براہین احمدیہ حصہ سوم۔ یونی کوڈ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 133
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 133
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 134
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
یا اللّٰہ *
مسلمانوں کی حالت اور اسلام کی غربت اور نیز بعض ضروری امور سے اطلاع
آج کل غربت اسلامؔ کی علامتیں اور دین متین محمدی پر مصیبتیں ایسی ظاہر ہورہی ہیں کہ جہاں تک زمانہ بعثت حضرتِ نبوی ؐکے بعد میں ہم دیکھتے ہیں کسی قرن میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ اس سے زیادہ تر اور کیا مصیبت ہوگی کہ مسلمان لوگ دینی غمخواری میں بغایت درجہ سست اور مخالف لوگ اپنے اعتقادوں کی ترویج اور اشاعت میں چاروں طرف سے کمربستہ اور چست نظر آتے ہیں۔ جس سے دن بدن ارتداد اور بدعقیدگی کا دروازہ کھلتا جاتا ہے۔ اور لوگ فوج در فوج مرتد ہوکر ناپاک عقائد اختیار کرتے جاتے ہیں۔ کس قدر افسوس کا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 135
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مقرر ہوئی۔ مگر اب یہ کتاب بوجہ احاطہ جمیع ضروریات تحقیق و تدقیق اور اتمام حجت کے لئے تین سو جز تک پہنچ گئی ہے جسکے مصارف پر نظر کرکے یہ واجب معلوم ہوتا تھا کہ آئندہ قیمت کتاب 3سو روپیہ رکھی جائے۔ مگر بباعث پست ہمتی اکثر لوگوں کے یہی قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اب وہی قیمت مقررہ سابقہ کہ گویا کچھ بھی نہیں ایک دوامی قیمت قرار پاوے۔ اور لوگوں کو ان کے حوصلہ سے زیادہ تکلیف دیکر پریشان خاطر نہ کیا جائے۔ لیکن خریداروں کو یہ استحقاق نہیں ہوگا کہ جو بطور حق واجب کے اس قدر اجزا کا مطالبہ کریں بلکہ جو اجزا زائد ازحق واجب ان کو پہنچیں گی وہ محض للہ فی اللہ ہوں گی اور ان کا ثواب ان لوگوں کو پہنچے گا کہ جو خالصاً للہ اس کام کے انجام کے لئے مدد کریں گے۔ اور واضح رہے کہ اب یہ کام صرف ان لوگوں کی ہمت سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا کہ جو مجرد خریدار ہونے کی وجہ سے ایک عارضی جوش رکھتے ہیں بلکہ اس وقت کئی ایک ایسے عالی ہمتوں کی توجہات کی حاجت ہے کہ جنکے دلوں میں ایمانی غیوری کے باعث سے حقیقی اور واقعی جوش ہے اور جن کا بے بہا ایمان صرف خرید و فروخت کے تنگ ظرف میں سمانہیں سکتا بلکہ اپنے مالوں کے عوض میں بہشت جاودانی خریدنا چاہتے ہیں و ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔ بالآخر ہم اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں۔ کہ اے خداوند کریم تو اپنے خالص بندوں کو اس طرف کامل توجہ بخش۔ اے رحمان و رحیم تو آپ اُن کو یاد دلا۔ اے قادرِ توانا تو ان کے دلوں میں آپ الہامؔ کر۔ آمین ثم آمین۔ ونتوکّل علّی ربّنا ربّ السموات والارض ربّ العالمین۔اعلام اب کی دفعہ ان صاحبوں کے نام جنہوں نے کتاب کو خرید فرما کر قیمت پیشگی بھیجی یا محض للہ اعانت کی بوجہ عدم گنجائش نہیں لکھے گئے۔ اور بعض صاحبوں کی یہ بھی رائے ہے کہ لکھنا کچھ ضرورت نہیں۔ بہرحال حصہ چہارم میں جو کچھ اکثر صاحبوں کی نظر میں قرین مصلحت ہوگا اس پر عمل کیا جائے۔
خاکسار میرزا غلام احمدؐ
عُذر۔ اب کی دفعہ کہ جو حصہ سوم کے نکلنے میں قریب دو۲ برس کے توقف ہوگئی غالباً اس توقف سے اکثر خریدار اور ناظرین بہت ہی حیران ہوں گے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ تمام توقف مہتمم صاحب سفیرؔ ہند کی بعض مجبوریوں سے جنکے مطبع میں کتاب چھپتی ہے ظہور میں آئی ہے۔
خاکسار
غلام احمدؐ عفی اللہ عنہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 136
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
چونکہ کتاب اب تین سو جز تک بڑھ گئی ہے لہذا ان خریداروں کی خدمت میں جنہوں نے اب تک کچھ قیمت نہیں بھیجی یا پوری قیمت نہیں بھیجی التماس ہے کہ اگر کچھ نہیں تو صرف اتنی مہربانی کریں کہ بقیہ قیمت بلا توقف بھیج دیں کیونکہ جس حالت میں اب اصلی قیمت کتاب کی 3سو روپیہ ہے اور اس کے عوض 3 دس یا پچیس روپیہ قیمت قرار پائی پس اگر یہ ناچیز قیمت بھی مسلمان لوگ بطور پیشگی ادا نہ کریں تو پھر گویا وہ کام کے انجام سے آپ مانع ہوں گے اور اس قدر ہم نے برعایت ظاہر لکھا ہے ورنہ اگر کوئی مدد نہیں کرے گا۔ یا کم توجہی سے پیش آئے گا حقیقت میں وہ آپ ہی ایک سعادت عظمیٰ سے محروم رہے گا۔ اور خدا کے کام رک نہیں سکتے اور نہ کبھی رکے۔ جن باتوں کو قادرِ مطلق چاہتا ہے وہ کسی کی کم توجہی سے ملتوی نہیں رہ سکتیں۔ والسَّلام عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الھُدٰی۔
خاکسار میرزا غلام احمد
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 137
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ایک خط انجمن اسلامیہ لاہور کے سیکرٹری صاحب کی طرف سے اور ایسا ہی ایک تحریر مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کی طرف سے کہ جو انجمن ہمدردی اسلامی لاہور کے سیکرٹری ہیں موصول ہوکر اس عاجز کے ملاحظہ سے گزری جس سے یہ مطلب تھا کہ ان عرضداشتوں پر معزز برادران اہل اسلام و منصفین اہل ہنود کے دستخط کرائے جائیں کہ جو مسلمانوں کی ترقی تعلیم و ملازمت و نیز مدارس کی تعلیم میں اردو زبان قائم رکھنے کے لئے گورنمنٹ میں پیش کرنے کے لئے طیار کی گئی ہیں مگر افسوس کہ میں اوّل بوجہ علالت اپنی طبیعت کے اور پھر بوجہ قیام ضروری امرتسر کے اس خدمت کو ادا نہیں کرسکا لیکن بحکم الدین النصیحۃ اس قدر عرض کرنا اپنے بھائیوں کے دین اور دنیا کی بہبودی کا موجب سمجھتا ہوں کہ اگرچہ گورنمنٹ کی رحیمانہ نظر میں مسلمانوں کی شکستہ حالت بہرحال قابل رحم ٹھہرے گی۔ جس گورنمنٹ نے اپنے قوانین میں مویشی اور چارپایوں سے بھی ہمدردی ظاہر کی ہے وہ کیونکر ایک گروہِ کثیر انسانوں کی ہمدردی سے کہ جو اس کی رعیت اور اس کی زیردست ہیں اور ایک غربت اور مصیبت کی حالت میں پڑے ہیں غافل رہ سکتی ہے۔ لیکن ہمارے معزز بھائیوں پر صرف یہی واجب نہیں کہ وہ مسلمانوں کو افلاس اور تنزل اور ناتربیت یافتہ ہونے کی حالت میں دیکھ کر ہمیشہ اسی بات پر زور مارا کریں کہ کوئی میموریل طیار کرکے اور بہت سے دستخط اس پر کرا کر گورنمنٹ میں بھیجا جائے۔ ہریک کام دینی ہو یا دنیوی۔ اس میں استمداد سے پہلے اپنی خداداد طاقت اور ہمت کا خرچ کرنا ضروری ہے اور پھر اس فعل کی تکمیل کے لئے مدد طلب کرنا۔ خدا نے ہم کو ہماری ہرروزہ عبادت میں بھی یہی تعلیم دی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ہم اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کہیں نہ یہ کہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ وَ اِیَّاکَ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 138
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نَعْبُدُ۔ مسلمانوں پر جن امور کا اپنی اصلاح حال کے لئے اپنی ہمت اور کوشش سے انجام دینا لازم ہے وہ انہیں فکر اور غور کے وقت آپ ہی معلوم ہوجائیں گے۔ حاجت بیان و تشریح نہیں۔ مگر اس جگہ ان امروں میں سے یہ امر قابل تذکرہ ہے جس پر گورنمنٹ انگلشیہ کی عنایات اور توجہات موقوف ہیں کہ گورنمنٹ ممدوحہ کے دل پر اچھی طرح یہ امر مرکوز کرنا چاہئے کہ مسلمانان ہند ایک وفادار رعیت ہے۔ کیونکہ بعض ناواقف انگریزوں نے خصوصاً ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے کہ جو کمیشن تعلیم کے اب پریسیڈنٹ ہیں اپنی ایک مشہور تصنیف میں اس دعویٰ پر بہت اصرار کیا ہے کہ مسلمان لوگ سرکار انگریزی کے دلی خیر خواہ نہیں ہیں اور انگریزوں سے جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ گو یہ خیال ڈاکٹر صاحب کا شریعت اسلام پر نظر کرنے کے بعد ہریک شخص پر محض بے اصل اور خلاف واقعہ ثابت ہوگا۔ لیکن افسوس کہ بعض کوہستانی اور بے تمیز سفہاء کی نالائق حرکتیں اس خیال کی تائید کرتی ہیں۔ اور شاید انہیں اتفاقی مشاہدات سے ڈاکٹر صاحب موصوف کا وہم بھی مستحکم ہوگیا ہے۔ کیونکہ کبھی کبھی جاہل لوگوں کی طرف سے اس قسم کی حرکات صادر ہوتی رہتی ہیں لیکن محقق پر یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا کہ اس قسم کے لوگ اسلامی تدین سے دور و مہجور ہیں اور ایسے ہی مسلمان ہیں جیسے مکلین عیسائی تھا۔ پس ظاہر ہے کہ ان کی یہ ذاتی حرکات ہیں نہ شرعی پابندی سے۔ اور ان کے مقابل پر ان ہزارہا مسلمانوں کو دیکھنا چاہئے کہ جو ہمیشہ جان نثاری سے خیر خواہی دولت انگلشیہ کی کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں۔ ۷۵۸۱ ء میں جو کچھ فساد ہوا اس میں بجز جہلاء اور بدچلن لوگوں کے اور کوئی شائستہ اور نیک بخت مسلمان جو باعلم اور باتمیز تھا ہرگز مفسدہ میں شامل نہیں ہوا۔ بلکہ پنجاب میں بھی غریب غریب مسلمانوں نے سرکار انگریزی کو اپنی طاقت سے زیادہ مدد دی۔ چنانچہ ہمارے والد صاحب مرحوم نے بھی باوصف کم استطاعتی کے اپنے اخلاص اور جوش خیر خواہی سے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کرکے اور پچاس
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 139
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مضبوط اور لائق سپاہی بہم پہنچا کر سرکار میں بطور مدد کے نذر کی اور اپنی غریبانہ حالت سے بڑھ کر خیر خواہی دکھلائی۔ اور جو مسلمان لوگ صاحب دولت و ملک تھے۔ انہوں نے تو بڑے بڑے خدمات نمایاں ادا کئے۔ اب پھر ہم اس تقریر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ گو مسلمانوں کی طرف سے اخلاص اور وفاداری کے بڑے بڑے نمونہ ظاہر ہوچکے ہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کی بدنصیبی کی وجہ سے ان تمام وفاداریوں کو نظر انداز کردیا اور نتیجہ نکالنے کے وقت ان مخلصانہ خدمات کو نہ اپنے قیاس کے صغریٰ میں جگہ دی اور نہ کبریٰ میں۔ بہرحال ہمارے بھائی مسلمانوں پر لازم ہے کہ گورنمنٹ پر ان کے دھوکوں سے متاثر ہونے سے پہلے مجدد طور پر اپنی خیر خواہی ظاہر کریں۔ جس حالت میں شریعت اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن اور عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں اور جس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہوں۔ اور جس کی مبارک سلطنت حقیقت میں نیکی اور ہدایت پھیلانے کے لئے کامل مددگار ہو۔ قطعی حرام ہے۔ تو پھر بڑے افسوس کی بات ہے کہ علمائے اسلام اپنے جمہوری اتفاق سے اس مسئلہ کو اچھی طرح شائع نہ کرکے ناواقف لوگوں کی زبان اور قلم سے موردِ اعتراض ہوتے رہیں۔ جن اعتراضوں سے ان کے دین کی سستی پائی جائے۔ اور ان کی دنیا کو ناحق کا ضرر پہنچے۔ سو اس عاجز کی دانست میں قرین مصلحت یہ ہے کہ انجمن اسلامیہ لاہورؔ و کلکتہؔ و بمبئیؔ وغیرہ یہ بندوبست کریں کہ چند نامی مولوی صاحبان جن کی فضیلت اور علم اور زہد اور تقویٰ اکثر لوگوں کی نظر میں مسلم الثبوت ہو۔ اس امر کے لئے چن لئے جائیں کہ اطراف اکناف کے اہل علم کہ جو اپنے مسکن کے گرد ونواح میں کسی قدر شہرت رکھتے ہوں اپنی اپنی عالمانہ تحریریں جن میں برطبق شریعت حقہ سلطنت انگلشیہ سے جو مسلمانان ہندؔ کی مربی و محسن ہے جہاد کرنے کی صاف ممانعت ہو۔ ان علماء کی خدمت میں بہ ثبت مواہیر بھیج دیں کہ بموجب قرارداد بالا اس خدمت کے لئے منتخب کئے گئے ہیں۔ اور جب سب خطوط جمع ہوجائیں تو یہ مجموعہ خطوط کہ جو مکتوبات علماء ہند سے موسوم ہوسکتا ہے۔ کسی خوشخط مطبع میں بہ صحت تمام
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 140
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
چھاپا جائے اور پھر دس بیس نسخہ اسکے گورنمنٹ میں اور باقی نسخہ جات متفرق مواضع پنجاب و ہندوستان خاص کر سرحدی ملکوں میں تقسیم کئے جائیں۔ یہ سچ ہے کہ بعض غمخوار مسلمانوں نے ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے خیالات کا رد لکھا ہے۔ مگر یہ دوچار مسلمانوں کا ردّ جمہوری ردّ کا ہرگز قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ جمہوری ردّ کا اثر ایسا قوی اور پرزور ہوگا جس سے ڈاکٹر صاحب کی تمام غلط تحریریں خاک سے مل جائیں گی اور بعض ناواقف مسلمان بھی اپنے سچے اور پاک اصول سے بخوبی مطلع ہوجائیں گے اور گورنمنٹ انگلشیہ پر بھی صاف باطنی مسلمانوں کی اور خیر خواہی اس رعیت کی کماحقہ کھل جائے گی اور بعض کوہستانی جہلا کے خیالات کی اصلاح بھی بذریعہ اسی کتاب کی وعظ اور نصیحت کے ہوتی رہے گی۔ بالآخر یہ بات بھی ظاہر کرنا ہم اپنے نفس پر واجب سمجھتے ہیں کہ اگرچہ تمام ہندوستان پر یہ حق واجب ہے کہ بنظر اُن احسانات کے کہ جو سلطنت انگلشیہ سے اس کی حکومت اور آرام بخش حکمت کے ذریعہ سے عامۂ خلائق پر وارد ہیں۔ سلطنت ممدوحہ کو خداوند تعالیٰ کی ایک نعمت سمجھیں اور مثل اور نعماء الٰہی کے اس کا شکر بھی ادا کریں۔ لیکن پنجاب کے مسلمان بڑے ناشکر گزار ہوں گے اگر وہ اس سلطنت کو جو ان کے حق میں خدا کی ایک عظیم الشان رحمت ہے نعمت عظمیٰ یقین نہ کریں۔ ان کو سوچنا چاہئیے کہ اس سلطنت سے پہلے وہ کس حالت پر ملالت میں تھے اور پھر کیسے امن و امان میں آگئے۔ پس فی الحقیقت یہ سلطنت ان کیلئے ایک آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے جسکے آنے سے سب تکلیفیں ان کی دور ہوئیں اور ہریک قسم کے ظلم اور تعدی سے نجات حاصل ہوئی اور ہریک ناجائز روک اور مزاحمت سے آزادی میسر آئی۔ کوئی ایسا مانع نہیں کہ جو ہم کو نیک کام کرنے سے روک سکے یا ہماری آسائش میں خلل ڈال سکے۔ پس حقیقت میں خداوند کریم و رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کیلئے ایک باران رحمت بھیجا ہے جس سے پودہ اسلام کا پھر اس ملک پنجاب میں سرسبز ہوتا جاتا ہے اور جس کے فوائد کا اقرار حقیقت میں خدا کے احسانوں کا اقرار ہے۔ یہی سلطنت ہے جس کی آزادی ایسی بدیہی اور مسلم الثبوت ہے کہ بعض دوسرے ملکوں سے مظلوم مسلمان ہجرت کرکے اس ملک میں آنا بدل و جان پسند کرتے ہیں۔ جس صفائی سے اس سلطنت کے ظل حمایت میں مسلمانوں کی اصلاح کے لئے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 141
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور ان کی بدعات مخلوطہ دور کرنے کے لئے وعظ ہوسکتا ہے۔ اور جن تقریبات سے علماء اسلام کو ترویج دین کے لئے اس گورنمنٹ میں جوش پیدا ہوتے ہیں اور فکر اور نظر سے اعلیٰ درجہ کا کام لینا پڑتا ہے اور عمیق تحقیقاتوں سے تائید دین متین میں تالیفات ہوکر حجت اسلام مخالفین پر پوری کی جاتی ہے وہ میری دانست میں آج کل کسی اور ملک میں ممکن نہیں۔ یہی سلطنت ہے جس کی عادلانہ حمایت سے علماء کو مدتوں کے بعد گویا صدہا سال کے بعد یہ موقعہ ملا کہ بے دھڑک بدعات کی آلودگیوں سے اور شرک کی خرابیوں سے اور مخلوق پرستی کے فسادوں سے نادان لوگوں کو مطلع کریں اور اپنے رسول مقبول کا صراط مستقیم کھول کر ان کو بتلاویں۔ کیا ایسی سلطنت کی بدخواہی جس کے زیرسایہ تمام مسلمان امن اور آزادی سے بسر کرتے ہیں اور فرائض دین کو کماحقہ بجا لاتے ہیں اور ترویج دین میں سب ملکوں سے زیادہ مشغول ہیں جائز ہوسکتی ہے۔ حاشا و کلّا ہرگز جائز نہیں۔ اور نہ کوئی نیک اور دیندار آدمی ایسا بدخیال دل میں لاسکتا ہے۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ دنیا میں آج یہی ایک سلطنت ہے جس کے سایہ عاطفت میں بعض بعض اسلامی مقاصد ایسے حاصل ہوتے ہیں کہ جو دوسرے ممالک میں ہرگز ممکن الحصول نہیں۔ شیعوں کے ملک میں جاؤ تو وہ سنت جماعت کے وعظوں سے افروختہ ہوتے ہیں۔ اور سنت جماعت کے ملکوں میں شیعہ اپنی رائے ظاہر کرنے سے خائف ہیں۔ ایسا ہی مقلدین موحدین کے شہروں میں اور موحدین مقلدین کی بلاد میں دم نہیں مارسکتے۔ اور گو کسی بدعت کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیں منہ سے بات نکالنے کا موقعہ نہیں رکھتے۔ آخر یہی سلطنت ہے جس کی پناہ میں ہریک فرقہ امن اور آرام سے اپنی رائے ظاہر کرتا ہے۔ اور یہ بات اہل حق کے لئے نہایت ہی مفید ہے۔ کیونکہ جس ملک میں بات کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ نصیحت دینے کا حوصلہ ہی نہیں۔ اس ملک میں کیونکر راستی پھیل سکتی ہے۔ راستی پھیلانے کے لئے وہی ملک مناسب ہے جس میں آزادی سے اہل حق وعظ کرسکتے ہیں۔ یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ دینی جہادوں سے اصلی غرض آزادی کا قائم کرنا اور ظلم کا دور کرنا تھا۔ اور دینی جہاد انہیں ملکوں کے مقابلہ پر ہوئے تھے جن میں
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 142
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
واعظین کو اپنے وعظ کے وقت جان کا اندیشہ تھا۔ اور جن میں امن کے ساتھ وعظ ہونا قطعی محال تھا۔ اور کوئی شخص طریقہ حقہ کو اختیار کرکے اپنی قوم کے ظلم سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا۔ لیکن سلطنت انگلشیہ کی آزادی نہ صرف ان خرابیوں سے خالی ہے۔ بلکہ اسلامی ترقی کی بدرجہ غایت ناصر اور موید ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس خداداد نعمت کا قدر کریں۔ اور اس کے ذریعہ سے اپنی دینی ترقیات میں قدم بڑھاویں۔ اور اس طرف بھی توجہ کریں کہ اس مربی سلطنت کی شکر گزاری کے لئے یہ بھی پرضرور ہے کہ جیسا اُن کی دولت ظاہری کی خیرخواہی کی جائے ایسا ہی اپنے وعظ اور معقول بیان اور عمدہ تالیفات سے یہ کوشش کی جائے کہ کسی طرح دین اسلام کی برکتیں بھی اس قوم کے حصہ میں آجائیں۔ اور یہ امر بجز رفق اور مدارا اور محبت اور حلم کے انجام پذیر نہیں ہوسکتا۔ خدا کے بندوں پر رحم کرنا اور عرب اور انگلستان وغیرہ ممالک کا ایک ہی خالق سمجھنا اور اس کی عاجز مخلوق کی دل و جان سے غمخواری کرنا اصل دین و ایمان کا ہے۔ پس سب سے اول بعض ان ناواقف انگریزوں کے اس وہم کو دور کرنا چاہئیے کہ جو بوجہ ناواقفیت یہ سمجھ رہے ہیں کہ گویا قوم مسلمان ایک ایسی قوم ہے کہ جو نیکی کرنے والوں سے بدی کرتی ہے اور اپنے محسنوں سے ایذا کے ساتھ پیش آتی ہے اور اپنی مربی گورنمنٹ کی بدخواہ ہے۔ حالانکہ اپنے محسن کے ساتھ باحسان پیش آنے کی تاکید جس قدر قرآن شریف میں ہے اور کسی کتاب میں اس کا نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی 33 ۱ وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اصْطَنَعَ اِلَیْکُمْ مَعْرُوْفًا فَجَازُوْہُ فَاِنْ عَجَزْتُمْ عَنْ مُجَازَاتِہٖ فَادْعُوْا لَہٗ حَتّٰی یَعْلَمَ اَنَّکُمْ قَدْ شَکَرْتُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ یُّحِبُّ الشَّاکِرِیْنَ۔الملتمس خاکسار غلام احمد عفی عنہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 143
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اُن براہین کے بیان میں جو قرآن شریف کی حقیت اور
افضلیت پر بیرونی اور اندرونی شہادتیں ہیں۔
تمہید اوّل۔ بیرونی شہادتوں سے وہ واقعات خارجیہ مراد ہیں جو ایک ایسی حالت پر واقعہ ہوں کہ جس حالت پر نظر کرنے سے کسی کتاب کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہوتا ہو۔ یا اس کے منجانب اللہ ہونے کی ضرورت ثابت ہوتی ہو۔ اور اندرونی شہادتوں سے وہ ذاتی کمالات کسی کتاب کی مراد ہیں کہ خود اسی کتاب میں موجود ہوں جن پر نظر کرنے سے عقل اس بات پر قطع واجب کرتی ہو کہ وہ خدا کی کلام ہے اور انسان اس کے بنانے پر قادر نہیں۔
تمہید دوم۔ وہ براہین جو قرآن شریف کی حقیت اور افضلیت پر بیرونی شہادتیں ہیں چار قسم پر ہیں۔ ایک وہ جو امور محتاج الاصلاح سے ماخوذ ہیں۔ دوسری وہ جو امور محتاج التکمیل سے ماخوذ ہیں۔ تیسری وہ جو امور قدرتیہ سے ماخوذ ہیں۔ چوتھی وہ جو امور غیبیہ سے ماخوذ ہیں۔ لیکن وہ براہین جو قرآنؔ شریف کی حقیت اور افضلیت پر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 144
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اندرونی شہادتیں ہیں۔ وہ تمام امور قدرتیہ ہی سے ماخوذ ہیں۔ اور تعریف اقسام مذکورہ کی بہ تفصیل ذیل ہے:۔امور محتاج الاصلاح سے وہ امور کفر اور بے ایمانی اور شرک اور بدعملی کے مراد ہیں۔ جن کو بنی آدم نے بجائے عقائد حقہ اور اعمال صالحہ کے اختیار کر رکھا ہو۔ اور جو عام طور پر تمام دنیا میں پھیلنے کی وجہ سے اس لائق ہوگئے ہوں کہ عنایت ازلیہ ان کی اصلاح کی طرف توجہ کرے۔
امور محتاج التکمیل سے وہ امور تعلیمیہ مراد ہیں جو کتب الہامیہ میں ناقص طور پر پائے جاتے ہوں اور حالت کاملہ تعلیم پر نظر کرنے سے ان کا ناقص اور ادھورا ہونا ثابت ہوتا ہو۔ اور اس وجہ سے وہ ایک ایسی کتاب الہامی کے محتاج ہوں جو ان کو مرتبہ کمال تک پہنچاوے۔
امور قدرتیہ دو طور پر ہیں:۔
۱۔ بیروؔ نی شہادتیں۔ ان سے وہ امور مراد ہیں جو بغیر وسیلہ انسانی تدبیروں کے خدا کی طرف سے پیدا ہوجائیں۔ اور ہر ایک ذرہ بے مقدار کو وہ شوکت و شان اور عظمت و بزرگی بخشیں جس کا حاصل ہونا عندالعقل محالاتِ عادیہ سے متصور ہو اور جس کی نظیر صفحۂ دنیا میں کہیں نہ پائی جاتی ہو۔
۲۔ اندروؔ نی شہادتیں۔ ان سے وہ محاسن صوری اور معنوی کتاب الہامی کے مراد ہیں جن کا مقابلہ کرنے سے قویٰ بشریہ عاجز ہوں اور جو فی الواقعہ بے مثل و مانند ہوکر ایسے قادر یکتا پر دلالت کرتی ہوں کہ گویا آئینہ خدا نما ہوں۔
امور غیبیہ سے وہ اُمور مراد ہیں جو ایک ایسے شخص کی زبان سے نکلیں جس کی نسبت یہ یقین کیا جائے کہ ان امور کا بیان کرنا من کل الوجوہ اس کی طاقت سے باہر ہے یعنی ان امور پر نظر کرنے اور اس شخص کے حال پر نظر کرنے سے یہ بات بہ بداہت
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 145
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/145/mode/1up
واضح ہو کہ نہ وہ امور اس کے لئے حکم بدیہی اور مشہوؔ د کا رکھتے ہیں اور نہ بذریعہ نظر اور فکر کے اس کو حاصل ہوسکتے ہیں اور نہ اس کی نسبت عندالعقل یہ گمان جائز ہے کہ اس نے بذریعہ کسی دوسرے واقف کار کے ان امور کو حاصل کرلیا ہوگا۔ گو وہی امور کسی دوسرے شخص کی طاقت سے باہر نہ ہوں۔ پس اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ امور غیبیہ اضافی اور نسبتی امور ہیں۔ یعنے ایسے امور ہیں کہ جب بعض خاص اشخاص کی طرف ان کو نسبت دی جاتی ہے تو اس قابل ہوجاتے ہیں کہ امور غیبیہ ہونے کا ان پر اطلاق ہو۔ اور پھر جب وہی امور بعض دیگر کی طرف منسوب کئے جائیں۔ تو یہ قابلیت ان میں متحقق نہیں ہوتی۔تمثیلات
(الف) زیدؔ ایک شخص ہے جو ہمارے اس زمانہ میں پیدا ہوا۔ اور بکرؔ ایک شخص ہے جو پچاس برس بعد زیدؔ کے پیدا ہوا۔ جس کا زمانہ زیدؔ نے نہیں پایا اور نہ اس کے واقعات سے مطلع ہونے کا زیدؔ کو کوئی خارجی ذریعہ حاصل ہوا۔ سو وہ واقعات جو بکرؔ پر گزرے اگرچہ وہ بکرؔ کی نسبت امور غیبیہ نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ اسی کے واقعات ہیں اور اس کے لئے مشہود اور محسوس ہیں۔ لیکن اگر انہیں واقعات سے زیدؔ ٹھیک ٹھیک اطلاع دے۔ ایسا کہ سرمو فرق نہ ہو۔ تو کہا جائے گا کہ زیدؔ نے امور غیبیہ سے اطلاع دی۔ کیونکہ وہ امور زیدؔ کے لئے مشہود اور محسوس نہیں ہیں اور نہ ممکن تھا کہ ان کے حصول کے لئے زیدؔ کو کوئی ذریعہ خارجی حاصل ہوتا۔
(ب) بکر ایک فلاسفر ہے جس نے کتب فلسفیہ میں ایک زمانہ دراز تک بغور تمام نظر اور فکر کرکے دقائق حکمیہ کے جاننے اور معلوم کرنے میں ملکہ کاملہ پیدا کیا ہے۔ اور بوجہ تحصیل علوم عقلیہ اور مطالعہ تالیفات اولین اور حصول ذخائر تحقیقات متقدمین اور نیز بباعث ہمیشہ کے سوچ بچار اور مشق اور مغز زنی اور استعمال قواعد مقررہ صناعت
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 146
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/146/mode/1up
منطق کے بہت سے حقائق علمیہ اور دلائل یقینیہ اس کو مستحضر ہوگئے ہیں۔ اور زید ایک شخصؔ ہے جس کی نسبت یہ واقعہ ثابت ہے کہ نہ اس نے کچھ منطق و فلسفہ وغیرہ سے کوئی حرف پڑھا ہے اور نہ کتب فلسفہ سے اس کو کچھ اطلاع ہے۔ اور نہ طریقہ نظر اور فکر میں اس کو کچھ مشق ہے۔ اور نہ کسی اہل علم اور حکمت سے اس کی مخالطت اور صحبت ہے بلکہ محض اُمّی ہے اور اُمّیوں میں ہمیشہ بودوباش رکھتا ہے۔ پس وہ علوم جو بکر نے بتمامتر محنت و کلفت و مشقت حاصل کئے ہیں۔ وہ بکر کی نسبت امور غیبیہ نہیں ہیں۔ کیونکہ بکر نے ان کو ایک مدت مدید تک جہد شدید سے تعلیم پاکر حاصل کیا ہے۔ لیکن زید جو بالکل ناخواندہ ہے۔ اگر حکمت اور فلسفہ کے باریک اور دقیق علوم کو ایسا صاف اور صحیح بیان کرے جس میں سرمو تفاوت نہ ہو۔ اور علوم عالیہ کی نازک اور اعلیٰ صداقتوں کو ایسے کامل طور پر ظاہر کرے جس میں کسی نوع کا فتور اور نقصان نہ پایا جائے۔ اور دقائق حکمیہ کا ایسا مکمل مجموعہ پیش کرے۔ جن کا باستیفاء بیان کرنا پہلے اس سے کسی حکیم کا میسر نہ ہوا ہو۔ تو ہر یک امر کی نسبت مکمل بیان اس کا جس میں شرائط مذکورہ بالا پائی جائیں امور غیبیہ میں داخل ہوگا۔ کیونکہ اس نے ان امور کو بیان کیا جن کا بیان کرنا اس کی طاقت اور استعداد اور اندازہ علم اور فہم سے باہر تھا اور جن کے بیان کرنے میں اس کے پاس اسباب عادیہ میں سے کوئی ذریعہ موجود نہ تھا۔(ج) بکر ایک پادریؔ یا پنڈتؔ یا کسی اور مذہب کا عالم اور فاضل اور ماہر جزو کل ہے۔ جس نے ایک کلاں حصہ اپنی عمر کا خرچ کرکے اور بیسیوں برس محنت اور مشقت اٹھا کر اس مذہب کے متعلق جو نہایت دقیق باتیں ہیں دریافت کیں۔ اور جو کچھ اس مذہب کی کتاب میں صواب یا خطا ہے یا جو غایت درجہ کی باریک صداقتیں ہیں۔ وہ سب مدت دراز کے تفکر اور تدبر سے معلوم کرلیں۔ اور زید ایک شخص ہے جس کی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 147
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/147/mode/1up
نسبت یہ واقعہ ثابت ہے کہ بباعث ناخواندہ ہونے کے کسی کتاب کو پڑھ نہیں سکتا ہے سو اگر بکر ان کتابوں میںؔ سے کچھ امور یا مسائل یا واقعات بیان کرے تو وہ امور غیبیہ نہیں ہیں کیونکہ بکر بذریعہ تعلیم کامل اور عرصہۂ دراز کی مشق کے ان کتابوں کے مضامین پر بخوبی مطلع اور حاوی ہے۔ لیکن اگر زید جو محض اُمی ہے ان حقائق عمیقہ کو بیان کردے جن کا جاننا بجز واقفیت تام کے محال عادی ہے اور ان کتابوں کی ایسی باریک صداقتوں کو کھول دے جو بجز خواص علماء کے کسی پر منکشف نہیں ہوتیں اور ان کے وہ تمام معائب اور نقصانات ظاہر کردے جن کا ظاہر کرنا بجز نہایت درجہ کی دقت نظر کے عادتاً ممتنع ہے۔ اور پھر اس منصب تدقیق اور تحقیق میں ایسا کامل ہو جو اپنی نظیر نہ رکھتا ہو۔ تو اس صورت میں اس کی نسبت یہ کہنا حق اور راست ہوگا کہ اس نے امور غیبیہ کو بیان کیا۔تشریح
شاید کوئی معترض اس تمہید پریہ اعتراض کرے کہ ان سہل اور آسان منقولات کا بیان کرنا جو مذہبی کتابوں میں مدوّن اور مرقوم ہیں۔ بذریعہ سماعت بھی ممکن ہے جس میں لکھا پڑھا ہونا کچھ ضروری نہیں کیونکہ ناخواندہ آدمی کسی واقعہ کو کسی خواندہ آدمی سے سن کر بیان کرسکتا ہے۔ یہ کچھ مسائل دقیقہ علمیہ نہیں ہیں جن کا جاننا بغیر تعلّم باقاعدہ کے محال ہو۔ ایسے معترض سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تمہاری کتابوں میں کوئی ایسی باریک صداقتیں بھی ہیں یا نہیں جن کو بجز اعلیٰ درجے کے عالم اور اجل فاضل کے ہریک شخص کا کام نہیں کہ دریافت کرسکے۔ بلکہ انہیں لوگوں کے ذہن ان کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ جنہوں نے زمانہ دراز تک ان کتابوں کے مطالعہ میں خون جگر کھایا ہے اور مکاتب علمیہ میں کامل استادوں سے پڑھا سیکھا ہے۔ پس اگر اس سوال کا یہ جواب دیں۔ کہ ایسی اعلیٰ درجے کی دقیق صداقتیں ہماری کتابوں میں موجود نہیں ہیں بلکہ ان میں تمام موٹی اور سرسری اور بے مغز باتیں بھری ہوئی ہیں جن کو عوامؔ الناس بھی ادنیٰ التفات
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 148
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/148/mode/1up
سے معلوم کرسکتے ہیں۔ اور جن پر ایک کم فہم لڑکا بھی سرسری نظر مارکر ان کی تہ تک پہنچ سکتا ہے۔ اور جن کا جاننا کچھ فضیلت علمیہ میں داخل نہیں۔ بلکہ غایت کار مثل ان کتابوں کے ہیں جن میں قصے کہانیاں لکھی جاتی ہیں یا جو محض اطفال اور عوام کے مطالعہ کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ تو افسوس ایسی گئی گزری کتابوں پر۔ کیونکہ یہ امر نہایت صاف اور واضح ہے کہ اگر مضامین کسی کتاب کے صرف عوام الناس کی موٹی عقل تک ہی ختم ہوں اور حقائق دقیقہ کے مرتبہ سے بکلی متنزل ہوں۔ تو وہ کتاب بھی کوئی عمدہ کتاب نہیں کہلاتی۔ بلکہ وہ بھی عقلمندوں کی نظر میں ایسی ہی موٹی اور کم عزت ہوتی ہے۔ جیسے اس کے مضامین موٹے ہیں۔ اور اس کا مضمون کوئی ایسی شے نہیں ہوتا جس کو علوم حکمیہ کی سلک میں منسلک کیا جائے یا حقائق عالیہ کے رتبہ پر سمجھا جائے۔ پس جو شخص اپنی الہامی کتاب کی نسبت دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی تمام باتیں موٹی اور خفیف ہیں اور ان جمیع صداقتوں سے خالی اور عاری ہیں جو نہائیت باریک اور دقیق ہیں اور جن کا جاننا ارباب علم اور نظر اور فکر سے مخصوص ہے تو وہ آپ ہی اپنی کتاب کی توہین کرتا ہے اور اس سے اس کی شیخی بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ جس چیز کی تہ تک پہنچنے میں عوام الناس بھی اس کے ساتھ شریک اور مساوی ہیں۔ اس چیز کے حاصل کرنے سے وہ کسی ایسی فضیلت علمیہ کو حاصل نہیں کرسکتا کہ عوام الناس سے اس کو امتیاز بخشے یا کوئی لقب عالم یا فاضل کا اس کو عطا کرے۔ بلکہ وہ بھی بلاشبہ عوام کالاَ نعام میں سے ہوگا۔ کیونکہ اس کے علم اور معرفت کا اندازہ عوام سے زیادہ نہیں۔ اور بلاریب ایسی بیہودہ اور ذلیل کتابوں کا علم امور غیبیہ میں داخل نہیں ہوگا۔ لیکن پھر بھی یہ شرط ہے کہ تعلیمات ان کی ایسی شائع اور متعارف ہوں جن کی نسبت یہ باور کرنے کی وجہ ہو کہ ہرایک اُمی اور ناخواندہ آدمی بھی ادنیٰ توجہ سے اُن کے مضامین پر مطلع ہوسکتا ہےؔ ۔ کیونکہ اگر مضامین ان کے شائع اور مشہور نہ ہوں تو گو وہ کیسی ہی بے مغز اور موٹی باتیں ہوں تب بھی اس
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 149
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/149/mode/1up
شخص کے لئے جو اس زبان سے ناواقف ہے جس زبان میں مضامین ان کتابوں کے لکھے گئے ہیں حکم امور غیبیہ کا رکھتے ہیں۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ جب کوئی قوم اپنی کتب الہامیہ کی نسبت آپ قبول کرلے کہ وہ باریک صداقتوں سے عاری اور بے نصیب ہیں۔ لیکن اگر کسی قوم کی یہ رائے ہو کہ ان کی الہامی کتابوں میں باریک صداقتیں بھی ہیں جن پر احاطہ کرنا بجز ان اعلیٰ درجہ کے اہل علم لوگوں کے جن کی عمریں انہیں میں تدبر تفکر کرتے کرتے فرسودہ ہوگئی ہیں اور جن میں ایسی صداقتیں بھی ہیں جن کی تہ اور مغز تک وہی لوگ پہنچتے ہیں جو نہایت درجہ کے زیرک اور عمیق الفکر اور راسخ فی العلم ہیں تو اس جواب سے خود ہمارا مطلب ثابت ہے۔ کیونکہ اگر ایک اُمّی اور ناخواندہ آدمی ان حقائق دقیقہ کو ان کی کتابوں میں سے بیان کرے جن کو باقرار ان کے عوام اہل علم بھی بیان نہیں کرسکتے۔ صرف خواص کا کام ہے۔ تو بلاشبہ بیان اس اُمّی کا بعد ثبوت اس بات کے کہ وہ اُمّی ہے امور غیبیہ میں داخل ہوگا۔ اور یہی تمثیل سیوم کا مطلب ہے۔تنبیہ
اُمورِ غیبیہ کو منجانب اللہ ہونے پر دلالت کامل ہے۔ کیونکہ یہ بات بہ بداہت عقل ثابت ہے کہ غیب کا دریافت کرنا مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہے۔ اور جو امر مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہو وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ پس اس دلیل سے ظاہر ہے کہ امور غیبیہ خدا کی طرف سے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ان کا منجانب اللہ ہونا یقینی اور قطعی ہے۔
تمہید سیوم: جو چیز محض قدرت کاملہ خدائے تعالیٰ سے ظہور پذیر ہو خواہ وہ چیز اس کی مخلوقات میں سے کوئیؔ مخلوق ہو۔ اور خواہ وہ اس کی پاک کتابوں میں سے کوئی کتاب ہو۔ جو لفظاً اور معناً اسی کی طرف سے صادر ہو۔ اس کا اس صفت سے متصف ہونا ضروری ہے۔ کہ کوئی مخلوق اس کی مثل بنانے پر قادر نہ ہو۔ اور یہ اصول عام جو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 150
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/150/mode/1up
ہر یک صادر من اللہ سے متعلق ہے۔ دو طور سے ثابت ہوتاہے۔ اول قیاس سے۔ کیونکہ ازروئے قیاس صحیح و مستحکم کے خدا کا اپنی ذات اور صفات اور افعال میں واحد لاشریک ہونا ضروری ہے اور اس کی کسی صنعت یا قول یا فعل میں شراکت مخلوق کی جائز نہیں۔ دلیل اس پر یہ ہے کہ اگر اس کی کسی صنعت یا قول*یا فعل میں شراکت مخلوق کی جائز ہو تو البتہ
اس جگہ پر بعض نادان (جن کو عمیق فکر کرنے کی عادت نہیں) یہ وسوسہ پیش کرتے ہیں کہ بلاشبہ حروف اور الفاظ مفردہ خدا کی کلام اور انسانوں کی کلام میں مشترک ہیں۔ سو حروف اور الفاظ مفردہ میں شراکت انسان کی خدا کے ساتھ لازم آئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا متن میں بہ تفصیل مندرج ہے۔ تعلیم زبان کی خدا کی طرف سے ہے۔ پس حروف اور الفاظ مفردہ بھی خدا ہی نے انسانوں کو سکھلائے ہیں۔ انسان نے ان کو اپنی عقل سے ایجاد نہیں کیا۔ جس بات کو انسان ایجاد کرتا ہے وہ صرف ترکیب کلمات ہے۔ یعنی فقط یہ امر انسان کا اختیاری اور کسبی ہے کہ کسی مضمون کے ظاہر کرنے کے لئے اپنی طرف سے ایک عبارت طیار کرسکتا ہے جس میں کوئی فقرہ کسی جگہ پر اور کوئی فقرہ کسی جگہ پر وضع کرتا ہے۔ اور کسی ترکیب کو کسی محل پر اور کسی ترکیب کو کسی محل پر رکھتا ہے۔ سو یہی املاء انشاء اس کا اپنی طرف سے ہوتا ہے۔ اور اس میں ہم کہتے ہیں کہ خدا کی املاء انشاء سے انسان کا املاء انشاء ہرگز برابر نہیں ہوسکتا اور نہ برابر ہونا جائز ہے۔ کیونکہ اس سے مشارکت باری کی مخلوق سے لازم آتی ہے۔ لیکن انسان کا وہی حروف اور الفاظ مفردہ بولنا جو خدا نے اپنے کلام میں استعمال کئے ہیں یہ مشارکت نہیں بلکہ یہ تو بعینہٖ ایسی بات ہے کہ جیسے انسان مٹی کو جو خدا کی پیدائش ہے اپنے استعمال میں لاتا ہے اور طرح طرح کے برتن وغیرہ بناتا ہے۔ پس اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ انسان خدا کا شریک ہوگیا ہے۔ کیونکہ مٹی تو بلاشبہ خدا کی مخلوق ہے نہ انسان کی مخلوق۔ شراکت تو تب ثابت ہو کہ جب کوئی انسان خدا کی طرح اس مٹی سے حیوانات اور نباتات اور طرح طرح کے جواہرات بنا کر دکھلاوے۔ سو ظاہر ہے کہ انسان میں یہ مقدور نہیں کہ جو کام خدا نے مٹی سے پورا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 151
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/151/mode/1up
پھر سب صفات اور افعال میںؔ جائز ہو۔ اور اگر سب صفات اور افعال میں جائز ہو تو پھر کوئی دوسرا خدا بھی پیدا ہونا جائز ہو۔ کیونکہ جس چیز میں تمام صفات خدا کی پائی جائیں۔ اسی کا نام خدا ہے اور اگر کسی چیز میں بعض صفات باری ؔ تعالیٰ کی پائی جائیں تب بھی
کیا ہے وہ بھی اسی خاک سے پورا کرسکے۔ یہ تو سچؔ بات ہے کہ مادہ ایجاد اور انشاء کا انسان کے ہاتھ میں بھی وہی ہے جس کو خدا اپنے قوانین قدرتیہ کی پابندی سے استعمال میں لاتا ہے۔ پر نعوذباللہ یہ کب سچ ہوسکتا ہے کہ ایجاد اور انشاء انسان کا خدا کی ایجاد اور انشاء سے برابر ہے۔ اگر انسان خدا کا مقابلہ کرنے میں آسانی کی چال بھی چلے یعنے یہ کرے کہ جس مخلوق کے اعضاء متفرق ہوچکے ہوں۔ اسی کی ہڈیاں اور گوشت اور پوست جمع کرکے پھر وہی جاندار بنانا چاہے یا جان نہیں سہی ویسا ہی قالب طیار کرنا چاہے تو یہ بھی اس کے لئے ممکن نہیں۔ پس انسان ضعیف البنیان خدا کا مقابلہ کیونکر کرسکے۔ اس سے تو حیوانات کا مقابلہ بھی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ چھوٹے چھوٹے کیڑوں مکوڑوں کے مقابلہ کرنے سے بھی عاجز ہے اور بعض کیڑے اپنی صنائع میں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ کوئی اس کے لئے ریشم بناتا ہے اور کوئی اس کو شہد کا شربت پلاتا ہے۔ ایسا ہی کوئی کچھ اور کوئی کچھ طیار کرتا ہے اور انسان کو ان میں سے ایک بھی ہنر یاد نہیں۔ تو پھر دیکھئے نادانی ہے یا نہیں کہ اس منہ اور اس لیاقت سے خدا کے ساتھ مقابلہ۔چوں نیست بیک مگسے تاب ہمسری
پس چوں کنی بقادرِ مطلق برابریشرم آیدت زدم زنی خود بہ کردگار
رو قدرِ خود بہ بیں کہ زیک کرم کمتریاس جگہ یہ بات بھی بخوبی یاد رکھنی چاہئے کہ جیسے عناصر جسم انسان کے خدا کی طرف سے ہیں۔ ایسا ہی عناصر کلام کے بھی خدا کی طرف سے ہیں۔ اور عناصر کلام سے مراد ہماری حروف اور الفاظ اور چھوٹے چھوٹے فقرے ہیں جن پر تعلیم زبان کی موقوف ہے۔ جیسے خدا ہے۔ بندہ فانی ہے۔ الحمدللہ۔ رب العالمین وغیرہ وغیرہ یہ سب عناصر کلام ہی ہیں جو خدا نے اپنی طرف سے انسان پر ظاہر کئے ہیں۔ کیونکہ خدا کا صرف اتنا کام نہیں تھا کہ وہ صرف ایک پتلا خاک کا بناکر پھر الگ ہوجاتا۔ بلکہ ظاہر ہے کہ انسان نے جو کچھ اپنی تکمیل فطرت کے لئے پایا وہ سب خدا ہی سے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 152
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/152/mode/1up
وہ بعض میں شریک باری تعالیٰ کے ہوئے۔ اور شریک الباری بہ بداہت عقل ممتنع ہے۔ پس اس دلیل سے ثابت ہے کہ خدا کا اپنی تمام صفات اور اقوال اور افعال میں واحد
پایا۔ گھر سے تو کچھ نہ لایا۔ سو طالب حق کو چاہئیے کہ اس سے دھوکا نہ کھاوے کہ حروف اور الفاظ مفردہ یا چھوٹے چھوٹے فقرات جو خدا کی کلام میں موجود ہیں وہ انسان کی کلام میں بھی موجود ہیں۔ اور اس بات کو بخوبی یاد رکھے کہ یہ عناصر کلام کے ہیں جو خدا کی طرف سے ہیں۔ انسان بھی ان کو اپنے استعمال میں لاتا ہے اور خدا بھی۔ لیکن فرق یہ ہے کہ خدا کی کلام میں جو لفظاً و معناً خدا کی کلام ہے وہ الفاظ اور فقرات ایسی ترتیب محکم اور پرحکمت سے اور کمال موزونیت اور اعتدال سے اپنے اپنے محل پر موضوع ہوتے ہیں۔ جیسے سارے کام خدا کے جو دنیا میں پائے جاتےؔ ہیں۔ کمال موزونیت اور اعتدال اور رعایت حکمت سے ہیں۔ انسان کو اپنی انشاء میں وہ مرتبہ خدائی کا حاصل نہیں ہوسکتا۔ جیسا دوسرے تمام کاموں میں حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام کفار قرآن شریف کے مقابلہ پر باوصف دعوائے فصاحت اور بلاغت اور ملک الشعراء کہلانے کے زبان بند کئے بیٹھے رہے اور اب بھی خاموش اور لاجواب بیٹھے ہیں اور یہی خاموشی ان کی عجز پر گواہی دے رہی ہے۔ کیونکہ عجز اور کیا ہوتا ہے یہی تو عجز ہے کہ مخاصم کی حجت کو سن اور سمجھ کر توڑ کر نہ دکھلاویں۔یہاں تک تو اس حاشیئے میں کلام الٰہی کے بے مثل ہونے کی ضرورت ہم نے قانون قدرت کے رو سے ثابت کی ہے۔ لیکن بجز اس کے بے مثل ہونا کلام الٰہی کا ایک اور طریق سے بھی واجب ٹھہرتا ہے۔ جس کا بیان کرنا اسی حاشیہ میں قرین مصلحت ہے اور وہ یہ ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بلا دغدغہ انسان کا ایسا نیک خاتمہ ہوجانا جس پر بالیقین نجات کی اُمید ہو۔ اس بات پر موقوف ہے کہ اس کو صانع حقیقی کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کی نسبت اور اس کے وعدہ جزا سزا کی بابت یقین کامل کا مرتبہ حاصل ہوجائے۔ اور یہ امر صرف ملاحظہ مخلوقات سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 153
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/153/mode/1up
لاشریک ہونا ضروری ہے اور ذات اس کی ان تمام نالائق امور سے متنزہ ہے جو شریک الباری پیدا ہونے کی طرف منجر ہوں۔ دوسرے ثبوت اس دعویٰ کا استقراء تام سے ہوتامرتبہ یقین تک پہنچانے کے لئے ایک ایسی الہامی کتاب کی ضرورت ہے۔ جس کی مثل بنانا انسانی طاقتوں سے باہر ہو۔ اب اس تقریر کو اچھی طرح سمجھانے کے لئے دو باتوں کا بیان کرنا ضروری ہے اول یہ کہ یقینی طور پر نجات کی امید یقین کامل سے کیوں وابستہ ہے۔ دوم۲ یہ کہ وہ یقین کامل صرف ملاحظہ مخلوقات سے کیوں حاصل نہیں ہوسکتا۔ سو پہلے یہ سمجھنا چاہئیے کہ یقین کامل اس اعتقاد صحیح جازم کا نام ہے جس میں کوئی احتمال شک کا باقی نہ رہے۔ اور امر مقصود التحقیق کی نسبت پوری پوری تسلی اور تشفی دل کو حاصل ہوجائے۔ اور ہریک اعتقاد جو اس حد سے متنزل اور فروتر ہو وہ مرتبہ یقین کامل پر نہیں ہے بلکہ شک یا غایت کار ظن غالب ہے۔
اور یقینی طور پر نجات کی امید یقین کامل پر اس لئے موقوف ہے کہ مدار نجات کا اس بات پر ہے کہ انسان اپنے مولیٰ کریم کی جانب کو تمام دنیا اور اس کے عیش و عشرت اور اس کے مال و متاع اور اس کے تمام تعلقات پر یہاں تک کہ اپنے نفس پر بھی مقدم سمجھے۔ اور کوئی محبت خدا کی محبت پر غالب ہونے نہ پاوے۔ لیکن انسان پر یہ بلا وارد ہے کہ وہ برخلاف اس طریقہ کے جس پر اس کی نجات موقوف ہے۔ ایسی چیزوں سے دل لگا رہا ہے جن سے دل لگانا خداؔ سے دل ہٹانے کا مستلزم ہے اور دل بھی ایسا لگایا ہوا ہے کہ یقینی طور پر سمجھ رہا ہے کہ تمام راحت اور آرام میرا انہیں تعلقات میں ہے اور نہ صرف سمجھ رہا ہے بلکہ وہ لذات بہ یقین کامل اس کے لئے مشہود اور محسوس ہیں جن کے وجود میں اس کو ذرا سا شک نہیں۔ پس ظاہر ہے کہ جب تک انسان کو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی لذت وصال اور اس کی جزا و سزا اور اس کی آلاء نعماء کی نسبت ایسا ہی یقین کامل نہ ہو جیسا اس کو اپنے گھر کی دولت پر۔ اور اپنے صندوق کے گنے ہوئے روپیوں پر۔ اور اپنے ہاتھ کے لگائے ہوئے باغوں پر۔ اور اپنی زر خرید یا موروثی جائداد پر۔ اور اپنی آزمودہ اور چشیدہ لذتوں پر۔ اور اپنے دلآرام دوستوں پر حاصل ہے تب تک خدا کی طرف جوش دلی سے رجوع لانا محال ہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 154
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/154/mode/1up
ہے جو ان سب چیزوں پر جو صادرؔ من اللہ ہیں نظر تدبر کرکے بہ پایہ صحت پہنچ گیا ہے۔ کیونکہ تمام جزئیات عالم جو خدا کی قدرت کاملہ سے ظہور پذیر ہیں جب ہم ہریک کوکیونکہ کمزور خیال زبردست خیال پر غالب نہیں آسکتا اور بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جب ایسا آدمی جس کا یقین بہ نسبت امور آخرت کے دنیا پر زیادہ ہے اس مسافر خانہ سے کوچ کرنے لگے اور وہ نازک وقت جس کو جان کندن کہتے ہیں یکایک اس کے سر پر نمودار ہوکر اس کو اس یقینی لذات سے دور ڈالنا چاہے جو دنیا میں اس کو حاصل ہیں اور اُس کو اُن پیاروں سے علیحدہ کرنا چاہے جن کو وہ یقیناً بچشم خود ہر روز دیکھتا ہے۔ اور ان مالوں اور ملکوں اور دولتوں سے اس کو جدا کرنے لگے جن کو وہ بلاشبہ اپنی ملکیت سمجھتا ہے تو ایسی حالت میں ممکن نہیں کہ اس کا خیال خدائے تعالیٰ کی طرف قائم رہے۔ مگر صرف اسی صورت میں کہ جب اس یقین کامل کے مقابل پر خدائے تعالیٰ کے وجود اور اس کی لذتِ وصال اور اس کے وعدہ جزا سزا پر بھی ایسا ہی یقین کامل بلکہ اس سے زیادہ ہو۔ اور اگر اس آخری وقت میں اس درجہ کا یقین جو خیالات دینوی کی مدافعت کرسکے اس کو حاصل نہ ہو۔ تو یہ امر غالباً اس کے لئے بدخاتمہ کا موجب ہوگا۔
اور یہ بات کہ صرف ملاحظہ مخلوقات سے یقین کامل حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس طرح پر ثابت ہے کہ مخلوقات کوئی ایسا صحیفہ نہیں ہے کہ جس پر نظر ڈال کر انسان یہ لکھا ہوا پڑھ لے کہ ہاں اس مخلوق کو خدا نے پیدا کیا ہے اور واقعی خدا موجود ہے اور اسی کی لذت وصال راحت حقیقی ہے۔ اور وہی مطیعوں کو جزا اور نافرمانوں کو سزا دے گا۔ بلکہ مخلوقات کو دیکھ کر اور اس عالم کو ایک ترتیب احسن اور ابلغ پر مرتب پاکر فقط قیاسی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس مخلوقات کا کوئی خالق ہونا چاہیئے۔ اور لفظ ہونا چاہیئے اور ہے کے مصداق میں بڑا فرق ہے۔ مفہوم ہونا چاہیئے اس یقین جازم تک نہیں پہنچا سکتا جس تک مفہوم ہے کا پہنچاتا ہے۔ بلکہ اُس میں کسی قدر رگِ شک باقی رہ جاتیؔ ہے۔ اور جو شخص کسی امر کی نسبت بطور قیاسی ہونا چاہیئے کہتا ہے اس کے قول کا صرف اس قدر خلاصہ ہے کہ میرے قیاس میں تو ہونا لازم ہے۔ اور آگے مجھے خبر نہیں کہ واقعہ میں ہے بھی یا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 155
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/155/mode/1up
اُن میں سے عمیق نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اعلیٰ سے ادنیٰ تک بحدیکہ حقیرؔ سے حقیر چیزوں کو جیسے مکھیؔ اور مچھرؔ اور عنکبوتؔ وغیرہ ہیں۔ خیال میں لاتے ہیں تو ان میں سےنہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ فقط مخلوقات پر نظر کرنے والے گزرے ہیں۔ وہ نتیجہ نکالنے میں کبھی متفق نہیں ہوئے اور نہ اب ہیں اور نہ آئندہ ہونا ممکن ہے۔ ہاں اگر آسمان کے کسی گوشہ پر موٹی اور جلی قلم سے یہ لکھا ہوا ہوتا کہ میں بے مثل و مانند خدا ہوں جس نے ان چیزوں کو بنایا ہے اور جو نیکوں اور بدوں کو ان کی نیکی اور بدی کا عوض دے گا۔ تو پھر بلاشبہ ملاحظہ مخلوقات سے خدا کے وجود پر اور اس کی جزا سزا پر یقین کامل ہوجایا کرتا۔ اور ایسی حالت میں کچھ ضرور نہ تھا کہ خدائے تعالیٰ کوئی اور ذریعہ یقین کامل تک پہنچانے کا پیدا کرتا۔ لیکن اب تو وہ بات نہیں ہے۔ اور خواہ تم کیسی ہی غور سے زمین آسمان پر نظر ڈالو۔ کہیں اس تحریر کا پتہ نہیں ملے گا۔ صرف اپنا قیاس ہے اور بس۔ اسی جہت سے تمام حکماء اس بات کے قائل ہیں کہ زمین آسمان پر نظر ڈالنے سے وجود باری کی نسبت شہادت واقعہ حاصل نہیں ہوتی۔ صرف ایک شہادت قیاسی حاصل ہوتی ہے جس کا مفہوم فقط اس قدر ہے کہ ایک صانع کا وجود چاہیئے۔ اور وہ بھی اس کی نظر میں کہ جو وجود اُن چیزوں کا خودبخود ہونا محال سمجھتا ہو۔ لیکن دہریہ کی نظر میں وہ شہادت درست نہیں کیونکہ وہ قدامت عالم کا قائل ہے۔ اسی بناء پر اس کی یہ تقریر ہے کہ اگر کوئی وجود بے موجد جائز نہیں ہے تو پھر خدا کا وجود بے موجد کیوں جائز ہے۔ اگر جائز ہے تو پھر انہیں چیزوں کا وجود جن کو کسی نے بنتے ہوئے بچشم خود نہیں دیکھا بے موجد کیوں نہ مانا جاوے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ وجود قدیم حضرت باری میں تب ہی دہریہ کو ایک قیاس پرست کے ساتھ نزاع کرنے کی گنجائش ہے کہ مخلوقات پر نظر کرنے سے واقعی شہادت صانع عالم پر پیدا نہیں ہوتی یعنے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت ایک صانع عالم موجود ہے۔ بلکہ صرف اس قدر ظاہر ہوتا ہے کہ ہونا چاہیئے۔ اور اسی وجہ سے امر معرفت صانع عالم کا صرف قیاسی طور سے دہریہ پر مشتبہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ہم اس مطلب کو کسی قدر حاشیہ نمبر ۴ میں بیان کر آئے ہیں جس میں ہم نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ عقل صرف موجود ہونے کی ضرورت کو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 156
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/156/mode/1up
کوئی بھی ایسی چیز ہم کو معلوم نہیں ہوتی جس کے بنانے پر انسان بھی قدرت رکھتا ہو بلکہ ان چیزوں کی بناوٹ اورؔ ترکیب پر غور کرنے سے ایسے عجائب کام دست قدرت کےثابت کرتی ہے خود موجود ہونا ثابت نہیں کرسکتی۔ اور کسی وجود کی ضرورت کا ثابت ہونا شے دیگر ہے اور خود اس وجود ہی کا ثابت ہوجانا یہ اور بات ہے۔ پس جس کے نزدیک معرفت الٰہی صرف مخلوقات کے ملاحظہ تک ہیؔ ختم ہے۔ اس کے پاس اس اقرار کرنے کا کوئی سامان موجود نہیں کہ خدا فی الواقعہ موجود ہے۔ بلکہ اس کا علم کا اندازہ صرف اس قدر ہے کہ ہونا چاہیئے اور وہ بھی تب کہ جب دہریہ مذہب کی طرف نہ جھک جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ حکماء متقدمین میں سے محض قیاسی دلائل کے پابند رہے انہوں نے بڑی بڑی غلطیاں کیں اور صدہا طرح کا اختلاف ڈال کر بغیر تصفیہ کرنے کے گزر گئے اور خاتمہ ان کا ایسی بے آرامی میں ہوا کہ ہزارہا شکوک اور ظنون میں پڑ کر اکثر ان میں سے دہریئے اور طبعی اور ملحد ہوکر مرے اور فلسفہ کے کاغذوں کی کشتی ان کو کنارے تک نہ پہنچا سکی۔ کیونکہ ایک طرف تو حب دنیا نے انہیں دبائے رکھا اور دوسری طرف انہیں واقعی طور پر معلوم نہ ہوا کہ آگے کیا پیش آنے والا ہے۔ سو بڑی بے قراری کی حالت میں حق الیقین سے دور اور مہجور رہ کر اس عالم سے انہوں نے سفر کیا۔ اور اس بارے میں ان کا آپ ہی اقرار ہے کہ ہمارا علم صانع عالم اور دوسرے امور آخرت کی نسبت من حیث الیقین نہیں بلکہ من حیث ماہو اشبہ ہے یعنے اس قسم کا ادراک ہے کہ جیسے کوئی بغیر اطلاع حقیقت حال کے یونہی اٹکل سے ایک چیز کی نسبت کہے کہ اس چیز کی حالت کے یہی لائق ہے کہ ایسی ہو اور اصل میں نہ جانتا ہو کہ ایسی ہے یا نہیں۔ حکیموں نے جس امر کو اپنی رائے میں دیکھا کہ ایسا ہونا مناسب ہے اُس کو اپنے گھر میں ہی تجویز کرلیا کہ ایسا ہی ہوگا۔ جیسے کوئی کہے کہ مثلاً زیدؔ کا اس وقت ہمارے پاس آنا مناسب ہے۔ پھر آپ ہی دل میں ٹھہرا لے کہ ضرور آتا ہوگا۔ اور پھر سوچے کہ زیدؔ کا گھوڑے پر ہی آنا لائق ہے اور پھر تصور کرلے کہ گھوڑے پر ہی آیا ہوگا۔ ایسا ہی حکیم لوگ اٹکلوں پر اپنا کام چلاتے رہے اور خدا کو موجود فی الحقیقت یقین کرنا انہیں نصیب نہ ہوا بلکہ ان کی عقل نے اگر بہت ہی ٹھیک ٹھیک دوڑ کی تو فقط اِس قدر کی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 157
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/157/mode/1up
اُن کے جسم میں مشہود اور موجود پاتے ہیں جو صانع عالم کے وجود پر دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ ہیں۔ علاوہ ان سب دلائل کے یہ بات ہریک دانشمندؔ پر روشن ہےکہ ایک صانع کے موجود ہونے کی ضرورت ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس ادنیٰ خیال میں بھی بے ایمانوں کی طرح ان کو شکوک اور شبہات ہی پڑتے رہے اور طریقہ حقہ پر ان کا قدم نہیں پڑا۔ بعض خدا کے مدبر و خالق بالارادہ ہونے سے انکاری رہے۔ بعض اس کے ساتھ ھیولٰی کو لے بیٹھے۔ بعض نے جمیع ارواح کو خدا کی قدامت میں بھائی بندوں کی طرح حصہ دار ٹھہرایا۔ جن کے وارث اب تک آریہ سماج والے چلے آتے ہیں۔ بعض نے ارواح انسانیہ کی بقا کو اور دار جزا سزا کو تسلیم نہ کیا۔ بعض نے زمانہ کو ہی خدا کی طرح موثر حقیقی قرار دے دیا۔ بعض نے خدا کے عالم بالجزئیات ہونے سے منہ پھیر لیا۔ بعض بتوں پر ہی قربانیاں چڑھاتے رہے اور مصنوعی دیوتوں کے آگے ہاتھؔ جوڑتے رہے اور بہتیرے بڑے بڑے حکیم خداوند تعالیٰ کے وجود سے ہی منکر رہے اور کوئی ان میں ایسا نہ ہوا کہ ان تمام مفاسد سے بچ رہتا۔
اب ہم اصل کلام کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ مجرد ملاحظہ مخلوقات سے ہرگز یقین کامل حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی کسی کو ہوا۔ بلکہ جس قدر حاصل ہوسکتا ہے اور شاید بعضوں کو ہوا ہو وہ اسی قدر ہے کہ جو ہونا چاہیئے کا مصداق ہے اور یہ بھی وجود صانع عالم کی بابت ہے اور جزا و سزا وغیرہ میں تو اتنا بھی نہیں۔ اور جب کہ مخلوقات پر نظر ڈالنے سے یقین کامل حاصل نہ ہوسکا تو دو باتوں میں سے ایک بات ماننی پڑی۔ یا تو یہ کہ خدا نے یقین کامل تک پہنچانے کا ارادہ ہی نہیں کیا۔ اور یا یہ کہ ضرور اس نے یقین کامل تک پہنچانے کے لئے کوئی ذریعہ رکھا ہے۔ لیکن امر اول الذکر تو بدیہی البطلان ہے اور کسی عاقل کو اس کے باطل ہونے میں کلام نہیں۔ اور امر دویم کے قرار دینے کی حالت میں یعنی اس صورت میں کہ جب ہم تسلیم کریں کہ خدا نے مخلوقات کی نجات کے لئے ضرور کوئی کامل ذریعہ ٹھہرایا ہے۔ بجز اس بات کے ماننے کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ کامل ذریعہ ایسی کتاب الہامی ہوگی جو اپنی ذات میں بے مثل و مانند ہو اور اپنے بیان میں قانونِ قدرت کے ہریک اجمال کو کھولتی ہو۔ کیونکہ جب کامل ذریعہ کے لئے یہ شرط ہوئی کہ وہ چیز
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 158
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/158/mode/1up
کہ اگر یہ جائز ہوتا کہ جو چیزیں خدا کے دست قدرت سے ظہور پذیر ہیں اُن کے بنانے پر کوئی دوسرا شخص بھی قادر ہوسکتا تو کسی مصنوع کو اس خالق حقیقی کے وجود پر دلالتبے مثل و مانند ہو اور نیز اُس میں منجانب اللہ ہونے کے بارے میں اور ہریک امر دینی کے لئے تحریری شہادت بھی موجود ہو۔ تو یہ تمام صفات صرف کتاب الہامی میں جو بے مثل و مانند ہو جمع ہوں گی اور کسی چیز میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ کیونکہ یہ خوبی صرف کتاب الہامی میں متحقق ہوسکتی ہے کہ اپنے بیان اور اپنی بے نظیری کی حالت کے ذریعہ سے یقین کامل اور معرفت کامل کے مرتبہ تک پہنچاوے۔ وجہ یہ کہ آسمان و زمین کے وجود پر اگر کوئی کم بخت دہریہ ؔ شک کرے تو کرے کہ یہ قدیم سے چلے آتے ہیں۔ َ پر ایک کلام کو انسانی طاقتوں سے بالاتر تسلیم کرکے پھر انسان اِس اقرار کرنے سے کہاں بھاگ سکتا ہے کہ خدا فی الواقع موجود ہے جس نے اس کتاب کو نازل کیا۔ علاوہ اس کے اس جگہ خدا کا وجود ماننا صرف اپنا ہی قیاس نہیں بلکہ وہی کتاب بطور خبر واقعہ کے یہ بھی بتلاتی ہے کہ خدا موجود ہے اور جزا سزا برحق ہے۔ پس جس یقین کامل کو طالب حق زمین و آسمان میں تلاش کرتا ہے اور نہیں پاتا وہ مراد اس کو اس جگہ مل جاتی ہے۔ لہٰذا دہریہ کو خدا کے قائل کرنے کے لئے جیسا کلام بے مثل سے علاج متصور ہے ویسا زمین وآسمان کے ملاحظہ سےؔ ہرگز ممکن نہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ہریک انسان میں کہ جو مجرد قیاس پرست ہے دہریہ پن کی ایک رگ ہے۔ وہی رگ دہریہ میں کچھ زیادہ پھول کر ظاہر ہوجاتی ہے اور اوروں میں مخفی رہتی ہے۔ اس رگ کو وہی الہامی کتاب کاٹتی ہے جو فی الواقع انسانی طاقتوں سے باہر ہو۔ کیونکہ جیسا ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ آسمان زمین سے نتیجہ نکالنے میں ہمیشہ لوگوں کی سمجھ مختلف رہی ہے۔ کسی نے یوں سمجھا اور کسی نے ووں سمجھا۔ لیکن یہ اختلاف کلام بے مثل میں نہیں ہوسکتا۔ اور گو کوئی دہریہ ہی ہو۔ َ پر کلام بے مثل کی نسبت یہ رائے ظاہر نہیں کرسکتا کہ وہ بغیر تکلم کسی متکلم کے زمین آسمان کی طرح خودبخود قدیم سے وجود رکھتی ہے۔ بلکہ کلام بے مثل میں اسی وقت تک دہریہؔ بحث و تکرار کرے گا جب تک اس کے بے مثل ہونے میں اس کو کلام ہے اور جب ہی اس نے اس بات کو قبول کرلیا کہ فی الواقعہ بنانا اس کا انسانی طاقتوں سے باہر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 159
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/159/mode/1up
کامل نہ رہتی اورؔ امر معرفت صانع عالم کا بالکل مشتبہ ہوجاتا۔ کیونکہ جب بعض ان اشیاء کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوئی ہیں بجز خدا کے کوئی اور بھی بنا سکتا ہے تو پھرہے۔ اسی وقت سے خدا کے ماننے کے لئے اس کے دل میں ایک تخم بویا جاوے گا۔ کیونکہ اس وہم کے کرنے کی اس کو گنجائش ہی نہیں کہ اس کلام کے متکلم کا وجود قیاسی ہے نہ واقعی۔ اس جہت سے کہ کلام کا وجود بغیر وجود متکلم کے ہوہی نہیں سکتا۔ ماسوا اس کے کلام بے مثل میں یہ بھی خوبی ہے کہ جو کچھ علم مبدء اور معاد کا تکمیل نفس کے لئے ضروری ہے۔ وہ سب بطور امر واقعہ کے اس میں لکھا ہوا موجود ہے۔ اور یہ خوبی بھی زمین آسمان میں موجود نہیں۔ کیونکہ اول تو ان کے ملاحظہ سے اسرار دینیہ کچھ معلوم ہی نہیں ہوتے۔ اور اگر کچھ ہوں بھی تو اکثر اوقات وہی مثل مشہور ہے کہ گونگے کے اشارے اس کی ماں ہی سمجھے۔ اب اس تمام تقریر سے ظاہر ہوگیا کہ بے مثل ہونا کلام الٰہی کا صرف اسی جہت سے واجب نہیں کہ استحفاظ سلسلۂ قانون قدرت کا اس پر موقوف ہے۔ بلکہ اس جہت سے بھی واجب ہے کہ بغیر بے مثل کلام کے نجات کا امر ہی ادھورا رہتا ہے۔ کیونکہ جب خدا پر ہی یقین کامل نہ ہوا تو پھر نجات کیسی اور کہاں سے۔ جو لوگ خدا کی کلام کا بے مثل و مانند ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کی کیسی نادانی ہے کہ حکیم مطلق پر بدگمانی کرتے ہیں کہ ہر چند اس نے کتابیں بھیجیں َ پربات وہی بنی بنائی رہی جو پہلے تھی۔ اور وہ کام نہ کیا جس سے لوگوں کا ایمان اپنے کمال کو پہنچتا۔ افسوس ہے کہ یہ لوگ سوچتے نہیں کہ خدا کا قانون قدرت ایسا محیط ہے کہ اس نے کیڑوں مکوڑوں کو بھی کہ جن سے کچھ ایسا بڑا فائدہ متصور نہیں بے نظیر بنانے سے دریغ نہیں کیا تو کیا اس کی حکمت پر یہ اعتراض نہ ہوگا کہ اس کو دریغ کرنے کا مقام کہاں آکر سوجھا جس سے تمام انسانوں کی کشتی ہی غرق ہوتی ہے اور جس سے یہ خیال کرنا پڑتا ہے کہ گویا خداؔ کو ہرگز منظور ہی نہیں کہ کوئی انسان نجات کا مرتبہ حاصل کرے۔ مگر جس حالت میں خدائے تعالیٰ کی نسبت ایسا گمان کرنا کفر عظیم ہے۔ تو بالآخر یہ دوسری بات جو خدا کی شان کے لائق اور بندوں کی حاجت کے موافق ہے ماننی پڑی۔ یعنے یہ کہ خدا نے بندوں کی نجات اور تکمیل معرفت کے لئے ضرور ایسی کتاب بھیجی ہے جو عدیم النظیر ہونے کی وجہ سے معرفت کامل تک پہنچاتی ہے اور جو کام مجرد عقل سے نہیں ہوسکتا۔ اس کو پورا کرکے دکھاتی ہے۔ سو وہ کتاب قرآن شریف
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 160
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/160/mode/1up
اس بات پر کیا دلیل ہے جو کل اشیاء کو کوؔ ئی اور نہیں بناسکتا۔ اب جبکہ دلائل مستحکمہ سے ثابت ہوگیا کہ جو چیزیں خدا کی طرف سے ہیں اُن کا بے نظیر ہونا اور پھر ان کیہے جس نے اس کمال تام کا دعویٰ کیا ہے اور اس کو بپایۂ صداقت پہنچایا ہے۔
ہست فرقانؔ آفتاب علم و دین
تابر ندت از گمان سوئے یقینہست فرقانؔ از خدا حبل المتین
تا کشندت سوئے رب العالمینہست فرقانؔ روز روشن از خدا
تا دہندت روشنئے دیدہ ہاحق فرستاد این کلام بے مثال
تا رسی در حضرت قدس و جلالداروئے شک است الہام خدائے
کاں نماید قدرت تام خدائےہر کہ روئے خود زِ فرقاںؔ در کشید
جان او روئے یقین ہرگز نہ دیدجان خود را مے کنی در خودروی
بازمے مانی ہماں گول و غویکاش جانت میل عرفان داشتے
کاش سعیت تخم حق را کاشتےخود نگہ کن از سر انصاف و دین
از گمان ہا کے شود کار یقینہر کہ را سویش درے بکشودہ است
از یقیں نے از گماں ہا بودہ استقدر فرقاںؔ نزدت اے غدار نیست
ایں ندانی کت جز ا زوے یار نیستوحی فرقاںؔ مردگاں را جاں دہد
صد خبر از کوچۂ عرفاں دہداز یقیں ہامے نماید عالمے
کاں نہ بیند کس بصد عالم ہمےاس جگہ برہمو سماج والوں نے بڑی جان کنی سے چند وساوس بنا رکھے ہیں تاکہ خدا کی کتاب کے قبول کرنے سے عذر کرنے کی کوئی وجہ پیدا ہوجائے اور کسی طرح انتظام امر دین ادھورا ہی رہے اپنے کمال کو نہ پہنچے۔ اور کہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ خدا وہ رحیم کریم ہے کہ جس نے انسان کی جسمانی تربیت کیلئے سورجؔ اور چاندؔ وغیرہ چیزیں بنائیں تاکہ انسان کی خوراک کا بندوبست کرے اور روحانی تربیت کیلئے اپنی کتابیں بھیجیں تا انتظام ہدایت فرماوے۔ سو چونکہ یہ لوگ خداوند کریم و رحیم پر بخل اور بے مروتی اور بد انتظامی کی تہمت لگانا چاہتے ہیں اور ان کے عقائد فاسدہ میں حضرت باری تعالیٰ کی نسبت طرح طرح کی بدگمانیاں اور تحقیر اور توہین پائی جاتی ہے اسلئے مناسب ہے کہ جہاںؔ تک وساوس اُن کے اس بحث سے متعلق
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 161
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/161/mode/1up
بے نظیری ان کی منجانب اللہ ہونے پر دلیل قاطع ہونا ان کی صادر من اللہ ہونے کےؔ لئے شرط ضروری ہے۔ تو اِس تحقیق سے جھوٹ اُن لوگوں کا صاف کھل گیا جن کیہیں وہ اس جگہ دور کئے جاویں۔ لہذا معہ الجواب ذیل میں لکھے جاتے ہیں:۔
وسوسہ اوّل۔ یہ بحث کہ کوئی کتاب الہامی انسانی طاقتوں سے باہر ہے اصل بحث الہام کی ایک فرع ہے۔ اور الہام کی نسبت یہ ثابت ہے کہ وہ عندالعقل ضروری نہیں اور جب الہام کی کچھ ضرورت نہیں تو پھر یہ بحث کرنا ہی بے فائدہ ہے کہ کسی کتاب کی نظیر بنانے سے قویٰ بشریہ عاجز ہیں یا نہیں۔
جواب۔ اس کا جواب ابھی گزر چکا ہے کہ بذریعہ قیاسات عقلیہ کے جو کچھ خدا اور امور آخرت کے بارے میں سوچا جاتا اور فکر کیا جاتا ہے اُس سے نہ یقین کامل حاصل ہوتا ہے نہ معرفت کامل۔ اور جو جو وساوس قیاس پرستوں کے جی میں کھٹکتے رہتے ہیں ان کا تدارک بجز الہام کے ہوہی نہیں سکتا۔ کیونکہ اگر نیچر سے اس قدر سمجھا بھی گیا کہ عالم کا ایک صانع ضرور چاہیئے لیکن اس کا بیان کرنے والا کون ہے کہ وہ صانع ہے بھی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ عمارت کو دیکھ کر معمار پر یقین آسکتا ہے۔ پر وہ یقین عادی طور پر ہم کو حاصل ہے۔ کیونکہ جیسے ہم عمارتوں کو دیکھتے ہیں ساتھ ہی معماروں کو بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن زمین آسمان بنانے والے کو کون دکھاوے۔ اس کا تو تب ہی پورا پورا یقین آوے کہ جب معماروں کی طرح اس کا بھی کچھ پتہ لگے۔ اگر عقل نے گواہی بھی دی کہ کوئی اس عالم کا بنانے والا چاہیئے تو وہی عقل پھر آپ ہی حیرت کے دریا میں ڈوبے گی کہ اگر یہ خیال سچا ہے تو پھر اس صانع کا آج تک کوئی پتہ بھی تو لگا ہوتا۔ پس اگر عقل نے صانع کے وجود کی طرف کسی قدر رہبری کی تو پھر دیکھنا چاہیئے کہ رہزن بھی تو وہی عقل ہوئی۔ کسی کو دہریہ بنایا۔ کسی کو طبعیہ۔ کوئی کسی طرف جھکا اور کوئی کسی طرف۔ بھلا فقط عقلی خیال سے کہ جس کی تصدیق کبھی نہیں ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہوگی یقین کیونکر آوے۔ اگر عقل نے قیاس بھی دوڑایا کہ بنانے والا ضرور چاہیئے تو اب کون ہے کہ ہمیں پوری پوری تسلی دے کہ اس قیاس میں کچھ دھوکا نہیں اور اس سے زیادہ اگر ہم غور بھی کریں تو کیا کریں۔ اگر عقل سے ہی پورا پورا کام نکلتا ہے۔ تو پھر کیوں عقل
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 162
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/162/mode/1up
یہ رائے ہے کہ کلام الٰہی کا بے نظیر ہونا ضروری نہیں یا اس کے بے نظیر ہونے سے اس کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ لیکنؔ اس جگہ بغرض اتمامِہمیں راستہ میں چھوڑ کر آگے چلنے سے انکار کرتی ہے۔ کیا مرتبۂ اعلیٰ ہماری معرفت اور خدا شناسی کا یہی ہے کہ ہم صرف اتنے پر ہی کفایت کریں کہ کوئی بنانے والا چاہیئے۔ کیا ایسے اٹکل پچو خیال سے ہم اس خوشحالی دائمی کے وارث ہوسکتے ہیں کہ جو کامل الیقین اور کامل المعرفت لوگوں کے لئے طیارؔ کی گئی ہے جس یقین کامل کے لئے ہماری رُوح تڑپتی ہے۔ اگر وہ صرف عقل سے ہم کو مل جاتا تو پھر یہ قول بھی ہمارا بجا ہوتا کہ اب ہمیں الہام کی کچھ حاجت نہیں، اپنے مطلب کو پہنچ جو گئے۔ لیکن جب ہم بیمار ہوکر پھر بھی علاج کے متلاشی نہ ہوں اور صحت کامل کے وسائل طلب نہ کریں تو یہ ہماری بدبختی کی نشانی ہے۔
اے در انکار ماندہ از الہام
کرد عقل تو عقل را بدناماز خدا رو بخویش آوردی
ایں چہ آئین و کیش آوردیتانہ کس سرزخویشتن تابد
راز توحید راچہ ساں یابدتانہ برفرق نفس پا بزنی
کے بہ پاک و پلید فرق کنیہر کہ شد تابع کلام خدا
رست از اتباع حرص و ہواازخود و نفس خود خلاص شدہ
مہبط فیض نور خاص شدہبرتر از رنگ ایں جہاں گشتہ
آنچہ ناید بوہم آں گشتہما اسیران نفس امارہ
بے خدائیم سخت ناکارہتا میاں بست وحی حق برشاد
اے بسا عقد ہائے ماکہ کشادنہ شود از تو کارِ ربانی
آسیائے تہی چہ گردانیتو و علم تو ما و علم خدا
فرق بیّن از کجاست تا بکجاآں یکے را نگار خویش بہ بر
دیگرے چشم انتظار بہ درآں یکے ہمنشیں بہ مہ روئے
دیگرے ہرزہ گرد در کوئے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 163
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/163/mode/1up
حجت ان کا ایک وہم جو ان کے دلوں کو پکڑتا ہے دور کرنا قرین مصلحت ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کو بباعث کوتہ اندیشی یہ خیال فاسد دل میں متمکن ہے کہ
آں یکے کام یافتہ بہ تمام
دیگرے سوختہ بفکرت کامعارت آیدز عالم اسرار
خود ز خود دم زنی زہے پندارہمہ کار تو ناتمام افتاد
وہ چہ کارت بعقل خام افتادسو اے بھائیو برہمو سماج والو!!جب کہ آپ لوگوں کو خداوند کریم نے دیکھنے بھالنے کے لئے آنکھیں دی ہیں تو پھر تم آپ ہی ذرہ آنکھ کھول کر دیکھ لو کہ ضرورت الہام کی ثابت ہے یا نہیں اور زیادہ تر تفصیل اس کی بحوالہ دلائل عقلیہ قرآن شریف کے اپنے موقعہ پر مندرج ہے۔ وہاں پڑھ لو۔ پھر اگر خدا سے خوف کرکے سچا راستہ قبول کرلو اور منصب رہنمائی کا خدا ہی کے لئے رہنے دو تو یہ بڑی خوش قسمتی کی نشانی ہے۔ ورنہ اگر کچھ بس چل سکتا ہے تو ان دلائل کو مدلل بیان سے توڑ کر دکھلاؤ۔ لیکن سودائیوں کی چال تو مت چلو کہ جو کسی کی سنتے نہیں اور اپنی ہی بکی جاتے ہیں۔ کیا تعجب کریں یا نہ کریں کہ تم لوگ بات بات میں کٹتے جاتے ہو اور قدم قدم میں رکے جاتے ہو۔ پھر نہ جانے کہ کس بلا کے پردے ہیں کہ وہ اٹھتے ہی نہیں۔ کیسے دل ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں۔ عقل کی کسوٹی کس طاق میں رکھ کر بھول گئے کہ کھرے کو کھوٹا اور کھوٹے کو کھرا خیال کرنے لگے۔ خیال پرستی کرنا کس کو نہیں آتا۔ یہ تم کونسا نیا تحفہ لائے کہ جس پر بغلیں بجاتے ہو۔ کوئی باعث نہیں کھلتا کہ کیوں تمہارے دل کے کواڑ نہیں کھلتے۔ کیوں تمہاری آنکھیں دیکھنے سے عاجز ہوؔ رہی ہیں۔ عقل نے تم سے کیسی بے وفائی کی کہ تم جیسے پوجاریوں سے دور بھاگ گئی۔ حضرات!!تم خوب سوچ کر دیکھ لو کہ الہام کے بغیر نہ یقین کامل ممکن ہے نہ غلطی سے بچنا ممکن نہ توحید خالص پر قائم ہونا ممکن۔ نہ جذبات نفسانیہ پر غالب آنا حیّز امکان میں داخل ہے۔ وہ الہام ہی ہے جس کے ذریعہ سے خدا کی نسبت ہے کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اور تمام دنیا ہست ہست کرکے اس کو پکار رہی ہے۔ وہ الہام ہی ہے جو ابتدا سے دلوں میں جوش ڈالتا آیا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 164
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/164/mode/1up
بہت سی کلام انسان کی دنیا میںؔ ایسی موجود ہیں جن کی مثل آج تک دوسراکہ خدا موجود ہے۔ وہی ہے جس سے پرستاروں کو پرستش کی لذت آتی ہے۔ ایمانداروں کو خدا کے وجود اور عالم آخرت پر تسلی ملتی ہے۔ وہی ہے جس سے کروڑہا عارفوں نے بڑی استقامت اور جوش محبت الٰہیہ سے اس مسافر خانے کو چھوڑا۔ وہی ہے جس کی صداقت پر ہزارہا شہیدوں نے اپنے خون سے مہریں کردیں۔ ہاں وہی ہے جس کی قوت جاذبہ سے بادشاہوں نے فقر کا جامہ پہن لیا۔ بڑے بڑے مالداروں نے دولتمندی پر درویشی اختیار کرلی۔ اسی کی برکت سے لاکھوں اُمّی اور ناخواندہ اور بوڑھی عورتوں نے بڑے پرجوش ایمان سے کوچ کیا۔ وہی ایک کشتی ہے جس نے بارہا یہ کام کر دکھایا کہ بے شمار لوگوں کو ورطۂ مخلوق پرستی اور بدگمانی سے نکال کر ساحل توحید اور یقین کامل تک پہنچا دیا۔ وہی آخری دم کا یار اور نازک وقت کا مددگار ہے۔ لیکن فقط عقل کے پردے سے جس قدر دنیا کو ضرر پہنچا ہے۔ وہ کچھ پوشیدہ نہیں۔ بھلا تم آپ ہی بتلاؤ۔ کس نے افلاطون اور اس کے توابع کو خدا کی خالقیت سے منکر بنایا؟ کس نے جالینوس کو روحوں کے باقی رہنے اور جزا سزا کے بارے میں شک میں ڈال دیا؟ کس نے تمام حکیموں کو خدا کے عالم بالجزئیات ہونے سے انکاری رکھا؟ کس نے بڑے بڑے فلاسفروں سے بت پرستی کرائی؟ کس نے مورتوں کے آگے مرغوں اور دوسرے حیوانات کو ذبح کرایا۔ کیا یہی عقل نہیں تھی جس کے ساتھ الہام نہ تھا۔ اور یہ شبہ پیش کرنا کہ بہت سے لوگ الہام کے تابع ہوکر بھی مشرک بن گئے۔ نئے نئے خدا بنالئے۔ درست نہیں۔ کیونکہ یہ خدا کے سچے الہام کا قصور نہیں بلکہ ان لوگوں کا قصور ہے جنہوں نے سچ کے ساتھ جھوٹ ملا دیا اور خدا پرستی پر ہوا پرستی کو اختیار کرلیا۔ پھر بھی الہام الٰہی ان کے تدارک سے غافل نہیں رہا۔ ان کو فراموش نہیں کیا بلکہ جن جن باتوں میں وہ حق سے دور پڑ گئے۔ دوسرے الہام نے ان باتوں کی اصلاح کی اور اگر یہ کہو کہ عقل کا بگاڑ بھی نیم عاقلوں کا قصور ہے نہ عقل کامل کا قصور تو یہ قول
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 165
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/165/mode/1up
کلام نہیں ہوا مگر وہ خدا کی کلام تسلیم نہیں ہوسکتی۔ سو واضح ہو کہ یہ وہم قلت تفکر اورصحیح نہیں۔ ظاہر ہے کہ عقل اپنے اطلاق اور کلیت کے مرتبہ میں تو کوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔ کیونکہ اس مرتبہ میں وہ ایکؔ کلی ہے اور کلی کا وجود بجز وجود افراد متحقق نہیں ہوسکتا بلکہ کیفیت اس کی بذریعہ اس کے افراد کے معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایسے فرد کامل کو کون دکھا سکتا ہے جس نے فقط عقل کا تابعدار ہوکر اپنے خود تراشیدہ عقائد میں کبھی غلطی نہیں کی۔ الٰہیات کے بیان میں کبھی ٹھوکر نہیں کھائی۔ ایسا عاقل کہاں ہے جس کا یقین وجود صانع عالم اور جزا سزا وغیرہ امور معاد پر ہے کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہو۔ جس کی توحید میں شرک کی کوئی رگ باقی نہ رہی ہو۔ جس کے جذباتِ نفسانیہ پر رجوع الی اللہ غالب آگیا ہو۔ اور ہم ابھی اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ خود حکماء کا اقرار ہے کہ انسان مجرد عقل کے ذریعہ سے الٰہیات کے مسائل میں مرتبہ یقین کامل تک نہیں پہنچ سکتا۔ بلکہ صرف ایک مشتبہ اور مظنون رائے کا مالک ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک کسی کا علم مشتبہ اور مظنون ہے اور مرتبہ یقین سے متنزل اور فروتر۔ تب تک غلطی کرنے سے اس کو امن حاصل نہیں جیسے اندھے کو راستہ بھولنے سے۔ اور یہ خیال کرنا کہ مجرد عقل سے غلطیاں تو ہوجاتی ہیں پر وہ مکر رسہ کرر نظر سے رفع بھی ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی تمہاری عجیب عقل کی ایک غلطی ہی ہے جو اب تک رفع نہیں ہوئی۔ کیونکہ ہم اس سے پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ عقل انسانی سے امور ماوراء المحسوسات میں بوجۂ نقصان مرتبۂ بصیرت کامل کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں غلطی ہوجانا ایک امر لازمی ہے جس سے کسی عاقل کو انکار نہیں۔ لیکن (تم خوب سوچ کر دیکھ لو) کہ ہر ایک غلطی پر متنبہ ہوجانا اور اس کی اصلاح کرلینا امر لازمی نہیں ہے۔ پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ لازمی کا تدارک غیر لازمی سے ہمیشہ اور ہرحال میں ممکن نہیں۔ بلکہ غلطی لازمی کی اصلاح وہی شے کرسکتی ہے جس کو بمقابلہ اس کے صحت و راستی لازم ہو۔ جس میں3۔ ۱ کی صفت پائی جائے۔ اور یہ بات کہ کیوں توحید خالص الہام الٰہی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 166
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/166/mode/1up
تدبر سے ناشی ہوا ہے۔ ورنہ صاف ظاہر ہے کہ گو کسی بشر کا کلام کیسا ہی صافاور کیوں الہامؔ کا منکر شرک کی آلودگی سے پاک نہیں ہوتا خود توحید کی حقیقت پر نظر کرنے سے معلوم ہوسکتی ہے کیونکہ توحید اس بات کا نام ہے کہ خدا کی ذات اور صفات کو شرکت بالغیر سے منزہ سمجھیں۔ اور جو کام اس کی قوت اور طاقت سے ہونا چاہیئے وہ کام دوسرے کی طاقت سے انجام پذیر ہوجانا روانہ رکھیں۔ اسی توحید کے چھوڑنے سے آتش پرست آفتاب پرست بت پرست وغیرہ وغیرہ مشرک کہلاتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے بتوں اور دیوتاؤں سے ایسی ایسی مرادیں مانگتے ہیں جن کا عطا کرنا صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو لوگ الہام سے انکاری ہیں۔ وہ بھی بت پرستوں کی طرح خدا کی صفتوں سے مخلوق کا متصف ہوناؔ اعتقاد رکھتے ہیں اور اُس قادر مطلق کی طاقتوں کا بندوں میں پایا جانا مانتے ہیں۔ کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ ہم نے اپنی ہی عقل کے زور سے خدا کا پتہ لگایا ہے اور ہمیں انسانوں کو ابتدا میں یہ خیال آیا تھا کہ کوئی خدا مقرر کرنا چاہیئے اور ہماری ہی کوششوں سے وہ گوشہ گمنامی سے باہر نکلا۔ شناخت کیا گیا۔ معبود خلائق ہوا۔ قابل پرستش ٹھہرا۔ ورنہ پہلے اسے کون جانتا تھا۔ اس کے وجود کی کسے خبر تھی۔ ہم عقلمند لوگ پیدا ہوئے۔ تب اس کے بھی نصیب جاگے۔ کیا یہ اعتقاد بت پرستوں کے اعتقاد سے کچھ کم ہے؟ ہرگز نہیں۔ اگر کچھ فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ بت پرست لوگ اَور اَور چیزوں کو اپنا منعم اور محسن قرار دیتے ہیں۔ اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر اپنی ہی دود آمیز عقل کو اپنی ہادی اور محسن جانتے ہیں۔ بلکہ اگر غور کیجئے۔ تو بت پرستوں سے بھی ان کا پلہ کچھ بھاری معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگرچہ بت پرست اس بات کے تو قائل ہیں کہ خدا نے ہمارے دیوتاؤں کو بڑی بڑی طاقتیں دے رکھی ہیں۔ اور وہ کچھ نذر نیاز لے کر اپنے پوجاریوں کو مرادیں دے دیا کرتے ہیں لیکن اب تک انہوں نے یہ رائے ظاہر نہیں کی کہ خدا کا پتہ انہیں دیوتاؤں نے لگایا ہے اور یہ نعمت عظمیٰ وجود حضرت باری کی انہیں کے زور بازو سے معلوم ہوئی ہے یہ بات تو انہیں حضرات (منکرین الہام) کی سوجھی جنہوں نے خدا کو بھی اپنی ایجادات کی فہرست میں درج کرلیا اور بکمال خر دماغی بلند آواز سے بول اٹھے کہ خدا کی طرف سے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 167
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/167/mode/1up
اورؔ شستہ ہو مگر اس کی نسبت یہ کہنا جائز نہیں ہوسکتا کہ فی الواقعہ تالیف اُس کیانا الموجود ہونے کی کبھی آواز نہیں آئی۔ یہ ہماری ہی بہادری ہے جنہوں نے خودبخود بے جتلائے، بے بتلائے اسے معلوم کرلیا۔ وہ تو ایسا چپ تھا جیسے کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا ہوتا ہے۔ ہمیں نے فکر کرتے کرتے۔ کھودتے کھودتے اس کا کھوج لگایا۔ گویا خدا کا احسان تو ان پر کیا ہونا تھا۔ ایک طور پر انہیں کا خدا پر احسان ہے کہ اس بات کی پختہ خبر ملنے کے بغیر کہ خدا بھی ہے اور اس امر کے یقین کامل ہونے کے بدوں کہ اس کی نافرمانی سے ایسا ایسا عذاب اور اس کی فرمانبرداری سے ایسا ایسا انعام مل رہے گا۔ یونہی بے کہے کہائے اور سنے سنائے کے اس خدائے موہوم کی فرمانبرداری کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا۔ گویا آپ ہی پکایا اور آپ ہی کھایا۔ لیکن خدا ایسا کمزور اور ضعیف تھا کہ اس سے اتنا نہ ہوسکا کہ اپنے وجود کی آپ خبر دیتا۔ اور اپنے وعدوں کے بارے میں آپ تسلی بخشتا۔ بلکہ وہ چھپا ہوا تھا۔ انہوں نے ظاہر کیا۔ وہ گمنام تھا۔ انہوں نے شہرت دی۔ وہ چپ تھا۔ انہوں نے اس کا کام آپ کیا۔ گویا وہ تھوڑی ہی مدت سے اپنی خدائی میں مشہور ہوا ہے اور وہ بھی اُن کی کوششوں سے۔ ہریک عاقل جانتا ہے کہ یہ قول بت پرستوں سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ بت پرست لوگ اپنے دیوتاؤں کو صرف اپنیؔ نسبت محسن اور منعم قرار دیتے ہیں۔ لیکن منکرین الہام نے تو حدّ کردی کہ ان کے زعم میں ان کی دیوی کا (کہ عقل ہے) نہ فقط لوگوں پر بلکہ خدا پر بھی احسان ہے کہ جس کے ذریعہ سے(بقول ان کے) خدا نے شہرت پائی۔ اِس صورت میں نہایت روشن ہے کہ الہامؔ کے انکاری ہونے سے صرف ان میں یہی فساد نہیں کہ خدا کے وجود پر مشتبہ اور مظنون طور پر ایمان لاتے ہیں اور طرح طرح کی غلطیوں میں مبتلا ہیں۔ بلکہ یہ فساد بھی ہے کہ توحید کامل سے بھی محروم اور بے نصیب ہیں اور شرک سے آلودہ ہیں۔ کیونکہ شرک اور کیا ہوتا ہے۔ یہی تو شرک ہے کہ خدا کے احسانات اور انعامات کو دوسرے کی طرف سے سمجھا جاوے۔ اس جگہ شاید برہمو سماج والے یہ جواب دیں کہ ہم اپنی عقل کو خدا ہی کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اس کے فضل و احسان کے قائل ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ جواب ان کا دھوکا ہے۔ انسان کی فطرت
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 168
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/168/mode/1up
انسانی طاقتوں سے باہر ہے اور مولف نے ایک خدائی کا کام کیا ہے۔ بلکہ جس کومیں یہ بات داخل ہے کہ جس چیز پر اپنے نفس کو قادر سمجھتا ہے یا جس بات کو اپنی محنت سے پیدا کرتا ہے۔ اس کو اپنے ہی نفس کی طرف منسوب کرتا ہے۔ دنیا میں جس قدر حقوق پیدا ہوتے ہیں صرف اسی خیال سے پیدا ہوتے ہیں کہ ہریک شخص جس چیز کو اپنی سعی سے حاصل کرتا ہے اس کو اپنی ملک اور اپنا مال جانتا ہے۔ صاحب خانہ اگر یہ سمجھے کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہ خدا کا ہے۔ اس میں میرا حق نہیں ہے۔ تو پھر چور کو کیوں پکڑے۔ اپنے مقروضوں سے قرض کا کیوں مطالبہ کرے۔ بلاشبہ انسان جو کچھ اپنی قوتوں سے کرتا ہے۔ اس کو اپنی ہی طرف نسبت دیتا ہے۔ خدا نے بھی دنیا کے انتظام کے لئے یہی قانون قدرت رکھا ہے اسی پر ہریک فطرت مائل ہے۔ مزدور مزدوری کرکے اجرت پانے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ نوکر نوکری بجا لا کر اپنی تنخواہ مانگتا ہے۔ ایک کا دخل بے جا دوسرے کے حق پر اس کو مجرم ٹھہرا دیتا ہے۔ غرض یہ بات ہرگز ممکن نہیں کہ مثلاً کوئی شخص تمام رات جاگ کر ایک ایک لمحہ کو اپنی آنکھوں سے نکال کر جنگل میں بھوکا پیاسا رہ کر شدت سردی کی تکلیف اٹھا کر اپنے کھیت میں آبپاشی کرے اور صبح خدا کا ایسا ہی شکر بجالاوے جیسا اس حالت میں بجالاتا کہ وہ ساری رات گھر میں آرام سے سویا رہتا۔ علی الصباح کھیت پر جاکر اُسے معلوم ہوتا کہ رات بادل آیا اور خوب بارش ہوکر جس قدر ضرورت تھی اس کے کھیت کو بھر دیا۔ پس ظاہر ہے کہ جو شخص اس بات کا قائل نہیں کہ خدا نے انسان کو عاجز و کمزور اور ناقص اور بے علم اور مغلوب النفس دیکھ کر اور سہو و نسیان میں مبتلا پاکر اُس پر آپ رحمت کرکے الہام کے ذریعہ سے سیدھا راستہ دکھلایا ہے بلکہ یہ خیال کرتا ہے کہ ہم نے آپ ہی محنت اور جانفشانی سے سارا کام خداؔ کے پتہ لگانے اور اس کے پہچاننے کا کیا ہے۔ وہ ہرگز ہرگز خدا کی شکر گزاری میں اس شخص کے برابر نہیں ہوسکتا جو یقین دلی سے اعتقاد رکھتا ہے کہ خدا نے سراسر لطف و احسان سے میری کسی محنت اور کوشش کے بغیر مجھ کو اپنی کلام سے سیدھے راستہ کی ہدایت کی ہے۔ میں سویا ہوا تھا۔ خدا ہی نے مجھے جگایا۔ میں مرا ہوا تھا۔ خدا ہی نے مجھے جلایا۔ میں نالائق تھا۔ خدا ہی نے میری دستگیری کی۔ پس
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 169
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/169/mode/1up
ذرا بھی عقل ہے وہ خوب جانتا ہے کہ جس چیز کو قوائے بشریہ نے بنایا ہے اُسؔ کا بنانا بشری طاقت سے باہر نہیں ورنہ کوئی بشر اس کے بنانے پر قادر نہ ہوسکتا۔ جب تم نے ایک کلام کو بشر کی کلام کہا تو اس ضمن میں تم نے آپ ہی قبول کرلیا کہ بشری طاقتیں اس کلام کو بناسکتی ہیں۔ اور جس صورتؔ میں بشری طاقتیں اس کو بناسکتی ہیں تو پھر وہ بے نظیر کاہے کی ہوئی۔ پس یہ خیال تو سراسر سودائیوں اوراس تمام تقریر سے ثابت ہے کہ منکرین الہام کامل توحید سے بے نصیب ہیں اور ہرگز ممکن نہیں کہ ان کی روح میں سے سچے ایمانداروں کی طرح یہ آواز نکل سکے کہ 3333۔ الجزو نمبر ۸۱ سب تعریفیں خدا کو ہیں۔ جس نے جنت کی طرف ہم کو آپ رہبری کی اور ہم کیا چیز تھے کہ خودبخود منزل مقصود تک پہنچ جاتے اگر خدا رہبری نہ کرتا۔ اِن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی قدر شناسی خوب کی کہ جو صفتیں اس کی طرف منسوب کرنی واجب تھیں وہ اپنی عقل کی طرف منسوب کردیں اور جو جلال اس کا ظاہر کرنا چاہیئے تھا وہ اپنے نفس کا ظاہر کیا۔ اور جو جو طاقتیں اس کے لئے خاص تھیں اُن سب کے مالک آپ بن گئے۔ ان کے حق میں خداوند کریم نے سچ فرمایا ہے۔33الجزو نمبر ۷۲ یعنے الہام کے منکروں نے اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کا کچھ قدر شناخت نہیں کیا۔ اور اس کی رحمت کو جو بندوں کی ہریک حاجت کے وقت جوش مارتی ہے نہیں پہچانا۔ تب ہی انہوں نے کہا کہ خدا نے کوئی کتاب کسی بشر پر نازل نہیں کی۔
ترا عقل تو ہر دم پائے بند کبر میدارد
برو عقلے طلب کن کت زخود بینی بروں آردہماں بہتر کہ ماآنِ علم حق از حق بیا موزیم
کہ ایں علمے کہ ماداریم صد سہو و خطا واردکہ گوید بہتر از قولش گراو خاموش بنشیند
کہ گیرددَستت اے ناداں گراو دست توبگذاردبرو قدرش بہ بیں و از حجت بے اصل دم درکش
کہ ایں حجت کہ می آری بلاہا برسرت آرد
میں جداً و قطعاً کہتا ہوں کہ الہامؔ کے بغیر مجرد عقل کی پیروی میں صرف ایک نقصان نہیں
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 170
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/170/mode/1up
مخبط الحواسوں کا سا ہے کہ پہلے ایک چیز کو اپنے منہ سے قویٰ بشریہ کی بنائی ہوئی مان لیںؔبلکہ یہ وہ آفت ہے کہ کئی آفات اُس سے پیدا ہوتی ہیں جن کی تفصیل (انشاء اللہ)اپنے موقعہ پر درج ہوگی۔ خداوند کریم نے جیسا ہریک چیز کا باہم جوڑ باندھ دیا ہے۔ ایسا ہی الہام اور عقل کا باہم جوڑ مقرر کیا ہے۔ اس حکیم مطلق کا عام طور پر بھی قانون قدرت پایا جاتا ہے۔ کہ جب تک ایک چیز اپنے جوڑ سے الگ ہے تب تک اس کے جوہر چھپے رہتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات نفع کی جگہ ضرر ہوتا ہے۔ ایسا ہی عقل کا حال ہے کہ علم دین میں اس کے نیک آثار تب مترتب ہوتے ہیں جب وہ جوڑ یعنے الہام اس کے ساتھ شامل ہوجائے۔ ورنہ اپنےؔ جوڑ کے بغیر ڈاین ہوکر ملتی ہے۔ سارا گھر نگلنے کو طیار ہوجاتی ہے۔ سارا شہر سنسان ویران کرنا چاہتی ہے۔ پر جب جوڑ میسر آگیا تب تو چشم بددور کیا ہی پاک صورت اور پاک سیرت ہے۔ جس گھر میں رہے مالا مال کردے۔ جس کے پاس جائے اس کی سب نحوستیں اتار دے۔ تم آپ ہی سوچو کہ جوڑ کے بغیر کوئی چیز اکیلی کس کام کی؟ پھر تم کیوں یہ ادھوری عقل اس قدر ناز سے لئے پھرتے ہو۔ کیا یہ وہی نہیں جو کئی بار دروغگوئی میں رسوائیاں اٹھا چکی؟ کیا یہ وہی نہیں جس کے سر پر بار بار گرنے سے بڑے بڑے داغ موجود ہیں؟ مجھے بتائیے تو سہی کہ آپ کا جی کس پر بھرما گیا۔ یہ کہاں کی پری آگئی جس کو دل دے بیٹھے؟ کیا تمہیں خبر نہیں کہ اس نے تم سے پہلے کتنوں کا لہو پیا۔ کتنوں کو گمراہی کے کنوئیں میں دھکیل کر مارا۔ تم جیسے کئی یاروں کو کھا چکی۔ صدہا لاشیں ٹھکانے لگا چکی۔ بھلا تم نے اس اکیلی عقل کے ذریعے سے کون سی ایسی دینی صداقتیں پیدا کی ہیں جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہیں۔ زیادہ نہیں دوچار ہی دکھاؤ۔ اگر تم مجرد عقل سے ایسے حقائق عالیہ نکالتے جن کا قرآن شریف میں کچھ ذکر نہ ہوتا تب بھی ایک بات تھی۔ اور اس صورت میں تم بڑے ناز سے اپنی سماج میں بیٹھ کر کہہ سکتے تھے کہ ہاں ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے وہ صداقتیں نکالیں جو الہامیؔ کتابوں میں موجود نہیں۔ لیکن افسوس کہ تمہارے رسائل میں بجز ان چند امور کے جو بطور سرقہ قرآن شریف سے لئے گئے ہیں اور جو کچھ نظر آتا ہے سراسر متاعِ ردّی ہے جس سے برخلاف عقلمندی کے آپ لوگوں کی بے علمی اور بے سمجھی اور غلطی ثابت ہوتی ہے جس کی حقیقت انشاء اللہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 171
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/171/mode/1up
اور پھر آپ ہی بڑبڑائیں کہ اب قویٰ بشریہ اس چیز کی مثل بنانے سے قاصر اور عاجز ہیں اور اس مجنونانہ قول کا خلاصہ یہ ہوگا کہ قویٰ بشریہ ایک چیز کے بنانے پر قادر ہیںاسی کتاب میں بخوبی کھول کر لکھی جاوے گی۔ پھر اس منہ اور اس لیاقت کے ساتھ ربانی الہام سے انکار کرنا اور آپ ہی خدا کا قائم مقام بن بیٹھنا اور حضرات مقدسین انبیاء کو اہل غرض سمجھنا یہ آپ لوگوں کی نیک طینتی ہے۔ اور اس سے دھوکا مت کھانا کہ عقل ایک عمدہ چیز ہے۔ ہم ہریک تحقیق عقل ہی کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ بلاشبہ عمدہ چیز ہے۔ لیکن اس کا جوہر تب ہی ظاہر ہوتا ہے جب وہ اپنے جوڑ کے ساتھ شامل ہو۔ ورنہ وہ دھوکا دینے میں دشمنوں سے بدتر ہے۔ دو رنگی دکھلانے میں منافقوں سے بڑھ کر ہے۔ سو تمہاری بدنصیبی تم اس کے جوڑ کے نام سے بھی چڑتے ہو۔ دوستو! خوب سوچو بن جوڑ کسی بات کی بھی گت نہیں۔ خدا نے جوڑ بھی ایک عجب چیز بنادی ہے۔ جہاں دیکھو جوڑ ہی سے کام نکلتا ہے۔ ہم تم سب آنکھوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ پر آفتاب کی بھی ضرورت ہے۔ کانوں ہی سے سنتے ہیں پر ہوا کی بھی حاجت ہے۔ آفتاب چھپا تو بس اندھے بیٹھے رہو۔ کانوں کو ہوا سے ڈھانک لو تو بس سننے سے چھٹی ہوئی۔ جس عورت کے خاوندؔ سے کوئی بات ہونے نہ پائے بھلا اُس کا کس بدھ حمل ٹھہرے۔ جس زراعت کو پانی چھو بھی نہیں گیا اس کو کیونکر پھل لگے۔ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں کہ تمہاری سمجھ سے دور ہوں۔ یہ وہی قانون قدرت ہے جس پر عمل کرنے کا تم کو دعویٰ ہے۔ سو اب اس دعویٰ پر عمل بھی کرو۔ تانرے دکھانے کے ہی دانت نہ رہیں۔
حاجت نورے بود ہر چشم را
ایں چنیں افتاد قانون خداچشم بینا بے خور تاباں کہ دید
کے چنیں چشمے خداوند آفریدچوں تو خود قانونِ قدرت بشکنی
پس چرا بر دیگراں سر میزنیآنکہ در ہر کار شد حاجت روا
چوں رواداری کہ نبود رہنماآنکہ اسپ و گاؤ خر را آفرید
تا رہد پشت تو از بارِ شدید
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 172
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/172/mode/1up
اور نہیں۔ اور علاوہ اسؔ کے آج تک کسی انسان نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ میرےچوں ترا حیراں گذارد در معاد
اے عجب تو عاقل و ایں اعتقادچوں دو چشمت دادہ اند اے بے خبر
پس چرا پوشی یکے وقت نظرآنکہ زو ہر قدرتے گشتہ عیاں
قدرت گفتار چوں ماندے نہاںآنکہ شد ہر وصف پاکش جلوہ گر
پس چرا ایں وصف ماندے مستترہر کہ او غافل بود از یاد دوست
چارہ ساز غفلتش پیغام اوستتو عجب داری ز پیغام خدائے
ایں چہ عقل و فکر تست اے خود نمائےلطف او چوں خاکیاں را عشق داد
عاشقاں را چوں بیفگندے زیادعشق چوں بخشید از لطف اَتم
چوں نہ بخشیدی دوائے آں المخود چو کرد از عشق خود دلہا کباب
چوں نہ کردے از سر رحمت خطابدل نیار آمد بجز گفتار یار
گرچہ پیش دیدہا باشد نگارپس چو خود دلبر بود اندر حجاب
کے تواں کردن صبوری از خطابلیک آں داند کہ او دلدادہ است
در طریق عاشقی افتادہ استحسن را با عاشقاں باشد سرے
بے نظر ور کے بود خوش منظرےعاشق آں باشد کہ او گم از خوداست
در طریق عشق خود بینی بدستلیکن استیصال ایں کبر و خودی
نیست ممکن جز بوحی ایزدیہر کہ ذوق یارجانی یافت ست
آں ز وحی آسمانی یافت ستعشق از الہام آمد در جہاں
درد از الہام شد آتش فشاںشوق و انس و الفت و مہر و وفا
جملہ از الہام مے دارد ضیاہر کہ حق را یافت از الہام یافت
ہر رخے کو تافت از الہام تافتتو نۂٖ اہل محبت زیں سبب
از کلام یار مے داری عجبعشق می خواہد کلامِ یار را
رو بپرس از عاشق ایں اسرار راایں مگو کز درگہش دُوریم ما
ربط اُو با مشت خاکِ ما کجاداند آں مردے کہ روشن جاں بود
کیں طلب در فطرتِ انساں بود
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 173
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/173/mode/1up
کلمات اور مصنوعات خدا کے کلمات اور مصنوعات کی طرح بے مثل و مانند ہیں اور اگر کوئیدل نمی گیرد تسلی جز خدا
ایں چنیں افتاد فطرت ز ابتدادل ندارد صبر از قول نگار
کاشتند ایں تخم از آغاز کارآنکہ انساں را چنیں فطرت بداد
چوں کمال فطرتش دادے ببادکار حق کے از بشر گردد ادا
کے شود از کرمکے کار خداماہمہ جہلیم و او دانائے راز
ماہمہ کوریم و او را دیدہ بازباخدا ہم دعوئے فرزانگی
سخت جہلست و رگ دیوانگیتافتن رو از خورِ تاباں کہ من
خود برارم روشنی از خویشتنعالمے را کور کردست ایں خیال
سرنگوں افگند در چاہ ضلالنازؔ برفطنت مکن گر فطنتے ست
در رہ تو ایں خرد مندی بتے ستعقل کاں با کبر میدارند خلق
ہست حمق و عقل پندارند خلقکبر شہر عقل را ویراں کند
عاقلاں را گم رہ و ناداں کندآنچہ افزاید غرور و معجبی
چوں رساند تا خدایت اے غویخود روی در شرک اندازد ترا
توبہ کن از خود روی اے خودنماہست مشرک از سعادت دور تر
و از فیوض سرمدی مہجور تراز خدا باشد خدا را یافتن
نے بہ مکر و حیلہ و تدبیر و فنتانیائی پیش حق چوں طفل خورد
ہست جام تو سراسرُ پر زِ دُردشرط فیض حق بود عجز و نیاز
کس ندیدہ آب بر جائے فرازحق نیازی جوید آنجا ناز نیست
از پر خود تا درش پرواز نیستعاجزاں را پرورد ذات اجل
سرکشاں محروم و مردود ازلچوں نیائی زیر تاب آفتاب
کے فتدبر تو شعاعے در حجابآب شور اندر کفت ہست اے عزیز
نازہا کم کن اگر داری تمیز
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 174
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/174/mode/1up
نادان مغرور ایسا دعویٰ کرتا تو ہزاروں اُس سے بہترؔ تالیفیں کرنے والے اور اس کے منہآب جاں بخشی زجاناں آیدت
رو طلب میکن اگر جاں بایدتہست آں آب بقا بس ناپدید
کس بجز مصباح حق راہش ندیدآں خیالاتے کہ بینی از خرد
پرَ تو آں ہم زوحی حق رسدلیک چشم دیدنت چوں بازنیست
زیں دلِ تو محرم ایں راز نیستسرکشی از حق کہ من دانا دلم
حاجت وحیش ندارم عاقلملغزش تو حاجتے پیدا کند
در دمے عقل ترا رسوا کندعقل تو گور مجصّص از بروں
واندرونش چیست؟ یک لاشے زبوںمنتہائے عقل تعلیم خداست
ہر صداقت را ظہور از انبیاستہر کہ علمے یافت از تعلیم یافت
تافت آں روئے کزو روئے نتافتبا زبانِ حال گوید روزگار
اے قصیرالعمر گیر آموزگارطبع زاد ناقصاں ہم ناقص ست
گر ترا گوشے بود حرفے بس ستحق منزہ از خطا تو پُر خطا
داوریہا کم کن و برحق بپاعقل تو مغلوب صد حرص و ہواست
تکیہ بر مغلوب کار اشقیاستازکس و ناکس بیاموزی فنون
عار داری زاں حکیم بے چگوناز تکبر راہ حق بگذاشتی
ایں چہ کردی ایں چہ تخمے کاشتیاے ستمگر ایں ہماں مولائے ماست
کز عطیاتش ہمہ ارض و سما ستابر و باران و مہ و مہر آفرید
کرد تابستان و سرما را پدیدتا بفضل او غذائے خود خوریم
زندہ مانیم و تن خود پروریمآنکہ بَر تن کرد ایں لطف اتم
کے کند محروم جاں را از کرموحی فرقان ست جذب ایزدی
تا برندت از خودی در بے خودیہست قرآں دافع شرک نہاں
تا مراد راہم ازو یابی نشاںتا رہی از کبر و خود بینی و ناز
تاشوی ممنون فضل کارسازدور شو از کبر تا رحم آیدش
بندگی کن بندگی مے بایدش
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 175
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/175/mode/1up
میں ذلّت کی خاک بھرنے والے پیدا ہوجاتے۔ یہ خدا ہی کی شان ہے کہ سارے جہان کوزندگی در مردن عجز و بکاست
ہر کہ افتادست او آخر بخاستہست جام نیستی آب حیات
ہر کہ نوشید ست اُو ر ست از مماتعاقل آں باشد کہ جوید یار را
و از تذلل ہا برآرد کار راابلہی بہتر ازاں عقل و خرد
کت بچاہ کبر و نخوت افگندطالب حق باش و بیروں از خود آ
خود روی ہا ترک کن بہر خدامن ندانم ایں چہ ایمان ست و دیں
دم زدن در جنب رب العالمینتوؔ کجا و آنِ قادر مطلق کجا
توبہ کن ایں ابلہی ہا کم نمایک دمے گر رشح فیضش کم شود
ایں ہمہ خلق و جہاں برہم شودپست ہستی لاف استعلا مزن
و از گلیم خویش بیروں پا مزنعابد آں باشد کہ پیشش فانی است
عارف آںُ کو گویدش لاثانی استخویشتن را نیک اندیشیدۂ
اے ہداک اللّٰہ چہ بد فہمیدۂایں چنیں بالا ز بالا چوں پری
یا مگر زاں ذات بیچوں منکریکاخ دنیا را چہ دیدستی بنا
کت خوش افتادست ایں فانی سرادل چرا عاقل بہ بندد اندرایں
ناگہاں باید شدن بیروں ازیںازپئے دنیا بریدن از خدا
بس ہمیں باشد نشان اشقیاچوں شود بخشائش حق برکسے
دل نمے ماند بہ دنیائش بسےہوش کن کیں جائگہ جائے فناست
باخدا میباش چوں آخر خداستزہر قاتل گر بدست خود خوری
من چہ ساں دانم کہ تو دانشوریآں گروہے بیں کہ از خود فانی اند
جاں فشاں برگفتۂ ربانی اندفارغ افتادہ ز نام و عز و جاہ
دل ز کف و از فرق افتادہ کلاہدور تر از خود بہ یار آمیختہ
آبرو از بہر روئے ریختہدیدن شاں میدہد یاد از خدا
صدق ورزاں در جناب کبریا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 176
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/176/mode/1up
اپنی کلام کی مثل پیش کرنے سے عاجز اور قاصر ٹھہراوے اور سخت سخت لفظوں بےؔ ایمانتوز استکبار سر بر آسماں
پازدہ بیروں زراہ بندگاںتانگردد عجز در نفست عیاں
نور حقانی چساں تابد برآںتانمیرد دانۂ اندر زمیں
کے زیک صد میشود تو خود بہ بیںنیست شو تا بر تو فیضانے رسد
جاں بیفشاں تادگر جانے رسدتاتو زار و عاجز و مضطرنۂ
لائق فیضان آں رہبرنۂچیست ایماں وحدہٗ پنداشتن
کار حق را باخدا بگذاشتنچوں ز آموزش خرد را یافتی
پس ز تعلیمش چرا سر تافتیاندرون خویش را روشن مداں
آنچہ می تابد بتابد ز آسماںکور ہست آں دیدہ کش ایں نورنیست
گورہست آں سینہ کزشک دور نیستصالحین و صادقین و اتقیا
جملہ رہ دیدند از وحئ خداآں کجا عقلے کہ از خود داندش
فہمد آں شخصے کہ او فہماندشعقل بے و حیش بتے داری براہ
بت پرستی ہاکنی شام و پگاہپیش چشمت گرشدے ایں بت عیاں
از سر شکِ تو شدے جوئے رواںلیک از بدقسمتی چشمت نماند
بت پرستی آخرت چوں بت نشاندعقل در اسرارِ حق بس نارساست
آنچہ گہ گہ می رسد ہم از خداستگر خرد پاکیزہ رائے آورد
آں نہ از خود ہم زجائے آوردتو بہ عقل خویش در کبر شدید
ما فدائے آنکہ او عقل آفریددر قیاسات تہی جانت اسیر
جان ما قربان علم آں بصیرنیک دل بانیکواں دارد سرے
برگہر تف میزند بد گوہرےہست بر اسرار اسرار دگر
تا کجا تازَد خرِ فکر و نظرایں چراغِ مردہ از زور ہوا
چوں رہ باریک بنماید تراوحی یزدانی ز رہ آگہ کند
تا بمنزل نور را ہمرہ کند
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 177
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/177/mode/1up
اور ملعون اور جہنمی کہنے سے بلکہ نہ بنانے والوں کے لئے بحالت انکار سزاء موت مقررمافتادہ بے ہنر در جسم و جاں
حمق باشد دم زنی با آں یگاںچیست دیں خود را فنا انگاشتن
و از سر ہستی قدم برداشتنچوں بیفتی با دوصد درد و نفیر
کس ہمی خیزد کہ گردد دست گیرباخبر را دل تپد بر بے خبر
رحم بر کورے کند اہل بصرہمچنیںؔ قانونِ قدرت اوفتاد
مر ضعیفاں را قوی آرد بیادچوں ازیں قانوں شود رحماں بروں
رحم یزداں ازہمہ باید فزوںآنکہ او ہر بار ما برداشت است
ہیچ رحمت را فرو نگذاشت استچوں زما غافل شود در امر دیں
شرمت آید از چنیں انکار وکیںدل منہ در خاکدان بے وفا
یاد کن آخر وفاہائے خدابارہاشد برتو ثابت کایں عقول
مبتلا ہستند در سہو و ذہولبارہا دیدی بعقل خود فساد
بارہا زیں عقل ماندی بے مرادبا ز نخوت میکنی برعقل خویش
و از دلیری میروی نادیدہ پیشنفس خود را پاک کن از ہر فضول
ترک خود کن تاکند رحمت نزوللیک ترک نفس کے آساں بود
مردن و از خود شدن یکساں بودایں چنیں دل کم بود در سینۂ
کاں بود پاک از غرور و کینۂدرحقیقت مردم معنی کم اند
گو ہمہ از روئے صورت مردم اندہوش کن اے در چہے افتادۂ
عقل و دیں از دست خود در دادہغیر محدودی بہ محدودی مجو
کارِ نورِ محض از دودی مجوآنچہ باید جست باعجز و نیاز
تو مجو با کبر و خود بینی و نازوَہ چہ خوب ست ایں اصولِ رہروی
یادگار مولوی در مثنویزیرکی ضد شکست ست و نیاز
زیرکی بگذارد باکوئی۱ بساززانکہ طفل خورد را مادر نہار
دست و پا باشد نہادہ درکنارکیوسوسۂ دوم
:۔ اگر یہ بھی قبول کرلیں کہ معرفت کی تکمیل کے لئے ایک ایسے الہامؔ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 178
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/178/mode/1up
کرنے سے خود بار بار اس بات کی طرف جوش دلاوے کہ وہ نظیر بنانے میں کوئی دقیقہ سعی اور کوششؔ اور اتفاق باہمی کا اٹھا نہ رکھیں اور اپنی جان بچانے کے لئے جان لڑا کرضرورت ہے جو کامل اور بے نظیر ہو تب بھی لازم نہیں آتا کہ خداوند تعالیٰ نے ضرور وہ الہام نازل کیا ہے کیونکہ بہت سی چیزوں کی دنیا میں بھی انسان کو ضرورت ہے مگر خدا نے وہ ساری ضرورتیں اس کی پوری نہیں کیں۔ مثلاً انسان چاہتا ہے کہ اس کو موت نہ آوے۔ کبھی مفلس نہ ہو۔ کبھی بیمار نہ ہو۔ لیکن اپنی مراد کے برخلاف آخر ایک دن مرتا ہے اور افلاس اور بیماری بھی آتی ہی رہتی ہے۔
جواب۔ جس حالت میں وہ کامل اور بے نظیر الہام جس کی ہمیں ضرورت تھی موجود ہے۔ یعنی قرآن شریف جس کی کمالیت اور بے نظیری کے مقابلہ پر آج تک کسی نے دم بھی نہیں مارا۔ تو پھر موجود کو غیر موجود سمجھنا اور اس کی ضرورت کو ایک فرضی ضرورت قرار دینا ان لوگوں کا کام ہے جن کی قوت بینائی جاتی رہی ہے۔ ہاں اگر کچھ بس چل سکتا ہے تو قرآن شریف کی دلائل بے نظیری اور کمالیت کو جن کو ہم نے بھی اس کتاب میں لکھا ہے توڑ کر دکھلائیے ورنہ لاجواب رہ کر پھر بھی بولتے رہنا صفت حیا کے مفقود ہونے کی نشانی ہے۔ جس حالت میں ایسا کامل اور بے نظیر الہام آچکا جس نے بے نظیری کا دعویٰ کرنے سے آپ ہی فیصلہ کردیا ہے کہ کوئی اس کی بے نظیری کو توڑے اور پھر بلاشبہ الہام کا منکر بنارہے تو پھر قبل اس کے جو اس کا کوئی معقول جواب دیں الہام کی ضرورت کو فرضی ضرورت ہی کہتے رہنا کیا یہ ایمانداری ہے یا ہٹ دھرمی ہے۔ اور عالم ثانی کو دنیا پر قیاس کرنا بڑی بھاری غلطیؔ ہے۔ دنیا کو خدا نے ہمیشہ کے آرام کے لئے نہیں بنایا اور نہ ہمیشہ کے دُکھ کے لئے بنایا ہے بلکہ اس کی رنج و راحت دونوں گذرنے والی چیزیں ہیں اور ہریک دَور اس کا ختم ہونے والا ہے۔ لیکن دار آخرت وہ عا َ لم ہے کہ جو راحت دائمی یا عقوبت دائمی کا مقام ہے جس کے لئے ہریک دور اندیش آدمی آپ تکلیف اٹھاتا ہے اور خاتمہ بد سے ڈر کر بمشقت تمام طاعت الٰہی بجا لاتا ہے۔ عیش و عشرت کو چھوڑتا ہے۔ شدت وصعوبت کو اختیار کرتا ہے۔ اب آپ ہی فرمائیے کہ اس عالم جاودانی کے مقابلہ پر اس مقام فانی کی نظیر پیش کرنا نظر کا گھاٹا ہے یا نہیں
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 179
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/179/mode/1up
مقابلہ کریں ورنہ اگر یونہی بلاپیش کرنے نظیر کے انکار کرتے رہیں تو اپنے گھر کو غارت اور اپنی عورتوں کو کنیز کیں اورؔ اپنے آپ کو مقتول سمجھیں۔ کیا ایسا دعوےٰوسوسہ سوم۔ اگر مجرد عقل کے ذریعہ سے معرفت تام و یقین تام میسر نہ ہو تب بھی کسی قدر معرفت تو حاصل ہوتی ہے وہی نجات کے لئے کافی ہے۔
جواب۔ یہ وسوسہ بالکل متعصبانہ خیال ہے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ کسی دغدغہ کے بغیر خاتمہ نیک ہوجانا یقین کامل پر موقوف ہے اور یقین کامل خدا کی بے نظیر کتاب کے بدون حاصل نہیں ہوسکتا۔ ایسا ہی غلطیوں سے بچے رہنا بجز معرفت کامل ممکن نہیں اور معرفت کامل بھی الہام کامل کے بغیر غیر ممکن۔ پھر مجرد عقل ناقص کیونکر نجات کے لئے کافی ہوسکتی ہے۔ بالخصوص وہ طریقۂ خداشناسی جس کو برہمو سماج والوں کی عقل عجیب نے بہ تبعیت بعض یورپ کے فلاسفروں کے پسند کیا ہے۔ ایسا خراب اور تردّد انگیز ہے کہ اس سے کوئی معرفت کا مرتبہ حاصل ہونا تو کیا امید کی جائے، خود وہ انسان کو طرح طرح کے شکوک اور شبہات میں ڈالتا ہے۔ کیونکہ اُنہوں نے خداوند تعالیٰ کو ایک ایسا پتلا بے جان فرض کرلیا ہے۔ جس سے ساری عزت اور بزرگی اس کی دور ہوتی ہے۔ ان کا مقولہ ہے کہ خدا کے وجود کا پتہ لگ جانا خدا کی طرف سے نہیں ہے بلکہ یہ ایک اتفاقی امر ہے کہ عقلمندوں کی کوششوں سے ظہور میں آیا اور یوں بیان کرتے ہیں کہ اول اول جب بنی آدم پیدا ہوئے محض بے عقل اور وحشیوں کی طرح تھے خدا نے اپنے وجود سے کسی کو خبر نہیں دی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ لوگوں کو آپ ہی خیال آیا کہ کوئی معبود مقرر کریں۔ اول پہاڑؔ اور درختؔ دریاؔ وغیرہ کو کہ آس پاس اور اردگرد کی چیزیں تھیں، اپنا خدا ٹھہرایا۔ پھر کچھ ذرا اوپر چڑھے اور ہواؔ ۔ طوفانؔ وغیرہ کو قادر مطلق خیال کیا۔ پھر اَور بھی آگے قدم بڑھا کر سورجؔ ۔ چاندؔ ۔ ستاروںؔ کو اپنا رب سمجھ بیٹھے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ غور کامل کرنے سے حقیقی خدا کی طرف رجوع لے آئے۔ اب دیکھئے کہ اس تقریر سے خداتعالیٰ کی ہستی حقیقی پر کس قدر شک پڑتا ہے اور اُس کے حیؔ و قیوم اور مدبر بالارادہ ہونے کی نسبت کیا کیا بدگمانیاں عائد ہوتی ہیں کہ نعوذ باللہ یہ ماننا پڑتا ہے کہ خدا نے (جیسا کہ ایک ذات موجود عالم الغیب اور قادر مطلق کا خاصہ ہونا چاہیئے) اپنے وجود کی آپ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 180
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/180/mode/1up
اور پھر اس زور و شور کا کبھی کسی انسان نے بھی کیا؟ ہرگز نہیں۔ پس جس حالت میں کسی بشر نے اپنی کلام کے بے مثل ہونے میں دم بھی نہ مارا۔ اور نہ اپنیؔ قویٰ کو قویٰ بشریہ سے کچھ زیادہ خیال کیا بلکہ صدہا نامی گرامی شاعروں نے لڑ کر مرنا اختیار کیا مگر قرآن شریف جیسا کوئی کلام بقدر ایک سورت بھی نہ بناسکے تو پھر خواہ نخواہ ان بیچاروں کی کلام خام کو بے نظیر ٹھہرانا اور صفت کاملہ خاصہ الٰہیہ میں انہیں شریک کرنا پرلے درجے کی نادانی و کوری ہے۔ کیونکہ جو شخص اِس قدر دلائل واضحہ سے خدا اور انساناطلاع نہیں دی۔ بلکہ یہ سارا منصوبہ انسان ہی کا ہے۔ اسی کے دل میں خودبخود بیٹھے بیٹھے یہ بات گدگدائی کہ کوئی خدا مقرر کریں۔ چنانچہ اس نے کبھی پانی کو خدا بنایا کبھی درختوں کو کبھی پتھروں کو۔ آخر آپ ہی دل میں یہ خیال جمالیا کہ یہ چیزیں خدا نہیں ہیں خدا کوئی اور ہوگا جو ہمیں نظر نہیں آتا۔ کیا یہ اعتقاد انسان کو اس وہم میں نہیں ڈالے گا کہ اگر واقعی طور پر اس خدائے مفروض کا کچھ وجود بھی ہوتا تو وہ کبھی تو ان لوگوں کی طرح جو زندہ اور موجود ہوتے ہیں اپنے وجود سے اطلاع دیتا۔ بالخصوص جب اس خیال کا پابند دیکھے گا کہ خداتعالیٰ کو ادھورا اور ناقص یا گونگا تجویز کرنا ٹھیک نہیں بیٹھتا بلکہ جیسے اُس کے لئے دیکھنا۔ سننا۔ جاننا وغیرہ صفات کاملہ ضروری ہیں ایسا ہی اس میں قدرت تکلم بھی پائی جانا ضروری معلوم ہوتی ہے تو پھر اس حیرت میں پڑے گا کہ اگر کلام کرنے کی قدرت بھی اس میں پائی جاتی ہے تو اس کا ثبوت کہاں ہے۔ اور اگر نہیں پائی جاتی تو پھر وہ کامل کیونکر ہوا۔ اور اگر کامل نہیں تو پھر خدا بننے کے لائق کیونکر ٹھہرا۔ اور اگر اس کا گونگا ہونا جائز ہے تو پھر کیا وجہ کہ بہرہ ہونا یا اندھا ہونا جائز نہیں۔ پس وہ ان شبہات سے صرف الہام پر ایمان لاکر نجات پائے گا ورنہ جیسے ہزارہا فلاسفر دہریہ پن کے گڑھے میں گر کر مرگئے ایسا ہی وہ بھی گر کر مرے گا۔ اب ہرایک منصف آپ ہی انصاف کرے کہ کیا یہ اعتقاد خدا سے انکار کرانے کی پٹری جمانے والا ہے یا نہیں۔ کیا جس شخص کی نظر میں خدا ایسا کمزور ہے کہ اگر منطقی لوگ پیدا نہ ہوتے تو وہ ہاتھ ہی سے گیا تھا اُس کے ایمان کا بھی کچھ ٹھکانہ ہے؟ نادان لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تو اپنی تمام صفتوں کے ساتھ بندوں کا پرورندہ ہے نہ بعض
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 181
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/181/mode/1up
کے کاموں میں صریح فرق دیکھے اورؔ پھر نہ دیکھے۔ وہ اندھا اور نادان ہی ہوا اَور کیا ہوا۔ پس اس تمام تحقیقات سے ظاہر ہے کہ بے نظیر ہونے کی حقیقت اور کیفیت ربانی کام اور کلام سے مختص ہے اور ہریک دانشمند جانتا ہے کہ خدا کی خدائی ماننے کے لئے بڑا بھارا ذریعہ جو کہ عقل کے ہاتھ میں ہے وہ یہی ہے کہ ہریک صادر من اللہ ایسیصفتوں کے ساتھ پھر کیونکر ممکن ہے کہ بعض صفات کاملہ اس کے بندوں کے کسی کام نہ آویں۔ کیا اس سے زیادہ تر کوئی اور کفر ہوگا کہ یہ کہا جاوے کہ وہ پورا رب العالمین نہیں ہے بلکہ آدھا یا تیسرا حصہ ہے۔
وسوسۂؔ چہارم۔ اگر تکمیل معرفت الہامی کتاب پر ہی موقوف ہے تو اس صورت میں بہتر یہ تھا کہ تمام بنی آدم کو الہام ہوتا تا سب لوگ براہ راست مرتبہ کمال معرفت تک پہنچ جاتے اور ربانی فیض کو بلاواسطہ حاصل کرلیتے۔ کسی دوسرے کی حاجت نہ ہوتی۔ کیونکہ اگر الہام فی نفسہ ایک جائز الوقوع امر ہے تو پھر ہریک انسان کا ملہم ہونا جائز ہے اور اگر نہیں تو پھر کسی فرد کا بھی ملہم ہونا جائز نہیں۔
جواب۔ صاحب الہام ہونے میں استعداد اور قابلیت شرط ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس خدائے تعالیٰ کا پیغمبر بن جائے اور ہریک پر حقانی وحی نازل ہوجایا کرے۔ اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں آپ ہی اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے۔ 3
333
الجزو نمبر ۸۱ یعنے جس وقت قرآن کی حقیت ظاہر کرنے کے لئے کوئی نشانی کفار کو دکھلائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ جب تک خود ہم پر ہی کتاب الٰہی نازل نہ ہو تب تک ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ کس جگہ اور کس محل پر رسالت کو رکھنا چاہیئے۔ یعنے قابل اور ناقابل اسے معلوم ہے اور اسی پر فیضان الہام کرتا ہے کہ جو جوہر قابل ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حکیم مطلق نے افراد بشریہ کو بوجۂ مصالحۂ مختلفہ مختلف طوروں پر پیدا کیا ہے اور تمام بنی آدم کا سلسلۂ فطرت ایک ایسے خط سے مشابہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 182
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/182/mode/1up
بے نظیری کے رتبہ پر ہے کہ اس صانع وحید کے وجود پر دلالت کامل کررہا ہے۔ اور اگر یہ ذریعہ نہ ہوتاؔ تو پھر عقل کو خدا تک پہنچنے کا راستہ مسدود تھا۔ اور جبکہ خدا کو شناخت کرنارکھا ہے جس کی ایک طرف نہایت ارتفاع پر واقعہ ہو۔ اور دوسری طرف نہایت انحضاض۱ پر۔ طرف ارتفاع میں وہ نفوسِ صافیہ ہیں جن کی استعدادیں حسبِ مراتب متفاوتہ کامل درجہ پر ہیں اور طرف انحضاض۲ میں وہ نفوس ہیں جن کو اس سلسلہ میں ایسی پست جگہ ملی ہے کہ حیوانات لایعقل کے قریب قریب پہنچ گئے ہیں اور درمیان میں وہ نفوس ہیں جو عقل وغیرہ میں درمیان کے درجہ میں ہیں۔ اور اس کے اثبات کے لئے مشاہدہ افراد مختلفۃ الاستعداد کافی دلیل ہے۔ کیونکہ کوئی عاقل اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ افراد بشریہ عقل کے رو سے تقویٰ اور خداترسی کے لحاظ سے محبت الٰہیہ کی وجہ سے مختلف مدارج پر پڑی ہوئی ہیں۔ اور جس طرح قدرتی واقعات سے کوئی خوبصورت پیداؔ ہوتا ہے کوئی بدصورت کوئی سوجاکھا کوئی اندھا کوئی ضعیف البصر کوئی قوی البصر کوئی تام الخلقت کوئی ناقص الخلقت۔ اسی طرح قویٰ دماغیہ اور انوار قلبیہ کا تفاوت مراتب بھی مشہود اور محسوس ہے۔ ہاں یہ سچ بات ہے کہ ہریک فرد بشر بشرطیکہ نرا مخبط الحواس اور مسلوب العقل نہ ہو عقل میں تقویٰ میں محبت الٰہیہ میں ترقی کرسکتا ہے۔ مگر اس بات کو بخوبی یاد رکھنا چاہیئے کہ کوئی نفس اپنے دائرہ قابلیت سے زیادہ ہرگز ترقی نہیں کرسکتا۔ ایک شخص جو اپنے قویٰ دماغیہ میں من حیث الفطرت نہایت کمزور ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ ایک ایسا ادھورا آدمی ہے جس کو ہمارے ملک کے عوام الناس دَولے شاہ کا چوہا کہا کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگرچہ اس کی تعلیم و تربیت میں کیسی ہی کوشش و محنت کی جائے اور خواہ کیسا ہی کوئی بڑا فلاسفر اس کا اتالیق بنایا جاوے لیکن تب بھی وہ اس فطرتی حد سے جو خدا نے اس کے لئے مقرر کردی ہے زیادہ ترقی کرنے پر قادر نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ بباعث تنگئ دائرۂ قابلیت ان مراتبہ عالیہ تک ہرگز پہنچ نہیں سکتا جن تک ایک وسیع القویٰ آدمی پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایسا بدیہی مسئلہ ہے کہ میں باور نہیں کرسکتا کہ کوئی عاقل اس میں غور کرکے پھر اس سے منکر رہے۔ ہاں جو شخص ربقۂ عقل سے قطعاً منخلع ہو اگر وہ منکر ہو تو کچھ تعجب نہیں۔ ظاہر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 183
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/183/mode/1up
اسی اُصول سے وابستہ ہے کہ جو کچھ اس کی طرف سے ہے وہ بے نظیر مان لیں۔ تو پھربندوں کے لئے بھی وہی صفتؔ تجویز کرنا جو کہ خدا کی صفت خاصہ ہے عقل اور ایمان کیہے کہ اگر تفاوت فی العقول نہ ہو تو فہم علوم میں کیوں اختلاف پایا جاوے۔ کیوں بعض اذہان بعضوں پر سبقت لے جائیں۔ حالانکہ جو لوگ تعلیم و تربیت کا پیشہ رکھتے ہیں وہ اس امر کو خوب سمجھتے ہوں گے کہ بعض طالب العلم ایسے ذکی الطبع ہوتے ہیں کہ ادنیٰ رمز اور اشارت سے مطلب کو پاجاتے ہیں۔ بعض ایسے بیدار مغزکہ خود اپنی طبع سے عمدہ عمدہ باتیں نکالتے ہیں اور بعضوں کی طبیعتیں اصل فطرت سے کچھ ایسی غبی و بلید واقع ہوتی ہیں کہ ہزارتم اُن سے مغززنی کرو کیسا ہی کھول کر سمجھاؤ بات کو نہیں سمجھتے اور اگر تعب شدید کے بعد کچھ سمجھے بھی تو پھر حافظہ ندارد۔ ایسے جلد بھولتے ہیں جیسے پانی کا نقش مٹ جاتا ہے۔ اسی طرح قویٰ اخلاقیہ اور انوار قلبیہ میں بغایت درجہ تفاوت پایا جاتا ہے۔ ایک ہی باپ کے دو بیٹے ہوتے ہیں اور ایک ہی استاد سے تربیت پاتے ہیں پر کوئی ان میں سے سلیم الطبع اور نیک ذات نکلتا ہے اور کوئی خبیث اور شریر النفس اور کوئی بزدل اور کوئی شجاع اور کوئی غیور اور کوئی بے غیرت۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شریر النفس بھی وعظ و نصیحت سے کسی قدر صلاحیت پر آجاتا ہے کبھی بزدل بھی بوجہ کسی نفسانی طمع کے کچھ دلیری ظاہر کرتا ہے جس سے کم تجربہ آدمی اس غلطی میں پڑ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی اصلیت کوؔ چھوڑ دیا ہے۔ لیکن ہم بار بار یاد دلاتے ہیں کہ کوئی نفس اپنی قابلیت کی حد سے آگے قدم نہیں رکھتا۔ اگر کچھ ترقی کرتا ہے تو اسی دائرے کے اندر اندر کرتا ہے جو اس کی فطرتی طاقتوں کا دائرہ ہے۔ بہت سے کم فہم لوگوں نے یہ دھوکا کھایا ہے کہ قویٰ فطرتیہ بذریعہ ریاضات مناسبہ اپنے پیدائشی اندازے سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تر مہمل اور دوراز عقل عیسائیوں کا قول ہے کہ صرف مسیح کو خدا ماننے سے انسان کی فطرت مُنقلب ہوجاتی ہے اور گو کیسا ہی کوئی من حیث الخلقت قویٰ سبعیہ یا قویٰ شہویہ کا مغلوب ہو۔ یا قوت عقلیہ میں ضعیف ہو۔ وہ فقط حضرت عیسیٰ کو خدائے تعالیٰ کا اکلوتا بیٹا کہنے سے اپنی جبلی حالت چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 184
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/184/mode/1up
بیخ کنی ہے۔ جبکہ یہ بات نہایت واضح اور مضبوط دلائل سے ثابت ہوتی ہے کہ بندوںیاد رکھنا چاہیئے کہ ایسے خیالات انہیں لوگوں کے دل میں اٹھتے ہیں جنہوں نے علوم طبعی اور طبابت میں کبھی غور نہیں کی۔ یا جن کی آنکھیں فرط تعصب اور مخلوق پرستی سے اندھی ہوگئی ہیں ورنہ طبائع مختلفہ کا مسئلہ یہاں تک ثابت ہے کہ حکماء نے جب اس بارہ میں تحقیق کی تو متواتر تجربوں سے ان پر یہ امر کھل گیا کہ بزدل یا شجاع ہونا اور طبعاً ممسک ہونا یا سخی ہونا اور ضعیف العقل یا قوی العقل ہونا اور دنی الہمت یا رفیع الہمت ہونا اور بردبار یا مغلوب الغضب ہونا اور فاسد الخیال یا صالح الخیال ہونا یہ اس قسم کے عوارض نہیں ہیں کہ سرسری اور اتفاقی ہوں۔ بلکہ صانع قدیم نے بنی آدم کی کیفیت مواد اور کمیت اخلاط اور سینہ اور دل اور کھوپڑی کی وضع خلقت میں مختلف طور پر طرح طرح کے فرق رکھے ہیں۔ انہیں فرقوں کے باعث سے افراد انسانی کی قویٰ اخلاقیہ اور عقلیہ میں فرق بین نظر آتا ہے۔ اس قدیم رائے کو ڈاکٹروں نے بھی تسلیم کرلیا ہے۔ ان کا بھی یہ قول ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کی کھوپریوں کو جب غور سے دیکھا گیا تو ان کی وضع ترکیب ایسی پائی گئی جو اسی فرقہ فاسدالخیال سے مخصوص ہے۔ بعض یونانیوں نے اس سے بھی کچھ بڑھ کر لکھا ہے۔ بعض گردن اور آنکھ اور پیشانی اور ناک اور دوسرے کئی اعضاء سے بھی اندرونی حالات کا استنباط کرتے ہیں۔ بہرحال یہ ثابت ہوچکا ہے اور اس کے ماننے سے کچھ چارہ نہیں کہ بنی آدم کا خلقی اور عقلی استعدادوں میں فطرتی تفاوت واقع ہے اور ہریک نفس کسی قدر صلاحیت کی طرف تو قدم رکھتا ہے۔ مگر اپنی قابلیت کے دائرہ سے زیادہ نہیں۔
شاید کسی دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ خدا نے اعتقاد توحید کو سب انسانوں میں فطرتی بیان کیا ہے اور فرمایا ہے۔ 33۔ الجزو نمبر۱۲۔۱ یعنے توحید پر قائم ہونا انسان کی فطرت میں داخل ہے جس پر انسانی پیدائش کی بنیاد ہے۔ اور نیز فرمایا۔3۔الجزو نمبر۹۲ یعنے ہریک روح نے ربوبیتؔ الٰہیہ کا اقرار کیا۔ کسی نے انکار نہ کیا۔ یہ بھی فطرتی اقرار کی طرف
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 185
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/185/mode/1up
کا کوئی کام بے نظیر نہیں اور خدا کے سارے کام اور جوؔ کچھ اُس سے صادر ہوا بے نظیر ہےاشارہ ہے اور نیز فرمایا۔ 33الجزو نمبر ۷۲۔ ۱ یعنے میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری پرستش کریں۔ یہ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ پرستش الٰہی ایک فطرتی امر ہے۔ پس جب توحید الٰہی اور پرستش الٰہی سب بنی آدم کے لئے فطرتی امر ہوا اور کوئی آدمی سرکشی اور بے ایمانی کے لئے پیدا نہ کیا گیا تو پھر جو امور برخلاف خدا دانی و خدا ترسی ہیں کیونکر فطرتی امر ہوسکتے ہیں۔
یہ شبہ صرف ایک صداقت کی غلط فہمی ہے کیونکہ وہ امر جو آیات مندرجۂ بالا سے ثابت ہوتا ہے وہ تو صرف اسی قدر ہے کہ انسان کی فطرت میں رجوع الی اللہ اور اقرار وحدانیت کا تخم بویا گیا۔ یہ کہاں آیات موصوفہ میں لکھا ہے کہ وہ تخم ہریک فطرت میں مساوی ہے بلکہ جابجا قرآن شریف میں اسی بات کی تصریح ہے کہ وہ تخم بنی آدم میں متفاوت المراتب ہے۔ کسی میں نہایت کم۔ کسی میں متوسط۔ کسی میں نہایت زیادہ۔ جیسا ایک جگہ فرمایا ہے۔ 33۔ الجزو نمبر ۲۲۔۲ یعنے بنی آدم کی فطرتیں مختلف ہیں۔ بعض لوگ ظالم ہیں جن کے نور فطرتی کو قویٰ بہیمیہ یا غضبیہ نے دبایا ہوا ہے۔ بعض درمیانی حالت میں ہیں۔ بعض نیکی اور رجوع الی اللہ میں سبقت لے گئے ہیں۔ اسی طرح بعض کی نسبت فرمایا۔ 3۔ الجزونمبر۷۔ ۳ اور ہم نے ان کو چن لیا یعنے وہ باعتبار اپنی فطرتی قوتوں کے دوسروں میں سے چیدہ اور برگزیدہ تھے۔ اس لئے قابل رسالت و نبوت ٹھہرے۔ اور بعض کی نسبت فرمایا۔ 3۔ الجزو نمبر ۹ ۴ یعنے ایسے ہیں جیسے چارپائے اور نور فطرتی ان کا اس قدر کم ہے کہ ان میں اور مویشی میں کچھ تھوڑا ہی فرق ہے۔ پس دیکھنا چاہیئے کہ اگرچہ خدائے تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ تخم توحید ہریک نفس میں موجود ہے۔ لیکن ساتھ ہی اُس کے یہ بھی کئی مقامات میں کھول کر بتلا دیا ہے کہ وہ تخم سب میں مساوی نہیں۔ بلکہ بعض کی فطرتوں پر جذبات نفسانی ان کے ایسے غالب آگئے ہیں کہ وہ نور کالمفقود ہوگیا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ قویٰ بہیمیہ یا غضبیہ کا فطرتی ہونا وحدانیت الٰہی کے فطرتی ہونے کو منافی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 186
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/186/mode/1up
تو پھر اگر تم کو ایسی استقراء تام پر بھی اعتبار نہیں کہ جو خدا کے سارے قانون قدرت پر نظر کرکے بنایا گیا ہے تو عقل اور قانون قدرت کا نام نہ لو اور منطق اور فلسفہ کی بیسود کتابوںؔ کو چاک کرکے دریا برد کرو۔ کیا تم کو یہ بات منہ سے نکالتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ ایک مکھی جس کے دیکھنے سے بھی طبیعتیں کراہت کرتی ہیں وہ اپنی ظاہرینہیں ہے خواہ کوئی کیسا ہی ہوا پرست اور نفس امّارہ کا مغلوب ہو پھر بھی کسی نہ کسی قدر نور فطرتی اس میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً جو شخص بوجہ غلبہ قوائے شہویہ یا غضبیہ چوری کرتا ہے یا خون کرتا ہے یا حرامکاری میں مبتلا ہوتا ہے تو اگرچہ یہ فعل اس کی فطرت کا مقتضا ہے لیکن بمقابلہ اُس کے نورؔ صلاحیت جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے وہ اس کو اسی وقت جب اس سے کوئی حرکت بے جا صادر ہوجائے ملزم کرتا ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے۔ 3۔الجزو نمبر ۰۳۔ ۱ یعنے ہر یک انسان کو ایک قسم کا خدا نے الہام عطا کر رکھا ہے جس کو نور قلب کہتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ نیک اور بدکام میں فرق کرلینا۔ جیسے کوئی چور یا خونی چوری یا خون کرتا ہے تو خدا اس کے دل میں اسی وقت ڈال دیتا ہے کہ تو نے یہ کام برا کیا اچھا نہیں کیا۔ لیکن وہ ایسے القاء کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا کیونکہ اس کا نور قلب نہایت ضعیف ہوتا ہے اور عقل بھی ضعیف اور قوت بہیمیہ غالب اور نفس طالب۔ سو اس طور کی طبیعتیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں جن کا وجود روزمرہ کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے۔ ان کے نفس کا شورش اور اشتعال جو فطرتی ہے کم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جو خدا نے لگا دیا اس کو کون دور کرے۔ ہاں خدا نے ان کا ایک علاج بھی رکھا ہے۔ وہ کیا ہے؟ توبہ و استغفار اور ندامت یعنے جب کہ برا فعل جو ان کے نفس کا تقاضا ہے ان سے صادر ہو یا حسب خاصہ فطرتی کوئی برا خیال دل میں آوے تو اگر وہ توبہ اور استغفار سے اس کا تدارک چاہیں تو خدا اس گناہ کو معاف کردیتا ہے۔ جب وہ بار بار ٹھوکر کھانے سے بار بار نادم اور تائب ہوں تو وہ ندامت اور توبہ اس آلودگی کو دھو ڈالتی ہے۔ یہی حقیقی کفارہ ہے جو اس فطرتی گناہ کا علاج ہے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 187
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/187/mode/1up
صورت اور باطنی ترکیب میں ایسی بے مثل ہےؔ کہ اس پر نظر کرنے سے اس کا خدا کی طرف سےفرمایا ہے۔ 333۔ الجزو نمبر ۵۔ ۱ یعنے جس سے کوئی بدعملی ہوجائے یا اپنے نفس پر کسی نوع کا ظلم کرے اور پھر پشیمان ہوکر خدا سے معافی چاہے تو وہ خدا کو غفور و رحیم پائے گا۔ اس لطیف اور پرحکمت عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لغزش اور گناہ نفوس ناقصہ کا خاصہ ہے جو ان سے سرزد ہوتا ہے اس کے مقابلہ پر خدا کا ازلی اور ابدی خاصہ مغفرت و رحم ہے اور اپنی ذات میں وہ غفور و رحیم ہے یعنے اس کی مغفرت سرسری اور اتفاقی نہیں بلکہ وہ اس کی ذات قدیم کی صفت قدیم ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اور جوہر قابل پر اس کا فیضان چاہتا ہے۔ یعنے جب کبھی کوئی بشر بروقت صدور لغزش و گناہ بہ ندامت و توبہ خدا کی طرف رجوع کرے تو وہ خدا کے نزدیک اس قابل ہوجاتا ہے کہ رحمت اور مغفرت کے ساتھ خدا اس کی طرف رجوع کرے۔ اور یہ رجوع الٰہی بندۂ نادم اور تائب کی طرف ایک یا دو مرتبہ میں محدود نہیں بلکہ یہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں خاصہ دائمی ہے اور جب تک کوئی گنہگار توبہ کی حالت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ خاصہ اس کا ضرور اس پر ظاہرؔ ہوتا رہتا ہے۔ پس خدا کا قانون قدرت یہ نہیں ہے کہ جو ٹھوکر کھانے والی طبیعتیں ہیں وہ ٹھوکر نہ کھاویں یا جو لوگ قویٰ بہیمیہ یا غضبیہ کے مغلوب ہیں ان کی فطرت بدل جاوے بلکہ اُس کا قانون جو قدیم سے بندھا چلا آتا ہے یہی ہے کہ ناقص لوگ جو بمقتضائے اپنے ذاتی نقصان کے گناہ کریں وہ توبہ اور استغفار کرکے بخشے جائیں۔ لیکن جو شخص بعض قوتوں میں فطرتاً ضعیف ہے وہ قوی نہیں ہوسکتا۔ اس میں تبدیل پیدائش لازم آتی ہے اور وہ بداہتاً محال ہے اور خود مشہود و محسوس ہے کہ مثلاً جس کی فطرت میں سریع الغضب ہونے کی خصلت پائی جاتی ہے وہ بطی الغضب ہرگز نہیں بن سکتا بلکہ ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسا آدمی غضب کے موقعہ پر آثار غضب بلا اختیار ظاہر کرتا ہے اور ضبط سے باہر آجاتا ہے یا کوئی ناگفتنی بات زبان پر لے آتا ہے۔ اور اگر کسی لحاظ سے کچھ صبر بھی کرے تو دل میں ضرور پیچ و تاب کھاتا ہے۔ پس یہ احمقانہ خیال ہے کہ کوئی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 188
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/188/mode/1up
ہونا ثابت ہوتا ہے۔ لیکن خدا کے کلام کی فصاحت اور بلاغت ایسی بے نظیر نہیں ہوسکتی جس پر نظر کرنے سے اس کلام کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہو۔ غافلو!منتر جنتر یا کوئی خاص مذہب اختیار کرنا اس کی طبیعت کو بدلا دے گا۔ اسی جہت سے اُس نبی معصوم نے جس کی لبوں پر حکمت جاری تھی فرمایا خیارھم فی الجاھلیۃ خیارھم فی الاسلام یعنے جو لوگ جاہلیت میں نیک ذات ہیں وہی اسلام میں بھی داخل ہوکر نیک ذات ہوتے ہیں۔ غرض طبائع انسانی جواہر کانی کی طرح مختلف الاقسام ہیں۔ بعض طبیعتیں چاندی کی طرح روشن اور صاف۔ بعض گندھک کی طرح بدبودار اور جلد بھڑکنے والی۔ بعض زیبق کی طرح بے ثبات اور بے قرار۔ بعض لوہے کی طرح سخت اور کثیف۔ اور جیسا یہ اختلاف طبائع بدیہی الثبوت ہے ایسا ہی انتظام ربانی کے بھی موافق ہے۔ کچھ بے قاعدہ بات نہیں۔ کوئی ایسا امر نہیں کہ قانون نظام عالم کے برخلاف ہو بلکہ آسائش و آبادی عالم اسی پر موقوف ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر تمام طبیعتیں ایک ہی مرتبہ استعداد پر ہوتیں تو پھر مختلف طور کے کام (جو مختلف طور کی استعدادوں پر موقوف تھے) جن پر دنیا کی آبادی کا مدار تھا حیز التوا میں رہ جاتے۔ کیونکہ کثیف کاموں کے لئے وہ طبیعتیں مناسب حال ہیں جو کثیف ہیں اور لطیف کاموں کے لئے وہ طبیعتیں مناسبت رکھتی ہیں جو لطیف ہیں۔ یونانی حکیموں نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے کہ جیسے بعض انسان حیوانات کے قریب قریب ہوتے ہیں۔ اسی طرح عقل تقاضا کرتی ہے کہ بعض انسان ایسے بھی ہوں جن کا جوہرِ نفس کمال صفوت اور لطافت پر واقعہ ہو۔ تا جس طرح طبائع انسانی کا سلسلہ نیچے کی طرف اس قدر متنزل نظر آتا ہے کہ حیوانات سے جاؔ کر اتصال پکڑلیا ہے اسی طرح اوپر کی طرف بھی ایسا متصاعد ہوکہ عالم اعلیٰ سے اتصال پکڑلے۔
اب جبکہ ثابت ہوگیا کہ افراد بشریہ عقل میں۔ قویٰ اخلاقیہ میں۔ نور قلب میں متفاوت المراتب ہیں تو اسی سے وحی ربانی کا بعض افراد بشریہ سے خاص ہونا یعنے ان سے جو من کل الوجوہ کامل ہیں بہ پایہ ثبوت پہنچ گیا۔ کیونکہ یہ بات تو خود ہریک عاقل پر روشن ہے کہ ہریک نفس اپنی استعداد و قابلیت کے موافق انوار الٰہیہ کو قبول کرتا ہے۔ اس سے زیادہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 189
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/189/mode/1up
اورؔ عقل کے اندھو! کیا تمہارے نزدیک خدا کے کلام کی فصاحت بلاغت مکھی کے
نہیں۔ اس کے سمجھنے کے لئے آفتاب نہایت روشن مثال ہے۔ کیونکہ ہر چند آفتاب اپنی کرنیں چاروں طرف چھوڑ رہا ہے۔ لیکن اس کی روشنی قبول کرنے میں ہریک مکان برابر نہیں۔ جس مکان کے دروازے بند ہیں اس میں کچھ روشنی نہیں پڑسکتی اور جس میں بمقابل آفتاب ایک چھوٹا سا روزنہ ہے اس میں روشنی تو پڑتی ہے مگر تھوڑی جو بکلی ظلمت کو نہیں اٹھاسکتی۔ لیکن وہ مکان جس کے دروازے بمقابل آفتاب سب کے سب کھلے ہیں اور دیواریں بھی کسی کثیف شے سے نہیں بلکہ نہایت مصفّٰی اور روشن شیشہ سے ہیں۔ اس میں صرف یہی خوبی نہیں ہوگی کہ کامل طور پر روشنی قبول کرے گا۔ بلکہ اپنی روشنی چاروں طرف پھیلاوے گا اور دوسروں تک پہنچا وے گا۔ یہی مثال موخر الذکر نفوس صافیہ انبیاء کے مطابق حال ہے۔ یعنی جن نفوس مقدسہ کو خدا اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے وہ بھی رفع حجب اور مکمل صفوت میں اس شیش محل کی طرح ہوتے ہیں جس میں نہ کوئی کثافت ہے اور نہ کوئی حجاب باقی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ جن افراد بشریہ میں وہ کمال تام موجود نہیں۔ ایسے لوگ کسی حالت میں مرتبہ رسالت الٰہی نہیں پاسکتے۔ بلکہ یہ مرتبہ قسام ازل سے انہیں کو ملا ہوا ہے جن کے نفوس مقدسہ حجب ظلمانی سے بکلی پاک ہیں۔ جن کو اغشیہ جسمانی سے بغایت درجہ آزادگی ہے۔ جن کا تقدس و تنزہ اس درجہ پر ہے جس کے آگے خیال کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ وہی نفوس تامہ کاملہ وسیلہ ہدایت جمیع مخلوقات ہیں اور جیسے حیات کا فیضان تمام اعضاء کو قلب کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ ایسا ہی حکیم مطلق نے ہدایت کا فیضان انہیں کے ذریعہ سے مقرر کیا ہے۔ کیونکہ وہ کامل مناسبت جو مفیض اور مستفیض میں چاہیئے وہ صرف انہیں کو عنایت کی گئی ہے۔ اور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ خداوند تعالیٰ جو نہایت تجرد و تنزہ میں ہے ایسے لوگوں پر افاضہ انوار وحی مقدس اپنے کاکرے جن کی فطرت کے دائرہ کا اکثر حصہ ظلمانی اور دود آمیز ہے اور نیز نہایت تنگ اور منقبض اور جن کی طبائع خسیسہ کدورات سفلیہ میں منغمس اور آلودہ ہیں۔ اگر ہم اپنے تئیں آپ ہی دھوکاؔ نہ دیں تو بے شک ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ مبدء قدیم سے اتصال تام پانے کے لئے اور اس
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 190
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/190/mode/1up
پروں اور پاؤں سے بھی درجہ میں کمتر اور خوبی میں فروتر ہے۔ کیا افسوس کا مقام ہے کہ ایک مچھر کی ترکیب جسمی کی نسبت تمؔ صاف اقرار کرتے ہو کہ ایسی ترکیب انسان سے نہیں بن سکتی اور نہ آئندہ بنے گی لیکن کلام الٰہی کی نسبت کہتے ہو کہ وہ بن سکتی ہے۔قدوس اعظم کا ہمکلام بننے کے لئے ایک ایسی خاص قابلیت اور نورانیت شرط ہے کہ جو اس مرتبہ عظیم کی قدر اور شان کے لائق ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں کہ ہریک شخص جو عین نقصان اور فرومائیگی اور آلودگی کی حالت میں ہے اور صدہا حجب ظلمانیہ میں محجوب ہے وہ باوصف اپنی پست فطرتی اور دون ہمتی کے اس مرتبہ کو پاسکتا ہے۔ اس بات سے کوئی دھوکا نہ کھاوے کہ منجملہ اہل کتاب عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ انبیاء کے لئے جو وحی اللہ کے منزل علیہ ہیں تقدس اور تنزہ اور عصمت اور کمال محبت الٰہیہ حاصل نہیں۔ کیونکہ عیسائی لوگ اصول حقہ کو کھو بیٹھے ہیں اور ساری صداقتیں صرف اس خیال پر قربان کردی ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح خدا بن جائیں اور کفارہ کا مسئلہ جم جائے۔ سو چونکہ نبیوں کا معصوم اور مقدس ہونا ان کی اس عمارت کو گراتا ہے جو وہ بنارہے ہیں اس لئے ایک جھوٹ کی خاطر سے دوسرا جھوٹ بھی انہیں گھڑنا پڑا اور ایک آنکھ کے مفقود ہونے سے دوسری بھی پھوڑنی پڑی۔ پس ناچار انہوں نے باطل سے پیار کرکے حق کو چھوڑ دیا۔ نبیوں کی اہانت روا رکھی۔ پاکوں کو ناپاک بنایا۔ اور ان دلوں کو جو مہبط وحی تھے کثیف اور مکدّر قرار دیا تاکہ ان کے مصنوعی خدا کی کچھ عظمت نہ گھٹ جائے یا منصوبہ کفارہ میں کچھ فرق نہ آجائے۔ اسی خود غرضی کے جوش سے انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس سے فقط نبیوں کی توہین نہیں ہوتی بلکہ خدا کی قدوسی پر بھی حرف آتا ہے۔ کیونکہ جس نے نعوذ باللہ ناپاکوں سے ربط ارتباط اور میل ملاپ رکھا وہ آپ بھی کاہے کا پاک ہوا۔ خلاصہ کلام یہ کہ عیسائیوں کا قول بوجہ شدت باطل پرستی حق سے تجاوز کرگیا ہے اور اب وہ خواہ نخواہ اسی عقیدہ باطلہ کو سرسبز کرنا چاہتے ہیں جس پر ان کے مخلوق پرست بزرگوں نے قدم مارا ہے گو اس سے تمام صداقتیں منقلب ہوجائیں یا کیسا ہی حق اور راستی کے برخلاف چلنا پڑے۔ مگر طالب حق کو سمجھنا چاہیئے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 191
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/191/mode/1up
بلکہ بطور بحث اور مجادلہ کے یہ حجت پیش کرتے ہو کہ گو اب تک کوئی انسان اسؔ کے بنانے پر قادر نہیں ہوا مگر اس کا کیا ثبوت ہے کہ آئندہ بھی قادر نہ ہو۔ نادانو!اس کا وہی ثبوت ہےکہ اس قسم کے باطل پرستوں کے اقوال سے حقیقی سچائی کا کچھ بھی نقصان نہیں اور ان کے بیہودہ بکنے سے جو صداقت اپنی ذات میں بین الثبوت ہے وہ بدل نہیں سکتی۔ بلکہ وہی لوگ جھوٹ بول کر اور سچائی کا راستہ چھوڑ کر آپ رسوا ہوتے ہیں اور دانشمندوں کی نظر سے گر جاتے ہیں۔ وحی اللہ کے پانے کے لئے تقدس کامل شرط ہونا کچھ ایسا امر نہیں ہے جس کے ثبوت کے دلائل کمزور ہوں یا جس کا سمجھنا سلیم العقل آدمی پر کچھ مشکل ہو۔ بلکہ یہ وہ مسئلہ ہے جسؔ کی شہادت تمام زمین آسمان میں پائی جاتی ہے جس کی تصدیق عالم کا ذرہ ذرہ کرتا ہے جس پر نظام تمام دنیا قائم ہے۔ قرآن شریف میں اس مسئلہ کو ایک عمدہ مثال میں بیان کیا ہے جو ذیل میں معہ ایک لطیف تحقیقات جو اس کی تفسیر سے متعلق اور بحث ہذا کی تکمیل کے لئے ضروری ہے لکھی جاتی ہے
اور وہ یہ ہے۔33
33 3333 333الجزو نمبر ۸۱۔۱ خدا آسمان و زمین کا نور ہے۔ یعنے ہر ایک نور جو بلندی اور پستی میں نظر آتا ہے۔ خواہ وہ ارواح میں ہے۔ خواہ اجسام میں اور خواہ ذاتی ہے اور خواہ عرضی اور خواہ ظاہری ہے اور خواہ باطنی اور خواہ ذہنی ہے خواہ خارجی۔ اسی کے فیض کا عطیہ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت رب العالمین کا فیض عام ہر چیز پر محیط ہورہا ہے اور کوئی اس کے فیض سے خالی نہیں۔ وہی تمام فیوض کا مبدء ہے اور تمام انوار کا علت العلل اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے۔ اسی کی ہستی حقیقی تمام عالم کی قیوم اور تمام زیر و زبر کی پناہ ہے۔ وہی ہے جس نے ہریک چیز کو ظلمت خانہ عدم سے باہر نکالا اور خلعت وجود بخشا۔ بجز اس کے کوئی ایسا وجود نہیں ہے کہ جو فی حد ذاتہ واجب اور قدیم ہو۔ یا اس سے مستفیض نہ ہو بلکہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 192
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/192/mode/1up
جس کو تم مچھر اور مکھی میں اور درختوں کے ہر یک پتے میں خوب سمجھتے اور تسلیم کرتے ہو۔ مگر اس ربانی نورؔ کے دیکھنے کے وقت تمہاری آنکھیں الو کی طرح اندھی ہوجاتی ہیںخاک اور افلاک اور انسان اور حیوان اور حجر اور شجر اور روح اور جسم سب اُسی کے فیضان سے وجود پذیر ہیں۔ یہ تو عام فیضان ہے جس کا بیان آیت 3۔ میں ظاہر فرمایا گیا۔ یہی فیضان ہے جس نے دائرہ کی طرح ہریک چیز پر احاطہ کررکھا ہے جس کے فائض ہونے کے لئے کوئی قابلیت شرط نہیں۔ لیکن بمقابلہ اس کے ایک خاص فیضان بھی ہے جو مشروط بشرائط ہے اور انہیں افراد خاصہ پر فائض ہوتا ہے جن میں اس کے قبول کرنے کی قابلیت و استعداد موجود ہے۔ یعنی نفوس کاملہ انبیاء علیھم السلام پر جن میں سے افضل و اعلیٰ ذات جامع البرکات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے دوسروں پر ہرگز نہیں ہوتا۔ اور چونکہ وہ فیضان ایک نہایت باریک صداقت ہے اور دقائق حکمیہ میں سے ایک دقیق مسئلہ ہے۔ اس لئے خداوند تعالیٰ نے اول فیضان عام کو (جو بدیہی الظہور ہے) بیان کرکے پھر اس فیضان خاص کو بغرض اظہار کیفیت نور حضرت خاتم الانبیاء صلوسلم عل ایکؔ مثال میں بیان فرمایا ہے کہ جو اس آیت سے شروع ہوتی ہے۔3۔ الخ۔ اور بطور مثال اس لئے بیان کیا کہ تا اس دقیقہ نازک کے سمجھنے میں ابہام اور دقت باقی نہ رہے۔ کیونکہ معانی معقولہ کو صور محسوسہ میں بیان کرنے سے ہریک غبی و بلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ بقیہ ترجمہ آیات ممدوحہ یہ ہے۔ اس نور کی مثال (فرد کامل میں جو پیغمبر ہے) یہ ہے جیسے ایک طاق (یعنے سینہ مشروح حضرت پیغمبر خدا صلوسلم عل ) اور طاق میں ایک چراغ (یعنے وحی اللہ) اور چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں جو نہایت مصفیٰ ہے۔ (یعنے نہایت پاک اور مقدس دل میں جو آنحضرت صلوسلم عل کا دل ہے جو کہ اپنی اصل فطرت میں شیشہ سفید اور صافی کی طرح ہریک طور کی کثافت اور کدورت سےُ منزّ ہ اور مطہر ہے۔ اور تعلقات ماسوی اللہ سے بکلی پاک ہے) اور شیشہ ایسا صاف کہ گویا ان ستاروں میں سے ایک عظیم النور ستارہ ہے جو کہ آسمان پر بڑی آب و تاب کے ساتھ چمکتے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 193
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/193/mode/1up
یا دھندلا جاتی ہیں۔ اس لئے تم مگس طینتی سے مگس ہی کی عظمت کے قائل ہو خدا کے نور کی عظمت کے قائل نہیں۔ جن لفظوں کوؔ کہتے ہو کہ معانی کی طرح وہ بھی خدا ہی کے مونہہہوئے نکلتے ہیں جن کوکو کب دری کہتے ہیں(یعنے حضرت خاتم الانبیاء کا دل ایسا صاف کہ کوکب دری کی طرح نہایت منور اور درخشندہ جس کی اندرونی روشنی اس کے بیرونی قالب پر پانی کی طرح بہتی ہوئی نظر آتی ہے) وہ چراغ زیتون کے شجرۂ مبارکہ سے (یعنی زیتون کے روغن سے) روشن کیا گیا ہے (شجرہ مبارکہ زیتون سے مراد وجودِ مبارک محمدی ہے کہ جو بوجہ نہایت جامعیت و کمال انواع و اقسام کی برکتوں کا مجموعہ ہے جس کا فیض کسی جہت و مکان و زمان سے مخصوص نہیں۔ بلکہ تمام لوگوں کے لئے عام علیٰ سبیل الدوام ہے اور ہمیشہ جاری ہے کبھی منقطع نہیں ہوگا) اور شجرۂ مبارکہ نہ شرقی ہے نہ غربی (یعنے طینت پاک محمدی میں نہ افراط ہے نہ تفریط۔ بلکہ نہایت توسط و اعتدال پر واقع ہے اور احسن تقویم پر مخلوق ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ اس شجرہ مبارکہ کے روغن سے چراغِ وحی روشن کیا گیا ہے۔ سو روغن سے مراد عقل لطیف نورانی محمدی معہ جمیع اخلاق فاضلہ فطرتیہ ہے جو اس عقل کامل کے چشمۂ صافی سے پروردہ ہیں۔ اور وحی کا چراغ لطائف محمدیہ سے روشن ہونا ان معنوں کرکے ہے کہ ان لطائف قابلہ پر وحی کا فیضان ہوا اور ظہور وحی کا موجب وہی ٹھہرے۔ اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ فیضانِ وحی ان لطائف محمدیہ کے مطابق ہوا۔ اور انہیں اعتدالات کے مناسب حال ظہورؔ میں آیا کہ جو طینت محمدیہ میں موجود تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہریک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا۔ توریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی۔ سو انجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے۔ مگر آنحضرت صلوسلم عل کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھا نہ ہر جگہ حلم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا۔ بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقعہ کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی۔ سو قرآن شریف بھی اسی طرز موزون و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت و رحمت و ہیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے۔ سو اس جگہ اللہ تعالیٰ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 194
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/194/mode/1up
سے نکلے ہیں اُن کو تم اس لعاب کے برابر نہیں سمجھتے کہ جو مکھی کے منہ سے نکلتا ہےنے ظاہر فرمایا کہ چراغِ وحی فرقان اس شجرۂ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے کہ نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ یعنے طینت معتدلہ محمدؐیہ کے موافق نازل ہوا ہے جس میں نہ مزاج موسوی کی طرح درشتی ہے۔ نہ مزاج عیسوی کی مانند نرمی۔ بلکہ درشتی اور نرمی اور قہر اور لطف کا جامع ہے۔ اور مظہر کمال اعتدال اور جامع بین الجلال والجمال ہے اور اخلاق معتدلہ فاضلہ آنحضرت صلوسلم عل کہ جو بمعیت عقل لطیف روغن ظہور روشنی وحی قرار پائی۔ ان کی نسبت ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو مخاطب کرکے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے3۱ الجزو نمبر ۹۲ یعنے تو اے نبی ایک خلق عظیم پر مخلوق و مفطور ہے یعنے اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا متمم و مکمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں کیونکہ لفظ عظیم محاورۂ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو۔ مثلاً جب کہیں کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جس قدر طول و عرض درخت میں ہوسکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہے۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ عظیم وہ چیز ہے جس کی عظمت اس حد تک پہنچ جائے کہ حیطۂ ادراک سے باہر ہو۔ اور خلق کے لفظ سے قرآن شریف اور ایسا ہی دوسری کتب حکمیہ میں صرف تازہ روی اور حسنِ اختلاط یا نرمی و تلطف و ملائمت( جیسا عوام الناس خیال کرتے ہیں) مراد نہیں ہے بلکہَ خلق بفتح خا اورُ خلق بضم خا دو لفظ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل واقعہ ہیں۔ خلق بفتح خا سے مراد وہ صورت ظاہری ہے جو انسان کو حضرت واہب الصور کی طرف سے عطا ہوئی۔ جس صورت کے ساتھ وہ دوسرے حیوانات کی صورتوں سے ممیز ہے۔ اورُ خلق بضم خا سے مراد وہ صورت باطنی یعنے خواص اندرونی ہیں جن کی رو سے حقیقت انسانیہ حقیقت حیوانیہ سے امتیاز کلی رکھتی ہے۔ پس جس قدر انسان میں منؔ حیث الانسانیت اندرونی خواص پائے جاتے ہیں اور شجرہ انسانیت کو نچوڑ کر نکل سکتے ہیں جو کہ انسان اور حیوان میں من حیث الباطن مابہ الامتیاز ہیں۔ اُن سب کا نام خُلق ہے۔ اور چونکہ شجرۂ فطرتِ انسانی اصل میں توسط اور اعتدال پر واقعہ ہے۔ اور ہریک افراط و تفریط سے جو قویٰ حیوانیہ میں پایا جاتا ہے منزّ ہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 195
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/195/mode/1up
یعنے تمہارے نزدیک انسان شہد بنانے پر تو قادر نہیں پر خدا کی کلام کےؔ بنانے پر قادر ہے۔ تمہاری نگاہ میں کیڑے مکوڑے کیسے جچ گئے اور ایسے من کو بھاگئے کہ خدا کی کلام ان کی مانند بھی نہیں۔ جاہلو! اگر خدا کی کلام بے مثل نہیں تو کیڑوںفرمایا ہے۔3۔۱ الجزو نمبر ۰۳۔ اس لئےُ خلق کے لفظ سے جو کسی مذمت کی قید کے بغیر بولا جائے ہمیشہ اخلاق فاضلہ مراد ہوتے ہیں۔ اور وہ اخلاق فاضلہ جو حقیقت انسانیہ ہے۔ تمام وہ خواص اندرونی ہیں جو نفس ناطقہ انسان میں پائے جاتے ہیں جیسے عقلِؔ ذکا۔ سرعتِؔ فہم۔ صفائیؔ ذہن۔ حسنِؔ تحفظ۔ حسنِؔ تذکر۔ عفتؔ ۔ حیاؔ ۔ صبرؔ ۔ قناعتؔ ۔ زہدؔ ۔ تورعؔ ۔ جوانمرؔ دی۔ استقلاؔ ل۔ عدلؔ ۔ امانتؔ ۔ صدقؔ لہجہ۔ سخاوتؔ فی محلہ۔ ایثارؔ فی محلہ۔ کرمؔ فی محلہ۔ مروت ؔ فی محلہ۔ شجاعتؔ فی محلہ۔ علوہمتؔ فی محلہ۔ حلم ؔ فی محلہ۔ تحمل ؔ فی محلہ۔ حمیت ؔ فی محلہ۔ تواضع ؔ فی محلہ۔ ادب ؔ فی محلہ۔ شفقت ؔ فی محلہ۔ رافت ؔ فی محلہ۔ رحمت ؔ فی محلہ۔ خوف ؔ الٰہی۔ محبت ؔ الٰہیہ۔ انس ؔ باللہ۔ انقطاؔ ع الی اللہ وغیرہ وغیرہ) اور تیل ایسا صاف اور لطیف کہ ِ بن آگ ہی روشن ہونے پر آمادہ (یعنے عقل اور جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خودبخود روشن ہونے پر مستعد تھے) نورعلٰی نور۔ نور فائض ہوا نور پر (یعنے جب کہ وجودِ مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلوسلم عل میں کئی نور جمع تھے سو ان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہو گیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔ پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے۔ تاریکی پر وارد نہیں ہوتا۔ کیونکہ فیضان کے لئے مناسبت شرط ہے۔ اور تاریکی کو نور سے کچھ مناسبت نہیں۔ بلکہ نور کو نور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا۔ ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اسی کو اور نور بھی دیا جاتا ہے۔ اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا۔ جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے اور جس کے پاس
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 196
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/196/mode/1up
اور درختوں کے پتوں کے بےؔ مثل ہونے کی تم کو کہاں سے خبر پہنچ گئی۔ تم ذرا سوچتے نہیں کہ اگر کلام ربانی کی ترکیب میں ایک کیڑے کی ترکیب جتنی بھی کمالیت نہیں توآنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے۔ اور انبیاء منجملہؔ سلسلہ متفاوتہ فطرت انسانی کے وہ افراد عالیہ ہیں جن کو اس کثرت اور کمال سے نور باطنی عطا ہوا ہے کہ گویا وہ نور مجسم ہوگئے ہیں۔ اسی جہت سے قرآن شریف میں آنحضرت صلوسلم عل کا نام نور اور اور سراج منیر رکھا ہے جیسا فرمایا ہے۔ 3۔۱ الجزونمبر۶۔ 3۔ الجزو نمبر ۲۲۔ ۲ یہی حکمت ہے کہ نور وحی جس کے لئے نور فطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا۔ پس اب اس حجت موجّہ سے کہ جو مثال مقدم الذکر میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی۔ بطلان ان لوگوں کے قول کا ظاہر ہے جنہوں نے باوصف اس کے کہ فطرتی تفاوت مراتب کے قائل ہیں۔ پھر محض حمق و جہالت کی راہ سے یہ خیال کرلیا ہے کہ جو نور افراد کامل الفطرت کو ملتا ہے وہی نور افراد ناقصہ کو بھی مل سکتا ہے۔ ان کو دیانت اور انصاف سے سوچنا چاہیئے کہ فیضان وحی کے بارہ میں کس قدر غلطی میں وہ مبتلا ہورہے ہیں۔ صریح دیکھتے ہیں کہ خدا کا قانون قدرت ان کے خیال باطل کی تصدیق نہیں کرتا۔ پھر شدت تعصب و عناد سے اسی خیال فاسد پر جمے بیٹھے ہیں۔ ایسا ہی عیسائی لوگ بھی نور کے فیضان کے لئے فطرتی نور کا شرط ہونا نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ جس دل پر نور وحی نازل ہو۔ اس کے لئے اپنی کسی خاصّہ اندرونی میں نورانیت کی حالت ضروری نہیں بلکہ اگر کوئی بجائے عقل سلیم کے کمال درجہ کا نادان اور سفیہ ہو اور بجائے صفت شجاعت کے کمال درجہ کا بزدل اور بجائے صفت سخاوت کے کمال درجہ کا بخیل اور بجائے صفت حمیت کے کمال درجہ کا بے غیرت اور بجائے صفت محبت الٰہیہ کے کمال درجہ کا محبِ دنیا اور بجائے صفت زہد و ورع و امانت کے بڑا بھارا چور اور ڈاکو اور بجائے صفت عفت و حیا کے کمال درجہ کا بے شرم اور شہوت پرست اور بجائے صفت قناعت کے کمال درجہ کا حریص اور لالچی۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 197
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/197/mode/1up
گویا یہ خدا پر ہی اعتراض ٹھہرا جس نے ادنیٰ کو اعلیٰؔ سے زیادہ تر شرف دے دیا اور ادنیٰ کو اپنی ذات پر وہ دلالتیں بخشیں کہ جو اعلیٰ کو نہیں۔تو ایسا شخص بھی بقول حضرات عیسائیاں باوصف ایسی حالت خراب کے خدا کا نبی اور مقرب ہوسکتا ہے۔ بلکہ ایک مسیح کو باہر نکال کر دوسرے تمام انبیاء جن کی نبوت کو بھی وہ مانتے ہیں اور ان کی الہامی کتابوں کو بھی مقدس مقدس کرکے پکارتے ہیں وہ نعوذ باللہ بقول ان کے ایسے ہی تھے اور کمالات قدسیہ سے جو مستلزم عصمت و پاک دلی ہیں محروم تھے۔ عیسائیوں کی عقل اور خداشناسی پر بھی ہزار آفرین۔ کیا اچھا نور وحی کے نازل ہونے کا فلسفہ بیان کیا مگر ایسے فلسفہ کے تابع ہونے والے اور اس کو پسند کرنے والے وہی لوگ ہیں جو سخت ظلمت اور کور باطنی کی حالت میںؔ پڑے ہوئے ہیں۔ ورنہ نور کے فیض کے لئے نور کا ضروری ہونا ایسی بدیہی صداقت ہے کہ کوئی ضعیف العقل بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ مگر ان کا کیا علاج جن کو عقل سے کچھ بھی سروکار نہیں اور جو کہ روشنی سے بغض اور اندھیرے سے پیار کرتے ہیں اور چمگادڑ کی طرح رات میں ان کی آنکھیں خوب کھلتی ہیں لیکن روز روشن میں وہ اندھے ہوجاتے ہیں) خدا اپنے نور کی طرف (یعنے قرآن شریف کی طرف) جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور وہ ہریک چیز کو بخوبی جانتا ہے (یعنے ہدایت ایک امر منجانب اللہ ہے۔ اسی کو ہوتی ہے جس کو عنایت ازلی سے توفیق حاصل ہو۔ دوسرے کو نہیں ہوتی۔ اور خدا مسائل دقیقہ کو مثالوں کے پیرایہ میں بیان فرماتا ہے تا حقائق عمیقہ قریب بہ افہام ہوجائیں۔ مگر وہ اپنے علم قدیم سے خوب جانتا ہے کہ کون ان مثالوں کو سمجھے گا اور حق کو اختیار کرے گا اور کون محروم و مخذول رہے گا) پس اس مثال میں جس کا یہاں تک جلی قلم سے ترجمہ کیا گیا۔ خدا تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام کے دل کو شیشہ مصفیٰ سے تشبیہ دی جس میں کسی نوع کی کدورت نہیں۔ یہ نورِ قلب ہے۔ پھر آنحضرت کے فہم و ادراک و عقل سلیم اور جمیع اخلاق فاضلہ جبلی و فطرتی کو ایک لطیف تیل سے تشبیہ دی جس میں بہت سی چمک ہے اور جو ذریعہ روشنی چراغ ہے یہ نور عقل ہے کیونکہ منبع و منشاء جمیع لطائفِ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 198
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/198/mode/1up
جمالؔ و حسن قرآں نور جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہےاندرونی کا قوت عقلیہ ہے۔ پھر ان تمام نوروں پر ایک نور آسمانی کا جو وحی ہے نازل ہونا بیان فرمایا۔ یہ نور وحی ہے۔ اور انوار ثلاثہ مل کر لوگوں کی ہدایت کا موجب ٹھہرے۔ یہی حقانی اصول ہے جو وحی کے بارہ میں قدوس قدیم کی طرف سے قانون قدیم ہے اور اس کی ذات پاک کے مناسب۔ پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہے کہ جب تک نور قلب و نور عقل کسی انسان میں کامل درجہ پر نہ پائے جائیں تب تک وہ نور وحی ہرگز نہیں پاتا اور پہلے اس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کمالِ عقل اور کمالِ نورانیت قلب صرف بعض افراد بشریہ میں ہوتا ہے کل میں نہیں ہوتا۔ اب ان دونوں ثبوتوں کے ملانے سے یہ امر بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ وحی اور رسالت فقط بعض افراد کاملہ کو ملتی ہے نہ ہریک فردِ بشر کو۔ پس اس قطعی ثبوت سے برہم سماج والوں کا خیال فاسد بکلی درہم برہم ہوگیا اور یہی مطلب تھا۔
وسوسۂ پنجم۔ بعض برہمو سماج والے یہ وسوسہ پیش کیا کرتے ہیں کہ اگر کامل معرفت قرآن پر ہی موقوف ہےؔ تو پھر خدا نے اس کو تمام ملکوں میں اور تمام معمورات قدیم و جدید میں کیوں شائع نہ کیا اور کیوں کروڑہا مخلوقات کو اپنی معرفت کاملہ اور اعتقاد صحیح سے محروم رکھا۔
جواب۔ یہ وسوسہ بھی کوتہ اندیشی سے پیدا ہوا ہے کیونکہ جس حالت میں بکمال صفائی ثابت ہوچکا ہے کہ حصولِ یقین کامل و معرفت کامل مجر د عقل کے ذریعہ سے ہرگز ممکن نہیں۔ بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کا یقین اور کامل عرفان صرف ایسے الہام کے ذریعہ سے ملتا ہے جو اپنی ذات اور کمالات میں بے مثل و مانند ہو اور بوجہ بے نظیری منجانب اللہ ہونا اس کا بین الثبوت ہو۔ اور نیز ہم نے کتاب ہذا میں یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ بے مثل کتاب جو دنیا میں پائی جاتی ہے فقط قرآن شریف ہے وبس۔ تو اس صورت میں سیدھا راستہ طالب حق کے لئے یہ ہے کہ یا تو ہماری دلائل کو توڑ کر یہ ثابت کرکے دکھلا دے کہ مجرد عقل انسان کو امور معاد میں یقین کامل و معرفت صحیحہ و یقینیہ کے مرتبہ تک پہنچا سکتی ہے اور اگر یہ ثابت نہ کرسکے تو پھر قرآن شریف کی حقانیت کو قبول کرے جس کے ذریعہ سے معرفت کامل کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ اور اگر اس کو بھی قبول کرنا منظور نہ ہو تو پھر اس کی کوئی نظیر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 199
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/199/mode/1up
نظیر اس کی نہیں جمتی نظر مین فکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلامِ پاک رحماں ہے
پیش کرے اور جو جو اس کے کمالات خاصہ ہیں کسی دوسری کتاب میں نکال کر دکھلائے تا اس قدر ثابت ہوجائے کہ اگرچہ تکمیل مراتب یقین و معرفت کے لئے الہامی کتاب کی اشد ضرورت ہے مگر ایسی کتاب دنیا میں موجود نہیں۔ لیکن اگر کوئی مخاصم ان باتوں میں سے کسی بات کا جواب نہ دے بلکہ دم بھی نہ مارسکے تو پھر آپ اس کو انصاف کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں ایک صداقت پختہ دلائل سے ثابت ہوچکی ہے جس کا ردّ اس کے پاس موجود نہیں۔ نہ اس کی دلائل کو وہ توڑ سکتا ہے۔ تو پھر ثبوت قطعی کے مقابلہ پر اوہام فاسدہ پیش کرنا کس قدر دیانت اور ایمانداری سے بعید ہے۔ سارا جہان جانتا ہے کہ جس امر کی صحت و حقانیت براہین قاطعہ سے بہ پایہ ثبوت پہنچ چکی ہو۔ جب تک وہ براہین نہ توڑی جائیں تب تک وہ امر ایک ثابت شدہ صداقت ہے جو صرف واہی خیالوں سے غلط نہیں ٹھہر سکتی۔ کیا وہ مکان جس کی بنیاد اور دیواریں اور چھت نہایت مضبوط ہے۔ وہ صرف مونہہ کی پھوک سے گر سکتا ہے؟ اور خود یہ شبہ کہ خدا نے اپنی کتاب کو تمام ملکوں میں کیوں شائع نہ کیا اور کیوں تمام طبائع مختلفہ اس سے منتفع نہ ہوئیں صرف ایک سودائیوں کا سا خیال ہے۔ اگر آفتابِ عالمتاب کی ؔ روشنی بعض امکنہ ظلمانیہ تک نہیں پہنچی۔ یا اگر بعض نے الو کی طرح آفتاب کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں تو کیا اس سے یہ لازم آجائے گا کہ آفتاب منجانب اللہ نہیں؟ اگر مینہ کسی زمین شور پر نہیں پڑا یا کوئی کلری زمین اس سے فیض یاب نہیں ہوئی تو کیا اس سے وہ باران رحمت انسان کا فعل خیال کیا جائے گا؟ ایسے اوہام دور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ ہی قرآن شریف میں بکمال وضاحت اس بات کو کھول دیا ہے کہ الہام الٰہی کی ہدایت ہریک طبیعت کے لئے نہیں بلکہ ان طبائع صافیہ کے لئے ہے جو صفت تقویٰ اور صلاحیت سے متصف ہیں۔ وہی لوگ ہدایت کاملہ الہام سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس سے منتفع ہوتے ہیں اور ان تک الہام الٰہی بہرصورت پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ بعض آیات اُن میں سے ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 200
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/200/mode/1up
بہارؔ جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہےکلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز
اگر لولوئے عماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے
333O3
3 O3 3 O3O33 O ۱ الجزو نمبر ۱ ۔33O3O33۲ الجزو نمبر ۸۲۔ آیات مندرجۂ بالا میں پہلے اس آیت پر یعنے 3 پر غور کرنا چاہیئے کہ کس لطافت اور خوبی اور رعایت ایجاز سے خدائے تعالیٰ نے وسوسۂ مذکور کا جواب دیا ہے۔ اوّل قرآن شریف کے نزول کی علت فاعلی بیان کی اور اس کی عظمت اور بزرگی کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا آآمآ میں خدا ہوں جو سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ یعنی نازل کنندہ اس کتاب کا میں ہوں جو علیم و حکیم ہوں جس کے علم کے برابر کسی کا علم نہیںؔ ۔ پھر بعد اس کے علت مادی قرآن کے بیان میں فرمائی اور اس کی عظمت کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا ذَالِکَ الْکِتَابُوہ کتاب ہے یعنے ایسی عظیم الشان اور عالی مرتبت کتاب ہے جس کی علت مادی علم الٰہی ہے یعنی جس کی نسبت ثابت ہے کہ اس کا منبع اور چشمہ ذات قدیم حضرت حکیم مطلق ہے۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے وہ کا لفظ اختیار کرنے سے جو ُ بعد اور دوری کے لئے آتا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ کتاب اس ذاتِ عالی صفات کے علم سے ظہور پذیر ہے جو اپنی ذات میں بے مثل و مانند ہے جس کے علومِ کاملہ و اسرار دقیقہ نظر انسانی کی حد جولان سے بہت بعید اور دور ہیں۔ پھر بعد اس کے علت صوری کا قابل تعریف
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 201
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/201/mode/1up
خداؔ کے قول سے قول بشر کیونکر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہےملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لاعلمی
سخن میں اس کے ہمتائی کہاں مقدور انساں ہےہونا ظاہر فرمایا اور کہا لَارَیْبَ فِیْہِ یعنے قرآن اپنی ذات میں ایسی صورت مدلل و معقول پر واقعہ ہے کہ کسی نوع کے شک کرنے کی اس میں گنجائش نہیں۔ یعنی وہ دوسری کتابوں کی طرح بطور کتھا اور کہانی کے نہیں۔ بلکہ ادلّۂِ یقینیہ و براہین قطعیہ پر مشتمل ہے اور اپنے مطالب پر حجج بینہ اور دلائل شافیہ بیان کرتا ہے اور فی نفسہ ایک معجزہ ہے جو شکوک اور شبہات کے دور کرنے میں سیف قاطع کا حکم رکھتا ہے۔ اور خدا شناسی کے بارے میں صرف ہونا چاہیئے کے ظنی مرتبہ میں نہیں چھوڑتا بلکہ ہے کے یقینی اور قطعی مرتبہ تک پہنچاتا ہے۔ یہ تو علل ثلاثہ کی عظمت کا بیان فرمایا اور پھر باوجود عظیم الشان ہونے ان ہرسہ علتوں کے جن کو تاثیر اور اصلاح میں دخل عظیم ہے۔ علت رابعہ یعنے علت غائی نزول قرآن شریف کو جو رہنمائی اور ہدایت ہے صرف متقین میں منحصر کردیا اور فرمایا ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن یعنے یہ کتاب صرف ان جواہر قابلہ کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے جو بوجہ پاک باطنی و عقل سلیم و فہم مستقیم و شوق طلب حق و نیت صحیح انجام کار درجہ ایمان و خداشناسی و تقویٰ کامل پر پہنچ جائیں گے۔ یعنے جن کو خدا اپنے علم قدیم سے جانتا ہے کہ ان کی فطرت اس ہدایت کے مناسب حال واقعہ ہے۔ اور وہ معارف حقانی میں ترقی کرسکتے ہیں۔ وہ بالآخر اس کتاب سے ہدایت پاجائیں گے اور بہرحال یہ کتاب ان کو پہنچ رہے گی۔ اور قبل اس کے جو وہ مریں۔ خدا ان کو راہ راست پر آنے کی توفیق دے دے گا۔ اب دیکھو اسؔ جگہ خدائے تعالیٰ نے صاف فرمادیا کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ کے علم میں ہدایت پانے کے لائق ہیں اور اپنی اصل فطرت میں صفت تقویٰ سے متصف ہیں وہ ضرور ہدایت پاجائیں گے۔ اور پھر ان آیات میں جو اس آیت کے بعدمیں لکھی گئی ہیں اسی کی زیادہ تر تفصیل کردی اور فرمایا کہ جس قدر لوگ (خدا کے علم میں)ایمان لانے والے ہیں وہ اگرچہ ہنوز مسلمانوں میں شامل نہیں ہوئے پر آہستہ آہستہ سب شامل ہوجائیں گے اور وہی لوگ باہر رہ جائیں گے جن کو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 202
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/202/mode/1up
بناؔ سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز
تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اُس پہ آساں ہےارے لوگو کرو کچھ پاس شان کبریائی کا
زباں کو تھام لو اب بھی اگر کچھ بوئے ایماں ہےخدا خوب جانتا ہے کہ طریقہ حقہ اسلام قبول نہیں کریں گے اور گو ان کو نصیحت کی جائے یا نہ کی جائے ایمان نہیں لائیں گے یا مراتب کاملہ تقویٰ و معرفت تک نہیں پہنچیں گے۔ غرض ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے کھول کر بتلا دیا کہ ہدایت قرآنی سے صرف متقی منتفع ہوسکتے ہیں جن کی اصل فطرت میں غلبہ کسی ظلمت نفسانی کا نہیں اور یہ ہدایت ان تک ضرور پہنچ رہے گی۔ لیکن جو لوگ متقی نہیں ہیں۔ نہ وہ ہدایت قرآنی سے کچھ نفع اٹھاتے ہیں اور نہ یہ ضرور ہے کہ خواہ نخواہ ان تک ہدایت پہنچ جائے۔ خلاصہ جواب یہ ہے کہ جس حالت میں دنیا میں دو طور کے آدمی پائے جاتے ہیں۔ بعض متقی اور طالب حق جو ہدایت کو قبول کرلیتے ہیں اور بعض مفسد الطبع جن کو نصیحت کرنا نہ کرنا برابر ہوتا ہے۔ اور ابھی ہم یہ بھی بیان کرچکے ہیں کہ قرآن شریف ان تمام لوگوں کو جن تک اس کی ہدایت دم مرگ تک نہیں پہنچی یا آئندہ نہ پہنچے قسم دوم میں داخل رکھتا ہے تو اس صورت میں بمقابلہ قرآن شریف یہ دعویٰ کرنا کہ شاید وہ لوگ جن کو ہدایت قرآنی نہیں پہنچی اول قسم میں یعنے ہدایت پانے والوں کے گروہ میں داخل ہوں گے احمقانہ دعویٰ ہے۔ کیونکہ شاید کوئی دلیل قطعی نہیں ہے لیکن قرآن شریف کا کسی امر کے بارہ میں خبر دینا دلیل قطعی ہے۔ وجہ یہ کہ وہ دلائل کاملہ سے اپنا منجانب اللہ اور مخبر صادق ہونا ثابت کرچکا ہے۔ پس جو شخص اس کی خبر کو دلیل قطعی نہیں سمجھتا۔ اس پر لازم ہے کہ اس کی حقانیت کے دلائل کو جن میں سے کسی قدر ہم نے بھی اس کتاب میں لکھے ہیں توڑ کر دکھلائے۔ اور جب تک توڑنے سے عاجز اور لاجواب ہے تب تک اس کے لئے طریق انصاف و ایمانداری یہ ہے کہ اس امر کو صحیح اور درست سمجھے جس کے صحیح ہونے کی نسبت ایسی کتاب میں خبر موجود ہے جو فی نفسہ ثابت الصداقت ہے کیونکہ ایک کتاب ثابت الصداقت کا کسیؔ امر ممکن الوقوع کی نسبت خبر دینا اس امر کے وجود واقعی پر شہادت قاطعہ ہے اور ظاہر ہے کہ ایک شہادت قاطعہ اور ثبوت قطعی کو چھوڑ کر بمقابلہ اس کے بے بنیاد وہموں کو پیش کرنا اور خیالات بے اصل کو دل میں جگہ دینا غباوت اور سادہ لوحی کی نشانیہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 203
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/203/mode/1up
خداؔ سے غیر کو ہمتا بنانا سخت کفراں ہے
خدا سے کچھ ڈرو یا رویہ کیسا کذب و بہتاں ہےاگر اقرار ہے تم کو خدا کی ذات واحد کا
توپھر کیوں اسقدر دل میں تمہارے شرک پنہاں ہےاور اگر یہ کہو کہ جن تک کتاب الہامی نہیں پہنچی ان کی نجات کا کیا حال ہے۔ اس کا یہ جواب ہے کہ اگر ایسے لوگ بالکل وحشی اور عقل انسانی سے بے بہرہ ہیں تو وہ ہریک باز پرس سے بری اور مرفوع القلم ہیں اور مجانین اور مسلوب الحواسوں کا حکم رکھتے ہیں۔ لیکن جن میں کسی قدر عقل اور ہوش ہے ان سے بقدر عقل ان کی محاسبہ ہوگا۔
اور اگر دل میں یہ وہم گزرتا ہو کہ خدا نے مختلف طبائع کیوں پیدا کیں اور کیوں سب کو ایسی قوتیں عنایت نہ فرمائیں جن سے وہ معرفت کاملہ اور محبت کاملہ کے درجہ تک پہنچ جاتے تو یہ سوال بھی خدا کے کاموں میں ایک فضول دخل ہے جو ہرگز جائز نہیں۔ ہریک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ تمام مخلوقات کو ایک ہی درجے پر رکھنا اور سب کو اعلیٰ کمالات کی قوتیں بخشنا خدا پر حق واجب نہیں۔ یہ تو صرف اس کا فضل ہے۔ اسے اختیار ہے جس پر چاہے کرے اور جس پر چاہے نہ کرے۔ مثلاً تم کو خدا نے آدمی بنایا اور گدھے کو آدمی نہ بنایا۔ تم کو عقل دی اور اس کو نہ دی۔ یا تمہارے لئے علم حاصل ہوا اور اس کو نہ ہوا۔ یہ سب مالک کی مرضی کی بات ہے کوئی ایسا حق نہیں کہ تمہارا تھا اور اس کا نہ تھا۔ غرض جس حالت میں خدا کی مخلوقات میں صریح تفاوت مراتب پایا جاتا ہے جس کے تسلیم کرنے سے کسی عاقل کو چارہ نہیں۔ تو کیا مالک بااختیار کے سامنے ایسی مخلوقات جن کا موجود ہونے میں بھی کوئی حق نہیں چہ جائیکہ بڑا بننے میں کوئی حق ہو کچھ دم مار سکتی ہے۔ خدائے تعالیٰ کا بندوں کو خلعت وجود بخشنا ایک عطا اور احسان ہے اور ظاہر ہے کہ معطی و محسن اپنی عطا اور احسان میں کمی بیشی کا اختیار رکھتا ہے۔ اور اگر اس کو کم دینے کا اختیار نہ ہو تو پھر زیادہ دینے کا بھی اختیار نہ ہو۔ تو اس صورت میں وہ مالکانہ اختیارات کے نافذ کرنے سے بالکل قاصر رہ جائے۔ اور خود ظاہر ہے کہ اگر مخلوق کا خالق پر خواہ نخواہ کوئی حق قرار دیا جائے تو اس سے تسلسل لازم آتا ہے۔ کیونکہ جسؔ درجہ پر خالق کسی مخلوق کو بنائے گا اسی درجہ پر وہ مخلوق کہہ سکتا ہے کہ میرا حق اس سے زیادہ ہے۔ اور چونکہ خدائے تعالیٰ غیر متناہی مراتب پر بناسکتا ہے اور اس کی لاانتہا قدرت کے آگے صرف آدمی بنانے پر فضیلت پیدائش
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 204
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/204/mode/1up
یہؔ کیسے پڑ گئے دل پر تمہارے جہل کے پردے
خطا کرتے ہو باز آؤ اگر کچھ خوف یزداں ہےہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو! نصیحت ہے غریبانہ
کوئی جوپاک دل ہووے دل وجاں اُس پہ قرباں ہےختم نہیں تو اس صورت میں سلسلہ سوالات مخلوق کبھی ختم نہ ہوگا اور ہریک مرتبہ پیدائش پر الیٰ غیر النہایت اس کو اپنے حق کے مطالبہ کا استحقاق حاصل ہوگا اور یہی تسلسل ہے۔
ہاں اگر یہ جستجو ہے کہ اس تفاوت مراتب رکھنے میں حکمت کیا ہے۔ تو سمجھنا چاہیئے کہ اس بارہ میں قرآن شریف نے تین حکمتیں بیان فرمائی ہیں جو عندالعقل نہایت بدیہی اور روشن ہیں جن سے کوئی عاقل انکار نہیں کرسکتا اور وہ بہ تفصیل ذیل ہیں:۔
اول۔ یہ کہ تا مہمات دنیا یعنے امور معاشرت باحسن وجہ صورت پذیر ہوں جیسا فرمایا ہے۔ 3333 33 ۱ الجزو نمبر ۵۲۔ یعنے کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے بڑے بڑے مالداروں اور رئیسوں میں سے کسی بھاری رئیس اور دولتمند پر کیوں نازل نہ ہوا۔ تا اس کی رئیسانہ شان کے شایان ہوتا اور نیز اس کے رعب اور سیاست اور مال خرچ کرنے سے جلد تر دین پھیل جاتا۔ ایک غریب آدمی جس کے پاس دنیا کی جائداد میں سے کچھ بھی نہیں کیوں اس عہدہ سے ممتاز کیا گیا (پھر آگے بطور جواب فرمایا) اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ کیا قسام ازل کی رحمتوں کو تقسیم کرنا ان کا اختیار ہے۔ یعنی یہ خداوند حکیم مطلق کا فعل ہے کہ بعضوں کی استعدادیں اور ہمتیں پست رکھیں اور وہ زخارف دنیا میں پھنسے رہے اور رئیس اور امیر اور دولتمند کہلانے پر پھولتے رہے اور اصل مقصود کو بھول گئے اور بعض کو فضائل روحانیت اور کمالات قدسیہ عنایت فرمائے اور وہ اس محبوب حقیقی کی محبت میں محو ہوکر مقرب بن گئے اور مقبولانِ حضرت احدیت ہوگئے۔ (پھر بعد اس کے اس حکمت کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو اس اختلاف استعدادات اور تباین خیالات میں مخفی ہیں
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 205
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/205/mode/1up
اگرچہؔ یہاں تک جو کچھ کلام الٰہی کی بے نظیری کے بارے میں بیان کیا گیا ہے وہ اس زمانہ کے بعض ناقص الفہم اور آزاد مشرب مسلمانوں کے لئے بیان ہوا ہے
ہم نے اسؔ لئے بعض کو دولت مند اور بعض کو درویش اور بعض کو لطیف طبع اور بعض کو کثیف طبع اور بعض طبیعتوں کو کسی پیشہ کی طرف مائل اور بعض کو کسی پیشہ کی طرف مائل رکھا ہے تا ان کو یہ آسانی پیدا ہوجائے کہ بعض کے لئے بعض کار برار اور خادم ہوں اور صرف ایک پر بھار نہ پڑے اور اس طور پر مہمات بنی آدم بآسانی تمام چلتے رہیں۔ اور پھر فرمایا کہ اس سلسلہ میں دنیا کے مال و متاع کی نسبت خدا کی کتاب کا وجود زیادہ تر نفع رساں ہے۔ یہ ایک لطیف اشارہ ہے جو ضرورت الہام کی طرف فرمایا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے اور بجز ایک دوسرے کی مدد کے کوئی امر اس کا انجام پذیر نہیں ہوسکتا۔ مثلاً ایک روٹی کو دیکھئے جس پر زندگانی کا مدار ہے۔ اس کے طیار ہونے کے لئے کس قدر تمدن و تعاون درکار ہے۔ زراعت کے تردّد سے لیکر اس وقت تک کہ روٹی پک کر کھانے کے لائق ہوجائے بیسیوں پیشہ وروں کی اعانت کی ضرورت ہے۔ پس اِس سے ظاہر ہے کہ عام امور معاشرت میں کس قدر تعاون اور باہمی مدد کی ضرورت ہوگی۔ اسی ضرورت کے انصرام کے لئے حکیم مطلق نے بنی آدم کو مختلف طبیعتوں اور استعدادوں پر پیدا کیا تا ہریک شخص اپنی استعداد اور میل طبع کے موافق کسی کام میں بہ طیبِ خاطر مصروف ہو۔ کوئی کھیتی کرے۔ کوئی آلاتِ زراعت بناوے۔ کوئی آٹا پیسے۔ کوئی پانی لاوے۔ کوئی روٹی پکاوے کوئی سوت کاتے۔ کوئی کپڑا بنے۔ کوئی دوکان کھولے۔ کوئی تجارت کا اسباب لاوے۔ کوئی نوکری کرے اور اس طرح پر ایک دوسرے کے معاون بن جائیں اور بعض کو بعض مدد پہنچاتے رہیں۔ پس جب ایک دوسرے کی معاونت ضروری ہوئی تو ان کا ایک دوسرے سے معاملہ پڑنا بھی ضروری ہوگیا۔ اور جب معاملہ اور معاوضہ میں پڑگئے اور اس پر غفلت بھی جو استغراق امور دنیا کا خاصہ ہے عائد حال ہوگئی تو ان کے لئے ایک ایسے قانون عدل کی ضرورت پڑی جو ان کو ظلم اور تعدی اور بغض اور فساد اور غفلت من اللہ سے روکتا رہے تا نظام عالم میں ابتری واقعہ نہ ہو۔ کیونکہ معاش و معاد کا تمام مدار انصاف و خدا شناسی پر ہے اور التزام
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 206
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/206/mode/1up
جن کو انگریزی کی سوفسطائی اورؔ مغشوش تعلیموں نے مغرور اور کور باطن کرکے فرقان مجید کے بے مثل و مانند ہونے سے جو کہ اس کے منجانب اللہ ہونے کے لئے خاصہ لازمی ہے
انصاف و خدا ترسی ایک قانون پر موقوف ہے جس میں دقائق معدلت و حقائق معرفت الٰہی بدرستی تمام درج ہوں اور سہواً یا عمداً کسی نوع کا ظلم یا کسی نوع کی غلطی نہ پائی جاوے۔ اور ایسا قانون اسی کی طرف سے صادر ہوسکتا ہے جس کی ذات سہو و خطا و ظلم و تعدی سے بکلی پاک ہو اور نیز اپنی ذات میں واجب الانقیاد اور واجبؔ التعظیم بھی ہو۔ کیونکہ گو کوئی قانون عمدہ ہو مگر قانون کا جاری کرنے والا اگر ایسا نہ ہو جس کو باعتبار مرتبہ اپنے کے سب پر فوقیت اور حکمرانی کا حق ہو یا اگر ایسا نہ ہو جس کا وجود لوگوں کی نظر میں ہریک طور کے ظلم و خبث اور خطا اور غلطی سے پاک ہو تو ایسا قانون اول تو چل ہی نہیں سکتا اور اگر کچھ دن چلے بھی تو چند ہی روز میں طرح طرح کے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں اور بجائے خیر کے شرکا موجب ہوجاتا ہے۔ ان تمام وجوہ سے کتاب الٰہی کی حاجت ہوئی کیونکہ ساری نیک صفتیں اور ہریک طور کی کمالیت و خوبی صرف خدا ہی کی کتاب میں پائی جاتی ہے وبس۔دوم۔ حکمت تفاوتِ مراتب رکھنے میں یہ ہے کہ تا نیک اور پاک لوگوں کی خوبی ظاہر ہو کیونکہ ہر یک خوبی مقابلہ ہی سے معلوم ہوتی ہے۔ جیسے فرمایا ہے۔33 ۱ الجزو نمبر ۵۱ یعنے ہم نے ہر یک چیز کو جو زمین پر ہے زمین کی زینت بنا دیا ہے تا جو لوگ صالح آدمی ہیں۔ بمقابلہ برے آدمیوں کے ان کی صلاحیت آشکارا ہوجائے اور کثیف کے دیکھنے سے لطیف کی لطافت کھل جائے۔ کیونکہ ضد کی حقیقت ضد ہی سے شناخت کی جاتی ہے اور نیکوں کا قدر و منزلت بدوں ہی سے معلوم ہوتا ہے۔
سوم۔ حکمت تفاوت مراتب رکھنے میں انواع و اقسام کی قدرتوں کا ظاہر کرنا اور اپنی عظمت کی طرف توجہ دلانا ہے۔ جیسا فرمایا۔ 33 ۱ نمبر ۹۲۔ یعنے تم کو کیا ہوگیا کہ تم خدا کی عظمت کے قائل نہیں ہوتے حالانکہ اس نے اپنی عظمت ظاہر کرنے کیلئے تم کو مختلف صورتوں اور سیرتوں پر پیدا کیا۔ یعنے اختلافِ استعدادات و طبائع اسی غرض سے حکیم مطلق نے کیا۔ تا اُس کی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 207
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/207/mode/1up
روگردان اور منکر کردیا ہے۔ اور جنہوں نے مسلمانؔ کہلا کر اور قرآن شریف پر ایمان لاکر اور کلمہ گو بنکر پھر بھی بے ایمانوں کی طرح کلام الٰہی کو ایک ادنیٰ انسانعظمت و قدرت شناخت کی جائے۔ جیسا دوسری جگہ بھی فرمایا ہے۔33333۔الجزو نمبر ۸۱۔ ۱ یعنے خدا نے ہریک جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ سو بعض جاندار پیٹ پر چلتے ہیں اور بعض دو پاؤں پر بعض چارپاؤں پر۔ خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے یہ مختلف چیزیں اس لئے بنائیں کہ تا مختلف قدرتیں اس کی ظاہر ہوں۔ غرض اختلاف طبائع جو فطرت مخلوقات میں واقع ہے۔ اس میں حکمتؔ الٰہیہ انہیں امور ثلاثہ میں منحصر ہے جن کو خدائے تعالیٰ نے آیات ممدوحہ میں بیان کردیا۔ فتدبّر۔
وسوسۂ ششم:۔ معرفت کامل کا ذریعہ وہ چیز ہوسکتی ہے جو ہر وقت اور ہر زمانہ میں کھلے طور پر نظر آتی ہو۔ سو یہ صحیفہ نیچر کی خاصیت ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا اور ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور یہی رہبر ہونے کے لائق ہے۔ کیونکہ ایسی چیز کبھی رہنما نہیں ہوسکتی جس کا دروازہ اکثر اوقات بند رہتا ہو اور کسی خاص زمانہ میں کھلتا ہو۔
جواب۔ صحیفہ فطرت کو بمقابلہ کلام الٰہی کھلا ہوا خیال کرنا یہی آنکھوں کے بند ہونے کی نشانی ہے۔ جن کی بصیرت اور بصارت میں کچھ خلل نہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اسی کتاب کو کھلے ہوئے کہا جاتا ہے جس کی تحریر صاف نظر آتی ہو جس کے پڑھنے میں کوئی اشتباہ باقی نہ رہتا ہو۔ پر کون ثابت کرسکتا ہے کہ مجرد صحیفہ قدرت پر نظر کرنے سے کبھی کسی کا اشتباہ دور ہوا؟ کس کو معلوم ہے کہ اس نیچری تحریر نے کبھی کسی کو منزل مقصود تک پہنچایا ہے؟ کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں نے صحیفہ قدرت کے تمام دلالات کو بخوبی سمجھ لیا ہے؟ اگر یہ صحیفہ کھلا ہوا ہوتا تو جو لوگ اسی پر بھروسہ کرتے تھے وہ کیوں ہزارہا غلطیوں میں ڈوبتے۔ کیوں اسی ایک صحیفہ کو پڑھ کر باہم اس قدر مختلف الرائے ہوجاتے کہ کوئی خدا کے وجود کا کسی قدر قائل اور کوئی سرے سے انکاری۔ ہم نے بفرض محال یہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 208
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/208/mode/1up
کی کلام سے اپنی ظاہری اور باطنی خوبیوں میں برابر سمجھا ہے۔ وما قدروا اللہؔ حق قدرہ کا مصداق ہوکر خدا کی ان عظیم الشان قدرتوں اور باریک حکمتوں کوبھی تسلیم کیا کہ جس نے اس صحیفہ کو پڑھ کر خدا کے وجود کو ضروری نہیں سمجھا وہ اس قدر عمر پالے گا کہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر متنبہ ہوجائے گا۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر یہ صحیفہ کھلا ہوا تھا تو اس کو دیکھ کر ایسی بڑی بڑی غلطیاں کیوں پڑ گئیں۔ کیا آپ کے نزدیک کھلی ہوئی کتاب اسی کو کہتے ہیں جس کو پڑھنے والے خدا کے وجود میں ہی اختلاف کریں اور بسم اللہ ہی غلط ہو۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسی صحیفہ فطرت کو پڑھ کر ہزارہا حکیم اور فلاسفر دہریئے اور طبعی ہوکر مرے۔ یا ُ بتوں کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے اور وہی شخص ان میں سے راہ راست پر آیا جو الہام الٰہی پر ایمان لایا۔ کیا اس میں کچھ جھوٹ بھی ہے کہ فقط اس صحیفہ کے پڑھنے والے بڑے بڑے فیلسوف کہلا کر پھر خدا کے مدبّر و خالق بالارادہ اور عالم باِلجزئیات ہونے سے منکر رہے اور انکار ہی کی حالت میں مر گئے۔ کیا خدا نے تم کو اس قدر بھی سمجھ نہیں دی کہ جس خط کے مضمون کو مثلاً زید کچھ سمجھے اور بکر کچھ خیال کرے اور خالد ان دونوں کے برخلاف کچھ اور تصور کر بیٹھے تو اس خط کی تحریر کھلی ہوئی اور صاف نہیں کہلاتی بلکہ مشکوک اور مشتبہ اور مبہم کہلاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی دقیق بات نہیں جس کے سمجھنے کے لئے باریک عقل درکار ہو بلکہ نہایت بدیہی صداقت ہے۔ مگر ان کا کیا علاجؔ جو سراسر تحکم کی راہ سے ظلمت کو نور اور نور کو ظلمت قرار دیں اور دن کو رات اور رات کو دن ٹھہراویں۔ ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ مطالب دلی کو پورا پورا بیان کرنے کے لئے یہی سیدھا راستہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے کہ بذریعہ قول واضح کے اپنا مافی الضمیر ظاہر کیا جائے۔ کیونکہ دلی ارادوں کو ظاہر کرنے کے لئے صرف قوت نطقیہ آلہ ہے۔ اسی آلہ کے ذریعہ سے ایک انسان دوسرے انسان کے مافی القلب سے مطلع ہوتا ہے۔ اور ہریک امر جو اس آلہ کے ذریعہ سے سمجھایا نہ جائے وہ تفہیم کامل کے درجہ سے متنزل رہتا ہے۔ ہزارہا امور ایسے ہیں کہ اگر ہم ان میں فطرتی دلالت سے مطلب نکالنا چاہیں تو یہ امر ہمارے لئے غیر ممکن ہوجاتا ہے۔ اور اگر فکر بھی کریں تو غلطی میں پڑجاتے ہیں۔ مثلاً ظاہر ہے کہ خدا نے آنکھ دیکھنے کے لئے بنائی ہے۔ اور کان سننے کے لئے پیدا کئے ہیں۔ زبان بولنے کے لئے عطا کی ہے۔ اس قدر تو ہم نے ان اعضاء کی فطرت پر نظر کرکے اور ان کے خواص کو سوچ کر معلوم کرلیا۔ لیکن اگر ہم اسی فطرتی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 209
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/209/mode/1up
بھلا دیا ہے جن کے دیکھنے کے لئے ہریک صادر من اللہ آئینہ خدانما ہونا چاہئے لیکن یہ سچائیاں ایسی روشن اور صافؔ ہیں کہ گو کوئی شخص اسلام کی جماعت میںدلالت پر کفایت کریں اور تصریحات کلام الٰہی کی طرف متوجہ نہ ہوں تو بموجب دلالت فطرتی ہمارا یہ اصول ہونا چاہیئے کہ ہم جس چیز کو چاہیں بلاتفریق مواضع حلت و حرمت دیکھ لیا کریں اور جو چاہیں سن لیں اور جو بات دل میں آوے بول اٹھیں۔ کیونکہ قانون فطرت ہم کو اس قدر سمجھاتا ہے کہ آنکھ دیکھنے کے لئے کان سننے کے لئے زبان بولنے کے لئے مخلوق ہے اور ہم کو صریح اس دھوکے میں ڈالتا ہے کہ گویا ہم قوت بصارت اور قوت سمع اور قوت نطق کے استعمال کرنے میں بکلی آزاد اور مطلق العنان ہیں۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ اگر خدا کا کلام قانون قدرت کے اجمال کی تصریح نہ کرے اور اس کے ابہام کو اپنے بیان واضح اور کھلی ہوئی تقریر سے دور نہ فرماوے تو کس قدر خطرات ہیں جو محض قانون فطرت کا تابعدار ہوکر ان میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ یہ خدا ہی کا کلام ہے جس نے اپنے کھلے ہوئے اور نہایت واضح بیان سے ہم کو ہمارے ہریک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں حدود معینہ مشخصہ پر قائم کیا اور ادب انسانیت اور پاک روشی کا طریقہ سکھلایا۔ وہی ہے جس نے آنکھ اور کان اور زبان وغیرہ اعضاء کی محافظت کے لئے بکمال تاکید فرمایا۔33۔ الجزو نمبر ۸۱۔۱ یعنے مومنوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں اور سترگاہوں کو نامحرموں سے بچاویں اور ہریک نادیدنی اور ناشنیدنی اور ناکردنی سے پرہیز کریں کہ یہ طریقہ ان کی اندرونی پاکی کا موجب ہوگا یعنے ان کے دل طرح طرح کے جذبات نفسانیہ سے محفوظ رہیں گے۔ کیونکہ اکثرؔ نفسانی جذبات کو حرکت دینے والے اور قویٰ بہیمیہ کو فتنہ میں ڈالنے والے یہی اعضاء ہیں۔ اب دیکھئے کہ قرآن شریف نے نامحرموں سے بچنے کے لئے کیسی تاکید فرمائی۔ اور کیسے کھول کر بیان کیا کہ ایماندار لوگ اپنی آنکھوں اور کانوں اور سترگاہوں کو ضبط میں رکھیں اور ناپاکی کے مواضع سے روکتے رہیں۔ اسی طرح زبان کو صدق و صواب پر قائم رکھنے کے لئے تاکید فرمائی۔ اور کہا۔33۔ الجزو نمبر ۲۲۔ ۲ یعنے وہ بات منہ پر لاؤ جو بالکل راست اور نہایت معقولیت
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 210
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/210/mode/1up
داخل نہ ہو وہ بھی بطور مفہوم کلی سمجھ سکتا ہے کہ جس کلام کو خدا کا کلام کہا جائے۔ اس کامیں ہو۔ اور لغو اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سرِمو دخل نہ ہو۔ اور پھر جمیع اعضاء کی وضع استقامت پر چلانے کے لئے ایک ایسا کلمہ جامعہ اور ُ پر تہدید بطور تنبیہ و انذار فرمایا جو غافلوں کو متنبہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ اور کہا۔ 33ط الجزو نمبر ۵۱۔ ۱ یعنے کان اور آنکھ اور دل ایسا ہی تمام اعضاء اور قوتیں جو انسان میں موجود ہیں۔ ان سب کے غیر محل استعمال کرنے سے باز پرس ہوگی اور ہریک کمی و بیشی اور افراط اور تفریط کے بارہ میں سوال کیا جائے گا۔ اب دیکھو اعضاء اور تمام قوتوں کو مجری خیر اور صلاحیت پر چلانے کے لئے کس قدر تصریحات و تاکیدات خدا کے کلام میں موجود ہیں اور کیسے ہریک عضو کو مرکز اعتدال اور خط استوا پر قائم رکھنے کے لئے بکمال وضاحت بیان فرمایا گیا ہے جس میں کسی نوع کا ابہام و اجمال باقی نہیں رہا۔ کیا یہ تصریح و تفصیل صحیفہ قدرت کے کسی صفحہ کو پڑھ کر معلوم ہوسکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔ سو اب تم آپ ہی سوچو کہ کھلا ہوا اور واضحہ صحیفہ یہ ہے یا وہ۔ اور فطرتی دلالتوں کے مصالحہ اور حدود کو اس نے بیان کیا یا اس نے۔ اے حضرات!! اگر اشارات سے کام نکلتا تو پھر انسان کو زبان کیوں دی جاتی۔ جس نے تم کو زبان دی کیا وہ آپ نطق پر قادر نہیں۔ جس نے تم کو بولنا سکھایا کیا وہ آپ بول نہیں سکتا۔ جس نے اپنے فعل میں یہ قدرت دکھلائی کہ اتنا بڑا عالم بغیر مدد کسی مادہ ہیولیٰ کے اور بغیر احتیاج معماروں اور مزدوروں و نجاروں کے بمجرد ارادہ سب کچھ بنا ڈالا کیا اس کی نسبت یہ کہنا جائز ہے کہ وہ بات کرنے پر قادر نہیں۔ یا قادر تو ہے مگر بباعث بخل کے اپنے کلام کے فیضان سے محروم رکھا۔ کیا یہ درست ہے کہ قادر مطلق کی نسبت ایسا خیال کیا جائے کہ وہ اپنی طاقتوں میں حیوانات سے بھی فروتر ہے۔ کیونکہ ایک ادنیٰ جانور بذریعہ اپنی آواز کے دوسرے جانور کو یقینی طور پر اپنے وجود کی خبر دے سکتا ہے۔ ایک مکھی بھی اپنی طنین سے دوسری مکھیوں کو اپنے آنے سے آگاہ کرسکتی ہے۔ پَر نعوذ باللہ بقول تمہارے اس قادر مطلق میں ایک مکھی جتنی بھی قدرت نہیں۔ پھر جب اس کی نسبت تمہارا صاف بیان
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 211
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/211/mode/1up
بے مثل و مانند ہونا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ ہریکؔ عاقل خدا کے قانون قدرت پر نظر ڈال کر اور ہر یک چیز کو جو اس کی طرف سے ہے خواہ وہ کیسی ہی ادنیٰ سے ادنیٰ ہو۔ اُس کوہے کہ اس کا منہ کبھی نہیں کھلا اور کبھی اس کو بولنےؔ کی طاقت نہیں ہوئی تو تم کو تو یہ کہنا چاہیئے کہ وہ ادھورا اور ناقص ہے جس کی اور صفتیں تو معلوم ہوگئیں پر صفت گویائی کا کبھی پتہ نہ ملا۔ اس کی نسبت تم کس منہ سے کہہ سکتے ہو کہ اس نے کوئی کھلا ہوا صحیفہ جس میں اس نے بخوبی اپنا مافی الضمیر ظاہر کردیا ہو تم کو عطا کیا ہے۔ بلکہ تمہاری رائے کا تو خلاصہ ہی یہی ہے کہ خدائے تعالیٰ سے رہنمائی میں کچھ نہیں ہوسکا۔ تمہیں نے اپنی قابلیت اور لیاقت سے شناخت کرلیا۔ ماسوا اس کے الہامی تعلیم ان معنوں کرکے کھلی ہوئی ہے کہ اس کا اثر عام طور پر تمام لوگوں کے دلوں پر پڑتا ہے اور ہریک طور کی طبیعت اس سے مستفیض ہوتی ہے۔ اور مختلف اقسام کی فطرتیں اُس سے نفع اٹھاتی ہیں اور ہر رنگ کے طالب کو اس سے مدد پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بذریعہ کلام الٰہی بہت لوگ ہدایت یاب ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں اور بذریعہ مجرد عقلی دلائل کے بہت ہی کم بلکہ کالعدم۔ اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ جو شخص بہ حیثیت مخبر صادق لوگوں کی نظر میں ثابت ہوکر واقعات معاد میں اپنا تجربہ اور امتحان اور ملاحظہ اور معائنہ بیان کرتا ہے اور ساتھ ہی دلائل عقلیہ بھی سمجھاتا ہے وہ حقیقت میں ایک دوہرا زور اپنے پاس رکھتا ہے۔ کیونکہ ایک تو اس کی نسبت یہ یقین کیا گیا ہے کہ وہ واقعہ نفس الامر کا معائنہ کرنے والا اور سچائی کو بچشم خود دیکھنے والا ہے۔ اور دوسرے وہ بطور معقول بھی سچائی کی روشنی کو دلائل واضحہ سے ظاہر کرتا ہے۔ پس ان دونوں ثبوتوں کے اشتمال سے ایک زبردست کشش اس کے وعظ اور نصیحت میں ہوجاتی ہے کہ جو بڑے بڑے سنگین دلوں کو کھینچ لاتی ہے اور ہر نوع کے نفس پر کارگر بھی پڑتی ہے۔ کیونکہ اس کی بات میں مختلف طور کی تفہیم کی قدرت ہوتی ہے جس کے سمجھنے کے لئے ایک خاص لیاقت کے لوگ شرط نہیں ہیں۔ بلکہ ہر یک ادنیٰ و اعلیٰ و زیرک و غبی بجز ایسے شخص کے کہ جو بکلی مسلوب العقل ہو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 212
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/212/mode/1up
ہزارہا دقائق حکمت سے ُ پر دیکھ کر اور انسانی طاقتوں کے مقابلہ سے برتر اور بلنداُس کی تقریروں کو سمجھ سکتے ہیں اور وہ فوراً ہریک قسم کے آدمی کی اسی طور پر تسلی کرسکتا ہے کہ جس طور پر آدمی کی طبیعت واقعہ ہے یا جس درجے پر اس کی استعداد پڑی ہوئی ہے۔ اس لئے کلام اس کی خدا کی طرف خیالات کو کھینچنے میں اور دنیا کی محبت چھوڑانے میں اور احوال الآخرت نقش دل کرنے میں بڑی وسیع قدرت رکھتی ہے اور ان تنگ اور تاریک تصوروں میں محدود نہیں ہوتی جن میں مجرد عقل پرستوں کی باتیں محدود ہوتی ہیں۔ اسی جہت سے اس کا اثر عام اور اس کا فائدہ تام ہوتا ہے۔ اور ہریک ظرف اپنی اپنی وسعت کے مطابق اس سے پر ہوجاتا ہے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس میں اشارہ فرمایاؔ ہے۔3 3۔ الجزو نمبر ۳۱۔۱ خدا نے آسمان سے پانی (اپنا کلام) اتارا۔ سو اس پانی سے ہر یک وادی اپنی قدر کے موافق بہ نکلی۔ یعنے ہریک کو اس میں سے اپنی طبیعت اور خیال اور لیاقت کے موافق حصہ ملا۔ طبائع عالیہ اسرار حکمیہ سے متمتع ہوئیں۔ اور جو ان سے بھی اعلیٰ تھے انہوں نے ایک عجیب روشنی پائی کہ جو حد تحریر و تقریر سے خارج ہے اور جو کم درجے پر تھے انہوں نے مخبر صادق کی عظمت اور کمالیت ذاتی کو دیکھ کر دلی اعتقاد سے اس کی خبروں پر یقین کرلیا اور اس طرح پر وہ بھی یقین کی کشتی میں بیٹھ کر ساحل نجات تک جاپہنچے اور صرف وہی لوگ باہر رہ گئے جن کو خدا سے کچھ غرض نہ تھی اور فقط دنیا کے ہی کیڑے تھے۔ اور نیز قوت اثر پر نظر کرنے سے بھی طریق متابعت الہام کا نہایت کھلا ہوا اور وسیع معلوم ہوتا ہے کیونکہ جاننے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ تقریر میں اسی قدر برکت اور جوش اور قوت اور عظمت اور دلکشی پیدا ہوتی ہے کہ جس قدر متکلم کا قدم مدارج یقین اور اخلاص اور وفاداری کے اعلیٰ درجے پر پہنچا ہوا ہوتا ہے۔ سو یہ کمالیت بھی اسی شخص کی تقریر میں متحقق ہوسکتی ہے کہ جس کو دوہرے طور پر معرفت الٰہی حاصل ہو۔ اور یہ خود ہریک عاقل پر روشن ہے کہ پرجوش تقریر کہ جس پر ترتیب اثر موقوف ہے تب ہی انسان کے منہ سے نکلتی ہے کہ جب دل اس کا یقین کے جوش سے پرہو۔ اور وہی باتیں دلوں پر بیٹھتی ہیں جو کامل الیقین
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 213
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/213/mode/1up
پاکرؔ اپنے تئیں اس اقرار کے کرنے کے لئے مجبور پاتا ہے کہ کوئی چیز جو صادر من اللہ ہے ایسی نہیں ہے جس کی مثل بنانے پر انسان قادر ہو اور نہ کسی عاقل کی عقل یہ تجویز کرسکتی ہے کہ خدا کی ذات یا ؔ صفات یا افعال میں مخلوق کا شریک ہونا جائز ہےدلوں سے جوش مار کر نکلتی ہیں۔ پس اس جگہ بھی یہی ثابت ہوا کہ باعتبار شدت اثر بھی الہامی تربیت ہی منفتح الابواب ہے۔ غرض باعتبار عمومیت تاثیر اور باعتبار شدت تاثیر فقط صحیفہ وحی کا کھلا ہوا ہونا بپایہ ثبوت پہنچتا ہے وبس۔ اور یہ مسئلہ بدیہات سے کچھ کم نہیں ہے کہ خدا کے بندوں کو زیادہ تر نفع پہنچانے والا وہی شخص ہوتا ہے کہ جو الہام اور عقل کا جامع ہو۔ اور اس میں یہ لیاقت ہوتی ہے کہ ہریک طور کی طبیعت اور ہرقسم کی فطرت اس سے مستفیض ہوسکے۔ مگر جو شخص صرف براہین منطقیہ کے زور سے راہ راست کی طرف کھینچنا چاہتا ہے۔ اگر اس کی مغززنی پر کچھ ترتیب اثر بھی ہو تو صرف ان ہی خاص طبیعتوں پر ہوگا کہ جو بوجہ تعلیم یافتہ ولائق وفائق ہونے کے اس کی عمیق و دقیق باتوں کو سمجھتے ہیں۔ دوسرے تو ایسا دل و دماغ ہی نہیں رکھتے کہ جو اس کی فلاسفری تقریر کو سمجھ سکیں۔ ناچار اس کے علم کا فیضان فقط انہیں قدر قلیل لوگوں میں محدود رہتا ہے کہ جو اس کی منطق سے واقف ہیں اور انہیں کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے کہ جو اُسؔ کی طرح معقولی حجتوں میں دخل رکھتے ہیں۔ اس امر کا ثبوت اس حالت میں بوضاحت تمام ہوسکتا ہے کہ جب مجرد عقل اور الہام حقیقی کی کارروائیوں کو پہلو بہ پہلو رکھ کر وزن کیا جاوے۔ چنانچہ جن کو گزشتہ حکماء کے حالات سے اطلاع ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کیسے وہ لوگ اپنی تعلیم کی اشاعت عامہ سے ناکام رہے اور کیونکر ان کے منقبض اور ناتمام بیان نے عام دلوں پر موثر ہونے سے اپنی محرومی دکھلائی۔ اور پھر بمقابلہ اس حالت متنزلہ ان کی کے قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی تاثیروں کو بھی دیکھئے کہ کس قوت سے اس نے وحدانیت الٰہی کو اپنے سچے متبعین کے دلوں میں بھرا ہے اور کس عجیب طور سے اس کی عالیشان تعلیموں نے صدہا سالوں کی عادات راسخہ اور ملکات ردّیہ کا قلع و قمع کرکے اور ایسی رسوم قدیمہ کو کہ جو طبیعت ثانی کی طرح ہوگئیں تھیں دلوں کے رگ و ریشہ سے اٹھا کر وحدانیت الٰہی کا شربت عذب کروڑہا لوگوں کو پلا دیا ہے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 214
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/214/mode/1up
بلکہ صاحب عقل اور بصیرت کے علاوہ دلائل متذکرہ بالا کے کئی ایک اور وجوہ بھی ہیں جن سے خدا کے کلام کا عدیم المثال ہونا اور بھی زیادہؔ اس پر واضحوہی ہے جس نے اپنا کار نمایاں اور نہایت عمدہ اور دیرپا نتائج دکھلا کر اپنی بے نظیر تاثیر کی دو بدو شہادت سے بڑے بڑے معاندوں سے اپنی لاثانی فضیلتوں کا اقرار کرایا۔ یہاں تک کہ سخت بے ایمانوں اور سرکشوں کے دلوں پر بھی اس کا اس قدر اثر پڑا کہ جس کو انہوں نے قرآن شریف کی عظمت شان کا ایک ثبوت سمجھا اور بے ایمانی پر اصرار کرتے کرتے آخر اس قدر انہیں بھی کہنا پڑا کہ 3۔ جزو نمبر ۳۲۔۱ ہاں وہی ہے جس کی زبردست کششوں نے ہزارہا درجہ عادت سے بڑھ کر ایسا خدا کی طرف خیال دلایا کہ لاکھوں خدا کے بندوں نے خدا کی وحدانیت پر اپنے خون سے مہریں لگا دیں۔ ایسا ہی ہمیشہ سے بانی کار اور ہادی اس کام کا الہامؔ ہی چلا آیا ہے جس سے انسانی عقل نے نشوونما پایا۔ ورنہ بڑے بڑے حکیموں اور عقلمندوں کے لئے بھی یہ بات سخت محال رہی ہے کہ ان کو امور ماوراء المحسوسات کی ہرجزئی کے دریافت کرنے میں ایسا موقعہ ہمیشہ مل جائے کہ یہ بات معلوم کرسکیں کہ کس کس وضع اور خصوصیت سے وہ جزئیات موجود ہیں اور جن کو طاقت بشری تک عقل حاصل ہی نہیں یا جہد اور کوشش کرنے کے سامان میسر نہیں آئے وہ تو انکی نسبت بھی زیادہ لاعلم اور بے خبر ہیں۔ پس اس بارہ میں جو جو سہولتیں خدا کے سچے اور کامل الہام نے کہ جو قرآن شریف ہے عقل کو عطا کی ہیں اور جن جن سرگردانیوں سے فکر اور نظر کو بچایا ہے وہ ایک ایسا امر ہے کہ جس کا ہر یک عاقل کو شکر کرنا لازم ہے۔ سو کیا اس اعتبار سے کہ ابتدا امر خدا شناسی کی الہام ہی کے ذریعہ سے ہوئی ہے اور کیا اس وجہ سے کہ معرفت الٰہی کا ہمیشہ ازسرنو زندہ ہونا الہامؔ ہی کے ہاتھ سے ہوتا آیا ہے اور کیا اس خیال سے کہ مشکلات راہ سے رہائی پانا الہام ہی کی امداد پر منحصر ہے ہر عاقل کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ راہ جو نہایت صاف اور سیدھی اور ہمیشہ سے کھلی ہوئی اور مقصود تک پہنچاتی ہوئی چلی آئی ہے وہ وحی ربانی ہے۔ اور یہ سمجھنا کہ وہ کھلا ہوا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 215
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/215/mode/1up
ہوتا ہے اور مثل اجلیٰ بدیہات کے نظر آتا ہے جیسے منجملہ ان کے ایک وہ وجہ ہے جو ان نتائج متفاوتہ سے ماخوذ ہوتی ہے۔ جن کا مختلف طور پر بحالت عمل صادرصحیفہ نہیں محض لاطائل اور سراسر حمق ہے۔ علاوہ برآں ہم پہلے اس سے برہمو سماج والوں کی خداشناسی کے بارہ میں بہ تفصیل لکھ چکے ہیں کہ ایمان ان کا جو صرف دلائل عقلیہ پر مبنی ہے ہونا چاہیئے کے مرتبے تک محدود ہے اور مرتبہ کاملہ ہے کا انہیں نصیب نہیں۔ سو اس تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہے کہ کھلا ہوا اور واضح راستہ معرفت الٰہی کا صرف بذریعہ کلام الٰہی ملتا ہے اور کوئی ذریعہ اس کے وصول و حصول کا نہیں۔ ایک بچہ نوزاد کو تعلیم سے محروم رکھ کر صرف صحیفہ فطرت پر چھوڑ دو۔ پھر دیکھو کہ وہ اس صحیفہ کے ذریعہ سے جس کو برہمو سماج والے کھلا ہوا خیال کررہے ہیں کون سی معرفت حاصل کرلیتا ہے اور کس درجہ خداشناسی پر پہنچ جاتا ہے۔ بہت سے تجارب سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اگر کوئی سماعی طور پر جس کا اصل الہام ہے خدا کے وجود سے اطلاع نہ پاوے تو پھر اس کو کچھ پتہ نہیں لگتا کہ اس عالم کا کوئی صانع ہے یا نہیں۔ اور اگر کچھ صانع کی تلاش میں توجہ بھی کرے تو صرف بعض مخلوقات جیسے پانی۔ آگ۔ چاند۔ سورج وغیرہ کو اپنی نظر میں خالق و قابل پرستش قرار دے لیتا ہے۔ جیسا یہ امر جنگلی آدمیوں پر نظر کرنے سے ہمیشہ بہ پایہ تصدیق پہنچتا رہا ہے۔ پس یہ الہام ہی کا فیض ہے جس کی برکتوں سے انسان نے اس خدائے بے مثل و مانند کو اسی طرح پر شناخت کرلیا جیسا اس کی ذات کامل و بے عیب کے لائق ہے۔ اور جو لوگ الہام سے بے خبر ہوگئے اور کوئی کتاب الہامی ان میں موجود نہ رہی اور نہ کوئی ذریعہ الہام پر اطلاع پانے کا ان کو میسر آیا باوجود اس کے کہ آنکھیں بھی رکھتے تھے اور دل بھی مگر کچھ بھی معرفت الٰہی ان کو نصیب نہ ہوئی بلکہ رفتہ رفتہ انسانیت سے بھی باہر ہوگئے اور قریب قریب حیوانات لایعقل کے پہنچ گئے اور صحیفہ فطرت نے کچھ بھی ان کو فائدہ نہ پہنچایا۔ پس ظاہر ہے کہ اگر وہ صحیفہ کھلا ہوا ہوتا۔ تو اس سے جنگلی لوگ فائدہ اٹھا کر معرفت اور خداشناسی میں ان لوگوں کے برابر ہوجاتے جنہوں نے بذریعہ الہام الٰہی خداشناسی میں ترقی کی۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 216
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/216/mode/1up
ہونا ضروری ہے۔ تفصیل اسؔ کی یہ ہے کہ ہرایک عاقل کی نظر میں یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ جب چند متکلمین انشاپرداز اپنی اپنی علمی طاقت کے زور سے ایک ایسا مضمونپس صحیفہ فطرت کے بند ہونے میں اس سے زیادہ تر اور کیا ثبوت ہوگا کہ جس کسی کا کام صرف اسی صحیفہ سے پڑا اور الہام الٰہی کا اس نے کبھی نام نہ سنا وہ خدا کی شناخت سےؔ بالکل محروم بلکہ انسانیت کے آداب سے بھی دور اور مہجور رہا۔
اور اگر صحیفہ فطرت کے کھلے ہوئے ہونے سے یہ مطلب ہے کہ وہ جسمانی طور پر نظر آتا ہے تو یہ بے سود خیال ہے جس کو بحث ہذا سے کچھ تعلق نہیں۔ کیونکہ جس حالت میں کوئی شخص صرف اس صحیفہ فطرت پر نظر کرکے کوئی فائدہ علم دین کا اٹھا نہیں سکتا اور جب تک الہام رہبری نہ کرے خدا کو پانہیں سکتا تو پھر ہمیں اس سے کیا کہ کوئی چیز ہر وقت نظر آرہی ہے یا نہیں۔
اور یہ گمان کہ الہام الٰہی کا دروازہ کسی زمانہ میں بند رہا تھا اس سے بھی اگر کچھ ثابت ہو تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ برہمو سماج والوں کو سلسلہ دنیا کی تاریخ سے کچھ بھی خبر نہیں اور نرے اس اندھے کی طرح ہیں کہ جو راستہ چھوڑ کر کسی گڑھے میں گر پڑے اور پھر شور مچادے کہ ہے ہے کس ظالم نے راستہ میں گڑھا کھود رکھا ہے۔ اور یا ایسے متعصبانہ خیالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ برہمو لوگ دانستہ حق پر پردہ ڈالتے ہیں اور جان بوجھ کر ایک امر مشہود و موجود سے انکاری ہیں۔ ورنہ کیونکر باور کیا جائے کہ وہ ایک چھوٹے بچہ کی طرح ایسے ناواقف ہیں کہ اب تک انہیں اس بدیہی صداقت کی بھی کچھ خبر نہیں کہ ہمیشہ توحید الٰہی صرف الہام ہی کے ذریعہ سے پھیلتی رہی ہے اور معرفت الٰہی کے طالبوں کے لئے قدیم سے یہی دروازہ کھلا رہا ہے۔ اے حضرات!! کچھ خدا کا خوف کریں۔ اتنا خلاف گوئی میں بڑھتے نہ جائیں۔ اگر آپ کی بصیرت میں کچھ خلل ہے تو کیا بصارت بھی جاتی رہی ہے۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ کروڑہا کروڑ موحد یعنی اہل اسلام جن کے دل توحید کے چشمہ صافی سے لبریز ہورہے ہیں اور جن کی وحدانیت خالص کے مقابلہ پر آپ لوگوں کے عقائد میں کئی طرح سے شرک کی آلودگی اور صدہا طرح
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 217
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/217/mode/1up
لکھنا چاہیں کہ جو فضول اور کذب اور حشو اور لغو اورہزلؔ اور ہر یک مہمل بیانی اور ژولیدہ زبانی اور دوسرے تمام امور مخل حکمت وبلاغت اور آفات منافی کمالیت وجامعیتکا فتور و قصور پایا جاتا ہے وہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کلام الٰہی سے فیض پایا۔ وہی چشمہ خدا کے کلام کا جوش مار کر دور دور تک بہ نکلا۔ اُسی نے ہندوستان کے خشک شدہ باغ کو بھی ثلث کے قریب سرسبز کردیا اور جو باقی رہ گئے ان میں سے بھی کئی دلوں پر اس پاک چشمہ کا اثر جاپڑا اور کچھ نہ کچھ ان کو بھی توحید کی طرف کھینچ لایا۔ قرآن کے پہنچنے سے پہلے جس حالت تک ہندوؤں کی گمراہی پہنچ گئی تھی وہ حالت ان پرانوں اور پستکوں کو پڑھ کر معلوم کرنی چاہیئے کہ جو قرآن کے آنے سے کچھ تھوڑے دن پہلے تصنیف ہوچکے تھے جن کی مشرکانہ تعلیموں نے تمام ہندوستان کو ایک دائرہ کی طرح گھیرؔ لیا تھا تا تمہیں معلوم ہو کہ اس زمانے میں تمہارے بزرگ رشیوں کے کیسے خیالات تھے اور تمہارے مرتاض منی اور رکھی کن کن توہمات باطلہ میں ڈوب گئے تھے اور کیونکر بے جان مورتوں کے آگے ہاتھ جوڑتے اور آباہن کے منتر پڑھتے تھے۔ باوصف اس کے کہ اس زمانہ میں بہت سا حصہ ان کو علوم عقلیہ میں سے حاصل ہوچکا تھا اور وید کے زمانہ کی نسبت فکر اور نظر کی مشق میں بہت کچھ ترقی کرگئے تھے بلکہ منطق اور فلسفہ میں یونانیوں سے کچھ کم نہ تھے۔ مگر عقائد ایسے خراب اور ناپاک تھے کہ جو ظاہراً اور باطناً بتمامہا شرک کی غلاظتوں سے آلودہ تھے اور جن کو کوئی حقانی صداقت چھو بھی نہیں گئی تھی اور سر سے پاؤں تک جھوٹے اور بے بنیاد اور نکمے اور باطل تھے۔ جن کی تحریک سے تمام جہان کو آپ کے عقلمند بزرگوں نے اپنا معبود ٹھہرا رکھا تھا۔ اگر ایک درخت تازہ و سرسبز و خوشنما نظر آیا اسی کو اپنا معبود ٹھہرایا۔ اگر کوئی آگ کا شعلہ زمین سے نکلتا پایا۔ اسی کی پوجا شروع کردی۔ اور جس چیز کو اپنی صورت یا خاصیت میں عجیب دیکھا یا ہولناک معلوم کیا وہی اپنا پرمیشر بنالیا۔ نہ پانی چھوڑا نہ ہوا نہ آگ نہ پتھر نہ چاند نہ سورج نہ پرند نہ چرند۔ یہاں تک کہ سانپوں کی بھی پوجا کی۔ بلکہ ویدوں میں تو ابھی مخلوق پرستی کی تعلیم کچھ تھوڑی تھی اورمورت پوجا کا تو ہنوز کچھ ذکر ہی نہ تھا مگر جو صاحب
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 218
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/218/mode/1up
سے بکلّی منزہ اور پاک ہو۔ اور سراسر حق اور حکمت اور فصاحت اور بلاغت اور حقائق ؔ اور معارف سے بھرا ہوا ہو تو ایسے مضمون کے لکھنے میں وہی شخص سب سےپیچھے سے بڑے بڑے منطقی بن کر ان پر حاشیئے چڑھاتے گئے۔ انہوں نے صدہا مصنوعی پرمیشر بنانے یا آپ ہی پرمیشر بن جانے میں وہ کمال دکھلایا جس سے ان کی نظروں اور فکروں کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ وہ طرح طرح کے اوہامِ سوداویہ میں پڑ کر ذات مدبر عالم کے حقیقی وجود اور اس کی تمام صفات کاملہ سے منکر ہوگئے اور جو کچھ ان کے اپنشدوں اور پرانوں اور پستکوں نے ہندوؤں کے دلوں میں تاثیریں کیں اور جن جن توّہمات میں ان کو ڈال دیا اور جن راہوں پر ان کو قائم کردیا اور جن چیزوں کی پرستش کی طرف انہیں جھکا دیا وہ ایسا امر نہیں ہے کہ جو کسی پر پوشیدہ ہو یا کسی کے چھپانے سے چھپ سکے یا کسی کے انکار سے مشتبہ ہو جائے علیٰ ہذا القیاس یونانیوں کا بھی یہی حال تھا۔ انہوں نے بھی کوے کی طرح زیرک کہلا کر پھر شرک کی نجاست کھائی اور مجرد عقل نے کسی زمانہ میں کوئی ایسی جماعت طیار نہ کی جو توحید خالص پر قائم ہوتی اور میں نے بخوبی تحقیق کیا ہے کہ برہمو سماج والوں کی توحید کی طرف مائل ہونے کی بھی یہی اصل ہے کہ جو ان کے بعض بزرگوں میں سے وہ شخص جو بانی مبانی اس مذہب کا تھا۔ اس نے قرآن شریف ہی سے کسی قدر توحید کا حصہ حاصل کیا تھا مگر اپنی بدنصیبی سے پوری توحید حاصل نہ کرسکاپھر وہی تخم توحید جو خدا کی کلام سے لیا گیا تھابرہمو سماج والوں میں پھیلتا گیا اگر کسی صاحب کو حضراتؔ ِ برہمو میں سے ہماری اس تحقیق میں کچھ کلام ہو تو لازم ہے کہ وہ ہمارے اس سوال کا مدلّل طور پر جواب دیں کہ ان کو مسئلہ توحید کا کیونکر حاصل ہوا آیا بطور سماع پہنچا یا ان کے کسی بانی نے صرف اپنی عقل سے ایجاد کیا اگر بطور سماع پہنچا تو کھول کر بیان کرنا چاہیئے کہ بجز قرآن شریف اَور کون سی کتاب تھی جس نے خدا کا واحد لاشریک ہونا اور عیال و اطفال سے پاک ہونا اور حلول اور تجسم سے منزہ رہنا اور اپنی ذات اور جمیع صفات میں کامل اور یگانہ ہونا اس زمانہ میں خطہ ہندوستان میں مشہور کررکھا تھا جس سے یہ مسئلہ توحید ان کو حاصل ہوا اس کتاب کا نام بتلانا چاہیئے اور اگر یہ دعویٰ ہے کہ اس بانی کو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 219
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/219/mode/1up
اول درجہ پر رہے گا کہ جو علمی طاقتوں اور وسعت معلومات اور عام واقفیت اور ملکہ علوم دقیقہ میں سب سے اعلیٰ اور مشقؔ اور ورزشِ املاء و انشاء میں سب سے زیادہ ترتوحید کی خبر بطور سماع نہیں پہنچی بلکہ اس نے صرف اپنی ہی عقل کے زور سے اس مسئلہ کو پیدا کیا تو اس صورت میں یہ ثابت کرکے دکھلانا چاہیئے کہ بانی مذکور کے وقت میں یعنے جس زمانہ میں برہمو مذہب کا بانی مبانی ایک مذہب جاری کرنے لگا۔ اس وقت ہندوستان میں بذریعہ قرآن شریف ابھی توحید نہیں پھیلی تھی کیونکہ اگر پھیل چکی تھی تو پھر توحید کا دریافت کرنا ایک ایجاد خیال نہیں کیا جائے گا بلکہ یقینی طور پر یہی سمجھا جائے گا کہ اس برہمو مذہب کے بانی نے قرآن شریف سے ہی مسئلہ توحید کو حاصل کیا تھا بہرحال جب تک آپ لوگ دلائل قویہ سے میری اس رائے کو ردّ نہ کریں تب تک یہی ثابت ہے کہ آپ لوگوں نے قرآن شریف سے ہی مسئلہ وحدانیتِ الٰہی معلوم کیا مگر نمک حرام آدمی کی طرح کافر نعمت رہے اور اپنے محسن اور مُربی کا شُکر بجا نہ لائے بلکہ ان لوگوں کی طرح جن کی طینت میں خبث اور فساد ہوتا ہے بجائے شکر بجالانے کے بدگوئی اختیار کی۔ ماسوائے اس کے تمام تواریخ دان بخوبی جانتے ہیں کہ ازمنہ سابقہ میں بھی جب کسی نے خدا کے نام اور اس کی صفات کاملہ سے پوری پوری واقفیت حاصل کی تو الہام ہی کے ذریعہ سے کی اور عقل کے ذریعہ سے کسی زمانہ میں بھی توحید الٰہی شائع نہ ہوئی یہی وجہ ہے کہ جس جگہ الہام نہ پہنچا اس جگہ کے لوگ خدا کے نام سے بے خبر اور حیوانات کی طرح بے تمیز اور بے تہذیب رہے کون کوئی ایسی کتاب ہمارے سامنے پیش کرسکتا ہے کہ جو ازمنہ سابقہ میں سے کسی زمانہ میں علم الٰہی کے بیان میں تصنیف ہوئی ہو اور حقیقی سچائیوں پر مشتمل ہو جس میں مصنف نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے خداشناسی کے مستقیم راہ کو بذریعہ الہام حاصل نہیں کیا اور نہ خدائے واحد کی ہستی پر بطور سماع اطلاع پائی ہے بلکہ خدا کا پتہ لگانے اور صفات الٰہیہ کے جاننے اور معلوم کرنے میں صرف اپنی ہی عقل اور اپنے ہی فکر اور اپنی ہی ریاضت اور اپنی ہی عرق ریزی سے مدد ملی ہے اور بلا تعلیم غیرے آپ ہی مسئلہ وحدانیتؔ الٰہی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 220
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/220/mode/1up
فرسودہ روزگار ہو اور ہرگز ممکن نہ ہوگا کہ جو شخص اس سے استعداد میں، علم میں، لیاقت میں، ملکہ میں، ذہن میں، عقل میں کہیں فروتر اور متنزل ہے وہؔ اپنی تحریرکو معلوم کرلیا ہے اور خودبخود ذہن خدائے تعالیٰ کی سچی معرفت اور کامل شناسائی تک پہنچ گیا ہے۔ کون ہم کو ثابت کرکے دکھلا سکتا ہے کہ کوئی ایسا زمانہ بھی تھا کہ دنیا میں الہام الٰہی کا نام و نشان نہ تھا اور خدا کی مقدس کتابوں کا دروازہ بند تھا اور اس زمانے کے لوگ محض صحیفہ فطرت کے ذریعہ سے توحید اور خداشناسی پر قائم تھے۔ کون کسی ایسے ملک کا نشان بتلاسکتا ہے جس کے باشندے الہام کے وجود سے محض بے خبر رہ کر پھر فقط عقل کے ذریعہ سے خدا تک پہنچ گئے اور صرف اپنی ہی فکر و نظر سے وحدانیت حضرت باری پر ایمان لے آئے۔ آپ لوگ کیوں جاہلوں کو دھوکا دیتے ہیں اور کیوں بہ یکبارگی خدا سے بے خوف ہوکر فریب و تدلیس کی باتیں منہ پر لاتے ہیں اور جو کھلا ہوا ہے اس کو بند اور جو بند ہے اس کو کھلا ہوا بیان کرتے ہیں۔ کیا آپ کو اس ذات قادر مطلق پر ایمان ہے یا نہیں کہ جو انسان کے دل کی حقیقت خوب جانتا ہے اور جس کی نظر عمیق سے خیانت پیشہ لوگ پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ لیکن یہی تو مشکل ہے کہ آپ کا ایمان ہی تنگ اور تاریک جگہ کی طرح ہے جس تک صاف اور بے دود روشنی کا نشان نہیں پہنچا۔ اسی وجہ سے آپ لوگوں کا مذہب بھی ہزاروں طرح کی تنگیوں اور ظلمتوں کا مجموعہ ہے اور ایسا منقبض ہے کہ کوئی گوشہ اس کا کھلا ہوا نظر نہیں آتا اور کوئی عقدہ صفائی اور درستی سے طے شدہ معلوم نہیں ہوتا۔ خدا کے وجود کے بارے میں تو تم سن ہی چکے ہو کہ آپ لوگوں کا ایمان کیسا اور کس قدر ہے۔ رہی یہ بات کہ جزاسزا کے معاملہ پر آپ لوگوں کے یقین کا کیا حال ہے اور قانون قدرت نے اس بارہ میں کن کن معارف کا آپ پر دروازہ کھول رکھا ہے۔ سو اس امر میں بھی بجز واہی خیالوں اور سوداوی وہموں کے اور کچھ بھی آپ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں۔ جزا سزا کی جزئیات دقیقہ تو یقینی طور پر کیا معلوم ہوں گی۔ اول یہی بات آپ لوگوں پر یقینی طور پر ثابت نہیں کہ جزا سزا فی الواقعہ ایک امر شدنی ہے اور خدا ضرور انسانوں کو ان کے عملوں کا بدلہ دے گا۔ بھلا اگر معلوم ہے تو آپ ذرہ عقلی طور پر ثابت کرکے دکھلائیے کہ خدا پر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 221
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/221/mode/1up
میں من حیث الکمالات اُس سے برابر ہوجائے۔ مثلاً ایک طبیب حاذق جو علم ابدان میںکیوں یہ فرض ہے کہ بنی آدم کو ان کی پرہیزگاری کا ضرور بدلہ دے اور فاسقوں سے ان کے فسق و فجور کا مواخذہ کرے۔ جس حالت میں خدا پر خود یہی فرض نہیں کہ انسان کی روح کو برخلاف تمام حیوانوں کی روحوں کے ہمیشہ کے لئے موجود رکھے اور دوسرے سب جاندار ان کی روح معدوم کردے تو پھر خاص انسان کو جزا سزا دینا اور دوسروں کو اس سے بے نصیب رکھنا کیونکر اس پر فرض ہوجائے گا۔ کیا تمہاری نیکیوں سے خدا کو کچھ فائدہ پہنچتا ہے اور تمہاری بدیوں سے اس کو کچھ تکلیف ملتی ہے تا وہؔ نیکیوں۱ سے آرام پاکر ان کو نیکی کا بدلہ دے اور بدوں سے ایذا اٹھا کر ان سے کینہ کشی کرے اور اگر تمہاری نیکی بدی سے اس کا نہ کچھ ذاتی فائدہ ہے نہ نقصان تو پھر تمہاری اطاعت یا عدم اطاعت اس کے لئے برابر ہے اور جب برابر ہوئی تو پھر اس صورت میں اعمال پر خواہ نخواہ پاداش کا مترتب ہونا کیونکر یقینی طور پر ثابت ہو۔ کیا یہ قرین انصاف ہے کہ کوئی شخص محض اپنی مرضی سے بغیر حکم دوسرے کے کوئی کام کرے اور دوسرے پر خواہ نخواہ اس کا حق ٹھہر جائے ہرگز نہیں مثلاً اگر زید بدوں حکم بکر کے کوئی گڑھا کھودے یا کوئی عمارت بناوے تو گو یہ بھی تسلیم کرلیں کہ اس گڑھے یا عمارت میں بکر کا سراسر فائدہ ہے پر تب بھی ازروئے قانون انصاف کے ہرگز بکر پر واجب نہیں ہوتا کہ زید کی محنت اور سعی کا عوض ادا کرے۔ کیونکہ زید کی وہ محنت صرف اپنے ہی خیال سے ہے نہ بکر کی فہمائش اور حکم سے۔ پھر جس حالت میں ہماری نیکیوں سے خدا کو کچھ فائدہ بھی نہیں پہنچتا بلکہ تمام عالم کے پرہیزگار اور نیکوکار ہوجانے سے بھی خدا کی بادشاہت ایک ذرہ زیادہ نہیں ہوتی اور نہ ان سب کے فاسق اور بدکار ہوجانے سے اس کی بادشاہی میں ایک ذرہ خلل آتا ہے تو پھر اس صورت میں جب تک خدا کی طرف سے کوئی صریح وعدہ نہ ہو کیونکر یقینی طور پر سمجھا جائے کہ وہ ہماری نیکیوں یا ہماری بدیوں کا ضرور ہمیں پاداش دے گا ہاں اگر خدا کی طرف سے کوئی وعدہ ہو تو اس صورت میں ہریک عقل سلیم بہ یقین تمام سمجھتی ہے کہ وہ اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرے گا اور ہر شخص بشرطیکہ نرا احمق نہ ہو بخوبی جانتا ہے کہ وعدہ اور عدم وعدہ ہرگز برابر نہیں ہوسکتے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 222
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/222/mode/1up
مہارت تامہ رکھتا ہے جس کو زمانہ دراز کی مشق کے باعث سے تشخیص امراض اور تحقیق عوارض کیؔ پوری پوری واقفیت حاصل ہے اور علاوہ اس کے فن سخنجو تسلی اور تشفی وعدہ سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ نری خود تراشیدہ خیالات سے ممکن نہیں مثلاً خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایمانداروں کو یہ وعدہ دیا ہے۔ 3 33۔۱ الجزو نمبر ۵۔ یعنے خدا مومنین صالحین کو ہمیشہ کی بہشت میں داخل کرے گا۔ خدا کی طرف سے یہ سچا وعدہ ہے اور خدا سے زیادہ تر سچا اپنی باتوں میں اور کون ہے۔ اب خود منصف ہوکر بتلاؤ کہ کیا اس صریح وعدہ سے صرف اپنے ہی دل کے خیالات برابر ہوسکتے ہیں کیا کبھی یہ دونوں صورتیں یکساں ہوسکتی ہیں کہ ایک کو ایک راستباز کسی قدر مال دینے کا اپنی زبان سے وعدہ کرے اور دوسرے کو وہ راستباز اپنی زبان سے کچھ بھی وعدہ نہ کرے کیا مبشر اور غیر مبشر دونوں برابر ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں۔ اب اپنے ہی دل میں سوچو کہ زیادہ صاف اور کھلا ہوا اور بااطمینان وہ کام ؔ ہے کہ جس میں خدا کی طرف سے نیک اجر دینے کا وعدہ ہو یا وہ کام کہ جو فقط اپنے ہی دل کا منصوبہ ہو اور خدا کی طرف سے خاموشی ہو۔ کون دانا ہے کہ جو وعدہ کو غیر وعدہ سے بہتر نہیں جانتا کون سا دل ہے جو وعدہ کے لئے نہیں تڑپتا اگر خدا کی طرف سے ہمیشہ چپ چاپ ہی ہو تو پھر اگر خدا کی راہ میں کوئی محنت بھی کرے تو کس بھروسہ پر۔ کیا وہ اپنے ہی تصورات کو خدا کے وعدے قرار دے سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ جس کا ارادہ ہی معلوم نہیں کہ وہ کونسا بدلہ دے گا اور کیونکر دے گا اور کب تک دے گا۔ اس کے کام پر کون خودبخود پختہ امید کرسکتا ہے۔ اور ناامیدی کی حالت میں کیونکر محنتوں اور کوششوں پر دل لگا سکتا ہے۔ انسان کی کوششوں کو حرکت دینے والے اور انسان کے دل میں کامل جوش پیدا کرنے والے خدا کے وعدے ہیں۔ انہیں پر نظر کرکے عقلمند انسان اس دنیا کی محبت کو چھوڑتا ہے اور ہزاروں پیوندوں اور تعلقوں اور زنجیروں سے خدا کے لئے الگ ہوجاتا ہے۔ وہی وعدے ہیں کہ جو ایک آلودہ حرص و ہوا کو ایکبارگی خدا کی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ جبھی کہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 223
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/223/mode/1up
میں بھی یکتا ہے اور نظم اور نثر میں سرآمد روزگار ہے۔ جیسے وہ ایک مرض کے حدوث کی کیفیت اور اُس کی علامات اور اسباب فصیح اور وسیعایک شخص پر یہ بات کھل جاتی ہے کہ خدا کا کلام برحق ہے اور اس کا ہریک وعدہ ضرور ایک دن ہونے والا ہے۔ تو اسی وقت دنیا کی محبت اس پر سرد ہوجاتی ہے۔ ایک دم میں وہ کچھ اور ہی چیز ہوجاتا ہے اور کسی اور ہی مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ کیا ایمان کے رو سے اور کیا عمل کے رو سے اور کیا جزا سزا کی امید کے رو سے کھلا ہوا اور مفتوح دروازہ خدا کے سچے الہام اور پاک کلام کا دروازہ ہے وبس۔
کلام پاک آں بیچوں دہد صد جام عرفاں را
کسے کو بیخبر زاں می چہ داند ذوق ایماں رانہ چشم است آنکہ در کوری ہمہ عمرے بسر کرد است
نہ گوش است آنکہ نہ شنیدست گاہے قول جاناں راوسوسۂ ہفتم;۔ کسی کتاب پر علم الٰہی کی ساری صداقتیں ختم نہیں ہوسکتیں پھر کیونکر امید کی جائے کہ ناقص کتابیں کامل معرفت تک پہنچادیں گی۔
جواب۔ یہ وسوسہ اس وقت تک قابل التفات ہوتا کہ جب برہم سماج والوں میں سے کوئی صاحب اپنی عقل کے زور سے خداشناسی یا کسی دوسرے امر معاد کے متعلق کوئی ایسی جدید صداقت نکالتا جس کا قرآن شریف میں کہیں ذکر نہ ہوتا۔ اور ایسی حالت میں بلاشبہ حضرات برہمو بڑے ناز سے کہہ سکتے تھے کہ علم معاد اور خداشناسی کی ساری صداقتیں کتاب الہامی میں مندرج نہیں۔ بلکہ فلاں فلاں صداقت باہر رہ گئی ہے جس کو ہم نے دریافت کیا ہے۔ اگر ایسا کرکے دکھلاتے تب تو شاید کسی نادان کو کوئی دھوکا بھی دے سکتے۔ پر جس حالت میں قرآن شریف کھلا کھلا دعویٰؔ کررہا ہے33 الجزو نمبر ۰۳ ۱ یعنی کوئی صداقت علم الہٰی کے متعلق جو انسان کیلئے ضروری ہے اس کتاب سے باہر نہیں۔اور پھر فرما یا۔3۔ الجزونمبر۰۳۔۲ یعنے خدا کا رسول پاک صحیفے پڑھتا ہے۔ جن میں تمام کامل صداقتیں اور علوم اولین و آخرین درج ہیں۔ اور پھر فرمایا۔ 3۔ الجزو نمبر ۱۱۔۳ یعنے اس کتاب میں دو خوبیاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکیم مطلق نے محکم اور مدلل طور پر یعنے علوم حکمیہ کی طرح
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 224
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/224/mode/1up
تقریرؔ میں بکمال صحت و حقانیت اور بہ نہایت متانت و بلاغت بیان کرسکتا ہے۔ اس کے مقابلے پر کوئی دوسرا شخص جس کو فن طبابت سے ایک ذرہ مس نہیںاس کو بیان کیا ہے۔ بطور کتھا یا قصہ نہیں۔ دوسری یہ خوبی کہ اس میں تمام ضروریات علم معاد کی تفصیل کی گئی ہے۔ اور پھر فرمایا۔ 3۔ ۱ یعنے علم معاد میں جس قدر تنازعات اٹھیں سب کا فیصلہ یہ کتاب کرتی ہے۔ بے سود اور بیکار نہیں ہے۔ اور پھر فرمایا۔3 3۔ الجزو نمبر ۴۱۔۲ یعنے ہم نے اس لئے کتاب کو نازل کیا ہے تا جو اختلافات عقول ناقصہ کے باعث سے پیدا ہوگئے ہیں یا کسی عمداً افراط و تفریط کرنے سے ظہور میں آئے ہیں ان سب کو دور کیا جائے۔ اور ایمانداروں کے لئے سیدھا راستہ بتلایا جاوے۔ اس جگہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو فساد بنی آدم کے مختلف کلاموں سے پھیلا ہے اُس کی اصلاح بھی کلام ہی پر موقوف ہے یعنے اس بگاڑ کے درست کرنے کے لئے جو بیہودہ اور غلط کلاموں سے پیدا ہوا ہے ایسے کلام کی ضرورت ہے کہ جو تمام عیوب سے پاک ہو کیونکہ یہ نہایت بدیہی بات ہے کہ کلام کا رہزدہ کلام ہی کے ذریعہ سے راہ پر آسکتا ہے۔ صرف اشاراتِ قانونِ قدرت تنازعات کلامیہ کا فیصلہ نہیں کرسکتے اور نہ گمراہ کو اس کی گمراہی پر بصفائی تمام ملزم کرسکتے ہیں۔ جیسے اگر جج نہ مدعی کی وجوہات بہ تصریح قلمبند کرے۔ نہ مدعا علیہ کے عذرات کو بدلائل قاطعہ توڑے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ صرف اس کے اشارات سے فریقین اپنے اپنے سوالات و اعتراضات و وجوہات کا جواب پالیں اور کیونکر ایسے مبہم اشارات پر جن سے کسی فریق کا باطمینان کامل رفع عذر نہیں ہوا حکم اخیر مترتب ہوسکتا ہے۔ اسی طرح خدا کی حجت بھی بندوں پر تب ہی پوری ہوتی ہے کہ جب اس کی طرف سے یہ التزام ہو کہ جو لوگ غلط تقریروں کے اثر سے طرح طرح کی بدعقیدگی میں پڑگئے ہیں ان کو بذریعہ اپنی کامل و صحیح تقریر کے غلطی پر مطلع کرے اور مدلل اور واضح بیان سے ان کا گمراہ ہونا ان کو جتلا دے تا اگر اطلاع پاکر پھر بھی وہ باز نہ آویں اور غلطی کو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 225
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/225/mode/1up
اور فن سخن کی نزاکتوں سے بھی ناآشناؔ محض ہے ممکن نہیں کہ مثل اسکے بیان کرسکے۔ یہ بات بہت ہی ظاہر اورعام فہم ہے کہ جاہل اورعاقل کی تقریرمیں ضرور کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے
نہ چھوڑیں تو سزا کے لائق ہوں۔ خدائے تعالیٰ ایک کو مجرم ٹھہرا کر پکڑلے اور سزا ؔ دینے کو طیار ہوجائے۔ مگر بیان واضح سے اس کے دلائل بریت کا غلط ہونا ثابت نہ کرے اور اس کے دلی شبہات کو اپنی کھلی کلام سے نہ مٹادے۔ کیا یہ اُس کا منصفانہ حکم ہوگا؟ پھر اسی کی طرف دوسری آیت میں بھی اشارہ فرمایا۔ 3۔۱ الجزو نمبر ۲۔ یعنے قرآن میں تین صفتیں ہیں۔ اوّل یہ کہ جو علوم دین لوگوں کو معلوم نہیں رہے تھے ان کی طرف ہدایت فرماتا ہے۔ دوسرے جن علوم میں پہلے کچھ اجمال چلا آتا تھا۔ ان کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ تیسرے جن امور میں اختلاف اور تنازعہ پیدا ہوگیا تھا۔ ان میں قول فیصل بیان کرکے حق اور باطل میں فرق ظاہر کرتا ہے۔ اور پھر اسی جامعیت کے بارے میں فرمایا۔ 3۔۲ الجزو نمبر ۵۱۔ یعنے اس کتاب میں ہریک علم دین کو بہ تفصیل تمام کھول دیا ہے۔ اور اس کے ذریعہ سے انسان کی جزئی ترقی نہیں بلکہ یہ وہ وسائل بتلاتا ہے اور ایسے علوم کاملہ تعلیم فرماتا ہے جن سے کلی طور پر ترقی ہو۔ اور پھر فرمایا۔3۔۳ الجزو نمبر ۴۱۔یعنی یہ کتاب ہم نے اس لئے تجھ پر نازل کی کہ تاہریک دینی صداقت کو کھول کر بیان کردے اور تا یہ بیان کامل ہمارا ان کے لئے جو اطاعت الٰہی اختیار کرتے ہیں موجب ہدایت و رحمت ہو۔ اور پھر فرمایا۔3۔۴ الجزو نمبر ۳۱۔یعنی یہ عالی شان کتاب ہم نے تجھ پر نازل کی تاکہ تو لوگوں کو ہریک قسم کی تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کرے۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس قدر انسان کے نفس میں طرح طرح کے وساوس گزرتے ہیں اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ ان سب کو قرآن شریف دور کرتا ہے۔ اور ہریک طور کے خیالات فاسدہ کو مٹاتا ہے اور معرفت کامل کا نور بخشتا ہے یعنے جو کچھ خدا کی طرف رجوع ہونے اور اس پر یقین لانے کے لئے معارف و حقائق درکار ہیں سب عطا فرماتا ہے۔ اور پھر فرمایا۔ 3
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 226
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/226/mode/1up
اور جس قدر انسان کمالات علمیہ رکھتا ہے۔ وہ کمالات ضرورؔ اس کی علمی تقریر میں اس طرح پر نظر آتے ہیں۔ جیسے ایک آئینہ صاف میں چہرہ نظر آتا ہے۔ اور حق اور حکمت
3 ۔ الجزو نمبر۳۱۔ ۱ یعنے قرآن ایسی کتاب نہیں کہ انسان اس کو بناسکے بلکہ اس کے آثار صدق ظاہر ہیں کیونکہ وہ پہلی کتابوں کو سچا کرتا ہے۔ یعنے کتب سابقہ انبیاء میں جو اس کے بارے میں پیشین گوئیں موجود تھیں وہ اس کے ظہور سے بہ پایہ صداقت پہنچ گئیں۔ اور جن عقائد حقہ کے بارے میں ان کتابوں میں دلائل واضح موجود نہ تھیں۔ ان کے قرآن نے دلائل بتلائے اور ان کی تعلیم کو مرتبہ کمال تک پہنچایا۔ اس طور پر ان کتابوں کو سچا کیا جس سے خود سچائی اس کی ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے نشان ؔ صدق یہ کہ ہریک صداقت دینی کو وہ بیان کرتا ہے اور تمام وہ امور بتلاتا ہے کہ جو ہدایت کامل پانے کے لئے ضروری ہیں اور یہ اس لئے نشان صدق ٹھہرا کہ انسان کی طاقت سے یہ بات باہر ہے کہ اس کا علم ایسا وسیع و محیط ہو جس سے کوئی دینی صداقت و حقائقِ دقیقہ باہر نہ رہیں۔ غرض ان تمام آیات میں خدائے تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ قرآن شریف ساری صداقتوں کا جامع ہے اور یہی بزرگ دلیل اس کی حقانیت پر ہے اور اس دعویٰ پر صدہا برس بھی گذر گئے۔ پر آج تک کسی برہمو وغیرہ نے اس کے مقابلہ پر دم بھی نہ مارا۔ تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ بغیر پیش کرنے کسی ایسی جدید صداقت کے کہ جو قرآن شریف سے باہر رہ گئی ہو۔ یونہی دیوانوں اور سودائیوں کی طرح اوہام باطلہ پیش کرنا جن کی کچھ بھی اصلیت نہیں اس بات پر پختہ دلیل ہے کہ ایسے لوگوں کو راست بازوں کی طرح حق کا تلاش کرنا منظور ہی نہیں۔ بلکہ نفس امّارہ کو خوش رکھنے کے لئے اس فکر میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح خدا کے پاک احکام سے بلکہ خدا ہی سے آزادگی حاصل کرلیں۔ اسی آزادگی کے حصول کی غرض سے خدا کی سچی کتاب سے جس کی حقانیت اظہر من الشمس ہے ایسے منحرف ہورہے ہیں کہ نہ متکلم بن کر شائستہ طریق پر کلام کرتے ہیں اور نہ سامع
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 227
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/227/mode/1up
کے بیان کرنے کے وقت وہ الفاظ کہ جو اس کے مونہہ سے نکلتے ہیں۔ اس کی لیاقت علمیصداقت دینی قرآن کے مقابلہ پر پیش کی جس کا قرآن نے کچھ جواب نہ دیا اور خالی ہاتھ بھیج دیا جس حالت میں تیرہ سو برس سے قرآن شریف بآواز بلند دعویٰ کررہا ہے کہ تمام دینی صداقتیں اس میں بھری پڑی ہیں۔ تو پھر یہ کیسا خبث طینت ہے کہ امتحان کے بغیر ایسی عالیشان کتاب کو ناقص خیال کیا جائے۔ا ور یہ کس قسم کا مکابرہ ہے کہ نہ قرآن شریف کے بیان کو قبول کریں اور نہ اس کے دعویٰ کو توڑ کر دکھلائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے لبوں پر تو ضرور کبھی کبھی خدا کا ذکر آجاتا ہے۔ مگر ان کے دل دنیا کی گندگی سے بھرے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی دینی بحث شروع بھی کریں تو اس کو مکمل طور پر ختم کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ ناتمام گفتگو کا ہی جلدی سے گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ تا ایسا نہ ہو کہ کوئی صداقت ظاہر ہوجائے۔ اور پھر بے شرمی یہ کہ گھر میں بیٹھ کر اس کامل کتاب کو ناقص بیان کرتے ہیں جس نے بوضاحت تمام فرما دیا۔ 33۔ الجزو نمبر ۶۔۱ یعنے آج میں نے اس کتاب کے نازل کرنے سے علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچا دیا اور اپنی تمام نعمتیں ایمانداروں پر پوری کردیں۔ اے حضرات! کیا تمہیں کچھ بھی خدا کا خوف نہیں؟ کیا تم ہمیشہ اسی طرح جیتے رہو گے؟ کیا ایک دن خدا کے حضور میں اس جھوٹے منہ پر لعنتیںؔ نہیں پڑیں گی؟ اگر آپ لوگ کوئی بھاری صداقت لئے بیٹھے ہیں جس کی نسبت تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم نے کمال جانفشانی اور عرق ریزی اور موشگافی سے اس کو پیدا کیا ہے اور جو تمہارے گمان باطل میں قرآن شریف اس صداقت کے بیان کرنے سے قاصر ہے تو تمہیں قسم ہے کہ سب کاروبار چھوڑ کر وہ صداقت ہمارے روبرو پیش کرو۔ تاہم تم کو قرآن شریف میں سے نکال کر دکھلادیں۔ مگر پھر مسلمان ہونے پر مستعد رہو۔ اور اگر اب بھی آپ لوگ بدگمانی اور بک بک کرنا نہ چھوڑیں اور مناظرہ کا سیدھا راستہ اختیار نہ کریں تو بجز اس کے اور کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔
الا اے کمر بستہ بر افترا
مکش خویشتن را بہ ترک حیابخاصان حق کینہ ات تا کجا
گہے شرمت آید ز گیہاں خدا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 228
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/228/mode/1up
کا اؔ ندازہ معلوم کرنے کے لئے ایک پیمانہ تصور کئے جاتے ہیں اور جو بات وسعت علم اور کمالِ عقل کے چشمہ سے نکلتی ہے اور جو بات تنگ اور منقبض اور تاریک اور محدودچو چیزے بود روشن اندر بہی
برو ہرچہ بندی بود ابلہیچو بر نیک گوہر گُماں بد بری
بدانند مردم کہ بد گوہریچو گوئی در پاک راُ پرغبار
غبار دو چشمت شود آشکارسخن ہائے ُ پرخبث و بے مغز و خام
بود بر خبیثاں نشانے تمامندانید گفتن سخن جز دروغ
برحق ندارد دروغے فروغنیارید یاد از حق بیچگوں
پسند اوفتاد ست دُنیائے دوںبہ دنیا کسے دل بہ بندد چرا
کہ ناگاہ باید شدن زیں سراسرانجام ایں خانہ رنج ست و درد
بہ پیچش نیایند مردان مردبدیں گل میالائے دل چوں خسے
کہ عہد بقایش نماند بسےزمان مکافات آید فراز
تو برعیش دنیا بدیں ساں منازفریبے مخور از زر و سیم و مال
کہ ہر مال را آخر آید زوالنہ آوردہ ایم و نہ باخود بریم
تہی آمدیم و تہی بگذریمالا تا نہ تابی سر از روئے دوست
جہانے نیرزد بیک موئے دوستخدائے کہ جاں بر رہ او فدا
نہ یابی رہش جز پئے مصطفیٰابوالقاسم آں آفتاب جہاں
کہ روشن شد ازوے زمین و زماںبشر کی بدے از ملک نیک تر
نہ بودی اگر چوں محمدؐ بشرنیاید ترا شرم از کردگار
کہ اہل خرد باشی و باوقارپس آنگہ شوی منکر آں رسول
کہ یا بد ازو نور چشم عقولز سہو و زغفلت رہیدہ نہ
ز طور بشر پاکشیدہ نہنیاید ز تو کار رب العباد
مکن داوریہا ز جہل و عناد
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 229
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/229/mode/1up
خیال ؔ سے پیدا ہوتی ہے۔ ان دونوں طور کی باتوں میں اس قدر فرق واضح ہوتا ہے کہ جیسی قُوّتِ شامہ کے آگے بشرطیکہ کسی فطرتی یا عارضی آفت سے ماؤف نہ ہو خوشبومداں ناقص و ابکمش چوں جماد
کمال خدا را میفگن زیادتو خود ناقصی و دنی الصفات
منہ تہمت نقص بر پاک ذاتخیالات بیہودہ کردت تباہ
خود از پائے خود اوفتادی بچاہخیالت شبے ہست تاریک و تار
فزودہ برآں شب زکیں صد غبارنہ دل را چو و دُزداں بشب شاد کن
بترس و ز روز سزا یاد کناگر در ہوا ہمچو مرغاں پری
وگر برسرِ آب ہا بگُذریوگر ؔ ز آتش آئی سلامت بروں
وگر خاک را زرکنی از فسوںنیاری کہ حق را کنی زیر و پست
مکن ژاژ خائی چوں مجنوں و مستخدا ہر کہ را کرد مہر منیر
نہ گردد ز دست تو خاک حقیردل خود بہرزہ مسوز اے دنی
نہ کاہد ز مکر تو افزودنیبہارست و باد صبا در چمن
کند نازہا با گل و یاسمنزنسرین و گلہائے فصل بہار
نسیم صبا مے وزد عطر بارتو اے ابلہ افتادہ اندر خزاں
ہمہ برگ افشاندہ چوں مفلساںبہ قرآں چرا برسرِکیں دوی
نہ دیدی ز قرآں مگر نیکویاگر نامدے در جہاں ایں کلام
نماندے بہ دنیا ز توحید نامجہاں بود افتادہ تاریک و تار
از و شد منوّر رخ ہر دیاربہ توحید را ہی ازو شد عیاں
ترا ہم خبر شد کہ ہست آں یگاںوگرنہ بہ بیں حال آبائے خویش
بہ انصاف بنگر درآں دین و کیشبود آں فرومایہ بدگوہرے
کہ از منعم خود بتابد سرےز اندازۂ خویش برتر مپر
پژشکے مکن چوں ندانی ہنر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 230
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/230/mode/1up
اور بدبو میں فرقؔ واضح ہے۔ جہاں تک تم چاہو فکر کرلو اور جس حد تک چاہو سوچ لویقیں داں کہ ایں کار یزدانی است
نہ از دخل و تدبیر انسانی استشد ایں دیں بفضل خدا ارجمند
نہ کار فریب است و سالوس و بنددرخشد درو نور چوں آفتاب
تو کوری نمی بینی اش زیں حجاببہ ناپاکی دل مشو بدگماں
وگر حجتے است بنما عیاںبہ شوق دل آویختن را بساز
پس آنگہ بہ بیں قدرت کارسازگزیں کن زقومت یکے انجمن
کہ بایک تن از ماکند یک سخنبما ہست فضل خداوند پاک
ز باطل پرستاں نداریم باکبجوش است فیض احد در دلم
کہ تا بندِ ہر طالبے بگسلمخدا را درِ لطفہا ہست باز
نسیم عنایات در اہتزازکسے کو بتابد سر از عدل و داد
کجا دم زند پیش صدق و سدادکلام خدا ہر دم از عز و جاہ
کند روئے ناشرم سارس سیاہچساں رائے شخصے بگردد بلند
کہ طغیانِ نفسش بگردن فگنددل پاک و جولان فکر و نظر
دو جوہر بود لازم یک دگرچو صوف صفا در دل آمیختند
مداد از سواد عیوں ریختندخدا آفریدت زیک مشت خاک
خودت داد نان تا نگردی ہلاکبہر حاجتت گشت حاجت روا
کشود از ترحّم دو دست عطاچہ پاداش جودش چنیں میدہی
کہ در علم خود را نظیرش نہیچہ خود را برابر کنی باخدائے
تفو برچنیں عقل و ادارک و رائےخدا چوں دلے را بہ پستی فگند
بکوشش نیاریم کردن بلندبکوشیم و انجام کار آں بود
کہ آں خواہش و رائے یزداں بودوسوسہ ہشتم:۔ انسان کو خدا کا ہم کلام تجویز کرنا ادب سے دور ہے۔ فانی کو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 231
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/231/mode/1up
کوئی خامی اس صداقت میں نہیں پاؤ گے۔ اور کسی طرف سے کوئی رخنہ نہیں دیکھو گے ۔ذاتِ ازلی ابدی سے کیا نسبت اور مشت خاک کو نورِ وجوب سے کیا مشابہت۔
جواب۔ یہ وہم بھی سراسر بے اصل اور پوچ ہے اور اس کے قلع و قمع کے لئے انسان کو اسی بات کا سمجھنا کافی ؔ ہے کہ جس کریم اور رحمان نے افراد کاملۂ بنی آدم کے دل میں اپنی معرفت کے لئے بے انتہا جوش ڈال دیا اور ایسا اپنی محبت اور اپنی انس اور اپنے شوق کی طرف کھینچا کہ وہ بالکل اپنی ہستی سے کھوئے گئے۔ تو اس صورت میں یہ تجویز کرنا کہ خدا ان کا ہم کلام ہونا نہیں چاہتا۔ اس قول کے مساوی ہے کہ گویا ان کا تمام عشق اور محبت ہی عبث ہے اور ان کے سارے جوش یک طرفہ خیالات ہیں۔ لیکن خیال کرنا چاہیئے کہ ایسا خیال کس قدر بیہودہ ہے۔ کیا جس نے انسان کو اپنے تقر ب کی استعداد بخشی اور اپنی محبت اور عشق کے جذبات سے بے قرار کردیا۔ اس کے کلام کے فیضان سے اس کا طالب محروم رہ سکتا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ خدا کا عشق اور خدا کی محبت اور خدا کے لئے بے خود اور محو ہوجانا یہ سب ممکن اور جائز ہے اور خدا کی شان میں کچھ حارج نہیں مگر اپنے محب صادق کے دل پر خدا کا الہام نازل ہونا غیر ممکن اور ناجائز ہے اور خدا کی شان میں حارج ہے۔ انسان کا خدا کی محبت کے بے انتہا دریا میں ڈوبنا اور پھر کسی مقام میں بس نہ کرنا اس بات پر شہادت قاطع ہے کہ اس کی عجیب الخلقت روح خدا کی معرفت کے لئے بنائی گئی ہے۔ پس جو چیز خدا کی معرفت کے لئے بنائی گئی ہے۔ اگر اس کو وسیلہ معرفت کامل جو الہام ہے عطا نہ ہو۔ تو یہ کہنا پڑے گا کہ خدا نے اس کو اپنی معرفت کے لئے نہیں بنایا۔ حالانکہ اس بات سے برہمو سماج والوں کو بھی انکار نہیں کہ انسان سلیم الفطرت کی روح خدا کی معرفت کی بھوکی اور پیاسی ہے۔ پس اب ان کو آپ ہی سمجھنا چاہیئے کہ جس حالت میں انسان صحیح الفطرت خود فطرتاً خدا کی معرفت کا طالب ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ معرفت الٰہی کا ذریعۂ کامل بجز الہام الٰہی اور کوئی دوسرا امر نہیں۔ تو اس صورت میں اگر وہ معرفت کامل کا ذریعہ غیر ممکن الحصول بلکہ اس کا تلاش کرنا دور از ادب ہے۔ تو خدا کی حکمت پر بڑا اعتراض ہوگا کہ اس نے انسان کو اپنی معرفت کے لئے جوش تو دیا پر ذریعہ معرفت عطا نہ کیا۔ گویا جس قدر بھوک دی اس قدر روٹی دینا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 232
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/232/mode/1up
پس جبکہ من کل الوجوہ ثابت ہے کہ ؔ جو فرق علمی اور عقلی طاقتوں میں مخفی ہوتا ہے۔ وہ ضرور کلام میں ظاہر ہوجاتا ہے اور ہرگز ممکن ہی نہیں کہ جو لوگ من حیث العقلنہ چاہا اور جس قدر پیاس لگا دی اس قدر پانی دینا منظور نہ ہوا۔ مگر دانشمند لوگ اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ ایسا خیال سراسر خدا کی عظیم الشان رحمتوں کی ناقدر شناسی ہے۔ جس حکیم مطلق نے انسان کی ساری سعادت اس میں رکھی ہے کہ وہ اِسی دنیا میں الوہیت کی شعاعوں کو کامل طور پر دیکھے تا اس زبردست کشش سے خدا کی طرف کھینچا جائے۔ پھر ایسے کریم اور رحیم کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ انسانؔ کو اپنی سعادت مطلوبہ اور اپنے مرتبہ فطرتیہ تک پہنچانا نہیں چاہتا۔ یہ حضرات برہمو کی عجب عقلمندی ہے۔
وسوسہ نہم:۔ یہ اعتقاد کہ خدا آسمان سے اپنا کلام نازل کرتا ہے یہ بالکل درست نہیں کیونکہ قوانین نیچریہ اس کی تصدیق نہیں کرتے اور کوئی آواز اوپرسے نیچے کو آتی ہم کبھی نہیں سنتے۔ بلکہ الہام صرف ان خیالات کا نام ہے کہ جو فکر اور نظر کے استعمال سے عقلمند لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں وبس۔
جواب:۔ جو صداقت بجائے خود ثابت ہے اور جس کو بے شمار صاحب معرفت لوگوں نے بچشم خود مشاہدہ کرلیا ہے اور جس کا ثبوت ہرزمانہ میں طالب حق کو مل سکتا ہے اگر اس سے کوئی ایسا انسان منکر ہو کہ جو روحانی بصیرت سے بے بہرہ ہے یا اگر اس کی تصدیق سے کسی محجوب القلب کا فکر قاصر اور علم ناقص ناکام رہے تو اس صداقت کا کچھ بھی نقصان نہیں اور نہ وہ ایسے لوگوں کے بک بک کرنے سے قوانین قدرتیہ سے باہر ہوسکتی ہے مثلاً تم سوچو کہ اگر کوئی اس قوت جاذبہ سے جو مقناطیس میں ہے بے خبر ہو اور اس نے کبھی مقناطیس دیکھا ہی نہ ہو اور یہ دعویٰ کرے کہ مقناطیس ایک پتھر ہے اور جہاں تک قوانین قدرتیہ کا مجھے علم ہے اس طور کی کشش کو میں نے کبھی کسی پتھر میں مشاہدہ نہیں کیا اس لئے میری رائے میں جو مقناطیس کی نسبت ایک خاصیتِ جذب خیال کی گئی ہے وہ غلط ہے کیونکہ قوانین نیچریہ کے برخلاف ہے۔ تو کیا اس کی اس فضول گوئی سے مقناطیس کی ایک متحقق خاصیت غیر معتبر اور مشکوک ہوجائے گی ہرگز نہیں بلکہ ایسے نادان کی ان فضول باتوں سے اگر کچھ ثابت بھی ہوگا تو یہی ثابت ہوگا کہ وہ سخت درجہ کا احمق اور جاہل ہے کہ جو اپنے عدم علم کو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 233
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/233/mode/1up
والعلم افضل اور اعلیٰ ہیں وہ فصاحت بیانی اور رفعت معانیؔ میں یکساں ہوجائیں اور کچھ مابہ الامتیاز باقی نہ رہے۔ تو اس صداقت کا ثابت ہونا اس دوسری صداقتعدم شے پر دلیل ٹھہراتا ہے اور ہزارہا صاحب تجربہ لوگوں کی شہادت کو قبول نہیں کرتا۔ بھلا یہ کیونکر ہوسکے کہ قوانین قدرتیہ کے لئے یہ بھی شرط ہو کہ ہریک فرد بشر عام طور پر خود ان کو آزما لیوے ۔خدا نے نوع انسان کو ظاہری و باطنی قوتوں میں متفاوت پیدا کیا ہے۔ مثلاً بعض کی قوّت باصرہ نہایت تیز ہے بعض ضعیف البصر ہیں۔ بعض بعض اندھے بھی ہیں۔ جو ضعیف البصر ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ تیز بصارت والوں نے دور سے کسی باریک چیز کو مثلاً ہلال کو دیکھ لیا تو وہ انکار نہیں کرتے بلکہ انکار کرنا اپنی ذلّت اور پردہ دری کا موجب سمجھتے ہیں اور اندھے بیچارے تو ایسے معاملہ میں دم بھی نہیں مارتے۔ اسی طرح جن کی قوت شامہ مفقود ہے وہ صدہا ثقہ اور راستگو لوگوں کی زبان سے خوشبو بدبو کی خبریں جب سنتے ہیں تو ؔ یقین کرلیتے ہیں اور ذرہ شک نہیں کرتے اور خوب جانتے ہیں کہ اس قدر لوگ جھوٹ نہیں بولتے ضرور سچے ہیں اور بلاشبہ ہماری ہی قوت شامّہ ندارد ہے کہ جو ہم ان مشمومات کے دریافت کرنے سے محروم ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس باطنی استعدادوں میں بھی بنی آدم مختلف ہیں بعض ادنیٰ ہیں اور ُ حجبِ نفسانی میں محجوب ہیں اور بعض قدیم سے ایسے نفوس عالیہ اور صافیہ ہوتے چلے آئے ہیں کہ جو خدا سے الہام پاتے رہے ہیں اور ادنیٰ فطرت کے لوگ کہ جو محجوب النفس ہیں ان کا نفوسِ عالیہ لطیفہ کے خصائصِ ذاتیہ سے انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی اندھا یا ضعیف البصر صاحب بصارتِ قویّہ کے مرئیات سے انکار کرے یا جیسا ایک اَخشم آدمی جس کی قُوّتِ بویائی ابتدا پیدائش سے ہی باطل ہو۔ صاحبِ قُوّ تِ شامہ کے مشمومات سے مُنکر ہو۔
اور پھر مُنکر کے مُلزم کرنے کے لئے بھی جو ظاہری طور پر تدابیر ہیں وہی باطنی طور پر بھی تدابیر موجود ہیں مثلاً جس کی قُوّت شامہ کا مفقود ہونا بعلّت مولودی ہے اگر وہ خوشبو بدبو کے وجود سے منکر ہو بیٹھے اور جس قدر لوگ صاحبِ قُوّت شامّہ ہیں سب کو دروغگو یا وہمی قرار دے تو اس کو یوں سمجھا سکتے ہیں کہ اس کو یہ کہا جائے کہ وہ بہت سی چیزوں مثلاً پارچات میں سے بعض پر عطر مل کر اور بعض کو خالی رکھ کر صاحبِ قُوّتِ شامّہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 234
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/234/mode/1up
کے ثبوت کو مستلزم ہے کہ جو کلام خداکا کلام ہو اس کا انسانی کلام سے اپنےؔ ظاہریکا امتحان کرلے تا تکرار تجربہ سے اس کو اس بات پر یقین ہوجائے کہ قُوّ تِ شامہ کا وجود بھی واقعی اور حقیقی ہے اور ایسے لوگ فی الحقیقت پائے جاتے ہیں کہ جو معطّر اور غیر معطّر میں فرق کرلیتے ہیں۔ ایسا ہی تکرار تجربہ سے الہام کا وجود طالب حق پر ثابت ہوجاتا ہے کیونکہ جب صاحب الہام پر وہ اُمورِ غیبیہ اور دقائق مخفیہ مُنکشف ہوتے ہیں کہ جو مجرد عقل سے منکشف نہیں ہوسکتے اور کتاب الہامی ان عجائبات پر مشتمل ہوتی ہے جن پر کوئی دوسری کتاب مشتمل نہیں ہوتی تو طالب حق اسی دلیل سے سمجھ لیتا ہے کہ الہام الٰہی ایک مُتحققّ الوجود صداقت ہے۔ اور اگر نفوسِ صافیہ میں سے ہو تو خود ٹھیک ٹھیک راہ راست پر چلنے سے کسی قدر بہ حیثیّتِ نورانیّتِ قلب اپنے کے الہام الٰہی کو اولیاء اللہ کی طرح پابھی لیتا ہے جس سے وحئرسالت پر بطور حق الیقین اس کو علم حاصل ہوجاتا ہے چنانچہ طالب حق کے لئے کہ جو اسلام کے قبول کرنے پر دلی سچائی اور روحانی صدق اور خالص اطاعت سے رغبت ظاہر کرے ہم ہی اس طور پر تسلی کردینے کا ذمہ اٹھاتے ہیں۔ وان کان احد فی شک من قولی فلیرجع الینا بصدؔ ق القدم واللہ علی مانقول قدیر وھو فی کل امر نصیر۔
اور یہ خیال کرنا کہ جو جو دقائقِ فکر اور نظر کے استعمال سے لوگوں پر کُھلتے ہیں وہی الہام ہیں۔ بجز ان کے اور کوئی شے الہام نہیں۔ یہ بھی ایک ایسا وہم ہے جس کا موجب صرف کور باطنی اور بے خبری ہے۔ اگر انسانی خیالات ہی خدا کا الہام ہوتے تو انسان بھی خدا کی طرح بذریعہ اپنے فکر اور نظر کے امور غیبیہ کو معلوم کرسکتا لیکن ظاہر ہے کہ گو انسان کیسا ہی دانا ہو مگر وہ فکر کرکے کوئی امرغیب بتلا نہیں سکتا اور کوئی نشان طاقت الوہیّت کا ظاہر نہیں کرسکتا اور خدا کی قدرت خاصہ کی کوئی علامت اس کے کلام میں پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ اگر وہ فکر کرتا کرتا مر بھی جائے۔ تب بھی ان پوشیدہ باتوں کو معلوم نہیں کرسکتا کہ جو اس کی عقل اور نظر اور حواس سے وراء الوراء ہیں اور نہ اس کا کلام ایسا عالی ہوتا ہے کہ جس کے مقابلہ سے انسانی قوتیں عاجز ہوں۔ پس اس وجہ سے عاقل کو یقین کرنے کے لئے وجوہ کافی ہیں کہ جو کچھ انسان اپنی فکر اور نظر سے بھلے یا برے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 235
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/235/mode/1up
اور باطنی کمالات میں برتر اور اعلیٰ اور عدیم المثال ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ خدا کے علم تام سے کسی کا علم برابر نہیں ہوسکتا۔ اور اسی کی طرف خدا نے بھی اشارہ فرما کر کہا ہے۔خیالات پیدا کرتا ہے وہ خدا کا کلام نہیں بن سکتے۔ اگر وہ خدا کا کلام ہوتا تو انسان پر سارے غیب کے دروازے کھل جاتے اور وہ امور بیان کرسکتا جن کا بیان کرنا الوہیّت کی قوّت پر موقوف ہے کیونکہ خدا کے کام اور کلام میں خدائی کے تجلیات کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی کے دل میں یہ شبہ گزرے کہ نیک اور بدتدبیریں اور ہریک شر و خیر کے متعلق باریک حکمتیں اور طرح طرح کے مکر وفریب کی باتیں کہ جو فکر اور نظر کے وقت انسان کے دل میں پڑجاتی ہیں۔ وہ کس کی طرف سے اور کہاں سے پڑتی ہیں اور کیونکر سوچتے سوچتے یک دفعہ مطلب کی بات سوجھ جاتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام خیالات خلق اللہ ہیں امر اللہ نہیں۔ اور اس جگہ خلق اور امر میں ایک لطیف فرق ہے۔ خلق تو خدا کے اس فعل سے مراد ہے کہ جب خدائے تعالیٰ عالم کی کسی چیز کو بتوسط اسباب پیدا کرکے بوجہ علت العلل ہونے کے اپنی طرف اس کو منسوب کرے۔ اور امر وہ ہے جو بلاتوسط اسباب خالص خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہو اور کسی سبب کی اس سے آمیزش نہ ہو۔ پس کلام الٰہی جو اس قادر مطلق کی طرف سے نازل ہوتا ہے۔ اس کا نزول عالم امر سے ہے نہ عالم خلق سے اور دوسرے جو جو خیالات انسانوں کے دلوں میں بوقت نظر اور فکر اٹھا کرتے ہیں۔ وہ بتمامہا عالمؔ خلق سے ہیں کہ جن میں قُدرتِ الٰہیہ زیر پردۂاسباب و قویٰ مُتصرفّ ہوتی ہے اور اُن کی نسبت بسطِ کلام یوں ہے کہ خدا نے انسان کو اس عالَمِ اسباب میں طرح طرح کی قُوتّوں اور طاقتوں کے ساتھ پیدا کرکے ان کی فطرت کو ایک ایسے قانون فطرت پر مبنی کردیا ہے۔ یعنے اُن کی پیدائش میں کچھ اس قسم کی خاصیت رکھ دی ہے کہ جب وہ کسی بھلے یا برے کام میں اپنی فکر کو متحرّک کریں۔ تو اسی کے مناسب ان کو تدبیریں سوجھ جایا کریں۔ جیسے ظاہری قُوتوّں اور حواسوں میں انسان کے لئے یہ قانون قدرت رکھا گیا ہے کہ جب وہ اپنی آنکھ کھولے تو کچھ نہ کچھ دیکھ لیتا ہے اور جب اپنے کانوں کو کسی آواز کی طرف لگاوے تو کچھ نہ کچھ سن لیتا ہے۔ اسی طرح جب وہ کسی نیک یا بدکام میں کوئی کامیابی کا راستہ سوچتا ہے تو کوئی نہ کوئی تدبیر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 236
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/236/mode/1up
3۔۱ الجزو نمبر ۲۱۔یعنے اگر کفار اس قرآن کی نظیر پیش نہ کرسکیں اور مقابلہ کرنے سے عاجز رہیں۔
سوجھ ہی جاتی ہے۔ صالح آدمی نیک راہ میں فکر کرکے نیک باتیں نکالتا ہے اور چور نقب زنی کے باب میں فکر کرکے کوئی عمدہ طریق نقب زنی کا ایجاد کرتا ہے۔ غرض جس طرح بدی کے بارے میں انسان کو بڑے بڑے عمیق اور نازک بدی کے خیال سوجھ جاتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس اسی وقت کو جب انسان نیک راہ میں استعمال کرتا ہے تو نیکی کے عمدہ خیال بھی سوجھ جاتے ہیں اور جس طرح بدخیالات گو کیسے ہی عمیق اور دقیق اور جادو اثر کیوں نہ ہوں خدا کا کلام نہیں ہوسکتے ایسا ہی انسان کے خودتراشیدہ خیالات جن کو وہ اپنے زعم میں نیک سمجھتا ہے۔ کلامِ الٰہی نہیں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جو کچھ نیکوں کو نیک حکمتیں یا چوروں اور ڈاکوؤں اور خونیوں اور زانیوں اور جعلسازوں کو فکر اور نظر کے بعد بری تدبیریں سوجھتی ہیں وہ فطرتی آثار اور خواص ہیں اور بوجۂ علّت العلل ہونے حضرت باری کے ان کو خلق اللہ کہا جاتا ہے نہ امر اللہ۔ وہ انسان کے لئے ایسے ہی فطرتی خواص ہیں جیسے نباتات کے لئے قوت اسہال یا قوت قبض یا دوسری قوتیں فطرتی خواص ہیں غرض جیسا اور چیزوں میں حکیم مطلق نے طرح طرح کے خواص رکھے ہیں۔ ایسا ہی انسان کی قُوتِ مُتفکّرہ میں یہ خاصہّ رکھا ہے کہ جس نیک یا بد میں انسان اُس سے مدد لینا چاہتا ہے۔ اسی قسم کی اس سے مدد ملتی ہے۔ ایک شاعر کسی کی ہجو میں شعر بناتا ہے۔ اس کو فکر کرنے سے ہجو کے شعر سوجھتے جاتے ہیں۔ دوسرا شاعر اسی شخص کی تعریف کرنی چاہتا ہے اس کو تعریف کا ہی مضمون سوجھتا ہے۔ سو اس قسم کے خیالات نیک اور بد خدا کی خاص مرضی کا آئینہؔ نہیں ہوسکتے اور نہ اس کا کام اور کلام کہلا سکتے ہیں۔ خدا کا پاک کلام وہ کلام ہے کہ جو انسانی قویٰ سے بکلی برتر و اعلیٰ ہے اور کمالیت اور قدرت اور تقدس سے بھرا ہوا ہے جس کے ظہور و بروز کے لئے اول شرط یہی ہے کہ بشری قُوَتیں بکلّی مُعطّل اور بیکار ہوں نہ فکر ہو نہ نظر ہو۔ بلکہ انسان مثل میّت کے ہو۔ اور سب اسباب منقطع ہوں اور خدا جس کا وجود واقعی اور حقیقی ہے آپ اپنے کلام کو اپنے خاص ارادہ سے کسی کے دل پر نازل کرے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 237
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/237/mode/1up
تو تم جان لو کہ یہ کلام علم انسان سے نہیں بلکہ خداکےؔ علم سے نازل ہوا ہے۔ جس کے علم وسیع اور تام کے مقابلہ پر علوم انسانیہ بے حقیقت اور ہیچ ہیں۔ اس آیت میںپس سمجھنا چاہیئے کہ جس طرح آفتاب کی روشنی صرف آسمان سے آتی ہے آنکھ کے اندر سے پیدا نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح نور الہام کا بھی خاص خدا کی طرف سے اور اس کے ارادہ سے نازل ہوتا ہے۔ یونہی اندر سے جوش نہیں مارتا۔ جبکہ خدا فی الواقع موجود ہے اور فی الواقع وہ دیکھتا سنتا جانتا کلام کرتا ہے تو پھر اس کا کلام اسی حی و قیوم کی طرف سے نازل ہونا چاہیئے نہ یہ کہ انسان کے اپنے ہی خیالات خدا کا کلام بن جائیں۔ ہمارے اندر سے وہی خیالات بھلے یا برے جوش مارتے ہیں کہ جو ہمارے اندازۂ فطرت کے مطابق ہمارے اندر سمائے ہوئے ہیں۔ مگر خدا کے بے انتہا علم اور بے شمار حکمتیں ہمارے دل میں کیونکر سما سکیں۔ اس سے زیادہ تر اور کیا کفر ہوگا۔ کہ انسان ایسا خیال کرے کہ جس قدر خدا کے پاس خزائن علم و حکمت و اسرار غیب ہیں۔ وہ سب ہمارے ہی دل میں موجود ہیں اور ہمارے ہی دل سے جوش مارتے ہیں۔ پس دوسرے لفظوں میں اس کا خلاصہ تو یہی ہوا کہ حقیقت میں ہم ہی خدا ہیں اور بجز ہمارے اور کوئی ذات قائم بنفسہ اور متصف بصفاتہ موجود نہیں جس کو خدا کہا جائے۔ کیونکہ اگر فی الواقعہ خدا موجود ہے اور اس کے علوم غیر متناہی اسی سے خاص ہیں۔ جن کا پیمانہ ہمارا دل نہیں ہوسکتا۔ تو اس صورت میں کس قدر یہ قول غلط اور بیہودہ ہے کہ خدا کے بے انتہا علوم ہمارے ہی دل میں بھرے پڑے ہیں اور خدا کے تمام خزائن حکمت ہمارے ہی قلب میں سمارہے ہیں۔ گویا خدا کا علم اسی قدر ہے جس قدر ہمارے دل میں موجود ہے۔ پس خیال کرو کہ اگر یہ خدائی کا دعویٰ نہیں تو اور کیا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کا دل خدا کے جمیع کمالات کا جامع ہوجائے؟ کیا یہ جائز ہے کہ ایک ذرّہ امکان آفتاب وجوب بن جائے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ ہم پہلے ابھی لکھ چکے ہیں کہ الوہیت کے خواص جیسے علم غیب اور احاطہ دقائق حکمیہ اور دوسرے قدرتی نشان انسان سے ہرگز ظہور پذیر نہیں ہوسکتے۔ اور خدا کا کلام وہ ہے۔ جسمیں خدا کی عظمت خدا کی قدرت خدا کی برکتؔ ۔ خدا کی حکمت۔ خدا کی بے نظیری پائی جاوے۔ سو وہ تمام
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 238
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/238/mode/1up
بُرہانِ اِنّیکی طرز پر اثر کے وجود کو مؤثر کے وجود کی دلیل ٹھہرائی ہے جسؔ کا دوسرے لفظوں میں خلاصہ مطلب یہ ہے کہ علم الٰہی بوجہ اپنی کمالیّت اور جامعیت کے ہرگزشرائط قرآن شریف میں ہیں جیسے انشاء اللہ ثبوت اس کا اپنے موقعہ پر ہوگا۔ پس اگر اب بھی برہمو سماج والوں کو ایسے الہام کے وجود سے انکار ہو کہ جو امور غیبیہ اور دوسرے امور قدرتیہ پر مشتمل ہو۔ تو ان کو اپنی آنکھ کھولنے کے لئے قرآن شریف کو بغور تمام دیکھنا چاہیئے تا انہیں معلوم ہو کہ کیسے اس کلام پاک میں ایک دریا اخبار غیب کا اور نیز ان تمام امور قدرتیہ کا کہ جو انسانی طاقتوں سے باہر ہیں بہ رہا ہے اور اگرچہ بوجہ قلت بصیرت و بصارت ان فضائل قرآنیہ کو خودبخود معلوم نہ کرسکیں تو ہماری اس کتاب کو ذرا آنکھ کھول کر پڑھیں تا وہ خزائن امور غیبیہ و اسرار قدرتیہ کہ جو قرآن شریف میں بھرے پڑے ہیں بطور مشتے نمونہ از خروارے ان کو معلوم ہوجائیں اور یہ بھی ان کو معلوم رہے کہ تحقق وجود الہام ربانی کے لئے کہ جو خاص خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے اور امور غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک اور بھی راستہ کھلا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ امت محمدیہ میں کہ جو سچے دین پر ثابت اور قائم ہیں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے کہ جو خدا کی طرف سے ملہم ہوکر ایسے امور غیبیہ بتلاتے ہیں جن کا بتلانا بجز خدائے واحد لاشریک کے کسی کے اختیار میں نہیں۔ اور خداوند تعالیٰ اس پاک الہام کو انہیں ایمانداروں کو عطا کرتا ہے کہ جو سچے دل سے قرآن شریف کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور صدق اور اخلاص سے اس پر عمل کرتے ہیں اور حضرت محمد مصطفی صلوسلم عل کو خدا کا سچا اور کامل پیغمبر اور سب پیغمبروں سے افضل اور اعلیٰ اور بہتر اور خاتم الرسل اور اپنا ہادی اور رہبر سمجھتے ہیں۔ دوسروں کو یہ الہام یعنے یہودیوں۔ عیسائیوں۔ آریوں۔ برہمیوں وغیرہ کو ہرگز نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ قرآن شریف کے کامل تابعین کو ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہوگا۔ اور گو وحی رسالت بجہت عدم ضرورت منقطع ہے لیکن یہ الہام کہ جو آنحضرت صلوسلم عل کے بااخلاص خادموں کو ہوتا ہے یہ کسی زمانہ میں منقطع نہیں ہوگا۔ اور یہ الہام وحی رسالت پر ایک عظیم الشان ثبوت ہے جس کے سامنے ہریک منکر و مخالف اسلام ذلیل اور رسوا ہے اور چونکہ یہ مبارک الہام
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 239
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/239/mode/1up
انسان کے ناقص علم سے متاشبہ نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ضرور ہے کہ جو کلام اس کامل اوربے مثل علمؔ سے نکلا ہے۔ وہ بھی کامل اور بے مثل ہی ہو۔ اور انسانی کلاموں سے بکلی
اپنی تمام برکت اور عزت اور عظمت اور جلال کے ساتھ صرف ان عزت دار بندوں میں پایا جاتا ہے کہ جو امت محمدیہ میں داخل ہیں اور خدام آنحضرت والا جاہ ہیں۔ دوسرے کسی فرقہ میں یہ نور کامل کہ جو تقرب اور قبولیت اور خوشنودی حضرتِ عزّت کی بشارتیں بخشتا ہے ہرگز پایا نہیں جاتا اس لئے وجودؔ اس مبارک الہام کا صرف نفس الہام کی حقانیت کو ثابت نہیں کرتا۔ بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ دنیا میں مقبول اور مستقیم دین پر جو فرقہ ہے وہ فقط اہل اسلام ہی کا فرقہ ہے اور باقی سب لوگ باطل پرست اور کجرو اور موردِ غضب الٰہی ہیں۔ نادان لوگ میری اس بات کو سنتے ہی طرح طرح کی باتیں بنائیں گے اور انکار سے سر ہلائیں گے یا احمقوں اور شریروں کی طرح ٹھٹھا کریں گے۔ مگر ان کو سمجھنا چاہیئے کہ خواہ نخواہ انکار اور ہنسی سے پیش آنا شریف النفس اور طالب الحق انسانوں کا کام نہیں۔ بلکہ اُن خبیث الطینت اور شریر النفس لوگوں کا کام ہے جن کو خدا اور راستی سے غرض نہیں۔ دنیا میں ہزارہا چیزوں میں ایسے خواص ہیں کہ جو عقلی طور پر سمجھے نہیں جاتے صرف تجربہ سے انسان ان کو سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے عام طور پر تمام عقلمندوں کا یہی قاعدہ ہے کہ جب تکرار تجربہ سے کسی چیز کی خاصیت ظاہر ہوجاتی ہے تو پھر اس خاصیت کے تحقق وجود میں کسی عاقل کو شک باقی نہیں رہتا۔ اور آزمانے کے بعد وہی شخص شک کرتا ہے کہ جو نرا گدھا ہے۔ مثلاً تربد میں جو قوت اسہال ہے یا مقناطیس میں جو قوت جذب ہے۔ اگرچہ اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں کہ کیوں ان میں یہ قوتیں ہیں۔ لیکن جبکہ تکرار تجربہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ضرور ان چیزوں میں یہ قوتیں پائی جاتی ہیں۔ تو گو ان کی کیفیت وجود پر عقلی طور پر کوئی دلیل قائم نہ ہو۔ لیکن بضرورت شہادت قاطعہ تجربہ اور امتحان کے ہریک عاقل کو ماننا پڑتا ہے کہ فی الحقیقت تربد میں قوت اسہال اور مقناطیس میں خاصہ جذب موجود ہے۔ اور اگر کوئی ان کے وجود سے اس بناء پر انکار کرے کہ عقلی طور پر مجھ کو کوئی دلیل نہیں ملتی تو ایسے شخص کو ہریک دانا پاگل اور دیوانہ جانتا ہے اور سودائی اور مسلوب العقل قرار دیتا ہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 240
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/240/mode/1up
امتیاز رکھتا ہو۔ سو یہی کمالیت قرآن شریف میں ثابت ہے۔ غرض خدا کے کلام کا انسان کے کلام سے ایسا فرق بینؔ چاہئے۔ جیسا خدا اور انسان کے علم اور عقلسو اب ہم برہمو لوگوں اور دوسرے مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے الہام کی نسبت بیان کیا ہے یعنے یہ کہ وہ اب بھی امت محمدیہ کے کامل افراد میں پایا جاتا ہے اور انہیں سے مخصوص ہے ان کے غیر میں ہرگز پایا نہیں جاتا۔ یہ بیان ہمارا بلاثبوت نہیں بلکہ جیسا بذریعہ تجربہ ہزارہا صداقتیں دریافت ہورہی ہیں۔ ایسا ہی یہ بھی تجربہ اور امتحان سے ہریک طالب پر ظاہر ہوسکتا ہے۔ اور اگر کسی کو طلب حق ہو تو اس کا ثابت کر دکھانا بھی ہمارا ہی ذمہ ہے بشرطیکہ کوئی برہمو یا اور کوئی منکر دین اسلام کا طالب حق بن کر اور اور بصدقِ دل دینِ اسلام قبول کرنے کا وعدہ تحریری مشتہر کرکے اخلاص اور نیک نیتّی اور اطاعت سے رجوع کرے۔ 33۔۱ بعضؔ لوگ یہ وہم بھی پیش کرتے ہیں کہ جس حالت میں امور غیبیہ کے بتانے والے دنیا میں کئی فرقے پائے جاتے ہیں کہ جو کبھی نہ کبھی اور کچھ نہ کچھ بتلا دیتے ہیں۔ اور بعض اوقات کسی قدر ان کا مقولہ بھی سچ ہورہتا ہے۔ جیسے منجّم۔ طبیب۔ قیافہ دان۔ کاہن۔ رمال۔ جفری۔ فال بین اور بعض بعض مجانین اور حال کے زمانہ میں مسمریزم کہ بعض امور ان سے مکشوف ہوتے رہے ہیں تو پھر امور غیبیہ الہام کی حقانیت پر کیونکر حُجّت قاطع ہوں گے۔ اس کے جواب میں سمجھنا چاہیئے کہ یہ تمام فرقے جن کا اوپر ذکر ہوا صرف ظن اور تخمین بلکہ وہم پرستی سے باتیں کرتے ہیں یقینی اور قطعی علم ان کو ہرگز نہیں ہوتا۔ اور نہ ان کا ایسا دعویٰ ہوتا ہے اور بعض حوادث کونیہ سے جو یہ لوگ اطلاع دیتے ہیں تو ان کی پیشین گوئیوں کا ماخذ صرف علامات و اسباب ظنیہ ہوتے ہیں جنہوں نے قطع اور یقین کے مرتبہ سےَ مس بھی نہیں کیا ہوتا اور احتمال تلبیس اور اشتباہ اور خطا کا اُن سے مرتفع نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر ان کی خبریں سراسر بے اصل اور بے بنیاد اور دروغ محض نکلتی ہیں۔ اور باوصف اس کذب فاش اور خلاف واقعہ نکلنے کے ان کی پیشین گوئیوں میں عزت اور قبولیت اور منصوریت اور کامیابی کے انوار پائے نہیں جاتے۔ اور ایسے خبریں بتانے والے اپنی ذاتی حالت میں اکثر افلاس زدہ اور بدنصیب اور بدبخت اور
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 241
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/241/mode/1up
اور قُدرت میں فرق ہے۔ جس حالت میں افراد انسانی نوع واحد میں داخل ہوکر پھر بھی بوجہ تفاوت علم اور عقل اور تجربہ اور مشق کےؔ متفاوت البیان پائی جاتی ہیں اوربے عزت اور دون ہمت اور دنی النفس اور ناکام اور نامراد ہی نظر آتے ہیں اور امور غیبیہ کو اپنی حسب مراد ہرگز نہیں کرسکتے بلکہ ان کے حالات پر خدا کے قہر کی علامات نمودار ہوتی ہیں اور خدا کی طرف سے کوئی برکت اور عزت اور نصرت ان کے شامل حال نہیں ہوتی۔ مگر انبیاء اور اولیاء صرف نجومیوں کی طرح امور غیبیہ کو ظاہر نہیں کرتے بلکہ خدا کے کامل فضل اور بزرگ رحمت سے کہ جو ہر دم ان کے شامل حال ہوتی ہے۔ ایسی اعلیٰ پیشین گوئیاں بتلاتے ہیں جن میں انوار قبولیت اور عزت کے آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جو عزت اور نصرت کی بشارت پر مشتمل ہوتے ہیں نہ نحوست اورنہ نکبت پر* قرآن شریف کی پیشین گوئیوں پر نظر ڈالو۔ تو معلوم ہو کہ وہ نجومیوں وغیرہ درماندہؔ لوگوں کی طرح ہرگز نہیں ۔ بلکہ ان میں صریح ایک اقتدار اور جلال جوش مارتا ہوا نظر آتا ہے اور اس میں تمام پیشین گوئیوں کا یہی طریق اور طرز ہے کہ اپنی عزت اور دشمن کی ذلت اور اپنا اقبال اور دشمن کا ادبار
ان دنوں مولوی ابوعبداللہ صاحب قصوری کا ایک رسالہ جس کے خاتمہ میں انہوں نے الہام اور وحی کے بارے میں کچھ اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ اتفاقاً میری نظر سے گزرا۔ اگرچہ صحت اور صفائی سے اچھی طرح نہیں کھلتا کہ مولوی صاحب ممدوحؔ کی اس تحریر کا کیا منشاء ہے۔ مگر جس قدر لوگوں نے میرے پاس بیان کیا ہے اور جو کچھ میں نے اس رسالہ کو پڑھ کر معلوم کیا ہے وہ شکی طور پر اس وہم میں ڈالتا ہے کہ گویا مولوی صاحب کو اولیاء اللہ کے الہام سے انکار ہے۔ واللّٰہ اعلم بما فی قلبہم۔ بہرحال جو کچھ میں نے ان کے رسالہ سے سمجھا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اول حضرت موصوف نے ایک لفظی بحث شروع کرکے الہام کی بابت لکھا ہے کہ الہام کے معنے لغت میں یہ ہیں۔ الہام چیزے در دل انداختن و آنچہ خدا در ردل اندازد۔ اور پھر جھٹ پٹ اس پر یہ رائے ظاہر کردی ہے کہ جب کہ الہام صرف دل کے خیال کا نام ہے خواہ نیک ہو خواہ بد۔ تو پھر اس سے کسی ولی یا صالح یا ایماندار کی خصوصیت نہیں کیونکہ سب کسی کو انواع و اقسام کے خیالات دل میں گزرا
کرتے ہیں۔ اور دنیا میں کون ہے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 242
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/242/mode/1up
وسیع العلم اور قوی العقل کے فکر رسا تک محدود العلم اور ضعیف العقل ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ تو پھر خدا جو شرکت نوعی سے بکلی پاک اور بلاشُبہ مُستجمعاور اپنی کامیابی اور دشمن کی ناکامی اور اپنی فتح اور دشمن کی شکست اور اپنی ہمیشہ کی سرسبزی اور دشمن کی تباہی ظاہر کی ہے۔ کیا اس قسم کی پیشین گوئیاں کوئی نجومی بھی کرسکتا ہے۔ یا کسی رمال یا مسمریزم کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوسکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہمیشہ اپنی ہی خیر ظاہر کرنا اور مخالف کا زوال اور وبال جتلانا اور جو بات مخالف مونہہ پر لاوے اُسی کو توڑنا اور جو بات اپنے مطلب کی ہو اس کے ہوجانے کا وعدہ کرنا۔ یہ تو صریح خدائی ہے انسان کا کام نہیں۔ اس بات کو بخوبی سمجھانے کی غرض سے ہم چند آیات قرآن شریف جو امور غیبیہ پر مشتمل ہیں بطور نمونہ ذیل میں معہ ترجمہ لکھتے ہیں۔ تا عقلمند لوگ کہ جو اہل انصاف اور خدا ترس ہیں بغور تمام پڑھ کر اور ان سب پیشین گوئیوں کو یکجائی نظر سے دیکھ کر خود انصاف کریں کہ کیا ایسے اخبار غیب بیان کرنا بجز خدائے قادر مطلق کسی انسان کا کام ہے۔ اور وہ آیات معہ خلاصہ ترجمہ یہ ہیں
کہ جو خیالات سے خالی ہو۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے چند مجمل اور مبہم باتیں لکھ کر تقریر کو ختم کردیا ہے۔ اور کوئی ایسی عبارت تصریح اور توضیح سے نہیں لکھی جس سے معلوم ہوتا کہ مولوی صاحب اس بات کے قائل اور اقراری ہیں کہ اولیاء اللہ اور مومنین کاملین خدا کے حضور میں ایک خاص رابطہ رکھتے ہیں اور خدا ان کو اپنےؔ کلام کے ذریعہ سے جب چاہتا ہے بعض امور غیبیہ پر مطلع کرتا ہے اور اپنے کلمات پاک سے ان کو مشرف کرتا ہے اور دوسروں کو وہ مرتبہ بحکم ھَلْ یستوِی الاَعمٰی والبصیر نہیں مل سکتا۔ غرض مولوی صاحب کی اس طرزتحریر سے کہ جو ان کے رسالہ میں درج ہے ضرور یہ شبہ گزرتا ہے کہ ان کو اولیاء اللہ کے الہام کی نسبت کچھ دل میں خلجان ہے۔ اگر خدانخواستہ مولوی صاحب کا منشاء یہی ہے کہ جو سمجھا جاتا ہے۔ تو کچھ شک نہیں کہ مولوی صاحب نے بڑی بھاری غلطی کی ہے۔ اولیاء اللہ کے ملہم من اللہ ہونے سے انکار کرنا ہریک مسلمان سے بعید ہے اور مولوی صاحبوں سے بعیدتر۔ کیا مولوی صاحب کو معلوم نہیں کہ حضرت موسیٰ کی والدہ سے بطورِ الہام خدا کا کلام
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 243
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/243/mode/1up
کمالاتؔ تامہ اور اپنی جمیع صفات میں واحد لاشریک ہے۔ اس سے مساوات کسی ذرہ امکان کی کیونکر جائز ہو اور کیونکر کوئی مخلوق ہوکر خالق کے علوم غیر متناہیہ سےیہ اس کتاب کی آیتیں ہیں کہ جو جامع علوم حکمیہ ہے۔ کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ جو ہم نے ان میں سے ایک کی طرف یہ وحی بھیجی کہُ تو لوگوں کو ڈرا۔ اور ان کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری دے کہ ان کے لئے ان کے رب کے نزدیک قدم صدق ہے۔ کافروں نے اس رسول کی نسبت کہا کہ یہ تو صریح جادوگر ہے۔ اور انہوں نے رسول کو مخاطب کرکے کہا کہ اے وہ شخص جس پر ذکر نازل ہوا ُ تو تو دیوانہ ہے۔ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس کو انہوں نے ساحر یا مجنون نہیں کہا۔ کیا انہوں نے ایک دوسرے کو وصیت کررکھی تھی۔ نہیں بلکہ یہ قوم ہی طاغی ہے سو انہیںُ تو حق کا راستہ یاد دلاتا رہ۔ اور خدا کے فضل سے نہُ تو کاہن ہے اور نہ تجھے کسی ِ جن کا آسیب اور دیوانگی ہے۔ ان کو کہہ کہ اگر تمام جن اور آدمی
کرنا مریم سے بطور الہام خدا کا کلام کرنا۔ حواریوں سے بطورِ الہام خدا کا کلام کرنا خود قرآن شریف میں مندرج اور مرقوم ہے۔ حالانکہ ان سب میں سے نہ کوئی نبی تھا اور نہ کوئی رسول تھا۔ اور اگر مولوی صاحب یہ جواب دیں کہ ہم اولیاء اللہ کے ملہم من اللہ ہونے کے قائل تو ہیں مگر اس کا نام الہام نہیں رکھتے بلکہ وحی رکھتے ہیں۔ اور الہام ہمارے نزدیک صرف دل کے خیال کا نامؔ ہے جس میں کافر اور مومن اور فاسق اور صالح مساوی ہیں اور کسی کی خصوصیت نہیں تو یہ صرف نزاع لفظی ہے اور اس میں بھی مولوی صاحب غلطی پر ہیں۔ کیونکہ لفظ الہام کہ جو اکثر جگہ عام طور پر وحی کے معنوں پر اطلاق پاتا ہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 244
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/244/mode/1up
اپنے ہیچ اور ناچیز علم کو برابرؔ کرسکے۔ کیا اس صداقت کے ثابت ہونے میں ابھی کچھ کسر رہ گئی ہے کہ کلام کی تمام ظاہری باطنی شوکت و عظمت علمی طاقتوں اور عملی
اس بات پر اتفاق کریں کہ قرآن جیسی کوئی اور کتاب بنالاویں تو وہ کبھی بنا نہیں سکیں گے۔ اگرچہ بعض بعض کے مددگار بھی ہوں۔ اور اگر تم اس کلام کے بارے میں کہ جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے کسی نوع کے شک میں ہو یعنی اگر تمہارے نزدیک اس نے وہ کلام آپ بنالیا ہے یا جنات سے سیکھا ہے یا جادو کی قسم ہے یا شعر ہے یا کسی اور قسم کا شک ہے تو تم بھی اگر سچے ہوتو بقدر ایک سورۃ اس کی مثل بناکر دکھلاؤ اور اپنے دوسرے مددگاروں یا معبودوں سے مدد لے لو اور اگر نہ بناسکو اور یاد رکھو کہ ہرگز بنا نہیں سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو کافروں کیلئے طیار کی گئی ہے۔ اور کافر باہم پوشیدہ طور پر یہ باتیں کرتے ہیں کہ یہ جو پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے اس میں کیا زیادتی ہے ایک تم سا آدمی ہےوہ باعتبار لغوی معنوں کے اطلاق نہیں پاتا۔ بلکہ اطلاق اس کا باعتبارعرف علماء اسلام ہے۔ کیونکہ قدیم سے علماء کی ایسی ہی عادت جاری ہوگئی ہے کہ وہ ہمیشہ وحی کو خواہ وحی رسالت ہو یا کسی دوسرے مومن پر وحی اعلام نازل ہو۔ الہام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عرف کو وہی شخص نہیں جانتا ہوگا جس کو حق کے قبول کرنے سے کوئی خاص غرض سدّراہ ہے۔ ورنہ قرآن شریف کی صدہا تفسیروں میں سے اور کئی ہزار کتب دین میں سے کسی ایک تالیف کو بھی کوئی پیش نہیں کرسکتا جس میں اس اطلاق سے انکار کیا گیا ہو۔ بلکہ جابجا مفسّروں نے وحی کے لفظ کو الہام ہی سے تعبیر کیا ہے۔ کئی احادیث میں بھی یہی معنے ملتے ہیں جس سے مولوی صاحب بے خبر نہیں ہیں۔ پھر نہ معلوم کہ مولوی صاحب نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ لفظ الہام کے کتب دین میں وہی معنے کرنے چاہئیں کہ جو کتب لغت میں مُندرج ہیںؔ ۔ جب کہ سواد اعظم علماء کا الہام کو وحی کا مترادف قرار دینے میں متفق ہے اور آنحضرت صلوسلم عل نے بھی اس کو استعمال کیا ہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 245
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/245/mode/1up
قدرتوں کے تابع ہے۔ کیا کوئی ایسا انسان بھی ہے جس نے اپنے ؔ ذاتی تجربہ اور مشاہدہ سے کسی جزئی میں اس سچائی کو دیکھ نہیں لیا؟ پس جبکہ یہ صداقت اس قدر قوی اور مستحکم اور شائع اور متعارف ہے کہ کسی درجہ کی عقل اس کے سمجھنے سے قاصر نہیں
سو کیا تم دیدہ و دانستہ جادو کے بیچ میں آتے ہو۔ پیغمبر نے کہا کہ میرا خدا ہر بات کو جانتا ہے خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں وہ اپنی ذات میں سمیع اور علیم ہے جس سے کوئی بات چھپ نہیں سکتی۔ مگر کافر پیغمبر کی کب سنتے ہیں وہ تو قرآن کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ یہ پراگندہ خوابیں ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے آپ بنالیا ہے۔ بلکہ ان کا یہ بھی مقولہ ہے کہ یہ شاعر ہے۔ بھلا اگر سچا ہے تو ہمارے روبرو کوئی نشان پیش کرے جیسے پہلے نبی بھیجے گئے تھے۔ انسان کی فطرت میں جلدی ہے عنقریب میں تم کو اپنے نشان دکھلاؤں گا۔ سو تم مجھ سے جلدی تو مت کرو۔ عنقریب ہم ان کو معمورہ عالم کے کناروں تک نشان دکھلائیں گے اور خود انہیں میں ہمارے نشان ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ حق ان پر کھل جائے گا۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس کو جنون ہے نہیں بلکہ بات تو یہ ہے کہ خدا نے ان کی طرف حق بھیجا اور وہ حق کے قبول کرنے سے کراہت کررہے ہیں۔تو پھر اس سے انحراف کرنا صریح تحکّم ہے۔ کیا مولوی صاحب کو معلوم نہیں کہ علم شریعت میں اسی طرح صدہا عرفی الفاظ ہیں جن کے مفہوم کو لغوی معنوں میں محدود کرنا ایک ضلالت ہے خود وحی کے لفظ کو دیکھئے کہ اس کے وہ معنے جن کی رو سے خدا کی کتابیں وحی رسالت کہلاتی ہیں کہاں لغت سے ثابت ہوتے ہیں اور کس کتابِ لغت میں وہ کیفیت نزول وحی لکھی ہے جس کیفیت سے خدا اپنے مرسلوں سے کلام کرتا ہے اور اُن پر اپنے احکام نازل کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے لفظ میں نظر کیجئے کہ اس کے لغوی معنے تو صرف یہی ہیں کہ جو کسی کو کام سونپا یا ترک مقابلہ اور فروگذاشت اور اطاعت اس میں یہ مضمون کہاں ماخوذ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ بھی کہنا۔ پس اگر ہریک لفظ کا لغت ہی سے فیصلہ کرنا چاہئے تو اس حالت میں اسلام بھی الہام کی طرح مولوی صاحب کے نزدیک صرف صُلح یا کام سونپنے کا نام ہوگا اور دوسرے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 246
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/246/mode/1up
تو اسؔ صورت میں نہایت درجہ کا نادان وہ شخص ہے کہ جو افراد ناقصہ انسانی میں تو اس صداقت کو مانتا ہے مگر اس ذات کامل کے کلام مقدس میں جس کا اپنے علوم تامہ
اور اگر خدا ان کی خواہشوں کی پیروی کرتا تو زمین اور آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب بگڑ جاتا۔ بلکہ ہم ان کے لئے وہ ہدایت لائے ہیں جس کے وہ محتاج ہیں۔ سو جس ہدایت کے وہ محتاج ہیں اسی سے کنارہ کش ہیں۔ کیا میں تم کو یہ خبردوں کہ جنات کن لوگوں پر اترا کرتے ہیں۔ جنات انہیں پر اترا کرتے ہیں کہ جو دروغگو اور معصیت کار ہیں اور اکثر ان کی پیشینگوئیاں جھوٹی ہوتی ہیں اور شاعروں کی پیروی تو وہی لوگ کرتے ہیں کہ جو گمراہ ہیں۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ شاعر لوگ قافیہ اور ردیف کے پیچھے ہریک جنگل میں بھٹکتے پھرتے ہیں یعنی کسی حقانی صداقت کے پابند نہیں رہتے اور جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور ظالموں کو عنقریب معلوم ہوگا کہ ان کا مرجع اور مآب کون سی جگہ ہے ۔اور قرآن کو ہم نے ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے اور حقّانیّت کے ساتھ اترا ہے۔سب معانی ناجائز اور غیر صحیح ٹھہریں گے نعوذ باللّٰہ من زلۃ الفکر وقلۃ النظر غرضؔ یہ کسی پر پوشیدہ نہیں کہ ہریک علم میں خواہ علم ادیان ہو اور خواہ علم ابدان اور خواہ کوئی دوسرا علم ہو۔ ایسے الفاظ عرفیہ ضرور مستعمل ہوا کرتے ہیں جن سے مقاصد اصطلاحی اس علم کے واضح اور روشن ہوجائیں اور علماء کو اس بات سے چارہ اور گریز گاہ نہیں کہ اس علم کے افادہ اور استفادہ کی غرض سے بعض الفاظ کے معانی اپنے عرف میں اپنے مطلب کے موافق مقرر کرلیں کمالا یخفی علی الناظر۔ لیکن اگر مولوی صاحب عرف علماء کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو انہیں اختیار ہے کہ جو اولیاء اللہ کو خدا کی طرف سے کوئی غیبی خبر دی جاتی ہے۔ اس کا نام وحی اِطلاع اور وحی اِعلام رکھیں۔ مگر مناسب ہے کہ اس قدر ضرور ظاہر کردیں کہ ہم میں اور دوسری تمام جماعت مسلمانوں میں نزاع لفظی ہے یعنے جن علامات الٰہیہ کا نام ہم وحی رکھتے ہیں انہیں کو علماء اسلام اپنے عرف میں الہام بھی کہہ دیا کرتے ہیں۔ لیکن اصل
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 247
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/247/mode/1up
میں یکتا اور بے نظیر ہوناؔ سب کے نزدیک مسلم ہے۔ صداقت مذکورہ کے ماننے سے مونہہ پھیرتا ہے۔ بعض اسلام کے مخالف یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ اگرچہ عقلی طور پر
اور وؔ ہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جو ہمیشہ باطل کی آمیزش سے منزّ ہ رہے گی۔ اور کوئی باطل اس کا مقابلہ نہیں کرسکا اور نہ آئندہ کسی زمانہ میں مقابلہ کرے گا۔ یعنی اس کی کامل صداقتیں کہ جوہریک باطل سے منزّہ ہیں۔ تمام باطل پرستوں کو کہ جو پہلے اس سے پیدا ہوئے یا آئندہ کبھی پیدا ہوں ملزم اور لاجواب کرتی رہیں گی اور کوئی مخالفانہ خیال اس کے سامنے تاب مقاومت نہیں لائے گا۔ اور جو شخص اس کے قبول کرنے سے انکار کرے۔ وہ خدا کو اپنا غلبہ ظاہر کرنے سے روک نہیں سکے گا۔ اور خدا کے مقابلہ پر کوئی اس کا حمائتی نہیں۔ ہم نے یہ کلام آپ اتارا ہے اور ہم آپ ہی اس کے نگہبان رہیں گے۔ ان کو کہہ کہ حق آگیا اور باطل بعد اس کے نہ اپنی کوئی نئی شاخ نکالے گا۔ جس کا ردّ قرآن میں موجود نہ ہو اور نہ اپنی پہلی حالت پر عود کرے گا۔ اور کافروں نے کہا کہ اس وقت قرآن کو مت سنو۔ اور جب تم کو سنایا جائے تو تم بک بک کرنے سے اس میں ایک شور ڈال دیا کرو۔ شاید اسی طرح تم کو غلبہ ہو۔ اورمطلب میں ہمارا اور ان کا بکلّی اتفاق ہے تا لوگ ان کی نسبت شُبہ اور شک میں نہ رہیں اور ان کی مشتبہ کلام موجب فتنہ نہ ٹھہرے۔ اور اگر یہ حال ہے کہ مولوی صاحب کوخود اسی امر میں شک ہے کہ خدا کسی مسلمان سےؔ بطور الہام بھی کلام کرتا ہے تو یہ عاجز بفضل اللہ و رحمتہ و بحکم واما بنعمۃ ربک فحدث کسی قدر بطور نمونہ ایسے الہامات بیان کرسکتا ہے جن سے خود یہ عاجز مشرف ہوا اور جن سے مولوی صاحب کو بکلی تسلی اور تشفی حاصل ہوجائے اور جن پر غور کرنے سے یہ بھی مولوی صاحب کو معلوم ہو کہ یہ علوم ربانی اور اسرار آسمانی کہ جو مسلمانوں پر بذریعہ الہام یقینی اور قطعی منکشف ہوتے ہیں یہ اسلام کے مخالفوں کو ہرگز حاصل نہیں ہوسکتے اور نہ کبھی ہوئے اور نہ کسی مخالف اسلام کی طاقت ہے کہ ان کے مقابلہ پر دم مار سکے۔ چنانچہ وہ بعض الہامات جن کو میں اس جگہ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں بہ تفصیل ذیل ہیں
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 248
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/248/mode/1up
یہی واجب معلوم ہوتا ہے کہ کلام خدا بےؔ مثل چاہئے۔ لیکن ایسا کلام کہاں ہے جس کا بے مثل ہونا کسی صریح دلیل سے ثابت ہو۔ اگر قرآن بے نظیر ہے تو اس کی بے نظیری
بعضؔ یہود اور عیسائیوں نے کہا کہ یوں کرو کہ دن کے اول وقت میں تو ایمان لاؤ اور دن کے آخری وقت یعنے شام کو حقیت اسلام سے منکر ہوجاؤ۔ تا شاید اسی طور سے لوگ اسلام کی طرف رجوع کرنے سے ہٹ جائیں۔ سو ہم ان کو ایک سخت عذاب چکھائیں گے اور جیسے ان کے برے اور بدتر عمل ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا۔ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھائیں پر خدا اپنے کام سے ہرگز نہیں رکے گا۔ جب تک اس نور کو کامل طور پر پورا نہ کرے اگرچہ کافر لوگ کراہت ہی کریں۔ وہ خدا وہ قادر ذوالجلال ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لئے بھیجا ہے تا دنیا کے تمام دینوں پر اس کو غالب کرے اگرچہ مشرک لوگ کراہت ہی کریں۔صورتِ اوّل الہام کی منجملہ ان کئی صورتوں کے جن پر خدا نے مجھ کو اطلاع دی ہے یہ ہے کہ جب خداوند تعالیٰ کوئی امر غیبی اپنے بندہ پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو کبھی نرمی سے اور کبھی سختی سے بعض کلمات زبان پر کچھ تھوڑی غنودگی کی حالت میں جاری کردیتا ہے۔ اور جو کلمات سختی اور گرانی سے جاری ہوتے ہیں وہ ایسی پُرشدّت اور عنیف صورتؔ میں زبان پر وارد ہوتے ہیں جیسے گڑھے یعنے اولے بیکبارگی ایک سخت زمین پر گرتے ہیں یا جیسے تیز اور پرزور رفتار میں گھوڑے کا ُ سم زمین پر پڑتا ہے۔ اس الہام میں ایک عجیب سرعت اور شدّت اور ہیبت ہوتی ہے جس سے تمام بدن متاثر ہوجاتا ہے اور زبان ایسی تیزی اور بارعب آواز میں خودبخود دوڑتی جاتی ہے کہ گویا وہ اپنی زبان ہی نہیں اور ساتھ اس کے جو ایک تھوڑی سی غنودگی اور ربودگی ہوتی ہے وہ الہام کے تمام ہونے کے بعد فی الفور دور ہوجاتی ہے۔ اور جب تک کلمات الہام تمام نہ ہوں۔ تب تک انسان ایک میت کی طرح بے حس و حرکت پڑا ہوتا ہے۔ یہ الہام اکثر ان صورتوں میں نازل ہوتا ہے کہ جب خداوند کریم و رحیم اپنی عین
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 249
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/249/mode/1up
کسی واضح دلیل سے ثابت کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس کیؔ بے مثل بلاغت پر صرف وہی شخص مطلع ہوسکتا ہے جس کی اصل زبانی عربی ہو۔ اور لوگوں پر اس کی بے نظیری
کافروؔ ں کو کہہ دے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے اور پھر آخر جہنم میں پڑو گے۔ جو کچھ تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے یعنے دین اسلام کا عزت کے ساتھ دنیا میں پھیل جانا اور اسکے روکنے والوں کا ذلیل اور رسوا ہونا۔ یہ وعدہ عنقریب پورا ہونیوالا ہے اور تم ہرگز اسکو روک نہیں سکو گے۔ یہود نے کہا کہ خدا کا ہاتھ باندھا ہوا ہے یعنے جو کچھ ہے انسان کی تدبیروں سے ہوتا ہے اور خدا اپنے قادرانہ تصرفات سے عاجز ہے۔ سو خدا نے ہمیشہ کیلئے یہودیوں کے ہاتھ کو باندھ دیا ہے تا اگر انکے فکر اور ان کی تدبیریں کچھ چیز ہیں تو انکے زور سے دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں حاصل کرلیں۔ ان پر ذلت کی مار ڈالی گئی ہے۔ یعنی جہاں رہیں گے ذلیل اور محکوم بن کر رہیں گے اور ان کیلئے یہ مقرر کیا گیا ہے کہ بجز کسی قوم کے ماتحت رہنے کے کسی کی ملک میں خودبخود عزّت کے ساتھ نہیں رہیں گے ہمیشہ کمزوری اور ناتوانی اور بدبختی انکے شامل رہے گی وجہ یہ کہ وہ خدا کے نشانوں سے انکار کرتے رہے ہیں اور خدا کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں یہ اسلئے کہ وہ معصیت اور نافرمانی میں حد سے زیادہ بڑھ گئےحکمت اور مصلحت سے کسی خاص دعا کو منظور کرنا نہیں چاہتا۔ یا کسی عرصہ تک توقّف ڈالنا چاہتا ہے یا کوئی اور خبر پہنچانا چاہتا ہے کہ جو بمقتضائے بشریت انسان کی طبیعت پر گراں گزرتی ہو۔ مثلاً جب انسان جلدی سے کسی امر کا حاصل کرلینا چاہتا ہو اور وہ حاصل ہونا حسب مصلحت ربانی اس کے لئے مُقدّر نہ ہو یا توقّف سے مقّدر ہو۔ اس قسم کے الہام بھی یعنے جو سخت اور گراں صورت کے الفاظؔ خدا کی طرف سے زبان پر جاری ہوتے ہیں بعض اوقات مجھ کو ہوتے رہے ہیں جس کا بیان کرنا موجب طوالت ہے مگر ایک مختصر فقرہ بطور نمونہ بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ شاید تین سال کے قریب عرصہ گزرا ہوگا کہ میں نے اسی کتاب کے لئے دعا کی کہ لوگ اس کی مدد کی طرف متوجہ ہوں تب یہی الہام شدید الکلمات جس کی میں نے ابھی تعریف کی ہے ان لفظوں میں ہوا( بالفعل نہیں) اور یہ الہام جب اس
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 250
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/250/mode/1up
حجت نہیں ہوسکتی اور نہ وہ اس سے منتفع ہوسکتے ہیں۔ اما الجواب واضحؔ ہو کہ یہ عذر خام انہیں لوگوں کا ہے جنہوں نے دلی صدق سے کبھی اس طرف توجہ نہیں کی کہ
ہمارا ؔ قانون قدرت یہی ہے کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمانداروں کو دنیا اور آخرت میں مدد دیا کرتے ہیں۔ خدا نے یہی لکھا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے خدا بڑی طاقت والا اور غالب ہے ۔ اور کافر تجھے خدا کے سوا اور چیزوں سے ڈراتے ہیں ان کو کہہ کہ تم میرے مغلوب کرنے کیلئے اپنے معبودوں سے کہ جو تمہارے زعم میں خدا کے شریک ہیں مدد طلب کرو اور میرے ناکام رہنے کیلئے ہریک طور کا مکر کرو اور مجھے ذرامہلت مت دو۔ میرا کارساز وہ خدا ہے جس نے اپنی کتاب کو نازل کیا ہے اور اس کا یہی قانون قدرت ہے کہ وہ صالحین کے کاموں کو آپ کرتا ہے اور ان کی مہمّات کا خودُ متولی ہوتا ہے اور اپنے خداوند کے حکم پر صبر کر اور صبر سے اسکے وعدوں کا انتظار کر تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے خدا تجھے ان لوگوں کے شر سے بچائے گا کہ جو تیرے قتل کرنے کی گھات میں ہیں۔خاکسار کو ہوا۔ تو قریب دس یا پندرہ ہندو اور مسلمان لوگوں کے ہوں گے کہ جو قادیان میں اب تک موجود ہیں جن کو اسی وقت اس الہام سے خبر دی گئی اور پھر اسی کے مطابق جیسے لوگوں کی طرف سے عدم توجہی رہی۔ وہ حال بھی ان تمام صاحبوں کو بخوبی معلوم ہے۔ دوسری قسم الہام کی یعنے وہ قسم جس میں کچھ ملائمت سے کلمات زبان پر جاری ہوتے ہیں۔ اس قسم میں اپنے ذاتی مشاہدات میں سے صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ جب پہلے الہام کے بعد جس کو میں ابھی ذکر کرچکا ہوں ایک عرصہ گزر گیا اور لوگوں کی عدم توجہی سے طرح طرح کی دقّتیں پیش آئیں اور مشکل حد سے بڑھ گئی تو ایک دن قریب مغرب کے خداوند کریم نے یہ الہام کیا۔ ھزِالیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطبا جنیًّا۔ سو میں نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک کے اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہوگا۔ اور اس کی خبر بھی بدستور کئی ہندو اور مسلمانوں کو دی گئی اور اتفاقاً اسی روز یا دوسرے روز حافظ ہدایت علی خان صاحب کہ جو ان دنوں
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 251
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/251/mode/1up
قرآن کی بے نظیری کو کسی صاحب علم سے معلوم کریں۔ بلکہ فرقانی نوروں کو دیکھ کر دوسری طرف مونہہؔ پھیر لیتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کسی قدر پر َ توہ اس نور کا ان پر پڑ جائے۔
اور ہمؔ نے تجھ سے پہلے کئی پیغمبر ان کی قوم کی طرف بھیجے اور وہ بھی روشن نشان لائے۔ پس آخر ہم نے ان مجرم لوگوں سے بدلہ لیا۔ جنہوں نے ان نبیوں کو قبول نہیں کیا تھا اور ابتداء سے یہی مقرر ہے کہ مومنوں کی مدد کرنا ہم پر ایک حق لازم ہے یعنے قدیم سے عادت الہیہ اسی طرح پر جاری ہے کہ سچے نبی ضائع نہیں چھوڑے جاتے اور ان کی جماعت متفرق اور پراگندہ نہیں ہوتی بلکہ ان کو مدد ملتی ہے اور تجھ سے پہلے بھی پیغمبروں سے ہنسی اور ٹھٹھا ہوتا رہا ہے۔ مگر ہمیشہ ٹھٹھا کرنے والے اپنے ٹھٹھے کا بدلہ پاتے رہے ہیں۔ ان کو کہہ کہ زمین کا سیر کرکے دیکھو کہ جو لوگ خدا کے نبیوں کو جھٹلاتے رہے ہیں ان کا کیا انجام ہوا ہے۔ اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی اپنے رب کی طرف سے کیوں نازل نہ ہوئی۔ کہہ خدا نشانوں کے نازل کرنے پر قادر ہے مگر اکثر لوگاس ضلع میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھے قادیان میں آگئے۔ ان کو بھی اس الہام سے اطلاع دی گئی۔ اور مجھے بخوبی یاد ہے کہ اسی ہفتہ میں میں نے آپ کے دوست مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کو بھی اس الہام سے اطلاع دی تھی۔ اب خلاصہ کلام یہ کہ اس الہام کے بعد میں نے حسب الارشاد حضرت احدیّت کسی قدر تحریک کی تو تحریک کرنے کے بعد لاہور۔ پشاور۔ راولپنڈی۔ کوٹلہ مالیر اور چند دوسرے مقاموں سے جس قدر اور جہاں سے خدا نے چاہا اس حصہ کے لئے جو چھپتا تھا۔ مدد پہنچ گئی۔ والحمدللہ علی ذلک۔ اور اسی الہام کی قسم میں اورانہیں دنوں میں ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ ایک دن صبح کے وقت کچھ تھوڑی غنودگی میں یکدفعہ زبان پر جاری ہوا۔ عبداللہ خان ڈیرہ اسمعیل خان۔ چنانچہ چند ہندو کہؔ جو اس وقت میرے پاس تھے۔ کہ جو ابھی تک اسی جگہ موجود ہیں۔ ان کو بھی اس سے اطلاع دی گئی۔ اور اسی دن شام کو جو اتفاقاً انہیں ہندوؤں میں سے ایک شخص ڈاک خانہ کی طرف گیا۔ تو وہ ایک صاحب عبداللہ خان نامی کا ایک خط لایا جس کے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 252
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/252/mode/1up
ورنہ قرآن شریف کی بے نظیری حق کے طالبوں کے لئے ایسی ظاہر اور روشن ہے کہ جو آفتاب کی طرح اپنی شعاعوںؔ کو ہر طرف پھیلا رہی ہے جس کے سمجھنے اور
نہیںؔ جانتے۔ کہہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم کو نشان دکھلانے کے لئے اوپر سے کوئی عذاب نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے کوئی عذاب نمودار ہو۔ یا ایمانداروں کی لڑائی سے تم کو عذاب کا مزہ چکھاوے۔ دیکھو ہم کیونکر آیات کو پھیرتے ہیں تا وہ سمجھ لیں۔ اور کافر کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا۔ کہہ مجھے تو اپنے نفس کے نفع و ضرر کا بھی اختیار نہیں۔ مگر جو خدا چاہے وہی ہوتا ہے۔ ہریک گروہ کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت مقررہ ان کا پہنچتا ہے تو پھر نہ اس سے ایک ساعت پیچھے ہوسکتے ہیں۔ اور نہ ایک ساعت آگے ہوسکتے ہیں۔ساتھ ہی کسی قدر روپیہ بھی آیا۔ اور واقعہ مذکورہ سے کچھ دن پہلے ایک نہایت عجیب نشان الٰہی ظہور میں آیا۔ اس کا مختصر بیان یہ ہے کہ ایک ہندو آریہ باشندہ اسی جگہ کا طالب علم مدرسہ قادیان جس کی عمر بیس یا بائیس برس کی ہوگی کہ جو ابھی تک اس جگہ موجود ہے۔ ایک مدت سے بہ مرض دق مبتلا تھا۔ اور رفتہ رفتہ اس کی مرض انتہاء کو پہنچ گئی اور آثار مایوسی کے ظاہر ہوگئے۔ ایک دن وہ میرے پاس آکر اور اپنی زندگی سے ناامید ہوکر بہت بے قراری سے رویا۔ میرا دل اس کی عاجزانہ حالت پر پگھل گیا۔ اور میں نے حضرتِ احدیت میں اس کے حق میں دعا کی۔ چونکہ حضرت احدیت میں اس کی صحت مقدّر تھی۔ اس لئے دعا کرنے کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا۔ قلنا یا نارُ کونی بردًا و سلامًا۔ یعنے ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ تو سرد اور سلامتی ہوجا۔ چنانچہ اسی وقت اس ہندو اور نیز کئی اور ہندوؤں کو کہ جو اب تک اس قصبہ میں موجود ہیں اور اس جگہ کے باشندہ ہیں۔ اس الہامؔ سے اطلاع دی گئی اور خدا پر کامل بھروسہ کرکے دعویٰ کیا گیا کہ وہ ہندو ضرور صحت پاجائے گا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 253
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/253/mode/1up
جاننے کے لئے کوئی دقت اور اشتباہ نہیں۔ اور اگر تعصب اور عناد کی تاریکی درمیان میں نہ ہو۔ تو وہ کامل روشنی ادنیٰ التفات سے معلومؔ ہوسکتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ فرقان مجید
کہہؔ اے میری قوم تم بجائے خود کام کرو اور میں بجائے خود کام کرتا ہوں سو تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کس پر اسی دنیا میں عذاب نازل ہوتا ہے کہ جو اسکورُ سوا کرے اور کس پر جاودانی عذاب نزول کرتا ہے یعنے آخرت کا عذاب جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے اور خدا کی راہ سے روکتے ہیں ان پر ہم آخرت کے علاوہ اسی دنیا میں عذاب نازل کریں گے اور انکے فساد کا انہیں بدلہ ملے گا۔ اور تجھے کافروں کی بداندیشی سے غم ناک نہیں ہونا چاہئے وہ خدا کے دین کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے اور ان کیلئے خدا نے بزرگ عذاب مقرر کررکھا ہے جیسے فرعون کے خاندان اور اس سے پہلے کافروں کا حال ہوا کہ جب انہوں نے خدا کے نشانوں سے انکار کرنا اختیار کیا تو خدا نے ان سے انکے گناہوں کا مواخذہ کیااور اس بیماری سے ہرگز نہیں مرے گا چنانچہ بعد اسکے ایک ہفتہ نہیں گزرا ہوگا کہ ہندو مذکور اس جاں گداز مرض سے بکلی صحت پاگیا۔ والحمدللہ علی ذلک۔ اب دیکھئے مولوی صاحب!!! ثبوت اسے کہتے ہیں کہ دین کے دشمنوں کاحوالہ دے کر اور دیانند پنڈت کے تابعین کی گواہی ڈال کر مسلمانوں کے سچے اور بابرکت الہام کا ثبوت دیا گیا ہے۔ کیا دنیا میں اس سے مضبوط تر کوئی ثبوت ہوگا کہ خود مذہب کے مخالفوں کو ہی گواہ قرار دیا جائے۔ مہربان من کہاں اور کس ملک میں آپ نے دیکھا کہ کبھی اس قسم کے سچے اور بابرکت الہام جن میں ایک مایوس کے زندہ رہنے کی خبر دی گئی۔ گویا مردہ کے جینے کی بشارت ملی۔ کسی اور فرقہ عیسائی یا آریہ یابرہمو میں ایسے سخت مخالفوں کی گواہی سے ثابت ہوئے ہوں۔ اگر کوئی چشم دیدہ ماجرا یاد ہے تو ایک آدھ کا نام تو بتائیے۔ اب کہئے کہ یہ مبارک الہام خاصّہ امت محمدیہ ہے یانہیں۔ اسی طرح ایسے ہی صدہا اعلیٰ درجے کے الہاموں کی نسبت ہمارے پاس اس قدر ثبوت ہیں کہ جنکو آپؔ گن نہ سکیں۔ آپ نے دن کو رات تو قرار دیا۔ پر اب آفتاب کو کہاں چھپاؤ گے۔ آپ کو دین اسلام کے مخالفوں کے گھروں کی بھی کچھ خبر ہے۔ نور ایمان کیا وہاں تو ایمان ہی نہیں۔ 3۔ ۴
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 254
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/254/mode/1up
کی بے نظیری کی بعض وجوہ ایسی ہیں کہ ان کے جاننے کے لئے کسی قدر علم عربی درکار ہے۔ مگر یہ بڑی غلطی اور جہالت ہے کہ ایسا خیال کیا جائےؔ کہ اعجاز قرآن
اور ؔ بہ تحقیق خدا بڑا طاقت والا اور سزا دینے میں سخت ہے۔ اور ان کی شرارتوں کے دفع کرنے کے لئے خدا تجھے کافی ہے اور وہ سمیع اور علیم ہے اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ ہم ان کی نسبت وعدہ کرتے ہیں وہ تجھے دکھلاویں اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشان تائید دین کا نازل نہ ہوا۔ سو ان کو کہہ کہ علم غیب خدا کا خاصہ ہے۔ پس تم نشان کے منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں اورکہہ خدا سب کامل صفتوں کا مالک ہے عنقریب وہ تمہیں اپنے نشان دکھلائے گا ایسے نشان کہ تم ان کو شناخت کرلو گے اور خدا تمہارے عملوں سے غافل نہیں ہے۔ ہم نے تمہاری طرف یہ رسول اسی رسول کی مانند بھیجا ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھااور اس بیماری سے ہرگز نہیں مرے گا چنانچہ بعد اسکے ایک ہفتہ نہیں گزرا ہوگا کہ ہندو مذکور اس جاں گداز مرض سے بکلی صحت پاگیا۔ والحمدللہ علی ذلک۔ اب دیکھئے مولوی صاحب!!! ثبوت اسے کہتے ہیں کہ دین کے دشمنوں کاحوالہ دے کر اور دیانند پنڈت کے تابعین کی گواہی ڈال کر مسلمانوں کے سچے اور بابرکت الہام کا ثبوت دیا گیا ہے۔ کیا دنیا میں اس سے مضبوط تر کوئی ثبوت ہوگا کہ خود مذہب کے مخالفوں کو ہی گواہ قرار دیا جائے۔ مہربان من کہاں اور کس ملک میں آپ نے دیکھا کہ کبھی اس قسم کے سچے اور بابرکت الہام جن میں ایک مایوس کے زندہ رہنے کی خبر دی گئی۔ گویا مردہ کے جینے کی بشارت ملی۔ کسی اور فرقہ عیسائی یا آریہ یابرہمو میں ایسے سخت مخالفوں کی گواہی سے ثابت ہوئے ہوں۔ اگر کوئی چشم دیدہ ماجرا یاد ہے تو ایک آدھ کا نام تو بتائیے۔ اب کہئے کہ یہ مبارک الہام خاصّہ امت محمدیہ ہے یانہیں۔ اسی طرح ایسے ہی صدہا اعلیٰ درجے کے الہاموں کی نسبت ہمارے پاس اس قدر ثبوت ہیں کہ جنکو آپؔ گن نہ سکیں۔ آپ نے دن کو رات تو قرار دیا۔ پر اب آفتاب کو کہاں چھپاؤ گے۔ آپ کو دین اسلام کے مخالفوں کے گھروں کی بھی کچھ خبر ہے۔ نور ایمان کیا وہاں تو ایمان ہی نہیں۔ 3۔ ۴
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 255
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/255/mode/1up
کی تمام وجوہ عربی دانی پر ہی موقوف ہیں یا تمام عجائبات قرآنیہ اور جمیع خواص عظمیٰ فرقانیہ صرف عربوں پر ہی کھل سکتے ہیں اور دوسروں کے لئے تمام
سوؔ جب فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اس سے ایسا مواخذہ کیا کہ جس کا انجام وبال تھا یعنے اسی مواخذہ سے فرعون نیست و نابود کیا گیا سو تم جو بمنزلہ فرعون ہو۔ ہمارے مواخذہ سے کیونکر نافرمان رہ کر بچ سکتے ہو کیا تمہارے کافر فرعونی گروہ سے کچھ بہتر ہیں یا تم خدا کی کتابوں میں مُعذّب اور ماخوذ ہونے سے مستثنیٰ اور بری قرار دیئے گئے ہو۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت بڑی قوی جماعت ہے کہ جو زبردست اور فتحمند ہے عنقریب یہ ساری جماعت پیٹھ پھیرتے ہوئے بھاگے گی اور ہمیشہ ان کافروں کو کوئی نہ کوئی کوفت پہنچتی رہے گی یہاں تک کہ وہ وقتِ موعود آجائے گا جس کا خدا نے وعدہ کیا ہے خدا تخلّف وعدہ نہیں کرے گا اور رسولوں کے حق میں پہلے سے ہماری یہ بات قرار پاچکی ہے کہ ہمیشہ نصرت اور فتح انہیں کے شامل حال رہے گیجان سے زیادہ چاہتا ہے اور اپنی جان کی ساری طاقتوں سے اوراپنے وجود کی تمام قوتوں سے اس کی طرف دوڑتا ہے۔کیا خدا اس پر رحم نہیں کرتا۔ کیا وہ اس کی طرف نظر اٹھا کرنہیں دیکھتا۔ کیا اس کی دعائیں قبولیت کے لائق نہیں۔ کیا اس کی فریادیں کبھی خدا تک نہیں پہنچ سکتیں۔ کیا خدا اسے ناکامی کی حالت میں ہلاک کردے گا۔ کیا وہ ہزاروں دردوں کے ساتھ قبر میں اترے گا اور خدا اس کا علاج نہیں کرے گا۔ کیا وہ مولیٰ کریم اسے ردّ کردے گا۔ اور چھوڑ دے گا۔ کیا خدا اپنے صادق اور فرمانبردار طالب کو اپنے نبیوں کا راہ نہیں دکھلائے گا۔ اور اپنی خاص نعمت سے متمتع نہیں کرے گا۔ بلاشبہ وہ اپنے طالبوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اس کی طرفؔ دوڑتے ہیں وہ ان کی طرف ان سے بہت زیادہ دوڑتا ہے۔ جو لوگ اس کا قرب چاہتے ہیں وہ ان سے بہت ہی قریب ہوجاتا ہے۔ وہ انکی آنکھیں ہوجاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ اور ان کے کان ہوجاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں۔ اب تم آپ ہی سوچو کہ جس کی آنکھیں اور کان وہ عالم الغیب ہے کیا ایسا شخص اپنے لدنی علم میں نور یقین تک نہیں پہنچے گا۔ اور ظنون میں ڈوبا رہے گا۔ تم یقیناً سمجھو کہ صادقوں کے لئے اسی قدر اس کے دروازے کھل جاتے ہیں جس قدر ان کے صدق کا اندازہ ہے۔ اس کے خزائن میں کمی نہیں۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 256
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/256/mode/1up
راہیںؔ انکے دریافت کرنے کی مسدود ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ یہ بات ہریک اہل علم پر واضح ہے کہ اکثر وجوہ بینظیری فرقان کی ایسی سہل اور سریع الفہم ہیں کہ
اور ہمیشہ ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا۔ سو اس وقت تک کہ وہ وعدہ پورا ہو ان سے منہ پھیرے رہ اور انکو وہ راہ دکھلا پس عنقریب وہ آپ دیکھ لیں گے ۔اور تجھ سے پہلے جو نبی آئے انکی بھی تکذیب کی گئی تھی۔ پس انہوں نے تکذیب پر صبر کیا اور ایک مدت تک دکھ دیئے گئے یہاں تک کہ ہماری مدد انکو پہنچ گئی۔ چنانچہ گذشتہ رسولوں کی خبریں بھی تجھ کو آچکی ہیں۔ اور جس دنُ تو انکو کوئی آیت نہیں سناتا۔ اس دن کہتے ہیں کہ آج تونے کوئی آیت کیوں نہ گھڑی۔ انکو کہہ کہ میں تو اسی کلام کی پیروی کرتا ہوں کہ جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر نازل ہورہا ہے اپنے دل سے گھڑ لینا میرا کام نہیں اور نہ یہ ایسی باتیں ہیں کہ جنکو انسان اپنے افترا سے گھڑ سکے۔ یہ تو میرے رب کی طرف سے بصائر ہیں۔اس کی ذات میں بخل نہیں۔ اسکے فضلوں کا کوئی انتہا نہیں اور ترقیات معرفت کی کوئی حد نہیں۔ ہاں پہلے اس نے اظہار علی الغیب کی نعمت اور علم لدنی یقینی قطعی کی دولت اپنے برگزیدہ رسولوں کو دی۔ مگر پھر یہ تعلیم دے کر کہ 3 تمام سچے طالبوں کو خوشخبری دی کہ وہ اپنے رسول مقبول کی تبعیّت سے اس علم ظاہری اور باطنی تک پہنچ سکتے ہیں کہ جو بالاِصالت خدا کے نبیوں کو دیا گیا۔ انہیں معنوں کرکے توعلماء وارث الانبیاء کہلاتے ہیں۔ اور اگر باطنی علم کا ورثہ انکو نہیں مل سکتا۔ تو پھر وہ وارث کیونکر اور کیسے ہوئے۔ کیا آنحضرت نے فرمایا نہیں کہؔ اس امت میں محدّ ث ہوں گے وقال اللہ تعالٰی 3 ۳ ۔ 3 ۴ ۔ اب تم سوچو کہ اگر علم لدنی کا سارا مدار ظنیات پر ہے تو پھر اسکا نام علم کیونکر ہوگا۔ کیا ظنیات بھی کچھ چیز ہیں جنکا نام علم رکھا جائے۔ پس اس صورت میں3 3 ۵ کے کیا معنے ہوں گے۔ پس جاننا چاہئے کہ خدا کے کلام پر غور صحیح کرنے سے اور صدہا تجارب مشہودہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ افراد خاصہ امت محمدیہ کو جب وہ متابعت اپنے رسول مقبول
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 257
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/257/mode/1up
جن کے جاننے اور معلوم کرنےؔ کیلئے کچھ بھی لیاقت عربی درکار نہیں۔ بلکہ اس درجہ پر بدیہی اور واضح ہیں کہ ادنیٰ عقل جو انسانیت کیلئے ضروری ہے اُن کے سمجھنے کیلئے
یعنےؔ اپنے منجانب اللہ ہونے پر آپ ہی روشن دلیلیں ہیں اور ایمانداروں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے خدا کا یہ ارادہ ہورہا ہے کہ اپنے کلام سے حق کو ثابت کرے اور کافروں کے عقائد باطلہ کو جڑھ سے کاٹ دے تا سچے مذہب کی سچائی اور جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ ثابت کرکے دکھلاوے اگرچہ مجرم لوگ کراہت ہی کریں۔ اور تو وہ وقت یاد کرکہ جب کافر لوگ تیرے قید کرنے یا قتل کرنے یا نکال دینے پر مکر کرکے منصوبے باندھتے تھے اور مکر کررہے تھے اور خدا بھی مکر کررہا تھا۔ اور خدا سب مکر کرنے والوں سے بہتر ہے۔ سو جہاں تک ان کا بس چل سکا۔ انہوں نے مکر کیا اور ان کے سارے مکر خدا کے قبضہ میں ہیں اور اگرچہ ان کے مکر ایسے ہوں کہ جن سے پہاڑ ٹل جائیں تب بھی یہ گمان مت کر کہ ان سے خدا کےمیں فنا ہوجائیں اور ظاہراً اور باطناً اس کی پیروی اختیار کریں بہ تبعیت اسی رسول کے اس کی برکتوں میں سے عنایت کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ صرف زہد خشک تک رکھنا چاہتا ہے۔ اور جب کسی دل پر نبوی برکتوں کا پرتوہ پڑے گا تو ضرور ہے کہ اس کو اپنے متبوع کی طرح علم یقینی قطعی حاصل ہو۔ کیونکہ جس چشمہ کا اس کو وارث بنایا گیا ہے وہ شکوک اور شبہات کی کدورت سے بکلی پاک ہے اور منصب وارث الرسول ہونے کا بھی اسی بات کو چاہتا ہے کہ علم باطنی اس کا یقینی اور قطعی ہو۔ کیونکہ اگر اس کے پاس صرف مجموعہ ظنیات کاؔ ہے تو پھر وہ کیونکر اس ناقص مجموعہ سے کوئی فائدہ خلق اللہ کو پہنچا سکتا ہے۔ تو اس صورت میں وہ آدھا وارث ہوا نہ پورا۔ اور یک چشم ہوا نہ دونوں آنکھوں والا۔ اور جن ضلالتوں کی مدافعت کے لئے خدا نے اس کو قائم کیا ہے۔ ان ضلالتوں کا نہایت پُرزور ہونا۔ اور زمانہ کا نہایت فاسد ہونا اور منکروں کا نہایت مکار ہونا۔ اور غافلوں کا نہایت خوابیدہ ہونا۔ اور مخالفوں کا اشدّ فی الکفر ہونا اس بات کے لئے بہت ہی تقاضا کرتا ہے کہ ایسے شخص کا علم لدنی مشابہ بالرسل ہو۔ اور یہی لوگ ہیں جن کا نام احادیث میں اَمثل اور قرآن شریف میں
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 258
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/258/mode/1up
کفایت کرتی ہے۔ مثلاً ایکؔ یہ وجہ بے نظیری کہ وہ باوجود اس قدر ایجاز کلام کے کہ اگر اس کو متوسط قلم سے لکھیں تو پانچ چارجز میں آسکتا ہے۔ پھر تمام دینی صداقتوں پر کہ جو بطور متفرق پہلی کتابوں میں اور انبیاءؔ سلف کے صحیفوں میں پراگندہ اور منتشر تھیں مشتمل ہے۔ اور نیز اس میں یہ کمال ہے کہ جس قدر انسان محنت اور کوشش اور جانفشانی
وہؔ وعدے ٹل جائیں گے کہ جو اس نے اپنے رسول کو دیئے ہیں۔ خدا غالب اور بدلہ لینے والا ہے اور تجھے اسی جگہ پھیر لائے گا۔ جہاں سے تو نکالا گیا ہے۔ یعنے مکہ میں جس سے کفار نے آنحضرت کو نکال دیا تھا۔ یاد رکھو کہ خدا کی مدد بہت ہی قریب ہے۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی طرف رہبری کروں کہ جو تم کو عذاب الیم سے نجات بخشے۔ خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اور خدا کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے کوشش کرو کہ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس سے خدا تمہارے گناہوں کو بخشے گا۔ اور ان بہشتوں میں داخل کرے گا۔ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیںصدیق آیا ہے۔ اور ان لوگوں کا زمانہ ظہور پیغمبروں کے زمانہ بعث سے بہت ہی مشابہ ہوتا ہے۔ یعنے جیسے پیغمبر اس وقت آتے رہے ہیں کہ جب دنیا میں سخت درجہ پر گمراہی اور غفلت پھیلتی رہی ہے۔ ایسا ہی یہ لوگ بھی اس وقت آتے ہیں کہ جب ہر طرف گمراہی کا سخت غلبہ ہوتا ہے۔ اور حق سے ہنسی کی جاتی ہے۔ اور باطل کی تعریف ہوتی ہے۔ اور کاذبوں کو راستباز قرار دیا جاتا ہے۔ اور دجالوں کو مہدی سمجھا جاتا ہے۔ اور دنیا مخلوق اللہ کی نظر میں بہت پیاری معلومؔ ہوتی ہے جس کی تحصیل کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں۔ اور دین ان کی نظر میں ذلیل اور خوار ہوجاتا ہے۔ ایسے وقتوں میں وہی لوگ حجت اسلام ٹھہرتے ہیں جن کا الہام یقینی اور قطعی ہوتا ہے اور جو ان کامل افراد کے قائم مقام ہوتے ہیں جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ الہام یقینی اور قطعی ایک واقعی صداقت ہے جس کا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 259
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/259/mode/1up
کرکے علم دین کے متعلق اپنے فکر اور ادراک سے کچھؔ صداقتیں نکالے یا کوئی باریک دقیقہ پیدا کرے یا اسی علم کے متعلق کسی قسم کے اور حقائق اور معارف یا کسی نوع کے
اور وؔ ہ محل عطا کرے گا کہ جو پاک اور جاودانی بہشتوں میں ہیں۔ یہی انسان کے لئے سعادتِ عظمیٰ ہے۔ اور دوسری یہ ہے جسے تم اِسی دُنیا میں چاہتے ہو کہ خدا کی طرف سے مدد ہے۔ اور فتح قریب ہے اور سست مت ہو۔ اور غم مت کرو۔ اور انجام کار غلبہ تمہیں کو ہوگا اگر تم ایمان پر قائم رہو گے اور تم یہودیوں اور عیسائیوں اور دوسرے مشرکوں سے بہت کچھ دل دکھانے کی باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور ہریک طور کی بے صبری اور اضطراب سے پرہیز کرو گے تو اُن لوگوں کے مکر کچھ بھی تمہارا بگاڑ نہیں سکیں گے۔ خدا نے تم میں سے بعض نیکوکار ایمانداروں کے لئے یہ وعدہ ٹھہرا رکھا ہے کہ وہ انہیں زمین پروجود افراد کاملہ امت محمدیہ میں ثابت ہے اور انہیں سے خاص ہے۔ ہاں یہ سچ بات ہے کہ رسولوں کا الہام بہت ہی درخشاں اور روشن اور اجلیٰ اور اقویٰ اور اصفیٰ اور اعلیٰ مراتب یقین کے انتہائی درجہ پر ہوتا ہے اور آفتاب کی طرح چمک کر ہریک ظلمت کو اٹھا دیتا ہے۔ مگر اولیاء کے الہاموں میں سے جب تک معانی کسی الہامی عبارت کے مشتبہ ہوں یا وہ الہام ہی مشتبہ اور مخفی ہو تب تک وہ ایک امر ظنی ہوگا اور ولی کا الہام اسی وقت حد قطع اور یقین تک پہنچے گا کہ جب ضعیف الہاموں کی قسم میں سے نہ ہو بلکہ اپنی کامل روشنی کے ساتھ نازل ہو اور بارش کی طرح متواتر برس کر اور اپنے نوروں کو قوی طور پر دکھلا کر ملہم کے دلؔ کو کامل یقین سے ُ پرکردے اور مختلف تقریروں اور مختلف لفظوں میں اتر کر معنے اور مطلب کو بکلی کھول دے اور عبارت کو متشابہات میں سے ِ بکل الوجوہ باہر کردے اور متواتر دعاؤں اور سوالوں کے وقت خود خداوند تعالیٰ ان معانی کا قطعی اور یقینی ہونا متواتر اجابتوں اور جوابوں کے ذریعہ سے بوضاحت تمام بیان فرماوے۔ جب کوئی الہام اس حد تک پہنچ جائے تو وہ کامل النور اور قطعی اور یقینی ہے اور جو لوگ کہتے ہیں کہ اصلاً الہام اولیاء کو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 260
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/260/mode/1up
دلائل اور براہین اپنی قوت عقلیہ سے پیدا کرکے دکھلاوے یا ایسا ہی کوئیؔ نہایت
اپنےؔ رسول مقبول کے خلیفے کرے گا انہیں کی مانند جو پہلے کرتا رہا ہے اور انکے دین کو کہ جو ان کیلئے اس نے پسند کرلیا ہے یعنی دین اسلام کو زمین پر جما دے گا اور مستحکم اور قائم کردے گا اور بعد اسکے کہ ایماندار خوف کی حالت میں ہوں گے یعنی بعد اس وقت کے کہ جب بباعث وفات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ خوف دامنگیر ہوگا کہ شاید اب دین تباہ نہ ہوجائے۔ تو اس خوف اور اندیشہ کی حالت میں خدائے تعالیٰ خلافت حقہ کو قائم کرکے مسلمانوں کو اندیشہ ابتری دین سے بے غم اور امن کی حالت میں کردے گا وہ خالصاً میری پرستش کریں گے اور مجھ سے کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ یہ تو ظاہری طور پر بشارت ہے مگر جیسا کہ آیات قرآنیہ میں عادت الٰہیہ جاری ہے اسکے نیچے ایک باطنی معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ باطنی طور پر ان آیات میں خلافت روحانی کی طرف بھی اشارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہریک خوف کی حالت میں کہ جب محبت الٰہیہ دلوں سے اٹھ جائے اور مذاہب فاسدہ ہر طرف پھیل جائیں اور لوگ روبہ دنیا ہوجائیں اور دین کے گم ہونے کا اندیشہ ہوتو ہمیشہ ایسے وقتوں میں خدا روحانی خلیفوں کو پیدا کرتا رہے گا کہ جن کے ہاتھ پر روحانی طور پر نصرت اور فتح دین کی ظاہر ہو۔ اور حق کی عزت اور باطل کی ذلت ہو۔ تا ہمیشہ دین اپنی اصلی تازگی پر عود کرتا رہے اور ایماندار ضلالت کے پھیل جانے اور دین کہ مفقود ہوجانے کے اندیشہ سے امن کی حالت میں آجائیں۔ پھر بعد اس کے فرمایا کہ ایک گروہ نے عیسائیوں اور یہودیوں میں سے یہ چاہا ہے کہ کسی طرح تم کو گمراہ کریں۔ اور وہ تم کو تو کیا گمراہ کریں گے خود اپنے ہی نفسوں کو گمراہ کررہے ہیں پر اپنی غلطی پر انہیں شعور نہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ ان کاموں کے ساتھ تعریف کئے جائیں جن کو وہ کرتے نہیں سو تو یہ گمان مت کرقطع اور یقین کی طرف راہ نہیں۔ وہ معرفت کامل سے سخت بے نصیب ہیں۔ وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہ۔ اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ اور یہ وہم کہ اگر الہام اولیاء شریعت حقہ محمدیہ سے مخالف ہو تو پھر کیا کریں۔ یہ ایسا ہی قول ہے جیسا کوئی کہے کہ اگر ایک نبی کا الہام دوسرے نبی کے الہام سے مخالف ہو تو پھر کیا کریں۔ پس ایسے وساوس کا یہ جواب ہے کہ ایسا کامل النور الہام جس کی ہم نے اوپر تعریف لکھی ہے۔ ممکن نہیں کہ شریعت حقہ محمدیہ سے مخالف ہو۔ اور اگر کوئی کم فہم کچھ مخالفت سمجھے تو وہ اس کی سمجھ کا قصور ہے۔
صورتؔ ؔ دوم :۔ الہام ؔ کی جس کا میں باعتبار کثرت عجائبات کے کامل الہام نام رکھتا ہوں۔ یہ ہے کہ جب خدائے تعالیٰ بندہ کو کسی امر غیبی پر بعد دعا اس بندہ کے یا خودبخود مطلع کرنا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 261
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/261/mode/1up
دقیق صداقت جس کو حکمائے سابقین نے مدت دراز کی محنت اور جانفشانی سے نکالا ہو معرض مقابلہ میں لاوے۔ یا جس مقدر مفاسد باطنی اور امراض روحانی ہیں جن میں اکثر
کہ یہؔ لوگ عذاب سے بچ جائیں گے ان کے لئے ایک دردناک عذاب مقرر ہے اور اس سےَ اور کون ظالم تر ہے کہ جو خدا کی مسجدوں کو اس بات سے روکے کہ ان میں ذکر الٰہی کیا جائے اور مسجدوں کے خراب اور منہدم کرنے میں کوشش کرے۔ یہ عیسائیوں کی بدچلنی اور مفسدانہ حرکت کا حال بتلایا ہے جنہوں نے بیت المقدس کا کچھ پاس نہ کیا اور اسے متکبّرانہ جوش میں آکر منہدم کیا اور بعد اس آیت کے فرمایا کہ جن عیسائیوں نے ایسی شوخی کی ان کو دنیا میں رسوائی درپیش ہے اور آخرت میں عذاب عظیم۔ ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھا ہے کہ جو نیک لوگ ہیں وہی زمین کے وارث ہوں گے یعنی ارض شام کے (زبور:۷۳) کہہ اے بار خدایا اے مالک الملک تو جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ ہر یک خیرکہ جس کا انسان طالب ہے تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ تو ہریک چیز پر قادر ہےچاہتا ہے تو یکدفعہ ایک بیہوشی اور ربودگی اس پر طاری کردیتا ہے جس سے وہ بالکل اپنی ہستی سے کھویا جاتا ہے اور ایسا اس بے خودی اور ربودگی اور بیہوشی میں ڈوبتا ہے جیسے کوئی پانی میں غوطہ مارتا ہے اور نیچے پانی کے چلا جاتا ہے۔ غرض جب بندہ اس حالت ربودگی سے کہ جو غوطہ سے بہت ہی مشابہ ہے باہر آتا ہے تو اپنے اندر میں کچھ ایسا مشاہدہ کرتا ہے جیسے ایک گونج پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اور جب وہ گونج کچھ فرو ہوتی ہے تو ناگہاں اس کو اپنے اندر سے ایک موزون اور لطیف اور لذیذ کلام محسوس ہوجاتی ہے اور یہ غوطہ ربودگی کا ایک نہایت عجیب امر ہے جس کے عجائبات بیان کرنے کے لئے الفاظ کفایت نہیں کرتے۔ یہی حالت ہے جس سے ایک دریا معرفت کا انسان پر کھل جاتا ہے۔ کیونکہ جب بار بار دعا کرنے کے وقت خداوند تعالیٰ اس حالت غوطہ اور ربودگی کو اپنے بندہ پر وارد کرکے اس کی ہریک دعا کا اس کو ایک لطیف اور لذیذ کلام میں جواب دیتا ہے۔ اور ہریک استفسار کی حالت میں وہ حقائق اس پر کھولتا ہے جن کا کھلنا انسان کی طاقت سے باہر ہے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 262
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/262/mode/1up
افرادؔ مبتلا ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی کا ذکر یا علاج قرآن شریف سے دریافت کرنا چاہے۔ تو وہ جس طور سے اور جس باب میں آزمائش کرنا چاہتا ہے آزما کر دیکھ لے کہ ہریک دینی صداقت اورؔ حکمت کے بیان میں قرآن شریف ایک دائرہ کی طرح محیط ہے
کافروں کو کہہ کہ اگر تم خدا کی بندگی نہ کرو تو وہ تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے۔ سو تم نے بجائے طاعت اور بندگی کے جھٹلانا اختیار کیا۔ سو عنقریب اس کی سزا تم پر وارد ہونے والی ہے اور تم یقیناً جانو کہ تم خدا کو اس کے کاموں میں کبھی عاجز نہیں کرسکتے اور خدا تمہیں رسوا کرے گا۔ وہ لوگ کہ جو تمہارے ناحق کے جنگوں اور قتل کے ارادوں سے ظلم رسیدہ ہیں۔ انکی نسبت مدد دینے کا حکم ہوچکا ہے اور خدا انکی مدد پر قادر ہے۔ وہ خدا وہ کریم و رحیم ہے جس نے امیوں میں انہیں میں سے ایک ایسا کامل رسول بھیجا ہے کہ جو باوجود امی ہونے کے خدا کی آیات ان پر پڑھتا ہے۔ اور انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس نبی کے ظہور سے پہلے صریح گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے اور انکے گروہ میں سے اور ملکوں کے لوگ بھی ہیں جن کا اسلام میں داخل ہونا ابتدا سے قرار پاچکا ہے اور ابھی وہ مسلمانوں سے نہیں ملے۔ اور خدا غالب اور حکیم ہے جسکا فعل حکمت سے خالی نہیں۔ یعنی جب وہ وقت آپہنچے گا کہ جو خدا نے اپنی حکمت کاملہ کے لحاظ سے دوسرے ملکوں کے مسلمان ہونے کیلئے مقرر کررکھا ہے۔ تب وہ لوگ دین اسلام میں داخل ہونگےتوؔ یہ امر اس کیلئے موجب مزید معرفت اور باعث عرفان کامل ہوجاتا ہے۔ بندہ کا دعا کرنا اور خدا کا اپنی الوہیت کی تجلی سے ہریک دعا کا جواب دینا یہ ایک ایسا امر ہے کہ گویا اسی عالم میں بندہ اپنے خدا کو دیکھ لیتا ہے اور دونوں عالم اس کیلئے بلاتفاوت یکساں ہوجاتے ہیں۔ جب بندہ اپنی کسی حاجت کے وقت بار بار اپنے مولیٰ کریم سے کوئی عقدہ پیش آمدہ دریافت کرتا ہے اور عرض حال کے بعد حضرت خداوند کریم سے جواب پاتا ہے۔ اسی طرح کہ جیسے ایک انسان دوسرے انسان کی بات کا جواب دیتا ہے اور جواب ایسا ہوتا ہے کہ نہایت فصیح اور
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 263
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/263/mode/1up
جس سے کوئی صداقت دینی باہر نہیں۔ بلکہ جن صداقتوں کو حکیموں نے بباعث نقصان علم و عقل غلط طور پر بیان کیا ہے۔ قرآؔ ن شریف ان کی تکمیل و اصلاح فرماتا ہے اور
اے ایمان لانے والو۔ اگر کوئی تم میں سے دین اسلام کو چھوڑ دے گا تو خدا اس کے عوض میں ایک ایسی قوم لائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے وہ مومنین کے آگے تذلل کریں گے اور کافروں پر غالب اور بھاری ہوں گے یعنی خدا کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ ہمیشہ یہ حال ہوتا رہے گا کہ اگر کوئی ناقص الفہم دین اسلام سے مرتد ہوجائے گا تو اُس کے مرتد ہونے سے دین میں کچھ کمی نہیں ہوگی بلکہ اس ایک شخص کے عوض میں خدا کئی وفادار بندوں کو دین اسلام میں داخل کرے گاکہ جو اخلاص سے اس پر ایمان لائیں گے اور خدا کے محب اور محبوب ٹھہریں گے اور وہ تمام کافر کہ جو دین اسلام کے روکنے اور بند کرنے کے لئے اپنے مالوں کو خرچ کررہے ہیں وہ جہاں تک اُن کا بس چلے گا خرچ کریں گے۔ پر آخرکار وہ تمام خرچ ان کے لئے تاَسف اور حسرت کا موجب ہوگا اور پھر مغلوب ہوجائیں گے۔ خدا نے تم کو بہت سے ملکوں کی غنیمتوں کا عطا کرنا وعدہ کیا تھا۔ سو ان میں سے ایک پہلا امر یہ ہوا کہ خدا نے یہودیوں کے قلعے معہ تمام مال و اسباب تم کو دے دیئے اور مخالفوں کے شر سے تم کو امن بخشاتا مومنین کے لئے ایک نشان ہو۔ اور خدا تم کو دوسرے ملک بھی یعنی فارس اور روم وغیرہ عطا کرے گا۔لطیف الفاظ میں بلکہ کبھی کسی ایسی زبان میں ہوتا ہے کہ جس سے وہ بندہ ناآشنا محض ہے۔ اور کبھی امور غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے کہ جو مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہیں اور کبھی اس کے ذریعہ سے مواہب عظیمہ کی بشارت ملتی ہے اور منازل عالیہ کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ اور قرب حضرت باری کی مبارکبادی دی جاتی ہے اور کبھی دنیوی برکتوں کے بارے میں پیشگوئی ہوتی ہے تو ان کلمات لطیفہ و بلیغہ کے سننے سے کہ جو مخلوق کی قوتوں سے نہایت بلند اور اعلیٰ ہوتے ہیں۔ جس قدر ذوق اور معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کو وہی بندہ جانتا ہے جس کو یہ نعمت عطا ؔ ہوتی ہے۔ فی الحقیقت وہ خدا کو ایسا ہی شناخت کرلیتا ہے جیسے کوئی شخص
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 264
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/264/mode/1up
جن دقائق کا بیان کرنا کسی حکیم و فلاسفر کو میسر نہیں آیا۔ اور کوئی ذہن ان کی طرف سبقت نہیں لے گیا اُن کو قرآن شریف بکمال صحت و راستی بیان
تمہاری طاقت ان پر قبضہ کرنے سے عاجز ہے پر خدا کی طاقتیں ان پر محیط ہورہی ہیں اور خدا ہریک چیز پر قادر ہے یہاں تک تو وہ پیشین گوئیاں ہیں جن میں ظاہری بشارتیں ہیں۔ پھر بعد اس کے باطنی بشارتوں کی طرف اشارہ فرما کر کہا۔ کافر اور مشرک کہ جو شرک اور کفر پر مریں ان کے گناہ نہیں بخشے جائیں گے اور خدا ان کو ان کے کفر کی حالت میں اپنی معرفت کا راہ نہیں دکھلائے گا۔ ہاں جہنم کا راہ دکھلائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ پر جو لوگ خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ وہی ہیں کہ جو خدا کے نزدیک صدیق ہیں۔ ان کے لئے اجر ہوگا۔ ان کے لئے نور ہوگا۔ ان کو اسی زندگی میں بشارتیں ملیں گی یعنے وہ خدا سے نور الہام کا پائیں گے اور بشارتیں سنیں گے جن میں ان کی بہتری اور مدح اور ثنا ہوگی اور خدا ان کی سچائیوں کو روشن کرے گا۔ خدا نے جو جو وعدہ کیا ہے وہ سب پورا ہوگا۔دیکھو حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱ کہ کیونکر یہ پیشین گوئی بھی پوری ہورہی ہے
لطیف الفاظ میں بلکہ کبھی کسی ایسی زبان میں ہوتا ہے کہ جس سے وہ بندہ ناآشنا محض ہے۔ اور کبھی امور غیبیہ پر مشتمل ہوتا ہے کہ جو مخلوق کی طاقتوں سے باہر ہیں اور کبھی اس کے ذریعہ سے مواہب عظیمہ کی بشارت ملتی ہے اور منازل عالیہ کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ اور قرب حضرت باری کی مبارکبادی دی جاتی ہے اور کبھی دنیوی برکتوں کے بارے میں پیشگوئی ہوتی ہے تو ان کلمات لطیفہ و بلیغہ کے سننے سے کہ جو مخلوق کی قوتوں سے نہایت بلند اور اعلیٰ ہوتے ہیں۔ جس قدر ذوق اور معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کو وہی بندہ جانتا ہے جس کو یہ نعمت عطا ؔ ہوتی ہے۔ فی الحقیقت وہ خدا کو ایسا ہی شناخت کرلیتا ہے جیسے کوئی شخص
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 265
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/265/mode/1up
اورؔ ظاہر فرماتا ہے اوران دقائق علم الٰہی کو کہ جو صدہا دفتروں اور طویل کتابوں میں لکھے گئے تھے اور پھر بھی ناقص اور ناتمام تھے۔ باستیفا تمام لکھتا ہے اور آئندہ کسی عاقل
اور کسی نوع کی تبدیل واقعہ نہیں ہوگی۔ یہی سعادت عظمیٰ ہے کہ جو ان لوگوں کو ملتی ہے کہ جو محمد مصطفی صلوسلم عل پر ایمان لائے۔ خدا اور اس کے سارے فرشتے اس نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایماندارو تم بھی اس پر درود بھیجو۔ اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کرو۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی *** ہے۔ دنیا میں یہ کہ وہ روحانی برکتوں سے محروم رہیں گے اور آخرت میں یہ کہ ذلت اور اہانت کے ساتھ جہنم کے عذاب میں ڈالے جائیں گےیا احمد بارک اللہ فیک مارمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی۔ الرحمن علم القران۔ لتنذر قوما ما انذر اباؤھم ولتستبین سبیل المجرمین قل انی امرت وانا اول المؤمنین ای اول تائب الی اللہ بامر اللہ فی ہذا الزمان او اول من یومن بہذالامر واللہ اعلم قلؔ جاء الحق وزھق الباطل۔ ان الباطل کان زھوقا۔ کل برکۃ من محمد صلوسلم عل ۔ فتبارک من علم و تعلم۔ قل ان افتریہ فعلی اجرامی ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ لا مبدل لکلمات اللہ۔ ظُلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیر۔ای لیظہر دین الاسلام بالحجج القاطعۃ و البراہین الساطعۃ علی کل دین ماسواہ ای ینصراللہ المومنین المظلومین باشراق دینھم واتمام حجتھم انا کفیناک المستھزئین۔ یقولون اَنّٰی لکِ ھذا اَنّٰی لکِ ھذا ان ھذا الا قول البشرو اعانہ علیہ قوم اٰخرون۔ افتاتون السحر وانتم تبصرون۔ ھیھات ھیھات لما توعدون من ھذا الذی ھومھین ولا یکاد یبین۔ جاھل او مجنون۔ قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین۔ ھذا من رحمۃ ربک یتم نعمتہ علیک۔ لیکون ایۃ للمؤمنین۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 266
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/266/mode/1up
کیلئےؔ کسی نئے دقیقہ کے پیدا کرنے کی جگہ نہیں چھوڑتا۔ حالانکہ وہ اسقدر قلیل الحجم کتاب ہے
انت علی بینۃ من ربک فبشر وما انت بنعمۃ ربک بمجنون۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ انا کفیناؔ ک المستھزئین۔ ھل انبئکم علی من تنزل الشیاطین۔ تنزل علی کل افاک اثیم۔ قل عندی شھادۃ من اللہ فھل انتم مومنون۔ قل عندی شھادۃ من اللہ فھل انتم مسلمون۔ ان معی ربی سیھدین۔ رب ارنی کیف تحی الموتی۔ رب اغفر وارحم من السماء۔ رب لا تذرنی فردا وانت خیر الوارثین۔ رب اصلح امۃ محمد۔ ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین۔ وقل اعملوا علی مکانتکم انی عامل فسوف تعلمون۔ ولا تقولن لشیء انی فاعل ذالک غدا۔ ویخوفونک من دونہ۔ انک باعیننا سمیتک المتوکل۔ یحمدک اللہ من عرشہ۔ نحمدک ونصلی۔ یریدون ان یطفؤا نور اللہ بافواھہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۔ سنلقی فی قلوبھم الرعب۔ اذا جاء نصر اللہ والفتح وانتھی امر الزمان الینا۔ الیس ھذا بالحق۔ ھذا تاویل رؤیای من قبل قد جعلھا ربی حقا۔ وقالوا ان ھذا الا اختلاق۔ قلؔ اللہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرامی و من اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا۔ ولن ترضی عنک الیھود ولا النصٰرٰی وخرقوا لہ بنین و بنات بغیر علم۔ قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔ ویمکرون و
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 267
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/267/mode/1up
اپنی خداوندی کے کامل جلال سے کامیابی کے وعدے دیئے ہیں۔ کیا کوئی ایمانداروں اور حق کے طالبوں میں سے شک کرسکتا ہے کہ یہ تمام مواعید کہ جو اپنے وقتوں پر پورے ہوگئے اور ہوتے جاتے ہیں یہ کسی انسان کا کام ہے۔ دیکھو ایک غریب اور تنہا اور مسکین نے اپنے دین کے پھیلنے کے اور اپنے مذہب کی جڑھ پکڑنے کی اس وقت خبر دی کہ جب اُس کے پاس
یمکراللہ واللہ خیر الماکرین۔ الفتنۃ ھھنا فاصبر کما صبر اولوا العزم وقل رب ادخلنی مدخل صدق واما نرینک بعض الذی نعدھم او نتوفینک۔ وما کان اللہ لیعذبھم و انت فیھم۔ای ما کان اللہ لیعذبھم بعذاب کامل و انت ساکن فیھم۔انی معک وکن معیاینما کنت۔ کن مع اللہ حیث ما کنت۔ اینما تولوا فثم وجہ اللہ۔ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس وافتخارا للمؤمنین۔ ولا تَیْئس من روح اللہ الا ان روح اللہ قریب۔ الا ان نصر اللّہ قریب۔ یاتیک من کل فج عمیق۔ یاتون من کل فج عمیق۔ ینصرک اللّہ من عندہ۔ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء۔ لا مبدل لکلمات اللہ۔ انا فتحنا لک فتحا مبینا۔ فتح الولی فتح و قربناہ نجیا۔ اشجع الناس۔ ولو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ۔ انار اللّہ برھانہ۔ یا احمد فاضت الرحمۃ علی شفتیک۔ انک باعیننا یرفع اللہ ذکرک۔ ویتم نعمتہ علیک فی الدنیا والاخرۃ و وجدک ضالا فھدی ونظرنا الیک وقلنا یاؔ نار کونی بردا وسلما علی ابراھیم۔ خزائن رحمۃ ربک۔ یا ایھا المدثر قم فانذر و ربک فکبر۔ یا احمد یتم اسمک ولا یتم اسمی۔ ای انت فان فینقطع تحمیدک و لا ینتھی محامد اللہ فانھا لا تعد و لا تحصٰی۔
کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل۔ و کن من الصالحین الصدیقین۔ وامر بالمعروف وانہ عن المنکر وصلّ علی محمد و اٰل محمد۔ الصلوۃ ھو المربّی۔ انی رافعک الی والقیت علیک محبۃ منی۔ لا الہ الا اللہ فاکتب ولیطبع و لیرسل فی الارض۔ خذوا التوحید التوحید یا ابناء الفارس۔ و بشر الذین اٰمنوا ان لھم قدم صدق عند ربھم۔ واتل علیھم ما اوحی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 268
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/268/mode/1up
بجز چند بے سامان درویشوں کے اور کچھ نہ تھا اور تمام مسلمان صرفؔ اس قدر تھے کہ ایک چھوٹے سے حجرہ میں سما سکتے تھے اور انگلیوں پر نام بنام گنے جاسکتے جن کو ایک گاؤں کے چند آدمی ہلاک کرسکتے تھے۔ جن کا مقابلہ اُن لوگوں سے پڑا تھا کہ جو دنیا کے بادشاہ اور حکمران تھے اور جن کو اُن قوموں کے ساتھ سامنا پیش آیا تھا کہ جو باوجود کروڑوں مخلوقات ہونے کے اُن کے ہلاک کرنے اور نیست و نابود کرنے پر متفق تھے۔ مگر اب دنیا کے کناروں تک نظر ڈال کے دیکھو کہ کیونکر خدا نے اُنہیں ناتوان اور قدر قلیل لوگوں کو دنیا میں پھیلا دیا۔
الیک من ربک ولا تصعر لخلق اللّہ ولا تسئم من الناس۔ اصحاب الصفۃ وما ادرک ما اصحاب الصفۃ تری اعینھم تفیض من الدمع۔ یصلون علیک۔ ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان و داعیا الی اللہ وسراجا منیرا۔ املوا۔اس جگہ یہ وسوسہ دل میں نہیں لانا چاہئے کہ کیونکر ایک ادنیٰ امتی آں رسول مقبول کے اسماء یا صفات یا محامد میں شریک ہوسکے۔ بلاشُبہ یہ سچ بات ہے کہ حقیقی طور پر کوئی نبی بھی آنحضرت کے کمالاتِ قدسیہ سے شریکؔ مساوی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ تمام ملائکہ کو بھی اس جگہ برابری کا دم مارنے کی جگہ نہیں۔ چہ جائیکہ کسی اور کو آنحضرت کے کمالات سے کچھ نسبت ہو۔ مگر اے طالبِ حق ارشدک اللّٰہ تم مُتوجّہ ہوکر اس بات کو سنو کہ خداوند کریم نے اس غرض سے کہ تا ہمیشہ اس رسول مقبول کی برکتیں ظاہر ہوں اور تا ہمیشہ اس کے نور اور اس کی قبولیت کی کامل شعاعیں مخالفین کو ملزم اور لاجواب کرتی رہیں۔ اس طرح پر اپنی کمال حکمت اور رحمت سے انتظام کررکھا ہے کہ بعض افراد امت محمدیہ کہ جو کمال عاجزی اور تذلل سے آنحضرت صلوسلم عل کی متابعت اختیار کرتے ہیں اور خاکساری کے آستانہ پر پڑکر بالکل اپنے نفس سے گئے گزرے ہوتے ہیں۔ خدا ان کو فانی اور ایک مصفا شیشہ کی طرح پاکر اپنے رسول مقبول کی برکتیں ان کے وجود بے نمود کے ذریعہ سے ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ منجاب اللہ ان کی تعریف کی جاتی ہے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 269
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/269/mode/1up
اصولؔ حقہ کے جمیع دلائل اور وسائل اور تمام اوّلین آخرین کا مغز ایک قلیل المقدار کتاب میں اس احاطہ تام سے درج کرنا جس کے مقابلہ پر کسی ایسی صداقت کا نشان
اور کیونکر اُن کو طاقت اور دولت اور بادشاہت بخش دی اور کیونکر ہزارہا سال کی تخت نشینیوں کے تاج اور تخت اُن کے سپرد کئے گئے۔ ایک دن وہ تھا کہ وہ جماعت اتنی بھی نہیں تھیؔ کہ جس قدر ایک گھر کے آدمی ہوتے ہیں اور اب وہی لوگ کئی کروڑ دنیا میں نظر آتے ہیں۔ خداوند نے کہا تھا کہ میں اپنے کلام کی آپ حفاظت کروں گا۔ اب دیکھو۔ کیا یہ سچ ہے یا نہیں کہ وہی تعلیم جو آنحضرت صلوسلم عل نے خدائے تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ اُس کی کلام کے پہنچائی تھی وہ برابر اس کی کلام
یاکچھ آثار اور برکات اور آیات ان سے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ حقیقت میں مرجعِ تام ان تمام تعریفوں کا اور مصدر کامل ان تمام برکات کا رسول کریم ہی ہوتا ہے اور حقیقی اور کامل طور پر وہ تعریفیں اسی کے لائق ہوتی ہیں۔ اور وہی ان کا مصداق اَتَم ہوتا ہے۔ مگر چونکہ متبع سنن آں سرور کائنات کا اپنے غایت اتباع کے جہت سے اس شخص نورانی کے لئے کہ جو وجود باجود حضرت نبوی ہے مثل ظل کے ٹھہر جاتا ہے۔ اس لئے جو کچھ اس شخص مقدس میں انوار الٰہیہ پیدا اور ہویدا ہیں۔ اُس کے اس ظل میں بھی نمایاں اور ظاہر ہوتے ہیں۔ اور سایۂ میں اس تمام وضع اور انداز کا ظاہر ہونا کہ جو اُس کے اصل میں ہے ایک ایسا امر ہے کہؔ جو کسی پر پوشیدہ نہیں۔ ہاں سایہ اپنی ذات میں قائم نہیں اور حقیقی طور پر کوئی فضیلت اس میں موجود نہیں بلکہ جو کچھ اس میں موجود ہے وہ اس کے شخص اصلی کی ایک تصویر ہے جو اس میں نمودار اور نمایاں ہے۔ پس لازم ہے کہ آپ یا کوئی دوسرے صاحب اس بات کو حالت نقصان خیال نہ کریں کہ کیوں آنحضرت صلوسلم عل کے انوار باطنی ان کی امت کے کامل متبعین کو پہنچ جاتے ہیں اور سمجھنا چاہئے کہ اس انعکاس انوار سے کہ جو بطریق افاضہ دائمی نفوس صافیہ امت محمدیہ پر ہوتا ہے۔ دو بزرگ امر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے آنحضرت صلوسلم عل کی بدرجہ غایت کمالیت ظاہر ہوتی ہے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 270
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/270/mode/1up
نہ مل سکے کہ جو اسؔ سے باہر رہ گئی ہو۔ یہ انسان کا کا کام نہیں اور کسی مخلوق کی حد قدرت
میں محفوظ چلی آتی ہے اور لاکھوں قرآن شریف کے حافظ ہیں کہ جو قدیم سے چلے آتے ہیں۔ خدا نے کہا تھا کہ میری کتاب کا کوئی شخص حکمت میں، معرفت میں، بلاغت میں، فصاحت میں، احاطۂ علومِ ربّانیہ میں بیان دلائل دینیہ میں مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ سو دیکھو کسی سے مقابلہ نہیں ہوسکا۔ اور اگر کوئی اِس سے منکر ہے۔ تو اَب کرکے دکھلا دے اور جو کچھ ہم نے اِس کتاب میں جس کے ساتھ دس ہزار روپے کا اشتہار بھی شامل ہے۔ حقائق و دقائق و عجائبات قرآن شریف کے کہ جو انسانی
کیونکہ جس چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوسکتا ہے اور ہمیشہ روشن ہوتا ہے۔ وہ ایسے چراغ سے بہتر ہے جس سے دوسرا چراغ روشن نہ ہوسکے۔ دوسرے اس امت کی کمالیت اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت اس افاضہ دائمی سے ثابت ہوتی ہے اور حقیت دین اسلام کا ثبوت ہمیشہ تروتازہ ہوتا رہتا ہے۔ صرف یہی بات نہیں ہوتی کہ گذشتہ زمانہ پر حوالہ دیا جائے۔ اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس سے قرآن شریف کی حقانیت کے انوار آفتاب کی طرح ظاہر ہوجاتے ہیں اور دین اسلام کے مخالفوں پر حجت اسلام پوری ہوتی ہے اور معاندین اسلام کی ذلّت اور رُسوائی اور رُوسیاہی کامل طور پر کھل جاتی ہے کیونکہ وہ اسلام میں وہ برکتیں اور وہ نور دیکھتے ہیں جن کی نظیر کو وہ اپنی قوم کے پادریوں اور پنڈتوں وغیرہ میں ثابت نہیں کرسکتے۔ فتدبر ایّھا الصادق فی الطلب ایدک اللّہ فی طلبک۔اسؔ جگہ بعض خاموں کے دلوں میں یہ وہم بھی گزر سکتا ہے کہ اسی مندرجہ بالا الہامی عبارت میں کیوں ایک مسلمان کی تعریفیں لکھی ہیں۔ سو سمجھنا چاہئے کہ ان تعریفوں سے دو بزرگ فائدے متصور ہیں جن کو حکیم مطلق نے خلق اللہ کی بھلائی کے لئے مدنظر رکھ کر ان تعریفوں کو بیان فرمایا ہے۔ ایک یہ کہ تانبی متبوع کی متابعت کی تاثیریں معلوم ہوں اور تا عامہ خلائق پر واضح ہو کہ حضرت خاتم الانبیاء صلوسلم عل کی کس قدر شان بزرگ ہے۔ اور اس آفتاب صداقت کی کیسی اعلیٰ درجہ پر روشن تاثیریں ہیں۔ جس کا اتباع کسی کو مومن کامل بناتا ہے۔ کسی کو عارف کے درجہ تک پہنچاتا ہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 271
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/271/mode/1up
میں داخل نہیں اورؔ اس کے آزمانے کے لئے بھی ہر یک خواندہ اور ناخواندہ پر صاف اور
طاقتوںؔ سے باہر ہیں لکھے ہیں۔ کسی دوسری کتاب میں سے پیش کرے۔ اور جب تک پیش نہ کرے تب تک صریح حجت خدا کی اس پر وارد ہے۔ اور خدا نے کہا تھا کہ میں ارضِ شام کو عیسائیوں کے قبضہ میں سے نکال کر مسلمانوں کو اُس زمین کا وارث کروں گا۔ سو دیکھو اب تک مسلمان ہی اُس زمین کے وارث ہیں اور یہ سب خبریں ایسی ہیں کہ جن کے ساتھ اقتدار اور قدرتِ الوہیت شامل ہے۔ یہ نہیں کہ نجومیوں کی طرح صرف ایسی ہی خبریں ہوں کہ زلزلے آویں گے، قحط پڑیں گے، قوم پر قوم چڑھائی کرے گی، وباء پھیلیں گی مری پڑے گی وغیرہ وغیرہ۔ اور بہ تبعیّت خدا کے کلام کے اور اُسی کی تاثیر اور برکت سے وہ لوگ کہ جو قرآن شریف کا اتباع اختیار کرتے ہیں اور خدا کے رسول مقبول پر صدق دلی سے ایمان لاتے ہیں اور اُس سے محبت رکھتے ہیں اور اس کو تمام مخلوقات اور
کسی کو آیت اللہ اور حجت اللہ کا مرتبہ عنایت فرماتا ہے اور محامد الٰہیہ کا مورد ٹھہراتا ہے۔دوسرے یہ فائدہ کہ نئے مستفیض کی تعریف کرنے میں بہت سی اندرونی بدعات اور مفاسد کی اصلاح متصوّر ہے۔ کیونکہ جس حالت میں اکثر جاہلوں نے گذشتہ اولیاء اور صالحین پر صدہا اس قسم کی تہمتیں لگا رکھی ہیں کہ گویا انہوں نے آپ یہ فہمائش کی تھی کہ ہم کو خدا کا شریک ٹھہراؤ اور ہم سے مرادیں مانگو اور ہم کو خدا کی طرح قادر اور متصرف فی الکائنات سمجھو۔ تو اس صورت میں اگر کوئی نیا مصلح ایسی تعریفوں سے عزت یاب نہ ہو کہ جو تعریفیں ان کو اپنے پیروں کی نسبت ذہن نشین ہیں۔ تب تک وعظ اور پند اُس مصلح جدید کا بہت ہی کم مؤثر ہوگا۔ کیونکہ وہ لوگ ضرور دل میں کہیں گے کہ یہ حقیر آدمی ہمارے پیروں کی شان بزرگ کوکب پہنچؔ سکتا ہے۔ اور جب خود ہمارے بڑے پیروں نے مرادیں دینے کا وعدہ دے رکھا ہے۔ تو یہ کون ہے اور اس کی کیا حیثیت اور کیا بضاعت اور کیا رتبت اور کیا منزلت۔ تا ان کو چھوڑ کر اس کی سنیں۔ سو یہ دو فائدے بزرگ ہیں جن کی وجہ سے اس مولیٰ کریم نے کہ جو سب عزتوں اور تعریفوں کا مالک ہے۔ اپنے ایک عاجز بندہ اور مشت خاک کی تعریفیں کیں۔ ورنہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 272
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/272/mode/1up
سیدھا راستہ کھلاؔ ہے۔ کیونکہ اگر اس امر میں شک ہو۔ کہ قرآن شریف کیونکر تمام
تمامؔ نبیوں اور تمام رسولوں اور تمام مقدسوں اور تمام اُن چیزوں سے جو ظہور پذیر ہوئیں۔ یا آئندہ ہوں۔ بہتر اور پاک تر اور کامل تر اور افضل اور اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ وہ بھی اُن نعمتوں سے اب تک حصہ پاتے ہیں۔ اور جو شربت موسیٰ اور مسیح کو پلایا گیا۔ وہی شربت نہایت کثرت سے نہایت لطافت سے نہایت لذت سے پیتے ہیں اور پی رہے ہیں۔ اسرائیلی نور ان میں روشن ہیں۔ بنی یعقوب کے پیغمبروں کی ان میں برکتیں ہیں۔ سبحان اللہ ثم سبحان اللہ حضرت خاتم الانبیاء صلوسلم عل کس شان کے نبی ہیں۔ اللہ اللہ کیا عظیم الشان نور ہے جس کے ناچیز خادم جس کی ادنیٰ سے ادنیٰ اُمّت۔ جس کے احقر سے احقر چاکر مراتب مذکورہ بالا تک پہنچ جاتے ہیں۔ اللھم صل علی نبیک وحبیبک سیّد الانبیآء وافضل الرسل وخیرالمرسلین وخاتم النبیین
درحقیقت ناچیز خاک کی کیا تعریف۔ سب تعریفیں اور تمام نیکیاں اسی ایک کی طرف راجع ہیں کہ جو رب العالمین اور حیّ القیوم ہے۔ اور جب خداوند تعالیٰ عزاسمہ مصلحت مذکورہ بالا کی غرض سے کسی بندہ کی جس کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح منظور ہے۔ کچھ تعریف کرے تو اس بندہ پر لازم ہے کہ اس تعریف کو خلق اللہ کی نفع رسانی کی نیت سے اچھی طرح مشتہر کرے اور اس بات سے ہرگز نہ ڈرے کہ عوام الناس کیا کہیں گے۔ عوام الناس تو جیسا کہ ان کا مادہ اور ان کی سمجھ ہے ضرور کچھ نہ کچھ بکواس کریں گے۔ کیونکہ بدظنی اور بداندیشی کرنا عوام الناس کی قدیم سے فطرت چلی آتی ہے۔ اب کسی زمانہ میں کب بدل سکتی ہے۔ مگر درحقیقت یہ تعریفیں عوام الناس کے حق میں موجب بہبودی ہیں اور گو ابتداء میں عوام الناس کو وہ تعریفیں مکروہ اور کچھ افتراء سا معلوم ہوں۔ لیکن انجام کار خدائے تعالیٰ ان پر حق الامر کھول دیتا ہے اور جب اس ضعیف بندہ کا حق بجانب ہونا اور مؤید من اللہ ہونا عوام پر کھل جاتا ہے۔ تو وہ تمام تعریفیں ایسے شخص کی کہ جو میدان جنگ میں کھڑا ہے۔ ایک فتح عظیم کا موجب ہوجاتی ہیں اور ایک عجیب اثر پیدا کرکے خدا کے گم گشتہ بندوں کو اس کی توحید اور
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 273
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/273/mode/1up
حقائق الٰہیات پر حاوی ہےؔ ۔ تو اس بات کا ہم ہی ذمہ اٹھاتے ہیں کہ اگر کوئی صاحبمحمدؔ و اٰلہ واصحابہ و بارک وسلّم۔
اس زمانے کے پادری اور پنڈت اور برہمو اور آریہ اور دوسرے مخالف چونک نہ اٹھیں کہ وہ برکتیں کہاں ہیں۔ وہ آسمانی نور کدھر ہیں جن میں امت مرحومہ حضرت خاتم الانبیاء صلوسلم عل کے مسیح اور موسیٰ کی برکتوں میں شریک ہے۔ اور ان نوروں کی وارث ہے جن سے اور تمام قومیں اور تمام اہل مذاہب محروم اور بے نصیب ہیں۔ اس وسوسہ کے دور کرنے کے لئے بارہا ہم نے اسی حاشیے میں لکھ دیا ہے کہ طالب حق کے لئے کہ جو اسلام کے فضائلِ خاصّہ دیکھ کر فی الفور مسلمان ہونے پر مستعد ہے۔ اس ثبوتِ دینی کے ہم آپ ہی ذمہ وار ہیں۔ اور حاشیہ در حاشیہ صورت دوم میں اسی کی طرف ہم نے صریح اشارہ کیا ہے۔ بلکہ خدائے تعالیٰ جس جس طرح پر
تفرید کی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ اور اگر تھوڑے دنؔ ہنسی اور ملامت کا موجب ٹھہریں تو ان ٹھٹھوں اور ملامتوں کا برداشت کرنا خادم دین کے لئے عین سعادت اور فخر ہے۔ والذین یبلغون رسالات ربھم لا یخافون لومۃ لائم۔صورت سوم الہام کی یہ ہے کہ نرم اور آہستہ طور پر انسان کے قلب پر القا ہوتا ہے۔ یعنے یک مرتبہ دل میں کوئی کلمہ گذر جاتا ہے۔ جس میں وہ عجائبات بہ تمام و کمال نہیں ہوتے کہ جو دوسری صورت میں بیان کئے گئے ہیں۔ بلکہ اس میں ربودگی اور غنودگی بھی شرط نہیں۔ بسا اوقات عین بیداری میں ہوجاتا ہے اور اس میں ایسا محسوس ہوتا ہے۔ کہ گویا غیب سے کسی نے وہ کلمہ دل میں پھونک دیا ہے یا پھینک دیا ہے۔ انسان کسی قدر بیداری میں ایک استغراق اور محویّت کی حالت میں ہوتا ہے۔ اور کبھی بالکل بیدار ہوتا ہے کہ یک دفعہ دیکھتا ہے کہ ایکَ نووارد کلام اس کے سینہ میں داخل ہے یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ معاً وہ کلام دل میں داخل ہوتے ہی اپنی پرزور روشنی ظاہر کردیتا ہے اور انسان متنبہ ہوجاتا ہے کہ خدا کی طرف سے یہ القا ہے اور صاحب ذوق کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تنفسی ہوا اندر جاتی اور تمام دل وغیرہ اعضاء کو راحت پہنچاتی ہے۔ ویسا ہی وہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 274
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/274/mode/1up
طالب حق بن کر یعنے اسلام قبول کرنے کا تحریریؔ وعدہ کرکے کسی کتاب عبرانی
اپنیؔ خداوندی کی طاقتوں اور فضلوں اور برکتوں کو مسلمانوں پر ظاہر کرتا ہے اُنہیں ربّانی مواعید اور بشارتوں میں سے کہ جو انسانی طاقتوں سے باہر ہیں۔ کسی قدر حاشیہ ممدوحہ میں لکھ دیا ہے۔ پس اگر کوئی پادری یا پنڈت یا برہمو کہ جو اپنی کور باطنی سے منکر ہیں یا کوئی آریہ اور دوسرے فرقوں میں سے سچائی اور راستی سے خدا تعالیٰ کا طالب ہے تو اس پر لازم ہے کہ سچے طالبوں کی طرح اپنے تمام تکبروں اور غروروں اور نفاقوں اور دُنیا پرستیوں اور ضدوں اور خصومتوں سے بکلّی پاک ہوکر اور فقط حق کا خواہاں اور حق کا جویاں
الہام دل کو تسلی اور سکینت اور آرام بخشتا ہے۔ اور طبیعت مضطرب پر اس کی خوشی اور خنکی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک باریک بھید ہے جو عوام لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ مگر عارف اور صاحب معرفت لوگ جن کو حضرت واہب حقیقی نے اَسرار ربانی میں صاحب تجربہ کردیا ہے۔ وہ اس کو خوب سمجھتے اور جانتے ہیں۔ اور اس صورت کا الہام بھی اس عاجز کو بارہا ہوا ہے جس کا لکھنا بالفعل کچھ ضروری نہیں۔صورتؔ چہارم الہام کی یہ ہے کہ رؤیا صادقہ میں کوئی امر خدائے تعالیٰ کی طرف سے منکشف ہوجاتا ہے یا کبھی کوئی فرشتہ انسان کی شکل میں متشکل ہوکر کوئی غیبی بات بتلاتا ہے یا کوئی تحریر کاغذ پر یا پتھر وغیرہ پر مشہود ہوجاتی ہے جس سے کچھ اسرارِ غیبیہ ظاہر ہوتے ہیں۔ وغیرہا مِن الصّوَ ر۔
چنانچہ یہ عاجز اپنے بعض خوابوں میں سے جن کی اطلاع اکثر مخالفین اسلام کو انہیں دنوں میں دی گئی تھی کہ جب وہ خوابیں آئی تھیں اور جن کی سچائی بھی انہیں کے روبرو ظاہر ہوگئی بطور نمونہ بیان کرتا ہے۔ منجملہ اُن کے ایک وہ خواب ہے جس میں اس عاجز کو جناب خاتم الانبیاء محمد مصطفی صوسلم عل کی زیارت ہوئی تھی۔ اور بطور مختصر بیان اس کا یہ ہے کہ اس احقر نے ۱۸۶۴ ء یا ۱۸۶۵ ء عیسوی میں یعنے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 275
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/275/mode/1up
یونانی،لاطینی، انگریزی ، سنسکرت وغیرہ سے کسی قدر دینی صداقتیں
بن کر ایک مسکین اور عاجز اور ذلیل آدمی کی طرح سیدھا ہماری طرف چلا آوے اور پھر صبر اور برداشت اور اطاعت اور خلوص کو صادق لوگوں کی طرح اختیار کرے تا انشاء اللہ اپنے مطلب کو پاوے اور اگر اب بھی کوئی منہ پھیرے تو وہ خود اپنی بے ایمانی پر آپ گواہ ہےؔ ۔ بعض کوتاہ نظر لوگ جب دیکھتے ہیں کہ خدا کے نبیوں اور رسولوں کو بھی تکالیف پیش آتی رہی ہیں۔ تو اخیر پر وہ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اگر اقتدار الوہیت کہ جو الہامی خبروں کا نشان سمجھا گیا ہے۔ نبیوں کے شامل حال ہوتا تو ان کو تکلیفیں کیوں پیش آتیں اور کیوں
اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا جناب خاتم الانبیاء صلوسلم عل کو خواب میں دیکھا۔ اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے۔ جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیرمتزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کرکے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے۔غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی۔ اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میںؔ آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا۔آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا۔ تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔ پھر خلاصۂ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلوسلم عل نے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 276
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/276/mode/1up
سب سے زیادہ مصیبتیں انہیں پر پڑتیں۔ لیکن یہ وسوسہ بالکل بے اصل ہے جو سراسر کم توجہی سے پیدا ہوتا ہے۔ الہامی خبروں کا قادرانہ طور پر بیان ہوناشے دیگر ہے اور انبیاء کی مصیبتیں ایک دوسرا امر ہے کہ جوانواع اقسام کی حکمتوں پر مشتمل ہے۔ اور حقیقتِ حال پر مطلع ہونے سے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ مصیبتیں اصل میں مصیبتیں نہیں بلکہ بڑی بڑی نعمتیں ہیں کہ جو انہیں کو دی جاتی ہیں جن پر خدا کا فضل اور کرم ہوتاؔ ہے اور یہ ایسی نعمتیں ہیں کہ جن میں نبیوں اور تمام دُنیا کو فائدہ ہے اس جگہ تحقیق کلام یہ ہے کہ انبیاء
یہ وہ خواب ہے کہ تقریباً دو سو آدمی کو انہیں دنوں میں سنائی گئی تھی جن میں سے پچاس یا کم و بیش ہندو بھی ہیں کہ جو اکثر ان میں سے ابھی تک صحیح و سلامت ہیں اور وہ تمام لوگ خوب جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں براہین احمدیہ کی تالیف کا ابھی نام و نشان نہ تھا اور نہ یہ مرکوز خاطر تھا کہ کوئی دینی کتاب بناکر اس کے استحکام اور سچائی ظاہر کرنے کے لئے دس ؔ ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب وہ باتیں جن پر خواب دلالت کرتی ہے کسی قدر پوری ہوگئیں اور جس قطبیت کے اسم سے اُس وقت کی خواب میں کتاب کو موسوم کیا گیا تھا۔ اسی قطبیت کو اب مخالفوں کے مقابلے پر بوعدہ انعام کثیر پیش کرکے حجت اسلام ان پر پوری کی گئی ہے۔ اور جس قدر اجزا اس خواب کے ابھی تک ظہور میں نہیں آئے ان کے ظہور کا سب کو منتظر رہنا چاہئے کہ آسمانی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 277
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/277/mode/1up
کرؔ کے دکھلاویں تو ہم اسکو قرآن شریف میں سے نکال دیں گے بشرطیکہ اسی کتاب کی اثناء طبع
اور اولیاء کا وجود اس لئے ہوتا ہے کہ تا لوگ جمیع اخلاق میں ان کی پیروی کریں اور جن امور پر خدا نے ان کو استقامت بخشی ہے اسے جادہ استقامت پر سب حق کے طالب قدم ماریں اور یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ اخلاق فاضلہ کسی انسان کے اس وقت بہ پایہ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوں اور اسی وقت دلوں پر ان کی تاثیریں بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً عفو وہ معتبر اور قابل تعریف ہے کہ جو قدرت انتقام کے وقت میں ہو۔ اور پرہیزگاری وہ قابل اعتبار ہے۔ کہ جو نفس پروری کی قدرت موجود ہوتے ہوئے پھر پرہیزگاری قائم رہے۔ غرض خدائے تعالیٰ کاؔ ارادہ انبیاء اور اولیاء کی نسبت
اب ایک دوسری رؤیا سنئے۔ عرصہ تخمیناً بارہ برس کا ہوا ہے کہ ایک ہندو صاحب کہ جو اَب آریہ سماج قادیان کے ممبر اور صحیح و سلامت موجود ہیں حضرت خاتم الرسل صلوسلم عل کے معجزات اور آنجناب کی پیشین گوئیوں سے سخت منکر تھا اور اس کا پادریوں کی طرح شدت عناد سے یہ خیال تھا کہ یہ سب پیشگوئیاں مسلمانوں نے آپ بنالی ہیں۔ ورنہ آنحضرت پر خدا نے کوئی امر غیب ظاہر نہیں کیا اور ان میں یہ علامت نبوت موجود ہی نہیں تھی۔ مگر سبحان اللہ کیا فضل خدا کا اپنے نبی پر ہے اور کیا بلند شان اس معصوم اور مقدس نبی کی ہے کہ جس کی صداقت کی شعاعیں اب بھی ایسی ہی چمکتی ہیں کہ جیسی قدیم سے چمکتی آئی ہیں۔ کچھ تھوڑے دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اس ہندو صاحب کا ایک عزیز کسی ناگہانی پیچ میں آکر قید ہوگیا اور اس کے ہمراہ ایک اور ہندو بھی قید ہوا۔ اور ان دونوں کا چیف کورٹ میں اپیل گزرا۔ اس حیرانی اور سرگردانی کی حالت میں ایک دن اس آریہ صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی کہ غیبی خبر اسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلاسکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے۔ تب میں نے جواب دیا کہ غیب تو خاصہ خدا کا ہے اور خدا کے پوشیدہ بھیدوں سے نہ کوئی نجومی واقف ہےؔ نہ رمّال نہ فال گیر نہ اور کوئی مخلوق۔ ہاں خدا جو آسمان و زمین کی ہریک شدنی سے واقف ہے اپنے کامل اور مقدس رسولوں کو اپنے ارادہ اور اختیار سے بعض اسرار غیبیہ پر مطلع کرتا ہے۔ اور نیز کبھی کبھی جب چاہتا ہے تو اپنے سچے رسول کے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 278
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/278/mode/1up
میںؔ ہمارے پاس بھیج دیں تا وہ اس کے کسی مقام مناسب میں بطور حاشیہ مندرج ہوکر شائع
یہ ہوتا ہے کہ ان کے ہریک قسم کے اخلاق ظاہر ہوں اور بہ پایہ ثبوت پہنچ جائیں۔ سو خدائے تعالیٰ اسی ارادے کو پورے کرنے کی غرض سے ان کی نورانی عمر کو دو حصہ پر منقسم کردیتا ہے۔ ایک حصہ تنگیوں اور مصیبتوں میں گزرتا ہے اور ہر طرح سے دکھ دیئے جاتے ہیں اور ستائے جاتے ہیں تا وہ اعلیٰ اخلاق ان کے ظاہر ہوجائیں کہ جو بجز سخت تر مصیبتوں کے ہرگز ظاہر اور ثابت نہیں ہوسکتے۔ اگر ان پر وہ سخت تر مصیبتیں نازل نہ ہوں۔ تو یہ کیونکر ثابت ہو کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ مصیبتوں کے پڑنے سے اپنے مولیٰ سے بے وفائی نہیں کرتے بلکہ اور بھی آگے قدم بڑھاتے ہیں۔ اور خداوند کریم کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے سب کو چھوڑ کر انہیں پر نظرِ عنایت کی۔
کامل تابعین پر جو اہل اسلام ہیں ان کی تابعداری کی وجہ سے اور نیز اس باعث سے کہ وہ اپنے رسول کے علوم کے وارث ہیں۔ بعض اسرار پوشیدہ ان پر بھی کھولتا ہے تا ان کے صدق مذہب پر ایک نشان ہو۔ لیکن دوسری قومیں جو باطل پر ہیں جیسے ہندو اور ان کے پنڈت اور عیسائی اور ان کے پادری۔ وہ سب ان کامل برکتوں سے بے نصیب ہیں۔ میرا یہ کہنا ہی تھا کہ وہ شخص اس بات پر اصراری ہوگیا کہ اگر اسلام کے متبعین کو دوسری قوموں پر ترجیح ہے تو اسی موقع پر اس ترجیح کو دکھلانا چاہئے۔ اس کے جواب میں ہر چند کہا گیا کہ اس میں خدا کا اختیار ہے انسان کا اس پر حکم نہیں مگر اس آریہ نے اپنے انکار پر بہت اصرار کیا۔ غرض جب میں نے دیکھا کہ وہ آنحضرت صلوسلم عل کی پیشگوئیوں اور دین اسلام کی عظمتوں سے سخت منکر ہے۔ تب میرے دل میں خدا کی طرف سے یہی جوش ڈالا گیا کہ خدا اس کو اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لاجواب کرے۔ اور میں نے دعا کی کہ اے خداوند کریم تیرے نبی کریم کی عزت اور عظمت سے یہ شخص سخت منکر ہے اور تیرے نشانوں اور پیشین گوئیوں سے جو تو نے اپنے رسول پر ظاہر فرمائیں سخت انکاری ہے اور اس مقدمہ کی آخری حقیقت کھلنے سے یہ لاجواب ہوسکتا ہے اور تو ہر بات پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی امر تیرے علم محیط سے مخفی نہیں۔ تب خدا نے جو اپنے سچے دین اسلام کا حامی ہے اور اپنے رسول کی عزت اور عظمت
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 279
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/279/mode/1up
اورؔ انہیں کو اس لائق سمجھا کہ اس کے لئے اور اس کی راہ میں ستائے جائیں۔ سو خدائے تعالیٰ ان پر مصیبتیں نازل کرتا ہے تا ان کا صبر، ان کا صدق قدم، ان کی مردی، ان کی استقامت، ان کی وفاداری، ان کی فتوت شعاری لوگوں پر ظاہر کرکے الاستقامۃ فوق الکرامۃ کا مصداق ان کو ٹھہراوے۔ کیونکہ کامل صبر بجز کامل مصیبتوں کے ظاہر نہیں ہوسکتا اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور ثابت قدمی بجز اعلیٰ درجہ کے زلزلے کے معلوم نہیں ہوسکتی اور یہ مصائب حقیقت میں انبیاء اور اولیاء کے لئے روحانی نعمتیں ہیں جن سے دنیا میں ان کے اخلاق فاضلہ جن میں وہ بے مثل و مانند ہیں ظاہر ہوتے ہیں اور آخرت میں ان کے درجات کی ترقی ہوتی ہے۔
چاہتا ہے۔ رات کے وقت رؤیا میں کل حقیقت مجھ پر کھول دی۔ اور ظاہر کیا کہ تقدیر الٰہی میں یوں مقدّر ہے کہ اس کی مثل چیف کورٹ سے عدالت ماتحت میں پھر واپس آئے گی اور پھر اس عدالت ماتحت میں نصف قید اس کی تخفیف ہوجائے گی مگر بری نہیں ہوگا۔ اور جو اس کا دوسرا رفیق ہے وہ پوری قید بھگت کر خلاصی پائے گا اور بری وہ بھی نہیں ہوگا۔ پس میں نے اس خواب سے بیدار ہوکر اپنے خداوند کریم کا شکر کیا جس نے مخالف کے سامنے مجھ کو مجبور ہونے نہ دیا اور اسی وقت میں نے یہ رؤیا ایک جماعت کثیر کو سنا دیا اور اس ہندو صاحب کو بھی اسی دن خبر کردی۔ اب مولوی صاحب!! آپ خود یہاں آکر اور خود اس جگہ پہنچ کر جس طرح سے جی چاہے اس ہندو صاحب سے جو اس جگہ قادیان میں موجود ہے اور نیز دوسرے لوگوں سے دریافت کرسکتے ہیں کہ یہ خبر جو میں نے بیان کی ہے یہ ٹھیک درست ہے یا اس میں کچھ کمی بیشی ہے۔ اور ایسے معاملات میں مخالفین مذہب کی گواہی خاص کر دیانند پنڈت کے تابعین کی گواہی جس قدر قابل اعتبار ہے آپ جانتے ہی ہوں گے۔ اب ہم ایک تیسری رؤیا بھی آپ کی خدمت میں نذر کرتے ہیں۔سردؔ ار محمد حیات خان کا کبھی آپ نے نام سنا ہی ہوگا کہ جو گورنمنٹ کے حکم سے ایک عرصہ دراز تک معطل رہے۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا ہوگا۔ یا شاید اس سے زیادہ کچھ عرصہ گزر گیا ہو گا کہ جب طرح طرح کی مصیبتیں اور مشکلیں اور صعوبتیں اس معطلی کی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 280
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/280/mode/1up
محرک اس بحثؔ کے ہوں۔ وہ اول صدق اور صفائی سے کسی اخبار میں شائع کرادیں کہ
اگر خدا ان پر یہ مصیبتیں نازل نہ کرتا۔ تو یہ نعمتیںؔ بھی ان کو حاصل نہ ہوتیں اور نہ عوام پر ان کے شمائل حسنہ کماحقہ کھلتے بلکہ دوسرے لوگوں کی طرح اور انکے مساوی ٹھہرتے۔ اور گو اپنی چند روزہ عمر کو کیسے ہی عشرت اور راحت میں بسر کرتے پر آخر ایک دن اس دارفانی سے گزر جاتے اور اس صورت میں نہ وہ عیش اور عشرت ان کی باقی رہتی نہ آخرت کے درجات عالیہ حاصل ہوتے نہ دنیا میں ان کی وہ فتوّت اور جوانمردی اور وفاداری اور شجاعت
اب ایک چوتھی رؤیا بھی آپ کی تسلی کامل کے لئے بیان کرتا ہوں۔ تخمیناً دس برس کا عرصہ ہوا ہے جوؔ میں نے خواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا اور مسیح نے اور میں نے ایک جگہ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا اور کھانے میں ہم دونوں ایسے بے تکلّف
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 281
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/281/mode/1up
شہرۂ آفاق ہوتی جس سے وہ ایسے ارجمند ٹھہرے جن کا کوئی مانند نہیں اور ایسے یگانہ ٹھہرے جن کا کوئی ہم جنس نہیں اور ایسے فرد الفرد ٹھہرے جن کا کوئی ثانی نہیں اور ایسے غیب الغیب ٹھہرے جن تک کسی ادراک کی رسائی نہیں اور ایسے کامل اور بہادر ٹھہرےؔ کہ گویا ہزارہا شیر ایک قالب میں ہیں اور ہزارہا پلنگ ایک بدن میں جن کی قوّت اور طاقت سب کی نظروں سے
اور بامحبت تھے کہ جیسے دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں اور جیسے قدیم سے دو رفیق اور دلی دوست ہوتے ہیں اور بعد اس کے اُسی مکان میں جہاں اب یہ عاجز اس حاشیہ کو لکھ رہا ہے۔ میں اور مسیح اور ایک اور کامل اور مکمل سید آل رسول دالان میں خوشدلی سے ایک عرصے تک کھڑے رہے اور سید صاحب کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ اس میں بعض افراد خاصہ امت محمدیہ کے نام لکھے ہوئے تھے اور حضرت خداوند تعالیٰ کی طرف سے ان کی کچھ تعریفیں لکھی ہوئی تھیں۔ چنانچہ سید صاحب نے اس کاغذ کو پڑھنا شروع کیا جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسیح کو امت محمدیہ کے ان مراتب سے اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ جو عنداللہ ان کے لئے مقرر ہیں اور اس کاغذ میں عبارت تعریفی تمام ایسی تھی کہ جو خالص خدائے تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ سو جب پڑھتے پڑھتے وہ کاغذ اخیر تک پہنچ گیا اور کچھ تھوڑا ہی باقی رہا۔ تب اس عاجز کا نام آیا۔ جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عبارت تعریفی عربی زبان میں لکھی ہوئی تھی ھو منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی فکاد ان یعرف بین الناس۔ یعنے وہ مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید۔ سو عنقریب لوگوں میں مشہور کیا جائے گا۔ یہ اخیر فقرہ فکاد ان یعرف بین الناس اسی وقت بطور الہام بھی القا ہوا۔ چونکہ مجھ کو اس روحانی علم کی اشاعت کا ابتداء سے شوق ہے۔ اس لئے یہ خواب اور یہ القا بھی کئی مسلمانوں اور کئی ہندوؤں کو جو اب تک قادیانؔ میں موجود ہیں اسی وقت بتلایا گیا۔ اب دیکھئے کہ یہ خواب اور یہ الہام بھی کس قدر عظیم الشان اور انسانی طاقتوں سے باہر ہے۔ اور گو ابھی تک یہ پیشگوئی کامل طور پر پوری نہیں ہوئی۔ مگر اس کا اپنے وقت پر پورا ہونا بھی انتظار کرنا چاہئے۔ کیونکہ خدا کے وعدوں میں ممکن نہیں کہ تخلّف ہو۔ اور اس جگہ یاد رہے کہ اگرچہ کبھی کبھی ایسے لوگ بھی کہ جو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 282
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/282/mode/1up
مسلمان ہونے پر مستعد ہیں۔ کیونکہ جسؔ کی نیت میں حق کی طلب نہیں اور دل میں
بلند تر ہوگئی اور جو تقرب کے اعلیٰ درجات تک پہنچ گئی۔اور دوسرا حصہ انبیاء اور اولیاء کی عمر کا فتح میں، اقبال میں، دولت میں بمرتبۂ کمال ہوتا ہے تا وہ اخلاق ان کے ظاہر ہوجائیں کہ جن کے ظہور کے لئے فتح مند ہونا، صاحب اقبال ہونا، صاحب دولت ہونا، صاحب اختیار ہونا، صاحب اقتدار ہونا، صاحب طاقت ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اپنے دکھ دینے والوں کے گناہ بخشنا اور اپنے ستانے والوں سے درگزر کرنا اور اپنے دشمنوں سے پیار کرنا اور اپنے بداندیشوں کی خیرخواہی بجا لانا۔
مذہب اسلام سے خارج ہیں۔ کوئی کوئی سچی خواب دیکھ لیتے ہیں۔ مگر ان میں اور مسلمانوں کی خوابوں میں کہ جو خدا کے رسول مقبول کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں۔ کئی طور سے صریح فرق ہے۔ منجملہ ان فرقوں کے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو سچی خوابیں کثرت سے آتی ہیں جیسا ان کی نسبت خدا تعالیٰ نے آپ وعدہ دے رکھا ہے اور فرمایا 3۔ ۱ لیکن کفار اور منکرین اسلام کو اس کثرت سے سچی خوابیں ہرگز نصیب نہیں ہوتیں بلکہ ان کا ہزارم حصہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کا ثبوت ہماری ان ہزارہا سچی خوابوں کے ثبوت سے ہوسکتا ہے جن کو ہم نے قبل از وقوع صدہا مسلمانوں اور ہندوؤں کو بتلا دیا ہے اور جن کے مقابلہ سے غیر قوموں کا عاجز ہونا ہم ابتدا سے دعویٰ کررہے ہیں۔اور ایک یہ فرق ہے کہ مسلمان کی خواب اکثر اوقات نہایت عالی شان اور مہمات عظیمہ کی بشارت اور خوشخبری پر مشتمل ہوتی ہے اور کافر کی خواب اکثر اوقات امور خسیسہ میں اور ہیچ اور بے قدر ہوتی ہے اور ذلت اور ناکامی کے مکروہ آثار اس میں نمودار ہوتے ہیں۔ اور اس کے ثبوت کے لئے بھی ہماری ہی خوابوں پر بہ نظر انصاف غور کرنا کافی ہے۔ اورؔ اگر کوئی منکر ہو تو ایسی عالی شان خوابیں کسی غیر مذہب کی ہمارے سامنے پیش کرکے اور ثابت کرکے دکھلا وے۔
اور ایک فرق یہ ہے کہ مسلمان کی خواب نہایت راست اور منکشف ہوتی ہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 283
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/283/mode/1up
خدا کا خوف نہیں اور محض خبث باطنی سے مفسدوں کیؔ طرح بیہودہ گفتگو کرتا ہے۔
دولتؔ سے دل نہ لگانا، دولت سے مغرور نہ ہونا، دولتمندی میں امساک اور بخل اختیار نہ کرنا اور کرم اور ُ جود اور بخشش کا دروازہ کھولنا اور دولت کو ذریعہ نفس پروری نہ ٹھہرانا اور حکومت کو آلہ ظلم و تعدی نہ بنانا۔ یہ سب اخلاق ایسے ہیں کہ جن کے ثبوت کے لئے صاحب دولت اور صاحب طاقت ہونا شرط ہے۔ اور اسی وقت بہ پایہ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب انسان کے لئے دولت اور اقتدار دونوں میسر ہوں۔ پس چونکہ بجز زمانہ مصیبت وادبار و زمانہ دولت و اقتدار یہ دونوں قسم کے اخلاق ظاہر نہیں ہوسکتے۔ اس لئے حکمت کاملہ ایزدی نے تقاضا کیا کہ انبیاء اور اولیاء کو ان دونوں طور کی
اور کامل مسلمان کو بہت ہی کم اتفاق ہوتا ہے کہ اس کی خواب بے اصل اور اضغاث احلام میں داخل ہو۔ کیونکہ وہ پاک دل اور پاک مذہب ہے اور حضرت احدیّت سے سچا رابطہ رکھتا ہے برخلاف منکر اسلام کے کہ جو بباعث ناپاک دلی اور ناراستی مذہب کے گویا ایک نجاست میں پڑا ہوا ہے اس کو بہت ہی کم اتفاق ہوتا ہے کہ اس کی کوئی خواب سچی ہو۔ پھر تجربہ سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگر کسی منکر اسلام کی شاذ و نادر کوئی بعض خواب کبھی سچی بھی ہو تو اس میں یہ شرط ہے کہ وہ منکر کوئی معاند پادری یا پنڈت نہ ہو بلکہ کوئی سیدھا سادھا ہندو یا غریب عیسائی ہو۔ جس کو اپنے مذہب پر کچھ ایسا اعتقاد نہ ہو۔ نہ اسلام سے کچھ بغض و کینہ ہو۔ اور پھر یہ بھی تجارب کثیرہ سے ثابت ہوا ہے کہ جو کسی غریب ہندو یا عیسائی کی کبھی کسی حالت میں خواب سچی ہوجائے تو وہ خطا اور غلطی کی آمیزش سے بکلی پاک اور صاف نہیں ہوتی۔ بلکہ کچھ نہ کچھ کمی بیشی اور پراگندگی اور افراط تفریط ضرور اس میں ہوتا ہے۔ ہم کو یاد ہے کہ محرم ۱۲۹۹ ہجری کی پہلی یا دوسری تاریخ میں ہم کو خواب میں یہ دکھائی دیا کہ کسی صاحب نے مدد کتاب کے لئے پچاس روپیہ روانہ کئے ہیں۔ اسی رات ایک آریہ صاحب نے بھی ہمارے لئے خواب دیکھی کہ کسی نے مدد کتاب کے لئے ہزار روپیہ روانہ کیا ہے۔ اور جب انہوں نے خواب بیان کی تو ہم نے اسی وقت ان کو اپنی خواب بھی سنا دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ تمہاری خواب میں انیس حصے جھوٹ مل گیا ہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 284
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/284/mode/1up
اُس کی طرف متوجہ ہونا تضییع اوقات ہے۔ ایسا ہی ایک دوسری وجہ
حالتوں سے کہ جو ہزارہا نعمتوں پر مشتمل ہیں متمتع کرے۔ لیکن ان دونوں حالتوں کا زمانہ وقوع ہریک کے لئے ایک ترتیب پر نہیں ہوتا۔ بلکہ حکمت الٰہیہ بعض کےؔ لئے زمانہ امن و آسائش پہلے حصہ عمر میں میسر کردیتی ہے اور زمانہ تکالیف پیچھے سے اور بعض پر پہلے وقتوں میں تکالیف وارد ہوتی ہیں اور پھر آخرکار نصرت الٰہی شامل ہوجاتی ہے اور بعض میں یہ دونوں حالتیں مخفی ہوتی ہیں اور بعض میں کامل درجہ پر ظہور و بروز پکڑتی ہیں اور اس بارے میں
اور یہ اُسی کی سزا ہے کہ تم ہندو اور دین اسلام سے خارج ہو۔ شاید اُن کو گراں ہی گزرا ہوگا۔ مگر بات سچی تھی جس کی سچائی پانچویں یاؔ چھٹے محرم میں ظہور میں آگئی یعنے پنجم یا ششم محرم الحرام میں مبلغ پچاس روپے جن کو جوناگڈھ سے شیخ محمد بہاؤ الدین صاحب مدار المہام ریاست نے کتاب کے لئے بھیجا تھا۔ کئی لوگوں اور ایک آریہ کے روبرو پہنچ گئے۔ والحمد للّٰہ علٰی ذالک۔اسی طرح ایک مرتبہ خدا نے ہم کو خواب میں ایک راجہ کے مرجانے کی خبر دی۔ اور وہ خبر ہم نے ایک ہندو صاحب کو کہ جو اب پلیڈری کا کام کرتے ہیں بتلائی۔ جب وہ خبر اسی دن پوری ہوئی تو وہ ہندو صاحب بہت ہی متعجب ہوئے کہ ایسا صاف اور کھلا ہوا علم غیب کا کیونکر معلوم ہوگیا۔
پھر ایک مرتبہ جب انہیں وکیل صاحب نے اپنی وکالت کے لئے امتحان دیا تو اسی ضلع میں سے ان کے ساتھ اسی سال میں بہت سے اور لوگوں نے بھی امتحان دیا۔ اس وقت بھی مجھ کو ایک خواب آئی اور میں نے اس وکیل صاحب کو اور شاید تیس یا چالیس اور ہندوؤں کو جن میں سے کوئی تحصیلدار کوئی سرشتہ دار کوئی محرر ہے بتلایا کہ ان سب میں سے صرف اس شخص مقدم الذکر کا پاس ہوگا اور دوسرے سب امیدوار فیل ہوجائیں گے۔ چنانچہ بالآخر ایسا ہی ہوا۔ اور ۱۸۶۸ ء میں اس وکیل صاحب کے خط سے اس جگہ قادیان میں یہ خبر ہم کو مل گئی۔ والحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
اور اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح ہمارے مخالفین کی خوابیں دنیا کے امور میں اکثر بے اصل اور دروغ بے فروغ نکلتی ہیں۔ ویسا ہی دینیات میں اُن کا مغشوش اور بے سروپا ہونا ہمیشہ ثابت ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں میں جس کو آٹھ یا نو برس کا عرصہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 285
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/285/mode/1up
بےؔ نظیری ہے کہ جوہریک طالب حق کو آسانی سے سمجھ آسکتی ہے۔ یعنے یہ کہ
سب سے اول قدم حضرت خاتم الرسل محمد مصطفیٰ صلوسلم عل کا ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلوسلم عل پر کمال وضاحت سے یہ دونوں حالتیں وارد ہوگئیں اور ایسی ترتیب سے آئیں۔ کہ جس سے تمام اخلاق فاضلہ آنحضرت صلوسلم عل مثل آفتاب کے روشن ہوگئے اور مضمون 3 ۱ کا بہ پایہ ثابت پہنچ گیا۔ اور آنحضرت صلی۱ للہ علیہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور پر علیٰ وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابتؔ کرتا ہے کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا اور ان کا مقرب اللہ ہونا ظاہر کردیا ہے۔ پس اس تحقیق سے یہ اعتراض بھی بالکل دور ہوگیا کہ جو مسیح کے اخلاق کی
گزرا ہوگا۔ ہم نے سنا تھا کہ ایک پادری صاحب نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ اب تین برس کے اندر اندر حضرت مسیح آسمان سے پادریوں کی مدد کے لئے اتر آئیں گے۔ پھر شاید ایک مرتبہ ہم نے منشور محمدؔ ی یا کسی اور اخبار میں پڑھا ہے کہ ایک بنگلور کے پادری نے بھی کچھ ایسا ہی وعدہ کیا تھا۔ بہرحال مدت ہوئی کہ وہ تین برس کا وعدہ گزر بھی گیا۔ مگر آج تک مسیح کو آسمان سے اترتا کسی نے نہیں دیکھا اور یہ پیشگوئی پادریوں کی ایسی جھوٹی ہوئی جیسا بعض نجومی نومبر ۸۱ء کے مہینے میں قیامت کا قائم ہونا سمجھ بیٹھے تھے۔ اور واضح رہے کہ ہم اس سے انکار نہیں کرتے کہ کسی پادری کو مسیح کے نازل ہونے کے بارے میں خواب آئی ہو۔ مگر ہمارا یہ منشاء ہے کہ پادریوں کی خوابیں بباعث کفر اور عداوت حضرت خاتم الانبیاء کے اکثر دروغ بے فروغ نکلتی ہیں اور اگر کوئی خواب شاذ و نادر کسی قدر سچّی ہو۔ تو وہ مشتبہ اور مبہم ہوتی ہے۔ پس اگر مسیح کے بارہ میں کہ جو ان کو خواب آئی۔ اس کو اسی قسم دوم میں داخل کریں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ مسیح سے مراد عالم رؤیا میں کوئی کامل فرد امّت محمدیہ کا ہے۔ کیونکہ قدیم سے یہ تجربہ ہوتا چلا آیا ہے کہ جب کوئی عیسائی اپنی خواب دیکھتا ہے کہ اب مسیح آنے والا ہے کہ جو دین کو تازہ کرے گا۔ یا اگر کوئی ہندو دیکھتا ہے کہ اب
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 286
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/286/mode/1up
قرآن شریف باوجودؔ اس ایجاز اور اس احاطہ حق اور حکمت کے جس کا
نسبت دلوں میں گزر سکتا ہے یعنے یہ کہ اخلاق حضرت مسیح علیہ السلام دونوں قسم مذکورہ بالا پر علیٰ وجہ الکمال ثابت نہیں ہوسکتے بلکہ ایک قسم کے رو سے بھی ثابت نہیں ہیں۔ کیونکہ مسیح نے جو زمانہ مصیبتوں میں صبر کیا۔ تو کمالیّت اور صحت اس صبر کی تب بہ پایہ صداقت پہنچ سکتی تھی کہ جب مسیح اپنے تکلیف دہندوں پر اقتدار اور غلبہ پاکر اپنے موذیوں کے گناہ دلی صفائی سے بخش دیتا جیسا حضرت خاتم الانبیاء صلوسلم عل نے مکہ والوں
کوئی اوتار آنے والا ہے جس سے دھرم کی ترقی ہوگی۔ تو ایسی خوابیں ان کی اگر بعض اوقات سچی ہوں۔ تو ان کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ اس مسیح اور اس اوتار سے مراد کوئی محمدی شخص ہوتا ہے کہ جو دین کی ترقّی اور اصلاح کے لئے اپنے وقت پر ظہور کرتا ہے اور چونکہ وہ اپنی نورانیت میں تمام مقدسوں کا وارث ہوتا ہے اس لئے مشتبہ الخیال لوگوں کی قوت متخیلہ میں ایسی صورت پر نظر آتا ہے یعنے ان کو وہ ایک ایسے شخص کی صورت میں متصور ہوکر دکھائی دیتا ہے جس کو وہ اپنے اعتقاد کے رو سے بڑا مقدّس اور کامل اور راستی کا پیشوا اور اپنا ہادی خیال کرتے ہیں۔ غرض عیسائیوں اورؔ ہندوؤں کی خوابیں اکثر اوقات بے اصل اور سراسر دروغ یا مشتبہ نکلتی ہیں۔ پس بنظر ان تمام وجوہات کے یہ بات بخوبی بدیہی طور پر ثابت ہے کہ رؤیا صادقہ کا کثرت سے آنا، اور کامل طور پر آنا اور مہمات عظیمہ میں آنا اور انکشاف تام سے آنا۔ یہ خاصہ امت محمدیہ کا ہے۔ اس میں کسی دوسرے فرقہ کو مشارکت نہیں۔ اور عدم مشارکت کی وجہ یہی ہے کہ وہ تمام لوگ صراط مستقیم سے دور اور مہجور ہیں اور ان کے خیالات دنیا پرستی اور مخلوق پرستی اور نفس پرستی میں لگے ہوئے ہیں اور راستبازوں کے نور سے کہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ان کو ملتا ہے بکلی بے بہرہ اور بے نصیب ہیں۔ یہ صرف دعویٰ نہیں۔ یہ صرف زبان کی بات نہیں۔ یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے جس سے کوئی عقلمند اگر انکار کرے۔ تو اس پر لازم ہے کہ مقابلہ کرکے دکھلاوے۔ کیونکہ جو امر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 287
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/287/mode/1up
پہلی وجہ میں ذکر ہوچکا ہے۔ عبارت میں اس قدر فصاحتؔ اور موزونیت اور لطافت
اورؔ دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پاکر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا۔ اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیّت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہوچکا تھا۔ اور بجز ان ازلی ملعونوں کے ہریک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پاکر سب کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ کہا۔ اور اُسے عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے۔ ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کرلیا اور حقانی صبر آنحضرت صلوسلم عل کا کہ جو ایک زمانۂ دراز تک آنجناب نے ان کی سخت سخت ایذاؤں پر
کامل ثبوتوں سے اور کامل شہادتوں سے روشن ہوچکا ہے۔ وہ صرف مونہہ کی فضول اور بیہودہ باتوں سے ٹوٹ نہیں سکتا۔ فتدبر وتفکر۔صورتِ پنجم الہام کی وہ ہے جس کا انسان کے قلب سے کچھ تعلق نہیں بلکہ ایک خارج سے آواز آتی ہے اور یہ آواز ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ایک پردہ کے پیچھے سے کوئی آدمی بولتا ہے۔ مگر یہ آواز نہایت لذیذ اور شگفتہ اور کسی قدر سرعت کے ساتھ ہوتی ہے اور دل کو اس سے ایک لذت پُہنچتی ہے۔ انسان کسی قدر استغراق میں ہوتا ہے کہ یکدفعہ یہ آواز آجاتی ہے اور آواز سن کر وہ حیران رہ جاتا ہے کہ کہاں سے یہ آواز آئی اور کس نے مجھ سے کلام کی۔ اور حیرت زدہ کی طرح آگے پیچھے دیکھتا ہے پھر سمجھ جاتا ہے کہ کسی فرشتہ نے یہ آواز دی۔ اور یہ آواز خارجی اکثر اس حالت میں بطور بشارت آتی ہے کہ جب انسان کسی معاملہ میں نہایت متفکّر اور مغموم ہوتاؔ ہے یا کسی بدخبری کے سننے سے کہ جو اصل میں محض دروغ تھی۔ کوئی سخت اندیشہ اس کو دامنگیر ہوجاتا ہے۔ مگر صورت دوم کی طرح اس میں مکرّر دعاؤں پر اس آواز کا صادر ہونا مشہود نہیں ہوا بلکہ ایک ہی دفعہ اسی وقت کہ جب خدائے تعالیٰ چاہتا ہے۔ کوئی فرشتہ غیب سے ناگہانی طور پر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 288
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/288/mode/1up
اور نرمی اور آب و تاب رکھتا ہے کہ اگر کسی سرگرم نکتہ چین اور سختؔ مخالف
کیاؔ تھا۔ آفتاب کی طرح ان کے سامنے روشن ہوگیا اور چونکہ فطرتاً یہ بات انسان کی عادت میں داخل ہے کہ اسی شخص کے صبر کی عظمت اور بزرگی انسان پر کامل طور پر روشن ہوتی ہے کہ جو بعد زمانہ آزارکشی کے اپنے آزار دہندہ پر قدرت انتقام پاکر اس کے گناہ کو بخش دے۔ اس وجہ سے مسیح کے اخلاق کہ جو صبر اور حلم اور برداشت کے متعلق تھے۔ بخوبی ثابت نہ ہوئے اور یہ امر اچھی طرح نہ کھلا کہ مسیح کا صبر اور حلم اختیاری تھا یا اضطراری تھا۔ کیونکہ مسیح نے اقتدار اور طاقت کا زمانہ نہیں پایا تا دیکھا جاتا کہ اس نے اپنے موذیوں کے گناہ کو عفو کیا یا انتقام لیا۔ برخلاف اخلاق آنحضرت صلوسلم عل کہ وہ صدہا مواقع میں اچھی طرح کھل گئے اور امتحان کئے گئے اور ان کی صداقت آفتاب کی طرح
آواز کرتا ہے برخلاف صورت دوم کے کہ اس میں اکثر کامل دعاؤں پر حضرت احدیت کی طرف سے جواب صادر ہونا مشہود ہوا ہے۔ اور خواہ سو مرتبہ دعا اور سوال کرنے کا اتفاق ہو۔ اس کا جواب سو مرتبہ ہی حضرت فیاض مطلق کی طرف سے صادر ہوسکتا ہے جیسا کہ متواتر تجربہ خود اس خاکسار کا اس بات کا شاہد ہے۔ اس قسم کے الہام میں بھی ایک بزرگ پیشگوئی اس عاجز کو یاد ہے جس سے اس خاکسار نے مشرف من اللہ ہوکر ایک قادیان کے آریہ سماج کے ممبر کو کہ جو اب بھی اس جگہ صحیح و سالم موجود ہے۔ پیشگوئی کے پورے ہونے پر ملزم و لاجواب کیا تھا۔ یہ ایسی بعید از قیاس اور ظاہراً بکلّی محال و ممتنع الوقوع معلوم ہوتی تھی جس کو سن کر اس آریہ نے سخت انکار کیا اور اس بات پر ضد کر بیٹھا کہ ہرگز ممکن ہی نہیں کہ ایسی بات دور از قیاس واقعہ ہوجائے۔ چنانچہ بالآخر وہ بات بعینہ اسی طور پر ظہور میں آئی جیسی پہلے کہی گئی تھی۔ اور یہ پیشگوئی نہ صرف اس آریہ کو بتلائی گئی تھی بلکہ اور کئی لوگوں کو بتلائی گئی تھی کہ جو اب تک موجود ہیں اور کسی کو انکار کرنے کی جگہ باقی نہیں۔ چونکہ یہ پیشگوئی ایک طول طویل واقعہ پر مشتمل ہے۔ لہٰذا بالفعل اس کی تصریح کی ضرورت نہیں۔ بہرحال سمجھنا چاہئے کہ الہام ایک واقعی اور یقینی صداقت ہے جس کا مقدس اور پاک چشمہ دین اسلام ہے۔ اور خدا جو قدیم سے صادقوں کا رفیق ہے۔ دوسروں پر یہ نورانی دروازہ ہرگز نہیں کھولتا اور اپنی خاص نعمت غیر کو ہرگز نہیں دیتا۔ اور کیونکر دےؔ ۔ کیا ممکن ہے کہ جو شخص اپنے گھر کے تمام دروازے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 289
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/289/mode/1up
سلام کو کہ جو عربی کی املاء انشاء میں کامل دستگاہ رکھتا ہو۔ حاکم بااختیار کی طرف سے
روشنؔ ہوگئی۔ اور جو اخلاق، کرم اور جود اور سخاوت اور ایثار اور فتوت اور شجاعت اور زہد اور قناعت اور اِعراض عن الدنیا کے متعلق تھے۔ وہ بھی آنحضرت صلوسلم عل کی ذات مبارک میں ایسے روشن اور تاباں اور درخشاں ہوئے کہ مسیح کیا بلکہ دنیا میں آنحضرت سے پہلے کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس کے اخلاق ایسی وضاحت تامہ سے روشن ہوگئے ہوں۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دیئے۔ سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک حبہ بھی خرچ نہ ہوا۔ نہ کوئی عمارت بنائی۔ نہ کوئی بارگاہ طیار ہوئی۔ بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی۔
بند کرکے اور آنکھوں پر پردہ ڈال کے بیٹھا ہوا ہے۔ وہ ایسا ہی روشنی کو پاوے جیسا وہ شخص جس کے سب دروازے کھلے ہیں اور جس کی آنکھوں پر کوئی پردہ نہیں۔ کیا اعمیٰ اور بصیر کبھی مساوی ہوسکتے ہیں۔ کیا ظلمت نور کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ کیا ممکن ہے کہ مجذوم جس کا تمام بدن جذام خوردہ ہے اور جس کے اعضاء متعفن ہوکر گرتے جاتے ہیں۔ وہ اپنی بدنی حالت میں اس جماعت سے برابری کرسکے جس کو خدا نے کامل تندرستی اور خوبصورتی عطا فرمائی ہے۔ ہم ہروقت طالب صادق کو اس بات کا ثبوت دینے کے لئے موجود ہیں کہ وہ روحانی اور حقیقی اور سچی برکتیں کہ جو تابعین حضرت خیر الرسل میں پائی جاتی ہیں کسی دوسرے فرقہ میں ہرگز موجود نہیں۔ جب ہم عیسائیوں اور آریوں اور دوسری غیر قوموں کی ظلمانی اور محجوب حالت پر نظر کرتے ہیں اور ان کے تمام پنڈتوں اور جوگیوں اور راہبوں اور پادریوں اور مشنریوں کو آسمانی نوروں سے بکلی محروم اور بے نصیب پاتے ہیں۔ اور اس طرف اُمّت حضرت محمد مصطفی صلوسلم عل میں آسمانی نوروں اور روحانی برکتوں کا ایک دریا بہتا ہوا دیکھتے ہیں اور انوار الٰہیہ کو بارش کی طرح برستے ہوئے مشاہدہ کرتے ہیں۔ تو پھر جس ماجرا کو ہم بچشم خود دیکھ رہے ہیں اور جس کی شہادتیں ہماری تار اور پود اور رگ اور ریشہ میں بھری ہوئی ہیں اور جس پر ہمارا ایک ایک قطرہ خون کا گواہِ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 290
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/290/mode/1up
یہؔ پُر تہدید حُکم سنایا جائے کہ اگر تم مثلاً بیس برس کے عرصے میں کہ گویا ایک عمر کی
اپنیؔ ساری عمر بسر کی۔ بدی کرنے والوں سے نیکی کرکے دکھلائی اور وہ جو دلآزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی۔ سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا۔ اور کھانے کے لئے نانِ َ جو یا فاقہ اختیار کیا۔ دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا۔ اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا۔ اور اس دن سے جو ظہور فرمایا تا اس دن تک جو اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ بجز اپنے مولیٰ کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا۔ اور ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پر معرکہ جنگ میں کہ جہاں قتل کیا جانا یقینی امر تھا۔ خالصاً خدا کے لئے کھڑے ہوکر اپنی شجاعت اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھلائی۔ غرض ُ جود اور سخاوت
رویت ہے کیونکر اس سے منکر ہوجائیں۔ کیا ہم امر معلوم کو نامعلوم فرض کرلیں یا مرئی اور مشہود کو غیر مرئی اور غیر مشہود قرار دے دیں کیا کریں۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں اور سچ کہنے سے کسی حالت میں رک نہیں سکتے کہ اگر آنحضرت صلوسلم عل آئے نہ ہوتے اور قرآن شریف جس کی تاثیریں ہمارے اَئمہ اور اکابر قدیم سے دیکھتے آئے اور آج ہم دیکھ رہےؔ ہیں، نازل نہ ہوا ہوتا۔ تو ہمارے لئے یہ امر بڑا ہی مشکل ہوتا۔ کہ جو ہم فقط بائبل کے دیکھنے سے یقینی طور پر شناخت کرسکتے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح اور دوسرے گزشتہ نبی فی الحقیقت اسی پاک اور مقدس جماعت میں سے ہیں جن کو خدا نے اپنے لطف خاص سے اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے۔ یہ ہم کو فرقان مجید کا احسان ماننا چاہئے جس نے اپنی روشنی ہر زمانہ میں آپ دکھلائی اور پھر اس کامل روشنی سے گزشتہ نبیوں کی صداقتیں بھی ہم پر ظاہر کردیں۔ اور یہ احسان نہ فقط ہم پر بلکہ آدم سے لے کر مسیح تک ان تمام نبیوں پر ہے کہ جو قرآن شریف سے پہلے گزر چکے۔ اور ہریک رسول اس عالی جناب کا ممنون منت ہے جس کو خدا نے وہ کامل اور مقدس کتاب عنایت کی جس کی کامل تاثیروں کی برکت سے سب صداقتیں ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں۔ جن سے ان نبیوں کی نبوت پر یقین کرنے کے لئے ایک راستہ کھلتا ہے اور ان کی نبوتیں شکوک اور شبہات سے
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 291
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/291/mode/1up
میعاد ہے۔ اسؔ طور پر قرآن کی نظیر پیش کرکے نہ دکھلاؤ کہ قرآن کے کسی مقام میں سے
اورؔ زہد اور قناعت اور مردی اور شجاعت اور محبت الٰہیہ کے متعلق جو جو اخلاق فاضلہ ہیں۔ وہ بھی خداوند کریم نے حضرت خاتم الانبیاء میں ایسے ظاہر کئے کہ جن کی مثل نہ کبھی دنیا میں ظاہر ہوئی اور نہ آئندہ ظاہر ہوگی۔ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام میں اس قسم کے اخلاق بھی اچھی طرح ثابت نہیں ہوئے۔ کیونکہ یہ سب اخلاق بجز زمانہ اقتدار اور دولت کے بہ پایہ ثبوت نہیں پہنچ سکتے اور مسیح نے اقتدار اور دولت کا زمانہ نہیں پایا۔ اس لئے دونوں قسم کے اخلاق اس کے زیر پردہ رہے اور جیسا کہ شرط ہی ظہور پذیر نہ ہوئی۔ پس یہ اعتراض مذکورہ بالا جو مسیح کی ناقص حالت پر وارد ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ
محفوظ رہتی ہیں۔واضح ہو کہ قرآن شریف میں دو طور کا معجزہ ہمیشہ کے لئے رکھا گیا ہے۔ ایک اعجاز کلام قرآن دوم اعجاز اثر کلام قرآن۔ یہ دونوں اعجاز ایسے بدیہی ہیں کہ اگر کسی کا نفس اعراض صوری یا معنوی سے محجوب نہ ہو تو فی الفور وہ اس نور صداقت کو بچشم خود مشاہدہ کرلے گا۔ اعجاز کلام قرآن کے بیان پر تو یہ ساری کتاب مشتمل ہے اور بعض قسم کے اعجاز حاشیہ نمبر ۱۱ میں لکھے بھی گئے ہیں۔ اعجاز اثر کلام قرآن کی نسبت ہم یہ ثبوت رکھتے ہیں کہ آج تک کوئی ایسی صدی نہیں گزری جس میں خدائے تعالیٰ نے مستعد اور طالب حق لوگوں کو قرآن شریف کی پوری پوری پیروی کرنے سے کامل روشنی تک نہیں پہنچایا۔ اور ابؔ بھی طالبوں کے لئے اس روشنی کا نہایت وسیع دروازہ کھلا ہے۔ یہ نہیں کہ صرف کسی گزشتہ صدی کا حوالہ دیا جائے۔ جس طرح سچے دین اور ربانی کتاب کے حقیقی تابعداروں میں روحانی برکتیں ہونی چاہئیں اور اسرار خاصہ الٰہیہ سے ملہم ہونا چاہئے وہی برکتیں اب بھی جوئیندوں کے لئے مشہود ہوسکتی ہیں جس کا جی چاہے صدق قدم سے رجوع کرے اور دیکھے اور اپنی عاقبت کو درست کرلے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہریک طالب صادق اپنے مطلب کو پائے گا اور ہریک صاحب بصارت اس دین کی عظمت کو دیکھے گا۔ مگر کون ہمارے سامنے آکر اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ وہ آسمانی نور ہمارے کسی مخالف میں بھی موجود ہے۔ اور جس نے حضرت محمد مصطفی صلوسلم عل کی رسالت اور افضلیت اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کیا ہے۔ وہ بھی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 292
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/292/mode/1up
صرف دو چار سطرؔ کا کوئی مضمون لے کر اسی کے برابر یا اس سے بہتر کوئی نئی عبارت
علیہ وسلمکی کامل حالت سے بکلی مندفع ہوگیا۔ کیونکہ وجودِ با ُ جود آنحضرتؔ صلوسلم عل کا ہریک نبی کے لئے متمم اور مکمل ہے اور اس ذات عالی کے ذریعہ سے جو کچھ امر مسیح اور دوسرے نبیوں کا مشتبہ اور مخفی رہا تھا۔ وہ چمک اٹھا۔ اور خدا نے اس ذات مقدس پر انہیں معنوں کرکے وحی اور رسالت کو ختم کیا کہ سب کمالات اس وجود با ُ جودپر ختم ہوگئے۔ وھذا فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء۔وسوسہ دہم۔ بعض کوتہ فکر لوگ یہ وسوسہ پیش کرتے ہیں کہ الہام میں یہ خرابی اور نقص ہے کہ وہ معرفت کامل تک پہنچنے سے کہ جو حیات ابدی اور سعادت دائمی کے حصول کا مدار علیہ ہے مانع
کوئی روحانی برکت اور آسمانی تائید اپنی شامل حال رکھتا ہے۔ کیا کوئی زمین کے اس سرے سے اس سرے تک ایسا متنفّس ہے کہ قرآن شریف کے ان چمکتے ہوئے نوروں کا مقابلہ کرسکے۔ کوئی نہیں ایک بھی نہیں۔ بلکہ وہ لوگ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں ان کے ہاتھ میں بھی بجز باتوں ہی باتوں کے اور خاک بھی نہیں۔ حضرت موسیٰ کے پیرو یہ کہتے ہیں کہ جب سے حضرت موسیٰ اس دنیا سے کوچ کرگئے تو ساتھ ہی ان کا عصا بھی کوچ کرگیا کہ جو سانپ بنا کرتا تھا اور جو لوگ حضرت عیسیٰ کے اتباع کے مدعی ہیں۔ ان کا یہ بیان ہے کہ جب حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھائے گئے تو ساتھ ہی ان کے وہ برکت بھی اٹھائی گئی جس سے حضرت ممدوح ُ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔ ہاں عیسائی یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کےؔ باراں حواری بھی کچھ کچھ روحانی برکتوں کو ظاہر کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کا یہ بھی تو قول ہے کہ وہی عیسائی مذہب کے باراں امام آسمانی نوروں اور الہاموں کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے بعد آسمان کے دروازوں پر پکے قفل لگ گئے اور پھر کسی عیسائی پر وہ کبوتر نازل نہ ہوا کہ جو اول حضرت مسیح پر نازل ہوکر پھر آگ کے شعلوں کا بہروپ بدل کر حواریوں پر نازل ہوا تھا۔ گویا ایمان کا وہ نورانی دانہ کہ جس کے شوق میں وہ آسمانی کبوتر اترا کرتا تھا انہیں کے ہاتھ میں تھا اور پھر بجائے اس دانہ کے عیسائیوں کے ہاتھ میں دنیا کمانے کی پھائی رہ گئی جس کو دیکھ کر وہ کبوتر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ غرض بجز قرآن شریف کے اور کوئی ذریعہ آسمانی نوروں کی تحصیل کا موجود نہیں اور خدا نے اس غرض سے کہ حق اور باطل میں ہمیشہ کے لئے مابہ الامتیاز قائم
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 293
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/293/mode/1up
بنا لاؤ۔ جس میں وہ سب مضمونؔ معہ اپنے تمام دقائق حقائق کے آجائے اور
اورؔ مزاحم ہے۔* اور تقریر اس اعتراض کی یوں کرتے ہیں کہ الہام خیالات کی ترقی کو روکتا ہے اور تحقیقات کے سلسلہ کو آگے چلنے سے بند کرتا ہے۔ کیونکہ الہام کے پابند ہونے کی حالت میں ہریک بات میں یہی جواب کافی سمجھا جاتا ہے کہ یہ امر ہماری الہامی کتاب میں جائز یا ناجائز لکھا ہے۔ اورؔ قویٰ عقلیہ کو ایسا معطل اور بیکار چھوڑ دیتے
رہے۔ اور کسی زمانہ میں جھوٹ سچ کا مقابلہ نہ کرسکے۔ امت محمدیہ کو انتہاء زمانہ تک یہ دو معجزے یعنے اعجاز کلام قرآن اور اعجاز اثر کلام قرآن عطا فرمائے ہیں جن کے مقابلہ سے مذاہب باطلہ ابتداء سے عاجز چلے آتے ہیں۔ اور اگر صرف اعجاز کلام قرآن کا معجزہ ہوتا اور اعجاز اثر قرآن کا معجزہ نہ ہوتا تو امت مرحومہ محمدیہ کو آثار اور انوار ایمان میں کیا زیادتی ہوتی۔ کیونکہ مجرد زہد اور عفت اعجاز کی حد تک نہیں پہنچ سکتا۔ کیا ممکن نہیں کہ کوئی پادری یا پنڈت یا برہمو اپنی فطرت سے ایسا سلیم ہو کہ بطور ظاہری عفت اور زہد اور دیانت کا طریق اختیار کرے۔ پھر جس حالت میں زہد خشک ہریک فرقہ میں ممکن ہے۔ تو مومن اور غیر مومن میں من حیث الآثار مابہ الامتیاز کیا رہا۔ حالانکہ اہل حق اور اہل باطل میں من حیث الآثار مابہؔ الامتیاز ہونا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ اگر مومن بھی آسمانی نوروں سے ایسا ہی بے نصیب ہو۔ جیسے ایک بے ایمان بے نصیب ہے۔ تو اس کے ایمان کا کونسا نور اس دنیا میں ظاہر ہوا اور ایمان کو بے ایمانی پر کیا ترجیح ہوئی اور خود جس حالت میں اعجاز اثر قرآن ظاہر ہے جس میں تسلی کردینے کے لئے ہم آپ ہی متکفل ہیں تو پھر باوجود اس بدیہی دلیل کے طوالت کلام کی کچھ حاجت نہیں جس کو شک ہو وہ آزماوے جس کو شبہ ہو وہ تجربہ کر لیوے۔ اور اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ جو امر بذریعہ الہام الٰہی کسی پر
*الہامؔ کامل اور حقیقی کہ جو برہمو سماج والوں اور دوسرے مذاہب باطلہ کے ہریک قسم کے وساوس کو بکلی دور کرتا ہے۔ اور طالب حق کو مرتبہ یقینِ کامل تک پہنچاتا ہے۔ وہ فقط قرآن شریف ہے اور بجز اس کے دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں کہ جو تمام فرقوں کے اوہام باطلہ کو دور کرسکے اور انسان کو حق الیقین کے درجہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 294
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/294/mode/1up
عبارت بھی ایسی بلیغ اور فصیح ہو جیسی قرآنؔ کی تو تم کو اس عجز کی وجہ سے سزائے موت
ہیں کہ گویا خدا نے ان کو وہ قوتیں عطا ہی نہیں کیں۔ سو بالآخر عدم استعمال کے باعث سے وہ تمام قوتیں رفتہ رفتہ ضعیف بلکہ قریب قریب مفقود کے ہوتی جاتی ہیں اور انسانی سرشت بالکل منقلب ہو کر حیوانات سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے اور نفس انسانی کا عمدہ
نازل ہو۔ وہ اس کے لئے اور ہریک کے لئے کہ کوئی وجہ یقین کرنے کی رکھتا ہے یا خدا نے کوئی نشان یقین کرنے کا اس پر ظاہر کردیا ہے۔ واجب التعمیل ہے اور جو شخص جس کو اُس الہام کی نسبت باور دلایا گیا ہے۔ اس پر عمل کرنے سے عمداً دست کش ہو وہ مورد غضب الٰہی ہوگا۔ بلکہ اس کے خاتمہ بد ہونے کا سخت اندیشہ ہے۔ بلعم بن بعور کو خدا نے الہام میں لا تدع علیھم کہا۔ یعنے یہ کہ موسیٰ اور اس کے لشکر پر بددعا مت کر۔ اس نے برخلاف امر الٰہی کے حضرت موسیٰ کے لشکر پر بددعا کرنے کا ارادہ کیا آخر اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ خدا نے اس کو اپنی جناب سے رد کردیا اور اس کو کتے سے تشبیہ دی وہ الہام ہی تھا جس کی تعمیل سے حضرت موسیٰ کی ماں نے حضرت موسیٰ کو شیرخوارگی حالت میں ایک صندوق میں ڈال کر دریا میں پھینک دیا۔ الہام ہی تھا جس کے دیکھنے کے لئے موسیٰ جیسے اولوالعزم پیغمبر کو خدا نے اپنے ایک بندہ خضر کے پاس جس کا نام بلیاؔ بن ملکان تھا بھیجا تھا۔ جس کے علم قطعی اور یقینی کی نسبت اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا۔33۔۱ سو اسی علم قطعی اور یقینی کا یہ نتیجہ تھا کہ خضر نے حضرت موسیٰ کے روبرو ایسے کام کئے کہ جو ظاہراً خلاف شرع معلوم ہوتے تھے ۔کشتی کو توڑا ایک معصوم بچہ کو قتل کیا ایک غیر ضروری کام کو کسی اجرت کے بغیر اپنے گلے ڈال لیا اور ظاہر ہے
تکؔ پہنچا سکے۔ مگر افسوس کہ اس اندھی اور بے تمیز دنیا میں ایسے لوگ بہت ہی تھوڑے ہیں کہ جو خدا کو اپنا اصلی مقصود ٹھہرا کر اور تعصب مذہبی اور قومی اور دوسرے دنیوی لالچوں سے الگ ہوکر اس روشنی اور صداقت کو قبول کریں کہ جو خدائے تعالیٰ نے خاص قرآن شریف میں رکھی ہے جو اس کے غیر میں نہیں پائی جاتی۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 295
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/295/mode/1up
دی جاوے گی تو پھر بھی باوجود سخت عناد اور اندیشہ رسوائی اور خوف
کمالؔ کہ جو ترقی فی المعقولات ہے۔ ناحق ضائع جاتا ہے۔ اور معرفت کاملہ کے حاصل کرنے سے انسان رک جاتا ہے۔ اور جس حیات ابدی اور سعادت دائمی کے حصول کی انسان کو ضرورت ہے۔ اس کے حصول سے الہامی کتابیں سد راہ ہوجاتی ہیں۔ اما الجواب واضح ہو کہ ایسا سمجھنا کہ گویا خدا کی سچی کتاب پر عمل کرنے سے
کہ خضر رسول نہیں تھا ورنہ وہ اپنی امت میں ہوتا۔ نہ جنگلوں اور دریاؤں کے کنارہ پراور خدا نے بھی اس کو رسول یا نبی کرکے نہیں پکارا۔ مگر جو اس کو اطلاع دی جاتی تھی اس کا نام یقینی اور قطعی رکھا ہے۔ کیونکہ قرآن کے عرف میں علم اسی چیز کا نام ہے کہ جو قطعی اور یقینی ہو۔ اور خود ظاہر ہے کہ اگر خضر کے پاس صرف ظنیات کا ذخیرہ ہوتا تو اس کے لئے کب جائز تھا کہ امر مظنون پر بھروسا کرکے ان امور کو کرتا کہ جو صریح خلاف شرع اور منکر بلکہ باتفاق تمام پیغمبروں کے کبائر میں داخل تھے۔ اور پھر اس صورت میں حضرت موسیٰ کا اس کے پاس آنا بھی محض بے فائدہ تھا۔ پس جبکہ بہرصورت ثابت ہے کہ خضر کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم یقینی اور قطعی دیا گیا تھا۔ تو پھر کیوں کوئی شخص مسلمان کہلا کر اور قرآن شریف پر ایمان لا کر اس بات سے منکر رہے کہ کوئی فرد بشر امت محمدیہ میں سے باطنی کمالات میں خضر کی مانند نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ ہوسکتا ہے۔ بلکہ خدائے حی قیوم اس بات پر قادر ہے کہ امت مرحومہ محمدیہ کے افراد خاصہ کو اس سے بھی بہتر و زیادہ تر باطنی نعمتیں عطا فرماوےؔ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ کیا اس خداوند کریم نے آپ ہی اس امت کو یہ دعا تعلیم نہیں فرمائی 3۱ کیا اس نے آپ ہی نہیں فرمایا۔ 3۔۲ تم یقیناً سمجھو کہ خداوند کریم اس
بلکہؔ قبول کرنا تو درکنار ہمارے مخالفوں میں اس قدر شرم بھی باقی نہیں رہی کہ قرآن شریف کی بدیہی عظمتوں اور صداقتوں کو دیکھ کر اور اپنے مذہب کے فسادوں اور ضلالتوں پر مطلع ہوکر بدگوئی اور بدزبانی سے باز رہیں اور باوجود چور ہونے کے پھر چترائی نہ دکھلاویں۔ مثلاً خیال کرنا چاہئے کہ عیسائیوں کے عقائدؔ کا باطل ہونا کس قدر بدیہی ہے کہ خواہ نخواہ منہ زوری سے ایک عاجز مخلوق کو
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 296
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/296/mode/1up
موتؔ کی نظیر بنانے پر ہرگز قادر نہیں ہوسکتا اگرچہ دنیا کے صدہا زبان دانوں اور
قویٰؔ عقلیہ کو بالکل بیکار چھوڑا جاتا ہے اور گویا الہام اور عقل ایک دوسرے کی نقیض اور ضد ہیں کہ جو ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں۔ یہ برہمو لوگوں کی کمال درجہ کی بدفہمی اور بداندیشی اور ہٹ دھرمی ہے اور اس عجیب وہم کی عجیب طرح کی ترکیب ہے جس کے اجزاء میں سے کچھ تو جھوٹ اور کچھ تعصب اور کچھ جہالت ہے۔ جھوٹ یہ کہ باوصفؔ اس بات کے کہ ان کو بخوبی معلوم ہے کہ
امت مرحومہ پر بہت ہی مہربان ہے اور قدیم سے وہ بھی چاہتا ہے کہ اس امت کو اپنی نورانی برکتوں اور آسمانی نوروں کے ساتھ غیر قوموں پر بدیہی ترجیح رہے تا دشمن یہ نہ کہے کہ ہم میں اور تم میں کون سا فرق ہے۔ تامعاند کہ خدا اس کا روسیہ کرے اپنے خبث باطن اور عادت دروغی سے یہ کہنا نہ پاوے کہ آنحضرت سیّد الطیبین اور اس کی پاک اور طیب آل اور اس کی نورانی جماعت نے آسمانی برکتوں کو نہیں دکھلایا۔ تم فکر کرو اور سوچو۔ کیا تمہارے لئے یہ بہتر تھا کہ تم آسمانی نوروں سے ایسے ہی بے نصیب رہ کر گزشتہ قصوں کے سہارے سے زندگی بسر کرتے جیسے تمہارے مخالف اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔ یا تمہارے لئے یہ بہتر اور شکر کی جگہ ہے کہ خدا ہمیشہ تم میں سے اور تمہاری قوم میں سے بعض افراد کو اپنے نوروں میں سے حصہ وافر دے کر تم سب کے ایمان کو بمرتبہ کمال پہنچاوے اور مخالفوں کو ملزم اور ذلیل کرے۔ غیر قوموں کی طرف دیکھو کہ وہ کیونکر ڈوبی اور برباد ہوئی۔ یہی باعث تھا کہ انجیل وغیرہ گزشتہ کتابیں بعلتِ فساد اور تحریف کے اپنی ذات اور صفات میں کسی معجزہ اور تاثیر روحانی کا مظہر نہ ہوسکیں اور صرف بطور کتھا اور قصہ کے پرانے معجزات پر مدار رہا لیکن کیونکر ممکن تھا کہ ایسے لوگ جنہوں نے حضرت موسیٰ کے عصا ؔ کو بچشم خود سانپ بنتے نہیں دیکھا اور نہ حضرت عیسیٰ کے ہاتھ سے کوئی مردہ قبر سے اٹھتا مشاہدہ کیا وہ صرف بے اصل قصوں کے سننے سے یقین کامل تک پہنچ جاتے۔ ناچار یہودی و عیسائی رُو بدنیا ہوگئے اور عالم آخرت پر ان کو
رب العالمین بنا رکھا ہے۔ مگر پھربھی ان حضرات کو خدائے تعالیٰ سے ایسی لاپروائی اور بے غرضی ہے کہ کچھ بھی مواخذہ کے روز سے نہیں ڈرتے اور کچھ ایسے سوئے ہوئے ہیں کہ صدہا علماء فضلاء جگا جگا کر تھک گئے۔ لیکن ان کی آنکھ نہیں کھلتی اور ہمیشہ دنیا پرستی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 297
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/297/mode/1up
انشا پردازوں کوؔ اپنے مددگار بنالے۔ یہ مثال متذکرہ بالا کوئی خیالی اور فرضی بات
حقانی صداقتوں کی ترقی ہمیشہ انہیں لوگوں کے ذریعہ سے ہوتی رہی ہے کہ جو الہام کے پابند ہوئے ہیں اور وحدانیت الٰہی کے اسرار دنیا میں پھیلانے والے وہی برگزیدہ لوگ ہیں کہ جو خدا کی کلام پر ایمان لائے مگر پھر عمداً اس واقعہ معلومہ کے برخلاف بیان کیا ہے اور تعصب یہ کہ اپنی بات کو خواہ نخواہ سرسبز کرنے کے لئے اس بدیہی صداقت کو چھپایا ہے کہ الٰہیات میں عقل مجرد مرتبہ یقین کامل تک نہیں
کچھ اعتماد نہ رہا۔ کیونکہ اپنی آنکھ سے تو انہوں نے کچھ بھی نہ دیکھا اور کسی قسم کی برکت مشاہدہ نہ کی۔ غرض جس کا ایمان عیسائیوں اور یہودیوں اور ہندوؤں کی طرف صرف قصوں اور کہانیوں کے سہارے پر موجود ہو۔ اسکے ایمان کا کچھ بھی ٹھکانا نہیں اور آخر اس کیلئے وہی ضلالت درپیش ہے جس ضلالت میں یہ بدنصیب قوم عیسائیوں وغیرہ کی مبتلا ہوگئی جن کی کل جائداد فقط وہی دیرینہ کہانیاں اور ہزاروں برسوں کے خستہ شکستہ قصے ہیں۔ لیکن ایسے شخصوں کے ایمان کا کچھ بھی قیام نہیں اور اُن کو کسی طرح پتہ نہیں مل سکتا کہ وہ پورا ناخدا جو پہلے انکے بزرگوں کے ساتھ تھا اب کہاں اور کدھر ہے اور موجود ہے یا نہیں۔ سو بھائیو اگر تم خدا کے خواہاں ہو۔ اگر تم یقین کے طالب ہو۔ اگر تمہارے دل میں دنیا کی محبت نہیں تو اٹھو اور سجدات شکر کرو کہ خدا تمہاری جماعت کو فراموش نہیں کرتا۔ وہ تمہیں ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ تا تم اسکے حضور میں شکر گزار ٹھہرو۔ خدا کے نشانوں کو تحقیر کی نظر سے مت دیکھو کہ یہ تمہارے لئے خطرناک ہے خدا کی نعمتوں کو ردّ مت کرو کہ یہ اسکے سُخط کا موجب ہے دنیا سے دل مت لگاؤ کہ یہی سب نخوتوں اور حسدوں اور خود پسندیوں کا اصل ہے۔ خدا کی آیات سے مونہہ مت پھیرو کہ اسکا انجام اچھا نہیں۔ وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔3 ۱ الخمختصر پیش تو گفتم غم دل ترسیدم کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیاراست
اب ہم اس تقریر کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں۔ 3 ۲ منہ
اور کم توجہی کی و جہ سے اس تصور باطل میں گرفتار ہیں کہ گویا انجیلی تعلیم قرآنی تعلیم سے کامل اور بہتر ہے۔ چنانچہ ابھی ایک پادری صاحب نے ۳۔ مارچ ۱۸۸۲ء کے پرچہ نور افشاں میں یہ سوال پیش کردیا ہے کہ حیات ابدی کی نسبت کتاب مقدس میں کیا نہ تھا کہ قرآن یا صاحب قرآن لائے۔ اور قرآن کن کن امروں اور تعلیمات میں انجیل پر فوقیت رکھتا ہے۔ تا یہ ثابت ہو کہ انجیل کے اترنے کے بعد قرآن کے نازل ہونے کی بھی ضرورت تھی۔ ایسا ہی ایک عربی رسالہ موسوم بہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 298
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/298/mode/1up
نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ حقہؔ ہے جس کا قرآن شریف ہی کے وقت میں امتحان ہوچکا ہے اور
پہنچاؔ سکتی۔ اور جہالت یہ کہ الہام اور عقل کو دو امر متناقض سمجھ لیا ہے کہ جو ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے اور الہام کو عقل کا مضر اور مخالف قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ خدشہ سراسر بے اصل ہے۔ ظاہر ہے کہ سچے الہام کا تابع عقلی تحقیقاتوں سے رک نہیں سکتا۔ بلکہ حقائق اشیاء کو معقول طور پر دیکھنے کے لئے الہام سے مدد پاتا ہے اور الہام کی حمایت اور اس کی روشنی کی برکت سے عقلی وجوہ میں کوئی دھوکا اس کو پیش نہیں آتا اور نہ خطاکار عاقلوں کی طرح بے جا دلائل
رسالہ عبدالمسیح ابن اسحق الکندی اسی غرض سے افترا کیا گیا ہے کہ تا انجیل کی ناقص اور آلودہ تعلیم کو سادہ لوحوں کی نظر میں کسی طرح قابل تعریف ٹھہرایا جائے اور قرآنی تعلیم پر بے جا الزامات لگائے جائیں۔ مگر نادان عیسائی نہیں جانتے کہ بلا دلیل ایک کتاب کی تعریف کرنا اور ایک کی مذمت کرتے رہنا نہ کسی کتاب کو قابل تعریف ٹھہراتا ہے نہ قابل مذمت۔ بیہودہ طور پر مونہہ سے بات نکالنا کون نہیں جانتا۔ لیکن جس حالت میں ہم نے اسی کتاب میں انجیلی تعلیم کا حقانیت سے بے نصیب ہونا اور قرآنی تعلیم کا مجمع الانوار ہونا صدہا دلائل سے ثابت کردیا ہے اور اس پر نہ صرف دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا بلکہ ہمارا خداوند کریم کہ جو دلوں کے پوشیدہ بھیدوں کو خوب جانتا ہے۔ اس بات پر گواہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ذرہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کرسکے کہ جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو اور اس سے بہتر ہو۔ تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو طیار ہیں۔اب منصفو!! نظر کرو اور خدا کے واسطے ذرہ دل کو صاف کرکے سوچو کہ ہمارے مخالفوں کی ایمانداری اور خدا ترسی کس قسم کی ہے کہ باوجود لاجواب رہنے کے پھر بھی فضول گوئی سے باز نہیں آتے۔آؤ عیسائیو ادھر آؤ
نور حق دیکھو راہ حق پاؤ
جس قدر خوبیاں ہیں فرقان میں
کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 299
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/299/mode/1up
کےؔ بنانے کی حاجت پڑتی ہے اور نہ کچھ تکلّف کرنا پڑتا ہے بلکہ جو ٹھیک ٹھیک عقلمندی کا راہ ہے وہی اس کو نظر آجاتا ہے۔ اور جو حقیقی سچائی ہے اسی پر اس کی نگاہ جا ٹھہرتی ہے غرض عقل کا کام یہ ہے کہ الہام کے واقعات کو قیاسی طور پر جلوہ دیتی ہے۔ اور الہام کا کام یہ کہ وہ عقل کو طرح طرح کی سرگردانی سے بچاتا ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ
سرؔ پہ خالق ہے اس کو یاد کرو
یوں ہی مخلوق کو نہ بہکاؤکب تلک جھوٹ سے کرو گے پیار
کچھ تو سچ کو بھی کام فرماؤکچھ تو خوف خدا کرو لوگو
کچھ تو لوگو خدا سے شرماؤعیش دنیا سدا نہیں پیارو
اس جہاں کو بقا نہیں پیارویہ تو رہنے کی جا نہیں پیارو
کوئی اس میں رہا نہیں پیارواس خرابہ میں کیوں لگاؤ دل
ہاتھ سے اپنے کیوں جلاؤ دلکیوں نہیں تم کو دینِ حق کا خیال
ہائے سو سو اٹھے ہے دل میں ابالکیوں نہیں دیکھتے طریق صواب
کس بلا کا پڑا ہے دل پہ حجاباس قدر کیوں ہے کین و استکبار
کیوں خدا یاد سے گیا یک بارتم نے حق کو بھلا دیا ہیہات
دل کو پتھر بنا دیا ہیہاتاے عزیزو سنو کہ بے قرآں
حق کو ملتا نہیں کبھی انساںجن کو اس نور کی خبر ہی نہیں
ان پہ اس یار کی نظر ہی نہیںہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر
کہ بناتا ہے عاشق دلبرجس کا ہے نام قادر اکبر
اس کی ہستی سے دی ہے پختہ خبرُ کوئے دلبر میں کھینچ لاتا ہے
پھر تو کیا کیا نشان دکھاتا ہےدل میں ہر وقت نور بھرتا ہے
سینہ کو خوب صاف کرتا ہےاس کے اوصاف کیا کروں میں بیاں
وہ تو دیتا ہے جاں کو ادراک جاںوہ تو چمکا ہے نیر اکبر
اس سے انکار ہوسکے کیونکروہ ہمیں دلستاں تلک لایا
اس کے پانے سے یار کو پایا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 300
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/300/mode/1up
اب بھی اگر کوئی طالبِ حق اِس معجزۂ قرآنی کو بچشمؔ خود دیکھنا چاہتا ہے تو
عقل اور الہام میں کوئی جھگڑا نہیں اور ایک دوسرے کا نقیض اور ضد نہیں اور نہ الہام حقیقی یعنے قرآنؔ شریف عقلی ترقیات کے لئے سنگ راہ ہے بلکہ عقل کو روشنی بخشنے والا اور اس کا بزرگ معاون اور مددگار اور مربی ہے۔ اور جس طرح آفتاب کا قدر آنکھ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور روز روشن کے فوائد اہل بصارت ہی پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی طرح
بحر حکمت ہے وہ کلام تمام
عشق حق کا پلا رہا ہے جامبات جب اس کی یاد آتی ہے
یاد سے ساری خلق جاتی ہےسینہ میں نقش حق جماتی ہے
دل سے غیر خدا اٹھاتی ہےدرد مندوں کی ہے دوا وہی ایک
ہے خدا سے خدا نما وہی ایکہم نے پایا خور ہدیٰ وہی ایک
ہم نے دیکھا ہے دلربا وہی ایکاس کے منکر جو بات کہتے ہیں
یونہی اک واہیات کہتے ہیںبات جب ہوکہ میرے پاس آویں
میرے منہ پر وہ بات کہہ جاویںمجھ سے اس دلستاں کا حال سنیں
مجھ سے وہ صورت و جمال سنیںآنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی
نہ سہی یوں ہی امتحان سہیاور چونکہ نور افشاں کے صاحب راقم نے اپنے سوال کے جواب کے لئے مجھ کو بھی بشمول اور چند صاحبوں کے مخاطب کیا ہے اور ہر چند ایسے تمام وساوس کی اس کتاب میں اپنے موقعہ پر بکلی بیخ کنی کردی گئی ہے۔ لیکنؔ بوجہ مذکورہ بالا قرین مصلحت ہے کہ اس جگہ بھی بطور مختصر ان کے وہم کا ازالہ کیا جائے۔ لہٰذا ذیل میں لکھا جاتا ہے:۔
جاننا چاہئے کہ انجیل کی تعلیم کو کامل خیال کرنا سراسر نقصان عقل اور کم فہمی ہے۔ خود حضرت مسیح نے انجیل کی تعلیم کو مبرّا عن النقصان نہیں سمجھا جیسا کہ انہوں نے آپ فرمایا ہے کہ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں۔ پر تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنے روح الحق آوے گا تو وہ تمہیں تمام صداقت کا راستہ بتلاوے گا۔ انجیل یوحنا باب ۱۶۔ آیت ۱۲ و ۱۳ و ۱۴۔ اب فرمائیے کیا یہی انجیل ہے کہ جو تمام دینی صداقتوں پر حاوی ہے جس کے ہوتے ہوئے قرآن شریف کی ضرورت نہیں۔ اے حضرات!! جس حالت میں آپ لوگ حضرت مسیح کی وصیت کے موافق انجیل کو کامل اور تمام صداقتوں کی جامع
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 301
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/301/mode/1up
خدا کی کلام کا کامل طور پر انہیں کو قدر ہوتا ہے کہ جو اہل عقل ہیں۔ جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے۔3۔ ۱ الجزو نمبر۲۰ یعنے یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں پر ان کو معقول طور پر وہی سمجھتے ہیں کہ جو صاحب علم اور دانشمند ہیں۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 302
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/302/mode/1up
ثابت کر دیں گے۔ اور اس بات کا امتحان کرنا اور حق اور باطل میں فرق معلوم
علیٰ ؔ ہذا القیاس جس طرح آنکھ کے نور کے فوائد صرف آفتاب ہی سے کُھلتے ہیں۔ اور اگر وہ نہ ہو تو پھر بینائی اور نابینائی میں کچھ فرق باقی نہیں رہتا اسی طرح بصیرت عقلی کی خوبیاں بھی الہام ہی سے کھلتی ہیں۔ کیونکہ وہ عقل کو ہزارہا طور کی سرگردانی سے بچاکر فکر کرنے کے لئے نزدیک کا راستہ بتلا دیتا ہے اور جس راہ پر چلنے سے جلد تر مطلب حاصل ہوجائے
سامان قرآن شریف میں موجود ہے یا انجیل میں۔ جس حالت میں ہم نے اسی فیصلہ کے لئے کہ تا انجیل اور قرآن شریف کی نسبت فرق معلوم ہوجائے دس ہزار روپیہ کا اشتہار بھی اپنی کتاب کے ساتھ شامل کردیا ہے تو پھر آپ جب تک راست بازوں کی طرح اب ہماری کتاب کے مقابلہ پر اپنی انجیل کے فضائل نہ دکھلاویں تب تک کوئی دانشمند عیسائی بھی آپ کی کلام کو اپنے دل میں صحیح نہیں سمجھے گا۔ گو زبان سے ہاں ہاں کرتا رہے۔ حضرات!! آپ خوب یاد رکھیں کہ انجیل اور توریت کا کام نہیں کہ کمالات فرقانیہ کا مقابلہ کرسکیں۔ دور کیوں جائیں انہیں دو اَمروں میں کہ جو اب تک اس کتاب میں فضائل فرقانیہ میں سے بیان ہوچکے ہیں مقابلہ کرکے دیکھ لیں یعنے اول وہ امر کہ جو متن میں تحریر ہوچکا ہے کہ فرقان مجید تمام الٰہی صداقتوں کا جامع ہے۔ اور کوئی محقق کوئی ایسا باریک دقیقہ الٰہیات کا پیش نہیں کرسکتا کہ جو قرآن شریف میں موجود نہ ہو۔ سوؔ آپ کی انجیل اگر کچھ حقیقت رکھتی ہے۔ تو آپ پر لازم ہے کہ کسی مخالف فریق کے دلائل اور عقائد کو مثلاً برہمو سماج والوں یا آریا سماج والوں یا دہریہ کے شبہات کو انجیل کے ذریعہ سے عقلی طور پر ردّ کرکے دکھلاؤ۔ اور جو جو خیالات ان لوگوں نے ملک میں پھیلا رکھے ہیں ان کو اپنی انجیل کے معقولی بیان سے دور کرکے پیش کرو۔ اور پھر قرآن شریف سے انجیل کا مقابلہ کرکے دیکھ لو اور کسی ثالث سے پوچھ لو کہ محققانہ طور پر انجیل تسلی کرتی ہے یا قرآن شریف تسلی کرتا ہے۔ دوسرے وہ امر جو حاشیہ در حاشیہ نمبر ایک میں لکھا گیا ہے یعنے یہ کہ قرآن شریف باطنی طور پر طالب صادق کا مطلوب حقیقی سے پیوند کرادیتا ہے اور پھر وہ طالب خدائے تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہوکر اس کی طرف سے الہام پاتا ہے جس الہام میں عنایات حضرت احدیتاس کے حال پر مبذول ہوتی ہیں اور مقبولین میں شمار کیا جاتا ہے اور اس الہام کا صدق ان پیشین گوئیوں کے پورا ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ جو اس میں ہوتی ہیں اور حقیقت میں یہی پیوند جو اوپر لکھا گیا ہے حیات ابدی کی حقیقت ہے۔ کیونکہ زندہ سے پیوند زندگی کا موجب ہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 303
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/303/mode/1up
کرؔ لیناکچھ مشکل بات نہیں۔ کوئی ایسا امر نہیں جس میں کچھ خرچ ہوتا ہے یا کسی اور
وہ راہ دکھلا دیتا ہے اور ہریک عاقل خوب سمجھتا ہے کہ اگر کسی باب میں فکر کرنے کے وقت اس قدر مدد مل جائے کہ کسی خاص طریق پر راہ راست اختیار کرنے کے لئے علم حاصل ہو جائے تو اس علم سے عقل کو بڑی مدد ملتیؔ ہے اور بہت سے پراگندہ خیالوں اور ناحق کی درد سریوں سے نجات ہو جاتی ہے۔ الہام کے تابعین نہ صرف اپنے خیال
اور جس کتاب کی متابعت سے اس پیوند کے آثار ظاہر ہوجائیں۔ اس کتاب کی سچائی ظاہر بلکہ اَظہر من الشمس ہے۔ کیونکہ اس میں صرف باتیں ہی باتیں نہیں بلکہ اس نے مطلب تک پہنچا دیا ہے۔ سو اب ہم حضرات عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر آپ کی انجیلی تعلیم راست اور درست اور خدا کی طرف سے ہے تو بمقابلہ قرآن شریف کی روحانی تاثیروں کے جن کا ہم نے ثبوت دے دیا ہے۔ انجیل کی روحانی تاثیریں بھی دکھلائیے اور جو کچھ خدا نے مسلمانوں پر بہ برکت متابعت قرآن شریف اور بہ یمنِ اتباع حضرت محمد مصطفی افضل الرسل و خاتم الرسل صلوسلم عل کے امور غیبیہ و برکات سماویہ ظاہر کئے اور کرتا ہے۔ وہؔ آپ بھی پیش کیجئے۔تاسیہ روئے شودہر کہ دروغش باشد۔ مگر آپ یاد رکھیں کہ آپ دونوں قسم کے امور متذکرہ بالا میں سے کسی امر میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انجیل کی تعلیم کا کامل ہونا تو یک طرف وہ تو صحیح بھی نہیں رہی۔ اس نے تو اپنی پہلی ہی تعلیم میں ہی ابن مریم کو ولد اللہ ٹھہرا کر اَوّلُ الدُّنِ دُردی دکھلا دیا۔ رہی توریت کی تعلیم سو وہ بھی محرف اور ناقص ہونے کی وجہ سے ایک موم کا ناک ہورہی ہے جس کو عیسائی اپنے طور پر اور یہودی اپنے طور پر بنارہے ہیں۔ اگر توریت میں الٰہیات اور عالم معاد کے بارے میں وہ تفصیلات ہوتیں کہ جو قرآن شریف میں ہیں تو عیسائیوں اور یہودیوں میں اتنے جھگڑے کیوں پڑتے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس قدر سورہ اخلاص کی ایک سطر میں مضمون توحید بھرا ہوا ہے۔ وہ تمام توریت بلکہ ساری بائیبل میں نہیں پایا جاتا۔ اور اگر ہے تو کوئی عیسائی ہمارے سامنے پیش کرے۔ پھر جس حالت میں توریت میں بلکہ تمام بائیبل میں صحت اور صفائی اور کمالیت سے توحید حضرت باری کا ذکر ہی نہیں۔ اور اسی وجہ سے توریت اور انجیل میں ایک گڑبڑ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 304
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/304/mode/1up
سے عقل کے عمدہ جوہر کو پسند کرتے ہیں بلکہ خود الہام ہی ان کو عقل کے پختہ کرنے کے لئے تاکید کرتا ہے۔ پس ان کو عقلی ترقیات کے لئے دوہری کشش کھینچتی ہے ایک تو فطرتی جوش جس سے بالطبع انسان ہریک چیز کی ماہیت اور حقیقت کو مدلل اور عقلی طور پر جاننا چاہتا ہے دوسری الہامی تاکیدیں کہ جو آتشِ شوق کو دوبالا کردیتی ہیں۔ چنانچہ جو لوگ قرآن شریف کو نظر سرسری سے بھی دیکھتے ہیں وہ بھی اُس بدیہی امر سے
پڑگیا اور قطعی طور پر کچھ سمجھ نہ آیا اور خود اصول میں ہی یہودیوں اور نصاریٰ میں طرح طرح کے تنازعات پیدا ہوگئے۔ اسی توریت سے یہودیوں نے کچھ سمجھا اور عیسائیوں نے کچھ خیال کیا۔ تو اس حالت میں کون حق کا طالب ہے جس کی روح اس بات کو نہیں چاہتی کہ بے شک رحمتِ عامہ حضرت باری کا یہی مقتضا تھا کہ وہ ان گم گشتہ فرقوں کے تنازعات کا آپ فیصلہ کرتا اور خطاکار کو اس کی خطا کاری پر متنبہ فرماتا۔ پس سمجھنا چاہئے کہ قرآن شریف کے نزول کی یہی ضرورت تھی کہ تا وہ اختلافات کو دور کرے اور جن صداقتوں کے ظاہر ہونے کا بباعث انتشار خیالات فاسدہ کے وقت آگیا تھا انؔ صداقتوں کو ظاہر کردے اور علم دین کو مرتبہ کمال تک پہنچادے۔ سو اس پاک کلام نے نزول فرما کر ان سب مراتب کو پورا کیا اور سب بگاڑوں کو درست فرمایا اور تعلیم کو اپنے حقیقی کمال تک پہنچایا۔ نہ دانت کے عوض خواہ نخواہ دانت نکالنے کا حکم دیا اور نہ ہمیشہ مجرم کے چھوڑنے اور عفو کرنے پر فرمان صادر کیا۔ بلکہ حقیقی نیکی کے بجالانے کے لئے تاکید فرمائی۔ خواہ وہ نیکی کبھی درشتی کے لباس میں ہو اور خواہ کبھی نرمی کے لباس میں اور خواہ کبھی انتقام کی صورت میں ہو اور خواہ کبھی عفو کی صورت میں۔از نور پاک قرآن صبح صفا دمیدہ
برغنچہائے دلہا باد صبا وزیدہایں روشنی و لمعاں شمس الضحیٰ ندارد
وایں دلبری و خوبی کس در قمر ندیدہیوسف بقعرِ چاہے محبوس ماند تنہا
وایں یوسفے کہ تن ہا ازچاہ برکشیدہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 305
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/305/mode/1up
قرآن شریف کے کسی مقام میں سے کوئی مضمون لیکر کسی عربیؔ دان کو کہ جوآج کل اس
انکارؔ نہیں کرسکتے کہ اس کلام مقدس میں فکر اور نظر کی مشق کیلئے بڑی بڑی تاکیدیں ہیں یہاں تک کہ مومنوں کی علامت ہی یہی ٹھہرا دی ہے کہ وہ ہمیشہ زمین اور آسمان کے عجائبات میں فکر کرتے رہتے ہیں اور قانون حکمت الٰہیہ کو سوچتے رہتے ہیں جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں فرمایا ہے۔ 3 3 3 ۔ ۱ یعنے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن
از مشرقِ معانی صدہا دقائق آورد
قد ہلال نازک زاں نازکی خمیدہکیفیت علومش دانی چہ شان دارد
شہدیست آسمانی از وحی حق چکیدہآں نیر صداقت چوں رو بعالم آورد
ہر بوم شب پرستی در کنج خود خزیدہروئے یقیں نہ بیند ہرگز کسے بدنیا
اِلا کسے کہ باشد بارؤیش آرمیدہآنکس کہ عالمش شد شد مخزنِ معارف
و آن بے خبر ز عالم کیں عالمے ندیدہباران فضل رحماں آمدبہ مقدم او
بدقسمت آنکہ ازوے سوئے دِگر دویدہمیل بدی نباشد اِلّا رگے زشیطاں
آں را بشر بدانم کزہر شرے رہیدہاے کان دلربائی دانم کہ از کجائی
تو نور آں خدائی کیں خلق آفریدہمیلم نماند باکس محبوب من توئی بس
زیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیدہدیگر
نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَجلی نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلاحق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا
ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلایا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلاسب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں
مئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلاکس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلاپہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں
پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلاہےؔ قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور
ایسا چمکا ہے کہ صد نَیّرِ بیضا نکلا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 306
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/306/mode/1up
کےؔ اختلاف میں دانشمندوں کے لئے صانع عالم کی ہستی اور قدرت پر کئی نشان ہیں۔ دانشمند وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو خدا کو بیٹھے ‘ کھڑے اور پہلو پر پڑے ہونے کی حالت میں یاد کرتے رہتے ہیں اور زمین اور آسمان اور دوسری مخلوقات کی پیدائش میں تفکّر اور تدبّر کرتے رہتے ہیں اور ان کے دل اور زبان پر یہ مناجات جاری رہتی ہے کہ اے ہمارے خداوند تو نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کو عبث اور بیہودہ طور پر پیدا نہیں کیا۔ بلکہ ہریک چیز تیری مخلوقات میں سے عجائبات قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی ہے کہ جو تیری ذات بابرکات پر دلالت کرتی ہے۔ ہاں دوسری الہامی کتابیں کہ جو محرف اور مبدل ہیں ان میں نامعقول اور محال باتوں پر جمے رہنے کی تاکید پائی جاتی ہے جیسی عیسائیوں کی انجیل شریف۔ مگر یہ الہام کا قصور نہیں یہ بھی حقیقت میں عقل ناقص کا ہی قصور ہے۔ اگر باطل پرستوں کی عقل صحیح ہوتی اور حواس درست ہوتے تو وہ کاہے کو ایسی محرف اور مبدل کتابوں کی پیروی کرتے اور کیوں وہ غیر متغیر اور کامل اور قدیم خدا پر یہ آفات اور مصیبتیں جائز رکھتے کہ گویا وہ ایک عاجز بچہ ہوکر ناپاک غذا کھاتا رہا اور ناپاک جسم سے مجسم ہوا اور ناپاک راہ سے نکلا اور دارالفنا میں آیا اور طرح طرح کے دکھ اٹھا کر آخر بڑی بدبختی اور بدنصیبی اور ناکامی کی حالت میں ایلی ایلی کرتا مرگیا۔ آخر الہام ہی تھا جس نے اس غلطی کو بھی دور کیا۔ سبحان اللہ کیا بزرگ اور دریائے رحمت وہ کلام ہے جس نے مخلوق پرستوں کو پھر توحید کی طرف کھینچا۔ واہ کیا پیارا اور دلکش وہ نور ہے کہ جو ایک عالم کو ظلمت کدہ سے باہر لایا اور بجز اس کے ہزارہا لوگ عقلمند کہلا کر اور فلاسفر بن کر اس غلطی اور اس قسم کی بے شمار غلطیوں میں ڈوبے رہے اور جب تک قرآن شریف
زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں
جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اَعمیٰ نکلاجلنےؔ سے آگے ہی یہ لوگ تو جل جاتے ہیں
جن کی ہر بات فقط جھوٹ کا پتلا نکلا
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 307
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/307/mode/1up
ایک ؔ مسیحی متکلم صاحب یعنے وہی صاحب نامہ نگار نور افشاں اپنا دوسرا بہروپ بدل کر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 308
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/308/mode/1up
کہ جس کسی شے کے کسی خاصہ کے وجود میں شک ہو تو اس کو اس قدر آزمایا جاوے جس سے دلی اطمینان پیدا ہوجائے۔ اور جو شخص بعد آزمائش ایک خاصہ کے کہ جو ایک شے میں پایا جاتا ہے پھر بھی یہ وہم کرے کہ کیوں یہ خاصہ اس شے میں پایا جاتا ہے تو وہ شخص حقیقت میں پاگل اور سودائی ہے۔ مثلاً جب ایک شخص نے
اسی سوال کے نیچے فرماتے ہیں۔ ابؔ تو وہ متکلم دینوی امور میں مستغرق ہے ورنہ یہ ثابت کر
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 309
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/309/mode/1up
کئی دفعہ آزما کر دیکھ لیا۔ اور بار بار تجربہ کرکے معلوم کرلیا کہ سم الفار بالخاصیت قاتل ہے۔ اگر وہ پھر بھی سم الفار کی اس خاصیت سے اس خیال سے انکار کرتا رہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ کیوں وہ قاتل ہے۔ تو ایساؔ شخص دانشمندوں کی نظر میں دیوانہ بلکہ دیوانوں سے بدتر ہے۔ کیونکہ اول تو یہ صداقت فی حد ذاتہ واقعی اور درست ہے کہ موجودات میں طرح طرح کے خواص پائے جاتے ہیں۔ اور پھر جب ایک شے معین کا خاصہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 310
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/310/mode/1up
مدہوش یا دیوانہ ہیں یا تمام حواس بیک دفعہ معطل اور بیکار ہوگئے ہیں کہ سنایا گیا پھر نہیں سنتے۔ اور سمجھایا گیا پھر نہیں سمجھتے۔ اور دکھایا گیا پھر نہیں دیکھتے۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہم ان کا بھی سراسر لغو اور بیہودہ ہے کہ تحقیقات کا سلسلہ ہمیشہ آگے سے آگے ہی چلا جاتا ہے اور کسی حد پر آکر ختم نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو کوئی کام دنیا اور دین کا کبھی اختتام کو نہ پہنچتا اور کسی جج کے لئے ممکن نہ ہوتا کہ کوئی مقدمہ قطعی طور پر فیصل کرسکے اور حکم عدالت بو جہ اشتباہ دائمی غیر ممکن اور ناجائز ٹھہر جاتا۔ مگر کیا یہ درست ہے کہ حقائق کل اشیاء کبھی اور کسی طرح پر صفائی اور درستی سے منکشف نہیں ہوتیں اور ہمیشہ کلام اور بحث کرنے کی جگہ باقی رہتی ہے۔ حاشا وکلا ہرگز یہ رائے صحیح نہیں۔ بلکہ اسی وقت تک کوئی واقعہ مشتبہ رہتا ہے اور صفائی سے ثابت نہیں ہوتا جب تک کسی امر کے دریافت کرنے میں مدار کار صرف اکیلی عقل پر ہوتا ہے۔ اور جب ہی کہ کوئی رفیق ان ضروری رفیقوں میں سے جن میں سے ایک وحی رسالت ہے کہ جو امور ماوراء المحسوسات اور عالم معاد کا مخبر ہے عقل کو مل جاتا ہے تو تب تحقیقات عقلی مرتبہ یقین کامل تک پہنچ جاتی ہے۔ سو کبھی عقل الہام کامل کی رفاقت سے اور کبھی متواتر تجارب کی شہادت سے اور کبھی مضبوط اور محکم تاریخی گواہوں سے یعنے جیسا کہ موقع ہو کسی رفیق کے ذریعہ سے کامل یقین کو پالیتی ہے۔ ہاں اگر عقل کو اس راہ کا رفیق میسر نہ آوے جس راہ پر وہ چلنا چاہتی ہے تو تب مرتبہ یقین کامل تک بلاشبہ نہیں پہنچتی بلکہ غایت کار ظن غالب تک پہنچتی ہے۔ لیکن جب راہ مقصود کا رفیق میسر آجائے تو بلاریب وہ اس کو مرتبہ کامل یقین تک پہنچا دیتا ہے۔
ہے۔ وہی خیال آپ قرآن شریف کی نسبت گھسیٹ لائے۔ اتنا بڑا جھوٹ آپ نے مدت العمر بولا نہیں ہوگا کہ جو اَب عیسائیوں کے خوش کرنے کے لئے بول اٹھے۔ بہرحال یہ مقولہ
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 311
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/311/mode/1up
اب* کی دفعہ کہ جو حصہ سوم کے نکلنے میں حد سے زیادہ توقف ہوگئی۔ غالباً اس توقف سے اکثر خریدار اور ناظرین بہت ہی حیران ہوں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ بعض لوگ طرح طرح کے شکوک و شبہات بھی کرتے ہوں۔ مگر واضح رہے کہ یہ توقف ہماری طرف سے ظہور میں نہیں آئی بلکہ اتفاق یہ ہوگیا کہ جب مئی ۱۸۸۱ء کے مہینہ میں کچھ سرمایہ جمع ہونے کے بعد مطبع سفیر ہند امرتسر میں اجزاء کتاب کے چھپنے کے لئے دیئے گئے اور امید تھی کہ غایت کار دو ماہ میں حصہ سوم چھپ کر شائع ہوجائے گا۔ لیکن تقدیری اتفاقوں سے جن میں انسان ضعیف البنیان کی کچھ پیش نہیں جاسکتی۔ مہتمم صاحب مطبع سفیر ہند طرح طرح کی ناگہانی آفات اور مجبوریوں میں مبتلا ہوگئے۔ جن مجبوریوں کی وجہ سے ایک مدت دراز تک مطبع بند رہا۔ چونکہ یہ توقف ان کے اختیار سے باہر تھی۔ اس لئے ان کی قائمی جمعیت تک برداشت سے انتظار کرنا مقتضاء انسانیت تھا۔ سو الحمدللہ کہ بعد ایک مدت کے ان کے موانع کچھ رو بہ خفت ہوگئے اور اب کچھ تھوڑے عرصہ سے حصہ سوم کا چھپنا شروع ہوگیا۔ لیکن چونکہ اس حصہ کے چھپنے میں بوجہ موانع مذکورہ بالا ایک زمانہ دراز گزر گیا۔ اس لئے ہم نے بڑے افسوس کے ساتھ اس بات کو قرین مصلحت سمجھا کہ اس حصہ کے مکمل طور پر چھپنے کا انتظار نہ کیا جائے اور جس قدر اب تک چھپ چکا ہے وہی خریداروں کی خدمت میں بھیجا جاوے تا ان کی تسلی و تشفی کا موجب ہو اور جو کچھ اس حصہ میں سے باقی رہ گیا ہے۔ وہ انشاء اللہ القدیر چہارم حصہ کے ساتھ جو ایک بڑا حصہ ہے چھپوا دیا جائے گا۔
شاید ہم بعض دوستوں کی نظر میں اس وجہ سے قابل اعتراض ٹھہریں کہ ایسے مطبع میں جس میں ہر دفعہ لمبی لمبی توقف پڑتی ہے کیوں کتاب کا چھپوانا تجویز کیا گیا۔ سو اس اعتراض کا جواب ابھی عرض کیا گیا ہے کہ یہ مہتمم مطبع کی طرف سے لاچاری توقف ہے نہ اختیاری۔ اور وہ ہمارے نزدیک ان مجبوریوں کی حالت میں قابل رحم ہیں نہ قابل الزام۔ ماسوائے اس کے مطبع سفیر ہند کے مہتمم صاحب میں ایک عمدہ خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت صحت اور صفائی اور محنت اور کوشش سے کام کرتے ہیں اور اپنی خدمت کو عرقریزی اور جانفشانی سے انجام دیتے ہیں۔ یہ پادری صاحب ہیں۔ مگر باوجود اختلاف مذہب کے خدا نے ان کی فطرت میں یہ ڈالا ہوا ہے کہ اپنے کام منصبی میں اخلاص اور دیانت کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑتے۔ ان کو اس بات کا ایک سودا ہے کہ کام کی عمدگی اور خوبی اور صحت میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ انہیں وجوہ کی نظر سے باوجود اس
* طبع اوّل کا ذکر ہے۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 312
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/312/mode/1up
اور نیز اس جگہ یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس حصۂ سوم میں تمام وہ تمہیدی امور لکھے گئے ہیں جن کا غور سے پڑھنا اور یاد رکھنا کتاب کے آئندہ مطالب سمجھنے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ اور اسکے پڑھنے سے یہ بھی واضح ہوگا کہ خدا نے دین حق اسلام میں وہ عزت اور عظمت اور برکت اور صداقت رکھی ہے جس کا مقابلہ کسی زمانہ میں کسی غیر قوم سے کبھی نہیں ہوسکا اور نہ اب ہوسکتا ہے۔ اور اس امر کو مدلل طور پر بیان کرکے تمام مخالفین پر اتمام حجت کیا گیا ہے اور ہریک طالب حق کیلئے ثبوت کامل پانے کا دروازہ کھول دیا گیا ہے تا حق کے طالب اپنے مطلب اور مراد کو پہنچ جاویں اور تا تمام مخالف سچائی کے کامل نوروں کو دیکھ کر شرمندہ اور لاجواب ہوں اور تا وہ لوگ بھی نادم اور منفعل ہوں جنہوں نے یورپ کی جھوٹی روشنی کو اپنا دیوتا بنا رکھا ہے اور آسمانی برکتوں کے قائلوں کو جاہل اور وحشی اور ناتربیت یافتہ سمجھتے ہیں اور سماوی نشانوں کے ماننے والوں کا نام احمق اور سادہ لوح اور نادان رکھتے ہیں۔ جن کا یہ گمان ہے کہ یورپ کے علم کی نئی روشنی اسلام کی روحانی برکتوں کو مٹا دے گی اور مخلوق کا مکر خالق کے نوروں پر غالب آجائے گا۔ سو اب ہریک منصف دیکھے گا کہ کون غالب آیا اور کون لاجواب اور عاجز رہا اور کون صادق اور دانشمند ہے اور کون کاذب اور نادان! واللّٰہ المستعان و علیہ التکلان۔
خاکسار غلام احمد ؐ عفی اللہ عنہ۔
Last edited: