویٰ دے۔ یہ ایک معنی اِس آیت کے ہیں جن کو لوگوں نے نہیں سمجھا اﷲ تعالیٰ ہم کو توفیق دے۔ آمین’’ (الفضل15/13جولائی 1918ء)
1: الانعام:117


15
امراء توجہ کریں
(فرمودہ 23اگست1918ء)
حضور نے تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:-
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۔1
اور فرمایا:-
''ہر ایک کام کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اِس کے متعلق جس قدر اُمور ہیں اِن سب کو مدِّنظر رکھے۔ مثلاً کسی کام کے کرنے سے پہلے ضرورت ہے کہ سوچا جائے کہ اِس کی غرض کیا ہے؟ اور اِس کے کرنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ کیا ضرورت ہے اور کون سے ذرائع ہیں جن سے وہ کام کامیابی کے ساتھ ہو سکتا ہے اور کیا روکیں ہیں جو اِس کے رستہ میں حائل ہیں؟ اگر ان باتوں پر غور نہ کیا جائے تو پھر کامیابی نہیں ہو سکتی۔ مثلاً کوئی شخص کسی کام کو شروع کرتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اِس میں فوائد کیا ہیں تو وہ ہرگز باوجود اِس کام کے کرنے کے اِس میں اس قدر محنت نہیں کرے گا جس قدر محنت کرنے کی ضرورت ہو گی اور نہ وہ اس قدر محنت کرنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے۔ اِس کی کوشش اُدھوری رہے گی، اِس کا جوش سرد ہوگا لیکن اگر اِس نے غور کیا ہو گا اور اُسے معلوم ہو گا کہ یہ کام کتنا مفید ہے اور اس پر یہ ثابت ہو گیا ہو گا کہ اِس کے کرنے سے مجھے کتنے فوائد حاصل ہوں گے تو پھر اس کی توجہ ہمہ تن اِس کی طرف لگ جائے گی۔
مثلاً جنگ ہے۔ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کی قوموں نے بھی کی اور آپ کے وقت بھی ہوئی۔ کئی فاتح اُٹھے ان میں ایسے بھی ہوئے ہیں جو قریباً ساری دُنیا پر پہنچ گئے۔ اِن میں سے ایک تو تیمور ہے اور ایک حد تک نپولین جس کی فتوحات یورپ اور افریقہ میں تھیں۔ ان سے پہلے سکندر اور سکندر سے پہلے ایرانیوں نے بھی کئی فتوحات حاصل کیں مگر آج جو حالت ہے وہ پہلے نہیں تھی۔ جیسی کوشش سے آج جنگ ہو رہی ہے ویسی کبھی پہلے نہیں ہوئی۔ پہلی جنگیں بادشاہوں کی جنگیں تھیں اور تھوڑی ایسی جنگیں تھیں جن کو رعایا نے اپنی جنگ خیال کیا سوائے ان جنگوں کے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہوئیں۔ پہلی جنگیں ایسی تھیں کہ سپاہی کچھ تنخواہ لیتے تھے۔ اِن کو فریقِ مخالف کے خلاف کوئی جوش نہ ہوتا تھا۔ انہیں یہ مدِّنظر نہ ہوتا تھا کہ تیمور فتح حاصل کرتا ہے یا اِس کا مدِّمقابل۔ وہ لڑتے تھے لیکن اصل جوش ندارد تھا۔ ہاں وہ جوش پیدا ہو جاتا تھا جو لڑائی کے وقت ہوتا ہے۔ جو دوست لڑائی سے آئے ہیں اِن میں سے بعض سے مَیں نے پوچھا ہے کہ لڑتے وقت کیسا جوش ہوتا ہے؟ جوش پیدا ہونے کے تو سب مُقِرّہیں مگر ایک نے کہا کہ لڑتے وقت خود بخود اس نظارہ سے ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ اگراِس وقت ہتھیار نہ ہوں تو ہاتھوں سے ہی دشمن کو نوچ لینے کو جی چاہتا ہے۔ یہ جوش تو ہے مگر یہ جنگ کے باعث ہے نہ کہ جنگ اِس جوش کے باعث ہوتی ہے۔ تو وہ جوش اصلی جوش نہیں تھے کیونکہ وہ جنگیں مُلک کی جنگیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ راجاؤں اور بادشاہوں کی جنگیں ہوتی تھیں۔ اِس لئے اِس جنگ کا اثر بھی ہوتا تھا کہ لڑنے والے ایک میدان میں لڑتے تھے۔ اگر اِس میں قدم اُکھڑ گئے تو شکست ہو گئی اور اس مُلک کے باشندے وفود کی صورت میں فاتح کی خدمت میں حاضر ہو گئے کہ ہم آپ کے تابع ہیں کیونکہ لڑنے والوں کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ہم کیوں لڑے تھے اور کیوں لڑائی کو جاری رکھیں لیکن آج تعلیم کی ترقی کی وجہ سے ہر شخص کو حکومت میں کچھ نہ کچھ دخل ہے اِس لئے وہ جنگ راجہ یابادشاہ کی جنگ نہیں خیال کرتا بلکہ یہی خیال کرتا ہے کہ میری جنگ ہے اور اِس میں اگر شکست ہوئی تو میری آزادی چھن جائے گی۔ ایشیائی افواج کو اگر الگ کر کے دیکھا جائے گا تو معلوم ہوتا ہے کہ یورپین اقوام اسی غرض سے لڑ رہی ہیں کہ اِس جنگ میں ہماری بادشاہت، ہماری حکومت اور ہماری آزادی خطرہ میں ہے۔ بڑے بڑے امراء جن کی ہزاروں لاکھوں کی آمدنی ہے وہ معمولی سپاہیوں کی طرح میدان میں لڑ رہے ہیں۔ گھر پر آرام و آسائش اور بیسیوں خدمت گزاروں کو چھوڑ کر ایک سپاہی کی حیثیت سے میدان میں دوسروں کی خدمت کر رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے سُستی سے کام لیا تو ہماری قومی آزادی مِٹ جائے گی۔ جرمنی و آسٹریا میں بعض علاقے ہیں جو اِس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتے بلکہ بادشاہوں کی جنگ جانتے ہیں اِس لئے اِن میں لڑائی کے لئے کوئی خاص جوش نہیں ہے اور جب وہ خطرہ دیکھتے ہیں تو بھاگ جاتے ہیں لیکن جو قومیں اِس جنگ کو اپنی جنگ سمجھتی ہیں وہ بڑی بہادری اور دلیری سے مُشکلات کو جھیلتی ہیں جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کسی کام کی غرض و غایت کو سمجھ کر کرنے اور یونہی کرنے میں کس قدر فرق ہوتا ہے۔ غرض جب تک کسی کام کے فوائد معلوم نہ ہوں جوش پیدا نہیں ہو سکتا اور پھر جب تک اس کے کرنے کے ذرائع معلوم نہ ہوں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ مثلاً کوئی طالب علم ہو اور وہ چاہتا ہو کہ مَیں فاضل ہوجاؤں اور اعلیٰ سندات حاصل کروں مگر اس کو معلوم نہ ہو کہ فاضل ہونے کے لئے کس قدر محنت کی ضرورت ہے اور وہ ایک آدھ گھنٹہ پڑھ کر ہی اِس کو کافی سمجھ لے تو کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا؟ ہر گز نہیں کیونکہ اِس کے لئے ضروری ہے کہ فاضل بننے کے ذرائع معلوم کر کے اِن پر کاربند ہو اور اِس مقصد کے راستہ میں حائل ہونے والے موانعات کا پتہ لگا کر اِنہیں دُور کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو لازماً کامیاب ہو جائے گا۔ یہی بات ہر ایک مقصد اور دُعا کے لئے ضروری ہے۔
ہماری جماعت میں داخل ہونے والوں کے لئے بھی اِس کی طرف توجہ کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ سوچیں کہ اِس جماعت میں داخل ہونے کی ہماری غرض کیا ہے اور کیا فوائد ہیں جو ہمیں حاصل ہوں گے اور کیا مُشکلات ہیں جو ہمارے راستہ میں حائل ہوں گی۔ پھر جن اغراض کو لے کر ہم اِس جماعت میں آئے ہیں اور جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں اِن کو پورا کرنے کے لئے کس قدر سعی اور کوشش کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہ معلوم نہیں اور اس کے مطابق عمل نہیں تو ان کی کوشش اُدھوری ہو گی، اِن کے جوش سرد ہوں گے، اِن کی محنت ناتمام ہو گی اور اِن کے ولولے ٹھنڈے ہوں گے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اِن کے صرف احمدی کہلانے کی وجہ سے اِنہیں کامیابی حاصل نہ ہو جائے گی کیونکہ کامیابی نام سے نہیں ہوتی بلکہ کام سے ہوتی ہے اور کام پورے جوش اور محنت سے اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس کے فوائد، اس کے کرنے کے طریق اور اس کے موانعات کا پورا پورا علم اور آگاہی نہ ہو۔ صرف نام رکھ لینے سے اگر کامیابی ہو سکتی تو پھر خدا تعالیٰ کو ایک نبی کو بھیج کر اِس کے بعد کسی دوسرے کے بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ فقط ایک آدم علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والے آدمی کہلاتے رہتے اور آج تک آدمی کہلا رہے ہیں لیکن چونکہ محض آدمی کہلانا کافی نہیں تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے بعد دوسرے نبیوں کو بھیجا کیونکہ آدمی اسماً تو کہلاتے تھے لیکن وہ آدم کی حقیقت اِن میں نہیں پائی جاتی تھی جو حضرت آدم میں خدا نے رکھی تھی اور جس کے لئے اُنہیں مبعوث کیا تھا۔ اسی طرح نوح علیہ السلام کی اُمت نے حضرت نوح ؑکے کاموں کو جب چھوڑ دیا تو باجود حضرت نوح ؑکی اُمّت کہلانے کے خدا نے ایک اور نبی بھیجا جس نے ان کو اصل حقیقت کی طرف متوجہ کیا۔ پھر اگر محض نام کے لحاظ سے کسی جماعت میں داخل ہو جانا نجات کے لئے کافی ہوتا تو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے سے نجات ہوتی کیونکہ آدم ؑ کی تمام اولاد میں سے آج تک کوئی انسان محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایسی شان کا پیدا نہیں ہؤا اور نہ آئندہ پیدا ہو گا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو تمام بنی آدم پر ہر لحاظ سے فضیلت اور بڑائی بخشی ہے۔ پس اگر کسی اسمی تعلق کی وجہ سے نجات ہو سکتی ہے تو یقینا اس نبیوں کے بادشاہ اور اولیاء کے شہنشاہ کی طرف منسوب ہونے سے ہوجاتی لیکن جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اسماً منسوب ہونے سے اس وقت تک نجات نہیں ہو سکتی جب تک کہ ان مقاصد اور اغراض کو نہ پورا کیا جائے جو آپ کی اُمّت میں داخل ہونے سے عائد ہوتے ہیں تو پھر آپ کے خادم حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت میں اسماً داخل ہونے سے کب نجات ہو سکتی ہے؟ پس جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جماعت کے لئے عمل کی ضرورت تھی، قربانیوں کی ضرورت تھی، محنت اور تکالیف برداشت کرنے کی ضرورت تھی،اس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے مال و جان، اولاد، عزت و آبرو غرض ہر ایک پیاری سے پیاری چیز لگادینے کی ضرورت تھی۔ اِسی طرح اس جماعت میں بھی اِس مقصد کے حاصل کرنے کے لئے جو ہمارا مقصد ہے تمام چیزوں کو قربان کر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ محض اِس میں داخل ہو جانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
ہماری جماعت میں داخل ہونے والے افراد کا فرض اوّلین ہے کہ وہ سوچیں کہ کیوں اِس جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور جب انہیں اس میں داخل ہونے کا مقصد معلوم ہو جائے تو پھر دیکھیں کہ اس مقصد کے حصول کے لئے کن کن کوششوں کی ضرورت ہے، اِس کے رستہ میں کیا کیا روکیں ہیں، ان روکوں کو کس طرح دُور کیا جاسکتا ہے؟ یہ ظاہر بات ہے کہ ہماری جماعت کی غرض اتحاد باﷲ یعنی خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنا ہے اور جب کوئی شخص کسی دینی سلسلہ میں داخل ہوتا ہے تو اس کا فرض ہو جاتا ہے کہ اس صداقت کو جو اسے حاصل ہوئی ہے دوسرے لوگوں تک پہنچائے اور اُسے پھیلائے۔ پس ہماری جماعت کی غرض تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے اتحاد ہو اور یہ ایک ایسی غرض ہے کہ اسی میں شفقت علٰی خلقِ اﷲ اور اسی میں طہارتِ نفس آجاتی ہے اور اسی میں اﷲ کے رسولوں پر ایمان لانا بھی آجاتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک وفد آیا اور عرض کی حضور کوئی ایسی جامع بات بتائی جائے جس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں۔ آپ نے ان کے لئے پہلی بات یہ فرمائی کہ أَلْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَحْدِہٖ اﷲ کو ایک سمجھتے ہوئے اِس پر ایمان لاؤ۔ اس پر آپ نے فرمایا: اَتَدْرُوْنَ مَا الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَحْدِہٖ کیا جانتے ہو ایک اﷲ پر ایمان لانا کیا ہے؟ انہوں نے کہا اﷲ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا شَھَادَۃُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اﷲِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاءَ الزَّکٰوۃِ وَصِیَامَ رَمَضَانَ۔ کہ یہ شہادت دینا کہ اﷲ ایک ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کا رسول ہے اور نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا اور روزے رکھنا۔ 2
ہم میں اور غیر مبائعین میں جو جھگڑا ہے وہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس قول سے فیصل ہو جاتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت سے علیحدہ کوئی نبوت نہیں ہے۔ پس جس طرح خدا کی وحدانیت پر اسی وقت ایمان لایاجاسکتا ہے جبکہ خدا کے رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مانا جائے۔ اِسی طرح محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کو اسی وقت مانا جاسکتا ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت پر ایمان ہو۔ وَاِلَّا نہیں۔
تو اسلام کا خلاصہ اﷲ تعالیٰ سے تعلق ہے۔ باقی نفس کی اصلاح اور شفقت علٰی خلقِ اﷲ یہ سب اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اتحاد ہونے میں آجاتی ہیں۔ اِس کے لئے جو بھی مُشکلات اور رکاوٹیں ہوں انہیں دیکھنا چاہئے، ان کے رفع کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ اگر کسی میں طہارتِ نفس اور شفقت علٰی خلقِ اﷲ نہیں تو اِس کا اتحاد باﷲ کا دعویٰ غلط ہے۔ خدا کے ساتھ محبت کا تعلق ایک تو خود اپنے نفس سے ہے جو طہارت نفس کہلاتا ہے اور دوسرا اپنے سے غیرکے ساتھ جو شفقت عَلٰی خَلْقِ اﷲ ہے اگر ان دونوں میں سے کوئی نہیں تو اتحاد باﷲ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ عبادات، امانتداری، حکومت کے فرائض کی ادائیگی، غرض دُنیا کے سب کام اس میں آجائیں گے اور یہ اغراض جو ہیں اِن سب کے حصول کے لئے بڑی محنت اور کوشش کی ضرورت ہے۔
اِس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جتنی سعی کی ضرورت ہے اِتنی ہی احتیاط کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جس قدر کوئی کام اہم ہوتا ہے اسی قدر اس کے لئے احتیاط کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے مثلاً اگر ایک پیسہ کہیں ضائع ہو تو انسان اس کی چنداں پرواہ نہیں کرتا لیکن جہاں اس کے بیٹے کی جان خطرہ میں ہو گی وہاں نہایت کوشش و احتیاط کو کام میں لائے گا۔ چونکہ یہ کام بھی کوئی معمولی نہیں ہے اِس لئے اس کے لئے معمولی احتیاط کی ضرورت نہیں بلکہ غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ جتنا عظیم الشان کام ہوتا ہے اتنی ہی بڑی بڑی روکیں اس کے رستہ میں حائل ہوتی ہیں۔ جو مقصد آپ کے مدِّنظر ہے وہ چونکہ بہت ہی عظیم الشان ہے اِس لئے اس مقصد کے حصول میں بڑی بڑی مُشکلات بھی ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ جتنا بلند مینار ہو گا اُتنی ہی زیادہ محنت اس پر چڑھنے کے لئے برداشت کرنی پڑے گی۔ پس اِس مقصدِ عظیم میں جو روکیں اور مُشکلات ہیں ان کا دُور کرنا آپ کے فرائض میں داخل ہے۔ جس مقصد کے لئے آپ کھڑے ہوئے ہیں اس سے بڑااور بہتر کوئی مقصد نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ یعنی خدائے واحد کو پالینا اور اُس سے اتحاد حاصل کر لینا۔ اِس کے لئے جو مُشکلات حائل ہوں اُن کو دُور کرنے کے لئے بہت توجہ اور محنت کی ضرورت ہے۔ خدا پر ایمان لانے کا دعویٰ تو عیسائی بھی کرتے ہیں بلکہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ موحّد تو ہم ہی ہیں اور مسلمان مشرک ہیں لیکن کیا درحقیقت وہ خدا کو ایک مانتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ تو ہمارا مقصد اِس قسم کا ماننا نہیں بلکہ حقیقی طور پر خدا کو پالینا ہے۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ان تمام روکوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں جو اِس مقصد کے حصول میں حائل ہوں۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ کسی شخص کو کچھ مال مل جاتا ہے تو وہ دین کی طرف سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اگر اولاد ہو جاتی ہے تو دین کی طرف سے سُستی ہونے لگتی ہے۔ بعض لوگوں کو رسم و رواج اور عادات، عزت و آبرو وغیرہ کا خیال اِس مقصد کے حصول میں روک بن جاتا ہے۔ حالانکہ معمولی مقصد تو معمولی کوشش اور سعی سے حاصل ہو جایا کرتا ہے مگر بڑا مقصد تھوڑی کوشش سے حاصل نہیں ہوتا۔ اگر دس سیڑھیوں کی اونچائی ہو تو دس قدم میں چڑھ جائے گا لیکن قطب صاحب کے مینار پر دس قدم میں نہیں چڑھا جائے گا۔ اِس کے لئے جتنا وہ بلند ہے اُتنی ہی زیادہ کوشش کی ضرورت ہے۔
خدا اور اس کے دین کے لئے ہر قسم کی قُربانی نہ کرنا اس کی توحید پر ایمان لانا نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۔خوب اچھی طرح جان لو کہ تمہارے مال و اولاد کھوٹے کھرے کے پرکھنے کا ذریعہ ہیں۔ بعض لوگوں نے اِس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اولاد اور مال مصیبت ہیں لیکن یہ غلط ہیں۔ فتنہ کے معنے کھوٹے اور کھرے میں امتیاز کرنے کا ذریعہ کے ہیں اور وہ اِس طرح کہ جب کسی کے پاس مال ہو گا جبھی معلوم ہو سکے گا کہ یہ خدا کی راہ میں مالی قربانی کرتا ہے یا نہیں اِسی طرح جب کسی کے ہاں اولاد ہو گی جب ہی معلوم ہو گا کہ اولاد کو خدا کی راہ میں قُربان کرتا ہے یا نہیں لیکن جس کے پاس مال ہے نہ اولاد اس کے متعلق کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو خدا کی راہ میں دے سکتا ہے اور اُس کا کھوٹا کھرا کیونکر پرکھا جاسکتا ہے۔ پس جب ایک مالدار خدا کی راہ میں مال قُربان کرے گا تو یہ اس کے لئے ذریعہ تمیز ہو جائے گا اِس کے کھرے اور کھوٹے ہونے کا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مال اور اولاد دینے کا نتیجہ کیا ہو گا یہ کہ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۔ مال و اولاد خدا نے امتحاناً تمہیں بطور نمونہ کے دیئے ہیں۔ اس سے قیاس کر لو کہ جب تم خدا کی راہ میں قُربانیاں کرو گے تو وہ خدا جو نمونہ میں ایسی ایسی نعمتیں دے سکتا ہے اور دیتا ہے وہ اجر میں کیا کچھ نہیں دے گا؟ تو فرمایا۔ اﷲ کے پاس اجرِ عظیم ہے۔ اب غور کرو کہ وہ خدا جو بغیر کسی عمل کے محض اپنے فضل سے اس قدر مال و دولت دیتا ہے جب کوئی اس کے احکام مانے گا کتنا بڑا اجر دے گا۔ تو مال و اولاد خدا نے نمونہ کے طور پر دیئے ہیں اور اس لئے دیئے ہیں کہ ہم نیکی میں قدم بڑھائیں اور یہ ہمارے لئے نیکی میں بڑھنے کے لئے ترغیب و تحریص کا موجب ہوں مگر عجیب بات ہے کہ لوگ اِس نمونہ کی چیز پر ہی اس قدر غافل ہو جاتے ہیں کہ اصل انعام کو بھُلا بیٹھتے ہیں حالانکہ ان کو سوچنا چاہئے کہ جس خدا کی رحمانیت یہ کچھ کر سکتی ہے اس کی رحیمیت کیا کچھ نہ کرے گی۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب میں جو امراء تھے وہ دین میں سُست نہیں تھے۔ ایک دفعہ غریب اصحاب نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور ہمارے امیر بھائی تو صدقات و خیرات کے ذریعہ بہت سی نیکیاں بجا لاتے ہیں جن سے بوجہ غریبی ہم محروم ہیں اِس کے لئے ہمیں کوئی ایسا کام بتا دیجئے کہ جس کے ذریعہ اِس کمی کی تلافی ہو سکے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 33 دفعہ سُبْحَانَ اﷲِ،33 دفعہ اَلْحَمْدُ للّٰہِ، 34 دفعہ اﷲ اَکْبَرُ ہر نماز کے بعد پڑھا کرو۔ جب غرباء نے اِس پر عمل کرنا شروع کر دیا تو امراء نے بھی یہ تسبیحیں پڑھنی شروع کر دیں۔ اِس پر غرباء آنحضرت کے پاس پھر حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور امراء نے بھی یہ عمل شروع کر دیا ہے۔ فرمایا۔ اَب مَیں کیا کروں۔ جن کو اﷲ نے فضیلت دی ہے مَیں ان سے کیسے چھین سکتا ہوں۔3 یہ حالت سوائے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم کے اور کسی نبی کی اُمّت میں نظر نہیں آتی۔ حضرت موسیٰ ؑ کا مقابلہ کرنے والے ان کی قوم کے سردار ہی تھے اور حضرت مسیح ؑ تو دولتمندوں سے اس قدر ستائے گئے معلوم ہوتے ہیں کہ کہتے ہیں دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔4 ایک دفعہ ایک مالدار آپ کے پاس آیا اور عرض کیا مجھ کو بھی تعلیم دیجئے۔ آپ نے فرمایا جاپہلے اپنا سب مال تقسیم کر دے اور پھر میرے پاس آ 5 غرض مال تو لوگوں کو نمونہ کے طور پر بغرض آزمائش کے دیا جاتا ہے جس سے نیکی کی طرف ترغیب و تحریص دلانا مدِّنظر ہوتا ہے مگر لوگ اِسی کو اصل چیز سمجھ کر اِس پر ایسے لٹو ہو جاتے ہیں کہ دین کے معاملہ میں بہت سُستی سے کام لیتے ہیں۔
رسُول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ میں جو اطاعت و فرمانبرداری تھی اس کی نظیر ملنی مُشکل ہے۔ اِن کے امراء بھی غرباء کی طرح دین کے لئے جان نثار اور خادم تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت بڑے مالدار تھے اِن کے پاس کئی کروڑ درہم موجود تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک دوسرے صحابی حضرت ابو ذر غفاری ؓ تھے جن کا عقیدہ تھا کہ انسان کے پاس روز کے خرچ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے اگر ہو تو اس کو اسی روز خرچ کر ڈالنا چاہئے۔
اُنہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ پر اعتراض کیا کہ تم نے اتنا مال کیوں جمع کررکھا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ بے شک میرے پاس بہت مال ہے لیکن میری ذات پر مہینہ میں تین چار درہم سے زیادہ خرچ نہیں ہوتے۔
ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے۔ اِس میں نہ بڑے بڑے زمیندار ہیں، نہ بڑے بڑے تاجر بلکہ جو لوگ بڑے سمجھے جاتے ہیں وہ چونکہ غرباء میں شامل ہیں اِس لئے ان غرباء کی نسبت سے بڑے معلوم ہوتے ہیں ورنہ درحقیقت دوسروں کے مقابلہ میں ہماری جماعت کے امراء بھی غرباء ہی ہیں۔ حالی کا شعر ہے ؎
کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ یہاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہر گز6
کہ وہ شعراء جو بڑے تھے وہ تو مر گئے اِس لئے ہم جو بڑے نہ تھے بڑوں کے نہ ہونے کے باعث بڑے شمار ہونے لگے۔ تو ہماری جماعت کے امراء واقعی امراء نہیں بلکہ وہ غرباء کی جماعت میں ہونے کے باعث غرباء کی نسبت سے امیر ہیں۔ اگر اور لوگوں کی نسبت دیکھا جائے تو وہ امراء میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ایک کانسٹیبل جب زمینداروں میں جائے گا تو داروغہ یا جمعدار صاحب کہلائے گا لیکن جب وہ تھانیدار کے سامنے ہو گا تو اِس کی وہی پوزیشن ہو گی جو اس کے سامنے ان زمینداروں کی تھی۔ پس درحقیقت ہمارے سلسلہ کے امراء کی امارت نسبتی ہے ورنہ بڑے بڑے تاجروں کے مقابلہ میں اگر کوئی تاجر بھی ہے تو اس کی بڑی شان نہیں۔ ایسے ہی اگر کوئی زمیندار ہے تو وہ بھی معمولی ہے۔ یا کوئی چار پانسو روپیہ ماہوار کا نوکر ہے، یا کسی کا پیشہ وکالت ہے یا اور کوئی کام کرتا ہے مگر اتنے پر بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ عام طور پر ایسے لوگ دین کے معاملات میں سُستی سے کام لیتے ہیں اور اُنہوں نے اس غرض کو جو اس سلسلہ میں شامل ہونے کی تھی پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔ نمازوں میں سُستی کرتے ہیں یا اور کوئی دین کا کام سُپرد کیا جاتا ہے تو اِس کی نسبت لاپرواہی برتی جاتی ہے۔ کسی انجمن کے ممبر ہوتے ہیں تو اِس میں شامل نہیں ہوتے، اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کو اپنا فرض نہیں سمجھتے۔ کیا ایسے لوگوں کو خبر نہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے ان کے لئے ایک بددُعا کی ہے جو دین کی طرف سے لاپرواہ ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے ؎
اے خدا ہر گز مکن شادآں دلِ تاریک را
آنکہ او را فکرِ دینِ احمدؐ مختار نیست7
کہ اے خدا اس تاریک دل کو کبھی خوش نصیب نہ کر جس کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی فکر نہیں ہے۔ یہ بددُعا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے دین سے غفلت برتنے والوں کے حق میں نکلی ہے۔ اس لئے ان لوگوں کے لئے نہایت خوف کا مقام ہے جو اسلام کی اشاعت کے لئے کوشش نہیں کرتے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے جس قدر امراء ہمارے سلسلہ میں شامل ہیں وہ سب دین کے لئے خاص جوش اور قربانی کرتے ہیں لیکن پنجاب کے امراء میں سُستی پائی جاتی ہے۔ گو پنجاب کے غرباء دین میں بہت بڑھے ہوئے ہیں مگر امراء بہت پیچھے ہیں لیکن ہندوستان کے امراء کی حالت پنجاب کے امراء سے دین کے معاملہ میں بالکل مختلف ہے۔ وہ جس طرح مال کے لحاظ سے، درجہ کے لحاظ سے، پنجاب کے لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں اسی طرح دین کے لئے جوش و اخلاص، تواضع و انکسار میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ اہلِ پنجاب کے ایسے لوگوں کو بہت جلد اس نقص کو دُور کرنا چاہئے ورنہ اگر وہ دین کے معاملات میں چُستی اور جوش و اخلاص اور ایثار و قربانی سے کام نہیں لیں گے تو یاد رکھیں کہ وہ خدا جو دے سکتا ہے وہ لے بھی سکتا ہے۔ خدا نے یہ مال وغیرہ ان کو اس لئے دیا تھا کہ ان کی آزمائش کی جائے اور کھوٹے کو کھرے سے اور جھُوٹے کو سچّے سے الگ کر کے رکھ دیا جائے اور یہ نمونہ کے طور پر اس نے اُنہیں عطا کیا تھا۔ پس اگر وہ اِسی پر غافل ہو گئے تو واقعی یہ مال اِن کے لئے آفت ہو جائے گا جس کی ان کو خبر نہیں۔
ہم میں جو معزز ہیں، جو عالم ہیں، جو مالدار ہیں یا جو ذی وجاہت و ذی مرتبہ ہیں ان سب کا فرض ہے کہ وہ سُستی اور کاہلی کو چھوڑ دیں، بڑائی و نخوت سے بالکل پاک ہو جائیں اور نیکی میں ترقی کریں۔ دین کے لئے قربانی کریں اور دین کے کاموں کو ہتک نہ خیال کریں بلکہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو خدا کے فضل ان کے ساتھ ہوں گے۔ ورنہ خدا کی گرفت سخت ہے اور حضرت صاحب کی بد دُعا ہے کہ خدایا جو لوگ دین سے بے فکر ہیں ان کو خوشی نصیب نہ ہو۔ جس طرح غرباء دین کی خدمت میں مصروف ہیں اور اعمال شرعی کو بجالانے میں سُست نہیں اِسی طرح انہیں بھی دین کی خدمت کرنا چاہئے بلکہ ان سے بڑھ کر کیونکہ اِن پر خدا کے زیادہ فضل ہیں لیکن اگر وہ نہیں کریں گے تو یاد رکھیں کہ وہ خدا جو نعمت دے سکتا ہے وہ واپس بھی لے سکتا ہے۔
خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو دین کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے اور سُستیوں کو دُور کرکے اپنے راستہ میں وقت اور مال خرچ کرنے کا موقع نصیب کرے تا آئندہ اس کے فضل آپ لوگوں سے رُک نہ جائیں بلکہ اور زیادہ بڑھتے رہیں۔’’ (الفضل 7ستمبر1918ء)
1: الانفال:29
2: بخاری کتاب الایمان باب اداء الخمس من الایمان
3: مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ (الخ)
4: لوقا باب 18 آیت 25 برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لنڈن 1887ء (مفہوماً)
5: لوقا باب 18 آیت 18 تا 25 برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لنڈن 1887ء (مفہوماً)
6: کلیات حالی صفحہ 104 مطبوعہ لاہور 2005ء
7: برکات الدعا ۔ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 37 نظارت اشاعت ربوہ۔

16
اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ
(فرمودہ30اگست 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:-
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ۔نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍؒ۔1
اور فرمایا:-
‘‘کوئی عبادت مکمل نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ساتھ استقامت نہ ہو۔ قربِ الٰہی کے ہزاروں ذرائع ہیں لیکن جب تک اِن میں سے کسی ایک پر استقامت نہ اختیار کی جائے اِس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی اور کوئی عبادت نفع نہیں دے سکتی بغیر اس پر استقامت اختیار کرنے کے۔ دُنیا کے ہر کام میں بھی جب تک استقامت نہ ہو کامیابی نہیں ہو سکتی۔ مثلاً ایک شخص کچھ بیمار ہوتا ہے اور کونین کھاتا ہے، تھوڑی دیر بعد ست گلوپھانکتا ہے، کچھ دیر کے بعد کچھ اور کھا لیتا ہے تو اِس کو فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ علاج تو اپنی جگہ صحیح ہوں گے مگر ان میں سے ہرایک کے ساتھ استقامت شرط ہے اور جس علاج کے ساتھ استقامت نہیں ہوتی وہ اعلیٰ سے اعلیٰ ہونے کے باوجود بھی بے فائدہ ثابت ہوتا ہے اور کوئی دوائی اس وقت تک اثرنہیں دکھا سکتی جب تک استقامت کے ساتھ اسے استعمال نہ کیا جائے اور وہ طبیعت کے مطابق ہو کر اپنا اثر نہ دکھائے لیکن اگر جلد جلد ردّوبدل کیا جائے گا تو دوائی خواہ کیسی ہی اعلیٰ درجہ کی کیوں نہ ہو اپنا کوئی اثر نہیں دکھاسکے گی۔ ایک طبیب بھی نسخہ بدلتا ہے اور بدلتا رہتا ہے لیکن جب کوئی نسخہ مریض کی طبیعت کے مطابق ہو جاتا ہے تو پھر نہیں بدلتا اور اِسی کو استقامت کے ساتھ استعمال کرتا رہتا ہے لیکن اگر اس مفید نسخہ کو بدل دے تو نتیجہ کچھ نہیں ہو سکتا۔
اِسی طرح زبانیں ہیں۔ انگریزی ہے، عربی ہے، فارسی ہے، جرمن، روسی، فرنچ، اُردو۔ غرض بہت سی زبانیں ہیں اور ان کے سیکھنے کے لئے بہت سے کورس ہیں جن میں سے کسی ایک کے ذریعہ زبان سیکھی جاسکتی ہیں لیکن اُسی وقت تک جبکہ استقلال کے ساتھ اس کو عمل میں لایا جائے کیونکہ جب تک باقاعدگی اور استقلال کے ساتھ اس کو نہیں پڑھا جائے گا کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ مثلاً اگر کوئی عربی زبان سیکھنے کے لئے اس کے کورس میں سے آج توحماسہ کا کچھ حصّہ پڑھ لے اور کل متنبّی کے ایک دو صفحے دیکھ لے اور پرسوں مقامات حریری کو پڑھنے لگے اور اسی طرح ہر روز کتاب بدلتا رہے تو وہ کبھی عربی زبان نہیں سیکھ سکے گا کیونکہ پڑھنے والے نے اگرچہ کتابیں تو بہت سی شروع کیں مگر استقامت سے کسی ایک کو بھی ختم نہ کیا۔ تو زبان عربی حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں مگر ان سب میں استقلال و استقامت کی بہت سی ضرورت ہے اور یہی حال ہر ایک مقصد اور مدعا کے حاصل کرنے کا ہے۔ جب تک اس کے لئے کوشش کرتے ہوئے استقامت نہ دکھلائی جاوے اُس وقت تک وہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
یہ آیت جو مَیں نے پڑھی ہے۔ اِس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا کہ جو لوگ ایمان کو درست کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اﷲ ہمارا پیدا کرنے والا ہے، پھر اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس پر استقامت دکھاتے ہیں۔ یعنی اپنے اعمال و عبادات میں ہمیشگی اختیار کرتے ہیں۔ ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں جو انہیں یہ کہتے ہیں کہ کسی بات سے مت ڈرو اور اس جنت کی خوشخبری سُنو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ استقامت جب اﷲ تعالیٰ کے متعلق آئے تو اس کے معنی ہوتے ہیں اﷲ تعالیٰ کی اطاعت میں مداومت اختیار کرنا۔ اِس لئے اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ لڑکھڑائے نہیں بلکہ جو کام شروع کرتے ہیں اُس پر مداومت اختیار کرتے ہیں درمیان میں نہیں چھوڑدیتے۔ استقامت کے معنے یہ بھی ہیں کہ جو کام شروع کیا جائے اُس کو اُس وقت تک نہ چھوڑا جائے جب تک کہ انجام کو نہ پہنچ جائے۔ استقامت کے معنی ہر ایک کام پر مداومت اختیار کرنے کے نہیں ہیں کیونکہ جب ایک کام ہو جائے تو پھر اس کے پیچھے لگے رہنا کوئی دانائی کی بات نہیں۔ اِس لئے اس کے یہ معنی ہیں کہ جب تک وہ کام ختم نہ ہو اس وقت تک اس کو نہیں چھوڑتے۔ بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا ہمیشہ کرنا ضروری نہیں ہوتابلکہ ایک حد تک پہنچ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ مثلاً لڑائی ہے جب تک وہ ختم نہ ہو اس وقت تک اس میں استقامت کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ تمام عمر لڑائی جاری رکھی جائے۔ تو استقامت کا یہ مطلب و مقصد ہے کہ جب تک کام کو انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہو اُس وقت تک کام کیا جائے۔
پس اﷲ تعالیٰ کے احکام میں استقامت یہی ہے کہ اُس کی اطاعت میں لگ جائے اور اُس وقت تک لگا رہے اور اس کو اُس وقت تک برابر جاری رکھے جب تک کہ وہ کام خاتمہ پر نہ پہنچ جائے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان پر اﷲتعالیٰ کے ملائکہ کا نزول ہوتا ہے وہ اولیاء اﷲ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
بزرگوں کا یہ مشہور قول ہے کہ اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ کرامت سے بڑی چیز استقامت ہے۔ واقع میں استقامت معمولی چیز نہیں بلکہ کرامت سے فوقیت رکھتی ہے۔ کرامت ایک اصطلاح بتائی گئی تھی۔ انبیاء کے خوارق و نشانات کو معجزات کہتے تھے اور اولیاء کے نشانات کو کرامات۔ اِن کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک انسان استقامت سے خدا کی عبادت میں مصروف رہے گا تب ہی وہ اس مقام پر پہنچ سکے گا کہ کرامت دکھائے ورنہ نہیں۔ تو خداتعالیٰ فرماتا ہے رَبُّنَا اللّٰهُکہنے والے جب خدا کی عبادت میں ثابت قدم رہتے ہیں اور اُن کے قدم لڑکھڑاتے نہیں تو پھر ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تمہاری مددونصرت کے لئے خدا نے بھیجا ہے۔ اگر ساری دُنیا تمہاری دُشمن ہو گئی تو بھی کچھ پرواہ مت کرو کیونکہ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ پس دُنیا میں استقامت سے انسان وہ کچھ کر لیتا ہے جس کا سمجھ میں آنا ناممکن ہے۔
دیکھو یہی دریا جو ہمیشہ چلتے رہتے ہیں ہزاروں اور لاکھوں من مٹی روزانہ سمندر میں ڈالتے ہیں۔ دریائے ٹیمز جو لنڈن کے نیچے بہتا ہے اگر ہمارے یہاں ہوتو ایک نالہ سمجھا جائے۔ اِس کے متعلق محققین نے فیصلہ کیا ہے کہ دُنیا کے تمام دریاؤں سے تھوڑی مٹی کاٹتا ہے پھر بھی روزانہ چار ہزار من مٹی سمندر میں لے جاتا ہے۔
اِسی طرح لوگوں نے ایک قصہ مشہور کر رکھا ہے۔ اصل میں ایک مستقل مزاج اور دوسرے سُست الوجود انسان کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہتے ہیں ایک کچھوے اور خرگوش میں شرط لگی کہ کون پہلے ایک خاص ٹیلے پر پہنچتا ہے۔ خرگوش ابتدا میں تیزی سے دَوڑ کر کچھوے سے آگے نکل گیا اور یہ خیال کر کے کہ کچھوا آہستہ آہستہ چلتا ہے اِس لئے یہاں آنے تک مَیں آرام کر لوں یہ سمجھ کر وہ سوگیا اور کچھوا اپنی اسی آہستہ چال سے چلتا چلتا ٹیلے پر پہنچ گیا۔ یہاں جاکر خرگوش کو اس نے آواز دی کہ لو بھئی مَیں تو پہنچ گیا ہوں۔ غرض استقامت سے کام کرنے والا ضرور جیت جاتا ہے۔
دیکھو مسلمان بڑے جوش سے اُٹھے ، ان کے پاس صداقت کی تلوار تھی اور براہین نیّرہ کا مضبوط نیزہ لیکن چونکہ انہوں نے استقامت کو چھوڑ دیا اور اس جوش و خروش کو قائم نہ رکھا جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ پیدا ہؤا تھا اِس لئے جلد ہی بیٹھ گئے۔ اس کے مقابلہ میں چونکہ عیسائیت کی کُند چھُری جو آہستہ آہستہ چلتی رہی اور اِس کے چلانے والوں نے استقلال دکھلایا اِس لئے آج وہ بہت کام کر چکی ہے۔ مسلمانوں کے پاس صداقت کے ہتھیار تو نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے مگر ان میں استقامت کی کمی تھی اور عیسائیوں کے ہتھیار کُند اور ناکارہ تھے مگر ان میں استقامت تھی جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ اُن کی کُند چھُری کے ذریعہ لاکھوں مُسلمانوں کے گلے کٹ چکے ہیں اور وہ زخمی ہو کر تڑپ رہے ہیں۔ تو چونکہ عیسائی آہستہ آہستہ اپنی کُند چھُری کو استقلال کے ساتھ چلا رہے ہیں اِس لئے وہ ان سے جن کے پاس تیغ آبدار تو تھی مگر وہ اسے چھوڑ کے بیٹھ گئے بازی لے گئے۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ استقلال کے ذریعہ ایک سُست چُست سے، ایک کمزور مضبوط سے جیت جاتا ہے۔ پھر استقلال تو وہ چیز ہے کہ اس سے کام لے کر لوگ حیوانوں کو وہ کچھ سکھالیتے ہیں جو اُن کی فطرت کے مطابق نہیں ہوتا۔ مثلاً طوطے کو باتیں کرنا سکھا لیتے ہیں۔ اِس طرح اور کئی جانوروں کو عجیب عجیب کام سکھلائے جاتے ہیں۔ پس استقلال کی برکت سے جب جانوروں کی یہ حالت ہو جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اگر انسانوں کو لَاِالٰہَ اِلَّا اﷲ بِالاستقلال سنایا جاتا تو وہ اس کے قائل نہ ہو جاتے۔ مَیں یقین کرتا ہوں کہ اگر مُسلمان استقامت سے کام لیتے تو یقینا آج دُنیا میں کوئی غیر مسلم نہ ہوتا اور ساری دُنیا رَبُّنَا اللّٰهُکہنے والی ہوتی۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان جب اﷲ تعالیٰ کی اطاعت میں استقامت دکھاتا ہے تو وہ ملہم ہو جاتا ہے۔ پھر اس کے لئے خدا کے فضل سے دُنیا و آخرت میں کوئی خوف نہیں رہتا۔ اﷲ کے ملائکہ اس کے دوست اور ولی ہو جاتے ہیں۔ جو انسان ایسا ہو جائے اس کی تمام خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور وہ اِس طرح کہ خدا تعالیٰ ایسے انسانوں کے متعلق فرماتا ہے۔ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۔ اِن کو جو کچھ دیا جائے گا وہ غفور رحیم خدا کی طرف سے بطور مہمانی کے ہو گا۔
پس اِس آیت میں خدا تعالیٰ نے استقامت کے فوائد بتلائے ہیں اور اسے اختیار کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض قرار دیا ہے۔
اب مَیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بتاتا ہوں کہ آپ نے استقامت کی نسبت کس قدر زور دیا ہے۔
حدیث میں آتا ہے۔ وَکَانَ اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلَیْہِ مَادَاوَمَ عَلَیْہِ صَاحِبُہٗ 2 کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو وہ عمل سب سے زیادہ پسند اور پیارا تھا جس پر مداومت اختیار کی جاتی۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس ایک عورت آئی اور اپنی عبادت گزاریوں کا ذکر کرنے لگی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے پوچھا کیا ذکر ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ یہ عورت عبادت گزار ہے بہت عبادت کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا خدا کو تو وہ عمل پسند ہے جس میں مداومت اختیار کی جائے۔ 3 اِسی طرح عبداﷲ ابن عمرو ابن العاص کی روایت ہے کہ انہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یَاعَبْدَ اﷲِ لَاتَکُنْ مِثْلَ فُلانٍ کَانَ یَقُوْمُ مِنَ اللَّیْلِ فَتَرَکَ قِیَامَ اللَّیْلِ۔4 اے عبداﷲ فلاں کی طرح نہ ہو جو پہلے قیام لیل کیا کرتا تھا اور پھر اس نے چھوڑ دیا۔ معلوم ہوتا ہے یہ بات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہت ہی ناپسند تھی کہ جو عمل اختیار کیا جائے اس پر مداومت نہ اختیار کی جائے۔ اِسی لئے آپ نے عبداﷲ کے سامنے اس شخص کا نام لے کر کہا کہ اس کی طرح نہ کرنا۔ ورنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عادت نہ تھی کہ کسی کا نام لے کر اِس کا عیب بیان کریں۔ آگے حضرت عبداﷲ نے اِس بات کا لحاظ رکھا کہ روایت میں اس کا نام نہیں ظاہر کیا۔ اِس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی ہر روز دو رکعت نفل پڑھے تو وہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے جو ایک ہی دن میں سو یا پچاس یا چالیس رکعت پڑھ کر پھر چھوڑ دے۔ اِسی طرح وہ شخص جو ہر مہینہ میں ایک روزہ رکھتا ہے بہتر ہے اُس کی نسبت جو ایک دفعہ تو سال بھر تک روزے رکھتا ہے اور پھر نام نہیں لیتا۔ یا اِسی طرح ایک ایسا شخص جو ایک دن محنت کرتا کرتا چوبیس گھنٹہ ختم کر دیتا ہے لیکن پھر اس کام کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اس کی نسبت وہ اچھا ہے جو روزانہ تھوڑا تھوڑا کرتا رہتا ہے۔ پس ہر کام میں استقامت کی ضرورت ہے اور استقامت کے سوا کوئی عمل نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ وَلَنْ یُشَآدَّ الدِّیْنَ اَحَدٌ اِلَّا غَلَبَہٗ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَاَبْشِرُوْا وَاسْتَعِیْنُوْا۔5 کہ دین آسان ہے لیکن اگر کوئی اس میں سختی کرے گا تو دین اِس پر غالب آجائے گا۔ اِس لئے میانہ روی اختیار کرو اور نزدیک رہو اور ثواب کی اُمید رکھو اور استقامت مانگو۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال میں غلو کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ جو عمل بھی کیا جائے ہمیشہ کیا جائے کیونکہ نجات زیادہ عملوں سے نہیں ہو گی بلکہ خدا کے فضل سے ہوگی۔
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ اگر عملوں سے نجات نہیں ہو گی تو پھر اعمال کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اِس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ نجات تو خدا کے فضل سے ہی ہو گی۔ ہمارے وہ عمل جو ہم نے ہمیشہ اخلاص سے کئے ہوں گے وہ خدا کے فضل کے جاذب ہوں گے کیونکہ انسان کے اتنے عمل نہیں ہوتے جتنے خدا کے فضل ہوتے ہیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ میری نجات بھی اعمال سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے ہی ہو گی۔6 یہ درست ہے کیونکہ رسول کریم کے عملوں کے مقابلہ میں خدا کے فضلوں کو دیکھا جائے جو آپ پر ہوئے تو آپ پر خدا کے فضل بہت ہی زیادہ ہیں۔ میرے نزدیک کسی نبی نے وہ کام نہیں کئے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کئے اور اگر تمام انبیاء کے اعمال کو مجموعی حیثیت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعمال کے مقابلہ میں رکھا جائے تو بھی آپ کے اعمال کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن باوجود اس کے اگر خدا کے ان احسانات کو دیکھا جائے جو خدا نے آپ پر کئے تو اِس میں بھی کوئی شک نہیں وہ بھی بہت بڑے ہیں۔ پس حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اپنے اعمال سے نجات نہیں پائیں گے بلکہ خدا کے فضل سے ہی پائیں گے۔ ایک شاعر کا یہ شعر مجھے بہت ہی پسند ہے۔ کہتا ہے ؎
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہؤا
کہ ہم نے اگر خدا کے لئے جان بھی دے دی تو کیا ہؤا۔ سچ پوچھو تو کچھ بھی نہیں دیا کیونکہ جان بھی اُسی کی دی ہوئی تھی۔ ایک شخص کروڑوں روپیہ کسی کو دیتا ہے اگر لینے والا سارے کا سارا دینے والے کو دے دے تب بھی گویا اس نے کچھ نہیں دیا۔ تو انسان جو کچھ بھی خدا کی راہ میں قربان کرے اور جس قدر بھی اعمال بجالائے وہ سب کچھ خدا کے دیئے ہوئے انعامات کے ذریعہ کرے گا اِس لئے اس کا حق کہاں ادا ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عملوں سے نجات نہیں ہو گی بلکہ خدا کے فضل سے ہو گی۔
آریوں کو اِس بات سے دھوکا لگا ہے اور ان کا ایک بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ محدود اعمال کے نتیجہ میں غیر محدود نجات نہیں مل سکتی۔ اِس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت ہی عمدہ دیا ہے۔ فرمایا۔ انسان اپنے اعمال کو خود محدود نہیں کرتا۔ اِس کا تو یہی ارادہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ خدا کی اطاعت و عبادت میں ہی لگا رہوں لیکن چونکہ خداوند اسے موت دے دیتا ہے اِس لئے وہ اَور اعمال نہیں کر سکتا اور اِس میں اِس کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ وہ غیرمحدود نجات کا مستحق ہے کیونکہ اس کے اعمال اگرچہ محدود ہیں مگر چونکہ اس کا ارادہ اعمال تو غیر محدود تھا اس لئے اﷲ تعالیٰ جزاء بھی غیر محدود دیتا ہے جو اس کا فضل ہے مگر اِس فضل کا مستحق انسان استقامت سے ہی بن سکتا ہے۔
غرض ہر فعل اور ہر کام میں استقامت کی بہت ہی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انسان اپنے اعمال میں استقامت دکھائے گا تو خدا تعالیٰ سے انعامات غیر محدود حاصل کرے گا۔ اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اِس کے متعلق سخت تاکید کی ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں اِس کی کمی ہے حالانکہ استقامت بہت بڑی چیز ہے اِس کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ مَیں نے کئی کام بعض ایسے لوگوں کے سُپرد کئے جنہوں نے اِس کے لئے نام لکھوا دیئے اور بڑے جوش سے اُٹھے تھے مگر پھر خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ حضرت صاحب کی کتابوں کا انڈیکس بنانے کے لئے جب اعلان کیا گیا تو کئی لوگوں نے نام لکھوائے اور ابتدا میں بڑا جوش رہا۔ کئی لوگ مجھے روزانہ پوچھا کرتے تھے کہ کس طرح تیار کریں لیکن نہیں معلوم اب وہ کیا کر رہے ہیں۔ تین مہینہ کی مدّت مقرر کی گئی تھی مگر اب چھ مہینے اِس کے بعد بھی گزر گئے ہیں۔ چھوٹے ہوتے ایک قصّہ سُنا کرتے تھے کہ ایک دیو تھا جو چھ مہینہ سوتا تھا اور چھ مہینہ جاگتا تھا لیکن ہماری جماعت کے بعض لوگ سال میں صرف تین دن جلسہ میں جاگتے ہیں اور جلسہ ختم ہونے کے معاً بعد سو جاتے ہیں۔ جلسہ میں تقریریں سُن کر خوش ہو جانا یا اُس وقت جوش دکھادینا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا بلکہ تقریروں میں جو کچھ بتایا جاتا ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ تقریریں تو آپ لوگوں کو کام کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ سو کام کرو اور استقامت سے کرو۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تمام کاموں میں استقامت و استقلال اختیار کرو۔ کسی کام کے لئے چند روزہ جوش سے وہ کام نہیں ہو جاتا بلکہ اِس کے انجام پذیر ہونے کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہو تی ہے۔
اﷲ تعالیٰ مُجھ کو اور آپ لوگوں کو بھی کام کرنے کی توفیق دے اور استقامت عطا فرمائے۔ آمین’’ (الفضل21/17 ستمبر1918ء)
1: حٰم السجدۃ: 31تا33
2 :،3: بخاری کتاب الایمان باب اَحب الدِّیْن اِلَی اﷲ اَدْوَمُہٗ
4: بخاری کتاب التہجد باب مَا یُکْرَہُ مِنْ تَرکِ قِیَامِ اللَّیْلِ (الخ)
5: بخاری کتاب الایمان باب الدین یُسر
6: بخاری کتاب الرقاق باب القصد و المداومۃ علی العمل


17
مومن وہ ہے جو عَلیٰ وَجْہِ الْبَصِیْرَۃ ایمان رکھتا ہو
(فرمودہ 6ستمبر1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ یوسف کی مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی:-
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ١ؔ۫ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ١ؕ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۔1
اور فرمایا:-
''بہت سے لوگ دُنیا میں ایک بات کے ماننے کے دعویدار ہوتے ہیں لیکن باوجود اِس کے ان کے پاس اِس کے حق ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ انسان کو دوسری مخلوق پر فضیلت حاصل ہے کہ اُسے خدا تعالیٰ نے امتیاز کی طاقت دی ہے۔ یعنی بُری اور اچھی چیز میں سے جو اچھی چیز ہو اُس کو بُری سے الگ کر کے اس پر عمل کرے مگر جانوروں میں یہ بات نہیں رکھی گئی۔ وہ جس حالت میں ابتدا میں تھے اُسی میں چلے آتے ہیں۔ تاہم انسان میں یہ طاقت ہونے کے باوجود کم لوگ اِس کو استعمال کرتے ہیں اور بہت ہیں جو کسی امر کو سچّا مانتے ہیں لیکن اگر اِن سے دریافت کریں تو وہ بیان نہیں کر سکیں گے کہ وہ کیوں اِس عقیدہ کے قائل ہیں۔ اگر تمام دُنیا کی مردم شماری کی جائے تو ایک کروڑ میں سے 99 لاکھ ایسے ہوں گے جو آبائی مذہب پر قائم ہوں گے بلکہ اِس سے بھی زائد اور بہت سے ایسے ہوں گے جو اپنے مزعومہ دین کے لئے جان بھی دے دیں گے مگر اِس کے سچّے ہونے کی دلیل ان کے پاس کوئی نہیں ہو گی کیونکہ وہ جو کسی مذہب کے قائل ہیں تو اِس لئے نہیں کہ اُنہوں نے تحقیق کر کے اِسے قبول کیا ہے بلکہ اِس لئے کہ ان کے ماں باپ اِس مذہب کے قائل تھے۔ پچھلے دنوں جو بہار میں فساد ہؤا اگر ان ہندوؤں سے جاکر پوچھا جائے کہ مُسلمانوں کے خلاف ان کا جوش و خروش کیوں تھا اور کیوں ان کو دُکھ دیا گیا تو مَیں یقین کرتا ہو ں کہ وہ اِ س کی سوائے اِس کے کوئی وجہ نہیں بتا سکیں گے کہ وہ لوگ ہندو نہ تھے لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہندو مذہب کیا ہے اور کیوں ہندو کہلاتے ہو تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ بات تو ہمارے پنڈتوں سے جاکر دریافت کرو اور اگر پنڈتوں سے دریافت کیا جائے تو اُن میں سے بھی بہت سے ایسے نکلیں گے کہ جو کہیں گے بھی تو یہی کہ ہمارا مذہب قدیمی اور پُرانا مذہب ہے اِس لئے سچّا ہے۔ تو وہ ایسے دلائل دیں گے جو درحقیقت دلائل نہیں ہوں گے بلکہ دلائل نماد عاوی ہوں گے۔ یہی حال دیگر مذاہب کا ہے۔
ایک دفعہ مجھے ایک پادری سے ملاقات کا اتفاق ہؤا وہ 35 سال سے عیسائیت کی تبلیغ کر رہا تھا اور بہت سے لوگ اس کے ذریعہ عیسائی ہو چکے تھے وہ ایک جگہ اشتہار تقسیم کر رہاتھا۔ مَیں نے ایک دوست کو اس کے پاس بھیجا کہ اس سے دریافت کرو کہ وہ کس وقت ملاقات کرسکتا ہے؟ اس پر اُس نے اپنے مکان کا پتہ دیا اور وقت بھی مقرر کردیا۔ مقررہ وقت پر مَیں اُس کے پاس گیا اور تثلیث پر گفتگو شروع ہوئی۔
مَیں نے اُس سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جس تثلیث کے قائل ہیں اُس کے متعلق مجھے یہ بتلائیے کہ کس رنگ میں قائل ہیں؟ آیا خدا کے تین صفات ہیں یا تین حیثیتیں ہیں یا تین الگ الگ وجود ہیں۔ اُس نے کہا کہ جو لوگ خدا کی تین صفات یا تین حیثیتوں کے قائل ہیں وہ درحقیقت مذہب کے قائل نہیں بلکہ مذہب کو بگاڑتے ہیں۔ مذہبی گروہ تین وجودوں کا قائل ہے۔
مَیں نے کہا جب تین وجود ہیں تو وہ تینوں مکمل ہیں یا تینوں مل کر ایک وجود ہوتے ہیں؟ اس نے جواب دیا نہیں تینوں مکمل ہیں۔ مَیں نے پوچھاکہ جب وہ تینوں مکمل ہیں تو کیا تینوں مل کر کام کرتے ہیں یا الگ الگ؟ اگر ایک کام کرتا ہے تو باقی دو بیکار بیٹھے رہتے ہیں۔ اُس نے کہا اب خدا نے اپنے بیٹے کے سپرد اِس کارخانہ کو کر دیا ہے۔ مَیں نے کہا اگر باپ نے بیٹے کے سپرد کر دیا ہے تو گویا اب وہ خود بیکار ہو گیا ہے؟ اِس پر اُس نے کہا نہیں تینوں مل کر کام کرتے ہیں اور تینوں مکمل بھی ہیں۔ اُس کی میز پر ایک قلم پڑا تھا مَیں نے اُسے اُٹھالیا اور پوچھا کہ اگر تین شخص مل کر اس قلم کو اُٹھائیں تو آپ انہیں کیا کہیں گے۔ اُس نے کہا کہ مَیں اُنہیں بیوقوف کہوں گا۔ مَیں نے کہا اچھا جب تینوں خدا مکمل ہیں اور تینوں میں سے ہر ایک اِس دُنیا کے نظام کو قائم رکھنے کی طاقت رکھتا ہے تو کیا وجہ کہ تینوں مل کر اِس کام کوکر رہے ہیں جسے اکیلا اکیلا کر سکتا ہے؟ اِس سے تو ماننا پڑے گا کہ تینوں لغو کام کرتے ہیں اور اگر اُن میں سے ایک کرتا ہے تو پھر دو کو بیکار اور بے سود ماننا پڑے گا۔
اُس نے آخر میں کہا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ تثلیث کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے کہ جب تک انجیل پر ایمان نہ ہو سمجھ میں نہیں آسکتا۔ مَیں نے کہا کہ انجیل کا ماننا تو اس پر موقوف ہے کہ انجیل کا مسئلہ سمجھ میں آجاوے اور تثلیث کا مسئلہ سمجھنا اس پر موقوف ہے کہ انجیل کو پہلے مان لیا جائے۔ پس نتیجہ یہ ہؤا کہ نہ مسئلہ تثلیث سمجھ میں آسکتا ہے نہ انجیل پر ایمان لایا جاسکتا ہے۔ اُس نے کہا کہ تثلیث کے مسئلہ پر عیسائی مذہب کی بنیاد نہیں بلکہ کفارہ پر ہے۔ آپ کسی دوسرے وقت مُجھ سے اِس پر گفتگو کر لیں۔ مَیں نے اِس پر خوب غور کیا ہؤا ہے اور اِس کی تائید میں بہترین دلائل مہیا کئے ہوئے ہیں۔
مَیں دوسرے دن اُس کے پاس گیا اور کفارہ کے متعلق دریافت کیا کہ مسیح جو انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ہؤا تو وہ کس حیثیت سے ہؤا ہے۔ آیا خدا ہونے کی حیثیت سے یا انسان ہونے کی حیثیت سے؟ اُس نے کہا انسان ہونے کی حیثیت سے کفارہ ہؤا ہے کیونکہ جب تک انسان کی جنس نہ ہوتا وہ اُن کے لئے کیسے کفارہ ہو سکتا تھا؟ اِس پر اُس نے ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ چونکہ آدم نے گناہ کیا اِس لئے اُس کے بیٹے بھی گنہگار ہیں اور گناہ سے کسی صورت میں بچ نہیں سکتے اِس لئے خدا نے اپنے بیٹے کو جو گناہوں سے پاک ہے بھیجا تا اُن کی خاطر سُولی چڑھے اور اُن کے گناہ معاف ہوں۔ پس وہ انسانوں کے لئے کفارہ ہو گیا۔مَیں نے اُس کو کہا کہ اگر گرم اور ٹھنڈے پانی کو ملا دیا جائے تو پانی گرم زیادہ ہو گا یا ٹھنڈا۔ اُس نے کہا کہ گرم کی گرمی اور سرد کی سردی دُور ہو کر درمیانی حالت پیدا ہو جائے گی۔ اِس کے بعد مَیں نے پوچھا کہ شیطان کی غرض آدم کو بہکانا تھا یا حوّا کو؟ اُس نے کہا آدم کو۔ مَیں نے کہا اُس نے اِس غرض کے لئے کیا ذریعہ اختیار کیا؟ اُس نے کہا شیطان نے اوّل حوّا کو بہکایا اور اِس کے ذریعہ آدم کو گنہگار بنایا۔ مَیں نے پوچھا براہ راست کیوں نہ اُس نے آدم کو گناہ کی طرف متوجہ کیا؟ اُس نے کہا کہ چونکہ آدم حوّا کی نسبت قوی تھا اِس لئے وہ اُس کے پھندے میں نہیں آسکتا تھا اور حوّا کمزور تھی اِس لئے اُس نے اِس کو پہلے بہکایا اور پھر اُس کے ذریعہ آدم کو بہکایا۔ مَیں نے کہا اب آپ فرمائیے کہ آیا وہ انسان جو آدم اور حوّا کے میل سے پیدا ہوں وہ شیطان کے مقابلہ میں قوی ہوں گے یا وہ جن میں صرف حوّا کا اثر ہو؟ ظاہر ہے کہ آدم اور حوّا کے میل کے بچے محض حوّا کے بچے سے قوی ہوں گے۔ پس آپ کیسے کہتے ہیں کہ حوّا کا بچہ آدم اور حوّا کے بچوں کی رستگاری کا ذریعہ ہو سکتا ہے؟ اِس پر اُس نے کہا کیا مٹی میں سے سونا نہیں پیدا ہو جاتا۔ مَیں نے کہا درست ہے اِسی لئے تو کہتے ہیں کہ آدم کی اولاد ساری گنہگار نہیں ہو سکتی۔ اُس نے کہا نہیں نہیں سونے میں سے سونا پیدا ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا پھر حوّا جسے شیطان نے آدم کو ورغلانے کا ذریعہ بنایا صرف اُس کی اولاد پاک نہیں ہو سکتی۔ اِس کے متعلق اور بھی بہت گفتگو ہوئی۔ آخر میں کھڑا ہو گیا اور کبھی اپنی عینک کو صاف کرتا کبھی اُسے لگالیتا، کبھی اُتار دیتا اور بڑا حواس باختہ سا ہو کر کہنے لگا بات اصل میں یہ ہے کہ مَیں کفارہ کا اِس لئے قائل ہوں کہ عیسائیوں کے گھر میں پیدا ہؤا ہوں ورنہ میں اس کو سمجھ نہیں سکتا اور نہ اس کی صداقت کے دلائل رکھتا ہوں۔ دیکھو تثلیث پر بحث کرتے وقت تو اُس نے کہا تھا کہ کفارہ پر گفتگو کیجئے۔ مَیں اُس کے متعلق نہایت زبردست دلائل رکھتا ہوں لیکن جب اِس پر گفتگو ہوئی تو کہہ دیا کہ مَیں اِس لئے اِس کا قائل ہوں کہ عیسائیوں کے گھر میں پیدا ہؤا ہوں۔
اِسی طرح ایک اور عیسائی سے گفتگو ہوئی۔ وہ عیسائیوں کے کالج کا پرنسپل تھا وہ جب لاجواب ہو گیا تو کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ سوال تو بیوقوف بھی کر سکتا ہے جواب کا دینے والا عقلمند ہونا چاہئے۔ مَیں نے کہا مَیں تو آپ کو عقلمند سمجھ کے ہی آیا تھا۔ اچھا اگر آپ جواب نہیں دے سکتے تو نہ سہی۔
تو بہت لوگ ہیں جو کسی صداقت کا اپنے پاس کوئی ثبوت نہیں رکھتے۔ آجکل جو لوگ عیسائی ہو جاتے ہیں اُس کی یہ وجہ نہیں کہ عیسائی مذہب کی صداقت کے قائل ہوتے ہیں یا عیسائیت کی صداقت کے اُن کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں بلکہ اُس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم عیسائی ہو گئے تو نوکریوں میں آسانیاں ہوں گی، تعلیم میں سہولتیں پیدا ہو جائیں گی یا کسی قسم کے اور فوائد حاصل ہوں گے۔ بہت ہی قلیل لوگ ہوتے ہیں جو دلائل کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باطل مذہب دُنیا میں قائم ہیں۔ اندھیرے میں کوئی شخص اپنی مکروہ اور گھناؤنی چیز کو بھی خوبصورت کہہ سکتا ہے لیکن روشنی میں جو چیز خوبصورت ثابت ہو وہی خوبصورت ہوتی ہے۔
قرآن شریف نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ جو بات مانو دلیل سے مانو اور مومن وہی ہے جو دلائل اپنے پاس رکھتا ہے۔ یہ سچّی بات ہے کہ ہر شخص ہر بات کے دلائل اور براہین کا ماہر نہیں ہو سکتا لیکن ان مسائل کا با دلائل سمجھنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے جن کا تعلق عقائد سے ہے۔ مثلاً ہستیٔ باری تعالیٰ، وجود ملائکہ ، قضاوقدر، ثبوت قیامت، نبیوں کی صداقت۔ ان سب مسائل کے دلائل معلوم ہونے چاہئیں۔ اگر سب دلائل معلوم نہ ہوں تو نہ ہوں اور یہ کوئی ضروری بھی نہیں کہ سارے ہی دلائل معلوم ہوں۔ اگر تفصیلات معلوم نہیں تو اجمالی طور پر ہی سہی لیکن ایک حد تک معلوم ہونا ضروری ہے۔ یوں تو بہت سے ایسے دلائل ہیں جو آج ہمیں معلوم ہیں لیکن تیرہویں صدی والوں کو معلوم نہ تھے اور بہت ہیں جو تیرہویں والوں کو معلوم تھے اور بارہویں صدی والوں کو معلوم نہ تھے۔ یا مثلاً بہت سی پیشگوئیاں تھیں جو آج پوری ہو گئیں صحابہ کے وقت ان کا پتہ بھی نہ تھا۔ تو ان پیشگوئیوں کے معلوم نہ ہونے سے یہ نہیں تھا کہ صحابہ کے ایمانوں میں خدانخواستہ کوئی کمزوری تھی۔ نہیں۔ بلکہ اُن کے ایمان بہت مضبوط تھے۔ بات یہ ہے کہ سارے دلائل جو کسی بات کی صداقت کے ہوتے ہیں وہ معلوم ہونے ضروری نہیں ہوتے بلکہ اطمینانِ قلب اور دلی تسلّی کے لئے جہاں تک ہو سکے اتنے دلائل معلوم کرنا نہایت ضروری ہے۔
دلائل دو قسم کے ہیں۔ ایک تو مشاہدہ کے ہوتے ہیں اور دوسرے عقلی یا نقلی۔ مثلاً ایک شخص کو خدا کا اتنا قُرب حاصل ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے جلال کے ساتھ اس پر جلوہ فرما کر اپنی وحی و کلام سے مشرف فرماتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کا وجود مشاہدہ کے رنگ میں آجاتا ہے لیکن جن کو مشاہدہ کا مقام میسّر نہ ہو ان کو دلائل عقلی و نقلی جس قدر ہو سکیں معلوم ہونے چاہئیں۔ ہماری جماعت کے لوگوں کا فرض ہے کہ اسلام کے متعلق جس قدر ضروری مسائل ہیں اور جن پر اس کی بنیاد ہے ان کو معلوم کریں۔ نیز وہ مسائل جن کا تعلق سلسلہ سے ہے۔ یعنی وفات مسیح، صداقتِ مسیح موعود علیہ السلام ہے، ختم نبوت ہے، بعثت انبیاء وغیرہ۔ ان سب کے دلائل ہر ایک احمدی کو ایک حد تک آنے چاہئیں۔
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتا ہے۔ قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ١ؔ۫ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْکہہ دے کہ یہ میری راہ ہے۔ مَیں اﷲ کی طرف بُلاتا ہوں مَیں اور میرے متبع عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَۃ اِس پر قائم ہیں۔ اِس آیت میں صاف طور پر مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبعین وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو بصیرت کے ساتھ اسلام پر قائم ہوں یعنی وہ دلائل جن سے بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ خواہ عقلی ہوں، خواہ مشاہدہ کے طور پر بہرحال انہیں معلوم ہونے چاہئیں کیونکہ قرآن شریف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبعین اُنہیں کو قرار دیتا ہے جن کو بصیرت ملے جس کے دوسرے رنگ میں یہ معنے ہوئے کہ جس کو بصیرت حاصل نہیں وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامتبع نہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ بصیرت کے لئے ضروری نہیں کہ تمام تفصیلات بھی معلوم ہوں بلکہ بصیرت اس کو کہتے ہیں کہ ایک حد تک عِلم ہو۔ اگر پورے طور پر علم ہو تو وہ تو بہت ہی اچھی چیز ہے ورنہ اتنا معلوم ہونا ضروری ہے کہ احمدیت سچّی ہے تو اِس کے موٹے موٹے دلائل کیا ہیں اور جن مسائل کا اِس سے تعلق ہے اُن کی سچّائی کے کیا دلائل ہیں۔
اگر بصیرت حاصل ہو جائے تو ایمان کی لذّت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ لوگ جو جھٹ پٹ ذرا بھی بدظنی پر ٹھوکر کھالیتے ہیں ہلاکت سے بچ جائیں۔ عالم وہی نہیں ہوتا جس کو سارے علوم معلوم ہوں بلکہ عالم وہ ہوتا ہے جس کو علوم کسی حد تک معلوم ہوں۔ مَیں نے وہ مسائل بتا دیئے ہیں کہ جن کے دلائل کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان کے دلائل نہیں جانتا تو اس کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی مسئلہ کو اِس لئے مانتا ہے کہ مَیں اس کا قائل ہوں تو وہ سخت غلطی کرتا ہے کیونکہ وہ جس پر اپنے عقیدہ کی بنیاد رکھتا ہے اس کی زندگی کا کیا اعتبار ہے۔
پس عقیدہ کی بنیاد کسی انسان پر نہیں ہونی چاہئے بلکہ صحیح اور سچّے دلائل پر ہونی چاہئے۔ بھیڑ چال اچھی چیز نہیں کہ فلاں اس مسئلہ کا قائل ہے تو ہم بھی اِسے مانتے ہیں۔ بھیڑوں کے متعلق مشہور ہے کہ اگر راستہ میں ایک رسی باندھ کر اِس پر سے دو تین بھیڑوں کو کدا دیں اور پھر اسے ہٹا لیں تو باقی بھیڑیں یونہی اس مقام سے کُود کر گزریں گی۔
تو ایسا ایمان کوئی ایمان نہیں ہوتا جو کسی کی وجہ سے ہو اور جس کے متعلق اپنے پاس دلائل نہ ہوں۔ ایسا شخص ابتلاؤں سے نہیں بچ سکتا۔
مَیں دُعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور بصیرت دے تاکہ ہمارے متعلق بھی وہی کہا جائے جو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ اسلام پر عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَۃِ قائم تھے۔’’ (الفضل 24ستمبر 1918ء)
1: یوسف :109

18
دین کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک
(فرمودہ 20ستمبر1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ آل عمران کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔1
اور فرمایا:-
''قریباً ایک سال اِس معاملہ پر گزرا ہے کہ مَیں نے ایک خطبہ جمعہ میں اِس بات کی تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں جو دین کے لئے زندگیاں وقف کریں اور مناسب تعلیم حاصل کرکے ایسے ذرائع حاصل کریں کہ جن سے کچھ اپنی معیشت کا سامان قوت لایموت کے لئے کر سکیں اور باقی وقت میں خدا کے دین کی اشاعت کریں۔ ان کو جس مُلک میں بھیجا جائے جائیں اور اُس میں انہیں کوئی عذر نہ ہو۔ جب اور جس حالت میں بھی اُنہیں حکم دیا جائے وہ فرمانبرداری کے ساتھ چلے جائیں خواہ ان کے دنیاوی کاموں میں اِس سے کیسی ہی ابتری پیدا ہو۔
میری اِس تحریک پر چالیس پچاس درخواستیں میرے پاس آئیں۔ اس پر ان لوگوں کو جو درخواستیں دینے والوں میں سے قادیان میں تھے جمع کیا گیا اور وہ ذمہ داریاں ایک ایک کرکے اُن کو سمجھائی گئیں جو اُن پر عائد ہوتی تھیں۔ اُن ذمہ داریوں کو سن کر بہت سے لوگوں نے اپنے نام کو واپس لینا مناسب سمجھا اور یہی غرض بھی تھی کیونکہ ممکن تھا وہ زندگی وقف کرنے کے معنی پہلے کچھ اور سمجھتے اور بعد میں انہیں مُشکل پیش آتی۔ اِس لئے پہلے ہی اُن کو ذمہ داریاں سمجھائی گئیں اور بتایا گیا کہ زندگی وقف کرنا کیا ہے۔ اپنی خواہشات پر ایک موت وارد کرنا ہو گی۔ اب مشورہ کر لو پھر کسی سے کوئی مشورہ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ بعد میں اگر ماں باپ، عزیزواقارب منع بھی کریں تب بھی حکم کی اطاعت کرنا پڑے گی۔ اِس کے نتیجہ میں نام پیش کرنے والوں میں سے اکثر نے استخارہ وغیرہ کرنے کے بعد اپنے ناموں کو واپس لے لیا اور جو تہائی کے قریب باقی رہ گئے جنہوں نے اپنے آپ کو دین کے لئے باوجود ان دقتوں کے سامنے ہونے کے وقف کرنا چاہا اُن کو مَیں نے چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک تو وہ تھے جن کو ہم لے نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ کسی نہ کسی وجہ سے اس قابل نہیں تھےیا ا ن کو یہ کام دیا نہیں جاسکتا تھا۔ باقی کے تین حصّوں میں سے ایک کے تو یہ سُپرد کیا کہ وہ مرکز ہی میں رہیں اوراُن کو دینی علوم پڑھانے کی خدمت سُپرد کی کہ وہ ان لوگوں کو پڑھائیں جنہوں نے خدمت دین کے لئے وقف ہونے کی درخواست کی ہے اور ایک حصّہ جو ابھی اِس قابل نہیں تھا کہ باہر بھیجا جاسکتا اُس کو کام پر نہیں لگایا گیا۔ جب موقع ہو گا دیکھا جائے گا اور تیسرا حصّہ وہ تھا جس کو آگے کچھ تعلیم دلانی ضروری تھی اور یہ کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھیں اور معلومات کو وسیع کر سکیں۔ ان کو بعد میں ہم کام پر لگا سکیں گے۔ اِس حصہ میں چودہ پندرہ شخص تھے ان میں سے بھی آہستہ آہستہ کم ہو گئے۔ اس وقت قریباً دس آدمی باقی ہیں جن میں سے پانچ ایسے ہیں جن کو کالجوں میں تعلیم دلائی جارہی ہے۔ وہ وہاں سے فارغ ہو کر کام پر لگائے جائیں گے۔ چنانچہ جو کالج میں ہیں ان میں سے تین ڈاکٹری میں پڑھ رہے ہیں۔ ایک بنگال میں، دو لاہور میں۔ تین کو اس جگہ تعلیم دین دلائی جارہی ہے۔
جو لوگ کالج میں ہیں ان کے متعلق اس وقت معلوم ہو گا جب وہ فارغ ہوں گے کہ وہ اس وقت اپنے عہد پر قائم رہے ہیں یا نہیں اور ان کے خیالات میں کسی قسم کا تغیر تو نہیں ہؤا۔ یہ لوگ جن کو ہم تعلیم دلوا رہے ہیں ان میں سے چند ایسے ہیں جن پر ہمیں کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے باقی سب اپنے خرچ سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
جو لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں خدا جانے بعد میں وہ یہی کہہ دیں کہ ہماری مدّت تین سال ختم ہو گئی ہے۔ بہرحال ان کا حال بعد میں معلوم ہو گا کہ وہ کالج کی تعلیم کے بعد نوکری کرتے ہیں یا بعض مُشکلات کا خیال کر کے اپنے اِس خیال کو چھوڑتے ہیں۔
ہم اُمید کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ان کے اِس نیک ارادے اور نیک نیتی کے باعث اُن کو اس خدمت دین کے ارادے میں کامیاب کرے گا۔ مَیں نے تین سال کے لئے زندگی وقف کرنے کا عہد لیا تھا اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ مُمکن ہے ان میں سے بعض زیادہ تکلیف محسوس کر کے اِس کو چھوڑنا چاہیں اور اس طرح وہ خدا کے گنہگار ٹھہریں اور منافق بنیں۔ اس لئے مَیں نے تین سال کے لئے عہد لیا تھا کہ اگر کسی میں کچھ کمزوری بھی ہو گی اور وہ اِن تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتا ہو گا تین سال گزار دے پھر چاہے چھوڑ دے۔ ورنہ دین کے لئے تین سال کیا ساری عمر کے لئے زندگی وقف کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ محض اِس لئے تھا تاکہ جو کمزور ہوں وہ بعد میں وعدہ خلاف نہ کہلائیں۔
اسلام کی حالت اس وقت پُکارتی ہے کہ اس کے لئے ساری ہی زندگی وقف کی جائے اور بہت سے لوگ ہوں جو زندگی وقف کر دیں اِس لئے ایک سال کے بعد مَیں دوبارہ تحریک کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگ دینِ اسلام کی خدمت کے لئے زندگی وقف کریں۔ اِس کام کے لئے ہم نوکر نہیں رکھ سکتے اور نہ نوکروں سے کام ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ اپنے آپ کو کامل طور پر وقف کریں اور اپنا بوجھ خود برداشت کریں اور اپنی معیشت آپ پیدا کر کے باقی وقت خدمت دین میں لگا دیں۔ ایسی ہی جماعتیں ہوئی ہیں جو دین کی خدمت کرتی رہی ہیں۔ ہمیشہ سے جن لوگوں نے دین کو پھیلایا ہے وہ ایسے ہی ہوتے رہے ہیں۔ ملازم اس قابل نہیں ہوتے۔ ایک حد تک تو ملازم رکھے جاتے ہیں۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض علاقوں اور شہروں میں ملازم رکھے تھے اور وہ بڑے بڑے صحابی تھے۔ خلفاء کے عہد میں بھی ایسا ہی ہؤا لیکن وہ لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں اسلام کی تائید کے لئے گھروں سے نکلتے تھے وہ ملازم نہیں تھے۔ جس وقت مخالفین اسلام کی سینہ زوریاں اور ظالمانہ حملے حد سے گزر گئے تو ہر ایک صوبہ میں آدمی بھیجے جاتے تھے اور عام لوگوں کو بلایا جاتا تھا اور وہ بغیر معاوضہ لئے جاتے تھے۔
ایسی جماعتیں جب تک نہ ہوں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔کامیاب ہوں گے وہ لوگ جو دین کے لئے زندگی وقف کرتے ہیں۔ اِس آیت میں ہے وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌسب لوگ زندگی وقف نہیں کر سکتے ایک جماعت ہونی چاہئے۔
پس آج مَیں پھر تما م جماعت کو تحریک کرتا ہوں جو یہاں کے دوست ہیں وہ بھی اور بیرونجات کے بھی غور کریں اور خدا کی توفیق سے بعد استخارہ جن کا شرح صدر ہو اپنے آپ کو پیش کریں۔ ان میں سے جو لوگ اس قابل ہوں گے کہ ان کو اس وقت لگا دیا جائے وہ لگا دیئے جائیں گے اور جن میں کمی ہو گی ان کو حسبِ منشاء تعلیم دلوائی جائے گی اور وہ لوگ جن کو اس وقت کسی کمی کی وجہ سے نہیں لیا گیا تھا ان میں سے بھی پیش کر سکتے ہیں ممکن ہے اب ان کی کمی پوری ہو گئی ہو۔
یہ ایک ایسا وقت ہے کہ اِس وقت تھوڑی خدمت بعد میں بڑی بڑی خدمتوں سے بہت افضل ہو گی۔ اسلام مِٹ رہا ہے۔ پس جو لوگ اِس وقت خدمت کریں گے ان کی خدمت زیادہ قابلِ قدر ہو گی۔
دیکھو اِس وقت بعض مسلمان ہیں جو اسلام کے نام پر کروڑوں روپیہ اپنی عمر میں خرچ کرتے ہیں۔ بمبئی وغیرہ میں ایسے مسلمان سیٹھ ہیں جو اسلام کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ نواب صدیق حسن خان نے دینی کتابیں تالیف کیں، سینکڑوں روپے خرچ کر کے مفت شائع کیں۔ پھر خوارج کتابیں تصنیف کرتے ہیں اور مفت شائع کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ دینی کتاب بیچنا جائز نہیں۔ باوجود ان مالی قربانیوں کے ان کی قربانیاں حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ کی قربانیوں کو نہیں پہنچتیں۔ ان میں سے تو کسی نے لاکھ روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ دس ہزار خرچ کیا ہو گا اور حضرت علیؓ کی مالی قربانی تو کیا ہوتی وہ بہت ہی غریب تھے۔ حتّٰی کہ ان کے والد اس قدر غریب تھے کہ حضرت علی ؓ کو رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم اپنے گھر میں لے آئے تھے۔ باوجود ان کی اس قدر تھوڑی قربانیوں کے جو ان سیٹھوں کے مقابلہ میں بہت کم ہیں پھر بھی جو ان کا درجہ ہے وہ ان کو میسّر نہیں اور نہ ہو سکتا ہے۔ کیوں ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ صحابہ نے جو کچھ خرچ کیا وہ ایسے وقت پر کیا جبکہ اسلام کو بہت ہی سخت ضرورت تھی اور نہایت اخلاص کے ساتھ کیا اور یہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں ضرورت کے مطابق نہیں خرچ کرتے اور نہ ان کی وہ نیت ہوتی ہے۔ پس کسی چیز کی قیمت وقت کے مناسب ہونے سے زیادہ ہؤا کرتی ہے۔ یہ لوگ مدرسہ بنواتے ہیں۔ یہ بیشک قابلِ قدر چیز ہے مگر اسلام کی سچّی خدمت نہیں اور نہ ضرورت کے مطابق ہے۔آج ہماری جماعت میں جو ایک پیسہ کی قدر ہے وہ بعد میں لاکھوں روپے کی بھی نہیں ہو گی کیونکہ اس وقت اسلام کو بہت ضرورت ہے۔ اﷲ تعالیٰ اخلاص کو دیکھتا ہے نام و نمود کو نہیں دیکھتا۔ پس وہ جانتا ہے کہ جو شخص ضرورت کے مطابق خرچ کرتا ہے اس کا خواہ پیسہ ہی کیوں نہ ہو ان لاکھوں اور کروڑوں روپوں پر بھاری ہے جو ضرورت کے مطابق خرچ نہیں کئے جاتے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان تجارت سے ترقی کر سکتے ہیں، کچھ صنعت و حرفت میں، کچھ تعلیم میں مصروف ہیں لیکن یہ سب لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں۔ اسلام کی خدمت اورسچّی خدمت وہ ہے جس طریق پر ہم کام کرتے ہیں کیونکہ خدا نے ہمیں اس طریق پر قائم کیا ہے۔
مسلمان کمزور ہیں اور دُنیا کہتی ہے کہ وہ آج گئے کہ کل لیکن ہم تو دُنیا وی لحاظ سے ان سے بھی بہت کمزور ہیں۔ وہ جہاں چاہتے ہیں ہمارے آدمیوں کو مار لیتے ہیں اور تکلیفیں پہنچالیتے ہیں۔ مسلمان مُردہ ہیں اور وہ مُردے ہمیں مارتے ہیں تو اس سے ہماری کمزوری کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ پس جو ایسے وقت میں قربانی کرے گا اور قدم آگے بڑھائے گا خدا کے حضور اس کی اس قربانی اور دین کی راہ میں قدم اُٹھانے کی بہت زیادہ قدر ہو گی اگرچہ اس وقت توجو ہم میں سے دین کے لئے اپنی تمام عمر بھی وقف کرتا ہے کام کے لحاظ سے وہ بہت تھوڑی ہے۔ پس جس طرح صحابہ نے اس تنگی اور ضرورت کے وقت جو کچھ بھی ان کے پاس تھا خرچ کیا اور ساری ہی عمر کو دین کی خدمت میں صرف کر ڈالا۔ اس لئے آج فخر کے ساتھ اور عزّت کے ساتھ ان کے نام لئے جاتے ہیں۔ اِسی طرح ہم میں سے جو شخص دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرے گا اس کی قربانی قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور ہمیشہ کے لئے یادگار ہو گی۔
پس اسلام کی خدمت کا یہ وقت ہے جو اس وقت اس کی اشاعت کے لئے زندگی وقف کرتا ہے خدا کے حضور میں شرفِ قبول پائے گا کیونکہ وہ آواز جو تیرہ سو برس پہلے بلند ہوئی تھی کہ وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِوہ آج بھی بلند ہو رہی ہے۔ جو اس پر لبیک کہے گا خدا تعالیٰ اُس کا ولی ہو گا۔ اِس لئے جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ غور کریں، ضروریاتِ وقت کو سمجھیں اور استخارہ کریں اور اپنی زندگیوں کوپیش کریں۔ جو ایسا کریں گے وہ خدا سے ابدی انعاموں کے وارث ہوں گے۔’’
(الفضل یکم اکتوبر 1918ء)
1: اٰل عمران: 105


19
حقیقی تعریف وہ ہے جو خدا کی طرف سے ہو
(فرمودہ 27ستمبر1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''عزت اور تعریف ان چیزوں میں سے ہیں جن کے لئے انسان باقی چیزوں کے قُربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ لوگ ہزاروں روپیہ صدقہ و خیرات میں خرچ کرتے ہیں جس سے ان کی نیّت بنی نوع کی حاجت روائی اور مذہبی احکام کی بجاآوری نہیں ہوتی اور نہ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے ایسا کرتے ہیں بلکہ ان کی غرض تمام صدقہ و خیرات سے صرف ایک ہی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ لوگ ان کی تعریف کریں کہ فلاں بڑا مخیّرہے جو غریبوں میں ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتا ہے۔ پھر لوگ عزت و تعریف حاصل کرنے کے لئے اپنی عمر خرچ کر دیتے ہیں، زندگی قربان کر دیتے ہیں، لڑائیوں میں جان لڑا دیتے ہیں، علمی مسائل کی تحقیق میں زندگیاں ختم کر دیتے ہیں، اولادوں کو قُربان کر دیتے ہیں، وطنوں اور عزیزوں کو قُربان کر دیتے ہیں اِس لئے کہ دُنیا میں نام حاصل کریں۔
یہاں پر عزت و تعریف مترادف الفاظ ہیں کیونکہ جو بخیل ہو اس کی کوئی تعریف نہیں کرتا اور وہ معزز بھی نہیں ہوتا۔ پس تعریف کے لئے لوگوں کی نظروں میں حسین و خوبصورت دکھائی دینے کے لئے انسان جان بھی قُربان کر دیتا ہے۔ گو وہ جانتا ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کی تعریفیں میرے کسی کام نہیں آئیں گی۔ تاہم وہ چاہتا ہے کہ مر کے ہی اسے حاصل کر لوں اور جب لوگ مُجھ کو یاد کریں تعریف اور عزت کے ساتھ ہی یاد کریں۔ پھر اموال کو قُربان کر دیتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ مال خرچ ہو جانے کے بعد میں ایک مفلس اور غریب شخص ہو جاؤں گا مگر اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ یہ تو کہیں گے کہ اس نے اپنا مال غرباء کی مدد کے لئے خرچ کر ڈالا۔
پھر یہ خواہش ادنیٰ اور متوسط درجہ کے لوگوں کو ہی نہیں ہوتی بلکہ بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی ہوتی ہے۔ بادشاہوں نے بھی کوششیں کی ہیں کہ لوگ ان کی تعریف کریں۔ پہلے زمانہ میں ایسا بھی کرتے تھے کہ بادشاہ گزرتے ہوئے یونہی کسی کو روپے دے دیتے۔ یا کوئی ایسا طریق ایجاد کرتے جس سے عام لوگوں میں ان کے عدل و انصاف کی خاص شُہرت ہو اور ان کی تعریف کی جائے۔
غرض ایسے ایسے طریقے اختیار کئے جاتے تھے کہ عوام النّاس میں جو ان کے حالات سے واقف نہیں ہوتے تھے ان کی تعریفیں ہوتیں۔ چاہے دوسرے وقت میں وہی بادشاہ لوگوں کے مال بھی ظُلم سے چھین لیتے۔
غرض تعریف ایسی چیز ہے کہ اس کی بادشاہوں کو بھی احتیاج ہے۔ اسی لئے مشہور ہے کہ بادشاہوں کے دربار میں خوشامدی بھرے ہوتے ہیں۔ تعریف ایسی چیز ہے کہ بادشاہ غلاموں کے غلام ہو جاتے ہیں اور یہ خواہش جنون کے طور پر لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ مثل مشہور ہے۔ خدا جانے کہاں تک سچ ہے لیکن تمثیلی طور پر اس خواہش کا نقشہ کھینچا ہے جو انسانوں میں ہوتی ہے کہ ان کی تعریف کی جائے اور بعض دفعہ یہ خواہش جنون کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ کہتے ہیں ایک عورت تھی اس نے ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی انگوٹھی بہت قیمت صرف کر کے بنوائی۔ خواہش یہ تھی کہ لوگوں میں اس کا چرچا ہو گا۔ کئی دنوں تک وہ پہنے رہی مگر کسی نے اِدھر توجہ نہ کی۔ اس نے اس اُنگلی کے ساتھ اشارے بھی کئے مگر اتفاق کی بات ہے تب بھی ادھر کسی کی توجہ نہ گئی۔ جب کسی نے بھی توجہ نہ کی تو اس عورت نے دل میں سوچا کہ کوئی ایسا طریق اختیار کرنا چاہئے جس سے لوگ اس انگوٹھی کو دیکھنے کے لئے مجبور ہو جائیں۔ یہ سوچ کر اس نے رات کے وقت اپنے گھر میں آگ لگا دی۔ لوگوں کے آنے میں ہوئی دیر، گھرسارے کا سارا جل گیا۔ عورتیں آئیں اور پوچھا بہن کچھ بچا بھی۔ اس نے جواب دیا بہن صرف یہ انگوٹھی بچی ہے۔ عورتوں کی طبیعت ایسی ہوتی ہے کہ زیورات کو بہت پسند کرتی ہیں۔ کسی عورت نے کہا بہن یہ انگوٹھی تو بہت خوبصورت ہے۔ کب بنوائی؟ انگوٹھی والی نے سرپیٹ کر کہا کہ اگر پہلے پوچھتی تو میرا گھر کیوں جلتا۔
غالباً یہ قصّہ جھوٹا ہے مگر مطلب اس کا یہ ہے کہ تعریف حاصل کرنے کی خواہش لوگوں میں بعض دفعہ یہاں تک ترقی کر جاتی ہے کہ وہ گھر بار پھُونک دیتے ہیں۔ پس تعریف حاصل کرنے کے لئے لوگ کسی چیز کے قربان کرنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔
تعریفیں کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ بعض سچّی، بعض جھوٹی۔ گورنمنٹ بعض لوگوں کو خطاب دیتی ہے۔ ''خان بہادر'' ان خطاب یافتوں میں سے کئی تو ایسے ہوتے ہیں کہ واقعی ''خان بہادر'' ہی ہوتے ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ نہ وہ فِی الواقع ''خان'' ہوتے ہیں نہ ''بہادر'' بلکہ نہایت درجہ کے بُزدل ہوتے ہیں لیکن اگر ان کے نام کے ساتھ ''خان بہادر'' نہ لکھا جائے یا نہ بولا جائے تو وہ کہیں گے تمہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ کسی کا پورا نام لو۔ تو اب یہ ''خان بہادر'' ان کے نام کا جز ہو جاتا ہے۔ حالانکہ خان بہادری کی جو حقیقت ہے وہ ان میں متحقق نہیں ہوتی۔ بعض لوگ اپنے بچوں کا نام ہی ''خان بہادر'' رکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اوّل ) فرمایا کرتے تھے کہ ہماری ایک رشتہ دار عورت نے اپنے بچہ کا نام ''خان بہادر'' رکھا۔ مَیں نے اس سے کہا یہ نام تُو نے کس لئے رکھا ہے؟ اُس نے کہا ہمارے فلاں رشتہ دار کو سرکار سے ''خان بہادر'' کا خطاب ملا ہے مَیں نے خیال کیا کہ ممکن ہے بڑے ہو کر اس کو یہ خطاب ملے یا نہ ملے اس لئے مَیں نے اس کا نام ہی ''خان بہادر'' رکھ دیا کیونکہ اگر لوگ اس خطاب یافتہ کو خان بہادر کہیں گے تو یہ بھی خان بہادر ہی کہلائے گا۔ پس جو لوگ گورنمنٹ سے خطاب خان بہادری کا حاصل کرتے ہیں ان میں سے بہت میں خان بہادری کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اِسی طرح بعض لوگوں کا نام ہوتا ہے ''شیر خان'' حالانکہ وہ بکری سے بھی کمزور دل ہوتے ہیں۔ یا کسی کا نام ہوتا ہے محمد تقی مگر اس جیسا شقی ملنا مُشکل ہوتا ہے۔ پس بہت سے نام اور تعریفیں ہوتی ہیں جو حقیقت سے علیحدہ ہوتی ہیں۔
پس بہت سے لوگ تعریف حاصل کرنے کے لئے بہت کوشش کرتے ہیں مگر بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ تعریف تو ان کو حاصل ہو جاتی ہے لیکن وہ جھوٹی تعریف ہوتی ہے جس سے وہ دل میں شرمندہ ہوتے ہیں مثلاً جو شخص درحقیقت بزدل ہو اس کو اگر بہادر کہا جائے گا تو اس کے جسم پر ضروری آہی جاتی ہو گی۔
عربی زبان میں جو اُمُّ الْاَلْسِنَۃ ہے اور خدا تعالیٰ نے ابتدائے آفرنیش میں انسانوں کو بذریعہ اپنے الہام کے تعلیم کی تھی تاکہ وہ اپنا مُدعا ایک دوسرے سے کہہ سکیں اِس میں سچّی تعریف اور جھوٹی تعریف میں فرق کیا گیا ہے۔ یعنی تعریف کے لئے دو لفظ ہیں۔ ایک مدح دوسرا حمد۔ مدح تو وہ ہے کہ اس میں سچّی اور جھوٹی دونوں قسم کی تعریفیں آسکتی ہیں۔ اگر کوئی کمزور ہو، بزدل ہو، جاہل ہو تو ان کی مدح میں شہ زور ، بہادر، عالم کہہ سکتے ہیں۔ مگر سچّی تعریف کے لئے مدح کا لفظ کبھی نہیں لائیں گے۔ وہاں حمدہو گا۔ جو کمزور کو شہ زور، بزدل کو بہادر اور جاہل کو عالم کہتا ہے وہ اس کی مدح کرتا ہے نہ کہ حمد۔ تو یہ لوگ ممدوح ہوں گے محمود نہیں ہوں گے۔عربی زبان میں شاعر جو تعریف کرے گا اُس کو مدح کہیں گے حمد نہیں کہیں گے کیونکہ اکثر شاعر تعریف میں مبالغہ بھی کیا کرتے ہیں لیکن جہاں واقعات نفس الامرہی سے کسی کی تعریف کی جائے گی تو وہ اس کی حمد ہوگی۔ پس یہ فرق ہے جو عربی زبان میں سچّی اور جھوٹی تعریف میں رکھا گیا ہے۔
سورہ فاتحہ میں اﷲ تعالیٰ نے تعریف کی طرف توجہ دلائی ہے۔ تعریف کبھی تو افعال کا نتیجہ ہوتی ہے یعنی اچھے کام اس لئے کئے جاتے ہیں کہ لوگ تعریف کریں اور کبھی اچھے کام تو کئے جاتے ہیں مگر ان میں یہ خواہش نہیں ہوتی کہ لوگ تعریف کریں گے مگر چونکہ وہ کام اچھے ہی ہوتے ہیں بغیر ان کی خواہش کے بھی لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص ڈوبتے کو بچاتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ لوگ اس کے اس فعل کی تعریف کریں تو خواہش تو اس کی پوری ہو جائے گی گو یہ تعریف کچھ اچھی تعریف نہیں ہوگی۔ مگر ایک دوسرا ہے جو کسی کو ڈوبتا دیکھتا ہے اور وہ اس کو بچانے کے لئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے مگر اس کی کوئی خواہش نہیں ہوتی کہ لوگ اس کی تعریف کریں یا کوئی شخص غرباء میں روپیہ اس لئے تقسیم کرتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور دوسرا وہ ہے جو بغیر تعریف کی خواہش کے غرباء میں روپیہ تقسیم کرتا ہے تو اُن میں ایک کا فعل محمود ہو گا دوسرے کا مذموم۔
پس انسان تعریف کے لئے کوشش کرتا ہے۔ کبھی تو وہ تعریف مذموم ہوتی ہے کبھی محمود۔ پھر کبھی وہ تعریف مدح ہوتی ہے کبھی حمد۔ حقیقی خوشی انسان کو اگر حاصل ہو سکتی ہے تو حمد میں ہو سکتی ہے ورنہ مدح میں تو شرمندہ بھی ہونا پڑتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔1 تعریف کے حصول کے لئے تم دُنیا میں بہت بہت کوششیں کرتے ہو مگر جس رنگ میں بھی تمہاری کوششیں ہوں ان کا نتیجہ مُمکن ہے حمد نہ ہو اور جو تعریف حاصل ہو وہ مذموم ہو۔ سچی تعریف کے حصول کا ذریعہ ہم تمہیں بتاتے ہیں۔ فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ(1)سب سچی تعریفیں خدا کے لئے ہیں۔ (2) سچی تعریفیں خدا سے آتی ہیں۔ جو تعریف خدا کی طرف سے نہ ہووہ حمد نہیں ہو سکتی۔ سب حمدیں اﷲ کے قبضہ میں ہیں۔ پس ایک ہی ذریعہ ہے جس سے تم سچی تعریف اور حمد حاصل کر سکتے ہو وہ یہ کہ جس کے پاس سچی تعریفیں ہیں، جس کے قبضہ میں تمام حمدیں ہیں اسی سے مانگو۔ جس کے پاس ہو گا وہی کچھ دے گا۔ جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہو گا وہ کیا دے گا۔ پس تمام خوبیاں، تمام سچی تعریفیں تو خدا کے پاس ہیں کیوں نہ انسان اس سے مانگے تاکہ اس کو دیا جائے۔ جو لوگ خدا کو چھوڑ کر اوروں سے مانگتے ہیں ان کو کچھ نہیں مل سکتا کیونکہ سچی تعریفیں تو خدا کے سوا کسی کے پاس نہیں ہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کسی شخص کو جُوتے کی ضرورت ہو تو قصائی کے پاس چلا جائے اور گوشت کی ضرورت ہو تو بزاز کے پاس یا زمیندار کے پاس چلا جائے ان سے اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ وہ اس کو پاگل شمار کریں گے اور ہنسی میں اُڑاتے رہیں گے۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَدُنیا میں لوگ تعریف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جو ذرائع اس کے حصول کے لئے اختیار کرتے ہیں وہ جھوٹے اور باطل ہوتے ہیں۔ سچّی تعریف خدا سے آتی ہے جو لوگ خدا کو چھوڑ کر دنیاوی ذریعہ اختیار کرتے ہیں وہ سچّی تعریف اور حمد سے محروم رہتے ہیں۔ حقیقی تعریف خدا کے خزانہ میں ہے اور کوئی جگہ نہیں جہاں سچی تعریف ہو۔ ایک بھی حمد نہیں جو انسان سے ملے تمام حمدیں اور سچی تعریفیں خدا کے قبضہ میں ہیں۔ پس جب تک خدا سے نہ مانگی جائیں اُس وقت تک کہیں سے نہیں مل سکتیں۔ اﷲ وہ ہے جو رَبِّ الْعٰلَمِيْنَہے، تمام مخلوقات پر رحم کرنے والا ہے۔الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ2ہے وہ ایسا ہے جو بِن مانگے بھی تعریفیں دے دیا کرتا ہے کیونکہ بخیل نہیں ہے۔ رحمن ہے پھر وہ رحیم ہے محنت کرنے پر اچھے سے اچھے نتائج عنایت فرماتا ہے۔
ایک حمد عارضی ہوتی ہے کہ ایک شخص نے کام کیا دوسرا مشکور ہو گیا۔ اس کی زندگی ختم ہو گئی یا وہ جس سے اس نے کچھ سلوک کیا تھا مر گیا اِس کی تعریف ختم ہو گئی یا وہ شخص جس نے ایک کام کیا دنیا اس کی تعریف کرتی ہے۔ پھر کچھ ایسے تغیرات پیدا ہوئے کہ اس کی حالت میں تغیر پیدا ہو گیا اس لئے وہ پہلی تعریف مٹ گئی۔ حقیقی سے غیر حقیقی ہو گئی۔ خدا کی حمد وہ ہے جو اس دُنیا میں ہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہ وہ حمد ہے جو اگلی دُنیا میں بھی ساتھ جائے گی۔ باقی لوگوں کی حمد ایسی حمد ہوتی ہے جو ختم ہو جاتی ہے مگر خدا کی طرف سے آنے والی حمد کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ وہ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ3ہے۔
جو شخص خدا کے لئے قربان ہو جائے اس کی زندگی اُسی کے لئے ہو جائے، اس کا چلنا پھرنا، کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، مرنا جینا سب خدا کے لئے ہو جائے، خدا کی رضا حاصل کرنا ہی اس کا مقصد و مُدعا ہو۔ ایسے شخص کو جو حمد ملے گی وہ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ ایک شخص محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) ایسا ہؤا کہ اس نے اپنی ہر ایک حالت کو خدا کے لئے ہی کر دیا۔ آج کروڑوں کروڑ انسان اس کی حمد کرتے ہیں اور خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ اس کی سچی تعریف کرنے والی ایک نہ ایک جماعت دُنیا میں ضرور رہے گی۔ پھر آپ سے وعدہ فرمایا ہے کہ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ4 علاوہ اس دُنیا میں کوثر عنایت فرمانے کے اگلے جہاں میں بھی جہاں جام پلائے جائیں گے آپ ہی ساقی ہوں گے پس آپ کی حمد کبھی ختم نہیں ہو گی۔ پس انسان کو چاہئے کہ خدا کے لئے ہو جائے تاکہ اس کو سچی تعریف اور حمد نصیب ہو۔ تمہیں ہیرے کی تلاش ہے شیشے پر مت خوش ہو جاؤ۔ اگر واقعی اور سچّی تعریف چاہتے ہو تو خدا کے لئے ہی ہو جاؤ۔ پھر تمہیں سچّی تعریف اور حمد حاصل ہو گی اور جب وہ تعریف حاصل کر لو گے تو وہ ایسی تعریف ہو گی جو کبھی قطع نہیں ہو گی۔'' (الفضل 5 اکتوبر1918ء)
1: الفاتحۃ:2 2: الفاتحۃ:3 3: الفاتحۃ:4
4: الکوثر:2


20
وَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ سے بچنے کا طریقہ
(فرمودہ 4 اکتوبر1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ الناس کی تلاوت فرمائی:-
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ۔مَلِكِ النَّاسِۙ۔اِلٰهِ النَّاسِۙ۔مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ١ۙ۬ الْخَنَّاسِ۪ۙ۔ الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِۙ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ۔ 1
اور فرمایا:-
''انسان کے لئے جہاں ترقی اور کامیابی کی راہیں کھلی ہیں وہاں بہت سے سامان اس کی ہلاکت کے بھی ہیں۔ اِس میں کچھ بھی شک نہیں کہ انسان ترقی کرتے کرتے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اِس کا محب اور دوست ہو جاتا ہے۔ وہ خدا کے حضور ایسے مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے کہ اِس پروار کرنے والا اِس پروار کرنے کی بجائے خدا پروار کرنے والا قرار دیا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اس کے اندر ہوتا ہے، باہر ہوتا ہے، آگے ہوتا ہے، پیچھے ہوتا ہے، اُوپر ہوتا ہے۔ غرض ہر طرف سے وہ خدا کی پناہ میں ہوتا ہے۔ اِس لئے جب وار کرنے والا اِس پروار کرتا ہے تو اس کا وار اس پر پڑنے کی بجائے خدا کی کسی نہ کسی صفت پر پڑتا ہے۔ پس وہ ایسے مقام پر ہوتا ہے کہ خدا کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے اور بعض لوگ دھوکا میں پڑ کر اُسے خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔
مگر باوجود اس کے اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ جب انسان گرتا ہے تو انسانوں سے ہی نہیں بلکہ کسی وقت کتّوں، سؤروں، گدھوں، ریچھوں اور بندروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے اور کسی وقت نجاست کے کپڑوں سے بھی پلید تر ہو جاتا ہے۔ ترقی کرتا ہے تو اس مقام پر پہنچتا ہے جس پر فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے اور اگر گرتا ہے تو ایسا گرتا ہے کہ ذلیل سے ذلیل مخلوق سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔
ایک بزرگ کا واقعہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک صوفی تھے وہ پہاڑ پر رہتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے ان کے متعلق ایسا انتظام کیا تھا کہ ان کو دونوں وقت کھانا وہیں پہنچ جایا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کو یہ ابتلاء پیش آیا کہ تین دن متواتر کھانا نہ مِلا۔ جب بھُوک سے حالت خراب ہونے لگی تو وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور قریب کے گاؤں میں گئے اور ایک مکان پر پہنچ کر کھانا مانگا۔ گھر والوں نے ان کو تین روٹیاں دیں۔ وہ روٹیاں لے کر واپس ہوئے تو گھر والوں کے دروازے پر ایک کُتّا بیٹھا تھا وہ ان کے ساتھ ہو لیا۔ اُنہوں نے اس کو آدھی روٹی ڈال دی مگر وہ کھا کر پھر ساتھ چلنے لگا۔ آدھی اُنہوں نے اور ڈال دی۔ وہ اس آدھی کو بھی کھا کر پیچھے چلا آتا رہا۔ اُنہوں نے ایک روٹی ڈال دی اور کہا کہ واقعی بیچارا ایک روٹی سے کیا سیر ہو گا لیکن جب دو روٹیاں بھی کھا چکا تو پھر بھی ان کے پیچھے سے نہ ہٹا۔ اُنہوں نے غصّہ میں آکر تیسری روٹی بھی ڈال دی اور کہا کہ تو بڑا بے حیا ہے جو پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔ انسان کی عادت ہے کہ جب وہ غصّہ میں آتا ہے تو دیواروں اور درختوں کو بھی مخاطب کر لیا کرتا ہے تو اُنہوں نے غصّہ کی حالت میں کُتّے کو بے حیا کہا۔ اِس پر کشفی طور پر اس کُتّے نے ان سے گفتگو کی اور کہا کہ بے حیا مَیں ہوں کہ تُو؟ خدا تُجھ کو ہمیشہ رزق پہنچاتا تھا مگر صرف تین دن نہ پہنچا تو اُٹھ کر لوگوں کے دروازوں پر مانگنے چلا آیا۔ مگر مَیں ہوں کہ ہمیشہ اپنے آقا کے دروازے پر پڑا رہتا ہوں خواہ ہفتوں فاقہ میں گزر جائیں۔ کُتّے کی اِس گفتگو سے جو کشفی طور پر ہوئی تھی ان کو اپنی کمزوری کا احساس ہو گیا۔ اس سے توبہ کی اور اپنے اس مقام پر جابیٹھے اور خدا تعالیٰ نے پھر ان کو اسی طرح کھانا پہنچانا شروع کر دیا۔ تو واقعی کُتّے میں وفاداری کی صفت ایسی ہے کہ وہ اپنے آقا کی خاطر جان بھی دے دیتا ہے اور ذرا پرواہ نہیں کرتا مگر انسان ایسے ہوتے ہیں جو دوست وغیرہ کو مصیبت کے وقت چھوڑ دیتے ہیں۔
تو بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جن میں کُتّے جتنی بھی وفا نہیں ہوتی۔ اسی طرح گدھے کو احمق کہا جاتا ہے اور حماقت کے لئے گدھا مشہور ہے لیکن بعض انسان اپنی حماقت میں گدھے سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ گدھے میں اتنی تمیز ہوتی ہے کہ وہ کبھی شیر پر حملہ نہیں کرتا بلکہ اس کی حِسّ ایسی تیز ہوتی ہے کہ وہ شیر کی دُور سے ہی بُو سونگھ کر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن انسان جب حماقت پر آتا ہے تو نہ صرف خدا کے پہلوانوں پر حملہ کرتا ہے بلکہ خدا کو بھی مقابلہ کا چیلنج دے دیتا ہے۔ گدھا احمق ہے مگر اتنا نہیں کہ خطرہ کی جگہ میں ٹھہرا رہے اور شیر کی بُو پاتے ہی اس کو چھوڑ نہ دے لیکن انسان ایسا احمق ہوتا ہے کہ خدا کے سپہ سالاروں کے مقابلہ میں چلا جاتا ہے۔
پھر انسان گرتے گرتے بندر سے بھی زیادہ نقال اور خنزیر سے بھی زیادہ بے حیا ہو جاتا ہے۔ اگر کسی جانور میں ایک ایک نقص ہے تو انسان میں تمام کے تمام نقائص جمع ہو جاتے ہیں بے حیا یہ ہوتا ہے، بے وفا یہ ہوتا ہے، اندھا تقلید کرنے والا یہ ہوتا ہے، احمق یہ ہوتا ہے۔
کبھی بھیڑ کی طرح مقلد ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو نمازیں پڑھتا دیکھتا تو خود بھی نماز پڑھنے لگتا ہے لیکن کچھ نہیں سمجھتا کہ نماز کیوں پڑھتا ہوں اور پھر لمبی نماز پڑھتا ہے کہ لوگ تعریف کریں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو نمازیں تو لمبی لمبی پڑھیں گے مگر ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔ یہ ایسے ہی لوگوں کے متعلق آپ نے فرمایا۔ پھر انسان نقلیں اُتارتا ہے تو ایسی بھونڈی کہ دیکھ کر ہنسی آجاتی ہے۔ مثلاً یورپ کے لوگوں کی نقل میں ٹوپی، کوٹ پتلون پہنتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں کو یہ لباس پہنتے صدیاں گزر گئیں اس لئے ان کو بُرا نہیں معلوم ہوتا مگر یہ لوگ جو ان کے نقال ہوتے ہیں اور ویسا ہی بننا چاہتے ہیں یہ گو ویسا ہی لباس پہن بھی لیں پورپین وضع کی ٹوپی سر پر رکھیں مگر گوری رنگت کہاں سے لائیں گے؟ پھر یورپین جس طرح چلتے پھرتے ہیں اس کے لئے ان کی تو چال ہی اس قسم کی ہوتی ہے نہ تو اُنہیں تکلّف کرنا پڑتا ہے اور نہ وہ بُرے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کو ایسی چال چلنے کے لئے تصنع کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ پچھلے سال شملہ میں دیکھنے کا اتفاق ہؤا بعض لوگ جسم کو اکڑائے اور سر کو اُٹھائے چلتے ہوئے نہایت بھونڈے معلوم ہوتے تھے۔
ان لوگوں نے نقل تو کی مگر بھونڈی اور فضول نقل کی جو ان کے لئے بجائے فائدہ مند ہونے کے اور ذلیل کن ہے کیونکہ انسان معزز کوٹ ، پتلون و ہیٹ سے نہیں بن جاتا اور نہ ہی یورپ کے لوگ اپنے لباس کی وجہ سے معزز ہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہیں۔ ان لوگوں کو اگر اُن کی نقل کرنی تھی تو ان صفات کی کرتے جن سے وہ دُنیا میں معزز ہیں ۔ مثلاً دُنیا ہی کو وہ سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس کے لئے کوئی بڑی سے بڑی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کرتے لیکن اگر اِن لوگوں کو کسی دُور سفر پر جانے کے لئے کہا جائے تو اوّل تو موجودہ زمانہ میں جہاز کے سفر کے خطرے کو رستے میں روک بنائیں گے اور اگر جہاز کا سفر نہ ہو کسی ایسی جگہ کا سفر ہو جہاں ریل نہ جاتی ہو تو ریل کے نہ ہونے کا عُذر کیا جائے گا۔ پھر اگر یورپ کے لوگوں کو مذہبی طور پر بھی دیکھا جائے تو ان کی قربانیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ افریقہ کے وحشیوں نے سینکڑوں مشنری عورتوں کو بھُون کر کھالیا مگر ایک کے بعد دوسری فوراً چلی جاتی اور عیسائیت کی اشاعت میں لگ جاتی اور اگر ایک کی ہلاکت کی خبر پہنچتی ہے تو کئی درخواستیں آتی ہیں کہ ہم کو وہاں بھیجا جائے۔ چین میں اس وقت تک سات ہزار عیسائی مشنری قتل کیا گیا ہے لیکن ایک مارا جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا چلا جاتا ہے۔ ان کی نقل کرنے والے محض لباس اور چال میں نقل اُتارنے سے چاہتے ہیں کہ ان کی طرح عزت حاصل ہو جائے مگر اس سے یہ مُمکن نہیں۔ عزت ان کی عمدہ صفات حاصل کرنے سے ہو سکتی ہے۔ بنگال اور مدراس کے لوگ تعلیم میں بہت ترقی کرگئے ہیں مگر اپنا لباس وہی رکھتے ہیں۔ بنگالی سرننگے اور دھوتی باندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ مفتی صاحب جب مدراس گئے تو اُنہوں نے بتایا کہ چیف کورٹ کے جج بھی ننگے پیر بازاروں میں پھرتے تھے اور اس سے ان کی عزت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا کیونکہ اُنہوں نے اہل یورپ کی سیکھنے کی باتیں سیکھی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی کوٹ پتلون نہیں پہنتے تھے مگر خدا نے آپ کو کتنی عزت دی۔ تو معلوم ہؤا کہ لباس میں تقلید کرنے سے عزت حاصل نہیں ہوتی۔ پھر بعض لوگ بھیڑ کی طرح تقلید کرتے ہیں۔ اگر پوچھا جائے کہ یہ کام کیوں کرتے ہو تو کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا۔ اگر کوئی عقل کی بات بتاؤ اور کہو کہ ایسا کرو تو کہیں گے ہم نہیں مان سکتے کیونکہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقہ کے خلاف ہے۔ یہ نہیں دیکھیں گے کہ کونسی بات مفید اور عقل کے مطابق ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الناس میں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ کیونکر انسان انسانیت سے گرتا ہے اور ساتھ ہی گرنے سے محفوظ رہنے کا طریق بتایا ہے۔ فرمایا: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ یعنی تین ذریعے ہیں جن کے ذریعہ انسان اوپر چڑھتا ہے اور تین ہی وہ ذریعے ہیں جن سے نیچے گرتا ہے۔ ان تین ذرائع میں سے ایک ربوبیت ہے، دوسرا ملکیت ہے اور تیسرا الوہیت۔ بہت دفعہ ربوبیت کے ذریعہ ابتلاء آتا ہے اور بہت دفعہ ملکیّت کے ذریعہ اور بہت دفعہ الوہیت کے ذریعہ اور پھر ان میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں۔ ایک نسبت فاعلی کے لحاظ سے اور دوسری نسبت مفعولی کے لحاظ سے یعنی کبھی انسان دوسروں کا رب بنتا ہے اور کبھی دوسرں کو اپنا رب بناتا ہے۔ پھر کبھی خود مَلِک بنتا ہے اور کبھی دوسروں کو اپنا مَلِک بناتا ہے، اسی طرح کبھی خود اﷲ بنتا ہے اور کبھی دوسروں کو اپنا اﷲ بنا لیتا ہے گویا تین سے چھ ذریعے بن جاتے ہیں۔
کبھی یہ ربّ ہوتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ لفظ ربّ عام ہے۔ خدا کے لئے مثلاً رَبُّ النّاس آیا ہے اس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا اور پھر ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جانے والا اور بعض دفعہ رَبُّکُمْ کہیں گے اور اس کے معنی ہوں گے تمہارا سردار۔ تو لغت والوں نے دونوں طرح لکھا ہے کہ لفظ ربّ بغیر اضافت یا بہ اضافت خدا کے لئے آتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کے سوا اوروں کے لئے بھی بول لیتے ہیں۔ بہرحال ایک ربوبیت انسان کی ہوتی ہے مثلاً اس کے غریب رشتہ دار ہیں اور وہ ان کی پرورش کرتا ہے۔ اس پر ابتلاء اس طرح آتا ہے کہ اس کے پاس اتنا رزق نہیں ہوتا کہ یہ ان کی پرورش کر سکے۔ اس لئے یہ بعض ناواجب طریق اختیار کرتا ہے۔ چوری کرتا ہے، رشوت لیتا ہے اسی طرح کسی کو اپنا ربّ سمجھتا ہے۔ اس کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولتا ہے یا اَور اسی قسم کی باتیں کرتا ہے۔ تو خدا کی ربوبیت کو بھُول جاتا ہے اور بندوں کو اپنا ربّ بنا لیتا ہے۔
دوسرا ذریعہ ملکیت ہے۔ یعنی بعض بادشاہ ہوتے ہیں تو ان کے بادشاہ ہونے کی حیثیت میں ان پر رعیت کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں وہ ان میں خیانت کرتے ہیں یا خود رعیت ہوتے ہیں اور دوسرا مَلِک ہوتا ہے۔ تو رعیت ہونے کی حالت میں بغاوت یا دیگر قسم کے سیاسی جُرم کرتے ہیں۔
تیسری شق الوہیت ہے کہ کبھی تو انسان خود اِلٰہ بن جاتا ہے اور کبھی دوسروں کو اِلٰہ بنا لیتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل جب اپنے ایک استاد سے رخصت ہونے لگے تو اُنہوں نے آپ کو کہا کہ میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم کبھی خدا بننے کی خواہش نہ کرنا۔ حضرت مولوی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا خدا بھی کوئی بنتا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ زبان سے خدا ہونے کا تو بہت کم لوگ دعویٰ کیا کرتے ہیں مگر عملاً بہت لوگ خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اس طرح کہ وہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہیں وہی ہو کر رہے حالانکہ یہ بات تو خدا کے شایان شان ہے۔ جو لوگ قولاً دعویٰ کرتے ہیں ان کا علاج تو عام لوگ بھی کر لیا کرتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ علماء نے اسے بہتیرا سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔ ایک اَن پڑھ تھا وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ مجھے موقع ملے تو مَیں اس کو سمجھاؤں مگر خدائی کے مدعی کے چیلے ہر وقت اس کے اِردگرد جمے رہتے تھے۔ اتفاقاً ایک دن جبکہ وہ اکیلا تھا تو اسے موقع ملا وہ اس کے پاس گیا اور جاکر دریافت کیا کہ کیوں جی آپ خدا ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ اس اَن پڑھ نے اسے گردن سے پکڑ لیا اور کہا کہ اچھا ہؤا آج تُو مجھے مل گیا ہے۔ مَیں تو مدتوں سے تیری تلاش میں تھاآج تیری خبر لوں گا۔ یہ کہہ کر اسے مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ تُو نے ہی میرے فلاں رشتہ دار کو مارا ہے۔ اب تُو میرے قابو آیا ہے مَیں تُجھ کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا جب بہت مار پڑی تو اس نے کہا مجھے چھوڑ دے مَیں خدا نہیں ہوں۔
پس ٹھوکر لگنے کے تین ذریعے ہیں۔ ربوبیت، ملکیت، الوہیت اِس لئے اﷲ تعالیٰ اس کا علاج بتاتا ہے۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ۔مَلِكِ النَّاسِۙ۔اِلٰهِ النَّاسِکہ اس بات کا یقین رکھو کہ رَبِّ النَّاسِ کے سوا کوئی ربّ نہیں، مَلِكِ النَّاسِ اصل بادشاہ تو وہ ہے جو خدا ہے، اِلٰهِ النَّاسِ اور معبود بھی وہی ہے اِس لئے کہو کہ مَیں اس خدا کی پناہ میں آتا ہوں جو ربّ ہے، مَلِک ہے اور اِلٰہ ہے۔ اس دُعا میں ایک لطیف نکتہ ہے۔ اسلام کی تمام دُعاؤں میں ایسے الفاظ اور ایساطریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے خدا کی غیرت کو جوش آئے۔ کہا جاسکتا ہے کہ بجائے خدا کی تین صفات کے ذکر کرنے کے کیوں نہ صرف اِلٰهِ النَّاسِکہہ دیا کہ لفظ اِلٰہ میں تینوں مراتب اور صفات بھی آجاتے مگر اگر صرف لفظ اﷲ کو رکھا جاتا تو وہ بات پیدا نہ ہوتی جو اس تفصیل سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا ربّ ہے تو رَبِّ النَّاسِ کہہ کر گویا خدا کی غیرت کو جوش دلایا ہے کہ لوگوں کا ربّ تو یہ ہے پھر اور کوئی کس طرح ربّ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح باقی دونوں صفات میں بھی خدا کی غیرت کو جوش میں لایا گیا ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ ہر شخص اس کو مشاہدہ کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ نے خود شرک کے متعلق کس قدر غیرت کا اظہار فرمایا ہے اِس لئے جہاں ٹھوکر لگنے کا خطرہ تھا اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے ایسی دُعا تلقین کی کہ جس سے خدا کی غیرت کو جوش آئے اور وہ اپنے بندوں کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے۔ تو انسان کو ٹھوکروں سے بچنے کے لئے کس چیز سے پناہ مانگنا چاہئے۔ فرمایا: مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ١ۙ۬ الْخَنَّاسِخناس کے وسوسوں سے۔
وسوسہ ڈالنے والے ہمیشہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جو بہت پوشیدہ ہوتے ہیں اور نہایت چالاکی سے کوئی بدعقیدگی اور بدعملی سکھادیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس دُعا کو پڑھے گا اور خدا کی ربوبیت ، ملکیت، الوہیت کو ذہن میں رکھے گا وہ ضرور ایسے وساوس سے بچ جائے گا۔ وسوسہ انداز چپکے سے ایک شوشہ چھوڑ دیتے ہیں اور کمزور آدمی کو ایسی جگہ سے پکڑتے ہیں کہ جہاں ان کا وار اثر کر سکے۔
لدھیانہ میں ایک شخص میر عباس علی تھے وہ حضرت صاحب سے بہت خلوص رکھتے تھے حتّٰی کہ ان کی موجودہ حالت کے متعلق حضرت صاحب کو الہام بھی ہؤا تھا۔
لدھیانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور محمد حسین کا مباحثہ ہؤا تو میرعباس علی حضرت صاحب کا کوئی پیغام لے کر گئے۔ ان کے مولوی محمد حسین وغیرہ مولویوں نے بڑے احترام اور عزت سے ہاتھ چومے اور کہا آپ آلِ رسولؐ ہیں آپ کی تو ہم بھی بیعت کر لیں لیکن یہ مغل کہاں سے آگیا؟ اگر کوئی مامور آتا تو سادات میں سے آنا چاہئے تھا۔ پھر کچھ تصوف و صوفیاء کا ذکر شروع کر دیا۔ میر صاحب کو صوفیاء سے بہت اعتقاد تھا۔ مولویوں نے کچھ اِدھر اُدھر کے قصّے بیان کر کے کہا کہ صوفیاء تو اِس قسم کے عجوبے دکھایا کرتے تھے اگر مرزا صاحب میں بھی کچھ ہے تو کوئی عجوبہ دکھلائیں ہم آج ہی ان کو مان لیں گے مثلاً وہ کوئی سانپ پکڑ کر دکھائیں یا اور کوئی اِسی قسم کی بات کریں۔ میر عباس علی کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور جب حضرت صاحب کے پاس آئے تو کہا کہ حضور اگر کوئی کرامت دکھائیں تو سب مولوی مان لیں گے۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ جب کرامت کا لفظ اُن کی زبان سے نِکلا تو اُسی وقت مجھے یقین ہو گیا کہ بس میر صاحب کو مولویوں نے پھندے میں پھنسالیا۔ اس پر حضرت صاحب نے ان کو بہت سمجھایا مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ تو وسوسہ انداز لوگ ایک سوراخ تلاش کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال دیتے ہیں جس سے اُسے ٹھوکر لگ جاتی ہے۔
قادیان میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کا یہ کام ہے کہ لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالیں۔ بیعت بھی کی ہوئی ہے، اپنے آپ کو مخلص بھی قرار دیتے ہیں، مگر وسوسہ اندازی سے باز نہیں آتے۔ ایسے لوگوں سے محفوظ رہنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان سچّے دل سے اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِپڑھے۔ جو پڑھے گا یقینا اﷲ تعالیٰ اسے وسوسہ سے محفوظ رکھے گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ کسی کے اخلاص کو ضائع نہیں کرتا اور شیطان غالب نہیں آسکتا۔ شیطا ن کو اقتدار نہیں دیا گیا۔ پس جب تم سچّے دل سے اس سورۃ کو پڑھو گے اور اس کے مفہوم و مطلب کو ذہن میں رکھو گے تو شیطان بھاگ جائے گا لیکن جو لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کریں گے وہ وساوس میں پڑ جائیں گے اور ان پر شیطان کا قبضہ ممکن ہے۔ پس ہم سب رَبِّ النَّاسِۙ۔ مَلِكِ النَّاسِۙ۔اِلٰهِ النَّاسِکی پناہ میں آتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہر قسم کے وساوس سے بچائے۔ '' (الفضل 5 نومبر 1918ء)
1: الناس: 2تا 7

21
خدا کے نبی پر ایمان لاؤ کہ عذاب سے بچو
(فرمودہ 11اکتوبر 1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘بہت سے لوگ دُنیا میں اس قسم کے پائے جاتے ہیں کہ ان کی حالت سوئے ہوئے آدمی کی سی ہوتی ہے۔ جس طرح سوئے ہوئے انسان کو اس بات کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ میرے سرہانے کوئی دُشمن مجھے مارنے کے لئے کھڑا ہے یا میرے پاس کوئی عزیز میری ہمدردی کے لئے بیٹھا ہے۔ وہ اگر اتفاقاً اچھا خواب دیکھتا ہے مثلاً یہی کہ مَیں تاجر ہوں بہت ساروپیہ آرہا ہے، خریداروں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے اور جس قدر مَیں چاہتا ہوں نفع حاصل کرتا ہوں تو اس خواب کی حالت میں وہ خوشی سے بھرا ہؤا ہوتا ہے۔ اس کے ذرّے ذرّے میں خوشی رچی ہوئی ہوتی ہے گو عین اسی وقت اس کا دُشمن تلوار لئے قتل کرنے کے لئے سرہانے کیوں نہ کھڑا ہو۔ یا وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ مَیں بادشاہ ہوں، دُنیا کے بادشاہ میرے نام سے تھراتے ہیں، میرے پاس بے شمار فوجیں ہیں جو اسلحہ سے مسلح ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ مجھے کچھ نقصان پہنچا سکے لیکن ہو سکتا ہے کہ حقیقت میں اس وقت اس کے عزیز رشتہ دار مصیبت میں گرفتار ہوں، اس کا گھر لُٹ رہا ہو اور اس کے پیارے جان توڑ رہے ہوں۔ تو خواب میں ایک (یہاں ایسی خوابیں مراد ہیں جو سچّی اور خدا کی طرف سے نہ ہوں۔ بلکہ نفسانی خیالات ہوں) انسان بڑے بڑے خیالی پلاؤ پکار ہا ہوتا ہے، خوشی اور مسرت سے پھُولا نہیں سماتا، بڑے بڑے سبز باغ دیکھ رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ سخت خطرہ کے منہ میں، سخت مُشکلات کے بھنور میں اور سخت مصائب کے دائرہ میں گھرا ہوتا ہے۔ اس کے بالمقابل دوسری طرف ایک شخص کی خواب میں تو یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے مَیں ایک بڑے سمندر میں غوطہ کھا رہا ہوں، جہاز ڈوب رہا ہے کوئی ایسی چیز نزدیک نہیں جس سے سہارا پکڑ کر زندہ رہ سکوں،چاروں طرف مایوسی ہی مایوسی گھیرے ہوئے ہے اور سمندر کی تہہ کی طرف جارہا ہوں۔ اِسی حالت میں اس کو خیال پیدا ہوتا ہے کہ مجھ کو مچھلی نگل جائے گی اِس خیال سے وہ کانپ اُٹھتا ہے اور گھبرا کر چیخ مارتا ہے۔ ممکن ہے جب وہ ایسی ڈراؤنی خواب دیکھ کر گھبرایا ہؤا چیخ مار کر اُٹھے تو کسی نہایت شفیق اور پیار کرنے والے کو اپنے پاس پائے جو اس پر ہزار جان سے قربان ہونے کے لئے تیار ہو لیکن جس طرح پہلا شخص اصل حقیقت سے ناواقف ہو کر محض نفسانی خیالات اور وہمی نظاروں پر پھُولا نہیں سماتا اِسی طرح یہ اصلیت سے انجان رہ کر ڈراؤنے نظاروں سے گھبرا اُٹھتا اور کسی کو اپنا یارومددگار نہیں سمجھتا۔
یہی حال دنیاوی معاملات میں بھی ہوتا ہے بہت لوگ اپنی ترقیات اور خواہشات اور کامیابیوں کے خیالات سے اُچھلتے ہیں، کامیابیوں کے سبز باغ ان کے پیش نظر ہوتے ہیں اور وہ اس حالت میں پھُولے نہیں سماتے حالانکہ ہلاکت ان کے پاس کھڑی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے کامیاب ہو رہے ہیں اور ابھی سارا مقصد حاصل کر لیں گے مگر خدا کے فرشتے کہتے ہیں کہ تم شکست کے گڑھے میں گر رہے ہو اور ان کے بالمقابل بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی دُنیا میں تمام توقعات قطع ہو چکی ہوتی ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی ہمدرد اور غمگسار نہیں ہم تباہ و برباد ہو گئے ہیں اور ہمارے بچنے کا کوئی طریق نہیں لیکن ایک اُمید کا رستہ ان کے لئے کھول دیا جاتا ہے اور وہ خوشی کی جھلک دیکھتے ہیں جو خدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ جب انسان سب سے قطع ہو کر خدا کی طرف دیکھتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ مَیں تیری مدد و نصرت کو موجود ہوں۔ مَیں تجھے تباہ نہیں ہونے دوں گا۔
تو ایک شخص خواب میں ڈوب رہا ہوتا ہے اور نہیں جانتا کہ میرے بچاؤ کی کوئی صورت ہے حالانکہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی شفیق اسے گود میں لئے بیٹھا ہو اور جس طرح ایک شخص خواب میں عُمدہ نظارہ دیکھ کر بڑا خوش ہو رہا ہوتا ہے حالانکہ ہو سکتا ہے اس وقت اس کا دُشمن اسے ہلاک کرنے کے لئے سرہانے کھڑا ہو۔ اِسی طرح وہ شخص جو خدا سے دُور ہوتا ہے سمجھتا ہے کہ مَیں کامیاب ہو جاؤں گا اور ہر قسم کے فوائد حاصل کر لوں گا لیکن تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور وہ جو تباہی و بربادی کے وقت خدا کے حضور جھک جاتا ہے بچا لیا جاتا ہے کیونکہ خدا اپنے بندے کی مدد کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے دیکھو ایک بچہ جب ڈراؤنی خواب دیکھ کر چیختا اور بِلبِلا اُٹھتا ہے تو اُسی وقت اُس کی ماں بھاگتی ہوئی آتی ہے اور کہتی ہے میرے بچے تجھے کیا ہؤا اور پیار سے گود میں اُٹھا لیتی ہے۔ وہ تو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ میرے دُشمن مجھے قتل کرنے کے لئے لئے جاتے ہیں حالانکہ اس وقت اس کی ماں اس پر جھکی ہوئی شفقت اور پیار سے پوچھ رہی ہوتی ہے کہ تجھے کیا ہؤا تُو کیوں روتا ہے؟اِسی طرح انسان جب ہلاکتیں اور تباہیاں دیکھ کر گھبرا اُٹھتا ہے اور اپنے سامنے موت ہی موت دیکھتا ہے تو اُس وقت خدا اُس پر جھکا ہؤا ہوتا ہے اور اس ماں سے بھی زیادہ شفقت اور پیار کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ ڈراؤنی خواب دیکھ کر رونے اور بِلبِلانے والا بچہ جب اُٹھتا ہے تو جلدی سے جلدی اپنی ماں کی گود میں جانے کی کوشش کرتا ہے اور جب ماں اسے گود میں اُٹھا لیتی ہے تو بھی نادان بچہ روتا ہے مگر اس وقت اس کا رونا خوف اور خطرہ کا رونا نہیں ہوتا بلکہ خوشی کا رونا ہوتا ہے لیکن انسان دانا ہو کر، تجربہ کار ہو کر اور ایک عمر گزار چکنے کے بعد جب مصائب اور مُشکلات میں گرفتار ہوتا، تباہی اور بربادی کے نظارے دیکھتا ، ہلاکت اور موت کے منظر مشاہدہ کرتا ہے تو چیختا چلّاتا ہے مگر خدا کی طرف نہیں جھکتا، اس کی پناہ نہیں ڈھونڈھتا اور اس کی آغوش میں آنے کی سعی نہیں کرتا۔ نادان بچہ ڈرتا ہے اور روتا ہے اور انسان بھی مصائب میں گرفتار ہو کر روتا ہے لیکن بچہ جب ماں کی آغوش میں چلا جاتا ہے تو وہ رنج و خطر کا رونا چھوڑ کر خوشی کا رونا روتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک دُنیا بھر کی تکالیف کا علاج اگر کوئی ہے تو ماں کی آغوش ہی ہے اور جب وہ سمجھتا ہے کہ مَیں اس آغوش میں پہنچ گیا تو پھر ساری دُنیا کی بَلائیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ مگر انسان روتا ہے حالانکہ خدا اس کے پاس ہوتا ہے ایسی حالت میں بھی وہ روتا ہے اور اس کا یہ رونا بچہ کی طرح خوشی کا رونا نہیں ہوتا بلکہ خطرات کا رونا ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ خدا کی آغوش اس کے لئے کھلی ہوتی ہے تاہم خدا کی آغوش میں وہ خطرات اور مصائب سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں خیال کرتا حالانکہ ماں کی خدا کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہے کہ جس کی گود کو ایک نادان بچہ ہر قسم کے خطرات سے بچنے کی جگہ سمجھتا ہے اور اس میں پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔
جنگِ بدر کا واقعہ ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک عورت گھبرائی ہوئی پھر رہی تھی آپ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا تم جانتے ہو یہ عورت کیوں گھبرائی ہوئی پھرتی ہے؟ اس کا لڑکا ہے جو اس سے جُدا ہو گیا ہے ۔ یہ اس کو تلاش کرنے جارہی ہے۔ اِس کو خیال ہے کہ آج جنگ کا دن ہے تلواریں چل رہی ہیں کہیں میرا بچہ ہلاک نہ ہو جائے یا غلام بناکر بیچا نہ جائے اور پھر خدا جانے کس کس مُلک میں مارا مارا پھرے۔یہ ہر ایک بچہ کو جو اسے دکھائی دیتا ہے سینہ سے لگاتی ہے کہ شاید یہی میرا بچہ ہو۔ فرمایا۔ تم نے دیکھا کہ اس ماں کو اپنے بچہ کے کھوئے جانے کا کس قدر کرب ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندے کے گم ہونے سے اس سے کہیں زیادہ کرب ہوتا ہے۔ 1
سچی بات یہی ہے کہ ماں کیا اور باپ کیا۔ اﷲ کی محبت اور اﷲ کی آغوش واقعی ایسی آرام کی جگہ ہے جس کی کسی کے ساتھ مثال ہی نہیں دی جاسکتی۔ بچہ ماں کی آغوش کو تمام جہان کے دکھوں سے آرام پانے اور ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رہنے کی جگہ خیال کرتا ہے لیکن وہ غلطی کرتا ہے کیونکہ ماں کی حقیقت ہی کیا ہے۔ ایک چپڑاسی بھی اسے دھمکا سکتا ہے یا بیوہ عورت دیکھ کر ظالم محلہ کے لوگ ہی اس کو گھر سے نکال دیتے یا طرح طرح کے دُکھ دیتے ہیں اور وہ روتی ہوئی بچہ کو لے کر بے خانماں ماری ماری پھرتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی۔ مگر خدا وہ خدا ہے کہ جو انسان اس کی آغوش میں چلا جاتا ہے اس کا ساری دُنیا مل کر بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کوئی طاقت اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی اور کوئی قوت اس پر غلبہ نہیں پاسکتی۔ اس لئے حقیقی اور پورے امن و آرام کی آغوش ایک اور صرف ایک ہی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی آغوش ہے۔ پس آغوشِ مادر کو خدا کی آغوش سے کیا نسبت لیکن افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ ایک نادان بچہ تو مصیبت اور خطرہ کے وقت اپنی ماں کی آغوش کو ڈھونڈھتا ہے لیکن سمجھدار اور تجربہ کار انسان دُکھوں اور مصیبتوں میں بھی خدا کی آغوش میں آنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا حالانکہ جیسا آرام و آسائش اس میں مل سکتا ہے اور کہیں نہیں مل سکتا کیونکہ جیسا خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان اور رحم کرنے والا ہے ایسا کوئی نہیں ہے۔
چنانچہ سورۃ فاتحہ کو دیکھو اس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِۙ۔مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ۔2 اے انسانو! ذرا سوچو تو سہی کہ تمہارا کس سے تعلق ہے۔ اس خدا سے تعلق ہے جو ساری سچّی تعریفوں کا مالک ہے۔ پھر وہ ظالم اور جابر نہیں بلکہ رحمٰن اور رحیم ہے۔ وہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی مخلوق کو بھی رزق پہنچاتا ہے۔ اگر جنگل میں رہنے والے بھیڑیوں کے لئے رزق مہیا کرتا ہے تو ہَوا میں رہنے والی مخلوق بھی اس کی دی ہوئی روزی کھاتے ہیں۔ اگر زمین میں پوشیدہ رہنے والے جانوروں کو ان کی خوراک پہنچاتا ہے تو پانی میں رہنے والے جانوروں کو بھی وہی رزق دیتا ہے۔ غرض ہر ایک مخلوق کے لئے اس نے سامان زیست پیدا کیا ہؤا ہے اور اسے پہنچاتا ہے۔ کیا ایسا مہربان خدا انسان کے لئے آرام و آسائش کا سامان نہیں کرے گا۔ غور کرو۔ مثلاً ایک شخص کے ہاں کوئی مہمان جائے اور میزبان اس کے نوکروں کے لئے ضروری چیزیں، اس کی بکریوں کے لئے پتّے، اس کے گھوڑے کے لئے گھاس، اس کے اونٹ کے لئے کانٹے دار جھاڑیاں اور اس کے کتّوں اور بِلّیوں کے لئے گوشت غرض جتنے نوکر اور جس قدر جاندار اس کے ساتھ ہوں ان سب کے لئے آرام و آسائش کی چیزیں مہیا کرے اور سب کو کھانے پینے کی چیزیں دے۔ تو کیا ایسے میزبان کی نسبت یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مہمان کے ٹھہرنے کے لئے مکان کا، اس کے کھانے کے لئے خوراک کا، اس کے آرام کے لئے بستر کا اور اس کی دیگر ضروریات کے پورا کرنے کا انتظام نہیں کرے گا۔ ہر گز نہیں کیونکہ جب وہ اپنے مہمان کی خاطر اس کےساتھ کی ہر ایک چیز کو آرام پہنچا رہا ہے تو خود اس کو کیوں نہ پہنچائے گا۔ پس ایسے میزبان کی نسبت بجز پاگل کے کوئی شخص خیال نہیں کرتا کہ وہ اپنے مہمان کو بھوکا رکھے گا۔ یا اس کے آرام کے لئے کوئی انتظام نہ کرے گا۔
اس بات کو مدِّ نظر رکھ کر دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ خدا جس نے تمام مخلوق کے لئے سامان پیدا کئے ہوئے ہیں۔ جس نے مچھروں کے لئے، سانپوں کے لئے، بچھوؤں کے لئے ، کُتّوں کے لئے، شیروں کے لئے رزق پیدا کیا ہؤا ہے، ان کے آرام کے سامان مہیا کئے ہوئے ہیں۔ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان سب سے اشرف اور اعلیٰ مخلوق (انسان) کے لئے رزق مہیا نہیں کرے گا۔ یا اس کے آرام کے سامان پیدا نہیں کرے گا۔ اس نے سب کچھ کیا ہؤا ہے لیکن جس طرح ایک نادان اور کم عقل انسان اپنے نہایت مہربان اور خاطر تواضع کرنے والے میزبان سے لڑ کر چلا جاتا ہے اور اس کی میزبانی کو ردّ کر کے اس آرام اور آسائش سے محروم ہو جاتا ہے جو وہ اسے پہنچانا چاہتا ہے اسی طرح ناسمجھ اور ناشکرا انسان خدا تعالیٰ سے جنگ کر کے اس سے مُنہ موڑ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے آرام کے اسباب سے فائدہ اُٹھانے سے بے نصیب رہ جاتا ہے۔ پس اگر نادان انسان باوجود اس خاطر کے اپنے میزبان سے لڑ کر چلا جائے تو یہ اس کی بیوقوفی ہو گی۔
دیکھو حیوان اپنے مالک سے کبھی نہیں لڑتا۔ جو کچھ وہ اسے کھانے کو دیتا ہے کھا لیتا ہے اور اگر بھُوکا بھی رہے تو بھی اس کے دروازے کو نہیں چھوڑتا مگر انسان خدا سے لڑتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے خدا کی کیا پرواہ ہے۔ مگر یہ بات اکثر انسان زبان سے نہیں کہتے بلکہ عمل سے کہتے ہیں۔ پس جب انسان خدا سے لڑتے ہیں، اُس کے حکموں کو توڑتے ہیں اور اس کی نعمتوں کی بے قدری کرتے ہیں تو اُن پر طرح طرح کے عذاب آتے ہیں، بیماریاں پڑتی ہیں، زلزلے اور سیلاب آتے ہیں، لڑائیاں ہوتی ہیں، قحط پڑتے ہیں اور ناشکر گزار لوگ تباہ کر دیئے جاتے ہیں۔ ان کے عزیز و خویش ہلاک کئے جاتے ہیں۔ یہ کیوں؟ اِس لئے کہ جب خدا کسی نعمت اور کسی انعام اور کسی بخشش کرنے میں ذرا بھی کمی نہیں کرتا تو پھر جو ایسے مہربان اور رحم کرنے والے خدا سے مُنہ موڑتے اور نہ صرف مُنہ ہی موڑتے ہیں بلکہ لڑائی مول لیتے ہیں انہیں اس ناشکر گزاری کا مزا چکھائے۔ چونکہ خدا تعالیٰ بڑا رحم کرتا ہے اور انسان کو کسی نعمت کے دینے میں بُخل نہیں کرتا مگر یہ اس سے لڑائی مول لیتا ہے اور اس سے علیحدگی اختیار کرتا ہے پھر وہ اس کی سزا بھُگتتا ہے۔
اس زمانہ میں بھی یہ نظارہ ہمارے سامنے موجود ہے کہ چونکہ بہت سے لوگوں نے خدا سے لڑائی شروع کر دی تھی اور خدا سے علیحدہ ہو گئے تھے اس لئے خدا نے ایک نبی کو مبعوث کرنا ضروری سمجھا جو انہیں بتائے کہ تمہاری تمام تکلیفوں اور مصیبتوں کا علاج خدا اور صرف خدا ہی کے پاس ہے لیکن کیسے تعجب کی بات ہے کہ ایک بچہ جو اپنی ماں سے روٹھ کر اس کی گود سے نکلتا ہے وہ تو ماں کے صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہَوّا آیا دوڑ کر ماں کی چھاتی سے لپٹ جاتا ہے حالانکہ وہ تو جھُوٹ موٹ کا ہَوّا ہوتا ہے مگر اس بچہ پر اس قدر اثر کرتا ہے کہ اپنی تمام ناراضگی کو بھُول جاتا ہے اور اپنی ماں کی گود کو ہی اپنے لئے جائے حفاظت سمجھتا ہے، لیکن انسانوں کے سامنے سچ مُچ کے ہَوّے عذابوں کی صورت میں آتے ہیں اور خدا کا نبی بار بار اور بڑے زور سے ان کے آنے سے پہلے اطلاع دیتا ہے تاکہ انسان اپنے خالق اور مالک کو راضی کرلیں اور اس کے آگے جھک جائیں مگر یہ نہیں ڈرتے اور اتنا تکبّر دکھاتے ہیں کہ خدا کی طرف سے مُنہ پھیر لیتے ہیں۔ قحط کی مصیبتیں اُٹھائیں گے مگر مہربان خدا کی آغوش میں نہیں جائیں گے، وباؤں اور بیماریوں سے، اپنے ساتھیوں کو تباہ و برباد ہوتا دیکھیں گے مگر خدا کی طرف نہیں جھکیں گے، زلزلوں سے، سیلابوں سے خانماں برباد ہو جائیں گے مگر خدا کی پناہ میں نہیں آئیں گے لیکن خداتعالیٰ باوجود ان کی ایسی سرکشی کے پھر بھی تمام کے تمام انسانوں کو ہلاک نہیں کرتا۔ نہ اُن کی زیست کے تمام سامانوں کو بالکل تباہ و برباد کر دیتا ہے بلکہ بہت سوں کو عبرت حاصل کرنے کے لئے زندہ رکھتا ہے اور کچھ نہ کچھ سامان ان کی زیست کے پیدا کرتا رہتا ہے لیکن کیسا رونے کا مقام ہے کہ ایک بچہ جو نادان ہے وہ تو اتنی دانائی کرتا ہے کہ جب کوئی خوف و خطرہ دیکھتا ہے تو اپنی ماں کی آغوش میں جاتا ہے لیکن انسان دانا ہو کر مصائب اور آرام کے وقت ، دکھ اور تکالیف کے وقت خدا کی آغوش میں جانے سے انکار کر دیتا ہے اور جو خدا کی طرف بُلاتا ہے اس پر ہنسی اور تمسخر کرتا، اسے احمق اور مجنون بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے خدا کی ضرورت نہیں۔
نادان کہنے کو تو کہہ دیتا ہے کہ خدا کی ضرورت نہیں حالانکہ جس زبان سے وہ یہ بات کہتا ہے وہ بھی خدا ہی کی دی ہوئی ہے اور دوسری تمام چیزیں جن کی وجہ سے یہ خدا کو بھُولا ہؤا ہے وہ بھی سب خدا ہی کی دی ہوئی ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے ایک کمزور اورناتواں انسان کسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو اور ساتھ ہی یہ بھی کہے کہ مجھے تمہارے سہارے کی ضرورت نہیں حالانکہ اس کے سہارے کے بغیر وہ کھڑا نہ رہ سکے۔
یہ اﷲ تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ وہ اپنے سے بھاگنے والے سرکشوں اور اپنے دشمنوں کو بھی رزق پہنچاتا اور سہارا دیتا ہے اور یہ اس کی رحیمیت کا نشان ہے۔ دیکھو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دُشمن خدا کے دُشمن تھے۔ ابو جہل چونکہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا دُشمن تھا اس لئے خدا کا بھی دُشمن تھا مگر خدا اس کو رزق دیتا تھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ آخر تھا تو اُسی کا بندہ۔ پس وہ لوگوں کو عذابوں میں ڈالتا ، مصائب میں جکڑتا ہے اور قحطوں میں گرفتار کرتا ہے مگر ساتھ ہی ربوبیت بھی کرتا ہے تاکہ تمام کے تمام ہلاک نہ ہو جائیں۔ پس یہی وہ بات ہے جس کے باعث وہ سب کو ہلاک نہیں کرتا کہ آخر ہیں تو میرے ہی بندے اور میری ہی مخلوق۔ اس سے معلوم ہؤا کہ خدا تعالیٰ کا رحم سزا کے وقت بھی انسان کو نہیں چھوڑتا بلکہ خدا کی طرف سے جو سزا آتی ہے وہ بھی اس کا رحم ہی ہوتا ہے تا لوگ عبرت پکڑیں اور بڑے عذاب سے بچ سکیں۔
پس جس زمانہ میں انسان خدا سے جُدا ہو جاتے ہیں اور اس سے مُنہ موڑ لیتے ہیں خدا ان پر یہ رحم فرماتا ہے کہ ان کی بھلائی کی خاطر نبی مبعوث فرماتا ہے جو ان کو خدا کی طرف بُلاتا ہے مگر دُنیا کے لوگ دُنیا کی طرف ایسے جھکے ہوتے ہیں کہ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو اس کی مخالفت اور دُشمنی کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کی دشمنی اس کی دُشمنی نہیں ہوتی بلکہ خدا کی ہوتی ہے کیونکہ خدا اس کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے۔ حضرت مرزا صاحب کے دُشمن آپ کی مخالفت نہیں کرتے، حضرت مسیح کے دُشمن حضرت مسیح کے دُشمن نہیں تھے اور حضرت موسیٰ کے مخالف حضرت موسیٰ کے مخالف نہیں تھے بلکہ وہ اس چیز کے دُشمن تھے جو وہ دُنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور وہ کیا تھا؟ وہ خدا اور اُس کا کلام تھا۔ پس انبیاء کے دُشمن ان کی ذات کے دُشمن نہیں ہوتے بلکہ خدا کے دُشمن ہوتے ہیں۔ انبیاء تو گمنامی میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں بہ نسبت دُنیا میں ظاہر ہونے کے لیکن خدا ان کو گوشۂ گمنامی سے کھینچ کر دُنیا کے سامنے لاتا ہے۔ پس چونکہ ان کو اپنی بڑائی منظور نہیں ہوتی بلکہ وہ خدا کی بڑائی کے خواہاں ہوتے ہیں اس لئے ان کی مخالفت ان کی مخالفت نہیں تھی بلکہ خدا کی مخالفت تھی اور ان کے مخالف خدا کے مخالف تھے مگر باوجود اس قدر مخالفتوں اور عِنادوں کے جو وہ خدا کے نبیوں کے بالواسطہ خدا کے ساتھ کرتے رہے خدا پھر بھی ان پر رحم فرماتا رہا ہے۔
اب غور کرنا چاہئے کہ وہ خدا جو اپنی مخلوق کے ساتھ ایسا مہربان اور رحم کرنے والا ہے اسے اب ہو کیا گیا کہ دُنیا کو طرح طرح کے عذابوں میں مُبتلا کر کے تباہ کر رہا ہے۔ کوئی عقلمند جب اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے بھائیوں پر ظلم نہیں کرتا ان کے گلوں پر چھُری نہیں پھیرتا اور اپنے دوست کو قتل نہیں کرتا تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خدا جو اپنے بندوں پر ایسا رحم اور محبت کرنے والا ہے کہ اس کے رحم کے مقابلہ میں کسی کا رحم بھی پیش نہیں کیا جاسکتا وہ کیوں دُنیا پر طرح طرح کے عذاب بھیج رہا ہے۔ کہیں قحط سے دُنیا ہلاک ہو رہی ہے، کہیں قتل و غارت کا زور شور ہے، کہیں طاعون سے ہلاکت پھیل رہی ہے اور کہیں ایسی ایسی بیماریاں پیدا کی جارہی ہیں جو اس سے قبل کبھی ظاہر نہیں ہوئیں۔
پس جبکہ خدا تعالیٰ طرح طرح کی آفات بھیج رہا ہے، غلہ اس نے کھینچ لیا ہے، وبائیں اس نے پھیلا دی ہیں، جنگیں اس نے شروع کرا دی ہیں تو آخر اس کی کچھ وجہ تو ہونا چاہئے۔
اس کی دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ وہ رحم کرنے والا خدا بدل گیا اور اس کی جگہ (نَعُوْذُبِاللّٰہِ) کوئی سفاک اور ظالم خدا آگیا لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ خدا میں ہرگز کوئی تغیّر نہیں آسکتا اس لئے آج بھی وہی خدا ہے جو آج سے قبل تھا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اب انسان وہ انسان نہیں رہے جو آج سے قبل ہوتے تھے اور جن پر خدا رحم کیا کرتا تھا بلکہ اس زمانہ کے انسانوں نے اپنی حالت کو بدل لیا ہے۔ جو اچھے تھے وہ مرگئے اور ظالم و سفاک اور دین سے لاپرواہ اور تقویٰ سے بے خبر اور گندے لوگ رہ گئے ہیں۔ پہلی وجہ چونکہ درست نہیں ہو سکتی اس لئے یہی درست ہے اور درحقیقت بات بھی یہی ہے کہ موجودہ انسانوں نے ایک بُری تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی ہے اور چونکہ وہ خدا تعالیٰ سے اتنے لاپرواہ، اتنے دُور اور اتنے سرکش ہو گئے ہیں جتنے اس زمانہ سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے اِس لئے ان پر ہر قسم کی مصیبتوں اور تکلیفوں کے ایسے دروازے کھول دیئے گئے اور عذاب کے ایسے کُتّے چھوڑ دیئے گئے جیسے ان سے پہلے لوگوں پر کبھی نہیں چھوڑے گئے۔
پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہ) خدا بدل گیا ہے بلکہ بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے انسانوں کی حالت نہایت خراب ہو گئی ہے۔ وہ نسل جو اچھی تھی گزر گئی اس کے بعد جو پیدا ہوئے وہ اچھے نہیں۔ خدا تو ازلی ابدی ہے اِس لئے اِس میں کوئی نقص نہیں پیدا ہو سکتا لیکن انسان چونکہ فانی ہستی ہے اس لئے نیکوں اور اچھے لوگوں کے مرنے کے بعد بُرے اور بدکار پیدا ہو سکتے ہیں اور ایسے ہی ہو رہے ہیں۔
اب چونکہ انسانوں نے خدا کو چھوڑ دیا ہے اس لئے اُنہیں آفتوں میں ڈالا گیا تا خدا کی ہی آغوش میں آئیں اور خدا کی آغوش کے سوا دُنیا میں کہیں امن نہیں۔ پس اب امن حاصل کرنے اور مصائب و آلام سے بچنے کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ خدا کے دروازے پر گرپڑیں کیونکہ جو خدا کے دروازے پر گر پڑے وہ کبھی ہلاک نہیں کئے گئے۔ تاریخ اس کی شاہد ہے۔ دیکھو اہلِ عرب نے خدا کو چھوڑ دیاتھا، وہ اس سے مُنہ موڑ چکے تھے۔ اس پر خدا نے ایک نبی کے ذریعہ ان کو اپنی طرف بُلایا اور ایسے وقت میں بُلایا جبکہ ان کی حالت بہت بُری تھی اور چونکہ اُنہوں نے خدا کی طرف آنے کی بجائے اس سے اور زیادہ سرکشی کی اس لئے خداتعالیٰ نے اُنہیں سیدھا کرنے کے لئے عذابوں میں گرفتار کیا لیکن جب وہ خدا کی طرف آگئے تو ان تمام ذلتوں کو عزتوں سے، تمام ہلاکتوں کو خوشحالیوں سے بدل دیا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کے ساتھ کیا گیا۔ جب وہ خدا سے دُور اور اُسے چھوڑ چکے تھے تو ہر قسم کی ذلّت اور رسوائی میں گرفتار کئے گئے۔ ان کے لڑکے قتل کئے جاتے تھے، ان کی عورتیں بے عصمت و بے آبرو کی جاتی تھیں اور فرعون طرح طرح کی ذلتیں ان پر وارد کرتا تھا لیکن جب وہ حضرت موسیٰ کے ذریعہ خدا کے آگے جھک گئے تو پھر ایک طرف اُنہیں ذلیل و رسوا کرنے، تکلیفیں اور دُکھ پہنچانے والے فرعون اور اس کی قوم کا جو کچھ انجام ہؤا اسے دیکھو اور دوسری طرف ان کی حالت دیکھو کہ نہایت ذلیل اور رسوائی کی زندگی سے نکال کر حکمران بنا دیئے گئے۔
اسی طرح حضرت مسیح ؑ کی قوم کو دیکھو ایک وقت تو اس پر وہ آیا کہ بڑے بڑے دکھوں اور مصیبتوں میں گرفتار کی گئی حتّٰی کہ اس کے خاص معبد میں سؤر کو ذبح کیا گیا مگر خدانے آخر انہی کو حکومت دے دی۔
پس خدا جب عذاب نازل کرتا ہے تو اس لئے نہیں کرتا کہ اپنی مخلوق کو تباہ و برباد کر دے بلکہ عذاب کے لئے اس کی مہربانی ہی تقاضا کرتی ہے کہ میری مخلوق جو بگڑ گئی ہے اس کی اصلاح ہو جائے۔ تو یہ اس کے رحم کا ہی تقاضا ہوتا ہے کہ لوگ عذاب میں گرفتار کئے جاتے ہیں۔ دیکھو کوئی ایسا ڈاکٹر مریض پر رحم کرنے والا نہیں کہلاسکتا جو اس کے خراب اور سارے جسم میں فساد پھیلانے والے عضو کو نہیں کاٹتا۔ کیونکہ ڈاکٹر کا مریض کے لئے یہی رحم ہے کہ اس کا جو عضو کاٹنے کے قابل ہے اُسے کاٹ دے تاکہ باقی جسم کی اصلاح اور حفاظت اس کے کاٹنے سے ہو جائے۔ پس جب ایک ڈاکٹر مریض کے جسم میں فساد ہوتا دیکھے گا تو نشتر چلائے گا اور کوئی پرواہ نہیں کرے گا کیونکہ یہی اس کے رحم کا تقاضا ہے۔ مثلاً کسی شخص کے مثانہ میں پتھری ہو تو ڈاکٹر کا رحم یہ نہیں ہو گا کہ اس کو چھوڑ دے بلکہ اس کا رحم اسے مجبور کرے گا کہ نشتر چلائے اور جسم کو چیر کر اس تکلیف دینے والی چیز کو نکال ڈالے۔ تو جیسے ایک ڈاکٹر کا رحم اور ہمدردی مریض کا مرض دُور کرنے کے لئے نشتر چلانے کا تقاضا کرتی ہے ایسے ہی خدا تعالیٰ کی رحمت بھی انسان کے فساد کو دُور کرنے کے لئے عذاب کا بھیجنا ضروری سمجھتی ہے اور جس طرح جب تک مرض دُور نہیں ہوتا اس وقت تک ڈاکٹر کا نشتر کام کرتا رہتا ہے لیکن جب مرض رفع ہو جاتا ہے تو مریض کو عمدہ غذائیں دی جاتی ہیں، ہر طرح اسے خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح خداوند کریم بھی اسی وقت تک عذاب دیتا ہے جب تک کہ لوگوں کی اصلاح نہیں ہوتی اور جب انسانوں کی اصلاح ہو جاتی ہے تو پھر انہیں ہر قسم کے انعامات سے نوازتا ہے۔
مگر اب دیکھنا یہ چاہئے کہ دُنیا میں یہ جو قسم قسم کی ہلاکتیں اور تباہیاں آرہی ہیں ان کے لانے کا مؤجب کیا ہؤا ہے۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ بِلا سبب اور بِلا وجہ تو آنہیں رہیں کیونکہ خداتعالیٰ ٹھٹھا نہیں کرتا اور نہ یہ اندھا راج ہے کہ ''ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا'' کاحساب ہو۔ کہتے ہیں کوئی بیوقوف راجا تھا اس نے اپنے حدودِ ریاست میں حکم جاری کر رکھا تھا کہ ہر ایک چیز ٹکے سیر بکے۔ ایک چیلے نے اپنے گُرو سے کہا کہ باواجی اس ریاست میں چلو وہاں بڑا مزا ہے۔ ہر ایک چیز ٹکے سیر بکتی ہے ہم خوب سیر ہو کر مٹھائی وغیرہ کھایا کریں گے۔ گُرو نے کہا وہاں نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگر گئے تو ہم پر ضرور کوئی نہ کوئی مصیبت آئے گی لیکن چیلا اصرار کر کے لے گیا اور کچھ دن تک خوب مٹھائیاں کھائیں اور خوب موٹے تازے ہو گئے۔ آخر اتفاق ایسا ہؤا کہ ایک شخص نے کسی کو قتل کر دیا۔ قاتل کو گرفتار کر کے پھانسی کا حکم دیا گیا۔ جب اسے پھانسی دی جانے لگی تو جلاد نے کہا چونکہ اس کی گردن پتلی ہے اس لئے پھانسی کی رسی اس کے گلے میں پوری نہیں آتی۔ راجا نے کہا اس کی بجائے کسی موٹی گردن والے کو تلاش کر کے پھانسی دے دو آخر کسی کو تو پھانسی دینا ہی چاہئے۔ اس پر گُرو صاحب جن کی گردن موٹی تھی پکڑ کر پھانسی دے دیئے گئے۔ یہ ایک ظلم و جور کی کہاوت مشہور ہے اور ممکن ہے کسی نادانی اور جہالت کےپتلے نے ایسا کیا بھی ہو لیکن خدا کی نسبت اس قسم کا خیال بھی دل میں نہیں لایا جاسکتا۔ وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی رحیم و کریم ہے اور کسی پر ایک ذرّہ بھر ظلم روا نہیں رکھتا۔ وہ ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی بات کا پورا پورا علم رکھتا اور سب کچھ جانتا ہے اس لئے اس کی طرف سے کسی پر ظلم نہیں ہو سکتا۔ جب یہ بات ہے تو پھر آجکل جو دُنیا میں قتل و غارت ، تباہی و بربادی، ہلاکت اور خونریزی ہو رہی ہے، نئی نئی بیماریاں اور وبائیں پھیل رہی ہیں، قحط اور زلزلے آرہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ تو مَیں بتا آیا ہوں اور بتانے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ہر ایک وہ انسان جسے ذرا بھی عقل سے حصّہ ملا ہے جانتا ہے کہ خدا نہیں بدلا اور نہ وہ بدلتا ہے۔ وہ جیسے پہلے تھا ویسے ہی اب بھی ہے اِس لئے یہی ماننا پڑے گا کہ مخلوق کی حالت ہی نہایت خراب ہو گئی ہے اِسی لئے یہ عذاب آرہے ہیں۔ پس یہ جو نرالی ہلاکت ہے اور غیرمعمولی عذاب جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں پائی جاتی بِلاوجہ نہیں اور نہ ہی اچانک بِلا اطلاع آگیا ہے۔ خدا تعالیٰ کی قدیم سے سُنت ہے کہ عذاب بھیجنے سے پہلے لوگوں کو مُتنبّہ کر دیا کرتا ہے۔
چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس نے ایک رسول اپنے اس قانون کے ماتحت بھیجا کہ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا3 ہم کبھی عذاب نہیں دیتے جب تک کہ پہلے رسول نہ بھیج لیں۔ اب وہ لوگ جنہوں نے موجودہ عذاب سے پہلے آنے والے رسول کو نہیں پہچانا اور قبول نہیں کیا اُنہیں تلاش کرنا چاہئے کہ عذاب تو موجود ہے جو اپنی نوعیت میں معمولی نہیں بلکہ غیرمعمولی ہے پھر وہ رسول کہاں ہے جو خداتعالیٰ کے مذکورہ بالا قانون کے مطابق عذاب سے پہلے آنا چاہئے تھا اور اگر کہیں کہ خدا نے کوئی رسول نہیں بھیجا تو کیا وہ خدا کو جھوٹا تسلیم نہیں کریں گے؟ پھر کیا وہ قرآن کو چھوڑ دیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ عذاب سے قبل مَیں رسول بھیجتا ہوں اور جب تک آنے والی ہلاکت سے متنبّہ کرنے کے لئے رسول نہ آئے مَیں عذاب نہیں دیتا۔ مگر یہاں عذاب تو مختلف شکلوں میں موجودہ ہے اور تباہی ہرطرف اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ رسول کا پتہ نہیں۔ کم از کم قرآن کے ماننے والوں پرتو یہ حجت ہے کیونکہ قرآن کریم نے ہی یہ قانون مقرر فرمایا ہے کہ اس وقت تک عذاب نہیں آتا جب تک کہ رسول نہ آئے۔ پس اب جبکہ عذاب آگیا ہے اور عذاب بھی ایسا ہے جو عالمگیر ہے تو معلوم ہؤا کہ خدا کا رسول آچکا ہے اور رسول بھی کوئی معمولی رسول نہیں بلکہ وہ بھی تمام دُنیا کے لئے رسول ہے اور اس کا تعلق صرف ایک خطۂ زمین سے نہیں بلکہ تمام روئے زمین کے باشندوں کے ساتھ ہے کیونکہ اس وقت تباہی ساری دُنیا پر پھیلی ہوئی ہے اس لئے وہ رسول بھی ساری دُنیا کے لئے ہے اور یہ ہم نہیں کہتے بلکہ خدا کہتا ہے۔ پس غور کرو کہ یہ کیسا خوفناک وقت ہے۔ ایک عذاب ابھی پیچھا نہیں چھوڑتا کہ دوسرا اس سے بھی سخت آ موجود ہوتا ہے۔ طاعون ابھی گئی نہیں کہ اس کے علاوہ ایک اور نہایت خطرناک مرض نمودار ہو گیا ہے جس نے طاعون کا کام سنبھال لیا ہے۔ چونکہ طاعون کو لوگوں نے اب معمولی بیماری سمجھ لیا تھا اس لئے خدا نے ایک اور مرض بھیجا جو طاعون سے الگ ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب دوزخیوں کی جلدیں جل جائیں گی تو ان کی جلدوں کو ہم بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کو چکھ سکیں۔4
وہاں تو جلدیں بدلی جائیں گی لیکن یہاں عذاب بدلے جارہے ہیں تاکہ لوگ ایک عذاب کے عادی ہو کر اسے معمولی نہ سمجھ لیں اور اس سے بے پرواہ نہ ہو جائیں۔ پس فی الحال طاعون چلا گیا۔ چنانچہ اخباروں میں شائع ہو رہا ہے کہ آجکل طاعون سے چونکہ کوئی کیس نہیں ہوتا یا شاذ و نادر ہوتا ہے اس لئے یہاں سے چلا گیا اور اس کی بجائے خدا نے ایک نئے مرض کو بھیج دیا اور اس بات سے خدا تعالیٰ نے اپنے اس رسول کے ذریعہ جسے اس نے ان عذابوں سے پہلے بھیجا، آگاہ کر دیا تھا کہ مَیں نئے نئے امراض بھیجوں گا چنانچہ اب وہ بھیج رہا ہے اور اس نئے مرض سے قریباً 800 موتیں روزانہ صرف بمبئی میں ہوئی ہیں اور علاقہ کی حالت تو اور بھی خراب ہے۔ پھر پنجاب کے ہر قریہ، ہر قصبہ اور ہر شہر میں اس نے طوفان مچا رکھا ہے۔ اس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے پاکر بہت عرصہ قبل دی تھی۔ چنانچہ آپ کو الہام ہؤا تھا أَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ۔5 کہ امراض پھیلائے جائیں گے اور جانیں ضائع کی جائیں گی۔ یہ الہام آپ نے آج سے پچیس سال قبل شائع فرمایا تھا۔ پس آج وہ پورا ہو رہا ہے۔ جبکہ نئی نئی قسم کی وبائیں دُنیا میں پھیل رہی اور انسانوں کو ہلاک کر رہی ہیں۔
مجھے وہ درجہ تو حاصل نہیں ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حاصل تھا۔ آپ خدا کے نبی اور رسول تھے لیکن آپ کی نیابت سے جو درجہ حاصل ہے اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اب سے قریباً چار سال پہلے اس بیماری کے متعلق بذریعہ رؤیا اطلاع دی تھی۔ وہ رؤیا میں نے اسی مسجد میں درس کے وقت لوگوں کو سُنا دی تھی اور شائع ٭بھی ہو چکی ہے۔
٭ یہ رؤیا13دسمبر 1914ء کے اخبار الفضل میں شائع ہو چکی ہے جو بلفظہٖ درج ذیل ہے:
''جیسی اس مسجد (مسجد اقصیٰ) میں بیچوں بیچ ایک نالی جاتی ہے اِسی طرح کی ایک نہر ہے اور وہ بہت دُور تک چلی جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں بڑا پانی ہے مگر بندوں کی وجہ سے اس کے اندر ہی بند ہے۔ اس کے اردگرد ایک نہایت خُوبصورت باغ ہے۔ مَیں اس میں ٹہل رہا ہوں اور ایک اور آدمی بھی میرے ساتھ ہے۔ ٹہلتے ٹہلتے نہر کی پرلی طرف مَیں نے چودھری فتح محمد صاحب کو دیکھا اتنے میں ایک شخص آیا اور میرے ساتھ میرے گھر کی مستورات بھی ہیں اس نے مجھے کہا کہ گھر کی مستورات کو پردہ کی تکلیف ہوتی ہے انہیں کہہ دیں صرف باغ میں ٹہلیں۔ مَیں جب اس جگہ سے ہٹ کر دوسری طرف گیا ہوں تو مجھے بڑے زور سے پانی کے بہنے کی سرسر آواز آئی۔ اس وقت میں جس طرح پُرانے مقبرے بنے ہوتے ہیں ویسے مکان میں کھڑا ہوں۔ وہ مقبرہ اس طرح ہے جس طرح بادشاہوں کی قبروں پر بنے ہوتے ہیں۔ مَیں اس کی چھت پر چڑھ گیا ہوں اور اس کی کئی چھتیں اونچی نیچی ایک دوسرے
مَیں نے دیکھا کہ طوفان بڑے زور کا آیا ہے اور بہت بلند ہوتا جارہا ہے۔ لوگ مررہے ہیں، مکان گِر رہے ہیں، درخت ٹوٹ رہے ہیں۔ اس وقت چودھری فتح محمد صاحب کو مَیں نے دیکھا۔ آخر پانی بڑھتے بڑھتے اس مکان کی چھت پر چڑھنا شروع ہو گیا جس پر ہم کھڑے تھے۔ اس وقت میں بہت گھبرا گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا لیکن ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ جب پانی چھت پر بھی آنے لگا تو مَیں نے زور زور سے یہ کہنا شروع کیا۔ اَللّٰھُمَّ اھْتَدَیْتُ بِھَدْیِکَ وَاٰمَنْتُ بِمَسِیْحِکَ اس وقت مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آتے ہوئے معلوم ہوئے اور اپنے لوگوں کو تاکید کی کہ یہی فقرہ پڑھیں جس کے معنے یہ ہیں کہ
بقیہ حاشیہ:- کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی ہیں۔ مجھے پانی کی سرسرکی جو آواز آئی تو میں نے اسی نہر کی طرف دیکھا۔ یا تو وہ ایسا خوبصورت نظارہ تھا کہ پرستان نظر آتا تھایا ہر جگہ پانی پھرتا جاتا تھا۔ عمارتیں گرتی جاتی تھیں، درخت دبے جاتے تھے، گاؤں اور شہر تباہ ہوئے جاتے تھے، پانی میں لوگ ڈوب رہے تھے، کسی کے گلے گلے، کسی کے مُنہ تک، کسی کے سر کے اوپر پانی چڑھا جاتا تھا اور ڈوبنے والوں کا بڑا درد ناک نظارہ تھا۔ یکلخت وہ پانی اس مکان کے بھی قریب آگیا جس میں مَیں کھڑا تھا اور اس کی دیواروں سے ٹکرانا شروع ہو گیا۔ آگے پیچھے کی آبادی کو تباہ و برباد ہوتا دیکھ کر بے اختیار میرے مُنہ سے نکل گیا ''نوح کا طوفان'' پھر پانی اس مکان کی چھت پر چڑھنا شروع ہؤا اس کے ارد گرد جو دیوار تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پانی اسے توڑ کر اندر آنا چاہتا ہے اور لہریں دیوار کے اوپر سے نظر آتی تھیں۔اس وقت میں نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا مجھے کہیں آبادی نظر نہیں آتی تھی اور پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ جب پانی چھت پر بھی آنے لگا تو مَیں نے گھبرا ہٹ میں پُکار پُکار کر اس طرح کہنا شروع کیا۔ اَللّٰھُمَّ اھْتَدَیْتُ بِھَدْیِکَ وَاٰمَنْتُ بِمَسِیْحِکَ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوڑے چلے آتے ہیں اور گویا لوگوں سے فرماتے ہیں کہ یہی فقرہ پڑھو تب تم اس عذاب سے بچ جاؤ گے۔ مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نظر نہیں آئے لیکن یہ میرا خیال تھا کہ آپ لوگوں کو یہ فرما رہے ہیں۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ پانی کم ہونا شروع ہؤا اور چھت گیلی گیلی نظر آنے لگی۔ اسی گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل گئی۔’’
’’اے خدا میں تیری ہدایت کے ذریعہ ہدایت پاتا ہوں اور تیرے مسیح پر ایمان لاتا ہوں۔‘‘ یہ مَیں نے پڑھنی شروع کی تو وہ طوفان اُتر گیا۔
اس رؤیا میں جو طوفان دکھایا گیا ہے اس سے جنگ یورپ تو مراد ہو نہیں سکتی کیونکہ اس وقت جنگ ہو رہی تھی اور چوہدری صاحب ولایت میں تھے۔ پھر پانی سے مُراد وبا ہوتی ہے۔ اب جبکہ چوہدری صاحب بھی یہاں آگئے ہیں تو یہ وبا شروع ہوئی ہے جو دکھلائی گئی تھی۔ پس اس سے نجات پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو اس زمانہ کے رسول ہیں مانا جائے کیونکہ اس نبی کے انکار کے باعث ہی یہ عذاب آیا ہے اور یاد رکھنا چاہئے یہ عذاب ایسے ہیں جیسے ماں غصّہ سے بچہ کو تھپڑ مارتی ہے جبکہ وہ غلطی کرتا ہے لیکن جب وہ غلطی کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کو پیار کرتی ہے۔6 پس خدا کے نبی پر جو خدا کی طرف بُلاتا ہے ایمان لاؤ تاکہ نجات پاؤ۔ اگر ایسا کرو گے تو وہی خدا جو اب طرح طرح کے عذاب نازل کر رہا ہے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے گا اور اپنے انعامات سے مالا مال کر دے گا۔ احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت جب آئے گی تو شریروں پر آئے گی۔ پس جب تک نیک بندے ہوں گے خدا ہلاک نہیں کرے گا۔ آجکل یہ مرض اس شدّت سے پھیلا ہؤا ہے کہ جس کی انتہا نہیں۔ کثرت سے گھروں کے گھر بیمار پڑے ہیں مگر افسوس ہے کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو دوسرے کی مصیبت کو دیکھ کر نصیحت پکڑتے ہیں۔ وقت تنگ ہو گیا ہے ورنہ اس کے متعلق بہت کچھ بیان کرتا۔ انشاء اﷲکسی اگلے جمعہ کے خُطبہ میں بیان کروں گا۔ ’’
(الفضل 2نومبر 1918ء)
1: بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد و تَقْبِیْلہٖ و معانقتہٖ
2: الفاتحۃ :2تا 4 3: بنی اسرائیل: 16
4: كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَيْرَهَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَزِيْزًا حَكِيْمًا۔(النساء:57)
5: تذکرہ صفحہ 347۔ ایڈیشن چہارم
6: مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال

22
اِنذاری اعلان
(فرمودہ 29نومبر1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ الحشر کی مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:-
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔1
اور فرمایا:-
''کچھ زیادہ عرصہ اس بات کو نہیں گزرا کہ مَیں نے اسی مقام پر کھڑے ہو کر آپ لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا تھا کہ خدا کا غضب بھڑک رہا ہے، اس کی قہری تلوار چل رہی ہے، اس کا عذاب دُنیا پر نازل ہو رہا ہے اور وہ اپنی قہری تجلیات سے ظاہر ہو رہا ہے۔ مَیں نے آپ لوگوں کو نصیحت کی تھی کہ پیشتر اس کے کہ توبہ کا دروازہ بند ہو توبہ کرو۔ عذاب میں گرفتار ہونے سے پیشتر خدا سے صلح کر لو کیونکہ صلح کا وقت وہی ہوتا ہے جب تک کہ انسان آلام میں گرفتار نہ ہؤا ہو۔ اس کے بعد کے ایّام نے دُنیا کو اِس بات کا یقین دلا دیا کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمام کی تمام دُنیا کو ایک حکم سے فنا کر دے۔ خدا کے غضب کی عمر ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گئی، گھروں کے گھر ویران ہو گئے، خاندانوں کے خاندان تباہ ہو گئے۔ وہ گھر جن کے بسنے والے اس فکر میں تھے کہ ہماری آئندہ رہائش کے لئے موجودہ مکان کافی نہیں اور جو اس تدبیر میں تھے کہ اپنی بڑھنے والی نسل کے لئے نئے مکان تعمیر کریں ان میں سے بہتوں کے گھروں کو تالے لگ گئے۔ نئے تو کیا بننے تھے پہلے ہی ویران ہو گئے اور کوئی بسنے والا نہیں رہا۔
یہ بات کسی ایک جگہ پر نہیں دو جگہ پر نہیں کیونکہ شاذ و نادر تو ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں بلکہ دُنیا کے ہر مُلک ،ہر شہر اور ہر محلہ میں اس کی نظیریں موجود ہیں۔ پس خدا نے تمہیں دکھادیا کہ مَیں کیسا قادر مطلق خدا ہوں۔ دنیا حیران تھی کہ خدا کس طرح مار سکتا ہے خدا نے نمونہ دکھا دیا۔ لوگ کہتے تھے کہ قیامت کیسے برپا ہو سکتی ہے خدا نے مشاہدہ کرا دیا کہ قیامت اِس طرح برپا ہو گی جس طرح اب قیامت کا نمونہ دکھایا گیا۔
جس طرح اس وقت آپ لوگوں میں کھڑے ہو کر مَیں نے آپ کو توجہ دلائی تھی کہ ہوشیار ہو جاؤ کیونکہ عذاب کے دن قریب ہیں اور دُنیا کو عذاب کے بواعث سے آگاہ کرو۔ اِسی طرح آج خود ایسے حالات میں سے گزرنے کے بعد کہ جو بعض دفعہ خطرناک صورت اختیار کئے ہوئے تھے پھر ایک دفعہ اسی طرح جس طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں نذیر عریان ہوں۔2 مَیں بھی خدا کے حضور میں بری الذمہ ہونے کے لئے نذیرعریان کی حیثیت میں آپ لوگوں کو اس بات کی اطلاع دیتا ہوں کہ خداسے صلح کرو، تقویٰ اختیار کرو، پرہیزگاری اختیار کرو، خشیت اﷲ پیدا کرو، اپنے دلوں کو صاف کرو کیونکہ خدا تعالیٰ دُنیا میں ایک زبردست تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُس کے بندے اُسی کے ہو رہیں اور شیطان کی حکومت کو توڑ دیا جائے تاکہ محض خدا کی ہی حکومت ہو اور اسی کی عبادت کی جائے۔
جس طرح بادشاہوں کی مرضی کے خلاف کرنے والے مٹا دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بلکہ اس سے کروڑوں کروڑ گنا بڑھ کر خدا کی مشیئت اور مرضی کے خلاف کرنے والے مٹائے جاتے ہیں۔ پس تم لوگ کوشش کرو کہ تم اس کی مرضی کے پورا کرنے والے ہو تاکہ تم اور تمہاری نسل کو باقی رکھا جائے۔ ورنہ اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کیا ہو گا۔ مَیں اپنے نفس کو، اپنے رشتہ داروں کو، اپنے پیاروں کو اور ان کو جو میری بیعت میں شامل ہیں اور اُنہیں بھی جو تاحال بیعت میں تو شامل نہیں مگر مجھ سے اخلاص رکھتے ہیں اور ان کو جن کے کانوں میں میری یہ بات پہنچے، تقریر کے ذریعہ یا تحریر کے ذریعہ کہتا ہوں کہ وہ سب اصلاح کریں، خدا سے صلح کر لیں ورنہ ایسے ایّام درپیش ہیں جو نہایت ہی خطرناک ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ قیامت کا نمونہ ہوں گے۔ انسانوں کی عقلیں ماری جائیں گی اور وہ پاگل ہو جائیں گے۔3 اس وقت انہیں کے لئے رستگاری ہے جن کے لئے فرمایا گیا ہے اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ١ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ4 پس تقویٰ اختیار کرو اور کل کی فکر کرو۔ توبہ کرو، توبہ کرو کیونکہ خدا گناہوں کے بخشنے والا مہربان ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں اور وہ خدا کے حضور میں جھک جائے تو بھی اُس کے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔5 پس اپنے گناہوں کی معافی کے لئے خدا کے حضور عرض کرو، اُس کی جناب میں پشیمان ہو اور اس سے معافی چاہو تاکہ تم پر خدا کا فضل ہو۔'' (الفضل 7دسمبر 1918ء)
1: الحشر:19
2: بخاری کتاب الرقاق باب الانتھاء من المعاصی
3: تذکرہ صفحہ 539 ایڈیشن چہارم
4: العصر: 4
5: ابو داؤد کتاب الوتر باب التسبیح بالحصی


23
کامل ایمان حاصل کرو
(فرمودہ 6دسمبر1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا:-
‘‘جو بات انسان سمجھتا اور یقین رکھتا ہے اس کے متعلق اس کا یقین اگر انتہاء تک پہنچ جائے تو ضرور اس کے اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہر آم کا درخت پھل دار نہیں ہوتا اور ہر ایک سنگترہ کے پیڑ کو پھل نہیں آتا۔ ہر انگور کی بیل کو خوشۂ انگور نہیں لگتا اور ہر بیری کے درخت پر بیر نہیں آتے لیکن اگر تمام پہلو درست ہوں، درخت کی ظاہری اور باطنی حالت میں کوئی نقص نہ ہو تو ضرور پھل آتے ہیں۔ پس ثمرات کا پیدا نہ ہونا اس امر کی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ درخت جس نام سے موسوم کیا جاتا ہے پھل کے نہ آنے کے باعث اس کے نام سے انکار ہو جائے گا۔ پھل نہ ہوں لیکن نام اس کا وہی رہے گا جو فی الواقع ہے۔ یعنی آم کا درخت، سنگترہ کا پیڑ، انگور کی بیل وغیرہ وغیرہ۔ ہاں پھل کا نہ ہونا اس بات کی ضرور دلیل ہو گا کہ اس کو کمال حاصل نہیں ہے۔ پس پھل کے نہ ہونے سے کمال کی نفی ہو گی اس کے اسم کی نفی نہیں ہو سکتی۔
یہی حال ایمان کا ہے۔ بہت لوگ مومن ہوتے ہیں مگر ان کا ایمان ثمر دار نہیں ہوتا لیکن ثمرات کے نہ ہونے سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مومن نہیں۔ مومن تو ہیں لیکن کامل مومن نہیں۔ جس غرض کے لئے ایمان دُنیا میں نازل کیا گیا ہے وہ غرض ان کے ایمان سے پوری نہیں ہوتی مثلاً ایک شخص ایک حد تک مومن ہو مگر ایمان کے ثمرات نہ رکھتا ہو تو اس کا ایمان کامل ایمان نہیں ہو گا۔ چنانچہ بہت لوگ ہیں جو اپنے عقائد پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں مثلاً بہت عیسائی ہیں جو سچّے دل سے عیسائیت پر ایمان رکھتے ہیں مگر ان اعمال کو جو کچھ بھی عیسائیت میں ہیں بجا نہیں لاتے۔ یا بہت ہندو ہیں جو سچّے دل سے اپنے دھرم پر یقین رکھنے کے باوجود ہندوانہ رسوم و اعمال کو بجا نہیں لاتے۔ یا مثلاً بہت سے مُسلمان ہیں جو سچّے دل سے اسلام پر ایمان رکھتے ہیں مگر باوجود اس یقین کے وہ شریعت پر عمل نہیں کرتے۔ اگر ان کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا جائے تب بھی مسلمان کہلانے سے انکار کرنا پسند نہیں کریں گے، لیکن عملی طور پر اسلام پر نہیں چلیں گے۔ یہی حالت دوسرے مذاہب کے لوگوں کی ہے مگر باوجود اس جاں نثاری کے ان کے اعمال اس مذہب کے مطابق نہیں ہوتے۔
پس جو لوگ کسی کے کامل ایمان کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں وہ اس کے ثمرات دیکھیں کہ آیا اس کی عبادات شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں، وہ اس کے احکام کا خیال رکھتا ہے یا نہیں اور کیا ایسی حالت ہے یا نہیں کہ بھُول کر بھی خدا کی نافرمانی کا خیال دل میں پیدا نہیں ہوتا۔ جس کی فطرتِ صحیحہ ہو گی وہ چاہے گا کہ اس کا ایمان کامل ہو کیونکہ کوئی شخص اچھی چیز کو چھوڑ کر بُری کو ہر گز نہیں اختیار کرے گا اور عُمدہ اور طیّب رزق کو چھوڑ کر سڑے اور گلے رزق کو نہیں کھائے گا۔ پس اِسی فطرت صحیحہ والا شخص یہی چاہے گا کہ اِس کا ایمان کامل ہو۔ یہ نہیں چاہے گا کہ اِس کا ایمان نامکمل اور اُدھورا ہو، لیکن کامل ایمان وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ ثمرات ہوتے ہیں۔
رسولِ کریم صلی ا ﷲ علیہ وسلم کا ایمان حقیقی ایمان تھا۔ سب مسلمان اَلْحَمْدُ لِلّٰهِکہتے ہیں اور اَلْحَمْدُ لِلّٰهِکے معنی یہ ہیں کہ سب سچّی تعریفیں اُس خدا کے لئے ہیں جو ہر قسم کے نقصوں سے پاک اور تمام خوبیوں کا جامع ہے۔ پس جس کے لئے سب تعریفیں ہوں گی وہی سب سے زیادہ حسین ہو گا اور جو سب سے زیادہ حسین ہو گا وہی زیادہ محبوب اور مطلوب ہو گا۔ اِس لئے جو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِکہتا ہے وہ ظاہر کرتاہے کہ خدا کے سوا کوئی حسین نہیں لیکن اگر وہ اورچیزوں کی بھی پرستش کرتا ہے تو وہ حقیقت میں اَلْحَمْدُ لِلّٰهِکے ثمرات سے بے خبر ہے۔ یوں تو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اپنے رنگ میں ہر ایک مذہب کا آدمی کہے گا مگر عمل اس کے مخالف ہو گا لیکن جن کو واقعی اس پر یقین ہو گا اُن کا عمل ان کے ایمان پر گواہی دے گا۔
ان لوگوں کے مقابلہ میں جو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِتو کہتے ہیں مگر ان کے اعمال پر گواہی نہیں دیتے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھو آپ نے بھی اَلْحَمْدُ لِلّٰهِکہا کہ خدا کے لئے سب خوبیاں ہیں۔ پھر آپ نے اِس قول کوزندگی کے ہر ایک شعبے میں نباہا۔ فرانس کا ایک مشہور مصنف لکھتاہے کہ ہم کچھ بھی (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے متعلق کہیں۔ ہم کہیں کہ وہ پاگل تھا، مجنون تھا، اُس نے دُنیا میں ظلم کئے ، اُس نے سوسائٹی میں تفرقہ ڈالا مگر ہم اِس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اُس کو خدا کے نام کا سخت جنون تھا۔ ہم اور کچھ بھی کہہ دیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس کو خدا سے تعلق نہیں تھا۔ وہ جو کچھ بھی کرتا اور وہ جس حالت میں بھی نظر آتا، خدا کا نام ضرور اُس کی زبان پر ہوتا۔ اگر وہ کھانا کھاتا تو خدا کا نام لیتا، اگر کپڑا پہنتا تو خدا کا نام لیتا، اگر پاخانہ جاتا تو خدا کا نام لیتا، پاخانہ سے فراغت پاتا تو خدا کا نام لیتا، شادی کرتا تو خدا کا نام لیتا، غم میں مبتلا ہوتا تو خدا کا نام اُس کی زبان پر ہوتا، کوئی پیدا ہوتا تو خدا کا نام لیتا، کوئی مرتا تو خدا کا نام لیتا، اگر اُٹھتا تو خدا کا نام لیتا، اگر بیٹھتا تو خدا کا نام لیتا، سونے لگتا تو خدا کا نام لیتا، جاگتا تو خدا کا نام لیتا، صبح ہوتی تو خدا کا نام لیتا، شام ہوتی تو خدا کا نام لیتا۔ بہرحال محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کو کچھ بھی کہو مگر اﷲ کے لفظ کا اُس کو ضرور جنون تھا۔
یہ نمونہ ہے آپ کے اعمال کا کہ دُشمن سے دُشمن بھی مجبور ہے اِس بات کا اقرار کرنے پر کہ آپ کے لب پر ہر وقت اور ہر حال میں اور آپ کی ہر ایک حرکت و سکون میں خدا ہی نظر آتا تھا۔
یہ ایمان ہے جو اسلام مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس مومن کو چاہئے کہ کامل ایمان پیدا کرے۔ بہت ہیں جو ایمان کی لاف مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کو ہی تمام خوبیوں والا یقین کرتے ہیں مگر اُن کے اعمال اس کے خلاف ہوتے ہیں۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ تمام دُنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خدا کے برابر حسین اور خدا کے برابر خیر و خوبی والی ہو۔ ہر ایک چیز میں تغیر اور زوال ہے۔ حتّٰی کہ طبقات الارض والے کہتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جبکہ سورج اور چاند بھی ٹوٹ جائیں گے۔ ایک نئی زمین اور نیا آسمان، نیا سورج اور نیاچاند پیداکیا جائے گا۔ پس ان تمام اشیاء میں تغیّر ہے مگر خدا کے لئے فنا نہیں۔ پس کوئی چیز نہیں جو خدا کے سوا کام آنے والی ہو۔ اس لئے اس سے تعلق پیدا کرو اور اسی سے محبت کرو، اُسی سے پیار کرو۔ دُنیا کے رشتے کسی کام نہیں آئیں گے۔ محض خدا کی محبت اور اُسی کا تعلق کام آنے والی چیز ہے۔ کیونکہ آخر میں اُسی سے واسطہ ہے اور وہی اس قابل ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ ہر حالت اور ہر ایک شعبہ زندگی و موت میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔ خدا کی ذات ہی ایسی ذات ہے کہ اس سے محبت کی جائے۔ پس اپنے اندر کامل ایمان پیدا کرو۔’’ (الفضل 14دسمبر 1918ء)


24
مومن کی پُکار
(فرمودہ 20دسمبر1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''انسانی ترقی کا منتہاء اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف اﷲ تعالیٰ سے تعلق ہے۔ اس کے سوا انسانی ترقی کا اور کوئی منتہاء نہیں اگر واقع میں انسان انسان ہو تو اس کے لئے اس کے سوا اور کوئی منتہاء نہیں۔ جس طرح بچہ ماں کے ڈر سے کہیں نہیں ٹھہرتا اور اگر کوئی غیر عورت اس کو گود میں لینا چاہے تو وہ اس کی گود میں جانا پسند نہیں کرتا۔ جس طرح انسان کے علاوہ حیوانوں کے بچے بھی اپنی ماں کا پیچھا کرتے ہیں اسی طرح جو انسان ہو اور حقیقی انسانیت اس میں پائی جاتی ہو، یا حیوان ہی کہلانے کے قابل ہو تو وہ اس وقت تک صبر نہیں کر سکتا جب تک کہ مہربان خدا کی گود میں نہ چلا جائے کیونکہ خدا ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے اس لئے وہ شخص جو اس کو پابھی لے وہ بھی اپنی تلاش اور جستجو کو ترک نہیں کرتا بلکہ اپنی مراد کو پہنچ کر بھی اس تلا ش کو جاری رکھتا ہے کیونکہ دنیا کی تمام چیزیں محدود ہیں اس لئے جب ان کو پالیا جاتا ہے تو ان کی تلاش اور جستجو ختم ہو جاتی ہے لیکن چونکہ خدا کامل ہے اور غیر محدود اس لئے خدا کا حصول کبھی کامل نہیں ہوتا۔
بچہ کی ماں محدود ہے اِس لئے وہ اس وقت تک روتا ہے جب تک کہ ماں سے نہ ملے لیکن جب ماں مل گئی تو پھر وہ اس کی تلاش ختم کردیتا ہے۔ مگر چونکہ خدا کی معرفت محدود نہیں کہ انسان کہہ دے کہ مَیں آخری حد کو پہنچ گیا ہوں اس لئے خواہ انسان کتنا ہی عرفان میں بڑھ گیا ہو تب بھی جس طرح بچہ ماں کے بغیر صبر نہیں کر سکتا اسی طرح انسان بھی ہاتھ بلند کر کے یہی کہے گا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔1 ماں سے بچھڑے ہوئے بچے کی یہی پُکار ہوتی ہے کہ میری ماں کہاں ہے؟ خواہ اس کو ہزار چیزیں دی جائیں تو بھی وہ یہی کہا کرتا ہے کہ مَیں امّاں کے پاس جاؤں گا۔ ایسی حالت میں اس بچہ کے سامنے ہزار باتیں کرو اس کو مختلف نظارے دکھاؤ، دروازے کھٹکھٹاؤ، ستارے دکھاؤ۔ اس سے ذرا سی دیر کے لئے تو خاموش ہو جائے گا مگر فوراً اپنی اصلی بات یاد کر کے وہی مطالبہ کرے گا مَیں نے اپنی ماں کے پاس جانا ہے۔
اسی طرح ہر مومن کی پُکار یہی ہوتی ہے۔ ہاں وہ مومن جو خدا کو سارے جہان سے زیادہ محبت کرنے والا اور شفیق خیال کرتا ہے اس کی ہر دم یہی آواز ہوتی ہے کہ مجھے اپنے خدا کو پانا ہے۔
ہاں اس بچہ کی پُکار اور اس مومن کی پُکار میں ایک فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بچہ تو غیروں سے کہتا ہے کہ مجھے ماں تک پہنچاؤ لیکن مومن کہتا ہے لَا مَلْجَأَوَلَا مَنْجٰی مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ۔2 مَیں نے تو تیرے پاس آنا ہے۔ مجھے تو تیرے سوا کوئی ٹھکانا میسّر نہیں آتا۔ وہ دوسرے کا ممنون احسان نہیں ہونا چاہتا بلکہ اس کو پکارنے کے لئے اور اس کو پانے کے لئے اسی کو پُکارتا ہے۔
پس جو شخص دیکھے کہ اس کے دل سے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَکی صدا پیدا نہیں ہوتی اس کا دل تاریکی میں ہے اور اس کی ایمانی حالت کمزور ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں مضبوط ایمان عطا فرمائے۔’’ (الفضل 24دسمبر1918ء)
1: الفاتحۃ :6
2: ترمذی کتاب الدعوات باب مَا جَآ ءَ فِی الدُّعَآ ءِ اِذَا اٰوٰی اِلٰی فِرَاشِہٖ

25
مختصر وعظ کو بھی توجہ سے سُننا چاہئے
(فرمودہ 27دسمبر1918ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''چونکہ باہر سے کچھ دوست آئے ہوئے ہیں اس لئے میرا ارادہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ چاہے تو کل چند منٹ ان کے لئے کچھ بیان کروں۔ اگرچہ خطبہ اِسی غرض سے ہوتا ہے کہ اِس میں ایسے اُمور بیان کئے جاتے ہیں جو جماعت کے لئے مفید ہوتے ہیں لیکن آج کسی قدر میرے حلق میں تکلیف ہے اِس لئے آج کی بجائے کل پر اُٹھا رکھتا ہوں۔
اِس وقت مختصر طور پر سورۃ فاتحہ کی آیت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ1 کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔ مَیں نے بار بار بیان کیا ہے کہ اِس زمانہ کے مصائب میں سے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ لوگ مختصر بات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ کہا تو جاتا ہے کہ قَلَّ وَ دَلَّ اچھا کلام وہی ہوتا ہے جو مختصر اور با دلائل ہو لیکن باوجود اِس کے اگر دو ایک فقروں میں کوئی بات کہی جائے تو لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ جس طرح لوگوں کو اور عادتیں ہوتی ہیں اِسی طرح بعض لوگوں کو لیکچر سُننے کی عادت ہوتی ہے۔ پھر جس طرح مثلاً افیونی کی عادت بڑھتی چلی جاتی ہے تو افیون کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اِسی طرح جن لوگوں کو تقریر سُننے کی عادت ہوتی ہے وہ بھی جُوں جُوں پُرانے خرانٹ ہوتے جاتے ہیں ان کی یہ عادت بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔ ان لیکچر سُننے والوں میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ لیکچرار نے اتنی دیر تک تقریر کی۔ مگر اس مجلس میں بہت کم ہوں گے جو یہ سوچیں گے کہ کیا کہا۔ یہ تو کہیں گے کہ چار گھنٹہ تقریر کی مگر اس سے غرض نہیں رکھیں گے کہ اس چار گھنٹہ کی تقریر میں بیان کیا کیا؟
تو بہت لوگوں کے نزدیک کسی مقرر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ جس کا خلاصہ وہ ان الفاظ میں بیان کیا کرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا صاحب کمال ہے کہ اس نے اتنی دیر تک تقریر کی لیکن وہ اس کی تقریر کی طرف توجہ نہیں کریں گے خواہ وہ اتنے عرصہ میں بکواس ہی کرتا رہا ہو یا اس نے اس عرصہ میں قرآن کریم کے معارف کے دریا بہا دیئے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک خطیب کا ذکر سُناتے تھے کہ وہ لیکچر کے لئے کھڑا ہؤا۔ اس کا مضمون رقّت والا تھا۔ ایک شخص آیا اور کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں تنگڑی (زمینداروں کا وہ سہ شاخہ آلہ جس سے وہ بھوسہ وغیرہ درست کیا کرتے ہیں) تھی جتنے حاضرین تھے ان پر تو اس تقریر کا کچھ اثر نہ ہؤا لیکن وہ زمیندار تھوڑی ہی دیر بعد رونے لگ گیا۔ واعظ کی جو شامت آئی اور اس کے دل میں ریا پیدا ہوئی تو اس نے خیال کیا کہ یہ میرے وعظ سے متاثر ہؤا ہے۔ اس نے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو انسانوں کے قلوب بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو گھنٹوں سے میرا وعظ سُن رہے ہیں لیکن ان پر مطلق اثر نہیں ہؤا مگر یہ ایک اﷲ کا بندہ ہے کہ اس پر فوراً اثر ہو گیا ہے اور یہ رو پڑاہے۔ پھر اس نے لوگوں کو بتانے کے لئے اس سے پوچھا میاں کس بات نے تم پر اثر کیا کہ تم رو پڑے۔ اس نے کہا کل اِسی طرح میری بھینس کا بچہ اَڑا اَڑا کے مر گیا تھا۔ جب مَیں نے آپ کی آواز سُنی تو وہ یاد آگیا اور مَیں رو پڑا۔ یہ سُن کر خطیب بہت شرمندہ ہؤا۔
پھر بہت لوگ ہوتے ہیں جو خطبوں وغیرہ میں اس نیت سے بیٹھتے اور سُنتے ہیں کہ دیکھیں خطیب نے اُردو کی کیا کیا غلطی کی؟ یا پنجابی میں بیان ہے تو پنجابی ٹھیٹھہ ہے یا نہیں؟ یا دیکھتے ہیں فلاں شخص کے کھڑے ہونے یا ہاتھ مارنے یا سر ہلانے کا کیا اندازہے اور بولتے ہوئے کیا کیا حرکات کرتا ہے اور جو وہ مضمون بیان کرتا ہے اس کی طرف ہر گز ہر گز ان کا دھیان نہیں ہوتا۔
یہ کیوں ہے؟ محض اس لئے کہ وہ عادت کے طور پر وعظ یا لیکچر سُنتے ہیں ان کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ مضمون کیا ہے بلکہ وہ اپنی عادت سے اسی طرح مجبور ہوتے ہیں جس طرح افیونی کو افیون کی اور جس طرح کہ افیونی کو اس سے مطلب نہیں ہوتا کہ مَیں افیون کیوں کھاتا ہوں۔ اسی طرح ان کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ہم تقریر کیوں سُنتے ہیں۔
پس جس طرح افیونی کی عادت افیون کھانا ہوتی ہے اِسی طرح ان کی عادت تقریر سُننا ہوتی ہے اور جس طرح وہ ایک مصیبت ہوتی ہے اِسی طرح یہ عادت بھی ایک مصیبت ہوتی ہے کیونکہ جس طرح افیونی کے حواس مختلّ ہو جاتے ہیں اِسی طرح ان لوگوں کے حواس بھی مختلّ ہو جاتے ہیں۔
دراصل کلام مختصر نہایت اعلیٰ درجہ کے بھی ہوتے ہیں چنانچہ رسول کریم ؐ نے فرمایا کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی الِلّسَانِ۔ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ۔ سُبْحَانَ اﷲِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اﷲِ الْعَظِیْمِ۔2 دو کلمے ہیں جو اﷲ کو پیارے ہیں اور بولنے لگو تو آسان ہیں لیکن اگر تولنے لگو تو بڑے بوجھل ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ سُبْحَانَ اﷲِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اﷲِ الْعَظِیْمِہیں۔ اب اگر ایک شخص تشہد کے بعد اَمَّا بَعْدُ کہہ کر اور یہ حدیث پڑھ کر بیٹھ جائے تو اس نے وقت ضائع نہیں کیا کیونکہ دانا کے نزدیک وہ بات پسندیدہ ہے جو زبان پر ہلکی اور میزان میں وزن دار ہو کیونکہ غرض تو مطلب اور مغز سے ہے نہ کہ لمبی اور زیادہ گفتگو سے۔ مثلاً اگر پندرہ روپیہ کی بجائے ایک اشرفی اُٹھانی پڑے تو انسان اس کو پسند کرے گا کیونکہ بوجھ سے بچ جائے گا اور کوئی دانایہ نہیں کہے گا کہ مَیں پندرہ روپیہ کو چھوڑ کر ایک کو نہیں لیتا۔ ہاں ایک بچّے کے آگے ایک اشرفی اور دس روپے رکھ دو تو بچہ اشرفی کی بجائے روپوؤں کی طرف جھپٹے گا لیکن عقلمند جانتا ہے کہ اشرفی اگرچہ اُٹھانے میں کم وزنی ہے مگر حقیقت میں اور قیمت میں دس روپیہ سے کہیں زیادہ ہے۔
اِس طریق کو پہلے زمانہ کے لوگ خوب سمجھتے تھے کہ مختصر طور پر عُمدہ بات کہہ دی جائے۔ رسولِ کریم کے خطبے اس کی مثال ہیں مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم لمبا خطبہ نہیں کہہ سکتے تھے۔ آپ نے باوجود عمر کے لحاظ سے پیری میں ہونے کے ایک دفعہ صبح سے شروع کر کے شام تک خطبہ پڑھا۔ نماز کے وقت نماز پڑھ لیتے اور پھر تقریر شروع فرما دیتے۔3 پس یہ نہیں کہ آپ لمبی تقریر نہیں کر سکتے تھے۔ ضرور کر سکتے تھے اور ضرورت کے وقت کرتے تھے لیکن مختصر سے مختصر وعظ بھی فرماتے تھے جس میں نہایت قیمتی اور وزنی باتیں بیان فرماتے تھے۔
دراصل اگر لمبی تقریر میں مغز نہیں تو وہ کچھ نہیں اور اگر مختصر تقریر میں مغز ہے تو وہ نہایت قیمتی ہے۔ آپ لوگ اگر مختصر وعظ سیکھنا چاہیں تو قرآن کریم کو پڑھیں۔ اس کے ایک ایک لفظ میں اگر تم غور کرو گے تو لمبے لمبے لیکچر شروع ہو جائیں گے۔ پھر سارے قرآنِ کریم کا خلاصہ سورۂ فاتحہ ہے جو کہ نماز میں معمولی طور پر تیس سے پچاس مرتبہ تک روزانہ پڑھی جاتی ہے مکر کم ہیں جو جان سکتے ہیں کہ اُنہوں نے اتنی دفعہ قرآن کریم کو ختم کیا ہے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ حضرت علی ؓ جب گھوڑے پر سوار ہونے لگتے تو ایک رکاب سے دوسری میں قدم رکھنے کے وقفہ میں قرآن کریم ختم کر دیتے تھے۔ بعض نے اس کو بالکل جھٹلایا اور بعض نے اِس کو معجزہ بتایا ہے مگر نہ یہ بالکل غلط ہے اور نہ معجزہ ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ حضرت علی ؓ قرآن کی یہ آیت پڑھا کرتے تھے۔ سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ4 اور جس نے قرآن کا کوئی حصہ پڑھا اور اس پر عمل کیا وہ اس سے بہتر ہے جس نے سارا پڑھا اور کچھ بھی عمل نہ کیا۔ پس جب حضرت علی ؓ قرآن کی اس آیت کو پڑھتے تھے تو گویا وہ قرآن کو ختم کر لیتے تھے۔ اس وقت میں نے جو سورۃ فاتحہ پڑھی ہے وہ ایک مختصر وعظ ہے جو مختصر بھی ہے اور آسانی سے پڑھا بھی جاتا ہے۔ دُنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں وہ مطالب ہوں جو قرآن کریم کے مسائل کے مقابل میں پیش ہو سکیں۔ پس جب سورۃ فاتحہ پڑھو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَکو مدِّنظر رکھو یہ آیت عملیات کی طرف توجہ دلاتی ہے اس کی پہلی آیات اعتقادات کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ دوسرا حصہ جو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَسے شروع ہوتا ہے عملیات کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ یہ سات آیتیں ہیں۔ ان سات پر عمل کرے تو مُمکن نہیں کہ گمراہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ مُجھ کو اور آپ کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین''
(الفضل 4جنوری1919ء)
1: الفاتحۃ :6
2: بخاری کتاب التَّوحِید باب قول اﷲ تعالیٰ وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ (الخ)
3: صحیح مُسلم کتاب الفتن باب اخبار النبی صلی اﷲعَلَیْہِ وَسَلَّمَ فیما یکون الٰی قیام الساعۃ
4: الزخرف: 14



26
خدا کی نعمتوں کی قدر کرو
(فرمودہ 10جنوری1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لئے اِس قدر حمد کے موقعے رکھے ہیں کہ اس کی انتہاء نہیں۔ انسان پر اﷲ تعالیٰ کے اِس قدر احسان ہیں کہ درحقیقت ہماری طاقت میں نہیں کہ ہم اُس کے احسانات کو گن سکیں اور نہ یہ ہماری طاقت میں ہے کہ ان احسانات کے شکریہ کے لئے کوئی لفظ وضع کر سکیں اور نہ ہماری لغت میں اِس کے لئے کوئی لفظ ہے۔ بیشک ہماری نعمتوں میں بے شمار الفاظ ملتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے شکریہ کے موقع پر استعمال ہوتے ہیں لیکن ہمارے بے شمار کا بھی ایک شمار ہوتا ہے اور ہمارے بے انتہاء کی بھی ایک انتہاء ہوتی ہے۔
ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رنجیت سنگھ نے اپنے دربار میں کہا کہ اسلام پر ہمارے مذہب کی برتری کی یہ دلیل ہے کہ بانیٔ اسلام نے صرف ایک چاند اور ایک سورج بتایا ہے، مگر ہمارے گروؤں نے بتایا ہے کہ بے شمار چاند اور بے انت سورج ہیں۔ دربار میں ایک مُسلمان وزیر بھی تھا اُس نے کہا اگر اجازت ہو تو مَیں اس کا جواب دوں۔ رنجیت سنگھ نے کہا کہ ہاں اس کی اجازت ہے۔ وزیر نے کہا کہ ایک دربار کو صاف کرنے والے بھنگی کو بلوائیے، بھنگی بلوایا گیا۔ وزیرنے اس سے سوال کیا کہ مہاراج کی کتنی فوج ہے؟ بھنگی نے جواب میں کہا۔ جی کوئی انت ہے۔ بھنگی کو واپس کر کے وزیر نے کہا کہ اب ایک فوج کے سپاہی کو بلوائیے۔ سپاہی حاضر ہوا۔ وزیر نے وہی سوال کیا۔ سپاہی نے جواب دیا کہ مہاراج کی فوج میں کروڑوں سپاہی ہیں۔ سپاہی کو بھی واپس کر دیا گیا۔ پھر جنرل صاحب سے یہی سوال دوہرایا۔ جنرل نے کہا حضور سوا لاکھ فوج ہے۔ وزیر نے رنجیت سنگھ سے سوال کیا حضور اب فرمائیں کہ ان تینوں میں سے کون علم والا ہے۔ اس گفتگو سے رنجیت سنگھ خاموش ہو گیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہر شخص کے نزدیک بے انت اور بے انتہاء کی تعریف اس کے علم کے مطابق ہوتی ہے۔ ایک غریب جس کے پاس دس پندرہ روپیہ ہوں وہ دو تین سو روپیہ والے کو بڑا دولتمند خیال کرے گا اور جس کے پاس دو تین سَو روپیہ ہو وہ ہزار دو ہزار والے کو بے انتہاء دولتمند خیال کرے گا اور ہزار دو ہزار والا لاکھ دو لاکھ والے اور لاکھ دو لاکھ والا کروڑ دو کروڑ والے کو متمول سمجھے گا۔
پس ہر ایک شخص دوسرے کے متعلق بے انت اور بے انتہاء کے الفاظ استعمال کرے گا مگر ہر ایک کی جُدا جُدا بے انت اور بے انتہاء ہو گی جو اس کے علم کے مطابق ہو گی۔
پس ہم یہ تو کہتے ہیں کہ خدا کی حمد کی کچھ انتہاء نہیں مگر ہمارا یہ کہنا اِس دربار کے صاف کرنے والے کے بے انتہاء کہنے کے برابر ہے کیونکہ ہم جس چیز کو اپنے قیاس میں بے انتہاء ٹھہراتے ہیں اُس کی ایک انتہاء ہوتی ہے۔ پس اِس لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں جن سے ہم خدا کے احسانوں کا شکریہ کر سکیں اور ان احسانوں کو شمار کر سکیں مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ان احسانوں کا شکریہ کرنا تو بجائے خود رہا اُلٹی اُن کی ناشکری کرتے ہیں۔ اِسی لئے اﷲ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کو حمد سے شروع کیا ہے اور ضلالت اور گمراہی پر ختم کیا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی ابتداء بِسْمِ اللّٰهِ 1سے سمجھو یا اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ 2سے بہرحال دونوں جگہ برکت اور حمد سے شروع ہوتی ہے۔ اور ختم ہوتی ہے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ 3پر۔ اِس میں یہ بتایا کہ بہت لوگ احسانوں کی حمد نہ کر کے مغضوب اور ضال ہو جاتے ہیں۔ جب ان کو نعمت دی جاتی ہے تو اُس وقت اس کی قدر نہیں کرتے بلکہ اس کی قدر کرنے کا خیال اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ نعمت چلی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ماتحت خلافت کا سلسلہ جاری ہؤا۔ جب تک مسلمانوں نے اِس کی قدر کی وہ ہر طرح کی برکات سے مالامال کئے گئے اگرچہ اس وقت عرب کو غیر سلطنتیں نہایت ہی ذلیل خیال کرتی تھیں۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے ایران پر حملہ کیا تو شاہِ ایران نے کہا کہ فی سپاہی ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو پانچ پانچ اشرفی دے دی جائے گی اگر تم اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ۔ اِس سے ظاہر ہے کہ ایرانیوں کی نظر میں عربوں کی کیسی ذلیل حالت تھی۔ یہ ایسی ادنیٰ بات ہے کہ سرحدی لوگ جب فتنہ کرنے پر آتے ہیں تو گورنمنٹ انگریزی کو اگر صلح سے ان کو دبانا منظور ہوتا ہے تو وہ بھی اِس سے زیادہ ہی تجویز کرتی ہے لیکن اگر صلح کی بجائے جنگ کے ذریعہ ان کی گو شمالی مدّنظر ہوتی ہے تو جنگ کرتی ہے اور اس پر بہت خرچ کرنا پڑتا ہے مگر ایرانیوں کی نظر میں عربوں کی اتنی بھی وقعت نہ تھی جتنی کہ سرحدی فتنہ انگیزوں کی انگریزوں کی نظر میں ہوتی ہے مگر یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ وہ جنہیں ذلیل خیال کرتے تھے انہوں نے بادشاہوں کے تختوں کو اُلٹ دیا۔
یہ حالت مسلمانوں کی کب تک رہی۔ اُس قت تک جب تک اُنہوں نے خدا کے اِس انعام کی قدر کی جو خلافت کے رنگ میں ان پر کیا گیا تھا مگر جب وہ مال و دولت کے گھمنڈ میں آگئے اور اِس نعمت کو حقیر خیال کرنے لگے تو حضرت عثمان ؓ کو قتل کیا۔ حضرت عثمان ؓ نے تو ان فتنہ انگیزوں کے مقابلہ میں ہاتھ نہ اُٹھایا مگر اتنا ضرور فرمایا کہ دیکھو تم مُجھ کو قتل تو کرتے ہو لیکن یاد رکھو کہ میرے قتل کے بعد مسلمانوں میں ایسا نفاق پیدا ہو گا کہ قیامت تک مسلمان جمع نہیں ہو سکیں گے۔ حضرت عثمان ؓ شہید ہو گئے مگر مسلمانوں میں وہ نا اتفاقی پھیلی کہ جس کا سلسلہ غیر منقطع ہو گیا۔ حتّٰی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے اور پھر ایک جماعت قائم ہوئی۔ مسلمانوں میں ہر روز نئے نئے فرقے پیدا ہونے لگے جس سے مسلمانوں کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور آج وہ اپنی آنکھوں میں آپ ہی ذلیل ہو گئے ہیں اور ان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی مسلمان کو نوکر کی ضرورت پڑے تو بجائے مُسلمان نوکر رکھنے کے ہندو کو پسند کرتا ہے۔ غیر کی نظر میں انسان ذلیل ہو تو خیر مگر اپنوں کی نظر میں ذلیل ہونا حد درجہ کی ذلت ہے۔
ان لوگوں کو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا سا رسول ملا اور قرآن جیسی کتاب ملی مگر اُنہوں نے بے قدری کی۔ رسول کریم پر مسیح کو فوقیت دی اور کہا کہ وہ فوت ہو گئے اور قبر میں ہیں مگر مسیح زندہ خدا کے پاس بیٹھے ہیں۔ پھر کہا مسیح نہ صرف یہ کہ خود مُردہ نہیں بلکہ مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ نبی کریم کے فیضان کو اُنہوں نے بند کر دیا اور آپ کی بادشاہت کو تسلیم نہ کیا لیکن مسیح کے لئے جائز رکھا کہ وہ آئے گا اور اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کرے گا۔ پس مسلمانوں نے حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بادشاہت کو پسند نہ کیا اور مسیح کی حکومت کو پسند کیا۔ اِس لئے ان پر عیسائی بادشاہ مسلط کئے گئے اور مسلمانوں کی سلطنتیں ایک ایک کرکے مٹا دی گئیں۔ یہ سزا ہے ان کو جو انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک روا رکھی۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ مُنہ سے بات تو نکل جاتی ہے مگر جب اس کے نتائج نکلتے ہیں تو پتہ لگتا ہے۔ تم لوگ خدا کی نعمتوں اور احسانوں کی قدر اور ان کا شکریہ کرو اور یاد رکھو کہ جنہوں نے خدا کی نعمتوں کا شکر نہ کیا وہ ہلاک کئے گئے۔ آج تم کو جو نعمت دی گئی ہے یا آئندہ ملے اس کا شکر کرنا تمہارا فرض ہے کیونکہ وہ خدا آج بھی موجود ہے۔ خدا کے انعام کو چھوٹا اور ذلیل نہ سمجھو کیونکہ خدا کی نعمتوں کو ذلیل سمجھنے سے انسان چوڑھوں سے بھی بدترہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ مجھے بھی اور تمہیں بھی اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے۔’’
(الفضل 18جنوری1919ء)
1: الفاتحۃ :1 2: الفاتحۃ :2 3: الفاتحۃ :7


27
خدا تعالیٰ سے دُعا کرنے کی توفیق مانگو
(فرمودہ 17جنوری1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘انسان کے لئے ایک کھلا اور صاف رستہ اﷲ تعالیٰ نے تجویز فرمایا ہے اور وہ رستہ ایسا ہے کہ جس پر چل کر انسان بِلا روک ٹوک، بِلا خدشہ، بِلا کسی قسم کی تکلیف اور دُکھ کے، بِلانااُمیدی کے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جس تک پہنچنا انسان کی پیدائش کا مقصد ہے لیکن اگر اسے کوئی دقّت پیش آتی ہے، اگر کسی مُشکل سے سامنا ہوتا ہے تو وہ اس کے نفس سے پیدا ہوتی ہے۔ اسے ناکامی اس لئے نہیں ہوتی کہ خدا نے اسے رستہ غلط بتایا ہے بلکہ اِس لئے کہ وہ خود غلط رستہ پر چلتا ہے۔ وہ نامراد اِس لئے نہیں رہتا کہ اس کے لئے عُمدہ تدبیر نہیں۔ تدبیر تو ہے مگر وہ غلط تدبیر اختیار کرتا ہے۔ اِسی طرح وہ دکھ میں اس لئے نہیں پڑتا کہ اس کا کوئی علاج نہیں۔ علاج ہے لیکن وہ غلط علاج شروع کر دیتاہے۔
اگر صحیح طریق اختیار کیا جائے تو کبھی نا اُمیدی نہیں ہو سکتی۔ پس کامیاب ہونے کے لئے صحیح راستہ کی تلاش کی جائے اور وہ صحیح راستہ سوائے اِس کے کہ خدا کے حضور ہی انسان گر جائے نہیں مل سکتا۔ کہتے ہیں دُعا مفید چیز ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ واقعی دُعا نہایت ہی عُمدہ اور مُفید چیز ہے مگر بعض دفعہ دُعا کی توفیق ہی نہیں ملتی۔ انسان بار ہا سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی سہارا نہیں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اِن مُشکلات سے گزر جائے مگر اس کو کوئی رستہ نظر نہیں آتا۔ وہ جانتا ہے کہ دُعا ایک کارگر چیز ہے مگر سُستی اسے ادھر متوجہ نہیں ہونے دیتی۔ پس دُعا کے لئے بھی دُعا کی ضرورت ہے۔ جب انسان خدا کے حضور گِر پڑے تو اس کو دعا کی توفیق مل جاتی ہے ۔ کوئی کہے کہ جب دعا کے لئے بھی دعا کی ضرورت ہے تو جب وہ دعا کے لئے دعا کر سکتا ہے تو اس مقصد کے لئے کیوں دعا نہیں کر سکتا جو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ ہر کام کے لئے ذرائع ہوتے ہیں۔ دعا کے لئے جوش کی ضرورت ہوتی ہے اور جوش پیدا کے لئے زبان ہلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب انسان اپنی زبان کو حرکت میں لاتا ہے تو اس کے دل میں ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کے سینہ کو کھول دیتا ہے اور یہی بات ہے جس کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ1میں ادا کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ پس جب انسان اپنی عبودیت کا اظہار کرتا ہے تو خدا کی مددونصرت اس کے شامل حال ہو جاتی ہے اور اسے درد اور اضطراب کے ساتھ دُعا کرنے کی توفیق مل جاتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے اور دُعا کرنے کی سچّی توفیق بخشے تاکہ ہم اس کے انعامات کے وارث ہو سکیں اور ہر قسم کی مُشکلات اور تکالیف سے بچ جائیں۔’’
(الفضل 25جنوری 1919ء)
1: الفاتحۃ :5

28
جماعت کے یتامٰی کی خبر لو
(فرمودہ 31جنوری1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ کی مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:-
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِيّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ١ۙ وَ السَّآىِٕلِيْنَ۠ وَ فِي الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِيْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔1
اور پھر فرمایا:-
‘‘نیکی اور تقویٰ کے متعلق لوگوں میں عام طور پر اختلاف ہے۔ مختلف جماعتیں، مختلف قومیں، مختلف مدارج کے لوگ اور مختلف زمانوں کے لوگوں کے نزدیک نیکی کی تعریف مختلف رہی ہے۔
غرباء نیکی کی تعریف کچھ اَور کرتے ہیں اور امراء کچھ اَور۔ پھر ممالک کے لحاظ سے بھی نیکی کی تعریف میں اختلاف ہے۔ ہندوستانی نیکی کی اَور تعریف کرتے ہیں اور عرب والے نیکی کی کچھ اَور ہی تعریف بتاتے ہیں، مصری اور چینی کچھ اَور ۔ ایرانی نیکی کسی اَور چیز کو قرار دیتے ہیں۔
ہندوستان میں حاجی بڑے نیک شمار ہوتے ہیں۔ یہاں پر ایک شخص صوم صلوٰۃ اور دیگر احکامِ شرعی کا خواہ کتنا ہی پابند کیوں نہ ہو لوگ اس کے مقابلہ میں عام طور پر ایک حاجی کو ہی ترجیح دیں گے۔ خواہ اس نے سفرِ حج میں اپنے تمام اوقات فضول اور لغو طور پر ہی ضائع کئے ہوں اور حج کرنے کے بعد بھی اپنے اعمال میں کوئی تغیّر نہ کیا ہو اور صوم و صلوٰۃ کا بھی چنداں پابند نہ ہو۔ تاہم اس کی اس نیکی کا اظہار لفظ ''حاجی'' اس کے نام کے ساتھ لگا کر کریں گے۔
حالانکہ ہندوستان کے حاجیوں میں عام طور پر ایسے ہوتے ہیں جن کی غرض حج سے محض شُہرت طلبی ہوتی ہے۔ ورنہ ان کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی کوئی خشیت اور خوف نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے کہ ایک ریل کے سٹیشن پر ایک نابینا بڑھیا بیٹھی تھی۔ ایک شخص نے اس کی چادر اُتار لی۔ اس بڑھیا نے کہا بھائی حاجی مجھ غریب کی چادر کیوں لیتا ہے؟ میرے پاس تو کوئی اور کپڑا نہیں ہے۔ مَیں سردی میں مَر جاؤں گی۔ وہ چادر تو اُس شخص نے رکھ دی مگر پوچھا کہ تو نے کس طرح جانا کہ مَیں حاجی ہوں؟ بڑھیا نے جواب دیا کہ ایسے کام حاجی ہی کیا کرتے ہیں۔
وہ عورت اس سے واقف تھی اور نہ اس کی آنکھیں سلامت تھیں مگر اس نے جو کچھ کہا وہ اُس کی فطرت کی آواز تھی لیکن باوجود اس قسم کی حالت کے پھر بھی عام طور پر حاجیوں کو بڑا نیک اور حج کو بڑی نیکی ہندوستان میں خیال کیا جاتا ہے لیکن عرب میں جاؤ تو وہ لوگ نیکی حج کو قرار نہیں دیں گے وہاں کسی اور ہی چیز کا نام نیکی ہو گا۔ ان میں نیکی قومیت کے لحاظ سے سخاوت کو سمجھا جائے گا۔ وہ لوگ اگر کسی کی تعریف نیکی میں کریں گے تو کہیں گے کہ یہ شخص بڑا نیک ہے کیونکہ بڑا سخی ہے۔
اسی طرح اب یورپ میں اسلام پھیلے تو وہاں کے لوگ روزے کو بڑی نیکی سمجھیں گے کیونکہ وہ لوگ کثرت سے کھانے پینے والے ہیں۔ پس جب ان کو کھانے پینے سے باز رہنا پڑے گا تو وہ حج ،زکوٰۃ، نماز وغیرہ دیگر احکام شرعی کی بجا آوری کو نیکی قرار دینے کی بجائے روزہ رکھنے کو سب سے بڑی نیکی قرار دیں گے۔
پھر ہندوستان میں یہ بھی بڑی نیکی خیال کی جاتی ہے کہ کوئی شخص نماز کا پابند ہو ایسے شخص کو کہیں گے کہ یہ بڑا ہی نیک ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ نماز کا پابند ہے۔
صحابہ کے وقت میں اگر کسی شخص کی تعریف نماز کی پابندی کے باعث کی جاتی تو وہ لڑپڑتے۔ کیونکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہا جائے کہ فلاں شخص بڑا بہادر ہے۔ کیونکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا ہے۔ یا یہ کہ وہ شخص بڑا ہی تیز نظر ہے کہ اس کی ماں اس کے پاس بیٹھی تھی اس نے اس کو پہچان لیا۔ یا یہ کہ اس شخص کا معدہ بڑا ہی مضبوط ہے کہ اس نے ایک چنا ہضم کر لیا۔ پس جیسا کہ بہادری، تیز نظری اور مضبوطیٔ معدہ کے یہ معیار نہایت مضحکہ انگیز ہیں ایسے ہی صحابہ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندیٔ نماز مضحکہ انگیز تھا۔ کیونکہ وہ لوگ نیکی کے اُس مقام پر کھڑے تھے جہاں پابندیٔ نماز کو ایک بڑی نیکی قرار دینا ایک مضحکہ انگیز بات ہے۔ وہ لوگ دین کے لئے بڑی قربانیوں اور سخت آزمائشوں کو نیکی سمجھتے تھے جس میں یہ باتیں زیادہ پاتے تھے اُسی کو نیک کہتے تھے۔
پس نیک اور نیکی کی تعریف ہر زمانہ،ہر مُلک اور ہر قوم میں جُدا جُدا اور مختلف رہی ہے۔ مَیں نے جو یہ آیت پڑھی ہے اِس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مشرق و مغرب کی طرف مُنہ پھیرنا نیکی نہیں۔ اگر کوئی شخص قبلہ کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور اس کی نماز میں وہ مغز اور مُخ نہیں ہے تو اس نے قبلہ کی طرف مُنہ کیا یا دوسری طرف کیا اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ نیکی مُنہ کے کسی طرف کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ نیکی نام ہے اُس کیفیت کا جو دل کے اندر پیدا ہوتی ہے اور یہ جو حرکات کی جاتی ہیں یہ ان کا ظاہری ثبوت ہوتی ہیں۔ پس اگر ان ظاہری حرکات میں وہ چیز نہیں جس کا تعلق دل سے ہے تو یہ ظاہری حرکات کچھ نہیں۔ محض قبلہ کی طرف مُنہ کرنا یا نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا یا حج کرنا یہ تمام باتیں دلی کیفیت کے نہ ہونے کے باعث ہیچ ہو جاتی ہیں۔
اگر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ افعال سے خدا کی رضا مدِّنظر نہ ہو تو یہ چیزیں ہیچ ہیں کیونکہ یہ تو آتے ہیں مگر بغیر اس قلبی کیفیت کے کُند اور ناکارہ ہیں اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص کے پاس تلوار تو ہے مگر کُند، اور ہتھیار ہیں مگر زنگ خوردہ۔ پس جس طرح ہتھیاروں کی قیمت ان کی تیزی اور صفائی سے ہے اسی طرح ان اعمال کی قدر خدا کی نظر میں اُسی وقت ہوتی ہے جبکہ اُن کے ذریعہ خدا کی رضا جوئی مقصد ہو۔
مَیں نے جو آیت پڑھی ہے اس میں نیکی کی علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مشرق و مغرب کی طرف مُنہ کرنا نیکی نہیں۔ بلکہ ان افعال کے ساتھ عزیمتِ قلب ہونی چاہئے۔ درحقیقت مُنہ پھیرنے میں کچھ بھی نہیں اگر اس کے ساتھ دُعاشامل نہیں جس کی وجہ سے نماز کو صلوٰۃ کہا جاتا ہے۔ یہ ارشاد الٰہی ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم یتیموں ، اسیروں اور غریبوں کی مدد کریں اور خدا کی مخلوق سے ہمدردی کریں اس میں ہمیں انہی باتوں کا سبق دیا گیا ہے کہ جو تکلیف میں ہو اس کی تکلیف دُور کریں، جو مصیبت میں ہو اس کی مصیبت ہٹانے کی کوشش کریں کیونکہ اگر صوم و صلوٰۃ کے ساتھ خدا کی اطاعت نہیں، اُس کی مخلوق سے ہمدردی نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔
مَیں ان علامتوں میں سے ایک علامت کے متعلق اس وقت اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ جماعت کے یتامٰی کی پرورش و تعلیم و تربیت کا سوال ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ یہ نہایت اہم سوال ہے اور کسی جماعت کی ترقی اس کے افراد کی ترقی پر منحصر ہوتی ہے۔ جب کسی جماعت کے اکثر افراد دُنیا میں کامیاب ہوں تبھی وہ جماعت کامیاب شمار کی جاسکتی ہے۔ چوڑھے اگر مل کر بیٹھ جائیں تو وہ معزز نہیں کہلا سکتے۔ کسی جماعت کی عزّت و عظمت اُس کے افراد کی عزّت وعظمت پر منحصر ہوتی ہے کیونکہ افراد کا مجموعہ ہی جماعت ہؤا کرتی ہے۔ پس ترقی پانے والی جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے افراد کی ترقی کی فکر کرے۔ جو لوگ اس کا خیال نہیں کرتے ان کی جماعتیں آہستہ آہستہ ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کا زورگھٹ جاتا ہے۔
اسلام نے اِس بات کو مدّنظر رکھا ہے کہ جو لوگ صاحبِ استعداد اور صاحبِ وسعت ہوں اور ان کے پاس دولت ہو اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنے کمزوروں کی مدد کریں اور جو مستحق ہیں ان کو امداد دیں۔ ان کمزوروں میں بھی آگے دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک تو بڑے جوان ہوتے ہیں وہ تو کسی نہ کسی طرح اپنی پرورش کر سکتے ہیں۔ دوسرے کمزور اور چھوٹے بچے ہوتے ہیں جن میں نہ عقل ہوتی ہے نہ تجربہ اِس لئے وہ اپنی پرورش کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔
پس ہمارے لئے یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہمارے یہاں قادیان میں ایک بڑی جماعت یتامٰی کی موجود رہتی ہے۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ ان کے والدین اپنے وطنوں اور عزیزوں کو چھوڑ کر یہاں آگئے اور موت نے ان کو اپنے بچوں سے جُدا کر دیا۔ اگر وہ بچے اپنے وطن میں ہوتے تو ان کے عزیز ان کی پرورش کسی نہ کسی طرح کرتے لیکن وہ تو اپنے تمام عزیزوں کو چھوڑ کر یہاں آگئے تھے اور یہاں ہی اُنہوں نے اپنے عزیز بنائے تھے اور یہاں ہی اُن کی رشتہ داریاں ہوتی تھیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ بیرونی جماعتوں سے آتے ہیں اور والدین کے فوت ہو جانے پر کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ جاتے ہیں۔
اب یتیموں کے متعلق ایک تو مقامی جماعت کا فرض ہے۔ دوسرے تمام جماعت کا بھی فرض ہے۔ بہ لحاظ مقامی ہونے کے قادیان کی جماعت کا فرض ہے اور بہ لحاظ تمام جماعت کا مرکز ہونے کے بیرونی جماعتوں کا بھی فرض ہے۔ اِس وقت تک یتیموں کے متعلق کوئی احسن تجویز نہیں ہو سکی نہ اِن پر کوئی توجہ کی جاسکی ہے لیکن اَب مَیں نے حکم دیا ہے کہ تمام یتیموں کی فہرست بنائی جائے خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر سے آئے ہوئے ہوں۔ جب وہ فہرست تیار ہو جائے گی تو اُن کے اخراجات کو جماعت پر پھیلایا جائے گا اور بہت حد تک اُن کی پرورش کا فرض قادیان کی مرکزی جماعت پر ہو گا۔ یتامیٰ کے لئے بعض تجاویز کی گئی ہیں مگر وہ ابھی مکمل نہیں ہوئیں مثلاً یہ کہ بعض لوگوں کے گھروں میں بچوں کو رکھا جائے لیکن اِس میں یہ نقص ہے کہ بعض لوگ بچوں سے کام زیادہ لیتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا کچھ خیال نہیں رکھتے اور یہ بھی تجویز کی گئی ہے کہ ایک یتیم خانہ بنایا جائے لیکن ظاہر ہے کہ یتیم خانہ کے لئے بڑے اخراجات کی ضرورت ہے اور وہ ہماری جماعت زیادہ برداشت نہیں کر سکتی۔ اِس لئے ایسی تجویز کی ضرورت ہے کہ خرچ بھی زیادہ نہ ہو اور بچوں کی نگہداشت بھی کافی ہو سکے جس سے وہ آوارہ نہ ہوں۔ میرے نزدیک وہ بچے جو ابھی چھوٹے ہیں ان کو بعض لوگوں کے سپرد کیا جاسکتا ہے کہ وہ مہینہ یا پندرہویں دن ان کی تعلیمی و اخلاقی حالت کی رپورٹ کیا کریں اور علاوہ ان کی رپورٹ کے اور ذرائع سے بھی ان بچوں کی حالت کا علم حاصل کیا جایا کرے۔ مگر اس میں ایک اور بات بھی ہے کہ سارے گھرانے ایسے نہیں جو ایک ایک بچہ کو سنبھال سکیں۔ میرے نزدیک ایک لوکل ذریعہ یتیموں کی پرورش کا ہے اور اس کو زیادہ وسیع اور مضبوط کیا جاسکتا ہے اور وہ آٹا فنڈ ہے۔
اِس طرح پر کہ یتامیٰ کے لئے گھروں میں آٹا بھجوا دیا جایا کرے۔ پہلے بعض کو خرچ دیا جاتا ہے لیکن وہ خرچ پورا نہیں ہوتا۔ پس اِس طرح ان میں آٹا جمع ہو کر تقسیم ہو جائے۔ مَیں جانتا ہوں کہ بعض کاموں میں بہت دیر ہو جاتی ہے لیکن اِس کام کے لئے دیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یتیموں کی ہر طرف سے چیخ و پُکار آرہی ہے۔ مَیں لوکل انجمن کو آگاہ کرتا ہوں کہ وہ دو دن کے اندر اندر اپنا جلسہ کر کے بتائے کہ وہ کیا کر سکتی ہے۔ باقی جس قدر کمی ہو گی وہ جماعت کے اِن فنڈوں سے پوری کر لی جائے گی جو ہمارے پاس آتے ہیں۔ دوستوں کو چاہئے کہ جس قدر بھی ان سے ہو سکتا ہے یتیموں کی مدد کے لئے کوشش کریں اور جلد سے جلد بتائیں کہ ان سے یہ بوجھ کس قدر اُٹھ سکتا ہے۔’’ (الفضل 8فروری 1919ء)
1: البقرۃ :178


29
حقیقی معرفت حاصل کرو
(فرمودہ 7فروری1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘کلمۂ توحید جو ہر ایک خطبہ اور لیکچر اور وعظ کے ابتدا میں پڑھا جاتا ہے اور جس کی نسبت سب مسلمانوں کا یقین و ایمان ہے کہ وہ اسلام کا مرکزی نقطہ ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کا خلاصہ ہے۔ اِس میں مسلمانوں کو جن اُمور کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ان کی طرف دھیان نہ رکھنے اور ذہن سے اُتار دینے کی وجہ سے انسان علمِ دین سے دُور جا پڑتا اور اسلام سے ناواقف ہو جاتا ہے اور اس کے عقائد میں کمزوری اور اعمال میں ابتری پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ یہی کلمہ اور جملہ اُن ضروری اُمور کو شامل رکھتا ہے جوعقائد اور اعمال کی درستی کے لئے ضروری ہیں۔ انسان اسی کے نہ سمجھنے سے صراط مستقیم سے اِدھر اُدھر ہو جاتا اور اِسی کو بھولنے سے جادۂ اعتدال کو ترک کر دیتا ہے اور اِسی سے عدمِ واقفیت کی وجہ سے ظُلمت و گمراہی میں جاپڑتا ہے۔
یہی وہ کلمہ ہے جس کی معرفت سے انبیاء ،انبیاء۔ صدیق ،صدیق اور شہید،شہید کہلائے اور ولیوں نے ولایت کا مرتبہ پایا اور دوسری طرف اسی کے نہ جاننے سے ایک ہستی نے اپنا نام ابلیس رکھایا لیکن باوجود اس کے بہت ہیں جو اس کلمہ کو پڑھتے ہیں مگر اُن کے دلوں میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ایسے کامل الایمان نہیں ہوتے جس سے وہ ہر مُشکل اور ہر دُکھ اور ہر ابتلاء میں قائم رہیں بلکہ بہت ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ڈگمگا جاتے ہیں اور ان کا پائے ثبات اُکھڑ جاتا ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ ان میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو دین کے لئے دنیاوی فوائد کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات ایک ادنیٰ سی بات کی خاطر اپنے ایمان کو قائم نہیں رکھ سکتے اور چھوٹی سے چھوٹی بات ان کے ایمان کو ضائع کر دیتی ہے۔
یہ صرف اِسی کلمہ کی عدمِ معرفت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پڑھنے کو تو بہت پڑھتے ہیں لیکن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲکے اصل مطلب سے بہت کم واقف ہوتے ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو دینی جوش کی وجہ سے اپنے مالوں کو، رُتبوں کو، وطنوں کو اور خویش و اقارب کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن ایک ذلیل سی بات پر ٹھوکر کھا جاتے ہیں ان کی قربانیاں جوش کے باعث ہوتی ہیں لیکن چونکہ ان میں کامل معرفت نہیں ہوتی اِس لئے قائم نہیں رہ سکتے۔ مذہبی جوش سے ہر مذہب کے لوگ قربانیاں کرتے ہیں جیسے کہ عیسائی بھی بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں حالانکہ عیسائیت سچّا مذہب نہیں مگر باوجود اِس کے ان کی عورتوں تک میں اس قدر قربانی کا جوش ہوتا ہے کہ بعض علاقوں میں عیسائی عورتیں ٹکڑے ٹکڑے کی گئیں مگر ان کی جگہ پر فوراً دوسری پہنچ گئیں۔ مگر عیسائیوں میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی عمر کا بڑا حصہ مشن کی خدمت میں بڑے جوش سے صرف کرتے ہیں لیکن اخیر عمر میں عیسائیت کی تردید میں سوچ سوچ کر اعتراض شائع کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ ان میں نئے نئے چرچ قائم ہوتے رہتے ہیں اور ان نئے چرچوں کے بانی عموماً ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی عمر کا بڑا حصّہ عیسائیت کی خدمت میں گزرا ہوتا ہے۔ پس ان کی قربانی تو ہوتی ہے لیکن چونکہ وہ عرفان کے ماتحت نہیں ہوتی اس لئے وہ قربانی قربانی نہیں کہلا سکتی لیکن جو شخص عرفان کے ماتحت قربانی کرتا ہے اگر زمین و آسمان بھی ٹل جائیں تو بھی اِس کے عقیدہ میں تزلزل پیدا نہیں ہو سکتا۔
اِس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ ایک بچہ ہوتا ہے وہ ایک عورت کو پیچھے سے دیکھتا ہے اور اُس کے قدوقامت و لباس وغیرہ سے یقین کر لیتا ہے کہ یہی میری ماں ہے۔ وہ خوشی سے دوڑتا ہؤا اُس سے لپٹ جاتا ہے لیکن جونہی کہ وہ عورت اُس کی طرف دیکھتی ہے وہ شرمندہ ہو کر اُس سے الگ ہو جاتا ہے۔ وہ سچّے اخلاص اور سچّی محبت سے اُس کی طرف دَوڑتا ہے لیکن جب اُس کو صحیح معرفت ہوئی تو اُس سے الگ ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح جو شخص عدمِ معرفت کی حالت میں قربانیاں کرتا ہے اِس میں جوش بھی ہوتا ہے، اخلاص بھی ہوتا ہے مگر جب وہ اس کو اپنے خیال کے مطابق نہیں پاتا تو اُس سے علیحدہ ہو جاتا ہے اور سخت ابتلاء میں پڑ جاتا ہے۔ پھر ایک ایسا بچہ ہوتا ہے جو اپنی ماں کو دیکھتا ہے، پہچانتا ہے اور پھر اُس کو لپٹ جاتا ہے۔ اِس صورت میں ماں خواہ اُس کو علیحدہ کر دے جیسا کہ گرمی کے موسم میں ہوتا ہے کہ ماں پسینہ سے شرابور ہوتی ہے اور بچہ اُس کو لپٹتا ہے اور وہ اُس کو علیحدہ کر دیتی ہے مگر باوجود جھڑکنے اور غصّہ ہونے اور بعض حالتوں میں تھپڑ بھی کھانے کے وہ اپنی ماں کو نہیں چھوڑتا بلکہ جوں جوں ماں اُسے مارتی ہے، جھڑکتی ہے وہ اور زیادہ اُس کی گود میں گھستا جاتا ہے۔ بعینہٖ وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ کی حقیقی معرفت حاصل ہو جاتی ہے وہ ہر گز مصائب اور دُکھوں اور ابتلاؤں سے نہیں گھبراتا اور اُس کا قدم ذرا نہیں ڈگمگاتا بلکہ وہ اور زیادہ اطاعت اور فرمانبرداری میں بڑھتا جاتا ہے لیکن جہاں عرفان کی کمی ہوتی ہے تو یہ کمی اکثر رستہ سے جُدا کر دیتی اور ٹھوکر کھلاتی ہے۔
تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ اسلام کا مغز ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ اس سے ہر قسم کے شکوک و شبہات دُور ہو جاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تو حضرت عثمان ؓ نے فرمایا تَمَنَّیْتُ أَنْ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اﷲ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ میرے دل میں تھا کہ مَیں رسول کریم سے پوچھوں مَاذَا یُنْجِیْنَا مِمَّا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِیْ اَنْفُسِنَا کہ ہم شیطانی وساوس سے کیسے نجات پا سکتے ہیں۔ فَقَالَ اَبُوْ بَکْر رَضِیَ اﷲ عَنْہُ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ذٰلِکَ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا کہ مَیں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اِسی کے متعلق دریافت کیا تھا قَالَ فَقَالَ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا اَمَرْتُ بِہٖ عَمِّیْ اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ فَلَمْ یَقُلْہُ۔1 تو آپ نے فرمایا کہ تم وہ کہو جس کے کہنے کے لئے مَیں نے اپنے چچا کو کہا تھا لیکن اُس نے نہ کہا۔ وہ کیا بات تھی جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے چچا کو کہی۔ وہ یہی کلمۂ توحید تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کو ان کی وفات کے وقت کہا تھا کہ چچا اگر آپ ایک دفعہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ کہہ دیں تو مَیں آپ کی قیامت کے دن شفاعت کر سکوں گا مگر اُنہوں نے جواب دیا کہ مَیں اپنی قوم سے ڈرتا ہوں کہ اگر مَیں نے یہ کلمہ پڑھ دیا تو وہ کہے گی کہ ابو طالب مرتے وقت اپنے بھتیجے سے ڈر گیا۔ اس لئے مَیں اسی مذہب پر جان دیتا ہوں جس پر مَیں نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔2 تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر ؓ کو بتایا کہ جو انسان شیطانی وساوس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے وہ وہی کہے جس کے کہنے کے لئے مَیں نے اپنے چچا کو کہا تھا۔
یہ کلمہ انسان کو وساوس سے بچاتا ہے۔ انسان کے دل میں جو وساوس پیدا ہوتے ہیں وہ دو باتوں سے پیدا ہوتے ہیں۔اوّل تو یہ کہ وہ چند باتیں حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن وہ حاصل نہیں ہوتیں۔ یا وہ بعض باتیں چاہتا ہے کہ نہ ہوں مگر ان سے ان کو واسطہ پڑتا ہے۔ مثلاً وہ چاہتا ہے کہ اس کی جو جو خواہشیں ہیں وہ تمام کی تمام پوری ہوں۔ ان میں سے کسی میں بھی کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو اور بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان سے وہ بچنا چاہتا ہے مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دُکھوں، مصیبتوں، آفتوں سے مامون رہے لیکن دکھوں، آفتوں، مصیبتوں سے اس کو پالا پڑتا ہے۔ یہی دو باتیں ہیں جن سے انسان ابتلاؤں اور وسوسوں میں پڑتے ہیں۔
لیکن انسان کو سوچنا چاہئے کہ ہو نہیں سکتا کہ اس کی تمام کی تمام خواہشیں پوری ہوں اور وہ کسی تکلیف میں نہ پڑے۔ حضرت خلیفہ اوّل جب اپنے ایک اُستاد سے رخصت ہونے لگے تو آپ نے ان سے درخواست کی کہ مجھے کوئی نصیحت کریں۔ آپ کے استاد نے فرمایا کہ آپ خدا نہ بنیں۔ حضرت مولوی صاحب نے سوال کیا کہ انسان کیسے خدا بنتا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ جب انسان یہ چاہتا ہے کہ جس طرح اس کی خواہش ہے اسی طرح ہو اور اس کے خلاف کبھی نہ ہو تو اس وقت وہ انسانیت سے باہر قدم رکھتا اور خدا بننا چاہتا ہے۔ کیونکہ انسان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ جو خواہش کرے پوری ہو جائے۔ یہ تو خاصۂ خداوندی ہے کہ وہ جس طرح چاہتا ہے اُسی طرح اس کے ارادہ کے ماتحت سب کچھ انجام پاتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کے ارادہ میں مزاحم ہو سکے۔3
تو درحقیقت بہت سے وسوسے اِسی لئے ہوتے ہیں کہ انسان خدا بننا چاہتا ہے۔ اگر انسان غور کرے تو اُس کو معلوم ہو جائے کہ ایسے وساوس جو پاک ہوں اور محض صحیح علم کے ماتحت ہوں وہ شاذ و نادر ہوتے ہیں بلکہ شاید سَو میں سے ایک ہو ورنہ بہت سے اعتراض جن کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوتی وہ اغراض مخفیہ سے وابستہ ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں اُن پر شیطان کا قبضہ ہوتا ہے۔
مَیں نے کہا ہے کہ سَو میں سے ایک کا شک اصلی ہوتا ہے اور اگر اور دقت نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ لاکھ میں سے ایک شک اصلی ہو گا۔ ورنہ جس کے دل میں شک پیدا ہوتا ہے اُس شک و شُبہ کی وجہ ذاتی ہوتی ہے کیونکہ انسان اپنے تئیں خدا قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جس طرح مَیں نے چاہا اُسی طرح کیوں نہ ہؤا۔ لاکھ میں سے ایک شُبہ نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جن لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پڑتے ہیں اور ان کے دل میں وساوس پیدا ہوتے ہیں وہ عام طور پر ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں برداشت کی طاقت نہیں ہوتی۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ چاہتے ہیں اُسی طرح ہو۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ والدین ہمیشہ جن بچوں کی خواہش کو پورا کرتے ہیں اور کبھی ان کی خواہش کے خلاف نہیں ہونے دیتے اُن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ بڑے ہو کر ہمیشہ مصائب اور دُکھوں کے وقت گھبرا جاتے ہیں کیونکہ ان میں برداشت کی قوت نہیں پیدا کی جاتی مگر وہ بچے جو ابتدا میں تکالیف اُٹھاتے ہیں ان میں برداشت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کسی سخت سے سخت تکلیف سے بھی نہیں گھبرایا کرتے۔ پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تئیں خدامت بناؤ۔ خدا ہی ایک ایسی ہستی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اگر انسان کی کوئی خواہش پوری نہ ہو تو اُس کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ انسان ہے، خدا نہیں۔ جو لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں وہ ہمیشہ ذلیل ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور آپ لوگوں کی کمزوریوں کو دُور کرے اور آپ کو سچّی معرفت، سچّا تقویٰ اور سچّا اخلاص عنایت کرے تاکہ آپ خدا کے نُور سے حصّہ پائیں جس کو وہ دُنیا میں پھیلا رہا ہے۔'' (الفضل 15فروری1919ء)
1: مشکوٰۃ کتاب الایمان باب فی بیان التوحید
2: مسلم کتاب الایمان باب الدَّلِیْلُ عَلٰی صِحَۃِ الْاِسْلَامِ مَنْ حَضَرَہُ الْمَوْتُ (الخ)
3: حیاتِ نور مصنفہ شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل )صفحہ 51

30
کامیابی کے ذرائع
(فرمودہ 14فروری1919ء بمقام لاہور)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ العصر کی تلاوت فرمائی:-
وَ الْعَصْرِۙ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍۙ۔اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ١ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِؒ۔1
اور فرمایا:-
‘‘انسان کی کامیابی اور اس کی ترقی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے کچھ قوانین مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو نظر انداز کر کے یا ان کی پرواہ نہ کر کے اگر کوئی انسان چاہے کہ مَیں کامیاب ہو جاؤں تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دراصل ایک دائرہ کے اندر انسان کو آزاد رکھا گیا ہے لیکن اس کے باہر وہ کبھی نہیں چل سکتا اور ہر انسانی طاقت کا یہی حال ہے کہ جو حد اس کی مقرر ہے اس سے باہر خواہ انسان کتنا ہی نکلنا چاہے نہیں نکل سکتا۔ مثلاً انسانی قوت ہے۔ بڑے بڑے مضبوط اور زور آور انسان ہوتے ہیں لیکن ان کی طاقت کی ایک حد بندی ہوتی ہے اس سے آگے وہ نہیں بڑھ سکتے۔ پھر انسانی قد ہیں ان میں اختلاف ہے۔ کوئی بڑا ہے، کوئی چھوٹا لیکن ان کی بھی حد بندی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا قد اتنا ہوتا ہے اور بڑے سے بڑا اتنا۔ یہ کبھی نہیں ہوگا کہ پچاس ساٹھ گز کا کوئی انسان مِل سکے۔ قصّے کہانی کی کتابوں میں تو اتنے قد کے انسان مِل جائیں گے مگر دُنیا میں جو انسان پائے جاتے ہیں ان میں نہیں ملیں گے۔
پھر ہر علم اور فن کی ایک حدبندی ہے اس سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر چیز کے کچھ حدود مقرر ہیں ان کو توڑکر اگر کوئی چاہے کہ مَیں خود فائدہ حاصل کرلوں یا اپنے مخالف کو نقصان پہنچا سکوں تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کامیاب اُس وقت ہوگا جب اُن قواعد کی پابندی کرے گا جو خدا نے مقرر کئے ہیں۔ پس ہر وہ انسان جو کامیاب ہونا چاہے اُسے چاہئے کہ جس غرض اور مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کھڑا ہؤا ہو اس کے لئے دیکھے کہ کون سے ذرائع خدا نے اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مقرر کئے ہیں۔
اِس وقت جو سورۃ مَیں نے پڑھی ہے اس میں خدا تعالیٰ نے ایک خاص بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور میں وہ بات آپ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں۔
خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ الْعَصْرِۙ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍہم زمانہ کی قسم کھا تے ہیں یعنی ہم زمانہ کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں تم دیکھو کہ سارے کے سارے انسان گھاٹے میں ہیں اور جو چیز انسان سے تعلق رکھتی ہے اس میں زوال ہے مگر ایک چیز ہے کہ جس کے پاس وہ ہو اس کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ وہ ترقی پر ترقی حاصل کرتا جاتا ہے تنزّل کبھی اس کے پاس نہیں آتا اور وہ یہ ہے کہ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ انسان ایمان لائے اور عمل صالح کرے۔
بظاہر یہ معمولی بات معلوم ہو گی کہ ایمان لانا اور عمل صالح کرنا کونسی ایسی بات ہے جو معلوم نہیں اور بہتوں کو خیال پیدا ہؤا ہو گا کہ یہ تو ایسی بات ہے جس پر ہم پہلے سے عمل کرتے ہیں لیکن مَیں اس میں سے آپ کو ایک ایسی بات سنانا چاہتا ہوں جو آپ نے پہلے نہیں سُنی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ لوگوں نے پڑھا ہؤا ہے کہ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِمیں خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ ایمان لاؤ اور عمل صالح کرو مگر مَیں اس کے علاوہ ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں کیونکہ اس آیت کے صرف وہی معنی نہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں بلکہ ایک اَوربھی ہیں اور وہ اس طرح کہ جب صرف الَّذِيْنَ اٰمَنُوْاہو تو اس کے اَور معنی ہیں جب عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ ہوتو اَور لیکن جب ان دونوں کو مِلا کر پڑھا جائے تو اَور معنی ہوتے ہیں اور تمام وہ چیزیں جو خدا نے پیدا کی ہیں ان میں یہی بات پائی جاتی ہے کہ جب خاص وہ مفرد ہوتی ہیں تو ان کا رنگ اَور ہوتا ہے اور جب دو چیزیں ملتی ہیں تو تیسرا نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح اس آیت میں ہے۔
میرے نزدیک اور ہر ایک اُس شخص کے نزدیک جو عقل سے کام لے گا یہ یقینی بات ہے کہ ایمانِ کامل کا نتیجہ اعمالِ صالح ہوتے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی بات پر انسان ایمان لائے اور پھر اس کے مطابق عمل نہ ہوں۔ جس کو معلوم ہو کہ یہ زہر کی پُڑیا ہے وہ کبھی اسے نہیں کھاتا، جس کو معلوم ہو کہ اس بِل میں سانپ ہے وہ کبھی اس میں اُنگلی نہیں ڈالتا اور جس کو معلوم ہو کہ اس جنگل میں شیر ہے وہ ہر گز اس میں نہیں جاتا۔ تو ایمان میں یہ طاقت ہے کہ انسان کو عمل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ممکن نہیں کہ ایمان اور یقین ہو اور انسان عمل نہ کرے۔ لوگ اس وقت تک سچّے مذہب سے نفرت کرتے ہیں، رسولوں کو چھوڑ دیتے ہیں، خداتعالیٰ کی بے قدری کرتے ہیں جب تک انہیں علم اور یقین نہیں ہوتا۔ اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کیسی ارفع و اعلیٰ ہے، اُس کا فضل کس قدر وسیع ہے، اُس کے ساتھ وابستگی کیسی دائمی ہے تو ممکن نہیں کہ خداتعالیٰ سے بیگانہ رہیں۔ اسی طرح اگر انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں خدا کا رسول ہے اور خدا نے اس کو بھیجا ہے تو ممکن نہیں کہ نہ مانیں۔ پھر جس پر یہ روشن ہو جائے کہ یہ خدا کا الہام ہے اور اس پر چلنے سے ہمارا ہی فائدہ ہے تو ممکن نہیں..... کہ بے قدری کریں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی کو دھوکا لگے اور سمجھے کہ مَیں ایمان رکھتا ہوں مگر نہ ہو۔ جیسے کسی کے متعلق کہنے کو تو کہہ دیتے ہیں کہ اس سے محبت ہے مگر دراصل نہیں ہوتی اور وقت پر حقیقت کھل جاتی ہے۔ اسی طرح ایک شخص سمجھتا ہے کہ مجھ میں ایمان ہے مگر ایمان نہیں ہوتا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ایمان ہو اور عمل صالح نہ ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو واقع میں ایمان لاتا ہے وہ عملِ صالح کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
لیکن اس سورۃ میں خدا تعالیٰ ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرنے کی بھی ہدایت فرماتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا کلام تو زوائد سے پاک ہوتا ہے اس لئے جب یہ فرما دیا گیا کہ اٰمَنُوْا تو عمل صالح کرنا اسی میں آگیا۔ پھر عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِساتھ فرمانے کی کیا ضرورت تھی۔ جب ایمان لانے والا انسان عمل صالح کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور ایمان کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اعمال صالح کئے جائیں تو کیوں اٰمَنُوْا ہی نہ رکھا۔
اس میں ایک حکمت ہے۔ درحقیقت جب اٰمَنُوْا کا فقرہ علیحدہ اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِکا علیحدہ ہو تو اس کا وہی مفہوم ہوتا ہے جو عام لوگ سمجھتے ہیں مگر جب یہ دونوں فقرے ملتے ہیں تو ایک اور معنی پیدا ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ گو ایمان اور یقینِ کامل کے نتیجہ میں اعمالِ صالح پیدا ہوتے ہیں اور ایمان وہی ایمان ہوتا ہے جسے انسان یقینی سمجھتا ہے اور پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے مگر بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ چونکہ انسان کی نیت اور موقع شناسی میں نقص ہوتا ہے اس لئے وہ کامیابی کے حصول کا حقیقی ذریعہ نہیں ہوتا۔ گویا اس کا عمل عملِ صالح نہیں ہوتا اس لئے ضائع ہو جاتا ہے۔ تو ایمان سے یہ تو پتہ لگتا ہے کہ جو ایمان لاتا ہے وہ عمل کرتا ہے مگر اس سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ وہ عمل اُن ذرائع پر کاربند ہو کر کیا جاتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا نتیجہ نکلنے کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت لوگ ایمان لاتے ہیں اور پھر عمل کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں مگر دُنیا میں ذلیل اور خوار ہی رہتے ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ان ذرائع کی طرف توجہ نہیں کرتے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں اور جن کے مطابق عمل کرنے سے کامیابی اور فلاح حاصل ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک شخص جس کا ایمان اور یقین ہے کہ زمین گول ہے اور یہ بھی وہ جانتا ہے کہ بالمقابل امریکہ ہے مگر وہ امریکہ جانے کے لئے بجائے اس کے کہ لاہور سے گاڑی پر سوار ہو کر کسی بندرگاہ پر پہنچے اور وہاں سے جہاز پر سوار ہو کر امریکہ جائے زمین میں سُرنگ لگا کر امریکہ جانا چاہے وہ کہا ں پہنچ سکے گا۔ ناکامی اور نامرادی کے سوا اُسے کچھ حاصل نہ ہو گا کیونکہ اس نے ان ذرائع کو اختیار نہیں کیا جو اس مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے خدا تعالیٰ نے بنائے ہوئے ہیں۔ تو اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِمیں یہ ارشاد ہے کہ انسان نہ صرف ایمان لائے اور عمل صالح کرے بلکہ اس کے اعمال ایسے ہوں کہ خداتعالیٰ نے ان کے لئے جو ذرائع مقرر کئے ہیں ان کے مطابق ہوں۔
بعض لوگ صلاحیت اور مصلحت کے لفظ سے دھوکا کھاتے ہیں حالانکہ عربی میں یہ الفاظ ہمیشہ اچھے ہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ آجکل لوگ کسی معاملہ کے متعلق جب یہ کہتے ہیں کہ یہی مصلحت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ منافقت کے طور پر بات کہہ دی گئی ہے لیکن عربی میں ایسا نہیں ہے۔ عربی میں صحیح اور جائز اور اصل ذرائع کے مطابق جو کام ہو گا اس کے متعلق مصلحت کا لفظ بولا جائے گا۔ تو اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِکے یہ معنے ہیں کہ ایمان لائیں اور پھر عمل کریں لیکن وہ عمل صالح ہوں۔ یعنی جس بات پر ایمان لایا ہو اس کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے جو صحیح ذرائع مقرر ہیں ان پر عمل کیا جائے ۔ تو فرمایا۔ اگر ناکامی سے بچنا چاہتے ہو ، اگر گھاٹے اور نقصان سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو ایمان لاؤ اور اعمال کرو مگر اعمال صالح ہوں، اس طریق کے مطابق ہوں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کئے ہوئے ہیں مثلاً ایک شخص ایسے وقت میں جبکہ جہاد ہو رہا ہو، کفار مسلمانوں کو قتل کر رہے ہوں، لڑائی شروع ہو، لمبی نماز پڑھتا رہے تو گویہ عمل اپنی ذات میں صالح ہے لیکن موقع اور وقت کے لحاظ سے صالح نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس وقت کامیابی کے لئے جو ذریعہ ہے اس پر عمل نہیں ہؤا اور اس سے یہ نہیں ہو گا کہ دُشمن بھاگ جائے۔
دیکھو ہر لحاظ سے سب سے بڑے انسان رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہی تھے لیکن آپ نے بھی ان دُشمنوں سے محفوظ رہنے اور اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کے لئے ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے اسلام کے خلاف تلوار اُٹھائی یہ نہیں کیا کہ نمازیں شروع کر دی ہوں بلکہ آپ کو بھی اس موقع پر تلوار ہی اُٹھانی پڑی۔ اس میں شک نہیں کہ فرصت کے وقت آپ نے کامیابی کے لئے دُعائیں بھی کیں جیسا کہ جنگِ بدر میں ایک الگ جگہ دُعا کے لئے بنائی گئی تھی اور اس جگہ آپ نے اتنی دُعائیں کیں کہ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ ایسا انسان بھی کہہ اُٹھا کہ کیا خدا کا وعدہ آپ کو فتح یاب کرنے کا نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا وعدہ تو ہے لیکن مَیں اس کے غناء سے ڈرتا ہوں۔تو میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے دُعا اور نماز ضروری نہیں ہے۔ ضروری ہے لیکن صرف اسی سے دُشمن کو دُور نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھو اگر صحابہ کرام دُشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تلوار نہ اُٹھاتے اور صرف نمازیں پڑھتے رہتے تو کبھی کامیاب نہ ہوتے کیونکہ اُس وقت کامیابی کے لئے عملِ صالح یہی تھا کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کریں اور دُشمن کو اس ذریعہ سے خائب و خاسر کر دیں۔
یا اب یہ زمانہ ہے کہ جس میں اسلام کے خلاف قسم قسم کے شکوک اور شُبہات پیدا کئے جارہے ہیں، طرح طرح کے اعتراضات ہو رہے ہیں، عجیب عجیب دھوکے دیئے جارہے ہیں مگر اس کے مقابلہ کے لئے کوئی شخص روزے رکھنے شروع کر دے تو گو روزے رکھنا نیک عمل ہے مگر اس کامیابی کے حاصل کرنے کے لئے عملِ صالح نہیں۔ اس صورت میں اس عمل کی صلاحیت باطل ہو جائے گی۔ یوں اگر کوئی روزے رکھتا ہے تو عملِ صالح کرتا ہے اس سے اس کے نفس کی اصلاح ہو گی لیکن مخالفینِ اسلام کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے جو ذرائع مقرر ہیں اس میں چونکہ یہ داخل نہیں اس لئے اس طرح کامیابی حاصل نہ ہو گی۔ تو صرف ایسا عمل جو اپنی ذات میں صالح ہو کچھ چیز نہیں۔ خالی نماز، خالی روزے، خالی حج اپنی جگہ ضروری اور صالح عمل ہیں لیکن اِس وقت کے لحاظ سے کامیابی کے لئے جو خدا تعالیٰ نے ذرائع مقرر کئے ہوئے ہیں ان پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت علاوہ اس کے کہ صحابہ کرام اپنے نفس کی اصلاح اور صفائی کے لئے عمل کرتے اور دُعا سے کام لیتے تھے۔ مخالفین کے مقابلہ میں کامیابی کے لئے تلواریں بھی اُٹھاتے تھے۔ اسی طرح اِس زمانہ میں بھی جن ذرائع سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ نمازیں، روزے اور دُعائیں اس کامیابی کے حاصل کرنے میں مُمد اور معاون ضرور ہوں گے مگر اصل ذرائع پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔
مَیں اس وقت آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ بہت لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ابھی تک اس خدمت میں حصّہ نہیں لیا جو خدا کے مامور اور خلیفوں کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کے لئے لازمی اور ضروری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے لوگوں نے احمدی ہو کر بڑی بڑی اصلاحیں کی ہیں۔ پہلے وہ چور تھے، مرتشی تھے، جھوٹ بولتے تھے، نمازیں نہیں پڑھتے تھے، روزے نہیں رکھتے تھے، حج نہیں کرتے تھے، زکوٰۃ نہیں دیتے تھے اور اب شریعت کے ان حکموں پر عمل کرتے ہیں مگر اس زمانہ میں جو عظیم الشان کام اسلام کی ترقی کا تھا وہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے نفس میں اصلاح اور ذات میں صفائی تو ضرور پیدا ہو گئی ہے مگر وہ ان فاتحین میں شامل نہیں ہو سکتے جن کے سر پر قیامت کے دن اس بات کا سہرا ہو گا کہ اُنہوں نے دُنیا میں شیطان کا مقابلہ کر کے فتح حاصل کی تھی۔ ایسے لوگ ان لوگوں کی مانند ہوں گے جو فاتح فوج کے پیچھے چھوٹے موٹے کام کرنے والے ہوتے ہیں اور وہ ان میں شامل نہیں ہوں گے جن کے متعلق قیامت کے دن اگلی پچھلی نسلوں میں یہ اعلان کیا جائے گا کہ یہ ہیں وہ بہادر جنہوں نے شیطان کا مقابلہ کر کے اسے شکست فاش دی تھی اور اسلام کی صداقت کو دُنیا پر ظاہر کیا تھا۔ یہ وہی لوگ ہوں گے جو عملِ صالح کریں گے اور ان ذرائع پر عمل پیرا ہوں گے جو خدا نے اِس زمانہ میں کامیابی کے لئے مقرر فرمائے ہیں۔
پس مَیں آپ لوگوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ آپ غور کریں کہ جو کام ہم کرتے ہیں وہ ان ذرائع کے مطابق ہے یا نہیں جو خدا نے ہماری کامیابی کے لئے مقرر کئے ہیں۔ اس کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارا کام کیا ہے؟ نفس کی اصلاح کے لئے ان احکام پر عمل کرنا ضروری ہے کہ جن سے اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں لیکن میں اس وقت ان فرائض کا ذکر نہیں کرنا چاہتا جن کے بغیر کوئی مومن ہی نہیں ہو سکتا بلکہ ان کا ذکر کرنا چاہتاہوں جو مومنوں کے لئے ضروری ہیں۔ ان سے میرا سوال یہ ہے کہ جس فوج میں وہ داخل ہیں اس کا کام کر رہے ہیں یا نہیں اور یہ تو مَیں بتا چُکا ہوں کہ اس فوج کا کام شیطان کے حملے کا دفعیہ اور اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے۔ اس زمانہ میں چونکہ اسلام پر حملہ دلائل کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اسلام میں نقص پیدا کئے جارہے ہیں، اسلام پر اعتراض اور شکوک پیش ہو رہے ہیں اس لئے اس وقت اس کا دفعیہ قلم اور زبان سے ہی ہو سکتا ہے جس کے لئے بعض باتیں ضروری ہیں مثلاً جو لوگ قلم استعمال کرتے ہیں ان کے لکھے ہوئے کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے اس لئے مال خرچ کرنا چاہئے۔ پھر زبان اُس وقت تک چلائی نہیں جاسکتی جب تک دُشمن کے حالات سے آگاہی نہ ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ دُشمن کے اعتراضات سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اس کے بعد وقت خرچ کر کے قلم اور زبان سے خدمت اسلام ہو سکتی ہے تو اس کام کے لئے مال قربان کرنے کی ضرورت ہے، وقت قربان کرنے کی ضرورت ہے اور علم کے حصول کی ضرورت ہے۔ ابتلاؤں میں ثابت قدم رہنا چاہئے اس لئے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ جو لوگ خدا کی طرف لوگوں کو بُلاتے اور گمراہی سے نکال کر ہدایت کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے ساتھ ابتلاء بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ خداتعالیٰ بتانا چاہتا ہے کہ چونکہ یہ میری باتیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں اس لئے ان پر کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا تو ان پر خواہ اپنے نفس کے یارشتہ داروں کے یا اور لوگوں کے ذریعہ ابتلاء آنے ضروری ہیں جن میں سے کچھ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور کچھ شیطان کی طرف سے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے تو اس لئے کہ تا دُنیا کو دکھائے کہ یہ گو مغلوب اور کمزور تھا لیکن غالب اور طاقتور ہو گیا ہے اور شیطان کی طرف سے اس لئے کہ ان باتوں میں پڑ کر اپنے اصل مقصد کو چھوڑ دے۔ اس لئے مومنوں پر ابتلاء ضرور آتے ہیں لیکن جو اِن میں ثابت قدمی دکھاتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس لئے فرمایا وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ١ۙ۬ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِکہ جب ایمان ہوتا اور عملِ صالح کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو سکھاتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ مومن پر جب ابتلاء آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ بات ہی کیا ہے مَیں خدا کے رستہ میں مر بھی جاؤں تو کیا ہے؟
تو ہر ایک مومن کو یہ باتیں ذہن نشین کرنی ضروری ہیں اور ان پر عمل کرنا فرض ہے کیونکہ جب تک یہ نہ ہوں کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی۔ پس تم لوگ ان کو یا درکھو اور اپنے نفس کا مطالعہ کرو کہ اس میں یہ پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ کوئی شخص جو صرف چندہ دیتا ہے اور علم حاصل کر کے تبلیغ نہیں کرتا وہ فاتحین میں سے نہیں ہے۔ یا علم تو حاصل کرتا ہے لیکن اس کے پھیلانے کے ذریعہ پر عمل نہیں کرتا وہ بھی فاتحین میں سے نہیں ہے۔ یا جو علم کے پھیلانے کے ذریعہ کو تو مہیا کرتا ہے لیکن اپنے وقت کی قربانی نہیں کرتا وہ بھی فاتحین میں شامل نہیں ہے یا جو ان سب باتوں پر عمل کرتا ہے مگر کسی ابتلاء میں ثابت قدم نہیں رہتا وہ بھی فاتحین میں شامل نہیں ہے۔ ہاں جس میں یہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں کہ علم حاصل کرے، اس کے آگے پہنچانے کا سامان بہم پہنچائے، وقت کی قربانی کرے، اس پر جو ابتلاء آئیں ان میں ثابت قدم رہے وہ فاتحین میں شامل ہو گا۔ پس آپ لوگ یاد رکھیں کہ آپ کے ذمہ بہت بڑا کام ہے اور جن کے ذمہ اتنا بڑا کام ہو ان کو بہت زیادہ فکر کرنی چاہئے۔ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے کہ ان عقائد پر قائم رہیں جو خداتعالیٰ کے نزدیک صحیح اور درست ہیں اور ان ذرائع پر عمل کرنے کی توفیق بخشے جو کامیابی کے لئے مقرر ہیں۔'' (الفضل 25فروری 1919ء)
1: العصر: 2 تا 4

31
مومن کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے
اور کسی قسم کا دھوکا نہ کھائے۔
(فرمودہ 21فروری1919ء بمقام لاہور)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''چونکہ چند دن سے متواتر بولنے اور کئی اصحاب سے گفتگو کرنے کی وجہ سے حلق میں کسی قدر تکلیف ہو گئی ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ عورتوں تک آواز کا پہنچنا مشکل ہو گا اس لئے ارادہ ہے کہ مختصر وعظ کے بعد نماز پڑھا دوں اور اس کے بعد حافظ روشن علی صاحب وعظ کریں گے۔
اسلام نے جہاں ہم پر بہت سے احسان کئے ہیں اور اس کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ کی رضا اور قُرب حاصل ہو سکتا ہے، اس کے ذریعہ اﷲ کے احسانوں اور فضلوں کو جذب کیا جاسکتا ہے وہاں ہمارے لئے کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی مقرر کئے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام سے پہلے کے جس قدر مذاہب ہیں ان میں کوئی مذہب اسلام کے برابر خوبیاں نہیں رکھتا اور کسی مذہب کے پیروؤں پر ایسے احسانات کرنے کے وعدے نہیں ہیں جیسے اسلام کے پیروؤں پر لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس قدر ذمہ داریاں مسلمانوں کی قرار دی گئی ہیں دوسروں کی نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پہلے لوگوں کو ذرا ذرا سی باتوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا مثلاً فلاں قسم کے برتن ہوں، فلاں قسم کا لباس ہو لیکن جس طرح اسلام میں ہر ایک بات ایک انتظام اور قاعدہ کے ماتحت اور خدا تعالیٰ کے لئے تیار رہنے کا سبق دیا گیا ہے اور کسی مذہب میں نہیں۔ کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس نے اس طرح انتظام کے ساتھ عبادت کرنے کا حُکم دیا ہو جس طرح مسلمانوں میں پانچ وقت نماز ہے۔ پھر کوئی مذہب نہیں جس میں اسلام کی طرح ہفتہ میں ایک دن ایسا مقرر ہو جس میں جمع ہونے کے لئے خاص ہدایت ہو۔ اسی طرح یہی سلسلہ حج تک پہنچتا ہے۔
اور ایک مؤمن کے لئے اپنی زندگی میں بہت سا وقت عبادت میں خرچ ہوتا ہے لیکن اس تفصیل اور انتظام کے ساتھ کسی اور مذہب میں عبادت کے احکام نہیں، نہ روزے کے، نہ حج کے اور نہ زکوٰۃ کے۔ صرف اسلام ہی ہے جس نے اس قسم کی پابندیاں اپنے پیروؤں پر عائد کی ہیں اس تفصیل کے ساتھ پہلی کتابوں میں ذکر نہیں ہے اور وہ باریک اخلاقی باتیں جنہیں اُس وقت سمجھنے کے لئے انسان تیار نہ تھے بیان نہیں کیا گیا بلکہ موٹی موٹی باتیں بتا دی گئیں۔ مثلاً اگر ایک وقت ایک نبی نے آکر یہ کہا کہ سختی کا مقابلہ سختی سے کرو تو دوسرے وقت دوسرے نبی نے اسی قوم کو یہ کہا کہ سختی کا مقابلہ نرمی سے کرو مگر اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو دیکھو ان پر کس قدر ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ جہاں سختی کے مقابلہ میں سختی کا موقع ہو وہاں سختی کرو اور جہاں نرمی کا موقع ہو وہاں نرمی کرو۔ گویا ہر ایک مؤمن کا فرض ہے کہ وہ خود سوچے اور خود فیصلہ کرے کہ اس موقع پر مجھے کیا کرنا چاہئے۔ آیا سختی کا جواب سختی سے دینا چاہئے یا نرمی سے۔ اور جیسا مناسب موقع ہو جواب دے۔ تو جہاں مسلمانوں پر پہلی قوموں کے مقابلہ میں انعام کی ترقی ہوئی ہے وہاں ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ اس لئے مؤمن کا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور کسی قسم کا دھوکا نہ کھائے کیونکہ اگر اسے یہ بتایا گیا ہے کہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ1میں سے بنے دوسری طرف اسے یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ2میں سے نہ بنے اور خیرِ اُمم ہوتے ہوئے شرِّ اُمم نہ ہوجائے۔ مگر بہت لوگ ہوتے ہیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے۔ اس کے لئے خاص کوشش کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ دُعاؤں میں مشغول رہنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر کبھی انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے اور ان فضلوں کا وارث بنائے جن کے وعدے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ذریعہ آپ کو دیئے گئے ہیں۔’’ (الفضل یکم مارچ 1919ء)
1:،2: الفاتحۃ :7

32
ایّامِ جلسہ میں احبابِ قادیان کے فرائض
(فرمودہ 28فروری1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘اﷲ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اب کے ہمیں دسمبر کے ایام میں جو ہمیشہ جلسہ کے لئے مقررہوتے رہے ہیں جلسہ کو ملتوی کر کے بعد کی کسی تاریخ پر اُٹھا رکھنا پڑا تھا۔ اب غورو فکر اور مشورہ کے بعد یہی مناسب سمجھا گیا کہ جلسہ مارچ کے دنوں میں ہو کیونکہ اپریل کی نسبت زمیندار مارچ میں زیادہ فارغ ہوتے ہیں چونکہ اس سالانہ اجتماع میں چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں اور خدا کے فضل سے اس کثرت سے آتے ہیں کہ یہاں والوں کو انتظام میں مشکل ہوتی ہے۔ اس لئے مَیں اپنے سب احباب کو متوجہ کرتا ہوں کہ انتظام کے لئے صرف وہی لوگ کافی نہیں جن کے سپرد دورانِ سال میں یہ کام ہوتا ہے اور نہ صرف مدرسوں کے طالبعلم کافی ہوتے ہیں گو جلسہ کے ایّام میں زیادہ تر کام کا بار دونوں مَدرَسوں پر ہی پڑتا ہے یعنی دونوں مَدرَسوں کے طالبعلم اور مدرّس کام کرتے ہیں مگر ان کے سوا دوسرے لوگوں کے سپرد بھی کام ہوتاہے۔
میرے نزدیک سوائے چند دکانداروں کے جن کا یہ وقت ہوتاہے کہ وہ کچھ خریدوفروخت کرلیں وہ معذور ہیں۔ جہاں تک ہو سکے دوسرے تمام احباب کا فرض ہے کہ وہ منتظموں کا ہاتھ بٹائیں تاکہ باہر سے آنے والوں کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو۔ ہر شخص کو کبھی نہ کبھی مہمان بننا پڑتا ہے اور وہ جان سکتا ہے کہ سفر میں کس قدر تکلیفیں ہوتی ہیں۔ سفر کا صحت پر بہت اثر پڑتا ہے کیونکہ صحت کے قیام کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کے میسّر آنے میں تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے۔ کھانا اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا کہ جو صحت کے مناسب غذا ہو وہ کھائیں۔ پھر اکیلے دو کیلے میں ایسی غذا کا بھی انتظام ہو سکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی کے ہاں جاتا ہے تو وہ اس کی خاطر کئی قسم کے کھانے مہیا کردیتا ہے لیکن ان اجتماعوں میں کئی اقسام کا کھانا نہیں مِل سکتا۔ ایک ہی قسم کا کھانا ہوتا ہے۔ کسی وقت دال ، کسی وقت شوربا۔
پس ایسے موقعوں پر مناسب چیزیں نہیں مِل سکتیں، نہ پورے طور پر ایسے مکانات مِل سکتے ہیں جو کافی آرام دہ ہوں، نہ چارپائیوں کا پورا انتظام ہوتا ہے، زمین پر ہی لیٹنا پڑتا ہے۔ پھر سفر میں جو بستر ہمراہ ہوتا ہے وہ بھی کافی نہیں ہوتا۔ پس ان دقتوں کی وجہ سے ایک قسم کی کمزوری انسان میں پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چِڑ چِڑا ہو جاتا ہے۔ یہ درست بات ہے کہ انسان میں جتنی طاقت ہو گی اُتنا ہی وہ حلیم الطبع ہو گا لیکن جتنا کمزور ہو گا اُتنا ہی چِڑچِڑا ہو گا۔ تو سفر میں کمزور صحت والوں کے لئے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ غرض ان تمام حالتوں میں مہمانوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور میزبانوں کے لئے بھی بڑے اجتماعوں میں مشکل ہوتی ہے۔ ہمارے سکولوں کے بچے شوق رکھتے ہیں کہ ان ایام میں مہمانوں کی خدمت کریں اور وہ خوشی سے کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کو تجربہ نہیں ہوتا اس لئے وہ مہمانوں کی ضرورتوں کو بھی بعض اوقات پوری طرح نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے جو لوگ تجربہ کار ہیں ضرورت ہے کہ وہ ان بچوں کے نگران مقرر کئے جائیں۔ پس جو لوگ اس کام کو کر سکتے ہیں جہاں تک ہو سکے وہ مہمانوں کی آسائش میں ہاتھ بٹائیں لیکن یہ ابھی سے ہونا چاہئے تاکہ افسر اُن لوگوں کے متعلق کام تجویز کر سکیں۔ اگر وقت پر کہا جائے گا تو وہ ان کے لئے کام نہیں تجویز کر سکیں گے کیونکہ کسی کے لئے مناسب کام تجویز کرنا بھی بڑے غوروفکر کا کام ہوتا ہے۔ پس جلدی اپنی خدمات کو پیش کر دینا چاہئے تاکہ ان کو وہ کام سُپرد کئے جائیں جن کے وہ اہل ہوں۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مہمان کی عزت واکرام ایمان میں داخل ہے۔1 پس چاہئے کہ احباب اپنے مہمانوں کے آرام و آسائش کے سامان جہاں تک ان سے ہو سکے مہیا کرکے اپنے ایمانوں میں زیادتی کریں۔خدا تعالیٰ آپ کو توفیق دے۔ آمین’’
(الفضل 8مارچ1919ء)
1: بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف


33
انعامِ الٰہی کے دروازے بند نہ کرو
(فرمودہ 7مارچ1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''ہر ایک مسلمان جو عاقل و بالغ ہو اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور خدا کے رسول کی سُنت اور اس کی ہدایت کی اتباع میں ان پانچ میں کچھ اورنوافل بھی ہیں جو سُنتیں کہلاتی ہیں۔ ان نوافل مسنونہ کے سِوا مومن شوق سے کچھ اور بھی اﷲ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہے جو عام طور پر نوافل کہلاتے ہیں اور خاص خاص اوقات کے لحاظ سے تہجد، اشراق، ضحٰی کہلاتے ہیں۔ ان تمام فرائض میں، واجبات میں، سنن میں، نوافل میں ہر ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے جس میں انسان اﷲ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ1 کہ اے میرے ربّ! مجھ کو سیدھے رستے پر چلا۔ یہ دُعا ہے جو کثرت سے ایک مسلمان مانگتا ہے اور ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ نہیں، تین دفعہ نہیں، چار دفعہ نہیں، پانچ دفعہ نہیں، چھ دفعہ نہیں، سات دفعہ نہیں، آٹھ دفعہ نہیں، نودفعہ نہیں بلکہ قریباً پچاس دفعہ روزانہ مانگتا ہے۔ جو دُعا ایک دفعہ مانگی جائے وہ اثر رکھتی ہے لیکن جو دُعا اس کثرت سے مانگی جاتی ہے اس کا اثر بہت ہی ہونا چاہئے۔
کئی انسان ایسے ہوتے ہیں کہ جس رستہ پر وہ ایک دفعہ چلیں وہ ان کو فراموش نہیں ہوتا لیکن ایسے لوگ بھی بہت ہوتے ہیں جو ایک رستہ پر دو تین دفعہ چلیں تو ان کو وہ نہیں بھُولتا مگر جو لوگ ایک دن میں ایک رستہ پر پچاس دفعہ کے قریب چلیں وہ تو اس رستہ کو کسی طرح بھی نہیں بھُول سکتے۔ کوئی شخص نہیں ہوتا جو اپنے گھر کا رستہ بھُول جائے کیونکہ گھر میں کئی دفعہ اس کو آنا پڑتا ہے۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اپنے گھر میں ایک آدھ دفعہ ہی آنا پڑتا ہے مثلاً صبح گئے شام کو آگئے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ دنوں گھر سے نہیں نکلتے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو دوچار دفعہ آتے جاتے ہیں اور اگر کوئی زیادہ سے زیادہ گھر میں آنے جانے والوں پر غور کرے گا تو اُس کو معلوم ہو گا کہ پندرہ بیس دفعہ کسی غیر معمولی وجہ سے گھر میں آنا جانا ہو تو ہو ورنہ عام طور پر دو تین دفعہ سے زیادہ نہیں لوگ آتے جاتے اور دس پندرہ بار سے کسی صورت میں بھی زیادہ نہیں اور بعض لوگ کئی کئی دن ناغہ کرتے ہیں۔ باوجود اس کے پھر بھی کوئی اپنے گھر کا رستہ کبھی نہیں بھُولتا۔ جس رستہ پر روزانہ پچاس دفعہ گزرنا پڑے اُس کو اگر انسان بھُولے تو اس کا یہی مطلب سمجھا جائے گا کہ وہ سوتے میں گزرا کرتا تھا۔
بعض لوگوں کو مرض ہوتا ہے کہ وہ سوتے سوتے اپنی چار پائی پر سے اُٹھ کر گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور بعض اوقات نہایت خطرناک مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے اگر گھر والوں کو پتہ لگ جائے تو پکڑ لاتے ہیں لیکن جب صبح کو بیدار ہونے پر انہیں بتایا جائے کہ تم اس طرح اُٹھ کر چلے گئے تھے اور وہاں پہنچ گئے تھے تو وہ متعجب ہو کر پوچھتے ہیں کہ اچھا یہ بات ہے۔ اسی طرح بعض بچے سوتے سوتے چیخ مار کر اُٹھ بیٹھتے ہیں پھر ان کو لٹا دیتے ہیں اور وہ لیٹتے ہی خراٹے مارتے سو جاتے ہیں۔ پس جو انسان سونے کی حالت میں کسی رستہ پر سے گزرے وہ اس کو یاد نہیں رہتا لیکن جو شخص جاگنے کی حالت میں کسی رستہ پر چلے وہ اس کو کسی طرح بھی نہیں بھُولتا خواہ ایک دفعہ گزرے یا پچاس دفعہ۔
پس اس طرح ایک مسلمان سورہ فاتحہ کی دُعا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَروزانہ پچاس دفعہ کرتا ہے۔ قانونِ قدرت کے ماتحت ایک جاگتا ہؤا انسان کسی طرح اس کو نہیں بھُول سکتا کیونکہ اگر ایک انسان کوئی کام روزانہ چار پانچ دفعہ کرے تو وہ اس کے خیال میں ہروقت رہے گا لیکن جو کام پچاس دفعہ کیا جائے وہ کبھی بھُول نہیں سکتا اگر اُس کو جاگنے کی حالت میں کیا جائے۔
مثلاً ایک شخص دو دفعہ دن میں کھاتا ہے تو یہ کھانا اس کے ذہن سے کسی طرح فراموش نہیں ہو سکتا یا مثلاً ایک شخص گورنمنٹ میں درخواست کرتا ہے کہ مجھ کو ملازمت دی جائے اور جب اس کی درخواست منظور کی جائے تو وہ کبھی نہیں کہے گا کہ مَیں نے درخواست نہیں کی تھی۔ آجکل مربعے فروخت ہوتے ہیں۔ اگر کوئی زمیندار درخواست کرے اور اس کی درخواست منظور ہو جائے تو کبھی وہ زمیندار یہ نہیں کہے گا کہ مَیں نے درخواست نہیں کی تھی۔ پس اگر لوگ اپنی ایک دفعہ کی درخواست کو نہیں بھُولتے تو جب وہ پچاس دفعہ خدا کے حضور درخواست کرتے ہیں اور پھر اس کی قبولیت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں تو کیوں انکار کر دیتے ہیں۔ وہ دُعا کرتے ہیں اور پچاس دفعہ دُعا کرتے ہیں کہ خدا یا! ہمیں ہدایت دے اور خدا تعالیٰ ہزاروں دفعہ ان کے لئے ہدایت کے سامان مہیا کرتا ہے۔ وہ مانگ کر مسجد سے نِکل رہے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ہدایت دینے کے عمل ان کے لئے جاری ہو جاتے ہیں لیکن وہ ان کو قبول کرنے کی بجائے انکار کر دیتے ہیں اور اپنے عمل سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو ہدایت طلب ہی نہ کی تھی۔ گویا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کو بھی ایک بچہ سمجھ لیا ہے۔ جیسا کہ عام طور پر لوگ بچوں سے کیا کرتے ہیں کہ بچہ کو ہاتھ بڑھا کر لینا چاہتے ہیں لیکن جب وہ ہاتھ پھیلا کر آنا چاہتا ہے تو اپنے ہاتھ پرے ہٹالیتے ہیں یا ان کی ماں کو دینا چاہتے ہیں جب وہ لینے کے لئے بڑھتی ہے تو اس کو نہیں دیتے اور خوش ہوتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں نے خداتعالیٰ کو سمجھ لیا ہے کہ بار بار اس سے مانگتے ہیں جب وہ دیتا ہے تو انکار کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو نہیں مانگا۔
سوال ہو سکتا ہے کہ ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں دیا جاتا ہے وہ ہماری دُعا کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ اس کے معلوم کرنے کا آسان اور نہایت سہل طریق یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جاتا ہے اور دروازے کو کھٹکھٹاتا ہے تو کیا دروازے کے کھلنے کا انتظار کرتا ہے یا نہیں۔ اسی طرح جب وہ اپنے کسی دوست کو خط بھیجتا ہے یا سرکار میں کوئی درخواست دیتا ہے تو ہر ڈاک میں اس کے جواب کا انتظار کرتا اور ڈاکیے سے بار بار پوچھتا ہے یانہیں۔ اسی طرح جب وہ پانچ وقت میں متعدد بار خدا تعالیٰ کے حضور درخواست پیش کرتا ہے تو اس کو اپنے ہر ایک کام میں خواہ وہ تجارت سے تعلق رکھتا ہو یا زراعت سے یا کسی اور فن یا پیشہ سے خیال کرنا چاہئے کہ کیا اس کام کے متعلق میری درخواست کا جواب آیا ہے یا نہیں۔ پس جب تمہارے سامنے کوئی کام ہو تو غور کرو کہ کیا اس میں ہماری درخواست اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کا جواب ہے یا نہیں لیکن تعجب ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں اوربار بار درخواست کرتے ہیں مگر اس کو یاد نہیں رکھتے بلکہ بھُلا دیتے ہیں کیونکہ جب روزانہ ان کی درخواست قبول کی جاتی ہے تو اس سے انکار کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو درخواست ہی نہیں کی تھی۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی بچوں والا معاملہ کرتے ہیں مانگتے ہیں، جب وہ دیتا ہے تو مُکر جاتے ہیں۔ پس جو لوگ خدا سے یہ معاملہ کرتے ہیں وہ نہایت خطرناک حالت میں ہیں کیونکہ خدا سے ہنسی کرنا انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اور تمام نعمتوں اور برکتوں سے محروم کر دیتا ہے۔
چاہئے کہ جب ایک انسان دُعا کرتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو قبول کرے اور ان آسمانی برکات کو ردّ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ بعض لوگ کہیں گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک انسان خدا تعالیٰ کے فضلوں کو ردّ کرے مگر یہ واقع ہے اور ایسا ہوتا ہے اور روزانہ ہوتا ہے کہ انسان لہو و لعب میں پڑ کر اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو ردّ کر دیتے ہیں اور ان کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ ہم خدا کی کسی نعمت کو ردّ کر رہے ہیں۔
غور کرو پہلی قوموں نے خدا کی نعمتوں کو ردّ کیا اور وہ ایسی شان و شوکت والی قومیں تھیں جس کی کچھ حد نہیں مگر اُنہوں نے خدا کے فضلوں کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کر لیا۔ اسی طرح تم بھی بند کر سکتے ہو۔ جب اُنہوں نے خدا سے استغناء کیا اور خدا کی نعمتوں کو حقیر جانا تو خدا نے بھی ان سے نظرِ رحمت کو ہٹا لیا کیونکہ خدا وند تعالیٰ غیور ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ لوگ اس کے انعام کی ناقدری کرتے رہیں اور وہ پھر بھی انعام کرتا چلا جائے۔ پس وہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والے اور اس کے فضلوں کے دروازوں کو بند کرنے والے پھر بھی اس کے انعامات سے حصّہ پائیں۔ پس پہلوں نے تلخ تجربہ کیا ہے اور جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو ردّ کیا وہ بھی ردّ کر دیئے گئے۔ مَیں تمہیں ہوشیار کرتا ہوں کہ خدا کی نعمتوں کی قدر کرو۔ خدا کے فضلوں کے دروازوں کو اپنے پر بند نہ کرو۔ مت سمجھو کہ تم میں کوئی نہیں جو خدا کی نعمتوں کی ناقدری کرتا ہو۔ تم میں بعض ہیں جو خدا کی نعمتوں اور اس کے فضلوں کی قدر نہیں کرتے۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ اگر وہ باز نہیں آئیں گے تو ان پر ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا کے فضلوں کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے۔ افسوس ان پر جو خدا کے فضلوں کے ان دروازوں کو بند کریں جو خدا کھولنا چاہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ تم پر اور مجھ پر رحم فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں سے نہ بنائے جو اس کی نعمتوں اور فضلوں کو ردّ کر کے ہمیشہ کے عذاب میں پڑ گئے بلکہ اپنے فضلوں کے جذب کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین’’
(الفضل 29مارچ1919ء)
1: الفاتحۃ :6

34
سُنو اور سُن کر قولِ احسن پر عمل کرو
(فرمودہ 14مارچ 1919ء مسجد نور)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں:-
وَ الَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى ١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ۔الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ۔1
پھر فرمایا:-
''پہلے اس کے کہ مَیں اس آیت کے متعلق جو ابھی مَیں نے تلاوت کی ہے آپ کے سامنے کچھ بیان کروں۔ اتنا کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بوجہ ایک بہت لمبی اور طویل بیماری کے جس کا سلسلہ کُلی طور پر اب تک بھی منقطع نہیں ہؤا۔ مَیں ان احباب سے جو اس تقریب پر بیرونجات سے تشریف لائے ہیں شاید ان کے ارادے کے مطابق ملاقات نہ کر سکوں۔ گو جہاں تک اﷲ تعالیٰ نے چاہا میں کوشش کروں گا کہ ان حباب سے ملاقات کروں۔ چونکہ میری صحت بہت کمزور ہے اور زیادہ انبوہ سے طبیعت یکلخت گھبرا جاتی ہے اس لئے مَیں نے انتظام کیا ہے کہ ترتیب سے تھوڑے تھوڑے احباب ایک انتظام کے ماتحت مجھ سے ملاقات کریں۔ پس احباب کو ان منتظمین سے ناراض نہیں ہونا چاہئے جو ایک انتظام کے ماتحت ملاقات کروانے کے لئے مقرر کئے جائیں۔ پچھلے جلسوں میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ بیعت کرتے وقت اکثر دوست میری پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیتے تھے لیکن اب اگر میری پیٹھ کو ہاتھ لگ جائے تو میرے دل میں تکلیف پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اس لئے اگر احباب اس بات کو مدّ نظر رکھیں تو مَیں اﷲتعالیٰ کے فضل سے اُمید رکھتا ہوں کہ ان سے ملاقات بھی ہو جائے گی اور مجھ کو تکلیف بھی نہیں ہو گی۔
اس کے بعد مَیں ان تمام دوستوں کو جو باہر سے قادیان میں تشریف لائے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ يَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰىوہ لوگ جو ایسی خبیث ہستیوں سے جن میں سرکشی کا مادہ ہو اجتناب کریں یعنی جو ان کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ ان کو چھوڑ کر خدا کی طرف توجہ کریں اور اسی کی طرف جھک جائیں ایسے لوگوں کے لئے بشارت ہے۔
بشارت کے معنی ایسی عظیم الشان خبر کے ہیں جس سے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جائے خواہ وہ اچھی ہو یا بُری۔ اگر بُری ہو تو چہرہ کا رنگ اُڑ جاتا ہے۔ جیسا کہ کوئی حادثہ ہو۔ کسی کے مال پر، جان پر، عزت پر آفت آجائے یا لڑائی فتنہ کی خبر ہو اس سے اس کا رنگ اُڑ جاتا ہے۔ ایسی خبر کو بھی بشارت کہتے ہیں۔ صرف قرائن سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اب یہ لفظ اچھے معنوں میں استعمال ہؤا ہے یا بُرے معنوں میں۔
اور اسی طرح اچھے معنوں میں اگر استعمال ہو تو اس وقت اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ چہرہ پر خون پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جس شخص کو کوئی خوشی کی خبر معلوم ہو اس کا چہرہ تمتما اُٹھتا ہے اور سرخ ہو جاتا ہے تو فرمایا کہ جو لوگ ایسی خبیث روحوں کی پیروی نہیں کرتے اور اﷲ کی طرف جھک جاتے ہیں لَهُمُ الْبُشْرٰىان کے لئے بشارت ہے یعنی ان کے لئے خوشخبری ہے ان کے لئے یہ ایسی خبر ہے کہ خوشی سے ان کے چہرے چمک اُٹھنے اور سُرخ ہو جانے چاہئیں۔
پھر فرمایا فَبَشِّرْ عِبَادِبشارت دے میرے ان بندوں کو الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ جو بات کو سُنتے ہیں خواہ وہ بات اچھی ہو یا بُری اس کو سُن لیتے ہیں لیکن ہر ایک بات کے پیچھے نہیں لگ جاتے بلکہ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗاتباع کرتے ہیں اچھی بات کی۔ وہی ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے اور وہی ہیں جو عقلمند ہیں اور دانا کہلانے کے مستحق ہیں۔
اس سے بتایا کہ اگر خوشخبری سُننا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ باتوں کو سُنو اور جو اِن میں سے بہتر ہوں ان کو قبول کرو۔ انسان کو روزانہ کچھ باتیں بیوی سے سُننا پڑتی ہیں، کچھ بچوں سے، کچھ دوستوں سے، کچھ دُشمنوں سے، کچھ حاکموں سے، کچھ اہلِ معاملہ سے۔ غرض بے شمار باتیں سُننا پڑتی ہیں مگر یہ نہیں کہ ہر ایک بات جو کان میں پڑتی ہے اسی کی پیروی کرتا ہے۔ نہیں بلکہ مؤمن انسان ان میں سے جو باتیں خدا کے رستہ سے روکنے والی اور اس کی رضا کے خلاف ہوتی ہیں ان کو ردّ کردیتا ہے اور جو الٰہی منشاء کے مطابق اور رضا مندی کا موجب ہوتی ہیں ان کو اختیار کر لیتا ہے۔
آپ لوگ یہاں بیرونجات سے اپنی اپنی جماعتوں کے قائمقام ہو کر آئے ہیں اور آپ کے آنے کی غرض یہ ہے کہ امورِ دینیہ کے متعلق ہدایات سُنیں اور اپنی ان ذمہ داریوں کو سوچیں جو آپ پر دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو دو تین بار آتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اس سے بھی زیادہ دفعہ آتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو کئی سال کے بعد آتے ہیں۔ اب آپ لوگ جو دُوردُور سے اپنے وقتوں کو خرچ کر کے، اپنے مالوں کو خرچ کر کے، اپنے کاموں کو چھوڑ کر آئے ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ اس وقت کو صحیح طور پر خرچ کریں اور یہاں آنے کی جو غرض ہے اس کو پورا کریں۔
مَیں اس وقت آپ لوگوں کو قرآنِ کریم کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ وہ بتلاتا ہے کہ منافقوں کا قاعدہ ہے کہ مجلس میں آتے ہیں مگر جو کچھ وہاں ہو اس پر توجہ نہیں کرتے۔ پس آپ کا فرض ہے کہ جب آپ آئے ہیں تو توجہ کریں اور غور سے کام لیں اور جو کچھ آپ کو سنایا جاتا ہے اس کو سُنیں۔ جب آپ آئے ہی یہاں اس لئے ہیں تو کیوں نہ اپنے وقت کو اسی میں صرف کریں۔
بعض لوگوں کا قاعدہ ہے کہ وہ مجالس میں تو بیٹھتے ہیں مگر ان کی خطیب کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ وہ نہیں توجہ کرتے کہ خطیب کیا بیان کر رہا ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ خطیب بیان کر رہا ہوتا ہے اور وہ آرام سے سوئے رہتے ہیں، بعض لوگوں کو سونے کا مرض ہوتا ہے مگر وہ مجبور ہوتے ہیں۔ ایک دوست نے سنایا کہ مَیں ایک جگہ گیا اور وہاں تقریر قرار پائی۔ مَیں تقریر کرنے لگا تو اثناءِ بیان میں ہی صدر جلسہ سمیت سب کے سب سو گئے۔جب مَیں تقریر ختم کر چُکا تو کہا لو اَب جاگ اُٹھو مَیں نے جو کچھ کہنا تھا مَیں کہہ چُکا ہوں۔ جب وہ بیدار ہوئے تو معذرت کرنے لگے۔ خیر تو بعض لوگ مجلسِ وعظ میں آتے ہیں اور سو جاتے ہیں یا ان کی توجہ خطیب کے محض الفاظ یا اس کی حرکات، سکنات پر ہوتی ہے اور جو کچھ وہ بیان کرتا ہے اس سے وہ کورے کے کورے ہی جاتے ہیں۔ اس لئے ان کو کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر ایک مریض شخص طبیب کے پاس جائے اور وہ اس کو کوئی دوائی دے لیکن مریض بجائے دوائی کو پینے کے سر پر انڈیل لے تو اُس کو کیا فائدہ ہو گا، کچھ بھی نہیں۔ پس جو لوگ اس طرح اپنے وقت کو ضائع کرتے ہیں وہ وقت کو بھی کھوتے ہیں، مال کو بھی تباہ کرتے ہیں اور جو کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتے ان کے لئے یہ مثل صادق آتی ہے ‘‘یکے نقصان مایہ د گر شماتتِ ہمسایہ’’۔ کیونکہ اُنہوں نے کچھ فائدہ بھی نہ اُٹھایا اور مال و وقت صرف کر کے جیسے آئے تھے ویسے ہی چلے گئے۔
ہر زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے ہیں حضرت شاہ عبدالعزیز کے پاس ایک شخص آیا کہ وعظ میں تو لوگ سو جاتے ہیں اور کنچنی کے ناچ میں لوگ خوب سنتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ چونکہ اس شخص نے اس طرح دین کی باتوں پر ہنسی کی تھی اس لئے حضرت شاہ صاحب نے اسے مناسب موقع پر یہ جواب دیا کہ کیا کوئی شخص پاخانہ میں بھی سوتا ہے۔ سوتا وہیں ہے جہاں رُوح کو آرام پہنچتا ہو۔ یہ جواب موقع کے لحاظ سے درست تھا لیکن حق یہی ہے کہ وعظ میں وہی لوگ سوتے ہیں جن پر غفلت طاری ہوتی ہے اور جن کی توجہ وعظ کی طرف نہیں ہوتی۔
مشہور ہے کہ باوانانک صاحب ایک مُلّا کے پیچھے نماز پڑھنے کھڑے ہوئے کہ اتنے میں باوا صاحب نے نیت توڑ دی اور الگ گوشہ میں جاکر نماز پڑھ لی۔ جب جماعت ہو چکی تو ملّاصاحب ناراض ہوئے کہ تم نے ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھی۔ باوا صاحب نے کہا کہ آپ نمازمیں کبھی کہیں جاتے تھے کبھی کہیں۔ کبھی آپ پشاور میں جاتے تھے کبھی کابل میں، کبھی آپ دِلّی میں جاتے تھے کبھی اَور جگہ۔ چونکہ مجھ میں اتنی طاقتِ سفر نہ تھی اس لئے مَیں نے نیت توڑ کر الگ نماز پڑھ لی۔ تو مُلّا صاحب اگرچہ نماز پڑھا رہے تھے مگر ان کے خیالات کہیں کہیں بھٹک رہے تھے اس لئے ان کی نماز حضورِ قلب سے نہ تھی۔
بعض لوگ مجلسِ وعظ میں بیٹھے ہوئے دُور دُور کی خبریں لاتے ہیں لیکن جو کچھ ان کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے اس سے غافل ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ سُنتے بھی ہیں مگر سمجھنے اور فائدہ اُٹھانے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ دیکھیں خطیب کہاں کہاں غلطی کرتا ہے۔ ان کی نظر الفاظ کی غلطی اور سقم پر ہوتی ہے، حرکات پر ہوتی ہے، مطالب اور معانی اور مسائل ان کو مدّنظر نہیں ہوتے۔ ایک دفعہ ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس لکھنو سے آیا اور حضور سے گفتگو کرتا رہا۔ آخر میں کہنے لگا کہ آپ کیا مسیح موعود ہوں گے آپ قرآن کا قاف تو ادا نہیں کر سکتے۔ حضرت مولوی عبداللطیف صاحب شہید حضور کے پاؤں دبا رہے تھے۔ اُنہوں نے اس شخص کے مُنہ پر تھپڑ مارنا چاہا مگر حضرت اقدس نے ہاتھ پکڑ لیا۔ تو بعض لوگ وعظ سُنتے ہیں مگر اس نیت سے کہ دیکھیں واعظ کہاں کہاں غلطی کرتا ہے۔ محاسن پر ان کی نظر جاتی ہی نہیں۔
پس مومن کا یہ فرض ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی توجہ سے سُنے اور جو قابلِ عمل ہو اور اعلیٰ درجہ کی ہو اس پر عمل کرے۔ آپ لوگ چاہتے تو ہیں کہ پکّے مومن ہوجائیں، خدا تعالیٰ کے عاشق بن جائیں مگر پھلانگ کر اس منزل کو طے کرنا چاہتے ہیں حالانکہ زینہ بزینہ ترقی حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہم نے ایک بات پکڑ لی ہے وہ ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔ عاشق کا تو قاعدہ ہے کہ وہ دوست کے رستہ میں جس قدر دقتیں، مصیبتیں، آفتیں آتی ہیں ان کو نہایت شوق و ذوق سے جھیلتا ہے۔ جو اﷲ کی طرف سے فرائض عائد ہوتے ہیں ان پر عمل کرتا ہے بلکہ چاہتا ہے کہ خدا کے لئے اگر اور بھی کچھ کام ہوں تو ان کو بھی بجالاؤں۔ کوئی آدمی صرف اس پر خوش نہیں ہو گا کہ وہ محض قید سے آزاد کر دیا جائے بلکہ انعام یافتوں میں سے ہونا پسند کرے گا۔ یہ کبھی نہیں ہو گا کہ اگر کسی دانا انسان کو انعام دیا جائے تو وہ کہے کہ مجھے مہربانی کر کے یہ نہ دیجئے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ لینے کی کوشش کرے گا۔ پس ایک وصل الی اﷲ کے لئے تو جس قدر اس سے ہو سکے گا کوشش کرے گا اور صرف فرائض کے ادا کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرے گا۔ ہماری شریعت *** نہیں بلکہ رحمت ہے جو اس پر عمل کرے گا وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے حصّہ پائے گا۔
پس جو یہاں آئے ہیں اگر وہ اجتماع نہیں کرتے بے وجہ اِدھر اُدھر پھرتے رہتے ہیں تو وہ اپنے اوقات کو ضائع کرتے ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ میلہ نہیں ہے۔ یہ جلسہ خداتعالیٰ کے منشاء کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ صدیوں کے زنگ جو انسانی قلوب پر چھائے ہوئے تھے دھوئے جائیں اور وہ جو صدیوں سے تاریکیوں اور ظلمتوں میں پڑے تھے ان کو روشنی کے بلند مینار پر پہنچا دیا جائے۔ پس اس مقام پر لوگوں کو خدا تعالیٰ اس لئے جمع کرنا چاہتا ہے کہ تا اُن کو پاک کرے۔ جو شخص ان اغراض کو پورا نہیں کرتا اس کا ایمان خطرہ میں ہے۔ آپ لوگوں کے پاس تھوڑا وقت ہے۔ پس چاہئے کہ اس کو آپ اچھی طرح صرف کریں اور اس سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھائیں اور جو باتیں آپ کو بتائی جائیں ان پر عمل کریں۔ چونکہ ہمارا تمام دُنیا سے مقابلہ ہے اور ہماری تعداد و طاقت ان کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں اس لئے ہمیں بہت ہی کوشش کی ضرورت ہے۔ ہر وقت چوکس و ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس وقت ہم سُستی کریں اور چُستی سے کام نہ لیں اور ان ہتھیاروں سے کام نہ لیں یا ان کو استعمال کرنا نہ سیکھیں جو آسمان سے ہمارے لئے نازل کئے گئے ہیں تو طاقتور دُشمن کا کیا مقابلہ کر سکیں گے۔ پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ ان ہتھیاروں کا استعمال سیکھیں تاکہ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کا جلال ظاہر ہو اور آپ کے ذریعہ وہ نور دُنیا میں پھیلے جو مدّت سے دُنیا میں گم ہو چُکا تھا۔ اگر آپ لوگ ایسا کریں گے تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت کے وارث ہو جائیں گے۔ اﷲ کی رحمت ہو اس پر جو بات کو سُنے اور سمجھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور اﷲ کی برکتیں ہوں ان پرجو دین کے لئے کوشش کریں۔’’
(الفضل یکم اپریل 1919ء)
1: الزمر : 18، 19

35
مصائب سے بچنے کا طریق
(فرمودہ 21مارچ1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃفاتحہ کے بعد سورۃ الفلق کی تلاوت فرمائی:-
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ۔مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ۔وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ۔وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِۙ۔وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۔1
‘‘ہر ایک ملک میں خواہ وہ تعلیم یافتہ لوگوں کا ہو یا جہلاء کا اور اس میں کسی مذہب کے لوگ آباد ہوں۔ عیسائی ہوں یا یہودی، مسلمان ہوں یا سکھ، زرتشی ہوں یا اَور کسی مذہب کے، یہ رواج چلا آتا ہے یا یوں کہو کہ ان میں یہ خواہش چلی آتی ہے کہ ان لوگوں کو ایسے ذرائع مِل جائیں جن سے وہ بغیر کسی ظاہری کوشش کے مصائب سے بچ جائیں۔ پُرانے زمانہ میں جادو کا رواج تھا آج تک اس کا اثر چلا آتا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج جبکہ تعلیم اس قدر پھیل گئی ہے اور لوگ عام طور پر قسم قسم کے اوہام سے بچ گئے ہیں پھر بھی جادو کا خیال موجود ہے۔ اس کی ہر دلعزیزی اور اثر اندازی کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ آج جبکہ علوم کے پانیوں نے لوگوں کے سینوں کو دھودیا ہے پھر بھی اس کا اثر باقی ہے بلکہ سینوں کے اندر گہرے طور پر موجود ہے۔ جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ پہلے بڑے بڑے اہم اُمور کا دارومدار انہی باتوں پر ہوتا تھا۔ بادشاہ کو اپنی فوج پر اتنا وثوق نہ تھا جتنا کہ کاہن کے منتروں پر، جرنیلوں کو اپنی تدبیر اور قوت بازو پر اتنا بھروسہ نہ تھا جتنا کہ بازو پر لٹکے ہوئے تعویذ پر۔ اسی طرح مریض کو طبیب کے بتائے ہوئے نسخہ پر اتنا یقین نہ تھا جتنا ایک پڑھے ہوئے دانہ پر ہوتا تھا۔ عورت کو فرمانبرداری، خوش اخلاقی اور خاوند کی خدمتگزاری سے خاوند کو اپنی طرف مائل کر لینے کی اتنی اُمید نہ ہوتی تھی جتنی بھوج پتر پر لکھے ہوئے چند بے معنی الفاظ یا لکیروں پر۔
غرض جادو اور ٹونے کو زندگی کے ہر ایک صیغہ میں بہت دخل تھا۔ بادشاہوں کی حکومت میں اس کو دخل تھا، امورِ خانہ داری میں اس کا دخل تھا، عورت و مرد کے تعلقات میں اس کا دخل تھا، دوستوں کی دوستی میں اس کا دخل تھا اور آج بھی حقیقت سے ناواقف لوگ سب سے پہلے یہی سوال کرتے ہیں کہ کوئی ایسا منتر بتایا جائے جس سے دشمن زیر ہو جائے، کوئی ایسا منتر ہو جس سے محبت کا سکّہ خاوند کے دل میں جم جائے، کوئی ایسا تعویذ ہو جس سے سب مشکلات اور مصائب دُور ہو جائیں۔ وہ کوشش کرنے کو بناوٹ اور سعی کو دھوکا اور محنت کو وہم خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر کسی بات میں حقیقت ہے تو وہ منتر میں ہے کیونکہ اس سے ان کے خیال میں بغیر کوشش اور جدوجہد کے دُشمن زیر ہو جاتا ہے اور ہر ایک مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔
پس معلوم ہؤا کہ منتروں کا اثر لوگوں کے نزدیک بہت بڑا اثر ہے۔ یورپ کے لوگ جنہوں نے اس قسم کی آزادی حاصل کر لی ہے کہ اپنے خدا کے بھی قائل نہیں رہے اُنہوں نے مسیح کی پیروی سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا ہے، گرجے کی حکومت کے جوئے کو پرے پھینک دیا ہے مگر ٹونے اور منتروں سے آزاد نہیں ہو سکے۔ یورپ نے خدا سے انکار کیا، خدا کے رسولوں کو چھوڑ دیا، خدا کے رسولوں کی کتب سے رو گردان ہؤا لیکن اگر نہیں آزاد ہؤا تو منتروں کی حکومت سے آزاد نہیں ہؤا۔ چنانچہ اسی جنگ کے دَوران میں جو مختلف جرنیلوں کی رپورٹیں شائع ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مارے گئے ان میں سے اکثر اشخاص کے بازوؤں پر تعویذ بندھے ہوئے تھے۔ گویا خدا کے منکر، رسولوں کے منکر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تعویذ کے ذریعہ موت سے بچ جائیں گے۔
تو ان باتوں کا اب بھی ایسا گہرا اثر ہے کہ علوم کی ترقی بھی اس کو مِٹا نہیں سکتی۔ مَیں نے ابھی پچھلے دنوں ''بہائیوں'' کی ایک کتاب پڑھی ہے۔ اِس میں لکھا ہے کہ امریکہ میں اس مذہب کی اشاعت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں داخل ہونے والوں کو ایک خفیہ نام دیا جاتا ہے اور اس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ نام بہت پُر اسرار اور بڑا اثر والا ہوتا ہے۔ اس کتاب کا مصنف لکھتا ہے کہ میرے جی میں بھی آتا ہے کہ اس نام کے لئے بہائی ہو جاؤں لیکن مَیں چونکہ درحقیقت اس مذہب کو سچا نہیں جانتا اس لئے منافقت سے داخل ہونے کو پسند نہیں کرتا۔ بہائیوں میں رواج ہے کہ جب کوئی ان میں داخل ہو تو وہ اس کو ایک نام دیتے ہیں اور وہ عربی زبان کا کوئی لفظ ہوتا ہے مثلاً جو شخص اچھا لکھنے والا ہؤا اُس کو ''سلطان القلم'' نام دے دیا۔ چونکہ وہ لوگ عربی نہیں جانتے اس لئے خیال کرتے ہیں کہ یہ کوئی خاص اثر رکھنے والا خفیہ نام ہے اس کے ذریعہ ہم تمام آفات سے بچ جائیں گے۔
اسلام نے ان توہمات کو مٹایا ہے اور اس قسم کے خیالات کی تردید کی ہے لیکن اصل حقیقت کو برقرار اور قائم کر دیا ہے اور اسلام کی یہی خوبی ہے کہ ہر بات میں وسطی طریق اختیار کرتا ہے۔ جھوٹی باتوں کو ردّ کر دیتا ہے اور سچّی کو برقرار رکھتا ہے۔ جہاں تک بنانا مفید ہوتا ہے بناتا ہے اور جتنا مٹانا ہوتا ہے اُس کو مٹا دیتا ہے۔ تو اسلام نے بھی ایک جادو اور تعویذ بتایا ہے لیکن اس میں اور عام لوگوں کے سمجھے ہوئے جادو میں بڑا فرق ہے۔ لوگ جو تعویذ بتاتے ہیں وہ بے معنی اور بے اثر ہوتے ہیں۔
مگر اسلام نے آفات سے بچانے کے لئے جو گُر بتایا ہے اس میں طاقت ہے کہ اگر انسان اس پر عمل کرے اور اس کی تکرار کرے تو بہت سے فتنوں سے بچ جاتا ہے۔ لوگوں کے جادو محض لکیریں اور ہندسے اور اشارات ہوتے ہیں مگر مَیں آج اسلام کا ایک ایسا کلمہ بتاتا ہوں جس پر عمل کرنے سے انسان بلاؤں سے بچ جاتا ہے۔
فرمایا بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِمیں اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر یہ عبارت پڑھتا ہوں جو تمام خوبیوں کا جامع ہے اور تمام نقصوں سے پاک ہے۔ الرَّحْمٰنِوہ ایسی ہستی ہے جو بغیر کوشش کئے انسان کے وہم و خیال میں بھی جو کچھ نہیں ہوتا دیتی ہے۔ الرَّحِيْمِبلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب اس کے فضلوں کے ماتحت دیئے ہوئے سامانوں کو انسان استعمال کرے تو اپنے فضلوں کو دوبارہ اس پر نازل فرماتا ہے۔ مَیں ایسے خدا کا نام لے کر جو ایسی صفتوں اور ایسی شان والا ہے شروع کرتا ہوں۔ آگے فرماتا ہے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مَیں پناہ مانگتا ہوں بِرَبِّ الْفَلَقِاس خدا کی جو تمام مخلوقات کا ربّ ہے۔ فلق کے معنی ہیں ہر چیز جو خلق ہوئی۔ خدا تعالیٰ کے سوا تمام چیزیں اس میں داخل ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ مخلوق نہیں ہے بلکہ وہ خالق ہے۔ تو کس کی پناہ مانگتا ہوں؟ اس ذات کی جو تمام مخلوق کا ربّ ہے۔ کوئی چیز خواہ وہ زمینوں میں ہو خواہ وہ آسمانوں میں اس کی ربوبیت سے باہر نہیں۔ پس وہ ہستی جس کی ربوبیت کی تمام چیزیں پہلے بھی محتاج تھیں اب بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی ایسے خدا کی مَیں پناہ ڈھونڈتا ہوں۔
کس بات سے پناہ ڈھونڈتا ہوں؟ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَان تمام چیزوں کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہیں۔ کہتے ہیں ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں مگر بہت سی مخلوق ہو گی جس کے پاؤں ہاتھی سے بڑے ہوں گے لیکن یہ کہہ دینے سے کچھ بھی باہر نہیں رہتا کہ جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے اس تمام کی بدی اور شر سے پناہ چاہتا ہوں۔ پھر فرمایا وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ایک عام بدی ہوتی ہے اور ایک خاص۔ بعض اوقات شر خاص رنگ میں جوش مارتا ہے جیسے بیماریاں وباء کے طور پر پھیلتی ہیں۔
غَاسِقٍ رات کو کہتے ہیں اور وَقَبَجب اس کی تاریکی پھیل جاتی ہے۔ اس لئے اس کا یہ مطلب ہؤا کہ مَیں نہ صرف معمولی مرضوں سے بلکہ ان سے جو عام طور پر پھیلنے اور تمام دُنیا میں چھا جاتے ہیں ان سے پناہ مانگتا ہوں۔
پھر فرمایا وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِاور پناہ مانگتا ہوں ان سے جو گِرہوں میں بداثرات پھُونکنے والے ہیں۔ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَاور پناہ چاہتا ہوں حاسد کے حسدسے۔
دُنیا میں ان چار باتوں سے ہی انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور کوئی شر ان چار سے باہر نہیں رہ جاتا۔ دو وہ ہیں جو آفات و مصائب کے متعلق ہیں اور دو وہ ہیں جو ترقی و عروج کے متعلق ہیں۔ ایک وقت انسان پر ایسا ہوتا ہے اور ایک وقت وہ ہوتا ہے جب وہ مصائب سے نکل کر ترقی کے میدان میں چلا جاتا ہے اور خوشی و خرمی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ ایک وقت اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ آفات سے بچنا چاہتا ہے اور دوسرے وقت جب وہ مصائب سے نکل جاتا ہے تو اس آرام کے قیام کی خواہش کیا کرتا ہے۔ پہلا ادنیٰ درجہ ہے اور دوسرا اعلیٰ۔ ایک وقت میں جبکہ جہالت کی زندگی بسر کرتا ہے چاہتا ہے کہ جہالت دُور ہو کر اس کو علوم حاصل ہو جائیں اور جب علوم مِل جاتے ہیں تو ان کی حفاظت کی فکر ہوتی ہے کہ جو کچھ مَیں نے حاصل کیا ضائع نہ ہو جائے۔ اسی طرح ایک وقت جبکہ بیمار ہوتا ہے، کوشش کرتا ہے کہ بیماری دُور ہو جائے اور جب بیماری دُور ہو جاتی ہے تو قیام صحت اور افزائش طاقت کے لئے مقویات کا استعمال کرتاہے۔
اس سورۃ میں ان چاروں درجوں کا ذکر ہے ۔
(1) فرمایا مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وہ بدیاں جو فرداً فرداً پائی جاتی ہیں۔
(2) وہ جو عام طور پر پھیل کر چھا جاتی اور اندھیرا کر دیتی ہیں یعنی ایسے فتنے جو اپنی وسعت سے تمام چیزوں کو گھیر لیتے ہیں۔ تو یہ مشکلات اور مصائب کے متعلق ہؤا۔
(3) وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ اب ترقی آتی ہے۔ تمام سامانِ ترقی جمع ہو جاتے ہیں مگر یہ فتنہ ان تمام سامانوں کو پراگندہ کر دیتا ہے۔ فرمایا کہ دُعا کرو کہ مَیں اس فتنہ سے بھی پناہ چاہتا ہوں۔ وہ کیا ہوتا ہے؟ یہ کہ سامان عمدہ مِل گیا، سستا بھی مِل گیا اور ہر قسم کی آسانیاں بھی پیدا ہو گئیں اور درمیانی تمام دقتیں بھی رفع ہو گئیں لیکن آگے فائدہ اُٹھانے میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس کے متعلق فرمایا کہ وہ جو گِرہوں میں پھُونکنے والی ہیں ان سے پناہ مانگتا ہوں۔ یعنی وہ بد اثرات جن کے باعث سامان ضائع ہو کر نقصان اُٹھانا پڑتا ہے ان سے محفوظ رہنے کی التجا کرتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی سامانوں میں جو فتنے ہو سکتے ہیں اور جن ذرائع سے ہو سکتے ہیں ان سے بچایا جائے۔
(4) پھر فائدہ اُٹھانے کے بعد جو خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں اے خدا! ان سے بھی بچا۔ وہ حاسدوں کا حسد ہوتا ہے۔ اس لئے دُعا سکھلائی کہ حاسدوں کا حسد اور ان کی بد کوششوں سے پناہ مانگتا ہوں۔ اب بتاؤ ایسی جامع دُعا کے بعد کس چیز کی ضرورت رہ جاتی ہے اور کونسی مصیبت اور مُشکل ہے جو دور نہیں ہو سکتی۔
یہ دُعا ہے جو اسلام نے ہر ایک مومن کو سکھائی ہے۔ اگر اس کا ورد کیا جائے تو انسان بہت سی بلاؤں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں سوتے تھے جب تک کہ ان دُعاؤں کو پڑھ نہ لیتے تھے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا قاعدہ تھا کہ آپ جس وقت بستر پر تشریف لے جاتے تھے تو سورۃ اخلاص اور سورۃ فلق اور سورۃ الناس کو پڑھ کر دونوں بانہوں پر پھُونکتے اور جسم پر جہاں جہاں تک ہاتھ جاسکتا تھا ہاتھ پھیر لیتے اور ایسا ہی تین دفعہ کرتے اور اس کے ساتھ اور بھی بعض دُعائیں ملاتے تھے اور آیت الکرسی بھی پڑھتے تھے۔2 یہ اس شخص کا دستور العمل تھا جس کے لئے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ تھا وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ3 اور جس کے لئے خدا کی حفاظت ہر طرف سے قائم تھی۔ اس سے خیال کر سکتے ہو کہ اَور لوگوں کے لئے ایسا کرنا کس قدر ضروری ہے۔ جو لوگ یہ دُعا نہیں پڑھتے اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے مگر وہ لوگ اس سے واقف نہیں۔ اگر جانتے تو ضرور پڑھتے لیکن میں آپ لوگوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے ہمیں مصائب و آفات سے بچنے کا یہ گُر بتادیا ہے اور اس سورۃ میں تمام جسمانی آفتوں کا ذکر ہے اور ان سے محفوظ رہنے کا طریق بتایا گیا ہے۔ رُوحانی آفات اور ان سے بچنے کا ذکر اگلی سورۃ میں ہے۔
پس تمام ابتلاؤں سے بچنے کا گُر اس سورۃ میں ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ نہ تو انسان کو بالکل ہی اسباب کو ترک کر دینا چاہئے اور نہ بالکل اسباب پر ہی گر پڑنا چاہئے کیونکہ اسباب سے ہر گز ترقی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اﷲ تعالیٰ پر توکّل نہ ہو اور اس کا فضل شاملِ حال نہ ہو۔ یہ کلمات اسبابِ ترقی اور حفاظت سے منع نہیں کرتے۔ اصل بیج خیالات ہوتے ہیں۔ اگر بیج کھوکھلا ہو تو کبھی عمدہ کھاد اور اچھی زمین اس کو فائدہ نہیں دے سکتی۔ پس اسباب مہیا کرو لیکن باوجود اس کے کامیابی اُس وقت ہو گی جب اﷲ تعالیٰ پر توکّل ہو گا اور خدا کے فضل کے جذب کرنے کے لئے دعاؤں کی بھی ضرورت ہے۔
مَیں نے جو آج یہ سورۃ پڑھی ہے اس کی خاص غرض ہے اور وہ یہ کہ جیسا کہ مختلف اخبارات سے معلوم ہو رہا ہے پچھلے دنوں میں جو مرض پھیلا تھا وہ آجکل پھر بعض مقامات پر پھُوٹ رہا ہے اور یورپ میں تو اس دفعہ قیامت کا نمونہ بنا ہؤا ہے۔ لکھا ہے کہ ہسپتال اس قدر مریضوں سے پُر ہیں کہ بہت سے مریض ہسپتالوں کے سامنے پڑے پڑے مَر جاتے ہیں اور ان کے لئے علاج کرنے کا موقع اور ہسپتال میں داخل کرنے کے لئے جگہ نہیں مِل سکتی۔ ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتے اور شفا خانوں میں کہہ دیا جاتا ہے کہ گنجائش نہیں ہے۔ وہاں ایسا سخت حملہ ہے کہ پہلے تو بعض مریض بچ بھی جاتے تھے مگر اب شاید ہی کوئی بچتا ہے۔ ہندوستان کے بعض حصّوں میں بھی یہ مرض شروع ہے، پنجاب میں بھی ہے مگر تاحال زور اور وبائی صورت نہیں ہے۔ طاعون بھی ہندوستان میں شروع ہے اور یہ اس کے خاص دن ہیں۔
پچھلی دفعہ ابھی مرض یہاں آیا نہیں تھا کہ مَیں نے ایک خطبہ میں ہوشیار کیا تھا مگر افسوس کہ اس سے فائدہ نہ اُٹھایا گیا۔ دیکھو خدا تعالیٰ سب کا ربّ ہے کیونکہ رَبِّ الْفَلَقِہے اس نے ہر ایک چیز پیدا کی ہوئی ہے۔ اِس لئے جب تک اسی سے ہر ایک چیز کے شر سے بچنے کی التجا نہ کی جائے اور وہی ان کے شر کو نہ روک دے اور کوئی صورت محفوظ رہنے کی نہیں ہے۔ پنجابی کا ایک مشہور فقرہ ہے ‘‘جے تُوں اُسدا ہو رہیں تاں سب جگ تیرا ہو’’۔ یعنی اگر تُو خدا کا ہو جائے تو تمام دُنیا تیری ہی خادم ہو جائے گی۔ پس اگر انسان خدا کے لئے ہو جائے اور خدا اس کا ہو جائے تو پھر تمام مخلوق اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ دُنیا میں بادشاہ سے جس کا تعلق ہو اور حکمران جس پر مہربان ہو لوگ اس کی خوشامدیں کرتے اور اسے نقصان پہنچانے سے ڈرتے ہیں۔ پھر کیا اگر خدا ہمارا ہو جائے تو کوئی آفت ہمارا کچھ بگاڑ سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔
پس اگر اَور لوگ بلاؤں اور آفتوں سے ہلاک ہوتے ہیں تو انہیں ہونا چاہئے کیونکہ ان کو ان بلاؤں سے بچنے کا علم نہیں ہے لیکن تم پر اگر مصیبت آتی ہے، تم اگر آفتوں میں پڑتے ہو تو یہ بات قابلِ تعجب ہے کیونکہ تمہیں ان سے بچنے کا طریق بتایا گیا ہے۔ کچھ مصائب اور ابتلاء تو ترقی کے لئے ہوتے ہیں جن سے گزرنا تمہارے لئے ضروری ہے مگر الٰہی سلسلوں کے لئے وبائیں نہیں ہوتیں۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ طاعون احمدیوں میں وباء کے طور پر نہیں آئے گی۔ مختلف شکلوںمیں فرداً فرداً تکلیفیں آتی ہیں مگر ایسی مصیبت جو تباہ کُن ہو خدا کی پیاری جماعت کو نہیں آیا کرتی۔ چونکہ تم خدا کی راہ میں قدم ماررہے ہو اور اس کے دین کی اعانت کر رہے ہو اس لئے تم یہ مت خیال کرو کہ تم بے بس اور بے کس ہو۔ اگر تمہارے ساتھ خدا ہے تو کوئی چیز تمہیں گزند نہیں پہنچا سکتی مگر اپنی حالت کو درست کرو۔ تمہیں سامانوں سے منع نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے روکا جاتا ہے کہ بالکل سامانوں پر ہی نہ گر پڑو۔
جب مصائب عام ہوں تو ان کے دُور ہونے کے لئے دعائیں بھی عام ہی ہوتی ہیں ۔ ہاں ایسے وقت میں ہوشیار سب کو کر دیا جاتا ہے اور ہلاکتوں سے وہی بچائے جاتے ہیں جو ہوشیار ہو جاتے ہیں۔ پس اِس وقت ہر ایک کو تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھو کہ کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔بہت لوگ مایوسی کے سبب سے ہلاک ہو جاتے ہیں مگر تم وہ ہو جنہوں نے خدا کے فضل کے دامن کو پکڑا ہے اس لئے تمہارے لئے کوئی مایوسی نہیں ہے۔ اگر تم پر خدانخواستہ کوئی مُشکل آئے تو مت یقین کرو کہ وہ تمہیں تباہ کرے گی کیونکہ تمہارا اس خدا سے تعلق ہے جو واقعی تمام ہلاکتوں سے بچا سکتا ہے۔ مایوسی تو ایسی بُری چیز ہے کہ انسان کو کافر بنا دیتی ہے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّهٗ لَا يَايْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۔4 اﷲ کی رحمت سے نا اُمید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ۔ پس مایوسی ایسی چیز ہے کہ ایمان گھٹتے گھٹتے کُفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے اس لئے تم کسی وقت میں اپنے آپ کو مایوس نہ ہونے دو اور خدا پر توکّل رکھو۔پس اﷲ تعالیٰ کے فضلوں کا یقین اور اس کے فنا کا خوف ہو اور پھر دعاؤں پر زور دو جب یہ بات انسان میں پیدا ہو جائے تو پھر کوئی ہلاکت اس پر اثر نہیں کر سکتی۔ یہ دُعائیں ہیں جن کو استعمال کرو۔ ان کے ساتھ وہ دُعائیں بھی ہیں جو حضرت صاحب کو اﷲتعالیٰ نے بتائی ہیں۔’’
اتنا فرما کر حضور بیٹھ گئے۔ جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا:-
‘‘مَیں نے ایک دفعہ ایک رؤیا دیکھی۔ شاید حضرت مسیح موعود اس وقت زندہ تھے۔ مَیں اور کچھ اَور آدمی کشتی میں سوار تھے اور ایک بہت بڑے سمندر میں چلے جارہے تھے کہ سخت طوفان آیا اور کشتی چلتے چلتے بھنور میں پڑ گئی۔ بہت کوشش کی اور چَپّو چلائے کہ کسی طرح کشتی اس بھنور سے نِکل جائے مگر جُوں جُوں ہم کوشش کرتے تھے وہ اسی قدر زیادہ بھنور میں پڑتی جارہی تھی۔ ہم اسی طرح زور لگاتے رہے اور ہماری حیرانی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک آدمی نے کہا یہاں ایک پیر کی قبر ہے اگر اس سے دُعا کی جائے تو ہم اس ہلاکت سے بچ سکتے ہیں۔ مَیں نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا۔ میرے ساتھیوں میں سے بعض کہنے لگے اگر پیر سے دُعا کی جائے تو کیا حرج ہے مگر مَیں یہی کہتا رہا کہ یہ تو شرک ہے۔ ہمیں ڈوبنا منظور ہے مگر یہ شرک ہر گز نہیں کریں گے چونکہ خطرہ دمبدم بڑھ رہا تھا اس لئے میرے روکتے روکتے میرے ساتھیوں میں سے ایک نے کاغذ پر کچھ لکھا اور سمندر میں ڈالنا چاہا۔ مَیں نے کاغذ روک لیا یا کسی اور طرح ضائع کر دیا اور سختی سے کہا یہ شرک ہے ہم شرک نہیں کریں گے۔ جب مَیں نے یہ کہا تو اُسی وقت کشتی اُچھل پڑی اور اس گرداب سے باہر نِکل آئی۔
مصیبت کے اوقات میں بعض انسان شرک میں پڑ جاتے ہیں مگر اس کی وجہ وہی نااُمیدی ہوتی ہے۔ بیشک مصائب آئیں مگر توکل الٰہی کا دامن نہ چھوڑنا چاہئے۔ پھر اگر تمہاری کشتی بھنور میں بھی ہو گی تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو باہر نکال دے گا۔’’
(الفضل 5اپریل 1919ء)
1: الفلق: 2 تا 7
2: بخاری کتاب التفسیر باب فضل المعوذات
3: المائدۃ : 68
4: یوسف : 88

36
قرآنِ کریم پڑھنے کی ہدایت
(فرمودہ 28مارچ1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''دُنیا میں بہترین چیزوں میں سے اور نہایت ہی کارآمد اشیاء میں سے ایک ہدایت ہے۔ صراط مستقیم کی ہدایت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ کون سا کام ہے جو بغیر صحیح ذرائع کے ہو سکتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔خواہ کام چھوٹے سے چھوٹا کیوں نہ ہو بغیر صحیح ذرائع کے انجام نہیں پاسکتا مثلاً روٹی کھانا بلحاظ اس کے کہ انسان اس کے کھانے کے لئے ہر روز مجبور ہے کس قدر چھوٹا کام ہے مگر غور کرو جب تک انسان لقمہ منہ میں نہیں ڈالے گا کیسے کھائے گا۔ بات تو معمولی سی ہے مگر ہو گی اس طریق سے جو خدا نے اس کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ اسی طرح علم ہے۔ علم کے سیکھنے کے لئے قواعد ہیں۔ اگر ان قواعد کو استعمال نہ کیا جائے تو کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ بہت لوگ ہیں جو راتوں کو جاگتے اور پڑھتے ہیں مگر جس طریق سے یا جن کتابوں کے پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے ان کو نہیں پڑھتے اس لئے علوم میں ترقی نہیں کر سکتے۔ بعض لڑکے ہر وقت کتاب ہاتھ میں لئے نظر آتے ہیں مگر جب امتحان ہوتاہے تو فیل ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ تو بڑی محنت کرنے والے طالبعلم تھے پھر کیوں فیل ہوئے مگر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کتاب کے ساتھ ناول بھی رکھتے ہیں۔ جب پڑھنے بیٹھے تو کہا چلو دو ایک صفحہ اس کے بھی پڑھ لیں۔ اسی طرح دو دو صفحہ میں ان کا سال تمام ہو جاتا ہے اور وہ امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
تو جب تک صحیح ذرائع نہ ہوں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ جو بڑے بڑے امور ہیں ان کے لئے اس سے بھی زیادہ صحیح ذرائع کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس جب تک صراط مستقیم کی ہدایت نہ ہو کچھ بھی نہیں حاصل ہو سکتا۔ کجا یہ کہ تقویٰ و طہارت نصیب ہو۔ یہ تو بڑی باتیں ہیں ان کے لئے تو اَور زیادہ صراط مستقیم کی ہدایت اور احتیاط کی ضرورت ہے لیکن ان کے لئے خود صراط مستقیم انسان نہیں تجویز کر سکتا۔ دُنیا میں اور علوم کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ ایک کے لئے دوسرا ذریعہ بن جائے اور دوسرا اسے کوئی مفید بات بتاوے۔ خود ان علوم میں بھی انسان اپنے لئے آپ طریق ایجاد نہیں کر سکتا مثلاً جو انسان عربی یا انگریزی پڑھنا چاہے وہ خود کہاں انگریزی کا کورس یا عربی کا نصاب تجویز کر سکتا ہے۔ دوسرے جنہوں نے ان علوم کو پڑھا ہؤا ہوتا ہے وہ کچھ بتا دیتے ہیں۔ تو ان علوم میں ایک انسان دوسرے کے لئے ذریعہ ہدایت ہو سکتا ہے لیکن خدا کی رضا انسان نہ خود معلوم کر سکتا ہے اور نہ دوسرا انسان اس کے حاصل کرنے کا بطور خود طریق بتا سکتا ہے۔ یہ تو خدا کی رضا ہے مَیں کہتا ہوں انسان انسان کی رضا خود نہیں معلوم کر سکتا جب تک وہ خود نہ بتائے۔ بہت دفعہ جب بچہ روتا ہے تو ماں چُپ کرانے کے لئے اسے پانی دیتی ہے۔ اس پر چُپ نہیں ہوتا تو دودھ دیتی ہے، اس کو بھی جھٹک دیتا ہے تو کوئی اور چیز دیتی ہے مگر پھر بھی وہ خاموش نہیں ہوتا، روتے روتے سو جاتا ہے یا ایسا ہوتا ہے کہ بیسیوں غلطیوں کے بعد کچھ پتہ لگتا ہے کہ فلاں وجہ سے روتا ہے۔
پس جب اپنے ہم جنس کا عندیہ معلوم کرنا آسان نہیں تو خدا تعالیٰ کی رضا کا از خود معلوم کرنا ممکن نہیں ۔ ہاں جب خدا تعالیٰ بتادے کہ میرا یہ منشاء اور یہ عندیہ ہے تو پتہ لگتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنی رضا مندی کو بتا دیاہے اور وہ قرآن کریم میں مسطور ہے اور جیسے ہر چیز کے حصول کے لئے صراطِ مستقیم کی ضرورت ہے ویسے ہی خدا کی رضا کے حصول کے لئے بھی ہے قرآن کریم کے ابتدا میں ہی انسان ہدایت طلب کرتا ہے اور کہتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ1 وہ خدا سے سیدھے رستہ کی ہدایت چاہتا ہے۔ جھٹ اس کو جواب ملتا ہے الٓمّٓۚ۔ذٰلِكَ الْكِتٰبُ۔2 کہ یہ رستہ ہے۔
پس اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے فضل سے اپنی رضا مندی حاصل کرنے کا طریق بتا دیا ہے۔ اب خود اس کے لئے کوئی نصاب تیار کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ضرورت ہے کہ لوگوں سے معلوم کریں۔ ہاں ضرورت ہے کہ ان اشارات اور رموز کو جو اس رستہ میں موجود ہیں دوسرے واقفوں سے سمجھ لیں۔ اب رستہ کے متعلق یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ کس رستہ پر چلیں۔ اب تو اس رستہ کے حالات دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں وہ ذریعہ موجود ہے جس سے ہم اﷲ تعالیٰ کو پاسکتے ہیں اور اس کی رضا کو حاصل کر سکتے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جس سے ہمیں تمام قربِ الٰہی کی راہیں معلوم ہو سکتی ہیں۔ پس یہی ایک ذریعہ ہے جس سے خدا ملتا ہے اور اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں ہے جس پر قدم مار کر ہم خدا تک پہنچ سکیں۔
یہ سچ ہے کہ خدا تک پہنچنے کے کئی رستے ہیں کیونکہ خدا لا محدود ہے اور وہ چونکہ لامحدود ہے اس لئے اس کے پانے کے رستے بھی غیر محدود ہی ہیں۔ پھر اس کا عرفان بھی غیرمحدود ہے۔ اس لئے اس کے لئے کوشش بھی غیر محدود کی ہی ضرورت ہے۔ ایک چھوٹی سی چیز کا نظر آسانی سے احاطہ کر لیتی ہے لیکن جو چیز بڑی ہو اس کا احاطہ نظر جھٹ پٹ نہیں کرسکے گی بلکہ اس کے لئے بڑی کوشش اور سعی کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً ایک وسیع سمندر ہے اس کے لئے نظر کو بہت زیادہ وسیع کرنا پڑے گا اور بڑی کوشش اور محنت کے بعد اس کا احاطہ ہوسکے گا۔ پس جوچیز غیر محدود ہو اس کے حاصل کرنے کے لئے غیر محدود وقت اور غیرمحدود کوشش کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کی معرفت کی کوئی حد بندی نہیں ہے اس لئے اس کے لئے جس قدر کوشش کی ضرورت ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتی اور جس قدر ذرائع اس کے حصول کے ہیں وہ سب قرآن کریم میں درج ہیں اس کے باہر کوئی نہیں ہے مگر افسوس کہ بہت ہیں جو ادھر توجہ نہیں کرتے۔ زید وبکر کے اقوال کی طرف توجہ کرتے ہیں مگر قرآن کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
مَیں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ اپنی کوششوں کو قرآن کریم سمجھنے میں صرف کریں۔ کبھی نہ سمجھو کہ تم نے قرآن کریم کو سمجھ لیا۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں، غلط کہتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے قرآن کو پڑھ لیا اور اس کے معارف پر احاطہ کر لیا۔ اب اُنہیں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بالکل غلط ہے قرآن کو کوئی ایسا نہیں پڑھ سکتا کہ پھر اسے پڑھنے کی ضرورت نہ رہے کیونکہ جتنا کوئی اس کو پڑھتا ہے اُتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ قرآن محدود نہیں ہے کہ اس کو کوئی پڑھ لے ہاں اس کے الفاظ محدود ہیں۔ یہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے الفاظ کو پڑھ لیا مگر قرآن کو نہیں پڑھ لیا۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھ لیا تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس نے ال سے لے کر وَلَا الضَّآلِّیْن تک کے حروف و الفاظ کو پڑھ لیا۔ باقی رہا یہ کہ اس کے اندر جو علوم اور حکمتیں اور معارف ہیں وہ بھی اس نے ختم کر لئے۔ یہ درست نہیں ہو سکتا کیونکہ ان تمام علوم کو جو اس کے اندر ہیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ختم نہیں کر سکے۔ مسیح موعود ؑ بھی ختم نہیں کر سکے۔ اگر اُنہوں نے ختم کر لیا ہوتا تو کیا ضرورت تھی کہ ہر نماز میں یہ پڑھتے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَوہ جُوں جُوں پڑھتے تھے اسی قدر اس کے معارف و مطالب اور وسیع ہوتے چلے جاتے تھے۔ اگر ان پر اس کے علوم ختم ہو گئے تھے تو اس دُعا کے پڑھنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ کھائی ہوئی روٹی کو دوبارہ نہیں کھایا جاتا اور نہ پئے ہوئے پانی کو دوبارہ پیا جاتا ہے۔ ہر بار نئی روٹی کھائی اور نیا پانی پیا جاتا ہے۔ اسی طرح قرآن جو روحانی غذا ہے یہ بھی ہر بار نیا ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے ایک دفعہ پڑھ کر مثلاً سورۃ فاتحہ کے تمام مطالب کا احاطہ کر لیا ہے اور اس کے لئے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں تو وہ غلط کہتا ہے۔
یاد رکھو کہ ہر ایک کام کے متعلق یہ بات ہے کہ جوں جوں انسان اس کے متعلق مشق کرتا ہے اس کا دماغ جِلا پاتا جاتا ہے۔ پس اسی طرح جب انسان قرآن کے علوم پر غور کرتا ہے تو ہر دفعہ نئے علوم عطا ہوتے ہیں۔ اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے قرآن کے علوم کو ختم کر لیا۔ حتّٰی کہ سب سے بڑے قرآن کے جاننے والے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ ؐ نے قرآن کے علوم کو ختم کر لیا۔ کیا جو لوگ جنّت میں داخل ہو گئے ان کے لئے مدارج ختم ہو گئے؟ نہیں۔ ان کے مدارج بھی ترقی کر رہے ہیں۔ آنحضرت کے مدارج میں بھی ترقی ہو رہی ہے۔ اگر آپ کے مدارج ختم ہو جاتے تو یہ درود کیوں سکھایا جاتا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْراھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اور پھر اگر آپ کے لئے تمام ترقیات ختم ہو گئی تھیں تو یہ دُعا سکھانے کی کیا ضرورت تھی۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ مؤمن یہ اسی لئے پڑھتا ہے تاکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جس قدر مدارج حاصل ہو چکے ہیں ان میں اور زیادتی ہو۔ پس آپ کے مدارج بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے آپ پر بھی علوم ختم نہیں ہوئے۔
جن معنوں میں قرآن کا ختم ہو جانا کہا جاتا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ حروف و الفاظ کو ختم کر لیا۔ یہ مت کہو اور ہر گز مت سمجھو کہ قرآنی علوم کو ختم کر لیا۔
جب تم اپنے دل میں یہ خیال کر کے قرآن کریم کو پڑھو گے کہ تم نے ابھی اس کو ختم نہیں کیا اور یہ کہ اس کے علوم لامحدود ہیں۔ اگر کوشش کریں گے تو نئے نئے علوم حاصل ہوں گے تو اس وقت دیکھو گے کہ ہر بار نئے علوم اور نئے معارف تمہیں حاصل ہوں گے مگر جو انسان یہ خیال کرے کہ جو کچھ اس نے کرنا تھا وہ کر چُکا وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا لیکن جو خیال کرے گا اور جانے گا کہ ابھی اس نے بہت کم کیا ہے اور بہت زیادہ کرنا ہے وہ بہت کچھ کر لے گا۔
دُنیا میں دیکھو جن لوگوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ بس دُنیا اس سے زیادہ نہیں جس قدر ہمیں معلوم ہے وہ اس سے زیادہ معلوم نہ کر سکے مگر جن کو کسی طریق سے پتہ لگ گیا کہ زمین یہی نہیں جو ہمیں معلوم ہے اُنہوں نے اور بھی بہت سی زمین کا پتہ لگا لیا اور کئی جزیروں کا ان کو علم ہو گیا۔ پس اسی طرح جو سمجھتا ہے کہ اس نے علوم کو ختم کر لیا ہے وہ ترقی نہیں کر سکتا اورجو ابھی اپنے آپ کو محتاج جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ابھی اس نے علوم کو ختم نہیں کیا اس کے لئے اور علوم کھولے جاتے ہیں۔
پس کوئی نہیں جو قرآن کے علوم کو ختم کر سکے اس میں وہ علوم ہیں جو یہاں بھی کام آتے ہیں اور اگلے جہاں میں بھی کام آئیں گے۔ یہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ اس میں انسان کی ہر حالت کے متعلق ہدایتیں ہیں اگرچہ اس کے الفاظ مختصر ہیں مگر معانی و مطالب اس قدر وسیع ہیں کہ جن کی کوئی حد نہیں جو اس خیال سے اس کا پڑھنا ترک کر دیتا ہے کہ جوکچھ اس نے پڑھنا تھا پڑھ چُکا۔ وہ غلطی پر ہے کیونکہ درحقیقت وہ قرآن کو نہیں پڑھ چُکا چونکہ درحقیقت اس میں وہ ہدایتیں ہیں جو انسان کی ہر حالت کے متعلق ہیں اور انسان کی حالت ہروقت بدلتی رہتی ہے۔ اس لئے ہر وقت اس کا پڑھنا ضروری ہے۔
پس مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے پڑھنے میں کوشش کریں تو ان کو ایسے ایسے معارف ملیں گے کہ ان کی رُوحیں ان کی لذّت کو محسوس کریں گی اور ان کو معلوم ہو گا کہ وہ ایسے سمندر میں سے جواہر نکال رہے ہیں جس کے جواہرات کا کبھی خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو گُر بتائے ہیں اگر انسان ان کو مدِّنظر رکھے تو وہ ان علوم سے حصّہ پاسکتا ہے مگر لوگ الفاظ کی طرف چلے جاتے ہیں اور معانی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
حضرت خلیفہ اوّل نے روزانہ قرآن کریم کا درس جاری فرمایا تھا۔ ان کی تڑپ ایک خاص رنگ اور امتیاز رکھتی تھی۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ صحابہ کا دستور تھا کہ ہفتہ میں ایک دن یا دو دن قرآن کا درس دیتے تھے مگر میرا جی چاہتا ہے کہ ہر وقت قرآن سمجھاتا رہوں۔ اس کا ایک یہ تو فائدہ ہؤا کہ بہت سے لوگوں نے اس درس سے فائدہ اُٹھایا اور ایسا سمجھا کہ وہ دوسروں کو سمجھانے کے قابل ہو گئے مگر جس بات سے آپ ڈرایا کرتے تھے وہ اب پیدا ہو گئی ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ عادت کے طور پر وعظ سُنتے ہیں اُنہیں اگر وعظ سُننے کا موقع نہ ملے تو اپنی حالت پر قائم نہیں رہتے۔
بات یہ ہے کہ جن طلباء کو ہر وقت اُستاد کی نگرانی اور سہارے کی عادت ہو جائے ان کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسی نشہ کے عادی کی ہوتی ہے کہ اگر نشہ نہ ملے تو اعضاء شکنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی حالت علوم کے نشہ کی ہوتی ہے۔ اگر ان کو وہ نشہ ملتا رہے تو ان کی حالت درست رہتی ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ غذا نہ ملے تو پھر اعضاء شکنی شروع ہو جاتی ہے اور کسل اور سُستی پیدا ہو جاتی ہے۔ جن کو علوم کی غذا کی عادت ہو جائے اُنہیں اپنے نفس پر زور دینے کی عادت کم ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے بہت سے نقص پیدا ہو جاتے ہیں مثلاً میری پچھلے دنوں کی بیماری میں جبکہ مَیں درس نہ دے سکا تو ایسی باتیں یہاں کے لوگوں میں پیدا ہو گئیں جو پیدا نہیں ہونی چاہئیں تھیں۔
ان لوگوں کی یہ حالت اس لئے ہو گئی کہ وہ روزانہ رُوحانی غذا کے نہ ملنے کی وجہ سے اپنی حالت پر قائم نہ رہ سکے کیونکہ وہ تو سہارے کے محتاج ہو گئے تھے۔
اب یہاں ایک غور طلب سوال پیدا ہو گیا ہے جو یہ ہے کہ قادیان کی مرکزی حیثیت تو چاہتی ہے کہ یہاں روزانہ تعلیم کا سلسلہ جاری رہے کیونکہ مہمان روزانہ باہر سے آتے رہتے ہیں۔ ان کی حالت متقاضی ہوتی ہے کہ روزانہ درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہے مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور عادت کے باعث اگر کچھ دنوں کے لئے یہ سلسلہ رُک جائے تو اس سے بعض میں کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ پس چونکہ قادیان کی مرکزی حیثیت سے باہر والوں کے لئے روزانہ درس کی ضرورت ہے اور یہاں کے لوگوں کے لئے روزانہ درس بطور عادت ہو جاتا ہے اس لئے اب درس کا سوال بہت اہم ہوگیا ہے۔
میرے نزدیک یہ بات ضروری ہے کہ ہمیشہ درس جاری رہے اور مہمانوں کی ضروریات مقدم ہوں اور وہ لوگ جن کے لئے روزانہ درس بطور عادت ہو گیا ہے اور جو اگر درس نہ ہو تو ٹھوکریں کھاتے ہیں اُنہیں مَیں ایک نصیحت کرتا ہوں کیونکہ درس میں کبھی رکاوٹ بھی پیدا ہونا ہوئی کیونکہ بشریت ہر ایک شخص کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ بیماریاں بھی آتی ہیں اور بھی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ پس میرے نزدیک وہ لوگ جو روزانہ درس سُنتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ عادت کے طور پر اسے نہ سُنیں بلکہ اپنا روزانہ محاسبہ بھی ساتھ جاری رکھیں۔ جن لوگوں کو عادت ہو جاتی ہے وہ واقعی ابتلاء میں پڑتے ہیں لیکن اگر وہ محاسبہ جاری رکھیں گے تو ٹھوکروں سے بچ جائیں گے۔ دیکھا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو کسی حرکت کی عادت ہو جاتی ہے وہ ہر وقت ان سے سرزد ہوتی رہتی ہے مثلاً بعض لوگوں کو ناک ہلانے کی عادت ہوتی ہے، بعض کو خاص طور پر ہاتھ ہلانے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ اسی طرح ہو جاتی ہے کہ بغیر جانے کے وہ یہ حرکت شروع کر دیتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص جان کر کسی کام کے لئے ہزار بار بھی کوئی حرکت کرے تو وہ اس کی عادت میں داخل نہیں ہو گی۔
ایک دوست جو پُرانے مخلص ہیں ان کو دیکھا ہے کہ ان کی انگلیاں ہلتی رہتی ہیں ان سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ غیر احمدی ہونے کی حالت میں زیادہ تسبیح پھرانے کے باعث یہ عادت ہو گئی ہے۔ اگر تسبیح نہ بھی ہو تو بھی انگلیاں ہلتی رہتی ہیں۔ تو اس قسم کی عادت کی وجہ غفلت ہوتی ہے اور غفلت کے باعث اعصاب خود بخود حرکات کرتے رہتے ہیں۔ پس وہ لوگ جو روزانہ درسوں میں شامل ہوں وہ بطور عادت کے شامل نہ ہوں بلکہ ہر روز یہ نیت لے کر آیا کریں کہ ہمیں کچھ سیکھنا ہے۔ اگر وہ روزانہ اس نیت سے شامل ہوں گے اور بغور سُنیں گے تو انشاء اﷲ ان کے لئے بہت مفید ہو گا۔
اس بیماری کے دوران یہ نقص بھی سمجھ آگیا ورنہ جب حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے تب یہ بات خیال میں بھی نہیں آتی تھی کہ روزانہ درس کے باعث بعض نقص بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
اب اﷲ تعالیٰ کے فضل سے میری صحت پہلے سے بہت اچھی ہے اور ارادہ ہے کہ درس جاری کردوں مگر چونکہ ابھی صحت پورے طور پر اچھی نہیں ہوئی اس لئے ارادہ ہے کہ ہفتہ میں تین دن درس ہؤا کرے اور انشاء اﷲ اسی ہفتہ سے شروع کر دوں گا۔ ہفتہ کا دن چونکہ جمعہ کے قریب ہوتا ہے اس لئے یہ مستورات کے لئے کیونکہ وہ اس کو یاد رکھ سکتی ہیں اور پیر اور بُدھ کے دو دن مردوں کے لئے ہوں گے۔ اگر اﷲ تعالیٰ توفیق دے گا تو اس کو بڑھایا بھی جاسکے گا۔’’ (الفضل 8 ا پریل1919ء)
1: الفاتحۃ :6 2: البقرۃ :2، 3

37
انسانی تخلیق کی غرض
(فرمودہ 4 اپریل1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''انسان کی پیدائش کی غرض اور اس کے اس دُنیا میں بھیجے جانے کا مقصد قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ صرف ایک ہی بیان فرماتا ہے اور وہ یہ کہ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ1 جِنّ و اِنس کی پیدائش کی غرض تو صرف یہ ہے کہ اﷲ کی عبادت کریں تو انسان کی پیدائش کی یہ غرض بیان کی گئی کہ میرے عابد ہو جائیں اور میری عبادت کرنے لگ جائیں اور سورۃ فاتحہ میں گویا اس غرض کے پورا ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور انسان کی زبانی اقرار کرایا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ2 مَیں تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔ اس اقرار میں دو باتوں کا ذکر ہے کہ انسان عبادت کرتا ہے اور خدا ہی کی کرتا ہے اور وہاں بھی دو ہی باتیں بیان کی ہیں کہ انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ عبادت کرے اور خدا ہی کی کرے۔ پس وہاں اگر غرض بتائی تھی تو یہاں انسان اقرار کرتا ہے کہ مَیں نے وہ غرض پوری کر دی جس کے لئے مجھے اس دُنیا میں بھیجا گیا تھا۔
یہ دعویٰ عربی زبان میں اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ اُردو زبان میں اگر کسی مسلمان یا احمدی اور خاص احمدی کو بھی کہا جائے گا کہ کیا تم نے وہ غرض پوری کر دی تو وہ کہے گا کہ مجھ میں تو نقص ہیں۔ مَیں نے کہاں اس غرض کو پورا کیا ہے۔ بندوں کے سامنے تو کہے گا کہ مَیں نے اس غرض کو پورا نہیں کیا مگر خدا کے سامنے کہتا ہے کہ مَیں نے وہ غرض پوری کر دی ہے۔ حالانکہ جرأت کا مقام تو خدا کے بندے ہیں نہ کہ خدا۔ بندوں کے سامنے انسان تقیہ کر سکتا ہے، جھوٹ بول سکتا ہے، اپنی حالت کو چھُپا سکتا ہے، مخفی رکھ سکتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ سے ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ مگر عجیب بات ہے کہ لوگ اُردو میں تو یہ کہتے ہوئے ڈرتے ہیں مگر عربی میں وہی بات خدا کے سامنے کہتے ہیں اور یہ بات کچھ اُردو سے ہی خاص نہیں۔ فارسی والے فارسی میں نہیں کہہ سکتے کہ اُنہوں نے اس غرض کو پورا کر دیا ہے، چین کے لوگ چینی میں نہیں کہہ سکتے، یورپ کے لوگوں میں سے انگریزی بولنے والے انگریزی میں نہیں کہہ سکتے، فرانسیسی بولنے والے فرانسیسی میں نہیں کہہ سکتے، جرمن بولنے والے جرمن میں نہیں کہہ سکتے۔ خود عرب جن کی یہ زبان ہے وہ بھی دوسرے لفظوں میں اس مطلب کو بیان نہیں کر سکتے اور بیان کرتے ہوئے ڈرتے ہیں لیکن ان لفظوں کو خدا کے سامنے ایک دفعہ نہیں دن اور رات میں کئی دفعہ دہراتے ہیں۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ الفاظ دہرانا کوئی چیز نہیں ہوتا۔ جب تک الفاظ کے اندر معنی نہ ہوں اور ان کی حقیقت کے مطابق عمل نہ ہو۔ پس جب خدا نے یہ کہا ہے کہ ہم نے انسان کو اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کرے تو انسان اس کا جواب ان لفظوں میں دیتا ہے کہ مَیں تو تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔ جس طرح ایک انجینئر یا ایک مدرّس، ایک کلرک اپنے آقا کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے جو کام میرے سُپرد کیا تھا مَیں اُس کو پورا کر چُکا ہوں۔ اِسی طرح جب ایک شخص خدا تعالیٰ کے حضور جاکر کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ آپ نے جو میرے سپرد اپنی عبادت کرنے کا کام کیا تھا مَیں اس کو کر آیا ہوں۔
مثلاً ظہر کے وقت کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ صبح سے اس وقت تک جو کچھ مَیں نے کیا ہے وہ تیری ہی عبادت کی ہے اور تیرے خلافِ منشاء قدم نہیں اُٹھایا اور پھر عصر کی نماز میں ظاہر کرتا ہے کہ ظہر اور عصر کے درمیانی وقفہ میں مَیں نے اس غرض کو پورا کیا ہے جس کے لئے تُو نے مجھ کو پیدا کیا ہے۔ پھر مغرب کی نماز کے وقت کہتا ہے عصر اور مغرب کے درمیان وہی غرض پوری کی ہے جس کے لئے مجھے پیدا کیا گیا ہے اور پھر عشاء کے وقت ظاہر کرتا ہے کہ خدایا! مغرب اور عشاء کے درمیان مَیں نے اس غرض کو پورا کیا ہے جس کے لئے تُو نے مجھ کو پیدا کیا اور پھر صبح کی نماز میں کہتا ہے کہ خدایا! عشاء کے بعد سے صبح تک مَیں نے اس غرض کو پورا کیا ہے جس کے لئے تُو نے مجھے دُنیا میں بھیجا تھا۔
پس اسی طرح ساری عمر کے کاموں کا خدا تعالیٰ کے سامنے اعلان کرتا ہے۔ یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے مگر دوسرے لفظوں میں یہی بات ظاہر کرتے ہوئے موت پڑے گی۔ حالانکہ انسان روزانہ اقرار و اظہار کرتا ہے کہ اب تک تو مَیں اس غرض کو پورا کر چُکا ہوں جس کے لئے مجھے پیدا کیا گیا اور آئندہ کے لئے مدد چاہتا ہوں۔ پھر دوسرے وقت میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خدایا اب تک تو اس غرض کو پورا کر چُکا ہوں آئندہ کے لئے تیری مدد کی ضرورت ہے۔ اب بتاؤ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس غرض کو پورا کر چکے ہیں جو ان کے پیدا کرنے کی ہے تو کتنا بڑا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب ترجمہ کر کے ان سے سوال کیا جاتا ہے تو اس بات کے کہنے سے اُن کا دل کانپ جاتا ہے۔
درحقیقت یہ محض انکسار ہی نہیں ہوتا بلکہ واقع میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں جو اس غرض کو پورا کرتے ہیں۔ ہاں بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو اس کوشش میں لگے ہوتے ہیں اور وہ انہی میں سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے اس غرض کو پورا کر دیا ہے کیونکہ اسلام نے کوشش کرنے والوں کو بھی اسی مد میں رکھا ہے جس میں کام کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں مثلاً جو لوگ حج کو جاتے ہوئے رستہ میں مَر جائیں ان کو حج کا ثواب ملے گا اور جو نماز کے انتظار میں مَر جائیں ان کی موت نماز کی حالت میں شمار کی جائے گی۔
پس وہ بندہ جو عبادت کی کوشش میں ہے کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کر چُکا کیونکہ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا3 اﷲ تعالیٰ نے کسی نفس کی طاقت سے زیادہ بوجھ اس پر نہیں رکھا۔ پس جو شخص حتی المقدور کوشش کرتا ہے وہ کہہ سکتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہ مَیں تیری ہی عبادت کرتا ہوں لیکن جو کوشش بھی نہیں کرتا مگر کہتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں یعنی اس غرض کو پوری کر چُکا ہوں جس کے لئے تُو نے مجھ کو پیدا کیا تو وہ جھوٹ بولتا ہے وہ خدا کے سامنے افتراء کرتا ہے۔ اس لئے بجائے اس کے کہ اس کو اجر ملے وہ عذاب میں گرفتار کیا جائے گا۔
پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتے ہوئے بڑا خوف دل میں رکھنا چاہئے کیونکہ اگر اس نے واقع میں عبادت نہیں کی یا اس کی راہوں پر چلنے کی کوشش بھی نہیں کی اور پھر وہ یہ کہتا ہے کہ مَیں اس وقت تک کی عبادت کر چُکا ہوں تو وہ جھوٹ سے کام لیتا ہے اور خدا کے سامنے افتراء کرتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ عبادت کیا چیز ہے؟ یہ ایک بہت بڑا مضمون ہے اس کے بیان کرنے کا وقت نہیں ہے اس لئے اب میں ختم کرتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق دے کہ ہم اس غرض کو پورا کریں جس کے لئے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔''
(الفضل 12 اپریل 1919ء)
1: الذّٰریٰت :57 2: الفاتحۃ :5 3: البقرۃ :287

38
موجودہ حالات میں دُعا سے کام لو
(فرمودہ 11اپریل1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘بہت سے مذاہب جن کا پتہ دُنیا میں ملتا ہے دُعا کے قائل ہیں۔ بہت سے مذاہب سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ موجودہ مذاہب میں سے بہت بلکہ میری مراد اُن کے مقابلہ میں ہے جو مٹ گئے ہیں ان کی اگرچہ ہمیں پوری تفصیلیں معلوم نہیں مگر ہم موجودہ پر قیاس کرکے کہہ سکتے ہیں۔
اگر ہم ان ممالک کی حالت پر غور کریں جنہوں نے کبھی تہذیب و تمدن کو دیکھا ہے تو ان میں جس قدر بھی مذاہب ہوئے ہیں ان تمام میں دُعا پر خاص زور دیا گیا ہے۔ اس میں شُبہ نہیں کہ بعض نے زیادہ زور دیا ہے اور بعض نے کم اور بعض دُعا کی اصلیت اور حقیقت سے مُنکر ہو گئے ہیں اور ان میں محض دُعا کا نام رہ گیا ہے۔ یعنی بعض میں دُعا تو کی جاتی ہے مگر اس کے اثرات اور برکات کے قائل نہیں مثلاً برہمو اور آریہ دُعا کرتے ہیں، پرارتھنا ئیں کرتے ہیں مگر ان کا یقین ہے کہ دُعا نہ کچھ بگاڑ سکتی ہے اور نہ کچھ بنا سکتی ہے۔ تو ان میں دُعا کا وجود ہے مگر رسم اور نام کے طور پر نہ کہ اصلیت اور حقیقت کے لحاظ سے۔
بہرحال یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ دُعا کا وجود تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے اور کوئی مذہب اس سے خالی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دُعا کی برکات سے محروم ہیں اور اس کی وجہ انبیاء کے سلسلہ سے منقطع ہونے کی ہے لیکن کسی نہ کسی رنگ میں دُعا ان میں پائی جاتی ہے۔ پُرانی تاریخ کو دیکھو تو معلوم ہو گا کہ پہلے لوگ بھی دُعا کے قائل تھے اور آجکل کے لوگ گو اثرات کے قائل نہ ہوں مگر عملاً دُعا کرتے ضرور ہیں۔
اسلام کو دیگر مذاہب پر جس طرح اور باتوں میں خصوصیتیں حاصل ہیں اسی طرح دُعا کے بارے میں بھی ایک فوقیت ہے اور وہ یہ کہ اسلام نے نہ صرف دُعا کے ایسے گُر بتائے ہیں جن پر عمل کر کے انسان کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اس میں دُعا پر خاص زور دیا گیا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسلام نے ہر موقع کی دُعا کے لئے بہترین سے بہترین الفاظ انتخاب کرکے رکھ دیئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ دن کے تمام حصّوں کے متعلق دُعائیں تلقین کی گئی ہیں اور نہ صرف یہ کہ اسلام دعا کے نتیجہ میں زندہ نشان دکھاتا ہے بلکہ ان تمام باتوں کے علاوہ اسلام میں دعا کے بارے میں ایک اَور خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ اسلام کی بنیاد ہی دُعا پر ہے یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت نتیجہ ہے اُس دعا کا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی کہ اے خدا! ایک ایسے نبی کو پیدا کرنا جو اِن اِن خوبیوں والا ہو۔1 چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دُعا کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیا۔
پس اسلام اور دیگر مذاہب میں دُعا کے بارے میں ایک فرق ہے۔ اگرچہ اَور بھی اسلام اور دیگر مذاہب میں فرق ہیں مگر وہ ایسے ہیں کہ خاص خاص اوقات میں وہ باتیں اور نشانات دیگر مذاہب بھی رکھتے تھے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی بنیاد دُعا پر ہے اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ اسلام دُعا ہے اور دُعا اسلام ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔ دُعا اور اسلام جُدا نہیں ہو سکتے۔
اسلام کیا ہے؟ اپنے آقا، اپنے مولا، اپنے خدا کی فرمانبرداری کرنا اور مسلمان وہ ہے جس کی نظر ہر وقت اپنے آقا کے احکام کی طرف ہو۔ جو خدائی ارشاد ہو اس کو قبول کرے اور جب بندہ پُکارے تو اُدھر سے اس کو جواب ملے۔
مگر افسوس ہے کہ بہت لوگ اس کی حقیقت سے واقف نہیں۔ عام طور پر رواج کے مطابق دُعائیں کرتے ہیں لیکن نہیں یقین کرتے کہ ان کا کچھ اثر بھی ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کس غرض سے دُعا کرتے ہیں اور نہیں معلوم کرتے کہ کیوں ہاتھ اُٹھاتے ہیں۔ نمازمیں دعائیں پڑھتے ہیں مگر غور نہیں کرتے کہ ان دعاؤں کا کیا مطلب اور مقصد ہے۔
غرض جو چیز اسلام کی جان ہے اور جو چیز اسلام کی بنیاد ہے اور جو اسلام کے ساتھ ایسی پیوست ہے کہ جُدا نہیں ہو سکتی اس سے مسلمان جُدا ہو گئے اور اس سے جُدا نہیں ہوئے بلکہ اسلام سے جُدا ہو گئے کیونکہ جو اس سے جُدا ہوتا ہے وہ اسلام سے جُدا ہوتا ہے۔ پس لوگوں نے دعا کو چھوڑ کر اسلام کو چھوڑ دیا۔ اس کے متعلق یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ مسلمانوں نے پہلے اسلام کو چھوڑا یا دعا کو چھوڑا۔ جس طرح یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ مرغی پہلے ہوئی یا انڈا۔ اسی طرح یہ بھی نہیں بتایا جاسکتا کہ دعا چھوڑنے کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام کو چھوڑ دیا یا اسلام چھوڑنے کا نتیجہ ہے کہ دعا کو چھوڑ دیا۔
لیکن جو شخص اسلام کو مضبوط پکڑے ہوئے ہے وہ دُعا کو نہیں چھوڑ سکتا اور جو دُعا کو نہیں چھوڑتا وہ اسلام کو نہیں چھوڑتا کیونکہ دُعا وہ چیز ہے جس سے انسان زندہ خدا کو پاسکتا ہے اور دُعا ہی وہ چیز ہے جو زندہ خدا کو سامنے کھڑا کر دیتی ہے ورنہ اگر دُعا کو چھوڑ دیا جائے تو انسان کو زندہ خدا نہیں مِل سکتا بلکہ اس کا خدا مُردہ ہو جاتا ہے مگر یہ موت ظاہری موت نہیں ہوتی بلکہ ایک اور قسم کی موت ہوتی ہے۔ یوں ظاہری موت سے تو خدا کے انبیاء فوت ہوتے ہیں۔ ان کا جسم زمین میں چلا جاتا ہے مگر ان کی موت ہلاکت کی موت نہیں ہوتی بلکہ وہ مَرنے کے بعد بھی ہمیشہ کے لئے زندہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ الْعَصْرِۙ۔اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍۙ۔اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ2 کہ انسان گھاٹے اور ہلاکت میں ہے مگر مومن انسان ہلاکت میں نہیں ہے۔ پس جب معمولی مومن نہیں مرتا تو خدا کے انبیاء بدرجہ اَولیٰ نہیں مرتے کیونکہ اگر وہ مر جائیں تو ان سے کوئی محبت نہ رکھتا کیونکہ مُردے سے کسی کو محبت نہیں ہوتی لیکن جس طرح خدا زندہ ہے اسی طرح خدا کے ساتھ تعلق رکھنے والے بھی زندہ رہتے ہیں۔ ان کے مرنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس جہان سے علیحدہ اور الگ ہو جاتے ہیں نہ کہ وہ مر جاتے ہیں۔ مرتے وہی ہیں جن کے نام و نشان مِٹ جاتے ہیں مثلاً ابو جہل مَر گیا کیونکہ اس سے کوئی محبت رکھنے والا نہیں ہے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم زندہ ہیں، حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور حضرت موسیٰ زندہ ہیں کیونکہ ان سے محبت کرنے والے موجود ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ لہٰذا ان سے محبت ہو سکتی ہے۔ تو خدا سے دُعا کرنا تعلق زندگی پیدا کرتا ہے ورنہ دُعا کے بغیر خدا کا بھی ثبوت نہیں اور اس شخص کے لئے جو دُعا کو بے اثر اور بے نتیجہ کہتا ہے خدا مر جاتا ہے۔ وہ مذاہب جو دُعا کرتے ہیں مگر دُعا کی برکات کے قائل نہیں ہیں وہ مُردہ ہیں اور خشک ہو گئے ہیں۔ ان کے پیرو اگر اس وقت دُعا سے کام نہیں لیتے یا دُعا پر اعتقاد نہیں رکھتے تو وہ معذور ہیں لیکن کوئی مسلمان معذور نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ اسلام وہ مذہب ہے جو زندہ نشان دیتا ہے اور دکھاتا ہے کہ دُعا کے اندر بڑی بڑی برکات ہیں کہ زندہ خدا کو وہ دکھا دیتا ہے۔
پس مومن کو کبھی دعا سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ آجکل اس قدر جلد جلد حالات بدل رہے ہیں کہ کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہونے والا ہے۔ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود کی اس پیشگوئی کے متعلق جس میں دُنیا میں زبردست زلزلہ کے آنے کی اطلاع دی گئی تھی کہا کرتے تھے کہ زلزلہ اگر یورپ میں آیا ہے تو آئے، ہندوستان میں کہاں ہے۔ آج وہ دیکھ لیں کہ ہندوستان کی کیا حالت ہے۔ پھر وہ لوگ جو کہتے تھے کہ جب تک اس مُلک میں زلزلہ نہ آئے اُس وقت تک اس پیشگوئی کو نہیں مان سکتے۔ آج ان کے گھروں کے سامنے خون بہہ رہے ہیں اور آج ان کے گھروں کے سامنے زلزلہ آگیا۔
مَیں نے 1914ء میں ایک اشتہار بنگالی میں دیا تھا جس میں بتایا تھا کہ مسیح موعود آگیا، اس کو قبول کرو۔ بنگال سے بعض خط میرے پاس آئے کہ تم کہتے ہو کہ مسیح موعود آگیا، حالانکہ مسیح موعود اُس وقت تک نہیں آسکتا جب تک مسلمانوں کی حکومتیں مِٹ نہ جائیں۔ اس کے تھوڑے ہی دن بعد جنگ شروع ہو گئی اور تُرک جرمنوں کے ساتھ مِل گئے۔ اُس وقت مَیں نے کہا اگر پہلے خیال بھی ہو سکتا تھا کہ شاید جرمن جیت جائیں گے تو اب جبکہ تُرک ان کے ساتھ مِل گئے ہیں ان کی شکست یقینی ہے کیونکہ خدا نے جس قوم کی شکست کو مقدر کر دیا ہو وہ جس کے ساتھ بھی شامل ہو گی اُس کو بھی لے ڈوبے گی۔ چنانچہ مَیں نے انہی دنوں میں ایک خطبہ میں اعلان کیا کہ اب وہ (تُرک )بھی باقی نہیں رہیں گے۔ چنانچہ اب ان کی جو حالت ہو رہی ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ تو دُشمن نے کہا تھا کہ جنگ اگر زلزلہ ہے تو ہمارے مُلک میں نہیں آیا۔ خدا نے اس مُلک میں بھیج دیا۔ دُشمن کہتے تھے کہ جب تک تُرک تباہ نہ ہوں مسیح موعود نہیں آسکتا۔ خدا نے ایسا ہی کر دیا اور جس جس رنگ میں اعتراض کیا گیا خدا نے اُسی طرح اس کا دندان شکن جواب دیا لیکن ہمارے لئے یہ عبرت کا موقع اور خدا کے حضور گریہ و زاری کرنے کا مقام ہے تاکہ یہ تغیرات ہمارے لئے خدا کے فضل کے ماتحت برکات کا موجب ہوں اور کسی ابتلاء کا سبب نہ ٹھہریں۔ پس یہ وقت غفلت کا نہیں ہے بلکہ یہ وقت خداتعالیٰ کے حضور گِر کر عاجزی اور انکساری سے دُعائیں کرنے کا ہے کیونکہ خدا کے ابتلاء کا برداشت کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ بعض لوگ خیال کیا کرتے ہیں کہ مشکل سے مشکل ابتلاء کو برداشت کر لیں گے لیکن وقت پر وہ چھوٹے سے چھوٹے ابتلاء کو بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ پس خدا کے ابتلاؤں، عذابوں سے بے خوف نہیں ہونا چاہئے بلکہ جہاں تک ہو سکے ان سے بچنے کی کوشش کرنا چاہئے اور دُعا کرنی چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ اس نازک وقت میں ہمیں صحیح طریق پر جو اس کے علم میں بہتر ہو چلنے کی توفیق دے اور اگر کوئی آفت آن پڑے تو اُس کو بہادری سے برداشت کرنے کی توفیق بخشے۔ ہمارے جو بھائی دُور دُور مختلف علاقوں میں ہیں ان کو بھی اﷲ تعالیٰ ہر طرح کی بلاؤں اور ابتلاؤں اور آفتوں سے بچائے اور اپنی رحمت اور برکت کو ہم پر نازل کرے۔ آمین’’ (الفضل 3مئی 1919ء)
1: رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُؒ۔( البقرۃ :130)
2: العصر: 2تا 4

39
امن قائم رکھنا ہمارا مذہبی فرض ہے
(فرمودہ 25اپریل1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''چند دن سے چونکہ میرے حلق میں تکلیف ہے اِس کی وجہ سے میں زیادہ نہیں بول سکتا۔ اِس لئے مَیں مختصراً آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں جس کا یاد رکھنا آپ کے لئے مفید اور نہایت ضروری ہے۔
یہ یاد رکھو کہ خدا کی جو نعمتیں آتی ہیں اور اس کے جو احسان و انعام ہوتے ہیں۔ اُن نعمتوں اور احسانوں اور انعاموں کے ردّ کرنے والے دُنیا میں بڑا دُکھ پاتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ عموماً کچھ مدت بعد لوگ نعمت کو بھُول جاتے ہیں اور اُن کو نعمت کی قدر نہیں رہتی کیونکہ عموماً طبائع ایسی ہیں جو کہ تغیّر کو پسند کرتی ہیں۔ ایک شخص کو خاص قسم کا کھانا ملے اور متواتر ملتا رہے چند عرصہ کے بعد وہ شور مچا دے گا۔ جن لوگوں کو عُمدہ غذائیں ملتی رہیں وہ ادنیٰ غذاؤں کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ جہاں غریب اِس خیال میں ہوتا ہے کہ امیر خدا جانے کیا نعمتیں کھاتے ہیں وہاں امیر کسی غریب کے گھر کے پاس سے گزریں گے تو کہیں گے کہ ہمارے ہاں سب کچھ پکتا ہے لیکن جیسی اِس غریب کے ہاں کی ہنڈیا سے خُوشبو آرہی ہے ویسی ہمیں کبھی اپنے کھانوں سے نہیں آتی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ امراء کو ان نعمتوں کی قدر نہیں ہوتی اِس لئے وہ ان کے لئے بے لذّت ہو جاتی ہیں۔
ایک رئیس جو غدر میں تباہ ہو گیا اس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ روز سپاہی کو حکم دیتا تھا کہ کسی غریب کی ہنڈیا اُٹھا لاؤ اور جو اس کا اپنا کھانا ہوتا تھا وہ اُس کے ہاں بھجوا دیتا تھا۔ اِس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ بڑا نفس کش اور متقی آدمی تھا بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ خدا نے اُس کو جو نعمتیں دے رکھی تھیں وہ اُن کی قدر نہیں کرتا تھا۔
غرض بہت انسان تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بہت جلد ایک حالت سے گھبرا جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں ایک قوم کی طرف اﷲ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ خدا کی ناشکری میں یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ وہ آبادی سے گھبرانے لگ گئی تھی اور اس امر کی شاکی تھی کہ خدا نے ان کے مُلک کو کیوں اس قدر آباد بنا دیا ہے کہ جنگل کوئی نظر ہی نہیں آتا۔ پھر خدا نے اس قوم پر عذاب بھیجا اور اس قوم کو تباہ کر دیا۔ تو جب انسان کی عقل ماری جاتی ہے اچھی بات بُری معلوم ہوتی ہے اور پھر عجیب عجیب دلائل سُوجھنے لگتے ہیں۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے جو ہم پر احسان کیا ہے وہ احسان کہاں ہے اِس میں اُس کا ذاتی فائدہ بھی تھا مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر کسی شخص کا کسی بات میں ذاتی فائدہ بھی ہو تو وہ نیکی کیوں نہیں رہتی۔
احسان کے صرف اتنے معنی ہیں کہ ایک شخص کسی دوسرے کے ساتھ کوئی ایسا کام کرے جس میں اس دوسرے شخص کا فائدہ ہو اور اُس کی نیت ہو کہ اس سے اُسے آرام ملے اور یہ بات احسان کے منافی نہیں ہے کہ اس نیکی یا بھلائی کرنے والے کو بھی اُس کے ذریعہ کوئی فائدہ پہنچتا ہو۔ اگر کسی کی اپنی غرض کے باعث احسان، احسان نہیں رہتا تو ماننا پڑے گا کہ خدا کا بھی نَعُوْذُ باللّٰہ کوئی احسان نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اِس نے انسان کو جو پیدا کیا ہے اُس کی خاص غرض اور منشاء ہے۔ جیسا کہ فرمایا وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 1 کہ ہم نے انسان کو اِس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کرے۔ تو اب دیکھ لو کہ خدا کے مخلوق پیدا کرنے میں بھی ایک غرض اور غایت ہے۔ تو کیا اِس طرح کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ خدا کا ہم پر احسان نہیں ہےکیونکہ اُس نے ایک غرض سے پیدا کیاہے۔
یہ ایک موٹی بات ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اﷲ کی صفتِ خالقیت تقاضا کرتی ہے کہ وہ پیدا کرے۔ تو کوئی نادان کہہ دے کہ اگر وہ پیدا نہ کرتا تو کیسے ثابت ہوتا کہ وہ خالق ہے۔ یا اگر وہ رحم نہ کرتا تو رحیم کیسے کہلاتا، یا اگر وہ ربوبیت نہ کرتا تو ربّ کیسے کہلا سکتا تھا۔ پس یہ جو کچھ وہ کرتا ہے یہ اُس کی صفات کا تقاضا ہے۔ اگر وہ یہ کام نہ کرتا تو اُس کی صفات کا کس طرح اظہار ہو سکتا۔ تو یہ کام یعنی رحیمیت، رحمانیت اور ربوبیت وغیرہ ہم پر کوئی احسان نہیں یا مثلاً اگر دُکھ اور آفت اور مصیبت میں ہے اور اﷲ تعالیٰ اُس کے دُکھ اور آفت کو دُور کرتا ہے کیونکہ وہ رؤوف ہے تو کہہ دیا جاوے کہ اس کے یہ افعال ہم پر احسان کے طور پر نہیں بلکہ اپنی صفات کے پورا کرنے کے لئے ہیں اور پھر یہی طریق انسانوں میں چلے گا اور ماں باپ کے متعلق کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ماں باپ کا ہم پر کیا احسان ہے؟ اُنہوں نے اپنے خاص اغراض کو پورا کیا اور اُس کا نتیجہ اس کی ولادت کی صورت میں ظاہر ہو گیا اور ماں نے جو اُس کو گودیوں میں کھلایا، دُودھ پلایا، پرورش کیا تو یہ اُس نے اپنی مامتا کے تقاضا سے کیا اس پر کوئی احسان نہیں کیا یا مثلاً شاگرد کہے کہ اُستاد نے مجھ پر احسان نہیں کیا۔ وہ تنخواہ لیتا تھا مجھ کو پڑھاتا تھا۔ پس یہ اُصول نہایت غلط ہے کہ چونکہ نیکی کرنے والے کو بھی کچھ فائدہ پہنچتا ہے تو اِس طرح گویا وہ نیکی اور احسان زائل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ احسان کی یہ تعریف درست ہی نہیں کہ ایسا کام جس سے دوسرے کو ہی فائدہ پہنچے اور کام کرنے والے کی اس میں نہ کوئی غرض ہو اور نہ اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو۔ ہاں کوئی شخص کسی سے کوئی ایسا سلوک کرے جس سے اس کو نقصان پہنچ سکتا ہو، لیکن خدا تعالیٰ اُس کام کو اس کے حق میں بجائے بدی اور نقصان کے مفید اور بابرکت کر دے تو یہ جُدا بات ہے اگر یہ نہیں تو ہر ایک کام جس سے کسی کو فائدہ پہنچے اور فائدہ پہنچانے والے کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے تو یہ سب احسان میں داخل ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو تمام احسانات: خدا کے احسان، والدین کے احسان اور اُستادوں کے احسان سب مِٹ جاتے ہیں۔ یہ احسان کی تعریف جو لوگ کرتے ہیں غلط تعریف ہے۔ کسی غرض و غایت کا ہونا احسان کے منافی نہیں ہے۔
اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعض باتیں جو بندوں کے ذریعہ ہمیں حاصل ہوتی ہیں اگر انہیں بندوں کا احسان نہ بھی مانا جائے اور یہی تسلیم کر لیا جائے کہ ان بندوں کا بھی فائدہ ہے تو بھی ان کے متعلق تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے احسان ہیں گوبندوں کے ذریعہ ہیں اِس لئے ہمیں اِن کی قدر کرنی پڑتی ہے۔
اِس کی مثال یہ ہے کہ اِس زمانہ میں بہت سے علوم نکلے ہیں جو دُنیا کے لئے بہت مفید ہیں اور ان کو استعمال کرنے سے دُنیا کو بہت فوائد حاصل ہو رہے ہیں مثلاً قسم قسم کی ایجادیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان ایجادوں سے تاجروں کو بھی فائدہ ہے اور ان کو کسی خاص شخص کو فائدہ پہنچانا مدنظر نہیں لیکن اس میں کلام نہیں کہ اس ایجاد سے ہم کو ایک فائدہ پہنچ رہا ہے۔ تو اِس کارخانہ کے ذریعہ یہ اﷲ تعالیٰ کا ہم پر ایک احسان ہے۔ اگر ہم اِس کارخانہ کو توڑ دیں اورجلا دیں تو بیشک کارخانہ دار کو نقصان پہنچے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم نے اِس کی احسان فراموشی کی مگر اِس میں بھی شک نہیں کہ ہمارے اِس فعل میں خدا تعالیٰ کی احسان فراموشی ہو گی جس نے اِس کارخانہ کے ذریعہ ہمارے لئے آسائش کے ذرائع پیدا کر دیئے تھے۔
پس بعض دفعہ خواہ اس انسان کا ہم پر احسان نہ ہو لیکن اس کے ذریعہ سے خدا کا ہم پراحسان ہوتا ہے۔ اگر ہم اِس کو نقصان پہنچائیں تو وہ خدا تعالیٰ کے احسان کا کفران ہے اور اس کی احسان فراموشی ہے۔ غرض بعض لوگوں کا قاعدہ ہے کہ ایک ہی حالت سے گھبرا جاتے ہیں۔ کوئی کپڑا ہو، دیر تک وہ پھٹے نہیں تو کہیں گے کمبخت پھٹنے میں ہی نہیں آتا۔ یا جوتا چھ مہینے کی بجائے سال بھر تک چلے تو کہیں گے کمبخت ٹوٹنے میں ہی نہیں آتا۔ اِسی مزاج کے لوگوں کا اِس وقت گورنمنٹ کے متعلق خیال ہے کہ یہ ٹوٹتی کیوں نہیں۔ گویا گورنمنٹ کا کوئی قصور ہے تویہ کہ یہ ٹوٹتی کیوں نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک قصّہ سُنایا کرتے تھے کہ ایک گاؤں کا نام تھا ''قُم'' بادشاہ وہاں سے گزرا اور وہاں ٹھہرا اور پوچھا کہ اِس گاؤں کا کیا نام ہے؟ بتایا گیا کہ اِس کا نام ہے ''قُم ''۔ بادشاہ چلا گیا اور حکم بھیجا یَاقَاضِیَ قُمْ اِنَّا عَزَلْنَاکَ فَقُمْ اے قُم کے قاضی! ہم نے تجھ کو معزول کیا پس اُٹھ کھڑا ہو۔ قاضی کو جب یہ حکم ملا تو وہ رو پڑا اور کہا کہ مجھے تو اِس قافیہ نے تباہ کیا۔ محض قافیہ کے خیال سے بادشاہ نے یہ حکم بھیجا ہے اور اِس قافیہ نے میرا گھر تباہ کر دیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں ہمارے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہے لیکن آج سے دس پندرہ برس پہلے اگر سیکنڈ کلاس میں دس دیسی ہوتے تھے اور ایک انگریز تو وہ دسوں اِس قدر ڈرتے تھے جس کی حد نہیں اور بعض انگریز بھی حکومت کے زعم میں بُرا رویہ اختیار کر لیتے تھے۔ اگر سیکنڈ کلاس میں کوئی انگریز ہوتا اور وہاں جگہ خالی ہوتی اور دیسی داخل ہونے لگتا تو وہ اسباب بنچ کے نیچے سے اُٹھا کر سیٹ کے اوپر رکھ دیتا۔ گو میرا تجربہ زیادہ نہیں مگر مَیں نے خود یہ حالت دیکھی ہے مگر اِس کے بعد چند سالوں سے اِس حالت میں ایک تغیّر بھی دیکھا ہے کہ ریل میں انگریز مسافر خود اسباب کو پرے ہٹا کر دیسیوں کے لئے جگہ خالی کر دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپس کے سلوک میں پہلے سے بہت ترقی ہو رہی ہے۔ پس اب گورنمنٹ پہلے سے خراب نہیں ہو گئی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کی نظر میں اِس گورنمنٹ کی عمر لمبی ہو گئی ہے۔ یہ تو خیر ایک غیر مُلک کی گورنمنٹ ہے۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ بعض سنگدل ماں باپ کو گالیاں دینے لگتے ہیں کہ کیوں نہیں مرتے۔ اگر مریں تو جائداد کو اپنے تصرّف میں لائیں۔ گورنمنٹ نے ان کو امن و امان اور دیگر ہزار ہا قسم کے فوائد پہنچائے ہیں مگر لوگ ان احسانوں کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ ہم پر ان کا کیا احسان ہے۔ کیونکہ یہ جو کچھ کرتے ہیں اس میں ان کا اپنا فائدہ تھا۔ اوّل تو مَیں نے یہ بتایا ہے کہ یہ اصول ہی غلط ہے کہ اِس طرح احسان، احسان نہیں رہتا اگر نیکی کرنے والوں کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے۔ مگر ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ گورنمنٹ کا ہم پر کوئی احسان نہیں، لیکن خدا کا تو ہم پر احسان ہے کہ ان کے ذریعہ ہمیں بہت سے فوائد میسّر ہو گئے۔ جولاہوں کا ہم پر احسان نہ سہی، لیکن خدا کا احسان ہے کہ ہمارے لئے اِس کثرت و بہتات سے کپڑا مہیا ہو گیا ہے۔ ابھی کچھ ہی زمانہ گزرا ہے کہ ہمارے مُلک میں لوگ لنگوٹی باندھے پھرا کرتے تھے۔اِس کی یہی وجہ تھی کہ کپڑا مہیا نہیں ہوتا تھا۔ جولاہوں کی بیشک یہ غرض نہیں ہوتی کہ زید و بکر کو فائدہ پہنچے مگر اِس میں کلام نہیں کہ ہم اِن کے کام سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور یہ خدا کا ہم پر احسان ہے۔ تو اگر ہم ایک کپڑے کے کارخانہ دار کو قتل کرتے یا اس کا کارخانہ جلاتے ہیں تو بے شک اس کی احسان فراموشی نہیں کرتے مگر کیا خدا کی بھی احسان فراموشی نہیں کرتے جس نے اس کے ذریعہ سے ہم پر احسان کیا تھا۔ اسی طرح ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ گورنمنٹ کا ہم پر احسان نہیں۔ مگر کیا خدا کابھی اِس ذریعہ سے ہم پر احسان نہیں ہے؟ اور کیا خدا کی احسان فراموشی کوئی چھوٹی اور ادنیٰ چیز ہے؟
اِن شورش کے ایّام میں ہماری جماعت ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے خلوص کے ساتھ فرمانبرداری دکھائی۔ درحقیقت یہ بھی ایک ثبوت ہے ہمارے حق پر ہونے کا کیونکہ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہم پراحسان کیا تھا اور ہم نے اِس احسان کی خدا کے فضل سے قدر کی اور آپ کو مانا تھا لیکن ہمارے مخالفوں نے خدا تعالیٰ کے اِس احسان کو ردّ کر دیا تھا۔ چونکہ ہم نے اِس احسان کو مانا تھا اس لئے ہمیں خدا کے دوسرے احسانوں کی قدر کرنے کی بھی توفیق دی گئی اور جو مخالف تھے وہ عادی تھے کہ خدا کے احسانوں کو ردّ کر دیں چنانچہ اُنہوں نے اِس احسان کو بھی جو امن کی صورت میں اُن پر کیا گیا تھا ردّ کر دیا۔ ہم نے جو کچھ کیا وہ ہمارا حق تھا اور جو کچھ اُنہوں نے کیا ان سے یہی ظاہر ہونا چاہئے تھا۔
غرض اِس وقت ہماری ہی جماعت ہے جو بحیثیت جماعت اِس احسان فراموشی سے بچی رہی جو ہندوستان کی مختلف اقوام سے اِس وقت ظاہر ہوئی ہے۔ مگر مَیں اِس وقت آپ لوگوں کو یہ نصیحت کرنے کے لئے کھڑا ہؤا ہوں کہ آپ لوگوں کا یہی فرض نہیں کہ خود اِن فسادوں سے بچیں بلکہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی ان حرکات سے باز رکھیں کیونکہ اگر ہمسائے کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہو تو کوئی دانا خاموش ہو کر نہیں بیٹھا رہے گا۔ وہ اس آگ کو بُجھانے کی طرف توجہ کرے گا۔ پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ ہمسایوں کی آگ کو بُجھائیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ2 کہ ظالموں کے پاس رہنے کا نتیجہ ہو گا کہ آگ تم کو بھی پکڑے گی۔دیکھ لو لاہور میں جو فوجی قانون جاری ہو رہے ہیں ان میں کوئی بات ایسی نہیں جو وفادار اور غیر وفادار میں امتیاز کرنے والی ہو۔ یعنی اگر کوئی وفادار شخص بھی رات کے مقرر وقت کے بعد بغیر اجازتِ سرکار گھر سے نکلے گا تو اُس سے بھی وہی سلوک ہو گا جو ایک غیر وفادار سے ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو جو کچھ پہنچا اس میں سے ہماری جماعت کو بھی پہنچا۔ اگر ہم ان کو باز رکھ سکتے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ لوگ خود بھی محفوظ رہتے اور ہماری جماعت پر بھی کوئی تکلیف نہ آتی۔ پس تمہیں چاہئے کہ دوسروں کو بھی امن کے قائم رکھنے کی ترغیب دلاؤ۔ دُکھوں سے مت ڈرو اور مت خیال کرو کہ لوگ تمہیں تکلیف دیں گے۔ تکلیفوں سے ڈرنے والے بُزدل ہوتے ہیں۔ تکلیف کو برداشت کرو کیونکہ مومن دلیر اور جری ہوتا ہے اور وہ خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ اِس لئے دُنیا اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ طاعون کے دنوں میں ٹیکا ایجاد ہؤا لیکن حضرت صاحب نے اپنی جماعت کو اِس سے بھی روک دیا۔ کیونکہ آپ کو خدا نے بتایا کہ مَیں اِن کی حفاظت کروں گا جو تیرے گھر میں ہوں گے3 اور الہام ہؤا کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔4 پس لوگوں کی دھمکیاں اور تکلیفیں کچھ نہیں کر سکتیں ۔ ہم سب کچھ خدا کے لئے کرتے ہیں اِس لئے ہم ڈر نہیں سکتے۔ جو قوم ڈرتی ہے وہ ترقی نہیں کر سکتی۔ موت ایک پردہ ہے جو ہم میں اور خدا کے درمیان حائل ہے۔ وہ پردہ اُٹھتا ہے تو ہم اپنے خدا کو مل جاتے ہیں۔ پس مومن کسی کی ہنسی کی پرواہ نہیں کر سکتے کیونکہ خدا ہمارا دوست ہے۔ وہ لوگ نادان ہیں جو ہم پر ہنستے ہیں وہ نہیں جانتے اور وہ نہیں دیکھتے۔ جب ان کو معلوم ہو گا کہ ہمارے پاس حق ہے تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے کئے پر پچھتائیں گے۔
ہماری مثال تو ڈاکٹر کی ہے اور ان کی مریض کی۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب ڈاکٹر نشتر لگاتا ہے تو مریض اس کو گالیاں دیتا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر کا فعل اُس کے فائدہ کے لئے ہوتا ہے۔ مریض کی گالیوں سے ڈاکٹر ناراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ناواقف ہے۔ تم کو خدا نے ڈاکٹر بنایا ہے۔ تمہارے ذریعہ خدا ان روحانی مریضوں کو صحت دے گا پھر یہ تمہارے شکرگزار ہوں گے۔ پس تم جرأت کرو اور لوگوں کو سمجھاؤ۔ یہ مت خیال کرو کہ گورنمنٹ تمہاری قدر نہیں کرتی۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں گورنمنٹ سے قدر کرانے کے لئے نہیں کرتے بلکہ خدا کے لئے کرتے ہیں اور خدا کے حکم سے کرتے ہیں کہ زمین میں فساد نہ کرو اور امن کو قائم رکھو۔ اگرکوئی ایسی گورنمنٹ ہو جو یہ کہے کہ تم فساد کرو تو ہم یا تو اِس کے مُلک کو چھوڑ دیں گے یا اِس کو اس کے اس خیال سے ہٹائیں گے۔ پس اگر گورنمنٹ کے حُکّام تمہارے کام کی قدر نہ کریں تو پرواہ مت کرو۔ ہمارا یہ فعل اِس غرض سے نہیں ہے کہ کوئی ہماری قدر کرے۔ ہمیں گورنمنٹ کیا دے سکتی ہے۔ ہمیں دینے والا ہمارا خدا ہے اِس لئے ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ کسی لالچ سے نہیں کرتے۔ ہمیں تو خدا نے وہاں کھڑا کیا ہے جہاں کسی مدح اور ذم کا اثر پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اس لئے ہم اس کے محتاج نہیں کہ وہ ہماری قدر کرے۔ کیونکہ ہمارا کام خدا کی رضا کا حاصل کرنا ہے۔ہمارے نزدیک لالچ گناہ ہے۔ کیا کسی خطاب کے لئے ہم فساد سے بچتے ہیں؟ کیا چند مربعوں کے لئے ہم وفادار ہیں؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ ہماری نظر میں خطاب اور مربعے کوئی چیز نہیں ۔ ہم خدا کے لئے کرتے ہیں۔ پس تم بتاؤ کہ خطاب اور مربعے بڑے ہیں یا خدا بڑا ہے؟ ہم وفادار ہیں۔ ہم امن قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اِس لئے کہ ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے، ہمارا خدا ہمیں فساد سے روکتا ہے، ہمارا مسیح موعود ہمیں وفاداری کی تعلیم دیتا ہے۔ پس تم دین کے لئے، خدا کے لئے اور مسیح موعود ؑ کے لئے امن کو قائم رکھو۔ کسی کے قدر کرنے کے خیال کو دل میں بھی نہ لاؤ۔ کیونکہ ہمارے دین کی ترقی اِس سے ہو گی۔ اگر دُنیا کی نظر میں تم اِس وجہ سے ذلیل ٹھہرو تو مَت پرواہ کرو کیونکہ خدا تمہاری عزت کرے گا۔''
(اتنا بیان فرما کر حضور بیٹھ گئے اور جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا:)
''پچھلے دنوں جب ہم نے لوگوں کو جمع کیا کہ ہمیں اپنے اپنے علاقہ میں امن قائم رکھنا چاہئے اور کسی قسم کے فساد میں شامل نہیں ہونا چاہئے تو اُس وقت بعض نادان مخالفوں نے کہا کہ یہ گورنمنٹ سے عزّت حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ اگر گورنمنٹ ہمیں خطاب دے تو وہ خطاب ہماری عزّت کو کیا بڑھا سکتا ہے۔ جبکہ خدا نے خطاب یافتوں کو اپنے فضل سے ہمارا غلام بنا دیا ہے۔ جو بیعت کرتا ہے وہ غلامی کا اقرار کرتا ہے۔ کئی خان بہادر آتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں۔ پس جو کچھ ان لوگوں کے خیال میں ہم گورنمنٹ سے لینا چاہتے ہیں وہ تو خدا کے فضل سے ہمارے مرید وں کو حاصل ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ جب وفاداری کی تعلیم دیتے تھے تو مخالف کہتے کہ گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا کے نبی خوشامدی نہیں ہوتے۔ جب مسلمان کہتے تھے کہ سلطان روم محافظِ حرمین ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا تھا کہ یہ غلط ہے۔ بلکہ حرمین اس کے محافظ ہیں۔ مسلمانوں نے اس پر ہنسی کی۔ مگر دیکھ لو جب حرمین ان کی حکومت سے علیحدہ ہوئے تُرک اُسی وقت مِٹ گئے۔پس اسی طرح یاد رکھو کہ مسیح موعود اِس گورنمنٹ کے محافظ تھے۔ آپ نے لکھا ہے کہ خدا اِس گورنمنٹ کا محافظ ہے کیونکہ مجھ کو اُس نے اِس حکومت کے ماتحت مبعوث فرمایا ہے۔
پس ہم دُنیا کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے فرمانبردار ہیں۔ اِس لئے لوگ اگر ہم پر ہنستے ہیں تو اِس کی پرواہ نہیں۔ خدا ہمیں دیکھتا ہے اور وہ ہم سے خوش ہے۔ اِس لئے اِس کی خوشی کے مقابلہ میں دُنیا کی خوشی کی کوئی پرواہ نہیں۔’’ (الفضل 10مئی 1919ء)
1: الذٰریٰت: 57 2: ھود: 114
3: تذکرہ صفحہ 428۔ ایڈیشن چہارم
4: تذکرہ صفحہ 397۔ ایڈیشن چہارم

40
ہمارا ہتھیار دُعا ہے
(فرمودہ9مئی1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘ہماری جماعت کی حالت اور اس کی تعداد اور اس کی طاقت جتنی بھی ہے دوسرے لوگ تو اس کو حقارت سے دیکھتے ہی ہیں مگر ہم بھی اپنی حقیقت سے ناواقف نہیں۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ عموماً لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھا کرتے ہیں۔ ذرا کسی کو مال ملتا ہے تو وہ اپنے آپ کو فرعون سے بڑا سمجھتا ہے۔ ذرا کسی کو طاقت میسّر ہوتی ہے تو وہ رُستم سے زیادہ جری اپنے آپ کو سمجھتا ہے۔ مگر ہماری کمزوری اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ ہم اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہیں حالانکہ لوگ اپنی کمزوری کو محسوس نہیں کیا کرتے۔
ہم مال کے لحاظ سے دُنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ قوت سے مقابلہ کر سکتے ہیں، نہ طاقت سے اور نہ جتھے کے لحاظ سے مقابلہ کر سکتے ہیں، نہ سیاسی رسوخ سے مقابلہ کر سکتے ہیں، نہ حکومت سے نہ سلطنت سے۔ غرض اِن باتوں میں سے کسی بھی لحاظ سے ہمیں کسی قسم کی فوقیت دُنیا پر حاصل نہیں۔ اِس کے مقابلہ میں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی مذہبی سلسلہ نہیں جو ہمارا دُشمن نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی کمزور ہو مگر اُس کا دُشمن بھی نہ ہو تو باوجود اُس کے کمزور ہونے کے اس کے لئے خطرات نہیں ہیں۔
چونکہ اُس کے مقابلہ میں کوئی نہیں۔ اس لئے اس کو خطرہ نہیں۔ مگر ہمارا معاملہ اِس کے اُلٹ ہے۔ ایک طرف تو کمزور ہم سے زیادہ نہیں دوسری طرف ہم سے زیادہ کسی کے دُشمن نہیں۔ یا یوں کہو کہ جس قدر مذہبی سلسلے ہیں وہ سب کے سب ہمیں مٹانے کے در پے ہیں۔ کیونکہ جو ہم تعلیم دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں سب کے سب اس سے ڈرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ اس تعلیم کے سامنے سب تعلیمیں ماند ہو جائیں گی۔ جیسا کہ بکری شیر سے ڈرا کرتی ہے اِسی طرح اس تعلیم سے جو ہمیں دی گئی ہے تمام سلسلے ڈرتے ہیں۔ اِس لئے سارے کے سارے ہمارے مقابلہ کے لئے کھڑے ہیں۔ مذہبی طور پر نہ عیسائی ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں اور نہ سکھ، نہ ہندو، نہ آریہ، نہ چینی، نہ بدھوں کو ہم سے ہمدردی ہے، نہ کسی اور کو۔ یعنی مذہبی طور پر ہم سے ہر ایک نے جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔ کونسی قوم ہے جس کو ہم سے مذہبی طور پر ہمدردی ہے۔
اِس میں شُبہ نہیں کہ ہم سیاست میں کسی سے لڑتے نہیں۔ گورنمنٹ کی وفاداری کے متعلق جو سیاست میں ہمیں حصّہ لینا پڑتا ہے وہ ہمارے مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس لئے ہم دیگر ہر قسم کی تحریکوں سے علیحدہ ہیں اور نہ ہمارے پاس وقت ہے، نہ مال، نہ آدمی ہیں کہ جن کو مذہب کے علاوہ سیاست میں لگائیں۔ گورنمنٹ کی خدمت چونکہ ہمارا ایک مذہبی فرض ہے اِس لئے ہم اِس میں دخل دیتے ہیں اور اِس خدمت کو ادا کرتے ہیں جس طرح بھی ادا ہو۔ ہمیں گورنمنٹ کے متعلق تعلیم ہی ایسی دی گئی ہے کہ جو گورنمنٹ سمجھدار ہو ہمیں اس سے کسی قسم کا خطرہ نہیں۔ حکومت سے ان لوگوں کو خطرہ ہے جو بغاوت کے خیال رکھتے ہوں لیکن جن کے دل میں بغاوت و فساد کے خیالات ہی نہ ہوں اُن کو کسی امن پسند اور سمجھدار گورنمنٹ کے ماتحت کسی قسم کے خطرات نہیں۔ پھر بھی ہم بہت ہی ناتوان اور کمزور ہیں اور ساری مذہبی دُنیا ہماری مخالف ہے۔ اِس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سوچ سوچ کر قدم اُٹھائیں اور اپنے دُشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ کی جو تدبیر کریں وہ عُمدہ اور بہتر ہو۔ ہمارے مخالف ہمیں جسمانی طور پر دُکھ دیتے ہیں اور ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کٹک میں ہماری ایک میّت ہو گئی۔ احمدی جب دفن کر کے واپس لوٹے، مخالفوں نے لاش کو قبر سے نکال کر کُتّوں کے آگے پھینک دیا۔ احمدی ان لوگوں کی اِن حرکتوں کو دیکھتے تھے مگر کچھ نہیں کر سکتے تھے اگر پولیس موقع پر نہ پہنچ جاتی تو قریب تھا کہ کُتّے لاش کو چیر ڈالتے۔
یقینا جان لو کہ وہ خدا جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اِس کام کے لئے کھڑا کیا ہے اُس سے یہ ہر گز اُمید نہیں کہ ایسا مہتم بالشان کام سپرد کر کے بے ہتھیار چھوڑ دے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے جو جانور پیدا کئے ہیں خواہ اُن کی عمر چند گھنٹے ہی کیوں نہ ہو اُن کی خوراک بھی پیدا کی ہے۔ زمین کے اندر رہنے والوں کی خوراک کا سامان اس نے پیدا کیا ہے۔ پانی میں رہنے والوں کی خوراک کا سامان اس نے کیا ہے۔ نباتات کے لئے اس نے خوراک پیدا کی ہے، حیوانات کے لئے اس نے جن کی ضروریاتِ خوراک ایک جگہ نہ تھیں اُن کو پاؤں دیئے تاکہ وہ چل پھر کر اپنی خوراک کو جمع کریں۔ وہ جانور جن کی خوراک گوشت ہے ان کو پنجے بھی دیئے اور جن کی خوراک گوشت نہیں ان کو پاؤں دیئے ہیں اور درخت جن کی خوراک مختلف جگہوں سے مہیا نہیں ہوتی ان کے لئے پاؤں کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کو جڑیں دی ہیں تاکہ وہ زمین سے ہی اپنی خوراک حاصل کر لیں۔ پس ہمیں خدا نے پیدا کیا اور خاص مقصد کے لئے کھڑا کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں کوئی ہتھیار نہ دیتا۔ ہتھیار اُس نے دیا ہے لیکن ہم میں بہت ہیں جو اِس کو استعمال نہیں کرتے اور وہ ہتھیار جو ہمیں دیا گیا ہے دُعا کا ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ ہم مقابلہ نہیں کر سکتے اور ہم میں طاقت نہیں کہ ہم اپنے دُشمن کے حملوں سے بچ سکیں لیکن ہمیں ایک ایسی ہستی نے کھڑا کیا ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ جس طرح یہ بات یقینی ہے کہ ہم کسی کا مقابلہ نہیں کر سکتے اِس سے کہیں زیادہ یہ بات یقینی ہے کہ جس نے ہمیں کھڑا کیا ہے اُس کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
اِس لئے جہاں ہم جیسا کوئی بے کس اور بے بس نہیں ہے وہاں روحانی طور پر ہم سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں ہے۔ اگر ایک طرف ہم ساری دُنیا کا نشانہ ہیں تو دوسری طرف ساری دُنیا ہمارا شکار ہے۔ اگر تمام دُنیا ہمیں روند ڈالنا چاہتی ہے تو دوسری طرف اُمید ہے کہ تمام دُنیا پر ہم ہی ہم ہوں گے۔ جنگ و جدل سے نہیں بلکہ رُوحانی طور پر کیونکہ ہمیں وہ طاقتیں اور قوتیں دی گئی ہیں جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا لیکن افسوس اِس کا ہے کہ بہت کم ہیں جو اِن قوتوں اور طاقتوں اور ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہیں۔ بہت ہیں جو سُستی اور بے ہمتی کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جس نے ہمیں کھڑا کیا ہے اُس میں طاقت ہے۔
مَیں نے ایک دفعہ ایک رؤیا دیکھی کہ ایک بہت بڑا اژدہا ہے اور وہ تمام دُنیا میں پھرتا ہے اور جو اُس کے سامنے آتا ہے وہ اُس کو کھا جاتا ہے۔ لوگوں میں بہت خطرہ پھیلا ہؤا ہے۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک جماعت کے آگے ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک عصا ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ دو آدمی اِس اژدہا کے آگے آگے بھاگے جاتے ہیں مگر وہ اژدہا اِس قدر تیز دوڑتا ہے کہ ان آدمیوں اور اُس کے درمیان کا فاصلہ دم بدم کم ہوتا جارہا ہے۔ یہ دیکھ کر مَیں اُس کو مارنے کے لئے دوڑا ہوں اور خدا نے مجھ کو توفیق دی ہے کہ مَیں نے قریب پہنچ کر سوٹا اُٹھانا چاہا۔ اُسی وقت میرے ذہن میں یہ حدیث آئی کہ لَا یَدَانِ لِاَحَدٍ لِقِتَالِھِمَا۔1 یہ یاجوج ماجوج کے متعلق ہے کہ کسی میں طاقت نہ ہو گی کہ وہ ان کا سامنے سے مقابلہ کر سکے۔ پس جب اِن کے مقابلہ کی طاقت ہی نہیں تو پھر مَیں کیسے مقابلہ کر سکتا ہوں۔ یہ خیال میرے ذہن میں آیا ہی تھا کہ وہ اژدہا میری طرف پلٹا اور چاہا کہ مجھ پر حملہ کرے۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک چار پائی پڑی ہے جس کی لکڑیاں سلامت ہیں مگر وہ بُنی ہوئی نہیں۔ جونہی کہ اس نے مجھ پر حملہ کیا مَیں کُود کر اِس چار پائی کی پاٹیوں پر چڑھ کر کھڑا ہو گیا اور ایسا ہؤا کہ مَیں اژدہا کی پیٹھ پر پہنچ گیا اور مَیں نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے۔ اب میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ حدیث میں تو یہی بات آئی ہے کہ کوئی ہاتھوں سے اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مَیں بھی اس کا مقابلہ ہاتھوں سے نہیں کرتا۔ مَیں تو دُعا کرتا ہوں۔ پس حدیث میں تو آمنے سامنے مقابلہ کے لئے کہا گیا ہے۔ مَیں نے دُعا کرنی شروع کی وہ تڑپنے لگا اور مُردہ ہو کر گر پڑا۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں ہم ہر طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں اور خطرناک دُشمن ہمارے ہر طرف ہیں اور اس کے مقابلے کے ظاہری سامان ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ پھر جو مشکلاتِ زمانہ در پیش ہیں اور ہم جن جن مُشکلات میں سے گزر رہے ہیں اُن کی حد نہیں۔ جدھر دیکھتے ہیں گڑھا نظر آتا ہے۔ مذہبی ضروریات ہمیں کھینچتی ہیں کہ ہماری تمام تر توجہ اشاعت کی طرف ہونی چاہئے اور اشاعت میں لگ جائیں۔ اقتضائے دین یہ ہے کہ ہم ساری توجہ اِدھر لگا دیں لیکن سیاسی حالت آجکل ملک کی چاہتی ہے کہ ہم اپنی توجہ کو اُدھر پھیر دیں اور کوشش کریں کہ مُلک اِن مُشکلات میں سے نکل جائے اور وہ ایسی مُشکلات ہیں جن کے باعث ہماری اشاعت میں بھی روک پیدا ہوتی ہے۔
ہم منافق نہیں ہیں کہ اِدھر تو گورنمنٹ کو کچھ کہیں اُدھر مُلک کے لوگوں کے پاس گورنمنٹ کے خلاف باتیں کریں۔ یا ہمیں یہ خواہش نہیں کہ ہمیں اِس طرح گورنمنٹ میں بھی نیک نامی حاصل ہو اور لوگوں میں بھی۔
گورنمنٹ سامان رکھتی ہے، فوجیں رکھتی ہے اِس لئے یہ اپنے مخالفوں کو اپنی طاقت کے بل پر دبا سکتی ہے اور وہ لوگ جو ہمارے مخالف ہیں بڑے جتھے رکھتے ہیں۔ اگر اُن میں سے بعض کو پکڑ لیا جائے تو دوسرے اُن کی جگہ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ہماری حالت نازک ہے، نہ ہم جتھا رکھتے ہیں، نہ پاس فوجیں ہیں، نہ ہم گورنمنٹ کے خلاف چلنے والوں اور بغاوت کرنے والوں سے مل سکتے ہیں، نہ ہم منافقت سے اُن کو خوش کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں ایسے لوگوں سے علیحدہ رہنے کا حکم دیتا ہے اور ہمارا ہادی اور رہنما جس نے اِس وقت ہمیں خدا کی طرف بُلایا اُس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم بغاوت نہ کریں اور گورنمنٹ کی وفاداری اور خیر خواہی کریں کیونکہ خدا نے اُن کو اِس سلطنت کے ماتحت اِس لئے پیدا کیا تھا کہ یہ سلطنت تمام موجودہ سلطنتوں سے بہتر اور اچھی سلطنت ہے۔ پس اِدھر تو ہماری مذہبی تعلیم ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم کسی قسم کی شورش سے تعلق نہ رکھیں اور گورنمنٹ کے وفادار رہیں۔ اُدھر ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم منافقانہ طور پر لوگوں کو بھی خوش کر سکیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم گورنمنٹ کی وفاداری کرتے ہیں کیونکہ ہمارا مذہبی فرض ہے لیکن ہمیں لوگ تکلیفیں دیتے ہیں اور ساتھ ہی یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دُشمن جو ہم سے زیادہ ہیں ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے گورنمنٹ کو غلط رپورٹیں دیتے ہیں۔ پہلے وفاداری سے لوگوں سے دُکھ پایا، اب ابناءِ وطن کی جھوٹی شکایتوں کے باعث گورنمنٹ کے بعض حُکام سے دُکھ پایا۔ اِس کا یہ نتیجہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم اپنے مذہبی فرض کو ترک کر دیں۔ پس ہم اپنے اصلی فرض کو ترک نہیں کر سکتے لیکن ہم اُمید رکھتے ہیں کہ ہم ہر حال میں اپنے مرکز پر قائم رہیں گے مگر یہ ظاہر ہے کہ ہر شخص میں ایسے حالات میں مرکز پر قائم رہنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ پس ایسی حالت میں ہمارا مذہب تعلیم کرتا ہے کہ جہاں تمہاری ایسی حالت ہو تو خدا کے حضور جُھک جاؤ۔
آج ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ افغانستان کی اندرونی حالت اچھی نظر نہیں آتی۔ ممکن ہے کہ وہ سرحد پر مُشکلات پیدا کرے۔ ایسی صورت میں مُشکلات اَور بھی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ بہرحال اِس وقت دُعاؤں کی سخت ضرورت ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں شریروں کے شر سے بچائے اور دوسری طرف جو ہم مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کر کے ہر قسم کی شورشوں سے علیحدہ ہیں اُس میں بھی اﷲ تعالیٰ کی مدد ہمارے شامل حال ہو۔’’
(الفضل 17مئی 1919ء)
1: مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال

41
مسیح موعود کی صداقت کے نشانات کا ظہور
(فرمودہ 16مئی 1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘خدا تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ وہ کبھی اپنے فضلوں کو واپس نہیں لیتا جب تک کہ خود لوگ اُس کا مقابلہ کر کے اُس کے غضب کا اپنے آپ کو مستحق نہ ٹھہرالیں۔ پہلے لوگ اپنے نفوس میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں پھر خداتعالیٰ اُن کی نعمتوں کو زائل کر دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ1
اﷲ تعالیٰ اُس وقت تک اپنی نعمت کو نہیں بدلتا جب تک کہ لوگ اپنے نفوس کے اندر سے جو اخلاص کی رُوح،اطاعت کا مادہ، جوش و وابستگی کا ولولہ ہوتا ہے، اُس کو نہیں بدلتے۔ ہاں جب وہ نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اپنی حالت کو بدل دیتے ہیں اور خدا کا مقابلہ کرنا شروع کردیتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ بھی ان کی حالت کو بدل دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ بے وفا نہیں بلکہ وفا کا خالق ہے۔ اِس سے سمجھ لو جو وفا کا خالق ہو گا اُس میں کتنی وفا ہو گی۔ پس وہ قطع تعلق نہیں کرتا جب تک خود لوگ اُس سے محبت نہیں چھوڑ دیتے۔ وہ فضل کرتا ہے جب تک کہ لوگ اُس کے فضل کو ردّ نہ کریں۔ وہ دینے سے سیر نہیں ہوتا، ہاں لوگ لینے سے سیر ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اﷲتعالیٰ کے فضلوں سے سیری نا ممکن ہے کیونکہ اﷲ کی طرف سے جو کچھ آتا ہے اُس کا انسان ہر وقت محتاج ہے۔ پس جب انسان خدا کے فضل سے ملال ظاہر کرتاہے اور خدا کے احسان سے مُنہ پھیر لیتا ہے اور خدا کے انعام سے جُدائی میں آرام دیکھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ بھی علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ اِسی کی طرف سورۃ فاتحہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔
فرمایا:-
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ۔صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ١ۙغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَؒ۔2 کہ خدا یاانعام کر مگر یہ نہ ہو کہ ہم تیرے انعام سے ملول اور سیر ہو جائیں۔ تیرا فضل ہو مگرایسے رنگ میں کہ دماغ میں کبر و غرور نہ بھر جائے۔ احسان ہوں مگر ہم ان سے سیر نہ ہوں مگر ہمیں یہ عادت نہ ہو کہ ہم ان انعاموں کو حقیر سمجھ کر اَور طرف توجہ کر لیں۔
انسانوں میں فرداً فرداً بھی لوگ ہوتے ہیں جو ایک وقت خدا کے فضل کے مستحق ہو کر دوسرے وقت میں اُس کے غضب کو بھڑکاتے ہیں مگر اقوام کا حال اِس بارے میں بالکل نمایاں ہے۔ جو قوم آج گری ہوئی ہے وہ کل معزز تھی اور کل جو معزز تھی وہ آج ذلیل ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ انسانوں میں بہت ملیں گے کہ جنہوں نے خدا سے تعلق پیدا کیا اور آخر تک اس کو نباہا۔ ان کا قدم صدق کی مضبوط چٹان پر قائم رہا بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اکثر لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ان پر کوئی گھڑی نہیں آتی کہ وہ ترقی کی کسی منزل پر ٹھہر گئے ہوں بلکہ وہ دمبدم ترقی میں ہوتے ہیں لیکن قوموں میں سے کوئی قوم ایسی نہیں ملے گی جو ہمیشہ تعلق کو نبھا سکی ہو بلکہ قومیں جو ایک وقت میں بڑے عروج پر تھیں دوسرے وقت میں مِٹ جاتی رہی ہیں۔ یہ نہیں ہؤا کہ اقوام کی حالت بہ حیثیت قوم خدا کی محبت و تعلق کے لحاظ سے اچھی تھی اور وہ مٹ گئی۔ بلکہ قومیں ایسی ہی ہوئی ہیں کہ ایک وقت میں ان کی حالت اچھی تھی مگر دوسرے وقت میں بالکل گر گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں تمام جمع کے صیغے رکھے ہیں۔ اِھْدِنِیْ نہیں فرمایا اِهْدِنَا فرمایا ہے کیونکہ اقوام ہی ہیں جو گر جاتی ہیں اور افرادکم ہوتے ہیں جو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں داخل ہو کر مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ یا الضَّآلِّيْنَمیں شامل ہوتے ہیں۔
نبیوں کی مثال کو جانے دو کہ وہ خاص لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ایسے افراد بکثرت مل سکتے ہیں جنہوں نے صداقت کو دمِ آخر تک نہیں چھوڑا اور محبت و وفا پر قائم رہے۔ ابو بکر (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)نے جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور اقرار کیا تو اِس کے بعد پھر وہ ایک لمحہ کے لئے بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ بلکہ اِس کا قدم ہر لحظہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔ اِسی طرح عمر(رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) نے اسلام لانے کے بعد اپنے اخلاص میں کمی نہیں کی۔ عثمان و علی، طلحہ و زبیر (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم) نے کمزوری نہیں دکھائی بلکہ ہر روز جو اُن پر آتا رہا ہے اُس میں وہ پہلے سے زیادہ اخلاص اور جوش پاتے تھے۔ ان کے علاوہ اور ہزاروں انسان ملیں گے جو خدا کی راہ میں قائم رہے مگر غور کرو کہ وہی عرب جو ایک وقت میںمُنْعَم ہوئے تھے وہی آج پہلی وحشیانہ حالت کی طرف لوٹ گئے ہیں۔ وہ ایسے جاہل ہو گئے ہیں کہ جس کی انتہاء نہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ مکّہ میں ایک عرب نے زندہ بکری کی کھیری کاٹ کر پکالی۔ جب اس کو کہا گیا کہ یہ تو حرام ہے۔ کہنے لگا کہ واہ! زندہ جانور کا گوشت کہاں حرام ہے؟ پھر اِسی مکّہ میں جہاں سے اسلام کا چشمہ پھُوٹا ایسے لوگ بھی ہیں جو کلمہ تک نہیں جانتے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مدینہ جو ایک وقت صداقت کا منبع تھا۔ اب وہاں سے ہر سال جھوٹ شائع ہوتا ہے۔ وہاں سے ایک اشتہار شائع ہؤا کرتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ایک مجاور کو جس کا نام درج ہوتا ہے ۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ملے اور کہا کہ اِس سال جس قدر لوگ مرے ہیں اُن میں اتنے دوزخی ہیں اور اتنے جنتی۔ عام لوگ تو اِس کو سمجھتے بھی نہیں، وہ ایک تعویز سمجھ کر لے آتے ہیں اور جو پڑھے لکھے ہوتے ہیں ان میں بھی بیشتر ایسے ہی ہوتے ہیں جو اِس کی حقیقت کو نہیں معلوم کر سکتے۔ بیسیوں سال گزر گئے ایک ہی مضمون ہوتا ہے جو شائع کیا جاتا ہے۔ تو وہ مدینہ جو صداقت کا منبع تھا آج کذب کا منبع ہے اور کذب بھی ایسا کہ اِس میں خدا پر جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ تو زمانہ کے تغیرات سے اقوام اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں داخل ہو کر مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْاور ضَآلِّيْنَ میں شامل ہو جاتی ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جن کو خدا کی طرف سے سب سے زیادہ علم دیا گیا تھا آپ نے فرمایا کہ ایک وقت میں میری اُمّت کی وہ حالت ہو گی جو یہود کی ہوئی۔ فرمایا ان کی ہر ایک حرکت و سکون، ان کا ہر قول و فعل یہود کی مانند ہو گا۔3 اور فرمایا کہ اُس وقت میری اُمّت کے علماء بد ترین خلائق ہوں گے 4 اور ایسے لوگ دین کی اشاعت کا دم بھریں گے جو دین سے بالکل ناواقف ہوں گے اور ایسے امیر ہوں گے جو دین کی حقیقت سے بے بہرہ ہوں گے۔5 یہ زمانہ پہلوں کے لئے سمجھنا مُشکل تھا۔ چنانچہ صحابہ ؓ نے حیرت سے پوچھاتھا کہ کیا رسول اﷲ ایسا ہو گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہو گا لیکن آج کا سمجھنا کچھ بھی مُشکل نہیں رہا۔ کیونکہ اب وہی زمانہ آگیا ہے جہاں پہلے مسلمان ہونا صداقت کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ آج مسلمان کے معنے جھوٹے اور غدّار سمجھے جاتے ہیں۔ مسلمان پہلے وفادار کے معنوں میں بولا جاتا تھا لیکن آج فریبی اور بے وفا کے معنوں میں سمجھا جاتا ہے اور خود مسلمانوں میں ایسے لوگ ہیں جو ہندوؤں کو اِس لئے نوکر رکھتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں مسلمان دیانتدار نہیں ہوتے۔ آج ایک مسلمان کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ سیدھا سادہ مسلمان تھا ہمیشہ مقروض رہا۔ گویا جس سے کچھ لیا پھر اسے دینے کا نام نہ لیا۔ پس یہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں داخل ہو کر مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ میں شامل ہو گئے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد یہ خیال نہیں ہو سکتا تھا کہ مسلمان کسی نبی اور مامور کی مخالفت کی جرأت کریں گے مگر مسلمانوں نے بتا دیا کہ ان کے متعلق یہ خیال درست نہیں تھا۔ کیونکہ خدا کی طرف سے ایک نبی آیا کہ ان کو اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْمیں داخل کرے مگر اُنہوں نے اِس کا مقابلہ کیا اور ایسا مقابلہ کیا کہ جتنی شرارتیں متفرق طور پر سب نبیوں کے مقابلہ میں کی گئیں وہ سب کی سب آپ کے مقابلہ میں اور آپ کو دُکھ دینے کے لئے کی گئیں۔ جو شرارتیں حضرت موسیٰ ؑ کے مخالفوں نے موسیٰ ؑکے مقابلہ میں کیں وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے مقابلہ میں کی گئیں، جو کچھ عیسی ٰ ؑ کے مقابلہ میں کیا گیا وہ آپؑ کے مقابلہ میں کیا گیا، جو ابراہیم ؑ کے مقابلہ میں کیا گیا وہ یہاں بھی کیا گیا۔ اگر پہلوں نے انبیاء کو قتل کرنا چاہا تو یہاں بھی قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اگر پہلے انبیاء کو ذلیل کرنا چاہا گیا تو آپؑ کو بھی ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ غرض وہ تمام حرکتیں آپ ؑ کے مقابلہ میں کی گئیں جو پہلے نبیوں کے مقابلہ میں کی گئی تھیں۔ جن سے ثابت ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بروز ہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم وارث ہیں تمام انبیاء کی صفات کے، لیکن جہاں یہ ثابت ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بروز ہیں وہاں یہ بھی پتہ لگ گیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخالف بروز ہیں پہلے تمام انبیاء کے مخالفین کے۔ اور چونکہ اُنہوں نے تمام وہ شرارتیں کیں جو پہلے انبیاء کے مقابلہ میں کی گئیں اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے انہیں ہر ایک رنگ کے عذابوں کا نمونہ دکھایا۔ نوح ؑ کے وقت کا عذاب اُس نے دکھایا، ابراہیم ؑ کے مخالفوں کو جو عذاب دیئے گئے تھے وہ یہاں آئے، اسمٰعیل ؑ و اسحاق ؑ و یوسف ؑ کے مخالفوں کے عذاب کے نمونے یہاں دکھائے گئے۔ غرض جس قدر قومیں گزری ہیں اُن کو جو عذاب دیئے گئے تھے وہ سب عذاب اِس زمانہ میں بھیجے گئے تا لوگوں کی آنکھیں کھلیں۔ زلزلوں اور آندھیوں نے مُلکوں کو تہہ و بالا کر ڈالا، آسمان سے پتھر برسے، زمین کے پرخچے اُڑ گئے۔ دُور کی بات تو الگ رہی یہاں سے پچاس میل کے فاصلے پر کانگڑہ ہے۔ وہاں یہ نظارے دیکھنے میں آئے۔ پھر طوفان آئے اور ایسے آئے کہ ہزاروں لاکھوں غرق ہو گئے۔ قحط پڑے اور ایسے پڑے کہ ہٹنے میں ہی نہیں آئے۔ بیماریاں پڑیں اور ایسی پڑیں کہ ان کے نام تک کسی نے پہلے نہیں سُنے تھے۔ طاعون پھُوٹی، ہیضہ پھیلا، بخارآیا مگر لوگوں نے کہا کہ طاعون آیا ہی کرتی ہے، ہیضہ پھیلا ہی کرتا ہے، بخاراہؤا ہی کرتے ہیں، انفلوئنزا پہلے بھی پھیل چُکا ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ ڈاکٹر بتلا رہے ہیں کہ اِس قسم کا انفلوئنزا جو ایسا زہریلا ہو کبھی نہیں آیا جیسا کہ گزشتہ ایّام میں گزرا ہے۔
اب ایک نیا بخار پھیلا ہے جس کا نام قحط کا بخار رکھا گیا ہے۔ اِس کی یہ کیفیت ہے کہ ایک ہفتہ چڑھتا ہے پھر اُترجاتا ہے۔ ہفتہ بعد پھر چڑھتا ہے۔ اِسی طرح کئی کئی دورے کرتا ہے۔ اِس سے لوگ مر بھی جاتے ہیں اور بچ بھی رہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں طاعون، انفلوئنزا اور بخار، ہیضے وغیرہ پہلے بھی پھیلتے تھے کیا ہؤا اگر اب پھیل گئے؟ مگر ہم کہتے ہیں کہ ہم تسلیم کرتے ہیں پہلے بھی یہ امراض پڑے مگر نہ تو موجودہ شکل میں پہلے پڑے ہیں نہ تمام کے تمام ایک وقت اور ایک زمانہ میں آئے۔ کوئی بتلا سکتا ہے کہ وہ کون سا زمانہ تھا جس میں یہ تمام آفتیں اور تمام ہلاکتیں جمع ہوئی تھیں؟ ہر گز نہیں۔ اِس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ پہلے بھی بیماریاں آیا کرتی تھیں اِس لئے اب بھی آئی ہیں بلکہ یہ خدا کا خاص عذاب ہے جو لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے آیا ہے اِسے اتفاقیہ اور عام طور پر آنے والی بلاؤں کی طرح نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں سڑک پر ایک آدمی آئے گا تو دوسرا کہہ سکتا ہے کہ آدمی آیا ہی کرتے ہیں کیا ہؤا اگر آئے گا۔ مگر جب وہ یہ کہہ دے کہ ایک ایسا آدمی آئے گا جس کا قد اتنا ہو گا، رنگ و شکل ایسی ہو گی، ٹوپی ایسی، کوٹ و قمیص ایسا، پاجامہ ایسا ہو گا، چھڑی ایسی ہو گی، اس کے بوٹ ایسے ہوں گے تو اس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ ایسے آدمی آیا ہی کرتے ہیں۔ پس اگر اِس زمانہ میں صرف ایک نشانی ہو تو کہہ دو کہ ایسا ہوتا آیا ہے لیکن سب باتوں کا ایک زمانہ میں جمع ہونا ایسا ہے کہ جس کی پہلے نظیر نہیں ملتی۔ پس اِدھر یہ مجموعہ عذابوں کا ہے اور اُدھر اُن کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں۔
پس یہ خدا کا غضب بھڑک رہا ہے۔ مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میرے ایک مضمون پر جو مَیں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت پر لکھ کر عام طور پر شائع کر دیا تھا مجھے لکھا گیا تھا کہ جب تک قسطنطنیہ کی حکومت تباہ نہ ہووے اور مسلمانوں کی کوئی سلطنت باقی رہے اُس وقت تک مہدی نہیں آسکتا۔ اِس تحریر کو آئے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ ترکی لڑائی میں شامل ہو گیا۔ مَیں نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں نے اپنی کرتوتوں، اپنی بداعمالیوں، اپنی شرارتوں اور اپنی خباثتوں سے خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکا دیا ہے اور اب منشاءِ الٰہی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اِس وقت تک مسلمانوں کی جو نام کی حکومت تھی وہ بھی نہ رہے اور یہ اِس لئے کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے والوں کے تباہ ہونے کے کئی ایک نمونے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے، کئی سلطنتوں کو خوار اور ذلیل ہوتے دیکھا۔ ان کے لئے بڑا موقع تھا کہ ان سے عبرت حاصل کرتے، خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرتے، قرآن شریف کی طرف لَوٹتے بلکہ یہ اپنی بدکاریوں سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے بلکہ آگے بڑھتے گئے۔ سو خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو گیا اور اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام کی حکومت بھی دُنیا سے اُٹھ جائے گی۔ 6
اب دیکھ لو قسطنطنیہ بھی مفتوح ہو گیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف آپ کو اکثر کہا کرتے تھے کابل میں چلو تو پھر دیکھو تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ اب ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ عنقریب انشاء اﷲ ہم کابل میں جائیں گے اور اُن کو دکھا دیں گے جس کو وہ قتل کرانا چاہتے تھے اُس کے خدّام خدا کے فضل سے صحیح سلامت رہیں گے اور جس کے متعلق خیال کرتے تھے کہ اگر وہ کابل جائے تو اُس کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہو جائے گا۔ اُس کے متعلق ہم اُمید رکھتے ہیں کہ سمجھدار لوگ اس کی صداقت کا اعتراف کریں گے۔
پھر وہ نادان جن کی سرشت میں بغاوت تھی کہتے تھے کہ امیر حبیب اﷲ ہندوستان کو فتح کرے گا۔ چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ ہؤا خفیہ خفیہ ایک فارسی نظم شائع کر رکھی تھی جو نعمت اﷲ صاحب کی طرف منسوب کی جاتی تھی۔ اِس میں لکھا تھا کہ امیر حبیب اﷲ ہندوستان پر چڑھائی کر کے انگریزوں کو نکال دے گا۔ اُسی وقت ہم نے گورنمنٹ کو اُس نظم کی طرف توجہ دلائی تھی جو ضبط کر لی گئی ہے۔ اب وہ لوگ جو اِس نظم کو بطور پیشگوئی شائع کرتے تھے بتائیں کہ امیرحبیب اﷲ کہاں ہے۔ اُس نے ہندوستان کو کیا فتح کرنا تھا وہ تو اپنے ہی کسی آدمی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
یہ پیشگوئی تو جھوٹی ثابت ہوئی کیونکہ اِس کا منبع خداکا علم غیب نہ تھا۔ اُنہوں نے جو پیشگوئی شائع کی تھی اُس کا انجام دیکھ لیا لیکن اِس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی ایک پیشگوئی ہے جو اِس وقت تک نہایت ہی صفائی سے سچی ثابت ہو رہی ہے اور اب پھر ہوگی۔ آپ ؑنے جہاد کے خلاف فتویٰ شائع کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا 7
یہ ایک پیشگوئی ہے جس نے اس وقت کئی بار اپنی صداقت ظاہر کی ہے اور پھر ظاہر کرے گی۔
امیر حبیب اﷲ خاں بیچارے کی طرف شریر اور مُفسد لوگوں نے وہ بات منسوب کی جو اُس کے وہم و خیال میں بھی نہ تھی۔ اُس کے خواہ کتنے ہی جُرم ہوں جن کے باعث وہ خدا کی نظر سے گر گیا اورمَغْضُوْب ٹھہرا۔ مگر اِس میں شک نہیں کہ اس نے ان عہدوں کو جو گورنمنٹ انگریزی کے ساتھ تھے وفاداری سے نبھایا۔ پس اس کی طرف اس کے علم کے بغیر ایسی باتیں منسوب کی گئیں جن کا نتیجہ لوگوں کی بیوقوفی سے اُس کے حق میں تباہ کن نِکلا۔ کیونکہ جب خدا کے مقابلہ میں کسی کو کھڑا کیا جائے تو خدا اُس کی کچھ پرواہ نہیں کرتا۔ لوگ کہا کرتے ہیں (حضرت) مرزا صاحب کی پیشگوئیاں اٹکل پچو ہوتی ہیں مگر وہ دیکھیں کہ اٹکل پچو پیشگوئیاں ان کی اپنی ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ امیر حبیب اﷲ انگریزوں کو قتل کرے گا اور ہندوستان سے نکال دے گا مگر انگریز تو زندہ موجود ہیں، امیر حبیب اﷲ کہا ںگیا؟ وہ کہاکرتے تھے یہ ہندوستان ہے کابل میں چلو پھر دیکھنا تم سے کیا ہوتا ہے۔ اب انشاء اﷲ احمدی وہاں جائیں گے اور ہزاروں آدمی وہاں احمدی ہوں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشف میں دیکھا تھا کہ آپ ؑ کے باغ کی ایک بُلند شاخ کاٹی گئی اور وہ صاحبزادہ عبداللطیف شہید مرحوم تھے۔ وہ شاخ دوبارہ زمین میں گاڑی گئی۔ 8 اب اُس سے ہزاروں شاخیں پیدا ہوں گی۔
پس خدائے تعالیٰ اپنی قدرت کے نظارے دکھا رہا ہے اور نشان پر نشان ظاہر ہو رہے ہیں لیکن لوگ اندھے ہوتے جاتے ہیں خداایک کے بعد دوسرا نشان ظاہر کرتا ہے وہ انکار پر جمے ہوئے ہیں۔ امرتسر کے ایک مولوی نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کہا ں زلزلہ آیا مگر زلزلہ اُس کے گھر کے پاس بھی آگیا۔ اب خدا عبداللطیف کے بدلہ میں مسیح موعود ؑ کی جماعت میں ہزاروں عبداللطیف پیدا کرے گا۔
نادان کہتے ہیں کہ انگریز کافر ہیں اِس لئے اُن کو فتح کیسی۔ حالانکہ کافر کے لئے جو بدلہ ہے وہ عقبی میں ہے مگر ظالم کو یہیں بدلہ ملتا ہے۔ پس انگریز ظالم نہیں ہیں اِن کے ذریعہ دُنیا میں امن قائم ہے اور دُنیا کو عام فائدہ پہنچ رہا ہے اور خدا کہتا ہے وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ 9 کہ جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے اُسے زمین میں قائم رکھا جاتا ہے۔ پس چونکہ انگریز امن قائم رکھتے ہیں اِس لئے یہ قائم رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ خطرناک سے خطرناک دُشمن ان کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں مگر شکست کھاتے ہیں۔ تو چونکہ یہ زمین میں امن قائم رکھنے کے خواہاں ہیں اِس لئے خدا ان کی حکومت کو قائم رکھتا ہے اور جب تک ان میں یہ صفت رہے گی اُس وقت تک قائم رکھے گا۔
غرض آج چونکہ خدا ہماری جماعت کی قہری نشانوں سے مدد فرما رہا ہے اِس لئے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ ان نشانوں سے فائدہ اُٹھائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار ہا فرمایا ہے کہ خدا جس بات کے ہونے کی خبر دیتا ہے اس کے لئے اگر انسان کوشش کریں تو وہ خدا کے منشاء کے خلاف نہیں ہوتی۔ اِس وقت جو کابل نے گورنمنٹ انگریزی سے نادانی سے جنگ شروع کر دی ہے احمدیوں کا فرض ہے کہ گورنمنٹ کی خدمت کریں کیونکہ گورنمنٹ کی اطاعت ہمارا فرض ہے لیکن افغانستان کی جنگ احمدیوں کے لئے ایک نئی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ کابل وہ زمین ہے جہاں ہمارے نہایت ہی قیمتی وجود مارے گئے اور ظلم سے مارے گئے اور بے سبب اور بِلاوجہ مارے گئے۔ پس کابل وہ جگہ ہے جہاں احمدیت کی تبلیغ منع ہے اور اِس پر صداقت کے دروازے بند ہیں۔ اِس لئے صداقت کے قیام کے لئے گورنمنٹ کی فوج میں شامل ہو کر اُن ظالمانہ روکوں کو دُور کرنے کے لئے گورنمنٹ کی مدد کرنا احمدیوں کا مذہبی فرض ہے۔ پس کوشش کرو تا تمہارے ذریعہ وہ شاخیں پیداہوں جن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اطلاع دی ہے۔ وہ وقت اب آتاہے کہ اس مُلک میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کے قائم کئے ہوئے پودے کو مضبوط کیا جائے اور اُس کی آبیاری کی جائے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مُلک ظلمت سے نکل کر نور میں آئے اور اﷲ تعالیٰ ہمیں وہ دن دکھائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشانات پورے ہوں اور ہم صداقت کو پھیلا ہؤا دیکھیں۔ آمین۔''
(الفضل 27مئی 1919ء)
1: الرعد :12 2: الفاتحۃ: 6تا 7
3: ترمذی کتاب الْاِیْمَان باب اِفْتِرَاقُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ
4: مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثالث مترجم صفحہ 37 مطبوعہ لاہور 1993ء
5: بخاری کتاب العلم باب کَیْفَ یُقْبَضُ الْعِلْمُ
6: خطبہ جمعہ مطبوعہ الفضل 12 نومبر 1914ء
7: درثمین اردو صفحہ 59
8: تذکرہ صفحہ 484 ۔ ایڈیشن چہارم
9: الرعد: 18

42
اتفاق و اتحاد انعامِ الٰہی ہے اِس کی قدر کرو
(فرمودہ 23مئی1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعددرج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:-
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۔1
پھر فرمایا:-
''انسانوں کا اتفاق و اتحاد ایک ایسی ضروری چیز ہے کہ دُنیا کی تمام قومیں اور مذاہب اِس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں مگر باوجود ضرورت کے تسلیم کرنے کے ہر قوم اور ہرجماعت اور ہر فرقہ میں تفرقہ و شقاق پایا جاتا ہے۔ ضرورت تو اِس کی اتنی ہے کہ دُنیا کی کوئی قوم اور کوئی فرقہ اِس کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا مگر عملاً دیکھتے ہیں تو کوئی فرقہ ایسا نظر نہیں آتا جس میں وہ اتفاق کامل نظر آئے جس پر انسان کی ترقی کا مدار ہے۔ یہ سچ ہے کہ بعض میں کم ہے اوربعض میں زیادہ مگر اپنی اصلی شکل میں کم سے کم اِس وقت تو کہیں نظر نہیں آتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اتفاق و اتحاد کی بناء ایسے نازک اصول پر ہے کہ جن کی نگہداشت بہت مُشکل ہے۔کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اِس کی ضرورت کے سب قائل ہیں اور مانتے ہیں کہ اِس کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی اور خواہش رکھتے ہیں کہ آپس میں اتفاق ہو اور ہرقوم کے سمجھدار اِس کے حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں مگر پھر بھی نا اتفاقی پائی جاتی ہے۔ پس ان تمام باتوں کے باوجود اتفاق کا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ اِس کی بنیاد بہت نازک اصول پر ہے اور انسان پر مُشکل ہے کہ ان کی پوری نگہداشت کر سکے۔
اب جبکہ واقعات اور دلائل سے ثابت ہو گیا کہ اتفاق و اتحادکے اصول کی بنیاد نازک ہے تو ہمیں ان کے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ جتنی نازک اور باریک بات ہوتی ہے اُسی قدر اس کے سمجھنے کے لئے دماغ زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ اتفاق و اتحاد کا نہ ہونا مایوسی نہیں پیدا کر سکتا کہ یہ حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔ اِس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی پیدائش میں اتفاق و اتحاد رکھا گیا ہے اور انسان مدنی الطبع پیدا کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔ جانوروں میں یہ بات نہیں ہوتی۔ ان میں ایک نَر اور ایک مادہ ہوتو انہیں تیسرے کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن انسان کی ضروریات اِس قسم کی ہیں کہ یہ پوری نہیں کر سکتا جب تک اوروں کی مدد اس کے شاملِ حال نہ ہو۔ اِسی وجہ سے انسان اکٹھے شہروں اور قصبوں میں رہتے ہیں۔ سڑکیں نکالتے اور راستے بناتے ہیں کہ آسانی سے چل سکیں مگر جانوروں میں یہ بات نہیں پائی جاتی کہ وہ بھی سڑکیں تعمیر کریں۔ مدینہ، شہر کو اِسی لئے کہتے ہیں کہ وہاں لوگوں کا اجتماع ہوتاہے اور تمدن اِسی میں سے نِکلا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں کہ وہ اصول جن کے ماتحت لوگ آپس میں سلوک کرتے ہیں۔
تو انسان کا مدنی الطّبع ہونا ہی بتلاتا ہے کہ اِس کے لئے اتفاق کی بہت ضرورت ہے اور اِس وقت لوگوں میں اتفاق کا نہ ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ بھی ایسی چیزوں میں سے ہے جن کا ہونا انسان کے لئے لازمی ہے اور جب اِس کا ہونا لازمی ہے تو ضروری ہے کہ خدا نے اِس کے لئے سامان بھی پیدا کئے ہوں مثلاً چونکہ خدا نے آنکھ بنائی ہے اور آنکھ میں دیکھنے کی قوت رکھی ہے اِس لئے سورج کو پیدا کیا ہے اور وہ مناظر پیدا کئے ہیں جن کو آنکھ دیکھتی ہے لیکن اگر انسان کو آنکھیں نہ دی جاتیں تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ اِسی طرح کان ہیں ان کے لئے آواز پیدا کی ہے، ہوا پیدا کی ہے جس سے ایک کی آواز دوسرے کو پہنچتی ہے۔ پھر خیالات پیدا کئے ہیں اور کچھ اشارات بنائے ہیں جن سے وہ آپس میں افہام تفہیم کر سکیں۔ پھر دماغ پیدا کیا ہے جس کے ذریعہ سے وہ ان اشارات کو سمجھ سکیں۔ اگر دماغ نہ ہوتا تو یہ تمام اشارے اور زبان اور بیان لغو ٹھہرتے۔ پس اِسی طرح اتفاق ہے کہ اِس کی ضرورت کو سب تسلیم کرتے ہیں اور ہر ایک میں اِس کی احتیاج پائی جاتی ہے اِس لئے اس کا ہونا ناممکن نہیں۔ اِس کے ہونے کے سامان ہیں مگر بہت نازک۔ پس اگر یہ نہ ہو تو مایوسی کی کوئی بات نہیں مگر اِس کے حاصل کرنے کے اسباب اور اصول کی تلاش کرنا چاہئے کیونکہ اگر ان کو تلاش نہیں کیا جائے گا تو پھر یہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ پھر اگر غلط اصول پر چلا جائے گا تو بھی کامیابی نہیں ہو گی مگر غلط اصول پر چل کر کامیابی کے نہ ہونے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اتفاق ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہر ایک چیز کے حصول کے لئے جو طریق ہیں جب تک ان پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک کسی امر میں بھی کامیابی نہیں ہو سکتی اور غلط طریق پر چل کر کوئی مقصد حاصل نہ ہونے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ حاصل ہی نہیں ہؤا کرتا یا اب حاصل ہی نہیں ہو سکتا مثلاً کوئی شخص ایسا نہیں جس کے پاؤں میں آنکھیں ہوں یا کھوپڑی پر کان ہوں مگر اس سے یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ پاؤں میں آنکھیں اور کھوپڑی پر کان نہیں اِس لئے اُن کی ضرورت ہی نہیں اور ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ جہاں جہاں یہ موزوں تھے وہیں لگا دیئے گئے اور ان سے کام لینے کے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا بالکل لغو ہے کہ آنکھیں پاؤں میں اور کان کھوپڑی پر لگائے جاتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جس چیز کی ضرورت تھی اُس کو پورا کیا گیا ہے یا نہیں۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ تو ضرور پیدا کی ہیں۔ پس اِسی طرح چونکہ اتفاق و اتحاد انسانوں کے لئے ضروری بنایا گیا ہے۔ اِس لئے ناممکن ہے کہ اس کے حاصل کرنے کے ذرائع نہ رکھے ہوں۔ ضرور رکھے ہیں مگر ان کے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب اتفاق کی ضرورت بھی ہے اور اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی ہوتی ہے تو یہ حاصل کیوں نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اُن سامانوں سے کام نہیں لیا جاتا جو اس کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر ان سامانوں سے کام لیا جائے تو ممکن نہیں کہ اتفاق و اتحاد نہ ہو۔ اس کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ وہ کیا سامان ہیں؟ سو یادرکھنا چاہئے کہ مختلف مذاہب کے لئے مختلف ذرائع ہیں مگر اسلام میں اتفاق کا ذریعہ دین واحد پر جمع ہونا ہے اور لوگوں کے لئے اور ذرائع ہونگے مگر مسلمانوں کے لئے بجز اسلام کے اور کوئی نہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا کہ اﷲ کے رسے کو مضبوط پکڑ لو اور اختلاف نہ کرو۔ دوسری قومیں ظاہری سامانوں سے اتفاق کر سکتی ہیں مگر اسلام میں اتفاق کا ذریعہ صرف ایک ہی ہے کہ حَبْلُ اﷲ کو پکڑا جائے اور حَبْلُ اﷲ کیا ہے؟ وہ اﷲتعالیٰ کے انبیاء ہیں۔ قرآن کریم میں ہے اسلام کیا ہے؟ وہ جو انبیاء احکام دیتے ہیں۔ پس انبیاء حَبْلُ اﷲ ہیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حَبْلُ اﷲ ہیں اور مسیح موعود حَبْلُ اﷲ ہیں۔ قرآن کریم حَبْلُ اﷲ ہے ان کو پکڑے بغیر اتفاق نہیں ہو سکتا۔
پس اگر اتفاق ہو سکتا ہے تو اِسی طرح کہ اسلام کو مضبوط پکڑا جائے اور اسلام محض نماز روزے کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام نام ہے اخلاق کے ان اصول کا جن پر چل کر اتفاق و آشتی پیداہو اور نااتفاقی دُور ہو۔ اسلام کوئی ٹونا ٹوٹکا نہیں کہ بس ادھر اسلام کا نام لیا اور اُدھر اتفاق و اتحاد پیدا ہو گیا۔ جیسا کہ عوام جہلاء میں مشہور ہے کہ پیپل کے درخت کے گرد سات چکر کچے دھاگے کے ساتھ لگائے جائیں تو فلاں بات ہو جائے گی بلکہ اسلام ایسے قاعدہ اور اصول بتاتا ہے کہ جن پر عمل کرنے سے اتفاق حاصل ہوسکتا ہے اور اس کے پکڑنے کے یہ معنی ہیں کہ ان اخلاق و اطوار کو اپنے اندر پیدا کیا جائے جو اسلام نے تعلیم دیئے ہیں اور جو اس طرح اسلام کو پکڑے گا وہ کبھی نااتفاقی کی بات نہیں کر سکتا۔
اس کے لئے صحابہؓ کی مثال موجود ہے۔ ان میں جھگڑے ہوتے تھے مگر نا اتفاقی کرنے والے نہیں بلکہ آپس کے اتفاق و اتحاد کو اَور مضبوط کرنے والے ہوتے تھے مثلاً جس کا مال ہوتا وہ تو کہتا ہے کہ میرا مال تھوڑی قیمت کا ہے لیکن خریدار کہتا ہے نہیں زیادہ قیمت کا ہے اِس طرح لینے والا کہتا کہ مَیں کم دوں گا مگر دینے والا کہتا ہے نہیں مَیں زیادہ دوں گا۔ یہ ان کے جھگڑے کی مثال ہے مگر اب لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر دس روپیہ کی چیز ہو تو بیس روپیہ کی بتائیں گے اور خریدار پانچ ہی کی بتائے گا اور دونوں جھوٹ بولیں گے۔ پس اگر اسلام پر عمل ہو تو اتفاق و اتحاد کی بنیاد یں مضبوط ہو سکتی ہیں۔
اس لئے فرمایا کہ پہلے تم لوگوں میں کتنا تفرقہ تھا لیکن پھر اسلام کے ذریعہ تم میں اتفاق و اتحاد پیدا کرا دیا۔ تم لڑتے جھگڑتے تھے تمہیں لڑائی سے بچایا۔ تم ذلیل و حقیر تھے تمہیں عزت دی۔ پس اگر ایسی بابرکت چیز کی قدر نہ کرو گے تو کتنے افسوس کی بات ہو گی۔ غور کرو کہ ایک چیز عنقا کی طرح لا پتہ ہو مگر خدا کے فضل سے کسی کے ہاتھ آجائے اور وہ لاپروائی سے اس کو ضائع کر دے تو اس سے بڑھ کر مُجرم کون ہو سکتا ہے۔
یہ پُرانے زمانہ کی باتیں نہیں کہ فلاں قوم میں اتفاق پیدا ہو گیا تھا۔ اب بھی ہو سکتا ہے اور مَیں اپنی جماعت کو متوجہ کرتا ہوں۔ ایک وقت تھا کہ ہم میں کوئی اتفاق و اتحاد نہ تھا، کوئی کہیں کا تھا کوئی کہیں کا، کسی کا کوئی مشرب تھا اور کسی کا کوئی مگر خدا نے اپنے نبی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہم میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اتفاق جو ایسی قیمتی چیز ہے اور جو خدا نے مسیح موعود کے ذریعہ دی ہے۔ نادان کوشش کرتے ہیں کہ اس کو کھودیں حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ وہ چیز ہے کہ جو دُنیا کو کوشش سے بھی نہیں ملتی مگر انہیں خدا نے بغیر محنت و کوشش کے محض اپنے فضل سے مفت عطا کر دی ہے۔
مَیں خاص طور پر اپنی جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ اس کام کو جس پر انہیں لگایا گیا ہے کوشش سے انجام دے۔ بعض لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے احساسات کا خیال نہیں رکھتے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر لکھتے ہیں۔ افسر ماتحت کو ذلیل خیال کرتے ہیں اور ان کے جذبات کا خیال نہیں رکھتے اور ماتحت افسروں کو تنگ کرتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ لوگ جس ترقی کی طرف بُلائے جا رہے ہیں وہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ وہ یاد رکھیں کہ عزت و کامیابی اپنی باتوں میں نہیں بلکہ اسلام پر عمل کرنے سے ہے۔پس چھوٹی چھوٹی قربانیاں کرو کیونکہ اگر یہ نہیں کرو گے تو بہت بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ تم نے قوموں کے حالات کو دیکھا ہے اور پھر تم نے مسلمانوں کی حالت کو بھی خوب دیکھا ہے۔ تم انہیں میں سے ہو۔دیکھو جب ان میں بادشاہت تھی تو ایک دوسرے کے متعلق یہ خیال کر کے کہ وہ اہل نہیں اور مَیں بادشاہت کا اہل ہوں اس کے گرانے کی کوشش کرتا تھا اور ایک قاضی یا ایک وزیر یا ایک کمانڈر انچیف دوسرے کے خلاف کوشش کرتے تھے۔ جتھے بناتے تھے۔ ان کو صرف رسوخ کی خواہش ہوتی تھی ورنہ یوں وہ بڑے مالدار ہوتے تھے۔ پس وہ اتنی چھوٹی سی قربانی نہیں کر سکتے تھے مگر آج دیکھ لو ان کی کوئی حکومت نہ رہی کیونکہ اُنہوں نے اپنی اغراض کو مقدم کیا اور صرف رسوخ کے لئے جماعت میں تفرقہ ڈالا۔ اب ہندوؤں کی حکومتیں ہیں۔ دیکھ لو، بُدھوں کی خود مختار سلطنت چین میں ہے، جاپان میں ہے مگر مسلمانوں کی ایک بھی خود مختار سلطنت نہیں۔ ترکی تھی وہ جا چکی ہے، افغانستان میں باقی تھی وہ اب جائے گی۔ ایران کی ایسی ذلیل حالت ہے کہ وہ معمولی سوداگروں سے بھی گیا گزرا ہے۔ اس کو 15 لاکھ روپیہ قرض کی ضرورت تھی جس کے لئے ضامن طلب کیا جاتا تھا۔ آج بمبئی میں ایسے ایسے تاجر ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو ان کی ذات پر بھروسہ کر کے لوگ 50،50 لاکھ روپیہ دینے کے لئے تیار ہیں۔ ابھی ہماری سرکار برطانیہ کو جنگ کے دوران میں ضرورت پڑی سرسہ کے ایک سیٹھ نے ایک کروڑ دس لاکھ روپیہ قرضہ دے دیا مگر اس کے مقابلہ میں ایران کی سلطنت ہے کہ 15 لاکھ روپیہ قرض مانگتی ہے تو اس سے ضامن مانگا جاتا ہے۔ سوداگروں کی اس سے بڑی ساکھ ہے مگر اس مسلمانوں کی سلطنت کی نہیں۔ یہ نتیجہ ہے اِس بات کا کہ اُنہوں نے وقت پر چھوٹی قربانیاں نہ کیں تو اب ان کا یہ حشرہؤا۔
پس اخلاق سیکھو چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا چھوڑ دو۔ اتفاق و اتحاد کیسے پیدا ہو سکتا ہے جبکہ تم ایک شخص پر تلوار چلاؤ اور پھر توقع رکھو کہ وہ تمہارا بھائی بنا رہے گا۔ ایک شخص تمہارے پاس آئے اور تم اس کو ذلیل خیال کرو تو وہ کب تم سے محبت کر سکتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ انسان ذلیل کرنے والے اور تکلیف پہنچانے والے سے محبت نہیں کر سکتا۔ جب تک تم دوسرے کے آگے محبت سے نہیں جھکو گے اور اخلاقِ فاضلہ سے پیش نہیں آؤ گے اور دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف نہیں خیال کرو گے اتفاق پیدا نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص محبت سے بات کرنے اور خندہ پیشانی سے ملنے یا کسی دوسرے بھائی کو فائدہ پہنچتا ہو اس سے گریز کرے تو اس سے کیسے محبت ہو سکتی ہے۔ اس میں تو مفت کرم داشتن ہے۔ اگر ان باتوں کی پرواہ نہیں کرو گے تو وہ اتفاق و اتحاد جو خدا کے فضل سے پیدا ہو گیا ہے ضائع ہو جائے گا۔ اب تمہاری چھوٹی سی قربانی بڑے بڑے فوائد پیدا کر سکتی ہے۔ تم اب اسلا م کا مرکزی پتھر ہو۔ اگر تم کج ہو گے تو آئندہ نسلیں بہت ہی کج ہوں گی اور ساری عمارت ہی ٹیڑھی ہو جائے گی۔ اس لئے چھوٹی کجی کو بھی چھوٹا نہ سمجھو۔ تم اپنے اخلاق کو درست بناؤ، تم اپنے بھائیوں سے محبت سے پیش آؤ اور کسی بھائی کی خاطر اگر تکلیف برداشت کرنا پڑے تو کرو، اگر تم ایسے ہو گے تو آئندہ تمہاری مثال اختیار کی جائے گی ورنہ آئندہ تم لوگوں کے لئے ابتلاء کا باعث ہو گے۔ اگر تمہاری حالت خراب ہو گئی تو لوگ تمہارا ہی نمونہ پکڑیں گے کیونکہ تم پہلوں اور پچھلوں کے درمیان حائل ہو گئے ہو۔ اگر تمہاری حالت اچھی ہوئی اور تمہارے نمونے عمدہ ہوئے تو تم مبارک ہو اور اگر تمہاری حالت اچھی نہ ہوئی تو تمہاری گندی مثالوں سے لوگ خراب ہوں گے۔ پس اپنے اخلاق درست کرو اور اسلام کے لئے ایک بے نقص بنیادی پتھر رکھو۔ تاکہ تمہارے ذریعہ جو اسلام کی عمارت تیار ہو اس میں داخل ہو کر لوگ نجات حاصل کریں اور ہلاکتوں سے بچیں۔ تمہارے اخلاق ایک دوسرے کے لئے ابتلاء کا باعث نہ ہوں بلکہ بھلائی کا موجب ہوں اور تمہارے اعمال سے لوگ ابتلاء میں نہ پڑیں بلکہ تمہارے اعمال سے لوگ مثال پکڑیں۔ آمین'' (الفضل 31مئی 1919ء)
1: اٰل عمران: 104

43
ہر وقت ترقی کے لئے کوشاں رہنا چاہئے
(فرمودہ 30مئی 1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا کہ:-
‘‘مَیں بعض ضروری باتیں اس خطبہ میں آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا تھا مگر چند روز سے بیمار ہونے کے باعث اگلے جمعہ پر ملتوی کرتا ہوں اور آج میں آپ لوگوں کو اس بات پر متوجہ کرتا ہوں کہ اس زمانہ میں ہماری جماعت کی ذمہ داریاں اور اس کے کام ایسی احتیاط اور ایسی فکر چاہتے ہیں کہ ان کو معمولی طور پر ایک معمولی کوشش کے ساتھ سر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ مَیں نے بار ہا آپ لوگوں کو بتایا ہے اور اس کی کوشش کی ہے کہ آپ کو اِس امر میں اپنا ہم خیال بناؤں کہ اس وقت جس کام کے لئے ہماری جماعت کھڑی ہوئی ہے وہ بہت بڑا اور اہم کام ہے۔ اس لئے اس کام کے سرانجام دینے کے لئے عظیم الشان تیاری کی ضرورت ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ مَیں کہاں تک اس امر میں کامیاب ہؤا ہوں اور کس حد تک جماعت اس بات میں میری ہم خیال ہوئی ہے لیکن جہاں تک مَیں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ گو جماعت کا ایک حصّہ سمجھ چکا اور جان چکا ہے کہ ہمیں اس وقت کن کن کاموں کی ضرورت ہے۔ پھر بھی ایک حصّہ ہے جو نہیں سمجھا اور جو سمجھا ہے اس سے عمل کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہماری جماعت کے تمام لوگ اس ذمہ داری کو سمجھیں جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے کی وجہ سے ان پر عائد ہوتی ہے تو آج ہی ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہو سکتا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ دُنیا کو فتح کرنے کے لئے جو ہمیں کام کرنے چاہئیں انہیں ابھی ہم نے چھیڑا تک نہیں اور وہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔
قناعت عمدہ چیز ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ قومی ترقی میں بھی قناعت کی جائے کیونکہ ہر چیز اپنی جگہ اور محل پر اچھی ہوتی ہے مثلاً حلم اچھی صفت ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی کی تعریف کر ے کہ فلاں شخص بڑا ہی نرم دل ہے کہ اس کے بزرگوں کوگالیاں دی جاتی ہیں مگر چپکا بیٹھا سُنتا رہا ہے۔ تو یہ تعریف نہیں ہو گی بلکہ ایسا آدمی بے غیرت ہو گا اور اس کی وسعت حوصلہ اور وسعتِ قلبی نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس کا دل نہایت تنگ ہے کہ بڑی بات اس میں سماہی نہیں سکتی کیونکہ مذہب کی غیرت بوجہ تنگ دل ہونے کے اس میں آہی نہیں سکتی۔ پس یہ نہیں کہ اس میں حلم ہے اور وہ وسیع القلب ہے بلکہ وہ بے غیرت ہے اور بے حیائی کو قبول کرتا ہے۔
پس اِسی طرح قناعت کا معاملہ ہے۔ ایک حد تک موجب عزت ہوتی ہے۔ مگر ایک ایسا شخص جو مذہبی ترقی کے لئے قانع ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس کی مذہبی ترقی یا اس کے مذہب کی ترقی کافی ہو چکی ہے وہ بے ہمت اور نکما ہے اور جو قومیں اپنی ترقی پر قانع ہو جاتی ہیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں۔ جماعت اور قوم کے لئے ضروری ہے کہ اپنی ترقی کے لئے حریص ہو۔ جو قوم بجائے ترقی کرنے کے ایک مقام پر ٹھہر جاتی ہے وہ گرنے لگ جاتی ہے اور ترقی وہی کرتی ہے کہ ہر ایک درجہ جو اُس کے سامنے آئے وہ اُس کو اپنا حق خیال کرے اور کوشش کرے کہ اس کو حاصل کرے جب تک یہ نہ ہو اس جماعت یا مذہب کے لوگ کامیابی کا مُنہ نہیں دیکھ سکتے لیکن جب تک انسان کو یہ خیال ہو کہ ابھی اُسے اَور بھی کچھ حاصل کرنا ہے اُس وقت تک ترقی کے راستے اُس کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ ترقی کی کوئی انتہا نہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی دعا کرتے تھے رَبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا1 کام کرنے والی قومیں ترقی کے میدان میں بڑھتی چلی جایا کرتی ہیں۔ وہ کسی مقام پر نہیں ٹھہرتیں مگر جن قوموں نے تباہ ہونا اور گرنا ہوتا ہے وہ ایک مقام پر جاکر ٹھہر جاتی ہیں اور خوش ہوتی ہیں مگر جن قوموں نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ کسی مقام پر نہیں ٹھہرتیں اور کوئی ایسا نقطہ نہیں ہوتا جس کو وہ آخری نقطہ قرار دیں۔ پس ہم کسی کامیابی پر خوش نہیں ہو سکتے جب تک ہم اِس سے آگے نہ بڑھ جائیں اور جب تک ہر ایک خوشی آئندہ ترقی کے لئے تحریص بلکہ تحریض کا باعث نہ ہو۔ یہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ ص کو ض سے بدل دیا جائے تو اس کے معنی اَور مضبوط کے ہوتے ہیں۔
پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمارا ہر مقام آئندہ کے لئے محرک ہو اور زیادہ سے زیادہ جوش کا باعث ہو۔ اگر یہ ہو جائےتو کوئی انسانی طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی اور جو طاقت بھی ہمارے لئے روک بنے گی وہ مٹا دی جائے گی۔ کیونکہ خدا کا یہ منشاء ہے کہ اسلام پھر قائم ہو۔ خدا کے اِس منشاء کے خلاف جو حکومت ہو گی وہ مٹا دی جائے گی اور جو طاقت ہو گی وہ برباد کر دی جائے گی اور باوجود اِس کے کہ ہمارے پاس کوئی ظاہری سامان نہیں تاہم یونہی ہو گا کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا منشاء ہے۔
دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رستہ میں جو سلطنتیں آئیں اور اُنہوں نے احمدیت کی اشاعت میں کسی نہ کسی طرح کی روک پیدا کی وہ کس طرح تباہ کر دی گئیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ترکی سلطنت سے تمام کا تمام یورپ لرزتا تھا اور اس کے مقابلہ کو آسان نہیں سمجھتا تھا کیونکہ یورپ کو خیال تھا کہ ہم نے اگر ترکوں سے جنگ چھیڑی تو اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ساری دُنیا کے مسلمان ہمارے خلاف جنگ کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور دُنیا میں ایک آگ سی لگ جائے گی۔ ہماری حکومت سرکار برطانیہ بھی اپنی مسلمان رعایا کے خیال سے ترکوں سے جنگ نہیں کرتی تھی مگر جب مسیح موعودعلیہ السلام کو کہا گیا کہ مکّہ جاؤ اور دیکھووہاں تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے تو وہی مسلمان جن کے متعلق یہ خیال تھا کہ اگر ترکوں سے جنگ ہوئی تو ان میں بغاوت پھیل جائے گی اُن میں بجائے اس کے کہ ترکوں سے جنگ ہونے پر کسی قسم کی شورش پیدا ہوتی اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے ترکوں پر گولیاں چلائیں اور اب وہ طاقت توڑ دی گئی ہے جو اگر کچھ باقی رہ گئی تو ایسی ہو گی جو حکومت کہلانے کی مستحق نہیں ہو گی۔پھر کابل کی حکومت بھی مسیح موعو د علیہ السلام کے رستہ میں روک تھی اور وہاں پر نہ صرف یہ کہ احمدیت کی تبلیغ منع تھی بلکہ احمدیت کا اظہار بھی ممنوع تھا اور مسیح موعود علیہ السلام کو وہاں جانے کا ڈراوا دیا جاتاتھا۔ خدا نے اس کے تباہ کرنے کے بھی سامان پیدا کر دیئے۔ پس تم مت یہ خیال کرو کہ تمہارے پاس سامان نہیں اور تم کمزور ہو کیونکہ جب انسان خدا کی راہ میں کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے سامان پیدا کر دیئے جاتے ہیں۔ دیکھو ابتدا میں حضرت مسیح کے ساتھیوں کی کیسی کمزور حالت تھی۔ حتّٰی کہ ایک بد قسمت نے تیس روپے لے کر مسیح کو بیچ بھی دیا۔2 اور جو بہت مقرب تھا اُس نے اِس خوف سے کہ لوگ اُس کو مسیح کا متبع ہونے کے باعث بُرا بھلا نہ کہیں یا کسی اور آفت میں نہ ڈال دیں مجمع عام میں مسیح پر *** کی۔3 باوجود اِس کے جس حد تک اُن میں اخلاص اور جوش تھا خدا نے اُس کو ضائع نہیں کیا۔ مسیح کے خادموں کو حکومت دی، سلطنت دی اور وہی لوگ جو مسیح کے نام کے دُشمن تھے خود اُس کے نام کی منادی کرنے لگے۔ پس ایسے ہی ذرائع سے یہاں کام ہو گا۔ ہاں وہ ذریعہ تلوار نہ ہو گی بلکہ امن ہو گا اور وہ وقت دُور نہیں جب بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ برکت ڈھونڈنے والے بادشاہ عیسائی ہوں گے یا بُدھ ہوں گے بلکہ وہ بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے اور احمدی ہی ہوں گے اور وہ تبلیغ کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوں گے نہ کہ تلوار سے۔
تو خدا کی طرف سے جو وعدے ہیں ان کے ظہور کے ابتدائی نشانات اگرچہ نہایت باریک ہیں جو ظاہر میں عام لوگوں کو نظر نہیں آیا کرتے مگر حقیقت بین نگاہیں ان کو دیکھ لیتی ہیں اور اب بھی دیکھ رہی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے فرض کو سمجھیں اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ اُس کا فضل نازل ہو اور مسیح موعود سے جو وعدے کئے گئے ہیں ہم اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ لیں۔’’
(الفضل10جون 1919ء)
1: طٰہٰ :115
2: یہودا اسکریوطی (متی باب 27 آیت:3)
3: متی باب 26 آیت :74

44
دُعاؤں کے دن
(فرمودہ 6جون 1919ء)
تشہد،وتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَ لْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ۔1
پھر فرمایا:-
''دُعا ایک ایسا حربہ اسلام نے مسلمانوں کو دیا ہے کہ اس کے آگے کوئی قوم و مذہب نہیں ٹھہر سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ہر ایک بات کا توڑ ہو سکتا ہے مگر دُعا کا توڑ نہیں ۔ ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ کے ہمسایہ میں ایک مالدار شخص رہتا تھا جس کو بادشاہ کے دربار میں بڑا رسوخ حاصل تھا۔ اس کے ہاں شب و روز گانا بجانا اور شراب نوشی ہوتی رہتی تھی جس سے ہمسایوں کو نہ دن آرام تھا، نہ رات۔ جب ہمسایوں کی یہ تکلیف اُن بزرگ نے دیکھی تو وہ اس امیر کے پاس گئے اور کہا کہ ہر مذہب و ملت کا شخص اپنے ہمسایوں کے آرام کا خیال رکھتا ہے تم تو مسلمان ہو تمہیں بہت زیادہ ان کے آرام کا خیال چاہئے۔ اس کے جواب میں اس شخص نے کہا مَیں کیا کروں اگر ان کو تکلیف ہوتی ہے تو ہؤا کرے مَیں مختار ہوں جس طرح چاہوں کروں کیونکہ یہ میرا گھر ہے۔ اُنہوں نے اُسے بہت سمجھایا مگر جب وہ نہ ہی سمجھا تو کہا کہ اگر تم اسی طرح تکلیف دیتے رہو گے تووہ لوگ تمہارا مقابلہ کریں گے۔ اس نے کہا وہ میرا کیا مقابلہ کریں گے؟ مَیں بادشاہ کا مقرب ہوں، شاہی فوج کا ایک دستہ اپنے مکان کی حفاظت کے لئے بلوا لوں گا پھر دیکھوں گا کہ یہ لوگ میرا کیا بگاڑ لیتے ہیں۔ وہ بزرگ اس کے جواب پر مُسکرائے اور کہاکہ ان کامقابلہ ان ظاہری سامانوں سے نہیں ہو گابلکہ ان کا مقابلہ’’ سِھَامُ اللَّیْلِ ‘‘سے ہوگا۔ یعنی وہ تیر جو رات کو چلائے جاتے ہیں۔ یہ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ دُعا کو عربی میں سِھَامُ اللَّیْلِ سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیونکہ اندھیرے میں کی ہوئی دُعائیں اس صفائی سے نشانے پربیٹھتی ہیں کہ دن میں چلنے والے تیر بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان بزرگ کے اس کہنے کا اس شخص پر ایسا اثر ہؤا کہ وہ کانپ گیا اور اس نے نہایت لجالجت سے کہا کہ نہ صرف یہ کہ مَیں رات کو ہی ان افعال سے باز رہوں گا بلکہ مَیں آپ کے ہاتھ پر ان تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور اب ساری عُمر اِن سے باز رہوں گا۔
تو یہ ’’سِھَامُ اللَّیْلِ ‘‘ ایسا حربہ ہیں کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں فرعون کی حالت دیکھئے۔ حضرت موسیٰ اس سے بات کرتے ہیں مگر وہ کہتا ہے تم ہمارے غلام اور تم ہماری روٹیوں کے پروردہ ہو۔ تم ہمارے سامنے کیا بولتے ہو۔ موسیٰ اس کو سمجھاتے ہیں کہ خدا کا خوف کرو اور اس پر ایمان لاؤ لیکن وہ کہتا ہے کون خدا ہے؟ میرے سوا کوئی خدا ہی نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کہتے ہیں اچھا اور نہیں تو میری قوم کو ہی میرے ساتھ بھیج دو۔ وہ کہتا ہے ہم تمہیں قید میں ڈالیں گے اور تمہارے مَردوں سے اینٹیں پتھوائیں گے اور ان سے ایندھن جمع کرائیں گے۔ چنانچہ جو کہتا ہے وہ کرتا ہے لیکن جب ان کے ظلم سے حضرت موسیٰ کے دل میں درد پیدا ہؤا تو نہ فرعون رہا نہ اُس کا خدائی کا دعویٰ رہا، نہ وہ سلطنت رہی، نہ وہ جلال و جبروت رہا اور حضرت موسیٰ ؑ کے سِھَامُ اللَّیْلِ نے وہ کام کیا کہ وہ ان کے مقابلہ میں عاجز ہو کر پُکار اُٹھا۔ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِيْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ۔2 مَیں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہی جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے اور مَیں مسلمین میں سے ہوں لیکن یہ ایمان اس وقت لایا جبکہ اس کے ایمان لانے کا وقت گزر چُکا تھا اور اس کی توبہ قبول نہ ہو سکتی تھی۔
اسی طرح رسولِ کریم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں دُشمن آپ کو بےحد دُکھ دیتا ہے۔ ایذائیں پہنچاتا ہے مگر آپ کی دُعا کے مقابلہ میں کوئی آکر کھڑا نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ آپ کو مکّہ میں بہت دُکھ دیا گیا مگر بیچ میں سے ہی ایک نے کہا کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) بد دُعا دیں گے۔ پھر آپ کے پاس آیا اور آکر کہا کہ بد دعا نہ کرنا کیونکہ آخر یہ تیرے رشتہ دار ہی ہیں۔3 تو وہ سب کچھ کرتے تھے لیکن آپ کی دعا کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔
پس یہ وہ ہتھیار ہے جو گو سب کو مِلا مگر اسلام کو نمایاں طور پر مِلا ہے۔ مَیں نے دُعا کے متعلق ایک گزشتہ رمضان میں خطبے کہے تھے جن میں مَیں نے خدا کے فضل سے وہ اصول و قواعد بتائے تھے کہ ان پر عمل کرنے سے دُعا قبول ہو سکتی ہے۔ علاوہ ان اصول کے انہی کے ماتحت اَور بہت سی شاخیں ہیں جن پر عمل کرنے سے دُعا قبولیت کے زیادہ قریب ہو سکتی ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت نے ان سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے۔ جماعت نے تو فائدہ اُٹھانا ہی تھا دوسروں نے بھی فائدہ اُٹھایا ہے چنانچہ ایک ہندو کے جو ولایت میں مقیم ہے اور اب دل سے مسلمان ہو چکا ہے خطوط آتے رہتے ہیں۔ وہ ایک سیاسی وجہ سے قید ہو گیا تھا۔ حال ہی میں اس نے لکھا ہے کہ مَیں اپنی رہائی کے لئے باقاعدہ ان اصول کو پڑھ کر دعا مانگتا رہا ہوں اور باوجود اس کےکہ دوسروں کی نسبت میرے حالات زیادہ مایوس کن تھے مگر مَیں آزاد ہو گیا ہوں اور دوسرے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے پھر وہ لکھتا ہے کہ مَیں نے اپنے ایک انگریز دوست کو بھی وہ رسالہ پڑھنے کو دیا ہے اور اُس کو کہا ہے کہ تم اس کے مطابق دعا کرو۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں اولاد دے دے گا۔
پس دُعا ایک بڑا حربہ ہے اس کے ذریعہ ناممکن باتیں ممکن ہو جاتی ہیں۔ ایک دفعہ ایک دوست نے خط لکھا اور التجا سے لکھا کہ آپ میرے رشتہ کے متعلق دُعا کریں مَیں نے بہت کوشش کی ہے مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ بعض جگہ فیصلہ ہو ہو کر جواب مل گیا۔ ان کا تعلق حضرت صاحب سے بھی تھا اور مجھ سے بھی۔ بعض خاص اوقات ہوتے ہیں۔ مَیں نے دُعا کی اور مجھے علم ہو گیا کہ یہ دُعا قبول ہو گئی ہے اور مَیں نے ان کو لکھ دیا۔ وہ بڑی عمر کے تھے اور صحت بھی اچھی نہیں رہتی تھی۔ اُنہوں نے مجھے لکھا کہ خدا نے دُعا کی قبولیت کا عجیب رنگ میں نمونہ دکھایا کہ ایک ایسی جگہ رشتہ ہو گیا ہے جہاں گمان بھی نہیں تھا اور ایسے گھر میں ہؤا جو اِن سے زیادہ آسودہ حال تھا اور اس طرح ہؤا کہ لڑکی والے نے خود بُلاکر کہا کہ مَیں اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔
تو جہاں کوئی سامان نظر نہیں آتے وہاں دُعا کام دیتی ہے مگر اس بات کو وہی سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس کی چاشنی چکھی ہے۔ دراصل دعا ڈائنامیٹ سے زیادہ مؤثراور بم سے زیادہ کام کرنے والی ہے۔ ڈائنامیٹ چند پتھروں کو اُکھاڑ کر پھینک سکتا ہے لیکن دعا ساری دُنیا کو اِدھر سے اُدھر کر سکتی ہے۔ دیکھو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا ہی تھی جس نے سلطنتوں اور طاقتوں کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ ہر ایک طاقت جو آپ کے مقابلہ کے لئے کھڑی ہوئی گِرا دی گئی۔ اسی طرح دعا ترقی کے بڑے سے بڑے منار پر پہنچا سکتی ہے اور وہ کام کرتی ہے جو خیال میں بھی نہیں آسکتے۔
مَیں نے دُعا کی طرف اپنی جماعت کو بہت دفعہ توجہ دلائی ہے اور اب پھر دلاتا ہوں کیونکہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس کے ذکر کے دوران میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِکہ اس مہینہ میں دُعائیں بالخصوص قبول کی جاتی ہیں اور دُعائیں خدا تعالیٰ سے مدد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ پس چونکہ دُعا وہ چیز ہے جو مُشکلات سے بچاتی ہے اور رمضان کی دُعائیں خصوصاً مقبول ہوتی ہیں۔ اس لئے مَیں خاص طور پر اپنی جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں۔ رمضان میں دُعاؤں کے زیادہ قبول ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے اندر بعض خدائی صفات پیدا کر لیتا ہے۔ خدا کے لئے کھانا چھوڑ دیتا ہے ، پینا چھوڑ دیتا ہے اور خدا ہی کے لئے راتوں کو جاگتا ہے۔ چونکہ دوسرے ایّام کی نسبت رمضان کی راتوں میں زیادہ جاگتا ہے اس لئے نماز کا بھی اس میں زیادہ موقع ملتا ہے اور یہ اس مہینہ میں خصوصیت ہے ۔ اس لئے وہ الٰہی فضل جوجماعت سے تعلق رکھتے ہیں رمضان میں نازل ہوتے ہیں۔
رمضان کی مثال دربارِ عام سے دی جاسکتی ہے۔ پہلے بادشاہوں میں قاعدہ ہوتاتھا کہ ان کے عالموں اور گورنروں کے ستائے ہوئے لوگ جب بادشاہ کے حضور فریاد کرنا چاہتے تھے تو کاغذ کے کپڑے پہن کر جاتے تھے۔ اس وقت بادشاہ خواہ کسی حالت میں ہوتا ان سے ملتا تھا اورکوئی وہاں ان کو نہیں روک سکتا تھا۔ پھر ایک دربار عام ہوتا تھا جس میں ہر ایک شخص جاسکتا تھا تو رمضان کی مثال دربار عام کی ہے۔ اگرچہ خدا کا دربار تو ہمیشہ ہی عام ہوتا ہے خواہ کوئی ہو اس کو ہر وقت دربار میں بار مل سکتا ہے مگر رمضان کے دن خصوصیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان ایّام میں آپ لوگ اپنے لئے ، اپنے دوستوں ، عزیزوں، رشتہ داروں کے لئے اسلام و سلسلہ اور دین کی ترقی کے لئے اور فتنوں سے بچنے کے لئے خاص دُعائیں کریں کیونکہ تمہارے لئے سوائے خدا کے اور کوئی محافظ نہیں۔ احمدی ہونے سے والدین تک دُشمن ہو جاتے ہیں۔ بعض اسی قسم کے واقعات ہوتے ہیں کہ لوگوں کو احمدی ہونے کی وجہ سے جائدادوں سے بھی محروم ہونا پڑا ہے اور نہ صرف والدین کی جائداد سے بلکہ ایسی جائدادوں سے بھی جو اپنے روپیہ سے اُنہوں نے خریدی تھیں اور طرح طرح کی ہمارے لئے مُشکلات ہیں کہیں جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں، کہیں دُکھ دیئے جاتے ہیں، کہیں قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ چونکہ ہماری سب مُشکلات دُعا کے ذریعہ ہی دُور ہو سکتی ہیں اس لئے ہمیں رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر دُعائیں کرنا چاہئیں۔
آج تم سے زیادہ کوئی اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور اس کی دعا سُنی جائے کیونکہ دُعائیں سُنی جانے کی دو وجہیں ہوتی ہیں۔ اوّل احتیاج جو دوسرے کے دل میں رحم پیداکر دیتی ہے مثلاً اگر ایک شخص جنگل میں کھانا کھا رہا ہو کہ ایک طرف تو اس کا کوئی عزیز اسے کہے کہ ذرا ذائقہ چکھنے کے لئے مجھ کو کھانا دو اور دوسری طرف ایک ایسا شخص جس کی بھُوک سے حالت غیر ہو رہی ہو کھانا مانگے تو اگر اس شخص میں کچھ بھی شرافت ہو گی تو وہ بجائے اپنے عزیز کو کھانا دینے کے اس محتاج کو دے دے گا۔ کیونکہ اس کی حالت امداد کی محتاج ہے۔ تو احتیاج بھی ایک حق رکھتی ہے۔ اس وقت تم ہر طرح خدا کی مدد کے محتاج ہو اور تم مظلوم ہو کیونکہ تمہیں ساری دنیا مٹانا چاہتی ہے پھر تم سے زیادہ کون مستحق ہو سکتا ہے کہ تمہارے مقابلہ میں اس کی سُنی جائے۔ علاوہ ازیں تم اس لئے بھی مستحق ہو کہ تم نے خدا کی پُکار کو سُنا۔ خدا کے نبی خدا کی پُکار ہوتے ہیں۔ تم نے خدا کے نبی کو قبول کر کے خدا کو قبول کیا ہے۔ اس لئے بھی تمہی مستحق ہو کہ تمہاری سُنی جائے۔ پس تم دونوں وجہوں سے استحقاق رکھتے ہو۔ بوجہ محتاج ہونے کے بھی اور بوجہ اس کے بھی کہ تم نے خدا کے نبی کی پکار کو سنا۔ اس لئے تم سب سے زیادہ مستحق ہو۔ تم اگر دُعائیں کرو گے تو تمہاری دُعائیں قبول کی جائیں گی۔ پس تم دعا میں خاص طور پر لگ جاؤ۔ اپنے لئے دُعائیں کرو اور ان کے لئے دُعائیں کرو جو تمہارے بھائی دنیا کے مختلف حصّوں میں تبلیغ میں مشغول ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان پر فضل کرے۔ یہ خطرناک ایّام ہیں فتنہ اور دُکھ کے دن ہیں۔
ہم آدمیوں میں نہیں بلکہ بندروں اور ریچھوں میں رہتے ہیں۔ آج جس دُنیا میں ہم ہیں وہ آدمیوں کی دُنیا نہیں کیونکہ اگر ہم سچ بولتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تم ریا کرتے ہو۔ اگر ہم اخلاص سے کوئی کام کرتے ہیں وہ اس کو خود غرضی پر محمول کرتے ہیں۔ اس لئے ہم دُنیا میں ہیں مگر دُنیا سے علیحدہ ہیں۔ لوگوں کے اخلاق فاضلہ گِر کر ان میں حیوانیت پیدا ہو گئی ہے۔ جس طرح کہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ 4 ہم جو اخلاق فاضلہ کے کام کرتے ہیں وہ ان سے چِڑتے ہیں۔ ایک شخص احمدی ہو جائے اور جھوٹی شہادت سے پرہیز کرے اور انکار کر دے تو بجائے اس کے کہ اس بات کو سچا تسلیم کریں، کہتے ہیں لو جی اب یہ پرہیز گار بن گئے۔ کیا ہم جانتے نہیں فریقِ مخالف سے روپیہ لے لیا ہے اس لئے گواہی نہیں دیتے۔ اگر کوئی نوکر احمدی ہو کر رشوت لینی چھوڑ دے تو افسروں تک اس کے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ انہیں یقین نہیں آتا کہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو محض خدا کے خوف سے رشوت چھوڑ سکتے ہیں۔
ہماری جماعت کے ایک آدمی تھے وہ اب فوت ہو گئے ہیں اُنہوں نے کوشش کی کہ وہ اسٹیشن ماسٹر کی حیثیت میں بٹالہ سٹیشن پر بدل دیئے جائیں۔ اُنہوں نے اپنے محکمہ کے افسر کے پاس درخواست کی اور گورنمنٹ کے متعلق جو احمدی جماعت کے خیالات ہیں وہ بتائے اور کچھ رسالے وغیرہ بھی دیئے۔ اس افسر نے انہیں کہاکہ ہم تم پر بہت خوش ہیں اور تمہاری جماعت کو بہت اچھا سمجھتے ہیں اِس لئے تم سے رعایت کرتے ہیں کہ تم ہمیں تین سَو روپیہ ماہوار دے دیا کرو ہم تمہیں بٹالہ کا سٹیشن ماسٹر بنا دیں گے۔ اُنہوں نے کہا میری تنخواہ تو ساٹھ روپیہ ہے۔ مَیں تین سَو روپیہ ماہوار کیسے دے سکتا ہوں؟ اُس نے کہا نہیں تمہیں بہت آمدنی ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا مَیں تو ایسی آمدنی لیتا نہیں کیونکہ یہ ظلم ہے۔ اس نے جواب دیا کہ افسوس، ہم پھر مجبور ہیں۔ آپ کی بدلی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ایک خانساماں تھا وہ ہمیشہ گھی کی بجائے چربی ڈالا کرتا تھا۔ خدا نے اُس کو ہدایت دی اور وہ احمدی ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے چربی کی بجائے گھی کہ اسی کی قیمت وصول کی جاتی تھی ڈالنا شروع کیا جس پر تمام لوگوں میں شور مچ گیا کہ بہت بُرا کھانا ہوتا ہے۔ اس نے بہت یقین دلایا کہ یہ گھی خالص ہے مگر اُنہوں نے باور نہ کیا اور افسرانِ بالا کے پاس اس کی شکایت کی۔ افسر آئے اور اس سے باز پُرس ہوئی اُس نے کہا پہلے تو مَیں واقعی چربی کھلاتاتھا لیکن اب جب سے مَیں احمدی ہؤا ہوں، چربی کا استعمال ترک کردیااور گھی استعمال کرتا ہوں۔ افسر کو کہا کہ میری بات کا یقین آپ کو اس طرح آسکتا ہے کہ مَیں آپ کے سامنے دونوں سالن پکاتاہوں۔ چربی کا بھی اور گھی کا بھی۔ چنانچہ پکائے۔ چربی کے کھانے کو کھانے والوں نے پسند کیا اور گھی کے کھانے کو نا پسند، اِس پر افسر نے کہہ دیا کہ اب اگر تم چربی استعمال کرو تو اس میں تمہارا قصور نہیں، تم یہی استعمال کیا کرو۔
غرض عجیب معاملہ ہے۔ لوگ ہمارے جذبات کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ وہ خیال ہی نہیں کر سکتے کہ آج بھی معاملات صفائی کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دُنیا سے نکال کر تیرہ سو برس پیچھے کے زمانہ میں پہنچا دیا ہے جو ہمیں موجودہ زمانہ کی نسبت زیادہ پیارا ہے کیونکہ اس میں زیادہ آرام اور زیادہ تسلی ہے۔ اس زمانہ کے لوگوں کی تو یہ حالت ہے کہ سرکاری کونسل میں ایک مسلمان ممبر تھا جو اب مستعفی ہو گیا ہے۔ ایک دفعہ کونسل میں یہ سوال پیش ہؤا کہ مسلمان عورت کا ہندو مرد سے اور ہندو عورت کا مسلمان سے نکاح ہو جانا چاہئے۔ کسی نے کہا یہ تو قرآن کریم کے خلاف ہے۔ اس نے کہا قرآن ایک تیرہ سو برس پہلے کی کتاب ہے وہ اس زمانہ کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی۔ یہ وہ شخص ہے جو مسلمانوں کا لیڈر کہلاتا ہے اور پچھلے دنوں رولٹ ایکٹ کے خلاف اظہار ناراضگی کے طور پر وہ مستعفی ہو گیا ہے ۔ جو شخص خدا کے قانون کو پسند نہیں کرتا وہ بندوں کے قانون کو کہاں پسند کر سکتا ہے۔
پس ہم اس جہان میں رہتے ہوئے بھی ایک اور جہان میں رہتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ہمارے خیالات، ہمارے جذبات کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ہماری باتیں ان کے لئے گونگے کے اشاروں سے زیادہ نہیں۔ یہ مُشکلات ہیں جو ہمیں در پیش ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت ہیں جن کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔ پس ہمیں چاہئے کہ سچے دل سے دعاؤں میں مصروف ہو جائیں تا خدا کے فضلوں کو جذب کر سکیں۔’’ (الفضل 21جون 1919ء)
1: البقرۃ: 187 2: یونس: 91
3: بخاری کتاب الاستسقاء باب اذا استشفع المشرکون بالمسلمین عند القحط
4: الفرقان: 45

45
قُربانیوں کی ضرورت
(فرمودہ 13جون 1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘ہر ایک قسم کی ترقی جو دُنیا میں کسی کو حاصل ہوتی ہے وہ بہت سی قربانیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ درحقیقت بڑائی کے معنی اس کے سوا کوئی نہیں کہ اِس میں یا اس کی خاطر بہت سی چیزوں کی قربانی کی گئی۔ اﷲ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کی شان ہی ایک ایسی شان ہے جو اور کسی چیز کی طرف نسبت کئے بغیر بڑائی اور شان ہے باقی سب کی بڑائیاں اور شانیں سب نسبتی اور طفیلی ہوتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کبیر تھا بلکہ اکبر تھا اور ہمیشہ سے تھااور ہے اور رہے گا۔ وہ علیم تھا اور ہے اور رہے گا۔ وہ حیّ ہے ، تھا اور آئندہ رہے گا۔اس کی بڑائی ، اس کی عظمت اور اس کا علم والا ہونا یہ کسی نسبت سے قائم نہیں، نہ کسی چیز کے طفیل سے ہے لیکن اس کے سوا یعنی خالق کو علیحدہ کر کے جتنی مخلوق ہے وہ سب کی سب ایسی ہے کہ اس کی تمام ترقیاں نسبتی اور طفیلی ہیں اور کوئی بڑائی کسی کی ذات میں بڑائی نہیں بلکہ نسبت پاکر بڑائی ہے اور کوئی عالم نہیں جب تک دوسرا جاہل مدنظر نہ ہو اور کوئی بڑائی، بڑائی نہیں جب تک کہ دوسرے کی کمزوری زیرِ نظر نہ ہو۔ کوئی حکومت نہیں جب تک اس کے اطاعت گزار نہ ہوں لیکن خدا کی حکومت ایسی ہے کہ بغیر کسی اطاعت کے حکومت ہے۔ اسی طرح اس کی جس قدر صفات ہیں وہ اپنے طور پر ہیں لیکن باقی سب کی نسبتی طور پر ہیں۔
ایک بڑے بادشاہ کے کیا معنی ہوتے ہیں؟یہی کہ اس کے لئے بہت سوں نے اپنی حکومت کو ترک کر دیا ہوتا ہے اور جتنا بڑا بادشاہ ہوتاہے اُتنی ہی زیادہ اس کے لئے لوگوں کو قربانیاں اختیار کرنی پڑیں یا لوگوں نے اپنے علاقے چھوڑ کر اس کے قبضہ کو ان پر تسلیم کر لیا۔ تو یہ بڑائی نسبتی بڑائی ہے۔تمدنی دنیا میں بھی حکومت اسی طرح ہے کہ خواہ جبر سے خواہ خوشی سے جتنے زیادہ مطیع ہوتے ہیں اتنی ہی بڑی ان کی حکومت مانی جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے اختیار ایک کو دے دیئے اس لئے وہ بڑا بادشاہ ہو گیا۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی حکومت حکومت نہیں کہلاسکتی۔
اِسی طرح دوسرے معاملات ہیں۔ علم کیا ہے؟ یہ بھی قربانیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ کسی چیز کے جاننے کے لئے مال کی، اوقات کی، جذبات کی، دوست و آشنا کی صحبت کی، آرام کی جب قربانیاں کی جاتی ہیں تب علم حاصل ہوتا ہے اور یہ ہر قسم کی قربانی اپنے اندر اور بہت سی قربانیاں رکھتی ہے۔ یوں لوگ صرف مال کی قربانی کہہ دینے سے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ جب تک اس کی تشریح نہ کی جائے۔ مال نام ہے اُن اشرفیوں اور اُن روپوں کا جو اشرفیوں میں ہیں اور ان اٹھنیوں ، چونیوں ، دونیوں ، پیسوں اور ان کے اجزاء کا جو ان میں شامل ہیں۔ پس ان تمام کے قربان کرنے کا نام مالی قربانی ہوتا ہے۔ چونکہ لوگ اس تشریح کو ذہن میں نہیں رکھتے اِس لئے اس کی عظمت کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ ایک زمیندار اپنے بچے کے پرائمری تک پڑھانے کے لئے چار سَو یا پانچ سَو روپیہ خرچ کرتا ہے اور آہستہ آہستہ خرچ کرتا ہے اِس لئے وہ خرچ اس کی نظر میں کچھ نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی شخص کسی زمیندار کو یہ کہے کہ ہم تمہارے لڑکے کو پرائمری پاس کرادیں گے تم ہمیں چار پانچ سَو روپیہ دے دو تو وہ یہی کہے گا کہ اتنے روپیہ کی مَیں زمین کیوں نہ خرید لوں۔ تو گو وہ خرچ تو سینکڑے ہی کرتا ہے مگر چونکہ وہ پیسہ پیسہ کر کے خرچ کرتا ہے اس لئے اس کی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ پھر بہت بڑی قربانی آرام کی قربانی ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل جب تک معلوم نہ ہو اس وقت تک اس کی اہمیت نہیں معلوم ہو سکتی۔ مثلاً آجکل روزے ہیں۔ طالب علم کا صبح آرام کرنے کو دل چاہتا ہے مگر خیال یہ ہے کہ مدرسہ میں جانا ہے۔ اس لئے وہ مدرسہ کے لئے اپنے آرام کو قربان کرتا ہے۔ اسی طرح اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو جب پڑھنے کے لئے چھوڑتا ہے تب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے وقت کی کتنی قربانی کی ہے۔
پھر جو وقت کی قربانی ہوتی ہے اس کو کون جان سکتا ہے کہ وہ کتنی بڑی ہوتی ہے۔ اس کی تفصیلات کو ذہن میں لاؤ۔ وقت کا خرچ ہونا اور چیز ہے اور خرچ کرنا اَور۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ ایک ایسا شخص جو بیکار پڑا رہتا ہے اس کا وقت خرچ ہو رہا ہوتا ہے وہ خود خرچ نہیں کررہا ہوتا لیکن ایک ایسا شخص جو کسی خاص کام میں وقت لگاتا ہے اس کا وقت خرچ نہیں ہوتا بلکہ وہ خرچ کرتا ہے۔ تو بہت لوگ ایسے ہیں جن کا وقت خرچ ہوتا ہے اور بہت کم ہیں جو وقت کو خرچ کرتے ہیں۔ ہر ایک شخص کے پاس مال ہوتا ہے اور ہر ایک سے خرچ ہوتاہے لیکن خرچ کرنا بہت کم لوگ جانتے ہیں اور یہ ایک خاص علم ہے جس کا نام علم الاقتصاد ہے۔ جس طرح لوگ انگریزی زبان اور دیگر علوم میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اسی طرح اس علم میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل ہوتی ہے۔ یہ بہت وسیع علم ہے مگر بعض لوگ باوجود اس کے پڑھنے کے پھر بھی مال خرچ کرنا نہیں جانتے۔ غرض وقت کی قربانی جب تک آدمی نہ کرے اس وقت تک اس کو معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی سمجھ میں یہ قربانی نہیں آسکتی۔ ہاں جو شخص اپنی آرزوؤں کو قربان کرتا ہے ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے اُس کو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کا قربان کرنا کتنا بڑا کام ہے۔ ایک شخص بغیر ارادے کے سارا دن ایک جگہ بیٹھ سکتا ہے مگر جب کہا جائے کہ یہاں بیٹھ کر اتنی دیر کسی کا انتظار کرو تو اگر اس سے دس منٹ بھی دیر ہو جائے تو وہ لڑنے کو تیار ہوجائے گا کہ اتنی دیر لگا دی۔ یوں تو سارا دن اسی طرح گزرتا ہے جس طرح ریت مُٹھیوں سے گزر جاتی ہے لیکن کسی خاص مقصد کے لئے دوسرے اشغال کو چھوڑنا مُشکل ترین کام ہے۔
جتنی بڑی چیز ہو اتنا ہی زیادہ وقت اس کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے اور چیزوں کی بڑائی چھٹائی قربانیوں کی بڑائی چھٹائی ہی کا نا م ہے۔ پھر کسی بڑے مقصد کے حاصل کرنے کے لئے نہ صرف بڑی قربانیوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے بلکہ صحیح طریق سے قربانیاں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ علم حاصل کرنے کے لئے دس بیس یا سَو بکرے ذبح کر دیئے جائیں اور علم حاصل ہو جائے بلکہ اس کے لئے قربانیاں ہوں اور صحیح طور پر قربانیاں ہوں تو مقصد حاصل ہوتا ہے۔
دیکھو انسان کی زندگی کے قیام کے لئے کس قدر قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ غلّہ قربان ہوتا ہے ، پانی خرچ ہوتا ہے، ہوا قربان ہوتی ہے، روپیہ قربان ہوتا ہے تب جاکر ایک وجود ہلاکت سے بچتا ہے۔ پھر بچوں کی تربیت کے لئے جس قدر زیادہ قربانی کی جائے اسی قدر وہ بڑے بنتے ہیں۔ بڑے بننے کے یہ معنی نہیں کہ وہ جسمانی طور پر بڑے ہوتے ہیں بلکہ یہ کہ اچھی تربیت سے وہ شریف ہوتے ہیں اور ملک اور قوم کے لئے مُفید اور مذہبی طور پر نیک اور صالح ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی تربیت کے لئے اپنے وقت اور آرام کی قربانی نہیں کرتا اور اس بات کا کچھ خیال نہیں کرتا کہ اس کے بچے کہیں آوارہ ہو کر پھرتے رہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بچے قوم کے لئے کوئی مُفید وجود ثابت نہیں ہو سکتے اور نہ خود کوئی بڑائی حاصل کر سکتے ہیں اور پھر وہ لوگ جو اپنے لئے آپ قربانیاں کرتے ہیں وہ بھی بہت بڑے درجے پاتے ہیں مثلاً ہمارے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے آپ کے ابتدائی زمانہ میں کسی نے اپنے وقت، اپنے آرام، اپنے مال کی قربانی نہیں کی۔ آپ ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ باپ فوت ہو گئے پھر ابھی ننھے بچے ہی تھے کہ ماں فوت ہو گئیں اور ذرا ہوش سنبھالا تھا کہ دادا کا انتقال ہو گیامگر آپ نے اپنے لئے اور اپنے نفس کی اصلاح اور دُنیا کی بھلائی کے لئے وہ وہ قربانیاں کیں کہ جن کے نتائج آج ساری دُنیا دیکھ رہی ہے۔
پس چونکہ بڑائی کے معنی ہوتے ہیں بڑی قربانی کے اور چھوٹائی کے معنی ہوتے ہیں چھوٹی قربانی کے۔ اِسی لئے اسلام نے قربانی پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور مسلمانوں کی کوئی عید نہیں جس کے ساتھ قربانی نہ ہو۔ اسلام میں عام طور پر دو عیدیں مشہور ہیں۔ ایک بڑی کہلاتی ہے ایک چھوٹی۔بڑی تو وہ ہے جس میں جانور ذبح کئے جاتے ہیں اور چھوٹی وہ جو رمضان کے بعد آتی ہے۔
جس کو بڑی عید کہا جاتا ہے اس میں تو ظاہری قربانی ہوتی ہی ہے اور دوسری عید جورمضان کے بعد آتی ہے اس تک بھی انسان بہت سی قربانیاں کرنے کے بعد پہنچتا ہے۔ پس درحقیقت کوئی خوشی نہیں اور کوئی عید نہیں جب تک اس کے پہلے قربانی نہ کی گئی ہو۔ دیکھو رمضان کے بعد جو عید آتی ہے اس سے پہلے یعنی رمضان میں کتنی قربانیاں انسان کو کرنی پڑتی ہیں۔ نفس کی قربانی، کھانے پینے کی قربانی، شہوات کی قربانی، اپنے جذبات اور ارادوں کی قربانی۔ جب مومن اتنی قربانیاں کر چکتا ہے تب عید اُس کو خوش کرنے کے لئے آتی ہے۔ تو ان عیدوں میں ہمارے لئے بڑے بڑے سبق ہوتے ہیں اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر ایک عید اور خوشی کے ساتھ قربانی لازمی ہوتی ہے۔
عید الاضحٰی کیا ہے؟ یاد گار ہے اُس قربانی کی جو مدت ہوئی حضرت ابراہیم نے کی تھی اور اس سے ہمیں سبق دیا جاتا ہے کہ یہ ایک اصل ہے جس کے ذریعہ جماعتیں ترقی پاتی ہیں۔ بغیر اس طرح قربانی کئے کوئی جماعت ترقی نہیں پاسکتی۔ جب جماعت کے سارے لوگ اپنے آپ کو قربان کرنے پر آمادہ اور تمام چیزوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تب مُدعا حاصل ہوتا ہے، ورنہ کسی ایک دو کے قربان ہونے سے جماعتوں کو ترقی حاصل نہیں ہؤا کرتی۔ ہاں قربانی صرف گلا کٹوانے کا ہی نام نہیں بلکہ قربانی کے اور طریق بھی ہیں۔ یعنی اپنے تمام ارادوں، آرزوؤں کو ایک مقصد کے حصول کے لئے چھوڑ دینا بھی قربانی ہوتی ہے اور یہ ایسی قربانی ہے کہ تلوار کے ذریعہ گردن کٹانے کی قربانی اس کے مقابلہ میں آسان ہے کیونکہ اس سے بہت جلد فیصلہ ہو جاتا ہے لیکن یہ قربانی ایسی ہوتی ہے کہ ایک ہی وقت میں اس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ پھر تلوار سے جو قربانی ہوتی ہے وہ بعض اوقات ناحق کے لئے بھی ہو جاتی ہے۔ عیسائی عورتیں عیسائیت کے لئے سر کٹوا لیتی ہیں مگر وہ قربانی جس میں نفسانیت کو چھوڑنا پڑے، شہوات سے علیحدہ ہونا پڑے، آرزوؤں اور تمناؤں اور جذبات اور ارادوں کو قربان کرنا پڑے وہ باطل کے لئے نہیں ہو سکتی۔ دیکھو تلوار سے تو بہت تھوڑے صحابہ شہید ہوئے ہیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دیگر صحابہ شہید نہیں ہوئے۔ حضرت حمزہ ؓ ہی شہید نہیں ہوئے، حضرت ابوبکر ؓ و عمر ؓ و عثمان ؓ و علیؓ بھی شہید ہوئے ہیں۔ ہاں ان میں فرق تھا تو یہ تھا کہ حضرت حمزہؓ ظاہری تلوار سے شہید ہوئے مگر حضرت ابوبکرؓ ایک ایسی تلوار کے شہید تھے جس کا ظاہرمیں وجود نہ تھا مگر ہر وقت چلتی رہتی تھی۔ یہ سب جلیل القدر انسان خطرناک وقتوں میں جنگ کے میدانوں میں گئے اور دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے رہے مگر خدا کی مصلحت تھی کہ ان کو اس وقت بچائے رکھا کیونکہ خدا جانتا تھا کہ وہ وقت آتا ہے جبکہ یہ اسلام کی عظیم الشان خدمتیں بجا لائیں گے اور مسلمانوں کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچائیں گے۔
حضرت علی ؓ سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ صحابہ ؓ میں سے سب سے بہادر کون تھا۔ شیعہ حضرت علی ؓ کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ شیر خدا تھے۔ بیشک وہ شیرخدا تھے مگر شیعوں کی اس سے غرض دوسرے صحابہ کی مذمت کرنا ہوتا ہے۔ ہاں تو حضرت علی ؓ نے کہا کہ اس وقت بہادری کا معیار یہ تھا کہ جو سب سے زیادہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب ہوتا تھا وہی سب سے بڑا بہادر سمجھا جاتا تھا۔
یہ بات فوجی نقطۂ خیال سے بالکل درست ہے کیونکہ فوج کا افسر جہاں ہوتا ہے وہی جگہ دشمنوں کی نظر میں سب سے اہم ہوتی ہے اور اسی پر دُشمن کا سارا زور ہوتاہے۔ کیونکہ اس زمانہ میں یہ طریق تھا کہ اگر افسر مارا جاتا تو ساری فوج بھاگ کھڑی ہوتی۔ تو ایسے معرکے میں جو افسر کے زیادہ قریب ہوتا وہی سب سے زیادہ بہادر سمجھا جاتا اور اسی کی بہادری سب سے بڑھی ہوئی ہونی چاہئے۔یہ فرما کر حضرت علی ؓ نے کہا اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریب ابوبکر ؓ ہوتے تھے۔1 اور یہ بالکل ٹھیک ہے۔ جنگِ اُحد میں ایک آن کی آن کے لئے جب دُشمن آنحضرت اور صحابہ کے درمیان حائل ہو گئے تو اُس وقت صرف ابو دجانہ ؓپاس رہ گئے۔ ورنہ ہر خطرناک وقت میں حضرت ابو بکر ؓ ہی رسولِ کریم کے قریب ہوتے تھے مگر باوجود اس کے وہ تلوار کے ذریعہ شہید نہ ہوئے مگر کیا ان کی شہادت میں کچھ شک ہوسکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
تو صحابہ میں سے تھوڑے شہید ہوئے اور زیادہ بغیر تلوار کے قربان شُدہ تھے۔ ایسا ہی ہماری جماعت کے لوگوں کو ہونا چاہئے۔ ہمیں سیّد عبداللطیف مرحوم اور عبدالرحمٰن خان کی مثال دے کر اور ان کی شہادت پر یہ کہہ کر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ وہ شہید ہو گئے بلکہ خود شہادت کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے اور جب تک ہم خود بھی شہید نہ ہو جائیں دوسروں کی شہادت پر خوش نہیں ہونا چاہئے۔ اُنہوں نے اگر شہادت پائی تو اپنا فرض ادا کیا نہ کہ تمہارا فرض ان کے شہید ہونے سے ادا ہو گیا۔ تم میں سے ہر ایک کو اپنا فرض آپ ادا کرنا چاہئے کیونکہ جب تک جماعت کا ہر ایک فرد شہید بننے کی کوشش نہیں کرے گا اُس وقت تک اصل مُدعا حاصل نہیں ہو سکے گا۔ جو مقصد تمہارے پیش نظر ہے وہ بہت بڑا ہے۔ لاکھوں اور کروڑوں قربانیوں کی ضرورت ہے۔ ایک انسان کی بقا کے لئے ہزاروں قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ انسان کے وجود کے ذرّے ذرّے کے لئے قربانی ہوتی ہے۔ پس جب ایک انسان کے لئے اتنی قربانیوں کی ضرورت ہے تو سمجھ لو کہ جماعت کی ترقی کے لئے کس قدر قربانیوں کی ضرورت ہو گی۔ تم نے ساری دُنیا کو مسلمان کرنا ہے..... اور ساری دُنیا میں توحید کو پھیلانا ہے۔ اگر ایک شخص قربانی کرے تو کیا یہ بات حاصل ہو سکتی ہے۔ اس زمانہ میں تلوار کی قربانی کی ضرورت نہیں مگر جہاں تلوار کی قربانی کی ضرورت ہو اس سے بھی انکار نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ کابل میں ہؤا۔ ہاں جن ممالک میں ہم پر تلوار نہیں چلائی جاتی وہاں ہمیں بھی تلوار کی شہادت کی ضرورت نہیں۔ وہاں اور قسم کی شہادت ہے۔ تلوار کی قربانی تو ایک لحظہ میں ہو جاتی ہے مگر جس قربانی کی ہمیں ضرورت ہے وہ ہر لحظہ میں کئی بار ہوتی ہے۔ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ امام حسین کی شہادت تو ایک شہادت ہے مگر مَیں نے تو بہت سی شہادتیں دیکھی ہیں۔ اسی طرح حضرت صاحب فرماتے ہیں ؎
صد حسین است در گریبانم
کہ مجھ پر ہر وقت وہی کچھ گزرتا ہے جو امام حسین ؓ پر ایک وقت گزرا۔ تلوار سے ایک دفعہ فیصلہ ہو جاتا ہے اور ایک جوشیلا فوری جوش میں گردن کٹواسکتا ہے مگر جو آہستہ آہستہ قربانیاں طلب کی جاتی ہیں ان کو ہر ایک شخص برداشت نہیں کر سکتا۔ مثلاً کسی کو اگرکہا جائے کہ ایک دن بھُوکے کھڑے رہو تو اس کے لئے مُشکل ہے اور اس میں صبر اور ہمت کی اس سے بہت زیادہ ضرورت ہے جتنی تلوار کے نیچے سر رکھ دینے میں ہے۔ تو اس وقت تلوار کی قربانی کی ضرورت نہیں بلکہ ایسی قربانی کی ضرورت ہے جس میں انسان کی ہر چیز قربان ہو۔ ایک ایک لمحہ کا فکر ایسا ہوتا ہے کہ جان کو گھلا ڈالتا ہے۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ2 یعنی کیا تو محض اس غم اور فکر میں کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے، اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالے گا۔ عربی زبان میں گردن کی پچھلی رگوں تک کاٹنے کو بخع کہتے ہیں۔ گویا کہ چُھری کا اس طرح چلنا کہ گردن کی پچھلی رگیں آہستہ آہستہ کٹ جائیں۔ یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا جب تک خاص ایمان نہ ہو۔
پس اس وقت ضرورت ہے کہ اسلام کے لئے اور سلسلہ احمدیہ کے لئے ہر ایک قربانی جس کی ضرورت ہو، کی جائے اور جب تک تم میں سے ہر ایک قربانی نہیں کرے گا اُن ترقیوں کے مُنہ نہیں دیکھ سکو گے جو مقدر ہیں۔ زید و بکر کی قربانی تمہارے لئے کافی نہیں ہو سکتی۔ تمہارے لئے تمہاری اپنی ہی قربانی کام آنے والی ہے۔ اگر تم دوسروں کی قربانیوں پر خوش ہو گے تو تمہاری مثال ایسی ہی ہو گی جیسی کسی پنڈت کے متعلق مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایک پنڈت جو صبح کے نہانے کو فرض قرار دیتا تھا صبح کے وقت دریا پر گیا۔ سردی کا موسم تھا اتنی تو جرأت نہ ہوئی کہ دریا میں داخل ہو کر نہائے۔ ایک کنکر اُٹھا کر اور اس کو مخاطب کر کے کہنے لگا 'تو راشنان سومورا شنان'' یعنی تیرا نہانا میرا نہانا ہی ہے۔ یہ کہہ کر کنکر دریا میں ڈال دیا۔ راستہ میں ایک دوسرا پنڈت مِلا اُس نے کہا بھئی کیسے نہائے، اس نے ترکیب بتلائی۔ اس پنڈت نے اسے مخاطب کر کے کہہ دیا کہ ''تو راشنان سومورا شنان'' اور واپس آگیا۔ پس سیّد عبداللطیف اور عبدالرحمٰن خان کی قربانی کو اپنے لئے کافی نہ سمجھو۔ کسی کی نماز سے اپنی نماز ادا نہیں ہوسکتی جو کچھ ان سے ظاہر ہؤا وہ ان کا کام تھا۔ تم اپنا فرض آپ ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرماوے کہ ہم ان قربانیوں کو ادا کریں جن کی اس وقت اسلام کے لئے ضرورت ہے اور ہمیں وہ دن نصیب کرے کہ ہم پوری ترقیاں دیکھیں اور اسلام اپنی اصل شان میں آجائے۔’’ (الفضل 24جون 1919ء)
1: تاریخ الخلفاء للسیوطی حالات سیّدنا ابو بکر صدیقؓ
2: الشعراء:4

46
قبولیت دُعا کے خاص ایّام بھی انعامِ الٰہی ہیں
(فرمودہ 20جون 1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''رمضان کا مہینہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اﷲ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور جب کوئی انسان چاہے اسی وقت عید اور رمضان اور جمعہ آجاتے ہیں۔ دیر صرف مانگنے میں ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاں بندہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کے دروازے کو چھوڑ کر دوسرے کے دروازہ پر چلا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ محتاج نہیں لیکن وہ اپنے بندے کی ایسی جستجو کرتا ہے گویا کہ اس بندے پر ہی اس کی خدائی کا انحصار ہے اور بندہ محتاج ہے اور ایسا محتاج ہے کہ اس کا ایک لحظہ بھی ایسا نہیں کہ اگر خدا تعالیٰ اس کو چھوڑ دے تو آرام سے گزرے اور ہلاک نہ ہو جائے مگر بندہ خدا سے ایسا استغناء کرتا ہے کہ گویا اس کا محتاج ہی نہیں۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک عورت کو دیکھا کہ وہ دوڑی ہوئی پھر رہی تھی اور جو بچہ اُس کو نظر آتا اسے اُٹھا کر گلے سے لگا لیتی اور پیار کر کے چھوڑ دیتی تھی۔ جاتے جاتے اُس کو ایک بچہ مِل گیا وہ اس کو لے کر بیٹھ گئی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا، اس عورت کا بچہ گم ہو گیا تھا اس کو اپنا بچہ ملنے سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اﷲ تعالیٰ کو اپنے گم شدہ بندہ کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ 1
سو اس رحیم و کریم ہستی سے دُعا قبول کرانا مُشکل نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی ہی گھڑی ہو سکتی ہے اور ہر لمحہ کو قبولیت کے لئے ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس کی طرف سے دیر نہیں۔ اگر دیر ہے تو بندے کی طرف سے ہے لیکن یہ بھی اس کے احسان ہی میں سے ہے کہ اس نے ایک خاص وقت رکھ دیا تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں جاگ سکتے ان کو خود جگادے۔ ان کی غفلتیں چونکہ ان کے لئے موجب ہلاکت ہو سکتی ہیں اس لئے ان کے ہوشیار کرنے کے لئے رمضان کا ایسا وقت مقررکر دیا کہ جس میں وعدہ کیا کہ مَیں دعائیں زیادہ سُنوں گا۔ سنتا تو وہ روز ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ ہر گھڑی عید اور ہر گھڑی قبولیت کے لئے رمضان ہو سکتی ہے مگر غافل لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ایک خاص مہینہ مقرر کر دیا گیا کہ وہ اس میں فائدہ اُٹھائیں۔
بہتوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر یوں کہا جائے کہ کوئی یہ کام کر دے تو ان میں سے کوئی بھی نہیں کرے گا اوراگر یہ کہا جاوے کہ کسی وقت کر دے تب بھی ان میں سے کوئی نہیں کرے گا کیونکہ ان کو یہ خیال ہو گا کہ اگلے وقت میں جو آتا ہے کر دیں گے لیکن اگر وقت مقرر کر دیا جاوے تو کر لیتے ہیں۔ اس لئے خدا نے اپنے فضل و احسانِ عمیم کے ماتحت تمام لوگوں کے لئے موقع رکھ دیا کہ رمضان میں آسانی سے دُعا کریں۔ اگر وہ یوں کہتا کہ جس نے قُرب حاصل کرنا ہے کر لو تو بہت نہ کرتے مگر اُس نے کہا کہ میرا قُرب حاصل کرو اور جو چاہے کرے اور پھر یہ فضل کیا اور موقع دیا کہ ہر ایک اس سے فائدہ اُٹھا سکے۔ ورنہ وہ ہر مہینہ میں دُعائیں قبول کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ١ؕ 2 اوراَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ 3 اور وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ 4 اس لئے کسی ساعت کی شرط نہیں لگائی۔ اگر کوئی شرط لگائی ہے تو صرف یہ کہ میرا بندہ ہو، یعنی خدا کی عبودیت کا اقرار کرے۔ ہمارا یہ اقرار اس کی رحمت اور رأفت کو جوش میں لائے گا اور جو کھٹکھٹائے گا اس کے لئے کھولا جائے گا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک قدم اُٹھاتاہے تومیں دو قدم اُٹھاتا ہوں۔ اگر میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو مَیں اُس کی طرف دَوڑ کر جاتا ہوں۔5 سو خدا کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ اس میں رمضان کی اور رات دن کے کسی حصّہ کی خصوصیت نہیں۔ کیا بندہ ہر وقت محتاج نہیں۔ کیا بندہ کی محتاجی کسی خاص وقت پر منحصر ہے؟ کیا شعبان اور شوال میں بندہ محتاج نہیں؟ پھر کیا ہفتہ اور جمعہ کے روز بندہ محتاج نہیں؟ پھر کیا جمعہ کی صبح اور عصر تک محتاج نہیں؟ وہ تو اُسی طرح محتاج ہے جس طرح ان دنوں میں محتاج ہے۔ پھر کیوں اس نے خاص اوقات میں خاص افضال و انعام کو محدود کر دیا؟ مَیں نے بتایا ہے کہ یہ بھی بطور رحمت کے ہے اس لئے کہ انسان کو ہوشیار کرے۔ پھر اﷲ ان گھڑیوں میں زائد انعام دیتا ہے تاکہ انعام کے خواہاں لوگوں کو انعام کے لینے کے لئے اُکسائے۔ پس جب بندہ گداز ہو جاتا ہے اُس کا دن اُس کے لئے قبولیت کی گھڑیوں والی رات ہو جاتا ہے اور پھر اس کی ہر ایک رات لیلۃ القدر ہو جاتی ہے۔ اس کا ہر ایک دن جمعہ کا دن ہوتا ہے اور ہر ساعت خطبہ کی وہ درمیانی ساعت ہو جاتی ہے جس میں اﷲ تعالیٰ زیادہ دُعائیں قبول کرتا ہے۔
تو یہ جو کچھ کیا گیا ہے یہ انسان کو ہوشیار کرنے کے لئے ہے کیونکہ انسان کا قاعدہ ہے کہ خاص وقت میں فرض کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ پس دُعا کا خاص وقت میں زیادہ قبول کرنا رحم اور شفقت سے کیا گیا ہے۔ ورنہ اس کے رحم کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ مگر بہت ہوتے ہیں جو اس فضل کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ باقی دنوں میں تو اس لئے فائدہ نہیں اُٹھاتے کہ وہ رمضان نہیں اور رمضان میں اس لئے کہ توفیق نہیں ملتی۔ اسی طرح اَور دنوں میں تو اس لئے دعا نہیں کرتے کہ جمعہ نہیں اور جمعہ کو اس لئے کھودیتے ہیں کہ ان کو دعا سے مَس نہیں۔ پھر دن کو اس لئے کھوتے ہیں کہ راتیں قبولیت دعا کے لئے زیادہ موزوں ہیں اور رات سے اس لئے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کہ نیند کو نہیں چھوڑ سکتے۔ غرض ایک وقت کو دوسرے پر ٹالتے ہیں اور دوسرے میں اس لئے کچھ حاصل نہیں کر سکتے کہ محنت سے جی چُراتے ہیں۔
اس لئے ان پر کوئی وقت دعا کا نہیں آتا۔ ان کی مثال بعینہٖ اس بچہ کی سی ہوتی ہے جو ماں باپ سے ناراض ہو کر ایک اندھیرے مکان میں جاکر بیٹھ جائے اور وہاں اس کو کانٹے چُبھنے اور بِھڑیں کاٹنے لگیں ۔ ایسا انسان خدا سے ناراضگی اختیار کرتا ہے اور اس سے بھاگتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے مُلک سے نکل جائے مگر کہاں انسان اس کے مُلک سے نکل سکتا ہے۔ جس نے نادانی سے خدا کو چھوڑا اس کے لئے دُنیا و آخرت میں کوئی مقام آرام کا نہیں۔ ایسا شخص اپنا آپ قاتل ہے اور اپنے آپ کا خود خون کرتا ہے کیونکہ انسان کے لئے ایک ہی آرام کی جگہ ہے اور وہ خدا کی گود ہے اور یاد رکھو کہ خدا کی گود صرف محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے، صرف موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کے لئے ہی نہیں بلکہ خدا ہر گنہگار کے لئے اپنی گود پھیلائے کھڑا ہے کہ آئے اور اس کی گود میں جگہ پائے۔ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا کو ایک بندہ کے تائب ہونے پر اتنی خوشی ہوتی ہے کہ ایک ماں کو اپنا گم شدہ بچہ پانے پر بھی اتنی خوشی نہیں ہو سکتی۔
پس اس کی رحمت سے فائدہ اُٹھاؤ جو تمہاری ترقی کے لئے تمہارے فائدہ کے لئے وہ نازل کر رہا ہے اور پھر ان خاص اوقات سے فائدہ اُٹھاؤ جو تمہارے ہی فائدہ کے لئے اُس نے رکھ دیئے ہیں اگر ان اوقات کو بھی سُستی سے ضائع کردو گے تو نہایت ہی افسوس کی بات ہوگی۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں جاگتے تھے اور رشتہ داروں کو بھی جگاتے تھے۔ بھلائی کے کاموں میں اور بھی مستعدی سے کام لیتے تھے اور اپنی کمر کس لیتے تھے۔6 گویا کہ وہ پہلے ڈھیلی تھی۔غور کرو یہ کیا الفاظ ہیں؟ کس نے کمر کس لی؟ اُس نے جس کی تمام راتیں جاگتے اور دن عبادات میں گزرتا تھا اور ہر ایک گھڑی خدا کی یاد میں بسر ہوئی ہوتی تھی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ جن کے تعلق اور وابستگی کی یہ کیفیت تھی ان کے متعلق عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں کمر کس لیتے تھے۔ اس بات کو عائشہ صدیقہ ؓ ہی سمجھ سکتی تھیں اور کسی کے لئے اس کی حقیقت سمجھنا آسان نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کمر کھولتے ہی نہ تھے اور آپ فرماتے کہ جب مَیں سوتا ہوں تو درحقیقت اس وقت بھی جاگ ہی رہا ہوتا ہوں۔ چنانچہ فرمایا ۔ میری آنکھیں سوتی ہیں مگر دل جاگتا ہے۔7 پس جب آپ بستر پر جاتے ہیں اُس وقت بھی آپ کی کمر نہیں کھلتی تو اور کس وقت کھولتے تھے۔ درحقیقت یہ قول ایک بہت بڑے معنی رکھتا ہے جو قیاس میں بھی نہیں آسکتے اور ان کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے آپ کی صحبت اُٹھائی ہو۔ بعد میں آنے والے اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ غرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آخری عشرہ میں راتوں کو جاگتے اور رشتہ داروں کو جگاتے اور خود کمرکَس لیتے تھے۔ یعنی جن کی کمر ہر وقت کسی رہتی تھی وہ بھی کس لیتے تھے۔ اس سے سمجھ لو کہ جن کی کمر ہمیشہ ڈھیلی رہتی ہے ان کے لئے رمضان میں کس قدر توجہ کی ضرورت ہے۔
پس مَیں اپنے تمام دوستوں کو کہتا ہوں کہ اپنی اپنی کمریں کس لیں اور خداکی طرف جھک جائیں۔ مَیں نے بتایا ہے کہ خدا دینے کو تیار ہے صرف ہماری غلطیاں ہمیں اس کے فضلوں سے محروم رکھتی ہیں۔ اس کے فضل کے آنے کے لئے کوئی خاص وقت نہیں اور اس کے فضلوںکی کوئی حد بندی نہیں۔ وہ تو ہر وقت دیتاہے اور دینے کو تیار ہے۔ یہ جو خاص گھڑیاں اس نے مقرر فرمائی ہیں یہ اس لئے ہیں کہ سُست سے سُست انسان بھی اس کے فضل سے محروم نہ رہے اور یہ وقت مقرر کر کے اس نے ہم پر احسان کیا ہے۔ پس ان دنوں کو خالی نہ جانے دو۔ وہ فضل حاصل کرو جو تمہاری نسلوں کی نسلوں، نسلوں کی نسلوں، نسلوں کی نسلوں کے لئے بہتری اور فلاح کا موجب ہو اور وہ وعدے جو مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے ہیں ہم اُن کے جاذب ہوں۔ ہماری کمزوریاں دُور ہوں اور ہمیں خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کا وارث بنائے، غلطیوں کو معاف کرے اور اپنے فضل کی راہوں پر چلائے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے اور اپنے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی اور مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع کی توفیق دے۔ عمر کے ہرلحظہ میں ہم آگے ہی آگے قدم بڑھائیں اور ہم پر کوئی وقت غفلت اور سُستی کا نہ آئے۔ آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔’’ (الفضل 28جون 1919ء)
1: بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد(الخ)
2: المؤمن:61 3: النمل: 63 4: البقرۃ: 187
5: بخاری کتابُ التَّوْحِید باب مَا یُذْکُرُ فی الذَّاتِ وَ النُّعُوْتِ (الخ)
6: مسلم کتاب الْاِعْتِکَافِ باب الْاِجْتِھَادِ فِی الْعَشْرا لْاَوَاخِرِ (الخ)
7: بخاری کتاب المناقب باب کان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم تنام عَیْنٰہٗ وَ لَا ینام قلبُہٗ

47
خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کُفر ہے
(فرمودہ 27جون 1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَ اَخِيْهِ وَ لَا تَايْـَٔسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ لَا يَايْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ۔1
اور فرمایا:-
''اﷲ تعالیٰ کے فضل اور احسان اپنے بندے پر جس قدر ہوتے ہیں ان کا شمار کرنا کسی انسان کی طاقت کے اندر نہیں۔ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا 2 خدا کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اَن گنت ہوتی ہیں اور ان کا ذہن میں لانا بھی مُشکل ہوتا ہے۔ صرف اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کیا کیا انعام اس کے اپنے بندے پر ہیں۔ ملائکہ کو بھی ان بہت سے انعامات کا علم نہیں ہوتا جو اﷲ اپنے بندے پر کرتا ہے۔ حتّٰی کہ بندہ جو بے شمار انعامات کا مورد ہوتا ہے وہ خود بھی نہیں جانتا۔
ہزاروں اُمور بندے کے سامنے آتے ہیں۔ ان پر وہ حیرت کا اظہار کرتا ہے جب کوئی انسان مصیبت میں پڑتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کو اس سے نجات دیتا ہے تو وہ خدا کے اس احسان کا شکریہ ادا کرتا ہے لیکن لاکھوں دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی ہلاکت اور بربادی کے سامان اس کی نظر سے پوشیدہ پیدا ہوتے ہیں مگر اﷲ تعالیٰ پردۂ اخفاء میں ہی ان کو دُور کردیتا ہے اور اس کو پتہ بھی نہیں لگتا۔ بیسیوں دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جہاں انسان بیٹھنے لگتا ہے اس کے نیچے سانپ یا بچھو ہوتا ہے اور وہ اس کو دیکھ کر پرے ہٹ جاتا اور اس کے ضرر سے بچ جاتا ہے۔ جس پر اگر اس کے دل میں خدا کا خوف اور عظمت ہوتی ہے تو وہ شکر گزار ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے اس ضرر سے بچا لیا مگر جب کبھی وہ رات کو زمین پر سو رہا ہوتا ہے تو بار ہا اس کے پاس سے سانپ اور قسم قسم کے موذی جانور گزر جاتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کو اس پر مسلّط نہیں ہونے دیتا اور ان کے حملے سے بچا لیتا ہے۔ بہت دفعہ انسان بیمار ہوتا ہے اوراس کی حالت نہایت خطرناک ہو جاتی ہے مگر اﷲ تعالیٰ اس کو شفا دے دیتا ہے اور وہ ظاہرکرتا ہے کہ خدا نے دوبارہ مجھے زندگی دی اور موت سے بچایا ہے لیکن اکثرایسا ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر بیماریوں کے سامان پیدا ہوتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کو دُور کر دیتا ہے مگر انسان کو اس کا پتہ بھی نہیں لگتا۔
پھر بعض دفعہ انسان کسی مصیبت میں پڑ جاتا ہے۔ لوگوں کی جھوٹی تہمتیں اس کی ہلاکت کا باعث ہونے لگتی ہیں لیکن خدا اس کی بریّت کرتا ہے۔ اگر یہ شکر گزار بندہ ہوتا ہے تو لوگوں کے سامنے خدا کے اس احسا ن کا ذکر کرتاہے کہ فلاں نے میرے متعلق یہ کیا اور میرے خدا نے مجھے اس آفت سے بچالیا۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے قتل کرنے کے منصوبے کئے گئے جن سے خدا نے اُسے بچالیا اور اس کے دشمنوںکو نقصان پہنچانے کی توفیق ہی نہ دی لیکن اس کو اس کا کچھ بھی علم نہ ہؤا۔ پھر بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کو مارنے کے لئے ڈنڈا اُٹھاتا لیکن یہ اس کی زد سے بچ جاتا ہے۔ اگر یہ خدا کے احسان کی قدر کرنے والا ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ اگر وہ ڈنڈا میرے سر پر لگ جاتا تو مَیں مَر جاتا لیکن خدا نے اپنے فضل سے مجھے بچالیا مگر اس کے دُشمن اس کے مارنے کے لئے جو خفیہ کوشش کرتے ہیں مثلاً یہ کہ زہر دے دیں اور وہ زہر تیار بھی کر لیتے ہیں تو اس سے اُسے خدا بچالیتا ہے اور اس کا اسے پتہ بھی نہیں ہوتا۔
تو انسان جو شکر گزار ہوتا ہے وہ ان احسانوں کا شکریہ ادا کر سکتا ہے جو اُسے نظر آتے ہیں یا جن کا اُسے علم ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے وہ بڑے بڑے احسان جن کی اُسے خبر بھی نہیں ہوتی ان کاکہاں شکر ادا کر سکتا ہے اور کس طرح ان کو شمار میں لا سکتا ہے۔ پس یہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کے انعامات کا شکر ادا کرنا تو الگ رہا ان کو گن ہی سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر مخالفین نے بڑے بڑے مقدمات کئے جن میں سے ایک مارٹن کلارک کا مقدمہ تھا۔ گو وہ براہ راست قتل کا مقدمہ نہ تھا لیکن ایسی تحریکات کے متعلق تھا جن کا نتیجہ قتل ہو سکتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق حق ظاہر ہؤا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بَری ہو گئے۔ آپ نے خدا تعالیٰ کے اس نشان اور انعام کے شکریہ میں ایک کتاب( کتاب البریہ) لکھی لیکن کیا آپ ؑکے خلاف آپ کے دشمنوں نے یہی کوشش کی تھی؟ نہیں بلکہ جیسا کہ بعد میں معلوم ہؤا آپ کو آپ کے دُشمنوں نے سینکڑوں دفعہ قتل کرنے کی کوششیں زہر کے ذریعہ بھی خنجر کے ذریعہ بھی اور مختلف ذرائع سے بھی کیں۔ غرض بیسیوں دفعہ آپ کے قتل کے منصوبے کئے گئے جن میں کسی کو کامیابی نہ ہوئی اور خدا تعالیٰ ان منصوبوں کو خاک میں مِلا دیتا رہا۔
پھر یہ تو وہ واقعات ہیں جو اگر پہلے نہیں تواب دُنیا کے سامنے آئے لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو تاحال پوشیدہ ہیں اور وہ بہت ہی زیادہ ہیں کیونکہ جس طرح انسان کے وہ مقاصد تھوڑے ہوتے ہیں جن میں وہ کامیاب ہوتا ہے اِسی طرح انسان کے بہت تھوڑے منصوبے ہوتے ہیں جو دُنیا کے سامنے آتے ہیں لیکن خداہی ہے جو اپنے بندوں کو ان خفیہ منصوبوں سے بچاتا ہے اور بندے ان سے قطعاً واقف نہیں ہوتے۔
غرض خدا کے احسان جہاں تک دیکھاجائے اسی کے علم میں ہوتے ہیں کہ کس قدر وہ اپنے بندے پر کرتا ہے ورنہ بندہ ان کو خیال میں بھی نہیں لاسکتا۔
ایسے احسان اور فضل کرنے والے خدا کے متعلق اگر کوئی بدظنی کرتا یا اس کی رحمت سے کسی وقت مایوس ہوتا ہے تو وہ اتنا بڑا جُرم اور گناہ کرتا ہے کہ جو کبھی معاف نہیں ہو سکتا۔ دیکھو اگر کوئی کسی پر جو ایک احسان کرے اس کے احسان کی قدر نہ کی جائے تو وہ آئندہ ایسے ناقدرے انسان پر کوئی احسان نہیں کرتا لیکن جس کے اتنے احسان ہوں کہ اس کو گنا ہی نہ جاسکے اس کے احسانوں کی اگر ناقدری اور ناشکری کی جائے تو ایسے شخص سے بڑھ کر کون مجرم ہو سکتا ہے۔
مگر بہت لوگ ہیں جو خدا سے بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں اور اس کی رحمت اور فضلوں کا خیال نہیں کرتے بلکہ بعض تو اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ خدا کی رحمت سے مایوس ہونے کو دین سمجھتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کے خوف کی وجہ سے دُنیا میں دل نہیں لگاتے مگر یاد رکھو محض خدا کے خوف کی اسلام تعلیم نہیں دیتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ خدا کا خوف اور رجاء دونوں ایک وقت میں ہونی چاہئیں اور اس کانام ایمان رکھتا ہے ورنہ ایک وقت میں صرف خوف ہی خوف کُفر ہے اور خالی اُمید بھی کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ ہاں جب دونوں ایک وقت میں انسان کے اندر جمع ہوں تب اس کا ایمان کامل ہوتا ہے ورنہ اگر کوئی شخص ہر وقت حالت خوف میں رہتا ہے اور خدا کے فضلوں کی اُمید نہیں رکھتا تو وہ کفر کرتا ہے اور .....خدا سے اس کے فضل کی اس رنگ میں امید رکھنا کہ اپنی غلطیوں اور گناہوں کے متعلق اس کی گرفت اور سزا سے بے خوف ہو جانا اور یہ خیال کر لینا کہ خدا اس سے کوئی گرفت نہیں کرے گا اور اس کے عذاب سے نڈر ہو جانا یہ گو کفر نہیں لیکن کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ مومن ان دونوں حالتوں کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ وہ کبھی یہ وہم بھی نہیں کرتا کہ خدا کی رحمت اسے چھوڑ دے گی اور نہ وہ کبھی اس طرح بے خوف ہوتا ہے کہ میں خواہ کچھ بھی کرتا چلا جاؤں وہ مجھ کو معاف کر دے گا۔ پس ایمان اس وقت کامل ہوتا ہے جب کہ بندہ کے دل میں خدا کا خوف اور اس کی اُمیددونوں ہوتے ہیں۔ خدا نے ہر گز یہ تعلیم نہیں دی کہ تم ہر وقت مجھ سے خوف زدہ ہی رہو بلکہ یہ فرمایا ہے کہ خوف بھی رکھو اور خواہ کتنی ہی بڑی مصیبت ہو اس میں میری رحمت سے بھی مایوس نہ ہو کیونکہ جو خدا کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں وہ ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ وہ یہ کہ جس طرح ایک شخص پر اگر کوئی ادنیٰ سا احسان کرے اور وہ اس کی قدر نہ کرے تو پھر اس پر اس شخص کی طرف سے احسان نہیں کیا جاتا لیکن جب کوئی شخص خدا کے اتنے بڑے بڑے احسانات کے ہوتے ہوئے یہ کہے کہ اس نے مجھ پر کوئی احسان کیا ہی نہیں یا اب نہیں کرے گا تو خدا ایسے شخص سے اپنے انعامات کو روک لیتا ہے۔ ہاں عام احسان تو اس کے ہوتے ہی رہتے ہیں یہاں انعام روکے جانے سے وہ انعام مراد ہیں جو خاص ہوتے ہیں کیونکہ عام احسان اس کی رحمت عامہ کا نتیجہ ہوتے ہیں مگر جو خاص انعام ہوتے ہیں ان کو اﷲ تعالیٰ روک دیتا ہے۔
یہ آیت جو مَیں نے پڑھی ہے اس میں حضرت یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں کو کہا کہ اے میرے بیٹو! خدا کی رحمت سے نا اُمید اور مایوس نہ ہو کیونکہ خدا کی رحمت سے مایوس کافر ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہؤا کہ مایوس کافر ہؤا کرتا ہے اور مومن کا کسی حالت میں بھی مایوس ہونا ممکن نہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص مومن ہو اور خدا کی رحمت سے مایوس ہوجائے۔
درحقیقت مایوسی ایسی خطرناک مرض ہے کہ مایوس ہونے والے دین و دُنیا دونوں میں ناکام رہتے ہیں لیکن جو مایوس نہ ہوں ضرور کامیاب ہو جاتے ہیں۔
جس سال مَیں نے امتحان (انٹرنس) دیاتھا اُسی سال ایک ہندو نے بی۔اے کا امتحان دیا تھا اور اس کا بیٹا بھی اسی سال بی۔اے کے امتحان میں شامل ہؤا اور اس شخص نے متواتر چھ سال تک امتحان دیا مگر ناکام ہؤا آخر ساتویں سال کامیاب ہو گیا۔ ان سات سالوں میں ایک دفعہ بھی وہ مایوس نہیں ہؤا۔ یہ تو دُنیاوی طور پر مایوس نہ ہونے کی ایک مثال ہے۔
اسی طرح ایک بزرگ کا قصّہ لکھا ہے کہ اُنہوں نے بیس برس تک دُعا کی اور نتیجہ کچھ نہ ہؤا ان کا ایک مُرید آیا اور ان کے پاس ٹھہرا۔ رات کو جب حسبِ معمول انہوں نے دعا کی تو جواب مِلا کہ تیری دُعا منظور نہیں ہو سکتی۔ مُرید نے بھی اس آواز کو سُن لیا اور بہت حیران ہؤا لیکن ادب سے خاموش رہا۔ دوسرے دن پھر اُنہوں نے دُعا کی اور جواب مِلا کہ تو خواہ کچھ کرے تیری دُعا منظور نہیں ہو سکتی۔ مُرید دوسرے دن سُن کر اور بھی حیران ہؤا لیکن پھر بھی ادب کے باعث خاموش رہا۔ تیسرے دن پھر اُن بزرگ نے دعا کی اور وہی جواب مِلا۔ اب تو وہ مُرید خاموش نہ رہ سکا۔ جی میں تو کہا ہم تو ان کو بزرگ مانتے تھے لیکن اب معلوم ہؤا کہ خدا کی درگاہ میں ان کی کچھ قدر نہیں ہے اور اُس نے ان سے کہا کہ مَیں تین دن سے سُن رہا ہوں آپ کو یہی جواب ملتا ہے کہ تمہاری دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ پھر آپ کیوں دعا مانگتے ہیں۔ پہلے دن آپ کو یہی الہام ہؤا، دوسرے دن بھی ہؤا اور پھر تیسرے دن بھی ہؤا۔ آپ دُعا کرنے سے باز کیوں نہیں آتے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ اے بیوقوف! تو تین دن میں ہی گھبرا گیا مَیں تو بیس سال سے متواتر یہی جواب سُن رہا ہوں مَیں نہیں گھبرایاکیونکہ مانگنامیرا کام ہے اور دینا خدا کا۔ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے اور مَیں اپنے کام کا ذمہ دار۔ مَیں محتاج ہوں کہ اس سے مانگوں اور وہ مختار ہے کہ قبول کرے یا نہ کرے۔ پس وہ اپنا کام کرتا ہے مَیں اپنا۔ تُو اس میں دخل دینے والا کون ہے ؟ لکھا ہے کہ اس کے بعد جب اس بزرگ نے دُعا کی تو الہام ہؤا کہ چونکہ تُو میری رحمت سے مایوس نہیں ہؤا اس لئے تُو نے بیس برس میں جتنی دعائیں کی ہیں وہ سب کی سب قبول کر لی گئی ہیں۔
یہ تو مثال ہے زید و بکر کی لیکن ہر شخص کے لئے اس کی اپنی ذات میں ہزاروں اور لاکھوں مثالیں ہیں مگر افسوس کہ لوگوں کو یاد نہیں رہتیں۔ اگر وہ غور کر یں گے تو دیکھیں گے کہ خدا نے کئی بار عین نا امیدی کی حالت میں انہیں اُمید کی جھلک دکھائی ۔ ناکامیوں میں کامیابی کی راہ بتائی جب تمام دنیاوی سامان منقطع ہو گئے تھے اس وقت اپنی تجلی دکھائی اور یہ مثالیں کافی سے زیادہ ہر شخص کو ملیں گی مگر باوجود اس قدر مثالوں کے لوگ خدا کی رحمت سے مایوس ہی ہو جاتے ہیں۔ کوئی بلا آتی تو خیال کر لیتے ہیں کہ یہ تو ان کا کام ہی تمام کر دے گی اور وہ خدا کی رحمت سے غافل ہو جاتے اور باوجود خدا کے بے شمار احسانات کو اپنے وجود پر مشاہدہ کرنے کے خدا کی رحمت کو بھُول جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر اگر خدا کی قہری تجلی ان کی آزمائش کے لئے آتی ہے تو بھی وہ اپنی رستگاری سے مایوس ہو جاتے ہیں اور جب صرف اُمید ہی اُمید کرتے ہیں تو بھی خدا کے احسانات کو بھُلا دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انعامات سے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔ پس یاد رکھو کہ کامیاب وہی ہوتا ہے جو دونوں حدوں کے درمیان درمیان رہتا ہے۔
مجھے اس وقت خوف کے متعلق کچھ بیان نہیں کرنا بلکہ مَیں مایوسی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں سو یاد رکھو کہ مایوس نہ ہونے کا گُر اﷲ تعالیٰ نے ایسا تعلیم کیا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان ہر میدان میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ہماری جماعت کے ایک مخلص آدمی ہیں جو ایم۔اے ہیں اور عربی میں بھی بہت قابل ہیں۔ وہ کئی سال سے ایک بیماری میں مُبتلا تھے اور کسی کام کے کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ آخر وہ گھبرا گئے اور انہوں نے مجھے لکھا کہ اب میں اس حالت تک پہنچ گیا ہوں کہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ مَیں اپنی ملازمت کو چھوڑ کر اپنے گھر بیٹھ جاؤں گا۔ مَیں نے ان کو اُس وقت خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ مَیں آپ کو ایک نسخہ لکھتا ہوں اگر آپ اس پر عمل کریں گے تو انشاء اﷲ ضرور فائدہ اُٹھائیں گے اور وہ یہ کہ سوتے وقت کثرت سے اس آیت کو پڑھیں اور دل میں جگہ دیں کہ لَا تَايْـَٔسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ لَايَايْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ ۔ پھر دیکھیں کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس پر جب انہوں نے عمل کیا تو آرام ہو گیا اور اب عمدگی سے اپنا کام کرتے ہیں اور اگر بالکل نہیں تو بہت حد تک ان کی تکلیف رفع ہو گئی۔ تو یہ آیت ان کے لئے شفاء کا موجب ہو گئی۔ اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کی آیتیں ٹونے کی طرح ہیں بلکہ یہ اس لئے ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے اور ان کے مضامین کو اپنے دل میں جگہ دی جائے۔ بات یہ ہے کہ قدرت نے اُمید میں اس قسم کے سامان رکھے ہیں کہ اگر انسان مایوس نہ ہو تو کامیابی کے ذرائع پیدا ہو جاتے ہیں اور قدرت نے انسان کے وجود میں ایسی طاقتیں رکھی ہیں کہ جو تمام روکوں کو دُور کر دیتی ہیں۔ اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا ہیں۔
دیکھو ! مایوس نہ ہونے سے دو نتیجے حاصل ہوتے ہیں۔ ایک دینی اور دوسرا دنیاوی۔ دُنیا میں قاعدہ ہے کہ انسان جس پر سہارا لگاتا ہے وہ اس کی مدد کرتا ہے۔ پس اگر خدا جو سب سے بڑھ کر محسن ہے اگر اس پر انسان کو بھروسہ ہو تو پھر کیسے ضائع ہو سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دو قسم کے گدا گر ہوتے ہیں ایک نر گدا اور دوسرا خر گدا۔ نر گدا تو وہ ہوتے ہیں جو کسی دروازے پر جاتے ہیں اور صدا دیتے ہیں۔ اگر کسی نے کچھ دے دیا تو لے لیا ورنہ اگلے دروازے پر چلے گئے لیکن خرگدا وہ ہوتے ہیں کہ جب تک ان کو کچھ دیا نہ جائے وہ ٹلتے ہی نہیں۔ گھر والے گالیاں دیتے ہیں اور بُرا بھلا کہتے ہیں مگر وہ اس کی کچھ پرواہ نہیں کرتے اور اس وقت تک دروازہ سے ہٹتے نہیں جب تک کہ کچھ لے نہ لیں خواہ راکھ کی چٹکی ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ بندہ سے اس طریق سے مانگنا شرک ہے لیکن خدا کے آگے بندے کو اسی قسم کا فقیر بننا چاہئے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ ضرور میری دستگیری کرےگا اور مجھے خالی نہیں رہنے دے گا اور حق یہی ہے کہ اتنی بڑی درگاہ سے کوئی انسان خالی رہ ہی نہیں سکتا۔ پس اگر ایک اس قسم کی بھی مصیبت ہو کہ جو اس شخص کی ذات میں کچھ نقائص کی وجہ سے ہو تو اﷲ تعالیٰ ان نقائص کو بھی دُور کر سکتا ہے۔ پس جب انسان کو یہ یقین ہو جائے تو وہ ناکام نہیں ہوتا۔ ہاں اس کو اس بات پر پورا پورا ایمان ہونا چاہئے کہ جس خدا نے مجھے دینا ہے اور جس سے مَیں مانگتا ہوں وہ دے سکتا ہے اور میری کمزوریوں کو دُور فرما سکتا ہے، وہ گرتے کو سنبھال سکتا ہے اور بے سامان کے لئے سامان مہیا کر سکتا ہے۔ جب ایسا ایمان حاصل ہو تو خداتعالیٰ ضرور کامیاب کر دیتا ہے۔
روس کا ایک قصّہ ہے کونٹ ٹالسٹائے ایک بہت بڑا امیر تھا۔ اور آجکل روس میں بغاوتوں کا جو سلسلہ چلا ہؤا ہے اُس کا بانی مبانی اسی کو سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہمارے سلسلہ سے بھی واقف تھا۔ مفتی صاحب نے اس کو کتابیں بھیجیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مختصر حالات لکھے تو اُس نے جواب میں لکھا کہ آپ کی تعلیم مجھے پسند ہے لیکن مسیح کے بے باپ پیدا ہونے پر آپ کو زور دینے کی ضرورت نہیں۔ اگر خدا وند کی ماں نے گناہ کیا تو اس سے خداوند یسوع مسیح پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔ پس اس کا باپ تھا۔ اس کے اجداد کا ایک واقعہ لکھا ہے جس سے ان کو کونٹ کا خطاب مِلا۔ اس کے مورث اعلیٰ کا نام ٹالسٹائے تھا اور وہ روس کے شہنشاہ کے ہاں دربان تھا۔ ایک دفعہ شہنشاہ نے اسے کہا کہ مَیں تمہیں حکم دیتا ہوں۔ میرے کمرے میں کسی کو نہ آنے دو اور نہ کسی کے اندر آنے کی اجازت مانگو۔ وہ پہرہ دے رہا تھا کہ شاہی خاندان کا ایک شہزادہ آیا اور اُس نے اندر جانا چاہا۔ ٹالسٹائے نے اُس کو روک دیا۔ شہزادے نے کہا کہ تم جانتے ہو مَیں کون ہوں؟ اُس نے کہا ہاں مَیں جانتا ہوں۔ آپ شاہی خاندان میں سے ہیں۔ اس نے کہا پھر مجھے کیوں روکتے ہو؟ اس زمانہ میں روس کے قواعد کے ماتحت شہزادوں کے لئے اجازت کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ جب چاہیں شہنشاہ کے ہاں آجاسکتے تھے۔ ٹالسٹائے نے کہا کہ مَیں آپ کو شہنشاہ کے حُکم کے ماتحت روکتاہوں۔ اُس نے سُن کر بُرا منایا کہ یہ عام آدمیوں میں سے ہو کر مجھے جو شاہی خاندان سے ہوں کیوں روکتا ہے؟ روس میں شہزادے عوام سے بہت امتیاز رکھتے تھے۔ جب ٹالسٹائے نے اس کو روکا تو اُس نے کوڑا مار کر کہا کہ ہٹ جاؤ، وہ ہٹ گیالیکن جب شہزادہ اندرجانے لگا تو اُس نے آگے بڑھ کر کہا کہ مَیں آپ کو اندر نہیں جانے دوں گا۔ شہزادے نے کہا کہ مَیں نے تمہیں کہا تھا کہ ہٹ جاؤ۔ اُس نے کہا کہ مَیں ہٹ گیا تھا لیکن چونکہ آپ اندر جانے لگے ہیں اور اندر جانے سے بادشاہ نے روکا ہؤا ہے اس لئے مَیں آپ کو اندر نہیں جانے دیتا۔ شہزادے کو اس پر اَور زیادہ طیش آیا اور اُس نے ٹالسٹائے کو خوب مارا ۔ وہ سر جھکائے کھڑا مار کھاتا رہا جس پر شہزادے نے خیال کیا کہ اب یہ درست ہو گیا ہو گا لیکن جب اُس نے پھر اندر جانا چاہا تو ٹالسٹائے نے پھر روک دیا اس پر شہزادے کو بہت ہی غُصّہ آیا۔ پھر وہ مارنے لگا۔ بادشاہ نے ابتدا میں ہی شور سُن لیا تھا اور جو کچھ ہو رہا تھا اُسے کسی پوشیدہ مقام سے دیکھتا رہا تھا۔ اس موقع پر اُس نے آواز دی۔ کون ہے اور یہ کیا ہو رہا ہے؟ شہزادے نے غصّہ سے کہا کہ مَیں اندر آنا چاہتا ہوں لیکن یہ غلام مجھے روکتا ہے اور اندر نہیں آنے دیتا اِس لئے مَیں اِسے مارتا ہوں۔ بادشاہ نے کہا ٹالسٹائے! اِدھر آؤ۔ جب وہ گیا تو کہا تم جانتے ہو یہ کون ہے؟ اُس نے کہا حضور مَیں جانتا ہوں یہ شاہی خاندان کا ممبر ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ شاہی خاندان کے ممبروں کو اندر آنے کی اجازت ہے۔ جواب دیا کہ ہاں۔ پوچھا پھر کیوں تم نے اُسے اندر آنے سے روکا؟ اُس نے کہا اِس لئے کہ وہ بادشاہ جس نے ان کو اندر آنے کی اجازت دی ہوئی ہے اُسی نے مجھے اب حکم دیا تھا کہ کسی کو اندر نہ آنے دوں۔ بادشاہ نے شہزادے کو کہا کہ تمہیں اس نے کہا تھا کہ مَیں بادشاہ کے حکم سے روکتا ہوں۔ اُس نے کہا ہاں! بادشاہ نے کہا پھر تم کیوں نہ رُکے؟ اُس نے کہا مجھے ہر وقت اندر آنے کی اجازت ہے۔ بادشاہ نے کہا بیشک تمہیں عام حالتوں میں اندر آنے کی اجازت ہے لیکن اب جب مَیں نے خاص طور پر روکا تھا تو پھر تم کیوں نہ رُکے۔ اس کے بعد بادشاہ نے ٹالسٹائے کو کہا۔ ٹالسٹائے! اس نے تمہیں اس لئے مارا ہے کہ تم نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی۔ اچھا اب تم اسی کوڑے سے اسے مارو۔ شہزادے نے کہا مَیں فوج میں فلاں عُہدہ رکھتا ہوں۔ قاعدہ کے مطابق اس عُہدے والے کو ایک سپاہی نہیں مار سکتا۔ ہم مرتبہ ہی سزا دے سکتا ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ ٹالسٹائے مَیں تمہیں وہی عُہدہ دیتا ہوں جو اس کو حاصل ہے۔ پھرشہزادے نے کہا کہ یہاں کے شہزادوں کو کوئی اس وقت تک سزا نہیں دے سکتا جب تک کہ خود نواب نہ ہو۔ زار نے کہا مَیں زار روس ٹالسٹائے دربان کو آج کونٹ بناتا ہوں۔ سوٹالسٹائے اب مارو۔ پھر اُس نے اُسے اُسی کوڑے سے مارا۔
اِس طرح وہ دربان سے نواب بن گیا اور اس کے رستہ میں شہزادہ کو سزا دینے کے لئے جو روکیں حائل تھیں وہ ہٹا دی گئیں۔ کیونکہ اس نے اپنے بادشاہ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کی۔ اسی طرح خدا کے لئے جو فرمانبرداری اختیار کرتا ہے اس کے رستہ میں اگر روکیں بھی ہوں تو خدا وہ تمام روکیں دُور کر دیتا ہے اور اگر کسی مُدعا کے حصول کے لئے دولت کی ضرورت ہو تو وہ دولت دے دیتا ہے، اگر زمین کی ضرورت ہو تو زمین دے دیتا ہے، اگر مال عزت اور رُتبہ کی ضرورت ہو تو یہ عطا کر دیتا ہے اور اگر دینی ضروریات میں ولی بنانے کی ضرورت ہو تو ولی بنا دیتا ہے، اگر صدیق بنانے کی ضرورت ہو تو صدیق بنا دیتا ہے، اگر شہیدوں میں سے بنانے کی ضرورت ہو تو شہید بنا دیتا ہے اور سب سے آخر اگر نبی بنانے کی ضرورت ہو تو نبی بھی بنا دیتا ہے کیونکہ نبی خدا ہی بنایا کرتا ہے۔ تو جس قدر بھی نقائص انسان میں ہوں خدا اپنے فضل اور رحمت سے ان سب کو دُور کر دیتا ہے۔ پس ہر وقت اور ہر گھڑی خدا پر بھروسہ ہونا چاہئے اور اس کی رحمت سے کبھی مایوس اور بد ظن نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خدا وہ تمام سامان پیدا کر دیتا ہے جو انسان کی ترقی اور کامیابی کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور وہ خدا جو انعام دیتا ہے وہی ان کے حصول کے سامان بھی عنایت کرتا ہے۔
یہ تو روحانی طور پر تھا، جسمانی طور پر بھی یہی بات ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس قسم کے سامان رکھے ہیں جن کو ہم نہیں جانتے لیکن یہ جانتے ہیں کہ اگر مایوسی ہو تو انسان کامیاب نہیں ہوتا اور اگر مایوس نہ ہو تو ایسے سامان پیدا ہو جاتے ہیں یا انسان کے جسم میں ہی اس قسم کے تغیرات رونما ہو جاتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ اُس وقت اگر اسے جسمانی طاقت کی ضرورت ہو تو وہ دے دیتا ہے ، اگر حافظہ کمزور ہو تو اسے قوی کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اور جس بات میں کمی یا نقص ہو اس کو پوری طاقت اور قوت دے دیتا ہے لیکن یہ سب کچھ خداتعالیٰ کی رحمت پر اُمید رکھنے سے ہوتا ہے۔ کیونکہ اسی کے نتیجہ میں اس قسم کے سامان پیداہوتے ہیں اور اسی کا دوسرا نام مسمریزم اور توجہ رکھا گیا ہے۔ جن مریضوں کا یہ خیال ہو کہ ہم تندرست نہیں ہو سکتے اور وہ اپنی صحت سے مایوس ہو جاتے ہیں اُن کو صحت نصیب نہیں ہوتی۔ اسی طرح جو خداتعالیٰ سے نا اُمید ہو جاتے ہیں وہ اپنے کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہاں جب انسان خدا پر بھروسہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ زمین و آسمان کو اس کی تائید کے لئے کھڑا کر دیتا ہے۔ دُنیا میں جتنی وبائیں پڑتی ہیں ان کی ایک وجہ مایوسی ہوتی ہے۔ چنانچہ انہی دنوں ایک عام بخار تھا جس کو قحط کا بخار کہا جاتا ہے۔ اس میں جو لوگ زیادہ مرے ہیں یہ نہیں کہ ان کو روٹی نہیں ملتی تھی بلکہ بناء یہ تھی کہ آئندہ کے متعلق ان کو قحط کو دیکھ کر جو مایوسی اور نااُمیدی ہو گئی تھی اس نے ان کے جسم کو مرض کے قبول کرنے کے قابل بنا دیا تھا ورنہ ان میں سے اکثر ایسے لوگ بھی تھے جو آسودہ حال یا کم از کم دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھانے کی مقدرت رکھتے تھے۔ اسی طرح اور سینکڑوں بیماریاں ہیں جن کا باعث مایوسی ہوتی ہے۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اب ہم کیا کریں گے؟ اب کیا ہو گا؟ بھُوک سے مَر جائیں گے۔ حالانکہ جس وقت وہ یہ خیال کر رہے ہوتے ہیں اُس وقت ان کے پاس کھانے کو موجود ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں جب انفلوئنزا پھیلا تو اس میں زیادہ مسلمان مرے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمان چونکہ زیادہ غریب ہیں اس واسطے انہیں اپنی آئندہ حالت کے متعلق زیادہ مایوسی لا حق ہوئی اور ان کے جسموں نے اس مرض کو زیادہ قبول کیا اور وہ ہندوؤں کے مقابلہ میں زیادہ مَرے۔ پھر اس سے یورپین لوگ زیادہ مَرے جس کی وجہ یہ تھی کہ یورپ میں چار سال جنگ رہی۔ اس سے ہر ایک سلطنت کو یہی خیال تھا کہ ہماری حکومت گئی۔ اس لئے وہاں کے لوگوں کو جنگ کے صدمات نے بیماری قبول کرنے کے لئے تیار کر دیا تھا۔ پس قحط اس کا باعث نہیں ہوا بلکہ وہ مایوسی اس کا باعث ہوئی جو قحط کے خیال سے پیدا ہو گئی۔ کیونکہ قحط نے ان سب لوگوں کی جو اس سے مَرے یہاں تک حالت نازک نہیں کر دی تھی کہ وہ بھُوکوں مَر گئے ہوں۔ اگر اس طرح مَرے ہیں تو بہت تھوڑے مگر ایک مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس قسم کی مایوسیوں کا شکار ہو۔ وہ ہر وقت اور ہر حالت میں خدا سے اُمید رکھتا ہے۔ پس مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا کیونکہ مایوس کافر ہوتا ہے اور نہ مومن کو محض اُمید ہی اُمید ہوتی ہے بلکہ مومن میں یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے تھے بلکہ سب کے سردار محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ خدا کے غضب سے ڈرو مگر اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو کیونکہ محض خوف کُفر ہے۔ ایک ایسا شخص جسے ہر وقت یہی خیال ہو کہ خدا مجھے ہر گز نہیں چھوڑے گا، ضرور سزا دے گا اور کسی امر کے متعلق مایوسی کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے وہ اس کی رحمت کو بھُول جاتا ہے مگر تم یاد رکھو کہ کوئی بڑے سے بڑا سانحہ تمہیں مایوس نہ کرنے پائے۔ تم ہمیشہ یہ یقین رکھو کہ خدا ہے اور اس کی رحمت ہر مصیبت سے تمہیں نجات دے سکتی ہے۔ پس کوئی آفت نہ ہو جو تمہیں مایوس کر سکے، کوئی تکلیف نہ ہو جو تمہیں نااُمید کر سکے، کوئی دُکھ نہ ہو جو تمہیں نا اُمید کر سکے۔ تمہارا اُس خدا کے ساتھ تعلق ہے جو ہر ایک بڑی سے بڑی مصیبت اور روک کو دُور کرسکتا ہے۔ اگر تم یہ بات یاد رکھو تو تمہارے راستہ میں اگر مصائب کے پہاڑ بھی آجائیں تو وہ دُور کر دیئے جائیں گے۔ تمہیں ہر مقصد اور مُدعا میں کامیابی نصیب ہو گی۔
اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت پر رحم کرے اور اسی نقطہ ایمان پرکھڑا کرے۔ جب ایسا ایمان حاصل ہو جائے گا تو خدا اپنی اصلی معرفت اور اپنی اصلی شان کے ساتھ تمہیں نظر آجائے گا۔’’
اتنا فرما کر حضور بیٹھ گئے۔ جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا:-
‘‘مَیں نے مایوسی کے متعلق بتایا ہے کہ یہ ہلاکت کا باعث ہوتی ہے اور یہ ثابت شُدہ بات ہے کہ جس مریض کو یہ یقین ہو جائے کہ مَیں نہیں بچوں گا وہ نہیں بچ سکتا۔ ڈاکٹر اپنی کتابوں میں اس کو موت کی علامتوں میں سے ایک علامت بتاتے ہیں چونکہ انہوں نے علم النفس یعنی وہ علم جس سے قلبی کیفیات معلوم ہوتی ہیں نہیں پڑھا ہوتا کہ جذبات کا کیا اثر ہوتا ہے اس لئے انہوں نے اس کو علامت قرار دے دیا۔ ورنہ یہ علامت نہیں۔ یہ خیال ہی جو کہ مایوسی ہے ان کی موت کا باعث ہوتا ہے۔’’ (الفضل 8جولائی 1919ء)
1: یوسف: 88 2: النحل :19 ، ابراھیم:35

48
خدا کے نبی کی مخالفت موجبِ ہلاکت ہے
(فرمودہ 4جولائی 1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''اﷲ تعالیٰ کی یہ سُنت قدیم سے چلی آتی ہے کہ وہ زمانہ کی ضرورت کے مطابق اپنے مامور دُنیا میں بھیجتا رہتا ہے۔ جب بھی زمانہ اس بات کا محتاج ہوتا ہے (زمانہ سے میری مراد اُس زمانہ کے لوگ ہیں) تو وہ اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو اس زمانہ کے لئے چنتا اور حکم دیتا ہے کہ دُنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا ہو جا۔ چونکہ وہ خدا کے حکم سے کھڑا ہوتا ہے، اس کے دیئے ہوئے نام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے مقام پر کھڑا ہوتا ہے اس لئے اس کی بات کو خدا اپنی بات اور اس کے کام کو خدااپنا کام قرار دیتا ہے اور جو اس کے مقابلہ میں آتے ہیں وہ تباہ و برباد و رُسوا اور ذلیل ہوتے ہیں۔ کبھی نہیں ہؤا کہ خدا کا نام لے کر ایک راستباز کھڑا ہؤا ہو اور پھر دُنیا نے اس کو ناکام دیکھا ہو۔ وہ ہمیشہ کامیاب ہی ہوتے ہیں اور ان کے دشمن ہمیشہ ہی ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھتے ہیں۔
نادان ان کی ظاہری غربت کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کیا کر سکتے ہیں؟ ان کی نظران کے چہرہ پر ہوتی ہے مگر اس کے چہرہ کو نہیں دیکھتے جو ان میں مخفی ہوتا ہے۔ لوگ ان کے ہاتھ کو دیکھتے ہیں مگر اُس کے ہاتھ کو نہیں دیکھتے جس کی مار کی برداشت دُنیا میں کوئی نہیں کرسکتا۔ وجہ یہ کہ چونکہ نبیوں کے مخالف ظاہر پرست ہوتے ہیں اس لئے ان کی نظرظاہرپر ہی پڑتی ہے حالانکہ ان کی ہلاکت و بربادی کے سامان باطن میں کئے گئے ہیں۔
ان کی مثال اس شہر کے باشندوں کی طرح ہوتی ہے جو ایک ایسے آتش فشاں پہاڑ پر رہتے ہوں جس کے اردگرد سبزہ زار ہو، زمین ہری بھری ہو، گلیاں اور ان کی گزر گاہیں شاداب ہوں،جنگلوں میں شادابی نظر آتی ہو، پانی کے چشمے بہہ رہے ہوں حالانکہ ان کی گلیوں، ان کے مکانوں اور ان کے جنگلوں اور چشموں کے نیچے ان کی تباہیوں کے سامان ہو رہے ہوتے ہیں اور جب وہ سامان ظاہر ہوتے ہیں تب ان کو پتہ لگتا ہے کہ ہم کس حالت میں تھے اور اب ہم کس حال میں ہیں۔
بہت جگہوں پر اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں کہ آتش فشاں پہاڑوں پر اس لئے لوگ آباد ہوگئے کہ یا تو انہیں ان کی آتش فشانی کا پتہ نہ تھا یا یہ کہ ان سے اس قدر کم مادہ نکلتاتھا کہ لوگوں نے خیال کر لیا کہ اب ہم امن میں ہیں لیکن جب مادہ میں جوش آیا تو یکلخت تباہ و برباد ہو گئے اور خوبصورت شہر کی بجائے ویران کھنڈرات بن گئے۔ یہی حال نبیوں کے مخالفوں کا ہوتاہے۔ ان کے متعلق بھی ایک ظاہربین نہیں کہہ سکتا کہ وہ کبھی ہلاک ہوں گے اور اگر ہوں گے تو کیسے؟ مگر ان کے گھروں کی بنیادوں اور چھتوں کے نیچے ایسے سامانِ ہلاکت جمع ہو رہے ہوتے ہیں کہ جب وقت آتا ہے تو ایک منٹ کی دیر نہیں لگتی کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں اور کوئی نہیں بتا سکتا کہ وہ کیاہوئے؟
جاواؔ میں ابھی ایک آتش فشانی کا واقعہ ہؤا ہے کہ وہاں ایک بہت بڑا شہر تھا جس کی آبادی ہزاروں کی تھی اور ایساشاداب تھا کہ اس کی شادابی اور سرسبزی سے فائدہ اُٹھانے کے لئے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر وہاں آکر رہتے اور اپنے گھر بناتے اور موسم گزارتے تھے مگر چند ہی دن ہوئے وہاں ایک ایسا خطرناک زلزلہ آیا کہ تمام کا تمام شہر تباہ ہو گیا۔ ساٹھ ہزار کے قریب لوگ مَر گئے۔ کیا اس کی شادابی اور سرسبزی کو دیکھ کر کوئی خیال کر سکتا تھا کہ اس کے نیچے آگ جمع ہے؟ لیکن اس کے نیچے آگ تھی جو نظر نہیں آتی تھی۔ اس کے رُخ بدل لینے سے لوگوں نے خیال کر لیا تھا کہ اب کوئی خطرہ نہیں مگر ان کا یہ خیال ان کو ہلاکت سے نہ بچا سکا۔
یہی حال نبیوں کے دُشمنوں کا ہوتاہے۔ وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں مگر ان کی بربادی کے سامان ان کے گھروں کے نیچے موجود ہوتے ہیں۔
اس زمانہ میں جب اﷲ تعالیٰ نے اپنا ایک نبی بھیجا تو بیوقوفوں نے اپنی بیوقوفی سے خیال کیا کہ اس کے پاس نہ فوج ہے نہ اس کے پاس مال ہے، نہ طاقت ہے ، نہ جتھا ہے۔ یہ ہمارا کیابگاڑ سکتا ہے؟ اُنہوں نے اس کے ہاتھ کو دیکھا، اُس پر جھوٹے مقدمے کھڑے کئے کہ اس کو قید کرا دیں۔ اُنہوں نے اس پر پتھر پھینکے اور خیال کیا کہ اس طرح ہم اسے مار دیں گے۔ اُنہوں نے زہر دینی چاہی کہ اس طرح ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گا، اُنہوں نے قتل کرنے کی کوششیں کیں کہ اس طرح یہ سکوت اختیار کر لے گا مگر ان نادانوں نے یہ نہ جانا کہ یہ شخص جس کو ہم مارنا چاہتے ہیں یہ تو بول ہی نہیں رہا۔ بولتا وہ ہے جس کو کسی زہر سے مارا نہیں جاسکتا، جس کو کسی اور طریق سے مٹایا نہیں جاسکتا، جس کو کوئی حکومت قید نہیں کر سکتی بلکہ وہ جس کو چاہتا ہے قید میں ڈالتا ہے ، جس کو چاہتا ہے مارتا ہے اور جس کو چاہتا ہے زندہ کرتا ہے۔ پس بولنے والا وہ نہیں جس کو ''مرزا'' کہتے ہیں بلکہ بولنے والا وہ ہے جس کو خدا کہتے ہیں۔ نادان انسان بڑے افسر کے چپڑاسی کو دیکھتے ہیں اور اسے حقیر سمجھ کر اس کے لائے ہوئے احکام کی پرواہ نہیں کرتے۔ درحقیقت وہ احکام معزز ہؤا کرتے ہیں جو وہ لے کر آتا ہے اِس لئے اس کو حقیر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بادشاہ کے احکام میں چھوٹے بڑے کا فرق نہیں ہوتا۔ اس لئے چپڑاسی کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس کی طرف دیکھنا چاہئے جس کے حکم سے وہ آتا ہے اور جس کا حکم لاتا ہے۔ تو خدا تعالیٰ کا برگزیدہ آیا اور خدا کے احکام لایا مگر دُنیا نے اس کی مخالفت کی اور ایسی مخالفت کی کہ اس کی جان تک لینے سے دریغ نہ کیا۔ اس کا نتیجہ کیا ہؤا؟ دُنیا دیکھ رہی ہے کہ اس کے انکار کے بعد وبائیں آئیں، ابتلاء آئے، لوگ دُکھوں میں گرفتار ہوئے، جنگوں میں ڈالے گئے، زلزلوں سے زیر و زبر کئے گئے، طوفانوں سے برباد کئے گئے، قحط سے ہلاکت میں ڈالے گئے، کہیں قحط بارش کی قلّت سے آئے تو کہیں کثرت بارش سے آئے اور اگر ایک جگہ کے لوگ ایک ایک قطرہ کو ترسنے لگے تو دوسری جگہ اس کثرت سے بارش ہوئی کہ لوگوں کے کھیت کھڑے کے کھڑے سڑ گئے۔ پہلے قحط کبھی بارش کے نہ ہونے سے پڑتا اور کبھی زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے فصلوں کے گل سڑ جانے سے پڑتا، لیکن اس زمانہ میں یہ دونوں باتیں ایک وقت میں جمع ہو گئی ہیں اور ان کے علاوہ ہر رنگ میں بلائیں آرہی ہیں اور اس کثرت سے آرہی ہیں کہ کوئی چین سے زندگی بسر نہیں کر رہا۔ لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی زندگی ان پر تلخ ہو رہی ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی زندگی موت سے بدتر ہے مگر تعجب ہے کہ باوجود ایسی حالت کے پھر بھی وہ اس کے اس علاج کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جو خدا نے ان ہلاکتوں سے بچانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ یہ مانتے ہیں کہ دُنیا میں خدا کا عذاب نازل ہے جس میں ہم گھِرے ہوئے ہیں مگر اس پر غور نہیں کرتے کہ یہ کیوں آیا ہے؟
پچھلے ہفتے سیلون سے جو خط آیا ہے اس میں وہاں کے قحط کے حالات لکھے ہیں جو نہایت ہی درناک طور پر نہایت تفصیل سے لکھے ہیں۔ مَیں نے جب اس کا ابتدائی حصّہ پڑھا تو خیال کیا کہ روپیہ کی مدد چاہتے ہوں گے لیکن جس وقت میں اخیر پر پہنچا تو ایک ایسا فقرہ پڑھا جس سے معلوم ہو گیا کہ وہاں کے لوگوں کی حالت بہت ہی دردناک ہو گئی ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے کہ ہماری حالت نہایت ہی دردناک ہے اور خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں چند بوریاں آٹے کی بھجوائی جائیں۔ ہم پر یوسف ؑ کے سے سال گزر رہے ہیں۔ ہم مدد چاہتے ہیں لیکن روپیہ کی صورت میں نہیں بلکہ غلہ کی صورت میں۔ کیونکہ یہاں روپیہ دے کر بھی غلہ نہیں ملتا۔ یہ فقرہ تھا کہ جس نے اس خطرناک حالت کو مجھ پر ظاہر کر دیا اور معلوم ہؤا کہ وہ کن حالات میں سے گزر رہے ہیں۔
ایسے وقت میں ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے کہ پہلے سے زیادہ انابت الی اﷲ اختیار کرے اپنی اور تمام جماعت کی حفاظت کے لئے خواہ کہیں ہو دُعائیں کی جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ عذاب اور بلائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کے باعث آرہی ہیں مگر اس کا ایک حصّہ ہم کو بھی پہنچتا ہے کیونکہ ہم بھی اسی ملک میں رہتے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود ؑ کا انکار کرنے والے رہتے ہیں۔ دیکھو کفارِ عرب پر قحط کا عذاب آیا مگرصحابہ نے بھی اس میں تکلیف اُٹھائی۔ پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ تاہم اَور جوش سے کلمۃ الحق کی تبلیغ کریں۔ کیونکہ اس میں پوری کوشش اور سعی سے کام نہ لینے کی وجہ سے خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کو ان تکالیف کا مزا چکھاتا ہے جو دُنیا پر آرہی ہیں تاکہ لوگوں کی قابلِ رحم حالت سے آگاہ ہو کر ہم جلد سے جلد اس نور اور خداکے اس کلام کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہؤا دُنیا میں پہنچائیں۔ چونکہ ان بلاؤں سے ہمیں بھی ایک حد تک حصّہ لینا پڑتا ہے اس لئے ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اپنے لئے اور اپنے دوسرے بھائیوں کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور نہایت تضرع سے دُعائیں کرے کہ خدا تعالیٰ سب کو اس قسم کی سختی اور تکلیف سے بچائے جو ایمان کو ضائع کرنے والی ہو۔ آمین’’
(الفضل 26جولائی 1919ء)

49
نماز باجماعت کی تاکید
(فرمودہ 11جولائی 1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ بقرہ کی ابتدائی درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں:
الٓمّٓۚ۔ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ۙ۔الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَۙ۔ 1
اور فرمایا:-
‘‘ایک زمانہ دُنیا کے اُوپر ایسا تاریکی اور ظُلمت کا آیا کہ اس کی نسبت اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ 2 کہ خشکی اور سمندر میں فساد پھیل گیا تھا۔ ایک خدا کی پرستش کرنے والا کوئی انسان نہیں مل سکتا تھا۔ شرک، بُت پرستی اور قسم قسم کے توہمات پھیلے ہوئے تھے۔ جب تاریکی اس قدر حد سے بڑھ گئی اور جب دین بالکل ذلیل اور بے قدر ہو گیا، اور خدا کی کوئی عظمت لوگوں کے دلوں میں باقی نہ رہی تو اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل اور کرم سے مکّہ میں ایک دیا روشن کیا جس کی شعاعیں بڑھتے بڑھتے اتنی بلند اور بالا ہو گئیں کہ آخر ان کے ذریعہ تمام دُنیا روشن ہو گئی۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا ایسا فضل اور ایسا احسان تھا کہ اگر دُنیا اس کی قدر کرتی تو محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعث کے بعد شاید کُفر کا نشان تک باقی نہ رہ جاتا اور اگر اس سے فائدہ اُٹھاتی تو پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کسی اَور مامور اور نبی کی ضرورت نہ رہتی۔ کیونکہ نبی اور مامور کے آنے کی دو ہی وجہیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اہلِ دُنیا کو شریعت پہنچانا اور دوسری یہ کہ شریعت پر عمل کرانا۔ اب جبکہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ کامل شریعت مل چکی تھی اگر دُنیا اس کی قدر کرتی تو قیامت تک کوئی تفرقہ نہ ہوتا لیکن افسوس لوگوں نے خدا تعالیٰ کی اس رحمت اور فضل کی قدر نہ کی اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور وہ اسلام جو رحمت کے طور پر آیا تھا اُس کو انہوں نے بھُلا دیا اور نہ صرف بھُلا ہی دیا بلکہ اس سے نفرت کرنے لگ گئے۔ ایسے وقت میں جبکہ دُنیا پر وہی تاریکی کا زمانہ آگیا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت تھا اور جس کے متعلق پہلے انبیاء خاص طور پر خبر دیتے رہے تھے تو خدا تعالیٰ نے حقیقی اسلام کو قائم کرنے کے لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک بروز بھیجا۔ دُنیا نے اس کی قدر کی یا نہ کی اس کا حال اسی پر اﷲ تعالیٰ نے بذریعہ الہام اس طرح کھولا کہ:
‘‘دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدااسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا’’۔3
اس الہام کے ماتحت کس کس طرح دُنیا نے اس فرستادۂ خدا کو ردّ کیا۔ اس کی تفصیل کی اس وقت ضرورت نہیں کیونکہ میں اس مضمون کو بیان کرنے کے لئے کھڑا نہیں ہؤا۔ پھراس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے کیسے کیسے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ثابت کیا اور کس کس طرح اس کے دشمنوں کو ہلاک اور تباہ کیا۔ اس کے بیان کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس کے لئے بھی میں کھڑا نہیں ہؤا لیکن شاید ہی کوئی ناواقف سے ناواقف اور مرکزِ سلسلہ سے تعلق نہ رکھنے والا احمدی ایسا ہو گا جسے اس انکار اور مقابلہ کی خبر نہ ہو جو دُنیا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا اور پھر کوئی ناواقف سے ناواقف ہی ہو گا جس کو ان حملوں کی خبر نہ ہو جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہے مگر سب سے پہلا سوال جو ان حالات اور واقعات کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جنہوں نے حضرت مرزا صاحب کو قبول نہیں کیا اور مُنہ سے ردّ کر دیا اُنہوں نے تو جو کیا ،کیا مگر ان کا کیا حال ہے جنہوں نے مُنہ سے قبول کیا مگر عملی طور پر ردّ کر دیا۔ دیکھو ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ ہم مرزا صاحب کو اس لئے قبول نہیں کرتے کہ ہم سیدھے راستہ پر ہیں اور وہ گمراہ ہیں۔ یہ لوگ زیرِمواخذہ ہیں کیونکہ انہوں نے خدا کے فرستادہ کو ردّ کیا مگر ان کے ردّ کرنے میں خدا تعالیٰ کی کچھ نہ کچھ عظمت پائی جاتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس لئے ردّ کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں لیکن وہ شخص جو حضرت مرزا صاحب کو قبول کر لیتا ہے وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ پہلے سب ادیان باطل ہیں یا جو ان کے معنے کئے جاتے اور جس رنگ میں ان کو پیش کیا جاتا ہے وہ خدا کی منشاء کے مطابق نہیں ہے جیسا کہ اسلام ہے۔ ایک احمدی اسلام کو ردّ نہیں کرتا لیکن اس کے جو معنے مسلمان کرتے ہیں اور جس رنگ میں اُسے پیش کرتے ہیں اس کو قابلِ قبول نہیں سمجھتا کیونکہ وہ ایسا اسلام نہیں جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم لائے۔ تو وہ لوگ جو اس بات کو سمجھ لیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں وہ گویا اقرار کرتے ہیں کہ جو پہلے مذاہب تھے وہ بگڑ چکے ہیںیا ان کا مطلب اور مفہوم بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور اب ضرورت تھی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی انسان کھڑاہوتا کہ حقیقی دین پر لوگوں کو چلائے۔ یہ اقرار کر کے اگر کوئی شخص عملی طور پر حضرت مسیح موعود کو ردّ کرتا ہے تو سوچ لو کہ خدا کے حضور اس کا کیا حال ہو گا۔ پہلا شخص اگر ردّ کرتا ہے تو وہ خدا کا بہانہ اور آڑلے کر ردّ کرتا ہے۔ کیونکہ وہ کہتا ہے کہ مَیں مرزا صاحب کو اس لئے نہیں مانتا کہ قرآن ان کی تردید کرتا ہے۔ اس لئے نہیں قبول کرتا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ردّ فرماتے ہیں۔ ایسا شخص خطا وار ہے کیونکہ وہ دراصل خدا اور رسول کی بات کو ردّ کرتا ہے مگر بظاہر خدا اور رسول کی آڑلے کر ایسا کرتا ہے مگر دوسرا شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ خدا اور رسول کی منشاء کے مطابق حضرت مرزا صاحب آئے ہیں وہ اگر ردّ کرتا ہے تو زیادہ قصور وار ہے۔ کیونکہ اس نے باوجود ماننے اور تسلیم کرنے کے ردّ کیا۔ اسی طرح اگر پہلا شخص عملاً کوئی اس قسم کی کوشش کرتا ہے جس سے سلسلہ احمدیہ کو نقصان پہنچے تو وہ بھی مواخذہ کے قابل ہے کیونکہ جس طرح زہر کو خواہ کوئی جان کر کھائے یا بے جانے کھائے ہلاک ہوتا ہے اسی طرح صداقت اور حق کا مقابلہ خواہ جان کر کرے یا انجان ہو کر کرے زیرِ مواخذہ ہوتا ہے لیکن جس طرح جو جان بوجھ کر زہر کھائے وہ مرنے کے علاوہ خود کشی کے جُرم کا بھی مجرم ہوتا ہے اور اُسے دوہری سزا ملتی ہے۔ ایک قانونِ قدرت کے ذریعہ اور دوسری قانون شریعت کے ماتحت اور جو بے جانے بوجھے کھائے مرتا تو وہ بھی ہے لیکن اس سے خود کشی کے جُرم کا مواخذہ نہیں ہو گا۔ اسی طرح جو شخص صداقت کا انکار بے جانے کرتا ہے سزا کا مستوجب تو وہ بھی ہے لیکن جو جان بوجھ کر کرتا ہے وہ دوہری سزا کا مستحق ہے۔ اس لئے احمدی جماعت کے لئے دوسروں کی نسبت زیادہ احتیاط اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ بھی سزا پائیں گے جنہوں نے اس صداقت کو قبول نہ کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لائے اور اس کا مقابلہ کیا لیکن احمدی کہلا کر اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ دوہری سزا کا مستوجب ہوگا۔
میرے پاس مختلف جگہوں سے اس قسم کے خطوط آئے ہیں جن میں لکھا ہے کہ چونکہ ہمارا فلاں سے جھگڑا ہے اس لئے ہم فلاں جگہ نماز پڑھنے کے لئے نہیں جائیں گے اور بعض کے متعلق دوسروں نے لکھا ہے کہ وہ باجماعت نماز پڑھنے کے لئے اس لئے نہیں آتے کہ فلاں سے ان کا جھگڑا ہے۔ وہ لوگ قادیان میں موجود نہیں ہیں لیکن نصیحت کسی خاص کے لئے نہیں ہؤا کرتی بلکہ ہر ایک کے لئے ہوتی ہے۔ کیونکہ کون جانتا ہے کہ کس کے دل میں وہی بات پیدا نہ ہو جائے گی جس کے لئے نصیحت کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی حکم ایسا نہیں ہے جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی اور واحدشخص کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہو اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کرنا سارے جہاں کو مخاطب کرنا ہے۔ تو قرآن کریم میں تمام احکام عام رنگ میں بیان کئے گئے ہیں۔ اس لئے مَیں بھی یہ نصیحت خطبہ میں بیان کرتا ہوں۔ پھر اس لئے بھی کہ یہاں کے بعض لوگ بھی باجماعت نماز پڑھنے میں کمزور ہیں اور وہ جمعہ اور عیدوں کے سوا کبھی مسجد میں نہیں آتے یا کبھی کبھی آشکل دکھاتے ہیں پھر چونکہ خطبہ جمعہ لکھا جاتا ہے اور اخبار میں چھَپ کر باہر کے لوگوں کو بھی پہنچ جاتا ہے اس لئے اسی موقع پر بیان کرتا ہوں۔
اﷲ تعالیٰ نے جہاں جہاں قرآن کریم میں نماز کے لئے حکم بیان فرمایا ہے وہاں کثرت کے ساتھ قیامِ صلوٰۃ اور حفاظتِ صلوٰۃ فرمایا ہے۔ صرف نماز پڑھنے کا لفظ بہت کم جگہ آیا ہے اور وہ بھی حکم کے طور پر نہیں۔ جہاں احکام کا ذکر ہے وہاں اقامت کا لفظ ساتھ رکھا گیا ہے اور اقامتِ صلوٰۃ کے معنے یہ ہیں کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ پڑھا جائے۔ اقامت کا لفظ عام ہے اور جب کسی امر کی تکمیل ہو جائے تو اس کے متعلق اقامت کا لفظ بولتے ہیں مثلاً تجارت ہے جب کسی ملک کی تجارت پورے زور پر نہ ہو تو اس کی نسبت کہتے ہیں کہ فلاں مُلک کی تجارت بیٹھ گئی اور اگر پورے زور پر ہو تو کہتے ہیں کہ فلاں مُلک کی تجارت کھڑی ہے۔ اسی طرح دوسرے سب اُمور جب تکمیل کو پہنچ جائیں تو ان کے متعلق اقامت کا لفظ بولتے ہیں اور جب ان میں کمزوری پیدا ہو تو بیٹھ گئے کہتے ہیں۔ اس لئے نماز کی اقامت کے یہ معنے ہوئے کہ اس کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے اور یہی وہ بات ہے جس کا قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے انسان مومن بنتا ہے اور یہی وہ ذریعہ ہے جس سے اﷲ کا فضل نازل ہوتا ہے۔ دیکھو یہی آیت جو مَیں نے پڑھی ہے اس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک و شُبہ نہیں ہے یعنی اس میں ایسی تعلیم ہے جو ہر ایک شک اور شُبہ کو مٹانے والی ہے۔ اس کے اختیار کرنے سے کسی قسم کا شک و شُبہ نہیں رہتا۔ یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔ انہیں ایک سیدھا رستہ دکھاتی، ایک نئے جہان میں لے جاتی اور اُن پر رُوحانیت کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ اس سے آگے بتایا کہ متقی کون ہوتا ہے؟
فرمایا:-
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَۙ۔وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَؕ۔ 4 یہ شرطیں جب کسی میں پائی جائیں تو وہ متقی ہوتا ہے اور جب یہ شرطیں پائی جاتی ہیں تب قرآن رُوحانیت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ وہ شرطیں یہ ہیں: (1) ایمان بالغیب (2) اقامتِ نماز (3) جو کچھ خدا نے دیا ہو اس میں سے خرچ کرنا (4) رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اور آپ سے پہلے نبیوں پر جو کچھ اُترا اور جو آئندہ نازل ہو گا اُس پر ایمان لانا۔ ان شرطوں کو جو انسان پورا کرلیتا ہے اس پر رُوحانیت کا دروازہ کھل جاتا ہے لیکن جو ان کو اس طرح پورا نہیں کرتے ہیں جس طرح ان کے پورا کرنے کا حق ہے انہیں قرآن ہدایت نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر کہتے ہیں ہمیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ بات دراصل یہی ہے کہ قرآن اسی وقت ہدایت کرتا ہے جبکہ یہ شرائط پوری ہوں۔
ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ نماز کو قائم کرنا اور جماعت کے ساتھ ادا کرنا۔ بعض لوگ بے علمی اور ناواقفیت کی وجہ سے کہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز باجماعت پڑھنا فرض ہے۔ حالانکہ بات یہ ہے کہ جمعہ کی نماز ایسی ہی فرض ہے جیسا کہ ساری نمازیں۔ قرآن کریم میں جمعہ کی نماز کا اگر ایک جگہ ذکر آیا ہے تو روزانہ نمازوں کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے۔ پس جمعہ کی نماز دوسری نمازوں سے زیادہ فرض نہیں ہے لیکن لوگ لا علمی کی وجہ سے سمجھتے نہیں اور صرف جمعہ کی نماز باجماعت ادا کرنا فرض جانتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں أَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ کا ذکر آیا ہے وہاں نماز باجماعت کا ہی حکم ہے۔ حتّٰی کہ ایک صحابی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کہتے نماز ہوتی ہی نہیں جب تک کہ باجماعت نہ ہو۔ مگر ہمیں صحابہ کے قول پر ہی اکتفاء کرنے کی ضرورت نہیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے اقوال بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں جو لوگ عشاء اور صبح کی نماز باجماعت پڑھنے کے لئے مسجد میں نہیں آتے میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں اپنی جگہ کسی اَور کو نماز پڑھانے کے لئے کھڑا کر دوں اور اپنے ساتھ اور آدمیوں کو لے کر ان کے سر پر ایندھن رکھ کر اُن لوگوں کے گھروں میں جاؤں اور آدمیوں سمیت ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کر دوں۔5 دیکھو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جیسا رحیم انسان جو کسی کی ادنیٰ سے ادنیٰ تکلیف کو بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اور جس کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ6 وہ جب یہ کہتا ہے کہ جو لوگ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتے ان کو مع اُن کے گھروں کے جلا دوں تو اس سے یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ باجماعت نماز پڑھنا کوئی معمولی بات ہے بلکہ فرضوں میں سے بہت بڑا فرض ہے جس کے ادا نہ کرنے کے متعلق رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس قدر شدّت سے نفرت کا اظہار کیا ہے۔ پس جو لوگ اس کو پورا نہیں کرتے اُنہیں سوچنا چاہئے کہ وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی کس قدر ناراضگی کا بار اپنے اوپر اُٹھاتے ہیں۔ انہیں خوب اچھی طرح سن لینا چاہئے کہ کسی کی لڑائی اور کسی سے جھگڑا اس فرض کی ادائیگی میں ہر گز روک نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ زید و بکر کے لئے نماز پڑھتے ہیں تو ان سے لڑائی ہونے کی وجہ سے چھوڑ سکتے ہیں لیکن اگر خدا کے لئے پڑھتے ہیں تو پھر کون ہے جو کہہ سکتا ہے کہ چونکہ خدا سے میری لڑائی ہے اس لئے مَیں نماز نہیں پڑھتا۔ اگر اس سے کسی کی لڑائی ہے تو وہ نہ پڑھے اور اگر نہیں تو زید و بکر کی لڑائی کی وجہ سے خدا کی نماز کو کیوں ترک کرتا ہے۔ میرے نزدیک وہ شخص جو نماز باجماعت پڑھنے میں سُستی کرتا ہے کسی قسم کی رُوحانی ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ نہایت ضروری رُکنِ اسلام ہے اور ایسا ضروری ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اس کو ادا نہیں کرتا میرا جی چاہتا ہے کہ مَیں اس کو مع اس کے گھر کے جلا دوں۔ بعض لوگوں نے صرف عشاء اور صبح کی نماز باجماعت نہ ادا کرنے والوں کے متعلق اسے سمجھا ہے لیکن اصل میں اس میں ساری نمازیں آجاتی ہیں کیونکہ یہی دونوں نمازیں پڑھنا مُشکل ہوتی ہیں۔ جب ان کے متعلق فرما دیا تو باقی نمازیں خود بخود اس کے نیچے آگئیں۔ تو نماز باجماعت پڑھنا ہر ایک مسلمان پر بہت بڑا فرض اور ایک اہم ذمہ داری ہے۔ جو اس سے جی چُراتا ہے خواہ زید و بکر کی لڑائی سے یا کسی اور وجہ سے وہ قطعاً اس قابل نہیں ہے کہ احمدی مومن کہلا سکے کیونکہ وہ خدا کا مجرم ہے اور میرے نزدیک اس سے بڑھ کر دُنیا میں کوئی بیوقوف اور کم عقل نہیں ہو سکتا جو انسان سے لڑ کر خدا سے لڑائی شروع کر دے۔ قاعدہ تو یہ ہے کہ جب کسی سے لڑائی ہو تو دوسروں کی ہمدردی حاصل کی جاتی ہے۔ دیکھو گورنمنٹ برطانیہ کی جب جرمنی سے لڑائی شروع ہوئی تو باوجود اس کے کہ بہت بڑی حکومت ہے چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ تو چونکہ لڑائی کے وقت انسان زیادہ دوستوں اور مددگاروں کا حاجتمند ہوتا ہے اس لئے اگر کسی کی کسی سے لڑائی ہو تو اس کو ضرورت ہے کہ اپنے زیادہ دوست بنائے اور خدا سے بڑھ کر اور کون دوست ہو سکتا ہے۔ پس اس وقت جبکہ لڑائی نہ تھی، امن تھا اگر خدا کو دوست بنانے کی کوشش کی جاتی تھی تو اب جبکہ ڈر ہے کہ دوسرے سے نقصان اُٹھائے بہت زیادہ ضرورت ہے کہ خدا کو اپنا دوست اور مددگار بنائے اور یہ وقت ہے کہ وہ اس سے صلح کرے نہ کہ لڑائی ۔لیکن جو کسی سے لڑائی ہونے کی وجہ سے نماز کو ترک کردیتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ کسی کے گھر جب ڈاکہ پڑے تو وہ لوگوں کو مدد کے لئے بُلانے کی بجائے انہیں پتھر مارنا شروع کر دے۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ یہی کہ ڈاکو باہر سے اس پر حملہ آور ہوں گے اور ہمسائے اندر سے اس کو نقصان پہنچائیں گے۔ پس جو شخص کسی سے لڑائی کی وجہ سے نماز باجماعت پڑھنا چھوڑتا ہے وہ یقینی طور پر اپنی تباہی کا موجب بنتا ہے۔
ایک نادان کا لطیفہ مشہور ہے مگر میرے نزدیک نماز چھوڑنے والا ا س سے بھی زیادہ نادان اور بیوقوف ہے۔ کہتے ہیں کسی سے کوئی شخص برتن مانگ کر لے گیا تھا کچھ دن تک جو اس نے واپس نہ دیا تو ایک دن وہ خود لینے گیا اور جاکر دیکھا کہ وہ اس کے برتن میں سالن ڈال کر کھا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر کہنے لگا کہ تُو نے میرے برتن میں سالن ڈال کر کھایا ہے۔ مَیں تیرے برتن میں پاخانہ ڈال کر کھاؤں گا۔
تو یہ سزا دینے کا عجیب طریق ہے کہ چونکہ فلاں سے میری لڑائی ہے اس لئے مَیں نے نماز باجماعت پڑھنا چھوڑ دی ہے۔ جو شخص اس طرح کرتا ہے اس نے اپنے دُشمن کو اپنے اوپر خود غالب کر لیا کیونکہ اس کے دُشمن نے ایک تو اسے اپنے پاس سے دُور کر دیا اور دوسرے خدا سے بھی دُور کر دیا۔ پس اِس طرح اُس نے اپنے دُشمن کو نیچا نہیں دکھایا بلکہ اس کا درجہ اونچا کر دیا ہے، اس کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ خود نقصان اُٹھایا ہے۔ یہ سخت جہالت اور نادانی ہے۔ کیونکہ کسی سے دُشمنی کی وجہ سے نماز چھوڑنے کا ہر گز حکم نہیں۔ نماز باجماعت ادا کرنے کا خدا کا حکم ہے، محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا حکم ہے اور اس شریعت کا حکم ہے جس کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی اور اس شریعت کا حکم ہے جس کا ایک شعشہ بھی بدل نہیں سکتا۔ پس یہ مت سمجھو کہ احمدی کہلانے سے خدا کے حکموں کو توڑنے کی اجازت ہو گئی ہے بلکہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ فرض ہوگیا کہ ہر ایک حکم پر پورے طور پر عمل کرو۔ اس لئے عقل اور دانائی سے کام لو اور خدا کے حکموں کو مت توڑو کیونکہ اب تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے اور شریعت کو اچھی طرح سمجھا ہے۔ اب اگر اس کے خلاف کرو گے تو دوسروں کی نسبت خدا کے غضب کے زیادہ مستوجب بنو گے۔
خدا تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ شریعت کے تمام احکام کی تم قدر کرو اور اُن پر عمل پیرا ہو۔ آمین’’ (الفضل 29جولائی 1919ء)
1: البقرۃ : 2 تا4 2: الروم : 42
3: تذکرہ صفحہ 104۔ ایڈیشن چہارم
4: البقرۃ : 4، 5
5: بخاری کِتَابُ الاذان باب فَضْل صَلٰوۃِ الْعِشَاءِ فِی الْجَمَاعَۃِ
6: الانبیاء: 108

50
دینی کاموں میں دوام کی ضرورت
(فرمودہ 18جولائی 1919ء)
تشہد ،تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''انسان اپنے آرام اور اپنی راحت کے لئے بہت کچھ کوشش کرتا ہے اور بڑی بڑی مشکلوں اور سختیوں سے گزرتا ہے۔ ایسے شخص کو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نادان ہے کیونکہ آرام حاصل کرنے کے لئے تکلیف اُٹھاتا اور مُشکلات برداشت کرتا ہے۔ تکلیف اور آرام تو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ آرام تکلیف نہیں بن سکتا اور تکلیف آرام نہیں ہو سکتی لیکن پھر بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں آدمی کیسا نادان ہے۔ کہتا ہے آرام حاصل کرنے کے لئے تکلیف اُٹھا رہا ہوں۔ مثلاً علم حاصل کرنے والا راتوں کو جاگتا اور اپنا آرام قُربان کر کے علم پڑھتا ہے۔ اس سے اگر پوچھو کہ تُو کیوں تکلیف اُٹھاتا ہے تو وہ کہے گا آرام حاصل کرنے کے لئے۔ اس موقع پر ان لوگوں کو جانے دو جو علم، عِلم کے لئے حاصل کرتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ آجکل اکثر وہی ہوتے ہیں جو آرام اور دولت حاصل کرنے کے لئے علم پڑھتے ہیں۔ تو ایک ایسا شخص جو عزت، دولت، وسعت اور آرام کے لئے پڑھنے کی تکلیف برداشت کرتا ہے اسے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم سُکھ حاصل کرنے کے لئے دُکھ میں کیوں پڑتے ہو۔ وہ آئندہ ملنے والے سُکھ کے لئے فوری دُکھ میں پڑتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ دُکھ عارضی ہے اور وہ سُکھ اس کی ساری زندگی تک چلا جائے گا۔ جس طرح دُنیاوی سُکھ حاصل کرنے کے لئے انسان کو تکالیف میں پڑنا پڑتا ہے اسی طرح دین کے معاملہ میں بھی بہت سی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے اور میرے خیال میں تو ایک رنگ میں جہنم سے گزرنا پڑتا ہے۔ دینداروں کے لئے تو پہلے ہی قرآن نے یہ فتویٰ دے دیا ہؤا ہے کہ دُنیا میں ان کے ایمانوں کی آزمائش کی جائے گی اور ان کے اقوال کو جانچا جائے گا اور ان کے دعوؤں کو اس طرح پرکھا جائے گا جس طرح لوہے کو آگ میں ڈال کر پرکھا جاتا ہے۔ اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ادھر کوئی ایمان لائے اور اُدھر اسے آرام و آسائش حاصل ہو جائے، ادھر اسلام قبول کرے اور ادھر اسے دُنیا کی آسائش حاصل ہو جائے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر کوئی سچّے دل سے ایمان لائے تو اسے قلبی راحت اور سُکھ مِل جاتا ہے مگر دنیاوی نہیں ملتا۔ چنانچہ قرآن کریم کہتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ1 کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف اتنا کہہ دینے سے انہیں چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے، اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی، ان میں سے کھرے اور کھوٹے کو علیحدہ نہیں کیا جائے گا، مضبوط اور کمزور کو جُدا نہیں کیا جائے گا۔یہ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح نہ کبھی پہلے ہؤا ہے اور نہ اب ہو گا۔ یہ تو قرآن کریم کا فتویٰ ہے۔ پھر ہم عملاً دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے سچّا دین قبول کیا ان کے لئے فوراً ہی آرام اور سُکھ کا راستہ نہیں کھولا گیا بلکہ پہلے پہل تو یہی ہؤا کہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ بھی انہیں دینا پڑا۔ اگر کچّے گھروں والے تھے تو دین قبول کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ ان کے محل بن جاتے وہ گھر بھی انہیں چھوڑنے پڑے۔ اگر قوموں میں معزز تھے تو دین قبول کرنے کے بعدبجائے اس کے کہ بادشاہ اور حکمران بن جاتے انہیں پہلی عزتیں بھی چھوڑنی پڑیں اور ذلیل سمجھے گئے۔ اگر مالدار تھے تو دین قبول کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ ان کا مال دُگنا، چوگنا، بیس گُنا اور ہزار گُنا ہو جاتا اس کو بھی ترک کرنا پڑا۔ اگر لوگوں سے تعلقات تھے تو دین قبول کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ ان کے تعلقات وسیع ہو جاتے وہ بھی کٹ گئے۔ غرض جو راحت، آرام، عزت، دولت، طاقت اور رسوخ انہیں حاصل تھا وہ بھی جاتا رہا اور بجائے فوراً سُکھ ملنے کے بظاہر اُنہیں دُکھ مِلا۔ یہی حال رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت ہؤا۔ یہی حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت ہؤا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے وقت تویہاں تک حالت پہنچ گئی کہ ان لوگوں نے گھبرا کر کہہ دیا موسیٰ تمہارے آنے سے ہمیں نقصان ہی پہنچا ہے۔ تُو تو کہتا تھا کہ تمہیں کنعان کی زمین ملے گی، تم بادشاہ بنائے جاؤ گے، ابراہیم ؑ کو جو وعدے دیئے گئے تھے وہ تم سے پورے کئے جائیں گے، تم ابراہیم ؑ اور یعقوب ؑ کے وارث بنو گے لیکن ہم تو تیری وجہ سے اپنے باپ دادا کی وراثت سے بھی جاتے رہے ۔ پہلے سے زیادہ مشقت برداشت کر رہے ہیں۔ تو چونکہ حضرت موسیٰ ؑ کو قبول کرنے پر فوراً ان کے دُکھ بڑھ گئے اِس لئے وہ جو اس مسئلہ کو جانتے تھے کہ محبوب کی خاطر تکلیف اُٹھانے سے ہی انعام ملتا ہے۔ انہوں نے تو پیش آنے والی مشکلات کو صبر اور استقلال سے برداشت کیا لیکن جو اس نکتہ سے ناواقف تھے اُنہوں نے خیال کیا کہ موسیٰؑ کا آنا ہمارے لئے تکلیف اور مصیبت کا باعث ہؤا۔ ایسا ہی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑکے وقت ہؤا اور چونکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہماری سُنت ہے اس لئے ہم خیال نہیں کر سکتے کہ کسی نبی کے وقت بھی اس کے خلاف ہؤا ہو بلکہ اسی طرح ہوتا رہا ہے کہ ابتدا میں نبیوں اور ماموروں کے ماننے والے دُکھوں اور تکلیفوں میں ڈالے گئے اور اس کے بعد انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ تو ان ابتلاؤں کی بات ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے مگر ان کے علاوہ اور بھی ابتلاء ہیں جو بندہ خدا کے حکم کے ماتحت خود اپنے اوپر وارد کرتا ہے مثلاً نماز، روزہ ، زکوٰۃ ، حج ، صدقہ، اخلاق فاضلہ اور دیگر تمدن و معاشرت کے متعلق احکام کی پابندی۔ یہ بھی ایک قسم کے ابتلاء ہی ہوتے ہیں کیونکہ انسان فطرتاً آرام کی خواہش کرتا ہے لیکن ان باتوں کے لئے اُسے کچھ نہ کچھ محنت اور تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اَحَسِبَ النَّاسُ والی آیت میں جن ابتلاؤں کا ذکر ہے وہ تو کچھ مدت کے لئے ہوتے ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اسی آیت میں بتا دیا ہے کہ اسی وقت تک ہوتے ہیں جب تک انسان کا تجربہ اور آزمائش نہ ہولے۔ جب ہو جائے تو پھر ان سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ مال و دولت، حکومتیں اور بادشاہتیں، رشتہ دار تعلق دار سب مِل جاتے ہیں اور پہلے سے بہت زیادہ مِل جاتے ہیں مگر یہ ابتلاء جو انسان خود اپنے نفس پروارد کرتا ہے یہ ہمیشہ اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس وقت تک کہ رُوح جسم سے نکل نہیں جاتی ساتھ ہی رہتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ علم کے حاصل کرنے کے لئے رات کو پڑھنے والا۔ دُکھ اور تکلیف میں پڑا ہؤا ہے کیونکہ پڑھنے کی تکلیف اُٹھانے کا زمانہ اس زمانہ کے مقابلہ میں تھوڑا ہوتا ہے جس میں علم سے آرام حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ زندگی جس میں آرام پانے کی خاطر انسان اپنے اوپر ابتلاء وارد کرتا ہے چونکہ دُنیا کی زندگی کے مقابلہ میں بہت بڑی ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے کوئی محنت برداشت کرنا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنا نہیں ہوتا۔ پھر جس طرح علم حاصل کرنے والے کو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ بیوقوف ہے۔ آرام کرنے کی بجائے راتوں کو جاگتا اور محنت کرتا ہے اسی طرح یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خدا کے فضل اور رحمت کو ڈھونڈھنے والا نادان ہے کہ کئی قسم کے ابتلاء اپنے اوپر ڈال لیتا ہے کیونکہ جو نسبت علم حاصل کرنے کے زمانہ کو آرام اور فائدہ حاصل کرنے کے زمانہ سے ہے اس سے بہت زیادہ اس زمانہ کو جو انسان اس دُنیا میں گزارتا ہے اس زندگی سے ہے جو آئندہ ملنے والی ہے۔ کیا بلحاظ عزت اور رُتبہ اور فائدہ کے اور کیا بلحاظ عرصہ اور مدّت کے وہ زندگی اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ دُنیا کی زندگی اس کا کچھ مقابلہ ہی نہیں کر سکتی۔ پس نادان ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ آئندہ کی زندگی حاصل کرنے کے لئے کون ان ابتلاؤں میں پڑے اور مصیبت اُٹھائے۔ کسی نے کہاہے ؎
دردِ سر کے واسطے صندل لگانا ہے مفید
اُس کا گھِسنا اور لگانا دردِ سر یہ بھی تو ہے
لیکن یہ نادانی کی بات ہے۔ بیشک گھِسنا دردِ سر ہے مگر جس دردِ سر کے لئے صندل کا لگانا مُفید ہے اس کے لئے اگرگھِسنے اور لگانے کا درد برداشت نہ کیا گیا تو وہ بہت بڑھ جائے گا اور پھر بہت تکلیف کا موجب ہو گا۔ اسی طرح بے شک علم پڑھنا تکلیف کا باعث ہوتا ہے لیکن نہ پڑھنا ساری زندگی کی تکلیف کا موجب بنتا ہے۔تو اس میں شک نہیں کہ نماز ، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسرے دین کے احکام پر عمل کر کے پورا مسلمان بننا مشکل ہے کیونکہ بہت دفعہ عزت، مال اور رشتہ دار راستہ میں روک بن جاتے ہیں۔ بہت دفعہ خیالی غیرت روک بن جاتی ہے اور بہت دفعہ نفسانی خیالات اور خواہشات روک بن جاتی ہیں مگر باوجود اس کے پورا مسلمان بننے سے ثمرات ملتے ہیں۔ وہ چونکہ بہت بڑے ہیں اس لئے کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ دینی احکام کو بجا لانے کی تکلیف برداشت نہیں ہو سکتی لیکن چونکہ دُنیا میں دس پندرہ سال محنت کر کے علم حاصل کرنے کے بعد فائدہ حاصل کیا جاتا ہے اور مذہب کے متعلق جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے جب تک جان میں جان ہو اس وقت تک محنت اُٹھانا پڑتی ہے۔ اس لئے بہت لوگ اس محنت کو برداشت کرنے سے گھبرا جاتے ہیں۔ ابھی جو بہت بڑی جنگ ختم ہوئی ہے اس میں جو طاقتیں لڑ رہی تھیں اُنہوں نے اپنے نوجوانوں کو اس لڑائی کی بھٹی میں پھینک دیا۔ اپنے بوڑھے تجربہ کار لوگوں کو اس میں ڈال دیا، اپنے ملک کی پیداواروں، صنعت و حرفت، تجارت اور زراعت غرض جو کچھ کسی کے پاس تھا اسی کو اس آگ میں ڈال دیا گیا اور کسی چیز کی قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا گیا مگر ان لڑنے والی طاقتوں میں سے ہر ایک کا یہی قول ہوتا تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں لڑائی ختم ہو جائے گی اور زیادہ سے زیادہ سات سال کا اندازہ لگایا جاتا تھا تو چونکہ ان کے سامنے تھوڑا عرصہ تھا جس میں انہیں محنت کرنا تھی اس لئے سخت سے سخت محنت بھی انہوں نے برداشت کی تاکہ اس تھوڑے عرصہ کی محنت کا فائدہ بہت دیر تک اُٹھا سکیں۔ ان ممالک کے بڑے بڑے آدمی جب نوجوانوں کو خدمت کے لئے بُلاتے تو کہتے کہ یہ چند روزہ بات ہے پھر آرام حاصل ہو جائے گا۔ اس سے ان کے جوش بڑھتے اور وہ پورے زور سے کام کرتے ہیں لیکن جن لوگوں کو اسلام کی خدمت کے لئے بُلایا جاتا ہے ان کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چند دن کے بعد تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو یہ ایک دھوکا اور فریب ہے کیونکہ دین کے کام موت کی گھڑی تک چلتے ہیں۔ پس جو شخص تمہیں یہ کہے کہ دین کی خدمت چند سال تک کرنی پڑے گی اور پھر اس سے آزادی حاصل ہو جائے گی وہ جھوٹ کہتا ہے۔ یہ بوجھ ہے یا جو کچھ۔ یہ موت تک کے لئے ہے۔ اگر نماز کچھ سال پڑھنے کے بعد معاف ہو سکتی ہے، اگر روزے کچھ مدّت کے بعد معاف ہو سکتے ہیں، اگر زکوٰۃ کچھ عرصہ کے بعد معاف ہو سکتی ہے، اگر حج معاف ہو سکتا ہے تو دین کے دوسرے احکام بھی معاف ہو سکتے ہیں لیکن اگر یہ احکام جو انسان ہی کے فائدہ کے لئے ہیں موت تک ساتھ چلتے ہیں تو پھر کوئی بھی دینی حکم ایسا نہیں جو جُدا ہوتا ہو۔ بے شک بعض احکام ایسے ہیں جن کی حد بندی کر دی گئی ہے مثلاً حج ہے جس پر فرض ہو اگر ایک دفعہ کرلے تو پھر اس پر فرض نہیں رہتا مگر یہ معیّن کر دیا گیا ہے کہ حج ایک ہی دفعہ کرنا فرض ہے اور جو معیّن نہیں یعنی نفل کے طور پر حج ہوتا ہے وہ ساری عمر کیا جاتا ہے۔ تو وہ احکام جن کی کوئی حد بندی نہیں کی گئی بلکہ غیر معیّن ہیں وہ کسی طرح بھی جیتے جی ہٹ نہیں سکتے۔ اس لئے مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو ایک خاص نصیحت کرتا ہوں کہ جب وہ دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک دن کے لئے نہیں ، دو دن کے لئے نہیں بلکہ ساری عمر کے لئے کھڑے ہوئے ہیں مگر افسوس بہت لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم چند دن کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔ اس کے لئے اپنی تاریخ کو دیکھو۔ مثلاً اخباروں کے فائل ہیں ان سے معلوم ہو سکتا ہے کہ1901ء اور1902ء میں دو تین آدمی بڑے زور کے ساتھ لکھنے والے ہوں گے لیکن اس کے بعد ان کا کوئی پتہ نہیں چلے گا اور پھر اور نکل آئیں گے مگر وہ بھی ایک آدھ سال کے بعد غائب ہو جائیں گے۔ غائب ہونے والے مَر نہیں جاتے، زندہ ہوتے ہیں مگر عملی زندگی سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ان کے جوش بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی طرح اور کاموں میں نظر آتا ہے۔ چندوں میں بھی یہی حال ہے۔آج سے پہلے جو شخص زیادہ چندہ دیتے تھے ان میں کمی آگئی مگر اور پیدا ہو گئے جو زور سے دینے لگ گئے۔ یہ علامت ہے اس بات کی کہ انہوں نے سمجھا نہیں کہ دین کی خدمت تمام زندگی میں کرنا ہوتی ہے بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ مدّت جو ہم نے کام کیا ہے تو اب ہمارے آرام کا وقت آگیا ہے۔ دراصل انہوں نے اپنے کام کرنے کے وقت کا اندازہ غلط لگایا ہے اور اس غلطی کی وجہ سے انہیں ٹھوکر لگتی ہے۔ دیکھو جس طرح ایک طالب علم جس کے لئے چھ گھنٹہ روزانہ سکول میں پڑھنا ضروری ہے وہ اگر دو گھنٹہ کے بعد سکول سے چلا آئے تو سزا پائے گا۔ اسی طرح دین کی خدمت کے لئے بھی ایک وقت مقرر ہے۔ جو شخص اس سے پہلے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتا ہے وہ غلطی کرتا اور سخت نقصان اُٹھاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص دریا میں کود کر پار جانے کے لئے تیرتا ہے مگر جب کنارے کے قریب پہنچ جاتا ہے تو بجائے اس کے کہ آگے بڑھے وہیں آرام کرنے کے لئے ٹھہر جاتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہیں مگرمچھ ہو اور اُسے کھا لے یا پانی بہا کر لے جائے۔ اس کے لئے یہی ضروری ہے کہ کنارے پر جاکر آرام کرے۔ اسی طرح وہ شخص جو دین کی خدمت کرتا ہے وہ اگر وقت سے پہلے بیٹھ جاتا ہے تو یقینا ًاپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے۔ پس جو لوگ دینی کام کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس کام کے لئے دُنیا میں کوئی عرصہ مقرر نہیں کہ کچھ مدّت خدمت کرنے پر وہ چھوڑ سکیں۔ دُنیا میں کسی وقت بھی دینی کام کو چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدھا کام کر کے چھوڑ دے اور بعینہٖ اُس عورت کی مثال ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے کہ خود سوت کاتتی اور پھر خود ہی اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی۔2
خدا تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ خدا کے لئے جو خدمت کریں وہ اس کے کرنے میں دوام اور قیام کی طاقت دے اور اس سے ہٹ جانے اور اس کو چھوڑ دینے سے بچائے۔ آمین‘‘
(الفضل 2 اگست 1919ء)
1: العنکبوت: 3
2: وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا (النحل: 93)

51
فرمانبرداری اختیار کرو
(فرمودہ 25جولائی 1919ء)
تشہد ،تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’بعض صوفیاء کا قول ہے کہ جو شخص اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے وہ اسی ذریعہ سے خداتعالیٰ کو پہچان لیتا ہے اور تصوف میں اس قول کو اتنا دخل ہے کہ تصوف کے ارکان میں سے ایک رُکن ہے۔ بعضوں نے غلطی سے اس کلمۂ حکمت کے معنے یہ کئے ہیں کہ ہم خدا ہیں۔ ہمہ اوستی کا مذہب انہی معنوں اور اسی خیال سے نِکلا ہے مگر یہ نادانی ہے۔ اس سے یہ مذہب نہیں نکلتا بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ بندے اور خدا میں کیا فرق ہے۔ جس نے اپنے نفس کو دیکھا اور اپنی احتیاجوں اور کمزوریوں کو پہچانا اُس نے تکبّر کو چھوڑ دیا اور اپنے خداکی طرف جھک گیا اور جو لوگ اپنے نفس سے نا واقف ہیں ان کی یہ ناواقفیت ہی ان کو تکبّر و خود پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔
جب انسان غور کرے گا تو اس کو معلوم ہو گا کہ اس کے نفس کو کتنی احتیاجیں لگی ہوئی ہیں اور کتنی ادنیٰ ادنیٰ چیزوں کا محتاج ہے۔ یورپ نے تکبّر کیا مگر نتیجہ یہ ہؤا کہ دھوبی سٹرائیک کرتے ہیں، نائی سٹرائیک کرتے ہیں اور بڑے بڑے اُمراء تک ان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں کہ جو کہو وہ ہم مانتے ہیں۔ کوئلہ ڈالنے والے اور کوئلہ کھودنے والے سٹرائیک کرتے ہیں اور حکومت والے ان کی خوشامد کرتے ہیں کہ آپ جوکہتے ہیں ہم وہی مانتے ہیں۔ اس ذریعہ سے خدا نے یورپ کو بتایا ہے کہ انسان ہزاروں چیزوں کا محتاج ہے اور ان کا محتاج ہے جن کو وہ ادنیٰ کہتاہے۔ یہ نیاعقیدہ نہیں، یہ نیا فلسفہ نہیں۔ جیسا کہ آجکل کے نادان تعلیم یافتہ یا جاہل تعلیم یافتہ خیال کرتے ہیں بلکہ یہ ایک عذاب ہے جو خدا نے بھیجا ہے تاکہ ان لوگوں کا جو متکبر ہیں تکبّر ٹوٹ جائے۔
جو لوگ موجودہ سٹرائیکوں کو ایک فلسفہ کہتے ہیں یا اقتصادیات کا ایک جزو قرار دیتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں۔ چند عرصہ میں نہ یہ فساد ہوں گے نہ یہ سٹرائیکیں ہوں گی۔ یہ محض عذاب کے طور پر ہیں۔ جس طرح پہلے عذاب نہیں رہے اسی طرح یہ عذاب بھی دُنیا کو ہِلا کر چلا جائے گا۔ اس میں تو خدا نے یہ بتایا ہے کہ انسان کس قدر محتاج ہے لیکن بعض لوگ اپنی نادانی اور جہالت سے اس کا نام فلسفہ رکھتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں خود پسندی اختیار کرتے ہیں اور اس کا نام نیا علم رکھ کر تکبّر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا بتاتے ہیں اور دوسرے کی فرمانبرداری کو ہتک خیال کرتے ہیں۔ یہ ان کی نادانی اور جہالت ہے۔
یاد رکھو کہ اتباع اچھی بات کی کی جاتی ہے۔ عذابوں کی اتباع نہیں کی جاتی۔ لوگوں میں عادت ہے کہ بعض لوگ اگر ایک خاص قسم کا کوٹ یا قمیض یا پاجامہ پہنیں تو اور لوگ بھی اسی طرح کے کپڑے پہننے لگیں گے لیکن تم نے یہ نہیں دیکھا ہو گا کہ کہیں ہیضہ پڑا ہو اور لوگ اس خیال سے مرنے لگیں کہ ہیضہ میں مرنا بھی ایک فیشن ہے۔ پاجامہ پہننے لگتے ہیں کہ ایک فیشن ہے لیکن جن دنوں طاعون پھوٹا ہو ایسا نہیں کرتے کہ طاعون کے کیڑے لے کر کھا جائیں اور مَر جائیں۔ ایم۔اے اور بی۔اے ہوتے ہیں لیکن انفلوئنزا میں مَرنا شروع نہیں کرتے کہ ہماری اولاد اس کا فخر کرے گی کہ ہمارے بڑے انفلوئنزا میں مَرے تھے۔ ان کو کیوں نہیں فیشن کی طرح اختیار کرتے؟ اس لئے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انفلوئنزاایک عذاب ہے۔
جس طرح یہ امراض ایک جسمانی عذاب ہیں اسی طرح تکبّر ایک رُوحانی عذاب ہے۔ لوگ جسمانی عذاب کی نقل نہیں کرتے رُوحانی کی کرتے ہیں۔ جو لوگ تکبّر کرتے ہیں ان کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ چیتا اپنی زبان کو کسی کُھردری چیز پر گھسے اور اس میں سے خون نکلے اور وہ اس کو چاٹے اور خیال کرے کہ کیا مزا آتا ہے۔ اگرچہ اب وہ مزا لیتا ہے لیکن درحقیقت وہ اپنی زبان کھا رہا ہے۔ کچھ مدّت تو مزا آئے گا اور نتیجہ اس کی موت ہو گی۔
مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اچھی باتوں کو اخذ کریں۔ جو باتیں دین کے اوراخلاقِ فاضلہ کے خلاف ہوں ان کو چھوڑ دو، خود پسندی کو چھوڑ دو۔ اطاعت اسلام کے ماتحت عزت کی چیز ہے اس پر قدم مارو اور تکبر ایک ایسی بَلا ہے جو تمہیں خطرناک گڑھوں میں گِرا دے گی۔
جس میں اطاعت نہیں وہ مسلم نہیں، جو مسلم نہیں وہ مومن نہیں،جو مومن نہیں وہ کافر ہے۔ خواہ وہ احمدی ہی کہلاتا ہو۔‘‘ (الفضل 5 اگست 1919ء)


52
طالب علموں کو نصیحت
مدرسہ سے چُھٹی ہے دین کے کاموں میں چُھٹی نہیں
(فرمودہ یکم اگست 1919ء)
تشہد ،تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’بوجہ اس کے کہ میرے حلق میں کئی دن سے کچھ تکلیف ہے۔ آج میرا ارادہ خود خطبہ پڑھنے کا نہ تھا مگر اس خیال سے کہ اب چُھٹیاں ہونے والی ہیں اور طالب علم اپنے گھروں کو جائیں گے اور چونکہ آجکل مَیں بیماری کی وجہ سے درس بھی نہیں دیتا، پہلے درس میں ہی بچوں کو نصیحت کر دیا کرتا تھا اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں ہی کچھ نصیحت کر دوں۔
معلوم نہیں پچھلے جمعہ یا پچھلے سے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے یہ بیان کیا تھا کہ کام آرام کے لئے کیا جاتا ہے۔ جب کام کیا جاتا ہے تو حق ہوتا ہے کہ آرام کیا جاوے۔ اس کے ساتھ کام اور آرام کا مقابلہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ آیا تھوڑے کام کے بعد آرام زیادہ ملتا ہے یا زیادہ کام کے بعد آرام کم۔ اگر تھوڑے کام کے بعد آرام زیادہ ملتا ہے تو یہ کام مفید ہو گا اور اگر زیادہ کام کے بعد آرام کم ملے تو وہ کام غیر مفید۔ کیونکہ کام وہی مفید ہوتا ہے جس میں کم محنت کے بعد آرام زیادہ ملے۔
طالب علم جو یہاں پڑھنے آئے ہیں یا جو اپنی اپنی جگہ پڑھتے ہیں ان کو بہت کچھ محنت کرنی پڑتی ہے اور اگر غور کیا جاوے تو واقع میں جو محنت طالب علم کرتے ہیں وہ میرے نزدیک بڑے آدمیوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور یہ ان کی عمر ہی ہوتی ہے جو ان کو اس سخت محنت کے قابل بناتی ہے ورنہ اتنا سر کھپانا ان لوگوں سے جو محنت کر چکے ہیں مُشکل ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ایک طالب علم تمام دن ‘‘ا’’ ‘‘ب’’ رٹتا ہے۔ جو ان آدمی اس قدر محنت نہیں کر سکتا اور اگر مَیں اس طرح کروں تو مَیں اس کے بعد ایک مہینہ تک بات بھی نہ کر سکوں ۔ تو ایک طالب علم سارا دن اور رات کا بہت سا حصّہ جتنا بولتا ہے بڑا آدمی اتنا نہیں بولتا اور پھر جب امتحان کے دن قریب ہوتے ہیں تو اس محنت میں اور بھی زیادتی ہو جاتی ہے۔
یہ محنت جو طالب علم کرتا ہے اس سے جسمانی طاقت پیدا نہیں ہوتی بلکہ جسمانی طاقت میں کمی آجاتی ہے۔ محنتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک دماغی اور ایک جسمانی۔ دماغی محنتیں وہ ہوتی ہیں جن سے جسم میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے لیکن جسمانی محنتیں وہ ہوتی ہیں جن سے جسم میں کمزوری پیدا نہیں ہوتی۔ طالب علم کی محنت ایک ایسی محنت ہوتی ہے جس سے اس کے اعضاء میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے لیکن زمیندار جو محنت کرتا ہے، ہل چلاتا ہے اس کے باعث وہ کمزور نہیں ہوتا بلکہ اس کی طاقت میں ترقی ہوتی ہے، مگر طالب علم کی محنت جسم پر خلاف اثر ڈالتی ہے مثلاً حافظہ کے لئے مُنہ سے بولنا ضروری ہے۔ آنکھوں سے دیکھتا، کانوں سے سُنتا ہے جن لوگوں نے قوتِ حافظہ پر غور کیا ہے اور اس کی تحقیقات کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ اس طرح چونکہ تین قوتیں کام کرتی ہیں اس لئے جو کچھ یاد کرنا ہوتا ہے وہ بہت جلد یاد ہو جاتا ہے۔ بچے اس قاعدہ کو خوب استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک سخت محنت ہوتی ہے مگر ایسی محنت نہیں جس سے طاقت پیدا ہوتی ہو بلکہ اس سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اور کمزوری کو دُور کرنے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس وقفہ کو ہماری زبان میں چھٹیاں کہتے ہیں۔ اِن چھٹیوں سے غرض یہ ہوتی ہے کہ اس عرصہ میں آرام کر کے بچے پھر محنت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ جو طالب علم ان چھٹیوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں وہ آئندہ محنت کے برداشت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ ان ایّام میں پڑھائی کو بالکل چھوڑہی دیا جائے کیونکہ بالکل چھوڑ دینا جو کچھ پڑھا ہو اس کو بھُلا دینے کا باعث ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ صبح یا شام ایک آدھ گھنٹہ پڑھنے میں لگایا جائے اور باقی وقت آرام کیا جاوے تاکہ دماغ مضبوط ہو جائے اور وہ کمی جو سال بھر کی محنت سے پیدا ہو گئی ہو دُور ہو جائے اور پھر زیادہ سے زیادہ محنت کر سکے۔
پس چھٹیاں ایک اہم چیز ہیں اور دُنیا کی کسی قوم نے خواہ وہ متمدن ہو یا غیر متمدن، ابتدائی حال میں ہو یا انتہائی میں چھٹیوں کی ضرورت سے انکار نہیں کیا۔ پس یہ ایک ضروری امر ہے جس کے بغیر گزارہ نہیں۔ یہی تعلیم ہے جو بچے مدرسوں میں اُستادوں سے اور دوسرے ہمدرد نصیحت کرنے والوں سے سُنتے ہوں گے۔
مگر یہ ایک یاد رکھنے والی بات ہے کہ چھٹیاں جو کئی قسم کی ہوتی ہیں ایک ہی وقت نہیں ہوتیں اور صرف پڑھائی سے ہی چھٹیاں نہیں ہوتیں بلکہ اور بھی چُھٹیاں ہوتی ہیں مثلاً ایک ایسا انسان جو تمام دن کام کاج میں مصروف رہتا ہے اُسے رات کو سونے کے لئے چھٹی ملتی ہے تاکہ چلنے پھرنے اور کام کرنے سے اپنے اعضاء کو فارغ کر دے۔ پھر تم تمام دن مُنہ کو کھانے پینے سے بند رکھتے ہو اور جیسا کہ مختلف قوموں میں رواج ہے ایک یا دو یا تین یا چار وقت تھوڑی دیر کے لئے مُنہ کو چھٹی دیتے ہیں کہ کھائے پیئے۔ پھر ایک وقت تم مجلسوں میں خاص آداب اور قواعد کے ماتحت بیٹھتے ہو لیکن وہاں سے رُخصت حاصل کر کے اپنے گھر میں جس طرح چاہتے ہو آرام کرتے ہو۔ یہ سب چھٹیاں ہیں لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ساری چھٹیاں ایک ہی وقت نہیں شروع ہو سکتیں۔ مثلاً یہ نہیں ہو گا کہ جب مدرسہ سے چھٹی ہو تو تم فوراً لیٹ جاؤ اور مدرسہ سے جس قدر فارغ ہو اس میں سوئے ہی رہو بلکہ جب سونے کا وقت ہو گا جبھی سوؤ گے یا مثلاً تم کہو کہ مدرسہ سے جو چھٹی ہوئی تو آؤ اس چھٹی کے سارے وقت میں کھانا ہی کھاتے رہیں۔ یہ غلطی ہو گی کیونکہ یہ رخصت سونے اور کھانے کے لئے نہ تھی۔ ان کے لئے ایک اور وقت ہو گا یا مثلاً تم خیال کرو کہ مدرسہ سے چھٹی ہوئی تو آداب مجلس سے بھی چھٹی ہو گئی۔ اگر ایسا خیال کرو گے تو غلطی کرو گے کیونکہ ہر ایک چھٹی کے لئے ایک علیحدہ وقت ہے اور تمام چھٹیاں ایک وقت میں شروع نہیں ہوتیں۔ یہ چھٹی جو مدرسہ سے ہوتی ہے اس کی محض یہ غرض ہوتی ہے کہ وہ جو تم مدرسہ میں جاتے تھے اور اُستاد آکر تمہیں پڑھاتے تھے اور اس کے علاوہ ایک اور بڑے وقت میں بھی تمہیں پڑھنا پڑتا تھا اور اس طرح تیرہ چودہ گھنٹہ تک تم پڑھا کرتے تھے۔ اس سے تمہیں فارغ کیا جائے اور اب اُستاد تمہیں پڑھنے کے لئے مجبور نہیں کریں گے۔ اگر گھنٹی بجے تو بے شک مدرسہ میں نہ جاؤ اور کہو کہ چھٹیاں ہیں لیکن اس چھٹی کے یہ معنے نہیں کہ دُنیا کے تمام کاموں سے تمہیں چھٹی ہو گئی۔
پھر دُنیا میں دُنیا کے کاموں سے تو کسی نہ کسی وقت چھٹی مل سکتی ہے مگر دین کے کاموں سے دُنیا میں چھٹی مل ہی نہیں سکتی۔ یہی دیکھ لو سکول میں باقاعدہ حاضر ہو کر پڑھنے اور محنت کرنے سے تمہیں چھٹی مِل گئی مگر تمہارے ہیڈ ماسٹر نے تمہیں نماز اور دوسرے دین کے احکام بجا لانے سے چھٹی نہیں دی اور اگر کوئی ایسا ہیڈ ماسٹر ہو جو کسی دینی کام میں چھٹی دے تو وہ تمہارا ہمدرد نہیں بلکہ دُشمن ہے۔ تمہیں نہ کوئی نماز اور دیگر دین کے احکام کی پابندی سے چھٹی دے سکتا ہے اور نہ کسی کے اختیار کی یہ بات ہے۔ ہیڈ ماسٹر یا انجمن جس کو بھی ایک خاص اتھارٹی حاصل ہے وہ رخصت دیتی ہے مگر صرف اسی کام میں جو اُن کا ہے۔ ان فرائض کے سوا وہ دینی احکام کے متعلق کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہر ایک کام الگ الگ طریق پر چلتا ہے۔ مثلاً قانون قدرت ہے کہ انسان کو نیند آئے لیکن جب نیند سے چھٹی ملتی ہے تو پھر کوئی ہیڈ ماسٹر سُلا نہیں سکتا۔ وہ قانون جو خدا نے بنایا ہے اس کے خلاف تمام ہیڈ ماسٹر نہیں سُلا سکتے، کوئی انجمن نہیں سُلا سکتی ۔ ہاں قانونِ قدرت ہی سُلا سکتا ہے۔ اسی طرح اور چھٹیاں ہیں ۔ ہر ایک مدرسہ کے لئے جُداجُدا ہیڈ ماسٹر ہیں۔ پس تمہیں چھٹی مدرسہ احمدیہ یا تعلیم الاسلام ہائی سکول میں جو پڑھائی ہوتی ہے اس سے ملتی ہے لیکن اسلام جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مدرسہ ہے اس کے احکام سے چھٹی نہیں ملتی۔ اس مدرسہ کے بانی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اور اس میں نئے سرے سے اصلاح کرنے والے اور اُن سُقموں کو دُور کرنے والے جو مدرّسین کے ذریعہ پیدا ہو گئے اور اس کے طالب علموں میں جو نقائص آگئے تھے حضرت مسیح موعود ہیں مگر یہ کالج جو ہے یہ کسی انجمن کے سُپرد نہیں۔ اس کے پہلے پرنسپل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں لیکن آپ کو بھی اس کے قواعد بنانے میں کوئی اختیار نہیں کیونکہ یہ وہ یونیورسٹی ہے جس کے تمام اُصول و قواعد و احکام خدا کی طرف سے آتے ہیں۔ پس اس کالج کے پرنسپل کو بھی یہ اتھارٹی حاصل نہیں کہ وہ اس کے اُصول و قواعد میں تغیر کر سکے کیونکہ اس کے اُصول و قواعد تمام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ فروعی باتوں میں ان خدائی اُصول کے ماتحت خداکے رسول کچھ کر سکتے ہیں مگر اُصول میں نہیں۔ پس ان احکام میں نہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جو کہ پہلے پرنسپل تھے کچھ تغیر کر سکتے تھے نہ مسیح موعود علیہ السلام کو یہ اختیار تھا کہ وہ ان احکام کو بدل سکیں اور بالآخر اسلامی شریعت کے انتظام کے ماتحت خلیفہ کی بھی ایک بڑی پوزیشن ہوتی ہے۔ اس کو بھی اس کا اختیارنہیں کہ وہ کچھ کمی بیشی کر سکے اور ایک انچ ان احکام سے اِدھر اُدھر ہو جائے بلکہ جس طرح تم پابند ہو شریعت کے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم کے اسی طرح خلیفہ بھی پابند ہے۔ اس کو جو درجہ حاصل ہے وہ محض یہ ہے کہ ان احکام پر لوگوں کو چلائے۔ اُسے یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ بدل دے۔ یہ ورثہ اس کو اعلیٰ حکام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود ؑ سے مِلا ہے۔ پس اس مدرسہ کے قانون اَور رنگ رکھتے ہیں۔ تمہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ چھٹیاں مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول سے ہیں۔ اسلام کے مدرسہ سے چھٹی نہیں ہوئی اور نہ کوئی دے سکتا ہے۔ ان چھٹیوں میں اجازت ہے کہ تم اپنے سبقوں کو چھوڑ دو مگر یہ نہیں کہ نمازوںکو بھی چھوڑ دو۔ یہ اجازت ہے کہ اپنے اوقات کو کھیل کود میں صرف کرو مگر یہ اجازت نہیں کہ بد اخلاقی اور آوارگی اختیار کرو اور پھر یہ بھی اجازت ہے کہ اگر کوئی گھنٹی بجے تو تم مدرسہ میں نہ جاؤ لیکن یہ نہیں کہ مسجدوں میں گھنٹی * ہو تو نہ جاؤ۔
یہ کام جاری رہیں گے۔ ان میں بھی ایک رخصت ہوتی ہے مثلاً ظہر کے بعد عصر تک کے وقفہ میں چھٹی ہے، عصر سے مغرب تک، مغرب سے عشاء تک اور عشاء سے صبح تک اور اس کا یہ دور ایک دو مہینہ یا سال دو سال کے بعد پورا نہیں ہو جاتا بلکہ جب تک تم طبعی عمر کا دَور پورا کر کے خدا کے حضور جاؤ گے تب وہ رخصت تمہیں مِل جائے گی اور پھر وہ رخصت ایسی ہو گی جو کبھی منقطع نہ ہو گی۔ اس محنت کے بعد تمہیں آرام ملے گا۔ یہ چھٹیاں جو ہوتی ہیں ان میں
* اذان مراد ہے۔ مرتب
کوئی شخص ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ تم بیمار نہ ہو گے یا تمہارا کوئی قریبی عزیز بیمار نہ ہو گا لیکن اس یونیورسٹی کا مالک یعنی خدا ذمہ لیتا ہے کہ وہ جو چھٹیاں دے گا ان میں تم آرام ہی آرام پاؤ گے اور تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔
پس اس بات کو یاد رکھو کہ مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کی چھٹیاں اور اس اسلام کے مدرسہ کی چھٹیاں دونوں مختلف ہیں اور مختلف اوقات میں آتی ہیں۔ تمہیں جو چھُٹی ہو گی وہ ان مدارس سے ہو گی لیکن اس سے نہیں ہے کہ اخلاقی تعلیم کو فراموش کر دو، شریعت کے احکام کو بھُلا دو، والدین کی فرمانبرداری چھوڑ دو، زبان اور ہاتھ اور جسم کو بدی سے نہ روکو۔
سُنا ہے کہ بعض لڑکے چھٹیوں میں نمازیں چھوڑ دیتے ہیں اور آوارہ ہو جاتے ہیں۔ ان کو سوچنا چاہئے کہ چھٹیاں تو ہوئی ہیں مگر کس مدرسہ میں۔ اسلام کے مدرسہ سے ایسی انہیں چھٹی نہیں ملی۔ اس کی چھٹی کا وقت تو موت کے وقت آتا ہے۔ یہ چھٹیاں تو ایسی ہیں کہ ان کے بعد زیادہ پڑھنا پڑے گا اور ان چھٹیوں میں بھی دو ایک گھنٹہ محنت کرنی پڑے گی مگر ان چھٹیوں کے بعد تمہارے لئے کوئی محنت و مشقت نہیں ہو گی۔ آرام ہی آرام ہو گا پھر ان چھٹیوں میں ذمہ داری نہیں لی جاتی کہ تم ضرور آرام ہی کرو گے مگر خدا کے ہاں سے ذمہ داری لی جاتی ہے کہ تم ضرور آرام ہی پاؤ گے۔ پس مَیں طالب علموں اور مدرّسوںکو نصیحت کرتا ہوں کیونکہ بعض مدرّس بھی گھروں میں جاکر سُست ہو جاتے ہیں۔ باہر جاکر تم بتادو کہ قادیان میں رہ کر تعلیمِ دین نے تم میں کیا تغیر پیدا کر دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں توفیق دے۔ آمین‘‘
(الفضل 12 اگست 1919ء)

53
ایک دوسرے کے محسن بنو
(فرمودہ 8 اگست 1919ء)
تشہد ،تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''بہت سے جھگڑوں اور اختلافوں کی وجہ مَیں دیکھتا ہوں شریعت کے احکام کی ناواقفی اور جہالت ہوتی ہے بلکہ مسلمانوں کے تو تمام جھگڑے بِلا استثناء اسی کے باعث ہوتے ہیں۔ اگر ان امور کو مدِّنظر رکھا جائے جن کی نگہداشت اور جن کو مدِّنظر رکھنا شریعت نے ضروری قرار دیا ہے تو مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہ رہے۔ تمام جھگڑے اور تنازعات جو مسلمانوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کے دُور کرنے کے متعلق کلّی طور پر ایک ہی علاج نہیں بتایا جاسکتا کیونکہ ہزاروں احکام ہیں جن کو لوگ توڑتے ہیں لیکن ایک بات ہے اگر اس کو مدِّنظر رکھا جائے تو بہت سے فساد مٹ سکتے ہیں۔ چونکہ جس قدر تنازعے ہوتے ہیں وہ سب کسی نہ کسی حکم کی خلاف ورزی کے باعث ہوتے ہیں اس لئے کسی ایک خاص حکم کی خلاف ورزی کو ان سب کی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا مگر ایک اصل ہے کہ اگر اس کو مدِّنظر رکھا جاوے تو تمام اختلافات ایک دَم میں طے ہو جائیں۔
وہ اصل کیا ہے؟ وہ یہ حکم ہے کہ ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو محسن بنانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى1 کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں عدل اور پھر احسان کا حکم دیتا ہے۔ پس احسان کرنا ایک حکم ہے جو ہر ایک مسلم کو دیا گیا ہے۔
اگر ہر ایک مسلمان یہ سمجھ لے کہ مجھے محسن بننا ہے تو تمام جھگڑے بہت آسانی کے ساتھ طے ہو سکتے ہیں کیونکہ سب کے سب جھگڑے اور فساد اسی حکم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔
اکثر لوگ چونکہ اس حکم کو اپنے لئے بھلا دیتے اور نظر انداز کر دیتے ہیں اور خیال کرلیتے ہیں کہ یہ دوسروں کے متعلق ہے خود ان کے متعلق نہیں اس لئے جھگڑے ہوتے ہیں۔ اگر تمام کے تمام لوگ اس کو یاد رکھیں تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر کوئی جھگڑا ہو۔ پس شریعت نے تمام جھگڑوں کے مٹانے کا گُر بتا دیا اور وہ یہ کہ تم محسن بننے کی کوشش کرتے رہو اور احسان فراموش نہ بنو۔ احسان فراموش نہ بننے سے میری یہ مراد نہیں کہ کسی کے احسان کو بھُلا نہ دو بلکہ یہ ہے کہ احسان کرنا نہ بھُول جاؤ کیونکہ عموماً تنازعے اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں مثلاً ایک شخص کہتا ہے مَیں نے فلاں سے زیادہ چیز مانگی تھی مگر اس نے میرا کچھ لحاظ نہ کیا حالانکہ میں اس کا بھائی تھا کیا ہوتا اگر وہ مجھ پر احسان کرنے کے لئے تھوڑی سی قربانی کر دیتا حالانکہ یہ کہنے والے کو سوچنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے احسان کرنے کا جو حکم دیا ہے اس کا بجالانا صرف دوسرے کے لئے ہی نہیں بلکہ خود اس کے لئے بھی ہے۔ وہ خود کیوں اس پر عمل نہیں کرتا اور کیوں بجائے زیادہ چیز مانگنے کے دینے والے پر احسان کرتا ہؤا کم نہیں لے لیتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اس حکم پر عمل کرنا دوسرے کے لئے فرض سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو اس سے آزاد قرار دیتا ہے اس سے تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پس ہمیشہ جب آپس میں اختلاف ہوتا ہے تو اس کی وجہ تلاش کرنے سے یہی معلوم ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کے متعلق کہتا ہے کہ اس نے یوں کیوں نہ کر دیا۔ ایک بیمار ہوتا ہے اور ڈاکٹر کے پاس آدھی رات کے وقت جاتا ہے اگر ڈاکٹر اس وقت اسے نہ ملے تو وہ شکایت کرتا ہے کہ کیوں رات کے وقت ڈاکٹر نے اُسے دوائی نہ دی اور اگر دوائی دے تو کہتا ہے مفت دوا نہیں دے دی۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ احسان کا حکم تو اس کو بھی تھا اُس نے کیوں رات کو ڈاکٹر کو تکلیف دینے کی بجائے تھوڑی دیر صبر سے کام نہ لیا اور تکلیف کو برداشت کر کے صبح کا انتظار نہ کیا؟ پھر کیوں اس نے چار آنے کی بجائے آٹھ آنے نہیں دے دیئے؟ اگر ڈاکٹر کسی مجبوری کی وجہ سے رات کو مِل نہ سکا تو وہ تو مطعون ہو جائے اور یہ جس نے اپنے متعلق خدا کے حکم کو بے قدری سے دیکھا کیوں الزام کے نیچے نہ آئے۔ پھر ایک شخص تاجر کے پاس جاتا ہے اور اس سے مال میں رعایت مانگتا ہے اگر وہ نہ دے تو کہتا ہے دیکھو جی وہ میرا ہم مذہب تھا اس نے مجھ سے بھی کچھ رعایت نہ کی۔ پھر قرض لیا ہو تو اس کے مطالبہ پر کہتا ہے مَیں اس سے فلاں چیز اُدھار لایا تھا اس کے دام ایک مہینہ تک تو اس نے نہیں مانگے لیکن دوسرے مہینہ پیچھے ہی پڑ گیا۔ ہم کیا کھا جاتے آخر دے ہی دیتے۔ یہ کیوں کہتا ہے اس لئے کہ وہ چاہتا ہے کہ دکاندار اس پر احسان کرتا مگر وہ یہ بھُول جاتا ہے کہ اس کو خود بھی تو احسان کا حکم تھا اس نے کیوں نہیں دو مہینہ پہلے ہی تاجر کو روپے دے دیئے تھے کہ وہ اپنے کام میں صرف کر لیتا اور جب اس کو ضرورت ہوتی اس سے مال خرید لیتا۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اگر دکاندار سودا دے کر ایک ذرا بھی دام لینے میں خاموشی اختیار کرتا ہے تو وہ تم پر احسان کرتا ہے اور تمہارا محسن ہے کیونکہ اگر وہ اسی وقت قیمت مانگتا جبکہ اس نے مال تمہارے حوالہ کیا تو اس کا حق تھا۔ پس اگر ایک شخص قرض دے کر ایک دن دو دن یا ہفتہ خاموش رہتا ہے اور پھر مطالبہ کرتا ہے تو اس نے کوئی بدسلوکی نہیں کی بلکہ جس قدر وہ کر سکتا تھا اس نے احسان کیا ہے اور احسان کرنا اسی کا کام نہیں بلکہ تمہارا بھی ہے کہ جس طرح اس سے مال لے کر روپیہ بعد میں دینا چاہتے ہو اسی طرح اسے بھی پیشگی روپیہ دے دیا کرو۔ پس اگر کوئی دکاندار مال دے کر ایک مہینہ تک کچھ نہیں طلب کرتا تو اس نے احسان کا معاملہ کیا ہے مگر خریدنے والے نے اس کے ساتھ بھائیوں والا معاملہ نہیں کیا کہ جب اس سے مطالبہ کیا گیا تو جھگڑنے لگ گیا۔ اگر یہ بھی بھائیوں والا معاملہ کرتا تو کوئی جھگڑا اور فساد نہ ہوتا اور یہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک شخص اپنا حق طلب کرے تو دوسرا اس سے لڑنے بیٹھ جائے۔ دیکھو اگر ایک فقیر کچھ مانگے اور کچھ دینے پر وہ زیادہ لینے کے لئے اصرار کرے تو دینے والا کہتا ہے بھئی تمہارا کچھ حق تو نہ تھا جتنا مجھے دینا تھا دے دیا۔ ایسے موقع پر تو یہ بات یاد آجاتی ہے کہ کسی حق کی بناء پر ہی رعایت کا مطالبہ ہو سکتا ہے لیکن تاجر کے مطالبہ پر اور حق بجانب مطالبہ پر کہا جاتا ہے کہ اس نے مجھے اور زیادہ رعایت کیوں نہ دی اور احسان نہ کیا۔ اس وقت یاد نہیں رہتا کہ میرا تاجر پر کیا حق ہے کہ رعایت اور احسان چاہتا ہوں۔
تو یہ عجیب لڑائی ہوتی ہے۔ قرآن نے اس قسم کی لڑائیوں سے بچنے کا یہ اصل بتا دیا ہے کہ تم محسن بنو۔ پس ایک شخص جو دوسرے سے اس لئے لڑنے بیٹھتا ہے کہ اس نے مجھ پر کیوں احسان نہیں کیا وہ خود اُس پر احسان نہیں کرتا۔ وہ اس لئے ناراض ہوتا ہے کہ دکاندار نے اس کو زیادہ چیز کیوں نہیں دی۔ ہم کہتے ہیں کہ اس نے دکاندار سے کم کیوں نہ لے لی۔ کہا جاتا ہے دیکھو جی فلاں دکاندار کیسا کورا آدمی ہے کہ ایک روپیہ کی دال یا چاول لئے تھے ایک دانہ زیادہ نہ ڈالا۔ ہم کہتے ہیں لینے والے نے کچھ کم کیوں نہ لے لی۔ اگر سیر کا بھاؤ تھا تو پونا سیر کیوں نہ لے لیا۔ اسی طرح کپڑا خریدنے جاتے ہیں اور خواہش کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ دوانگشت زیادہ پھاڑنا مگر یہ نہیں کہتے کہ گز سے کچھ کم کر دینا۔
غرض جتنے جھگڑوں کو مَیں نے دیکھا ہے چھ سال سے ذمہ داری کے طور پر اور اس سے پہلے ایک ساتھی اور بھائی کے طور پر ان میں ننانوے فیصدی جھگڑوں کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ فلاں نے ہم پر احسان کیوں نہ کیا اور ایک دوسرے سے احسان کا خواہاں ہوتا ہے خود محسن بننا نہیں چاہتا۔
پھر سب سے بڑی طوطا چشمی تو یہ ہے کہ شریعت کے حکم کا دوسرے سے مطالبہ کیا جائے اور دوسرے سے چاہا جائے کہ وہ اس پر احسان کرے مگر خود اس پر احسان نہ کیا جائے ۔ دراصل اپنے لئے احسان کا مطالبہ کرنا یہ احسان نہیں بلکہ ڈاکہ ہے کیونکہ اپنے نفس کے لئے خود مطالبہ کرنا احسان نہیں ہوتا۔ ہاں تیسرا شخص کہہ سکتا ہے کہ احسان کرو یہ نہیں کہ خود ایک انسان کہے کہ مجھ پر احسان کرو۔ تو لینے والے کا حق نہیں کہ وہ احسان کا مطالبہ کرے بلکہ مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ وہ دوسرے پر احسان کرے۔ دوسرے سے اپنے لئے احسان کا مطالبہ کرنا تو سوال ہے اور مومن کے لئے سوال کرنا ممنوع ہے۔ صحابۂ کرام کی شان اسی قسم کے واقعات سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک شخص رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اوراس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ آپ نے پورا کر دیا۔ پھر آیا اور سوال کیا پھر آپ نے پورا کر دیا۔ اِسی طرح کئی دفعہ ہؤا۔ آخر آپ نے فرمایا کیا مَیں تمہیں وہ چیز دوں جو تمہیں دین و دُنیا میں غنی کر دے اور وہ یہ ہے کہ آئندہ کے لئے سوال کرنا چھوڑ دو۔ اس نے عرض کیا کہ حضور بس اب کبھی سوال نہیں کروں گا۔ ایک جنگ کے موقع پر یہی صحابی گھوڑے پر سوار تھے کہ ان کے ہاتھ سے کوڑا گر گیا۔ ایک دوسرے شخص نے چاہا کہ اُٹھا کر پکڑا دے مگر اُنہوں نے اس کو قسم دی کہ نہ پکڑانا کیونکہ مَیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر اقرار کر چُکا ہوں کہ کبھی سوال نہ کروں گا۔ چنانچہ وہ خود گھوڑے سے اُترے اور کوڑا اُٹھا کر پھر سوار ہو گئے۔2 اگرچہ یہ سوال نہ تھا مگر چونکہ اس میں بھی ایک صورتِ سوال پیدا ہو جاتی تھی اس لئے اس سے بھی اجتناب کیا۔ پس جو شخص معاملہ میں زیادہ چاہتا ہے وہ سوال کرتا ہے۔ عورتوں کو دیکھا جاتا ہے کہ کوئی عورت سودا لائے تو خریدنے والیاں ضرور زیادہ مانگتی ہیں اور کچھ نہ کچھ لے ہی لیتی ہیں خواہ ایک گندل ہو یا ایک گاجر ہی ہو۔ اگر ایسا نہ کریں تو گویا ان کا شوق پورا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اور معاملات میں ہوتا ہے۔ کپڑا لینے والا ایک گرہ زیادہ کا طالب ہو کر ممنون احسان بننا چاہتا ہے لیکن کم لے کر محسن بننا نہیں چاہتا۔ پس کُل اختلاف کی بناء یہی ہوتی ہے۔ ایسا شخص شریعت کی ہتک کرتا ہے جو خود کہتا ہے کہ مجھ پر احسان کرو حالانکہ یہ اس کا حق نہیں قاضی کا ہے کہ وہ کہے تم فلاں پر احسان کرو۔ اسی طرح جھگڑوں کی طوالت ہوتی ہے۔ اگر ہر ایک فریق یہ کوشش کرے کہ وہ خود محسن بنے تو کوئی جھگڑا نہ ہو اور پھر ایک تیسرا شخص دونوں کو احسان کا مشورہ دے۔ جو خود طالبِ احسان ہوتا ہے وہ بُرا کرتا ہے۔ اگر اس طرح ہو کہ لوگ خود نہ کہیں بلکہ دوسرا کہے تو اوّل تو اختلاف ہی نہ ہوں اور اگر ہوں تو منٹوں میں فیصلہ ہو جائے۔
پس مَیں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى۔اﷲ تعالیٰ احسان کا حکم دیتا ہے۔ تم محسن بنو اور جب تم محسن بنو گے تو تمہارے جھگڑے دُور ہو جائیں گے اور اگر ہوں گے تو پھر تمہیں ججوں اور قاضیوں اور امیروں کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہ رہے گی خود ہی فیصلے ہو جائیں گے۔
اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق دے اور آپ میں ایسا اتفاق و اتحاد پیدا کرے جس کی نظیر دُنیا کی اور قوموں میں تو کیا اﷲ تعالیٰ کی پہلی مقبول قوموں میں پائی جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین‘‘
(الفضل 23 اگست 1919ء)
1: النحل : 91
2: بخاری کتاب الْوَصَایا باب تَاْوِیل قَوْل ﷲِ تعالٰی مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃ (الخ)

54
حاصل شُدہ انعامات کو قائم رکھو
(فرمودہ 22 اگست 1919ء)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''عزتوں اور کامیابیوں کا حاصل کرنا ایک مُشکل امر ہے۔ لوگ بڑی دقّتوں اور تکلیفوں کے بعد کسی قسم کی کامیابی اور عزت حاصل کرتے ہیں لیکن عزت اور کامیابی کا قائم رکھنا اس سے بھی زیادہ مُشکل ہے۔ کامیاب اور عزت یاب ہونا تو مشکل ہے ہی لیکن کامیاب اور عزت یافتہ رہنا اس سے بھی بڑھ کر مُشکل ہے۔ تمام دُنیا کے بڑے بڑے لوگ جو کسی زمانہ میں گزرے ہیں یا اِس وقت موجود ہیں تمام دُنیا کی قومیں جو گزری ہیں یا اس وقت موجود ہیں ان کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دس فیصدی بھی ایسے انسان نہیں ہوئے جنہوں نے عزت کو حاصل کیا ہو اور پھر اس کو ہمیشہ قائم رکھا ہو۔ بڑی بڑی جانکاہیوں کے بعد کوئی درجہ حاصل کیا لیکن جب کسی درجہ اور مقام پر پہنچے تو تنزّل شروع ہو گیا یہی قوموں کا حال ہؤا ہے اور یہی افراد کا۔ سوائے ان لوگوں کے جو خدا کی پناہ میں ہوتے ہیں۔
دیکھو خدا کے ہزار ہا نبی گزرے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء گزرے ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی مستند بات نہیں تاہم ان میں سے سینکڑوں ہیں جن کی تاریخ محفوظ ہے ان کو جو کامیابی ہوئی وہ کبھی ناکامی سے نہ بدلی۔ اسی طرح اور بزرگ اور اولیاء اﷲ جو کھڑے ہوئے ہیں ان میں سے بھی کسی کی مثال نہیں ملتی جس کی عزت اور رُتبہ میں کسی قسم کی کمی آئی ہو۔
لیکن اس کی مثال موجود ہے کہ امتدادِ زمانہ کی وجہ سے انبیاء کی قائم کردہ جماعتوں میں بھی تنزّل شروع ہو گیا ہے۔ اَوروں کو جانے دو مسلمانوں کو ہی دیکھ لو ان کی جماعت بندی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی تھی لیکن ترقی کی طرف چلتے چلتے آخر یہ جماعت تنزّل کی طرف چل پڑی حتّٰی کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جبکہ اس اُمّت کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ 1
اور اس وقت ایسی حالت کو پہنچ جائیں گے کہ ''یہود'' کے مشابہ ہو جائیں گے۔2 اور ان کے قدم بقدم چلیں گے۔ ''یہود'' اگرچہ انبیاء کی اولاد ہیں اور ایک وقت میں یہ لفظ معزز تھا مگر اپنے اعمال کی وجہ سے یہ لوگ ایسے گر گئے کہ آج کوئی مسلمان یہودی کہلانا پسند نہیں کرتا لیکن رسولِ کریم نے فرمایا کہ ایک وقت میں مسلمانوں کی حالت بھی بالکل ان ہی کے مشابہ ہو جائے گی اور کوئی بدی اور بدکاری نہ ہو گی جو یہود نے کی ہو اور مسلمان اس سے بچ جائیں۔ آج دیکھ لو کیا مسلمانوں کی یہ حالت نہیں ہے وہ مسلمان جو رُوحانیت کا مجسم نشان سمجھے جاتے تھے رُوحانیت سے بالکل خالی ہیں۔ پہلے لوگ سوچ سمجھ کر ہر عمل کرتے تھے لیکن ان کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیکھتے جاؤ بندروں کی طرح نقل کرتے نظر آئیں گے۔ نماز پڑھتے، روزے رکھتے ہیں مگر ان کی حقیقت سے غافل ہیں۔ حج کرتے ہیں لیکن ان کا حج میلے سے کم نہیں ہوتا۔
مَیں نے حج کے دنوں میں ہندوستانی حاجیوں کو خود دیکھا ہے کہ وہ ان اوراد کی بجائے جن کا پڑھنا ضروری ہے عشقیہ اشعار پڑھتے چلے جا رہے تھے، پھر عرفات میں کہ جہاں دُعا مانگنے کا نام ہی حج ہے وہاں مَیں نے دیکھا کہ لوگ پھل اور مٹھائیاں کھانے میں مشغول تھے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کرتے تھے کہ جب خطیب کھڑا ہوتا تو کپڑا ہلا دیتے۔ پھر طواف کرتے وقت خود مجھ سے ایک واقعہ ہؤا۔ طواف کرتے ہوئے حجر اسود کو بوسہ دینا آسان نہیں ہوتا کیونکہ بہت ہجوم ہوتا ہے۔ مَیں بڑی دقّت سے حجر اسود تک پہنچا اتنے میں پیچھے سے آواز آئی ''حریم۔حریم'' جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورتیں آتی ہیں راستہ کر دو۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ عورتیں چونکہ کمزور ہوتی ہیں اس لئے ان کے لئے جگہ خالی کرنا ہر شخص کا اخلاقی فرض ہوتا ہے۔ مَیں پیچھے ہٹ گیا اس پر ہٹے کٹے چھ چھ فٹ کے نوجوان حجرِ اسود کو بوسہ دے کر ہنستے ہنستے گزر گئے۔ ان کے ہنسنے کا یہ مطلب تھا کہ دیکھا ہم نے کیسی چالاکی اور آسانی سے حجر اسود کے بوسہ دینے کے لئے جگہ نکلوالی۔ یہ ایک مبارک کام انہوں نے جھوٹ کے ذریعہ کیا۔ پھر قاعدہ ہے کہ حجرِ اسود کے دونوں طرف سپاہی کھڑے رہتے ہیں کیونکہ جب لوگ حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں تو چور روپیہ وغیرہ کاٹ لیتے ہیں۔ جب یہ حال ایک نہایت متبرک جگہ اور متبرک کام کرتے ہوئے ہے تو دوسری باتوں کا اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ غرض دُنیا میں جو کسی قوم نے شرارت کی ہے وہ ان میں پائی جاتی ہے۔
اب بھی مسیح موعود علیہ السلام نے جو جماعت قائم کی ہے اس کو خدا نے نمونہ بنایا اور اپنے زندہ نشانوں کے ذریعہ اس پر اپنے جلال کا اظہار کیا ہے اور لوگوں نے مسیح موعود کو دیکھ کر خدا کو دیکھا ہے کیونکہ مسیح موعود مظہر آیات تھے اور پھر وہی دیکھا ہے جو موسیٰ ؑ کے وقت موسیٰ ؑکی قوم نے دیکھا اور مسیح ؑکے وقت مسیح ؑکے صحابہ نے۔ غرض آدم ؑ سے لے کر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تک جتنے نبی آئے اور ان کے ذریعہ جو کچھ ظاہر ہؤا وہ سب کچھ دکھایا گیا اور اس ذریعہ سے خدا پر کامل ایمان پیدا کیا اور یہ خدا کا خاص فضل ہے جو مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ آیا کیونکہ مسیح موعود ؑ کی بعثت بھی خدا کے فضل کے ہی ماتحت ہوئی لیکن آپ لوگوں نے مسیح موعود ؑ کو قبول کیا، اس میں آپ کو بہت تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑیں کیونکہ فضلوں کے جاذب عمل ہوتے ہیں۔ بعض تم میں سے قتل کئے گئے اور بہتوں کو جائدادوں سے علیحدہ کیا گیا اور اکثروں پر کئی قسم کے مظالم کئے گئے۔
غرض آپ لوگوں نے ان سب دُکھوں کو برداشت کیا اور اس فضل کو قبول کیا جو مسیح موعود کی صورت میں نازل ہؤا۔ اِتنی دقتوں کے بعد یہ چیز آپ کو حاصل ہوئی لیکن اس کا قائم رکھنا بھی مُشکل ہے کیونکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے عزّت اور مرتبہ کا حاصل کرنا مُشکل ہونے کے باوجود آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ حاصل کردہ رُتبہ کو قائم رکھا جائے۔ دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کی اُمّت گمراہ ہوئی، محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت میں خرابی پیدا ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جو جماعت تیار ہوئی اس پر بھی یہ دن آتا ہے۔ اس وقت ان کی اصلاح کے لئے خواہ مسیح موعود کے خادموں سے ہی کوئی مصلح پیدا ہو اور قبل اس کے کہ وہ گھڑی کھڑی ہو جسے قیامت کہتے ہیں ضرورت کے وقت ضرور ایسا ہی ہو گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود فرمایا کہ آپ کے ہی غلاموں سے مصلح پیدا ہو گا۔ پس کوئی جماعت نہیں جس نے حاصل کردہ کامیابی اور عزت کو قائم رکھا ہو۔ یہ سچ ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ جو جماعت تیار ہوئی اس نے اپنی عزت کو قائم رکھا اور خود ضائع نہیں کیا۔
پھر وہ لوگ جو صحابہ کی صحبت اُٹھانے والے تھے اُنہوں نے بھی بہت حد تک اس کامیابی اور عزت کو قائم رکھا اور پھر وہ لوگ جنہوں نے ان کی صحبت اُٹھائی وہ بھی بہت حد تک اچھے رہے لیکن ان کے بعد ناخَلْف پیدا ہوئے اور اُنہوں نے اس کامیابی اور عزت اور فضل کو کھونا شروع کر دیا کیونکہ وہ نبی سے فاصلہ پر جاپڑے تھے۔ یہ قدرتی تھا جو ان کے لئے پیش آیا لیکن اگر کوئی جماعت خود حاصل کرے اور خود ہی کھو دے تو اس پر بہت ہی افسوس ہے۔
اس لئے مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا نے جو مسیح موعود کے ذریعہ آپ لوگوں کو رُتبہ اور درجہ دیا ہے ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی کمزوریوں اور خرابیوں کی وجہ سے چھین لیا جاوے اور جس طرح کہ پہلی قوموں کو ان کی شرارتوں کے باعث متروک بنایا گیا اسی طرح آپ کو بھی متروک بنا دیا جائے۔ پس اپنی اصلاح کی طرف خاص طور پر توجہ کرو۔
اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے کہ وہ رُتبہ جو آپ کو حاصل ہؤا ہے وہ آپ کی آئندہ نسلوں میں باقی رہے اور آپ اس کو اپنی نسلوں کے لئے اور وہ آئندہ اور وہ اس سے آگے آنے والوں کے لئے چھوڑ جائیں۔ آمین‘‘ (الفضل 30 اگست 1919ء)
1: مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثالث جلد 1صفحہ 73مطبوعہ لاہور 1993ء
2: ترمذی اَبْوَابُ الْاِیْمَان باب اِفْتِرَاقُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ


55
حسد کے مرض سے بچو
(فرمودہ 29 اگست 1919ء)
تشہد، تعوّذ ، سورۃ فاتحہ اور سورۃ الفلق کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''سورۃ فلق میں ان تمام اشیاء سے اﷲ تعالیٰ نے پناہ مانگنے کی دُعا سکھائی ہے جو انسان کے لئے ضرر رساں ہوتی ہیں۔ خلق کے معنے ہوتے ہیں مخلوق کے اور یوں تو قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ۔مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ۔1 میں تمام ہی مخلوق کی بدیوں سے بچنے کی دُعا سکھائی گئی ہے مگرباوجود اس کے جس جس رنگ میں کوئی دُکھ پہنچ سکتا ہے اس سے بھی بچنے کی اﷲ تعالیٰ نے دُعا سکھائی ہے۔ پھر سب دُکھ دینے والی چیزوں میں سے دو کو علیحدہ کر لیا ہے اور وہ دو چیزیں شَرِّ النَّفّٰثٰتِ 2 اور شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ3 ہیں۔ بیشک شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ4کو بھی علیحدہ کیا ہے اور اس میں بھی بہت وسیع مضمون ہے اور وہ ہر قسم کی تکلیف پر مشتمل ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے یہ دونوں باتیں خاص تعلق اور وابستگی رکھتی ہیں اسی لئے ان دونوں کو علیحدہ کر کے دُعا میں شامل کیا ہے۔
آج میں ان دونوں امروں میں سے ایک کے متعلق اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں۔ حسد گو ایک عربی کا لفظ ہے مگر ہماری زبان میں بھی کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے اور ہندوستان کا بچہ بچہ جو اُردو یا پنجابی زبان رکھتا ہے حسد کو خوب جانتا ہے اور ایسا شخص جس پر حسدکرنے کا شُبہ بھی ہو اس کی مذمت کی جاتی ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ لفظ ہماری زبان میں مستعمل ہے اور لوگ اس کو خوب سمجھتے ہیں اور باوجود اس بیماری کی شدّت کو جاننے کے اور باوجود اس کے کہ اس سے نفرت کرتے ہیں پھر بھی عمداً اس میں لوگ مُبتلا ہوتے ہیں اور باوجود حسد کو اس لحاظ سے جاننے کے کہ حسد کی موٹی تعریف ان کو معلوم ہوتی ہے اور باوجود اس علم کے حسد بُری چیز ہے اور نفرت کے طور پر جس کو گالی دینی ہو اُسے حاسد کہتے ہیں پھر بھی اپنے آپ کو اس سے نہیں بچاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسد کی جو حقیقی تعریف ہے اس سے لوگ ناواقف ہیں۔
حسد کے معنے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کے پاس مال ہو اس کی نسبت دوسرے کی خواہش ہو کہ اس سے مال چھن جائے اور اسے مِل جائے۔ بیشک یہ حسد ہے لیکن یہی حسد نہیں ہے بلکہ جس طرح شیطان نے اَور بدیوں کو مختلف رنگ دیئے ہوتے ہیں اسی طرح حسد کو بھی کئی رنگوں میں پیش کرتا ہے۔
شیطان کی عادت ہے (اس جگہ شیطان سے میری مراد ابلیس نہیں بلکہ شیطانی ارادوں والے آدمی اور وسواس ڈالنے والے لوگ ہیں) کہ وہ بدی کو نیکی کے رنگ میں دکھایا کرتا ہے اس ذریعہ سے وہ بہت بڑے بڑے فساد ڈالتا ہے۔ بہت لوگ ہیں کہ اگر کوئی ان کو بدی کے ذریعہ بدی پر لگائے تو نہیں لگیں گے لیکن اگر نیکی کی صورت میں بدی پیش کی جائے تو وہ اس پر کاربند ہو جائیں گے مثلاً ایک شخص کو کہا جائے کہ تم فلاں شخص کو قتل کر دو تو وہ اس خیال سے نفرت کرے گا اور اس خیال سے گھبرائے گا لیکن نیکی کی صورت میں جب یہ بات پیش کی جائے کہ بڑا ثواب ہو گا یا اور کوئی مفید نتیجہ نکلے گا تو لوگ قتل کرنے سے نہیں گھبراتے۔ آجکل جو ٹھگوں کا بدنام گروہ ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ابتداء میں یہ ایک مذہبی گروہ تھا جو اس لئے لوگوں کو قتل کر دیا کرتا تھا کہ لوگ دُنیا کے رنج و آلام سے چھوٹ جائیں اور یہ لوگ سمجھتے تھے کہ اس طرح ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے احسان کرتے ہیں ۔ تو یہ بغیر کسی لالچ اور خواہش اور بُغض و حقد کے قتل کے مرتکب ہوتے تھے۔ ان کا قاعدہ تھا کہ مسافر راستہ میں چلا جاتا ہو اس کے گلے میں پھانسی ڈال کر مار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ مصیبت میں تھا ہم نے اس کو بچا لیا۔ وہ اس کو ایک ثواب کا کام خیال کرتے تھے۔ اب یہ گروہ ایک لٹیروں کا گروہ ہو گیا ہے۔ ورنہ یہ ایک مذہبی جماعت تھی جس کے سامنے لوگوں کوقتل کرنا بُرائی کے رنگ میں پیش نہ ہؤا بلکہ اس صورت میں پیش ہؤا کہ لوگ دُنیا میں رہ کر دُکھ اُٹھاتے تھے اِس لئے ان کو دکھوں سے نجات دینے کے لئے ان کو قتل کر دینا چاہئے اور یہ ان پر احسان ہو گا ظلم نہ ہو گا۔ یہ دھوکا تھا جو شیطان نے ان کو نیکی کے رنگ میں دیا۔
پس شیطان کبھی بدی کی تعلیم کو نیک پیرائے میں پیش کرتا ہے اور بدی کو نیکی کا لباس پہنا کر لوگوں کی ہمدردی حاصل کرتا ہے مثلاً کہیں صدقہ کا سوال ہوتا ہے اب اس کے مقابلہ میں اگر لوگوں کو بخل کی تعلیم دی جائے تو وہ اس پر کان نہیں دھر سکتے، مگر یورپین رنگ دے کر اسی خیال کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اگر اس طرح صدقہ و خیرات کیا جائے تو ملک کا ایک بڑا حصّہ نکّما ہو جاتا ہے کیونکہ جب ان کو خیرات ملنے لگتی ہے تو وہ محنت چھوڑ دیتے ہیں اس لئے جو لوگ خیرات کرتے ہیں وہ نیک کام کرنے کی بجائے ملک سے دشمنی کرتے ہیں۔ اب اگر کھلے لفظوں میں بخل کی تعلیم دی جاتی تو ایک آدھ شخص بھی مشکل سے اس خیال کو تسلیم کرتا مگر اس رنگ میں سینکڑوں اس بخل کی تعلیم کو تسلیم کر کے اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں یا اسی طرح اگر کوئی شخص کہے کہ عبادت میں کیا رکھا ہے اور ہماری تسبیح و تحمید سے خدا کا کیا بنتا ہے تو بہت کم لوگ اس کے قابو میں آئیں گے لیکن اگر یُوں کہا جائے کہ اصل تو عبادت غریب لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ جتنے عرصہ میں کوئی تسبیح پڑھتا ہے اتنے عرصہ میں ایک غریب کو مدد دینے میں بہت فائدہ پہنچا سکتا ہے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ اس خیال کو تسلیم کر لیں گے۔ اسی لئے تمام بدیاں نیکی کی شکل میں پیش کی جاتی ہیں اور نادان ان پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح لوگ تمام عبادتیں تسبیح و تحمید حتّٰی کہ نماز تک کو ترک کر دیتے ہیں۔
ہمارے مُلک کا بڑا دنیاوی مصلح جس نے مسلمانوں کی مادی حالت بالکل بدل ڈالی اور جس کی ذاتی محنت اور کوشش اور ہمت اور قربانی سے کئی نکمّے کام کے اور سُست چُست ہو گئے اور اس وقت جبکہ انگریزی زبان پڑھنے کو جہالت اور نادانی سے لوگ کُفر سمجھتے تھے جس نے اس غلط خیال کو لوگوں کے دلوں سے نکالا وہ سیّد احمد خان ہے۔ دُنیاوی لحاظ سے اس میں شک نہیں کہ اس نے بڑا کام کیا۔ وہ قومی محبت دل میں رکھتا تھا ہاں مذہب کی محبت اس کے دل میں نہ تھی جس کو وہ قوم سمجھتا تھا اس کے لئے اس نے نماز ترک کر دی اور کہہ دیا تھا کہ وہ وقت جو مَیں نماز میں لگاؤں گا کیوں نہ قوم کی خدمت اور بھلائی میں صرف کروں جس سے قوم کا کام بنے۔ پس شیطان نے اس کو بھی دھوکا دیا اور اس کے دل میں ڈال دیا کہ تیری یہ کارروائیاں ہی نماز کی قائمقام ہیں۔
شیطان بڑی ترکیب سے کام کرتا ہے۔ حسد کے بہت سے مدارج ہیں جن میں سے ایک مساوات کا خیال ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس خیال کو جو اصل ہے اس کا پیدا کرنے والا اسلام ہے کیونکہ اسلام کی تعلیم ہے کہ تمام بنی نوع آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ انسان ہونے کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں اور اس میں شُبہ نہیں کہ جب تک یہ خیال نہ ہو ترقی نہیں ہو سکتی مگر جن کو خدا نے بڑائی دی ہو ان کی تذلیل کے لئے کہہ دینا کہ اسلام نے مساوات رکھی ہے ان کو ہم پر کوئی فضیلت نہیں ایک غلط خیال ہے اور بہت لوگوں کو اس خیال نے تباہ کیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت میں بعض وہ لوگ جنہوں نے اس زمانہ کے صوفیوں کی حالت کو دیکھا تھا کہ وہاں غریب و امیر کو ایک ہی قسم کا کھانا کھلایا جاتا ہے انہوں نے جب یہاں یہ بات ملاحظہ کی کہ ذی وسعت لوگوں کو ان کی حالت کے مناسب اور غرباء کو ان کے درجہ کے مطابق کھانا دیا جاتا ہے تو کہنے لگے کہ خدا کے سلسلہ میں ایسا نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہاں تو سب کو ایک ہی درجہ میں ہونا چاہئے۔ یہ بات حضرت اقدس کے سامنے بھی پیش کی گئی۔ آپ نے فرمایا ہم تو خدا کے فعل کے متبع ہیں۔ دیکھو خدا نے کسی کو امیر بنایا ہے اور کسی کو غریب، کسی کے گھر میں قسماقسم کے کھانے ہوتے ہیں اور کسی کے ہاں مشکل سے دال روٹی۔ اب جبکہ خدا نے یہ تقسیم کی ہے تو ہم کیسے اس تقسیم کے خلاف سب سے ایک ہی قسم کا معاملہ کریں۔ جس کو گھر میں عمدہ کھانا ملتا ہے اس کو عمدہ نہ دینا اس پر ظلم کرنا ہے کیونکہ وہ معمولی کھانے کا عادی نہیں ہوتا تو یہ مساوات کا غلط مطلب ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ خدا نے اسلام میں جو مساوات رکھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہ بادشاہ نماز پڑھے یا غریب سب کو ایک سا اجر ملے گا۔ خداکے ہاں یہ نہیں کہ اگر ایک امیر نماز یا روزہ کا عمل بجا لائے تو اس کو اس سے زیادہ اجر ملے گا جو ایک غریب و فقیر کو ان اعمال کا اجر ملے گا۔ باقی رہی دولت و ثروت یہ نتیجہ ہے اس کی یا اس کے آباء کی محنت کا۔ اس میں مساوات کیسے ہو سکتی ہے۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس غرباء آئے اور کہا حضور ہمارے بھائی امیر نیکیوں میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں۔ نماز ہم پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں، روزہ ہم رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں، ہم جہاد کے لئے جاتے ہیں وہ بھی جاتے ہیں، وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں ہم اس سے محروم ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مَیں تمہیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں کہ اگر تم وہ کرو گے تو امراء سے تم نیکیوں میں بڑھ جاؤ گے اور وہ بات یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد33 دفعہ تحمید 33دفعہ تقدیس اور 34 دفعہ تکبیر کہا کرو۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں ان سے بڑھا دے گا۔ چند دن کے بعد غرباء پھر آئے کہ حضور! امیر تو یہ کام بھی کرنے لگ گئے ہم کیا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ خدا جس کو فضیلت دیتا ہے مَیں کس طرح اس کو روک سکتا ہوں۔5 وہ دولتمند مسلمان ایسے مسلمان نہ تھے کہ فرائض کو بھی ترک کر دیں۔ وہ تو نوافل میں اس قدر جدوجہد کرتے تھے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر ان کی دولتمندی برائے نام نہ تھی بلکہ کافی دولت رکھتے تھے۔ ایک صحابی جن کے متعلق صحابہ کا خیال تھا کہ غریب ہیں جب فوت ہوئے تو ان کے پاس ڈھائی کروڑ روپیہ کی جائداد ثابت ہوئی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں صحابہ کو تجارت کا بھی خاص ملکہ تھا چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اس فن میں کامل تھے اُنہوں نے ایک دفعہ دس ہزار اونٹ خریدے اور اصل قیمت پر ہی فروخت کر دیئے۔ ایک دوست نے کہا کہ اس میں آپ کو کیا نفع ہؤا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ مجھے اسی وقت کھڑے کھڑے ڈھائی ہزار روپیہ کا نفع ان اونٹوں کی خریدوفروخت میں حاصل ہؤا ہے اور وہ اس طرح کہ مَیں نے جب اونٹ خریدے تھے تو نکیل سمیت خریدے تھے اور فروخت بغیر نکیل کے کئے ہیں۔ اس سودے میں دس ہزار نکیل مجھے نفع میں ملی اور اگر مَیں اس وقت فروخت نہ کرتا تو خدا جانے کب گاہک پیدا ہوتا اور اتنے عرصہ میں کتنا کھا جاتے لیکن اس وقت بغیر کسی خرچ کے ڈھائی ہزار کا نفع ہؤا۔ چونکہ ان کو تجارت کا فن خوب آتا تھا اور اپنے کام میں بہت چُست تھے اس لئے وہ مال میں بڑھ گئے۔ اب کس طرح ان کو کسی ایسے شخص کے برابر سمجھا جاسکتا تھا جو نہ ان کی طرح ہوشیار تھا اور نہ اس فن سے چُستی کے ساتھ کام لے سکتا تھا۔ یہ مساوات نہیں کہ دولتمندی کے لحاظ سے سب کو مساوی سمجھا جائے۔ یہ تو ایک دھوکا ہے اور غلطی ہے۔ مساوات وہ ہے جو حضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت امراء نے دکھائی۔ اب لوگ جس چیز کو مساوات خیال کرتے ہیں یہ حسد ہوتا ہے۔ متعدد احادیث میں آتا ہے کہ لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کوئی بات کہنی چاہی۔ آپ نے فرما دیا تمہارا امیر پیش ہو۔ پس ان لوگوں کی مزعوم مساوات کہاں رہی۔ اگر سب کی ایک ہی حیثیت تھی تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے امیر کے پیش ہونے کا کیوں حُکم فرمایا۔ پھر فرمایا نماز کے لئے وہ آگے کھڑا ہو جو تم میں زیادہ متقی اور اَعْلم ہو 6 اور اس طرح ایک کو خاص حیثیت دے دی۔ پس اس کا نام مساوات نہیں ہے کہ مختلف مدارج اور مختلف حیثیتوں کے آدمیوں کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک کیا جائے۔ جو لوگ مختلف علمی اور عملی مدارج رکھتے ہیں یا ان کو بعض خاص رسُوخ حاصل ہیں ان کو کیسے ایک ہی طرح کا سمجھا جاسکتاہے۔ قرآن شریف میں آتا ہے کہ اگر تم کوئی بات سُنو تو اس کو ان لوگوں کے پاس لے جاؤ جن کو استنباط کرنا آتا ہو۔7 اب دیکھو استنباط والے الگ ہیں مشورہ والے الگ۔ اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہر ایک کام میں سب کو شریک ہونا چاہئے وہ دراصل مساوات کا مطلب نہیں جانتا اور حسد کرتا ہے اور اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے کہ حسد کو مساوات کے لباس میں چھپاتا ہے۔ ایک امیر کو عمدہ کھانا کھلایا گیا دوسرا جلتا ہے کہ اسے بھی کیوں نہ ایسا کھانا مِلا۔ یہ مساوات نہیں بلکہ حسد ہے جس کو نیکی کا لباس پہنایا جاتا ہے جب اس کو مساوات کہا جاتا ہے۔ امام شعرانی کہتے ہیں کہ مَیں نے اپنی ایک بیوی سے مزاحاً کہا کہ میں جب مرنے کے بعد بہشت میں جانے لگوں گا تو اپنی دوسری بیوی تیری سوکن کو ہمراہ لے جاؤں گا۔ بیوی نے کہا کہ خدا کی قسم مَیں اس بہشت میں ہر گز داخل نہ ہوں گی۔ اس بیوی نے جو یہ کہا یہ اس کے حسد کا نتیجہ تھا۔ یہی حسد ہے جو بڑھتے بڑھتے انسانوں کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔ آج جو لوگ ہم سے جُدا ہوئے ہیں وہ احمدی کہلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود کی کچھ نہ کچھ محبت دل میں رکھتے ہیں اور حضرت اقدس کی کُتب کو چھاپتے ہیں اور کچھ نہ کچھ تبلیغ بھی کر دیتے ہیں۔ باوجود ان باتوں کے ان کو ہم سے حسد ہے اس لئے جہاں ہمارے آدمی جاتے ہیں کہ لوگوں کو احمدی بنائیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگ احمدی نہ ہوں اور ان کو ورغلاتے ہیں اور ان کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس اسی خیال نے ان کو خراب کیا کہ وہ مساوات کے طالب تھے حالانکہ یہ مساوات نہ تھی بلکہ حسد تھا۔ خوارج بھی یہی کہتے تھے کہ خلیفہ کون ہوتا ہے، اس کو کیا حق ہے کہ وہ ہم سے بڑا کہلائے۔ اَلحُکْمُ ِ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُ شُوْرٰی بَیْنَنَا۔ یہ بات تو سچ تھی مگر انہوں نے اس سے غلط نتیجہ نکالا۔
پس حسد ایک بُرا مرض ہے اس سے بچو اور یاد رکھو کہ اسلام مساوات کا مخالف نہیں بلکہ مؤیّد ہے لیکن عام لوگ جس کو مساوات کہتے ہیں وہ حسد ہے اور اسلامی مساوات ایک پاک چیز ہے جس کا مقابلہ دُنیا کی اور کوئی تعلیم نہیں کر سکتی۔‘‘ (الفضل 30ستمبر 1919ء)
1: الفلق : 2، 3 2: الفلق: 5 3: الفلق:6
4: الفلق: 4
5: مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذکر بَعْدَ الصَّلٰوۃ (الخ)
6: مسلم کتاب المساجد باب مَنْ اَحَقُّ بِالْاِمَامَۃ
7: وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ؕ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ(النساء:84)


56
دعائیں قبول ہونے کا خاص دن
(فرمودہ5ستمبر1919ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میرا منشاء تو آج بہت کچھ سنانے کا تھا مگر جمعہ پڑھنے کے لئے آنے سے تھوڑی ہی دیر پہلے سر درد کی شکایت ہو گئی ہے اس لئے مختصر طور پر ہی اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج کا دن دُعاؤں کی قبولیت کے لئے خاص خصوصیت رکھتا ہے۔ یہ ایک افسوس کی بات ہے کہ اس زمانہ میں جہاں ظاہری علوم کی ترقی ہوئی ہے وہاں لوگوں کی بدقسمتی سے روحانی علوم میں کمی واقع ہو گئی ہے اور جوں جوں لوگ ظاہری علوم سے زیادہ واقف ہوتے جاتے ہیں خواہ وہ علوم کسی یورپین زبان میں نہ ہوں بلکہ اسی زبان میں ہوں جس میں خدا کا آخری کلام شریعت کے رنگ میں نازل ہؤا ہے تاہم لوگ اپنی بدقسمتی اور زمانہ کی رَو اور شیطان کے آخری حملہ کے اثر سے ان رُوحانی باتوں کو جو اُن کی محدود عقل میں نہیں آسکتیں چھوڑتے جاتے ہیں اور اب تو یہاں تک حالت ہو گئی ہے کہ جو ذرا کوئی ایک دو کتابیں پڑھ لیتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ مجھ میں خداتعالیٰ کی بتائی ہوئی اور رسول اﷲ کی فرمائی ہوئی باتوں پر تنقید کرنے کا مادہ پیدا ہو گیا ہے اور اگر خوش قسمتی یا بدقسمتی سے کچھ زیادہ علم پڑھ لیتا ہے تو پھر تو تنقید کرنے تک ہی اپنی قابلیت کو محدود نہیں رکھتا بلکہ خدا تعالیٰ کو اِملاء کرانے کا بھی اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا کو اس طرح نہیں بلکہ اس طرح کہنا چاہئے تھا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شریعت کے بہت سے احکام جو اپنی کم عقلی اور رُوحانیت کی کمزوری کی وجہ سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے ان کا اگر اپنے آپ کو مذہب کا پابند ظاہر کرنے کے لئے انکار نہیں کرتے تو ان پر عمل بھی نہیں کرتے اور ان کے صحیح اور درست ہونے کا اعتقاد بھی نہیں رکھتے حالانکہ وہ صداقتیں ہیں لیکن جب تک رُوحانی علوم میں ملکہ حاصل نہ ہو اس وقت تک وہ سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ گویہ صداقتیں ایمانیات سے تعلق نہیں رکھتیں یعنی ایسی نہیں کہ جن پر ایمان لانے کے بغیر نجات نہ ہو سکے مگر اس میں شک نہیں کہ وہ صداقتیں ضرور ہیں۔ ہاں وہ اُمور جن پر نجات کا دارومدار ہے وہ ایسی صورت میں پیش کئے گئے ہیں کہ جن کو ہر انسان ادنیٰ سے ادنیٰ عقل رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے مگر بعض ایسے اُمور ہیں جو ایمانیات سے وابستہ نہیں بلکہ ایسے ہیں جو محض یقین کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یااعمال کے ساتھ۔ ان میں بہت سی ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو ظاہری علم کے ذریعہ انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتیں بلکہ ان کے سمجھنے کے لئے رُوحانی علم کی ضرورت ہوتی ہے۔
مجھے اس حد بندی کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمارے مذہب میں بھی بعض ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو ظاہری علم اور عقل کے ذریعہ سمجھ میں نہیں آتیں تو پھر ہم عیسائیوں پر کیا اعتراض کر سکتے ہیں کہ تمہاری مذہبی باتیں عقل میں نہیں آتیں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ جن اُمور پر نجات کا دارومدار ہے ان کے متعلق ضروری ہے کہ سمجھ میں آئیں کیونکہ اگر وہ کسی کی سمجھ میں ہی نہ آئیں تو ان پر عمل کس طرح کیا جاسکے لیکن بعض ایسی باتیں جن سے رُوحانی مدارج میں ترقی حاصل ہوتی ہے ان کی سمجھ اسی وقت آتی ہے جبکہ کسی قدر رُوحانی استعداد حاصل ہو جاتی ہے۔ جن باتوں پر نجات کا دارومدار ہے ان کو تو ایسا ہی سمجھنا چاہئے جیسا کہ بچوں کے پڑھنے کا ابتدائی قاعدہ ہوتا ہے۔ اس پر بچہ کو الفؔ ب پڑھاتے اور سمجھاتے ہوئے کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بغیر اس کے وہ سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح اسلام میں وہ اُمور جن پر نجات کا دارومدار ہے ان کو تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ ہاں جس طرح بعض ضدی بچّے الف کو ب اور ب کو الف کہہ دیا کرتے ہیں اسی طرح اگرکوئی ضدی اور ہٹ دھرم انسان کہے کہ خدا ایک نہیں ہے اور دلائل سے بھی نہ مانے یا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کوظاہری دلائل سے بھی تسلیم نہ کرے تو اُسے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولِ کریم کی صداقت کے ایسے صاف اور واضح دلائل ہیں کہ جنہیں معمولی سے معمولی عقل کا انسان بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے اس کے مقابلہ میں رُوحانیت سے تعلق رکھنے والی ایسی باتیں ہیں کہ جنہیں وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو رُوحانیت میں کچھ نہ کچھ دخل رکھتے اور جنہیں کسی حد تک رُوحانی مدارج حاصل ہوتے ہیں ورنہ ظاہری دلائل سے وہ نہیں سمجھائی جاسکتیں مثلاً قرآن کریم کی آیتوں کے جو خاص اثرات ہیں ان کو نہ تو سمجھایا جاسکتا ہے اور نہ کوئی روحانیت سے بے بہرہ انسان انہیں سمجھ سکتا ہے۔ کوئی ناواقف انسان کہے کہ ان کا کیا اثر ہو سکتا ہے لیکن جنہوں نے تجربہ کیا ہے اور فائدہ اُٹھایا ہے ان کی شہادتیں موجود ہیں اور وہ بڑے زور کے ساتھ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بعض خاص آیتوں سے بڑی بڑی مشکلات حل ہو جاتی اور بڑے بڑے فوائد پہنچتے ہیں۔ تو آیات کے خاص اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا مگر ساتھ ہی اس کے یہ بھی ہے کہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ ان کے اثرات کیوں ہیں؟ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو نہیں بتایا جاسکتا کیونکہ یہ ایسی باتیں ہیں جن کے سمجھنے میں ذوق اور تجربہ کو دخل ہے۔ اس کی وجہ اسی کی سمجھ میں آسکتی ہے جو ذوق اور تجربہ رکھتا ہو۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ ہم کسی کو یہ بتانا چاہیں کہ مٹھاس کیا ہوتی ہے؟ اگر کسی نے کبھی میٹھا چکھا ہی نہیں تو ہم اسے زبانی طور پر ہر گز نہیں سمجھا سکتے کہ مٹھاس کیا ہوتی ہے۔ ہاں جس نے چکھا ہو اُس کو مٹھاس کی کمی یا زیادتی بتائی جاسکتی ہے۔ اِسی طرح ایک ایسا شخص جس کی آنکھیں ہیں اور جس نے سورج کی روشنی دیکھی ہے اس کو بتا سکتے ہیں کہ فلاں روشنی مدہم تھی یا تیز، فلاں سیاہی مائل تھی یا سبزی، فلاں سفیدی مائل تھی یا زردی۔ غرض اُسے کئی کیفیتیں روشنی کی بتلائی اور سمجھائی جاسکتی ہیں لیکن جو جنم کا اندھا ہو اس کو کچھ نہیں سمجھا سکتے۔ تو ایسے اُمور جو فروع کہلاتے ہیں بالحاظ اس کے کہ ایمانیات سے تعلق نہیں رکھتے ایسے ہی لوگوں کو سمجھ میں آسکتے ہیں جنہوں نے ایک حد تک ان کا تجربہ کیا ہو اور کسی قدر مزا چکھا ہو انہی امور میں سے ایک دُعاؤں کے قبول ہونے کے خاص اوقات ہیں۔ ہرشخص یہ نہیں سمجھ سکتا کہ کیا وجہ ہے کہ جمعہ کے دن دُعا قبول ہونے کی ایک خاص گھڑی ہوتی ہے۔ البتہ بعض ایسی باتوں کو لوگ سمجھتے ہیں جن کی کوئی وجہ انہوں نے قرار دے لی ہوتی ہے مثلاً یہ سمجھتے ہیں کہ رات کو خدا تعالیٰ دعا خاص طور پر سنتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ رات کو انسان جاگتا اور تکلیف اُٹھاتا ہے لیکن دراصل دعا کے قبول ہونے کی یہ وجہ نہیں ہے ۔ کیا اگر کوئی شخص دس پندرہ میل دَوڑ کر دُعا مانگے تو اس کی دُعا اس لئے قبول ہو جائے گی کہ اس نے تکلیف اُٹھائی ہے یا اگر کوئی ساری رات جاگتا رہے اور دن کو دُعا مانگے تو اس کی دُعا قبول ہو جائے گی؟ نہیں۔ کیونکہ صرف رات کا جاگنا اور تکلیف اُٹھانا دُعا کے قبول ہونے کا باعث نہیں۔ گو ایک حد تک یہ بھی درست ہے کہ رات کو جاگنے اور تکلیف اُٹھانے سے دُعا قبول ہوتی ہے مگر دُعا کے قبول ہونے کی اصل وجہ یہی نہیں ہے ورنہ اگر یہ وجہ ہوتی تو چاہئے تھا کہ جتنی کوئی زیادہ تکلیف اُٹھاتا اتنی ہی جلدی اس کی دُعا قبول ہوتی۔ پھر جمعہ کی دُعا ہے، عرفات کی دُعا ہے، کعبہ پر پہلی نظر پڑنے کے وقت کی دُعا ہے ان اوقات کی دُعائیں کیوں خاص طور پر قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہیں ان کی کوئی وجہ نہیں سمجھائی جاسکتی کیونکہ دراصل یہ ذوق سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں اور جو ذوق نہ رکھتا ہو اس کی سمجھ میں نہیں آسکتیں۔
اس میں شک نہیں کہ ان واقعات کا دُعا کے ساتھ خاص تعلق رکھنے کا ظاہری طور پر انکار کوئی ناواقف سے ناواقف ہی مسلمان کرے تو کرے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بہت کثرت سے لوگ ان کا عملاً انکار کرتے ہیں جبکہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے اور ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ تو باوجود اس کے کہ زبان سے مانتے ہیں کہ ایسے اوقات اور گھڑیاں مقرر ہیں جن میں دُعائیں خاص طور پر منظور ہوتی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ وجہ یہ کہ چونکہ اس کوچہ سے ناواقف اور اس مذاق سے بے بہرہ ہوتے ہیں اس لئے انہیں اس پر یقین نہیں ہوتا۔ حالانکہ اگر کوئی شخص ذرا اس طرف ڈھل جائے تو معلوم کر سکتا ہے کہ واقع میں ان اوقات میں دُعائیں کرنے سے بہت بڑا فائدہ ہوتا ہے۔
دُعاؤں کی قبولیت کے ساتھ تعلق رکھنے والے اوقات میں سے ایک آج کا دن بھی ہے جو اس لحاظ سے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس دن خاص طور پر دُعائیں قبول ہوتی ہیں اور مَیں نے سفرِ حج میں اس دن کو دُعاؤں کی قبولیت میں بہت بڑا دخل رکھتا دیکھا ہے اور اس دن ایسی کیفیات دیکھنے میں آئی ہیں کہ کسی اَور وقت میں بہت ہی کم دیکھی گئی ہیں۔ پس مَیں اپنے تجربہ کی بناء پر تمام دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ آج کا دن چونکہ خاص خصوصیت رکھتا ہے اس لئے اس سے فائدہ اُٹھائیں۔ یوں تو دُعائیں کرنے کا ہر روز ہی حُکم ہے مگر اس دن سے خاص طور پر فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ اپنے عزیزوں، دوستوں، رشتہ داروں کے لئے دُعائیں کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی اسلام کی ترقی، دین کی اشاعت کے لئے اور ان بھائیوں کے لئے جو دین کی ترقی کے لئے خواہ اپنے گھروں میں خواہ باہر جاکر کوشش کر رہے ہیں دُعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ انہیں کامیاب کرے۔‘‘ (الفضل 16ستمبر 1919ء)


57
خدا کی مخلوق سے محبت خدا کی محبت کا ثبوت ہے
(فرمودہ 26ستمبر1919ء)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیت تلاوت فرمائی:-
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۔1
اور فرمایا:-
''اسلام سب مذاہب میں سے ایک ہی مذہب تسلیم کرنا چاہئے جو ہر ایک چیز کے مدارج تسلیم کرتا ہے۔ عموماً لوگ مدارج کا خیال نہیں رکھتے۔ خود مسلمانوں میں سے بھی بعض نے قرآن کے اوپر پورا تدبر نہ کرنے اور ائمہ کے اقوال پر غور نہ کرنے سے کفر و ایمان کے درجات کی تقسیم سے انکار کیا ہے حالانکہ نہ یہ قرآن سے ثابت ہے نہ ائمہ کا یہ مذہب تھا قطعاً کسی امام کا یہ مذہب نہ تھا کہ کفر و ایمان کے مدارج نہیں۔
قرآن شریف ہی وہ کتاب ہے جو ہر چیز کے مدارج بیان کرتی ہے۔ انسان کے مدارج، تقویٰ کے مدارج، تعلق باﷲ کے مدارج، ایمان کے مدارج، کُفر کے مدارج، نیکی اور بدی کے مختلف مدارج، غرض ہر چیز کے مختلف مدارج ہیں۔ ایک اسلام کی ہی یہ تعلیم ہے جو ہرچیز کو اس کے مراتب اور اس کی حقیقت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ اَور مذاہب اس حقیقت کو نہیں سمجھے اور یہ اسلام اور دیگر مذاہب میں نمایاں فرق ہے۔
مَیں جس مضمون کی طرف آپ کی توجہ پھیرنی چاہتا ہوں وہ بھی مدارج رکھتا ہے اور وہ انسانی تعلقات کے مدارج ہیں۔ جس طرح خدا کے انسان کے ساتھ تعلق کے مدارج ہیں اسی طرح انسانوں کے آپس کے تعلقات کے بھی مدارج ہیں۔ جس طرح خدا سے بہتر سے بہتر تعلق ہونا چاہئے ایسا ہی انسانوں میں بھی آپس میں ہونا چاہئے۔ اسلام اس بات کا حکم نہیں دیتا کہ انسان آپس میں دُشمن نہ ہوں بلکہ اس سے زیادہ کا حکم دیتا ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ جب تم خدا کے دُشمن نہیں تو کامیاب ہو گئے بلکہ اسلام تمہیں اس وقت نیکی کی راہ پر قدم زن قرار دے گا جب تم خدا کے دوست ہو گے۔ اسی طرح اسلام یہ نہیں کہے گا کہ تم لوگوں کے دُشمن نہ ہو کیونکہ یہ تو ایک ادنیٰ درجہ کی بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ تم لوگوں کے دوست ہو۔ بہت لوگ خوش ہیں کہ وہ کسی کے دُشمن نہیں حالانکہ شریف آدمی کے دل میں کینہ نہیں ہوتا یہ تو ایسا ہی فخر ہے کہ ایک انسان کہے میں انسان ہوں حالانکہ فخر کی بات یہ ہے کہ انسانوں میں سے اعلیٰ درجہ کا انسان ہو۔ اگر کوئی شخص گدھوں اور کُتّوں میں کھڑا ہو کر فخر کرے کہ مَیں انسان ہوں تو یہ اس کا فخر بجا ہو گا لیکن ہو گا اس کے پاگل پن کی دلیل کیونکہ گدھے اور کُتّے نہیں جانتے کہ فرقِ مراتب کیا ہے۔ ہاں انسانوں میں انسان کا دعویٰ ٔ فخر البتہ ایک بات ہو گی۔ سوائے اخلاقی لحاظ کے کہ بعض حالتوں میں انسان گدھے کے مشابہ ہوتا ہے بعض میں کُتّے کے لیکن جسمانی لحاظ سے یہ حالت نہیں ہوتی اور ایک انسان جسمانی حالت میں تنزّل کر کے انسان سے گدھا یا کُتّا نہیں بن سکتا۔
پس عداوت ایک ایسا درجہ ہے کہ اس سے انسان اُتر ہی نہیں سکتا۔ پس جو شخص اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کو کسی سے عداوت نہیں اس کی یہ خوشی اور فخر ایسا ہی ہے جو کوئی انسان کہے کہ میں گدھا نہیں حالانکہ فخر تو اس پر ہونا چاہئے کہ انسانوں میں سے اعلیٰ انسان ہے اور پھر فخر بھی وہ فخر جو تکبّر والا نہ ہو۔
پس اگر انسان کو قابلِ فخر کوئی بات بناتی ہے تو وہ دُشمنی اور عداوت کا نہ ہونا نہیں بلکہ وہ دوستی اور محبت و اخلاص اور پیار ہیں۔ یہ خوبی جائز فخر ثابت کرتی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں سے محبت و اخلاص کے تعلقات رکھتا ہے۔
تعلقات کے تین مدارج ہیں ان میں ادنیٰ اور ذلت و رسوائی کا درجہ دُشمنی کا ہے۔ وہ دُشمنی جو خدا کے لئے نہ ہو اور جو دُشمنی خدا کے لئے ہو وہ دراصل دُشمنی نہیں محبت ہے کیونکہ خدا کسی کا دُشمن نہیں۔ اگر خدا کے لئے کسی سے بُغض ہے تو وہ بُغض و دُشمنی نہیں بلکہ اصلاح ہے اور یہ شخص مصلح ہے۔ ہاں جب اپنے لئے یا اپنے عزیزوں، بیوی، بچوں، دوستوں کے لئے ہے تو وہ واقعی بُغض ہے جو بدترین ذلت کا درجہ ہے۔ خدا کے لئے جو بُغض ہے لغت کے لحاظ سے ہم اسے بُغض اور دُشمنی ہی کہیں گے ورنہ درحقیقت وہ اصلاح ہے۔
اس درجہ سے اوپر کا درجہ یہ ہے کہ انسان کو نہ کسی سے دُشمنی ہو اور نہ کسی سے دوستی۔ جیسا کہ ریل میں دو آدمی بیٹھتے ہیں۔ ایک ایک کھڑکی میں دوسرا دوسری میں کہ نہ ان میں تعلقاتِ دوستی ہوتے ہیں نہ دُشمنی اس پر بھی فخر نہیں کیا جاسکتا اور اس کو بھی اعلیٰ درجہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ اس مقام پر کھڑا ہونے والا کہہ سکتا ہے کہ مَیں اعلیٰ درجہ پر ہوں کہ مجھے نہ کسی سے دُشمنی ہے نہ دوستی کیونکہ وہ شخص اپنے تئیں نیک اور متقی قرار نہیں دے سکتا جو کہے کہ مَیں خدا کا دُشمن نہیں۔ یہ کوئی نیکی نہیں کیونکہ اس نے خدا سے جو نیکی کا سرچشمہ ہے کچھ تعلق نہیں رکھا۔ اسی طرح جو شخص اﷲ کے بندوں سے محبت نہیں رکھتا وہ درحقیقت خدا سے بھی تعلق نہیں رکھتا۔
اسلام میں دو باتیں ہیں۔ بندوں اور خدا سے تعلق رکھنا۔ دُشمنی رکھنا ادنیٰ ترین درجہ ہے اور دُشمنی و دوستی دونوں نہ رکھنا اس سے اوپر کا درجہ ہے اور اس سے اوپر اور آخری درجہ ہے۔ خدا کے بندوں سے اخلاص اور محبت رکھنا اور پھر اخلاص اور محبت کے بھی مدارج ہیں۔
قرآن شریف میں جو آتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى2 درحقیقت یہ تینوں درجے بھی محبت کے ہیں۔ عدل بھی درجہ محبت ہے اور احسان بھی اور اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى بھی۔ ان تینوں کو حاصل کرنا چاہئے۔
اگر اسلام کہتا ہے کہ آپس میں تباغض نہ کرو اور اختلاف نہ کرو تو یہ نہیں کہ ان باتوں سے باز رہنا اعلیٰ درجہ کی بات ہے بلکہ چونکہ یہ باتیں محبت کے دُور کرنے والی ہیں اس لئے فرمایا ان سے دُور رہو یہ نہیں کہ یہی اصل مقصود ہیں بلکہ اصل مقصود محبت و اخلاص ہے۔ بہت لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے جو لوگ بے تعلق رہتے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کے دل میں خدا کی مخلوق کی محبت نہیں اور جو شخص خدا کی مخلوق سے محبت نہیں رکھتا وہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کو خدا سے محبت ہے۔ جو شخص اعتصام بحبل اﷲ کرتا ہے ہو نہیں سکتا کہ وہ خدا کی مخلوق سے بے تعلق ہو اور اس کی محبت نہ ہو اور اس کے لئے دل میں ہمدردی نہ ہو۔ اگر کوئی شخص محبتِ الٰہی کا دعویٰ کرتا ہو اور خدا کی مخلوق کی محبت و ہمدردی سے خالی ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ اس کو اسلام اور تقویٰ سے چنداں تعلق نہیں خدا کی مخلوق سے ہمدردی اور محبت اور خدا کی محبت دونوں ایک چیز ہیں الگ الگ نہیں۔ ہدایت ملتی تب ہے جب خدا کی مخلوق کی انسان کے دل میں محبت ہوجب یہ نہ ہو تو ہدایت بھی نصیب نہیں ہوتی۔ اس کی ایک نظیر بھی نہیں مل سکتی۔ نہ نبی کی نہ ولی کی کہ ان کو خدا سے محبت تھی اور اس کی مخلوق سے دُشمنی اور وہ لوگوں سے بے تعلق تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک چیز سے واقعی پیار ہو مگر اس کے متعلقین سے پیار نہ ہو۔ خدا سے جو محبت کرتا ہے ممکن نہیں کہ خدا کی مخلوق سے نہ کرے اگر وہ خدا کی مخلوق سے بے تعلق ہے تو اس کے دل میں خدا کی بھی محبت نہیں۔
قصّہ مشہور ہے خدا جانے کہاں تک درست ہے ۔ کہتے ہیں کہ قیس لیلیٰ کی گلی میں چکر لگا رہا تھا لیلیٰ کا کُتّا گزرنے لگا قیس اس کو لپٹ گیا اور اس کو پیار کیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو پاگل ہے۔ قیس نے جواب دیا مَیں پاگل نہیں پاگل تم ہو کیونکہ مَیں جو کُتّے کو پیار کرتا ہوں تو اس لئے نہیں کہ یہ کُتّا ہے بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ یہ لیلیٰ کا کُتّا ہے۔ اسی طرح جس دل میں اﷲ کی محبت ہے اس کو اﷲ کی مخلوق سے محبت ہے اور جو شخص بندوں سے محبت وہمدردی نہیں رکھتا اسی قدر وہ خدا کی محبت سے خالی ہے۔ مگر وہ محبت خدا کے لئے ہو جس طرح بُغض جو خدا کے لئے ہو بُغض نہیں ہے اسی طرح جو محبت خدا کے لئے نہ ہو محبت نہیں بُغض ہے۔ مثلاً ایک شخص بیوی، بچوں، عزیزوں اور قریبیوں سے محبت رکھتا ہے یہ خدا کی مخلوق ہیں لیکن ان کے لئے رشوت لیتا ہے، چوری کرتا ہے، ڈاکہ ڈالتا ہے۔ اس کو بیشک خدا کی مخلوق سے محبت ہے لیکن یہ محبت خدا کے لئے نہیں اس لئے یہ محبت نہیں کیونکہ درحقیقت یہ شخص اس طرح اپنے نفس اور ان لوگوں سے دُشمنی کرتاہے۔ پس خدا کی مخلوق سے محبت ہو اور خدا کے لئے ہو تب ایمان ہوتا ہے۔ جب تک یہ نہ ہو سمجھنا چاہئے کہ خدا کی محبت اور ایمان میں بھی کمی ہے۔
ہماری جماعت میں اﷲ تعالیٰ نے محبت کے تمام ذرائع کو جمع کر دیا ہے۔ ایک مرکز ہے اور قاعدہ ہے کہ ایک مرکز سے تعلق رکھنے والوں کو آپس میں محبت ہوتی ہے جیسا کہ ایک مدرسہ میں پڑھنے والوں میں محبت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک لڑکے پر کوئی اُفتاد پڑے تو دوسرے لڑکے اس کی مدد کو کھڑے ہو جاتے ہیں یا مثلاً ایک گاؤں میں محبت ہوتی ہے ، یا ملکوں اور ایک حکومت کے ماتحت رہنے والوں میں ہوتی ہے۔ یہ تو عارضی تعلقات ہیں مگر جو خدا نے تعلق ہم میں پیدا کیا ہے وہ ایک دائمی تعلق ہے۔ پس اگر تعلق کے باوجود بھی جو ایمانی ہے ہم میں بے تعلقی ہو تو اس سے بڑھ کر اور کیا بُرائی ہو سکتی ہے بے تعلقی پر فخر نہیں کیا جاسکتا۔ خدا سے دُشمنی نہ ہونا قابلِ فخر نہیں بلکہ فخر اور تعریف کے قابل خدا سے دوستی اور محبت کا ہونا ہے۔ جس شخص کے دل میں عداوت ہو وہ مسلمان نہیں اور ہدایت سے دُور ہے۔ انسان کے لئے اچھا درجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں بھائیوں کی محبت اور اخلاص ہے کیونکہ اسلام اور محبت لازم و ملزوم ہیں۔ پس جب تک محبت نہ ہو انسان مسلم نہیں ہو سکتا۔
عداوت اسفل ترین درجہ ہے اور بے تعلقی کہ نہ محبت ہو نہ عداوت اس سے اونچا مگر قابلِ فخر نہیں۔ محبت و اخلاص اصل درجہ ہے۔ پس بُغض و عداوت اور بے تعلقی اور اسلام جمع نہیں ہو سکتے۔ جو دونوں کو جمع کرتا ہے سخت غلطی کرتا ہے۔ خدا کی مخلوق سے کینہ اور خدا کی محبت ایک سینہ میں جمع نہیں ہو سکتے۔ عداوت گند ہے اور گند اور خدا کی محبت کہ ایک پاک ترین چیز ہے جمع نہیں ہو سکتے۔ بے تعلقی اونچا درجہ ہے مگر یہ بھی ایمان کے خلاف ہے۔
قرآن کریم میں اعتصام بحبل اﷲ کا کلمہ ہے کہ تم بھائی بھائی ہو۔ بھائی بھائی بنے رہو۔ ایمان کا نتیجہ بھائی ہونا ہے عداوت نہیں اس لئے جو شخص دوسرے سے ہمدردی نہیں رکھتا اس کو اسلام میں داخل ہونے کے لئے ابھی بہت سا راستہ طے کرنا ہے اور جب تک وہ اس راستہ کو طے نہ کرے اس درجہ ایمان اور تعلق باﷲ کو حاصل نہیں کر سکتا۔
مَیں نے بتایا ہے کہ جب تک جماعت میں محبت نہ ہو دیندار نہیں ہو سکتی۔ اب تک اس پر توجہ نہیں کی گئی کیونکہ لوگوں نے خیال کر لیا کہ آپس کی محبت ایک دُنیا دارانہ فعل ہے اس کو دین سے تعلق نہیں۔ نمازیں پڑھیں، روزے رکھیں، حج کریں اور اشاعت اسلام کریں لیکن یہ ایک غلطی اور غلط فہمی ہے۔ قرآن کریم نے آپس کی محبت و ہمدردی کو حصّہ دین قرار دیا ہے۔ پس جو شخص خدا کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی مخلوق سے لاپرواہ ہے یعنی اس سے ہمدردی نہیں کرتا اس کا خدا کی محبت کا دعویٰ جھوٹا دعویٰ ہے۔ ہمارے لوگوں میں جو اس محبت و اخلاص و ہمدردی کی کمی ہے میرے خیال میں وہ اس غلط فہمی کی وجہ سے ہے کہ وہ اس کو دُنیاوی فعل سمجھتے ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دنیاوی فعل نہیں ہے بلکہ دین ہے۔
مجھے ابھی شکایت کا رُقعہ پہنچا ہے کہ ایک شخص کے گھر چور گئے۔ اتنا شور پڑا کہ باغ تک اس کی آواز گئی۔ ہندو تک جمع ہو گئے، غیر احمدی بھی پہنچ گئے لیکن احمدی صرف چار شخص گئے۔ میری طبیعت اس رات خراب تھی میری بیوی نے صبح کو بتایا کہ ایسا واقعہ ہؤا تھا۔ مَیں نے اُس کو ڈانٹا کہ تم نے مجھے کیوں نہ جگایا؟ یہ ایک بہت گری ہوئی بات ہے اور ایک جھوٹا خیال ہے کہ دوسرے کی تکلیف کو دوسرے کی ہی تکلیف سمجھا جائے اور یہ خدا کی محبت کے منافی ہے۔ مسلمانوں کو اِسی بات نے تباہ کیا۔ ایک مسلمان سلطنت کو جب تباہ کرنا چاہا تو دوسروں کو کہہ دیا کہ ہمارے آپ کے تعلقات دوستانہ ہیں مگر فلاں سلطنت خراب ہے ذرا اس کی خبر لے لیں۔ دوسرے مسلمان خاموش بیٹھے رہے کہ ہمارے تو یہ لوگ دوست ہی ہیں مگر اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ یکے بعد دیگرے تمام سلطنتیں تباہ ہو گئیں۔ عیسائیوں میں یہ بات نہیں۔ ایک سلطنت کے کوئی خلاف ہو جھٹ اس کے خلاف تمام سلطنتیں اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ پھر نہ صرف حکومت بلکہ اگر کسی عیسائی کے ساتھ بھی جھگڑا ہو جو کسی دوسری سلطنت میں رہتا ہو تو سلطنتیں اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ یہ مذہبی حمیّت ہوتی ہے۔ وہ لوگ اس کو محض انسانی ہمدردی قرار دیتے ہیں مگر جب افریقہ کے وحشیوں پر ظلم ہوں تو انسانیت کا خیال پیدا نہیں ہوتا اور کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تمدن کا فرق ہے اور وہ لوگ ایسا کرنے پر مجبور تھے لیکن درحقیقت وہ عیسائیت کا رشتہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے ایک دوسرے کی مدد نہ کر کے اپنی تمام سلطنتوں کو کھودیا۔ ان لوگوں کے لئے جو نتیجہ نِکلا وہ طبعی تھا کیونکہ ان کے آپس میں سخت فساد و اختلاف تھے اور بیرونی دُشمن تاک میں تھے اور کوئی سنبھالنے والا نہ تھا اور ان کے دل کُفر میں مُبتلا تھے لیکن تم وہ ہو جو کہتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ واقع میں اگر تم اسی مقام پر کھڑے ہو جس پر کھڑے ہونے کے مُدعی ہو تو اسلام تمہیں میں ہے۔ پس اگر تم میں بھی وہ بے حمیتی اور ہمدردی کا فقدان اور عدمِ محبت ہو تو پھر کتنے افسوس کی بات ہے۔ اگر تم انہیں کا رویہ اختیار کرو گے تو غور کر لو کہ جب زیادہ کو تباہ کر دیا گیا تو تم جو چند لاکھ ہو تمہارا تباہ کرنا کون سامشکل کام ہے اور تمہاری حیثیت ہی کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے اپنی بیٹی کا ایک جگہ بیاہ کرنا چاہا لیکن بعدمیں رشتہ کرنا ناپسند ہؤا اس لئے تدبیر کرنے لگا کہ کسی طرح یہ رشتہ نہ ہو۔ وزراء سے مشورہ کیا کہ کیا تدبیر اختیار کرنی چاہئے؟ وزراء نے کہا کہ لڑکے کے باپ بادشاہ سے یہ شرط کرنی چاہئے کہ برات میں تمام جوان ہی جوان ہوں۔ لڑکے والوں نے اس شرط کو قبول کر لیا۔ جب برات روانہ ہونے لگی تو لڑکے کے باپ کے وزیر نے کہا کہ مجھے کسی نہ کسی طرح ضرور بھیج دو کہ مَیں کام آؤں گا۔ آخر اس وزیر کو چھپا کر لے گئے۔ لڑکی والوں کی طرف سے وہاں پہنچتے ہی یہ نئی شرط پیش ہوئی کہ ہر ایک شخص ایک ایک بکرا کھائے تو ہم لڑکی دیں گے۔ لوگ حیران ہوئے کہ اب کیا کریں؟ آخر اس بوڑھے کی طرف متوجہ ہوئے۔ بوڑھے نے کہا کہ تم کہو ہم بایں شرط اس شرط کو پورا کرتے ہیں کہ تم ایک ایک بکرا ذبح کر کے لاتے جاؤ۔ اس طرح اُنہوں نے سب بکرے کھا لئے اور لڑکی بیاہ لے گئے۔ تو ہماری مثال بھی ایسی ہی ہے کہ اگر ہماری تمام جماعت ایک جگہ ہوتی تب بھی البتہ ایک بات تھی لیکن اب تو حالت اس کے خلاف ہے کیونکہ مختلف جگہوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پس اس پراگندگی پر پھر کیا حیثیت ہے۔ یہی حیثیت ہے جیسی ایک بکرے کی ایک برات کے سامنے۔
ہماری جماعت مختلف جگہوں میں پھیلی ہوئی ہے اس کی تباہی اس صورت میں کچھ بھی مشکل نہیں۔ اگر اس کے افراد میں آپس میں محبت و ارتباط نہ ہو۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی نصرت ہے کہ باوجود مختلف مقامات پر پھیلے ہونے کے جماعت ترقی کر رہی ہے۔ اگر آپس میں محبت و اخلاص اور ہمدردی نہ ہو تو پھر جماعت کیسے محفوظ رہ سکتی ہے۔ اگر ہمسائے میں چوری ہو اور دوسرا آرام سے سوتا رہے کہ میرے گھر میں تو نہیں ہوئی تو اس کی بھی خیر نہیں یا اگر کسی کے گھر میں آگ لگے اور دوسرا اس خیال کی بناء پر مطمئن ہو جائے کہ میرے گھر میں تو آگ نہیں لگی ہوئی تو اس کا یہ اطمینان جھوٹا اطمینان ہو گا کیونکہ آگ ہمسائے کے مکان کو جلا کر اس کے مکان تک پہنچے گی۔
پس افراد کی مصیبت جماعت کی مصیبت ہوتی ہے کیونکہ افراد سے ہی جماعت بنتی ہے۔ اگر افراد کی عزّت ہو گی اور افراد اچھی حالت میں ہوں گے تو جماعت بھی اچھی حالت میں ہو گی۔ آج دُنیا میں عیسائی بادشاہ ہیں ایک چوہڑا جو عیسائی ہو جاتا ہے وہ بھی فخر یہ کہتا ہے کہ مَیں عیسائی ہوں۔ جن جگہوں میں ہندو زیادہ ہیں وہاں ہندو معزز و محترم ہیں اور مسلمان جہاں زیادہ ہیں وہاں مسلمانوں کی اچھی حالت ہے۔ غلبہ افراد کے ذریعہ ہی ہؤا کرتا ہے اگر افراد میں یکجہتی نہ ہو تو پھر جماعت میں بھی نہیں ہو سکتی اور اگر افراد کی مصیبت کو انہی افراد کی مصیبت خیال کیا جائے تو پھر اس طرح دُشمن کو غلبہ پانے کے لئے بہترین موقع مِل جاتا ہے۔ کہتے ہیں کسی شخص کے باغ میں تین شخص، ایک مولوی ایک سیّد اور ایک اَور عام آدمی، مِل کر چوری کرنے گئے۔ وہاں انہوں نے خوب باغ میں تباہی ڈالی۔ اتنے میں باغ کا مالک آیا اُس نے مقابلہ ظاہراً مناسب نہ جان کر ان سے کہا کہ حضور خدا کا شکر ہے کہ آپ لوگ یہاں تشریف لائے بھلا کہاں ہماری قسمت کہ آپ سے بزرگ یہاں آتے۔ یہ باغ تو کیا ہے اگر اَور بھی کوئی چیز میرے پاس ہوتی تو مَیں وہ بھی آپ پر نثار کر دیتا۔ وہ بہت خوش ہوئے تھوڑی دیر کے بعد اس نے مولوی کو مخاطب کیا اور کہا جناب مولوی صاحب! آپ تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی گدی پر بیٹھے ہیں اور حضرت سیّد صاحب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذریّت میں سے ہیں اگر آپ دونوں نے باغ کی اشیاء کو استعمال کیا تو یہ آپ کا حق تھا لیکن یہ جو تیسرا شخص ہے اس کو کیا حق حاصل تھا کہ میرے باغ میں تباہی ڈالتا۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ واقعی اس شخص نے غلطی کی ہے اور واجبِ سزا ہے۔ باغ والے نے کہا کہ آپ میری مدد کریں۔ چنانچہ اس کو پکڑا گیا اور دونوں، مولوی اور سیّد، نے اس کو مدد دی اور اس شخص کو خوب مارا اور درخت سے باندھ دیا۔ اسی طرح تھوڑی دیر کے بعد سیّد کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اولاد میں سے ہیں اس لئے اگر آپ نے باغ میں سے کچھ کھایا تو آپ کا حق تھا لیکن یہ مولوی کہلا کر اور دین کے علوم پڑھ کر دوسروں کی چیزوں کو خراب کرنے والا کون تھا؟ سیّد صاحب پھُول گئے۔ باغ والے نے کہا آپ میری مدد کریں۔ چنانچہ مولوی صاحب کو پکڑا اور خوب مارا اور درخت سے باندھ دیا۔ آخر سیّد صاحب کو اس نے پکڑا کہ تم کیسے سیّد اور آلِ رسول ہو کہ لوگوں کی چیزیں لوٹ رہے ہو۔ اس کو پکڑا اور مارنے لگا۔ وہ بہت منت سماجت کرنے لگا مگر اُس نے نہ چھوڑا اور کہا کہ یہ بات تجھے پہلے سوچنی چاہئے تھی جب تیرے پہلے ساتھی پر مصیبت آئی تھی۔
پس اگر ایک کی مصیبت کو اسی شخص کی مصیبت خیال کیا جائے تو جماعت بہت جلد ہلاک کی جاسکتی ہے لیکن چاہئے یہ کہ اگر ایک پر آفت آئے تو سب بے چین ہو کر اس کی مدد کے لئے دوڑیں پھر دُشمن قابو پا نہیں سکتا اور اسی طریق سے محبت و اخلاص اور ایمان و تقویٰ اور تعلق باﷲ بڑھ سکتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو دُشمن ایک ایک کر کے سب کو کھا جائیں گے۔ بے تعلقی ادنیٰ درجہ ہے اس سے ترقی کرو اور محبت و اخلاص بڑھاؤ۔ جب اخلاص میں ترقی ہوگی تو ایمان میں بھی ترقی ہو گی۔
اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین‘‘ (الفضل 14 اکتوبر 1919ء)
1: آل عمران: 104
2: النحل : 91
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
58
ضروریاتِ اسلام کا علم حاصل کرو
(فرمودہ 3 اکتوبر 1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''اِس وقت دُنیا کے لوگ جس طرح دُنیا کے کاموں میں منہمک ہو رہے ہیں اس کی مثال کسی گزشتہ زمانہ میں نہیں ملتی۔ ہر ایک زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ دُنیاداری کی طرف متوجہ نظر آتے ہیں اور دُنیا کی محبت ہر ایک چیز سے زیادہ ان پر غالب ہوتی ہے۔ ہر زمانہ کے لوگ شکایت کرتے آئے ہیں کہ اس زمانہ میں لوگوں کی زیادہ توجہ دُنیا کی طرف ہے اور دین سے بے خبر ہو گئے ہیں مگر اس زمانہ کا حال دوسرے زمانوں سے بہت مختلف ہے۔ اگر ان زمانوں میں چند مثالیں پائی جاتی ہیں کہ لوگ دین کو چھوڑ کر دُنیا کی طرف ہو گئے اور پھر اگر کثرت بھی ہو کہ لوگ دین کی نسبت دُنیا کی طرف زیادہ متوجہ ہوں تو بھی اِس زمانہ کے مقابلہ میں اُس وقت کی بہت اچھی حالت تھی کیونکہ اِس وقت سو فیصدی ایسے شخص ہیں جو دین کو چھوڑ کردُنیا کی طرف متوجہ ہیں۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ دُنیا میں کوئی بھی دیندار نہیں لیکن اس سو فیصدی کہنے کے یہ معنے ہیں کہ ہزار میں سے ایک مل جائے تو مل جائے ورنہ اس کا ملنا بھی مُشکل ہے۔ دُنیا کی جس قدر آبادی ہے اگر ایک ہزار میں سے ایک آدمی بھی ایسا مل جائے جو دین کی طرف متوجہ ہوتواس کا یہ مطلب ہو گا کہ کئی ہزار انسان اس قسم کے ہیں جو دُنیا کو ترک کر کے دین کی طرف ہوگئے ہیں۔
اس سوال کو علیحدہ کر کے کہ ہماری جماعت کی کتنی تعداد ہے اور کتنی نہیں اگر دیکھا جائے تو ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو دین کی طرف متوجہ ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بہت لوگ ایسے ہیں جن کو دین سے محبت ہے، دین سے اخلاص ہے، دین کے لئے قربانیوں کا جوش ہے مگر وہ اس ذمہ داری کو نہیں سمجھتے جو دین کی طرف سے ان پر عائد ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ صرف محبت و اخلاص سے کام نہیں چلا کرتا جب تک محبت کے ساتھ ضروریات کا علم نہ ہو مثلاً ایک شخص کا ایک پیارا بیٹا دوسرے کمرے میں ہو کہ چور آئیں اور اس خیال سے کہ کہیں یہ بچہ شور نہ مچاوے اور ہم چوری نہ کر سکیں اس کو قتل کر ڈالیں تو وہ شخص باوجود اپنے بچّے سے محبت رکھنے کے اس کی مدد نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کو اس بات کا علم ہی نہ ہو گا کہ اس کے بچّے کے گلے پر چھُری چل رہی ہے اور قتل کیا جارہا ہے۔ اسی طرح مَیں سمجھتا ہوں کہ سب احمدیوں کو دین سے محبت ہے، اخلاص ہے اور اس کے لئے قُربانیاں کرتے ہیں اور کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن ایسے کم ہیں جن کو علم ہو کہ دین کے لئے کس قدر قُربانی کی ضرورت ہے اور کیا کیا قُربانیاں اس وقت درکار ہیں۔ جہاں احمدیہ سلسلہ سے باہر بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں کہ ان کو دین سے محبت کی بجائے نفرت ہے وہاںسلسلہ احمدیہ میں اکثر ایسے آدمی ہیں جو دین سے محبت رکھتے ہیں مگر وقت کی نزاکت سے بے خبرہیں۔ جس طرح کہ بیٹے کے قتل ہونے پر بے خبر باپ آرام سے بیٹھا رہتا ہے اِسی طرح یہ لوگ دین کے معاملہ میں غفلت میں ہیں حالانکہ واقع یہ ہے کہ اسلام سے زیادہ آج کوئی مظلوم نہیں۔اسلام کی اسی مظلومیت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ؎
اے خدا ہر گز مکن شادآں دل تاریک را
آنکہ اُو را فکرِ دینِ احمدؐ مختار نیست1
نبی تو کبھی بطور خود بد دُعا نہیں کرتا، نہ نبی کسی کا بد خواہ ہوتا ہے مگر آپ کی زبان سے اس شعر کا نکلنا ثابت کرتا ہے کہ اس وقت دین کی کیا حالت ہے۔ اگر آپ دین کی ایسی ہی قابلِ رحم حالت نہ دیکھتے اور یہ نہ معلوم کرتے کہ جب تک انتہائی سرگرمی کے ساتھ دین کے معاملہ میں لوگوں کو چونکایا نہیں جائے گا اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکے گا تو آپ یہ بھی نہ فرماتے۔پس اس وقت آپ نے یہ شعر ضرورت کو مدِّنظر رکھ کر کہا جو ایسے وقت بھی بیدار نہ ہو بہتر ہے کہ وہ مٹا دیا جائے۔پس یہ مجبوری تھی جس کی وجہ سے یہ کہا گیا ورنہ انبیاء بد دُعا میں سبقت نہیں کیا کرتے۔
لیکن افسوس جماعت کے لوگوں نے اس ذمہ داری کو نہ دیکھا۔ اگر دُنیا آنکھیں کھول کر دیکھتی تو معلوم ہوتا کہ کس قدر چھُریاں ہیں جو اسلام کی گردن پر دھری ہوئی ہیں۔ اگر خدا کی حفاظت نہ ہو تو اس کے مِٹ جانے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی۔ کہا کرتے ہیں یک انار و صد بیمار۔ مگر اسلام کی اس سے بھی گئی گزری حالت ہے۔ ہر طرف سے لوگوں نے اس کو تختۂ مشق بنا رکھا ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شکار ہو اور کروڑوں شکاری اس کے پیچھے ہوں۔ اگر خدا کی مدد کا ہاتھ اسلام کے ساتھ نہ ہو تو اس قدر دُشمنوں سے کیسے نجات ہو سکتی ہے۔
لوگ روتے ہیں کہ مسلمانوں کی حکومت چلی گئی۔ مَیں کہتا ہوں کہ رونے کا تو یہ مقام ہے کہ رُوحانیت چلی گئی۔ اسلام تو اس وقت بھی اسلام ہی تھا جبکہ مسلمانوں کو حکومت نہیں ملی تھی۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جب بھی خدا کے نبی تھے جب آپ کو بادشاہت نہ ملی تھی۔ آپ تیرہ سال مکّہ میں رہے کیا آپ اس وقت رسول نہ تھے اور آپ کی وہ شان نہ تھی اور کیا اس وقت اسلام اسلام نہ تھا؟ بادشاہت تو ایک ضمنی چیز ہے اگر لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقابلہ میں تلوار نہ اُٹھاتے تو مسلمانوں کو بھی تلوار اُٹھانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ جب کفّار نے تلوار اُٹھائی تو ان کے شر کو روکنے کے لئے تلوار اُٹھانا لازمی تھا اور اس رنگ میں اسلام کو ظاہری غلبہ بھی حاصل ہو گیا اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکمرانی حاصل ہوئی۔ یہ سچ ہے کہ اگر بادشاہت نہ آتی تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے کئی کمالات کا اظہار نہ ہوتا اور لوگ آپ کی کئی صفات سے بے خبر اور ناواقف رہتے مثلاً آپ کے رحم، چشم پوشی، سیاست اور اعلیٰ درجہ کا جرنیل ہونے سے لیکن حکومت نے آکر آپ میں یہ صفات پیدا نہیں کیں بلکہ یہ آپ میں پہلے ہی موجود تھیں۔ ہاں اگر آپ کو حکومت نہ ملتی تو دُنیا کو یہ نہ معلوم ہوتا کہ آپ میں یہ کمالات ہیں۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام حکومت نہیں روحانیت ہے۔ اگر رُوحانیت مِٹ جائے اور تمام کی تمام حکومتیں مسلمان کہلانے والوں کی ہو جائیں تب بھی اسلام کا اس میں کچھ فائدہ نہیں۔ ہاں اسلام کی طرف منسوب ہونے والی سلطنتوں سے اسلام کی ظاہری عظمت کسی قدر ہو سکتی ہے مگر آج تو یہ حالت ہے کہ مسلمانوں کو اسلام سے نفرت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان احکام کی پابندی کی ضرورت نہیں جو اسلام نے دیئے ہیں۔ جب مسلمان کہلانے والوں کا یہ حال ہو تو پھر اگر غیر اسلام سے نفرت کریں تو ان کو کیا الزام دیا جاسکتا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ دین کی حالت سے آگاہ ہو کر اس حالت کو بدل دیں۔ اﷲ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم ان عہدوں کو پورا کریں جو اس کے نبیوں اور ان کے قائم مقاموں سے کئے ہیں تاخداتعالیٰ دُنیا میں پھر اسلام کی عظمت کو قائم کر دے۔ آمین‘‘
(الفضل 18 اکتوبر 1919ء)
1: درثمین فارسی صفحہ 148۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

59
مفوضہ دینی کام کو مرتے دم تک کرو
(فرمودہ 10 اکتوبر 1919ء)
تشہد ،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں آج آپ لوگوں کو ایک نہایت اہم معاملہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ قادیان کے لوگوں کے لئے تو یہ بات نہایت ضروری ہے ہی لیکن باہر کے لوگوں کے لئے بھی اس کی ضرورت میں شُبہ نہیں۔ آسمانی سلسلوں کی ترقی کے ساتھ ان کے کاموں میں ترقی ہوتی ہے اور پھر اسی طرح کام کرنے والوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دُنیاوی سلسلوں اور حکومتوں میں حکومت نیچے سے اُوپر کو جاتی ہے۔ اس لئے اصل حاکم اور مختار رعایا ہوتی ہے اور رعایا کے افراد کا حق ہوتا ہے کہ جس کام میں چاہیں حصّہ لیں اور جس میں چاہیں نہ لیں۔ نہ انہیں کوئی مجبور کر سکتا ہے نہ ان کے کام میں حصّہ نہ لینے پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے مگر باوجود اس کے بعض وقت ایسے ہوتے ہیں کہ افراد کی آزادی خطرے میں ہوتی ہے اس وقت کے لئے ہمیشہ سے یہ قانون چلا آیا ہے کہ اس وقت افراد کی آزادی کی پرواہ نہیں کی جاتی بلکہ اس وقت جبری حکومت کی جاتی ہے۔ جیسے پچھلی جنگ میں جبکہ آزادی خطرے میں تھی اس وقت اگر مقابلہ کرنے والی سلطنتیں انتظام نہ کرتیں تو جرمن فتح یاب ہو جاتا۔ اس لئے وہ آزادی جو سینکڑوں برس سے افراد کو حاصل تھی مِٹا دی گئی۔حکومت کو تمام افراد پر کُلی اختیار دیا گیا جتنے لوگ کام کے اہل تھے ان کی زندگیاں غلاموں کی طرح کر دی گئیں۔ جو فوج کے قابل تھے اسے جبراً فوج میں داخل کیا گیا، جو مزدورپیشہ تھا اُسے جبراً مزدوری کے کاموں پر لگایا گیا، جو حفاظت کے کاموں کے قابل تھے ان کو مختلف دفاتر میں کلرکوں کی طرح لگادیا گیا، جو صنعت و حرفت میں کام دے سکتے تھے انہیں جبراً وہاں لگایا گیا، جو زراعت پیشہ تھے ان کو جبراً زراعت کے کاموں پر لگایا گیا۔ اس میں نہ بڑے کا سوال تھا نہ چھوٹے کا، شہزادے تھے تو ان کی اور اگر عوام تھے تو ان کی آزادی قُربان کر دی گئی تھی اور قانون کے ماتحت سب کی آزادی چھین کر گورنمنٹ کو دی گئی تھی۔ تو ایسے مواقع پر ایسا ہی کرنا پڑتا ہے۔
مگر دینی حکومت اس کے خلاف ہے یہ حکومت نیچے سے اوپر کو نہیں بلکہ اُوپر سے نیچے کو جاتی ہے۔ دینی حکومت میں درخواست نہیں کی جاتی حکم دیا جاتا ہے۔ خدا کی طرف سے حکم آتا ہے کہ یہ کام کرو، وہاں حکم دیا جاتا ہے کہ اس طرح کرنا ہو گا، خدا کا فرمان ہے کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اس لئے ایسا کرو۔ تمہارا فرض ہے کہ مانو۔ ہم نے تمہیں ہی نہیں تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا پس تم ہمارے اس حکم کو مانو اور ہمارے حکم پر ایمان لاؤ۔ ہم تمہیں رزق دیتے ہیں، تمہاری حفاظت کرتے ہیں اور تمہاری دیگر ضروریات کو مہیا کرتے ہیں۔ پھر تمہاری آئندہ نسلوں کو پیدا کریں گے، ان کی حفاظت کریں گے، تمہاری پیدائش ہمارے قبضہ میں ہے، تمہاری زندگی ہمارے قبضہ میں ہے اور تمہارا مَرنا بھی ہمارے ہی قبضہ میں ہے اور پھر مرنے کے بعد بھی تم ہمارے قبضہ سے باہر نہ ہو گے اور تمہارا ہمیں سے تعلق رہے گا۔ پس کیا بلحاظ حسن کے اور کیا بلحاظ احسان کے ہم جس طرح تمہیں حکم دیں اسی طرح تمہیں کرنا ہو گا اور ہم جس طرح چاہیں تم سے سلوک کریں۔ سوال کے طور پر نہیں اور عرض کی شکل میں نہیں بلکہ مالکانہ اور خالقانہ رنگ میں اعلان ہوتا ہے کہ اس کی فرمانبرداری اور اطاعت اختیار کرو۔
یہ وہ بادشاہ نہیں جس کو تم منتخب کرتے ہو بلکہ وہ جب سے بادشاہ ہے کہ تم نہ تھے، وہ جب سے بادشاہ ہے جب تمہارے باپ دادا نہ تھے، وہ جب سے بادشاہ ہے جبکہ تمہارے باپ دادا ہی نہیں، ابو البشر آدم ؑ بھی پیدا نہ ہؤا تھا، وہ بادشاہ ہے جب سے زمین نہ تھی، وہ بادشاہ ہے جبکہ وہ باریک ذرے بھی نہ تھے جن سے زمین پیدا ہوئی ہے۔ پھر اس کی حکومت ہمارا منتخب ہونے کی وجہ سے نہیں اور وہ ہمارا نائب ہو کر ہم پر حکومت نہیں کرتا، ہم نے جو کچھ حاصل کیا اِسی سے حاصل کیا اِس لئے اس کے حکم مقتدرانہ ہوتے ہیں کہ ہم یہ حکم نازل کرتے ہیں اس کی اطاعت کرو۔
پس یہ رنگ اَور ہے اور وہ اَور۔ دُنیاوی حکومتوں میں خواہ کام جبراً لئے جائیں خواہ مرضی سے لیکن عرفاً اور عقلاً وہ حکومت ہوتی رعایا کی ہے۔ حکومت کو جس قدر اختیارات ملتے ہیں وہ سب کے سب نیچے سے ہی ملتے ہیں۔ خواہ ان کی حقیقی اور دلی مرضی سے خواہ ظاہری سے مگر بہرحال وہ حکومت انہی کی رضا کے ماتحت ہوتی ہےلیکن اﷲ تعالیٰ کی حکومت لوگوں کی رضا کے ماتحت نہیں ہوتی۔ اگر سب کے سب لوگ انکار کر دیں تو کوئی بادشاہ ان سے اپنی حکومت نہیں منوا سکتا۔ کونسی حکومت ہے جو ایسے لوگوں پر حکومت کر سکے لیکن خدا کی حکومت کی یہ حالت نہیں۔ اگر سب کے سب لوگ اس کی خدائی ماننے سے انکار کر دیں تو وہ اپنی خدائی کو نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ کہے گا تم انکار کرتے ہو، میں تم سے منواتا ہوں۔ دُنیا نے انکار کیا اس نے کہا کہ منوا کے چھوڑوں گا۔ وہ اپنی حکومت کی شان کو بڑھانے کے لئے لوگوں میں سے ہی ایک شخص کو بھیج دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں اس شخص کے ذریعہ اپنی حکومت منواؤں گا۔ وہ لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہم سے ادنیٰ ہے، ذلیل ہے، نہ اس کے پاس دولت ہے نہ جتھا ہے، نہ حکومت ہے، خدا کہتا ہے کہ ہاں مَیں اسی کے ذریعہ منواؤں گا اور بِالآخر دُنیا کو اس کی اطاعت قبول کرنی پڑتی ہے اس لئے کہ وہ قدیم و قدیر اور خالق و مالک شہنشاہ کی طرف سے بادشاہ ہوتا ہے اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے اس لئے اس کے احکام کے آگے بھی ''نہیں''، نہیں سُنی جاتی۔
جسمانی اور رُوحانی حکومتوں میں یہ فرق ہوتا ہے۔ رُوحانی احکام کے نیچے ''نہیں'' نہیں سنا جاتا لیکن دُنیاوی معاملات میں ''نہیں'' کہا جاسکتا ہے۔ دُنیاوی معاملات میں ایک حد تک افراد کی آزادی میں حکومت دخل نہیں دے سکتی مگر رُوحانی حصّہ میں کسی شخص کو اختیار نہیں کہ انکار کرے کیونکہ روحانی حکومت اوپر سے آتی ہے۔ دُنیا کے بادشاہ حقیقی بادشاہ نہیں لیکن خدا حقیقی بادشاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا میں دیکھتے ہیں کہ کوئی حکومت جب کسی شخص کو کسی کام پر مقرر کرتی ہے وہ کہہ دیتا ہے کہ مَیں نہیں مانتا، قانون بنا کر لاؤ۔ یہ حکم محض شخصی ہے اور یہ شخصی سوال ہے اس لئے نہیں مانتے۔ پھر کام کرتے کرتے استعفیٰ پیش کر دیتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں جاؤ ہم نہیں کر سکتے۔ استعفیٰ کے معنے طلبِ عفو کے ہیں کہ مجھے معاف فرما ئیے لیکن دُنیاوی حکومتوں میں استعفیٰ کے معنے وہ نہیں ہوتے جو عربی میں ہیں بلکہ پنجابی معنے ہوتے ہیں کہ ''جامیاں معاف کر''۔ عربی میں تذلل اس کے معنوں میں پایا جاتا ہے لیکن پنجابی یا اُردو میں اس کے یہ معنے نہیں بلکہ اِس کے معنے ہوتے ہیں کہ ''ہم ایسا نہیں کر سکتے جاؤ سر نہ کھاؤ، معاف کرو، بس اب زیادہ پریشان نہ کرو، ہم کام چھوڑ کر چلے جائیں گے''۔ اس کے مقابلہ میں شرعی حکومت میں استعفیٰ کا قانون نہیں۔ حکومت کے ماتحت وہ کام کرتے ہیں جو ان کو پسند ہوتے ہیں لیکن شریعت میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ کام کریں جو لوگوں کو پسند ہو بلکہ وہ کرنا پڑتا ہے جس کا شریعت حکم دے اور اس شخص کا حق نہیں ہوتا کہ وہ جواب دے۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسامہ ؓ کو کمانڈر انچیف مقرر کیا۔ یہ نہیں کہ وہ اہلیت زیادہ رکھتے تھے بلکہ وہ ایک حکم تھا جس کی اطاعت اسامہ ؓ پر فرض تھی۔ اسامہ ؓ نے بھی انکار نہیں کیا اور اسامہ ؓ کے ماتحت عمر ؓ اور عمروبن العاص ؓ جیسے شخصوں کو کر دیا جن کے نام سے ایشیاء کے لوگ تھرّا اُٹھتے تھے اسامہ ؓ ان سے بڑا نہ تھا۔ نہ اپنی سپاہیانہ قابلیت میں ان لوگوں سے بڑا تھا کہ وہ اس لحاظ سے اس عہدے کا مستحق تھا۔ اس کو تو اپنے نفس میں فکر ہو گی کہ یہ اتنے بڑے بڑے لوگ کیوں میری بات ماننے لگے۔ وہ تو اُسے ایک ابتلاء اور آزمائشں خیال کرتا ہو گا مگر وہ اس کو ردّ نہ کر سکتا تھا نہ اس نے کیا کیونکہ اس حکم کی بجا آوری اس کی جان کے ساتھ وابستہ تھی۔
نا واقف لوگ سمجھتے ہیں اور منافقوں نے رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وآلہٖ وسلم کے وقت میں سمجھا کہ اسامہ ؓ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا لے پالک کا بیٹا ہے اس کو ناجائز طور پر افسری دے دی لیکن نادان نہیں جانتے کہ اسامہ ؓ تو اس کو اپنی شہادت خیال کرتا تھا مثلاً آج ہم تبلیغ کے لئے کوئی وفد بھیجیں اور زید یا بکر کو جو ایک چھوٹے درجہ کا آدمی ہو اور کوئی علمی قابلیت اپنے اندر نہ رکھتا ہو اس کے ماتحت مولوی سیّد سرور شاہ صاحب، حافظ روشن علی صاحب، قاضی سیّد امیر حسین صاحب کو کر دیں تو کیا ایسا شخص جس کو ان پر افسر کیا جائے اس افسری پر خوش ہو سکتا ہے اور فخر کر سکتا ہے؟ یقینا وہ تو اسے آزمائشں خیال کرے گا اور جانے گا کہ مجھ پر امتحان کا وقت آرہا ہے۔
پس ایسی حالت میں اسامہ نے اپنے تئیں اس کام کے جو اسے سپرد کیا تھا نا قابل ظاہر کر کے علیحدگی نہیں چاہی اور یہ نہیں کہا کہ مَیں استعفیٰ پیش کرتا ہوں اور اگر وہ ایسا کرتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ مَیں دین سے علیحدہ ہوتا ہوں۔ اسی طرح ہم دوسرے کاموں کو دیکھتے ہیں کہ مثلاً حضرت عمر ؓ ابو عبیدہ ؓ کو کمانڈر مقرر کرتے ہیں اور ان کے ماتحت خالد ؓ کو کرتے ہیں جو ایسا شخص ہے لڑائی میں پیدا ہؤا، لڑائی میں پلا اور جوان ہؤا اور جس کے سر کی چوٹی سے پاؤں کے تلووں تک کوئی جگہ ایسی نہ تھی جس پر تلوار اور نیزے کے زخم نہ ہوں۔ ابو عبیدہ وہ شخص ہیں جو واعظ اور امین تو ہیں مگر سپاہیانہ اوصاف کے نہیں۔ ان کے ماتحت خالد کو کیا جاتا ہے۔ ابو عبیدہ یہ نہیں کہتے کہ مَیں اس خدمت کا اہل نہیں مجھے معاف کیا جائے، وہ یہ نہیں کہتے کہ مَیں اس خدمت کے لائق نہیں، وہ یہ نہیں کہتے کہ مجھے اس بوجھ سے سُبکدوش کیا جائے، وہ اس خدمت کو بجا لاتے رہتے ہیں اس وقت تک کہ ان کی جان نِکل جاتی ہے۔
ساری اسلامی تاریخ میں اس خلافت کے عرصہ میں جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقرر کیا ہے کسی کا استعفیٰ نظر نہیں آیا کہ کسی شخص نے یہ کہا ہو کہ مَیں اس کام کو پسند نہیں کرتا یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکتا، مَیں استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔ اس عرصہ میں صرف ایک نظیر استعفیٰ کی ملتی ہے جو وہ بھی اس طرح نہیں کہ اس کا م سے نفرت کے باعث استعفیٰ پیش کیا گیا ہو۔ وہ واقعہ حضرت عثمان ؓ کے وقت کا ہے کہ ایک قاضی جو بہت بڑی عمر کے ہو گئے تھے اور چلنے پھرنے اور گھر سے نکلنے تک سے معذور ہو گئے تھے اُنہوں نے حضرت عثمان ؓ سے عرض کیا تھا کہ اگر اجازت ہو تو مَیں اپنے کام سے استعفیٰ پیش کرتا ہوں اور وہ واقع میں کام کے ناقابل تھے چونکہ وہ دُور رہتے تھے اس لئے ان کی حالت کا حضرت عثمان ؓ کو علم نہ تھا۔
بس یہی ایک مثال ہے جو استعفیٰ کی ملتی ہے۔ ورنہ اسلام کے سارے زمانے میں ایک بھی نظیر نہیں کہ کسی شخص کو کسی کام پر مقرر کیا گیا ہو اور اس نے اس کام سے نفرت یا خلافِ طبیعت ہونے کے باعث علیحدگی چاہی ہو اور کہا ہو کہ یہ کام میری طبیعت کے مخالف ہے اور مجھے اس کام سے لگاؤ نہیں یہ کام میری لیاقت سے بالا ہے، مجھے اس سے دلچسپی نہیں کیونکہ یہ نفس کے دھوکے ہیں۔
کیا اُسامہ متکبر تھا کہ اس کے ماتحت عمر ؓ اور عمروؓ بن العاص اور خالد ؓ بن ولید ایسے اشخاص کو کردیایا عرب کے سب کے سب لوگ اس قسم کے تھے کہ وہ انکسار مجسم تھے، یا عرب کے لوگوں کو ہر ایک کام سے جس پر انہیں متعین کیا جاتاتھا فطرتی لگاؤ تھا یا ان سے غلطی نہ ہوتی تھی ان میں سے کوئی بات بھی نہ تھی۔ نہ تو عرب کا ہر ایک باشندہ علم و ہُنر کا ماہرِ کامل ہوتا تھا، نہ یہ کہ انتخاب میں غلطی نہ ہوتی تھی اور تو اَور بعض اوقات رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے انتخاب میں غلطی ہو جاتی تھی۔ پہلے آپ ایک شخص کو مقرر کرتے مگر پھر اس کو بدل دیتے اور اس کی جگہ ایک اَور شخص کو کھڑا کردیتے۔ فتح مکّہ کے موقع پر ایک شخص کو افسر مقرر فرمایا لیکن تھوڑی دیر میں اس کو بدل کر دوسرا مقرر کر دیا۔1 یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتخاب میں غلطی ہو جاتی تھی۔ حضرت ابو بکر ؓ نے خالد ؓ کو افسر بنایا لیکن حضرت عمر ؓ نے ان کو بدل کر ابوعبیدہ بن الجراح کو مقرر فرما دیا۔2
ظاہر ہے کہ دونوں میں سے ایک شخص اَحَقّ تھا لیکن اس ادل بدل میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھے اس کا م سے معاف فرمایا جائے کیونکہ جب انہوں نے بیعت کی تھی تو بیعت کرنے والے کو اختیار نہیں ہوتا کہ وہ یہ سوال اُٹھائے کہ مَیں یہ نہیں کر سکتا، یا وہ نہیں کر سکتا کیونکہ بیعت کرنے والے نے اپنی آزادی تو بیچ دی۔ اگر وہ یہ کہے کہ مَیں یہ نہیں کر سکتا تو اس نے خدا کے ہاتھ پر یا اس کے نائب کے ہاتھ پر کیا بیعت کی؟ کیونکہ وہ تو وہ کام کرتا ہے جو اس کا نفس چاہتا ہے جب نفس کے خلاف ہوتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ میرا استعفیٰ ہے۔
مثنوی والے کہتے ہیں کہ چوہا اُونٹ کی مہار پکڑ کر اُدھر لے جاتا ہے جدھر اونٹ جارہا ہو لیکن اگر اونٹ ادھر نہ جانا چاہتا ہو آدمی بھی اُدھر مشکل سے لے جاسکتا ہے اسی طرح اگر ایک انسان خدا کے نائب کے ہاتھ پر بیعت کر کے اُدھر نہ چلے، جدھر چلانا اس کو مقصد ہے اور اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کرے تو اس کی باگ خدا کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس کے نفس کے ہاتھ میں ہے۔ خدا کے ہاتھ میں اس کی باگ تبھی ہو گی جب خدا کے منشاء کو پورا کرے گا اور جدھر کو اس کو کھینچا جائے کھنچتا چلا جائے۔ جب تک یہ نہیں دعویٰ بیعت باطل ہے۔
افسوس! حریت کے غلط معنے سمجھنے کی وجہ سے جماعت کے بعض لوگوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ جب ان کو کوئی کام سُپرد کیا جاتا ہے تو بعض تو کہتے ہیں ہم اس کا م کے قابل نہیں، بعض کہتے ہیں ہمیں اس کام سے مناسبت نہیں، بعض کہتے ہیں یہ کام ہماری طبیعت کے مخالف ہے حالانکہ ان کا یہ قول و فعل ان کی بیعت کے مخالف، ان کے ایمان کے مخالف، ان کے اس یقین کے مخالف ہے جس کے وہ مُدعی ہیں۔ بیعت کے بعد تو مُشکل سے مُشکل کام پر ان کو لگایا جائے گا اور ان کا فرض ہو گا کہ وہ اس کام کو بجالائیں۔
اگر یہ نہ ہو اور ہر شخص مُشکل کام سے جی چُرائے تو پھر مُشکل کاموں کو کون کرے اور پھر وہ حصّہ خالی رہ جائے۔ جنگ میں کوئی پہلی لائن میں نہ جائے۔ دُنیاوی معاملات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ افسر جہاں کھڑا کرتا ہے وہاں کھڑے ہونا پڑتا ہے اور افسر کی اطاعت ضروری ہوتی ہے۔ اسلامی طریق میں استعفیٰ کا کوئی طریق نہیں۔ دنیاوی جنگوں کے موقع پر بھی اگر کوئی شخص استعفیٰ پیش کرے تو اس کو سزا دی جاتی ہے۔ حریت کا دعویٰ کرنے والی قومیں جو ذراذرا سی بات پر سٹرائیک کر دیتی ہیں جنگ کے موقع پر کوئی استعفیٰ نہیں دیتیں۔ وہ فلسفی حکومتیں جن میں ہر ایک شخص مرضی کا مالک کہا جاتا ہے ان میں جنگ کے موقع پر کوئی سپاہی استعفیٰ نہیں دیتا۔ اس وقت میں حُریّت کے دلدادے بھی اس خیال کو چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی استعفیٰ وغیرہ نہیں رہتا۔ تو دینی حکومت جس میں پہلے ہی یہ قانون نہ تھا اس میں کیسے اب ہوسکتا ہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ غلطی کرتا ہے، گناہ کرتا ہے مومن کا فرض ہے کہ اسے جس کام پر مقرر کیا جاتا ہے اس کو بجا لائے۔ اس سے یہ نہیں سنا جاسکتا کہ اس کو اس کام سے لگاؤ نہیں اور وہ اس کام کا اہل نہیں۔ اگر فی الواقع وہ اہل بھی نہ ہو گا اور محض خدا کے لئے اس کام کو کرے گا تو خدا تعالیٰ اس نیک نیتی کے باعث اس کو اس نیک کام کے سر انجام دینے کی توفیق دے گا اور خدا آپ اس کو ہمت دے گا اور اس کی طرف سے نصرت اس کا ہاتھ بٹانے کے لئے آئے گی۔
دیکھو ابو عبیدہ اس کام سے انکار نہیں کرتا جس پر اسے متعین کیا جاتا ہے اور ابو عبیدہ وہ شخص ہے جسے امین تو کہہ سکتے ہیں لیکن اُمّت کا سپاہی اور جری نہیں کہہ سکتے جیسے کہ خالد بن ولید کو کہہ سکتے ہیں۔ مگر ابو عبیدہ سے جو کام ہؤا وہ خالد سے نہیں ہؤا اس لئے نہیں کہ وہ اہل تھے یا اپنے آپ کو اس کام کا اہل جانتے تھے بلکہ اس لئے کہ اُنہوں نے اس کام کو خدا کے لئے اپنے ذمہ لیا تھا اور خدا کے مقرر کردہ انتظام کے ماتحت لیا تھا اس لئے خدا نے ان کی مدد کی اور ان کے ذریعہ نہایت عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو خدا کے لئے اُٹھتا ہے خدا اس کی مدد فرماتا ہے۔
تو ایک موقع پر دُنیاوی حکومتوں میں ڈپٹی، نائب تحصیلدار،تحصیلدار، کلرک کو اجازت ہے کہ وہ استعفیٰ دے دیں مگر دین کے انتظام میں عذر کا موقع نہیں ہے۔ جو ایسا کرتا ہے اُس کے دل پر زنگ بیٹھ جاتا ہے، پھر جب وہ دوسری دفعہ انکار کرتا ہے تو دوسرا سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، پھر جب تیسری دفعہ انکار کرتا ہے تو تیسرا نقطہ لگ جاتا ہے حتّٰی کہ ایک وقت آتا ہے کہ اس شخص کا یہ بار بار کا انکار اُس کو ایمان سے محروم کر دیتا ہے۔ پس جتنا وہ انکار کرتا ہے اُتنا ہی اُس کا ایمان مرتا چلا جاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ آپ کو سمجھنے کی توفیق دے اور وہ اطاعت پیدا کرے جو وہ اپنے بندوں میں چاہتا ہے کہ پیدا ہو۔ آمین‘‘ (الفضل 15نومبر 1919ء)
1: السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 95 مطبوعہ مصر 1936ء
2: تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 335 مطبوعہ بیروت 1965ء

60
وساوس موجبِ ہلاکت ہوتے ہیں
(فرمودہ 17 اکتوبر 1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''سورۃ فاتحہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ انسان کو اپنے دُشمنوں سے بے خوف اور مامون اور نڈر نہیں رہنا چاہئے کیونکہ جو شخص عداوت پر آمادہ ہو گیا اور اس نے اخوت اور محبت کو ترک کر دیا اس کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دُکھ دینے اور ایذاء پہنچانے سے ہاتھ روک رکھے گا جہالت ہے۔ دُنیا کے معاملہ میں اس امر کی سچائی کس طرح اور کہاں تک ثابت ہوتی ہے اس پر مجھے اس وقت کچھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں مگر دین کے معاملہ میں اس کی سچائی بہت روشن اور مبرہن ہے اور اسی کے متعلق مَیں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
اﷲ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں بیان فرمایا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ۔صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ١ۙغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَؒ۔ 1 انسان کامیابی کے راستہ پر چلا جاتا ہے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں کامیاب ہو گیا کہ یکدم اس کے راستہ میں ایسی روکیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ وہ بجائے اس مقصد کے پانے کے اور بجائے اپنی منزل کے قریب ہونے کے اس راستہ کے اُلٹ چل پڑتا ہے اور مُدعا کے پانے سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کا کیا ذریعہ ہے؟ اس کو قرآن کریم نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں بیان کیا ہے اور وہ سورۃ وَالنّاس ہے۔ فرمایا کہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ۔مَلِكِ النَّاسِۙ۔اِلٰهِ النَّاسِۙ۔مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ١ۙ الْخَنَّاسِ۪ۙ۔ الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِۙ۔مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِؒ۔ 2 تمام قرآن کریم سورۃ فاتحہ کی تشریح ہے۔ جیسا کہ تمام سمجھنے والوں نے بیان کیا اور جس کو کہ حضرت مسیح موعود نے بھی تسلیم کیا اور اس کی تشریح کی۔ تو سورۃ وَالنّاس غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَکی تشریح ہے۔اس میں یہ بیان فرمایا ہے کہ کس طرح انسان اصل مقصد سے پھر جاتا ہے۔ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اس کی ترقی کو نہیں دیکھ سکتے اور کچھ خبیث ارواح ہوتی ہیں جو یہ نہیں دیکھ سکتیں کہ کوئی خدا کا بندہ خدا کے دروازے پر پہنچ جائے اور اس سے تعلق قلبی پیدا کرے۔ وہ انسان کو اس مقصد سے ہٹا کر خدا کے مقابلہ میں لے جا کھڑا کرتی ہیں۔ اس حالت سے کوئی انسان بھی کسی مقام پر پہنچ کر محفوظ نہیں جب تک کہ خدا کی خاص حفاظت کے نیچے نہ آجائے اور خدا کا محبوب نہ ہو جائے۔ وہ ارواح خبیثہ خواہ انسان ہوں، خواہ ابلیس ہو۔ ہاں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان محفوظ ہو جاتا ہے ورنہ اس کے نیچے کے تمام درجوں میں انسان خطرے میں ہوتا ہے۔
تو سورۃ فاتحہ میں اﷲ تعالیٰ متنبّہ کرتا ہے کہ دُشمن سے آگاہ رہنا چاہئے یہ نہ ہو کہ کسی وقت اس کے خطرے سے غافل ہو جاؤ۔ اگر غافل ہو جاؤ گے تو یہی نہیں کہ منزل پر پہنچنے میں دیر ہو گی بلکہ وہ دُشمن اُلٹ رستہ پر لگا دے گا اور خدا کے مقابلہ میں اور بجائے خدا کی تلاش کے اس کے غضب کے نیچے کھڑا کر دے گا۔
یہ تنبیہہ اور یہ ہوشیار کرنا کج ذہنی نہیں، محض تنبیہہ کے لئے نہیں کیونکہ بعض دفعہ کسی تعلیم کو مکمل کرنے کے لئے اس کے ایسے حصّے بھی بیان کر دیئے جاتے ہیں گو ان حصّوں کا راستہ میں آنا مُشکل ہوتا ہے۔ پس یہ بات محض تنبیہہ کے لئے نہیں بلکہ یہ وہ بات ہے جو روزانہ مُشکلات میں کام آنے والی ہے۔
ہماری جماعت میں سے ان لوگوں کو دیکھ لو جو الگ ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے نزدیک بلکہ جماعت کے ایک طبقہ کے نزدیک سلسلہ کے ستون بنے ہوئے تھے اور وہ لوگ وہ ہیں جو اخلاص رکھتے تھے لیکن کوئی مخفی عُجب ایسا ان کے دل میں پیدا ہؤا کہ اﷲ تعالیٰ نے بجائے ان کو بُلند کرنے کے گرا دیا اور اس عُجب نے بجائے ان کو اصلی مقصد کی طرف لے جانے کے ان کی یہ حالت کر دی کہ وہ مضل ہو گئے نہ صرف خود ہی محروم ہوئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی محرومی کا مؤجب ہو گئے۔ خود ہی اس راہ کو نہیں چھوڑا بلکہ دوسروں کو چھوڑانے کے درپے ہو گئے حالانکہ زیادہ سال نہیں گزرے کہ وہ سلسلہ کے لئے کوشش کرتے تھے اور اس کی ترقی چاہتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کب ان کے دل میں عُجب آگیا اور کب اس کے رستہ کو چھوڑ دیا لیکن خدا جو نیتوں اور قلبی کیفیتوں کے مطابق نتائج پیدا کر دیتا ہے دیکھو وہ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور مخالفت میں اس قدر ترقی کر گئے کہ اگر غور کیا جائے تو انہوں نے اپنی طرف سے سلسلہ کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بڑا وجود اگر سلسلہ شرعی ہو تو اس کے بانی کا ہوتا ہے اور اگر سلسلہ شرعی نہ ہو تو اس شخص کا وجود ہوتا ہے جو شریعت کو قائم کرے کیونکہ خدا تو نظر نہیں آتا یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے نائب ہوتے ہیں اور یہی انسان کے لئے اُسوہ قرار دیئے جاتے ہیں اور یہ ظاہر بات ہے کہ انسان کے لئے انسان ہی اُسوہ ہو سکتا ہے۔ اگرخدا ہو تو بندے کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا اور ہم بندے۔ خدا میں اور ہم میں کیا نسبت ہے؟ پس انسانوں کی ترقی کے لئے انسان ہی اُسوہ ہوتے ہیں اور وہ دو ہی بڑے وجود ہوتے ہیں۔ اوّل دین کو لانے والے اور دوسرے دین کو قائم کرنے والے۔
قرآن کریم کے بعد شریعت نہیں۔ اب جو نبی آیا وہ اسی قرآن کریم کی شریعت کے قیام کے لئے آیا اور وہ مسیح موعود ؑ ہے۔ اس کا وجود ہی ایک ایسا وجود ہے جس کے ذریعہ اتحاد ہو سکتا تھا اور لوگ روحانی ترقیات کر سکتے تھے یا تو وہ وقت تھا کہ ہر گفتگو میں وہ مسیح موعود ؑ کا نام لیا کرتے تھے یا آپ کو ایسا گرایا کہ کہہ دیا کہ کیا مسیح موعود ہی ہر چیز پر حاوی ہو گیا۔ مسیح موعود نے جو قرآن کریم کے معانی بیان فرمائے ان کے علاوہ معنے نہیں ہو سکتے۔ یہاں تک تو درست ہے کہ اُستاد ایک فقرے کی تشریح بیان فرمائے ان کے علاوہ معنے نہیں ہو سکتے۔ یہاں تک تو درست ہے کہ اُستاد ایک فقرے کی تشریح بیان فرمائے اور اس کے علاوہ ایک اور صورت سے بھی اس فقرے کی تشریح ہو۔ اس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ ممکن ہے اُستاد نے بیان نہ کی ہو کیونکہ بہت سی باتیں ہیں جو انسان جانتا ہے لیکن سب بیان نہیں کر دیتا۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان تمام علوم و نکات پر حاوی نہیں ہو سکتا ممکن ہے کہ اُستاد کے ذہن میں یہ بات نہ آئی ہو لیکن یہ کہنا کہ اُستاد نے جو بات بیان کی ہے وہ غلط ہے اس کے مقابلہ میں جو بات ہم کہتے ہیں وہ صحیح ہے یہ اُستاد کی ہتک ہے اور اس کی تکذیب ہے۔ بے شک قرآن کریم کے فہم کا دروازہ کھُلا ہے ہم اس بات کو اپنے علم اور فہم اور تجربہ کی بناء پر تسلیم کرتے ہیں کہ فہم قرآن کا دروازہ کھُلا ہے۔ ہم جن لوگوں کا ادب کرتے ہیں بہت سی باتیں اُنہوں نے بیان نہیں کی تھیں مگر ہماری سمجھ میں آگئیں۔ پس اس خیال کے یہاں تک تو ہم مؤید ہیں کہ فہمِ قرآن بند نہیں ہؤا اور قرآن کریم کے مضامین ختم نہیں ہوئے۔
لیکن یہ کہنا کہ علمِ قرآن ختم نہیں ہؤا اور اس فقرے کے یہ معنے لینے کہ مسیح موعود ؑ کے فلاں معنوں اور فلاں مسئلہ کے خلاف ہمیں سمجھ آئی ہے یہ زیادتی علم نہیں مسیح موعود ؑ کی تکذیب ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جو کچھ مسیح موعودؑ کو فہم قرآن دیا گیا اس کی تائید میں زیادہ سے زیادہ مل سکتا ہے اور وہ اس کے مخالف نہیں مثلاً مسیح موعود نے سو مسئلے بیان فرمائے۔ اب ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کو ان سو کے علاوہ ایک اور مسئلہ سمجھ میں آجائے اور یہ ایک سو ایک ہو جائیں اور اگر اسی طرح دس بیس تیس پچاس تک بھی مسائل کسی کی سمجھ میں آجائیں تب بھی مسیح موعود ؑ کے سو کے مقابلہ میں جزو ہیں کیونکہ خدا سے جس قدر تعلق میں زیادتی ہو گی اسی قدر خدا تعالیٰ علم میں ترقی دے گا اور شاگردی کے لحاظ سے وہ مسیح موعود ؑ کے نیچے ہی ہو گا لیکن اگر مسیح موعود ؑ کے مقابلہ میں ایک بات کا بھی دعویٰ کرے جس سے مسیح موعود ؑ کی کسی بات کا ردّ ہوتا ہو تو یہ غلط ہے اور ان کی یہ بات کہ مسیح موعود ؑ پر فہمِ قرآن ختم نہیں ہؤا ان کے اخبار میں بھی شائع ہو چکی ہے جس کے معنے اُنہوں نے یہ لئے ہیں کہ مسیح موعود ؑ کے بیان کردہ مسائل کے مقابلہ میں ہمیں مسائل ملے ہیں اور مسیح موعود ؑ کے بیان کئے ہوئے غلط ہیں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ مسیح موعود ؑ کے مسائل میں زیادتی ہو سکتی ہے مثلاً جیسا کہ مَیں نے بیان کیا حضرت مسیح موعود ؑ نے سو مسائل بیان کئے آپ کا ایک غلام ایک اَور بیان کر دے جس سے ان کی تعداد ایک سو سے ایک سو ایک ہو جائے لیکن ردّ کر دینے میں وہ بات نہیں یہ مسیح موعود کی تکذیب ہے۔ اسی نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اُنہوں نے کہہ دیا کہ مسیح موعود پر فہم قرآن ختم نہیں اور اس کے یہ معنے لئے کہ مسیح موعود کے بیان کردہ بعض دینی مسائل صحیح نہیں۔ مسائل دینی میں یہ لوگ غلطی پر قائم نہیں رہا کرتے مثلاً پیشگوئیوں میں بعض مخفی باتیں ہوتی ہیں لیکن آخر اﷲ تعالیٰ ان پر انبیاء کو آگاہ فرما دیتا ہے۔ اس بات کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تحریر فرمایا کہ مأمور پہلے انہی عقائد پر ہوتے ہیں جو عام طور پر لوگوں کے ہوتے ہیں لیکن ان میں سے جو غلط ہوتے ہیں خدا تعالیٰ وفات سے پہلے ان کی غلطی پر ان کو آگاہ کر دیتا ہے۔ پس انبیاء وفات تک غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے۔
عجیب بات ہے کہ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم مسیح موعود ؑ کی باتوں کو ردّکرتے ہیں اور ہم حضرت صاحب کی تحریر کو منسوخ کرتے ہیں۔ میرے نزدیک وہ شخص احمدی نہیں جو مسیح موعود ؑ کی کسی بات کو منسوخ ٹھہرائے۔ وہ احمدی ہونے کے دعویٰ میں جھُوٹا ہے۔ کوئی شخص حق نہیں رکھتا کہ مسیح موعود ؑ کی کسی بات کو منسوخ کرے اگر مَیں کر سکتا ہوں تو دوسرے بھی کر سکتے ہیں۔پس مَیں نے کہیں نہیں لکھا نہ کہیں یہ بات بیان کی ہے کہ مَیں حضرت اقدس کی فلاں تحریر کو منسوخ کرتا ہوں۔ ہاں مَیں نے یہ لکھا ہے کہ حضرت اقدس نے اپنی فلاں بات کو منسوخ کر دیا اور یہ دونوں باتیں مختلف ہیں اور مسیح موعود کو حق ہے کہ وہ اپنی کسی بات کومنسوخ کر دیں کیونکہ خدا بھی اپنی باتوں کو منسوخ کر دیتا ہے۔ کیا اس نے تورات کو منسوخ نہیں کیا؟ خدا کے تورات کو منسوخ کرنے سے کوئی شخص یہ استدلال کرے میں بھی جو چاہوں منسوخ کر سکتا ہوں غلط ہے۔ کیونکہ یہ کہنا کہ خدا نے تورات کو قرآن کریم سے منسوخ کر دیا اَور ہے اور یہ کہناکہ مَیں منسوخ کر سکتا ہوں دوسری بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاص طور پر لکھا ہے کہ مسیح ناصری بے پدر پیدا ہوئے اور خود ان کو اقرار ہے کہ اس بات پر آپ وفات تک قائم رہے لیکن کہا جاتا ہے کہ کیا قرآن کا علم مسیح موعود پر ختم ہو گیا اور اس کے یہ معنے لیتے ہیں کہ مسیح موعود نے جو کچھ لکھا وہ درست نہیں۔ وہ خود جو کچھ لکھتے ہیں درست ہے۔ پھر ان کے نزدیک یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ حضرت اقدس نے فلاں بات کو منسوخ کر دیا تو اس پر اعتراض کیا جاتا ہے اور خود ایک بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ مسیح موعود ؑ کا آخری وقت تک یہی عقیدہ رہا لیکن چونکہ فہم قرآن مسیح موعود پر ختم نہیں ہو گیا اس لئے ہم جو کہتے ہیں وہ صحیح ہے اور مسیح موعود کا بیان غلط۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کو کوئی عقلمند انسان جو حدِ بلوغت کو پہنچ چُکا ہو اس کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس کو ایک قرار دے سکتا ہے سوائے اس کے جو ازلی طور پر خدا کے عذاب کے نیچے ہوکہ وہی اس کو ایک قرار دے گا۔ مجھ پر اعتراض کیا گیا کہ مَیں نے جو یہ لکھ دیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی کی فلاں عبارت سے اپنی فلاں فلاں عبارتوں کو منسوخ کر دیا تو اس پر شور مچ گیا کہ یہ ایک خطرناک راہ ہے جو اختیار کی گئی ہے لیکن وہ عقیدہ جس پر آپ وفات تک قائم رہے یعنی مسیح کی ولادت بے پدر۔ اس کی تکذیب کے لئے کہہ دیا گیا کہ کیا فہم قرآن مسیح موعود ؑ پر ختم ہو گیا؟
اصل یہی ہے کہ یہ مقابلہ جو کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان مِٹ چُکا ہے۔ وہ اتحاد کی رسّی جو ایک ہی ایمان و اسلام کا ذریعہ تھی اس کو اُنہوں نے کاٹ دیا۔ ان کی یہ حالت بُغض اور کینہ سے پیدا ہوئی ہے۔
اسی طرح ہم دوسرے مسائل میں بھی دیکھتے ہیں مثلاً کہتے تھے کہ خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح موعود چونکہ خلیفہ ہیں اس لئے ان کا خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ ہم اس سوال کو علیحدہ کر کے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح اوّل نے مولوی محمد علی صاحب سے تین دفعہ اپنی وصیت پڑھوائی اور اس وقت اُنہوں نے اس کے متعلق کچھ بھی نہ کہا اور یہ منافقت کا فعل تھا اور پھر اس وصیت کے پہلے یا بعد میں نہایت ضروری اعلان کا مضمون لکھا۔ اس تمام قصّہ کو چھوڑ کر کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کی وفات اور اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جس میں خلیفہ کے خلیفہ سے انکار تھا ایک جلسہ کیا جس میں چار خلیفہ بنائے اور اس وقت ان کو یہ بات یاد نہ رہی کہ خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا یا تو ایک خلیفہ کے تسلیم کرنے میں بھی ایمان جاتا تھا یا اب یہ ایمانداری دکھائی کہ ایک چھوڑ چار خلیفے بنا لئے۔
ہمیں کہتے تھے کہ ہم مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں لیکن مولوی محمد علی صاحب نے امیرالمؤمنین کا لقب اختیار کیا جس کے معنے یہ ہیں کہ غیر مبائعین کے چند صد افراد کے سوا سب کے سب مسلمان کافر ہیں کیونکہ جن کے وہ امیر ہیں وہ تو چند سینکڑے ہیں اور باقی تمام مسلمان خواہ وہ کوئی ہوں ان کو واجبُ الاطاعت امیر تسلیم نہیں کرتے جس کا صاف نتیجہ یہ ہے کہ وہ ان چند سو کے سوا باقی سب کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ اصل میں بات تو یہی ہے لیکن اظہار کی طاقت نہیں۔ اعتراض تو ہم پر کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں لیکن عملاً وہ بھی کافر کہتے ہیں۔ اگر عربی کا امیر نہیں تو اُردو کے امیر ہی ہوتے بمعنی دولتمند لیکن یہ بھی نہیں۔ پس وہ چند آدمیوں کے ساتھ ہو جانے کے ساتھ امیر المومنین کیونکر ہو گئے۔
ہم (امام ) ہیں اور ہمیں جماعت کے اکثر حصّہ نے (امام) تسلیم کیا ہؤا ہے۔ چند لوگ ہیں جو باغی ہو کر جماعت سے علیحدہ ہو گئے ہیں لیکن جو شخص چند کولے کر دعویٰ امیرالمومنین ہونے کا کرتا ہے اس کا دعویٰ غلط اور اس کا یہ کہنا بھی غلط کہ سب مسلمان کہلانے والے کافر نہیں جو لوگ ہماری بیعت میں داخل نہیں ہم انہیں کافر نہیں کہتے جب تک کہ وہ حضرت اقدس کی کھلی کھلی تحریروں کا انکار نہیں کرتے ہم انہیں باغی کہیں گے۔ پس قریباً تمام جماعت احمدی نے ہمارے ہاتھ پر بیعت کر کے ہمارے (امام) ہونے پر اجماع کر لیا ہے وہ لوگ جو ہماری جماعت سے الگ ہیں وہ باغی ہیں اور ان کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمِیْتَتُہٗ جَاھِلِیَّۃ 3 جدھر کثیر جماعت کا حصّہ ہے دراصل وہی جماعت ہے۔
ادھر اُنہوں نے حضرت اقدس کی نبوت سے انکار کیا اور کہا کہ اب کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا یا اس قدر فراخی کی کہ کہہ دیا کہ نبی کہتے ہیں خبر دینے والے کو۔ پس ہر شخص جو کسی قسم کی خبر دیتاہے نبی ہے۔
ہر ایک بات جو سلسلہ کے لئے بطور ستون کے تھی اس کو مِٹا دینا چاہا۔ خدا کے مأمور کی ہتک کی۔ کُفر میں ضد کی اس کا نتیجہ معلوم کہ سب مسلمانوں کو عملاً کافر کہہ دیا، حافظ صاحبح نے شملہ میں ایک لطیف جواب مولوی محمد علی صاحب کو دیا اس پر چونکہ زبانی اور تحریری اعتراض ہؤا اس لئے میں اسی کے متعلق بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ ان کی طرف سے جب مباحثہ کے لئے عبدالحق اور مرہم عیسیٰ جیسے جُہلاء پیش ہونے لگے تو میں نے کہا
مولانا حافظ روشن علی صاحب مُراد ہیں۔ راقم
تم سے مباحثہ نہیں ہو سکتا۔ ان کے علماء جہلاء ہیں اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان تباہ اُس وقت ہوں گے جب ان کے پیشوا جہلاء ہوں گے۔4 تو ان کے علماء مدثرشاہ، مرہم عیسیٰ، عبدالحق ہیں جو قرآن کریم کے ایک رکوع کا بھی صحیح ترجمہ نہیں کر سکتے۔ چونکہ مولوی محمد علی صاحب ہماری ہر ایک بات میں نقل ضروری سمجھتے ہیں اور ہم اس سے خوش ہیں کیونکہ نقل آدمی اسی بات کی کرتا ہے جس کو وہ پسند کرتا ہے اس لئے ہم نے جو بات کہی تھی اس کی نقل بھی مولوی صاحب نے کرنی چاہی۔ جب حافظ صاحب نے ان سے ملاقات کرنی چاہی تو کہہ دیا کہ مَیں ان کے سوائے کسی اَور سے گفتگو نہیں کر سکتاحالانکہ ان کے لوگوں نے جب بھی مجھ سے گفتگو کرنی چاہی ہے تو مَیں نے ان کو موقع دیا ہے یہاں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ شملہ میں عبدالحق مجھ سے گفتگو کیا کرتا تھا لیکن ان کے ساتھ مباحثہ سے مَیں نے انکار کیا ہے کیونکہ یہ ہر شخص کی شان نہیں ہوتی کہ اس کو مدِّ مقابل بنایا جائے۔ سائل ہو کر جب بھی ان کے کسی آدمی نے گفتگو چاہی ہے تو مَیں نے اس کو موقع دیا ہے لیکن کہتے ہیں کہ نقل را عقل باید۔ نقل تو کی مگر عقل کہاں سے لاتے۔ مولوی محمد علی صاحب کے پاس حافظ صاحب نے جانا چاہا اور خط لکھا تو لکھ دیا کہ مباحثہ تو انہیں سے ہی کروں گا مگر ان کے نزدیک وہ امیر المومنین نہیں ہو سکتے تھے جب تک حافظ صاحب سے بحث سے انکار نہ کرتے۔ حافظ صاحب نے نہایت لطیف اور مختصر جواب دیا کہ اپنے آپ کو امیر المومنین لکھ دیا۔ میری طرف سے جو وفد گیا تھا اس کے حافظ صاحب واجب الاطاعت امیر تھے اور وہ وفد مومنین کا تھا اور ان پر حافظ صاحب کا حکم ماننا ایسا ہی فرض تھا جیسا کہ میرا۔ اس لئے مولوی محمد علی صاحب کو جواب دینے کے لئے یہ لکھنا درست تھا کیونکہ جب کئی کروڑ مسلمانوں کے مقابلہ میں چند سو آدمی کے امیر مان لینے سے مولوی محمد علی صاحب امیرالمومنین ہو جاتے ہیں تو انہی کے قاعدے سے کئی لاکھ کی جماعت میں سے چند لوگوں کے امیر ہونے سے کیوں حافظ صاحب امیر المومنین نہیں ہو سکتے۔ پھر مولوی صاحب تو صرف ایک انجمن کے پریذیڈنٹ ہیں لیکن حافظ صاحب میرے نائب ہونے کی حیثیت میں اس وفد کے افراد کے لئے واجب الاطاعت تھے۔ پس مولوی صاحب اگر کروڑوں مسلمانوں کے مقابلہ میں چند سَو کی انجمن کے پریذیڈنٹ ہونے سے امیر المو منین کہلاتے ہیں تو حافظ صاحب واقعی ان افراد کے امیر ہونے سے امیر المومنین کیوں نہ ہوں۔ یہ ایک الزامی جواب تھا کہ جب ہر کوئی چند لوگوں کے تعلق سے امیر بن جاتا ہے تو ہم بھی اس حیثیت سے امیر ہیں اور تم اپنی امارت کے خیال سے ہم سے بحث سے گریز نہیں کر سکتے۔
غرض کہ بُغض اور حسد ہی ہے جس نے ان کو حق کے قبول کرنے سے روک دیا۔ یہ نتیجہ ہے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ کا۔ دیکھو چھوٹی چھوٹی باتوں سے بگڑ کر انہوں نے مخالفت کی تلوار اُٹھائی اور اپنے آقا پر اُٹھائی اور تبر چلایا اور اس درخت کی جڑ پر چلایا جس پر بیٹھتے تھے اور اس چشمہ کو گندہ کرنا چاہا جس سے پانی پیتے تھے۔ پس مومن کو ہر وقت شیطان کی چالاکیوں سے بچنا چاہئے اور ہر وقت خدا کے حضور عجز سے دُعا میں مصروف رہنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو کہ کسی وقت تکبر اور انانیت آجائے اور اس کو ہلاک کر دے۔ خدا کی طرف جانے والے کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے تیز دریا میں چلنے والا اگر ہمت سے چلتا رہے گا تو سلامت چلا جائے گا اگر ایک دم کے لئے غافل ہؤا تو پھر پیر اُکھڑ جائیں گے اور اس کو پانی کہیں سے کہیں لے جائے گا۔
خدا کے فضل آپ کے شامل حال ہوں کہ آپ کے قدم آگے ہی آگے پڑیں اور اﷲتعالیٰ آپ کو ہر قسم کے حملوں اور وسوسوں سے محفوظ رکھے۔ آمین‘‘
(الفضل 8نومبر 1919ء)
1: الفاتحۃ : 6، 7
2: الناس : 2تا آخر
3: مسلم کتاب الامارۃ باب وُجُوْبِ ملازمۃ جَمَاعَۃ الْمُسْلِمِیْنَ (الخ) میں یہ الفاظ ہیں مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً ۔
4: مسلم کتاب العلم باب رَفْعُ الْعِلْمِ فِی اٰخِرِ الزّمَانِ

61
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اوّلین خدام کی قدر کرو
(فرمودہ 24 اکتوبر1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''کسی شخص نے نہایت دانائی بھری بات کہی ہے کہ جو شخص ابتدا کرتا ہے اسی کو فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جو شخص ابتدا کرتا ہے اس کے رستہ میں جس قدر مُشکلات ہوتی ہیں اس کا علم دوسرے کو نہیں ہو سکتا۔ نئے کام میں بیسیوں رکاوٹیں ہوتی ہیں جن کا کسی کو علم نہیں ہوتا اور جب کوئی شخص اس کام پر ہاتھ ڈالتا ہے تب اس کو علم ہوتا ہے کہ اس رستہ میں کیا کیا دقتیں اور رکاوٹیں ہیں۔ بعض دفعہ مُشکلات دیکھتا ہے ان کو محنت سے دُور کر کے اُن پر قابو پاکر کامیاب ہوتا ہے اور بعض دفعہ کوشش کرتا ہے اور ناکام رہتا ہے۔ بعد میں آنے والے لوگ اس تجربہ سے فائدہ اُٹھالیتے اور معلوم کر لیتے ہیں کہ اس کے کام میں فلاں فلاں غلط طریقے اختیار کئے گئے تھے جو ناکامی کا باعث ہوئے ہیں ان کو ترک کرنا چاہئے اور فلاں طریق سے کامیابی ہوئی ہے اُسے اختیار کرنا چاہئے اس طرح ابتدا کرنے والا شخص جہاں اپنے نقصان سے دوسروں کے نفع کا موجب ہو جاتا ہے وہاں وہ دوسروں کے لئے بطور اُستاد کے بھی ہوتا ہے اور دوسرے اس کے شاگرد ہوتے ہیں۔
پس ہر ایک کام میں ابتدا کرنے والوں کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ وہ لوگ تمام تکلیفیں اُٹھا کر راستہ کو صاف کر دیتے ہیں۔ اس مسئلہ کی خدا تعالیٰ نے بھی جوتمام علموں کو پیدا کرنے والا ہے تصدیق کی ہے اور اس کی تصدیق کے بعد کسی شُبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے ابتدا میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کومانا ان کی نسبت قرآن کریم میں بہت سے تعریفی کلمات وارد ہیں اور اسی طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے جو لوگ ہو چکے ہیں ان کے متعلق بھی حکم ہے فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ 1 اسی طرح ان لوگوں کے ذکر میں جنہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مانا فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ 2 کہ ان صحابہ کرام کی جو پیروی نیکی کے ساتھ کریں گے ان پر بھی اﷲ تعالیٰ کے احسان ہوں گے اور ان کو بھی رضائے الٰہی حاصل ہو گی۔ یہ کافی تھا کہ کہہ دیا جاتا کہ ان احکام کی پیروی کریں جن کی صحابہ نے کی لیکن خدا کہتا ہے ان لوگوں کی پیروی کرنے والے پر یہ انعام ہوں گے۔ ان لوگوں کی مُشکلات کا خیال کر کے ان کو ایک خاص درجہ دے دیا کہ جو ان کی اتباع کرے گا اس پر احسان ہو گا حالانکہ اتباع ان کی نہیں بلکہ قرآن کریم کی ہے اور ان کو بھی جو درجہ حاصل ہؤا ہے وہ انہی احکام کی اتباع سے حاصل ہؤا ہے جو قرآنِ کریم میں بیان کئے گئے مگر باوجود اس کے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ان لوگوں کی اتباع کریں گے اﷲ تعالیٰ ان پر اپنے خاص افضال نازل کرے گا۔
سورۃ فاتحہ میں بھی اسی مضمون کو ادا کیا گیا ہے فرمایا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ۔ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 3اس میں یہ نہیں بتایا کہ ہمیں اس صراط پر چلا جو نبیوں کی ہے بلکہ فرمایا کہ اس راہ پر چلا جو مُنْعَم عَلَیْہِم کی ہے۔ پس اس کی وجہ ان لوگوں کی وہ مشکلات ہیں جو وہ اُٹھا کر دوسروں کے لئے راستہ صاف کر دیتے ہیں۔ اس سے ان کی فضیلت کا پتہ لگتا ہے۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص انسانوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا۔4 وجہ یہ ہے انسانوں کی شکر گزاری تھوڑی ہوتی ہے جب ایک شخص تھوڑا کام نہ کر سکے تو وہ زیادہ کب کر سکتا ہے۔ پس اسی قانون کے ماتحت وہ لوگ جو ابتدا میں انبیاء کو مانتے ہیں دُنیا کے محسن ہوتے ہیں اس لئے ان کی اتباع ان محسنوں کا شکریہ ہوتا ہے۔ وہ لوگ خطرناک مخالفتوں اور دُشمنیوں کو سر پر اُٹھاتے ہیں اور محض خدا کے لئے حق کو قبول کرتے ہیں لیکن اگر وہ ان مُشکلات اور تکالیف کو نہ اُٹھاتے جو ابتدائی زمانہ میں پیش آتی ہیں تو اُن کمزوروں کو حق کے قبول کرنے کی کیسے توفیق ملتی جو لوگوں کے خوف اور ڈر کی وجہ سے صداقت کو قبول کرنے کی جرأت نہیں کرتے لیکن جب کچھ لوگ حق کو قبول کر کے تکالیف اور مصائب کو برداشت کرتے ہیں، طرح طرح سے ستائے جاتے ہیں، قسم قسم کے دُکھ دیئے جاتے ہیں مگر مخالف ان کو حق کے ترک کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ ناکام اور نامراد ہو جاتے ہیں تو کمزور دل لوگوں کو بھی یقین ہو جاتا ہے کہ جیسا مخالف ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے اسی طرح ہمارا بھی کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکے گا اس طرح وہ بھی حق کو قبول کر لیتے ہیں۔
دیکھو ایمان لانے میں حضرت ابو بکر ؓ اور ان کے بعد والے برابر ہیں لیکن پھر بھی ایک بہت بڑا فرق تھا اور وہ یہ کہ حضرت ابو بکر ؓ اس وقت ایمان لائے جس وقت ہر طرف مُشکلات ہی مُشکلات تھیں لیکن ان کے ایمان لانے کے بعد جب لوگوں نے دیکھا کہ وہ باوجود تمام مُشکلات کے بازاروں میں زندہ و سلامت پھرتے ہیں تو کئی اَور لوگ جو دل میں مانتے تھے مگر اظہار کی جرأت نہ رکھتے تھے انہیں حضرت ابو بکر ؓ کو دیکھ کر قبول حق کی توفیق ہوئی۔ وہ وقت نہایت مُشکلات کا تھا اور نہایت خطرناک۔ حضرت ابو بکر ؓ ان تمام مُشکلات سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ مَیں کُچلا جاؤں گا مگر ان مُشکلات کے علم کے باوجود ان کا ایمان لانا تمام لوگوں پر ان کی فضیلت کو ثابت کرتا ہے اور اس طرح وہ لوگوں کے لئے حق کے قبول کرنے کا ایک ذریعہ ہو کر ان کے لئے بطور ایک اُستاد کے ہو گئے۔ پس جس طرح رسولِ کریم حقیقی اسوہ ہیں اسی طرح آپ کی اعلیٰ اتّباع سے ابو بکر بھی لوگوں کے لئے بطور ایک اُسوہ کے ہو گئے۔
تو ان لوگوں کا جو ابتدا میں ایمان لاتے ہیں ایک احسان دوسروں پر ہوتا ہے۔ جو ان کی قدر نہیں کرتا وہ خدا کے احسان کی قدر نہیں کرتا بلکہ خدا کے احسان کی نا قدری کرتا ہے۔ اس لئے ان لوگوں کے متعلق بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے اور ان کے درجہ اور ان کی عزت کو سمجھنا چاہئے۔ دیکھو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم حکم فرماتے کہ پہلی صف میں امام کے پیچھے کوئی بڑا آدمی کھڑا ہو تاکہ ضرورت کے وقت امام کی قائمقامی کر سکے۔5 پھر بعض لوگوں کو اپنی مجلس میں جگہ دلواتے اور بعض دفعہ اگر کوئی شخص جو دُنیاوی لحاظ سے صاحبِ وجاہت ہوتا آپ کی مجلس میں آتا تو آپ فرماتے کہ اُٹھو اور اس کا استقبال کرو۔6 پس یہ شریعت کا حُکم ہے جو جس رُتبہ کا ہو اس کا اس کے رُتبہ کے مطابق احترام کیا جائے مگر بہت ہیں جو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے جس کا بہت بُرا نتیجہ ہوتا ہے۔ مثلاً شیعہ اور خوارج ہیں جو صحابہ کو بُرا کہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ باوجود مسلمانوں میں آپس میں سخت تفرقہ ہونے کے تمام فرقوں میں اولیاء گزرے ہیں۔ حنفی مالکیوں کو بُرا کہتے ہیں اور مالکی حنفیوں کو لیکن ان میں اولیاء اﷲ ہوئے ہیں لیکن یہ شیعہ گیارہ سو سال سے علیحدہ ہوئے ہیں اُنہوں نے خدا کے برگزیدوں کو بَرملا گالیاں دینا شروع کی ہیں ان میں اس ہزار سال کے عرصہ میں ایک بھی ولی اﷲ پیدا نہیں ہؤا اور اسی وجہ سے انہیں اپنے ایک امام کو مخفی کہنا پڑا کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی ظاہر امام کی ضرورت نہیں۔ پس یہ لوگ صحابہ کی بد گوئی کر کے ہمیشہ کے لئے حق سے محروم ہو گئے اور ان سے ایمان سلب کر لیا گیا۔
چونکہ ہماری جماعت میں سے بعض لوگ مُرتد ہو گئے ہیں اور ان کو وہی کہا جاتا ہے جس کے وہ مستحق ہیں اس لئے بعض لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ سب کے لئے اس قسم کے الفاظ کہے جاسکتے ہیں۔ دیکھو نبی کریم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو اوّل ایمان لانے والوں میں عبداﷲ بن ابی ابن سلول بھی تھا مگر باوجود اوّل ایمان لانے کے منافق تھا۔ پھر مکّہ سے ہجرت کرنے والوں میں سے بعض لوگ مُرتد ہو گئے۔ اب اگر کوئی شخص یہ خیال کر لیتا کہ ممکن ہے ابوبکر بھی مُرتد ہو جائے اور چونکہ عبداﷲ ابن اُبی منافق ہے اس لئے عبادہ ابن صامت اور ابو ایوب انصاری بھی کیوں منافق نہ ہوں تو یہ سخت نادانی اور غلطی تھی کیونکہ اگر اس دروازہ کو وسیع کیا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
قرآن شریف میں حکم ہے کہ صلحاء کی صحبت اختیار کرو 7 لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف میں ہی ایک ولی کا اس طرح ذکر ہے کہ اَخْلَدَ اِلَی الاَرْضِ8 زمین کی طرف جھک گیا۔ اب کوئی شخص جس کو کہا جائے کہ صلحاء کی صحبت اختیار کرو کہہ دے کہ جی ولیوں میں تو بلعم جیسے بھی ہوتے ہیں ہم کس کی صحبت اختیار کریں تو ایسے آدمیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب کوئی بلعم بن جائے اور مُرتد ہو جائے اُس وقت تم اُس سے علیحدگی اختیار کر لو نہ یہ کہ محض اس خیال پر کہ لوگ مُرتد بھی ہو جاتے ہیں سب سے بد ظن ہو جاؤ۔ اگر کوئی شخص مُرتد ہو جاتا ہے یا حضرت اقدس علیہ السلام کے درجہ کو گھٹاتا ہے تو تم اس کو نفرت کی نظر سے دیکھو لیکن یہ غلطی ہے کہ بعض لوگ خفیف باتوں پر فتویٰ دینے لگ جاتے ہیں کہ فلاں بڑا شریر ہے، فلاں ایسا ہے ویسا ہے۔ حضرت مسیح موعود کو ابتدا میں قبول کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت اقدس کو اس وقت قبول کیا جس وقت کہ لوگ آپ کو کافر اور دجّال کہتے تھے، یا اس طرح کہنے والوں کے ساتھ شامل تھے ان کے متعلق احتیاط سے کام لینا چاہئے۔
پس جن لوگوں نے ایسے وقت میں حضرت اقدس کو قبول کیا اور حضور کی صحبت میں رہے وہ بعد میں آنے والوں کے لئے اُستاذ اور نمونے کے طور پر ہیں۔ اگر لوگ ان کی اتباع کریں گے تو یہ خدا کا حکم ہے اور اگر ان کی حقارت کریں گے تو تقویٰ کے درجات میں ترقی نہیں کر سکیں گے۔ خدا تعالیٰ کے قُرب کے لئے نہایت ضروری ہے کہ حفظِ مراتب کا خیال رکھا جائے۔ حضرت اقدس اکثر فرمایا کرتے تھے کہ
گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی
پس یہ نہایت اہم سوال ہے۔ بعض لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان لوگوں کو جنہوں نے سلسلہ کی خدمات میں عمریں صرف کر دی ہیں بُرے الفاظ کہہ دیتے ہیں اور اپنی تائید میں یہ کہتے ہیں مولوی محمدعلی بھی مخلص کہلاتا تھا مگر مُرتد ہو گیا، خواجہ بھی مخلص بنتا تھا مگر مُرتد ہوگیا اس لئے فلاں بھی ایسا ہی ہے۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے یہ سخت غلطی اور نادانی ہے خواہ مخواہ کسی کے متعلق اس قسم کی رائے نہیں قائم کر لینی چاہئے۔
ایک دفعہ حضرت ابو بکر ؓاور حضرت عمر ؓکی لڑائی ہوئی اس معاملہ میں زیادتی حضرت عمر ؓکی تھی۔ حضرت ابوبکر ؓچونکہ خیر خواہی میں بڑھے ہوئے تھے جھٹ حضرت عمر ؓ سے معافی کی درخواست کی۔ حضرت عمر ؓچونکہ اس وقت طیش میں تھے اس لئے باوجود زیادتی پر ہونے کے کہہ دیا کہ جاؤ میں نہیں صُلح کرتا اور حضرت ابو بکر ؓرسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اﷲ! عمر مجھ سے خفا ہیں۔ آپ میری غلطی ان سے معاف کرا دیں۔ ادھر حضرت عمرؓ کو بھی خیال ہؤا اور سمجھے کہ زیادتی تو میری ہے یہ بھی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس گئے اور جاکر کہا یَا رَسُوْلَ ﷲ! ابو بکر سے مجھے معافی دلوادیں۔ اُس وقت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ غُصّہ سے سُرخ تھا۔ صحابہ کہتے ہیں اس سے قبل کبھی آپ اس قدر غصّہ میں نہیں آئے تھے۔ آپ نے اس حالت میں فرمایا کہ تم لوگ کیوں نہیں مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دیتے جس نے میرا اس وقت ساتھ دیا جبکہ تمام دُنیا میرے کچلنے کے در پے تھی۔9 پس اس طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابو بکر صدیق ؓکی فضیلت کو تسلیم کیا کیونکہ جب دُنیا آپ کو کافر کہتی ابو بکر ؓآپ کی نبوت پر ایمان لایا اور جب لوگ آپ کو ظُلمت ٹھہراتے تھے ابو بکر ؓنے آپ کو شناخت کر لیا کہ آپ ایک روشن سورج ہیں۔
بعد میں آنے والوں کا حق تھا کہ وہ ابو بکرؓ کا ادب کرتے لیکن ابو بکر ؓنے کبھی یہ نہیں کہا کہ مَیں پہلے ایمان لایا ہوں میرا ادب کرو۔ پس جس طرح بعد والوں کا فرض ہے کہ اوّلین کا ادب کریں اسی طرح اوّلین کا بھی فرض ہے کہ وہ خدا کے اس فضل کا شکریہ ادا کریں اور اس پر کسی قسم کا تکبّر اور عُجب نہ کریں کیونکہ اگر خدا فضل نہ کرتا تو شایدیہ لوگ مَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ میں شامل ہو جاتے۔
مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کا ادب و احترام کرے جن کو مسیح موعود علیہ السلام کی ان سے پہلے خدمت کرنے کا موقع مِلا ہے اور اسی طرح ان لوگوں کو جو پہلے خدامِ مسیح موعود ہیں بعد میں آنے والوں کے ساتھ تواضع اور خُلق سے پیش آنا چاہئے اور ہر ایک شخص کو اس درجہ پر سمجھنا چاہئے جو خدا نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ اگر یہ نہ کرو گے تو اندیشہ ہے کہ شیطان تمہیں گمراہ کر دے۔
پس یہ دونوں کو نصیحت ہے پہلوں کو بھی اور بعد میں آنے والوں کے لئے بھی۔ پہلوں کے لئے تو یہ ہے کہ وہ تواضع اور انکسار کا طریق اختیار کریں اور بعد والوں کو یہ کہ وہ ان کے حق کو سمجھیں اور گستاخی اور بد ظنی کو چھوڑ دیں کیونکہ یہ ایمان کی جڑ کو کھوکھلا کر کے پھینک دیتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کے دونوں گروہوں کو اس بات کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین‘‘ (الفضل 27نومبر 1919ء)
1: الانعام:91 2: التوبۃ:100 3: الفاتحۃ :6، 7
4: مجمع بحار الانوار جلد 2باب السین
5: مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ باب تسویۃ الصف
6: سیرت ابن ہشام جلد 2 حالات غزوہ خندق
7: كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(التوبۃ:199)
8: الاعراف:177
9: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم باب قَوْل النَّبی صلی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا(الخ)


62
دین کو دُنیا پر مقدّم کرو
(فرمودہ 31اکتوبر1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''ہر زمانہ کے لئے کچھ ابتلاء ہوتے ہیں جن کی برداشت کئے بغیر اور جن کے نازل ہوئے بغیر اور پھر جن میں سے اپنے ایمان کو سلامت نکالنے کے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی۔ کسی زمانہ میں کوئی ابتلاء ہوتا ہے اور کسی میں کوئی۔ متفرق طور پر متفرق ابتلاء آتے ہیں۔ کبھی ایسے کہ مثلاً رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنے مُلک میں فتنہ پڑا، کبھی ایسے جیسا کہ مسیح ناصری کے زمانہ میں ہؤا کہ ایک قوم میں رہتے ہوئے اس سے جُدائی اختیار کرنی پڑی، کبھی حضرت موسیٰ کے زمانہ کی طرح کہ حکومت کے مظالم کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور کبھی رعایا کے اعتراضات حکومت پر کرنے کا فتنہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے وقت میں ہؤا لیکن ایک ابتلاء اس قسم کا ہے کہ وہ ہر نبی کے وقت میں آیا ہے اور اب بھی جب کبھی دُنیا میں کوئی تغیر ہو گا ابتلاء پیش آئے گا۔ وہ ابتلاء دین اور دُنیا کا مقابلہ ہے۔ یعنی دُنیا کے مقابلہ میں دین کو مقدم کرنا۔ یہ ابتلاء ہر نبی کے زمانہ میں آیا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے وقت میں یہ ابتلاء آیا، حضرت داؤد و حضرت سلیمان کے وقت میں یہ ابتلاء آیا، حضرت عیسیٰ ؑکے وقت میں یہ ابتلاء آیا اور بالآخر ہمارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں بھی یہی ابتلاء پیش آیا۔ پس یہ ابتلاء ہر نبی کے وقت میں آتا ہے کہ دین کو دُنیا پر مقدم کرو۔
ایک طرف دُنیا کی خوبصورتی اور محبوبیت ہوتی ہے اور وہ نقد بہ نقد محبوب نظر آتی ہے مگر اس کے مقابلہ میں دین ہوتا ہے اور دین کی خاطر اس کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ یہ بڑی آزمائش ہوتی ہے مگر جب تک ایک انسان اس میں سے نہ گزرے وہ خدا کے پیاروں میں داخل نہیں ہو سکتا۔
اسلام اس بات کی تعلیم نہیں دیتا کہ دُنیا کو کلی طور پر چھوڑ دیا جائے یہ تو ایک بدعت ہے۔ حضرت مسیح کی طرف اس تعلیم کو منسوب کیا جاتا ہے کہ تم جب دولت کو چھوڑو گے تو خدا کو پاؤ گے۔ پھر رہبانیت ہے کہ شادی نہ کرنا، غسل نہ کرنا، مال نہ رکھنا لیکن اﷲ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ ایک بدعت ہے جس کی پوری نگہداشت ان لوگوں سے نہ ہو سکی۔1 اب اسلام میں بھی یہ خیالات آگئے اور بعض لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ کوئی کام نہیں کرنا چاہئے نہ تجارت میں ہاتھ ڈالنا چاہئے نہ زراعت میں اور بعض نے تو یہاں تک ترقی کی کہ اپنے آلۂ تناسل کو بھی کاٹ دیا۔ یہ خیال بعض صحابہ کے دل میں بھی پیدا ہو گیا تھا۔ چنانچہ ایک صحابی ابو ذر غفاری تھے ان کو ترک دُنیا میں یہاں تک غلو تھا کہ دوسرے صحابہ سے لڑتے پھرا کرتے تھے۔ پس یہ اسی زمانہ میں پیدا ہو گیا تھا اس لئے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر عیسائیت نے ترکِ دُنیا کی تعلیم دی تو مسلمانوں میں اس کاوجود نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام کی حفاظت کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم کو خداوند کریم نے محفوظ رکھا ہے لیکن بعد میں اس قسم کی حدیثیں بنالی گئیں جن میں ترکِ دُنیا پر زور دیا گیا ہے۔ پس وہ حدیثیں وہی تعلیم دیتی ہیں جو مسیح کی طرف منسوب کردہ تعلیم کے مطابق ہیں لیکن یہ تعلیم خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی۔ باوجود اس کے ہم کہتے ہیں ایک حد تک تمام مذاہب میں ترک دُنیا کی تعلیم ہے اور وہ یہ ہے کہ جب دین و دُنیا کا مقابلہ آن پڑے تو ایک مومن کا فرض ہے اس وقت دُنیا کو چھوڑ کر دین کو اختیار کرے۔
اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ بالکل دُنیا کو ترک کر دو بلکہ وہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ دُنیا کماؤ محنت کرو لیکن جب دین و دُنیا کا مقابلہ آن پڑے اُس وقت دین کو مقدم کرو اور دُنیا کی پرواہ نہ کرو بلکہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ علیحدہ علیحدہ ہوں۔ مثلاً کچھ ایسے ہوں جو زراعت پیشہ ہوں، بعض لوگ تجارت کریں اور بعض سیاست میں پڑ جائیں اور جو علماء اور صوفیاء ہوں وہ بالکل دُنیا سے علیحدہ ہو کر دین کی خدمت کریں۔ پس یہ بات تمام مذاہب میں ہے اور یہاں تک ہونا چاہئے مگر جن مذاہب نے عام طور پر یہ تعلیم دی ہے کہ سب کے سب دُنیا سے قطع تعلق کر لیں اُنہوں نے غلطی کی ہے۔ اسلام کی عام تعلیم یہ ہے کہ دین و دُنیا کے مقابلہ میں دین کو دُنیا پر مقدم کرو اور اس وقت تمہاری دُنیا کی محبت سرد ہو جانی چاہئے۔
اس زمانہ کے مصلح ، مأمور اور امام نے اس بات کو شرائط بیعت میں داخل کیا ہے کہ دین کو دُنیا پر مقدم کرو۔ پہلے دُنیا میں اس قدر ترقی نہیں ہوئی تھی، نہ پہلے قوموں میں اس قدر میل ملاپ تھا، نہ تمدن میں اس قدر وسعت تھی، نہ تجارتی تعلقات ایسے قائم تھے، نہ اس قدر ایجادات تھیں، نہ اتنا کپڑا تھا، نہ اس قدر غلّہ پیدا ہوتا تھا۔ آج دُنیا کے دل بہلانے کے لئے ہزاروں سامان نکل آئے ہیں مگر اُس وقت کے دل بہلاوے کے سامان کُشتی اور گھوڑے دوڑانے تک محدود تھے اب کئی قسم کے باجے اور کئی قسم کی کھیلیں پیدا ہو گئی ہیں اور ہزاروں تھیٹر قائم ہیں اور شب و روز لوگ ان میں محو رہتے ہیں۔ یہ تو وہ کھیل ہیں جو اجتماع سے تعلق رکھتے ہیں لیکن گھروں میں بھی اس قسم کے سامان موجود ہیں مثلاً فونو گراف، گراموفون۔ یہ تمام دل بہلانے کے ذریعے اور عیاشی کے سامان ہیں۔ لباسوں میں ترقی ہوئی ہے، مکانوں میں وسعت ہے، کھانوں میں زیادتی ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ لوگوں نے انگور کا نام سُنا ہؤا تھا مگر اب گاؤں گاؤں کے لوگ انگور کھاتے ہیں اُس وقت ایسے علاقے تھے جہاں گیہوں نہ پیدا ہوتا تھا لیکن آج یہ حالت ہے کہ دُنیا کے پرلے سرے کی چیز ایک گاؤں میں میسّر آسکتی ہے۔ پنجاب کا ایک صوبیدار گزرا ہے راجپوت اس پر بہت فخر کرتے ہیں اور وہ اکبر کی طرف سے پنجاب کا گورنر تھا۔ جب کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اس کی ماں کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ انگور کھائے۔ وہ ایک گاؤں کی رہنے والی تھی اور اس کا خاوند ایک زمیندار تھا۔ حیران ہؤا انگور کہاں سے لائے؟ اس وقت یہ خیال تھا کہ اگر حاملہ کو وہ چیز نہ دی جائے جس کی اسے خواہش ہو تو حمل گر جاتا ہے۔ اس کا خاوند تلاش میں تھا کہ انگور مِل جائیں اتنے میں اُسے معلوم ہؤا کہ کابل سے ایک قافلہ دِلّی بادشاہ کے لئے میوے لئے جارہا ہے۔ وہ شخص اس کے پاس گیا اور کہا کہ میری بیوی حاملہ ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اسے انگور دیئے جائیں۔ میرقافلہ نے کہا کہ مَیں بِلا قیمت انگور اس شرط پر دیتا ہوں کہ تم لکھ دو کہ اگر تمہارا یہ بچہ حاکم ہؤا تو ہمارا محصول معاف کر دے گا۔ اس نے کاغذ لکھ دیا۔ ساتھیوں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے۔ اس نے جواب دیا کہ یہ عورت جنگل میں ہے اس کے دل میں جو خواہش پیدا ہوئی ہے یہ اس کی نہیں بلکہ اس بچہ کی ہے جو اس کے شکم میں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بچّہ بڑا آدمی ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہؤا جب وہ حاکم ہؤا تو اس نے محصول معاف کر دیا۔
تو کوئی تو وہ زمانہ تھا کہ لوگ اس طرح خوش نصیبی کے فال نکالتے تھے آج ایک ایک پیسہ کے انگور بکتے ہیں اور لوگ کھاتے ہیں۔ غرض دُنیا کی ہر چیز ترقی پر ہے اور دُنیا اپنی تمام خوبصورتیوں کے ساتھ آگئی ہے۔ پہلے ایک ادنیٰ مکان اور معمولی غذا اور موٹے لباس پر گزارہ ہوتا تھا اُس وقت آسان تھا کہ لوگ دُنیا کی بجائے دین کو اختیار کریں مگر آج لوگوں کی یہ حالت نہیں۔ اب لوگوں کو محنت برداشت کرنا ناممکن ہے اس لئے حضرت مسیح موعود ؑ نے اس بات کو شرائطِ بیعت میں داخل کر دیا کیونکہ اب محال تھا کہ لوگ دُنیا کو دین کے مقابلہ میں مفید خیال کریں لیکن کوئی شخص کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دین کے حقیقی منشاء کے ماتحت دُنیا کو دین کے مقابلہ میں نہ چھوڑے۔
جب تک جماعت کے افراد میں یہ خیال اور جذبہ پیدا نہ ہو گا اس وقت تک حقیقی ترقی حاصل نہ ہو گی۔ پس چاہئے کہ کسی کے لئے دین کے موقع پر دُنیا روک نہ ہو۔ آج تو لوگوں کی یہ حالت ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں جنگ کے موقع پر بھی یہ بات نہ تھی۔وہاں تو جنگ میں جاتے وقت اگر کوئی عذر کرتے کہ ہمارا گھر بے پناہ ہے تو مسموع نہ تھا۔لیکن یہاں ایک شخص عشاء کی نماز میں نہیں آتا پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے کہ بیوی اکیلی ہے اور ڈرتی ہے۔ نماز میں کیوں نہ آئے؟ دکان کے بند ہونے سے گاہک واپس چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح دوسری باتوں میں سُستی ہے اور بہت تھوڑے ہیں جو دین کے کام کی اہمیت کو خیال میں لاتے ہیں۔ چاہئے یہ کہ ہر جگہ دین مقدم ہو۔ جب تک یہ حالت نہ ہو حالت خطرناک ہے۔ اس لئے مَیں جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر وہ خدا تک پہنچنا چاہتے ہیں اور احمدیت کا پھل چکھنا چاہتے ہیں تو دین کو دُنیا پر مقدم کریں اور دُنیا کو دین کے ماتحت کر دیں اور اگر یہ نہیں کریں گے تو ان کے احمدیت اور اسلام کے دعوے فضول ہوں گے۔
پس جب تک اسلام اور احمدیت کا حقیقی ادب نہ کیا گیا اس وقت تک یہ سمجھنا کہ ہم احمدی ہیں یہ تمام فضول خواہشیں ہوں گی کیونکہ جب تک عمل نہیں کیا جائے گا کوئی کامیابی نہیں ہو گی۔'' (الفضل 22نومبر 1919ء)
1: وَ رَهْبَانِيَّةَ ا۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا١ۚ۔ (الحدید : 28)


63
ایمان کی حفاظت کرو
(فرمودہ 14نومبر1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آیت شریفہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ۔1 پڑھی اور فرمایا:-
’’انسان کے لئے اِس دُنیا میں بہت مُشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے انسانی زندگی کا مطالعہ کرنے والوں نے ضربُ المثل کے طور پر نتیجہ نکالا ہے کہ انسانی زندگی کوئی پھولوں کا بستر نہیں بلکہ یہ ایک محنت اور کوشش کا زمانہ ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں ایسی زندگی ملے جو غموں سے خالی ہو وہ نادان ہیں کیونکہ غموں اور فکروں سے خالی وہی زندگی ہو سکتی ہے جو جہالت اور نادانی کی زندگی ہو ورنہ دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے۔ یا تو دُنیاوی معاملات کی اُلجھن لگی ہو گی یا دینی کاموں کا خیال ہو گا۔ بالفاظ دیگر یا تو ایک انسان خدا سے غافل اور ہر طرف اس کے دُنیا ہی دُنیا ہو گی ایسا شخص دُنیا کی ترقی میں لگا ہو گا۔ اس صورت میں بھی زندگی امن سے نہیں گزر سکتی کیونکہ عزت و رُتبہ بغیرمحنت اور جدوجہد کے حاصل نہیں ہوتا اور پھر جس کو دُنیا میں کوئی رُتبہ اور عزت حاصل ہوگئی ہو اس کے لئے بھی ضرورت ہے کہ اس کے قیام کے لئے محنت و فکر سے کام لے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص دُنیا کو ہیچ سمجھتا ہو اور وہ خدا ہی کے لئے ہو گیا ہو۔ تب بھی اس کو وہ آرام میسر نہیں آئے گا جس کو جاہل لوگ آرام خیال کرتے ہیں۔ اُسے اپنے نفس سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے، اپنی خواہشات کو دبانا پڑتا ہے، دُشمنوں کی شرارتوں اور تکلیفوں کو اُٹھانا پڑتا اور پھر اس کو یہی فکر دامنگیر رہتی ہے کہ دیکھئے موت کس وقت آئے اور مجھے کس حال میں پائے۔ جب وہ ایک مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو یہی فکر رہتی ہے کہ یہ مقام قائم رہے اور اس سے اگلا حاصل ہو۔ پس جس طرح ایک دنیادار کے لئے فکر ہوتی ہے اسی طرح ایک اہل اﷲ کے لئے بھی فکر ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ زندگی جس کو لوگ آرام کی زندگی خیال کرتے ہیں نہیں ملتی۔ وہ زندگی آرام کی زندگی نہیں بلکہ جہالت اور بے ہوشی کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کو کلورا فارم سُنگھادی جائے کیا اس کے متعلق کہیں گے کہ وہ اطمینان کی حالت میں ہے یا ایک شخص افیون کھاتا ہو اور اس کی پینک 2 میں ہو، یا ایک شراب نوش کو شراب نے مدہوش کر رکھا ہو اس کو اطمینان کی زندگی کہا جائے گا؟ نہیں بلکہ ان کی زندگی کو جہالت اور ناواقفیت اور بے خبری کی زندگی کہیں گے۔
پس آرام کی زندگی وہ زندگی ہے جو اصلی مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد میں گزرتی ہے اور وہ آرام کی زندگی ہے جس میں انسان مُدعا کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ جو لوگ دین کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے قریب ہوتے جاتے ہیں وہ بھی آرام میں ہیں اور جو دُنیا کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اپنے مقصد کے قریب ہوتے ہیں وہ بھی آرام کی زندگی میں ہیں..... مگر جو لوگ دین و دُنیا دونوں کے متعلق کوشش سے دست بردار ہوتے اور محنت سے جی چُراتے ہیں وہ آرام میں نہیں ہوتے۔ ان کی مثال تو اس کبوتر کی ہے جو بلّی کو آتا دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ یہ بھی تکالیف اور محنتوں سے بچ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ دُنیا میں تکالیف تو ہوتی ہی ہیں۔ کہیں رشتہ داروں کی تکالیف ہیں، کہیں ذاتی تکالیف ہیں ، بیماریاں ہیں، کہیں اپنی پوزیشن کے قائم کرنے کا خیال ہوتا ہے ان سب کے لئے محنت و تفکرات کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نادان چاہتے ہیں کہ ان سے بچ جائیں حالانکہ ہر ایک خوشی محنت کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ دُنیاوی معاملات میں بھی اور دینی معاملات میں بھی موت تک یہی سلسلہ رہتا ہے۔
نبیوں کو بھی دُنیا میں اس قسم کا آرام نہیں ہوتا جیسا کہ جہلاء چاہتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میرا خیال تھا کہ جان کنی کی تکلیف (نعوذ باللّٰہ) صرف انہی لوگوں کو ہوتی ہے جو خدا سے بے تعلق ہوتے ہیں اور یہ تکلیف ایک عذاب کے طور پر ہوتی ہے لیکن مَیں نے اپنے اس خیال کو اس دن چھوڑا جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہوئی کیونکہ مَیں نے وہ وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ سخت کسی پر نہیں دیکھا۔3
پھر ہم دیکھتے ہیں حضور اس دن تڑپتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں *** ہو یہود و نصاریٰ پر کہ اُنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔4 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو وفات کے وقت بھی ایک تکلیف تھی لیکن اپنی ذات کے متعلق نہ تھی کہ آپ فوت ہوتے ہیں بلکہ اس کے لئے تو آپ فرماتے ہیں بِالرَّفِیْقِ الْاَ عْلٰی۔ مَیں تو اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ ہاں فکر ہے تو اس بات کی اور غم ہے تو اس امر کا کہ کہیں آپ کی اُمّت یہود کی مانند نہ ہو جائے اور جیسا کہ یہود نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنا لیا کہیں آپ کی قبر کو بھی مسجد اور عبادت گاہ نہ بنا لیں اور آپ کی پرستش شروع نہ کر دیں۔ آپ کو اس امر کی تکلیف تھی کہ کہیں آپ کے بعد آپ کی اُمّت شرک میں مُبتلا نہ ہو جائے۔
پس جب آپ تکالیف سے نہ بچ سکے تو اور کون ہے جو بچ سکے۔ دُنیا کی تکلیفیں اور کاوشیں اور محنتیں انسان کی زیست کے رستہ میں ہی نہیں بلکہ خدا کے رستہ میں بھی یہی سلسلہ ہے جب تک انسان محفوظ نہ ہو جائے۔
لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے کچھ حاصل نہیں کیا ہوتا حاصل کر لینے والوں کے لئے خطرہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ جنہوں نے آرام نہیں پایا ہوتا ان کے لئے بے آرامی کا برداشت کرنا مشکل نہیں ہوتا لیکن جنہیں آرام میسر ہو چُکا ہو ان کے لئے بے آرامی کا برداشت کرنا سخت مُشکل ہوتا ہے۔ دیکھو عام طور پر جنگل میں ایسا آدمی نہیں لُٹتا جو چوکنّا ہو مگر بر خلاف ازیں جب انسان گھر کے قریب آکر خیال کر لیتا ہے کہ مَیں محفوظ ہوں تو اس وقت چور اس کو لوٹ لیتے ہیں۔ پس اسی طرح جب انسان کو ہدایت ملتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کرے۔ جو لوگ ہدایت پاکر غافل ہو جاتے ہیں وہ ہدایت کو کھودیتے ہیں کیونکہ دُنیا سونے اور آرام کی جگہ نہیں۔ یہاں جس کو کچھ ملتاہے اور جس پر کوئی انعام ہوتا ہے اس کو ورغلانے والے بھی ہو جاتے ہیں اسی لئے دُعا سکھلائی رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا کہ الٰہی ہدایت کے بعد ہمارے دلوں میں زیغ پیدا نہ کر دینا۔ پھر اسی لئے یہ تعلیم دی کہ پانچ وقت نماز میں دُعا کیا کرو غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ یہ دُعائیں اسی لئے ہیں کہ جب انسان کو ہدایت مل جاتی ہے تو وہ خیال کر لیتا ہے کہ اب مَیں امن میں آگیا ہوں حالانکہ وہ اس وقت زیادہ خطرہ میں پڑ جاتا ہے کیونکہ اسی شخص کے گرنے کا احتمال ہوتا ہے جو کسی چیز پر سوار ہو۔ کسی شاعر نے اس بات کو اس طرح نظم کیا ہے
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
یعنی بچہ نے کیا گرنا ہے جو کہ پہلے ہی گھٹنوں کے بل چلتا ہے۔ گرتا تو وہی ہے جو بُلندی پر ہو۔ ایک ایسا شخص جو ہر روز محنت کر کے اپنا اوراپنے بال بچوں کا روزانہ خرچ مہیا کرتا ہے اگر اس کے گھر چور پڑے تو اس کا نقصان نہ ہو گا اوراگر ہو گا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ ایک وقت کی خوراک جاتی رہے گی۔ اس غریب کے لئے وقت کا فاقہ برداشت کرنا کچھ بھی مُشکل نہیں مگر دوسرا شخص جو نازونعمت میں پلا ہو نرم اور گرم بستروں پر سونے کا عادی ہو اگر اس کے گھر چور آپڑیں تو اس کا بہت نقصان ہو گا اور اس کی زندگی تلخ ہو جائے گی کیونکہ آرام کے بعد تکلیف سخت معلوم ہؤا کرتی ہے۔
پس جنہوں نے کسی قدر ترقی کی ہے وہ زیادہ خطرے میں ہیں ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے کوئی ترقی حاصل ہی نہیں کی کیونکہ گرنے کا خطرہ ترقی یا فتوں کے لئے ہے دوسروں کے لئے نہیں۔
دوسری وجہ ترقی یافتہ لوگوں کے خطرے میں ہونے کی یہ ہوتی ہے کہ ان کو نعمت کے گم ہونے کا پتہ نہیں لگتا ۔ جو لوگ ترقی کرتے ہیں ساتھ ہی ایک قسم کی غفلت ان کو پکڑ لیتی ہے جس کے زیر اثر وہ چیز کے گم ہونے سے بے خبر رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان سے وہ نعمت گم ہوتی رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں سے کہیں چلے جاتے ہیں اور اس بیماری کو محسوس بھی نہیں کرتے۔ حتّٰی کہ مرض ان کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ان کے ایمان کو ضائع کرتی رہتی ہیں اور وہ غافل رہتے ہیں حتّٰی کہ ان کا سارا ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔ ایک بھُوکا اگر جنگل میں جارہا ہو تو وہ کوشش کرے گا کہ کسی آبادی میں جائے اور کھانا مہیا کرے لیکن وہ شخص جو ہر قسم کے کھانے گھر سے پکوا کر ساتھ لے چلا ہو مگر راستہ میں وہ گم ہوگئے ہوں جس کا اُسے علم نہ ہو تووہ آبادیوں میں سے گزرے گا مگر اپنے کھانے کے لئے کچھ فکر نہ کرے گا کیونکہ باوجود کھانا پاس نہ رکھنے کے اسی خیال میں ہو گا کہ اس کے پاس کھانا ہے۔ پس حاصل کرنے والا ہی کھوتا ہے جس نے حاصل ہی کچھ نہ کیا ہو وہ کیا کھوئے گا۔
پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی حالت کا محاسبہ کرتے اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے دُعائیں کرتے رہا کریں کیونکہ وہ دوسروں کی نسبت زیادہ خطرہ میں ہیں۔ ان پر یہ خدا کا فضل ہے کہ انہوں نے مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا اور اس ذریعہ سے اﷲ تعالیٰ نے ان پر اعمالِ صالحہ کے دروازے کھول دیئے لیکن اگر یہ غفلت کریں تو ان کے لئے بہت خوف کا مقام بھی ہے کیونکہ آئندہ کے لئے کوشش اور موجودہ حالت میں ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ پس آپ لوگوں کے لئے یہ ایسا موقع ہے کہ پھُونک پھُونک کر قدم رکھیں اور دیکھتے رہیں کہ کہیں ایمان جاتا تو نہیں رہا۔
حضرت موسیٰ کے قصّہ میں اس کی مثال موجود ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس قصّہ کو بار ہا بیان فرمایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ جب مصر سے نکلے تو راستہ میں عمالیق سے مقابلہ آن پڑا۔ ان کے بادشاہ کو خطرہ ہؤا کہ ہم شکست کھا جائیں گے۔ ان کے ہاں ایک بزرگ تھا بادشاہ نے اس سے دُعا کی درخواست کی۔ اس نے دُعا کی تو خدا کی طرف سے الہام ہؤا کہ موسیٰ خدا کا نبی ہے اس کے خلاف دُعا نہیں کرنی چاہئے۔ اس نے بادشاہ کو کہہ دیا کہ موسیٰ کے خلاف دُعا نہیں ہو سکتی۔ جب بادشاہ کو معلوم ہؤا کہ میری کوئی بات کارگر نہیں ہوتی تو اس نے وہی چال چلی جو آدم کو جنت سے نکلوانے کے لئے شیطان نے چلی تھی کہ حوّا کے ذریعہ پھُسلایا تھا اسی طرح اس نے بہت سے زیورات وغیرہ تیار کرائے اور موسیٰ کے بر خلاف دُعا کرانے کے لئے اس بزرگ کی بیوی کو دیئے۔ اس نے تحریک کی مگر اس بزرگ نے جواب دیاکہ موسیٰ خدا کا مقرب ہے اس لئے اس کے خلاف بد دُعا نہیں ہو سکتی۔ مَیں نے کی تھی مگر وہاں سے جواب مل گیا لیکن وہ مُصر ہوئی اور کہا کہ کیا ضرور ہے کہ اب بھی وہی حالات ہوں تم بد دُعا تو کرو۔ آخر وہ رضامند ہو گیا اس کو ایک جگہ لے گئے اس نے کہا کہ یہاں سینہ نہیں کھلتا اوراسی طرح دو تین جگہ گیا۔ آخر چونکہ اس کا ایمان جانا تھا اس نے بد دُعا کی۔ کہتے ہیں کہ جونہی اس نے بد دُعا کی موسیٰ کی قوم میں تباہی پڑ گئی کیونکہ اس کے پہلے ایمان کا کچھ تواثر ہونا تھا اور ادھر اس کا ایمان کبوتر کی شکل میں اُڑ گیا۔ بیشک یہ ایک قصّہ ہے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کبوتر ہاتھ سے نکل جاتا ہے اسی طرح ایمان اس کے دل سے نکل گیا۔ پس چونکہ ایمان محنت سے آتا ہے اور جاتا ایک فقرہ میں ہے اس لئے ضرورت ہے کہ انسان ہر وقت ہوشیار رہے۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایک جنگ میں تشریف لے گئے جب لَوٹے تو غنیمت میں سے حضور ؐنے مہاجرین کو کسی قدر مال زیادہ دیا اور اس پر انصار کے ایک گروہ میں سے کسی نے کہہ دیا کہ خون تو اب تک ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن مال لے گئے مہاجرین۔ اسی مجمع میں انصار میں سے ایک وہ شخص بھی بیٹھے تھے جنہوں نے حضورؐ کی صُحبت اُٹھائی تھی وہ حضور ؐکے پاس گئے اور خبر دی کہ ایک مجمع میں ایسی گفتگو ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب ان کے عزیز سے کوئی غلطی ہو تو وہ اس پر پردہ ڈالا کرتے ہیں مگر اُنہوں نے ایسا نہ کیا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصار کو بُلایا اور کہا کہ مَیں نے اس قسم کی خبر سُنی ہے کیا یہ درست ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ بے شک درست ہے مگر یہ کہنے والے بڑے لوگ نہیں بچے ہیں۔ حضور نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے انصار! تم کہہ سکتے تھے کہ یہ گھر سے نکالا ہؤا اکیلا آیا۔ ہم نے اس کا ساتھ دیا اور اس وقت ساتھ دیا جب اس کے وطن والے اس کے دُشمن تھے۔ پھر ہم نے اس کے دُشمنوں کو زیر کیا۔ اب جب یہ فتح یاب ہؤا تو اس نے اپنے بھائیوں کو مال دے دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا۔ پھر فرمایا مگر اس کے مقابلہ میں تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ایک جنگ جس سے مہاجرین تو مال و اسباب اور اونٹ وغیرہ لے کر گھروں کو گئے اور مدینہ والے اﷲ کے رسول کو ساتھ لے گئے مگر اب جو الفاظ تمہارے مُنہ سے نکلے ہیں ان کا نتیجہ تم سُن لو کہ دُنیا میں تمہارے لئے کوئی عزت نہیں حوضِ کوثر پر ہی آکر مجھ سے مطالبہ کرنا۔5چنانچہ ان لفظوں کا نتیجہ دیکھ لو کہ تیرہ سو برس میں انصار کی کوئی بھی حکومت نہیں ہوئی۔
حالانکہ انصار وہ لوگ ہیں جن پر حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بڑا اعتبار تھا۔ غزوۂ حنین میں بعض نوجوانوں نے بڑا بول بولا اور ان میں عجب آگیا۔ خدا تعالیٰ نے اس موقع پر ان کو تنبیہہ کرنی چاہی اور میدان میں ان کا قدم اُکھڑ گیا حالانکہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت بارہ ہزار سے زیادہ تھی اور دُشمن کی تعداد دو تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ اس وقت ایسی حالت ہوئی کہ صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہمارے گھوڑے کدھر جارہے ہیں۔ میدان میں اس وقت صرف رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم اور سات آٹھ اَور شخص باقی رہ گئے تھے۔ اس وقت حضرت عباس آگے بڑھے اور آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے گھوڑے کی باگ کو پکڑ لیا اور کہا کہ حضور اب پلٹ چلیں اَب مقابلہ کا وقت نہیں۔ حضورصلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کے نبی میدان میں آکر پیچھے نہیں ہٹا کرتے۔ چونکہ حضرت عباس کی آواز بُلند تھی اس لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہی کو کہا کہ انصار کو آواز دو کہ اے انصار! تمہیں خدا کا رسول بُلاتا ہے۔ اس وقت جبکہ سب فوج تتر بتر ہو گئی تھی آپ مہاجرین کو آواز نہیں دیتے بلکہ آپ انصار کو پُکارتے ہیں۔ حضرت عباس نے آواز دی صحابہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا معلوم ہؤا کہ گویا صورِاسرافیل پھُونکا جارہا ہے اور یہ عباس کی آواز نہیں بلکہ خدا کی آواز ہے۔ تمام لوگ پلٹ پڑے اور گھوڑوں اور اونٹوں کو پیچھے پھیرنا شروع کر دیا لیکن حالت اس وقت یہ تھی کہ اونٹ مہار کے کھینچنے سے دوہرے ہو ہو جاتے لیکن واپس نہ پلٹتے ، آواز دم بدم بُلند ہوتی گئی اس پر جو اونٹ اور گھوڑے پھرتے نہ تھے ان کے سواروں نے تلواریں کھینچ کر ان کی گردنیں اُڑادیں اور پیدل ہو کر حضورؐ کی طرف آگئے۔6
پس اس واقعہ پر ابھی چند دن نہ گزرے تھے کہ وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر ہؤا اور ان چند لفظوں نے کیا نتیجہ پیدا کیا؟ چونکہ انصار مومن تھے اس لئے دُنیاوی نتیجہ سے محروم رہے اورخدا نے ان کا ایمان بچا لیا مگر دیکھو اُنہوں نے کن دقتوں سے یہ رُتبہ حاصل کیا تھا اور کھونے میں ذرا بھی دیر نہ لگی۔
پس بہت ہوشیار اور چوکس رہنا چاہئے کیونکہ برسوں میں حاصل کی ہوئی چیز منٹوں میں ضائع ہو جاتی ہے۔ یاد رکھو خدا کے مقابلہ میں علم کام نہیں آتے، دُنیاوی اور دینی رُتبے بھی کچھ کام نہیں آتے، خاندان کام نہیں آتے۔ غرض خدا کے مقابلہ میں کوئی بڑائی کام نہیں آتی۔ اگر کوئی ان باتوں پر گھمنڈ کرتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ چاہئے کہ اﷲ کے حضور میں انکسار ہو اور ایمان کی حفاظت کے لئے کوشش اور دُعا ہو۔ اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے اور آپ کو سمجھ دے کیونکہ وہ ایمان جو برسوں میں حاصل ہوتا ہے سیکنڈوں میں ضائع ہو سکتا ہے۔ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے۔‘‘ (الفضل یکم دسمبر 1919ء)
1: آل عمران:9
2: پینک: افیون یا پوست کی اونگھ/کانشہ/ کی وجہ سے بے خبری
3: ، 4: بخاری کتاب المغازی باب مَرَض النَّبِیِ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (الخ)
5: بخاری کتاب فرَض الخمس باب مَا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم یُعْطِی الْمُؤلَّفَۃ قُلُوْبھم (الخ)
6: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 10 مطبوعہ مصر 1295ھ


64
آپس میں محبت کرو
(فرمودہ 28نومبر1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''مَیں بوجہ حلق کی تکلیف کے زیادہ نہیں بول سکتا مگر چند الفاظ میں آپ کو اور باہر کی جماعتوں کو ایک اہم فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ میرے نزدیک اس فرض کی ادائیگی میں ہماری جماعت میں بہت سُستی ہے حالانکہ وہ فرض نہایت ضروری ہے اور اس کے بغیر انسان انسان نہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان اصل میں اُنسان سے نِکلا ہے جس کے معنے ہیں دو اُنس یا دو محبتیں۔ ایک خدا کی محبت اور ایک خدا کے بندوں کی محبت ۔ پس انسان انسانیت کے لئے سب سے پہلا جو قدم اُٹھا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک طرف اس کو خدا کی محبت ہو، دوسری طرف خدا کے بندوں کی۔ اگر انسان محبت سے خالی ہو تو اس کو انسان نہیں کہہ سکتے بلکہ اس کو تو جانور بھی نہیں کہا جاسکتا۔ وہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہو گا کیونکہ بہت سے لوگ انسان کہلاتے ہوئے بندر ہوتے ہیں، انسان کہلاتے ہوئے سؤر اور بلّے ریچھ ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سُؤر ہو یا شیر ہو یا چیتا یا بھیڑیا یا انسان کہلا کر بوجہ اپنی مکاریوں کے لومڑ ہو۔
اسی طرح ایک انسان انسان نظر آتا ہؤا اپنی اخلاقی حالت کے لحاظ سے ان جانوروں سے بھی گیا گزراہو کہ دیکھنے میں تو انسان ہو اور عادات کے لحاظ سے ریچھ سے بھی بدتر ہو یا سُؤرسے بھی بدتر ہو۔ ہو سکتا ہے کہ درندگی میں بھیڑیئے سے بھی بدتر ہو۔ مشہور ہے کہ شیر گرے ہوئے پر حملہ نہیں کرتا مگر آدمی کہلانے والوں میں اس قسم کے ہوتے ہیں کہ گرے ہوئے پر بھی حملہ کرتے ہیں۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے دن بعض مجرم اونٹ کی شکل میں آئیں گے۔1 جسمانی طور پر تو تعجب ہو سکتا ہے لیکن رُوحانی طور پر یہ کوئی مُشکل بات نہیں۔ ممکن ہے کہ ایک شخص کی روحانیت جس قسم کی یہاں ہو اس کو متمثل کر کے اگلے جہان میں اونٹ کی شکل میں دکھایا جائے۔ اس سے ثابت ہؤا کہ ہر انسان کے دو نقشے ہوتے ہیں۔ ایک اس کا ظاہری نقشہ ایک باطنی۔ ظاہری نقشہ میں تو تمام انسان مشابہت رکھتے ہیں لیکن باطنی میں ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی اورجس طرح افراد کی حالتوں میں فرق ہے اسی طرح اقوام کی حالت ہوتی ہے۔
پس انسان وہ ہے کہ جس میں دو محبتیں ہوں ایک بندوں سے ہو اور ایک خدا سے۔ اور خدا کی محبت وہ ہے جو نظر نہیں آسکتی کیونکہ یہ ایک قلبی معاملہ ہے اور بندوں سے جو محبت ہو وہ ظاہر ہو سکتی ہے۔ خدا سے محبت کا ثبوت بھی تب مِل سکتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں خدا کی طرف سے بھی محبت کا معاملہ ہو کیونکہ مشہور ہے دل را بدل رہیست۔ لیکن خدا کے لئے تو یہ بات نہیں کہی جاسکتی کیونکہ وہاں تو علم کامل ہے۔ پس جب ایک بندہ خدا سے سچی محبت رکھتا ہو تو ہو نہیں سکتا کہ خداتعالیٰ اس سے محبت کا معاملہ نہ کرے۔ تو ایک انسان کا خدا سے دعویٰ محبت اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی محبت کا معاملہ ہو۔ یہ ایک بڑا رُتبہ ہے جوبڑی محنت سے حاصل ہوتا ہے۔یہ تو دور کی بات ہےمگر انسانوں کی محبت تو تھوڑی سی بات ہے۔
مَیں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں آپس میں وہ پیار اور محبت کم ہے جو اسلام کہتا ہے کہ تمام لوگوں سے ہو۔ اسلام وہ پیار جو چاہتا ہے کہ ایک عیسائی سے ہو، ایک یہودی سے ہو، ایک آریہ سے ہو، ایک زرتشتی سے ہو، ایک سکھ سے ہو، وہ پیار جو بھائیوں بھائیوں میں ہونا چاہئے وہ تو یہ ہے کہ كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ 2 کہ جس طرح چُونے گچ دیوار میں یہ نہیں معلوم کیا جاسکتا کہ فلاں اینٹ کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں ختم ہوئی اسی طرح بھائیوں بھائیوں کو آپس میں جُڑے ہوئے ہونا چاہئے کہ غیریت نظر نہ آئے۔ پس یہ تو ایک بھاری چیز ہے ہماری جماعت میں تو اس محبت میں بھی کمی ہے جتنی کہ اسلام کی رُو سے غیرمذاہب کے لوگوں سے ہونی چاہئے یعنی جتنا کہ ایک احمدی کو ایک ہندویا عیسائی سے پیا ر ہونا چاہئے اُتنا پیار احمدیوں کا آپس میں نہیں اور وہ پیار جو آپس میں ہونا چاہئے وہ تو بڑی بات ہے اور یہ پیار اور محبت انسانیت اور اسلام کا پہلا زینہ ہے۔ افسوس کہ اس میں بھی بڑی کمی ہے اور جب ابھی پہلا زینہ ہی طے نہ کیا ہو تو دوسرے زینے کیسے طے ہو سکتے ہیں۔
اس لئے مَیں اپنی جماعت کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں کہ اخلاق فاضلہ ایک بڑی چیز ہیں اور دنیا کی جمعیت کا ان پر انحصار ہے۔ اپنے حقوق پر ہی زور دینا کامیابی کا موجب نہیں بلکہ قربانی کرنا کامیابی کا ذریعہ ہوتا ہے کیونکہ اگر حقوق پر ہی زور دیا جائے تو دُنیا سے امن رخصت ہو جائے۔ دیکھو اگر ایک بھائی مر جائے اور اپنے یتیم بچے چھوڑ جائے تو دوسرے بھائی کہہ سکتے ہیں کہ ان بچوں کا ہم پر کوئی حق نہیں کیونکہ ان کا باپ اپنے حقوق زندگی میں ہم سے لیتا رہا ہے پھر اگر محلہ میں کوئی شخص فوت ہو تو اہلِ محلّہ اس کے یتیم بچوں اور بیوہ بیوی کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ ان کا ہم پر کوئی حق نہیں۔ اسی طرح شہر کے لوگ اور پھر ایک قوم کے لوگ اپنی قوم کے ایک فرد کے بچوں کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ ان کا باپ اپنی زندگی میں اپنے حقوق ہم سے لیتا رہا۔ ہم ان بچوں کی نگہداشت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ایک حکومت کہہ سکتی ہے یا اگر کوئی شخص پاگل ہو جائے تو اس کی اولاد کی پرورش سے اس کے رشتہ دار اس کے قریبی اور اہلِ محلہ اور اہلِ شہر اور حکومت دست بردار ہو جائیں۔ اس سے معلوم ہؤا کہ صرف حقوق ہی دُنیا کی ترقی کا موجب نہیں بلکہ حقوق کے سوا بھی کوئی چیز ہے اور وہ قُربانی ہے اور محبت ہے۔ اگر ایک انسان ہمیشہ حق پر ہی بحث کرتا ہے تو اگر وہ بیمار ہو جائے یا مر جائے اور اس کے رشتہ دار اس کی مدد سے انکار کر دیں تو ان کو کیا کہا جاسکتا ہے۔ پس یہ طریق شریعت نے وسیع کیا ہے کہ تم حقوق پر ہی بحث نہ کیا کرو بلکہ حقوق کے سوا محبت و اخلاص کو بڑھاؤ اور قُربانیاں کرو۔
ہمارے لئے جس وجود کو اُسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے اس پر کیا کیا سختیاں ہوئیں لیکن جب وقت آیا آپ نے ان کو معاف کر دیا اور ان تمام تکالیف کو بھُلا دیا جو مکّہ والوں کی طرف سے آپ کو پہنچی تھیں۔ ایک وقت میں ان کی شرارت کی وجہ سے ان کو سزا بھی دی۔ یہ غلط ہے کہ جو بعض لوگ شریر کو اس وقت چھوڑ دیتے ہیں جبکہ وہ شرارت کر رہا ہوتا ہے اگرچہ اس حالت میں بعض اوقات وہ معافی کی بھی درخواست کرتا ہے لیکن وہ خفیہ خفیہ جڑیں کھود رہا ہو۔ پس وہ معافی اس کی معافی نہیں نہ اس وقت اس کو چھوڑنا چاہئے۔ ہاں جس وقت معلوم ہو جائے کہ اب یہ شرارت نہیں کریں گے اور اس وقت ان کو سزا دینے میں ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی تو پھر معاف ہی کرنا چاہئے اور ایسی حالت میں ہر شریف بلکہ ہر ایک مسلمان کا یہی فرض ہے کہ معافی دے دے اور ان کے قصور سے چشم پوشی کرے لیکن اگر ایک شخص آتا ہے اورکہتا ہے کہ مجھے معاف کرو مگر اس کے افعال اس قسم کے ہیں جن سے وہ اسلام کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو قطعاً وہ معافی کا مستحق نہیں۔ پس یاد رکھو عفو، رحم، اخوتِ اسلامی اور محبت یہ وہ چیزیں ہیں جو اساسِ اسلام ہیں۔ جو ان کی طرف توجہ نہیں کرتا وہ اسلام سے مُنہ پھیرتا ہے۔ پس چاہئے کہ آپس میں محبت و پیار ہو۔ اسلام تو کہتا ہے کہ تم غیروں سے بھی محبت کرو مگر چونکہ آپس میں ہی محبت کی کمی ہے اس لئے پہلے گھر سے شروع کرو۔ تم میں ہیں جو چشم پوشی کرتے ہیں مگر بے موقع اور جہاں نہیں چاہئے مثلاً اگر کوئی شخص اس قسم کی باتیں کرتا ہے جن سے جماعت ٹوٹتی ہے تو سن لیتے ہیں اور چشم پوشی کرتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص ان کی ذات کے خلاف کہے تو نہیں سن سکتے تو اس کا نام چشم پوشی نہیں یہ تو بد دیانتی ہے۔ قرآن کریم ایک موقع پر کہتا ہے کہ سزا دو اگر اس سزا کے وقت میں کسی کے دل میں نرمی یا رحم پیدا ہو تو وہ مومن نہیں۔ پس اگر کوئی شخص جماعت کو اپنی شرارت سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے تو اس کو سزا دو اور اپنے ذاتی معاملات اور دیگر امور میں رحم سے کام لو کیونکہ خدا رحم کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ بعض حالات میں تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص رحم نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں۔ یہاں اُلٹ بات ہے کہ لوگ ایسی باتوں پر چشم پوشی سے کام لیتے ہیں جن سے جماعت کا شیرازہ بکھرتا ہو لیکن وہ باتیں جن کا اثر ان تک محدود ہو اس پر غصّہ کرتے ہیں یہ ایمان کے نقص کی بات ہے۔ رحم وہ ہے جو جڑ ہے اسلام کی اور اس کا تعلق تمام اقوام سے ہے کہ اگر اس میں نقص ہے تو ایمان میں نقص ہے۔
مَیں اپنی جماعت کو خاص طور پر نصیحت کرتا ہوں کہ محبت و اخلاص کو آپس میں بڑھاؤ کہ ہر شخص دوسرے کے معاملات کو اپنے معاملات ہی محسوس کرے۔ آجکل کے بھائیوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے مَیں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپس میں ایسی محبت کرو جیسی کہ بھائی کو بھائی سے ہوتی ہے کیونکہ آجکل بھائیوں میں محبت نہیں۔ ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں جو بھائی بھائیوں میں آپس میں محبت ہوتی تھی وہ پیدا کرو۔ پُرانا محاورہ ہے کہ خون سفید ہو گئے مگر اس کی حقیقت آجکل کھلی جبکہ بھائی بھائی آپس میں بالکل بے تعلق ہو گئے اور کوئی رشتہ ایسا نہ رہا جس میں محبت کو زیادہ تعلق ہو۔ پس تم ایسے رشتہ دار بنو جیسے رسولِ کریم ؐ کے زمانہ میں صحابہ تھے۔ اس زمانہ میں تم نے مسیح موعود کو دیکھا ہے تم لوگ آپ سے وابستہ ہو۔ پس جو رنگِ محبت آپ میں دیکھا ہے وہ پیدا کرو اس سے زیادہ اور واضح مثال کیا ہو سکتی ہے۔
پس یہ اساسِ ایمان ہے جب تک اخوت نہیں ایمان بھی نہیں۔ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا3 کے یہی معنی ہیں۔ اخوت مومن کی علامات میں سے ہے۔ ایمان اور اخوت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ میں نصیحت کرتا ہوں۔ اس کو یاد رکھو کہ آپس میں اخوت کے تعلقات کو بڑھاؤ اور جب تک اس پر عمل نہ کرو گے آگے قدم نہیں اُٹھا سکو گے۔‘‘ (الفضل 8دسمبر 1919ء)
1: مکاشفۃ القلوب مصنفہ امام محمد بن الغزالی اُردو ترجمہ صفحہ 465
2: الصف: 5 3: آل عمران: 104

65
اکرامِ ضیف
(فرمودہ 5دسمبر1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں:-
هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ الْمُكْرَمِيْنَۘ۔اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ١ۚ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَۚ۔فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِيْنٍۙ۔ فَقَرَّبَهٗۤ اِلَيْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَٞ۔ فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ١ؕ وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ۔فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ۔قَالُوْا كَذٰلِكِ١ۙ قَالَ رَبُّكِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ۔قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَيُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ۔قَالُوْۤا اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِيْنَ۔1
اور فرمایا:-
''زمین پر جب سے کہ انسان کو خدا نے پیدا کیا ہے اسی وقت سے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرتِ انسانی میں اکرامِ ضیف کو رکھا گیا ہے اور بغیر کسی کسب کے اور بغیر اس کے کہ کسی فلسفہ کے نتیجہ میں یہ خواہش پیدا ہو قدیم زمانہ سے اور فلسفہ کی ایجاد سے پہلے علوم کی دریافت سے پہلے، انسانوں میں اکرامِ ضیف اور مہمان نوازی کا دستور ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فطری تقاضا ہے جس طرح ماں باپ سے نیک سلوک کرنا اور ماں باپ کا اپنے بچے سے محبت کرنا اور جس طرح میاں بیوی کے تعلقات فطرت میں پیدا ہوتے ہیں اور کسی فلسفہ کا نتیجہ نہیں ہوتے اور ہمیشہ سے انسان ایسا کرتا چلا آیا ہے اور کر رہا ہے اور کرتا چلا جائے گا۔ کوئی فلسفہ، کوئی علم اس پر اثر نہیں کر سکتا بلکہ اگر دیکھا جائے تو تمدن کا اس پر اُلٹا اثر پڑا ہے نئی تہذیب نے محبت کو کم کیا ہے زیادہ نہیں کیا۔ پس اگر فلسفہ کا اس پر کوئی اثر پڑا ہے تو وہ یہ ہے کہ یہ باتیں پہلے سے کم ہوگئیں اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ باتیں تمدن کا نتیجہ ہیں یا کسی فلسفہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ اگر یہ بات علوم سے پیدا ہوتی تو قوانین کے مرتب ہونے سے بعد میں پیدا ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قوانین تمدن نے ان کو کم کیا ہے۔ وہ قومیں جن پر یورپ کا اثر ہے ان میں ماں باپ کی محبت کم ہو گئی ہے۔ پس تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات پُرانی چلی آتی ہے اور فطرتی بات ہے کہ انسان مہمان نوازی کرتا ہے اور مہمان کا اکرام کرتا ہے۔
مَیں نے ابھی جو چند آیات پڑھی ہیں ان میں حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ کا حال بیان کیا گیا ہے اور وہ زمانہ ہزاروں سال کا زمانہ ہے جو موجودہ تہذیب کے قواعد کے ترتیب دیئے جانے سے بہت پہلے کا ہے۔ پُرانا تمدن یونانی تمدن ہے جس نے دُنیا پر بڑا اثر کیا۔
لیکن حضرت ابراہیم ؑ کا زمانہ اس سے بہت پہلے کا زمانہ ہے پھر ہندو فلسفہ ہے مگر اس کے متعلق جو تازہ ترین تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے وہ یہ کہ تین ہزار سال سے ہے اور حضرت ابراہیم ؑ کا زمانہ اس سے پہلے کا زمانہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ حضرت موسیٰ ؑسے چھ سو سال قبل ہوئے ہیں۔ پس حضرت ابراہیم ؑ ان تاریخی زمانوں سے پہلے ہوئے ہیں ان کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابراہیم کے ہاں کچھ مہمان آئے اور مہمان کیسے تھے ایسے نہ تھے جو حضرت ابراہیم ؑ کے قریبی رشتہ دار ہوتے، نہ آپس میں قدیم واقفیت تھی کیونکہ لوگ اپنے رشتہ داروں کی خاطرتواضع اور مہمان داری کرتے ہیں لیکن رشتہ داروں کی مہمان داری حقیقی مہمان نوازی نہیں ہوتی۔ اس کا باعث آپس کے تعلقات ہوتے ہیں۔ اگر یہ شخص ان کے ہاں جائے تو وہ بھی اس کی اسی طرح خاطر کریں گے اس لئے یہ تو عوض معاوضہ کی صورت ہو گئی۔ ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کی دعوت کرے یا ایک شخص اپنے ماں باپ کی خاطرداری کرے تو ہم اس کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ اس کا بھائی ہے اور وہ اس کے ماں باپ۔ اور بھائی بھائیوں کی خاطرداری کیا ہی کرتے ہیں اور سعید اولاد ماں باپ کی خدمت گزاری کیا ہی کرتی ہے۔ اسی طرح رشتہ داروں کی بھی لوگ مہمانداری کیا ہی کرتے ہیں۔ اس کی عام طور پر یہ وجہ ہوتی ہے کہ ایک دوسرے پر احسان کا موقع ملے لیکن ایسے مواقع پر مہمان نوازی کی حقیقت نہیں کھلتی مگر ابراہیم علیہ السلام کے پاس جو لوگ آئے آپ ان کو جانتے پہچانتے نہ تھے بلکہ آپ ان سے بالکل ناواقف تھے مگر باوجود اس ناواقفیت کے کہ ابراہیم ؑ کو ان کا علم نہ تھا ابراہیم ؑ نے ان کو اپنا مہمان کیا اور ایسا مہمان بنایا کہ ابراہیم ؑ کے ضیف مکرم معزز و محترم مہمان ہو گئے۔ حضرت ابراہیم ؑ وہ ہیں جن کو خدا نے معزز کیا تھا، جن کی بزرگی کی دُنیا قائل ہے لیکن چونکہ وہ مہمان تھے اور ابراہیم ؑ نے ان کا کامل احترام کیا اس لئے وہ ضیف مکرم کہلائے۔
اب حضرت ابراہیم ؑ کا طریق بیان کرتا ہے اور اس ادب کو بتاتا ہے جو آپ نے اپنے مہمانوں کا کیا۔ جب مہمانوں کو بٹھا چکے تو فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ اپنے احترام کرنے کو پوشیدہ رکھا اور نہایت پوشیدگی اور خاموشی کے ساتھ اپنے اہل کی طرف چلے گئے۔ لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی مہمان آئے تو وہ اس کا احترام بھی کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ایسی باتیں بھی کر جاتے ہیں جن سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ مہمان ہمارے اس رویہ کی قدر کرے مثلاً مہمان آیا تو کہیں گے آپ کے لئے دُودھ لاؤں، چائے تیار کراؤں، انڈا اُبلواؤں، آپ کو فلاں چیز کی ضرورت ہو گی، پلاؤ تیار کراؤں، مُرغ کے کباب بناؤں۔ آپ تشریف رکھیئے مَیں آپ کے کھانے کی فکر کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ لانی تو ایک ہی چیز ہوتی ہے مگر اس فہرست کے گننے سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ کم از کم دو دو تین تین دفعہ مہمان بھی کہے کہ آپ کا احسان ، آپ کی مہربانی۔ لوگ اکرام تو کرتے ہیں مگر اکرامِ ضیف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے مگر حضرت ابراہیم نے یہ نہیں کیا بلکہ ان کو بٹھایا اور خاموشی اور خفیہ طریق سے اپنے اہل کی طرف گئے۔ رَاغَ کے معنے ہوتے ہیں خفیہ جانا اور یہ لفظ شکاریوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے ان اصل معنوں کو چھوڑ کر اور معنے کئے ہیں مگر میرے نزدیک اصل معنوں سے شان بڑھتی ہے۔ پس جس طرح شکاری شکار پر جاتا ہے کہ کہیں شکار کو خبر نہ ہو جائے اسی طرح ابراہیم بھی چپکے سے کھسک گئے اور فوراً ایک موٹا تازہ عجل (بچھڑا) ذبح کر کے اور کھانے کے لئے تیار کر کے لے آئے مگر وہ تو عذاب کے لئے آئے تھے تو ایسی حالت میں کھانا و اناکس کو سُوجھتا ہے اُنہوں نے نہ کھایا۔
اس میں اختلاف ہے کہ آیا وہ فرشتے تھے یا آدمی ۔ اگر وہ فرشتے تھے تو اُنہوں نے کھانا ہی نہ تھا ۔ بہرحال وہ کوئی ہوں حضرت ابراہیم ؑ نے کھانا لا کر رکھا مگر اُنہوں نے نہیں کھایا۔ ان کے کھانا نہ کھانے پر حضرت ابراہیم ؑ نے بُرا نہیں منایا جیسا کہ ایسے موقع پر بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم نے تو ان کے لئے یہ کچھ تیاری کی پر اُنہوں نے قدر نہ کی مگر ابراہیم ؑ کی نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُنہوں نے مہمانوں کے اس فعل سے بُرا نہیں منایا کہ اُنہوں نے کھانا کیوں نہ کھایا بلکہ فرماتا ہے فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً۔ اس آیت کے متعلق کہتے ہیں کہ ابراہیم اپنے دل میں ڈر گئے کہ کہیں یہ ڈاکو نہ ہوں مگر مَیں کہتا ہوں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کو خوف اس بات کا ہؤا کہ کہیں مجھ سے مہمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔ ابراہیم ؑ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ مہمانوں کو ڈاکو سمجھ کر ڈر گئے غلطی ہے کیونکہ ابراہیم ؑ تو وہ ہیں جو اکیلے بادشاہ کے جھگڑے سلجھانے کے لئے چلے جاتے ہیں۔وہ ڈاکوؤں سے کیا ڈرتے۔ ان کو جو خوف ہؤا وہ یہی تھا کہ کہیں مہمان نوازی میں تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔ مہمانوں پر ناراض نہیں ہوئے نفس کو الزام دیا کہ تجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو گی مگر مہمانوں نے جو کھانا نہیں کھایا تھا اس راز کو خود اُنہوں نے ہی کھول دیا کہ ہم کس کام پر آئے ہیں۔
تو اکرامِ ضیف ایک فطری تقاضا ہے اور شرعی حکم بھی ہے اس لئے اب یہ محض فطری بات نہ رہی بلکہ شریعت کی تصدیق نے اس کو حکم ربی بنادیا۔ اس لئے کیا بلحاظ انسان بننے کے اور کیا بلحاظ مومن ہونے کے اکرامِ ضیف ضروری چیز ہے۔
ابھی تھوڑے دنوں میں اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جاری کی ہوئی سُنت کے ماتحت قادیان میں مہمان آئیں گے اور ان میں جماعت کے بھی لوگ ہوں گے اور غیر بھی۔ ہم اﷲ کے فضل سے ہر سال مہمانوں کی تعداد کو روز افزوں دیکھتے ہیں اس لئے اس دفعہ بھی انشاء اﷲ پہلے سے زیادہ تعداد میں مہمان ہوں گے ان کی مہمان نوازی یہاں کے تمام لوگوں کے ذمہ ہو گی کیونکہ وہ چند آدمی جو لنگر کے منتظم ہیں اس کام کو نہیں کر سکتے۔
اس لئے میں قادیان کے احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ کام بڑا ہے اور ابھی سے اس کا انتظام ہونا چاہئے اگر ابھی سے آپ لوگوں نے اپنے آپ کو کام کے لئے پیش نہ کیا تو بعد میں منتظموں کو موقع نکالنا مُشکل ہو گا اس لئے مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ احباب اپنے آپ کو پیش کریں۔ تاجر تو معذور ہیں کیونکہ وہی ان کے کام کے دن ہوتے ہیں اور اَور لوگ بھی جو اس قسم کے کاموں پر متعین ہوتے ہیں جن سے وہ علیحدہ نہیں ہو سکتے باقی دوست اپنے کام چھوڑ کر بھی اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کریں۔
یہ لوگ جو آئیں گے وہ صرف مہمان ہی نہیں شعائر اﷲ میں داخل ہیں اور شعائر اﷲ کی حرمت و عزت مومن کا فرض ہے۔ ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا اور اس وقت کو دیکھنے والے بہت لوگ موجود ہیں جب قادیان کے چاروں طرف جنگل ہی جنگل تھے۔ حضرت اقدس کے وقت میں جلسہ سالانہ پر اتنے آدمی بھی نہیں آتے تھے جتنے کہ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہیں۔ حضرت صاحب نے اس وقت سے بہت عرصہ پہلے خدا سے خبر پاکر اطلاع دی یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔2 تیرے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور دُوردُور سے پہنچیں گے حتّٰی کہ جن راستوں پر سے آئیں گے ان پر گڑھے پڑ جائیں گے۔ سو خدانے یہ نظارہ ہمیں اپنی آنکھوں سے دکھایا اگر پہلے نہیں دیکھا تو اب بھی یہ نظارہ نظر آتا ہے۔ اس لئے قادیان میں ہر ایک آنے والا اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہوتا ہےاور اسی لئے وہ ایک نشان ہوتا اور شعائر اﷲ میں داخل ہوتا ہے اس لئے کیا بلحاظ مہمان ہونے کے اور کیا بلحاظ نشان الٰہی ہونے کے یہاں کی جماعت کو ان کی مہمان نوازی کی فکر کرنی چاہئے۔
یہ مہمان نوازی نہیں کہ مہمان سے ایسے طریق سے سلوک ہو کہ جس سے ظاہر ہو کہ ہم اس پر احسان کرتے ہیں۔ مہمان کو اعزاز دینا چاہئے کیونکہ خدا نے مہمان کو عزت کا درجہ دیا ہے۔ اس لئے مہمان کے خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ابراہیم ابو الانبیاء ہیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جدِّ امجد ہیں اگر وہ مہمان فرشتہ بھی تھے تاہم ابراہیم خدا کے نبی تھے اور اگر وہ انسان تھے تو بھی حضرت ابراہیم سے نیچے تھے مگر وہ مہمان ہو کر ابراہیم کے لئے مکرم ہو گئے اس لئے کوئی مہمان ہو فطرت کے اقتضاء، شریعت کے منشاء کے ماتحت مہمان کی عزت ہی کرنا چاہئے۔ مہمان کی سخت بات کی برداشت کرنی چاہئے۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مثلاً اب کھانا نہیں ملتا دیر سے کیوں آئے؟ یا کھانے آئے ہو یا سُننے۔ بیسیوں قسم کی باتیں لوگ مہمان کا رُتبہ نہ سمجھنے کی وجہ سے کہہ گزرتے ہیں۔ ذی وجاہت لوگوں کی عزت و توقیر ہی مہمان نوازی نہیں کیونکہ یہ لوگ تو جہاں بھی جائیں گے ان کی عزت ہو گی۔ غرباء کی عزت کرنا حقیقی مہمان نوازی ہے۔ اگر کوئی غریب ماشکی ہے یا موچی ہے یا اور اسی قسم کا پیشہ ور شخص ہے تو چاہئے کہ اس کی عزت کی جائے اور اگر اس کی عزت کی جائے گی تو وہ خدا کے حکم کے ماتحت ہو گی۔ اگر امیر کی عزت کی جائے گی تو اس کو اکرامِ ضیف نہیں کہہ سکتے کیونکہ امراء کی عزت تو دُنیا دار بھی کیا کرتے ہیں۔
اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اکرامِ ضیف صرف کھانے پینے میں ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر قسم کے معاملات میں ہوتا ہے۔ امراء چونکہ اپنے گھروں میں اچھا کھانا کھاتے ہیں اس لئے ان کے کھانوں میں اگر کسی عمدہ چیز کا اضافہ کیا جائے تو ہونا چاہئے۔ یہ بات حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے پیش ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ خدا نے بھی یہ امتیاز کیا ہے تو میں کیوں نہ کروں لیکن میں نے بتایا ہے کھانے پینے میں ہی اکرامِ ضیف نہیں عام برتاؤ اور ظاہری سلوک میں بھی یہ بات ہے۔ ایک غریب دال پر خوش ہو جاتا ہے اگر اُس کو خندہ پیشانی کے ساتھ دی جائے لیکن کسی کو کھانا عمدہ دیا جائے مگر برتاؤ اچھا نہ ہو تو وہ اچھا کھانا اس کے دل کو خوش نہیں کر سکتا۔
پس احترام کرنے میں امیر غریب کی تمیز نہیں ہونی چاہئے سب کی عزت کی جائے۔ امیروں کی عزت کرنا عزت کرنا نہیں کیونکہ وہ تو ہر جگہ اپنی عزت کرا لیتے ہیں۔ پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے جو دوست اپنے تئیں خدمت کے لئے پیش کر سکیں وہ خود تکلیف اُٹھا کر کام کریں تاکہ خدا کے فضل کے وارث ہوں اور اس فرض کو بھی ادا کریں جو خدا اور فطرت کی طرف سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔ مَیں دُعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ تمام بھائیوں اور دوستوں کو اس خدمت کے ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین
(جب دوسرے خطبہ کے لئے حضور کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ) جلسہ سالانہ کے متعلق بعض اُمور کے تصفیہ کے لئے لوکل انجمن کا اجلاس جمعہ کے بعد ہو گا۔ انجمن والوں کو اب تک شکایت چلی جاتی ہے کہ لوگ اس میں زیادہ حصّہ نہیں لیتے۔ اُنہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ مَیں خطبہ جمعہ میں سفارش کردوں کہ آپ لوگ بعد جمعہ بیٹھیں اور جو تحریکات ہوں گی ان کو سُنیں اور ان کے متعلق مشورہ وغیرہ دیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ مرکزی جماعت فیوض زیادہ حاصل کرتی ہے اسی طرح مرکزی جماعت پر قیود بھی زیادہ ہوتے ہیں وہ قیود سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ وہ مجھ سے سفارش چاہتے ہیں مگر مَیں اس کو سفارش نہیں کہہ سکتا یہ آپ لوگوں کا فرض ہے۔ پس مَیں آپ کو آپ کا فرض یاد دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہمارا جلسہ شعائر اﷲ میں داخل ہے اور اس کے لئے جتنے کام ہوں ان میں بڑھ بڑھ کر حصّہ لینا دین کی خدمت ہے۔‘‘ (الفضل 18دسمبر 1919ء)
1: الذّٰریٰت: 25تا 33
2: تذکرہ صفحہ 552۔ ایڈیشن چہارم

66
رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کے بندے بنو
(فرمودہ 12دسمبر1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''اسلام کا خدا یعنی وہ خدا جس کی طرف اسلام بُلاتا ہے یا یوں کہو کہ خدا تعالیٰ کی اس ذات کی تعریف جو ہمیشہ سے چلی آئی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور وہ ذات جو پہلوں کی خالق اور مالک تھی اور موجودہ کی خالق اور مالک و محافظ و نگران ہے اس کی جو تعریف اسلام نے کی ہے اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کسی ایک کا خدا نہیں بلکہ جس قدر مخلوقات ہے وہ ان سب کا خدا ہے۔ وہ خدا قبیلوں ہی کا خدا نہیں، وہ مُلکوں ہی کا خدا نہیں، وہ شہروں ہی کا خدا نہیں، وہ نسلوں ہی کا خدا نہیں، وہ کسی خاص تمدن و تہذیب سے تعلق رکھنے والے کا خدا نہیں بلکہ ہر چیز جو موجود ہے وہ اس کا خدا ہے۔ وہ ہندوؤں کا خدا ہے، وہ یہودیوں کا خدا ہے، وہ عیسائیوں کا خدا ہے، وہ زرتشتیوں کا خدا ہے، وہ جس طرح مسلمانوں کا خدا ہے وہ ان کا بھی محافظ و نگہبان ہے، اسی طرح وہ عیسائیوں کا محافظ و نگہبان ہے حتّٰی کہ دہریوں کا بھی محافظ و نگہبان ہے۔ ان کی پرورش کرتا ہے کیونکہ وہ سب اس کی مخلوق ہیں۔ یہودی بھی اس کی مخلوق ہیں، ہندو بھی اس کی مخلوق ہیں، عیسائی بھی اس کی مخلوق ہیں اگر وہ انکار کریں تو علیحدہ بات ہے مگر بہرحال وہ اسی کے ہیں۔ بندے تعلق کو بھُلاتے ہیں مگر وہ نہیں بھُلاتا۔ وہ اس تعلق کو نظر انداز نہیں کرتا۔ اس کا تعلق اپنی مخلوق سے حقیقی تعلق ہے۔ ماں باپ بیٹے سے ناراض ہوتے ہیں ان کا تعلق پیدائش کا ذریعہ ہے لیکن وہ اس خفگی میں بھی اس تعلق کو نہیں بھُلاتے خواہ کتنی ہی ناراضگی ہو تب بھی وہ تعلق فراموش نہیں ہوتا۔وہ تعلق کبھی ایسا باریک ہوتا ہے کہ نظر بھی نہیں آتا مگر وہ ہوتا ضرور ہے اور وہ کبھی منقطع نہیں ہوتا مگر خدا کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وہ ناراض بھی ہوتا ہے، وہ سزا بھی دیتا ہے مگر بے تعلقی نہیں کرتا۔ عذاب نازل کرتا ہے مگر باوجود اس کے بندے اور خدا میں ایک مخفی تعلق رہتا ہے۔ ماں باپ لڑتے ہیں، ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر بچہ ہوشیار ہوتا ہے تو اس کی ظاہری پرورش کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس کا رزق بند کر دیتے ہیں مگر خدا ناراض ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں رزق بھی تنگ کر دیتا ہے لیکن خدا کا سورج اس کو روشنی دیتا، مینہ اس پر برستا ہے، باوجود بے تعلق اور ناراضگی کے محبت کرتا ہے، باوجود عذاب دینے کے رحم کرتا ہے۔ وہ بے تعلق ہوتے ہیں مگر خدا کے تعلق کا ایک باریک رشتہ قائم رہتا ہے اگرچہ اس کی صورت بدل جاتی ہے۔ خدا دوزخ میں بھی ڈالتا ہے لیکن اس کے متعلق بھی آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ ہوا جہنم کے دروازے کھٹکھٹائے گی اور وہاں کوئی نہ ہو گا۔ تو وہ رشتہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کو آگ بھی نہیں جلاتی۔ جسم کو جلا دیتی ہے کا یا پلٹ دیتی ہے مگر وہ آگ خدا اور بندے کے تعلق کو نہیں کاٹ سکتی۔ وہ آگ میں سے بھی سلامت نکلتا ہے۔ پس خدا کا بندے سے شدید تعلق ہوتا ہے۔
دُنیاوی رشتوں میں بھی محبت ہوتی ہے۔ بھائی بھائی سے محبت کرتاہے، پھر شہری شہریوں کی محبت ہوتی ہے۔ ایک مُلک کے لوگوں کی آپس میں محبت ہوتی ہے۔ اگر دقّت پڑے تو ہندوستانی مِل جاتے ہیں، چینی مِل جاتے ہیں، عرب عرب مِل جاتے ہیں، پٹھان پٹھان مِل جاتے ہیں، ایرانی ایرانی مِل جاتے ہیں۔ خواہ ان میں پہلے کتنا ہی فساد ہو مگر جب غیر آتا ہے تو غیریت دُور ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ایک ماں باپ کی اولاد میں بھی محبت ہوتی ہے اور وہ ایک وقت پڑنے پر اپنا رنگ دکھاتی ہے لیکن ایک تعلق ان تعلقات سے بھی بڑا تعلق ہوتا ہے اور وہ خدا اور بندے کا تعلق ہوتا ہے جو دوزخ میں بھی منقطع نہیں ہوتا۔ ایک ماں باپ کی اولاد میں تعلقِ محبت ہوتا ہے مگر اُس کا ظُہور اُسی وقت ہوتا ہے جب علم ہو۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ پہلے خود مارتے ہیں اور علم ہونے پر کہ یہ بھائی تھا یا اور عزیز تھا روتے ہیں۔
مَیں نے کسی معتبر تاریخ میں تو نہیں پڑھا کہ ایک وقت میں رُوسی مسلمانوں کو کوئی علم نہ تھا کہ ان کے سوا اور بھی مسلمان ہیں۔ ایک دفعہ رُوس اور رُوم میں جنگ ہوئی۔ روسی مسلمان روسی فوجوں میں بڑے جوش سے بھرتی ہوئے اور روم والوں سے لڑنے کے لئے آئے۔ جب رُومی قیدی ان کے قبضہ میں گئے اور نماز کا وقت آیا اور اُنہوں نے اذانیں کہیں تب ان کو معلوم ہؤا کہ یہ مسلمان ہیں۔ وہ آپس میں گلے ملے اور اپنی غلطی پر پشیمان ہوئے اور خوب روئے۔ یہ ان سے غلطی کیوں ہوئی اس لئے کہ وہ اس تعلق کو بھُول گئے تھے جو اسلام کے نام میں شامل ہونے کی وجہ سے ان میں پیدا ہو گیا تھا۔
یہ اصل تو حضرت مسیح موعود ؑ نے آکر قائم کیا ہے کہ مسلمان جس حکومت کے ماتحت رہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے دوسرے مسلمانوں سے جو اس حکومت کے خلاف ہوں لڑیں۔ پس وہ لوگ اس کو ایک غلطی خیال کرتے تھے کہ دو سلطنتوں کے رہنے والے مسلمان اپنی اپنی حکومتوں کی طرف سے ایک دوسرے سے لڑیں۔ پس لوگ نادانستہ طور پر اپنے عزیزوں کو دُکھ پہنچا دیتے ہیں لیکن واقفیت کی حالت میں شاذ کے سوا انسان اس کو جس پر ''اپنے'' کا لفظ بولا جائے تکلیف نہیں پہنچاتا۔ یہ کیوں؟ اسی لئے کہ یہ ایک فطری بات ہوتی ہے اور اس تعلق کی وجہ سے لوگ آپس میں نہیں لڑتے لیکن ایک خدا کے بندے ہو کر آپس میں لڑتے ہیں اور اس کو بھُول جاتے ہیں۔
پہلے زمانہ میں یہ بات اکثر ہوتی تھی کہ لوگ بیرونی ممالک میں جاتے اور اپنے اصلی نام و نمود کو چھپاتے اور وہاں شادیاں کرتے جن سے اولاد بھی پیدا ہوتی۔ پس وہ لوگ اپنے وطن میں آجاتے اور ان کی وہ اولاد جو وطن میں ہوتی بسا اوقات ایسا ہوتا کہ ان کی اور ان کے غیر مُلکی بھائیوں کی لڑائی ہو جاتی۔ ایسی صورت میں اگر دونوں اپنے باپ کا نام بھی لیں تو دونوں بے خبر رہیں گے لیکن خدا تعالیٰ تو جانتا ہے کہ اس کے تمام بندے اسی کے بندے ہیں۔ جس طرح مخلوق کا بعض تعلقات کی وجہ سے لڑنا ٹھیک نہیں ہوتا اسی طرح اس خاص تعلق کا جو ایک خالق کی مخلوق ہونے کی صورت میں سب بندوں میں ہے۔ہونا چاہئے۔ خصوصیات، عمومیات پر غالب آجاتی ہیں۔ ایک شہری شہری کی مدد کرے گا مگر محلہ والے کے مقابلہ میں نہیں۔ اسی طرح ایک محلہ والے کی مدد کی جائے گی مگر بیٹے یا بھائی کے مقابلہ میں نہیں۔ اسی طرح خالقیت کا تعلق عام ہے اور ایک اَور تعلق ہے جو اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ الوہیت کا تعلق ہے اور رحیمیت کا تعلق ہے۔ بلحاظ ایک اﷲ کی پرستش کرنے کے اور بلحاظ صفتِ رحیمیت کے کہ جس کے ماتحت ایک خاص شریعت ملتی اور اس پر عمل کیا جائے۔ ایک خالق کے بندے ایک اﷲ کے عابد اور ایک رحیم کی شریعت کے متبع اگر یہ آپس میں ہمدردی نہ کریں تو بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔
سورۃ فاتحہ میں اﷲ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ۔الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِۙ۔مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ۔اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔1 اس میں وہ اتحاد بیان کیا ہے۔جو انسانوں میں ہونا چاہئے۔ پہلے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَسے شروع ہؤا کہ سب کا خالق اور پرورش کنندہ ایک ربّ ہے، پھر اتحاد اس سے ترقی کرتا ہے کہ سب ایک ایسی ہستی کے بندے ہیں جو بغیر محنت کے انعام کرتی ہے، پھر اس سے بڑھتے ہیں تو رحیمیت کے ماتحت آتے ہیں اور ایک شریعت کے پابند ہو جاتے ہیں پھر مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِپر آتے ہیں کہ خدایا ہمارا انجام بھی تیرے ہاتھ میں ہے۔ یعنی انجام کے لحاظ سے بھی ہم میں اتحادہے۔ اس کے نتیجہ میں فرمایا کہ تم ایک ہو جاؤ ایسے کہ لوگ تو کہتے ہیں جیسے ایک جان اور دو قالب لیکن تمہارے ہزاروں لاکھوں کروڑوں جسم ہوں مگر جان ایک ہو۔ وہ اس طرح کہ آگے آتا ہے۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُاے خدا ! ہم سب تیرے ہی عابد ہیں۔ یہاں پر انسان تمام دُنیا کا قائم مقام ہو جاتا ہے اور اپنی عبادت کو تمام دُنیا کی عبادت قرار دیتا ہے۔ اس کے بچے سوئے پڑے ہیں، بیوی آرام میں ہے، بھائی بھی غافل ہیں مگر وہ کہتا ہے کہ خدایا میری عبادت ان سب کی ہے مگر یہ بڑی بات نہیں۔ اس وقت تک جب تک امتحان نہ ہو جائے کہ واقعی کہنے والا اپنی عبادت کو دوسروں کی عبادت قرار دے رہا ہے۔ چنانچہ اس کے لئے مومن آگے کہتا ہے وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اے خدا! میری عبادت سب کی عبادت ہے اور جو کچھ تو میری مدد فرمائے وہ ان سب کو مدد دے۔ بعض لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ ہمارا مال تمہارا مال لیکن جب فائدہ پہنچانے کا سوال ہو تو اپنے اس قول میں جھوٹے ثابت ہوتے ہیں لیکن مومن کہتا ہے کہ اے خدا! استعانت بھی مَیں ہی نہیں چاہتا میرے دوسرے بھائیوں کو بھی دے لیکن اَوروں کو جانے دو تم احمدی آپس میں کیا ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو؟ ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک شخص کے ہاں چور آئے تھے اس نے مجھے لکھا تھا کہ مَیں نے شور مچایا غیر احمدی اور ہندو جمع ہو گئے مگر سوائے دو احمدیوں کے اَور کوئی نہ پہنچا جن میں سے ایک بھائی عبدالرحمن صاحب تھے ایک کوئی اَور۔مَیں نے اس پر توجہ دلائی تھی لیکن آج جب میں جمعہ کے لئے گھر سے نِکلا تو مجھے ایک اَور رقعہ مِلا جس میں لکھا ہے کہ ایک کے ہاں چور آئے اس نے شور مچایا اس وقت بھی دو احمدی مدد کو گئے۔ باقی محلہ میں سے کوئی شخص مدد کو نہ آیا۔ چوروں کے پاس ہتھیار بھی تھے ممکن تھا کہ وہ قتل بھی کر دیتے۔ باقی گھروں سے اگر آواز آئی تو یہ کہ کیا ہے؟ میاں کیا ہے؟ اتنا نہیں سمجھے کہ سردی میں رات کے وقت جو شور مچانے لگا ہے وہ کوئی پاگل تو نہیں ضرور کوئی بات ہو گی۔ اگر کوئی سویا رہتا ہے تو خیر وہ مجبور بھی ہے۔ اگرچہ اس کی یہ عجیب نیند ہے لیکن پھر بھی وہ ایک حد تک مجبور ہے مگر جو جاگتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا ہے؟ وہ جان کے خوف سے ڈرتا ہے اس کے لئے تو یہ قابلِ شرم بات ہے۔ مومن کو اتنی جان عزیز نہیں ہونی چاہئے کیونکہ موت تو ایک پردہ ہے جو خدا اور اس کے درمیان حائل ہے مومن بُزدل کیوں ہو۔ مومن اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے۔اس لئے کہ دین کی خدمت کرے مگر ایسے موقع پر تو نکلنا چاہئے۔ اگر ایسے وقت میں جب ضرورت ہو نکلنے کی بیٹھا رہے تو وہ خدا سے محبت کی بجائے جان سے محبت رکھتا ہے۔ پس اگر خدا کی محبت کے دعویٰ میں سچّا ہے اور سچّے دل سے اس کو قبول کرتا ہے تو اس کو اس قدر بزدل نہیں ہونا چاہئے۔
پس یہ بڑے افسوس کی بات ہے ۔ میری عادت نہیں کہ پہلے سوچ کر اور تیاری کر کے بولوں۔ اﷲ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے اور ان میں آپس میں تعلق پیدا کرے اور یہ سمجھیں کہ ایک خدا کے عابد ہیں اور ایک ہادی سے ہدایت پانے والے۔ پر آپس میں تعلقِ اخوت پیدا کرنا ضروری فرض ہے۔ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو ان باتوں کے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین‘‘ (الفضل 22دسمبر 1919ء)
1: الفاتحۃ : 2 تا 5

67
شریعت کے احکام بے چُون و چرا مانو
(فرمودہ 19دسمبر1919ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۔1
اور فرمایا:-
’’اسلام ایک ایسے زمانہ میں دُنیا میں آیا ہے جبکہ حریت خواہ فکر کی ہو خواہ عمل کی بالکل مٹی ہوئی تھی۔ متمدن دُنیا میں حریتِ فکر و حریتِ عمل بالکل مفقود تھی۔ دو بڑی حکومتیں تھیں ایران جو ایشیا کے بڑے حصّہ پر تصرف رکھتی تھی اور دوسری یونانی حکومت جسے رُومی سلطنت کہتے ہیں اس کا ایشیا کے بعض حصص پر اور افریقہ کے متمد ن حصّہ پر اور تمام یورپ پر اثر تھا۔ ان دونوں حکومتوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دونوں باتیں نہ تھیں۔ نہ تو وہاں لوگوں کے دماغوں کو آزادی حاصل تھی کہ وہ کسی امر کے متعلق کچھ سوچ کر اور کوئی رائے قائم کر سکیں اور نہ یہ آزادی تھی کہ کسی قسم کی حرکت کر سکیں۔ حکومت کا جبر اتنا بڑھا ہؤا تھا کہ رعایا اور حکام کے تعلقات ایسے تھے کہ رعایا جانور ہے اور حُکام ان کے مالک وہ جس قسم کا رعایا سے سلوک کریں وہ بجا اور درست ہے۔ چنانچہ حُکام جو چاہتے تھے اور جس طرح چاہتے تھے رعایا سے کرتے تھے۔
اس کے مقابلہ میں غیر متمدن علاقوں کی حالت حریت کے لحاظ سے حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ اس کی مثال عرب میں ملتی ہے۔ عرب میں اس وقت کوئی تہذیب نہ تھی، کوئی تمدن نہ تھا، کوئی قانون اور قاعدہ نہ تھا۔ وہاں آزادی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ جو چاہتے کرتے تھے، کوئی پُرسان اور کوئی مانع نہ تھا۔ اُنہوں نے آزادی کے معنے یہ سمجھ رکھے تھے کہ کسی امر میں کسی کی پرواہ نہ کی جائے۔ اس میں شُبہ نہیں کہ ان میں بعض قوانین تھے لیکن وہ اس قدر وسیع تھے کہ جس کی حد نہیں مثلاً ان میں یہ قانون تھا کہ کوئی شخص بے شک بُتوں کی پرستش نہ کرے، کوئی بُتوں پر ایمان نہ لائے اور ان کی جگہ خدا پر ایمان رکھے مگر وہ اس بات کا انکار نہ کرے کہ بُتوں میں کسی قسم کی طاقت نہیں۔ اگر ایک شخص بُتوں کو نہ مانتے ہوئے مگر ان کی طاقتوں کا انکار کرتے ہوئے عیسائی ہوتا یا یہودی ہوتا یا موحّد ہوتا تو وہ یہ مختلف عقیدے رکھ کر عرب کی سر زمین میں رہ سکتا تھا۔ اگر بندش تھی تو یہ کہ بُتوں کے خلاف کسی قسم کی رائے کا اظہار نہ کرے نہ لوگوں کو بُتوں کے متعلق اکسائے۔ اگر یہ نہ کرے تو ایک شخص عیسائیت کو قبول کر کے عرب میں رہ سکتا تھا نہ صرف عرب میں بلکہ مکّہ میں رہ سکتا تھا۔
یہ تو ہوئی حریتِ فکر۔ حریتِ عمل یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ اس کے متعلق ایک مشہور واقعہ ہے کہ عرب کے ایک حصّہ کے ایک عرب بادشاہ نے اپنے درباریوں سے سوال کیا کہ کوئی ایسا ہے جو میری اور اُس کی ماں میری ماں کی اطاعت نہ کرے۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ فلاں قبیلہ کا سردار ہے جو بڑا بادشاہ بھی نہیں وہ آپ کی اور اُس کی ماں آپ کی ماں کی اطاعت نہیں کریں گے۔ بادشاہ نے اس کو کہلا بھیجا کہ بادشاہ کو آپ کے اور بادشاہ کی ماں کو آپ کی ماں کو دیکھنے کا شوق ہے۔ اس سردار کا نام عمر و ابن الکلثوم تھا وہ اپنی ماں سمیت گیا۔ اس کی ماں بادشاہ کی ماں کے خیمہ میں ٹھہری اور وہ بادشاہ کے خیمہ میں۔ جب کھانے کا وقت آیا تو بادشاہ کی ماں نے حکمتِ عملی سے چاہا کہ اس عور ت سے کام لے اس لئے اس نے اس عورت کو کہا کہ وہ برتن پکڑانا مَیں کھانا لگا کر باہر تمہارے اور اپنے بیٹے کے لئے کھانا بھیج دوں۔ بظاہر یہ کوئی بڑی بات نہ تھی نہ اس میں ہتک کا سوال تھا کیونکہ وہ خود تقسیم کرنے بیٹھی تھی اور جن کو باہر کھانا بھیجنا تھا اُن میں اُس کا بیٹا بھی تھا لیکن اُس نے اس کو اپنی ہتک کا موجب قرار دیا اور کھڑی ہو کر زور سے اپنے قبیلہ کو پُکارنے لگی کہ اے فلاں قبیلہ والو! تمہارے سردار کی ماں کی ہتک کی گئی۔ اس آواز کا بُلند ہونا تھا کہ اس کا بیٹا جو بادشاہ کے خیمہ میں تھا فوراً کھڑا ہو گیا اور کھڑے ہوتے ہی خیمہ کے اِدھراُدھر دیکھنے لگا۔ ایک طرف بادشاہ کی تلوار لٹک رہی تھی اس نے فوراً اس کو کھینچ لیا اور بادشاہ کا سر اُڑا دیا کہ تحقیق بعد میں کروںگا پہلے ماں کی ہتک کا بدلہ تو لے لوں۔ خیمہ سے باہر نِکلا اور قبیلہ کے جو چند آدمی ساتھ تھے ان کو کہا کہ فوراً جو کچھ لُوٹ سکتے ہو لُوٹ لو۔ 2
تو اتنی وہاں حُریت تھی کہ بُتوں کو بُرا کہنے کے سوائے کوئی مذہب رکھو اور اسی حالت میں وہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے تھے۔ اگر ان کو کسی بات سے دُشمنی تھی تو اس سے کہ وہ بُتوں کے خلاف وعظ نہیں سن سکتے تھے مگر باوجود اس کے جب اسلام آیا تو اس کو دونوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ اوّل تو یہ کہ کسی کی بات کو نہ ماننا اس حالت کو دُور کرنا تھا۔ دوسرے جن متمدن ممالک میں غلامی اور رعایا کا ایک ہی مفہوم سمجھا جاتا تھا اس کو دُور کر کے حُریتِ عمل و فکر کو قائم کرنا تھا۔ چنانچہ اسلام نے ایک وسطی طریق اختیار کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ متمدن دُنیا کو یہاں تک حقوق دیئے گئے کہ وہاں کے باشندے اپنے ہم مذہبوں کا ساتھ چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ مِل گئے۔ افراد کو ان کے حقوق اتنے دیئے گئے کہ وہ زبردست ہو گئے۔ لکھا ہے کہ ایک علاقہ پر مسلمان متصرف ہو گئے مگر وہاں کے لوگوں کو مخالفوں کی طرف سے کچھ اذیت پہنچی جس کا مسلمان تدارک نہ کر سکے۔ اس سے متاثر ہو کر مسلمان گورنر نے وہاں کا مالیہ اور جزیہ وغیرہ واپس کر دیا کہ یہ تو ہم اس لئے لیتے ہیں کہ تمہاری حفاظت کریں۔ جب ہم تمہاری حفاظت نہ کر سکے تو ہم ان رقوم کے بھی حقدار نہیں۔3 اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ عیسائیوں نے عیسائیوں کا مقابلہ کیا کیونکہ انہوں نے حریت کو پایا اور سمجھ لیا کہ ہم غلام نہیں اور نہ ہمیں غلام سمجھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی وہ حریت جو حد سے بڑھی ہوئی تھی اس کو کم کیا۔ ایک طرف تو حریتِ فکر قائم کی اور ایک مسلم کے لئے فرض رکھا کہ وہ اپنے فکر کو چلائے جہاں تک کہ اخلاق اور مذہب اجازت دیں۔ مذہب کے پرکھنے کے لئے خوب آزادی سے کام لے لیکن جب پرکھ کر معلوم کرے کہ فلاں مذہب حق ہے تو پھر اس کی پابندی اختیار کرے۔ فرمایا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ۔ ہر شخص حق رکھتا ہے کہ وہ ظاہر کرے جو اس کے خیالات ہیں لیکن جب اس کو معلوم ہو جائے کہ یہ حُکم خدا اور خدا کے رسول اور ان کے قائمقاموں کی طرف سے ہے تو پھر کامل اطاعت کرے۔ اگر کوئی جھگڑے کی بات ہو تو اﷲ اور اس کے رسول سے فیصلہ کرائے۔ یہ درمیانی طریق تھا۔ وہ لوگ جو آزاد مطلق تھے ان کو مقید کیا اور ان کو آزادی دی جو بالکل مقیّد تھے۔ جب تک اسلام کے اس پیش کئے ہوئے طریق پر قدم نہ مارا جائے ترقی نہیں مِل سکتی کیونکہ جب لوگ غلام ہوں گے اور حُریتِ فکر اور حُریتِ عمل سے بالکل محروم ہوں گے اور رسم و عادات کے بندے ہوں گے اور جو کچھ اُنہوں نے باپ دادا سے سُن رکھا ہو گا اسی پر عمل کرنے کو موجبِ نجات و فلاح سمجھتے رہیں گے وہ کچھ بھی نہیں حاصل کر سکیں گے بلکہ مِٹ جائیں گے اور اسی وقت سے مسلمان گرنے شروع ہو گئے اور ان کی اُمیدیں نامرادی سے مبدّل ہو گئیں جب وہ اسی خیال کے پابند ہو گئے۔
اور اس کے مقابلہ میں یورپ کے فلسفہ سے متاثر ہو کر ہر شرعی حکم کو غلط ٹھہرانے والے یا ان پر جرح کرنے والے بھی غلطی کرتے ہیں۔ غیر تو غیرمسلمانوں میں اس قسم کے لوگ ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ نماز ایک فضول چیز ہے ۔ یہ تو ان لوگوں کے لئے تھی جن پر تہذیب کی روشنی نہ پڑی تھی اور جبکہ ابھی تہذیب تمدن کمال کو نہ پہنچے تھے۔ یہ عرب کے وحشیوں کو پابند کرنے کے لئے ایک متوہمانہ طریق تھا جس سے وہ خیال کرتے تھے کہ ہم ان حرکات کے ذریعہ خدا کے سامنے ہو جاتے لیکن اب ہم سمجھ گئے ہیں اس لئے ان ظاہری حرکات کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح مسلمانوں میں ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ وضو کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ ان لوگوں کے لئے تھا جو نہانے دھونے کے پابند نہ تھے۔ اب شرفاء اور یورپ کے تعلیم یافتہ پاک صاف رہتے ہیں اس لئے وضو کی بھی انہی کے لئے ضرورت تھی ہمارے لئے نہیں۔ اسی طرح روزے کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ روزہ کیا ہے محض فاقہ کشی جس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم خدا کی عظمت کے لئے یہ تو کر لیا کریں گے کہ ڈنر دن میں نہ کیا کریں صرف چار دن میں دو تین دفعہ پی لیا کریں گے جس کے ساتھ چند بسکٹ بھی کھائیں گے سارا دن فاقہ کرنے کا کیا فائدہ۔
غرض جس قدر احکام شریعت تھے ان سب کے متعلق کہہ دیا کہ ہم خوب سمجھ گئے ہیں یہ تمام باتیں محض ڈرانے اور مرعوب کر کے خدا کی طرف متوجہ کرنے کے لئے تھیں حالانکہ نماز قید نہ تھی اور روزہ بھُوکا مارنے کے لئے نہ تھا۔ اگر یہ بات ہوتی تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ جو شخص روزہ رکھتا ہے مگر اپنی زبان، اپنی آنکھ، اپنے ہاتھ، اپنے پاؤں کو قابو نہیں رکھتا تو یہ محض فاقہ کشی ہو گی۔4 پھر قرآن کریم روزے کے متعلق یہ نہ فرماتا کہ اگر تم روزہ رکھو گے تو تم کو تقویٰ نصیب ہو جائے گا۔5 نماز وہم کے لئے نہ تھی، نہ وحشیوں کو ظاہری شکل سے متوہم اور متاثر کرنے کے لئے تھی بلکہ نماز میں جس قدر حرکات ہیں وہ سب اپنے اندر حکمتیں پوشیدہ رکھتی ہیں اور ہر حرکت کے رُوحانی فوائد مرتب ہوتے ہیں اور یہ تمام باتیں روحانی ترقی کے لئے مُمد ہیں۔ اسلام نے کوئی حُکم ڈرانے کے لئے نہیں دیا بلکہ اسلام نے جس قدر احکام دیئے ہیں وہ سب کے سب رُوحانی ترقی کے لئے ضروری اور لابُدی ہیں۔ نماز کی ہر ایک حرکت رُوحانیت کو بڑھاتی ہے۔ روزہ بھُوکا مارنے کے لئے نہیں رُوحانیت کو ترقی دینے کے لئے ہے، زکوٰۃ و صدقات محض حکومت کے انتظام میں مدد دینے کے لئے نہیں بلکہ رُوحانیت کے لئے ہیں اسی طرح وضو میں بھی یہی بات ہے۔ پس وضو ان لوگوں کے لئے نہیں جن کو وحشی کہا جاتا ہو یا جو گندے رہتے ہوں بلکہ ان کے لئے ہے اور سب کے لئے جو نہائے دھوئے صاف ستھرے رہتے ہوں۔ صحابہ میں سے بہت سے ہیں جو روزانہ غسل کرتے تھے۔ حضرت عثمان ؓ کے متعلق آتا ہے کہ وہ روزانہ غسل کرتے تھے وہ گندے نہ تھے مگر روزانہ وضو کرتے تھے۔ اسلام نے ناپاکی کو مِٹایا اور پاکیزگی کو قائم کیا۔ پس وضو صرف پاکیزگی کے لئے نہیں بلکہ روحانیت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
جس وقت تک تو یورپ سے آواز آرہی تھی کہ وضو وغیرہ کام محض جاہلوں کو پاک کرنے کے لئے ہوتے تھے ان سے متاثر لوگ بھی یہی آواز اُٹھاتے تھے اور وضو وغیرہ کاموں کو لغو ٹھہراتے تھے مگر اب یورپ نے اس کے خلاف آواز اُٹھانی شروع کی ہے۔ اعصاب کے متعلق جو تازہ تحقیقات ہوئی ہے وہ بتلاتی ہے کہ ہاتھ پاؤں اور مُنہ کو گیلا کرنے سے دماغی حالت میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے۔ دماغ میں جو طاقت ہے اس میں گرمی پیدا ہو کر آنکھوں اور ہاتھوں وغیرہ کے ذریعہ بہتی جاتی ہے لیکن جب ان اعضاء کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے تو ایک سکون پیدا ہوکر توجہ اور یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے۔
لیکن ہم اس کے محتاج نہیں کیونکہ جو شخص ایک کام کے فوائد کو تجربہ کر کے دیکھ لے اس کے لئے کوئی تحقیق زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکتی مثلاً ہم ہر روز روٹی کھاتے ہیں اور ابتدا سے لوگ کھاتے چلے آئے ہیں۔ اب یورپ ہزار تحقیقاتیں کرے اور بتائے کہ خوراک کے اقسام اور ان کے ہضم ہونے کے اوقات اور ان کے اثرات مگر ان سے روٹی کے مفید ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا کیونکہ روٹی کے فوائد تجربہ میں آگئے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کے مہذبوں کے دانت چالیس برس میں گر جاتے یا گرنے شروع ہو جاتے ہیں مگر وہ لوگ جو ان کے تجارب اور تحقیقاتوں سے آگاہ نہیں ان کے دانت مدتوں تک سلامت رہتے ہیں۔ پس باوجود اس کے کہ لوگ خوراک کی تعریف سے ناواقف تھے مگر مختلف خوراکیں استعمال کرتے تھے اور ان سے فائدہ اُٹھاتے تھے کیونکہ تجربہ ان کا مفید ہونا ثابت کرتا تھا۔ پس جو باتیں تجربہ سے ثابت ہوں ان کے متعلق انسان علم اور تحقیقات سے وسعتِ خیال پیدا کر سکتا ہے لیکن تجربہ پر ان کا اور کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ اسی طرح مغربی تحقیقاتیں ہمارے خیالات میں وسعت کا موجب ہو سکتی ہیں۔
علمِ نفس سے انسان چیزوں کو پہچان سکتا ہے مگر یہ چیزیں اس علم کی وجہ سے بڑھ نہیں سکتیں مثلاً نفس والوں نے ہر ایک چیز کی تعریف بتا دی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ پہلے لوگ تعریف نہ جانتے تھے اُنہوں نے اس کے اقسام بتا دیئے اور ظاہر کر دیا کہ دماغ کی اس قدر کیفیات ہوتی ہیں مثلاً ایک تو ہّم ہوتا ہے، ایک تصوّر ، ایک شعور ہوتا ہے، ایک احساسات ہوتے ہیں، ایک جذبات وغیرہ وغیرہ۔ جب سائیکالوجی کا علم نہیں نِکلا تھا اس وقت بھی لوگوں میں یہ باتیں تھیں اور لوگ ان سے کام لیتے تھے مگر ان کو نام معلوم نہ تھے۔
اسی طرح ہم زبانوں کو دیکھتے ہیں مثلاً عربی گرامر جب پیدا ہوئی اس کے قبل کی زبان کو اگر دیکھا جائے تو وہ زیادہ اعلیٰ درجہ کی ہے بہ نسبت بعد کی زبان کے۔ اس سے معلوم ہؤا کہ زبان کو صرف و نحو نے مدد نہیں دی البتہ غیر شخص کے لئے جو اس زبان کو سیکھنا چاہے سیکھنے میں مؤید ہو سکتی ہے مگر اہلِ زبان کے لئے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح نماز پڑھنے والے کے لئے ان باتوں کا معلوم ہونا کہ وضو کے یہ فوائد ہیں اور فلاں بات کے یہ۔ سوائے اس کے علم کو بڑھانے کے اور کوئی نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی۔
غرض یہ ایک غلطی تھی کہ اوّل تو لوگ ہر قسم کی آزادی سے محروم تھے، دوسرے انتہاء درجے کے آزاد تھے۔ اسلام نے وسطی طریق بتایا اور اُصول بتا دیئے کہ کہاں تک آزادی ہے اور کہاں تک قید۔ آجکل لوگ آزادی کے غلط معنے سمجھنے کی وجہ سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو فلاں شخص کے مُنہ پر فلاں بات کہہ دیں اس قسم کی باتیں فساد کا موجب ہوتی ہیں کیونکہ ایسی حالت میں فطرت مقابلہ کے لئے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ کوئی حد ہو خصوصاً ایک معلم کے لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے لئے علم مہیا کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک شخص جو جنگل میں ہو اور تمدن نے اس پر کوئی اثر نہ ڈالا ہو۔ اوّل تو اس میں جھوٹ کی عادت نہ ہو گی تاہم اگر وہ جھوٹ بولے گا تو ہم کہیں گے کہ وہ غلطی کرتاہے کیونکہ اس کو بتلانے والا نہ تھا لیکن جس کو بتایا گیا ہو وہ اگر جھوٹ کا مُرتکب ہو تو وہ قابلِ ملامت ہو گا۔ پس ایک مسلمان کو تمام وہ باتیں جو اسے بجا لانی چاہئیں خدا نے بتا دی ہیں اور پھر اس کے رسول نے ان کی شرح کر دی ہے، پھر ائمہ نے ان کی مزید شرح کر دی ہے۔ اب ایک مسلم کے لئے ترقی کا رستہ کھلا ہے ۔ اس کو قدم اُٹھانا چاہئے اور ان ہدایات پر عمل کرنا چاہئے جو اسلام نے اس کو دی ہیں۔ اگر یہ ان ہدایات اوراس قدر روشنی کے باوجود گرتا ہے تو یہ زیادہ الزام کے نیچے ہے کیونکہ جو شخص اندھیرے میں چلتا ہؤا ٹھوکر کھا کر گرتا ہے وہ مجبور ہے لیکن وہ شخص جس کے لئے ہدایت کا سورج چڑھا یا گیا اس کے لئے گرنے کا مقام نہ تھا اس کو چاہئے تھا کہ وہ غور کرتا اور ان ہدایتوں پر عمل کرتا جو اﷲ اور اﷲ کے رسول اور اس کے نائبوں نے اس کے سامنے رکھیں۔ مسلمانوں کی یہ مثال ہے جیسے ایک شخص اجنبی شہر میں جائے مگر اس کے ساتھ ایک گائیڈ (رہبر) ہو۔ اس کو اس شہر کے جن جن مقامات کی سیر کرنی ہو گی وہ بہت آسانی سے دکھلا دے گا لیکن اگر یہ اس گائیڈ کے ہوتے ہوئے پھر اُلٹے رستوں اور گلیوں میں ٹھوکریں کھائے تو گائیڈ کا کیا قصور۔ اس کی بدقسمتی ہو گی۔ پس جس کے لئے ہدایت نہیں آئی اگر وہ ٹھوکریں کھائے تو وہ مجبور ہے مگر مُسلم کے لئے تو ہدایت آگئی اس کے سامنے راستہ روشن ہے اگر یہ گرے یا بھُولے تو اس کا عُذر معقول نہ ہو گا۔
اﷲ تعالیٰ سب کو توفیق عنایت کرے کہ اس کے تجربہ کئے ہوئے احکام پر عمل کریں اور پھر ترقیات نصیب کرے جو سچّے مومنوں کے لئے اس نے قرار دی ہیں۔ آمین''
(الفضل 8جنوری 1920ء)
1: النساء : 60
2: الاغانی جلد 9 صفحہ 181
3: کتاب الخراج للامام ابو یوسف
4: بخاری کتاب الصّوْم باب مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَولَ الزُّوْرِ (الخ)
5: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ : 184)

68
جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں نصائح
(فرمودہ 26دسمبر 1919ء )
تشہد،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:-
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ١ۖۚ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۔1
پھر فرمایا:-
جلسہ سالانہ پر آنے والے احباب
کا خیر مقدم اور خدا کا شکر
’’اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس کے مامور اور اس کے مُرسل کی قائم کردہ سُنت کے ماتحت پھر اس وقت ہماری
جماعت کے احباب چاروں طرف سے قادیان میں جمع ہوئے ہیں۔درحقیقت لوگوں میں اخلاص کی روح پھونکنا کسی انسان کی طاقت میں نہیں اور اخلاص کی روح اگر کوئی ہستی پھونک سکتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ سب سے بڑے اور اعلیٰ انسان رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہوئے ہیں مگر آپ کو بھی خداتعالیٰ فرماتا ہے لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ2 اگر سب کچھ جو دنیا میں پایا جاتا ہے وہ تمام کا تمام بھی تم خرچ کر دیتے تو ان انسانوں کے اندر وہ محبت اور خلوص پیدا نہیں کر سکتے تھے جو خدا نے پیدا کیا۔
اصل محبت اور اخلاص نبی سے ہی ہوتا ہے
میری یہ بات شاید بعض لوگوں کو سمجھ میں نہ آئے اور
ان کو خیال پیدا ہو کہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف نبیوں سے ہی لوگوں کو خلوص اور محبت نہیں ہوتا بلکہ بعض دوسرے لوگوں سے بھی ہوتا ہے لیکن یہ شُبہ درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اوّل جن اَور لوگوں سے انسانوں کو محبت اور اخلاص ہوتا ہے وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ یعنی بعض دُنیاوی اسباب ایسے خدا تعالیٰ پیدا کر دیتا ہے جن کے نتیجہ میں ان سے محبت پیدا ہو جاتی ہے لیکن حقیقی خلوص اور اصلی محبت لوگوں کی نبیوں سے ہی ہوتی ہے اور یہ اس لئے کہ ان سے جو محبت اور اخلاص ہوتا ہے وہ کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہوتا۔
قیامت کے دن کونسی محبت کام آئے گی؟
دُنیا اپنی بصیرت اور عقل کی کمی کی وجہ سے اس دن کا
انکار کردے جو موت کے بعد آنے والا ہے اور جس دن ہر ایک انسان کو اس کے اچھے یا بُرے اعمال کی جزا یا سزا دینے کے لئے زندہ کیا جائے گا مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ دن آئے گا اور ضرور آئے گا کیونکہ تمام انبیاء نے شہادت دی ہے کہ وہ دن آئے گا جبکہ موت کے بعد تمام انسانوں کو زندہ کیا جائے گا اور نیکی کے بدلے انعام اور بدی کے بدلے سزا کے لئے انسانوں کو خدا تعالیٰ کے حضور حاضر کیا جائے گا۔ اس دن کون سی محبت اور کونسا اخلاص قائم رہے گا؟ کیا وہ جو دُنیاوی اسباب کے ماتحت لوگوں سے ہوتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ بلکہ وہی محبت اور اخلاص قائم رہے گا جو محض دین کے لئے خداتعالیٰ کے نبیوں سے ہو گا۔ اس میں شک نہیں کہ دُنیاوی آدمیوں سے بھی لوگوں کو محبت اور اخلاص ہوتا ہے مگر وہ عارضی ہوتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک زمانہ اور ایک وقت ایسا آنے والا ہے جبکہ وہ محبت ٹوٹنے والی اور وہ تعلق قطع ہونے والا ہے۔ اگر اس دُنیا میں وہ محبت اور تعلق نہیں ٹوٹا اور اس میں کوئی نقص یا کمی واقع نہیں ہوئی تو اس میں ذرّہ بھی شک نہیں کہ دُنیا میں وہ تعلقات جو خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کے احکام کے ماتحت نہیں ہوتے وہ اس دن ضرور ٹوٹ جائیں گے۔ حتّٰی کہ ماں کی محبت جو بچہ کے ساتھ نہایت ہی مضبوط مانی جاتی ہے اس کے متعلق بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ٹوٹ جائے گی۔ ماں کہیں ماری ماری پھرے گی اور بچہ کہیں لیکن وہ اخلاص اور محبت جو خدا تعالیٰ کے لئے خدا تعالیٰ کے نبیوں سے ہو گی وہ اس دن نہیں ٹوٹے گی اور نہ صرف یہ کہ ٹوٹے گی نہیں بلکہ اَور مضبوط ہو جاوے گی۔ خدا تعالیٰ اس دن کے متعلق فرماتا ہے ماں ایک طرف بھاگی بھاگی پھرے گی اور بچّہ دوسری طرف۔3 باپ ایک طرف پریشان اور سرگردان ہو گا تو بیٹا دوسری طرف۔ خاوند ایک طرف مارا مارا پھرے گا تو بیوی دوسری طرف۔ گویا ان کی آپس کی محبت ٹوٹ جائے گی اور ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔ مگر اس وقت لوگ نبیوں سے بھاگیں گے نہیں بلکہ ان کے پاس دوڑے دوڑے جائیں گے اور کہیں گے کہ خداتعالیٰ کے حضور ہماری سفارش کرو تاکہ ہم بچ جائیں۔ تو اس دن جہاں لوگ دوسرے عزیز سے عزیز رشتہ داروں اور پیارے سے پیارے تعلق رکھنے والوں اور معزز سے معزز لیڈروں سے بھاگیں گے اور نہ صرف بھاگیں گے بلکہ ان میں سے بعض سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کریں گے وہاں نبیوں کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ سے سفارش کرو۔ اس سے معلوم ہؤا کہ وہ وقت جبکہ تمام تعلقات قطع ہو جائیں گے اُس وقت اگر کوئی تعلق قطع نہیں ہو گا تو وہ نبیوں کا تعلق ہو گا جو اور مضبوط ہو گا۔ تو حقیقی خلوص اور اصلی محبت انبیاء سے ہی ہو سکتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہوتی ہے۔
پس ہم اﷲ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے کرم، اپنے فضل، اپنے رحم اور عنایت سے ہم میں یہی محبت پیدا کر دی ہے اور ہمیں ہدایت کے اس چشمہ پر پہنچا دیا ہے جو پیاسی اور مضطر دُنیا کو سیراب کرنے کے لئے اس زمانہ میں اس نے خود پھاڑا ہے ورنہ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے دُنیا اور اس کے تمام سازوسامان ہم میں کبھی یہ محبت اور اخلاص پیدا نہیں کر سکتے۔
جلسہ پر آنے والوں کو نصیحت
خدا تعالیٰ کے اس شکر کے بعد میں ان تمام دوستوں کو جو یہاں جمع ہوئے ہیں نصیحت
کرتا ہوں کہ ہر اس چیز کے ساتھ جو خوشی کا موجب ہوتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے۔ اور جہاں پھول پائے جاتے ہیں وہاں خار بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح ترقی کے ساتھ حسد، بُغض اور اقبال کے ساتھ زوال لگا ہوتا ہے۔ غرض ہر چیز جو اچھی اور اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اس کے حاصل کرنے کے راستہ میں کچھ مخالف طاقتیں بھی ہؤا کرتی ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک اس بات کا مستحق ہی نہیں کہ اُسے کامیابی حاصل ہو جب تک وہ مصائب اور تکالیف کو برداشت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کو بھی کچھ نہ کچھ تکالیف اُٹھانی پڑتی ہیں۔ کبھی تو ان پر ایسے ایسے ابتلاء آتے ہیں کہ کمزور اور کچے ایمان والے لوگ مرتد ہو جاتے ہیں اور کبھی چھوٹی چھوٹی تکالیف پیش آتی ہیں مگر بعض کمزور ایمان والے ان سے بھی ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ پشاور سے ایک مہمان آیا۔ اُس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے اور مہمان آپ سے ملتے تھے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے نبیوں سے ان کے متبعین کو خاص محبت اور اخلاص ہوتا ہے اورانہیں نبی کو دیکھ کر اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور وہ کسی اَور بات کی پرواہ نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے مفتی محمد صادق صاحب کی روایت ہے۔ جلسہ کے ایام میں ایک دفعہ جب حضرت صاحب باہر نکلے تو آپ کے ارد گرد بہت بڑا ہجوم ہو گیا۔ اس ہجوم میں ایک شخص نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور وہاں سے باہر نکل کر اپنے ساتھی سے پوچھا تم نے مصافحہ کیا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا اتنی بھیڑ میں کہاں جگہ مل سکتی ہے؟ اس نے کہا جس طرح ہو سکے مصافحہ کر۔ خواہ تمہارے بدن کی ہڈی ہڈی کیوں نہ جُدا ہو جاوے یہ مواقع روز روز نہیں ملاکرتے۔ چنانچہ وہ گیا اور مصافحہ کر آیا۔ غرض نبی کو دیکھ کر انسان کے دل میں ایک خاص قسم کا جوش موجزن ہوتا ہے اور وہ جوش اتنا وسیع ہوتا ہے کہ نبی کے خدمت گاروں کو دیکھ کر بھی اُبل پڑتا ہے۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تو لوگ آپ کے قریب بیٹھنے کے لئے دوڑ پڑتے۔ گو اُس وقت تھوڑے ہی لوگ ہوتے تھے تاہم ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ میں سب سے قریب بیٹھوں۔ اس شخص کے مقدر میں چونکہ ابتلاء تھا اس لئے اسے خیال نہ آیا کہ میں کس شخص کی مجلس میں آیا ہوں۔ اس نے سُنتیں پڑھنی شروع کیں اور اتنی لمبی کر دیں کہ پہلے تو کچھ عرصہ لوگ اس کا انتظار کرتے رہے مگر جب انتظار کرنے والوں نے دیکھا کہ دوسرے لوگ ہم سے آگے بڑھتے جاتے ہیں اور قریب کی جگہ حاصل کر رہے ہیں تو وہ بھی جلدی سے آگے بڑھ کر حضرت صاحب کے پاس جا بیٹھے۔ مگر ان کے جلدی کے ساتھ گزرنے سے کسی کی کُہنی اسے لگ گئی۔ اس پر وہ سخت ناراض ہو کر کہنے لگا اچھا نبی اور مسیح موعود علیہ السلام ہے کہ اِس کی مجلس کے لوگ نماز پڑھنے والوں کو ٹھوکریں مارتے ہیں۔ اِتنی سی بات پر وہ مرتد ہو کر چلا گیا۔ گویا جو چیز ایمان کی ترقی کا باعث ہے اور اب بھی ہو سکتی ہے وہ اس کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو گئی اور اس کی مثال اس جماعت کی سی ہو گئی جس کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب روشنی ہوئی تو ان کا نور جاتا رہا۔4
آپ لوگ جو اِن دنوں قادیان آئے ہیں ان کو مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ کثرتِ ہجوم اور کام کرنے والوں کی قلّت کی وجہ سے آپ لوگوں کو بہت سی تکلیفیں پہنچ جاتی ہیں جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے جلسہ کے قریب میرے خطبے جو اخبار میں چھَپتے ہیں ان میں یہاں کے لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ پوری کوشش اور سعی سے مہمان نوازی کریں اور وہ حتی الامکان بہت کوشش کرتے ہیں۔ مگر پھر بھی اتنے بڑے ہجوم کے انتظام میں وہ کہاں پورے اُتر سکتے ہیں۔ اگر کسی گھر میں ایک مہمان آجائے اور دس کام کرنے والے ہوں تو بھی کئی کوتاہیاں ہو جاتی ہیں مگر جہاں ایک کام کرنے والا ہو اور دس مہمان ہوں وہاں کی کیا صورت ہونی چاہئے لیکن جس طرح آپ لوگوں کی خدمت کرنے والوں کو اس بات کا مزہ آتا ہے کہ جتنا زیادہ بوجھ ان پر پڑے اتنی ہی زیادہ خوشی سے اُٹھائیں۔ اسی طرح آپ لوگوں کو بھی اگر کوئی تکلیف ہو تو اس تکلیف کو عین راحت سمجھنا چاہئے کیونکہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہر نعمت کے ساتھ تکلیف بھی ہؤا کرتی ہے کچھ عرصہ ہؤا مجھے ایک شخص ملا۔ میں نے اسے کہا آپ قادیان کیوں نہیں آتے کہنے لگا قادیان کے رستہ میں یکّہ کے دھکّے ایک بہت بڑا ابتلاء ہے۔ مجھے خیال آیا عجیب انسان ہے اس کو رستہ کے دھکّے ہی بہت بڑا ابتلاء معلوم ہوتے ہیں اگر جلسہ پر آکر دیکھے تو اسے پتہ لگے کہ یہاں کس مزے اور کس لُطف سے دھکّے کھائے جاتے ہیں۔ آخر اس کا انجام کیا ہؤا؟ یہ کہ اختلاف کے وقت مرتد ہو گیا اور یہاں تک اس نے کہہ دیا کہ مرزا صاحب کی تین سَو غلطیاں میں نے نکالی ہیں۔ لیکن یہ مرزا صاحب کی تین سو غلطیاں نہ تھیں بلکہ یہ تین سَو دھکّے تھے جو قادیان نہ آنے کی وجہ سے اسے لگے۔ قادیان کے رستہ کے دھکّے تو جسم کو ہی تکلیف پہنچانے والے تھے مگر ان دھکّوں نے اس کی روح کو چُور چُور کر دیا۔
تو جہاں مَیں نے جلسہ کے موقع پر خدمت اور کام کرنے والوں کو نصیحت کی ہے اور اب بھی کرتا ہوں کہ اپنے آنے والے بھائیوں کو آرام اور آسائش پہنچانے کی پوری پوری کوشش کریں وہاں آنے والے دوستوں کو بھی کہتا ہوں کہ اگر انہیں کوئی تکلیف ہو تو یہی نہیں کہ صبر کریں بلکہ یہ کہ اس سے مزہ محسوس کریں۔ کیونکہ محبت میں جو چیزیں بھی ملتی ہیں ان میں بڑا مزہ ہوتا ہے۔
لقمان کے متعلق لکھا ہے کہتے ہیں آپ ابتدا میں کسی شخص کے ملازم تھے لیکن اس شخص کو آپ سے بہت محبت تھی حتّٰی کہ عشق تک نوبت پہنچی ہوئی تھی۔ ایک دفعہ اس کے پاس بے موسم کا خربوزہ آیا۔ اس نے ایثار اور محبت سے لقمان کو پھانک دی۔ انہوں نے وہ اس طرز سے کھائی کہ چہرہ سے معلوم ہوتا تھا کہ بہت مزہ آرہا ہے۔ اس نے یہ دیکھ کر ایک اَور پھانک دی۔ انہوں نے اسے اور بھی مزے سے کھایا۔ پھر اس نے اور دی۔ آخر اس کو خیال آیا کہ یہ اتنا مزے لے لے کر اس خربوزہ کو کھا رہا ہے یہ خربوزہ نہایت مزیدار ہو گامیں بھی چکھوں۔ یہ خیال کر کے اس نے ایک پھانک کاٹی اور اسے کھانا چاہا۔ مگر جونہی اس کا ٹکڑا منہ میں ڈالا منہ بد مزہ ہو گیا اور قریب تھا کہ اُلٹی ہو جاوے۔ اس پر اس نے حیران ہو کے پوچھا۔ لقمان! تُو نے یہ کیا کِیا؟ اُنہوں نے کہا اگر میں آپ کے ہاتھ سے لے کر مُنہ بناتا تو مجھ سے زیادہ بے شرم کون ہوتا۔ میں نے آپ کے ہاتھ سے اتنی میٹھی چیزیں کھائی ہیں آج اگر ایک کڑوی کھا لی تو کیا ہؤا۔
تو خدا کے رستہ میں جب انسان نکلتا ہے اس وقت جو تکلیفیں اسے اٹھانی پڑیں انہیں خوشی سے برداشت کرنا چاہئے۔ آپ لوگ خدا تعالیٰ کے لئے یہاں آئے ہیں۔ اس زمانہ کا سب سے بڑا انسان جس کے لئے آپ لوگ اپنے گھروں میں نکل سکتے تھے وہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے بعد اس کا ایک جانشین بھی فوت ہو گیا ہے مگر آپ لوگ برابر ہر سال یہاں آتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ آپ کسی انسان کے لئے نہیں آتے بلکہ خدا کے لئے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے لئے جو شخص کوئی تکلیف اُٹھائے اس سے زیادہ خوش قسمت کون ہو سکتا ہے؟ یہ آپ لوگوں کی بڑی خوش قسمتی ہے لیکن چونکہ انتظام میں بہتری اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ نقصوں اور کمیوں کا پتہ لگے اس لئے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جماعتوں کے سیکرٹری ان نقائص کو جو جلسہ کے انتظام میں انہیں معلوم ہوں لکھ بھیجیں تاکہ آئندہ ان کو دور کرنے کی تجاویز کی جائیں۔ یہ کوئی بُری بات نہیں بلکہ منتظمین جلسہ کی اعانت اور مدد ہے۔
قرآن کریم کے معانی کی وُسعت
اس کے بعد میں اپنے دوستوں کو اس آیت کے مضمون کی طرف توجہ دلاتا
ہوں جو ابھی میں نے پڑھی ہے اور وہ یہ ہے وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ١ۖۚ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۔خدا تعالیٰ کے کلام کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ ایک صحابی کہتے ہیں کوئی شخص فقیہہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کو کم از کم ایک ایک آیت کے پچیس معنی نہ آئیں۔ یہ کلامِ الٰہی کی کتنی بڑی وُسعت ہے جو اس صحابی نے سمجھی ہے۔ آجکل مسلمانوں کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ جب کوئی معنی بیان کرے تو کہتے ہیں یہ تفسیر کبیر میں ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو یہ قرآن کریم میں تصرّف کیا گیا ہے اور تصرّف بدعت ہے۔ حالانکہ صحابہ کا یہ حال ہے کہ ایک صحابی کہتے ہیں کہ فقیہہ ہونے کے لئے قلیل سے قلیل یہ شرط ہے کہ ایک ایک آیت کے پچیس پچیس معنی آتے ہوں اور کثیر کی کوئی حد ہی نہیں اور جو خدا تعالیٰ کے کلام کی حد مقرر کرے وہ نادان ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کے فعل کی کوئی انسان حد نہیں مقرر کر سکتا۔ دنیا میں کون سی چیز ہے جس کی حد کو لوگ پہنچ چکے ہیں؟ ایک بھی نہیں۔ انسانی وجود ہی ہے۔ پانچ چھ فٹ کا انسان ہے اس کے جسم کے متعلق ہی نئی نئی باتیں نکلتی رہتی ہیں۔ تو خداتعالیٰ کے کلام کی کوئی حد بندی نہیں کر سکتا۔ اس وقت مَیں اس آیت کے ایک ایسے معنی کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں جو عام لوگوں کو معلوم نہیں ہیں۔
انسانی طبیعت کا میلان
اگر انسان کی طبیعت کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام طور پر دو چیزوں میں سے ایک چیز کی طرف
جھکی ہوئی ہوتی ہے۔بعض لوگوں کا میلان خوشی اور امید کی طرف ہوتا ہے اور بعض کا رنج اور نا امیدی کی طرف۔ جن لوگوں کا میلان خوشی کی طرف ہوتا ہے ان کو ہم دیکھتے ہیں کہ مصیبت اور دُکھ کے وقت بھی خوش و خرم ہی نظر آتے ہیں۔ چھوٹی عمر میں مَیں حضرت خلیفہ اوّل کے پاس قرآن کریم کے معنی پڑھنے کے لئے جایا کرتا تھا۔ ایک دن آپ نے مجھے ایک عورت کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس کو ہر بات پر خواہ وہ خوشی کی ہو یا غمی کی، ہنسی ہی آتی ہے۔ چنانچہ آپ نے میرے سامنے اس سے پوچھا تیرے بڑے بیٹے کا کیا حال ہے؟ اس کے جواب میں اس نے ہنستے ہنستے اور جس طرح عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات کرتے وقت شرم سے اپنے منہ کو ڈھانپ لیتی ہیں اسی طرح اس نے مُنہ پر ہاتھ رکھ کر کہا وہ تو مر گیا ہے۔ اسی طرح آپ نے اس کے تین چار اور رشتہ داروں کے نام لئے۔ ہر دفعہ وہ ہنس کر کہے وہ مر گیا ہے۔ آپ نے مجھے بتایا کہ یہ ایک بیماری ہے۔
تو ایک اِس قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور دوسرے ایسے کہ ہر حال میں روتے اور چِلّاتے رہتے ہیں۔ ان کا نقصان ہو تو روتے ہیں بیٹا پیدا ہو تو روتے ہیں کہ کہاں سے کھلائیں گے؟ آگے ہی بہت سا کُنبہ ہے۔ شادی ہو تو روتے ہیں کہ لڑکی کو اس کے والدین نے یہ نہیں دیا وہ نہیں دیا۔ خود لڑکی بیاہتے ہیں تو روتے ہیں کہ زیور کہاں سے دیں؟ ان کی ترقی ہو تو روتے ہیں، تنزل ہو تو روتے ہیں۔ مال مِل جائے تو خوش نہیں ہوتے کہ دُنیا کے بکھیڑے بڑھتے جاتے ہیں۔ مال چلا جائے تو چلّاتے ہیں۔ لیکن یہ عادت کسی میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور کسی میں کم۔ اور سوائے ان لوگوں کے جو خدا تعالیٰ کے ہو کر صراط مستقیم پر قائم ہو جاتے ہیں دُنیا میں ایسے ہی لوگ ملیں گے جو اِن دونوں قسموں کے آدمیوں میں سے ایک قسم میں داخل ہوں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ یہ کہ لوگ عُجب میں مبتلا ہو جاتے اور تکبر کرنے لگ جاتے ہیں اور خداتعالیٰ سے مستغنی ہو جاتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ ہمیں کچھ اَور بھی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور وہ نہیں جانتے کہ خدا بھی ہے جس کی مدد کی ہمیں ضرورت ہے۔ وہ ہر کام اور ہر فعل میں اپنے ہی نفس پر نظر رکھتے یا دنیا کے اسباب ان کے سامنے ہوتے ہیں۔ مصیبتیں اور تکلیفیں ان کی آنکھیں کھولنے کا باعث نہیں ہوتیں وہ ان پر اسی طرح گزر جاتی ہیں جس طرح تیل ملی ہوئی چیز پر سے پانی گزر جاتا ہے۔ ان کے دل میں حددرجہ کا عُجب غرور اور تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے نفس اور اسباب کی طاقت پر نظر کر کے خدا کو بھول جاتے ہیں۔ دوسرا وہ گروہ ہوتا ہے جو کبھی خوشی نہیں محسوس کرتا اور نہ صرف اپنے آپ کو بالکل بے بس اور مجبور سمجھتا ہے بلکہ خداکو بھی ایسا ہی یقین کر لیتا ہے۔ یہ دونوں گروہ سخت گمراہی اور ضلالت میں ہوتے ہیں اور دونوں ایسے ہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے سزا پائیں۔ وہ گروہ جو عُجب اور تکبر کرتا ہے اس کو تو خیال ہی نہیں آتا کہ کوئی ایسا خدا بھی ہے جو مجھے سزا دے سکتا ہے اور کوئی ایسا کام بھی ہو سکتا ہے جس میں مجھے اس کی مدد اور ہدایت کی ضرورت ہے۔ اور وہ گروہ جو مایوس اور ناامید ہو جاتا ہے اس کو وہم بھی نہیں گزرتا کہ خداتعالیٰ ایک ایسا سہارا ہے جو مجھے دُکھ اور تکالیف سے بچاسکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس آیت میں ان دونوں قسم کے لوگوں کا ذکر کرتا ہے۔
انسان کے اندر پیدا ہونے والا
پہلا وسوسہ اور اس کا ازالہ
فرماتا ہے وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ١ۖۚ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۔ہم نے انسان کو پیدا کیا اور خوب
جانتے ہیں کہ انسان کے اندر اس کا نفس کیسے کیسے وسوسے پیدا کرتا ہے۔ دو قسم کے وسوسے انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک وسوسہ عُجب اور تکبر کا اور خدا سے استغناء کا ہوتا ہے۔ ہم اس کو خوب سمجھتے ہیں۔ ایسی طبیعت والے انسان کو ہم ایک نسخہ بتاتے ہیں اور وہ یہ کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں خود ہی سب کچھ کر سکتا ہوں مجھے خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن کیا وہ نہیں جانتا کہ اس کا سارا زور اور قوت دماغ ہی پر منحصر ہے۔ ورنہ انسان اور لکڑی میں کیا فرق ہے؟ یہی کہ انسان میں دماغ ہے اور لکڑی میں نہیں۔ مگر جانتے ہو دماغ کیا چیز ہے اور کیونکر اس میں قوت اور طاقت پائی جاتی ہے؟ یہی دماغ مُردہ میں بھی ہوتا ہے مگر کیا وہ اس سے کچھ کام لے سکتا ہے؟ اس کے سامنے اسے کوئی ہزار گالی دے جواب تک نہیں دے سکتا، ایک چھوٹا بچہ بھی اگر اس کی ٹانگ کاٹ لے تو اسے ہٹا نہیں سکتا، اس کا گھر کوئی لُوٹ لے تو اسے روک نہیں سکتا۔ دماغ تو اس میں بھی موجود ہوتا ہے۔ پھر وہ کیا چیز ہے جو اس میں نہیں ہوتی اور جس کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ دماغ سے کوئی کام نہیں لے سکتا۔ یہی کہ دل سے دماغ تک جو سلسلہ قائم ہوتا ہے وہ ٹوٹ جاتا ہے اور دل سے جو خون دماغ کو پہنچ رہا ہوتا ہے وہ رُک جاتا ہے۔ چنانچہ عارضی طور پر بھی جب خون پہنچنا بند ہو جاتا ہے تو انسان بے ہوش ہو جاتا ہے اور دماغ بیکار ہو جاتا ہے۔ تو فرمایا کہ ایسا انسان نہیں جانتا کہ ہمارا اس کے ساتھ حَبْلُ الْوَرِیْد یعنی اس دل اور دماغ کے سلسلہ سے بھی زیادہ تعلق ہے کیونکہ حَبْلُ الْوَرِیْد کا تو اگر خون بند ہو جائے تو انسان کے دماغ پر اثر پڑتا ہے لیکن ہمارا اثر اس پر بلاواسطہ پڑتا ہے اور خود حَبْلُ الْوَرِیْد ہماری پیدا کردہ ہے پھر وہ خون بھی جو دماغ کو پہنچاتی ہے اور دماغ بھی ہمارا ہی پیدا کردہ ہے۔ جب یہ بات ہے تو پھر وہ عُجب اور تکبر کس بات پر کرتا ہے۔ ہم اگر اس سے اپنی مدد بند کر دیں تو پھر وہ چیز ہی کیا ہے؟ حَبْلُ الْوَرِیْد چلتی ہی رہتی ہے اور خدا تعالیٰ کا حکم ہو جاتا ہے کہ فلاں پاگل ہو جائے تو دماغ کسی کام کا نہیں رہتا ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کاش! اسے موت آجائے۔ ایک پردہ دار عورت ہوتی ہے اسلامی پردہ نہ سہی عام پردہ جو ستر کو ڈھانپنے کے لئے ہوتا ہے وہی سہی مگر وہ پاگل ہونے پر کپڑے پھاڑ کر ننگی بازار میں نکل جاتی ہے۔ اُس وقت اس کے رشتہ داروں کی جو حالت ہوتی ہے وہ اُنہی سے پوچھنی چاہئے۔ اِسی طرح ایک لڑکا جسے سارا خاندان اپنا سہارا سمجھتا ہے جب پاگل ہو کر کسی کو مارتا ہے اور کسی سے مار کھاتا ہے، کسی کو گالیاں دیتا ہے اور کسی سے سارے خاندان کو گالیاں دلاتا ہے تو وہی رشتہ دار جو اس کے لئے جان تک دینے کو تیار ہوتے ہیں کہتے ہیں کاش یہ مر جاتا۔
تو اﷲ تعالیٰ کاانسان سے تعلق حَبْلُ الْوَرِیْد سے بھی زیادہ ہے۔ اس لئے فرماتا ہے انسان یہ ضعیف اور کمزور انسان، ہم سے کیونکر اپنے آپ کو مستغنی سمجھ لیتا ہے۔ بھلا اس کی بھی کوئی طاقت، کوئی زور اور ہمت ہے؟ یہ تو ہماری مدد اور ہمارے سہارے کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ پس یہ تلوار اس قسم کے وسوسہ سے کاٹنے کے لئے ہے جو انسان میں تکبر، عُجب اور غرور پیدا کر کے خدا تعالیٰ سے مستغنی کر دیتا ہے۔
دوسرا وسوسہ
اب رہا دوسرا مایوسی کا وسوسہ اس کا جواب دیتا ہے۔ فرماتا ہے:-
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ١ۖۚ
وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۔ہم نے انسان کو پیدا کیا ورنہ یہ تو لَمْ يَكُنْ شَيْـًٔا مَّذْكُوْرًا 5 تھا۔ ہم نے اسے انسان بنایا۔ پھر ہم خوب جانتے ہیں جب یہ کام کرنے لگتا ہے تو اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے مقابلہ میں یہ مصیبت ہے، یہ تکلیف ہے، یہ مشکل ہے میں کیا کر سکتا ہوں؟ فرمایا وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ١ۖۚ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۔کیا نادان ہے۔ کیا بچہ ماں کے ہوتے ہوئے مایوس ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ بچہ رات کو ڈر کر چلّاتا ہے مگر جب ماں محبت سے ہاتھ پھیر کر کہتی ہے مَیں پاس ہی ہوں تو چپ کر کے سو جاتا ہے اور یا تو وہ بِلبلاتا ہؤا اُٹھتاہے یا ایسی آرام کی نیند سو جاتا ہے کہ گویا کوئی مصیبت اس پر آئی ہی نہیں۔ مگر کیوں؟ اس لئے کہ ماں نے اسے کہا کہ میں پاس ہوں۔ حالانکہ ماں کی طاقت ہی کیا ہوتی ہے مگر بچہ اس کی ہمدردی، اس کی محبت اور کسی قدر اس کی طاقت کو دیکھ کر اپنے آپ کو بالکل محفوظ سمجھ لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ماں تو پھر بھی پرے ہوتی ہے مگر ہم توانسان سے حَبْلُ الْوَرِیْد سے بھی قریب ہیں۔ پھر کیوں انسان مایوس ہوتا ہے؟ ایک بچہ ماں کو پاس نہ سمجھ کو بِلبلاتا ہے مگر ماں کو پاس پاکر اطمینان کی نیند سو جاتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بندہ خدا کے ہوتے ہوئے بِلبلاتا ہے اور جب خدا اتنا قریب ہے کہ اس کے ذاتی جسم کی حفاظت کی چیزوں سے بھی زیادہ قریب ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میرے لئے یہ مصیبت ہے، یہ تکلیف ہے۔ جب خدا اس کے اتنا قریب ہے تو پھر کیسی مصیبت اور کیسی تکلیف۔
جلسہ پر آنے والوں کو کیا کرنا چاہئے؟
آپ لوگ جو یہاں جمع ہوئے ہیں کسی غرض کے لئے ہی جمع ہوئے
ہیں اور میں نے بتایا ہے لوگوں کی عموماً دوقسم کی طبیعتیں ہوتی ہیں۔ سوائے ان کے جن کو خداتعالیٰ بچاتا ہے اور جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح حنیف ہو جاتے ہیں۔ آپ لوگ جس کام کے لئے یہاں آئے ہیں اس طبعی میلان کے ماتحت جس کا مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے ممکن ہے آپ میں سے بعض وہ ہوں جو سمجھتے ہوں ہم اس کے متعلق یوں کریں گے یا یوں کریں گے اور ممکن ہے بعض وہ ہوں جو سمجھتے ہوں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہماری مثال تو اس پنجابی مثل کے مطابق ہے ''ڈھائی بُوٹیاں تے پھتّو باغبان'' شیطان ہمارے مقابلہ پر کھڑا ہے اور اس کی ذرّیت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ بھلا کبھی یہ ممکن ہے کہ سب لوگوں کو ہم اپنا ہم خیال بنالیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کیا پدّی اور کیا پدّی کا شوربا۔ ممکن ہے بعض لوگوں کے یہ خیال ہوں۔ چونکہ جن لوگوں کے دلوں میں اس قسم کے خیالات ہوں وہ کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں دو تلواریں دی گئی ہیں ان کے ذریعہ جس کسی کے دل میں ان وسوسوں میں سے کوئی ہو وہ اس کو کاٹ ڈالے۔ کیونکہ وہ وسوسہ ایک ہیبت ناک دیو ہے جو اِن کی جان اور ایمان کے کھانے کے لئے آیا ہے۔ پہلا وسوسہ جن لوگوں کے دلوں میں ہو وہ سمجھیں کہ خدا ہی ہے جو یہ کام کر سکتا ہے ہم کیا اور ہماری طاقتیں کیا؟ وہ اپنے دشمن کو دیکھیں اور اپنی طاقتوں کو دیکھیں اور یاد رکھیں کہ خدا ہی ان کا کام کرتا ہے۔
پھر دوسرے وسوسہ والے جو یہ خیال کرتے ہوں کہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کو میں کہتا ہوں وہ مایوس اور ناامید کیوں ہوتے ہیں؟ جب ماں کے ہوتے ہوئے بچہ مایوس نہیں ہوتا تو ہم خدا کے ہوتے ہوئے کیوں مایوس ہوں؟ پس جن کے دل میں یہ وسوسہ ہو وہ بھی نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ کی تلوار سے کاٹ ڈالیں۔ کیونکہ مایوسی ایک خطرناک کِرم ہے جو امید اور کامیابی کے درخت کو کھاجاتا ہے۔ تم سمجھو کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی سمجھو کہ ہم اس تلوار کی طرح ہیں جو ایک بہادر اور جری کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اپنے آپ تلوار کیا کر سکتی ہے۔ ایک بچہ بھی توڑ کر اسے خراب کر سکتا ہے مگر جب بہادر کے ہاتھ میں آتی ہے تو کشتوں کے پُشتے لگا دیتی ہے۔ پس یہاں جو امور آپ لوگوں کے سامنے پیش کئے جائیں ان کے متعلق یہ نہ کہو کہ ہم ان کو کر دیں گے بلکہ یہ کہو خدا انہیں کرے گا۔ اور خدا تعالیٰ ہی کی مدد کرتی ہے جو کچھ ہوتا ہے مگر ساتھ ہی دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کو دیکھ کر مایوس اور ناامید نہ ہو۔ کیونکہ خدا نے ہی کام کرنا ہے۔ میرے نزدیک تو جو شخص مایوس ہوتا ہے اس میں بھی عُجب ہی پایا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ فلاں کام میں نے ہی کرنا تھا۔ اب چونکہ میں نہیں کر سکتا اس لئے وہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن جس کی نظر خدا تعالیٰ پر ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ اگرچہ میں کچھ نہیں ہوں مگر خداتعالیٰ کر سکتا ہے اور گو میں کمزور، نیم جان اور مُردہ ہوں مگر میں خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہوں اور گو میں اپنی طاقت کے لحاظ سے کچھ نہیں ہوں مگر خداتعالیٰ کے سہارے اور مدد کے لحاظ سے بہت بڑا اور طاقتور ہوں۔ دیکھو انسان سمندروں کو طے نہیں کر سکتا۔ مگر جہازوں کے ذریعہ طے کرتا ہے۔ پس جب لکڑی اور لوہے کے ذریعہ سمندر کو انسان طے کر لیتا ہے تو کیا زندہ خدا کے ذریعہ مصیبتوں، مشکلوں اور تکلیفوں کے سمندروں کو طے نہیں کر سکتا؟ ضرور کر سکتا ہے۔ پس تم لوگ ان دونوں خیالوں کو لے کر کھڑے ہو جاؤ کہ اوّل ہم خود کچھ نہیں کر سکتے خدا ہی کرے گا اور دوسرے یہ کہ ہم سب کچھ خدا کے سہارے اور اسی کی مدد سے کریں گے اور کوئی مصیبت، کوئی مشکل اور کوئی تکلیف ہمارے راستہ میں نہیں ٹھہرسکے گی۔
غرض یہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی تلوار ہے۔ اس کو استعمال کرو اور اس کے بعد جلسہ کے کاموں میں مشغول ہو جاؤ۔
خدا کرے کہ ہم اس ہتھیار سے کام لیں تاکہ اس کے فضل سے ہم میں نہ تو عُجب پیدا ہو کہ ہم سمجھیں سب کچھ ہم کرلیں گے اور نہ مایوسی پیدا ہو کہ ہم خیال کریں کہ ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔
چونکہ آج سے جلسہ شروع ہے اس لئے جمعہ کے بعد عصر کی نماز بھی پڑھادی جائے گی تاکہ جلسہ کی کارروائی آسانی سے ہو سکے۔‘‘ (از خطبات محمود جلد 11 صفحہ 542 تا 553)
1: ق:17 2: الانفال:64
3: يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِۙ۔ وَ اُمِّهٖ وَ اَبِيْهِۙ۔وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِيْهِؕ۔(عبس :35 تا 37)
4: فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ (البقرۃ: 18)
5: الدھر:2



69
جلسہ پر آنے کی غرض پوری ہونی چاہئے
(فرمودہ 2جنوری1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’زمانہ کے تغیرات اس انسان کے لئے جو دل رکھتا ہے اور اس کے لئے جسے فکر کی عادت ہے ایک عجیب سبق آموز چیز ہیں۔ ان کے اندر عبرتیں ہیں، ان کے اندر وعظ ہیں، ان کے اندر نصیحتیں ہیں۔ جہاں ترقیات کے ذرائع ہوتے ہیں وہاں تنزّلات سے بچنے کے لئے تدابیر بھی ہیں اور ہر ساعت جو انسان پر گزرتی ہے، ہر دن جو انسان پر طلوع ہوتا ہے، ایک استاد ہوتا ہے، ایک راہنما ہوتا ہے۔ وہ گزر جاتا ہے لیکن جس طرح میدان میں مرنے والا گزرتا ہے اور پیچھے والوں کے لئے فائدہ کا موجب ہو جاتا ہے اسی طرح وقت کی گھڑی مَر جاتی ہے مگر دوسرے کے لئے مفید اور بابرکت چیز ہو جاتی ہے۔ وقت گزرنا مجھے بعینہٖ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ مونگے کا جزیرہ بنتا ہے۔ ایک کیڑے پر دوسرا کیڑا مرتا چلا جاتا ہے اور بے شمار اسی طرح ایک دوسرے پر مرتے رہتے ہیں اور ایک بڑے زمانے کے بعد وہ ایک جزیرہ بن کر سطح سمندر پر نمودار ہو جاتا ہے جس پر لاکھوں آدمی بستے ہیں۔ یہ اتنا بڑا جزیرہ کہاں سے بن گیا؟ ان چھوٹے چھوٹے حقیر کیڑوں کے جسموں سے جو انفرادی شکل میں بہت ہی ادنیٰ چیز تھے وہ ایک دوسرے پر مرتے اور ہزاروں سالوں کے بعد سمندر سے ایک ایسا جزیرہ بن کر نکلتے کہ اس پر آدمی بستے اور آباد ہوتے ہیں۔
وقت کی گھڑیاں بھی مونگے کی طرح ایک دوسرے پر مرتی چلی جاتی ہیں۔ ان سے بھی آدمی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں مگر وہی جو فائدہ اُٹھا نے کی کوشش کریں اور جو شخص فائدہ نہ اُٹھائے اس کے لئے گزرنے والی گھڑیاں اس فوج کی طرح ہوتی ہیں جو شکست کھاتی ہے کہ اس کا ہر ایک مرنے والا صف کو خالی کرتا چلا جاتا ہے اور شکست اس کے قریب ہوتی جاتی ہے اسی طرح گھڑیاں گزرتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی خطرہ اور شکست قریب ہوتی چلی جاتی ہے مگر جن سے فائدہ اُٹھایا جائے وہ فتح مند فوج کی مانند ہو جاتی ہیں۔ پس وقت ایک بڑی عبرت کی چیز ہے۔
ہم پر بھی ایک وقت پچھلے دنوں گزرا ہے کہ ہزار ہا میل سے ہمارے احباب یہاں اکٹھے ہوئے اور ہزار ہا کی تعداد میں مرد، عورتیں، بوڑھے ، جوان اور بچّے آئے۔ غرض ہر طبقہ اور ہر جگہ سے آئے اور یہاں جمع ہو کر اکثر نے سنا اور بہت سے چلے گئے اور کچھ باقی ہیں۔اب طبعاً ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اجتماع کس غرض سے ہؤا۔ مومن کی ہر ایک چیز قیمتی ہوتی ہے۔ اس کا مال قیمتی، اس کا وقت قیمتی۔ پس ہم کیوں جمع ہوئے ؟ کس لئے یہاں آئے؟ کیا نتیجہ ہؤا؟ کس لئے یہاں آئے؟ اس کو ہر ایک شخص اپنے طور پر خود ہی حل کرسکتا ہے کیونکہ کسی کو دوسرے کے دل کا حال معلوم نہیں ہو سکتا۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اُسامہ ؓ کو فرمایا ہے ھَلْ شَقَقْتَ قَلْبَہٗ1 کیا تُو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا ہے؟ پس جہاں اکثر لوگ محض خدا کی خوشنودی اور رضا کے لئے آتے ہیں وہاں اِن دنوں چور بھی آجاتے ہیں۔ پس میں اس کا جواب نہیں دے سکتا ہر ایک شخص اپنی حالت کو دیکھ کر خود ہی بتلا سکتا ہے کہ وہ کیوں آیا دوسرا نہیں بتلا سکتا۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کس لئے آنا چاہئے تھا اگر ہم یہ بتلائیں بھی کہ کس غرض سے یہاں آئے تو ممکن ہے کہ آنے والے کی غرض اس سے اعلیٰ ہو یا ادنیٰ ہو۔ پس ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کس لئے آنا چاہئے تھا اور وہ یہی ہے کہ خدا کی رضا جوئی کے لئے آنا چاہئے تھا۔اس کا م کو چلانے کے لئے آنا چاہئے تھا جو خدا نے جماعت احمدیہ کے سپرد کیا ہے۔ اب رہا یہ کہ کیا سکھایا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو جو خدانے چاہا وہ یہاں کہا گیا۔ بعض نے ضروری باتیں بیان کیں اور دوسروں نے سُنیں۔ نتیجہ کیا ہؤا؟ سب سے اہم سوال اصل میں نتیجہ کا سوال ہی ہے کیونکہ جو کچھ گزر گیا وہ تو گزر ہی گیا ۔ اب آئندہ کے متعلق سوال ہے اس موقع پر جو کچھ بتایا اور سُنایا گیا اس میں سے بعض علم کو بڑھانے والی باتیں تھیں، بعض رُوحانیت کو ترقی دینے والی اور بعض آپس کے معاملات کے متعلق اور بعض تبلیغ سے تعلق رکھنے والی۔ یہ چار قسم کی باتیں تھیں جو سنی اور سنائی گئیں۔
پس اب قابلِ غور سوال ہمارے سامنے یہ ہے کہ اس آمد سے آنے والوں نے نتیجہ کیا نکالا اور فائدہ کیا اُٹھایا اور آئندہ علم کی ترقی کے لئے کیا طریقِ عمل سوچا ہے کیونکہ اگر علم کو یاد رکھنے کی کوشش نہ کی جائے تو علم کام نہیں دے سکتا۔ پس مَیں آپ لوگوں کو توجہ دلاؤں گا کہ جو کچھ آپ نے سُنا ہے اس کو یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ علم کی مثال تصویر کی سی ہے کہ جُوں جُوں مصوّر اس پر رنگ پھیرتا جاتا ہے وہ شوخ ہوتی جاتی ہے اور ایک دفعہ کا رنگ پنسل کے رنگ کی مانند ہوتا ہے جو جلد مِٹ جاتا ہے، دوسرا سیاہی کے قریب۔ اسی طرح ترقی کرتے کرتے نقش کی مانند ہو جاتا ہے جو اندر داخل ہو جاتا ہے اور پھر ترقی ہو تو ایسا ہوتا ہے جیسے کھود کر نقش بنائے جائیں۔ اسی طرح جو باتیں رُوحانیت سے تعلق رکھتی ہیں اگر ایک آدھ دفعہ سُن یا پڑھ لی جائیں تو وہ بھی پنسل کی لکیر کی طرح ہوتی ہیں لیکن جُوں جُوں ان پر غور کرتے چلے جاؤ اور ان کو استعمال میں لاؤ وہ ذہن میں بیٹھتی چلی جاتی ہیں۔ تو جب تک علم پر عمل نہ کیا جائے علم مفید نہیں ہو سکتا۔ پس جو باتیں آپ کو روحانیت کے متعلق بتائی گئی ہیں ان پر عمل کرو، علم کی باتوں کو دہراؤ، تبلیغ کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے اس کی پابندی کرو، معاملات کو درست بناؤ۔ اگر ان چاروں باتوں کو عمل میں نہ لایا گیا تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ آنے والوں نے اپنے مالوں کو ضائع کیا، اپنے وقتوں کو ضائع کیا، اپنے جسموں کو تکلیف میں ڈالا جس کا کچھ بھی فائدہ نہ ہؤا۔ پس میں ان تمام دوستوں کو جو یہاں موجود ہیں خواہ وہ قادیان کے ہوں یا بیرونجات کے اور ان تمام کو جو بیرونجات میں ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ ان باتوں سے فائدہ اُٹھائیں اور خصوصاً ان دواُمور کو فراموش نہ کریں۔ اوّل اندرونی اصلاح اور دوسرے بیرونی اصلاح۔ اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں تو امن نہیں بلکہ ہلاکت ہے۔ پس جماعت کو چاہئے کہ جلسہ سے کار آمد فائدہ حاصل کرے تاکہ ان کے لئے جلسہ میں آنا بابرکت ثابت ہو اور آئندہ ترقی کے لئے مُمِد و معاون۔’’ (الفضل 19جنوری 1920ء)
1: مسلم کتاب الایمان باب تَحْرِیْم قَتْلِ الْکَافِرِ بَعْدَ قَوْلِہٖ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲ

70
لندن میں مسجد
اﷲ کے فقیروں کا بادشاہوں پر فتح پانے کا عزم
(فرمودہ 9جنوری1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اﷲ کے فضل اور کرم سے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے ہمارا ارادہ ہے اور جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے کہ خاص لنڈن میں یا لنڈن کے پاس ایک مسجد تیار کریں۔ اس کے متعلق آج سے تین دن پہلے مغرب کے بعد مَیں نے قادیان میں تحریک کی۔ پھر پرسوں دن میں تمام دوستوں کو باقاعدہ جمع کر کے تحریک کی۔ چونکہ جمعہ کے روز نواحات سے احمدی دوست جمعہ میں شمولیت کے لئے آتے ہیں اس لئے میں ان کی اطلاع کے لئے اور نیز ان کی بھی اطلاع کے لئے جنہوں نے پہلے نہ سنا ہو یا سنا ہو تو پوری واقفیت نہ ہوئی ہو یا پوری واقفیت تو ہوئی ہو مگر توجہ نہ کی ہو یا توجہ تو کی ہو مگر مناسب توجہ نہ کی ہو جس قدر کہ اس کام کے لئے ضروری ہے ان سب کے لئے آج میں خطبہ جمعہ میں بھی اسی امر کے متعلق توجہ دلاتا ہوں۔
یہ باتیں مَیں پہلے بتا چُکا ہوں کہ ولایت میں احمدیہ مسجد کا بننا ضروری ہے اور کیوں ضروری ہے؟ آپ کو معلوم ہے کہ وہاں ہم ہزاروں روپیہ خرچ کر رہے ہیں اس وقت تک کہ وہاں مشن قائم ہوئے چھ سال ہو چکے ہیں اندازاً پچاس ہزار روپیہ ہمارا خرچ ہو چُکا ہے اور ہر سال سات آٹھ ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اتنے بڑے خرچ کے بعد جب مفاد کا وقت ہو تو خاص کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس وقت اس کام سے ہاتھ اُٹھا لیا جائے یا اس خرچ ہوچکنے کے بعد جس ضرورت کو پورا کرنے کی وہاں حاجت ہو اس کو پورا نہ کیا جائے تو اس کی مثال ایسی ہی ہو گی کہ کوئی شخص ایک مکان بنانے کی تجویز کرے ، پہلے بنیادیں کھودے اور ان کو عمدہ طور پر بھردے اور فرش بھی لگاوے اور اونچی دیواریں بھی کھڑی کر دے مگر ان دیواروں پر چھت نہ ڈالے تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ دیواریں گر جائیں گی۔ پس جہاں خرچ ہو چکتا ہے اس سے نتائج حاصل کرنے کے وقت خاص قسم کی کوشش اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسی حالت میں جو بھی خرچ ہو وہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر پہلا خرچ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک زمیندار ایک کھیت تیار کرتا ہے، اس میں ہل چلاتا اور سہاگہ پھیرتا ہے، پھر اس میں بیج ڈالتا ہے اور مہینوں اس پر محنت کرتا اور پانی دیتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر بارش بند ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں زمیندار خرچ کی مطلق پرواہ نہیں کرے گا بلکہ دُگنا تِگنا خرچ کر کے بھی پانی اپنے کھیت کو دلوائے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس وقت پانی کھیت کو نہ دیا گیا تو وہ تمام محنت اور تمام رقم ضائع ہو جائے گی جو اس وقت تک کھیت کی تیاری میں صرف کی گئی ہے۔ اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کے لئے قرآن کریم میں ایک مثال بیان کی گئی ہے۔ مثلاً ایک بڑھیا گرمی کے موسم میں سوت کاتتی ہے اس لئے کہ سردی میں اس سے کپڑے بنائے گی مگر جب کات کر تیار کر لیتی ہے اور وقت سردی کا آتا ہے تو بجائے اس سوت کو عمدہ مصرف میں لانے کے قینچی لے کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ پس اسی طرح ہم نے ولایت میں تبلیغ کے لئے روپیہ خرچ کیا ہے۔ اب اس کے نیک نتیجہ کے نکلنے کے لئے ان اسباب کا مہیا کرنا ضروری ہو گیا ہے جس سے وہ کام مستحکم اور اس کام کے عمدہ نتائج برآمد ہوں اور اس کے لئے اس ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے کہ لندن میں ایک مسجد تیار کی جائے۔
علاوہ اس بات کے اور بھی ضروریات ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ کُفر کا مرکز ہے اس کے مقابلہ میں جب تک ہماری وہاں مسجد نہ ہو کام کامیابی کے ساتھ نہیں ہو سکتا اور یہ درست بات ہے کہ جہاں مساجد تیار کی جاتی ہیں وہاں اﷲ تعالیٰ کی خاص برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ نیز جیسا کہ مَیں نے بتایا وہاں اب تک جماعت کا جس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے اب ایسے سامانوں کا مہیا نہ کرنا اپنے اس تمام روپیہ کو ضائع کرنا ہے اور اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے ایک لغو اور بے معنی کام کیا جو مومن کی شان سے بعید ہے اور مومن کا مال نہایت قیمتی ہوتا ہے اس لئے اس کی حفاظت بہت ضروری ہوتی ہے۔ پس وہاں مسجد کا ہونا آئندہ نیک نتائج کے نکلنے کے لئے ضروری ہے تاکہ مستقل طور پر وہاں جماعت کی بنیاد قائم ہو جائے۔
مَیں نے اس تحریک کو اوّلاً یہاں کے دوستوں کے آگے پیش کیا۔ چنانچہ اب تک گیارہ ہزار روپیہ چندہ ہو چُکا ہے۔ گویا ساری دُنیا کے احمدیوں کے لئے جس قدر چندہ رکھا گیا ہے اس کا تیسرا حصّہ قادیان نے دے دیا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ مرکز کی جماعت اخلاص میں پیچھے نہیں آگے ہے اور یہ ایک اُصول ہے کہ جو جماعتیں قائم رہنے والی ہوتی ہیں ان کے مراکز میں اخلاص ہوتا ہے اور اخلاص مرکز سے ہی نِکلا کرتا ہے اور جب جماعتیں بگڑا کرتی ہیں تو مراکز میں ہی خرابی پیدا ہو جایا کرتی ہے۔ پس مرکز ہی اخلاص اور برکات کا موجب ہوتے ہیں اور مرکز ہی ہلاکت اور تباہی کا باعث ہو جایا کرتے ہیں۔ یہ اﷲ کا خاص فضل ہے کہ اُس نے ہمارے مرکز میں اخلاص کا رنگ پیدا کیا ہے۔ تو یہی رَو جو یہاں ہے اگر ساری جماعت میں پیدا ہو جائے تو تیس ہزار کیا تیس لاکھ کا جمع ہو جانا کچھ بھی مُشکل نہیں لیکن خدا جن کے لئے چاہتا ہے اپنی خاص تقدیر کو جاری کرتا ہے اس لئے مَیں نہیں جانتا کہ یہ خدا کی عام تقدیر ہے جو تمام جماعت کے لئے ہے یا خاص جو محض قادیان کے لئے ہے۔
اب دوبارہ اس امر کی طرف توجہ دلانے کی وجہ یہ ہے کہ جو اس تحریک کو نہیں سُن سکے سُن لیں اور اپنے اپنے دیہات میں اخلاص سے یہی تحریک کریں اور جہاں تک ہو سکے اس کو عملی جامہ پہنانے میں جلدی کریں۔ درحقیقت جس انداز سے یہ کام شروع ہؤا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہو گی لیکن میں ان تمام دوستوں کو جنہوں نے قادیان سے حصّہ لیا اور جو باہر سے اس میں حصّہ لیں گے اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہر ایک کام اپنے ظاہری اسباب سے ہی کامیاب نہیں ہؤا کرتا بلکہ اس کے لئے کچھ باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں۔ جہاں قادیان والوں نے اخلاص سے چندہ جمع کیا ہے ان کو چاہئے کہ صالح نیت بھی حاصل کریں۔ یہ مت سمجھیں کہ اُنہوں نے روپیہ دے دیا اور بس کیونکہ محض روپیہ جمع کرنا کوئی بات نہیں۔ دُنیادار بھی جمع کر لیا کرتے ہیں اور بکثرت جمع کر لیتے ہیں۔ لوگ شادیوں میں بے دریغ روپیہ خرچ کرتے حتّٰی کہ مکان اور جائدادیں تک بیچ ڈالتے ہیں اور روپیہ دینے اور جمع کرنے کی مثالیں بد ترین لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں اور ایسے لوگوں میں بھی جو خدا سے بالکل دُور ہوتے ہیں۔ پس محض روپیہ جمع کر لینا اور جی کھول کر چندہ دینا خوشی کی بات نہیں اصل قابلِ غور یہ سوال ہے کہ روپیہ دیا کس نیت سے ہے۔ بعض دفعہ کام نیک ہوتا ہے اور جوش و خروش سے کیا جاتا ہے مگر نیت نیک اس کے شامل نہیں ہوتی۔
ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں کی حالت نازک ہو گئی اور کفّار کا پہلو طاقتور تھا۔ اس وقت مسلمانوں کی طرف سے ایک شخص میدان میں نِکلا۔ وہ ہر نازک موقع پر گیا اور اس کو ہر جگہ کامیابی حاصل ہوئی۔ مسلمانوں کی نظریں اسی کی طرف لگ رہی تھیں وہ جدھر جاتا کفار پسپا ہو جاتے۔ مسلمانوں کی طرف سے تحسین و آفرین کے کلمے اس کے حق میں نِکل رہے تھے۔ ادھر تو اس کی یہ حالت تھی کہ اس طرح کفّار سے جان لڑا رہا تھا اور کام وہ کر رہا تھا جو جہاد ہے جس کی فضیلت میں قرآن کی بہت سی آیتیں ہیں مگر ایسی حالت میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا کہ اگر کسی نے جہنمی کو دیکھنا ہو تو اس شخص کو دیکھ لو۔ اس کی اس خدمت کو دیکھ کر اور ان واقعات کو سامنے رکھ کر جو اس سے ظہور میں آرہے تھے بعض لوگوں کو تردّد ہؤا کہ وہ شخص جو اس خدمت کی وجہ سے انعامات کا مستحق ہے اس کو دوزخی قرار دیا جارہا ہے۔ ایک صحابی نے جو بعض کمزور لوگوں کی حالت کو دیکھا کہ وہ کہیں مُرتد نہ ہو جائیں تو اُنہوں نے عہد کیا کہ خدا کی قسم میں اس شخص کے ساتھ رہوں گا جب تک یہ مر نہ جائے۔ وہ اس کے پیچھے لگ گئے ایک موقع پر اس شخص کو ایک زخم لگ گیا، جب درد بڑھی تو اس نے نیزہ اپنے سامنے رکھا اور اس پر سینہ رکھ کر جو زور کیا تو نیزہ اس کے سینہ کو چھید کر باہر نِکل گیا اور اس طرح وہ خود کشی کر کے مر گیا۔ وہ صحابی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ یارسول اﷲ! مَیں گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اس کے رسول ہیں۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا وہ شخص جو اس طرح اسلام کی خدمت کر رہا تھا حضور نے جب اس کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ دوزخی ہے تو بعض طبیعتوں میں اس سے خلجان پیدا ہؤا۔ مَیں اس کا انجام دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے ہو گیا۔ اس کو ایک زخم لگا مَیں اس کے پاس پہنچا اور اس کو کہا کہ تم نے آج بڑی اسلا م کی خدمت کی تو اُس نے کہا کہ کیا تم خیال کرتے ہو کہ مَیں نے اسلام کے لئے اتنا جوش دکھایا ہے۔ نہیں بلکہ میری ان لوگوں سے خاندانی عداوت تھی اس لئے مَیں ان لوگوں سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ جب درد کی شدّت ہوئی تو اس نے خود کشی کر لی۔1 جب حضور ؐنے اس صحابی سے یہ سنا تو آپ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ مَیں اس کا رسول ہوں۔ 2
دیکھو وہ اسلام کی ایک خدمت بجا لا رہا تھا اور خدمت بھی ایسی کہ جو بہت ہی بڑی خدمت ہے مگر دل میں یہ نیت نہ تھی کہ مَیں اسلام کے لئے یہ خدمت کرتا ہوں اور اس لئے کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو تو چونکہ اس کی نیت بد تھی اس کو جہنم میں ڈالا گیا اور اس کا تمام وہ کام ضائع ہو گیا جو نبی کی معیت میں اسلام کی خدمت کر رہا تھا۔ وہ معیت ضائع ہوئی، صحابہ کا ساتھی ہونا ضائع ہؤا اور وہ خدمت جو ایسی عمدہ تھی ضائع ہو گئی اور ایک نیت ہی غالب آئی۔
تو یاد رکھو کوئی اعلیٰ کام اعلیٰ نہیں جب تک اس کے ساتھ نیت بھی اعلیٰ نہ ہو۔ آپ لوگوں کو چاہئے کہ آپ نیت نیک کریں۔ اگر آپ اس نیت نیک کے ساتھ ایک دوسرے سے بڑھیں گے اور خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں گے تو عین خدا کے منشاء کے ماتحت ہو گا اور یہی مطلب ہے آیت فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ 3 کا اور اسی طرح دوسری آیت میں فرمایا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ 4 یعنی نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو لیکن اگر کوئی شخص لوگوں میں بڑا بننے کے لئے زیادہ چندہ دیتا ہے تو یہ ہلاکت اور تباہی ہے۔ اگر کوئی شخص نماز کے چار نوافل کی بجائے آٹھ پڑھتا ہے اور اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ لوگ اس کو بڑا نمازی خیال کریں تو اس نے اپنی جان پر ظُلم کیا اور سخت گناہ کا ارتکاب کیا اور خدا کے عذاب کو اپنے سر پر لیا لیکن اگر کوئی شخص چار نوافل کی بجائے آٹھ نوافل خدا کی رضا کے لئے پڑھتا ہے تو یہ ایک بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔
پس لندن میں مسجد احمدیہ کی تعمیر کا کام اعلیٰ اور بہت ہی اعلیٰ درجہ کا کام ہے اور انشاء اﷲ اس کے نتائج بھی اعلیٰ درجہ کے ہوں گے مگر ہر ایک فرد جو مسجد کے لئے کچھ دے اس کو اپنی نیت کو نیک رکھنا چاہئے وہ اپنے اندر اخلاص پیدا کرے اور اس کی غرض محض خدا کی رضا ہو، محض تبلیغ اسلام ہو، محض اعلاءِ کلمۃِ اﷲ نیت ہو کہ خدا کا نام بُلند مناروں سے لیا جائے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر نیت نیک نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ پس جہاں میں اس کام میں حصّہ لینے کی زور سے تحریک کرتا ہوں اسی طرح میں اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ نیت نیک کریں۔ اتنے بڑے کام کے لئے نیت کی نیکی کا سوال اہم سوال ہے۔ اگر بڑے کاموں کو نیت نیک لے کر نہ کیا جائے تو ان کا اجر نیک نہیں مل سکتا۔ پس اس کام میں خدا کی رضا کے سوا اور کوئی غرض مدِّنظر نہیں ہونی چاہئے۔
اس میں شُبہ نہیں کہ مجھے یقین ہے کہ یہ کام خدا کی رضا کے ماتحت ہو رہا ہے۔ مجھے آج تک تین اہم معاملات میں خدا تعالیٰ کی رؤیت ہوئی ہے۔ پہلے پہل اس وقت کہ ابھی میرا بچپن کا زمانہ تھا اس وقت میری توجہ کو دین کے سیکھنے اور دین کی خدمت کی طرف پھیرایا گیا اس وقت مجھے خدا نظر آیا اور مجھے تمام نظارہ حشر و نشر کا دکھایا گیا۔ یہ میری زندگی میں بہت بڑا انقلاب تھا۔ دوسرا وہ وقت تھا کہ جماعت کے لوگ ایسے نقطہ کی طرف جارہے تھے کہ قریب تھا کہ وہ کُفر میں چلے جائیں اور اس بات کی طرف لے جانے والے وہ لوگ تھے جو سلسلہ کے دُنیاوی کاموں پر قابو پائے ہوئے تھے مثلاً صدر انجمن وغیرہ انہی کے ماتحت تھیں اور یہ لوگوں میں بڑے بڑے نظر آتے تھے۔ اس وقت کوشش کی جارہی تھی کہ حضرت صاحب کے دعویٰ کو گھٹایا جائے۔ اگرچہ ہم نے حضرت صاحب سے آپ کے دعویٰ کے متعلق خوب سنا ہؤا تھا مگر اندیشہ ہؤا کہ ممکن ہے ہم غلطی پر ہوں۔ اس وقت مَیں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا اور مجھے حضرت صاحب کی نبوت پر یقین دلایا گیا۔ تیسری دفعہ آج مجھے خدا تعالیٰ کی رؤیت ہوئی ہے جس سے مجھے یقین ہے کہ یہ کام مقبول ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے وہ یہی ہے کہ مَیں مسجد لندن کا معاملہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر رہا تھا۔ مَیں اﷲ تعالیٰ کے حضور دو زانو بیٹھا تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا جماعت کو چاہئے کہ ''جِدّ'' سے کام لیں ''ہزل'' سے کام نہ لیں۔ ''جِدّ'' کا لفظ مجھے اچھی طرح یاد ہے اور اس کے مقابلہ میں دوسرا لفظ ''ہزل'' اسی حالت میں معاً میرے دل میں آیا تھا۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ جماعت کو چاہئے کہ اس کام میں سنجیدگی اور نیک نیتی سے کام لے، ہنسی اور محض واہ واہ کے لئے کوشش نہ کرے۔ پس چاہئے کہ ہر ایک شخص نیک نیتی سے کام لے اور نمود و نمائش کے خیال کو بالکل دل سے نکال دے۔ یہی تیس ہزار جو ہم لندن میں مسجد پر لگانا چاہتے ہیں اگر نیت نیک نہ ہو تو کوئی مثمر بثمرات نیک فعل نہیں کریں گے اور اس سے بہتر ہو کہ وہ روپیہ جو ہم وہاں مسجد کی تعمیر میں لگائیں اس سے چین و جاپان وغیرہ ممالک میں تبلیغ پر لگاویں۔ پس جب تک نیّت نیک نہ ہو اتنے بڑے کام پر جرأت نہیں کی جاسکتی۔ اگر نیت میں فتور نہ ہو تو یہی مسجد قطب بن سکتی ہے اَور لاکھوں فوائد ہیں اور اگر نیت نیک نہ ہو تو یہ ایک طوق ثابت ہو گی۔
پس تمام احباب کو چاہئے کہ اپنی اپنی نیتوں کو صاف کریں اور دُعائیں کریں کہ خداتعالیٰ اس کام کو ضائع نہ کرے بلکہ اس کے نیک ثمرات پیدا ہوں اور دُعا کریں کہ خدایا یہ مسجد تیری عبادت کے لئے مقبول مقام ہو اور دُنیا کا مرجع ہو اور لوگوں میں اشاعتِ اسلام اس کے ذریعہ ہو اور یہ ہماری کوشش ضائع نہ ہو اور محض اینٹ گارا ہی ثابت نہ ہو۔ اے خدا! ہماری نیتوں کو درست کر اور ہمیں ہمت دے کہ ہم تیرے ہی لئے اس کام کو انجام دیں اور اسلام کے لئے اس کے اعلیٰ درجہ کے ثمرات ہوں اور ہم دیکھ لیں کہ اسلام دُنیا میں پھیل رہا ہے۔ آمین ثم آمین‘‘ (الفضل 22جنوری1920ء)
1: بخاری کتاب القدر باب العمل بِالخواتیم
2: بخاری کتاب الجہاد باب اِنَّ اللّٰہَ لَیُؤَیِّدُ الدِّیْنَ بالرَّجُلِ الْفَاجِرِ
3: المطفّفین: 27 4: البقرۃ: 149

71
دعوت الیٰ اﷲ کے لئے ایک نیا میدان
(فرمودہ 23جنوری1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اﷲ تعالیٰ نے جس غرض سے اس جماعت کو کھڑا کیا ہے وہ غرض اتنی بڑی اور اہم ہے کہ اس کے پورا کرنے کے لئے غیر معمولی سامانوں اور غیر معمولی محنت اور غیر معمولی کوشش کی ضرورت ہے۔ حکومتیں جس کام کو حاصل نہیں کر سکتیں اور سیاستیں جس کام کے کرنے سے عاجز ہیں، علماء و فضلاء جس مقصد کے پانے سے عاجز ہیں، اُمراء اور دولت مند جس غایت تک پہنچنے سے قاصر ہیں، اس مقصد تک ایک غریب بے سامان، بے حکومت اور کمزورجماعت کا پہنچنا معمولی بات نہیں۔ اس وقت ہر ایک زبان اقرار کر رہی ہے گو وہ اقرار کیسے ہی پردے میں ہو کہ دُنیا کو ایک تبدیلی کی ضرورت ہے۔ گویہ اقرار مختلف حالات کے ماتحت بڑا پوشیدہ ہوتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دُنیا کو ایک تغیّر کی ضرورت ہے۔ ہر مذہب کے پَیرو، ہر مُلک کا باشندہ، ہر ایک حاکم ، ہر ایک فرد رعایا اقرار کرتا ہے کہ ایک تغیّر کی ضرورت ہے۔ دُنیا جس رنگ میں ہے وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ یا تو یہ انتظام ٹوٹ جائے گا اور بنی نوع انسان قدیم و حشت کی طرف لوٹ جائیں گے۔ یہ تمام کوششیں اور یہ تمام ترقیاں ایک پراگندہ خیال کی طرح اُڑ جائیں گی یا نیا انتظام کرنا پڑے گا۔ حکومتوں میں جوش ہے، رعایا کے دلوں میں اُمنگیں ہیں، اُمراء و غرباء میں کشیدگی ہے، آقا و خادم کے تعلقات میں لہریں پیدا ہورہی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ انتظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا یا تو یہ سارا سلسلہ درہم و برہم ہو جائے گا یا یہ آقا و خادم کے تعلقات نہ رہیں گے، حکومت و رعایا کے موجودہ تعلق میں فرق ہو گا، سیاست بدل جائے گی، موجودہ قانون بدل جائیں گے کیونکہ دُنیا کا جوش ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ طریق سے گزارہ نہیں ہو سکتا۔ ایک ایک لمحہ نہیں گزرتا کہ بڑی بڑی حکومتیں انقلاب کا شکار ہو رہی ہیں۔ فوجوں میں جوش ہے، مشینوں والے جوش میں ہیں کہ ہمیں کافی اُجرت نہیں دی جاتی، کارخانہ دار کہتے ہیں کہ ہم لُٹ گئے۔
غرض موجودہ وقت میں ہر ایک شاکی ہے اور ہر ایک گروہ اور طبقہ ایک تغیّر چاہتا ہے۔ اگر وہ تغیّر نہ ہو تو موجودہ انتظام نہیں چل سکتا۔ دانا محسوس کرتے ہیں اور وہ دانا جن کی عمریں قوانین بنانے اور تدبیریں سوچنے میں ختم ہو گئی ہیں وہ سب کے سب یک زبان ہیں کہ ہمارے قوانین اور ہماری تدابیر بے اثر ہیں۔ اب یہ سوال کہ وہ کیا تغیّر ہو گا؟ اگر اس کا جواب کوئی دے سکتا ہے تو وہ ہم ہیں۔ لوگ جو علاج کرتے ہیں وہ اُلٹا اثر کرتا ہے اور اس کی یہی کیفیت ہے جو کسی نے اس طرح بیان کی ہے ۔ع
مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی
جتنے علاج سوچے گئے اور جو علاج حکام اور فلاسفروں کی طرف سے سوچے گئے وہ ایک ایک کر کے آزمائے گئے ان سے تباہی ہوئی۔ بادشاہتوں کو ظلم آفریں ٹھہرایا گیا تو پارلیمنٹیں بنائی گئیں مگر ان کے طریقِ عمل سے بھی لوگ خوش نظر نہیں آتے۔ بادشاہ شکایت کرتے ہیں کہ رعایا اچھا معاملہ نہیں کرتی اور رعایا کہتی ہے کہ ہمارے ساتھ نیک سلوک نہیں ہوتا۔ آقا اور ماتحت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں غرض جتنے علاج بڑھتے گئے اسی قدر مرض بڑھتا گیا۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ نئی سے نئی سٹرائکیں نہ ہوتی ہوں اور کوئی دن نہیں جاتا کہ کارخانے بند نہ ہوتے ہوں۔ کارخانہ دار کہتے ہیں کہ ہم اپنے سرمایہ کو خطرہ میں نہیں ڈالنا چاہتے اور مزدور کہتے ہیں کہ ہم فاقہ مریں گے مگر خدمت نہ کریں گے۔ یہ کیا تغیّر ہے اور اس سے کیا ہونے والا ہے۔ سو یاد رہے کہ اس کا علاج انسانی عقل سے نہ ہو گا اب اگر امن ہو گا اور دُنیا مطمئن ہو گی تو اس انتظام سے ہو گی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو گا اور اس انسان کے ذریعہ ہو گی جو خدا کی طرف سے آیا ہے۔
دُنیا کا ایک بڑا معیار یہ تھا کہ جنگ نہ ہو۔ چالیس پچاس برس سے آواز بُلند ہو رہی تھی کہ امن نہیں ہو سکتا جب تک آپس میں صلح نہ ہو مگر اس صلح کا نتیجہ یہ ہؤا کہ ایک ایسی جنگ ہوئی کہ دُنیا اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتی۔ غرض اتنافساد بڑھا جس کی نظیر نہیں لیکن اب اگرچہ جرمنی کی جنگ ختم ہو گئی ہے مگر یاد رکھو کہ اگر ایک بڑے محل کو آگ لگ جائے تو وہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتی جتنا کہ جھونپڑی جھونپڑی میں آگ لگ جانا خطرناک ہوتا ہے کیونکہ ایک محل کو لگی ہوئی بجھائی جاسکتی ہے مگر جھونپڑی جھونپڑی کی آگ کا بجھانا مُشکل ہوتا ہے۔ پس گھر گھر آگ لگنے کا نظارہ تو اب ہی شروع ہؤا ہے جو ہر چشم دُوربین کو خیرہ کرتا ہے کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے کہ نہ فاتح خوش ہے نہ مفتوح، نہ غالب خوش ہے نہ مغلوب، غرض وہ لوگ جن کی اُمیدیں صلح کے ساتھ وابستہ تھیں دیکھ رہے ہیں کہ صلح بھی ایک خیال ہی ثابت ہو رہا ہے اور نظر آرہا ہے کہ ان کی تمام اُمیدیں یاس سے بدلتی جارہی ہیں۔ یہ تمام تغیرات ثبوت ہیں اس امر کا کہ جو علاج کیا جارہا ہے وہ درست نہیں اور نہ وہ علاج ہیں اس مرض کا جو دُنیا کو لگا ہؤا ہے کیونکہ اگر وہ مرض جسمانی ہوتا تو جس قدر علاج مادیات سے تعلق رکھنے والوں نے کئے وہ کارگر ہوتے مگر ان علاجوں کا اُلٹا اثر ہونا ثابت کرتا ہے کہ مرض جسمانی نہیں بلکہ رُوحانی ہے کیونکہ وہ کھانے جن کو پہلے کھا کر لوگ خوش ہوتے اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے تھے آج ان سے بہتر کھاتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ ہم بھُوکے مَر گئے۔ معلوم ہؤا کہ حالت اور بگڑ گئی۔ علاج سے روبہ اصلاح نہیں ہوئی۔ پس جب تک اندر کا علاج نہیں ہو گا یہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہوں گی۔ وہ اندرونی حالت بدل سکتی ہے اسی علاج سے جو خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور وہ احمدیت ہے یہ اَور بات ہے کہ کوئی احمدی کہلانے والا بھی اس وقت غیر مطمئن حالت میں ہو۔ اس کی مثال ایسی ہی ہو گی کہ جس نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہوں اور روشنی کو نہ دیکھتا ہو۔ یہ باغ میں بیٹھا ہو مگر خوشبونہ سونگھے اور پھل نہ کھائے۔ اگر کوئی احمدی اپنی شقاوت کی وجہ سے مطمئن نہ ہو تو اس کے معنی یہی ہیں کہ اس نے وہ علاج کیا ہی نہیں۔ غرض یہی ایک علاج ہے جس سے دُنیا میں امن قائم کیا جاسکتا ہے، حاکم و محکوم کے تعلقات میں خوشگواری پیدا کی جاسکتی ہے۔ اگر احمدیوں میں سے بعض کو حالتِ اطمینان نصیب نہ ہو اور وہ اس جنت میں نہ ہوں جو مومن کے لئے یہیں سے شروع ہو جاتا ہے تو ان کی مثال یہی ہو گی کہ بخار شدید چڑھا ہے مگر کونین جیب میں رکھ چھوڑی ہے اور اس کو استعمال نہیں کرتے۔ یا پیاس سے بے حال ہیں اور ٹھنڈے پانی کی صراحی پاس ہے جس کو سینہ سے لپٹائے بیٹھے ہیں مگر پیتے نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جو بھُوک سے مَر رہا ہے اور عمدہ لذیذ کھانا سرہانے رکھا ہے جس کو کھاتا نہیں۔ پس جس طرح بیمار کی جیب میں کونین ہونا، پیاسے کے پاس ٹھنڈا پانی ہونا اور بھُوکے کے پاس عمدہ کھانا ہونا اس کو اس وقت تک مُفید نہیں ہو سکتا جب تک وہ اسے استعمال نہ کرے اسی طرح اگر کوئی احمدی احمدی کہلاتا ہے اور حضرت صاحب کی کُتب بھی پاس رکھتا ہے لیکن احمدیت کے مغز سے آگاہ نہیں تو یہ اُس کی شقاوت ہے کہ چیز کے موجود ہوتے ہوئے اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتا۔
پس احمدیت ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے دلوں کو تسلی دی جاسکتی ہے، حاکم و محکوم کے تعلقات کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔
خدا تعالیٰ نے احمدیت کے ذریعہ اطمینان بخشنے والی چیز مہیا کر دی ہے۔ اب دُنیا کا فرض ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھائے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں جنہوں نے اپنے دل و دماغ میں اس تعلیم کو لے لیا اور وہ اطمینان کی حالت میں ہیں۔ پس اگر بعض لوگ ایسے ہوں بھی جن کی حالت اطمینان کی نہ ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ علاج ہی درست نہیں۔ لاکھوں ہم دیکھتے ہیں جنہوں نے اس علاج سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اس کا بد یہی نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس سے فائدہ اُٹھایا ہے کوشش کر کے اس علاج کو دوسروں تک پہنچائیں اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس آگ کے وقت میں اس پانی کو دُنیا کے گوشوں میں پہنچائے کیونکہ جب ایک محلہ میں آگ لگ جائے تو محلہ والوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس آگ کو فرو کرنے کی کوشش کریں جو اس فرض کو ادا نہیں کرتے اور اس آگ کو نہیں بجھاتے تو وہ اپنے فرض کے ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔
خدا کے فضل سے اب کام دن بدن وسعت پکڑ رہا ہے لیکن جس قدر ہمارا کام ہے اس قدر ہمارے پاس آدمی نہیں جن سے کام لے کر تمام دُنیا میں تبلیغ کو پہنچائیں۔ اگرچہ آدمی تو ہیں مگر اس قابلیت کے نہیں جن کو جہاں بھیجنے کی ضرورت ہو بھیجے جاسکیں اور دراصل یہ ہماری کوتاہی ہے کہ ہم نے تیس برس کے عرصہ میں ایسے آدمی کافی تعداد میں پیدا نہیں کئے جن سے ہم تبلیغ کا پورا پورا کام لے سکیں۔ اسی ہفتہ میں بغداد سے ایک تار آئی ہے جس میں لکھا ہے کہ ہمیں ایک مبلغ کی فوراً ضرورت ہے۔ یہ ایک نیا میدان ہے جب سے تُرکوں کو شکست ہوئی ہے اور ہماری گورنمنٹ ا س علاقہ پر قابض ہوئی ہے مختلف مشنوں کے پادریوں نے اس علاقہ میں اپنا ڈیرا جمالیا ہے مگر وہ لوگ پادری کی حیثیت میں نہیں گئے بلکہ ڈاکٹر بن کر گئے ہیں اور زخمیوں کا علاج کرتے ہیں اور اس عرصہ میں قریباً دو ہزار پادری امریکہ سے وہاں پہنچ چُکا ہے جن سے واقف کار لوگوں کو اتنا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ چالیس پچاس برس میں سارے کا سارا یہ علاقہ عیسائی ہو جائے گا۔
بغداد اتنا مشہور شہر ہے کہ وہ لوگ بھی جو تاریخ سے ناواقف ہیں اور دیہات کی زندگی بسر کرتے ہیں اس کو جانتے ہیں کیونکہ بغداد ایک وقت میں دُنیا کا نقطہ مرکزی بنا ہؤا تھا اور دُنیا اس کے گرد چکر کھا رہی تھی اور وہ گویا علوم ظاہری کے لئے بطور کعبہ تھا جس طرح رُوحانیت کے لئے مکّہ کعبہ تھا۔ چھ سو سال تک وہاں خلافت اسلامیہ قائم رہی اور دُنیا کے ایک بڑے حصّہ پر وہاں کی حکومت تھی۔ بہت کم لوگ ہوں گے جنہوں نے ہارون الرشید کا نام نہ سُنا ہو گا حتّٰی کہ قصّہ کہانیوں میں جنّوں کے ساتھ اس کا ذکر آجاتا ہے۔ گویا کہ اس کی شُہرت نے عالمگیر رنگ اختیار کر لیا ہے علاوہ اس کے ہندوستان سے اس کا ایک خاص تعلق رُوحانی بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ سیّد عبدالقادر جیلانی بغداد میں ہی پڑھے اور وہیں فوت ہوئے اور ہندوستان میں ان کے ماننے والے بکثرت ہیں اور یہاں سے بہت سے لوگ ان کے مقبرہ کی زیارت کو اب بھی جاتے ہیں۔ غرض بغداد مسلمانوں میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کسی زمانہ میں وہ اتنا بڑا شہر تھا کہ کئی لاکھ حمام اس میں تھے اور جہاں لاکھوں حمام ہوں گے تو حماموں میں نہانے والے بھی اسی نسبت سے ہونے چاہئیں اور وہاں بہت بڑے بڑے کُتب خانے تھے اور تمام دُنیا کے علماء فضلاء کا مرجع تھا۔ بنو اُمیّہ جو حضرت معاویہ ؓکے خاندان کے لوگ تھے ان کی حکومت ایک سَو سال تک رہی۔ ان کی بربادی پر بنو عباس جو حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کی اولاد سے تھے ان کی حکومت قائم ہوئی اور اُنہوں نے بغداد کو اپنا دارالخلافہ بنایا اور کئی سو سال تک سپین کے سوا باقی تمام اسلامی دُنیا افغانستان، ایران، عراق، عرب، شام، مصر، افریقہ، ایشیاء کوچک، سائبیریا اور روس کے بعض علاقوں پر ان کی حکومت رہی۔ غرض وہ ایک لمبے عرصہ تک اسلامی دُنیا کا مرکز رہا ہے گو مذہبی نہ سہی سیاسی ہی سہی۔ اس طرح وہ اسلامی شہروں میں سے ایک خاص شہر ہے اور اس پر عیسائیت نے اس جوش سے تبلیغ شروع کر دی ہے جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے چالیس پچاس برس میں خیال کیا جاتا ہے وہ علاقہ تمام کا تمام عیسائی ہو جائے گا۔ جنگ کے دنوں میں اگر ہمارے پاس بھی ڈاکٹر ہوتے تو ہم ان کو بھیجتے۔ وہ وہاں مفت علاج کرتے اور دوائی بھی اپنے پاس سے دیتے جو ہم ان کو مہیا کرتے۔ واعظوں کو روکا جاسکتا ہے لیکن طبیبوں کو کون روک سکتا ہے کیونکہ وہ سب خرچ اپنے پاس سے کرتے اور سرکار بھی ان کو روک نہ سکتی تھی کیونکہ ان کا کوئی بوجھ سرکار پر نہ تھا لیکن اب وہ وقت تو گیا۔ اب صلح ہو گئی ہے اور کسی حد تک آزادی بھی ہو گئی ہے۔ مجھے تار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہاں کے احمدیوں نے ڈیڑھ ہزار روپیہ چندہ جمع کر لیا ہے۔
یہ یقینی بات ہے کہ جہاں احمدیت گئی وہاں عیسائیت نہیں ٹھہر سکتی۔ جس طرح کہ لاحول سے شیطان بھاگتا ہے اسی طرح احمدیت سے عیسائیت بھاگتی ہے۔ جب عیسائیوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ احمدی ہے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمیں بحث کی اجازت ہی نہیں۔ مصر میں جہاں ہمارا کوئی مبلّغ نہیں گیا جب وہاں ہمارے شیخ عبدالرحمن صاحب تعلیم کے لئے گئے تھے تو وہاں عیسائیوں نے خوب شور مچایا ہؤا تھا۔ ان کو ایک شخص مِلا جو قریب قریب عیسائی ہوچُکا تھا اُنہوں نے اس کو بتایا کہ دیکھو قرآن شریف سے تو مسیح کی وفات ثابت ہے، انجیل بھی یہی کہتی ہے چنانچہ حضرت مسیح کشمیر میں مدفون ہے۔ کیا وہ بھی خدا ہو سکتا ہے؟ جب شیخ صاحب نے اس شخص کو یہ بتا کر پادری کے پاس بھیجا تو پادری نے کہا کہ تم قادیانی ہو؟ اس نے کہا مَیں تو نہیں جانتا کہ قادیان کیا ہے لیکن یہ میرے سوالات ہیں ان کا جواب دو۔ اُس نے کہا کہ تم سے بات کرنے کی ہمیں اجازت نہیں۔
تو چھوٹے چھوٹے احمدی جن کی تعلیم ابھی ناقص ہوتی ہے ان سے بھی عیسائی بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک احمدی جو چھٹی ساتویں جماعت تک پڑھا ہؤا تھا رنگون میں بغرض تلاش معاش گیا۔ ایک دن سیر کرتا ہؤا ایک جگہ پہنچا وہاں سینکڑوں کا مجمع تھا اور ایک پادری صاحب بڑے زور سے تقریر کر رہے تھے۔ جب وہ تقریر کر چکے تو اس نے اجازت چاہی۔ چونکہ یہ لباس اور طرز سے سادہ معلوم ہوتا تھا پادری صاحب نے خیال کیا کہ جب یہ سوال کر کے شرمندہ ہو گا تو میرا لوگوں پر خوب اثر پڑے گا اس لئے اُنہوں نے سوال کی اجازت دے دی مگر جب اس احمدی نے اعتراض کئے تو پادری صاحب گھبرا گئے۔ جواب تو اُنہوں نے دیئے مگر جب وہ احمدی جواب الجواب دینے لگا تو وہ کہنے لگے آج تو وقت نہیں رہا کل سہی۔ آخر ان سوالوں سے گھبرا کر اُنہوں نے وہ سلسلہ ہی بند کر دیا۔ یہ تو چھوٹے احمدیوں کے مقابلہ کا حال ہے جو زیادہ واقف ہوتے ہیں ان سے تو واقعی پادریوں کی رُوح کانپتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۂ اوّل نے مفتی محمد صادق صاحب کو راولپنڈی کے علاقہ میں جہاں ایک مشہور دنگل ہوتا تھا اور عیسائیوں نے بھی خیمے لگائے ہوئے تھے بھیجا۔ جونہی کہ مفتی صاحب پہنچے اُنہوں نے اپنے خیمے وغیرہ اُٹھا لئے اور وہاں سے چلے گئے۔
غرض احمدیت کے مقابلہ میں عیسائیت بالکل نہیں ٹھہر سکتی۔ عیسائیت اور احمدیت کی ایسی ہی مثال ہے جیسی آگ اور پانی کی۔ آگ خواہ کتنی ہی تیز ہو پانی کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔ پس عیسائیت آگ ہے اور احمدیت پانی، عیسائیت ظُلمت ہے اور احمدیت روشنی۔ اب سورج چڑھ گیا جہاں اس کی روشنی پہنچے گی عیسائیت کی ظُلمت وہاں نہیں ٹھہر سکتی خواہ کتنی ہی دیواریں بُلند کی جائیں۔ یہ امر واقع ہے کہ جہاں احمدیت پہنچی وہاں سے عیسائیت بھاگنا شروع ہو جاتی ہے۔ دوسرے مسلمان جو غیر احمدی ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ ادھر متوجہ ہوں مگر ان کے پاس وہ ہتھیار نہیں جو ہمارے پاس ہیں۔ اس لئے وہ عیسائیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے عراق عجم کی جو حالت ہے اس کی درستی کے لئے اور وہاں کے غیر احمدی مسلمانوں کو عیسائیت کی آگ سے بچانے کے لئے ہمیں وہاں آدمی بھیجنے چاہئیں۔ مجھے اس تار سے یہ بھی معلوم ہؤا ہے کہ اُنہوں نے غالباً گورنمنٹ سے اجازت لے لی ہے۔ پس یہ ایک نیا میدان نِکلا ہے۔ اگرچہ وہاں کے چند سو احمدیوں نے ہمت کر کے ڈیڑھ ہزار روپیہ جمع کر لیا ہے مگر یہ ایک عارضی بات ہے کیونکہ وہ لوگ ملازمت پر گئے ہوئے ہیں اور اپنی مُدّتیں ختم ہونے پر واپس آجائیں گے اس لئے وہاں کا یہ خرچ بھی یہاں کے احمدیوں کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ پس وہ علاقہ مدد کا مستحق ہے کیونکہ وہ علوم کا مرکز رہا ہے اور دُنیا نے اس سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ وہاں دُنیا کے رُوحانی اُستاذ بھی جمع رہے ہیں، وہ اسلام کی خلافت کا بھی مرکز تھا، ان کا ہم پر بھی احسان ہے کیونکہ منگولی قوم کے لوگ بغداد کو فتح کرنے کے بعد مسلمان ہوئے۔ گویا فاتح ہو کر مفتوح ہو گئے۔ اس لئے ہم پر ایک احسان ہؤا کیونکہ وہ حضرت صاحب کے آباء تھے اور حضرت صاحب کے ذریعہ ہم تمام پر احسان ہؤا۔ اس لئے وہاں کے قدیم باشندوں کو عیسائیت کے تاریک گڑھے سے نکالنے کے لئے احمدیوں کو جدوجہد کرنی چاہئے۔
لوگ تو پیٹتے ہیں کہ ہماری سیاست گئی حالانکہ پیٹنے کی چیز یہ ہے کہ مذہب ہاتھوں سے جارہا ہے۔ نادان حکومتوں کو رو رہے ہیں حالانکہ رونے کا مقام یہ ہے کہ اسلام سے لوگ بے بہرہ ہو رہے ہیں۔ اگر تمام کی تمام حکومتیں مسلمانوں کی ہوں مگر ان میں اسلام نہ ہو تو ان حکومتوں سے کیا فائدہ؟ ہم کہتے ہیں دُنیا میں ایک بھی مسلمانوں کی حکومت نہ ہو مگر لوگ سب کے سب اسلام کے خادم بن جائیں۔ اگرچہ یہ ناممکن ہے کہ سب لوگ تو اسلام کو قبول کر لیں اور پھر بھی مسلمانوں کی حکومت نہ ہو۔ پس ہم میں اور ان غیر احمدیوں میں یہی فرق ہے کہ وہ مرض کا غلط علاج کرتے ہیں اور ہم صحیح علاج کرتے ہیں۔ ہم منبع کو روکنے کی فکر میں ہیں اور وہ مرض کے اصل علاج سے غافل۔ اگر مسلمان اسلام پر قائم ہوتے تو وہ ان حکومتوں کو مسلمان بنانے کی فکر کرتے جب یہ لوگ مسلمان ہو جاتے تو بجائے اس کے کہ ان کی تلوار مسلمانوں کے خلاف نکلتی ان کی تائید میں ہو جاتی۔ تیرہ سو برس سے موقع تھا کہ یہ لوگ یورپ میں تبلیغِ اسلام کرتے اور یورپ کو مسلمان بناتے مگر ادھر اُنہوں نے توجہ نہیں کی برخلاف اس کے عیسائیوں کی ترقی سولہویں صدی میں شروع ہوئی۔ اس عرصہ میں اُنہوں نے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو عیسائی بنا لیا اور یہ اس غلطی کا خمیازہ ہے جو یہ بُھگت رہے ہیں۔ حالانکہ عیسائیت وہ مذہب ہے جس میں ذرہ بھی جان نہیں۔ ان کے پاس وہ مذہب تھا جس کو لے کر یہ دُنیا کو اس سرے سے اُس سرے تک تبلیغ کے ذریعہ مسلمان بنا سکتے تھے مگر یہ ان کی غلطی تھی کہ اُنہوں نے تبلیغ اسلام سے کوتاہی کی اوراب اس غلطی کا علاج بجز احمدیت کے اور کوئی نہیں۔
پس اسلام کی ترقی تم سے وابستہ ہے اس لئے تمہارا فرض ہے کہ ہوشیاری سے کام لو۔ یہ بوجھ تم پر اس لئے ڈالا گیا ہے کہ تم اس کو برداشت کرو اور اس کو منزلِ مقصود پر پہنچاؤ۔ اگر تم سُستی کرو گے تو یاد رکھو تم بھی پیس ڈالے جاؤ گے۔ اسلام کی ترقی کا بوجھ تمہارے سروں پر رکھا گیا ہے اس لئے اس کو منزل پر پہنچانے کے لئے ہمت کرو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے اور غفلت سے کام لو گے تو اس بوجھ کے نیچے دب جاؤ گے۔ اب وقت ہے کہ اسلام کی خدمت اپنے علم سے کرو، اپنے مال سے کرو، جو لوگ جسمانی خدمت کر سکتے ہیں وہ جسمانی خدمت کریں، جو وقت سے کر سکتے ہیں وقت سے ، جو تدبیر سے کر سکتے ہیں تدبیر سے کریں۔ غرض اسلام کی ترقی تم سے وابستہ ہے۔ اب وہ وقت ہے کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریاں سمجھنی اور اپنے فرائض بجا لانے چاہئیں۔
خدا تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنے اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق دے اور اسلام ہماری زندگیوں میں دُنیا میں پھیل جائے اور ہم اس کام کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھ لیں جس کے لئے مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجاگیا۔‘‘ (الفضل 29جنوری 1920ء)




72
اپنے فوائد کو جماعت کے فوائد پر قُربان کرو
(فرمودہ 30جنوری1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''انسان کو اﷲ تعالیٰ نے ایسے قوانین کے ماتحت پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی کو ایسے آئین کے ماتحت رکھا ہے کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی احتیاج میں مُبتلا ہوتا ہے اور اس کے مدنی الطبع ہونے کی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے مِل کر کام کرنے کا محتاج ہے اور اس میں لیاقت ہے کہ دوسروں سے مِل کر اپنی آسائش و آرام کے کام کرے۔ اس طاقت کے ماتحت اس کو بہت سی ضروریات پیش آتی رہتی ہیں اور انسان طبعاً اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے آرام کو دوسروں سے مقدم کرتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ اپنی تکلیف کو سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس کا حق دوسروں کی نسبت زیادہ ہے۔ انسان اپنی مُشکلات کو سمجھ سکتا ہے دوسروں کی مُشکلات کو نہیں سمجھتا اس لئے یہ اپنے حق کو دوسروں کے حقوق پر فائق سمجھتا ہے۔ بیمار اپنی تکلیف کو زیادہ سمجھتا ہے اس لئے وہ شکایت کرتا ہے کہ ڈاکٹر نے دوسرے کو پہلے دیکھا مجھے بعد میں، ایک سائل کا یہ خیال ہے کہ مَیں زیادہ حقدار ہوں۔ تجارت میں بھی یہی ہوتا ہے کہ ایک شخص سودا خریدنے جاتا ہے وہ شکایت کرتا ہے کہ مجھے بعد میں سودا دیا گیا اور بعض کو مجھ سے پہلے دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ضرورت کو زیادہ محسوس کرتا ہے دوسرے کی ضرورت کا اس کو احساس نہیں ہوتا۔ اپنی چھوٹی ضرورت کو دوسرے کی بڑی ضرورت پر ترجیح دیتا ہے۔
تمدن و حکومت کے فوائد کو علیحدہ کر کے اگر دیکھا جائے تو مذہب نے اس غلطی سے دُنیا کو خوب آگاہ کیا ہے۔ تمدن و سیاست نے بھی اس بات کی تعلیم دی ہے مگر یہ کہ اپنے اپنے حلقہ میں دوسروں کے لئے نہیں مگر مذہب نے اس تعلیم پر خاص زور دیا ہے۔ اخلاق کی بنیاد ہی اس مسئلہ پر ہے کہ اپنے خیالات، جذبات، احساسات اور احتیاجات کو دوسروں پر مقدم نہ کیا جائے۔ لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر ان کی گالی کے جواب میں کوئی شخص ان کو گالی دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے گالی دے دی تو خیر دے دی مگر اس نے کیوں دی؟ مگر مذہب نے اس طرف متوجہ کیا کہ دوسروں کے احساسات کو اپنے احساسات و جذبات کی نسبت اہم و قیمتی یقین کرو۔ پھر اس سے بھی ترقی کرو اور افراد کے فوائد کو جماعت کے فوائد پر قُربان کر دو اور جماعت کی ضروریات کے مقابلہ میں اپنی ضروریات کو رائی کے برابر قدرواہمیت نہ دو اور جماعت کے فوائد کے مقابلہ میں زید و بکر اپنے فوائد کو قُربان کر دیں۔
یہ قاعدہ ہے کہ انسان اپنی ضروریات کے مقابلہ میں دوسرے کی ضروریات کا اندازہ کرتے وقت دھوکا کھا جاتا ہے اس لئے چاہئے کہ اپنے فوائد کو دوسرے پر ترجیح نہ دے مگر جہاں جماعت کے فوائد کا سوال آجائے وہاں اپنے فوائد کو مقدم کرنا جُرم ہے۔ قریب ہے کہ اس سے اتحاد ٹوٹ جائے اور کام ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور جماعتیں معدوم ہو جائیں۔
جماعت کیا ہوتی ہے؟ یہی کہ چند افراد اقرار کرتے ہیں کہ وہ سب اپنے اپنے فوائد کو جماعت کے فوائد پر قُربان کر دیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی جماعت جماعت نہیں کہلا سکتی۔ مسلمانوں کو اسی بات کے نہ ہونے نے کھویا۔ ایک وقت میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی مردم شماری کی جائے جب مردم شماری کی گئی تو معلوم ہؤا کہ سات سَو ہیں۔ صحابہ نے اس وقت عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! اب ہمیں کون برباد کر سکتا ہے؟ اب تو ہم خدا کے فضل سے سات سو ہو گئے ہیں۔1 اس وقت سات سَو مسلمانوں نے خیال کیا کہ اب ہمارا تمدن اور اتحاد و ایثار ایسا ہو گیا ہے کہ دُنیا کی کوئی طاقت ہمیں گزند نہیں پہنچا سکتی مگر اب جب کہ یورپ کے اندازے کے مطابق مسلمانوں کی تعداد بیس کروڑ ہے اور خود مسلمان اپنی تعداد چالیس کروڑ بتا رہے ہیں مگر حال یہ ہے کہ اُس وقت سات سَو تھے ان کو دُنیا کی کوئی طاقت واقعی نہ مِٹا سکی لیکن اب جب کہ چالیس کروڑ ہیں جو اُٹھتا ہے ان کو مِٹا دیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ سات سَو چالیس کروڑ سے بھی زیادہ تھے اور چالیس کروڑ ان میں سے ایک کے بھی برابر نہیں۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ یہی کہ ان سات سَو میں سے ہر ایک اپنے آپ کو سات سَو کے لئے قُربان کرنے کو تیار تھا اور قُربان کر دیتا تھا مگر اب ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ چالیس کروڑ کو اپنی اُمنگ پر قُربان کر ڈالے۔ اب ان چالیس کروڑ کی مثال ایسی ہی ہے جو ایک مٹی کا کھلونا ہو جو چاہے ذرا سی ٹھوکر سے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے کیونکہ اِن میں کوئی بھی نہیں جو اپنے فوائد کو جماعت کے فوائد پر قُربان کر دے۔
اگر ہماری جماعت کے لوگ اس گُر کو اچھی طرح سمجھ لیں اور یہ قطعی فیصلہ کر لیں کہ اپنے فوائد کو جماعت کے فوائد پر قُربان کر دیں گے، وہ فیصلہ کر لیں کہ اگر ان کا مال جاتا ہے تو جائے مگر جماعت کو کوئی فائدہ ہو، اگر ان کی جان جاتی ہے تو جائے مگر جماعت کو فائدہ ہو، اگر ان کی جائداد جاتی ہے تو جائے مگر جماعت کو فائدہ ہو، اگر یہ بات ہو جائے اور جماعت کا ہر ایک فرد اپنے فوائد پر جماعت کے فوائد کو مقدم کر لے تو جس طرح سات سَو صحابہ نے کہا کہ ہم تباہ نہیں ہو سکتے اسی طرح ہم تو خدا کے فضل سے لاکھوں ہیں ہمیں خدا کے فضل سے کوئی طاقت تباہ نہیں کر سکتی اور اگر یہ بات ہو جائے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارا ترقی کا قدم بہت تیزی سے اُٹھے اورہم بہت جلد دُنیا میں پھیل جائیں مگر افسوس ہے کہ ابھی ہماری جماعت میں اس بات کی کمی ہے۔
میری چونکہ آج طبیعت اچھی نہیں جب صحت ہو گی مَیں انشاء اﷲ اس پر تفصیل سے بیان کروں گا اور بتاؤں گا کہ کس طرح ذاتی فوائد و اغراض و احساسات کو جماعت کے فوائد میں آسانی سے قُربان کر دینا چاہئے۔’’ (الفضل 9فروری 1920ء)
1: مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار بِالْاِیْمَان للخائف

73
دُعاؤں کے دن
(فرمودہ 6فروری1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کہ ایک ضروری امر کے متعلق آئندہ کچھ بیان کروں گا لیکن اس دفعہ پھر کچھ دیر ہو گئی کیونکہ ایک اہم کام کے مشورہ کے لئے دیر تک بیٹھنا پڑا۔ اس لئے آج بھی میں خطبہ زیادہ دیر تک نہیں بیان کر سکتا۔ تاہم مَیں اس دفعہ اپنی جماعت کے لوگوں کو خاص طور پر ایک بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف خدا کے مامورین اور انبیاء اور ان کے خلفاء اور اولیاء توجہ دلاتے چلے آئے ہیں اور وہ بات دُعا ہے۔ اس زمانہ میں جیسا کہ مَیں نے پچھلے خطبوں میں بتلایا تھا خطرناک تغیرات ہو رہے ہیں۔ مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جیسا کہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے قَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَا 1 کہ اُس وقت انسان کہے گا کہ ہو کیا گیا؟ وہی آج حال ہے پہلے بھی دُنیا پر مصیبتیں پڑتی تھیں اور جب مصیبت آتی لوگ سمجھتے تھے کہ مصیبت آئی ہے، قحط آتے تو لوگ کہتے تھے کہ ایک مصیبت ہے، وبا پڑتی تو وہ اس کو بھی مصیبت سمجھتے تھے مگر اس زمانہ میں اس طرح ابتلاؤں کے دروازے کھلے ہیں کہ انسان کہہ نہیں سکتا کہ کیا مصیبت ہے۔ جس طرح انعامات بے شمار ہیں اسی طرح آجکل مصائب بھی بے شمار ہیں اور یہ بتانا مُشکل ہے کہ دُنیا کن کن عذابوں میں گھری ہوئی ہے۔
جو لوگ دُنیا کے اخبار پڑھتے ہیں اور حالات سے واقف ہیں وہ بھی نہیں بتا سکتے کہ کیا تغیرات ہونے والے ہیں۔ اگر کوئی بتانے کی کوشش کرے بھی تو اس کی بات معقول نہیں ہوگی بلکہ اونگی بونگی بات ہو گی۔ پس یہ وہی نقشہ ہے جو مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت انسان کہے گا اَب کیا ہو گیا؟
اِن ابتلاؤں میں جن میں دُنیا مُبتلا ہے بہت سے ایسے ہیں جن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ مگر تاہم چونکہ ہم اسی دُنیا میں رہتے ہیں اس لئے ہمیں بھی کئی باتوں میں ان کا شریک ہونا پڑتا ہے مثلاً وبائیں ہیں ، قحط ہیں۔ ان ابتلاؤں میں ایک حد تک ہمیں بھی حصّہ لینا پڑتا ہے۔ قحط ہے اس میں احمدی جماعت بھی مُبتلا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ الٰہی جماعتوں کو ایسے ابتلاؤں سے بالکل محفوظ رکھا جائے کیونکہ یہ خدا کی مصلحتوں کے خلاف ہوتا ہے مگر ایسے ابتلاؤں میں ایک خاص فرق ہوتا ہے جو الٰہی جماعت کے لوگوں اور غیروں میں ہوتا ہے کہ غیروں میں اضطراب ہوتا ہے مگر ان ابتلاؤں میں الٰہی سلسلہ کے لوگوں کو ایک اطمینان اور تقویت ملتی ہے لیکن یہ نہیں ہوتا کہ ان لوگوں کے لئے آسمان سے غلہ اُترنے لگے۔ مثلاً عرب میں قحط پڑا صحابہ کو بھی اس قحط میں سخت تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں مگر ان کے دل قوی تھے۔ وہ ان ابتلاؤں کو خدا کے لئے برداشت کرتے تھے کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ یہ ابتلاء خدا تعالیٰ کی طرف سے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کے لئے نشان کے طور پر نازل ہوئے ہیں۔ پس سچی جماعتیں اپنے رنگ میں ان باتوں سے بھی فائدہ اُٹھا لیتی ہیں۔
مگر چونکہ یہ موقع تاریکی کا ہوتا ہے اور جو دیکھ کر نہیں چلتا وہ ٹھوکر کھاتا ہے اس لئے ایسے خطرات کے زمانہ میں ضروری ہے کہ دُعا سے کام لیا جائے۔ ایسے وقت میں ایک مومن مومن بھی وہ جو قرآن پر ایمان لاتا ہے اور قرآن بھی وہ جو الحمد سے شروع ہوتا ہے اس کی مثال تو اس بچّہ کی سی ہے جس کی ماں اس کے پاس بیٹھی ہو۔ اس کو کیوں اضطراب ہونے لگا۔ مصیبت تو اس کے لئے کمر شکن ہوتی ہے جس کو یقین ہو کہ کوئی اس کی مصیبت دُور نہیں کر سکتا اور اس کا مددگار نہیں ہے۔ مگر ایک مصیبت راحت ہو جاتی ہے اور وہ بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے جس کے متعلق یہ جانتے ہوں کہ ہمیں سہارا دینے والا اور ہماری اس آفت میں کام آنے والاہے۔
پس اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہنے والے کے لئے کوئی مصیبت نہیں خواہ وہ مالی ہو یا جانی، یا حکومت کی ہو یا رعایا کی، اندر کی ہو یا باہر کی کیونکہ وہ یقین کرتا ہے کہ اس مصیبت ، اس ابتلاء، اس دُکھ کے دُور کرنے والا ایک خدا ہے جس کی ذرّہ ذرّہ پر حکومت ہے۔ مصیبت بھیجنا، ابتلاء نازل کرنا، انعام بخشنا، یہ سب اس کے قبضہ میں ہیں۔ پس اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہنے والے کے لئے کوئی مصیبت نہیں کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے لئے دروازہ کھلا ہے جس میں سے وہ نِکل سکتا ہے مگر کافروں کے لئے دروازہ بند ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ ان کے لئے یہ دروازے نہیں ہیں مگر وہ ان کو اپنے پر خود بند کر لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دُنیا میں سب سامان خدا نے رکھے ہیں مگر جو ان کی تحقیق اور تلاش کرتے ہیں وہی پاتے ہیں دوسرے ان سے محروم رہتے ہیں مثلاً کونین جو انگریزی علاجوں میں سب سے کامیاب علاج ثابت ہؤا ہے اور جس سے لاکھوں جانیں بچتی ہیں اور اب تک بچی ہیں پہلے سے دُنیا میں موجود تھی مگر دُنیا اس سے غافل اور بے خبر تھی۔ اسی طرح خدا کے فضل کے دروازے کھلتے ہیں مگر لوگ اس طرف پیٹھ کر لیتے ہیں۔ خدا نے اس زمانہ میں مسیح موعود کے رنگ میں اپنا فضلِ عظیم ظاہر فرمایا ہے اور اس شکل میں اپنے انعام کا دروازہ کھولا ہے مگر اس دروازے کی طرف احمدیوں نے قدم بڑھایا اور دوسروں نے اس کی ہتک کی مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ احمدیوں میں بھی ایسے ہیں جنہوں نے اس انعام کو قبول تو کیا مگر اس کی پوری پوری قدر نہ کی اور پورا فائدہ نہ اُٹھایا اور بہت ہی کم ہیں جو دُعاؤں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ دُعا ایک ہتھیار ہے جو ہر ایک مصیبت کو راستہ سے ہٹا دیتا ہے۔ بعض لوگ رسماً کہہ دیتے ہیں کہ میرے لئے دُعا کرومگر وہ دُعا کی حقیقی قوت سے غافل ہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمیں مانگنے کی ضرورت نہیں لیکن یہ غلط ہے کیونکہ کوئی انسان ایسا نہیں جو اﷲ کا محتاج نہیں۔ غنی تو صرف اﷲ ہی کی ذات ہے۔
پس یاد رکھو کہ انسان محتاج ہے وہ غلطی کرتا ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے کوئی ضرورت نہیں اس کی عقل کمزور ہے اور اتنی کمزور ہے کہ اسے اپنی احتیاج کا بھی علم نہیں۔ پس کوئی انسان نہیں جس کو خدا کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی مَیں کہتا ہوں کہ اگر اپنے لئے نہیں تو جماعت کی ترقی کے لئے اور ان بھائیوں کے لئے جو دین کی خدمتوں کے لئے وطنوں سے باہر ہیں دُعائیں کرو۔ خدا تعالیٰ تمہارے کام بھی درست کرے گا۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس گُر سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق دے اور ہماری توجہ کو اپنی طرف پھیرلے۔ وہی ہمارا سہارا ہو۔ ہمارے دل اس سے راضی ہوں اور اس کی رضا ہمارے ساتھ ہو۔آمین‘‘ (الفضل 12فروری 1920ء)
1: الزلزال: 4


74
ہم بڑھیں گے کیونکہ ہم میں بڑھنے کی قابلیت ہے
(فرمودہ 13فروری 1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ہر ایک چیز اور ہر ایک کام کے لئے ایک وقت ہوتا ہے اور وہ اپنے وقت سے اِدھراُدھر نہیں ہو سکتا۔ انسان کے کمال تک پہنچنے کے لئے بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ انسان کے جسمانی کمال کو اگر دیکھیں تو بچّہ رحم مادر میں 9 یا 11مہینہ میں کامل ہوتا ہے۔ اگر کوئی چاہے کہ یہ کمال جو بچہ اتنی مدت میں حاصل کرتا ہے بچہ کو تین چار مہینے میں حاصل ہو جائے تو یہ اس کی نادانی ہو گی۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے کاموں میں کوشش کو دخل ہوتا ہے مگر کوشش کے لئے بھی خاص دائرے ہوتے ہیں۔ ان دائروں کے اندر ہی ترقی و تنزل ہو سکتے ہیں ان کے باہر نہیں۔ پھر پیدائش کے بعد تکمیلِ عقل کا زمانہ آتا ہے اس کے لئے بھی ایک وقت مقررہے۔ جسمانی بناوٹ کے کمال کی طرح بلوغت کے حاصل ہونے کے لئے بھی بارہ سے اکیس سال تک کا زمانہ مختلف ممالک میں ہوتا ہے۔ اس میں یہ تو ہوتا ہے کہ ان ممالک میں جو زمانہ عقلی بلوغت کا ہو اس میں کسی حد تک کمی یا زیادتی ہو جائے مگر یہ نہیں کہ وہ نقشہ بالکل ہی بدل جائے مثلاً جن ممالک میں بارہ سے پندرہ سال تک بلوغت ہے وہاں گیارہ یاسولہ سال تو ہوسکتا ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ چھ سال میں یا بیس بائیس سال میں جاکر ہو۔ یا جس مُلک میں اکیس سال ہے وہاں اُنیس یا بیس یا بائیس تو ہو سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ دس گیارہ برس میں ہی بلوغت حاصل ہو جائے۔
تو تکمیل کے لئے جو عرصہ ہے اسی میں ایک چیز مکمل ہو گی اور کوشش کے یہ معنے ہیں کہ اس عرصہ میں جو اس کی تکمیل کے لئے مقرر ہے اور جو دائرہ اس کے لئے بنایا گیا ہے اس میں کچھ کمی واقع ہو جائے اور یہی قانونِ قدرت ہے۔ ایک دائرہ اُردو کے لحاظ سے اختیاروجبریا قدرتِ الٰہی کا بھی ہے کہ اس کے اندر ایک حد تک انسان مجبور بھی ہوتا ہے مگر جن باتوں میں مجبور ہوتا ہے شریعت میں ان امور کے لئے کوئی سزا نہیں۔
پس جس طرح تکمیلِ خلق کا زمانہ ہے اسی طرح تکمیلِ عقل کا بھی ایک زمانہ ہے جو چالیس سال تک چلتا ہے۔ اس میں ممکن ہے کہ ایک انسان چالیس سال کی عمر سے پہلے ہی تکمیل عقل حاصل کر لے کیونکہ تکمیل عقل کا زمانہ بیس، چھبیس، تیس سے چلتا ہؤا چالیس پر جاکر ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی تیرہ یا چودہ برس کا بچہ تکمیلِ عقل کرے۔ ہر ایک تغیرکے لئے ایک نقطہ اور دائرہ ہوتا ہے اور اس نقطہ سے چل کر اس دائرہ کے اندر اندر تکمیل ہو جاتی ہے۔
پس جس طرح جسم کی تکمیل، عقل کی تکمیل اور دین کی تکمیل کے لئے ایک زمانہ ہوتا ہے اسی طرح قوموں کی تکمیل کے لئے بھی ایک زمانہ ہوتا ہے۔ نادان اعتراض کرتا ہے کہ فلاں قوم یا فلاں جماعت کا تو یہ حال ہے کہ بہت تھوڑی سی اور کمزور ہے وہ دُنیا میں کیا ترقی کرے گی اور کس طرح دُنیا پر غالب آجائے گی لیکن اس کی مثال وہی ہے کہ ایک زبردست پہلوان کی حالتِ نطفہ کی طرف اشارہ کر کے کوئی کہے بھلا یہ ایک قطرہ کیا کر سکے گا یا یہ کہے کہ کیا اس قطرہ سے ایسا انسان پیدا ہو سکتا ہے جو خدا سے باتیں کر سکے؟ پس جس طرح نطفہ کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس سے پہلوان نہیں پیدا ہو گا یا اس سے خدا کا مقرب انسان نہیں پیداہو گا اسی طرح قوموں کی ابتدائی اور کمزوری کی حالت پر بھی یہ فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ دُنیا میں کیا تغیر پیداکر دیں گی بلکہ قوموں کی ابتدا میں یہ دیکھنا چاہئے کہ فلاں قوم میں نشوونما کی قابلیت ہے یا نہیں؟ مثلاً یہ کہ بچہ جو بڑھتے بڑھتے ایک بولتا چلتا انسان بن جاتا ہے اور لاکھوں انسانوں پر حکومت کرنے لگتا ہے وہ نطفہ سے پیدا ہوتا ہے مگر چونکہ نطفے ضائع بھی ہو جاتے ہیں اور ہر نطفہ سے بچہ پیدا نہیں ہوتا اس لئے اگر کوئی کہہ دے کہ نطفہ فضول چیز ہے تو یہ اس کا استدلال باطل ہو گا کیونکہ بے شک نطفے ضائع ہوتے ہیں مگر سب نطفے تو ضائع نہیں ہوتے۔ اسی طرح جو اقوام دُنیا میں اُٹھتی ہیں ان میں سے بہت سی مٹتی ہیں مگر بہت سی بڑھتی بھی تو ہیں۔ پس دیکھنا یہ چاہئے کہ آیا اس قوم میں بڑھنے اور ترقی کرنے کی قابلیت ہے یا نہیں؟ پس جس طرح نطفہ پر اعتراض نہیں ہو سکتا اسی طرح قوم کی ابتدائی حالت پر بھی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ احمدی جن کی یہ کمزور حالت اور قلیل تعداد ہے یہ دُنیا کو تو فتح کیا کریں گے انہیں اپنا وجود ہی قائم رکھنا مُشکل ہے مگر ہم اس اعتراض کے جواب میں یہی کہیں گے کہ یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ ابتدا میں تمام بڑھنے والی اقوام کمزور ہؤا کرتی ہیں اسی طرح ہم بھی ہیں۔ ہاں ہم سے یہ ثبوت طلب کرو کہ آیا ہم میں ترقی کرنے اور نشوونما پانے کی قابلیت بھی ہے کہ نہیں کیونکہ ہر ایک قوم جو دُنیا کی اقوام پر غالب آئی ہے وہ ابتدا میں کمزور ہوتی ہے اور جنہوں نے ان بڑھنے والی اقوام کی ابتدائی حالت کی بناء پر فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ نہیں بڑھیں گی انہوں نے غلطی کی کیونکہ کسی چیز کو ابتدا میں حقیر نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اس میں ترقی و نشوونما کی قابلیت موجود ہے یا نہیں۔ کوئی مذہب جو ابتدا میں کمزور ہو اس کے متعلق یہ فیصلہ کرنا غلط ہے کہ یہ ترقی نہیں کرے گا کیونکہ اس وقت کمزور ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اس میں ترقی کی قابلیت رکھی گئی ہے یا نہیں۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ قابلیت ہے مگر قابلیت ضائع بھی تو ہو جاتی ہے جیسے کہ ہر نطفہ بچہ نہیں بن سکتا۔ پھر بعض نطفوں میں بچہ بننے کی قابلیت تو ہوتی ہے مگر رحم مادر میں نہیں ٹھہرتے یا ٹھہرتے ہیں مگر گر جاتے ہیں یاتکمیلِ خلق سے پہلے پیدا ہو کر مَر جاتے ہیں یا پیدا ہوتے ہیں مگر مجنون و کمزور۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہو تو اعتراض ہو گا مگر قبل از وقت اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اقوام کے متعلق بھی ہوتا ہے کہ ان پر اعتراض محض ان کی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہو سکتابلکہ دیکھنا یہ چاہئے کہ یہ قوم کس طریق پر اُٹھی ہے اور کن سامانوں سے اُٹھی ہے۔ آیا وہ سامان بڑھنے والی قوموں کی مانند ہیں یا نہیں۔ تمام بڑھنے والی قوموں کی یہی مثال ہوتی ہے جو بچے کی ہوتی ہے۔ بچے کی تکمیل کے لئے چالیس سال ہیں اسی طرح قوم کی تکمیل کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اگر اس عرصہ میں قوم کی ترقی نہ ہو تو سمجھو کہ پیشگوئی جھوٹی ہوئی۔ پس ہم میں بڑھنے کی قابلیت و دیعت کی گئی ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے اس لئے دُشمن کا اعتراض باطل ہے کہ ہم اب تک بڑھ کیوں نہیں گئے اور سب دُنیا پر غالب کیوں نہیں آگئے۔
اگر ہماری حالت کو دیکھا جائے تو ہم میں وہ تمام قابلیتیں ہیں جن کا ہونا بڑھنے والی قوموں کے لئے ضروری ہے۔ اگر اس قانون کے ماتحت دیکھا جائے تو آج تک جن قوموں نے دُنیا میں ترقی کی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوم کو چھوڑ کر باقی کسی نبی کی قوم کو اتنے عرصہ میں وہ ترقی نہیں ملی جو ہمیں ہوئی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس اشاعت کا ذریعہ اَور تھا۔ پس حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ترقی کو چھوڑ کر کسی نبی کی قوم نے اس سُرعت سے ترقی نہیں کی جس سے ہم کر رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو قوم بنی تاریخ سے ظاہر ہے کہ ان میں مومنین بہت تھوڑے تھے۔ تمام قوم محض ظُلم فرعون سے بچنے کے لئے آپ کے ساتھ ہو گئی تھی۔ قرآن کریم و تورات سے بھی ظاہر ہے۔ پس حضرت موسیٰ سے ملنے والوں میں نبوتِ موسیٰ کے ماننے والے بہت تھوڑے تھے اس لئے حضرت موسیٰ کی کامیابی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رنگ میں حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی کے طفیل جو ترقی ہوئی وہ بھی حضرت موسیٰ کی ترقی سے بہت زیادہ ہے۔ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ کے ساتھیوں کی تعداد کے متعلق آتا ہے ’’ وَ هُمْ اُلُوْفٌ ‘‘ 1 وہ ہزاروں تھے لیکن ہم تو خدا کے فضل سے لاکھوں ہیں لیکن جماعت کا بھی فرض ہے کہ خدا کے اس فضل کی قدر کرے اور اپنے فرض کو محسوس کر کے اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرے ۔ جب تک تبدیلی پیدا نہ ہو گی محض دعویٰ سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اِس وقت ہم اس بیج کی طرح ہیں جو دُنیا میں خدا کی طرف سے آیا ہے اس لئے ہمیں کام کرنا چاہئے۔
پس ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ چھوٹے بڑے تبدیلی کریں اور اپنے تئیں ان فضلوں اور انعاموں کے مستحق بنائیں جن کے دروازے کھل رہے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام چند سالوں میں دُنیا میں پھیل گیا اور دُنیا کا کوئی گوشہ نہیں جہاں آپ کا نام نہ پہنچا ہو۔ اس بستی (قادیان) کو دیکھو اور اس کی شُہرت کو دیکھو جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اس کو حاصل ہوئی۔ ایک طرف امیر قومیں ہیں لیکن ان تمام امیر قوموں پر خدا تعالیٰ نے ان غرباء کا رُعب ڈال دیا ہے۔ کُجا قادیان کے رہنے والے اور سیالکوٹ اور ہوشیار پور وغیرہ کے زمیندار اور کُجا ان کا لندن میں مسجد بنانا۔ یہ معمولی بات نہیں اور نہ اس کو معمولی بات کہیں گے اگرچہ ایک جگہ مسجد بنانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن بڑی اور غیر معمولی بات یہ ہے کہ ان غرباء کے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ لندن میں مسجد بنائی جائے ۔ کولمبس نے امریکہ کو دریافت کیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ معمولی بات ہے ہم بھی کر سکتے تھے۔ سمندر میں بیٹھ کر چلے گئے۔ ایک مقام مِل گیا اس میں کمال ہی کیا ہے۔ کولمبس کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اُس نے ان معترضین کی دعوت کی اور ایک انڈامنگوا کر میز پر اِن کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ اس کو سیدھا کھڑا کر دو۔ وہ اس کو نہ کھڑا کر سکے تو اس نے کہا لاؤ میں اس کو کھڑا کرتا ہوں۔ اس نے سوئی سے انڈا میں سوراخ کر کے اس سے جو مادہ نکلا اس کے ساتھ کھڑا کر دیا اور کہا کہ جس طرح اب تم کو انڈا کھڑا کرنے کا موقع مِلا مگر تم کھڑا نہ کر سکے اسی طرح اگر تم کو امریکہ کی تلاش کرنے کا موقع ملتا بھی تو تم نہ کر سکتے اور مَیں امریکہ میں گیا اور تم نہ گئے۔
پس درحقیقت لندن میں مسجد بنانے کی ابتدا کرنے کی جس نے جرأت کی وہ ہماری جماعت ہی ہے۔ اب اگر اَور لوگ اس طرف لگ جائیں تو کوئی بات نہیں کیونکہ ابتدا کاسہرا ہمارے ہی سر ہے کیونکہ فضیلت اسی کو ہوتی ہے جس کے دل میں ایک خیال پہلے آئے اور وہ اس پر عمل شروع کر دے۔ سینکڑوں سال سے لوگوں کے پاس اسلام تھا مگر وہ تو اس کو چھپاتے تھے اور اس کو ظاہر کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ اگر ہم نے ظاہر کیا تو لوگ کیا کہیں گے لیکن مرزاصاحب ہی پہلے شخص تھے جنہوں نے کہا کہ اسلام وہ تلوار ہے جس کے ذریعہ ہم باطل کو کاٹ کر رکھ دیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے ایسا کر کے دکھادیا۔ پس اب اسلام کو دُنیا کے سامنے نکالنا کچھ مُشکل نہیں۔ مُشکل اس وقت تھا جس وقت لوگ ڈرتے تھے۔ پس جس نے ابتدا کی فتح اسی کی طرف منسوب ہو گی اسلام کو چھپانے والوں کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی کہ اس نے دُنیا میں اسلام کو پیش کیا اور منوالیا۔
اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اشاعتِ اسلام کے سامان پیدا ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں اِنْشَاءَ اﷲ اس وقت ہمارا مبلّغ پہنچ چُکا ہو گا۔ اسی طرح افریقہ، سیلون میں ترقی ہو رہی ہے، جرمنی میں بھی اشاعت ہو رہی ہے۔ ایک جرمن قونصل تھا جو ایامِ جنگ میں نظر بند ہو گیا تھا وہ پہلے سے مسلمان ہو چُکا ہے۔ وہ اپنے مُلک میں کوشش کر رہا ہے۔ روس کے لوگوں میں بھی اسلام ترقی پر ہے وہاں بھی بیج پڑ گیا ہے۔ وہ لوگ ہم سے مبلّغ مانگتے ہیں اور آج ولایت سے ایک اور بشارت آئی ہے کہ ایک اور ہندو بیرسٹر مسلمان ہؤا ہے۔
وہ جو پیشگوئی تھی کہ سورج مغرب سے طلوع کرے گا۔2 اس کے کمال کے ساتھ پورے ہونے کے دن آرہے ہیں۔ ہندو بھائی ہماری یہاں تو سُنتے نہیں لیکن وہاں پہنچ کر وہ اسلام کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ پہلے جو لوگ ہندوؤں میں سے مسلمان ہوئے وہ عام طور پر بچپن میں ہوئے مثلاً شیخ عبدالرحمن صاحب مصری (لاہوری) چھوٹی عمر میں مسلمان ہوئے، ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے جالندھری یہ بھی بچے تھے لیکن اب حالت بدل چکی ہے۔ پہلے مسٹرساگر چند بیرسٹر مسلمان ہوئے۔ اب خدا کے فضل سے ایک اور ہندو بیرسٹر مسلمان ہوئے ہیں اور ہندوؤں میں کلتی اوتار کی پیشگوئی تھی اور یہ نام حضرت اقدس کو دیا گیا تھا وہ اب پوری ہو رہی ہے۔ پس ہمارے ہندو بھائی یہاں تو ہم سے باتیں سُنتے نہیں مغرب میں ہی ہماری باتیں سُن رہے ہیں اور اِنْشَاءَ اﷲ اُمید ہے کہ اور بھی لوگ عنقریب مسلمان ہوں گے۔
ہمارے لئے ایک رُوحانی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔ آپس میں کینہ رکھتے ہیں اور پھر مدتوں آپس میں نہیں بولتے اور جب ایک مجلس میں بیٹھتے بھی ہیں تو ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کر لیتے ہیں اور ان کے دلوں سے محبت نکل جاتی ہے لیکن تمہیں چاہئےکہ اپنے دلوں سے کینوں اور حسدوں کو نکال دو۔ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے قلوب میں آجائے تو وسعت اختیار کرو کیونکہ خدا غیر محدود ہے وہ محدود اور تنگ دلوں میں نہیں سما سکتا اور بُلند ہمتی اور علوّ حوصلہ دین کے لئے پیدا کرو۔ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور محبت کرو۔ بہت لوگ ہیں جو دُشمنوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں مگر اپنے بھائیوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے لیکن جو شخص محض غیروں سے اچھا سلوک کرتا ہے وہ کامل اور مکمل نہیں اور کامل اور مکمل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے بھائیوں سے بھی اچھا سلوک ہو۔ پس اپنی اصلاح کرو اور خدا کے فضلوں کو دیکھو کہ کس طرح تمہارے لئے اِن کے دروازے کھولے گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ 3 کہ اگر تم شُکر کرو گے تو مَیں تمہیں اور بڑھاؤں گا یہ تمہارے لئے شکر کرنے کا موقع ہے۔’’
جب حضور دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ
‘‘ میرا انشاء اﷲ ارادہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد یہاں سے لاہور جانے کے لئے روانہ ہو جاؤں۔ میرے بعد انتظامی معاملات میں مولوی شیر علی صاحب امیر ہوں گے۔ آپ لوگ ان کی اطاعت کریں۔ جن باتوں میں خلیفہ سے پوچھنے کی ضرورت ہوتی ہے ان کی اجازت کے بغیر نہ کریں اور امیر صلوٰۃ قاضی سیّد امیرحسین صاحب ہوں گے جو میری جگہ چھوٹی مسجد میں نماز پڑھایا کریں گے۔ یہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سُنت تھی کہ آپ جب باہر تشریف لے جاتے تو اپنی جگہ بعض دفعہ دو شخصوں کو علیحدہ علیحدہ مقرر فرماتے اور بعض دفعہ ایک ہی شخص کے سُپرد دونوں کام کر دیتے۔ پس امیر منتظم مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور امیر صلوٰۃ قاضی صاحب۔ اَب مَیں لاہور جاؤں گا اور پھر جب خدا تعالیٰ چاہے گا دوستوں سے ملاقات ہو گی۔
پس میری یہ نصیحت ہے کہ آپس میں محبت سے رہو۔ سامنے بھی اور پیچھے بھی اور اپنے تئیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کے مستحق بناؤ۔ دیکھو کہ باوجود اس کے کہ ہمارے عمل نہیں مگر پھر بھی وہ ہمارے اوپر اپنے فضلوں کی بارش کر رہا ہے۔ ہم محتاج تھے اس کو ہماری ضرورت نہیں، وہ ہمارا حاجت مند نہیں ہم اس کے حاجتمند ہیں اور اس کی ہر وقت مدد کے محتاج ہیں اور اس کی مدد کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں مگر وہ ہم سے کیسے سلوک کرتا ہے اور کس کس طرح ہم پر اپنے احسانوں کی بارش کرتا ہے۔اﷲ تعالیٰ ہم میں اپنا تقویٰ پیدا کرے اور ہمارے عیبوں کو ڈھانپے۔ آمین‘‘ (الفضل 4مارچ 1920ء)
1: البقرۃ:124
2: مسلم کتاب الفتن باب بقیۃ مِّنْ احادیث الدَّجَال
3: ابراھیم :8

75
اشاعتِ دین ہر ایک مومن کا فرض ہے
(فرمودہ 20فروری1920ء بمقام احمدیہ ہوسٹل لاہور)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''نماز جمعہ کی غرض روحانی فوائد اور روحانی منافع کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے ایک یہ بھی مقرر فرمائی ہے کہ اس کے بندے ایک خاص حلقہ کے اندر جمع ہو کر دین کی ضروریات اور تقویٰ و طہارت حاصل کرنے کی ہدایات سُنیں۔ دوسری نمازیں صرف عبادت کا رنگ رکھتی ہیں لیکن جمعہ کی نماز عبادت کے علاوہ ذکر کا رنگ بھی رکھتی ہے، پھر باقی نمازوں میں اگر ذکرِ الٰہی کا دخل ہے تو خِفا کے رنگ میں ہے لیکن جمعہ کی نماز میں ذکرِ الٰہی بالجہر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید وعظ کے رنگ میں رکھی گئی ہے۔ پس دوسری نمازیں اگر انسان کے اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہیں تو جمعہ کی نماز اس رشتہ اور تعلق کو مضبوط کرتی ہے جو بنی نوع انسان کا آپس میں خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور نمازِ جمعہ کو دوسری نمازوں پر یہ فضیلت ہے کہ نماز جمعہ مومنوں کے لئے تقویٰ و طہارت کے زیادہ کرنے کے علاوہ آپس کی محبت اور پیار کے ازدیاد کا موجب ہوتی ہے مگر بہت لوگ جو نماز پڑھتے ہیں وہ بھی اور جو پڑھاتے ہیں وہ بھی اس حکمت سے غافل ہوتے ہیں۔ دیکھئے جمعہ کی نماز میں خدا تعالیٰ نے اپنی خاص عبادت سے دورکعتیں قائم کر دی ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق جو دوسرے دنوں میں چار رکعت ادا کرنا فرض ہے اس کو خداتعالیٰ نے اس طرف توجہ دلانے کے لئے کم کر دیا ہے کہ بہت سی نیکیاں اذکار کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہیں۔ شریعت کے بہت سے احکام ایسے ہوتے ہیں جن سے عام طور پر لوگ غافل ہوتے ہیں اور غفلت کی وجہ سے ان کے پورا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں ان کو سمجھانے اور یہ بتانے کے لئے کہ انسان ان کو پھیلانے کی کوشش کرتا رہے خدا تعالیٰ نے جمعہ کے دن اپنی عبادت کو نصف کر دیا ہے۔ اس دو رکعت کے کم کرنے سے کتنا وقت بچتا ہے اور کتنا وقت خطبہ پڑھنے کے لئے مِل جاتا ہے وہ بہت قلیل ہے لیکن یہاں اس کا سوال نہیں بلکہ اس سے اصل میں یہ سبق دینا مقصود ہے کہ اے انسان! تیری تعلیم و تربیت اس قدر ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے جمعہ کے دن اپنی عبادت میں سے نصف تجھے معاف کر دی ہے کہ جا اور جاکر اس وقت میں بھی تعلیم حاصل کر۔ وقت کے لحاظ سے عبادت کو نصف کر دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن اس سے یہ سبق دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک انسانی تعلیم و تربیت کی اس قدر اہمیت ہے کہ اس نے اپنی عبادت میں سے نصف کو اس لئے معاف کر دیا ہے تو جمعہ کے دن یہ بہت بڑا سبق دیا گیا ہے کہ تعلیم دین اور اپنے نفس کی اصلاح کے لئے صرف اپنے اندر کی کوشش کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے باہر سے بھی بہت کچھ سُننے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بہت دفعہ انسان ایک بات سُنتا ہے مگر اس کا اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا لیکن کسی دن وہی بات جو دِل پر پڑتی اور کچھ اثر نہ کرتی تھی اور وہی آواز جو کان میں گونجتی تھی مگر اندر داخل نہ ہوتی تھی وہی آواز دل کے اندر داخل ہو کر اسے نرم کرکے پگھلا دیتی ہے اور اندرونی آلائشوں مثلاً بُغض، حسد، عناد اور کینہ کو دُور کر دیتی ہے اور دل کو ایسا جلا 1 کر دیتی ہے جیسے پیتل کا برتن پالش کیا ہؤا بلکہ اس کی صفائی کو آئینہ کی صفائی سے مشابہت دی جاسکتی ہے کہ وہ صرف آپ ہی صاف نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کی کیفیت اور حالت کے دکھلانے کا بھی ذریعہ ہو جاتا ہے۔ دوسروں کی غلطی اور خوبی کو بتا دیتا ہے۔ تو دوسروں سے دین کی باتیں سُنتے رہنا اور دوسروں کے علم سے فائدہ اُٹھانا نہایت ضروری چیز ہے۔ دوسری نمازوں میں انسان کا اپنا نفس مخاطب ہوتا ہے مگر جمعہ کے دن ایک دوسرا آدمی اُسے وعظ سُناتا ہے اور انسان کے اخلاق میں سے ایک خُلق یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اندر دوسروں سے وعظ سُننے کی قابلیت اور اہلیت رکھتا ہو۔ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے نفس کا وعظ تو سُن سکتے ہیں لیکن دوسروں کا نہیں سُن سکتے۔ دوسرا اگر ذرا سی بات کہے تو اس سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا کیا حق ہے کہ ہمیں نصیحت کرے؟ لیکن اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک سچی اور اچھی بات تمہارے اندر سے تمہیں معلوم ہو سکے بلکہ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک دفعہ جو سچی بات تم نے سُنی ہو پھر اُسے نہ سُنو۔ ممکن ہے ایک دفعہ کسی سے تم نے نئی بات سُنی ہو لیکن اُسے بھُلا دیا ہو، یا یاد تو ہو لیکن تم نے اپنی سُستی اور غفلت کی وجہ سے اس سے فائدہ نہ اُٹھایا ہو۔ پس ہر ایک انسان کے لئے اپنے اندر قابلیت پیدا کرنا ضروری ہے کہ وہ نیک بات دوسروں کے مُنہ سے سُنے تاکہ خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کی قُربانی کر سکے۔ پس ایک ایسا شخص جو اَور دنوں میں کسی دوسرے کے مُنہ سے وعظ و نصیحت نہیں سُنتا یا نہیں سُننا چاہتا وہ مجبور ہے کہ جمعہ کے دن دوسرے کے مُنہ سے نصیحت کی باتیں سُنے اور سیکھے۔ تو جمعہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ عادت ڈلوائی ہے اور اپنے ماموروں کے زمانہ کے لئے تیار کیا ہے۔ اگر یہ سبق نہ دیا جاتا تو دوسرے لوگوں کی طرح مسلمان بھی خداتعالیٰ کے کسی خاص مامور کی باتیں نہ سُنتے مگر باوجود اس کے کہ عام طور پر مسلمان دین سے دُور ہو چکے ہیں پھر بھی اَوروں کی نسبت بہت زیادہ سُنتے ہیں مگر یہاں دوسروں کی نسبت سُننے کا سوال نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ جب مسلمانوں کو جمعہ کے دن یہ سبق دیا گیا تھا تو اُنہوں نے کیوں اسے بھُلا دیا اور وہ کیوں دوسرے سے نصیحت کی باتیں سُننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ سورۃ جمعہ میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتا دیا تھا کہ اس میں یہی حکمت ہے کہ تمہیں اس بات کے لئے تیار کیا جائے کہ آئندہ بھی ایک آواز آنے والی ہے اس کو سُنو اور تم میں یہ عادت ڈالی جاتی ہے کہ دوسرے کے مُنہ سے آواز سُن سکو اور اس کا انکار نہ کرو۔ جب تم جمعہ کے دن ایک امام مقرر کر کے اس کی باتیں سُنتے ہو خواہ وہ تمہارے نفس کے خلاف ہی کہے تو پھر جو شخص ہماری طرف سے آکر تمہیں کچھ سُنائے اس کی باتوں کا انکار کیونکر کر سکتے ہو لیکن حیرت ہے کہ تم جمعہ کے دن خود ایک ایسے شخص کو جو تم سے بعض دفعہ تقویٰ میں، طہارت میں، علم میں کم ہوتا ہے سُنتے ہو اور اس کی باتوں کو خوشی سے برداشت کرتے ہو مگر جو میری طرف سے آتا ہے اس کی باتیں نہیں سنتے گویا تم نے خدا کو بندوں سے بھی ذلیل سمجھ لیا ہے کہ بندوں کے مقرر کردہ امام کی باتیں تو سُنتے ہو مگر خدا کے مقرر کردہ انسان کی باتیں نہیں سُنتے۔ تو جمعہ کے اندر یہ سبق دیا گیا ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے لئے دوسرے کی باتیں سُننے کی عادت ڈالنی چاہئے کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو بہت دفعہ انسان کو اپنے متعلق دھوکا لگ جاتا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان کو خود اپنے نفس کی کمزوری نظر نہیں آتی لیکن دوسرے کو نظر آجاتی ہے اور وہ اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلا دیتا ہے۔ اس بات کو اگر مسلمان مضبوطی کے ساتھ پکڑتے اور اس پر کاربند ہوتے تو ان میں کبھی تفرقہ نہ پڑتا مگر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر انہیں کوئی دوسرا نصیحت کرے تو اس سے لڑنے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم اپنی عزت اور شان ظاہر کر رہے ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی نجاست کھا رہا ہو اور دوسرا اسے منع کرے تو وہ کہے تجھے کیا مَیں ضرور کھاؤں گا۔ تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ وہ بڑا بہادر اور بڑی عزت والا انسان ہے یا یہ کہ وہ حد درجہ کا جاہل اور نادان ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو نیکی کے متعلق نصیحت کرتا ہے اس سے لڑنا اور اُسے سخت سُست کہنا کوئی عزت کی بات نہیں بلکہ جہالت اور نادانی کا فعل ہے کیونکہ جب تک اُسے بُرائی کا علم نہ تھا اس وقت تک اس کا اس میں مُبتلا رہنا اور بات تھی لیکن علم ہونے اور منع کرنے کے بعد بھی اس پر قائم رہنا اور منع کرنے والے سے لڑنا اس کی سخت نادانی اور جہالت کو ثابت کرتا ہے۔
پس خدا تعالیٰ نے جس طرح آپس میں اتحاد قائم رکھنے اور محبت بڑھانے کے لئے جمعہ میں بڑا سبق رکھا اسی طرح تبلیغ کی طرف بھی خاص طور پر متوجہ کیا ہے اور اپنے دین کی تبلیغ اور تذکیر کے لئے اپنی عبادت کو چھوڑ دیا ہے۔ نادان ہم پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جلسوں پر کیوں نمازیں جمع کر لیتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں جمع کرنا کیسا؟ خدا تعالیٰ نے تواجتماع کے دن دو رکعتیں ہی اُڑا دی ہیں پھر جلسوں کے ذریعہ ذکر الٰہی اور دینِ الٰہی کا پھیلانا کیا ایسی نکمّی چیز ہے کہ بارش ہو تو نماز جمع کر لی جائے، کہیں جانا ہو تو جمع کر لی جائے لیکن اس کے لئے نہ کی جائے۔ اگر اﷲ تعالیٰ کے نام کی اشاعت ایسی ہی معمولی چیز ہے کہ اس کے لئے نمازیں جمع نہیں کرنی چاہئیں تو پھر یہ کیا ہے کہ ہفتہ میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنی آدھی عبادت ہی اُڑادی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ذکر کو پھیلانا اور اس کے دین کی اشاعت کرنا بہت بڑے اہم امور میں سے ہے۔ پس جمعہ میں جہاں ان لوگوں کے لئے سبق ہے جو خداتعالیٰ کے دین کی تحقیر کرتے ہیں کہ وہ اس کی اہمیت سمجھیں وہاں ہمارے لئے بھی یہ سبق رکھا گیا ہے کہ ذکرِ الٰہی کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے اپنا حق بھی چھوڑ دیا ہے اور اس طرح بتایا ہے کہ جب مَیں نے تذکیر اور وعظ کے لئے اپنی عبادت آدھی کر دی ہے تو پھر تم اس کے لئے کیوں قُربانی نہیں کرتے مگر بہت لوگ ایسے ہیں کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ تم کیا اشاعتِ دین کرتے ہو تو کہتے ہیں ہمیں اپنے کاموں سے ہی فرصت نہیں ہوتی تبلیغ کیا کریں۔ مَیں کہتا ہوں کاموں سے فرصت تو ان لوگوں کو بھی نہیں جنہوں نے مسیح موعود علیہ السلام کو ردّ کیا ہے پھر تم کو ان پر کیا فضیلت ہوئی اور تم میں اور ان میں کیا فرق رہا؟ رہا تبلیغ کے لئے چندہ دینا مَیں مانتا ہوں کہ جس طرح ہماری جماعت ایک باقاعدگی کے ساتھ چندہ دیتی ہے اور کوئی جماعت نہیں دیتی مگر پھر بھی اَور قوموں میں ایسے لوگ ہیں تو سہی جو چندہ دیتے ہیں۔ خواہ ان میں سے سَو پچاس میں سے ایک ہی دے لیکن چونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لئے چندہ دینے والے تعداد کے لحاظ سے ان میں زیادہ ہیں۔ پس چندہ دینے کے لحاظ سے وہ ہمارے ساتھ تو مساوی ہیں کیونکہ ان میں بھی ایسے لوگ ہیں جو دیتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات کی خداتعالیٰ کے لئے قُربانی کرنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ سمجھتے ہیں کہ اگر خدا کے دین کے لئے روپیہ دے دیا تو پھر ضروری نہیں ہے کہ وقت بھی دیں۔ اتنا ہی کافی ہے کہ کبھی کسی مولوی کو بُلا کر وعظ کرا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مولوی جن پر قرض ہو جاتا ہے وہ بمبئی وغیرہ مقامات پر چلے جاتے ہیں اور وعظ کر کے روپیہ جمع کر لاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ دینے والے تو ان میں بھی ہیں ہاں اگر کوئی فرق ہے تو یہی کہ وہ چندہ دے کر اس کے ساتھ یہ شرط لگاتے ہیں کہ ہم روپیہ تو دے دیں گے لیکن اپنا وقت نہیں دیں گے مگر سچّے مذہب کے پیرو اس قسم کی شرطیں نہیں لگایا کرتے۔
مومن کی علامت خدا تعالیٰ نے یہ بتائی ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ 2 کہ جو چیز سب سے قیمتی سمجھے اسے خدا کی راہ میں قُربان کرے۔ اگر کوئی روپیہ تو دے سکتا ہے لیکن وقت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو اس سے وقت کا ہی مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یا اگر امیرآدمی ہے اس کو غرباء سے مِل کر بیٹھنا دوبھر معلوم ہوتا ہے تو اس سے خدا تعالیٰ یہی قربانی چاہتا ہے۔ غرضیکہ جو چیز کسی کو قیمتی معلوم ہو وہی خدا تعالیٰ اپنے رستہ میں قُربان کرنے کے لئے کہتا ہے اور مومن وہی ہوتا ہے جو ایسا کرتا ہے۔ پس اشاعتِ دین کے لئے خدا تعالیٰ نے جمعہ میں بہت بڑا سبق رکھا ہے اور بتایا ہے کہ جب خدا نے اپنی عبادت کا آدھا وقت کم کر دیا ہے تو تم کیوں اپنا وقت اس کام میں خرچ نہیں کرتے مگر افسوس ہے کہ بہت لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے۔ آج یہاں باہر سے بھی جماعتیں آئی ہوئی ہیں وہ بھی میری مخاطب ہیں لیکن خصوصاً لاہور کی جماعت سے خطاب ہے۔ وہ بتائے کہ اس کے کتنے آدمی ہیں جو تبلیغِ دین کے لئے اپنا وقت صَرف کرتے ہیں اور ہر سال کتنے آدمی ان کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔ بہت لوگ اس خیال سے کہ ہمیں وسیع الاخلاق سمجھا جائے ان لوگوں کو جن سے وہ ملتے ہیں تبلیغ نہیں کرتے تاکہ ان کے متعلق ان سے ملنے والے کہیں کہ انہیں ہم سے ملتے دو سال ہو گئے ہیں لیکن کبھی اُنہوں نے اپنے سلسلہ کا نام تک نہیں لیا اور کبھی تبلیغ نہیں کی۔ گویا وہ خدا اور اس کے رسول کو اس لئے قُربان کرتے ہیں کہ انہیں وسیع الخیال کہا جائے۔ پھر کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنے اوقات کے متعلق خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اشاعتِ دین میں لگایا تو ہماری تجارت یا پیشہ کے کاروبار میں نقصان ہو گا۔ گویا وہ دین کی اشاعت کی طرف اس لئے توجہ نہیں کرتے کہ اس وجہ سے انہیں مالی نقصان برداشت کرنا پڑے گا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ صداقت پر قائم رہنے اور خدا تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی قُربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ اس طرح توجہ نہیں کرتے اور وہ غیر احمدیوں کی طرح سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کرنا مولویوں کا کام ہے ہمارا نہیں ہے۔ جب انہیں کہا جائے کہ تم تبلیغِ دین کیوں نہیں کرتے تو کہتے ہیں مولوی بھیجو۔ گویا ان کے نزدیک تبلیغ کے ذمہ دار صرف مولوی ہیں اور وہ خود اس سے بری الذمہ ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں کہیں یَا اَیُّھَا الْمَوْلَوِیُّوْنَ نہیں آیا کہ اے مولویو! تم یوں کرو بلکہ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاہی آیا ہے کہ اے مسلمانو! تم اس طرح کرو۔ قرآن کریم کی کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس میں صرف علماء کو مخاطب کر کے کہا گیا ہو کہ اے علماء! تم یوں کرو بلکہ بار بار یہی آیا ہے کہ اے مسلمانو! تم یوں کرو۔ اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم نے سب مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے اور قرآن قیامت کے دن یہ مطالبہ نہیں کرے گا کہ مجھے مولویوں نے دُنیا میں نہیں پہنچایا بلکہ یہی کرے گا کہ مجھے مسلمانوں اور مومنوں نے نہیں پہنچایا اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی یہی فرمائیں گے کہ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا 3 اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو پھینک دیا۔ یہ نہیں فرمائیں گے کہ مولویوں نے اسے پھینک دیا۔ پس وہ لوگ جو صرف مولویوں کو تبلیغ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے کہ کس قدر تبلیغ کرتے ہو تو کہتے ہیں مولوی کچھ نہیں کرتے ان سے میں پوچھتا ہوں قرآن نے صرف مولویوں کو تبلیغ کرنے کا کہاں ذمہ دار قرار دیا ہے؟ قرآن نے تو ہر ایک مومن کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ مولوی بیچارے جو تبلیغ کا کام کرتے ہیں تعریف کے مستحق ہیں نہ کہ طعن و تشنیع کے کہ سارا بار ان پر ڈال کر کہا جائے وہ کچھ نہیں کرتے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہتے ہیں دو سُست شخص تھے جو راستہ پر پڑے رہتے تھے۔ ایک دفعہ جب ان کے پاس سے ایک آدمی گزرا تو ایک نے اُسے آواز دے کر بُلایا۔ جب وہ پاس آیا تو اسے کہا کہ یہ بیر اُٹھا کر میرے مُنہ میں ڈال دینا۔ اس پر اسے غصّہ آیا کہ خواہ مخواہ اس نے بُلا کر میرا حرج کیا ہے اور وہ گالیاں دینے لگا۔ دوسرا جو پاس پڑا تھا اُس نے کہا بھئی یہ بڑا سُست آدمی ہے کچھ کرتا ہی نہیں ساری رات کُتّا میرا مُنہ چاٹتا رہا ہے اُس نے ہشت تک نہیں کی۔ وہ بول تو پڑا مگر یہ خود کُتّے کو ہٹانے کے لئے بھی نہ بولا اور اُلٹا اس پر طعن کرنے لگا۔
آجکل عام لوگ مولویوں کو بہت بُرا بھلا کہتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرتے حالانکہ وہ کبھی نہ کبھی وعظ کر دیتے ہیں اس پر بھی ان کو بُرا کہا جاتاہے مگر یہ جو دین کا نام تک نہیں لیتے یہ اچھے ہو گئے۔ اگر خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہوتا کہ اے مولویو! دین کی خدمت اور اشاعت کرنا صرف تمہارا ہی فرض ہے تو اس وقت جس قدر چاہتے ان کو بُرا بھلا کہہ لیتے کہ وہ کچھ نہیں کرتے مگر جب ایسا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک مومن کا فرض رکھا ہے کہ وہ دین کو پھیلائے تو خواہ مخواہ مولویوں کے سرہونا اُسی سُست کی روش اختیار کرنا ہے جس کا مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ پس جب دین کی اشاعت کرنا ہر ایک مومن کا فرض ہے تو مَیں پوچھتا ہوں آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس فرض کو سمجھا ہے اور اس کے ادا کرنے کے لئے کام کیا ہے۔ آپ لوگوں کو کبھی تو سوچنا چاہئے کہ قرآن کریم نے صرف مولویوں کو تبلیغ کا ذمہ دار قرار نہیں دیا بلکہ سب کو قرار دیا ہے اور جمعہ اس بہت بڑی ذمہ داری کی طرف خاص طور پر توجہ دلاتا ہے۔ پس مَیں اپنی ساری جماعت کو بالعموم اور جماعت لاہور کو بالخصوص کہتا ہوں کہ جہاں وہ وعظ اور نصیحت کو سُننے کی عادت پیدا کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں وہاں اس کے پھیلانے کی بھی کوشش کریں۔ جب خدا تعالیٰ نے اپنی عبادت کو آدھا کر دیا ہے تو کیا وہ کچھ نہیں چھوڑنا چاہتے۔
اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو سمجھ عطا فرمائے کہ اس کے دین کو پھیلانے میں لگ جائے اور لڑائیوں جھگڑوں میں پڑ کر وقت ضائع نہ کرے بلکہ متحد ہو کر خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت میں لگ جائے تاکہ جلد سے جلد خدا تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائے۔‘‘
(الفضل 8مارچ 1920ء)
1: جِلا کرنا : چمکانا۔ صیقل کرنا
2: آل عمران: 93 3: الفرقان: 31

76
دُنیا کو امن کا پتہ دو
(فرمودہ 27فروری 1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی حالت اور اس وقت کے لوگوں کے خیالات کو دیکھ کر ایک ایسا سامان پیدا کیا گیا اور ایک ایسا دروازہ کھولا گیا ہے جس میں سے ہو کر انسان حقیقی آرام اور اطمینان حاصل کر سکتا ہے اس راستہ کے بغیر کوئی رستہ نہیں جس طرف دیکھوامن و اطمینان نہیں ہے۔ اکثر لوگوں نے غلطی سے خیال کر لیا ہے کہ امن دولت سے حاصل ہوتا ہے یا بادشاہت اور حکومت سے مگر حقیقت یہ ہے کہ امن دولت سے میسر نہیں ہوتا اور نہ امن و اطمینان دنیا کی عزتوں اور وجاہتوں اور حشمتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ امن اسی کو حاصل ہے جس کے دل میں اطمینان ہے اور جس کے دل میں اطمینان نہیں وہ خواہ بڑے سے بڑا دولت مند یا بادشاہ یا حاکم ہے اس کو کوئی اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا۔ بڑے بڑے لوگ ہیں مگر جب ان کے اندرونے کو ٹٹولا جاتا ہے تو ان میں امن نظر نہیں آتا۔
مَیں نے اپنے پچھلے خطبوں میں بیان کیا تھا کہ امن حاصل کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ اس رسّہ کو مضبوط پکڑ لیا جائے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے پھینکا گیا ہے اور اس سفر میں مجھ پر ثابت ہو گیا ہے کہ امن حاصل کرنے کے لئے سوائے اس کے اور کوئی طریق نہیں کہ خدا کی رسّی کو مضبوط پکڑا جائے کیونکہ ہر دل اور ہر ایک قلب جس کو میں نے ٹٹولا خواہ وہ کسی درجہ اور کسی حیثیت کے انسان کا تھا اس میں امن نہ تھا بلکہ امن کی جستجو میں تھا۔ سوائے اس ایک قلب کے جو اطمینان سے بھرا ہؤا تھا وہ ایک قلب وہی تھا جس میں مسیح موعود پر ایمان داخل تھا۔ پس دُنیا کی کوئی تکلیف اس دل کو گھبرا نہیں سکتی جس کو خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان حاصل ہو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے لئے کامیابی کا دروازہ کھلا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ مصائب اور تکالیف میں وہ اکیلا نہیں بلکہ اس کا مددگار اس کا خدا موجود ہے۔ پھر وہ یقین رکھتا ہے کہ مَیں جب چاہوں اس علاج کو استعمال کر سکتا ہوں اور وہ دیکھتا ہے کہ اگر مجھے دُکھ ہیں بھی تو اس لئے ہیں کہ میں آئندہ ترقی کروں۔ دراصل مصیبت اور تکلیف وہی ہلاک کرنے والی ہوتی ہے جس کا انجام اور نتیجہ اچھا نہ ہو لیکن جس دُکھ اور تکلیف کا نتیجہ اچھا ہو اس کو لوگ خوشی سے برداشت کرتے ہیں۔ دیکھو زمیندار جیٹھ ہاڑ کے تپتے ہوئے دنوں میں محنت کرتا ہے، دُکھ اُٹھاتا ہے مگر وہ خوش ہوتا ہے کہ نتیجہ اچھا ہو گا۔ ایک طالب علم راتوں کو جاگتا ہے وہ اس کو مصیبت نہیں خیال کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں میرے لئے بہت ترقیات ہیں۔ پس دُکھ وہی دُکھ ہوتا ہے جس کا نتیجہ دُکھ ہو اور وہ دُکھ دُکھ نہیں ہوتا جس کا نتیجہ آرام ہے۔ تو مومن کو جو ابتلاء آتے ہیں وہ اسی لئے آتے ہیں کہ وہ اَور ترقی کرے اس لئے وہ ان کو تکلیف نہیں خیال کر سکتا۔ پس دُنیا میں بے امنی ہے مگر ان کے لئے نہیں جن کو اﷲ سے محبت ہے اور جنہوں نے اﷲ کے رسولوں کو قبول کیا ہے۔
ایسی حالت میں ہمارے بھائیوں کا فرض ہے کہ وہ لوگوںکو نجات دلانے کے لئے اور ان کے دلوں میں امن پیدا کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔ جب ظاہری دُکھ اور تکلیف سے نجات دلانا ثواب ہے تو دل کا امن و اطمینان دلانا کتنا ثواب ہو گا۔ پس مَیں اپنے بھائیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ مَیں نے اس سفر سے جو سب سے بڑا تجربہ حاصل کیا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ امن و اطمینان کے بھُوکے ہیں اور ہمارے پاس امن و اطمینان ہے۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ وہ سامانِ اطمینان لوگوں تک پہنچا دیں۔ قبول کرنا نہ کرنا ان کے اختیار میں ہے۔ ہم اگر پہنچا دیں گے تو ہم خدا تعالیٰ کے حضور کہہ سکیں گے کہ خدایا ہم نے تیرے بندوں کو تیرا پیغام پہنچا دیا اور ہم اسی کے ذمہ دار تھے ہم نے تیرا پیغام پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ ہم نے گھر کے دروازے کھلے رکھے مگر لوگوں نے اس طرف پیٹھ پھیر لی۔ اگر پناہ نہ لی تو اُنہوں نے، اگر توجہ نہ کی تو اُنہوں نے، ہم نے بخل نہیں کیا، ہم سُست نہیں ہوئے، ہم تھکے نہیں۔ بُلانا ہمارا فرض تھا سو ہم نے ادا کیا۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اوپر بخل اور کوتاہی کا الزام نہ آنے دیں اور اگر وہ نہیں مانیں گے تو اس کا الزام ان پر آئے گا نہ کہ ہم پر۔
اگر ہم خدا کا پیغام پہنچانے میں سُستی کریں تو اس کی دو ہی وجہیں ہوں گی۔ یا تو یہ کہ ہم نے خود قدر نہ کی یا ہم اس کو انعام نہیں سمجھے۔ پس اس ذمہ داری سے بچنے کے لئے کوشش و سعی سے سلسلہ حقّہ کو لوگوں تک پہنچانا چاہئے۔
اب چونکہ میرے حلق میں تکلیف بڑھ گئی ہے اس لئے مَیں زیادہ نہیں بول سکتا۔ غیروں کے اندر مجھے دو دو ڈھائی ڈھائی گھنٹہ تک بولنا پڑا مگر وہاں یہ بات نہ تھی مگر یہ بھی ایک خدا کا نشان ہے کیونکہ وہ کام خدا کا تھا اور اس لئے وہاں اس قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی مگر اب چونکہ وہ کام ختم ہو گیا ہے اس لئے اب لفظ بھی مُشکل سے زبان سے نِکلتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی تائید ہے وہاں علاوہ لیکچروں کے چودہ چودہ اور پندرہ پندرہ گھنٹے تک متواتر مجھ کو بولتے رہنا پڑا مگر وہاں تکلیف نہیں ہوئی لیکن واپس آنے پر تکلیف ہونا یہ ایک نشان ہے۔ اگرچہ میں وہاں علاج کے لئے گیا تھا لیکن علاج کرانے کا موقع ہی نہ ملا۔ آخر ایک دن جو فرصت کا تھا اس میں مجھے تکلیف محسوس ہونے لگی اس پر مَیں نے ایک اور لیکچر رکھ دیا۔ چنانچہ چلتے وقت مَیں نے تقریر کی اور اچھی طرح کی لیکن جب میں بٹالہ پہنچا تو تکلیف محسوس ہوئی اور کسی قدر بخار بھی ہو گیا۔ اس سے مَیں نے سمجھا کہ وہاں چونکہ دوسروں میں کام کرنا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھے صحت میں رکھا اور جب وہ کام ختم ہو گیا تو پھر پہلی سی تکلیف ہو گئی۔ اس سے ظاہر ہے کہ چونکہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لئے اس سلسلہ کو غیروں تک پہنچانے والا خدا کی نصرت دیکھتا ہے ورنہ عقل میں نہیں آتا کہ ایک شخص حلق کے علاج کے لئے جاتا ہے اور وہاں چار دن تک گاڑی آتی ہے لیکن ہر روز ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت گزر جاتا ہے اور پھر آئندہ پر اس کو اُٹھارکھنا پڑتا ہے۔ گو یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آتی کہ ایسی تکلیف میں جیسی کہ مجھے ہے لیکچر کس طرح دیئے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ ایک ہندو ایڈیٹر سے ہمارے دوست ملنے کے لئے گئے اُس نے کہا کہ مجھے بھی وہی تکلیف ہے جو مرزا صاحب کو ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ اگر مَیں بولوں تو یہ تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ آپ لوگ کیوں مرزا صاحب سے گزارش نہیں کرتے کہ وہ لیکچر نہ دیں بلکہ آرام کریں مگر اس کو کیا معلوم ہے کہ حلق تو بیشک بیٹھتا اور بیماری پر بولنے کا اثر ہوتا ہے مگر مَیں جانتا ہوں کہ اگر اس وقت بھی سلسلہ کی تائید اور اسلام کی صداقت کے لئے مَیں ایسے لوگوں کی مجلس میں جو سُننے کے مستحق ہوں کھڑا ہوں اور مجھے خدا کی عظمت و جلال کے لئے اب بھی بولنا پڑے تو مَیں گھنٹوں بولتا چلا جاؤں گا اور میری زبان نہیں رُکے گی۔ پس جو کوئی دین کی خدمت کے لئے کھڑا ہو گا وہ خدا کے نشان دیکھے گا۔ وہ لوگ غلطی کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا علم کافی نہیں۔ انہیں معلوم ہو کہ ہمارے علم کچھ نہیں کرتے جو کرنا ہے خدا کے علم نے ہی کرناہے۔
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے علم بھی تھا، دماغ بھی تھے۔ قرآن بھی تھا، مسیح موعود علیہ السلام کوئی نئی چیز نہیں لائے مگر فرق صرف یہ ہے کہ پہلے خدا کی نصرت نہ تھی اب مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدا کی تازہ نصرت ہو رہی ہے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ ہم عربی نہیں جانتے یا ہم لیکچرار نہیں، یا ہم علم مباحثہ کے ماہر نہیں بلکہ اگر تم خدا پر یقین رکھ کر کھڑے ہو گے تو یقین رکھو تم ضرور کامیاب ہو گے۔ پس خدا پر یقین کو مضبوط کرو، آپس میں محبت بڑھاؤ، پھر اگر تمہارا مخاطب کسی بھی درجہ کا کیوں نہ ہو وہ تمہارامقابلہ نہیں کر سکے گا کیونکہ وہ خدا کی نصرت سے خالی ہے اور تم خدا کی طرف سے مدد یافتہ ہو۔
اﷲ تعالیٰ تمہیں یہ بات سمجھنے کی توفیق دے، اسلام کے نام کو بُلند اور توحید کے قیام کے لئے تمہیں سچا جوش بخشے اور تم اسلام کی خدمت کے لئے ایک مجنون کی طرح ہو جاؤ جسے ایک ہی بات کی دھت ہوتی ہے تاکہ شرک و جہالت دُور ہو جائیں اور خدا کے جلال کی روشنی دُنیا میں پھیل جائے اور خدا کی عظمت اس درجہ پر پہنچ جائے جس پر پہنچانے کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘
حضور جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا:-
’’اب گرمی زیادہ ہو گئی ہے۔ منتظمین کو چاہئے کہ سائبان لگا دیا کریں تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔‘‘ (الفضل 11مارچ 1920ء)


77
اب یقیں سمجھو کہ آئے کُفر کو کھانے کے دِن
(فرمودہ 5مارچ1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’دُنیا میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کی رحمت روک لی جاتی ہے پھر وہ لوگ جو غرور سے زمین پر قدم نہ رکھتے تھے ان کی حالت ایسی گرتی ہے کہ دُشمن کو بھی ان پر رحم آتا ہے۔ اس وقت خدا کی رحمت کا نزول ہوتا ہے وہ قوم جس کو مایوسی کھا رہی تھی اس کی مایوسی خوشی سے بدلتی ہے ان کے چہرے چمکنے لگتے ہیں وہ قوم جس کا سر نہیں اُٹھ سکتا تھا، وہ قوم جس کی پُشت خمیدہ ہو گئی تھی، وہ قوم جس کے چہروں کا رنگ زرد تھا، پھر وہ قوم جس کو پرائے تو پرائے اپنے بھی ذلیل سمجھتے تھے ایک دُھلے ہوئے شاداب سبزے کی طرح ہو جاتی ہے اس کی وہ پست ہمتی اور کمزوری جاتی رہتی ہے، ان کی نظر وسیع اور ارادے بُلند ہو جاتے ہیں اس سال جس میں بارش بند ، تمام علاقہ کی حالت بہت خراب ہوتی ہے اور سورج پر غبار سا پڑا ہؤا نظر آتا ہے مگر جب بارش ہو جائے سورج کا چہرہ بھی صاف چمکتا ہؤا نظر آنے لگتا ہے اور ایک ہی رات میں تمام جانداروں میں ایک نئی جان پڑ جاتی ہے۔ اسی طرح قوموں میں تغیرِ حالات ہؤا کرتا ہے۔ جب خدا کا فضل مُردہ قوموں پر ہوتا ہے تو ایک منٹ میں ان کی مایوسی کی حالت بدل جاتی ہے جیسا کہ بیمار خواہ کیسا ہی شدید درد میں مُبتلا رہا ہو لیکن جب اس کو صحت ہو جاتی ہے تو وہ خودبھی نہیں سوچ سکتا کہ کیسا درد تھا اور کتنا تھا بلکہ جب صحت ہو جاتی ہے تو وہ حیران ہوتا ہے کہ مَیں یونہی اس وقت گھبرا گیا تھا۔ یہ ایک سبق ہے ان قوموں کے لئے جن کی حالت گری ہوئی ہوتی ہے۔
اس زمانہ میں خدا نے دکھا دیا ہے کہ اگر کوئی قوم دُنیا میں مُردہ ہے تو مسلمانوں کی ہے اس کے لئے خدا کے فضلوں کی بارش کی احتیاج ہے اور دُشمن جس کے مٹانے کے لئے متحد ہیں وہ قوم یہی ہے۔ مسلمانوں کی حالت ہر لحاظ سے دُنیا میں گری ہوئی ہے، علم کے لحاظ سے دُنیا سے یہ پیچھے، رُتبہ و شان کے لحاظ سے یہ گرے ہوئے، یہ ان سے بھی بدتر ہیں جن کی حکومتیں سینکڑوں سال سے گئی ہوئی ہیں۔ اگرچہ ان کی برائے نام ابھی تک حکومتیں باقی ہیں مگر ان قوموں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے جن کے پاس کوئی حکومت نہیں اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ دوسری اقوام جو گری ہیں وہ بہ حیثیت قوم کے گری ہیں اور مسلمان بہ حیثیت افراد کے گر گئے ہیں اور جو قومیں بہ حیثیت قوم کے گرتی ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کا زوال کسی خاص وجہ سے ہو۔ اگر وہ گِر بھی جائیں تو سنبھل سکتی ہیں کیونکہ ان کے افراد کی حالت اچھی ہوتی ہے اور وہ یقین کرتے ہیں کہ اگر ہم آج گِر گئے ہیں تو کل اُٹھیں گے کیونکہ ہم میں قابلیت ہے اور ہم میں جوش ہے اور ہم علم رکھتے ہیں جیسا کہ ایک شہسوار گھوڑے پر سےگر پڑتا ہے اس کا گرنا اتفاقی ہے کیونکہ وہ گھوڑے پر سوار ہو گا اور اس گرنے کی تلافی کر دے گا مگر جو اناڑی گھوڑے پر سے گرتا ہے وہ اتفاقی طور پر نہیں گرتا بلکہ وہ نادانی سے گرتا ہے اوراسے ضرور گرنا تھا اور گِرنے میں اس کی ہڈی پسلی ضرور ٹوٹی ہو گی اس لئے آئندہ اس کو گھوڑے پر چڑھنے کی جرأت نہیں ہو سکتی۔ یہی حال ان اقوام کا ہوتا ہے جن کے افراد کی حالت خراب ہوتی ہے وہ جب گرتی ہیں تو ان کو قطعاً اُمید نہیں ہوتی کہ وہ پھر اُٹھیں گی کیونکہ ان میں کوئی بات ترقی کرنے کی باقی نہیں ہوتی۔
جن اقوام کے افراد کی حالت درست ہوتی ہے وہ اگر برسرِ حکومت نہ بھی ہوں تو ان میں ایثار کا مادہ ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ انہیں قوم کی خاطر جان دینا پڑے تو وہ جان دینے سے نہیں ہچکچاتے اور ان کے دل میں اجتماع کی ایک عزت و وقعت ہوتی ہے۔
دیکھو مسلمانوں کی سلطنتیں برائے نام موجود ہیں۔ افغانستان کی سلطنت ہے، مراکو کی بھی گِری پڑی سلطنت ہے، مصر کی ہے، عربوں کی بھی سلطنت قائم ہو گئی ہے، ترکوں کے قبضہ میں بھی کچھ نہ کچھ رہے گا ہی مگر جو صدمہ مسلمانوں کو ہے وہ ہندوؤں کو نہیں۔ اگرچہ مسلمانوں کے پاس مذکورہ بالا سلطنتیں برائے نام ہیں اور ہندوؤں میں کوئی سلطنت نہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہندو تیار ہیں کہ انہیں اگر قوم کی خاطر مرنا پڑے گا تو وہ مریں گے مگر مسلمانوں میں یہ بات نہیں اس لئے یہ محض شور مچاتے ہیں جیسا کہ عورتوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ جب مرد گھر میں نہ ہوں اور چور آجائیں تو وہ چِلّانے لگتی ہیں کہ اُٹھو میاں برکت اﷲ اور نکلنا بھائی رحمت اﷲ۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس شور سے چور ڈر جائیں گے۔ یہ ان کی کمزوری کی علامت ہے مگر جہاں مرد گھر میں ہوں اگر چور آئیں تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں اور دروازے کھول دیتے ہیں کہ چور زد پر آجائیں تو ان کو یہیں پکڑ لیں گے۔ پس کام کرنے والے کام کیا کرتے ہیں اور بزدل محض شور مچایا کرتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گے حالانکہ ان میں وہ چیز نہیں جو ان کی رُوح تھی یعنی اسلام اور دین۔ دین کو تو چھوڑ دیا اور مسلمانوں کو جمع کرنے والی قومیت نہ تھی بلکہ اسلام ہی تھا جب یہی ان کے پاس نہ رہا تو ان کا تمام شور گیڈر بھبکیاں ہو گیا۔ پس مسلمانوں کی حالتِ مایوسی بہت بڑھی ہوئی ہے کیونکہ ان کو سہارا نظر نہیں آتا۔ جو دروازہ ان کے لئے کھولا گیا تھا اس کو یہ بند کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے جو رستہ کھولا ہے اس میں سے ہم داخل نہیں ہوں گے اور خدا کہتا ہے کہ اگر تم اس رستہ میں سے نہیں آؤ گے تو میں اور رستہ سے تمہارے لئے مدد نہ آنے دوں گا۔
وہ ذریعہ جس سے اسلام دُنیا میں ترقی کر سکتا ہے اور مسلمان عزت و وقار حاصل کرسکتے ہیں ایک ہی ہے۔ وہ خدا نے مقرر کیا اور ہم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا۔ آپ نے کہا کہ اسلام اب میرے ذریعہ دُنیا میں ترقی کرے گا۔ وہ اسلام جس کے مِٹ جانے کی پیشگوئیاں کر دی گئی تھیں کہ چند سالوں میں فنا ہو جائے گا، وہ اسلام جس کی تباہی قریب نظر آتی تھی، وہ اسلام جس کو مسلمان چھپا رہے تھے، اسی اسلام کے متعلق حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ مٹایا نہیں جائے گا بلکہ دُنیامیں پھیلے گا مگر ہاں میرے ذریعہ پھیلے گا اس کی ترقی کا ذریعہ مَیں ہوں گا۔ چنانچہ آپ نے ایک نظم میں فرمایا:-
اک بڑی مدت سے دیں کو کُفر تھا کھاتا رہا
اب یقیں سمجھو کہ آئے کُفر کو کھانے کے دن1
یہ آواز ایسی آواز تھی جو جنگل سے بُلند کی جائے مگر آواز بُلند کرنے والا نظر نہ آتا ہو۔اس وقت اس کو لوگوں نے باور نہ کیا مگر آج دیکھو یہ آواز دُنیا کے گوشوں میں پھیل گئی اور چاروں طرف سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔ جس وقت حضرت صاحب ؑ نے یہ شعر کہا تھا اُس وقت مخالفین لکھا کرتے تھے کہ کتنے عیسائی مسلمان ہوئے؟ آج وہ دیکھیں کہ عیسائیت کے گھر میں ہماری تبلیغ ہو رہی ہے۔ وہ لوگ جو اسلام کے مِٹانے کے درپے تھے ان میں سے ہی لوگ نِکل نِکل کر اسلام پر قُربان ہونے کو آمادہ و تیار ہیں۔ اس وقت ہم سے مطالبہ کیا جاتا تھا تم چند ہی نو مسلم عیسائی دکھاؤ۔ ہم آج مخالفوں کو درجنوں دکھانے کو تیار ہیں۔ عیسائیوں میں سے مسلمان ہوئے اور دمبدم ہو رہے ہیں۔ پھر ایک جگہ نہیں بلکہ مُلکوں مُلکوں میں۔جس وقت حضرت صاحب نے یہ شعر کہا تھا ؎
اک بڑی مدت سے دیں کو کُفر تھا کھاتا رہا
اب یقیں سمجھو کہ آئے کُفر کو کھانے کے دن
یہ ایسی ہی بات تھی جیسے کوئی کہے کہ بِلّی شیر کو کھا جائے گی، یا چڑیا باز کو شکار کرے گی، یا بکری بھیڑیے پر حملہ کرے گی مگر اسلام کا حال ان سے بھی بُرا تھا کیونکہ اگر بلّی شیر کو کھا نہیں سکتی تو جان تو بچا سکتی ہے، چڑیا یا پدی باز سے اپنی جان اُڑ کر بچا سکتی ہے اور بکری بھیڑیئے سے بچ سکتی ہے مگر اسلام تو کُفر کے پنجے میں تھا اور مسلمان ہر طرف سے گھرے ہوئے تھے، ان کے لئے کوئی رستہ بچ نکلنے کے لئے نہ تھا۔ ایسے حال میں نہ صرف یہ کہنا کہ اسلام بچ جائے گا بلکہ یہ کہنا کہ ؎
اب یقیں سمجھو کہ آئے کُفر کو کھانے کے دن
اور ایسے حالات میں کہنا جب کوئی سامان نہ تھے ایک حیران کرنے والی بات تھی۔ اس وقت ہماری جماعت کوشش کرتی تھی مگر ہماری جماعتیں صرف ہندوستان میں تھیں مگر اب کیا سامان پیدا ہوئے ہیں انگلستان میں ہماری تبلیغ ہو رہی ہے، سیلون میں ہماری جماعت ہے، عرب میں موجود اور مصر میں بھی جماعت قائم ہو گئی ہے، اب روس میں بھی لوگ احمدی ہو گئے اور امریکہ میں بھی عنقریب لوگ مسلمان ہوں گے۔ نئی خوشخبری یہ ہے کہ ہالینڈ کا ایک شخص مسلمان ہؤا ہے تو اس سے یہ سمجھو کہ ہالینڈ میں بھی انشاء اﷲ بڑے پیمانہ پر تبلیغ ہو گی اس سے بھی بڑھ کر خوشخبری یہ ہے کہ کئی سَو سال سے افریقہ کے بعض خاص علاقوں میں عیسائیت لگی ہوئی تھی اور بیس پچیس لاکھ کے قریب لوگ عیسائی ہو گئے تھے ان میں ہمارا لٹریچر پہنچا۔ اب ان کے تعلیم یافتہ لوگوں میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ ہم جو عیسائی ہوئے تو کیوں ہوئے؟ پہلے ہمارا خیال تھا کہ عیسائی ہو کر ہم کو دُنیوی فائدہ ہو گا مگر وہ تو ہؤا نہیں۔ پس اس وقت اگر ہم دُنیا کے لئے ہوئے تھے تو اب ہمیں سچے دل سے سوچنا چاہئے کہ اگر واقعی عیسائیت سچا دین ہے تو ہمیں اس پر مضبوط ہو جانا چاہئے اور اگر نہیں تو اس کو ترک کر دینا چاہئے۔ اس خیال کے لوگوں نے ایک انجمن بنائی جس کے اس وقت پانچ ہزار ممبر ہیں۔ ان کے سیکرٹری سے خط و کتابت تھی مفتی صاحب کو افریقہ بھیجنے کی بھی یہی غرض تھی مگر امریکہ کی ضروریات زیادہ اہم معلوم ہوئیں اس لئے ان کو امریکہ کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔
غرض اس انجمن کے سیکرٹری کو تبلیغ ہو رہی تھی اس کے متعلق کل اطلاع آئی ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا اور اس شخص نے لکھا ہے کہ عنقریب دو سو اور آدمی مسلمان ہوں گے۔ اسی طرح خدا کے فضل سے کچھ بعید نہیں کہ وہ پچیس لاکھ کے پچیس لاکھ جو عیسائی ہو گئے تھے جلد تر مسلمان ہو جائیں جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئیاں شائع ہو رہی تھیں ان پر سب احمدی ایمان رکھتے تھے کہ یہ ضرور پوری ہوں گی کیونکہ خدا کی باتیں ہیں مگر ایسے بہت تھوڑے ہوں گے جن کا یہ خیال ہو گا کہ ہم ان باتوں کو اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھیں گے بلکہ اکثر خیال کرتے ہوں گے کہ ہماری اولاد یا ہماری اولاد کی اولاد دیکھے گی لیکن ہم خدا کے فضل سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ خدا کی باتیں پوری ہورہی ہیں۔ خدا کے مامور نے جو کہا تھا ؎
اک بڑی مدت سے دیں کو کُفر تھا کھاتا رہا
اب یقیں سمجھو کہ آئے کُفر کو کھانے کے دن
اور ہم نے دیکھ لیا کہ خدا کی باتیں اس طرح پوری ہوتی ہیں۔ لوگ حیران تھے کہ یہ کس طرح ہو گا کہ
اب یقیں سمجھو کہ آئے کُفر کو کھانے کے دن
پس ہم شہادت دیتے ہیں کہ ہم نے جو سُنا اور جو پڑھا تھا اسی کے مطابق ہو رہا ہے اور حضرت مرزا صاحب خدا کے مسیح موعود اور مامور ہیں کیونکہ آپ نے اس وقت جس وقت اسلام کو کُفر کھا رہا تھا صاف کہا تھا کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اسلام کُفر کو کھا جائے۔ اب حالت بدل گئی ہے اور عالم عیسائیت احمدیت سے کانپ رہا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اﷲ چاہے تو دُنیا کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔
یہ خدا کا احسان ہے۔ مَیں اپنے احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کریں۔ تمہارے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے تم اپنے گھروں کو ان کے لئے صاف کرو کیونکہ جب وہ آئیں گے تو تمہارا نمونہ دیکھیں گے۔ تمہیں اپنے دلوں کو وسیع کرنا چاہئے اگر وہ آئے اور اُنہوں نے دیکھا کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے ہو، جھگڑتے ہو اور تمہاری آپس کی نفرت دیکھ کر وہ یہی کہیں گے کہ دُور کے ڈھول سہانے۔ پس اپنی اصلاح کرو، اپنے اندر محبت پیدا کرو، محبت بڑی چیز ہے وہ تمام روکوں کو اُٹھا دیتی ہے اور دُشمن کے دل کو کھینچتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کرے ، تمہارے دلوں سے حقد کو ، نفرت کو دُور کرے۔ دیکھو قرآن شریف میں ایمان کی علامت یہ آتی ہے کہ تم ایک ہو جاؤ۔ اگر تم ایک نہیں تو تم مومن نہیں۔ یہ دُنیا کے اموال اور ثروتیں کسی کام کی نہیں۔ جب تک آپس میں محبت و خلوص نہیں۔ پس خدا کے لئے محبت بڑھاؤ۔ احادیث میں آتا ہے کہ جو خدا کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے سایہ کے نیچے ہو گا2 لیکن جو شخص ہزاروں لاکھوں سے خدا کے لئے محبت کرے وہ کس قدر خدا کے فضلوں کا وارث ہو گا۔ یہ بڑی نعمت ہے یہ ہو تو ہر ایک تکلیف راحت ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی خدا کے انعام کی قدر نہیں کرتا وہ گندگی کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔ پس تم خدا کے انعام کی قدر کرو۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب پر اپنے فضل کرے اور اپنے بندوں کی محبت ہمارے دلوں میں ڈالے۔ آمین‘‘
(الفضل 18مارچ 1920ء)
1: درثمین اُردو صفحہ 97
2: بخاری کتاب الاذان باب مَنْ جَلَسَ فِی الْمَسْجِدِیَنْتَظِرُ الصَّلٰوۃَ (الخ)



78
اتفاق و اتحاد کے متعلق اسلامی تعلیم کی تمہید
(فرمودہ 2 اپریل1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’انسان اور خدا تعالیٰ کا تعلق ایک رُوحانی تعلق ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت لوگوں کو اس میں غلط فہمی ہوتی ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ بندے اور خدا کا تعلق رُوحانی ہے تو وہ اس طرح کہتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا بندے اور خدا کا تعلق جسمانی نہیں اگرچہ بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے مگر عظیم الشان تغیرات پیدا کرتی ہے۔ تھوڑے تھوڑے فرق سے اعمال و عقائد، حرکات و سکنات پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتائج پیدا ہوتے ہیں، معمولی معمولی فقرات ہوتے ہیں ان پر ایک حد تک عمل بھی ہوتا رہا ہے مگر چونکہ وہ علیحدہ صورتوں میں سامنے نہیں ہوتے اس لئے ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا مگر جب وہ ایک معیّن صورت میں سامنے آتے ہیں تو پھر ان سے عجیب عجیب علوم کا انکشاف ہوتا اور تغیرات پیدا ہوتے ہیں۔
ظاہری علوم کے لحاظ سے ایک اُصول ہے جس کو مسئلہ ارتقاء کہتے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر ایک چیز ترقی کی طرف جارہی ہے۔ اس اُصول کے ماتحت بہت سے نئے علوم معلوم ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک جب سے علم ادب محفوظ چلا آتا ہے اگر دیکھا جائے گا تو یہ اشارات ملیں گے مگر چونکہ وہ محض اشارات تھے اُصول معیّن کے طور پر نہ تھے اس لئے ان سے وہ فائدہ نہیں ہؤا جو اس وقت سے ہؤا جب سے یہ مسئلہ اصول کے طور پر دُنیا کے سامنے آیا۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پچاس ساٹھ سال سے پہلے دُنیا کی ترقی کی جو رفتار تھی اس کے بعد کہیں زیادہ ہو گئی اورعلوم میں بالکل تغیر آگیا۔ تاریخ بدل گئی، طبقات الارض کے علم میں عجیب عجیب باتیں پیدا ہوئیں، ستاروں کے متعلق انکشافات ہوئے گویا کہ دُنیا نئی ہو گئی اور دُنیا کی ہر ایک چیز نئی ہوگئی۔
یہ سورج اور ستارے ان کے متعلق پہلے خیال تھا کہ جس طرح یہ پہلے دن بنائے گئے تھے اسی طرح یہ اب تک موجود ہیں۔ اب اسی مسئلہ ارتقاء کے ماتحت یہ بات معلوم ہوئی کہ پہلے یہ سورج محض ہَوا تھا لاکھوں کروڑوں سال کے بعد ہَوا کے ذرات مِل مِل کر سورج کا وجود تیار ہؤا۔ پھر پہلے یہ خیال تھا کہ صرف یہی ایک سورج ہے لیکن اب دُور بینوں کے ذریعہ معلوم ہؤا ہے کہ اور بہت سے ستارے ہیں جو اس وقت بن رہے ہیں اور ان کا مادہ سیال ہے جو گاڑھا ہو رہا ہے اور اس کی شکل ایسی ہے جیسے دُھنیا روئی دھنکتا ہے کہ کہیں سے موٹی ہوتی ہے اور کہیں پتلی۔
غرض اس سے علوم پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں مگر اس وقت یہ بحث نہیں کہ ان علوم میں صحت کہاں تک ہے اور غلطی کہاں تک مگر بہرحال علوم میں تغیرات ہو رہے ہیں۔ یہی حال تاریخ کا ہے کہ پہلے جن باتوں کو صحیح مانا جاتا تھا ان میں سے بعض کی تغلیط ہو گئی اور جن کو غلط کہا جاتا ہے ان میں سے بعض کی صحت ظاہر ہو گئی۔
درحقیقت تمام باتوں کا یہی حال ہے۔ ہم اسلام کو دیکھتے ہیں کہ اس کے تمام عملی حصّہ کی بنیاد بھی ایک فقرے پر ہے اور وہ یہ کہ وسطی طریق کو اختیار کیا جائے۔ دونوں انتہائی طریقوں سے محفوظ ہو۔ جتنے احکامِ شریعت ہیں ان میں وسطی طریق اختیار کیا گیا ہے۔ یہ جائز نہیں کہ انسان خود کوئی طریق ایجاد کرے بلکہ شریعت نے اس کے سامنے جو اعمال پیش کئے ہیں وہ سب وسطی ہیں۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے کہ احکامِ شریعت میں سے وسطی نکالے یہ غلطی ہو گی کیونکہ شریعت کے احکام سب کے سب پہلے ہی وسطی طریق پر قائم کئے گئے ہیں جو شخص ان احکام میں بھی وسط کی تلاش کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ بعض کمالات کے درجے چھوڑتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فرائض تو پڑھ لئے سُنتوں کی کیا ضرورت ہے یا نوافل کی کچھ حاجت نہیں محض فرائض کافی ہیں تو اس کا نام وسطی طریق نہیں بلکہ یہ نیچے کا طریق ہے۔ شریعت نے جس وقت نماز پڑھنا بتایا ہے اور جتنی رکعتیں بتائی ہیں وہ وسط ہی ہے۔ اسلام نے بتایا ہے کہ سال میں زیادہ سے زیادہ چھ مہینہ کے ایک انسان روزے رکھ سکتا ہے یہ طریق وسطی ہے۔ اگر کوئی ان سے زیادہ رکھے یا مہینہ بھر کے جو فرض ہیں ان میں کمی کرے تو وسطی طریق کو چھوڑتا ہے اگر کوئی پانچ نمازوں کی بجائے تین پڑھے تو وہ بھی وسطی طریق سے نکل جاتا ہے۔ پھر صدقہ و خیرات ہے انسان صدقہ و خیرات کر سکتا ہے وہاں تک جہاں تک ان لوگوں کے حقوق نہ تلف ہوتے ہوں جو کہ اس کے ذمہ ہیں۔ ایسی صورت میں اگر حق تلفی کرے گا یا اپنے رشتہ داروں کو ابتلاء میں ڈالے گا تو طریق وسطی کو چھوڑ دے گا اوراس کے خرچ کا نام اسراف ہو گا۔
غرض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو اُصول کے طور پر ہوتی ہیں اور جن پر بنیاد ہوتی ہے۔ بالعموم دیکھو گے کہ اگر کسی کو کہو وسطی طریق اختیار کرنا چاہئے تو فوراً کہے گا خَیْرُ الاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا1 لیکن جب تفصیل پوچھی جائے تو بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ لوگوں کو دیکھو گے کہ حکمت کے جملے ان کی زبانوں پر جاری ہوں گے۔ کوئی ذرا سی بات ہو وہ فوراً ایک جملہ بولیں گے مگر جب ان سے تشریح پوچھی جاتی ہے تو وہ کچھ نہیں بتا سکتے۔
اسلامی شریعت کے بھی وسطی طریق کے ارشاد کے متعلق اگر پوچھا جائے کہ حکام کے متعلق کیا حقوق ہیں، رشتہ داروں کے متعلق کیا، حاکم و رعایا کے متعلق کیا، بیوی بچوں کے متعلق کیا، اُستادوں اور شاگردوں کے متعلق کیا تو کچھ نہیں بتا سکیں گے۔ اگر لوگ حکمت کے جملے زبان سے نکالتے وقت ان پر غور کریں اور ان کی تفصیل کریں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سب پہلوؤں پر لے جائیں تو ان کے لئے بہت مفید ہو سکتا ہے۔ ان کے علوم میں ترقی ہو اور عملی زندگی پر اس کا بہت اثر پڑے۔
بعض لوگ جو حکمت کے فقرے بولتے ہیں وہ ان کی حقیقت چٹکلوں سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ ان سے محض ایک زبان کی لذت لیتے ہیں۔ فائدہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب لوگ اس کی تفصیل پر غور کریں۔ جن لوگوں کی زبان پر فقرات حکمت اور ضربُ المثلیں ہوتی ہیں مگر ان کا عمل اس کے خلاف ہوتا ہے ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسا کہ ایک شخص سخت بیمار ہو اس کے پاس دوائی ہو اور یا ایک سخت بھُوکا ہو اور اس کے پاس کھانا ہو مگر وہ اس کو استعمال نہ کرے صرف اس کی تعریف شروع کر دے کہ یہ کھانا بہت عمدہ ہے اور بہت لذیذ اور بہت مقوی ہے۔ کھانے اور دوا کا عمدہ ہونا اس کے لئے کیا خاک مفید ہو سکتا ہے جب وہ اس کو استعمال نہیں کرتا۔ اسی طرح وہ لوگ جو ضرب المثلیں بولتے ہیں جو خواہ آسمانی اور خدائی کتابوں کے فقرات ہوں، خواہ عقلمند اور دانا لوگوں کے پُر حکمت کلمات مگر ان سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔
یہ تمہید ہے ایک مضمون کے لئے۔ جو خدا نے چاہا تو آئندہ اس کے متعلق تقریریں اور تفصیلی باتیں ہوں گی جن پر عمل کرنا بہت مفید ہو گا۔ جب تک کہ کسی بات کی تفصیل معلوم نہ ہو نہ کامل علم ہوتا ہے نہ اس پر عمل ہی ہوتا ہے اور نہ اس سے فوائد ہی خاطر خواہ مترتب ہو سکتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم اس کے احکام کو سمجھیں اور اس کی حکمتوں سے واقف ہو کر ہمارے اعمال اس کے منشاء کے مطابق ہو جائیں جن سے بہترین نتائج رونما ہو کر ہمیں خدا کے اورقریب کر دیں۔‘‘ (الفضل 12اپریل 1920ء)
1: مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الزھد باب کَلَام مطرف بن الشخیر

79
جماعتِ احمدیہ اپنے جوش کو حقیقی ثابت کرے
(فرمودہ 9اپریل1920ء بمقام سیالکوٹ)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ یوسف کی چند ابتدائی آیات تلاوت کر کے فرمایا:-
''دُنیا میں دو قسم کے زمانے انسان پر آتے ہیں اور دو ہی قسم کی حالتوں سے انسان گزرتا ہے۔ ایک تو وہ زمانہ اور وہ حالت ہوتی ہے کہ جس میں زمانہ مجبور کر کے اس سے بعض اعمال کراتا ہے، یعنی زمانہ اسے بعض اعمال کرنے پر مجبور کر دیتاہے۔ یہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ اگر وہ فعل اچھا ہو تو اس کے کرنے والا قابلِ تحسین سمجھا جاتا ہے اور اگر بُرا ہو تو اس کے کرنے والا اتنی بُرائی کا مجرم نہیں ہوتا جتنی حقیقت میں وہ ہوتی ہے کیونکہ گو وہ فعل بُرا ہوتا ہے مگر یہی سمجھا جاتا ہے کہ مجبوری سے یاعادت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ اس لئے اس حد تک ایسے فعل کی بُرائی نہیں پہنچتی جہاں تک کہ جان بوجھ کر کوئی بُرا فعل کرنے کی پہنچتی ہے۔تو انسان پر ایک حالت اور ایک زمانہ ایسا آتا ہے جبکہ وہ مجبوریوں کے ماتحت کوئی فعل کرتا ہے لیکن ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے جبکہ اس کی مجبوریاں جاتی رہتی ہیں۔ اس وقت اگر وہ اپنے ذوق و شوق محبت و اخلاص سے نیکی کرتا ہے تو وہ اس کی اصلی نیکی سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت اگر تقویٰ اﷲ اختیار کرتا ہے تو وہ تقویٰ ہوتا ہے، اس وقت اگر عبادت کرتا ہے تو وہ اصل عبادت ہوتی ہے کیونکہ اس وقت وہ اپنے اختیار اور خلوص سے یہ اچھے کام کرتا ہے لیکن جو زمانہ سے مجبور ہو کر اچھے کام کئے جاتے ہیں وہ گو اچھے ہوتے ہیں مگر وہ انسان کے رُوحانی درجہ کی ترقی میں ممد اور معاون نہیں ہوتے اور اس وقت تک نہیں ہوتے جب تک انسان اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ اسے کوئی مجبوری ہو یا نہ ہو اپنے ذوق و شوق سے نیکی کرے۔ مثلاً ایک شخص اپنے رشتہ داروں کی مجلس میں بیٹھا ہے اس کا دل بخل اور کنجوسی سے بھرا ہے، اس کے ذرّہ ذرّہ میں مال و دولت کی محبت سمائی ہے کسی کو ایک پیسہ دیتے ہوئے جان نکلتی ہے مگر برادری بیٹھی ہوئی ہے جو اسے کہتی ہے چندہ دو۔ کوئی ادھر سے طعن دیتا ہے کوئی اُدھر سے۔ ایسی حالت میں وہ ان کے طعنوں سے متاثر ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ میں بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے کچھ روپیہ دے دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ کسی نیکی کا مستحق نہیں ہے کیونکہ اس نے اگر کچھ دیا ہے تو لوگوں کے طعنوں سے مجبور ہو کر اور زمانہ کے حالات سے تنگ آکر نہ کہ اپنی مرضی اور خواہش سے خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے۔ اسی طرح اگر کوئی صدقہ دیتا ہے تو وہ بھی اصلی صدقہ نہیں یا ایک ایسا شخص ہے جو ایسے گھرانے میں پیدا ہؤا جس کے مرد و عورت ، جوان اور بوڑھے نمازی ہیں اور وہ دن رات انہیں نماز پڑھتے دیکھتا ہے اور ان کے مونہوں سے سُنتا ہے کہ نماز نہ پڑھنے والا انسان سخت گنہگار ہوتا ہے۔ دن رات اس کے کانوں میں یہ آواز آتی ہے کہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ سخت نفرت کے قابل ہے۔ ان حالات میں اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا کیونکہ وہ اس لئے نہیں پڑھتا کہ نماز کی محبت اس کے دل میں ہے اور خدا تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے پڑھتا ہے بلکہ اس لئے پڑھتا ہے کہ اس کے ماں باپ، بہن بھائی، عزیز رشتہ دار نماز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر مَیں نماز نہ پڑھوں گا تو ان کی نظر سے گر جاؤں گا۔ پس وہ جو اس طرح عبادت گزارتا ہے اور ممکن ہے کہ تہجد بھی پڑھے اُس کی حالت اُس شخص سے گری ہوئی ہو گی جو صرف دن رات میں ایک ہی نماز اخلاص سے پڑھے۔ یہ گنہگار ہو گا لیکن اِس کی ایک نماز اخلاص کی نماز ہو گی اور اُس کی پانچوں نمازیں مجبوری سے ہوں گی اس لئے اُس کی ایک نماز بھی نہ ہو گی۔ تو عمل وہی قابلِ قبول ہوتا ہے جو خود بخود کیا جائے اور جو کام مجبوری سے کیا جائے وہ ہر گز قابلِ قبول نہیں ہوتا۔
یہ تو مجبوری کی ایسی مثالیں ہیں جنہیں ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے مگر بعض ایسی مخفی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں جن کو واقف اور عارف لوگ ہی جانتے ہیں دوسرے نہیں جانتے۔ دوسرے سمجھانے سے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ عام لوگ انہیں مجبوریاں نہیں سمجھتے مگر جب غور سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مجبوریاں ہیں۔
اس وقت مَیں جس امر کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر نیا کام لوگوں میں جو جوش و خروش پیدا کر دیتا ہے وہ مجبوری کے ماتحت ہوتا ہے۔ کوئی نیا فرقہ ہو اس کے پیرو دوسروں سے زیادہ عبادت کرنے والے ہوں گے وجہ کیا؟ وہی مجبوری۔ وہ لوگ چونکہ اپنے عزیزوں رشتہ داروں اور متعلقین کو چھوڑ کر اس فرقہ میں داخل ہوتے ہیں اس لئے انہیں یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ پوچھیں گے تمہیں ہم کو چھوڑ کر کیا ملا اور تم میں کون سی نئی بات پیدا ہو گئی؟ اس وجہ سے ان میں نیا جوش اور نئی روح پیدا ہوتی ہے کہ کچھ کر کے دکھائیں۔ بظاہر انہیں کوئی مجبور نہیں کرتا مگر اصل میں ان کے لئے ایک مجبوری موجود ہوتی ہے اور وہ وہی طعنہ کا ڈر کہ لوگ کہیں گے ہمیں چھوڑ کر تم نے کیا کیا۔ پس کسی نئے فرقے کے لوگ اگر چندہ زیادہ دیتے ہیں، اگر اپنے اخلاق اچھے بناتے ہیں، اگر سختی کے مقابلہ میں نرمی دکھلاتے ہیں تو یہ سب کچھ ان کا مجبوری کے ماتحت ہوتا ہے۔
مثلاً ہمارے مُلک میں آریہ ہیں ان کے جوش میں پُرانے زمانہ کے ہندوؤں کے جوش سے کتنا فرق ہے۔ سناتینوں اور آریوں کی قُربانی کو اگر دیکھا جائے تو باوجود اسکے کہ سناتنی بہت زیادہ اور آریہ بہت تھوڑے ہیں چند لاکھ سے زیادہ نہیں لیکن ان میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ آریوں کے دو کالج پنجاب میں ہیں اور بیسیوں سکول جاری ہیں۔ وہ لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ کرتے ہیں، ان کے اخباروں کی جتنی اشاعت ہے اَور اخباروں کی اتنی نہیں ہے۔ ان میں اس قدر جوش کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسی قاعدہ کے ماتحت کہ جب کوئی نئی جماعت قائم ہوتی ہے تو وہ کہتی ہے اگر کچھ نہ کیا تو لوگ کہیں گے اس نے علیحدہ ہو کر کیا کیا۔ تو یہ عمل، یہ جوش، یہ ولولہ حقیقی نہیں بناوٹی اور مجبوری کے ماتحت ہوتا ہے جو عام طور پر نئی جماعتوں میں پایا جاتا ہے۔
پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جوش و خروش سے کام لینے والا بھی نہیں جانتا کہ اس کا جوش مجبوری کے ماتحت ہے مگر واقعہ یہی ہوتا ہے کہ اس کا جوش بناوٹی اور مجبوری کے ماتحت ہوتا ہے۔ اس کا کیا ثبوت ہے۔ یہی کہ جب وہ مجبوری جاتی رہتی ہے تو اس کا جوش بھی کافور ہو جاتاہے۔ جب تک اس کی جماعت تھوڑی اور کمزور ہوتی ہے، جب تک مخالفین کا اس کو خوف اور ڈر ہوتا ہے اس وقت تک وہ اپنے اخلاق، اپنی عادات، اپنے اعمال بہت اعلیٰ درجہ کے دکھاتا ہے۔ اس میں نیکی اور تقویٰ پایا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنی جماعت اور فرقہ کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے تو یہ سب باتیں چھوڑتا جاتا ہے۔ یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ وہ لوگ جو جوش و خروش دکھا رہے ہوتے ہیں اور اچھے کام کر رہے ہوتے ہیں وہ چاہے دل سے یہی خیال کرتے ہوں کہ ہم نیک نیتی سے خدا تعالیٰ کے لئے اس کی محبت کی خاطر کرتے ہیں لیکن اصل میں وہ خداتعالیٰ کی محبت کی وجہ سے نہیں کرتے کیونکہ جب دُشمن ان کے سامنے سے ہٹ جاتا ہے اور خطرہ دُور ہو جاتا ہے تو ان کا آپس کا اتحاد، اخلاص، نیکی اور جوش کم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ خدا کے لئے کرتے ہوتے تو خدا تو اس وقت بھی موجود ہوتا ہے اس وقت وہ کیوں ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔ معلوم ہؤا کہ وہ خدا کے لئے نہیں کرتے بلکہ لوگوں کے ڈر سے کرتے ہیں۔ جب لوگ مخالف نہ رہے تو وہ بھی اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہے۔
پس اس بات کا پتہ لگانے کے لئے کہ کسی جماعت کا جوش خدا تعالیٰ کے لئے ہے یا مجبوری سے ہے یہی دیکھا جاتا ہے کہ جب وہ دُشمن کے حملوں سے بچ جائے تو اس وقت اس کی حالت کیا ہوتی ہے؟ اگر اس وقت بھی وہ اخلاص و نیکی، تقویٰ و طہارت، جوش و خروش، اتحادواتفاق، محبت و اُلفت میں ترقی کرے تو جان لو کہ وہ جو کچھ کرتی رہی ہے خدا کے لئے کرتی رہی ہے لیکن اگر اس وقت جبکہ دُشمن ہٹ جائے، مخالفت کرنے والے خاموش ہو جائیں اس کے ایمان میں کمزوری، نیکی اور خلوص میں کمی واقع ہو جائے تو معلوم ہؤا کہ وہ ڈر کے مارے مجبوری سے کرتی رہی ہے۔ اگر خدا کے لئے کرتی تو خدا اب بھی موجود ہے۔ اب بھی اسی طرح ترقی کرتی جس طرح وہ پہلے کرتی تھی۔ پس امن کی حالت میں ہو کر اس کا اپنی حالت کو بدل لینا صاف ظاہر کرتا ہے کہ پہلے وہ جماعت جو کچھ کرتی تھی مجبوری کی وجہ سے کرتی تھی جب وہ مجبوری دُور ہو گئی تو اس نے اسی طرح کرنا بھی چھوڑ دیا۔
بعض نادان فلسفیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی جماعت کے سچّے ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ اس میں بڑا جوش ہو اور اسے مقصد کے پورا کرنے کی دُھن لگی ہوئی ہو مگر یہ غلط ہے کیونکہ ہر نئی جماعت میں جوش ہوتا ہے۔ دراصل ان کو دھوکا اسی وجہ سے لگا ہے کہ اُنہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ جوش کا باعث کیا ہے۔ اگر تو مجبوری کی حالت میں کسی جماعت نے جوش دکھایا تو اس کو سچّا نہیں کہا جاسکتا اور اگر مجبوری کے دُور ہو جانے پر بھی اس میں جوش پایا گیا تب وہ سچّی ہو سکتی ہے۔
یہی فرق ہے جو انبیاء اور دوسروں کی جماعتوں میں پایا جاتا ہے۔ رسول پر جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان میں سے اکثر (کیونکہ بعض منافق بھی ہوتے ہیں) ایمان اور نیکی میں بڑھتے ہی جاتے ہیں اور حقیقی ایمان بڑھتا ہی ہے کم نہیں ہوتا۔ تمام نبیوں کے سچّے پیروؤں کی یہی حالت ہوتی ہے۔
اس زمانہ میں ہماری جماعت ایک ایسی جماعت ہے جو نبی کی قائم کی ہوئی ہے اس کے سچائی اور حق پر قائم ہونے کی یہ دلیل سمجھی جاتی ہے کہ اس میں جوش بڑھا ہؤا ہے مگر اس پر بھی وہی اعتراض پڑتا ہے کہ یہ کس طرح معلوم ہو کہ اس کا جوش اصلی اور حقیقی جوش ہے کیوں نہ کہیں کہ چونکہ ہر طرف سے اس پر حملے ہوتے ہیں اس لئے اس جماعت کے لوگوں کا آپس میں اتحاد پایا جاتا ہے۔ انہیں اپنی جانوں کا خطرہ لگا ہؤاہے اس لئے وہ مجبور ہیں کہ متحد ہو کر رہیں۔ اسی طرح ان کے اعلیٰ اخلاق دکھانے اور نیکی کرنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مِٹ جائیں گے۔ اس کا جواب عام طور پر کوئی نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ہر ایک نئی جماعت جو کھڑی ہوتی ہے وہ نیکی اور جوش میں ترقی کرتی نظر آتی ہے۔ عیسائیوں، یہودیوں، سکھوں وغیرہ سب کا یہی حال ہؤا کیونکہ انہیں ڈر تھا اگر ہم نے آپس میں اتحاد نہ کیا تو تباہ ہو جائیں گے، اگر ہم نے اچھے کام نہ کئے تو لوگ طعنے دیں گے کہ ہم سے کیوں علیحدہ ہوئے تھے۔ تو لوگوں کے طعنوں سے بچنے اور اپنی ہستی کو قائم رکھنے کے لئے ہر نئی جماعت کا یہی حال ہوتا ہے تو پھر ہمیں کیا امتیاز حاصل ہے۔
وہ امتیاز ایک ہی ہے کہ ہم خطرہ سے محفوظ ہو کر بھی ویسے ہی نظر آئیں جیسے خطرہ کے وقت تھے۔ اگر خطرہ اور خوف کے وقت ہم میں اتحاد اور اتفاق پایا جاتا ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ خوف و خطر کے وقت تو حیوان بھی لڑنا چھوڑ دیتے ہیں اور سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ پھر جن کو معلوم ہو کہ ساری دُنیا ہماری مخالف ہے اور ہمارے گھروں میں ماں باپ، بہن بھائی مخالف ہیں ان کا اکٹھا ہو جانا کون سی بڑی بات ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لئے، مجبوری سے اکٹھے ہوئے ہیں یا اگر وہ صدقہ دیتے اور مال زیادہ خرچ کرتے ہیں تو یہ بھی مجبوری ہے کیونکہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے مال نہ خرچ کیا تو ہماری جماعت نہ بڑھے گی اور ہم کمزور رہیں گے۔ پس ہم میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے؟ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ہمارا تقویٰ اور نیکی، اخلاق اور اتحاد، جوش اور خروش، خوف اور امن میں ایک ہی جیسا رہتا ہے اور ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ لوگوں کے ڈر سے نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں۔ اگر یہ ثابت کر دیا جائے تب دُشمن ہم پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔
اس وقت میں اپنی جماعت کے اس علاقہ میں کھڑا ہوں جہاں خدا کے فضل سے اَور علاقوں کی نسبت احمدیت کی زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ اس علاقہ میں ایسی بستیاں موجود ہیں جہاں احمدیوں کی تعداد دوسروں کی نسبت زیاد ہے اور غیر احمدی قریباً مفقود ہیں اس لئے یہی علاقہ ہے جو سب سے پہلے اس بات کا ثبوت پیش کر سکتا ہے کہ ہماری نیکی، ہمارا تقویٰ، ہمارا اتحاد، ہمارا اتفاق، ہماری قُربانی، ہماری کوششیں لوگوں سے ڈر کر مجبوری کی وجہ سے ہیں یا خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ اس جگہ وہ جماعتیں موجود ہیں جن کے گاؤں میں غیر احمدی یا تو بالکل نہیں یا ایسی کمزور حالت میں ہیں کہ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے وہ لوگ امن میں ہیں گو پورے امن میں نہیں کیونکہ اگر ان کے گاؤں میں ان کے مخالف نہیں رہے یا کمزور ہو گئے ہیں تو اِرد گِرد کے گاؤں میں تو ہیں تاہم اَوروں کی نسبت وہ زیادہ امن میں ہیں۔ اُن کے لئے یہ وقت ہے کہ وہ سچّی نیکی اور سچّا اخلاص دکھا سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جہاں ایسا موقع آیا وہاں کے لوگوں نے کیا نمونہ دکھایا۔ ہر شخص غور کرے اور دیکھے کہ اس وقت بھی وہ دین کے متعلق ویسا ہی جوش اور اخلاص دکھا رہا ہے جیسا کہ اس وقت دکھلاتا تھا جب دُشمن اس کے سامنے کھڑا تھا اور ہر وقت اسے خوف لگا رہتا تھا۔ پھر اس وقت بھی اسے اپنے احمدی بھائیوں سے ایسی ہی محبت ہے جیسی کہ پہلے خوف اور ڈر کے وقت تھی جس کو یہ معلوم ہو کہ اس میں وہ محبت نہیں ہے جو اس وقت تھی جب دُشمن زیادہ تھے وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان بناوٹی ہے اور وہ دھوکا میں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی محسوس نہیں کرتا کہ وہ دین کے لئے ایسا ہی جوش رکھتا ہے جیسا کہ پہلے رکھتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ اس کا دعویٰ ایمان سچّا نہیں ہے۔ یہی حال اور سب باتوں کا ہے۔
دراصل بہت سے کام انسان دُشمن کے خوف سے کرتا ہے اور ترقی کے لئے بہت بڑا ذریعہ رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ لوگ عام طور پر سوال کرتے ہیں کہ خدا نے شیطان کیوں پیدا کیا اور کہتے ہیں ایک خیالی چیز کا نام شیطان رکھ دیا گیا ہے یا یہ کہ انسان کا نفس ہی شیطان ہے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے لیکن مَیں اس سے متفق نہیں ہوں۔ مَیں سمجھتا ہوں شیطان ایک ایسی چیز پیدا کی گئی ہے جو انسان کے نفس کے علاوہ ہے گو وہ مجسم نہیں۔ وہ انسان کو اس وقت بدی کی طرف کھینچتا ہے جبکہ وہ نیکی کی طرف جھکتا ہے۔ پس مَیں کہتا ہوں خدا نے شیطان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسانوں کو انسان فتح اور زیر کر لیتا ہے اور جب وہ فتح پالیتا ہے تو اپنے مقابلہ سے رکاوٹوں کو دُور کر کے سُست ہو جاتا ہے مگر شیطان ایسی چیز ہے کہ اس کو آسانی سے زیر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کو خدا سامنے لا کھڑا کرتا ہے تاکہ انسان سُست نہ ہو اور آگے ہی آگے بڑھتا رہے۔ انسان سُست اسی وقت ہوتا ہے جب سمجھتا ہے کہ اب مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن شیطان کی وجہ سے وہ ہر وقت اپنے آپ کو خطرہ میں پاتا ہے اور ہر وقت چوکنّا اور ہوشیار رہتا ہے۔ پس شیطان کا وجود انسان کو چوکس اور ہوشیار کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص ایک گاؤں کی سب آبادی کو احمدی بنا لے تو وہ یہ سمجھ کر سُست نہیں ہو جائے گا کہ اب مَیں امن میں آگیا ہوں۔ کوئی میرا مخالف اور دُشمن نہیں رہا بلکہ وہ کہے گا ابھی شیطان میرے پیچھے کُتّے کی طرح لگا ہؤا ہے اس سے مجھے غافل نہیں ہونا چاہئے تا وہ مجھے اپنی طرف ہی کھینچ کر نہ لے جائے اس طرح وہ ہر وقت چوکس رہے گا۔ تو خدا تعالیٰ نے انسان کی رُوحانیت کو قائم رکھنے بلکہ اس کو بڑھانے کے لئے شیطان کو پیدا کیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں خدا نے شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے لیکن میں کہتا ہوں رُوحانی ترقی کی طرف چلانے اور رُوحانیت کو محفوظ رکھنے کے لئے پیدا کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ مت سمجھو کہ گاؤں کے سارے کے سارے لوگ احمدی ہو گئے ہیں اس لئے کوئی خطرہ نہیں رہا بلکہ شیطان ہر وقت تمہارے پیچھے لگا ہؤا ہے اس سے چوکس رہو۔
ہماری جماعت کو خاص طور پر یہ بات مدِّنظر رکھنی چاہئے اور ہر ایک احمدی سوچتا رہے کہ وہ جو کچھ کرتاہے مجبوری سے تو نہیں کرتا۔ اگر مجبوری سے کرتا ہے تو اس کا اخلاص، اس کی نیکی، اس کا تقویٰ سب بناوٹی ہے اور جب تک یہ نہ ثابت ہو کہ تقویٰ اور نیکی جوش اور قُربانی خدا کے لئے ہے اس وقت تک وہ کسی انعام کا مستحق نہیں ہو سکتا اور نہ اپنے نفس سے مطمئن ہو سکتا ہے۔ پس میں اپنی ساری جماعت کو عموماً اور علاقہ سیالکوٹ کی جماعت کو خصوصاً جسے اپنی زیادتی کی وجہ سے اپنے اخلاص اور جوش کو اصلی ثابت کرنے کا موقع مِل گیا ہے تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس بات کا خاص خیال رکھے۔
مجھے معلوم ہؤا کہ بعض جگہ جہاں جماعت کی زیادتی ہے بعض نقص پیدا ہو گئے ہیں۔ ذراذرا سی بات پر آپس میں جھگڑا شروع کر دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اتفاق اور اتحاد حقیقی ایمان کے نتیجہ میں نہ تھا۔ جب تک دُشمن ان کے سامنے تھا اکٹھے تھے جب وہ ہٹ گیا تو پھر جس طرح غیر احمدی ہونے کی حالت میں لڑتے تھے اسی طرح لڑنے لگ گئے۔ مَیں پوچھتا ہوں کیا فائدہ ہے اس ایمان کا جس نے کوئی تبدیلی نہیں کی اور جس نے کچھ دیا نہیں۔ اگر وہی حالت رہی جو احمدی کہلانے سے پہلے تھی تو ایمان لانا نہ لانا مساوی ہے۔ اگر وہ ایمان ایسا ہے کہ اس کے ذریعہ دل سے وحشت نہ گئی، درندگی دُور نہ ہوئی تو اس کی قیمت ایک پیسہ بھی نہیں۔ ایسا ایمان منافقت ہے اور اس سے وہ بے ایمانی اچھی ہے جس میں محبت اور پیار، اُلفت اور نرمی پیدا ہو۔ پس جب تک تم تغیر کر کے نہ دکھاؤ اور خواہ سارا مُلک احمدی ہو جائے تمہارا قدم نیکی سے پیچھے نہ ہٹے بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا جائے اس وقت تک تمہارا ایمان حقیقی نہیں ہو سکتا اگر تم اس وقت اخلاص دکھاتے ہو جبکہ تمہارے دُشمن زیادہ ہوں تو اس وقت جبکہ دُشمن کم ہو جائیں اَور زیادہ اخلاص دکھانا چاہئے۔ ایک دفعہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس صحابہ گئے اورجاکر کہا آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں کہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سُوج جاتے ہیں؟ آپ کو خدا نے اتنا بڑا درجہ دیا ہے کیا آپ کو بھی اس قدر عبادت کرنے کی ضروت ہے؟ آپ نے فرمایا کیا تم یہ کہتے ہو کہ مَیں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں1۔ دیکھو تم تو اس لئے عبادت کرتے ہو کہ عذاب سے بچائے جاؤ اور مجھے چونکہ خدا نے بچا لیا ہے اس لئے میں اس کے شکریہ میں تم سے بڑھ کر عبادت کرتا ہوں۔ تو حقیقی ایمان اور سچّے اخلاص کا پتہ اُسی وقت لگتا ہے جبکہ انسان امن و امان میں ہوتا ہے۔پہلے جب دُشمن سامنے کھڑا ہو اُس وقت اگر کوئی ایمان اور اخلاص دکھاتا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ اپنی غرض سے کرتا ہے کہ دُشمنوں کے شر سے بچایا جاوے لیکن جب بچا لیا جاوے اور اس وقت بھی اخلاص دکھلائے تب حقیقی مخلص ہو سکتا ہے ورنہ اس سے زیادہ بے حیائی اور کیا ہو گی کہ جب تک فائدہ کی اُمید ہو اُس وقت تک تعلق رکھا جائے اور جب فائدہ اُٹھالیا جائے تو پھر تعلق چھوڑ دے۔ پس اگر تم لوگ دُشمنوں کی طرف سے امن میں آگئے ہو تو خدا کا شکر کرو کہ دوسرے بھائیوں سے پہلے تمہیں امن حاصل ہو گیا ہے وہ اَب بھی دُکھ دیئے جارہے ہیں، خریدوفروخت سے روکے جارہے ہیں اور طرح طرح سے ستائے جارہے ہیں مگر تم کو خدا نے ان سے پہلے امن دے دیا ہے۔ کیا اس کی یہی قدر ہے کہ خدا کے حکموں کو تم پیچھے ڈال دو؟ نہیں بلکہ یہ کہ تم اپنے اعمال سے ثابت کردو کہ تمہارا خدا تعالیٰ سے حقیقی تعلق ہے اور تم عُسر یُسر میں ایک ہی جیسے رہتے ہو۔ پس تم خدا کے اس فضل کی قدر کرو اور آپس میں لڑائی جھگڑے کرنے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ اتفاق و اتحاد سے رہو۔ اپنے حوصلے وسیع کرو کیونکہ مومن کا حوصلہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہماری لڑائی تو دین کے لئے ہے مگر دین کے لئے تو لڑائی ہوتی ہی نہیں۔ اگر کوئی خود بخود ہمیں چھوڑ کر چلا جائے اور بُرابھلا کہے تو وہ لڑتا ہے ہم نہیں لڑتے کیونکہ اسلام کسی سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ کہنا کہ فلاں آدمی کو ہم نے اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ اس نے یہ بداخلاقی دکھلائی ہے ہم کہتے ہیں کہ اگر وہ اخلاق دکھاتا تو پھر اس کو ساتھ رکھنے میں بات ہی کون سی تھی اور اس پر احسان کرنے کا موقع ہی کیا تھا۔ احسان کرنے کا موقع تو یہی ہوتا ہے کہ انسان خلاف منشاء خود کوئی بات دیکھے اور پھر بھی سلوک کرے۔ اگر کوئی کسی کے پاس آئے اور وہ اسے قالین بچھا دے تو کیا وہ ایسا کرے گا کہ قالین پر بیٹھ کر میزبان کو پتھر مار دے۔ ہر گز نہیں کیونکہ اخلاق کے مقابلہ میں اخلاق دکھانا کوئی بڑی بات نہیں۔ اصل میں بد اخلاقی کے مقابلہ میں اخلاق دکھانا، سختی کے مقابلہ میں نرمی کرنا اور جاتے ہوئے کو پکڑ کر اپنے پاس بٹھلانا یہ اخلاق ہے۔
بعض نادان کہا کرتے ہیں مرزا صاحب نے آکر کیا کِیا ؟ان کی جماعت میں بھی ایسے آدمی ہیں جو لڑتے جھگڑتے ہیں۔ مَیں کہتا ہوں مرزا صاحب ریکروٹنگ آفیسر نہ تھے کہ جن لوگوں کا قد ، کان، ناک وغیرہ اعضاء اور صحت اچھی تھی اُن کو چُن چُن کر اپنی جماعت میں بھرتی کرتے تھے بلکہ وہ ایک رُوحانی طبیب تھے جو بیماروں کو پکڑ پکڑ کر اپنے پاس رکھتے تھے۔ پس اگر ان کے ہسپتال میں بیمار ہیں تو یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے ہاں یہ دیکھو کہ اُنہوں نے کسی کو اچھا بھی کیا ہے یا نہیں۔ اگر کیا ہے تو پھر یہی ان کا کام ہے۔ دراصل نبی کا کام ڈاکٹر کے کام کی مانند ہوتا ہے اگر اس کے پاس زیادہ بیمار جمع ہوں تو یہ اس کی بڑائی کا ثبوت ہوتا ہے نہ کہ اس کے نقص کا۔ پس اس کی قابلیت کو پرکھنے کے لئے یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ اس کے پاس بیمار زیادہ ہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے علاج سے کوئی اچھا بھی ہؤا ہے یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کی وجہ سے ایک ایسی جماعت پیداہو گئی ہے جو اچھی ہے تو اس کی قابلیت اور صداقت ثابت ہو گئی۔
چونکہ اعلیٰ اخلاق دکھانا اور ان لوگوں کے مقابلہ میں دکھانا جو بد اخلاقی میں حد سے بڑھے ہوتے ہیں نبی کا کام ہوتا ہے اس لئے اس کے نقشِ قدم پر چلنے والوں کا بھی فرض ہوتا ہے کہ اگر کسی میں غلطی دیکھیں تو اس کی اصلاح کی کوشش کریں نہ کہ اس سے قطع تعلق کر لیں۔ اگر وہ لوگوں کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتے تو پھر اُنہوں نے بیڑا کس کام کا اُٹھایا ہے۔ کیا اس بات کا کہ لوگ خود بخود نیک ہو کر اور اعلیٰ اخلاق سیکھ کر ان کے پاس آجائیں اور انہیں اپنے ساتھ ملالیں۔ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کہتے ہیں کوئی پوربیا تھا۔ ان میں رسم ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو بین کرتے ہیں۔ جب وہ مر گیا تو اس کی بیوی نے بین کرنے شروع کئے کہ ہائے فلاں سے اس نے اتنا روپیہ لینا تھا اب کون لے گا؟ ایک پوربیا بولا''ہم ری ہم'' پھراس نے کہا کہ فلاں جائداد کا کون انتظام کرے گا؟ اس نے کہا ''ہم ری ہم''۔ لیکن جب اس نے کہا کہ فلاں کا اتنا روپیہ دینا تھا وہ کون دے گا؟ تو اس نے کہا ''مَیں ہی بولوں یا کوئی اور بھی بولے گا''۔ تو لینے کے وقت تو سب تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر مُفت کے ہمدرد اور خیرخواہ مِل جائیں تو ان سے کون انکار کر سکتا ہے لیکن ایسے لوگ انبیاء کے قائم مقام کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ انبیاء کی قائم مقامی کے مستحق وہی ہوتے ہیں جو دوسروں کے نقصوں کا علاج کرتے، ان کے اخلاق درست کرتے، ان میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔ پس یہ خیال کرنا کہ اگر کسی سے کوئی ایسی بات سرزد ہو جائے جو اچھی نہ ہو تو اس سے تعلق قطع کر لینا تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔
تمہارا یہ کام نہیں کہ جس میں کوئی نقص دیکھو اس کو چھوڑ کر بیٹھ جاؤ بلکہ یہ ہے کہ اس کاعلاج کرو اور اس کے نقائص کو دُور کرو۔ ایک دوسرے کی بیماریوں اور نقصوں کو دیکھنے کے لئے ہمارے مخالفین کی نظر کافی ہے وہ ایک دوسرے کے آئینہ میں اپنی شکل دیکھ کر فتویٰ لگا رہے ہیں۔ تم بھی اگر اسی طرح کرنے لگ جاؤ تو تم میں اور ان میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟ وہ بھی ایک دوسرے کے عیب نکالتے اور بُرائیاں بیان کرتے ہیں تم میں سے بھی اگر ایک بھائی دوسرے بھائی کا عیب نکالتا ہے تو وہ بھی دوسروں جیسا ہی ہے۔ ہاں اگر اپنے بھائی کے علاج میں لگ جاتا ہے اور اس کے نقائص دُور کرنے کی کوشش کرتاہے تو یہ فرق ہے کیونکہ دوسرا صرف بیماری دیکھتا ہے اور اس کا علاج نہیں کرتا مگر تم اپنے بھائی کی بیماری دیکھ کر اس کا علاج بھی کرتے ہو مگر میں دیکھتا ہوں بہت سے لوگوں میں عیب لگانے کی تو عادت ہے لیکن عیب دُور کرنے کی نہیں۔ اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں نکلتا کہ آپس کے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں اور ایک کو دوسرے سے کوئی محبت نہیں رہتی۔
انسانی فطرت کو اُکسانے اور اپنی طرف مائل کرنے والی چیز محبت اور پیار ہے۔ جب کوئی انسان اپنے اندر محبت کا چشمہ بہاتا ہے تو اس کے آس پاس جو لوگ ہوتے ہیں ان کی فطرتیں خواہ سینکڑوں من مٹی کے اندر دبی ہوں، اُبھرآتی ہیں۔ مَیں نے ایک رؤیا دیکھا جو کئی دفعہ سُنایا ہے۔ مَیں نے دیکھا ایک سٹیچو ہے جس کے اوپر ایک بچہ ہے جو آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو بُلا رہا ہے۔ اتنے میں آسمان سے کوئی چیز اُتری ہے جو نہایت ہی حسین عورت ہے اور اس کے کپڑوں کے رنگ ایسے عجیب و غریب ہیں جو مَیں نے کبھی نہیں دیکھے۔ اس نے چبوترے پر سے اُترکر اپنے پر پھیلادیئے اور نہایت محبت سے بچّہ کی طرف جھکی۔ وہ بچّہ بھی اس کی طرف اس طرح لپکا جس طرح ماں سے محبت کرانے کے لئے لپکا کرتا ہے اور اس نے بچّہ کو ماں کی طرح ہی پیار کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے۔
Love Creates Love
کہ محبت محبت پیدا کرتی ہے۔ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہؤا کہ وہ بچہ عیسیٰ ؑ ہے اور وہ عورت مریم ؑ۔
تو محبت مُردہ کو زندہ ، دُشمن کو دوست، مخالف کو موافق بنا دیتی ہے۔ ذرا غور تو کرو وہ کیا چیز ہوتی ہے جس سے نبیوں کے مخالف ان کے پاس کھِنچ کر چلے آتے ہیں وہی جس کے متعلق خداتعالیٰ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ 2 کیا تُو اپنی جان کو ان لوگوں کے لئے ہلاک کر لے گا۔ تو انبیاء لوگوں کے گناہوں اور کمزوریوں کو دیکھ کر ان سے نفرت نہیں کرتے کیونکہ تندرست اور مضبوط کو دیکھ کر اس پر رحم نہیں کیا جاتا بلکہ بیمار اور کمزور پر رحم کیا جاتا ہے۔ پس اگر تم اپنے کمزور اور عیب دار بھائی سے ہمدردی نہیں کرتے، اُس کو مدد نہیں دیتے تو کسی اچھے اور تندرست سے ہمدردی کرنا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ اصل ہمدردی اور امداد تو وہی ہے جو کمزورکو دی جائے۔ ایک ایسا شخص جس کو کوئی احتیاج نہیں اس کو اگر کہا جائے کہ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو بتلائیے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ ہاں بڑی بات یہ ہے جو محتاج ہو اس کی امداد کی جائے تو کمزور بھائی کے ساتھ تعلق رکھنا اور اس کو اپنے ساتھ رکھنا اصل بات ہے۔ زور اور طاقت والے تو خود بخود ساتھ ہو جاتے ہیں۔ پس تم اپنے نفسوں میں تبدیلی پیدا کرو تاکہ فلاح پاؤ۔
احمدیت کے صرف نام میں کوئی ایسی تاثیر نہیں کہ پھر کسی اصلاح کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ جب محمدیت نے لوگوں کو نہیں بچایا تو احمدیت کہاں بچا سکتی ہے۔ جب آقا کا نام لینے والے تباہی سے نہیں بچ سکے تو غلام کا نام لینے والے کیونکر بچ سکتے ہیں۔ اصل چیز ایمان ہے اور ایمان ہی کام آنے والا ہے جس میں خلوص، محبت اور تقویٰ ہو۔ اگر خدا تعالیٰ سے محبت ہو تو اس کے بندوں سے محبت کئے بغیر انسان رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر ایک چیز پیاری لگتی ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے جن کو حضرت صاحب سے محبت ہے وہ ان جگہوں میں خاص طور پر جاتے ہیں جہاں حضرت صاحب کبھی بیٹھے۔ امرتسر میں ایک حجام تھے اُنہوں نے حضرت صاحب کے بال اور ناخن رکھے ہوئے تھے۔ ایک دفعہ میں امرتسر گیا تو اُنہوں نے مجھے بتایا کہ میرے پاس حضرت کے بال اور ناخن ہیں۔ مَیں سُن کر چُپ رہا۔ اس پر اُنہوں نے غُصّہ سے لال لال آنکھیں نکال کر کہا مَیں نے حضرت صاحب کے تبرکات کا ذکر کیا ہے مگر اس نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دکھاؤ۔ یہ وہ محبت تھی جو محبوب سے تعلق رکھنے والی چیزوں سے ہوتی ہے۔ تو جو خداتعالیٰ سے محبت رکھتا ہے وہ خدا کی مخلوق سے بھی محبت رکھتا ہے اور جس کے دل میں خدا کی محبت ہو اس میں کسی کی دُشمنی جاگزیں نہیں ہو سکتی۔
مَیں فخر کے طور پر نہیں بلکہ آپ لوگوں کو تحریص دلانے کے لئے کہتا ہوں کہ ہمارے سلسلہ کا سب سے بڑا دُشمن ثناء اﷲ ہے۔ مجھے اس سے بھی محبت ہی ہے۔ مَیں تو سمجھتا ہوں مَیں کسی سے دُشمنی کے لئے پیدا ہی نہیں کیا گیا بلکہ ہر ایک کے ساتھ محبت کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہوں۔ پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے سے محبت اور پیار کا ہی سلوک کرو۔
اگر تم کسی کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہو تو محبت سے ہی کھینچ سکو گے ورنہ تم کیا اور تمہاری حقیقت کیا؟ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر یہ لوگوں سے اچھا سلوک نہ کرے اور ان سے سختی کے ساتھ پیش آئے تو لوگ اس سے بھاگ جائیں۔3 پس انبیاء کے پاس بھی لوگ اسی لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ محبت سے انہیں کھینچتے ہیں اور جتنا کسی میں پیار اور محبت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی وہ لوگوں کو زیادہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ پس جس میں تم کوئی غلطی، کمزوری اور نقص دیکھو اس کو چھوڑ نہ دو، اس سے سختی کے ساتھ پیش نہ آؤ بلکہ اس کی کمزوری اور نقص کو دُور کرنے کی کوشش کرو۔ کیا جب بچّہ بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ اُسے باہر پھینک دیتے ہیں یا اس کی بیماری کا علاج کرتے ہیں؟ اگر علاج کرتے ہیں تو تم کو بھی چاہئے کہ اگر تمہارا کوئی بھائی بیمار ہو یا اس میں کوئی نقص اور کمزوری ہو تو یہ نہ کرو کہ اس کو اپنے میں سے باہر پھینک دو بلکہ اس کی بیماری کو دور کرنے میں لگ جاؤ۔ اگر اس میں تم کامیاب ہو جاؤ تو یہ قابلِ ستائش اور لائقِ اُجرت ہو گی لیکن اگر کسی کمزور بھائی کو اپنے سے جُدا کر دو تو یہ تمہاری اپنی کمزوری اور نقص کو ظاہر کرے گی۔ آپس میں محبت اور پیار بڑھانے کی کوشش کرو اور یہ نہ سمجھو کہ تمہاری جماعت کسی نئے طریق پر قائم ہوئی ہے اور احمدیت لوگوں کے اعتراضات اور شکوک کو دور کرنے کے لئے دلائل نہیں رکھتی۔ احمدیت کمزور نہیں بلکہ خدا کے فضل سے بہت مضبوط ہے اور دلائل کے ساتھ سب اعتراضات اور شکوک کو دُور کر سکتی ہے۔ پس اگر کسی کے دل میں کوئی اعتراض پیدا ہوتا ہے تو اسے دلائل سے سمجھاؤ اور اس کی تسلّی کراؤ۔ اگر تم اس طرح کرو گے تو وہی بھائی جو آج تمہیں اپنا مخالف نظرآتا ہے کل تمہارا مدد گار ہو گا۔
خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے کہ دُشمن کی زیادتی کے وقت تمہارا خداتعالیٰ سے جو تعلق ہو دُشمن کی کمی کے وقت بھی ویسا ہی ہو بلکہ اس سے بڑھ کر ہو اور تم لوگوں کی اصلاح کرنے اور ان کی کمزوریوں کو دُور کرنے میں اس مصلح کے نقش قدم پر چلو جو اس زمانہ کی اصلاح کے لئے آیا اور جس کے پیروہونے کا تم دعویٰ کرتے ہو۔‘‘
(الفضل 17مئی 1920ء)
1: بخاری کتاب التہجد باب قیام النبی صلی اﷲ علیہ وسلم الَّیْلَ حتٰی ترم قد ماہ (الخ)
2: الشعراء: 4
3: وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ (آل عمران: 160)



80
کسی بات سے نتیجہ نکالنے سے قبل اُس پر کافی غور کرنا چاہئے
(فرمودہ 16اپریل1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پچھلے جمعہ سے پہلے جمعہ ایک خاص امر کی طرف جماعت کو توجہ دلانے کے لئے بعض تمہیدی باتیں بیان کی تھیں جو کچھ اس دن بیان کیا تھا اس سے آئندہ مضمون کانتیجہ نکالنا مُشکل امر تھا مگر خطبہ نویس کی بے توجہی کی وجہ سے یا کسی اور باعث سے پیشتر اس کے کہ مَیں بیان کروں کہ وہ کون سا مضمون تھا اس خطبہ کا عنوان تعلق باﷲ لکھ دیا گیا۔ گو دین کی ہر ایک بات بہرحال تعلق باﷲ میں داخل ہو جاتی ہے لیکن اس تمہید کا بلاواسطہ طور پر تعلق باﷲ سے تعلق نہ تھا۔ اس سے مجھے خیال ہؤا کہ ممکن ہے کہ اسی رنگ میں اور لوگوں نے بھی غلط نتیجہ نکالا ہو۔ اس لئے مَیں اس کی اصلاح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
جب تک بات پر غور نہ کیا جائے اس کا سمجھنا مُشکل ہوتا ہے اور اِسی سے ٹھوکر لگتی ہے اور اِسی ٹھوکر کے باعث علمی کمزوریاں رہ جاتی ہیں۔ عام طور پر اس کو علم سمجھا جاتا ہے کہ مکمل اور پوری بات سُنے بغیر نتیجہ نکال لیا جائے۔ چونکہ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہر ایک بات ابتدا سے انتہاء تک نئی نہیں ہوتی اس لئے وہ ساری بات سُنے بغیر ہی نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ علوم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ مَیں نے اس تمہید میں اِسی بات پر زور دیا تھا کہ جب بات سُنو تو غور سے سُنو اور پوری سُنو پھر نتیجہ نکالو۔ مثل مشہور ہے کسی جگہ چند آدمی تھے ایک شخص نے بغیر کسی کا نام لئے کہا وہ تو جس وقت پہرے کے لئے کھڑا ہوتا ہے بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ دوسرے نے کہا یہ تو معلوم نہیں ہاں گم شدہ چیز کو خوب تلاش کر لاتا ہے۔ تیسرے نے کہا یہ تو مَیں جانتا نہیں ہاں یہ جانتا ہوں وہ گاتا اچھا ہے۔ چوتھے نے بھی اسی قسم کی کوئی بات کہی۔ آخر چاروں ایک دوسرے سے لڑنے لگے اور ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ تم میرے خلاف کیوں کہتے ہو؟ ایک شخص پاس سے گزرا اور لڑائی کا سبب پوچھا تو ایک نے کہا کہ مَیں فلاں کُتّے کا ذکر کر رہا تھا۔ دوسرے نے کہا کہ مَیں فلاں گوئیے کا ذکر کر رہا تھا۔ غرض ہر ایک نے کسی دوسری ہی چیز کا نام لیا۔ تو ان چاروں نے ایک دوسرے کے طرز سے اپنے اپنے خیال کے مطابق نتیجہ اخذ کر کے فیصلہ کر لیا کہ فلاں کے متعلق کہا گیا ہے اور ساری خرابی اسی بات سے پیدا ہوئی کہ مکمل بات سُنے بغیر یونہی فیصلہ کر لیا تھا تو ایک آدھ بات سُن کر کہہ دیا جاتا ہے کہ ساری بات یہ ہو گی۔ دُنیا کی کوئی کتاب پڑھو اس میں تمام باتیں ایسی نہ ہوں گی جو تمہیں پیشتر سے معلوم نہ ہوں بہت سی پہلے معلوم ہوں گی۔ قرآنِ کریم ہی کو دیکھ لو اس میں بہت سی باتیں ایسی ہوں گی جو پہلے سے معلوم ہوں گی لیکن جو لوگ ان معلومہ باتوں کی وجہ سے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے سمجھ لیا وہ علوم سے محروم رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ علوم کے حاصل کرنے اور بڑھانے میں توجہ کا بہت بڑا دخل ہے۔ جب ایک شخص کسی بات کے متعلق کہتا ہے کہ مَیں اسے جانتا ہوں تو اس کی توجہ اس سے ہٹ جاتی ہے اور وہ ایک علم کی حقیقت اور خوبی سے ناواقف رہتا ہے لیکن جو غور کرتا اور توجہ قائم رکھتا ہے اور اسلوبِ بیان کو جانچتا اور بات کی تہہ میں داخل ہوتا ہے اس کا علم دوسرے شخص کی نسبت بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس کے لئے ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی خاص شخص کی تلاش میں نکلے تو دُور سے کسی اور ہی شخص کو وہ خیال کر کے پُکارے گا اور پاس جاکر غلطی سے آگاہ ہو گا لیکن اگر اس سے ملنے کی ضرورت نہ ہو تو خواہ وہ پاس سے گزرجائے تو بھی اس کی طرف توجہ نہیں ہو گی۔ پس جو لوگ باتوں پر غور کرتے ہیں وہ ان میں جدّت پاتے اور ترقی کرتے ہیں مگر جو ہر ایک بات کو جانی ہوئی سمجھتے ہیں وہ غور نہیں کر سکتے اس لئے علوم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہی نقص ہے جو تمام علوم کے حصول میں حائل ہو جاتا ہے۔ جو لوگ اس نقص کو دُور کر دیتے ہیں وہ علوم حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی نقص کے نہ ہونے کے باعث محمد، محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابو بکر، ابو بکر رضی اﷲ عنہ ہو گئے اور اسی کے ہونے سے ابو جہل، ابوجہل ہو گیا۔ ایک ہی بات ہوتی ہے کہ ایک شخص غور کر کے علوم کے نئے نئے رستے نکال لیتا اور بڑے بُلند مقام پر پہنچ جاتا ہے مگر دوسرا اس گُر کو چھوڑکر گِرجاتا اور علوم سے محروم رہ جاتا ہے۔ دیکھو ابوبکر اس گُر پر عمل کر کے ایک بات سُن کر ابو بکر رضی اﷲ عنہ ہو جاتا ہے لیکن ابوجہل اس گُر کو چھوڑ کر اسی بات کو سُن کر ابوجہل ہو جاتا ہے۔
یہی قرآن کریم ہے جس کے متعلق مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تمام رُوحانی علوم کا مجموعہ ہے مگر برخلاف اس کے آجکل کے مولوی کہتے ہیں کہ جو باتیں پہلے کہہ گئے ان سے زیادہ اس میں کچھ نہیں۔ اگر کوئی معرفت کی اور علم کی بات بیان کی جائے تو کہتے ہیں اگر یہ ٹھیک ہے تو پہلے علماء کی سمجھ میں کیوں نہ آئی۔ یہ خیال کر کے اُنہوں نے قرآن کریم پر غور کرنا چھوڑ دیا اور اس کے علوم اور معارف سے محروم ہو گئے۔ اب کیا فرق ہؤا یہی کہ مسیح موعود علیہ السلام اور اس کے طریق پر چلنے والے قرآن پر غور کرتے اور اس سے علوم نکالتے اور فائدہ اُٹھاتے ہیں اور مولوی لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کے محض لفظوں کا تکرار ہی ثواب کی بات ہے۔
پھر دیکھو یہی زمین جس پر ہم رہتے اور چلتے پھرتے ہیں ہمارے نزدیک اسی مصرف کی چیز تھی لیکن یورپ کے لوگوں نے اسی سے وہ کچھ نکالا کہ دُنیا کو حیران کر دیا۔ یہی پانی جسے ہم پیتے ہیں یورپ نے اس کی گیسیں بنا کر بڑے بڑے کام اس سے نکالے۔ غرض جب تک کسی بات پر غور نہ ہو سرسری سُننے سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا۔
اسی پچھلے جلسہ میں پہلے دن مَیں نے یہ بات بیان کی تھی کہ دُنیا میں بہت سے گناہ ہیں اور اس بیان میں مَیں نے انسان کے بندۂ خدا بننے پر مفصّل گفتگو کی تھی اور اس کے ضمن میں نیکی اور بدی کا بھی ذکر تھا۔ مَیں نے بتایا تھا کہ بدیاں بہت ہیں لیکن وہ گناہ جس کے باعث شعائرِاسلام پر حرف آتا ہو وہ بہت خطرناک گنا ہ ہوتے ہیں۔ وہ چھوٹی بدی جس کے باعث اسلام بدنام ہو بہت بڑی ہے بہ نسبت اس بدی کے جو محض ارتکاب کرنے والے کی ذات کے لئے ہلاکت کا موجب ہو۔ ایک شخص اندھیری رات میں کہیں چوری کے لئے جاتا اور سیندھ لگاتا ہے یہ گناہ ہے اور اس کی ذات کے لئے بڑا گناہ ہے مگر وہ شخص جو مسلمان کہلا کر عَلَی الْاِعْلَان سود لیتا ہے وہ اس کی نسبت بہت بڑا گناہ کرتا ہے کیونکہ یہ لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ شور مچائیں کہ اسلام قابلِ عمل مذہب نہیں۔ اس وقت جُرموں اور گناہوں کے شرعی مدارج کو چھوڑ کر محض اس وجہ سے کہتے ہیں کہ فلاں گناہ زیادہ بڑا ہے کہ اسلام کے لئے اعتراض کا موجب بنتا ہے۔
یہ تھی میری تقریر لیکن اس کے سیاق و سباق پر غور نہ کیا گیا اور الفضل میں لکھ دیا گیا کہ احباب کو چاہئے کہ جو ہدایات ان کو جلسہ میں دی گئی ہیں ان پر کاربند ہوں۔ بالخصوص دوشادیاں کرنے پر ضرور عمل کریں۔ یہ کیوں لکھ دیا گیا؟ اس لئے کہ میرے متعلق وہ سمجھتے تھے یہ دو شادیوں کے لئے کہا کرتا ہے۔ بیشک مَیں کہا کرتا ہوں لیکن مَیں نے اس وقت یہ بات بیان نہیں کی تھی بلکہ مَیں نے تو اس وقت مثال کے طور پر کہا تھا کہ جو لوگ دو شادیاں کرتے ہیں مگر انصاف نہیں کرتے وہ سمجھ لیں کہ وہ ایک سخت گناہ کے مُرتکب ہوتے ہیں جس سے لوگوں کو اسلام سے نفرت پیدا ہوتی ہے اس لئے یہ ان کا گناہ اس گناہ کی نسبت جو پوشیدہ طور پر کیا جائے اور ان کی ہلاکت کا موجب ہو بڑا ہے کیونکہ اس سے ان کی ذات کی بجائے اسلام اعتراضات کا نشانہ بنتا ہے لیکن جو شخص دو شادیاں اس لئے کرتا ہے کہ مسلمان بڑھیں اور انسانی نسل کی ترقی ہو اور بیویوں کے ساتھ مساوی سلوک کرتا ہے وہ اسلام پر اعتراض کا موجب نہیں بنتا بلکہ اسلام پر سے اعتراض کو دُور کرتا ہے۔
یہ بات تھی جو مَیں نے بیان کی لیکن جونہی کہ میری تقریر میں دو بیویوں کا ذکر آیا۔ فوراً خیال کر لیا گیا کہ یہ دو بیویوں کے کرنے کے متعلق ہی کہہ رہے ہیں باقی جس قدر بات مَیں نے بیان کی اس پر توجہ نہ کی گئی اور ایک اُدھورا فقرہ سُن کر فیصلہ کر لیا گیا کہ مطلب یہی ہو گا۔ حالانکہ جب تک کسی بات پر پورا غور نہ کیا جائے اس کے تمام پہلو سمجھ میں نہیں آسکتے اور نہ ناقص غور کے ذریعہ علوم ترقی کر سکتے ہیں۔
آجکل یہ کمال خیال کیا جاتاہے کہ جب کوئی بات کر رہا ہو تو فوراً درمیان میں بول پڑیں جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ ہم خوب سمجھتے ہیں اور گویا ان لوگوں کی علمیت ظاہر ہوتی ہے۔ مباحثوں اور مناظروں میں علماء ایسا کرتے ہیں۔ اس سے غرض مخالف پر رُعب ڈالنا ہوتی ہے لیکن ہر جگہ یہ بات درست نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا ایک الہام سُنا کر کہنے لگے کہ خُدا اور بندے کے کلام میں کیا فرق ہوتا ہے اور اس کے لئے آپ نے ایک حریری کا فقرہ پڑھا۔ ایک صاحب فوراً درمیان میں بول پڑے اور اُنہوں نے پہلی بات پرتو غور نہ کیا اور اس فقرے کو الہام سمجھ کر کہنے لگے واقعی کیسی عمدہ عبارت ہے اور کیا فصاحت و بلاغت ہے لیکن جب حضرت صاحب نے فرمایا:-
آپ سُنیں تو سہی اور پھر آپ نے اس میں نقص بتلائے اور الہام کی اس پر فضیلت ثابت کی۔
غرض یہ طریق ہو گیا ہے کہ پورا کلام سُنے بغیر لوگ نتیجہ نکالتے ہیں۔ اسی طریق سے اسی سلسلہ مضمون کی تمہید کے عنوان میں غلطی کی گئی۔ حالانکہ میری مُراد یہ بتانا تھی کہ لوگ بعض فقرے کہتے ہیں مگر انہیں سمجھتے نہیں۔ کہتے ہیں اتحاد کرو لیکن نہیں سمجھتے کہ کیوں کرو، کیوں نہ کرو؟ اتحاد کرنے کے کیا فوائد ہیں اور نہ اتحاد کرنے کے کیا نقصانات؟ یا یہ کہ غیبت نہ کرو ، کیوں نہ کرو؟ اس کے کیا نقصانات ہیں اور اس سے بچنے کے کیا ذرائع ہیں؟ یا یہ کہ جھوٹ نہ بولو، کیوں نہ بولو، اس کے کیا نقصانات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مومن کے لئے یہ تعلیم نہیں کہ وہ کسی بات کی سطح پر رہے بلکہ اس کو حکم ہے کہ وہ ہر بات کی تہہ میں داخل ہو جائے مگر افسوس! بجائے اس کے کہ اکثر لوگ بات کی تہہ میں جائیں وقت سے پہلے ہی نتیجہ نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج میں بجائے اس کے کہ اصل وہ مضمون شروع کروں اس نصیحت کو دُہراتا ہوں کہ ہر ایک بات پر پورا پورا غور کرنا اور توجہ سے سُننا چاہئے اور بغیر ساری بات سُنے نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے۔
نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مومن وہی نہیں ہوتا جو جمیع صفات کا مکمل طور پر جامع ہو بلکہ مومن وہ بھی ہوتا ہے جس میں تمام صفات کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہوں مثلاً جنہیں لوگ خوبصورت کہتے یا سمجھتے ہیں وہ بے نظیر نہیں ہوتے اور ان کے تمام اعضاء بے مثل نہیں ہوتے بلکہ ان کے اعضاء میں ایک حد تک تناسب ہوتا ہے لیکن جس شخص کے اعضاء میں تناسب نہ ہو اس کا کوئی عضو خواہ کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو وہ حسین نہیں کہلا سکتا۔ اگر اس کے مقابلہ میں دوسرے اعضاء خوبصورت نہ ہوں مثلاً ایک شخص کی آنکھیں بہت خوبصورت ہوں مگر ناک یا کان نہ ہوں یا ہوں تو خوبصورت نہ ہوں وہ کبھی حسین نہیں کہلائے گا بلکہ اس کی شکل بھیانک ہو گی یا اسی طرح ایک شخص کی ناک بہت خوبصورت ہو مگر آنکھیں اچھی نہ ہوں تو اس کو بھی خوبصورت نہیں کہہ سکتے۔ غرض حُسن نام ہے اجمالی طور پر تمام اعضاء میں تناسب اور موزونیت کا۔ اِسی طرح مومن وہ ہے جس میں عمدہ صفات پائے جاتے ہوں خواہ بمرتبۂ کمال نہ ہوں اور چاہے کمزوریاں بھی ہوں اور ہوتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے اور تمام اعلیٰ صفات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مثلاً بنی نوع کی ہمدردی جس قدر عیسائیوں میں ہے دوسرے لوگ کم دکھاتے ہیں۔ پچھلے دنوں یہاں قادیان میں ایک انگریز آیا تھا اس کی ہندوستان میں آنے کی غرض محض یہ تھی کہ وہ کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرے اور ثواب حاصل کرے۔ وہ تلاش کرتا پھرتا تھا لیکن اگر یہاں کے لوگوں کو موقع ملے تو ان کو گھِن آئے ۔ یہ رُوح مسلمانوں میں کم ہے۔ حالانکہ جس طرح خوبصورتی آنکھ، ناک، کان میں تناسب کا نام ہے اسی طرح مومن وہی ہے جس کے سب عمل ٹھیک ہوں۔
ابھی معلوم ہؤا ہے کہ وہ وباء جو پچھلی دفعہ مُلک میں پھیلی تھی اب پھر بڑھ رہی ہے۔ اس کا رُخ پنجاب کی طرف ہے۔ 1919ء میں بھی اس کی آمد آمد تھی لیکن خدا تعالیٰ نے اس وقت اس کو اپنے فضل و رحم سے دُور کر دیا تھا۔ اب بھی اﷲ تعالیٰ دُور فرمائے مگر یہ خداکے عذاب ہیں۔ جب تک لوگ اسلام سے نفرت اور سچّائی کی مخالفت کرتے رہیں گے اﷲ تعالیٰ بھی اپنے حملے کرتا رہے گا اور جب تک لوگ مخالفت میں بڑھ رہے ہیں ہمیں اپنے مومنانہ جوش سے تمام بنی نوع کی ہمدردی میں مصروف رہنا چاہئے۔ یاد رکھو اسلام ہر انسان کو جان کی حفاظت کا حکم دیتا ہے اور ہر گز نہیں چاہتا کہ کوئی شخص اپنی جان ضائع کرے مگر بعض جگہ خداکا ہی حکم ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیں۔ بعض لوگ خطرے سے بچنے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن میں آیا ہے لَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ1۔گو سیاق و سباق سے اس کے اور معنے نکلتے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہئے لیکن قرآن یہ بھی تو کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص موت کے خوف سے کتنی ہی کوٹھڑیوں میں چھُپے تو موت وہاں بھی نہیں چھوڑتی۔2 دراصل اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جہاں خطرے میں پڑنا مُفید ہو وہاں خطروں میں پڑنے سے بچنا نہیں چاہئے۔ اس موقع پر مَیں قادیان والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تیمارداری اور بیماروں کی خدمت کرنا سیکھیں۔
یہاں تو یہ باتیں معمولی سمجھی جاتی ہیں لیکن یورپ میں اس کے سکھانے کے کالج ہوتے ہیں لیکن یہاں ایسی باتوں کو معمولی سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ مجھ سے ایک شخص نے مشورہ لیا کہ مَیں درزی کا کام سیکھنا چاہتاہوں۔ مَیں نے کہا بہت اچھا کام ہے۔ وہ باہر کام سیکھنے گیا لیکن چند ہی دن کے بعد آگیا اور جب مَیں نے پوچھا اتنی جلدی کیوں واپس آگئے ہو تو کہنے لگا کہ مَیں کام کرنے کے گُر سیکھ آیا ہوں لیکن نتیجہ یہ ہؤا کہ جس طرح اسے پہلے کام کرنا نہیں آتا تھا اِسی طرح پھر بھی نہ آیا۔ اسی طرح مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے ایک شخص طب پڑھنے کے لئے ایک طبیب کے پاس گیا۔ ایک دن طبیب ایک مریض کو دیکھنے گیا اور ساتھ اس کو بھی لے گیا۔ مریض کو سوءِ ہضمی کی شکایت تھی۔ طبیب نے کہا آپ نے شاید چنے کھائے ہیں اس نے کہا ہاں۔ شاگرد نے دیکھاتو وہاں اس کو چنے کے دانے نظر آئے۔ اس نے خیال کیا طبیب نے یہ دانے دیکھ کر ہی بیمار ہونے کا باعث سمجھا ہے اوربیماری کا پتہ لگانے کا گُر یہی ہے جو چیز آس پاس ہو وہی بیماری کا باعث سمجھ لی جایا کرے۔ یہ خیال کر کے وہ واپس اپنے وطن پہنچا اور مشہور کر دیا کہ مَیں طب پڑھ آیا ہوں۔ ایک دفعہ ایک امیر بیمار ہؤا اس کے ہاں اس کو بُلوایاگیا۔ جب گیا نبض دیکھنے کے بعد اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا۔ اتفاقاً مریض کی چار پائی کے نیچے گھوڑے کی زین پڑی تھی۔ کہنے لگا آپ نے بھی تو غضب کیا کہ زین کھائی ہے۔ بھلا کوئی زین بھی کھاتا ہے۔ امیر نے کہا یہ تو کوئی پاگل ہے اور اس کو پٹوا کر باہر نکلوا دیا ۔تو تیمار داری کا بھی ایک فن ہے جو محنت سے آتا ہے اور ہر ایک کام کا یہی حال ہے کہ جب اس کے کرنے کے طریق نہ آتے ہوں عمدگی سے نہیں ہو سکتا۔ کل ہی کی بات ہے مغرب کے وقت مسجد کے اُوپر دریاں بچھانے کے لئے کوئی تیس آدمی لگے اور اتنا شور ہؤا کہ اَلْاَمَان۔ لیکن اگر فوجی یا فراش ہوتے تو چار ہی آدمی لگتے اور نہایت اطمینان اور خاموشی سے دریاں بچھ جاتیں۔ تو ہر ایک کام سیکھنے سے آتا ہے اور اس پر محنت بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح تیمارداری بھی سیکھنے سے آتی ہے۔ پس اوّل تو اﷲ تعالیٰ اس آنے والے خطرے سے محفوظ رکھے لیکن اگر آئے تو اس خدمت کے لئے تیار ہونا چاہئے اور عمدگی سے یہ خدمت کرنی چاہئے۔ پہلی دفعہ جب انفلوئنزا پڑا تو ہمیں معلوم ہؤا کہ ایک غیر احمدی عورت جس کے رشتہ دار بیمار تھے، غیر احمدیوں کے محلہ میں پانی پانی کرتی مَرگئی اور کسی نے اس کو پانی کا گھونٹ نہ دیا۔ یاد رکھو جو شخص ایسے وقت میں بِالخصوص اپنے بھائیوں کی اور عموماً سب کی خدمت اخلاق و ہمدردی سے نہیں کرتا اس کو اﷲ تعالیٰ کے دروازے تک رسائی نہیں ہوتی۔‘‘
(الفضل 24مئی 1920ء)
1: البقرۃ : 196
2: اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ (النساء:79)


81
اتفاق و اتحاد کے متعلق اسلامی تعلیم
(فرمودہ 30اپریل1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’آج مَیں وہ سلسلہ مضمون شروع کرتا ہوں جس کی تمہید مَیں پہلے بیان کر چُکا ہوں۔ اس تمہید میں مَیں نے بتایا تھا کہ جو لوگ صرف الفاظ بولتے ہیں مگر ان پر غور نہیں کرتے وہ ان نہایت عظیم الشان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان میں مخفی ہوتے ہیں۔ یہ میری تمہید تھی کہ الفاظ کے اندرجو بات ہوتی ہے وہ صرف حروف تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ ایک اور چیز بھی ہوتی ہے جو الفاظ کے پردے میں ہوتی ہے اور اس کا اسی وقت علم ہوتا ہے جب اس پر غور کیا جائے۔ جب وہ پوشیدہ معنے معلوم ہوتے ہیں اور پوشیدہ اثر محسوس ہوتا ہے اس وقت انسان کو حقیقی فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر جس وقت تک ان کی تشریح نہ کی جائے عام طور پر لوگ معلوم نہیں کر سکتے۔ مَیں نے اس مسئلہ کی تشریح کے لئے تمثیل کے طور پر دنیاوی اور دینی امور کے متعلق بعض باتیں بیان کی تھیں۔ مَیں نے بتایا تھا کہ یورپ کی ترقی کا راز صرف مسئلہ ارتقاء پر ہے جس کا منشاء یہ ہے کہ دُنیا کی ہر ایک چیز ترقی کی طرف جارہی ہے خواہ وہ بظاہر گر ہی رہی ہو لیکن درحقیقت اس کا قدم ترقی کی طرف ہی اُٹھ رہا ہوتا ہے۔ انسان دن بدن آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے اور ہر قسم کے تغیرات بہتری کی طرف لے جارہے ہیں۔ اس مسئلہ کا نتیجہ یہ ہؤا کہ یورپ میں نئے سے نئے علوم نکل آئے۔ اِسی طرح مذہبی دُنیا کا بھی ایک مختصر سا اصل ہے اور وہ یہ کہ وسطی طریق کو اختیار کرنا چاہئے۔ یہ بات مختلف تمدنوں اور اخلاق کے لوگوں میں پائی جائے گی مگر ان لوگوں نے اس سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھایا لیکن اسلام نے اس نکتہ کو لیا ہے اور اس کو پھیلاکر اس کی تفصیل پر تمام باتوں کی بنیاد رکھی ہے اور کیوں نہ ہوتا جبکہ اسلام اس خدا کا مذہب ہے جو تمام فطرتوںکا پیدا کرنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام جس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈال دیتا ہے۔
مثلاً دیکھو یہی اتفاق و اتحاد کا مسئلہ ہے کوئی قوم نہیں جو کہتی ہو کہ اتفاق و اتحاد نہیں چاہئے۔ دُنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلے جاؤ۔ تمہیں اتفاق و اتحاد کے حامی ملیں گے۔ بُدھوں کو دیکھو وہ بھی اتفاق کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔ عیسائی بھی اتفاق و اتحاد کو اچھی چیز مانتے ہیں۔ غرض دنیا کی ہر ایک قسم کی آبادی میں اس کی ضرورت کو مانا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں بھی، تجارت پیشہ گروہوں میں بھی، مذہبی لوگوں میں بھی اس کی ضرورت تسلیم کی جاتی ہے لیکن باوجود اتنا زور دینے کے پھر بھی دُنیا میں ایسی جگہ کم نظر آئے گی جہاں اتفاق و اتحاد ہو۔ اسکی یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اتفاق و اتحاد کی تشریح نہیں کی اور نہیں خیال کیا کہ اتفاق و اتحاد ہے کیا چیز؟ اس کے ہونے کے کیا فوائد ہیں اور نہ ہونے کے کیا نقصانات اور یہ حاصل کیونکر ہو سکتا ہے اور اس کے ذرائع حصول کیا ہیں۔ پس دوسرے لوگوں کے نزدیک چونکہ یہ ایک غلط تعریف ہے اس لئے اس کے نتائج بھی غلط نکلتے ہیں۔ جب تک صحیح تعریف اور صحیح ذرائع معلوم نہ ہوں اس وقت تک نتائج صحیح کیسے نِکل سکتے ہیں لیکن اسلام نے اس کی صحیح تعریف اور ذرائع بتائے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو اس میں غلطی نہیں لگنی چاہئے۔ دوسرے لوگ بوجہ غلطی میں مُبتلا ہونے کے اس چیز سے محروم رہیں تو اور بات ہے لیکن مسلمانوں کو اس سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔
اسلام نے اتفاق کی بنیاد ایمان پر رکھی ہے اور ایمان کی علامت اتفاق ہے۔ غیروں کے لئے اتفاق محض ایک دُنیاوی فائدہ کی چیز ہے مگر مسلم کے لئے اس کے ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری چیز ہے۔ عیسائی مذہب کے لئے اتفاق کی ضرورت نہیں کیونکہ عیسائی اتفاق سے ایمانی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ ہاں دُنیاوی فائدہ ان کے لئے اس سے ہوتا ہے اگر ایک عیسائی اتفاق نہ کرے تو وہ یہ تو کہے گا کہ اس سے میری دُنیا تباہ ہو رہی ہے لیکن اس کے مذہب میں اس سے نقص کا کوئی احتمال نہ ہو گا۔ اسی طرح اگر ہندوؤں میں اتفاق نہ ہو تو وہ اس کو اپنے ایمان کے لئے کوئی نقصان دہ امر نہیں خیال کریں گے بلکہ اتفاق کے نہ ہونے کے نتیجہ میں اپنی دُنیا کے لئے ہی خرابی بتائیں گے لیکن مسلمانوں کے لئے چونکہ قرآن کریم نے ایمان کی لازمی علامت اسے قرار دیا ہے اس لئے اگر ان میں اتفاق نہ ہو گا تو اس سے ان کی دُنیا بھی برباد اور دین و ایمان بھی ضائع ہو جائے گا۔ چونکہ اتحاد و اتفاق ایمان کی علامت ہے۔ جب علامت ہی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ سورج کے چڑھنے کی علامت یہ ہے کہ روشنی ہو۔ جب تک روشنی نہیں سورج بھی نہیں ہو گا لیکن باوجود اس کے یہ اتنی اہم ہے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں یہ چیز نہیں پائی جاتی۔
اب ہم اس پر غور کریں اور اس کے مَالَہٗ اور مَاعَلَیْہِ کو سوچیں اور دیکھیں کہ یہ ہے کیا چیز؟ اس کی تعریف کیا ہے؟ اس کے حصول کے کیا ذرائع ہیں؟ جب تک یہ باتیں معلوم نہ ہوں اس پر ایمان کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ پس مَیں سب سے پہلے اس کی تشریح کو لیتا اور دکھاتا ہوں کہ اتفاق کیا ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے اگر ہمیں یہی معلوم نہ ہو کہ اتفاق ہے کیا چیز تو ممکن ہے اس کی تعریف معلوم نہ ہونے سے پہلے ہم خیال کر لیں کہ ہم میں اتفاق ہے۔ درآنحالیکہ نہ ہو یا درحقیقت ہو مگر تعریف نہ معلوم ہونے سے ہم کہیں کہ اتفاق نہیں ہے جیسا کہ سویا ہؤا بچہ جب رونے لگے اور اس کو غیر عورت بھی تھپک دے تو وہ خاموش ہو کر پھر سو جاتا ہے اور خیال کر لیتا ہے کہ میری ماں میرے پاس ہی ہے۔ پس اسی طرح تشریح معلوم نہ ہونے کے باعث ممکن ہے کہ ہم غلطی میں پڑ جائیں یا کسی غیر مکمل بات پر خوش ہو جائیں۔ پس سب سے پہلے اس بات کا معلوم ہونا ضروری ہے کہ اتفاق و اتحاد ہے کیا چیز؟
اس کے لئے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ قران کریم نے اس مطلب کے لئے کون سے الفاظ رکھے ہیں۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ اتفاق و اتحاد کے الفاظ جن معنوں اور مطلب کے لئے ہمارے ہاں استعمال ہوتے ہیں اس مطلب کے لئے قرآن کریم میں اجتماع اور اِعْتِصَام بِحَبْلِ اﷲ کے الفاظ مستعمل ہیں۔
عام طور پر ہماری زبان میں اتفاق کا لفظ مِل کر رہنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے مقابلہ میں اختلاف، افتراق، تفرقہ، شقاق وغیرہ الفاظ ہیں اور قرآنِ کریم میں جمع ہونے اور ملنے کے لئے اجتماع اور اِعْتِصَام بِحَبْلِ اﷲ ہیں مگر اتحاد واتفاق کے جو اصلی معنی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک ہو جانا ایک چیز کا دوسری کے بالکل مطابق ہو جانا۔ وَفَقَ کہتے ہیں ایک چیز کا دوسری کے ساتھ ایسا مِل جانا کہ ایک ہی نظر آئے۔ اس لئے آدمیوں کا اتفاق یہ ہو گا کہ مل جائیں۔ ایک کی رائے دوسرے سے مل جائے اور نہ صرف رائے بلکہ نیتیں مل جائیں، فوائد مل جائیں۔ یہ اتفاق ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ دو چیزوں کا ایک بننا ناممکن ہے۔ اتفاق کا مطلب یوں سمجھو کہ جیسے پانی میں کھانڈ مِلا دی جائے کہ ان دونوں چیزوں کو ہم علیحدہ نہیں کر سکتے مگر اس طرح کی بات انسانوں میں پیدا ہونا ناممکن ہے۔
لیکن اس کے مقابلہ میں قرآن کریم نے جو الفاظ رکھے ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ بہت سی روحوں کا ایک مرکز پر جمع ہو جانا۔ جیسا کہ اجتماع اور اِعْتِصَام بِحَبْلِ اﷲ کے معنی ہیں اور اس کے مقابلہ میں شقاق مرکز سے دُور ہو جانا۔ اختلاف اور تفرقہ کے بھی یہی معنے ہیں کہ فاصلہ پڑجانا۔ غرض اس مطلب کے لئے بہترین الفاظ وہی ہیں جو قرآن کریم نے استعمال فرمائے ہیں۔
قرآن نے لفظ اجتماع غیروں کے لئے استعمال کیا ہے کہ جو انبیاء اور ان کی جماعتوں کے مقابلہ میں حق کی مخالفت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اور اعتصام بحبل اﷲ نیک کاموں کے لئے جمع ہونے کے متعلق فرمایا ہے۔ اجتماع کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے۔ قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ 1 اس آیت میں دین کے خلاف کوشش کرنے والوں کے لئے اجتماع کا لفظ استعمال ہؤا ہے اور دوسری جگہ نیک کاموں کے لئے جمع ہونے والوں کے متعلق فرمایا وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا 2 اتفاق و اتحاد اپنے اصلی اور وسیع معنوں میں دُنیا میں نہیں ہو سکتا اور یہ حالت کسی جماعت میں پائی جانی ناممکن ہے۔ اگرچہ یہ لفظ عربی زبان میں بھی استعمال ہوتے ہیں مگر مجاز و استعارہ کے طور پر اور قرآن کریم نے جو لفظ بیان فرمائے ہیں ان میں جیسی خوبی ہے وہ دوسرے الفاظ میں نہیں ہے کیونکہ ان میں بتا دیا گیا ہے کہ انسان کس حد تک جمع ہو سکتے ہیں بلکہ ان میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ لوگوں کے جمع ہونے کی کیا غرض اور کیا غایت ہے مثلاً اِعْتِصَام بِحَبْلِ اﷲ کے الفاظ جو نیکی کے لئے مستعمل ہیں اپنے اندر تمام باتیں رکھتے ہیں۔
اتحادو اتفاق کیا ہے؟ لوگوں کا ہم شکل، ہم آواز ہو جانا۔ ان کے اخلاق، علوم، لباس، عادات، اُمنگیں، عمریں، چلنا، بیٹھنا غرض کہ ہر بات کا ایک ہو جانا لیکن تمام دُنیا یا ایک قوم یاایک مُلک کے لوگوں کا ایسا ہونا تو ایک طرف رہا دو شخص بھی اس قسم کے نہیں مل سکتے خواہ دو شخصوں میں کتنی ہی یگانگت ہو۔ پھر بھی ان دونوں میں بہت سی باتوں میں اختلاف ہو گا۔
ایک قد اور ایک عادت، ایک رسم کے پابند اور ایک لباس، ایک زبان ہونا بالکل ناممکن ہے۔ مذہب میں بھی یہ بات نہیں ہو سکتی۔ اجمالی طور پر تو ہو سکتا ہے مگر مفصلاً نہیں ہو سکتا اور روحانیات میں بھی ایک دوسرے میں اختلاف ہوتا ہے۔ ہم صحابہ میں دیکھتے ہیں کہ باوجود بدرجہ انتہا متحد ہونے کے ایسا اختلاف ان میں بھی تھا۔ پھر خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز میں بھی اختلاف موجود ہے مثلاً انسان کا انگوٹھا ہے کتنی چھوٹی سی چیز ہے مگر کسی انسان کے انگوٹھے کے نشان دوسرے شخص کے نشان سے ہر گز نہیں ملتے اور خواہ کوئی شخص کتنے ہی فریب کرے اپنے انگوٹھے کے نشان کو نہیں بدل سکتا۔ پس جب ساری دُنیا میں اختلاف ہے اور خدا کی ساری مخلوق میں اختلاف ہے اور کوئی ایک چیز دوسری سے ایسی نہیں ملتی کہ ان میں کچھ نہ کچھ فرق نہ رہے تو پھر جس قسم کا لوگ اتفاق چاہتے ہیں وہ کیسے ہو سکتا ہے اور ساری دُنیا ایک رنگ میں کیسے رنگی جاسکتی ہے۔ پھر جبکہ اسی اختلاف کی وجہ سے دُنیا علوم و فنون میں ترقی کر رہی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو مختلف قابلیت کے لوگوں کی قابلیتوں کا اظہار کرتی ہے۔ اسی نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو محمدصلی اﷲ علیہ وسلم بنایا اور اسی نے ابوجہل کو ابوجہل بنایا۔ پس اختلاف تو ترقیات کا زینہ ہے۔ اس سے معلوم ہؤا کہ جس قسم کا لوگ اتفاق بتاتے ہیں ایسا نہ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی مفید چیز ہے بلکہ اصل اتفاق کیا ہے۔ یہ کہ ایک مرکز پر جمع ہو جانا اور کچھ اُصول ہیں جن کو مان لینا۔ اسی کو متفق ہونا کہتے ہیں۔ پس اس تمام گفتگو سے یہ ثابت ہؤا کہ ہر ایک بات میں اور ہر ایک رنگ میں ایک ہو جانا ناممکن ہے لیکن ایک خاص مرکز پر کسی خاص مقصد کے لئے جمع ہو جانا ممکن ہے اور اسی جمع ہونے کو اتفاق یا بالفاظ دیگر اعتصام بحبل اﷲ کہتے ہیں اور یہ ایک اتفاق کی صورت ہے۔ پس آج میں نے یہ بتایا ہے کہ اسلام کے نزدیک کسی مقصد کے لئے لوگوں کا جمع ہو جانا اتفاق ہے اور وہ مقصد خدا اور خدا کی حبل سے تعلق ہے۔ آج میں باقی مضمون کو چھوڑتا ہوں۔ انشاء اﷲ آئندہ بتاؤں گا اور اس کی تشریح کروں گا کہ اس کے حصول کے ذرائع اور اتفاق کی عملی صورتیں کیا ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان باتوں کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ آمین‘‘ (الفضل 27مئی 1920ء)
1: بنی اسرائیل: 89
2: آل عمران: 104



82
اِعْتِصَام بِحَبْلِ اﷲ
(فرمودہ7مئی 1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ:-
''پیشتر اس کے کہ مَیں اصلی مضمون شروع کروں قادیان کی کمیٹی کے ممبروں اور دوسرے منتظموں کی توجہ مسجد کی طرف پھرانا چاہتا ہوں۔ ہماری جماعت کی دینی کوششوں کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور ہم لوگ لندن میں مسجد بنانا چاہتے ہیں مگر مَیں کہتا ہوں کیا یہاں کی مسجد اس بات کی مستحق نہیں کہ اس کی طرف توجہ کی جائے۔ مدت سے سائبان پھٹے ہوئے ہیں اور کافی بھی نہیں اور آجکل دھوپ میں کھڑا ہونا بہت مُضر ہے۔ آج جب کہ ابھی لوگ زیادہ نہیں آئے پھر بھی سایہ میں ان کے بیٹھنے کی جگہ نہیں۔ اس کے دو ہی نتیجے ہیں یا تو لوگ دھوپ کے خوف اور بیماری کے ڈر سے مسجد میں آنا چھوڑ دیں یا آئیں اور دھوپ میں کھڑے ہو کر بیمار ہوں۔ مگر ہم یہ دونوں باتیں نہیں چاہتے۔ نہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ مسجد میں آنا چھوڑ دیں، نہ یہ کہ وہ بیمار ہوں۔ پس میں منتظمین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس کا بہت جلد انتظام ہونا چاہئے تاکہ لوگ آرام سے سایہ میں بیٹھ سکیں۔
اس کے بعد مَیں اسی مضمون کو شروع کرتا ہوں جو مَیں نے پچھلے دو تین جمعوں سے شروع کر رکھا ہے۔ مَیں نے بیان کیا تھا کہ ہماری زبان بلکہ عربی میں بھی جس کو اتفاق کہتے ہیں اس کے لئے قرآن کریم میں اجتماع اور اعتصام کے الفاظ ہیں۔ واقع میں اعتصام نام درست ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں کہاں تک میل پیدا ہو سکتا ہے۔ مَیں نے بتایا تھا کہ اتفاق اور اتحاد کے وسیع معنے دُنیا میں ممکن نہیں۔ اتحاد و اتفاق کے معنے ہوتے ہیں کہ اقوام کا ہر رنگ میں ایک ہو جانا لیکن یہ بعید از عقل ہے۔ باوجود اس کے اتفاق و اتحاد میں اتنی دلکشی ہے کہ ہر ایک قوم اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ قرآن کریم نے اعتصام اس کا نام رکھا ہے اور اجتماع بھی رکھا ہے۔ یہ دونوں باتیں عقلاً محال نہیں۔ اس طرح متفرق مذاق کے لوگوں کا جمع ہونا یہ آسان ہے مگر یہ بھی نہیں ہو سکتا جب تک کوئی چیز نہ ہو جس پر جمع ہوسکیں اور جو جوڑنے اور جمع کرنے والی ہو۔ کاغذ کو لکڑی پر چسپاں کرنے کے لئے ایک تیسری چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لکڑی کے تختے نہیں جُڑ سکتے جب تک کسی اور چیز کے ساتھ ان کو نہ جوڑا جائے۔ لکڑی کی میز کرسی نہیں بن سکتی جب تک ان متفرق لکڑیوں کو جمع کرنے کے لئے تیسری چیز نہ ہو۔ پس اس طرح انسانوں میں بھی ممکن نہیں کہ جب تک ایک تیسری چیز ان کو جوڑنے والی نہ ہو وہ جمع ہو جائیں۔ جھاڑو کے تنکے آپس میں پورے طور پر جڑے ہوئے نہیں ہوتے اگرچہ وہ جمع ہوتے ہیں۔ آخری کو درمیانی سے بُعد ہوتا ہے لیکن ایک درخت کی شاخیں آپس میں جڑی ہوتی ہیں کیونکہ ان سب کا ایک تنے سے تعلق ہوتا ہے اور تنا ان کو خوراک پہنچاتا ہے۔ اسی طرح جھاڑو کی سیخوں کا آپس میں اور زیادہ تعلق ہو سکتا ہے اگر ان کو ایک رشتہ میں پرو دیا جائے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو واضح کیا اور یہ نہیں کہا کہ تم جڑ جاؤ یا ایک ہو جاؤ بلکہ فرمایا وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا 1 تم سب ایک رسّے کو پکڑ لو۔ جب اس رسّے سے سب کا تعلق ہو گا تو تم سب میں تعلق ہو جائے گا۔ لوگ رسّہ کھینچتے ہیں اور دونوں طرف سے زور لگاتے ہیں اور ہر ایک زور لگانے والے کے زور کا اثر سب پر پڑتا ہے تو ایک تیسری چیز سے وابستگی اختیار کر کے آپس میں جُڑ سکتے ہیں۔ یہ گُر اسلام نے اتفاق کے متعلق بتایاہے۔
اب آؤ ہم دیکھیں کہ کس طرح اعتصام ہوتا ہے۔سب سے بڑا اتفاق بھائیوں بھائیوں میں ہوتا ہے۔ کچھ آدمی ہوتے ہیں کہ ان میں اَور آدمیوں کی نسبت آپس میں زیادہ محبت اور پیار ہوتا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان میں یہ محبت اور پیار کس طرح ہؤا۔ جب ہم اس کی وجہ دریافت کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک رشتہ ہے جس نے ان کے آپس کے تعلق کو اَوروں کی نسبت زیادہ بڑھادیا ہے اور وہ رشتہ ماں باپ کا ایک ہونا ہے۔ پھر ایک دادا کی اولاد میں زیادہ محبت ہوتی ہے کیونکہ ان میں بھی ایک رشتہ اور تعلق ہے۔ پھر اس سے آگے قومیّت کا رشتہ ہوتا ہے بھائیوں کی نسبت کم لیکن اور لوگوں کی نسبت زیادہ۔ اور جگہوں میں تو نہیں۔ ہندوستان میں پیشہ وروں کی بھی ذاتیں ہوتی ہیں یہاں اگر کوئی سیّد یا مغل یا پٹھان یا کوئی اور قوم کا آدمی سقّے یا موچی کا کام کرنے لگے تو وہ سقّہ یا موچی ہی کہلائے گا اور یہ اس کی ذات سمجھی جائے گی۔
پھر آجکل سٹرائیکیں ہو رہی ہیں اور اس میں مزدور شامل ہو رہے ہیں اور ان کو جوڑنے والی چیز ان کا پیشہ ور ہونا ہے۔ بھائیوں کا آپس میں جو تعلق ہوتا ہے وہی مفہوم ایک حد تک اقوام میں بھی نظر آتا ہے۔ مغل کہلانے والے ایک موقع پر جمع ہو جائیں گے، سیّد جمع ہو جائیں گے اس لئے کہ وہ ایک ایک دائرہ میں ہیں۔ تو جتنا قریب کا تعلق ہو گا اتنی ہی محبت زیادہ ہو گی اور جتنا دور کا اتنی ہی کم۔ سیّدوں کے سیّدوں کے ساتھ اور مغلوں کے مغلوں کے ساتھ جمع ہونے کی کیا وجہ ہے۔ یہی کہ ان کی ایک نسل ہے۔ پھر یہ تعلق اقوام سے بڑھ کر مُلکوں پر اثرڈالتا ہے مثلاً ہندوستانی یا انگریز۔ اگر کوئی ہندوستانی یہ سُنے کہ کسی انگریز نے کسی ہندوستانی سے بُرا سلوک کیا ہے تو وہ بغیر اس بات کی تحقیقات کئے کہ زیادتی کس کی ہے انگریز کے خلاف ہو جائے گا یا اگر کوئی انگریز سُنے کہ کسی ہندوستانی نے انگریز سے بُرا سلوک کیا تو وہ تحقیق کئے بغیر ہندوستانی ہی کو الزام دے گا۔ پس یہ قدرتی امر ہے کہ ہندوستانی ہندوستانی کی طرفداری کرے گا اور انگریز انگریز کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ہندوستانی ہندوستان سے وابستہ ہے اور ہر انگریز انگلستان سے۔ اس سے معلوم ہؤا کوئی رشتہ ہونا چاہئے جس سے لوگ متحد ہوں اور جُوں جُوں یہ رشتہ دُور ہوتا جائے گا تعلق بھی کم ہوتا جائے گا۔
پس بھائیوں میں جو اتفاق دیکھا ، قوموں میں جو اتحاد نظر آیا اس سے معلوم ہؤا کہ اتفاق و اتحاد پیدا کرنے والی یہی ایک چیز دُنیا میں ہے۔ پھر جب اس سے بھی وسیع نظر کی جاتی ہے بنی نوع کا آپس میں تعلق ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان پر کوئی جانور حملہ کرے تو دوسرا انسان اس کی مدد کرے گا اور پھر انسانوں سے گزر کر جانوروں میں بھی یہ بات ہوتی ہے کہ اگر کوئی بھیڑیا کسی انسان پر حملہ کرے تو دوسرا بھیڑیا بھیڑیے پر حملہ نہیں کرے گا بلکہ انسان پر لپکے گا۔ پس تمام دُنیا میں اتفاق کا ذریعہ ایک ہی ہے کہ کوئی چیز ایسی ہو جو سب کو جوڑنے والی ہو۔
قرآن کریم فرماتا ہے وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا تم اﷲ کے رسّے کو پکڑ لو۔ اس سے تم میں اتفاق و اتحاد پیدا ہو جائے گا۔ اس سے ہمیں ایک تو یہ معلوم ہؤا کہ اتفاق کسی ایک چیز کو پکڑنے سے ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ تعلق جتنا دُور ہوتا جاتا ہے اتفاق میں کمی آتی جاتی ہے اور اعلیٰ درجہ کا ذریعہ اتفاق وہی ہو سکتا ہے جو ہر زمانہ میں موجود رہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے یہ نہیں کہا کہ تم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو پکڑ لو۔ گو آپ کا پکڑنا لازمی ہے بلکہ فرمایا کہ اﷲ کی رسّی کو پکڑ لو اور اﷲ کی رسّی قرآن کریم ہے اور اسلامی تعلیم ہے جو ہر زمانہ میں موجود ہے اور اسی کو انسان پکڑ سکتا ہے اور یہ حبل اﷲ ہر زمانے اور ہر مُلک کے لئے اﷲ کی طرف سے پھینکا گیا ہے۔ جب تک اس کو پکڑے رہو گے نہیں گرو گے اور اگر ایک گرے گا تو اس کا اثر دوسروں پر پڑے گا۔ پھر جدھر کو رسّہ جھکے گا اُدھر سب کو جھکنا پڑے گا۔ اگر ایک کپڑا دو آدمی اوڑھے ہوئے ہوں اور اس کو آگ لگ جائے تو ایک ہی کا نقصان نہ ہو گا بلکہ دونوں کا ہو گا۔ گویا اس رسّہ کے پکڑنے پر ہم اس بات کے لئے مجبور ہو گئے کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہمدردی کریں کیونکہ اگر ایک خراب ہو گا تو دوسرے پر بھی اس کا اثرپڑے گا اور اگر رسّہ ٹوٹے گا تو سب گریں گے۔ پس اعتصام ہی ہے جو حقیقی اتحاد قائم کرتا ہے۔ پس اتفاق کے لئے حبلُ اﷲ کی ضرورت ہے اور یہ ذریعہ ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔ یہ نیچرل اور طبعی ذریعہ اتفاق پیدا کرنے کا ہے۔ اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں۔ اس کے سامان کیا ہیں اگر اﷲتعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اﷲ اگلے جمعہ بیان کروں گا۔‘‘ (الفضل 31مئی 1920ء)
1: آل عمران: 104

83
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا
(فرمودہ 14مئی 1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :-
’’مَیں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کہ کس طرح دُنیا کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اتفاق کا ذریعہ ایک ہی ہے۔ جب لوگ ایک چیز پر جمع ہوتے ہیں تو ان لوگوں کی نسبت جوکسی چیز پرجمع نہیں ہوتے ان میں زیادہ اتفاق و اتحاد ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ جتنا تعلق زیادہ قریب کا ہو اُتنا ہی زیادہ آپس میں محبت اور تعلق ہوتا ہے۔ مثلاً ایک باپ کی اولاد میں زیادہ محبت ہو گی بہ نسبت ایک دادا کی اولاد ہونے کے اور ایک دادا کی اولاد میں زیادہ محبت ہو گی بہ نسبت ایک پردادا کی اولاد کے اور پھر اسی طرح یہ تعلق وسیع اور کم مؤثر ہوتا جائے گا۔
مَیں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم نے اس نکتہ کو پیش کیا ہے اور بجائے اتحاد و اتفاق کا حکم دینے کے یہ کہا ہے کہ وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا 1 کہ تم سب ایک چیز سے تعلق پیدا کرو اور اسی حکم میں قیامِ اتفاق و اتحاد کا طریق بھی بتا دیا۔ دوسرے مذاہب کی طرح محض اتفاق کا حکم نہیں دیا بلکہ ساتھ طور و طریق بھی بتا دیا۔
آج مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ اصل جو ایک چیز پر جمع ہوں ان میں زیادہ محبت و تعلق ہوتا ہے یہ کیا ہے؟ قرآن کریم نے ہمیں جس رسّہ کے پکڑنے کا حکم دیا ہے وہ ایسا رسّہ نہیں جیسے سوت وغیرہ کے رسّے ہوتے ہیں۔ اس میں ہمیں سوت اور سن کے رسّہ کی طرف متوجہ نہیں کیا گیا بلکہ ہمیں ایسے رسّے کے پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے جو اپنے اندر ہزاروں تعلیمیں رکھتا ہے۔ جب ایک خاندان کے لوگوں کو کہیں کہ وہ رسّہ پکڑیں تو مجموعی حالت میں اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس ایک رسّہ کو جو مختلف ذرّات سے بنا ہؤا ہے پکڑ لو لیکن ایک ایسی چیز کے پکڑنے کا حکم جو نہ صرف ایک چیز ہو بلکہ اپنے اندر ایسی بہت سی باتیں رکھتی ہو جن میں سے ہر ایک کو پکڑنا چاہئے تو اس کی مختلف حالت ہے یہ محض نام کا بھی ایک اثر ہوتاہے مثلاً ہندوستانی ہندوستانی ہونے کی وجہ سے جتھا کرتے ہیں، انگریز انگریز ہونے کی وجہ سے۔ یہ بھی اشتراک کہلاتا ہے اور یہ ایک فطری امر ہے جو کسی تعلیم کا نتیجہ نہیں بلکہ فطرت کا وہی قاعدہ یہاں کام کرتا ہے جو مَیں اوپر بیان کر آیاہوں لیکن جب تعلیم کا سوال ہو تو صرف یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس پر عامل اور اس کا پابند ہونابھی ضروری ہوتا ہے۔ اگرچہ تعلیم کے متعلق بھی یہ بات ہوتی ہے مثلاً جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں ان میں بھی ایک جتھا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھ لو جب لوگ گاڑی میں چڑھتے ہیں تو مسلمان مسلمانوں سے مانوس ہوں گے اور ہندو ہندوؤں سے۔ اس معاملہ میں اتحاد نظر آجاتا ہے لیکن حبلُ اﷲ کے پکڑنے میں ایک دوسرا اشارہ یہ ہے کہ اس میں ایسی تعلیمات ہیں جو اتحاد کی طرف راجع ہیں۔ سُوت کے رسّے کو پکڑنا صرف ظاہری اتحاد کی طرف متوجہ کرتا ہے لیکن قرآن کا پکڑنا باطنی حالت کو بھی درست بنانے کی ضرورت جتاتا ہے۔
اَب مَیں اس تفصیل کی طرف توجہ کرتا ہوں کہ باطنی اتحاد کے لئے کون سی تعلیمات ہیں جن کے ذریعہ قرآن کریم اتفاق پیدا کرتا ہے۔ پہلا اتفاق نام کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے ، دوسرا تعلیم کے ذریعہ۔ اس حصّہ مضمون کے بیان کرنے سے پہلے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ہر ایک مشکل کے حل کے لئے دو طرح غور کیا جاتا ہے۔ اوّل اس طرح کہ جس چیز کے باعث نقص پیدا ہو اور وہ کسی امر میں روک ہو اس کو دُور کر دیا جائے تاکہ وہ روک رستہ میں حائل ہی نہ ہو لیکن یہ علاج مکمل علاج نہیں بلکہ مکمل اس وقت ہو گا کہ اگر یہ بھی معلوم کر لیا جائے کہ اگر وہ نقص پیدا ہو جائے تو اس کو کس طرح دور کیاجائے اس حصّہ کے ملنے کے ساتھ علاج مکمل ہوتا ہے۔ صحت انسانی ہی کے متعلق اگر ہم دیکھیں تو ہم اس طب کو مکمل نہیں کہیں گے جو صرف بیماری کے آنے سے بچائے بلکہ طبِ کامل وہی ہو گی جو یہ بھی بتائے کہ جب بیماری پیدا ہو جائے تو اس کے دفع کرنے کا یہ طریق ہے۔
اسی طرح اتحاد کے متعلق بھی انہی باتوں کی ضرورت ہے۔ اوّل تو یہ کہ ایسے طریق ہوں جن پر چل کر اتحاد و اتفاق پیدا ہو لیکن اگر نا اتفاقی پیداہو جائے تو اس کو دُور کرنے کے لئے فلاں فلاں طریق ہیں۔ جب یہ دونوں حصّے ہوں تو پھر اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہو گی۔
ہم دُنیا میں غور کرتے ہیں کہ نام میں جمع ہونے کے لئے کسی خاص کتاب کے ماننے والوں کی تخصیص نہیں بلکہ ہر ایک شخص جو ایک کتاب کو ماننے والا ہے وہ دوسرے کے ساتھ جو اس کتاب کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے ایک حد تک متفق ہو گا۔ اس میں قرآنِ کریم کی تخصیص نہیں۔ قرآن کو ماننے والے آپس میں نام کے لحاظ سے متحد ہوں گے اور انجیل کو ماننے والے آپس میں، وید کے پیرو آپس میں۔گویا اس ذریعہ سے بھی اتحاد ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم نے اِعْتِصَام بِحَبْلِ اﷲ کے لئے دونوں اُصولوں کو لیا ہے۔ حفظِ ما تقدم بھی بتایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اگر نااتفاقی ان حفظِ ماتقدم کے احکام پر عمل نہ کرنے سے یا تھوڑا عمل کرنے سے پیدا ہو جائے تو اس کے دفعیہ کا کیا علاج ہے۔
اَب مَیں سب سے پہلے اس اصل کو لیتا ہوں جس کے اختیار کرنے سے اختلاف پیدا ہی نہیں ہوتا اور پھر بتاؤں گا کہ اگر ہو جائے تو اس کو کس طرح دُور کرنا چاہئے۔
پہلی بات جو قرآنِ کریم بیان کرتا ہے یہ ہے کہ انسان مان لے کہ اختلاف کبھی مِٹ نہیں سکتا۔ یہ پہلا گُر ہے اختلاف سے بچنے کا۔ بظاہر لوگ یہ سُن کر حیران ہوں گے کہ اتحاد کے قیام کے لئے یہ بات کیسے ضروری ہو سکتی ہے کہ یہ خیال کر لیا جائے کہ اختلاف نہیں مِٹ سکتا لیکن درحقیقت بات یہی ہے اور قرآن کریم نے اس پر بہت زور دیا ہے اور اس بات کو نہ ماننے ہی کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے بار بار بیان فرمایا ہے کہ ہر چیز میں اختلاف نظر آتا ہے حتّٰی کہ مومنوں میں بھی اختلاف ہے اور انبیاء میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ 2 کہ یہ رسول ہیں۔ ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی اور فضیلت ایک ایسا امر ہے جو بغیر اختلاف کے حاصل ہی نہیں ہوتا۔ فضیلت ایک چیز کو دوسری پر اسی وقت ہو گی جب ان میں اختلاف ہو گا۔ پس اس طرح نبیوں میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔ ایک زیادہ کامل ہوتا ہے ایک کم۔
مَیں نے ایک دفعہ لکھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی بزرگ اس حدِکمال کو نہیں پہنچا جس پر پہنچ کر نبوت حاصل ہوتی ہے۔ اس پر بہت ہنسی اُڑائی گئی کہ گویا مرزا صاحب سے پہلے سب لوگ ناقص الایمان تھے لیکن نادانوں نے نہ سمجھا۔ اس میں نقص کا سوال نہیں بلکہ یہاں یہ بات ہے کہ باوجود کامل ہونے کے پھر بھی جو اوپر کا درجہ ہے اس کے لئے ایک اور کمال ہونا چاہئے۔ مسئلہ فضیلت ہی کو لو۔ حضرت موسیٰ پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو فضیلت حاصل ہے مگر حضرت موسیٰ ناقص نبی نہ تھے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ کمی ضرور تھی۔ تبھی نبی کریم جن میں یہ کمی نہ تھی حضرت موسیٰ ؑسے افضل ٹھہرے۔ یہ ایک نسبتی امر ہے۔ اگر الوہیت کو مدِّ نظر رکھا جائے تو رسولِ کریم ناقص تھے اور آپ میں کوئی بات بھی الوہیت کی نہ تھی۔ اس طرح بجز خدا کی ذات کے کمی کامل سے کامل میں بھی ہوتی ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے بعض کو بعض پر فضیلت ہوتی ہے۔ ایک بڑا ہوتا ہے اور ایک اس سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ ایک اچھا ہوتا ہے ، ایک بہت اچھا ہوتا ہے اور اسی طرح ایمان کے بھی درجے ہوتے ہیں اور مومن کی بھی یہی حالت ہوتی ہے۔ بعض بہت اعلیٰ ہوتے ہیں اور بعض اعلیٰ ہوتے ہیں۔ پھر نہ صرف انبیاء و مومنین میں ہی تفاوت درجہ اور ایک کو دوسرے پر فضیلت ہوتی ہے بلکہ کفار میں بھی مختلف درجات ہوتے ہیں کوئی بڑا ہوتا ہے کوئی چھوٹا اور ایک کفار ایسے ہوتے ہیں جن کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ 3 پھر اور چیزوں کے متعلق فرمایا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا 4 پھر اس اختلاف کو ہر چیز کی حالت میں بتلاتا اور دکھلاتا ہے مثلاً پھلوں ہی کو دیکھو کچے پکّے کے اختلاف کو چھوڑ کر دیکھو کہ بعض میٹھے ہوتے ہیں بعض تُرش۔ پھر زمینیں ہوتی ہیں ان کی مختلف استعدادیں ہوتی ہیں۔ بعض کی پیداوار اچھی ہوتی ہے بعض کی اچھی نہیں ہوتی۔ پھر انسانوں اور زمین اور زمینی چیزوں ہی میں یہ اختلاف نہیں بلکہ ملائکہ تک میں ہے۔ بعض درجہ کے لحاظ سے چھوٹے اور بعض بڑے ہوتے ہیں غرض نبیوں کے درجہ میں اختلاف، مومن و کافر میں اختلاف، منافقوں کی حالت میں اختلاف، جانوروں میں، پرندوں ، چرندوں، درندوں میں اختلاف پھر نباتات، جمادات میں اختلاف موجود ہے۔ کوئی ایک چیز نظر نہیں آتی جو اس اختلاف سے بری ہو اور اس اختلاف کو قرآن کریم تسلیم کرتا ہے اور اس کے متعلق فرماتا ہے کہ یہ ہماری طرف سے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ5 اور وَ الْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْحَقُّ 6 ہر ایک کے وزن دوسرے کے وزن سے الگ ہوں گے۔ پھر اس کو قائم کرتا ہے اور فرماتا ۔ لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ 7 کہ قرآن کے نزول کے زمانہ میں زیادہ سوال نہ کر کیونکہ اگر سب باتیں بیان کر دی جائیں تو پھر تمہیں ایک حد تک اختلاف کا موقع نہ رہے گا۔ ہم نے ایک حد تک بتا دیا اور باقی کو تمہیں پر چھوڑ دیا۔ اس طرح گویا کہ اختلاف کے قیام پر زور دیا۔ پس اختلاف ہے اور ضروری ہے لیکن جو اس اختلاف کو مٹانا چاہتا ہے وہ غلطی کرتا ہے کیونکہ یہ تو مِٹ نہیں سکتا اور اس کا رہنا ضروری ہے۔ اس طرح گویا بے اتفاقی پیدا ہوتی ہے۔
یہ بہت بڑا گُر ہے۔ اب مَیں اس کے متعلق بتاتا ہوں کہ جب یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اختلاف رہے گا تبھی اتحاد ہو سکتا ہے۔ غور کرو اگر اختلاف نہ ہوتا سب کا ایک رنگ ہوتا، سب کی ایک خواہش اور سب کے ایک ہی جذبات ہوتے تو سب کا ایک ہی پیشہ ہوتا۔ دُنیا کسی قسم کی ترقی نہ کر سکتی۔ سائنس کی ترقی اختلاف کا نتیجہ ہے۔ جب آکسیجن اور ہائیڈروجن جو دونوں مختلف چیزیں ہیں نہ ملتیں تو پانی کہاں سے آتا۔ کیونکہ یہ دونوں جو مختلف ہیں ملیں تو پانی بنے۔ آگ نہ ہو یا پانی نہ ہو، سردی یا گرمی نہ ہو تو فصلوں کا تیار ہونا کس طرح ہو۔ اور یہ اختلاف ہی بتاتا ہے کہ لوگوں کی طبائع میں اختلاف رکھا گیا ہے اور اسی سے لوگ مختلف چیزوں کو حاصل کرتے ہیں اور مختلف پیشوں میں لگتے ہیں۔ اگر اختلاف نہ ہوتا تو لوگ ایک ہی پیشہ کے پیچھے لگے رہتے اور دُنیا ان تمام اشیاء سے محروم رہ جاتی۔ پھر علوم کیسے پیدا اور مدوّن ہوتے جبکہ سب کا ایک ہی میلان اور ایک خیال ہوتا اِس سے ثابت ہؤا کہ اختلاف ضروری ہے۔
پس جب تک مختلف اشیاء کی مختلف حالتیں نہ ہوتیں اُس وقت تک کسی قسم کی ترقی نہ ہوتی۔ ترقی کے لئے اختلاف ضروری ہے۔ اگر اختلاف کو مِٹا دیا جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ دُنیا کی ترقیات کو مِٹا دیا جائے۔ اصل میں فساد پڑتا ہی تب ہے جب اختلاف کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ترقی کے راستہ میں روکیں کھڑی ہو جاتی ہیں لیکن اشیاء متقابل تب ہی کھڑی ہوتی ہیں جب ان کے رستہ میں روک ہوتی ہے۔ جب بوائلر پھٹتے ہیں تو ان کی گیس کے نکلنے کے رستے بند ہو جاتے ہیں ۔ پس اس سے ثابت ہؤا کہ جو اس قسم کا اتفاق کرتا ہے اور فساد کو مٹاتا ہے وہی فساد کو بڑھاتا ہے۔ اس نکتہ کے نہ سمجھنے کی وجہ نا اتفاقی ہوتی ہے۔ دوستوں کا اتفاق کس طرح ہوتا ہے؟ اسی طرح کہ ان میں اختلاف ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنے دوست سے اتفاق کے لئے اس اختلاف کو مٹائے اور چاہے کہ جیسا لباس میں پہنتا ہوں وہ پہنے، جو خوراک مَیں کھاتا ہوں وہ کھائے، جو میں پڑھتا ہوں وہ پڑھے، جو لکھتا ہوں وہ لکھے اور جس طرح میں پڑھتا اور جس طرح لکھتا ہوں اُس طرح پڑھے اور لکھے اور جب چلوں چلے اور جہاں جاؤں جائے اور جب بیٹھوں اور جس طرح بیٹھوں بیٹھے اور جب لیٹوں لیٹے اور جب سوؤں سوئے اور جب جاگوں جاگے تو تم ہی خیال کرو کیا اس اختلاف کے مٹانے سے ان میں اتحاد ایک دن بھی رہ سکتا ہے۔ ایسا شخص جس سے یہ توقع رکھی جائے گی ایک ہی دن میں گھبرا جائے گا اور کہے گا کہ مَیں تیرا کوئی بندر ہوں کہ تیرے اشاروں پر ناچوں۔ پس ان میں اتحاد کب رہ سکتا ہے۔ اسی وقت جب جائز اختلاف کو رہنے دیا جائے اور جب اختلاف کو ہر رنگ میں مٹانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی وقت اختلاف ہو گا۔
پس اس سے ثابت ہؤا کہ اختلاف تب ہوتا ہے جب اختلاف کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اگر مان لیا جائے کہ اختلاف ہو سکتا ہے تو پھر آپس میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن یہ حالت ہو کہ ایک کہے تبلیغی جلسہ کب ہو اور کہاں ہو اور دوسرا اس کا مخالف ہو اور پہلا اپنے خیال پر مُصر رہے اور دوسرا اپنے پر۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے اختلاف بڑھے گا لیکن اگر ایک شخص اصرار چھوڑ دے تو پھر اختلاف نہیں ہو سکتا۔
یہ ظاہر ہے کہ دونوں کی حالتیں مختلف ہیں۔ دونوں کی عقلیں مختلف ہیں مگر جب دونوں اپنی بات پر مُصر رہتے ہیں اور اس صورت میں اختلاف کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح کبھی نہیں مٹ سکتا لیکن اگر ایک اپنی جگہ سے اس وقت ہٹ جائے اور پھر نرمی سے سمجھائے تو اختلاف مٹ سکتا ہے۔ گھر میں میاں بیوی کے تعلقات ہوتے ہیں۔ دونوں کے مزاج میں اختلاف ہے۔ ایک مکان میاں کو پسند ہے بیوی کو نہیں۔ اب بیوی کہے کہ ہم تو یہاں نہیں رہتے یا بیوی کو ایک لباس پسند ہے اور میاں کو نہیں پھر اختلاف ہو گا۔ اگر دونوں یہ چاہیں کہ ایک کے خلاف دوسرا نہ ہو اور ایک دوسرے کی پسند کو پسند کرے تو اختلاف بڑھے گا مگر اگر باوجود پسندیدگی کے وہ سمجھ لیں کہ یہ اختلاف ہوتا ہی ہے تو پھر ناراضگی کی کوئی بات نہیں رہے گی مگر مفید اختلاف ضروری ہوتا ہے مثلاً انبیاء آتے ہیں جو انبیاء کی بعثت پر اختلاف ہوتا ہے۔ نادان لوگ انہیں مطعون کیا کرتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ وہ اختلاف ضروری ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ اختلاف جو ہے وہ حق پر ہے کہ نا حق پر۔ اگر حق پر ہے تو ہونا چاہئے اگر نا حق پر تو کوئی پرواہ نہیں کرنا چاہئے۔ دیکھو مرض اور دوا کا اختلاف حق ہے۔ ایک مریض ہے اس کی مرض کو توڑنے کے لئے دوائی دی جائے گی اوریہ ایک اختلاف ہے لیکن یہ جائز ہے۔ اس کا نام تفرقہ ڈالنا نہیں بلکہ یہ تو تفرقہ مٹانا ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی محال ہے لیکن اب اس بات کی ضرورت ہے کہ تفرقہ و اتحاد کی حد بندی کی جائے تاکہ معلوم ہو جائے کہ کہاں تک تفرقہ رہے تو مُضر نہیں اور اگر اس سے بڑھے تو مُضر ہو گا کیونکہ نیکی کے کام بھی اگر حدکے اندر نہ ہوں تو بُرے ہو جاتے ہیں۔ نماز اچھا کام ہے لیکن سُورج کے نکلتے وقت منع ہے۔ عید کے دن شیطان روزہ رکھتا ہے، خرچ کرنا اچھا ہے لیکن جو لوگ اپنی حالت کو مدِّنظر رکھ کر خرچ نہیں کرتے اور بے دریغ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں ان کو قرآن اِخْوَانُ الشَّیَاطِیْن کہتا ہے۔ بعض حالتوں میں اختلاف کا مِٹانا ہی اختلاف ڈالنا ہوتا ہے اور قرآن کریم نے بتا دیا کہ لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو فساد کا موجب ہوتا ہے اور یہ غلطی ہے بلکہ چاہئے کہ حالت و مزاج کو مدِّنظر رکھو۔ اخلاق و عادت کا خیال رکھو۔ جب یہ ہو گا تو اختلاف مِٹ جائے گا اور جب یہ خیال کیا جائے گا کہ یہ اختلاف رہنا ضروری ہے اور خدا کی طرف سے پیدا کیا گیا ہے تو کوئی اختلاف نہ ہو گا اور اس اختلاف کا مِٹانا اسی اتحاد کو توڑتا ہے۔ آج مَیں اسی حصّہ پر بیان ختم کرتا ہوں۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ آئندہ حصّہ پر بیان کروں گا۔‘‘ (الفضل 3جون 1920ء)
1: آل عمران: 104 2: البقرۃ: 254 3: الفرقان : 45
4: فاطر: 28 5: بنی اسرائیل: 22 6: الاعراف: 9
7: المائدۃ : 102



84
اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اﷲِ
اتحاد کے لئے خوف بھی ہونا چاہئے
(فرمودہ 21مئی1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا۔1
اور فرمایا:-
''اس کے بعد میں اس مضمون کی طرف توجہ کرتا ہوں جو پہلے سے چلا آرہا ہے اور وہ مضمون اتحاد و اتفاق ہے۔ مَیں نے پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کہ اتحاد کے قیام کے لئے (یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مَیں جب بھی اتحاد و اتفاق کے لفظ بولوں اس سے مراد ہی اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اﷲہے لیکن چونکہ اس مطلب کے لئے ہماری زبان میں اتفاق و اتحادکے لفظ مستعمل ہیں اس لئے وہی بولے جائیں گے) سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ اختلاف کا دُنیا میں رہنا ضروری ہے۔ جب تک یہ نہ تسلیم کیا جائے اتفاق و اتحاد قائم نہیں ہو سکتا۔ سب سے بڑی روک اتحاد و اتفاق کے پیدا ہونے میں یہ ہے کہ لوگ اختلاف کا وجود مٹانا چاہتے ہیں لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اتفاق و اتحاد کو مٹانا چاہتے ہیں۔ پس پہلا گُر جو اتفاق و اتحاد کے قیام کے لئے قرآن کریم تعلیم کرتا ہے یہ ہے کہ تسلیم کر لیا جائے کہ اختلاف دُنیا سے مِٹ نہیں سکتا بلکہ اس کا وجود ضروری ہے۔ اگر لوگ اس کو تسلیم کر لیں تو نوّے فیصدی اختلاف کی باتیں مِٹ سکتی ہیں۔
اس کے بعد مَیں ایک اور عظیم الشان گُر بیان کرتا ہوں جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے بھی اختلاف پڑتا ہے اور وہ خوف کا مِٹ جانا ہے جس طرح اختلاف کے مٹنے اور مٹانے سے اختلاف ہوتا ہے اسی طرح خوف کے مٹنے سے بھی اختلاف ہوتا ہے۔ جب بھی اور جن لوگوں نے خوف کو مِٹا دیا اسی وقت انہی میں اختلاف پیداہو گیا۔ دُنیا جن قوانین کے ماتحت چل رہی ہے وہ بتلاتے ہیں کہ دُنیا سے جب بھی خوف مفقود ہو گا اتحاد و اتفاق بھی مفقود ہو جائے گا۔ جب تک خوف ہے اتفاق ہے جہاں خوف نہیں وہاں اتحاد نہیں۔ پس اتفاق کے لئے خوف ضروری ہے۔ اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا اس سے فرمایا کہ مومن کون ہے اور اس کی علامت کیا ہے۔ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ان کے پہلو بستروں سے اُٹھے پڑتے ہیں۔ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا اپنے رب کو خوف اور طمع سے پُکارتے ہیں۔ خوف و طمع دونوں باتیں چلتی ہیں تو ایک شخص مومن ہوتا ہے۔ ایک کو مِٹا دو تو مومن نہیں لیکن جب یہ دونوں باتیں جمع ہوں تب انسان مومن ہوتا ہے اور مومن کے معنے ہوتے ہیں امن دینے والا۔ مومن دُنیا کو امن دیتا ہے اور خود سچّی بات مان کر امن میں آتا ہے اور پھر دوسروں کو امن پہنچاتا ہے۔
پس اس سے معلوم ہؤا کہ ایمان کے لئے خوف ضروری ہے اوراتفاق بغیر ایمان کے پیدا نہیں ہوتا اور ایک شخص امن میں نہیں ہوتا جب تک اس کو خوف بھی نہ ہو ۔ جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوتی ہیں امن والا ہوتا ہے۔
اب مَیں اس کی تشریح کرتا ہوں یاد رکھو کہ دُنیا میں اتفاق قائم رکھنے والی چیز یہ ہے کہ سامنے خطرناک دُشمن ہو۔ آپس میں خواہ کتنی ہی دُشمنی اور لڑائی ہو لیکن جونہی کہ مشترکہ دُشمن سامنے آجائے تو لوگ اپنے عناد کو بھُول کر متفق ہو جاتے ہیں۔ غور کرو ہندو مسلمانوں میں کتنی لڑائی تھی لیکن ہمارے مُلک کے لوگوں کو یہ خیال ہو گیا کہ انگریز ہمارے دونوں کے خیر خواہ نہیں یا یہ کہ انگریز ہمارے مُلک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ہمارے مُلک کا مال لئے جارہے ہیں۔ اس خیال کی بناء پر دونوں قومیں جو مدتوں سے ایک دوسرے کو اپنا دُشمن سمجھے ہوئے تھیں ایک ہو گئیں۔ اُنہوں نے اپنی دُشمنیوں کو چھوڑ دیا اور وہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آیا کرتے تھے اب ہر طرف سے آواز آنے لگ گئی کہ ہندومسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس اتفاق کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ ان کو ایک خوف پیدا ہؤا اور وہ خوف ان کے اتفاق کا (خواہ وہ کیسا ہی ہو) موجب ہو گیا۔ اسی طرح مثلاً دو شخص جنگل میں ہوں اور ایک دوسرے کی جان کے دُشمن ہوں لیکن اس حال میں کہ دونوں لڑ رہے ہوں اگر شیر آجائے تو دونوں اپنی دُشمنی کو چھوڑ کر شیر کے مقابلہ کے لئے یا اپنی حفاظت کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ تو خوف و خطر ہی امن پیدا کر دیتا ہے جب خوف آتا ہے تو لوگ اپنی لڑائیاں بھُول جاتے ہیں اور امن قائم ہو جاتا ہے۔
ہمارے مفتی (محمد صادق) صاحب ایک لطیفہ اپنے لیکچروں میں بیان کیا کرتے ہیں جو عیسائیت کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسائیت کی تعلیم تو ایسی ہے جیسے لوگ اسٹیشن پر ہوں اور گاڑی پر سوار ہونا ہو۔ ایسی حالت میں اگر کسی کے کچھ چوٹ آجائے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اسی لئے عیسائیت کہتی ہے کہ ایک گال پر طمانچہ لگے تو دوسری آگے کر دو۔ جب لوگ ریل پر ہوں اگر کسی کو چوٹ آتی ہے تو وہ غصّہ کی بجائے مُسکرا دیتا ہے مگر اسلام ایسی گھبراہٹ کا مذہب نہیں بلکہ اسلام کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ جب انسان اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے اور اگر وہاں کوئی شخص اس کو مارے تو اس کا بدلہ بھی لیتا ہے اور اس وقت اس کی نظر اپنے حقوق پر بھی پڑتی ہے۔
پس تو خوف ایک ایسی چیز ہے کہ اتفاق کا باعث ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں میں جنگ و جدال اُسی وقت ہوئے جب ان سے خوف دُور ہو گیا۔ جب انہوں نے نادانی سے سمجھ لیا کہ اب ہمارے لئے خوف نہیں اُسی وقت آپس کے جنگ و جدال نے ان کو تباہ کرنا شروع کر دیا اور غیروں نے ان کو پامال کر ڈالا اور جن کو وہ اپنے نیچے دبائے ہوئے تھے جب ان سے بے خوف ہوئے اُسی وقت وہ مُشک کی طرح نِکل کر اُوپر آگئے اور یہ نیچے غوطے کھانے لگے۔
مسلمانوں نے خیال کیا کہ جب ہم نے ان کو فتح کر لیا ہے پھر ہمیں کیا خوف۔ اُنہوں نے قریباً تمام دُنیا کو فتح کر لیا تھا اورتمام دُنیا کو اپنے ماتحت خیال کرتے تھے مگر جب اُنہوں نے خیال کیا کہ اب کیا خطرے کی بات ہے اسی وقت ان کے لئے خطرات پیدا ہو گئے تھے۔
ممکن ہے کہ بعض کو خیال آئے کہ یہ بات لَا خَوْف عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ 2کے خلاف ہے مگر خوف کے مٹنے اور خوف کے نہ ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کسی کو خوف نہ ہونا اور چیز ہے اور اس کے لئے خوف کا مِٹ جانا اور چیز ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کہا جائے کہ فلاں شخص بیمار نہیں۔ یہ ایک اور بات ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ بیمار ہو گا بھی نہیں تو یہ اور بات ہے۔ پس اسی طرح یہ کہنا کہ اس کو اس وقت خوف نہیں ہے یہ اَور بات ہے اور یہ کہنا کہ اس کے لئے آئندہ بھی کوئی خوف نہیں یہ بالکل اَوربات ہے۔
پس مومن کبھی نڈر نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اگر مَیں ذرا بھی غافل ہؤا تو میرے دُشمن میری گھات میں ہیں۔ جب اس کو خوف ہو گا تو اتفاق اتحاد بھی قائم رہے گا۔ مومن خوف سے پاک ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ اس کو یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ اگر مَیں غافل ہؤا تو شیطان نے مجھ پر قبضہ کیا۔ مومن ایک لحاظ سے بے خوف ہے دوسرے لحاظ سے اس کو ہر وقت ڈر رہتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ۔ پس جب لوگ خوف محسوس کریں گے تو آپس میں متحد بھی رہیں گے۔ اگر خوف کو محسوس کریں تو پھر لڑائیاں بھی نہ رہیں۔
آج سے دس برس پہلے احمدیوں میں جو اتفاق و اتحاد تھا اس میں آج کمی ہے۔ اُنہوں نے خیال کر لیا کہ ہم بہت ہیں۔ اس لئے ہمارے لئے کیا خوف۔ مگر وہ یاد رکھیں کہ مسلمان ان سے بہت زیادہ تھے جب خوف ان کو نہ رہا تو ان کا اتحاد مِٹ گیا صحابہ میں بھی لڑائیاں ہوتی تھیں مگر ان کو خوف تھا اس لئے باوجود سخت لڑائیوں کے ان میں اتحاد رہا۔ حضرت علی ؓ اور معاویہ ؓ کی جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو لڑتے دیکھ کر قیصر نے چاہا کہ ان کا خاتمہ کر دے۔ ایک پادری نے ایک مثال دے کر اس کو اس خیال سے باز رکھا۔ اس نے کہا کہ دو کُتّے لو اور ان کو بھُوکے رکھو۔ چنانچہ ایسا کیا گیا اور پھر ان کے آگے گوشت ڈالا اور وہ لڑنے لگے لیکن پھر ایک شیر لایا گیا تو وہ اپنی لڑائی بھُول گئے۔ اس نے کہا کہ مسلمانوں کی مثال ''کُتّوں'' کی سی ہے۔ آپس میں لڑتے ہیں لیکن جب غیر حملہ آور ہو گا تو مل جائیں گے۔ یہ مثال گو گندی ہے لیکن بات سچّی ہے کہ خوف کے وقت اختلاف مِٹ جاتا ہے اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ خوف کے وقت کُتّے تک متحد ہو جاتے ہیں۔ قیصر نے پادری کی بات نہ مانی۔ امیر معاویہ ؓ کو معلوم ہؤا تو اُنہوں نے کہلا بھیجا کہ قیصر کو معلوم ہو کہ وہ ہماری لڑائی پر نہ جائے۔ اگر اس نے علی ؓ پر حملہ کیا تو علی ؓ کی طرف سے پہلا جرنیل جو اس کے مقابلہ میں ہو گا وہ معاویہ ہو گا۔3 یہ لوگ مسلمان تھے اس لئے ان باتوں کو جانتے تھے۔ پس خواہ کوئی کتنا ہی ترقی پائے وہ خوف سے مُبرّا نہیں ہو سکتا۔ کامل محفوظ ذات صرف خداکی ہے جس کے لئے کوئی اور کبھی خوف نہیں، لیکن انسان کے لئے خوف ہے۔ پس کبھی نہ سمجھو کہ تم کامل امن میں ہو۔ تم میں اتحاد رہے گا۔ کیا معلوم ہے کہ تم امن سمجھ کر لڑنے لگو اور کل یہ خوف مِٹ جائے۔ باقی آئندہ انشاء اﷲ بیان ہو گا۔
اﷲ تعالیٰ آپ کو اسکے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین‘‘
(الفضل 10جون 1920ء)
1: السجدۃ: 17 2: یونس: 63
3: البدایۃ وَ النھایۃ جلد 8 صفحہ 126 مطبوعہ بیروت 2001ء


85
اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اﷲِ
(فرمودہ 28مئی1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پچھلے جمعوں میں دو باتیں اتحاد کے متعلق اُصول اور گُر کے طور پر قرآن کریم سے بیان کی ہیں جن کومدِّنظر رکھنے سے اتحاد کی بنیاد مضبوط ہو سکتی ہے اور اختلاف مِٹ سکتا ہے۔ آج مَیں تیسرا گُر جو قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے بیان کرتا ہوں۔ پہلی دونوں باتیں حکمت کی باتیں ہیں جن میں سے پہلی یہ ہے کہ انسان کو کبھی اس طرح مامون نہیں ہونا چاہئے کہ وہ خیال کرے کہ وہ خطرے سے محفوظ ہے۔ مومن کی علامت ہے کہ وہ خطرے سے محفوظ ہو لیکن پھر بھی اپنے کو خطرے سے محفوظ نہ سمجھے جب تک یہ نہ ہو مومن نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اختلاف کو دُور کرنے کے لئے اختلاف کا وجود تسلیم کرنا ضروری ہے یعنی یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اختلاف رہے گا۔
آج میں تیسری بات بیان کرتا ہوں جس کے متعلق قرآن کریم سے ہی استدلال ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ چھوٹی سی بات سمجھی جائے گی مگر بہت سی چھوٹی باتیں اپنے نتائج کے لحاظ سے بڑی ہوتی ہیں۔ وہ اصل یہ ہے کہ ہر معاملہ میں موازنہ کیا جائے اور جو چیز جتنی ہو اس کو اتنا ہی درجہ دیا جائے۔ عام طور پر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ایک بات کو سمجھتے ہیں مگر حقیقت میں نہیں سمجھتے۔ ہندسوں میں چھوٹے بڑے کو خوب سمجھتے ہیں۔ کوئی نہیں جو دو کو چھوٹا اور ایک کو بڑا کہے لیکن تعداد کو اگر جانے دیں تو عام طور پر لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو لیتے اور بڑی کو ترک کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے شرع کی بنیاد بھی اس امر پر رکھی ہے کہ وہ چیز اختیار کرو جس میں نفع زیادہ اور نقصان کم ہو۔ یہ کہنا کہ کوئی چیز مطلق نقصان دہ ہے غلط ہے۔ گندی سے گندی چیز میں بھی کچھ نہ کچھ نفع ہوتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ لوگ اس کے نفع کو نہ سمجھ سکتے ہوں۔ پس یہ حقیقت ہے کہ بُری سے بُری چیز بھی قلیل سے قلیل نفع رکھتی ہے مثلاً بدیاں ہیں، فسق و فجور ہیں۔ یہ تمام مُضر اور نقصان دہ باتیں ہیں مگر جیسا کہ خدا نے شراب اور جوئے کے متعلق فرمایا: وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا۔1 ان چیزوں میں بھی نقصان ہے لیکن ان کے اثرات جب ان کے مرتکبین پر ظاہر ہوتے ہیں تو وہ دوسروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہو جاتے ہیں۔ پس نفع و نقصان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بھی اپنے ہاں موازنہ رکھا ہے جس سے ظاہر کرتا ہے کہ کتنی بھلائی ہے یا کتنی بُرائی۔
امن اور اتحاد کے لئے بڑی بات یہ ہے کہ ہر ایک چیز میں بُرائی اور بھلائی دیکھی جائے۔ جس میں زیادہ بھلائی ہو اس کو قبول اور دوسری کو ترک کر دیا جائے۔ بہت لوگ ہوتے ہیں کہ اس بات کا اندازہ نہ کر کے ٹھوکر کھاتے ہیں مثلاً ایک شخص نے دس روپیہ کسی سے لینے ہیں جو دیتا نہیں۔ اس طرح مقروض کا ایمان خراب ہوتا ہے مگر جس شخص کا روپیہ واجب ہے وہ اس سے مطالبہ کرنے میں حد سے متجاوز ہو جاتا ہے اور دس روپیہ کی خاطر اتحاد و اتفاق کو قربان کر ڈالتا اور فساد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ جب دس دس روپیہ کی خاطر فساد پڑنے لگیں اور بڑھتے جائیں تو اتحاد کا وجود نہیں رہ سکتا اور سیاست تباہ ہو کر جماعت خاک میں مل سکتی ہے۔
پس تفرقہ پڑنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ لوگ اندازہ نہیں کرتے کہ بڑی چیز کون سی ہے اور چھوٹی کون سی۔ ایسے موقع پر بعض لوگ کہا کرتے ہیں ہم تو حق لینا چاہتے ہیں اور بعض جو اس کے طرفدار ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ اس کا حق دلواتے ہیں لیکن وہ اس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ کہیں زید کا حق دلوانے میں بکر کا، خالد کا حق تو ضائع نہیں کررہے۔ اگر ایک شخص کا حق دلوانے میں سو کا حق ضائع ہؤا تو پھر ایک کا حق کوئی چیز نہیں مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ اس بات کو عموماً نہیں سمجھتے۔
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حق بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک حق بمعنی صداقت دوسرے کسی کا مطالبہ یا لین دین۔ وہ حق جس کے معنے صداقت کے ہوتے ہیں وہ تو ہر وقت اور بہرحال قابل اتباع ہوتا ہے مگر پہلی قسم کے حق کی بہت دفعہ قُربانی بھی کرنی پڑتی ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض دفعہ سمجھدار لوگ بھی اس بات کی پرواہ نہیں کرتے اور آپس میں جھگڑتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دو پارٹیاں ہو جاتی ہیں جس سے جماعت کا اتحاد ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر ایک شخص کسی کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے بدلہ میں اسلام کو قُربان کرنے سے نہیں بچتا یا کہتا ہے فلاں چیز میرا حق تھی میری بجائے فلاں کو مل گئی۔ فلاں جھگڑے میں فلاں کی مد د کی گئی میری طرف داری نہ کی گئی۔
مسلمانوں کی سیاست اس طرح مٹی، سلطنت عباسیہ اس طرح تباہ ہوئی۔ بادشاہ کو پتہ بھی نہ ہوتا کہ وزراء کی آپس میں تلواریں چل جاتیں۔ ایک کہتا فلاں عُہدہ ومیرا حق ہے، دوسرا کہتا میرا۔ ایک دوسرے پر فتح پاتا اور خوش ہوتا لیکن وہ نہیں سمجھتا تھا کہ میری فتح میری آئندہ نسلوں کے لئے غلامی ثابت ہو گی اور میری اولاد دُشمنوں کی غلام ہو کر رہے گی۔ چنانچہ ان خانہ جنگیوں کا نتیجہ یہ ہؤا کہ سلطنتیں تباہ ہو گئیں۔اب ان فاتحوں کی اولاد غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبورہے۔
وہ لوگ وزارت کے لئے لڑتے اور حکومتوں اور عزتوں کے لئے ایک دوسرے سے نبردآزما ہوتے تھے جس کا نتیجہ اسلامی حکومتوں کے لئے تباہ کن ثابت ہؤا۔ تم میں سے بہت ہوں گے جو ان وزراء کو بے وقوف کہیں گے مگردرحقیقت وہ لوگ جو گورنریوں اور مُلک کے بڑے بڑے عُہدوں کے لئے لڑتے تھے اتنے بے وقوف نہ تھے جتنے وہ لوگ ہیں جو چار چار پیسوں پر ایسی حرکات کے مُرتکب ہوتے ہیں جن سے اتحاد ٹوٹ جائے مثلاً کہتے ہیں کہ 29روپیہ کی بجائے 38 روپیہ کیوں دیئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی اس قسم کی باتیں اسلام کی ترقی کو مدتوں پیچھے ڈال دیتی ہیں۔ وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ وہ اسلامی عمارت کی ایک اینٹ ہیں۔ اگر وہ گریں گے تو تمام عمارت پر اس کا اثر پڑے گا۔ پس ایسے لوگ اسلام کی تباہی کے موجب ہوتے ہیں اور اسلام کو ضُعف جب آئے گا تو خود وہ بھی تباہی سے نہیں بچ سکتے۔ پس وزراء عباسیہ نے اگر لڑائیاں کیں تو حکومت کے لئے کیں مگر یہاں تو کوئی حکومت نہیں۔ پھر لڑائی ہو تو کیوں؟ اگر ہو تو کیا وہ اچھے نتیجے پیدا کرے گی۔ اگر وہ لوگ ایسا نہ کرتے تو مسلمانوں کو جو دن آج دیکھنا پڑا نہ دیکھنا پڑتا۔
پس جماعت کی ترقی اتحاد سے ہوتی اوراتحاد قائم رہتا ہے اپنی قُربانیاں کرنے سے۔ اگر کوئی قُربانی کرے تو جماعت کا اتحاد قائم رہے گا اور جماعت کی برکت سے اس کے بھی بہت سے کام عمدہ شکل میں انجام پائیں گے لیکن اگر یہ قربانی نہیں کرے گا تو جماعت پر اس کا اثر پڑے گا اور پھر اس کا اثر اس کی ذات پر بھی پڑے گا۔ جماعت کی عزت بڑھے گی، اس کی عزت میں ترقی بھی ہو گی اور وہ عزت اور نفع جو جماعت کے ذریعہ حاصل ہو بہت پائیدار عزت اور دیر پا نفع ہو گا۔ جو لوگ اس گُر کو سمجھتے ہیں وہ ذاتی منافع کو نہایت خوشی سے جماعت کے فوائد پر قُربان کر دیتے ہیں۔ مومن جو خداکے لئے قُربانی کرتا ہے خدا اس کو اچھے سے اچھا بدلہ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص دس روپے خدا کے لئے قُربان کر دے تو خدا اس کے لئے بہت سے فوائد پیدا کرے گا۔ اگر ایک شخص کسی کے دس روپے دبا تا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے اور کوئی ذلّت خدا کے لئے اختیار کرتا ہے تو خدا اس کا نعم البدل دیتا اور اس کے لئے حقیقی عزت کے سامان پیدا کرتا ہے۔ ایسے شخص کا کوئی نقصان نہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی کو ایک شخص گالیاں دے رہا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کھڑے دیکھ رہے تھے۔ اس صحابی نے بھی گالیوں کا جواب دینا شروع کیا تو آپ چلے گئے۔ وہ صحابی حضورؐ کے پاس گئے اور سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب وہ شخص تمہیں گالیاں دے رہا تھا اور تم خاموش تھے اُس وقت خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہاری طرف سے اس شخص کو جواب دے رہے تھے لیکن جب تم نے جواب دینا شروع کیا تو فرشتے چلے گئے کہ اب یہ شخص خود جواب دینے لگ گیا۔2
پس یہ جو جھگڑے ہوتے ہیں ایمان کی کمی اور اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ اندازہ نہیں کیا جاتا کہ حق کا مطالبہ کہاں تک ہوناچاہئے۔ اپنے حق کا مطالبہ کرو جہاں تک وہ اپنی حد میں رہے لیکن اگر معاملہ و مطالبہ حد سے گزر گیا تو پھر وہ ایک ایسی صورت اختیار کر لیتا ہے جس کا اثر جماعت پر پڑتا ہے۔
یاد رکھو۔ اگر جماعت معزز ہو تو اس کا ہر ایک فرد معزز ہوتا ہے لیکن اگر جماعت معزز نہ ہو تو اس کا کوئی فرد بھی درحقیقت معزز نہیں ہوتا۔ تم انگریزوں کو دیکھو ان میں سے بہت سے ہیں کہ وہ اپنے وطن میں نہایت ذلیل اور کسمپرسی کی حالت میں ہوتے ہیں مگر وہ یہاں معزز ہیں کیونکہ وہ ایک معزز قوم کے افراد ہیں۔ ان کی شہادت کی وہ قدر ہے کہ تمہارے مال و دولت، علم، عقل ان کے مقابلہ میں کام نہیں آسکتے۔ صاف کہہ دیا جاتا ہے کہ جو کچھ یہ کہتا ہے سچ ہے اس لئے کہ یہ ایک معزز قوم کا فرد ہے۔ دیکھو اگرچہ ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن بہت مواقع پر اس کے افراد کی بوجہ جماعت کے عزت کی جاتی ہے۔
پس جماعت کا فائدہ ایسا فائدہ ہے جو خود اس شخص کی طرف لوٹ کر آتا ہے۔ پس اس گُر کو سمجھو اور قُربانیاں کرو اور ہر معاملہ میں اندازہ اور موازنہ سے کام لو۔
اﷲ تعالیٰ ہم کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے اور ان راہوں پر چلائے جن سے ہم میں اتفاق رہے اور ہماری نصرت فرمائے اور ہم میں قُربانیوں کا احساس پیدا کرے جس سے سلسلہ کی بڑائی قائم ہو اور ہمیں ایسی باتوں اور ان طریقوں سے بچائے جن سے سلسلہ کی عزت میں فرق آئے۔‘‘ (الفضل 14جون 1920ء)
1: البقرۃ: 220
2: مسند احمدبن حنبل جلد2 صفحہ 436 مطبوعہ بیروت 1978ء

86
رمضان کے روزے
(فرمودہ 11جون1920ء )
تشہدوتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔1
اور فرمایا:-
’’روزوں کی فلاسفی اور ان کی غرض اور ان کے فرض کئے جانے کے اسباب و فوائد کے متعلق بہت دفعہ ہماری جماعت کو بتایا جاتارہا ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ علمی طور پر اس مسئلہ کے متعلق بھی کچھ اور زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ علمی طور پر روزے کی اہمیت اور اس کی فلاسفی اور اس کے فوائد پر جماعت میں ہمیشہ سے روشنی ڈالی جاتی رہی ہے مگر کسی مسئلہ کا علمی طور پر کامل ہونا کسی جماعت کے لئے کافی نہیں ہوتا جب تک عملی طور پر بھی اس میں کمال حاصل نہ کرلے کیونکہ اگر علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو علم فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔
بلکہ بسا اوقات ایسا علم حسرت و اندوہ کا موجب ہوتا ہے۔ ایسا آدمی جس کو کوئی بیماری لاحق ہو جائے اور اس کے متعلق عام یہ خیال ہو کہ اس کا کوئی علاج نہیں مثلاً کوڑھ کا مرض ہے۔ اب تک اس بیماری کا یقینی علاج دریافت نہیں ہؤا اور جس شخص کو حقیقی طور پر یہ مرض ہو جائے وہ اچھا نہیں ہؤا۔ اس شخص کو صدمہ ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ صبر کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جس مرض میں مُبتلا ہے وہ لاعلاج ہے لیکن برخلاف ازیں ایک دوسرا شخص جو ایک ایسے مرض میں مُبتلا ہو جس کا علاج ہے مگر کسی نہ کسی وجہ سے وہ اس علاج سے محروم رہتا ہے اس کو اس محرومی کا جو صدمہ اور اندوہ ہو گا وہ پہلے شخص سے کہیں زیادہ ہو گا یا مثلاً کسی ماں باپ کا کوئی بچہ مر جائے ان کو صدمہ ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ اب ہمیں نہیں ملے گا۔ وہ ہمیشہ کے لئے اس کو اپنے سے جُدا سمجھتے ہیں۔ سوائے مومنین کے جو آئندہ ملنے کی توقع رکھتے ہیں لیکن عام طور پر لوگوں کی فطرت یہی ہوتی ہے کہ وہ بچے کے متعلق یہی سمجھتے ہیں کہ یہ اب ہمیں نہیں ملے گا۔ یہ ایک سخت صدمہ ہے مگر اس کااثر چند روز میں کم ہو جائے گا مگر ایک دوسرے ماں باپ ہیں کہ ان کا بچہ مَرا نہیں بلکہ کھویا گیا ہے تو ان کا صدمہ پہلوں سے زیادہ ہو گا کیونکہ ان کا بچہ مَرا نہیں اس کا ان کو علم ہے۔ اس لئے وہ اس کے ملنے کے بھی آرزو مند ہیں مگر یہ علم ان کے لئے دُکھ اور صدمہ کا موجب ہوتاہے ایسے لوگ جن کی اولاد گم ہو جاتی ہے اور ان کو اس کا علم نہیں ہوتا کہ مر گیا ہے وہ آرزو کیاکرتے ہیں کہ کاش اس سے تو وہ مر جاتا تا اتنا دُکھ نہ ہوتا۔ پس ایک چیز کا علم کبھی دُکھ کا بھی موجب ہوتا ہے۔
اس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر ایک شخص کو کسی کام کے متعلق علم نہ ہو اور وہ اس میں غلطی کرے تو وہ اس قدر قابلِ ملامت نہیں ہوتا جس قدر وہ شخص قابلِ ملامت ہے جس کواس کے متعلق علم ہو مگر باوجود علم کے وہ اسی غلطی کا مرتکب ہو۔
پس روزوں کے متعلق ہماری جماعت کو بہت حد تک بتا دیا گیا ہے گویا اس مسئلہ میں علمی پہلو مکمل ہے لیکن جب علم کے ساتھ عملی پہلو بھی مِل جائے تو بہت مکمل ہو جائے گا۔ اگر لوگوں کو روزے کی خوبی معلوم نہ ہو اور وہ نہ رکھیں تو ان کے لئے اتنا صدمہ نہیں ہو سکتا مگر جن کو معلوم ہو اور وہ باوجود علم کے نہ رکھیں ان کے لئے بہت بڑا صدمہ ہے اور وہ دوسروں کے نزدیک بھی زیادہ قابلِ ملامت ہیں۔
روزوں کا حکم بھُوکا رکھنے کے لئے نہیں۔ روزے میں جس قدر خوبیاں ہیں ان کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں مگر مختصراً جو قرآن نے دو لفظوں میں بتایا ہے یہ ہے کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔ روزوں کا حکم دینے سے خدا کی یہ غرض نہیں کہ تم بھُوکے مرو اور خدا تمہاری بھُوک کی حالت کا تماشہ دیکھے۔ اگر یہ غرض ہوتی تو وہ تمہارے لئے کھانے پینے کے اس قدر افراط کے ساتھ سامان کیوں پیدا کرتا۔ اس نے تمہارے کھانے اور پینے کی ہزار ہا چیزیں پیدا کی ہیں۔ پھر روزہ کا حکم دینے سے کیا مدِّنظر ہے۔ فرمایا کہ روزے کا حکم اس لئے ہے تا تم ہلاکت سے بچ جاؤ پس خدا تعالیٰ نے روزے اس لئے مقرر فرمائے ہیں تاکہ تم محفوظ ہو جاؤ لیکن باوجود اس کے لوگ سُستی کرتے ہیں۔
بعض لوگ تو روزوں کے معاملہ میں افراط کی طرف گئے ہیں اور بعض تفریط کی طرف۔ جو لوگ افراط کی طرف گئے ہیں اُنہوں نے تو یہاں تک ترقی کی ہے کہ دودھ پیتے بچوں کو بھی روزے رکھوا دیئے اور ان کو دودھ نہیں پینے دیا۔ حتّٰی کہ وہ اسی حالت میں مرگئے۔ ایک دفعہ اخبار میں پڑھا تھا کہ گرمی کے دنوں میں ایک لڑکی کو اس کے والدین نے روزہ رکھوا دیا۔ جب گرمی کی شدت ہوئی تو وہ لڑکی تڑپنے لگی۔ ماں باپ نے اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ لئے کہ کہیں جاکر پانی نہ پی لے اور وہ ساتھ ساتھ روتے بھی جاتے۔ آخر لڑکی زور کر کے گھڑوں کی طرف گئی اور ان پر گر کر مر گئی۔
تو جنہوں نے افراط کی اُنہوں نے تو یہاں تک کی اور جو تفریط کی طرف گئے ہیں وہ اچھے خاصے موٹے ہٹے کٹے ہوتے ہیں مگر روزہ نہیں رکھتے۔ جب پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ تکلیف ہوتی ہے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کب کہتے ہیں روزے اس لئے آتے ہیں کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ روزے تو آتے ہی اس لئے ہیں کہ تکلیف دی جائے اور وہ تکلیف بھی جو دی جاتی ہے اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ دیکھو ایک شخص کو بخار ہوتو اس کو کونین دی جاتی ہے اور جب کونین کھائی جائے گی تو مُنہ ضرور کڑوا ہو گا لیکن کونین اس لئے نہیں کھائی جاتی کہ کھانے والے کا مُنہ کڑوا ہو ہاں مُنہ ضرور کڑوا ہو گا مگر بخار بھی اُترجائے گا۔ اسی طرح ڈاکٹر اس لئے نشتر نہیں لگاتا کہ مریض کو دُکھ دے بلکہ اس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ آرام ہو لیکن نشترسے دُکھ پہنچنا ضروری ہے۔ اسی طرح روزوں کی غرض یہ نہیں کہ تمہیں دُکھ دیا جائے لیکن اس میں شک نہیں کہ روزوں سے تکلیف ضرور ہوتی ہے۔ تو کیا وہ شخص دانا ہے جو کونین اس لئے نہ کھائے کہ وہ کڑوی ہوتی ہے اور اس پھوڑے میں جس نے اس کی زندگی تلخ کر رکھی ہو نشتر نہ لگانے دے کہ اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ کونین سے مُنہ کڑوا ہو گا اور نشتر سے درد ہو گا مگر نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ تکلیف دُور ہو جاوے گی۔ اس طرح روزہ بے شک تکلیف دیتا ہے لیکن یہ نشتر ہے ان ہزاروں پھوڑوں کے دُور کرنے کا جو انسان کی روح میں ہوتے ہیں۔ وہ شخص جاہل ہے جو بخار سے بھُنا جاتا ہے مگر کونین اس لئے کھانے سے انکار کرتا ہے کہ مُنہ کڑوا ہوتا ہے یا وہ جو نشتر اس لئے نہیں لگواتا کہ اس سے تکلیف ہوتی ہے حالانکہ ایک ایسا پھوڑا اس کو نِکلا ہؤا ہے جو اس کے لئے ایک عذاب ہے۔ کونین کڑوی ہے، نشتر تکلیف دہ ہے مگر کیا اتنا جتنا بخار اوروہ خطرناک پھوڑا۔ پھوڑا تو وہ ہے جو اس کو موت کی طرف لے جارہا ہے اور نشتر وہ ہے جو اس کو زندگی دیتاہے۔
پس جو روزہ اس لئے نہیں رکھتا کہ تکلیف ہوتی ہے وہ گویا علاج سے بچنا چاہتاہے۔ یا وہ جو روزہ اس طرح رکھتا ہے کہ اپنی زندگی کو ختم کردے۔ یہ دونوں تفریط اور افراط کی راہ کو اختیار کرتے ہیں اور نادانی کرتے ہیں۔ جو اپنی جان کو ہلاک کرتا ہے وہ شریعت کا روزہ نہیں رکھتا اور جو بھُوک یا پیاس کے ڈر سے روزہ ترک کرتا ہے وہ بھی شریعت کے منشاء کو پورا نہیں کرتا۔
اگر بھُوک اور پیاس کی تکلیف سے بری ہوتے تو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہوتے اور پھر اگر روٹی کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ صحابہ ہوتے مگر سب کو بھُوک لگتی تھی۔ سب سے اعلیٰ نبیوں کی جماعت ہے جس کو بھُوک سے بچانا چاہئے تھا مگر ہم دیکھتے ہیں نبیوں میں سے سب سے بڑا نبی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے مگر وہ بھی پیٹ پر دو دو پتھر باندھے نظر آتا ہے2 پس اس سے معلوم ہؤا کہ بھوک کی تکلیف سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ اگر بھُوک کی تکلیف کے خیال سے روزہ ترک کرنا درست ہوتا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے روزے معاف ہوتے۔
بعض نادان جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت جاہل ہوتے ہیں کہتے ہیں روزے اُس زمانہ کے لئے تھے جبکہ لوگ جاہل تھے اور وحشت ان پر غالب تھی اور وہ نفسانی جوشوں پر قابو پائے ہوئے نہ تھے مگر آجکل کے لوگ علمی طور پر بہت ترقی کر گئے ہیں اور ہم ایسی ترقی پاگئے ہیں کہ ہمیں ڈنڈے اور مشقتوں کے ذریعہ خدا کے جلال کا قائل نہیں کیا جاسکتا مگر ایسے لوگ نہیں جانتے کہ اگر عملی جدوجہد کے بغیر روحانی مراتب حاصل ہو سکتے تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے یہ جدوجہد ضروری نہ ہوتی کیونکہ ان سے زیادہ کون اپنے نفس پر قابو پانے والا ہو سکتا ہے اور علم میں کون آپ کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر باوجود اس کے آپ ریاضت کرتے تھے۔ پھر جن کو وحشی اور نا تعلیم یافتہ کہا جاتا ہے ان کی قُربانیوں کا یہ لوگ کیا مقابلہ کر سکتے ہیں جو ان کو وحشی کہتے ہیں۔ یہ لوگ جو بڑے سے بڑا آئیڈیل پیش کر سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ قوم اور مُلک کی خاطر اپنی ذات کو قُربان کر سکتے ہوں۔ اگر ہم اسی کو مدِّنظر رکھیں اور صحابہ کے جوش اور قُربانیوں کو مذہبی نہ سمجھیں تو کیا اس کا بھی انکار کر دیا جائے گا کہ ان لوگوں نے اپنی قوم اور مُلک کے لئے جو جو قُربانیاں کیں ان کا عُشرِ عشیر بھی یہ لوگ نہیں کر سکتے۔
پس یہ تفریط کا پہلو ہے اور یہ نادانی کے خیالات ہیں۔ خدا کے احکام کو حیلے بہانوں سے ٹلانے کی کوشش نہ کرو۔ شریعتِ اسلام *** نہیں ہے بلکہ رحمت ہے۔ یہ فضل کی بارش ہے۔ فضلوں کی بارش سے نادان کے سوا کوئی نہیں بھاگتا۔ کیا وہ زمیندار دانا ہے جو وقت پر ہونے والی بارش سے اپنے کھیت کو بچانے کی کوشش کرے بلکہ وہ تو کوشش کرے گا کہ تمام پانی کو جمع کرے اور اگر اس میں دینداری اور تقویٰ نہ ہو تو وہ یہاں تک منصوبہ کرتا ہے کہ لوگوں کے کھیتوں کا پانی بھی اپنے کھیت ہی میں ڈال لے۔ وہ پانی کی حفاظت کے لئے منڈیریں بناتا اور سَوسَو جتن کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام خدا کا فضل ہے۔ جو شخص اس کے احکام کی تعمیل سے بچنا چاہتا ہے وہ خدا کے ان فضلوں والی شریعت کو *** قرار دیتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ اگر وہ شریعت کو *** نہیں سمجھتا تو اس سے بچنے کے لئے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔
ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ خوب سمجھ لے کہ شریعت خدا کی رحمت ہے۔ اس کے احکام کو ٹلانے کے لئے بہانے تلاش کرنا جائز نہیں۔ وہ شخص جو شریعت کے احکام کو ٹلانا چاہتا ہے ہلاکت کو بُلاتا ہے اور گنہگار ہوتا ہے۔ گرمی کی شدّت کے باعث جو روزہ چھوڑتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اس سے بہت زیادہ تیز ہے۔ جب لوگوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں جہاد سے بچنے کے لئے گرمی کا بہانہ تلاش کیا تو خدا نے فرمایا کہ قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا 3یہ گرمیاں اتنی گرم نہیں جتنی نارِ جہنم تیز گرم ہے۔ یہ دُنیا کی گرمیاں اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔
پس مَیں اپنی جماعت کو خاص نصیحت کرتا ہوں اور عورتوں کو خصوصاً اور مردوں میں سے ان کو جو حضرت صاحب کے ان احکام کو دیکھتے ہیں جو آپ نے افراط کو توڑنے کے لئے دیئے۔ لوگوں نے روزوں کی غرض کو ضائع کر دیا تھا۔ جب اُنہوں نے اس طرح روزے رکھنے شروع کر دیئے کہ جان نِکل جائے مگر روزہ نہ جائے تو روزہ چونکہ انسان کی ہلاکت کے لئے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ لوگوں کی نجات کا موجب اور زندگی کا باعث ہو اس لئے اس افراط کے خلاف حضرت اقدس نے فرمایا ہے جو کچھ فرمایا اگر حضرت صاحب کا یہ منشاء ہوتا کہ یونہی عذر پر روزہ ترک کر دینا چاہئے تو آپ اس پر عمل بھی کرتے۔ آپ نے ٧٤ سال کی عمر پائی۔ اخیر عمر کے دنوں میں بوجہ بیماریوں کی کثرت کے آپ کے روزوں میں کمی آئی ورنہ آپ کے روزے نہیں جاتے تھے اور آپ کی غذا اس قدر کم ہوتی تھی کہ دوسرا آدمی دن بھر اس پر گزارہ نہیں کرسکتا۔ حالانکہ آپ کی تعلیم کا یہ منشاء ہوتا تو جتنا کام آپ کو اکیلے کرنا پڑتا تھا اور اکیلے آپ کو ساری دُنیا کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ آپ روزے نہ رکھتے لیکن باوجود اس شدّتِ کار اور اس کمزور صحت کے آپ روزے رکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ آپ کے روزے نہ جائیں۔
یہ حکم معمولی نہیں مگر افسوس ہے کہ افراط سے نِکل کر کچھ لوگ تفریط کی طرف چلے گئے ہیں۔ معمولی عُذر پر روزہ ترک کر دیتے ہیں خصوصاً عورتیں معمولی معمولی عُذرات پر روزے چھوڑ دیتی ہیں۔
پھر جو شخص روزہ نہیں رکھتا اور لوگوں کے سامنے کھاتا پیتا ہے تو یہ زیادہ گنہگار ہے کیونکہ اس کے اس عمل سے لوگوں کو ترکِ روزہ کی تحریک ہوتی ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو وہ چھپاتا ہے کہ پکڑا نہ جائے لیکن جو روزہ ترک کرتا ہے اور دوسروں کے سامنے کھاتا پیتا ہے وہ دوسروں کوتحریک کرتا ہے کہ روزہ چھوڑ دیں۔ ایسا آدمی شعائراﷲ کی ہتک کرتا ہے۔ پس ایسے گناہ جودوسروں کو نظر آتے اور دوسروں کے لئے تحریک کا موجب ہوتے ہیں زیادہ سزا کے مستوجب ہوتے ہیں جو لوگ شریعت کے احکام کو اس طرح ٹلاتے ہیں وہ گویا ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام ساری دُنیا اور سب زمانوں کے لئے نہیں اور یہ اسلام پر ایسا حملہ ہے جس کا گناہ بہت بڑاگناہ ہے۔
یہ زمانہ رُوحانی ترقیات کا ہے اور روحانی ترقیات میں روزے ضروری ہیں۔ اس لئے ان کو مت چھوڑو۔ دُعاؤں کے ذریعہ قُرب تلاش کرو۔ ہاں جو بیمار ہیں، جن کو عُرف میں بیمار کہتے ہیں اور جو سفر میں ہو ان کے لئے بھی روزے معاف نہیں، وہ دوسرے ایام میں رکھیں۔ اگر تندرست سے تندرست شخص بھی طبیب کے پاس جائے تو وہ کوئی نہ کوئی تلاش کر کے مرض بتائے گا۔ ایسا مرض مرض نہیں بلکہ عُرف میں جس کو مرض کہتے ہیں وہ مرض ہوتا ہے اور اسی طرح سفر بھی وہ جواتفاقی طور پر پیش آئے لیکن جو شخص تاجر ہے یا جو ملازم ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ دورہ کرے یہ سفر نہیں۔ سفر اتفاقی سفر کو کہتے ہیں جس کو مستقل سفر پیش رہے وہ مسافر نہیں۔ جیسے پھیری والا۔ زمیندار کہتے ہیں کہ ہمیں کام سخت کرنا پڑتا ہے، ہم نہیں روزہ رکھ سکتے۔ سو ان کو معلوم ہو کہ ان کا جو کام ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لئے جسمانی تکلیف کم ہو گئی ہے۔ اس سخت کام کے باعث ان کے پٹھوں کی حس کم ہو گئی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ ایک دماغی کام کرنے والا اگر آپریشن کرائے تو اس کے لئے کلورافارم کی ضرورت ہوتی ہے اور زمیندار کہہ دیتا ہے کہ کلورا فارم کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ کہ دماغی کام کرنے والے کی حس تیز ہے اور اس کی کمزور۔ پس دماغی کام کرنے والے جو ہیں وہ اس محنت کو برداشت نہیں کر سکتے اس لئے دھوپ سے بچ کر کام کرتے ہیں اور زمینداروں کو جسمانی کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے اگر وہ روزہ رکھیں تو ان کی سختی پسند حالت کے باعث ان کے لئے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔ پڑھنے والا پڑھ پڑھ کر کمزور ہو گیا ہے اور زمیندار مضبوط بنایا گیا ہے۔ اس لئے اس قدرت کے سامان کے ماتحت زمینداروں کے لئے بھی روزہ کچھ مُشکل نہیں۔
مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ توجہ کریں کہ نماز تو ایک ایسا حُکم ہے جو کسی حالت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکتا لیکن روزہ ایسا ہے کہ بیماری اور سفر میں ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا رکھنا ایمان کے حصول اور تقویٰ کے لئے ضروری ہے۔ جو لوگ ٹلاتے ہیں وہ اسلام کو دوسروں کی نظروں میں حقیر کرتے ہیں اور عملی طور پر وہ خود بھی گویا حقارت سے دیکھتے ہیں۔ پس اس سے بچو۔ یاد رکھو جو اسلام کے احکام کی حقارت کرتا ہے وہ اسلام کو چھوڑتا ہے اور اس نعمت کو ردّ کرتا ہے جوخدا کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔’’
جب دوسرے خُطبہ کے لئے حضور کھڑے ہوئے تو فرمایا:-
‘‘ یہ رمضان کا آخری عشرہ ہے۔ اس میں بکثرت دُعائیں کرنی چاہئیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اس میں بالخصوص دُعائیں کرتے تھے۔ 4 پس تم ان دنوں میں اپنے لئے دُعائیں کرو اور ان بھائیوں کے لئے کرو جو تبلیغ کے لئے اپنے گھروں سے نکلے ہوئے ہیں ان لوگوں کے ہم پر حقوق ہیں۔ وہ ہمارا فرض اور ہمارا کام کر رہے ہیں۔اگر ہم ان کے لئے دُعائیں نہیں کریں گے تو ان کے حقوق کا اتلاف کریں گے۔ پس جو بھائی گئے ہوئے ہیں ان کے لئے اور جو جانے والے ہیں ان کے لئے دُعائیں کرو کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو۔ ان کی مدد فرمائے، ان کو ہدایت پر قائم رکھے اور ان کے ذریعہ ہدایت پھیلے۔ جو لوگ باہر جاتے ہیں ان پر کئی قسم کے ابتلاء آتے ہیں اور ان کے ورغلانے کے کئی سامان ہوتے ہیں۔ عیسائیوں کو دیکھ لو کہ جب وہ باہر گئے تو دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے رعایتیں دینے لگ گئے کہ وہ ہم میں شامل ہو جائیں یا تو عیسیٰ ؑ کہتے تھے کہ مَیں موسیٰ ؑ کی شریعت کو قائم کرنے آیا ہوں یا عیسیٰ کے ماننے والوں نے شریعت کو *** ٹھہرا دیا۔ پس مبلّغوں کے لئے بالخصوص دُعائیں کرو۔ ان کے رستے میں بڑے بڑے ابتلاء ہوتے ہیں اور ان کے رستے میں خطرناک گڑھے ہوتے ہیں۔ وہ اس کام کے لئے نکلے ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے لئے دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ کی ہدایت ان کے ساتھ ہو اور وہ ایمان پر قائم رہیں اور دین کی کوئی خدمت ان کے دل میں عجب نہ پیدا کر دے۔ وہ فخر میں نہ آئیں اور اپنی کامیابیوں پر گھمنڈ نہ کریں اور نہ تبلیغ میں وہ طریق اختیار کریں جو دین میں فساد کا موجب ہو کہ غیر واجبی نرمی شروع کر دیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ ان کے لئے دُعا کرے۔ ان کی کامیابی کے لئے، اسلام کی ترقی کے لئے اور ان کے لئے جو ارادہ رکھتے ہیں۔ شاید یہ عشرہ ہی ہماری آئندہ ترقیوں کا ذریعہ ہو جائے۔‘‘ (الفضل 17جون 1920ء)
1: البقرۃ: 184
2: بخاری کتاب المغازی باب غزْوَۃ الْخَنْدَقِ (الخ)
3: التوبۃ :81
4: بخاری کتاب الصَّوْم ابواب الاعْتِکَاف باب الْاِعْتِکَاف فِی العَشْرِ الْاَوَاخِرِ (الخ)



87
لہو لگا کر شہیدوں میں ملو
(فرمودہ 18جون1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اﷲ تعالیٰ نے مسیح موعود ؑ کے متعلق جس قدر ترقیات کے وعدے فرمائے ہیں وہ سب کے سب ایسے ہیں کہ ان میں خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار ہی کا دخل رکھا ہے اور ان میں انسانوں کا بہت ہی کم دخل ہے۔ جتنی پیشگوئیاں پہلے زمانے کی آخری زمانہ کے متعلق ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس وقت خود اپنی طرف سے کچھ سامان پیدا کرے گا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں زیادہ فتنہ ہو گا کیونکہ غیر معمولی سامان اسی وقت استعمال میں لائے جاتے ہیں جب معمولی سامانوں سے کام نہ چلے۔ حضرت اقدس کے جس قدر معجزات ہیں ان میں یہی نظارہ نظر آتا ہے۔ جب غیر معمولی حالات پیدا ہوتے ہیں تب اﷲ تعالیٰ ان کو اپنے قانونِ خاص سے توڑتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص کے پاس عمدہ پانی ہو اور پھر اس کے لئے خدا خاص طور پر بادلوں کو لائے اور اس پر برسائے بلکہ وہ بادلوں کو تب لاتا ہے جب خاص طور پر اسے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو خدا کا خاص قانون جب ہی جاری ہوتا ہے جب عام قانون انسان کے لئے بند ہو جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کے متعلق اس بات پرزور دیا جاناکہ آخری زمانہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے نصرت آئے گی اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں شرارت بھی حد کو پہنچ جائے گی۔ بنی نوع انسان حیران ہوں گے کہ ان سامانوں کا کیونکر مقابلہ کریں۔ اب مقابلہ نہایت مُشکل ہے مگر اس وقت خداتعالیٰ خاص ذرائع پیدا کرے گا کیونکہ ان فتنوں کو دُور کرنا اسی کی شان سے وابستہ ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کفر و ضلالت نے جو آج ترقی کی ہے اس سے پہلے کبھی یہ ترقی نہیں ہوئی تھی حتّٰی کہ کسی نبی کے زمانہ میں بھی یہ حالت نہ تھی۔ یہ سچ ہے کہ اہلِ شرارت کے مقابلہ میں اہلِ حق کی تعداد ہمیشہ کم اور حالت کمزور رہی ہے مگر ایسی نہیں جیسی اس وقت ہماری ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ہم تھوڑے ہیں مگر مسیح کے حواری بھی تو تھوڑے تھے۔ ہمارے پاس مال تھوڑا ہے مگر ان کے پاس بھی تو مال تھوڑا تھا اور یہی حال علم کا بھی تھا۔ پھر باوجود اس حالت کے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان سے زیادہ کمزور ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خواہ اس وقت اہلِ حق کی حالت کتنی کمزور ہوتی تاہم ان کے پاس بھی وہی سامان ہوتے تھے جو حکومتِ وقت کے پاس ہوتے تھے یا عام لوگ ان کو آسانی سے فراہم کر سکتے تھے۔ تعداد کی قلّت ہوتی تھی مگر سامان کی قلّت نہ تھی۔ وہ یہی زمانہ ہے جس میں تعداد ہی کی قلّت نہیں سامانوں کی بھی قلّت ہے۔ نئے علوم نے وہ وہ سامان پیدا کئے ہیں کہ حکومت کی مدد کے بغیر وہ سامان جمع نہیں ہو سکتے۔ آج کمزوروں کا مقابلہ واقعی زورآوروں سے ہے۔ مسیح نے تو کہہ دیا تھا کہ تُو اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خرید1 لیکن آج اگر مکان بھی بیچ دیں تو توپ نہیں مِل سکتی۔ دُشمن کے پاس تلوار سے بڑھ کر بندوق اور توپ اور مختلف قسم کے سامان ہیں مگر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ پھر پہلے لوگ اپنے وقت کے سامان تیار کرا سکتے تھے۔ ہم تیار بھی نہیں کرا سکتے۔ اس میں شُبہ نہیں کہ ہمارا مقابلہ رُوحانی مقابلہ ہے مگر دُشمن کو اپنے سامانوں پر گھمنڈ ہے۔ وہ انہی سامانوں کی بناء پر دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم سب دُنیا سے اپنا مذہب منوالیں گے۔ ان کی طرف سے جو مذہبی آزادیاں دی جارہی ہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ عیسائیت بہت وسیع القلب ہو گئی ہے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آخر یہ ہمارا ہی شکار ہیں۔ پس پادریوں کا تمام جوش و خروش اسی لئے ہے کہ وہ اپنے آپ کو سامانوں سے آراستہ سمجھتے ہیں اور ان کا جوش و خروش کلیلہ دمنہ کے چوہے کا سا ہے۔
یہ ایک ہندی قصّہ ہے جو پہلے فارسی میں ترجمہ کیا گیا اور پھر عربی میں ترجمہ ہؤا۔ اس کتاب میں لکھا ہے۔ ایک شخص تھا اس کی ایک زاہد نے جو جنگل میں رہتا تھا دعوت کی جب وہ کھانے کے لئے آیا تو کھانا رکھا گیا اور گفتگو ہو رہی تھی کہ زاہد گفتگو اور کھانے کے درمیان مُنہ اور ہاتھوں سے عجیب عجیب حرکتیں کرتا تھا۔ اس شخص کو یہ اچھا نہ معلوم ہؤا۔ اس نے زاہد سے کہا کہ تم یہ کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ مَیں کتنا ہی اُونچا کھانا رکھوں ایک چوہا ہے وہاں تک پہنچ جاتا ہے اور کھانا خراب کر دیتا ہے۔ اس شخص نے جب یہ سُنا تو کہا کہ اس چوہے کے اُچھلنے کی وجہ میں سمجھ گیاکہ اس کے بل میں مال ہو گا جس کے گھمنڈ پر وہ اُچھلتا ہے۔ اس کے بِل کو کھودنا چاہئے۔ یہ بِل کھودا گیا تو اس میں سے مال نِکلا۔ جب مال وہاں سے نکال لیا گیا تو پھر وہ چوہا اتنااونچا نہیں اُچھل سکتا تھا۔
اس چوہے سے مُراد ایسا مالدار آدمی ہے جو محض اپنے مال کی بناء پر گھمنڈ میں آجائے اور اُچھلنے لگے۔ پس پادری یہ کہتے ہیں کہ ہم تمام مذاہب کو کھا جائیں گے۔ ہمارے پاس صداقت کے دلائل ہیں۔ یہ باطل ہے کیونکہ عیسائیت ایک مُردہ مذہب ہے اور اس میں رُوحانیت نہیں۔ نہ روحانیت سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس میں طاقت نہیں کہ دُعاؤں کے ذریعہ مقابلہ کر سکے۔ باقی رہے دلائل ان سے یہ کیا مقابلہ کر سکے گی کیونکہ اس کے دلائل کی معقولیت اسی سے ظاہر ہے کہ تین ایک ہیں اور ایک تین۔ پھر کہا جاتا ہے خدا بہت محبت کرنے والا ہے لیکن عجیب محبت کرنے والا ہے کہ وہ گناہ بھی کر سکتا ہے اس کے لئے خدا کو عادل بنایا ہے اور عادل بنا کر کفارہ کا ڈھونگ گھڑا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو سُولی دے دیا۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اس طرح وہ عادل بھی نہیں رہتا کیونکہ سارے جہان کے بدلے ایک شخص کو جو بالکل بے قصور ہو پھانسی پر چڑھانا کہاں کا عدل ہے؟ کیا ان دلائل کو فطرت قبول کر سکتی ہے؟
پس محض ایک ظاہری شان ہے جو ظاہری عیسائیت کے نام میں شریک ہے اور اسی کے بل پر عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم مذہبی طور پر تمام دُنیا کو فتح کر لیں گے۔ یہ سارا دعویٰ محض حکومت کے بل پر ہے کیونکہ جو سامان آج عیسائی کہلانے والی سلطنتوں کے پاس ہیں وہ کسی حکومت کے پاس نہیں ہوئے۔ تمام دُنیاوی سامان جو جنگوں سے تعلق رکھتے ہیں آج صرف عیسائیوں کے پاس ہیں یا اگر کسی غیر عیسائی کے پاس ہیں تو وہ مسلمان نہیں۔ عام طور پر یورپ کی طاقتوں کے مقابلہ میں جاپان کا نام لیا جایا کرتا ہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ جاپان کی حالت نہایت کمزور ہے اور اس کے لئے مالی مُشکلات ایسی پیش آجاتی ہیں کہ قریب ہوتا ہے کہ اس کا دیوالیہ نِکل جائے۔ پس عیسائی طاقتیں مضبوط ہیں اور جو رنگ ان کا ہے، جو سامان ان کے پاس ہیں دُنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔ ان تمام سامانوں اور طاقتوں کے مقابلہ میں خاص سامان ہی کام کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے لئے اس زمانہ میں خدا نے تمام ترقیات کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
خدا کی خاص مدد کے بغیر کچھ نہیں ہو گا۔ جب یہ حال ہے تو ہمارا کام تو کچھ بھی نہ رہا۔ ہمیں تو صرف خون لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے کا موقع دیا گیا ہے۔ پہلوں کو جو چیز بڑی بڑی قُربانیوں کے بعد حاصل ہوتی تھی وہ ہمیں بہت آسانی سے مِل رہی ہے۔ پہلوں کو جانی اور مالی بڑی بڑی قُربانیاں کرنی پڑیں لیکن ہمارے لئے ان کے مقابلہ میں گویا کچھ بھی نہیں۔ ہمارے اندر اس وقت تک کابل کے دو واقعوں کے سوا کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا اور آئندہ بھی پہلوں کے مقابلہ میں اگر جانی قُربانی کا موقع آیا تو ہمیں غالباً اتنی قُربانیاں نہیں کرنی پڑیں گی۔ پس ہمارے لئے کام بہت کم ہے۔ قرآن کریم میں اس زمانہ کے متعلق آتا ہے وَ اِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ2 کہ وہ زمانہ ایسا ہو گا کہ جنت بہت قریب کر دی جائے گی۔ گویا کہ اب یہ حال ہے کہ ثمر قریب ہے۔ ہمیں ہاتھ بڑھا کر لے لینے کی ضرورت ہے یا ایک چھوٹا سا زینہ ہے جس پر ہم چڑھ کر مقصد پاسکتے ہیں۔ اگر ہم اس سے فائدہ نہ اُٹھائیں تو کتنے افسوس کی بات ہو گی اور اس کی ایسی ہی مثال ہو گی جیسا کہ مشہور ہے کہ سڑک پر ایک سپاہی چلاجارہا تھا اتنے میں اس کو آواز آئی کہ اے میاں سپاہی! اِدھر آنا۔ جب وہ وہاں گیا تو آواز دینے والے نے کہا یہ بیر میری چھاتی پر پڑا ہے اسے اُٹھا کر میرے مُنہ میں ڈال دینا۔ اس پر سپاہی بہت خفا ہؤا کہ یہ کتنا سُست آدمی ہے کہ خواہ مخواہ میرا وقت خراب کیا۔ پاس ہی سے آواز آئی کہ ہاں میاں سپاہی واقعی یہ بہت سُست ہے۔ کُتّا رات بھر میرا منہ چاٹتا رہا۔ مَیں نے ہر چند اسے کہا کہ ہٹا دو مگر اس نے نہ ہٹایا۔ یہ تو ایک قصّہ ہے لیکن ہم اس سے بھی سبق حاصل کر سکتے ہیں۔
پس اگر ہم بھی اس وقت سُست ہو جائیں اور ایسے آسان وقت میں انعاماتِ الٰہی حاصل نہ کریں تو پھر ہم سے بُرا کون ہو گا۔ بہت ہیں جو اس قصّہ پر ہنستے ہیں لیکن اگر وہ بھی سُست ہو جائیں تو وہ ان سے بھی بد تر ہو جائیں گے جیسا کہ قصّہ میں ذکر ہے کیونکہ ہمارے لئے خدا کی طرف سے بہت آسانیاں کر دی گئی ہیں اور خدا نے خود تمام کام کرنے کا ارادہ کیا ہے اور نعمت کو اس قدر قریب کر دیا ہے کہ ہم اگر اب بھی اس کے لینے کے لئے ہاتھ نہ بڑھائیں تو ہم سے بُرا اور سُست کون ہو گا۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اس کی سمجھ دے کہ ہم اس کے عطا فرمائے ہوئے سامانوں سے فائدہ اُٹھائیں اور مُفت میں لہو لگا کر شہیدوں میں ملیں۔ کم از کم نام شہیدوں کا پائیں۔ شہیدوں کا نام تو مِل جائے گا کیونکہ کام تو خدا ہی کرے گا اور کر رہا ہے۔‘‘ (الفضل یکم جولائی 1920ء)
1: لوقا باب 22 آیت 36
2: التکویر:14



88
اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اﷲِ
بد ظنی سے بچو
(فرمودہ 25جون1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''مَیں نے پچھلے بعض خُطبات میں اتفاق و اتحاد کے لئے جن اُصول کی نگہداشت کی ضرورت ہے، بیان کیا تھا۔ اب اس مسئلہ کی تفصیل کی طرف اشارہ کر کے اس کو ختم کرتا ہوں جو کچھ اب تک بیان ہؤا وہ اصولی تھا۔ اب جزئی اور تفصیلی بیان ہو گا۔
اتفاق و اتحاد کو مٹانے والی کون سی باتیں ہیں۔ درحقیقت ان کی تفصیل مُشکل ہے کیونکہ دُنیا میں کوئی ایسا جُرم نہیں جو خواہ اخلاقی جُرم ہو یا شرعی جس سے اتحاد کو خطرہ نہ ہو۔ اخلاقی جُرم کو شرعی جُرم سے علیحدہ کرنے کی یہ وجہ نہیں کہ اخلاق شریعت میں داخل نہیں ۔ بلکہ شرعی جرائم سے مراد وہ جرائم ہیں جو محض شریعت اسلام کے نزدیک جُرم ہیں اور اخلاقی وہ جرائم ہیں جن میں اسلام کے ساتھ دوسرے مذہب بھی شامل ہیں اور وہ مسائل بھی اخلاقی ہی کہلائیں گے جو فطرت سے متعلق ہیں مثلاً اسلام کہتا ہے چوری نہ کرو، چوری کرنا اخلاقی جُرم تو اس لئے ہو گا کہ تمام مذاہب میں چوری سے منع کیا گیا ہے اور شرعی اس لئے کہ اسلام بھی چوری سے روکتا ہے۔ اسی طرح اسلامی شریعت حکم دیتی ہے کہ جھُوٹ نہ بولو۔ یہ شرعی جُرم ہے کیونکہ اسلام اس سے روکتا ہے مگر اخلاقی بھی ہے کیونکہ سب مذاہب جھُوٹ کے ترک کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ جھوٹ بولنا اخلاقی جُرم ہے۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ تمام اخلاقی جرائم اور وہ جرائم جن سے فطرت نفرت کرتی ہے ان سے نفرت کی بناء شرائع نے ہی ڈالی ہے۔ پہلے پہل ایک نبی نے پیش کیا کہ یہ باتیں بُری ہیں، ان سے بچواور تمام انسانوں نے قبول کر لیااس لئے یہ مسائل فطرت میں داخل ہو گئے۔ چونکہ یہ سب دُنیا کے نزدیک مُسلّم ہیں اس لئے یہ فطری مسائل ہیں۔
پس اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ تمام جرائم سے بچنے کی کوشش کی جائے اور شریعت نے جو حکم دیئے ہیں ان پر عمل کیا جاوے کیونکہ بہت دفعہ اختلاف انہی باتوں سے پڑتے ہیں مثلاً شریعت کا حکم ہے کہ نماز پڑھی جائے۔ اب اگر کوئی شخص سوال کرے کہ نماز نہ پڑھنے سے کیسے اتحاد ٹوٹ سکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ گویہ درست ہے کہ نماز پڑھنے والے پر نہ پڑھنے والے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر بالطبع اس کو وہ بُرا معلوم ہو گا اور وہ خیال کرے گا کہ یہ شخص خدا اور رسول سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور مگر باوجود دعویٰ محبت کے اس راہ کو چھوڑتا ہے جو پسندیدہ ہے یعنی نماز نہیں پڑھتا۔ اس لئے پڑھنے والے کو نہ پڑھنے والے سے نفرت ہو جائے گی یا ایک شخص روزہ نہیں رکھتا اور رکھنے والے پر نہ رکھنے والے کا کچھ اثر نہیں لیکن جب وہ دیکھے گا کہ اس کے محبوب (خدا) کے احکام کی بے قدری کی جارہی ہے اور محبوب بھی وہ جس کی محبت کا مُدعی بے قدری کرنے والا بھی ہے تو اس کو اس سے نفرت ہو جائے گی تو شرعی جُرم بھی خواہ براہ راست دوسرے پر اثر نہ ڈالیں مگر ان کی وجہ سے محبت و تعلق اور اتحاد و اتفاق ٹوٹ جاتے ہیں۔
دوسرے اخلاقی جرائم ہیں ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اوّل وہ جو خود اس انسان کی ذات پر اثر کرتے ہیں دوسرے وہ جو غیر پر بھی اثر ڈالتے ہیں ۔ جو جرائم مجرم پر ہی اثر ڈالتے ہیں یہ قدرتی امر ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے شخص سے لوگ نفرت کریں گے کیونکہ جو کسی میں بُرائی دیکھے گا اس سے پیچھے ہٹے گا اور وہ جرائم جو دوسروں پراثر ڈالتے ہیں ان سے بھی لوگ علیحدہ ہوں گے مثلاً جو شخص قاتل ہے اس سے نفرت کی جائے گی ، جو غیبت کا عادی ہو گا اس سے نفرت ہو گی کیونکہ وہ اپنے اس فعل سے لوگوں میں لڑائی ڈلواتا ہے۔ غرض جتنے اخلاقی عیب ہیں وہ سب ایسے ہیں کہ ان سے نفرت ہوتی ہے اور نفرت اتفاق کو توڑتی ہے۔
ان تمام اخلاقی جرائم میں جو اتفاق و اتحاد کو توڑنے والے ہیں بڑا جُرم بدظنی ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہوتی یونہی خیال کر لیا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا میرے متعلق یہ خیال ہے اور اس طرح اس سے عداوت کرنی شروع کر دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس کا یقینی نتیجہ بے اتفاقی ہوتاہے۔
وہ لوگ جنہوں نے جماعت احمدیہ کو چھوڑا اور جو کبھی جماعت احمدیہ کی طرف منسوب تھے۔ اب ان میں احمدیت برائے نام ہے۔ ان کی علیحدگی کی وجہ بدظنی ہی ہے۔اگر ان میں بدظنی نہ ہوتی تو وہ جماعت سے علیحدہ نہ ہوتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس دن حضرت خلیفہ اوّل کی وفات ہوئی عصر کے بعد مولوی محمد علی صاحب میرے پاس آئےاور مَیں اس وقت سیر کو جارہا تھا اور کہا کہ مَیں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ ہاں کیجئے۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ خلافت کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں نے خلافت کی ضرورت جو میری سمجھ میں آئی بتائی۔اُنہوں نے کہا کہ اس وقت ایسے خلیفہ کی خلافت کو تسلیم کرنا جس سے اختلافِ عقائد ہو مُشکل ہے اور اسی ضمن میں نبوت اور کُفر کے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ گفتگو ہوتی رہی۔ پھر مَیں نے مسجد میں ایک تقریر کی اور جماعت کو سب اختلافات چھوڑ کر دُعاؤں کی طرف توجہ دلائی اور مَیں نے اختلاف وغیرہ کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا تھا بلکہ یہ کہا کہ دُعا کرو کہ جو خدا کے علم میں ہمارے لئے مفید ہے وہ ہو جائے۔ مَیں لیکچر دے رہا تھا کہ مولوی صاحب گھبرائے ہوئے آئے۔ اُنہوں نے بھی وہاں تقریر کی اور وہ تقریر ایسی تھی کہ جنہوں نے وہ نظارہ دیکھا اور وہ تقریر سُنی ہے اس کو نہیں بھُول سکتے۔ اس میں مولوی صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ یاد رکھو کہ مَیں اگر قادیان سے گیا تو اکیلا نہیں جاؤں گا بلکہ ایک بڑی جماعت میرے ساتھ جائے گی مگر وہ بہت بڑی جماعت جو مولوی صاحب کے ساتھ گئی وہ ماسٹر فقیر اﷲ صاحب اور مولوی صدرالدین صاحب تھے۔ پھر یہ بھی کہا کہ اگر مَیں بدنیت ہوں تو خدا مجھے ذلیل کرے۔ دیکھ لو دن بدن ان کو کون سی عزت حاصل ہو رہی ہے۔ یہ صبح کا واقعہ ہے۔ پھر مَیں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے دوستوں سے مشورہ کریں اور مَیں بھی اپنے دوستوں سے مشورہ کرتا ہوں۔ پھر آپس میں گفتگو کریں گے۔ اُنہوں نے ظہر کے بعد کہلا بھیجا کہ ہم آتے ہیں۔ غرض وہ آئے اور ان کے دوست ان کے ساتھ تھے۔ مَیں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تھا۔ وہ بالعموم یہی رائے رکھتے تھے کہ جب ہم میں اور ان میں اختلاف ہے تو کس طرح ان میں سے کسی شخص کی بیعت کر سکتے ہیں۔ مَیں نے ان کو سمجھایا کہ اسی طرح وہ بھی کہیں گے ۔ اس سے تو اختلاف مِٹ نہیں سکتااور لوگوں کو خواہ مخواہ کہنے کا موقع ملے گا کہ احمدی جماعت میں اتحاد نہیں اور پھر جب ایک دوسرے کی بات ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہو سکتا تو پھر اختلاف کیونکر دور ہو۔ مَیں نے ان کو سمجھایا کہ اتحاد کا ٹوٹنا زیادہ خطرناک ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم اﷲ پر اس معاملہ کو چھوڑ دیں وہ جو چاہے کرے۔ پھر مَیں نے اپنے رشتہ داروں سے بھی مشورہ کیا۔ ان میں سے بعض نے بھی یہی بات کہی لیکن مَیں نے ان کو سمجھایا کہ جماعت میں اتحاد رہنا ضروری ہے۔ اس سوال کو اُٹھانے کی ضرورت نہیں کہ کون خلیفہ ہو بلکہ اس کی ضرورت ہے کہ خلیفہ ہو خواہ کوئی ہو تاکہ جماعت میں اتحاد رہے۔ مَیں نے تجویز یہ بتائی کہ اس اختلاف کو مِٹانے کے لئے اوّل تجویز یہ ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کو خلیفہ بنا لیں جس کے اعتقادات اختلافی مسائل میں اب تک ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ دوسری یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص مِل جائے مگر اس کو ماننے کے لئے مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھی تیار نہ ہوں تو مولوی صاحب کے ہم خیال لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے اور اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مَیں نے آخری چارہ کار اس اختلاف سے بچنے کا یہ سوچ لیا تھا اور اپنے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر یہ صورت نہ ہوئی تو مَیں اختلاف مٹانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا۔
غرض جب اکٹھے ہوئے تو پہلے یہی سوال ان کی طرف سے ہؤا کہ خلیفہ ہونا چاہئے کہ نہیں اور پھر انہی کی طرف سے جواب دیا گیا کہ خلیفہ کی ضرورت نہیں مگر ہم خلافت کے قائل تھے اور ہمارے نزدیک یہ صورت فیصل شُدہ تھی۔ مَیں نے کہا کہ چلو مجمع میں پیش کر دیتے ہیں۔ مجمع جس کو چاہے خلیفہ منتخب کرے۔ مولوی محمد علی صاحب نے بے اختیار کہا کہ آپ اس لئے کہتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کہ خلیفہ کس نے ہونا ہے۔اس کے صاف معنے یہ تھے کہ تم نے منصوبہ کیا ہؤا ہے اور یہ ان کی محض بدظنی کا نتیجہ تھا۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مَیں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ مَیں اختلاف ہوتا دیکھنے کی بجائے جس شخص کو وہ پیش کریں گے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا اور مَیں جانتا تھا کہ جب مَیں بیعت کروں گا تو میرے دوست بھی بیعت کر لیں گے لیکن مَیں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر میرے دوست اس بات پر آمادہ نہ ہوں تو مَیں خود اختلاف سے بچنے کے لئے بیعت کر لوں گا۔ اگر دوست بھی قُربان کرنے پڑیں تو مَیں قُربان کر دُوں گا لیکن ان کے دل میں یہ بدظنی تھی کہ مَیں خود ہی خلیفہ بننا چاہتا ہوں۔ اس لئے اُنہوں نے مخالفت کی۔ آخر وہی ہؤا جو خدا کو منظور تھا۔ خیر اگر ان کی بد ظنی یہیں تک رہتی تو خیر تھی۔ یہ بدظنی دُور ہو سکتی تھی مگر اب بد ظنی یہاں تک بڑھی کہ اُنہوں نے کہا کہ مجھے مارنا چاہتے ہیں اور پٹھان میرے مارنے کے لئے مقرر ہو گئے ہیں اس کے لئے اُنہوں نے پہرے مقرر کئے۔ آخر وہ یہاں سے چلے گئے لیکن اگر وہ رہتے تو اختلاف نے اس وقت تک اتنی ضد نہیں پکڑی تھی ممکن تھا کہ اﷲ تعالیٰ ان کے دل کو صاف کر دیتا۔ پاس کا رہنا بد ظنیوں کو دُور کر دیتا مگر اب جبکہ وہ ضد میں بہت ترقی کر گئے ہیں ایک جگہ رہنا مُفید نہیں ہو سکتا۔ مجھے جب معلوم ہؤا کہ ان کو ایسا خطرہ ہے تو مَیں نے ان کو خط لکھا کہ مَیں نے سُنا ہے کہ آپ جانا چاہتے ہیں۔ مَیں ذمہ لیتا ہوں کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی، آپ یہاں رہیں۔اُنہوں نے مجھ کو خط کے ذریعہ تو یہی جواب دیا کہ کیا مَیں قادیان کو چھوڑ سکتا ہوں؟ چھُٹی کے دن باہر گزارنے جاتا ہوں لیکن جب مَیں خود گیا اور ساتھ نواب محمد علی خان صاحب کو لے گیا تو اُنہوں نے بجائے میرے ساتھ باتیں کرنے کے میاں بگّا سے جو باہر پھر رہا تھا باتیں شروع کر دیں کہ سُنا میاں بگّا کیا حال ہے؟ کب آیا یہ ہے وہ ہے۔ اس سے مجھے معلوم ہؤا کہ وہ مجھ سے باتیں کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ اس لئے مَیں چلا آیا۔ یہ تمام بدظنی کا نتیجہ تھا جس میں مُبتلا ہو کر انسان کہیں سے کہیں نِکل جاتاہے۔ مجھے اس کا بڑا تجربہ ہے۔ مَیں روز دیکھتا ہوں۔ یہ ایک خطرناک مَرض ہے۔ حضرت صاحب نے اس سے بچنے پر بہت زور دیا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل کی تو ثُلث زندگی اسی پر وعظ کرتے گزری۔ مَیں بھی تمہیں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ بد ظنی سے بچو۔ احمدی اور مسلم کیا اور بد ظنی کیا۔ آپ کا آپس میں تعلق ہی کیا ہے۔ یونہی قیاس کر لیا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے جو فلاں بات کی ہے وہ عداوت سے کی ہے اور یہ محض بدظنی ہے۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ آٹے میں نمک مگر وہ سراسر نمک ہی ہوتا ہے۔ آٹا تو ہوتا ہی نہیں۔ ان کی بدظنی کی اکثر وجہ نہیں ہوتی۔ اس سے بچویہ سب سے بڑی بیماری ہے جو اتحاد و اتفاق کو توڑ دیتی ہے۔
دوسری چیز جو اتحاد کو توڑنے والی ہوتی ہے وہ عفو کی صفت کا موجود نہ ہونا ہے، جُرم تو ہوتا ہے مگر اس کو عفو کرنا بھی ایک کام ہے۔ جب دیکھتے ہیں کہ کسی سے غلطی ہوتی ہے تو اس کو معاف نہیں کرتے۔ اس سے درگزر نہیں کرتے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو تین دن تک غصّہ کی وجہ سے نہیں بولتا اس کا ہم سے تعلق نہیں۔1 معمولی سی بات ہوتی ہے اس پر گفتگو چھوڑ دیتے ہیں اور مدتوں آپس میں نہیں بولتے۔ اوّل تو مَیں نے بتایا ہے کہ بدظنی سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ دوسرے عفو اور درگزر کا نہ ہونا وہ خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ اگر بد ظنی ہو بھی تو عفو سے کام لینا چاہئے۔ ورنہ عفو کس غرض سے رکھا گیا ہے۔ سیاسی طور پر قطع کلام کرنا ایک سزا ہے لیکن بے وجہ یا معمولی سی بات پر بولنا چھوڑنا ایمان میں کمزوری کی علامت ہے۔ اس کا نتیجہ شقاق و افتراق ہے۔ مَیں جانتاہوں ہمارے یہاں قادیان میں ایسے بعض لوگ موجود ہیں جو مہینوں بلکہ سالوں سے آپس میں نہیں بولتے اور پھر وہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے عمل میں اور ان کے ایمان میں کوئی کمی نہیں اور اس کا نتیجہ اسلام کے لئے کوئی خرابی پیدا نہیں کرتا حالانکہ مَیں نے بتایا ہے کہ بعض گناہ ذاتی ہوتے ہیں کہ ان کااثر محض اس شخص کی ذات تک ہوتا ہے۔ خواہ بالواسطہ دوسروں پر بھی اثر ڈالے مگر یہ وہ گناہ ہے جو براہ راست دوسروں پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ ایسا شخص جو دوسروں سے گفتگو ترک کرتا ہے اسلام میں تفرقہ ڈالتا ہے اور پھر وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ مَیں مسلم ہوں اور مخلص ہوں۔
اسلام کس چیز کا نام ہے خالی اس تعلیم کا نام نہیں جو قرآنِ کریم میں ہے بلکہ اسلام اس جماعت کا نام ہے جو اسلامی لواء کو اُٹھائے ہوئے ہے۔ خالی کتاب کیا چیز ہے۔ اگر اس کی تعلیمات کا ظہور نہیں ہوتا۔ یہ کتاب کیسے پھیلے اگر اس کے جھنڈا بردار نہ ہوں۔ جب مسلمانوں نے اس گُر کو بھُلا دیا اور آپس میں محبت و وداد کم ہو گیا تو دیکھ لو مسلمانوں کی کیا بُری گت ہوئی۔ جو شخص ترک گفتگو کرتا ہے وہ اسلام پر حملہ کرتا ہے۔ دیکھو قرآن خدا کے علم میں موجود تھا مگر یہ دُنیا کے لئے مفید نہیں تھا۔ یہ اسی وقت فائدہ مند ہؤا جب خدا نے اسے اپنے ایک بندے کے ذریعہ دُنیا میں نازل فرمایا۔ پھر اس کو اُٹھانے والی ایک جماعت ہوئی اور اس کی تعلیمات کو دُنیا میں پھیلایا۔ اس لئے ایسی جماعت میں تفرقہ ڈالنا اسلام میں فتنہ ڈالنا ہے۔ اس لئے اس راہ سے بچو جس پر چل کر اسلام پر حرف آئے۔
یہ دو باتیں خاص طور پر مدِّ نظر رکھنی چاہئیں (1) بد ظنی نہ ہو۔ (2) درگزر ہو۔ جب یہ دونوں باتیں مدِّنظر ہوں تو پھر کبھی تفرقہ نہیں پیدا ہو سکتا۔ یاد رکھو تمہیں اپنے رشتہ داروں، عزیزوں کی نسبت اسلام سے زیادہ محبت ہونی چاہئے۔ تم دیکھو کہ خدا رسول اور قرآن کدھرہیں۔ بدظنی کو چھوڑ دیا کرو اور عفو سے کام لیا کرو اس کی وجہ سے تمام اختلاف دُور ہو جاتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے‘‘
(الفضل 8جولائی 1920ء)
1: بخاری کتاب الادب باب الہجرۃ(الخ)



89
خدا تعالیٰ پر مضبوط ایمان کی ضرورت ہے
(فرمودہ 2جولائی1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’وہم بِالعموم نا اُمیدی اور مایوسی اور حیرت سے پیدا ہوتا ہے یا ان تمام چیزوں کا اگر مجموعی ایک نام رکھ دیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ عدمِ یقین سے پیدا ہوتا ہے۔ مایوسی عدمِ یقین کا نتیجہ اور نااُمیدی بھی عدمِ یقین کانتیجہ ہے۔ اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی مایوسی نہ ہو ، حیرت نہ ہو، نااُمیدی نہ ہو تو وہم بہت حد تک دُنیا سے مِٹ جائے۔
ہمارے مُلک میں اوہام پرستی بہت ہے مثلاً کہتے ہیں کہ جنوں کا سایہ ہو گیا، بھوت پریت کا سایہ ہو گیا، دیوی دیوتا کا اثر ہو گیا۔ اس کی وجہ وہی عدمِ یقین ہوتا ہے جو حیرت سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ جب وہ کسی مریض کو دیکھتے ہیں کہ باوجود علاج کے اس کو صحت نہیں ہوتی تو ان کو حیرت ہوتی ہے اور اس حیرت میں دماغ پراگندہ ہو جاتے ہیں اور وہ ہر طرف ہاتھ مارنے شروع کرتے ہیں۔ اسی حالت میں کسی کو یہ جنّوں اور بھوتوں پریتوں کا بھی خیال آجاتا ہے۔ اسی طرح وبائیں پڑتی ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی ستارہ کا نتیجہ ہے یا کسی پاگل کو بکواس کرتا دیکھتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ یہ اس کی قوت قُدسی کا نتیجہ ہے یا مثلاً ایک بچّہ پیدا ہوتا ہے اندھا اور لولا لنگڑا ہوتا ہے اور تھوڑے عرصہ کے بعد مر جاتا ہے۔ ایک شخص غور کرتا ہے کہ اس بچہ کو کس نے پیدا کیا اور اس کے پیدا کرنے کا مقصد کیا تھا مگر یہ اس مقصد کو بغیر پورا کئے چلاگیا۔ یہ آیا تھا مگروہ سامان نہ لایا تھا جو اس کے لئے اس مقصد کو پورا کرنے میں کام آتے۔ وہ غور کرتا ہے مگر سرچشمہ علم حقیقی تک نہیں پہنچتا۔ اس لئے وہ حیران ہو جاتا ہے اور اس کا واہمہ پرواز شروع کرتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ دُنیا میں سزا اس وقت ملتی ہے جب کوئی جُرم کرے چونکہ اس کا اندھا یا لنگڑاپَن اور نقص لئے ہوئے پیدا ہونا ایک سزا ہے اس لئے ماننا پڑا کہ اس نے کبھی پہلے جُرم کئے ہوں گے جن کی سزا میں اس کو ناقص پیدا کیا گیا ہے۔
چونکہ اس غور کرنے والے کو حقیقی وجہ نہ معلوم ہوئی اس لئے وہ حیرت کے باعث اس وہم میں مُبتلا ہو گیا کہ یہ سزا ہے جو کسی پہلی پیدائش کے جرائم کے بدلے ملی ہے۔ اسی طرح جب کوئی بیمار ہوتا ہے اور اس کاعلاج کیا جاتا ہے مگر اس کو صحت نہیں ہوتی تو اچھے اچھے مضبوط لوگوں کو دیکھا ہے کہ اوہام کے باعث جھاڑ پھُونک کی طرف دوڑتے ہیں اور کہتے ہیں چلو اس کو بھی آزما دیکھو تو باوجود عقل کے لوگ وہم میں مُبتلا ہو کر جھاڑوں، ٹونوں اور ٹوٹکوں کی طرف دوڑتے ہیں یا مُشرکانہ طور پر قبروں پر چڑھاوا چڑھاتے ہیں اور پیر فقیر کی منت مانتے ہیں۔ یہ تمام خیالات اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ کسی مریض کے متعلق جب ڈاکٹر جواب دے دیتا ہے تو کہتے ہیں چلو اب جھاڑا ٹونا ٹوٹکا ہی کر لیں شاید اسی سے شفا ہو جائے اس وقت ''شاید'' آکودتا ہے۔ تو مایوسی سے وہم پیدا ہوتا ہے۔ عدمِ یقین سے وہم پیدا ہوتا ہے اور حیرت سے وہم پیدا ہوتاہے۔
ایک مشہور فریبی گزرا ہے۔ اس نے اس طرح اپنی اولیائی جمائی تھی کہ کچھ لوگ جہاز میں بیٹھے جارہے تھے کہ سخت طوفان آیا۔ قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جائے اس موقع پر اس نے یہ خیال کر کے کہ اگر جہاز غرق ہو گیا تو ہم سب ڈوب جائیں گے نہ مَیں ہوں گا نہ مجھ سے پوچھنے والا کوئی ہو گا لیکن اگر جہاز نہ ڈوبا تو میری کرامت چل جائے گی۔ کہا کہ مجھے پتہ لگا ہے کہ جہاز غرق نہ ہو گا۔ خدا کی قدرت جہاز غرق نہ ہؤا اور نادانوں نے خیال کر لیا کہ یہ ولی ہے اور اس کے پیچھے لگ گئے۔ یہ ان شخصوں میں سے ایک ہے جس نے اپنی شرارت سے دُنیا میں گندے عقائد پھیلائے ہیں۔ پھر عورتیں بہت جلد وہم میں مُبتلا ہو جاتی ہیں۔ ذرا بچّہ بیمار ہؤا اور وہ قبروں پر دوڑی گئیں یا کسی مسجد کے محراب میں دیا جلا دیا یا کسی دیوی دیوتا کی نذر مان لی یا تیل ماش بانٹ دیا۔
وہ قوم جس کو تمام دُنیا ذلیل سمجھتی ہے اور جن کے مذہب کو جھوٹا مانا جاتا ہے باوجود اس کے اس مذہب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ مانی جاتی ہے کہ اس میں ایک خدا کو منوایا جاتا ہے اور جس کی بڑی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ خدا کو ماننے والی اور خدا پر بھروسہ کرنے والی قوم ہے۔ حیرت ہے کہ وہ بھی مایوس ہوتی ہے تو وہموں کی طرف دوڑتی ہے اور ٹونے ٹوٹکے پر عمل کرتی ہے۔ وہ کتاب جو خدا کی طرف سے آئی اور مسلمانوں نے اس کو مانا۔ اس میں خدا کی ذات اور صفات کے متعلق بہت کچھ بیان کیا گیا ہے لیکن اس کتاب کو چھوڑ کر اور ایسے خدا کو چھوڑ کر جس کی قدرت اور طاقت کے اُنہوں نے بے شمار نمونے دیکھے وہم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ اگر ان کو خدا پر اتنا بھی ایمان ہوتا جتنا اوہام پر ہے تو یقینا تب بھی وہ کامیاب ہو جاتے۔ وہ ''شاید'' کہتے ہوئے ٹونوں ٹوٹکوں کی طرف تو دوڑتے ہیں مکرکم از کم ''شاید'' کہتے ہوئے بھی خدا کی طرف نہیں آتے۔
آج مسلمانوں کی جو حالت ہے اس حالت میں اگر وہ خدا پر ''شاید'' کہتے ہوئے بھروسہ کرتے تو بھی وہ ہلاکتوں سے بچ جاتے وہ اﷲ جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے وہ اﷲ جس نے محمد رسول اﷲ جیسا رسول مبعوث کیا اور پھر وہ اﷲ جس نے اس زمانہ میں اپنا مامور اور نبی بھیجا تاکہ وہ اسلام کی امداد کرے اسکے متعلق اگر ان کو اتنا بھی خیال ہوتا کہ ''شاید''ہاں شاید وہ ہماری مدد کرے تو اﷲ تعالیٰ ان کو ضائع ہونے سے بچا لیتا مگر افسوس ان کو اتنا بھی ایمان نہیں جتنا ان کو اپنے وہم پر یقین ہوتا ہے۔ وہ وہم جس کی کوئی تصدیق نہیں کرتا اور تمام دانا اس کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور اس کے متعلق جاننے اور یقین رکھنے کے باوجود کہ یہ کوئی چیز نہیں پھر اس پر ''شاید''کہتے ہوئے بھروسہ کر لیتے ہیں لیکن وہ جس کی طاقتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، جس نے تمام نبیوں کے وقت میں اپنی طاقتوں کا اظہار کیا اور جس کی طاقت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے وقت ظاہر ہوئی اور اولیاء اُمّت اور مجدّدین کے زمانوں میں جس کی طاقت نے اپنا کام کیا اور اس زمانہ میں مسیح موعود کے ذریعہ جس خدا کی قوتوں کا ظہور ہؤا اور ہو رہا ہے ایسے قوتوں اور طاقتوں والے خدا پر وہم جتنا بھی بھروسہ نہیں کرتے۔ کاش مسلمان ''شاید'' کہتے ہوئے ہی اس کی طرف پھرتے کہ دیکھو ''شاید'' وہ ہماری مدد کرے۔ ممکن ہے ہماری دستگیری ہو۔ اگر وہ ''شاید'' کہتے ہوئے وہم جتنا بھی بھروسہ خدا پر کرتے تو وہ اتنا کچھ دیکھتے کہ دُنیا حیران رہ جاتی مگر افسوس وہ اتنی بھی توجہ نہیں کرتے۔
اسلام گر رہا ہے (اسلام سے مراد وہ سوسائٹی ہے جو اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتی ہے) دُنیا اس سوسائٹی کو مِٹا رہی ہے۔ ان کو حقارت سے دیکھتی ہے لیکن اس کا چارہ کار وہ وہموں سے کرتے ہیں اور خدا سے وہم کی طرح بھی چارہ کار نہیں چاہتے۔ کاش! ان کی نظریں بطور گمان کے ہی اس طرف پڑتیں۔ وہ ٹونے ٹوٹکے کی طرح ہی ادھر متوجہ ہوتے مگر کسی کی نظر بالشویکوں کی طرف پڑتی ہے، کوئی افغانستان کی طرف دیکھ رہا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اِدھر سے مدد چلی آرہی ہے، کوئی اس وہم میں مُبتلا ہے کہ سارے مسلمان اکٹھے ہو کر یورپ کی سلطنتوں کا مقابلہ کریں گے۔ غرض کسی کی نظر کسی کی طرف جاتی ہے کسی کی کسی طرف اور اگر نظر کسی کی طرف نہیں جاتی تو وہ خدا ہے۔ یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ آج مسلمانوں کو خدا پر اتنا بھی ایمان نہیں جتنا ٹونے ٹوٹکے پر ہوتا ہے۔
مگر مَیں پوچھتا ہوں ہماری جماعت والے کیا کرتے ہیں۔ یہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے پاس وہ طاقت ہے مگر یہ فائدہ نہیں اُٹھاتے جتنا فائدہ اُٹھانے کا حق ہے۔ یورپ کو جو کچھ مِلا دیکھو وہ اس کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ ایک ذرّہ تک اس کا ضائع نہیں ہونے دیتا مگر ہمارے لوگوںکو خدا پر ایمان ہے۔ یہ خدا کی اتنی بڑی طاقت اپنے پاس رکھتے ہیں مگر اس سے کام نہیں لیتے۔ اس لئے جہاں مسلمانوں پر اس بات کا افسوس ہے کہ وہ خدا پر وہم جتنا ایمان بھی نہیں رکھتے وہاں احمدیوں پر اس بات کا افسوس ہے کہ ان کو ہتھیار تو دیا گیا مگر وہ اس کو چلانے اور اس سے کام لینے میں پوری کوشش نہیں کرتے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی ہستی اور طاقتوں پر کامل ایمان بخشے اور ہماری نظروں کواپنی طرف پھیر لے اور وہی ہماری خواہش ہو جائے ہم اس کے حضور گریں اور وہی ہماری سپر ہو اور اسی پر ہم بھروسہ رکھیں۔‘‘
(الفضل 12جولائی 1920ء)

90
مایوسی کے بد نتائج
تعلق باﷲ کے ابتدائی مدارج
(فرمودہ 9جولائی1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پچھلے جمعہ میں بتایا تھا کہ مایوسی سے انسان کو بہت نقصان پہنچتا ہے اور مایوسی ایک خطرناک چیز ہے۔اس کے بُرے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے شک اور وہم پیدا ہوتا ہے۔ آج بھی جس مضمون کے متعلق بیان کرنے لگا ہوں وہ بھی مایوسی سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ وہ ترکِ عمل ہے۔ کام چھوڑنا، ہمت ہارنا، مایوسی سے ہی ہوتا ہے۔ کئی کمزوریاں اور کمیاں ہوتی ہیں۔ دینی، دُنیوی، اخلاقی، رُوحانی مگر ان کا اکثر باعث اور خطرناک نتیجہ پیدا کرنے والی نا اُمیدی اور مایوسی ہوتی ہے۔ جب انسان نا اُمید ہو جاتا ہے تو وہ سوال کرتا ہے کہ جب اس کے کامیاب ہونے کی صورت ہی نہیں تو پھر اسے کام جاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسے وقت میں اس کا دل صاف طور پر جواب دے دیتا ہے کہ جب میرے لئے اُمید ہی نہیں تو پھر کام جاری رکھنا لا حاصل ہے۔ اگر کامیابی کا شائبہ بھی ہوتا ہے تو ایک انسان کام کرنا ترک نہیں کرتا۔ کوئی نہیں جو یہ کوشش کرے کہ خدا بن جاؤں یا مَلک بن جاؤں یا مَیں آسمان پر اسی زندگی میں چڑھ جاؤں کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے وہ اس کے متعلق کوشش بھی نہیں کرتا۔ مایوسی اسی کانام ہے کہ انسان سمجھ لے کہ فلاں کام ہو ہی نہیں سکتا۔ مایوسی اور کسی کام کو ناممکن سمجھنے میں کچھ فرق ہے۔ مایوسی اس امر کے متعلق کہتے ہیں جو ایک شخص کو اپنی ذات کے متعلق ہو۔ ایک شخص جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ فتح دُنیا میں لوگ حاصل کرتے ہیں مگر وہ خیال کرتا ہے کہ باوجودیکہ فتح لوگوں کو حاصل ہؤا کرتی ہے میرے لئے فتح ناممکن ہے۔ یہ خیال اس کا مایوسی ہے لیکن ایک ناممکن سب جہان سے تعلق رکھتا ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کوئی ہو اس کے متعلق بِلا استثناء یہ قاعدہ ہو کہ وہ نہیں کر سکتا۔ گوبعض چیزیں غلطی سے ناممکن خیال کی جاتی ہیں اور بعض واقع میں ناممکن ہوتی ہیں اور بہت سے کسی چیز کی تعریف نہ سمجھنے کی وجہ سے کسی چیز کے ملنے یا نہ ملنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کی ہر چیز کے مدارج رکھے گئے ہیں اور ہر آخری حد تک پہنچنے کے لئے پہلے ابتدائی مدارج میں سے گزرنا اور ان کا طے کرنا ضروری ہے اور پہلے تعریف معلوم ہونی ضروری ہے۔ مثلاً علم کی تعریف جب تک نہ معلوم ہو تو علم میں ترقی ہونا ناممکن ہے مثلاً اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ ایم اے کی کتب ہی علم ہیں ، بی اے علم نہیں یا بی اے علم ہے ایف اے علم نہیں یا ایف اے علم ہے انٹرنس علم نہیں۔ اسی طرح ابتدائی قاعدہ کے متعلق جو سمجھتا ہے کہ وہ علم نہیں۔ تو ایسا آدمی جو قاعدہ کو علم نہیں سمجھتا بلکہ ایم اے یا بی اے یا ایف اے یا انٹرنس کو ہی علم سمجھتا ہے کبھی علم حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ قاعدہ بھی علم ہے اور دوسرے مدارج بھی علم ہیں اور آخری مدارج اُسی وقت طے ہو سکتے ہیں جب پہلے درجے طے ہوں لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مُبتلا ہو گا وہ مایوس ہو جائے گا اور علوم کے حاصل کرنے سے رہ جائے گا۔ ایک شخص جو نشانہ لگانے والے کو دیکھتا ہے اور عین موقع پر مارنا ہی نشانہ سمجھتا ہے جب وہ ابتداءً بندوق اُٹھائے گا تو صحیح اور اعلیٰ درجہ کا نشانہ نہیں لگا سکے گا اس لئے مایوس ہو کر آئندہ بندوق چلانا چھوڑ دے گا لیکن اگر وہ جانتا ہو کہ بندوق کا اُٹھانا بھی ایک علم ہے اور شست لگانا بھی ایک علم ہے اور اگر وہ جانتا ہو گا کہ بندوق چلانا بھی ایک علم ہے جو درجہ بدرجہ آتا ہے تو پھر اگر اُس کی گولی اس سمت کو جاتی ہے جدھر چلائی گئی ہے تو اس کے لئے کوئی مایوسی کی بات نہیں کیونکہ وہ ترقی اور کمال پر پہنچنے کے قریب ہو رہا ہے۔
پس بہت سے لوگ مقصد حاصل کرنے سے محروم اس لئے رہتے ہیں کہ وہ بڑے درجے کو آگے رکھتے ہیں اور پھر اس کو ناممکن خیال کر کے مایوس ہو جاتے ہیں چونکہ چھوٹے درجے ان کی نظر میں نہیں آتے اس لئے وہ رہ جاتے ہیں۔ اس وقت جو مضمون میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ خدا کا یاد کرنا اور تعلق باﷲ ہے۔ ہر مومن کا دل چاہتا ہے کہ خدا کو ملے اور اس کو خدا کی ملاقات حاصل ہو لیکن وہ سمجھتا ہے کہ اس کو خدا کی ملاقات حاصل نہیں ہو سکتی اس سے مایوس ہوتا ہے مگر جیسا کہ مَیں نے بتایاہے علم وسیع ہے کسی خاص درجہ کا نام ہی علم نہیں بلکہ ابجد سے لے کر ایم اے کی ڈگری اور اس کے آگے تک علم چلا جاتا ہے۔ اسی طرح خدا کا تعلق بھی مراتب و درجات رکھتا ہے۔ خدا ایک نقطہ کی مانند نہیں بلکہ وہ ایک وسیع دائرہ کی مانند ہے جس کے کسی حصّہ تک رسائی بھی خدا سے تعلق کہلائے گا اور جوں جوں بڑھتا جائے گا تعلق بھی بڑھتا جائے گا۔ اگر یہ ترقی نہ ہوتی تو ہمیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے دُعاؤں کی ضرورت نہ ہوتی۔ تعلق باﷲ میں اب بھی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ترقی کر رہے ہیں۔ پس جس طرح خدا کی انتہاء نہیں اسی طرح کسی شخص کا خدا سے ایسا تعلق نہیں ہو سکتا جس کے آگے گنجائش نہ ہو۔ جس طرح ظاہری تعلیم میں مدارج ہیں اور جُوں جُوں اُن مدارج کو انسان طے کرتا چلا جائے علم میں بڑا درجہ پاتا جاتا ہے ۔اسی طرح تعلق باﷲ کے متعلق بھی مدارج ہیں جس قدر کوئی مدارج طے کرتا چلا جائے گا بڑا رُتبہ پاتا جائے گا لیکن جو ایک بڑی حد کو سامنے رکھتے ہیں اور نچلی حدوں کو چھوڑتے ہیں وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔
جس شخص کو تھوڑے سے تھوڑا تعلق بھی اﷲ سے ہے وہ تعلق باﷲ کہلا سکتا اور اسی سے بڑھتے بڑھتے ترقی ہو سکتی ہے۔ ہوشیار بڑھئی جس وقت لکڑی پھاڑنے لگتا ہے تو وہ لوہے کا پتلا حصّہ اس میں گاڑنا شروع کرتا ہے اور جُوں جُوں اس پر ہتھوڑا پڑتا جاتا ہے اسی قدر موٹا حصّہ لکڑی میں داخل ہوتا جاتا ہے۔ حتّٰی کہ وہ لکڑی کو پھاڑ ڈالتا ہے۔ اسی طرح جب انسان کے دل میں یہ بات ہو کہ وہ سمجھے اُسے خدا سے محبت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ خدا کے قُرب کی کوشش کرے تو اس کو ایک حد تک تعلق باﷲ حاصل ہے۔ جس طرح لکڑی میں لوہا گڑ جاتا ہے بعینہٖ اسی طرح جس کے دل میں خدا کے ملنے کی تڑپ گڑ جاتی ہے۔ وہ محبت ان تمام روکوں کو جو اس کے رستہ میں ہوتی ہیں دُور کرتی چلی جاتی ہے۔
لیکن جو لوگ تعلق باﷲ اسی کو کہتے ہیں کہ خدا ہر وقت سامنے رہے اس میں شُبہ نہیں کہ یہ بھی تعلق باﷲ کے بڑے درجوں میں سے ایک درجہ ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اگر یہ نہ ہو تو ابتدائی درجات کو چھوڑدیا جائے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ جب حضرت صاحب روٹی کھاتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ کسی اور ہی خیال میں ہیں۔ چھوٹا سا روٹی کا ٹکڑا توڑ کر اس کو انگلیوں میں ملتے جاتے اور ریزہ ریزہ کرتے جاتے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ آپ نہیں بلکہ آپ کی انگلیاں کھا رہی ہیں اور چھوٹا سا ٹکڑا مُنہ میں ڈالتے۔ اس وقت آپ کی زبان پر اکثر آہستہ آہستہ جس میں ہونٹ ہلتے ہوئے نظر آتے اور کبھی ذرا بُلند آواز میں سبحان اﷲ سبحان اﷲ ہوتا جس کو آپ کے پاس بیٹھنے والا ہی سُنتا تھا۔ اس سے معلوم ہؤا کہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ وہ خواہ کسی کام میں ہوں خدا کی طرف ان کی نظر ہوتی ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل حضرت مرزا مظہر جان جانان دہلوی کا ذکرسُنایا کرتے تھے۔ ان کے ایک مُرید مولوی غلام علی صاحب بٹالوی تھے۔ مرزا مظہر جان جانان کے لئے ایک دن لڈو آئے اور اُنہوں نے مولوی غلام علی کو دیئے جنہیں اُنہوں نے کھالیا۔ کچھ دیر بعد ان سے دریافت کیا کہ لڈو کہاں ہیں؟ اُنہوں نے کہا کھا لئے۔ آپ حیران ہوئے کہ ہیں کھا لئے۔ اُنہوں نے کہا ہاں کھا لئے۔ کہا دونوں۔ کہا ہاں۔ اس پر آپ جب بہت حیران ہوئے تو اُنہوں نے کہا کہ کس طرح کھانے چاہئیں تھے۔ فرمایا کسی دن بتائیں گے۔ اتفاق سے ایک دن پھر لڈو آئے تو ایک لڈو کا چھوٹا سا ٹکڑا توڑ کر خدا تعالیٰ کی تعریف شروع کر دی کہ خدا کیسا مہربان ہے کہ اس نے مظہر جان جاناں کے لئے اتنا سامان کیا۔ اس لڈو میں میٹھا ہے، میدہ ہے، وہ کہاں سے آیا اور کتنے آدمیوں نے بنایا؟ خدانے میرے لئے کتنے آدمیوں کو کام میں لگایا۔ اسی طرح خداکی نعمتوں کا اتنا ذکر کیا کہ ظہر سے عصر کا وقت ہو گیا اور اذان سُن کر کہا چلو نماز پڑھیں۔ یہ جو کچھ اُنہوں نے کیا سکھانے کے لئے کیا کہ خدا کی نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے خدا کے احسانات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دُنیا کے کاموں میں نظر آتے ہیں مگر خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے مگر یہ درجات اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب رُوحانیت کی ابجد پڑھی جائے۔
غرض تعلق باﷲ کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان محسوس کرے کہ مجھے اﷲ سے پیار ہے۔ مجھے اﷲ تعالیٰ مِل جائے۔ جب اس کی یہ حالت ہو تو گویا اس نے روحانیت کی ابجد پڑھ لی۔ دوسرا قدم وہ قاعدہ ہے کہ اگر اس کی پابندی کرے تو اس کے لئے کامیابی کے رستے کھلتے ہیں اور یہ گویا وہ حالت ہے کہ جب ابجد پڑھنے کے بعد حروف ملا کر الفاظ پڑھنے آتے ہیں اور وہ یہ کہ تعلق باﷲ میں جب اﷲ کے مقابلہ میں خواہ کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی آجائے تو خدا کے مقابلہ میں اس کو قُربان کر دے۔ تجارت ہو، زراعت ہو، اولاد ہو، حکومت ہو، عزت ہو، جاہ وحشمت ہو، علوم ہوں۔ غرض کہ کوئی چیز ہو اگر خدا کے نام کے آگے آجائے تو قُربان کر دینے کا تہیہ ہو۔
غرض پہلا درجہ خدا کی محبت کا احساس ہے اور دوسرا دُنیاکی ہر ایک بڑی سے بڑی چیز کا اس کے لئے قُربان کرنے کے لئے آمادگی اور اس کا ثبوت۔ اس وقت گویا یہ خدا کی محبت میں دم بدم ترقی پر ہو گا۔ اگر اﷲ چاہے تو کوئی چیز اس کے لئے روک نہیں ہو سکتی۔
اس سبق کو یاد رکھو اور مایوسی سے بچو۔ اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کو مایوسی سے بچائے اور ترقی اور کامیابی کی طرف چلائے۔’’ (الفضل 15جولائی 1920ء)



91
عبداﷲ بنو
(فرمودہ 16جولائی1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’چونکہ آج وقت میں دیر ہو گئی ہے اس لئے مَیں مختصر الفاظ میں خطبہ کا مضمون بیان کرتا ہوں مگر اس اختصار سے مضمون کو مختصر خیال نہ کرو۔ گو مَیں نے بار بار اس مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے مگر بار بار دُہرانا کسی چیز کی اہمیت کو کم کرتا ہے نہ ضرورت کم ہوتی ہے بلکہ ضرورت کم اسی وقت ہوتی ہے جب ضرورت پوری ہو جائے۔ محض علاج کرنے سے دواکی ضرورت کم نہیں ہوتی۔ اگر پچاس دفعہ دوائی پلانی پڑے تو اس کی ضرورت اور اہمیت کم نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ مَرض دُور ہو جائے۔ جب بیماری دُور ہوگی تو دوائی کی ضرورت بھی کم ہو گی۔
مَیں جس مضمون کے متعلق توجہ دلاتا ہوں اس کی ضرورت بھی کم نہیں ہوئی۔ وہ ایسی اہم بات ہے کہ ایک مُسلم کے اوّلین فرضوں میں سے ہے۔ وہ ضرورت کیا ہے؟ وہی ضرورت ہے جس کے پورا کرنے کے لئے انسان پیدا کیا گیا۔ جیسا کہ فرمایا وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 1 انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ عبد بنے مگر عبد بننے کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ خود نماز پڑھے، روزہ رکھے بلکہ ضروری ہے کہ خود بھی عبد بنے اور دوسروں کو بھی عبد بنائے۔ تب عبداﷲ بن سکتا ہے۔ غور کرو ایک بادشاہ کے مُلک میں باغی چڑھے آرہے ہوں اور اس کے دارالخلافہ کی طرف دم بدم بڑھ رہے ہوں۔ اس وقت رعایا کے لوگ وفد بنا کر بادشاہ کے پاس بھیجیں اور اس کو اطمینان دلائیں کہ ہم حضور کے وفادار ہیں مگر بیٹھے رہیں تمام اپنے گھر میں۔ کیا بادشاہ ایسی رعایا کو وفادار یقین کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ وہ یہی کہے گا کہ یہ تمام باغی ہیں اور دُشمن سے ساز باز رکھتے ہیں۔
پس اسی طرح اﷲ کے عبد کے یہ معنے نہیں کہ خود ہی عبادت کرے بلکہ یہ معنے ہیں کہ دوسروں کو بھی حلقہ عبودیت میں لائے۔ اگر غیروں کی شرارت کو دیکھ کر یہ نہیں چاہتا کہ ان سے شرارت چھڑائے اور سازش کرنے والوں کے خلاف اُنگلی بھی نہ ہلائے تو یہ جھُوٹا عبد ہو گا۔ پس انسانی پیدائش میں یہ بھی غرض ہے کہ ایک انسان دوسرے گمراہ انسانوں کو اﷲ تعالیٰ کی طرف بُلائے۔
بار بار اس امر پر توجہ دلائی جاتی ہے مگر ہزاروں احمدی ایسے ہوں گے جن کے ذریعہ اب تک ایک بھی احمدی نہ ہؤا ہو گا۔ اگر خدا کے دربار کے باغیوں کو وفاداری کی طرف نہیں بُلاتے، اگر فتنہ پردازوں کا فتنہ دُور کرنے کی سعی نہیں کرتے تو ہمیں حق نہیں کہ ہم کہیں کہ ہم عبد ہیں کیونکہ جب تک عملی طور پر وفاداری کا ثبوت نہ دیا جائے اس وقت تک وفاداری کا دعویٰ صرف مُنہ کا دعویٰ ہے۔ بادشاہ کے ساتھ فریب ہے یا اپنے نفس سے فریب ہے یا دُنیا کو فریب دیا جاتا ہے۔
مَیں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس موقع کو ضائع نہ کریں۔ جس وقت بارش ہوتی ہے تو بارش کے بعد زمین نرم ہو جاتی ہے۔ دانا زمیندار اس پر ہل چلاتا ہے لیکن اگر وہ اس وقت کو یونہی گزر جانے دے تو اس کے لئے بجز افسوس کے اور کچھ نہیں۔ انبیاء و مرسلین کے زمانے روحانی بارشوں کے زمانے ہوتے ہیں جس کے بعد دلوں کی زمینیں نرم کی جاتی ہیں اور قبولیت کے لئے دل تیار کئے جاتے ہیں۔
دو قسم کی زمینیں ہوتی ہیں ایک نرم دوسرے سنگلاخ۔ جو زمینیں مٹی کی ہوتی ہیں وہ بارش سے نرم ہو جاتی ہیں اور دوسری وہ ہوتی ہیں جو پتھریلی ہوتی ہیں۔ پتھر پر خواہ پچاس بارشیں ہوں وہ پتھر ہی رہتا ہے۔ پس جو زمین نرم اور طین ہوتی ہے بارش اس کو نرم کرتی ہے اور جو پتھر ہوتے ہیں ان کے لئے زلزلے آتے ہیں اور ان کو آگ کے ذریعہ پگھلایا جاتا ہے اور چُور چُور کر دیا جاتا ہے۔ دونوں کے لئے خدا کے مُرسلین آنے میں سامانِ ہدایت ہوتے ہیں۔ پہلوں کے لئے خدا کی وحی اور کلام جس سے نرم دل فائدہ اُٹھاتے ہیں اور دوسروں کے لئے عذاب اور زلزلے۔ اِس وقت یہ دونوں باتیں حاصل ہیں۔ ہم میں ایک خدا کا نبی آیا اس لئے ہمارا زمانہ ایک نبی کا زمانہ ہے جبکہ دلوں کی زمینیں نرم کی گئی ہیں اور پھر خدائی عذابوں نے بھی پتھر دلوں کو نرم کر دیا ہے۔ ایسے وقت میں ہی جو منافع حاصل کیا جائے وہی حاصل ہو سکتا ہے اور اگر اس وقت کو یونہی چھوڑ دیا تو وہی حال ہو گا جیسا کہ جب زمین سخت ہو جاتی ہے تو اس پر ہل ٹوٹ جاتا ہے۔ پس ہمیں اس زمانہ سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور اس وقت بیج بونا چاہئے تاکہ ایک اﷲ کے پرستار پیدا ہوں۔ اگر یہ موقع نِکل گیا تو ہم خدا کو کیا مُنہ دکھائیں گے۔ قادیان میں ایسے لوگ ہیں جو ابھی تک سلسلہ سے الگ ہیں اور قادیان کے تین تین چار چار میل اِردگرد اس قسم کے دیہات ہیں جہاں اس وقت تک ایک بھی احمدی نہیں اور بعض اس قسم کی جگہیں ہیں جہاں احمدی ہیں تو سہی مگر وہ احمدی برائے نام ہیں۔ وہ اسی طرح دُنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ان کی اصلاح بھی ضروری ہے۔
پس اس وقت ہمارے سامنے تین کام ہیں۔
(1) وہ لوگ جو برائے نام جماعت میں ہیں مگر درحقیقت جماعت میں نہیں ان کی اصلاح۔
(2) وہ لوگ جو اسلام کو قبول کئے ہوئے ہیں مگر تاحال اُنہوں نے اپنے زمانہ کے نبی کی شناخت نہیں کی۔ ان کو اس نبی کے حلقۂ اطاعت میں لانا۔
(3) ان کے علاوہ وہ لوگ جو سرے سے اسلام کو گالیاں دیتے ہیں ان کو اسلام کی طرف لانا۔
ان تینوں کی اصلاح کا یہی زمانہ ہے اور ان کی اصلاح کے خدا نے سامان پیدا کئے ہوئے ہیں۔ بد عملی اور قساوتِ قلبی کے دُور کرنے کے لئے عذاب بھی خدا کی طرف سے موجود ہیں اور خدا کا کلام لوگوں کے اطمینان کے لئے موجود ہے اور خدا کی طرف سے دلائل کی بارش بھی ہو گئی ہے۔ اس سے بہتر زمانہ کون سا ہو سکتا ہے۔ پس وقت کی قدر کرو اور اس سے فائدہ اُٹھاؤ۔ ایسا نہ ہوکہ وقت گزر جائے اور تمہیں علم بھی نہ ہو کیونکہ اگر وقت گزر گیا تو تمام کوششیں بے کار ہوں گی۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی راہ میں سعی کی توفیق عطا کرے اور اس کے نیک ثمرات پیدا ہوں۔‘‘
(الفضل 26جولائی 1920ء)
1: الذٰریٰت:57


92
حرکت میں برکت ہے
(فرمودہ 23جولائی 1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''انسانی حالت بلکہ ہر ایک چیز کی حالت دو باتوں سے کبھی خالی نہیں ہوتی۔ یا تو اُوپر کو جاتی ہو گی ترقی کر رہی ہو گی یا تنزل کی طرف جارہی ہو گی۔ ان دونوں حالتوں کے علاوہ کوئی تیسری حالت نظر نہیں آتی۔ وہ حالت جو کھڑی اور ٹھہری ہوئی کہلاتی ہے درحقیقت کوئی حالت نہیں۔ قدرت نے انسان اور تمام موجودات میں حرکت رکھی ہے۔ ہر ایک چیز کا ہلنا آگے کی طرف ہو گا یا پیچھے کی طرف۔ کھڑی رہنے والی کوئی چیز نہیں۔ جو چیز ہمیں کھڑی نظر آتی ہے وہ ہماری نظر کی غلطی ہے۔ ہم اس کی حرکت کو سمجھ نہیں سکتے۔ ورنہ وہ ترقی کر رہی ہے یا تنزل۔ ہر آن انسان ترقی کر رہا ہو گا یا تنزل۔ یا کامیابی کی طرف جا رہا ہو گا یا ناکامی کی طرف، یاعلم حاصل کر رہا ہوگا یاجہالت کی طرف لوٹ رہا ہو گا۔ باریک در باریک ذرائع سے اس کے اندر حرکت ہوتی ہے حتّٰی کہ وہ خود نہیں سمجھتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری شریعت نے بچّہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دینا مقرر فرمایا ہے۔1 بچّہ اس وقت اس اذان کو نہیں سمجھتا مگر خالقِ فطرت جانتا تھا کہ یہ وقت ہے کہ اس میں ایک حرکت ہے جس کو یہ نہیں جانتا مگر وہ حرکت بُری بھی ہو سکتی ہے، اچھی بھی۔ اس لئے ایسی حالت میں ایک ایسی حرکت اس کو دی گئی ہے جو اچھائی کی طرف لے جانے والی ہے۔ اس بات کو جہالت کی بات سمجھا جاتا تھا۔ جب تک دُنیا نے ان علوم کو معلوم نہ کر لیا بچہ کے کان کی اذان کو رسم کہا جاتا تھا لیکن علوم نے نِکل کر بتا دیا کہ یہ بات حکمت کی بات تھی اور یہی بات رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیرہ سو سال قبل خدا سے علم پاکر بتا دی تھی۔
پس یہ ایک مسلّمہ اور ثابت شُدہ بات ہے کہ انسان ہر وقت حرکت میں رہتا ہے۔ وہ حرکت خواہ جہالت کی طرف ہو خواہ علمی میدان کی طرف اور اس کے اسباب و محرکات بھی ہوتے ہیں۔ گو وہ مخفی ہوں اور جن کو وہ شخص جس میں تغیر ہو رہا ہے نہ جانتا ہو اور درحقیقت بعض اوقات وہ تغیرات اور وہ حرکات جو صادر ہوتی ہیں اس قدر باریک ہوتی ہیں کہ انسان ان کا پتہ نہیں لگا سکتا۔ ہاں ممکن ہے کہ اس قسم کے آلات نکال لئے جائیں جن سے اس تغیر کا پتہ لگ جایا کرے۔
اس کے ماتحت اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہم کھڑے نہیں تھے بلکہ ہِل رہے تھے۔ یا ہم ترقی کی طرف جارہے تھے یا تنزل کی طرف۔ بدی کی طرف ہمارا قدم اُٹھ رہا تھا یا نیکی کی طرف۔ پس جب ایسی حالت ہے تو ہم ہر وقت خطرے میں ہیں۔ اس لئے بہرحال کوشش میں مصروف رہنا چاہئے کہ کسی وقت نادانی سے اُلٹے نہ چل پڑیں اور ہمیں علم بھی نہ ہو۔ جب دیکھیں تو معلوم ہو کہ ہم تنزل کی طرف جارہے تھے اور بغیر علم کے تباہی میں پڑ جائیں۔ ضرورت ہے کہ ہوشیاری کے ساتھ آگے کی طرف قدم بڑھائیں، پیچھے کی حرکت سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہم آگے کی طرف جائیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ایک حالت پر رہتا ہے اس کا ایمان خطرے میں ہے کیونکہ ممکن ہے آگے کی طرف بڑھ رہا ہو یا پیچھے کی طرف جارہا ہو اور اگر پیچھے کو ہٹ رہا ہو تو ایک وقت آئے اور اس کا ایمان ضائع ہو جائے۔ ایمان کے بچانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ترقی کی طرف جارہا ہو۔ پس مومن کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ایمان اور اعمال میں ہمیشہ بڑھتا رہے۔
ایک خاص امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ 2 دُنیا میں اعمال چند قسم کے ہوتے ہیں۔ مالی قُربانی ، جانی قُربانی، عزت کی قُربانی، دماغی قُربانی وہ بھی جسمانی قُربانی کا ایک حصّہ ہے۔ دراصل یہ تین ہی قُربانیاں ہیں۔ مالی قُربانی، جسمانی قُربانی، عزت کی قُربانی۔ باقی تمام قُربانیاں اس کے نیچے آجاتی ہیں۔ ان میں سے جس قُربانی میں کمی کی جائے اسی کی کمی کے باعث ذلیل ہونا پڑے گا۔
ہماری جماعت بھی ایک خدمتِ عظیم کے لئے کھڑی ہوئی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ دُنیا میں ایک تغیّر پیدا کردے گی۔ اس وقت ہماری مثال ظاہری نظروں میں ایسی ہے جیسی کہ اس جانور کی جو رات کو ٹانگیں اوپر کر کے سوتا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تو اس طرح کیوں سوتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ساری دُنیا تو سو جاتی ہے۔ مَیں اس لئے اس طرح سوتا ہوں کہ اگر رات کو آسمان گر پڑے تو مَیں اس کو اپنی ٹانگوں پر اُٹھالوں اور لوگ نیچے سے نِکل کر بچ جائیں۔ یہ ایک لطیفہ ہے۔ ہماری حالت اور اس میں فرق یہ ہے کہ یہ ایک لطیفہ ہی ہے اور ہمارے ساتھ خدا کا وعدہ ہے کہ اگر ہم اس کی راہ میں کوشش کریں تو ہم خدا کے فضل سے آسمان کو اُٹھانے کے قابل ہو جائیں گے۔ اس لئے ہمیشہ غور کرنا چاہئے کہ ہم کدھر جارہے ہیں؟ وہ لوگ بڑی غفلت میں ہیں جو کہتے ہیں کہ ذرا آرام کر لیں کیونکہ یہاں مومن کے لئے آرام کرنے کی جگہ نہیں۔ درحقیقت روحانی کامیابی کی مثال چِکنی جگہ کی ہے کہ اگر ٹھہرا تو نیچے کو گیا ۔جن لوگوں کو پہاڑ دیکھنے کا اتفاق ہؤا ہے وہ جانتے ہیں کہ بعض پہاڑی راستوں پر پتے گِر گِر کر چکنے ہو جاتے ہیں۔ ان پر اگر آدمی تیزی سے سیدھا آگے چلتا چلا جائے تو چل سکے گا ورنہ پھسلنے لگے گا۔ پس رُوحانی حالت بھی ایسی ہے کہ جب تک چلتا جائے محفوظ ہے اور اگر یہ خیال کرے گا کہ ذرا سستا لوں تو سمجھو کہ گیا۔ یہ وہ راستہ ہے کہ اس میں کوئی پڑاؤ نہیں۔ اس کا پڑاؤ وہی ہے جو منزلِ مقصود ہے۔
ہماری جماعت کی یہ حالت مالی قُربانی میں نظر آتی ہے اور مالی قُربانی ہی ایک ایسی چیز ہے جو نظر آتی ہے کیونکہ اس کے رجسٹر رکھے ہوئے ہیں۔ اَور تو کوئی چیز نہیں جس کے رجسٹر ہوں۔ اسی سال مَیں نے دیکھا کہ بعض وہ اضلاع جن کا روپیہ سلسلہ کے کاموں میں زیادہ خرچ ہوتا ہے ان میں اس دفعہ مسجد لندن کے چندے کے بعد سُستی ہو گئی ہے۔ قادیان والے بھی سُستی کرتے ہیں۔ جس جوش سے چندے لکھوائے تھے ان میں بعض رقمیں ادا نہیں ہوئیں۔ پس سب سے پہلے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو روحانی سفر میں ٹھہرتا ہے وہ جان کھوتا ہے اس کے بعد باہر کی جماعتوں کو اسی خطبہ کے ذریعہ مخاطب کرتا ہوں کہ وہ سُستی کو چھوڑ دیں۔
بعض بڑی بڑی جماعتیں سیالکوٹ، لائل پور، سرگودھا، شاہ پور، حیدر آباد دکن، گورداسپور ان میں سے بعض جماعتیں تو وہ ہیں جو نئی آبادی کے باعث زیادہ مالی قُربانی کر سکتی ہیں۔ بعض علاقوں میں جماعت کی کثرت ہے اور بعض میں جماعت کے آدمی آسودہ ہیں مثلاً حیدرآباد۔ پس مَیں سب سے پہلے قادیان والوں کو نصیحت کرتا ہوں اور پھر باہر والوں کو اسی خطبہ کے ذریعہ جو اخبار کے ذریعہ اُن تک پہنچ جائے گا کہ یہاں ٹھہرنا اور سُستی کرنا بہت خطرے کا مقام ہے۔ جو ٹھہر گیا وہ نیچے کی طرف جائے گا۔ پہاڑ پر سے گرے تو تحت الثریٰ میں گرنے کے سوا ٹھہرنا مُشکل ہے۔ پس یہ خطرہ کا مقام ہے۔اﷲ تعالیٰ آپ کو اس کے سمجھنے کی توفیق دے اور ہمارقدم ٹھہرا ہؤا قدم نہ ہو بلکہ آگے کی طرف بڑھنے والا قدم ہو۔‘‘
(الفضل 29جولائی 1920ء)
1: ابو داؤد ابواب النَّوْم باب فی الْمَوْلُوْدِ یُؤَذّنُ فِی اُذُنِہٖ
2: اٰل عمران: 93



93
اعلیٰ اخلاق اپناؤ اور کامِل اطاعت کرنا سیکھو
(فرمودہ 30جولائی 1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مذہب بیشک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے مگر مذہب کا مفہوم جو عام لوگ سمجھتے ہیں وہ اعلیٰ نہیں وہ دین و دُنیا میں، نہ رُوحانی اور جسمانی عالم میں کچھ بھی مفید نہیں۔ وہ مفہوم کیا ہے جو عام لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔ وہ یہ ہے کہ چند رسوم کے ادا کرنے کو مذہب کہتے ہیں۔ ایسا مذہب نہ تو دُنیا ہی کے لئے مُفید ہو سکتا ہے نہ خدا تعالیٰ تک پہنچا سکتا ہے۔ اگر وہ رسوم نہ ہوں تو کیا کمی آجائے اور اگر ہوں تو کیا زیادتی ہو۔ اگر ان کو ادا کیا جائے تب بھی انسان خدا سے دُور ہی رہتے ہیں اور اگر نہ کی جائیں تب بھی دُور۔ پس ایسے مذہب کے لئے جو دین و دُنیا میں کچھ بھی مفید نہیں کوشش کرنا اپنی کوششوں اور سعیوں کو ضائع کرنا ہے لیکن درحقیقت مذہب اس کا نام نہیں بلکہ ان امور کا نام مذہب ہے جن سے روحانی اورجسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ روحانیت اور جسمانیت دونوں کو صفائی ملتی ہے اور روحانی اور جسمانی امن ملتا ہے لیکن اگر یہ دونوں طرح کا امن نہیں ملتا تو کچھ نہیں اور جس مذہب میں یہ نہیں وہ سچا مذہب نہیں مگر دلائل کی رُو سے جو مذہب سچا ثابت ہو گیا ہے اس سے یہ دونوں باتیں حاصل نہیں ہوتیں۔ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس پر اس کے حسبِ منشاء عمل نہیں کیا جاتا۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے مذہب ایسے قواعد و اُصول کا نام ہے جن سے رُوح اور جسم کو امن ہو لیکن بہت ہیں جو بعض رسوم کا نام مذہب رکھتے ہیں۔ بعض صرف ان رسوم کے ماننے والوں کا نام حاصل کر لینے کو مذہب قرار دیتے ہیں۔ یہ تینوں قسم کے لوگ مذہب سے دُور ہیں۔ یاد رکھو نماز پڑھنے کا ہی نام مذہب نہیں، روزہ رکھنے کا ہی نام مذہب نہیں، حج کرنے کا ہی نام مذہب نہیں بلکہ یہ مذہب کے جزو ہیں اور مذہب کا جو مُدعا اور غرض ہے اس کے حصول میں مُمد ہیں۔ مذہب وہ ہے جو ان سب چیزوں پر حاوی ہے جو لوگ انہی باتوں پر کفایت کرتے ہیں وہ درحقیقت اپنی عمروں کو ضائع کرتے ہیں۔
پس اس شخص کے لئے جو مومن بننا چاہتاہے ضروری ہے کہ وہ اس اصل غرض کو جو مذہب کی ہے سمجھے اور اس کو پورا کرے۔ اعتقادات کو درست کرے اور اعمال کو بجا لائے اور اخلاقی تعلیم پر بھی کار بند ہو۔
اگر کوئی شخص دوسروں سے اچھے تعلقات نہیں رکھتا۔ ذاتی خیالات میں پاکیزگی حاصل نہیں کرتا، اپنے اخلاق کو درست نہیں رکھتا تو اس کی نماز بے سُود ہے اور جو شخص نماز اور دوسرے اعمال کو چھوڑ کر صرف ''دل کی نماز'' ہی پڑھتا ہے وہ بھی بے دین ہے۔ نہ تو وہ شخص دیندار ہے جو رات دن نمازیں تو پڑھتا ہے مگر اخلاق اور معاملات میں بہت گرا ہؤا ہے اور نہ وہ شخص دیندار ہے جو اخلاق ہی کو دین سمجھا ہے اور نماز روزہ جو احکامِ شرعی ہیں ان کو چھوڑتا ہے۔ دیندار وہی ہے جو اِدھر اﷲ تعالیٰ کے حقوق بجا لاتا ہے اور اُدھرمخلوق کے حقوق کو پورا کرتا ہے۔
مگر بہت ہیں جو دین کو چند رسوم کا مجموعہ سمجھے ہوئے ہیں اور افسوس ہے کہ ہماری جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں ۔ کئی ہیں جو نمازوں میں سُستی کرتے ہیں لیکن نمازوں میں سُستی کرنے والوں کی نسبت ایسے زیادہ ہیں جو نمازوں میں تو باقاعدہ ہیں مگر اخلاق میں بہت پیچھے ہیں اور کمی کو دُور کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ حالانکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر ایک شخص سے زنا بھی سرزد ہو جائے مگر وہ کوشش کرتا ہو کہ اس گناہ سے بچے اور اپنی غلطی کا احساس کرے تو وہ ایماندار اور مومن ہے۔ تو جو شخص بدی کو بدی سمجھتا ہے وہ باوجود اس کا ارتکاب کرنے کے اتناگنہگار نہیں اور ایمان سے اتنادُور نہیں جتنا وہ شخص جو گناہ کا احساس ہی نہ رکھتا ہو اور اس سے بچنے کی کوشش بھی نہ کرتا ہو۔ اسی طرح اگر ایک شخص میں کوئی اخلاقی نقص ہے مگر وہ اس کو نقص سمجھتا ہے۔ نماز، روزہ میں سُست ہے مگر وہ اس کو غلطی مان کر شرمندہ ہوتا ہے تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی شخص مثلاً بدزبانی کا مرتکب ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اس فعل سے شرمندہ نہیں ہوتا تو اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا کیونکہ جس مرض کا احساس ہو اسی کا علاج ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی مریض علاج کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک مرض وہ ہوتا ہے جس کا احساس نہیں ہوتا اور جو آہستہ آہستہ اپنے پاؤں جماتا ہے مثلاً دق اور سِل یہ دونوں مرض نہایت آہستگی سے آتے ہیں۔ انسان کو عام طور پر پتہ بھی نہیں لگتا اور وہ مسلول یا مدقوق ہو جاتا ہے اور انہی امراض سے بہت زیادہ موتیں ہوتی ہیں۔ برخلاف اس کے جو مَرض شدّت سے حملہ کرتے ہیں ان میں ایسی ہلاکت نہیں ہوتی۔ طاعون سے جو لوگ ڈرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں شدّت سے حملہ کرتی ہے جس سے اکٹھے کئی لوگ مَرتے ہیں لیکن مرضِ سِل یا دق کا حملہ ایک جگہ پر نہیں، ایک وقت میں نہیں ہوتا بلکہ یہ تمام مُلک پر پھیلتی اور آہستہ آہستہ اپنا کام کرتی ہیں۔ اس لئے ان سے اس طرح لوگ خائف نہیں ہوتے جس طرح طاعون وغیرہ سے یک لخت آدمیوں کے مرنے سے۔ ورنہ امراض کے واقفوں نے تحقیق کی ہے کہ جس قدر اموات سِل اور دق سے دُنیا میں ہوتی ہیں اور کسی مرض سے نہیں ہوتیں۔
اسی طرح اخلاق کی خرابی کا مرض بھی سِل اور دق کا سا ہے جو آہستہ آہستہ آتا ہے۔ مَیں نے اس کے متعلق بار ہا توجہ دلائی ہے مگر اس کی طرف تاحال کافی توجہ نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ مرض خفیہ طور پر آہستہ آہستہ آتا ہے۔ دق وغیرہ اس طرح ہوتی ہے کہ پہلے صبح و شام ذرا کسل ہونا شروع ہؤا یا سردرد ہو گیا۔ اس کو معمولی بات سمجھا جاتا ہے اور اس کا پتہ اسی وقت لگتا ہے جس وقت جسم پر غلبہ پالیتی ہے۔ یہی حال اخلاقی خرابیوں کا ہوتا ہے۔ بچوں میں بد اخلاقی اس وقت پیدا ہونی شروع ہوتی ہے جس وقت کہ ماں باپ اس کے سامنے کوئی بداخلاقی کی بات کرتے ہیں یا جب بچہ کوئی بد اخلاقی کرتا ہے تو وہ ہنس دیتے ہیں اور جب بچوں میں جھوٹ وغیرہ کی عادتیں راسخ ہو جاتی ہیں تو ان کو روکنا شروع کرتے ہیں۔
بڑا نقص جو ہمارے ایشیائیوں میں ہے وہ ہمدردی کی کمی ہے۔ کسی کے دُکھ کو دیکھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں کیا اور یہ عام مرض ہے بلکہ پنجابی میں تو ایک محاورہ بھی بنا ہؤا ہے۔ کہتے ہیں کہ فلاں کیا میرا ''چاچا'' لگتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہمدردی کی حد چچا تک ہی ہے اس کے آگے نہیں لیکن یہ کوتاہی اتنی بڑی کوتاہی ہے کہ انسان کو انسانیت سے گرا دیتی ہے۔ انسانی دل دل نہیں کہلا سکتا جب تک کہ اس میں بنی نوع کی ہمدردی نہ ہو۔ ہمدردی کے بغیر انسان انسان نہیں رہتا بلکہ حیوان کے درجہ پر آجاتا ہے اور حیوانوں میں سے بھی کُتّے کی مثال ان لوگوں کی ہو جاتی ہے کیونکہ بعض لوگ تو وہ ہوتے ہیں جن کو مطلق ہمدردی نہیں ہوتی۔ ان کی مثال بیلوں وغیرہ حیوانوں کی ہوتی ہے ان میں بجائے ہمدردی کے یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی زخمی بیل پڑا ہو تو دوسرا بیل بجائے ہمدردی کے اس میں سینگ مار جائے گا۔ اسی طرح ایک بکری کی بھی یہی کیفیت ہو گی۔ بندر کو بھی کوئی ہمدردی زخمی بندر سے نہیں ہو گی لیکن کُتّے کو ہمدردی ہوتی ہے مگر اپنے ہم جنس سے نہیں بلکہ کُتّا اگر کسی دوسرے کُتّے کو زخمی دیکھے گا تو اُس پر جھپٹے گا۔ ہاں وہ اس انسان سے ہمدردی کرے گا جس نے اُسے رکھا ہو گا۔ تو اسی طرح بعض آدمیوں میں ہمدردی ہوتی ہے مگر اپنی قوم اور اپنی جماعت کے لوگوں سے نہیں بلکہ غیروں سے۔ حالانکہ سب سے پہلے ہمدردی کے مستحق اپنی جنس اور اپنے لوگ ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ایسے لوگوں سے کُتّے بہتر ہیں کیونکہ وہ اپنے سے افضل کی ہمدردی کرتے ہیں مگر یہ لوگ اپنوں کو مرتا چھوڑ کر غیروں کی ہمدردی کریں گے اور اس کی غرض یہ ہو گی تاکہ لوگ انہیں بڑا ہمدرد کہیں۔ مسلمان حاکم ہوں گے محض وسیع القلب کہلانے کے لئے انصاف اور عدل کو بھی چھوڑ دیں گے اور مسلمانوں کے خلاف فیصلہ دے دیں گے تاکہ لوگ کہیں یہ بڑے وسیع القلب اور غیر متعصب ہیں۔ ایسے لوگ کُتّے سے بھی بد تر ہوتے ہیں۔
یہ تو غیروں کا حال ہے لیکن ہم میں بھی ایسے ہیں بلکہ قادیان میں پائے جاتے ہیں جن میں ہمدردی کی کمی ہے اور ان کو آپا دھاپی اور نفسا نفسی لگی رہتی ہے۔ اگر ان کی یہی کیفیت رہے گی تو قیامت کو شفاعت کرنے والے ان کے متعلق کہہ دیں گے کہ ہمیں تمہاری شفاعت کی کیا پڑی ہے۔ ہاں جو یہاں نفسا نفسی میں مُبتلا نہیں دوسروں کی ہمدردی کرتے ہیں ان کے لئے وہاں بھی شفاعت کرنے والے شفاعت کریں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ مَیں بھُوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ دیا، مَیں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا نہ دیا، مَیں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا اور مَیں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہ کی۔ بندے کہیں گے کہ خداوند! تُو کب بھُوکا تھا کہ ہم نے تجھ کو کھانا نہ دیا ، تُو کب ننگا تھا کہ ہم نے لباس نہ دیا ،تُو کب پیاسا تھا کہ ہم نے پانی نہ دیا، تُو کب بیمار تھا کہ ہم نے تیری عیادت نہ کی؟ اﷲتعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بھُوکا تھا، فلاں ننگا تھا، فلاں پیاسا تھا اور فلاں بیمار تھا تم نے اس سے بے توجہی کی تو گویا مجھ ہی سے کی۔ 1
پس جو لوگ دُنیا میں نفسا نفسی میں ہی پڑے رہتے ہیں قیامت کے روز ان سے بھی نفسا نفسی کا معاملہ ہو گا۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ان کی تازہ مثال ہم میں موجود ہے۔ ایک شخص کی لڑکی فوت ہو گئی۔ وہ اکیلا اس کا جنازہ لے کر گیا اور راستہ میں دو ایک آدمی اور مِل گئے۔ یہ کیوں ہؤا؟ اس لئے کہ مَیں بوجہ بیماری کے اس جنازے کے ساتھ نہ جاسکا۔ میرا قاعدہ ہے کہ سوائے بیماری کے میں حضرت صاحب کے پُرانے دوستوں کے جنازوں اور غریبوں کے جنازہ کے ساتھ ضروری سے ضروری کام چھوڑ کر بھی جاتا ہوں اور ان کے جنازوں کے ساتھ جن کے متعلق میں جانتا ہوں کہ ان کے ساتھ جانے والا کوئی نہیں یا مسافروں کے جنازہ کے ساتھ۔ محلہ والوں کا فرض تھا کہ اس کے جنازہ کے ساتھ شامل ہوتے کیونکہ اگر کوئی امیر بھی ہو تو اس کا جنازہ خود بخود گاڑی میں نہ چلا جائے گا یا فرشتے اُٹھا کر قبرستان میں نہ لے جائیں گے بلکہ لوگ ہی ہوتے ہیں جو جنازہ اُٹھا تے ہیں لیکن اگر کوئی کسی کی میّت کے اُٹھانے میں شامل نہیں ہو گا تو اگر اس کے ہاں کوئی واقعہ ہو تو پھر اس کا کیا حق ہے کہ دوسرے اس کے ہاں جائیں۔ اس صورت میں اس کو شکایت کا کوئی حق نہ ہو گا۔ اس قسم کی کوتاہیاں چھوڑ دو اور خدا کے لئے اور اس کے قُرب کے لئے اس کی مخلوق سے ہمدردی کرو، اخلاق سیکھو، نرم کلامی سیکھو تاکہ خدا کی رضا تم کو حاصل ہو۔
(حضور جب دوسرے خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ :)
مَیں نے دوستوں اور طبیبوں کے مشورہ کے ماتحت کل ایک مہینہ کے لئے باہر پہاڑی مقام پر جانے کا ارادہ کیا ہے۔ مَیں اس امر کا بھی اعلان کر دیتا ہوں کہ میرے پیچھے انتظامی امور میں قادیان کی جماعت کے امیر مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور میری جگہ نماز مولوی سیّد سرورشاہ صاحب پڑھایا کریں گے۔
مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کی اطاعت کریں۔ اطاعت دُنیاوی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے اور دین کے لئے تو ہے ہی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی أَمِیْرِی فَقَدْ عَصَانِیْ 2 کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔ یہی حال حضور کے خلفاء اور ان کے مقرر کردہ اُمراء کا ہے۔ مَیں نے تجربہ کیا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ خلفاء کی اطاعت کی تو کوشش کرتے ہیں لیکن خلفاء کے مقررکردہ امیر کی اطاعت کا مادہ ان میں کم ہے اور عام طور پر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ان کو کیا حق ہے کہ ہم سے اطاعت کرائیں یا ہم ان کی اطاعت کریں لیکن اگر یہ کہنا درست ہے تو پھرخلفاء کا کیا حق ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ مجھے اور مجھ سے پہلے مولوی صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل) کا کیا حق تھا کہ تم لوگوں نے ان کی اطاعت کی یا میری کرتے ہو۔ یہ سب خدا کے حکم سے ہے۔ تلوار ہمارے پاس نہیں، روپیہ ہمارے پاس نہیں کہ ہم اطاعت کے لئے تمہیں دیتے ہیں اور اس کے ذریعہ ہمارے قبضہ میں آگئے ہو۔ پس تم جو اطاعت کرتے ہو اپنے شوق سے اور خدا کی رضا کے لئے کرتے ہو۔ پھر خلفاء کو چھوڑ کر انبیاء کے متعلق بھی یہی سوال ہوتا ہے کہ ان کو کیا حق ہے۔ انبیاء کی اطاعت ہی خدا کے لئے ہوتی ہے نہ کسی حق کی بناء پر۔
اطاعت سے جو گریز کیا جاتا ہے بالعموم اس کا باعث تکبّر ہوتا ہے اور تکبّرہی وہ پہلی بدی ہے جو دُنیا میں ہوئی۔ دُنیا میں پہلے اِباءو استکبار ہی ہؤا ہے۔ دین کو الگ کر کے اگر دُنیاوی لحاظ سے ہی دیکھا جائے تو ایک ایسی قوم کے لئے جو ترقی کرنا چاہتی ہے اطاعت کے بغیر چارہ نہیں۔ مَیں نے جس طرح اسلام کی تاریخ پڑھی ہے اگر اور لوگ بھی اس طرح پڑھتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی، نکبت و تباہی کا باعث یہی ہے کہ ان میں اطاعت کا مادہ نہ رہا۔ جب اطاعت نہ ہو تو انتظام قائم نہیں رہ سکتا اور جب انتظام قائم نہ رہے تو کوئی قوم حاکم نہیں رہ سکتی۔
مَیں آج ایک راجہ کا سفر نامہ پڑھ رہا تھا جس میں لکھا ہے کہ چین میں اس نے دیکھا کہ امریکن اور اٹالین اور جرمن وغیرہ کی افواج جو چین میں پڑی ہیں وہ روزانہ مصروف رہتی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو آج ہی جنگ در پیش ہے مگر برخلاف اس کے چین کی افواج کی یہ کیفیت ہے کہ اوّل تو ان میں مُلکی لوگ نظر بھی کم آتے تھے اور جو تھے بھی ان کی یہ حالت تھی کہ یورپین افواج کی بارکوں کے سامنے کھڑے نظر آتے تھے اور یورپین افواج کی ورزشوں وغیرہ کو لغو سمجھ کر تماشا کے طور پر دیکھتے تھے۔ اس تمام خرابی کی کیا وجہ تھی؟ یہی کہ وہاں انتظام نہ تھا اور انتظام نہ ہونے کا باعث اطاعت کانہ ہونا تھا۔ جب یہ دونوں چیزیں نہ رہیں تو تمدن نہیں رہتا اورتمدن نہ ہو تو غلامی رہ جاتی ہے۔
جب ہم میں خلافت کی بحث شروع ہوئی تو ایک صاحب نے کہا کہ اگر آپ کی اطاعت آیتِ استخلاف کے ماتحت نہ کی جائے بلکہ یوں کر لی جائے تو کیا آپ بیعت لے لیں گے۔ مَیں نے ان کو کہا کہ آیت استخلاف کی غرض تو یہی ہے کہ مسلمانوں کا کلمہ متحد رہے۔ اگر یہ منشاء دوسری طرح بھی پورا ہو جائے تو کیا حرج ہے۔ پس اطاعت دینی اور دُنیاوی دونوں ترقیوں کے لئے نہایت ضروری اور لا بُدی ہے۔
ہمارا جن سے مقابلہ ہے وہ بہت منظّم ہیں۔ ان میں اطاعت بہت ہے ۔ پس جب تک ہم میں ان سے بڑھ کر انتظام اور اطاعت نہ ہو گی تو ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ہمارے یہاں اوّل تو امیری غریبی چھوٹائی بڑائی کا کوئی سوال ہی نہیں۔ سب بھائی بھائی ہیں لیکن پھر بھی جو افسر ہوتے ہیں بعض دفعہ ماتحت ان کو سلام کرنا ہتک سمجھتے ہیں مگر یورپ والوں کی یہ حالت ہے کہ اگر کوئی فوجی اپنے افسر کوسلام نہ کرے تو شام کو حوالات میں دے دیتے ہیں۔ اس جنگ کے متعلق ایک ایڈیٹر کا بیان مَیں نے پڑھا ہے وہ لکھتا ہے کہ مَیں نے ساری عمر میں جو تلخ تجربہ حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ شروع ہوئی تو مَیں بھی فوج میں بھرتی ہو گیا۔ میرے دفتر کا ایک کلرک بھی اسی میں بھرتی ہؤا۔ کلرک کی جسمانی حالت چونکہ زیادہ اچھی تھی وہ فوجی کاموں کا جلد ماہر ہو کر افسر ہو گیا اور مَیں اس سے نیچے کے درجہ پر اس کا ماتحت رہا۔ ایک دفعہ جب وہ فوجی وردی میں میرے سامنے آیا تو مجھے بہت بُرا معلوم ہؤا۔ آخر مجھے اپنا فرض یاد آیا اور فوجی قانون میرے سامنے آگیا۔ مَیں نے فوراً اس کو فوجی طریق سے سلام کیا اور اس نے بھی اسی طرح جس طرح فوجی افسروں کا طریق ہے میرے سلام کا جواب دیا۔ پس اطاعت کی یہ وہ روح تھی جس نے ان کو اس عظیم جنگ میں کامیاب کرایا۔
یورپ دُنیاوی لحاظ سے ہم سے بہت بڑھا ہؤا ہے۔ پھر اس میں انتظام اور اطاعت وغیرہ بھی بہت ہے۔ ہم یورپ کو اپنا شاگرد بنانا چاہتے ہیں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم میں ان سے بڑھ کر اطاعت اور انتظام ہو۔ یہ مت کہو کہ خدا کا ہم سے وعدہ ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ بیشک خدا کا ہم سے وعدہ ہے لیکن ہمارا بھی تو کچھ فرض ہے۔ ہم کمزور ہیں اور ہماری یورپ کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا ہے۔ اگر یورپ ہمارا شاگرد ہو جو ضرور ہو گا تو یہ خدا ہی کے فضل سے ہو گا اور وہاں انسانی تدبیروں کا کچھ بھی دخل نہ ہو گا لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم اپنے فرض سے غافل ہو جائیں جس کے باعث ہم خدا کے فضلوں کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ پس مَیں آپ لوگوںکو نصیحت کرتا ہوں اور اخبار کے ذریعہ باہر والوں کو بھی کہ وہ اطاعت سیکھیں تاکہ ہماری جماعت جلد سے جلد کامیابی حاصل کرے۔ اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت پر رحم کرے۔''
(الفضل 12اگست 1920ء)
1: صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ باب فضل عیادۃ المریض
2: بخاری کتاب الاحکام باب قولُ اﷲ تعالٰی وَ اَطِیْعُواﷲ (الخ)



94
خدا سے محبت کا دعویٰ
(فرمودہ 24ستمبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’بہت لوگ اس دُنیا میں ایسے ہیں جو بڑے زور شور سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ان کو اس ہستی پر ایمان ہے جو اس دُنیا کی خالق و مالک، اس دنیا کے امور کی منتظم، رحیم، کریم، مہیمن اور محافظ ہے اور بہت لوگ اس دُنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کو اس ہستی سے پیار اور محبت ہے مگر بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اپنے افعال اور اپنے اعمال سے ثابت کرتے ہیں کہ واقع میں انہیں خدا تعالیٰ سے محبت ہے۔
خدا تعالیٰ پر ایمان اور محبت و پیار چُھپی ہوئی چیز نہیں۔ کوئی ایسا راز نہیں کہ انسان اسے پوشیدہ رکھ سکے۔ یہ مال و زر کی طرح پوشیدہ کونوں میں گاڑی نہیں جاسکتی، بینکوں میں جمع نہیں کرائی جاسکتی بلکہ یہ ایک آگ کی طرح ہوتی ہے اور جس جگہ آگ لگی ہو وہاں سے دُھواں اُٹھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کسی گھر کو یا کھلیان کو آگ لگا دو اور پھر اسے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھ سکو۔ یہ تو الگ رہا چولہے میں آگ جلا کر بھی مخفی نہیں رکھی جاسکتی۔ اس کو بھی چھوڑ کر دیئے کی لَو کتنی چھوٹی ہوتی ہے مگر اس سے بھی دھواں نکلتا ہی ہے اور چھت تک پہنچتا ہے۔ پھر موم کی بتی کتنی پتلی ہوتی ہے لیکن اگر متواتر جلاؤ تو گو ظاہر میں دُھواں نظر نہ آئے گا مگر تھوڑے ہی دنوں کے بعد دیکھو گے کہ دیواریں کالی ہو جائیں گی۔ تو جس طرح جہاں آگ لگی ہو وہاں سے دُھواں نہ اُٹھے ناممکن ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ سے عشق ہو اس خدا سے پیار و محبت ہو جو سب سے زیادہ حسین ہے اور پھر کوئی اسے پوشیدہ رکھ سکے،دبا سکے ، ظاہر نہ ہونے دے یہ بھی بالکل ناممکن ہے۔
دلوں کے جذبات کو دبانا بہت زبردست قوت ، بہت زیادہ طاقت اور بہت زیادہ وسعتِ حوصلہ چاہتا ہے اور ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ جذبات کو دباسکے۔ ہم تو دیکھتے ہیں کسی کو ایک گالی کوئی دے تو وہ طیش میں آجاتا ہے، کسی کے ذرا سے اعتراض کرنے پر جسم پھکنے لگ جاتا ہے، معمولی محبت اور پیار پر انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس ہستی سے محبت ہو جو تمام خوبیوں کی جامع ہے جو تمام صفاتِ حسنہ رکھتی ہے اور پھر دبی رہے اور کسی کو پتہ نہ لگے۔ ایک مُلک، ایک شہر، ایک عورت ایک بچہ کی محبت تو ظاہر ہو جائے اور انسان کے اعمال میں اس کے آثارپائے جائیں، مکان کی محبت تو پوشیدہ نہ رہے، عہدہ کی محبت تو دبائی نہ جاسکے، خطاب کی محبت کا تو پتہ لگ جائے، سیاست اور قوم کی محبت تو اپنے آپ کو ظاہر کر دے مگر نہ کرے تو خدا کی محبت ظاہر نہ کرے اور دبی کی دبی ہی رہے۔
میرے نزدیک یہ دعویٰ کرنا کہ خدا تعالیٰ سے محبت ہے مگر اس کے آثار کا ظاہر نہ ہونا ایک مجنونانہ دعویٰ ہے اور جو شخص اس طرح دعویٰ کرتا ہے وہ یا تو خود مجنون ہے یا دوسروں کو مجنون سمجھتا ہے یا پھر اس کی عقل پر ایسا پردہ پڑ گیا ہے کہ اتنی بڑی غلطی کرتا ہے اور سمجھتا نہیں یاوہ ایک بڑا شریر اور بدمعاش آدمی ہے کہ اتنا بڑا جھوٹا دعویٰ کر کے خیال کرتا ہے کہ تمام لوگ پاگل اور مجنون ہیں جو اس کے دعویٰ کو صحیح سمجھ لیں گے کیونکہ جس طرح سر پر آئے ہوئے سورج کا انکار نہیں کیا جاسکتا اس سے بھی واضح طور پر اس کے دعویٰ کا جھوٹا ہونا ظاہر ہوتا ہے اور اس سے زیادہ پاگل اور مجنون کوئی نہیں ہو سکتا مگر دُنیا میں ایسے لوگ ہیں اور ایک نہیں ،دو نہیں، سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں ، کروڑوں پائے جاتے ہیں جس سے یقینا یہ نتیجہ نکلتاہے کہ یا تو دُنیا میں عقل کا معیار ایسا گر گیا ہے کہ اب جو کچھ بھی بے وقوفی کی بات اس کی طرف منسوب کی جائے وہ جائز اور صحیح ہو جاتی ہے یا یہ کہ شرارت اور بدی، عجب اور تکبّر اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ ہر ایک انسان خیال کرتا ہے کہ میرے جیسا عقل مند اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ مَیں جو چاہوں گا دوسروں سے منوا لوں گا۔ ان دو نتائج کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں جو نکلے کیونکہ ہم روزانہ دیکھتے ہیں، صبح و شام دیکھتے ہیں، ایک نہیں دو نہیں، سینکڑوں اور ہزاروں آدمی جو ہمارے سامنے آتے ہیں مختلف پیشے کرتے ہیں، مختلف طرزِ عمل رکھتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں جو بالکل جھوٹا اور باطل دعویٰ ہوتا ہے۔
پس تم خوب یاد رکھو اور اچھی طرح سمجھ لو کہ محبت، پیار اور عشق کوئی ایسی چیز نہیں جو چُھپ سکے اس کا چُھپانا ناممکن ہے اور قطعاً ناممکن ہے۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں ہمیں محبت تو ہے مگر ہم اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ جھوٹ اور فریب ہے۔ حضرت صاحب کے زمانہ میں بعض ایسے لوگ تھے جو آپ کی مجلس میں نہ آتے تھے۔ جب ان پر اعتراض ہؤا تو کہہ دیا ہمیں حضرت صاحب سے محبت تو ہے مگر ہم اسے ظاہر نہیں کرتے۔ آخر ایسے ہی لوگوں کو ٹھوکر لگی۔ تو کبھی ممکن ہی نہیں کہ محبت ہو اور پوشیدہ رہے۔
محبت سب سے غالب ترین جذبہ ہے اور دُنیا میں یہ ایک ہی چیز ہے جو باقی سب طاقتوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ انبیاء جس چیز کو لے کر آئے وہ محبت ہی ہے وہ اسی ہتھیار کو لے کر کھڑے ہوئے اور اسی سے تمام جذباتِ فاسدہ، بغض، حسد، کینہ، شہوت شکست کھا جاتے ہیں۔ کیونکہ محبت وہ جذبہ ہے کہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے میری تمام صفات پر یہ غالب ہے۔ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ 1 یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے مطابق دوزخ کے متعلق بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں بھی غیر محدود عذاب نہیں ہو گا۔ کچھ عرصہ کے بعد دوزخیوں کو بھی نکال لیا جائے گا۔ تو محبت بہت زبردست جذبہ ہے۔ حتّٰی کہ خدا تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں ان میں سے محبت کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے غالب ہے اور انسانوں میں بھی یہ جذبہ باقی تمام جذبات سے زیادہ زبردست ہوتا ہے۔ بڑے بڑے زبردست اور سرکش انسان ہوتے ہیں لیکن محبت کے پھندے میں پھنس کر چُور چُور ہو جاتے ہیں اور وہ جو سرکشی اور غرور کی وجہ سے کسی کے آگے جھکنے کا خیال تک بھی دل میں نہیں لاتے۔ محبت سے مجبور ہو کر غلامی کو فخر سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت عمرو بن العاص کا واقعہ ہے وہ کہتے کہ رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وآلہٖ وسلم کا مجھ جیسا کوئی دُشمن نہ تھا۔ مَیں عداوت اور بغض کی وجہ سے آپ کے چہرہ پر نظر نہ ڈال سکتا تھا اور ہر وقت مجھے اس کی وجہ سے آگ سی لگی رہتی تھی مگر پھر وہ زمانہ آیا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہی محبت، وہی اخلاص اور وہی ہمدردی جس کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ 2 کیا تو اس بات پر اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا کہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ یہ محبت اور اُلفت کا جذبہ جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جان کو دُکھ کی طرح لگا ہؤا تھا غالب آیا اور پھر اسی عمرو نے کہا کہ مَیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے رُعب کی وجہ سے آپ کے چہرہ پر نظر نہ ڈال سکا اور اگر آج کوئی مجھ سے پوچھے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی کیا شکل تھی تو مَیں نہیں بتا سکتا۔3 دیکھو محبت کی وجہ سے کیا تبدیلی ہوئی تو چونکہ محبت سب سے زیادہ زبردست جذبہ ہے اس لئے اس کو پوشیدہ رکھنے کا دعویٰ باطل ہے۔
پس جو شخص خیال کرتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ سے محبت ہے لیکن محبت کے آثار اس سے ظاہر نہیں ہوتے وہ یقین کر لے کہ اس کا نفس اسے دھوکا دے رہا ہے اور جو دیکھے کہ دوسرے کو دعویٰ تو محبتِ الٰہی کا ہے لیکن اس میں آثار نہیں پائے جاتے تو یقین کرلے کہ یا تو وہ خود دھوکا خوردہ ہے یا دوسروں کو دھوکا دینے والا ہے۔
اس بات کو سوچتے ہوئے مَیں اپنی جماعت کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں کو دیکھیں اور پتہ لگائیں کہ خداتعالیٰ کی محبت کا ان کے سونے جاگنے ،اُٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے، کھانے پینے، ، بولنے چالنے، لین دین، نماز ، روزہ، حج، زکوٰۃ پر کیا اثر ہے۔یا یہ نہایت ہی کمزور اور بُودا دعویٰ ہے کہ اس کا کچھ اثر ہی نہیں۔ یا کم سے کم انسان اتنا تو سوچے کہ اگر میرے اعمال اور افعال میں خداتعالیٰ کی محبت کے آثار مجھے نمایاں نظر نہیں آتے تو وہ ہستی جو باریک در باریک باتوں کو جاننے والی ہے۔ اس پر میرے دعویٰ کا کیا اثر ہے۔ وہ خیال کرے کہ مَیں جاہل ہوں، مَیں موٹی عقل کاآدمی ہوں اس لئے میرے دعویٰ کا اثر مجھے محسوس نہیں ہوتا لیکن وہ ہستی جو باریک سے باریک بات کو جانے نہیں دیتی اس کا مجھ سے کیا سلوک ہے؟ آیا خدا تعالیٰ کی صفات میں میرے دعویٰ کے بعد کوئی تغیّر معلوم ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر اس کا دعویٰ سچا ہو گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اﷲ تعالیٰ کو اس سے محبت ہو گی۔ پس انسان کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو دیکھے کہ خدا اس کے لئے غیرت دکھاتا، اس سے اپنے پیاروں جیسا سلوک کرتا، اس سے پیار کی باتیں کرتا، اسکے کام کو اپنا کام سمجھتا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو سمجھے کہ خداکی محبت کا وہ جو دعویٰ کرتا ہے جھوٹا اور بالکل باطل ہے کیونکہ اگر وہ اپنے دعویٰ کے آثار محسوس نہیں کرتا تو خداتعالیٰ کو تو اس کی حقیقت معلوم ہے۔ خدا اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتا لیکن جبکہ خدا تعالیٰ کی صفات سے بھی اس کا اظہار نہیں ہوتا تو معلوم ہؤا کہ دعویٰ ہی باطل ہے۔
مَیں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا اسی بات کے متعلق کہ محبت کا کیا اثر ہوتا ہے۔ مَیں نے دیکھا ایک نہایت خوبصورت چبوترہ ہے۔ اس پر ایک بچہ کھڑا ہے جو محبت سے آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے دیکھ رہا ہے کہ اتنے میں آسمان پھٹا ہے اور ایک پروں والا انسان اُترا ہے اور قریب آنے پرجب مَیں نے دیکھا تو معلوم ہؤا کہ عورت ہے اور خیال ہؤا کہ حضرت مریم ہیں۔ اُنہوں نے بچّہ کے اوپر پَر پھیلا دیئے اور جھک کر اس طرح پیار کیا ہے جس طرح ماں اپنے بچّہ کو کرتی ہے اس وقت میرے مُنہ سے یہ الفاظ نکلے:
LOVE CREATES LOVE
کہ محبت محبت سے پیدا ہوتی ہے۔
تو یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے محبت ہو۔ خواہ وہ کتنی ہی پوشیدہ کیوں نہ ہو اور خدا کو اس سے محبت نہ ہو اور اﷲ تعالیٰ کے سلوک سے اس کے آثار ظاہر نہ ہوں۔ ہم تو دیکھتے ہیں دُنیا میں کوئی انسان محبت جیسی چیز کو ضائع نہیں کرتا۔ تو کیا خدا تعالیٰ جو چھوٹے سے چھوٹے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا وہ محبت جیسی چیز کی کوئی پرواہ نہ کرے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ پس ان لوگوں کو جو خداتعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اوّل اپنی ذات کے متعلق غور کرنا چاہئے کہ اس سے محبت کے کیاآثار ظاہر ہوتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کی صفات کو دیکھنا چاہئے کہ وہ ان کے لئے کس طرح جلوہ فگن ہوتی ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی بے توجہی ہو یا اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہلاکت اور تباہی میں گرفتار ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا خدا کی محبت کا دعویٰ غلط ہے، فریب ہے اور ممکن ہے کہ اسی حالت میں مرکر نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے کے مصداق بن جائیں۔ پس پیشتر اس کے کہ وہ وقت آئے ہمیں اپنے اس دعویٰ پر غور کرناچاہئے۔‘‘ (الفضل 30ستمبر 1920ء)
1: الاعراف:157 2: الشعرآء: 4
3: مسلم کتاب الْاِیْمَان باب کَوْن الْاِسْلَامِ یَھْدِمُ مَاقَبْلَہٗ (الخ)



95
اَلسَّلَام
(فرمودہ یکم اکتوبر 1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’قریباً دو اڑھائی سال کا عرصہ ہؤا کہ مَیں نے جمعوں کے خطبوں میں ایک سلسلہ مضامین بیان کرنا شروع کیا تھا۔ ان مضامین کا مقصد یہ تھا کہ ایمان کی عمارت کی تکمیل کیونکر ہو سکتی ہے اور یہ کہ بغیر تکمیلِ ایمان کے اعلیٰ درجہ کے نتائج کی اُمید ایک جھوٹی اور عبث بات ہے۔ مکان کی ایک دیوار نہ ہو اور انسان سمجھے آندھی کی گرد اور بارش کے پانی سے محفوظ رہے تو نادانی ہے۔ یا مکان کی چھت نہ ہو اور خیال کرے کہ دھوپ اور شبنم سے بچا رہے تو بیوقوفی ہے یا مکان میں پانی کے نکاس کا رستہ نہ ہو اور یہ کہے کہ مکان گرے نہ تو کم عقلی ہے یا مکان میں ہوا کے آنے جانے کے مَنٰفِذْ 1 نہ رکھے اور سمجھے کہ صحت درست اور اچھی رہے گی تو جہالت ہے۔ بارش وغیرہ سے محفوظ رہنے کے لئے چھت اور دیواریں، پانی کے نکلنے کے لئے رستہ ، ہوا کے لئے کھڑکیاں اور روشنی کے لئے روشندان بھی ہوں پھر دروازے بھی ہوں، دروازوں کی زنجیریں بھی ہوں تب جاکر مکان مکمل ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایک چیز پر تو سارا زور خرچ کردے اور باقیوں کو چھوڑ دے تو مکان مکمل نہیں کہلا سکتا مثلاً دیواریں اُٹھاتا چلا جائے آسمان تک اور چھت نہ ڈالے یا دیواریں بنا کر اُوپر چھت بھی ڈال دے مگر پانی کے نکاس کا انتظام نہ کرے یا نہایت اعلیٰ درجہ کی سفید اور مصفّٰی عمارت بنائے مگر ہوا کے مَنٰفِذ نہ رکھے تو مکان مکمل اور مفید نہیں ہو گا اور کوئی یہ نہیں کہے گا کہ چونکہ بہت روپے خرچ کئے اور بڑی محنت کی گئی ہے۔ اس لئے یہ مکان بہت اعلیٰ درجہ کا ہے بلکہ یہی کہیں گے کہ مکان کو نامکمل چھوڑ دیا گیا ہے۔
تمام قانونِ قدرت اسی بات پر شاہد ہے کہ بے ہودہ اور فضول محنت و مشقت کا بدلہ نہیں ملا کرتا بر خلاف اس کے تھوڑی مگر صحیح محنت کا بدلہ مل جاتا ہے اگر کوئی شخص سالہا سال محنت کر کے پہاڑ کی چٹان میں سوراخ کرے اور اس میں بیج ڈال دے تو اس وجہ سے کہ اس نے کئی سال محنت کی ہے وہاں اچھی کھیتی نہیں ہو گی لیکن اس کی نسبت نرم زمین میں بہت کم محنت کرنے سے اچھی کھیتی ہو جائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ پتھرپر بہت محنت کی گئی ہے اور نرم زمین پر تھوڑی بلکہ یہ دیکھے گا کہ اس کے بنائے ہوئے قواعد کے ماتحت کس نے محنت کی ہے اور ان کے خلاف کس نے۔ پس نتیجہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق محنت کرنے سے ہی ملتا ہے ان کو چھوڑ کر خواہ کتنی ہی زیادہ محنت کیوں نہ کی جائے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں میرا منشاء تھا کہ میں تفصیلی طور پر بیان کروں مگر چار پانچ ہی خطبوں کے بعد ایسے واقعات پیش آئے کہ مَیں تفصیل سے بیان نہ کر سکا اور تمہید میں ہی انہیں چھوڑنا پڑا۔ پھر گزشتہ سال سے پہلے جلسہ پر مَیں نے عرفانِ الٰہی کے اُصول بیان کئے تھے اور بتایا تھا کہ عرفانِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے اُصولی طور پر کیا قواعد ہیں۔ فروعات کے بیان کرنے کا نہ وہ موقع تھا اور نہ مَیں بیان کر سکا۔ اب اس کی فروع میں سے ایک حصّہ کے متعلق میرا ارادہ ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ توفیق دے گا تو وقتاً فوقتاً بیان کرتا رہوں مگر مصلحتِ وقت کے لحاظ سے اس ترتیب کوجو مَیں نے رکھی تھی چھوڑتا ہوں اور ضرورتِ وقت کے لحاظ سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیان کروں گا۔
شریعت کے احکام کتنے اقسام کے ہیں ان کے کیا اثرات انسان کی عقل، فہم، قوت، طاقت، تعلق باﷲ، جماعت اور قوم کی ترقی پر پڑتے ہیں اس کا پہلے بیان ہونا ضروری ہے لیکن چونکہ اصلی ترتیب کو مَیں چھوڑتاہوں اس لئے مَیں سمجھتا ہوں اس حصّہ کو بھی چھوڑ سکتا ہوں اور فی الحال میں اس ٹکڑہ کو لیتا ہوں جس میں بنی نوع کے آپس کے تعلقات کے احکام دیئے گئے ہیں اور جن کی نگہداشت کئے بغیر ایمان کی تکمیل ناممکن ہے۔ اس حصّہ میں سے بعض احکام بیان کروں گا اور آج کے لئے جو حکم چُنا ہے وہ ایسا ہے کہ اس سے ہر مُسلم واقف ہے یا اسے واقف ہونا چاہئے۔
لیکن چونکہ کثرت سے اس کے استعمال کے مواقع پیش آتے ہیں اس لئے لوگ اسے معمولی خیال کرتے ہیں اور یہ عام بات ہے کہ جو چیز کثرت کے ساتھ استعمال میں یا دیکھنے سُننے میں آئے اس کو معمولی سمجھ لیا جاتا ہے۔ دیکھو سورج کو چونکہ لوگ ہر روز دیکھتے ہیں اس لئے اسے دیکھ کر انہیں خدا کی صنعت کا خیال نہیں آتا۔ حالانکہ یہ اتنی بڑی چیز ہے کہ اگر اس کا انہیں اندازہ بتایا جائے تو حیران ہو جائیں مگر ایک غبارہ اگر پچاس ساٹھ گز کا دیکھ لیں تو شور مچا دیتے ہیں۔ تو جو چیز روز نظر آتی ہو اس کا اثر آہستہ آہستہ دلوں سے مِٹ جاتا ہے اور اسے معمولی سمجھا جاتا ہے اور جو کبھی کبھی آئے اس کا زیادہ اثر رہتا ہے۔ دیکھو مسلمان نماز نہیں پڑھتے، روزانہ نماز کے تارک ہوں گے مگرعید کی نماز پڑھنے چلے جائیں گے۔ حالانکہ روزانہ نماز ایمان کی تکمیل کے لئے اس کی نسبت نہایت ضروری ہے۔ پھر عید کی نماز تو ایسی ہے کہ اگر انسان اکیلا ہو تو رہ جاتی ہے مگر روزانہ نماز کسی صورت میں بھی چھوڑی نہیں جاسکتی۔ حتّٰی کہ بیماری میں بھی پڑھنی ضروری ہے تو یہ نماز بہت زیادہ افضل اور اعلیٰ ہے مگر لاکھوں آدمی اس کو تو چھوڑ دیتے ہیں اور عید کی نماز کو نہیں چھوڑتے۔ وجہ یہ کہ وہ سال میں ایک دو دفعہ آتی ہے اور یہ ہر روز پڑھنے کا حکم ہے۔ حالانکہ یہ اس سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ اُس دن کی فضیلت کی اور وجوہات ہیں اور وہ چَھٹی نماز ہے جو اس دن کو افضل بناتی ہے۔ اکیلی عید کی نماز اس کی فضیلت کا باعث نہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کسی کے پاس پانچ روپے اور کسی کے پاس پانچ روپے اور ایک چونّی ہو۔ دوسرے کا مال پہلے کی نسبت زیادہو گا لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ چونّی روپیہ سے بڑھ کر ہے مگر لوگ نادانی سے چونّی کو بڑا سمجھتے ہیں حالانکہ اصل میں روزانہ نماز روپیہ کی طرح ہوتی ہے اسی طرح لوگ نمازوں کے تارک ہوتے ہیں مگر روزے آنے پر شور پڑ جاتا ہے۔ حالانکہ گو روزے فرض ہیں مگر نماز کی نسبت کم ہیں اور یہ اس درجہ پر نہیں جس درجہ پر نماز ہے۔ وہ بھی دین کے ارکان میں سے ایک رُکن ہے مگر نماز زیادہ ضروری ہے۔
تو جو چیز دیرکو آتی ہے اس کو عزت سے دیکھتے ہیں اور جو روزانہ کی ہے اسے معمولی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح جو چیز آسانی سے حاصل ہو جائے اسے معمولی سمجھا جاتاہے اور جس پر محنت صرف ہو اس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ حالانکہ بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں وہ بعض اوقات کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں اور بعض اوقات بڑی بڑی کچھ نتیجہ نہیں پیدا کرتیں۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے پیشاب اور پاخانہ کے وقت ابن عباس لوٹا رکھ دیتے تھے۔ اتنی سی بات کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے لئے وہ دُعا کی جو جنگوں پر جانے والوں کے لئے بھی نہیں فرمائی۔ چنانچہ ان کے لئے توفرمایا اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ 2 مگر لڑائی پر جانے والوں کے لئے یہ نہیں فرمایا۔ تو کاموں کے لئے بڑائی اور چھوٹائی صرف محنت سے نہیں دیکھی جاتی بلکہ اور بھی وجوہات ہوتی ہیں۔
اس وقت مَیں جو حکم بیان کرنے لگا ہوں وہ بھی ایسا ہی ہے اور وہ سلام کا حکم ہے۔ اسلام نے تاکید کی ہے اور قرآن میں بھی آیا ہے فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً 3 کہ جب گھروں میں داخل ہو تو سلام کرو۔ اس میں خوبی یہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اِخْوَانِکُمْ۔ بلکہ یہ فرمایا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ کہ اس کا فائدہ تمہارے اپنے ہی نفسوں پر ہو گا۔
یہ ایک ایسا حُکم ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان سے ملتے وقت بجا لانا چاہئے۔ چونکہ اس کا موقع ہر وقت ملتا رہتا ہے اس لئے عام طور پر لوگ اسے معمولی سمجھتے ہیں۔ حاانکہ یہ ایسا ضروری ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یہ جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور فرمایا ہے مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کی بنیاد اسی پر قائم ہے۔ چنانچہ فرمایا آپس میں سلام کرو۔ سلام سے محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت کے ذریعہ ہی جنت میں داخل ہونا ہے۔4 مگر افسوس اب بہت سے ایسے لوگ مسلمانوںمیں موجود ہیں جو سلام کو ترک کر بیٹھے ہیں اور ایسے لوگ غیر احمدیوں میں ہی نہیں کسی قدر قلیل تعداد احمدیوں میں بھی ہے۔ ایسے لوگ بجائے سلام کے ایک دوسرے کو آداب وغیرہ الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں اور جو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے اسے کہتے ہیں پتھر مار دیا۔ حالانکہ وہ خود اسلام کے ایک حکم اور رسولِ کریمؐ کے ارشاد کا انکار کر کے اپنے اوپر پتھر گراتے ہیں اور جو مرہم ہے اُسے پتھر سمجھتے ہیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے معنے ہیں کہ زخم بھر جائیں مگر نادان کہتے ہیں یہ پتھر مار دیا اور اس شخص سے زیادہ احمق اور کون ہو سکتا ہے جو مرہم کا نام پتھر رکھے۔ تو مسلمانوں کا ایک حصّہ تو ایسا ہے جو سلام کہنے کابالکل تارک ہے اور دوسرا ایسا ہے جو تارک تو نہیں لیکن اس کی حقیقت سے ناواقف ہے۔ ایسے لوگ مجلس میں آئیں گے اور چُپ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ گھروں میں داخل ہوں گے اور خاموش ہو کر بیٹھ رہیں گے اور انہیں خیال بھی نہ آئے گا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس موقع کے لئے کوئی حکم ہے۔
بعض کہہ دیں گے معمولی بات ہے اگر سلام نہ کہا تو کیا ہؤا۔ بعض کہیں گے حیاء کی وجہ سے نہیں کہا۔ بعض کہیں گے عادت نہیں مگر یہ تینوں قسم کے لوگ نادان ہیں۔ حیا ءکے معنے ہیں رُکنا اور رُکنا ایسی باتوں سے چاہئے جو مُضر ہوں نہ کہ ان سے جو فائدہ مند ہوں اور پھر وہ جن کا فائدہ روحانی ہو اسی طرح اسے معمولی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس کا فائدہ مرنے کے بعد قیامت تک ملتا رہے گا۔ پھر یہ اس لئے معمولی نہیں کہ قرآن میں اس کے متعلق حکم دیا گیا ہے اوربیسیوں ایسے احکام ہیں جن کا قرآن میں ذکر نہیں مگر اس کا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً تو اﷲتعالیٰ کی طرف سے جو تحفہ ہو اس کو کون معمولی کہہ سکتا ہے۔
قرآن کریم میں اور کسی چیز کو اس رنگ میں تحفہ نہیں کہا گیا جیسے سلام کو کہا گیا ہے۔ حتّٰی کہ مرنے کے بعد جو تحفہ خدا کی طرف سے انسان کے لئے آتا ہے وہ بھی یہی ہے کہ فرشتے آکر خداتعالیٰ کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔ کوئی بڑے سے بڑا آدمی ہو جو کہے مجھے کیا ضرورت ہے کہ مَیں کسی کو سلام کہوں۔ ہم کہیں گے خدا تعالیٰ نے بھی جب اپنے اوپر واجب کر دیا کہ سلام کہے تو اور کون ہے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی ضرورت نہ رکھتا ہو۔ سب سے پہلی چیز جو بندہ کو خدا تعالیٰ کی ملاقات کے وقت دی جاتی ہے وہ یہی سلام ہے۔ جبرئیل رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ کو سلام کہا۔5 اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر سلام کہتے ہیں۔ ان سے بڑا کون سا انسان ہے جسے سلام کہنے کی ضرورت نہ ہو مگر بہت لوگ ہیں خصوصاً انگریزی تعلیم یافتہ جو سلام کو بہت حقیر چیز سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے عمل سے رسولِ کریمؐ، جبریل حتّٰی کہ خدا تعالیٰ سے بھی اپنے آپ کو بڑا قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ جس حُکم کو بہت سی حکمتوں کے ماتحت خدا تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے بلکہ اپنی ذات کے لئے بھی رکھا ہے اور جس کی تاکید رسولِ کریم ؐنے کی ہے اور خود جبرئیل کو کہا ہے اس سے یہ لوگ اپنے آپ کو مستغنی سمجھتے ہیں۔ اوّل تو صرف ہاتھ سے اشارہ کر دیتے ہیں یا اتنا بھی نہیں کرتے یا ایک دوسرے سے یوں ملیں گے۔ مولوی صاحب اور اس کے جواب میں کہہ دیا جائے گا بھائی صاحب۔ یا یہ کہ سناؤ جی کیا حال ہے؟ اسی قسم کے فقروں کو اُنہوں نے سلام سمجھ لیا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ تین انگلیاں مِلا دیں گے اور یہ مصافحہ ہو جائے گا لیکن شریعت کا یہ حُکم نہیں۔ شریعت نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنا ضروری قرار دیا ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو اتفاق و اتحاد کی جڑ ٹھہرایا ہے اور نجات کا ستون بنایا ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک دفعہ دریافت کیا گیا کہ بہتر اسلام کیا ہے تو آپ نے خاص حکموں میں سے بتایا کہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا اور کسی کو جانو یا نہ جانو سلام کہنا۔6 یہ دونوں باتیں اتفاق و اتحاد کی جڑ ہیں۔
آج مَیں خطبہ کو یہیں بند کرتا ہوں کیونکہ وقت زیادہ ہو چُکا ہے مگر تاکید کرتا ہوں کہ یہ ایک خاص حکم ہے جو اسلام نے دیا ہے اور جس کے متعلق رسولِ کریم نے تاکید فرمائی ہے۔ صحابہ اس کے اس قدر پابند تھے کہ ایک دن عبداﷲ ایک صحابی کے پاس آئے اور کہا آؤ بازار چلیں۔ صحابی نے سمجھا کوئی کام ہو گا۔ چل پڑا لیکن وہ بازار میں سے گھوم کر یونہی چلے آئے۔ نہ کوئی کام کیا اور نہ کوئی چیز خریدی۔ دو تین دن کے بعد پھر آئے اور کہا آؤ بازار چلیں۔ اس صحابی نے کہا اس دن آپ نے نہ کچھ خریدا اور نہ کام کیا۔ آج کوئی کام ہے؟ اُنہوں نے کہا مَیں بازار اس لئے جاتا ہوں کہ بھائی ملتے ہیں، وہ ہم کو سلام کہتے ہیں ہم اُن کو سلام کہتے ہیں۔ تو صحابہ بازاروں میں صرف سلام کہنے کے لئے بھی جاتے تھے۔ تمہیں بھی چاہئے کہ بازاروں میں، محلوں میں، مجلسوں میں، گھروں میں جہاں کسی سے مِلو سلام کہو۔ جاننے والوں کو سلام کہو، نہ جاننے والوں کو سلام کہو۔ اگر دُعا کوئی چیز ہے اور ہر مسلمان مانتا ہے کہ بہت بڑی چیز ہے اور اسلام کے رکنوں میں سے ایک رُکن ہے اور اسلام اس کے سوا کچھ بھی نہیں تو سب اولیاء اور خدا کے پیاروں کا یہ بھی متفقہ مسئلہ ہے۔ اگر کوئی دُعا زیادہ قبول ہونے والی ہوتی ہے تو وہی ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کی سکھائی ہوئی ہو اور وہ یہی دُعا ہے۔ پھر کیسا نادان ہے وہ انسان جو سجدہ میں ناک رگڑتا اور دُعائیں کرتا ہے مگر اﷲ تعالیٰ کی بتائی ہوئی اس دُعا کو استعمال نہیں کرتا۔ جو شخص خداتعالیٰ کی سکھائی دُعا کونہیں لیتا خدا تعالیٰ اس کی سجدہ میں کی ہوئی دعا کب سنتا ہے۔ پہلے خدا کی سکھائی ہوئی دعا کو رستوں میں، گھروں میں،ملنے والوں سے، جُدا ہونے والوں سے، اپنوں سے، بیگانوں سے ، واقفوں سے، ناواقفوں سے کرے گا اور پھر جاکر خدا تعالیٰ سے دُعا مانگے گا تو سُنے گا کہ مَیں نے جس دُعا کا حکم دیا تھا وہ کر آیا ہے اب مَیں اس کی دُعا سنوں پھر اس کے محبت اور اتفاق کے لئے بہت اثرات ہیں اور اگر ضرورت ہوئی تو ان کو پھر بیان کر دوں گا۔‘‘ (الفضل 7 اکتوبر 1920ء)
1: مَنٰفِذْ : کھڑکیاں
2: بخاری کتاب الوضوء باب وَضْع الْمَاءِ عِنْدَ الْخَلَآءِ
3: النور : 62
4: مشکوٰۃ کتاب الآداب باب السلام
5: بخاری کتاب الاستِئذَان باب تَسْلِیْم الرِّجَال عَلَی النِّسَاء (الخ)
6: بخاری کتاب الایمان باب اِطْعَام الطَّعَامِ مِنَ الْاِسْلَامِ



96
دین کے حکموں کو خود مانو اور دوسروں سے منواؤ
(فرمودہ 8اکتوبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اسلام کے دو بڑے حصّے ہوتے ہیں جن سے لوگ بالعموم ناواقف ہوتے ہیں۔ (1)اعتقاد (2)اعمال۔ اعتقاد کے حصّہ کی جب تک تکمیل نہ ہو اس وقت تک اسلام مکمل نہیں ہوتا اور اسی طرح اعمال کے حصّہ کی بھی جب تک تکمیل نہ ہو ایمان تکمیل نہیں پاتا۔ پھر اعمال کے بھی دو حصّے ہیں اور اعتقاد کے بھی دو حصّے ہیں۔ عقائد کے دو حصّوں میں سے بھی ایک حصّہ عمل میں چلا جاتا ہے۔ عقائد کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ انسان خود ایمان رکھے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ دوسروں میں ان عقائد کو پھیلائے۔ گویا عقائد بھی اعمال میں آجاتے ہیں تو اسلام کی تعلیم ہے کہ جس طرح صحیح عقائد کا ماننا ضروری ہے اسی طرح ان صحیح عقائد کا پھیلانا بھی ضروری ہے۔ ایک شخص خواہ کتنا ہی صحیح اور پُختہ اعتقاد رکھے مگر اس صحیح اعتقاد کو پھیلائے نہیں وہ پکّا مومن نہیں ہو سکتا۔
سب سے بڑے پکّے مسلم اور مومن انبیاء ہوتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں ہو گا کہ وہ اپنی ذات تک ہی ان اعتقادات کو رکھیں۔اگر کوئی کہے کہ وہ تو مامور ہوتے ہیں تو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ چونکہ انبیاء اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں اس لئے تبلیغ کے کام کو ان کے سُپرد کرنا اس کام کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ اتنا اہم کام ہے کہ خداتعالیٰ اس کے لئے انبیاء مبعوث فرماتا ہے۔ دوسرے ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کے جو حقیقی متبعین ہوتے ہیں وہ انبیاء ہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ حالانکہ وہ مامور نہیں ہوتے۔
سب سے زیادہ حالات ہمیں صحابہؓ کے ملتے ہیں اور ان میں سے بعض کے یہاں تک اقوال ملتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں اگر ہماری گردن پر تلوار ہو اور ہمیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا کوئی ایسا قول معلوم ہو جو اوروں کو معلوم نہیں تو قبل اس کے کہ تلوار ہماری گردن جدا کرے ہم اس کو لوگوں تک پہنچا دیں گے۔1 تو وہ بھی اپنے اعتقاد کو پھیلانا ضروری سمجھتے ہیں۔
دوسرا حصّہ اعمال کا ہے۔ آگے اس کے بھی دو حصّے ہیں۔ اوّل خود عمل کرنا (2)دوسروں سے عمل کرانا۔ جس طرح خود کئے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا اسی طرح دوسروں سے عمل کرائے بغیر بھی مکمل نہیں ہوتا۔ جو خود نماز پڑھتا ہے مگر دوسروں کو دیکھتا ہے کہ نماز نہیں پڑھتے خود حج کرتا ہے مگر دیکھتا ہے کہ لوگ ہیں جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے، مالدار ہے خود زکوٰۃ دیتا ہے مگر دیکھتا ہے کہ لوگ مالدار ہو کر زکوٰۃ نہیں دیتے اور یہ ان کو نیک کاموں کے کرنے کی تحریک نہیں کرتا اور ان کو ترغیب نہیں دیتا تو پکّا مومن نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ خدا نے مومن کے دو فرض رکھے ہیں۔ پہلا فرض تو یہ ہے کہ خود مانو اور دوسرا یہ ہے کہ دوسروں سے منواؤ۔ اسی طرح یہ کہ نیک اعمال خود کرو اور دوسروں کو تحریک کرو کہ وہ بھی کریں۔ اگر پہلا فرض پورا کرنا ضروری ہے تو دوسرا بھی ضروری ہے ۔کیوں؟ جہاں یہ حکم ہے کہ خدا کو ایک مانو وہاں یہ بھی حکم ہے کہ دوسروں سے ایک منواؤ۔ اسی طرح رسولوں کو مانو اور منواؤ اور ملائکہ کو مانو اور منواؤ، حشر نشر کو مانو اور منواؤ، دعوۃ الی الخیر کرو اور دوسروں سے کراؤ، بد اخلاقی چھوڑو اور دوسروں سے چھڑاؤ، شرک خود نہ کرو اور دوسروں کو اس سے روکو لیکن اگر خود احکام کی تعمیل کرو گے اور دوسروں سے تعمیل نہیں کراؤ گے تو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ خود تعمیلِ احکامِ الٰہی کرتے ہیں مگر دوسروں سے نہیں کراتے وہ عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکتے۔
پس یہ کوئی وجہ نہیں کہ کہہ دیا جائے ہم خود مانتے ہیں دوسروں سے کیا منوائیں۔ نہیں۔ جس طرح خود ماننا اور تعمیل کرنا فرض ہے اسی طرح دوسروں سے منوانا اور تعمیل کرانے کا بھی حکم ہے۔ اگر کوئی ایک حکم کو توڑتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ کل دوسرے کو بھی توڑ دے۔ آج ایک حکم چھوڑا کل دوسرے کو چھوڑ دے اور کہہ دے کہ مَیں اعتقاد رکھتا ہوں۔ اعمال کی ضرورت نہیں ہے یا خدا رسول ملائکہ کو مانتا ہوں، کُتب کو نہیں مانتا، یا فرشتوں کو مان لے اور کہے کہ رسولوں کو ماننے کی کیا ضرورت ہے۔ خدا پر ایمان رکھتا ہوں یا اسی طرح خدا کا بھی انکار کر دے یا اعمال میں کہہ دے روزے نہیں رکھے جاسکتے، زکوٰۃ باوجود فرض ہونے کے نہیں دی جاسکتی یا کسی کو نماز بوجھل معلوم ہوتو اس کو ترک کر دے۔ دراصل شریعت نے جس قدر احکام دیئے ہیں ان سب کا انسان مکلّف ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ ان کو پورا کرے۔
قرآن کریم جہاں امر بالمعروف کا حُکم دیتا ہے وہاں یہ نہیں کہتا کہ کرو یا نہ کرو۔ بِلااستثناء کے سب کو کہتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو۔ پھر فرماتا ہے تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى 2 کہ نیکی اور تقویٰ میں تعاون یعنی ایک دوسرے کی مدد کرو۔ یہ نہیں فرمایا کہ تقسیم کرلو۔ کوئی کرے کوئی نہ کرے بلکہ سب کو حکم ہے کہ اپنے اعتقاداتِ صحیحہ کی اشاعت کرو اور اعمالِ حسنہ کا حکم دو۔
لیکن بہت ہیں جو خود تو کرتے ہیں مگر دوسروں کو شریعت کے احکام کی پابندی کی طرف توجہ نہیں دلاتے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بہت ہیں جو سرے سے خودبھی عمل نہیں کرتے لیکن خدا کے فضل سے ہم میں یہ بات نہیں۔ ہم میں خود عمل کرنے والے تو بہت ہیں اور بکثرت ہیں لیکن اگر دیکھا جائے کہ دوسروں سے کہاں تک عمل کراتے ہیں تو اس میں ہم میں کسی قدر کمی نظر آئے گی۔ ہماری انجمنوں میں اس پر تو زور دیا جاتا ہے کہ چندہ باقاعدہ دو مگر اس کی طرف سے غفلت کی جاتی ہے کہ کوئی شخص نماز باجماعت بھی پڑھتا ہے کہ نہیں، روزوںکا پابند ہے کہ نہیں۔ لوگ ایک پہلو پر زور دیتے ہیں اور دوسرے کو ترک کر دیتے ہیں حالانکہ ایک پہلو پر زور دینے سے کبھی عمارت مکمل نہیں ہو سکتی۔ عمارت اسی وقت مکمل ہو گی جب اس کے ضروری حصّے تیار ہوجائیں گے۔ یعنی یہ تو ہو سکتا ہے کہ پلستر نہ ہو، پُھول پتوں اور قلعی کے بغیر تو ایک حد تک مکان مکمل ہو سکتا ہے مگر اس صورت میں مکان کبھی مکمل نہیں ہو سکتا کہ چھت نہ ہو یا کوئی دیوار نہ ہو یا پانی اور ہوا اور روشنی کا رستہ نہ ہو۔ اسی طرح ایمان اور اسلام کی تکمیل کے لئے اعتقاد اور عمل کے تمام ضروری حصّے مکمل ہونے چاہئیں۔
پس جہاں خود عمل کرو دوسروں سے عمل کراؤ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ تم دوسروں کے عیب تلاش کرو۔ جب تم دیکھو کہ کوئی شخص شعائرِ اسلام ترک کر رہا ہے تو اس کو پابند بناؤ۔ یہ مطلب نہیں کہ تم چوری چوری لوگوں کے پیچھے لگے پھرواور ان کے عیب ڈھونڈو بلکہ یہ ہے کہ وہ غلطیاں جو ظاہر اور عَلَی الْاِعْلَان ہوتی ہیں ان کی نگہداشت کرو۔ اگر کوئی پوشیدہ عیب کرتاہے تو اس کی تلاش ضروری نہیں مگر جہاں اعلان اور اظہار کے ساتھ کوئی غلطی ہو اس کی اصلاح ضروری ہے۔ جو لوگ نماز پڑھتے ہیں وہ اگر دیکھیں کہ کوئی شخص باجماعت نماز نہیں پڑھتا تو اس کو سمجھائیں اور اس کو آمادہ کریں کہ باجماعت نماز پڑھے اگر کسی شخص نے اس باجماعت نماز نہ پڑھنے والے کو کچھ نہ کہا تو اگرچہ وہ آج ایک ہی ہے لیکن آئندہ بہت سے باجماعت نماز پڑھنا ترک کر دیں گے کیونکہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے یا ایک شخص موٹا تازہ ہٹا کٹا ہے اور بازار میں کھاتا پھرتا ہے۔ روزہ بِلا عذر نہیں رکھتا اگر اس کو نہ روکا جائے تو اور لوگ بھی سُست ہو جائیں گے اور روزہ چھوڑ بیٹھیں گے۔
انسان کی عادت ہے کہ جدھر لوگوں کو چلتے دیکھتا ہے اُدھر ہی چلنے لگتا ہے ۔ فطرت شناسوں نے انسان کی اس عادت پر غور کیا اور اس کا ایک اصطلاحی نام رکھ دیا ہے۔ چنانچہ انگریزی میں اس کو (HERD INSTINCT) کہتے ہیں۔ چونکہ یہ علوم انگریزی میں ہیں۔ اس لئے انگریزی میں اس کی اصطلاحیں ہیں۔ اس کا صحیح ترجمہ ''بھیڑ چال'' ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ہماری زبان والوں نے بھی اس بات پر غور کیا تھا مگر جہاں اور علوم گم ہوئے یہ بھی گم ہو گیا اور اب یہ لفظ کچھ زیادہ اچھے معنوں میں نہ رہا۔ تو بھیڑ چال کا اثر ہوتا ہے۔ جب مجالس وغیرہ میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص تارکِ شعائر ہے تو دوسرے بھی ترک کر دیتے ہیں۔ پس ضروری ہے کہ شعائرِ اسلام کے جو لوگ تارک ہوں ان کی نگہداشت کی جائے اور ان کو پابند بنایا جائے۔
میرے نزدیک ایک فاسق فاجر سے اتنا نقصان نہیں پہنچ سکتا جتنا اس شخص سے پہنچتا ہے جو نماز کا تارک ہے کیونکہ وہ ہزار فاسق جو گناہ کرتا ہے وہ چھپ کر اور پوشیدہ کرتا ہے اور یہ ایسا گناہ کرتا ہے جو ظاہر ہے۔ اس لئے وہ ہزار ہو کر ایک ہے اور یہ ایک ہو کر ہزار کے برابر ہے کیونکہ اس کا فعل پبلک کے سامنے ہے اور اس ہزار کا پوشیدہ ہے۔ فسق و فجور اپنی ذات میں خواہ کتنا ہی خطرناک گناہ ہو مگر اس کا اثر بنی نوع پر اتنا نہیں پڑتا جتنا ایک ایسے شخص کا جو ظاہر میں نماز کاتارک ہو یا روزہ نہ رکھتا ہو۔ تو ایمان کی تکمیل کے لئے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ انسان خود بھی احکامِ شریعت پر عمل کرے اور دوسروں سے بھی کرائے مگر افسوس ہے کہ ادھر بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔
غور کا مقام ہے کہ بڑھاپا ایک دن میں نہیں آیا کرتا۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ آج میں اتنا بوڑھا ہو گیا اور کل اتنا تھا بلکہ ایک خاص وقت پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص بوڑھا ہو گیا۔ حالانکہ دیر سے بوڑھا ہو رہا تھا اسی طرح کوئی شخص ایک دن میں عالم نہیں ہو جاتا بلکہ آہستہ آہستہ علم میں ترقی کرتا ہے اور جس قدر ایک ایک منٹ میں ترقی ہوتی ہے اس کو کوئی شخص نہیں جانتا نہ بتا سکتا ہے مگر ایک وقت آتا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص عالم ہے۔ پس ترقیاں اور تنزل ایک ہی وقت میں نہیں آیا کرتے بلکہ آہستہ آہستہ آتے ہیں اور ان کے مجموعہ کا نام ترقی یا تنزل رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح قوموں کا عروج یا بربادی ہوتی ہے۔ ایک دم میں آسمان زمین نہیں بدل جایا کرتے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت ایک سو میں سے ایک سو ہی مسلمان نماز پڑھنے والے تھے مگر بعض لوگ سُست تھے اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جیسے رحیم شخص نے فرمایا تھا کہ جو لوگ نماز میں شامل نہیں ہوتے میرا دل چاہتا ہے کہ لکڑیاں لے جاؤں اور ان کے گھر کوآگ لگا دوں کہ وہ اندر ہی جل کر مَر جائیں۔3 سُننے والوں میں سے بعض نے اس کی قدر کی اور بعض نے نہ کی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ سُست لوگوں کی اور تعداد بڑھی۔ پہلے مثلاً ہزار میں سے ایک سُست تھا تو پھر چار پانچ ہو گئے۔ پھر بیس تیس سال میں سو میں سے ایک نماز کا تارک ہو گیا چونکہ کثرت نمازیوں کی تھی اس لئے ایسے لوگوں کو ہمیشہ حقارت سے دیکھا گیا اور کہا گیا کہ یہ کیا کر لیں گے مگر اس کا وہی اثر پڑا جو اس کے مقابلہ میں غارِ حرا سے نکلنے والے کی اکیلی آواز نے نمازی بنانے کے لئے ڈالا تھا۔ جس طرح غارِ حرا سے نکلنے والا دراصل ایک نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ ملائکہ کی نورانی افواج تھیں اسی طرح اس کے مقابلہ میں جو تھا وہ بھی اکیلا نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ بھی شیطانی اور ابلیسی ذریت تھی اور ظلماتی فوجیں اس کے ساتھ تھیں۔ چنانچہ آج اس ظلماتی آواز کا یہ اثر پڑا کہ مسلمان 999ایسے ہیں جو نماز سے بے پرواہ ہیں۔ چونکہ اس وقت تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ پر عمل نہ کیا جس شخص نے سُستی کی ۔ اس کی سُستی دُور کرنے کی کوشش نہ کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ آج بے نمازیوں کی کثرت ہو گئی۔
اسی طرح بد دیانتی پیدا ہوئی۔ یاد رکھو بد دیانتی پیدا ہونے کا پہلا قدم اپنے حقوق کی نگرانی ہوتی ہے۔ دیانت اور امانت کے لئے حقوق کی نگرانی کی بجائے قُربانی کرنی پڑتی ہے کیونکہ حقوق کی حدود و تعریف وسیع ہے اور چونکہ ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ اپنے حقوق کو صحیح طور پر سمجھ سکے اس لئے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے کرتے ایسی باتوں کا بھی مطالبہ کرنا شروع کر دیتے ہیں جن کا انہیں حق نہیں ہوتا تو اس طرح بد دیانتی کی طرف چلے جاتے ہیں۔
پس وہ باتیں جو خلافِ اسلام ہیں اگر ان کا عَلَی الْاِعْلَان ارتکاب ہوتا دیکھو تو منع کرو اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ ایسے موقع پر تَعَاوَنعَلَى الْبِرِّ سے کام لو۔ جن قوموں نے اس کو چھوڑا وہ تباہ ہو گئیں۔ مَیں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اگر کسی کو نماز میں سُست دیکھیں تو اس کو چُست بنائیں اور اگر کسی میں اور کوئی ایسی غلطی جو ظاہر میں نظر آتی ہو دیکھیں تو اس کو رفع کرنے کی کوشش کریں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے کے پیچھے لگ جائیں۔ پس دوسروں کی اصلاح کا خیال رکھنا ایک نہایت ضروری امر ہے۔ تم اس کو خوب اچھی طرح یاد رکھو ورنہ تم سے بھی وہ چیز جو تمہیں ملی ہے چھن جائے گی جبکہ پہلوں سے جو تم سے زیادہ قوت ور اور طاقتور ہاتھ رکھتے تھے اسی وجہ سے چھن گئی۔ جس طرح ایمان پہلوں سے گم ہو کر ثریا پر چلا گیا تھا۔ اب بھی جاسکتا ہے اور روشنی کی بجائے اندھیرا آسکتا ہے۔ وہ لوگ جو پہلے تھے اُنہوں نے ایک ہزار سال تک اسلام کی شان دکھائی وہ ہزار سال تک اسلام کو سنبھالے بیٹھے رہے مگر ابھی تم پر تو چالیس سال ہی گزرے ہیں تمہیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کسی نے کہا ہے ؎
پھُول تو اپنی بہارِ دلفزا دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مُرجھا گئے
پہلوں پر افسوس کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے ہاتھ ڈھیلے کر دیئے اور اسلام اُن سے چھِن گیا مگر مَیں کہتا ہوں کہ وہ تو ہزار سال تک اسلام کو لئے رہے ہیں ہمیں تو ابھی پچاس سال بھی نہیں ہوئے۔پس ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور پہلوں کی جن کمزوریوں کا ہمیں علم ہے وہ تو اپنے اندر نہ پیدا ہونے دینی چاہئیں۔ حالانکہ دانا وہ ہوتا ہے جو ان سوراخوں کو بھی بند کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے اُسے نقصان نہیں پہنچا ہوتا۔
پس ضروری ہے کہ اپنی فکر کے ساتھ ہمسایہ کی بھی فکر کرو اور شہر کی فکر کرو۔ مُلک کی فکر کرو اور ساری دُنیا کی فکر کرو۔ اگر کوئی نماز میں سُست ہے تو اس کو چُست کرو۔ زکوٰۃ نہیں دیتا تو اس کو دینے کے لئے کہو۔ حج ذی استطاعت ہو کرنہیں کرتا تو اس کو حج کرنے کے لئے تحریک کرو۔ کسی میں اخلاق کی کمزوری ہے وہ دُور کرو، کسی میں غیبت کا مرض ہے اُس کو دُور کرو، کوئی دینی احکام کی نافرمانی اور ہنسی کرتا ہے اس کو روکو۔ ان سب باتوں کی نگرانی ضروری ہے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ ایمان اور اخلاص جوحضرت صاحب پیدا کرنا چاہتے تھے وہ ہمارے نوجوانوں میں نہیں۔ اکثر نوجوانوں سے اگر کسی کام کے لئے کہا جائے تو کہا جاتا ہے پیسہ لاؤ مگر اکثربوڑھوں میں یہ بات نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معمر لوگوں نے اپنے آپ کو نوجوانوں سے علیحدہ کر لیا اور انہیں ان کی غلطیوں سے آگاہ نہ کیا۔ یہ ان سے غلطی ہوئی ۔ چاہئے یہ کہ وہ لوگ جو قُربانی اور ایثار کی رُوح اپنے اندر رکھتے ہیں، شریعت کے احکام پر پوری پابندی کے ساتھ چلتے ہیں وہ نوجوانوں سے ملیں اور ان کو اپنے ساتھ ملنے کی تحریک کریں تاکہ ان نوجوانوں میں بھی وہ روح پیدا ہو جس کی ہمیں ضرورت ہے ورنہ اگر وہ اسی طرح علیحدہ رہے تواندیشہ ہے کہ ان کے بعد ان کی اولاد میں خدا کی محبت نہ رہے گی۔ یہ بھی ایک بہت افسوسناک بات ہو گی مگر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اولاد سے زیادہ خدا کی محبت کرنے والے دُنیا میں نہ رہیں گے۔ ہماری خوشی تو اسی میں ہونی چاہئے کہ خدا سے محبت کرنے والے دنیا میں بڑھیں اور اس کے دین اور شعائر کے پابند زیادہ ہوں۔ جس طرح خدا غیر فانی ہے اس کے ساتھ محبت کرنے والے بھی غیر فانی ہونے چاہئیں۔ پس اپنے آپ پر خداکی محبت کو ختم نہ کرو کہ تمہارے آنکھیں بند کرتے ہی تمہارے گھر میں خدا کا نام لینے والا کوئی نہ رہے بلکہ یہ ہو کہ جب ہم مریں تو ہماری اولادیں اس بات کو قائم رکھیں، پھر ان کی اولادیں ، پھر ان کی اولادیں، پھر ان کی اولادیں جہاں تک کہ یہ سلسلہ چل سکتا ہو۔
پس یہ ضروری ہے کہ نیکی کے کام خود کئے جائیں اور دوسروں سے کرائے جائیں۔ یہ بہت بڑا فرض ہے اور جماعت کو اس طرف متوجہ ہونا ضروری ہے۔ اﷲتعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین‘‘ (الفضل 14اکتوبر 1920ء)
1: بخاری کتاب العلم باب العلم قبل القول و العمل(الخ)
2: المائدۃ : 3
3: بخاری کتاب الاذان باب فَضْل صَلٰوۃِ الْعشَآءِ فِی الْجَمَاعَۃ



97
آپس میں صُلح رکھو اور صُلح کراؤ
(فرمودہ 15اکتوبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’دینی اور دُنیاوی دونوں قسم کے کاموں کو چلانے کے لئے امن کی نہایت ہی ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر اس کے دونوں قسم کے کام نہیں چل سکتے۔ پھر امن مُلکی ہی نہیں ہوتا بلکہ تمدنی امن کے بغیر بھی کسی کام کا سرانجام پانا مُشکل ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ مُلک آپس میں نہ لڑیں بلکہ کاموں کے امن کے ساتھ چلانے کے لئے ضروری ہے کہ افراد میں بھی لڑائی نہ ہو، خاندانوں میں لڑائی نہ ہو، اہلِ محلہ آپس میں نہ لڑیں، مُلکوں کی لڑائی کا اثر مُلکوں پر پڑتا ہے اور حکومتوں کی لڑائی کا اثر حکومتوں پر۔ ہاں مُلکوں اور حکومتوں کی جنگ کا اثر بعض دفعہ ساری دُنیا پر بھی ہوتا ہے اور اس لڑائی کو زیادہ خراب اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا اثروسیع ہوتا ہے ورنہ لڑائی کے لحاظ سے افراد کی لڑائی بھی اس کے برابر ہے۔مثلاً فرانس اور جرمن کی جنگ کا نتیجہ خونریزی ہوئی، مال لوٹا گیا، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے، کھانے پینے کی چیزیں کم دستیاب ہونے لگیں، علوم کا نقصان ہؤا لیکن اگر دو آدمی آپس میں لڑیں تو نتیجہ وہی ہو گا کسی کی جان جائے گی ، کسی کی بیوی بیوہ اوربچے یتیم ہوں گے، کسی کا مال لُوٹا جائے گا، کسی کی عزت کو نقصان پہنچے گا۔ دُشمنی کے باعث کسی کی اولاد علوم سے محروم رہے گی۔ غرض جو نتیجہ جرمن اور فرانس یا انگریزوں اور روس کی لڑائی کا ہوتا ہے وہی نتیجہ دو آدمیوں کے آپس میں لڑنے کا نکلے گا۔ فرق یہ ہے کہ پہلی قسم کی لڑائیوں کا اثر ہزاروں لاکھوں انسانوں پر ہوتاہے اور دوسری قسم کی لڑائی کا اثر محدود ہوتا ہے۔ ورنہ اثر ان دونوں پر بھی وہی ہوتا ہے جو ان لاکھوں یا کروڑوں پر بلکہ اگر غور کیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ بعض اوقات افراد کی جنگ ملکوں کی جنگ کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ یہ لڑائی جو یورپ میں ہوئی اس کے باعث ہزاروں آدمی ہیں جنہوں نے فائدہ اُٹھایا مثلاً جن کے پاس غلہ تھا اُنہوں نے نفع اُٹھایا، روئی والوں نے نفع اُٹھایا اسی طرح اور اشیاء میں ہؤا لیکن افراد کی جنگ میں دونوں جانب کا نقصان ہوتاہے۔
پھر بعض دفعہ زمیندار مقدموں میں بہت سا روپیہ لگاتے ہیں اور نقصان اُٹھاتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگ شوقیہ بھی مقدمہ بازی کرتے ہیں۔ حضرت خلیفۂ اوّل نے سُنایا کہ ایک دفعہ ایک زمیندار کو آٹھ سو روپیہ بچ گیا اس نے دوستوں سے مشورہ لیا کہ کیا کرنا چاہئے؟ اُنہوں نے مشورہ دیا کہ تم اس سے اور زمین خرید لو۔ اس نے کہا کہ اس دفعہ تو مقدمہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ بتاؤ گاؤں میں کون ایسا ہے جس پر مقدمہ کریں۔ تو بعض دفعہ لوگ شوق سے مقدمہ کرتے ہیں اور بعض دفعہ مجبوریاں ہوتی ہیں اور اس وقت ایک چیز کے بچانے کے لئے بہت سی چیزوں کا نقصان کرناپڑتا ہے۔
تو فساد مُلکوں ہی کا نہیں افراد کا بھی بُرا ہوتا ہے لیکن بہت لوگ ہوتے ہیں جو فسادات پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ فساد ایسی بُری چیز ہوتی ہے کہ اس سے انسان دین و دُنیا دونوں میں ترقی نہیں کر سکتا۔ لوگ فساد کے باعث علوم سے محروم ہو جاتے ہیں کیونکہ بچے بوجہ مخالفت کے گھر سے نہیں نکل سکتے خیال ہوتاہے کہ اگر گھر سے نکلیں تو دُشمن کہیں ان کی جان نہ لے لے۔ دین سے بھی محروم ہو جاتے ہیں مثلاً نماز پڑھنا چھوڑ دیں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ فلاں امام سے پرخاش ہے۔ یا امام سے تو نہیں مگر امام ان کے دُشمن کا دوست ہے یا ان کا دُشمن بھی مسجد میں آتا ہے۔ اس طرح اپنی دُشمنیوں کااثر دین پر ڈال دیتے ہیں اور انسانوں سے ناراض ہوکر خدا سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ پھر فساد کا ایک اور نتیجہ ہؤا کرتاہے کہ وہ کام جو مل کر ہؤاکرتے ہیں مثلاً انجمنیں وغیرہ وہ باطل ہو جاتی ہیں بلکہ یہاں تک ہوتا ہے کہ دُشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے بعض لوگ اپنا ہی نقصان کر لیا کرتے ہیں مثلاً اپنے بچہ کو قتل کرتے ہیں اور لاش کو دُشمن کے گھروں میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے ہمارے بچّہ کو قتل کر دیا اور اسی طرح بعض لوگ صداقت کو دُشمنی کے باعث نہیں قبول کرتے۔ حضرت صاحب کے وقت میں ایک معزز سرکاری افسر نے حضرت صاحب کو کہلا بھیجا کہ اگر آپ فلاں شخص کو جماعت سے نکال دیں تو مَیں آپ کی بیعت کرلوں۔ اس کے جواب میں ہمیشہ حضرت صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں اس کی خاطر جو صداقت کے حلقے میں نہیں آیا کیسے اس شخص کو صداقت کے حلقے سے نکال سکتا ہوں جس کو خدا اس حلقے میں لے آیا ہے اور واقع میں جو شخص صداقت سے اب تک الگ ہے اس کی خاطر کیسے اس شخص کو الگ کیا جاسکتاہے جس کو خدااس کی کسی نیکی کے باعث حق کی طرف لے آیا ہے۔ یہ کچّا عُذر ہوتا ہے کہ فلاں کو نکال دو تو ہم مانیں گے۔ کیا اگر یہ سلسلہ سچّا ہے تو اس شخص کے اس میں ہونے سے یہ جھُوٹا ہو جائے گا۔ اگر یہ سچّا ہے تب تو بہرحال سچّا ہے اور اگر سچّا نہیں تو بہرحال سچّا نہیں۔
پس چونکہ مُلکوں کی لڑائی کی طرح ہی افراد کی لڑائی بھی مُضِر ہوتی ہے اس لئے شریعتِ اسلام نے ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری قرار دیا ہے کہ انسان خود بھی لڑائی سے بچے اور دوسروں کو بھی لڑائی سے بچائے۔ خود لڑنے والا ایک حد تک معذور کہا جاسکتا ہے مثلاً کسی نے اس کو گالی دی اس کو غصّہ آیا لیکن جو شخص گلی میں سے گزرتا ہوا اس لڑائی کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے ''اور لگا دو چار اس خبیث کو یہ ہے ہی ایسا''۔ وہ زیادہ مُجرم ہے حالانکہ یہ موقع تھا کہ وہ خیال کرتا کہ مجھے اس موقع سے ثواب لینا چاہئے اور اس لڑائی کو بند کرا دینا چاہئے لیکن جو بند کرانے کی بجائے لڑائی کو اور بھڑکاتے ہیں اور فریقین میں سے جس کی طرف ہونے میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اُدھر ہو جاتے ہیں اور دوسرے کو گالیاں دینے یا اس کو اور مارنے کی تحریک کرتے ہیں یا کہتے ہیں ''اے اج دی گل اے''۔ ''اے تاں پچھوں بھی تینوں گالیاں دیندا ہے''۔ اور خود تماشہ دیکھتے ہیں وہ سخت گناہ کے مُرتکب ہوتے ہیں اور ان کا فعل امن کو درہم برہم کرنے والا ہوتا ہے۔ بعض لوگ ایک اور طریق اختیار کرتے ہیں مثلاً دو شخصوں میں لڑائی ہے ایک سے بات سُن کر دوسرے کے پاس جالگاتے ہیں اور دو چار اپنی طرف سے اس پر حاشیہ بھی چڑھا دیتے ہیں۔ غرض کئی طریق سے لوگ فتنہ کراتے ہیں لیکن اسلام فتنوں کی ہر گز اجازت نہیں دیتا بلکہ قرآن مومنوں کو بھائی بھائی بتاتا ہے1 جس طرح بھائیوں کی حالت ہوتی ہے اسی طرح مسلمانوں کی ہونی چاہئے۔ اگر کہیں لڑائی کے سامان ہوں تو ان کو دُور کرا دینا چاہئے۔ تمہارے ہاتھوں میں مٹی کے تیل کے برتنوں کی بجائے پانی کے برتن ہونے چاہئیں جن سے آگ بجھے۔ آگ سے کھیلنے والے نادان ہوتے ہیں۔ اس سے بچنے میں سلامتی اور کھیلنے میں جان کا خطرہ ہے۔ شیر کے پنجرے کو اس لئے کھولنا کہ وہ سامنے کھڑے ہوئے دُشمن کو کھالے گا نادانی ہے۔ کیونکہ اس کو تو کھا ہی لے گا مگر کھولنے والا شیر سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔
یاد رکھو دو کی لڑائی دو کی نہیں ہوتی بلکہ اپنے تعلقات کے لحاظ سے بہت سے لوگوں کی لڑائی ہوتی ہے مثلاً دو شخصوں میں لڑائی ہے دونوں کے جس قدر رشتہ دار اور رشتہ داروں کے رشتہ دار ہوں گے جو سینکڑوں تک پہنچ سکتے ہیں ان سب میں لڑائی ہو گی اور اس طرح افراد کی لڑائی خاندانوں، محلوں، شہروں اور مُلکوں تک پہنچ جائے گی تو چھوٹے فساد بڑے نتائج پیدا کرتے ہیں۔اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ہر قسم کے فساد اور فتنوں سے منع کیا ہے اور قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ مومنوں کو چاہئے کہ انجمنیں بنا بنا کر فساد اور فتنوں کو دُور کریں۔ فرمایا لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَيْنَ النَّاسِ۔2
سوائے اس قسم کی انجمنوں کے اور کوئی انجمن ٹھیک نہیں کہ مشورے ہوں ۔ نیکی کے کاموں کے لئے یا غرباء میں صدقہ بانٹنے کے لئے، غرباء کی مدد کے لئے یا لوگوں کی اصلاح اور ان میں آپس میں صُلح کرانے کے لئے ایسے مشورے کرنا مُفید ہے۔ پس یہ ایک ایسی ضروری بات ہے کہ اس کے لئے قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا ہے۔ اس لئے مَیں خاص طور پر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ہم جہاں تک ہوسکے لڑائی سے بچیں نہ صرف خود بچیں بلکہ دوسروں کو بچائیں اور لڑائی کا موجب نہ بنیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک شخص تیر پھینکتا ہے اور وہ تیر رستہ میں ہی گر جاتا ہے لیکن دوسرا شخص اُٹھا کر اس شخص کے سینہ میں چبھو دیتا ہے جس کی طرف تیر مارا گیا تھا۔ ایک شخص گالی دیتا ہے اور وہ اُس تک نہیں پہنچتی جس کو دی گئی تھی مگر ایک دوسرا شخص اس کو اس تک پہنچا دیتا ہے اور فساد کا موجب بنتا ہے۔
پس یاد رکھو کہ اگر تم فساد کے موقع پرکبھی گئے ہو تو یہ مت سمجھو کہ تم اتفاقاً پہنچے ہو بلکہ قدرت نے تم کو اس لئے پہنچایا ہے کہ تمہارا امتحان لیا جائے اور یا تم عذاب اور غضبِ الٰہی میں پھنسو یا تم خدا کی رحمت کے انعام پاؤ۔ اگر تم فساد کے بھڑکانے کا موجب بنتے ہو تو تم عذاب اور غضب الٰہی کے مستحق بنو گے اور اگر اس فساد کو رفع کراتے ہو تو تم اﷲ تعالیٰ کے انعام کے مستحق بنتے ہو اور یا درکھو خدا کے فضل اور انعام سے کوئی مستغنی نہیں ہو سکتا۔ حضرت موسیٰ ؑ کہتے ہیں کہ خدایا! ہر ایک خیر جو تیری طرف سے ہو مَیں اس کا محتاج ہوں۔3 پس تم موسیٰ تو نہیں ہو اس لئے بہت زیادہ محتاج ہو۔ موسیٰ تو موسیٰ خدا کے فضل کے محتاج تو آنحضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ہیں۔
پس ہمیشہ فتنہ کے موقع پر ایسی بات کرو جس سے فتنہ دُور ہو ۔ فتنہ کی آگ مَت بھڑکاؤ۔ فتنہ بھڑکانا ایک گناہِ بے لذّت ہے۔ چور اور ڈاکو اپنی شرارت سے مال پاتے ہیں مگر فتنہ انگیزی کا کچھ بھی فائدہ نہیں۔ فتنہ انگیز کے لئے *** کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے موقع پر جو جذبہ پیدا ہو اس کو دبانا چاہئے کیونکہ فساد کااثر دُور تک پہنچتا ہے۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سالہا سال کی محنت کے بعد عرب میں اسلام پھیلایا اور عرب کے جنگجوؤں میں صلح کرائی مگر فساد ڈلوانے والے فساد ڈلوانے کی تاک میں رہتے تھے۔ ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں کا لشکر ایک مقام پر اُترا ہر ایک شخص کی کوشش تھی کہ وہ پانی پہلے پئے۔ اس پر دو شخصوں میں کچھ بات بڑھ گئی۔ عبداﷲ بن ابی ابن سلول منافقین کے سردار کو پتہ لگا۔ دوڑتا ہؤا آیا اور کہا کہ یہ مکّہ سے بھُوکے مَرتے آئے تھے، ہم نے جگہ دی، آج ہمیں کو آنکھیں دکھاتے ہیں، اچھا مدینہ چل کر زیادہ عزت والا ذلیل کو نکال دے گا۔ زیادہ عزت والا خود بنا اور ذلیل نعوذ باللّٰہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بنایا۔کسی شخص نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس فساد کی اطلاع دی۔ آپ کے پاس عبداﷲ کا بیٹا جو مومن تھا گیا اور کہا کہ میرے باپ کی بڑی غلطی ہے اور اس کو شاید آپ قتل کی سزا دیں جو ٹھیک ہے۔ اس لئے مَیں عرض کرتا ہوں کہ آپ مجھ کو حکم دیں کہ مَیں اس کو قتل کروں کیونکہ اگر آپ نے کسی اور شخص کو حکم دیا اور اس نے قتل کیا تو مجھ کو ممکن ہے کسی وقت ضعفِ ایمانی سے ابتلاء آئے اور مَیں اس کو باپ کا قاتل سمجھ کر اس کے خلاف ہاتھ اُٹھا بیٹھوں۔4 تو دیکھو وہ کیسے لوگ تھے اور فتنہ سے بچنے کے لئے کتنی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جو کام ان کے سُپرد کیا گیا تھا وہ اُنہوں نے بہت جلد سرانجام دیا۔ ہماری جماعت کے ذمہ بھی ایک کام ہے اس لئے اسے بھی ہر قسم کے فتنہ سے ڈرنا چاہئے۔ مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ فتنہ کو مِٹانے والے بنو، فتنہ بھڑکانے والے نہ بنو۔ تم پانی کا کام کرو، تیل کا کام نہ کرو تاکہ آپس میں محبت و پیار بڑھے اور تم ثواب کے مستحق بنو۔ یہاں انعام کام پر ملتا ہے اگر تمہارے کام کا نتیجہ اچھا ہؤا تو انعام کے وارث ہو جاؤ گے۔اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین‘‘ (الفضل 21اکتوبر 1920ء)
1: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ (الحجرت :11)
2: النساء : 115
3: رَبِّ اِنِّيْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ (القصص:25)
4: سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 304، 305 مطبوعہ مصر 1936ء ، السیرۃ الحلبیۃ
جلد 2 صفحہ 306 مطبوعہ مصر 1935ء




98
ایمان و اسلام کی حقیقت
ابتلاء کیا ہے؟
(فرمودہ 22اکتوبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''مَیں اِس جمعہ اُس مضمون کے متعلق ناغہ کرتا ہوں جو مَیں مسلسل بیان کر رہا ہوں کیونکہ اور نہایت ضروری مضمون پیش آگیا ہے جس کی طرف جماعت کی توجہ پھیرتا ہوں۔ یہ مضمون تو اس قابل ہے کہ اس کو وسعت سے بیان کیا جائے مگر دیر ہو جانے اور حلق میں تکلیف ہونے کے باعث زیادہ نہ بول سکوں گا مگر مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ جس قدر بھی اس وقت بیان ہو گا آپ لوگ اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ بالعموم لوگ الفاظ پر کفایت کر لیتے ہیں اور معنے جو لفظوں کے نیچے ہوتے ہیں ان میں جانے کی کم کوشش کرتے ہیں۔ بیسیوں لفظ ہیں جو لوگ سُنتے ہیں، بولتے ہیں، لکھتے ہیں مگر ان کی حقیقت کی طرف کم توجہ کرتے ہیں بلکہ جتنا کسی لفظ کو زیادہ بولتے ہیں اتنا ہی اس کی حقیقت پر کم توجہ کرتے ہیں اور اس سے کم واقف ہوتے ہیں۔
انہی الفاظ میں سے ''ایمان'' اور ''اسلام'' کے الفاظ بھی ہیں جن کے معنوں سے کم لوگ واقف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچپن سے سُنتے سُنتے اس قدر یہ الفاظ عام ہو گئے کہ ان کے معنوں کی طرف کبھی توجہ پیدا ہی نہیں ہوتی۔ جس طرح ایک شخص ایسے جنگل سے آئے جہاں اُس نے کبھی اسلام و ایمان کے الفاظ نہ سُنے ہوں وہ جب سُنے گا تو اس کے لئے یہ لفظ ایسے بے اثر نہ ہوں گے جیسے اُس شخص کے لئے ہیں جو بچپن سے ان کو سُنتا رہا ہے۔ جنگل سے آنے والے شخص کی عجیب کیفیت ہو گی اگر ہم اس کو کہیں گے کہ تم ایمان لے آؤ اور مسلمان ہو جاؤ تو وہ ہم سے پوچھے گا کہ ایمان کیا ہے؟ اسلام سے کیا مطلب ہے؟ ہم کیوں ایمان لائیں؟ اسلام کیوں قبول کریں؟ جب اُس کی حقیقت اس پر کھل جائے گی تب وہ اس کو قبول کرلے گا یا ردّ کر دے گا لیکن جو بچّہ مسلمان کے گھر پیدا ہؤا اور ہمیشہ سُنتا رہا کہ ہم مسلمان ہیں اس کو کبھی ضرورت ہی معلوم نہیں ہوتی کہ مسلمان ہونا ہے کیا چیز، لیکن ایمان اپنے اندر ایک بڑی حقیقت رکھتا ہے اور وہ حقیقت نہیں کھل سکتی جب تک ایک شخص اس کے اندر داخل نہ ہو۔ایمان یہ ہے کہ انسان کے اندر وہ صداقت جو خدا کی طرف سے ہو بیٹھ جائے اور وہ اس کے اندر سے کبھی نکل نہ سکے۔
لیکن ضد سے اور ہَٹ سے نہیں بلکہ یقین کے ساتھ اس میں سے نہ نکل سکے۔ بہت لوگ ہوتے ہیں جو ضد کی وجہ سے کوئی بات مانتے ہیں مثلاً کوئی بچّہ چوری کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے یا گالی دیتا ہے۔ ماں باپ مارتے ہیں اور کہتے ہیں پھر تو نہیں ایسا کرے گا؟ وہ کہتاہے کروں گا۔ پھر مارتے ہیں اور پوچھتے ہیں اب تو نہیں گالی دے گا؟ وہ کہتا ہے دوں گا۔ تو یہ ضد ہے جو مار سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کا یہ اصرار یقین کی بناء پر نہیں ہوتا لیکن ایمان کے معنے یہ ہیں کہ صداقت کو یقین کی بناء پر انسان نہ چھوڑے اور وہ جس بات پر اپنے ایمان کی رُو سے قائم ہے اس کے اپنے پاس دلائل بھی ہوں اور ان دلائل کی وجہ سے ترک نہ کرے۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس شخص کے دل میں بشاشتِ ایمان داخل ہو جائے اس کو اگر آگ میں بھی ڈال دیا جائے تو وہ مُرتد نہیں ہو سکتا۔1 غور کرو کہ جب بشاشتِ ایمان کا یہ حال ہے تو اعلیٰ ایمان کا کیا حال ہو گا۔ بشاشتِ ایمان کا یہ مطلب ہے کہ ایمان سے لگاؤ اور مناسبت پیدا ہو جائے جو لوگ ایمان کے اعلیٰ ترین مقام پر ہوتے ہیں وہ کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ ہم اس لئے آزمائش اور ابتلاء میں ڈالے گئے ہیں تاکہ ہمارے ایمان کا پتہ لگایا جائے وہ تو اس قدر بُلند درجہ پر ہوتے ہیں کہ ان کی اس طرح آزمائش ہو ہی نہیں سکتی۔ ہاں جو لوگ بشاشتِ ایمان جو ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے رکھتے ہیں ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر ان کو زندہ آگ میں ڈالا جائے تو وہ ایمان سے برگشتہ نہیں ہو سکتے۔ جب ادنیٰ ایمان کا تجربہ آگ میں ڈالنے سے ہو گا تو اعلیٰ ایمان کا درجہ تو بہت بُلند ہوتا ہے۔ مومن پر جو ابتلاء آتے ہیں ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو پتہ لگے کہ وہ ایمان میں کیسا مضبوط ہے۔
خدا کی طرف سے جو ابتلاء آتے ہیں وہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ خود اس شخص کو بتایا جائے کہ وہ کیسے درجہ ایمانی پر پہنچا ہؤا ہے دوسرا یہ کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ دیکھو ہمارا مومن کیسا مضبوط ایمان والا ہے۔ تو چھوٹے درجہ کے ایمان والوں کو جو ابتلاء آتے ہیں وہ آگ میں ڈالنا تک ہوتے ہیں اور اس وقت بھی وہ حقیقت سے منہ پھیر نہیں سکتے اور دوسرے درجہ میں خوداس شخص کو یقین ہوتا ہے اور اس کے ایمان کا ذرّہ خطرہ نہیں ہوتالیکن دوسروں کو یقین دلانا ہوتا ہے کہ یہ شخص ایمان کے اس درجہ میں ہے کہ تمہارا تکلیفیں دینا اس شخص کو ڈگمگا نہیں سکتا۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بدر اور اُحد وغیرہ مقامات پر جو تکالیف پہنچی تھیں وہ اس لئے نہ تھیں کہ منافقین اور کفّار پر آنحضرتؐ کے ایمان کی پختگی ظاہر کی جاتی یا خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو آپ کے ایمان کا پتہ بتایا جاتا کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایمان کا پتہ تو غارِ حرا میں ہی لگ گیا تھا بلکہ ان کی غرض یہ تھی کہ دُشمنوں کو آگاہ کر دیا جاتا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارا ایسا مقبول اور پیارا بندہ ہے کہ تمہارا اس کو تکالیف دینا اور تمہارا اس کو مِٹانا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ تمہاری ہر قسم کی شرارتوں اور مظالم کے مقابلہ میں یہ بڑھے گا اور تم اس کے مقابلہ میں ناکام رہو گے۔ گویا اس طرح تین طرح کے ابتلاء ہوتے ہیں
(1) کسی شخص کو خود اس کی ایمانی حالت سے آگاہ کرنے کے لئے۔
(2)دوسروں کو کسی کی ایمانی حالت کی عمدگی بتانے کے لئے۔
(3)تیسری قسم کے ابتلاء جو انبیاء اور مأموروں اور ان کے نائبوں کے لئے ہوتے ہیں ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تا لوگوں پر ظاہر ہو جائے کہ وہ خدا کے مقبولوں کا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔ خدا کے پیارے ہر میدان میں بڑھیں گے اور تمام مخالفتوں کے باوجود کامیاب ہوں گے۔
پس یہ تین قسم کے ابتلاء ہوتے ہیں اور چھوٹا اور بہت ہی کم درجہ ایمان کا جو بشاشت ایمان کہلاتا ہے اس کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ آگ میں پڑ کر بھی ایمان سے علیحدگی نہ کی جائے لیکن اب یہ حالت ہے کہ بعض لوگوں کو اگر محلہ والے ذرا ستائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ابتلاء میں پڑ گئے۔ حالانکہ اس کو ابتلاء قرار دینا درست ہی نہیں۔ لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ مثلاً قرآن میں آتا ہے کہ ہم نے مومنوں کو آزمایا وہ کہتے ہیں جب خدا اس قسم کی تکالیف کو ابتلاء قرار دیتا ہے تو ہم کیوں نہ کہیں لیکن یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص کا مجھ پر احسان ہے اور جس شخص کے متعلق کہا گیا ہے وہ بھی کہے کہ میرا فلاں پر احسان ہے تو یہ اس کی بے شرمی ہو گی۔ پس خدا تو کہہ سکتا ہے کہ ہم نے ابتلاء میں ڈالا مگر بندہ کا یہ حق نہیں کہ ان تکالیف کو ابتلاء کے نام سے موسوم کرے۔ دوسرا تعریف کر سکتا ہے۔اپنی تعریف آپ کرنا کبھی جائز نہیں ہو سکتا یا اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص کسی کے متعلق کہے کہ زید صاحب تشریف لائے ہیں اور زید بھی کہے کہ مَیں تشریف لایا ہوں تو یہ درست نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ شاہی کلام کے آداب کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کہہ سکتا ہے مگر ہم نہیں کہہ سکتے۔ تم کبھی نبیوں کی زبان سے نہیں سُنو گے کہ وہ کہیں گے کہ ہمارا امتحان لیا گیا۔ عربی زبان میں ابتلاء کے دو معنی ہوتے ہیں۔ پہنچنا یا ہو جانا۔ مثلاً ایک عرب کو اگر بخار ہو جائے تو وہ بخار کے لفظ کے ساتھ ابتلاء کا لفظ استعمال کرے گا یعنی اس کو بخار ہو گیا۔ وہاں ابتلاء کے معنے آزمائش کے نہیں ہوں گے۔
(2) فضل اور انعام اور امتحان کے معنے ہوتے ہیں۔ یہ تعریف کا کلمہ ہو گا جو انسان اپنے لئے خود استعمال نہیں کر سکتا۔ دوسروں کی طرف سے ہو سکتا ہے۔
تو بہت لوگ ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو ابتلاء کہہ دیتے ہیں مثلاً کوئی کہیں ملازم ہو اس کے افسر ناراض ہو جائیں یا کوئی احمدی ہو اور اس کا بیٹا بیمار ہو جائے تو وہ کہہ دے گا کہ بڑا ابتلاء آیا تھا مگر مَیں قائم رہا یا محلہ والے مخالفت پر آمادہ ہیں اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ جائداد خطرے میں ہے۔ یہ ابتلاء ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایمان کے ادنیٰ درجہ کے مقابلہ میں بھی ان تکالیف کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ حضرت خلیفۂ اوّل نے ایک مولوی کا قصّہ سُنایا کہ اس نے ایک عورت کا نکاح پر نکاح پڑھا دیاتھا۔ جب اس کو حضرت مولوی صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب! آپ نے یہ کیا کیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ مولوی صاحب مجھ پر بہت ظُلم ہؤا ہے اگر مَیں نکاح نہ پڑھاتا تو کیا کرتا۔ حضرت مولوی صاحب کو خیال آیا کہ واقعی زمیندار لوگوں نے سختی کی ہو گی مجبوراً نکاح پڑھانا پڑا ہو گا۔ آپ نے پوچھا ہاں مولوی صاحب! بتاؤ تو سہی ہؤا کیا؟ اس نے کہا کہ ''چِڑے جِڈا روپیہ میرے ہتھ تے رکھ دِتا۔ نہ نکاح پڑھدا تاں کی کردا''۔یعنی چِڑے کے برابر روپیہ میرے ہاتھ پر رکھ دیا اگر نکاح نہ پڑھتا تو کیا کرتا۔
تم میں سے بہت سے اس مولوی پر ہنستے ہیں لیکن تم میں بھی ہیں جو ایسی باتوں پر ابتلاء پُکار اُٹھتے ہیں اور ایسے خدا کے بندے ہیں جو تمہاری ان باتوں پر ہنستے ہیں۔
بعض لوگ ہیں جو ذرا محکمہ والے جن کے ہاں ملازم ہوں ناراض ہوں تو کہتے ہیں ہم ابتلاء میں پڑ گئے۔ محلہ داروں نے ذرا تکلیف دی تو ابتلاء ابتلاء پُکار اُٹھتے ہیں۔ شہر والوں نے سختی کی تو ابتلاء پُکارتے ہیں۔ بیٹا یا کوئی اور بیمار ہؤا تو ابتلاء کا نام لیتے ہیں حالانکہ خدا کے فضل کے مقابلہ میں جو وہ دم بدم تم پر کررہا ہے یہ معمولی تکالیف کہاں ابتلاء ہو سکتی ہیں۔
اور مومن کب ان کو خاطر میں لاسکتا ہے جب کہ آگ میں پڑنا بھی اس کو اس کی جگہ سے حرکت نہیں دے سکتا کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ خدا میرے ساتھ ہے۔ لوگوں کا مومن کو تکلیف دینا تو ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی پیٹھ کے پیچھے کسی کے مُکّہ مارے، لوگوں کا شور بجائے اس کی حالت کو قابلِ رحم بنانے کے خود شور کرنے والوں کی حالت کو قابلِ رحم بناتا ہے کیونکہ جو شخص قطب صاحب کی لاٹھ (لاٹ) پر بیٹھا ہے یا قلعہ میں بیٹھا ہے اس پر کسی کا تھوک پھینکنا یا کنکر مارنا کچھ بھی مؤثر نہیں ہو سکتا۔ ہاں تھوک پھینکنے اور کنکر مارنے والے کی حالت البتہ قابلِ رحم ہے۔ پس جو شخص خدا کی گود میں ہو جیسا کہ مومن ہوتا ہے اس کے لئے یہ معمولی تکالیف کہاں ابتلاء ہو سکتی ہیں۔ تم دیکھو کہ کبھی قطب صاحب کی لاٹھ پر بیٹھنے والا اور قلعہ نشین کسی کے تھوک پھینکنے یا گرد ڈالنے کو اپنے لئے ابتلاء نہیں کہے گا تو جو شخص خدا کی گود میں ہو وہ کب کہہ سکتا ہے کہ مَیں ابتلاء میں ہوں یا تو اس کو اقرار کرنا چاہئے کہ وہ خدا سے بے تعلق ہے اور اس کی گود میں نہیں یا اس قسم کی باتوں کو ابتلاء نہیں کہنا چاہئے۔
پس جو شخص خدا کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے اور کسی بڑے سے بڑے حادثہ پر بھی کہتا ہے کہ مَیں ابتلاء میں ہوں تو اس نے دراصل خدا کو نہیں مانا۔ اس نے اسلام اور احمدیت کو نہیں سمجھا اُس کا دعویٰ درست نہیں کہ وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور مرزا صاحب کو سچّا مانتا ہے۔ معمولی معمولی تکلیفوں اور دُشمنوں کی شرارتوں کی فکر اس کو تب ہو سکتی ہے جبکہ اس میں ایمان کی کمی ہو یا خدا کو مانتا تو ہو مگر یہ خیال ہو کہ وہ بیمار اور کمزور ہے، میری مدد نہیں کر سکتا۔ ورنہ جو خدا پر پورا پورا یقین رکھتا ہے، اس کی قدرت اور طاقت کا قائل ہے وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ پس یقین کامل ہونا چاہئے کہ ایمان کیا ہے اور ایسا ایمان ہونا چاہئے کہ کوئی بڑی سے بڑی مصیبت ابتلاء نہ کہلائے کیونکہ اگر کوئی تکلیف کو ابتلاء سمجھتا ہے تو وہ ایمان کے اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچا۔ پہلی منازل ہی طے کر رہاہے۔
ہاں خدا سے دُعا ہونی چاہئے کہ وہ ہمیں ڈگمگانے سے بچائے۔ بندے سے سوال نہیں ہونا چاہئے کہ وہ بچائے۔ انسان یہ کہے خدا یا! تیری مدد کا محتاج ہوں۔ تیرے استغناء سے ڈرتا ہوں اس لئے تجھی سے کہتا ہوں کہ میری مدد کر۔
یہی نکتہ ہے جو سورۃ فاتحہ میں بیان کیا گیا ہے وہاں مومن دُعا کرتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ2۔ خدایا! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ 3تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی عبادت کرنے والے کو اپنی طرح کے عابد تو نظر آتے ہیں مگر وہ جن سے خدا کے سوا مدد مانگے کوئی نہیں نظر آتا۔ اس لئے مدد کے لئے مومن کی نظر میں خدا کے غیر کچھ ہے ہی نہیں۔ صرف خدا ہی خدا ہے جس سے مانگتا ہے پھر اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ 4 میں کہتا ہے کہ مَیں جس رستہ پر ہوں اس پر سب چلنے والے ہی نظر آتے ہیں۔ کوئی مدد دینے والا نہیں۔ آپ ہی اس رستہ میں مدد فرمائیے۔ چلنے والے سب بندے ہیں اور جو غیر ہیں وہ مغضوب اور ضآلّین ہیں۔ گویا مُردے ہیں ان پر کیسے نظر پڑ سکتی ہے یا ان سے کوئی کیا ڈر سکتا ہے۔ پس دُنیا تمام رُعبوں اور قوتوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ مومن سے دُور ہو جاتی ہے۔ خدا ہی خدا اس کے سامنے ہوتا ہے اس لئے وہ کبھی ڈرپوک اور بُزدل نہیں ہوتا۔ کوئی بڑی سے بڑی تکلیف اس کو خداکے فضل سے متزلزل نہیں کر سکتی۔ مومن اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں دے دیتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے کرے۔
اﷲ تعالیٰ توفیق دے کہ آپ لوگ سمجھیں اور مصائب وتکالیف و آلام آپ کے لئے تزلزل کا باعث نہ ہوں بلکہ آپ کا ایمان اس قدر بُلند درجہ پر ہو کہ دُنیا کے تمام کافر آپ کے سامنے مُردہ ہوں۔ ان کی پہنچائی ہوئی تکالیف کچھ نہ کر سکیں۔ تمہاری نظر خدا پر ہو اور اس کے غیر تمہاری نظر میں ایک پشّہ کے برابر حقیر بلکہ اس سے بھی زیادہ حقیر ہوں۔‘‘
(الفضل 28اکتوبر 1920ء)
1: بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان
2،3: الفاتحۃ :5
4: الفاتحۃ:6


99
غیبت کی تعریف اور اس سے بچنے کی تاکید
(فرمودہ 29اکتوبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے جیسا کہ چند جمعے گزرے ہیں بیان کیا تھا تکمیلِ ایمان کے لئے جن اُمور کی ضرورت ہے ان کے متعلق ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف خطبات میں بیان کروں گا اور یہ بھی مَیں نے ذکر کیا تھا کہ مَیں زیادہ تر ان اُمور کے متعلق بیان کروں گا جو آپس کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ معاملات سے میری مُراد خرید و فروخت اور لین دین نہیں بلکہ ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ تعلقات ہیں۔
ان کے متعلق مَیں نے بتایا تھا کہ وہ دو حصّوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک وہ باتیں ہیں جن کے کرنے کا شریعت نے حُکم دیا ہے اور دوسری وہ جن کے نہ کرنے کا حُکم دیا ہے یعنی بعض ایسی باتیں ہیں کہ جن کے نہ کرنے سے ایمان ناقص رہتا ہے اور بعض ایسی ہیں جن کے کرنے سے ناقص رہتا ہے۔ ان دونوں قسم کی باتوں کو مدِّنظر رکھنا ضروری ہے۔
آج بھی میں اسی سلسلہ میں سے ایک کڑی کولے کر اس کے متعلق بیان کرتا ہوں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ دُنیا میں اعمال کے دو حصّے ہوتے ہیں۔ ایک وہ اعمالِ حسنہ ہوتے ہیں کہ جن کے کرنے میں انسان کو لُطف اور فائدہ عاجل حاصل ہوتا ہے اور ایک وہ جن کا نقد بہ نقد نفع اور فائدہ معلوم نہیں ہوتا اور ان کوبظاہر چَٹی سمجھتے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو سمجھدار اور واقف ہوں۔
اسی طرح وہ اعمال جو نہ کرنے کے ہوتے ہیں وہ بھی دو طرز کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کو نہ کرنا چاہئے اور نہ انسان کو ان کے کرنے میں کوئی فائدہ نظر آتا ہے اور ایک وہ جن کو نہ کرنا چاہئے لیکن ان میں یا تو انسانوں کو فائدہ نظر آتا ہے یا مزہ آتا ہے۔
جس طرح کرنے والے اعمال میں سے وہ زیادہ گراں اور بوجھل نظر آتے ہیں جن کو کرنا چاہئے مگر ان میں لُطف نہیں آتا۔ یا عاجل فائدہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح نہ کرنے والے اعمال میں سے ان کا چھوڑنا بہت مُشکل ہوتا ہے جن کے کرنے میں لُطف حاصل ہو اور فائدہ نظر آتا ہو۔ بہ نسبت ان کے جن کے کرنے میں کوئی فائدہ اور لُطف نہ آتا ہو۔
آج مَیں ان میں سے ایک ایسے امر کے متعلق بیان کروں گا جس میں بظاہر نہ نفع ہوتا ہے اور نہ لُطف لیکن عادتاً کہو یا بعض ایسے مخفی احساسات کی وجہ سے جن کو ابھی تک کم از کم مَیں محسوس نہیں کر سکا۔ انسان کو لُطف معلوم ہوتا ہے۔ گو بظاہر لُطف کی کوئی وجہ نہیں ہوتی اور بہت کام ایسے ہیں جن میں لُطف کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوتی مگر لوگوں کو مزا آتا ہے یا کم از کم ایسے لوگوں کو مزا آتا ہے جن کی رُوحانیت درست نہ ہو مثلاً اگر کوئی شخص راستہ چلتے چلتے گر جائے تو بہت اُسے دیکھ کر ہنس پڑیں گے اور ان کی ہنسی رُک نہیں سکے گی۔ حتّٰی کہ اگر وہ کسی ایسے کام میں مشغول ہوں جس میں ہنسنا جائز نہ ہو مثلاً نماز پڑھ رہے ہوں تو اس وقت بھی انہیں ہنسی آجائے گی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ ایک بہت باریک اور مخفی مسئلہ ہے اور جب تک انسانی خیال کا لمبا مطالعہ نہ کیا جائے اس کی وجہ معلوم کرنا مُشکل ہے اور پھر وہ وجہ بھی ایسی باریک ہو گی کہ اس کے متعلق یقینی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ دُرست ہو گی۔
اسی طرح لوگ پاگل اور مجنون پر ہنستے ہیں حالانکہ وہ قابلِ رحم ہوتا ہے نہ کہ ہنسی کے قابل لیکن اس کی حرکات کو دیکھ کر اور باتوں کو سُن کر اچھے اچھے سنجیدہ لوگ ہنسنے لگ جاتے ہیں۔ ان کو کیوں ہنسی آتی ہے؟ اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی۔پاگل کی دیوانگی کی حرکات کُودنا، بھاگنا، ننگا ہونا، بکواس کرنا کیا لُطف رکھتی ہیں اور ان سے لوگوں کو کیا مزا آتا ہے؟ اس کی کوئی وجہ وہ بیان نہیں کر سکتے یا عام طور پر ہر انسان بیان نہیں کر سکتا۔ سوائے اس کے جس نے انسانی خیالات کا ایک لمبا تتبع کیا ہو لیکن وہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ وجہ صحیح ہے۔ ابھی یہ تحقیقاتیں بچپن کی حالت میں ہیں اور ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
مگر اس میں شک نہیں لوگوں کو مزا آتا ہے۔پاگلوں کی حرکات پر اور گرنے والوں پر۔ اسی طرح اور کئی باتیں ہیں جن میں لوگوں کو مزا آتا ہے۔ حالانکہ مزے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ وہ بات جو میں اس وقت بیان کرنے لگا ہوں وہ بھی ایسی ہی ہے اس میں بھی لوگ مزا پاتے ہیں مگر اس کی انہیں کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ وہ کیا ہے؟ وہ غیبت ہے۔ اس کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی لُطف کی وجہ نہیں ہوتی مگر ایک شخص دوسرے شخص کے عیب بیان کرتاہے اور دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ سُننے والے کو بڑا مزا آرہا ہے۔ اسی طرح بیان کرنے والے کو بھی اور جُوں جُوں زیادہ تشریح کرتا جاتا ہے ان کے چہروں سے خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں بعض دفعہ جس کے عیب بیان کئے جارہے ہوں وہ ان کا دوست ہوتا ہے، بعض دفعہ محسن ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے عیوب کے اظہار پر ان کو نقصان بھی پہنچتا ہے مگر باوجود اس کے ان کو مزا آتا ہے۔ کیوں؟ دُنیا میں قلیل ہی ایسے اشخاص ہوں گے جو اس کی وجہ بیان کر سکیں اور جو مزا اُٹھانے والے ہیں وہ تو قریباً تمام کے تمام ایسے ہوں گے کہ کوئی وجہ بیان نہیں کر سکیں گے مگر باوجود اس کے گھنٹہ گھنٹہ ایک شخص غیبت کرتا جائے گا اور اس کے چہرہ سے ایسے آثار ظاہر ہوں گے کہ گویا اسے کوئی عظیم الشان کامیابی حاصل ہو رہی ہے اور سُننے واے بھی اتنے مشغول ہوتے ہیں کہ اگر کوئی ضروری کام کے لئے بھی بُلائے تو ناراض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ٹھہرو ابھی آتے ہیں، کام کر رہے ہیں اور ان کے بشرو ں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کوئی ایسی خوشی کی بات معلوم ہوئی ہے جیسے کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو یا کوئی جائداد مِل جائے یا حکومت اور عزت حاصل ہو۔ گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دُنیاوی انعام کی بڑی سی چیز ان کو مِل گئی ہے جس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ کبھی ہاتھ ماریں گے، کبھی سر ہلائیں گے، کبھی مُسکرائیں گے ، کبھی ہنسیں گے اور ایسے لُطف کا اظہار کریں گے کہ ان کی زیست کا مدار وہی بات ہے لیکن اگر پوچھو کہ کیوں مزا آرہا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو قطعاً نہیں بتا سکیں گے نہ بیان کرنے والا اور نہ سُننے والے۔
مگر کہیں چلے جاؤ، کسی مُلک میں جاؤ، کسی علاقہ میں جاؤ، کسی قوم میں جاؤ، ہر جگہ اور ہر قوم کے لوگوں میں یہ بات پاؤ گے۔ سب سے زیادہ حقیقت پر روشنی ڈالنے والا مذہب اسلام ہے۔ اس کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں میں بھی ایسے نظر آئیں گے جو ایک دوسرے کی غیبت کر رہے ہوں گے۔ ایک بہت قدیم تہذیب کے مالک ہندو ہیں جن کے اس دعویٰ کو ہم قبول کریں یا نہ کریں کہ ان کی تہذیب دُنیا کے ابتدا سے چلی آتی ہے مگر اتنا تو ماننا پڑے گا کہ ان کی روایات نہایت قدیم ہیں اور ان کے تمدنی قواعد بہت لمبے عرصہ سے چلے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے نیچے ایسے دبے ہوئے ہیں کہ گویا ان کی فطرت میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس قوم میں بھی یہ بات پاؤ گے کہ غیبت کرنے والے کو بھی مزا آتا ہو گا اور سُننے والے کوبھی۔
پھر ان لوگوں میں چلے جاؤ جو کہتے ہیں کہ ہم نے علمِ اخلاق کے ابواب کو کھول کھول کر پڑھ لیا ہے اور جو کہتے ہیں کہ ہم اخلاق کے اس اعلیٰ درجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمارا حق ہے تمام دُنیا پر حکومت کریں اور لوگوں کو تہذیب، تمدن اور اخلاق سکھائیں۔ ان میں بھی یہی بات نظرآئے گی اورعام لوگوں میں ہی نہیں بلکہ ان کے اعلیٰ طبقہ کے لوگوں، فلاسفروں، سیاست دانوں، محققوں میں بھی پائی جائے گی۔
تو سب لوگوں کو اس میں لُطف آتا دیکھو گے مگر کیوں؟ اس پر وہ بھی خاموش رہ جائیں گے۔ پس تمام دُنیا پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وجہ ہو یا نہ ہو لوگ عادت یا ایسی باریک وجوہات کی بناء پر جن کا بیان کرنا ایک زائد تفصیل ہو جائے گی اور جن کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں مزا اُٹھاتے ہیں مگر باوجود اس کے لُطف کے اور اس کے عام اور وسیع الاثر ہونے کے شریعتِ اسلام نے اور قریباً باقی تمام مذاہب نے اس سے منع کیا ہے۔
اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وقتی مزے کے سوا جو غیبت کرنے کے وقت حاصل ہوتا ہے بعد میں اس کے بڑے بڑے خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔ بڑی بڑی قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، دو ستیاں اور رفاقتیں ٹوٹ جاتی ہیں، محسنوں اور ہمدردوں سے تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں، رشتہ داریاں خراب ہو جاتی ہیں گورنمنٹ اور رعایا میں فساد پیدا ہو جاتے ہیں۔ غرض بہت خطرناک نتائج نکلتے اور لوگ بہت دُکھ اُٹھاتے ہیں مگر پھر بھی کرتے ہیں۔
غیبت کرنے میں انہیں مزا تو خیر آتا ہی ہے مگر اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں۔ زبان سے بات کہنے کا کیاہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں سے جب پوچھیں کہ تم نے فلاں کے متعلق یہ کہا ہے تو کہتے ہیں ہم نے تو کچھ نہیں کہا۔ بات تھی جو کہہ دی تو وہ سمجھتے ہیں زبان کچھ کرتی ہی نہیں۔ جو چاہیں کہہ دیں اس کا کچھ نتیجہ نہیں ہو گا۔ حالانکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں زبان ان چیزوں میں سے ہے جو انسان کو دوزخ میں گرانے میں بہت دخل رکھتی ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے اس کو حفاظت میں رکھنے پر زور دیا۔ ایک صحابی نے کہا زبان کا کیا ہے؟ فرمایا زبان کی باتوں کا جہنم کو پُر کرنے میں بہت بڑا حصّہ ہے۔ تو عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ زبان کی بات کا کیا ہے۔ ہم نے تو بات کہی تھی، کیا کچھ نہیں۔حالانکہ کہنا بھی ایک ایسی بات ہے جو ایمانیات میں داخل ہے۔ چنانچہ ایمان میں یہ بات شامل ہے کہ انسان دل سے مانے اور زبان سے کہے۔ تو زبان کو ایما ن کا جزو قرار دیا گیا ہے۔ اگر ایک شخص خدا کو مانتا ہے، رسولِ کریم ؐ کو مانتا ہے مگر مُنہ سے نہ کہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایسا شخص کافر ہے۔ پس جب بڑے بڑے خطرہ میں انسان زبان کی وجہ سے پڑ سکتا ہے تو چھوٹے میں کیوں نہیں پڑ سکتا۔ لوگوں کو یہ بہت بڑی غلطی لگی ہے کہ وہ زبان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ حالانکہ اس کی بہت بڑی حقیقت ہے۔
اس تمہید کے بعد مَیں بتاتا ہوں کہ غیبت کیا ہے؟ اکثر اس کو سمجھتے نہیں اور کرتے ہیں۔ بالعموم لوگ کہتے ہیں کہ پیٹھ پیچھے جھوٹی بات بیان کرنا غیبت ہوتی ہے مگر اصل میں غیبت اس کو نہیں کہتے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی یہ تعریف کی ہے کہ ایسی بات جو کسی بھائی کی پیٹھ پیچھے کہے اور وہ اُسے بُری لگے اور وہ سچی ہو۔ ہر ایک بات پیٹھ پیچھے کرنا غیبت نہیں مثلاً اگر کوئی کہے فلاں آدمی بڑا نیک ہے تو یہ غیبت نہیں ہو گی اور نہ ہی غیبت یہ ہے کہ کسی کے متعلق پیٹھ پیچھے جھوٹی بات کہے یہ تو افتراء ہے۔ ایک شخص نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کیا سچّی بات کہنی بھی غیبت ہے۔ آپ نے فرمایا۔ یہی تو غیبت ہے۔ اگر کوئی جھوٹ بولتا ہے تو وہ افتراء کرتا ہے۔1 پس غیبت کے یہ معنی ہیں کہ کسی کے پیچھے وہ بات بیان کرنا کہ جسے اگر وہ سُنے تو اُسے بُری لگے اور تم سمجھتے ہو کہ اس میں پائی جاتی ہے خواہ فیِ الواقع اس میں ہویا نہ ہو۔
یہاں مَیں نے سمجھنے کی شرط اس لئے لگا دی ہے کہ اگر کوئی غیبت کرتاہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ فی الواقع صحیح بھی ہے ۔ہاں یہ ہوتا ہے کہ بیان کرنے والا اس کے متعلق ایسا سمجھتا ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں غیبت کی یہ تعریف معلوم کر کے بہت لوگ اس سے بچ سکتے ہیں کیونکہ اکثر اسی لئے اس کے مرتکب ہوتے ہیں کہ سمجھتے نہیں غیبت کیا ہے اور اچھے اچھے پڑھے لکھے کہہ دیا کرتے ہیں کہ سچّی بات کو بیان کرنا غیبت نہیں۔ حالانکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جھوٹی بات غیبت نہیں بلکہ بہتا ن اور افتراء ہے۔ تو ایک بات کو سچّا سمجھ کر بیان کرنا غیبت ہے۔
پھر اکثر لوگ یہ سمجھ کر غیبت کرتے ہیں کہ یہ اپنی ذات میں کوئی بُری بات نہیں۔ حالانکہ غیبت کی بُرائی اوّل تو یہی ہے کہ اس کے ذریعہ جس پر کوئی الزام لگایا جاتا ہے وہ دُور نہیں کر سکتا۔ مثلاً اگر کوئی ایک بھائی کے متعلق کہے کہ نماز نہیں پڑھتا یا چوری کرتا ہے مگر اُسے پتہ بھی نہ ہو تو اس سے زیادہ اور کیا ظُلم ہو گا۔ دیکھو خطرناک سے خطرناک مجرموں کو بھی عدالتیں اپنی بریت کا موقع دیتی ہیں۔ پھر کس قدر ظُلم ہے کہ ایک بھائی پر الزام لگا کر اس کو بریت کا موقع نہ دیا جائے۔ قرآنِ کریم نے اس کو ایسا بتایا ہے جیسے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ چنانچہ فرماتا ہے اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ۠١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۔2 کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے جس طرح اگر کوئی مُردہ شخص کا گوشت کھائے تو مُردہ مقابلہ نہیں کر سکتا اسی طرح جس کی غیبت کی جائے وہ بھی تردید نہیں کر سکتا۔
پھر غیبت کرنا ہی بُرا نہیں بلکہ غیبت سُننا بھی بُرا ہے کیونکہ جو غیبت سُنتے ہیں وہ غیبت کراتے ہیں۔ پس اوّل تو چونکہ یہ خود عیب ہے اس لئے جس طرح کسی کو غیبت کرنے میں گناہ ہے اسی طرح غیبت سُننے میں بھی گناہ ہے لیکن جو سُنتا ہے وہ چونکہ بیان کرنے والے کو تحریک کرتا اور جرأت دلاتا ہے اس لئے بھی گنہگار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے غیبت سُننے سے بھی منع فرمایا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی کسی بھائی کا عیب بیان کرتا ہے اور سُننے والا اس کو ردّ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ بھی قیامت کو اس کے گناہوں کو ردّ کرے گا۔
رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے نہ صرف غیبت سُننے کو گناہ بتایا ہے بلکہ اس کے ردّ کرنے کو نیکی ٹھہرایا ہے۔ پس مومن کو چاہئے کہ اگر کوئی اس کے سامنے کسی بھائی کی غیبت کرے تو وہ اس کاردّ کرے یعنی جوبات بیان کی جائے اس کے ردّ کرنے کی اس کے پاس وجوہات ہوں تو ان کو پیش کرے اور اگر اسے ردّ کرنے کے لئے کوئی بات معلوم نہ ہو اور سمجھ میں نہ آئے تو غیبت کرنے والے کو روکے اور اگر وہ نہ رُکے تو اس کے پاس سے اُٹھ کر چلا آئے۔ یہ تین باتیں مومن کا فرض ہیں۔ اوّل یہ کہ اگر کوئی اس کے سامنے کسی بھائی کا عیب بیان کرے تو اُسے کہے جو نتیجہ تم نکالتے ہو یہ صحیح نہیں۔ اصل بات یہ ہے۔ دوم اسے سمجھائے کہ ایسا نہ کرو اور سوم یہ کہ اگر وہ نہ مانے تو وہاں سے اُٹھ کر چلا جائے۔
یہ تو غیبت کے متعلق احکام ہیں مگر یا درکھنا چاہئے کہ ہر موقع پر کسی کا عیب بیان کرنا بُرا نہیں ہوتا بلکہ بعض جگہ ضروری ہوتا ہے اس وقت اس کو غیبت نہیں کہا جائے گا۔ غیبت ایک اصطلاح ہے اور یہ اسی وقت استعمال کی جائے گی جبکہ خوامخواہ کسی کے عیب بیان کئے جائیں لیکن اگر کوئی شخص کسی کا عیب بیان کرنے پر مجبور ہے یا اوروں کو اس کے بیان کرنے سے فائدہ پہنچتا ہے تو اس کا بیان کرنا نیکی اور ثواب کا کام ہو گا مثلاً ایک ایسا شخص ہے جو جماعت یا قوم کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے یا بُری باتیں پھیلاتا ہے تو اس کے متعلق اطلاع دینا اور اس کی شرارتوں سے ذمہ دار لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
اسی طرح کسی کو پتہ لگے کہ زید بکر کو قتل کرنا چاہتا ہے اگر وہ بکر کو نہیں بتاتا یا گورنمنٹ کو اس کی اطلاع نہیں دیتا تو گناہ کرتا ہے۔ یہ غیبت نہیں ہو گی اور اس کا بیان کرنا ضروری ہو گا۔ تو کسی بات کے بیان کرنے اور بتانے میں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے بیان کرنے میں نفع ہے یا نقصان۔ اگر اس سے کوئی اچھا نتیجہ نکلتا ہو ،کسی بُرائی کا سدّ باب ہوتا ہو ، کسی کو فائدہ پہنچتا ہو تو اس کا نہ بیان کرنا گناہ ہو گاجس طرح غیبت کرنا گناہ ہے۔
مثلاً اگر کسی کو معلوم ہو کہ فلاں شخص مفید اور فائدہ رساں چیز کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے یا گورنمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی کر رہاہے یا جماعت کے خلاف کسی شرارت سے کام لے رہا ہے یا کسی خاندان کو تباہ کرنے میں لگا ہؤا ہے یا کسی فردِ واحد کو نقصان پہنچانے لگا ہے تو اس کا چھُپانا گناہ ہو گا اور اس کا ظاہر کرنا غیبت نہیں کہلائے گا بلکہ یہ جائز اور ضروری ہو گا۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جماعت کے خلاف سازش کرتے ہیں، بد گوئیاں کر کے جماعت کے انتظام کو بگاڑتے ، خرابیاں بیان کر کے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتے ہیں۔ ان کی باتیں سُننے والا اگر خاموش رہے اور یہ سمجھے کہ مَیں نے ثواب کا کام کیا ہے تو یہ صحیح نہیں۔ ایسی باتوں کے متعلق خاموش رہنا ثواب نہیں بلکہ گناہ ہو گا کیونکہ جو شخص ایک جماعت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اُسے اگر قتل بھی کرنا پڑے تو ضروری ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو جماعت کا قائم مقام ہو اس کا قتل کرنا جماعت کا قتل کرنا ہو گا اور یاد رکھنا چاہئے قتل کرنا تلوار سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے درجہ، اس کی حیثیت کو کم کرنا یا اس کے خلاف بُرائی اور بد دلی پھیلانا بھی قتل کرنا ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو جس نے ایک دوسرے شخص کی اس کے منہ پر تعریف کی فرمایا تُو نے اس کو قتل کر دیا۔تو قتل کئی طرح سے کیا جاتا ہے۔ پس اگر کوئی ایسی بات کو چھُپاتا ہے جو جماعت کے خلاف ہے جماعت کے قائم مقام کے خلاف ہے تو وہ گناہ کرتا ہے۔ کیونکہ جس طرح کسی کا عیب بِلا وجہ بیان کرنا گناہ ہے اسی طرح اگر کوئی جُرم کا ارتکاب کر رہا ہو تو اس کا چھُپانا منع ہے ایسے فعل چار قسم کے ہوتے ہیں۔
(1) اگر کوئی حکومت یا امام کے خلاف شرارت کر رہا ہو تو اس کا چھُپانا منع ہے۔
(2)اگر کوئی ایسا فعل کر رہا ہو کہ اس کی ذات کو اس سے نقصان پہنچنے والا ہو مثلاً کوئی شخص زہر کھانے لگا ہو اس کو اگر کوئی شخص ایسا ہے جو روک سکتا ہے تو اُسے نہ بتانا گناہ ہے۔
(3) یہ کہ ایک ایسا عیب ہے جس کے بیان نہ کرنے سے اس کی ذات کو نقصان پہنچتا ہو مثلاًکسی نے اس کا مال دبا لیا ہو اور وہ قاضی کے پاس عدالت میں جاکر اس بات کو بیان نہ کرے تو اُسے مال کس طرح مِل سکے گا۔ تو ایسی باتوں کا بیان کرنا بھی جائز ہے۔ ہاں اگربیان نہ کرے تو گناہ نہیں ہے یا مثلاً کسی نے اس کو مارا اس کے لئے جائز ہے کہ عدالت میں جائے اور اس واقعہ کو بیان کرے لیکن اگر نہ جائے اور نہ بیان کرے تو یہ اس کے لئے ناجائز نہیں ہو گا۔
پہلی دو باتیں جو مَیں نے بیان کی ہیں اُن کا نہ بیان کرنا گناہ کرنا ہے اور بیان کرنا ثواب کا کام ہے لیکن یہ ایسی ہے کہ نہ بیان کرنا گناہ نہیں اور بیان کرنا جائز ہے۔اس میں مَیں نے ایک شرط لگا ئی ہے اس کو مدِّنظر رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس عیب کو بیان کرنا چاہئے جو اس کی ذات کے لئے فائدہ مند ہو یعنی جو عیب بیان کرے اسی میں اس کا فائدہ ہو مثلاً کسی نے مارا ہے اور اس بات کو بیان کر کے بدلہ لینے میں اس کا فائدہ ہے لیکن اگر کسی نے تھپڑ مارا ہو اور اس کا جھُوٹ بیان کرتا پھرے تو یہ ناجائز ہوگا۔ اس کا مجسٹریٹ کے پاس جاکر کہنا کہ فلاں نے مجھے تھپڑ مارا ہے یہ تو جائز ہے لیکن اگر وہ جاکر یہ کہے کہ فلاں جھوٹ بولتا ہے یا اس کا کوئی اور عیب بیان کرے تو یہ ناجائز ہے۔
(4) یہ کہ ایسا عیب جس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہو اس کا بیان کرنا بھی ضروری ہو گا لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب اس کی اپنی ذات کے متعلق ہو تو جائز ہو گا اور اُسے حق ہو گا کہ بیان کرے یا نہ کرے کیونکہ اپنی ذات کے متعلق عفو اور درگزر کرنے کا وہ حق رکھتا ہے لیکن دوسروں کے متعلق یہ حق نہیں رکھتا۔ اس لئے دوسروں کو اگر نقصان پہنچتا ہو تو اس کابیان کرنا اس کے لئے ضروری ہے۔
ان چار اُصول کے ماتحت عیب بیان کرنا جائز ہو گا۔ انہی کے ماتحت یہ بھی جائز ہو گا کہ مثلاً کسی نے مشورہ کرنا ہے۔ ایک جگہ شادی کرنا چاہتا ہے اور پوچھتا ہے کہ فلاں لڑکی میں کوئی عیب ہو تو بتاؤ اس کے جواب میں اگر کوئی عیب بیان کرتاہے تو یہ بھی جائز ہو گا۔
اسی طرح سب باتیں ان چار قسموں میں داخل ہیں۔
مذہب، سیاست، حکومت کے خلاف کوئی بات ہو یا ایسی بات ہو کہ اس کی ذات کو اس سے نقصان پہنچتا ہو جیسا کہ زہر کی مثال سے مَیں نے سمجھایا ہے۔ ایسا ہی اعتقادات میں خرابی ہو۔ اگر اس کے متعلق نہ بتایا جائے گا تو اسے نقصان پہنچے گا۔
غرض جتنے عیوب بیان کرنے جائز ہیں وہ سب ان چاروں قسموں کے اندر آجائیں گے۔ لوگوں نے ان کی بہت سی قسمیں مقرر کی ہیں مگر اصل میں یہ چار ہی ہیں۔ ان کے اندر سارے آجاتے ہیں۔ ان سب کی ایک قسم یہ ہے کہ وہ عیب بیان کرنے جائز ہیں جن سے کسی نہ کسی کو نقصان پہنچتا ہو۔ یہ بڑی قسم ہے اس کے نیچے چاروں قسمیں آجائیں گی۔
پھر یاد رکھو وہی عیب بیان کرنا چاہئے جو حقیقی طور پر ہو اور جس کا تدارک کیا جا سکتا ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اس کا بیان کرنا جائز ہے یا بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بیان کرنے سے فائدہ ہوتا ہے اور نہ بیان کرنے سے نقصان یا بعض ایسے کہ جن کے بیان کرنے سے فائدہ ہوتا ہے اور نہ بیان کرنے سے نقصان نہیں ہوتا۔ حاکموں اور ذمہ دار لوگوں کے پاس عیب بیان کرنے پر قرآن نے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہت زور دیا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی رکھا ہے کہ ایسے عیب کہ جن کے بیان کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہو یا جن کی وجہ سے کوئی نقصان نہ ہوتا ہو بلکہ ذاتی عیوب ہوں ان کو بیان نہیں کرنا چاہئے۔ ان کے بیان کرنے سے خاص طور پر روکا گیا ہے۔ چنانچہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوگوں کے عیب میرے سامنے اس رنگ میں بیان نہ کرو کہ میرے دل میں اُن سے نفرت پیدا ہو۔ یہی اچھا ہے کہ میں جب گھر سے نکلوں تو سب کی محبت میرے دل میں ہو۔ تو حاکم یا قاضی یا خلیفہ یا امام کے پاس کسی کے ذاتی عیب اس لئے بیان کرنے کہ اس کے دل میں نفرت پیدا ہو منع ہیں۔ صرف ایسے عیب بیان کرنے جائز ہوں گے کہ جن کی اصلاح کی طرف توجہ دی جاسکے یا ایسے کہ اگر نہ بیان کئے جائیں تو دوسروں کو نقصان پہنچے لیکن اگر یہ نہ ہو تو امام یا خلیفہ کے پاس ان کا بیان کرنا ناجائزہو گا۔
غیبت کے یہ پہلو ہیں ان کو مدِّ نظر رکھنا ہر ایک مومن کے لئے ضروری ہے اور چونکہ یہ ایک عام عیب ہے اس لئے جب تک اس کی طرف خاص توجہ نہ رکھی جائے گی اس سے بچنا مُشکل ہو گا کیونکہ جو باتیں انسان سے عادتاً سرزد ہو جاتی ہیں اُن پر جب تک ایک لمبے عرصہ تک خیال نہ رکھا جائے انسان بچ نہیں سکتا۔ غیبت چونکہ عادت کے طور پر کی جاتی ہے اس لئے اس کے متعلق بھی سوچنا چاہئے اور ایک لمبے عرصہ کے بعد انسان اس سے بچ سکے گا۔
پس چونکہ یہ ایک عام مرض ہے اس لئے اسے خاص طور پر مدِّنظر رکھو۔ یوں خواہ عہد کر لو کہ غیبت نہیں کریں گے لیکن اس طرح نہیں بچ سکو گے اور ممکن ہے یہاں سے اُٹھتے ہی کوئی کرنے لگ جائے کیونکہ اسے اس بات کا احساس ہی نہیں ہو گا کہ مَیں غیبت کر رہا ہوں بلکہ وہ عادتاً کرے گا۔ پس اسی وقت یہ عہد بھی کر لو کہ اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہیں گے اور دیکھتے رہیں گے کہ غیبت سے آلودہ نہ ہوں ۔ اس طرح اگر کرو گے تو چار پانچ چھ ماہ یا جتنی جتنی کسی کی استعداد ہو گی اس کے مطابق وہ جلدی بچ سکے گا اور پھر اس کی یہ حالت ہو جائے گی کہ پہلے جس طرح بغیر احساس کے غیبت کرتا تھا اسی طرح بغیر کوشش اور سعی کے غیبت سے بچتا رہے گا۔خداتعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین"
(الفضل 4نومبر 1920ء)
1: مسلم کِتاب الْبِرّ وَ الصِّلَۃ باب تحریم الْغِیْبَۃ
2: الحجرات: 13



100
تبلیغِ احمدیت کی تلقین
(فرمودہ 5نومبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''آج مجھے پھر اس سلسلہ مضامین میں ضرورتاً وقفہ ڈالنا پڑا ہے جو مَیں نے پچھلے چند ہفتوں سے شروع کیا ہؤا ہے۔آج مَیں ایک ایسے اہم فرض کی نسبت آپ لوگوں کو اور پھر اپنے اخباروں کے ذریعہ بیرونی جماعتوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جس کی طرف توجہ کئے بغیر اور جس کے لئے کوشش کئے بغیر کسی قسم کی کامیابی اور ترقی کی اُمید نہیں رکھی جاسکتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس امر کے متعلق بار ہا میں بھی توجہ دلا چُکا ہوں اور جو مجھ سے پہلے تھے وہ بھی توجہ دلا چکے ہیں اور ہماری جماعت کے دوسرے عالم اور واقف لوگ بھی دلا چکے ہیں مگر باوجود اتنی بار توجہ دلانے کے پھر بھی لوگوں کو ابھی تک پورے طور پر اس کی اہمیت اور ضرورت سے واقفیت نہیں ہوئی اور بہت لوگوں کو دیکھا گیا ہے جو توجہ ہی نہیں کرتے۔
وہ امر کیا ہے؟ وہ اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کا معاملہ ہے۔ اس کے متعلق بارہا ہم نے کہاہے لیکن باوجود بار ہاکہنے کے اب بھی کہنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور ہمیشہ ہی یہ ضرورت محسوس ہوتی رہے گی۔ حتّٰی کہ قیامت تک رہے گی لیکن ایک لحاظ سے کسی امر کا دوبارہ بیان کرنا تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ بعض دفعہ کوئی فعل اس لئے دوبارہ کیا جاتاہے کہ دوبارہ اس کی ضرورت پیش آتی ہے مثلاً ہم صبح کو کھانا کھاتے ہیں اور پھر شام کو۔ اس لئے دوبارہ کھاتے ہیں کہ ہم انسان کی حیثیت سے محتاج ہیں کہ پھر کھائیں کیونکہ خدا نے ہمیں ایسا پیدا کیا ہے کہ ہم جو غذا کھاتے ہیں اس کاکچھ حصّہ تو جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور کچھ حصّہ فضلہ بن کر باہر نکل جاتا ہے۔
اس دوبارہ کھانے کا افسوس نہیں ہوتا کیونکہ یہ سُنت اﷲ کے مطابق ہے اور اس کے سوا چارہ نہیں ہے۔
اسی طرح ہم نماز پڑھتے ہیں۔ ایک دن ظہر کی نماز پڑھتے ہیں پھر دوسرا دن آتا ہے پھر پڑھتے ہیں، تیسرے دن پھر پڑھتے ہیں۔ عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نمازیں بھی روزانہ پڑھتے ہیں۔ ایسا ہی ہم قرآن پڑھتے ہیں پھر پڑھتے ہیں، اور پھر پڑھتے ہیں اچھی اور عمدہ باتوں کو پڑھتے ہیں۔ پھر اور پھر اور پھر پڑھتے ہیں اور کوئی کہہ نہیں سکتا کہ ان کا پڑھنا چھوڑ دیں گے۔ اگر کوئی دوسرا چھوڑ دینے کے لئے کہے تو ناراض ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان سب باتوں کے دُہرانے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا کیونکہ اس کی ہمیں ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن ایک کھانا ایسا ہوتا ہے جس کے دوبارہ کھانے سے تکلیف ہوتی ہے۔ ایک نماز ایسی ہوتی ہے کہ اس کے دوبارہ پڑھنے سے رنج ہوتا ہے، تکلیف دہ کھانا وہ ہوتا ہے کہ جب کہ بیماری کی وجہ سے پیٹ نہیں بھرتا اور بار بار کھانا کھانا پڑتا ہے۔ ایسا انسان اس لئے کھانا نہیں کھاتا کہ پہلا کھایا ہؤا ہضم ہو گیا بلکہ اس لئے کہ بیماری کی وجہ سے اس کا پہلا کھانا نہ کھانے کے برابر ہو گیا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی بیس بیس آدمیوں کا کھانا کھا جاتا ہے اور کھاتے کھاتے کھانے کا دوسرا وقت آجاتا ہے مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ یہ ایک بیماری کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اسی طرح وہ نماز جو ہم دوسرے دن پڑھتے ہیں اس کا افسوس نہیں ہوتا کیونکہ پہلے دن کی نماز کا وقت گیا اور اس سے ہم نے فائدہ اُٹھا لیا۔ اب دوسرے دن کی نماز کا وقت آیا ہے اس سے فائدہ اُٹھانا ہے۔
لیکن ایک ایسی نماز جو اس وجہ سے پڑھی جائے کہ پہلی پڑھی ہوئی نماز ضائع گئی ہے تو اس کا ہم پر بوجھ ہو گا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پہلی نماز ٹھیک طور پر پڑھی جاتی تو اب جو وقت صرف ہو گا وہ کسی اور کام میں لگ جاتا مثلاً اسی وقت میں اگر چار رکعت نفل پڑھے جاتے تو رُوحانیت میں اور زیادہ ترقی ہو جاتی۔
تبلیغ کے لئے میں ہمیشہ یاد دلاتا رہا ہوں اور کبھی کوئی ایسا زمانہ نہ آئے گا کہ ہم زندہ ہوں اور ہماری اولادیں زندہ ہوں اور اس کے متعلق یاد نہ دلایا جائے مگر وہ یاد دلانا ایسا ہی ہو گا جیسا کہ ہم دوسرے وقت کھانا کھاتے ہیں لیکن اب یاد دلانا تکلیف دہ ہے کیونکہ معلوم ہوتا ہے پہلا یاد دلانا ضائع گیا اور اس سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا گیا۔
اگر پہلی تقریروں کا اثر ہوتا اور لوگ اس طرف متوجہ ہو جاتے تو ایک دفعہ پڑھا ہؤا سبق دوبارہ یاد کرانے اور دُہرانے سے زیادہ اچھی طرح یاد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دوبارہ یاد دلانے سے ان کے قلب پر گہرا نقش ہوتا لیکن جب معلوم ہو کہ پہلے جو سبق دیا گیا ہے اس کا یاد کرنا تو الگ رہا اُسے سُنا ہی نہیں تو پھر دوسری بار سبق دیتے ہوئے بوجھ معلوم ہوتا ہے۔
پس گو یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ہمیشہ دہرایا جائے گا اور اس کا دُہرانا ضروری ہے مگر اب افسوس ہوتا ہے کہ اب جو دہرایا جاتا ہے تو اس لئے نہیں کہ پہلا وقت گزر گیا ہے بلکہ اس لئے کہ پہلا کہنا ضائع گیا۔ بہت لوگ تو ایسے ہیں جو سُنتے ہی نہیں، بہت ہیں جو سُنتے ہیں مگر توجہ نہیں کرتے اور بہت ہیں جو سُنتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے اور بہت ہیں جو عمل کرتے ہیں مگر ایسے طریق پرعمل کرتے ہیں کہ نتیجہ نہیں نکلتا اور بہت ایسے ہیں جو سُنتے ہیں ،عمل کرتے ہیں ان کے عمل کے نتیجے بھی نکلتے ہیں مگر اس کا ان کو مزا نہیں پڑتا اس لئے چھوڑ دیتے ہیں۔
غرض کئی قسم کے لوگ ہماری جماعت میں ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں جو سالہا سال سے سُنتے چلے آئے ہیں کہ ان کا مان لینا ہی فرض نہیں بلکہ دوسروں کو منوانا بھی فرض ہے مگر کبھی ان کے دل میں تحریک نہیں ہوئی کہ دوسروں کو منوانے کی کوشش کریں۔ وہ سُنتے ہیں مگر توجہ نہیں کرتے۔
میرے چھوٹے بھائی میاں بشیر احمد نے سنایا کہ کالج میں ایک لڑکا پڑھا کرتا تھا وہ سنایاکرتا کہ میرا باپ بڑا نیک ہے۔ کئی سال سے وہ احمدی ہے مگر اس نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ تم بھی احمدی ہو جاؤ۔
تو بعض ایسے ہیں جو سالہا سال سے سُنتے چلے آتے ہیں مگر ذرا ان کے کان پر جُوں نہیں رینگتی۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ان باتوں کے مخاطب اور لوگ ہیں ہم نہیں ہیں اور بعض ایسے ہیں جو سُنتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ دوسروں کو تبلیغ کرنا ضروری ہے لیکن باوجود اس کے توجہ نہیں کرتے۔ پھر بعض ایسے ہیں جو سُنتے ہیں، سمجھتے ہیں اور توجہ بھی کرتے ہیں مگر اس طرح ہاتھ پاؤں مارتے ہیں کہ جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ ایک شخص مکان میں داخل ہونے کے لئے روانہ ہو لیکن مکان کی طرف جانے کی بجائے دوسری طرف چل پڑے جس طرح وہ جتنے قدم اُٹھاتا ہے مکان سے دُور ہوتا جاتا ہے اسی طرح ایسے لوگ جس قدر کوشش کرتے ہیں اسی قدر اصل مقصد سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
پھر بعض ایسے ہیں کہ کوشش کرتے ہیں صحیح طور پر کوشش کرتے ہیں اور ان کی کوشش کا نتیجہ بھی نکلتا ہے مگر جس طرح ہنڈیا کا اُبال جھٹ بیٹھ جاتا ہے اسی طرح وہ بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کی کوشش عارضی اور ان کا جوش وقتی ہوتا ہے۔ ایک ، دو ، تین، چار، پانچ، چھ سال کام کر کے اپنے خیال میں پنشن لے لیتے ہیں۔ حالانکہ دینی معاملات میں پنشن اس دُنیا میں مِل ہی نہیں سکتی اگلے جہان میں جاکر ملے گی۔ پس ان کو پنشن نہیں ملتی بلکہ ان کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسا کہ کوئی شخص 15، 20 سال ملازمت کر کے استعفیٰ دے دے۔ جس طرح اس غریب کی پندرہ بیس سال کی ملازمت کا اسے کچھ بدلہ نہیں ملے گا اسی طرح ان کا حال ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک کیونکہ وہ اپنی عمر کی محنت کو رائیگاں کر دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جن فضلوں کے ملنے کی تیاری ہو رہی ہوتی ہے ان کو لات مار کر ردّ کر دیا جاتا ہے۔
ایسی حالت میں جہاں میں دوبارہ اپنی جماعت کو یہ بات کہنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہوں وہاں یہ میرے لئے تکلیف دہ بھی ہے۔ پس مَیں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت اس بات کو سمجھے اور خوب یاد رکھے مگر یاد رکھنا کیا۔مَیں تو یہی کہوں گا کہ سُن لے اور سمجھ لے کیونکہ یاد تو وہی بات رکھی جاتی ہے جو سُن اور سمجھ لی جائے مگر یہ بات تو ایسی ہے جسے ابھی بہتوں نے سنا ہی نہیں اور اگر سنا ہے تو سمجھا ہی نہیں۔ پس مَیں یہی نہیں کہتا کہ اس بات کو یاد رکھو کیونکہ بہت کم ہیں جنہیں یاد رکھنے کے لئے کہا جاسکتا ہے اور بہت ایسے ہیں جنہوں نے سنا ہی نہیں۔ اس لئے مَیں کہتا ہوں وہ سُنیں اور جنہوں نے سنا ہے وہ یاد رکھیں اور جنہوں نے یاد کر کے بھُلا دیا ہے وہ یاد کریں اور یاد رکھیں کہ تبلیغ اور سچّے سلسلہ کی اشاعت مولویوں کے ذریعہ نہیں ہؤا کرتی۔ مولویوں کا اور کام ہؤا کرتا ہے۔ ان کی مثال خزانچی کی سی ہوتی ہے اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ ہتھیاروں اور دوسرے سامان کو جمع کریں اور اس کی حفاظت کریں وہ افسر لیڈر اور خزانچی کا کام دے سکتے ہیں نہ یہ کہ تمام فوج ان سے بھرتی کی جائے۔
جس طرح کوئی فوج ایسی نہیں ہوتی کہ جس میں تمام افسر ہی افسر ہوں اور وہ دُشمن سے لڑ کر فتح پائیں۔ اسی طرح کوئی سلسلہ ترقی نہیں کر سکتا جس کا سارا کام صرف علماء کے سپرد ہو اور شریعت نے تبلیغ کا کام صرف علماء ہی کے سُپرد نہیں کیا بلکہ یہ کہا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ 1 اس میں سب کو مخاطب کیا گیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ صرف علماء لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ تم سب دُنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔
پس ہر ایک وہ شخص جو اسلام قبول کرتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ ہر ایک وہ شخص جو احمدیت قبول کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ تبلیغ کرے کیونکہ کوئی سلسلہ ترقی نہیں کرتا جب تک اس کی تبلیغی کوشش کا انحصار صرف علماء پر ہو۔ علماء کا کام ہی اور ہے اور وہ افسروں اور راہنماؤں کا کام دے سکتے ہیں۔
جس طرح افسر فوجی سپاہیوں کا سارا کام سرانجام نہیں دے سکتے اسی طرح علماء بھی تبلیغ کا سارا کام نہیں کر سکتے۔ ان کے لئے ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو ان کی نگہداشت میں کام کریں اور ان سے تربیت حاصل کر کے خود عمل کریں۔ کیونکہ دوسرے لوگوں کو عوام کے ساتھ ملنے کے مواقع ملتے رہتے ہیں اور اس میل جول سے جس قدر ان کو لوگوں کی طبائع کی واقفیت ہوتی ہے اتنی علماء کو نہیں ہوتی کیونکہ عوام علماء سے نہیں ملتے اور نہ ملنا چاہتے ہیں۔ دیکھو عام لوگ عیسائیوں سے ملتے اور باتیں کرتے ہیں لیکن پادریوں سے نہیں ملتے ۔ اسی طرح عوام علماء سے نہیں ملتے دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں کیونکہ ان سے نڈر ہوتے ہیں اور علماء کے متعلق سمجھتے ہیں کہ اگر ہم ان کے پاس گئے تو شکار ہو جائیں گے لیکن اگر ہماری جماعت کے عام لوگ اپنے اندر ایسی طاقت پیدا کر لیں کہ ملنے والوں کو پکڑ سکیں تو جو شخص ان سے ملے گا وہ شکار ہو جائے گا۔
پس صرف علماء پر تبلیغ کا دارومدار رکھنا درست نہیں اور اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ایسے محدود اور تنگ حلقہ میں تبلیغ کو محصور کر دیا جائے کہ جس سے نِکل ہی نہ سکے کیونکہ کوئی بڑا ہی شوقین ، جوش والا اور تیز طبع رکھنے والا ہو تو علماء کے پاس آنے کی جرأت کرے گا ورنہ جب عوام کو معلوم ہو کہ یہ علماء ہیں تو کہیں گے کہ ہم مولوی ثناء اﷲ کو لائیں گے تب باتیں سُنیں گے۔
تو علماء کا کام لیڈری اور راہنمائی ہے اور یہ کام کہ عوام کے اندر گھس کر ان کو تبلیغ کریں عام لوگوں کا ہے۔ وہی ان کے اندر جاکر ڈائنامیٹ کا کام دے سکتے ہیں جس طرح عمارت کے نیچے بارود رکھ کر آگ دینے سے وہ اُڑ جاتی ہے اسی طرح عوام لوگوں کے اندر گھس کر کام دے سکتے ہیں۔ اس لئے ہماری جماعت کے ہر ایک شخص کو اس طرف متوجہ ہونا چاہئے اور تبلیغ میں لگ جانا چاہئے۔
پھر یہ خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ تبلیغ صرف دلائل سے نہیں ہوتی۔ تبلیغ اخلاص، محبت، پیار اور اُلفت سے ہوتی ہے۔ جس کے دل میں کسی کا درد ہوتا ہے اس کی طرف وہ خودبخود کھینچا چلا آتا ہے۔ تم اس طریق کو بدل دو جو بحث مباحثہ کا ہے۔ اس طرزِ عمل کو بدل دو کہ وفاتِ مسیح کی دلیل کا جواب جب کوئی نہ دے سکے تو اس پر قہقہہ لگایا جائے کہ چُپ ہو گیا ہے۔ تم اس طریق پر عمل کرو کہ تمہیں ہارنا منظور ہو مگر تمہاری باتوں میں ہمدردی اور اخلاص پایا جائے۔ یہ طریق ہے کامیابی حاصل کرنے کا۔ وہ شخص جو بحث اس لئے کرتا ہے کہ مجلس میں اپنا رنگ جمائے اُس کی باتوں کا اثر صرف اتنا ہوتا ہے کہ لوگ ہنس دیتے ہیں مگر وہ جو اس لئے بحث کرتا ہے کہ لوگ ہدایت پائیں اس کی باتوں کااثر گہرا ہوتا ہے۔
مگر بہت لوگ ایسے ہیں جو بحث بحث کے لئے کرتے ہیں اور یہ بات مدِّنظر رکھ کر دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں کہ انہیں ایسے دلائل معلوم ہیں جن سے مخالف کو چُپ کرادیں اور لوگوں کو بتائیں کہ وہ کیسا کمزور اور بے علم ہے حالانکہ صداقت کے پہنچانے اور ہدایت کی طرف لانے کا یہ ذریعہ نہیں ہے۔
بعض اوقات کسی شریر کے مقابلہ میں یہ ذریعہ بھی استعمال کرنا پڑتاہے۔ جبکہ وہ عوام پر اس طرح اثر ڈالنا چاہتا ہو کہ مَیں بڑا عالم ہوں اور میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن عوام کے لئے یہ طرزِ عمل مُفید نہیں ہو سکتا۔ ان کے لئے یہی ہے کہ محبت اخلاص اور ہمدردی سے انہیں سمجھایا جائے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اثر کر جاتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ ایک آدمی تو بڑا تغیر پیدا کر دیتا ہے اور دوسرا ایسا ہوتا ہے کہ اپنے پاس رہنے والوں کو بھی متاثر نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ اس کے دل میں وہ جوش، وہ تڑپ وہ ہمدردی، وہ اخلاص نہیں ہوتا جو دوسرے کے دل میں ہوتا ہے۔
تو خالی دلائل سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا جب تک اپنے اندر محبت، اخلاص، سوزاور گداز نہ ہو۔یہ اپنے اندر پیدا کرو۔ ان کے پیدا ہونے پر خود بخود تمہاری باتوں کا لوگوں پر اثر ہو گا اور اگر تم مُنہ سے نہ بھی بولو گے تو بھی تمہارے قلب کا اثر کام کرتارہے گا۔ صلحاء اور اولیاء کی مجلسوں میں بیٹھنے کا بھی بڑا اثر ہوتا ہے اس کے لئے ان کے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ان کے سانس لینے ، ان کے دیکھنے اور ان کے چھُونے میں بڑا اثر ہوتا ہے اور ان کے جسم سے نورانی شعاعیں نکلتی ہیں ان کا اثر ہوتا ہے۔
پس اپنے اندر وہ سوز اور گداز پیدا کرو کہ لوگ خود بخود تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں اور ہر ایک اس فرض کو سمجھے تا ایسا نہ ہو کہ ہماری کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔
اوّل یہ سُن لو کہ ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ اشاعتِ اسلام کرے۔ پھر یہ بھی یاد رکھو کہ اس کے لئے جو ذرائع ہیں جب تک ان سے کام نہ لیا جائے نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ تمہارے دل میں لوگوں کا پیار، محبت، اخلاص ہونا چاہئے اور ان کے لئے اپنے اندر قُربانی کے جذبات پیدا کرنے چاہئیں۔ اس کو دیکھ کر لوگوں میں تمہاری باتیں سُننے، سمجھنے اور ان سے فائدہ اُٹھانے کا خیال ہو گا لیکن اگر تم کسی پر اس طرح کوئی اثر نہیں ڈال سکتے اور اس کو اپنی باتوں کی طرف متوجہ نہیں کر سکتے تو پھر دلائل سنانے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ عملی طور پر انہیں اپنی ہمدردی اوراخلاص کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے اور جب کسی کے اندر ہمدردی اور اخلاص اور درد پیدا ہو جائے تو پھر اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خود بخود اس کا احساس ہونے لگ جاتا ہے۔ بیٹری پکڑو تو آپ ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں بجلی ہے۔ اسی طرح جس کے دل میں خد ا کی محبت اور اخلاص ہو وہ اس کی مخلوق سے بھی محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جس کے پاس سے گزرتا ہے وہ خود بخود اس سے متأثر ہو جاتا ہے۔
دیکھو مقناطیس کے ساتھ لوہے کو اُٹھا کر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مقناطیس خود بخود لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اسی طرح وہ انسان جو قوتِ مقناطیسی اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے اس کو بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی خود بخود اس کا اثر پڑتا ہے۔
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گونگا بن کر بیٹھا رہتا ہے۔ وہ زبان سے بھی کام لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہے۔ اسی طرح آنکھ سے دیکھتا، ہاتھ سے چھُوتا ہے مگر اس کی نیت یہی ہوتی ہے کہ اس سے دوسرے کا قلب صاف ہو گا۔ وہ نگاہ ڈالتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس کا اثر ہو گا۔ وہ بات کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ بے اثر نہ رہے گی۔ اسی طرح وہ اپنے ہر ایک عضو کو اثر ڈالنے کے لئے استعمال کرتا ہے اور جب وہ اس قدرہتھیاروں سے کام لیتا ہے تو پھر اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پس جس کی زبان، آنکھ، قلب اور جسم میں اثر پیدا ہو جاتا ہے اس کے اندر آگ نمودار ہو جاتی ہے اور جہاں آگ ہو گی اثر کئے بغیر نہیں رہے گی۔ اگر کسی مکان میں آگ جلا دو تو وہ گرم ہو جائے گا اسی طرح جب کسی انسان کے اندر خدا کی محبت کی آگ پیدا ہوتی اور قلب میں ہمدردی کی آگ بھڑکتی ہے تو جسم، زبان، آنکھ، ہاتھ میں اس کی تاثیر آجاتی ہے۔
پس تم اپنے اندر ایسی آگ پیدا کرو اور اس کو پیدا کر کے لوگوں سے اخلاص اور محبت سے بات چیت کرو۔ کسی مسئلہ کے متعلق دلائل جاننے کا ثبوت دینے کے لئے نہیں، بحث کرنے کے لئے نہیں، چُپ کرانے کے لئے نہیں بلکہ اس طرح ان سے ہمدردی کرو جس طرح ڈوبنے والے کو بچانے کے لئے کی جاتی ہے۔
تم مقناطیس بن جاؤ کہ لوگ خود بخود کھنچے آئیں۔ تم آگ ہو جاؤ کہ لوگوں کے خس و خاشاک جل جائیں اور تمہارے ذریعہ پاک و صاف ہو جائیں لیکن اگر تم نے علماء پر بھروسہ رکھا اور خود کچھ نہ کیا تو قیامت آجائے گی مگر تم وہ دن نہ دیکھو گے جو کامیابی کا دن ہے اور اس فرض کو پورا نہ کر سکو گے جس کے لئے کھڑے کئے گئے ہو۔اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ تبلیغِ دین میں پوری کوشش اور ہمت سے لگ جائے اور ایسے طریق اختیارکرے جو کامیابی کے لئے مقرر ہیں۔‘‘ (الفضل 15نومبر 1920ء)
1: آل عمران: 111



101
خوبی کو ظاہر کرنا اور بُرائی کو چُھپانا
(فرمودہ 12نومبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''آج مَیں اُسی مضمون کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے متعلق پچھلے جمعہ بیان کیا تھا کیونکہ اس امر کی طرف جماعت کی توجہ کم ہے۔
دُنیا میں دو باتیں ہمیں ایسی نظر آتی ہیں اور ہر قوم اور ہر مُلک میں نظر آتی ہیں جن کو دیکھ کر یہ فیصلہ کئے بغیر نہیں رہا جاتا کہ یہ باتیں فطرت میں داخل ہیں۔ فطرت کے تقاضے اور انسانوں کی ذاتی اور قومی اور مُلکی عادتوں میں یہ فرق ہے کہ فطرتی تقاضے سب میں پائے جاتے ہیں مثلاً بعض باتیں ہیں جو عیسائیوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح بعض ہیں جو مسلمانوں میں اسی کثرت سے پائی جاتی ہیں، بعض ہندوؤں میں پائی جاتی ہیں لیکن جو فطرتی تقاضے ہیں وہ بِلاتفریق مذہب و قومیت سب انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ پس جو باتیں سب میں پائی جاتی ہیں ان کا سب میں پایا جانا ثبوت ہے اس امر کا کہ وہ فطرتی باتیں ہیں اور جو سب میں نہیں وہ غیرفطرتی ہیں مثلاً کھانا پینا فطرتی تقاضے ہیں۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان کھائیں، عیسائی نہ کھائیں، عیسائیں کھائیں، ہندو نہ کھائیں بلکہ ہر ایک مذہب و قوم و مُلک کے لوگ کھاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص نہ کھائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ اور چیز ہو گیا یا نہ کھانے والے کی قومیت بدل گئی بلکہ وہ اور دیگر لوگ اس کو بیمار سمجھیں گے اور وہ شخص اپنے علاج کی فکر کرے گا اور کسی طبیب کے پاس جائے گا یا مثلاً غصّہ او رمحبت یہ فطرتی جذبے ہیں جو ہر انسان میں پائے جاتے ہیں۔ کسی خاص قوم و مُلک و مذہب سے یہ تعلق نہیں رکھتے اور اگر کسی شخص میں نہ ہوں تو جانو کہ اس کی بعض قوتیں مُردہ ہیں جن کی وجہ سے ان جذبات سے خالی ہو گیا ہے۔
غرض فطرتی جذبات اور تقاضے اَور ہوتے ہیں اور ذاتی اور قومی اَور۔فطرتی تقاضے سب میں پائے جاتے ہیں اور غیر فطرتی خاص خاص میں۔ بعض فطرتی باتیں اس قدر عام ہیں کہ وہ نہ صرف انسانوں میں پائی جاتی ہیں بلکہ حیوانوں تک میں پائی جاتی ہیں اور جو اس سے بھی بڑھ کر ہیں وہ نباتات میں بھی پائی جاتی ہیں ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو جذبہ یا تقاضا فطرتی ہو وہ زیادہ وسیع الاثر ہوتا ہے اور اسی قدر عام ہوتا ہے۔ ان جذبات میں دو جذبے ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ ہر انسان میں سوائے کسی خاص مریض کے سب میں پائے جاتے ہیں اور وہ یہ کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ حُسن کو ظاہر کرتا اور بُرائی کو چھُپاتا ہے خواہ کوئی انسان تہذیب میں اعلیٰ ہو یا ابتدائی درجہ میں ہو۔ خواہ وہ لوگ آسمانی وحی کے پیرو ہوں، خواہ عقل پر ہی سب مدار رکھنے والے ہوں ان میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اچھائی کو ظاہر کرتے ہیں اور بُرائی کو چھپاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب یہی سکھاتا ہے اور ہر مذہب کے پیروؤں کی یہی حالت ہے۔ کوئی مذہب نہیں حتّٰی کہ سچّا تو سچّا کوئی جھوٹا مذہب بھی ایسا نہیں جو بدی کو ظاہر کرتا اور اچھائی کو چھُپاتا ہو۔ جو مذہب ایسا کرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے اور قائم نہیں رہ سکتا۔
اس جذبہ کے ماتحت عیسائی مذہب کے رومن کیتھولک فرقہ نے کنفیشن (CONFESSION) کا طریق رکھا ہے لیکن اس میں بھی یہ بات ہے کہ ہر ایک شخص کے سامنے گناہ کے اقرار نہیں کئے جاتے۔ نہ وہ لوگ اخباروں میں اپنے جُرموں کی تشہیر کرتے ہیں بلکہ ہفتہ کے بعد پادری کو جاکر بتانا ہوتا ہے کہ ہم نے یہ یہ گناہ کئے مگر وہاں بھی لوگ اپنے تمام گناہ نہیں بتاتے۔ مَیں نے ایک انگریز رومن کیتھولک سے پوچھا اُس نے کہا کہ ہم پادری کو وہی گناہ بتاتے ہیں جن کے متعلق ہمیں یقین ہوتا ہے کہ پادری صاحب معاف کر دیں گے لیکن جن کے متعلق یقین ہو کہ وہ گناہ معاف نہیں ہوں گے وہ ہم پادری صاحب کو نہیں بتاتے۔ اس کے صاف یہ معنے ہیں کہ پادری کو وہ گناہ بتائے جاتے ہیں جن کو پادری گناہ نہیں سمجھتا اور جن کو وہ گناہ سمجھتا ہے وہ اس کو نہیں بتائے جاتے۔ یہاں بھی اسی فطرتی جذبہ نے کام کیا۔
اس مذہب کا نتیجہ یہ ہے کہ جتنے جرائم کیتھولک ممالک میں ہوتے ہیں دوسرے میں نہیں کیونکہ جو شخص مذہب کے ایک اس حکم کو توڑتا ہے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ وہ یہ حکم کہاں مان سکتا ہے کہ پادری کو جُرم بتاؤ۔ پس اس مذہب نے فطرت کا خفیف سا مقابلہ کیا اور اس میں بھی ناکام رہا۔
پس یہ فطرتی جذبات ہیں کہ اچھائی کو ظاہر کیا جاتا ہے اور بُرائی کو چھپایا جاتا ہے لیکن ان جذبات اور تقاضوں کی بھی حدود ہوتی ہیں اور ان حدود کے اندر کام کیا جاتا ہے۔ فطرتی تقاضا یا جذبہ ہونے کے یہ معنی نہیں کہ حدود کو چھوڑ دیا جائے مثلاً کھانا پینا فطرتی تقاضے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص حد سے زیادہ کھائے گا تو بیمار ہو گا اسی طرح غصّہ و محبت فطرتی جذبے ہیں لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ انسان ہر وقت غصّہ میں رہے یاہر ایک جگہ اور ہر کسی سے محبت کرتا پھرے۔ پس اسی طرح یہ فطرت ہے کہ خوبی کو ظاہر کیا جائے اور بُرائی کو چُھپایا جائے لیکن ان کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان ہر خوبی کو ظاہر کرتا پھرے یا بُرائی چُھپائے۔ بعض خوبیاں چُھپائی جانی چاہئیں اور بعض نقصوں کا اظہار ضروری ہوتا ہے مثلاً جن لوگوں پر کوئی ذمہ داری مُلک یا قوم یا جماعت کی طرف سے عائد ہو اور ان سے اس میں کوتاہی ہو تو اس کا ان کو اظہار کرنا ضروری ہوتا ہے مثلاً کوئی جرنیل ہو اس کو حُکم دیا جائے کہ وہ فلاں مقام پر جائے مگر وہ نہ جاسکے۔ یہ ایک نقص ہے اور غلطی ہے۔ اب اس کا فرض یہ ہے کہ وہ بتائے کہ مَیں اس مقام پر نہیں پہنچ سکا کیونکہ اس کی غلطی کا اثر اس کی ذات تک ہی نہیں بلکہ قوم پر پڑتا ہے۔
یا جن خوبیوں کا اظہار چاہئے اور کوئی شخص نہیں کرتا تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ شخص ان کو خوبی نہیں سمجھتا یا اس میں اس خوبی کے اظہار کی طاقت نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کسی کے گھر میں خزانہ ہو اور وہ اس کو نکالے نہیں۔ پس جو شخص کسی واقعی خوبی کو جس کا ظاہر کرنا فطرت میں داخل ہے ظاہر نہیں کرتاتو سمجھو کہ اس کے دماغ میں فتور ہے۔ کسی کا خوبی کو ظاہر نہ کرنا دو صورتوں سے خالی نہیں۔اوّل یا تو اس شخص کو خوبی کا علم نہیں دوم یا وہ شخص بیمار ہے اس لئے اس خوبی کو ظاہر نہیں کر سکتا۔ بعض لوگ قتل و غارت کرتے ہیں ان کا دماغ خراب ہوتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو کیسی ہی غیرت کی بات ہو غصّہ ہی نہیں آتا۔ جن لوگوں کو مطلق غصّہ آتاہی نہیں ان کو اعلیٰ درجہ کے حلیم نہیں کہا جائے گا کیونکہ حیا اور چیز ہے اور نرمی اور چیز ہے۔ حیا اور شرافت یہ ہے کہ انسان اپنی خوبی پر فخر نہ کرے۔
تو خوبی کا ظاہر کرنا فطرت میں ہے۔ بعض لوگوں نے قصّہ بنایا ہؤا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کہاں تک خوبی کے اظہار کا حریص ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی۔ وہ پہن کر بہت سی تقریبوں میں گئی مگر کسی نے نہ پوچھا۔ آخر تنگ آکر اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی۔ عورتیں آئیں اور پوچھنا شروع کیا کہ بہن کچھ بچا بھی؟ اُس نے ہر ایک کو یہی جواب دیا اور تو سب کچھ جل گیا صرف یہ انگوٹھی بچی ہے۔ بعض عورتیں عجوبہ پسند ہوتی ہیں وہ کسی ایسی بات پر ہر ایک صدمہ کو بھُلا دیتی ہیں۔ کسی نے کہا بہن یہ کب بنوائی اس نے چیخ مار کر کہا کہ اگر کوئی پہلے اتنا پوچھتا تو میرا گھر کیوں جلتا۔ تو بعض لوگ خوبی کے اظہار کے لئے گھر کے جلانے تک میں کسر نہیں چھوڑتے۔ اسی طرح بعض لوگ شُہرت کے لئے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں۔ یہ بھی مریض ہیں۔ بعض لوگوں کے پاس خوبی ہوتی ہے، علم رکھتے ہیں، پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ جاہل ہیں۔ یہ انکسار نہیں بلکہ یہ کم ہمتی کہلائے گی اور اس کو عجز اور کسل کہیں گے۔ اسی طرح جو ہر ایک بات کو ظاہر کرتا ہے یہ اس کا چھچھورا پن ہے۔ اگر کوئی قابلِ تعریف کام کرتا ہے اور ہرایک کے سامنے ذکر کرتا ہے تو درست نہیں اور اگر خوبی ہے اور اس کو بِلا وجہ چھپاتا ہے تو یہ کمینگی ہے۔
غرض اچھی چیز کا ظاہر کرنا حد بندی کے ساتھ فطرت میں ہے اور ان کی حد بندی شریعت اور قانونِ قدرت کرتے ہیں مثلاً کھانا پینا فطرت ہے، شریعت اور قانونِ قدرت نے حد بندی کی۔ اگر زیادہ کھائے گا توبیمار ہو گا ، کم کھائے گا تو مَر جائے گا۔
اب ہم اسی فطرتی جذبے کے ماتحت دیکھتے ہیں کہ خدا نے ایسے زمانہ میں جبکہ صداقت مِٹ رہی تھی، خدا کا وجود پوشیدہ ہو گیا تھا، حقیقت نگاہوں سے غائب تھی، سورج گرہن میں تھا، روشنی کی بجائے تاریکی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی وہ جس کو نجات دہندہ مانا گیا تھا اس کے متعلق لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اگر اس کی طرف قدم اُٹھائیں گے تو تباہ ہو جائیں گے۔ مذہب نے جس ذات کے متعلق بتایا تھا کہ اس پر بھروسہ اور اس سے پیوند ترقیات کا ذریعہ ہے اور جس کی ذات فیو ض و برکات و انعامات کا سرچشمہ اور منبع ہے اس کی ذات کو لوگوں نے تجربہ کے بعد کہہ دیا کہ وہم ہے، خیال ہے اور خدا کا خیال ترقی سے روکنے والا اور ذلّت کے گڑھے میں دھکیل دینے والاہے۔ خدا پر ایمان غیر مُفید اور ترقی کے رستہ میں روک قرار دیا گیا۔ تمام مذاہب کو ڈھکوسلا کہا گیا۔
ایسے زمانہ تلاطم میں دُور اُفق سے ایک چھوٹی سی کشتی نظر آئی۔ موجیں جب بڑی بڑی طاقتوں اور جماعتوں کو مِٹا رہی تھیں اس چھوٹی کشتی پر ایک جری سوار ہے اور اس مضبوطی سے چپو چلا رہا ہے کہ وہ ہلاک کرنے والی موجیں جو بڑے بڑے جہازوں کو تباہ کر رہی ہیں ان پر وہ کشتی ہنس رہی ہے اور کہتی ہے کہ میرا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ اس نے ایسی حالت میں دُنیا کو بچانے کی کوشش کی اور بتایا کہ وہ کون سی غلطیاں تھیں جن کے باعث تجربہ کرنے والوں کی کوششوں کے نتائج غلط نکلے۔ وہ خدا نہ تھا لیکن خدا میں ہو کر ناخدا تھا۔ اس میں الوہیت نہ تھی لیکن وہ خدا سے ملاتا تھا۔ وہ انسان تھا مگر انسانیت سے بالا تھا۔ تم اس ظُلمت کا خیال کرو اور اس مصیبت ناک نظارہ کو سامنے لاؤ اور پھر اس کی کوششوں کو ملاحظہ کرو جب تم ان باتوں کو خیال میں لاؤ گے تو تمہارے جسم پر بال کھڑے ہو جائیں گے۔وہ جماعت کو ایسی کشتیاں دے گیا ہے جس سے جماعت نہ صرف خود بچ سکتی ہے بلکہ دوسروں کو بھی بچا سکتی ہے۔ اس نے اپنی جماعت کو قوتِ بازودی اور دل کو شجاعت اور دماغ کو نُور اور فراست اور عقل سے بھر دیا۔ اس نے ہمیں ہتھیار دیئے۔
پس ایسے محسن اور ایسے منعم کے احسان کا ذکر اور نعمت کا تذکرہ کیوں نہ ہو۔ اگر تم اس نعمت کو ظاہر نہیں کرتے تو یہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو تم اس کو نعمت سمجھتے نہیں یا تم بیمار ہو۔ تم پر خدا کایہ فضل ہے کہ اس نے تمہیں اپنا مسیح موعود دیا لیکن اگر اس فضل کے باوجود تم میں کوئی حرکت نہیں پیدا ہوتی تو معلوم ہو گا کہ تمہاری صحت میں فتور ہے۔ یا تم کہتے ہو کہ ہم مسیح موعود کو سمجھے ہوئے ہیں مگر تم کو معلوم نہیں کہ مسیح موعود کی ضرورت کیا ہے اور اس لئے تمہیں اس کی قدر نہیں۔ اگر جوشِ تبلیغ نہیں تو تم کو مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پھر غور کرنا چاہئے اور اپنی حالت کی اصلاح کرنی چاہئے۔ پس اگر تم میں شکر گزاری ہے اور تم مسیح موعود کو نعمت سمجھتے ہو تو تمہارا سر سجدہ میں گِر جانا چاہئے اور دین کی تبلیغ میں لگ جانا چاہئے اور اگر نہیں سمجھتے تو پہلے اپنی حالت کو درست کرنا چاہئے۔اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس نعمت کے سمجھنے کی توفیق دے اور وہ سُستی کو ترک کر دے۔‘‘
(الفضل 18نومبر 1920ء)



102
اپنے معاملات صاف کرو
(فرمودہ 19نومبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے بتایاتھا کہ ایمان کی تکمیل کے لئے بہت سی تفصیلات ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے۔ ان کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا اور انسان وہ فوائد حاصل نہیں کر سکتا جو مذہب کے ذریعہ خدا دُنیا کو پہنچانا چاہتا ہے اس مضمون کے کچھ حصّے بیان کئے تھے اور ایک بات میں اس میں سے آج بیان کرتاہوں۔
اﷲ تعالیٰ نے خود بنی نوع کے نفع کی غرض سے شریعت کے قوانین مقرر فرمائے ہیں۔ اگر کوئی چوری نہیں کرتا تو اس میں خدا کا فائدہ نہیں۔ اگر کرتا ہے تو اس کا نقصان نہیں۔ کوئی قتل کرتا ہے تو اﷲ کا نقصان نہیں،نہیں کرتا تو فائد نہیں۔ وہ اپنی ذات میں کامل ہے۔ انسان پیدا ہوتا یا نہ ہوتا تو اس کی حکومت پر اس کا کچھ اثر نہیں۔ پس جس قدر احکامِ شرعیہ ہیں ان سب میں انسان کا فائدہ ہے مگر بعض احکام میں انسان کو نفع نظر آتا ہے بعض میں نہیں۔ جب انسانوں کے علم و تجربہ میں فرق ہوتا ہے تو اس وقت بھی بعض باتوں کے فرق بعض کو نظر آتے ہیں بعض کو نہیں۔
مثلاً بچے میں اور ماں باپ میں فرق ہوتا ہے ۔ بچہ کا فرض ہوتا ہے کہ ماں باپ کی بات بے چُون و چرا مانے کیونکہ ماں باپ کے احکام تجربہ کی بناء پر ہیں اور بچہ ان حالتوں سے واقف نہیں۔ اگر بچہ انکار کرے تب لوگ اس کو ملامت کریں گے۔ جب بچہ جوان ہوتا ہے تو ماں باپ بھی اس کو پہلے کی طرح احکام نہیں دیتے اور نہ وہ تفصیلات میں اس طرح ماں باپ کے احکام ماننے کے لئے تیار ہوتا ہے تاہم بچہ پر ماں باپ کی اطاعت فرض ہوتی ہے لیکن ماں باپ کا تجربہ محدود ہے خدا کا محدود نہیں۔ کیونکہ خدا انسان کو پیدا کرنے والا ہے، پیدا کرنے والے سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہو سکتی۔ بعض اوقات ماں باپ کا تجربہ غلط بھی ہوتا ہے مثلاً جب چیچک کا ٹیکا نِکلا اس وقت عام طور پر لوگوں میں خیال تھا کہ سرکار بچوں کو مارنا چاہتی ہے اس لئے جب ٹیکا لگانے والے آتے تو بچوں کو چھُپا دیتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ محض اس ماں باپ کی بد گمانی کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں بچے ہلاک ہو جاتے اور ان کی صورتیں بگڑ جاتیں۔ تو یہ ماں باپ کے غلط تجربے اور محض بد گمانی کا نتیجہ تھا جو بچوں کو بھُگتنا پڑتا تھا لیکن خدا تعالیٰ کے احکام کی یہ حالت نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے اور اس کا علم ازلی اور حکمت ازلی ہے۔
بعض لوگ ہوتے ہیں جو پوچھا کرتے ہیں کہ عصر کی چار رکعتیں کیوں ہیں اور مغرب کی تین کیوں؟ لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ڈاکٹر جب دوا دیتا ہے تو وہ نسخہ میں بعض دواؤں کے تین قطرے لکھتا ہے، بعض کے چار، بعض کے زیادہ، بعض کے کم۔ مریض کا یہ حق نہیں کہ پوچھے کہ دوائیں کم و بیش کیوں ڈالتا ہے۔ اگر کوئی پوچھنے پر مُصر ہو تو ڈاکٹر نسخہ کو پھاڑ دے گا۔ پس ڈاکٹر جو لکھتا ہے مریض کو قبول کرناپڑتا ہے اور بعض دفعہ ڈاکٹر بھی تفصیل نہیں بتا سکتا۔ اس کے پاس الفاظ نہیں ہوتے یا الفاظ تو ہوتے ہیں مگر وہ نتیجہ حسبِ منشاء نہیں نکال سکتامگر اﷲ تعالیٰ جانتا ہے اگر وہ کسی چیز کی تفصیل بیان نہ کرے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ انسان اس مطلب کو نہیں سمجھ سکتا اور اس فرق کو معلوم نہیں کر سکتا۔اگر ڈاکٹر نہیں جانتا تو اس پر اعتبار کیا جاتا ہے خدا جانتا ہے اس کے جاننے پر اعتبار نہیں کیا جاتا۔
ہر چیز کا سبب ہوتا ہے مگر بہت دفعہ بیان نہیں کیاجاسکتا۔ نماز کی مختلف اوقات کی رکعتوں میں کمی بیشی کا سبب ہے مگر قدرت نے اس لئے بیان نہیں کیا کہ انسان نہیں سمجھ سکتا۔ ڈاکٹر بعض اوقات دواؤں کے فرق نہیں بتا سکتا مگر وہ یہ کہتا ہے کہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ دوا اس مقدار میں دینامفید ہو گا۔ اسی طرح بعض لوگ نیچا کُرتا پہنتے ہیں، بعض اُونچا۔ اگر پوچھا جائے تو عام طور پر نہیں بتا سکیں گے ہاں یہ کہیں گے کہ ہمارے دل کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے وجوہ ہیں مگر وہ بیان نہیں کر سکتے۔
پس اﷲ تعالیٰ نے اگر بیان نہیں فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کی اہلیت نہیں کہ اس فرق کو محسوس کر سکے مثلاً بعض کیڑے ہیں کہ ہم آنکھ سے ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہاں اگر خوردبین ہو تووہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگر خوردبین والا دوسرے کو کہے کہ وہ کیڑا جاتا ہے تم کو نظر نہیں آتا؟ تو لوگ اس کو پاگل کہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کوئی لغو کام نہیں کرتا چونکہ بندہ ان فرقوں کو محسوس نہیں کر سکتا اس لئے بعض تفصیلات اﷲ تعالیٰ بیان نہیں فرماتا۔ اس لئے مومن کو چاہئے کہ ان باتوں پر قیاس کر کے خدا کے ہر حکم پر بِلا چُون و چرا عمل کر لیا کرے۔
مَیں آج ایک حکم بیان کرتا ہوں۔ اس کے لئے اس قدر تمہید کی ضرورت تو نہ تھی مگر بعض لوگ بعض خاص اعمال میں کچے ہوتے ہیں مثلاً اموال کا معاملہ ہے لوگ قدرتاً مال کی طرف میل رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مال سے ہم آرام حاصل کریں گے اور اس سے ہماری حفاظت ہو گی۔ مال کو چاہنا اس لئے نہیں ہوتا کہ مال سے ان کو محبت ہوتی ہے بلکہ اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مال سے وہ آرام کی اشیاء مہیا کرتے ہیں۔ بخیل بھی اسی لئے مال جمع کرتا ہے کہ اس کو اپنے آرام کا خیال ہوتا ہے مگر وہ ہر دفعہ یہ خیال کرتا ہے کہ شاید اس سے بڑی ضرورت پڑ جائے اس لئے وہ مال خرچ نہیں کرتا ورنہ مال کی ذات سے اس کو محبت نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کوئی شخص روٹی لے کر سفر کو چلے اور جب بھُوک لگے تو کہے شاید اس سے زیادہ ضرورت ہو روٹی نہیں کھانی چاہئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی بھُوک سے جان نِکل جاتی ہے۔ یہی حال بُخیل کا ہوتا ہے وہ آئندہ زیادہ ضرورت کے خیال سے کچھ بھی کسی ضرورت پر خرچ نہیں کرتا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی جان نِکل جاتی ہے۔ مال دوسروں کے قبضہ میں جاتا ہے۔
پس مال کا معاملہ یہ ہوتاہے کہ لوگ اس میں کمزوری دکھاتے ہیں مثلاً چوریاں ہوتی ہیں جو لوگ چوریاں کرتے ہیں اگر وہ خیال کریں کہ اگر ان کے ہاں چوری ہو تو ان کو کتنا صدمہ ہو تو وہ چوری سے باز آئیں۔ جو لوگ چوری کرتے ہیں جب تک ان کے جواب میں چوری نہیں ہوتی وہ چوری کرتے ہیں۔ پنجاب کے بعض علاقوں میں جانوروں کی چوریاں ہوتی ہیں جن کی چوری ہوتی ہے وہ چوروں کے جانور چُرا لیتے ہیں۔ پھر وہ جاکر ان کے جانور دے دیتے ہیں اور اپنے منتوں کے ساتھ لے لیتے ہیں۔ اس طرح بعض لوگ رات کو کھیتوں میں فصلیں کاٹ لیتے ہیں۔ اسی طرح لوگ ان کی فصلیں کاٹ لیتے ہیں۔ پھر ان کو معلوم ہوتا ہے کہ فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔
اسی طرح جو لوگ قرض لیتے ہیں اور پھر دینے میں حیل و حُجت کرتے یا سُستی کرتے یا مُکر جاتے ہیں وہ اپنے دُشمن ہوتے ہیں نہ صرف اپنےبلکہ اپنی قوم کے بھی دُشمن ہوتے ہیں۔ جب ان کو ضرور ت پڑتی ہے تو گِڑ گِڑاتے ہیں مگر جب قرض خواہ مطالبہ کرتا ہے تو اس کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بدمعاملگی سے ڈر کر وہ لوگ جن کو سچّی ضرورت ہوتی ہے قرض لینے سے محروم رہتے ہیں کیونکہ جس شخص کے پاس وہ قرض لینے جاتے ہیں وہ ان کی بات کا اعتبار نہیں کر سکتا جبکہ پہلے وہ دیکھ چُکا ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے اس سے قرض لے کر کیا سلوک کیا۔ ایسے لوگ دو طرح مُضر ہوتے ہیں اور دو قسم کے لوگوں کے لئے مُضر ہوتے ہیں
(1) وہ لوگ جو سچّی ضرورت رکھتے ہیں ان کو قرض نہیں مِل سکتا۔
(2) وہ لوگ جن سے قرض لیتے ہیں آئندہ ان کو نیکی کرنے سے محروم کر دیتے ہیں اور نیز ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو بدمعاملگی کی تعلیم کرتے ہیں۔
خوب یاد رکھو جس طرح شریعت یہ کہتی ہے کہ دوسروں سے نیکی کرو اس طرح یہ بھی کہتی ہے کہ محسن کے احسان کی قدر کرو اور احسان فراموش نہ بنو۔ جو شخص تم کو ضرورت کے وقت قرض دیتا ہے وہ تمہارا محسن ہے تم اس کے ساتھ شریفانہ برتاؤ کرو اور جن آنکھوں سے لیا ہے انہی سے دو۔ بعض لوگ جب قرض لے جاتے ہیں تو بہت الحاح سے کام لیتے ہیں مگر جب وہ مانگنے آتا ہے تو اس کو کہتے ہیں لاٹ صاحب بن گیا،ہر وقت سر پر چڑھا رہتا ہے۔ حالانکہ لینے والے کا حق تھا کہ وہ سختی کرے مگر یہاں اُلٹا معاملہ ہے کہ جب مطالبہ کیا جائے تو اس کو کہتے ہیں کہ یہ ہم پر حکومت کرنے لگا ہے۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی غیر مُسلم شخص نے کچھ لینا تھا وہ آیا اور سختی کرنے لگا۔ بعض صحابہ ؓ کو بُرا معلوم ہؤا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں اس کا مقروض ہوں اس کو حق ہے کہ سختی کرے۔1 تو ضرورت کے وقت جاتے ہیں اور لیتے ہیں لیکن جب ادائیگی کا وقت آتا ہے تو کبھی سامنے نہیں ہوتے اور ہمیشہ آنکھ بچا کر نِکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قرض خواہ لوگوں کے پاس کہے کہ آپ ہی لے دیں تو کہتے ہیں کہ ہم اب نہیں دیں گے کیونکہ اس نے ہمیں بدنام کیاہے۔ گویا وہ اس کے باپ کی جائداد میں سے کچھ اس سے مانگتا تھا۔ اس کا حق تھا وہ کیوں نہ طلب کرتا جو شخص ایسے کمینے کو گالی دیتا ہے وہ حق رکھتا ہے اگرچہ اخلاق گالی کی اجازت نہیں دیتا۔ کانے کو کانا کہنا حق ہے مگر اخلاق سے بعید ہے۔چور کو چور کہنا جائز ہے لیکن مجسٹریٹ کے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا۔ شریعت نے منع کیا ہے کہ کانے کو کانا کہا جائے اس لئے کہ جو کانا کہتا ہے وہ اُس کو چڑانا چاہتا ہے مگر اس میں شک نہیں کانے کو کانا کہنا درست ہے۔ اس طرح جو شخص کسی کا مال مارتا ہے حق ہے کہ وہ اُس کو چور یا ڈاکو کہے کیونکہ یہ اس عیب کا مُرتکب ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہ قرض لیتے ہیں اور اس سے اپنی جائداد بناتے ہیں۔ قرض دینے والا اس خیال سے کہ ان کو ضرورت ہے ان کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم کر کے دے دیتا ہے لیکن جب وہ مطالبہ کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ دس دن کو آنا۔ پھر جب جائے تو پھر دس دن توقف کرنے کو کہتے ہیں۔ اس طرح کئی دفعہ ہوچکنے کے بعد انکار کر بیٹھتے ہیں یا بعض عدمِ گنجائش کا بہانہ کر بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ یہ کہنا ان کو جُرم سے نہیں بچاتا کیونکہ جب قرض لینے لگے تھے ضروری تھا کہ اس وقت حیثیت کو سوچتے نہ یہ کہ جب دینے کاو قت آیا اس وقت گنجائش کا سوال اُٹھایا۔ پس جب قرض لینے لگے تھے اس وقت سوچنا تھا کہ ہم ادا بھی کر سکیں گے یا نہیں۔
مجھے قرآنِ کریم کی اس آیت پر ہمیشہ تعجب ہؤا کرتا تھا کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ 2 اس میں مدت کی شرط لگائی ہے اور اﷲ تعالیٰ نے سمجھایا کہ اس میں دو فائدے ہیں۔
(1) دینے والے کے لئے ۔
(2) لینے والے کے لئے۔
اوّل لینے والے کے لئے یہ فائدہ ہے کہ مثلاً مہینہ کا وعدہ ہے تو مہینہ کے بعد جاکر طلب کرے گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ اس کو روز روز پوچھنا پڑے گا اور نیز یہ بھی فائدہ ہو گا کہ جب مہینہ کا وعدہ ہو گا تو یہ حق نہیں ہو گا کہ دوسرے دن ہی مطالبہ شروع کر دے۔
دوسرا فائدہ ہو گا کہ جب لینے والا لینے لگے گا تو پہلے سوچے گا کہ مَیں جتنے عرصہ میں ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں اُتنے عرصہ میں ادا بھی کر سکوں گاکہ نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی آمدنی پندرہ بیس روپیہ ماہوار رکھتاہے اور ایک مہینہ کے وعدہ پر سو روپیہ قرض لیتا ہے تو سوال ہو گا کہ وہ کہاں سے ادا کرے گا۔ اس لئے قرض دینے والا اس سے متنبہ ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر ایک زمیندار قرض لیتا ہے اور اس کی فصل اس کے قرض سے زیادہ یا برابر ہے تو وہ لے سکتا ہے۔ پس اس آیت میں یہ فوائد بتائے ہیں۔
اور اب ہر شخص کو سوچنا چاہئے کہ وہ جو قرض لیتاہے وہ اس کو ادا کر سکے گا یا نہیں۔ اگر نہیں ادا کر سکے گا اور وہ قرض لیتا ہے تو یہ ٹھگی ہے۔ بعض وہ لوگ جو کہتے ہیں گنجائش نہیں ان کو ثابت کرنا چاہئے کہ جب وہ لینے لگے تھے اس وقت ان کو اُمید تھی کہ وہ قرض اُتار سکیں گے مگر ناگہانی اسباب نے ان ذرائع کو منقطع کر دیا۔ اس لئے قرض اُتارنا ممکن نہ رہا ورنہ گنجائش کا سوال بعد از وقت ہے۔
اگر کوئی شخص قرض لے کر نفع اُٹھاتا اور تجارت کرتا ہے اور قرض خواہ کو قرض نہیں دیتا تو ضروری ہے کہ اس سے روپیہ لے کر اس کو دیا جائے۔ اگر وہ کہے کہ میری تجارت تباہ ہو گئی تو اس کا روپیہ تھا ہی نہیں کہ یہ تجارت کر سکتا۔ اس نے جو نفع اُٹھایا اسی کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ جو لوگ اس طرح قرض لیتے ہیں اور آپ نفع اُٹھاتے ہیں اور قرض خواہ کو نہیں دیتے وہ نفع نہیں اُٹھاتے وہ آگ سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ پس جو معاملہ کرو دیانت سے کرو اور صفائی اس میں رکھو۔ قرض دینے والے کو چاہئے کہ لکھ لے اور مدت مقرر کر لے اس میں دونوں کے لئے فائدہ ہے۔
بعض لوگ کام کچھ نہیں کرتے اور قرض لے لے کر گزارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں توکّل پرگزارہ کرتے ہیں۔ حالانکہ توکّل انبیاء اور اولیاء کرتے ہیں اور اس کے معنے ہیں کہ وہ شخص بادشاہ ہو گیا۔ کیونکہ جس طرح بادشاہ جب چاہتے ہیں ٹیکس لگا کر رقم وصول کرتے ہیں اسی طرح وہ لوگ جو متوکّل ہوتے ہیں ان کی ضرورت خدا پوری کرتا ہے مگر یہ عجیب متوکل ہیں کہ لوگوں سے قرض لیتے ہیں اور دیتے نہیں۔
ہاں جو لوگ اپاہج ہوں یا معذور ہوںان کی مدد حکومت پر فرض ہے۔ اگر حکومت غیرمذہب کی ہو اور اس کا ایسا انتظام نہ ہو تو پھر وہ جس جماعت سے تعلق رکھتے ہوں اس جماعت کے امام کا اور بیت المال کا فرض ہے کہ ان کی ضرورت پورا کرے۔
لیکن جس طرح بعض لوگ قرض لینے میں بد معاملگی کرتے ہیں اسی طرح بعض دکاندار بھی بد معاملگی کرتے ہیں وہ بچوں یا عورتوں کو یا ایسے لوگوں کو جن کی آمد کی کوئی سبیل نہیں، وہ محتاج یا اپاہج ہیں اور ان کا بار بیت المال پر ہے قرض دیتے ہیں اور بچوں کے باپ کو اورعورت کے خاوند اور اپاہجوں کے قرض کے لئے انجمن کو مجبور کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ شور ڈالنے سے مل ہی جائے گا۔ حالانکہ ان کا فرض ہے کہ یہ قرض اس کو دیں جس پر ان کو ذاتی اعتماد ہو اور وہ شخص ذاتی آمدنی رکھتا ہو۔ اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو وہ بھی ٹھگی کرتا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے معاملات کی خرابی سے جماعت کو بدنام کرتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہو کہ ایسے لوگ اپنے رویّہ کی اصلاح کریں ورنہ ان کو جماعت سے الگ کر دیا جائے گا۔ مذہب سے الگ کرنا تو اختلاف عقائد سے ہوتا ہے مگر جس شخص کا رویّہ جماعت کے لئے مُضر ہو اس کو جماعت سے الگ کیا جاسکتا ہے۔
مَیں ان اصحاب کو بھی نصیحت کرتا ہوںجو سُستی سے کام لیتے ہیں کہ وہ سُستی کو چھوڑ دیں۔ یاد رکھو کہ یہ معاملات کی اچھائی یا بُرائی ہے جس کی بناء پر غیر شخص تمہارے متعلق رائے قائم کرتے ہیں۔ اگر معاملات اچھے ہیں تو لوگ تمہاری بات سُن سکتے ہیں اگر نہیں تو ساری جماعت چند آدمیوں کی خاطر ٹھگ کہلائے گی اور مثال میں دو چار نام لے دینا ہی کافی خیال کیا جائے گا۔
پس جو قرض دیتا ہے وہ محسن ہے۔ سچّی ضرورت کے وقت لو اور میعاد معیّنہ میں ادا کرو۔ اگر کسی معقول وجہ سے نہیں اُتار سکتے تو نرمی اور خندہ پیشانی سے اس کو یقین دلاؤ کہ میں ان وجوہ سے اب ادا نہیں کر سکا پھر آئندہ کر دوں گا اور جب روپیہ آئے تو پہلے قرض خواہ کے روپے ادا کرو۔ حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں مَیں نے عورتوں کو زیادہ دیکھا۔ بوجہ ان کے ناشکر گزار ہونے کے3 تو ناشکروں کی سزا جہنم ہے۔ لوگ معاملات سے حالات کا اندازہ کرتے ہیں نمازوں سے نہیں۔اگر اس طرح تبلیغ کے رستہ کو بند کر دیا تو پھر کوئی عمدہ رستہ نہیں۔ پس اپنے معاملات کی دُرستی پر بہت زور دو۔اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین‘‘ (الفضل 25نومبر 1920ء)
1: بخاری کتاب الْوکَالَۃ باب الْوکَالَۃ فِی قضاءِ الدُّیُوْن
2: البقرۃ:283
3: بخاری کتاب الایمان باب کُفْرَان الْعَشِیْر



103
کامیابی خدا پر توکّل رکھنے والوں کے لئے ہے
(فرمودہ26نومبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِيْنُهُمْ١ؕ وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۔1
پھر فرمایا:-
’’انسان کی عادت ہے کہ جب کبھی وہ کسی نیکی کے اختیار کرنے سے باز رہتا اور کسی مفید بات کو ردّ کرتا ہے تو اس کی ضمیر اس کو ملامت کرتی ہے اور وہ ملامت باقی تمام تکالیف سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر نفس کی ملامت کو برداشت نہیں کر سکتا۔ جب نفس ملامت شروع کرتا ہے تو انسان عذرات تلاش کرتا ہے۔ وہ عذرات لوگوں کے لئے نہیں ہوتے نہ ان عذرات سے لوگوں کو خاموش کرنا چاہتا ہے نہ خوش کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ محض اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ دوسروں کے لئے بھی ہوتے ہیں کیونکہ انسان بالطبع چاہتا ہے کہ لوگ اس کی مذمت نہ کریں بلکہ تعریف کریں مگر بہت بڑی زد جو خود انسان کے اپنے نفس کی ہوتی ہے اس سے بچنے کے لئے عذرات گھڑتا ہے اور جان بچانا چاہتا ہے۔
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اسی قسم کے واقعہ کا ذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِيْنُهُمْ۔ اسلام قبول کرنا معمولی بات نہ تھی بلکہ ایک پہاڑ سر پر اُٹھانا تھا۔ اس وقت ساری دُنیا کے عِناد اور تمام مذاہب کی عداوت اسلام کے خلاف بھڑکی ہوئی تھی تاکہ اسلا م کو مِٹا دیں اور وہ ایسا کرنے پر مجبور تھے کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ اسلام کے باقی رہنے میں ان کی ہلاکت ہے۔ اس وقت یہودیت عیسائیت سے نہ ڈرتی تھی، زرتشتی مذہب یہودیت اور عیسائیت سے نہ ڈرتاتھا۔ ان کے ڈرنے کے لئے صرف ایک اسلام ہی تھا اور اسی کے خلاف وہ سب کوشش کرتے تھے۔ کبھی یہ نہ دیکھوگے کہ بکری بھیڑ سے ڈرے حتّٰی کہ بیل گائے سے بھی نہیں ڈرے گی۔ اتنا ہو گا کہ اگر کوئی مارنے والا بیل ہو گا تو اس سے ذرا پیچھے ہٹ جائے گی مگر جب شیر آئے گا تو بکری اور تمام وہ جانور جو اس کی غذا ہیں بھاگ جائیں گے۔ یہی حالت اسلام اور دیگر مذاہب کی تھی۔ جب اسلام آیا تو دیگر مذاہب نے محسوس کیا کہ ہم اس کے سامنے زندہ نہیں رہ سکتے ۔یا اس کو مِٹا دیں گے یا خود مِٹ جائیں گے۔
صداقت جب صادقوں کے ہاتھ میں ہو تو مِٹ نہیں سکتی۔محمد صلی اﷲ علیہ وسلم جو تعلیم لائے وہ اب بھی موجود ہے مگر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہوگئے کیونکہ انسان کے لئے موت ہے۔ پس جب لوگ اسلام کو قبول کرتے تھے تو تمام لوگ ان کے دُشمن ہو جاتے تھے وہ دیکھتے تھے کہ مسائل کا تو مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ توحید کے مقابلہ میں شرک کہاں ٹھہر سکتا ہے۔ اخلاق و تمدن کے مسائل میں اسلام کا کہاں مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے اسلام کو مِٹانے کے لئے ان کے پاس ایک ہی چیز تھی کہ مسلمان کہلانے والوں کو مِٹا دیں کیونکہ صداقت اپنی ذات میں اکیلی قائم نہیں رہا کرتی بلکہ صادقوں کے ساتھ ہوتی ہے تب قائم رہتی ہے ۔ خالی تلوار کچھ نہیں کر سکتی جب تک کہ اچھے سوار کے ہاتھ میں نہ ہو۔ اسی طرح صداقت کا مِٹانا یہی تھا کہ صادقوں کو مِٹا دیا جائے اس لئے اُنہوں نے اپنی تمام طاقتوں کو جمع کیا اور اسلام کے مِٹانے کے در پے ہو گئے۔ اس وقت اسلام کی مثال اس پودا کی سی تھی جوابھی بہت ابتدائی حالت میں ہو اور تنومند جانور اس کو گرانے کے در پے ہوں۔ ایسے وقت میں اسلام میں شامل ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ لوگ اسلام کے نام تک کے دُشمن تھے۔ اس لئے جو شخص بھی مسلمان ہوتا تھا قبل اس کے کہ وہ اپنی حالت کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لیتا اس کا محض مسلمان کہلانا ہی تمام عداوتوں کو اپنے گردوپیش جمع کر لیتا تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو اسلام کی شب و روز خدمت میں رہتے تھے ان سے لوگ کس قدر عداوت کرتے ہوں گے۔
پس اس وقت اسلام قبول کرنا تلوارکے نیچے اپنی گردن کو دھر دینا تھا۔ یہی وجہ تھی وہ نادان جن کو خدا کی قدرتوں اور طاقتوں پر یقین نہ تھا ایسی حالت میں ان لوگوں کے لئے جو اسلام کی خدمت میں شب و روز مصروف تھے کہتے تھے کہ کیا یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں۔ ساری دُنیا کو مُفت میں اپنا دُشمن بنالیا۔ وہ لوگ جو چوہے کی حرکت سے بھی ڈر جاتے ہیں، ڈرتے تھے کہ یہ لوگ کیوں دیوانے ہو گئے ہیں۔ ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق اور کمزور دل مسلمان کہلانے والے لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ مذہبی دیوانے ہیں کہ ہر ایک مذہب اور ہر ایک قوم سے انہوں نے جنگ چھیڑ رکھی ہے اور اس کمزوری پر دعویٰ یہ ہے کہ سب کو مِٹا دیں گے اور اسلام کو قائم کردیں گے ان کے پاس کوئی ظاہری سامان نہیں۔ علوم میں یہ درماندہ ہیں۔ ان لوگوں کی عقل ماری گئی ہے کہ اپنے نقصان سے بے خبر ہیں۔
فرمایا وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۔ان معترضوں کی نظر محدود ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے یہ محض اسی کو دیکھتے ہیں اور نہیں خیال کرتے کہ ان کے پیچھے کون ہے اور ان کی طاقت کہاں سے آتی ہے جس کے بل پر یہ کھڑے ہیں۔
جس چیز کا سہارا مضبوط ہوتا ہے اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور وہ دراصل کمزور نہیں بلکہ بڑی طاقتور ہوتی ہے۔ دیکھو ہاتھ کا گوشت کتنا نرم ہوتا ہے۔ ایک بچہ بھی اس کو کاٹنے لگے تو کاٹ سکتا ہے لیکن جب ایک طاقتور شخص اسی ہاتھ کو کسی کے مُنہ پر مارتاہے تو اکثر اوقات دانت نکال دیتا ہے۔ سرپر مارتا ہے تو بیہوش کر دیتا ہے۔ کیا یہ اس نرم گوشت کا کام ہوتا ہے؟ نہیں۔ یہ اس طاقتور شخص کا کام ہوتا ہے جس کا وہ ہاتھ ہوتاہے۔ تو مسلمان کمزور تھے اور منافق ان کو دیکھ کر طرح طرح کی باتیں بناتے تھے مگر مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم انہی کو دیکھتے ہو جو تمہارے سامنے ہیں۔ اُس کو دیکھو جو ان کے پیچھے ہے جس پر ان کو سہارا ہے اور وہ خدا ہے جو بڑا زبردست اور حکمت والا ہے۔اسی طرح شمشیر بذات خود کچھ نہیں کر سکتی۔ ہاں جب شمشیر زن کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو اس وقت کام کرتی ہے۔ نادان ہے جو شمشیر کو دیکھتا ہے۔ دانا وہی ہے جو شمشیر زن کو دیکھے۔
مثل ہے کہ ایک بادشاہ کے لڑکے نے دیکھا کہ ایک سوار تلوار کے ایک وار میں جانور کے چاروں پاؤں کاٹ دیتا تھا۔ اس زمانہ میں امتحان کے لئے چاروں پاؤں جانور کے باندھ کر کھڑا کر دیتے تھے اور شمشیر زن ایک وار میں چاروں پاؤں کاٹ دیتا تھا۔ لڑکے نے اس سوار سے وہ تلوار مانگی مگر اس نے کہا میاں اس تلوار کو کیا کرو گے۔ تمہارے ہاں اور بہت سی تلواریں ہیں۔ لڑکے نے اپنے باپ بادشاہ کو کہا کہ فلاں سوار سے مَیں نے تلوار مانگی تھی مگر وہ نہیں دیتا۔ بادشاہ نے سوار کو بُلا کر جھاڑا اور تلوار لے دی۔ لڑکے نے تلوار چلائی مگر اس کے چاروں پَیر تو کیا کھال بھی نہ کٹی۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ سوار نے اس تلوار کی بجائے کوئی اَور دے دی ہے۔ سوار کو بادشاہ نے پھر بُلایا تو اس نے کہا کہ مَیں نے وہی تلوار دی ہے۔ لائیے مَیں کاٹ کر دکھلاؤں۔ چنانچہ سوار نے تلوار لے کر جانور کے چاروں پاؤں کاٹ دیئے۔ تب بادشاہ سمجھ گیا کہ اصل میں یہ تلوار کا کام نہ تھا بلکہ اس شمشیر زن کا کام تھا۔
تو مسلمان کمزور تھے لیکن ان کی شوکت کو ظاہر کرنے والا خدا تھا۔ مسلمان دراصل ایک آلہ بے جان کی طرح تھے مگر چونکہ خدا کے ہاتھ میں تھے اس لئے ان کی کمزوری کو دیکھنا غلطی تھی۔ خدا کو دیکھنا چاہئے تھا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۔ جن کا اﷲ پر توکل ہوتا ہے وہ ناکام نہیں ہو سکتے کیونکہ اﷲ تعالیٰ تو غالب ہے۔
ہمارا حال بھی بعینہٖ یہی ہے۔ ہماری جماعت کو اﷲ تعالیٰ نے ایک بڑے مقصد کے لئے کھڑا کیا ہے ۔ ہم سے بھی اس کے کچھ خاص وعدے ہیں جس وقت ہم نے حضرت مسیح موعود ؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اس وقت اقرار کیا تھا کہ ہم اسلام کو تمام عالَم میں پھیلائیں گے اور ہماری مثال اس سپاہی کی ہے جس کو گورنمنٹ نے اپنی فوج میں بھرتی کیا ہو۔ جب وہ بھرتی ہو چُکتا ہے تو اس وقت اس کا حق نہیں ہوتا کہ کہے مَیں فلاں خطرناک جنگ میں نہیں جاؤں گا کیونکہ وہاں جان کا خطرہ ہے۔ یہ اس کو پہلے سوچنا چاہئے تھا۔ جب بھرتی ہو گیا تو گورنمنٹ جہاں بھیجتی ہے اسے جانا چاہئے۔ بھرتی ہونے والا پہلے ہی دن یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ مَیں فوج میں جو بھرتی ہو رہا ہوں تو موت سے مجھ کو ڈر نہیں۔ پس جب ہم خدا کی فوج میں بھرتی ہو گئے تو اب آنے والے خطرات سے ہمارے لئے کوئی ڈر نہیں ہو سکتا۔
اگر ڈر ہوتا تو پہلے سوچنا چاہئے تھا۔ اگر کہا جائے کہ ہمیں پہلے علم نہ تھا تو درست نہیں کیونکہ قبل اس کے کہ مسیح موعود کی بیعت میں ایک بھی شخص آتا خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ یہ اپنا اعلان کرا دیا تھا کہ دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔2 پس یہ پہلے سے اعلان ہو چُکا تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کا تمام دُنیا مقابلہ کرے گی اور جو اس کی بیعت کرے گا اس کو تمام دُنیا کے مقابلہ پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ دُنیا مسیح موعود علیہ السلام کو ردّ کر دے گی مگر خدا اس کو قبول کرے گا اور اپنے زور آور حملوں کے ذریعہ اس کی صداقت ظاہر کر دے گا۔ خدا کے حملے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے صحابہ کے ذریعہ ہوئے اور یہاں بھی خدا کے حملے مسیح موعود علیہ السلام کے لئے آپ کی جماعت کے ذریعہ ہوں گے۔ وہ حملے جو صحابہ کے ذریعہ ہوئے ان سے خون کے میدان رنگے گئے۔ اسی طرح ہم کو بھی ایسے ہی میدانوں سے گزرنا ہو گا۔ پس ہم نے مسیح موعود علیہ السلام کو یونہی نہیں مانا تھا بلکہ سوچ کر اور تمام مُشکلات کو سمجھ کر قبول کیا تھا۔
مَیں نے بتایا تھا کہ صداقت کے دُشمن ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں بھی تھے۔ آج جبکہ آپ کا ایک غلام کھڑا ہؤا ہے تاکہ دُنیا میں اسلام کو پھیلائے تو غیر تو غیر خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ماننے کا دم بھرنے والے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پس جن رستوں سے صحابہ گزرے ہمیں ان سے زیادہ خطرناک راستوں میں سے گزرنا پڑے گا اور ان سے زیادہ دقتیں ہمارے لئے درپیش ہوں گی کیونکہ صحابہ کے وقت دُنیا اس طرح منظم صورت میں نہ تھی جس طرح اَب ہے اور اس وقت ایسے علوم اسلام کے مقابلہ میں نہ تھے جیسے اَب ہیں۔ پس آج بھی ایسے لوگ ہیں جو ہم پر ہنستے اور ہمیں پاگل کہتے ہیں۔ اور تو اور بعض ہم میں سے بھی منافق طبع اور کمزور دل ہیں جیسا کہ رسولِ کریمﷺ کے وقت میں مسلمان کہلاتے ہوئے منافق تھے۔ وہ بھی ہمیں کہتے ہیں کہ کیوں ساری دُنیا کا مقابلہ کرتے ہو جان جائے گی، عزت پر حرف آئے گا، مِٹ جاؤ گے لیکن ہم ان کو کہتے ہیں کہ جس وقت ہم نے بیعت کی تھی ہمیں اُسی وقت کہہ دیا گیا تھا کہ تمہیں صداقت کے پھیلانے کے لئے اپنی ہر ایک عزیز سے عزیز چیز کے قُربان کرنے کے لئے تیار ہونا ہو گا۔ پس یہ نئی بات نہیں بلکہ ہمیں پہلے سے ہی بتا دی گئی تھی۔ پس ہم خدا کی راہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ کریں گے اور انشاء اﷲ ہم ناکام نہ ہوں گے بلکہ کامیاب ہوں گے۔
پس تم خوب یاد رکھو مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۔اﷲ پر بھروسہ کرنے والے ہی کامیاب ہؤا کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا سہارا اتنا مضبوط ہے کہ دُنیا کی کوئی طاقت اس کو توڑ نہیں سکتی۔ دیکھو اگر ایک اینٹ آسمان کی طرف پھینکو تو وہ بھی زمین پر آئے گی لیکن ہزاروں من مٹی جو چھت پر ہوتی ہے زمین سے بُلند ٹھہری رہتی ہے کیونکہ چھت کے نیچے سہارا مضبوط ہوتا ہے جو اس کو زمین پر گرنے سے بچاتا ہے۔ پس گو ہم کمزور ہیں لیکن چونکہ مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے تھے اور خدا آپ اور آپ کے ساتھ والوں کے ساتھ ہے اس لئے ہمارا مقابلہ ہمارا نہیں خدا کا ہے جو شخص ہتھیار پر وار کرتا ہے وہ ہتھیار کو توڑنا نہیں چاہتا بلکہ شمشیر زن پر حملہ کرتا ہے مگر تلوار والا تلوار کی حفاظت کرتا ہے۔ اسی طرح خدا ہماری حفاظت کر رہا ہے۔ اس لئے ہمیں خطرہ نہیں۔ اگر ڈر ہے تو ان لوگوں کو جو منافق ہیں یا جن کے دل میں مرض ہے۔ یعنی وہ اتنے بیمار ہیں کہ ان کو منافق نہیں کہا جاسکتا۔ اگر ہمیں ایک منٹ کے لئے بھی یہ وہم ہو کہ ہمیں دُنیا مِٹا دے گی تو ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ تب ہم منافق ہیں کیونکہ ہم ہلاک تب ہی ہو سکتے ہیں جب مسیح موعود علیہ السلام جھوٹے ہوں یا ہمارا ان پر ایمان ناقص ہو مگر چونکہ وہ جھوٹے نہیں اس لئے ہم بھی اس وقت تک ہلاک نہیں ہو سکتے جب تک ہم میں سچّا ایمان اور حقیقی اخلاص پایا جائے گا۔
پس خوب یاد رکھو اﷲ تعالیٰ کی طاقت کا مقابلہ کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔ کب صداقت دُنیا میں آئی کہ اس کا مقابلہ نہیں کیا گیا اور مقابلہ کرنے والے ناکام نہیں رہے۔ حضرت موسیٰ جس دُنیا کی طرف آئے وہ ان کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی مگر ان کو مِٹا تو نہ سکی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لئے آئے اور بنی اسرائیل آپ کی مخالفت میں لگ گئے مگر عیسیٰ ؑ ناکام نہ رہے۔ اسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ساری دُنیا کے لئے آئے اور ساری دُنیا آپ کی مخالفت میں لگ گئی مگر مخالفین کو کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ کامیاب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہوئے۔ اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے ہیں اور یقینا خدا کی طرف سے ہیں تو ساری دُنیا کی مخالفتوں کا ہمیں کیا خوف ہوسکتا ہے۔ ہمارے مقابلہ میں تمام دُنیاوی طاقتوں کی حیثیت ایک مچھر جتنی بھی نہیں۔ بے شک ہمارے پاس تلوار نہیں، ہم فوجیں نہیں رکھتے، ہمارے پاس مال نہیں، ہم تھوڑے ہیں اور ہمارے مخالفوں کے پاس سب کچھ ہے مگر ہم نے کب کہا ہے کہ ہمارے پاس تلوار ہے اور ہم اس کے ذریعہ کامیاب ہوں گے۔ ہم تو کہتے ہیں ہمارے پاس صداقت ہے اور صداقت پر کوئی غالب نہیں آسکتا بلکہ صداقت ہی ہر قسم کی بطالت پر غالب آیا کرتی ہے۔ پس گو ہم کمزور ہیں، ناطاقت ہیں، تھوڑے ہیں مگر چونکہ اپنے پاس صداقت رکھتے ہیں اور اس ہستی کا سہارا ہمیں حاصل ہے جو تمام طاقتوں اور قوتوں کی جامع ہے اس لئے ہمیں اپنی ناکامی کا ہر گز خیال نہیں آسکتا۔ میرے نزدیک تو وہ شخص متکبر ہے جو ڈرتا ہے کہ دُنیا ہمیں پامال کر دے گی کیونکہ وہ اپنے کو بھی کچھ خیال کرتاہے لیکن جس کا توکّل خدا پر ہے وہ اپنی ذات کو کچھ نہیں سمجھتا۔ اس لئے دُنیا کی کوئی طاقت اسے خوف زدہ نہیں کر سکتی کیونکہ اس کی طاقت کسی اور ذریعہ سے آتی ہے۔
مَیں نے دلّی دربار میں دیکھاکہ ہزار ہا کا ہجو م تھا اور ایک ریلا پڑتا تھا کہ جس سے مضبوط سے مضبوط آدمی گر پڑتے تو اُٹھ نہیں سکتے تھے لیکن ہمارے آگے آگے ایک مضبوط شخص نے اپنے کندھوں پر ایک بچّہ اُٹھایا ہؤا تھا اس وقت جبکہ لوگ گر پڑتے تھے اور ہائے وائے کر رہے ہوتے تھے وہ بچّہ ہنستا جارہا تھا۔ اس کی کیا وجہ تھی کہ وہ بچّہ ہنستا اور تماشہ دیکھتا گزر رہا تھا یہی کہ وہ ایک مضبوط شخص کے کندھے پر سوار تھا۔
پس مت ڈرو کہ تمام دُنیاتمہارے مقابلہ میں ہے اور ہراساں مت ہو کہ تم کمزور ہو کیونکہ تم اپنی طاقت پر مخالفوں کے مقابلہ پر نہیں کھڑے ہوئے بلکہ خدا تمہاری مدد پر ہے۔ خدا کی طاقت تمہارے دُشمنوں اور مخالفوں کا مقابلہ کرے گی۔ یہ بڑی بڑی طاقتیں آئیں گی اور تمہارے پاؤں پر گریں گی۔
مجھے ایک فرانسیسی مصنّف کے قول کا بڑا مزا آتا ہے۔ وہ لکھتا ہے مجھے ایک بات تعجب میں ڈال دیتی ہے کہ ایک کچّے مکان میں چند غرباء آدھے ننگے جسموں کے ساتھ بیٹھے ہیں اور تجویزیں یہ کر رہے ہیں کہ اب قیصر کی سلطنت فتح کرنا ہے اور اب کسریٰ کی حکومت کو فتح کریں گے اور ہر ایک کے چہرے سے یقین ٹپکتا ہے اور پھر اسی کے مطابق وہ کر کے بھی دکھا دیتے ہیں۔ جب ایمان ہو تو کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔ اگر ہمیں مسیح موعود علیہ السلام پر سچّا ایمان ہو تو ہمیں کوئی مادی طاقت مرعوب نہیں کر سکتی اور نہ حکومت میں کوئی تغیر خوف زدہ کر سکتا ہے۔ ہم کسی حکومت کی اطاعت اس کے خوف کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ خدا کے حکم کی وجہ سے کرتے ہیں۔ دیکھو حضرت موسیٰ ؑفرعون سے نہیں ڈر سکتے تھے کیونکہ اُنہوں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ وہ غرق ہو رہا ہے اور غرق ہونے والے سے اُنہوں نے کیا ڈرنا تھا۔ ہاں اگر موسیٰ ؑ کو خوف تھا تو خدا کے اس حُکم کا کہ قُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا 3 فرعون کے پاس جاؤ اس سے نرم نرم باتیں کرو۔ اسی وجہ سے وہ فرعون سے نرمی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے نہ کہ اس کے ڈر سے۔ تو ہم گورنمنٹ کی اطاعت اس کے ڈر سے نہیں کرتے بلکہ خدا کے حکم کے ڈر سے کرتے ہیں۔ پھر ہمیں ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی ظالم بھی تم پر حاکم ہو تو اس کی اطاعت کرو۔ پس ہم اگر کسی حکومت کی اطاعت کرتے ہیں تو اس کے خوف سے نہیں بلکہ خدا اور خدا کے رسول کے احکام کے مطابق کرتے ہیں۔ حکومتیں اس سے زیادہ کیا کر سکتی ہیں کہ ایک شخص کو مروا دیں مگر مومن موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ موت کے بعد وہ سمجھتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی رضا اور جنت نصیب ہوں گے جن میں مَیں رہوں گا۔ پس ہمارے لئے سوائے خدا کے کسی کا حقیقی خوف نہیں کیونکہ ہم اس مقام پر ہیں جس کو خدا کی نصرتیں گھیرے ہوئے ہیں۔ ڈر ایمان کی کمی کے باعث ہو سکتا ہے لیکن مومن خدا کے سوا کسی سے خوف زدہ نہیں ہو سکتا۔
پس یاد رکھو کہ یہ تمام حکومتیں تمہارے آگے مغلوب ہو جائیں گی مگر تلوار سے نہیں دلائل کے ساتھ اور صداقت کے ساتھ تم غالب ہو گے۔ اس لئے خدا سے تائید یافتہ بے خوف ہوتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ توفیق دے کہ ہماری جماعت اس امانت کو جو اس کے سپرد کی گئی ہے پہنچائے اور اس کے فضل کے ساتھ کامیاب ہو۔ آمین‘‘ (الفضل 6دسمبر 1920ء)
1: الانفال :50
2: تذکرہ صفحہ 398 ایڈیشن چہارم
3: طٰہٰ : 45



104
منتظمین جلسہ اور مہمانوں کا فرض
(فرمودہ 3دسمبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ترقی کرنے والی قوموں کے ساتھ یہ بات لازمی طور پر لگی ہوتی ہے کہ ان کی ضروریات ہمیشہ ان کی آمدنی کے ذرائع سے بڑھی رہتی ہیں اور جس قوم کی ضروریات ذرائع سے زیادہ نہ ہوں اس کے یہ معنے ہیں کہ اس میں سوچنے والے دماغ نہیں۔ ترقی کرنے والوں میں ہمیشہ ایسے دماغ ہوتے ہیں جو نئے نئے کام سوچتے رہتے ہیں۔ اگر نہ ہوں تو وہ قوم ترقی کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتی کیونکہ دُنیا میں ترقی کی ایک رَو چل رہی ہے اور ایک کُشتی ہو رہی ہے۔ جو اس مقابلہ میں بڑھنے کی کوشش نہیں کرتا وہ اپنے وجوہ کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ پس جماعت کی ترقی کے لئے ضروریات کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے ساتھ جماعت کے اعمال بھی ترقی کرتے رہتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر دُشمن اعتراض نہ کرتے اور ابوجہل، عتبہ، شیبہ کا وجود نہ ہوتا تو قرآن بہت مختصر ہوتا۔ اس طرح معترض کا وجود بھی مفید ہو جاتا ہے۔ وہ اعتراض کرتا ہے تو اسلام کی تائید میں نئے نئے دلائل اور نئے نئے علوم نکلتے ہیں اگر سب لوگ ہی حضرت ابوبکر ؓ جیسے ہوتے اور اعتراض نہ کرتے تو نہ معجزات کا ظہور ہوتا، نہ آیاتُ اﷲ ظاہر ہوتیں، نہ خدا کی قدرت نظر آتی کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ پس ترقی کے لئے ضروریات کا ہونا ضروری ہے۔
اسی اُصول کے مطابق ہماری جماعت کی ضروریات ہر سال ذرائع سے بڑھی رہتی ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ یہ انحطاط کی دلیل ہے تو اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ضروریات انحطاط کا باعث ہؤا کرتی ہیں جن میں ذرائع آمد کم ہوں یا کم رہیں اور ضروریات بڑھتی جائیں لیکن اگر ضروریات کے ساتھ ساتھ ذرائع میں بھی ترقی ہوتی رہے تو پھر ضروریات کا بڑھنا انحطاط کا موجب نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اکیلا شخص دس روپے ماہوار میں گزارہ کرتا ہے اور بیوی بچے کے ہونے پر بارہ روپے میں بھی گزارہ نہیں کر سکتا تو اس کو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اقتصاد کے خلاف کرتا ہے یا وہ مُسرف ہے۔ پس جہاں اخراجات بڑھتے جائیں وہاں آمدنی بھی بڑھتی جارہی ہو تو پھر اخراجات موجب انحطاط نہیں ہوتے۔ ہمارے اخراجات ہر سال بڑھتے جاتے ہیں لیکن خدا کے فضل سے جماعت بھی دم بدم ترقی کر رہی ہے اور اس بڑھوتی کے باعث ہم جو سامان بھی کرتے ہیں وہ کم ثابت ہوتے ہیں۔
مثلاً یہی سالانہ جلسہ ہے۔ ہم ہر سال پیشتر کی نسبت زیادہ اندازہ کرتے ہیں مگر خدا کے فضل سے مہمان پہلے سال کی نسبت بہت زیادہ آجاتے ہیں اس لئے ہمارے بڑھے ہوئے اندازے بھی کم ہوتے ہیں اور لوگوں کو کسی نہ کسی باعث سے شکوہ پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ اگر کوئی کہے یہ کیوں ہؤا؟ تو ہم کہیں گے کہ اس میں ہمارا قصور نہیں بلکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے اندازے سے بڑھ کر مہمان آئے۔
یہاں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے اور وہ یہ کہ جب کسی مہمان کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ شکایت کرتا ہے تو اس وقت ہمارے منتظموں کو یہ حق نہیں کہ ان کی شکایت کے متعلق یہ کہیں کہ تم یہاں آرام پانے نہیں آئے تھے بلکہ تمہارے آنے کی غرض دین سیکھنا تھا۔ اگر کوئی تکلیف پہنچ گئی ہے تو اس کی پرواہ نہ کرو کیونکہ اگر وہ ایساکہیں گے تو یہ ان کا اپنے قصور کو چھپانا ہو گا۔ بے شک اس کا یہاں آنا دین سیکھنے کے لئے ہوتا ہے اور اس کا بھی فرض ہوتا ہے کہ اس غرض کو مدِّنظر رکھے مگر اس منتظم کابھی کچھ فرض ہوتاہے اور وہ یہ کہ مہمان کی حتّی الامکان خدمت اور دلجوئی کرے اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچے تو نرمی سے بتائے کہ یہ غلطی کس طرح ہوئی ہے لیکن اس کی بجائے منتظم کا مہمان کو اس کا فرض یاد دلانے کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنا فرض بھولا ہؤا ہے اور اپنی کوتاہی کو چھُپاتا ہے۔ پس منتظم کا یہ کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک تیسرے شخص کا کام ہے کہ دونوں کو ان کے فرائض کی طرف متوجہ کرے ورنہ اگر ایسے دونوں شخص جن کے ذمہ فرائض ہیں ایک دوسرے کو اس کا فرض یاد دلائیں گے تو اس طرح فساد ہو گا مثلاً اگر قرض خواہ مقروض کو کہے کہ میاں خدا کا حکم ہے کہ وعدہ پورا کرنا چاہئے تم نے جو وعدہ کیا تھا اس کو پورا کرو اور ادھر مقروض کہے کہ خدا کا حکم ہے کہ سختی نہیں کرنی چاہئے تو فساد ہو گا لیکن ایک تیسرا شخص دونوں کو ان کے فرائض یاد دلا سکتا ہے اور اس طرح کوئی فساد نہیں ہو سکتا۔ پس جب مہمان آتے ہیں تو جو شخص کھانا کھلانے پر مقرر ہو اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے اور مہمان اس کی شکایت کریں تو اس کا کام ان کو نصیحت کرنا نہیں، نہ ان کو ان کے فرض یاد دلانا اس کا کام ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور ان سے معافی چاہے اور اسی طرح اگر مہمان ان کو یہ کہے کہ روٹی کھلانے والے نکمّے ہیں ، کسی کام کے نہیں، اپنا فرض ادا نہیں کرتے تو ان کا نصیحت کرنابھی درست نہیں۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ شریعت کے حکم کے پردے میں اپنے بُغض کو اور غصّہ کو ظاہرکرتے ہیں۔ یہ کام بھی ایک تیسرے شخص کا ہے کہ ان کو نصیحت کرے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ ہمارے جلسہ پر مہمانوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے مگر بیسیوں دفعہ اس میں منتظم کا دخل نہیں ہوتا اور بہت دفعہ تھوڑی سی توجہ سے اس غلطی کی اصلاح کی جاسکتی ہے لیکن ایسے وقت میں منتظم کا نصیحت کرنا بہت تکلیف دِہ ہوتا ہے اور اس کا بُرا اثر پڑتا ہے کیونکہ اس نصیحت کو نصیحت نہیں خیال کیا جاتا بلکہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح اپنا پیچھا چُھڑاتے ہیں۔
پس مَیں قادیان کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں اور ابھی سے کہ جلسہ میں ابھی بیس روز رہتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیں۔ پہلے مَیں ایک آدھ جمعہ پہلے کہا کرتا تھا اب دو جمعہ درمیان چھوڑ کر کہتا ہوں کہ ابھی اپنے فرض کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ مَیں نے بارہا نصیحت کی ہے لیکن مَیں کہہ سکتا ہوں کہ ابھی تک ایک بھی نہیں جس نے اپنی ذمہ داری کوسمجھا ہو۔
خوب یاد رکھو کہ تم خالی اخلاص سے کچھ نہیں کر سکتے جب تک اخلاص کے ساتھ تمہاری تربیت نہ ہوئی ہو۔ تم میں بہت ہیں جو مخلص ہیں اور بہت ہیں جو دین سے محبت رکھتے ہیں مگر بہت ہی کم ہیں جو تربیت یافتہ ہیں۔ تربیت جہاں کام دے سکتی ہے وہاں محض تمہارا اخلاص کام نہیں آسکتا۔ دیکھو اگر تم ایمان میں حضرت ابو بکر ؓ کے برابر بھی ہو جاؤ تو محض ایمان میں ترقی یافتہ ہونا تمہیں دُشمن کے مقابلہ میں لڑائی کے فن سے واقف نہیں کر سکتا۔ لڑائی کا فن اسی وقت آئے گا جب تم باقاعدہ تربیت پاؤ گے اور مشق کرو گے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ بڑے مخلص تھے مگر تربیت کی ان کے لئے بھی ضرورت تھی۔ اس لئے وہ لوگ تیراندازی اور دیگر فنوں کی باقاعدہ مشق کرتے تھے۔ دیکھو تربیت کا یہ اثر ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی نماز کی صفوں کو سیدھا کرو ورنہ خدا تمہارے دل ٹیڑھے کر دے گا۔1 اس قدر صفیں سیدھی کرنے کی تاکید ہے مگر نماز میں عموماً صفیں ٹھیک نہیں ہوتیں لیکن فوج کے سپاہی جو دس دس روپیہ کے نوکر ہوتے ہیں اور جن کو کوئی اخلاص نہیں ہوتا کیسے اپنی صفوں کو سیدھا رکھتے ہیں اور جب تیزچلتے ہیں تب بھی ان کی صفیں ٹھیک رہتی ہیں۔ تم میں اخلاص ہے مگر چونکہ تربیت نہیں ہے اس لئے تم صفیں سیدھی نہیں کر سکتے اور ان کے پاس اخلاص نہیں صرف تربیت ہے وہ اس کام کو کرسکتے ہیں۔
پس تمہیں خواہ کتنا ہی ایمان حاصل ہو مگر جب تک تم الف۔ ب نہیں پڑھو گے اور حسبِ قاعدہ زبان سیکھنے کی کوشش نہیں کرو گے تمہیں زبان عربی یا کوئی اور زبان نہیں آئے گی۔ یاد رکھو کہ جہاں جسم ساتھ ہو گا وہاں محض اخلاص کا م نہیں دے گا بلکہ اس کے لئے تربیت حاصل کرنی پڑے گی۔ اخلاص کاتعلق محض رُوح سے ہے لیکن جہاں جسم ساتھ ہو وہاں اخلاص کے ساتھ تربیت بھی ہونی چاہئے۔
شریعت نے نماز فرض کی ہے لیکن چونکہ نماز کا تعلق جسم سے بھی ہے اس لئے جب جسم بیمار ہو تو شریعت کہتی ہے بیٹھ کر یا لیٹ کر یا اشارے سے نماز پڑھ لو۔ نماز جو اصل میں رُوح کا فعل ہے جسم کے بیمار ہونے سے لیٹ کر ہی پڑھی جاتی ہے حالانکہ جسم کے بیمار ہونے کے ساتھ روح بیمار نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات بیماری میں رُوح اور زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ تو لیٹ کر پڑھنے کی یہی وجہ ہے کہ چونکہ جسم بیمار ہوتا ہے اور نماز کے ساتھ جسم کا بھی تعلق ہے اس لئے جسم کی رعایت رکھنی پڑتی ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ تم میں پچاس فیصدی ہیں جنہوں نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا کہ اُن کاموں میں جن میں جسم کا تعلق ہے محض روح کی صفائی کام نہیں دے سکتی۔ تم میں سے خواہ ہر ایک حضرت ابوبکرؓ سے بھی ایمان میں بڑھ جائے مگر جب تک تمہاری تربیت ٹھیک نہیں ہو گی محض ایمان و اخلاص سے دُنیاکو فتح نہیں کر سکو گے۔
غور کرو بارش ہو رہی ہو تمہاری ایک دیوار ٹوٹ گئی ہو اور تم کو اندیشہ ہو کہ اگر چور آئیں گے تو تمہیں لُوٹ لے جائیں گے۔ تمہیں اپنے مکان سے اور اپنے مال سے محبت ہے لیکن تم شکستہ دیوار کو نہیں بنا سکتے۔ ہاں ایک معمار جس کو تمہارے مکان اور مال سے کوئی محبت نہیں چند پیسے لے کر تمہاری دیوار کو تم سے بہت زیادہ اچھا بنا دے گا۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ تم باوجود محبت کے نہ بنا سکے اور وہ باوجود محبت نہ رکھنے کے اچھا بنا سکا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کام کے متعلق اس کی تربیت ہوئی ہے اور تمہاری نہیں ہوئی۔
پس ہر کام کے لئے جس میں جسم کا تعلق ہو تربیت اور مشق ہونی چاہئے۔ نماز کے لئے بھی مشق کی ضرورت ہے۔ بہت ہیں جو تہجد کی تڑپ رکھتے ہیں مگر نہیں اُٹھ سکتے۔ اس لئے کہ ان کو مشق نہیں۔ اسی لئے رسولِ کریمﷺ نے ان میاں بیوی کی تعریف کی ہے جو ایک دوسرے کو تہجد کے لئے اُٹھائیں کیونکہ اس طرح مشق ہوتی ہے۔ ایک چوکیدار جس کو لوگوں کے اموال سے کوئی محبت نہیں ہوتی چند روپیہ لے کر سردی کی لمبی راتوں میں جاگتا ہے مگر تم باوجود اپنے اموال سے محبت رکھنے کے رات کو نہیں جاگ سکتے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ اس نے مشق کر کے اپنے جسم کو ایسا بنا لیا اور تم نے اپنے جسم کی تربیت نہیں کی۔
یہ ایک ضروری نکتہ ہے مگر افسوس ہے کہ اس کو نہیں سمجھا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہر ایک کام میں نقص رہتا ہے۔ ایک شخص کو کوئی صیغہ سپرد کیا جاتا ہے وہ اس کے متعلق علم حاصل نہیں کرتا۔ نہیں دیکھتا کہ پہلوں نے اس کام کو کیا تو کس طرح کیا، کیا کیا نقص ہوئے، کس طرح اصلاح ہوئی، کیا رکاوٹیں پیش آئیں اور خود اس کو جو دقتیں پیش آئیں وہ ان کو بھی نہیں لکھتا۔ ہمارے ہاں جلسہ پر انتظامی امور میں بعض نقص ہوتے ہیں اس وقت بوجہ اخلاص کے درد بھی محسوس کیا جاتا ہے مگر ان نقائص کو لکھا نہیں جاتا اور اس لئے آئندہ ان کے دُور کرنے کی کوشش نہیں کی جاسکتی۔ حالانکہ کام کرنے والوں کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی کام کو کرنا ہوتا ہے تو اس کے متعلق کوشش اور مشق پہلے سے شروع کرتے ہیں۔
مثلاً جنگ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں حملہ کرنا ہوتا تھا تین تین مہینہ پہلے سپاہ سے مشق کراتے تھے اور جس علاقہ پر حملہ کرنا ہوتا تھا اس کے مصنوعی راستے اور اس کی پہاڑیاں بنا کر فوج سے اس پر حملہ کراتے تھے۔ جب وہ پختہ ہو جاتے تب حملہ کرتے تھے۔ سکولوں میں جلسے کرتے ہیں اگر کسی بڑے شخص نے آنا ہو تو کوئی طالبعلم نظم پڑھتا ہے، کوئی ایڈریس پڑھتا ہے اور فرض کیا جاتا ہے کہ وہ بڑا شخص آگیا اس لئے کہ جب وہ شخص آئے تو یہ نکمّے ثابت نہ ہوں۔ اور تو اور یہ خبیث ناٹکوں والے جنہوں نے مُلک کے اخلاق بگاڑ دیئے ہیں یہ بھی پہلے مشق کرتے ہیں پھر سٹیج پر آتے ہیں۔
اب ہمارے جلسہ کا موقع ہے ۔ ہائی سکول کے لڑکے یااور جو سٹیشن پر مہمانوں کو رسیو (RECEIVE)کریں گے اگر ان کو مشق نہیں تو مہمانوں کے لئے تکلیف کا باعث ہوں گے لیکن اگران کو مشق کرائی جائے تو مفید ہو سکتے ہیں اور اس کا طریق یہ ہے کہ فرض کر لیا جائے کہ ریل آگئی۔ تمام لڑکوں کے بستر کمروں میں باندھ کر رکھے ہوئے ہیں ان کو فرض کیا جائے کہ گاڑیوں میں مہمانوں کے بستر ہیں اور کپتان وِسل کرے اور ماتحت لڑکے فوراً جس طرح گویا ریل آکر ٹھہر گئی کمروں میں داخل ہوں اور بستروں کو فوراً نکال لائیں اور اگر جلسہ سے پہلے پانچ سات دفعہ یا جتنی ضرورت ہو ان سے مشق کرائی جائے تو وہ اب بغیر تربیت کے جتنا کام کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اور کہیں اچھا کام اس وقت کر سکیں گے۔ دیکھو کانگرس وغیرہ والے کس طرح کام کرتے ہیں۔ ان کی محض تربیت ہوتی ہے۔ ان میں وہ اخلاص نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہزارواں حصّہ بھی نہیں ہوتا جو تم میں ہے۔1917ء میں جب اوّل بار مَیں ڈلہوزی گیا اس وقت مجھ کو یہ خیال آیا تھا کہ ہمارے لوگوں کی تربیت نہیں۔ اُسی وقت سے مَیں باربار خطبات میں، درسوں میں، تقریروں میں کہہ رہا ہوں مگرافسوس ہے کہ اس پرتوجہ نہیں کی گئی۔ پس جسمانی کاموں میں جسمانی تربیت کی ضرورت ہے۔ دیکھو عیسائی مبلغ جن ممالک میں جاتے ہیں چونکہ وہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اس لئے شور مچ جاتاہے مگر ہمارے مبلغ بعض دفعہ برسوں رہتے ہیں اور لوگوں کو علم تک نہیں ہوتا۔ اس نکتہ کو سمجھواورتربیت کی طرف توجہ کرو۔ اگر چاہتے ہو کہ کامیاب ہو ورنہ محض ایمان سے وہ کام جو درکار ہے نہیں ہوگا۔
خدا نے جو سامان دیئے ہیں ان کو استعمال میں لاؤ۔ ان کو استعمال میں نہ لانا اور فتح چاہنا خدا کا امتحان لینا ہے۔ اگر مشق نہیں کرو گے تو ہزاروں سال میں بھی مقصد حاصل نہیں کر سکو گے۔ تربیت ہو اور پھر کام کرنے والوں پر ایک نگران ہو جس کو سوائے نگرانی کے اور کوئی کام نہ ہو پھر کام ہو گا۔ یورپ کا کاروبار ایک جرمن فلاسفرکے قول پر چل رہا ہے اس سے پوچھا گیا کہ کس طرح اچھا انتظام ہو سکتاہے اس نے کہا کہ کچھ لوگ بالکل فارغ ہوں جو یہ دیکھ سکیں کہ دوسرے فارغ نہیں۔ وہ صرف دماغ کی طرح ہونے چاہئیں۔ ان کا کام صرف سوچنا ہو۔ وہ دماغ ہوں اور دوسرے اعضاء و جوارح۔ یہی عمدگی کے ساتھ کام کرنے کا طریق ہے۔ فرض کرو اگر مجھے بیت المال کا کام سُپردہو اور مَیں روز روپیہ کا حساب کرنے بیٹھوں تو جماعت کی بہتری کے لئے اور جو بہت سے کام ہیں اس وقت کرتا رہتا ہوں وہ کس طرح کر سکوں۔
پس نگران ہوں جن کا کام محض نگرانی ہو۔ مَیں نے ابھی سے نصیحت اس لئے کی ہے تاکہ تم اس فرض کے ادا کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ جلسہ پر صرف احمدی ہی نہیں غیر احمدی بھی آتے ہیں اُس وقت جو احمدی آتے ہیں اگرچہ ان کو جوتکلیف ہو وہ برداشت تو کرتے ہیں مگر اچھا اثر نہیں لیتے لیکن جو غیر احمدی آتے ہیں ان کو اگر تکلیف پہنچے تو وہ جتنے قریب ہوتے ہیں اتنے ہی دُور ہو جاتے ہیں۔
مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ جو فارغ ہوں وہ حتّی الوسع اپنے آپ کو افسروں کے پیش کریں اور پھر مشق کریں اور تربیت حاصل کریں تاکہ کام کو خوبی کے ساتھ سرانجام دے سکیں۔ اگرچہ یہ وقتی نصائح ہیں مگر یہ ہمیشہ کے لئے یا درکھو کہ جب تک تربیت نہ ہو کوئی کام خوبصورتی سے نہیں ہو سکتا۔ جن کاموں میں جسم کا تعلق ہو وہ محض اخلاص سے نہیں ہو سکتے۔ اگر اس نکتہ کو مدِّنظر رکھو تو تمہارا ترقی کا قدم تیزی سے اُٹھ سکتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم ان تمام ذرائع کو استعمال کر سکیں جن سے ہماری ترقی میں سُرعت پیدا ہو اور اسلام جلد پھیل جائے۔ آمین‘‘ (الفضل 9دسمبر 1920ء)
1: ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصّلٰوۃ باب اقامۃ الصفوف



105
سرچشمہ ہدایت کی قدر کرواور فساد کی راہوں سے بچو
(فرمودہ 10دسمبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:-
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ۔1
اور فرمایا:-
''انسانی اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کا اثر صرف کرنے والوں تک محدود ہوتا ہے اور ایک وہ عمل ہوتے ہیں جن کا اثر ان دوسروں پربھی پڑتا ہے جو اس فعل میں شامل نہ ہوں۔ ان دونوں قسم کے کاموں میں اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔ جو شخص نماز پڑھتا ہے اس کی نماز کا اثر اس شخص کی ذات تک ہے مگر جو زکوٰۃ دیتا ہے اس زکوٰۃ دینے والے کا اثر اسی کی ذات تک محدود نہیں بلکہ دوسروں پر بھی پڑتا ہے کیونکہ جب تک لینے والا نہ ہو زکوٰۃ دی ہی نہیں جاسکتی۔ پھر بدظنی کا اثر محض بدظنی کرنے والے کی ذات تک محدود ہے یا مثلاً کوئی شخص شرک کرتا ہے اگرچہ شرک بڑا گناہ ہے مگر اس کا اثر دوسروں پر کچھ نہیں پڑتا لیکن اگر کوئی چوری کرے تو چوری کا فعل چور کی ذات تک کے لئے ہی نہیں بلکہ جن کے ہاں چوری ہوتی ہے ان پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ یا قتل ہے اس کا اثر بھی دوسرے پر پڑتاہے۔
بدظنی بھی بُری ہے اور قتل یا چوری بھی بُری ہے لیکن فرق ان میں یہ ہے کہ ایک فعل کااثر صرف کرنے والے کی ذات تک محدود ہے اور دوسرے کا اثر دوسرے پر بھی پڑتا ہے۔ اس لئے ایسے اعمال جن کا دوسروں کی ذات پر بھی اثر پڑے ادنیٰ ہو کر خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص اپنے ایک لاکھ روپے ضائع کر دے اور ایک دوسرا شخص پچاس شخصوں کا ایک ایک روپیہ کھو دے تو اگرچہ نقصان تو ایک لاکھ کا بڑا ہے مگر ان پچاس روپیہ سے جو پچاس شخصوں کے تھے بلحاظ اثر کے تھوڑا ہے کیونکہ لاکھ کااثر ایک ہی شخص کی ذات پر ہے اور پچاس روپیہ کے نقصان کا اثر پچاس اشخاص کی ذات پر پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک شخص اپنے لاکھ روپیہ کے کپڑے کی دکان جلا دے تو اگرچہ لوگو ں پر بھی اس کا اثر پڑے گا مگر زیادہ اثر مالک پر ہی ہوگالیکن اگر کوئی پچاس آدمیوں کا ایک ایک روپیہ کا کپڑا جلا دے یا پھاڑ دے تو اس کا اثر زیادہ وسیع ہو گا۔
پس ایسے اعمال جو اپنے اثرات کے لحاظ سے لوگوں کے لئے مُضر اور خطرناک ہوں ان میں انسان کو شامل ہونے سے بچنا چاہئے۔ اسی قسم کے اعمال میں سے جو دُنیا کے لئے خطرناک ہوتے ہیں ایک فساد بھی ہے جس کے متعلق اﷲتعالیٰ فرماتا ہے وَ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ۔ جب اصلاح ہو چکی ہو یا ہو رہی ہو تو اس میں دخل دینا اور رکاوٹ ڈالنا بہت نقصان رساں ہوتا ہے۔ ہر ایک فعل کا اثر ہوتا ہے۔ اگر بُرا فعل ہے تو بُرا اثر ہو گا اور اگر نیک ہے تو نیک۔ پھر اگر صرف اس کی ذات سے تعلق رکھتا ہے تواسی پر اور اگر دوسروں سے تعلق رکھتاہے تو ان پر بھی ہو گا۔ اس قسم کے کسی فعل کے کرنے سے کسی کو ہدایت کرنا یا سمجھانا کہ وہ اس سے باز آئے اسی حد تک جائز ہے جس سے فساد نہ ہو۔ اگر عملی طور پر سمجھانے اور روکنے کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے یعنی ہم تو اپنے خیال میں اصلاح کرتے ہیں مگر اس سے دوسروں پر بُرا اثر پڑتا ہے تو یہ فساد ہے۔ دیکھو منافق اپنے فساد پھیلانے کی کوششوں کا نام اصلاح رکھتے تھے لیکن اصل میں اس اصلاح کا نتیجہ مسلمانوں کے لئے نقصان رساں تھا کیونکہ اس سے کلمۂ اسلام متفرق ہوتا تھا اور منافق اپنی جان بچانا چاہتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا کہ کفّار نے اسلام کے مِٹانے کے لئے شمشیر اُٹھالی تھی اُس وقت ان کے دفعِ شر کے لئے ضرورت تھی کہ شمشیر اُٹھائی جائے۔ وہ لوگ اس کو روکتے تھے اور اس کا نام اصلاح رکھتے تھے حالانکہ اس طرح وہ فتنہ کو اور بڑھاتے تھے کیونکہ جب وہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی تکلیفوں اور شرارتوں کو دیکھتے اور مسلمانوں کو روکتے تھے کہ ان کا جواب نہ دو تو گویا وہ اس طرح ظالم کی مدد کرتے تھے ۔ اس کو اﷲ تعالیٰ نے فساد قرار دیا۔ اگرچہ منافق اپنے فعل کو اصلاح ہی کے نام سے نامزد کرتے تھے مگر درحقیقت یہ فساد تھا۔
پھر ان فتنوں کے کاموں میں مَیں دیکھتا ہوں کہ سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ اصلاح کے سرچشمہ پر حملہ کیا جائے مثلاً ایک شخص مریض کو دُکھ دیتا ہے، دوائی نہیں پہنچاتا یہ بُرا کام کرتا ہے مگر جو ہسپتال میں جاتا اور تمام دواؤں میں زہر ملادیتا ہے وہ بہت بڑا مُجرم ہے۔ پہلے کے فعل سے ایک شخص کی جان خطرے میں تھی مگر دوسرے کے فعل سے بے شمار جانیں ہلاک ہوں گی۔ کیونکہ پہلے نے ایک مریض تک دوا نہ پہنچنے دی مگر دوسرے نے بہت سوں کی ہلاکت کا سامان کردیا۔
اِس زمانہ میں جو فتنہ ہے لوگ اس سے ناواقف نہیں۔ ہر جگہ سے آواز اُٹھ رہی ہے کہ ہم فتنہ میں ہیں، ہم آفت میں ہیں، کوئی جماعت اس وقت خوش نظر نہیں آتی۔ بادشاہ ناخوش ہیں کہ رعایاہم سے اچھا سلوک نہیں کرتی اور رعایا نا خوش ہے کہ بادشاہ ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ میاں بیوی سے خوش نہیں، بیوی میاں سے ناراض ہے۔ بیٹے والدین سے خوش نہیں، والدین اولاد سے ناخوش ہیں۔ اِس وقت ایسی فتنہ کی رَو چلی ہے کہ حقیقی امن کہیں نظر نہیں آتا۔ ایسی حالت دیکھ کر اﷲ تعالیٰ نے محض اپنے فضل، رحم اور احسان سے یہ سلسلہ تجویز کیا اور اس کے ذریعہ امن قائم کیا اور امن کے قیام کے لئے ایک رستہ بنا دیا اور اس کے لئے اپنا شہزادۂ صلح بھیج دیا۔ امن صلح سے پیدا ہوتا ہے۔ فساد کیا چیز ہے؟دو شخص آپس میں لڑتے ہیں، دو شخص لڑیں یا دو محلے یا دو شہر یا دو مُلک یا دو قومیں لڑیں تو اس لڑائی کا نتیجہ فساد اور بے امنی ہو گی اور اگر قومیں یا مُلک یا شہر یا محلہ یا افراد لڑائی چھوڑ دیں گے تو امن ہو جائے گا۔ پس لڑائی چھوڑ دینے کا ہی نام امن ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے حضرت صاحب کا نام ‘‘صلح کا شہزادہ ’’رکھ کے بتایا کہ اس کے ذریعہ امن قائم ہو گا اور لوگ مسیح موعود ؑ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائیں گے۔ اس وقت یہ بات ہنسی سمجھی جاتی ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ دو فوجوں کے درمیان ایک لڑکا جاکر کہہ دے کہ میرا کہنا مان لو، مَیں صلح کرادوں گا۔ جیسا اس بچّے پر دونوں فوجیں ہنسیں گی ویسے ہی ہم پر لوگ ہنستے اور ہمیں پاگل بناتے ہیں مگر آج تک خدا کی طرف سے کونسی امن کی صورت آئی ہے کہ اس کو لوگوں نے ہنسی میں نہیں اُڑایا۔ لیکن جو لوگ مسیح موعود ؑ پر ایمان رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر ایمان اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک تو یہ بات یقینی ہے کہ امن اگر قائم ہو گا تو اسی ذریعہ سے ۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا کی تدبیر ناکام رہے۔ اگر ایک دفعہ بھی ایسا ہو کہ بندوں کی تدبیر کے مقابلہ میں خدا کی تدبیر ناکام رہے تو پھر خدا کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ اس خدا کی کیا ضرورت ہے جس کا بتایا ہؤا علاج بندوں کے تجویز کردہ علاج سے ناقص ہو۔
پس اگر مسیح موعودؑ خدا کی طرف سے ہیں تو دُنیا کا امن اور امان آپ ہی کے ماننے میں ہے اور اب دُنیا میں امن آپ کے ماننے والوں ہی کے ذریعہ قائم ہو سکتا ہے۔ امن کا سرچشمہ احمدیت ہے۔ یہ ہسپتال ہے اور دُنیا کا علاج اِسی سے ہو گا۔
تکلیف اُسی وقت تک ہوتی ہے جب تک اصل علاج مہیا اور دریافت نہ ہو لیکن جب علاج دریافت ہو جائے تو خواہ کوئی کتنا ہی سرگرداں پھرے آخر علاج کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ آج یہ حالت ہے کہ جب کوئی بیمار ہو تو معمولی آدمی بھی کہتے ہیں کہ یونانی طبیبوں سے کیا علاج کراتے ہو شفاخانہ میں جاؤ۔ حالانکہ شفاخانوں کی قدرو قیمت ایک دن میں معلوم نہیں ہو گئی تھی بلکہ جب شفا خانے نکلے ہیں اُس وقت عام خیال یہی تھا کہ انگریزی دوا گرم خشک ہوتی ہے استعمال نہ کی جائے۔
حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ ایک مریض کو دیکھنے آپ گئے وہاں ایک اور طبیب بھی بیٹھے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ تھرمامیٹر بھی لگایا ہے؟ طبیب نے کہا کہ اگر تھرما میٹر لگانا ہے تو مَیں جاتا ہوں انگریزوں کی دوا گرم خشک ہوتی ہے اور مریض کو پہلے ہی خشکی ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے فرمایا کہ تھرمامیٹر کوئی دوا نہیں یہ تو ایک آلہ ہے جس کو مریض کے مُنہ میں یا بغل میں رکھ کر بخار کی کمی بیشی معلوم کرتے ہیں۔ اس پر طبیب نے بے اختیار کہا کہ نہیں جی ان کی ہر ایک چیز گرم خشک ہوتی ہے ۔لیکن اب یہ کیفیت نہیں رہی لوگ اس قدر بدظن نہیں بلکہ یونانی طب پر ڈاکٹری علاج کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ حالانکہ یونانی طب بھی اپنے اندر فوائد رکھتی ہے۔ اس کے علاج میں زیادہ ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ اس کے سامان نہیں اور اس کے کرنے والے خود پورے واقف نہیں ہوتے۔ اپنے وقت میں یہ طب بڑی مفید چیز تھی لیکن جس وقت یہ طب نکلی ہو گی اس کو بھی لوگوں نے نہیں مانا ہو گا۔ آجکل بھی عام طور پر عورتیں نہ یونانی طب کی قائل ہیں نہ ڈاکٹری کی۔ وہ کہا کرتی ہیں علاج وہ ہیں جو مائیں جانتی ہیں۔ پس جو بھی علم ہو وہ ایک دن میں نہیں مان لیا تھا بلکہ آہستہ آہستہ اس کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح خدا نے جو امن کا ذریعہ احمدیت تجویز فرمایا ہے لوگ اس کو بھی مانیں گے مگر آہستہ آہستہ۔ اور اس کو اُس وقت مانا جائے گا جس وقت انسانی تجویز کردہ سب دروازے بند نظر آئیں گے۔
پس احمدیت امن کا واحد ذریعہ اور سرچشمہ ہے اور یہی وہ دواخانہ ہے جس سے لوگ شفا پائیں گے۔ پھر اس سے زیادہ مُجرم کون ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ دُشمن کون ہے جو سرچشمہ کو گدلا کرنا چاہتا ہے۔ وہ لوگ جو انگلستان ، ہندوستان، امریکہ یا دیگر ممالک کی حکومتوں کے خلاف ہیں اور ان کو مِٹانا چاہتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کسی کی انگلیاں کاٹے۔ مگر جو شخص احمدیت کا دُشمن ہے اور اس سرچشمہ کے بند کرنے کے درپے ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی کسی کا سرجُدا کرلے یا دل نکال لے۔ خدا نے سینکڑوں سال کے بعد یہ آفتاب چڑھایا ہے جو اس کو اپنے حسد سے چھپاتا ہے وہ بڑا خطرناک جُرم کرتا ہے اور بڑی سزا کا مستحق ہے لیکن جو شخص اس کو مانتا اور اس علاج کی صحت کا قائل اور حضرت صاحب پر ایمان لانے کا مُدعی ہو کر ایسا کرے وہ بہت ہی بڑا خطرناک قدم اُٹھاتا ہے۔
مَیں نے بتایا ہے کہ بعض کام جو لوگ کرتے ہیں اور ان کا اثر اپنے نتائج بد کے لحاظ سے بہت وسیع ہوتا ہے وہ بہت بُرا کام کرتے ہیں کیونکہ ان کے اس فعل کا اثر یہ ہے کہ اس سے تمام نیکی مِٹ جائے۔ حضرت عثمان ؓکے وقت میں جو فتنہ ہؤا وہ ایک مُلکی جھگڑا تھا مگر اس کااثر اتنا پھیلا کہ حضرت عثمانؓ شہید ہوئے اور مسلمانوں میں تلوار چل گئی۔ پھر اس کا کتنا خطرناک نتیجہ نِکلا۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وہ شخص بھی قابلِ سزا ہے جو اصلاح ہونے نہیں دیتا اور اصلاح ہونے میں روک ڈالتا ہے لیکن وہ بہت ہی بڑا مُجرم ہے جو اصلاح ہونے کے بعد فساد کرتا یااصلاح کے سامان کو خراب کرتاہے۔ دیکھو اگر طبیب کے ہاتھ سے دوا گرا دی جاتی ہے تو خطرہ نہیں کیونکہ اَور دوائی اور طبیب موجودہے لیکن اگر دوا کے ذخیرہ کو خراب کر دیا جائے تو گویا اُمید کو ہی مِٹا دیا گیا۔
پس احمدیت سرچشمۂ امن و صلح ہے اور وہ شخص سب سے بڑا مُجرم ہے جو احمدیت کا دم بھرتا اور اخلاص کا دعویٰ کرتا ہؤا اپنے فعل سے اس سرچشمہ کو خراب کرنا چاہتاہے۔ منافق کہتے تھے کہ ہم اصلاح کرتے ہیں کیا وہ اصلاح کا نام لے کر فساد کرنے سے مُجرم نہ تھے؟ خدا تو ان کو مُجرم ہی قرار دیتا ہے اور شریر قرار دے کر کہتا ہے کہ وہ سزا سے نہیں بچ سکتے۔
نیت نیک اگر ہو تو عمل خراب نہیں ہوتا ۔اگر کوئی کہے کہ میری نیت نیک تھی تو اس کا فعل بھی نیک ہونا چاہئے۔ اگر کوئی شخص نماز چھوڑ کر گلیوں میں پھرنا شروع کر دے اور کہے کہ میری نیت یہ ہے کہ لوگوں کو نماز پڑھاؤں اور نماز کی طرف لاؤں تو یہ فعل اس کا مستحسن نہیں کہلائے گا اور اس وقت تک وہ مومن نہیں ہو گا جب تک خود وہ نماز نہیں پڑھتا۔ اسی طرح اگر کوئی ایسی بات یا فعل کرتا ہے جس کا نتیجہ فساد ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میری نیت اصلاح کی تھی تو یہ نیک نیتی نہیں کیونکہ اصلاح کا نتیجہ امن ہونا چاہئے تھا نہ کہ فساد۔ انسان خود پہلے اپنے نفس سے اصلاح شروع کرے تب دوسروں کی اصلاح کر سکتا ہے اور وہی کام مفید ہو سکتا ہے جس کا دین پراثر نہ پڑے۔ اگر کوئی شخص ایک جان کے بچانے کے لئے لاکھوں روپیہ بھی خرچ کردے تو اس کا یہ فعل اچھا ہو گا لیکن اگر کسی کے خوش کرنے کے لئے ایک نماز بھی چھوڑے تو گنہگار ہو گا۔ مثلاً اگر سَو ہندو کہیں کہ ہم مسلمان ہو جائیں گے تم ظہر کی نماز نہ پڑھو تو ان کے کہنے پر نماز نہ پڑھنا گناہ ہوگا۔ ایک جان کے لئے لاکھوں روپیہ قُربان کرنا جائز ہے مگر ہزار جانوں کو جہنم سے بچانے کے لئے ایک نماز چھوڑنا گناہ ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص اس لئے فساد کے افعال کرتا ہے کہ مصلح بن جائے تو وہ اچھا نہیں کرتا۔کانٹے بو کر کسی شخص کو اُمید نہ رکھناچاہئے کہ وہ گیہوں کاٹے گا۔ حنظل لگا کر انگور کی توقع رکھنا جہالت ہے۔ پس فساد کے ذریعہ اصلاح کا خیال خام ہے کیونکہ فساد سے فساد ہی پیدا ہو گا۔
پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے آدمی اپنے ہر ایک کام میں یہ سوچا کریں کہ ان کے قول یا فعل کا اثر ان پر، ان کے عزیزوں پر، ان کے دین پر کیا پڑے گا۔ وہ لوگ جو اپنے افعال و اقوال میں احتیاط سے کام نہیں لیتے اور کسی نہج سے فساد کا باعث ہوتے ہیں وہ بڑی سے بڑی سزا کے مستحق ہیں۔ یہ غلط اصل ہے کہ دوسروں کو ایماندار بنانے کے لئے اپنے ایمان کو ضائع کر دیا جائے۔ سب سے پہلا حق اصلاح کے لئے اپنے نفس کا ہے دیکھو ہم ہمیشہ اس امر کی تردید کیا کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا اور ہم سب یقین رکھتے ہیں کہ اسلام علاج ہے تمام خرابیوں کا۔ اس اصل کا پابند کہ اصلاح کے لئے فساد کرنا چاہئے کہے گا کہ اسلام کو ضرور تلوار کے زور سے پھیلانا چاہئے مگر خدا تعالیٰ اس عمدہ علاج کو بھی زبردستی نہیں پھیلانا چاہتا کیونکہ وہ اصلاح اصلاح ہی نہیں جو فتنہ کی محتاج ہے اور وہ راستی بے حقیقت ہے جو جھوٹ کے سہارے پر قائم ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص نیکی قائم کرنے کے لئے تلوار چلاتا ہے تو وہ بُرا کام کرتا ہے کیونکہ خدا نے مذہب کے لئے بھی جائز نہیں رکھا کہ زور سے پھیلایا جائے۔ پس جب خدا بھی اپنے مذہب کو جبر سے پھیلانا جائز نہیں رکھتا توپھر تم اپنے کسی خیال کو جس کے متعلق تمہیں یقین نہیں وہ ضرور ہی درست ہے کیوں زبردستی فساد انگیز طریق سے منوانا چاہتے ہو۔
اگر اصلاح مدِّنظر ہے تو ان جائز طریقوں سے کرو جو کسی اصلاح کے لئے مقرر ہیں۔ اگر کوئی شخص صحیح ذرائع سے اصلاح کرنے میں بھی ناکام رہے تو سمجھے کہ یہ اس کا خیال صحیح نہ تھا ورنہ اگر اس کا اصلاح کا خیال درست ہوتا تو اس کے قبول کرنے کے لئے بھی اﷲ تعالیٰ قلوب کو تیار کر دیتا۔ جو لوگ اپنے خیالات کو پھیلانے کے لئے غلط طریقوں سے کام لیتے ہیں اور لوگ ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوتے ان کو فساد کا موجب نہیں ہونا چاہئے بلکہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کے خیالات درست نہیں یا وہ ذرائع ٹھیک نہیں جو اُنہوں نے استعمال کئے۔
دیکھو اسلام نے اپنے خیالات تو الگ رہے ، اپنے حقوق کے متعلق بھی کس قدر ضبط کی تعلیم دی ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر ایسے حاکم ہوں جو اپنے حقوق تو لیں اور ہمارے نہ دیں تو ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا کہ ان کے حقوق دو اور اپنے حقوق خدا پر چھوڑ دو2 وہ خود لے گا ۔ وہ ایسے لوگوں کو تباہ کر دے گا جو اپنے حقوق لیتے اور دوسروں کے غصب کرتے اور اصلاح کی طرف نہیں آتے۔پس ہمیشہ اپنے معاملات پر غور کرو کہ آیا وہ غلط تو نہیں یا ان کے ذرائع تو غلط نہیں۔ اگر کوئی خیال اپنی ذات میں موجبِ فساد ہے تو اس کو چھوڑ دو اور اگر خیال صحیح ہے مگر ذرائع ٹھیک نہیں تو ان کو درست کرو۔
اگر کسی کا قصور ہے تو اس کو بتاؤ یہ نہیں کہ قصور زید کا ہو اور بکر کو جس کا کوئی تعلق نہیں بتایا جائے۔ اگر کسی محکمہ میں ہو اور اس میں تمہارے نزدیک کوئی خرابی ہے تو جائز ذریعہ سے اس کو دُور کرنے کی کوشش کرو اور ان لوگوں کو توجہ دلاؤ جو اس کو دُور کر سکتے ہیں۔ اگر وہ توجہ کریں تو فَبِہَا ورنہ اگر تم کو اس صیغہ کے حکام بالا سے کہنے کا اختیار ہے تو تحریراً کہو۔ اور اگر کہنے کا حق نہیں تو خاموش رہو اور اس معاملہ کو خدا پر چھوڑ دو۔ اگر وہ لوگ غلطی کی دانستہ اصلاح نہیں کرتے تو خدا ان کو خود درست کر دے گا مگر تم اپنے افعال سے فساد کا باعث نہ بنو کیونکہ جب ایسی حالت ہو کہ تمہاری کوئی نہ سُنے تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا اس وقت اﷲ کے حضور گر پڑو اور خوف اور طمع سے اس سے دُعاکرو۔ اگر تم محسن ہو تو تمہارا کام اور خیال ضائع نہ ہو گا کیونکہ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ اﷲ کی رحمت محسنوں کے قریب تر ہے۔
پس قانون کی پوری پابندی کرو اور امن کے ساتھ اصلاح کرو۔ اگر تم حق پر ہو تو پھر تم کامیاب ہو جاؤ گے ورنہ جو شخص اس سلسلہ کو اپنے کسی رویہ سے فتنہ میں ڈالنا چاہے گا وہ کامیاب نہ ہو گا۔ تم جب اصلاح کرنا چاہو تو پہلے نفس کی اصلاح کرو بعد میں دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ کرو۔اﷲ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ اپنے ذمہ کے کاموں کو سمجھو اور ان کی اہمیت کو معلوم کرو۔ سب سے بڑا کام اتفاق ہے اس کو نہ توڑو اور اصلاح محبت سے کرو کیونکہ حقیقی اصلاح محبت سے ہی ہوتی ہے۔ اگر ہم میں فتنہ ہو تو پھر دُنیا کی اصلاح کی اُمید نہیں۔‘‘
دوسرے خطبہ کے لئے جب کھڑے ہوئے تو فرمایا:-
’’معلوم ہوتا ہے کہ لوگ جمعہ کے لئے کچھ دیر سے آتے ہیں۔ آج جب میں آیا تو چند آدمی تھے حالانکہ میرے خیال میں آج مجھ کو دیر ہو گئی تھی۔ دو تین جمعوں سے مَیں ایسا ہی دیکھتا ہوں۔ حالانکہ جمعہ ظہر کے وقت ہو چکنا چاہئے۔ پہلی اذان اِس لئے ہوتی ہے کہ لوگ جمع ہو جائیں پھر اِس دن خطبہ بھی ہونا ہوتا ہے۔ اس میں بھی کچھ دیر لگتی ہے۔ آئندہ ساڑھے بارہ بجے دوستوں کو یہاں پہنچ جانا چاہئے اور اس میں احتیاط لازم ہے۔‘‘
(الفضل 16دسمبر 1920ء)
1: الاعراف: 57
2: مسلم کتاب الامارۃباب و جُوْب الْوَ فَاء بِبَیْعَۃِ الْخَلِیْفَۃ الْاَوَّل



106
اکرامِ ضیف
(فرمودہ17دسمبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے ایک جمعہ چھوڑ کر اس سے پہلے جمعہ میں نصیحت کی تھی کہ ہمارے قادیان کے دوست جلسہ کے کام میں منتظمین کی مدد کریں۔ چونکہ اب جلسہ قریب آگیا ہے اور اگلا جمعہ قریباً جلسہ کے دنوں میں ہی ہو گا کیونکہ عموماً جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے لوگ پہلے سے یہاں پہنچ جایا کرتے ہیں اس لئے مَیں جلسہ کے انتظام کے دوسرے پہلو کے متعلق احباب کو نصیحت کرتا ہوں۔
ہر دفعہ یہاں کوشش کی جاتی ہے کہ ہر طرح مکمل انتظام ہو مگر پھر بھی کچھ نقص رہ جاتے ہیں اور مہمانوں کی خاطر و مدارت ایسی نہیں ہوتی جیسی کہ ہونی چاہئے۔ اس میں شُبہ نہیں کہ اتنے بڑے اجتماع کا انتظام ایک دو مہمانوں کے انتظام کی طرح نہیں ہو سکتا اور اس تعداد کے لحاظ سے جو قادیان میں رہنے والے احمدیوں کی ہے یہ مُشکل بھی ہے۔ اتنا بڑا انتظام حکومت کر سکتی ہے کیونکہ اس کا تسلط وسیع علاقہ پر ہوتا ہے اور اسے سینکڑوں آدمی کام کرنے کے لئے مہیا ہو سکتے ہیں لیکن اس چھوٹے سے گاؤں میں ہمارے پاس اتنے کمرے بھی نہیں جن میں ہم اچھی طرح مہمانوں کو ٹھہرا سکیں۔ ہمیں مجبوراً دس دس، بیس بیس آدمیوں کو ایک ایک کمرے میں رکھنا پڑتا ہے لیکن اگر ہم زیادہ جگہ مہیا نہ کر سکیں تو ہم پر الزام نہیں کیونکہ جو شخص اپنے مہمان کو دال روٹی مہیا کر سکتا ہے اگر وہ یہی اپنے مہمان کے سامنے حاضر کر دیتا ہے تو اس پر ہر گز الزام نہیں آئے گا کہ اس نے کیوں مہمان کے لئے پلاؤ مہیا نہیں کیا بلکہ وہ شخص خدا کے نزدیک تعریف کے قابل ہو گا کہ وہ جو کچھ کر سکتا تھا اُس نے کیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ بہت سے مہمان آئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو صحابہ میں تقسیم کر دیا۔ ایک صحابی اپنے حصّہ کے مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے پوچھا کھانا ہے ؟ اُس نے جواب دیا کھانا تو اَب کوئی نہیں صرف بچوں کے لئے کسی قدر ہے۔ اُنہوں نے بیوی سے کہا کہ مَیں تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک مہمان لے آیا ہوں اس لئے بچوں کو سُلا دو اور جب مَیں مہمان کو لاؤں تو کسی طرح چراغ گُل کر دینا اور گھر میں روشنی کا سامان بھی نہ رکھنا کیونکہ مہمان اکیلا کھانا نہیں کھائے گا اور مجھے بھی اس کے ساتھ کھانا پڑے گا۔ چنانچہ جب مہمان اندر آیا تو چراغ کسی طرح گُل کر دیا گیا۔ صحابی نے مہمان سے معذرت کی کہ اب چراغ روشن نہیں کیا جاسکتا آپ اندھیرے میں ہی کھانا کھا لیں۔ کھانا سامنے رکھا گیا۔ صحابی یونہی اندھیرے میں منہ سے آواز پیدا کرتے رہے۔ گویا کھانا کھا رہے ہیں۔ جس سے مہمان نے قیاس کیا کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں اور خود سیر ہو کر کھایا۔ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ واقعہ الہام کے ذریعہ بتایا اور تعریف کی۔1
پس یہ ضروری نہیں کہ تم اگر اپنے مہمان کو پلاؤ نہیں کھلا سکتے تو ضرور پلاؤ ہی کھلاؤ بلکہ تمہارا صرف یہ فرض ہے کہ تم اس کو جو کچھ کھلا سکتے ہو وہ کھلاؤ اور تمہارا وہی کچھ مہمان کے پیش کرنا خدا کے نزدیک قابلِ تعریف فعل ہو گا جس کی تمہیں استطاعت ہے۔
پس انسان کا فرض اکرامِ ضیف کے مسئلہ میں یہ ہے کہ وہ اپنی مقدور بھر کوشش کرے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو انسان کے اختیار کی نہیں اور جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے متعلق بھی بعض ایسی باتیں ہیں جو فی الحال ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہیں۔ مثلاً یہ کہ چاہئے کہ مہمان کے لئے جو جگہ ہو وہ فراخ ہو، اچھی ہو اور اس کی ضروریات کے مطابق ہو مگر ہم اپنے مہمانوں کے لئے اتنی جگہ مہیا نہیں کر سکتے۔ ہمارے گھروں میں ان دنوں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ایک ایک مکان میں دس دس، بیس بیس آدمی بھرے ہوتے ہیں یا ہمارے مُلک کے لوگ چار پائی پر سونے کے عادی ہوتے ہیں مگر ہم اتنی چارپائیاں مہیا نہیں کر سکتے۔ پھر یہ بھی کہ مہمان کے آگے اچھے سے اچھا کھانا رکھا جائے لیکن ہم اس فرض کو بھی ادا نہیں کر سکتے۔ ہماری موجودہ مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ پس یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نہیں کر سکتے۔اس لئے اس کی وجہ سے ہم پر کوئی الزام نہیں آتا مگر بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ان کو نہیں کرتے تو سمجھا جائے گا کہ جو کچھ ہم کر نہیں سکتے تھے اگر کر سکتے تو وہ بھی نہ کرتے۔
وہ کیا باتیں ہیں جو ہم کر سکتے ہیں؟ یہ ہیں کہ ہم خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ اگر کسی کی کوئی چیز گُم ہو گئی ہو تو ہم اس کو تلاش کرنے میں مدد دیں یا کسی نے کسی جماعت سے ملنا ہے تو اُس کا پتہ بتانا چاہئے۔ یا کسی کو کسی منتظم سے ملنا ہے تو اسے ملائیں۔ یا کسی کو حکیم کی یا کسی دکان کے معلوم کرنے کی ضرورت ہے تو اُس کی تلاش میں مدد دیں۔اگر تم ان باتوں کو کرو تو وہ جو نہیں کر سکتے اُن کا بھی ثواب ملے گا اور سمجھا جائے گا کہ اگر وہ چیزیں تمہارے قبضہ میں ہوتیں تو تم کرتے اور اگر یہ نہ کرو تو پتہ لگے گا کہ اگر تمہارے پاس وہ چیزیں ہوتیں تو ان کو بھی نہ کرتے۔
یہ سوال ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ایسے علاقوں کے لوگ یا بچے جن کو اسلام کا پتہ نہیں قیامت کے دن ان سے کیا سلوک ہو گا؟ مسلمان محققین اِسی طرف گئے ہیں کہ یہ دیکھا جائے گا کہ جن باتوں پر وہ ایمان لاسکتے تھے اُن پر لائے ہیں کہ نہیں اور ان پر عمل کیا کہ نہیں۔ مثلاً کسی کے پاس حضرت مسیح ؑ کی خبر نہیں پہنچی، رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پہنچی اور اس نے آپ کو مان لیا تو سمجھا جائے گا کہ اگر مسیح کے وقت کی خبر پہنچتی تو انہیں بھی مان لیتا۔یا خدا تعالیٰ کے ایک ہونے پر اس کو ایمان تھا کہ نہیں۔بعض احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے گا کہ وہ صداقتوں کو قبول یا ردّ کریں۔
پس اِس موقع پر خوش خلقی اور ہمدردی ظاہر کرو اور اس طرح ان امور کے متعلق بھی ثواب حاصل کرو جو اِس وقت تمہارے مقدور میں نہیں۔ پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے نفس کو ماریں اور عادت ڈالیں کہ وہ مشقت برداشت کر سکے۔ تھوڑے تھوڑے کاموں سے ہی بڑے کام ہؤا کرتے ہیں۔ پہلے دن جب مدرسہ میں لڑکا جاتا ہے تو قاعدہ پڑھتا ہے اور وہ بھی دوتین حرف اور اس کے بعد اس کو چھٹی دی جاتی ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ خوب عادی ہو جاتا ہے اور آخر پڑھنے والے انسان کی ایسی حالت ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کی اور میری بھی ہے کہ اگر مطالعہ نہ کیا جائے تو بیمار ہو جائیں۔ ان کے لئے صحت اور راحت یہی ہوتی ہے کہ وہ پڑھیں اور اپنا علم بڑھائیں۔ ایک دوست تھے بہت مخلص اور بڑے عالم جو اَب بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں ان کی حالت غریبانہ تھی۔ جو علم کے ساتھ کسی قدر خصوصیت رکھتی ہے۔ بڑے متوکّل علی اﷲ تھے۔ بعض دفعہ ہفتہ ہفتہ فاقہ پر گزرتا تھا۔ لوگ ان کے چہرے سے دیکھتے تھے مگر وہ اس حال میں بُلند آواز سے بولتے تھے کہ لوگ ان کو بھُوکا نہ خیال کریں۔ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ آپ کا خیال تھا کہ روپیہ وغیرہ کے متعلق ہوتو آپ مدد کر دیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ ایک مکان ہو جس میں نادر کتابیں بھری ہوں اور مجھ کو اُس میں بند کر دیا جائے اور لوگ مجھے بھُول جائیں۔ مَیں اس میں سے تب نِکلوں جب سب کتابیں پڑھ لوں۔ تو انسان کی پھر یہ حالت ہوتی ہے مگر یہ پہلے دن نہیں ہوتی ہاں آہستہ آہستہ ہوتی ہے۔ نفس کی اصلاح کا بھی یہی طریق ہے کہ آہستہ آہستہ اس کو عادی بنایا جائے۔ ایک ہی دفعہ نفس نہیں مرتا بلکہ آہستہ آہستہ مرتا ہے۔ پہلے کسی خاص بات کے لئے پھر زیادہ کے لئے، پھر کسی قدر وقت کے لئے ، پھر زیادہ کے لئے مطیع کرو حتّٰی کہ وہ وقت آئے کہ ہمیشہ کے لئے مطیع ہوجائے جس طرح طالب علم کے لئے پہلے حروف ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ علوم ۔اسی طرح اصلاح نفس کے لئے بھی سبق ہیں جو بتدریج وہ پڑھتاہے۔پس اپنے مہمانوں کو آرام پہنچاؤ جہاں تک پہنچا سکو اور اس لئے خدمتِ مہمان کرو کہ خدا کا حُکم ہے اس سے ثواب ہو گا نیز اس لئے بھی کہ اس سے اپنے نفس کی تربیت ہوتی ہے۔
یاد رکھو ہر ایک میزبان اپنے مہمان کے لئے نمونہ نہیں ہوتا مگر تم ان کے لئے نمونہ ہو کیونکہ تم اس بستی میں رہتے ہو جو اُم القریٰ ہے۔ اگر اس میں رہنے والے تم لوگ دوسروں سے ماں باپ جیسی شفقت نہ کر سکو تو کم از کم بڑے بھائی جتنی تو شفقت ضرور کرنی چاہئے۔ جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ تمہیں دیکھتے ہیں اور تمہارا نمونہ پکڑتے ہیں۔ پس تم اخلاق دکھاؤ تاکہ ایسا نہ ہو کہ لوگ کہیں کہ اسلام کا اخلاق سے تعلق ہی نہیں۔ یاد رکھو کبھی کوئی مصلح درندہ اور وحشی نہیں ہوتا۔ اگر تم نمونہ عمدہ نہ دکھاؤ گے تو لوگوں پر بُرا اثر پڑے گا۔ تمہارا ایسا نمونہ ہونا چاہئے کہ وہ آئیں اور تمہاری حالت سے سبق سیکھیں۔ ایک دوست نے قادیان کو شفاخانہ کہا ہے لیکن اگر یہاں مریض آئیں اور مریض ہی رہیں حتّٰی کہ مَر جائیں تو یہ شفا خانہ نہیں موت خانہ ہو گا۔ شفاخانہ وہ ہوتا ہے جس میں نئے مریض آئیں اور پہلے شفا پاکر نِکل جائیں۔ تم یہاں چند دن کے لئے نہیں آئے اس لئے تم اپنے کو تندرست ثابت کرو۔ پس قادیان کی مثال شفاخانہ کی نہیں بلکہ مدرسہ کی ہے۔ یہاں لوگ علوم و معارف اور اخلاق سیکھتے ہیں۔ اگر باہر والے تم سے زیادہ جانتے ہیں تو تم نے کچھ نہ سیکھا۔ پس اپنے کو زیادہ قابل، زیادہ مہذب بااخلاق ہمدرد ثابت کرو کیونکہ اگر یہ نہیں تو خدا پرستی تو الگ رہی ابھی تم نے انسانیت کو بھی حاصل نہیں کیا۔تم وہ چیزیں حاصل کرو اور ثبوت دو کہ تم نے وہ چیزیں حاصل کی ہوئی ہیں تاکہ لوگ دیکھیں کہ تم نے بے فائدہ اپنے گھروں کو نہیں چھوڑا اورتمہاری تبدیلی دوسروں پر اثر ڈالے۔یہ میری مختصر نصیحت ہے اس کو قبول کرو۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔آمین‘‘
(الفضل 23دسمبر 1920ء)
1: بخاری کتاب التفسیر باب قَولِہٖ وَ یُؤْ ثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ (الخ)


107
’’اے مرے اہلِ وفا سُست کبھی گام نہ ہو‘‘
(فرمودہ31دسمبر1920ء)
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں اس نیت کے ساتھ خُطبہ پڑھانے کے لئے کھڑا ہؤا ہوں کہ جو دوست نمازِ جمعہ یہاں پڑھنے کے لئے ٹھہر گئے ہیں وہ کچھ سُن لیں ورنہ صبح میری طبیعت خراب ہو گئی اور پسلیوں میں درد ہو گیا تھا۔ مَیں نماز کے بعد یہیں ممبر پر بیٹھ جاؤں گا، احباب یہیں مصافحہ کر لیں مگر ہجوم نہ کریں۔
اس کے بعد مَیں تمام دوستوں کو خواہ وہ باہر سے یہاں آئے ہوں یا یہیں کے ہوں ایک بار پھر سورۃ فاتحہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اس میں اﷲ تعالیٰ مومنین کو نصیحت کرتا ہے کہ مومن جہاں تمام دُنیاوی معاملات میں صابر و شاکر ہوتا ہے وہاں ایک معاملہ میں قطعاً صبر نہیں کرتا یا یوں کہو کہ صبر کے کئی معنے ہیں۔
(1)کسی مصیبت میں نہ گھبرانا۔
(2) جس جگہ پر ہو اُس پر قائم رہنا۔
(3) جس چیز کو اختیار کرے اُس کو نہ چھوڑنا۔
مگر اس جگہ صبر کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ٹھہرتا نہیں آگے بڑھتا ہے۔ فرمایا تم یہ کہو کہاِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ1 خدایا میرے قدم کو آگے ہی آگے بڑھا۔ اِھْدِنَا کے معنی ہیں (1)مجھے رستہ بتا۔ (2) رستہ دکھا۔ (3)سیدھے رستہ پر چلائے چل۔ یہاں تینوں معنے دُرست ہیں۔ جو گمراہ ہیں اُن کی دُعا ہے کہ ہمیں سیدھا رستہ بتا۔ بعض ہوتے ہیں کہ گمراہ تو نہیں ہوتے مگر ڈرتے ہیں۔ ان کے لئے کہا کہ رستہ دکھا دے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں ان کی یہ دُعا ہوتی ہے کہ ہمیں اس رستہ پر جس پر ہم ہیں چلائے چل۔ ہم کہیں ٹھہرنے نہ پائیں۔ غرض یہ دُعا سب اعلیٰ و ادنیٰ کے لئے ہے اور مومن دُعا کرتا ہے کہ مَیں کسی ایک جگہ نہ ٹھہروں بلکہ آگے ہی آگے بڑھوں۔
یہاں کامیابی سانس لینے میں نہیں اور خوب یاد رکھو کہ اس جہان میں سانس لینا نہیں بلکہ مومن کے لئے سانس لینے کا وقت اگلاجہان ہے۔ مومن کے سفر کی یہاں منزل نہیں۔ یہاں اس کے لئے قیام کی جگہ نہیں، وہ بڑھتا ہے اور بڑھتا چلا جاتا ہے حتّٰی کہ وہ یہاں سے چلا جاتا ہے۔
بہت ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے آرام کا وقت آگیا اور جب جلسہ آتا ہے توسیکرٹری اپنے حسابات اور کام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مصنف تصنیفوں میں لگتے ہیں اور جلسہ کے بعد سُست ہو جاتے ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ مومن کو تعلیم دیتا ہے کہ تم سُست مت ہواور دُعا کرو کہ آگے ہی آگے چلے جاؤ کیونکہ سُست ہونے کے یہ معنے ہیں کہ گویا خدا آگے نہیں۔ بھلا کوئی شخص ہے جو محبوب سے دُور ہی صبر کر کے بیٹھ جاتا ہو اور اس کے قریب نہ پہنچنا چاہتا ہو۔ اِسی طرح مومن بھی خدا کے حضور سے غائب ہونا نہیں چاہتا بلکہ اس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے زیادہ سے زیادہ قُرب حاصل ہو۔ پس ہمیشہ یاد رکھو کہ دین کی خدمت میں سُست ہونا کوئی خوبی نہیں بلکہ دین کی خدمت کے لئے آگے ہی آگے بڑھنا خوبی ہے۔ جو شخص آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو اَور نیکی کی توفیق دیتا ہے اور جو اﷲ پر لگائے ہوئے الزاموں کو دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو عیبوں سے پاک کرتا ہے اور اپنی نصرت اس کے شاملِ حال کرتا ہے۔ تم کبھی نہ گھبراؤ کہ تم نے کچھ نہیں کیا یا تم کو کچھ حاصل نہیں ہؤا کیونکہ رُوحانی ترقیاں آہستہ آہستہ ہؤا کرتی ہیں۔
پس کبھی سُست مت ہو، کبھی ہمت و استقلال چھوڑ کر مت بیٹھو اور کبھی نہ کہو کہ ہم ہار گئے۔ آخری وقت تک جیت جانے کی اُمید رکھو۔ آخر تم جیت جاؤ گے۔رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض لوگ بداعمال ہوتے ہیں اور جہنم کے کنارے پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں مگر آخر وقت میں ایسا تغیر اُن میں آتا ہے کہ وہ جہنم کے کنارے سے جنت میں پہنچ جاتے ہیں۔ اور بعض لوگ جنتیوں والے عمل کرتے ہیں اور جنت کے کنارے پر پہنچ کر ان میں کچھ ایسا تغیر آتا ہے کہ وہ جہنم میں پہنچ جاتے ہیں۔ 2
بہت ہوتے ہیں نمازیں پڑھتے ، روزے رکھتے اور دُعائیں کرتے ہیں مگر آخر وقت جب قریب آتا ہے کہ ان کی دُعا قبول ہو تو وہ دُعا چھوڑ دیتے ہیں اور بہت ہیں کہ تبلیغ کرتے رہتے ہیں لیکن جب کسی شخص نے جس کویہ تبلیغ کرتے تھے احمدی ہونا ہوتا ہے اُس وقت تبلیغ چھوڑ دیتے ہیں۔ پس کسی نیک کام کو نہ چھوڑو اور خدا پر یقین رکھو اور ہمت نہ ہارو کیونکہ جس وقت تم کام چھوڑتے ہو ممکن ہے وہی وقت تمہارے کام کے نتائج نکلنے کا ہو۔
یہ میری نصیحت ہے اس پر عمل کرو گے تو انشاء اﷲ دین و دُنیا میں تمہیں ناکامی نہیں ہو گی۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں عمل کی توفیق دے۔‘‘
خطبہ کے بعد فرمایا کہ :-
‘‘مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی جو حضرت اقدس کے مخلص دوست تھے آج فوت ہو گئے ہیں۔ مَیں جمعہ پڑھنے کے بعد ان کا جنازہ پڑھنے کے لئے جاؤں گا احباب بھی چلیں۔’’
پھر فرمایا کہ:-
’’ جن احباب نے بیعت کرنی ہو وہ مصافحہ کے بعد بیعت بھی کر لیں۔‘‘
(الفضل10جنوری 1921ء)
1: الفاتحۃ:6
2: بخاری کتاب القدر باب العمل بالخواتیم
 
Top