Ruhani Khazain Volume 20. Page: 393
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 393
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 394
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 394
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 395
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 395
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نحمدہ ونصلی علٰے رسولہِ الکریم
*
۵پانچ زلزلوں کے آنے کی نسبت خدا تعالیٰ کی پیشگوئی
جس کے الفاظ یہ ہیں
’’چمک دکھلاؤں گا تم کو اِس نشاں کی پنج بار‘‘
T
اِس وحی الٰہی کا یہ مطلب ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کیلئے اور محض اس غرض سے کہ تا لوگ سمجھ لیں کہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں ۵پانچ دہشت ناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلہ سے آئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں اور ہر ایک میں اُن میں سے ایک ایسی چمک ہوگی کہ اس کے دیکھنے سے خدایاد آجائے گا۔ اور دلوں پر اُن کا ایک خوفناک اثر پڑے گا اور وہ اپنی قوت اور شدّت اور نقصان رسانی میں غیرمعمولی ہوں گے۔ جن کے دیکھنے سے انسانوں کے ہوش جاتے رہیں گے۔ یہ سب کچھ خدا کی غیرت کرے گی۔ کیونکہ ؔ لوگوں نے وقت کو شناخت نہیں کیا اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں پوشیدہ تھا مگر اب مَیں اپنے تئیں ظاہر کروں گا اور مَیں اپنی چمکار دکھاؤں گا اور اپنے بندوں کو رہائی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 396
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 396
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دوں گا۔ اُسی طرح جس طرح فرعون کے ہاتھ سے موسیٰ نبی اور اُس کی جماعت کو رہائی دی گئی اور یہ معجزات اُسی طرح ظاہر ہوں گے کہ جس طرح موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے۔ اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلاؤں گا اور مَیں اُسے مدد دوں گا جو میری طرف سے ہے اور مَیں اس کا مخالف ہو جاؤں گا جو اس کا مخالف ہے۔ *
سو اے سُننے والو! تم سب یاد رکھو کہ اگر یہ پیشگوئیاں صرف معمولی طور پر ظہور میں آئیں توتم سمجھ لو کہ مَیں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔ لیکن ان پیشگوئیوں نے اپنے پورے ہونے کے وقت دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیااور شدّت گھبراہٹ سے دیوانہ سا بنا دیا اور اکثر مقامات میں عمارتوں اور جانوں کو نقصان پہنچایا تو تم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لئے یہ سب کچھ کر دکھایا۔ وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرّہ ذرّہ ہے اُس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ مَیں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔ یعنی کسی جوتشی یا ملہم یا خواب بین کو اُس وقت کی خبر نہیں دی جائے گی بجز اس قدر خبرؔ کے کہ جو اُس نے اپنے مسیح موعود کو دے دی یا آئندہ اس پر کچھ زیادہ کرے۔ اِن نشانوں کے بعد دنیا میں ایک تبدیلی پیدا ہوگی اور اکثر دل خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اور اکثر سعید دلوں پر دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور غفلت کے پردے درمیان سے اُٹھا دیئے جائیں گے اور حقیقی اسلام کا شربت انہیں پلایا جائے گا۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے:۔
چو دَورِ خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلماں بازکردند
دَورِ خسروی سے مراد اس عاجز کا عہدِ دعوت ہے مگر اس جگہ دنیا کی بادشاہت مراد نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت مراد ہے جو مجھ کو دی گئی۔ خلاصہ معنی اس الہام کا یہ ہے
تھوڑی غنودگی کی حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک کاغذ پر لکھا ہوا مجھے یہ دکھلایا کہ۔ تلک اٰیات
الکتاب المبین۔ یعنی قرآن شریف کی سچائی پر یہ نشان ہوں گے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 397
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 397
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کہ جب دَورِ خسروی یعنی دَورِ مسیحی جو خدا کے نزدیک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ششم ہزار کے آخر میں شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں۔ اور میرے لئے یہ شکر کی جگہ ہے کہ میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنے معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کی۔ اور ایک جماعت ہندوؤں اور انگریزوں کی بھی مشرف باسلام ہوئی۔ چنانچہَ کل کے دن ہی ایک ہندو میرے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوا جس کا نام محمد اقبال رکھا ؔ گیا۔ اور مَیں کل کے دن چند دفعہ اس الہام الٰہی کو پڑھ رہا تھا کہ یک دفعہ میری رُوح میں یہ عبارت پھونکی گئی جو پہلے الہام کے بعد میں ہے۔
مقامِ او مبیں از راہِ تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند
ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اِس وحی الٰہی میں جو لکھی جاتی ہے میرے ہاتھ پر دینِ اسلام کے پھیلانے کی خوشخبری دی جیسا کہ اُس نے فرمایا:۔ یاقمر یا شمس انت منّی وانا منک۔ یعنی اے چاند اور اے سورج ! تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں۔ اِس وحی الٰہی میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور اپنا نام سورج رکھا۔ اِس سے یہ مطلب ہے کہ جس طرح چاند کا نور سورج سے فیضیاب اور مستفاد ہوتا ہے اِسی طرح میرا نور خداتعالیٰ سے فیضیاب اور مستفاد ہے۔ پھر دوسری دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنا نام چاند رکھا اور مجھے سورج کرکے پکارا اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا۔ وہ پوشیدہ تھا۔ اب میرے ہاتھ سے ظاہر ہو جائے گا ۔اور اُس کی چمک سے دنیا بے خبر تھی مگر اب میرے ذریعہ سے اس کی جلالی چمک دنیا کی ہر ایک طرف پھیل جائے گی۔ اور جس طرح تم بجلی کو دیکھتے ہو کہ ایک طرف سے روشن ہو کر ایک دم میں تمام سطح آسمان کی روشن کر دیتی ہے۔ اسی طرح اِس زمانہ میں بھی ؔ ہوگا۔ خدا تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تیرے لئے مَیں زمین پر اُترا اور تیرے لئے میرا نام چمکا اور
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 398
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 398
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مَیں نے تجھے تمام دنیا میں سے چُن لیااور فرماتا ہے۔ قال ربّک انہ نازلٌمن السّمآء مَا یُرْضیک۔ یعنی تیرا خدا کہتا ہے کہ آسمان سے ایسے زبردست معجزات اُتریں گے جن سے تو راضی ہو جائے گا۔ سو اُن میں سے اس ملک میں ایک طاعون اور د۲و سخت زلزلے تو آچکے جن کی پہلے سے مَیں نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر خبر دی تھی۔ مگر اب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۵پانچ زلزلے اور آئیں گے۔ اور دنیا اُن کی غیر معمولی چمک کو دیکھے گی اور اُن پر ثابت کیا جائے گا کہ یہ خداتعالیٰ کے نشان ہیں جو اُس کے بندے مسیح موعودؑ کے لئے ظاہر ہوئے۔ افسوس اِس زمانہ کے منجم اور جوتشی اِن پیشگوئیوں میں میرا ایسا ہی مقابلہ کرتے ہیں جیسا کہ ساحروں نے موسیٰ نبی کا مقابلہ کیا تھا اور بعض نادان ملہم جو تاریکی کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں وہ بلعم کی طرح میرے مقابلہ کے لئے حق کو چھوڑتے اور گمراہوں کو مدد دیتے ہیں مگر خدا فرماتا ہے کہ مَیں سب کو شرمندہ کروں گا اورکسی دوسرے کو یہ اعزاز ہرگز نہیں دوں گا۔ اِن سب کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے نجوم یا الہام سے میرا مقابلہ کریں اور اگر کسیؔ حملہ کو اب اٹھا رکھیں تو وہ نامرد ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں ان سب کو شکست دوں گا اور مَیں اس کا دشمن بن جاؤں گا جو تیرا دشمن ہے۔ اور وہ فرماتا ہے کہ اپنے اسرار کے اظہار کیلئے مَیں نے تجھے ہی برگزیدہ کیا ہے اور زمین اورآسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ میرے ساتھ ہے۔اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میرا عرش۔ اِسی کے مطابق قرآن شریف میں یہ آیت ہے جو خدا کے برگزیدہ رسولوں کو غیروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اور وہ یہ ہے۔3 33 ۱۔یعنی کھلا کھلا غیب صرف برگزیدہ رسول کو عطا کیا جاتا ہے۔ غیر کو اس میں حصّہ نہیں۔ سو ہماری جماعت کو چاہیئے جو ٹھوکر نہ کھاویں اور ان غیروں کو جو میرے مقابل پر ہیں اور میری بیعت کرنے والوں میں داخل نہیں ہیں کچھ بھی چیز نہ سمجھیں ورنہ خدا کے غضب کے نیچے آئیں گے۔ ہر ایک بیہودہ گو جو پیشگوئی کرتا ہے خدا ایسے لوگوں سے سچے ایمانداروں کو آزماتا ہے کہ کیا وہ غیر کو وہ وقعت اور عزّت دیتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول کو دینی چاہیئے اور دیکھتا ہے کہ کیا وہ اُس
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 399
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 399
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
سچائی پر قائم ہیں یا نہیں جو ان کو دی گئی۔
اور یاد رہے کہ جب یہ ۵ پانچ زلزلے آچکیں گے اور جس قدر خدا نے تباہی کا ارادؔ ہ کیا ہے وہ پورا ہو چکے گا تب خدا کا رحم پھر جوش مارے گا اور پھر غیر معمولی اور دہشت ناک زلزلوں کا ایک مدت تک خاتمہ ہو جائے گا۔ اور طاعون بھی ملک میں سے جاتی رہے گی۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا۔ یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَےْسَ فِیْھَا اَحَدٌ یعنی اِس جہنّم پر جو طاعون اور زلزلوں کا جہنّم ہے ایک دن ایسا زمانہ آئے گا کہ اس جہنم میں کوئی فرد بشر بھی نہیں ہوگا۔ یعنی اس ملک میں اور جیسا کہ نوحؑ کے وقت میں ہوا کہ ایک خلقِ کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا۔ اور پھر اس الہام کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ثم یغاث الناس ویعصرون۔ یعنی پھر لوگوں کی دُعائیں سُنی جائیں گے اور وقت پر بارشیں ہوں گی اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آجائے گا اور غیر معمولی آفتیں دُور ہو جائیں گی۔ تا لوگ یہ خیال نہ کریں کہ خدا صرف قہار ہے رحیم نہیں ہے اور تا اس کے مسیح کو منحوس قرار نہ دیں*۔
یاد رہے کہ مسیح موعود کے وقت میں موتوں کی کثرت ضروری تھی اور زلزلوں اور طاعون کا آنا ایک مقدّر امر تھا۔ یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے دم سے لوگ مریں گے اور جہاں تک مسیحؑ کی نظر جائے گی اس کا قاتلانہ دم اثر کرے گا۔ پسؔ یہ نہیں
مسیح موعود کے لئے ابتدا سے یہی مقدر ہے کہ پہلے تو وہ قہاری رنگ میں ظاہر ہوگا اور جہاں تک
اس کی نظر کام کرتی ہے اس کے دم سے لوگ مریں گے یعنی وہ زمانہ جہاد اور تلوار سے لڑنے کازمانہ نہیں ہوگاصرف مسیح موعود کی رُوحانی توجہ تلوار کا کام دکھلائے گی اور قہری نشان آسمان سے نازل ہوں گے جیسے طاعون اور زلزلے وغیرہ آفات۔ تب اس کے بعد خدا کا مسیح نوع انسان کو رحم کی نظر سے دیکھے گا اور آسمان سے رحم کے آثار ظاہر ہوں گے اور عمروں میں برکت دی جائے گی اور زمین میں سے رزق کا سامان بکثرت پیدا ہوگا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 400
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 400
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/400/mode/1up
سمجھنا چاہیئے کہ اس حدیث میں مسیح موعود کو ایک ڈائن قرار دیا گیا ہے جو نظر کے ساتھ ہر ایک کا کلیجہ نکالے گا بلکہ معنے حدیث کے یہ ہیں کہ اُس کے نفحاتِ طیّبات یعنی کلمات اس کے جہاں تک زمین پر شائع ہوں گے تو چونکہ لوگ اُن کا انکار کریں گے اور تکذیب سے پیش آئیں گے اور گالیاں دیں گے اس لئے وہ انکار موجب عذاب ہو جائے گا*۔یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ مسیح موعود کا سخت انکار ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں مری پڑے گی اور سخت سخت زلزلے آئیں گے اور امن اُٹھ جائے گا۔ ورنہ یہ غیر معقول بات ہے کہ خواہ نخواہ نیکو کار اور نیک چلن آدمیوں پر طرح طرح کے عذاب کی قیامت آوے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانوں میں بھی نادان لوگوں نے ہر ایک نبی کو منحوس قدم سمجھا ہے اور اپنی شامتِ اعمال اُن پر تھاپ دی ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتاہے۔ اور اُس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے۔ اور سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہے کہ مسیح کے وقت میں جہاد کا حکم منسوخ کر دیا جائے گا جیسا کہ
صحیح بخاری میں بھی مسیح موعود کی صفات میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح موعود جب آئے گا تو جنگ اور جہاد کو موقوف کردے گا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ جب مسیح کی روحانی توجہ سے قہری نشان ظاہر ہوں گے اور لاکھوں انسان طاعون اور زلازل وغیرہ سے مریں گے تو پھر تلوار کے ذریعہ سے کسی کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور خدا اس سے رحیم تر ہے کہ د۲و قسم کے شدید عذاب ایک ہی وقت میں کسی قوم پر نازل کرے یعنی ایک قہری نشانوں کا عذاب اور دوسرا انسانوں کے ذریعہ سے تلوار کا عذاب۔ اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ یہ د۲و قسم کے عذاب ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 401
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 401
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/401/mode/1up
پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھارہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھاؔ نہیں چھوڑتے۔اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہوگیا ہے*۔ جس کی تم تکذیب کررہے ہو۔ اب ہجری صدی کا بھی چوبیسو۲۴اں سال ہے بغیر قائم ہونے کسی مرسلِ الٰہی کے یہ وبال تم پر کیوں آگیا جو ہر سال تمہارے دوستوں کو تم سے جُدا کرتا اور تمہارے پیاروں کو تم سے علیحدہ کر کے داغِ جدائی تمہارے دلوں پر لگاتا ہے آخر کچھ بات تو ہے کیوں تلاش نہیں کرتے اور تم کیوں اس آیت موصوفہ بالا میں غور نہیں کرتے جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱۔ یعنی ہم کسی بستی پر غیر معمولی عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ہم اُن پر اتمام حجت کیلئے ایک رسول نہ بھیج دیں۔ اب تم خود سوچ کر دیکھ لو کہ کیا یہ غیر معمولی عذاب نہیں جو تم کئی سال سے بھگت رہے ہو۔ تم وہ مصیبتیں دیکھ رہے ہو جن کا تمہارے باپ دادوں نے نام بھی نہیں سُنا تھا اور جن کی ہزاروں برس تک اس ملک میں نظیر نہیں پائی جاتی۔ اور جس طاعون اور جس زلزلہ کو اب تم دیکھتے ہو میں اپنے کشفی عالم میں پچیس۲۵ برس سے اسے دیکھ رہا ہوں۔ اگر خدا نے مجھے یہ تمام خبریں پہلے سے نہیں دیں تو مَیں جھوٹا ہوں۔ لیکن اگر یہ خبریں پچیس۲۵ برس سے میری کتابوں میںؔ مندرج ہیں اور متواتر مَیں قبل از وقت خبرخ دیتا رہا ہوں تو تمہیں ڈرنا چاہیئے
نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ
اور مخاطبہ الٰہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو۔ یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امّتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اُس نے آنحضرت ؐ کی پیروی سے پایا ہے نہ براہِ راست۔ منہ
خ انہیں سخت زلزلوں کی خبریں میری کتاب براہین احمدیہ میں آج سے پچیس برس پہلے شائع
ہوچکی ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 402
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 402
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/402/mode/1up
ایسا نہ ہو کہ تم خدا کے الزام کے نیچے آجاؤ۔ تم سُن چکے ہو کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کی پیشگوئی ایک برس پہلے مَیں نے اخباروں میں شائع کی تھی۔ اور اس میں صرف یہی لفظ نہیں تھا کہ ’’زلزلہ کا دھکا‘‘ بلکہ یہ الہام بھی تھا کہ عفت الدیار محلھا ومقامھا یعنی ملک پنجاب کے بعض حصوں کی عمارتیں تباہ اور ناپدید ہو جائیں گی۔ سو اب مجھے اس بات کے لکھنے کی ضرورت نہیں کہ کس صفائی سے وہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ پھر بعد اس کے اُسی اپریل کے مہینہ میںیہ دوسری پیشگوئی خدا تعالیٰ کی وحی سے مَیں نے شائع کی تھی کہ جیسا کہ یہ زلزلہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کا موسمِ بہار میں آیا ایسا ہی ایک دوسرا زلزلہ موسم بہار میں ہی آئے گا اور اس سے پہلے نہیں آئے گا اور ضروری ہے کہ ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء تک وہ زلزلہ نہ آوے۔ سو گیارہ مہینہ تک کوئی زلزلہ نہ آیا اور جب ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء گزر گئی تب ۲۷؍ فروری ۱۹۰۶ء کی رات کو عین وسط بہار میں ایک بجے کے وقت ایسا سخت زلزلہ آیا کہ انگریزی اخبارات سِول وغیرہ کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ یہ زلزلہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے برابر تھا۔ اور رام پور شہر علاؔ قہ شملہ اور بہت سے اور مقامات میں جانوں اور عمارتوں کا نقصان ہوا۔ یہ وہی زلزلہ تھا جس کی نسبت گیارہ مہینے پہلے خدا تعالیٰ کی وحی نے یہ خبردی تھی کہ
’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘*
افسوس کہ بعض متعصب مولوی محض ہٹ دھرمی سے اس کھلی کھلی پیشگوئی پر گرد ڈالنا چاہتے ہیں اور
لوگوں کو دھوکا دے کر یہ کہتے ہیں کہ آئندہ زلزلہ کی نسبت تو یہ لکھا گیا تھا کہ وہ قیامت کا نمونہ ہوگا مگر یہ زلزلہ تو قیامت کا نمونہ نہیں۔ اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین مَیں بار بار اپنے رسالوں اور اشتہارات میں یہ پیشگوئی شائع کر چکاہوں کہ کئی زلزلے آئیں گے۔ اور ایک قیامت کا نمونہ ہوگا یعنی اُس میں بہت سی جانوں کا نقصان ہوگا۔ مگر ایک زلزلہ بہار میں آئے گا جیسا کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ بہار کے دنوں میں آیا تھا اور اس کی نسبت یہ الہام تھا۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 403
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 403
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/403/mode/1up
سو اسی کے مطابق موسم بہار میں یہ زلزلہ آیا۔ اب سوچ کر دیکھ لو کہ یہ بجز خدا کے کس کی طاقت ہے کہ اس تصریح کے ساتھ پیشگوئی کر سکے۔ میرے ہاتھ میں تو زمین کے طبقات نہیں تھے کہ مَیں گیار۱۱ہ مہینے تک ان کو تھام رکھتا اور پھر ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء کے بعد ایک زور کا دھکا دے کر زمین کو ہلا دیتا۔ سو اے عزیزو! جبکہ تم نے یہ دونوں زلزلے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے تو اب تمہیں اس بات کا سمجھناسہل ہے کہ آئندہ پنج زلزلوں کی خبر بھی کوئی گپ نہیں ہے۔ اور تم یہ بھی سمجھ سکتے ہو کہ جیسا کہ یہ یقین کرنا انسانی طاقت سے باہر تھا کہ گیار۱۱ہ ماہ تک اپریل کے زلزلہ کی مانند کوئی زلزلہ نہیں آئے گا بلکہ عین بہار میں ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء کے بعد آئے گا۔ ایسا ہی یہ یقین کرنا بھی انسانی طاقت سے باہر ہے کہ اب بعد اس کے ۵پانچ شدید زلزلے آئیں گے جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ اپنے چہرہ کی چمکار دکھلائے گا یہاں تک کہ ان کو جو خدا کی ہستی کے قائل نہیں اقرار کی طرف کھینچے گا۔ اور پھر بعد اس کے امن ہوؔ جائے گا اور دنیا اپنی معمولی حالت پر آجائے گی۔ اور ایک مدّت تک ایسے زلزلے پھر کبھی نہیں آئیں گے۔ آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی علم طبقات الارض کا اس تصریح اور تفصیل کو بتلا نہیں سکتا بلکہ وہ خدا جو زمین اور آسمان کا خدا ہے وہ اپنے خاص رسولوں کو یہ اسرار بتلاتا ہے نہ ہر ایک کو تا دنیا کے لوگ کفر اور انکار سے بچ جائیں اور تا وہ ایمان لائیں اورجہنم کے عذاب سے نجات پائیں۔ سو دیکھو مَیں زمین و آسمان کو گواہ کرتا ہوں کہ آج مَیں نے
پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ سو ۲۸؍ فروری ۱۹۰۶ء کا زلزلہ عین بہار میں آیا جس سے آٹھ آدمی مر گئے اور انیس ۱۹ مجروح ہوئے اور صدہا مکان گر گئے۔ اور اسی زلزلہ کے بارے میں پیسہ اخبار ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۵ تیسرے کالم میں لکھا ہے کہ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۶ء کی شب کے بھونچال میں موضع دودہ پور ضلع انبالہ تحصیل جگادھری کے سارے آدمی رات کو سوئے ہوئے مر گئے۔ صرف تین آدمی بچے اور نیرہ ضلع سہارنپور میں زلزلہ کی رات کو ایک سوکھا کنواں پانی سے بھر گیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 404
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 404
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/404/mode/1up
وہ پیشگوئی جو ۵پانچ زلزلوں کے بارے میں ہے بتصریح بیان کر دی ہے تا تم پر حجت ہو اور تا تمہاری گمراہی پر موت نہ ہو۔ اے عزیز! خدا سے مت لڑو کہ اس لڑائی میں تم ہرگز فتح یاب نہیں ہو سکتے۔ خدا کسی قوم پر ایسے سخت عذاب نازل نہیں کرتا اور نہ کبھی اُس نے کئے جب تک اُس قوم میں اُس کی طرف سے کوئی رسول نہ آیا ہو۔ یعنی جب تک اُس کا بھیجا ہوا اُن میں ظاہر نہ ہوا ہو۔ سو تم خدا کے قانونِ قدیم سے فائدہ اُٹھاؤ اورتلاش کرو کہ وہ کون ہے جس کے لئے تمہاری آنکھوں کے روبرو آسمان پر رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہوا اور زمین پر طاعون پھیلی اور زلزلے آئے۔ اور یہ پیشگوئیاں قبل از وقت کسؔ نے تم کو سُنائیں اور کس نے یہ دعویٰ کیا کہ مَیں مسیح موعود ہوں۔ اُس شخص کو تلاش کرو کہ وہ تم میں موجود ہے اور وہ یہی ہے کہ جو بول رہا ہے۔ 3 3 3 ۱۔
مَیں نے اِس جگہ تک مضمون کو ختم کیا تھا کہ آج پھر ۱۵؍ مارچ ۱۹۰۶ء کو بروزپنج شنبہ وقت صبح یہ الہام ہوا۔ خدا نکلنے کو ہے انت منّی بمنزلۃ بروزی۔ وعد اللّٰہ اِنّ وعداللّٰہ لا یُبدّل۔ یعنی خدا اِن پانچ زلزلوں کو لانے سے اپنا چہرہ ظاہر کرے گا۔ اور اپنے وجود کو دکھلادے گا۔ اور تُومجھ سے ایسا ہے جیسا کہ مَیں ہی ظاہر ہوگیا۔ یعنی تیرا ظہور بعینہٖ میرا ظہور ہوگا یہ خدا کا وعدہ ہے کہ پا۵نچ زلزلوں کے ساتھ خدا اپنے تئیں ظاہر کرے گا۔ اور خدا کا وعدہ نہیں ٹلے گا اور وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
یاد رہے کہ پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک صرف وعید کی جس سے مقصود صرف سزا دینا اور عذاب دینا ہوتا ہے۔ ایسی پیشگوئی اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو تو کسی کے ڈرنے اور توبہ اور استغفار یا صدقہ دُعا سے ٹل سکتی ہے جیسا کہ یونس نبی کی پیشگوئی ٹل گئی اور ظہور میں نہ آئی کیونکہ یونس نبی کو وعید کے طور پر بتلایا ؔ گیا تھا کہ چالیس۴۰ دن تک تیری قوم پر عذاب نازل ہو جائے گا اور یہ پیشگوئی قطعی طور پر بغیر کسی شرط کے تھی مگر تب بھی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 405
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 405
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/405/mode/1up
جب یونسؑ کی قوم نے توبہ اور استغفار کیا اور اُن کے دل ڈر گئے تو خدا تعالیٰ نے اس عذاب کا وارد کرنا موقوف رکھا اوروہ قطعی پیشگوئی ٹل گئی جس کی وجہ سے یونس نبی کو بڑی مصیبت پیش آئی اور اُس نے نہ چاہا کہ کذّاب کہلا کر پھر اپنی قوم کو مُنہ دکھاوے۔ اور وعید کی پیشگوئی کا توبہ استغفار یا صدقہ سے ٹل جانا ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ کسی فرقہ یا قوم کو اس سے انکار نہیں کیونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اتفاق سے یہ بات مسلّم ہے کہ توبہ استغفار اور صدقہ خیرات سے بَلا ردّ ہو سکتی ہے۔ اَب ظاہر ہے کہ جس بَلا کو خدا نے کسی پر وارد کرنا چاہا ہے اگر نبی کو پیش از وقت اُس بَلا کا علم دیا جائے تو وہی وعید کی پیشگوئی کہلائے گی۔ اور اگر کسی نبی کو پیش از وقت اس کا علم نہ دیا جائے تو صرف خدا تعالیٰ کا مخفی ارادہ ہوگا۔ اس جگہ ان نادان مولویوں کی کس قدر پردہ دری ہوتی ہے جو مجھ پر اعتراض کر کے کہتے ہیں کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم پند۱۵رہ مہینے کی میعاد میں نہیں مرا بلکہ چند ماہ بعد مرا۔ اور نہیں جانتے کہ وہ وعید کی پیشگوئی تھی اور باوجود اس کے یونسؑ کی پیشگوئی کی طرح صرف قطعی نہ تھی بلکہؔ اس کے ساتھ یہ لفظ تھے کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ یعنی اُس حالت میں پندر۱۵ہ مہینے کے اندر مرے گا کہ جب اس کے دل نے حق کی طرف رجوع نہ کیا ہو۔ لیکن یہ بات عیسائیوں کی شہادت سے بھی ثابت شدہ ہے کہ اُس نے اُسی مجلس میں جب یہ پیشگوئی سُنائی گئی تھی حق کی طرف رجوع کر لیا تھا اور ڈر گیا تھا کیونکہ جب مَیں نے مباحثہ کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد سا۶۰ٹھ یا ستّر ۷۰گواہوں کے روبرو جس میں سے بعض مسلمان اور بعض عیسائی تھے ڈاکٹر مارٹن کلارک کی کوٹھی پر بلند آواز سے یہ کہا کہ آپ نے اپنی فلاں کتاب میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دجّال رکھا ہے ا س لئے خدا نے ارادہ کیا ہے کہ پندرہ مہینے کے اندر وہ آپ کو ہلاک کرے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرو۔ تب وہ اس پیشگوئی کوسُنتے ہی ڈر گیا اور اس کا رنگ زرد ہوگیا اور اُس نے اپنی زبان باہر نکالی اور دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھے۔ اور
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 406
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 406
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/406/mode/1up
اُس کا بدن خوف سے کانپ اُٹھا اور توبہ کرنے والے کی شکل بنا کر کہا کہ مَیں نے آنحضرتؐ کو ہرگز دجّال نہیں کہا۔ میرے خیال میں اس وقت تیس۳۰ سے زیادہ اس جلسہ میں عیسائی موجود ہوں گے جن میں سے ایک ڈاکٹر مارٹن کلارک بھی تھے جو اب تک زندہ موجود ہیں۔ اگر اُن سے حلفًا ؔ دریافت کیا جائے تو مَیں امید نہیں رکھتا کہ وہ خلاف واقعہ بیان کر سکیں یا اس واقعہ کا اخفا کر سکیں۔ پھر باوجود اس کے یہ امر بھی ثابت ہے کہ اس پیشگوئی کے سُنتے ہی ڈپٹی عبداللہ آتھم کے دل پر سخت بے چینی اور بے قراری طاری ہوگئی اور وہ پیشگوئی کے اثر سے دیوانہ کی طرح ہوگیا اور اکثر روتا تھا اور بعد اس کے دین اسلام کے ردّ میں ایک سطر بھی اُس نے شائع نہ کی یہاں تک کہ صرف چند ماہ بعد فوت ہوگیا اور مَیں نے متواتر اشتہاروں سے اس پر حجت پوری کی۔ اور اشتہاروں میں لکھا کہ اگر اُس نے پیشگوئی کی شرط کے موافق اپنے دل میں حق کی طرف رجوع نہیں کیا تو وہ حلفًا بیان کرے تو مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ مَیں چار ہزار روپیہ اس حلف کے بعد بلا توقف اس کو دوں گا مگر باوجود عیسائیوں کے اصرار کے (کہ حلف اُٹھالے) اُس نے قسم نہ کھائی۔ اور اس طرح ٹال دیا کہ قسم کھانا ہمارے مذہب میں منع ہے حالانکہ انجیل سے ثابت ہے کہ پطرس نے قسم کھائی۔ پولوس نے قسم کھائی اور خود حضرت مسیحؑ نے قسم کھائی۔ پھر منع کیونکر ہوگئی۔ اور اب تک عدالتوں میں عیسائی گواہوں کو قسم دی جاتی ہے۔ بلکہ دوسروں کے لئے اقرار صالح اور عیسائیوں کے لئے خاص طور پر قسم ہے۔ غرض باوجود اس حیلہ بہانہ کے پھر موتؔ سے بچ نہ سکا۔ اور جیسا کہ مَیں نے اشتہارات میں شائع کیا تھامیرے آخری اشتہار سے صرف چند مہینے بعد مر گیا۔ اور موت کی بیماری تو اُنہیں دنوں میں اس کو شروع ہوگئی تھی۔
یہ ہیں ہمارے مخالف مولویوں کے اعتراض جنہوں نے علم قرآن اور حدیث کا پڑھ کر ڈبودیا۔ اب تک انہیں معلوم نہیں کہ وعید کی پیشگوئی اور وعدہ کی پیشگوئی میں فرق کیا ہے؟ اور اب تک یونس نبی کے قصّہ سے بھی بے خبر ہیں جو دُرَِّ منثور میں بھی تفصیل سے مندرج ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 407
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 407
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/407/mode/1up
چونکہ اُن کی نیّتیں درست نہیں اس لئے اعتراض کے وقت اُن کو وہ پیشگوئیاں یاد نہیں رہتیں جو دس ہزار سے بھی زیادہ مجھ سے وقوع میں آگئی ہیں۔ اور جیسا کہ خدا نے فرمایا تھا ویسا ہی ظہور میں آئیں۔ اور اگر کوئی وعید کی پیشگوئی جو کسی شخص کے عذاب پرمشتمل تھی اپنے وقت سے ٹل گئی ہو تو اس پر شور مچاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان ہی نہیں۔ اور میرے پرحملہ کرنے کے جوش سے تمام نبیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر ڈپٹی آتھم پندرہ مہینے میں نہیں مرا تو آخر چند ماہ بعد میری زندگی میں ہی مرگیا۔ اور پیشگوئی میں صاف یہ لفظ تھے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جائے گا۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ عیسائی مذہب سچا ہے اور میرا دعویٰ تھا کہ اسلام سچا ہے پسؔ خدا نے میری زندگی میں اُس کو ہلاک کر دیا اور مجھے سچا کیا۔ پند۱۵رہ مہینے کو بار بار بیان کرنا اور ان امور کا ذکر نہ کرنا کیا یہی ان مولویوں کی دیانتداری ہے؟ نہیں سوچتے کہ یونس نبی کی تو قطعی عذاب کی پیشگوئی تھی جس کی نسبت خبر دی گئی تھی کہ چالیس۴۰ دن تک بہر حال اس قوم پر عذاب وارد ہو جائے گا مگر وہ عذاب اُن پر وارد نہ ہوا یہاں تک کہ یونسؑ اُن میں سے بہتوں کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا۔ ہائے افسوس! اگر ان لوگوں کی نیّت درست ہوتی تو آتھم کے واقعہ کے بعد جو پیشگوئی لیکھرام کی نسبت کی گئی تھی جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہ تھی اور جس میں صاف طور پر وقت اور قسم موت بتلائی گئی تھی اسی پر غور کرتے کہ کیسی صفائی سے وہ پوری ہوئی۔ مگر کون غور کرے جب تعصب سے دل اندھے ہوگئے۔ اور اگر ایک ذرّہ دلوں میں انصاف ہوتا تو ایک نہایت سہل طریق اُن کے لئے مہیّا تھا کہ جن پیشگوئیوں کے نہ پورے ہونے پر اُن کو اعتراض ہے وہ لکھ کر میرے سامنے پیش کرتے کہ وہ کس قدر ہیں اور پھر مجھ سے اس بات کا ثبوت لیتے کہ وہ پیشگوئیاں جو پوری ہوگئیں وہ کس قدر ہیں تو اس امتحان سے اُن کے تمام پردے کھل جاتے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ محلِّ اعتراض اُن کے پاس صرف ایکؔ دو
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 408
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 408
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/408/mode/1up
وعید کی پیشگوئیاں ہیں جن کے ساتھ شرط بھی تھی جن میں خوف اور ڈرنے کی وجہ سے تاخیر ہو گئی۔ اور جن کی نسبت خدا تعالیٰ کا قدیم قانون ہے کہ وہ توبہ استغفار اور صدقہ اور دُعا سے ٹل سکتی ہیں۔ لیکن اُن کے مقابل پر وہ پیشگوئیاں پوری ہوئیں جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں جن کی سچائی کے لئے کئی لاکھ انسان گواہ ہیں۔ اور صرف ایک فرقہ نہیں بلکہ تمام فرقے۔ کیا مسلمان اور کیا ہندو اور کیا عیسائی ان کی سچائی کی شہادت دینے کے لئے مجبور ہیں پس کیا یہ ایمانداری تھی کہ پیشگوئیوں کی ایک عظیم الشان فوج کو جن کی سچائی پر لاکھوں انسان گواہ ہیں کالعدم سمجھ کر ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھانا۔ اور وعید کی ایک دو پیشگوئیوں کو جو خدا کے قدیم قانون کے موافق تاخیر پذیر ہوگئیں بار بار پیش کرنا۔ اگر یہی حال ہے تو کسی نبی کی نبوّت قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ ان واقعات کا ہر ایک نبوت میں نمونہ موجود ہے اِسی لئے مَیں کہتا ہوں کہ یہ لوگ دین اور سچائی کے دشمن ہیں۔ اور اگر اب بھی ان لوگوں کی کوئی جماعت دلوں کو درست کر کے میرے پاس آوے تو مَیں اب بھی اِس بات کے لئے حاضر ہوں کہ اُن کے لغو اور بیہودہ شبہات کا جواب دوں اور ان کو دکھلاؤں کہ کس قدر خدا نے ایک فوجِ کثیر کی طرح میری ؔ شہادت میں پیشگوئیاں مہیّا کر رکھی ہیں جو ایسے طور سے اُن کی سچائی ظاہر ہوئی ہے جیسا کہ دن چڑھ جاتا ہے۔ یہ نادان مولوی اگر اپنی آنکھیں دیدہ و دانستہ بند کرتے ہیں تو کریں۔ سچائی کو ان سے کیا نقصان؟ لیکن وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ بہتیرے فرعون طبع ان پیشگوئیوں پر غور کرنے سے غرق ہونے سے بچ جائیں گے۔ خدا فرماتا ہے کہ مَیں حملہ پر حملہ کروں گا یہاں تک کہ مَیں تیری سچائی دلوں میں بٹھا دوں گا۔
پس اے مولویو! اگر تمہیں خدا سے لڑنے کی طاقت ہے تو لڑو۔ مجھ سے پہلے ایک غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اُس کو سولی دے دی۔ مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا۔ اور یا تو وہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 409
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 409
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/409/mode/1up
زمانہ تھاکہ اُس کو صرف ایک مکّار اور کذّاب خیال کیا جاتا تھا اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر اُس کی عظمت دلوں میں پیدا ہوگئی کہ اب چالیس۴۰ کروڑ انسان اس کو خدا کر کے مانتا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے کُفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے کہ جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پَیروں کے نیچے کُچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس۴۰ کروڑ انسان اُس کو سجدہ کرتے ہیں۔ اورؔ بادشاہوں کی گردنیں اُس کے نام کے آگے جھکتی ہیں۔ سو مَیں نے اگرچہ یہ دُعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا مَیں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا۔ اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے۔ اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پربرکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے*۔
سو اے سُننے والو! اِن باتوں کو یاد رکھو۔ اور اِن پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں
عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے۔ اور کہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی
گردنوں پر تیری اطاعت کا جُوَا اُٹھائیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 410
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 410
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/410/mode/1up
میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔ مَیں اپنے نفس میں کوئی نیکیؔ نہیں دیکھتا۔ اور مَیں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ اور مَیں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں۔ یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا۔ پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مُشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا ۔
عجب دارم ازلطفت اے کردگار
پذیرفتہۂ چوں منِ خاکسار
پسندیدگانے بجائے رسند
ز ما کہترانت چہ آمد پسند
چو از قطرۂ خلق پیدا کنی
ہمیں عادت اینجا ہویدا کنی
یہ بات لکھنے سے رہ گئی کہ مذکورہ بالا الہام میں جو یہ لفظ ہیں انّ وعداللّٰہ لایُبدّل۔ یعنی خدا کا وعدہ ٹل نہیں سکتایہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پانچ۵ زلزلوں کا آنا خدا تعالیٰ کا ایک وعدہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا ہاں جو شخص توبہ استغفار کرے گا اور ابھی سے خدا تعالیٰ سے صلح کرے گا اور کوئی سرکشی کی آگ اس میں باقی نہیں رہے گی خدا اس پر رحم کرے گا۔ مگر اس پر رحم کرنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ یہ پا۵نچ زلزلے نہیں آویں گے۔ وہ تو ضرور آویں گے مگر ایسا شخص اُن کے صدمہ سے بچ جائے گا کیونکہ یہ خدا ؔ تعالیٰ کا وعدہ ہے وہ اپنے وعدہ میں تخلّف نہیں کرتا۔ اُس کا وعید ٹل سکتا ہے۔ مگر وعدہ نہیں ٹل سکتا۔ جیسا کہ ہم ابھی پہلے بیان کر چکے ہیں۔
ایک اور بات اس جگہ ذکر کے لائق ہے کہ اس جگہ طبعًا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ اس سے پہلے صدہا نشان میری تصدیق کے لئے کھلے کھلے ظاہر ہو چکے تھے اور ہزارہا تک نوبت پہنچ گئی تھی تو پھر اس مہلک طاعون اور اِن تباہی افگن زلازل کی کیا ضرورت تھی۔ کیا وہ صدہا نشان کافی نہ تھے؟
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 411
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 411
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/411/mode/1up
اس سوال کا جواب د۲و طور سے ہے۔ اوّ۔۱ل یہ کہ انسانی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ رحمت کے نشانوں سے بہت ہی کم فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اور ایسا ہی تعصّب کی وجہ سے دوسری قسم کے چھوٹے چھوٹے نشانوں کے ٹالنے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی حیلہ نکالتا ہے تا کسی طرح دولت قبول سے محروم رہے۔ چنانچہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوا کہ باوجود ہزارہا نشانوں کے ظاہر ہونے کے قوم کے دلوں پر ایک ذرّہ اثر نہ پڑا۔ اگر آپ میری کتاب ’’نزول المسیح‘‘ کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خدا نے نشانوں کے دکھلانے میں کوئی فرق نہیں کیا۔ دوستوں کے لئے بھی نشان ظاہر ہوئے اور دشمنوؔ ں کی تنبیہ کے لئے بھی۔ اور میری ذات کے متعلق بھی۔ اور ایسا ہی میری اولاد کے متعلق بھی نشان ظہور میں آئے۔ اور جس طرح زمین کا ایک بڑا حصّہ سمندر سے بھرا ہوا ہے ایسا ہی یہ سلسلہ خدا کے نشانوں سے بھر گیا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں کوئی نہ کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔ اور ہر ایک پیشگوئی کسی نہ کسی نشان پر مشتمل ہوتی ہے اور مَیں نے اس رسالہ میں دس ہزار نشان کا صرف نمونہ کے طور پر ذکر کیا ہے ورنہ اگر وہ سب تحریر کئے جائیں تو وہ کتاب جس میں وہ قلمبند ہوں ہزار جزو سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ کیا اس قدر غیب کا موج در موج ظاہر ہونا کسی مفتری کے کاروبار میں ممکن ہے۔ میرے نادان مخالفوں کو خدا روز بروز انواع و اقسام کے نشان دکھلانے سے ذلیل کرتا جاتا ہے۔ اور مَیں اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحٰق ؑ سے اور اسمٰعیلؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسٰیؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروؔ ی سے حاصل ہوا۔ اگر مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 412
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 412
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/412/mode/1up
نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو۔ پس اِسی بنا پر مَیں اُمتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظلّ ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں وہی نبوت محمدؐیہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے۔ اور چونکہ مَیں محض ظلّہوں اور اُمّتی ہوں اس لئے آنجنابؐ کی اِس سے کچھ کسرِ شان نہیں۔ اور یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر مَیں ایک دم کے لئے بھی اِس میں شک کروں تو کافر ہوجاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔ وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے۔ اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کرکوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی مَیں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور مَیں اس پر ایسا ہی ایمان لاتاؔ ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر۔ یہ تو ممکن ہے کہ کلام الٰہی کے معنے کرنے میں بعض مواضع میں ایک وقت تک مجھ سے خطا ہو جائے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ مَیں شک کروں کہ وہ خدا کا کلام نہیں۔ اور چونکہ میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے۔ شریعت کا حامل قیامت تک قرآن شریف ہے۔ پس وہ خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوتا ہے ایک خارق عادت کیفیت اپنے اندر رکھتا ہے اور اپنی نورانی شعاعوں سے اپناچہرہ دکھلاتا ہے۔ وہ فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھنس جاتا ہے اور اپنی رُوحانی قوتوں کے ساتھ مجھے پُر کر دیتا ہے۔ وہ لذیذ اور فصیح اور راحت بخش ہے اور ایک الٰہی ہیبت اپنے اندر رکھتا ہے اور غیب کے بیان کرنے میں بخیل نہیں بلکہ غیب کی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 413
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 413
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/413/mode/1up
نہریں اس میں چل رہی ہیں۔ لیکن بعض ہمارے مخالف جو الہام کا دعویٰ کرتے ہیں اوّل تو یہ امواجِ غیبیہ اور ایک دریا اسرار الٰہیہ کا اُن کے الہامات میں نہیں۔ اور خدائی طاقت اور شوکت اُن کو چُھو بھی نہیں گئی۔ علاوہ اِس کے وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ الہامات اُن کے رحمانی ہیں یا شیطانی ہیںؔ ۔ اِسی وجہ سے اُن کا عام عقیدہ ہے کہ ان کے الہام امورِ ظنّیہ میں سے ہیں۔ نہیں کہہ سکتے کہ ایسے القاء خدا سے ہیں یا شیطان سے۔ پس ایسے الہاموں پر فخر کرنا جائے شرم ہے جن میں اس قدر بھی چمک نہیں جس سے پتہ لگ سکے کہ وہ ضرور خدا کی طرف سے ہیں نہ شیطان کی طرف سے۔ خدا پاک ہے اور شیطان پلید ہے۔ پس یہ عجیب الہام ہیں کہ ان سے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ پاک چشمہ سے نکلے ہیں یا پلید چشمہ سے اور دوسری مصیبت یہ کہ اگر کوئی کسی الہام کو خدا کا الہام سمجھ کر اس پر کاربند ہوا اور دراصل وہ شیطان کا الہام ہو تو وہ تو ہلاک ہوگیا یا اگر شیطان کا الہام سمجھ کر خدا کے الہام پر کاربند نہ ہوا تو وہ بھی ہلاکت کے گڑھے میں گرا۔ تو یہ الہام کیا ہوئے؟ ایک خوفناک مصیبت ہوئی جس کا انجام موت ہے۔ اور نیز یہ اسلام پر بھی ایک داغ ہے کہ بنی اسرائیل میں تو ایسے یقینی الہام ہوتے تھے جن کی وجہ سے حضرت موسیٰ ؑ کی ماں نے اپنے معصوم بچے کو دریا میں ڈال دیا اور اس الہام کی سچائی میں کچھ شک نہ کیا اورظنّی نہ سمجھا۔ اور خضر نے ایک بچہ کو قتل بھی کر دیا۔ مگر اس اُ مت مرحومہ کو وہ مرتبہ بھی نہ ملا جو بنی اسرائیل کی عورتوں کو مل گیا۔ پھر اس آیت کے کیا معنے ہوئے کہ3 3 ۱۔کیا اُنہیں ظنّی الہاموں کا نام انعام ہے جو شیطان اور رحمن میں مشترک ہیں۔ جائے شرم۔
اور مذکورہ بالا سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے واقعات
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 414
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 414
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/414/mode/1up
کی پیشگوئیاں اگرچہ خدا کے مرسلوں کی صداقت کی وہ بھی ایک کافی دلیل ہیں کیونکہ مقدار اور کیفیت کے لحاظ سے ان پیشگوئیوں میں بھی دوسرے لوگ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تا ہم جن لوگوں پر وسوسہ اور وہم غالب ہے وہ کسی نہ کسی وہم میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی مامور من اللہ کی دُعا سے کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہو یا وہ مامور لڑکا پیدا ہونے کی خبر دے اور لڑکا پیدا ہو جائے تو بہت سے لوگ بول اُٹھتے ہیں کہ یہ کوئی خاص نشان نہیں بہتیری عورتوں کو بھی اپنی نسبت یا ہمسایہ عورت کی نسبت خوابیں آجاتی ہیں کہ اس کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا۔ تو پھر لڑکا بھی پیدا ہو جاتا ہے تو کیا اُس عورت کو خدا کا نبی یا رسول یا محدّث مان لیا جائے؟ اور گو ایسے تو ہمات میں یہ لوگ جھوٹے ہیں مگر جاہلوں کی زبان کون بند کرے؟ اور جھوٹے اس لئے ہیں کہ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ کسی ایک قول اور شاذ و نادر واقعہ سے کسی کا منجانب اللہ ہوناؔ ثابت ہو جاتا ہے تا ہر ایک خواب دیکھنے والا خدا کا برگزیدہ سمجھا جائے بلکہ اوّل دعویٰ چاہیئے پھر ایسی پیشگوئیاں چاہئیں جو اپنی اپنی کمیّت اور کیفیّت کی رُو سے اُس حد تک پہنچ چکی ہوں کہ جو معمولی انسانوں کی خوابوں یا الہاموں کی شراکت اُن کے ساتھ ممتنع ہو۔ جیسا کہ ایسی پیشگوئیاں چھوٹے چھوٹے واقعات کے متعلق جو میرے ذریعہ سے خدا نے پوری کیں اُن کا عدد کئی ہزار تک پہنچتا ہے اَور کون ہے جس نے تعداد اور صفائی کے لحاظ سے اُن کا مقابلہ کر کے دکھلایا۔ چند سال ہوئے ہیں کہ ایک بدقسمت نادان نے اعتراض کیا تھا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب جو اِس قدر اخلاص رکھتے ہیں اُن کا لڑکا فوت ہوگیا ہے۔ یہ اعتراض اگرچہ نِرا تعصّب اور جہالت کی وجہ سے تھا کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ لڑکے فوت ہوئے تھے مگر میری دُعا پر خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا اور اس کے بدن پر پھوڑے نمودار ہو جائیں گے تا اس بات کا نشان ہو
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 415
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 415
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/415/mode/1up
کہ یہ وہی لڑکا ہے جو دُعا کے ذریعہ سے پیدا ہوا۔پس ایسا ہی وقوع میں آیا۔ اور تھوڑے ہی دنوں کے بعد مولوی صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبدالحی رکھا گیا۔ اور ؔ اُس کی پیدائش کے زمانہ کے قریب ہی بہت سے پھوڑے اُس کے بدن پر نکل آئے جن کے داغ اب تک موجود ہیں۔ یہ پھوڑے خدا نے اس لئے اُس کے بدن پر پیدا کئے تا کسی کو یہ وہم پیدا نہ ہو کہ یہ اتفاقی معاملہ ہے دُعا کا اثر نہیں۔ اور نہ اس کو پیشگوئی پر دلالت قطعی ہے جیسا کہ بعض اوقات ایسا اتفاق ہو جاتا ہے کہ چند آدمی ایک کسی غائب دوست کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ اس وقت آتے تو اچھا تھا اور ابھی وہ ذکر شروع ہی ہوتا ہے کہ وہ خود بخود آجاتے ہیں۔ تب لوگ کہتے ہیں۔ آیئے صاحب ابھی ہم آپ کا ذکر ہی کررہے تھے کہ آپ آہی گئے۔ سو خدا نے اِس پیشگوئی کے ساتھ پھوڑوں کا نشان بتلا دیا تا معلوم ہو کہ وہ لڑکا دُعا کے اثر سے پیدا ہوا ہے نہ اتفاقی طور پر۔ ایسے ہی ہزارہا میرے پاس نمونے ہیں مگر افسوس مَیں اس مختصر رسالہ میں ان کا ذکر نہیں کر سکتا۔
جیسا کہ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں چھوٹے چھوٹے واقعات کی پیشگوئیاں جبکہ ہزاروں تک ان کی تعداد پہنچ جائے تو اس بات کی قطعی دلیل ٹھہرتی ہیں کہ جس شخص کے ہاتھ پر وہ پیشگوئیاں ظاہر ہوئی ہیں اور جو منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ درحقیقت منجانبؔ اللہ ہے۔ لیکن جن کے دلوں میں شک اور وسوسہ کی مرض ہے وہ پھر بھی شبہات سے باز نہیں آتے اورفی الفور کہہ دیتے ہیں کہ فلاں فقیر نے بھی تو ایسی ہی کرامت دکھلائی تھی اور فلاں جوتشی صاحب نے بھی کچھ ایسا ہی فرمایا تھا جو سچ سچ نکلا۔ اور اس طرح پر نہ وہ صرف خود گمراہ ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ اور یہ نادان آنکھ تو رکھتے ہیں مگر وہ آنکھ ہر ایک گوشہ کو دیکھ نہیں سکتی۔ اور دل تو رکھتے ہیں مگر وہ دل ہر ایک پہلو کو سوچ نہیں سکتا۔ ہم نے کب اور کس وقت کہا کہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 416
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 416
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/416/mode/1up
بجز ہمارے اَور کسی کو کوئی خواب نہیں آتی اور نہ کوئی الہام ہوتا ہے بلکہ ہمارا تجربہ تو یہاں تک ہے کہ بعض وقت ایک کنجری کو بھی جس کا دن رات زناکاری پیشہ ہے سچے خواب آسکتے ہیں۔ ایک چور بھی جس کا پیشہ بیگانہ مال کا سرقہ ہے بذریعہ خواب کسی سچے واقعہ پر اطلاع پا سکتا ہے۔ ہمارا دعویٰ جس کو ہم بار بار لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسی خوابیں اور ایسے الہام جو کمیّت اور کیفیّت کے لحاظ سے ہزاروں تک اُن کی نوبت پہنچ گئی ہو اور کوئی اُن کا مقابلہ نہ کرسکتا ہو یہ مرتبہ صرف ان لوگوں کو ملتا ہے جن کو عنایت الٰہی نے خاص طور پر اپنا برگزیدہ کر لیا ہے دوسرے کو ہرگز نہیں ملتا اوریہ کہ دوسروؔ ں کو شاذ و نادر طور پر کوئی سچی خوابیں آتی ہیں یا الہام ہوتا ہے۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نوع انسان کی بھلائی کے لئے ہے کیونکہ اگر وحی اور الہام کا دوسرے لوگوں پرقطعاً دروازہ بند رہتا تو خدا کے رسولوں پر کامل طور پر یقین کرنا اُن کے لئے مشکل ہو جاتا اور وہ ہرگز سمجھ نہ سکتے کہ درحقیقت اِن نبیوں پر وحی نازل ہوتی ہے یا فریب ہے یا صرف وساوس میں مبتلا ہیں کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جس بات کا اس کو نمونہ نہیں دیا جاتا وہ پورے طور پر اس بات کو سمجھ نہیں سکتا اور آخر بدظنّی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے شراب خوار قومیں یورپ اور امریکہ کی جن کے دماغ بباعث شراب کے خراب ہو جاتے ہیں اکثر سچّی خواب کے وجود سے بھی منکر ہیں کیونکہ اپنے پاس نمونہ نہیں رکھتے۔ پس اِسی مصلحت سے کوئی سچی خواب اور کوئی سچا الہام نمونہ کے طور پر لوگوں کو عام طور پر دیا گیا تا جس وقت اُن میں کوئی نبی ظاہر ہو تو دولتِ قبول سے محروم نہ رہیں اور اپنے دلوں میں سمجھ لیں کہ یہ ایک واقعی حقیقت ہے جس سے چاشنی کے طور پر ہمیں بھی کچھ دیا گیا ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ یہ معمولی لوگ ایک گدا پیشہ کی مانند ہیں جس کے پاس چند روپے یا چند پیسے ہیں۔ مگر خدا کے مُرسل اور خدا کے نبی وہ رُوحانی ملک کے*
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 417
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 417
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/417/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 418
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 418
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/418/mode/1up
قادیان کے آریہ
آریوں پر ہے صد ہزار افسوس
دل میں آتا ہے بار بار افسوس
ہوگئے حق کے سخت نافرمان
کر دیا دیں کو قوم پر قُربان
وہ نشاں جن کی روشنی سے جہاں
ہو کے بیدار ہو گیا لرزاں
اُن نشانوں سے ہیں یہ انکاری
پَر کہاں تک چلے گی طرّاری
اُن کے باطن میں اِک اندھیرا ہے
کین و نخوت نے آکے گھیرا ہے
لڑ رہے ہیں خدائے یکتا سے
باز آتے نہیں ہیں غوغا سے
قوم کے خوف سے وہ مرتے ہیں
سو نشاں دیکھیں کب وہ ڈرتے ہیں
موت لیکھو بڑی کرامت ہے
پر سمجھتے نہیں یہ شامت ہے
میرے مالک تو ان کو خود سمجھا
آسماں سے پھر اِک نشان دکھلا
تازہ نشان کی پیشگوئی
خدا فرماتا ہے کہ مَیں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی وہ عام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا۔ چاہیئے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے کیونکہ خدا اس کوعنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اُس کی طرف سے ہے۔ مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے۔ آمین
المشتھر میرزا غلام احمدؐ مسیح موعود
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 419
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 419
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/419/mode/1up
قادیان کے آریہ اور ہم
ایک اخبار آریہ صاحبوں کی جو قادیان سے نکلتی ہے اور اب شاید جنوری ۱۹۰۷ء سے اس جگہ سے اس کا خاتمہ ہے اس میں میری نسبت لالہ شرمپت ساکن قادیان کا حوالہ دے کر ایک عجیب تہمت میرے پر لگائی گئی ہے اور وہ یہ کہ جو دسمبر ۱۹۰۶ء کے جلسہ میں ایک تقریب سے مَیں نے بیان کیا تھا کہ ان آسمانی نشانوں کے جو خدا نے مجھے عطا فرمائے ہیں صرف مسلمان ہی گواہ نہیں ہیں بلکہ اس قصبہ کے ہندو بھی گواہ ہیں جیسا کہ لالہ شرمپت اور لالہ ملاوا مل آریہ بھی جوؔ ساکنان قادیان ہیں ان کو میرے نشانوں کا علم ہے اور اس جلسہ میں مَیں نے صرف اسی قدر بیان نہیں کیا تھا بلکہ مَیں نے تمام مہمانوں کے رُو برو جو ہریک طرف سے اور نیز دُور دراز ملکوں سے دو ہزار کے قریب جمع تھے یہ بھی بیان کیا تھاکہ قطع نظر قادیان کے مسلمانوں کے اس قصبہ کے تمام ہندو بھی میرے نشانوں کے گواہ ہیں کیونکہ اس زمانہ پر پینتیس ۳۵برس کے قریب مدت گزر گئی جبکہ مَیں نے یہ ایک پیشگوئی شائع کی تھی کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :۔
’’کہ اگرچہ اب ُ تو اکیلا ہے اور تیرے ساتھ کوئی نہیں مگر وہ وقت آتا ہے کہ مَیں ہزاروں انسانوں کو تیری طرف رجوع دوں گا۔ اور اگرچہ اب تجھ میں کوئی مالی طاقت نہیں مگر مَیں بہت سے لوگوں کے دلوں میں اپنا الہام ڈالوں گا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 420
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 420
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/420/mode/1up
کہ اپنے مالوں سے تیری مدد کریں۔ فوج در فوج لوگ آئیں گے اور مال دیں گے اور اِس قدر آئیں گے کہ قریب ہے کہ تو تھک جائے وہ ہر ایک راہ سے سفر کر کے قادیان میںآئیں گے اوراُن کی آمد کی کثرت سے راہیں گہری ہو جائیں گی۔ اور جب اس پیشگوئی کے آثار ظاہر ہوں گے تو دشمن چاہیں گے کہ یہ پیشگوئی ظاہر نہ ہو۔ اور کوؔ شش کریں گے کہ ایسا نہ ہو مگر مَیں اُن کو نامراد رکھوں گا اور اپنا وعدہ پورا کروں گا اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔
یہ خلاصہ ہے اس پیشگوئی کا جو آج سے چھبیس۲۶ برس پہلے براہین احمدیہ میں چھپ چکی ہے اور درحقیقت اس زمانہ سے بہت عرصہ پہلے کی پیشگوئی ہے جس کو کم سے کم پینتیس۳۵ برس ہوتے ہیں۔ سو اس جلسہ میں مَیں نے اس پیشگوئی کا ذکر کیا تھا اور اس کے لئے یہ تقریب پیش آئی تھی کہ جب ہم مع اپنی جماعت کے جو دو ہزار کے قریب تھی اپنی جامع مسجد میں نماز میں مشغول تھے۔ اور دُور دُور سے میری جماعت کے معزز لوگ آئے ہوئے تھے جن میں گورنمنٹ انگریزی کے بھی بڑے بڑے عہدہ دار اور معزز رئیس اور جاگیردار اور نواب بھی موجود تھے تو عین اس حالت میں کہ جب ہم اپنی اس جامع مسجد میں نماز ادا کررہے تھے ایک ناپاک طبع آریہ برہمن نے گالیاں دینی شروع کیں اور نعوذ باللہ ان الفاظ سے بار بار گالیاں دیتا تھاکہ یہ سب کنجر اس جگہ جمع ہوئے ہیں کیوں باہر جاؔ کر نماز نہیں پڑھتے۔ اور پہلے سب سے مجھے ہی یہ گالی دی اور بار بار ایسے گندے الفاظ سے یاد کیا کہ بہتر ہے کہ ہم اس رسالہ کو اُن کی تفصیل سے پاک رکھیں۔قریباً ہم دو گھنٹہ تک نماز پڑھتے رہے اور وہ آریہ قوم کا برہمن برابر سخت اور گندے الفاظ کے ساتھ گالیاں دیتا رہا اُس وقت بعض دیہات کے سکھ بھی ہماری کثیر جماعت کو دیکھ رہے تھے اور حیرت کی نظر سے دیکھتے تھے کہ خدا نے ایک دنیا کو جمع کر دیا ہے۔ اور ان لوگوں نے بھی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 421
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 421
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/421/mode/1up
منع کیا مگر وہ ناپاک طبع آریہ باز نہ آیا۔ اور معزز مسلمانوں کو کنجر کے پلید لفظ سے بار بار یا دکرتا اور اشتعال دلاتا رہا۔
یہ ایک بڑا دُکھ تھا جو عین نماز کی حالت میں مجھے اُٹھانا پڑا۔ اور یہ بھی خوف تھا کہ ہماری جماعت میں سے کسی کو جوش پیدا ہو مگر خدا کا شکر ہے کہ سب نے صبر کیا۔ تعجب ہے کہ کیوں اُس نے یہ پلید اور گندہ لفظ اس جماعت کے لئے اختیار کیا۔ شاید اس کو اپنے مذہب کا نیوگ یاد آیا ہوگا*۔ اُس وقت سرکاری ملازم بٹالہ کا ایک ڈپٹی انسپکٹر بھی موجود تھا۔ غرض جب اس آریہ کی گالیاں حد سے بڑھ گئیں تو معزز مسلمانوں کے دلوں کو سخت رنج پہنچا۔ اور اگر وہ ایک وحشی قوم ہوتی تو قادیاؔ ن کے تمام آریوں کیلئے کافی تھی۔ مگر ان کے اخلاق قابلِ تحسین ہیں کہ ایک سفلہ طبع آریہ نے باوجودیکہ اس قدر گندی گالیاں دیں تا ہم انہوں نے ایسے صبر سے کام لیا کہ گویا مُردے ہیں جن میں آواز نہیں اور اس تعلیم کو یاد رکھا جو بار بار دی جاتی ہے کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ صبر کے ساتھ پیش آؤ۔
جب نماز ہو چکی تو مَیں نے دیکھا کہ ان گندی گالیوں سے بہت سے دلوں کو بہت رنج پہنچا تھا۔ تب مَیں نے اُن کی دلجوئی کے لئے اُٹھ کر یہ تقریر کی کہ یہ رنج جو پہنچا ہے اس کو دلوں سے نکال دو۔ خدا تعالیٰ دیکھتا ہے وہ ظالم کو آپ سزا دے گا۔ اور اُس وقت
نیوگ آریہ مذہب کی رو سے ایک مذہبی حکم ہے جس کی رُو سے ایک آریہ کی پاک دامن عورت
باوجود زندہ ہونے خاوند کے اور باوجود اس کے کہ اُس کو طلاق بھی نہیں دی گئی ایک دوسرے آدمی سے محض اولاد لینے کی غرض سے ہم بستر ہو سکتی ہے اور جب تک گیا۱۱رہ لڑکے غیر آدمی کے نطفہ سے پیدا ہوجائیں اس کام میں مشغول رہ سکتی ہے۔اور ایسی عورت مذہب کی رُو سے بڑی مقدس کہلاتی ہے۔ اور ایسا لڑکا ماں اور اپنے فرضی باپ دونوں کو دوزخ سے نجات دلانے والا اور مکتی کا داتا کہلاتا ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 422
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 422
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/422/mode/1up
مَیں نے یہ بھی کہا کہ مَیں جانتا ہوں کہ قادیان کے ہندو سب سے زیادہ خدا کے غضب کے نیچے ہیں کیونکہ خدا کے بڑے بڑے نشان دیکھتے ہیں اور پھر ایسی گندی گالیاں دیتے اور دُکھ پہنچاتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ خدا نے اس گاؤں میں کیسا بڑا نشانِ قدرت دکھلایا ہے۔ وہ اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ آج سے چھبیس ستائیس برس پہلے مَیں کیسی گمنامی کے گوشہ میں پڑا ہوا تھا۔ کیا کوئی بول سکتا ہے کہ اُس وقت یہ رجوعِ خلائق موجود تھا۔ بلکہ ایک انسان بھی میری جماعت میںؔ داخل نہ تھا اور نہ کوئی میرے ملنے کیلئے آتا تھا۔ اور بجز اپنی ملکیت کی قلیل آمدن کے کوئی آمدنی بھی نہیں تھی۔ پھر اُسی زمانہ میں بلکہ اُس سے بھی پہلے جس کو پینتیس۳۵ برس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزرتا ہے خدا نے مجھے یہ خبر دی کہ ’’ہزاروں لاکھوں انسان ہر ایک راہ سے تیرے پاس آویں گے یہاں تک کہ سڑکیں گھِس جائیں گی۔ اور ہر ایک راہ سے مال آئے گا۔ اور ہر ایک قوم کے مخالف اپنی تدبیروں سے زور لگائیں گے کہ یہ پیشگوئی وقوع میں نہ آوے۔ مگر وہ اپنی کوششوں میں نامراد رہیں گے‘‘۔ یہ خبر اُسی زمانہ میں میری کتاب براہین احمدیہ میں چھپ کر ہر ایک ملک میں شائع ہوگئی تھی۔
پھر کچھ مدت کے بعد اس پیشگوئی کا آہستہ آہستہ ظہور شروع ہوا چنانچہ اب میری جماعت میں تین لاکھ سے زیادہ آدمی ہیں*۔اور فتوحات مالی کا یہ حال ہے
اس رسالہ کے لکھنے کے وقت ملک مصر سے یعنی مقام اسکندریہ سے کل ۲۳؍ جنوری ۷ ۱۹۰ء کو ایک
خط بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا۔ لکھنے والا ایک معزز بزرگ اس شہر کا ہے یعنی اسکندریہ کا ۔جن کا نام ہے احمد زہری بدرالدین۔ خط محفوظ ہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مَیں آپ کو یہ خوشخبریؔ دیتا ہوں کہ اس ملک میں آپ کے تابع اور آپ کی پیروی کرنے والے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ جیسے بیابان کی ریت اور کنکریں۔ اور لکھتے ہیں کہ میرے خیال میں کوئی ایسا باقی نہیں جو آپ کا پَیرو نہیں ہوگیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 423
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 423
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/423/mode/1up
کہ اب تک کئی لاکھ روپیہ آچکا ہے اور قریباً پندرہ سو روپیہ اور کبھی دو ہزار ماہوار لنگر خانہ پر خرچ ہو جاتا ہے اور مدرسہ وغیرہ کی آمدنی علیحدہ ہے۔ یہ ایک ایسا نشان ہے کہ جس سے قادیان کے ہندوؤں کو فائدہ اُٹھانا چاہئے تھا کیونکہ وہ ؔ اس نشان کے اوّل گواہ تھے ان کو معلوم تھاکہ اس پیشگوئی کے زمانہ میں مَیں کس قدر گمنام اور پوشیدہ تھا۔
یہ تقریر تھی جو اس جلسہ میں مَیں نے کی تھی اور تقریر کے آخر میں مَیں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ اِس نشان کے سب آریوں میں سے بڑھ کر گواہ لالہ شرمپت اور لالہ ملاوا مل ساکنانِ قادیان ہیں کیونکہ اُن کے روبرو کتاب براہین احمدیہ جس میں یہ پیشگوئی ہے چھپی اور شائع ہوئی ہے بلکہ براہین احمدیہ کے چھپنے سے پہلے اُس زمانہ میں جبکہ میرے والد صاحب فوت ہوئے تھے یہ پیشگوئی اِن ہر دو آریوں کو بتلائی گئی تھی جس کا مختصر بیان یہ ہے کہ میرے والد صاحب کے فوت ہونے کی خبر ان الفاظ سے خدا تعالیٰ نے مجھے دی تھی کہ وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ۔ یعنی قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو غروب آفتاب کے بعد پڑے گا اور ساتھ ہی سمجھایا گیا تھا کہ اس پیشگوئی کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا والد آفتاب کے غروب کے ساتھ ہی وفات پائے گا۔ اور یہ الہام بطور ماتم پُرسی کے تھا جو اپنے خاص بندوں سے عادت اللہ میں داخل ہے۔ اور جب یہ خبرؔ سن کر تردّد اور غم پیدا ہوا کہ ان کی وفات کے بعد ہماری اکثر وجوہ معاش جو ان کی ذات سے وابستہ ہیں نابود ہو جائیں گی تب یہ الہام ہوا:۔
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ
یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ اِس وحیِ الٰہی میں صریحاً خبر دی گئی تھی کہ تمام حاجات کا خدا خود متکفّل ہوگا چنانچہ اس الہام کے مطابق غروب آفتاب کے بعدمیرے والد صاحب فوت ہوگئے اوران کے ذریعہ سے ہمارے جو وجوہ معاش تھے جیسے پنشن اور انعام وغیرہ سب ضبط ہوگئے۔ انہیں دنوں میں
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 424
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 424
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/424/mode/1up
جن پر پینتیس ۳۵برس کا عرصہ گزر گیا ہے۔ مَیں نے اس الہام کو یعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کو مُہر میں کھدوانے کے لئے تجویز کی اور لالہ ملاوا مل آریہ کو اس مُہر کے کھدوانے کے لئے امرتسر میں بھیجا اور محض اس لئے بھیجا کہ تا وہ اور لالہ شرمپت دوست اس کا دونوں اس پیشگوئی کے گواہ ہو جائیں چنانچہ وہ امرتسر گیا اور معرفت حکیم محمد شریف کلانوری کے پانچ روپیہ اجرت دے کر مُہر بنوا لایا جس کا نقش اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ہے جو اب تک موجود ہے۔ یہؔ الہام قریباً پینتیس۳۵ یا چھتیس۳۶ برس کا ہے جس کے یہ دونوں آریہ صاحبان گواہ ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ اُس زمانہ میں میری کیا حیثیت تھی۔ پھر اُس زمانہ میں جبکہ براہین احمدیہ جس میں مذکورہ بالا الہامات درج ہیں بمقام امرتسر پادری رجب علی کے مطبع میں چھپ رہی تھی ان دونوں آریوں کو خوب معلوم ہے کہ مَیں کیسا گمنامی میں زندگی بسر کرتا تھا یہاں تک کہ کئی دفعہ یہ دونوں آریہ امرتسر میں میرے ساتھ جاتے تھے اور بجز ایک خدمتگار کے دوسرا آدمی نہیں ہوتا تھا۔ اور بعض دفعہ صرف لالہ شرمپت ہی ساتھ جاتا تھا۔ یہ لوگ حلفاً کہہ سکتے ہیں کہ اُس زمانہ میں میری گمنامی کی حالت کس درجہ تک تھی نہ قادیان میں میرے پاس کوئی آتا تھا اور نہ کسی شہر میں میرے جانے پر کوئی میری پروا کرتا تھا اور مَیں ان کی نظر میں ایسا تھا جیسا کہ کسی کا عدم اور وجود برابر ہوتا ہے۔
اب وہی قادیان ہے جس میں ہزاروں آدمی میرے پاس آتے ہیں اور وہی شہر امرتسر اور لاہور وغیرہ ہیں جو میرے وہاں جانے کی حالت میں صدہا آدمی پیشوائی کے لئے ریل پر پہنچتے ہیں۔ بلکہ بعض وقت ہزارہا لوگوں تک نوبت پہنچتی ہے۔ چنانچہ ۱۹۰۳ؔ ء میں جب مَیں نے جہلم کی طرف سفر کیا تو سب کو معلوم ہے کہ قریباً گیارہ ہزار آدمی پیشوائی کے لئے آیا تھا۔ ایساہی قادیان میں صدہا مہمانوں کی آمد کا ایک سلسلہ جواب جاری ہے اُس زمانہ میں اس کا نام و نشان نہ تھا۔ اور قادیان کے تمام ہندوؤں کو اور خاص کر لالہ شرمپت اور ملاوامل کو (جو اب قوم کے دباؤ کے نیچے آکر خدا کے نشانوں سے منکر ہوتے ہیں* ) خوب معلوم ہے کہ ان دنوں میں ہمارا مردانہ مکان محض
مجھے واقعی طور پر معلوم نہیں کہ درحقیقت لالہ شرمپت اور لالہ ملاوا مل سچ مچ ان تمام نشانوں سے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 425
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 425
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/425/mode/1up
ایک ویرانہ اور خالی تھا اور کوئی ہمارے پاس نہیں آتا تھا ہاں یہ لوگ دن میں دو تین مرتبہ یا کم و بیش آجاتے تھے۔ یہ سب باتیں وہ حلفاً بیان کر سکتے ہیں۔
پس جلسہ کے دن میری تقریر کا یہی خلاصہ تھا کہ قادیان کے آریوں پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو چکی ہے۔ خاص کر ان دونوں آریوں پر تو بخوبی اتمام حجت ہو چکا ہے جو بہت سے نشانوں کے گواہِ رؤیت ہیں۔ مگر وہ لوگ اس زبردست طاقتوں والے خدا سے نہیں ڈرتے جو ایک دم میں معدوم کر سکتا ہے۔ اور جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں اس پیشگوئی کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی کہ جو اُسی کتاب براہین احمدیہ میں درج تھی اور اسی زمانہ میں جس کو قریباً چھبیس۲۶ برس گزر ؔ چکے ہیں تمام پنجاب و ہندوستان میں شائع ہو چکی تھی۔ یعنی یہ کہ دشمن بہت زور لگائیں گے کہ تا یہ عروج اور یہ نشان اور یہ رجوع خلائق ظہور میں نہ آوے اور لوگ مالی مدد نہ کریں لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ اپنی پیشگوئی کو پوری کرے گا۔ اور وہ سب نامراد رہیں گے۔ اور یہ پیشگوئیاں نہ صرف عربی میں ہیں بلکہ عربی میں‘ اردو میں‘ انگریزی میں‘ فارسی میں‘ عبرانی میں‘ براہین احمدیہ میں موجود ہیں۔
اور پھر جب چند سال کے بعد ان پیشگوئیوں کے آثار شروع ہونے لگے تو مخالفوں میں روکنے کے لئے جوش پیدا ہوا۔ قادیان میں لالہ ملاوا مل نے لالہ شرمپت کے مشورہ سے اشتہار دیا جس کو قریباً دس۱۰ برس گذر گئے۔ اس اشتہار میں میری نسبت یہ لکھا کہ یہ شخص محض مکّار فریبی ہے اور صرف دوکاندار ہے لوگ اِس کا دھوکہ نہ کھاویں۔ مالی مدد نہ کریں۔ ورنہ اپنا روپیہ ضائع کریں گے۔ اس اشتہار سے ان آریوں کا مدعا یہ تھا کہ تا لوگ رجوع سے
منکر ہوگئے ہیں جن کو کہ وہ دیکھ چکے ہیں۔ صرف آریہ اخبار کے حوالہ سے یہ لکھتا ہوں۔ اور میں نہیں امید رکھتا کہ کوئی انسان ایسا خدا تعالیٰ سے بے خوف ہو جائے کہ اپنی رؤیت کی گواہیوں سے منکر ہو جائے۔ ہر ایک شخص کا آخر خدا تعالیٰ سے معاملہ ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 426
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 426
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/426/mode/1up
باز آجاویں۔ اور مالی امداد سے منہ پھیر لیں۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ اُس اشتہار کے زمانہ میں میری جماعت ساٹھ۶۰ یا ستر۷۰ آدمی سے زیادہ نہ تھی۔ چنانچہ یہ امر سرکاری رجسٹروں سے بھی بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ اُسؔ زمانہ میں زیادہ سے زیادہ تیس یا چالیس روپیہ ماہوار آمدنی تھی۔ مگر اس اشتہار کے بعد گویا مالی امداد کا ایک دریا رواں ہوگیا۔ اور آج تک کئی لاکھ لوگ بیعت میں داخل ہوئے اور اب تک ہرایک مہینہ میں پانسو کے قریب بیعت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ انسان خدا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ میرا بیان بغیر کسی ثبوت کے نہیں۔ ملاوامل کا اشتہار اب تک میرے پاس موجود ہے جو لالہ شرمپت کے مشورہ سے لکھا گیا تھا۔ سرکاری مہمان شماری تو ہمارے سلسلہ کے لئے مقرر ہی ہے۔ پس اس اشتہار کی تاریخ اشاعت پڑھو اور پھر دوسری طرف سرکاری کاغذات کے ذریعہ سے اس زمانہ اور بعد کے زمانہ کا مقابلہ کرو کہ اشتہار سے پہلے کس قدر مہمان آتے تھے۔ کس قدر روپیہ آتا تھا۔ اور بعد میں کس قدر خدا کی مدد شامل ہوگئی۔ یہ امر منی آرڈر کے رجسٹروں اور کاغذات مہمان شماری سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ اُس زمانہ میں جبکہ ملاوامل نے اشتہار شائع کیا کس قدر میری جماعت تھی یعنی ان کاغذات سے جو پولس کی معرفت گورنمنٹ میں پہنچے ہیں بخوبی فیصلہ ہو سکتا ہے اور صفائی سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ ملاوامل نے لوگوں کو روکنے کے لئے اشتہار دیا کس قدر میری جماعت تھی اور ؔ کس قدر روپیہ آتا تھا اور پھر بعد میں کس قدر ترقی ہوئی۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس قدر ترقی ہوئی کہ جیسا ایک قطرہ سے دریا بن جاتاہے۔ اور یہ ترقی بالکل غیر معمولی اور معجزانہ تھی۔ حالانکہ نہ صرف ملاوا مل نے بلکہ ہرایک دشمن نے اس ترقی کو روکنے کے لئے پورا زور لگایا اور چاہا کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہو۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دوسری پیشگوئی پوری ہوگئی یعنی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے فرمایا تھا دشمن لوگوں کے رجوع کو روک نہ سکے۔
اگر انسان حیا اور شرم کا کچھ مادہ اپنے اندر رکھتا ہو تو یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ عمیق در عمیق غیب کی باتیں جو خدائی قدرتوں سے پُر ہیں انسانی طاقتوں سے بالاتر ہیں اور سوچ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 427
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 427
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/427/mode/1up
سکتا ہے کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو انسانوں کی مخالفانہ کوششیں ضرور کارگر ہو جاتیں۔ اِن اشتہاروں کا اگر کچھ نتیجہ ہوا تو یہ ہوا کہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو خدا تعالیٰ نے پہلے سے فرمایا تھا کہ دشمن جان توڑ کر زور لگائیں گے کہ عروج اور نصرتِ الٰہی اور رجوعِ خلائق کی پیشگوئی پوری نہ ہو مگر وہ پوری ہو جائے گی۔ اور عجیب بات ہے کہ صرف ملاوا مل نے ہی زور نہیں لگایا بلکہ آریہ صاحبوؔ ں کا وہ پنڈت جس کی جان کو خدا کی پیشگوئی نے لے لیا یعنی لیکھرام وہ بھی اپنی ناچیز عمر کا حصہ انہیں تحریروں میں کھو گیا کہ تا براہین احمدیہ کی وہ پیشگوئی پوری نہ ہو جو براہین احمدیہ میں لاکھوں انسانوں کے رجوع اور لاکھوں روپے کی آمدن کے بارہ میں شائع ہو چکی تھی۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے پانچ برس پہلے خبر دی تھی کہ وہ اپنی بدزبانی کی پاداش میں چھ۶ برس کی میعاد میں قتل کیا جائے گا۔ وہ بدنصیب اُس پیشگوئی کو پورا کر کے راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔
ایسا ہی عیسائیوں نے بھی اس پیشگوئی کو روکنے کیلئے بہت زور لگایا اور اُن کے اشتہار بھی اب تک میرے پاس موجود ہیں۔ پھر مسلمان جن کا حق تھا اور جن کا فخر تھا کہ مجھے قبول کرتے انہوں نے بھی اس پیشگوئی کے روکنے کے لئے جو براہین احمدیہ میں میری آئندہ ترقی اور اقبال اور رجوع خلائق کی نسبت چھبیس۲۶ برس سے درج تھی اور تخمیناً پینتیس۳۵ برس سے زبانی شائع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ ناخنوں تک زور لگایا۔ یہاں تک کہ مَیں خیال کرتا ہوں کہ ایک لاکھ سے زیادہ پرچہ ان کی طرف سے ایسا نکلا ہوگا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ شخص کافر ہے۔ دجّاؔ ل ہے۔ بے ایمان ہے کوئی اس کی طرف رُخ نہ کرے اور کوئی اس کی مدد نہ کرے بلکہ کوئی مصافحہ اور السلام علیکم نہ کرے اور جب مر جائے تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے مگر ان اشتہاروں کی کیسی اُلٹی تاثیر ہوئی جس سے خدا تعالیٰ کی قدرت نظر آتی ہے کہ ان کے بعد کئی لاکھ آدمیوں نے میری بیعت کر لی اور کئی لاکھ روپیہ آیا اور دوسرے بے شمار تحائف ہر طرف سے آئے۔ اور خدا کی غیرت اور قدرت نے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 428
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 428
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/428/mode/1up
ان کے منہ پر وہ طمانچے مارے کہ ہر ایک میدان میں ان کو شکست نصیب ہوئی ۔اور ہر ایک مباہلہ میں موت یا ذلّت اُن کے حصّہ میں آئی۔ یہ تمام اشتہارات جو آریوں کی طرف سے نکلے اور عیسائیوں کی طرف سے اور مسلمانوں کی طرف سے شائع ہوئے میرے چند صندوقوں میں موجود ہیں جن میں ہزارہا گالیوں کے ساتھ جو چوہڑوں چماروں کی گالیوں سے بڑھ کر ہیں۔ مجھے مکّار۔ فریبی۔ ٹھگ۔ دجّال۔ دہریہ اور بے ایمان کر کے یاد کیا گیاہے اور اس لئے جمع رکھے گئے تا کسی کو انکار نہ ہو سکے۔
جب میں ایک طرف براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی دیکھتا ہوں کہ اگرچہ تُو اب اکیلا ہے۔ تیرے ساتھ کوئی بھی نہیں مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہؔ لاکھوں انسان تیرے ساتھ ہو جائیں گے اور اپنے عزیز مالوں سے تیری مدد کریں گے۔ اور ہر ایک قوم کے دشمن زور لگائیں گے کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہو مگر مَیں ان کو نامراد رکھوں گا۔ اور مَیں تجھے ہر ایک تباہی سے بچاؤں گا اگرچہ کوئی بچانے والا نہ ہو۔ اور دوسری طرف اس پیشگوئی کے مطابق ہر ایک قوم کے دشمنوں کا پیشگوئی کے روکنے کے لئے پوری کوشش کا مشاہدہ کرتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ باوجود دشمنوں کی سخت مزاحمت کے آخر وہ پیشگوئی ایسی پوری ہو گئی کہ اگر آج وہ تمام بیعت کرنے والے ایک وسیع میدان میں جمع کئے جائیں تو ایک بڑے بادشاہ کے لشکر سے بھی زیادہ ہوں گے۔ تو اس موقعہ پر مجھے وجد سے رونا آتا ہے کہ ہمارا خدا کیسا قادر خدا ہے کہ جس کے منہ کی بات کبھی ٹل نہیں سکتی گو تمام جہان دشمن ہو جائے اور اس بات کو روکنا چاہے۔
یہ وہ بیان تھا جو اس جلسہ میں مَیں نے کیا تھا۔ اب مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا قادیان کے ہندوؤں کو اس پیشگوئی اور اس کے پورے ہونے کی کچھ خبر نہیں؟ کیا لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل اِس پیشگوئی سے بے خبر ہیں؟ اور کیا آریہ صاحبان اپنے مذہب میں اس کی کوئی ثابت شدہ نظیر بتلا سکتے ہیں؟ اور کیا وہ اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ جس زمانہ میں یہؔ پیشگوئی شائع کی گئی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 429
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 429
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/429/mode/1up
اس زمانہ میں میری طرف کسی کو رجوع نہ تھا۔ *** ہے وہ شخص جو جھوٹ بولے اور مُردار ہے وہ کمینہ جو سچ کو چھپاوے۔ ایسے انسان اگرچہ زبان سے کہیں کہ خدا ہے لیکن درحقیقت وہ خدا سے منکر ہی ہوتے ہیں۔ مگر خدا اپنی طاقتوں سے ظاہر کرتا ہے کہ مَیں موجود ہوں۔ مَیں آج سے نہیں بلکہ قدیم سے جانتا ہوں کہ عموماً قادیان کے ہندو سخت اسلام کے دشمن اور تاریکی سے پیار کرتے ہیں۔ وہ نور کو دیکھ کر اَور بھی تاریکی کی طرف دوڑتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک خدا نہیں۔ اور خدا نے اُن کو لیکھرام کا بڑا نشان دکھایا تھا لیکن انہوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اور یہ کس قدر صاف نشان تھا جس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ لیکھرام طبعی موت سے نہیں مرے گا بلکہ وہ چھ۶ سال کے اندر قتل کیا جاوے گا۔ اور عید کے دن کے بعد جو دن ہوگا اُس میں یہ واقعہ ہوگا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور اس پیشگوئی کی ِ بنا صرف یہ تھی کہ وہ مذہب اسلام کو جھوٹا سمجھتا تھا۔ اور بہت بدزبانی کرتا تھا اور گالیاں دیتا تھا۔ پس خدا نے مجھ کو اطلاع دی کہ وہ تو گوشت یعنی زبان کی چُھری اسلام پر چلا رہا ہے مگر خدا تعالیٰ لوہے کی چھُری سے اس کا کام تمام کرے گا سو ایسا ہی وقوع میں آیا ۔اور مَیں نے اشتہار دیا تھا کہ اے آریو! اگر تمہارے پرمیشر میں کچھ شکتی ہے تو اُؔ س کی جناب میں دُعا اور پرارتھنا کر کے لیکھرام کو بچالو مگر تمہارا پرمیشر اُس کو بچا نہ سکا۔ اور اُس نے میری نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ یہ شخص تین برس تک مر جائے گا۔ خدا نے اس کی پیشگوئی جھوٹی ثابت کی اور ہماراخدا غالب رہا۔ پھر اُس نے اپنی کتاب خبط احمدیہ میں میرے ساتھ مباہلہ کیا۔ یعنی دُعا کی کہ ہم دونوں میں سے جس کا جھوٹا مذہب ہے وہ مر جائے۔ آخر وہ اس دُعا کے بعد آپ ہی مر گیا اور اس بات پر مُہر لگا گیا کہ آریہ مذہب سچا نہیں ہے اور اسلام سچا ہے۔ اور اُس نے اپنے مرنے سے میری نسبت یہ بھی گواہی دے دی کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں۔
ہمیں یہ افسوس کبھی فراموش نہیں ہوگا کہ لیکھرام کی اس موت کا اصل باعث قادیان
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 430
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 430
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/430/mode/1up
کے ہندو ہی ہیں۔ وہ محض ناواقف تھا۔ اور جب وہ قادیان میں آیا تو قادیاں کے ہندوؤں نے میری نسبت اس کو یہ کہا کہ یہ جھوٹا اور فریبی ہے۔ ان باتوں کوسُن کر وہ سخت دلیر ہوگیا۔ اور سخت بگڑ گیا۔ اور اپنی زبان کو بدگوئی میں چُھری بنا لیا۔سو وہی چُھری اس کا کام کر گئی۔ خدا کے برگزیدہ اور پاک نبی کو گالیاں دینا اور سچے کو جھوٹا قرار دینا آخر انسان کو سزا کے لائق کر دیتا ہے۔ اگر لیکھرام*نرمی اور تواضع اختیار کرتا تو بچایا جاتا۔ کیونکہ خدا کرؔ یم و رحیم ہے۔ اور سزا دینے میں دھیما ہے۔ مگر ان لوگوں نے اس کو بڑا دھوکہ دیا۔ مَیں جانتا ہوں کہ اس کی موت کا گناہ قادیان کے ہندوؤں کی گردن پر ہے اور مجھے افسوس ہے
اس جگہ یہ واقعہء قدرت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کی نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ وہ اگر
حق کی طرف رجوع نہیں کرے گا تو پند۱۵رہ مہینے میں مر جائے گا۔ اور لیکھرام کی نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ وہ چھ۶ سال کے اندر قتل کیا جائے گا۔ پھر چونکہ عبداللہ آتھم پیشگوئی کے دنوں میں بہت روتا رہا اور اس کے دل پر حق کی عظمت غالب آگئی اور اُس نے اس مدّت میں کوئی بُرا لفظ زبان سے نہ کہا۔ اس لئے خدا نے جو رحیم وکریم ہے اُس کی میعاد کو بڑھا دیا اور ؔ وہ کچھ اور قلیل مدت تک زندہ رہ کر مر گیا۔ مگر لیکھرام نے پیشگوئی سُننے کے بعد زبان درازی شروع کی جیسا کہ سفلہ ہندوؤں کی عادت ہے اس لئے اس کی اصل میعاد بھی پوری نہ ہونے پائی اور ابھی میعاد میں ایک سال باقی تھا جو پیشگوئی کے مطابق قتل کیا گیا۔ ایسا ہی احمد بیگ کی نسبت پیشگوئی پوری ہونے کے بعد یعنی اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں نے بہت غم اور خوف ظاہر کیا۔ اسؔ لئے خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اس کے داماد کی موت میں تاخیر ڈال دی۔ کیونکہ تمام نبیوں کی زبانی خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جب کسی بَلا کے نازل ہونے کی کسی کی نسبت کوئی پیشگوئی ہو اور وہ لوگ ڈر جائیں اور دل ان کا خوف سے بھر جائے اور خدا تعالیٰ سے دُعا یا صدقہ خیرات سے رحم چاہیں تو خدا تعالیٰ رحم کرتا ہے۔ اور اسی اصول کے موافق ہر ایک قوم کے لوگ کسی بلا کے وقت صدقہ خیرات کیا کرتے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 431
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 431
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/431/mode/1up
کہ ان لوگوں نے اُس سے بہت ہی بُرا سلوک کیا۔ یہ لوگ زبان سے تو کہتے ہیں کہ پرمیشر ہے مگر مَیں نہیں قبول کرتا کہ اُن کے دل پرمیشر پر ایمان لاتے ہیں۔ اُن کا عجیب مذہب ہے کہ جس قدر زمین پر پیغمبر گذرے ہیں سب کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور جھوٹا جانتے ہیں گویا صرف چھوٹا سا ملک آریہ ورت کا ہمیشہ خدا کے تخت کی جگہ رہی ہے اور دوسرے ملکوں سے خدا نے کچھ تعلق نہیں رکھا یا اُن سے بے خبر رہا ہے۔ مگر خدا نے قرآن شریف میں یہ فرمایا ہے کہ ہر ایک ملک میں اس کے پیغمبر آتے رہے ہیں۔ ایسا ہی ہند میں بھی خدا کے پاک پیغمبر اور اس کا کلام پانے والے گذرے ہیں۔ اور ایساہی چاہیئے تھا۔ کیونکہ خدا تمام ملکوں کا ہے نہ صرف ایک ملک کا۔ نہ معلوم کس شیطان نے ان لوگوں کے دلوں میں یہ پھونک دیا ہے کہ بجز وید کے خدا کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں۔ اورنعوذ باللہ خدا کا نبی موسٰی اور خدا کا پیارا عیسٰی اور خدا کا برگزیدہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب جھوٹے اور مکّار گذرے ہیں۔ ہماری شریعت صلح کا پیغام ان کو دیتی ؔ ہے۔ اور ان کے ناپاک اعتقاد جنگ کی تحریک کر کے ہماری طرف تیر چلا رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے بزرگوں کو مکّار اور جھوٹا مت کہو مگر یہ کہو کہ ہزارہا برسوں کے گذرنے کے بعد یہ لوگ اصل مذہب کو بھول گئے۔ مگر بمقابل ہمارے یہ ناپاک طبع لوگ ہمارے برگزیدہ نبیوں کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور ان کومفتری اور جھوٹا سمجھتے ہیں۔ کیا کوئی توقع کر سکتا ہے کہ ایسے ہندوؤں سے صلح ہو سکے۔ ان لوگوں سے بہتر سناتن دھرم کے اکثر نیک اخلاق لوگ ہیں جو ہر ایک نبی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور فروتنی سے سرجھکاتے ہیں۔ میری دانست میں اگر جنگلوں کے درندے اور بھیڑیئے ہم سے صلح کر لیں اور شرارت چھوڑ دیں تو یہ ممکن ہے مگر یہ خیال کرنا کہ ایسے اعتقاد کے لوگ کبھی دل کی صفائی سے اہل اسلام سے صلح کرلیں گے ۔۔۔۔۔۔ سراسر باطل ہے بلکہ اُن کا اِن عقیدوں کے ساتھ مسلمانوں سے سچّی صلح کرنا ہزاروں محالوں سے بڑھ کر محال ہے۔ کیا کوئی سچا مسلمان برداشت کر سکتا ہے جو
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 432
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 432
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/432/mode/1up
اپنے پاک اور بزرگ نبیوں کی نسبت ان گالیوں کو سُنے اور پھر صلح کرلے؟ ہرگز نہیں۔
پس اِن لوگوں کے ساتھ صلح کرنا ایسا ہی مضر ہے جیسا کہ کاٹنے والے زہریلے سانپ کوؔ اپنی آستین میں رکھ لینا۔ یہ قوم سخت سیہ دل قوم ہے جو تمام پیغمبروں کو جو دنیا میں بڑی بڑی اصلاحیں کر گئے مفتری اور کذاب سمجھتے ہیں۔ نہ حضرت موسیٰ ان کی زبان سے بچ سکے نہ حضرت عیسٰی اور نہ ہمارے سید و مولیٰ جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے سب سے زیادہ دنیا میں اصلاح کی۔ جن کے زندہ کئے ہوئے مُردے اب تک زندہ ہیں۔
خدا جو غائب ہے اُس کی ذات کا ثبوت صرف ایک گواہی سے کیونکر مل سکتا ہے اس لئے خدا نے دنیا میں ہر ایک قوم میں ہر ایک ملک میں ہزاروں نبی پیدا کئے اور وہ ایسے وقتوں میں آئے کہ جبکہ زمین لوگوں کے گناہوں سے پلید ہو چکی تھی۔ انہوں نے بڑے نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وجود کا ثبوت دیا اور اُس کی عظمت دلوں میں بٹھائی اور نئے سرے زمین کو زندہ کیا۔ مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ بجز وید کے کوئی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئی۔ اور تمام نبی جھوٹے تھے اور ان کا تمام دَور مکر اور فریب کا دَور تھا۔ حالانکہ وید اب تک آریہ ورت کو شرک اور بُت پرستی اور آتش پرستی سے صاف نہیں کر سکا۔
غرض یہ لوگ اُن نبیوں کی تکذیب میں جن کی سچاؔ ئی سورج کی طرح چمکتی ہے حد سے بڑھ گئے ہیں۔ خدا جو اپنے بندوں کے لئے غیرت مند ہے ضرور اس کا فیصلہ کرے گا۔ وہ ضرور اپنے پیارے نبیوں کے لئے کوئی ہاتھ دکھلائے گا۔ ہم ان لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کرتے۔ وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ ہم ان کو دُعا دیتے ہیں وہ ہمیں تیر مارتے ہیں اور خدائے عزّوجلّ کی قسم ہے کہ اگر یہ لوگ تلوار کے زخم سے ہمیں مجروح کرتے تو ہمیں ایسا ناگوار نہ ہوتا جیسا کہ ان کی ان گالیوں سے جو ہمارے برگزیدہ نبیوں کو دیتے ہیں ہمارے دل پاش پاش ہوگئے۔ ہم یہ گالیاں سُن کر
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 433
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 433
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/433/mode/1up
اُن ناپاک طبع اوردنیا کے کیڑوں کی طرح مداہنہ نہیں کر سکتے جو کہتے ہیں کہ ہم ان تمام لوگوں کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر اُن کے باپوں کو گالیاں دی جاتیں تو ایسا ہرگز نہ کہتے۔ خدا ان کا اور ہمارا فیصلہ کرے۔ یہ عجیب مذہب ہے۔ کیا اس قوم سے کسی بھلائی کی اُمید ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ لوگ اسلام بلکہ تمام نبیوں کے خطرناک دشمن ہیں۔ ان کے گالیوں کے بھرے ہوئے رسالے ہمارے پاس موجود ہیں۔
اب ہم اپنے اصل مقصود کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ قادیان کے آریہ اخبار میں جو لالہ شرمپت برادر لالہ بسمبرداس کے حوالہ سے لکھا گیا ہے کہ ہم نے کوئی نشان آسمانی اس ؔ راقم کا نہیں دیکھا۔ یہ اس قسم کا جھوٹ ہے کہ اگر کوئی انسان گندی سے گندی نجاست کھالے تو ایسی نجاست کھانا بھی اس جھوٹ سے کمتر ہے۔ ان باتوں کو سُن کر یقین آتا ہے کہ اِس قدر جھوٹ بولنے والے کو اپنے پرمیشر پر ایمان نہیں اور وہ ہرگز نہیں ڈرتاکہ جھوٹ کا کوئی بُرا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ چونکہ مَیں نے کئی کتابوں میں لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل ساکنانِ قادیان کی نسبت لکھ دیا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں آسمانی نشان میرے دیکھے ہیں بلکہ بیسیوں نشان دیکھے ہیں اور وہ کتابیں آج تک کروڑہا انسانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ پس اگر انہوں نے مجھ سے آسمانی نشان نہیں دیکھے تو اس صورت میں مجھ سے زیادہ دنیا میں کون جھوٹا ہوگا اور میرے جیسا کون ناپاک طبع اور مفتری ہوگا جس نے محض افترا اور جھوٹ کے طور پر ان کو اپنے نشانوں کا گواہ قرار دے دیا۔ اور اگر مَیں اپنے دعوے میں سچا ہوں تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر میری اَور کیا بے عزّتی ہوگی کہ ان لوگوں نے اخباروں اور اشتہاروں کے ذریعہ سے مجھے جھوٹا اور افترا کرنے والا قرار دیا۔ دُور کے لوگ کیا جانتے ہیں کہ اصلیت کیا ہے بلکہ اس عداوت کی وجہ سے کہ جواکثر لوگوں کی میرے ساتھ ہے ان لوگوں کو سچا سمجھیں گے اور گھر کی گواہی خیاؔ ل کریں گے اوراس طرح پر اور بھی اپنی عاقبت خراب کرلیں گے۔ پس چونکہ مَیں اس بے عزّتی کو برداشت نہیں کر سکتا اور نیز اس سے خدا کے قائم کردہ سلسلہ پر نہایت
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 434
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 434
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/434/mode/1up
بد اثر ہے اس لئے مَیں اوّل تو لالہ شرمپت اور ملاوا مل کو مخاطب کرتا ہوں کہ وہ خدا کی قسم کے ساتھ مجھ سے فیصلہ کرلیں۔ اور خواہ مقابل پر اور خواہ تحریر کے ذریعہ سے۔ اِس طرح پر خدا کی قسم کھائیں کہ فلاں فلاں نشان جو نیچے لکھے گئے ہیں ہم نے نہیں دیکھے اور اگر ہم جھوٹ بولتے ہیں تو خدا ہم پر اور ہماری اولاد پر اس جھوٹ کی سزا نازل کرے۔ اور وہ نشان آسمانی بہت سے ہیں جو براہین احمدیہ میں لکھے گئے ہیں۔ لیکن اس قَسم کے لئے سب نشانوں کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔
(۱) لالہ شرمپت کے لئے یہ کافی ہے کہ اوّل تو اس نے میرا وہ زمانہ دیکھا جبکہ وہ میرے ساتھ اکیلا چند دفعہ امرتسر گیا تھا۔ اور نیز براہین احمدیہ کے چھپنے کے وقت وہ میرے ساتھ ہی پادری رجب علی کے مکان پر کئی دفعہ گیا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس وقت مَیں ایک گمنام آدمی تھا۔ میرے ساتھ کسی کو تعلق نہ تھا۔ اور اس کو خوب معلوم ہے کہ براہین احمدیہ کے چھپنے کے زمانہ میں یعنی جبکہ یہ پیشگوئی ایک دنیا کے رجوع کرنے کے بارے میںؔ براہین احمدیہ میں درج ہو چکی تھی مَیں صرف اکیلا تھا۔ تو اب قسم کھاوے کہ کیا یہ پیشگوئی اُس نے پوری ہوتی دیکھ لی یا نہیں؟ اور قسم کھا کر کہے کہ کیا اُس کے نزدیک یہ کام انسان سے ہو سکتا ہے کہ اپنی ناداری اور گمنامی کے زمانہ میں دنیا کے سامنے قطعی اور یقینی طور پر یہ پیشگوئی پیش کرے کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ تیرے پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ تو گمنام نہیں رہے گا۔ لاکھوں انسان تیری طرف رجوع کریں گے اور کئی لاکھ روپیہ تجھے آئے گا۔ اور قریباً تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ تو مشہور کیا جائے گا۔ اور پھر اس پیشگوئی کو خدا پوری کردے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اُس نے مجھ پر افترا کیا ہے اور جھوٹ بولا ہے اور جھوٹ کی نجاست کھائی ہے۔ اور نیز خدا اپنی پیشگوئیوں کے موافق ہر ایک مزاحم کو نامراد رکھے۔ اور لالہ شرمپت قسم کھا کر کہے کہ کیا اس نے یہ پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ لی یا نہیں؟ اور کیا اس کے پاس کوئی ایسی نظیر ہے کہ کسی جھوٹے نے خدا کا نام لے کر ایسی پیشگوئی کی ہو اور وہ پوری ہوگئی ہو۔ اور چاہئے کہ اس نظیر کو پیش کرے۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 435
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 435
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/435/mode/1up
(۲) دوسری قسم کھا کر یہ بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ اس کا بھائی بسمبر داس مع خوشحال برہمن کسی فوجداری مقدمہ میں سزایاب ہو کر دونوں قید ہوگئے تھے تو اُس وقت اس ؔ نے مجھ سے دُعا کی درخواست کی تھی۔ اور مَیں نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر اسے یہ بتلایا تھا کہ میری دُعا سے آدھی قید بسمبرداس کی تخفیف کی گئی۔ اور اسے مَیں نے کشفی حالت میں دیکھا ہے کہ مَیں اس دفتر میں پہنچا ہوں جہاں اس کی سزا کا رجسٹر ہے۔ اور مَیں نے اپنی قلم سے آدھی سزا کاٹ دی ہے مگر خوشحال برہمن کی سزانہیں کاٹی بلکہ اس کی سزا پوری رکھی کیونکہ اس نے مجھ سے دُعا کی درخواست نہیں کی تھی۔ اور کیا یہ سچ نہیں کہ مَیں نے اِس پیشگوئی کے بتانے کے وقت میں یہ بھی کہا تھا کہ خدا نے مجھے اپنی وحی سے علم دیا ہے کہ چیف کورٹ سے مسل واپس آئے گی اور بسمبر داس کی آدھی قید تخفیف کی جائے گی مگر بری نہیں ہوگا اور خوشحال برہمن پوری قید بھگت کر جیل سے باہر آئے گا اور یہ اُس وقت کہا تھا کہ چیف کورٹ میں بسمبر داس اور خوشحال برہمن کا اپیل ابھی دائر ہی کیا گیا تھا۔ اور کسی کو خبر نہیں تھی کہ انجام کیا ہوگا۔ بلکہ خود چیف کورٹ کے ججوں کو بھی خبر نہیں ہوگی کہ کس حکم کی طرف ہمارا قلم چلے گا۔ اُس وقت مَیں نے بتلایا تھا کہ وہ قادر خدا جس نے قرآن نازل کیا ہے وہ مجھے کہتا ہے کہ مَیں نے تیری دُعا قبول کی۔ اور ایسا ہوگا کہ چیف کورٹ سے مِسل واپس آئے گی اور بسمبر داس کی آدھی قید دُعا کے باعث ؔ سے معاف کی جائے گی مگر بَری نہیں ہوگا۔ اور خوشحال برہمن نہ بَری ہوگا اور نہ اس کی قید میں تخفیف کی جائے گی تا دُعا قبول ہونے کے لئے ایک نشان رہے۔ اور آخر ایساہی ہوا۔ اور مسل چند ہفتوں کے بعد ضلع میں واپس آئی اور بسمبر داس کی آدھی قید تخفیف کی گئی۔ مگر خوشحال برہمن کا قید میں سے ایک دن بھی تخفیف نہ کیا گیا۔ اور دونوں بری ہونے سے محروم رہے۔ اور شرمپت حلف اُٹھا کر یہ بھی بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جب اس طرح پر آخرکار میری پیشگوئی کے مطابق فیصلہ ہوا تو لالہ شرمپت نے میری طرف ایک رقعہ لکھا کہ آپ کی نیک بختی کی و جہ سے خدا نے یہ غیب کی باتیں آپ پر کھول دیں اور دُعا قبول کی۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 436
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 436
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/436/mode/1up
اور لالہ شرمپت قسم کھا کر یہ بھی بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک مدّت تک وہ میرے پاس یہی جھوٹ بولتا رہا کہ میرا بھائی بسمبر داس بَری ہوگیا ہے۔ اور پھر جب حافظ ہدایت علی جو اُن دنوں میں بٹالہ کا تحصیلدار تھا اتفاقاً قادیان میں آیا اور قریباً دس۱۰ بجے کا وقت تھا۔ تب بسمبرداس میرے مردانہ مکان کے نیچے اس کو ملا اور اُس نے بسمبرداس کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم خوش ہوئے کہ تم قید سےَؔ مخلصی پاگئے مگر افسوس کہ تم بَری نہ ہوئے۔ تب مَیں نے شرمپت کو کہا کہ تم کیوں اس قدرمدّت تک میرے پاس جھوٹ بولتے رہے کہ میرا بھائی بسمبرداس بَری ہو گیاہے۔ تو شرمپت نے یہ جواب دیا کہ ہم نے اس لئے اصل حقیقت کو چھپایا کہ اصلیت ظاہر کرنے سے ایک داغ رہ جاتا تھا۔ اور آئندہ رشتوں ناطوں میں ایک رکاوٹ پیدا ہو جاتی تھی اور اندیشہ تھا کہ برادری کے لوگ ہمارے خاندان کو بدچلن خیال کریں۔ اور کیا یہ سچ نہیں کہ جب بسمبرداس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نماز عشاء کے وقت جب میں اپنی بڑی مسجد میں تھا علی محمد نام ایک ملاّں ساکن قادیان نے جواب تک زندہ اور ہمارے سلسلہ کا مخالف ہے میرے پاس آکر بیان کیا کہ اپیل منظور ہوگئی اور بسمبر داس بری ہوگیا اور کہا کہ بازار میں اس خوشی کا ایک جوش برپا ہے۔ تب اس غم سے میرے پروہ حالت گزری جس کو خدا جانتا ہے۔ اس غم سے مَیں محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ مَیں زندہ ہوں یا مر گیا۔ تب اسی حالت میں نماز شروع کی گئی۔ جب مَیں سجدہ میں گیا تب مجھے یہ الہام ہوا لا تحزن انّک انت الاعلٰی۔ یعنی غم نہ کر تجھی کو غلبہ ہوگا۔ تب مَیں نے شرمپت کو اس سے اطلاع دی۔ اور حقیقت یہ ؔ کھلی کہ اپیل صرف لیا گیا ہے یہ نہیں کہ بسمبرداس بَری کیا گیا ہے۔
پس شرمپت قسم کھاکر بتلاوے کہ کیا یہ واقعہ نہیں گزرا؟اور دوسری طرف علی محمد ملّاں بھی قسم کے لئے بلایا جائے گا جو ایک مخالف بلکہ ایک نہایت خبیث مخالف کا بھائی ہے۔
(۳) اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ایک دفعہ چنداسنگھ نام ایک سکھ پر بابت دو درختان
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 437
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/437/mode/1up
تحصیل بٹالہ میں ہماری طرف سے نالش دائر کی گئی تھی کہ اُس نے بغیر اجازت ہماری کے اپنے کھیت سے درخت کاٹ لئے ہیں۔ تب خدا نے میرے دُعا کرنے کے وقت میری دُعا کو قبول فرما کر میرے پر یہ ظاہرکیا تھا کہ ڈگری ہوگئی۔ اور مَیں نے یہ پیشگوئی شرمپت کو بتادی تھی۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ حکم کے وقت ہماری طرف سے عدالت میں کوئی حاضر نہ تھا اور فریق ثانی حاضر ہوگئے تھے۔ قریب عصر کے وقت تھا کہ شرمپت نے ہماری مسجد میں آکر تمسخر کے طور پر مجھے یہ کہا کہ مقدمہ خارج ہوگیا۔ ڈگری نہیں ہوئی۔ تب مجھ پر وہ غم گذرا جس کو مَیں بیان نہیں کر سکتاکیونکہ خدا کا قطعی طور پر کلام تھا۔ مَیں مسجد میں نہایت پریشانی سے بیٹھ گیا اِس خیال سے کہ ایک مشرک نے مجھے شرمندہ کیا۔ اور ؔ مَیں اُس کی اِس خبر سے انکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ قریب پندرہ آدمی کے ہندو اور مسلمان بٹالہ سے یہ خبر لائے تھے۔ اس لئے نہایت درجہ کا غم مجھ پر طاری تھا۔ اتنے میں غیب سے ایک آواز آئی اور وہ نہایت رُعب ناک آواز تھی اس کے الفاظ یہ تھے۔ ’’ڈگری ہوگئی ہے۔ مسلمان ہے؟‘‘ یعنی کیا تُو خدا کے کلام کو باور نہیں کرتا۔ ایسی آواز پہلے اس سے مَیں نے کبھی نہیں سُنی تھی۔ مَیں مسجد کے ہرطرف دوڑا کہ یہ بلند آواز کس کی طرف سے آئی۔ اور آخر معلوم ہوا کہ فرشتہ کی آواز ہے۔ یہ وہی فرشتے ہیں جن سے آج کل کے اندھے آریہ * انکار کرتے ہیں۔تب مَیں نے اُسی وقت شرمپت کو بلایا اور کہا کہ ابھی خدا کی طرف سے مجھے یہ آواز آئی ہے۔ اِس پر اُس نے پھر ہنس دیا اور کہا کہ بٹالہ سے پندرہ سولہ آدمی
نادان آریہ کہتے ہیں کہ خدا کو کسی چٹھی رسان کی کیا حاجت ہے یعنی وہ فرشتوں کا محتاج
نہیں۔پس یہ تو سچ ہے کہ خدا کسی چیز کا محتاج نہیں مگر اس کی عادت میں داخل ہے کہ وہ وسائط سے کام لیتاہے۔ اور وسائط سے کام لینا اس کے عام قانون قدرت میں داخل ہے۔ دیکھو وہ ہوا کے ذریعہ سے کانوں تک آواز پہنچاتا ہے۔ پس جسمانی سلسلہ سے یہ روحانی فعلؔ اس کا عین مطابق ہے جو روحانی کانوں کو اپنی آواز فرشتوں کے ذریعہ سے جو ہوا کے قائم مقام ہیں پہنچاوے اور ضرور ہے کہ جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں باہم مطابق ہوں۔ اور یہی دلیل قرآن شریف نے پیش کی ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 438
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/438/mode/1up
آئے ہیں جو بعض ہندو بعض سکھ اور بعض مسلمان ہیں اور ابھی بعض اُن کے بازار میں موجود ہیں۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ سب جھوٹ بولیں یہ کہہ کر چلا گیا اور مجھے اُس نے اُس وقت ایک دیوانہ سا خیال کیا۔ رات میری سخت بیقراری میں بسر ہوئی۔ صبح ہوتے ہی میں خودبٹالہ گیا۔ تحصیل میں حافظ ہدایت علی تحصیلدار موجود نہ تھا مگر اس کا سررشتہ دار متھرا داس نام موجود تھا جو اب تک زندہ ہوگا۔ مَیں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا ہمارا مقدؔ مہ خارج ہوگیا؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ڈگری ہوئی۔ مَیں نے کہاکہ قادیان کے پندرہ سولہ آدمی جو فریق مخالف اور اس کے گواہ تھے۔ سب نے جاکر یہی بیان کیا ہے کہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ ایک طرح سے انہوں نے بھی جھوٹ نہیں بولا۔ بات یہ ہوئی کہ تحصیلدار کے فیصلہ لکھنے کے وقت میں حاضر نہ تھا۔ کسی کام کے لئے باہر چلا گیا تھا یا شاید یہ کہا تھا کہ مَیں پاخانہ پھرنے کے لئے چلا گیا تھا اور تحصیلدار نیا آیا ہوا تھا اور اُس کو پیچ در پیچ مقدمات کی خبر نہ تھی اور فریق مخالف نے اس کے فیصلہ لکھنے کے وقت ایک فیصلہ صاحب کمشنر کا اُس کے آگے پیش کیا تھا۔ اور اس میں صاحب کمشنر کا یہ حکم تھا کہ چونکہ یہ مزارعہ موروثی ہیں ا س لئے ان کا حق ہے کہ اپنے اپنے کھیت کے درخت ضرورت کے وقت کاٹ لیا کریں۔ مالک کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ تحصیلدار نے اس فیصلہ کو دیکھ کر مقدمہ خارج کر دیا اور جب مَیں آیا تو مجھے وہ اپنا لکھا ہوا فیصلہ دیا کہ شامل مِسل کردو۔ مَیں نے پڑھ کر کہا کہ ان زمینداروں نے آپ کو دھوکہ دیا ہے کیونکہ جس فیصلہ کو انہوں نے پیش کیا ہے وہ صاحب فنانشل کے حکم سے منسوخ ہو چکا ہے۔ اور بموجب اس حکم کے کوئی مزارعہ موروثی ہو ؔ یا غیر موروثی بغیر اجازت مالک کے اپنے کھیت کا درخت نہیں کاٹ سکتا۔ اور مَیں نے مسل میں سے وہ فیصلہ ان کو دکھلا دیا۔ تب تحصیلدار نے فی الفور اپنا پہلا فیصلہ چاک کر دیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا اور دوسرا فیصلہ ڈگری کا لکھا اور کل خرچہ مدعا علیہم کے ذمہ ڈالا۔ فریق ثانی تو خوشی خوشی اپنے حق میں فیصلہ سُن کر قادیان کو چلے گئے تھے اُن کو اس دوسرے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 439
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/439/mode/1up
فیصلہ کی خبر نہ تھی اس لئے انہوں نے وہی ظاہر کیا جو ان کو معلوم تھا۔
غرض مَیں نے واپس آکر یہ سب حال شرمپت کو سُنایا اور مزار عان کو بھی اپنی جھوٹی خوشی پر اطلاع ہوگئی۔ پس اگر لالہ شرمپت اس نشان سے بھی منکر ہے تو چاہیئے کہ قسم کھاکر کہے کہ ایسا کوئی واقعہ ظہور میں نہیں آیا اور ایسا بیان سراسر افترا ہے۔ اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ابھی بہت سے لوگ قادیان میں اُن میں سے زندہ ہوں گے جنہوں نے یہ نشان دیکھا ہے۔
اور سوائے اِس کے بیسیوں اور ایسے آسمانی نشان ہیں جن کا گواہ رؤیت لالہ شرمپت ہے۔ وہ تو بڑی مشکل میں پڑگیا ہے۔ کہاں تک آریہ لوگ اُس سے انکار کرائیں گے۔
(۴) ؔ بھلا لالہ شرمپت قسم کھاکر کہے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب نواب محمد حیات خان سی۔ایس۔آئی۔ معطّل ہوگیا تھا اور کوئی بریّت کی اُمید نہیں تھی اور اُس نے مجھ سے دُعا کی درخواست کی تھی تو میرے پر خدا نے ظاہر کیا تھا کہ وہ بَری کیا جائے گا۔ اور مَیں نے کشفی نظر سے اس کو عدالت کی کُرسی پر بیٹھا دیکھا تھا اور یہ بات مَیں نے اُس کو بتادی تھی اور نہ صرف اُس کو بلکہ بہتوں کو بتائی تھی۔ چنانچہ کشن سنگھ آریہ بھی اس کا گواہ ہے۔ اگر یہ سچ نہیں تو قسم کھاوے۔
(۵) اور پھر لالہ شرمپت قسم کھا کر بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جب پنڈت دیانند نے پنجاب میں آکر بہت شور کیا اور خدا کے برگزیدہ نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کی اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں تحقیر کی۔ اور خدا کے تمام مقدس نبیوں کو سونے کھوٹے کی طرح قرار دیا۔ تب مَیں نے شرمپت کو کہا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ اب اس کی موت کا دن قریب ہے وہ بہت جلد مرے گاکیونکہ اس کا دل مر گیا ہے۔ چنانچہ وہ اس پیشگوئی کے بعد صرف چند دنوں میں ہی اجمیر میں مر گیا اور اپنی حسرتیں اپنے ساتھ لے گیا۔
(۶)ؔ اور نیز شرمپت قسم کھاکر بتلائے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک دفعہ اُس کو اور ملاوامل کو صبح کے وقت یہ الہام بتلایا گیا تھا کہ آج ارباب سرور خان نام ایک شخص کا روپیہ آئے گا اور وہ ارباب محمد لشکر خان کا رشتہ دار ہوگا۔ تب ملاوامل وقت پر ڈاکخانہ میں گیا اور خبر لایا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 440
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/440/mode/1up
کہ سرور خان کا اس قدر روپیہ آیا مگر ساتھ ہی یہ عذر کیا کہ کیونکر معلوم ہو کہ یہ فلاں شخص کا رشتہ دار ہے۔ تب اس کے تصفیہ کے لئے ان کے روبرو مردان میں بابو الٰہی بخش اکونٹنٹ کی طرف خط لکھا گیا تھا جو ان دنوں میں میرے سخت مخالف ہیں۔ اُن کا جواب آیا کہ ارباب سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے۔
(۷) اور کیا یہ سچ نہیں کہ ایک مرتبہ مجھے یہ الہام ہوا تھا کہ ’’اے عمی بازئ خویش کردی۔ و مرا افسوس بسیار دادی۔ ‘‘ اور اُسی دن شرمپت کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جس کا نام اُس نے امین چند رکھا۔ اوراُن دنوں میں میرا بھائی غلام قادر مرحوم بیمار تھا۔ مَیں نے لالہ شرمپت کو کہا کہ آج مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ یہ میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے اور الہامی طور پر میرے بیٹے سلطان احمد کی طرف سے یہ کلمہ ہے اور یا ممکن ہے کہ تیرے بیٹے کی طرف اشارہ ہو جس کا نام تُو نے امین چند رکھا ہے*۔یہ میرا کہنا ہی تھا کہ لالہ شرمپت نے گھر میں جاکر اپنے بیٹے کا نام بدل دیا اورؔ بجائے امین چند کے گوکل چندنام رکھ دیا جو اب تک زندہ موجود ہے۔ مگر چند روز کے بعد میرا بھائی فوت ہوگیا۔اور یہ بات بھی لالہ شرمپت سے حلفاً دریافت کرنی چاہیئے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب گورداسپور میں ایک شخص کرم دین نام نے میرے پر دعویٰ ازالہ حیثیت عرفی عدالت آتما رام اکسٹرا اسسٹنٹ میں دائر کیا ہوا تھا تو مَیں نے لالہ شرمپت کو
اگرچہ مجھے یقین تھا کہ یہ الہام میرے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کے بارے میں ہے اور
یہی مَیں نے اپنے بعض عزیزوں کو بتلا بھی دیا تھا اور خود اپنے بھائی مرحوم کو بھی بتلایا تھا۔ جس سے وہ بہت غمگین ہوئے اور پیچھے سے میں نے افسوس بھی کیا کہ ان کو مَیں نے کیوں بتلایا مگر جب شرمپت نے مجھے خبر دی کہ مَیں نے اپنے بیٹے کا امین چند نام رکھا ہے تو تقدیر الٰہی سے میرے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ ممکن ہے کہ عمی سے مراد امین چند ہو۔ کیونکہ ہندو لوگ امین چند کے نام کو مختصر کر کے اَمی بھی کہہ دیتے ہیں۔ تب اس کے دل میں بہت خوف پیدا ہوا اور اس نے گھر میں جاکر امین چند کی جگہ گوکل چند اپنے لڑکے کا نام رکھ دیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 441
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/441/mode/1up
کہا تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ انجام کار مَیں اس مقدمہ میں بَری کیا جاؤں گا مگر کرم دین سزا پائے گا۔ یہ اُس وقت کی خبر ہے کہ جب تمام آثار اس کے برخلاف تھے اور حاکم کی رائے ہمارے مخالف تھی۔ چنانچہ آتما رام مجوز مقدمہ نے اپنے فیصلہ کے وقت بڑی سختی سے فیصلہ دیا اور ہم پرسات ۷۰۰سو روپیہ جرمانہ کیا۔ اور ناخنوں تک زور لگا کر فیصلہ لکھا۔ اور پھر صاحب ڈویژنل جج کے محکمہ سے جیسا کہ مَیں نے پیشگوئی کی تھی وہ حکم آتما رام کا منسوخ کیا گیا اور صاحب موصوف نے مجھ کو بڑی عزت کے ساتھ بَری کر کے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ جو الفاظ اپیلانٹ نے یعنی میں نے کرم دین کی نسبت استعمال کئے ہیں یعنی کذّاب اور لئیم*کا لفظ ان الفاظ سے کرم دین کی کچھ بھی ازالہ حیثیت عرفی نہیں ہوئی بلکہ اگر ان الفاظ سے بڑھ کر بھی کوئی اور سخت الفاظ اس کے حق میں استعمال کئے جاتے تب بھی وہ ان الفاظ کا مستحق تھا۔ یہ تو میرے حق میں فیصلہ ہوا مگر کرم دین پر پچاؔ 3س روپیہ جرمانہ قائم رہا۔ یہ پیشگوئی نہ صرف مَیں نے لالہ شرمپت کو بتلائی تھی بلکہ مَیں اِس پیشگوئی کو مقدمہ کے وجود سے بھی پہلے اپنی کتاب مواہب الرحمن میں جو ایک عربی زبان میں کتاب ہے شائع کر چکا تھا۔ پس کسی کے لئے ممکن نہیں جو
کرم دین کا بیان تھا کہ کذّاب اس کو کہتے ہیں جو بہت جھوٹ بولنے والا ہو اور ہمیشہ جھوٹ بولتا
ہو۔ اور لئیم اس کو کہتے ہیں جو ولدالزنا ہو اور اس کے خاندان میں ایسا ہی سلسلہ چلا آیا ہو۔ اور اس پر اُس نے کتابیں بھی دکھلائیں مگر ڈویژنل جج نے فرمایا کہ اگر ان الفاظ سے سخت تربھی الفاظ بولے جاتے تب بھی ان سے کرم دین کی کچھ بے عزّتی نہیں تھی۔ یعنی اس کی حالت کے لحاظ سے ابھی یہ الفاظ تھوڑے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 442
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/442/mode/1up
اس سے انکار کر سکے*۔
یہ چند پیشگوئیاں بطور نمونہ مَیں اس وقت پیش کرتا ہوں۔ اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سب بیان صحیح ہے اور کئی دفعہ لالہ شرمپت سُن چکا ہے اور اگر مَیں نے جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میرے لڑکوں پر ایک سال کے اندر اس کی سزا نازل کرے آمین۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ ایسا ہی شرمپت کو بھی چاہئے کہ وہ بھی میری اس قسم کے مقابل پر قسم کھاوے اور یہ کہے کہ اگر مَیں نے اس قسم میں جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میری اولاد پر ایک سال کے اندر اس کی سزا وارد کرے۔ آمین۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبینژ۔
یہ تو شرمپت کی نسبت لکھا گیا اور ملاوا مل اس کا دوست بھی اس میں شریک ہے اس کو چاہیئے کہ اس بات کی قسم کھاوے کہ کیا میرے والد صاحب کی وفات کے بعد الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ مُہر پر کھدوانے کے لئے اُس کوامرتسر مَیں نے نہیں بھیجا تھا؟ اور کیا پانچ روپے اُجرت دے کر وہ مہر نہیں لایا تھا اور کیا اس زمانہ میں اِس عروج اور شان و شوؔ کت اور رجوع خلائق کا نام و نشان تھا؟اور کیا یہ تمام پیشگوئی اس کو نہیں بتائی گئی تھی؟ جس کے لئے وہ بھیجا گیا تھا۔ یعنی اس کو یہ بتایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو یہ خبر ملی تھی کہ شنبہ کے روز آفتاب کے غروب کے بعد میرا والد فوت ہو جائے گااور تجھے کچھ غم نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ مَیں تیرا متکفل رہوں گا اور تیری حاجات پوری کرنے کے لئے مَیں کافی ہوں گا۔ اور یہ تخمیناً پینتیس۳۵ یا چھتیس۳۶ برس کا الہام ہے جبکہ مَیں زاویہ گمنامی میں
یہ پیشگوئی نہ صرف کتاب مواہب الرحمن میں بلکہ اخبار الحکم اور البدر میں بھی وقوع سے پہلے
شائع کی گئی تھی۔منہ
ژ یہ بددعا کا فقرہ اس امر سے لازم ملزوم ہے کہ میری اس دُعا کے مقابل پر شرمپت بھی اپنی
نسبت انہیں الفاظ کے ساتھ بددعا طبع کرا کر کسی اخبار میں شائع کرادے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 443
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/443/mode/1up
ایسا پوشیدہ تھا جیسا کہ ایک ٹکڑہ کسی جوہر کا سمندر کی تہ کے نیچے پوشیدہ ہو۔
دوسری یہ بتاوے کہ کیا وہ ایک مرتبہ مرض دق میں مبتلا نہیں ہواتھا؟ اور اُس کو خواب بھی آچکی تھی کہ ایک زہریلے سانپ نے اس کو کاٹا ہے اور تمام بدن سوج گیا ہے۔ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ میرے پاس آکر رویا تھا اور دعا کے لئے کہا تھا۔ تب میں نے اس کے حق میں دُعا کی تھی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا۔ قلنا یا نار ۔کونی بردًا وسلامًا یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہو جا۔ اور یہ الہام اس کو سُنادیا گیاتھا۔ اور پھر بعد اس کے چند دنوں میں ہی وہ صحت یاب ہوگیا؟
مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں۔ اور اگر یہ جھوٹ ہیں تو خدؔ ا ایک سال کے اندر میرے پر اور میرے لڑکوں پر تباہی نازل کرے اور جھوٹ کی سزا دے۔ آمین۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔
ایسا ہی ملاوا مل کو چاہیئے کہ چند روزہ دنیا سے محبت نہ کرے اور اگر ان بیانات سے انکاری ہے تو میری طرح قسم کھاوے کہ یہ سب افترا ہے اور اگر یہ باتیں سچ ہیں تو ایک سال کے اندر میرے پر اور میری تمام اولاد پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ آمین۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین*۔
اور یاد رہے کہ یہ لوگ اس طرح پر قسم نہ کھائیں گے بلکہ حق پوشی کا طریق اختیار کریں گے اور سچائی کا خون کرنا چاہیں گے۔ تب بھی مَیں امید رکھتا ہوں کہ حق پوشی کی حالت میں بھی خدا ان کو بے سزا نہیں چھوڑے گاژ ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی بے عزّتی خدا کی بے عزّتی ہے
یہ سچ ہے کہ ایک مرتبہ ملاوا مل نے اپنے اشتہار میں میرے نشانوں کے دیکھنے سے انکار کر دیا
تھا مگر اس انکار کا کچھ اعتبار نہیں۔ اکثر لوگ خود غرضی سے ۲؍۲ لے کر عدالتوں میں گواہی کے وقت جھوٹ کی نجاست کھالیتے ہیں۔ تمام مدار ایسی قسم پر ہے جو مَیں نے لکھی ہے اگر یہ لوگ خدا سے بے خوف ہو کر اپنی قوم کو خوش کرنے کے لئے ایسی قسم کھالیں گے تب ان کو معلوم ہوگا کہ خدا بھی ہے۔ منہ
ژ اور اگر وہ راست راست شائع کردیں گے تو مجھے قوی امید ہے کہ وہ خدا سے اس کااجر اور برکت
پائیں گے مگر خدا پسند نہیں کرتا کہ کوئی جھوٹ بول کر سچائی پر پردہ ڈالنا چاہے کہ اس میں وہ خدا کی عزّت اور جلال پر حملہ کرتا ہے اس لئے آخرکار خدا اس کو پکڑتا ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 444
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/444/mode/1up
ملاوامل اس بات کا بھی مجرم ہے کہ اُس نے یہ سب کچھ دیکھ کر پھر مخالفت کر کے اپنے پورے زور اور پوری مخالفت سے ایک اشتہار دیا تھا جس کو دس برس گزر گئے اور لوگوں کو روکا تھا کہ میری طرف رجوع نہ کریں اور نہ کچھ مالی مدد کریں۔ تب اس کے روکنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اشتہار کے بعد کئی لاکھ انسان میرے ساتھ شامل ہوئے اور کئی لاکھ روپیہ آیا۔ مگر پھر بھی اُس نے خدا کے ہاتھ کو محسوس نہ کیا۔
بالآؔ خر ہم اس بات کا لکھنا بہت ہی ضروری سمجھتے ہیں کہ جس پرمیشر کو پنڈت دیانند نے آریوں کے سامنے پیش کیا ہے وہ ایک ایسا پرمیشر ہے جس کا عدم اور وجود برابر ہے۔ کیونکہ وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اگر ایک شخص اپنی آوارگی اور بدچلنی کے زمانہ سے تائب ہو کر اسی اپنے پہلے جنم میں مکتی کو پانا چاہے تو اُس کو اس کی توبہ اور پاک تبدیلی کی وجہ سے مکتی عنایت کرسکے بلکہ اُس کے لئے آریہ اصول کی رُو سے کسی دوسری ُ جون میں پڑ کر دوبارہ دنیا میںآنا ضروری ہے خواہ وہ انسانی جون کو چھوڑ کر کُتّا بنے یا بندر سؤر۔ مگر بننا تو ضرور چاہیئے۔ یہ پرمیشر ہے جس کو دیالو اور سرب شکتی مان کہا جاتا ہے۔ اگر انسان نے اپنی ہی کوشش سے سب کچھ کرنا ہے تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر پرمیشر کا کس بات میں شکر ادا کیا جائے اور جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے بعض حصہ عمر میں ایسا زمانہ بھی آجاتا ہے کہ وہ کسی حد تک نفسانی جوشوں اور خواہشوں کا تابع ہوتا ہے۔ اور کم سے کم یہ کہ غفلت جو گناہوں کی ماں ہے ضرور کسی قدر اس سے حصہ لیتا ہے اور یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ کیا جسمانی پہلو کی رُو سے اور کیا رُوحانی پہلو کی رُوح سے ابتدا میں کمزوری میں پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر اگر خدا کا فضل شامل حال ہو تو آہستہ آہستہ پاکیزگی کی طرف ترقی کرتا ہے۔ پس یہ خوب پر ؔ میشر ہے جس کو انسان کی فطرت کی بھی خبر نہیں۔ اگر اسی طرح مکتی پانا ہے تو پھر مکتی کی حقیقت معلوم۔ ہم اس آزمائش کے لئے نہ صرف ایک آریہ کو مخاطب کرتے ہیں نہ دو کو نہ تین کو بلکہ نہایت یقین اور بصیرتِ تامّہ کی راہ سے کہتے ہیں کہ ہمارے روبرو دوہزار یاد س ہزار یا بیس ہزار یا مثلاً ایک لاکھ ہی آریہ کھڑے ہو کر قسم کھاویں کہ کیا اُن کی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 445
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/445/mode/1up
سوانح عمری ایسی پاک ہے کہ کسی قسم کا اُن سے گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اور کیا وہ آریہ اصولوں کی رُو سے تسلّی رکھتے ہیں کہ وہ مرتے ہی مکتی پا جائیں گے۔ اور پھر جب مخلوقات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی تعداد کو دوسری مخلوقات سے وہ نسبت نہیں جو قطرہ کو دریا کی طرف ہوتی ہے۔ کیونکہ علاوہ ان تمام بے شمار جانوروں کے جو خشکی اور تری میں پائے جاتے ہیں ایسے غیر مرئی جانور بھی کرّۂ ہوا اور پانی میں موجود ہیں جو وہ نظر نہیں آسکتے جیسا کہ تحقیقات سے ثابت ہے کہ ایک قطرہ پانی میں کئی ہزار کیڑے ہوتے ہیں۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ باوجود اس قدر زمانہ اور مدّت دراز گزر نے کے پرمیشر نے مکتی دینے میں ایسی ناقابل کارروائی کی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں کی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پرمیشر کیؔ ہرگز مرضی ہی نہیں کہ کوئی شخص مکتی حاصل کرسکے اور یا یوں کہو کہ وہ مکتی دینے پر قادر ہی نہیں۔ اور یہ بات بہت قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر قادر ہو تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ وہ دائمی نجات یا مکتی نہ دے سکے اور ایسا ہی باوجود دیالو اور قادر ہونے اس کے کے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیوں وہ ایسا چڑچڑا مزاج کاہے کہ ایک ذرا سے گناہ کو بھی بخش نہیں سکتا اور جب تک ایک گناہ کے لئے کروڑہا جونوں میں نہ ڈالے خوش نہیں ہوتا۔ ایسے پرمیشر سے کس بہتری کی اُمید ہو سکتی ہے؟ اور جبکہ ایک شریف طبع انسان اپنے قصورواروں کے قصور ان کی توبہ اور درخواستِ معافی پر بخش سکتا ہے اور انسان کی فطرت میں یہ قوت پائی جاتی ہے کہ کسی خطاکار کی پشیمانی اور آہ وزاری پر اس کی خطا کو بخش دیتا ہے تو کیاوہ خدا جس نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ اس صفت سے محروم ہے؟ نعوذ باللہ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔
پس یہ آریوں کی غلطی ہے کہ اس خدا کو جس کووہ دیالو بھی کہتے ہیں اور سرب شکتی مان بھی سمجھتے ہیں اس کو اس عظیم الشان صفت سے محروم قرار دیتے ہیں۔ اورؔ یادرہے کہ انسان جو سراسر کمزوری میں بھرا ہوا ہے بغیر خدا کی صفت مغفرت کے ہرگز نجات نہیں پا سکتا۔ اور اگر خدا میں صفت مغفرت نہیں تو پھر انسان میں کہاں سے پیدا ہوگئی؟ یاد رہے کہ نجات نہ پانا ایک موت ہے ایسا ہی سچی توبہ کرنا بھی ایک موت ہے۔ پس موت کا علاج موت ہے۔ کیا وہ خدا جو ہرایک چیز پر
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 446
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/446/mode/1up
قادر ہے۔ اُس نے ہماری اِس موت کا کوئی علاج نہیں رکھا۔ اور کیا ہم بے علاج ہی مریں گے؟ ہرگز نہیں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے علاج بھی ساتھ ہی پیدا ہوا ہے۔ اور افسوس سے کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں اور آریوں نے اس اعتقاد میں ایک ہی راہ پر قدم مارا ہے صرف فرق یہ ہے کہ عیسائی تو انسان کے گناہ بخشوانے کے لئے ایک نبی کے خون کی حاجت سمجھتے ہیں۔ اور اگر وہ نہ مارا جاتا تو گناہ نہ بخشے جاتے۔ اور اگر ثابت ہو کہ وہ مارا نہیں گیا۔ جیسا کہ ہم نے ثابت بھی کر دیا ہے اور یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچا دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنی طبعی موت سے فوت ہوا اور ایک دنیا جانتی ہے کہ کشمیر میں اس کی قبر ہے تو اس صورت میں سب تانا بانا کفارہ کا بیکار ہوگیا۔ اور آریہ صاحبان مطلقاً اپنے پرمیشر کو گناہوں کے بخشنے سے قاصر سمجھتے ہیں اورؔ آریہ اور عیسائی اس اعتقاد میں دونوں شریک ہیں کہ خدا خطاکاروں کو اُن کی پشیمانی اور توبہ پر بخش نہیں سکتا۔ اور آریہ صاحبوں نے صرف اسی قدر پر بس نہیں کی بلکہ وہ تو اپنے پرمیشر کو اس بات سے بھی جواب دیتے ہیں کہ وہ انسان کا خالق اور اس کی تمام قوتوں روحانی اور جسمانی کا مبدءِ فیض ہے اور اس طور پر پرمیشر کی شناخت کا دروازہ بھی اُن پر بند ہے۔ کیونکہ وید کی رُو سے پرمیشر کی عادت نہیں ہے کہ کوئی نشان آسمانی دکھاوے اور اس طرح پر اپنے وجود کا پتہ دے۔ اور دوسری طرف وہ ارواح اور ذرات عالم کا پیدا کرنے والا نہیں ہے۔ پس دونوں طرف سے آریہ مذہب کے رُوسے پرمیشر کی شناخت محال ہے۔ علاوہ اس کے جس تعلیم پرناز کیا جاتا ہے نیوگ کا مسئلہ اس کی حقیقت سمجھنے کیلئے ایک عمدہ نمونہ ہے لیکن کیا کسی شریف انسان کی فطرت قبول کر سکتی ہے کہ اُس کی زندگی میں اُس کی جورو جس کو طلاق بھی نہیں دی گئی دوسرے سے ہم بستر ہو جائے۔
علاوہ اس کے جس جاودانی نجات کا انسان طبعاً خواہش مند ہے اور اس کی فطرت میں یہ نقش کر دیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کی لذّت اورآرام کا طالب ہو اس جاودانی نجات سے یہ مذہب منکر ہے اور اپنے پرمیشر کے لئے یہ تجویز کرتے ہیں کہؔ گویا وہ ایک محدود مدّت کے بعد اپنے بندوں کو مکتی خانہ سے باہر نکال دیتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ دنیا کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور پرمیشر ارواح کا خالق نہیں اس لئے پرمیشر کے لئے یہ مصیبت پیش آئی کہ اگروہ تمام روحوں کو ہمیشہ کی نجات دے دیوے تو اس سے سلسلہ دنیا کا ٹوٹ جائے گا اور کسی دن پرمیشر معطّل اور خالی ہاتھ رہ جائے گا۔ کیونکہ ہر ایک روح جو ہمیشہ کی مکتی پاکر دنیا سے گئی تو گویا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 447
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/447/mode/1up
وہ پرمیشر کے ہاتھ سے گئی۔ پس اس طرح پر جب روحیں خرچ ہوتی رہیں تو بباعث اس کے کہ پرمیشر کوئی رُوح پیدا نہیں کر سکتا اور آمدن کی سبیل قطعًا بند تو ضرور ایک دن ایسا آجائے گا جبکہ پرمیشر کے ہاتھ میں ایک بھی رُوح نہیں رہے گی تاوہ دنیا میں بھیجی جائے۔ پس اس خیال سے پرمیشر نے یہ پیش بندی اختیار کر رکھی ہے جو ہمیشہ کی مکتی سے رُوحوں کو جواب دے دیا کرتا ہے اور دھکّے دے کر مکتی خانہ سے باہر نکالتا ہے۔
اس جگہ بعض نادان آریہ محض چالاکی سے یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ انسان کے اعمال محدود ہیں اس لئے مکتی بھی محدود رکھی گئی۔ مگر وہ دھوکہ کھاتے ہیں یا دھوکہ دیتے ہیں۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں ہمیشہ کی اطاعت مرکوز ہے۔ نیک آدمی کب کہتے ہیں کہؔ اتنی مدّت کے بعد ہم خدا تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت چھوڑ دیں گے بلکہ اگر بے انتہا مدّت تک ان کو عمر دی جائے تب بھی وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کرتے رہیں گے۔ اس صورت میں اگر وہ جلد مر جائیں تو ان کا کیا گناہ ہے۔ اُن کی نیّت میں تو ہمیشہ کی اطاعت ہے نہ کہ کسی حد تک اور تمام مدار نیّت پر ہے۔ اور موت جو انسان پر آتی ہے یہ خدا کا فعل ہے نہ کہ انسان کا۔
یہ ہیں عقائد آریہ صاحبوں کے جن پر وہ ناز کرتے ہیں۔ چونکہ ان کے خیال میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ ایک گناہ سے بھی بیشمار جونوں کی سزا درپیش ہے۔ اس لئے وہ گناہ سے پاک ہونے کے لئے کوئی کوشش کرنا عبث اور بے سود سمجھتے ہیں۔ اور اُن کے مذہب میں کوئی مجاہدہ نہیں ہے جس کی رُو سے اسی دنیا میں انسان گناہ سے پاک ہو سکے جب تک تناسخ کے ذریعہ سے اور طرح طرح کی جونوں میں پڑنے سے سزا نہ پالے۔ پس ظاہر ہے کہ اس صورت میں کس اُمید پروہ کوئی مجاہدہ کر سکتے ہیں اگر وہ سوچیں۔ اور اگر ان کو روحانی فلاسفی کا کوئی حصہ نصیب ہو تو وہ جلدی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس عقیدہ کی وجہ سے خدائے کریم و رحیم کی رحمت کا دروازہ اپنے پرؔ بند کررہے ہیں۔ وہ توبہ سے صرف چند لفظ مراد لیتے ہیں مگر سچی توبہ درحقیقت ایک موت ہے جو انسان کے ناپاک جذبات پر آتی ہے اور ایک سچی قربانی ہے جو انسان اپنے پورے صدق سے حضرت احدیت میں ادا کرتا ہے اور تمام قربانیاں جو رسم کے طور پر ہوتی ہیں اسی کا نمونہ ہے۔ سو جو لوگ یہ سچی قربانی ادا کرتے ہیں جس کا نام دوسرے لفظوں میں توبہ ہے۔ درحقیقت وہ اپنی سفلی زندگی پر ایک موت وارد کرتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 448
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/448/mode/1up
جو کریم و رحیم ہے اِس موت کے عوض میں دوسرے جہان میں اُن کو نجات کی زندگی بخشتا ہے کیونکہ اس کا کرم اور رحم اس بخل سے پاک ہے جو کسی انسان پر دو موتیں وارد کرے۔ سو انسان توبہ کی موت سے ہمیشہ کی زندگی کو خریدتا ہے اور ہم اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے کو پھانسی پر چڑھانے کے محتاج نہیں ہیں ہمارے لئے وہ صلیب کافی ہے جو اپنی قربانی دینے کی صلیب ہے۔
یا د رہے کہ توبہ کا لفظ نہایت لطیف اور روحانی معنی اپنے اندر رکھتا ہے جس کی غیر قوموں کو خبر نہیں یعنی توبہ کہتے ہیں اس رجوع کو کہ جب انسان تمام نفسانی جذبات کا مقابلہ کرکے اور اپنے پر ایک موت کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ کی ؔ طرف چلا آتا ہے۔ سو یہ کچھ سہل بات نہیں ہے اور ایک انسان کو اُسی وقت تائب کہا جاتا ہے جبکہ وہ بکلّی نفسِ ا ّ مارہ کی پیروی سے دست بردار ہو کر اور ہر ایک تلخی اور ہر ایک موت خدا کی راہ میں اپنے لئے گوارا کر کے آستانۂ حضرتِ احدّ یت پر گر جاتا ہے تب وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اِس موت کے عوض میں خدا تعالیٰ اُس کو زندگی بخشے۔ چونکہ آریہ لوگ صرف بہت سی جونوں کو مدار نجات سمجھ بیٹھے ہیں اس لئے ان کا اس طرف خیال نہیں آتا ہے۔ نہیں جانتے کہ جس طرح میلا کپڑا بھٹی پر چڑھنے سے اور پھر دھوبی کے ہاتھ سے آب شفاف کے کنارہ پر طرح طرح کے صدمات اٹھانے سے آخرکار سفید ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح یہ توبہ جس کے معنے میں بیان کر چکا ہوں انسان کو صاف پاک کر دیتی ہے۔ انسان جب خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں پڑ کر اپنی تمام ہستی کو جلا دیتا ہے تو وہی محبت کی موت اُس کو ایک نئی زندگی بخشتی ہے۔ کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ محبت بھی ایک آگ ہے اور گناہ بھی ایک آگ ہے۔ پس یہ آگ جو محبتِ الٰہی کی آگ ہے گناہ کی آگ کو معدوم کر دیتی ہے۔ یہی نجات کی جڑ ھ ہے۔
اور ؔ نہایت افسوس تو یہ ہے کہ آریہ لوگ اپنے مذہب کی خرابیوں کو نہیں دیکھتے اور اسلام پر بیہودہ اعتراض کرتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ کوئی بھی ان کا ایسا اعتراض نہیں جو ان کے مذہب کے کسی فرقہ کے طریق عمل میں وہ داخل نہیں۔ اب ہم اس رسالہ کو خدا کے نام پر ختم کرتے ہیں۔ الحمدللّٰہ اوّلًا و اٰخرًا ھو مَولانا نعم المولٰی و نعم النصیر۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 449
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/449/mode/1up
نظم
از مصنّف
اسلام سے نہ بھاگو! راہِ ُ ھدیٰ یہی ہے
اے سونے والو جاگو! شمس الضحٰی یہی ہے
مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا
اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے
وہ دِلستاں نہاں ہے کِس رَاہ سے اُس کو دیکھیں
اِن مشکلوں کا یارو مشکل کشا یہی ہے
باطن سِیہ ہیں جن کے اِس دیں سے ہیں وہ منکر
پر اَے اندھیرے والو! دِل کا دِیا یہی ہے
دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں
آخر ہوا یہ ثابت دَارُ الشفا یہی ہے
سب ؔ خشک ہوگئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے
ہر طرف مَیں نے دیکھا بُستاں ہرا یہی ہے
دنیا میں اِس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت
پی لو تم اِس کو یارو آبِ بقا یہی ہے
اِسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج
پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن۔ بَلا یہی ہے
جب کُھل گئی سچائی پھر اُس کو مان لینا
نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے
جو ہو مفید لینا جو بد ہو اس سے بچنا
عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے
مِلتی ہے بادشاہی اِس دیں سے آسمانی
اے طالبانِ دولت ظلِّ ہُما یہی ہے
سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں کا آشیانہ
اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما یہی ہے
سَو سَو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بُلا کر
مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مدّعا یہی ہے
کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ
اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے
یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے تازہ
اے گِرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے
کِس کام کا وہ دیں ہے جس میں نشاں نہیں ہے
دیں کی مرے پیارو زرّیں قبا یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 450
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/450/mode/1up
افسوس آریوں پر جو ہو گئے ہیں شپّر
وہ دیکھ کر ہیں مُنکر ظلم و جفا یہی ہے
معلوم کر کے سب کچھ محروم ہوگئے ہیں
کیا اِن نیوگیوں کا ذہنِ رسا یہی ہے
اِکؔ ہیں جو پاک بندے اِک ہیں دلوں کے گندے
جیتیں گے صادق آخر حق کا مزا یہی ہے
اِن آریوں کا پیشہ ہردم ہے بدزبانی
ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا یہی ہے
پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں ہیں گالی
پر اِن سیہ دلوں کا شیوہ سدا یہی ہے
افسوس سبّ و توہیں سب کا ہوا ہے پیشہ
کس کو کہوں کہ اُن میں ہرزہ درا یہی ہے
آخر یہ آدمی تھے پھر کیوں ہوئے درندے
کیا ُ جون اِن کی بگڑی یا خود قضا یہی ہے
جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے ہے عاری
کِس کِس کا نام لیویں ہر سُو وَبا یہی ہے
لیکھو کی بدزبانی کارد ہوئی تھی اُس پر
پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و خطا یہی ہے
اپنے کئے کا ثمرہ لیکھو نے کیسا پایا
آخر خدا کے گھر میں بَد کی سزا یہی ہے
نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں بھی دینا
کُتّوں سا کھولنا مُنہ تخمِ فنا یہی ہے
میٹھے بھی ہو کے آخر نشتر ہی ہیں چلاتے
اِن تیرہ باطنوں کے دل میں دغا یہی ہے
جاں بھی اگرچہ دیویں ان کو بطور احساں
عادت ہے اِن کی کفراں رنج و عنا یہی ہے
ہندو کچھ ایسے بگڑے دل پُر ہیں بغض و کیں سے
ہر بات میں ہے توہیں طرزِ ادا یہی ہے
جاں بھی ہے اِن پہ قرباں گر دل سے ہوویں صافی
پس ایسے بدکنوں کا مجھ کو گِلا یہی ہے
احوالؔ کیا کہوں میں اس غم سے اپنے دل کا
گویا کہ ان غموں کا مہماں سرا یہی ہے
لیتے ہی جنم اپنا دشمن ہوا یہ فرقہ
آخر کی کیا اُمیدیں جب ابتدا یہی ہے
دل پھٹ گیا ہمارا تحقیر سُنتے سُنتے
غم تو بہت ہیں دل میں پر جاں گزا یہی ہے
دنیا میں گرچہ ہوگی سَو قسم کی بُرائی
پاکوں کی ہتک کرنا سب سے بُرا یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 451
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/451/mode/1up
غفلت پہ غافلوں کی روتے رہے ہیں مُرسل
پر اِس زماں میں لوگو نوحہ نیا یہی ہے
ہم بد نہیں ہیں کہتے اُن کے مقدسوں کو
تعلیم میں ہماری حکمِ خدا یہی ہے
ہم کو نہیں سکھاتا وہ پاک بدزبانی
تقویٰ کی جڑھ یہی ہے صدق و صفا یہی ہے
پر آریوں کے دیں میں گالی بھی ہے عبادت
کہتے ہیں سب کو جھوٹے کیا اتّقا یہی ہے
جتنے نبی تھے آئے موسیٰ ہو یا کہ عیسیٰ
مکّار ہیں وہ سارے اِن کی نِدا یہی ہے
اِک وید ہے جو سچا باقی کتابیں ساری
جھوٹی ہیں اور جعلی اِک رہ نما یہی ہے
یہ ہے خیال اِن کا پَربَتْ بنایا تنکا
پر کیا کہیں جب ان کا فہم و ذکا یہی ہے
کیڑا جو دَب رہا ہے گوبر کی تہ کے نیچے
اُس کے گماں میں اُس کا ارض و سما یہی ہے
ویدوں کا سب خلاصہ ہم نے نیوگ پایا
ان پُستکوں کی رُو سے کارج بَھلا یہی ہے
جسؔ اِستری کو لڑکا پیدا نہ ہو پِیا سے
ویدوں کی رُو سے اُس پر واجب ہوا یہی ہے
جب ہے یہی اشارہ پھر اُس سے کیا ہے چارہ
جب تک نہ ہوویں گیا۱۱رہ لڑکے رَوا یہی ہے
ایشر کے گُن عجب ہیں ویدوں میں اے عزیزو!
اُس میں نہیں مروّت ہم نے سُنا یہی ہے
دے کر نجات و مکتی پھر چھینتا ہے سب سے
کیسا ہے وہ دیالو جس کی عطا یہی ہے
ایشر بنا ہے مُنہ سے خالق نہیں کِسی کا
رُوحیں ہیں سب انادی پھر کیوں خدا یہی ہے
رُوحیں اگر نہ ہوتیں ایشر سے کچھ نہ بنتا
اُس کی حکومتوں کی ساری بِنا یہی ہے
اُن کا ہی مُنہ ہے تکتا ہر کام میں جو چاہے
گویا وہ بادشہ ہیں اُن کا گدا یہی ہے
القصّہ آریوں کے ویدوں کا یہ خدا ہے
اُن کا ہے جس پہ تکیہ وہ بے نوا یہی ہے
اے آریو کہو اب ایشر کے ہیں یہی گُن
جس پر ہو ناز کرتے بولو وہ کیا یہی ہے؟
ویدوں کو شرم کر کے تم نے بہت چھپایا
آخر کو راز بستہ اس کا کُھلا یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 452
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/452/mode/1up
قدرت نہیں ہے جس میں وہ خاک کاہے اِیشر
کیا دینِ حق کے آگے زور آزما یہی ہے
کچھ کم نہیں بتوں سے یہ ہندوؤں کا اِیشر
سچ پوچھئے تو واللہ بُت دوسرا یہی ہے
ہم نے نہیں بنائیں یہ اپنے دل سے باتیں
وید*وں سے اے عزیزو ہم کو مِلا یہی ہے
فطرؔ ت ہر اِک بشر کی کرتی ہے اِس سے نفرت
پھر آریوں کے دِل میں کیونکر بسا یہی ہے
یہ حکم وید کے ہیں جن کا ہے یہ نمونہ
ویدوں سے آریوں کو حاصل ہوا یہی ہے
خوش خوش عمل ہیں کرتے اوباش سارے اِس پر
سارے نیوگیوں کا اِک آسرا یہی ہے]
پھر کس طرح وہ مانیں تعلیم پاک فرقاں
اُن کے تو دل کا رہبر اور مقتدا یہی ہے
جب ہوگئے ہیں ملزم اُترے ہیں گالیوں پر
ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگِ جفا یہی ہے
رُکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے ایک دم بھی
اِن کا تو شغل و پیشہ صبح و مسا یہی ہے
کہنے کو وید والے پر دل ہیں سب کے کالے
پردہ اُٹھا کے دیکھو اُن میں بھرا یہی ہےإ
اس جگہ وید کے لفظ سے وہ تعلیم مراد ہے جو آریہ سماج والوں نے اپنے زعم میں ویدوں کے حوالہ
سے شائع کی ہے۔ ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم وید کی اصل حقیقت کو خدا کے حوالہ کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے اس میں کیا بڑھایا اور کیا گھٹایا جبکہ ہندوستان اور پنجاب میں وید کی پَیروی کا دعویٰ کرنے والے صدہا مذہب ہیں تو ہم کسی خاص فرقہ کی غلطی کو وید پر کیونکر تھوپ سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وید بھی محرف ہو چکا ہے۔ پس بوجہ تحریف اس سے کسی بہتری کی امید بھی لاحاصل ہے۔ منہ
] یاد رہے کہ وید کی تعلیم سے مراد ہماری اس جگہ وہ تعلیمیں اور وہ اصول ہیں جن کو آریہ لوگ اس جگہ ظاہر
کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیوگ کی تعلیم وید میں موجود ہے۔ اور بقول ان کے وید بلند آواز سے کہتا ہے کہ جس کے گھر میں کوئی اولاد نہ ہو یا صرف لڑکیاں ہوں تو اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اجازت دے کہ وہ دوسرے سے ہم بستر ہو اور اس طرح اپنی نجات کے لئے لڑکا حاصل کرے۔ اور گیارہ لڑکے حاصل کرنے تک یہ تعلق قائم رہ سکتا ہے۔ اور اگر اس کا خاوند کہیں سفر میں گیا ہو
إ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور صلاحیت اور شرافت
رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 453
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/453/mode/1up
فطرؔ ت کے ہیں درندے مُردار ہیں نہ زندے
ہر دم زباں کے گندے قہرِ خدا یہی ہے*
یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اُن آریہ سماج والوں کی نسبت ہے جنہوں نے اپنے اشتہاروں اور رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ سے اپنی گندی طبیعت کا ثبوت دے دیا ہے اور ہزارہا گالیاں خدا کے پاک نبیوں کو دی ہیں۔ جن کی اخبار اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں مگر شریف طبع لوگ اس جگہ ہماری مراد نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے طریق کو پسند کرتے ہیں۔ منہ
تو خود اس کی بیوی نیوگ کی نیّت سے کسی دوسرے آدمی سے آشنائی کا تعلق پیدا کر سکتی ہے تا اس طریق سے اولاد حاصل کرلے اور پھر خاوند کے سفر سے واپس آنے پر یہ تحفہ اس کے آگے پیش کرے اور اُس کو دکھاوے کہ تُو تو مال حاصل کرنے گیا تھا مگر مَیں نے تیرے پیچھے یہ مال کمایا ہے۔ پس عقل اور انسانی غیرت تجویز نہیں کر سکتی کہ یہ بے شرمی کا طریق جائز ہو سکے۔ اور کیونکر جائز ہو حالانکہ اس بیوی نے اپنے خاوند سے طلاق حاصل نہیں کی اور اس کی قیدِ نکاحؔ سے اس کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ افسوس بلکہ ہزار افسوس کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آریہ لوگ وید کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ درحقیقت یہی تعلیم وید کی ہے ۔ ممکن ہے کہ ہندوؤں کے بعض جوگی جو مجرّد رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفسانی جذبات ان کو مغلوب کرلیتے ہیں انہوں نے یہ باتیں خود بنا کر وید کی طرف منسوب کردی ہوں یا تحریف کے طور پر وید میں شامل کر دی ہوں۔ کیونکہ محقق پنڈتوں نے لکھا ہے کہ ایک زمانہ وید پر وہ بھی آیا ہے کہ ان میں بڑی تحریف کی گئی ہے اور اس کے بہت سے پاک مسائل بدلادیئے گئے ہیں۔ ورنہ عقل قبول نہیں کرتی کہ وید نے ایسی تعلیم دی ہو۔ اور نہ کوئی فطرت صحیحہ قبول کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی پاک دامن بیوی کو بغیر اس کے کہ اُس کو طلاق دے کر شرعی طور پر اُس سے قطع تعلق کرے یونہی اولاد حاصل کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے اس کو دوسرے سے ہمبستر کراوے کیونکہ یہ تو دیوثوں کا کام ہے۔ ہاں اگر کسی عورت نے طلاق حاصل کرلی ہو اور خاوند سے کوئی اس کا تعلق نہ رہا ہو تو اس صورت میں ایسی عورؔ ت کو جائز ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ اس کی پاک دامنی پر کوئی حرف۔ ورنہ ہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ نیوگ کا نتیجہ اچھا نہیں ہے جس صورت میں آریہ سماج کے لوگ ایک طرف تو عورتوں کے پردہ کے مخالف ہیں کہ یہ مسلمانوں کی رسم ہے۔ پھر دوسری طرف جبکہ ہر روز نیوگ کا پاک مسئلہ ان عورتوں کے کانوں تک پہنچتا رہتا ہے اور ان عورتوں کے دلوں میں جما ہوا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے بھی ہمبستر ہو سکتی ہیں تو ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی باتوں کے سُننے سے خاص کر جبکہ ویدوں کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہیں کس قدر
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 454
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/454/mode/1up
دینِ خدا کے آگے کچھ بَن نہ آئی آخر
سب گالیوں پہ اُترے دل میں اُٹھا یہی ہے
شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں اُن کے ہرگز
وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا یہی ہے
ہم نے ہے جس کو مانا قادر ہے وہ توانا
اُس نے ہے کچھ دکھانا اُس سے رجا یہی ہے
اُن سے دو چار ہونا عزّت ہے اپنی کھونا
اُن سے ملاپ کرنا راہِ ریا یہی ہے
پس اے مرے پیارو عقبٰی کو مت بسارو
اِس دیں کو پاؤ یارو بدر الدّجٰی یہی ہے
ناپاک شہوات عورتوں کی جوش ماریں گی بلکہ وہ تو دس قدم اور بھی آگے بڑھیں گی اور جبکہ پردہ کا پُل بھی ٹوٹ گیا تو ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ان ناپاک شہوتوں کا سیلاب کہاں تک خانہ خرابی کرے گا۔ چنانچہ جگن ناتھ اور بنارس اور کئی جگہ میں اس کے نمونے بھی موجود ہیں۔ کاش! اس قوم میں کوئی سمجھدار پیدا ہو۔
اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ مکتی حاصل کرنے کے لئے اولاد کی ضرورت کیوں ہے۔ کیا ایسے لوگ جیسے پنڈت دیانند تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ کوئی اولاد ہوئی مکتی سے محروم ہیں؟ اور ایسی مکتی پر تو *** بھیجنا چاہئے کہ اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر کراکر اور ایسا فعل اس سے کراکر جو عام دنیا کی نظر میں زنا کی صورت میں ہی حاصل ہو سکتی ہے اور بجز اس ناپاک فعل کے اور کوئی ذریعہ اُس کی مکتی کا نہیں۔ اور یہ بھی ہم سمجھ نہیں سکتے کہ جو ہزاروں طاقتیں اورؔ قوتیں اور خاصیتیں روحوں اور ذرّات اجسام میں ہیں وہ سب قدیم سے خودبخود ہیں۔ پرمیشر سے وہ حاصل نہیں ہوئیں۔پھر ایسا پرمیشر کس کام کا ہے اور اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ اور کیا وجہ کہ اس کو پرمیشر کہاجائے؟ اور کامل اطاعت کا وہ کیونکر مستحق ہے جبکہ اس کی پرورش کامل نہیں اور جن طاقتوں کو اُس نے آپ نہیں بنایا اُن کا علم اس کو کیونکر ہے اور جبکہ وہ ایک رُوح کے پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا تو کن معنوں سے اُس کو سرب شکتی مان کہا جاتا ہے جبکہ اُس کی شکتی صرف جوڑنے تک ہی محدود ہے۔ میرا دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ یہ ناپاک تعلیمیں ویدمیں ہرگز نہیں ہیں۔ پرمیشر تو تبھی پرمیشر رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک فیض کا وہی مبدء ہو۔ بیدانت والوں نے بھی اگرچہ غلطیاں کیں مگر تھوڑی سی اصلاح سے ان کا مذہب قابلِ اعتراض نہیں رہتا مگر دیانند کا مذہب تو سراسر گندہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دیانند نے ان جھوٹے فلسفیوں اور منطقیوں کی پیروی کی ہے جن کو وید سے کچھ بھی تعلق نہ تھا بلکہ وید کے درپردہ پکّے دشمن تھے۔ اِسی وجہ سے اس کے مذہب میں پرمیشر کی وہ تعظیم نہیں جو ہونی چاہئے۔ اور نہ پاک دل جوگیوں کی طرح پرمیشر سے ملنے کے لئے مجاہدات کی تعلیم ہے۔ صرف تعصّب اور خدا کے پاک نبیوں کو کینہ اور گالیاں دینا ہی یہ شخص بدنصیب اپنے چیلوں کو سکھا گیا ہے بلکہ یوں کہوکہ ایک زہر کا پیالہ پلا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا سب اعتراض دیانند کے فرضی ویدوں پر ہے نہ خدا کی کسی کتاب پر۔ واللہ اعلم ۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 455
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 455
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/455/mode/1up
مَیں ہوں ستم رسیدہ اُن سے جو ہیں رمیدہ
شاہد ہے آبِ دیدہ واقف بڑا یہی ہے
مَیںؔ دِل کی کیا سُناؤں کس کو یہ غم بتاؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے مجھ پر بلا یہی ہے
دیں کے غموں نے مارا اَب دل ہے پارہ پارہ
دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا یہی ہے
ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے ہو ہم سے
اُس یار کی نظر میں شرطِ وفا یہی ہے
برباد جائیں گے ہم گروہ نہ پائیں گے ہم
رونے سے لائیں گے ہم دل میں رجا یہی ہے
وہ دؔ ن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں کر کے باتیں
اَب موت کی ہیں گھاتیں غم کی کتھا یہی ہے
جلد آپیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی
دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے
شکرِ خدائے رحماں جس نے دیا ہے قرآں
غنچے تھے سارے پہلے اب گُل کھلا یہ ہے
کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف اُس کا گہنا
دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے
دیکھیؔ ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوابیں
خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ ھُدیٰ یہی ہے
اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس سے پایا
راتیں تھیں جتنی گزریں اَب دن چڑھا یہی ہے
اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی بُلائے
سوتے ہوئے جگائے بس حق نما یہی ہے
پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے
دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے
کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن
خوبی و دِلبری میں سب سے سوا یہی ہے
یوسف تو سُن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے
اِسلام کے محاسن کیونکر بیاں کروں میں
سب خشک باغ دیکھے پھولا پھلا یہی ہے
ہر جاز میں کے کیڑے دیں کے ہوئے ہیں دشمن
اسلام پر خدا سے آج ابتلا یہی ہے
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو یہ دیکھ کر کہ ہر سو
اِس غم سے صادقوں کا آہ و بکا یہی ہے
سب مشرکوں کے سر پر یہ دیں ہے ایک خنجر
یہ شرک سے چھڑاوے اُن کو اذیٰ یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 456
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 456
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/456/mode/1up
کیوں ہوگئے ہیں اس کے دشمن یہ سارے گمرہ
وہ رہنما ہے رازِ چون و چرا یہی ہے
دیں غار میں چُھپا ہے اِک شور کفر کا ہے
اب تم دُعائیں کر لو غارِ حرا یہی ہے
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے
سبؔ پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے
پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اِک قمر ہے
اُس پر ہر اک نظر ہے بدرا لدّجٰی یہی ہے
پہلے تو رہ میں ہارے پار اِس نے ہیں اُتارے
مَیں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے
پَردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے
دِل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے
وہ یارِ لامکانی۔ وہ دلبرِ نہانی
دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما یہی ہے
وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاجِ مرسلیں ہے
وہ طیّب و امیں ہے اُس کی ثنا یہی ہے
حق سے جو حکم آئے اُس نے وہ کر دکھائے
جو راز تھے بتائے نعم العطا یہی ہے
آنکھ اُس کی دُوربیں ہے دِل یار سے قریں ہے
ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیا یہی ہے
جو راز دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے
دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے
اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے خزانہ
باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ لقا یہی ہے
ہم تھے دِلوں کے اندھے سَو سَو دِلوں پہ پھندے
پھر کھولے جس نے جندے* وہ مجتبیٰ یہی ہے
جندے سے مراد اس جگہ قفل ہے۔ چونکہ اس جگہ کوئی شاعری دکھلانا منظور نہیں اور
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 457
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 457
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/457/mode/1up
اے ؔ میرے رب رحماں تیرے ہی ہیں یہ احساں
مشکل ہو تجھ سے آساں ہر دم رجا یہی ہے
اے میرے یارِجانی خود کر تو مہربانی!
ورنہ بلائے دنیا اِک اژدھا یہی ہے
دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گِرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے
مُنہ مت چُھپا پیارے میری دوا یہی ہے
کہتے ہیں جوش اُلفت یکساں نہیں ہے رہتا
دِل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا یہی ہے
ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دلبر
جیتا ہوں اِس ہوس سے میری غذا یہی ہے
دنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا
معشوق ہے تُو میرا عشقِ صفا یہی ہے
مشتِ غبار اپنا تیرے لئے اُڑایا
جب سے سُنا کہ شرطِ مہر و وفا یہی ہے
دلبر کا درد آیا حرفِ خودی مٹایا
جب مَیں مرا جلایا جامِ بقا یہی ہے
اِس عشق میں مصائب سَو سَو ہیں ہر قدم میں
پر کیا کروں کہ اُس نے مجھ کو دیا یہی ہے
حرفِ وفا نہ چھوڑوں اِس عہد کو نہ توڑوں
اُس دلبرِ ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے
جب سے ملا وہ دلبر دشمن ہیں میرے گھر گھر
دِل ہوگئے ہیں پتھر قدر و قضا یہی ہے
مجھ کو ہیں وہ ڈراتے پھر پھر کے درپہ آتے
تیغ و تبر دکھاتے ہر سُو ہوا یہی ہے
دلبرؔ کی رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے
ہشیار ساری دنیا اِک باؤلا یہی ہے
نہ میں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں اس لئے بعض جگہ مَیں نے پنجابی الفاظ استعمال کئے ہیں اور ہمیں صرف اردو سے کچھ غرض نہیں اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے۔ شاعری سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 458
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 458
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/458/mode/1up
اِس رہ میں اپنے قصّے تم کو مَیں کیا سُناؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے سب ماجرا یہی ہے
دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں اِک نظارہ
دیوانہ مت کہو تم عقلِ رسا یہی ہے
اے میرے یارجانی کر خود ہی مہربانی
مت کہہ کہ لَنْ تَرَانِیْ تجھ سے رجا یہی ہے
فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جان کنی ہے
عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا یہی ہے
تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے عیبِ دُوری
طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بَلا یہی ہے
تجھ میں وفا ہے پیارے سچے ہیں عہد سارے
ہم جا پڑے کنارے جائے بُکا یہی ہے
ہم نے نہ عہد پالا یاری میں رخنہ ڈالا
پر تُو ہے فضل والا ہم پر کُھلا یہی ہے
اے میرے دل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں
کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں گزا یہی ہے
اِک دیں کی آفتوں کا غم کھا گیا ہے مجھ کو
سینہ پہ دشمنوں کے پتّھر پڑا یہی ہے
کیونکر تبہ وہ ہووے کیونکر فنا وہ ہووے
ظالم جو حق کا دشمن وہ سوچتا یہی ہے
ایسا زمانہ آیا جس نے غضب ہے ڈھایا
جو پیستی ہے دیں کو وہ آسیا یہی ہے
شادابی و لطافت اِس دیں کی کیا کہوں مَیں
سب خشک ہوگئے ہیں پُھولا پَھلا یہی ہے
آنکھیںؔ ہر ایک دیں کی بے نُور ہم نے پائیں
سُرمہ سے معرفت کے اِک سرمہ سا یہی ہے
لعلِ یمن بھی دیکھے دُرِّ عدن بھی دیکھے
سب جوہروں کو دیکھا دل میں جچا یہی ہے
اِنکار کر کے اِس سے پچھتاؤگے بہت تم
بنتا ہے جس سے سونا وہ کیمیا یہی ہے
پر آریوں کی آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ایسی
وہ گالیوں پہ اُترے دل میں پڑا یہی ہے
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزبان ہے
جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 459
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/459/mode/1up
گوہیں بہت درندے انساں کے پوستیں میں
پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے
کِس دیں پہ ناز اُن کو جو وید* کے ہیں حامی
مذہب جو پھل سے خالی وہ کھوکھلا یہی ہے
اے آریو یہ کیا ہے کیوں دل بگڑ گیا ہے
اِن شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا یہی ہے
مجھ کو ہو کیوں ستاتے سَو افترا بناتے
بہتر تھا باز آتے دُور از بلا یہی ہے
جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے
اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا
گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے
اِس دیں کی شان و شوکت یارب مجھے دکھادے
سب جھوٹے دیں مٹادے میری دُعا یہی ہے
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
تمام شد
یاد رہے کہ وید پر ہمارا کوئی حملہ نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کی تفسیر میں کیاکیا تصرف
کئے گئے آریہ ورت کے صدہا مذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور باہم اُن کا سخت اختلاف ہے۔ پس ہم اس جگہ وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں۔ منہ
نوٹ:۔ ایڈیشن اول میں یہ حاشیہ تو موجود ہے لیکن اس شعرکی نشان دہی نہیں کی گئی جس پر یہ حاشیہ ہے۔ ہم نے مضمون کو دیکھ کر یہ نشان لگایا ہے۔ (ناشر)
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 460
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/460/mode/1up
اعلاؔ ن
یاد رہے کہ اس رسالہ کے شائع کرنے کی ہمیں کچھ بھی ضرورت نہ تھی لیکن ایک گندی اخبار جو قادیان سے آریوں کی طرف سے نکلتی ہے جس میں ہمیشہ وہ لوگ توہین اور بدزبانی کر کے اور دین اسلام کی نسبت اپنی فطرتی عداوت کی وجہ سے ناشائستہ کلمات بول کر اور ساتھ ہی مجھ کو بھی گالیاں دے کر لیکھرام کے قائم مقام ہورہے ہیں ان کی اخبار نے ہمیں مجبور کیا کہ ان کے جھوٹے الزاموں کو اس رسالہ میں ہم دُور کردیں اور ثابت کریں کہ ان کے بھائی لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل ساکنان قادیان درحقیقت میرے بہت سے نشانوں کے گواہ ہیں۔ اور ان پر کیا حصر ہے تمام قادیان کے آریہ اور ہندو بعض نشانوں کے گواہ رؤیت ہیں۔ اور پھر قادیان پر ہی موقوف نہیں لیکھرام کے مارے جانے کی پیشگوئی ایک ایسی مہاں جال پیشگوئی ہے جس نے تمام پنجاب اور ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج والے اس عظیم الشان نشان کے گواہ کر دیئے ہیں۔ اب ان پیشگوئیوں سے انکار کرنا آریوں کیلئے ممکن نہیں اور اس بارے میں قلم اُٹھانا محض بے حیائی ہے۔ اور اگروہ اس قدر پر باز نہ آئے تو پھر ان کا تمام پردہ کھول دیا جائے گا۔ وَالسَّلام علٰی من اتّبع الھُدٰی۔
راقم
میرزا غلام احمدؐمسیح موعود از قادیان
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 461
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/461/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 462
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/462/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 463
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/463/mode/1up
مسیح موعود کی بعثت
اور
سلسلہ کے قیام کی غرض
اعلیٰ حضرت حجۃ اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تقریر جو آپ نے ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو بعد نماز ظہر و عصر مسجد اقصیٰ میں فرمائی۔
۲۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو مہمان خانہ جدید کے بڑے ہال میں احباب کا ایک بڑا جلسہ اس غرض کے لیے منعقد ہوا تھاکہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی اصلاح کے سوال پر غور کریں۔
اس میں بہت سے بھائیوں نے مختلف پہلوؤں پر تقریریں کیں۔۔۔ اِن تقریروں کے ضمن
میں ایک بھائی نے اپنی تقریر کے ضمن میں کہا کہ’’ جہاں تک میں جانتا ہوں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سلسلہ اور دوسرے مسلمانوں میں صرف اسی قدر فرق ہے کہ وہ مسیح ابن مریم زندہ
آسمان پر جانا تسلیم کرتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ وفات پاچکے ہیں اس کے سوا اور کوئی
نیا امر ایسا نہیں جو ہمارے اور ان کے درمیان اصولی طو رپر قابل نزاع ہو۔‘‘ اس سے چونکہ
کامل طو رپر سلسلہ کی بعثت کی غرض کا پتہ نہ لگ سکتا تھا بلکہ ایک امر مشتبہ اور کمزور معلوم ہوتا
تھا اس لیے ضروری امر تھا کہ آپ اس کی اصلاح فرماتے، چونکہ اس وقت کافی وقت نہ تھااس لیے ۲۷؍دسمبر کو بعد ظہر و عصر آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنی بعثت کی اصل غرض پر کچھ تقریر فرمائیں۔آپ کی طبیعت بھی ناسازتھی تاہم محض اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی۔ (ایڈیٹر)
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 464
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/464/mode/1up
فرمایا
افسوس ہے اس وقت میری طبیعت بیمار ہے اور میں کچھ زیادہ بول نہیں سکتا لیکن ایک ضروری امر کی وجہ سے چند کلمے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔کل میں نے سنا تھا کہ کسی صاحب نے یہ بیان کیا تھا کہ گویا ہم میں اور ہمارے مخالف مسلمانوں کے درمیان فرق موت و حیات مسیح علیہ السلام کا ہے ورنہ ایک ہی ہیں اور عملی طور پر ہمار ے مخالفوں کا قدم بھی حق پر ہے یعنی نماز،روزہ اور دوسرے اعمال مسلمانوں کے ہیں اور وہ سب اعمال بجالاتے ہیں۔ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بارے میں ایک غلطی پڑگئی تھی جس کے ازالہ کے لیے خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ پیدا کیا۔ سو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ بات صحیح نہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ مسلمانوں میں یہ غلطی بہت بری طرح پر پیدا ہوئی ہے۔لیکن اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میرا دنیا میںآنا صرف اتنی ہی غلطی کے ازالہ کے لیے ہے اور اور کوئی خرابی مسلمانوں میں ایسی نہ تھی جس کی اصلاح کی جاتی بلکہ وہ صراط مستقیم پر ہیں تو یہ خیا ل غلط ہے۔میرے نزدیک وفات یا حیات مسیح ایسی بات نہیں کہ اس کے لیے اﷲ تعالیٰ اتنا بڑ اسلسلہ قائم کرتا اور ایک خاص شخص کو دنیا میں بھیجا جاتا۔ اور اﷲ تعالیٰ ایسے طور پر اس کو ظاہر کرتا جس سے اس کی بہت بڑی عظمت پائی جاتی ہے یعنی یہ کہ دنیا میں تاریکی پھیل گئی ہے اور زمین *** ہو گئی ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موتٰ کی غلطی کچھ آج پیدا نہیں ہوگئی بلکہ یہ غلطی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے تھوڑے ہی عرصہ بعد پیدا ہوگئی تھی اور خواص اولیاء اﷲ صلحاء اور اہل اﷲ بھی آتے رہے اور لوگ اس غلطی میں گرفتار رہے۔ اگر اس غلطی ہی کا ازالہ مقصود ہوتا تو اﷲتعالیٰ اُس وقت بھی کر دیتا مگر نہیں ہوا۔ اور یہ غلطی چلی آئی۔اور ہمارا زمانہ آگیا۔ اس وقت بھی اگر نری اتنی ہی بات ہوتی تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے ایک سلسلہ پیدا نہ کرتا کیونکہ وفات مسیح ایسی بات تو تھی ہی نہیں جو پہلے کسی نے تسلیم نہ کی ہو۔پہلے سے بھی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 465
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 465
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/465/mode/1up
اکثر خواص جن پراﷲ تعالیٰ نے کھول دیا یہی مانتے چلے آئے مگر بات کچھ اور ہے جو اﷲتعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا۔ یہ سچ ہے کہ مسیح کی وفات* کی غلطی کو دور کرنا بھی اس سلسلہ کی بہت بڑی غرض تھی لیکن صرف اتنی ہی بات کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھ کو کھڑا نہیں کیا بلکہ بہت سی باتیں ایسی پیدا ہو چکی تھیں کہ اگر ان کی اصلاح کے لیے اﷲ تعالیٰ ایک سلسلہ قائم کر کے کسی کو مامور نہ کرتا تو دنیا تباہ ہو جاتی اور اسلام کا نام و نشان مٹ جاتا!! اس لیے اسی مقصد کو دوسرے پیرایہ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بعثت کی غرض کیا ہے؟
وفات عیسیٰ اور حیات اسلام یہ دونوں مقاصد باہم بہت بڑا تعلق رکھتے ہیں اور وفات مسیح کا مسئلہ اس زمانہ میں حیات اسلام کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ حیاتِ مسیح سے جو فتنہ پیدا ہوا ہے وہ بہت بڑھ گیا ہے۔ حیات مسیح کے لیے یہ کہنا کہ کیا اﷲتعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو زندہ آسمان پر اُٹھالے جاتا؟ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور اس کیظ سے ناواقفی کو ظاہر کرتاہے۔ ہم تو سب سے زیادہ اس بات پر ایمان لاتے اور یقین کرتے ہیں کہ 33 ۱ اﷲ تعالیٰ بیشک ہر بات پر قادر ہے۔ اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ بے شک وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے لیکن وہ ایسے امور سے پاک اور منزّہ ہے جو اس کی صفات کاملہ کے خلاف ہوں اور وہ ان باتوں کا دشمن ہے جو اس کے دین کے مخالف ہوں۔ حضرت عیسیٰ کی حیات اوائل میں تو صرف ایک غلطی کا رنگ رکھتی تھی مگر آج یہ غلطی ایک اژدھا بن گئی ہے جو اسلام کو نگلنا چاہتی ہے۔ ابتدائی زمانہ میں اس غلطی سے کسی گزند کا اندیشہ نہ تھا اور وہ غلطی ہی کے رنگ میں تھی۔ مگر جب سے عیسائیت کا خروج ہوا اور انہوں نے مسیح کی زندگی کو ان کی خدائی کی ایک بڑی زبردست دلیل قرار دیا تو یہ خطرناک امر ہوگیا۔ انہوں نے بار بار اور بڑے زور سے اس امر کو پیش کیا کہ اگر مسیح خد انہیں تو وہ عرش پر کیسے بیٹھا ہے؟ اور اگر انسان ہو کر کوئی ایساکرسکتا ہے کہ زندہ آسمان پر چلا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 466
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 466
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/466/mode/1up
جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی بھی آسمان پر نہیں گیا؟ اس قسم کے دلائل پیش کرکے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خد ابنانا چاہتے ہیں اور انہوں نے بنایا اور دنیا کے ایک حصہ کو گمراہ کر دیا اور بہت سے مسلمان جو تیس لاکھ سے زیادہ بتائے جاتے ہیں اس غلطی کو صحیح عقیدہ تسلیم کرنے کی وجہ سے اس فتنہ کا شکا رہو گئے۔ اب اگر یہ با ت صحیح ہوتی اور درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے جاتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں اور مسلمان اپنی غلطی اور ناواقفی سے ان کی تائید کرتے ہیں تو پھر اسلام کے لیے تو ایک ماتم کا دن ہوتا کیونکہ اسلام تو دنیا میں اس لیے آیا ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر دنیا کو ایک ایمان اور یقین پیدا ہو اور اس کی توحید پھیلے۔وہ ایسا مذہب ہے کہ کوئی کمزوری اس میں پائی نہیں جاتی اور نہیں* ہے۔ وہ تو اﷲ تعالیٰ ہی کو وَحدہٗ َ لا شریک قرار دیتا ہے۔کسی دوسرے میں یہ خصوصیت تسلیم کی جاوے تو یہ تو اﷲ تعالیٰ کی کسر شان ہے اور اسلام اس کو روا نہیں رکھتا۔ مگر عیسائیوں نے مسیح کی اس خصوصیت کو پیش کرکے دنیا کو گمراہ کر دیا ہے اور مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے ان کی اس ہاں میں ہاں ملادی اور ا س ضرر کی پروا نہ کی جو اس سے اسلام کو پہنچا۔
اس بات سے کبھی دھوکا نہیں کھانا چاہیئے جو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا اﷲ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ مسیح کو زندہ آسمان پر اُٹھالے جاوے؟ بیشک وہ قادر ہے مگر وہ ایسی باتوں کو کبھی روا نہیں رکھتا جو مبدءِ شرک ہو کر کسی کو شریک الباری ٹھہراتی ہوں۔ اور یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک شخص کو بعض وجوہ کی خصوصیت دینا صریح مبدءِ شرک ہے۔ پس مسیح علیہ السلام میں یہ خصوصیت تسلیم کرنا کہ وہ تمام انسانوں کے برخلاف اب تک زندہ ہیں اور خواصِ َ بشری سے الگ ہیں۔ یہ ایسی خصوصیت ہے جس نے عیسائیوں کو موقع دیا کہ وہ اُن کی خدائی پر اس کو بطور دلیل پیش کریں۔اگر کوئی عیسائی مسلمانوں پر یہ اعتراض کرے کہ تم ہی بتاؤ کہ ایسی خصوصیت اس وقت کسی اور شخص کو بھی ملی ہے؟تو اس کا کوئی جواب اُن کے پاس نہیں ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 467
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 467
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/467/mode/1up
اس لیے کہ وہ یقین کرتے ہیں کہ سب انبیاء علیہم السلام مر گئے ہیں مگر مسیح کی موت بقول ان مخالف مسلمانوں کے ثابت نہیں کیونکہ توفّی کے معنے تو آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے کرتے ہیں۔اس لیے33 ۱ میں بھی یہی معنے کرنے پڑیں گے کہ جب تونے مجھے زندہ آسمان پر اُٹھالیا۔ اور کوئی آیت ثابت نہیں کرتی کہ اس کی موت بھی ہوگی ۔ پھر بتاؤ کہ اُن کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے اور وہ اپنی غلطی کو سمجھیں۔میں سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مسلمان کہلا کر اس عقیدہ کی کمزوری اور شناعت کے کھل جانے پر بھی اس کو نہیں چھوڑتے وہ دشمن اسلا م اور اس کے لیے مارِ آستین ہیں۔
یاد رکھو اﷲ تعالیٰ بار بار قرآن شریف میں مسیح کی موت کا ذکر کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ وہ دوسرے نبیوں اور انسانوں کی طرح وفات پا چکے ۔ کوئی امر ان میں ایسا نہ تھا جو دوسرے نبیوں اور انسانوں میں نہ ہو۔یہ بالکل سچ ہے کہ توفّی کے موت ہی معنے ہیں۔ کسی لغت سے یہ ثابت نہیں کہ توفّی کے معنے کبھی آسمان پر مع جسم اُٹھانے کے بھی ہوتے ہیں۔ زبان کی خوبی لغات کی توسیع پر ہے۔ دنیا میں کوئی لغت ایسی نہیں ہے جو صرف ایک کے لیے ہو اور دوسرے کے لیے نہ ہو۔ ہاں خدا تعالیٰ کے لیے یہ خصوصیت ضرور ہے اس لیے کہ وہ وَحدہٗ َ لا شریک خد اہے ۔لغت کی کوئی کتاب پیش کرو جس میں توفّیکے یہ معنے خصوصیت سے حضرت عیسٰی کے لیے کہے ہوئے ہوں کہ زندہ آسمان پر مع جسم اٹھانا ہے اور سارے جہاں کے لیے جب یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے موت کے ہوں گے۔اس قسم کی خصوصیت لغت کی کسی کتاب میں دکھاؤ؟ اور اگر نہ دکھا سکو اور نہیں ہے تو پھر خدا تعالیٰ سے ڈرو کہ یہ مبدءِ شرک ہے۔ ا س غلطی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان عیسائیوں کے مدیون ٹھہرتے ہیں۔ اگر عیسائی یہ کہیں کہ جس حال میں تم مسیح کو زندہ تسلیم کرتے ہو کہ وہ آسمان پر ہے اور پھر اس کا آنا بھی مانتے ہو اور یہ بھی کہ وہ حکم ہو کر آئے گا۔اب بتاؤ کہ اس کے خد اہونے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 468
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 468
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/468/mode/1up
میں کیا شبہ رہا جبکہ یہ بھی ثابت نہ ہو کہ اس کو موت ہوگی۔ یہ کہنا بڑا مصیبت کا امر ہے کہ عیسائی سوال کرے اور اس کا جواب نہ ہو؟
غرض اس غلطی کا اثرِ َ بداب یہاں تک بڑھ گیا۔ یہ تو سچ ہے کہ دراصل مسیح کی موت کا مسئلہ ایسا عظیم الشان نہ تھا کہ اس کے لیے ایک عظیم الشان مامور کی ضرورت ہوتی! مگر میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کی حالت بہت ہی نازک ہو گئی ہے۔انہوں نے قرآن کریم پر تدبّر چھوڑ دیا اور ان کی عملی حالت خراب ہو گئی۔ اگر ان کی عملی حالت درست ہوتی اور وہ قرآن کریم اور اس کی لُغَات پر توجہ کرتے تو ایسے معنے ہرگز نہ کرتے۔ انہوں نے اسی لیے اپنی طرف سے یہ معنے کر لئے توفّی کا لفظ کوئی نرالا اور نیا لفظ نہ تھا اس کے معنے تمام لغتِ عرب میں خواہ وہ کسی نے لکھی ہوں موت کے کئے ہیں۔ پھر انہوں نے مع جسم آسمان پر اُٹھانے کے معنے آپ ہی کیوں بنالیے۔ ہم کو افسوس نہ ہوتا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اس لفظ کے یہی معنے کر لیتے کیونکہ یہی لفظ آپ کے لیے بھی تو قرآن شریف میں آیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے 33 ۱ ۔
اب بتاؤ کہ اگر اس لفظ کے معنے مع جسم آسمان پر اُٹھانا ہی ہیں تو کیا ہمارا حق نہیں کہ آپ کے لیے بھی یہی معنے کریں۔ کیا وجہ ہے کہ وہ نبی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزار ہاد رجہ کمتر ہے اس کے لیے جب یہ لفظ بولا جاوے تو اس کے من گھڑت معنے کرکے زندہ آسمان پر لے جاویں لیکن جب سید الاولین والآخرین کے لیے یہ لفظ آوے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہ کریں۔ حالانکہ آنحضرتؐ زندہ نبی ہیں اور آپ کی زندگی ایسی ثابت ہے کہ کسی اور نبی کی ثابت نہیں۔اور اس لیے ہم زور اور دعویٰ سے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی نبی زندہ ہے تو وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اکثر اکابر نے حیات النّبیپر کتابیں لکھی ہیں۔اور ہمارے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایسے زبردست
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 469
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 469
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/469/mode/1up
ثبوت موجود ہیں کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ منجملہ ان کے ایک یہ بات ہے کہ زندہ نبی وہی ہو سکتاہے جس کے برکات اور فیوض ہمیشہ کے لیے جاری ہوں اور یہ ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک کبھی بھی مسلمانوں کو ضائع نہیں کیا۔ ہر صدی کے سر پر اس نے کوئی آدمی بھیج دیا جو زمانہ کے مناسب حال اصلاح کرتارہا یہاں تک کہ ا س صدی پر اس نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں حیات النّبی کا ثبوت دوں۔ یہ امر قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کرتا رہاہے اور کرے گا۔ جیسا کہ فرمایا ہے 3 ۱ ۔یعنی بیشک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ 3 کا لفظ صاف طور پر دلالت کرتا ہے کہ صدی کے سر پر ایسے آدمی آتے رہیں گے جو گمشدہ متاع کو لائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں۔
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب پہلی صدی گذرجاتی ہے تو پہلی نسل بھی اُٹھ جاتی ہے اور اس نسل میں جو عالم،حافظ قرآن، اولیاء اﷲ اور ابدال ہوتے ہیں وہ فوت ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر ضرورت ہوتی ہے کہ احیاء ملت کے لیے کوئی شخص پیدا ہو، کیونکہ اگر دوسری صدی میں نیا بندوبست اسلام کے تازہ رکھنے کے لیے نہ کرے تو یہ مذہب مر جاوے۔اس لیے وہ ہر صدی کے سر پر ایک شخص کو مامور کرتا ہے جو اسلام کو مرنے سے بچالیتا ہے اور اس کو نئی زندگی عطا کرتا ہے اور دنیا کو ان غلطیوں بدعات اور غفلتوں اور سستیوں سے بچالیتا ہے جو اُن میں پیدا ہوتی ہیں۔
یہ خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے اور یہ آپ کی حیات کی ایسی زبردست دلیل ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس طرح پر آپ کے برکات و فیوض کا سلسلہ لا انتہا اور غیر منقطع ہے اور ہر زمانہ میں گویا اُمت آپ کا ہی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 470
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 470
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/470/mode/1up
فیض پاتی ہے اور آپ ہی سے تعلیم حاصل کرتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ُ محب بنتی ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ 33 ۱ پس خدا تعالیٰ کا پیار ظاہر ہے کہ اس امت کو کسی صدی میں خالی نہیں چھوڑتا ۔اور یہی ایک امر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پر روشن دلیل ہے۔بالمقابل حضرت عیسیٰ کی حیات ثابت نہیں۔ اُن کی زندگی ہی میں ایسا فتنہ برپا ہوا کہ کسی اور نبی کی زندگی میں وہ فتنہ نہیں ہوا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو حضرت عیسیٰ ؑ سے مطالبہ کرنا پڑا کہ ۔33 ۲ یعنی کیا تونے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنالو۔جو جماعت حضرت عیسیٰ ؑ نے تیار کی وہ ایسی کمزور اور ناقابل اعتبار تھی کہ خود یہی عیسائی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔
انجیل سے ثابت ہے کہ وہ بارہ شاگرد جو اُن کی خاص قوت قدسی اور تاثیر کا نمونہ تھے اُن میں سے ایک نے جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا۔اس نے تیس روپیہ پر اپنے آقاو مرشد کو بیچ دیا اور دوسرے نے جو سب سے اول نمبر پر ہے اور شاگرد رشید کہلاتا تھا اور جس کے ہاتھ میں بہشت کی کنجیاں تھیں۔یعنی پطرس۔ اس نے سامنے کھڑے ہوکر تین مرتبہ *** کی۔ جب خود حضرت مسیح کی موجودگی میں ان کا اثر اور فیض اس قدر تھا اور اب انیس۱۹۰۰ سو سال گذرنے کے بعد خود اندازہ کر لو کہ کیا باقی رہا ہوگا۔ اس کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت طیار کی تھی وہ ایسی صادق اور وفادار جماعت تھی کہ انہوں نے آپ کے لیے جانیں دے دیں، وطن چھوڑ دیئے، عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا۔ غرض آپ کے لیے کسی چیز کی پروا نہ کی۔یہ کیسی زبردست تاثیر تھی۔ اس تاثیر کا بھی مخالفوں نے اقرار کیا ہے اور پھر آپ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں۔قرآن شریف کی تعلیم میں وہی اثر وہی برکات اب بھی موجود ہیں۔اور پھر تاثیر کا ایک
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 471
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/471/mode/1up
اور بھی نمونہ قابل ذکر ہے کہ انجیل کا کہیں پتہ ہی نہیں لگتا۔ خود عیسائیوں کو اس امر میں مشکلات ہیں کہ اصل انجیل کونسی ہے اور وہ کس زبان میں تھی اور کہاں ہے؟ مگر قرآنِ شریف کی برابرحفاظت ہوتی چلی آئی ہے۔ایک لفظ اور نقطہ تک اس کا اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا۔ اِس قدر حفاظت ہوئی ہے کہ ہزاروں لاکھوں حافظ قرآن شریف کے ہر ملک اور ہرقوم میں موجود ہیں جن میں باہم اتفاق ہے۔ ہمیشہ یاد کرتے اور سناتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ کیا یہ آپ کے برکات اور زندہ برکات نہیں ہیں؟اور کیا ان سے آپ کی حیات ثابت نہیں ہوتی؟
غرض کیا قرآن شریف کی حفاظت کی رو سے اور کیا تجدید دین کے لیے ہر صدی پر مجدّد کے آنے کی حدیث سے اور کیا آپ کی برکات اور تاثیرات سے جو اب تک جاری ہیں آپ کی حیات ثابت ہوتی ہے۔اب غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی حیات کے عقیدہ نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ کیا اخلاقی اور عملی طور پر اصلاح ہوئی ہے یا فساد پیدا ہوا ہے؟ اِس امر پر جس قدر غور کریں گے اُسی قدر اس کی خرابیاں ظاہر ہوتی چلی جائیں گی۔َ میں سچ کہتا ہوں کہ اسلام نے اس عقیدہ سے بہت بڑا ضرر اُٹھایا ہے یہاں تک کہ چالیس کروڑ کے قریب لوگ عیسائی ہو چکے جو سچے خدا کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کو خدا بنارہے ہیں اور عیسائیت نے دنیا کو جو نفع پہنچایا ہے وہ ظاہر امر ہے۔ خود عیسائیوں نے اس امر کو قبول کیا ہے کہ عیسائیت کے ذریعہ بہت سی بد اخلاقیاں دنیا میں پھیلی ہیں۔ کیونکہ جب انسان کو تعلیم ملے کہ اس کے گناہ کسی دوسرے کے ذمہ ہوچکے تو وہ گناہ کرنے پر دلیر ہو جاتا ہے۔ اور گناہ نوع انسان کے لیے ایک خطرناک زہر ہے جو عیسائیت نے پھیلائی ہے۔ اس صورت میں اس عقیدہ کا ضرر اور بھی بڑھا جاتا ہے۔
َمیں یہ نہیں کہتا کہ حیات مسیح کے متعلق اسی زمانہ کے لوگوں پر الزام ہے۔ نہیں بعض
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 472
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/472/mode/1up
پہلوں نے غلطی کھائی ہے مگر وہ تو اس غلطی میں بھی ثواب ہی پر رہے کیونکہ مجتہد کے متعلق لکھا ہے قد یخطئ و یصیبکبھی مجتہد غلطی بھی کرتا ہے اور کبھی صواب۔مگر دونوں طرح پر اُسے ثواب ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مشیت ایزدی نے یہی چاہا تھا کہ ان سے یہ معاملہ مخفی رہے۔ پس وہ غفلت میں رہے اور اصحابِ کہف کی طرح یہ حقیقت ان پر مخفی رہی۔ جیسا کہ مجھے بھی الہام ہوا تھا۔ ’’ اَمْ حَسبت انّ اصحاب الکھف والرّقیم کانوا من اٰیاتنا عجبًا۔‘‘ اسی طرح مسیح کی حیات کا مسئلہ بھی ایک عجیب ِ سر ہے۔ باوجود یکہ قرآن شریف کھول کھول کر مسیح کی وفات ثابت کرتا ہے اوراحادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جو آیت استدلال کے طور پر پڑھی گئی وہ بھی اسی کو ثابت کرتی ہے مگر باوجود اس قدر آشکارا ہونے کے خد اتعالیٰ نے اس کو مخفی کر لیا اور آنے والے موعود کے لیے اس کو مخفی رکھا چنانچہ جب وہ آیا تو اس نے اس راز کو ظاہر کیا۔
یہ اﷲ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ وہ جب چاہتا ہے کسی بھید کو مخفی کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اُسے ظاہر کر دیتا ہے۔ اسی طرح اس نے اس بھید کو اپنے وقت تک مخفی رکھا مگر اب جبکہ آنے والا آگیا اور اس کے ہاتھ میں اس ِ سرکی کلید تھی اس نے اسے کھول کر دکھادیا۔ اب اگر کوئی نہیں مانتا اور ضد کرتا ہے تو وہ گویا اﷲ تعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے۔
غرض وفات مسیح کا مسئلہ اب ایسا مسئلہ ہو گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا اخفا نہیں رہا بلکہ ہر پہلو سے صاف ہو گیاہے۔ قرآن شریف سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے احادیث وفات کی تائید کرتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ معراج موت کی تصدیق کرتا ہے اور آپؐ گویا چشم دید شہادت دیتے ہیں کیونکہ آپ نے شب معراج میں حضرت عیسیٰ ؑ کو حضرت یحییٰ ؑ کے ساتھ دیکھا۔ اور پھر آیت 33 ۱ ۱ مسیح کو زندہ آسمان پر جانے سے روکتی ہے۔کیونکہ جب کفارنے آپ سے آسمان پر چڑھ جانے کا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 473
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/473/mode/1up
معجزہ مانگا تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو یہی جواب دیا کہ 33 ۱ ۔ یعنی میرا ربّ اس وعدہ خلافی سے پاک ہے جو ایک مرتبہ تو وہ انسان کے لیے یہ قرار دے کہ وہ اسی زمین میں پیدا ہوا اور یہاں ہی مرے گا۔ 3۲ ۔
مَیں تو ایک بشر رسول ہوں یعنی وہ بشریت میرے ساتھ موجود ہے جو آسمان پر نہیں جاسکتی۔ اور دراصل کفار کی غرض اس سوال سے یہی تھی۔ چونکہ وہ پہلے یہ سن چکے تھے کہ انسان اس دنیا میں جیتا اور مرتا ہے اس لیے اُنہوں نے موقعہ پاکر یہ سوال کیا۔ جس کا جواب اُن کو ایسا دیا گیا کہ ان کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ پس یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ مسیح ؑ وفات پا چکے ۔ہاں یہ ایک معجزا نہ نشان ہے کہ انہیں غفلت میں رکھااور ہوشیاروں کو مست بنادیا۔
یہ بھی یاد رکھو کہ جن لوگوں نے یہ زمانہ نہیں پایا وہ معذور ہیں۔ ان پر کوئی حجت پوری نہیں ہوئی۔ اور اس وقت اپنے اجتہاد سے جو کچھ وہ سمجھے اس کے لیے اﷲ تعالیٰ سے اجر اور ثواب پائیں گے۔ مگراب وقت نہیں رہا۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اس نقاب کو اُٹھادیا اور اس مخفی راز کو ظاہر کر دیا ہے اور اس مسئلہ کے ُ برے اور خوفناک اثروں کو ۔تم دیکھ رہے ہو کہ اسلام تنزل کی حالت میں ہے اور عیسائیت کا یہی ہتھیار حیات مسیح ہے جس کو لے کر وہ اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی ذریت عیسائیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ ایسے ہی مسائل وہ لوگوں کو سنا سنا کر برگشتہ کر رہے ہیں۔ اور وہ خصوصیتیں جو نادانی سے مسلمان اُن کے لیے تجویز کرتے ہیں سکولوں اور کالجوں میں پیش کر کے اسلام سے جدا کررہے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاوے۔*
پس اس وقت چاہا ہے کہ مسلمان متنبہ ہو جاویں کہ ترقی اسلام کے لیے یہ پہلو نہایت ہی ضروری ہے کہ مسیح کی وفات کے مسئلہ پر زور دیا جاوے اور وہ اس امر کے قائل نہ ہوں کہ مسیح زندہ آسمان پر گیا ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے مخالف اپنی بدقسمتی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 474
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 474
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/474/mode/1up
سے اس ِ سر کو نہیں سمجھتے اور خواہ نخواہ شور مچاتے ہیں۔ کاش یہ احمق سمجھتے کہ اگر ہم سب مل کر وفات پر زور دیں گے تو پھریہ مذہب (عیسائی) نہیں رہ سکتا۔ میں یقیناًکہتا ہوں کہ اسلام کی زندگی اس موت میں ہے۔ خود عیسائیوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ جب یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح زندہ نہیں بلکہ مر گیا ہے تو اُن کے مذہب کا کیا باقی رہ جاتا ہے؟ وہ خود اس امر کے قائل ہیں کہ یہی ایک مسئلہ ہے جو اُن کے مذہب کا استیصال کرتا ہے مگر مسلمان ہیں کہ مسیح کی حیات کے قائل ہو کر ان کو تقویت پہنچارہے ہیں اور اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کی وہی مثال ہے ع۔ یکے برسر شاخ و بُن مے برید
عیسائیوں کا جو ہتھیار اسلام کے خلاف تھا اُسی کو اِن مسلمانوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا *اور اپنی نا سمجھی اور کم فہمی سے چلا دیا جس سے اسلام کو اس قدر نقصان پہنچا مگر خوشی کی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عین وقت پر اس سے ان کو آگاہ کر دیا اور ایسا ہتھیار عطا کیا جو صلیب کے توڑنے کے واسطے بے نظیر ہے اور ا س کی تائید اور استعمال کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا چنانچہ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور تائید سے اس موت مسیح کے ہتھیار نے صلیبی مذہب کو جس قدر کمزور اور سست کر دیا ہے وہ اب چھپی ہوئی بات نہیں رہی۔ عیسائی مذہب اور اس کے حامی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی فرقہ اور سلسلہ اُن کے مذہب کو ہلاک کر سکتا ہے تو وہ یہی سلسلہ ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایک اہل مذہب سے مقابلہ کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں مگر اس سلسلہ کے مقابلہ میں نہیں آتے۔بشپ صاحب کو جب مقابلہ کی دعوت کی گئی تو ہر چند اس کو بعض انگریزی اخباروں نے بھی جوش دلایا مگر پھر بھی وہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 475
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 475
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/475/mode/1up
میدان میں نہیں نکلا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے پاس عیسائیت کے استیصال کے لیے وہ ہتھیار ہیں جو دوسروں کو نہیں دیئے گئے اور اُن میں سے پہلا ہتھیار یہی موت مسیح کا ہتھیار ہے۔موت اصلی غرض نہیں۔یہ تو اس لیے کہ عیسائیوں کا ہتھیار تھا جس سے اسلام کا نقصان تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ اس غلطی کا تدارک کرے چنانچہ بڑے زور کے ساتھ اس کی اصلاح کی گئی۔
اس کے علاوہ ان غلطیوں اور بدعات کو دور کرنا بھی اصل مقصد ہے جو اسلام میں پیدا ہو گئی ہیں۔ یہ قلتِ تدّ بر کا نتیجہ ہے اگر یہ کہا جاوے کہ اس سلسلہ میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔اگر موجودہ مسلمانوں کے معتقدات میں کوئی فرق نہیں آیا اور دونوں ایک ہی ہیں تو پھر کیا خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو عبث قائم کیا؟ ایسا خیال کرنا اس سلسلہ کی سخت ہتک اور اﷲ تعالیٰ کے حضور ایک جرأت اور گستاخی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بار بار ظاہر کیا ہے کہ دنیا میں بہت تاریکی چھاگئی ہے۔ عملی حالت کے لحاظ سے بھی اور اعتقادی حالت کی وجہ سے بھی۔ وہ توحید جس کے لیے بے شمار نبی اور رسول دنیا میں آئے اور انہوں نے بے انتہا محنت اور سعی کی آج اس پر ایک سیاہ پردہ پڑا ہوا ہے اور لوگ کئی قسم کے شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دنیا کی محبت نہ کرو۔مگر اب دنیا کی محبت ہر ایک دل پر غلبہ کر چکی ہے او رجس کو دیکھو اسی محبت میں غرق ہے۔ دین کے لیے ایک تنکا بھی ہٹانے کے واسطے کہا جاوے تو وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے ہزاروں عذر اور بہانے
کرنے لگتا ہے۔ہر قسم کی بدعملی اور بدکاری کو جائز سمجھ لیا گیا ہے اور ہرقسم کی منہیات پرُ کھلمُ کھلا زور دیا جاتا ہے۔ دین بالکل بیکس اور یتیم ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں اگر اسلام کی تائید اور نصرت نہ فرمائی جاتی تو اور کونسا وقت اسلام پر آنے والا ہے جو اس وقت مدد کی جاوے۔ اسلام تو صرف نام کو باقی رہ گیا۔ اب بھی اگر حفاظت نہ کی جاتی تو پھر اس کے مٹنے میں کیا شبہ ہو سکتا تھا۔ میں سچ کہتا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 476
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 476
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/476/mode/1up
ہوں کہ یہ صرف قلتِ تد ّ بر کا نتیجہ ہے جو کہا جاتا ہے کہ دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟اگر صرف ایک ہی بات ہوتی تو اس قدر محنت اٹھانے کی کیا حاجت تھی۔ ایک سلسلہ قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں جانتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ بار بار ظاہر کر چکا ہے کہ ایسی تاریکی چھاگئی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ توحید جس کا ہمیں فخر تھا اور اسلام جس پر ناز کرتا تھا وہ صرف زبانوں پر رہ گئی ہے ورنہ عملی اور اعتقادی طور پر بہت ہی کم ہوں گے جو توحید کے قائل ہوں۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا تھا دنیا کی محبت نہ کرنا مگر اب ہر ایک دل اسی میں غرق ہے اور دین ایک بیکس اور یتیم کی طرح رہ گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر فرمایا تھا۔ ’’حُبُّ الدُّنیا رَأس کُلّ خطیءۃٍ‘‘یہ کیسا پاک اور سچا کلمہ ہے مگر آج دیکھ لوہر ایک اس غلطی میں مبتلا ہے۔ ہمارے مخالف آریہ اور عیسائی اپنے مذاہب کی حقیقت کو خوب سمجھ چکے ہیں لیکن اب اُسے نبا ہنا چاہتے ہیں۔عیسائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مذہب کے اصول و فروع اچھے نہیں۔ ایک انسان کو خدا بنانا ٹھیک نہیں۔اس زمانہ میں فلسفہ،طبعی اور سائنس کے علوم ترقی کر گئے ہیں اور لوگ خوب سمجھ گئے ہیں کہ مسیح بجز ایک ناتواں اور ضعیف انسان ہونے کے سوا کوئی اقتداری قوت اپنے اندر نہ رکھتا تھا ۔اور یہ نا ممکن ہے کہ ان علوم کو پڑھ کر خود اپنی ذات کا تجربہ رکھ کر اور مسیح کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کو دیکھ کر یہ اعتقاد رکھیں کہ وہ خدا تھا؟ ہر گز نہیں۔
شرک عورت سے شروع ہوا ہے اور عورت سے اس کی بنیاد پڑی ہے یعنی حَوّاسے جس نے خد اتعالیٰ کا حکم چھوڑ کر شیطان کا حکم مانا۔ اوراس شرکِ عظیم یعنی عیسائی مذہب کی حامی بھی عورتیں ہی ہیں۔درحقیقت عیسائی مذہب ایسا مذہب ہے کہ انسانی فطرت دور سے اس کو دھکے دیتی ہے اور وہ کبھی اسے قبول ہی نہیں کر سکتی۔ اگر درمیان دنیا نہ ہوتی تو عیسائیوں کا گروہ کثیر آج مسلمان ہو جاتا۔ بعض لوگ عیسائیوں میں مخفی مسلمان رہے ہیں اور انہوں
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 477
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 477
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/477/mode/1up
نے اپنے اسلام کو چھپایا ہے لیکن مرنے کے وقت اپنی وصیت کی اور اسلام ظاہر کیا ہے۔ ایسے لوگوں میں بڑے بڑے عہدہ دار تھے۔ انہوں نے حبِدنیاکی وجہ سے زندگی میں اسلام کو چھپایا لیکن آخر انہیں ظاہر کرنا پڑا۔ َ میں دیکھتا ہوں کہ ان دلوں میں اسلام نے راہ بنالیا ہے اور اب وہ ترقی کر رہا ہے۔ حبِ دنیانے لوگوں کو محجوب کر رکھا ہے۔
غرض مسلمانوں میں اندرونی تفرقہ کا موجب بھی یہی حبِدنیا ہی ہوئی ہے کیونکہ اگر محض اﷲ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوتی تو آسانی سے سمجھ میں آسکتا تھا کہ فلاں فرقے کے اصول زیادہ صاف ہیں اور وہ انہیں قبول کرکے ایک ہوجاتے ۔اب جبکہ حبِ دنیا کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان کہا جاسکتا ہے جبکہ ان کا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر نہیں۔اﷲ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا
33 ۱ یعنی کہواگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا۔ اب اس حبِ اللہ کی بجائے اور اتباع رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حب الدنیا کو مقدم کیا گیا ہے۔ کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیادار تھے؟ کیا وہ سُود لیاکرتے تھے؟ یا فرائض اور احکام الٰہی کی بجا آوری میں غفلت کیا کرتے تھے؟ کیا آپ مَیں (معاذ اﷲ )نفاق تھا؟ مداہنہ تھا؟ دنیا کو دین پر مقدم کرتے تھے؟ غور کرو۔
اتباع تو یہ ہے کہ آپؐ کے نقش قدم پر چلو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے۔صحابہ نے وہ چلن اختیار کیا تھا۔پھر دیکھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچایا۔اُنہوں نے دنیا پر لات ماردی تھی اور بالکل حبِ دنیا سے الگ ہو گئے تھے۔ اپنی خواہشوں پر ایک موت وارد کر لی تھی۔اب تم اپنی حالت کا ان سے مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ کیا انہیں کے قدموں پر ہو؟ افسوس اس وقت لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے؟
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 478
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 478
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/478/mode/1up
رَأس کلّ خطیءۃٍ نے بہت سے بچے دے دیئے ہیں۔ کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو دو آنے لے کر جھوٹی گواہی دے دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا۔کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کے سارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں۔ آج دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔جس پہلو اور رنگ سے دیکھو۔ جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔جھوٹے مقدمہ کرنا توبات ہی کچھ نہیں جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں۔ کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟اﷲ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔333 ۱ ۔ ُ بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے جیسااحمق انسان اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آکر پڑی ہے اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو توکہتے ہیں کہ کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنی زندگی کا مدار سمجھتے ہیں مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امر تسر ایک مضمون بھیجا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا۔ رلیارام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا۔میرے اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا۔ وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 479
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 479
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/479/mode/1up
سے انکار کر دیا جاوے۔گویا جھوٹ کے سوا بچاؤ نہیں۔مگر میں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو جھوٹ نہیں بولوں گا ۔آخر وہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ ڈاک خانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا۔ مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو جزو مضمون سمجھ کر اس میں رکھا ہے۔مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اﷲ تعالیٰ نے اس کو بصیرت دی۔ ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کر دیا*۔
میں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں ۔ایسی باتیں نری بیہودگیاں ہیں۔سچ تویہ ہے کہ سچ کے بغیر گذارہ نہیں۔میں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا۔ اس نے ہماری رعایت رکھی اور ایسی رعایت رکھی جو بطورایک نشان کے ہوگئی۔
33 ۱
یقیناًیاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔عام طو رپر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں مگر میں کیونکر اس کو باورکروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اﷲ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتاہے کہ وہ راستباز کو سزادے؟اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد
حاشیہ۔بدر میں یہ واقعہ زیادہ تفصیل کے ساتھ یوں درج ہے :۔
تخمیناً ستائیس یا اٹھائیس سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہواکہ اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیارام تھا اور وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ۔ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا۔ اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 480
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 480
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/480/mode/1up
اُٹھ جاوے۔راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔
اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی وہ سزا اُن کی بعض اور مخفی درمخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اور جھوٹ کی سزاہوتی ہے۔ خد اتعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزاپالیتے ہیں۔
میرے ایک استادُ گل علی شاہ بٹالے کے رہنے والے تھے۔ وہ شیر سنگھ کے بیٹے پرتاپ سنگھ کو بھی پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ شیر سنگھ نے اپنے باورچی کو محض نمک مرچ کی زیادتی پر بہت مارا تو چونکہ وہ بڑے سادہ مزاج تھے انہوں نے
دیا۔ چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لیے تاکید بھی تھی اس لیے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا۔ اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لیے یہ موقعہ ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی ۔اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کی رو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے۔سو اس نے مخبربن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو۔رؤیا میں اﷲ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیارام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لیے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے۔
غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لیے مشورہ لیا گیااُنہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغگوئی کے او رکوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا رلیارام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بر ّ یت ہو جائے گی۔ ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں۔ مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا۔ تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا۔ اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا ۔اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھدیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط او رمیر اہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے
گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لیے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 481
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 481
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/481/mode/1up
کہاکہ آپ نے بڑا ظلم کیا۔ اس پر شیر سنگھ نے کہا۔مولوی جی کو خبر نہیں اس نے میرا سو بکرا کھایا ہے۔ اسی طرح پر انسان کی بدکاریوں کا ایک ذخیرہ ہوتاہے اور وہ کسی ایک موقعہ پر پکڑا جاکر سزا پاتا ہے*۔جو شخص سچائی اختیار کرے گا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ذلیل ہو اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور خد اتعالیٰ کی حفاظت جیسااور کوئی محفوظ قلعہ اور حصار نہیں لیکن ادھوری بات فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ جب پیاس لگی ہوئی ہو تو صرف ایک قطرہ پی لینا کفایت کرے گا یا شدت بھوک کے وقت ایک دانہ یا لقمہ سے سیر ہو جاوے گا۔ بالکل نہیں بلکہ جب تک پورا سیر ہو کر پانی نہ پئے یا کھانا نہ کھائے تسلی نہ ہوگی۔اسی طرح پر جب تک اعمال میں کمال نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔ناقص اعمال اﷲ تعالیٰ کو خوش نہیں کرسکتے اور نہ وہ بابرکت ہوسکتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ میری مرضی کے موافق اعمال کرو پھر میں برکت دوں گا۔
غرض یہ باتیں دنیا دار خود ہی بنالیتے ہیں کہ جھوٹ اور فریب کے بغیر گذارہ نہیں۔کوئی کہتا ہے فلاں شخص نے مقدمہ میں سچ بولا تھا اس لیے چار برس کو دھراگیا۔ میں
سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی۔اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا او ر میرے مقابل پر افسر ڈاکخانجات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریر یں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا۔مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نونو کرکے اس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا۔ انجام کارجب وہ افسر مدعی اپنی تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطریا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لیے رخصت۔ یہ سن کرمیں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا۔ اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجالایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا۔ میں نے کہا ۔کیا کرنے لگا ہے؟ تب اُس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا کہ خیر ہے خیر ہے۔ (بدر جلد۲ نمبر ۵ صفحہ ۳ مورخہ ۲؍فروری ۱۹۰۶ء )
* بدر میں ہے۔ ’’انسان گناہ کسی اور موقعہ پر کرتا ہے اور پکڑا کسی اور موقعہ پر جاتا ہے‘‘۔
(بدر جلد ۲ نمبر ۶ صفحہ ۳ مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء )
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 482
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 482
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/482/mode/1up
پھر کہوں گا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں جو عدم معرفت سے پیدا ہوتی ہیں۔
کسبِ کمالُ کن کہ عزیز ے جہاں شوی
یہ نقص کے نتیجے ہیں۔ کمال ایسے ثمرات پید انہیں کرتا۔ ایک شخص اگراپنی موٹی سی کھدر کی چادر میں کوئی توپابھرلے تو اس سے وہ درزی نہیں بن جاوے گا اور یہ لازم نہ آئے گا کہ اعلیٰ درجہ کے ریشمی کپڑے بھی وہ سی لے گا۔اگر اس کو ایسے کپڑے دیئے جاویں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ انہیں برباد کردے گا۔ پس ایسی نیکی جس میں گند ملا ہوا ہو کسی کام کی نہیں۔ خد اتعالیٰ کے حضور اس کی کچھ قدر نہیں۔لیکن یہ لوگ اس پر ناز کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ نجات چاہتے ہیں۔ اگر اخلاص ہو تو اﷲ تعالیٰ تو ایک ذرہ بھی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ اس نے تو خود فرمایا ہے۔33 ۱ اس لیے اگر ذرہ بھربھی نیکی ہو تو اﷲ تعالیٰ سے اس کا اجر پائے گا۔ پھرکیا وجہ ہے کہ اس قدر نیکی کرکے پھل نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں اخلاص نہیں آیاہے۔اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے جیسا کہ فرمایا۔ 33۲ ۔یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں* ۔
یہ لوگ ابدال ہوجاتے ہیں اور وہ اِس دنیا کے نہیں رہتے۔اُن کے ہر کام میں ایک خلوص اور اہلیت ہوتی ہے لیکن دنیا داروں کا تو یہ حال ہے کہ وہ خیرات بھی کرتے ہیں تو اس کے لیے تعریف اور تحسین چاہتے ہیں۔اگر کسی نیک کام میں کوئی چندہ دیتا ہے تو غرض یہ ہے کہ اخبارات میں اس کی تعریف ہو۔ لوگ تعریف کریں۔اس نیکی کو خد اتعالیٰ سے کیا تعلق؟ بہت لوگ شادیاں کرتے ہیں اُس وقت سارے گاؤں میں روٹی دیتے ہیں مگرخد اکے لیے نہیں صرف نمائش اور تعریف کے لیے۔ اگر ریانہ ہوتی اور محض شفقت علیٰ خلقِ اﷲ کے لحاظ سے یہ فعل ہوتا اور خالص خدا کے لیے تو ولی ہو جاتے ،لیکن چونکہ ان کاموں کو خد اتعالیٰ سے کوئی تعلق اور غرض نہیں ہوتا اس لئے کوئی نیک اوربابرکت اثر ان میں پیدا نہیں ہوتا۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 483
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 483
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/483/mode/1up
یہ خوب یاد رکھو کہ جو شخص خد اتعالیٰ کے لیے ہو جاوے خد اتعالیٰ اس کا ہو جاتاہے اور خدا کسی کے دھوکے میں نہیں آتا۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ ریاکاری اور فریب سے خدا کو ٹھگ لوں گا تو یہ حماقت اور نادانی ہے۔ وہ خود ہی دھوکا کھارہا ہے۔دنیا کے زیب،دنیا کی محبت ساری خطاکاریوں کی جڑ ہے۔ اس میں اندھا ہو کر انسان انسانیت سے نکل جاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔جس حالت میں عقلمند انسان کسی کے دھوکا میں نہیں آسکتا تو اﷲ تعالیٰ کیونکر کسی کے دھوکا میں آسکتا ہے۔ مگر ایسے افعال بد کی جڑ دنیا کی محبت ہے اور سب سے بڑا گناہ جس نے اس وقت مسلمانوں کو تباہ حال کر رکھا ہے اور جس میں وہ مبتلا ہیں وہ یہی دنیا کی محبت ہے۔سوتے جاگتے،اُٹھتے،بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت لوگ اسی غم و ہم میں پھنسے ہوئے ہیں اور اُس وقت کا لحاظ اور خیال بھی نہیں کہ جب قبر میں رکھے جاویں گے۔ایسے لوگ اگر اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے اور دین کے لیے ذرا بھی ہم و غم رکھتے تو بہت کچھ فائدہ اٹھالیتے۔سعدی کہتا ہے ۔ ع
گر وزیر از خدا تر سیدے
ملازم لوگ تھوڑی سی نوکری کے لیے اپنے کام میں کیسے چست و چالاک ہوتے ہیں لیکن جب نماز کا وقت آتا ہے تو ذرا ٹھنڈا پانی دیکھ کر ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسی باتیں کیوں پید اہوتی ہیں؟اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہیں ہوتی۔ اگر خدا تعالیٰ کی کچھ بھی عظمت ہو اور مرنے کا خیال اور یقین ہو تو ساریُ سستی اور غفلت جاتی رہے۔اس لیے خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہیئے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہیئے۔ اس کی گرفت خطرناک ہوتی ہے۔ وہ چشم پوشی کرتا ہے اور درگذر فرماتا ہے لیکن جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر بہت سخت پکڑتا ہے یہاں تک کہ 3 ۱ پھر وہ اس امر کی بھی پروا نہیں کرتا کہ اس کے پچھلوں کا کیا حال ہوگا۔ برخلاف اِس کے جو لوگ اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے اور اُس
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 484
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 484
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/484/mode/1up
کی عظمت کو دل میں جگہ دیتے ہیں۔خدا تعالیٰ اُن کو عزت دیتا اور خود اُن کے لیے ایک سپر ہو جاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے ’’ مَن کَان لِلّٰہ کان اﷲ لہٗ ‘‘ یعنی جو شخص اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو جاوے اﷲتعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے۔مگر افسوس یہ ہے کہ جو لوگ اس طرف توجہ بھی کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کی طرف آنا چاہتے ہیں ان میں سے اکثر یہی چاہتے ہیں کہ ہتھیلی پرسرسوں جمادی جاوے۔وہ نہیں جانتے کہ دین کے کاموں میں کس قدر صبر اور حوصلہ کی حاجت ہے اور تعجب تو یہ ہے کہ وہ دنیا جس کے لیے وہ رات دن مرتے اور ٹکریں مارتے ہیں اس کے کاموں کے لیے توبرسوں انتظار کرتے ہیں۔ کسان بیج بوکر کتنے عرصہ تک منتظر رہتا ہے لیکن دین کے کاموں میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پھونک مار کر ولی بنا دو۔ اور پہلے ہی دن چاہتے ہیں کہ عرش پر پہنچ جاویں حالانکہ نہ اس راہ میں کوئی محنت اور مشقت اٹھائی اور نہ کسی ابتلا کے نیچے آیا۔
خوب یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون اور آئین نہیں ہے۔یہاں ہر ترقی تدریجی ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ نری اتنی باتوں سے خوش نہیں ہوسکتا کہ ہم کہہ دیں ہم مسلمان ہیں یا مومن ہیں۔ چنانچہ اس نے فرمایا ہے۔33 ۱ ۔ یعنی کیا یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اتنا ہی کہنے پر راضی ہو جاوے اور یہ لوگ چھوڑ دیئے جاویں کہ وہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی کوئی آزمائش نہ ہو۔یہ امر سنت اﷲ کے خلاف ہے کہ پھونک مار کر ولی اﷲ بنادیا جاوے۔اگر یہی سنت ہوتی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایساہی کرتے اور اپنے جان نثار صحابہ کو پھونک مار کر ہی ولی بنا دیتے۔ ان کو امتحان میں ڈلوا کر اُن کے سر نہ کٹواتے۔ اور خدا تعالیٰ اُن کی نسبت یہ نہ فرماتا۔ 33333۔ ۱
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 485
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 485
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/485/mode/1up
پس جب دنیا بغیر مشکلات اور محنت کے ہاتھ نہیں آتی تو عجب بے وقوف ہے وہ انسان جو دین کو حلوائے بے دُود سمجھتا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے۔ باایں اسلام نے تو ایسی مشقت بھی نہیں رکھی۔ ہندوؤں میں دیکھو کہ اُن کے جوگیوں اور سنیاسیوں کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں اُن کی کمریں ماری جاتی ہیں۔ کوئی ناخن بڑھاتا ہے۔ایسا ہی عیسائیوں میں رہبانیت تھی۔ اسلام نے ان باتوں کو نہیں رکھا بلکہ اس نے یہ تعلیم دی ۔3۲ ۔ یعنی نجات پا گیا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کیا۔ یعنی جس نے ہر ایک قسم کی بدعت ،فسق وفجور، نفسانی جذبات سے خد ا تعالیٰ کے لیے الگ کر لیا۔ اور ہر قسم کینفسانی لذات کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں تکالیف کو مقدم کر لیا۔ ایسا شخص فی الحقیقت نجات یافتہ ہے جو خدا تعالیٰ کو مقدم کرتا ہے اور دنیا اور اس کے تکلّفات کو چھوڑتا ہے*۔اور پھر فرمایا۔ 3 ۳ ۔ مٹی کے برابر ہو گیا وہ شخص جس نے نفس کوآلودہ کر لیا۔ یعنی جو زمین کی طرف جھک گیا۔ گویا یہ ایک ہی فقرہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کس طرح خداتعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے کہ جب تک انسان قویٰ بشریہ کے ُ برے طریق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک خد انہیں ملتا۔ دنیا کی گندگیوں سے نکلنا چاہتے ہو اور خدا تعالیٰ کو ملنا چاہتے ہو تو ان لذّات کو ترک کرو۔ورنہ
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
انسان کی فطرت میں دراصل بدی نہ تھی اور نہ کوئی چیز ُ بری ہے لیکن بد استعمالی ُ بری
حاشیہ۔بدر سے۔ جس نے دین کو مقدم کیا وہ خد اکے ساتھ مل گیا۔ نفس کو خاک کے ساتھ ملا دینا چاہیے۔ خد اتعالیٰ کو ہر بات میں مقدم کرنا چاہیے۔ یہی دین کا خلاصہ ہے جتنے ُ برے طریق ہیں اُن سب کو ترک کر دینا چاہیے۔تب خد املتا ہے۔ ( بدر جلد ۲ نمبر ۶ صفحہ ۳ مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء )
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 486
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 486
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/486/mode/1up
بنادیتی ہے۔ مثلًاریاہی کولو۔یہ بھی دراصل بُری نہیں کیونکہ اگر کوئی کام محض خدا تعالیٰ کے لیے کرتا ہے اور اس لیے کرتا ہے کہ اس نیکی کی تحریک دوسروں کو بھی ہوتو یہ ریا بھی نیکی ہے۔
ریا کی د۲و قسمیں ہیں ایک دنیا کے لیے مثلًا کوئی شخص نماز پڑھا رہا ہے اور پیچھے کوئی بڑا آدمی آگیا اس کے خیال اور لحاظ سے نماز کو لمبا کرنا شروع کردیا۔ ایسے موقع پر بعض آدمیوں پر ایسا رُعب پڑجاتا ہے کہ وہ پھول پھول جاتے ہیں۔یہ بھی ایک قسم ریاکی ہے جو ہر وقت ظاہر نہیں ہوتی مگر اپنے وقت پر جیسے بھوک کے وقت روٹی کھاتا ہے یا پیاس کے وقت پانی پیتا ہے۔مگربرخلاف اس کے جو شخص محض اﷲ تعالیٰ کے لیے نماز کو سنوار سنوار کر پڑھتا ہے وہ ریا میں داخل نہیں۔بلکہ رضاء الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ غرض ریاکے بھی محل ہوتے ہیں۔اور انسان ایسا جانور ہے کہ بے محل عیوب پر نظر نہیں کرتا۔ مثلاً ایک شخص اپنے آپ کو بڑا عفیف اور پارسا سمجھتا ہے راستہ میں اکیلا جارہا ہے۔ راستہ میں وہ ایک تھیلی جواہرات کی پڑی پاتا ہے وہ اُسے دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ مداخلت کی کوئی بات نہیں۔کوئی دیکھتا نہیں۔اگر یہ اس وقت اس پر گرتا نہیں اور سمجھتا ہے کہ غیر کا حق ہوگا اور روپیہ جو گرا ہوا ہے آخر کسی کا ہے۔ان باتوں کو سوچ کر اگر اس پر نہیں گرتا اور لالچ نہیں کرتا تو فی الحقیقت پوری عفّت اور تقویٰ سے کام لیتا ہے۔ ورنہ اگر نرا دعویٰ ہی دعویٰ ہے تو اُس وقت اُس کی حقیقت کھل جاوے گی اور وہ اُسے لے لے گا۔
اسی طرح ایک شخص جس کے متعلق یہ خیال ہے کہ وہ ریا نہیں کرتا۔جب ریا کا وقت ہو اور وہ نہ کرے تو ثابت ہوگا کہ نہیں کرتا۔ لیکن جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیا بعض اوقات ان عادتوں کا محل ایسا ہوتاہے کہ وہ بدل کر نیک ہو جاتی ہیں۔چنانچہ نماز جو باجماعت پڑھتا ہے اس میں بھی ایک ریا تو ہے لیکن انسان کی غرض اگر نمائش ہی ہو تو بیشک ریاہے اور اگراس سے غرض اﷲ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری مقصود ہے تو یہ ایک عجیب نعمت
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 487
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 487
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/487/mode/1up
ہے۔پس مسجدوں میں بھی نمازیں پڑھو اور گھروں میں بھی۔ایسا ہی ایک جگہ دین کے کام کے لیے چندہ ہو رہا ہو۔ایک شخص دیکھتا ہے کہ لوگ بیدار نہیں ہوتے اور خاموش ہیں۔وہ محض اس خیال سے کہ لوگوں کو تحریک ہو سب سے پہلے چندہ دیتا ہے۔بظاہریہ ریا ہوگی لیکن ثواب کا باعث ہوگی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے 33 ۱ ۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ایک جنگ میں ایک شخص اکڑ کر اور چھاتی نکال کر چلتا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ فعل خدا تعالیٰ کو ناپسند ہے لیکن اس وقت اﷲ تعالیٰ اس کو پسند کرتاہے۔پس ع
گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی
غرضُ خلق محل پر مومن اور غیر محل پر کافر بنادیتا ہے۔ میں پہلے کہہ چکاہوں کہ کوئی خُلق ُ برا نہیں بلکہ بداستعمالی سے بُرے ہوجاتے ہیں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے غصّہ کے متعلق آیا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ قبل از اسلام آپ بڑے غصّہ ور تھے۔حضرت عمرنے جواب دیا کہ غصّہ تو وہی ہے البتہ پہلے بے ٹھکانے چلتا تھامگر اب ٹھکانے سے چلتا ہے۔اسلام ہر ایک قوت کو اپنے محل پر استعمال کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔پس یہ کبھی کوشش مت کرو کہ تمہارے قویٰ جاتے رہیں بلکہ ان قویٰ کا صحیح استعمال سیکھو۔یہ سب جھوٹے اور خیالی عقائد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو۔ممکن ہے یہ تعلیم اس وقت قانون مختصّ المکان یا مختصّ الزّمان کی طرح ہو۔ہمیشہ کے لئے یہ قانون نہ کبھی ہو سکتا ہے اور نہ یہ چل سکتا ہے۔اس لیے کہ انسان ایک ایسے درخت کی طرح ہے جس کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔اگر اس کی ایک ہی شاخ کی پروا کی جاوے تو باقی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 488
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 488
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/488/mode/1up
شاخیں تباہ اور برباد ہو جائیں گی۔عیسائی مذہب کی اس تعلیم میں جو نقص ہے وہ بخوبی ظاہر ہے۔اس سے انسان کے تمام قویٰ کی نشوونما کیونکر ہوسکتی ہے۔اگر صرف درگذر ہی ایک عمدہ چیز ہوتی تو پھر انتقامی قوت اس کی قوتوں میں کیوں رکھی گئی ہے؟اور کیوں پھر اس درگذر کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاتا؟ مگر برخلاف اس کے کامل تعلیم وہ ہے جو اسلام نے پیش کی اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کو ملی ہے اور وہ یہ ہے۔33 ۱ ۔
یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہولیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے۔۔۔ کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو،کوئی شر پید انہ ہوتا ہو تو اس کا اجر اﷲ تعالیٰ پر ہے۔
اس سے صاف طور پرظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ خواہ نخواہ ضرور ہر مقام پر شر کا مقابلہ نہ کیا جاوے اور انتقام نہ لیا جاوے بلکہ منشاءِ الٰہی یہ ہے کہ محل اور موقعہ کو دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ موقع گناہ کے بخش دینے اور معاف کر دینے کا ہے یا سزا دینے کا۔اگر اس وقت سزا دینا ہی مصلحت ہو تو اس قدر سزا دی جاوے جو سزاوار ہے اور اگر عفو کا محل ہے تو سزا کا خیال چھوڑ دو۔
یہ خوبی ہے اس تعلیم میں کیونکہ وہ ہر پہلو کا لحاظ رکھتی ہے۔اگر انجیل پر عمل کرکے ہر شریر اور بدمعاش کو چھوڑ دیا جاوے تو دنیا میں اندھیر مچ جاوے۔پس تم ہمیشہ یہی خیال رکھو کہ تمام قویٰ کو مردہ مت تصور کرو۔تمہاری کوشش یہ ہو کہ محل پر استعمال کرو۔میں یقیناًکہتا ہوں کہ یہ تعلیم ایسی ہے جس نے انسانی قویٰ کے نقشہ کو کھینچ کر دکھا دیا ہے مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جو عیسائیوں کی میٹھی میٹھی باتیں سن کر فریفتہ ہو جاتے ہیں اور اسلام جیسی نعمت کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں۔صادق ہر حالت میں دوسروں کے واسطے شیریں ظاہر نہیں ہوتا۔جس
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 489
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 489
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/489/mode/1up
طرح کہ ماں ہر وقت بچے کو کھانے کے واسطے شیرینی نہیں دے سکتی بلکہ وقتِ ضرورت کڑوی دوائی بھی دیتی ہے۔ ایساہی ایک صادق مصلح کا حال ہے۔یہی تعلیم ہر پہلو پر مبارک تعلیم ہے۔خدا ایسا ہے کہ سچا خدا ہے۔ ہمارے خدا پر عیسائی بھی ایمان لاتے ہیں۔جو صفات ہم خداتعالیٰ کی مانتے ہیں وہ سب کو ماننی پڑتی ہیں۔پادری فنڈر ایک جگہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا جزیرہ ہو جہاں عیسائیت کا وعظ نہیں پہنچا تو قیامت کے دن ان لوگوں سے کیا سوال ہوگا؟تب خود ہی جواب دیتا ہے کہ اُن سے یہ سوال نہ ہوگا کہ تم یسوع پر اور اس کے کفارہ پر ایمان لائے تھے یا نہ لائے تھے بلکہ اُن سے یہی سوال ہوگا کہ کیا تم اُس خداکو مانتے ہو جو اسلام کی صفات کا خد ا واحد لاشریک ہے۔
اسلام کا خدا وہ خدا ہے کہ ہر ایک جنگل میں ر ہنے والا فطرتاً مجبور ہے کہ اس پر ایمان لائے۔ہر ایک شخص کا کانشنس اور نور قلب گواہی دیتا ہے کہ وہ اسلامی خدا پر ایمان لائے۔اس حقیقت اسلام کو اور اصل تعلیم کو جس کی تفصیل کی گئی،آج کل کے مسلمان بھول گئے ہیں۔ اور اِسی بات کو پھر قائم کر دینا ہمارا کام ہے۔اوریہی ایک عظیم الشان مقصد ہے جس کو لے کر ہم آئے ہیں۔
اِن اُمور کے علاوہ جو اوپر بیان کئے گئے اور بھی علمی اعتقادی غلطیاں مسلمانوں کے درمیان پھیل رہی ہیں جن کا دور کرنا ہمارا کام ہے۔مثلاً ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ اور اس کی ماں مس شیطان سے پاک ہیں اور باقی سب نعوذ باﷲ پاک نہیں ہیں۔یہ ایک صریح غلطی ہے بلکہ کفر ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت اہانت ہے۔ان لوگوں میں ذرّہ بھی غیرت نہیں جو اس قسم کے مسائل گھڑ لیتے ہیں اور اسلام کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ لوگ اسلام سے بہت دور ہیں۔اصل میں یہ مسئلہ اس طرح سے ہے کہ قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ پیدائش دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک مس روح القدس سے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 490
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 490
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/490/mode/1up
اور ایک مس شیطان سے۔تمام نیک اور راستباز لوگوں کی اولاد مس روح القدس سے ہوتی ہے۔ اور جو اولاد بدی کا نتیجہ ہوتی ہے وہ مس شیطان سے ہوتی ہے۔تمام انبیاء مس روح القدس سے پیدا ہوئے تھے۔ مگر چونکہ حضرت عیسیٰ کے متعلق یہودیوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ نعوذ باﷲ ولد الزنا ہیں اور مریم کا ایک اور سپاہی پنڈارانام کے ساتھ تعلق ناجائز کا ذریعہ ہیں اور مس شیطان کا نتیجہ ہیں۔اِس واسطے اﷲ تعالیٰ نے اُ س کے ذمہ سے یہ الزام دُور کرنے کے واسطے اُن کے متعلق یہ شہادت دی تھی کہ اُن کی پیدائش بھی مس روح القدس سے تھی۔چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کے متعلق کوئی اس قسم کااعتراض نہ تھا۔ اس واسطے ان کے متعلق ایسی بات بیان کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑی۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین عبد اﷲ اور آمنہ کو تو پہلے ہی سے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کے متعلق ایسا خیال و گمان بھی کبھی کسی کو نہ ہوا تھا۔ایک شخص جو مقدمہ میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کے واسطے صفائی کی شہادت کی ضرورت پڑتی ہے لیکن جو شخص مقدمہ میں گرفتار ہی نہیں ہوا۔اس کے واسطے صفائی کی شہادت کی کچھ ضرورت ہی نہیں۔
ایسا ہی ایک اور غلطی جو مسلمانوں کے درمیان پڑ گئی ہوئی ہے۔ وہ معراج کے متعلق ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا تھا۔مگر اس میں جو بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ صرف ایک معمولی خواب تھا۔سو یہ عقیدہ غلط ہے اور جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ معراج میں آنحضرت اِسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے۔سو یہ عقیدہ بھی غلط ہے۔بلکہ اصل بات اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ معراج کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ ایک وجود تھا مگر نورانی،اور ایک بیداری تھی‘ مگر کشفی اور نورانی جس کو اِس دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے مگر وہی جن پر وہ کیفیت طاری ہوئی ہو۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 491
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 491
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/491/mode/1up
ورنہ ظاہری جسم اورظاہری بیداری کے ساتھ آسمان پر جانے کے واسطے تو خود یہودیوں نے معجزہ طلب کیا تھا جس کے جواب میں قرآن شریف میں کہا گیا تھا۔ 33 ۱ کہہ دے میرا رب پاک ہے میں تو ایک انسان رسول ہوں۔انسان اس طرح اُڑ کر کبھی آسمان پرنہیں جاتے۔یہی سنت اﷲ قدیم سے جاری ہے۔
ایک اور غلطی اکثر مسلمانوں کے درمیان ہے کہ وہ حدیث کو قرآن شریف پر مقدم کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط بات ہے۔قرآن شریف ایک یقینی مرتبہ رکھتا ہے اور حدیث کا مرتبہ ظنّی ہے۔حدیث قاضی نہیں بلکہ قرآن اُس پر قاضی ہے۔ہاں حدیث قرآن شریف کی تشریح ہے۔اس کو اپنے مرتبہ پر رکھنا چاہیے۔حدیث کو اس حدتک ماننا ضروری ہے کہ قرآن شریف کے مخالف نہ پڑے اور اس کے مطابق ہولیکن اگر اس کے مخالف پڑے تو وہ حدیث نہیں بلکہ مردود قول ہے۔لیکن قرآن شریف کے سمجھنے کے واسطے حدیث ضروری ہے۔قرآن شریف میں جو احکام الٰہی نازل ہوئے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عملی رنگ میں کرکے اور کراکے دکھادیا اور ایک نمونہ قائم کر دیا۔اگر یہ نمونہ نہ ہوتا تو اسلام سمجھ میں نہ آسکتالیکن اصل قرآن ہے۔بعض اہل کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست ایسی احادیث سنتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوئیں یا موجودہ احادیث کی تصدیق کر لیتے ہیں۔
غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو کہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن سے خداتعالیٰ ناراض ہے اور جو اسلامی رنگ سے بالکل مخالف ہیں۔اس واسطے اﷲ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک کہ وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہِ راست پر نہ آجاویں اور اس مطلب کے واسطے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں اِن سب غلطیوں کو دور کرکے اصلی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 492
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 492
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/492/mode/1up
اسلام پھر دنیا پر قائم کروں۔
یہ فرق ہے ہمارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان۔ان کی حالت وہ نہیں ر ہی جو اسلامی حالت تھی۔یہ مثل ایک خراب اور نکمے باغ کے ہوگئے ۔ان کے دل ناپاک ہیں اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایک نئی قوم پید اکرے جو صدق اور راستی کو اختیار کرکے سچے اسلام کا نمونہ ہو۔ فقط* ۔
(الحکم مورخہ ۱۷؍فروری۔ ۱۷؍مئی و ۱۷؍جون ۱۹۰۶ء)
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 393
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 394
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 394
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 395
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 395
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نحمدہ ونصلی علٰے رسولہِ الکریم
*
۵پانچ زلزلوں کے آنے کی نسبت خدا تعالیٰ کی پیشگوئی
جس کے الفاظ یہ ہیں
’’چمک دکھلاؤں گا تم کو اِس نشاں کی پنج بار‘‘
T
اِس وحی الٰہی کا یہ مطلب ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کیلئے اور محض اس غرض سے کہ تا لوگ سمجھ لیں کہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں ۵پانچ دہشت ناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلہ سے آئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں اور ہر ایک میں اُن میں سے ایک ایسی چمک ہوگی کہ اس کے دیکھنے سے خدایاد آجائے گا۔ اور دلوں پر اُن کا ایک خوفناک اثر پڑے گا اور وہ اپنی قوت اور شدّت اور نقصان رسانی میں غیرمعمولی ہوں گے۔ جن کے دیکھنے سے انسانوں کے ہوش جاتے رہیں گے۔ یہ سب کچھ خدا کی غیرت کرے گی۔ کیونکہ ؔ لوگوں نے وقت کو شناخت نہیں کیا اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں پوشیدہ تھا مگر اب مَیں اپنے تئیں ظاہر کروں گا اور مَیں اپنی چمکار دکھاؤں گا اور اپنے بندوں کو رہائی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 396
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 396
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دوں گا۔ اُسی طرح جس طرح فرعون کے ہاتھ سے موسیٰ نبی اور اُس کی جماعت کو رہائی دی گئی اور یہ معجزات اُسی طرح ظاہر ہوں گے کہ جس طرح موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے۔ اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلاؤں گا اور مَیں اُسے مدد دوں گا جو میری طرف سے ہے اور مَیں اس کا مخالف ہو جاؤں گا جو اس کا مخالف ہے۔ *
سو اے سُننے والو! تم سب یاد رکھو کہ اگر یہ پیشگوئیاں صرف معمولی طور پر ظہور میں آئیں توتم سمجھ لو کہ مَیں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔ لیکن ان پیشگوئیوں نے اپنے پورے ہونے کے وقت دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیااور شدّت گھبراہٹ سے دیوانہ سا بنا دیا اور اکثر مقامات میں عمارتوں اور جانوں کو نقصان پہنچایا تو تم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لئے یہ سب کچھ کر دکھایا۔ وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرّہ ذرّہ ہے اُس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ مَیں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔ یعنی کسی جوتشی یا ملہم یا خواب بین کو اُس وقت کی خبر نہیں دی جائے گی بجز اس قدر خبرؔ کے کہ جو اُس نے اپنے مسیح موعود کو دے دی یا آئندہ اس پر کچھ زیادہ کرے۔ اِن نشانوں کے بعد دنیا میں ایک تبدیلی پیدا ہوگی اور اکثر دل خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اور اکثر سعید دلوں پر دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور غفلت کے پردے درمیان سے اُٹھا دیئے جائیں گے اور حقیقی اسلام کا شربت انہیں پلایا جائے گا۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے:۔
چو دَورِ خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلماں بازکردند
دَورِ خسروی سے مراد اس عاجز کا عہدِ دعوت ہے مگر اس جگہ دنیا کی بادشاہت مراد نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت مراد ہے جو مجھ کو دی گئی۔ خلاصہ معنی اس الہام کا یہ ہے
تھوڑی غنودگی کی حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک کاغذ پر لکھا ہوا مجھے یہ دکھلایا کہ۔ تلک اٰیات
الکتاب المبین۔ یعنی قرآن شریف کی سچائی پر یہ نشان ہوں گے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 397
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 397
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کہ جب دَورِ خسروی یعنی دَورِ مسیحی جو خدا کے نزدیک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ششم ہزار کے آخر میں شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں۔ اور میرے لئے یہ شکر کی جگہ ہے کہ میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنے معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کی۔ اور ایک جماعت ہندوؤں اور انگریزوں کی بھی مشرف باسلام ہوئی۔ چنانچہَ کل کے دن ہی ایک ہندو میرے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوا جس کا نام محمد اقبال رکھا ؔ گیا۔ اور مَیں کل کے دن چند دفعہ اس الہام الٰہی کو پڑھ رہا تھا کہ یک دفعہ میری رُوح میں یہ عبارت پھونکی گئی جو پہلے الہام کے بعد میں ہے۔
مقامِ او مبیں از راہِ تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند
ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اِس وحی الٰہی میں جو لکھی جاتی ہے میرے ہاتھ پر دینِ اسلام کے پھیلانے کی خوشخبری دی جیسا کہ اُس نے فرمایا:۔ یاقمر یا شمس انت منّی وانا منک۔ یعنی اے چاند اور اے سورج ! تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں۔ اِس وحی الٰہی میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور اپنا نام سورج رکھا۔ اِس سے یہ مطلب ہے کہ جس طرح چاند کا نور سورج سے فیضیاب اور مستفاد ہوتا ہے اِسی طرح میرا نور خداتعالیٰ سے فیضیاب اور مستفاد ہے۔ پھر دوسری دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنا نام چاند رکھا اور مجھے سورج کرکے پکارا اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا۔ وہ پوشیدہ تھا۔ اب میرے ہاتھ سے ظاہر ہو جائے گا ۔اور اُس کی چمک سے دنیا بے خبر تھی مگر اب میرے ذریعہ سے اس کی جلالی چمک دنیا کی ہر ایک طرف پھیل جائے گی۔ اور جس طرح تم بجلی کو دیکھتے ہو کہ ایک طرف سے روشن ہو کر ایک دم میں تمام سطح آسمان کی روشن کر دیتی ہے۔ اسی طرح اِس زمانہ میں بھی ؔ ہوگا۔ خدا تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تیرے لئے مَیں زمین پر اُترا اور تیرے لئے میرا نام چمکا اور
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 398
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 398
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مَیں نے تجھے تمام دنیا میں سے چُن لیااور فرماتا ہے۔ قال ربّک انہ نازلٌمن السّمآء مَا یُرْضیک۔ یعنی تیرا خدا کہتا ہے کہ آسمان سے ایسے زبردست معجزات اُتریں گے جن سے تو راضی ہو جائے گا۔ سو اُن میں سے اس ملک میں ایک طاعون اور د۲و سخت زلزلے تو آچکے جن کی پہلے سے مَیں نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر خبر دی تھی۔ مگر اب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۵پانچ زلزلے اور آئیں گے۔ اور دنیا اُن کی غیر معمولی چمک کو دیکھے گی اور اُن پر ثابت کیا جائے گا کہ یہ خداتعالیٰ کے نشان ہیں جو اُس کے بندے مسیح موعودؑ کے لئے ظاہر ہوئے۔ افسوس اِس زمانہ کے منجم اور جوتشی اِن پیشگوئیوں میں میرا ایسا ہی مقابلہ کرتے ہیں جیسا کہ ساحروں نے موسیٰ نبی کا مقابلہ کیا تھا اور بعض نادان ملہم جو تاریکی کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں وہ بلعم کی طرح میرے مقابلہ کے لئے حق کو چھوڑتے اور گمراہوں کو مدد دیتے ہیں مگر خدا فرماتا ہے کہ مَیں سب کو شرمندہ کروں گا اورکسی دوسرے کو یہ اعزاز ہرگز نہیں دوں گا۔ اِن سب کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے نجوم یا الہام سے میرا مقابلہ کریں اور اگر کسیؔ حملہ کو اب اٹھا رکھیں تو وہ نامرد ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں ان سب کو شکست دوں گا اور مَیں اس کا دشمن بن جاؤں گا جو تیرا دشمن ہے۔ اور وہ فرماتا ہے کہ اپنے اسرار کے اظہار کیلئے مَیں نے تجھے ہی برگزیدہ کیا ہے اور زمین اورآسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ میرے ساتھ ہے۔اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میرا عرش۔ اِسی کے مطابق قرآن شریف میں یہ آیت ہے جو خدا کے برگزیدہ رسولوں کو غیروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اور وہ یہ ہے۔3 33 ۱۔یعنی کھلا کھلا غیب صرف برگزیدہ رسول کو عطا کیا جاتا ہے۔ غیر کو اس میں حصّہ نہیں۔ سو ہماری جماعت کو چاہیئے جو ٹھوکر نہ کھاویں اور ان غیروں کو جو میرے مقابل پر ہیں اور میری بیعت کرنے والوں میں داخل نہیں ہیں کچھ بھی چیز نہ سمجھیں ورنہ خدا کے غضب کے نیچے آئیں گے۔ ہر ایک بیہودہ گو جو پیشگوئی کرتا ہے خدا ایسے لوگوں سے سچے ایمانداروں کو آزماتا ہے کہ کیا وہ غیر کو وہ وقعت اور عزّت دیتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول کو دینی چاہیئے اور دیکھتا ہے کہ کیا وہ اُس
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 399
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 399
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
سچائی پر قائم ہیں یا نہیں جو ان کو دی گئی۔
اور یاد رہے کہ جب یہ ۵ پانچ زلزلے آچکیں گے اور جس قدر خدا نے تباہی کا ارادؔ ہ کیا ہے وہ پورا ہو چکے گا تب خدا کا رحم پھر جوش مارے گا اور پھر غیر معمولی اور دہشت ناک زلزلوں کا ایک مدت تک خاتمہ ہو جائے گا۔ اور طاعون بھی ملک میں سے جاتی رہے گی۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا۔ یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَےْسَ فِیْھَا اَحَدٌ یعنی اِس جہنّم پر جو طاعون اور زلزلوں کا جہنّم ہے ایک دن ایسا زمانہ آئے گا کہ اس جہنم میں کوئی فرد بشر بھی نہیں ہوگا۔ یعنی اس ملک میں اور جیسا کہ نوحؑ کے وقت میں ہوا کہ ایک خلقِ کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا۔ اور پھر اس الہام کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ثم یغاث الناس ویعصرون۔ یعنی پھر لوگوں کی دُعائیں سُنی جائیں گے اور وقت پر بارشیں ہوں گی اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آجائے گا اور غیر معمولی آفتیں دُور ہو جائیں گی۔ تا لوگ یہ خیال نہ کریں کہ خدا صرف قہار ہے رحیم نہیں ہے اور تا اس کے مسیح کو منحوس قرار نہ دیں*۔
یاد رہے کہ مسیح موعود کے وقت میں موتوں کی کثرت ضروری تھی اور زلزلوں اور طاعون کا آنا ایک مقدّر امر تھا۔ یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے دم سے لوگ مریں گے اور جہاں تک مسیحؑ کی نظر جائے گی اس کا قاتلانہ دم اثر کرے گا۔ پسؔ یہ نہیں
مسیح موعود کے لئے ابتدا سے یہی مقدر ہے کہ پہلے تو وہ قہاری رنگ میں ظاہر ہوگا اور جہاں تک
اس کی نظر کام کرتی ہے اس کے دم سے لوگ مریں گے یعنی وہ زمانہ جہاد اور تلوار سے لڑنے کازمانہ نہیں ہوگاصرف مسیح موعود کی رُوحانی توجہ تلوار کا کام دکھلائے گی اور قہری نشان آسمان سے نازل ہوں گے جیسے طاعون اور زلزلے وغیرہ آفات۔ تب اس کے بعد خدا کا مسیح نوع انسان کو رحم کی نظر سے دیکھے گا اور آسمان سے رحم کے آثار ظاہر ہوں گے اور عمروں میں برکت دی جائے گی اور زمین میں سے رزق کا سامان بکثرت پیدا ہوگا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 400
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 400
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/400/mode/1up
سمجھنا چاہیئے کہ اس حدیث میں مسیح موعود کو ایک ڈائن قرار دیا گیا ہے جو نظر کے ساتھ ہر ایک کا کلیجہ نکالے گا بلکہ معنے حدیث کے یہ ہیں کہ اُس کے نفحاتِ طیّبات یعنی کلمات اس کے جہاں تک زمین پر شائع ہوں گے تو چونکہ لوگ اُن کا انکار کریں گے اور تکذیب سے پیش آئیں گے اور گالیاں دیں گے اس لئے وہ انکار موجب عذاب ہو جائے گا*۔یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ مسیح موعود کا سخت انکار ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں مری پڑے گی اور سخت سخت زلزلے آئیں گے اور امن اُٹھ جائے گا۔ ورنہ یہ غیر معقول بات ہے کہ خواہ نخواہ نیکو کار اور نیک چلن آدمیوں پر طرح طرح کے عذاب کی قیامت آوے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانوں میں بھی نادان لوگوں نے ہر ایک نبی کو منحوس قدم سمجھا ہے اور اپنی شامتِ اعمال اُن پر تھاپ دی ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتاہے۔ اور اُس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے۔ اور سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہے کہ مسیح کے وقت میں جہاد کا حکم منسوخ کر دیا جائے گا جیسا کہ
صحیح بخاری میں بھی مسیح موعود کی صفات میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح موعود جب آئے گا تو جنگ اور جہاد کو موقوف کردے گا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ جب مسیح کی روحانی توجہ سے قہری نشان ظاہر ہوں گے اور لاکھوں انسان طاعون اور زلازل وغیرہ سے مریں گے تو پھر تلوار کے ذریعہ سے کسی کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور خدا اس سے رحیم تر ہے کہ د۲و قسم کے شدید عذاب ایک ہی وقت میں کسی قوم پر نازل کرے یعنی ایک قہری نشانوں کا عذاب اور دوسرا انسانوں کے ذریعہ سے تلوار کا عذاب۔ اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ یہ د۲و قسم کے عذاب ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 401
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 401
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/401/mode/1up
پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھارہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھاؔ نہیں چھوڑتے۔اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہوگیا ہے*۔ جس کی تم تکذیب کررہے ہو۔ اب ہجری صدی کا بھی چوبیسو۲۴اں سال ہے بغیر قائم ہونے کسی مرسلِ الٰہی کے یہ وبال تم پر کیوں آگیا جو ہر سال تمہارے دوستوں کو تم سے جُدا کرتا اور تمہارے پیاروں کو تم سے علیحدہ کر کے داغِ جدائی تمہارے دلوں پر لگاتا ہے آخر کچھ بات تو ہے کیوں تلاش نہیں کرتے اور تم کیوں اس آیت موصوفہ بالا میں غور نہیں کرتے جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱۔ یعنی ہم کسی بستی پر غیر معمولی عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ہم اُن پر اتمام حجت کیلئے ایک رسول نہ بھیج دیں۔ اب تم خود سوچ کر دیکھ لو کہ کیا یہ غیر معمولی عذاب نہیں جو تم کئی سال سے بھگت رہے ہو۔ تم وہ مصیبتیں دیکھ رہے ہو جن کا تمہارے باپ دادوں نے نام بھی نہیں سُنا تھا اور جن کی ہزاروں برس تک اس ملک میں نظیر نہیں پائی جاتی۔ اور جس طاعون اور جس زلزلہ کو اب تم دیکھتے ہو میں اپنے کشفی عالم میں پچیس۲۵ برس سے اسے دیکھ رہا ہوں۔ اگر خدا نے مجھے یہ تمام خبریں پہلے سے نہیں دیں تو مَیں جھوٹا ہوں۔ لیکن اگر یہ خبریں پچیس۲۵ برس سے میری کتابوں میںؔ مندرج ہیں اور متواتر مَیں قبل از وقت خبرخ دیتا رہا ہوں تو تمہیں ڈرنا چاہیئے
نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ
اور مخاطبہ الٰہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو۔ یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امّتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اُس نے آنحضرت ؐ کی پیروی سے پایا ہے نہ براہِ راست۔ منہ
خ انہیں سخت زلزلوں کی خبریں میری کتاب براہین احمدیہ میں آج سے پچیس برس پہلے شائع
ہوچکی ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 402
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 402
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/402/mode/1up
ایسا نہ ہو کہ تم خدا کے الزام کے نیچے آجاؤ۔ تم سُن چکے ہو کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کی پیشگوئی ایک برس پہلے مَیں نے اخباروں میں شائع کی تھی۔ اور اس میں صرف یہی لفظ نہیں تھا کہ ’’زلزلہ کا دھکا‘‘ بلکہ یہ الہام بھی تھا کہ عفت الدیار محلھا ومقامھا یعنی ملک پنجاب کے بعض حصوں کی عمارتیں تباہ اور ناپدید ہو جائیں گی۔ سو اب مجھے اس بات کے لکھنے کی ضرورت نہیں کہ کس صفائی سے وہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ پھر بعد اس کے اُسی اپریل کے مہینہ میںیہ دوسری پیشگوئی خدا تعالیٰ کی وحی سے مَیں نے شائع کی تھی کہ جیسا کہ یہ زلزلہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کا موسمِ بہار میں آیا ایسا ہی ایک دوسرا زلزلہ موسم بہار میں ہی آئے گا اور اس سے پہلے نہیں آئے گا اور ضروری ہے کہ ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء تک وہ زلزلہ نہ آوے۔ سو گیارہ مہینہ تک کوئی زلزلہ نہ آیا اور جب ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء گزر گئی تب ۲۷؍ فروری ۱۹۰۶ء کی رات کو عین وسط بہار میں ایک بجے کے وقت ایسا سخت زلزلہ آیا کہ انگریزی اخبارات سِول وغیرہ کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ یہ زلزلہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے برابر تھا۔ اور رام پور شہر علاؔ قہ شملہ اور بہت سے اور مقامات میں جانوں اور عمارتوں کا نقصان ہوا۔ یہ وہی زلزلہ تھا جس کی نسبت گیارہ مہینے پہلے خدا تعالیٰ کی وحی نے یہ خبردی تھی کہ
’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘*
افسوس کہ بعض متعصب مولوی محض ہٹ دھرمی سے اس کھلی کھلی پیشگوئی پر گرد ڈالنا چاہتے ہیں اور
لوگوں کو دھوکا دے کر یہ کہتے ہیں کہ آئندہ زلزلہ کی نسبت تو یہ لکھا گیا تھا کہ وہ قیامت کا نمونہ ہوگا مگر یہ زلزلہ تو قیامت کا نمونہ نہیں۔ اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین مَیں بار بار اپنے رسالوں اور اشتہارات میں یہ پیشگوئی شائع کر چکاہوں کہ کئی زلزلے آئیں گے۔ اور ایک قیامت کا نمونہ ہوگا یعنی اُس میں بہت سی جانوں کا نقصان ہوگا۔ مگر ایک زلزلہ بہار میں آئے گا جیسا کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ بہار کے دنوں میں آیا تھا اور اس کی نسبت یہ الہام تھا۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 403
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 403
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/403/mode/1up
سو اسی کے مطابق موسم بہار میں یہ زلزلہ آیا۔ اب سوچ کر دیکھ لو کہ یہ بجز خدا کے کس کی طاقت ہے کہ اس تصریح کے ساتھ پیشگوئی کر سکے۔ میرے ہاتھ میں تو زمین کے طبقات نہیں تھے کہ مَیں گیار۱۱ہ مہینے تک ان کو تھام رکھتا اور پھر ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء کے بعد ایک زور کا دھکا دے کر زمین کو ہلا دیتا۔ سو اے عزیزو! جبکہ تم نے یہ دونوں زلزلے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے تو اب تمہیں اس بات کا سمجھناسہل ہے کہ آئندہ پنج زلزلوں کی خبر بھی کوئی گپ نہیں ہے۔ اور تم یہ بھی سمجھ سکتے ہو کہ جیسا کہ یہ یقین کرنا انسانی طاقت سے باہر تھا کہ گیار۱۱ہ ماہ تک اپریل کے زلزلہ کی مانند کوئی زلزلہ نہیں آئے گا بلکہ عین بہار میں ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء کے بعد آئے گا۔ ایسا ہی یہ یقین کرنا بھی انسانی طاقت سے باہر ہے کہ اب بعد اس کے ۵پانچ شدید زلزلے آئیں گے جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ اپنے چہرہ کی چمکار دکھلائے گا یہاں تک کہ ان کو جو خدا کی ہستی کے قائل نہیں اقرار کی طرف کھینچے گا۔ اور پھر بعد اس کے امن ہوؔ جائے گا اور دنیا اپنی معمولی حالت پر آجائے گی۔ اور ایک مدّت تک ایسے زلزلے پھر کبھی نہیں آئیں گے۔ آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی علم طبقات الارض کا اس تصریح اور تفصیل کو بتلا نہیں سکتا بلکہ وہ خدا جو زمین اور آسمان کا خدا ہے وہ اپنے خاص رسولوں کو یہ اسرار بتلاتا ہے نہ ہر ایک کو تا دنیا کے لوگ کفر اور انکار سے بچ جائیں اور تا وہ ایمان لائیں اورجہنم کے عذاب سے نجات پائیں۔ سو دیکھو مَیں زمین و آسمان کو گواہ کرتا ہوں کہ آج مَیں نے
پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ سو ۲۸؍ فروری ۱۹۰۶ء کا زلزلہ عین بہار میں آیا جس سے آٹھ آدمی مر گئے اور انیس ۱۹ مجروح ہوئے اور صدہا مکان گر گئے۔ اور اسی زلزلہ کے بارے میں پیسہ اخبار ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۵ تیسرے کالم میں لکھا ہے کہ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۶ء کی شب کے بھونچال میں موضع دودہ پور ضلع انبالہ تحصیل جگادھری کے سارے آدمی رات کو سوئے ہوئے مر گئے۔ صرف تین آدمی بچے اور نیرہ ضلع سہارنپور میں زلزلہ کی رات کو ایک سوکھا کنواں پانی سے بھر گیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 404
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 404
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/404/mode/1up
وہ پیشگوئی جو ۵پانچ زلزلوں کے بارے میں ہے بتصریح بیان کر دی ہے تا تم پر حجت ہو اور تا تمہاری گمراہی پر موت نہ ہو۔ اے عزیز! خدا سے مت لڑو کہ اس لڑائی میں تم ہرگز فتح یاب نہیں ہو سکتے۔ خدا کسی قوم پر ایسے سخت عذاب نازل نہیں کرتا اور نہ کبھی اُس نے کئے جب تک اُس قوم میں اُس کی طرف سے کوئی رسول نہ آیا ہو۔ یعنی جب تک اُس کا بھیجا ہوا اُن میں ظاہر نہ ہوا ہو۔ سو تم خدا کے قانونِ قدیم سے فائدہ اُٹھاؤ اورتلاش کرو کہ وہ کون ہے جس کے لئے تمہاری آنکھوں کے روبرو آسمان پر رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہوا اور زمین پر طاعون پھیلی اور زلزلے آئے۔ اور یہ پیشگوئیاں قبل از وقت کسؔ نے تم کو سُنائیں اور کس نے یہ دعویٰ کیا کہ مَیں مسیح موعود ہوں۔ اُس شخص کو تلاش کرو کہ وہ تم میں موجود ہے اور وہ یہی ہے کہ جو بول رہا ہے۔ 3 3 3 ۱۔
مَیں نے اِس جگہ تک مضمون کو ختم کیا تھا کہ آج پھر ۱۵؍ مارچ ۱۹۰۶ء کو بروزپنج شنبہ وقت صبح یہ الہام ہوا۔ خدا نکلنے کو ہے انت منّی بمنزلۃ بروزی۔ وعد اللّٰہ اِنّ وعداللّٰہ لا یُبدّل۔ یعنی خدا اِن پانچ زلزلوں کو لانے سے اپنا چہرہ ظاہر کرے گا۔ اور اپنے وجود کو دکھلادے گا۔ اور تُومجھ سے ایسا ہے جیسا کہ مَیں ہی ظاہر ہوگیا۔ یعنی تیرا ظہور بعینہٖ میرا ظہور ہوگا یہ خدا کا وعدہ ہے کہ پا۵نچ زلزلوں کے ساتھ خدا اپنے تئیں ظاہر کرے گا۔ اور خدا کا وعدہ نہیں ٹلے گا اور وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
یاد رہے کہ پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک صرف وعید کی جس سے مقصود صرف سزا دینا اور عذاب دینا ہوتا ہے۔ ایسی پیشگوئی اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو تو کسی کے ڈرنے اور توبہ اور استغفار یا صدقہ دُعا سے ٹل سکتی ہے جیسا کہ یونس نبی کی پیشگوئی ٹل گئی اور ظہور میں نہ آئی کیونکہ یونس نبی کو وعید کے طور پر بتلایا ؔ گیا تھا کہ چالیس۴۰ دن تک تیری قوم پر عذاب نازل ہو جائے گا اور یہ پیشگوئی قطعی طور پر بغیر کسی شرط کے تھی مگر تب بھی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 405
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 405
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/405/mode/1up
جب یونسؑ کی قوم نے توبہ اور استغفار کیا اور اُن کے دل ڈر گئے تو خدا تعالیٰ نے اس عذاب کا وارد کرنا موقوف رکھا اوروہ قطعی پیشگوئی ٹل گئی جس کی وجہ سے یونس نبی کو بڑی مصیبت پیش آئی اور اُس نے نہ چاہا کہ کذّاب کہلا کر پھر اپنی قوم کو مُنہ دکھاوے۔ اور وعید کی پیشگوئی کا توبہ استغفار یا صدقہ سے ٹل جانا ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ کسی فرقہ یا قوم کو اس سے انکار نہیں کیونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اتفاق سے یہ بات مسلّم ہے کہ توبہ استغفار اور صدقہ خیرات سے بَلا ردّ ہو سکتی ہے۔ اَب ظاہر ہے کہ جس بَلا کو خدا نے کسی پر وارد کرنا چاہا ہے اگر نبی کو پیش از وقت اُس بَلا کا علم دیا جائے تو وہی وعید کی پیشگوئی کہلائے گی۔ اور اگر کسی نبی کو پیش از وقت اس کا علم نہ دیا جائے تو صرف خدا تعالیٰ کا مخفی ارادہ ہوگا۔ اس جگہ ان نادان مولویوں کی کس قدر پردہ دری ہوتی ہے جو مجھ پر اعتراض کر کے کہتے ہیں کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم پند۱۵رہ مہینے کی میعاد میں نہیں مرا بلکہ چند ماہ بعد مرا۔ اور نہیں جانتے کہ وہ وعید کی پیشگوئی تھی اور باوجود اس کے یونسؑ کی پیشگوئی کی طرح صرف قطعی نہ تھی بلکہؔ اس کے ساتھ یہ لفظ تھے کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ یعنی اُس حالت میں پندر۱۵ہ مہینے کے اندر مرے گا کہ جب اس کے دل نے حق کی طرف رجوع نہ کیا ہو۔ لیکن یہ بات عیسائیوں کی شہادت سے بھی ثابت شدہ ہے کہ اُس نے اُسی مجلس میں جب یہ پیشگوئی سُنائی گئی تھی حق کی طرف رجوع کر لیا تھا اور ڈر گیا تھا کیونکہ جب مَیں نے مباحثہ کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد سا۶۰ٹھ یا ستّر ۷۰گواہوں کے روبرو جس میں سے بعض مسلمان اور بعض عیسائی تھے ڈاکٹر مارٹن کلارک کی کوٹھی پر بلند آواز سے یہ کہا کہ آپ نے اپنی فلاں کتاب میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دجّال رکھا ہے ا س لئے خدا نے ارادہ کیا ہے کہ پندرہ مہینے کے اندر وہ آپ کو ہلاک کرے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرو۔ تب وہ اس پیشگوئی کوسُنتے ہی ڈر گیا اور اس کا رنگ زرد ہوگیا اور اُس نے اپنی زبان باہر نکالی اور دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھے۔ اور
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 406
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 406
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/406/mode/1up
اُس کا بدن خوف سے کانپ اُٹھا اور توبہ کرنے والے کی شکل بنا کر کہا کہ مَیں نے آنحضرتؐ کو ہرگز دجّال نہیں کہا۔ میرے خیال میں اس وقت تیس۳۰ سے زیادہ اس جلسہ میں عیسائی موجود ہوں گے جن میں سے ایک ڈاکٹر مارٹن کلارک بھی تھے جو اب تک زندہ موجود ہیں۔ اگر اُن سے حلفًا ؔ دریافت کیا جائے تو مَیں امید نہیں رکھتا کہ وہ خلاف واقعہ بیان کر سکیں یا اس واقعہ کا اخفا کر سکیں۔ پھر باوجود اس کے یہ امر بھی ثابت ہے کہ اس پیشگوئی کے سُنتے ہی ڈپٹی عبداللہ آتھم کے دل پر سخت بے چینی اور بے قراری طاری ہوگئی اور وہ پیشگوئی کے اثر سے دیوانہ کی طرح ہوگیا اور اکثر روتا تھا اور بعد اس کے دین اسلام کے ردّ میں ایک سطر بھی اُس نے شائع نہ کی یہاں تک کہ صرف چند ماہ بعد فوت ہوگیا اور مَیں نے متواتر اشتہاروں سے اس پر حجت پوری کی۔ اور اشتہاروں میں لکھا کہ اگر اُس نے پیشگوئی کی شرط کے موافق اپنے دل میں حق کی طرف رجوع نہیں کیا تو وہ حلفًا بیان کرے تو مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ مَیں چار ہزار روپیہ اس حلف کے بعد بلا توقف اس کو دوں گا مگر باوجود عیسائیوں کے اصرار کے (کہ حلف اُٹھالے) اُس نے قسم نہ کھائی۔ اور اس طرح ٹال دیا کہ قسم کھانا ہمارے مذہب میں منع ہے حالانکہ انجیل سے ثابت ہے کہ پطرس نے قسم کھائی۔ پولوس نے قسم کھائی اور خود حضرت مسیحؑ نے قسم کھائی۔ پھر منع کیونکر ہوگئی۔ اور اب تک عدالتوں میں عیسائی گواہوں کو قسم دی جاتی ہے۔ بلکہ دوسروں کے لئے اقرار صالح اور عیسائیوں کے لئے خاص طور پر قسم ہے۔ غرض باوجود اس حیلہ بہانہ کے پھر موتؔ سے بچ نہ سکا۔ اور جیسا کہ مَیں نے اشتہارات میں شائع کیا تھامیرے آخری اشتہار سے صرف چند مہینے بعد مر گیا۔ اور موت کی بیماری تو اُنہیں دنوں میں اس کو شروع ہوگئی تھی۔
یہ ہیں ہمارے مخالف مولویوں کے اعتراض جنہوں نے علم قرآن اور حدیث کا پڑھ کر ڈبودیا۔ اب تک انہیں معلوم نہیں کہ وعید کی پیشگوئی اور وعدہ کی پیشگوئی میں فرق کیا ہے؟ اور اب تک یونس نبی کے قصّہ سے بھی بے خبر ہیں جو دُرَِّ منثور میں بھی تفصیل سے مندرج ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 407
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 407
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/407/mode/1up
چونکہ اُن کی نیّتیں درست نہیں اس لئے اعتراض کے وقت اُن کو وہ پیشگوئیاں یاد نہیں رہتیں جو دس ہزار سے بھی زیادہ مجھ سے وقوع میں آگئی ہیں۔ اور جیسا کہ خدا نے فرمایا تھا ویسا ہی ظہور میں آئیں۔ اور اگر کوئی وعید کی پیشگوئی جو کسی شخص کے عذاب پرمشتمل تھی اپنے وقت سے ٹل گئی ہو تو اس پر شور مچاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان ہی نہیں۔ اور میرے پرحملہ کرنے کے جوش سے تمام نبیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر ڈپٹی آتھم پندرہ مہینے میں نہیں مرا تو آخر چند ماہ بعد میری زندگی میں ہی مرگیا۔ اور پیشگوئی میں صاف یہ لفظ تھے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جائے گا۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ عیسائی مذہب سچا ہے اور میرا دعویٰ تھا کہ اسلام سچا ہے پسؔ خدا نے میری زندگی میں اُس کو ہلاک کر دیا اور مجھے سچا کیا۔ پند۱۵رہ مہینے کو بار بار بیان کرنا اور ان امور کا ذکر نہ کرنا کیا یہی ان مولویوں کی دیانتداری ہے؟ نہیں سوچتے کہ یونس نبی کی تو قطعی عذاب کی پیشگوئی تھی جس کی نسبت خبر دی گئی تھی کہ چالیس۴۰ دن تک بہر حال اس قوم پر عذاب وارد ہو جائے گا مگر وہ عذاب اُن پر وارد نہ ہوا یہاں تک کہ یونسؑ اُن میں سے بہتوں کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا۔ ہائے افسوس! اگر ان لوگوں کی نیّت درست ہوتی تو آتھم کے واقعہ کے بعد جو پیشگوئی لیکھرام کی نسبت کی گئی تھی جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہ تھی اور جس میں صاف طور پر وقت اور قسم موت بتلائی گئی تھی اسی پر غور کرتے کہ کیسی صفائی سے وہ پوری ہوئی۔ مگر کون غور کرے جب تعصب سے دل اندھے ہوگئے۔ اور اگر ایک ذرّہ دلوں میں انصاف ہوتا تو ایک نہایت سہل طریق اُن کے لئے مہیّا تھا کہ جن پیشگوئیوں کے نہ پورے ہونے پر اُن کو اعتراض ہے وہ لکھ کر میرے سامنے پیش کرتے کہ وہ کس قدر ہیں اور پھر مجھ سے اس بات کا ثبوت لیتے کہ وہ پیشگوئیاں جو پوری ہوگئیں وہ کس قدر ہیں تو اس امتحان سے اُن کے تمام پردے کھل جاتے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ محلِّ اعتراض اُن کے پاس صرف ایکؔ دو
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 408
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 408
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/408/mode/1up
وعید کی پیشگوئیاں ہیں جن کے ساتھ شرط بھی تھی جن میں خوف اور ڈرنے کی وجہ سے تاخیر ہو گئی۔ اور جن کی نسبت خدا تعالیٰ کا قدیم قانون ہے کہ وہ توبہ استغفار اور صدقہ اور دُعا سے ٹل سکتی ہیں۔ لیکن اُن کے مقابل پر وہ پیشگوئیاں پوری ہوئیں جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں جن کی سچائی کے لئے کئی لاکھ انسان گواہ ہیں۔ اور صرف ایک فرقہ نہیں بلکہ تمام فرقے۔ کیا مسلمان اور کیا ہندو اور کیا عیسائی ان کی سچائی کی شہادت دینے کے لئے مجبور ہیں پس کیا یہ ایمانداری تھی کہ پیشگوئیوں کی ایک عظیم الشان فوج کو جن کی سچائی پر لاکھوں انسان گواہ ہیں کالعدم سمجھ کر ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھانا۔ اور وعید کی ایک دو پیشگوئیوں کو جو خدا کے قدیم قانون کے موافق تاخیر پذیر ہوگئیں بار بار پیش کرنا۔ اگر یہی حال ہے تو کسی نبی کی نبوّت قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ ان واقعات کا ہر ایک نبوت میں نمونہ موجود ہے اِسی لئے مَیں کہتا ہوں کہ یہ لوگ دین اور سچائی کے دشمن ہیں۔ اور اگر اب بھی ان لوگوں کی کوئی جماعت دلوں کو درست کر کے میرے پاس آوے تو مَیں اب بھی اِس بات کے لئے حاضر ہوں کہ اُن کے لغو اور بیہودہ شبہات کا جواب دوں اور ان کو دکھلاؤں کہ کس قدر خدا نے ایک فوجِ کثیر کی طرح میری ؔ شہادت میں پیشگوئیاں مہیّا کر رکھی ہیں جو ایسے طور سے اُن کی سچائی ظاہر ہوئی ہے جیسا کہ دن چڑھ جاتا ہے۔ یہ نادان مولوی اگر اپنی آنکھیں دیدہ و دانستہ بند کرتے ہیں تو کریں۔ سچائی کو ان سے کیا نقصان؟ لیکن وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ بہتیرے فرعون طبع ان پیشگوئیوں پر غور کرنے سے غرق ہونے سے بچ جائیں گے۔ خدا فرماتا ہے کہ مَیں حملہ پر حملہ کروں گا یہاں تک کہ مَیں تیری سچائی دلوں میں بٹھا دوں گا۔
پس اے مولویو! اگر تمہیں خدا سے لڑنے کی طاقت ہے تو لڑو۔ مجھ سے پہلے ایک غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اُس کو سولی دے دی۔ مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا۔ اور یا تو وہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 409
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 409
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/409/mode/1up
زمانہ تھاکہ اُس کو صرف ایک مکّار اور کذّاب خیال کیا جاتا تھا اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر اُس کی عظمت دلوں میں پیدا ہوگئی کہ اب چالیس۴۰ کروڑ انسان اس کو خدا کر کے مانتا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے کُفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے کہ جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پَیروں کے نیچے کُچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس۴۰ کروڑ انسان اُس کو سجدہ کرتے ہیں۔ اورؔ بادشاہوں کی گردنیں اُس کے نام کے آگے جھکتی ہیں۔ سو مَیں نے اگرچہ یہ دُعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا مَیں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا۔ اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے۔ اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پربرکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے*۔
سو اے سُننے والو! اِن باتوں کو یاد رکھو۔ اور اِن پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں
عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے۔ اور کہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی
گردنوں پر تیری اطاعت کا جُوَا اُٹھائیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 410
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 410
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/410/mode/1up
میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا۔ مَیں اپنے نفس میں کوئی نیکیؔ نہیں دیکھتا۔ اور مَیں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ اور مَیں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں۔ یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا۔ پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مُشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا ۔
عجب دارم ازلطفت اے کردگار
پذیرفتہۂ چوں منِ خاکسار
پسندیدگانے بجائے رسند
ز ما کہترانت چہ آمد پسند
چو از قطرۂ خلق پیدا کنی
ہمیں عادت اینجا ہویدا کنی
یہ بات لکھنے سے رہ گئی کہ مذکورہ بالا الہام میں جو یہ لفظ ہیں انّ وعداللّٰہ لایُبدّل۔ یعنی خدا کا وعدہ ٹل نہیں سکتایہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پانچ۵ زلزلوں کا آنا خدا تعالیٰ کا ایک وعدہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا ہاں جو شخص توبہ استغفار کرے گا اور ابھی سے خدا تعالیٰ سے صلح کرے گا اور کوئی سرکشی کی آگ اس میں باقی نہیں رہے گی خدا اس پر رحم کرے گا۔ مگر اس پر رحم کرنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ یہ پا۵نچ زلزلے نہیں آویں گے۔ وہ تو ضرور آویں گے مگر ایسا شخص اُن کے صدمہ سے بچ جائے گا کیونکہ یہ خدا ؔ تعالیٰ کا وعدہ ہے وہ اپنے وعدہ میں تخلّف نہیں کرتا۔ اُس کا وعید ٹل سکتا ہے۔ مگر وعدہ نہیں ٹل سکتا۔ جیسا کہ ہم ابھی پہلے بیان کر چکے ہیں۔
ایک اور بات اس جگہ ذکر کے لائق ہے کہ اس جگہ طبعًا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ اس سے پہلے صدہا نشان میری تصدیق کے لئے کھلے کھلے ظاہر ہو چکے تھے اور ہزارہا تک نوبت پہنچ گئی تھی تو پھر اس مہلک طاعون اور اِن تباہی افگن زلازل کی کیا ضرورت تھی۔ کیا وہ صدہا نشان کافی نہ تھے؟
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 411
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 411
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/411/mode/1up
اس سوال کا جواب د۲و طور سے ہے۔ اوّ۔۱ل یہ کہ انسانی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ رحمت کے نشانوں سے بہت ہی کم فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اور ایسا ہی تعصّب کی وجہ سے دوسری قسم کے چھوٹے چھوٹے نشانوں کے ٹالنے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی حیلہ نکالتا ہے تا کسی طرح دولت قبول سے محروم رہے۔ چنانچہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوا کہ باوجود ہزارہا نشانوں کے ظاہر ہونے کے قوم کے دلوں پر ایک ذرّہ اثر نہ پڑا۔ اگر آپ میری کتاب ’’نزول المسیح‘‘ کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خدا نے نشانوں کے دکھلانے میں کوئی فرق نہیں کیا۔ دوستوں کے لئے بھی نشان ظاہر ہوئے اور دشمنوؔ ں کی تنبیہ کے لئے بھی۔ اور میری ذات کے متعلق بھی۔ اور ایسا ہی میری اولاد کے متعلق بھی نشان ظہور میں آئے۔ اور جس طرح زمین کا ایک بڑا حصّہ سمندر سے بھرا ہوا ہے ایسا ہی یہ سلسلہ خدا کے نشانوں سے بھر گیا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں کوئی نہ کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔ اور ہر ایک پیشگوئی کسی نہ کسی نشان پر مشتمل ہوتی ہے اور مَیں نے اس رسالہ میں دس ہزار نشان کا صرف نمونہ کے طور پر ذکر کیا ہے ورنہ اگر وہ سب تحریر کئے جائیں تو وہ کتاب جس میں وہ قلمبند ہوں ہزار جزو سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ کیا اس قدر غیب کا موج در موج ظاہر ہونا کسی مفتری کے کاروبار میں ممکن ہے۔ میرے نادان مخالفوں کو خدا روز بروز انواع و اقسام کے نشان دکھلانے سے ذلیل کرتا جاتا ہے۔ اور مَیں اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحٰق ؑ سے اور اسمٰعیلؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسٰیؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروؔ ی سے حاصل ہوا۔ اگر مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 412
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 412
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/412/mode/1up
نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو۔ پس اِسی بنا پر مَیں اُمتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظلّ ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں وہی نبوت محمدؐیہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے۔ اور چونکہ مَیں محض ظلّہوں اور اُمّتی ہوں اس لئے آنجنابؐ کی اِس سے کچھ کسرِ شان نہیں۔ اور یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر مَیں ایک دم کے لئے بھی اِس میں شک کروں تو کافر ہوجاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔ وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے۔ اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کرکوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی مَیں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور مَیں اس پر ایسا ہی ایمان لاتاؔ ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر۔ یہ تو ممکن ہے کہ کلام الٰہی کے معنے کرنے میں بعض مواضع میں ایک وقت تک مجھ سے خطا ہو جائے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ مَیں شک کروں کہ وہ خدا کا کلام نہیں۔ اور چونکہ میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے۔ شریعت کا حامل قیامت تک قرآن شریف ہے۔ پس وہ خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوتا ہے ایک خارق عادت کیفیت اپنے اندر رکھتا ہے اور اپنی نورانی شعاعوں سے اپناچہرہ دکھلاتا ہے۔ وہ فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھنس جاتا ہے اور اپنی رُوحانی قوتوں کے ساتھ مجھے پُر کر دیتا ہے۔ وہ لذیذ اور فصیح اور راحت بخش ہے اور ایک الٰہی ہیبت اپنے اندر رکھتا ہے اور غیب کے بیان کرنے میں بخیل نہیں بلکہ غیب کی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 413
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 413
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/413/mode/1up
نہریں اس میں چل رہی ہیں۔ لیکن بعض ہمارے مخالف جو الہام کا دعویٰ کرتے ہیں اوّل تو یہ امواجِ غیبیہ اور ایک دریا اسرار الٰہیہ کا اُن کے الہامات میں نہیں۔ اور خدائی طاقت اور شوکت اُن کو چُھو بھی نہیں گئی۔ علاوہ اِس کے وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ الہامات اُن کے رحمانی ہیں یا شیطانی ہیںؔ ۔ اِسی وجہ سے اُن کا عام عقیدہ ہے کہ ان کے الہام امورِ ظنّیہ میں سے ہیں۔ نہیں کہہ سکتے کہ ایسے القاء خدا سے ہیں یا شیطان سے۔ پس ایسے الہاموں پر فخر کرنا جائے شرم ہے جن میں اس قدر بھی چمک نہیں جس سے پتہ لگ سکے کہ وہ ضرور خدا کی طرف سے ہیں نہ شیطان کی طرف سے۔ خدا پاک ہے اور شیطان پلید ہے۔ پس یہ عجیب الہام ہیں کہ ان سے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ پاک چشمہ سے نکلے ہیں یا پلید چشمہ سے اور دوسری مصیبت یہ کہ اگر کوئی کسی الہام کو خدا کا الہام سمجھ کر اس پر کاربند ہوا اور دراصل وہ شیطان کا الہام ہو تو وہ تو ہلاک ہوگیا یا اگر شیطان کا الہام سمجھ کر خدا کے الہام پر کاربند نہ ہوا تو وہ بھی ہلاکت کے گڑھے میں گرا۔ تو یہ الہام کیا ہوئے؟ ایک خوفناک مصیبت ہوئی جس کا انجام موت ہے۔ اور نیز یہ اسلام پر بھی ایک داغ ہے کہ بنی اسرائیل میں تو ایسے یقینی الہام ہوتے تھے جن کی وجہ سے حضرت موسیٰ ؑ کی ماں نے اپنے معصوم بچے کو دریا میں ڈال دیا اور اس الہام کی سچائی میں کچھ شک نہ کیا اورظنّی نہ سمجھا۔ اور خضر نے ایک بچہ کو قتل بھی کر دیا۔ مگر اس اُ مت مرحومہ کو وہ مرتبہ بھی نہ ملا جو بنی اسرائیل کی عورتوں کو مل گیا۔ پھر اس آیت کے کیا معنے ہوئے کہ3 3 ۱۔کیا اُنہیں ظنّی الہاموں کا نام انعام ہے جو شیطان اور رحمن میں مشترک ہیں۔ جائے شرم۔
اور مذکورہ بالا سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے واقعات
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 414
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 414
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/414/mode/1up
کی پیشگوئیاں اگرچہ خدا کے مرسلوں کی صداقت کی وہ بھی ایک کافی دلیل ہیں کیونکہ مقدار اور کیفیت کے لحاظ سے ان پیشگوئیوں میں بھی دوسرے لوگ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تا ہم جن لوگوں پر وسوسہ اور وہم غالب ہے وہ کسی نہ کسی وہم میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی مامور من اللہ کی دُعا سے کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہو یا وہ مامور لڑکا پیدا ہونے کی خبر دے اور لڑکا پیدا ہو جائے تو بہت سے لوگ بول اُٹھتے ہیں کہ یہ کوئی خاص نشان نہیں بہتیری عورتوں کو بھی اپنی نسبت یا ہمسایہ عورت کی نسبت خوابیں آجاتی ہیں کہ اس کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا۔ تو پھر لڑکا بھی پیدا ہو جاتا ہے تو کیا اُس عورت کو خدا کا نبی یا رسول یا محدّث مان لیا جائے؟ اور گو ایسے تو ہمات میں یہ لوگ جھوٹے ہیں مگر جاہلوں کی زبان کون بند کرے؟ اور جھوٹے اس لئے ہیں کہ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ کسی ایک قول اور شاذ و نادر واقعہ سے کسی کا منجانب اللہ ہوناؔ ثابت ہو جاتا ہے تا ہر ایک خواب دیکھنے والا خدا کا برگزیدہ سمجھا جائے بلکہ اوّل دعویٰ چاہیئے پھر ایسی پیشگوئیاں چاہئیں جو اپنی اپنی کمیّت اور کیفیّت کی رُو سے اُس حد تک پہنچ چکی ہوں کہ جو معمولی انسانوں کی خوابوں یا الہاموں کی شراکت اُن کے ساتھ ممتنع ہو۔ جیسا کہ ایسی پیشگوئیاں چھوٹے چھوٹے واقعات کے متعلق جو میرے ذریعہ سے خدا نے پوری کیں اُن کا عدد کئی ہزار تک پہنچتا ہے اَور کون ہے جس نے تعداد اور صفائی کے لحاظ سے اُن کا مقابلہ کر کے دکھلایا۔ چند سال ہوئے ہیں کہ ایک بدقسمت نادان نے اعتراض کیا تھا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب جو اِس قدر اخلاص رکھتے ہیں اُن کا لڑکا فوت ہوگیا ہے۔ یہ اعتراض اگرچہ نِرا تعصّب اور جہالت کی وجہ سے تھا کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ لڑکے فوت ہوئے تھے مگر میری دُعا پر خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا اور اس کے بدن پر پھوڑے نمودار ہو جائیں گے تا اس بات کا نشان ہو
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 415
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 415
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/415/mode/1up
کہ یہ وہی لڑکا ہے جو دُعا کے ذریعہ سے پیدا ہوا۔پس ایسا ہی وقوع میں آیا۔ اور تھوڑے ہی دنوں کے بعد مولوی صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبدالحی رکھا گیا۔ اور ؔ اُس کی پیدائش کے زمانہ کے قریب ہی بہت سے پھوڑے اُس کے بدن پر نکل آئے جن کے داغ اب تک موجود ہیں۔ یہ پھوڑے خدا نے اس لئے اُس کے بدن پر پیدا کئے تا کسی کو یہ وہم پیدا نہ ہو کہ یہ اتفاقی معاملہ ہے دُعا کا اثر نہیں۔ اور نہ اس کو پیشگوئی پر دلالت قطعی ہے جیسا کہ بعض اوقات ایسا اتفاق ہو جاتا ہے کہ چند آدمی ایک کسی غائب دوست کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ اس وقت آتے تو اچھا تھا اور ابھی وہ ذکر شروع ہی ہوتا ہے کہ وہ خود بخود آجاتے ہیں۔ تب لوگ کہتے ہیں۔ آیئے صاحب ابھی ہم آپ کا ذکر ہی کررہے تھے کہ آپ آہی گئے۔ سو خدا نے اِس پیشگوئی کے ساتھ پھوڑوں کا نشان بتلا دیا تا معلوم ہو کہ وہ لڑکا دُعا کے اثر سے پیدا ہوا ہے نہ اتفاقی طور پر۔ ایسے ہی ہزارہا میرے پاس نمونے ہیں مگر افسوس مَیں اس مختصر رسالہ میں ان کا ذکر نہیں کر سکتا۔
جیسا کہ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں چھوٹے چھوٹے واقعات کی پیشگوئیاں جبکہ ہزاروں تک ان کی تعداد پہنچ جائے تو اس بات کی قطعی دلیل ٹھہرتی ہیں کہ جس شخص کے ہاتھ پر وہ پیشگوئیاں ظاہر ہوئی ہیں اور جو منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ درحقیقت منجانبؔ اللہ ہے۔ لیکن جن کے دلوں میں شک اور وسوسہ کی مرض ہے وہ پھر بھی شبہات سے باز نہیں آتے اورفی الفور کہہ دیتے ہیں کہ فلاں فقیر نے بھی تو ایسی ہی کرامت دکھلائی تھی اور فلاں جوتشی صاحب نے بھی کچھ ایسا ہی فرمایا تھا جو سچ سچ نکلا۔ اور اس طرح پر نہ وہ صرف خود گمراہ ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ اور یہ نادان آنکھ تو رکھتے ہیں مگر وہ آنکھ ہر ایک گوشہ کو دیکھ نہیں سکتی۔ اور دل تو رکھتے ہیں مگر وہ دل ہر ایک پہلو کو سوچ نہیں سکتا۔ ہم نے کب اور کس وقت کہا کہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 416
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 416
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/416/mode/1up
بجز ہمارے اَور کسی کو کوئی خواب نہیں آتی اور نہ کوئی الہام ہوتا ہے بلکہ ہمارا تجربہ تو یہاں تک ہے کہ بعض وقت ایک کنجری کو بھی جس کا دن رات زناکاری پیشہ ہے سچے خواب آسکتے ہیں۔ ایک چور بھی جس کا پیشہ بیگانہ مال کا سرقہ ہے بذریعہ خواب کسی سچے واقعہ پر اطلاع پا سکتا ہے۔ ہمارا دعویٰ جس کو ہم بار بار لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسی خوابیں اور ایسے الہام جو کمیّت اور کیفیّت کے لحاظ سے ہزاروں تک اُن کی نوبت پہنچ گئی ہو اور کوئی اُن کا مقابلہ نہ کرسکتا ہو یہ مرتبہ صرف ان لوگوں کو ملتا ہے جن کو عنایت الٰہی نے خاص طور پر اپنا برگزیدہ کر لیا ہے دوسرے کو ہرگز نہیں ملتا اوریہ کہ دوسروؔ ں کو شاذ و نادر طور پر کوئی سچی خوابیں آتی ہیں یا الہام ہوتا ہے۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نوع انسان کی بھلائی کے لئے ہے کیونکہ اگر وحی اور الہام کا دوسرے لوگوں پرقطعاً دروازہ بند رہتا تو خدا کے رسولوں پر کامل طور پر یقین کرنا اُن کے لئے مشکل ہو جاتا اور وہ ہرگز سمجھ نہ سکتے کہ درحقیقت اِن نبیوں پر وحی نازل ہوتی ہے یا فریب ہے یا صرف وساوس میں مبتلا ہیں کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جس بات کا اس کو نمونہ نہیں دیا جاتا وہ پورے طور پر اس بات کو سمجھ نہیں سکتا اور آخر بدظنّی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے شراب خوار قومیں یورپ اور امریکہ کی جن کے دماغ بباعث شراب کے خراب ہو جاتے ہیں اکثر سچّی خواب کے وجود سے بھی منکر ہیں کیونکہ اپنے پاس نمونہ نہیں رکھتے۔ پس اِسی مصلحت سے کوئی سچی خواب اور کوئی سچا الہام نمونہ کے طور پر لوگوں کو عام طور پر دیا گیا تا جس وقت اُن میں کوئی نبی ظاہر ہو تو دولتِ قبول سے محروم نہ رہیں اور اپنے دلوں میں سمجھ لیں کہ یہ ایک واقعی حقیقت ہے جس سے چاشنی کے طور پر ہمیں بھی کچھ دیا گیا ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ یہ معمولی لوگ ایک گدا پیشہ کی مانند ہیں جس کے پاس چند روپے یا چند پیسے ہیں۔ مگر خدا کے مُرسل اور خدا کے نبی وہ رُوحانی ملک کے*
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 417
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 417
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/417/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 418
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 418
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/418/mode/1up
قادیان کے آریہ
آریوں پر ہے صد ہزار افسوس
دل میں آتا ہے بار بار افسوس
ہوگئے حق کے سخت نافرمان
کر دیا دیں کو قوم پر قُربان
وہ نشاں جن کی روشنی سے جہاں
ہو کے بیدار ہو گیا لرزاں
اُن نشانوں سے ہیں یہ انکاری
پَر کہاں تک چلے گی طرّاری
اُن کے باطن میں اِک اندھیرا ہے
کین و نخوت نے آکے گھیرا ہے
لڑ رہے ہیں خدائے یکتا سے
باز آتے نہیں ہیں غوغا سے
قوم کے خوف سے وہ مرتے ہیں
سو نشاں دیکھیں کب وہ ڈرتے ہیں
موت لیکھو بڑی کرامت ہے
پر سمجھتے نہیں یہ شامت ہے
میرے مالک تو ان کو خود سمجھا
آسماں سے پھر اِک نشان دکھلا
تازہ نشان کی پیشگوئی
خدا فرماتا ہے کہ مَیں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی وہ عام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا۔ چاہیئے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے کیونکہ خدا اس کوعنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اُس کی طرف سے ہے۔ مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے۔ آمین
المشتھر میرزا غلام احمدؐ مسیح موعود
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 419
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 419
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/419/mode/1up
قادیان کے آریہ اور ہم
ایک اخبار آریہ صاحبوں کی جو قادیان سے نکلتی ہے اور اب شاید جنوری ۱۹۰۷ء سے اس جگہ سے اس کا خاتمہ ہے اس میں میری نسبت لالہ شرمپت ساکن قادیان کا حوالہ دے کر ایک عجیب تہمت میرے پر لگائی گئی ہے اور وہ یہ کہ جو دسمبر ۱۹۰۶ء کے جلسہ میں ایک تقریب سے مَیں نے بیان کیا تھا کہ ان آسمانی نشانوں کے جو خدا نے مجھے عطا فرمائے ہیں صرف مسلمان ہی گواہ نہیں ہیں بلکہ اس قصبہ کے ہندو بھی گواہ ہیں جیسا کہ لالہ شرمپت اور لالہ ملاوا مل آریہ بھی جوؔ ساکنان قادیان ہیں ان کو میرے نشانوں کا علم ہے اور اس جلسہ میں مَیں نے صرف اسی قدر بیان نہیں کیا تھا بلکہ مَیں نے تمام مہمانوں کے رُو برو جو ہریک طرف سے اور نیز دُور دراز ملکوں سے دو ہزار کے قریب جمع تھے یہ بھی بیان کیا تھاکہ قطع نظر قادیان کے مسلمانوں کے اس قصبہ کے تمام ہندو بھی میرے نشانوں کے گواہ ہیں کیونکہ اس زمانہ پر پینتیس ۳۵برس کے قریب مدت گزر گئی جبکہ مَیں نے یہ ایک پیشگوئی شائع کی تھی کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :۔
’’کہ اگرچہ اب ُ تو اکیلا ہے اور تیرے ساتھ کوئی نہیں مگر وہ وقت آتا ہے کہ مَیں ہزاروں انسانوں کو تیری طرف رجوع دوں گا۔ اور اگرچہ اب تجھ میں کوئی مالی طاقت نہیں مگر مَیں بہت سے لوگوں کے دلوں میں اپنا الہام ڈالوں گا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 420
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 420
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/420/mode/1up
کہ اپنے مالوں سے تیری مدد کریں۔ فوج در فوج لوگ آئیں گے اور مال دیں گے اور اِس قدر آئیں گے کہ قریب ہے کہ تو تھک جائے وہ ہر ایک راہ سے سفر کر کے قادیان میںآئیں گے اوراُن کی آمد کی کثرت سے راہیں گہری ہو جائیں گی۔ اور جب اس پیشگوئی کے آثار ظاہر ہوں گے تو دشمن چاہیں گے کہ یہ پیشگوئی ظاہر نہ ہو۔ اور کوؔ شش کریں گے کہ ایسا نہ ہو مگر مَیں اُن کو نامراد رکھوں گا اور اپنا وعدہ پورا کروں گا اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔
یہ خلاصہ ہے اس پیشگوئی کا جو آج سے چھبیس۲۶ برس پہلے براہین احمدیہ میں چھپ چکی ہے اور درحقیقت اس زمانہ سے بہت عرصہ پہلے کی پیشگوئی ہے جس کو کم سے کم پینتیس۳۵ برس ہوتے ہیں۔ سو اس جلسہ میں مَیں نے اس پیشگوئی کا ذکر کیا تھا اور اس کے لئے یہ تقریب پیش آئی تھی کہ جب ہم مع اپنی جماعت کے جو دو ہزار کے قریب تھی اپنی جامع مسجد میں نماز میں مشغول تھے۔ اور دُور دُور سے میری جماعت کے معزز لوگ آئے ہوئے تھے جن میں گورنمنٹ انگریزی کے بھی بڑے بڑے عہدہ دار اور معزز رئیس اور جاگیردار اور نواب بھی موجود تھے تو عین اس حالت میں کہ جب ہم اپنی اس جامع مسجد میں نماز ادا کررہے تھے ایک ناپاک طبع آریہ برہمن نے گالیاں دینی شروع کیں اور نعوذ باللہ ان الفاظ سے بار بار گالیاں دیتا تھاکہ یہ سب کنجر اس جگہ جمع ہوئے ہیں کیوں باہر جاؔ کر نماز نہیں پڑھتے۔ اور پہلے سب سے مجھے ہی یہ گالی دی اور بار بار ایسے گندے الفاظ سے یاد کیا کہ بہتر ہے کہ ہم اس رسالہ کو اُن کی تفصیل سے پاک رکھیں۔قریباً ہم دو گھنٹہ تک نماز پڑھتے رہے اور وہ آریہ قوم کا برہمن برابر سخت اور گندے الفاظ کے ساتھ گالیاں دیتا رہا اُس وقت بعض دیہات کے سکھ بھی ہماری کثیر جماعت کو دیکھ رہے تھے اور حیرت کی نظر سے دیکھتے تھے کہ خدا نے ایک دنیا کو جمع کر دیا ہے۔ اور ان لوگوں نے بھی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 421
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 421
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/421/mode/1up
منع کیا مگر وہ ناپاک طبع آریہ باز نہ آیا۔ اور معزز مسلمانوں کو کنجر کے پلید لفظ سے بار بار یا دکرتا اور اشتعال دلاتا رہا۔
یہ ایک بڑا دُکھ تھا جو عین نماز کی حالت میں مجھے اُٹھانا پڑا۔ اور یہ بھی خوف تھا کہ ہماری جماعت میں سے کسی کو جوش پیدا ہو مگر خدا کا شکر ہے کہ سب نے صبر کیا۔ تعجب ہے کہ کیوں اُس نے یہ پلید اور گندہ لفظ اس جماعت کے لئے اختیار کیا۔ شاید اس کو اپنے مذہب کا نیوگ یاد آیا ہوگا*۔ اُس وقت سرکاری ملازم بٹالہ کا ایک ڈپٹی انسپکٹر بھی موجود تھا۔ غرض جب اس آریہ کی گالیاں حد سے بڑھ گئیں تو معزز مسلمانوں کے دلوں کو سخت رنج پہنچا۔ اور اگر وہ ایک وحشی قوم ہوتی تو قادیاؔ ن کے تمام آریوں کیلئے کافی تھی۔ مگر ان کے اخلاق قابلِ تحسین ہیں کہ ایک سفلہ طبع آریہ نے باوجودیکہ اس قدر گندی گالیاں دیں تا ہم انہوں نے ایسے صبر سے کام لیا کہ گویا مُردے ہیں جن میں آواز نہیں اور اس تعلیم کو یاد رکھا جو بار بار دی جاتی ہے کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ صبر کے ساتھ پیش آؤ۔
جب نماز ہو چکی تو مَیں نے دیکھا کہ ان گندی گالیوں سے بہت سے دلوں کو بہت رنج پہنچا تھا۔ تب مَیں نے اُن کی دلجوئی کے لئے اُٹھ کر یہ تقریر کی کہ یہ رنج جو پہنچا ہے اس کو دلوں سے نکال دو۔ خدا تعالیٰ دیکھتا ہے وہ ظالم کو آپ سزا دے گا۔ اور اُس وقت
نیوگ آریہ مذہب کی رو سے ایک مذہبی حکم ہے جس کی رُو سے ایک آریہ کی پاک دامن عورت
باوجود زندہ ہونے خاوند کے اور باوجود اس کے کہ اُس کو طلاق بھی نہیں دی گئی ایک دوسرے آدمی سے محض اولاد لینے کی غرض سے ہم بستر ہو سکتی ہے اور جب تک گیا۱۱رہ لڑکے غیر آدمی کے نطفہ سے پیدا ہوجائیں اس کام میں مشغول رہ سکتی ہے۔اور ایسی عورت مذہب کی رُو سے بڑی مقدس کہلاتی ہے۔ اور ایسا لڑکا ماں اور اپنے فرضی باپ دونوں کو دوزخ سے نجات دلانے والا اور مکتی کا داتا کہلاتا ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 422
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 422
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/422/mode/1up
مَیں نے یہ بھی کہا کہ مَیں جانتا ہوں کہ قادیان کے ہندو سب سے زیادہ خدا کے غضب کے نیچے ہیں کیونکہ خدا کے بڑے بڑے نشان دیکھتے ہیں اور پھر ایسی گندی گالیاں دیتے اور دُکھ پہنچاتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ خدا نے اس گاؤں میں کیسا بڑا نشانِ قدرت دکھلایا ہے۔ وہ اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ آج سے چھبیس ستائیس برس پہلے مَیں کیسی گمنامی کے گوشہ میں پڑا ہوا تھا۔ کیا کوئی بول سکتا ہے کہ اُس وقت یہ رجوعِ خلائق موجود تھا۔ بلکہ ایک انسان بھی میری جماعت میںؔ داخل نہ تھا اور نہ کوئی میرے ملنے کیلئے آتا تھا۔ اور بجز اپنی ملکیت کی قلیل آمدن کے کوئی آمدنی بھی نہیں تھی۔ پھر اُسی زمانہ میں بلکہ اُس سے بھی پہلے جس کو پینتیس۳۵ برس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزرتا ہے خدا نے مجھے یہ خبر دی کہ ’’ہزاروں لاکھوں انسان ہر ایک راہ سے تیرے پاس آویں گے یہاں تک کہ سڑکیں گھِس جائیں گی۔ اور ہر ایک راہ سے مال آئے گا۔ اور ہر ایک قوم کے مخالف اپنی تدبیروں سے زور لگائیں گے کہ یہ پیشگوئی وقوع میں نہ آوے۔ مگر وہ اپنی کوششوں میں نامراد رہیں گے‘‘۔ یہ خبر اُسی زمانہ میں میری کتاب براہین احمدیہ میں چھپ کر ہر ایک ملک میں شائع ہوگئی تھی۔
پھر کچھ مدت کے بعد اس پیشگوئی کا آہستہ آہستہ ظہور شروع ہوا چنانچہ اب میری جماعت میں تین لاکھ سے زیادہ آدمی ہیں*۔اور فتوحات مالی کا یہ حال ہے
اس رسالہ کے لکھنے کے وقت ملک مصر سے یعنی مقام اسکندریہ سے کل ۲۳؍ جنوری ۷ ۱۹۰ء کو ایک
خط بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا۔ لکھنے والا ایک معزز بزرگ اس شہر کا ہے یعنی اسکندریہ کا ۔جن کا نام ہے احمد زہری بدرالدین۔ خط محفوظ ہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مَیں آپ کو یہ خوشخبریؔ دیتا ہوں کہ اس ملک میں آپ کے تابع اور آپ کی پیروی کرنے والے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ جیسے بیابان کی ریت اور کنکریں۔ اور لکھتے ہیں کہ میرے خیال میں کوئی ایسا باقی نہیں جو آپ کا پَیرو نہیں ہوگیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 423
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 423
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/423/mode/1up
کہ اب تک کئی لاکھ روپیہ آچکا ہے اور قریباً پندرہ سو روپیہ اور کبھی دو ہزار ماہوار لنگر خانہ پر خرچ ہو جاتا ہے اور مدرسہ وغیرہ کی آمدنی علیحدہ ہے۔ یہ ایک ایسا نشان ہے کہ جس سے قادیان کے ہندوؤں کو فائدہ اُٹھانا چاہئے تھا کیونکہ وہ ؔ اس نشان کے اوّل گواہ تھے ان کو معلوم تھاکہ اس پیشگوئی کے زمانہ میں مَیں کس قدر گمنام اور پوشیدہ تھا۔
یہ تقریر تھی جو اس جلسہ میں مَیں نے کی تھی اور تقریر کے آخر میں مَیں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ اِس نشان کے سب آریوں میں سے بڑھ کر گواہ لالہ شرمپت اور لالہ ملاوا مل ساکنانِ قادیان ہیں کیونکہ اُن کے روبرو کتاب براہین احمدیہ جس میں یہ پیشگوئی ہے چھپی اور شائع ہوئی ہے بلکہ براہین احمدیہ کے چھپنے سے پہلے اُس زمانہ میں جبکہ میرے والد صاحب فوت ہوئے تھے یہ پیشگوئی اِن ہر دو آریوں کو بتلائی گئی تھی جس کا مختصر بیان یہ ہے کہ میرے والد صاحب کے فوت ہونے کی خبر ان الفاظ سے خدا تعالیٰ نے مجھے دی تھی کہ وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ۔ یعنی قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو غروب آفتاب کے بعد پڑے گا اور ساتھ ہی سمجھایا گیا تھا کہ اس پیشگوئی کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا والد آفتاب کے غروب کے ساتھ ہی وفات پائے گا۔ اور یہ الہام بطور ماتم پُرسی کے تھا جو اپنے خاص بندوں سے عادت اللہ میں داخل ہے۔ اور جب یہ خبرؔ سن کر تردّد اور غم پیدا ہوا کہ ان کی وفات کے بعد ہماری اکثر وجوہ معاش جو ان کی ذات سے وابستہ ہیں نابود ہو جائیں گی تب یہ الہام ہوا:۔
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ
یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ اِس وحیِ الٰہی میں صریحاً خبر دی گئی تھی کہ تمام حاجات کا خدا خود متکفّل ہوگا چنانچہ اس الہام کے مطابق غروب آفتاب کے بعدمیرے والد صاحب فوت ہوگئے اوران کے ذریعہ سے ہمارے جو وجوہ معاش تھے جیسے پنشن اور انعام وغیرہ سب ضبط ہوگئے۔ انہیں دنوں میں
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 424
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 424
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/424/mode/1up
جن پر پینتیس ۳۵برس کا عرصہ گزر گیا ہے۔ مَیں نے اس الہام کو یعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کو مُہر میں کھدوانے کے لئے تجویز کی اور لالہ ملاوا مل آریہ کو اس مُہر کے کھدوانے کے لئے امرتسر میں بھیجا اور محض اس لئے بھیجا کہ تا وہ اور لالہ شرمپت دوست اس کا دونوں اس پیشگوئی کے گواہ ہو جائیں چنانچہ وہ امرتسر گیا اور معرفت حکیم محمد شریف کلانوری کے پانچ روپیہ اجرت دے کر مُہر بنوا لایا جس کا نقش اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ہے جو اب تک موجود ہے۔ یہؔ الہام قریباً پینتیس۳۵ یا چھتیس۳۶ برس کا ہے جس کے یہ دونوں آریہ صاحبان گواہ ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ اُس زمانہ میں میری کیا حیثیت تھی۔ پھر اُس زمانہ میں جبکہ براہین احمدیہ جس میں مذکورہ بالا الہامات درج ہیں بمقام امرتسر پادری رجب علی کے مطبع میں چھپ رہی تھی ان دونوں آریوں کو خوب معلوم ہے کہ مَیں کیسا گمنامی میں زندگی بسر کرتا تھا یہاں تک کہ کئی دفعہ یہ دونوں آریہ امرتسر میں میرے ساتھ جاتے تھے اور بجز ایک خدمتگار کے دوسرا آدمی نہیں ہوتا تھا۔ اور بعض دفعہ صرف لالہ شرمپت ہی ساتھ جاتا تھا۔ یہ لوگ حلفاً کہہ سکتے ہیں کہ اُس زمانہ میں میری گمنامی کی حالت کس درجہ تک تھی نہ قادیان میں میرے پاس کوئی آتا تھا اور نہ کسی شہر میں میرے جانے پر کوئی میری پروا کرتا تھا اور مَیں ان کی نظر میں ایسا تھا جیسا کہ کسی کا عدم اور وجود برابر ہوتا ہے۔
اب وہی قادیان ہے جس میں ہزاروں آدمی میرے پاس آتے ہیں اور وہی شہر امرتسر اور لاہور وغیرہ ہیں جو میرے وہاں جانے کی حالت میں صدہا آدمی پیشوائی کے لئے ریل پر پہنچتے ہیں۔ بلکہ بعض وقت ہزارہا لوگوں تک نوبت پہنچتی ہے۔ چنانچہ ۱۹۰۳ؔ ء میں جب مَیں نے جہلم کی طرف سفر کیا تو سب کو معلوم ہے کہ قریباً گیارہ ہزار آدمی پیشوائی کے لئے آیا تھا۔ ایساہی قادیان میں صدہا مہمانوں کی آمد کا ایک سلسلہ جواب جاری ہے اُس زمانہ میں اس کا نام و نشان نہ تھا۔ اور قادیان کے تمام ہندوؤں کو اور خاص کر لالہ شرمپت اور ملاوامل کو (جو اب قوم کے دباؤ کے نیچے آکر خدا کے نشانوں سے منکر ہوتے ہیں* ) خوب معلوم ہے کہ ان دنوں میں ہمارا مردانہ مکان محض
مجھے واقعی طور پر معلوم نہیں کہ درحقیقت لالہ شرمپت اور لالہ ملاوا مل سچ مچ ان تمام نشانوں سے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 425
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 425
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/425/mode/1up
ایک ویرانہ اور خالی تھا اور کوئی ہمارے پاس نہیں آتا تھا ہاں یہ لوگ دن میں دو تین مرتبہ یا کم و بیش آجاتے تھے۔ یہ سب باتیں وہ حلفاً بیان کر سکتے ہیں۔
پس جلسہ کے دن میری تقریر کا یہی خلاصہ تھا کہ قادیان کے آریوں پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو چکی ہے۔ خاص کر ان دونوں آریوں پر تو بخوبی اتمام حجت ہو چکا ہے جو بہت سے نشانوں کے گواہِ رؤیت ہیں۔ مگر وہ لوگ اس زبردست طاقتوں والے خدا سے نہیں ڈرتے جو ایک دم میں معدوم کر سکتا ہے۔ اور جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں اس پیشگوئی کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی کہ جو اُسی کتاب براہین احمدیہ میں درج تھی اور اسی زمانہ میں جس کو قریباً چھبیس۲۶ برس گزر ؔ چکے ہیں تمام پنجاب و ہندوستان میں شائع ہو چکی تھی۔ یعنی یہ کہ دشمن بہت زور لگائیں گے کہ تا یہ عروج اور یہ نشان اور یہ رجوع خلائق ظہور میں نہ آوے اور لوگ مالی مدد نہ کریں لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ اپنی پیشگوئی کو پوری کرے گا۔ اور وہ سب نامراد رہیں گے۔ اور یہ پیشگوئیاں نہ صرف عربی میں ہیں بلکہ عربی میں‘ اردو میں‘ انگریزی میں‘ فارسی میں‘ عبرانی میں‘ براہین احمدیہ میں موجود ہیں۔
اور پھر جب چند سال کے بعد ان پیشگوئیوں کے آثار شروع ہونے لگے تو مخالفوں میں روکنے کے لئے جوش پیدا ہوا۔ قادیان میں لالہ ملاوا مل نے لالہ شرمپت کے مشورہ سے اشتہار دیا جس کو قریباً دس۱۰ برس گذر گئے۔ اس اشتہار میں میری نسبت یہ لکھا کہ یہ شخص محض مکّار فریبی ہے اور صرف دوکاندار ہے لوگ اِس کا دھوکہ نہ کھاویں۔ مالی مدد نہ کریں۔ ورنہ اپنا روپیہ ضائع کریں گے۔ اس اشتہار سے ان آریوں کا مدعا یہ تھا کہ تا لوگ رجوع سے
منکر ہوگئے ہیں جن کو کہ وہ دیکھ چکے ہیں۔ صرف آریہ اخبار کے حوالہ سے یہ لکھتا ہوں۔ اور میں نہیں امید رکھتا کہ کوئی انسان ایسا خدا تعالیٰ سے بے خوف ہو جائے کہ اپنی رؤیت کی گواہیوں سے منکر ہو جائے۔ ہر ایک شخص کا آخر خدا تعالیٰ سے معاملہ ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 426
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 426
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/426/mode/1up
باز آجاویں۔ اور مالی امداد سے منہ پھیر لیں۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ اُس اشتہار کے زمانہ میں میری جماعت ساٹھ۶۰ یا ستر۷۰ آدمی سے زیادہ نہ تھی۔ چنانچہ یہ امر سرکاری رجسٹروں سے بھی بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ اُسؔ زمانہ میں زیادہ سے زیادہ تیس یا چالیس روپیہ ماہوار آمدنی تھی۔ مگر اس اشتہار کے بعد گویا مالی امداد کا ایک دریا رواں ہوگیا۔ اور آج تک کئی لاکھ لوگ بیعت میں داخل ہوئے اور اب تک ہرایک مہینہ میں پانسو کے قریب بیعت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ انسان خدا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ میرا بیان بغیر کسی ثبوت کے نہیں۔ ملاوامل کا اشتہار اب تک میرے پاس موجود ہے جو لالہ شرمپت کے مشورہ سے لکھا گیا تھا۔ سرکاری مہمان شماری تو ہمارے سلسلہ کے لئے مقرر ہی ہے۔ پس اس اشتہار کی تاریخ اشاعت پڑھو اور پھر دوسری طرف سرکاری کاغذات کے ذریعہ سے اس زمانہ اور بعد کے زمانہ کا مقابلہ کرو کہ اشتہار سے پہلے کس قدر مہمان آتے تھے۔ کس قدر روپیہ آتا تھا۔ اور بعد میں کس قدر خدا کی مدد شامل ہوگئی۔ یہ امر منی آرڈر کے رجسٹروں اور کاغذات مہمان شماری سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ اُس زمانہ میں جبکہ ملاوامل نے اشتہار شائع کیا کس قدر میری جماعت تھی یعنی ان کاغذات سے جو پولس کی معرفت گورنمنٹ میں پہنچے ہیں بخوبی فیصلہ ہو سکتا ہے اور صفائی سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ ملاوامل نے لوگوں کو روکنے کے لئے اشتہار دیا کس قدر میری جماعت تھی اور ؔ کس قدر روپیہ آتا تھا اور پھر بعد میں کس قدر ترقی ہوئی۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس قدر ترقی ہوئی کہ جیسا ایک قطرہ سے دریا بن جاتاہے۔ اور یہ ترقی بالکل غیر معمولی اور معجزانہ تھی۔ حالانکہ نہ صرف ملاوا مل نے بلکہ ہرایک دشمن نے اس ترقی کو روکنے کے لئے پورا زور لگایا اور چاہا کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہو۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دوسری پیشگوئی پوری ہوگئی یعنی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے فرمایا تھا دشمن لوگوں کے رجوع کو روک نہ سکے۔
اگر انسان حیا اور شرم کا کچھ مادہ اپنے اندر رکھتا ہو تو یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ عمیق در عمیق غیب کی باتیں جو خدائی قدرتوں سے پُر ہیں انسانی طاقتوں سے بالاتر ہیں اور سوچ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 427
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 427
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/427/mode/1up
سکتا ہے کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو انسانوں کی مخالفانہ کوششیں ضرور کارگر ہو جاتیں۔ اِن اشتہاروں کا اگر کچھ نتیجہ ہوا تو یہ ہوا کہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو خدا تعالیٰ نے پہلے سے فرمایا تھا کہ دشمن جان توڑ کر زور لگائیں گے کہ عروج اور نصرتِ الٰہی اور رجوعِ خلائق کی پیشگوئی پوری نہ ہو مگر وہ پوری ہو جائے گی۔ اور عجیب بات ہے کہ صرف ملاوا مل نے ہی زور نہیں لگایا بلکہ آریہ صاحبوؔ ں کا وہ پنڈت جس کی جان کو خدا کی پیشگوئی نے لے لیا یعنی لیکھرام وہ بھی اپنی ناچیز عمر کا حصہ انہیں تحریروں میں کھو گیا کہ تا براہین احمدیہ کی وہ پیشگوئی پوری نہ ہو جو براہین احمدیہ میں لاکھوں انسانوں کے رجوع اور لاکھوں روپے کی آمدن کے بارہ میں شائع ہو چکی تھی۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے پانچ برس پہلے خبر دی تھی کہ وہ اپنی بدزبانی کی پاداش میں چھ۶ برس کی میعاد میں قتل کیا جائے گا۔ وہ بدنصیب اُس پیشگوئی کو پورا کر کے راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔
ایسا ہی عیسائیوں نے بھی اس پیشگوئی کو روکنے کیلئے بہت زور لگایا اور اُن کے اشتہار بھی اب تک میرے پاس موجود ہیں۔ پھر مسلمان جن کا حق تھا اور جن کا فخر تھا کہ مجھے قبول کرتے انہوں نے بھی اس پیشگوئی کے روکنے کے لئے جو براہین احمدیہ میں میری آئندہ ترقی اور اقبال اور رجوع خلائق کی نسبت چھبیس۲۶ برس سے درج تھی اور تخمیناً پینتیس۳۵ برس سے زبانی شائع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ ناخنوں تک زور لگایا۔ یہاں تک کہ مَیں خیال کرتا ہوں کہ ایک لاکھ سے زیادہ پرچہ ان کی طرف سے ایسا نکلا ہوگا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ شخص کافر ہے۔ دجّاؔ ل ہے۔ بے ایمان ہے کوئی اس کی طرف رُخ نہ کرے اور کوئی اس کی مدد نہ کرے بلکہ کوئی مصافحہ اور السلام علیکم نہ کرے اور جب مر جائے تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے مگر ان اشتہاروں کی کیسی اُلٹی تاثیر ہوئی جس سے خدا تعالیٰ کی قدرت نظر آتی ہے کہ ان کے بعد کئی لاکھ آدمیوں نے میری بیعت کر لی اور کئی لاکھ روپیہ آیا اور دوسرے بے شمار تحائف ہر طرف سے آئے۔ اور خدا کی غیرت اور قدرت نے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 428
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 428
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/428/mode/1up
ان کے منہ پر وہ طمانچے مارے کہ ہر ایک میدان میں ان کو شکست نصیب ہوئی ۔اور ہر ایک مباہلہ میں موت یا ذلّت اُن کے حصّہ میں آئی۔ یہ تمام اشتہارات جو آریوں کی طرف سے نکلے اور عیسائیوں کی طرف سے اور مسلمانوں کی طرف سے شائع ہوئے میرے چند صندوقوں میں موجود ہیں جن میں ہزارہا گالیوں کے ساتھ جو چوہڑوں چماروں کی گالیوں سے بڑھ کر ہیں۔ مجھے مکّار۔ فریبی۔ ٹھگ۔ دجّال۔ دہریہ اور بے ایمان کر کے یاد کیا گیاہے اور اس لئے جمع رکھے گئے تا کسی کو انکار نہ ہو سکے۔
جب میں ایک طرف براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی دیکھتا ہوں کہ اگرچہ تُو اب اکیلا ہے۔ تیرے ساتھ کوئی بھی نہیں مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہؔ لاکھوں انسان تیرے ساتھ ہو جائیں گے اور اپنے عزیز مالوں سے تیری مدد کریں گے۔ اور ہر ایک قوم کے دشمن زور لگائیں گے کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہو مگر مَیں ان کو نامراد رکھوں گا۔ اور مَیں تجھے ہر ایک تباہی سے بچاؤں گا اگرچہ کوئی بچانے والا نہ ہو۔ اور دوسری طرف اس پیشگوئی کے مطابق ہر ایک قوم کے دشمنوں کا پیشگوئی کے روکنے کے لئے پوری کوشش کا مشاہدہ کرتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ باوجود دشمنوں کی سخت مزاحمت کے آخر وہ پیشگوئی ایسی پوری ہو گئی کہ اگر آج وہ تمام بیعت کرنے والے ایک وسیع میدان میں جمع کئے جائیں تو ایک بڑے بادشاہ کے لشکر سے بھی زیادہ ہوں گے۔ تو اس موقعہ پر مجھے وجد سے رونا آتا ہے کہ ہمارا خدا کیسا قادر خدا ہے کہ جس کے منہ کی بات کبھی ٹل نہیں سکتی گو تمام جہان دشمن ہو جائے اور اس بات کو روکنا چاہے۔
یہ وہ بیان تھا جو اس جلسہ میں مَیں نے کیا تھا۔ اب مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا قادیان کے ہندوؤں کو اس پیشگوئی اور اس کے پورے ہونے کی کچھ خبر نہیں؟ کیا لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل اِس پیشگوئی سے بے خبر ہیں؟ اور کیا آریہ صاحبان اپنے مذہب میں اس کی کوئی ثابت شدہ نظیر بتلا سکتے ہیں؟ اور کیا وہ اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ جس زمانہ میں یہؔ پیشگوئی شائع کی گئی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 429
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 429
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/429/mode/1up
اس زمانہ میں میری طرف کسی کو رجوع نہ تھا۔ *** ہے وہ شخص جو جھوٹ بولے اور مُردار ہے وہ کمینہ جو سچ کو چھپاوے۔ ایسے انسان اگرچہ زبان سے کہیں کہ خدا ہے لیکن درحقیقت وہ خدا سے منکر ہی ہوتے ہیں۔ مگر خدا اپنی طاقتوں سے ظاہر کرتا ہے کہ مَیں موجود ہوں۔ مَیں آج سے نہیں بلکہ قدیم سے جانتا ہوں کہ عموماً قادیان کے ہندو سخت اسلام کے دشمن اور تاریکی سے پیار کرتے ہیں۔ وہ نور کو دیکھ کر اَور بھی تاریکی کی طرف دوڑتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک خدا نہیں۔ اور خدا نے اُن کو لیکھرام کا بڑا نشان دکھایا تھا لیکن انہوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اور یہ کس قدر صاف نشان تھا جس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ لیکھرام طبعی موت سے نہیں مرے گا بلکہ وہ چھ۶ سال کے اندر قتل کیا جاوے گا۔ اور عید کے دن کے بعد جو دن ہوگا اُس میں یہ واقعہ ہوگا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور اس پیشگوئی کی ِ بنا صرف یہ تھی کہ وہ مذہب اسلام کو جھوٹا سمجھتا تھا۔ اور بہت بدزبانی کرتا تھا اور گالیاں دیتا تھا۔ پس خدا نے مجھ کو اطلاع دی کہ وہ تو گوشت یعنی زبان کی چُھری اسلام پر چلا رہا ہے مگر خدا تعالیٰ لوہے کی چھُری سے اس کا کام تمام کرے گا سو ایسا ہی وقوع میں آیا ۔اور مَیں نے اشتہار دیا تھا کہ اے آریو! اگر تمہارے پرمیشر میں کچھ شکتی ہے تو اُؔ س کی جناب میں دُعا اور پرارتھنا کر کے لیکھرام کو بچالو مگر تمہارا پرمیشر اُس کو بچا نہ سکا۔ اور اُس نے میری نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ یہ شخص تین برس تک مر جائے گا۔ خدا نے اس کی پیشگوئی جھوٹی ثابت کی اور ہماراخدا غالب رہا۔ پھر اُس نے اپنی کتاب خبط احمدیہ میں میرے ساتھ مباہلہ کیا۔ یعنی دُعا کی کہ ہم دونوں میں سے جس کا جھوٹا مذہب ہے وہ مر جائے۔ آخر وہ اس دُعا کے بعد آپ ہی مر گیا اور اس بات پر مُہر لگا گیا کہ آریہ مذہب سچا نہیں ہے اور اسلام سچا ہے۔ اور اُس نے اپنے مرنے سے میری نسبت یہ بھی گواہی دے دی کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں۔
ہمیں یہ افسوس کبھی فراموش نہیں ہوگا کہ لیکھرام کی اس موت کا اصل باعث قادیان
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 430
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 430
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/430/mode/1up
کے ہندو ہی ہیں۔ وہ محض ناواقف تھا۔ اور جب وہ قادیان میں آیا تو قادیاں کے ہندوؤں نے میری نسبت اس کو یہ کہا کہ یہ جھوٹا اور فریبی ہے۔ ان باتوں کوسُن کر وہ سخت دلیر ہوگیا۔ اور سخت بگڑ گیا۔ اور اپنی زبان کو بدگوئی میں چُھری بنا لیا۔سو وہی چُھری اس کا کام کر گئی۔ خدا کے برگزیدہ اور پاک نبی کو گالیاں دینا اور سچے کو جھوٹا قرار دینا آخر انسان کو سزا کے لائق کر دیتا ہے۔ اگر لیکھرام*نرمی اور تواضع اختیار کرتا تو بچایا جاتا۔ کیونکہ خدا کرؔ یم و رحیم ہے۔ اور سزا دینے میں دھیما ہے۔ مگر ان لوگوں نے اس کو بڑا دھوکہ دیا۔ مَیں جانتا ہوں کہ اس کی موت کا گناہ قادیان کے ہندوؤں کی گردن پر ہے اور مجھے افسوس ہے
اس جگہ یہ واقعہء قدرت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کی نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ وہ اگر
حق کی طرف رجوع نہیں کرے گا تو پند۱۵رہ مہینے میں مر جائے گا۔ اور لیکھرام کی نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ وہ چھ۶ سال کے اندر قتل کیا جائے گا۔ پھر چونکہ عبداللہ آتھم پیشگوئی کے دنوں میں بہت روتا رہا اور اس کے دل پر حق کی عظمت غالب آگئی اور اُس نے اس مدّت میں کوئی بُرا لفظ زبان سے نہ کہا۔ اس لئے خدا نے جو رحیم وکریم ہے اُس کی میعاد کو بڑھا دیا اور ؔ وہ کچھ اور قلیل مدت تک زندہ رہ کر مر گیا۔ مگر لیکھرام نے پیشگوئی سُننے کے بعد زبان درازی شروع کی جیسا کہ سفلہ ہندوؤں کی عادت ہے اس لئے اس کی اصل میعاد بھی پوری نہ ہونے پائی اور ابھی میعاد میں ایک سال باقی تھا جو پیشگوئی کے مطابق قتل کیا گیا۔ ایسا ہی احمد بیگ کی نسبت پیشگوئی پوری ہونے کے بعد یعنی اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں نے بہت غم اور خوف ظاہر کیا۔ اسؔ لئے خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اس کے داماد کی موت میں تاخیر ڈال دی۔ کیونکہ تمام نبیوں کی زبانی خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جب کسی بَلا کے نازل ہونے کی کسی کی نسبت کوئی پیشگوئی ہو اور وہ لوگ ڈر جائیں اور دل ان کا خوف سے بھر جائے اور خدا تعالیٰ سے دُعا یا صدقہ خیرات سے رحم چاہیں تو خدا تعالیٰ رحم کرتا ہے۔ اور اسی اصول کے موافق ہر ایک قوم کے لوگ کسی بلا کے وقت صدقہ خیرات کیا کرتے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 431
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 431
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/431/mode/1up
کہ ان لوگوں نے اُس سے بہت ہی بُرا سلوک کیا۔ یہ لوگ زبان سے تو کہتے ہیں کہ پرمیشر ہے مگر مَیں نہیں قبول کرتا کہ اُن کے دل پرمیشر پر ایمان لاتے ہیں۔ اُن کا عجیب مذہب ہے کہ جس قدر زمین پر پیغمبر گذرے ہیں سب کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور جھوٹا جانتے ہیں گویا صرف چھوٹا سا ملک آریہ ورت کا ہمیشہ خدا کے تخت کی جگہ رہی ہے اور دوسرے ملکوں سے خدا نے کچھ تعلق نہیں رکھا یا اُن سے بے خبر رہا ہے۔ مگر خدا نے قرآن شریف میں یہ فرمایا ہے کہ ہر ایک ملک میں اس کے پیغمبر آتے رہے ہیں۔ ایسا ہی ہند میں بھی خدا کے پاک پیغمبر اور اس کا کلام پانے والے گذرے ہیں۔ اور ایساہی چاہیئے تھا۔ کیونکہ خدا تمام ملکوں کا ہے نہ صرف ایک ملک کا۔ نہ معلوم کس شیطان نے ان لوگوں کے دلوں میں یہ پھونک دیا ہے کہ بجز وید کے خدا کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں۔ اورنعوذ باللہ خدا کا نبی موسٰی اور خدا کا پیارا عیسٰی اور خدا کا برگزیدہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب جھوٹے اور مکّار گذرے ہیں۔ ہماری شریعت صلح کا پیغام ان کو دیتی ؔ ہے۔ اور ان کے ناپاک اعتقاد جنگ کی تحریک کر کے ہماری طرف تیر چلا رہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے بزرگوں کو مکّار اور جھوٹا مت کہو مگر یہ کہو کہ ہزارہا برسوں کے گذرنے کے بعد یہ لوگ اصل مذہب کو بھول گئے۔ مگر بمقابل ہمارے یہ ناپاک طبع لوگ ہمارے برگزیدہ نبیوں کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور ان کومفتری اور جھوٹا سمجھتے ہیں۔ کیا کوئی توقع کر سکتا ہے کہ ایسے ہندوؤں سے صلح ہو سکے۔ ان لوگوں سے بہتر سناتن دھرم کے اکثر نیک اخلاق لوگ ہیں جو ہر ایک نبی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور فروتنی سے سرجھکاتے ہیں۔ میری دانست میں اگر جنگلوں کے درندے اور بھیڑیئے ہم سے صلح کر لیں اور شرارت چھوڑ دیں تو یہ ممکن ہے مگر یہ خیال کرنا کہ ایسے اعتقاد کے لوگ کبھی دل کی صفائی سے اہل اسلام سے صلح کرلیں گے ۔۔۔۔۔۔ سراسر باطل ہے بلکہ اُن کا اِن عقیدوں کے ساتھ مسلمانوں سے سچّی صلح کرنا ہزاروں محالوں سے بڑھ کر محال ہے۔ کیا کوئی سچا مسلمان برداشت کر سکتا ہے جو
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 432
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 432
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/432/mode/1up
اپنے پاک اور بزرگ نبیوں کی نسبت ان گالیوں کو سُنے اور پھر صلح کرلے؟ ہرگز نہیں۔
پس اِن لوگوں کے ساتھ صلح کرنا ایسا ہی مضر ہے جیسا کہ کاٹنے والے زہریلے سانپ کوؔ اپنی آستین میں رکھ لینا۔ یہ قوم سخت سیہ دل قوم ہے جو تمام پیغمبروں کو جو دنیا میں بڑی بڑی اصلاحیں کر گئے مفتری اور کذاب سمجھتے ہیں۔ نہ حضرت موسیٰ ان کی زبان سے بچ سکے نہ حضرت عیسٰی اور نہ ہمارے سید و مولیٰ جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے سب سے زیادہ دنیا میں اصلاح کی۔ جن کے زندہ کئے ہوئے مُردے اب تک زندہ ہیں۔
خدا جو غائب ہے اُس کی ذات کا ثبوت صرف ایک گواہی سے کیونکر مل سکتا ہے اس لئے خدا نے دنیا میں ہر ایک قوم میں ہر ایک ملک میں ہزاروں نبی پیدا کئے اور وہ ایسے وقتوں میں آئے کہ جبکہ زمین لوگوں کے گناہوں سے پلید ہو چکی تھی۔ انہوں نے بڑے نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وجود کا ثبوت دیا اور اُس کی عظمت دلوں میں بٹھائی اور نئے سرے زمین کو زندہ کیا۔ مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ بجز وید کے کوئی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئی۔ اور تمام نبی جھوٹے تھے اور ان کا تمام دَور مکر اور فریب کا دَور تھا۔ حالانکہ وید اب تک آریہ ورت کو شرک اور بُت پرستی اور آتش پرستی سے صاف نہیں کر سکا۔
غرض یہ لوگ اُن نبیوں کی تکذیب میں جن کی سچاؔ ئی سورج کی طرح چمکتی ہے حد سے بڑھ گئے ہیں۔ خدا جو اپنے بندوں کے لئے غیرت مند ہے ضرور اس کا فیصلہ کرے گا۔ وہ ضرور اپنے پیارے نبیوں کے لئے کوئی ہاتھ دکھلائے گا۔ ہم ان لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کرتے۔ وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ ہم ان کو دُعا دیتے ہیں وہ ہمیں تیر مارتے ہیں اور خدائے عزّوجلّ کی قسم ہے کہ اگر یہ لوگ تلوار کے زخم سے ہمیں مجروح کرتے تو ہمیں ایسا ناگوار نہ ہوتا جیسا کہ ان کی ان گالیوں سے جو ہمارے برگزیدہ نبیوں کو دیتے ہیں ہمارے دل پاش پاش ہوگئے۔ ہم یہ گالیاں سُن کر
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 433
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 433
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/433/mode/1up
اُن ناپاک طبع اوردنیا کے کیڑوں کی طرح مداہنہ نہیں کر سکتے جو کہتے ہیں کہ ہم ان تمام لوگوں کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر اُن کے باپوں کو گالیاں دی جاتیں تو ایسا ہرگز نہ کہتے۔ خدا ان کا اور ہمارا فیصلہ کرے۔ یہ عجیب مذہب ہے۔ کیا اس قوم سے کسی بھلائی کی اُمید ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ لوگ اسلام بلکہ تمام نبیوں کے خطرناک دشمن ہیں۔ ان کے گالیوں کے بھرے ہوئے رسالے ہمارے پاس موجود ہیں۔
اب ہم اپنے اصل مقصود کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ قادیان کے آریہ اخبار میں جو لالہ شرمپت برادر لالہ بسمبرداس کے حوالہ سے لکھا گیا ہے کہ ہم نے کوئی نشان آسمانی اس ؔ راقم کا نہیں دیکھا۔ یہ اس قسم کا جھوٹ ہے کہ اگر کوئی انسان گندی سے گندی نجاست کھالے تو ایسی نجاست کھانا بھی اس جھوٹ سے کمتر ہے۔ ان باتوں کو سُن کر یقین آتا ہے کہ اِس قدر جھوٹ بولنے والے کو اپنے پرمیشر پر ایمان نہیں اور وہ ہرگز نہیں ڈرتاکہ جھوٹ کا کوئی بُرا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ چونکہ مَیں نے کئی کتابوں میں لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل ساکنانِ قادیان کی نسبت لکھ دیا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں آسمانی نشان میرے دیکھے ہیں بلکہ بیسیوں نشان دیکھے ہیں اور وہ کتابیں آج تک کروڑہا انسانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ پس اگر انہوں نے مجھ سے آسمانی نشان نہیں دیکھے تو اس صورت میں مجھ سے زیادہ دنیا میں کون جھوٹا ہوگا اور میرے جیسا کون ناپاک طبع اور مفتری ہوگا جس نے محض افترا اور جھوٹ کے طور پر ان کو اپنے نشانوں کا گواہ قرار دے دیا۔ اور اگر مَیں اپنے دعوے میں سچا ہوں تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر میری اَور کیا بے عزّتی ہوگی کہ ان لوگوں نے اخباروں اور اشتہاروں کے ذریعہ سے مجھے جھوٹا اور افترا کرنے والا قرار دیا۔ دُور کے لوگ کیا جانتے ہیں کہ اصلیت کیا ہے بلکہ اس عداوت کی وجہ سے کہ جواکثر لوگوں کی میرے ساتھ ہے ان لوگوں کو سچا سمجھیں گے اور گھر کی گواہی خیاؔ ل کریں گے اوراس طرح پر اور بھی اپنی عاقبت خراب کرلیں گے۔ پس چونکہ مَیں اس بے عزّتی کو برداشت نہیں کر سکتا اور نیز اس سے خدا کے قائم کردہ سلسلہ پر نہایت
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 434
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 434
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/434/mode/1up
بد اثر ہے اس لئے مَیں اوّل تو لالہ شرمپت اور ملاوا مل کو مخاطب کرتا ہوں کہ وہ خدا کی قسم کے ساتھ مجھ سے فیصلہ کرلیں۔ اور خواہ مقابل پر اور خواہ تحریر کے ذریعہ سے۔ اِس طرح پر خدا کی قسم کھائیں کہ فلاں فلاں نشان جو نیچے لکھے گئے ہیں ہم نے نہیں دیکھے اور اگر ہم جھوٹ بولتے ہیں تو خدا ہم پر اور ہماری اولاد پر اس جھوٹ کی سزا نازل کرے۔ اور وہ نشان آسمانی بہت سے ہیں جو براہین احمدیہ میں لکھے گئے ہیں۔ لیکن اس قَسم کے لئے سب نشانوں کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔
(۱) لالہ شرمپت کے لئے یہ کافی ہے کہ اوّل تو اس نے میرا وہ زمانہ دیکھا جبکہ وہ میرے ساتھ اکیلا چند دفعہ امرتسر گیا تھا۔ اور نیز براہین احمدیہ کے چھپنے کے وقت وہ میرے ساتھ ہی پادری رجب علی کے مکان پر کئی دفعہ گیا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس وقت مَیں ایک گمنام آدمی تھا۔ میرے ساتھ کسی کو تعلق نہ تھا۔ اور اس کو خوب معلوم ہے کہ براہین احمدیہ کے چھپنے کے زمانہ میں یعنی جبکہ یہ پیشگوئی ایک دنیا کے رجوع کرنے کے بارے میںؔ براہین احمدیہ میں درج ہو چکی تھی مَیں صرف اکیلا تھا۔ تو اب قسم کھاوے کہ کیا یہ پیشگوئی اُس نے پوری ہوتی دیکھ لی یا نہیں؟ اور قسم کھا کر کہے کہ کیا اُس کے نزدیک یہ کام انسان سے ہو سکتا ہے کہ اپنی ناداری اور گمنامی کے زمانہ میں دنیا کے سامنے قطعی اور یقینی طور پر یہ پیشگوئی پیش کرے کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ تیرے پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ تو گمنام نہیں رہے گا۔ لاکھوں انسان تیری طرف رجوع کریں گے اور کئی لاکھ روپیہ تجھے آئے گا۔ اور قریباً تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ تو مشہور کیا جائے گا۔ اور پھر اس پیشگوئی کو خدا پوری کردے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اُس نے مجھ پر افترا کیا ہے اور جھوٹ بولا ہے اور جھوٹ کی نجاست کھائی ہے۔ اور نیز خدا اپنی پیشگوئیوں کے موافق ہر ایک مزاحم کو نامراد رکھے۔ اور لالہ شرمپت قسم کھا کر کہے کہ کیا اس نے یہ پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ لی یا نہیں؟ اور کیا اس کے پاس کوئی ایسی نظیر ہے کہ کسی جھوٹے نے خدا کا نام لے کر ایسی پیشگوئی کی ہو اور وہ پوری ہوگئی ہو۔ اور چاہئے کہ اس نظیر کو پیش کرے۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 435
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 435
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/435/mode/1up
(۲) دوسری قسم کھا کر یہ بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ اس کا بھائی بسمبر داس مع خوشحال برہمن کسی فوجداری مقدمہ میں سزایاب ہو کر دونوں قید ہوگئے تھے تو اُس وقت اس ؔ نے مجھ سے دُعا کی درخواست کی تھی۔ اور مَیں نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر اسے یہ بتلایا تھا کہ میری دُعا سے آدھی قید بسمبرداس کی تخفیف کی گئی۔ اور اسے مَیں نے کشفی حالت میں دیکھا ہے کہ مَیں اس دفتر میں پہنچا ہوں جہاں اس کی سزا کا رجسٹر ہے۔ اور مَیں نے اپنی قلم سے آدھی سزا کاٹ دی ہے مگر خوشحال برہمن کی سزانہیں کاٹی بلکہ اس کی سزا پوری رکھی کیونکہ اس نے مجھ سے دُعا کی درخواست نہیں کی تھی۔ اور کیا یہ سچ نہیں کہ مَیں نے اِس پیشگوئی کے بتانے کے وقت میں یہ بھی کہا تھا کہ خدا نے مجھے اپنی وحی سے علم دیا ہے کہ چیف کورٹ سے مسل واپس آئے گی اور بسمبر داس کی آدھی قید تخفیف کی جائے گی مگر بری نہیں ہوگا اور خوشحال برہمن پوری قید بھگت کر جیل سے باہر آئے گا اور یہ اُس وقت کہا تھا کہ چیف کورٹ میں بسمبر داس اور خوشحال برہمن کا اپیل ابھی دائر ہی کیا گیا تھا۔ اور کسی کو خبر نہیں تھی کہ انجام کیا ہوگا۔ بلکہ خود چیف کورٹ کے ججوں کو بھی خبر نہیں ہوگی کہ کس حکم کی طرف ہمارا قلم چلے گا۔ اُس وقت مَیں نے بتلایا تھا کہ وہ قادر خدا جس نے قرآن نازل کیا ہے وہ مجھے کہتا ہے کہ مَیں نے تیری دُعا قبول کی۔ اور ایسا ہوگا کہ چیف کورٹ سے مِسل واپس آئے گی اور بسمبر داس کی آدھی قید دُعا کے باعث ؔ سے معاف کی جائے گی مگر بَری نہیں ہوگا۔ اور خوشحال برہمن نہ بَری ہوگا اور نہ اس کی قید میں تخفیف کی جائے گی تا دُعا قبول ہونے کے لئے ایک نشان رہے۔ اور آخر ایساہی ہوا۔ اور مسل چند ہفتوں کے بعد ضلع میں واپس آئی اور بسمبر داس کی آدھی قید تخفیف کی گئی۔ مگر خوشحال برہمن کا قید میں سے ایک دن بھی تخفیف نہ کیا گیا۔ اور دونوں بری ہونے سے محروم رہے۔ اور شرمپت حلف اُٹھا کر یہ بھی بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جب اس طرح پر آخرکار میری پیشگوئی کے مطابق فیصلہ ہوا تو لالہ شرمپت نے میری طرف ایک رقعہ لکھا کہ آپ کی نیک بختی کی و جہ سے خدا نے یہ غیب کی باتیں آپ پر کھول دیں اور دُعا قبول کی۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 436
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 436
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/436/mode/1up
اور لالہ شرمپت قسم کھا کر یہ بھی بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک مدّت تک وہ میرے پاس یہی جھوٹ بولتا رہا کہ میرا بھائی بسمبر داس بَری ہوگیا ہے۔ اور پھر جب حافظ ہدایت علی جو اُن دنوں میں بٹالہ کا تحصیلدار تھا اتفاقاً قادیان میں آیا اور قریباً دس۱۰ بجے کا وقت تھا۔ تب بسمبرداس میرے مردانہ مکان کے نیچے اس کو ملا اور اُس نے بسمبرداس کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم خوش ہوئے کہ تم قید سےَؔ مخلصی پاگئے مگر افسوس کہ تم بَری نہ ہوئے۔ تب مَیں نے شرمپت کو کہا کہ تم کیوں اس قدرمدّت تک میرے پاس جھوٹ بولتے رہے کہ میرا بھائی بسمبرداس بَری ہو گیاہے۔ تو شرمپت نے یہ جواب دیا کہ ہم نے اس لئے اصل حقیقت کو چھپایا کہ اصلیت ظاہر کرنے سے ایک داغ رہ جاتا تھا۔ اور آئندہ رشتوں ناطوں میں ایک رکاوٹ پیدا ہو جاتی تھی اور اندیشہ تھا کہ برادری کے لوگ ہمارے خاندان کو بدچلن خیال کریں۔ اور کیا یہ سچ نہیں کہ جب بسمبرداس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نماز عشاء کے وقت جب میں اپنی بڑی مسجد میں تھا علی محمد نام ایک ملاّں ساکن قادیان نے جواب تک زندہ اور ہمارے سلسلہ کا مخالف ہے میرے پاس آکر بیان کیا کہ اپیل منظور ہوگئی اور بسمبر داس بری ہوگیا اور کہا کہ بازار میں اس خوشی کا ایک جوش برپا ہے۔ تب اس غم سے میرے پروہ حالت گزری جس کو خدا جانتا ہے۔ اس غم سے مَیں محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ مَیں زندہ ہوں یا مر گیا۔ تب اسی حالت میں نماز شروع کی گئی۔ جب مَیں سجدہ میں گیا تب مجھے یہ الہام ہوا لا تحزن انّک انت الاعلٰی۔ یعنی غم نہ کر تجھی کو غلبہ ہوگا۔ تب مَیں نے شرمپت کو اس سے اطلاع دی۔ اور حقیقت یہ ؔ کھلی کہ اپیل صرف لیا گیا ہے یہ نہیں کہ بسمبرداس بَری کیا گیا ہے۔
پس شرمپت قسم کھاکر بتلاوے کہ کیا یہ واقعہ نہیں گزرا؟اور دوسری طرف علی محمد ملّاں بھی قسم کے لئے بلایا جائے گا جو ایک مخالف بلکہ ایک نہایت خبیث مخالف کا بھائی ہے۔
(۳) اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ایک دفعہ چنداسنگھ نام ایک سکھ پر بابت دو درختان
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 437
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/437/mode/1up
تحصیل بٹالہ میں ہماری طرف سے نالش دائر کی گئی تھی کہ اُس نے بغیر اجازت ہماری کے اپنے کھیت سے درخت کاٹ لئے ہیں۔ تب خدا نے میرے دُعا کرنے کے وقت میری دُعا کو قبول فرما کر میرے پر یہ ظاہرکیا تھا کہ ڈگری ہوگئی۔ اور مَیں نے یہ پیشگوئی شرمپت کو بتادی تھی۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ حکم کے وقت ہماری طرف سے عدالت میں کوئی حاضر نہ تھا اور فریق ثانی حاضر ہوگئے تھے۔ قریب عصر کے وقت تھا کہ شرمپت نے ہماری مسجد میں آکر تمسخر کے طور پر مجھے یہ کہا کہ مقدمہ خارج ہوگیا۔ ڈگری نہیں ہوئی۔ تب مجھ پر وہ غم گذرا جس کو مَیں بیان نہیں کر سکتاکیونکہ خدا کا قطعی طور پر کلام تھا۔ مَیں مسجد میں نہایت پریشانی سے بیٹھ گیا اِس خیال سے کہ ایک مشرک نے مجھے شرمندہ کیا۔ اور ؔ مَیں اُس کی اِس خبر سے انکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ قریب پندرہ آدمی کے ہندو اور مسلمان بٹالہ سے یہ خبر لائے تھے۔ اس لئے نہایت درجہ کا غم مجھ پر طاری تھا۔ اتنے میں غیب سے ایک آواز آئی اور وہ نہایت رُعب ناک آواز تھی اس کے الفاظ یہ تھے۔ ’’ڈگری ہوگئی ہے۔ مسلمان ہے؟‘‘ یعنی کیا تُو خدا کے کلام کو باور نہیں کرتا۔ ایسی آواز پہلے اس سے مَیں نے کبھی نہیں سُنی تھی۔ مَیں مسجد کے ہرطرف دوڑا کہ یہ بلند آواز کس کی طرف سے آئی۔ اور آخر معلوم ہوا کہ فرشتہ کی آواز ہے۔ یہ وہی فرشتے ہیں جن سے آج کل کے اندھے آریہ * انکار کرتے ہیں۔تب مَیں نے اُسی وقت شرمپت کو بلایا اور کہا کہ ابھی خدا کی طرف سے مجھے یہ آواز آئی ہے۔ اِس پر اُس نے پھر ہنس دیا اور کہا کہ بٹالہ سے پندرہ سولہ آدمی
نادان آریہ کہتے ہیں کہ خدا کو کسی چٹھی رسان کی کیا حاجت ہے یعنی وہ فرشتوں کا محتاج
نہیں۔پس یہ تو سچ ہے کہ خدا کسی چیز کا محتاج نہیں مگر اس کی عادت میں داخل ہے کہ وہ وسائط سے کام لیتاہے۔ اور وسائط سے کام لینا اس کے عام قانون قدرت میں داخل ہے۔ دیکھو وہ ہوا کے ذریعہ سے کانوں تک آواز پہنچاتا ہے۔ پس جسمانی سلسلہ سے یہ روحانی فعلؔ اس کا عین مطابق ہے جو روحانی کانوں کو اپنی آواز فرشتوں کے ذریعہ سے جو ہوا کے قائم مقام ہیں پہنچاوے اور ضرور ہے کہ جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں باہم مطابق ہوں۔ اور یہی دلیل قرآن شریف نے پیش کی ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 438
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/438/mode/1up
آئے ہیں جو بعض ہندو بعض سکھ اور بعض مسلمان ہیں اور ابھی بعض اُن کے بازار میں موجود ہیں۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ سب جھوٹ بولیں یہ کہہ کر چلا گیا اور مجھے اُس نے اُس وقت ایک دیوانہ سا خیال کیا۔ رات میری سخت بیقراری میں بسر ہوئی۔ صبح ہوتے ہی میں خودبٹالہ گیا۔ تحصیل میں حافظ ہدایت علی تحصیلدار موجود نہ تھا مگر اس کا سررشتہ دار متھرا داس نام موجود تھا جو اب تک زندہ ہوگا۔ مَیں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا ہمارا مقدؔ مہ خارج ہوگیا؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ڈگری ہوئی۔ مَیں نے کہاکہ قادیان کے پندرہ سولہ آدمی جو فریق مخالف اور اس کے گواہ تھے۔ سب نے جاکر یہی بیان کیا ہے کہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ ایک طرح سے انہوں نے بھی جھوٹ نہیں بولا۔ بات یہ ہوئی کہ تحصیلدار کے فیصلہ لکھنے کے وقت میں حاضر نہ تھا۔ کسی کام کے لئے باہر چلا گیا تھا یا شاید یہ کہا تھا کہ مَیں پاخانہ پھرنے کے لئے چلا گیا تھا اور تحصیلدار نیا آیا ہوا تھا اور اُس کو پیچ در پیچ مقدمات کی خبر نہ تھی اور فریق مخالف نے اس کے فیصلہ لکھنے کے وقت ایک فیصلہ صاحب کمشنر کا اُس کے آگے پیش کیا تھا۔ اور اس میں صاحب کمشنر کا یہ حکم تھا کہ چونکہ یہ مزارعہ موروثی ہیں ا س لئے ان کا حق ہے کہ اپنے اپنے کھیت کے درخت ضرورت کے وقت کاٹ لیا کریں۔ مالک کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ تحصیلدار نے اس فیصلہ کو دیکھ کر مقدمہ خارج کر دیا اور جب مَیں آیا تو مجھے وہ اپنا لکھا ہوا فیصلہ دیا کہ شامل مِسل کردو۔ مَیں نے پڑھ کر کہا کہ ان زمینداروں نے آپ کو دھوکہ دیا ہے کیونکہ جس فیصلہ کو انہوں نے پیش کیا ہے وہ صاحب فنانشل کے حکم سے منسوخ ہو چکا ہے۔ اور بموجب اس حکم کے کوئی مزارعہ موروثی ہو ؔ یا غیر موروثی بغیر اجازت مالک کے اپنے کھیت کا درخت نہیں کاٹ سکتا۔ اور مَیں نے مسل میں سے وہ فیصلہ ان کو دکھلا دیا۔ تب تحصیلدار نے فی الفور اپنا پہلا فیصلہ چاک کر دیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا اور دوسرا فیصلہ ڈگری کا لکھا اور کل خرچہ مدعا علیہم کے ذمہ ڈالا۔ فریق ثانی تو خوشی خوشی اپنے حق میں فیصلہ سُن کر قادیان کو چلے گئے تھے اُن کو اس دوسرے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 439
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/439/mode/1up
فیصلہ کی خبر نہ تھی اس لئے انہوں نے وہی ظاہر کیا جو ان کو معلوم تھا۔
غرض مَیں نے واپس آکر یہ سب حال شرمپت کو سُنایا اور مزار عان کو بھی اپنی جھوٹی خوشی پر اطلاع ہوگئی۔ پس اگر لالہ شرمپت اس نشان سے بھی منکر ہے تو چاہیئے کہ قسم کھاکر کہے کہ ایسا کوئی واقعہ ظہور میں نہیں آیا اور ایسا بیان سراسر افترا ہے۔ اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ابھی بہت سے لوگ قادیان میں اُن میں سے زندہ ہوں گے جنہوں نے یہ نشان دیکھا ہے۔
اور سوائے اِس کے بیسیوں اور ایسے آسمانی نشان ہیں جن کا گواہ رؤیت لالہ شرمپت ہے۔ وہ تو بڑی مشکل میں پڑگیا ہے۔ کہاں تک آریہ لوگ اُس سے انکار کرائیں گے۔
(۴) ؔ بھلا لالہ شرمپت قسم کھاکر کہے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب نواب محمد حیات خان سی۔ایس۔آئی۔ معطّل ہوگیا تھا اور کوئی بریّت کی اُمید نہیں تھی اور اُس نے مجھ سے دُعا کی درخواست کی تھی تو میرے پر خدا نے ظاہر کیا تھا کہ وہ بَری کیا جائے گا۔ اور مَیں نے کشفی نظر سے اس کو عدالت کی کُرسی پر بیٹھا دیکھا تھا اور یہ بات مَیں نے اُس کو بتادی تھی اور نہ صرف اُس کو بلکہ بہتوں کو بتائی تھی۔ چنانچہ کشن سنگھ آریہ بھی اس کا گواہ ہے۔ اگر یہ سچ نہیں تو قسم کھاوے۔
(۵) اور پھر لالہ شرمپت قسم کھا کر بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جب پنڈت دیانند نے پنجاب میں آکر بہت شور کیا اور خدا کے برگزیدہ نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کی اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں تحقیر کی۔ اور خدا کے تمام مقدس نبیوں کو سونے کھوٹے کی طرح قرار دیا۔ تب مَیں نے شرمپت کو کہا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ اب اس کی موت کا دن قریب ہے وہ بہت جلد مرے گاکیونکہ اس کا دل مر گیا ہے۔ چنانچہ وہ اس پیشگوئی کے بعد صرف چند دنوں میں ہی اجمیر میں مر گیا اور اپنی حسرتیں اپنے ساتھ لے گیا۔
(۶)ؔ اور نیز شرمپت قسم کھاکر بتلائے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک دفعہ اُس کو اور ملاوامل کو صبح کے وقت یہ الہام بتلایا گیا تھا کہ آج ارباب سرور خان نام ایک شخص کا روپیہ آئے گا اور وہ ارباب محمد لشکر خان کا رشتہ دار ہوگا۔ تب ملاوامل وقت پر ڈاکخانہ میں گیا اور خبر لایا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 440
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/440/mode/1up
کہ سرور خان کا اس قدر روپیہ آیا مگر ساتھ ہی یہ عذر کیا کہ کیونکر معلوم ہو کہ یہ فلاں شخص کا رشتہ دار ہے۔ تب اس کے تصفیہ کے لئے ان کے روبرو مردان میں بابو الٰہی بخش اکونٹنٹ کی طرف خط لکھا گیا تھا جو ان دنوں میں میرے سخت مخالف ہیں۔ اُن کا جواب آیا کہ ارباب سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے۔
(۷) اور کیا یہ سچ نہیں کہ ایک مرتبہ مجھے یہ الہام ہوا تھا کہ ’’اے عمی بازئ خویش کردی۔ و مرا افسوس بسیار دادی۔ ‘‘ اور اُسی دن شرمپت کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جس کا نام اُس نے امین چند رکھا۔ اوراُن دنوں میں میرا بھائی غلام قادر مرحوم بیمار تھا۔ مَیں نے لالہ شرمپت کو کہا کہ آج مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ یہ میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے اور الہامی طور پر میرے بیٹے سلطان احمد کی طرف سے یہ کلمہ ہے اور یا ممکن ہے کہ تیرے بیٹے کی طرف اشارہ ہو جس کا نام تُو نے امین چند رکھا ہے*۔یہ میرا کہنا ہی تھا کہ لالہ شرمپت نے گھر میں جاکر اپنے بیٹے کا نام بدل دیا اورؔ بجائے امین چند کے گوکل چندنام رکھ دیا جو اب تک زندہ موجود ہے۔ مگر چند روز کے بعد میرا بھائی فوت ہوگیا۔اور یہ بات بھی لالہ شرمپت سے حلفاً دریافت کرنی چاہیئے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب گورداسپور میں ایک شخص کرم دین نام نے میرے پر دعویٰ ازالہ حیثیت عرفی عدالت آتما رام اکسٹرا اسسٹنٹ میں دائر کیا ہوا تھا تو مَیں نے لالہ شرمپت کو
اگرچہ مجھے یقین تھا کہ یہ الہام میرے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کے بارے میں ہے اور
یہی مَیں نے اپنے بعض عزیزوں کو بتلا بھی دیا تھا اور خود اپنے بھائی مرحوم کو بھی بتلایا تھا۔ جس سے وہ بہت غمگین ہوئے اور پیچھے سے میں نے افسوس بھی کیا کہ ان کو مَیں نے کیوں بتلایا مگر جب شرمپت نے مجھے خبر دی کہ مَیں نے اپنے بیٹے کا امین چند نام رکھا ہے تو تقدیر الٰہی سے میرے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ ممکن ہے کہ عمی سے مراد امین چند ہو۔ کیونکہ ہندو لوگ امین چند کے نام کو مختصر کر کے اَمی بھی کہہ دیتے ہیں۔ تب اس کے دل میں بہت خوف پیدا ہوا اور اس نے گھر میں جاکر امین چند کی جگہ گوکل چند اپنے لڑکے کا نام رکھ دیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 441
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/441/mode/1up
کہا تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ انجام کار مَیں اس مقدمہ میں بَری کیا جاؤں گا مگر کرم دین سزا پائے گا۔ یہ اُس وقت کی خبر ہے کہ جب تمام آثار اس کے برخلاف تھے اور حاکم کی رائے ہمارے مخالف تھی۔ چنانچہ آتما رام مجوز مقدمہ نے اپنے فیصلہ کے وقت بڑی سختی سے فیصلہ دیا اور ہم پرسات ۷۰۰سو روپیہ جرمانہ کیا۔ اور ناخنوں تک زور لگا کر فیصلہ لکھا۔ اور پھر صاحب ڈویژنل جج کے محکمہ سے جیسا کہ مَیں نے پیشگوئی کی تھی وہ حکم آتما رام کا منسوخ کیا گیا اور صاحب موصوف نے مجھ کو بڑی عزت کے ساتھ بَری کر کے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ جو الفاظ اپیلانٹ نے یعنی میں نے کرم دین کی نسبت استعمال کئے ہیں یعنی کذّاب اور لئیم*کا لفظ ان الفاظ سے کرم دین کی کچھ بھی ازالہ حیثیت عرفی نہیں ہوئی بلکہ اگر ان الفاظ سے بڑھ کر بھی کوئی اور سخت الفاظ اس کے حق میں استعمال کئے جاتے تب بھی وہ ان الفاظ کا مستحق تھا۔ یہ تو میرے حق میں فیصلہ ہوا مگر کرم دین پر پچاؔ 3س روپیہ جرمانہ قائم رہا۔ یہ پیشگوئی نہ صرف مَیں نے لالہ شرمپت کو بتلائی تھی بلکہ مَیں اِس پیشگوئی کو مقدمہ کے وجود سے بھی پہلے اپنی کتاب مواہب الرحمن میں جو ایک عربی زبان میں کتاب ہے شائع کر چکا تھا۔ پس کسی کے لئے ممکن نہیں جو
کرم دین کا بیان تھا کہ کذّاب اس کو کہتے ہیں جو بہت جھوٹ بولنے والا ہو اور ہمیشہ جھوٹ بولتا
ہو۔ اور لئیم اس کو کہتے ہیں جو ولدالزنا ہو اور اس کے خاندان میں ایسا ہی سلسلہ چلا آیا ہو۔ اور اس پر اُس نے کتابیں بھی دکھلائیں مگر ڈویژنل جج نے فرمایا کہ اگر ان الفاظ سے سخت تربھی الفاظ بولے جاتے تب بھی ان سے کرم دین کی کچھ بے عزّتی نہیں تھی۔ یعنی اس کی حالت کے لحاظ سے ابھی یہ الفاظ تھوڑے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 442
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/442/mode/1up
اس سے انکار کر سکے*۔
یہ چند پیشگوئیاں بطور نمونہ مَیں اس وقت پیش کرتا ہوں۔ اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سب بیان صحیح ہے اور کئی دفعہ لالہ شرمپت سُن چکا ہے اور اگر مَیں نے جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میرے لڑکوں پر ایک سال کے اندر اس کی سزا نازل کرے آمین۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ ایسا ہی شرمپت کو بھی چاہئے کہ وہ بھی میری اس قسم کے مقابل پر قسم کھاوے اور یہ کہے کہ اگر مَیں نے اس قسم میں جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میری اولاد پر ایک سال کے اندر اس کی سزا وارد کرے۔ آمین۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبینژ۔
یہ تو شرمپت کی نسبت لکھا گیا اور ملاوا مل اس کا دوست بھی اس میں شریک ہے اس کو چاہیئے کہ اس بات کی قسم کھاوے کہ کیا میرے والد صاحب کی وفات کے بعد الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ مُہر پر کھدوانے کے لئے اُس کوامرتسر مَیں نے نہیں بھیجا تھا؟ اور کیا پانچ روپے اُجرت دے کر وہ مہر نہیں لایا تھا اور کیا اس زمانہ میں اِس عروج اور شان و شوؔ کت اور رجوع خلائق کا نام و نشان تھا؟اور کیا یہ تمام پیشگوئی اس کو نہیں بتائی گئی تھی؟ جس کے لئے وہ بھیجا گیا تھا۔ یعنی اس کو یہ بتایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو یہ خبر ملی تھی کہ شنبہ کے روز آفتاب کے غروب کے بعد میرا والد فوت ہو جائے گااور تجھے کچھ غم نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ مَیں تیرا متکفل رہوں گا اور تیری حاجات پوری کرنے کے لئے مَیں کافی ہوں گا۔ اور یہ تخمیناً پینتیس۳۵ یا چھتیس۳۶ برس کا الہام ہے جبکہ مَیں زاویہ گمنامی میں
یہ پیشگوئی نہ صرف کتاب مواہب الرحمن میں بلکہ اخبار الحکم اور البدر میں بھی وقوع سے پہلے
شائع کی گئی تھی۔منہ
ژ یہ بددعا کا فقرہ اس امر سے لازم ملزوم ہے کہ میری اس دُعا کے مقابل پر شرمپت بھی اپنی
نسبت انہیں الفاظ کے ساتھ بددعا طبع کرا کر کسی اخبار میں شائع کرادے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 443
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/443/mode/1up
ایسا پوشیدہ تھا جیسا کہ ایک ٹکڑہ کسی جوہر کا سمندر کی تہ کے نیچے پوشیدہ ہو۔
دوسری یہ بتاوے کہ کیا وہ ایک مرتبہ مرض دق میں مبتلا نہیں ہواتھا؟ اور اُس کو خواب بھی آچکی تھی کہ ایک زہریلے سانپ نے اس کو کاٹا ہے اور تمام بدن سوج گیا ہے۔ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ میرے پاس آکر رویا تھا اور دعا کے لئے کہا تھا۔ تب میں نے اس کے حق میں دُعا کی تھی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا۔ قلنا یا نار ۔کونی بردًا وسلامًا یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہو جا۔ اور یہ الہام اس کو سُنادیا گیاتھا۔ اور پھر بعد اس کے چند دنوں میں ہی وہ صحت یاب ہوگیا؟
مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں۔ اور اگر یہ جھوٹ ہیں تو خدؔ ا ایک سال کے اندر میرے پر اور میرے لڑکوں پر تباہی نازل کرے اور جھوٹ کی سزا دے۔ آمین۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔
ایسا ہی ملاوا مل کو چاہیئے کہ چند روزہ دنیا سے محبت نہ کرے اور اگر ان بیانات سے انکاری ہے تو میری طرح قسم کھاوے کہ یہ سب افترا ہے اور اگر یہ باتیں سچ ہیں تو ایک سال کے اندر میرے پر اور میری تمام اولاد پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ آمین۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین*۔
اور یاد رہے کہ یہ لوگ اس طرح پر قسم نہ کھائیں گے بلکہ حق پوشی کا طریق اختیار کریں گے اور سچائی کا خون کرنا چاہیں گے۔ تب بھی مَیں امید رکھتا ہوں کہ حق پوشی کی حالت میں بھی خدا ان کو بے سزا نہیں چھوڑے گاژ ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی بے عزّتی خدا کی بے عزّتی ہے
یہ سچ ہے کہ ایک مرتبہ ملاوا مل نے اپنے اشتہار میں میرے نشانوں کے دیکھنے سے انکار کر دیا
تھا مگر اس انکار کا کچھ اعتبار نہیں۔ اکثر لوگ خود غرضی سے ۲؍۲ لے کر عدالتوں میں گواہی کے وقت جھوٹ کی نجاست کھالیتے ہیں۔ تمام مدار ایسی قسم پر ہے جو مَیں نے لکھی ہے اگر یہ لوگ خدا سے بے خوف ہو کر اپنی قوم کو خوش کرنے کے لئے ایسی قسم کھالیں گے تب ان کو معلوم ہوگا کہ خدا بھی ہے۔ منہ
ژ اور اگر وہ راست راست شائع کردیں گے تو مجھے قوی امید ہے کہ وہ خدا سے اس کااجر اور برکت
پائیں گے مگر خدا پسند نہیں کرتا کہ کوئی جھوٹ بول کر سچائی پر پردہ ڈالنا چاہے کہ اس میں وہ خدا کی عزّت اور جلال پر حملہ کرتا ہے اس لئے آخرکار خدا اس کو پکڑتا ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 444
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/444/mode/1up
ملاوامل اس بات کا بھی مجرم ہے کہ اُس نے یہ سب کچھ دیکھ کر پھر مخالفت کر کے اپنے پورے زور اور پوری مخالفت سے ایک اشتہار دیا تھا جس کو دس برس گزر گئے اور لوگوں کو روکا تھا کہ میری طرف رجوع نہ کریں اور نہ کچھ مالی مدد کریں۔ تب اس کے روکنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اشتہار کے بعد کئی لاکھ انسان میرے ساتھ شامل ہوئے اور کئی لاکھ روپیہ آیا۔ مگر پھر بھی اُس نے خدا کے ہاتھ کو محسوس نہ کیا۔
بالآؔ خر ہم اس بات کا لکھنا بہت ہی ضروری سمجھتے ہیں کہ جس پرمیشر کو پنڈت دیانند نے آریوں کے سامنے پیش کیا ہے وہ ایک ایسا پرمیشر ہے جس کا عدم اور وجود برابر ہے۔ کیونکہ وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اگر ایک شخص اپنی آوارگی اور بدچلنی کے زمانہ سے تائب ہو کر اسی اپنے پہلے جنم میں مکتی کو پانا چاہے تو اُس کو اس کی توبہ اور پاک تبدیلی کی وجہ سے مکتی عنایت کرسکے بلکہ اُس کے لئے آریہ اصول کی رُو سے کسی دوسری ُ جون میں پڑ کر دوبارہ دنیا میںآنا ضروری ہے خواہ وہ انسانی جون کو چھوڑ کر کُتّا بنے یا بندر سؤر۔ مگر بننا تو ضرور چاہیئے۔ یہ پرمیشر ہے جس کو دیالو اور سرب شکتی مان کہا جاتا ہے۔ اگر انسان نے اپنی ہی کوشش سے سب کچھ کرنا ہے تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر پرمیشر کا کس بات میں شکر ادا کیا جائے اور جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے بعض حصہ عمر میں ایسا زمانہ بھی آجاتا ہے کہ وہ کسی حد تک نفسانی جوشوں اور خواہشوں کا تابع ہوتا ہے۔ اور کم سے کم یہ کہ غفلت جو گناہوں کی ماں ہے ضرور کسی قدر اس سے حصہ لیتا ہے اور یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ کیا جسمانی پہلو کی رُو سے اور کیا رُوحانی پہلو کی رُوح سے ابتدا میں کمزوری میں پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر اگر خدا کا فضل شامل حال ہو تو آہستہ آہستہ پاکیزگی کی طرف ترقی کرتا ہے۔ پس یہ خوب پر ؔ میشر ہے جس کو انسان کی فطرت کی بھی خبر نہیں۔ اگر اسی طرح مکتی پانا ہے تو پھر مکتی کی حقیقت معلوم۔ ہم اس آزمائش کے لئے نہ صرف ایک آریہ کو مخاطب کرتے ہیں نہ دو کو نہ تین کو بلکہ نہایت یقین اور بصیرتِ تامّہ کی راہ سے کہتے ہیں کہ ہمارے روبرو دوہزار یاد س ہزار یا بیس ہزار یا مثلاً ایک لاکھ ہی آریہ کھڑے ہو کر قسم کھاویں کہ کیا اُن کی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 445
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/445/mode/1up
سوانح عمری ایسی پاک ہے کہ کسی قسم کا اُن سے گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اور کیا وہ آریہ اصولوں کی رُو سے تسلّی رکھتے ہیں کہ وہ مرتے ہی مکتی پا جائیں گے۔ اور پھر جب مخلوقات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی تعداد کو دوسری مخلوقات سے وہ نسبت نہیں جو قطرہ کو دریا کی طرف ہوتی ہے۔ کیونکہ علاوہ ان تمام بے شمار جانوروں کے جو خشکی اور تری میں پائے جاتے ہیں ایسے غیر مرئی جانور بھی کرّۂ ہوا اور پانی میں موجود ہیں جو وہ نظر نہیں آسکتے جیسا کہ تحقیقات سے ثابت ہے کہ ایک قطرہ پانی میں کئی ہزار کیڑے ہوتے ہیں۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ باوجود اس قدر زمانہ اور مدّت دراز گزر نے کے پرمیشر نے مکتی دینے میں ایسی ناقابل کارروائی کی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں کی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پرمیشر کیؔ ہرگز مرضی ہی نہیں کہ کوئی شخص مکتی حاصل کرسکے اور یا یوں کہو کہ وہ مکتی دینے پر قادر ہی نہیں۔ اور یہ بات بہت قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر قادر ہو تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ وہ دائمی نجات یا مکتی نہ دے سکے اور ایسا ہی باوجود دیالو اور قادر ہونے اس کے کے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیوں وہ ایسا چڑچڑا مزاج کاہے کہ ایک ذرا سے گناہ کو بھی بخش نہیں سکتا اور جب تک ایک گناہ کے لئے کروڑہا جونوں میں نہ ڈالے خوش نہیں ہوتا۔ ایسے پرمیشر سے کس بہتری کی اُمید ہو سکتی ہے؟ اور جبکہ ایک شریف طبع انسان اپنے قصورواروں کے قصور ان کی توبہ اور درخواستِ معافی پر بخش سکتا ہے اور انسان کی فطرت میں یہ قوت پائی جاتی ہے کہ کسی خطاکار کی پشیمانی اور آہ وزاری پر اس کی خطا کو بخش دیتا ہے تو کیاوہ خدا جس نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ اس صفت سے محروم ہے؟ نعوذ باللہ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔
پس یہ آریوں کی غلطی ہے کہ اس خدا کو جس کووہ دیالو بھی کہتے ہیں اور سرب شکتی مان بھی سمجھتے ہیں اس کو اس عظیم الشان صفت سے محروم قرار دیتے ہیں۔ اورؔ یادرہے کہ انسان جو سراسر کمزوری میں بھرا ہوا ہے بغیر خدا کی صفت مغفرت کے ہرگز نجات نہیں پا سکتا۔ اور اگر خدا میں صفت مغفرت نہیں تو پھر انسان میں کہاں سے پیدا ہوگئی؟ یاد رہے کہ نجات نہ پانا ایک موت ہے ایسا ہی سچی توبہ کرنا بھی ایک موت ہے۔ پس موت کا علاج موت ہے۔ کیا وہ خدا جو ہرایک چیز پر
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 446
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/446/mode/1up
قادر ہے۔ اُس نے ہماری اِس موت کا کوئی علاج نہیں رکھا۔ اور کیا ہم بے علاج ہی مریں گے؟ ہرگز نہیں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے علاج بھی ساتھ ہی پیدا ہوا ہے۔ اور افسوس سے کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں اور آریوں نے اس اعتقاد میں ایک ہی راہ پر قدم مارا ہے صرف فرق یہ ہے کہ عیسائی تو انسان کے گناہ بخشوانے کے لئے ایک نبی کے خون کی حاجت سمجھتے ہیں۔ اور اگر وہ نہ مارا جاتا تو گناہ نہ بخشے جاتے۔ اور اگر ثابت ہو کہ وہ مارا نہیں گیا۔ جیسا کہ ہم نے ثابت بھی کر دیا ہے اور یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچا دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنی طبعی موت سے فوت ہوا اور ایک دنیا جانتی ہے کہ کشمیر میں اس کی قبر ہے تو اس صورت میں سب تانا بانا کفارہ کا بیکار ہوگیا۔ اور آریہ صاحبان مطلقاً اپنے پرمیشر کو گناہوں کے بخشنے سے قاصر سمجھتے ہیں اورؔ آریہ اور عیسائی اس اعتقاد میں دونوں شریک ہیں کہ خدا خطاکاروں کو اُن کی پشیمانی اور توبہ پر بخش نہیں سکتا۔ اور آریہ صاحبوں نے صرف اسی قدر پر بس نہیں کی بلکہ وہ تو اپنے پرمیشر کو اس بات سے بھی جواب دیتے ہیں کہ وہ انسان کا خالق اور اس کی تمام قوتوں روحانی اور جسمانی کا مبدءِ فیض ہے اور اس طور پر پرمیشر کی شناخت کا دروازہ بھی اُن پر بند ہے۔ کیونکہ وید کی رُو سے پرمیشر کی عادت نہیں ہے کہ کوئی نشان آسمانی دکھاوے اور اس طرح پر اپنے وجود کا پتہ دے۔ اور دوسری طرف وہ ارواح اور ذرات عالم کا پیدا کرنے والا نہیں ہے۔ پس دونوں طرف سے آریہ مذہب کے رُوسے پرمیشر کی شناخت محال ہے۔ علاوہ اس کے جس تعلیم پرناز کیا جاتا ہے نیوگ کا مسئلہ اس کی حقیقت سمجھنے کیلئے ایک عمدہ نمونہ ہے لیکن کیا کسی شریف انسان کی فطرت قبول کر سکتی ہے کہ اُس کی زندگی میں اُس کی جورو جس کو طلاق بھی نہیں دی گئی دوسرے سے ہم بستر ہو جائے۔
علاوہ اس کے جس جاودانی نجات کا انسان طبعاً خواہش مند ہے اور اس کی فطرت میں یہ نقش کر دیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کی لذّت اورآرام کا طالب ہو اس جاودانی نجات سے یہ مذہب منکر ہے اور اپنے پرمیشر کے لئے یہ تجویز کرتے ہیں کہؔ گویا وہ ایک محدود مدّت کے بعد اپنے بندوں کو مکتی خانہ سے باہر نکال دیتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ دنیا کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور پرمیشر ارواح کا خالق نہیں اس لئے پرمیشر کے لئے یہ مصیبت پیش آئی کہ اگروہ تمام روحوں کو ہمیشہ کی نجات دے دیوے تو اس سے سلسلہ دنیا کا ٹوٹ جائے گا اور کسی دن پرمیشر معطّل اور خالی ہاتھ رہ جائے گا۔ کیونکہ ہر ایک روح جو ہمیشہ کی مکتی پاکر دنیا سے گئی تو گویا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 447
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/447/mode/1up
وہ پرمیشر کے ہاتھ سے گئی۔ پس اس طرح پر جب روحیں خرچ ہوتی رہیں تو بباعث اس کے کہ پرمیشر کوئی رُوح پیدا نہیں کر سکتا اور آمدن کی سبیل قطعًا بند تو ضرور ایک دن ایسا آجائے گا جبکہ پرمیشر کے ہاتھ میں ایک بھی رُوح نہیں رہے گی تاوہ دنیا میں بھیجی جائے۔ پس اس خیال سے پرمیشر نے یہ پیش بندی اختیار کر رکھی ہے جو ہمیشہ کی مکتی سے رُوحوں کو جواب دے دیا کرتا ہے اور دھکّے دے کر مکتی خانہ سے باہر نکالتا ہے۔
اس جگہ بعض نادان آریہ محض چالاکی سے یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ انسان کے اعمال محدود ہیں اس لئے مکتی بھی محدود رکھی گئی۔ مگر وہ دھوکہ کھاتے ہیں یا دھوکہ دیتے ہیں۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں ہمیشہ کی اطاعت مرکوز ہے۔ نیک آدمی کب کہتے ہیں کہؔ اتنی مدّت کے بعد ہم خدا تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت چھوڑ دیں گے بلکہ اگر بے انتہا مدّت تک ان کو عمر دی جائے تب بھی وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کرتے رہیں گے۔ اس صورت میں اگر وہ جلد مر جائیں تو ان کا کیا گناہ ہے۔ اُن کی نیّت میں تو ہمیشہ کی اطاعت ہے نہ کہ کسی حد تک اور تمام مدار نیّت پر ہے۔ اور موت جو انسان پر آتی ہے یہ خدا کا فعل ہے نہ کہ انسان کا۔
یہ ہیں عقائد آریہ صاحبوں کے جن پر وہ ناز کرتے ہیں۔ چونکہ ان کے خیال میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ ایک گناہ سے بھی بیشمار جونوں کی سزا درپیش ہے۔ اس لئے وہ گناہ سے پاک ہونے کے لئے کوئی کوشش کرنا عبث اور بے سود سمجھتے ہیں۔ اور اُن کے مذہب میں کوئی مجاہدہ نہیں ہے جس کی رُو سے اسی دنیا میں انسان گناہ سے پاک ہو سکے جب تک تناسخ کے ذریعہ سے اور طرح طرح کی جونوں میں پڑنے سے سزا نہ پالے۔ پس ظاہر ہے کہ اس صورت میں کس اُمید پروہ کوئی مجاہدہ کر سکتے ہیں اگر وہ سوچیں۔ اور اگر ان کو روحانی فلاسفی کا کوئی حصہ نصیب ہو تو وہ جلدی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس عقیدہ کی وجہ سے خدائے کریم و رحیم کی رحمت کا دروازہ اپنے پرؔ بند کررہے ہیں۔ وہ توبہ سے صرف چند لفظ مراد لیتے ہیں مگر سچی توبہ درحقیقت ایک موت ہے جو انسان کے ناپاک جذبات پر آتی ہے اور ایک سچی قربانی ہے جو انسان اپنے پورے صدق سے حضرت احدیت میں ادا کرتا ہے اور تمام قربانیاں جو رسم کے طور پر ہوتی ہیں اسی کا نمونہ ہے۔ سو جو لوگ یہ سچی قربانی ادا کرتے ہیں جس کا نام دوسرے لفظوں میں توبہ ہے۔ درحقیقت وہ اپنی سفلی زندگی پر ایک موت وارد کرتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 448
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/448/mode/1up
جو کریم و رحیم ہے اِس موت کے عوض میں دوسرے جہان میں اُن کو نجات کی زندگی بخشتا ہے کیونکہ اس کا کرم اور رحم اس بخل سے پاک ہے جو کسی انسان پر دو موتیں وارد کرے۔ سو انسان توبہ کی موت سے ہمیشہ کی زندگی کو خریدتا ہے اور ہم اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے کو پھانسی پر چڑھانے کے محتاج نہیں ہیں ہمارے لئے وہ صلیب کافی ہے جو اپنی قربانی دینے کی صلیب ہے۔
یا د رہے کہ توبہ کا لفظ نہایت لطیف اور روحانی معنی اپنے اندر رکھتا ہے جس کی غیر قوموں کو خبر نہیں یعنی توبہ کہتے ہیں اس رجوع کو کہ جب انسان تمام نفسانی جذبات کا مقابلہ کرکے اور اپنے پر ایک موت کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ کی ؔ طرف چلا آتا ہے۔ سو یہ کچھ سہل بات نہیں ہے اور ایک انسان کو اُسی وقت تائب کہا جاتا ہے جبکہ وہ بکلّی نفسِ ا ّ مارہ کی پیروی سے دست بردار ہو کر اور ہر ایک تلخی اور ہر ایک موت خدا کی راہ میں اپنے لئے گوارا کر کے آستانۂ حضرتِ احدّ یت پر گر جاتا ہے تب وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اِس موت کے عوض میں خدا تعالیٰ اُس کو زندگی بخشے۔ چونکہ آریہ لوگ صرف بہت سی جونوں کو مدار نجات سمجھ بیٹھے ہیں اس لئے ان کا اس طرف خیال نہیں آتا ہے۔ نہیں جانتے کہ جس طرح میلا کپڑا بھٹی پر چڑھنے سے اور پھر دھوبی کے ہاتھ سے آب شفاف کے کنارہ پر طرح طرح کے صدمات اٹھانے سے آخرکار سفید ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح یہ توبہ جس کے معنے میں بیان کر چکا ہوں انسان کو صاف پاک کر دیتی ہے۔ انسان جب خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں پڑ کر اپنی تمام ہستی کو جلا دیتا ہے تو وہی محبت کی موت اُس کو ایک نئی زندگی بخشتی ہے۔ کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ محبت بھی ایک آگ ہے اور گناہ بھی ایک آگ ہے۔ پس یہ آگ جو محبتِ الٰہی کی آگ ہے گناہ کی آگ کو معدوم کر دیتی ہے۔ یہی نجات کی جڑ ھ ہے۔
اور ؔ نہایت افسوس تو یہ ہے کہ آریہ لوگ اپنے مذہب کی خرابیوں کو نہیں دیکھتے اور اسلام پر بیہودہ اعتراض کرتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ کوئی بھی ان کا ایسا اعتراض نہیں جو ان کے مذہب کے کسی فرقہ کے طریق عمل میں وہ داخل نہیں۔ اب ہم اس رسالہ کو خدا کے نام پر ختم کرتے ہیں۔ الحمدللّٰہ اوّلًا و اٰخرًا ھو مَولانا نعم المولٰی و نعم النصیر۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 449
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/449/mode/1up
نظم
از مصنّف
اسلام سے نہ بھاگو! راہِ ُ ھدیٰ یہی ہے
اے سونے والو جاگو! شمس الضحٰی یہی ہے
مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا
اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے
وہ دِلستاں نہاں ہے کِس رَاہ سے اُس کو دیکھیں
اِن مشکلوں کا یارو مشکل کشا یہی ہے
باطن سِیہ ہیں جن کے اِس دیں سے ہیں وہ منکر
پر اَے اندھیرے والو! دِل کا دِیا یہی ہے
دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں
آخر ہوا یہ ثابت دَارُ الشفا یہی ہے
سب ؔ خشک ہوگئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے
ہر طرف مَیں نے دیکھا بُستاں ہرا یہی ہے
دنیا میں اِس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت
پی لو تم اِس کو یارو آبِ بقا یہی ہے
اِسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج
پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن۔ بَلا یہی ہے
جب کُھل گئی سچائی پھر اُس کو مان لینا
نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے
جو ہو مفید لینا جو بد ہو اس سے بچنا
عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے
مِلتی ہے بادشاہی اِس دیں سے آسمانی
اے طالبانِ دولت ظلِّ ہُما یہی ہے
سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں کا آشیانہ
اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما یہی ہے
سَو سَو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بُلا کر
مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مدّعا یہی ہے
کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ
اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے
یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے تازہ
اے گِرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے
کِس کام کا وہ دیں ہے جس میں نشاں نہیں ہے
دیں کی مرے پیارو زرّیں قبا یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 450
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/450/mode/1up
افسوس آریوں پر جو ہو گئے ہیں شپّر
وہ دیکھ کر ہیں مُنکر ظلم و جفا یہی ہے
معلوم کر کے سب کچھ محروم ہوگئے ہیں
کیا اِن نیوگیوں کا ذہنِ رسا یہی ہے
اِکؔ ہیں جو پاک بندے اِک ہیں دلوں کے گندے
جیتیں گے صادق آخر حق کا مزا یہی ہے
اِن آریوں کا پیشہ ہردم ہے بدزبانی
ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا یہی ہے
پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں ہیں گالی
پر اِن سیہ دلوں کا شیوہ سدا یہی ہے
افسوس سبّ و توہیں سب کا ہوا ہے پیشہ
کس کو کہوں کہ اُن میں ہرزہ درا یہی ہے
آخر یہ آدمی تھے پھر کیوں ہوئے درندے
کیا ُ جون اِن کی بگڑی یا خود قضا یہی ہے
جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے ہے عاری
کِس کِس کا نام لیویں ہر سُو وَبا یہی ہے
لیکھو کی بدزبانی کارد ہوئی تھی اُس پر
پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و خطا یہی ہے
اپنے کئے کا ثمرہ لیکھو نے کیسا پایا
آخر خدا کے گھر میں بَد کی سزا یہی ہے
نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں بھی دینا
کُتّوں سا کھولنا مُنہ تخمِ فنا یہی ہے
میٹھے بھی ہو کے آخر نشتر ہی ہیں چلاتے
اِن تیرہ باطنوں کے دل میں دغا یہی ہے
جاں بھی اگرچہ دیویں ان کو بطور احساں
عادت ہے اِن کی کفراں رنج و عنا یہی ہے
ہندو کچھ ایسے بگڑے دل پُر ہیں بغض و کیں سے
ہر بات میں ہے توہیں طرزِ ادا یہی ہے
جاں بھی ہے اِن پہ قرباں گر دل سے ہوویں صافی
پس ایسے بدکنوں کا مجھ کو گِلا یہی ہے
احوالؔ کیا کہوں میں اس غم سے اپنے دل کا
گویا کہ ان غموں کا مہماں سرا یہی ہے
لیتے ہی جنم اپنا دشمن ہوا یہ فرقہ
آخر کی کیا اُمیدیں جب ابتدا یہی ہے
دل پھٹ گیا ہمارا تحقیر سُنتے سُنتے
غم تو بہت ہیں دل میں پر جاں گزا یہی ہے
دنیا میں گرچہ ہوگی سَو قسم کی بُرائی
پاکوں کی ہتک کرنا سب سے بُرا یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 451
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/451/mode/1up
غفلت پہ غافلوں کی روتے رہے ہیں مُرسل
پر اِس زماں میں لوگو نوحہ نیا یہی ہے
ہم بد نہیں ہیں کہتے اُن کے مقدسوں کو
تعلیم میں ہماری حکمِ خدا یہی ہے
ہم کو نہیں سکھاتا وہ پاک بدزبانی
تقویٰ کی جڑھ یہی ہے صدق و صفا یہی ہے
پر آریوں کے دیں میں گالی بھی ہے عبادت
کہتے ہیں سب کو جھوٹے کیا اتّقا یہی ہے
جتنے نبی تھے آئے موسیٰ ہو یا کہ عیسیٰ
مکّار ہیں وہ سارے اِن کی نِدا یہی ہے
اِک وید ہے جو سچا باقی کتابیں ساری
جھوٹی ہیں اور جعلی اِک رہ نما یہی ہے
یہ ہے خیال اِن کا پَربَتْ بنایا تنکا
پر کیا کہیں جب ان کا فہم و ذکا یہی ہے
کیڑا جو دَب رہا ہے گوبر کی تہ کے نیچے
اُس کے گماں میں اُس کا ارض و سما یہی ہے
ویدوں کا سب خلاصہ ہم نے نیوگ پایا
ان پُستکوں کی رُو سے کارج بَھلا یہی ہے
جسؔ اِستری کو لڑکا پیدا نہ ہو پِیا سے
ویدوں کی رُو سے اُس پر واجب ہوا یہی ہے
جب ہے یہی اشارہ پھر اُس سے کیا ہے چارہ
جب تک نہ ہوویں گیا۱۱رہ لڑکے رَوا یہی ہے
ایشر کے گُن عجب ہیں ویدوں میں اے عزیزو!
اُس میں نہیں مروّت ہم نے سُنا یہی ہے
دے کر نجات و مکتی پھر چھینتا ہے سب سے
کیسا ہے وہ دیالو جس کی عطا یہی ہے
ایشر بنا ہے مُنہ سے خالق نہیں کِسی کا
رُوحیں ہیں سب انادی پھر کیوں خدا یہی ہے
رُوحیں اگر نہ ہوتیں ایشر سے کچھ نہ بنتا
اُس کی حکومتوں کی ساری بِنا یہی ہے
اُن کا ہی مُنہ ہے تکتا ہر کام میں جو چاہے
گویا وہ بادشہ ہیں اُن کا گدا یہی ہے
القصّہ آریوں کے ویدوں کا یہ خدا ہے
اُن کا ہے جس پہ تکیہ وہ بے نوا یہی ہے
اے آریو کہو اب ایشر کے ہیں یہی گُن
جس پر ہو ناز کرتے بولو وہ کیا یہی ہے؟
ویدوں کو شرم کر کے تم نے بہت چھپایا
آخر کو راز بستہ اس کا کُھلا یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 452
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/452/mode/1up
قدرت نہیں ہے جس میں وہ خاک کاہے اِیشر
کیا دینِ حق کے آگے زور آزما یہی ہے
کچھ کم نہیں بتوں سے یہ ہندوؤں کا اِیشر
سچ پوچھئے تو واللہ بُت دوسرا یہی ہے
ہم نے نہیں بنائیں یہ اپنے دل سے باتیں
وید*وں سے اے عزیزو ہم کو مِلا یہی ہے
فطرؔ ت ہر اِک بشر کی کرتی ہے اِس سے نفرت
پھر آریوں کے دِل میں کیونکر بسا یہی ہے
یہ حکم وید کے ہیں جن کا ہے یہ نمونہ
ویدوں سے آریوں کو حاصل ہوا یہی ہے
خوش خوش عمل ہیں کرتے اوباش سارے اِس پر
سارے نیوگیوں کا اِک آسرا یہی ہے]
پھر کس طرح وہ مانیں تعلیم پاک فرقاں
اُن کے تو دل کا رہبر اور مقتدا یہی ہے
جب ہوگئے ہیں ملزم اُترے ہیں گالیوں پر
ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگِ جفا یہی ہے
رُکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے ایک دم بھی
اِن کا تو شغل و پیشہ صبح و مسا یہی ہے
کہنے کو وید والے پر دل ہیں سب کے کالے
پردہ اُٹھا کے دیکھو اُن میں بھرا یہی ہےإ
اس جگہ وید کے لفظ سے وہ تعلیم مراد ہے جو آریہ سماج والوں نے اپنے زعم میں ویدوں کے حوالہ
سے شائع کی ہے۔ ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم وید کی اصل حقیقت کو خدا کے حوالہ کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے اس میں کیا بڑھایا اور کیا گھٹایا جبکہ ہندوستان اور پنجاب میں وید کی پَیروی کا دعویٰ کرنے والے صدہا مذہب ہیں تو ہم کسی خاص فرقہ کی غلطی کو وید پر کیونکر تھوپ سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وید بھی محرف ہو چکا ہے۔ پس بوجہ تحریف اس سے کسی بہتری کی امید بھی لاحاصل ہے۔ منہ
] یاد رہے کہ وید کی تعلیم سے مراد ہماری اس جگہ وہ تعلیمیں اور وہ اصول ہیں جن کو آریہ لوگ اس جگہ ظاہر
کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیوگ کی تعلیم وید میں موجود ہے۔ اور بقول ان کے وید بلند آواز سے کہتا ہے کہ جس کے گھر میں کوئی اولاد نہ ہو یا صرف لڑکیاں ہوں تو اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اجازت دے کہ وہ دوسرے سے ہم بستر ہو اور اس طرح اپنی نجات کے لئے لڑکا حاصل کرے۔ اور گیارہ لڑکے حاصل کرنے تک یہ تعلق قائم رہ سکتا ہے۔ اور اگر اس کا خاوند کہیں سفر میں گیا ہو
إ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور صلاحیت اور شرافت
رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 453
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/453/mode/1up
فطرؔ ت کے ہیں درندے مُردار ہیں نہ زندے
ہر دم زباں کے گندے قہرِ خدا یہی ہے*
یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اُن آریہ سماج والوں کی نسبت ہے جنہوں نے اپنے اشتہاروں اور رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ سے اپنی گندی طبیعت کا ثبوت دے دیا ہے اور ہزارہا گالیاں خدا کے پاک نبیوں کو دی ہیں۔ جن کی اخبار اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں مگر شریف طبع لوگ اس جگہ ہماری مراد نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے طریق کو پسند کرتے ہیں۔ منہ
تو خود اس کی بیوی نیوگ کی نیّت سے کسی دوسرے آدمی سے آشنائی کا تعلق پیدا کر سکتی ہے تا اس طریق سے اولاد حاصل کرلے اور پھر خاوند کے سفر سے واپس آنے پر یہ تحفہ اس کے آگے پیش کرے اور اُس کو دکھاوے کہ تُو تو مال حاصل کرنے گیا تھا مگر مَیں نے تیرے پیچھے یہ مال کمایا ہے۔ پس عقل اور انسانی غیرت تجویز نہیں کر سکتی کہ یہ بے شرمی کا طریق جائز ہو سکے۔ اور کیونکر جائز ہو حالانکہ اس بیوی نے اپنے خاوند سے طلاق حاصل نہیں کی اور اس کی قیدِ نکاحؔ سے اس کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ افسوس بلکہ ہزار افسوس کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آریہ لوگ وید کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ درحقیقت یہی تعلیم وید کی ہے ۔ ممکن ہے کہ ہندوؤں کے بعض جوگی جو مجرّد رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفسانی جذبات ان کو مغلوب کرلیتے ہیں انہوں نے یہ باتیں خود بنا کر وید کی طرف منسوب کردی ہوں یا تحریف کے طور پر وید میں شامل کر دی ہوں۔ کیونکہ محقق پنڈتوں نے لکھا ہے کہ ایک زمانہ وید پر وہ بھی آیا ہے کہ ان میں بڑی تحریف کی گئی ہے اور اس کے بہت سے پاک مسائل بدلادیئے گئے ہیں۔ ورنہ عقل قبول نہیں کرتی کہ وید نے ایسی تعلیم دی ہو۔ اور نہ کوئی فطرت صحیحہ قبول کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی پاک دامن بیوی کو بغیر اس کے کہ اُس کو طلاق دے کر شرعی طور پر اُس سے قطع تعلق کرے یونہی اولاد حاصل کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے اس کو دوسرے سے ہمبستر کراوے کیونکہ یہ تو دیوثوں کا کام ہے۔ ہاں اگر کسی عورت نے طلاق حاصل کرلی ہو اور خاوند سے کوئی اس کا تعلق نہ رہا ہو تو اس صورت میں ایسی عورؔ ت کو جائز ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ اس کی پاک دامنی پر کوئی حرف۔ ورنہ ہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ نیوگ کا نتیجہ اچھا نہیں ہے جس صورت میں آریہ سماج کے لوگ ایک طرف تو عورتوں کے پردہ کے مخالف ہیں کہ یہ مسلمانوں کی رسم ہے۔ پھر دوسری طرف جبکہ ہر روز نیوگ کا پاک مسئلہ ان عورتوں کے کانوں تک پہنچتا رہتا ہے اور ان عورتوں کے دلوں میں جما ہوا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے بھی ہمبستر ہو سکتی ہیں تو ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی باتوں کے سُننے سے خاص کر جبکہ ویدوں کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہیں کس قدر
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 454
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/454/mode/1up
دینِ خدا کے آگے کچھ بَن نہ آئی آخر
سب گالیوں پہ اُترے دل میں اُٹھا یہی ہے
شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں اُن کے ہرگز
وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا یہی ہے
ہم نے ہے جس کو مانا قادر ہے وہ توانا
اُس نے ہے کچھ دکھانا اُس سے رجا یہی ہے
اُن سے دو چار ہونا عزّت ہے اپنی کھونا
اُن سے ملاپ کرنا راہِ ریا یہی ہے
پس اے مرے پیارو عقبٰی کو مت بسارو
اِس دیں کو پاؤ یارو بدر الدّجٰی یہی ہے
ناپاک شہوات عورتوں کی جوش ماریں گی بلکہ وہ تو دس قدم اور بھی آگے بڑھیں گی اور جبکہ پردہ کا پُل بھی ٹوٹ گیا تو ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ان ناپاک شہوتوں کا سیلاب کہاں تک خانہ خرابی کرے گا۔ چنانچہ جگن ناتھ اور بنارس اور کئی جگہ میں اس کے نمونے بھی موجود ہیں۔ کاش! اس قوم میں کوئی سمجھدار پیدا ہو۔
اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ مکتی حاصل کرنے کے لئے اولاد کی ضرورت کیوں ہے۔ کیا ایسے لوگ جیسے پنڈت دیانند تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ کوئی اولاد ہوئی مکتی سے محروم ہیں؟ اور ایسی مکتی پر تو *** بھیجنا چاہئے کہ اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر کراکر اور ایسا فعل اس سے کراکر جو عام دنیا کی نظر میں زنا کی صورت میں ہی حاصل ہو سکتی ہے اور بجز اس ناپاک فعل کے اور کوئی ذریعہ اُس کی مکتی کا نہیں۔ اور یہ بھی ہم سمجھ نہیں سکتے کہ جو ہزاروں طاقتیں اورؔ قوتیں اور خاصیتیں روحوں اور ذرّات اجسام میں ہیں وہ سب قدیم سے خودبخود ہیں۔ پرمیشر سے وہ حاصل نہیں ہوئیں۔پھر ایسا پرمیشر کس کام کا ہے اور اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ اور کیا وجہ کہ اس کو پرمیشر کہاجائے؟ اور کامل اطاعت کا وہ کیونکر مستحق ہے جبکہ اس کی پرورش کامل نہیں اور جن طاقتوں کو اُس نے آپ نہیں بنایا اُن کا علم اس کو کیونکر ہے اور جبکہ وہ ایک رُوح کے پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا تو کن معنوں سے اُس کو سرب شکتی مان کہا جاتا ہے جبکہ اُس کی شکتی صرف جوڑنے تک ہی محدود ہے۔ میرا دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ یہ ناپاک تعلیمیں ویدمیں ہرگز نہیں ہیں۔ پرمیشر تو تبھی پرمیشر رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک فیض کا وہی مبدء ہو۔ بیدانت والوں نے بھی اگرچہ غلطیاں کیں مگر تھوڑی سی اصلاح سے ان کا مذہب قابلِ اعتراض نہیں رہتا مگر دیانند کا مذہب تو سراسر گندہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دیانند نے ان جھوٹے فلسفیوں اور منطقیوں کی پیروی کی ہے جن کو وید سے کچھ بھی تعلق نہ تھا بلکہ وید کے درپردہ پکّے دشمن تھے۔ اِسی وجہ سے اس کے مذہب میں پرمیشر کی وہ تعظیم نہیں جو ہونی چاہئے۔ اور نہ پاک دل جوگیوں کی طرح پرمیشر سے ملنے کے لئے مجاہدات کی تعلیم ہے۔ صرف تعصّب اور خدا کے پاک نبیوں کو کینہ اور گالیاں دینا ہی یہ شخص بدنصیب اپنے چیلوں کو سکھا گیا ہے بلکہ یوں کہوکہ ایک زہر کا پیالہ پلا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا سب اعتراض دیانند کے فرضی ویدوں پر ہے نہ خدا کی کسی کتاب پر۔ واللہ اعلم ۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 455
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 455
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/455/mode/1up
مَیں ہوں ستم رسیدہ اُن سے جو ہیں رمیدہ
شاہد ہے آبِ دیدہ واقف بڑا یہی ہے
مَیںؔ دِل کی کیا سُناؤں کس کو یہ غم بتاؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے مجھ پر بلا یہی ہے
دیں کے غموں نے مارا اَب دل ہے پارہ پارہ
دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا یہی ہے
ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے ہو ہم سے
اُس یار کی نظر میں شرطِ وفا یہی ہے
برباد جائیں گے ہم گروہ نہ پائیں گے ہم
رونے سے لائیں گے ہم دل میں رجا یہی ہے
وہ دؔ ن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں کر کے باتیں
اَب موت کی ہیں گھاتیں غم کی کتھا یہی ہے
جلد آپیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی
دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے
شکرِ خدائے رحماں جس نے دیا ہے قرآں
غنچے تھے سارے پہلے اب گُل کھلا یہ ہے
کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف اُس کا گہنا
دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے
دیکھیؔ ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوابیں
خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ ھُدیٰ یہی ہے
اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس سے پایا
راتیں تھیں جتنی گزریں اَب دن چڑھا یہی ہے
اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی بُلائے
سوتے ہوئے جگائے بس حق نما یہی ہے
پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے
دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے
کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن
خوبی و دِلبری میں سب سے سوا یہی ہے
یوسف تو سُن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے
اِسلام کے محاسن کیونکر بیاں کروں میں
سب خشک باغ دیکھے پھولا پھلا یہی ہے
ہر جاز میں کے کیڑے دیں کے ہوئے ہیں دشمن
اسلام پر خدا سے آج ابتلا یہی ہے
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو یہ دیکھ کر کہ ہر سو
اِس غم سے صادقوں کا آہ و بکا یہی ہے
سب مشرکوں کے سر پر یہ دیں ہے ایک خنجر
یہ شرک سے چھڑاوے اُن کو اذیٰ یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 456
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 456
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/456/mode/1up
کیوں ہوگئے ہیں اس کے دشمن یہ سارے گمرہ
وہ رہنما ہے رازِ چون و چرا یہی ہے
دیں غار میں چُھپا ہے اِک شور کفر کا ہے
اب تم دُعائیں کر لو غارِ حرا یہی ہے
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے
سبؔ پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے
پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اِک قمر ہے
اُس پر ہر اک نظر ہے بدرا لدّجٰی یہی ہے
پہلے تو رہ میں ہارے پار اِس نے ہیں اُتارے
مَیں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے
پَردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے
دِل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے
وہ یارِ لامکانی۔ وہ دلبرِ نہانی
دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما یہی ہے
وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاجِ مرسلیں ہے
وہ طیّب و امیں ہے اُس کی ثنا یہی ہے
حق سے جو حکم آئے اُس نے وہ کر دکھائے
جو راز تھے بتائے نعم العطا یہی ہے
آنکھ اُس کی دُوربیں ہے دِل یار سے قریں ہے
ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیا یہی ہے
جو راز دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے
دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے
اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے خزانہ
باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ لقا یہی ہے
ہم تھے دِلوں کے اندھے سَو سَو دِلوں پہ پھندے
پھر کھولے جس نے جندے* وہ مجتبیٰ یہی ہے
جندے سے مراد اس جگہ قفل ہے۔ چونکہ اس جگہ کوئی شاعری دکھلانا منظور نہیں اور
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 457
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 457
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/457/mode/1up
اے ؔ میرے رب رحماں تیرے ہی ہیں یہ احساں
مشکل ہو تجھ سے آساں ہر دم رجا یہی ہے
اے میرے یارِجانی خود کر تو مہربانی!
ورنہ بلائے دنیا اِک اژدھا یہی ہے
دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گِرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے
مُنہ مت چُھپا پیارے میری دوا یہی ہے
کہتے ہیں جوش اُلفت یکساں نہیں ہے رہتا
دِل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا یہی ہے
ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دلبر
جیتا ہوں اِس ہوس سے میری غذا یہی ہے
دنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا
معشوق ہے تُو میرا عشقِ صفا یہی ہے
مشتِ غبار اپنا تیرے لئے اُڑایا
جب سے سُنا کہ شرطِ مہر و وفا یہی ہے
دلبر کا درد آیا حرفِ خودی مٹایا
جب مَیں مرا جلایا جامِ بقا یہی ہے
اِس عشق میں مصائب سَو سَو ہیں ہر قدم میں
پر کیا کروں کہ اُس نے مجھ کو دیا یہی ہے
حرفِ وفا نہ چھوڑوں اِس عہد کو نہ توڑوں
اُس دلبرِ ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے
جب سے ملا وہ دلبر دشمن ہیں میرے گھر گھر
دِل ہوگئے ہیں پتھر قدر و قضا یہی ہے
مجھ کو ہیں وہ ڈراتے پھر پھر کے درپہ آتے
تیغ و تبر دکھاتے ہر سُو ہوا یہی ہے
دلبرؔ کی رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے
ہشیار ساری دنیا اِک باؤلا یہی ہے
نہ میں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں اس لئے بعض جگہ مَیں نے پنجابی الفاظ استعمال کئے ہیں اور ہمیں صرف اردو سے کچھ غرض نہیں اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے۔ شاعری سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 458
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 458
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/458/mode/1up
اِس رہ میں اپنے قصّے تم کو مَیں کیا سُناؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے سب ماجرا یہی ہے
دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں اِک نظارہ
دیوانہ مت کہو تم عقلِ رسا یہی ہے
اے میرے یارجانی کر خود ہی مہربانی
مت کہہ کہ لَنْ تَرَانِیْ تجھ سے رجا یہی ہے
فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جان کنی ہے
عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا یہی ہے
تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے عیبِ دُوری
طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بَلا یہی ہے
تجھ میں وفا ہے پیارے سچے ہیں عہد سارے
ہم جا پڑے کنارے جائے بُکا یہی ہے
ہم نے نہ عہد پالا یاری میں رخنہ ڈالا
پر تُو ہے فضل والا ہم پر کُھلا یہی ہے
اے میرے دل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں
کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں گزا یہی ہے
اِک دیں کی آفتوں کا غم کھا گیا ہے مجھ کو
سینہ پہ دشمنوں کے پتّھر پڑا یہی ہے
کیونکر تبہ وہ ہووے کیونکر فنا وہ ہووے
ظالم جو حق کا دشمن وہ سوچتا یہی ہے
ایسا زمانہ آیا جس نے غضب ہے ڈھایا
جو پیستی ہے دیں کو وہ آسیا یہی ہے
شادابی و لطافت اِس دیں کی کیا کہوں مَیں
سب خشک ہوگئے ہیں پُھولا پَھلا یہی ہے
آنکھیںؔ ہر ایک دیں کی بے نُور ہم نے پائیں
سُرمہ سے معرفت کے اِک سرمہ سا یہی ہے
لعلِ یمن بھی دیکھے دُرِّ عدن بھی دیکھے
سب جوہروں کو دیکھا دل میں جچا یہی ہے
اِنکار کر کے اِس سے پچھتاؤگے بہت تم
بنتا ہے جس سے سونا وہ کیمیا یہی ہے
پر آریوں کی آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ایسی
وہ گالیوں پہ اُترے دل میں پڑا یہی ہے
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزبان ہے
جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 459
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/459/mode/1up
گوہیں بہت درندے انساں کے پوستیں میں
پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے
کِس دیں پہ ناز اُن کو جو وید* کے ہیں حامی
مذہب جو پھل سے خالی وہ کھوکھلا یہی ہے
اے آریو یہ کیا ہے کیوں دل بگڑ گیا ہے
اِن شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا یہی ہے
مجھ کو ہو کیوں ستاتے سَو افترا بناتے
بہتر تھا باز آتے دُور از بلا یہی ہے
جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے
اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا
گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے
اِس دیں کی شان و شوکت یارب مجھے دکھادے
سب جھوٹے دیں مٹادے میری دُعا یہی ہے
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
تمام شد
یاد رہے کہ وید پر ہمارا کوئی حملہ نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کی تفسیر میں کیاکیا تصرف
کئے گئے آریہ ورت کے صدہا مذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور باہم اُن کا سخت اختلاف ہے۔ پس ہم اس جگہ وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں۔ منہ
نوٹ:۔ ایڈیشن اول میں یہ حاشیہ تو موجود ہے لیکن اس شعرکی نشان دہی نہیں کی گئی جس پر یہ حاشیہ ہے۔ ہم نے مضمون کو دیکھ کر یہ نشان لگایا ہے۔ (ناشر)
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 460
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/460/mode/1up
اعلاؔ ن
یاد رہے کہ اس رسالہ کے شائع کرنے کی ہمیں کچھ بھی ضرورت نہ تھی لیکن ایک گندی اخبار جو قادیان سے آریوں کی طرف سے نکلتی ہے جس میں ہمیشہ وہ لوگ توہین اور بدزبانی کر کے اور دین اسلام کی نسبت اپنی فطرتی عداوت کی وجہ سے ناشائستہ کلمات بول کر اور ساتھ ہی مجھ کو بھی گالیاں دے کر لیکھرام کے قائم مقام ہورہے ہیں ان کی اخبار نے ہمیں مجبور کیا کہ ان کے جھوٹے الزاموں کو اس رسالہ میں ہم دُور کردیں اور ثابت کریں کہ ان کے بھائی لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل ساکنان قادیان درحقیقت میرے بہت سے نشانوں کے گواہ ہیں۔ اور ان پر کیا حصر ہے تمام قادیان کے آریہ اور ہندو بعض نشانوں کے گواہ رؤیت ہیں۔ اور پھر قادیان پر ہی موقوف نہیں لیکھرام کے مارے جانے کی پیشگوئی ایک ایسی مہاں جال پیشگوئی ہے جس نے تمام پنجاب اور ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج والے اس عظیم الشان نشان کے گواہ کر دیئے ہیں۔ اب ان پیشگوئیوں سے انکار کرنا آریوں کیلئے ممکن نہیں اور اس بارے میں قلم اُٹھانا محض بے حیائی ہے۔ اور اگروہ اس قدر پر باز نہ آئے تو پھر ان کا تمام پردہ کھول دیا جائے گا۔ وَالسَّلام علٰی من اتّبع الھُدٰی۔
راقم
میرزا غلام احمدؐمسیح موعود از قادیان
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 461
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/461/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 462
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/462/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 463
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/463/mode/1up
مسیح موعود کی بعثت
اور
سلسلہ کے قیام کی غرض
اعلیٰ حضرت حجۃ اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تقریر جو آپ نے ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو بعد نماز ظہر و عصر مسجد اقصیٰ میں فرمائی۔
۲۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو مہمان خانہ جدید کے بڑے ہال میں احباب کا ایک بڑا جلسہ اس غرض کے لیے منعقد ہوا تھاکہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی اصلاح کے سوال پر غور کریں۔
اس میں بہت سے بھائیوں نے مختلف پہلوؤں پر تقریریں کیں۔۔۔ اِن تقریروں کے ضمن
میں ایک بھائی نے اپنی تقریر کے ضمن میں کہا کہ’’ جہاں تک میں جانتا ہوں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سلسلہ اور دوسرے مسلمانوں میں صرف اسی قدر فرق ہے کہ وہ مسیح ابن مریم زندہ
آسمان پر جانا تسلیم کرتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ وفات پاچکے ہیں اس کے سوا اور کوئی
نیا امر ایسا نہیں جو ہمارے اور ان کے درمیان اصولی طو رپر قابل نزاع ہو۔‘‘ اس سے چونکہ
کامل طو رپر سلسلہ کی بعثت کی غرض کا پتہ نہ لگ سکتا تھا بلکہ ایک امر مشتبہ اور کمزور معلوم ہوتا
تھا اس لیے ضروری امر تھا کہ آپ اس کی اصلاح فرماتے، چونکہ اس وقت کافی وقت نہ تھااس لیے ۲۷؍دسمبر کو بعد ظہر و عصر آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنی بعثت کی اصل غرض پر کچھ تقریر فرمائیں۔آپ کی طبیعت بھی ناسازتھی تاہم محض اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی۔ (ایڈیٹر)
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 464
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/464/mode/1up
فرمایا
افسوس ہے اس وقت میری طبیعت بیمار ہے اور میں کچھ زیادہ بول نہیں سکتا لیکن ایک ضروری امر کی وجہ سے چند کلمے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔کل میں نے سنا تھا کہ کسی صاحب نے یہ بیان کیا تھا کہ گویا ہم میں اور ہمارے مخالف مسلمانوں کے درمیان فرق موت و حیات مسیح علیہ السلام کا ہے ورنہ ایک ہی ہیں اور عملی طور پر ہمار ے مخالفوں کا قدم بھی حق پر ہے یعنی نماز،روزہ اور دوسرے اعمال مسلمانوں کے ہیں اور وہ سب اعمال بجالاتے ہیں۔ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بارے میں ایک غلطی پڑگئی تھی جس کے ازالہ کے لیے خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ پیدا کیا۔ سو یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ بات صحیح نہیں۔ یہ تو سچ ہے کہ مسلمانوں میں یہ غلطی بہت بری طرح پر پیدا ہوئی ہے۔لیکن اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میرا دنیا میںآنا صرف اتنی ہی غلطی کے ازالہ کے لیے ہے اور اور کوئی خرابی مسلمانوں میں ایسی نہ تھی جس کی اصلاح کی جاتی بلکہ وہ صراط مستقیم پر ہیں تو یہ خیا ل غلط ہے۔میرے نزدیک وفات یا حیات مسیح ایسی بات نہیں کہ اس کے لیے اﷲ تعالیٰ اتنا بڑ اسلسلہ قائم کرتا اور ایک خاص شخص کو دنیا میں بھیجا جاتا۔ اور اﷲ تعالیٰ ایسے طور پر اس کو ظاہر کرتا جس سے اس کی بہت بڑی عظمت پائی جاتی ہے یعنی یہ کہ دنیا میں تاریکی پھیل گئی ہے اور زمین *** ہو گئی ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موتٰ کی غلطی کچھ آج پیدا نہیں ہوگئی بلکہ یہ غلطی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے تھوڑے ہی عرصہ بعد پیدا ہوگئی تھی اور خواص اولیاء اﷲ صلحاء اور اہل اﷲ بھی آتے رہے اور لوگ اس غلطی میں گرفتار رہے۔ اگر اس غلطی ہی کا ازالہ مقصود ہوتا تو اﷲتعالیٰ اُس وقت بھی کر دیتا مگر نہیں ہوا۔ اور یہ غلطی چلی آئی۔اور ہمارا زمانہ آگیا۔ اس وقت بھی اگر نری اتنی ہی بات ہوتی تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے ایک سلسلہ پیدا نہ کرتا کیونکہ وفات مسیح ایسی بات تو تھی ہی نہیں جو پہلے کسی نے تسلیم نہ کی ہو۔پہلے سے بھی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 465
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 465
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/465/mode/1up
اکثر خواص جن پراﷲ تعالیٰ نے کھول دیا یہی مانتے چلے آئے مگر بات کچھ اور ہے جو اﷲتعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا۔ یہ سچ ہے کہ مسیح کی وفات* کی غلطی کو دور کرنا بھی اس سلسلہ کی بہت بڑی غرض تھی لیکن صرف اتنی ہی بات کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھ کو کھڑا نہیں کیا بلکہ بہت سی باتیں ایسی پیدا ہو چکی تھیں کہ اگر ان کی اصلاح کے لیے اﷲ تعالیٰ ایک سلسلہ قائم کر کے کسی کو مامور نہ کرتا تو دنیا تباہ ہو جاتی اور اسلام کا نام و نشان مٹ جاتا!! اس لیے اسی مقصد کو دوسرے پیرایہ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بعثت کی غرض کیا ہے؟
وفات عیسیٰ اور حیات اسلام یہ دونوں مقاصد باہم بہت بڑا تعلق رکھتے ہیں اور وفات مسیح کا مسئلہ اس زمانہ میں حیات اسلام کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ حیاتِ مسیح سے جو فتنہ پیدا ہوا ہے وہ بہت بڑھ گیا ہے۔ حیات مسیح کے لیے یہ کہنا کہ کیا اﷲتعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو زندہ آسمان پر اُٹھالے جاتا؟ اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور اس کیظ سے ناواقفی کو ظاہر کرتاہے۔ ہم تو سب سے زیادہ اس بات پر ایمان لاتے اور یقین کرتے ہیں کہ 33 ۱ اﷲ تعالیٰ بیشک ہر بات پر قادر ہے۔ اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ بے شک وہ جو کچھ چاہے کر سکتا ہے لیکن وہ ایسے امور سے پاک اور منزّہ ہے جو اس کی صفات کاملہ کے خلاف ہوں اور وہ ان باتوں کا دشمن ہے جو اس کے دین کے مخالف ہوں۔ حضرت عیسیٰ کی حیات اوائل میں تو صرف ایک غلطی کا رنگ رکھتی تھی مگر آج یہ غلطی ایک اژدھا بن گئی ہے جو اسلام کو نگلنا چاہتی ہے۔ ابتدائی زمانہ میں اس غلطی سے کسی گزند کا اندیشہ نہ تھا اور وہ غلطی ہی کے رنگ میں تھی۔ مگر جب سے عیسائیت کا خروج ہوا اور انہوں نے مسیح کی زندگی کو ان کی خدائی کی ایک بڑی زبردست دلیل قرار دیا تو یہ خطرناک امر ہوگیا۔ انہوں نے بار بار اور بڑے زور سے اس امر کو پیش کیا کہ اگر مسیح خد انہیں تو وہ عرش پر کیسے بیٹھا ہے؟ اور اگر انسان ہو کر کوئی ایساکرسکتا ہے کہ زندہ آسمان پر چلا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 466
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 466
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/466/mode/1up
جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی بھی آسمان پر نہیں گیا؟ اس قسم کے دلائل پیش کرکے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خد ابنانا چاہتے ہیں اور انہوں نے بنایا اور دنیا کے ایک حصہ کو گمراہ کر دیا اور بہت سے مسلمان جو تیس لاکھ سے زیادہ بتائے جاتے ہیں اس غلطی کو صحیح عقیدہ تسلیم کرنے کی وجہ سے اس فتنہ کا شکا رہو گئے۔ اب اگر یہ با ت صحیح ہوتی اور درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے جاتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں اور مسلمان اپنی غلطی اور ناواقفی سے ان کی تائید کرتے ہیں تو پھر اسلام کے لیے تو ایک ماتم کا دن ہوتا کیونکہ اسلام تو دنیا میں اس لیے آیا ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر دنیا کو ایک ایمان اور یقین پیدا ہو اور اس کی توحید پھیلے۔وہ ایسا مذہب ہے کہ کوئی کمزوری اس میں پائی نہیں جاتی اور نہیں* ہے۔ وہ تو اﷲ تعالیٰ ہی کو وَحدہٗ َ لا شریک قرار دیتا ہے۔کسی دوسرے میں یہ خصوصیت تسلیم کی جاوے تو یہ تو اﷲ تعالیٰ کی کسر شان ہے اور اسلام اس کو روا نہیں رکھتا۔ مگر عیسائیوں نے مسیح کی اس خصوصیت کو پیش کرکے دنیا کو گمراہ کر دیا ہے اور مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے ان کی اس ہاں میں ہاں ملادی اور ا س ضرر کی پروا نہ کی جو اس سے اسلام کو پہنچا۔
اس بات سے کبھی دھوکا نہیں کھانا چاہیئے جو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا اﷲ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ مسیح کو زندہ آسمان پر اُٹھالے جاوے؟ بیشک وہ قادر ہے مگر وہ ایسی باتوں کو کبھی روا نہیں رکھتا جو مبدءِ شرک ہو کر کسی کو شریک الباری ٹھہراتی ہوں۔ اور یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک شخص کو بعض وجوہ کی خصوصیت دینا صریح مبدءِ شرک ہے۔ پس مسیح علیہ السلام میں یہ خصوصیت تسلیم کرنا کہ وہ تمام انسانوں کے برخلاف اب تک زندہ ہیں اور خواصِ َ بشری سے الگ ہیں۔ یہ ایسی خصوصیت ہے جس نے عیسائیوں کو موقع دیا کہ وہ اُن کی خدائی پر اس کو بطور دلیل پیش کریں۔اگر کوئی عیسائی مسلمانوں پر یہ اعتراض کرے کہ تم ہی بتاؤ کہ ایسی خصوصیت اس وقت کسی اور شخص کو بھی ملی ہے؟تو اس کا کوئی جواب اُن کے پاس نہیں ہے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 467
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 467
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/467/mode/1up
اس لیے کہ وہ یقین کرتے ہیں کہ سب انبیاء علیہم السلام مر گئے ہیں مگر مسیح کی موت بقول ان مخالف مسلمانوں کے ثابت نہیں کیونکہ توفّی کے معنے تو آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے کرتے ہیں۔اس لیے33 ۱ میں بھی یہی معنے کرنے پڑیں گے کہ جب تونے مجھے زندہ آسمان پر اُٹھالیا۔ اور کوئی آیت ثابت نہیں کرتی کہ اس کی موت بھی ہوگی ۔ پھر بتاؤ کہ اُن کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے اور وہ اپنی غلطی کو سمجھیں۔میں سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مسلمان کہلا کر اس عقیدہ کی کمزوری اور شناعت کے کھل جانے پر بھی اس کو نہیں چھوڑتے وہ دشمن اسلا م اور اس کے لیے مارِ آستین ہیں۔
یاد رکھو اﷲ تعالیٰ بار بار قرآن شریف میں مسیح کی موت کا ذکر کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ وہ دوسرے نبیوں اور انسانوں کی طرح وفات پا چکے ۔ کوئی امر ان میں ایسا نہ تھا جو دوسرے نبیوں اور انسانوں میں نہ ہو۔یہ بالکل سچ ہے کہ توفّی کے موت ہی معنے ہیں۔ کسی لغت سے یہ ثابت نہیں کہ توفّی کے معنے کبھی آسمان پر مع جسم اُٹھانے کے بھی ہوتے ہیں۔ زبان کی خوبی لغات کی توسیع پر ہے۔ دنیا میں کوئی لغت ایسی نہیں ہے جو صرف ایک کے لیے ہو اور دوسرے کے لیے نہ ہو۔ ہاں خدا تعالیٰ کے لیے یہ خصوصیت ضرور ہے اس لیے کہ وہ وَحدہٗ َ لا شریک خد اہے ۔لغت کی کوئی کتاب پیش کرو جس میں توفّیکے یہ معنے خصوصیت سے حضرت عیسٰی کے لیے کہے ہوئے ہوں کہ زندہ آسمان پر مع جسم اٹھانا ہے اور سارے جہاں کے لیے جب یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے موت کے ہوں گے۔اس قسم کی خصوصیت لغت کی کسی کتاب میں دکھاؤ؟ اور اگر نہ دکھا سکو اور نہیں ہے تو پھر خدا تعالیٰ سے ڈرو کہ یہ مبدءِ شرک ہے۔ ا س غلطی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان عیسائیوں کے مدیون ٹھہرتے ہیں۔ اگر عیسائی یہ کہیں کہ جس حال میں تم مسیح کو زندہ تسلیم کرتے ہو کہ وہ آسمان پر ہے اور پھر اس کا آنا بھی مانتے ہو اور یہ بھی کہ وہ حکم ہو کر آئے گا۔اب بتاؤ کہ اس کے خد اہونے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 468
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 468
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/468/mode/1up
میں کیا شبہ رہا جبکہ یہ بھی ثابت نہ ہو کہ اس کو موت ہوگی۔ یہ کہنا بڑا مصیبت کا امر ہے کہ عیسائی سوال کرے اور اس کا جواب نہ ہو؟
غرض اس غلطی کا اثرِ َ بداب یہاں تک بڑھ گیا۔ یہ تو سچ ہے کہ دراصل مسیح کی موت کا مسئلہ ایسا عظیم الشان نہ تھا کہ اس کے لیے ایک عظیم الشان مامور کی ضرورت ہوتی! مگر میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کی حالت بہت ہی نازک ہو گئی ہے۔انہوں نے قرآن کریم پر تدبّر چھوڑ دیا اور ان کی عملی حالت خراب ہو گئی۔ اگر ان کی عملی حالت درست ہوتی اور وہ قرآن کریم اور اس کی لُغَات پر توجہ کرتے تو ایسے معنے ہرگز نہ کرتے۔ انہوں نے اسی لیے اپنی طرف سے یہ معنے کر لئے توفّی کا لفظ کوئی نرالا اور نیا لفظ نہ تھا اس کے معنے تمام لغتِ عرب میں خواہ وہ کسی نے لکھی ہوں موت کے کئے ہیں۔ پھر انہوں نے مع جسم آسمان پر اُٹھانے کے معنے آپ ہی کیوں بنالیے۔ ہم کو افسوس نہ ہوتا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اس لفظ کے یہی معنے کر لیتے کیونکہ یہی لفظ آپ کے لیے بھی تو قرآن شریف میں آیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے 33 ۱ ۔
اب بتاؤ کہ اگر اس لفظ کے معنے مع جسم آسمان پر اُٹھانا ہی ہیں تو کیا ہمارا حق نہیں کہ آپ کے لیے بھی یہی معنے کریں۔ کیا وجہ ہے کہ وہ نبی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزار ہاد رجہ کمتر ہے اس کے لیے جب یہ لفظ بولا جاوے تو اس کے من گھڑت معنے کرکے زندہ آسمان پر لے جاویں لیکن جب سید الاولین والآخرین کے لیے یہ لفظ آوے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہ کریں۔ حالانکہ آنحضرتؐ زندہ نبی ہیں اور آپ کی زندگی ایسی ثابت ہے کہ کسی اور نبی کی ثابت نہیں۔اور اس لیے ہم زور اور دعویٰ سے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی نبی زندہ ہے تو وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اکثر اکابر نے حیات النّبیپر کتابیں لکھی ہیں۔اور ہمارے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایسے زبردست
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 469
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 469
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/469/mode/1up
ثبوت موجود ہیں کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ منجملہ ان کے ایک یہ بات ہے کہ زندہ نبی وہی ہو سکتاہے جس کے برکات اور فیوض ہمیشہ کے لیے جاری ہوں اور یہ ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک کبھی بھی مسلمانوں کو ضائع نہیں کیا۔ ہر صدی کے سر پر اس نے کوئی آدمی بھیج دیا جو زمانہ کے مناسب حال اصلاح کرتارہا یہاں تک کہ ا س صدی پر اس نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں حیات النّبی کا ثبوت دوں۔ یہ امر قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کرتا رہاہے اور کرے گا۔ جیسا کہ فرمایا ہے 3 ۱ ۔یعنی بیشک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ 3 کا لفظ صاف طور پر دلالت کرتا ہے کہ صدی کے سر پر ایسے آدمی آتے رہیں گے جو گمشدہ متاع کو لائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں۔
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب پہلی صدی گذرجاتی ہے تو پہلی نسل بھی اُٹھ جاتی ہے اور اس نسل میں جو عالم،حافظ قرآن، اولیاء اﷲ اور ابدال ہوتے ہیں وہ فوت ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر ضرورت ہوتی ہے کہ احیاء ملت کے لیے کوئی شخص پیدا ہو، کیونکہ اگر دوسری صدی میں نیا بندوبست اسلام کے تازہ رکھنے کے لیے نہ کرے تو یہ مذہب مر جاوے۔اس لیے وہ ہر صدی کے سر پر ایک شخص کو مامور کرتا ہے جو اسلام کو مرنے سے بچالیتا ہے اور اس کو نئی زندگی عطا کرتا ہے اور دنیا کو ان غلطیوں بدعات اور غفلتوں اور سستیوں سے بچالیتا ہے جو اُن میں پیدا ہوتی ہیں۔
یہ خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے اور یہ آپ کی حیات کی ایسی زبردست دلیل ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس طرح پر آپ کے برکات و فیوض کا سلسلہ لا انتہا اور غیر منقطع ہے اور ہر زمانہ میں گویا اُمت آپ کا ہی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 470
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 470
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/470/mode/1up
فیض پاتی ہے اور آپ ہی سے تعلیم حاصل کرتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ُ محب بنتی ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ 33 ۱ پس خدا تعالیٰ کا پیار ظاہر ہے کہ اس امت کو کسی صدی میں خالی نہیں چھوڑتا ۔اور یہی ایک امر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پر روشن دلیل ہے۔بالمقابل حضرت عیسیٰ کی حیات ثابت نہیں۔ اُن کی زندگی ہی میں ایسا فتنہ برپا ہوا کہ کسی اور نبی کی زندگی میں وہ فتنہ نہیں ہوا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو حضرت عیسیٰ ؑ سے مطالبہ کرنا پڑا کہ ۔33 ۲ یعنی کیا تونے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنالو۔جو جماعت حضرت عیسیٰ ؑ نے تیار کی وہ ایسی کمزور اور ناقابل اعتبار تھی کہ خود یہی عیسائی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔
انجیل سے ثابت ہے کہ وہ بارہ شاگرد جو اُن کی خاص قوت قدسی اور تاثیر کا نمونہ تھے اُن میں سے ایک نے جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا۔اس نے تیس روپیہ پر اپنے آقاو مرشد کو بیچ دیا اور دوسرے نے جو سب سے اول نمبر پر ہے اور شاگرد رشید کہلاتا تھا اور جس کے ہاتھ میں بہشت کی کنجیاں تھیں۔یعنی پطرس۔ اس نے سامنے کھڑے ہوکر تین مرتبہ *** کی۔ جب خود حضرت مسیح کی موجودگی میں ان کا اثر اور فیض اس قدر تھا اور اب انیس۱۹۰۰ سو سال گذرنے کے بعد خود اندازہ کر لو کہ کیا باقی رہا ہوگا۔ اس کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت طیار کی تھی وہ ایسی صادق اور وفادار جماعت تھی کہ انہوں نے آپ کے لیے جانیں دے دیں، وطن چھوڑ دیئے، عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا۔ غرض آپ کے لیے کسی چیز کی پروا نہ کی۔یہ کیسی زبردست تاثیر تھی۔ اس تاثیر کا بھی مخالفوں نے اقرار کیا ہے اور پھر آپ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں۔قرآن شریف کی تعلیم میں وہی اثر وہی برکات اب بھی موجود ہیں۔اور پھر تاثیر کا ایک
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 471
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/471/mode/1up
اور بھی نمونہ قابل ذکر ہے کہ انجیل کا کہیں پتہ ہی نہیں لگتا۔ خود عیسائیوں کو اس امر میں مشکلات ہیں کہ اصل انجیل کونسی ہے اور وہ کس زبان میں تھی اور کہاں ہے؟ مگر قرآنِ شریف کی برابرحفاظت ہوتی چلی آئی ہے۔ایک لفظ اور نقطہ تک اس کا اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا۔ اِس قدر حفاظت ہوئی ہے کہ ہزاروں لاکھوں حافظ قرآن شریف کے ہر ملک اور ہرقوم میں موجود ہیں جن میں باہم اتفاق ہے۔ ہمیشہ یاد کرتے اور سناتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ کیا یہ آپ کے برکات اور زندہ برکات نہیں ہیں؟اور کیا ان سے آپ کی حیات ثابت نہیں ہوتی؟
غرض کیا قرآن شریف کی حفاظت کی رو سے اور کیا تجدید دین کے لیے ہر صدی پر مجدّد کے آنے کی حدیث سے اور کیا آپ کی برکات اور تاثیرات سے جو اب تک جاری ہیں آپ کی حیات ثابت ہوتی ہے۔اب غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی حیات کے عقیدہ نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ کیا اخلاقی اور عملی طور پر اصلاح ہوئی ہے یا فساد پیدا ہوا ہے؟ اِس امر پر جس قدر غور کریں گے اُسی قدر اس کی خرابیاں ظاہر ہوتی چلی جائیں گی۔َ میں سچ کہتا ہوں کہ اسلام نے اس عقیدہ سے بہت بڑا ضرر اُٹھایا ہے یہاں تک کہ چالیس کروڑ کے قریب لوگ عیسائی ہو چکے جو سچے خدا کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کو خدا بنارہے ہیں اور عیسائیت نے دنیا کو جو نفع پہنچایا ہے وہ ظاہر امر ہے۔ خود عیسائیوں نے اس امر کو قبول کیا ہے کہ عیسائیت کے ذریعہ بہت سی بد اخلاقیاں دنیا میں پھیلی ہیں۔ کیونکہ جب انسان کو تعلیم ملے کہ اس کے گناہ کسی دوسرے کے ذمہ ہوچکے تو وہ گناہ کرنے پر دلیر ہو جاتا ہے۔ اور گناہ نوع انسان کے لیے ایک خطرناک زہر ہے جو عیسائیت نے پھیلائی ہے۔ اس صورت میں اس عقیدہ کا ضرر اور بھی بڑھا جاتا ہے۔
َمیں یہ نہیں کہتا کہ حیات مسیح کے متعلق اسی زمانہ کے لوگوں پر الزام ہے۔ نہیں بعض
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 472
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/472/mode/1up
پہلوں نے غلطی کھائی ہے مگر وہ تو اس غلطی میں بھی ثواب ہی پر رہے کیونکہ مجتہد کے متعلق لکھا ہے قد یخطئ و یصیبکبھی مجتہد غلطی بھی کرتا ہے اور کبھی صواب۔مگر دونوں طرح پر اُسے ثواب ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مشیت ایزدی نے یہی چاہا تھا کہ ان سے یہ معاملہ مخفی رہے۔ پس وہ غفلت میں رہے اور اصحابِ کہف کی طرح یہ حقیقت ان پر مخفی رہی۔ جیسا کہ مجھے بھی الہام ہوا تھا۔ ’’ اَمْ حَسبت انّ اصحاب الکھف والرّقیم کانوا من اٰیاتنا عجبًا۔‘‘ اسی طرح مسیح کی حیات کا مسئلہ بھی ایک عجیب ِ سر ہے۔ باوجود یکہ قرآن شریف کھول کھول کر مسیح کی وفات ثابت کرتا ہے اوراحادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جو آیت استدلال کے طور پر پڑھی گئی وہ بھی اسی کو ثابت کرتی ہے مگر باوجود اس قدر آشکارا ہونے کے خد اتعالیٰ نے اس کو مخفی کر لیا اور آنے والے موعود کے لیے اس کو مخفی رکھا چنانچہ جب وہ آیا تو اس نے اس راز کو ظاہر کیا۔
یہ اﷲ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ وہ جب چاہتا ہے کسی بھید کو مخفی کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اُسے ظاہر کر دیتا ہے۔ اسی طرح اس نے اس بھید کو اپنے وقت تک مخفی رکھا مگر اب جبکہ آنے والا آگیا اور اس کے ہاتھ میں اس ِ سرکی کلید تھی اس نے اسے کھول کر دکھادیا۔ اب اگر کوئی نہیں مانتا اور ضد کرتا ہے تو وہ گویا اﷲ تعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے۔
غرض وفات مسیح کا مسئلہ اب ایسا مسئلہ ہو گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا اخفا نہیں رہا بلکہ ہر پہلو سے صاف ہو گیاہے۔ قرآن شریف سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے احادیث وفات کی تائید کرتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ معراج موت کی تصدیق کرتا ہے اور آپؐ گویا چشم دید شہادت دیتے ہیں کیونکہ آپ نے شب معراج میں حضرت عیسیٰ ؑ کو حضرت یحییٰ ؑ کے ساتھ دیکھا۔ اور پھر آیت 33 ۱ ۱ مسیح کو زندہ آسمان پر جانے سے روکتی ہے۔کیونکہ جب کفارنے آپ سے آسمان پر چڑھ جانے کا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 473
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/473/mode/1up
معجزہ مانگا تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو یہی جواب دیا کہ 33 ۱ ۔ یعنی میرا ربّ اس وعدہ خلافی سے پاک ہے جو ایک مرتبہ تو وہ انسان کے لیے یہ قرار دے کہ وہ اسی زمین میں پیدا ہوا اور یہاں ہی مرے گا۔ 3۲ ۔
مَیں تو ایک بشر رسول ہوں یعنی وہ بشریت میرے ساتھ موجود ہے جو آسمان پر نہیں جاسکتی۔ اور دراصل کفار کی غرض اس سوال سے یہی تھی۔ چونکہ وہ پہلے یہ سن چکے تھے کہ انسان اس دنیا میں جیتا اور مرتا ہے اس لیے اُنہوں نے موقعہ پاکر یہ سوال کیا۔ جس کا جواب اُن کو ایسا دیا گیا کہ ان کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ پس یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ مسیح ؑ وفات پا چکے ۔ہاں یہ ایک معجزا نہ نشان ہے کہ انہیں غفلت میں رکھااور ہوشیاروں کو مست بنادیا۔
یہ بھی یاد رکھو کہ جن لوگوں نے یہ زمانہ نہیں پایا وہ معذور ہیں۔ ان پر کوئی حجت پوری نہیں ہوئی۔ اور اس وقت اپنے اجتہاد سے جو کچھ وہ سمجھے اس کے لیے اﷲ تعالیٰ سے اجر اور ثواب پائیں گے۔ مگراب وقت نہیں رہا۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اس نقاب کو اُٹھادیا اور اس مخفی راز کو ظاہر کر دیا ہے اور اس مسئلہ کے ُ برے اور خوفناک اثروں کو ۔تم دیکھ رہے ہو کہ اسلام تنزل کی حالت میں ہے اور عیسائیت کا یہی ہتھیار حیات مسیح ہے جس کو لے کر وہ اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی ذریت عیسائیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ ایسے ہی مسائل وہ لوگوں کو سنا سنا کر برگشتہ کر رہے ہیں۔ اور وہ خصوصیتیں جو نادانی سے مسلمان اُن کے لیے تجویز کرتے ہیں سکولوں اور کالجوں میں پیش کر کے اسلام سے جدا کررہے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاوے۔*
پس اس وقت چاہا ہے کہ مسلمان متنبہ ہو جاویں کہ ترقی اسلام کے لیے یہ پہلو نہایت ہی ضروری ہے کہ مسیح کی وفات کے مسئلہ پر زور دیا جاوے اور وہ اس امر کے قائل نہ ہوں کہ مسیح زندہ آسمان پر گیا ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے مخالف اپنی بدقسمتی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 474
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 474
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/474/mode/1up
سے اس ِ سر کو نہیں سمجھتے اور خواہ نخواہ شور مچاتے ہیں۔ کاش یہ احمق سمجھتے کہ اگر ہم سب مل کر وفات پر زور دیں گے تو پھریہ مذہب (عیسائی) نہیں رہ سکتا۔ میں یقیناًکہتا ہوں کہ اسلام کی زندگی اس موت میں ہے۔ خود عیسائیوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ جب یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح زندہ نہیں بلکہ مر گیا ہے تو اُن کے مذہب کا کیا باقی رہ جاتا ہے؟ وہ خود اس امر کے قائل ہیں کہ یہی ایک مسئلہ ہے جو اُن کے مذہب کا استیصال کرتا ہے مگر مسلمان ہیں کہ مسیح کی حیات کے قائل ہو کر ان کو تقویت پہنچارہے ہیں اور اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کی وہی مثال ہے ع۔ یکے برسر شاخ و بُن مے برید
عیسائیوں کا جو ہتھیار اسلام کے خلاف تھا اُسی کو اِن مسلمانوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا *اور اپنی نا سمجھی اور کم فہمی سے چلا دیا جس سے اسلام کو اس قدر نقصان پہنچا مگر خوشی کی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عین وقت پر اس سے ان کو آگاہ کر دیا اور ایسا ہتھیار عطا کیا جو صلیب کے توڑنے کے واسطے بے نظیر ہے اور ا س کی تائید اور استعمال کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا چنانچہ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور تائید سے اس موت مسیح کے ہتھیار نے صلیبی مذہب کو جس قدر کمزور اور سست کر دیا ہے وہ اب چھپی ہوئی بات نہیں رہی۔ عیسائی مذہب اور اس کے حامی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی فرقہ اور سلسلہ اُن کے مذہب کو ہلاک کر سکتا ہے تو وہ یہی سلسلہ ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایک اہل مذہب سے مقابلہ کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں مگر اس سلسلہ کے مقابلہ میں نہیں آتے۔بشپ صاحب کو جب مقابلہ کی دعوت کی گئی تو ہر چند اس کو بعض انگریزی اخباروں نے بھی جوش دلایا مگر پھر بھی وہ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 475
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 475
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/475/mode/1up
میدان میں نہیں نکلا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے پاس عیسائیت کے استیصال کے لیے وہ ہتھیار ہیں جو دوسروں کو نہیں دیئے گئے اور اُن میں سے پہلا ہتھیار یہی موت مسیح کا ہتھیار ہے۔موت اصلی غرض نہیں۔یہ تو اس لیے کہ عیسائیوں کا ہتھیار تھا جس سے اسلام کا نقصان تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ اس غلطی کا تدارک کرے چنانچہ بڑے زور کے ساتھ اس کی اصلاح کی گئی۔
اس کے علاوہ ان غلطیوں اور بدعات کو دور کرنا بھی اصل مقصد ہے جو اسلام میں پیدا ہو گئی ہیں۔ یہ قلتِ تدّ بر کا نتیجہ ہے اگر یہ کہا جاوے کہ اس سلسلہ میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔اگر موجودہ مسلمانوں کے معتقدات میں کوئی فرق نہیں آیا اور دونوں ایک ہی ہیں تو پھر کیا خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو عبث قائم کیا؟ ایسا خیال کرنا اس سلسلہ کی سخت ہتک اور اﷲ تعالیٰ کے حضور ایک جرأت اور گستاخی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بار بار ظاہر کیا ہے کہ دنیا میں بہت تاریکی چھاگئی ہے۔ عملی حالت کے لحاظ سے بھی اور اعتقادی حالت کی وجہ سے بھی۔ وہ توحید جس کے لیے بے شمار نبی اور رسول دنیا میں آئے اور انہوں نے بے انتہا محنت اور سعی کی آج اس پر ایک سیاہ پردہ پڑا ہوا ہے اور لوگ کئی قسم کے شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دنیا کی محبت نہ کرو۔مگر اب دنیا کی محبت ہر ایک دل پر غلبہ کر چکی ہے او رجس کو دیکھو اسی محبت میں غرق ہے۔ دین کے لیے ایک تنکا بھی ہٹانے کے واسطے کہا جاوے تو وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے ہزاروں عذر اور بہانے
کرنے لگتا ہے۔ہر قسم کی بدعملی اور بدکاری کو جائز سمجھ لیا گیا ہے اور ہرقسم کی منہیات پرُ کھلمُ کھلا زور دیا جاتا ہے۔ دین بالکل بیکس اور یتیم ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں اگر اسلام کی تائید اور نصرت نہ فرمائی جاتی تو اور کونسا وقت اسلام پر آنے والا ہے جو اس وقت مدد کی جاوے۔ اسلام تو صرف نام کو باقی رہ گیا۔ اب بھی اگر حفاظت نہ کی جاتی تو پھر اس کے مٹنے میں کیا شبہ ہو سکتا تھا۔ میں سچ کہتا
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 476
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 476
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/476/mode/1up
ہوں کہ یہ صرف قلتِ تد ّ بر کا نتیجہ ہے جو کہا جاتا ہے کہ دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟اگر صرف ایک ہی بات ہوتی تو اس قدر محنت اٹھانے کی کیا حاجت تھی۔ ایک سلسلہ قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں جانتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ بار بار ظاہر کر چکا ہے کہ ایسی تاریکی چھاگئی ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ توحید جس کا ہمیں فخر تھا اور اسلام جس پر ناز کرتا تھا وہ صرف زبانوں پر رہ گئی ہے ورنہ عملی اور اعتقادی طور پر بہت ہی کم ہوں گے جو توحید کے قائل ہوں۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا تھا دنیا کی محبت نہ کرنا مگر اب ہر ایک دل اسی میں غرق ہے اور دین ایک بیکس اور یتیم کی طرح رہ گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر فرمایا تھا۔ ’’حُبُّ الدُّنیا رَأس کُلّ خطیءۃٍ‘‘یہ کیسا پاک اور سچا کلمہ ہے مگر آج دیکھ لوہر ایک اس غلطی میں مبتلا ہے۔ ہمارے مخالف آریہ اور عیسائی اپنے مذاہب کی حقیقت کو خوب سمجھ چکے ہیں لیکن اب اُسے نبا ہنا چاہتے ہیں۔عیسائی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے مذہب کے اصول و فروع اچھے نہیں۔ ایک انسان کو خدا بنانا ٹھیک نہیں۔اس زمانہ میں فلسفہ،طبعی اور سائنس کے علوم ترقی کر گئے ہیں اور لوگ خوب سمجھ گئے ہیں کہ مسیح بجز ایک ناتواں اور ضعیف انسان ہونے کے سوا کوئی اقتداری قوت اپنے اندر نہ رکھتا تھا ۔اور یہ نا ممکن ہے کہ ان علوم کو پڑھ کر خود اپنی ذات کا تجربہ رکھ کر اور مسیح کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کو دیکھ کر یہ اعتقاد رکھیں کہ وہ خدا تھا؟ ہر گز نہیں۔
شرک عورت سے شروع ہوا ہے اور عورت سے اس کی بنیاد پڑی ہے یعنی حَوّاسے جس نے خد اتعالیٰ کا حکم چھوڑ کر شیطان کا حکم مانا۔ اوراس شرکِ عظیم یعنی عیسائی مذہب کی حامی بھی عورتیں ہی ہیں۔درحقیقت عیسائی مذہب ایسا مذہب ہے کہ انسانی فطرت دور سے اس کو دھکے دیتی ہے اور وہ کبھی اسے قبول ہی نہیں کر سکتی۔ اگر درمیان دنیا نہ ہوتی تو عیسائیوں کا گروہ کثیر آج مسلمان ہو جاتا۔ بعض لوگ عیسائیوں میں مخفی مسلمان رہے ہیں اور انہوں
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 477
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 477
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/477/mode/1up
نے اپنے اسلام کو چھپایا ہے لیکن مرنے کے وقت اپنی وصیت کی اور اسلام ظاہر کیا ہے۔ ایسے لوگوں میں بڑے بڑے عہدہ دار تھے۔ انہوں نے حبِدنیاکی وجہ سے زندگی میں اسلام کو چھپایا لیکن آخر انہیں ظاہر کرنا پڑا۔ َ میں دیکھتا ہوں کہ ان دلوں میں اسلام نے راہ بنالیا ہے اور اب وہ ترقی کر رہا ہے۔ حبِ دنیانے لوگوں کو محجوب کر رکھا ہے۔
غرض مسلمانوں میں اندرونی تفرقہ کا موجب بھی یہی حبِدنیا ہی ہوئی ہے کیونکہ اگر محض اﷲ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوتی تو آسانی سے سمجھ میں آسکتا تھا کہ فلاں فرقے کے اصول زیادہ صاف ہیں اور وہ انہیں قبول کرکے ایک ہوجاتے ۔اب جبکہ حبِ دنیا کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان کہا جاسکتا ہے جبکہ ان کا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر نہیں۔اﷲ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا
33 ۱ یعنی کہواگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا۔ اب اس حبِ اللہ کی بجائے اور اتباع رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حب الدنیا کو مقدم کیا گیا ہے۔ کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیادار تھے؟ کیا وہ سُود لیاکرتے تھے؟ یا فرائض اور احکام الٰہی کی بجا آوری میں غفلت کیا کرتے تھے؟ کیا آپ مَیں (معاذ اﷲ )نفاق تھا؟ مداہنہ تھا؟ دنیا کو دین پر مقدم کرتے تھے؟ غور کرو۔
اتباع تو یہ ہے کہ آپؐ کے نقش قدم پر چلو اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے۔صحابہ نے وہ چلن اختیار کیا تھا۔پھر دیکھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچایا۔اُنہوں نے دنیا پر لات ماردی تھی اور بالکل حبِ دنیا سے الگ ہو گئے تھے۔ اپنی خواہشوں پر ایک موت وارد کر لی تھی۔اب تم اپنی حالت کا ان سے مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ کیا انہیں کے قدموں پر ہو؟ افسوس اس وقت لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے؟
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 478
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 478
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/478/mode/1up
رَأس کلّ خطیءۃٍ نے بہت سے بچے دے دیئے ہیں۔ کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو دو آنے لے کر جھوٹی گواہی دے دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا۔کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کے سارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں۔ آج دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔جس پہلو اور رنگ سے دیکھو۔ جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔جھوٹے مقدمہ کرنا توبات ہی کچھ نہیں جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں۔ کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟اﷲ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔333 ۱ ۔ ُ بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے جیسااحمق انسان اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آکر پڑی ہے اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو توکہتے ہیں کہ کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنی زندگی کا مدار سمجھتے ہیں مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امر تسر ایک مضمون بھیجا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا۔ رلیارام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا۔میرے اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا۔ وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 479
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 479
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/479/mode/1up
سے انکار کر دیا جاوے۔گویا جھوٹ کے سوا بچاؤ نہیں۔مگر میں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو جھوٹ نہیں بولوں گا ۔آخر وہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ ڈاک خانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا۔ مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو جزو مضمون سمجھ کر اس میں رکھا ہے۔مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اﷲ تعالیٰ نے اس کو بصیرت دی۔ ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کر دیا*۔
میں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں ۔ایسی باتیں نری بیہودگیاں ہیں۔سچ تویہ ہے کہ سچ کے بغیر گذارہ نہیں۔میں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا۔ اس نے ہماری رعایت رکھی اور ایسی رعایت رکھی جو بطورایک نشان کے ہوگئی۔
33 ۱
یقیناًیاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔عام طو رپر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں مگر میں کیونکر اس کو باورکروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اﷲ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتاہے کہ وہ راستباز کو سزادے؟اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد
حاشیہ۔بدر میں یہ واقعہ زیادہ تفصیل کے ساتھ یوں درج ہے :۔
تخمیناً ستائیس یا اٹھائیس سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہواکہ اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیارام تھا اور وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ۔ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا۔ اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 480
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 480
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/480/mode/1up
اُٹھ جاوے۔راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔
اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی وہ سزا اُن کی بعض اور مخفی درمخفی بدکاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اور جھوٹ کی سزاہوتی ہے۔ خد اتعالیٰ کے پاس تو ان کی بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزاپالیتے ہیں۔
میرے ایک استادُ گل علی شاہ بٹالے کے رہنے والے تھے۔ وہ شیر سنگھ کے بیٹے پرتاپ سنگھ کو بھی پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ شیر سنگھ نے اپنے باورچی کو محض نمک مرچ کی زیادتی پر بہت مارا تو چونکہ وہ بڑے سادہ مزاج تھے انہوں نے
دیا۔ چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لیے تاکید بھی تھی اس لیے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا۔ اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لیے یہ موقعہ ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی ۔اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کی رو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے۔سو اس نے مخبربن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو۔رؤیا میں اﷲ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیارام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لیے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے۔
غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپور میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لیے مشورہ لیا گیااُنہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغگوئی کے او رکوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا رلیارام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بر ّ یت ہو جائے گی۔ ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں۔ مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا۔ تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا۔ اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا ۔اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھدیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے؟تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط او رمیر اہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے
گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لیے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 481
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 481
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/481/mode/1up
کہاکہ آپ نے بڑا ظلم کیا۔ اس پر شیر سنگھ نے کہا۔مولوی جی کو خبر نہیں اس نے میرا سو بکرا کھایا ہے۔ اسی طرح پر انسان کی بدکاریوں کا ایک ذخیرہ ہوتاہے اور وہ کسی ایک موقعہ پر پکڑا جاکر سزا پاتا ہے*۔جو شخص سچائی اختیار کرے گا کبھی نہیں ہو سکتا کہ ذلیل ہو اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور خد اتعالیٰ کی حفاظت جیسااور کوئی محفوظ قلعہ اور حصار نہیں لیکن ادھوری بات فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ جب پیاس لگی ہوئی ہو تو صرف ایک قطرہ پی لینا کفایت کرے گا یا شدت بھوک کے وقت ایک دانہ یا لقمہ سے سیر ہو جاوے گا۔ بالکل نہیں بلکہ جب تک پورا سیر ہو کر پانی نہ پئے یا کھانا نہ کھائے تسلی نہ ہوگی۔اسی طرح پر جب تک اعمال میں کمال نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔ناقص اعمال اﷲ تعالیٰ کو خوش نہیں کرسکتے اور نہ وہ بابرکت ہوسکتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ میری مرضی کے موافق اعمال کرو پھر میں برکت دوں گا۔
غرض یہ باتیں دنیا دار خود ہی بنالیتے ہیں کہ جھوٹ اور فریب کے بغیر گذارہ نہیں۔کوئی کہتا ہے فلاں شخص نے مقدمہ میں سچ بولا تھا اس لیے چار برس کو دھراگیا۔ میں
سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی۔اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا او ر میرے مقابل پر افسر ڈاکخانجات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریر یں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا۔مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نونو کرکے اس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا۔ انجام کارجب وہ افسر مدعی اپنی تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطریا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لیے رخصت۔ یہ سن کرمیں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا۔ اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجالایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا۔ میں نے کہا ۔کیا کرنے لگا ہے؟ تب اُس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا کہ خیر ہے خیر ہے۔ (بدر جلد۲ نمبر ۵ صفحہ ۳ مورخہ ۲؍فروری ۱۹۰۶ء )
* بدر میں ہے۔ ’’انسان گناہ کسی اور موقعہ پر کرتا ہے اور پکڑا کسی اور موقعہ پر جاتا ہے‘‘۔
(بدر جلد ۲ نمبر ۶ صفحہ ۳ مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء )
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 482
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 482
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/482/mode/1up
پھر کہوں گا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں جو عدم معرفت سے پیدا ہوتی ہیں۔
کسبِ کمالُ کن کہ عزیز ے جہاں شوی
یہ نقص کے نتیجے ہیں۔ کمال ایسے ثمرات پید انہیں کرتا۔ ایک شخص اگراپنی موٹی سی کھدر کی چادر میں کوئی توپابھرلے تو اس سے وہ درزی نہیں بن جاوے گا اور یہ لازم نہ آئے گا کہ اعلیٰ درجہ کے ریشمی کپڑے بھی وہ سی لے گا۔اگر اس کو ایسے کپڑے دیئے جاویں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ انہیں برباد کردے گا۔ پس ایسی نیکی جس میں گند ملا ہوا ہو کسی کام کی نہیں۔ خد اتعالیٰ کے حضور اس کی کچھ قدر نہیں۔لیکن یہ لوگ اس پر ناز کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ نجات چاہتے ہیں۔ اگر اخلاص ہو تو اﷲ تعالیٰ تو ایک ذرہ بھی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ اس نے تو خود فرمایا ہے۔33 ۱ اس لیے اگر ذرہ بھربھی نیکی ہو تو اﷲ تعالیٰ سے اس کا اجر پائے گا۔ پھرکیا وجہ ہے کہ اس قدر نیکی کرکے پھل نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں اخلاص نہیں آیاہے۔اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے جیسا کہ فرمایا۔ 33۲ ۔یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں* ۔
یہ لوگ ابدال ہوجاتے ہیں اور وہ اِس دنیا کے نہیں رہتے۔اُن کے ہر کام میں ایک خلوص اور اہلیت ہوتی ہے لیکن دنیا داروں کا تو یہ حال ہے کہ وہ خیرات بھی کرتے ہیں تو اس کے لیے تعریف اور تحسین چاہتے ہیں۔اگر کسی نیک کام میں کوئی چندہ دیتا ہے تو غرض یہ ہے کہ اخبارات میں اس کی تعریف ہو۔ لوگ تعریف کریں۔اس نیکی کو خد اتعالیٰ سے کیا تعلق؟ بہت لوگ شادیاں کرتے ہیں اُس وقت سارے گاؤں میں روٹی دیتے ہیں مگرخد اکے لیے نہیں صرف نمائش اور تعریف کے لیے۔ اگر ریانہ ہوتی اور محض شفقت علیٰ خلقِ اﷲ کے لحاظ سے یہ فعل ہوتا اور خالص خدا کے لیے تو ولی ہو جاتے ،لیکن چونکہ ان کاموں کو خد اتعالیٰ سے کوئی تعلق اور غرض نہیں ہوتا اس لئے کوئی نیک اوربابرکت اثر ان میں پیدا نہیں ہوتا۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 483
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 483
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/483/mode/1up
یہ خوب یاد رکھو کہ جو شخص خد اتعالیٰ کے لیے ہو جاوے خد اتعالیٰ اس کا ہو جاتاہے اور خدا کسی کے دھوکے میں نہیں آتا۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ ریاکاری اور فریب سے خدا کو ٹھگ لوں گا تو یہ حماقت اور نادانی ہے۔ وہ خود ہی دھوکا کھارہا ہے۔دنیا کے زیب،دنیا کی محبت ساری خطاکاریوں کی جڑ ہے۔ اس میں اندھا ہو کر انسان انسانیت سے نکل جاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔جس حالت میں عقلمند انسان کسی کے دھوکا میں نہیں آسکتا تو اﷲ تعالیٰ کیونکر کسی کے دھوکا میں آسکتا ہے۔ مگر ایسے افعال بد کی جڑ دنیا کی محبت ہے اور سب سے بڑا گناہ جس نے اس وقت مسلمانوں کو تباہ حال کر رکھا ہے اور جس میں وہ مبتلا ہیں وہ یہی دنیا کی محبت ہے۔سوتے جاگتے،اُٹھتے،بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت لوگ اسی غم و ہم میں پھنسے ہوئے ہیں اور اُس وقت کا لحاظ اور خیال بھی نہیں کہ جب قبر میں رکھے جاویں گے۔ایسے لوگ اگر اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے اور دین کے لیے ذرا بھی ہم و غم رکھتے تو بہت کچھ فائدہ اٹھالیتے۔سعدی کہتا ہے ۔ ع
گر وزیر از خدا تر سیدے
ملازم لوگ تھوڑی سی نوکری کے لیے اپنے کام میں کیسے چست و چالاک ہوتے ہیں لیکن جب نماز کا وقت آتا ہے تو ذرا ٹھنڈا پانی دیکھ کر ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسی باتیں کیوں پید اہوتی ہیں؟اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہیں ہوتی۔ اگر خدا تعالیٰ کی کچھ بھی عظمت ہو اور مرنے کا خیال اور یقین ہو تو ساریُ سستی اور غفلت جاتی رہے۔اس لیے خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہیئے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہیئے۔ اس کی گرفت خطرناک ہوتی ہے۔ وہ چشم پوشی کرتا ہے اور درگذر فرماتا ہے لیکن جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر بہت سخت پکڑتا ہے یہاں تک کہ 3 ۱ پھر وہ اس امر کی بھی پروا نہیں کرتا کہ اس کے پچھلوں کا کیا حال ہوگا۔ برخلاف اِس کے جو لوگ اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے اور اُس
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 484
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 484
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/484/mode/1up
کی عظمت کو دل میں جگہ دیتے ہیں۔خدا تعالیٰ اُن کو عزت دیتا اور خود اُن کے لیے ایک سپر ہو جاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے ’’ مَن کَان لِلّٰہ کان اﷲ لہٗ ‘‘ یعنی جو شخص اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو جاوے اﷲتعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے۔مگر افسوس یہ ہے کہ جو لوگ اس طرف توجہ بھی کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کی طرف آنا چاہتے ہیں ان میں سے اکثر یہی چاہتے ہیں کہ ہتھیلی پرسرسوں جمادی جاوے۔وہ نہیں جانتے کہ دین کے کاموں میں کس قدر صبر اور حوصلہ کی حاجت ہے اور تعجب تو یہ ہے کہ وہ دنیا جس کے لیے وہ رات دن مرتے اور ٹکریں مارتے ہیں اس کے کاموں کے لیے توبرسوں انتظار کرتے ہیں۔ کسان بیج بوکر کتنے عرصہ تک منتظر رہتا ہے لیکن دین کے کاموں میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پھونک مار کر ولی بنا دو۔ اور پہلے ہی دن چاہتے ہیں کہ عرش پر پہنچ جاویں حالانکہ نہ اس راہ میں کوئی محنت اور مشقت اٹھائی اور نہ کسی ابتلا کے نیچے آیا۔
خوب یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون اور آئین نہیں ہے۔یہاں ہر ترقی تدریجی ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ نری اتنی باتوں سے خوش نہیں ہوسکتا کہ ہم کہہ دیں ہم مسلمان ہیں یا مومن ہیں۔ چنانچہ اس نے فرمایا ہے۔33 ۱ ۔ یعنی کیا یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اتنا ہی کہنے پر راضی ہو جاوے اور یہ لوگ چھوڑ دیئے جاویں کہ وہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی کوئی آزمائش نہ ہو۔یہ امر سنت اﷲ کے خلاف ہے کہ پھونک مار کر ولی اﷲ بنادیا جاوے۔اگر یہی سنت ہوتی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایساہی کرتے اور اپنے جان نثار صحابہ کو پھونک مار کر ہی ولی بنا دیتے۔ ان کو امتحان میں ڈلوا کر اُن کے سر نہ کٹواتے۔ اور خدا تعالیٰ اُن کی نسبت یہ نہ فرماتا۔ 33333۔ ۱
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 485
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 485
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/485/mode/1up
پس جب دنیا بغیر مشکلات اور محنت کے ہاتھ نہیں آتی تو عجب بے وقوف ہے وہ انسان جو دین کو حلوائے بے دُود سمجھتا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے۔ باایں اسلام نے تو ایسی مشقت بھی نہیں رکھی۔ ہندوؤں میں دیکھو کہ اُن کے جوگیوں اور سنیاسیوں کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں اُن کی کمریں ماری جاتی ہیں۔ کوئی ناخن بڑھاتا ہے۔ایسا ہی عیسائیوں میں رہبانیت تھی۔ اسلام نے ان باتوں کو نہیں رکھا بلکہ اس نے یہ تعلیم دی ۔3۲ ۔ یعنی نجات پا گیا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کیا۔ یعنی جس نے ہر ایک قسم کی بدعت ،فسق وفجور، نفسانی جذبات سے خد ا تعالیٰ کے لیے الگ کر لیا۔ اور ہر قسم کینفسانی لذات کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں تکالیف کو مقدم کر لیا۔ ایسا شخص فی الحقیقت نجات یافتہ ہے جو خدا تعالیٰ کو مقدم کرتا ہے اور دنیا اور اس کے تکلّفات کو چھوڑتا ہے*۔اور پھر فرمایا۔ 3 ۳ ۔ مٹی کے برابر ہو گیا وہ شخص جس نے نفس کوآلودہ کر لیا۔ یعنی جو زمین کی طرف جھک گیا۔ گویا یہ ایک ہی فقرہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کس طرح خداتعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے کہ جب تک انسان قویٰ بشریہ کے ُ برے طریق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک خد انہیں ملتا۔ دنیا کی گندگیوں سے نکلنا چاہتے ہو اور خدا تعالیٰ کو ملنا چاہتے ہو تو ان لذّات کو ترک کرو۔ورنہ
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
انسان کی فطرت میں دراصل بدی نہ تھی اور نہ کوئی چیز ُ بری ہے لیکن بد استعمالی ُ بری
حاشیہ۔بدر سے۔ جس نے دین کو مقدم کیا وہ خد اکے ساتھ مل گیا۔ نفس کو خاک کے ساتھ ملا دینا چاہیے۔ خد اتعالیٰ کو ہر بات میں مقدم کرنا چاہیے۔ یہی دین کا خلاصہ ہے جتنے ُ برے طریق ہیں اُن سب کو ترک کر دینا چاہیے۔تب خد املتا ہے۔ ( بدر جلد ۲ نمبر ۶ صفحہ ۳ مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء )
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 486
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 486
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/486/mode/1up
بنادیتی ہے۔ مثلًاریاہی کولو۔یہ بھی دراصل بُری نہیں کیونکہ اگر کوئی کام محض خدا تعالیٰ کے لیے کرتا ہے اور اس لیے کرتا ہے کہ اس نیکی کی تحریک دوسروں کو بھی ہوتو یہ ریا بھی نیکی ہے۔
ریا کی د۲و قسمیں ہیں ایک دنیا کے لیے مثلًا کوئی شخص نماز پڑھا رہا ہے اور پیچھے کوئی بڑا آدمی آگیا اس کے خیال اور لحاظ سے نماز کو لمبا کرنا شروع کردیا۔ ایسے موقع پر بعض آدمیوں پر ایسا رُعب پڑجاتا ہے کہ وہ پھول پھول جاتے ہیں۔یہ بھی ایک قسم ریاکی ہے جو ہر وقت ظاہر نہیں ہوتی مگر اپنے وقت پر جیسے بھوک کے وقت روٹی کھاتا ہے یا پیاس کے وقت پانی پیتا ہے۔مگربرخلاف اس کے جو شخص محض اﷲ تعالیٰ کے لیے نماز کو سنوار سنوار کر پڑھتا ہے وہ ریا میں داخل نہیں۔بلکہ رضاء الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ غرض ریاکے بھی محل ہوتے ہیں۔اور انسان ایسا جانور ہے کہ بے محل عیوب پر نظر نہیں کرتا۔ مثلاً ایک شخص اپنے آپ کو بڑا عفیف اور پارسا سمجھتا ہے راستہ میں اکیلا جارہا ہے۔ راستہ میں وہ ایک تھیلی جواہرات کی پڑی پاتا ہے وہ اُسے دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ مداخلت کی کوئی بات نہیں۔کوئی دیکھتا نہیں۔اگر یہ اس وقت اس پر گرتا نہیں اور سمجھتا ہے کہ غیر کا حق ہوگا اور روپیہ جو گرا ہوا ہے آخر کسی کا ہے۔ان باتوں کو سوچ کر اگر اس پر نہیں گرتا اور لالچ نہیں کرتا تو فی الحقیقت پوری عفّت اور تقویٰ سے کام لیتا ہے۔ ورنہ اگر نرا دعویٰ ہی دعویٰ ہے تو اُس وقت اُس کی حقیقت کھل جاوے گی اور وہ اُسے لے لے گا۔
اسی طرح ایک شخص جس کے متعلق یہ خیال ہے کہ وہ ریا نہیں کرتا۔جب ریا کا وقت ہو اور وہ نہ کرے تو ثابت ہوگا کہ نہیں کرتا۔ لیکن جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیا بعض اوقات ان عادتوں کا محل ایسا ہوتاہے کہ وہ بدل کر نیک ہو جاتی ہیں۔چنانچہ نماز جو باجماعت پڑھتا ہے اس میں بھی ایک ریا تو ہے لیکن انسان کی غرض اگر نمائش ہی ہو تو بیشک ریاہے اور اگراس سے غرض اﷲ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری مقصود ہے تو یہ ایک عجیب نعمت
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 487
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 487
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/487/mode/1up
ہے۔پس مسجدوں میں بھی نمازیں پڑھو اور گھروں میں بھی۔ایسا ہی ایک جگہ دین کے کام کے لیے چندہ ہو رہا ہو۔ایک شخص دیکھتا ہے کہ لوگ بیدار نہیں ہوتے اور خاموش ہیں۔وہ محض اس خیال سے کہ لوگوں کو تحریک ہو سب سے پہلے چندہ دیتا ہے۔بظاہریہ ریا ہوگی لیکن ثواب کا باعث ہوگی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے 33 ۱ ۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ایک جنگ میں ایک شخص اکڑ کر اور چھاتی نکال کر چلتا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ فعل خدا تعالیٰ کو ناپسند ہے لیکن اس وقت اﷲ تعالیٰ اس کو پسند کرتاہے۔پس ع
گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی
غرضُ خلق محل پر مومن اور غیر محل پر کافر بنادیتا ہے۔ میں پہلے کہہ چکاہوں کہ کوئی خُلق ُ برا نہیں بلکہ بداستعمالی سے بُرے ہوجاتے ہیں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے غصّہ کے متعلق آیا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ قبل از اسلام آپ بڑے غصّہ ور تھے۔حضرت عمرنے جواب دیا کہ غصّہ تو وہی ہے البتہ پہلے بے ٹھکانے چلتا تھامگر اب ٹھکانے سے چلتا ہے۔اسلام ہر ایک قوت کو اپنے محل پر استعمال کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔پس یہ کبھی کوشش مت کرو کہ تمہارے قویٰ جاتے رہیں بلکہ ان قویٰ کا صحیح استعمال سیکھو۔یہ سب جھوٹے اور خیالی عقائد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو۔ممکن ہے یہ تعلیم اس وقت قانون مختصّ المکان یا مختصّ الزّمان کی طرح ہو۔ہمیشہ کے لئے یہ قانون نہ کبھی ہو سکتا ہے اور نہ یہ چل سکتا ہے۔اس لیے کہ انسان ایک ایسے درخت کی طرح ہے جس کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔اگر اس کی ایک ہی شاخ کی پروا کی جاوے تو باقی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 488
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 488
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/488/mode/1up
شاخیں تباہ اور برباد ہو جائیں گی۔عیسائی مذہب کی اس تعلیم میں جو نقص ہے وہ بخوبی ظاہر ہے۔اس سے انسان کے تمام قویٰ کی نشوونما کیونکر ہوسکتی ہے۔اگر صرف درگذر ہی ایک عمدہ چیز ہوتی تو پھر انتقامی قوت اس کی قوتوں میں کیوں رکھی گئی ہے؟اور کیوں پھر اس درگذر کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاتا؟ مگر برخلاف اس کے کامل تعلیم وہ ہے جو اسلام نے پیش کی اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کو ملی ہے اور وہ یہ ہے۔33 ۱ ۔
یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہولیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے۔۔۔ کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو،کوئی شر پید انہ ہوتا ہو تو اس کا اجر اﷲ تعالیٰ پر ہے۔
اس سے صاف طور پرظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ خواہ نخواہ ضرور ہر مقام پر شر کا مقابلہ نہ کیا جاوے اور انتقام نہ لیا جاوے بلکہ منشاءِ الٰہی یہ ہے کہ محل اور موقعہ کو دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ موقع گناہ کے بخش دینے اور معاف کر دینے کا ہے یا سزا دینے کا۔اگر اس وقت سزا دینا ہی مصلحت ہو تو اس قدر سزا دی جاوے جو سزاوار ہے اور اگر عفو کا محل ہے تو سزا کا خیال چھوڑ دو۔
یہ خوبی ہے اس تعلیم میں کیونکہ وہ ہر پہلو کا لحاظ رکھتی ہے۔اگر انجیل پر عمل کرکے ہر شریر اور بدمعاش کو چھوڑ دیا جاوے تو دنیا میں اندھیر مچ جاوے۔پس تم ہمیشہ یہی خیال رکھو کہ تمام قویٰ کو مردہ مت تصور کرو۔تمہاری کوشش یہ ہو کہ محل پر استعمال کرو۔میں یقیناًکہتا ہوں کہ یہ تعلیم ایسی ہے جس نے انسانی قویٰ کے نقشہ کو کھینچ کر دکھا دیا ہے مگر افسوس ہے ان لوگوں پر جو عیسائیوں کی میٹھی میٹھی باتیں سن کر فریفتہ ہو جاتے ہیں اور اسلام جیسی نعمت کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں۔صادق ہر حالت میں دوسروں کے واسطے شیریں ظاہر نہیں ہوتا۔جس
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 489
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 489
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/489/mode/1up
طرح کہ ماں ہر وقت بچے کو کھانے کے واسطے شیرینی نہیں دے سکتی بلکہ وقتِ ضرورت کڑوی دوائی بھی دیتی ہے۔ ایساہی ایک صادق مصلح کا حال ہے۔یہی تعلیم ہر پہلو پر مبارک تعلیم ہے۔خدا ایسا ہے کہ سچا خدا ہے۔ ہمارے خدا پر عیسائی بھی ایمان لاتے ہیں۔جو صفات ہم خداتعالیٰ کی مانتے ہیں وہ سب کو ماننی پڑتی ہیں۔پادری فنڈر ایک جگہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا جزیرہ ہو جہاں عیسائیت کا وعظ نہیں پہنچا تو قیامت کے دن ان لوگوں سے کیا سوال ہوگا؟تب خود ہی جواب دیتا ہے کہ اُن سے یہ سوال نہ ہوگا کہ تم یسوع پر اور اس کے کفارہ پر ایمان لائے تھے یا نہ لائے تھے بلکہ اُن سے یہی سوال ہوگا کہ کیا تم اُس خداکو مانتے ہو جو اسلام کی صفات کا خد ا واحد لاشریک ہے۔
اسلام کا خدا وہ خدا ہے کہ ہر ایک جنگل میں ر ہنے والا فطرتاً مجبور ہے کہ اس پر ایمان لائے۔ہر ایک شخص کا کانشنس اور نور قلب گواہی دیتا ہے کہ وہ اسلامی خدا پر ایمان لائے۔اس حقیقت اسلام کو اور اصل تعلیم کو جس کی تفصیل کی گئی،آج کل کے مسلمان بھول گئے ہیں۔ اور اِسی بات کو پھر قائم کر دینا ہمارا کام ہے۔اوریہی ایک عظیم الشان مقصد ہے جس کو لے کر ہم آئے ہیں۔
اِن اُمور کے علاوہ جو اوپر بیان کئے گئے اور بھی علمی اعتقادی غلطیاں مسلمانوں کے درمیان پھیل رہی ہیں جن کا دور کرنا ہمارا کام ہے۔مثلاً ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ اور اس کی ماں مس شیطان سے پاک ہیں اور باقی سب نعوذ باﷲ پاک نہیں ہیں۔یہ ایک صریح غلطی ہے بلکہ کفر ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت اہانت ہے۔ان لوگوں میں ذرّہ بھی غیرت نہیں جو اس قسم کے مسائل گھڑ لیتے ہیں اور اسلام کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ لوگ اسلام سے بہت دور ہیں۔اصل میں یہ مسئلہ اس طرح سے ہے کہ قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ پیدائش دو قسم کی ہوتی ہے۔ایک مس روح القدس سے
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 490
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 490
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/490/mode/1up
اور ایک مس شیطان سے۔تمام نیک اور راستباز لوگوں کی اولاد مس روح القدس سے ہوتی ہے۔ اور جو اولاد بدی کا نتیجہ ہوتی ہے وہ مس شیطان سے ہوتی ہے۔تمام انبیاء مس روح القدس سے پیدا ہوئے تھے۔ مگر چونکہ حضرت عیسیٰ کے متعلق یہودیوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ نعوذ باﷲ ولد الزنا ہیں اور مریم کا ایک اور سپاہی پنڈارانام کے ساتھ تعلق ناجائز کا ذریعہ ہیں اور مس شیطان کا نتیجہ ہیں۔اِس واسطے اﷲ تعالیٰ نے اُ س کے ذمہ سے یہ الزام دُور کرنے کے واسطے اُن کے متعلق یہ شہادت دی تھی کہ اُن کی پیدائش بھی مس روح القدس سے تھی۔چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کے متعلق کوئی اس قسم کااعتراض نہ تھا۔ اس واسطے ان کے متعلق ایسی بات بیان کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑی۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین عبد اﷲ اور آمنہ کو تو پہلے ہی سے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کے متعلق ایسا خیال و گمان بھی کبھی کسی کو نہ ہوا تھا۔ایک شخص جو مقدمہ میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کے واسطے صفائی کی شہادت کی ضرورت پڑتی ہے لیکن جو شخص مقدمہ میں گرفتار ہی نہیں ہوا۔اس کے واسطے صفائی کی شہادت کی کچھ ضرورت ہی نہیں۔
ایسا ہی ایک اور غلطی جو مسلمانوں کے درمیان پڑ گئی ہوئی ہے۔ وہ معراج کے متعلق ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا تھا۔مگر اس میں جو بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ صرف ایک معمولی خواب تھا۔سو یہ عقیدہ غلط ہے اور جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ معراج میں آنحضرت اِسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے۔سو یہ عقیدہ بھی غلط ہے۔بلکہ اصل بات اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ معراج کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ ایک وجود تھا مگر نورانی،اور ایک بیداری تھی‘ مگر کشفی اور نورانی جس کو اِس دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے مگر وہی جن پر وہ کیفیت طاری ہوئی ہو۔
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 491
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 491
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/491/mode/1up
ورنہ ظاہری جسم اورظاہری بیداری کے ساتھ آسمان پر جانے کے واسطے تو خود یہودیوں نے معجزہ طلب کیا تھا جس کے جواب میں قرآن شریف میں کہا گیا تھا۔ 33 ۱ کہہ دے میرا رب پاک ہے میں تو ایک انسان رسول ہوں۔انسان اس طرح اُڑ کر کبھی آسمان پرنہیں جاتے۔یہی سنت اﷲ قدیم سے جاری ہے۔
ایک اور غلطی اکثر مسلمانوں کے درمیان ہے کہ وہ حدیث کو قرآن شریف پر مقدم کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط بات ہے۔قرآن شریف ایک یقینی مرتبہ رکھتا ہے اور حدیث کا مرتبہ ظنّی ہے۔حدیث قاضی نہیں بلکہ قرآن اُس پر قاضی ہے۔ہاں حدیث قرآن شریف کی تشریح ہے۔اس کو اپنے مرتبہ پر رکھنا چاہیے۔حدیث کو اس حدتک ماننا ضروری ہے کہ قرآن شریف کے مخالف نہ پڑے اور اس کے مطابق ہولیکن اگر اس کے مخالف پڑے تو وہ حدیث نہیں بلکہ مردود قول ہے۔لیکن قرآن شریف کے سمجھنے کے واسطے حدیث ضروری ہے۔قرآن شریف میں جو احکام الٰہی نازل ہوئے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عملی رنگ میں کرکے اور کراکے دکھادیا اور ایک نمونہ قائم کر دیا۔اگر یہ نمونہ نہ ہوتا تو اسلام سمجھ میں نہ آسکتالیکن اصل قرآن ہے۔بعض اہل کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست ایسی احادیث سنتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوئیں یا موجودہ احادیث کی تصدیق کر لیتے ہیں۔
غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو کہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن سے خداتعالیٰ ناراض ہے اور جو اسلامی رنگ سے بالکل مخالف ہیں۔اس واسطے اﷲ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک کہ وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہِ راست پر نہ آجاویں اور اس مطلب کے واسطے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں اِن سب غلطیوں کو دور کرکے اصلی
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 492
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 492
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/492/mode/1up
اسلام پھر دنیا پر قائم کروں۔
یہ فرق ہے ہمارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان۔ان کی حالت وہ نہیں ر ہی جو اسلامی حالت تھی۔یہ مثل ایک خراب اور نکمے باغ کے ہوگئے ۔ان کے دل ناپاک ہیں اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایک نئی قوم پید اکرے جو صدق اور راستی کو اختیار کرکے سچے اسلام کا نمونہ ہو۔ فقط* ۔
(الحکم مورخہ ۱۷؍فروری۔ ۱۷؍مئی و ۱۷؍جون ۱۹۰۶ء)