• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 15 ۔ستارہ قیصرہ ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 15. Page: 109

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 109

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

109

الحمد للہ والمنّہ

کہ

یہ رسالہ مبارکہ جس میں حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ دام اقبالہا

کی برکات کا ذکر ہے اور یہ بیان ہے کہ جناب ملکہ ممدوحہ کے

عہد عدالتِ مہد میں اور اُن کے نہایت روشن ستارہ کی

تاثیر سے انواع اقسام کی زمینی اور آسمانی برکتیں ظہور میں

آئی ہیں منطبع ہوکر انہی وجوہ کی مناسبت سے نام اس کا

ستارہ قیصرہ

رکھا گیا

اور یہ رسالہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں باہتمام حکیم فضل دین

صاحب مالک مطبع کے چھپ کر ۲۴؍ اگست ۱۸۹۹ ؁ء کو

شائع ہوا



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 110

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 110

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

110


Blank




Ruhani Khazain Volume 15. Page: 111

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 111

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

111

بحضُوؔ ر عالی شان قیصرہ ہند ملکہ معظمہ

شہنشاہ ہندوستان و انگلستان

ادام اللّٰہ اقبالہا

سب سے پہلے یہ دُعا ہے کہ خدائے قادر مطلق اس ہماری عالیجاہ قیصرہ ہند کی عمر میں بہت بہت برکت بخشے اور اقبال اور جاہ و جلال میں ترقی دے اور عزیزوں اور فرزندوں کی عافیت سے آنکھ ٹھنڈی رکھے۔ اس کے بعد اس عریضہ کے لکھنے والا جس کا نام میرزا غلام احمد قادیانی ہے جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں قادیان نام میں رہتا ہے جو لاہور سے تخمیناً بفاصلہ ستر۷۰ میل مشرق اور شمال کے گوشہ میں واقع اور گورداسپورہ کے ضلع میں ہے یہ عرض کرتاہے کہ اگرچہ اِس ملک کے عموماً تمام رہنے والوں کو بوجہ اُن آراموں کے جو حضور قیصرہ ہند کے عدل عام اور رعایا پروری اور دادگستری سے حاصل ہو رہے ہیں اور بوجہ اُن تدابیر امن عامہ اور تجاویز آسائش جمیع طبقات رعایا کے جو کروڑہا روپیہ کے خرچ اور بے انتہا فیاضی سے ظہور میں آئی ہیں۔ جناب ملکہ معظمہ دام اقبالہا سے بقدر اپنی فہم اور عقل اور شناخت احسان کے درجہ بدرجہ محبت اور دلی اطاعت ہے بجز بعض قلیل الوجود افراد کے جو میں گمان کرتا ہوں کہ درپردہ کچھ ایسے بھی ہیں جو وحشیوں اور درندوں کی طرح بسر کرتے ہیں لیکن اس عاجز کو بوجہ اُس معرفت اور علم کے جو اس گورنمنٹ عالیہ کے حقوق کی نسبت مجھے حاصل ہے جس کو میں اپنے رسالہ تحفہ قیصریہ میں مفصل لکھ چکا ہوں وہ اعلیٰ درجہ کا



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 112

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 112

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

112

اخلاص اور محبت اور جوش اطاعت حضور ملکہ معظمہ اور اس کے معزّز افسروں کی نسبت حاصل ہے جو میں ایسے الفاظ نہیں پاتا جن میں اس اخلاص کا اندازؔ ہ بیان کرسکوں اس سچی محبت اور اخلاص کی تحریک سے جشن شصت سالہ جوبلی کی تقریب پر میں نے ایک رسالہ حضرت قیصرہ ہند دام اقبالہا کے نام سے تالیف کرکے اور اس کا نام تحفہ قیصریہ رکھ کرجناب ممدوحہ کی خدمت میں بطور درویشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا اور مجھے قوی یقین تھا کہ اس کے جواب سے مجھے عزت دی جائے گی اور اُمید سے بڑھ کر میری سرافرازی کا موجب ہوگا۔ اور اس امید اور یقین کا موجب حضور قیصرہ ہند کے وہ اخلاق فاضلہ تھے جن کی تمام ممالک مشرقیہ میں دھوم ہے اور جوجناب ملکہ معظمہ کے وسیع ملک کی طرح وسعت اور کشادگی میں ایسے بے مثل ہیں جو ان کی نظیر دوسری جگہ تلاش کرناخیال محال ہے مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی میں ممنون نہیں کیا گیا اور میرا کانشنس ہرگز اِس بات کو قبول نہیں کرتاکہ وہ ہدیہ عاجزانہ یعنی رسالہ تحفہ قیصریہ حضور ملکہ معظمہ میں پیش ہوا ہو اور پھر میں اس کے جواب سے ممنون نہ کیا جاؤں۔ یقیناًکوئی اور باعث ہے جس میں جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام اقبالہا کے ارادہ اور مرضی اور علم کو کچھ دخل نہیں۔ لہٰذا اس حسنِ ظن نے جو میں حضور ملکہ معظمہ دام اقبالہا کی خدمت میں رکھتا ہوں۔ دوبارہ مجھے مجبور کیا کہ میں اُس تحفہ یعنی رسالہ تحفہ قیصریہ کی طرف جناب ممدوحہ کو توجہ دلاؤں اور شاہانہ منظوری کے چند الفاظ سے خوشی حاصل کروں۔ اسی غرض سے یہ عریضہ روانہ کرتا ہوں۔ اور میں حضور عالی حضرت جناب قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں یہ چند الفاظ بیان کرنے کے لئے جرأت کرتا ہوں کہ میں پنجاب کے ایک معزز خاندان مغلیہ میں سے ہوں اور سکھوں



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 113

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 113

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

113

کے زمانہ سے پہلے میرے بزرگ ایک خود مختار ریاست کے والی تھے اور میرے پردادا صاحب مرزا گل محمد اس قدر دانااور مدبر اور عالی ہمت اور نیک مزاج اور ملک داری کی خوبیوں سے موصوف تھے کہ جب دہلی کے چغتائی بادشاہوں کی سلطنت بباعث نالیاقتی اور عیاشی اور سستی اور کم ہمتی کے کمزور ہوگئی تو بعض وزراء اس کوشش میں لگے تھے کہ مرزا صاحب موصوف کو جو تمام شرائط بیدار مغزی اور رعایا پروری کے اپنے اندر رکھتے تھے اورخاندان شاہی میں سے تھے دہلی کے تخت پر بٹھایا جائے لیکن چونکہ چغتائی سلاطین کی قسمت اور عمر کا پیالہ لبریز ہو ؔ چکاتھا۔ اس لئے یہ تجویز عام منظوری میں نہ آئی اور ہم پر سکھوں کے عہد میں بہت سی سختیاں ہوئیں اور ہمارے بزرگ تمام دیہات ریاست سے بے دخل کر دیئے گئے اور ایک ساعت بھی امن کی نہیں گذرتی تھی اور انگریزی سلطنت کے قدم مبارک کے آنے سے پہلے ہی ہماری تمام ریاست خاک میں مل چکی تھی اور صرف پانچ گاؤں باقی رہ گئے تھے اور میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضٰی مرحوم جنہوں نے سکھوں کے عہد میں بڑے بڑے صدمات دیکھے تھے۔ انگریزی سلطنت کے آنے کے ایسے منتظر تھے جیسا کہ کوئی سخت پیاسا پانی کا منتظر ہوتا ہے۔ اور پھر جب گورنمنٹ انگریزی کا اس ملک پر دخل ہوگیا، تووہ اس نعمت یعنی انگریزی حکومت کی قائمی سے ایسے خوش ہوئے کہ گویا ان کو ایک جواہرات کا خزانہ مل گیا اور وہ سرکار انگریزی کے بڑے خیر خواہ جان نثار تھے اسی وجہ سے انہوں نے ایّام غدر ۱۸۵۷ء میں پچاس گھوڑے مع سواران بہم پہنچا کر سرکار انگریزی کو بطور مدد دیئے تھے۔ اور وہ بعد اس کے بھی ہمیشہ اس بات کے لئے مستعد رہے کہ اگر پھر بھی کسی وقت ان کی مدد کی ضرورت ہو تو بدل و جان اس گورنمنٹ کو مدد دیں۔ اور اگر ۵۷ء کے غدرکا کچھ اور بھی طول ہوتا تووہ سو۱۰۰ سوار تک اور بھی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 114

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 114

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

114

مدد دینے کو تیار تھے۔ غرض اس طرح ان کی زندگی گذری ۔ اور پھر اُن کے انتقال کے بعد یہ عاجز دنیا کے شغلوں سے بکلی علیحدہ ہوکر خدا تعالیٰ کی طرف مشغول ہوا اور مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپواکر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامیہ میں اِس مضمون کے شائع کئے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گذار اور دعا گو رہے۔ اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اردو فارسی۔عربی میں تالیف کرکے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلادیں یہاں تک کہ اسلام کے دو۲ مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں بھی بخوبی شائع کردیں۔ اور روم کے پایہء تخت قسطنطنیہ او ر بلاد شام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کردی گئی جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلط خیالات چھوڑ دیئے جو نافہم ملاؤں کی تعلیم سے اُن کے دِلوں میں تھے۔ یہ ایکؔ ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکا اور میں اس قدر خدمت کرکے جو بائیس برس تک کرتا رہا ہوں اس محسن گورنمنٹ پر کچھ احسان نہیں کرتا کیونکہ مجھے اِس بات کا اقرار ہے کہ اس بابرکت گورنمنٹ کے آنے سے ہم نے اور ہمارے بزرگوں نے ایک لوہے کے جلتے ہوئے تنور سے نجات پائی ہے اس لئے میں مع اپنے تمام عزیزوں کے دونوں ہاتھ اُٹھاکر دعا کرتا ہوں کہ یا الٰہی اس مبارکہ قیصرہ ہند دام ملکہا کو دیرگاہ تک ہمارے سروں پر سلامت رکھ اور اس کے ہر ایک قدم کے ساتھ اپنی مدد کا سایہ شامل حال فرما اور اس کے اقبال کے دن بہت لمبے کر۔



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 115

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 115

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

115

میں نے تحفہ قیصریہ میں جو حضور قیصرہ ہند کی خدمت میں بھیجا گیا یہی حالات اورخدمات اور دعوات گذارش کئے تھے اور میں اپنی جناب ملکہ معظمہ کے اخلاق وسیعہ پر نظر رکھ کر ہر روز جواب کا امیدوار تھا اور اب بھی ہوں۔ میرے خیال میں یہ غیر ممکن ہے کہ میرے جیسے دُعا گو کا وہ عاجزانہ تحفہ جو بوجہ کمال اخلاص خون دل سے لکھا گیا تھا اگر وہ حضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پیش ہوتا تو اس کاجواب نہ آتا بلکہ ضرور آتا ضرور آتا۔ اِس لئے مجھے بوجہ اس یقین کے کہ جناب قیصرہ ہند کے پُررحمت اخلاق پر کمال وثوق سے حاصل ہے اس یاددہانی کے عریضہ کو لکھنا پڑا اور اس عریضہ کو نہ صرف میرے ہاتھوں نے لکھا ہے بلکہ میرے دل نے یقین کا بھرا ہوا زور ڈال کر ہاتھوں کو اِس پُر ارادت خط کے لکھنے کے لئے چلایا ہے۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ خیر اور عافیت اور خوشی کے وقت میں خدا تعالیٰ اس خط کو حضور قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پہنچاوے اور پھر جناب ممدوحہ کے دل میں الہام کرے کہ وہ اس سچی محبت اور سچے اخلاص کو جو حضرت موصوفہ کی نسبت میرے دل میں ہے اپنی پاک فراست سے شناخت کرلیں اور رعیّت پروری کے رُو سے مجھے پُر رحمت جواب سے ممنون فرماویں اور میں اپنی عالی شان جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی عالی خدمت میں اس خوشخبری کو پہنچانے کے لئے بھی مامور ہوں کہ جیسا کہ زمین پر اور زمین کے اسباب سے خدا تعالیٰ نے اپنی کمال رحمت اور کمال مصلحت سے ہماری قیصرہ ہند دام اقبالہا کی سلطنت کو اس ملک اور دیگر ممالک میں قائم کیا ہے تاکہ زمین کو عدل اور امن سے بھرے۔ ایسا ہی اس نے آسمان سے ارادہ فرمایا ہے کہ اس شہنشاہ مبارکہ قیصرہ ہند کے دلی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے جو عدل اور امن اور آسودگی عامہ خلائق اور رفعؔ فساد اور تہذیب اخلاق اور وحشیانہ حالتوں کا دور کرنا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 116

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 116

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

116

اس کے عہد مبارک میں اپنی طرف سے اور غیب سے اور آسمان سے کوئی ایسا روحانی انتظام قائم کرے جو حضور ملکہ معظمہ کے دلی اغراض کو مدد دے ۔ اور جس امن اور عافیت اور صلح کاری کے باغ کو آپ لگانا چاہتی ہیں آسمانی آبپاشی سے اس میں امداد فرماوے۔ سو اس نے اپنے قدیم وعدہ کے موافق جو مسیح موعود کے آنے کی نسبت تھا ۔ آسمان سے مجھے بھیجا ہے تا میں اُس مرد خدا کے رنگ میں ہوکر جو بیت اللحم میں پیدا ہوا اور ناصرہ میں پرورش پائی۔ حضور ملکہ معظمہ کے نیک اور بابرکت مقاصد کی اعانت میں مشغول ہوں اُس نے مجھے بے انتہا برکتوں کے ساتھ چھوا اور اپنا مسیح بنایا تا وہ ملکہ معظمہ کے پاک اغراض کو خود آسمان سے مدد دے۔

اے قیصرہ مبارکہ خدا تجھے سلامت رکھے اور تیری عمر اور اقبال اور کامرانی سے ہمارے دلوں کو خوشی پہنچاوے۔ اس وقت تیرے عہد سلطنت میں جو نیک نیتی کے نور سے بھرا ہوا ہے مسیح موعود کا آنا خدا کی طرف سے یہ گواہی ہے کہ تمام سلاطین میں سے تیرا وجود امن پسندی اورحسنِ انتظام اور ہمدردی رعایا اور عدل اور دادگستری میں بڑھ کر ہے۔ مسلمان اور عیسائی دونوں فریق اس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح موعود آنے والا ہے مگر اُسی زمانہ اور عہد میں جبکہ بھیڑیا اور بکری ایک ہی گھاٹ میں پانی پئیں گے اور سانپوں سے بچے کھیلیں گے۔سو اے ملکہ مبارکہ معظمہ قیصرہ ہند وہ تیرا ہی عہد اور تیرا ہی زمانہ ہے جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جو تعصب سے خالی ہو وہ سمجھ لے۔ اے ملکہ معظمہ یہ تیرا ہی عہد سلطنت ہے جس نے درندوں اور غریب چرندوں کو ایک جگہ جمع کردیاہے ۔راستباز جو بچوں کی طرح ہیں وہ شریر سانپوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور تیرے پُرامن سایہ کے نیچے کچھ بھی ان کو خوف نہیں۔ اب



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 117

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 117

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

117

تیرے عہدِ سلطنت سے زیادہ پُرامن اور کونسا عہد سلطنت ہوگا جس میں مسیح موعود آئے گا؟ اے ملکہ معظمہ تیرے وہ پاک ارادے ہیں جو آسمانی مدد کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور تیری نیک نیتی کی کشش ہے جس سے آسمان رحمت کے ساتھ زمین کی طرف جھکتاجاتا ہے اس لئے تیرے عہد سلطنت کے سوا اور کوئی بھی عہد سلطنت ایسانہیں ہے جو مسیح موعود کے ظہور کے لئے موزوں ہو۔ سو خدا نے تیرے نورانی عہد میں آسمان سے ایک نور نازل کیاکیونکہ نور نور کو اپنی طرف کھینچتا اور تاریکی تاریکی کو کھینچتی ہے اے مبارک اور بااقبال ملکہء زمان جن کتابوں میں مسیح موعود کا آنا لکھا ہے ان کتابوں میں صریح تیرے پُرامن عہد کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں مگر ضرور تھا کہ اسی طرح مسیح موعود دنیا میں آتا جیسا کہ ایلیا نبی یوحنّا کےؔ لباس میں آیا تھا یعنی یوحنّا ہی اپنی خُو اور طبیعت سے خدا کے نزدیک ایلیا بن گیا۔ سو اِس جگہ بھی ایسا ہی ہوا کہ ایک کو تیرے بابرکت زمانہ میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی خُو اور طبیعت دی گئی۔ اِس لئے وہ مسیح کہلایا اور ضرور تھا کہ وہ آتا کیونکہ خدا کے پاک نوشتوں کا ٹلناممکن نہیں۔ اے ملکہ معظمہ اے تمام رعایا کی فخر یہ قدیم سے عادت اللہ ہے کہ جب شاہِ وقت نیک نیّت اور رعایا کی بھلائی چاہنے والا ہو تو وہ جب اپنی طاقت کے موافق امن عامہ اور نیکی پھیلانے کے انتظام کرچکتا ہے اور رعیت کی اندرونی پاک تبدیلیوں کے لئے اس کا دل دردمند ہوتا ہے تو آسمان پر اس کی مدد کے لئے رحمت الٰہی جوش مارتی ہے اور اس کی ہمت اورخواہش کے مطابق کوئی روحانی انسان زمین پر بھیجا جاتا ہے اور اُس کامل ریفارمر کے وجود کو اس عادل بادشاہ کی نیک نیتی اور ہمت اور ہمدردی عامہ خلائق پیدا کرتی ہے۔ یہ تب ہوتا ہے کہ جب ایک عادل بادشاہ ایک زمینی منجّی کی صورت



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 118

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 118

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

118

میں پیدا ہوکر اپنی کمال ہمت اور ہمدردی بنی نوع کے رُو سے طبعاً ایک آسمانی منجّیکو چاہتا ہے ۔ اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں ہوا کیونکہ اُس وقت کا قیصر روم ایک نیک نیت انسان تھااور نہیں چاہتا تھا کہ زمین پر ظلم ہو اور انسانوں کی بھلائی اور نجات کا طالب تھا تب آسمان کے خدا نے وہ روشنی بخشنے والا چاند ناصرہ کی زمین سے چڑھایا یعنی عیسٰی مسیح تا جیسا کہ ناصرہ کے لفظ کے معنے عبرانی میں طراوت اور تازگی اور سرسبزی ہے یہی حالت انسانوں کے دلوں میں پیدا کرے۔ سو اے ہماری پیاری قیصرہ ہند خدا تجھے دیرگاہ تک سلامت رکھے۔ تیری نیک نیتی اور رعایا کی سچی ہمدردی اس قیصر روم سے کم نہیں ہے بلکہ ہم زور سے کہتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ ہے کیونکہ تیری نظر کے نیچے جس قدر غریب رعایا ہے جس کی تو اے ملکہ معظمہ قیصرہ ہمدردی کرنا چاہتی ہے اور جس طرح تو ہر ایک پہلو سے اپنی عاجز رعیّت کی خیرخواہ ہے اور جس طرح تو نے اپنی خیر خواہی اور رعیت پروری کے نمونے دکھلائے ہیں۔ یہ کمالات اور برکات گذشتہ قیصروں میں سے کسی میں بھی نہیں پائے جاتے اس لئے تیرے ہاتھ کے کام جو سراسر نیکی اور فیاضی سے رنگین ہیں سب سے زیادہ اس بات کو چاہتے ہیں کہ جس طرح تو اے ملکہ معظمہ اپنی تمام رعیت کی نجات اور بھلائی اور آرام کے لئے دردمند ہے اور رعیت پروری کی تدبیروں میں مشغول ہے اسی طرح خدا بھی آسمان سے تیرا ہاتھ بٹا وے سو یہ مسیح موعود جو دنیا میں آیا تیرے ہی وجود کی برکت اور دِلی نیک نیتی اور سچی ہمدردی کا ایک نتیجہ ہے ۔ خدا نے تیرے عہدؔ سلطنت میں دُنیا کے دردمندوں کو یاد کیا اور آسمان سے اپنے مسیح کو بھیجا اوروہ تیرے ہی ملک میں اور تیری ہی حدود میں پیدا ہوا تا دنیا کے لئے یہ ایک گواہی ہو کہ تیری زمین کے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 119

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 119

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

119

سلسلہ عدل نے آسمان کے سلسلہ عدل کو اپنی طرف کھینچا اور تیرے رحم کے سلسلہ نے آسمان پر ایک رحم کا سلسلہ بپا کیا اورچونکہ اس مسیح کا پیدا ہونا حق اور باطل کی تفریق کے لئے دنیا پر ایک آخری حکم ہے جس کے رُو سے مسیح موعود حَکَم کہلاتا ہے اس لئے ناصرہ کی طرح جس میں تازگی اور سرسبزی کے زمانہ کی طرف اشارہ تھا اس مسیح کے گاؤں کا نام اسلام پور قاضی ماجھی رکھا گیا تا قاضی کے لفظ سے خدا کے اُس آخری حَکَم کی طرف اشارہ ہو جس سے برگزیدوں کو دائمی فضل کی بشارت ملتی ہے اور تا مسیح موعود کا نام جو حَکَم ہے۔ اس کی طرف بھی ایک لطیف ایما ہو اور اسلام پور قاضی ماجھی اُس وقت اس گاؤں کا نام رکھا گیا تھا جبکہ بابر بادشاہ کے عہد میں اس ملک ماجھ کا ایک بڑا علاقہ حکومت کے طور پر میرے بزرگوں کو ملا تھا اور پھر رفتہ رفتہ یہ حکومت خودمختار ریاست بن گئی اور پھر کثرت استعمال سے قاضی کا لفظ قادی سے بدل گیا اور پھر اور بھی تغیر پاکر قادیاں ہوگیا۔ غرض ناصرہ اور اسلام پور قاضی کا لفظ ایک بڑے پرمعنی نام ہیں جو ایک ان میں سے رُوحانی سرسبزی پردلالت کرتا ہے اور دوسرا رُوحانی فیصلہ پر جو مسیح موعود کاکام ہے۔ اے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند خدا تجھے اقبال اور خوشی کے ساتھ عمر میں برکت دے۔ تیرا عہدِ حکومت کیا ہی مبارک ہے کہ آسمان سے خدا کا ہاتھ تیرے مقاصد کی تائید کر رہا ہے۔ تیری ہمدردیء رعایا اور نیک نیتی کی راہوں کو فرشتے صاف کر رہے ہیں۔ تیرے عدل کے لطیف بخارات بادلوں کی طرح اُٹھ رہے ہیں تا تمام ملک کو رشک بہار بناویں۔ شریر ہے وہ انسان جو تیرے عہد سلطنت کا قدر نہیں کرتا اور بدذات ہے وہ نفس جو تیرے احسانوں کا شکر گذار نہیں۔ چونکہ یہ مسئلہ تحقیق شدہ ہے کہ دل کو دل سے راہ ہوتا ہے اس لئے مجھے ضرورت نہیں کہ میں اپنی زبان کی لفّاظی سے اِس بات کو ظاہر کروں کہ میں آپ سے دِلی محبت رکھتا ہوں اور میرے دِل میں خاص طور پر



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 120

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 120

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

120

آپ کی محبت اور عظمت ہے ۔ ہماری دن رات کی دعائیں آپ کیلئے آبِ رواں کی طرح جاری ہیں اور ہم نہ سیاست قہری کے نیچے ہوکر آپ کے مطیع ہیں بلکہ آپ کی انواع اقسام کی خوبیوں نے ہمارے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے ۔اے بابرکت قیصرہ ہند تجھے یہ تیری عظمت اور نیک نامی مبارک ہو۔ خدا کی نگاہیں اُس ملک پر ہیں جس پر تیری نگاہیں ہیں۔ خدا کی رحمت کاہاتھ اُس رعایا پرہے جسؔ پر تیرا ہاتھ ہے ۔ تیری ہی پاک نیتوں کی تحریک سے خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا پر ہیزگاری اور پاک اخلاق اور صلح کاری کی راہوں کو دوبارہ دنیا میں قائم کروں۔ اے عالی جناب قیصرہ ہند۔ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ ایک عیب مسلمانوں اور ایک عیب عیسائیوں میں ایسا ہے جس سے وہ سچی روحانی زندگی سے دور پڑے ہوئے ہیں اور وہ عیب اُن کو ایک ہونے نہیں دیتا بلکہ ان میں باہمی پھوٹ ڈال رہا ہے اوروہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ دو مسئلے نہایت خطرناک اور سراسر غلط ہیں کہ وہ دین کے لئے تلوار کے جہاد کو اپنے مذہب کا ایک رکن سمجھتے ہیں اور اس جنون سے ایک بے گناہ کو قتل کرکے ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے ایک بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور گو اس ملک برٹش انڈیا میں یہ عقیدہ اکثر مسلمانوں کا بہت کچھ اصلاح پذیر ہوگیا ہے اور ہزارہا مسلمانوں کے دل میری بائیس۲ ۲ تیئیس۲۳ سال کی کوششوں سے صاف ہوگئے ہیں لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ بعض غیر ممالک میں یہ خیالات اب تک سرگرمی سے پائے جاتے ہیں گو یاان لوگوں نے اسلام کا مغز اور عطر لڑائی اورجبر کو ہی سمجھ لیا ہے۔ لیکن یہ رائے ہرگز صحیح نہیں ہے۔ قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اُٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 121

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 121

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/121/mode/1up

121

اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا۔ افسوس کہ یہ عیب غلط کار مسلمانوں میں اب تک موجود ہے جس کی اصلاح کے لئے میں نے پچاس ہزار سے کچھ زیادہ اپنے رسالے اور مبسوط کتابیں اور اشتہارات اِس ملک اور غیر ملکوں میں شائع کئے ہیں اور امید رکھتا ہوں کہ جلد تر ایک زمانہ آنے والا ہے کہ اس عیب سے مسلمانوں کا دامن پاک ہو جائے گا۔

دوسرا عیب ہماری قوم مسلمانوں میں یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسے خونی مسیح اور خونی مہدی کے منتظر ہیں جو اُن کے زعم میں دنیا کو خون سے بھردے گا۔ حالانکہ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ ہماری معتبرکتابوں میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کو ئی لڑائی نہیں کرے گا او ر نہ تلوار اُٹھائے گا بلکہ وہ تمام باتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خُو اور خُلق پر ہوگا اور ان کے رنگ سے ایسارنگین ہوگا کہ گویا ہُوبہو وہی ہوگا ۔ یہ دو غلطیاں حال کے مسلمانوں میں ہیں جن کی وجہ سے اکثر اُن کے دُوسری قوموں سے بغض رکھتے ہیں مگر مجھےؔ خدا نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان غلطیوں کو دُور کردوں اور قاضی یا حَکَم کا لفظ جو مجھے عطاکیا گیا ہے وہ اسی فیصلہ کے لئے ہے۔

اور ان کے مقابل پر ایک غلطی عیسائیوں میں بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ مسیح جیسے مقدس اور بزرگوار کی نسبت جس کو انجیل شریف میں نور کہا گیا ہے نعوذ باللہ *** کا لفظ اطلاق کرتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ لعن اور *** ایک لفظ عبرانی اورعربی میں مشترک ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ ملعون انسان کا دل خدا سے بکلّی برگشتہ اور دُور اور مہجور ہوکر ایسا گندہ اور ناپاک ہو جائے جس طرح جذام سے جسم گندہ اور خراب ہو جاتا ہے اور عرب اورعبرانی کے اہل زبان اس



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 122

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 122

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/122/mode/1up

122

بات پر متفق ہیں کہ ملعون یا *** صرف اُسی حالت میں کسی کو کہا جاتا ہے جبکہ اس کادل درحقیقت خدا سے تمام تعلقات محبت اورمعرفت اور اطاعت کے توڑدے اور شیطان کا ایسا تابع ہو جائے کہ گویا شیطان کا فرزند ہو جائے او ر خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے اور خدا اس کادشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے۔ پس وہی نام حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے تجویز کرنا اور ان کے پاک اور منوّر دل کو نعوذ باللہ شیطان کے تاریک دل سے مشابہت دینا اوروہ جو بقول ان کے خدا سے نکلا ہے اور وہ جو سراسر نور ہے اور وہ جو آسمان سے ہے اور وہ جو علم کا دروازہ اور خدا شناسی کی راہ اور خدا کا وارث ہے اُسی کی نسبت نعوذ باللہ یہ خیال کرنا کہ وہ *** ہو کر یعنی خدا سے مردود ہوکر اور خدا کا دشمن ہوکر اوردل سیاہ ہوکر اور خدا سے برگشتہ ہو کر او رمعرفت الٰہی سے نابینا ہوکرشیطان کا وارث بن گیا اور اس لقب کا مستحق ہوگیا جو شیطان کے لئے خاص ہے یعنی ***۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ اس کے سننے سے دِل پاش پاش ہوتا ہے اور بدن پر لرزہ پڑتا ہے۔ کیا خدا کے مسیح کا دِل خدا سے ایسا برگشتہ ہوگیا جیسے شیطان کا دل ؟ کیاخدا کے پاک مسیح پر کوئی ایسا زمانہ آیا جس میں وہ خدا سے بیزار او ردرحقیقت خدا کادشمن ہوگیا۔ یہ بڑی غلطی اور بڑی بے ادبی ہے قریب ہے جو آسمان اس سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے۔ غرض مسلمانوں کے جہاد کا عقیدہ مخلوق کے حق میں ایک بداندیشی ہے اور عیسائیوں کا یہ عقیدہ خود خدا کے حق میں بداندیشی ہے۔ اگر یہ ممکن ہے کہ نور کے ہوتے ہی اندھیرا ہو جائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ نعوذ باللہ کسی وقت مسیح کے دِل نے *** کی زہر ناک کیفیت اپنے اندر حاصل کی تھی۔ اگر انسانوں کی نجات اسی بے ادبی پر موقوف ہے تو بہترؔ ہے کہ کسی کی بھی نجات نہ ہو کیونکہ تمام گنہگاروں کا مرنا بہ نسبت اِس بات کے اچھا ہے کہ مسیح جیسے نور اور نورانی کو گمراہی کی تاریکی اور *** اور خدا



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 123

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 123

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/123/mode/1up

123

کی عداوت کے گڑھے میں ڈوبنے والا قرار دیا جائے۔ سو میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ مسلمانوں کا وہ عقیدہ اور عیسائیوں کا یہ عقیدہ اصلاح پذیر ہو جائے۔ او ر میں شکر کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ان دونوں ارادوں میں کامیاب کیا ہے۔ چونکہ میرے ساتھ آسمانی نشان اور خدا کے معجزات تھے اس لئے مسلمانوں کے قائل کرنے کے لئے مجھے بہت تکلیف اُٹھانی نہیں پڑی اور ہزارہا مسلمان خدا کے عجیب اور فوق العادت نشانوں کو دیکھ کر میرے تابع ہوگئے اور وہ خطرناک عقائد انہوں نے چھوڑ دیئے جو وحشیانہ طور پر ان کے دلوں میں تھے اور میرا گروہ ایک سچا خیرخواہ اس گورنمنٹ کا بن گیا ہے جو برٹش انڈیا میں سب سے اوّل درجہ پر جوشِ اطاعت دل میں رکھتے ہیں جس سے مجھے بہت خوشی ہے اور عیسائیوں کا یہ عیب دُور کرنے کے لئے خدا نے میری وہ مدد کی ہے جو میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں شکر کرسکوں اور وہ یہ ہے کہ بہت سے قطعی دلائل اور نہایت پختہ وجوہ سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ خدا نے اس پاک نبی کو صلیب پر سے بچا لیا اور آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ مرکر بلکہ زندہ ہی قبر میں غشی کی حالت میں داخل کئے گئے۔ اور پھر زندہ ہی قبر سے نکلے جیسا کہ آپ نے انجیل میں خود فرمایا تھا کہ میری حالت یونس نبی کی حالت سے مشابہ ہوگی۔ آپ کی انجیل میں الفاظ یہ ہیں کہ یونس نبی کا معجزہ دکھلاؤں گا سو آپ نے یہ معجزہ دکھلایا کہ زندہ ہی قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو انجیلوں سے ہمیں معلوم ہوتی ہیں لیکن اس کے علاوہ ایک بڑی خوشخبری جو ہمیں ملی ہے وہ یہ ہے کہ دلائل قاطعہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے اور یہ امر ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ آپ یہودیوں کے ملک سے بھاگ کر نصیبین کی راہ سے افغانستان میں آئے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 124

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 124

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/124/mode/1up

124

اور ایک مدت تک کوہ نعمان میں رہے اور پھر کشمیر میں آئے اور ایک سو ۱۲۰بیس برس کی عمر پاکر سری نگر میں آپ کا انتقال ہوا اور سری نگر محلہ خان یار میں آپ کا مزار ہے چنانچہ اس بارے میں مَیں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے مسیح ہندوستان میں یہ ایک بڑی فتح ہے جو مجھے حاصل ہوئی ہے اور میں جانتا ہوں کہ جلد تر یا کچھ دیر سے اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ یہ دو بزرگ قومیں عیسائیوں اور ؔ مسلمانوں کی جو مدّت سے بچھڑی ہوئی ہیں باہم شیروشکر ہو جائیں گی اور بہت سے نزاعوں کو خیرباد کہہ کر محبت اور دوستی سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں گی۔ چونکہ آسمان پر یہی ارادہ قرار پایا ہے اس لئے ہماری گورنمنٹ انگریزی کو بھی قوموں کے اتفاق کی طرف بہت توجہ ہوگئی ہے جیسا کہ قانون سڈیشن کے بعض دفعات سے ظاہر ہے ۔ اصل بھید یہ ہے کہ جو کچھ آسمان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تیاری ہوتی ہے زمین پر بھی ویسے ہی خیالات گورنمنٹ کے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ غرض ہماری ملکہ معظمہ کی نیک نیتی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے آسمان سے یہ اسباب پیدا کر دیئے ہیں کہ دونوں قوموں عیسائیوں اور مسلمانوں میں وہ اتحاد پیدا ہو جائے کہ پھر ان کو دو۲ قوم نہ کہا جائے۔

اب اس کے بعد مسیح علیہ السلام کی نسبت کوئی عقلمند یہ عقیدہ ہرگز نہیں رکھے گا کہ نعوذ باللہ کسی وقت اُن کا دِل *** کی زہرناک کیفیت سے رنگین ہو گیا تھا کیونکہ *** مصلوب ہونے کا نتیجہ تھا۔ پس جبکہ مصلوب ہونا ثابت نہ ہوا بلکہ یہ ثابت ہوا کہ آپ کی اُن دعاؤں کی برکت سے جو ساری رات باغ میں کی گئی تھیں اور فرشتے کی اُس منشاء کے موافق جو پلاطوس کی بیوی کے خواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کے بچاؤ کی سفارش کے لئے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 125

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 125

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/125/mode/1up

125

ظاہر ہوا تھا * اور خود حضرت مسیح علیہ السلام کی اس مثال کے موافق جو آپ نے یونس نبی کا تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہنا اپنے انجام کار کا ایک نمونہ ٹھہرایا تھا آپ کو خدا تعالیٰ نے صلیب او راس کے پھل سے جو *** ہے نجات بخشی اور آپ کی یہ دردناک آواز کہ ایلی ایلی لما سبقتانی*جناب الٰہی میں سنی گئی ۔ یہ وہ کھلا کھلا ثبوت ہے جس سے ہر ایک حق کے طالب کا دل بے اختیار خوشی کے ساتھ اچھل پڑے گا۔ سو ؔ بلاشبہ یہ ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی برکات کا ایک پھل ہے جس نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دامن کو تخمیناً انیس ۱۹۰۰ سو برس کی بیجا تہمت سے پاک کیا۔

اب میں مناسب نہیں دیکھتا کہ اس عریضہ نیاز کو طول دوں۔ گو میں جانتا ہوں کہ جس قدر میرے دل میں یہ جوش تھاکہ میں اپنے اخلاص اور اطاعت اور شکرگزاری کو حضور قیصرہ ہند دام ملکہا میں عرض کروں۔ پورے طور پر میں اس جوش کو ادا نہیں کرسکا ناچار دعا پر ختم کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ جو زمین و آسمان کامالک اور نیک کاموں کی نیک جزا دیتا ہے وہ آسمان پر سے اس محسنہ قیصرہ ہند دام ملکہا کو ہماری طرف سے نیک جزا دے او ر وہ فضل اُس کے شامل حال کرے جو نہ صرف دنیا تک محدود ہو بلکہ سچی اور دائمی خوشحالی جو

* یہ بات کسی طرح قبول کے لائق نہیں اور اس امر کو کسی دانشمند کاکانشنس قبول نہیں کرے گا کہ خدا تعالیٰ کا تو یہ ارادہ مصمم ہو کہ مسیح کو پھانسی دے مگر اس کا فرشتہ خواہ نخواہ مسیح کے چھڑانے کے لئے تڑپتا پھرے۔ کبھی پلاطوس کے دل میں مسیح کی محبت ڈالے اور اُس کے منہ سے یہ کہلاوے کہ میں یسوع کا کوئی گناہ نہیں دیکھتا اور کبھی پلاطوس کی بیوی کے پاس خواب میں جاوے اور اُس کو کہے کہ اگر یسوع مسیح پھانسی مل گیا تو پھر اس میں تمہاری خیر نہیں ہے یہ کیسی عجیب بات ہے کہ فرشتہ کا خدا سے اختلاف رائے ۔ منہ

* ترجمہ یہ ہے کہ اے میرے خدا۔ اے میرے خدا تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 126

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- ستارہ قیصرہ: صفحہ 126

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/126/mode/1up

126

آخرت کو ہوگی وہ بھی عطا فرماوے اور اس کو خوش رکھے اور ابدی خوشی پانے کے لئے اس کے لئے سامان مہیاکرے اور اپنے فرشتوں کو حکم کرے کہ تا اس مبارک قدم ملکہ معظمہ کو کہ اس قدر مخلوقات پر نظر رحم رکھنے والی ہے اپنے اس الہام سے منوّر کریں جو بجلی کی چمک کی طرح ایک دم میں دل میں نازل ہوتااور تمام صحن سینہ کو روشن کرتا اورفوق الخیال تبدیلی کر دیتا ہے یا الٰہی ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو ہمیشہ ہر ایک پہلو سے خوش رکھ اور ایسا کر کہ تیری طرف سے ایک بالائی طاقت اس کو تیرے ہمیشہ کے نوروں کی طرف کھینچ کر لے جائے اور دائمی اور ابدی سرور میں داخل کرے کہ تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور سب کہیں کہ آمین۔

الملتمس

خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان

ضلع گورداسپورہ ۔(پنجاب

۲۰ ؍ اگست ۱۸۹۹ء

***
 
Top