• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 22 ۔ حقیقۃ الوحی ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 22. Page: 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اِس کتاب کا اثر کیا ہے؟

یاد رہے کہ یہ کتاب کہ جو جامع جمیع دلائل و حقایق ہے اس کا اثر صرف اس حد تک ہی محدود نہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اس عاجز کا مسیح موعود ہونا اس میں دلائل بیّنہسے ثابت کیا گیا ہے بلکہ اس کا یہ بھی اثر ہے کہ اس میں اسلام کا زندہ اور سچا مذہب ہونا ثابت کر دیا ہے اگرچہ ہر ایک قوم اپنے مُنہ سے کہہ سکتی ہے کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک سمجھتے ہیں جیسا کہ برہمو یہی دعویٰ کرتے ہیں اور ایسا ہی آریہ بھی باوجود اس کے کہ قدامت میں ذرّہ ذرّہ کو خدا تعالیٰ کا شریک اور انادی بنا رکھا ہے توحید کے مدعی ہیں لیکن یہ تمام قومیں زندہ خدا کی ہستی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں دے سکتیں اور خدا کے وجود پر اُن کے دل تسلّی پذیر نہیں ہیں۔* اس لئے اُن کے یہ دعوے کہ ہم خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک سمجھتے ہیں صرف دعوے ہی دعوے ہیں لہٰذا اُن کے ایسے اقرار حقیقی توحید کا رنگ اُن کے دلوں پر نہیں چڑھا سکتے اور خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک ماننا تو کیا دراصل ان لوگوں کو اس قدر بھی نصیب نہیں کہ یقینی طور پر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان رکھتے ہوں بلکہ اُن کے دل تاریکی میں پڑے ہیں۔

یاد رہے کہ انسان اس خدائے غیب الغیب کو ہر گز اپنی قوت سے شناخت نہیں کر سکتا جب تک وہ خود اپنے تئیں اپنے نشانوں سے شناخت نہ کرا وے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا جب تک وہ تعلق خاص خدا تعالیٰ کے ذریعہ سے پیدا نہ ہو اور نفسانی آلائشیں ہر گز نفس میں سے نکل نہیں سکتیں جب تک خدائے قادر کی طرف سے ایک روشنی دل میں داخل نہ ہو اور دیکھو کہ مَیں اس شہادت رویت کو پیش کرتا ہوں کہ وہ تعلق محض قرآن کریم کی پیروی سے حاصل ہوتا ہے دوسری کتابوں میں اب کوئی زندگی کی روح نہیں اور آسمان کے نیچے صرف ایک ہی کتاب ہے جو اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلاتی ہے یعنی قرآن شریف۔

اور میرے پر جو میری قوم طرح طرح کے اعتراض پیش کرتی ہے مجھے ان کے اعتراضوں کی کچھ بھی پروا نہیں اور سخت بے ایمانی ہوگی اگر مَیں ان سے ڈر کر سچائی کی راہ کو چھوڑ دوں۔ اور خود اُن کو سوچنا چاہئے کہ ایک شخص کو خدا نے اپنی طرف سے بصیرت عنایت فرمائی ہے اور آپ اُس کو راہ دکھلا دی ہے اور اُس کو اپنے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف فرمایا ہے اور ہزارہا نشان اس کی تصدیق کیلئے دکھلائے ہیں کیونکر ایک مخالف کی ظنیات کو کچھ چیز سمجھ کر اُس آفتاب صداقت سے مُنہ پھیر سکتا ہے۔ اور مجھے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ اندرونی اور بیرونی مخالف میری عیب جوئی میں مشغول ہیں کیونکہ اس سے بھی میری کرامت ہی ثابت ہوتی ہے وجہ یہ کہ اگر مَیں ہر قسم کا عیب اپنے اندر رکھتا ہوں اور بقول ان کے مَیں عہد شکن اور کذّاب اور دجّال اور مفتری اور خائن ہوں اور حرام خورہوں اور قوم میں پھوٹ ڈالنے والا اور فتنہ انگیز ہوں اور فاسق اور فاجر ہوں اور خدا پر قریباً تیس ۳۰برس سے افترا کرنے والا ہوں اور نیکوں اور استبازوں کو گالیاں دینے والا ہوں اور میری روح میں بجز شرارت اور بدی اور بدکاری اور نفس پرستی کے اور کچھ نہیں اور محض دنیا کے ٹھگنے کے لئے مَیں نے یہ ایک دوکان بنائی ہے اور نعوذباللہ بقول اُن کے میرا خدا پر بھی ایمان نہیں اور دنیا کا کوئی عیب نہیں جو مجھ میں نہیں مگر باوجود اِن باتوں کے جو تمام دنیا کے عیب مجھ میں موجود ہیں اور ہر ایک قسم کا ظلم میرے نفس میں بھرا ہوا ہے اور بہتوں کے میں نے بیجا طور پر مال کھالئے اور بہتوں کو میں نے( جو فرشتوں کی طرح پاک تھے) گالیاں دی ہیں اور ہر ایک بدی اور ٹھگ بازی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تو پھر اس میں کیا بھید ہے کہ بد اور بدکار اور خائن اور کذّاب تو مَیں تھا مگر میرے مقابل پر ہر ایک فرشتہ سیرت جب آیا تو وہی مارا گیا جس نے مباہلہ کیا وہی تباہ ہوا جس نے میرے پر بد دعا کی وہ بد دعا اُسی پر پڑی۔ جس نے میرے پر کوئی مقدمہ عدالت میں دائر کیا اُسی نے شکست کھائی۔ چنانچہ بطور نمونہ اسی کتاب میں ان باتوں کا ثبوت مشاہدہ کر و گے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے مقابلہ کے وقت میں ہی ہلاک ہوتا میرے پر ہی بجلی پڑتی بلکہ کسی کے مقابل پر کھڑے ہونے کی بھی ضروت نہ تھی کیونکہ مجرم کا خود خدا دشمن ہے۔ پس برائے خدا سوچو کہ یہ اُلٹا اثر کیوں ظاہر ہوا کیوں میرے مقابل پر نیک مارے گئے اور ہر ایک مقابلہ میں خدا نے مجھے بچا یا کیا اس سے میری کرامت ثابت نہیں ہوتی؟ پس یہ شکر کا مقام ہے کہ جو بدیاں میری طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ بھی میری کرامت ہی ثابت کرتی ہیں۔

راقم میرزا غلام احمدؐ مسیح موعود ۔قادیانی


* عیسائیوں کے ذکر کی اس جگہ ضرورت نہیں کیونکہ اُن کا خدا مثل اُن کی دوسری کلوں اور مشینوں کے خود اپنا ایجاد کردہ ہے جس کا صحیفہ فطرت میں کچھ پتہ نہیں ملتا اور نہ اُس کی طرف سے انا الموجود کی آواز آتی ہے اور نہ اس نے کوئی خدائی کام دکھلائے جو دوسرے نبی دکھلا نہ سکے اور اُس کی قربانی کے اثر سے ایک مرغ کی قربانی کا اثر زیادہ محسوس ہوتا ہے جس کے گوشت کی یخنی سے فی الفور ایک کمزور ناتوان قوت پکڑ سکتا ہے۔ پس افسوس ہے ایسی قربانی پر جو ایک مرغ کی قربانی سے تاثیر میں کم تر ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی خَیْرِ رُسُلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ

وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔

بعد ھٰذا واضح ہو کہ مجھے اس رسالہ کے لکھنے کے لئے یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ اس زمانہ میں جس طرح اور صدہا طرح کے فتنے اور بدعتیں پیدا ہو گئی ہیں اسی طرح یہ بھی ایک بزرگ فتنہ پیدا ہو گیا ہے کہ اکثر لوگ اِس بات سے بے خبر ہیں کہ کس درجہ اور کس حالت میں کوئی خواب یا الہام قابل اعتبار ہو سکتا ہے اور کن حالتوں میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ شیطان کا کلام ہو نہ خدا کا۔ اور حدیث النفس ہو نہ حدیث الربّ۔* یادرکھنا چاہئے کہ شیطان انسان کا سخت دشمن ہے وہ طرح طرح کی راہوں سے انسان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ ایک خواب سچی بھی ہو اَور پھر بھی وہ شیطان کی طرف سے ہو اورممکن ہے کہ ایک الہام سچا ہو اور پھر بھی وہ شیطان کی طرف سے ہو کیونکہ اگرچہ شیطان بڑا جھوٹا ہے لیکن کبھی سچی بات بتلا کر دھوکا دیتا ہے تا ایمان چھین لے ہاں وہ لوگ جو اپنے صدق اور وفا اور عشق الٰہی میں کمال


* جس طرح جب ایک تو آفتاب پر بادل محیط ہو اور دوسرے ساتھ اُس کے گرد و غبار بھی اُٹھا ہوا ہو تو اس صورت میں آفتاب کی روشنی صاف طور سے زمین پر نہیں پڑ سکتی اسی طرح جب نفس پر اپنی ذاتی تاریکی اور شیطان کا غلبہ ہو تو روحانی آفتاب کی روشنی صاف طور پر سے اُس پر نہیں پڑے گی۔ اور جیسے جیسے وہ گرد و غبار اور ابر کم ہوتا جائے گا روشنی بھی صاف ہوتی جائے گی۔ پس یہی فلاسفی وحی الٰہی کی ہے۔ مصفّا وحی وہی لوگ پاتے ہیں جن کے دل صاف ہیں اور جن میں اور خدا میں کوئی روک نہیں۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ وہ الہام جس کے شامل حال نصرت الٰہی ہو اور اکرام اور اعزاز کی اُس میں صریح علامتیں پائی جائیں اور قبولیت کے آثار اُس میں نمودار ہوں وہ بغیر مقبولانِ الٰہی کے کسی کو نہیں ہو سکتا اور شیطان کے اقتدار سے یہ باہر ہے کہ کسی جھوٹے مدعی کی تائید اور حمایت میں کوئی قدرت نمائی کا الہام اُس کو کرے اور اُس کو عزّت دینے کے لئے کوئی خارق عادت اور مصفّاغیب اُس پر ظاہر کرے تا اُس کے دعوے پر گواہ ہو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 4

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/4/mode/1up


کے درجہ پر پہنچ جاتے ہیں اُن پر شیطان تسلّط نہیں پا سکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے33 ۱؂۔ سو اُن کی یہ نشانی ہے کہ خدا کے فضل کی بارشیں اُن پر ہوتی ہیں اور خدا کی قبولیت کی ہزاروں علامتیں اور نمونے اُن میں پائے جاتے ہیں جیسا کہ ہم اس رسالہ میں انشاء اللہ ذکر کریں گے۔ لیکن افسوس کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ ابھی شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہیں مگر پھر بھی اپنی خوابوں اور الہاموں پر بھروسہ کرکے اپنے ناراست اعتقادوں اور ناپاک مذہبوں کو اُن خوابوں اور الہاموں سے فروغ دینا چاہتے ہیں بلکہ بطور شہادت ایسی خوابوں اور الہاموں کو پیش کرتے ہیں اور یا یہ نیت رکھتے ہیں کہ ایسی خوابوں اور الہاموں کو پیش کرکے سچے مذہب کی اُن سے تحقیر کریں یا لوؔ گوں کی نظر میں خدا کے پاک نبیوں کو معمولی انسانوں کی طرح دکھاویں اور یا یہ دکھاویں کہ اگر خوابوں اور الہاموں کے ذریعہ سے کسی مذہب کی سچائی ثابت ہو سکتی ہے تو پھر ہمارے مذہب اور طریق کو سچا مان لیا جائے۔ اور بعض ایسے بھی ہیں کہ وہ اپنی خوابوں اور الہاموں کو اپنے مذہب کی سچائی کیلئے پیش نہیں کرتے۔ اور اُن کا ایسی خوابوں اور الہاموں کے بیان کرنے سے صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ خواب اور الہام کسی سچے مذہب یا سچے انسان کی شناخت کے لئے معیار نہیں ہیں اور بعض محض فضولی اور فخر کے طور پر اپنی خوابیں سناتے ہیں۔ اور بعض ایسے بھی ہیں کہ چند خوابیں یا الہام اُن کے جو اُن کے نزدیک سچے ہو گئے ہیں ان کی بنا پر وہ اپنے تئیں اماموں یا پیشواؤں یا رسولوں کے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ خرابیاں ہیں جو اس مُلک میں بہت بڑھ گئی ہیں اور ایسے لوگوں میں بجائے دینداری اورر استبازی کے بیجا تکبّر اور غرور پیدا ہو گیا ہے۔ اِس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ حق اور باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ رسالہ لکھوں کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض کم فہم لوگ ایسے لوگوں کی وجہ سے ابتلا میں پڑتے ہیں خصوصًا جب وہ دیکھتے ہیں کہ مثلاً زید اپنی خواب اور الہام پر بھروسہ کرکے بکر کو جو اس کے مقابل پر ایک دوسرا ملہم ہے کافر ٹھہراتا ہے اور خالد جو ایک تیسرا ملہم ہے دونوں پر کُفر کا فتویٰ لگاتا ہے اور عجب تر یہ کہ تینوں اپنی خوابوں اور الہاموں کے سچا ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اپنی بعض پیشگوئیوں کی نسبت یہ شہادتیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 5

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/5/mode/1up


بھی پیش کرتے ہیں کہ وہ سچی بھی ہو گئیں تو ایسے تناقض اور باہمی تکذیب اور انکار کو دیکھ کر وہ لوگ سخت ٹھوکر کھاتے ہیں کیونکہ جب خدا ایک ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ وہ زید کو ایک الہام کرے اور پھر بکر کو اُس کے مخالف کہے اور پھر خالد کو کچھ اور ہی سُنادے۔ اِس سے تو نادانوں کو خدا کے وجود میں ہی شک پڑتا ہے۔ غرض یہ امور عام لوگوں کے لئے گھبراہٹ کی جگہ ہیں اور اُن کی نظر میں سلسلۂ نبوت اِس سے مشتبہ ہو جاتا ہے اور اس مقام میں عام لوگوں کو حیرت میں ڈالنے والا ایک اور امر بھی ہے اور وہ یہ کہ بعض فاسق اور فاجر اور زانی اور ظالم اور غیر متدیّن اور چور اور حرام خور اور خدا کے احکام کے مخالف چلنے والے بھی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ اُن کو بھی کبھی کبھی سچی خوابیں آتی ہیںؔ ۔ اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض عورتیں جو قوم کی چوہڑی یعنی بھنگن تھیں جن کا پیشہ مردا رکھانا اور ارتکاب جرائم کام تھا انہوں نے ہمارے رُوبرو بعض خوابیں بیان کیں اور وہ سچی نکلیں۔ اِس سے بھی عجیب تر یہ کہ بعض زانیہ عورتیں اور قوم کے کنجر جن کا دِن رات زنا کاری کام تھا اُن کو دیکھا گیا کہ بعض خوابیں انہوں نے بیان کیں اور وہ پوری ہو گئیں۔ اور بعض ایسے ہندوؤں کو بھی دیکھا کہ جو نجاستِ شرک سے ملوّث اور اسلام کے سخت دشمن ہیں بعض خوابیں اُن کی جیسا کہ دیکھا تھا ظہور میں آ گئیں۔چنانچہ عین اس رسالہ کی تحریر کے وقت ایک قادیان کا ہندو میرے پاس آیا جو قوم کا کھتری تھا اُس نے بیان کیا کہ فلاں سب پوسٹ ماسٹر کو مَیں نے دیکھا تھا کہ تبدیلی اُس کی ہوکر پھر ملتوی رہ گئی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اُس ہندو نے مختلف وقتوں میں میرے پاس بیان کیا کہ کئی اور خوابیں بھی میری سچی ہو گئی ہیں مجھے معلوم نہیں کہ ایسے بیانات سے اُس کی کیا غرض تھی اور کیوں وہ بار بار اپنی خوابیں مجھے سناتا تھا کیونکہ وید کی رُو سے تو خوابوں اور الہاموں پر مُہر لگ گئی ہے ایسا ہی ایک بڑا بد ذات چور اور زانی بھی جو ہندو تھا اور قید میں ڈالا گیا تھا جیل سے رہائی پاکر کسی اتفاق سے مجھے ملا اور مجھے یاد ہے کہ کسی جُرم سرقہ وغیرہ میں اُس کو کئی سال کی قید ہوئی تھی۔ اُس کا بیان ہے کہ جس صبح کو عدالت سے قید کی سزا کا حکم مجھے دیا جانا تھا جس حکم کی بظاہر کچھ بھی اُمید نہ تھی رات کو خواب میں میرے پر ظاہر کیا گیا کہ مَیں قید کیا جاؤں گا سو ایسا ہی ظہور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 6

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/6/mode/1up


میں آیا اور اُسی دن مَیں جیل خانہ میں داخل کیا گیا۔ اِسی طرح امریکہ میں ایک شخص اِن دنوں میں موجود ہے جس کا نام ڈوئی ہے اور اُس کا ایک اخبار بھی نکلتا ہے اور وہ حضرت عیسٰیؑ کو خدا سمجھتا ہے اور الیاسؑ نبی کا اوتار اپنے تئیں خیال کرتا ہے اور ملہم یعنی الہامی ہونے کا مدعی ہے اور اپنی خوابیں اور الہام لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اِس دعوے سے کہ سچے نکلے ہیں۔ اور اعتقاد اُس کا جیسا کہ مَیں نے بیان کیا یہ ہے کہ وہ ایک عاجز انسان کو ربّ العالمین سمجھتا ہے اوراُس کے چال چلن کی نسبت یہ کہنا کافی ہے کہ اُس کی ماں ایک زانیہ عورت تھی اور اُس کو خود اقرار ہے کہ وہ ولد الزنا ہے اور قوم کا موچی ہے اور ایک بھائی اُس کا آسٹریلیا میں موچی کا کام کرتا ہے اور ؔ یہ باتیں صرف دعویٰ نہیں بلکہ وہ تمام اخبارات اور چٹھیات ہمارے پاس موجود ہیں جن سے اُس کی یہ خاندانی حالت ثابت ہوتی ہے۔

اب خلاصہ کلام یہ کہ جبکہ ایسی خوابیں اور ایسے الہام مختلف قسم کے لوگوں کو ہوتے رہتے ہیں بلکہ کبھی کبھی سچے بھی ہو جاتے ہیں۔ اور ایسے آدمی اس مُلک میں پچاس سے بھی زیادہ ہیں جو الہام اور وحی کے مُدعی ہیں اور ان لوگوں کا ایسا وسیع دائرہ ہے کہ کوئی شرط سچے مذہب اور نیک چلنی کی بھی نہیں تو اس صورت میں کوئی ایسا عقلمند نہ ہوگا کہ اس عقدہ کو حل کرنے کیلئے اپنے دل میں ضرورت محسوس نہ کرے کہ مابہ الامتیاز کیونکر قائم ہو بالخصوص جبکہ اِس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ باوجود اختلاف مذہب اور عقیدہ کے ہر ایک فرقہ کے لوگوں کو خوابیں اور الہام ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنی خوابوں اور الہاموں کے ذریعہ سے جھوٹا بھی قرار دیتے ہیں اور بعض خوابیں ہر ایک فرقہ کی سچی بھی ہو جاتی ہیں تو اِس صورت میں ظاہر ہے کہ حق کے طالبوں کی راہ میں یہ ایک خطرناک پتھر ہے اور خاص کر ایسے لوگوں کیلئے یہ ایک زہر قاتل ہے جو خود مدعی الہام ہیں اور اپنے تئیں منجانب اللہ ملہم خیال کرتے ہیں اور در اصل خدا تعالیٰ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں اور وہ اس دھوکے سے جو کوئی خواب اُن کی سچی ہو جاتی ہے اپنے تئیں کچھ چیز سمجھتے ہیں اور اِس طرح پر وہ سچائی کی طلب کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ سچائی کو تحقیر اور توہین کی نظر سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 7

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/7/mode/1up


دیکھتے ہیں۔ پس یہی وہ امر ہے جس نے مجھے اِس بات پر آمادہ کیا کہ میں اِس فرق کو حق کے طالبوں پر ظاہر کروں۔ سو مَیں اِس کتاب کو چار ۴ باب پر منقسم کرتا ہوں۔ باب اوّ۱ل اُن لوگوں کے بیان میں جن کو بعض سچی خوابیں آتی ہیں یا بعض سچے الہام ہوتے ہیں لیکن اُن کو خدا تعالیٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ باب دوم۲ اُن لوگوں کے بیان میں جن کو بعض اوقات سچی خوابیں آتی ہیں یا سچے الہام ہوتے ہیں اور اُن کو خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق تو ہے لیکن بڑا تعلق نہیں۔ باب سوم۳ اُن لوگوں کے بیان میں جو خدا تعالیٰ سے اکمل اور اصفٰی طور پر وحی پاتے ہیں اور کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ ان کو حاصل ہے اور خوابیں بھی اُن کو فلق الصبح کی طرح سچی آتی ہیں اور خدا تعالیٰ سے اکمل اور اتم اور اصفٰی تعلق رکھتےؔ ہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ کے پسندیدہ نبیوں اور رسولوں کا تعلق ہوتا ہے۔ باب چہارم۴ اپنے حالات کے بیان میں یعنی اِس بیان میں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے مجھے اِن اقسام ثلاثہ میں سے کِس قسم میں داخل فرمایا ہے۔ اَب ہم اس مضمون کو ذیل کے ہر چہار باب میں لکھتے ہیں۔ وما توفیقی الّا باللّٰہ۔ ربّنا اھدنا صراطک المستقیم، وھب لنا من عندک فہم الدین القویم۔ وَعلّمنا من لدنک علمًا (آمین)

باب اوّل

اُن لوگوں کے بیان میں جن کو بعض سچی خوابیں آتی ہیں یا بعض سچے الہام ہوتے ہیں لیکن اُن کو خدا تعالیٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں اور اُس روشنی سے اُن کو ایک ذرّہ حصّہ نہیں ملتا جو اہل تعلق پاتے ہیں اور نفسانی قالب اُن کا تعلق نور سے ہزارہا کوس دور ہوتا ہے

واضح ہو کہ چونکہ انسان اس مطلب کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کو شناخت کرے اور اُس کی ذات اور صفات پر ایمان لانے کیلئے یقین کے درجہ تک پہنچ سکے اِس لئے خدا تعالیٰ نے انسانی دماغ کی بناوٹ کچھ ایسی رکھی ہے کہ ایک طرف تو معقولی طور پر ایسی قوتیں اس کو عطا کی گئی ہیں جن کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 8

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 8

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/8/mode/1up


ذریعہ سے انسان مصنوعات باری تعالیٰ پر نظر کرکے اور ذرّہ ذرّہ عالم میں جوجو حکمت کاملہ حضرت باری عزّاسمہٗ کے نقوش لطیفہ موجود ہیں اور جو کچھ ترکیب ابلغ اور محکم نظامِ عالم میں پائی جاتی ہے۔ اُس کی تہ تک پہنچ کر پوری بصیرت سے اِس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ زمین و آسمان کا بغیر صانع کے خود بخود موجود نہیں ہو سکتا بلکہ ضرور ہے کہ اس کا کوئی صانع ہو اور پھر دوسری طرف روحانی حواس اور روحانی قوتیں بھی اس کو عطا کی گئی ہیں تا وہ قصور اور کمی جو خدا تعالیٰ کی معرفت میں معقولی قوتوں سے رہ جاتی ہے روحانی قوتیں اس کو پورا کر دیں۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ محض معقولی قوتوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی شناخت کامل طور پر نہیں ہو سکتی وجہ یہ کہ معقولی قوتیں جوؔ انسان کو دی گئی ہیں اُن کا تو صرف اس حد تک کام ہے کہ زمین و آسمان کے فرد فرد یا ان کی ترتیب محکم اور ابلغ پر نظر کرکے یہ حکم دیں کہ اس عالم جامع الحقائق اور پُر حکمت کا کوئی صانع ہونا چاہئے۔ یہ تو اُن کا کام نہیں ہے کہ یہ حکم بھی دیں کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ بغیر اِس کے کہ انسان کی معرفت اس حد تک پہنچ جائے کہ درحقیقت وہ صانع موجود ہے۔ صرف ضرورتِ صانع کو محسوس کرنا کامل معرفت نہیں کہلا سکتی کیونکہ یہ قول کہ ان مصنوعات کا کوئی صانع ہونا چاہئے اس قول سے ہر گز برابر نہیں ہو سکتا کہ وہ صانع جس کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے فی الحقیقت موجود بھی ہے۔ لہٰذا حق کے طالبوں کو اپنا سلوک تمام کرنے کیلئے اور اُس فطرتی تقاضا کو پورا کرنے کیلئے جو معرفت کاملہ کیلئے ان کی طبائع میں مرکوز ہے اِس بات کی ضرورت ہوئی کہ علاوہ معقولی قوتوں کے روحانی قویٰ بھی اُن کو عطا ہوں تا اگر ان روحانی قوتوں سے پورے طور پر کام لیا جائے اور درمیان میں کوئی حجاب نہ ہو تو وہ اُس محبوب حقیقی کا چہرہ ایسے صاف طور پر دکھلا سکیں جس طور سے صرف عقلی قوتیں اس چہرہ کو دکھلا نہیں سکتیں۔ پس وہ خدا جو کریم و رحیم ہے جیسا کہ اُس نے انسانی فطرت کو اپنی کامل معرفت کی بھوک اور پیاس لگا دی ہے ایسا ہی اُس نے اس معرفت کاملہ تک پہنچانے کے لئے انسانی فطرت کو دو۲ قسم کے قویٰ عنایت فرمائے ہیں ایک معقولی قوتیں جن کا منبع دماغ ہے اور ایک روحانی قوتیں جن کا منبع دل ہے اور جن کی صفائی دل کی صفائی پر موقوف ہے اور جن باتوں کو معقولی قوتیں کامل طور پر دریافت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 9

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 9

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/9/mode/1up


نہیں کر سکتیں روحانی قوتیں اُن کی حقیقت تک پہنچ جاتی ہیں اور روحانی قوتیں صرف انفعالی طاقت اپنے اندر رکھتی ہیں یعنی ایسی صفائی پیدا کرنا کہ مبدء فیض کے فیوض اُن میں منعکس ہو سکیں سو اُن کیلئے یہ لازمی شرط ہے کہ حصولِ فیض کے لئے مستعد ہوں اور حجاب اور روک درمیان نہ ہو، تا خدا تعالیٰ سے معرفت کاملہ کا فیض پاسکیں اور صرف اس حد تک ان کی شناخت محدود نہ ہو کہ اس عالم پُر حکمت کا کوئی صانع ہونا چاہئے بلکہ اس صانع سے شرف مکالمہ مخاطبہ کامل طور پر پاکر اور بلا واسطہ اُس کے بزرگ نشان دیکھ کر اُس کا چہرہ دیکھ لیں اور یقین کی آنکھ سے مشاہدہ کر لیں کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود ہے۔ لیکن چونکہ اکثر انسانی فطرتیں حجاب سے خالی نہیں اور دنیا کی محبت اورؔ دنیا کے لالچ اور تکبر اور نخوت اورُ عجب اور ریاکاری اور نفس پرستی اور دوسرے اخلاقی رذائل اور حقوق اللہ اور حقوق عباد کی بجا آوری میں عمدًا قصور اور تساہل اور شرائط صدق وثبات اور دقائق محبت اور وفا سے عمدًا انحراف اور خدا تعالیٰ سے عمدًا قطع تعلق اکثر طبائع میں پایا جاتا ہے اس لئے وہ طبیعتیں بباعث طرح طرح کے حجابوں اور پردوں اور روکوں کے اور نفسانی خواہشوں اور شہوات کے اِس لائق نہیں کہ قابل قدر فیضان مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا اُن پر نازل ہو جس میں قبولیت کے انوار کا کوئی حصّہ ہو۔* ہاں عنایتِ ازلی نے جو انسانی فطرت کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تخم ریزی کے طور پر اکثر انسانی افراد میں یہ عادت اپنی جاری کر رکھی ہے کہ کبھی کبھی سچی خوابیں یا سچے الہام ہو جاتے ہیں تا وہ معلوم کر سکیں کہ اُن کیلئے آگے قدم رکھنے کیلئے ایک راہ کھلی ہے۔ لیکن اُن کی خوابوں اور الہاموں


* یاد رہے کہ جسمانی خواہشیں اور شہوات انبیاءؑ اور رسل میں بھی ہوتی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ وہ پاک لوگ پہلے خدا تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے تمام خواہشوں اور جذبات نفسانیہ سے الگ ہو جاتے ہیں اور اپنے نفس کو خدا کے آگے ذبح کر دیتے ہیں اور پھر جو خدا کیلئے کھوتے ہیں فضل کے طور پر ان کو واپس دیا جاتا ہے اور سب کچھ اُن پر وارد ہوتا ہے اور وہ درماندہ نہیں ہوتے مگر جو لوگ خدا تعالیٰ کیلئے اپنا نفس ذبح نہیں کرتے اُن کے شہوات اُن کیلئے بطور پردہ کے ہو جاتے ہیں آخر نجاست کے کیڑے کی طرح گند میں مرتے ہیں پس ان کی اور خدا کے پاک لوگوں کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک ہی جیل خانہ میں داروغہ جیل بھی رہتا ہے اور قیدی بھی رہتے ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ داروغہ اُن قیدیوں کی طرح ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 10

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 10

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/10/mode/1up


میں خدا کی قبولیت اور محبت اور فضل کے کچھ آثار نہیں ہوتے اور نہ ایسے لوگ نفسانی نجاستوں سے پاک ہوتے ہیں اور خوابیں محض اس لئے آتی ہیں کہ تا اُن پر خدا کے پاک نبیوں پر ایمان لانے کے لئے ایک حجت ہو کیونکہ اگر وہ سچی خوابوں اور سچے الہامات کی حقیقت سمجھنے سے قطعاً محروم ہوں اور اس بارے میں کوئی ایسا علم جس کو علم الیقین کہنا چاہئے ان کو حاصل نہ ہو تو خدا تعالیٰ کے سامنے اُن کا عذر ہو سکتا ہے کہ وہ نبوت کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے تھے کیونکہ اِس کوچہ سے بکلی نا آشنا تھے اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ نبوت کی حقیقت سے ہم محض بے خبر تھے اور اس کے سمجھنے کے لئے ہماری فطرؔ ت کو کوئی نمونہ نہیں دیا گیا تھا۔ پس ہم اس مخفی حقیقت کو کیونکر سمجھ سکتے اس لئے سنّت اللہ قدیم سے اور جب سے دنیا کی بناڈالی گئی اس طرح پر جاری ہے کہ نمونہ کے طور پر عام لوگوں کو قطع نظر اس سے کہ وہ نیک ہوں یا بد ہوں اور صالح ہوں یا فاسق ہوں اور مذہب میں سچے ہوں یا جھوٹا مذہب رکھتے ہوں کسی قدر سچی خوابیں دکھلائی جاتی ہیں یا سچے الہام بھی دئیے جاتے ہیں تا اُن کا قیاس اور گمان جو محض نقل اور سماع سے حاصل ہے علم الیقین تک پہنچ جائے* اور تا روحانی ترقی کیلئے اُن کے ہاتھ میں کوئی نمونہ ہو۔ اور حکیم مطلق نے اس مُدعا کے پورا کرنے کیلئے انسانی دماغ کی بناوٹ ہی ایسی رکھی ہے اور ایسے روحانی قویٰ اسکو دئیے ہیں کہ وہ بعض سچی خوابیں دیکھ سکتا ہے اور بعض سچے الہام پا سکتا ہے۔ مگر وہ سچی خوابیں اور سچے الہام کسی وجاہت اور بزرگی پر دلالت نہیں کرتے بلکہ وہ محض نمونہ کے طور پر ترقی کیلئے ایک راہیں ہوتی ہیں۔ اور اگر ایسی خوابوں اور ایسے الہاموں کو کسی بات پر کچھ دلالت ہے تو صرف اِس بات پر کہ ایسے انسان کی فطرت صحیح ہے بشرطیکہ جذبات نفسانیہ کی وجہ سے انجام بدنہ ہو اور ایسی فطرت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر درمیان میں روکیں اور حجاب پیش نہ آجائیں تو وہ ترقی کر سکتا ہے جیسے مثلاً ایک زمین ہے جس کی نسبت بعض علامات سے ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ


* علم تین۳ قسم پر ہوتا ہے (۱) ایک علم الیقین جیسا کہ کوئی دور سے دھواں دیکھ کر یہ قیاس کرے کہ اس جگہ ضرور آگ ہوگی (۲) دوسرا عین الیقین جیسا کہ کوئی اُس آگ کو اپنی آنکھ سے دیکھ لے (۳) تیسرا حق الیقین جیسا کہ کوئی اُس آگ میں ہاتھ ڈال کر اُس کی گرمی محسوس کرلے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 11

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 11

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/11/mode/1up


اس کے نیچے پانی ہے مگر وہ پانی زمین کی کئی تہوں کے نیچے دبا ہوا ہے اور کئی قسم کا کیچڑ اس کے ساتھ ملا ہوا ہے اور جب تک ایک پوری مشقت سے کام نہ لیا جائے اور زمین کو بہت دنوں تک کھودا نہ جائے تب تک وہ پانی جو شفاف اور شیریں اور قابل استعمال ہے نکل نہیں سکتا پس یہ کمال شقوت اور نادانی اور بد بختی ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ انسانی کمال بس اسی پر ختم ہے کہ کسی کو کوئی سچی خواب آجائے یا سچا الہام ہو جائے بلکہ انسانی کمال کے لئے اور بہت سے لوازم اور شرائط ہیں اور جب تک وہ متحقق نہ ہوں تب تک یہ خوابیں اور الہام بھی مکر اللہ میں داخل ہیں خدا اُن کے شرّ سے ہر اؔ یک سالک کو محفوظ رکھے۔

اِس جگہ پر الہام کے فریفتہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وحی د۲و قسم کی ہے۔ وحی الابتلا اور وحی الاصطفاء، وحی الابتلا بعض اوقات موجبِ ہلاکت ہو جاتی ہے جیسا کہ بلعم اسی وجہ سے ہلاک ہوا۔ مگر صاحبِ وحی الاصطفاء کبھی ہلاک نہیں ہوتا۔ اور وحی الابتلا بھی ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی بلکہ بعض انسانی طبیعتیں ایسی بھی ہیں کہ جیسے جسمانی طور پر بہت سے لوگ گونگے اور بہرے اور اندھے پیدا ہوتے ہیں ایسا ہی بعض کی روحانی قوتیں کالعدم ہوتی ہیں۔ اور جیسے اندھے دوسروں کی رہنمائی سے اپنا گذارہ کر سکتے ہیں ایسا ہی یہ لوگ بھی کرتے ہیں لیکن بوجہ عام شہادت کے جو بداہت کا حکم رکھتی ہے اُن کو اِن واقعات حقّہ سے انکار نہیں ہو سکتا اور نہیں کہہ سکتے کہ دوسرے تمام لوگ بھی اُن کی طرح اندھے ہی ہیں جیسا کہ ہر روز مشاہدہ میں آتا ہے کہ کوئی اندھا اس بات پر جھگڑا نہیں کر سکتا کہ سوجا کھا ہونے کا دعویٰ کرنے والے جھوٹے ہیں اور نہ اس سے انکار کر سکتا ہے کہ بجز اس کے ہزاروں آدمیوں کی آنکھیں موجود ہیں کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے کام لیتے ہیں اور وہ کام کر سکتے ہیں جو اندھا نہیں کر سکتا ہاں اگر ایسا زمانہ آتا جس میں سب لوگ اندھے ہی اندھے ہوتے اور ایک بھی سو جا کھانہ ہوتا۔ تب اِس بحث کے پیدا ہونے کے وقت کہ گذشتہ زمانوں میں سے کوئی ایسا زمانہ بھی تھا کہ اس میں سوجاکھے ہی پیدا ہوتے تھے اندھوں کو انکار اور لڑائی اور جھگڑے کی بہت گنجائش تھی بلکہ میرے خیال میں ہے کہ انجامِ کار اِس بحث میں اندھوں کی ہی فتح ہوتی کیونکہ جو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 12

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 12

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/12/mode/1up


شخص صرف گذشتہ زمانہ کا ہی حوالہ دیتا ہے اور جن انسانی طاقتوں اور کمالات کا اس کو دعویٰ ہے وہ کسی انسان میں دکھلا نہیں سکتا اور کہتا ہے کہ وہ قوتیں اور طاقتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں ایسا شخص تو تحقیق کی رُو سے آخر کار جھوٹا ہی ٹھہرتا ہے کیونکہ جس حالت میں فیاض مطلق نے جو کچھ انسانی فطرت کے جسمانی حصہ کو قوتیں عطا کی تھیں جیسے قوت باصرہ، سامعہ، شامّہ، لامسہ، حافظہ، متفکّرہ وغیرہ۔ وہ اب تک انسانوں میں پائی جاتی ہیں تو پھر کیونکر خیال کیا جائے کہ جو روحانی قوتیں انسانوں میں پہلے زمانوں میں تھیں اس زمانہ میں وہ تمام قوتیں اُن کی فطرت سے مفقوؔ د ہو گئی ہیں حالانکہ وہ قوتیں جسمانی قوتوں کی نسبت تکمیل نفس انسان کے لئے زیادہ ترضروری ہیں اور کیونکر انکار ہو سکتا ہے کہ جس حالت میں کہ مشاہدہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ مفقود نہیں ہوئیں۔ اِس سے ظاہر ہے کہ کس قدر وہ مذہب سچائی سے دور ہیں کہ یہ تو اُن کو اقرار ہے کہ انسانی فطرت کی جسمانی اور معقولی قوتیں اب بھی ایسی ہی ہیں جیسا کہ پہلے تھیں مگر اس سے وہ منکر ہیں کہ انسانوں میں روحانی قوتیں اب بھی ایسی ہی پائی جاتی ہیں جیسا کہ پہلے تھیں۔

اِس تمام تقریر سے ہمارا مدعایہ ہے کہ کسی شخص کا محض سچی خوابوں کا دیکھنا یا بعض سچے الہامات کا مشاہدہ کرنا یہ امر اس کے کسی کمال پر دلیل نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ دوسرے علامات نہ ہوں جو ہم انشاء اللہ القدیر تیسرے باب میں بیان کریں گے بلکہ یہ صرف دماغی بناوٹ کا ایک نتیجہ ہے اسی وجہ سے اس میں نیک یا راست باز ہونے کی شرط نہیں اور نہ مومن اور مسلمان ہونا اس کے لئے ضروری ہے اور جس طرح محض دماغی بناوٹ کی و جہ سے بعض کو سچی خوابیں آجاتی ہیں یا الہام کے رنگ میں کچھ معلوم ہو جاتا ہے اِسی طرح دماغی بناوٹ کی وجہ سے بعض کی طبیعت معارف اور حقائق سے مناسبت رکھتی ہے اور لطیف لطیف باتیں ان کو سوجھتی ہیں لیکن دراصل وہ لوگ اس حدیث صحیح کا مصداق ہوتے ہیں کہ اٰمن شعرہ وکفر قلبہ یعنی اس کا شعر ایمان لایا مگر اُس کا دل کافر ہے۔ اِسی لئے صادق کو شناخت کرنا ہر ایک سادہ لوح کا کام نہیں

نہیں ؂ اے بساابلیس آدم روئے ہست۔ پس بہر دستے نبایدد اددست۔ اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اِس درجہ کے لوگوں کو جو خوابیں یا الہامات ہوتے ہیں وہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 13

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 13

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/13/mode/1up


بہت سی تاریکی کے اندر ہوتے ہیں اور ایک شاذو نادر کے طور پر سچائی کی چمک اُن میں ہوتی ہے اور خدا کی محبت اور قبولیت کا کوئی ان کے ساتھ نشان نہیں ہوتا اور اگر غیب کی بات ہو تو صرف ایسی ہوتی ہے جس میں کروڑہا انسان شریک ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک شخص اگر چاہے تو بطور خود تحقیقات کر سکتا ہے کہ ایسی خوابوں اور الہامات میں ہر ایک فاسق و فاجر اور کافر اور ملحد یہاں تک کہ زانیہ عورتیں بھی شریک ہوتی ہیں۔ پس وہ شخص عقلمند نہیں ہے کہ جو اِس قسم کی خوابوں اور الہاموں پر خوش اور فریفتہ ہو جائے اور سخت دھوکہ میں پڑا ہوا وہ شخص ہے کہ جو فقط اِس درجہ کی خوابوں اور الہاموں کا نمونہ اپنے اندر پاکر اپنے تئیں کچھ چیز سمجھ بیٹھے بلکہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس درجہ کا انسان فقط اُس انسان کی طرح ہے کہ جو ایک اندھیری رات میں دور سے ایک آگ کا دھواں دیکھتا ہے مگر اس آگ کی روشنی کو نہیں دیکھ سکتا اورؔ نہ اس کی گرمی سے اپنی سردی اور افسردگی دور کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاص برکتوں اور نعمتوں سے ایسے لوگوں کو کوئی حصّہ نہیں ملتا اور نہ کوئی قبولیت اُن میں پَیدا ہوتی ہے اور نہ کوئی ایک ذرّہ خدا سے تعلق ہوتا ہے اور نہ شعلۂ نُور سے بشریت کی آلائشیں جلتی ہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ سے ان کو سچی دوستی پیدا نہیں ہوتی اِس لئے بباعث نہ ہونے قُربتِ رحمانی کے شیطان ان کے ساتھ رہتا ہے اور حدیث النفس اُن پر غالب رہتی ہے اور جس طرح ہجوم بادل کی حالت میں اکثر آفتاب چھپا رہتا ہے اور کبھی کبھی کوئی کنارہ اُس کا نظر آجاتا ہے اسی طرح ان کی حالت اکثر تاریکی میں رہتی ہے اور ان کی خوابوں اور الہاموں میں شیطانی دخل بہت ہوتا ہے۔

باب دوم۲

اُن لوگوں کے بیان میں جن کو بعض اوقات سچی خوابیں آتی ہیں۔ یا سچے الہام ہوتے ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق بھی ہے لیکن کچھ بڑا تعلق نہیں اور نفسانی قالب اُن کا شعلۂ نور سے جل کر نیست و نابود نہیں ہوتا اگرچہ کسی قدر اُس کے نزدیک آجاتا ہے۔

دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ وہ کسی حد تک زُہد اور عفّت کو اختیار کرتے ہیں اور علاوہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 14

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 14

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/14/mode/1up


اِس بات کے کہ اُن میں رؤیا اور کشف کے حصول کیلئے ایک فطرتی استعداد ہوتی ہے اور دماغی بناوٹ اِس قسم کی واقع ہوتی ہے کہ خواب و کشف کا کسی قدر نمونہ اُن پر ظاہر ہو جاتا ہے وہ اپنی اصلاح نفس کیلئے بھی کسی قدر کوشش کرتے ہیں اور ایک سطحی نیکی اور راستبازی اُن میں پیدا ہو جاتی ہے جس کی آمد سے ایک محدود دائرہ تک رؤیا صادقہ اور کشوف صحیحہ کے انوار اُن میں پیدا ہو جاتے ہیں مگر تاریکی سے خالی نہیں ہوتے بلکہ ان کی بعض دعائیں بھی منظور ہو جاتی ہیں مگر عظیم الشان کاموں میں نہیں کیونکہ اُن کی راستبازی کامل نہیں ہوتی۔ بلکہ اُس شفاف پانی کی طرح ہوتی ہے جو اوپر سے تو شفاف نظر آتا ہو مگر نیچے اُس کے گو براورگند ہو اور چونکہ ان کاتزکیۂ نفس پورا نہیںؔ ہوتا اور انکے صدق و صفا میں بہت کچھ نقصان ہوتا ہے اسلئے کسی ابتلا کے وقت وہ ٹھوکر کھا جاتے ہیں اور اگر خدا تعالیٰ کا رحم انکے شاملِ حال ہو جائے اور اُس کی ستّاری اُن کا پردہ محفوظ رکھے تب تو بغیر کسی ٹھوکر کے دنیا سے گذر جاتے ہیں اور اگر کوئی ابتلا پیش آجاوے تو اندیشہ ہوتا ہے کہ بلعم کی طرح انکا انجام بدنہ ہو اور ملہم بننے کے بعد کُتّے سے تشبیہ نہ دئے جائیں کیونکہ ان کی علمی اور عملی اور ایمانی حالت کے نقصان کی وجہ سے شیطان اُن کے دروازے پر کھڑا رہتا ہے اور کسی ٹھوکر کھانے کے وقت فی الفور اُن کے گھر میں داخل ہو جاتا ہے وہ دور سے روشنی کو دیکھ لیتے ہیں مگر اس روشنی کے اندر داخل نہیں ہوتے اور نہ اس کی گرمی سے کافی حصّہ ان کو ملتا ہے اسلئے ان کی حالت ایک خطرہ کی حالت ہوتی ہے خدا نور ہے جیسا کہ اُس نے فرمایا 3 ۱؂ پس وہ شخص جو صرف اس نور کے لوازم کو دیکھتا ہے وہ اُس شخص کی مانند ہے جو دور سے ایک دھوا ں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی نہیں دیکھتا اِسلئے وہ روشنی کے فوائد سے محروم ہے اور نیز اس کی گرمی سے بھی جو بشریت کی آلودگی کو جلاتی ہے۔ پس وہ لوگ جو صرف منقولی یا معقولی دلائل یا ظنّی الہامات سے خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل پکڑتے ہیں جیسے علماء ظاہری یا جیسے فلسفی لوگ اور یا ایسے لوگ جو صرف اپنے روحانی قویٰ سے جو استعداد کشوف اور رؤیا ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کو مانتے ہیں مگر خدا کے قرب کی روشنی سے بے نصیب ہیں وہ اُس انسان کی مانند ہیں جو دور سے آگ کا دھواں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی کو نہیں دیکھتا اور صرف دھوئیں پر غور کرنے سے آگ کے وجود پر یقین کر لیتا ہے ایسا شخص اس بصیرت سے محروم ہوتا ہے جو بذریعہ روشنی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن وہ شخص جو اس نور کی روشنی کو دور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 15

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 15

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/15/mode/1up


سے تو دیکھتا ہے مگر اُس نور کے اندر داخل نہیں ہوتا اُس شخص کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک شخص اندھیری رات میں آگ کی روشنی کو دیکھتا ہے اور اُس کی رہنمائی سے راہِ راست بھی پا لیتا ہے لیکن بوجہ دور ہونے کے اپنی سردی کو اُس آگ سے دور نہیں کر سکتا اور نہ آگ اُس کے نفسانی قالب کو جلا سکتی ہے۔ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایک اندھیری رات میں اور سخت سردی کے وقت دور سے آگ کی روشنی نظر آجاوے تو صرف اس روشنی کا دیکھنا ہی ہلاکت سے نہیں بچاسکتا بلکہ ہلاکت سے وہ بچے گا کہ ایسا آگ کے قریب چلا جائے کہ جو کافی طور پر اُس کی سردی کو دور کر سکے۔ لیکن جو شخص صرف دور سے اُس نور کو دیکھتا ہے اُس کی یہی نشانی ہے کہؔ اگرچہ راہِ راست کی بعض علامات اُس میں پائی جاتی ہیں لیکن خاص فضل کی کوئی علامت اُس میں پائی نہیں جاتی اور اُس کی قبض جو کمی توکّل اور نفسانی خواہشوں کی وجہ سے ہے دور نہیں ہوتی اور اُس کا نفسانی قالب جل کر خاک نہیں ہوتا کیونکہ شعلۂ نور سے بہت دور ہے اور وہ رسولوں اور نبیوں کا کامل طور پر وارث نہیں ہوتا اور اُس کی بعض اندرونی آلائشیں اس کے اندر مخفی ہوتی ہیں اور اُس کا تعلق جو خدا تعالیٰ سے ہے کدورت اور خامی سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ وہ دور سے خدا تعالیٰ کو اپنی دُھندلی نظر کے ساتھ دیکھتا ہے مگر اُس کی گود میں نہیں ہے۔ایسے آدمی جو نفسانی جذبات اُن کے اندر ہیں بعض اوقات اُن کے نفسانی جذبات ان کی خوابوں میں اپنا جوش اور طوفان دکھاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جوش اُن کا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ جوش محض نفسِ امّارہ کی طرف سے ہوتا ہے مثلاً ایک شخص خواب میں کہتا ہے کہ فلاں شخص کی مَیں ہر گز اطاعت نہیں کرونگا مَیں اُس سے بہتر ہوں تو اس سے نتیجہ نکالتا ہے کہ درحقیقت وہ بہتر ہے حالانکہ نفس کے جوش سے وہ کلام ہوتا ہے اِسی طرح نفس کے جوش سے خواب میں اور کئی قسم کے کلام کرتا ہے اور جہالت سے سمجھتا ہے کہ گویا وہ کلام خدا کی مرضی کے موافق ہے اور ہلاک ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ اُس نے خدا تعالیٰ کی طرف پوری حرکت نہیں کی اور اپنی تمام طاقت اور تمام صدق اور تمام وفاداری کے ساتھ اس کو اختیار نہیں کیا اِس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی پورے طور پرتجلئ رحمت اس پر نہیں ہوتی اور وہ اُس بچہ کی طرح ہوتا ہے جس میں جان تو پڑ گئی ہے لیکن ابھی وہ مشیمہ سے باہر نہیں آسکا اور عالم روحانی کے کامل نظارہ سے ہنوز اُس کی آنکھ بند ہے اور ہنوز اُس نے اپنی ماں کے چہرہ کو بھی نہیں دیکھا جس کے رحم میں اُس نے پرورش پائی۔ اور بقول مشہور کہ نیم مُلّا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 16

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 16

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/16/mode/1up


خطرۂ ایمان۔ وہ اپنی معرفت ناقصہ کی وجہ سے خطرہ کی حالت میں ہے ہاں ایسے لوگوں کو بھی کسی قدر کچھ معارف اور حقائق معلوم ہو جاتے ہیں مگر اُس دودھ کی طرح جس میں کچھ پیشاب بھی پڑا ہو اور اُس پانی کی طرح جس میں کچھ نجاست بھی ہو اور اس درجہ کا آدمی اگرچہ بہ نسبت درجہ اوّل کے اپنی خوابوں اور الہامات میں شیطانی دخل اور حدیث النفس سے کسی قدر محفوظ ہوتا ہے لیکن چونکہ اُس کی فطرت میں ابھی شیطان کا حصہ باقی ہے اِس لئے شیطانی القاء سے بچ نہیں سکتا۔ اور چونکہ نفس کے جذبات بھی دامنگیر ہیں اس لئے حدیث النفس سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ وحی اور الہام کا کمالِ صفائی، صفائی نفس پر موقوف ہے۔ جنؔ کے نفس میں ابھی کچھ گند باقی ہے اُن کی وحی اور الہام میں بھی گند باقی ہے۔

باب سو۳ م

اُن لوگوں کے بیان میں جو خدا تعالیٰ سے اکمل اور اصفٰی طور پر وحی پاتے ہیں اور کامل طور پرشرفِ مکالمہ اور مخاطبہ ان کو حاصل ہے اور خوابیں بھی اُن کو فلق الصبح کی طرح سچی آتی ہیں اور خدا تعالیٰ سے اکمل اور اتم طور پر محبت کا تعلق رکھتے ہیں اور محبت الٰہی کی آگ میں داخل ہو جاتے ہیں اور نفسانی قالب اُن کا شعلۂ نور سے جل کر بالکل خاک ہو جاتا ہے۔

جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہے جو شخص اُس کی طرف صدق اور صفا سے رجوع کرتا ہے۔وہ اُس سے بڑھ کر اپنا صدق و صفا اُس سے ظاہر کرتا ہے۔ اُس کی طرف صدق دل سے قدم اُٹھانے والا ہر گز ضائع نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ میں بڑے بڑے محبت اور وفاداری اور فیض اور احسان اور کرشمۂ خدائی دکھلانے کے اخلاق ہیں مگر وہی اُن کو پورے طور پر مشاہدہ کرتا ہے جو پورے طور پر اُس کی محبت میں محو ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ بڑا کریم و رحیم ہے مگر غنی اور بے نیاز ہے اس لئے جو شخص اُس کی راہ میں مرتا ہے وہی اُس سے زندگی پاتا ہے۔ اور جو اُس کیلئے سب کچھ کھوتا ہے اُسی کو آسمانی انعام ملتا ہے۔

خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پَیدا کرنیوالے اُس شخص سے مشابہت رکھتے ہیں جو اوّل دور سے آگ کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 17

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 17

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/17/mode/1up


روشنی دیکھے اور پھر اُس سے نزدیک ہو جائے یہاں تک کہ اُس آگ میں اپنے تئیں داخل کر دے اور تمام جسم جل جائے اور صرف آگ ہی باقی رہ جائے۔ اسی طرح کامل تعلق والا دن بدن خدا تعالیٰ کے نزدیک ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ محبتِ الٰہی کی آگ میں تمام وجود اُس کا پڑجاتا ہے اور شعلۂ نور سے قالب نفسانی جل کر خاک ہو جاتا ہے اور اُس کی جگہ آگ لے لیتی ہے یہ انتہا اس مبارک محبت کا ہے جو خدا سے ہوتی ہے۔ یہ امر کہ خدا تعالیٰ سے کسی کا کامل تعلق(ہے) اس کی بڑی علامت یہ ہے کہ صفات الٰہیہ اُس میں پیدا ہو جاتی ہیں اور بشریت کے رذائل شعلۂؔ نور سے جل کر ایک نئی ہستی پیدا ہوتی ہے اور ایک نئی زندگی نمودار ہوتی ہے جو پہلی زندگی سے بالکل مغائر ہوتی ہے اور جیسا کہ لوہا جب آگ میں ڈالا جائے اور آگ اس کے تمام رگ وریشہ میں پُورا غلبہ کر لے تو وہ لوہا بالکل آگ کی شکل پیدا کر لیتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ آگ ہے گو خواص آگ کے ظاہر کرتا ہے اِسی طرح جس کو شعلۂ محبت الٰہی سر سے پیر تک اپنے اندر لیتا ہے وہ بھی مظہر تجلیات الٰہیہ ہو جاتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا ہے بلکہ ایک بندہ ہے جس کو اُس آگ نے اپنے اندر لے لیا ہے اور اُس آگ کے غلبہ کے بعد ہزاروں علامتیں کامل محبت کی پیدا ہو جاتی ہیں کوئی ایک علامت نہیں ہے تاوہ ایک زیرک اور طالبِ حق پر مشتبہ ہو سکے بلکہ وہ تعلق صدہا علامتوں کے ساتھ شناخت کیا جاتا ہے۔* منجملہ اُن علامات کے یہ بھی ہے کہ خدائے کریم اپنا فصیح اور لذیذکلام وقتاً فوقتاً اُس کی زبان پر جاری کرتا رہتا ہے جو الٰہی شوکت اور برکت اور غیب گوئی کی کامل طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک نُور اُس کے ساتھ ہوتا ہے جو بتلاتا ہے کہ یہ یقینی امر ہے ظنّی نہیں ہے۔ اور ایک ربّانی چمک اُس کے اندر ہوتی ہے اور کدورتوں سے پاک ہوتا ہے اور بسا اوقات اور اکثر اور اغلب طور پر وہ کلام کسی زبردست پیشگوئی پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی پیشگوئیوں کا حلقہ نہایت وسیع اور عالمگیر ہوتا ہے اور وہ پیشگوئیاں کیا باعتبار کمیّت اور کیا باعتبار کیفیت بے نظیر ہوتی ہیں کوئی اُن کی نظیر پیش نہیں کر سکتا۔ اور ہیبتِ الٰہی اُن میں بھری ہوئی ہوتی ہے اور قُدرتِ تامہّ کی وجہ سے خدا کا چہرہ اُن میں نظر آتا ہے اور اُس کی پیشگوئیاں نجومیوں کی طرح نہیں ہوتیں بلکہ اُن میں محبوبیّت اور قبولیت کے آثار ہوتے ہیں اور ربّانی تائید اور نصرت سے بھری ہوئی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 18

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 18

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/18/mode/1up


ہوتی ہیں اور بعض پیشگوئیاں اُس کے اپنے نفس کے متعلق ہوتی ہیں اور بعض اپنی اولاد کے متعلق اور بعض اُس کے دوستوں کے متعلق اور بعض اُس کے دُشمنوں کے متعلق اور بعض عام طور پر تمام دنیا کیلئے اور بعض اُس کی بیویوں اور خویشوں کے متعلق ہوتی ہیں اور وہ امور اُسپر ظاہر ہوتے ہیں جو دوسروں پر ظاہر نہیں ہوتے اور وہ غیب کے دروازے اُس کی پیشگوئیوں پر کھولے جاتے ہیں جو دوسروں پر نہیں کھولے جاتے خدا کا کلام اُس پر اُسی طرح نازل ہوتا ہے جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے اوروہ ظن سے پاک اور یقینی ہوتا ہے۔ یہ شرف تو اس کی زبان کو دیا جاتا ہے کہ کیا باعتبار کمیّت اور کیا باعتبار کیفیت ایسا بے مثل کلام اس کی زبان پر جاری کیا جاتا ہے کہ دنیا اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اُس کی آنکھ کو کشفی قوّت عطا کی جاتی ہے جس سے وہ ؔ مخفی درمخفی خبروں کو دیکھ لیتا ہے اور بسا اوقات لکھی ہوئی تحریریں اُس کی نظر کے سامنے پیش کی جاتی ہیں اور مُردوں سے زندوں کی طرح ملاقات کر لیتا ہے اور بسا اوقات ہزاروں کوس کی چیزیں اس کی نظر کے سامنے ایسی آجاتی ہیں گویاوہ پَیروں کے نیچے پڑی ہیں۔

ایسا ہی اُس کے کان کو بھی مغیبات کے سُننے کی قوت دی جاتی ہے اور اکثر اوقات وہ فرشتوں کی آواز کو سن لیتا ہے اور بیقراریوں کے وقت ان کی آواز سے تسلّی پاتا ہے اور عجیب تر یہ کہ بعض اوقات جمادات اور نباتات اور حیوانات کی آواز بھی اُس کو پہنچ جاتی ہے۔ ؂ فلسفی کو مُنکرحنّانہ است۔ از حواسِ انبیا بیگانہ است اِسی طرح اُس کی ناک کو بھی غیبی خوشبو سونگھنے کی ایک قوت دی جاتی ہے۔ اور بسا اوقات وہ بشارت کے اُمور کو سُونگھ لیتا ہے اور مکروہات کی بدبو اُس کو آجاتی ہے۔ علیٰ ھٰذا القیاس اس کے دل کو قوتِ فراست عطا کی جاتی ہے اور بہت سی باتیں اس کے دل میں پڑجاتی ہیں اور وہ صحیح ہوتی ہیں۔ علیٰ ھٰذا القیاس شیطان اُسپر تصرّف کرنے سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ اُس میں شیطان کا کوئی حصہ نہیں رہتا اور بباعث نہایت درجہ فنافی اللہ ہونے کے اُس کی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہوتی ہے اور اُس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور اگرچہ اُس کو خاص طور پر الہام بھی نہ ہو تب بھی جو کچھ اُس کی زبان پر جاری ہوتا ہے وہ اُس کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے کیونکہ نفسانی ہستی اُس کی بکلّی جل جاتی ہے اور سفلی ہستی پر ایک موت طاری ہو کر ایک نئی اور پاک زندگی اُس کو ملتی ہے جس پر ہر وقت انوارِ الٰہیہ منعکس ہوتے رہتے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 19

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 19

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/19/mode/1up


اِسی طرح اُس کی پیشانی کو ایک نُور عطا کیاجاتا ہے جو بجز عُشّاقِ الٰہی کے اور کسی کو نہیں دیا جاتا۔ اور بعض خاص وقتوں میں وہ نُور ایسا چمکتا ہے کہ ایک کافر بھی اُس کو محسوس کر سکتا ہے بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ وہ لوگ ستائے جاتے اورنصرت الٰہی حاصل کرنے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ پس وہ اقبال علی اللہ کا وقت ان کیلئے ایک خاص وقت ہوتا ہے اور خدا کا نور ان کی پیشانی میں اپنا جلوہ ظاہر کرتا ہے۔

ایسا ہی اُنکے ہاتھوں میں اور پیروں میں اور تمام بدن میں ایک برکت دیجاتی ہے جس کی وجہ سے اُنؔ کا پہنا ہوا کپڑا بھی متبرّک ہو جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات کسی شخص کو چُھونا یا اُس کو ہاتھ لگانا۔ اُس کے امراض روحانی یا جسمانی کے ازالہ کا موجب ٹھہرتا ہے۔

اِسی طرح اُن کے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عزّوجلّ ایک برکت رکھ دیتا ہے وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے خدا کے فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں۔

اِسی طرح اُن کے شہریا گاؤں میں بھی ایک برکت اور خصوصیت دی جاتی ہے۔ اِسی طرح اُس خاک کو بھی کچھ برکت دی جاتی ہے جس پراُن کا قدم پڑتا ہے۔

اِسی طرح اِس درجہ کے لوگوں کی تمام خواہشیں بھی اکثر اوقات پیشگوئی کا رنگ پیدا کر لیتی ہیں یعنی جب کسی چیز کے کھانے یا پینے یا پہننے یا دیکھنے کی بشدّت اُن کے اندر خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ خواہش ہی پیشگوئی کی صورت پکڑ لیتی ہے اور جب قبل از وقت اضطرار کے ساتھ اُن کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ چیز میسر آجاتی ہے۔

اِسی طرح اُن کی رضامندی اور ناراضگی بھی پیشگوئی کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے پس جِس شخص پر وہ شدّت سے راضی اور خوش ہوتے ہیں اس کے آئندہ اقبال کے لئے یہ بشارت ہوتی ہے اور جس پر وہ بشدّت ناراض ہوتے ہیں اُس کے آئندہ ادبار اور تباہی پر دلیل ہوتی ہے کیونکہ بباعث فنافی اللہ ہونے کے وہ سرائے حق میں ہوتے ہیں اور اُن کی رضا اور غضب خدا کا رضا اور غضب ہوتا ہے اور نفس کی تحریک سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے یہ حالات اُن میں پیدا ہوتے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 20

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 20

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/20/mode/1up


اِسی طرح اُن کی دعا اور اُن کی توجہ بھی معمولی دعاؤں اور توجہات کی طرح نہیں ہوتی بلکہ اپنے اندر ایک شدید اثر رکھتی ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ اگر قضاء مبرم اور اٹل نہ ہو اور اُن کی توجہ اپنی تمام شرائط کے ساتھ اُس بَلا کے دور کرنے کے لئے مصروف ہو جائے تو خدا تعالیٰ اُس بَلا کو دور کر دیتا ہے گو ایک فرد واحد یا چند کَس پر وہ بَلا نازل ہو یا ایک مُلک پر وہ بَلا نازل ہو یا ایک بادشاہ وقت پر وہ بلا نازل ہو۔ اس میں اصل یہ ہے کہ وہ اپنے وجودؔ سے فانی ہوتے ہیں اس لئے اکثر اوقات اُن کے ارادہ کا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے توارد ہو جاتا ہے۔ پس جب شدّت سے اُن کی توجہ کسی بلا کے دور کرنے کے لئے مبذول ہو جاتی ہے اور جیسا کہ دردِ دل کے ساتھ اقبال علی اللہ چاہیئے میسر آجاتا ہے تو سُنّت الٰہیہ اسی طرح پر واقع ہے کہ خدا اُن کی سنتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ خدا اُن کی دعا کو ردّ نہیں کرتا۔ اور کبھی اُن کی عبودیت ثابت کرنے کے لئے دعا سُنی نہیں جاتی تا جاہلوں کی نظر میں خدا کے شریک نہ ٹھہر جائیں اور اگر ایسا اتفاق ہو کہ بَلاوارد ہو جائے جس سے مَوت کے آثار ظاہر ہو جائیں تو اکثر عادت اللہ یہی ہے کہ اُس بَلا میں تاخیر نہیں ہوتی اور ایسے وقت میں خدا کے مقبولوں کا ادب یہی ہے کہ دعا کو ترک کر دیں اور صبر سے کام لیں۔ بہتر وقت دعا کا یہی ہے کہ ایسے وقت میں دُعا ہو جب اسباب یاس اور نومیدی بکلّی ظاہر نہ ہوں اور ایسی علامات نمودار نہ ہوں جن سے صاف طور پر نظر آتا ہو کہ اب بَلا دروازہ پر ہے اور ایک طور پر اس کا نزول ہو چکا ہے کیونکہ اکثر سُنّت یہی ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے ایک عذاب کے نازل کرنے میں اپنے ارادہ کو ظاہر کر دیا تو وہ اپنے ارادہ کو واپس نہیں لیتا۔

یہ بالکل سچ ہے کہ مقبولین کی اکثر دعائیں منظور ہوتی ہیں بلکہ بڑا معجزہ اُن کا استجابتِ دعا ہی ہے جب اُن کے دلوں میں کسی مصیبت کے وقت شدّت سے بیقراری ہوتی ہے اور اس شدید بیقراری کی حالت میں وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو خدا اُن کی سنتا ہے اور اُس وقت اُن کا ہاتھ گویا خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ خدا ایک مخفی خزانہ کی طرح ہے کامل مقبولوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 21

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 21

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/21/mode/1up


کے ذریعہ سے وہ اپنا چہرہ دکھلاتا ہے۔ خدا کے نشان تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب اُس کے مقبول ستائے جاتے ہیں۔ اور جب حد سے زیادہ اُن کو دُکھ دیا جاتا ہے تو سمجھو کہ خدا کانشان نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر۔ کیونکہ یہ وہ قوم ہے کہ کوئی اپنے پیارے بیٹے سے ایسی محبت نہیں کرے گا جیسا کہ خدا اُن لوگوں سے کرتا ہے جو دل و جان سے اُس کے ہو جاتے ہیں وہ اُن کیلئے عجائب کام دِکھلاتا ہے اور ایسی اپنی قُوّت دِکھلاتا ہے کہ جیسا ایک سوتا ہوا شیر جاگ اُٹھتاؔ ہے خدا مخفی ہے اور اُس کے ظاہر کرنے والے یہی لوگ ہیں۔ وہ ہزاروں پَردوں کے اندر ہے اوراس کا چہرہ دِکھلانے والی یہی قوم ہے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خیال کہ مقبولین کی ہر ایک دُعا قبول ہوجاتی ہے یہ سراسر غلط ہے بلکہ حق بات یہ ہے کہ مقبولین کے ساتھ خدا تعالیٰ کا دوستانہ معاملہ ہے کبھی وہ اُن کی دُعائیں قبول کر لیتا ہے اور کبھی وہ اپنی مشیت اُن سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ دوستی میں ایسا ہی ہوتا ہے بعض وقت ایک دوست اپنے دوست کی بات کو مانتا ہے اور اُس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور پھر دوسرا وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اپنی بات اُس سے منوانا چاہتا ہے اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں مومنوں کی استجابتِ دعا کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے 3 ۱؂ یعنی تم مجھ سے دُعا کرو مَیں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔ اور دوسری جگہ اپنی نازل کردہ قضا و قدر پر خوش اور راضی رہنے کی تعلیم کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔

333 3 3 ۔۲؂

پس اِن دونوں آیتوں کو ایک جگہ پڑھنے سے صاف معلوم ہو جائے گا کہ دعاؤں کے بارے میں کیا سُنّت اللہ ہے اور ربّ اور عَبد کا کیا باہمی تعلّق ہے۔

مَیں پھر مکرّر لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ کوئی نادان یہ خیال نہ کرے کہ جو کچھ تیسرے درجہ کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 22

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 22

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/22/mode/1up


کامل الایمان اور کامل المحبّت لوگوں کی نسبت اِس رسالہ میں بیان کیا گیا ہے اِن میں سے اکثر اُمور میں دوسرے لوگ بھی شریک ہو جاتے ہیں جیسا کہ دوسروں کو بھی خوابیں آتی ہیں۔ کشف بھی ہوتے ہیں۔ الہام بھی پاتے ہیں تو مابہ الامتیاز کیا ہوا۔

اِن وساوس کا جواب اگرچہ ہم بار ہا دے چکے ہیں مگر پھر ہم کہتے ہیں کہ مقبولوں اور غیر مقبولوں میں فرق تو بہت ہے جو کسی قدر اس رسالہ میں بھی تحریر ہو چکا ہے لیکن آسمانی نشانوں کےؔ رُو سے ایک عظیم الشان یہ فرق ہے کہ خدا کے مقبول بندے جو انوارِ سُبحانی میں غرق کئے جاتے اور آتشِ محبت سے اُن کی ساری نفسانیت جلائی جاتی ہے وہ اپنی ہر شان میں کیا باعتبار کمیّت اور کیا باعتبارکیفیت غیروں پر غالب ہوتے ہیں اور غیر معمولی طور پر خدا کی تائید اور نصرت کے نشان اِس کثرت سے اُن کیلئے ظاہر ہوتے ہیں کہ دنیا میں کسی کو مجال نہیں ہوتی کہ اُن کی نظیر پیش کر سکے کیونکہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں خدا جو مخفی ہے اُس کا چہرہ دِکھلانے کیلئے وہ کامل مظہر ہوتے ہیں وہ دنیا کے آگے پوشیدہ خدا کو دکھلاتے ہیں اور خدا اُنہیں دکھلاتا ہے۔

اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ آسمانی نشانوں سے حصّہ لینے والے تین قِسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ اوّل وہ جو کوئی ہنر اپنے اندر نہیں رکھتے اور کوئی تعلق خدا تعالیٰ سے اُن کا نہیں ہوتا صرف دماغی مناسبت کی وجہ سے اُن کو بعض سچی خوابیں آجاتی ہیں اور سچے کشف ظاہر ہو جاتے ہیں جن میں کوئی مقبولیت اور محبوبیّت کے آثار ظاہرنہیں ہوتے اور اُن سے کوئی فائدہ اُن کی ذات کو نہیں ہوتا اور ہزاروں شریر اور بد چلن اور فاسق وفاجر ایسی بد بُودار خوابوں اور الہاموں میں اُن کے شریک ہوتے ہیں اور اکثر دیکھا جاتا ہے کہ باوجود ان خوابوں اور کشفوں کے اُن کا چال چلن قابلِ تعریف نہیں ہوتا کم سے کم یہ کہ اُن کی ایمانی حالت نہایت کمزور ہوتی ہے اِس قدر کہ ایک سچی گواہی بھی نہیں دے سکتے اور جس قدر دنیا سے ڈرتے ہیں خدا سے نہیں ڈرتے اور شریر آدمیوں سے قطع تعلق نہیں کر سکتے اور کوئی ایسی سچی گواہی نہیں دے سکتے جس سے بڑے آدمی کے ناراض ہو جانے کا اندیشہ ہو اور دینی اُمور میں نہایت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 23

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 23

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/23/mode/1up


درجہ کسل اور سُستی ان میں پائی جاتی ہے اور دنیا کے ہموم و غموم میں دن رات غرق رہتے ہیں اور دانستہ جھوٹ کی حمایت کرتے اور سچ کو چھوڑتے ہیں اور ہر ایک قدم میں خیانت پائی جاتی ہے اور بعض میں اس سے بڑھ کر یہ عادت بھی پائی گئی ہے کہ وہ فسق و فجور سے بھی پرہیز نہیں کرتے اور دنیا کمانے کے لئے ہر ایک ناجائز کام کر لیتے ہیں اور بعض کی اخلاقی حالت بھیؔ نہایت خراب ہوتی ہے اور حسد اور بخل اور عُجب اور تکبّر اور غرور کے پُتلے ہوتے ہیں اور ہر ایک کمینگی کے کام اُن سے صادر ہوتے ہیں اور طرح طرح کی قابلِ شرم خباثتیں اُن میں پائی جاتی ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ بعض اُن میں ایسے ہیں کہ ہمیشہ بد خوابیں ہی اُن کو آتی ہیں اور وہ سچی بھی ہو جاتی ہیں۔ گویا اُن کے دماغ کی بناوٹ صرف بد اور منحوس خوابوں کیلئے مخلوق ہے نہ اپنے لئے کوئی بہتری کے خواب دیکھ سکتے ہیں جس سے اُن کی دنیا درست ہو اور اُن کی مُرادیں حاصل ہوں اور نہ اوروں کے لئے کوئی بشارت کی خواب دیکھتے ہیں۔ اِن لوگوں کے خوابوں کی حالت اقسامِ ثلاثہ میں سے اُس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جب کہ ایک شخص دور سے صرف ایک دھواں آگ کا دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی نہیں دیکھتا اور نہ آگ کی گرمی محسوس کرتا ہے کیونکہ یہ لوگ خدا سے بالکل بے تعلق ہیں اور روحانی اُمور سے صرف ایک دھواں اُن کی قسمت میں ہے جس سے کوئی روشنی حاصل نہیں ہوتی۔


پھر دوسری قسم کے خواب بین یا مُلہم وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ سے کسی قدر تعلق ہے مگر کامل تعلق نہیں ان لوگوں کی خوابوں یا الہاموں کی حالت اُس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جبکہ ایک شخص اندھیری رات اور شَدِیْدُ البَرد رات میں دور سے ایک آگ کی روشنی دیکھتا ہے۔ اس دیکھنے سے اتنا فائدہ تو اُسے حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی راہ پر چلنے سے پرہیز کرتا ہے جس میں بہت سے گڑھے اور کانٹے اور پتھر اور سانپ اور درندے ہیں مگر اس قدر روشنی اس کو سردی اور ہلاکت سے بچا نہیں سکتی۔ پس اگر وہ آگ کے گرم حلقہ تک پہنچ نہ سکے تو وہ بھی ایسا ہی ہلاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اندھیرے میں چلنے والا ہلاک ہو جاتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 24

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 24

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/24/mode/1up


پھر تیسری قسم کے ملہم اور خواب بین وہ لوگ ہیں جن کے خوابوں اور الہاموں کی حالت اُس جسمانی نظّارہ سے مشابہ ہے جب کہ ایک شخص اندھیری اور شَدِیْدُ الْبَرْد رات میںؔ نہ صرف آگ کی کامل روشنی ہی پاتا ہے اور اُس میں چلتا ہے بلکہ اُس کے گرم حلقہ میں داخل ہو کر بکلّی سردی کے ضرر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اِس مرتبہ تک وہ لوگ پہنچتے ہیں جو شہوات نفسانیہ کا چولہ آتشِ محبتِ الٰہی میں جلادیتے ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں وہ دیکھتے ہیں جو آگے موت ہے اور دوڑ کر اُس موت کو اپنے لئے پسند کر لیتے ہیں وہ ہر ایک درد کو خدا کی راہ میں قبول کرتے ہیں اور خدا کیلئے اپنے نفس کے دشمن ہو کر اور اس کے بر خلاف قدم رکھ کر ایسی طاقت ایمانی دکھلاتے ہیں کہ فرشتے بھی اُن کے اس ایمان سے حیرت اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ روحانی پہلوان ہوتے ہیں اور شیطان کے تمام حملے اُن کی روحانی قوت کے آگے ہیچ ٹھہرتے ہیں وہ سچے وفادار اور صادق مرد ہوتے ہیں کہ نہ دنیا کے لذّات کے نظّارے انہیں گمراہ کر سکتے ہیں اور نہ اولاد کی محبت اور نہ بیوی کا تعلق اُن کو اپنے محبوب حقیقی سے برگشتہ کر سکتا ہے۔ غرض کوئی تلخی اُن کو ڈرا نہیں سکتی اور کوئی نفسانی لذّت اُن کو خدا سے روک نہیں سکتی اور کوئی تعلق خدا کے تعلق میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتا۔

یہ تین روحانی مراتب کی حالتیں ہیں جن میں سے پہلی حالت علم الیقین کے نام سے موسوم ہے اور دوسری حالت عین الیقین کے نام سے نامزد ہے اور تیسری مبارک اور کامل حالت حق الیقین کہلاتی ہے۔ اور انسانی معرفت کامل نہیں ہو سکتی اور نہ کدورتوں سے پاک ہو سکتی ہے جب تک حق الیقین تک نہیں پہنچتی۔ کیونکہ حق الیقین کی حالت صرف مشاہدات پر موقوف نہیں بلکہ یہ بطور حال کے انسان کے دل پر وارد ہو جاتی ہے اور انسان محبتِ الٰہی کی بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کر اپنے نفسانی وجود سے بالکل نیست ہو جاتا ہے اور اس مرتبہ پر انسانی معرفت پہنچ کر قال سے حال کی طرف انتقال کرتی ہے اور سفلی زندگی بالکل جل کر خاک ہوجاتی ہے اور ایسا انسان خدا تعالیٰ کی گود میں بیٹھ جاتا ہے اور جیسا کہ ایک لوہا آگ میں پڑ کر بالکل



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 25

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 25

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/25/mode/1up


آگ کی رنگ میں آجاتا ہے اور آگ کی صفات اُس سے ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہیں ایسا ہی اس درجہ کا آدمی صفاتِ الٰہیہ سے ظلّی طور پر متّصف ہو جاتا ہے۔ اور اس قدر طبعًا مرضاؔ ت الٰہیہ میں فنا ہو جاتا ہے کہ خدا میں ہو کر بولتا ہے اور خدا میں ہو کر دیکھتا ہے اور خدا میں ہو کر سُنتا ہے اور خدا میں ہو کر چلتا ہے گویا اُس کے جُبہّ میں خدا ہی ہوتا ہے۔ اور انسانیت اُس کی تجلّیات الٰہیہ کے نیچے مغلوب ہو جاتی ہے چونکہ یہ مضمون نازک ہے اور عام فہم نہیں اس لئے ہم اِس کو اِسی جگہ چھوڑتے ہیں۔

اور ایک دوسرے پیرایہ میں ہم اس مرتبہ ثالثہ کی جو اعلیٰ اور اکمل مرتبہ ہے اِس طرح پر تصویر کھینچتے ہیں کہ وہ وحی کامل جو اقسام ثلاثہ میں سے تیسری قسم کی وحی ہے جو کامل فردپر نازل ہوتی ہے اُس کی یہ مثال ہے کہ جیسے سورج کی دھوپ اور شعاع ایک مصفّا آئینہ پر پڑتی ہے جو عین اس کے مقابل پر پڑا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اگرچہ سورج کی دھوپ ایک ہی چیز ہے لیکن بوجہ اختلاف مظاہر کے اس کے ظہور کی کیفیت میں فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ پس جب سُورج کی شعاع زمین کے کسی ایسے کثیف حصّہ میں پڑتی ہے جس کی سطح پر ایک شفاف اور مصفّا پانی موجود نہیں بلکہ سیاہ اور تاریک خاک ہے اور سطح بھی مستوی نہیں تب شعاع نہایت کمزور ہوتی ہے خاص کر اُس حالت میں جبکہ سورج اور زمین میں کوئی بادل بھی حائل ہو۔ لیکن جب وہی شعاع جس کے آگے کوئی بادل حائل نہیں ایک شفاف پانی پر پڑتی ہے جو ایک مصفّا آئینہ کی طرح چمکتا ہے تب وہی شعاع ایک سے دہ چند ہو کر ظاہر ہوتی ہے جسے آنکھ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔

پس اسی طرح جب نفس تزکیہ یافتہ پر جو تمام کدورتوں سے پاک ہو جاتا ہے وحی نازل ہوتی ہے تو اُس کا نُور فوق العادت نمایاں ہوتا ہے۔ اور اُس نفس پر صفاتِ الٰہیہ کا انعکاس پورے طور پر ہو جاتا ہے اور پورے طور پر چہرہ حضرت احدیّت ظاہر ہوتا ہے۔ اِس تحقیق سے ظاہر ہے کہ جیسے آفتاب جب نکلتا ہے تو ہر ایک پاک ناپاک جگہ پر اُس کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 26

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 26

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/26/mode/1up


روشنی پڑتی ہے یہاں تک کہ ایک پاخانہ کی جگہ بھی جو نجاست سے پُر ہے اُس سے حصّہ لیتی ہے۔ تاہم پورا فیض اُس روشنی کا اُس آئینہ صافی یا آبِ صافی کو حاصل ہوتا ؔ ہے جو اپنی کمال صفائی سے خود سُورج کی تصویر کو اپنے اندر دِکھلاسکتا ہے۔ اِسی طرح بوجہ اس کے کہ خدا تعالیٰ بخیل نہیں ہے اُس کی روشنی سے ہر ایک فیضیاب ہے مگر تاہم وہ لوگ جو اپنی نفسانی حیات سے مر کر خدا تعالیٰ کی ذات کا مظہر اتم ہو جاتے ہیں اور ظلّی طور پر خدا تعالیٰ اُن کے اندر داخل ہو جاتا ہے اُن کی حالت سب سے الگ ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ اگرچہ سورج آسمان پر ہے لیکن تاہم جب وہ ایک نہایت شفاف پانی یا مصفّا آئینہ کے مقابل پر پڑتا ہے تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس پانی یا آئینہ کے اندر ہے لیکن دراصل وہ اُس پانی یا آئینہ کے اندر نہیں ہے بلکہ پانی یا آئینہ نے اپنی کمال صفائی اور آب و تاب کی وجہ سے لوگوں کو یہ دِکھلادیا ہے کہ گویا وہ پانی یا آئینہ کے اندر ہے۔

غرض وحی الٰہی کے انوار اکمل اور اتم طور پر وہی نفس قبول کرتا ہے جو اکمل اور اتم طور پر تزکیہ حاصل کر لیتا ہے اور صرف الہام اور خواب کا پانا کسی خوبی اور کمال پر دلالت نہیں کرتا۔ جب تک کسی نفس کو بوجہ تزکیہ تام کے یہ انعکاسی حالت نصیب نہ ہو اور محبوبِ حقیقی کا چہرہ اُس کے نفس میں نمودار نہ ہو جائے۔ کیونکہ جس طرح فیضِ عام حضرت اَحدیّت نے ہر ایک کو بجز شاذ و نادر لوگوں کے جسمانی صورت میں آنکھ اور ناک اور کان اور قُوّتِ شامّہ اور دوسری تمام قوتیں عطا فرمائی ہیں اور کسی قوم سے بخل نہیں کیا۔ اِسی طرح روحانی طور پر بھی اُس نے کسی زمانہ اور کسی قوم کے لوگوں کو روحانی قویٰ کی تخم ریزی سے محروم نہیں رکھا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ سُورج کی روشنی ہر ایک جگہ پڑتی ہے اور کوئی لطیف یا کثیف جگہ اس سے باہر نہیں ہے۔ یہی قانونِ قدرت روحانی آفتاب کی روشنی کے متعلق ہے کہ نہ کثیف جگہ اُس روشنی سے محروم رہ سکتی ہے اور نہ لطیف جگہ ہاں مصفّٰی اور شفاف دلوں پر وہ نور عاشق ہے جب وہ آفتابِ روحانی مُصفّٰے چیزوں پر اپنا نور ڈالتا ہے تو اپنا کُل نور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 27

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 27

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/27/mode/1up


اُن میں ظاہر کر دیتا ہے یہاں تک کہ اپنے چہرہ کی تصویر اُن میں کھینچ دیتا ہے جیساؔ کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک مصفّا پانی یا مصفّا آئینہ کے مقابل پر جب سورج آتا ہے۔ تو اپنی تمام صورت اُس میں ظاہر کر دیتا ہے یہاں تک کہ جیسا کہ آسمان پر سُورج نظر آتا ہے ویسا ہی بغیر کسی فرق کے اس مصفا پانی یا آئینہ میں نظر آتا ہے۔

پس روحانی طورپر انسان کے لئے اِس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں کہ وہ اس قدر صفائی حاصل کرے کہ خدا تعالیٰ کی تصویر اُس میں کھینچی جائے۔ اِسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے3 ۱؂ یعنی میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ یہ ظاہر ہے کہ تصویر ایک چیز کی اصل صورت کی خلیفہ ہوتی ہے یعنی جانشین۔ اور یہی وجہ ہے کہ جس جس موقعہ پر اصل صورت میں اعضا واقع ہوتے ہیں اور خطّ و خال ہوتے ہیں اُسی اُسی موقعہ پر تصویر میں بھی ہوتے ہیں اور حدیث شریف اور نیز توریت میں بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا۔ پس صورت سے مراد یہی روحانی تشابہ ہے۔ اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب مثلًا ایک نہایت صاف آئینہ پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے تو صرف اِسی قدر نہیں ہوتا کہ آفتاب اس کے اندر دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ شیشہ آفتاب کی صفات بھی ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ کہ اُس کی روشنی انعکاسی طور پر دوسرے پر بھی پڑجاتی ہے۔ پس یہی حال روحانی آفتاب کی تصویر کا ہوتا ہے کہ جب ایک قلبِ صَافی اُس سے ایک انعکاسی شکل قبول کر لیتا ہے تو آفتاب کی طرح اُس میں سے بھی شعاعیں نکل کر دوسری چیزوں کو منور کرتی ہیں گویا تمام آفتاب اپنی پوری شوکت کے ساتھ اُس میں داخل ہو جاتا ہے۔

اور پھر اس جگہ ایک اور نکتہ قابلِ یاد داشت ہے اور وہ یہ کہ تیسری قِسم کے لوگ بھی جن کا خدا تعالیٰ سے کامل تعلق ہوتا ہے اور کامل اور مصفّا الہام پاتے ہیں قبول فیوض الٰہیہ میں برابر نہیں ہوتے اور ان سب کا دائرۂ استعداد فطرت باہم برابر نہیں ہوتا بلکہ کسی کا دائرہ استعداد فطرت کم درجہ پر وسعت رکھتا ہے اور کسی کا زیادہ وسیع



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 28

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 28

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/28/mode/1up


ہوتا ؔ ہے اور کسی کا بہت زیادہ اور کسی کا اس قدر جو خیال و گمان سے برتر ہے اور کسی کا خدا تعالیٰ سے رابطہ محبت قوی ہوتا ہے اور کسی کا اقویٰ۔ اور کسی کا اِس قدر کہ دنیا اُس کو شناخت نہیں کر سکتی اور کوئی عقل اُس کے انتہا تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور وہ اپنے محبوبِ ازلی کی محبت میں اِس قدر محو ہوتے ہیں کہ کوئی رگ و ریشہ اُن کی ہستی اور وجود کا باقی نہیں رہتا اور یہ تمام مراتب کے لوگ بموجب آیت3۱؂ اپنے دائرۂ استعداد فطرت سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتے۔ اور کوئی اُن میں سے اپنے دائرۂ فطرت سے بڑھ کر کوئی نور حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کوئی روحانی تصویر آفتابِ نورانی کی اپنی فطرت کے دائرہ سے بڑھ کر اپنے اندر لے سکتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر ایک کی استعدادِ فطرت کے موافق اپنا چہرہ اُس کو دکھا دیتا ہے اور فطرتوں کی کمی بیشی کی وجہ سے وہ چہرہ کہیں چھوٹا ہوجاتاہے اور کہیں بڑا جیسے مثلاً ایک بڑا چہرہ ایک آرسی کے شیشہ میں نہایت چھوٹا معلوم ہوتا ہے مگر وہی چہرہ ایک بڑے شیشہ میں بڑا دکھائی دیتا ہے مگر شیشہ خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا چہرہ کے تمام اعضاء اور نقوش دکھا دیتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ چھوٹا شیشہ پورا مقدار چہرہ کا دکھلا نہیں سکتا۔ سو جس طرح چھوٹے اور بڑے شیشہ میں یہ کمی بیشی پائی جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات اگرچہ قدیم اور غیر متبدل ہے مگر انسانی استعداد کے لحاظ سے اِس میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس قدر فرق نمودار ہو جاتے ہیں کہ گویا اظہارِ صفات کے لحاظ سے جو زید کا خدا ہے اُس سے بڑھ کر وہ خدا ہے جو بکر کا خدا ہے اور اس سے بڑھ کر وہ جو خالد کا خدا ہے مگر خدا تین نہیں خدا ایک ہی ہے صرف تجلّیاتِ مختلفہ کی وجہ سے اس کی شانیں مختلف طور پر ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ موسیٰ اور عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ایک ہی ہے تین خدا نہیں ہیں مگر مختلف تجلّیات کی رُو سے اُسی ایک خدا میں تین شانیں ظاہر ہو گئیں چونکہ موسیٰ کی ہمّت صرف بنی اسرائیل اور فرعون تک ہی محدود تھی اِس لئے موسیٰ پر تجلّی قدرت الٰہی اُسی حد تک محدود رہی اور اگر موسیٰٰؑ کی نظر اُس زمانہ اور آئندہ زمانوں کے تمام بنی آدم پر ہوتی تو توریت کی تعلیم بھی ایسی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 29

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 29

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/29/mode/1up


محدوؔ د اور ناقص نہ ہوتی جو اب ہے۔

ایسا ہی حضرت عیسیٰ کی ہمّت صرف یہود کے چند فرقوں تک محدود تھی جو اُن کی نظر کے سامنے تھے اور دوسری قوموں اور آئندہ زمانہ کے ساتھ اُن کی ہمدردی کا کچھ تعلق نہ تھا اس لئے قدرت الٰہی کی تجلّی بھی اُن کے مذہب میں اُسی حد تک محدود رہی جس قدر اُن کی ہمت تھی اور آئندہ الہام اور وحی الٰہی پر مُہر لگ گئی اور چونکہ انجیل کی تعلیم بھی صرف یہود کی عملی اور اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کے لئے تھی تمام دنیا کے مفاسد پر نظر نہ تھی اس لئے انجیل بھی عام اصلاح سے قاصر ہے بلکہ وہ صرف ان یہودیوں کی موجودہ بد اخلاقی کی اصلاح کرتی ہے جو نظر کے سامنے تھے۔ اور جو دوسرے ممالک کے رہنے والے یا آئندہ زمانہ کے لوگ ہیں اُن کے حالات سے انجیل کو کچھ سروکار نہیں اور اگر انجیل کو تمام فرقوں اور مختلف طبائع کی اصلاح مد نظر ہوتی تو اس کی یہ تعلیم نہ ہوتی جو اب موجود ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایک طرف تو انجیل کی تعلیم ہی ناقص تھی اور دوسری طرف خود ایجاد غلطیوں نے بڑا نقصان پہنچایا جو ایک عاجز انسان کو خواہ نخواہ خدا بنایا گیا اور کفّارہ کا من گھڑت مسئلہ پیش کرکے عملی اصلاحوں کی کوششوں کا یک لخت دروازہ بند کر دیا گیا۔

اب عیسائی قوم دوگونہ بد قسمتی میں مبتلاہے۔ ایک تو اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اور الہام مدد نہیں مل سکتی کیونکہ الہام پر جو مُہر لگ گئی اور دوسری یہ کہ وہ عملی طور پر آگے قدم نہیں بڑھا سکتی کیونکہ کفّارہ نے مجاہدات اور سعی اور کوشش سے روک دیا مگر جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اُس کی نظر محدود نہ تھی اور اس کی عام غم خواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا۔ بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی اس لئے قدرت کی تجلّیات کا پورا اور کامل حصّہ اُس کو ملا۔ اور وہ خاتم الانبیاء بنے۔ مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتم ہے بجُز اُس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 30

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 30

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/30/mode/1up


اورؔ اس کی اُمّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجُزاُس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے اُمّتی ہونا لازمی ہے۔ اور اُس کی ہمّت اور ہمدردی نے اُمّت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا۔* اوراُن پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا۔ ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیضِ وحی آپ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص اُمّتی نہ ہو اُس پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو سو خدا نے اِن معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا۔ لہٰذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا اُمّتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہو سکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے مگر ظلّی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیضِ محمدی سے وحی پاناوہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفتِ الٰہیہ جو مدارِ نجات ہے مفقود نہ ہو جائے۔

کسی حدیث صحیح سے اِس بات کا پتہ نہیں ملے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی آنے والا ہے جو اُمّتی نہیں یعنی آپ کی پیروی سے فیض یاب نہیں اور اسی جگہ سے اُن


* اِس جگہ یہ سوال طبعًا ہو سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی اُمّت میں بہت سے نبی گذرے ہیں۔ پس اِس حالت میں موسیٰ کا افضل ہونا لازم آتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس قدر نبی گذرے ہیں اُن سب کو خدا نے براہ راست چُن لیا تھا۔ حضرت موسیٰ کا اس میں کچھ بھی دخل نہیں تھا۔ لیکن اِس اُمّت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو اُمّتی بھی ہے اور نبی بھی۔ اِس کثرتِ فیضان کی کسی نبی میں نظیر نہیں مل سکتی اسرائیلی نبیوں کو الگ کرکے باقی تمام لوگ اکثر موسوی اُمّت میں ناقص پائے جاتے ہیں۔ رہے انبیاء سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے حضرت موسیٰ سے کچھ نہیں پایا بلکہ وہ براہ راست نبی کئے گئے مگر اُمّتِ محمدیہ میں سے ہزارہا لوگ محض پیروی کی وجہ سے ولی کئے گئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 31

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 31

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/31/mode/1up


لوگوؔ ں کی غلطی ثابت ہوتی ہے جو خواہ نخواہ حضرت عیسیٰ کو دوبارہ دنیا میں لاتے ہیں اور وہ حقیقت جو الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی تھی جو خود حضرت عیسیٰ کے بیان سے کھل گئی۔* اس سے کچھ عبرت نہیں پکڑتے بلکہ جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے اُس کا اُنہیں حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا ہے کہ وہ نبی بھی ہوگا اور اُمّتی بھی مگر کیا مریم کا بیٹا اُمّتی ہو سکتا ہے؟ کون ثابت کرے گا کہ اُس نے براہِ راست نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے درجۂ نبوت پایا تھا؟ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ ط وَاِنْ تَوَلَّوا فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ اور ہزار کوشش کی جائے اور تاویل کی جائے یہ بات بالکل غیر معقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی آنے والا ہے کہ جب لوگ نماز کیلئے مساجد کی طرف دوڑیں گے تو وہ کلیسیا کی طرف بھاگے گا اور جب لوگ قرآن شریف پڑھیں گے تو وہ انجیل کھول بیٹھے گا اور جب لوگ عبادت کے وقت بیت اللہ کی طرف مُنہ کریں گے تو وہ بیت المقدس کی طرف متوجہ ہوگا اور شراب پئے گا اور سؤر کا گوشت کھائے گا اور اسلام کے حلال و حرام کی کچھ پرواہ نہیں رکھے گا۔ کیا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اسلام کے لئے یہ مصیبت کا دِن بھی باقی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی بھی آئے گا کہ جو مستقل نبوت کی وجہ سے آپ کی ختم نبوت کی مُہر کوتوڑ دے گا اور آپ کی فضیلت خاتم الانبیاء ہونے کی چھین لے گا۔


حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کا مسئلہ عیسائیوں نے محض اپنے فائدہ کے لئے گھڑا تھا کیونکہ اُن کی پہلی آمد میں اُن کی خدائی کا کوئی نشان ظاہر نہ ہوا۔ ہر دفعہ مار کھاتے رہے۔ کمزوری دکھلاتے رہے۔ پس یہ عقیدہ پیش کیا گیا کہ آمد ثانی میں وہ خدائی کا جلوہ دکھائیں گے اور پہلی کسریں نکالیں گے تا اِس طرح پر پہلی آمد کے حالات کی پردہ پوشی کی جائے مگر اب وہ زمانہ آتا جاتا ہے کہ خود عیسائی ایسے عقائد سے منحرف ہوتے جاتے ہیں۔ مَیں یقین کرتا ہوں کہ جب اُن کی عقلیں ترقی کریں گی تو وہ بہت آسانی سے اِس عقیدے کو چھوڑ دیں گے۔ اور جیسا کہ بچہ پورا تیار ہو کر پھر رحم میں نہیں رہ سکتا اسی طرح وہ بھی مشیمۂ حجاب اور جہل سے باہر آجائیں گے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 32

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 32

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/32/mode/1up


اورؔ آپ کی پیروی سے نہیں بلکہ براہ راست مقامِ نبوّت حاصل رکھتا ہوگا اور اس کی عملی حالتیں شریعتِ محمدیہ کے مخالف ہونگی اورقرآن شریف کی صریح مخالفت کرکے لوگوں کو فتنہ میں ڈالے گا اور اسلام کی ہتک عزّت کا موجب ہوگا۔ یقیناًسمجھو کہ خدا ہر گز ایسا نہیں کرے گا۔*بے شک حدیثوں میں مسیح موعود کے ساتھ نبی کا نام موجود ہے مگر ساتھ اُس کے اُمّتی کا نام بھی تو موجود ہے۔ اور اگر موجود بھی نہ ہوتا تو مفاسد مذکورہ بالا پر نظر کرکے ماننا پڑتا کہ ہر گز ایسا ہو نہیں سکتا کہ کوئی مستقل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آوے۔ کیونکہ ایسے شخص کا آنا صریح طور پر ختم نبوت کے منافی ہے۔ اور یہ تاویل کہ پھر اُس کو اُمّتی بنایا جائے گا اور وہی نو مسلم نبی مسیح موعود کہلائے گا۔یہ طریق عزّتِ اسلام سے بہت بعید ہے۔ جس حالت میں حدیثوں سے ثابت ہے کہ اِسی اُمّت میں سے یہود پیدا ہوں گے تو افسوس کی بات ہے کہ یہود تو پیدا ہوں اِس اُمّت میں سے اور مسیح باہر سے آوے کیا ایک خدا ترس کیلئے یہ ایک مشکل بات ہے؟ کہ جیسا کہ اس کی عقل اس بات پر تسلّی پکڑتی ہے کہ اس اُمّت میں بعض لوگ ایسے پیدا ہوں گے جن کا نام یہود رکھا جائے گا ایسا ہی اِسی اُمّت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام عیسیٰ اور مسیح موعود رکھا جائے گا۔ کیا ضرورت ہے کہ حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُتارا جائے اور اس کی مستقل نبوّت کا جامہ اُتار کر اُمّتی بنایا جائے۔ اگر کہو کہ یہ کارروائی بطور سزا کے ہوگی کیونکہ اُن کی اُمّت نے اُن کو خدا بنایا تھا تو یہ جواب بھی بیہودہ ہے کیونکہ اس میں حضرت عیسیٰ کا کیا قصور ہے۔


یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ کا دوبارہ دنیا میں آنا اجماعی عقیدہ ہے یہ سراسر افترا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع صرف اِس آیت پر ہوا تھا کہ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ‌ؕ ۔۱؂ پھر بعد ان کے اُمّت میں طرح طرح کے فرقے پیدا ہو گئے چنانچہ معتزلہ اب تک حضرت عیسیٰ کی وفات کے قائل ہیں۔ اور بعض اکابر صوفیہ بھی ان کی موت کے قائل ہیں اور مسیح موعود کے ظہور سے پہلے اگر اُمّت میں سے کسی نے یہ خیال بھی کیا کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان پر کوئی گناہ نہیں صرف اجتہادی خطا ہے جو اسرائیلی نبیوں سے بھی بعض پیشگوئیوں کے سمجھنے میں ہوتی رہی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 33

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 33

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/33/mode/1up


میںؔ یہ باتیں کسی قیاس اور ظن سے نہیں کہتا بلکہ میں خدا تعالیٰ سے وحی پاکر کہتا ہوں اور میں اُس کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اُسی نے مجھے یہ اطلاع دی ہے۔ وقت میری گواہی دیتا ہے۔ خدا کے نشان میری گواہی دیتے ہیں۔

ماسوا اس کے جبکہ قرآن شریف سے قطعی طورپر حضرت عیسیٰ کا وفات پا جانا ثابت ہے تو پھر اُن کے دوبارہ آنے کا خیال بد یہی البطلان ہے۔ کیونکہ جو شخص آسمان پر مع جسم عنصری زندہ موجود ہی نہیں وہ کیونکر زمین پر دوبارہ آسکتا ہے۔

اگر کہو کہ کن آیات قرآن شریف سے قطعی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے تو میں نمونہ کے طور پر اس آیت کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں جو قرآن شریف میں ہے یعنی یہ کہ 3 ۱؂ الخ۔ اِس جگہ اگر توفّی کے معنی مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھانا تجویز کیا جائے تو یہ معنی تو بدیہی البطلان ہیں کیونکہ قرآن شریف کی انہی آیات سے ظاہر ہے کہ یہ سوال حضرت عیسیٰ سے قیامت کے دن ہوگا۔ پس اِس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ موت سے پہلے اس رفع جسمانی کی حالت میں ہی خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو جائیں گے اور پھر کبھی نہیں مریں گے کیونکہ قیامت کے بعد مَوت نہیں اور ایسا خیال ببداہت باطل ہے۔

علاوہ اس کے قیامت کے دن یہ جواب اُن کا کہ اُس روز سے کہ میں مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھایا گیا مجھے معلوم نہیں کہ میرے بعد میری اُمّت کا کیا حال ہوا۔ یہ اس عقیدہ کی رُو سے صریح دروغ بے فروغ ٹھہرتا ہے جبکہ یہ تجویز کیا جائے کہ وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میںآئیں گے۔ کیونکہ جو شخص دوبارہ دنیا میں آوے اور اپنی اُمّت کی مُشرکانہ حالت کو دیکھ لے بلکہ اُن سے لڑائیاں کرے اور اُن کی صلیب توڑے اور اُن کے خنزیر کو قتل کرے وہ کیونکر قیامت کے روز کہہ سکتا ہے کہ مجھے اپنی اُمّت کی کچھ بھی خبر نہیں۔

اور خود یہ دعوےٰ کہ توفّی کا لفظ جب حضرت عیسیٰ کی نسبت قرآن شریف میں آتا ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 34

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 34

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/34/mode/1up


تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ مع جسم آسمان پر اُٹھائے جانا۔ مگر دوسروں کے لئے یہ معنی نہیں ہوتے یہ دعویٰ بھی عجیب دعویٰ ہے گویا تمام دنیا کے لئے تو توفّیکے لفظ کے یہ معنی ہیں کہ قبض روح کرنا نہ قبض جسم۔ مگر حضرت عیسیٰ کے لئے خاص طور پر یہ معنی ہیں کہ مع جسم آسمان پر اُٹھا لینا۔ یہ معنی خوب ہیں جن سے ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حصہ نہیں ملا۔ اور تمام مخلوقات میں سے حضرت عیسیٰ کیلئے ہی یہ معنی مخصوص ہیں۔ اور اس بات پر زور دینا کہ اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میں آئیں گے یہ عجیب افتراء ہے جو سمجھ نہیں آتا۔ اگر اتفاق سے مراد صحابہ کا اتفاق ہے تو یہ اُن پر تہمت ہے اُن کی تو بَلا کو بھی اِس مستحدث عقیدہ کی خبر نہیں تھی کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میں آجائیں گے اور اگر اُن کا یہ عقیدہ ہوتا تو اس آیت کے مضمون پر رورو کر کیوں اتفاق کیا جاتا ۔کہ 33 ۱؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک انسان رسول تھے خدا تو نہیں تھے اور اُن سے پہلے سب رسول دنیا سے گذر گئے ہیں۔ پس اگر حضرت عیسیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک دنیا سے نہیں گذرے تھے اور اُن کو اُس وقت تک ملک الموت چُھو نہیں گیا تھا تو اس آیت کے سننے کے بعد کیونکر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عقیدہ سے رجوع کر لیا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ یہ آیت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُس دن تمام صحابہ کو مسجد نبوی میں پڑھ کر سنائی تھی جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی اور وہ پیر کا دن تھا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دفن نہیں کئے گئے تھے اور عائشہ صدیقہ کے گھر میں آپ کی میّت مطہر تھی کہ شدّتِ دردِ فراق کی وجہ سے بعض صحابہ کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں فوت نہیں ہوئے بلکہ غائب ہو گئے ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے اِس فتنہ کو خطرناک سمجھ کر اُسی وقت تمام صحابہ کو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 35

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 35

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/35/mode/1up


جمع کیا اور اتفاؔ ق حسنہ سے اُس دن کُل صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ میں موجود تھے تب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ مَیں نے سنا ہے کہ بعض ہمارے دوست ایسا ایسا خیال کرتے ہیں مگر سچ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور ہمارے لئے یہ کوئی خاص حادثہ نہیں ہے۔ اِس سے پہلے کوئی نبی نہیں گذرا جو فوت نہیں ہوا۔ پھر حضرت ابوبکر نے یہ آیت پڑھی 33 ۱؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسان رسول تھے خدا تو نہیں تھے۔* سو جیسے پہلے اِس سے سب رسول فوت ہو چکے ہیں آپ بھی فوت ہو گئے۔

تب اِس آیت کو سُن کر تمام صحابہ چشم پُر آب ہو گئے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔ اور اِس آیت نے اُن کے دلوں میں ایسی تاثیر کی کہ گویا اُسی روز نازل ہوئی تھی۔ چنانچہ بعد اس کے حسّان بن ثابت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ مرثیہ بنایا۔

کنت السَّواد لناظری

فعمی علیک الناظرٗ


مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ

فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ

یعنی تُو میری آنکھوں کی پُتلی تھا۔ میں تو تیری مَوت سے اندھا ہوگیا۔ اب بعد اس کے جو چاہے مَرے مجھے تو تیرے ہی مَرنے کا خوف تھا۔ اِس شعر میں حسّان بن ثابت نے تمام نبیوں کی موت کی طرف اشارہ کیا ہے گویا وہ کہتا ہے کہ ہمیں اِس کی کیا پروا ہے کہ موسیٰ مرگیا ہو یا عیسیٰ مر گیاہو ہمارا ماتم تو اِس نبی محبوب کیلئے ہے جو آج ہم سے علیحدہ ہو گیا اور آج ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہو گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اس غلط عقیدہ میں بھی مبتلا تھے کہ گویا حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میںآئیں گے مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آیت قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ‌


* جو شخص حضرت عیسٰیؑ کو آیت قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ‌ؕ سے باہر رکھتا ہے اُس کو اقرار

کرنا پڑے گا کہ عیسٰیؑ انسان نہیں ہے اور نیز ظاہر ہے کہ اس صورت میں حضرت ابوبکرؓ کا اس آیت سے استدلال صحیح نہیں ٹھہرتا کیونکہ جبکہ حضرت عیسٰیؑ آسمان پر زندہ مع جسم عنصری موجود ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو اِس آیت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کونسی تسلّی ہو سکتی تھی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 36

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 36

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/36/mode/1up


پیش کرکے یہ غلطی دور کر دی اور اسلام میں یہ پہلا اجماع تھا کہ سب نبی فوت ہو چکے ہیں۔

غرضؔ اِس مرثیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض کم تدبر کرنے والے صحابی جن کی درایت اچھی نہیں تھی (جیسے ابو ھریرہ) وہ اپنی غلط فہمی سے عیسیٰ موعود کے آنے کی پیشگوئی پر نظر ڈال کر یہ خیال کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ ہی آجائیں گے جیسا کہ ابتداء میں ابوہریرہ کو بھی یہی دھوکہ لگاہوا تھا اور اکثر باتوں میں ابو ہریرہ بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے دھوکوں میں پڑ جایا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک صحابی کے آگ میں پڑ نے کی پیشگوئی میں بھی اس کو یہی دھوکہ لگا تھا اور آیت333 ۱؂ کے ایسے اُلٹے معنی کرتا تھا جس سے سُننے والے کو ہنسی آتی تھی کیونکہ وہ اس آیت سے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ کی مَوت سے پہلے سب اُس پر ایمان لے آئیں گے حالانکہ دوسری قراء ت اس آیت میں بجائے قَبْلَ مَوْتِہٖ کے قَبْلَ مَوْتِھِمْ موجود ہے اور یہ عقیدہ کُھلے طور پر قرآن شریف کے مخالف ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ سب لوگ حضرت عیسیٰ کو قبول کر لیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:۔

33َ 33 ۲؂ یعنی اے عیسٰی مَیں تجھے مَوت دُوں گا اور پھر مَوت کے بعد مومنوں کی طرح اپنی طرف تجھے اُٹھاؤں گا اور پھر تمام تہمتوں سے تجھے بَری کروں گا اور پھر قیامت تک تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر غالب رکھوں گا اب ظاہر ہے کہ اگر قیامت سے پہلے تمام لوگ حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئیں گے تو پھر وہ کون سے مخالف ہیں جو قیامت تک رہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک اور مقام میں فرماتا ہے۔

33 ۳؂ یعنی یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک عداوت رہے گی پس ظاہر ہے کہ اگر تمام یہود قیامت سے پہلے ہی حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آویں گے تو قیامت تک عداوت رکھنے والا کون رہے گا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 37

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 37

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/37/mode/1up


ماسوا اس کے ایسا خیال کہ تمام یہودی حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئیں گے اس طور سے بھیؔ بیہودہ اور خلاف عقل ہے کہ یہ اعتقاد واقعات کے برخلاف ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کے زمانہ کو قریباً دو ۲۰۰۰ہزار برس گذرتا ہے اور کسی پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اس عرصہ میں کروڑہا یہودی حضرت عیسیٰ سے منکر اور اُن کو گالیاں دینے والے اور کافر ٹھہرانے والے دنیا سے گذر گئے ہیں۔ پھر یہ قول کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے کہ ہر ایک یہودی ان پر ایمان لے آئے گا۔ اس دوہزار برس کی ذرا میزان تو لگاؤ کہ کس قدر یہودی بے ایمانی کی حالت میں مر گئے کیا اُن کی نسبت رضی اللہ عنہم کہہ سکتے ہیں۔

غرض تمام صحابہ کا اجماع حضرت عیسیٰ کی موت پر تھا بلکہ تمام انبیاء کی موت پر اجماع ہو گیا تھا اور یہی پہلا اجماع تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا۔ اسی اجماع کی وجہ سے تمام صحابہ حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل تھے اور اسی وجہ سے حسّان بن ثابت نے مذکورہ بالا مرثیہ بنایا تھا جس کا ترجمہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تُو تو میری آنکھوں کی پُتلی تھا مَیں تو تیرے مَرنے سے اندھا ہو گیا اب تیرے بعد جو شخص چاہے مرے۔ عیسیٰ ہو یا موسیٰ مجھے تو تیرے ہی مَرنے کا خوف تھا۔ اور درحقیقت صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے۔ اور ان کو کسی طرح یہ بات گوارا نہ تھی کہ عیسیٰ جس کا وجود شرک عظیم کی جڑ قرار دیا گیا ہے زندہ ہو اور آپ فوت ہو جائیں۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اُن کو یہ معلوم ہوتا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر مع جسم عنصری زندہ بیٹھے ہیں اور اُن کا برگزیدہ نبی فوت ہو گیا تو وہ مارے غم کے مر جاتے کیونکہ ان کو ہر گز اِس بات کی برداشت نہ تھی کہ کوئی اور نبی زندہ ہو اور اُن کا پیارا نبی قبر میں داخل ہو جائے۔ اللّٰہم صلِّ علٰی محمد و آلہٖ واصحابہٖ اجمعین

اور خدا تعالیٰ کے اِس کلام سے کہ 3 ۱؂ یہمعنی نکالنا کہ حضرت عیسیٰ مع جسم عنصری دوسرے آسمان پر حضرت یحیٰی کے پاس جا بیٹھے کس قدر نافہمی اور نادانی ہے۔

کیا خدائے عزّوجلّ دوسرے آسمان پر بیٹھا ہوا ہے اور کیا قرآن میں رَفع اِلی اللّٰہ کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 38

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 38

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/38/mode/1up


معنی کسی اور محل میں بھی یہ آئے ہیں کہ آسمان پر مع جسم عنصری اُٹھا لینا اورؔ کیا قرآن شریف میں اِس کی کوئی نظیر ہے کہ جسم عنصری بھی آسمان کی طرف اُٹھایا جاتا ہے؟ اور اس آیت کے مشابہ دوسری آیت بھی قرآن شریف میں موجود ہے اور وہ یہ کہ:۔

33 ۱؂۔ پس کیا اِس کے معنی یہ ہیں کہ اے نفسِ مطمئنہ مع جسم عنصری دوسرے آسمان پر چلا جا! اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بلعم باعور کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی طرف اُس کا رفع چاہا مگر وہ زمین کی طرف جُھک گیا کیا اِس آیت کے بھی یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ بلعم باعور کو مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھانا چاہتا تھا مگر بلعم نے زمین پر رہنا ہی پسند کیا۔ افسوس کس قدر قرآن شریف کی تحریف کی جاتی ہے۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں 3 ۲؂ موجود ہے اِس سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں۔ مگر ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ کسی شخص کا نہ مقتول ہونا نہ مصلوب ہونا اِس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھایا گیا ہو۔ اگلی آیت میں صریح یہ لفظ موجود ہیں کہ 3 ۳؂ یعنی یہودی قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ مگر اُن کو شُبہ میں ڈالا گیا کہ ہم نے قتل کر دیا ہے۔ پس شُبہ میں ڈالنے کے لئے اِس بات کی کیا ضرورت تھی کہ کسی اور مومن کو مصلوب کرکے *** بنایا جائے۔ * یاخود یہودیوں میں سے کسی کو حضرت عیسیٰ کی شکل بنا کر صلیب پر چڑھایا جاوے۔ کیونکہ اس صورت میں ایسا شخص اپنے تئیں حضرت عیسیٰ کا دشمن ظاہر کرکے اور اپنے اہل و عیال کے پتے اور نشان دے کر ایک دم میں مَخلصی حاصل کر سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ عیسیٰ نے جادُو سے مجھے


* یہ عجیب بات ہے کہ اسلام کے ائمہء تعبیرجہاں حضرت عیسیٰ کی رویت کی تعبیر کرتے ہیں وہاں

یہ لکھتے ہیں کہ جو شخص حضرت عیسیٰ کو خواب میں دیکھے وہ کسی بَلا سے نجات پاکر کسی اور ملک کی طرف چلا جائے گا اور ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف ہجرت کرے گا۔ یہ نہیں لکھتے کہ وہ آسمان پر چڑھ جائے گا۔ دیکھو کتاب تعطیر الانام اور دوسرے ائمہ کی کتابیں پس عقلمند پر حقیقت ظاہر ہونے کے لئے یہ بھی ایک پہلو ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 39

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 39

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/39/mode/1up


اپنی شکل پر بنادیا ہے یہ کس قدر مجنونانہ تو ہمات ہیں۔ کیوں لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ کے معنی یہ نہیں کرتے کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔ مگر غشی کی حالت اُن پر طاری ہو گئی تھی بعد میںؔ دو تین روز تک ہوش میں آگئے اور مرہم عیسیٰ کے استعمال سے (جو آج تک صدہا طبّی کتابوں میں موجود ہے جو حضرت عیسیٰ کیلئے بنائی گئی تھی) اُن کے زخم بھی اچھے ہو گئے۔

پھر ایک اور بدقسمتی ہے کہ وہ ان آیتوں کے شان نزول کو نہیں دیکھتے۔ قرآن شریف یہود و نصاریٰ کے اختلافات دور کرنے کے لئے بطور حَکم کے تھا تا اُن کے اختلافات کا فیصلہ کرے اور اُس کا فرض تھا کہ اُن کے متنازعہ فیہ امور کا فیصلہ کرتا پس منجملہ متنازعہ فیہ امور کے ایک یہ امر بھی متنازعہ فیہ تھا کہ یہود کہتے تھے کہ ہماری توریت میں لکھا ہے کہ جو کاٹھ پر لٹکایا جاوے وہ *** ہوتا ہے اُس کی روح مَرنے کے بعد خدا کی طرف نہیں جاتی۔ پس چونکہ حضرت عیسیٰ صلیب پر مر گئے اس لئے وہ خدا کی طرف نہیں گئے اور آسمان کے دروازے اُن کے لئے نہیں کھولے گئے۔ اور عیسائیوں نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عیسائی تھے اپنا یہ عقیدہ مشہور کیا تھا چنانچہ آج تک وہی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ صلیب پر جان دے کر *** تو بن گئے مگر یہ *** اوروں کو نجات دینے کے لئے انہوں نے خود اپنے سر پر لے لی تھی اور آخر وہ نہ جسم عنصری کے ساتھ بلکہ ایک نئے اور ایک جلالی جسم کے ساتھ جو خُون اور گوشت اور ہڈی اور زوال پذیر ہونے والے مادہ سے پاک تھا خدا کی طرف اُٹھائے گئے۔* اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اِن دونوں متخاصمین کی نسبت یہ فیصلہ دیا کہ یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے کہ عیسیٰ کی صلیب پر جان نکلی یا وہ قتل ہوا تا اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ وہ بموجب حکم توریت ***


* اگر آیۃ 3کے یہ معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے گئے تو ہمیں کوئی دکھلائے کہ قرآن شریف میں وہ آیۃ کہاں ہے جو امر متنازعہ فیہ کا فیصلہ کرتی ہے یعنی جس میںیہ لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا بعد موت مومنوں کی طرح خدا کی طرف رفع ہوگا اور وہ مَرنے کے بعد یحیٰی وغیرہ انبیاء کے ساتھ جا ملیں گے کیا نعوذ باللہ خدا کو یہ دھوکہ لگا کہ یہود کی طرف سے انکار تو تھا اُن کے رفع روحانی کا جو مومن کا بعد موت ہوتا ہے اور خدا نے کچھ اور کا اور سمجھ لیا۔ نعوذ باللّٰہ من ھٰذا الافتراء علی اللّٰہ سبحان اللّٰہ تبارک و تعالٰی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 40

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 40

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/40/mode/1up


ہے بلکہ وہ صلیبی موت سے بچایا گیا اور مومنوں کی طرح اُس کا خدا کی طرف رفع ہؤا اور جیسا کہ ہر ایک مومن ایک جلالی جسم خدا سے پاکر خدائے عزّوجلّ کی طرف اُٹھایا جاتا ہے وہ بھی اُٹھائے گئے اور اُن نبیوں میں جا ملے جو اُن سے پہلے گذر چکے تھے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بیان سے سمجھا جاتا ہے کہ جو آپ نے معراج سے واپس آکر بیان فرمایا کہ جیسے اور نبیوں کے مقدّس اجسام دیکھے ویسا ہی حضرت عیسیٰ کو بھی اُنہیں کے رنگ میں پایا اور اُن کے ساتھ پایا کوئی نرالا جسمؔ نہیں دیکھا۔

پس یہ مسئلہ کیسا صاف اور صریح تھا کہ یہودیوں کا انکار محض رفع روحانی سے تھا کیونکہ وہی رفع ہے جو *** کے مفہوم کے برخلاف ہے مگر مسلمانوں نے محض اپنی ناواقفیت کی وجہ سے رفع روحانی کو رفع جسمانی بنادیا۔ یہودیوں کا ہر گز یہ اعتقاد نہیں کہ جو شخص مع جسم عنصری آسمان پر نہ جاوے وہ مومن نہیں بلکہ وہ تو آج تک اِسی بات پر زور دیتے ہیں کہ جس کا رفع روحانی نہ ہو اور اُس کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں وہ مومن نہیں ہوتا جیسا کہ قرآن شریف بھی فرماتا ہے 3 ۱؂ یعنی کافروں کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ مگر مومنوں کیلئے فرماتا ہے ۔ 3 ۲؂۔ یعنی مومنوں کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے۔ پس یہودیوں کا یہی جھگڑا تھا کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کافر ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف اُن کا رفع نہیں ہوا۔ یہودی اب تک زندہ ہیں مرتو نہیں گئے۔ اُن کو پوچھ کر دیکھ لو کہ جو صلیب پر لٹکایا گیا کیا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ مع جسم عنصری آسمان پر نہیں جاتا اور اُس کے جسم کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا۔ جہالت بھی ایک عجیب بلا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی نافہمی سے کہاں کی بات کہاں تک پہنچا دی اور ایک فوت شدہ انسان کے دوبارہ آنے کے منتظر ہو گئے حالانکہ حدیثوں میں حضرت عیسیٰ کی عمر ایک۱۲۰ سو بیس بر س مقرر ہو چکی ہے۔ کیا وہ ایک۱۲۰ سو بیس برس اب تک نہیں گذرے۔

ایسا ہی انہوں نے اپنی نافہمی سے قرآن شریف اور احادیث میں تناقض پیدا کر دیا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 41

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 41

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/41/mode/1up


کیونکہ قرآن شریف اُس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجّال ہے شیطان قرار دیتا ہے جیسا کہ وہ شیطان کی طرف سے حکایت کرکے فرماتا ہے۔ 333۱؂۔ یعنی شیطان نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ میں اُس وقت تک ہلاک نہ کیا جاؤں جب تک کہ وہ مُردے جن کے دل مر گئے ہیں دوبارہ زندہ ہوں۔ خدا نے کہا ؔ کہ میں نے تجھے اُس وقت تک مہلت دی۔ سو وہ دجّال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہی ہے جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا۔ جیسا کہ دانیال نے بھی یہی لکھا ہے اور بعض حدیثیں بھی یہی کہتی ہیں۔ اور چونکہ مظہر اتم شیطان کا نصر انیت ہے اِس لئے سورۃ فاتحہ میں دجّال کا تو کہیں ذکر نہیں مگر نصاریٰ کے شر سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا حکم ہے۔ اگر دجّال کوئی الگ مفسد ہوتا تو قرآن شریف میں بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا 3۲؂ یہ فرمانا چاہئے تھا کہ وَلَا الدَّجَّال۔ اور آیت اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُونَ سے مُراد جسمانی بعث نہیں کیونکہ شیطان صرف اُس وقت تک زندہ ہے جب تک کہ بنی آدم زندہ ہیں۔ ہاں شیطان اپنے طور سے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ بذریعہ اپنے مظاہر کے کرتا ہے سو وہ مظاہر یہی انسان کو خدا بنانے والے ہیں اور چونکہ وہ گروہ ہے اِس لئے اُس کا نام دجّال رکھا گیا ہے۔ کیونکہ عربی زبان میں دجّال گروہ کو بھی کہتے ہیں۔ اور اگر دجّال کو نصرانیت کے گمراہ واعظوں سے الگ سمجھا جائے تو ایک محذور لازم آتا ہے وہ یہ کہ جن حدیثوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ آخری دنوں میں دجّال تمام زمین پر محیط ہو جائے گا انہیں حدیثوں سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ آخری دنوں میں کلیسیا کی طاقت تمام مذاہب پر غالب آجائے گی۔ پس یہ تناقض بجز اس کے کیونکر دور ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔

علاوہ اس کے خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے نصرانیت کے فتنہ کی نسبت قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں مگر دجّال جو بقول ہمارے مخالفوں کے بڑے زور و شور سے خدائی کا دعویٰ کرے گا اور دنیا کے تمام فتنوں سے اُس کا فتنہ بڑا ہوگا۔ اس کی نسبت قرآن شریف میں اتنا بھی ذِکر نہیں کہ اس کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 42

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 42

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/42/mode/1up


فتنہ سے ایک چھوٹا پہاڑ بھی پھٹ سکتا ہے۔ تعجب ہے کہ قرآن شریف تو عیسائیت کے فتنہ کو سب سے بڑا ٹھہراوے اور ہمارے مخالف کسی اور دجّال کے لئے شور مچاویں۔

اور حضرات عیسائیوں کی غلطی کو بھی دیکھو کہ ایک طرف تو حضرت عیسیٰ کو خدا بنا دیا اور دوسری طرف اُس کے ملعون ہونے کا بھی اعتقاد ہے حالانکہ تمام اہلِ لُغت کے اتفاق سے ***ؔ ایک روحانی امر ہے اور ملعون راندہ درگاہِ الٰہی کو کہتے ہیں یعنی جس کا خدا کی طرف رفع نہ ہو اور جس کے دل کا کوئی تعلق محبت اور اطاعت کا خدا سے باقی نہ رہے اور خدا اُس سے بیزار ہو جائے اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے اِسی لئے شیطان کا نام لعین ہے۔ پس کیا کوئی عقلمند تجویز کر سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے دل کا تعلق خدا تعالیٰ سے بالکل ٹوٹ گیا تھا اور خدا تعالیٰ اُن سے بیزار ہو گیا تھا۔ اور عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو حضرات عیسائیاں انجیلوں کے حوالہ سے یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے اِس واقعہ کو یونس ؑ کے واقعہ اور اسحاق ؑ کے واقعہ سے مشابہت تھی اور پھر آپ ہی اس مشابہت کے برخلاف عقیدہ رکھتے ہیں کیا وہ ہمیں بتلا سکتے ہیں کہ یونس ؑ نبی مچھلی کے پیٹ میں مُردہ ہونے کی حالت میں داخل ہوا تھا۔ اور مُردہ ہونے کی حالت میں اس کے اندر دو یا تین دن تک رہا۔ پس یونس ؑ سے یسوع کی مشابہت کیا ہوئی زندہ کو مُردہ سے کیا مشابہت؟ اور کیا حضرات عیسائیاں ہمیں بتلا سکتے ہیں کہ اسحٰق حقیقت میں ذبح ہو کر پھر زندہ کیا گیا تھا اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یسوع کے واقعہ کو اسحٰق کے واقعہ سے کیا مشابہت۔

پھر یسوع مسیح انجیل میں کہتا ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانہ جتنا بھی ایمان ہو تو تم اگر پہاڑ کو یہ کہو کہ یہاں سے وہاں چلا جا تو ایسا ہی ہوگا مگر یسوع کی تمام دعا جو اپنی جان بچانے کے لئے کی گئی تھی بیکار گئی۔ اب دیکھو کہ انجیل کی رُو سے یسوع کے ایمان کا کیا حال ہے یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ یسوع کی یہ دعا تھی کہ مَیں صلیب پر مر تو جاؤں مگر گھبراہٹ نہ ہو۔ کیا باغ والی دعا صرف گھبراہٹ دور کرنے کے لئے تھی؟ اگر یہی بات تھی تو صلیب پر لٹکائے جانے کے وقت کیوں کہا تھا کہ ایلی ایلی لما سبقتنی۔ کیا یہ فقرہ دلالت کرتا ہے کہ اس وقت گھبراہٹ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 43

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 43

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/43/mode/1up


دور ہو چکی تھی بناوٹ کی بات کہاں تک چل سکتی ہے۔ یسوع کی دعا میں صاف یہ لفظ ہیں کہ یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ سو خدا نے وہ پیا لہ ٹال دیا اور ایسے اسباب پیدا کر دئیے کہ جو جان بچ جانے کے لئے کافی تھے جیسے یہ امر کہ یسوع مسیح معمول کے مطابق چھ سات دن صلیب پر نہیںؔ رکھا گیا بلکہ اُسی وقت اُتارا گیا اور جیسے کہ یہ امر کہ اُس کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں جس طرح کہ اور لوگوں کی ہمیشہ توڑی جاتی تھیں۔ اور یہ خلاف قیاس امر ہے کہ اس قدر خفیف سی تکلیف سے جان نکل جائے۔

ہمارے مخالفوں کا یہ اعتقاد کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے محفوظ رہ کر آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ گئے۔ یہ ایسا اعتقاد ہے جس سے قرآن شریف سخت اعتراض کا نشانہ ٹھہرتا ہے کیونکہ قرآن شریف ہر ایک جگہ عیسائیوں کے ایسے دعاوی کو جن سے حضرت عیسیٰ کی خدائی ثابت کی جاتی ہے ردّ کرتا ہے جیسا کہ قرآن شریف نے حضرت عیسیٰ کا بغیر باپ پیدا ہونا (جس سے اُن کی خدائی پر دلیل پیش کی جاتی تھی) یہ کہہ کر ردّ کیا کہ3 3۔۱؂ پھر اگر حضرت عیسیٰ درحقیقت مع جسمِ عنصری آسمان پر چڑھ گئے تھے اور پھرنازل ہونے والے ہیں تو یہ تو اُن کی ایسی خصوصیت تھی کہ بے باپ پیدا ہونے سے زیادہ دھوکہ میں ڈالتی تھی۔ پس جواب دو کہ کہاں قرآن شریف نے اس کی کوئی نظیر پیش کرکے اِس کو ردّ کیا ہے کیا خدا تعالیٰ اِس خصوصیت کے توڑنے سے عاجز رہا۔پھر ہم بیان سابق کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جس بات پر اجماعی طور سے عقیدہ تھا وہ یہی بات تھی کہ تمام انبیاء علیہم السلام فوت ہو چکے ہیں اور کوئی زندہ نہیں اسی عقیدہ پر تمام صحابہؓ فوت ہوئے اور یہ عقیدہ قرآن شریف کی نصصریح کے مطابق تھا۔

پھر بعد صحابہ کے یہ دعویٰ کرنا کہ کسی وقت اِس اُمت کا اِس بات پر اجماع ہوا تھا کہ*


* یاد رہے کہ یہ بات بھی کسی آیت قطعیۃ الدلالت یا حدیث صحیح مرفوع متصل سے ثابت نہیں کہ حضرت عیسیٰ درحقیقت مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے گئے تھے۔ پس جس کا اُٹھایا جانا ثابت نہیں اس کی دوبارہ آمد کی توقع رکھنا محض طمع خام ہے۔ اوّل حضرت عیسیٰ کا آسمان پر جانا کسی آیت قطعیۃ الدلالت یا حدیث صحیح مرفوع متّصل سے ثابت کرو ورنہ بے اصل مخالفت تقویٰ سے بعید ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 44

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 44

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/44/mode/1up


حضرت عیسیٰ آسمان پر مع جسم عنصری زندہ موجود ہیں اِس سے زیادہ کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ اور ایسے شخص پر امام احمد حنبل صاحب کا یہ قول صادق آتا ہے کہ جو شخص بعد صحابہ کے کسی مسئلہ میں اجماع کا دعویٰ کرے وہ کذّاب ہے۔

بلکہؔ اصل بات یہ ہے کہ قرونِ ثلاثہ کے بعد اُمّت مرحومہ تہتّر فرقوں پرمنقسم ہو گئی اور صدہا مختلف قسم کے عقائد ایک دوسرے کے مخالف اُن میں پھیل گئے یہاں تک کہ یہ عقائد کہ مہدی ظاہر ہوگا اور مسیح آئے گا اِن میں بھی ایک بات پر متفق نہ رہے۔ چنانچہ شیعوں کا مہدی تو ایک غار میں پوشیدہ ہے جس کے پاس اصل قرآن شریف ہے وہ اُس وقت ظاہر ہوگا جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی نئے سرے زندہ کئے جاویں گے اور وہ اُن سے غصب خلافت کا انتقام لے گا۔ اور سُنّیوں کا مہدی بھی بقول اُن کے قطعی طور پر کسی خاندان میں سے پیدا ہونے والا نہیں اور نہ قطعی طور پر عیسیٰ کے زمانہ میں ظاہر ہونے والا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ بنی فاطمہ میں سے پیدا ہوگا۔ اور بعض کا قول ہے کہ بنی عباس میں سے ہوگا۔ اور بعض کا بموجب ایک حدیث کے یہ خیال ہے کہ اُمّت میں سے ایک آدمی ہے۔ پھر بعض کہتے ہیں کہ مہدی کا آنا وسط زمانہ میں ضرور ہے اور مسیح موعود بعد اس کے آئے گا۔ اور اس پر احادیث پیش کرتے ہیں۔ اور بعض کا یہ قول ہے کہ مسیح اور مہدی دو جُدا جُدا آدمی نہیں بلکہ وہی مسیح مہدی ہے۔ اور اِس قول پر لامہدی الّا عیسٰی کی حدیث پیش کرتے ہیں۔ پھر دجّال کی نسبت بعض کا خیال ہے کہ ابن صیّاد ہی دجّال*ہے اور وہ مخفی ہے اخیر زمانہ میں ظاہر ہوگا حالانکہ وہ بے چارہ مسلمان ہو چکا اور اس کی موت اسلام پر ہوئی اور مسلمانوں نے اُس کا جنازہ پڑھا۔ اور بعض کا قول ہے کہ دجّال کلیسیا میں قید ہے یعنی کسی گرجا میں محبوس ہے اور آخر اسی میں سے نکلے گا۔ یہ آخری قول تو صحیح تھا مگر افسوس کہ اس کے معنی باوجود واضح ہونے کے بگاڑ دئے گئے۔ اِس میں کیا شک ہے کہ دجّال جس سے مراد عیسائیت کا بھوت ہے ایک مُدّت تک گرجا میں قید رہا ہے اور اپنے دجّالی تصرّفات سے رُکا رہا ہے مگر


* ابن صیّاد کا حج کرنا بھی ثابت ہے اور مسلمان بھی تھا مگر باوجود حج کرنے اور مسلمان ہونے

کے دجّال کے نام سے بچ نہ سکا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 45

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 45

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/45/mode/1up


اب آخری زمانہ میں اس نے قید سے پوری رہائی پائی ہے اور اُس کی مُشکیں کھولی گئی ہیں تا جو جو حملے کرنا اُس کی تقدیر میں ہے کر گذرے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ دجّال نوع انسان میں سے نہیں بلکہ شیطان کا نام ہے۔* اور بعض حضرت عیسیٰ کی نسبت خیال رکھتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہے اور بعض فرقے مسلمانوں کے جنہیں معتزلہ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل ہیں اور بعض صُوفیوں کا قدیمؔ سے یہ مذہب ہے کہ مسیح آنے والے سے مراد کوئی اُمّتی انسان ہے کہ جو اِسی اُمّت میں سے پیدا ہوگا۔ اب ذرا غور کرکے دیکھ لو کہ مسیح اور مہدی اور دجّال کے بارے میں کس قدر اس اُمّت میں اختلاف موجود ہے اور بموجب آیت 3۱؂ ہر ایک اپنے عقیدہ کی نسبت اجماع کا دعویٰ کر رہا ہے پس اصل بات یہ ہے کہ جب کسی شریعت میں بہت سے اختلاف پیدا ہو جائیں تو وہی اختلافات طبعًا چاہتے ہیں کہ اُن کے تصفیہ کے لئے کوئی شخص خدا کی طرف سے آوے کیونکہ یہی قدیم سے سُنّت اللہ ہے۔ جب یہودیوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے تو اُن کے لئے حضرت عیسیٰ حَکَمْ بن کر آئے۔ اور جب عیسائیوں اور یہودیوں کے باہمی تنازعات بڑھ گئے تو اُن کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے حَکَمْ مقرر ہو کر مبعوث ہوئے۔

اب اِس زمانہ میں دنیا اختلافات سے بھر گئی۔ ایک طرف یہودی کچھ کہتے ہیں اور عیسائی کچھ ظاہر کرتے ہیں اور اُمّتِ محمدیہ میں الگ باہمی اختلافات ہیں۔ اور دوسرے مشرکین سب کے برخلاف رائیں ظاہر کرتے ہیں اور اس قدر نئے مذاہب اور نئے عقائد پیدا ہو گئے ہیں کہ گویا ہر ایک انسان ایک خاص مذہب رکھتا ہے۔ اِس لئے بموجب سُنّت اللہ کے ضروری تھا کہ


* اِس شیطان کا نام دوسرے لفظوں میں عیسائیت کا بھوت ہے یہ بھوت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم

کے زمانہ میں عیسائی گرجا میں قید تھا اور صرف جسّاسہ کے ذریعہ سے اسلامی اخبار معلوم کرتا تھا۔ پھر قرون ثلاثہ کے بعد بموجب خبر انبیاء علیہم السلام کے اِس بھوت نے رہائی پائی اور ہرروز اس کی طاقت بڑھتی گئی یہاں تک کہ تیرھویں صدی ہجری میں بڑے زور سے اُس نے خروج کیا اِسی بھُوت کا نام دجّال ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے اور اسی بھوت سے خدا تعالیٰ نے سُورۃ فاتحہ کے اخیر میں 3 کی دُعا میں ڈرایا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 46

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 46

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/46/mode/1up


ان سب اختلافات کا تصفیہ کرنے کے لئے کوئی حَکَمْ آتا۔ سو اسی حَکَمْ کا نام مسیح موعود اور مہدی مسعود رکھا گیا یعنی باعتبار خارجی نزاعوں کے تصفیہ کے اس کا نام مسیح ٹھہرا اور باعتبار اندرونی جھگڑوں کے فیصلہ کرنے کے اس کو مہدی معہود کرکے پکارا گیا۔ اگرچہ اس بارے میں سُنّت اللہ اس قدر متواتر تھی کہ کچھ ضرور نہ تھا کہ حدیثوں کے ذریعہ سے یہ ظاہر کیا جاتا کہ ایک شخص حَکَمْ ہو کر آئے گا جس کا نام مسیح ہوگا لیکن حدیثوں میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ وہ مسیح موعود جو اِسی اُمّت میں سے ہوگا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حَکَمْ ہو گایعنی جس قدر اختلافات داخلی اور خارجی موجود ہیں اُن کو دور کرنے کے لئے خدا اُسے بھیجے گا۔ اور وہی عقیدہ سچا ہوگا جس پر وہ قائم کیا جائے گا۔ کیونکہ خدا اُسے راستی پر قائم کرے گا اور وہ جو کچھ کہے گا بصیرت سے کہے گا اور کسی فرقہ کا حق نہیں ہوگا کہ اپنے عقیدہ کےؔ اختلاف کی وجہ سے اس سے بحث کرے کیونکہ اُس زمانہ میں مختلف عقائد کے باعث منقولی مسائل جن کی قرآن شریف میں تصریح نہیں مشتبہ ہو جائیں گے اور بباعث کثرت اختلافات تمام اندرونی طور پر جھگڑنے والے یا بیرونی طور پر اختلاف کرنے والے ایک حَکَمْ کے محتاج ہوں گے جو آسمانی شہادت سے اپنی سچائی ظاہر کرے گا جیسا کہ حضرت عیسیٰ کے وقت میں ہوا اور پھر بعد اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوا سو آخری موعود کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوگا۔

اِس جگہ اس سُنّت اللہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کوئی پیشگوئی کسی عظیم الشان مرسل کے آنے کے لئے ہوتی ہے اس میں ضرور بعض لوگوں کے لئے ایک ابتلا بھی مخفی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ کے لئے یہود کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 47

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 47

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/47/mode/1up

کتابوں میں پیشینگوئی کی گئی تھی کہ وہ اُس وقت آئے گا جبکہ اِلیاس نبی دوبارہ آسمان سے نازل ہوگا۔ یہ پیشگوئی ملاکی نبی کی کتاب میں اب تک موجود ہے۔ پس یہ پیشگوئی یہودیوں کے لئے بڑی ٹھوکر کا باعث ہوئی اور وہ اب تک منتظر ہیں کہ اِلیاس نبی آسمان سے نازل ہوگا اور ضرور ہے کہ وہ پہلے نازل ہو اور پھر اُن کا سچا مسیح آئے گا مگر اب تک نہ اِلیاس دوبارہ زمین پر نازل ہوا اور نہ ایسا مسیح آیا جو اس شرط کو پوری کرتا۔

اِسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت توریت میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ یہودیوں کے

خاندان یعنی ابراہیم کی اولاد میں سے پیدا ہوں گے اور انہیں میں سے اور انہیں کے بھائیوں میں سے اُن کا ظہور ہوگا اور تمام نبیوں نے جو بنی اسرائیل میں آتے رہے اِس پیشگوئی کے یہی معنے سمجھے تھے کہ وہ آخرالزمان کانبی بنی اسرائیل میں سے پیدا ہوگا مگر آخر وہ نبی بنی اسمٰعیل میں سے پیدا ہو گیا اور یہ امر یہودیوں کیلئے سخت ٹھوکر کا باعث ہوا اگر توریت میں صریح طور پر یہ الفاظ ہوتے کہ وہ نبی بنی اسمٰعیل میں سے آئے گا اور اُس کا مولد مکّہ ہوگا اور اُس کا نام مُحَمَّد ہوگا صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس کے باپ کا نام عبد اللہ ہوگا تو یہ فتنہ یہودیوں میں ہرگز نہ ہوتا۔

پس جب کہ اِس امر کے لئے دو۲ مثالیں موجود ہیں کہ ایسی پیشگوئیوں میں خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں کا کچھ ابتلا بھی منظور ہوتا ہے تو پھر تعجب کہ کس طرح ہمارے مخالف باوجود بہت سے اختلافاؔ ت کے جو مسیح موعود کے بارے میں ہر ایک فرقہ کی حدیثوں میں پائے جاتے ہیں اور بالاتفاق اس کو اُمتی بھی قرار دیا گیا ہے اِس بات پر مطمئن ہیں کہ ضرور مسیح آسمان سے ہی نازل ہوگا حالانکہ آسمان سے نازل ہونا خود غیر معقول اور خلاف نص قرآن ہے*۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ33 ۔۱؂ پس اگر بشر کے جسم عنصری کا آسمان پر چڑھانا عادت اللہ میں داخل تھا تو اِس جگہ کفار قریش کو کیوں انکار کے ساتھ جواب دیا گیا کیا عیسیٰ بشر نہیں تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں۔ اور کیا خدا تعالیٰ کو حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھانے کے وقت وہ وعدہ یاد نہ رہا کہ 33۲؂ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمان پر چڑھنے کا جب سوال کیا گیا تو وہ وعدہ یاد آگیا۔ اور جس کو علم کتاب اللہ ہے وہ خوب جانتا ہے کہ قرآن شریف نے اپنے قول سے حضرت عیسٰی کی وفات کی گواہی دیدی ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے یعنی اپنی رؤیت کے ساتھ اِسی شہادت کو ادا کر دیا


* کسی حدیث صحیح مرفوع متصل سے ثابت نہیں کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہوگارہا نزول کا لفظ سو وہ اکرام اور اعزاز کے لئے آتا ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ فلاں لشکر فلاں جگہ اُترا ہے اِسی لئے نزیل مسافر کو کہتے ہیں پس صرف نزول کے لفظ سے آسمان سمجھ لینا پر لے درجہ کی ناسمجھی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 48

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 48

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/48/mode/1up


ہے یعنی بیان کر دیا ہے کہ آپ نے حضرت مسیح کو وفات شدہ انبیاء کی جماعت میں دیکھا ہے پھرباوجود اِن دو گواہیوں کے تیسری گواہی خدا سے الہام پاکر میری ہے۔ اگر میرے لئے خدا کے نشان ظاہر نہیں ہوئے اور آسمان اور زمین نے میری گواہی نہیں دی تو مَیں جھوٹا ہوں لیکن اگر میرے لئے خدا کے نشان ظاہر ہوئے ہیں اور نیز زمانہ نے میری ضرورت کو ظاہر کر دیا ہے تو میرا انکار تیز تلوار کی دھار پر ہاتھ مارنا ہے۔

میرے ہی زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہوا۔ میرے ہی زمانہ میں ملک پر موافق احادیث صحیحہ اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں کے طاعون آئی۔ اور میرے ہی زمانہ میں نئی سواری یعنی ریل جاری ہوئی۔ اور میرے ہی زمانہ میں میری پیشگوئیوں کے مطابق خوفناک زلزلے آئے تو پھر کیا تقویٰ کا مقتضانہ تھا کہ میری تکذیب پر دلیری نہ کی جاتی؟

دیکھو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزاروں نشان میری تصدیق کے ظاہر ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں اور آئندہ ہوں گے اگریہ انسان کا منصوبہ ہوتا تو اِس قدر تائید اور نصرت اسؔ کی ہرگز نہ ہوتی اور یہ امر انصاف اور ایمان کے برخلاف ہے کہ ہزاروں نشانوں میں سے جو ظہور میں آچکے صرف ایک یادو امر لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے پیش کرنا کہ فلاں فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اَے نادانو! اور عقل کے اندھو! اور انصاف اور دیانت سے دور رہنے والو! ہزارہا پیشگوئیوں میں سے اگر ایک یا دو پیشگوئیوں کا پورا ہونا تمہاری سمجھ میں نہیں آسکا تو کیا تم اِس عذر سے خدا تعالیٰ کے سامنے معذور ٹھہر جاؤ گے۔* توبہ کرو کہ خدا کے دن نزدیک ہیں اور وہ نشان ظاہر ہونے والے ہیں جو زمین کو ہلادیں گے۔


* اگر خدا تعالیٰ کے نشانوں کو جو میری تائید میں ظہور میں آچکے ہیں آج کے دن تک شمار کیا جائے تو وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے پھر اگر اس قدر نشانوں میں سے دو تین نشان کسی مخالف کی نظر میں مشتبہ ہیں تو اُن کی نسبت شور مچانا اور اس قدر نشانوں سے فائدہ نہ اُٹھانا کیا یہی ان لوگوں کا تقویٰ ہے کیا انبیاء کی پیشگوئیوں میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی؟منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 49

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 49

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/49/mode/1up


یہ تو خدا کے نشان ہیں جو مَیں پیش کرتا ہوں۔ مگر تم سوچو کہ اس مخالفت میں تمہارے ہاتھ میں کونسی دلیل ہے بجز اِس کے کہ ایسی حدیثیں پیش کرتے ہو جن کے مخالف قرآن شریف گواہی دیتا ہے اور جن کے مخالف حدیثیں بھی موجود ہیں اور جن کے مخالف واقعات اپنا چہرہ دکھلا رہے ہیں۔ وہ دجّال کہاں ہے؟ جس سے تم ڈراتے ہو مگر لَا الضَّآلِّیْنَوالادجَّال دن بدن دنیا میں ترقی کر رہا ہے اور قریب ہے کہ آسمان و زمین اس کے فتنہ سے پھٹ جائیں۔ پس اگر تمہارے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا تو سُورۃ فاتحہ پر غور کرنا ہی تمہارے لئے کافی تھا۔ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ جو کچھ تم نے مسیح موعود کی پیشگوئی کے معنی سمجھے ہیں وہ صحیح نہ ہوں۔ کیا ان غلطیوں کے نمونے یہود اور نصاریٰ میں موجود نہیں ہیں پھر تم کیونکر غلطی سے بچ سکتے ہو۔ اور کیا خدا کی یہ عادت نہیں ہے کہ کبھی وہ ایسی پیشگوئیوں سے اپنے بندوں کا امتحان بھی لیا کرتا ہے جیسا کہ توریت اور ملا کی نبی کی پیشگوئی سے اور انجیل کی پیشگوئی سے یہود و نصاریٰ کو امتحان میں ڈالا گیا۔ سو تقویٰ کے دائرہ سے باہر قدم مت رکھو کیا جیساکہ یہود نے اور اُن کے نبیوں نے سمجھا تھا آخری نبی بنی اسرائیل میں سے آیا یا الیاس نبی دوبارہ زمین پر آگیا؟ ہر گز نہیں بلکہ یہود نے دونوں جگہ غلطی کھائی۔ پس تم ڈرو کیونکہ خدا تعالیٰ تمہیں سورہ فاتحہ میں ڈراتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم یہود بن جاؤ۔ یہود بھی تمہارے دعویٰ کی طرح ظاہر الفاظ کتاب اللہ سے متمسک تھے۔ مگر بوجہ اِس کے کہ حَکَمْ کی بات کو انہوں نے نہ مانا اور اُس کے نشانوں سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا مواخذہ میں آگئے اور اُن کا کوئی عذر سنانہ گیا۔

یہ نکتہؔ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ساتویں صدی پر مبعوث ہوئے تھے کیونکہ خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ ساتویں صدی تک بہت سی گمراہی عیسائیوں اور یہودیوں میں پیدا ہو گئی تھی۔ سو خدا تعالیٰ نے دونوں قوموں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور حَکَمْ مبعوث فرمایا۔ مگر جو مسلمانوں کیلئے حَکَمْ مقدر تھا اُس کے ظہور کی میعاد پہلی میعاد سے دو چند کی گئی یعنی چودھویں صدی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عیسائی تو صرف ساتویں تک بگڑ گئے مگر مسلمانوں کی حالت میں اس مدّت کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 50

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 50

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/50/mode/1up


د و حصہ میں پہنچ کر فتور آئے گا اور چودھویں صدی کے سر پر اُن کا حَکَمْ ظاہر ہوگا۔

پھر ہم اپنے پہلے بیان کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ وحی کے اقسامِ ثلاثہ میں سے اکمل اور اتم وہ وحی ہے جو علم کی تیسری قسم میں داخل ہے جس کا پانے والا انوار سُبحانی میں سراپا غرق ہوتا ہے اور وہ تیسری قسم حق الیقین کے نام سے موسوم ہے۔ اور ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ پہلی قسم وحی یا خواب کی محض علم الیقین تک پہنچاتی ہے جیسا کہ ایک شخص اندھیری رات میں ایک دھواں دیکھتا ہے اور اُس سے ظنّی طور پر استدلال کرتا ہے کہ اس جگہ آگ ہوگی اور وہ استدلال ہرگز یقینی نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ وہ دُھواں نہ ہو بلکہ ایسی غبار ہو جو دُھوئیں سے متشابہ ہو۔ یا دُھواں تو ہو مگر وہ ایک ایسی زمین سے نکلتا ہو جس میں کوئی مادہ آتشی موجود ہو۔ پس یہ علم ایک عقلمند کو اُس کے ظنون سے رہائی نہیں بخش سکتا اور اُس کو کوئی ترقی نہیں دے سکتا بلکہ صرف ایک خیال ہے جو اپنے ہی دماغ میں پیدا ہوتا ہے۔ پس اس علم کی حد تک اُن لوگوں کی خوابیں اور الہام ہیں جو محض دماغی بناوٹ کی وجہ سے اُن کو آتی ہیں کوئی عملی حالت اُن میں موجود نہیں یہ تو علم الیقین کی مثال ہے۔ اور جس شخص کی خواب اور الہام کا سر چشمہ یہی درجہ ہے اُس کے دل پر اکثر شیطان کا تسلّط رہتا ہے اور اس کو گمراہ کرنے کے لئے وہ شیطان بعض اوقات ایسی خوابیں یا الہام پیش کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ اپنے تئیں قوم کا پیشوا یا رسول کہتا ہے اور ہلاک ہو جاتاہے جیساؔ کہ جموں کا رہنے والا بدقسمت چراغدین جو پہلے میری جماعت میں داخل تھا اسی وجہ سے ہلاک ہوا اور اُس کو شیطانی الہام ہوا کہ وہ رسول ہے اور مرسلین میں سے ہے اور حضرت عیسیٰ نے اُس کو ایک عصا دیا ہے کہ تا دجّال کو اُس سے قتل کرے اور مجھے اُس نے دجّال ٹھہرایا۔ آخر اس پیشگوئی کے مطابق جو رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں درج ہے مع اپنے دونوں لڑکوں کے طاعون سے جو اناں مرگ مرا۔ اور موت کے دنوں کے قریب اُس نے یہ مضمون بھی مباہلہ کے طور پر میرا نام لے کر شائع کیا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اس کو ہلاک کر دے۔ سو وہ خود ۴؍اپریل



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 51

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 51

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/51/mode/1up


۱۹۰۶ ؁ء کو مع اپنے دونوں لڑکوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا۔ فاتقوااللّٰہ یا معشرالملھمین۔

دوسری حالت وہ ہے کہ جیسے انسان اندھیری رات کے وقت اور سخت سردی کے وقت ایک روشنی کو دور سے مشاہدہ کرتا ہے اور وہ روشنی اُس کو اگرچہ راہِ راست کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے مگر سردی کو دور نہیں کر سکتی۔ اِس درجہ کا نام عین الیقین ہے اور اس درجہ کا عارف خدا تعالیٰ سے تعلق تو رکھتا ہے مگر وہ تعلق کامل نہیں ہوتا۔ اِس مذکورہ بالا درجہ پر شیطانی الہامات بکثرت ہوتے ہیں کیونکہ ابھی ایسے شخص کو جس قدر شیطان سے تعلق ہوتا ہے خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا۔

تیسری حالت وہ ہے کہ جب انسان اندھیری رات اور سخت سردی کے وقت میں نہ صرف آگ کی روشنی پاتا ہے بلکہ اُس آگ کے حلقہ کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اُس کو محسوس ہو جاتا ہے کہ درحقیقت آگ یہ ہے اور اُس سے اپنی سردی کو دور کرتا ہے یہ وہ کامل درجہ ہے جس کے ساتھ ظنّ جمع نہیں ہو سکتا اور یہی وہ درجہ ہے جو بشریت کی سردی اور قبض کو بکلّی دور کرتا ہے۔ اِس حالت کا نام حق الیقین ہے اور یہ مرتبہ محض کامل افراد کو حاصل ہوتا ہے جو تجلّیاتِ الٰہیہ کے حلقہ کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اور علمی اور عملی دونوں حالتیں اُن کی درست ہو جاتی ہیں اِس درجہ سے پہلے نہ علمی حالت کمال کو پہنچتی ہے اور نہ عملی حالت مکمل ہوتی ہے اور اس درجہ کو پانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے کامل تعلق رکھتے ہیں اور حقیقت میں وحی کا لفظ انہیں ؔ کی وحی پر اطلاق پاتاہے کیونکہ وہ شیطانی تصرفات سے پاک ہوتی ہے اور وہ ظنّ کے درجہ پر نہیں ہوتی بلکہ یقینی اور قطعی ہوتی ہے اور وہ نور ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کو ملتا ہے۔ اور ہزارہا برکات اُن کے ساتھ ہوتی ہیں اور بصیرت صحیحہ ان کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ دور سے نہیں دیکھتے بلکہ نور کے حلقہ کے اندر داخل کئے جاتے ہیں۔ اور اُن کے دل کو خدا سے ایک ذاتی تعلق ہوتا ہے۔ اسی لئے جس طرح خدا تعالیٰ اپنے لئے یہ امر چاہتا ہے کہ وہ شناخت کیا جائے ایسا ہی اُن کے لئے بھی یہی چاہتا ہے کہ اُس کے بندے اُن کو شناخت کر لیں۔ پس اِسی غرض سے وہ بڑے بڑے نشان اُن کی تائید اور نصرت میں ظاہر کرتا ہے ہر ایک جو اُن کا مقابلہ کرتا ہے ہلاک ہوتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 52

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 52

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/52/mode/1up


ہر ایک جو اُن سے عداوت کرتا ہے آخر خاک میں ملایا جاتا ہے اور خدا اُن کی ہر بات میں اور حرکات میں اور اُن کے لباس میں اور مکان میں برکتیں رکھ دیتا ہے اور اُن کے دوستوں کا دوست اور اُن کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ اور زمین اور آسمان کو اُن کی خدمت میں لگا دیتا ہے اور جیسا کہ زمین اور آسمان کی مخلوقات پر نظر ڈال کر ماننا پڑتا ہے کہ ان مصنوعات کا ایک خدا ہے ایسا ہی اُن تمام نصرتوں اور تائیدوں اور نشانوں پر نظر ڈال کر جو اُن کے لئے خدا تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے قبول کرنا پڑتا ہے کہ وہ مقبول الٰہی ہیں پس وہ اُن تائیدوں اور نصرتوں اور نشانوں سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ اس کثرت اوراس صفائی سے ہوتے ہیں کہ اُن میں کوئی دوسرا شریک اُن کا ہو ہی نہیں سکتا۔

ماسوا اس کے جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے صفاتِ اخلاقیہ سے دلوں میں اپنی محبت جماوے ایسا ہی اُن کی صفاتِ اخلاقیہ میں اِس قدر معجزانہ تاثیر رکھ دیتا ہے کہ دل اُن کی طرف کھنچے جاتے ہیں۔ وہ ایک عجیب قوم ہے کہ مَرنے کے بعد زندہ ہوتے ہیں اور کھونے کے بعد پاتے ہیں اور اِس قدر زور سے صدق اور وفا کی راہوں پر چلتے ہیں کہ اُن کے ساتھ خدا کی ایک الگ عادت ہو جاتی ہے گویا اُن کا خدا ایک الگ خدا ہے جس سے دنیاؔ بے خبر ہے۔ اور اُن سے خدا تعالیٰ کے وہ معاملات ہوتے ہیں جو دوسروں سے وہ ہر گز نہیں کرتا جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام چونکہ صادق اور خدا تعالیٰ کا وفادار بندہ تھا اِس لئے ہر ایک ابتلاء کے وقت خدا نے اُس کی مدد کی جبکہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا خدا نے آگ کو اُس کے لئے سرد کر دیا۔ اور جب ایک بد کردار بادشاہ اُن کی بیوی سے بد ارادہ رکھتا تھا تو خدا نے اُس کے اُن ہاتھوں پر بلا نازل کی جن کے ذریعہ سے وہ اپنے پلید ارادہ کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ پھر جبکہ ابراہیم نے خدا کے حکم سے اپنے پیارے بیٹے کو جو اسمٰعیل تھا ایسی پہاڑیوں میں ڈال دیا جن میں نہ پانی نہ دانہ تھا تو خدا نے غیب سے اُس کے لئے پانی اور سامانِ خوراک پیدا کر دیا۔

اورظاہر ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ ظالم لوگ اُن کو ہلاک کر دیتے ہیں اور آگ میں ڈالتے اور پانی میں غرق کر دیتے ہیں اور کوئی مدد خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کو نہیں پہنچتی گو وہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 53

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 53

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/53/mode/1up


نیک بھی ہوتے ہیں۔ اورکئی لوگ ایسے ہیں کہ بد ذات لوگ اُن کی عورتوں سے زنا بالجبر کرتے ہیں۔ اور کئی ایسے لوگ ہیں جن کی اولاد کسی جنگل میں پانی سے ترستی ترستی مر جاتی ہے اور اُن کے لئے غیب سے کوئی آبِ زمزم پیدا نہیں ہوتا۔ پس اِس سے سمجھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا معاملہ ہر ایک شخص سے بقدر تعلق ہوتا ہے۔ اور گو محبوبین الٰہی پر مصائب بھی پڑتی ہیں مگر نُصرتِ الٰہی نمایاں طور پر اُن کے شاملِ حال ہوتی ہے اور غیرتِ الٰہی ہر گز ہر گز گوارا نہیں کرتی کہ اُن کو ذلیل اور رسوا کرے اور اُس کی محبت گوارا نہیں کرتی کہ اُن کا نام دنیا سے مٹا دے۔

اور کرامات کی اصل بھی یہی ہے کہ جب انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا کا ہو جاتا ہے اور اُس میں اور اُس کے ربّ میں کوئی حجاب باقی نہیں رہتا اور وہ وفا اور صدق کے تمام اُن مراتب کو پورے کرکے دکھلاتا ہے جو حجاب سوز ہیں تب وہ خدا کا اور اُس کی قدرتوں کا وارث ٹھہرایا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ طرح طرح کے نشان اس کے لئے ظاہر کرتا ہے جو بعض بطور دفع شر ہوتےؔ ہیں اور بعض بطور افاضۂ خیر اور بعض اُس کی ذات کے متعلق ہوتے ہیں اور بعض اُس کے اہل وعیال کے متعلق اور بعض اُس کے دشمنوں کے متعلق اور بعض اُس کے دوستوں کے متعلق اور بعض اُس کے اہل وطن کے متعلق اور بعض عالمگیر اور بعض زمین سے اور بعض آسمان سے۔ غرض کوئی نشان ایسا نہیں ہوتا جو اُس کے لئے دِکھلایا نہیں جاتا اور یہ مرحلہ دقّت طلب نہیں اور کسی بحث کی اِس جگہ ضرورت نہیں کیونکہ اگر درحقیقت کسی شخص کو یہ تیسرا درجہ نصیب ہو گیا ہے جو بیان ہو چکا ہے تو دنیا ہر گز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہر ایک جو اُس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جس پر وہ گرے گا اُس کو ریزہ ریزہ کر دے گا کیونکہ اُس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ اور اُس کا مُنہ خدا کا مُنہ ہے اور اُس کا وہ مقام ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ یہ ظاہر ہے کہ اگرچہ درہم و دینار اکثر لوگوں کے پاس (جو مالدار ہیں) ہوتے ہیں لیکن اگر وہ گُستاخی کرکے بادشاہ کا مقابلہ کریں جس کے خزائن مشرق و مغرب میں پڑے ہوئے ہیں تو ایسے مقابلہ کا انجام بجز ذلّت کے کیا ہوگا؟ ایسے لوگ ہلاک ہوں گے اور وہ تھوڑے سے درہم و دینار اُن کے بھی ضبط کئے جائیں گے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 54

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 54

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/54/mode/1up


عزیز خدا کا نام ہے وہ اپنی عزّت کسی کو نہیں دیتا مگر اُنہیں کو جو اُس کی محبت میں کھوئے گئے ہیں۔ ظاہر خدا کا نام ہے وہ اپنا ظہور کسی کو نہیں بخشتا مگر اُنہیں کو جو اُس کے لئے بمنزلہ اُس کی توحید اور تفرید کے ہیں اور ایسے اُس کی دوستی میں محو ہوئے ہیں جو اَبْ بمنزلہ اُس کی صفات کے ہیں۔ وہ ان کو نور دیتا ہے اپنے نور میں سے اور علم دیتا ہے اپنے علم میں سے تب وہ اپنے سارے دل اور ساری جان اور ساری محبت سے اُس یاریگانہ کی پرستش کرتے ہیں اور اُس کی رضا کو ایسا چاہتے ہیں جیسا کہ وہ خود چاہتا ہے۔

انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیرنے والے پرستارِ الٰہی کہلا سکتے ہیں بلکہ پرستش اُس سے ہوسکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اؔ س کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے اوّل خداکی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حُسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اُس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اُس کی ہستی کے آگے مُردہ متصّور ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اُسی کی درد میں لذّت ہو اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اُس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو۔ اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے مگر یہ حالت بجُز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو۔ اِسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی 3 ۱؂ یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حقِّ پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو۔ خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اُس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اُسی پر توکّل کرے اور اُسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اُسی کو اختیار کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اُسی کی یاد کو سمجھے اور اگر ابراہیم کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی عزیز اولاد کے ذبح کرنے کا حُکم ہو یا اپنے تئیں آگ میں ڈالنے کے لئے اشارہ ہو تو ایسے سخت احکام کو بھی محبت کے جوش سے بجا لائے اور رضاجوئی اپنے آقائے کریم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 55

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 55

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/55/mode/1up


میں اس حد تک کوشش کرے کہ اُس کی اطاعت میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ یہ بہت تنگ دروازہ ہے اور یہ شربت بہت ہی تلخ شربت ہے۔ تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ میں سے داخل ہوتے اور اس شربت کو پیتے ہیں۔ زنا سے بچنا کوئی بڑی بات نہیں اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنا بڑا کام نہیں اور جھوٹی گواہی نہ دینا کوئی بڑا ہُنر نہیں۔ مگر ہر ایک چیز پر خدا کو اختیار کر لینا اور اس کے لئے سچی محبت اور سچے جوش سے دنیا کی تمام تلخیوں کو اختیار کرنا بلکہ اپنے ہاتھ سے تلخیاں پیدا کر لینا یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز صدیقوں کے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ عبادت ہے جس کے ادا کرنے کے لئے انسان مامور ہے اورؔ جو شخص یہ عبادت بجا لاتا ہے تب تو اُس کے اِس فعل پر خدا کی طرف سے بھی ایک فعل مترتب ہوتا ہے جس کا نام انعام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی یہ دعا سکھلاتا ہے 3۔3 3 ۱؂ یعنی اے ہمارے خدا ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا اُن لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا ہے اور اپنی خاص عنایات سے مخصوص فرمایا ہے۔ حضرت احدیت میں یہ قاعدہ ہے کہ جب خدمت مقبول ہو جاتی ہے تو اُس پر ضرور کوئی انعام مترتب ہوتا ہے چنانچہ خوارق اور نشان جن کی دوسرے لوگ نظیرپیش نہیں کر سکتے یہ بھی خدا تعالیٰ کے انعام ہیں جو خاص بندوں پر ہوتے ہیں۔

اے گرفتارِ ہوا در ہمہ اوقاتِ حیٰوۃ

باچنیں نفس سیہ چوں رسدت زو عَونے


گر تو آن صدق بورزی کہ بورزید کلیم

عجبے نیست اگر غرق شود فرعونے

اب خلاصہ اس تمام کلام کا یہ ہے کہ کسی کو بجُز درجہ ثالثہ کے پاک اور مطہر وحی کا انعام نہیں مل سکتا اور اس انعام کو پانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ہستی سے مر جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے ایک نئی زندگی پاتے ہیں اور اپنے نفس کے تمام تعلقات توڑ کر خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کر لیتے ہیں۔ تب اُن کا وجود مظہر تجلّیاتِ الٰہیہ ہو جاتا ہے اور خدا اُن سے محبت کرتا ہے اور وہ ہزار اپنے تئیں پوشیدہ کریں مگر خدا تعالیٰ اُن کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور وہ نشان اُن سے ظاہر ہوتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 56

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 56

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/56/mode/1up


دنیا اُن کا کسی بات میں مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ ہر ایک راہ میں خدا اُن کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر ایک میدان میں خدا کا ہاتھ اُن کو مدد دیتا ہے۔ ہزارہا نشان اُن کی تائید اور نصرت میں ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک جو اُن کی دشمنی سے باز نہیں آتا آخر وہ بڑی ذِلّت کے ساتھ ہلاک کیا جاتا ہے۔ کیونکہ خدا کے نزدیک اُن کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ خدا حلیم ہے اور آہستگی سے کام کرتا ہے لیکن ہر ایک جو اُن کی دشمنی سے باز نہیں آتا اور عمداً ایذا پر کمر ؔ بستہ ہے خدا اُس کے استیصال کے لئے ایسا حملہ کرتا ہے کہ جیسا کہ ایک مادہ شیر (جبکہ کوئی اُس کے بچہ کو مارنے کے لئے قصد کرے) غضب اور جوش کے ساتھ اُس پر حملہ کرتی ہے اور نہیں چھوڑتی جب تک اُس کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دے۔ خدا کے پیارے اور دوست ایسی مصیبتوں کے وقت میں ہی شناخت کئے جاتے ہیں جب کوئی اُن کو دُکھ دینا چاہتا ہے اور اس ایذا پر اصرار کرتا ہے اور باز نہیں آتا تب خدا صاعقہ کی طرح اُس پر گرتا ہے اور طوفان کی طرح اپنے غضب کے حلقہ میں اُس کو لے لیتا ہے اور بہت جلد ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اُس کے ساتھ ہے جس طرح تم دیکھتے ہو کہ آفتاب کی روشنی اور کرمِ شب چراغ کی روشنی میں کوئی اشتباہ نہیں ہو سکتا اِسی طرح وہ نور جو اُن کو دیا جاتا ہے اور وہ نشان جو اُن کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں اور وہ روحانی نعمتیں جو اُن کو عطاہوتی ہیں اُن کے ساتھ کسی کا اشتباہ واقع نہیں ہو سکتا اور اُن کی نظیر کسی فرد میں پائی نہیں جاتی۔ خدا اُن پر نازل ہوتا ہے اور خدا کا عرش اُن کا دِ ل ہو جاتا ہے اور وہ ایک اور چیز بن جاتے ہیں جس کی تہ تک دنیا نہیں پہنچ سکتی۔

اور یہ سوال کہ کیوں خدا اُن سے ایسا تعلق پکڑ لیتا ہے؟ اِس کا یہ جواب ہے کہ خدا نے انسان کی ایسی فطرت رکھی ہے کہ وہ ایک ایسے ظرف کی طرح ہے جو کسی قسم کی محبت سے خالی نہیں رہ سکتا اور خلایعنی خالی رہنا اُس میں محال ہے پس جب کوئی ایسا دل ہو جاتا ہے کہ نفس کی محبت اور اُس کی آرزوؤں اور دنیا کی محبت اور اُس کی تمناؤں سے بالکل خالی ہو جاتا ہے اور سفلی محبتوں کی آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے تو ایسے دل کو جو غیر کی محبت سے خالی ہو چکا ہے خدا تعالیٰ تجلّیات حسن و جمال کے ساتھ اپنی محبت سے پُر کر دیتا ہے تب دنیا اُس سے دشمنی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 57

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 57

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/57/mode/1up


کرتی ہے کیونکہ دنیا شیطان کے سایہ کے نیچے چلتی ہے اِس لئے وہ راستباز سے پیار نہیں کر سکتی مگر خدا اُس کو ایک بچہ کی طرح اپنے کنارِ عاطفت میں لے لیتا ہے اور اُس کے لئے ایسی ایسی طاقتِ الوہیت کے کام دکھلاتا ہے جس سے ہر ایک دیکھنے والے کی آنکھ کو چہرہ خدا کا نظر آجاتا ہے۔ پس اُس کا وجود خدا نما ہوتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔

اور ؔ یاد رہے کہ جیسا کہ تیسری قسم کے لوگوں کی خوابیں نہایت صاف ہوتی ہیں اور پیشگوئیاں اُن کی تمام دنیا سے بڑھ کر صحیح نکلتی ہیں اور نیز وہ عظیم الشان اُمور کے متعلق ہوتی ہیں اور اس قدر اُن کی کثرت ہوتی ہے کہ گویا ایک سمندر ہے۔ ایسا ہی ان کے معارف اور حقائق بھی کیفیت اور کمیّت میں تمام بنی نوع سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور خدا کے کلام کے متعلق وہ معارفِ صحیحہ اُن کو سوجھتے ہیں جو دوسروں کو نہیں سوجھ سکتے کیونکہ وہ روح القدس سے مدد پاتے ہیں اور جس طرح اُن کو ایک زندہ دل دیا جاتا ہے اسی طرح اُن کو ایک زبان عطا کی جاتی ہے اور اُن کے معارف حال کے چشمہ میں سے نکلتے ہیں نہ محض قال کے گندہ کیچڑ سے اور انسانی فطرت کی تمام عمدہ شاخیں اُن میں پائی جاتی ہیں اور اِسی کے مقابل پر تمام قسم کی نصرت بھی اُن کو عطا ہوتی ہے۔ اُن کے سینے کھولے جاتے ہیں اور اُن کو خدا کی راہ میں ایک غیر معمولی شجاعت بخشی جاتی ہے وہ خدا کے لئے موت سے نہیں ڈرتے اور آگ میں جل جانے سے خوف نہیں کرتے۔ اُن کے دودھ سے ایک دنیا سیراب ہوتی ہے اور کمزور دل قوت پکڑتے ہیں۔ خدا کی رضا جوئی کے لئے اُن کے دل قربان ہوتے ہیں۔ وہ اُسی کے ہو جاتے ہیں اسی لئے خدا اُن کا ہو جاتا ہے اور جب وہ اپنے سارے دل سے خدا کی طرف جھکتے ہیں تو خدا اُسی طرح اُن کی طرف جھکتا ہے کہ ہر ایک کو پتہ لگ جاتا ہے کہ ہرمیدان میں خدا اُن کی پاسداری کرتا ہے۔ درحقیقت خدا کے لوگوں کو کوئی شناخت نہیں کر سکتا مگر وہی قادر خدا جس کی دلوں پر نظر ہے پس جس دل کو وہ دیکھتا ہے کہ سچ مچ اُس کی طرف آگیا۔ اُس کے لئے عجیب عجیب کام دکھلاتا ہے اور اُس کی مدد کے لئے ہر ایک راہ میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ اُس کے لئے وہ قدرتیں دکھلاتا ہے جو دنیا پر مخفی ہیں اور اس کے لئے ایسا غیرت مند ہو جاتا ہے کہ کوئی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 58

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 58

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/58/mode/1up


خویش اپنے خویش کے لئے ایسی غیرت دکھلا نہیں سکتا۔ اپنے علم میں سے اُس کو علم دیتا ہے اور اپنی عقل میں سے اُس کو عقل بخشتا ہے اور اُس کو اپنے لئے ایسا محو کر دیتا ہے کہ دوسرے تمامؔ لوگوں سے اُس کے تعلقات قطع ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی محبت میں مَر کر ایک نیا تولّد پاتے ہیں اور فنا ہو کر ایک نئے وجود کے وارث بنتے ہیں۔ خدا اُن کو غیروں کی آنکھ سے ایسا ہی پوشیدہ رکھتا ہے جیسا کہ وہ آپ پوشیدہ ہے۔ مگر پھر بھی اپنے چہرہ کی چمک اُن کے مُنہ پر ڈالتا ہے اور اپنا نور اُن کی پیشانی پر برساتا ہے جس سے وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ اور اُن پر جب کوئی مصیبت آوے تو وہ اُس سے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ آگے قدم بڑھاتے ہیں اور اُن کا آج کا دن کل کے دِن سے جو گذرگیا معرفت اور محبت میں زیادہ ہوتا ہے اور ہر ایک دم محبتانہ تعلق اُن کا ترقی میں ہوا کرتا ہے اور اُن کی شدّتِ محبت اور توکل اور تقویٰ کی وجہ سے اُن کی دُعائیں ردّ نہیں ہوتیں اور وہ ضائع نہیں کی جاتیں کیونکہ وہ خدا کی رضا جوئی میں گُم ہو جاتے ہیں اور اپنی رضا ترک کر دیتے ہیں اِس لئے خدا بھی اُن کی رضا جوئی کرتا ہے۔ وہ نہاں درنہاں ہوتے ہیں دنیا اُن کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور چلے جاتے ہیں اور اُن کے بارے میں سر سری رائیں نکالنے والے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ نہ دوست اُن کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے نہ کوئی دشمن کیونکہ وہ احدیّت کی چادر کے اندر مخفی ہوتے ہیں۔ کون اُن کی پوری حقیقت جانتا ہے مگر وہی جس کے جذباتِ محبت میں وہ سرمست ہیں۔ وہ ایک قوم ہے جو خدا نہیں مگر خدا سے ایک دم بھی الگ نہیں۔ وہ سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والے۔ سب سے زیادہ خدا سے وفاکرنے والے۔ سب سے زیادہ خدا کی راہ میں صدق اور استقامت دکھلانے والے۔ سب سے زیادہ خدا پر توکل کرنے والے۔ سب سے زیادہ خدا کی رضا کو ڈھونڈنے والے۔ سب سے زیادہ خدا کا ساتھ اختیار کرنے والے۔ سب سے زیادہ اپنے ربّ عزیز سے محبت کرنے والے ہیں اور تعلق باللہ میں اُن کا اُس جگہ تک قدم ہے جہاں تک انسانی نظریں نہیں پہنچتیں اِس لئے خدا ایک ایسی خارق عادت نصرت کے ساتھ اُن کی طرف دوڑتا ہے کہ گویا وہ اور ہی خدا ہے اور وہ کام اُن کے لئے دکھلاتا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی کسی غیر کے لئے اُس نے دکھلائے نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 59

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 59

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/59/mode/1up


بابؔ چہارم

اپنے حالات کے بیان میں یعنی اس بات کے بیان

میں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے مجھے ان

اقسام ثلاثہ میں سے کِس قسم میں

داخل فرمایا ہے

خدا تعالیٰ اِس بات کو جانتا ہے اور وہ ہر ایک امرپر بہتر گواہ ہے کہ وہ چیز جو اُس کی راہ میں مجھے سب سے پہلے دی گئی وہ قلبِ سلیم تھا۔ یعنی ایسا دل کہ حقیقی تعلق اُس کا بجُز خدائے عزّوجلّ کے کسی چیز کے ساتھ نہ تھا۔ مَیں کسی زمانہ میں جوان تھا اور اَبْ بوڑھا ہوا۔ مگر مَیں نے کسی حصہ عمر میں بجز خدائیعزّوجلّ کسی کے ساتھ اپنا حقیقی تعلق نہ پایا۔ گویا رُومی مولوی صاحب نے میرے لئے ہی یہ دو شعر بنائے تھے: ؂

من زِ ہر جمعیّتے نالاں شُدم

جُفتِ خوشحالان و بدحالان شُدم


ہر کسے از ظنِّ خود شد یارِ من

و از درونِ من نجست اسرارِ من

اگرچہ خدا نے کسی چیز میں میرے ساتھ کمی نہیں رکھی اور اس درجہ تک ہر ایک نعمت اور راحت مجھے عطا کی کہ میرے دل اور زبان کو یہ طاقت ہرگز نہیں کہ مَیں اُس کا شکر ادا کر سکوں تا ہم میری فطرت کو اُس نے ایسا بنایا ہے کہ مَیں دنیا کی فانی چیزوں سے ہمیشہ دل برداشتہ رہا ہوں۔ اور اُس زمانہ میں بھی جبکہ مَیں اِس دنیا میں ایک نیا مسافر تھا اور میرے بالغ ہونے کے ایّام ابھی تھوڑے تھے۔ مَیں اِس تپشِ محبت سے خالی نہیں تھا جو خدائے عزّوجلّ سے ہونی چاہئے اور اِسی تپشِ محبت کی وجہ سے مَیں ہرگز کسی ایسے مذہب پر راضی نہیں ہوا۔ جس کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 60

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 60

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/60/mode/1up


عقاؔ ئد خدا تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت کے برخلاف تھے یا کسی قسم کی توہین کو مستلزم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائی مذہب مجھے پسند نہ آیا کیونکہ اس کے ہر قدم میں خدائے عزّوجلّ کی توہین ہے۔ ایک عاجز انسان جو اپنے نفس کی بھی مدد نہ کر سکا اُس کو خدا ٹھہرایا گیا اور اُسی کو خَالِقُ السَّمٰوات والارضسمجھا گیا۔ دنیا کی بادشاہت جو آج ہے اور کل نابود ہوسکتی ہے اُس کے ساتھ ذلّت جمع نہیں ہو سکتی۔ پھر خدا کی حقیقی بادشاہی کے ساتھ اتنی ذلّتیں کیوں جمع ہو گئیں کہ وہ قید میں ڈالا گیا اُس کو کوڑے لگے اور اُس کے مُنہ پر تھوکاگیا۔ اور آخر بقول عیسائیوں کے ایک *** موت اُس کے حصہ میں آئی جس کے بغیر وہ اپنے بندوں کو نجات نہیں دے سکتا تھا * کیا ایسے کمزور خدا پر کچھ بھروسہ ہو سکتا ہے اور کیا خدا بھی ایک فانی انسان کی طرح مَر جاتا ہے اور پھر صرف جان نہیں بلکہ اُس کی عصمت اور اُس کی ماں کی عصمت پر بھی یہودیوں نے ناپاک تُہمتیں لگائیں اور کچھ بھی اُس خدا سے نہ ہو سکا کہ زبردست طاقتیں دکھلا کر اپنی بریّت ظاہر کرتا۔ پس ایسے خدا کا ماننا عقل تجویز نہیں کر سکتی جو خود مصیبت زدہ ہونے کی حالت میں مر گیا اور یہودیوں کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکا اور یہ کہنا کہ اُس نے عمداً اپنے تئیں صلیب پر چڑھایا تا اُس کی اُمت کے گناہ بخشے جائیں اِس سے زیادہ کوئی بیہودہ خیال نہیں ہوگا۔ جس شخص نے تمام رات


یہ بات کہ اس *** موت پر مسیح خود راضی ہو گیا تھا اِس دلیل سے ردّ ہو جاتی ہے کہ مسیح نے باغ میں رو رو کر دعاکی کہ وہ پیالہ اُس سے ٹل جائے اور پھر صلیب پر کھنچنے کے وقت چیخ مار کر کہا کہ ایلی ایلی لما سبقتنی یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ اگر وہ اس صلیبی موت پر راضی تھا تو اُس نے کیوں دعائیں کیں اور یہ خیال کہ مسیح کی صلیبی موت خدا تعالیٰ کی طرف سے مخلوق پر ایک رحمت تھی اور خدا نے خوش ہو کر ایسا کام کیا تھا تا دنیا مسیح کے خون سے نجات پاوے تو یہ وہم اِس دلیل سے ردّ ہو جاتا ہے کہ اگر درحقیقت اُس دن رحمت الٰہی جوش میں آئی تھی تو کیوں اُس دن سخت زلزلہ آیا یہاں تک کہ ہیکل کا پردہ پھٹ گیا اور کیوں سخت آندھی آئی اور سورج تاریک ہو گیا۔ اِس سے تو صریح معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مسیح کو صلیب دینے پر سخت ناراض تھا جس کی وجہ سے چالیس۴۰ برس تک خدا نے یہودیوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا رہے۔ اوّل سخت طاعون سے ہلاک ہوئے اور آخر طیطوس رومی کے ہاتھ سے ہزاروں یہودی مارے گئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 61

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 61

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/61/mode/1up


اپنی جان بچانے کے لئے رو رو کر ایک باغ میں دعا کی اور وہ بھی منظور نہ ہوئی اور پھر گھبراہٹ اس قدر اس پر غالب آئی کہ صلیب پر چڑھنے کے وقت ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر اپنے خدا کو خدا کرکے پکارا اور اس شدّتِ بیقراری میں باپ کہنا بھی بھول گیا۔ کیا اُس کی نسبت کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اُس نے اپنی مرضی سے جان دی۔ عیسائیوں کے اِس متناقض بیان کو کون سمجھ سکتا ہے کہ ایک طرف تو یسوع کو خدا ٹھہرایا جاتا ہے پھر وہی خدا کسی اور خدا کے آگے رو رو کر دعاکرتا ہے جبکہ تینوں خدا یسوع کے اندر ہی موجود تھے اور وہ اُن سب کا مجموعہ تھا تو پھر اُس نے کِس کے آگے رو رو کر دعاکی۔ اِس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں کے نزدیک اُن تین۳ خداؤں کے علاوہ کوئی اور بھی زبردست خداؔ ہے جو اُن سے الگ اور اُن پر حکمران ہے جس کے آگے تینوں خداؤں کو رونا پڑا۔

پھر جس غرض کیلئے خود کُشی اختیار کی گئی وہ غرض بھی تو پُوری نہ ہوئی۔* غرض تو یہ تھی کہ یسوع کو ماننے والے گناہ اور دنیا پرستی اوردنیا کے لالچوں سے باز آجائیں مگر نتیجہ برعکس ہوا۔ اِس خود کُشی سے پہلے تو کسی قدر یسوع کے ماننے والے رُو بخدا بھی تھے مگر بعد اس کے جیسے جیسے خود کُشی اور کفّارہ کے عقیدہ پر زور دیا گیا اُسی قدر دنیا پرستی اور دنیا کے لالچ اور دنیا کی


* افسوس کہ قرون ثلاثہ کے بعد بعض مسلمانوں کے فرقوں کا یہ مذہب ہو گیا کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے محفوظ رہ کر آسمان پر زندہ چلے گئے اور ابتک وہیں زندہ مع جسم عنصری بیٹھے ہیں اُن پر موت نہیں آئی اور اس طرح پر ان نادان مسلمانوں نے عیسائی مذہب کو بڑی مدد دی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ کی موت کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں حالانکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں بتصریح ان کی موت کا ذکر ہے مثلاً آیت3 ۱؂ کیسی صاف تصریح سے ان کی موت پر دلالت کرتی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ آیت 3 ۲؂ حضرت عیسٰیؑ کی حیات پر دلالت کرتی ہے۔ ان کی ایسی سمجھ پر رونا آتا ہے۔ کیا جو شخص مصلوب نہیں ہوتا وہ مرتا نہیں؟ میں نے بار بار بیان کیا ہے کہ قرآن شریف میں نفی صلیب اور رفع عیسیٰ کا ذکر اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت عیسٰیؑ کی حیات ثابت کرے بلکہ اس لئے یہ ذکر ہے کہ تایہ ثابت کرے کہ عیسیٰ *** موت سے نہیں مرا۔ اور مومنوں کی طرح اس کا رفع روحانی ہوا ہے اِس میں یہود کا ردّ مقصود ہے کیونکہ وہ اُن کے رفع ہونے کے منکر ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 62

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 62

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/62/mode/1up


خواہش اور شراب خواری اور قمار بازی اور بد نظری اور ناجائز تعلقات عیسائی قوم میں بڑھ گئے کہ جیسے ایک خونخوار اور تیز رَو دریا پر جو ایک بند لگایا گیا تھا وہ بندیک دفعہ ٹوٹ جائے اور اِرد گرد کے تمام دیہات اور زمین کو تباہ کر دے۔ یہ بھی یاد رہے کہ صرف گناہ سے پاک ہونا انسان کیلئے کمال نہیں۔ ہزاروں کیڑے مکوڑے اور چرندو پرند ہیں کہ کوئی گناہ نہیں کرتے۔ پس کیا ان کی نسبت ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ خدا تک پہنچ گئے ہیں۔ پس سوال یہ ہے کہ مسیح نے رُوحانی کمالات کے حاصل کرنے کے لئے کونسا کفّارہ دیا انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ اوّل بدی سے پرہیز کرنا۔ دوم نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا اور محض بدی کو چھوڑنا کوئی ہنر نہیں ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قُوتیں اس کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ ایک طرف تو جذباتِ نفسانی اس کو گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں اور دُوسری طرف محبتِ الٰہی کی آگ جو اُس کی فطرت کے اندر مخفی ہے وہ اُس گناہ کے خس و خاشاک کو اس طرح پر جلا دیتی ہے جیسا کہ ظاہری آگ ظاہری خس و خاشاک کو جلاتی ہے۔ مگر اُس رُوحانی آگ کا افروختہ ہونا جو گناہوں کو جلاتی ہے معرفتِ الٰہی پر موقوف ہے کیونکہ ہر ایک چیز کی محبت اور عشق اُس کی معرفت سے وابستہ ہے۔ جس چیز کے حسن اور خوبی کا تمہیں علم نہیں تم اس پر عاشق نہیں ہو سکتے۔ پس خدائے عزّوجلّکی خوبی اور حُسن و جمال کی معرفت اس کی محبت پیدا کرتی ہے اور محبت کی آگ سے گناہ جلتے ہیں مگر سنّت اللہ اِسی طرح پر جاری ہے کہ وہ معرفت عام لوگوں کو نبیوں کی ؔ معرفت ملتی ہے اور ان کی روشنی سے وہ روشنی حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ اُن کو دیا گیا وہ اُن کی پیروی سے سب کچھ پالیتے ہیں۔

مگر افسوس کہ عیسائی مذہب میں معرفت الٰہی کادروازہ بند ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ہمکلامی پر مُہر لگ گئی ہے اور آسمانی نشانوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ پھر تازہ بتازہ معرفت کس ذریعہ سے حاصل ہو۔ صرف قصّوں کو زبان سے چاٹو۔ ایسے مذہب کو ایک عقلمند کیا کرے جس کا خدا ہی کمزور اور عاجز ہے اور جس کا سارا مدار قصّوں اور کہانیوں پر ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 63

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 63

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/63/mode/1up


اِسی طرح ہندو مذہب جس کی ایک شاخ آریہ مذہب ہے وہ سچائی کی حالت سے بالکل گِرا ہوا ہے اُن کے نزدیک اِس جہان کا ذرّہ ذرّہ قدیم ہے جن کاکوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ پس ہندوؤں کو اُس خدا پر ایمان نہیں جس کے بغیر کوئی چیز ظہور میں نہیں آئی اور جس کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی اور کہتے ہیں کہ اُن کا پرمیشر کسی کے گناہ معاف نہیں کر سکتا گویا اُس کی اخلاقی حالت انسان کی اخلاقی حالت سے بھی گری ہوئی ہے جبکہ ہم اپنے گنہگاروں کے گنہ معاف کر سکتے ہیں اور اپنے نفوس میں ہم یہ قوت پاتے ہیں کہ جو شخص سچے دل سے اپنے قصور کا اعتراف کرے اور اپنے فعل پر سخت نادم ہو اور آئندہ کے لئے اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرے اور تذلّل اور انکسار سے ہمارے سامنے توبہ کرے تو ہم خوشی کے ساتھ اُس کے گناہ معاف کر سکتے ہیں بلکہ معاف کرنے سے ہمارے اندر ایک خوشی پیدا ہوتی ہے تو پھر کیا وجہ کہ وہ پرمیشر جو خدا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جس کے پیدا کردہ گنہگار ہیں اور اُن کے گناہ کرنے کی طاقتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں۔ اُس میں یہ عمدہ خلق نہیں اور جب تک کروڑوں سال تک ایک گناہ کی سزا نہ دے خوش نہیں ہوتا۔ ایسے پرمیشر کے ماتحت رہ کر کیونکر کوئی نجات پا سکتا ہے اور کیونکر کوئی ترقی حاصل کر سکتا ہے۔

غرض مَیں نے خوب غور سے دیکھا کہ یہ دونوں مذہب راستبازی کے مخالف ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جس قدر اِن مذاہب میں روکیں اور نومیدی پائی جاتی ہے مَیں سب کو اِسؔ رسالہ میں لِکھ نہیں سکتا۔ صرف بطور خلاصہ لکھتا ہوں کہ وہ خدا جس کو پاک روحیں تلاش کرتی ہیں اور جس کو پانے سے انسان اِسی زندگی میں سچی نجات پا سکتا ہے اور اُس پر انوارِ الٰہی کے دروازے کھل سکتے ہیں اور اُس کی کامل معرفت کے ذریعہ سے کامل محبت پیدا ہو سکتی ہے۔ اُس خدا کی طرف یہ دونوں مذہب رہبری نہیں کرتے اور ہلاکت کے گڑھے میں ڈالتے ہیں ایسا ہی اِن کے مشابہ دنیا میں اور مذاہب بھی پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ سب مذاہب خدائے واحد لاشریک تک نہیں پہنچا سکتے اور طالب کو تاریکی میں چھوڑتے ہیں۔

یہ وہ تمام مذاہب ہیں جن میں غور کرنے کے لئے میں نے ایک بڑا حصہ عمر کا خرچ کیا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 64

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 64

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/64/mode/1up


اور نہایت دیانت اورتدبّر سے اُن کے اُصول میں غور کی۔ مگر سب کو حق سے دور اور مہجور پایا۔ ہاں یہ مبارک مذہب جس کا نام اسلام ہے وہی ایک مذہب ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ اور وہی ایک مذہب ہے جو انسانی فطرت کے پاک تقاضاؤں کو پورا کرنے والا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ انسان کی ایک ایسی فطرت ہے کہ وہ ہر ایک بات میں کمال کو چاہتا ہے۔ پس چونکہ انسان خدا تعالیٰ کے تعبدِ ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اِس لئے وہ اِس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا جس کی شناخت میں اُس کی نجات ہے اُسی کی شناخت کے بارے میں صرف چند بیہودہ قصوں پر حصر رکھے اور وہ اندھا رہنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفاتِ کاملہ کے متعلق پورا علم پاوے گویا اُس کو دیکھ لے۔ سو یہ خواہش اُس کی محض اسلام کے ذریعہ سے پوری ہو سکتی ہے۔ اگرچہ بعض کی یہ خواہش نفسانی جذبات کے نیچے چُھپ گئی ہے اور جو لوگ دنیاکی لذّات کو چاہتے ہیں اور دنیا سے محبت کرتے ہیں وہ بوجہ سخت محجوب ہونے کے نہ خدا کی کچھ پروا رکھتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کے وصال کے طالب ہیں۔ کیونکہ دنیا کے بُت کے آگے وہ سرنگوں ہیں۔ لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ جو شخص دنیا کے بُت سے رہائی پائے اور دائمی اور سچی لذّت کا طالب ہو وہ صرف قصّوں والے مذہب پر خوش نہیں ہو سکتا اورنہ اُس سے کچھ تسلّی پا سکتا ہے ایسا شخص محض اِسلام میں اپنی تسلّی پائے گا۔ اِسلام کا خدا کسی پر اپنےؔ فیض کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بُلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ اور جو لوگ پورے زور سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اُن کے لئے دروازہ کھولا جاتا ہے۔

سو مَیں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہُنر سے اِس نعمت سے کامل حصّہ پایا ہے جو مُجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سیّد و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا۔ اُس پیروی سے پایا اور مَیں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 65

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 65

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/65/mode/1up


بجز پَیروی اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصّہ پا سکتا ہے۔ اور مَیں اِس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پَیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ وہ قلبِ سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذّت کا طالب ہو جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے ایک مصفّٰی اور کامل محبت الٰہی بباعث اس قلبِ سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ 33 ۱؂ یعنی اُن کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے بلکہ یکطرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے۔ جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرتا ہے۔ تب زمین پر اُس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اُس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوّتِ جذب اُس کو عنایت ہوتی ہے ا ور ایک نور اُس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب ایک انسان سچے دل سے خدا سے محبتؔ کرتا ہے اور تمام دنیا پر اس کو اختیار کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی عظمت اور وجاہت اُس کے دل میں باقی نہیں رہتی بلکہ سب کو ایک مَرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتا ہے۔ تب خدا جو اُس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تجلّی کے ساتھ اُس پر نازل ہوتا ہے اور جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے آفتاب کا عکس ایسے پورے طور پر پڑتا ہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے۔ ایسا ہی خدا ایسے دل پر اُترتا ہے اور اُس کے دل کو اپنا عرش بنا لیتا ہے۔ یہی وہ امر ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ پہلی کتابوں میں جو کامل راستبازوں کو خدا کے بیٹے کرکے بیان کیا گیا ہے اس کے بھی یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ درحقیقت خدا کے بیٹے ہیں کیونکہ یہ تو کُفر ہے اور خدا بیٹوں اور بیٹیوں سے پاک ہے بلکہ یہ معنی ہیں کہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 66

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 66

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/66/mode/1up


اُن کامل راستبازوں کے آئینہ صافی میں عکسی طور پر خدا نازل ہوا تھا۔ اور ایک شخص کا عکس جو آئینہ میں ظاہر ہوتا ہے استعارہ کے رنگ میں گویا وہ اس کا بیٹا ہوتا ہے کیونکہ جیسا کہ بیٹا باپ سے پیدا ہوتا ہے ایسا ہی عکس اپنے اصل سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جبکہ ایسے دل میں جو نہایت صافی ہے اور کوئی کدورت اُس میں باقی نہیں رہی تجلّیات الٰہیہ کا انعکاس ہوتا ہے تو وہ عکسی تصویر استعارہ کے رنگ میں اصل کے لئے بطور بیٹے کے ہو جاتی ہے۔ اِسی بناء پر توریت میں کہا گیا ہے کہ یعقوب میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا بیٹا ہے اور عیسیٰ ابن مریم کو جو انجیلوں میں بیٹا کہا گیا۔ اگر عیسائی لوگ اِسی حدتک کھڑے رہتے کہ جیسے ابراہیم اور اسحاق اور اسمٰعیل اور یعقوب اور یوسف اور موسیٰ اور داؤد اور سلیمان وغیرہ خدا کی کتابوں میں استعارہ کے رنگ میں خدا کے بیٹے کہلائے ہیں۔

ایسا ہی عیسیٰ بھی ہے تو اُن پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ کیونکہ جیسا کہ استعارہ کے رنگ میں ان نبیوں کو پہلے نبیوں کی کتابوں میں بیٹا کرکے پُکارا گیا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض پیشگوئیوں میں خدا کرکے پُکارا گیا ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ نہ وہ تمام نبیؔ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا ہیں بلکہ یہ تمام استعارات ہیں محبت کے پیرایہ میں۔ ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کے کلام میں بہت ہیں۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسا محو ہوتا ہے جو کچھ بھی نہیں رہتا تب اُسی فنا کی حالت میں ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ کیونکہ اس حالت میں اُن کا وجود درمیان نہیں ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 33 ۔۱؂ یعنی اِن لوگوں کو کہہ کہ اے میرے بندو خدا کی رحمت سے نومیدمت ہو خدا تمام گناہ بخش دے گا۔ اب دیکھو اِس جگہ یَا عِبَادَ اللّٰہ کی جگہ یَاعِبَادِیْ کہہ دیا گیا حالانکہ لوگ خدا کے بندے ہیں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے۔ مگر یہ استعارہ کے رنگ میں بولا گیا۔

ایسا ہی فرمایا۔ 33 ۲؂ یعنی جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت خدا کی بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 67

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 67

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/67/mode/1up


جو اُن کے ہاتھوں پر ہے۔ اب ان تمام آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ٹھہرایا گیا مگر ظاہر ہے کہ وہ خدا کا ہاتھ نہیں ہے۔

ایسا ہی ایک جگہ فرمایا۔ 3 ۱؂ پس تم خدا کو یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔ پس اِس جگہ خدا تعالیٰ کو باپ کے ساتھ تشبیہ دی اور استعارہ بھی صرف تشبیہ کی حد تک ہے۔

ایسا ہی خدا تعالیٰ نے یہودیوں کا ایک قول بطور حکایت عن الیھود قرآن شریف میں ذکر فرمایا ہے اور وہ قول یہ ہے کہ 3 ۲؂ یعنی ہم خدا کے بیٹے اور اُس کے پیارے ہیں۔ اِس جگہ ابناء کے لفظ کا خدا تعالیٰ نے کچھ ردّ نہیں کیا کہ تم کُفر بکتے ہو بلکہ یہ فرمایا کہ اگر تم خدا کے پیارے ہو تو پھر وہ تمہیں کیوں عذاب دیتا ہے اور ابناء کا دوبارہ ذکر بھی نہیں کیا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہودیوں کی کتابوں میں خدا کے پیاروں کو بیٹاؔ کرکے بھی پکارتے تھے۔

اب اِس تمام بیان سے ہماری غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اِس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔* چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اِس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبتِ الٰہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جُھک جاتا ہے اور اُس کا اُنس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبتِ الٰہی کی ایک خاص تجلّی اُس پر پڑتی ہے اور اُس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تب جذباتِ نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اُس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک


* اگر کوئی کہے کہ غرض تو اعمال صالحہ بجا لانا ہے تو پھر ناجی اورمقبول بننے کیلئے پیروی کی کیا ضرورت ہے اِس کا جواب یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ کا صادر ہونا خدا تعالیٰ کی توفیق پر موقوف ہے پس جبکہ خدا تعالیٰ نے ایک کو اپنی عظیم الشان مصلحت سے امام اور رسول مقرر فرمایا اور اُس کی اطاعت کے لئے حکم دیا تو جو شخص اس حکم کو پاکر پیروی نہیں کرتا اُس کو اعمال صالحہ کی توفیق نہیں دی جاتی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 68

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 68

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/68/mode/1up


پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔

یہ تو کسب اور سلوک کی ہم نے ایک مثال بیان کی ہے لیکن بعض اشخاص ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے مدارج میں کسب اور سلوک اور مجاہدہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ اُن کی شِکم مادر میں ہی ایک ایسی بناوٹ ہوتی ہے کہ فطرتًا بغیر ذریعہ کسب اور سعی اور مجاہدہ کے وہ خدا سے محبت کرتے ہیں۔ اور اُس کے رسول یعنی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ان کو رُوحانی تعلق ہو جاتا ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور پھر جیسا جیسا اُن پر زمانہ گذرتا ہے وہ اندرونی آگ عشق اور محبت الٰہی کی بڑھتی جاتی ہے اور ساتھ ہی محبت رسول کی آگ ترقی پکڑتی ہے اور اِن تمام اُمور میں خدا اُن کا متولّی اور متکفّل ہوتا ہے اور جب وہ محبت اور عشق کی آگ انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ تب وہ نہایت بیقراری اور دردمندی سے چاہتے ہیں کہ خدا کا جلال زمین پر ظاہر ہو اور اسی میں اُن کی لذّت اور یہی اُن کا آخری مقصد ہوتا ہے۔ تب اُن کے لئے زمین پر خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کسی کے لئے اپنے عظیم الشان نشانؔ ظاہر نہیں کرتا اور کسی کو آئندہ زمانہ کی عظیم الشان خبریں نہیں دیتا۔ مگر اُنہیں کو جو اُس کے عشق اور محبت میں محو ہوتے ہیں اور اُس کی توحید اور جلال کے ظاہر ہونے کے ایسے خواہاں ہوتے ہیں جیسا کہ وہ خود ہوتا ہے۔ یہ بات اُنہیں سے مخصوص ہے کہ حضرت اُلوہیت کے خاص اسرار اُن پر ظاہر ہوتے ہیں اور غیب کی باتیں کمال صفائی سے اُن پر منکشف کی جاتی ہیں اور یہ خاص عزّت دوسرے کو نہیں دی جاتی۔

شاید ایک نادان خیال کرے کہ بعض عام لوگوں کو کبھی کبھی سچی خوابیں آجاتی ہیں۔ بعض مرد یا عورتیں دیکھتے ہیں کہ کسی کے گھر میں لڑکی یا لڑکا پیدا ہوا تو وہی پیدا ہوجاتا ہے اور بعض کو دیکھتے ہیں کہ وہ مر گیا تو وہ مر بھی جاتا ہے یا بعض ایسے ہی چھوٹے چھوٹے واقعات دیکھ لیتے ہیں تو وہ ایسے ہی ہو جاتے ہیں۔ تو مَیں اِس وسوسہ کا پہلے ہی جواب دے آیا ہوں کہ ایسے واقعات کچھ چیز ہی نہیں ہیں اور نہ کسی نیک بختی کی اِن میں شرط ہے۔ بہت سے خبیث طبع اور بدمعاش بھی ایسی خوابیں اپنے لئے یا کسی اور کیلئے دیکھ لیتے ہیں لیکن وہ امور جو خاص طور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 69

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 69

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/69/mode/1up


کے غیب ہیں وہ خدا تعالیٰ کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں۔ وہ لوگ عام لوگوں کی خوابوں اور الہاموں سے چا۴ر طور کا امتیاز رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ اکثر اُن کے مکاشفات نہایت صاف ہوتے ہیں اور شاذو نادر مشتبہ ہوتا ہے مگر دوسرے لوگوں کے مکاشفات اکثر مکدّر اور مشتبہ ہوتے ہیں اور شاذونادر کوئی صاف ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ عام لوگوں کی نسبت اِس قدر کثیر الوقوع ہوتے ہیں کہ اگر مقابلہ کیا جائے تو وہ مقابلہ ایسا فرق رکھتا ہے جیسا کہ ایک بادشاہ اور ایک گدا کے مال کا مقابلہ کیا جائے۔ تیسرے اُن سے ایسے عظیم الشان نشان ظاہر ہوتے ہیں کہ کوئی دوسرا شخص اُن کی نظیر پیش نہیں کر سکتا۔ چوتھے اُن کے نشانوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں پائی جاتی ہیں اور محبوب حقیقی کی محبت اور نصرت کے آثار اُن میں نمودار ہوتے ہیں اور صریح دکھائی دیتا ہے کہ وہ ان نشانوں کے ذریعہ سے اُن مقبولوں کی عزّت اور قُربت کو دنیا پر ظاہرکرنا چاہتا ہے اور اُن کی وجاہت دلوں میں بٹھانا چاہتا ہے مگر جن کا خدا سے کامل تعلق نہیںؔ اُن میں یہ بات پائی نہیں جاتی بلکہ ان کی بعض خوابوں یا الہاموں کی سچائی اُن کے لئے ایک بلا ہوتی ہے۔ کیونکہ اِس سے ان کے دلوں میں تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر سے وہ مَرتے ہیں اور اُس جڑھ سے مخالفت پیدا کرتے ہیں جو شاخ کی سر سبزی کا موجب ہوتی ہے۔ اے شاخ یہ مانا کہ تُو سر سبز ہے اور یہ بھی قبول کیا کہ تجھے پھول اور پھل آتے ہیں مگر جڑھ سے الگ مت ہو کہ اِس سے تُو خشک ہو جائے گی اور تمام برکتوں سے محروم کی جائے گی کیونکہ تو جُزو ہے کل نہیں ہے۔ اورجو کچھ تُجھ میں ہے وہ تیرا نہیں بلکہ وہ سب جڑھ کا فیضان ہے۔*


* یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب آسمان سے مقرر ہو کر ایک نبی یا رسول آتا ہے تو اُس نبی کی برکت سے عام طور پر ایک نور حسب مراتب استعدادات آسمان سے نازل ہوتا ہے اورانتشار روحانیت ظہور میں آتا ہے تب ہر ایک شخص خوابوں کے دیکھنے میں ترقی کرتا ہے اور الہام کی استعداد رکھنے والے الہام پاتے ہیں اور روحانی امور میں عقلیں بھی تیز ہو جاتی ہیں کیونکہ جیسا کہ جب بارش ہوتی ہے ہر ایک زمین کچھ نہ کچھ اس سے حصّہ لیتی ہے ایسا ہی اُس وقت ہوتا ہے جب رسول کے بھیجنے سے بہار کا زمانہ آتا ہے تب اُن ساری برکتوں کا موجب دراصل وہ رسول ہوتا ہے اور جس قدر لوگوں کو خوابیں یا الہام ہوتے ہیں دراصل اُن کے کھلنے کادروازہ وہ رسول ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دنیا میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور آسمان سے عام طور پر ایک روشنی اُترتی ہے جس سے ہر ایک شخص حسب استعداد حصہ لیتا ہے وہی روشنی خواب اور الہام کا موجب ہو جاتی ہے اور نادان خیال کرتا ہے کہ میرے ہنر سے ایسا ہوا ہے مگر وہ چشمہ الہام اور خواب کا صرف اس نبی کی برکت سے دنیا پر کھولا جاتا ہے اور اُس کا زمانہ ایک لیلۃ القدر کا زمانہ ہوتا ہے جس میں فرشتے اُترتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱؂ جب سے خدا نے دنیا پیدا کی ہے یہی قانون قدرت ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 70

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 70

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/70/mode/1up


اب مَیں بموجب آیۃ کریمہ 3۱؂ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اُس تیسرے درجہ میں داخل کرکے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شِکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ہے میری تائید میں اُس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ آج کی تاریخ سے جو ۱۶؍جولائی۱۹۰۶ء ہے۔ اگر مَیں اُن کو فردًا فردًا شمار کروں تو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو مَیں اُس کو ثبوت دے سکتا ہوں۔ بعض نشان اِس قِسم کے ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے ہر ایک محل پر اپنے وعدہ کے موافق مجھ کو دشمنوں کے شرّ سے محفوظ رکھا۔ اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جن میں ہرمحل میں اپنے وعدہ کے موافق میری ضرورتیں اور حاجتیں اُس نے پوری کیں اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جن میں اُس نے بموجب اپنے وعدہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کے میرے پر حملہ کرنے والوں کو ذلیل اور رُسوا کیا اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو مجھ پر مقدمہ دائر کرنے والوں پر اُس نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق مجھ کو فتح دی اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو میری مدّتِ بعث سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے یہ مُدّت دراز کسی کا ذب کو نصیب نہیں ہوئی اور بعض نشان زمانہ کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ زمانہ کسی امام کے پیدا ہونے کی ضرورت تسلیم کرتا ہے اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جن میں دوستوں کے حق میں میری دُعائیں منظور ہوئیں اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو شریر دشمنوں پر میرؔ ی بد دعاکا اثر ہوا اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو میری دعاسے بعض خطرناک بیماروں نے شفاپائی اور اُن کی شفا کی پہلے خبر دی گئی۔ اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جومیرے لئے اور میری تصدیق کے لئے عام طور پر خدا نے حوادث ارضی یا سماوی ظاہر کئے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوابیں آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا جیسے سجادہ نشین صاحب العَلم سندھ جن کے مُرید ایک لاکھ کے قریب تھے اور جیسے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے اور بعض



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 71

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 71

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/71/mode/1up


نشان اِس قسم کے ہیں کہ ہزار ہا انسانوں نے محض اِس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب میں اُن کو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور بعض نے اِس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور یہ خدا کا آخری خلیفہ اور مسیح موعود ہے۔ اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو بعض اکابر نے میری پیدائش یا بلوغ سے پہلے میرا نام لے کر میرے مسیح موعود ہونے کی خبر دی جیسے نعمت اللہ ولی اور میاں گلاب شاہ ساکن جمالپور ضلع لدھیانہ اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جن کا دامن ہر ایک قوم کے مقابل پر اور ہر ایک ملک تک اور ہر ایک زمانہ تک وسیع چلا گیا ہے اور وہ سلسلہ مباہلات ہے جس کے بہت سے نمونے دنیا نے دیکھ لئے* ہیں اور مَیں کافی مقدار دیکھنے کے بعد مباہلہ کی رسم کو اپنی طرف سے ختم کر چکا ہوں لیکن ہر ایک جو مجھے کذّاب سمجھتا ہے اور ایک مکّار اور مُفتری خیال کرتا ہے اور میرے دعویٰ مسیح موعود کے بارہ میں میرا مکذّب ہے اور جو کچھ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی اُس کو میرا افترا خیال کرتا ہے۔ وہ خواہ مسلمان کہلاتا ہو یا ہندو یا آریہ یا کسی اورمذہب کا پابند ہو۔ اُس کو بہرحال اختیار ہے کہ اپنے طور پر مجھے مقابل پر رکھ کر تحریری مباہلہ شائع کرے یعنی خدا تعالیٰ کے سامنے یہ اقرار چند اخباروں میں شائع کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے یہ بصیرت کامل طور پر حاصل ہے کہ یہ شخص (اس جگہ تصریح سے میرا نام لکھے) جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے در حقیقت کذّاب ہے اور یہ الہام جن میں سے بعض اُس نے اس کتاب میں لکھے ہیں یہ ؔ خداکا کلام نہیں ہے بلکہ سب اُس کا افترا ہے اور مَیں اُس کو درحقیقت اپنی کامل بصیرت اور کامل غور کے بعد اور یقین کامل کے ساتھ مفتری اور کذّاب اور دجّال سمجھتا ہوں۔ پس


* ہر ایک منصف مولوی غلام دستگیر قصوری کی کتاب کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح اُس نے اپنے طور پر میرے ساتھ مباہلہ کیا اور اپنی کتاب فیض رحمانی میں اس کو شائع کر دیا اور پھر اس مباہلہ سے صرف چند روز بعد فوت ہو گیا اور کس طرح چراغدین جموں والے نے اپنے طور سے مباہلہ کیا اور لکھا کہ ہم دونوں میں سے جھوٹے کو خدا ہلاک کرے۔ اور پھر اس سے صرف چند روز بعد طاعون سے مع اپنے دونوں لڑکوں کے ہلاک ہو گیا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 72

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 72

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/72/mode/1up


اے خدائے قادر اگر تیرے نزدیک یہ شخص صادق ہے اور کذّاب اور مُفتری اور کافر اور بے دین نہیں ہے تو میرے پر اس تکذیب اور توہین کی وجہ سے کوئی عذاب شدید نازل کر ورنہ اُس کو عذاب میں مبتلا کر۔ آمین

ہر ایک کیلئے کوئی تازہ نشان طلب کرنے کیلئے یہ دروازہ کُھلا ہے اور مَیں اقرار کرتا ہوں کہ اگر اس دعائے مباہلہ کے بعد جس کو عام طور پر مشتہر کرنا ہوگا اور کم سے کم تین نامی اخباروں میں درج کرنا ہوگا ایسا شخص جو اس تصریح کے ساتھ قسم کھا کر مباہلہ کرے اور آسمانی عذاب سے محفوظ رہے تو پھر مَیں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔ اس مباہلہ میں کسی میعاد کی ضرورت نہیں۔ یہ شرط ہے کہ کوئی ایسا امر نازل ہو جس کو دل محسوس کر لیں۔

اب چند الہامِ الٰہی ذیل میں مع ترجمہ لکھے جاتے ہیں* جن کے لکھنے سے غرض یہ ہے کہ ایسے مباہلہ کرنے والے کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر ان تمام میرے الہامات کو اپنے اس مضمون مباہلہ میں (جس کو شائع کرے) لکھے اور ساتھ ہی یہ اقرار بھی شائع کرے کہ یہ تمام الہامات انسان کا افترا ہے خدا کا کلام نہیں ہے اور یہ بھی لکھے کہ ان تمام الہامات کو مَیں نے غور سے دیکھ لیا ہے۔ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ انسان کا افترا ہے یعنی اِس شخص کا افترا ہے اور اس پر کوئی الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا بالخصوص عبد الحکیم خان نام ایک شخص جو اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ ہے جو بیعت توڑ کر مُرتد ہو گیا ہے خاص طور پر اِس جگہ مخاطب ہے۔

اب ہم وہ الہامات بطور نمونہ ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہیں:۔


* اِن الہامات کی ترتیب بوجہ بار بار کی تکرار کے مختلف ہے کیونکہ یہ فقرے وحی الٰہی کے کبھی کسی ترتیب سے کبھی کسی ترتیب سے مجھ پر نازل ہوئے ہیں اور بعض فقرے ایسے ہیں کہ شائد سو۱۰۰ سو۱۰۰ دفعہ یا اس سے بھی زیادہ دفعہ نازل ہوئے ہیں پس اس وجہ سے ان کی قراء ت ایک ترتیب سے نہیں اور شائد آئندہ بھی یہ ترتیب محفوظ نہ رہے کیونکہ عادت اللہ اسی طرح سے واقع ہے کہ اس کی پاک وحی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زبان پر جاری ہوتی اور دل سے جوش مارتی ہے۔ پھر خدا تعالیٰ ان متفرق ٹکڑوں کی ترتیب آپ کرتا ہے اور کبھی ترتیب کے وقت پہلے ٹکڑہ کو عبارت کے پیچھے لگا دیتا ہے اور یہ ضروری سُنّت ہے کہ وہ تمام فقرے کسی ایک ہی خاص ترتیب پر نہیں رکھے جاتے۔ بلکہ ترتیب کے لحاظ سے ان کی قراء ت مختلف طور پر کی جاتی ہے اور بعض فقرے مکرر وحی میں پہلے الفاظ سے کچھ بدلائے جاتے ہیں۔ یہ عادت صرف خدا تعالیٰ کی خاص ہے وہ اپنے اسرار بہتر جانتا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 73

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 73

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/73/mode/1up


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ


یا احمد بارک اللّٰہ فیکَ ۔ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ

اے احمد خدانے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ جو کچھ تُو نے چلایا وہ تُونے نہیں چلایا

وَلٰکِنَّ اللّٰہ رَمٰی ۔ الرَّحْمٰن ۔ عَلّمَ القراٰن ۔ لِتُنْذِرَ

بلکہ خدانے چلایا۔ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اس کے صحیح معنی تجھ پر ظاہر کئے۔ تاکہ

قَوْمًا مَا اُنْذِرَ اٰبَاءُ ھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ

تو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی معلوم

المجرمین ۔ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَانا اوّل المؤمنین ۔

ہو جائے کہ کون تجھ سے برگشتہ ہوتا ہے۔ کہہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں

قل جاء الحقّ وزھق الباطل اِنّ البَاطِلَ کَانَ زھُوقًا۔

کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا۔ اور باطل بھاگنے والا ہی تھا۔

کُلُّ برکۃٍ من محمّد صلی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔

ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔

فتبارک من علّم وتعلّم۔ وقالوا ان ھٰذا اِلّا

پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ اور کہیں گے کہ یہ وحی نہیں ہے یہ کلمات تو اپنی

اختلاق ۔قل اللّٰہ ثمّ ذرھم فی خوضہم یلعبون ۔

طرف سے بنائے ہیں۔ اُن کو کہہ وہ خدا ہے جس نے یہ کلمات نازل کئے پھر اُن کو لہوو لعب کے خیالات میں چھوڑ دے

قل ان افتریتُہٗ فعلیّ اجرام شدید ۔

اُن کو کہہ اگر یہ کلمات میرا افترا ہے اور خدا کا کلام نہیں تو پھرمَیں سخت سزا کے لائق ہوں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 74

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 74

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/74/mode/1up


و ؔ مَنْ اَظْلَم مِمّنِ افْتریٰ علَی اللّٰہِ کَذِبًا۔

اور اُس انسان سے زیادہ تر کون ظالم ہے جس نے خدا پر افترا کیا اور جھوٹ باندھا۔

ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحقّ

خدا وہ خدا ہے جس نے اپنا رسول اور اپنا فرستادہ اپنی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔ تا اس

لِیظھرہٗ عَلَی الدّین کُلّہ ۔ لا مبدّل لِکلماتہٖ ۔

دین کو ہر قسم کے دین پر غالب کرے۔ خدا کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیں کوئی ان کو بدل نہیں سکتا۔

یَقُولُونَ انّٰی لک ھٰذا اِنْ ھٰذا الَّا قول البشر ۔

اور لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا یہ جو الہام کرکے بیان کیا جاتا ہے یہ تو انسان کا قول ہے۔

واعانہٗ علیہ قومٌ اٰخَرون ۔ افتأتون السّحر

اور دوسروں کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اے لوگو! کیا تم ایک فریب میں دیدہ و

وانتم تبصرون۔ ھَیْھات ھَیْھات لما تو عدُوْن ۔

دانستہ پھنستے ہو جو کچھ تمہیں یہ شخص وعدہ دیتا ہے اس کا ہونا کب ممکن ہے۔

مِنْ ھٰذا الّذی ھو مھینٌ جاھل اومجنون۔

پھر ایسے شخص کا وعدہ جو حقیر اور ذلیل ہے۔ یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے جو بے ٹھکا نے باتیں کرتا ہے

قُل عندی شھادۃٌ من اللّٰہ فھل انتم مُسْلِمُوْن ۔

ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کروگے یا نہیں۔

قُل عندی شھادۃٌ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون ۔ ولقد لبثتُ

پھر اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں۔ اور مَیں پہلے اس سے

فیکم عمرًا من قبلہٖ اَفَلا تعقلون ۔ ھٰذا من رحمۃ ربّک یتمّ

ایک مدت تک تم میں ہی رہتا تھا کیا تم سمجھتے نہیں۔ یہ مرتبہ تیرے رب کی رحمت سے ہے وہ اپنی

نعمتہ علیک ۔ فبشّر وما انت بنعمۃ ربّک بمجنون ۔

نعمت تیرے پر پوری کرے گا۔ پس تو خوشخبری دے اور خدا کے فضل سے تو دیوانہ نہیں ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 75

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 75

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/75/mode/1up


لک درجۃٌ فی السّماءِ وفی الّذین ھُم یُبْصِرون ۔ وَلک

تیرا آسمان پر ایک درجہ اورایک مرتبہ ہے اور نیز اُن لوگوں کی نگہ میں جو دیکھتے ہیں۔ اور تیرے لئے

نُرِیٓ اٰیَات ونھدم ما یعمرون۔ الحمد لِلّٰہِ الّذی

ہم نشان دکھائیں گے اور جو عمارتیں بناتے ہیں ہم ڈھادینگے۔ اُس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے

جعلک المسیح ابن مریم ۔ لا یُسئلُ عمّا یَفْعَلُ وھم

مسیح ابن مریم بنایا۔ وہ اُن کاموں سے پوچھا نہیں جاتا جو کرتا ہے۔ اور لوگ اپنے کاموں سے

یُسْءَلون*۔وَقالُوا اَتَجْعَلُ فیھا من یُّفْسِد فِیْھا

پوچھے جاتے ہیں۔ اور انہوں نے کہا کہ کیا تُو ایسے شخص کو خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے۔

قال اِنّی اعلمُ مَا لا تعلمون ۔ انّی مھین مَنْ اراد

اُس نے کہا کہ اسکی نسبت جو کچھ مَیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ مَیں اُس شخص کی اہانت کرونگا جو تیری

اھانتک۔ انّی لا یخاف لدیّ المرسلون ۔ کتب اللّٰہ

اہانت کا ارادہ کریگا۔ میرے قرب میں میرے رسول کسی دشمن سے نہیں ڈراکرتے۔ خدا نے لِکھ چھوڑا ہے کہ


خدا تعالیٰ کا پاک کلام جو میری کتاب براہین احمدیہ کے بعض مقامات میں لکھا گیا ہے اس میں خدا تعالیٰ نے بتصریح ذکر کر دیا ہے کہ کس طرح اُس نے مجھے عیسیٰ بن مریم ٹھہرایا۔ اس کتاب میں پہلے خدا نے میرا نام مریم رکھا اور بعد اس کے ظاہر کیا کہ اس مریم میں خدا کی طرف سے روح پُھونکی گئی اور پھر فرمایا کہ روح پھونکنے کے بعد مریمی مرتبہ عیسوی مرتبہ کی طرف منتقل ہو گیا اور اس طرح مریم سے عیسیٰ پیدا ہو کر ابن مریم کہلایا۔ پھر دوسرے مقام میں اسی مرتبہ کے متعلق فرمایا فاجاء ہ المخاض الٰی جذع النخلۃ ۔ قال یا لیتنی متّ قبل ھٰذا وکنت نسیًامَّنسیًّا۔ اس جگہ خدا تعالیٰ ایک استعارہ کے رنگ میں فرماتا ہے کہ جب اس مامور میں مریمی مرتبہ سے عیسوی مرتبہ کا تولّد ہوا اور اس لحاظ سے یہ مامور ابن مریم بننے لگا تو تبلیغ کی ضرورت جو دردِ زہ سے مشابہت رکھتی ہے اس کو اُمّت کی خشک جڑ کے سامنے لائی جن میں فہم اور تقویٰ کا پھل نہیں تھا اور وہ طیار تھے کہ ایسا دعویٰ سُن کر افترا کی تہمتیں لگاویں اور دُکھ دیں اور طرح طرح کی باتیں اُسکے حق میں کریں تب اُس نے اپنے دل میں کہا کہ کاش مَیں پہلے اس سے مرجاتا اور ایسا بُھولا بسرا ہو جاتا کہ کوئی میرے نام سے واقف نہ ہوتا۔ منہ

** اس وحی الٰہی میں خدا نے میرا نام رسل رکھا کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیا علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ مَیں آدم ہوں مَیں شیث ہوں مَیں نوح ہوں مَیں ابراہیم ہوں مَیں اسحٰق ہوں مَیں اسمٰعیل ہوں مٰں یعقوب ہوں مَیں یوسف ہوں مَیں موسٰی ہوں مَیں داؤد ہوں مَیں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا مَیں مظہر اتم ہوں یعنی ظلی طور پر محمدؐ اور احمدؐ ہوں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 76

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 76

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/76/mode/1up


لَاَغْلِبَنَّ اَنَا ورُسُلی ۔ وَھم من بعد غلبھم سیغلبون*

مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے۔ اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہو جائیں گے۔

اِنّ اللّٰہ مع الّذین اتّقوا والّذین ھم محسنون ۔

خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نکو کار ہیں۔

اریک زلزلۃ السَّاعَۃ ۔ انّی احافظ کُلّ مَنْ فی الدّار۔

قیامت کے مشابہ ایک زلزلہ آنے والا ہے جو تمہیں دکھاؤں گا اور مَیں ہر ایک کو جو اس گھر میں ہے نگہ

وَ ؔ امتازوا الیوْم اَیُّھا المُجْرمُوْن۔ جآء الحق وزھق

رکھوں گا۔ اے مجرمو ! آج تم الگ ہو جاؤ۔ حق آیا اور باطل بھاگ

الباطل ۔ ھٰذا الذی کنتم بہٖ تستعجلون ۔

گیا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے۔

بشارۃ تلقاھا النّبیّون ۔ اَنْتَ علٰی بیّنۃٍ مِن رَّبّک ۔

یہ وہ بشارت ہے جو نبیوں کو ملی تھی۔ تُو خدا کی طرف سے کھلی کھلی دلیل کے ساتھ ظاہر ہوا ہے

کفیناک المستَھْزِئین ۔ ھَل اُنبّئکم علٰی مَن تنزّل

وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں اُن کے لئے ہم کافی ہیں۔ کیا مَیں تمہیں بتلاؤں کہ کن لوگوں پر

الشیاطین۔ تنزّل علٰی کُلّ افّاکٍ اثیم۔ ولا تیئس

شیطان اُترا کرتے ہیں۔ ہر ایک کذّاب بدکار پر شیطان اُترتے ہیں۔ اور تُو خدا کی

من رّوح اللّٰہ ۔ اَلا انّ روح اللّٰہ قریب ۔ اَلا انّ نصر

رحمت سے نومید مت ہو۔ خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے۔ خبردار ہو کہ خدا کی مدد


* اس وحی الٰہی میں خدا نے میرا نام رُسُل رکھا کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ مَیں آدم ہوں مَیں شیث ہوں مَیں نوح ہوں مَیں ابراہیم ہوں مَیں اسحٰق ہوں مَیں اسمٰعیل ہوں مَیں یعقوب ہوں مَیں یوسف ہوں مَیں موسیٰ ہوں مَیں داؤد ہوں مَیں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا مَیں مظہر اتم ہوں یعنی ظلّی طور پر محمدؐ اور احمدؐ ہوں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 77

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 77

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/77/mode/1up


اللّٰہ قریب ۔ یاْ تیک من کُلّ فجٍّ عمیق ۔

قریب ہے۔ وہ مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے

یاْتون من کُلِّ فجٍّ عمیق ۔

جو تیری طرف آئیں گے گہرے ہو جائیں گے اِس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ

ینصرک اللّٰہ من عندہ ۔ ینصرک رجال نوحی الیھم

چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے۔ خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں

من السماء ۔ لا مبدل لکلمات اللّٰہ ۔ قال رَبّک

ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔ تیرا ربّ فرماتا ہے

انّہٗ نازل من السّماء ما یرضیک ۔ انّا فتحنا لک

کہ ایک ایسا امر آسمان سے نازل ہوگا۔ جس سے تُو خوش ہو جائیگا۔ ہم ایک کُھلی کُھلی فتح تجھ کو

فتحًا مُبینًا۔ فتح الولی فتح وقربناہ نجیّا۔

عطا کریں گے۔ ولی کی فتح ایک بڑی فتح ہے اور ہم نے اسکو ایک ایسا قُرب بخشا کہ ہمراز اپنا بنادیا

اشجع الناس ۔ ولو کان الایمان معلّقًا بالثریّا

وہ تمام لوگوں سے زیادہ بہادر ہے۔ اور اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تو وہ وہیں جاکر اس کو لے لیتا۔

لنا لہ ۔ انار اللّٰہ برھانہ ۔ کُنتُ کنزًا مخفیًّا

خدا اس کی حجت روشن کرے گا۔ مَیں ایک خزانہ پوشیدہ تھا۔

فَاَحْبَبْتُ ان اُعرف۔ یاقمریا شمس انت منّی واَنا

پس مَیں نے چاہا کہ ظاہر کیا جاؤں۔ اے چاند اور اے سورج تُو مجھ سے ظاہر ہوا اور مَیں

منک۔ اذا جاء نصر اللّٰہ وانتھٰی امر الزمان الینا

تجھ سے۔ جب خدا کی مدد آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرے گا تب کہا جائے گا کہ کیا

وتمّت کلمۃ ربّک ۔ اَلَیْس ھٰذا بالحقّ۔ ولا تصعّر

یہ شخص جو بھیجا گیا حق پر نہ تھا اور چاہئے کہ تُو مخلوق الٰہی کے ملنے کے وقت چیں برجبیں نہ ہو اور چاہیئے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 78

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 78

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/78/mode/1up


لخلق اللّٰہ ولا تسئم من النّاس ۔ ووسّع مکانک ۔

کہ تو لوگوں کی کثرت ملاقات سے تھک نہ جائے۔ اور تجھے لازم ہے کہ اپنے مکان کو وسیع کرے تا لوگ جو کثرت سے آئیں گے

وبشّر الّذین اٰمنوا انّ لھم قدم صدق عند ربّھم ۔

انکو اُترنے کیلئے کافی گنجائش ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دے کہ خدا کے حضور میں اُنکا قدم صدق پر

وَاتْلُ علیھم مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ من رَبِّکَ ۔ اصحاب الصّفّۃ ۔

ہے اور جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تیرے پر وحی نازل کی گئی ہے وہ ان لوگوں کو سُنا جو تیری جماعت میں داخل ہونگے

و ؔ ما ادراک ما اصحاب الصفّۃ ۔ ترٰی اعینھم تفیض

صفّہ کے رہنے والے اور تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صفّہ کے رہنے والے۔ تو دیکھے گا کہ اُنکی آنکھوں سے آنسو

من الدَّمْعِ۔ یُصلّون علیک۔ ربّنا انّنا سمعنا منادیًا

جاری ہوں گے۔ وہ تیرے پر درود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک منادی کرنے والے

ینادی للایمان ۔ وداعیًا الی اللّٰہ وسراجًا منیرًا۔ یا اَحْمَدُ

کی آواز سُنی ہے جو ایمان کی طرف بلاتا ہے اور خدا کی طرف بلاتا ہے اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے۔ اے احمد تیرے

فاضت الرّحمۃ علٰی شفتیک ۔ انّک باعیننا۔ سمّیتک

لبوں پر رحمت جاری کی گئی۔ تُو میری آنکھوں کے سامنے ہے مَیں نے تیرا نام

المتوکّل ۔ یرفع اللّٰہ ذکرک ویتمّ نعمتہٗ علیک فی الدنیا

متوکّل رکھا ہے۔ خدا تیرا ذکر بلند کرے گا۔ اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تیرے پر

والاٰخر ۃ ۔ بورکت یا احمد وکان مابارک اللّٰہ فیک

پوری کرے گا۔ اے احمد تُو برکت دیا گیا اور جو کچھ تجھے برکت دی گئی وہ تیرا ہی

حقّافیک ۔ شانک عجیب ۔ واجرک قریب ۔ الارض والسّماء

حق تھا۔ تیری شان عجیب ہے۔ اور تیرا اجر قریب ہے۔ آسمان اور زمین

معک کما ھو معی ۔ انت وجیہ فِی حضرتی اخترتک

تیرے ساتھ ہیں جیسے کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ تو میری درگاہ میں وجیہ ہے مَیں نے تجھے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 79

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 79

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/79/mode/1up


لنفسی۔ سُبحان اللّٰہ تبارک وتعالٰی زاد مَجْدک

اپنے لئے چُنا۔ خدائے پاک بڑا برکتوں والا اور بڑا بزرگ ہے وہ تیری بزرگی کو زیادہ کرے گا۔

ینقطعؔ اٰبائک و یبدء منک*

تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور تیرے بعد سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہوگا۔

وما کان اللّٰہ لیترکک حتّی یمیز الخبیث من الطیّب ۔

اور خدا ایسا نہیں کہ تجھ کو چھوڑ دے جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلادے۔

اذا جآء نصر اللّٰہ والفتح وتمّت کلمۃ ربّک ۔ ھٰذا

اور جب خدا تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور خدا کا وعدہ پُورا ہوگا تب کہا جائے گا کہ یہ

الّذی کنتم بہٖ تستعجلون ۔ اَرَدتُ ان استخلف فخلقتُ

وہی امر ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو مَیں نے

ٰادَم ۔ دَنٰی فَتَدَلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی۔

اس آدم کو پَیدا کیا۔ وہ خدا سے نزدیک ہوا پھر مخلوق کی طرف جھکا اور خدا اور مخلوق کے درمیان ایسا

یُحْیِی الدّین ویقیم الشریعۃ ۔ یا اٰدم اسکن انت

ہو گیا جیسا کہ دو قوسوں کے درمیان کا خط ہوتا ہے دین کو زندہ کریگا اور شریعت کو قائم کریگا اے آدم

وزوجک الجنۃ ۔ یامریم اسکن انت وزوجک الجنۃ

تو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو۔ اے مریم تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو۔


یاد رہے کہ ظاہری بزرگی اور وجاہت کے لحاظ سے اس خاکسار کا خاندان بہت شہرت رکھتا تھا بلکہ اس زمانہ تک بھی کہ اس خاندان کی دنیوی شوکت زوال کے قریب قریب تھی۔ میرے دادا صاحب کے اِس نواح میں بیا۸۲سی گاؤں اپنی ملکیت کے تھے اور پہلے اِس سے وہ والیانِ ملک کے رنگ میں بسر کرتے تھے اور کسی سلطنت کے ماتحت نہ تھے۔ اور پھر رفتہ رفتہ حکمت اور مشیت ایزدی سے سکّھوں کے زمانہ میں چند لڑائیوں کے بعد سب کچھ کھو بیٹھے اور صرف چھ۶ گاؤں اُن کے قبضہ میں رہے اور پھر دو گاؤں اور ہاتھ سے جاتے رہے اور صرف چار گاؤں رہ گئے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 80

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 80

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/80/mode/1up


یاؔ احمد اسکن انت و زوجک الجنّۃ۔ نُصِرْتَ

اے احمد تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو۔ تجھے مدد دی جائے گی۔

وقالوا لات حین مناص۔ انّ الّذین کفروا

اور مخالف کہیں گے کہ اب گریز کی جگہ نہیں۔ وہ لوگ جو کافر ہوئے

وصدُّوا عن سبیل اللّٰہ ردّ علیھم رجل من فارس

اور خدا کی راہ کے مانع ہوئے اُن کا ایک فارسی الاصل آدمی نے ردّ کیا۔

شکر اللّٰہ سعیہ ۔ ام یقولون نحن جمیع منتصر ۔

خدا اسکی کوشش کا شکر گذار ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایک زبردست جماعت تباہ کرنیوالے ہیں۔


اور اس طرح پر دُنیوی شوکت جو کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی زوال پذیر ہو گئی۔ بہرحال یہ خاندان اس نواح میں بہت شہرت رکھتا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ یہ عزّت صرف دنیوی حیثیت تک محدود رہے کیونکہ دنیا کی عزّتوں کا بجزبے جامشیخت اور تکّبر اور غرور کے اور کوئی ماحصل نہیں اِس لئے اب خدا تعالیٰ اپنی پاک وحی میں وعدہ دیتا ہے اور مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اب یہ خاندان اپنا رنگ بدل لیگا اور اس خاندان کا سلسلہ تم سے شروع ہوگا اور پہلا ذکر منقطع ہو جائیگا اور اس وحی الٰہی میں کثرت نسل کیطرف بھی اشارہ ہے یعنی نسل بہت ہو جائیگی اور جیسا کہ بظاہر سمجھا گیا ہے ۔ یہ خاندان مغلیہ خاندان کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ لیکن خدائے عالم الغیب نے جو دانائے حقیقتِ حال ہے بار بار اپنی وحی مقدّس میں ظاہر فرمایا ہے جو یہ فارسی خاندان ہے اور مجھ کو ابناء فارس کرکے پکارا ہے جیسا کہ وہ میری نسبت فرماتا ہے انّ الّذین کفروا وصدّوا عن سبیل اللّٰہ ردّ علیھم رجل من فارس شکر اللّٰہ سعیہ یعنی جو لوگ کافر ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں ایک فارسی الاصل نے انکا ردّ لکھا ہے خدا اسکی اس کوشش کا شکر گذار ہے۔ پھر وہ ایک اور وحی میں میری نسبت فرماتا ہے لوکان الایمان معلّقًا بالثریّا لنا لہ ص رجل من فارسٍ۔ یعنی اگر ایمان ثریا کے ساتھ معلّق ہوتا تو ایک فارسی الاصل انسان وہاں بھی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 81

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 81

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/81/mode/1up


سیھزؔ م الجمع ویولّون الدُّبر ۔ انّک الیوم لدینا مکین

یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیرلیں گے تو ہمارے نزدیک آج صاحب مرتبہ

امین ۔ وانّ علیک رحمتی فی الدُّنیا والدّین وانّک

امین ہے اور تیرے پر میری رحمت دنیا اور دین میں ہے اور تُو اُن لوگوں میں سے ہے

من المنصورین ۔ یحمدک اللّٰہ ویمشی الیک ۔ سبحان

جن کے شامل نصرت الٰہی ہوتی ہے۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چل رہا ہے۔ وہ پاک ذات

الّذی اسریٰ بعبدہٖ لیلا ۔ خلق اٰدم فاکرمہٗ ۔

وہی خدا ہے جس نے ایک رات میں تجھے سیر کرادیا۔ اُس نے اس آدم کو پیدا کیا اور پھر اس کو عزت دی۔


اس کو پا لیتا۔ پھر اپنی ایک اور وحی میں مجھ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے خذوا التوحید خذوا التوحید یا ابناء الفارس۔ یعنی توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو۔

ان تمام کلمات الہٰیہ سے ثابت ہے کہ اس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مغلیہ۔ نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہو گیا اور جیسا کہ ہمیں اطلاع دیگئی ہے میرے خاندان کا شجرہ نسب اس طرح پر ہے کہ میرے والد کا نام میرزا غلام مرتضیٰ تھا اور اُنکے والد کا نام میرزا عطا محمد۔ میرزا عطا محمد کے والد میرزا گل محمد۔ میرزا گل محمد کے والد میرزا فیض محمداور میرزا فیض محمد کے والد میرزا محمد قائم۔ میرزا محمد قائم کے والد میرزا محمد اسلم۔ میرزا محمد اسلم کے والد میرزا دلاور۔ میرزا دلاور کے والد میرزا الٰہ دین۔ میرزا الٰہ دین کے والد میرزا جعفر بیگ۔ میرزا جعفر بیگ کے والد میرزا محمد بیگ۔ میرزا محمد بیگ کے والد میرزا عبد الباقی۔ میرزا عبد الباقی کے والد میرا محمد سلطان۔ میرزا محمد سلطان کے والد میرزا ہادی بیگ معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے انکو ملا تھا جس طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے۔ بہرحال جو کچھ خدانے ظاہر فرمایا ہے وہی درست ہے انسان ایک ادنیٰ سی لغزش سے غلطی میں پڑ سکتا ہے مگر خدا سہو اور غلطی سے پاک ہے۔منہ


میرے خاندان کی نسبت ایک اور وحی الٰہی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا میری نسبت فرماتاس ہے سلمان منّا اھل البیت (ترجمہ) سلمان یعنی یہ عاجز جو دو صلح کی بنیاد ڈالتا ہے ہم میں سے ہے جو اہل بیت ہیں۔ یہ وحی الٰہی اس مشہور واقعہ کی تصدیق کرتی ہے جو بعض دادیاں اس عاجز کی سادات میں سے تھیں۔ اور دو صلح سے مراد یہ ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ ایک صلح میرے ہاتھ سے اور میرے ذریعہ سے اسلام کے اندرونی فرقوں میں ہوگی اور بہت کچھ تفرقہ اُٹھ جائے گا اور دُوسری صلح اسلام کے بیرونی دشمنوں کے ساتھ ہوگی کہ بہتوں کو اسلام کی حقانیت کی سمجھ دی جائیگی اور وہ اسلام میں داخل ہو جائینگے تب خاتمہ ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 82

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 82

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/82/mode/1up


جَرِؔ ی اللّٰہ فِیْ حُللِ الانبیآء ۔ بُشْرٰی لک یا احمدی ۔

یہ رسول خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک نبی کی ایک خاص صفت اسمیں موجود ہے۔ تجھے بشارت ہو اے میرے احمد۔

اَنْتَ مُرَادِی ومَعِیْ ۔ سِرُّکَ سِرِّیْ۔ اِنّی ناصِرک ۔

تو میری مُراد اور میرے ساتھ ہے۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ میں تیری مدد کروں گا۔

اِنّی حافظک ۔ انّی جاعِلُکَ للنّاس امامًا ۔

مَیں تیرا نگہبان رہونگا۔ میں لوگوں کیلئے تجھے امام بناؤں گا تُو اُن کا رہبر ہوگا اور وہ تیرے پیرو ہونگے۔

أ کان للنّاس عجبًا ۔ قُل ھواللّٰہ عجیب ۔ لا یُسْءَلُ عمّا یفعل

کیا ان لوگوں کو تعجب آیا۔ کہہ خداذوالعجائب ہے۔ وہ اپنے کاموں سے پُوچھا نہیں جاتا

وَھُمْ یُسْءَلُوْنَ ۔ وَتِلْکَ الْاَیّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النّاس ۔

اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔ اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔

وقالوا اِنْ ھٰذا الَّا اختلاق ۔ قل ان کنتم تحبُّون

اور کہیں گے کہ یہ تو صرف ایک بناوٹ ہے۔ کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو

اللّٰہ فاتّبعونی یحببکم اللّٰہ ۔ اذا نصر اللّٰہ المؤمِنَ

آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ جب خدا تعالیٰ مومن کی مدد کرتا ہے تو

جعل لہ الحاسدین فی الارض ۔ ولارآدّ لفضلہ ۔

زمین پر اُس کے کئی حاسد مقرر کر دیتا ہے۔ اور اس کے فضل کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا۔

فالنّارموعدھم ۔ قل اللّٰہ ثمّ ذرھم فی خوضہم یلعبون ۔

پس جہنم اُن کے وعدہ کی جگہ ہے۔ کہہ خدا نے یہ کلام اتارا ہے پھر انکو لہوو لعب کے خیالات میں چھوڑ دے۔

واذا قیل لھم اٰمنوا کما اٰمن النّاس قالوا أنُؤمِنُ

اور جب اُن کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ ۔ جیسا کہ لوگ ایمان لائے کہتے ہیں کیا ہم

کما اٰمن السُّفھَآءُ الَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لَّا

بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں خبردار ہوکہ درحقیقت وہی لوگ بے وقوف ہیں مگر اپنی نادانی پر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 83

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 83

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/83/mode/1up


یعلمون ۔ وَاِذَا قِیْلَ لھم لا تُفْسِدُوْا فی الارض قَالوا

مطلع نہیں اور جب اُن کو کہا جائے کہ زمین پر فساد مت کرو کہتے ہیں کہ

انّما نحن مُصلِحون۔ قل جَاءَ کُم نُورٌ مِّنَ اللّٰہ فلا تکفروا

بلکہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں۔ کہہ تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے پس اگر

ان کنتم مؤمنین ۔ اَمْ تَسْءَلھم من خرج فھم مِنْ مَّغْرمٍ

مومن ہو تو انکار مت کرو کیا تُو ان سے کچھ خراج مانگتا ہے پس وہ اُس چٹی کی وجہ سے

مُّثْقَلُوْنَ ۔ بل اٰ تَیْنٰھم بِالحَقِّ فہم لِلْحَقِّ کارِھون۔ تلطّف

ایمان لانے کا بوجھ اُٹھا نہیں سکتے۔ بلکہ ہم نے ان کو حق دیا اور وہ حق لینے سے کراہت کرتے ہیں۔ لوگوں کے

بالنّاس وترحم علیھم۔ انت فیھم بمنزلۃ موسٰی واصبر

ساتھلطف اور رحم کے ساتھ پیش آ۔ تو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور ان کی

علٰی ما یقولون ۔ لعلّک بَاخِعٌ نفسک اَ لَّا یکونوا مؤمنین ۔

باتوں پر صبر کر۔ کیا تُو اس لئے اپنے تئیں ہلاک کرے گا کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے

لا تقف ما لیس لک بہٖ علم ۔ ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا

اس بات کے پیچھے مت پڑ جس کا تجھے علم نہیں اور ان لوگوں کے بارہ میں جو ظالم ہیں مجھ سے گفتگو

انّھم مغرقون ۔ واصنع الفلک بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔ اِنَّ

مت کر کیونکہ وہ سب غرق کئے جائینگے۔ اور ہماری آنکھوں کے رو برو کشتی تیار کر۔ اور ہمارے اشارے سے وہ لوگ جو

الّذین یبایعونک انّما یبایعون اللّٰہ۔ ید اللّٰہ فوق ایدیھم

تیرے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں وہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں یہ خدا کا ہاتھ ہے جو انکے ہاتھوں پر ہے

واذؔ یمکربک الّذی کفَّر* ۔ اوقدلی یا ھامان

اور یاد کروہ وقت جب تجھ سے وہ شخص مکر کرنے لگا جس نے تیری تکفیر کی اور تجھے کافر ٹھہرایا اور کہا کہ اے ہامان


* مکفّر سے مراد مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی ہے کیونکہ اُس نے استفتاء لکھ کر نذیر حسین کے سامنے پیش کیا اور اس ملک میں تکفیر کی آگ بھڑکانے والا نذیر حسین ہی تھا۔ علیہ ما یستحقّہ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 84

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 84

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/84/mode/1up


لعلی اطّلع علٰی اِلٰہِ مُوسٰی ۔ وانّی لَاَ ظُنُّہٗ من الکاذبین ۔

میرے لئے آگ بھڑکا تا میں موسیٰ کے خدا پر اطلاع پاؤں اور مَیں اُس کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔

تبّت یدا ابی لھبٍ وَّ تبّ * ۔ ما کان لہٗ ان یدخل

ہلاک ہو گئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے اور وہ آپ بھی ہلاک ہو گیا اسکو نہیں چاہئے تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا

فیھا الَّا خائفًا ۔ وما اصابک فمن اللّٰہ ۔ الفتنۃ ھٰھُنا ۔

مگر ڈرتے ڈرتے۔ اور جو کچھ تجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے۔ اس جگہ ایک فتنہ برپا ہوگا۔

فاصبر کما صبر اولو العزم ۔ الَآ انّھا فتنۃ من اللّٰہ ۔

پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا۔ وہ فتنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔

لیحب حبًّا جمّا ۔ حُبًّا من اللّٰہ العزیز الاکْرَم ۔ شاتان

تا وہ تجھ سے محبت کرے۔ وہ اس خدا کی محبت ہے جو بہت غالب اور بزرگ ہے۔ دو بکریاں

تذبحان ۔ وکل من علیھا فان ۔ ولا تھنوا ولا تحزنوا ۔

ذبح کی جائیں گی۔ اور ہر ایک جو زمین پر ہے آخر وہ فنا ہوگا۔ تم کچھ غم مت کرو اور اندو ہگین مت ہو

الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ ۔ الم تعلم انّ اللّٰہ علٰی

کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں۔ کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر ایک

کُلِّ شیءٍ قدیر۔ وان یتخذونک الَّا ھزوا ۔

چیز پر قادر ہے اور تجھے انہوں نے ٹھٹھے کی جگہ بنا رکھا ہے۔

أَھٰذا الّذی بعث اللّٰہ ۔قل انّما انا بشر مثلکم

وہ ہنسی کی راہ سے کہتے ہیں کیا یہی ہے جس کو خدا نے مبعوث فرمایا۔ ان کو کہہ کہ مَیں تو ایک انسان ہوں۔


* اس جگہ ابو لہب سے مراد ایک دہلوی مولوی ہے جو فوت ہو چکا ہے اور یہ پیشگوئی ۲۵ برس کی ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے اور یہ اس زمانہ میں شائع ہو چکی ہے جبکہ میری نسبت تکفیر کا فتویٰ بھی ان مولویوں کی طرف سے نکلا تھا۔ تکفیر کے فتویٰ کا بانی بھی وہی دہلی کا مولوی تھا جس کا نام خدا تعالیٰ نے ابو لہب رکھا اور تکفیر سے ایک مدّت دراز پہلے یہ خبر دے دی جو براہین احمدیہ میں درج ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 85

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 85

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/85/mode/1up


یوؔ حٰی الیّ انّما اِلٰھُکم الٰہٌ واحد والخیر کلّہ فی القرآن ۔

میری طرف یہ وحی ہوئی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے۔ اور تمام بھلائی اور نیکی قرآن میں ہے۔

لا یمسّہٗ الّا المطھّرون۔ قل انّ ھدی اللّٰہ ھو

کسی دُوسری کتاب میں نہیں اسکے اسرار تک وہی پہنچتے ہیں جو پاک دل ہیں۔ کہہ ہدایت دراصل خدا کی ہدایت

الھُدیٰ ۔ وقالوا لولا نزّل علٰی رجل من قریتین

ہی ہے۔ اور کہیں گے کہ یہ وحی الٰہی کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں ہوئی جو دو شہروں میں سے

عظیم* ۔ وقالوا انّی لک ھٰذا ۔ انّ ھٰذا لمکر مکرتمُوہ

کسی ایک شہر کا باشندہ ہے۔ اور کہیں گے کہ تجھے یہ مرتبہ کہاں سے حاصل ہو گیا۔ یہ تو ایک مکر ہے جو تم لوگوں نے

فی المدینۃ ۔ ینظرون الیک وھم لا یُبْصِرون ۔

مل کر بنایا۔ یہ لوگ تیری طرف دیکھتے ہیں مگر تو اُنہیں دکھائی نہیں دیتا۔

قل ان کنتم تحبّون اللّٰہ فاتّبعونی یحببکم اللّٰہ۔ عسٰی

ان کو کہہ کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔ خدا آیا

ربّکم ان یرحمکم ۔ وان عُدتم عُدْنا ۔ وجعلنا جھنّم

ہے تا تم پر رحم کرے۔ اور اگر تم پھر شرارت کی طرف عود کروگے تو ہم بھی عذاب دینے کی طرف

للکافرین حصیرا ۔ وما أرْسَلْنٰک اِلَّا رحمۃ للعالمین ۔

عود کرینگے اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے قید خانہ بنایا ہے۔ اور ہم نے تجھے تمام دنیا پر رحمت کرنے کیلئے بھیجا ہے۔

قل اعملوا علٰی مکانتکم انّی عامل فسوف تعلمون ۔

انکو کہہ کہ تم اپنے مکانوں پر اپنے طور پر عمل کرو اور مَیں اپنے طور پر عمل کر رہا ہوں پھر تھوڑی دیر کے بعد تم دیکھ لوگے کہ

لا یُقْبل عملٌ مثقال ذرّۃ من غیر التقویٰ ۔ انّ اللّٰہ مع

کس کی خدا مدد کرتا ہے کوئی عمل بغیر تقویٰ کے ایک ذرّہ قبول نہیں ہو سکتا۔ خدا اُن کے ساتھ ہوتا ہے


* یعنی اس شخص کو مہدی موعود ہونے کا دعویٰ ہے جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں قادیان کارہنے والا

ہے۔ کیوں مہدی معہود مکہ یا مدینہ میں مبعوث نہ ہوا جو سرزمین اسلام ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 86

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 86

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/86/mode/1up


الذؔ ین اتقوا والذین ھم محسنون ۔ قل ان افتریتہٗ

جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور انکے ساتھ جو نیک کا موں میں مشغول ہیں۔ کہہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو میری

فعلیّ اجرامی ۔ ولقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون ۔

گردن پر میرا گناہ ہے اور میں پہلے اس سے ایک مدّت تک تم ہی میں رہتا تھا کیا تم کو سمجھ نہیں۔

الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ ۔ ولنجعلہ اٰیۃ للنّاس ورحمۃ

کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ اور ہم اس کو لوگوں کے لئے ایک نشان اور ایک نمونہ

منّا وکان امرًا مقضیّا ۔ قول الحق الذی فیہ تمترون۔

رحمت بنائیں گے اور یہ ابتدا سے مقدر تھا۔ یہ وہی امر ہے جس میں تم شک کرتے تھے۔

سلام علیک جُعلت مبارکًا۔ انت مبارک فی الدنیا

تیرے پر سلام تُو مبارک کیا گیا۔ تُو دنیا اور آخرت میں مبارک

و الاٰخرۃ ۔ امراض الناس و برکاتہٗ ۔ بخرام کہ وقت ِ تو

ہے۔ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہوگی۔*

نزدیک رسید وپائے محمدیان برمنار بلند تر محکم افتادپاک محمد

مصطفٰے نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا۔


یہ خدا کا قول کہ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہوگی رُوحانی اور جسمانی دونوں قسم کے مریضوں پر مشتمل ہے۔ رُوحانی طور پر اس لئے کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزارہا لوگ بیعت کرنیوالے ایسے ہیں کہ پہلے اُنکی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد اُنکے عملی حالات درست ہو گئے اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور مَیں صدہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہو گئی ہے کہ کس طرح وہ جذباتِ نفسانیہ سے پاکؔ ہوں اور جسمانی امراض کی نسبت مَیں نے بارہامشاہدہ کیا ہے کہ اکثر خطرناک امراض والے میری دعا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 87

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 87

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/87/mode/1up


اورؔ تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ رَبُّ الافواج اس طرف توجہ کرے گا

اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مُنہ کی باتیں ہیں

یا عیسٰی انّی متوفّیک ورافعک الیّ وجاعل الّذین

اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور مَیں تیرے

اتبعوک فوق الّذین کفروا الٰی یوم القیامۃ ۔

تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔


اور توجہ سے شفایاب ہوئے ہیں میرا لڑکا مبارک احمد قریباً دو برس کی عمر میں ایسا بیمار ہوا کہ حالتِ یاس ظاہر ہو گئی اور ابھی میں دعاکر رہا تھا کہ کسی نے کہا کہ لڑکا فوت ہو گیا ہے یعنی اب بس کرو دعاکا وقت نہیں مگر مَیں نے دعا کرنا بس نہ کیا اور جب میں نے اسی حالت توجہ الی اللہ میں لڑکے کے بدن پر ہاتھ رکھا تو معاً مجھے اُس کا دم آنا محسوس ہوا اور ابھی میں نے ہاتھ اس سے علیحدہ نہیں کیا تھا کہ صریح طور پر لڑکے میں جان محسوس ہوئی اور چند منٹ کے بعد ہوش میں آکر بیٹھ گیا۔

اور پھر طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑکا بالکل بیہوش ہو گیا اور بیہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ اگرچہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا اِن دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اِس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اُس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اُس نے فرمایا ہے انّی احافظ کلّ من فی الدار یعنی مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچاؤنگا۔ اِس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ مَیں بیان نہیں کر سکتا۔ قریبًا رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہو گئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اور ہی بلا ہے تب میں کیا بیان کروں کہ میرے دل کیؔ کیا حالت تھی کہ خدا نخواستہ اگر لڑکا فوت ہو گیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کے لئے بہت کچھ سامان ہاتھ آجائے گا۔ اسی حالت میں مَیں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور معًا کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسّر آگئی جو استجابت دعاکے لئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور مَیں اُس خدا کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 88

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 88

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/88/mode/1up


ثلّۃؔ من الاوّلین وثلّۃ من الاٰخرین۔ مَیں اپنی چمکار

ان میں سے ایک پہلا گرو ہ ہو اور ایک پچھلا۔

دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سےؔ


قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی مَیں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور مَیں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور مَیں چار رکعت پوری کر چکا تھا۔ فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام ونشان نہیں اور ہذیان اور بیتابی اور بیہوشی بالکل دور ہو چکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی۔ مجھے اُس خدا کی قدرت کے نظارہ نے الٰہی طاقتوں اور دعاقبول ہونے پر ایک تازہ ایمان بخشا۔

پھر ایک مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ نواب سردار محمد علی خان رئیس مالیرکوٹلہ کا لڑکا قادیان میں سخت بیمار ہو گیا اور آثار یاس اور نومیدی کے ظاہر ہو گئے اُنہوں نے میری طرف دعاکیلئے التجا کی۔ مَیں نے اپنے بیت الدعا میں جاکر اُن کیلئے دعاکی اور دعاکے بعد معلوم ہوا کہ گویا تقدیر مبرم ہے اور اس وقت دعا کرنا عبث ہے تب میں نے کہا کہ یا الٰہی اگر دعاقبول نہیں ہوتی تو ؔ میں شفاعت کرتا ہوں کہ میرے لئے اس کو اچھا کر دے یہ لفظ میرے مُنہ سے نکل گئے مگر بعد میں مَیں بہت نادم ہوا کہ ایسا مَیں نے کیوں کہا۔ اور ساتھ ہی مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی من ذاالذی یشفع عندہٗ اِلَّا باذنہٖ یعنی کس کو مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی شفاعت کرے۔ مَیں اس وحی کو سُن کر چُپ ہو گیا اور ابھی ایک منٹ نہیں گذرا ہوگا کہ پھر یہ وحی الٰہی ہوئی کہ انک انت المجاز یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی۔ بعد میں پھر مَیں نے دعاپر زور دیا اور مجھے محسوس ہوا کہ اب یہ دعا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 89

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 89

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/89/mode/1up


اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ انت منّی بمنزلۃ توحیدی

تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید

وتفریدی۔ فحان ان تُعَان وتعرف بین الناس ۔

اور تفرید۔ پس وہ وقت آتا ہے کہ تو مدد دیا جائے گا اور دنیا میں مشہور کیا جائے گا۔

انت منّی بمنزلۃ عرشی۔ انت منّی بمنزلۃ ولدی۔*

تو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے۔ تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔

انت منّی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق۔ نحن اولیآء کم

تو مجھے سے بمنزلہ اس انتہائی قُرب کے ہے جس کو دنیا نہیں جان سکتی۔ ہم تمہارے متولّی اور


خالی نہیں جائے گی۔ چنانچہ اُسی دن بلکہ اُسی وقت لڑکے کی حالت روبہ صحت ہو گئی گویا وہ قبر میں سے نکلا۔ مَیں یقیناًجانتا ہوں کہ معجزات احیائے موتٰی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اِس سے زیادہ نہ تھے۔ مَیں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اِس قسم کے احیائے موتٰی بہت سے میرے ہاتھ سے ظہور میں آچکے ہیں۔ اور ایک دفعہ بشیراحمد میرا لڑکا آنکھوں کی بیماری سے بیمار ہو گیا اور مدّت تک علاج ہوتا رہا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ تب اُس کی اضطراری حالت دیکھ کر میں نے جناب الٰہی میں دعاکی تو یہ الہام ہوا برَّق طفلی بشیر یعنی میرے لڑکے بشیر نے آنکھیں کھول دیں تب اُسی دِن خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اُس کی آنکھیں اچھی ہو گئیں۔ اور ایک مرتبہ مَیں خود بیمارہو گیا یہاں تک کہ قُربِ اجل سمجھ کر تین مرتبہ مجھے سورۃ یٰسٓ


* خداؔ تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے اور یہ کلمہ بطور استعارہ کے ہے چونکہ اس زمانہ میں ایسے ایسے الفاظ سے

نادان عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا ٹھہرا رکھا ہے اسلئے مصلحتِ الٰہی نے یہ چاہا کہ اس سے بڑھ کر الفاظ اس عاجز کیلئے استعمال کرے تا عیسائیوں کی آنکھیں کھلیں اوروہ سمجھیں کہ وہ الفاظ جن سے مسیح کو وہ خدا بناتے ہیں اس اُمّت میں بھی ایک ہے جس کی نسبت اس سے بڑھ کر ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 90

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 90

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/90/mode/1up


فیؔ الحیٰوۃ الدُّنیا وَ الاٰخرۃ ۔ اذا غضبتَ غضبتُ

متکفّل دنیا اور آخرت میں ہیں جس پر تو غضبناک ہو مَیں غضبناک ہوتا ہوں

وکلّما اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ۔ من عادیٰ ولیًّا لی فقد ٰاذنتہٗ

اور جن سے تو محبت کرے مَیں بھی محبت کرتا ہوں۔ اور جو شخص میرے ولی سے دشمنی رکھے میں لڑنے کیلئے

للحرب۔ اِنّی مع الرّسول اقوم ۔ والوم من یلوم ۔

اُسکو متنبّہ کرتا ہوں۔ مَیں اِس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ اور اس شخص کو ملامت کروں گا جو اُسکو ملامت کرے۔

واُعْطیک مَا یدوم ۔ یأتیک الفرج۔ سَلامٌ علٰی ابراہیم

اور تجھے وہ چیزدوں گا جو ہمیشہ رہے گی۔ کشائش تجھے ملے گی۔ اِس ابراہیم پر سلام۔


سُنائی گئی مگر خدا تعالیٰ نے میری دعاکو قبول فرما کر بغیر ذریعہ کسی دوا کے مجھے شفا بخشی اور جب مَیں صبح اُٹھا تو بالکل شفا تھی اور ساتھ ہی یہ وحی الٰہی ہوئی وان کنتم فی ریب ممّا نزلنا علٰی عبدنا فاتوا بشفاء من مثلہٖ یعنی اگر تم اِس رحمت کے بارہ میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کی تو اس شفا کی کوئی نظیر پیش کرو۔ اسی طرح بہت سی ایسی صورتیں پیش آئیں جو محض دعااور توجہ سے خدا تعالیٰ نے بیماروں کو اچھا کر دیا جن کا شمار کرنا مشکل ہے۔ ابھی ۸؍جولائی ۱۹۰۶ء کے دن سے جو پہلی رات تھی میرا لڑکا مبارک احمد خسرہ کی بیماری سے سخت گھبراہٹ اور اضطراب میں تھا۔ ایک رات تو شام سے صبح تک تڑپ تڑپ کر اُس نے بسر کی اور ایک دم نیند نہ آئی اور دُوسری رات میں اس سے سخت تر آثار ظاہر ہوئے اور بیہوشی میں اپنی بوٹیاں توڑتا تھا اور ہذیان کرتا تھا۔ اور ایک سخت خارش بدن میں تھی۔ اُس وقت میرا دل دردمند ہوا اور الہام ہوا۔ اُدْعُونی استجب لکم۔ تب معًا دعاکے ساتھ مجھے کشفی حالت میں معلوم ہوا کہ اُس کے بستر پر چوہوں کی شکل پر بہت سے جانور پڑے ہیں اوروہ اُس کو کاٹ رہے ہیں اور ایک شخص اُٹھا اور اُس نے تمام وہ جانور اکٹھے کرکے ایک چادر میں باندھ دئے اور کہا کہ اِس کو باہر پھینک آؤ اور پھر وہ کشفی حالت جاتی رہی۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 91

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 91

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/91/mode/1up


صاؔ فیناہ ونجّیناہُ من الغمّ ۔ تفرّدنا بذالک۔ فاتخذوا

ہم نے اس سے صاف دوستی کی اور غم سے نجات دی ہم اس امر میں اکیلے ہیں سو تم

من مقام ابراہیم مُصلّٰی۔ انّا انزلناہ قریبًا مِن القادیان

اس ابراہیم کے مقام سے عبادت کی جگہ بناؤ یعنی اس نمونہ پر چلو۔ ہم نے اسکو قادیان کے قریب اُتارا ہے

وبالحق انزلناہ وبالحق نزل ۔ صدق اللّٰہ ورسولہ ۔

اوروہ عین ضرورت کے وقت اُتارا ہے اور ضرورت کے وقت اُترا ہے۔ خدا اور اُسکے رسول کی پیشگوئی پوری ہوئی

وکان امر اللّٰہ مفعولا ۔ الحمد للّٰہ الذی جعلک المسیح

اور خدا کا ارادہ پُورا ہونا ہی تھا۔ اُس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے مسیح


اور میں نہیں جانتا کہ پہلے وہ کشفی حالت دور ہوئی یا پہلے مرض دور ہو گئی اور لڑکا آرام سے فجر تک سویا رہا۔ اور چونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے یہ خاص معجزہ مجھ کو عطا فرمایا ہے اس لئے مَیں یقیناًکہتا ہوں کہ اس معجزہ شفاء الامراض کے بارے میں کوئی شخص روئے زمین پر میرا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اگر مقابلہ کا ارادہ کرے تو خدا اس کو شرمندہ کرے گا۔ کیونکہ یہ خاص طور پر مجھ کو موہبت الٰہی ہے جو معجزانہ نشان دکھلانے کے لئے عطا کی گئی ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر ایک بیمار اچھا ہو جائے گا بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اکثر بیماروں کو میرے ہاتھ پر شفا ہوگی۔

اور اگر کوئی چالاکی اور گُستاخی سے اِس معجزہ میں میرا مقابلہ کرے اور یہ مقابلہ ایسی صُورت سے کیا جائے کہ مثلاً قرعہ اندازی سے بیس۲۰ بیمار میرے حوالہ کئے جائیں اور بیس۲۰ اس کے حوالے کئے جائیں تو خدا تعالیٰ ان بیماروں کو جو میرے حصّہ میں آئیں شفایابی میں صریح طور پر فریق ثانی کے بیماروں سے زیادہ رکھے گا اور یہ نمایاں معجزہ ہوگا۔ افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں ورنہ نظیر کے طور پر بہت سے عجیب واقعات بیان کئے جاتے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 92

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 92

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/92/mode/1up


ابنؔ مریم ۔ لا یسئل عمّا یفعل وھم یسئلون ۔ اٰثرک

ابن مریم بنایا ہے وہ اپنے کاموں سے پُوچھا نہیں جاتا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں خدا نے تجھے

اللّٰہ علٰی کلِّ شیءٍ ۔ آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا

ہر ایک چیز میں سے چُن لیا۔ دنیا میں کئی تخت اُترے پر تیرا

تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا۔ یریدون اَن یطفءُوْا

تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا۔ ارادہ کریں گے کہ خدا کے نُور کو

نور اللّٰہ ۔ الا انّ حزب اللّٰہ ھم الغالبون۔ لا تخف ط

بُجھا دیں خبردار ہو کہ انجام کار خدا کی جماعت ہی غالب ہوگی۔ کچھ خوف مت کر

انّک انت الا علٰی ۔ لا تخف ط انّی لا یخاف لدیّ

تُو ہی غالب ہوگا۔ کچھ خوف مت کر کہ میرے رسول میرے قرب میں کسی سے

المرسلون ۔ یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ بافواھہم ۔

نہیں ڈرتے۔ دشمن ارادہ کریں گے کہ اپنے مُنہ کی پھونکوں سے خدا کے نور کو بجھا دیں۔

واللّٰہ متم نورہٖ ولوکرہ الکٰفرون ۔ نُنَزِّلُ علیک

اور خدا اپنے نُور کو پورا کریگا اگرچہ کافر کراہت ہی کریں۔ ہم آسمان سے تیرے پر کئی

اسرارا من السَّمآءِ ۔ ونمزّق الا عدآء کل ممزق ۔

پوشیدہ باتیں نازل کریں گے۔ اور دشمنوں کے منصوبوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔

ونری فرعون وھامان وجنودھما ما کانوا یحذرون ۔

اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر کو وہ ہاتھ دکھاویں گے جس سے وہ ڈرتے ہیں۔

فلا تحزن علی الذی قالوا۔ ان ربّک لبالمرصاد ۔

پس اُن کی باتوں سے کچھ غم مت کر کہ تیرا خدا اُن کی تاک میں ہے۔

ماؔ اُرسل نبیّ اِلَّا اَخْزٰی بہِ اللّٰہ قومًا لا یؤمنون ۔

کوئی نبی نہیں بھیجا گیا جس کے آنے کے ساتھ خدا نے اُن لوگوں کو رُسوا نہیں کیا جو اُسپر ایمان نہیں لائے تھے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 93

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 93

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/93/mode/1up


سننجیک ۔ سنعلیک ۔ ساُکرمک اکرامًا عجبًا ۔ اُریحک

ہم تجھے نجات دینگے۔ ہم تجھے غالب کرینگے اور مَیں تجھے ایسی بزرگی دُونگا جس سے لوگ تعجب میں پڑینگے میں تجھے آرام دُونگا

ولا اُجیحک واُخرج منک قومًا ۔ ولک نُری اٰیات

اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کرونگا۔ اور تیرے لئے ہم بڑے بڑے نشان دکھاوینگے

ونھدم ما یعمرون ۔ انت الشیخ المسیح الذی لا یُضاع

اور ہم اُن عمارتوں کو ڈھا دیں گے جو بنائی جاتی ہیں۔ تووہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا

وقتہٗ ۔ کمثلک دُرٌّ لا یضاع ۔ لک درجۃ فی السّمآءِ

جائے گا۔ اور تیرے جیسا موتی ضائع نہیں ہو سکتا۔ آسمان پر تیرا بڑا درجہ ہے اور نیز

وفی الذین ھم یبصرون۔ یبدی لک الرحمٰن شیءًا

ان لوگوں کی نگاہ میں جن کو آنکھیں دی گئی ہیں ۔خدا ایک کرشمہ قدرت تیرے لئے ظاہر کرے گا اس سے منکر لوگ

یخرّون علی المساجد ۔ یخرّون علی الاذقان ۔ ربّنا اغفرلنا

سجدہ گاہوں میں گِر پڑیں گے اور اپنی ٹھوڑیوں پر گر پڑیں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا

ذنوبنا انا کنّا خاطئین ۔ تاللّٰہ لقد اٰثرک اللّٰہ علینا

ہمارے گناہ بخش ہم خطا پر تھے۔ اور پھر تجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ خدا کی قسم خدا نے ہم سب میں سے

وان کنّا لخاطئین ۔ لا تثریب علیکم الیوم ۔ یغفر اللّٰہ

تجھے چُن لیا اور ہماری خطا تھی جو ہم برگشتہ رہے۔ تب کہا جائیگا کہ آج جو تم ایمان لائے تم پر کچھ سرزنش نہیں خدا نے تمہارے

لکم وھو ارحم الرّاحمین ۔ یعصمک اللّٰہ من العدا

گناہ بخش دئے اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ خدا تجھے دشمنوں کے شر سے بچائے گا۔

و ؔ یسطو بکل من سَطَا ۔ ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون ۔

اور اس شخص پر حملہ کریگا جو تیرے پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ لوگ حد سے نکل گئے ہیں اور نافرمانی کی راہوں پر قدم رکھا ہے۔

الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ۔ یا جبال اوّبی معہ والطیر ۔

کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ اے پہاڑو اور اے پرندو میرے اس بندہ کے ساتھ وجدا ور رقت سے میری یاد کرو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 94

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 94

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/94/mode/1up


سَلامٌ قولًا من ربّ رحیم۔ وامتازوالیوم ایّھا المجرمون۔

تم سب پر اُس خدا کا سلام جو رحیم ہے اور اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔

اِنّی مع الروح معک ومع اھلک ۔لا تخف انی لا یخاف لدیّ

مَیں اور رُوح القدس تیرے ساتھ ہیں اور تیرے اہل کے ساتھ مت ڈر میرے قرب میں میرے

المرسلون۔ ان وعد اللّٰہ اتٰی ورکل ورکٰی فطوبٰی لمن

رسول نہیں ڈرتے۔ خدا کا وعدہ آیا اور زمین پر ایک پاؤں مارا اور خلل کی اصلاح کی پس مبارک وہ

وجد و رَاأی ۔ امم یَسّرنا لھم الھُدیٰ۔ وامم حق

جس نے پایا اور دیکھا۔ بعض نے ہدایت پائی اور بعض مستوجب

علیھم العذاب ۔ وقالوا لست مرسلا ۔ قل کفٰی باللّٰہ

عذاب ہو گئے۔ اور کہیں گے کہ یہ خدا کا فرستادہ نہیں۔ کہہ میری سچائی پر خدا

شھیدا بینی وبینکم ومن عندہٗ علم الکتٰب ینصرکم

گواہی دے رہا ہے اور وہ لوگ گواہی دیتے ہیں جو کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں خدا ایک عزیز

اللّٰہ فی وقت عزیز ۔ حکم اللّٰہ الرحمٰن لخلیفۃ اللّٰہ

وقت میں تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے رحمن کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی آسمانی

السلطان۔ یُؤْتٰی لہ الملک العظیم ۔ وتفتح علی یدہ*

بادشاہت ہے۔ اس کو ملک عظیم دیا جائے گا۔ اور خزینے اُس کے لئے

الخزؔ ائن ۔ ذالک فضل اللّٰہ۔ وفی اعینکم عجیب ۔ قل یٰٓایُّھَا

کھولے جائیں گے یہ خدا کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔ کہہ اے


* کسی آئندہ زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کشفی رنگ میں کنجیاں دی گئی تھیں مگر ان کنجیوں کا ظہور حضرت عمر فاروق کے ذریعہ سے ہوا۔ خدا جب اپنے ہاتھ سے ایک قوم بناتا ہے تو پسند نہیں کرتا کہ ہمیشہ ان کو لوگ پاؤں کے نیچے کچلتے رہیں آخر بعض بادشاہ ان کی جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر وہ ظالموں کے ہاتھ سے نجات پاتے ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے ہوا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 95

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 95

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/95/mode/1up


الکُفّار اِنّی من الصادقین ۔ فانتظروا ٰا یا تی حتّٰی حین ۔ سنریھم

منکرو مَیں صادقوں میں سے ہوں۔ پس تم میرے نشانوں کا ایک وقت تک انتظار کرو۔ ہم عنقریب

اٰیا تنا فی الاٰ فاق وفیانفسھم ۔ حُجّۃ قائمۃ وفتح مبین ۔ انّ اللّٰہ

انکو اپنے نشان اُنکے ارد گرد اور انکی ذاتوں میں دکھائیں گے اُس دن حجت قائم ہوگی اور کھلی کھلی فتح ہو جائیگی خدا اُس دن

یفصل بینکم ۔ ان اللّٰہ لا یھد ی من ھو مسرف کذّ اب ۔ و وضعنا

تم میں فیصلہ کر دے گا۔ خدا اُس شخص کو کامیاب نہیں کرتا جو حد سے نکلا ہوا اور کذّاب ہے۔ اور ہم وہ بھار

عنک وزرک الذ ی ا نقض ظھرک ۔ و قُطع دابر القوم الذ ین

تیرا اُٹھا لیں گے جس نے تیری کمر توڑدی۔ اور ہم اس قوم کو جڑھ سے کاٹ دینگے جو ایک

لا یُؤْ منون *۔ قل ا عملوا علٰی مکانتکم انی عامل فسوف

حق الامر پر ایمان نہیں لاتے۔ اُنکو کہہ کہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کیلئے عمل میں مشغول رہو اور میں بھی عمل میں مشغول ہوں پھر دیکھو گے

تعلمون ۔ انّ اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون ۔

کہ کس کے عمل میں قبولیت پیدا ہوتی ہے۔ خدا اُن کے ساتھ ہوگا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اُنکے ساتھ جو نیک کاموں میں مشغول ہیں۔

ھل اَ تاک حدیث الزلزلۃ ۔ اذا زلزلت الارض زلزالھا ۔

کیا تجھے آنے والے زلزلہ کی خبر نہیں ملی۔ یاد کر جب کہ سخت طور پر زمین ہلائی جائے گی۔

واخرجت الارض اثقالھا۔ وقال الانسان مالھا ۔ یومئذٍ

اور زمین جو کچھ اسکے اندر ہے باہر پھینک دے گی۔ اور انسان کہے گا کہ زمین کو کیا ہو گیا کہ یہ غیر معمولی بلا اس میں پیدا ہو گئی۔

تحدّث اخبارھا ۔ بانّ ربّک اوحٰی لھا۔احسب النّاس

اُس دن زمین اپنی باتیں بیان کریگی کہ کیا اسپر گذرا۔ خدا اس کیلئے اپنے رسول پر وحی نازل کریگا کہ یہ مصیبت پیش آئی ہے۔ کیا لوگ

ان ؔ یترکوا ۔ وما یأتیھم اِلّا بغتۃ ۔ یسئلونک احق ھو ۔

خیال کرتے ہیں کہ یہ زلزلہ نہیں آئے گا ضرور آئے گا اور ایسے وقت آئے گا کہ وہ بالکل غفلت میں ہوں گے اور ہر ایک اپنے دنیا کے کام میں مشغول ہوگا کہ زلزلہ ان کوپکڑ لے گا۔ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ایسے زلزلہ کا آنا سچ ہے؟


* یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ وقت آتا ہے کہ حق کھل جائے گا اور تمام جھگڑے طے ہو جائیں گے اور یہ فیصلہ آسمانی نشانوں کے ساتھ ہوگا زمین بگڑ گئی ہے اب آسمان اس کے ساتھ جنگ کرے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 96

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 96

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/96/mode/1up


قل ای وربّی انّہ لحق ۔ ولا یُردّ عن قوم یعرضون ۔ الرحٰی

کہہ خدا کی قسم اس زلزلہ کا آنا سچ ہے۔ اور خدا سے برگشتہ ہونیوالے کسی مقام میں اس سے بچ نہیں سکتے یعنی کوئی مقام

یدور و ینزل القضاء ۔ لم یکن الذین کفروا من

اُن کو پناہ نہیں دے سکتا بلکہ اگر گھر کے دروازہ میں بھی کھڑے ہیں تو توفیق نہ پائینگے جو اس سے باہر ہو جائیں مگر اپنے عمل سے

اھل الکتاب والمشرکین منفکّین حتّٰی تاْ تیھم البیّنۃ ۔

ایک چکی گردش میں آئیگی اور قضا نازل ہوگی ۔ جو لوگ اہل کتاب اور مُشرکوں میں سے حق کے منکر ہو گئے وہ بُجز اس نشان عظیم کے

اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ اُرِیْک زلزلۃ الساعۃ ۔

باز آنیوالے نہ تھے۔ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ مَیں تجھے قیامت والا زلزلہ دکھاؤں گا۔

یریکم اللّٰہ زلزلۃ الساعۃ ۔ لمن الملک الیوم لِلّٰہِ الواحِد

خدا تجھے قیامت والا زلزلہ دکھائے گا۔ اُس دن کہا جائے گا آج کس کا ملک ہے کیا اس خدا کا ملک نہیں جو

القھّار ۔ چمک دِکھلاؤں گا تم کو اِس نشان کی پنج بار ۔

سب پر غالب ہے۔ اور مَیں اس زلزلہ کے نشان کی پنج مرتبہ تم کو چمک دکھلاؤں گا۔

اگر چاہوں تو اُس دن خاتمہ۔* انّی احافظ کلّ من

اگر چاہوں تو اُس دن دنیا کا خاتمہ کردوں۔ مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر میں ہوگا اُس کی

فی الدّار ۔ اریک ما یُرضیک۔ رفیقوں کو کہہ دو کہ

حفاظت کروں گا۔ اور مَیں تجھے وہ کرشمہ قدرت دکھلاؤنگا جس سے تُو خوش ہو جائیگا۔ رفیقوں کو کہہ دو کہ

عجائب در عجائب کام دکھلانے کا وقت آگیا ہے۔

عجائب در عجائب کام دکھلانے کا وقت آگیا ہے۔


* اس وحی الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار زلزلے کسی قدر ہلکے اور خفیف ہوں گے اور دنیا ان کو معمولی سمجھے گی اور پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا کہ لوگوں کو سو دائی اور دیوانہ کر دے گا یہاں تک کہ وہ تمنّا کرینگے کہ وہ اس دن سے پہلے مر جاتے۔ اب یاد رہے کہ اس وحی الٰہی کے بعد اس وقت تک جو ۲۲؍جولائی۱۹۰۶ء ہے اس ملک میں تین زلزلے آچکے ہیں یعنی ۲۸؍فروری ۱۹۰۶ء اور ۲۰؍مئی ۱۹۰۶ء ۔اور ۲۱؍جولائی ۱۹۰۶ء مگر غالبًا خدا کے نزدیک یہ زلزلوں میں داخل نہیں ہیں کیونکہ بہت ہی خفیف ہیں شاید چار زلزلے پہلے ایسے ہوں گے جیسا کہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ تھا اور پانچواں قیامت کا نمونہ ہوگا۔ واللّہ اعلم۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 97

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 97

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/97/mode/1up


اناؔ فتحنا لک فتحًا مبینًا ۔ لیغفرلک اللّٰہ ما تقدّم من ذنبک

میں ایک عظیم فتح تجھ کو عطا کروں گا جو کھلی کھلی فتح ہوگی تاکہ تیرا خدا تیرے تمام گناہ بخش دے جو پہلے ہیں

وما تأخّر۔* انّی انا التوّاب ۔ من جآء ک جآء نی ۔ سلام

اور پچھلے ہیں۔ مَیں توبہ قبول کرنیوالا ہوں۔ جو شخص تیرے پاس آئیگا وہ گویا میرے پاس آئیگا۔ تم پر

علیکم طبتم ۔ نحمدک و نصلّی ۔ صلٰو ۃ العرش الی الفرش ۔

سلام تم پاک ہو۔ ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔ عرش سے فرش تک تیرے پردرود ہے

نَزَلتُ لَکَ ولَکَ نُرِیْ اٰیاتٍ۔ اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ والنُّفُوْسُ

مَیں تیرے لئے اُترا ہوں اور تیرے لئے اپنے نشان دکھلاؤں گا۔ ملک میں بیماریاں پھیلیں گی۔ اور بہت جانیں

تُضَاعُ۔ وَمَا کَانَ اللّٰہ لِیُغَیِّرَ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا

ضائع ہونگی۔ اور خدا ایسا نہیں ہے جو اپنی تقدیر کو بدل دے جو ایک قوم پر نازل کی جب تک وہ قوم اپنے دلوں کے خیالات

بِاَنْفُسِھِمْ ۔ اِنہٗ اوی القریۃ۔ز لولا الاکرام ۔ لھلک المقام ۔

کو نہ بدل ڈالیں۔ وہ اس قادیان کو کسی قدر بلا کے بعد اپنی پناہ میں لے گا۔ اگر مجھے تیری عزّت کا پاس نہ ہوتا تو اس تمام گاؤں کو مَیں ہلاک کر دیتا

انی احافظ کُلّ من فی الدار ۔ ما کان اللّٰہ لیعذّبھم

میں ہر ایک کو جو اس گھر کی چار دیوار کے اندر ہے بچا لوں گا۔ کوئی ان میں سے طاعون یا بھونچال سے نہیں مریگا۔ خدا ایسا نہیں ہے


ظالم انسان کا قاعدہ ہے کہ وہ خدا کے رسولوں اور نبیوں پر ہزارہا نکتہ چینیاں کرتا ہے اور طرح طرح کے عیب اُن میں نکالتا ہے گویا دنیا کے تمام عیبوں اور خرابیوں اور جرائم اور معاصی اور خیانتوں کا وہی مجموعہ ہیں۔ اب ان وساوس کا کہاں تک جواب دیا جائے جو نفس کی شرارت کے ساتھ مخلوط ہیں۔ اس لئے یہ سنت اللہ ہے کہ آخر ان تمام جھگڑوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور کوئی ایسا عظیم الشان نشان ظاہر کرتا ہے جس سے اس نبی کی بریت ظاہر ہوتی ہے۔ پس 3 ۱؂ کے یہی معنے ہیں۔منہ


ز اویٰ کا لفظ عرب کی زبان میں اس موقعہ پر استعمال پاتا ہے جبکہ کسی قدر تکلیف کے بعد کسی شخص کو اپنی پناہ میں لیا جائے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے 3۲؂۔ اور جیسا کہ فرماتا ہے 3 ۳؂۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 98

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 98

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/98/mode/1up


وانت فیھم ۔ امن است درمکان محبت سرائے ما۔ بھونچال

کہ جن میں تو ہے ان کو عذاب کرے۔ ہماری محبت کا گھر امن کا گھر ہے۔ ایک زلزلہ

آیا اور شدّت سے آیا۔ زمین تہ و بالا کر دی۔ یوم تأ تی السمآء

آئے گا اور بڑی سختی سے آئے گا۔ اور زمین کو زیر وزبر کر دے گا۔ اُس دن آسمان سے

بد خان مبین* ۔ و تری الا رض یومئذٍ خامدۃ

ایک کھلا کھلا دُھواں نازل ہوگا۔ اور اس دن زمین زرد پڑ جائے گی یعنی سخت قحط کے آثار ظاہر ہونگے

مصفرّؔ ۃ ۔ اُکرمک بعد توھینک ۔ژ یریدون ان لا یتمّ

مَیں بعد اسکے جو مخالف تیری توہین کریں تجھے عزّت دُونگا اور تیرا اکرام کرونگا۔ وہ ارادہ کرینگے جو تیرا کام نا تمام رہے

امرک ۔ واللّٰہ یابٰی الَّا ان یتمّ امرک ۔ انی انا الرحمٰن ۔ سأَجعل

اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑ دے جب تک تیرے تمام کام پورے نہ کرے۔ مَیں رحمان ہوں۔ ہر ایک امر

لک سھولۃ فی کلّ امر ۔ اُریک برکات من کلّ طرفٍ ۔

میں تجھے سہولت دُوں گا۔ ہر ایک طرف سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا۔

نزلت الرحمۃ علٰی ثلاث العین وعلی الاُخریین ۔ تردّ الیک

میری رحمت تیرے تین عضو پر نازل ہے ایک آنکھیں اور دو اور عضو ہیں یعنی انکو سلامت رکھوں گا۔ اور جوانی کے نور

انوار الشباب ۔ تریٰ نسلاً بعیداظ ۔ انّا نبشّرک بغلام مظھر

تیری طرف عود کریں گے۔ اور تُو اپنی ایک دور کی نسل کو دیکھ لیگا۔ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ


یعنی اس زلزلہ کے لئے جو قیامت کا نمونہ ہوگا یہ علامتیں ہیں کہ کچھ دن پہلے اس سے قحط پڑے گا اور زمین خشک رہ جائے گی۔ نہ معلوم کہ معًا اس کے بعد یا کچھ دیر کے بعد زلزلہ آئے گا۔ منہ

ژ یعنی وہ بڑے نشان جو دنیا میں ظاہر ہوں گے ضرور ہے جو پہلے ان سے توہین کی جائے اور طرح طرح کی بُری باتیں کہی جائیں اور الزام لگائے جائیں۔ تب بعد اس کے آسمان سے خوفناک نشان ظاہر ہوں گے یہی سُنّت اللہ ہے کہ پہلی نوبت منکروں کی ہوتی ہے اور دوسری خدا کی۔ منہ

ظ یہ خدا تعالیٰ کی وحی یعنی’’ تریٰ نسلًا بعیدًا‘‘ قریبًا تیس سال کی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 99

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 99

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/99/mode/1up


الحق والعلٰی ۔ کَاَنّ اللّٰہَ نزل من السّمآء ۔ انّا نُبَشِّرُکَ بغلامٍ

حق کا ظہور ہوگا۔ گویا آسمان سے خدا اُترے گا ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں

نافلۃً لک ۔ سَبّحک اللّٰہ ورافاک ۔ وعلّمک مالم تعلم

جو تیرا پوتا ہوگا خدا نے ہر ایک عیب سے تجھے پاک کیا اور تجھ سے موافقت کی اور وہ معارف تجھے سکھلائے جن کا تجھے علم نہ تھا

انہ کریم تمشی امامک وعادیٰ لک من عادی ۔ وقالوا ان ھٰذا

وہ کریم ہے وہ تیرے آگے آگے چلا اور تیرے دشمنوں کا وہ دشمن ہوا اور کہیں گے کہ یہ تو

الّا اختلاق ۔ الم تعلم ان اللّٰہ علٰی کلّ شیءٍ قدیر ۔ یلقی الروح

ایک بناوٹ ہے۔ اے معترض کیا تُو نہیں جانتا کہ خدا ہر ایک بات پر قادر ہے۔ جس پر اپنے بندوں میں سے

علٰی من یشاء من عبادہٖ ۔ کلّ برکۃ من محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم

چاہتا ہے اپنی رُوح ڈالتا ہے یعنی منصب نبوت اسکو بخشتا ہے اور یہ تو تمام برکت محمد صلعم سے ہے۔

فتبارک من عَلَّمَ وَتَعَلَّم ۔ خدا کی فیلنگ اور خدا کی

پس بہت برکتوں والا ہے جس نے اس بندہ کو تعلیم دی اور بہت برکتوں والا جس نے تعلیم پائی۔ خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی

مُہر نے کتنا بڑا کام کیا۔* انّی معک ومع اھلک

اور اسکے محسوس کرنے اور نبوت کی مُہر نے جس میں بشدت قوت کا فیضان ہے۔ بڑا کام کیا یعنی تیرے مبعوث ہونے کے دو باعث ہیں(۱) خدا کا ضرورت کو محسوس کرنا اور آنحضرتؐ کی مُہرنبوت کا فیضان۔

ومع کلّ من احبّک۔ تیرے لئے میرا نام چمکا۔

میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ اور ہر ایک کے ساتھ جو تجھ سے پیار کرتا ہے تیرے لئے میرے نام نے اپنی چمک دکھلائی۔

روحانی عالم تیرے پر کھولا گیا۔ فبصرک الیوم حدید ۔

روحانی عالم تیرے پر کھولا گیا۔ پس آج نظر تیری تیز ہے۔


* یہ وحی الٰہی کہ خدا کی فیلنگ اور خدا کی مُہر نے کتنا بڑا کام کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مُہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمّتی ہے اور ایک پہلو سےؔ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 100

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 100

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/100/mode/1up


اطال اللّٰہ بقاء ک۔ اسی۸۰ یا اسپر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم۔

خدا تیری عمر دراز کرے گا۔ اسّی۰۸ برس یا پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم۔

مَیں تجھے بہت برکت دُونگا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈُھونڈیں گے۔ تیرے لئے میرا نام چمکا۔ پچاس یا ساٹھ نشان اور دکھاؤں گا۔ خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اوراُن کی تعظیم ملوکؔ اور ذوی الجبروت کرتے ہیں اور وہ سلامتی کے

شہزادے کہلاتے ہیں۔ فرشتوں کی کھنچی ہوئی تلوار


نبی کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحبِ خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اِسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔ یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ علماء اُمّتی کانبیاء بنی اسرائیل یعنی میری اُمّت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہونگے اور بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر اُنکی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرّہ کچھ دخل نہ تھا اسی وجہ سے میری طرح اُن کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتیبلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست اُن کو منصبِ نبوت ملا۔ اور اُن کو چھوڑ کر جب اور بنی اسرائیل کا حال دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں کو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 101

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 101

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/101/mode/1up


تیرے آگے ہے۔* پر تو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا

نہ جانا۔ برہمن اوتار سے مقابلہ کرنا اچھا نہیں۔

ربّؔ فرق بین صادق وکاذب ۔ انت تریٰ کلّ مصلح

اے خدا سچے اور جھوٹے میں فرق کرکے دِکھلا۔ تُو ہر ایک مصلح اور صادق

وصادق۔ رَبّ کلّ شی ءٍ خادمک ۔ ربّ فاحفظنی وانصرنی

کو جانتا ہے۔ اے میرے خدا ہر ایک چیز تیری خادم ہے۔ اے میرے خدا شریر کی شرارت سے مجھے نگہ رکھ اور میری

وارحمنی۔ خدا قاتل تو باد۔ ومرااز شرتو محفوظ دارد۔

مدد کر اور مجھ پر رحم کر۔ اے دشمن تو جو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے خدا تجھے تباہ کرے اور تیرے شر سے مجھے نگہ رکھے یعنی

زلزلہ آیا اُٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں۔

وہ بھونچال جو وعدہ دیا گیا ہے جلد آنے والا ہے اُس وقت خدا کے بندے قیامت کا نمونہ دیکھ کر نمازیں پڑھیں گے۔


رشد اور صلاح اور تقویٰ سے بہت ہی کم حصہ ملا تھا اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی اُمّت اولیاء اللہ کے وجود سے عموماً محروم رہی تھی اور کوئی شاذونادر اُن میں ہوا تو وہ حکم معدوم کا رکھتا ہے بلکہ اکثر ان ؔ میں سرکش فاسق فاجر دنیا پرست ہوتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی نسبت حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کی قوت تاثیر کا توریت اور انجیل میں اشارہ تک نہیں ہے توریت میں جا بجا حضرت موسیٰ کے صحابہ کا نام ایک سرکش اور سخت دل اور مرتکب معاصی اور مفسد قوم لکھا ہے جن کی نافرمانیوں کی نسبت قرآن شریف میں بھی یہ بیان ہے کہ ایک لڑائی کے موقع کے وقت میں انہوں نے حضرت موسیٰ کو یہ جواب دیا تھا 33 ۱؂۔ یعنی تُو اور تیرا ربّ دونوں جاکر دشمنوں سے لڑائی کرو ہم تو اسی جگہ بیٹھیں گے یہ حال تھا اُن کی فرمانبرداری کا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں وہ جوش عشقِ الٰہی پیدا ہوا اور توجہ قدسی آنحضرت


یہ پیشگوئی ایک ایسے شخص کے بارہ میں ہے جو مرید بن کر پھر مرتد ہو گیا اور بہت شوخیاں دکھلائیں اور گالیاں دیں اور زبان درازی میں آگے سے آگے بڑھا۔ پس خدا فرماتا ہے کہ کیوں آگے بڑھتا ہے کیا تو فرشتوں کی تلواریں نہیں دیکھتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 102

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 102

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/102/mode/1up


یظھرؔ ک اللّٰہ ویثنی علیک۔ لولاک لما خلقت الافلاک*

خدا تجھے غالب کریگا اور تیری تعریف لوگوں میں شائع کر دیگا۔ اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔

ادعونی استجب لکم ۔ دست تو دعائے تو ترحم زِخدا۔

مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ تیرا ہاتھ ہے اور تیری دعا اور خدا کی طرف سے رحم ہے۔

زلزلہ کا دھکا۔ عفت الدیار محلّھا و مقامھا

زلزلہ کا دھکا جس سے ایک حصہ عمارت کا مٹ جائیگا مستقل سکونت کی جگہ اور عارضی سکونت کی جگہ سب مٹ جائینگی


صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تاثیر اُنکے دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سرکٹائے۔ کیا کوئی پہلی اُمّت میں ہمیں دکھا سکتا ہے یا نشان دے سکتا ہے کہ انہوں نے بھی صدق اور صفا دکھلایا یہ تو حضرت موسیٰ کے صحابہ کا حال تھا۔ اب حضرت مسیح کے صحابہ کا حال سنو کہ ایک نے تو جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا تیس روپیہ لیکر حضرت مسیح کو گرفتار کرا دیا اورؔ پطرس حواری جس کو بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں اس نے حضرت مسیح کے رُو برو اُن پر *** بھیجی اور باقی جس قدر حواری تھے وہ مصیبت کا وقت دیکھ کر بھاگ گئے اور ایک نے بھی استقامت نہ دکھلائی اور ثابت قدم نہ رہے اور بُزدلی اُن پر غالب آگئی۔ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے تلواروں کے سایہ کے نیچے وہ استقامتیں دکھلائیں اور اس طرح مرنے پر راضی ہوئے جن کی سوانح پڑھنے سے رونا آتا ہے پس وہ کیا چیز تھی جس نے ایسی عاشقانہ رُوح اُن میں پھونک دی۔ اور وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اُن میں اس قدر تبدیلی کر دی یا تو جاہلیت کے زمانہ میں وہ حالت اُن کی تھی کہ وہ دنیا کے کیڑے تھے اور کوئی معصیت اور ظلم کی قسم نہیں تھی جو اُن سے ظہور میں نہیں آئی تھی۔ اور یا اس نبی کی پیروی کے بعد ایسے خدا کی طرف کھینچے گئے کہ گویا خدا اُن کے اندر سکونت پذیر ہو گیا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وہی توجہ اس پاک نبی کی تھی جو اُن لوگوں کو سفلی زندگی سے ایک پاک زندگی کی طرف کھینچ کر لے آئی اور جو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اس کا سبب تلوار نہیں تھی بلکہ وہ اس تیرہ سال کی آہ وزاری اور دعااور تضرع کا اثر تھا۔


* ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے یعنی ملائک کو اس کے مقاصد کی خدمت میں لگا یا جاتا ہے اور زمین پر مستعد طبیعتیں پیدا کی جاتی ہیں پس یہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 103

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 103

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/103/mode/1up


تتبعھا الرّادفۃ ۔ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی

اس کے بعد ایک اور زلزلہ آئے گا۔ بہار جب دوبارہ آئے گی تو پھر ایک اور زلزلہ آئے گا۔

پھرؔ بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن۔ ربّ اخّروقت

پھر بہار جب بار سوم آئیگی تو اسوقت اطمینان کے دن آجائینگے اور اسوقت تک خدا کئی نشان ظاہر کریگا اے خدا بزرگ زلزلہ کے ظہور

ھٰذا۔ اخّرہ اللّٰہ الی وقت مسمّٰی۔* تریٰ نصرًا عجیبا۔

میں کسی قدر تاخیر کر دے۔ خدا نمونۂ قیامت کے زلزلہ کے ظہور میں ایک وقت مقرر تک تاخیر کر دیگا۔ تب تُو ایک عجیب مدد دیکھے گا


* پہلے یہ وحی الٰہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونۂ قیامت ہوگا بہت جلد آنیوالا ہے اور اس کے لئے یہ نشان دیا گیا تھا کہ پیر منظور محمد لدہانوی کی بیوی محمدی بیگم کو لڑکا پیدا ہوگا اور وہ لڑکا اس زلزلہ کے ظہورکیلئے ایک نشان ہوگا اسلئے اس کا نام بشیر الدولہ ہوگا کیونکہ وہ ہماری ترقی سلسلہ کیلئے بشارت دیگا۔ اِسی طرح اس کا نام عالم کباب ہوگا۔ کیونکہ اگر لوگ توبہ نہیں کرینگے تو بڑی بڑی آفتیں دنیا میں آئیں گی۔ ایسا ہی اس کا نام کلمۃ اللہ اور کلمۃ العزیز ہوگا کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جو وقت پر ظاہر ہوگا اور اس کیلئے اور نام بھی ہونگے۔ مگر بعد اسکے میں نے دعاکی کہ اس زلزلہ نمونہ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے۔ اس دعاکا اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں خود ذکر فرمایا اور جواب بھی دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ ربّ اخّروقت ھٰذا۔ اخّرہ اللّٰہ الٰی وقت مسمّٰی یعنی خدا نے دعاقبول کرکے اس زلزلہ کو کسی اور وقت پر ڈال دیا ہے اور یہ وحی الٰہی قریبا چار۴ ماہ سے اخبار بدر اور الحکم میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے اور چونکہ زلزلہ نمونۂ قیامت آنے میں تاخیر ہو گئی اس لئے ضرور تھا کہ لڑکا پیدا ہونے میں بھی تاخیر ہوتی۔ لہٰذاؔ پیر منظور محمد کے گھر میں ۱۷؍جولائی ۱۹۰۶ء میں بروز سہ شنبہ لڑکی پیدا ہوئی اور یہ دعاکی قبولیت کا ایک نشان ہے اور نیز وحی الٰہی کی سچائی کا ایک نشان ہے جو لڑکی پیدا ہونے سے قریباً چار۴ ماہ پہلے شائع ہو چکی تھی مگر یہ ضرور ہوگا کہ کم درجہ کے زلزلے آتے رہیں گے اور ضرور ہے کہ زمین نمونۂ قیامت زلزلہ سے رُکی رہے جب تک وہ موعود لڑکا پیدا ہو۔ یاد رہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت کی نشانی ہے کہ لڑکی پیدا کرکے آئندہ بلا یعنی زلزلہ نمونۂ قیامت کی نسبت تسلی دیدی کہ اس میں بموجب وعدہ اخّرہ اللّٰہ الٰی وقت مسمّٰی ابھی تاخیر ہے اور اگر ابھی لڑکا پیدا ہو جاتا تو ہر ایک زلزلہ اور ہر ایک آفت کے وقت سخت غم اور اندیشہ د امنگیر ہوتا کہ شائد وہ وقت آگیا اور تاخیر کا کچھ اعتبار نہ ہوتا اور اب تو تاخیر ایک شرط کے ساتھ مشروط ہو کر معیّن ہو گئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 104

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 104

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/104/mode/1up


ویخرّون علی الاذقان۔ ربّنا اغفرلنا ذُنوبنا انّا کنّا

اور تیرے مخالف ٹھوڑیوں پر گرینگے یہ کہتے ہوئے کہ اے خدا ہمیں بخش اور ہمارے گناہ معاف کر کہ ہم

خاطئین۔ یا نبی اللّٰہ کنت لا اعرفک۔ لا تثریب علیکم الیوم

خطا پر تھے۔ اور زمین کہے گی کہ اے خدا کے نبی مَیں تجھے شناخت نہیں کرتی تھی اے خطا کارو! آج تم پر کوئی ملامت نہیں

یغفرؔ اللّٰہ لکم ۔ وھو ارحم الراحمین۔ تلطّف بالنّاس وترحّم

خدا تمہارے گناہ بخش دے گا وہ ارحم الراحمین ہے۔ لوگوں کے ساتھ لطف اور مدارات سے

علیھم ۔ انت فیھم بمنزلۃ موسٰی۔ یاْ تی علیک زمنٌ

پیش آ۔ تُو مجھ سے بمنزلہ موسیٰ کے ہے۔ تیرے پر موسیٰ کے زمانہ


یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ پس پہلے نبیوں کی اُمت میں جو اس درجہ کی صلاح وتقویٰ پیدا نہ ہوئی اس کی یہی وجہ تھی کہ اس درجہ کی توجہ اور دل سوزی اُمت کیلئے اُن نبیوں میں نہیں تھی۔ افسوس کہ حال کے نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی مکرم کا کچھ قدر نہیں کیا اور ہر ایک بات میں ٹھوکر کھائی وہ ختم نبوت کے ایسے معنے کرتے ہیں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو نکلتی ہے نہ تعریف۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس پاک میں افاضہ اور تکمیل نفوس کیلئے کوئی قوت نہ تھی اور وہ صرف خشکؔ شریعت کو سکھلانے آئے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس امت کو یہ دعا سکھلاتا ہے:۔ 3 3 ۱؂ پس اگر یہ امت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے اِن کو کچھ حصہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی۔ افسوس کہ تعصب اور نادانی کے جوش سے کوئی اس آیت میں غور نہیں کرتا۔ بڑا شوق رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہو مگر خدا کا کلام قرآن شریف گواہی دیتا ہے کہ وہ مر گیا اور اُس کی قبر سری نگر کشمیر میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۲؂ یعنی ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو یہودیوں کے ہاتھ سے بچا کر ایک ایسے پہاڑ میں پہنچا دیا جو آرام اور خوشحالی کی جگہ تھی اور مصفّا پانی کے چشمے اُس میں جاری تھے سو وہی کشمیر ہے۔ اسی وجہ سے حضرت مریم کی قبر زمین شام میں کسی کو معلوم نہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بھی حضرت عیسیٰ کی طرح مفقود ہے۔ یہ کس قدر ظلم ہے جو نادان مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے بے نصیب ہے اور خود حدیثیں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں اسرائیلی نبیوں کے مشابہ لوگ پیدا ہوں گے اور ایک ایسا ہوگا کہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے اُمّتی۔ وہی مسیح موعود کہلائے گا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 105

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 105

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/105/mode/1up


کمثل زمن مُوسٰی۔ اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھدًا

کی طرح ایک زمانہ آئے گا۔ ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے۔ اُسی رسول

علیکم کما ارسلنا الٰی فرعون رسولًا۔ آسمان سے بہت دُودھ

کی مانند جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ آسمان سے بہت دُودھ

اُترا ؔ ہے محفوظ رکھو۔ انّی انرتک و اخترتک۔ تیری

اُترا ہے یعنی معارف اور حقائق کا دُودھ۔ مَیں نے تجھے روشن کیا اور چُن لیا۔ اور تیری

خوش زندگی کا سامان ہو گیا۔ وَاللّٰہ خیر من کلّ شیءٍ ۔ عندی

خوش زندگی کا سامان ہو گیا ہے۔ خدا ہر چیز سے بہتر ہے۔ میرے قرب

حسنۃ ہی خیر من جبل۔ بہت سے سلام میرے تیرے پر

میں ایک نیکی ہے جو وہ ایک پہاڑ سے زیادہ ہے تیرے پر بکثرت میرے سلام

ہوں۔ انّا اعطیناک الکوثر۔ ان اللّٰہ مع الذین اھتدوا والذین ھم

ہیں۔ ہم نے کثرت سے تجھے دیا ہے۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو راہ راست اختیار کرتے ہیں اور

صادقون۔ ان اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔

جو صادق ہیں۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکوکار ہیں۔

اراد اللّٰہ ان یبعثک مقامًا محمودًا۔ د۲و نشان ظاہر ہونگے۔

خدا نے ارادہ کیا ہے جو تجھے وہ مقام بخشے جس میں تو تعریف کیا جائیگا۔ دو۲ نشان ظاہر ہوں گے۔

وامتازوا الیوم ایّھا المجرمون۔ یکاد البرق یخطف

اور اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔ خدا کے نشانوں کی برق اُن کی آنکھیں اُچک کر

ابصار ھم ۔ ھٰذا الذی کنتم بہٖ تستعجلون ۔ یا احمد

لے جائے گی۔ یہ وہی بات ہے جس کے لئے (تم) جلدی کرتے تھے۔ اے احمد!

فاضت الرحمۃ علٰی شفتیک۔ کلام اُفصحت

تیرے لبوں پر رحمت جاری ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 106

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 106

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/106/mode/1up


منلّدن ربّ کریم۔درکلام تو چیزے ست کہ شعرار ادران

فصیح کیا گیا ہے۔ تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو

دخلےؔ نیست۔ رب عَلّمنی ماھو خیر عندک۔ یعصمک اللّٰہ من

دخل نہیں۔ اے میرے خدا مجھے وہ سکھلا جو تیرے نزدیک بہتر ہے تجھے خدا دشمنوں سے

العدا و یسطو بکلّ من سطا۔ برزما عند ھم من الرّماح۔ انی

بچائے گا اور حملہ کرنے والوں پر حملہ کر دیگا۔ انہوں نے جو کچھ اُن کے پاس ہتھیار تھے سب ظاہر کر دئے

سأخبرہ فی اٰخرالوقت۔ انک لست علی الحق۔ ان اللّٰہ رء وف

مَیں مولوی محمد حسین بٹالوی کو آخر وقت میں خبر دیدونگا کہ تُو حق پر نہیں ہے۔ خدا رؤف و

رحیم۔ انّا النّا لک الحدید۔ انی مع الافواج اٰتیک بغتۃ۔

رحیم ہے۔ ہم نے تیرے لئے لوہے کو نرم کر دیا۔ مَیں فوجوں کے ساتھ ناگہانی طور پر آؤں گا۔

انی مع الرسول اُجیب اُخطی و اُصیب۔* وقالوا انّٰی لک

مَیں رسول کے ساتھ ہو کر جواب دُونگا اپنے ارادہ کو کبھی چھوڑ بھی دونگا اور کبھی ارادہ پورا کرونگا۔ اور کہیں گے کہ تجھے یہ مرتبہ کہاں

ھٰذا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب۔ جآء نی ٰایلژ واختار۔ وادار اصبعہٗ

سے حاصل ہوا۔ کہہ خدا ذو العجائب ہے۔ میرے پاس آیل آیا اور اُس نے مجھے چُن لیا۔ اور اپنی انگلی کو گردش دی

و اشار۔ ان وعد اللّٰہ اتٰی۔ فطوبٰی لمن وجدورأیٰ۔ الامراض

اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا۔ پس مبارک وہ جو اُس کو پاوے اور دیکھے۔ طرح طرح کی بیماریاں


اس وحی الٰہی کے ظاہری الفاظ یہ معنے رکھتے ہیں کہ مَیں خطا بھی کرونگا اور صواب بھی یعنی جو مَیں چاہوں گا کبھی کروں گا اور کبھی نہیں اور کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں۔ ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کی کلام میں آجاتے ہیں۔ جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ مَیں مومن کی قبض رُوح کے وقت تردّد میں پڑتا ہوں۔ حالانکہ خدا تردّد سے پاک ہے اِسی طرح یہ وحی الٰہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطاجاتا ہے اور کبھی پورا ہو جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ کبھی مَیں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے۔ منہ


اِس جگہ آیل خدا تعالیٰ نے جبریل کا نام رکھا ہے اِس لئے کہ بار بار رجوع کرتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 107

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 107

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/107/mode/1up


تشاع والنفوس تضاع انی مع الرسول اقوم

پھیلائی جائیں گی اور کئی آفتوں سے جانوں کا نقصان ہوگا۔ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔

و اُؔ فطر واصوم۔* ولن ابرح الارض الی الوقت المعلوم۔

مَیں افطار کرونگا اور روزہ بھی رکھونگا اور ایک وقت مقرر تک میں اس زمین سے علیحدہ نہیں ہوں گا۔

واجعل لک انوار القدوم۔ واقصدک واروم۔ واعطیک

اور تیرے لئے اپنے آنے کے نور عطا کروں گا۔ اور تیری طرف قصد کروں گا۔ اور وہ چیز تجھے دونگا جو

مایدوم۔ انا نرث الارض ناکلھا من اطرافھا۔ نقلوا الی

تیرے ساتھ ہمیشہ رہے گی۔ ہم زمین کے وارث ہونگے اور اطراف سے اسکو کھاتے آئیں گے۔ کئی لوگ قبروں کی طرف

المقابر۔ ظفر من اللّٰہ وفتح مبین۔ ان ربّی قویّ قدیر۔

نقل کریں گے۔ اُس دن خدا کی طرف سے کُھلی کُھلی فتح ہوگی۔ میرا ربّ زبردست قدرت والا ہے۔

انہ قویّ عزیز۔ حلّ غضبہ علی الارض۔ اِنی صادق

اور وہ قوی اور غالب ہے۔ اُس کا غضب زمین پر نازل ہوگا۔ میں صادق ہوں

انی صادق و یشھد اللّٰہ لی۔ اے ازلی ابدی خدا بیڑیوں کو

میں صادق ہوں اور خدا میری گواہی دے گا۔ اے ازلی ابدی خدا میری

پکڑ کے آ۔ ضاقت الارض بمارحبت۔ ربّ انّی مغلوب فانتصر

مدد کے لئے آ۔ زمین باوجود فراخی کے مجھ پر تنگ ہو گئی ہے، اے میرے خدا میں مغلوب ہوں میرا انتقام دشمنوں سے

فسحّقھم تسحیقا۔ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔

لے۔ پس اُن کو پیس ڈال۔ کہ وہ زندگی کی وضع سے دُور جا پڑے ہیں۔

ظاہر ہے کہ خدا روزہ رکھنے اور افطار سے پاک ہے اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے اُس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ پس یہ صرف ایک استعارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی مَیں اپنا قہرنازل کروں گا اور کبھی کچھ مہلت دُوں گا۔ اُس شخص کی مانند جو کبھی کھاتا ہے اور کبھی روزہ رکھ لیتا ہے اور اپنے تئیں کھانے سے روکتا ہے۔ اور اس قسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا کہ مَیں بیمار تھا۔ مَیں بھوکا تھا۔ مَیں ننگا تھا۔ الخ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 108

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 108

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/108/mode/1up


لے۔ پس اُن کو پیس ڈال۔ کہ وہ زندگی کی وضع سے دُور جا پڑے ہیں۔

انماؔ امرک اذا اردت شیءًا ان تقول لہ کن فیکون۔ تو درمنزل ماچو بار بار آئی

تُو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ہے۔ اے میرے بندے چونکہ تو میری فرو دگاہ میں

خدا ابر رحمت بباریدیانے۔ انا امتنا اربعۃ عشر دوابا ۔

بار بار آتاہے اس لئے اب تو خود دیکھ لے کہ تیرے پر رحمت کی بارش ہوئی یا نہ۔ ہم نے چو دہ چار پایوں کو ہلاک کر دیا۔

ذٰلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ سر انجام جاہل جہنم بود

کیونکہ وہ نافرمانی میں حد سے گذر گئے تھے۔ جاہل کا انجام جہنم ہے۔

کہ جاہل نکوعاقبت کم بود ۔میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا۔

جاہل کا خاتمہ بالخیر کم ہوتا ہے میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا

انّی اُمِرت من الرحمٰن فاْتونی۔ انی حمی الرحمٰن۔ انی لاجد

میں خدا کی طرف سے خلیفہ کیا گیا ہوں پس تم میری طرف آجاؤ۔ میں خدا کا چراگاہ ہوں۔ اور مجھے گم گشتہ

ریح یوسف لولا ان تفنّدون۔ الم ترکیف فعل

یوسف کی خوشبو لائی ہے اگر تم یہ نہ کہو کہ یہ شخص بہک رہا ہے کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے

ربّک باصحاب الفیل ۔ الم یجعل کیدھم فی تضلیل ۔

ربّ نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا کیا۔ کیا اُس نے اُن کے مکر کو اُلٹا کر انہیں پر نہیں مارا۔

وہ کام جو تم نے کیا خدا کی مرضی کے موافق نہیں ہوگا۔*

وہ کام جو تم نے کیا خدا کی مرضی کے موافق نہیں ہوگا۔

انا عفونا عنک۔ لقد نصرکم اللّٰہ ببدرو انتم اذلّۃ ۔

ہم نے تجھے معاف کیا۔ خدانے بدر میں یعنی اس چودھویں صدی میں تمہیں ذلّت میں پاکر تمہاری مدد کی۔

وقالوا ان ھٰذا الا اختلاق۔ قل لو کان من عند غیر اللّٰہ

اور کہیں گے کہ یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ ان کو کہہ کہ اگر یہ کاروبار بجز خدا کے کسی اور کا ہوتا


* اِس کی تصریح نہیں کی گئی۔ وَاللّٰہ اعلم۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 109

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 109

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/109/mode/1up


لوجدتم فیہ اختلافا کثیرا ۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ

تو اس میں بہت اختلاف تم دیکھتے۔ اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے

فھل انتم مؤمنون۔ یاْتی قمر الانبیاء۔ وامرک یتا تّٰی

پس کیا تم ایمان لاؤگے یا نہیں۔ نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام پُورا ہو جائے گا۔

و امتازوالیوم ایّھا المجرمون۔ بھونچال آیا اور بشدّت آیا

اور آج اے مجرمو! تم الگ ہو جاؤ بڑی شدت سے زلزلہ آئے گا اور

زمین تہ و بالا کر دی۔* ھٰذا الذی کنتم بہٖ تستعجلون۔

اُوپر کی زمین نیچے کر دے گا۔ یہ وہی وعدہ ہے جس کی تم جلدی کرتے تھے۔

انّی اُحَافظ کلّ من فی الدار۔ سفینۃ و سکینۃ۔ انی معک

مَیں ہر ایک کو جو اس گھر میں ہے اس زلزلہ سے بچا لونگا کشتی ہے اور آرام ہے مَیں تیرے ساتھ

ومع اھلک ۔ ارید ما تریدون۔ پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ

اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں میں وہی ارادہ کرونگا جو تمہارا ارادہ ہے۔ بنگالہ کی نسبت پیشگوئی ہے جو تقسیم بنگالہ سے اہل بنگالہ

حکم جاری کیا گیا تھا۔ اب اُن کی دلجوئی ہوگی۔

کی دلآز اری کی گئی خدا فرماتا ہے کہ پھر وہ وقت آتا ہے کہ پھر کسی پیرایہ میں اہل بنگالہ کی دلجوئی کی جائے گی۔


* اِس بارہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے جیسا کہ یسعیاہ نبی کے زمانہ میں ہوا کہ اس نبی کی پیشگوئی کے مطابق پہلے ایک عورت مسمات علمہ کو لڑکا پیدا ہوا۔ پھر بعد اس کے حزقیاہ بادشاہ نے فقہ۱؂ پر فتح پائی۔ اسی طرح اس زلزلہ سے پیر منظور محمد لدہانوی کی بیوی کو جس کا نام محمدی بیگم ہے لڑکا پیدا ہوگا اور وہ لڑکا اس بڑے زلزلہ کے لئے نشان ہوگا جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔ مگر ضروری ہے کہ اس سے پہلے اور زلزلے بھی آویں۔ اس لڑکے کے مفصلہ ذیل نام ہونگے۔ بشیر ا۱لدولہ کیونکہ وہ ہماری فتح کیلئے نشان ہوگا۔ کلمۃ۲ اللہ خان یعنی خدا کا کلمہ۔ عالم کبا۳ب، ور۴ڈ، شاد۵یخاں، کلمۃ ۶العزیز وغیرہ کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جس سے حق کا غلبہ ہوگا۔ تمام دنیا خدا کے ہی کلمے ہیں۔ اس لئے اس کا نام کلمۃ اللہ رکھنا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ وہ لڑکا۔ اب کی دفعہ وہ لڑکا پیدا نہیں ہوا کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ اخّرہ اللّٰہ الٰی وقتٍ مسمّٰی یعنی وہ زلزلۃ الساعۃ جس کیلئے وہ لڑکا نشان ہوگا ہم نے اس کو ایک اور وقت پر ڈالدیا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 110

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 110

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/110/mode/1up


الحمد للّٰہ الذی جعل لکم الصھرو النسب ۔* الحمدللّٰہ الذی اذھب

اُس خدا کو تعریف ہے جس نے دامادی اور نسب کی رو سے تیرے پر احسان کیا۔ اس خدا کو تعریف ہے جس نے میرا

عنی الحزن ۔ واٰتانی مالم یؤت احد من العالمین۔ یٰسٓ۔ انک

غم دُور کیا۔ اور مجھ کو وہ چیز دی جو اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی۔ اے سردار تُو خدا کا

لمن المرسلین ۔ علٰی صراط مستقیم۔ تنزیل العزیز الرحیم ۔ اردت

مُرسل ہے راہ راست پر اُس خدا کی طرف سے جو غالب اور رحم کرنے والا ہے مَیں نے ارادہ

ان استخلف فخلقت اٰدم۔ یُحْیِی الدین ویقیم الشریعۃ۔

کیا کہ اس زمانہ میں اپنا خلیفہ مقرر کروں سو میں نے اس آدم کو پیدا کیا۔ وہ دین کو زندہ کریگا اور شریعت کو قائم کرے گا۔

چو دَورِ خسروی ژ آغاز کر دند مسلمان رامسلمان باز کردند

جب مسیح السلطان کا دور شروع کیا گیا تو مسلمانوں کو جو صرف رسمی مسلمان تھے نئے سرے مسلمان بنانے لگے

ان السمٰوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما۔ قرب اجلک

آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے ہم نے ان دونوں کو کھولدیا یعنی زمین نے اپنی پوری قوت ظاہر کی اور آسمان نے بھی۔

المقدّر۔ انّ ذاالعرش یدعوک۔ ولا نبقی لک من المخزیات

اب تیرا وقت موت قریب آگیا۔ ذوالعرش تجھے بُلاتا ہے اور ہم تیرے لئے کوئی رُسوا کنندہ امر نہیں چھوڑیں گے

ذکرا۔ قَلَّ میعاد ربّک۔ ولا نبقی لک من المخزیات شیءًا۔

تیرے رب کا وعدہ کم رہ گیا ہے اور ہم تیرے لئے کوئی امر رُسوا کنندہ باقی نہیں چھوڑیں گے۔

بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اُس دن خدا کی طرف سے

زندگی کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اس دن سب جماعت دل برداشتہ

سب پر اُداسی چھا جائے گی۔ یہ ہوگا۔ یہ ہوگا۔ یہ ہوگا۔

اور اُداس ہو جائے گی۔ کئی واقعات کے ظہور کے بعد


یعنی خدا نے تجھ پر یہ احسان کیا کہ ایک شریف اور معزز اور شہرت یافتہ اور باوجاہت خاندان سے تجھے پیدا کیا اور دوسرے یہ احسان کیا کہ ایک معزز دہلی کے سادات خاندان سے تیری بیوی آئی۔منہ


ژ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں مسیح آخرالزمان کو بادشاہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے اس سے مراد آسمانی بادشاہی ہے یعنی وہ آئندہ سلسلہ کا ایک بادشاہ ہوگا اور بڑے بڑے اکابر اُس کے پیرو ہوں گے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 111

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 111

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/111/mode/1up


پھرؔ تیرا واقعہ ہوگا۔ تمام عجائبات قدرت دکھلانے کے

پھر تیرا واقعہ ظہور میں آئے گا۔ قدرت الٰہی کے کئی عجائب کام پہلے دکھلائے جائیں گے

بعد تمہارا حادثہ آئے گا۔ جَآء وقتک ۔ و نبقی لک الاٰیات

پھر تمہاری موت کا واقعہ ظہور میں آئے گا۔ تیرا وقت آگیا ہے اور ہم تیرے لئے روشن نشان

باھرات ۔ جَآء وقتک ۔ ونبقی لک الاٰیات بیّنات ۔

چھوڑیں گے تیرا وقت آگیا ہے اور ہم تیرے لئے کھلے نشان باقی رکھیں گے۔

ربّ توفّنی مُسلمًا والحقنی بالصالحین۔ اٰمین

اے میرے خدا اسلام پر مجھے وفات دے اور نیکو کاروں کے ساتھ مجھے ملا دے۔ آمین

خاتمہ

بعض معترضین کے اعتراضات کے جواب میں

چونکہ اس پُر آشوب زمانہ میں مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ کی پیروی کرنا نجات کیلئے ضروری نہیں سمجھتے اور صرف خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک ماننا بہشت میں داخل ہونے کے لئے کافی خیال کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ محض افترا اور ظلم کے طور پر یا اپنی غلط فہمی سے میرے پر طرح طرح کے بیجا اعتراض کرتے ہیں جن اعتراضوں سے بعض کا مطلب تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تا لوگوں کو اس سلسلہ سے بیزار کریں۔ اور بعض ایسے بھی ہیں کہ دقائق دین کے سمجھنے سے اُن کی طبیعتیں قاصر ہیں اور اُن کی طبیعت میں شر نہیں مگر فہم رسا بھی نہیں اور نہ وسعت علمی ہے جس سے وہ خودبخود حقیقتِ حال دریافت کر سکیں۔ اِس لئے میں نے قرینِ مصلحت سمجھا کہ اس خاتمہ میں اُن سب کے شُبہات کا ازالہ کیا جاوے۔

کچھ ؔ ضرور نہ تھا کہ مَیں ان شبہات کے دُور کرنے کیلئے توجہ کرتا۔ کیونکہ میری بہت سی کتابوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 112

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 112

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/112/mode/1up


کے متفرق مقامات میں ان بیہودہ اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے لیکن اِن دنوں میں عبد الحکیم خان نام ایک شخص جو پٹیالہ کی ریاست میں اسسٹنٹ سرجن ہے جو پہلے اس سے ہمارے سلسلہ بیعت میں داخل تھا مگر بباعث کمی ملاقات اور قلّتِ صُحبت دینی حقائق سے محض بے خبر اور محروم تھا اور تکبّر اور جہل مرکب اور رعونت اور بد ظنی کی مرض میں مبتلا تھا اپنی بد قسمتی سے مرتد ہو کر اِس سلسلہ کا دشمن ہو گیا ہے اور جہاں تک اس سے ہو سکا خدا کے نور کو معدوم کرنے کیلئے اپنی جاہلانہ تحریروں میں زہریلی پھونکوں سے کام لے رہا ہے تا اس شمع کو بجھا وے جو خدا کے ہاتھ سے روشن ہے اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ اختصار کے لحاظ سے بعض اس کے ایسے اعتراضات کا جواب لکھ دیا جائے جو عوام کو مطلع کرنے کیلئے قابل جواب ہیں کیونکہ عوام پر یہ امر بباعث غفلت اور مشغولی دنیا کے البتہ مشکل ہے کہ تمام میری کتابیں تلاش کرکے اُن میں سے یہ جواب معلوم کر لیں۔

سو پہلے وہ امر لکھنے کے لائق ہے جس کی وجہ سے عبد الحکیم خان ہماری جماعت سے علیحدہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ نجات اُخروی حاصل کرنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر ایک جو خدا کو واحد لا شریک جانتا ہے (گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذب ہے) وہ نجات پائے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اُس کے نزدیک ایک شخص اسلام سے مرتد ہو کر بھی نجات پا سکتا ہے اور ارتداد کی سزا دینا اُس کو ظلم ہے۔ مثلاً حال میں ہی جو ایک شخص عبد الغفور نام مرتد ہوکر آریہ سماج میں داخل ہوا اور دھرم پال نام رکھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور تکذیب میں دن رات کمربستہ ہے وہ بھی عبد الحکیم خان کے نزدیک سیدھا بہشت میں جائے گا۔ کیونکہ آریہ لوگ بُت پرستی سے دستکش ہیں۔ مگر ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسے عقیدہ کی رو سے انبیاء علیہم السلام کا مبعوث ہونا محض بیہودہ اور لغو کام ٹھہرے گا۔ کیونکہ جب ایک شخص انبیاء علیہم السلام کا مکذّب اور دشمن ہو کر بھی خدا کو ایک جاننے سے نجات پا سکتا ہے تو پھر اس صورؔ ت میں گویا انبیاء صرف عبث طور پر دنیا میں بھیجے گئے۔* ورنہ اُن کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔


* اگر یہ بات سچ ہے کہ وہ لوگ جو ابنیاء علیہم السلام کی تکذیب کرنے والے اور اُن کے دشمن ہیں محض اپنی خیالی توحید سے نجات پا جائیں گے تو بجائے اس کے کہ ان کفّار کو قیامت میں کوئی عذاب ہو انبیاء خود ایک قسم کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 113

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 113

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/113/mode/1up


اور اُن کے وجود کی کوئی بڑی بھاری ضرورت نہ تھی۔ اور اگر یہ سچ تھا کہ صرف خدا کو واحد لا شریک کہنا ہی کافی ہے تو گویا یہ بھی ایک شرک کی قسم ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّد رسُول اللّٰہ لازمی طور پر ملایا گیا اور درحقیقت اس خیال کے لوگ محمّد رسول اللّٰہ کہنا شرک ہی سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کامل توحید اسی میں تصور کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کا نام نہ ملایا جائے اور ان کے نزدیک دین اسلام سے خارج ہونا نجات سے مانع نہیں۔ اور اگر مثلاً ایک ہی دن میں سب کے سب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کرکے گمراہ فلسفیوں کی طرح مجرّد توحید کو کافی سمجھیں اور اپنے تئیں قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے مستغنی خیال کر لیں اور مکذّب ہو جائیں تو اُن کے نزدیک یہ سب لوگ باوجود مرتد ہونے کے نجات پاجائیں گے اور بلا شبہ بہشت میں داخل ہوں گے۔

مگر یہ بات کسی ادنیٰ عقل والے پر بھی پوشیدہ نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے ہمارے اِس زمانہ تک تمام اسلامی فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام کی حقیقت یہی ہے کہ جیسا کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک سمجھتا ہے اور اس کی ہستی اور وجود اور واحدانیت پر ایمان لاتا ہے ایسا ہی اُس کے لئے ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لاوے۔ اور جو کچھ قرآن شریف میں مذکورو مسطور ہے سب پر ایمان رکھے۔ یہی وہ امر ہے جو ابتدا سے مسلمانوں کے ذہن نشین کر دیا گیا ہے اور اسی پر محکم عقیدہ رکھنے کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی جانیں دیں۔ اور کئی صادق مسلمان جو کفار کے ہاتھ میں عہدنبوی میں گرفتار ہو گئے تھے اُنکو بار باریہ فہمائش کی گئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہو جاؤ تو تم ہمارے ہاتھ سے رہائی پاؤ گے۔ لیکن انہوں نے انکار نہ کیا اور اسی راہ میں جان دی۔ یہ باتیں اِسلام کے واقعات میں ایسی مشہور ہیں کہ جو شخص ایک ادنیٰ


جبکہ وہ اپنے سخت دشمنوں اور مکذبوں اور اہانت کرنیوالوں کو بہشت کے تختوں پر بیٹھے دیکھیں گے اور اپنی طرح ہر ایک قسم کی نازو نعمت میں اُنکو پائیں گے اور ممکن ہے کہ اسوقت بھی وہ لوگ ٹھٹھا کرکے نبیوں کو کہیں کہ تمہاری تکذیب اور توہین نے ہمارا کیا بگاڑا۔ تب بہشت میں رہنا نبیوں پر تلخ ہو جائے گا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 114

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 114

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/114/mode/1up


واقفیت بھی اسلامی تاریخ سے رکھتا ہوگا اُس کو ہمارے اِس بیان سے انکار نہیں ہوگا۔

اور ؔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ اگرچہ اسلامی لڑائیاں مدافعت کے طور پر تھیں یعنی ابتدا انکی کفار کی طرف سے تھی اور کفارِ عرب اپنے حملوں سے باز نہیں آتے تھے اِس خوف سے کہ مبادادینِ اسلام جزیرہ عرب میں پھیل جائے اور اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے ساتھ لڑنے کا حکم ہوا تھا۔ تا مظلوموں کو اُن فرعونوں کے ہاتھ سے رہائی بخشیں مگر اِس میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ پھر بھی اگر کفّار کو یہ پیغام دیا جاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ماننا کچھ ضروری نہیں اور آنجناب پر ایمان لانا کچھ شرط نجات نہیں صرف اپنے طور پر خدا کو واحد لا شریک سمجھو گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکذّب اور مخالف اور دشمن رہو اور اِس بات کی ضرورت نہیں کہ انکو اپنا سردار اور پیشوا سمجھ لو تو اِس سے اس قدر خونریزی کی نوبت نہ آتی بالخصوص یہودی جو خدا کو واحد لاشریک سمجھتے تھے کیا وجہ کہ اُن سے لڑائیاں کی گئیں یہاں تک کہ بعض موقعوں میں کئی ہزار یہودی گرفتار کرکے ایک ہی دن میں قتل کئے گئے۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر صرف توحید نجات کے لئے کافی تھی تو یہودیوں سے خواہ نخواہ لڑائیاں کرنا اور اُن میں سے ہزاروں کو قتل کرنا یہ فعل سراسر ناجائز اور حرام تھا۔ پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اِس فعل کے کیوں مرتکب ہوئے۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کا علم نہ تھا؟

اور اگر خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام نبی یہی سکھلاتے آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک مانو اور ساتھ اس کے ہماری رسالت پر بھی ایمان لاؤ۔ اِسی وجہ سے اسلامی تعلیم کا اِن دو فقروں میں خلاصہ تمام اُمّت کو سکھلایا گیا کہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔

یہ بھی یاد رہے کہ خدا کے وجود کا پتہ دینے والے اور اُس کے واحد لا شریک ہونے کا علم لوگوں کو سکھلانے والے صرف انبیاء علیہم السلام ہیں۔ اور اگر یہ مقدس لوگ دنیا میں نہ آتے تو صراط مستقیم کا یقینی طور پر پانا ایک ممتنع اور محال امر تھا اگرچہ زمین و آسمان پر غور کرکے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 115

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 115

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/115/mode/1up


اور اُن کی ترتیب ابلغ اور محکم پر نظر ڈال کر ایک صحیح الفطرت اور سلیم العقل انسان دریافت کرؔ سکتا ہے کہ اِس کار خانہ ء پُر حکمت کا بنانے والا کوئی ضرور ہونا چاہئے لیکن اِس فقرہ میں کہ ضرور ہونا چاہئے۔ اور اِس فقرہ میں کہ واقعی وہ موجود ہے بہت فرق ہے۔ واقعی وجود پر اطلاع دینے والے صرف انبیاء علیہم السلام ہیں جنہوں نے ہزارہا نشانوں اور معجزات سے دنیا پر ثابت کر دکھایا کہ وہ ذات جو مخفی در مخفی اور تمام طاقتوں کی جامع ہے درحقیقت موجود ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس قدر عقل بھی کہ نظام عالم کو دیکھ کر صانع حقیقی کی ضرورت محسوس ہو۔ یہ مرتبہ عقل بھی نبوت کی شعاعوں سے ہی مستفیض ہے۔ اگر ابنیاء علیہم السلام کا وجود نہ ہوتا تو اِس قدر عقل بھی کسی کو حاصل نہ ہوتی۔ اِس کی مثال یہ ہے کہ اگرچہ زمین کے نیچے پانی بھی ہے مگر اس پانی کا بقاء اور وجود آسمانی پانی سے وابستہ ہے۔ جب کبھی ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نہیں برستا تو زمینی پانی بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ اور جب آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین میں بھی پانی جوش مارتا ہے۔ اِسی طرح انبیاء علیہم السلام کے آنے سے عقلیں تیز ہو جاتی ہیں اور عقل جو زمینی پانی ہے اپنی حالت میں ترقی کرتی ہے۔ اور پھر جب ایک مُدّت دراز اِس بات پر گذرتی ہے کہ کوئی نبی مبعوث نہیں ہوتا تو عقلوں کا زمینی پانی گندہ اور کم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور دنیا میں بُت پرستی اور شرک اور ہر ایک قسم کی بدی پھیل جاتی ہے۔ پس جس طرح آنکھ میں ایک روشنی ہے اور وہ باوجود اس روشنی کے پھر بھی آفتاب کی محتاج ہے اِسی طرح دنیا کی عقلیں جو آنکھ سے مشابہ ہیں ہمیشہ آفتابِ نبوت کی محتاج رہتی ہیں اور جبھی کہ وہ آفتاب پوشیدہ ہو جائے اُن میں فی الفور کدورت اور تاریکی پیدا ہو جاتی ہے۔ کیا تم صرف آنکھ سے کچھ دیکھ سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ اِسی طرح تم بغیر نبوت کی روشنی کے بھی کچھ نہیں دیکھ سکتے۔

پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے اِس لئے یہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نبی کے توحید مل سکے۔ نبی خدا کی صورت دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 116

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 116

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/116/mode/1up


بھیجتا ؔ ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دکھلاتا ہے۔ تب دنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ پس جن لوگوں کا وجود ضروری طور پر خدا کے قدیم قانونِ ازلی کے رُو سے خد اشناسی کے لئے ذریعہ مقرر ہو چکا ہے اُن پر ایمان لانا توحید کی ایک جزو ہے اور بجز اس ایمان کے توحید کامل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ بغیر اُن آسمانی نشانوں اور قدرت نما عجائبات کے جو نبی دکھلاتے ہیں اور معرفت تک پہنچاتے ہیں وہ خالص توحید جو چشمہء یقین کامل سے پیدا ہوتی ہے میسر آسکے۔ وہی ایک قوم ہے جو خدا نما ہے جن کے ذریعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقیق در دقیق اور مخفی در مخفی اور غیب الغیب ہے ظاہر ہوتا ہے اور ہمیشہ سے وہ کنزِ مخفی جس کا نام خدا ہے نبیوں کے ذریعہ سے ہی شناخت کیا گیا ہے۔ ورنہ وہ توحید جو خدا کے نزدیک توحید کہلاتی ہے جس پر عملی رنگ کامل طور پر چڑھا ہوا ہوتا ہے اُس کا حاصل ہونا بغیر ذریعہ نبی کے جیسا کہ خلاف عقل ہے ویسا ہی خلاف تجارب سالکین ہے۔

بعض نادانوں کو جو یہ وہم گذرتا ہے کہ گویا نجات کے لئے صرف توحید کافی ہے نبی پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں۔ گویا وہ رُوح کو جسم سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں یہ وہم سراسر دلی کوری پر مبنی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جبکہ توحید حقیقی کا وجود ہی نبی کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور بغیر اس کے ممتنع اور محال ہے تو وہ بغیر نبی پر ایمان لانے کے میسر کیونکر آسکتی ہے۔ اور اگر نبی کو جوجڑھ توحید کی ہے ایمان لانے میں علیحدہ کر دیا جائے تو توحید کیونکر قائم رہے گی۔ توحید کا موجب اور توحید کا پیدا کرنے والا اور توحید کا باپ اور توحید کا سرچشمہ اور توحید کا مظہر اتم صرف نبی ہی ہوتا ہے اُسی کے ذریعہ سے خدا کا مخفی چہرہ نظر آتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک طرف تو حضرت احدیّت جلّ شانہٗ کی ذات نہات درجہ استغنا اور بے نیازی میں پڑی ہے اُس کو کسی کی ہدایت اور ضلالت کی پروا نہیں۔ اور دوسری طرف وہ بالطبع یہ بھی تقاضا فرماتا ہے کہ وہ شناخت کیا جائے اور اُسکی رحمتِ ازلی سے لوگ فائدہ اُٹھاویں۔ پس وہ ایسے دل پر جوؔ اہل زمین کے تمام دلوں میں سے محبت اور قرب اوسبحانہٗ کا حاصل کرنے کیلئے کمال درجہ پر فطرتی طاقت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 117

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 117

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/117/mode/1up


اپنے اندر رکھتا ہے۔ اور نیز کمال درجہ کی ہمدردی بنی نوع کی اس کی فطرت میں ہے تجلّی فرماتا ہے اور اُس پر اپنی ہستی اور صفاتِ ازلیہ ابدیہ کے انوار ظاہر کرتا ہے اور اس طرح وہ خاص اور اعلیٰ فطرت کا آدمی جس کو دوسرے لفظوں میں نبی کہتے ہیں اس کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ پھر وہ نبی بوجہ اسکے کہ ہمدردی بنی نوع کا اس کے دل میں کمال درجہ پر جوش ہوتا ہے اپنی روحانی توجہات اور تضرع اور انکسار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ خدا جو اُس پر ظاہرہوا ہے۔ دُوسرے لوگ بھی اُسکو شناخت کریں اور نجات پاویں اور وہ دلی خواہش سے اپنے وجود کی قربانی خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس تمنا سے کہ لوگ زندہ ہو جائیں کئی موتیں اپنے لئے قبول کر لیتا ہے اور بڑے مجاہدات میں اپنے تئیں ڈالتا ہے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے3 3 ۱ ؂ * تب اگرچہ خدا مخلوق سے بے نیاز اور مستغنی ہے مگر اُس کے دائمی غم اور حزن اور کرب و قلق اور تذلل اور نیستی اور نہایت درجہ کے صدق اور صفا پر نظر کرکے مخلوق کے مستعددلوں پر اپنے نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کر دیتا ہے اور اُس کی پُر جوش دعاؤں کی تحریک سے جو آسمان پر ایک صَعبناک شورڈالتی ہیں خدا تعالیٰ کے نشان زمین پر بارش کی طرح برستے ہیں۔ اور عظیم الشان خوارق دنیا کے لوگوں کو دکھلائے جاتے ہیں جن سے دنیا دیکھ لیتی ہے کہ خدا ہے اور خدا کا چہرہ نظر آجاتا ہے لیکن اگر وہ پاک نبی اِس قدر دعا اور تضرّع اور ابتہال سے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کرتا اور خدا کے چہرہ کی چمک دنیا پر ظاہر کرنے کیلئے اپنی قربانی نہ دیتا اور ہرایک قدم میں صدہا موتیں قبول نہ کرتا تو خُدا کا چہرہ دنیا پر ہر گز ظاہر نہ ہوتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ بوجہ استغناء ذاتی کے بے نیاز ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 3 ۲؂ اور 3 ۳؂ یعنی خدا تو تمام دنیا سے بے نیاز ہے اور جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور ہماری طلب میں کوشش کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اُنہیں کیلئے ہمارا یہ قانون قدرت ہے کہ ہم اُنکو اپنی راہ دکھلا دیا کرتے ہیں۔ سو خدا کی راہ میں سب سے اول قربانی دینے والے نبی ہیں۔ ہر ایک اپنے لئے


* (ترجمہ) یعنی کیا تُو اِس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ کافر لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 118

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 118

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/118/mode/1up


کوششؔ کرتاہے مگر انبیاء علیہم السلام دوسروں کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ لوگ سوتے ہیں اور وہ ان کیلئے جاگتے ہیں۔ اورلوگ ہنستے ہیں اور وہ اُن کیلئے روتے ہیں اور دنیا کی رہائی کیلئے ہر ایک مصیبت کو بخوشی اپنے پر وارد کر لیتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ تا خدا تعالیٰ کچھ ایسی تجلی فرماوے کہ لوگوں پر ثابت ہو جاوے کہ خدا موجود ہے اور مستعد دلوں پر اُس کی ہستی اور اُس کی توحید منکشف ہو جاوے تاکہ وہ نجات پائیں۔ پس وہ جانی دشمنوں کی ہمدردی میں مر رہتے ہیں۔ اور جب انتہا درجہ پر اُن کا درد پہنچتا ہے اور ان کی دردناک آہوں سے (جو مخلوق کی رہائی کیلئے ہوتی ہیں) آسمان پُر ہو جاتا ہے۔ تب خدا تعالیٰ اپنے چہرہ کی چمک دکھلاتا ہے اور زبردست نشانوں کے ساتھ اپنی ہستی اور اپنی توحید لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ پس اس میں شک نہیں کہ توحید اور خدا دانی کی متاع رسول کے دامن سے ہی دنیا کو ملتی ہے بغیر اس کے ہر گز نہیں مل سکتی اور اس امر میں سب سے اعلیٰ نمونہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا کہ ایک قوم جو نجاست پر بیٹھی ہوئی تھی اُن کو نجاست سے اُٹھا کر گلزار میں پہنچا دیا۔ اور وہ جو روحانی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے تھے اُن کے آگے روحانی اعلیٰ درجہ کی غذائیں اور شیریں شربت رکھ دئے۔ اُن کو وحشیانہ حالت سے انسان بنایا۔پھر معمولی انسان سے مہذب انسان بنایا پھر مہذب انسان سے کامل انسان بنایا اور اس قدر اُن کے لئے نشان ظاہر کئے کہ اُنکو خدا دکھلا دیا اور اُن میں ایسی تبدیلی پیدا کر دی کہ اُنہوں نے فرشتوں سے ہاتھ جا ملائے۔ یہ تاثیر کِسی اور نبی سے اپنی اُمّت کی نسبت ظہور میں نہ آئی کیونکہ اُن کے صحبت یاب ناقص رہے پس مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔* افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اُس کے


* یہ عجیب بات ہے کہ دنیا ختم ہونے کو ہے مگر اس کامل نبی کے فیضان کی شعاعیں اب تک ختم نہیں ہوئیں اگر

خدا کا کلام قرآن شریف مانع نہ ہوتا تو فقط یہی نبی تھا جس کی نسبت ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اب تک مع جسم عنصری



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 119

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 119

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/119/mode/1up


مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میںؔ اس کی جان گداز ہوئی اِس لئے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذُرّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کُنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اسکے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔

وہ لوگ جو اس غلط خیال پر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاوے یا مرتد ہو جائے اور توحید پر قائم ہو اور خدا کو واحد لا شریک جانتا ہو وہ بھی نجات پا جائے گا اور ایمان نہ لانے یا مرتد ہونے سے اس کا کچھ بھی حرج نہ ہوگا جیسا کہ عبد الحکیم خان کا مذہب ہے ایسے لوگ درحقیقت توحید کی حقیقت سے ہی بے خبر ہیں۔ ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ یوں تو شیطان بھی خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک سمجھتا ہے۔


زندہ آسمان پر موجود ہے کیونکہ ہم اُس کی زندگی کے صریح آثار پاتے ہیں۔ اس کا دین زندہ ہے اس کی پیروی کرنے والا زندہ ہو جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے زندہ خدا مل جاتا ہے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ خدا اس سے اور اس کے دین سے اور اس کے محبّ سے محبت کرتا ہے۔ اور یاد رہے کہ درحقیقت وہ زندہ ہے اور آسمان پر سب سے اس کا مقام برتر ہے لیکن یہ جسم عنصری جو فانی ہے یہ نہیں ہے بلکہ ایک اور نورانی جسم کے ساتھ جو لازوال ہے اپنے خدائے مقتدر کے پاس آسمان پر ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 120

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 120

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/120/mode/1up


مگر صرف واحد سمجھنے سے نجات نہیں ہو سکتی بلکہ نجات تو دو امر پر موقوف ہے۔

(۱) ایک یہ کہ یقین کامل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت پر ایمان لاوے۔

(۲) دوسرے یہ کہ ایسی کامل محبت حضرت احدیّت جلّ شانہٗ کی اُس کے دل میں جاگزین ہو۔ کہ جس کے استیلا اور غلبہ کا یہ نتیجہ ہو کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت عین اُس کی راحتِ جان ہو جس کے بغیر وہ جی ہی نہ سکے اور اس کی محبت تمام اغیار کی محبتوں کو پامال اور معدوم کر دے یہی توحید حقیقی ہے کہ ؔ بجز متابعت ہمارے سیّد ومولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔ کیوں حاصل نہیں ہو سکتی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی ذات غیب الغیب اور وراء الوراء اور نہایت مخفی واقع ہوئی ہے جس کو عقول انسانیہ محض اپنی طاقت سے دریافت نہیں کر سکتیں اور کوئی برہان عقلی اس کے وجود پر قطعی دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ عقل کی دوڑ اور سعی صرف اِس حد تک ہے کہ اس عالم کی صنعتوں پر نظر کرکے صانع کی ضرورت محسوس کرے مگر ضرورت کا محسوس کرنا اور شئے ہے اور اس درجہ عین الیقین تک پہنچنا کہ جس خدا کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے وہ درحقیقت موجود بھی ہے یہ اور بات ہے۔ اور چونکہ عقل کا طریق ناقص اور نا تمام اور مشتبہ ہے اسلئے ہر ایک فلسفی محض عقل کے ذریعہ سے خدا کوشناخت نہیں کر سکتا بلکہ اکثر ایسے لوگ جو محض عقل کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا پتہ لگانا چاہتے ہیں آخر کار دہریہ بن جاتے ہیں۔ اور مصنوعا ت زمین و آسمان پر غور کرنا کچھ بھی اُن کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اور خدا تعالیٰ کے کاملوں پر ٹھٹھا اور ہنسی کرتے ہیں اور اُن کی یہ حجت ہے کہ دنیا میں ہزارہا ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن کے وجود کا ہم کوئی فائدہ نہیں دیکھتے اور جن میں ہماری عقلی تحقیق سے کوئی ایسی صنعت ثابت نہیں ہوتی جو صانع پر دلالت کرے بلکہ محض لغو اور باطل طور پر اُن چیزوں کا وجود پایا جاتا ہے۔ افسوس وہ نادان نہیں جانتے کہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا۔ اِس قسم کے لوگ کئی لاکھ اِس زمانہ میں پائے جاتے ہیں جو اپنے تئیں اول درجہ کے عقلمند اور فلسفی سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود سے سخت منکر ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی عقلی دلیل زبر دست اُن کو ملتی تو وہ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار نہ کرتے۔ اور اگر وجود باری جلّ شانہٗ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 121

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 121

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/121/mode/1up


پر کوئی بُرہان یقینی عقلی اُنکو ملزم کرتی تو وہ سخت بے حیائی اور ٹھٹھے اور ہنسی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر نہ ہو جاتے۔ پس کوئی شخص فلسفیوں کی کشتی پر بیٹھ کر طوفان شبہات سے نجات نہیں پا سکتا بلکہ ضرور غرق ہوگا اور ہر گز ہرگز شربت توحید خالص اُس کو میسر نہیں آئے گا۔ اب سوچو کہ یہ خیال کس قدر باطل اور بدبودار ہے کہ بغیر وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےؔ توحید میسر آسکتی ہے اور اس سے انسان نجات پا سکتا ہے۔ اے نادانو! جب تک خدا کی ہستی پر یقین کامل نہ ہو اُس کی توحید پر کیونکر یقین ہو سکے۔ پس یقیناًسمجھو کہ توحید یقینی محض نبی کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے دہریوں اور بد مذہبوں کو ہزار ہا آسمانی نشان دکھلا کر خدا تعالیٰ کے وجودکا قائل کر دیا اور اب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل پیروی کرنے والے اُن نشانوں کو دہریوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بات یہی سچ ہے کہ جب تک زندہ خدا کی زندہ طاقتیں انسان مشاہدہ نہیں کرتا شیطان اُس کے دل میں سے نہیں نکلتا اور نہ سچی توحید اُس کے دل میں داخل ہوتی ہے اور نہ یقینی طور پر خداکی ہستی کا قائل ہو سکتا ہے۔ اور یہ پاک اور کامل توحید صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے ملتی ہے۔

اور وہ زبردست نشان جو نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت کو ثابت کرتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفات جمالی اور جلالی کو اکمل اور اتم طور پر ثابت کرکے اُس کی عظمت اور محبت دلوں میں بٹھاتے ہیں اور جب ان نشانوں سے جن کی جڑھ زبردست اور اقتداری پیشگوئیاں ہیں خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت اور اس کے صفات جمالیہ اور جلالیہ پر یقین آجاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو اُس کی ذات اورجمیع صفات میں واحد لاشریک جانتا ہے اور اُس کی خوبیوں اور روحانی حسن و جمال پر نظر ڈال کر اُس کی محبت میں کھویا جاتا ہے اور پھر اُس کی عظمت اور جلال اور بے نیازی پر نظر ڈال کر اُس سے ڈرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ دن بدن خدا تعالیٰ کی طرف کھنچا جاتا ہے یہاں تک کہ تمام سفلی تعلقات توڑ کر رُوح محض رہ جاتا ہے اور تمام صحنِ سینہ اُس کا محبت الٰہی سے بھر جاتا ہے اور خدا کے وجود کے مشاہدہ سے اُس کے وجود پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور وہ موت کے بعد ایک نئی زندگی پاتا ہے۔ تب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 122

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 122

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/122/mode/1up


اُس فنا کی حالت میں کہا جاتا ہے کہ اسکو توحید حاصل ہو گئی ہے۔ پس جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں۔ وہ کامل توحید جو سر چشمہ ء نجات ہے بجز نبی کامل کی پیروی کے حاصل ہو ہی نہیں سکتی۔

ابؔ اِس تقریر سے ظاہر ہے کہ خدا کے رسول کو ماننا توحید کے ماننے کے لئے علّتِ موجبہ کی طرح ہے اور ان کے باہمی ایسے تعلقات ہیں کہ ایک دوسرے سے جُدا ہو ہی نہیں سکتے۔ اور جو شخص بغیر پیروی رسول کے توحید کا دعویٰ کرتا ہے اسکے پاس صرف ایک خشک ہڈی ہے جس میں مغز نہیں اور اس کے ہاتھ میں محض ایک مردہ چراغ ہے جس میں روشنی نہیں ہے اور ایسا شخص کہ جو یہ خیال کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کو واحد لا شریک جانتا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانتا ہو وہ نجات پائے گا یقیناًسمجھو کہ اُس کا دل مجذوم ہے اور وہ اندھا ہے اور اُس کو توحید کی کچھ بھی خبر نہیں کہ کیا چیز ہے اور ایسی توحید کے اقرار میں شیطان اُس سے بہتر ہے کیونکہ اگرچہ شیطان عاصی اور نافرمان ہے لیکن وہ اس بات پر تو یقین رکھتا ہے کہ خدا موجود ہے۔* مگر اس شخص کوتو خدا پر بھی یقین نہیں۔

اب خلاصہ کلام یہ کہ جو لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ بغیر اس کے کہ کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے صرف توحید کے اقرار سے اس کی نجات ہو جائے گی۔ ایسے لوگ پوشیدہ مرتد ہیں اور درحقیقت وہ اسلام کے دشمن ہیں اور اپنے لئے ارتداد کی ایک راہ نکالتے ہیں ان کی حمایت کرنا کسی دیندار کا کام نہیں ہے۔ افسوس کہ ہمارے مخالف باوجود مولوی اور اہل علم کہلانے کے ان لوگوں کی ایسی حرکات سے خوش ہوتے ہیں۔ دراصل یہ بیچارے ہمیشہ اسی تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی سبب ایسا پیدا ہو جاوے کہ جس سے میری ذلّت اوراہانت ہو۔ مگر اپنی بد قسمتی سے آخر نا مراد ہی رہتے ہیں۔ پہلے ان لوگوں نے میرے پر کفر کا فتویٰ تیار کیا اور قریباً د ۲۰۰ و سو مولوی نے اس پر


* اگر کوئی کہے کہ جس حالت میں شیطان کو خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت پر یقین ہے تو پھر وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کیوں کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی نافرمانی انسان کی نافرمانی کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ اسی عادت پر انسان کی آزمائش کیلئے پیدا کیا گیا ہے اور یہ ایک راز ہے جسکی تفصیل انسان کو نہیں دی گئی اور انسان کی خاصیت اکثر اور اغلب طورپر یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نسبت علم کامل حاصل کرنے سے ہدایت پالیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3 ۱؂ ہاں جو لوگ شیطانی سرشت رکھتے ہیں وہ اس قاعدہ سے باہر ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 123

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 123

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/123/mode/1up


مہریں لگائیں اور ہمیں کافر ٹھہرایا گیا۔ اور اُن فتووں میں یہاںؔ تک تشدد کیا گیا کہ بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ کفر میں یہود اور نصاریٰ سے بھی بد تر ہیں اور عام طور پر یہ بھی فتوے دئے کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کرنا چاہئے۔ اور ان لوگوں کے ساتھ سلام اور مصافحہ نہیں کرنا چاہئے۔ اور اُن کے پیچھے نماز درست نہیں کافر جو ہوئے۔ بلکہ چاہئے کہ یہ لوگ مساجد میں داخل نہ ہونے پاویں کیونکہ کافر ہیں۔ مسجدیں ان سے پلید ہو جاتی ہیں۔ اور اگر داخل ہوجا ئیں تو مسجد کو دھو ڈالنا چاہئے۔ اوران کا مال چُرانا درست ہے اور یہ لوگ واجب القتل ہیں کیونکہ مہدی خُونی کے آنے سے انکاری اور جہاد سے منکر ہیں۔ مگر باوجود ان فتووں کے ہمارا کیا بگاڑا۔ جن دنوں میں یہ فتویٰ ملک میں شائع کیا گیا اُن دنوں میں دس آدمی بھی میری بیعت میں نہ تھے مگر آج خدا تعالیٰ کے فضل سے تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور حق کے طالب بڑے زور سے اِس جماعت میں داخل ہو رہے ہیں۔ کیا مومنوں کے مقابل پر کافروں کی مدد خدا ایسی ہی کیا کرتا ہے۔ پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے ۲۰بیس کروڑ مسلمان اور کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا۔ حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی۔ خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے مُنہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی اُن کے نزدیک گناہ ہو گیا۔کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا۔ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوائے کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہراویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر د ل آزار ہے۔ ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے؟ اور پھر جبکہ ہمیں اپنے فتووں کے ذریعہ سے کافر ٹھہرا چکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہو گئے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 124

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 124

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/124/mode/1up


کہؔ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو کفر اُلٹ کر اُسی پر پڑتا ہے تو اِس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب اُنہیں کے اقرار کے ہم اُن کو کافر کہتے۔

غرض ان لوگوں نے چند روز تک اِس جھوٹی خوشی سے اپنا دل خوش کر لیا کہ یہ لوگ کافر ہیں۔ اور پھر جب وہ خوشی باسی ہو گئی اور خدا نے ہماری جماعت کو تمام ملک میں پھیلا دیا تو پھر کسی اور منصوبہ کی تلاش میں لگے۔

تب انہی دنوں میں میری پیشگوئی کے مطابق پنڈت لیکھرام آریہ سماجی کو میعاد کے اندر کسی نے ہلاک کر دیا مگر افسوس کہ کسی مولوی کو یہ خیال نہ آیا کہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اسلامی نشان ظاہر ہوا۔ بلکہ بعض نے ان میں سے بار بار گورنمنٹ کو توجہ دلائی کہ کیوں گورنمنٹ پیشگوئی کرنیوالے کو نہیں پکڑتی مگر اس آرزو میں بھی خائب اور خاصر رہے۔ اور پھر کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر پادری مارٹن کلارک نے ایک خون کا مقدمہ میرے پر دائر کیا۔ پھر کیا کہنا تھا اِس قدر خوشی ان لوگوں کو ہوئی کہ گویا پھولے اپنے جامہ میں نہ سماتے تھے۔ اور بعض مسجدوں میں سجدے کرکے میرے لئے اِس مقدمہ میں پھانسی وغیرہ کی سزا مانگتے تھے اور اس آرزو میں اُنہوں نے اس قدر سجدے رو رو کے کئے تھے کہ اُن کی نا کیں بھی گھس گئیں مگر آخر خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق جو پہلے شائع کیا گیا تھا بڑی عزت سے میں بَری کیا گیا او راجازت دی گئی کہ اگر چاہو تو ان عیسائیوں پر نالش کرو۔ مختصر یہ کہ اس آرزو میں بھی ہمارے مخالف مولوی اور اُن کے زیر اثر نامراد ہی رہے۔

پھر کچھ دِنوں کے بعد کرم دین نام ایک مولوی نے فو جداری مقدمہ گورداسپور میں میرے نام دائر کیا اور میرے مخالف مولویوں نے اُس کی تائید میں آتمارام اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں جاکر گواہیاں دیں اور ناخنوں تک زور لگایا اور اُن کو بڑی اُمید ہوئی کہ اب کی دفعہ ضرور کامیاب ہوں گے اور اُن کو جھوٹی خوشی پہنچانے کے لئے ایسا اتفاق ہوا کہ آتمارام نے اِس مقدمہ میں اپنی نافہمی کی وجہ سے پوری غور نہ کی اور مجھ کو سزائے قید دینے کیلئے مستعد ہو گیا۔ اُس وقت خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ آتمارام کو اس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کرے گا چنانچہ یہ کشف میں نے اپنی جماعت کو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 125

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 125

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/125/mode/1up


سنا دیا۔ اور پھر ایسا ہوا کہ قریباً بیس ۰۲ پچیس ۲۵ دن کے عرصہ میں دو بیٹے اُس کے مر گئے اور آخر یہ اتفاق ہوا کہ آتمارام سزائے قید تو مجھ کو نہ دے سکا اگرچہ فیصلہ لکھنے میں اُس نے قید کرنے کی بنیاد بھی باندھی مگر اخیر پر خدانے اُسکو اس حرکت سے روک دیا۔ لیکن تاہم اُس نے سا3ت سو روپیہ جرمانہ کیا۔ پھر ڈویژنل جج کی عدالت سے عزت کے ساتھ میں بری کیا گیا* اور کرم دین پر سزا قائم رہی اور میرا جرمانہ واپس ہوا۔ مگر آتما رام کے دو بیٹے واپس نہ آئے۔

پس جس خوشی کے حاصل ہونے کی کرم دین کے مقدمہ میں ہمارے مخالف مولویوں کو تمنا تھی وہ پوری نہ ہو سکی اور خدا تعالیٰ کی اس پیشگوئی کے مطابق جو میری کتاب مواہب الرحمن میں پہلے سے چھپ کر شائع ہو چکی تھی میں بری کیا گیا اور میرا جرمانہ واپس کیا گیا اور حاکم مجوز کو منسوخی حکم کے ساتھ یہ تنبیہ ہوئی کہ یہ حکم اُس نے بے جا دیا۔ مگر کرم دین کو جیسا کہ میں مواہب الرحمن میں شائع کر چکا تھا سزا مل گئی اور عدالت کی رائے سے اُس کے کذّاب ہونے پر مُہر لگ گئی اور ہمارے تمام مخالف مولوی اپنے مقاصد میں نامراد رہے۔ افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نامُرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ در پردہ ایک ہاتھ ہے جو ان کے ہر ایک حملہ سے اس کو بچاتا ہے۔ اگر بد قسمتی نہ ہوتی تو اُن کے لئے یہ ایک معجزہ تھا کہ اُن کے ہر ایک حملہ کے وقت خدا نے مجھ کو اِن کے شر سے بچایا اور نہ صرف بچایا بلکہ پہلے اِس سے خبر بھی دیدی کہ وہ بچائے گا۔ اور ہر ایک مرتبہ اور ہر ایک مقدمہ میں خدا تعالیٰ مجھے خبر دیتا رہا کہ میں تجھے بچاؤں گا۔ چنانچہ وہ اپنے وعدہ کے موافق مجھے محفوظ رکھتا رہا ژ یہ ہیں خدا کے اقتداری نشان کہ ایک طرف تمام دنیا ہمارے ہلاک کرنے کے لئے جمع ہے اور ایک طرف وہ قادر خدا ہے کہ اُن کے ہر ایک حملہ سے مجھے بچاتا ہے۔


ڈویژنل جج امرتسر نے جو ایک انگریز تھا پوری تحقیق سے اس مقدمہ میں کام لیا اور جیسا کہ شرط انصاف ہے وہ فیصلہ کیا جو کامل تحقیقات اور عدالت کی رو سے چاہئے تھا۔ اور اپنے فیصلہ میں اپنے الفاظ میں لکھا کہ جو الفاظ اپیلانٹ مستغاث علیہ نے کرم دین رسپانڈنٹ مستغیث کے حق میں استعمال کئے تھے جو موجب ازالہ حیثیت عرفی سمجھے گئے۔ یعنی کذاب اور لئیم کا لفظ اگر اپیلانٹ ان الفاظ سے بڑھ کر کر م دین کے حق میں استعمال کرتا تو بھی کر مدین اُن الفاظ کا مستحق تھا۔منہ


ژ یہ تمام پیشگوئیاں وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہی ہیں ہمارے مخالفوں کو خدا کے سامنے یہ جواب دینا ہوگاکہ وہ کیوں ان سب نشانوں کو بھول گئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 126

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 126

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/126/mode/1up


پھر ایک اور خوشی کا موقعہ ہمارے مخالفوں کو پیش آیا کہ جب چراغ دین جموں والا جو میرا مرید تھا۔ مرتد ہو گیا اور بعد ارتداد میں نے رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں اُسکی نسبت خدا تعالیٰ سے یہ الہام پاکر شائع کیا کہ وہ غضب الٰہی میں مبتلا ہو کر ہلاک کیا جائے گا تو بعض مولویوں نے محض میری ضد سے اُس کی رفاقت اختیار کی اور اُس نے ایک کتاب بنائی جس کا نام منارۃ المسیح رکھاؔ اور اس میں مجھے دجال قرار دیا اور اپنا یہ الہام شائع کیا کہ میں رسول ہوں اور خدا کے مرسلوں میں سے ایک مرسل ہوں اور حضرت عیسیٰ نے مجھے ایک عصا دیا ہے کہ تا میں اس عصا سے اس دجال کو (یعنی مجھ کو) قتل کروں چنانچہ منارۃ المسیح میں قریب نصف کے یہی بیان ہے کہ یہ شخص دجال ہے اور میرے ہاتھ سے تباہ ہوگا۔ اور بیان کیا کہ یہی خبر مجھے خدا نے اور عیسیٰ نے بھی دی ہے مگر آخر کا رجو ہوا لوگوں نے سنا ہوگا کہ یہ شخص ۴؍اپریل۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے فوت ہو کر میری پیشگوئی کی تصدیق کر گیا اور بڑی نومیدی سے اُس نے جان دی اور مرنے سے چند دن پہلے ایک مباہلہ کا کاغذ اس نے لکھا جس میں اپنا اور میرا نام ذکر کرکے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو۔ خدا کی قدرت کہ وہ کاغذ ابھی کاتب کے ہاتھ میں ہی تھا اور وہ کاپی لکھ رہا تھا کہ چراغ دین مع اپنے دونوں بیٹوں کے اُسی دن ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گیا۔ 3 ۱؂ یہ ہیں میرے مخالف الہاموں کا دعویٰ کرنیوالے جو مجھے دجال ٹھہراتے ہیں۔ کوئی شخص اُن کے انجام پر غور نہیں کرتا۔ القصہ حضرات مولوی صاحبان چراغدین مرتد کا ساتھ دیکر بھی اپنی مراد کو نہ پہنچ سکے۔

پھر بعد اسکے ایک اور چراغدین پیدا ہوا یعنی ڈاکٹر عبد الحکیم خان۔ یہ شخص بھی مجھے دجال ٹھہراتا ہے اور پہلے چراغدین کی طرح اپنے تئیں مُرسلین میں سے شمار کرتا ہے مگر معلوم نہیں کہ پہلے چراغدین کی طرح میرے قتل کرنے کے لئے اِس کو بھی حضرت عیسیٰ نے عصا دیا ہے یا نہیں۔* تکبر اور غرور میں تو پہلے


* حضرت عیسیٰ نے جو میرے قتل کرنے کیلئے چراغدین کو عصا دیا معلوم نہیں کہ یہ جوش اور غضب کیوں اُن کے دل میں بھڑکا۔ اگر اسلئے ناراض ہو گئے کہ میں نے اُن کا مرنا دنیا میں شائع کیا ہے تو یہ اُنکی غلطی ہے یہ میں نے شائع نہیں کیا بلکہ اُس نے شائع کیا ہے جس کی مخلوق ہماری طرح حضرت عیسیٰ بھی ہیں اگر شک ہو تو یہ آیت دیکھیں 33 ۲؂ اور نیز یہ آیت 3 ۳؂ ۔ اور تعجب کہ جس کو وہ میرے ہلاک کرنے کیلئے عصا دیتے ہیں وہ آپ ہی ہلاک ہو جاتا ہے یہ خوب عصا ہے۔ سُنا ہے کہ دوسرے چراغدین یعنی عبدالحکیم خان نے بھی میری موت کے بارے میں کوئی پیشگوئی پہلے چراغ دین کی طرح کی ہے مگر معلوم نہیں کہ اُس میں کوئی عصا کا بھی ذکر ہے یا نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 127

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 127

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/127/mode/1up


چراغ دین سے بھی بہت بڑھ کر ہے اور گالیاں دینے میں بھی اُس سے زیادہ مشق ہے اور افترا میں اُس سے بڑھ کر قدم ہے۔ اس مشتعل طبع مُشتِ خاک کی ارتداد سے بھی ہمارے مخالف مولویوں کو بہت خوشی ہوئی۔ گویا ایک خزانہ مل گیا۔ مگر اُن کو چاہئے کہ اتنا خوشؔ نہ ہوں اور پہلے چراغ دین کو یاد کریں۔ وہ خدا جس نے ہمیشہ اُن کو ایسی خوشیوں سے نامراد رکھا ہے وہی خدا اب بھی ہے۔ اور اس کی پیشگوئی نے جیسا کہ پہلے چراغ دین کے انجام کی خبر دی تھی اسی طرح اُس علیم خبیر نے اس دوسرے چراغ دین یعنی عبد الحکیم کے انجام سے خبر دی ہے پھر خوشی کا کیا مقام ہے ذرا صبر کریں اور انجام دیکھیں۔ اور پھر تعجب کا مقام ہے کہ ایک نادان مرتد کے ارتداد سے اِس قدر کیوں خوشی کی جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا ہم پر فضل ہے کہ اگر ایک بد قسمتی سے مرتد ہوتا ہے تو اس کی جگہ ہزار آتا ہے۔

اور پھر ماسوا اِس کے کیا کسی مرتد کے ارتداد سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ سلسلہ جس میں سے یہ مرتد خارج ہوا حق نہیں ہے۔ کیا ہمارے مخالف علماء کو خبر نہیں کہ کئی بد بخت حضرت موسیٰ کے زمانہ میں اُن سے مر تد ہو گئے تھے۔ پھر کئی لوگ حضرت عیسیٰ سے مرتد ہوئے اور پھر کئی بد بخت اور بد قسمت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آپ سے مرتد ہو گئے چنانچہ مسیلمہ کذاب بھی مرتدین میں سے ایک تھا۔ پس عبدالحکیم مرتد کے ارتداد سے خوش ہونا اور اس کو سلسلہ حقّہ کے بطلان کی ایک دلیل قرار دینا ان لوگوں کا کام ہے جو محض نادان ہیں۔ ہاں یہ لوگ چند روز کے لئے ایک جھوٹی خوشی کا موجب ضرور ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ خوشی جلد زائل ہو جاتی ہے۔

یہ وہی عبد الحکیم خان ہے جس نے اپنی کتاب میں میرا نام لیکر یہ لکھا ہے کہ ایک شخص اُن کے دعویٰ مسیح موعود ہونے سے مُنکرتھا تب مجھ کو خواب میں دکھا یا گیا کہ یہ منکر طاعون سے مر جائے گا۔ چنانچہ وہ طاعون سے مر گیا۔ مگر اب خود گُستاخی سے مرتد ہو کر گالیاں دیتا اور سخت بد زبانی کرتا اور جھوٹی تہمتیں لگاتا ہے کیا اب طاعون کا وقت جاتا رہا؟!

یہ تو ہم بیان کر چکے کہ وہ امر جس کا نام توحید ہے اور جو مدارِ نجات ہے اور جو شیطانی توحید سے ایک علیحدہ امر ہے وہ بجز اس کے کہ وقت کے نبی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 128

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 128

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/128/mode/1up


ایمان لایا جائے اور اُن کی اطاعت کی جائے میسر نہیں آسکتا اور صرف توحید خشک بجز اطاعت رسوؔ ل کے کچھ چیز نہیں بلکہ اُس مردہ کی طرح ہے جس میں روح نہیں۔ اب یہ بیان کرنا رہ گیا کہ کیا قرآن شریف نے ہمارے بیان کے مطابق انسانی نجات کو اطاعت رسول کے ساتھ وابستہ فرمایا ہے یا اُس کے بر خلاف قرآنی تعلیم ہے۔ سو اس حقیقت کے سمجھانے کے لئے ہم آیاتِ ذیل پیش کرتے ہیں۔

(۱) قولہ تعالٰی۔ 3 ۔۱؂ الجزو نمبر۱۸ سورۃ نور (ترجمہ)کہہ خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ اور یہ مسلّم اور بد یہی امر ہے کہ خدا کے احکام سے تخلف کرنا معصیت اور موجب دخول جہنم ہے اور اس مقام میں جس طرح خدا اپنی اطاعت کیلئے حکم فرماتا ہے۔ ایسا ہی رسول کی اطاعت کے لئے حکم فرماتا ہے۔ سو جو شخص اُس کے حکم سے مُنہ پھیرتا ہے وہ ایسے جُرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی سزا جہنم ہے۔

(۲) قولہ تعالٰی۔ 333 ۲؂ (الجز و نمبر ۲۶ سورۃ حجرات)

(ترجمہ) اے ایمان والو خدا اور رسول کے حکم سے بڑھ کر کوئی بات نہ کرو یعنی ٹھیک ٹھیک احکامِ خدا اور رسول پر چلو اور نافرمانی میں خدا سے ڈرو۔ خدا سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص محض اپنی خشک توحید پر بھروسہ کرکے (جو دراصل وہ توحید بھی نہیں) رسول سے اپنے تئیں مستغنی سمجھتا ہے اور رسول سے قطع تعلق کرتا ہے اور اس سے بالکل اپنے تئیں علیحدہ کر دیتا ہے اور گستاخی سے قدم آگے رکھتا ہے۔ وہ خدا کا نافرمان ہے اور نجات سے بے نصیب۔ قولہ تعالٰی۔ 3ٖ3 3 ۲؂ (الجزو نمبر۱ سُورۃ بقرہ) (۳)

(ترجمہ) یعنی جو شخص خدا اور اُسکے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو تو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 129

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 129

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/129/mode/1up


خدا ایسے کافروں کا خودد شمن ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص توحید خشک کا توقائل ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہؔ وسلم کا مکذب ہے وہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے لہٰذا بموجب منشاء اس آیت کے خدا اُس کا دشمن ہے اور وہ خدا کے نزدیک کافر ہے تو پھر اس کی نجات کیونکر ہو سکتی ہے۔

(۴) قولہ تعالٰی۔ 33333 ۱؂ (الجزو نمبر ۵ سورۃ نساء)

(ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا پر ایمان لاؤ۔ اور اُس کے رسول پر اور اس کی اس کتاب پر جو اُس کے رسول پر نازل ہوئی ہے یعنی قرآن شریف پر اور اُس کتاب پر ایمان لاؤ جو پہلے نازل ہوئی۔ یعنی توریت وغیرہ پر۔ اور جو شخص خدا پر اور اُس کے فرشتوں پر اور اُسکے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لائے گا وہ حق سے بہت دور جا پڑا یعنی نجات سے محروم رہا۔

(۵) قولہ تعالٰی۔ 3 333۲؂ (الجزو نمبر۲۲ سورۃ احزاب)

(ترجمہ) کسی مومن یا مومنہ کوجائز نہیں ہے کہ جب خدا اور اُس کا رسول کوئی حکم کرے تو ان کو اس حکم کے ردّ کرنے میں اختیار ہو۔ اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ حق سے بہت دُور جا پڑا ہے یعنی نجات سے بے نصیب رہا۔ کیونکہ نجات اہل حق کے لئے ہے۔

(۶) قولہ تعالٰی۔ 333 ۳؂ (الجزو نمبر۴ سورۃ نساء)

(ترجمہ) جو شخص خدا اور رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے باہر ہو جائے خدا اُس کو جہنم میں داخل کرے گا اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور اُس پر ذلیل کرنے والا عذاب نازل ہوگا۔

اب دیکھو کہ رسول سے قطع تعلق کرنے میں اس سے بڑھ کر اور کیا وعید ہوگا کہ خدائے عزو جل فرماتا ہے کہ جو شخص رسول کی نافرمانی کرے اُس کے لئے دائمی جہنم کا وعدہ ہے۔ مگرمیاں عبد الحکیم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 130

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 130

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/130/mode/1up


کہتے ہیں کہ جو شخص نبی کریم کا مکذب اور نافرمان ہو۔ اگروہ توحید پر قائم ہو تو وہ بلاشبہ بہشت میں جائےؔ گا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اُن کے پیٹ میں کس قسم کی توحید ہے کہ باوجود نبی کریم کی مخالفت اور نافرمانی کے جو توحید کا سرچشمہ ہے بہشت تک پہنچا سکتی ہے۔ *** اللہ علی الکاذبین۔

(۷) قولہ تعالٰی۔33۱؂ (الجزو نمبر۵ سورۃ نساء)

(ترجمہ) یعنی ہر ایک نبی ہم نے اِس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا کے حکم سے اُسکی اطاعت کی جائے۔

اب ظاہر ہے کہ جبکہ بمنشاء اس آیت کے نبی واجب الاطاعت ہے۔ پس جو شخص نبی کی اطاعت سے باہر ہو وہ کیونکر نجات پا سکتا ہے۔

(۸) قولہ تعالٰی۔ 33 3۔333 ۲؂ (الجزونمبر۳اٰ ل عمران)

(ترجمہ) انکو کہہ کہ اگر خدا سے تم محبت کرتے ہو۔ پس آؤ میری پیروی کرو۔ تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گنہ بخش دے اور خدا غفورو رحیم ہے۔ اُن کو کہہ کہ خدا اور رسول کی اطاعت کرو پس اگر وہ اطاعت سے مُنہ پھیر لیں تو خدا کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔ اِن آیات سے صاف طور پر ظاہرہوتا ہے کہ گناہوں کی مغفرت اور خدا تعالیٰ کا پیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے وابستہ ہے۔ اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے وہ کافر ہیں۔

(۹) قولہ تعالٰی۔ 33 33 3۔33۔3 333 ۳؂ (الجزو نمبر۶ سورۃ نساء)

(ترجمہ) وہ لوگ جو خدا اور رسول سے منکر ہیں اور ارادہ رکھتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ ڈال دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لائیں گے اور بعض پر نہیں۔ یعنی صرف خدا کا ماننا یا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 131

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 131

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/131/mode/1up


صرف بعض رسولوں پر ایمان لانا کافی ہے یہ ضروری نہیں کہ خدا کے ساتھ رسول پر بھی ایمان لاویں یا سبؔ نبیوں پر ایمان لاویں اور چاہتے ہیں کہ خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر بین بین مذہب اختیار کر لیں۔ وہی پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے اور وہ لوگ جو خدا اور رسول پر ایمان لاتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ نہیں ڈالتے یعنی یہ تفرقہ اختیار نہیں کرتے کہ صرف خدا پر ایمان لاویں مگر اُس کے رسولوں پر ایمان نہ لاویں اور نہ یہ تفرقہ پسند کرتے ہیں کہ بعض رسولوں پر تو ایمان لاویں اور بعض سے برگشتہ رہیں۔ ان لوگوں کو خدا اُن کا اجر دے گا۔

اب کہاں ہیں میاں عبد الحکیم خان مرتد جو میری اس تحریر سے مجھ سے برگشتہ ہوگیا۔ چاہئے کہ اب آنکھ کھول کر دیکھے کہ کس طرح خدا نے اپنی ذات پر ایمان لانا رسولوں پر ایمان لانے سے وابستہ کیا ہے۔ اس میں رازیہ ہے کہ انسان میں توحید قبول کرنے کی استعداد اُس آگ کی طرح رکھی گئی ہے جو پتھر میں مخفی ہوتی ہے۔ اور رسول کا وجود چقماق کی طرح ہے جو اس پتھر پر ضرب توجہ لگا کر اُس آگ کو باہر نکالتا ہے۔ پس ہر گز ممکن نہیں کہ بغیر رسول کی چقماق کے توحید کی آگ کسی دل میں پیدا ہو سکے توحید کو صرف رسول زمین پر لاتا ہے اور اُسی کی معرفت یہ حاصل ہوتی ہے۔ خدا مخفی ہے اور وہ اپنا چہرہ رسول کے ذریعہ دکھلاتا ہے ۔*

(۱۰) قولہ تعالٰی۔ 333 ۱؂ (الجزو نمبر ۶ سورۃ نساء)

ترجمہ۔ اے لوگو! تمہارے پاس رسول حق کے ساتھ آیا ہے۔ پس تم اُس رسول پر ایمان لاؤ۔


ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے3۲؂ تب ایک مُدّت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور اُن کے کا ندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذا بما صلّیت علٰی محمّدٍ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 132

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 132

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/132/mode/1up


تمہاری بہتری اِسی میں ہے اور اگر تم کفر اختیار کرو تو خدا کو تمہاری کیاؔ پروا ہے زمین و آسمان سب اُسی کا ہے اور سب اُس کی اطاعت کر رہے ہیں اور خدا علیم اور حکیم ہے۔

(۱۱) قولہ تعالٰی۔33333 ۱؂ (الجزو نمبر۲۹ سورۃ الملک)

ترجمہ۔ اور جب دوزخ میں کوئی فوج کافروں کی پڑے گی تو جو فرشتے دوزخ پر مقرر ہیں وہ دوزخیوں کو کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی نذیر نہیں آیا تھا وہ کہیں گے کہ ہاں آیا تو تھا مگر ہم نے اُس کی تکذیب کی اور ہم نے کہا کہ خدا نے کچھ نہیں اُتارا۔ اب دیکھو ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوزخی دوزخ میں اس لئے پڑیں گے کہ وہ وقت کے نبیوں کو قبول نہیں کریں گے۔

(۱۲) قولہ تعالٰی۔333 ۲؂ (الجزونمبر ۲۶ سورۃ حجرات)

ترجمہ۔ سوا اس کے نہیں کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر بعد اس کے ایمان پر قائم رہے اور شکوک و شبہات میں نہیں پڑے دیکھو ان آیات میں خدا تعالیٰ نے حصر کر دیا ہے کہ خدا کے نزدیک مومن وہی لوگ ہیں کہ جو صرف خدا پر ایمان نہیں لاتے بلکہ خدا اور رسول دونوں پر ایمان لاتے ہیں پھر بغیر ایمان بالرسول کے نجات کیونکر ہو سکتی ہے اور بغیر رسول پر ایمان لانے کے صرف توحید کس کام آسکتی ہے۔

(۱۳) قولہ تعالٰی۔333 ۳؂ (الجزونمبر ۱۰ سورۃ توبہ)

ترجمہ۔ یعنی اس بات کا سبب جو کفار کے صدقات قبول نہیں کئے جاتے صرف یہ ہے کہ وہ خدا اور اُس کے رسول سے منکر ہیں۔ اب دیکھو ان آیات سے صاف ظاہرہے کہ جو لوگ رسول پرایمان نہیں لاتے اُن کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ خداان کو قبول نہیں کرتا۔ اور پھر جب اعمال ضائع ہوئے تو نجات کیونکر ہوگی ۔


یہتمام آیات اُن لوگوں کے متعلق ہیں جنہوں نے رسول کے وجود پر اطلاع پائی اور رسول کی دعوت ان کو پہنچ گئی اور جو لوگ رسول کے وجود سے بالکل بے خبر رہے اور نہ ان کو دعوت پہنچی اُن کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اُن کے حالات کا علم خدا کو ہے اُن سے وہ۔ وہ معاملہ کرے گا جو اُس کے رحم اور انصاف کا مقتضاء ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 133

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 133

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/133/mode/1up

*

(۱۴) قولہ تعالٰی۔33 33 ۱؂ (الجزو نمبر ۲۶ سورۃ محمد)

ترجمہؔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور وہ کلام جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اس پر ایمان لائے اور وہی حق ہے ایسے لوگوں کے خدا گناہ بخش دے گا اور اُن کے دلوں کی اصلاح کرے گا۔ اب دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی وجہ سے کس قدر خدا تعالیٰ اپنی خوشنودی ظاہر فرماتا ہے کہ اُن کے گناہ بخشتا ہے اور اُن کے تزکیہ نفس کا خود متکفل ہوتا ہے۔ پھر کیسا بدبخت وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں اور غرور اور تکبر سے اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے۔ سعدیؒ نے سچ کہا ہے:۔

محال ست سعدی کہ راہِ صفا

برد مہر آن شاہ سوئے بہشت


توان رفت جُز درپئے مصطفٰے

حرام است بر غیر بُوئے بہشت

(۱۵) قولہ تعالٰی۔333 ۲؂ (الجزو نمبر ۱۰ سورۃ توبہ)

ترجمہ ۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جو شخص خدا اور رسول کی مخالفت کرے خدااُس کو جہنم میں ڈالے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا یہ ایک بڑی رُسوائی ہے۔ اب بتلاویں میاں عبد الحکیم خان کہ اُن کی کیا رائے ہے۔ کیا خدا کے اِس حکم کو قبول کریں گے یا بہادری سے اِن آیتوں کے وعید کو اپنے سر پر لے لیں گے۔

(۱۶) قولہ تعالٰی۔33 33333 ۳؂ (الجزونمبر ۳۱۷)

ترجمہ۔ اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا۔ اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا۔ تمہیں اُس پر ایمان لانا ہوگا اور اُس کی مدد کرنی ہوگی اور کہا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس عہد پر استوار



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 134

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 134

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/134/mode/1up


ہو ؔ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کر لیا۔ تب خدا نے فرمایا کہ اب اپنے اقرار کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اِس بات کا گواہ ہوں۔

اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہو گئے تھے یہ حکم ہر نبی کی اُمت کے لئے ہے کہ جب وہ رسول ظاہر ہو تو اس پر ایمان لاؤ ورنہ مواخذہ ہوگا۔ اب بتلاویں میاں عبد الحکیم خان نیم ملّا خطرہ ایمان! کہ اگر صرف توحید خشک سے نجات ہو سکتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے کیوں مؤاخذہ کرے گا جو گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے مگر توحید باری کے قائل ہیں۔

علاوہ اِس کے توریت استثناء باب۱۸ میں ایک یہ آیت موجود ہے کہ جو شخص اُس آخر الزمان نبی کو نہیں مانے گا میں اُس سے مطالبہ کروں گا۔ پس اگر صرف توحید ہی کافی ہے تو یہ مطالبہ کیوں ہوگا؟ کیا خدا اپنی بات کو بھول جائے گا؟ اور میں نے بقدر کفایت قرآن شریف میں سے یہ آیات لکھی ہیں ورنہ قرآن شریف اِس قسم کی آیات سے بھرا ہوا ہے چنانچہ قرآن شریف انہیں آیات سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ 3۔ 3۱؂ * یعنی اے ہمارے خدا ہمیں رسولوں اور نبیوں کی راہ پر چلا جن پر تیرا انعام اور اکرام ہوا ہے۔


ہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان سچے دین پر ہو تو اعمال صالحہ بجا لانے سے خدا تعالیٰ کی

طرف سے ایک انعام پاتا ہے۔ اِسی طرح سنّتِ الٰہی واقع ہے کہ سچے دین والا صرف اس حد تک ٹھہرایا نہیں جاتا جس حد تک وہ اپنی کوشش سے چلتا ہے اور اپنی سعی سے قدم رکھتا ہے بلکہ جب اس کی کوشش حد تک پہنچ جاتی ہے اور انسانی طاقتوں کا کام ختم ہو جاتا ہے تب عنایت الٰہی اُسکے وجود میں اپنا کام کرتی ہے اور ہدایت الٰہی اس مرتبہ تک اس کو علم اور عمل اور معرفت میں ترقی بخشتی ہے جس مرتبہ تک وہ اپنی کوشش سے نہیں پہنچ سکتا تھا جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 3 ۲؂ یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ اختیار کرتے ہیں اور جو کچھ اُن سے اور اُن کی قوتوں سے ہو سکتا ہے بجا لاتے ہیں۔ تب عنایت حضرت احدیّت اُن کا ہاتھ پکڑتی ہے اور جو کام اُن سے نہیں ہو سکتا تھا وہ آپ کر دِکھلاتی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 135

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 135

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/135/mode/1up


ابؔ اِس آیت سے کہ جو پنج وقت نماز میں پڑھی جاتی ہے ظاہر ہے کہ خدا کا روحانی انعام جو معرفت اور محبت الٰہی ہے صرف رسولوں اور نبیوں کے ذریعہ سے ہی ملتا ہے نہ کسی اور ذریعہ سے ہمیں معلوم نہیں کہ میاں عبد الحکیم خان نماز بھی پڑھتے ہیں یا نہیں اگر پڑھتے ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اِن آیات کے معنوں سے بے خبر رہتے مگر جب اُن کے نزدیک صرف توحید ہی کافی ہے تو پھر نماز کی کیا ضرورت ہے۔ نماز تو رسول کا ایک طریق عبادت بتلایا ہوا ہے جس کو رسول کی متابعت سے کچھ غرض نہیں اُس کو نماز سے کیا غرض ہے۔ اس کے نزدیک تو موحد برہمو بھی نجات یافتہ ہیں کیا وہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور جب کہ اُس کے نزدیک ایک شخص اسلام سے مرتد ہو کر بھی بوجہ اپنی خشک توحید کے نجات پا سکتا ہے* اور ایسا آدمی بھی نجات پا سکتا ہے جو یہود یا نصاریٰ یا آریوں میں سے مو ّ حد ہے گو اسلام کا مکذب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے تو پھر اُس کی یہی رائے ہوگی کہ نماز لا حاصل اور روزہ بے سُود ہے مگر ایک مومن کے لئے تو صرف یہی آیت کافی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی دولت کے مالک صرف انبیاء اور رُسل ہیں اور ہر ایک کو اُن کی پیروی سے حصہ ملتا ہے۔

پھر سورۂ بقرہ کے شروع میں یہ آیات ہیں۔ 3 3۔33۔ 33 3۔33۔ ۱؂

ترجمہ۔ یہ کتاب جو شکوک و شبہات سے پاک ہے متقیوں کے لئے ہدایت نامہ ہے اور متقی وہ لوگ ہیں جو خدا پر (جس کی ذات مخفی در مخفی ہے) ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے خدا کی راہ میں کچھ دیتے اور اُس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تیرے پر نازل ہوئی


* عبد الحکیم خان کے نزدیک جہاں تک اُس کی عبارت سے سمجھا جاتا ہے ارتداد کے لئے یہ بھی ایک عذر ہے کہ جس شخص کو اپنی رائے میں اسلام کی سچائی کے کافی دلائل نہیں ملے وہ اسلام سے مرتد ہو کربھی نجات پا سکتا ہے کیونکہ اسلام کی حقانیت پر اُس کو تسلی حاصل نہیں ہوئی مگر اس کو بیان کرنا چاہئیے تھا کہ کس حد تک اتمام حجت اس کے نزدیک ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 136

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 136

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/136/mode/1up


اور نیز اُن کتابوں پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ سے پہلے نازل ہوئیں وہی لوگ خدا کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی ہیں جو نجات پائیں گے۔

ابؔ اُٹھواور آنکھ کھولو اے میاں عبد الحکیم مرتد! کہ خدا تعالیٰ نے اِن آیات میں فیصلہ کر دیا ہے اور نجات پانا صرف اسی بات میں حصر کر دیا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لاویں اور اس کی بندگی کریں۔ خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض اور اختلاف نہیں ہو سکتا پس جبکہ اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت سے نجات کو وابستہ کر دیا ہے تو پھر بے ایمانی ہے کہ اِن آیات قطعیۃ الد لالت سے انحراف کرکے متشابہات کی طرف دوڑیں۔ متشابہات کی طرف وہی لوگ دوڑتے ہیں جن کے دل نفاق کی مرض سے بیمار ہوتے ہیں۔

اور ان آیات میں جو معرفت کا نکتہ مخفی ہے وہ یہ ہے کہ آیات ممد وحہ بالا میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ 3۔ 3 ۱؂ یعنی یہ وہ کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور چونکہ اس کا علم جہل اور نسیان سے پاک ہے اس لئے یہ کتاب ہر ایک شک و شبہ سے خالی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا علم انسانوں کی تکمیل کے لئے اپنے اندر ایک کامل طاقت رکھتا ہے اس لئے یہ کتاب متقین کے لئے ایک کامل ہدایت ہے* اور اُن کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جو انسانی فطرت کی ترقیات کے لئے آخری مقام ہے اور خدا ان آیات میں فرماتا ہے کہ متقی وہ ہیں کہ جو پوشیدہ خدا پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں


* جب تک کسی کتاب کے علل اربعہ کامل نہ ہوں وہ کتاب کامل نہیں کہلا سکتی۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ان

آیات میں قرآن شریف کے علل اربعہ کا ذکر فرما دیا ہے اور وہ چارہیں (۱) علّت فاعلی (۲) علّت مادی (۳) علّت صوری (۴) علّت غائی۔ اور ہر چہار کامل درجہ پر ہیں۔ پس اآآ علّت فاعلی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے معنی ہیں۔ انااللّٰہ اعلم یعنی کہ مَیں جو خدائے عالم الغیب ہوں مَیں نے اِس کتاب کو اُتارا ہے۔ پس چونکہ خدا اِس کتاب کی علّتِ فاعلی ہے اِس لئے اِس کتاب کا فاعل ہر ایک فاعل سے زبردست اور کامل ہے اور علّتِ مادی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ فقرہ کہ ذالک الکتٰب یعنی یہ وہ کتاب ہے جس نے خدا کے علم سے خلعت وجود پہنا ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 137

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 137

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/137/mode/1up


اورؔ قرآن شریف اور پہلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں وہی ہدایت کے سر پر ہیں اور وہی نجات پائیں گے۔ ان آیات سے یہ تو معلوم ہوا کہ نجات بغیر نبی کریم پر ایمان لانے اور اس کی ہدایات نماز وغیرہ کے بجا لانے کے نہیں مل سکتی اور جھوٹے ہیں وہ لوگ جو نبی کریم کا دامن چھوڑ کر محض خشک توحید سے نجات ڈھونڈھتے ہیں۔ مگریہ عقدہ قابل حل رہا کہ جبکہ وہ لوگ ایسے راستباز ہیں کہ پوشیدہ خدا پر ایمان لاتے اور نماز بھی ادا کرتے اور روزہ بھی رکھتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے خدا کی راہ میں کچھ دیتے ہیں اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں پر ایمان بھی رکھتے ہیں تو پھر یہ فرمانا کہ ھدًی لِّلْمُتّقِیْنَ یعنی اُن کو یہ کتاب ہدایت دے گی اِس کے کیا معنی ہیں وہ تو ان سب باتوں کو بجالاکر پہلے ہی سے ہدایت یافتہ ہیں اور حاصل شدہ کو حاصل کرانا یہ تو ایک امر عبث معلوم ہوتا ہے۔

اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ باوجود ایمان اور عمل صالح کے کامل استقامت اور کامل ترقی کے محتاج ہیں جس کی رہنمائی صرف خدا ہی کرتا ہے انسانی کوشش کا اس میں دخل نہیں۔ استقامت سے مُراد یہ ہے کہ ایسا ایمان دل میں رچ جائے کہ کسی ابتلاء کے وقت ٹھوکر نہ کھاویں اور ایسے طرز اور ایسے طور پر اعمال صالحہ صادر ہوں کہ اُن میں لذّت پیدا ہو اور مشقّت اور تلخی محسوس نہ ہو اور اُن کے بغیر جی ہی نہ سکیں۔ گویا وہ اعمال رُوح کی غذا ہو جائیں اور اُس کی روٹی بن جائیں اور اُس کا آب شیریں بن جائیں کہ بغیر اس کے زندہ نہ رہ سکیں۔ غرض استقامت کے بارے میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جن کو انسان محض اپنی سعی سے پیدا نہیں کر سکتا بلکہ جیسا کہ روح کا خدا کی طرف سے فیضان ہوتا ہے وہ فوق العادت استقامت بھی خدا کی طرف سے پیدا ہو جائے۔


اور اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کا علم تمام علوم سے کامل تر ہے اور علّت صوری کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ فقرہ لا ریب فیہ یعنی یہ کتاب ہر ایک غلطی اور شک و شبہ سے پاک ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جو کتاب خدا تعالیٰ کے علم سے نکلی ہے وہ اپنی صحت اور ہر ایک عیب سے مبرا ہونے میں بے مثل وبے مانند ہے اور لاریب ہونے میں اکمل اور اتم ہے اور علّتِ غائی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ کہ ھُدًی للمتقین یعنی یہ کتاب ہدایت کامل متقین کے لئے ہے اور جہاں تک انسانی سرشت کے لئے زیادہ سے زیادہ ہدایت ہو سکے وہ اس کتاب کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 138

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 138

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/138/mode/1up


اورؔ ترقی سے مُراد یہ ہے کہ وہ عبادت اور ایمان جو انسانی کوششوں کی انتہا ہے اس کے علاوہ وہ حالات پیدا ہو جائیں جو محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے بارے میں انسانی سعی اور عقل صرف اِس حد تک رہبری کرتی ہے کہ اس پوشیدہ خدا پر جس کا چہرہ نہیں دیکھا گیا ایمان لایا جائے۔ اسی وجہ سے شریعت جو انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دینا نہیں چاہتی۔ اس بات کے لئے مجبور نہیں کرتی کہ انسان اپنی طاقت سے ایمان بالغیب سے بڑھ کر ایمان حاصل کرے۔ ہاں راستبازوں کو اسی آیت ھُدًی لِّلْمُتّقین میں وعدہ دیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان بالغیب پر ثابت قدم ہو جائیں اور جو کچھ وہ اپنی سعی سے کر سکتے ہیں کر لیں تب خدا ایمان کی حالت سے عرفان کی حالت تک ان کو پہنچا دے گا اور اُن کے ایمان میں ایک اور رنگ پیدا کر دے گا۔ قرآن شریف کی سچائی کی یہ ایک نشانی ہے کہ وہ جو اُس کی طرف آتے ہیں اُن کو اُس مرتبہ ایمان اور عمل پر رکھنا نہیں چاہتا کہ جو وہ اپنی کوشش سے اختیار کرتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہو تو کیونکر معلوم ہو کہ خدا موجود ہے بلکہ وہ انسانی کوششوں پر اپنی طرف سے ایک ثمرہ مرتب کرتا ہے جس میں خدائی چمک اور خدائی تصرف ہوتا ہے مثلاً جیسا کہ میں نے بیان کیا انسان خدا پر ایمان لانے کے بارہ میں اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے کہ وہ اس پوشیدہ خدا پر ایمان لاوے جس کے وجود پرذرّہ ذرّہ اِس عالم کا گواہ ہے۔ مگر انسان کی یہ تو طاقت ہی نہیں ہے کہ محض اپنے ہی قدموں اور اپنی ہی کوشش اور اپنے ہی زور بازو سے خدا کے انوارِ الوہیت پر اطلاع پاوے اور ایمانی حالت سے عرفانی حالت تک پہنچ جاوے اور مشاہدہ اور رویت کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر لے۔

اِسی طرح انسانی سعی اور کوشش نماز کے ادا کرنے میں اِس سے زیادہ کیا کر سکتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے پاک اور صاف ہو کر اور نفی خطرات کرکے نماز ادا کریں اور کوشش کریں کہ نماز ایک گری ہوئی حالت میں نہ رہے اور اس کے جس قدر ارکان حمد و ثنا حضرت عزت اور توبہ و استغفار اور دعا اور درود ہیں وہ دلی جوش سے صادر ہوں لیکن یہ تو انسان کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 139

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 139

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/139/mode/1up


اختیاؔ ر میں نہیں ہے کہ ایک فوق العادت محبت ذاتی اور خشوع ذاتی اور محویت سے بھرا ہوا ذوق و شوق اور ہر ایک کدورت سے خالی حضور اُس کی نماز میں پیدا ہو جائے گویا وہ خدا کو دیکھ لے اور ظاہر ہے کہ جب تک نماز میں یہ کیفیت پیدا نہ ہو وہ نقصان سے خالی نہیں۔ اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ متقی وہ ہیں جو نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور کھڑی وہی چیز کی جاتی ہے جو گرنے کے لئے مستعد ہے۔ پس آیت یُقیمونَ الصّلٰوۃ کے یہ معنی ہیں کہ جہاں تک اُن سے ہو سکتا ہے نماز کو قائم کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں اور تکلف اور مجاہدات سے کام لیتے ہیں مگر انسانی کوششیں بغیر خدا تعالیٰ کے فضل کے بیکار ہیں۔ اس لئے اُس کریم و رحیم نے فرمایا ھُدًی لّلمتّقِیْن یعنی جہاں تک ممکن ہو وہ تقویٰ کی راہ سے نماز کی اقامت میں کوشش کریں۔ پھر اگر وہ میرے کلام پر ایمان لاتے ہیں تو میں ان کو فقط انہی کی کوشش اور سعی پر نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں آپ ان کی دستگیری کروں گا۔ تب اُن کی نماز ایک اور رنگ پکڑ جائے گی اور ایک اور کیفیت اُن میں پیدا ہو جائے گی جو اُن کے خیال و گمان میں بھی نہیں تھی۔ یہ فضل محض اس لئے ہوگا کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور جہاں تک اُن سے ہو سکا اُس کے احکام کے مطابق عمل میں مشغول رہے۔ غرض نماز کے متعلق جس زائد ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اس قدر طبعی جوش اور ذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میسر آجائے کہ انسان کی آنکھ اپنے محبوب حقیقی کے دیکھنے کے لئے کھل جائے اور ایک خارق عادت کیفیت مشاہدہ جمالِ باری کی میسر آجائے جو لذّات روحانیہ سے سراسر معمور ہو اور دُنیوی رذایل اور انواع و اقسام کے معاصی قولی اور فعلی اور بصری اور سماعی سے دل کو متنفر کر دے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 ۔۱؂

ایسا ہی مالی عبادت جس قدر انسان اپنی کوشش سے کر سکتا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ اپنے اموال مرغوبہ میں سے کچھ خدا کے لئے دیوے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اِسی سورت میں فرمایا ہے 3 ۲؂ اور جیسا کہ ایک دوسری جگہ فرمایا ہے 33۔۳؂ لیکن ظاہر ہے کہ اگر مالی عبادت میں انسان صرف اسی قدر بجا لاوے کہ اپنے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 140

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 140

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/140/mode/1up


امواؔ ل محبوبہ مرغوبہ میں سے کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیوے تو یہ کچھ کمال نہیں ہے کمال تو یہ ہے کہ ماسویٰ سے بکلّی دست بردار ہو جائے اور جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا کا ہو جائے۔ یہاں تک کہ جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہو کیونکہ وہ بھی 3میں داخل ہے خدا تعالیٰ کا منشاء اُس کے قول ممّا رزقنا سے صرف درہم و دینار نہیں ہے بلکہ یہ بڑا وسیع لفظ ہے جس میں ہر ایک وہ نعمت داخل ہے جو انسان کو دی گئی ہے۔

غرض اِس جگہ بھی 3 ۱؂ فرمانے سے خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ جو کچھ انسان کو ہر ایک قسم کی نعمت مثلاً اُس کی جان اور صحت اور علم اور طاقت اور مال وغیرہ میں سے دیا گیا ہے اس کی نسبت انسان اپنی کوشش سے صرف3 تک اپنا اخلاص ظاہرکر سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر بشری قوتیں طاقت نہیں رکھتیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کا قرآن شریف پر ایمان لانے والے کے لئے اگر وہ 3 کی حد تک اپنا صدق ظاہر کرے گا بموجب آیت 3کے یہ وعدہ ہے کہ خدا تعالیٰ اِس قسم کی عبادات میں بھی کمال تک اُس کو پہنچا دے گا اور کمال یہ ہے کہ اُس کو یہ قوت ایثار بخشی *جائے گی کہ وہ شرح صدر سے یہ سمجھ لے گا کہ جو کچھ اُس کا ہے خدا کا ہے اور کبھی کسی کو محسوس نہیں کرائے گا کہ یہ چیزیں اُس کی تھیں جس کے ذریعہ سے اُس نے نوعِ انسان کی خدمت کی۔ مثلاً احسان کے ذریعہ سے کبھی انسان کسی کو محسوس کراتا ہے کہ اُس نے اپنا مال دُوسرے کو دیا مگر یہ ناقص حالت ہے کیونکہ وہ تبھی محسوس کرے گا کہ جب اُس چیز کو اپنی چیز سمجھے گا۔ پس جب بموجب آیت 3 کے خدا تعالیٰ قرآن شریف پر


* اس کا سبب یہ ہے کہ بباعث ضعف بشریت انسان کی فطرت ایک بخل بھی ہے کہ اگر ایک پہاڑ سونے کا بھی اُس کے پاس ہو تب بھی ایک حصہ بخل کا اُس کے اندر ہوتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اپنا تمام مال اپنے ہاتھ سے چھوڑ دے لیکن جب بموجب آیت 3 کی ایک وہبی قوت اُس کے شامل حال ہو جاتی ہے تو پھر ایسا انشراح صدر ہو جاتا ہے کہ تمام بخل اور سارا شُحِّ نفسدُور ہو جاتا ہے تب خدا کی رضا جوئی ہر ایک مال سے زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ زمین پر فانی خزانے جمع کرے بلکہ آسمان پر اپنا مال جمع کرتا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 141

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 141

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/141/mode/1up


ایمان لانے والے کو اس مقام سے ترقی بخشے گا تو وہ یہاں تک اپنی تمام چیزوں کوخدا کی چیزیں سمجھ لے گا کہ محسوس کرانے کی مرض بھی اُس کے دل میں سے جاتی رہے گی اور نوع انسان کے لئے ایک مادری ہمدردی اُس کے دل میں پیدا ہو جائے گی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ اور کوئی چیز اُس کی اپنی نہیں رہے گی بلکہ سب خدا کی ہو جائے گی اور یہ تب ہوگا کہ جب وہ سچے دل سے قرآن شریف اور نبی کریمؐ پر ایمان لائے گا۔ بغیر اس کے نہیں۔ پس کس قدر گمراہ وہ لوگ ہیں جو بغیر متابعت قرآؔ ن شریف اور رسول کریمؐ کے صرف خشک توحید کوموجب نجات ٹھہراتے ہیں بلکہ مشاہدہ ثابت کر رہا ہے کہ ایسے لوگ نہ خدا پر سچا ایمان رکھتے ہیں نہ دنیا کے لالچوں اور خواہشوں سے پاک ہو سکتے ہیں چہ جائیکہ وہ کسی کمال تک ترقی کریں اور یہ بات بھی بالکل غلط اور کورانہ خیال ہے کہ انسان خود بخود نعمت توحید حاصل کر سکتا ہے بلکہ توحید خدا کی کلام کے ذریعہ سے ملتی ہے اور اپنی طرف سے جو کچھ سمجھتا ہے وہ شرک سے خالی نہیں۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانے کے بارے میں انسانی کوشش صرف اِس حد تک ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرکے اُس کی کتاب پر ایمان لاوے اور صبر سے اُس کی پیروی کرے اس سے زیادہ انسان میں طاقت نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے آیت 3 میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر اس کی کتاب اور رسول پر کوئی ایمان لائے گا تو وہ مزید ہدایت کا مستحق ہوگا اور خدا اُس کی آنکھ کھولے گا اور اپنے مکالمات و مخاطبات سے مشرف کرے گا ۔* اور بڑے بڑے نشان اُس کو دکھائے گا۔ یہاں تک کہ وہ اِسی دنیا میں اُس کو دیکھ لے گا کہ اُس کا خدا موجود ہے اور پوری تسلی پائے گا۔ خدا کا کلام کہتا ہے کہ اگر تو میرے پر کامل ایمان لاوے تو میں تیرے پر بھی نازل ہوں گا۔ اِسی بنا پر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اِس اخلاص اور محبت اور شوق سے خدا کے کلام کو پڑھا کہ وہ الہامی رنگ میں میری زبان پر بھی جاری ہو گیا۔ لیکن افسوس کہ لوگ اِس بات کونہیں سمجھتے کہ مکالمات الٰہیہ کیا شے ہیں


* در حقیقت کمال متابعت یہی ہے کہ وہی رنگ پکڑلے اور وہی انوار دل پروارد ہو جائیں۔ دَخَلْتُ النَّار حَتّٰی صِرْتُ نَارًا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 142

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 142

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/142/mode/1up


اور کس حالت میں کہا جائے گا کہ خُدا کسی شخص سے مکالمہ فرماتا ہے بلکہ اکثر نادان لوگ شیطانی القا کو بھی خدا کا کلام سمجھنے لگتے ہیں اور اُن کو شیطانی اور رحمانی الہام میں تمیز نہیں۔ پس یاد رہے کہ رحمانی الہام اور وحی کیلئے اول شر ط یہ ہے کہ انسان محض خدا کا ہو جائے اور شیطان کا کوئی حصہ اُس میں نہ رہے کیونکہ جہاں مردار ہے ضرور ہے کہ وہاں کُتے بھی جمع ہو جائیں اِسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 33 ۱؂۔ مگر جس میں شیطان کا حصہ نہیں رہا اور وہ سفلی زندگی سے ایسا دور ہوا کہ گویا مر گیا اور راستباز اور وفادار بندہ بن گیا اور خدا کی طرف آگیا اُس پر شیطان حملہ نہیں کر سکتا۔ جیسا ؔ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 ۲؂ ۔جو شیطان کے ہیں اور شیطان کی عادتیں اپنے اندر رکھتے ہیں اُنہیں کی طرف شیطان دوڑتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے شکار ہیں۔

اور نیز یاد رہے کہ خدا کے مکالمات ایک خاص برکت اور شوکت اور لذّت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اور چونکہ خدا سمیع وعلیم و رحیم ہے اس لئے وہ اپنے متقی اور راستباز اور وفادار بندوں کو اُن کے معروضات کا جواب دیتا ہے اور یہ سوال وجواب کئی گھنٹوں تک طول پکڑ سکتے ہیں جب بندہ عجزو نیاز کے رنگ میں ایک سوال کرتا ہے تو اس کے بعد چند منٹ تک اس پر ایک ربودگی طاری ہو کر اس ربودگی کے پردہ میں اُس کو جواب مل جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے بندہ اگر کوئی سوال کرتا ہے تو پھر دیکھتے دیکھتے اس پر ایک اور ربودگی طاری ہو جاتی ہے اور بدستور اس کے پردہ میں جواب مل جاتا ہے۔ اور خدا ایسا کریم اور رحیم اور حلیم ہے کہ اگر ہزار دفعہ بھی ایک بندہ کچھ سوالات کرے تو جواب مل جاتا ہے۔ مگر چونکہ خدا تعالیٰ بے نیاز بھی ہے اور حکمت اور مصلحت کی بھی رعایت رکھتا ہے اِس لئے بعض سوالات کے جواب میں اظہار مطلوب نہیں کیا جاتا اور اگر یہ پوچھا جاوے کہ کیونکر معلوم ہو کہ وہ جوابات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں نہ شیطان کی طرف سے۔ اِس کا جواب ہم ابھی دے چکے ہیں۔

ما سوا اس کے شیطان گُنگا ہے اپنی زبان میں فصاحت اور روانگی نہیں رکھتا اور گُنگے کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 143

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 143

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/143/mode/1up


طرح وہ فصیح اور کثیر المقدار باتوں پر قادر نہیں ہو سکتا صرف ایک بد بو دار پیرایہ میں فقرہ دوفقرہ دل میں ڈال دیتا ہے۔ اس کو ازل سے یہ توفیق ہی نہیں دی گئی کہ لذیذ اور باشوکت کلام کر سکے اور یا چند گھنٹہ تک سلسلہ کلام کا سوالات کے جواب دینے میں جاری رکھ سکے۔ اور وہ بہرہ بھی ہے ہر ایک سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ اور وہ عاجز بھی ہے اپنے الہامات میں کوئی قُدرت اور اعلیٰ درجہ کی غیب گوئی کا نمونہ دکھلا نہیں سکتا۔* اور اُس کا گلا بھی بیٹھا ہوا ہے پُر شوکت اور بلند آواز سے بول نہیں سکتا۔ مخنثوں کی طرح اُس کی آواز دھیمی ہے انہیں علامات سے شیطانی وحی کو ؔ شاخت کر لوگے۔ لیکن خدا تعالیٰ گُنگے اور بہرے اور عاجز کی طرح نہیں وہ سنتا ہے اور برابر جواب دیتا ہے اور


* یہ سوال کہ آیا شیطانی خواب یا الہام میں کوئی غیبی خبر ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ شیطانی خواب یا الہام میں جیسا کہ قرآن شریف سے ظاہرہوتا ہے کبھی خبر غیب تو ہو سکتی ہے مگر وہ تین۳ علامتیں اپنے ساتھ رکھتی ہے (۱) اوّل یہ کہ وہ غیب کوئی اقتداری غیب نہیں ہوتا جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اس قسم کے غیب ہوتے ہیں کہ فلاں شخص جو شرارت سے باز نہیں آتاہم اُس کو ہلاک کریں گے۔ اور فلاں شخص جس نے صدق دکھلایا ہم اُس کو ایسی ایسی عزت دیں گے اور ہم اپنے نبی کی تائید کے لئے فلاں فلاں نشان دکھلائیں گے اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اورہم منکروں پر فلاں عذاب وارد کریں گے اور مومنوں کو اس طور کی فتح اور نصرت دیں گے۔ یہ اقتداری غیب ہیں جو حکومت کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ایسی پیشگوئیاں شیطان نہیں کر سکتا۔ (۲) دوسرے شیطانی خواب یا الہام بخیل کی طرح ہوتا ہے اس میں کثرت سے غیب نہیں ہوتا اور رحمانی ملہم کے مقابل پر ایسا شخص بھاگ جاتا ہے کیونکہ رحمانی ملہم کے مقابل پر اس کا غیب اس قدر قلیل المقدار ہوتا ہے جیسا کہ سمندر کے مقابل پر ایک قطرہ ۔(۳) تیسرے اکثر اُس پر جھوٹ غالب ہوتا ہے۔ مگر رحمانی خواب یا الہام پر سچ غالب ہوتا ہے یعنی اگر کل الہامات کو دیکھا جائے تو رحمانی الہام میں کثرت سچ کی ہوتی ہے۔ اور شیطانی میں اس کے بر خلاف۔ اور ؔ ہم نے کُل کا لفظ رحمانی خوابوں یا الہاموں کی نسبت اس لئے استعمال نہیں کیا کہ ان میں بھی بعض الہام یا خواب متشابہات کے رنگ میں ہوتے ہیں یا اجتہادی طور پر کوئی غلطی ہو جاتی ہے اور جاہل نادان ایسی پیشگوئیوں کو جھوٹ سمجھ لیتے ہیں اور ان کا وجود محض ابتلا کے لئے ہوتا ہے۔ اور بعض ربّانی پیشگوئیاں وعید کی قسم سے ہوتی ہیں جن کا تخلّف جائز ہوتا ہے۔ اور نیز یاد رہے کہ شیطانی الہام فاسق اور ناپاک آدمی سے مناسبت رکھتا ہے۔ مگر رحمانی الہامات کی کثرت صرف اُن کو ہوتی ہے جو پاک دل ہوتے اور خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 144

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 144

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/144/mode/1up


اُس کے کلام میں شوکت اور ہیبت اور بلندیء آواز ہوتی ہے اور کلام پُر اثر اور لذیذہوتا ہے اور شیطان کا کلام دھیما اور زنانہ اور مُشتبہ رنگ میں ہوتا ہے اس میں ہیبت اورشوکت اور بلندی نہیں ہوتی اور نہ وہ بہت دیر تک چل سکتا ہے گویا جلدی تھک جاتا ہے اور اس میں بھی کمزوری اور بُزدلی ٹپکتی ہے۔ مگر خدا کا کلام تھکنے والا نہیں ہوتا اور ہر ایک قسم کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور بڑے بڑے غیبی امور اور اقتداری وعدوں پر مشتمل ہوتا ہے اور خدائی جلال اور عظمت اور قُدرت اور قُدوسی کی اُس سے بُو آتی ہے۔ اور شیطان کے کلام میں یہ خاصیت نہیں ہوتی۔ اور نیز خدا تعالیٰ کا کلام ایک قوی تاثیر اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک میخ فولادی کی طرح دل میں دھنس جاتا ہے اور دل پر ایک پاک اثر کرتا ہے اور دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور جس پر نازل ہوتا ہے اُس کو مرد میدان کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُس کو تیز تلوار کے ساتھ ٹکڑہ ٹکڑہ کر دیا جاوے یا اُس کو پھانسی دیا جاوے یا ہر ایک قسم کا دُکھ جو دنیا میں ممکن ہے پہنچایا جاوے اور ہر ایک قسم کی بے عزتی اور توہین کی جائے یا آتش سوزاں میں بٹھایا جاوے یا جلایا جاوے وہ کبھی نہیں کہے گا کہ یہ خدا کا کلام نہیں جو میرے پر نازل ہوتا ہے کیونکہ خدا اُس کو یقین کامل بخش دیتا ہے اور اپنے چہرہ کا عاشق کر دیتا ہے اور جان اور عزت اور مال اُس کے نزدیک ایسا ہوتا ہے جیسا کہ ایک تنکا۔ وہ خدا کا دامن نہیں چھوڑتا اگرچہ تمام دنیا اُس کو اپنے پیروں کے نیچے کُچل ڈالے اور توکل اور شجاعت اور استقامت میں بے مثل ہوتا ہے مگر شیطان سے الہام پانے والے یہ قوت نہیں پاتے وہ بُزدل ہوتے ہیں کیونکہ شیطان بُزدل ہے۔

بالآخر ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امر جو عبد الحکیم خان کی ضلالت کا باعث ہوا ہے جس کی وجہ سے اُس کو یہ خیال گذرا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ضرورت نہیں وہ قرآن شریف کی ایک آیت کی غلط فہمی ہے جو بباعث کمی علم اور کمی تدبر کے اُس سے ظہور میں آئی اور وہ آیت یہ ہے۔ 33 333 ۱؂ (ترجمہ) یعنی جو لوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 145

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 145

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/145/mode/1up


جو لوگ یہود و نصاریٰ اور ستارہ پرست ہیں جو شخص اُن میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور اعمال صالحہ بجا لائے گا خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور ایسے لوگوں کا اَجر اُن کے ربّ کے پاس ہے اور اُن کو کچھ خوف نہیں ہوگا اور نہ غم ۔*

یہ آیت ہے جس سے بباعث نادانی اور کج فہمی یہ نتیجہ نکالا گیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ اپنے نفسِ امّارہ کے پیرو ہو کر محکمات اور بینات قرآنی کی مخالفت کرتے ہیں اور اسلام سے خارج ہونے کے لئے متشابہات کی پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ اُن کو یاد رہے کہ اِس آیت سے وہ کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور آخرت پر ایمان لانا اِس بات کو مستلزم پڑا ہوا ہے کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا جائے۔ وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اللّٰہ کے نام کی قرآن شریف میں یہ تعریف کی ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو ربّ العالمین اور رحمن اور رحیم ہے جس نے زمین اور آسمان کو چھ۶دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے اور یوم آخر قرآن شریف کی رُو سے یہ ہے جس میں مُردے جی اُٹھیں گے اور پھر ایک فریق بہشت میں داخل کیا جائے گا جو جسمانی اور روحانی نعمت کی جگہ ہے اور ایک فریق دوزخ میں داخل کیا جاوے گا جو روحانی اور جسمانی عذاب کی جگہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس یوم آخر پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جو اِس کتاب پر ایمان لاتے ہیں۔

پس جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود لفظ اللہ اور یوم آخر کے بتصریح ایسے معنی کر دئے جو اسلام سے مخصوص ہیں توجو شخص اللہ پر ایمان لائے گا اور یوم آخر پر ایمان لائے گا۔ اُس کے لئے یہ لازمی امر ہوگا کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے اور کسی کا


* اگر اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ صرف توحید کافی ہے تو پھر مفصلہ ذیل آیت سے یہ ثابت ہوگا کہ شرک وغیرہ سب گناہ بغیر توبہ کے بخشے جائیں گے اور وہ آیت یہ ہے۔3 33 ۱؂ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 146

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 146

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/146/mode/1up


اختیاؔ ر نہیں ہے کہ ان معنوں کو بدل ڈالے اور ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسے معنی ایجاد کریں کہ جو قرآن شریف کے بیان کردہ معنوں سے مغائر اور مخالف ہوں ہم نے اول سے آخر تک قرآن شریف کو غور سے دیکھا ہے اور توجہ سے دیکھا۔ اور بار بار دیکھا اور اس کے معانی میں خوب تدبر کیا ہے ہمیں بد یہی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ قرآن شریف میں جس قدر صفات اور افعال الٰہیہ کا ذکر ہے ان سب صفات کا موصوف ا سم اللہ ٹھہرایا گیا ہے۔ مثلاً کہا گیا ہے 3۔3۱؂ ۔ ایسا ہی اس قِسم کی اور بہت سی آیات ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن اُتارا۔ اللہ وہ ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ پس جبکہ قرآنی اصطلاح میں اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاوے تبھی اُس کا ایمان معتبر اور صحیح سمجھا جائے گا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے۔ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ من اٰمن بالرحمٰن یامن اٰمن بالرحیم یا من اٰمن بالکریم بلکہ یہ فرمایا کہ من اٰمن باللّٰہ اور اللہ سے مراد وہ ذات ہے جو مستجمع جمیع صفات کاملہ ہے اور ایک عظیم الشان صفت اُس کی یہ ہے کہ اُس نے قرآن شریف کو اُتارا۔ اس صورت میں ہم صرف ایسے شخص کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لایا جبکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا ہو اور قرآن شریف پر بھی ایمان لایاہو ۔ اگر کوئی کہے کہ پھر انّ الّذین اٰمنوا کے کیا معنی ہوئے تو یاد رہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو لوگ محض خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُن کا ایمان معتبر نہیں ہے۔ جب تک خدا کے رسول پر ایمان نہ لاویں یا جب تک اُس ایمان کو کامل نہ کریں۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہئیے کہ قرآن شریف میں اختلاف نہیں ہے۔ پس یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ صدہا آیتوں میں تو خدا تعالیٰ یہ فرماوے کہ صرف توحید کافی نہیں ہے بلکہ اُس کے نبی پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے بجُز اس صورت کے کہ کوئی اس نبی سے بیخبر رہا ہو اور پھر کسی ایک آیت میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 147

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 147

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/147/mode/1up


بر خلاف اِس کے یہ بتلاوے کہ صرف توحید سے ہی نجات ہو سکتی ہے۔ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں اور طُرفہ یہ کہ اس آیت میں توحید کا ذکر بھی نہیں۔ اگر توحید مُراد ہوتی تو یُوں کہنا چاہئیے تھا کہ من اٰمن بالتّوحید ۔ مگر آیت کا تویہ لفظ ہے کہ من اٰمن باللّٰہ ۔ پس اٰمن باللّٰہ کا فقرہ ہم پر یہ واجب کرتا ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ قرآن شریف میں اللہ کا لفظ کن معنوں پر آتا ہے۔ ہماری دیانت کا یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ جب ہمیں خود قرآن سے ہی یہ معلوم ہوا کہ اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن بھیجا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ہم اُسی معنی کو قبول کر لیں جو قرآن شریف نے بیان کئے اور خود روی اختیار نہ کریں۔

ماسوا اِس کے ہم بیان کر چکے ہیں کہ نجات حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا کرے اور نہ صرف یقین بلکہ اطاعت کے لئے بھی کمر بستہ ہو جائے اور اس کی رضامندی کی راہوں کو شناخت کرے۔ اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے یہ دونوں باتیں محض خدا تعالیٰ کے رسولوں کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوتی آئی ہیں پھر کس قدر یہ لغو خیال ہے کہ ایک شخص توحیدتو رکھتا ہو مگر خدا تعالیٰ کے رسول پر ایمان نہیں لاتا وہ بھی نجات پائے گا۔ اے عقل کے اندھے اور نادان! توحید بُجز ذریعہ رسول کے کب حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کی تو ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک شخص روزِ روشن سے تو نفرت کرے اور اُس سے بھاگے اور پھر کہے کہ میرے لئے آفتاب ہی کافی ہے دن کی کیا حاجت ہے۔ وہ نادان نہیں جانتا کہ کیا آفتاب کبھی دن سے علیحدہ بھی ہوتا ہے۔ ہائے افسوس یہ نادان نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وراء الوراء ہے اور کوئی عقل اس کو دریافت نہیں کر سکتی جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ 3۔۱؂ یعنی بصارتیں اور بصیرتیں اسکو پا نہیں سکتیں اور وہ اُن کے انتہا کو جانتا ہے اور اُن پر غالب ہے۔ پس اُس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے کیونکہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 148

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 148

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/148/mode/1up


باطل ؔ معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی بُتوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے۔ ایسا ہی انفسی باطل معبودوں سے پرہیز کرے یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور اُن کے ذریعہ سے عُجب کی بَلا میں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے۔ پس اِس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خودی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحید کامل حاصل نہیں ہو سکتی۔

اور جو شخص اپنی کسی قُوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیونکر موحد کہلا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے جا بجا توحید کامل کو پیروی رسول سے وابستہ کیا ہے۔ کیونکہ کامل توحید ایک نئی زندگی ہے اور بُجز اُس کے نجات حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا کے رسول کا پیرو ہو کر اپنی سفلی زندگی پر موت وارد نہ کرے۔ علاوہ اس کے قرآن شریف میں بموجب قول ان نادانوں کے تناقض لازم آتا ہے کیونکہ ایک طرف تو جابجا وہ یہ فرماتا ہے کہ بجُز ذریعۂ رسول توحید حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ پھر دوسری طرف گویا وہ یہ کہتا ہے کہ حاصل ہو سکتی ہے حالانکہ توحید اور نجات کا آفتاب اور اُس کو ظاہر کرنے والا صرف رسول ہی ہوتا ہے اُسی کی روشنی سے توحید ظاہر ہوتی ہے پس ایسا تناقض خدا کی کلام کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا۔

بڑی غلطی اس نادان کی یہ ہے کہ اُس نے توحید کی حقیقت کو بالکل نہیں سمجھا توحید ایک نور ہے جو آفاقی وانفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے اور وجود کے ذرّہ ذرّہ میں سرایت کر جاتا ہے پس وہ بُجز خدا اور اُس کے رسول کے ذریعہ کے محض اپنی طاقت سے کیونکر حاصل ہو سکتا ہے انسان کا فقط یہ کام ہے کہ اپنی خودی پر موت وارد کرے اس شیطانی نخوت کو چھوڑ دے کہ مَیں علوم میں پرورش یافتہ ہوں اور ایک جاہل کی طرح اپنے تئیں تصوّر کرے اور دعامیں لگا رہے تب توحید کا نور خدا کی طرف سے اُس پر نازل ہوگا اور ایک نئی زندگی اُس کو بخشے گا۔

اخیر پر ہم یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ہم فرض محال کے طور پر یہ مان لیں کہ اللہ کا لفظ ایک عام معنوں پر مشتمل ہے جس کا ترجمہ خدا ہے اور اُن معنوں کو نظر انداز کر دیں جو قرآن شریف پر نظر تدبر ڈال کر معلوم ہوتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ وہ وہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 149

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 149

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/149/mode/1up


ذاتؔ ہے جس نے قرآن شریف بھیجا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ تب بھی یہ آیت مخالف کو مفید نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا نجات کے لئے کافی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر جو خدا تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے اور مستجمع جمیع صفاتِ کاملہ حضرت عزت ہے ایمان لائے گا تو خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور کشاں کشاں اس کو اسلام کی طرف لے آئے گا کیونکہ ایک سچائی دوسری سچائی میں داخل ہونے کے لئے مدد دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر خالص ایمان لانے والے آخر حق کو پالیتے ہیں۔

قرآن شریف میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لائے گا خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور حق اُس پر کھول دے گا اور راہ راست اُسکو دکھائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

3 ۱؂

پس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والا ضائع نہیں کیا جاتا آخر اللہ تعالیٰ پوری ہدایت اُس کو کر دیتا ہے چنانچہ صُوفیوں نے صدہا مثالیں اس کی لکھی ہیں کہ بعض غیر قوم کے لوگ جب کمال اخلاص سے خدا تعالیٰ پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ میں مشغول ہوئے تو خدا تعالیٰ نے اُن کو اُن کے اخلاص کا یہ بدلہ دیا کہ اُن کی آنکھیں کھول دیں اور خاص اپنی دستگیری سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اُن پر ظاہرکر دی۔ یہی معنی اس آیت کے آخری فقرہ کے ہیں 3۲؂ خدا تعالیٰ کا اجر جب تک دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا آخرت میں بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ پس دنیا میں خدا پر ایمان لانے کا یہ اجر ملتا ہے کہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ پوری ہدایت بخشتا ہے اور ضائع نہیں کرتا۔ اسی کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کرتی ہے۔ 3ٖ۳؂ یعنی وہ لوگ جو درحقیقت اہل کتاب ہیں اور سچے دل سے خدا پر اور اُس کی کتابوں پر ایمان لاتے اور عمل کرتے ہیں وہ آخر کار اِس نبی پر ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ہاں خبیث آدمی جن کو اہل کتاب نہیں کہنا چاہئیے وہ ایمان نہیں لاتے۔ ایسا ہی سوانح اسلام میں اس کی بہت سی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 150

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 150

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/150/mode/1up


مثالیںؔ پائی جاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کریم و رحیم ہے اگر کوئی ایک ذرّہ بھی نیکی کرے تب بھی اُس کی جزا میں اسلام میں اُس کو داخل کر دیتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ میں نے کُفر کی حالت میں محض خدا تعالیٰ کے خوش کرنے کے لئے بہت کچھ مال مساکین کو دیا تھا۔ کیا اس کا ثواب بھی مجھ کو ہوگا۔ تو آپ نے فرمایا کہ وہی صدقات ہیں جو تجھ کو اسلام کی طرف کھینچ لائے۔ پس اِسی طرح جو شخص کسی غیر مذہب میں خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک جانتا ہے اور اُس سے محبت کرتا ہے تو خدا تعالیٰ بموجب آیت 3 ۱؂ آخر اُس کو اسلام میں داخل کر دیتا ہے۔ یہی معاملہ باوانانک کو پیش آیا۔ جب اُس نے بڑے اخلاص سے بُت پرستی کو چھوڑ کر توحید کو اختیار کیا اور خدا تعالیٰ سے محبت کی تو وہی خدا جس نے آیت ممدوحہ بالا میں فرمایا ہے 3 اُس پر ظاہر ہوا اور اپنے الہام سے اسلام کی طرف اُس کو رہبری کی تب وہ مسلمان ہو گیا اور حج بھی کیا۔

اورکتاب بحر الجواہر میں لکھا ہے کہ ابو الخیر نام ایک یہودی تھا جو پارسا طبع اور راستباز آدمی تھا۔ اور خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک جانتا تھا۔ ایک دفعہ وہ بازار میں چلا جاتاتھا تو ایک مسجد سے اُس کو آواز آئی کہ ایک لڑکا قرآن شریف کی یہ آیت پڑھ رہا تھا:۔

3۔ 3 ۔ ۲؂

یعنی کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ یونہی وہ نجات پا جاویں گے صرف اس کلمہ سے کہ ہم ایمان لائے۔ اور ابھی خدا کی راہ میں اُن کا امتحان نہیں کیا گیا کہ کیا ان میں ایمان لانے والوں کی سی استقامت اور صدق اور وفا بھی موجود ہے یا نہیں؟ اِس آیت نے ابو الخیر کے دل پر بڑا اثر کیا اور اُس کے دل کو گداز کر دیا۔ تب وہ مسجد کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہوکر زار زار رویا۔ رات کو حضرت سیّدنا و مولانامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی خواب میں آئے اور فرمایا یا اباالخیر اعجبنی ان مثلک مع کمال فضلک ینکر بنبوّتی۔ یعنی اے ابو الخیرمجھے تعجب آیا کہ تیرے جیسا انسان باوجود اپنے کمال



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 151

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 151

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/151/mode/1up


فضلؔ اور بزرگی کے میری نبوت سے انکار کرے۔ پس صبح ہوتے ہی ابو الخیر مسلمان ہو گیا اور اپنے اسلام کا اعلان کر دیا۔

خلاصہ یہ کہ میں اِس بات کو بالکل سمجھ نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے اور اُس کو واحد لا شریک سمجھے اور خدا اُس کو دوزخ سے تو نجات دے مگر نابینائی سے نجات نہ دے حالانکہ نجات کی جڑھ معرفت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 3۱؂ ۱؂ ۔ یعنی جو شخص اِس جہان میں اندھا ہے وہ دُوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا یا اِس سے بھی بد تر۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ جس نے خدا کے رسولوں کو شناخت نہیں کیا اُس نے خدا کو بھی شناخت نہیں کیا۔ خدا کے چہرے کا آئینہ اُس کے رسول ہیں۔ ہر ایک جو خدا کو دیکھتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ پس یہ کس قسم کی نجات ہے کہ ایک شخص دنیا میں تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذّب اور منکر رہا اور قرآن شریف سے انکاری رہا اور خدا تعالیٰ نے اُس کو آنکھیں نہ بخشیں اور دل نہ دیا اور وہ اندھا ہی رہا اور اندھا ہی مر گیا اور پھر نجات بھی پا گیا۔ یہ عجیب نجات ہے ! اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جس شخص پر رحمت کرنا چاہتا ہے پہلے اُس کو آنکھیں بخشتا ہے اور اپنی طرف سے اُس کو علم عطا کرتا ہے۔ صدہا آدمی ہمارے سلسلہ میں ایسے ہوں گے کہ وہ محض خواب یا الہام کے ذریعہ سے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات وسیع الرحمت ہے اگر کوئی ایک قدم اس کی طرف آتا ہے تو وہ دو قدم آتا ہے۔ اور جو شخص اُس کی طرف جلدی سے چلتا ہے تو وہ اُس کی طرف دوڑتا آتا ہے اور نابینا کی آنکھیں کھولتا ہے۔ پھر کیونکر قبول کیا جائے کہ ایک شخص اُس کی ذات پر ایمان لایا اور سچے دل سے اُس کو وحدہٗ لاشریک سمجھا اورو اپس سے محبت کی اور اس کے اولیاء میں داخل ہوا۔ پھر خدا نے اُس کو نابینا رکھا اور ایسا اندھا رہا کہ خدا کے نبی کو شناخت نہ کر سکا۔ اسی کی مؤید یہ حدیث ہے کہ من مات ولم یعرف امام زمانہٖ فقد مات میتۃ الجاھلیۃ یعنی جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیت کی موت پر مر گیا اور صراطِ مستقیم سے بے نصیب رہا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 152

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 152

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/152/mode/1up


ابؔ ہم اُن چند وساوس کا جواب دیتے ہیں جن کاجواب بعض حق کے طالبوں نے مجھ سے دریافت کیا ہے اور اکثر ان میں وہ وساوس ہیں کہ جو عبد الحکیم خان اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ نے تحریراً یا تقریراً لوگوں کے دلوں میں ڈالے اور اپنے مرتد ہونے پر ایسی مُہر لگا دی کہ اب غالباً اس کا خاتمہ اسی پر ہوگا۔ میں نے اِن چند وساوس کاجواب منشی برہان الحق صاحب شاہجہانپور کے اصرار سے لکھا ہے جو اُنہوں نے نہایت انکسار سے اپنے خط میں ظاہرکیا ہے۔ چنانچہ میں ذیل میں منشی برہان الحق کے خط کی اصل عبارت ہر ایک سوال میں لکھ کر اُس کا جواب دیتا ہوں۔ وباللّٰہ التوفیق۔

سوال(۱)

تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۷ میں (جو میری کتاب ہے) لکھا ہے۔ اِس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے۔ پھر ریویو جلد اوّل نمبر ۶صفحہ ۲۵۷ میں مذکور ہے خدا نے اِس اُمّت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔ پھر ریویو صفحہ۴۷۵* میں لکھا ہے۔ مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز دکھلا نہ سکتا۔ خلاصہ اعتراض یہ کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقض ہے۔

الجواب

یاد رہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہراؤں۔ خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے قُلْ اُجَرّدُ نفسی من ضروب الخطاب۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اور میری مُراد اِن خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے میرا اس میں دخل نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا ہے اور کلام میںیہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا۔ سو اِس بات کو توجہ کرکے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براھین احمدیہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 153

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 153

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/153/mode/1up


میںؔ مَیں نے یہ لکھاتھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں اِس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگر چہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی۔ مگرچونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے اِس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اوراپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کرکے مجھے اِس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کرکے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیات قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہوا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اِسی اُمّت میں سے آئے گا۔ اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتاہے تو کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی اسی طرح صدہا نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اِس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود مان لوں۔ میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو مجھے اِس بات کی ہر گز تمنا نہ تھی۔ میں پوشیدگی کے حُجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے۔ اُس نے گوشۂ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا۔ میں نے چاہا کہ مَیں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اُس نے کہا کہ مَیں تجھے تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ شہرت دُوں گا۔ پس یہ اُس خدا سے پوچھو کہ ایسا تونے کیوں کیا؟ میرا اس میں کیا قصور ہے۔ اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے۔ اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہرہوتا تو میں اُس کو جزئی فضیلت قرار دیتا ؔ تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اِس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 154

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 154

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/154/mode/1up


صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اِس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔* اور جیسا کہ مَیں نے نمونہ کے طور پر بعض عبارتیں خدا تعالیٰ کی وحی کی اِس رسالہ میں بھی لکھی ہیں اُن سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم کے مقابل پر خدا تعالیٰ میری نسبت کیا فرماتا ہے۔ میں خدا تعالیٰ کی تیئیس۲۳ برس کی متواتر وحی کو کیونکر ردّ کر سکتا ہوں۔ میں اُس کی اِس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ اُن تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جومجھ سے پہلے ہو چکی ہیں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مسیح ابن مریم آخری خلیفہ موسیٰ علیہ السلام کا ہے اور میں آخری خلیفہ اُس نبی کا ہوں جو خیر الرسل ہے اِس لئے خدا نے چاہا کہ مجھے اس سے کم نہ رکھے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ یہ الفاظ میرے اُن لوگوں کو گوارا نہ ہوں گے جن کے دلوں میں حضرت مسیح کی محبت پر ستش کی حد تک پہنچ گئی ہے مگر میں اُن کی پروا ہ نہیں کرتا۔ میں کیا کروں کس طرح خدا کے حکم کوچھوڑ سکتا ہوں اور کس طرح اُس روشنی سے جو مجھے دی گئی تاریکی میں آسکتا ہوں خلاصہ یہ کہ میری کلام میں کچھ تناقض نہیں مَیں تو خدا تعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا ہوں۔ جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا میں وہی کہتا رہا جو اوائل میں مَیں نے کہا اور جب مجھ کو اُس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اُسکے مخالف کہا۔ میں انسان ہوں مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں۔ بات یہی ہے جو شخص چاہے قبول کرے یا نہ کرے۔ میں نہیں جانتا کہ خدا نے ایسا کیوں کیا۔ ہاں میں اس قدر جانتا ہوں کہ آسمان پر خدا تعالیٰ کی غیرت عیسائیوں کے مقابل پر بڑا جوش مار رہی ہے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مخالف وہ توہین کے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ قریب ہے کہ اُن سے آسمان پھٹ جائیں۔ پس خدا دکھلاتا ہے


* یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سن کر دھو کہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اُس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔ اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی اور میری نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت۔ اِسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا ایسا ہی میرا نام اُمتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 155

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 155

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/155/mode/1up


کہ اس رسول کے ادنیٰ خادم اسرائیلی مسیح ابن مریم سے بڑھ کر ہیں۔ جس شخص کو اس فقرہ سے غیظ و غضب ہوا اُس کو اختیار ہے کہ وہ اپنے غیظ سے مر جائے ۔ مگر خدا نے جو چاہا ہے کیا اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیا انسان کا مقدور ہے کہ وہ اعتراض کرے کہ ایسا تونے کیوں کیا۔

اِسؔ جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جب کہ مجھ کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے۔ اِس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مخدوم تمام دنیا کے لئے آیا تھا تو اُس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کے اُٹھانے کے لئے ضروری تھیں اور وہ معارف اور نشان بھی دئے گئے ہیں جن کا دیا جانا اتمام حجت کے لئے مناسب وقت تھا۔ مگر ضروری نہ تھا کہ حضرت عیسیٰ کو وہ معارف اور نشان دیئے جاتے ۔* کیونکہ اُس وقت اُن کی ضرورت نہ تھی اِس لئے حضرت عیسیٰ کی سرشت کو صرف وہ قوتیں اور طاقتیں دی گئیں جو یہودیوں کے ایک تھوڑے سے فرقہ کی اصلاح کے لئے ضروری تھیں اور ہم قرآن شریف کے وارث ہیں جس کی تعلیم جامع تمام کمالات ہے اور تمام دنیا کے لئے ہے۔ مگر حضرت عیسیٰ صرف توریت کے وارث تھے جس کی تعلیم ناقص اور مختص القوم ہے اِسی وجہ سے انجیل میں اُن کو وہ باتیں تاکید کے ساتھ بیان کرنی پڑیں جو توریت میں مخفی اور مستور تھیں لیکن قرآن شریف سے ہم کوئی امر زیادہ بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اُس کی تعلیم اتم اور اکمل ہے اور وہ توریت کی طرح کسی انجیل کا محتاج نہیں۔

پھر جس حالت میں یہ بات ظاہر اور بد یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی قدر روحانی قوتیں اور طاقتیں دی گئی تھیں جو فرقہ یہود کی اصلاح کے لئے کافی تھیں تو بلا شبہ اُن کے کمالات بھی اُسی پیمانہ کے لحاظ سے ہوں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3 3۔۱؂ یعنی ہر ایک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر ہم قدر ضرورت


* اگر کوئی کہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مُردے زندہ کرتے تھے یہ کتنا بڑا نشان اُن کو دیا گیا۔ اس کا یہ جواب ہے کہ واقعی طور پر مُردہ کا زندہ ہونا قرآن شریف کی تعلیم کے بر خلاف ہے ہاں جو مُردہ کے طور پر بیمار تھے اگر اُن کو زندہ کیا تو اس جگہ بھی ایسے مُردے زندہ ہو چکے ہیں اور پہلے نبی بھی کرتے رہے ہیں جیسے الیاس نبی۔ مگر عظیم الشان نشان اور ہیں جن کو خدا دکھلا رہا ہے اور دِکھلائے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 156

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 156

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/156/mode/1up


سے زیادہ اُن کو نازل نہیں کیا کرتے۔ پس یہ حکمت الٰہیہ کے برخلاف ہے کہ ایک نبی کو اُمّت کی اِصلاح کے لئے وہ علوم دئے جائیں جن علوم سے وہ اُمّت مناسبت ہی نہیں رکھتی بلکہ حیوانات میں بھی خدا تعالیٰ کا یہی قانون قدرت پایا جاتا ہے۔ مثلاً گھوڑے کو اس غرض کیلئے خدا نے پیدا کیا ہے کہ ؔ قطع مسافت میں عمدہ کام دے اور ہر ایک میدان میں دوڑنے سے اپنے سوار کا حامی اور مددگار ہو اِس لئے ایک بکری ان صفات میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اس غرض کے لئے پیدا نہیں کی گئی۔ ایسا ہی خدا نے پانی کو پیاس بجھانے کے لئے پیدا کیا ہے اِس لئے آگ اُس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ انسانی سرشت بہت سی شاخوں پر مشتمل ہے اور کئی مختلف قوتیں خدا نے اُس میں رکھی ہیں۔ لیکن انجیل نے صرف ایک ہی قوت عفو اور درگذر پر زور دیا ہے گویا انسانی درخت کی صدہا شاخوں میں سے صرف ایک شاخ انجیل کے ہاتھ میں ہے۔ پس اِس سے حضرت عیسیٰ کی معرفت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ وہ کہاں تک ہے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت انسانی فطرت کے انتہا تک پہنچی ہوئی ہے اِس لئے قرآن شریف کامل نازل ہوا۔ اور یہ کچھ بُرا ماننے کی بات نہیں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ 3 ۱ ؂ یعنی بعض نبیوں کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے۔ اورہمیں حکم ہے کہ تمام احکام میں اخلاق میں عبادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں اگر ہماری فطرت کو وہ قوتیں نہ دی جاتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کمالات کو ظلّی طور پر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہر گز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو کیونکہ خدا تعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے3 ۲؂ اور چونکہ وہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جامع کمالات تمام انبیاء کے ہیں اس لئے اُس نے ہماری پنج وقتہ نماز میں ہمیں یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا کہ3۔3۳؂ یعنی اے ہمارے خدا ہم سے پہلے جس قدر نبی اور رسول اور صدیق اور شہید گذر چکے ہیں اُن سب کے کمالات ہم میں جمع کر۔ پس اِس اُمت مرحومہ کی فطرت عالیہ کا اِس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کو حکم ہوا ہے کہ تمام گذشتہ متفرق کمالات کو اپنے اندر جمع کرو۔ یہ تو عام طور پر حکم ہے اور خواص کے مدارج خاصّہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 157

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 157

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/157/mode/1up


اِسی سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اِس اُمّت کے باکمال صُوفی اِس پوشیدہ حقیقت تک پہنچ گئے ہیں کہ انسانی فطرتوں کے کمال کا دائرہ اِسی اُمّت نے پُورا کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ جس طرح ایک چھوٹا سا تُخم زمین میں بویا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ اؔ پنے کمال کو پہنچ کر ایک بڑا درخت بن جاتا ہے۔ اِسی طرح انسانی سلسلہ نشوو نما پاتا گیا اور انسانی قوتیں اپنے کمال میں بڑھتی گئیں یہاں تک کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں وہ اپنے کمال تام تک پہنچ گئیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ چونکہ مَیں ایک ایسے نبی کا تابع ہوں جو انسانیت کے تمام کمالات کا جامع تھا اور اس کی شریعت اکمل اور اتم تھی اور تمام دنیا کی اصلاح کے لئے تھی اِس لئے مجھے وہ قوتیں عنایت کی گئیں جو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ضروری تھیں تو پھر اس امر میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ فطرتی طاقتیں نہیں دی گئیں جو مجھے دی گئیں کیونکہ وہ ایک خاص قوم کے لئے آئے تھے اور اگر وہ میری جگہ ہوتے تو اپنی اُس فطرت کی وجہ سے وہ کام انجام نہ دے سکتے جو خدا کی عنایت نے مجھے انجام دینے کو قوت دی۔ وھٰذا تحدیث نعمت اللّٰہ ولا فخر۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ آتے تو اس کام کو انجام نہ دے سکتے اور اگر قرآن شریف کی جگہ توریت نازل ہوتی تو اس کام کو ہر گز انجام نہ دے سکتی جو قرآن شریف نے دیا۔ انسانی مراتب پردۂ غیب میں ہیں۔ اس بات میں بگڑنا اور مُنہ بنانا اچھا نہیں۔ کیا جس قادر مطلق نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا وہ ایسا ہی ایک اور انسان یا اس سے بہتر پیدا نہیں کر سکتا ؟* اگر قرآن شریف کی کسی آیت سے ثابت ہوتا ہے تو وہ آیت پیش کرنی چاہئیے۔ سخت مردود وہ شخص ہوگا جو قرآنی آیت سے انکار کرے ورنہ میں اس پاک وحی کے مخالف کیونکر خلاف واقعہ کہہ سکتا ہوں جو قریباً تیئیس۲۳ برس سے مجھ کو


* خدائے تعالیٰ کے کاموں کا کوئی انتہانہیں پاسکتا۔ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام عظیم الشان نبی گذرے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے توریت دی اور جن کی عظمت اور وجاہت کی وجہ سے بلعم باعور بھی اُن کا مقابلہ کرکے تحت الثریٰ میں ڈالا گیا اور کُتے کے ساتھ خدا نے اس کی مشابہت دی وہی موسیٰ ہے جس کو ایک بادیہ نشین شخص کے علوم روحانیہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا اور اُن غیبی اسرار کا کچھ پتہ نہ لگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔33۔۱؂منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 158

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 158

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/158/mode/1up


تسلی دے رہی ہے اور ہزار ہا خدا کی گواہیاں اور فوق العادت نشان اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ خداتعالیٰ کے کام مصلحت اور حکمت سے خالی نہیں۔ اُس نے دیکھا کہؔ ایک شخص کو محض بے وجہ خدا بنایا گیا ہے جس کی چالیس کروڑ آدمی پرستش کر رہے ہیں۔ تب اُس نے مجھے ایسے زمانہ میں بھیجا کہ جب اس عقیدہ پر غلوّانتہا تک پہنچ گیا تھا اور تمام نبیوں کے نام میرے نام رکھے مگر مسیح ابن مریم کے نام سے خاص طور پر مجھے مخصوص کرکے وہ میرے پر رحمت اور عنایت کی گئی جو اُس پر نہیں کی گئی تا لوگ سمجھیں کہ فضل خدا کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ اگر میں اپنی طرف سے یہ باتیں کرتا ہوں تو جھوٹا ہوں لیکن اگر خدا میری نسبت اپنے نشانوں کے ساتھ گواہی دیتا ہے تو میری تکذیب تقویٰ کے بر خلاف ہے اور جیسا کہ دانیال نبی نے بھی لکھا ہے میرا آنا خدا کے کامل جلال کے ظہور کا وقت ہے اور میرے وقت میں فرشتوں اور شیاطین کا آخری جنگ ہے۔ اور خدا اس وقت وہ نشان دکھائے گا جو اُس نے کبھی دکھائے نہیں گویا خدا زمین پر خود اُتر آئے گا جیسا کہ وہ فرماتا ہے 3 ۱؂ یعنی اُس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا یعنی انسانی مظہر کے ذریعہ سے اپنا جلال ظاہر کرے گا اور اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ کُفر اور شرک نے بہت غلبہ کیا اور وہ خاموش رہا اور ایک مخفی خزانہ کی طرح ہو گیا۔ اب چونکہ شرک اور انسان پرستی کا غلبہ کمال تک پہنچ گیا اور اسلام اس کے پاؤں کے نیچے کُچلا گیا اس لئے خدا فرماتا ہے کہ مَیں زمین پر نازل ہوں گا اور وہ قہری نشان دِکھلاؤں گا کہ جب سے نسل آدم پیدا ہوئی ہے کبھی نہیں دِکھلائے۔ اِس میں حکمت یہ ہے کہ مدافعت بقدر حملہء دشمن ہوتی ہے پس جس قدر انسان پرستوں کو شرک پر غلو ہے وہ غلو بھی انتہا تک پہنچ گیا ہے۔ اس لئے اب خدا آپ لڑے گا وہ انسانوں کو کوئی تلوار نہیں دے گا اور نہ کوئی جہاد ہوگا ہاں اپنا ہاتھ دِکھلائے گا۔ یہودیوں کا یہ عقید ہے کہ دو مسیح ظاہر ہوں گے اور آخری مسیح (جس سے اِس زمانہ کا مسیح مُراد ہے) پہلے مسیح سے افضل ہوگا اور عیسائی ایک ہی مسیح کے قائل ہیں مگر کہتے ہیں کہ وہی مسیح ابن مریم جو پہلے ظاہر ہوا آمد ثانی میں بڑی قُوّت اور جلال کے ساتھ ظاہر ہوگا اور دنیا کے فرقوں کا فیصلہ کرے گا اور کہتے ہیں کہ اس قدر جلال کے ساتھ ظاہر ہوگا کہ آمد اوّل کو اِس سے کچھ نسبت نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 159

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 159

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/159/mode/1up


بہر حال یہ دونوں فرقے قائل ہیں کہ آنے والا مسیح جو آخری زمانہ میںآئے گا اپنے جلالؔ اور قوی نشانوں کے لحاظ سے پہلے مسیح یا پہلی آمد سے افضل ہے اور اسلام نے بھی آخری مسیح کا نام حَکَم رکھا ہے اور تمام دنیا کے مذاہب کا فیصلہ کرنے والا اور محض اپنے دم سے کفارکو مارنے والا قرار دیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اُس کے ساتھ ہوگا اور اُس کی توجہ اور دعا بجلی کا کام کرے گی اور وہ ایسی اتمام حجت کرے گا کہ گویا ہلاک کر دے گا۔ غرض نہ اہل کتاب نہ اہل اسلام اِس بات کے قائل ہیں کہ پہلا مسیح آنے والے مسیح سے افضل ہے۔ یہود تو دو مسیح قرار دے کر آخری مسیح کو نہایت افضل سمجھتے ہیں اور جو لوگ اپنی غلط فہمی سے صرف ایک ہی مسیح مانتے ہیں وہ بھی دوسری آمد کو نہایت جلالی آمد قرار دیتے ہیں اور پہلی آمد کو اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے۔ پھر جبکہ خدا نے اور اُس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو اُس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو۔ عزیزو! جبکہ میں نے یہ ثابت کر دیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آنے والا مسیح میں ہوں تو اس صورت میں جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھتا ہے اُس کو نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہئیے کہ آنے والا مسیح کچھ چیز ہی نہیں نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ حَکَم۔ جو کچھ ہے پہلا ہے۔ خدا نے اپنے وعدہ کے موافق مجھے بھیج دیا اب خدا سے لڑو۔ ہاں میں صرف نبی نہیں بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی بھی تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قُدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو۔

سوال (۲)

حضور عالی نے سکیڑوں بلکہ ہزاروں جگہ لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے لئے تلوار نہیں اُٹھائی مگر عبد الحکیم کو جو خط تحریر فرمایا ہے اس میں یہ فقرہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی دعوت کے لئے زمین میں خون کی نہریں چلادیں اِس کا کیا مطلب ہے۔


الجواب ۔ مَیں اب بھی کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کو جبراً نہیں پھیلایا اور جو تلوار اُٹھائی گئی وہ اِس لئے نہیں تھی کہ دھمکی دے کر اسلام قبول کرایا جائے بلکہ اِس میں دو امر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 160

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 160

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/160/mode/1up


ملحوظ ؔ تھے (۱) ایک تو بطور مدافعت یہ لڑائیاں تھیں کیونکہ جبکہ کفار نے حملہ کرکے تلوار کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہا تو بجُز اس کے کیا چارہ تھا کہ اپنی حفاظت کے لئے تلوار اُٹھائی جاتی۔ (۲) دوسری قرآن شریف میں ان لڑائیوں سے ایک زمانہ پہلے یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ جولوگ اس رسول کو نہیں مانتے خدا اُن پر عذاب نازل کرے گا۔ چاہے تو آسمان سے اور چاہے تو زمین سے اور چاہے تو بعض کی تلوار کا مزہ بعض کو چکھادے۔ اِسی طرح اس مضمون کی اور بھی پیشگوئیاں تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں۔ اب سمجھنا چاہئیے کہ وہ خط جو میں نے عبد الحکیم خان کو لکھا تھا اس میں میرا یہی مطلب تھا کہ اگر رسول کا ماننا غیر ضرری ہے تو خدا تعالیٰ نے اِس رسول کے لئے یہ اپنی غیرت کیوں دکھلائی کہ کفار کے خون کی نہریں چلادیں۔ یہ سچ ہے کہ اسلام کے لئے جبر نہیں کیا گیا مگر چونکہ قرآن شریف میں یہ وعدہ موجود ہے کہ جو لوگ اس رسول کے مکذّب اور منکر ہیں وہ عذاب سے ہلاک کئے جائیں گے۔ اِس لئے اُن کے عذاب کیلئے یہ تقریب پیش آئی کہ خود اُن کافروں نے لڑائیوں کے لئے سبقت کی تب جن لوگوں نے تلوار اُٹھائی وہ تلوار ہی سے مارے گئے۔ اگر رسول کا انکار کرنا خدا کے نزدیک ایک سہل امر تھا اور باوجود انکار کے نجات ہو سکتی تھی تو پھر اس عذاب کے نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی جو ایسے طور سے نازل ہوا جس کی دنیا میں نظیرنہیں پائی جاتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔33 3 ۱؂ یعنی اگر یہ رسول جھوٹا ہے تو خود تباہ ہو جائے گا لیکن اگر سچا ہے تو تمہاری نسبت جو عذاب کے بعض وعدے کئے گئے ہیں۔ وہ پورے ہوں گے ۔*

اب غور کا مقام ہے کہ اگر خدا کے رسول پر ایمان لانا غیر ضروری ہے تو ایمان نہ لانے پر عذاب کا کیوں وعدہ دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ جبر سے اپنا دین منوانا اور تلوار سے مسلمان کرنا یہ اور امر ہے مگر اُس شخص کو سزا دینا جو سچے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور مقابلہ سے پیش آتا ہے اور اُس کو دُکھ دیتا ہے یہ اور بات ہے۔ سزا دینے کے لئے یہ امرشرط نہیں ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہو جائے بلکہ انکار کے


* بعض کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا کہ وعید کی پیشگوئیوں میں یہ ضروری نہیں کہ وہ سب کی سب پوری ہوجائیں بلکہ بعض کا انجام معافی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 161

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 161

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/161/mode/1up


ساتھ مقابلہ کرنے والے واجب القتل ہو چکے تھے اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کو یہ رعایت دی ؔ گئی تھی کہ اگر مشرف باسلام ہو جائیں تو وہ سزا معاف ہو جائے گی اور پھر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱؂ الجزو نمبر۳ سورہ اٰل عمران۔ یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ کی آیتوں سے منکر ہو گئے اُن کے لئے سخت عذاب ہے اور خدا غالب بدلہ لینے والا ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ اِس آیت میں بھی منکروں کے لئے عذاب کا وعدہ ہے۔ لہٰذا ضرور تھا کہ اُن پر عذاب نازل ہوتا۔ پس خدا تعالیٰ نے تلوار کا عذاب اُن پر وارد کیا اور پھر ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے3333 ۲؂ الجزو نمبر۶ سورۃ المائدۃ یعنی سوا اس کے نہیں کہ بدلہ ان لوگوں کا کہ جو خدا اور رسول سے لڑتے اور زمین پر فساد کے لئے دوڑتے ہیں یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی دئے جائیں یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف طرف سے کاٹے جائیں یا جلا وطن کرکے قید رکھے جائیں یہ رُسوائی اُن کی دُنیا میں ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے پس اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے رسول کریم کی عدول حکمی اور اس کا مقابلہ کچھ چیز نہیں تھا تو ایسے منکروں کو جوموحد تھے (جیسا کہ یہودی) انکار اور مقابلہ کی وجہ سے اس قدر سخت سزا یعنی طرح طرح کے عذابوں سے موت کی سزا دینے کے لئے خدا تعالیٰ کی کتاب میں کیوں حکم لکھا گیا اور کیوں ایسی سخت سزائیں دی گئیں کیونکہ دونوں طرف موحد تھے اس طرف بھی اور اس طرف بھی اور کسی گروہ میں کوئی مُشرک نہ تھا اور باوجود اس کے یہودیوں پر کچھ بھی رحم نہ آیا اور اُن موحد لوگوں کو محض انکار اور مقابلہ رسول کی وجہ سے بُری طرح قتل کیا گیا یہاں تک کہ ایک دفعہ دس ہزار یہودی ایک ہی دِن میں قتل کئے گئے حالانکہ اُنہوں نے صرف اپنے دین کی حفاظت کے لئے انکار اور مقابلہ کیا تھا اور اپنے خیال میں پکے موحد تھے اور خدا کو ایک جانتے تھے۔

ہاں یہ بات ضرور یاد رکھو کہ بے شک ہزاروں یہودی قتل کئے گئے مگر اس غرض سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 162

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 162

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/162/mode/1up


نہیںؔ کہ تاوہ مسلمان ہو جائیں۔ بلکہ محض اِس غرض سے کہ خدا کے رسول کا مقابلہ کیا۔ اِس لئے وہ خدا کے نزدیک مستوجب سزا ہو گئے اور پانی کی طرح اُن کا خون زمین پر بہایا گیا۔ پس ظاہر ہے کہ اگر توحید کافی ہوتی تو یہودیوں کا کوئی جرم نہ تھا وہ بھی تو موحد تھے وہ محض انکار اور مقابلہ رسول کی وجہ سے کیوں خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل سزا ٹھہرے۔

(۳)سوال

جناب عالی۔ عبد الحکیم کو جو آپ نے خط تحریر فرمایا ہے اُس میں لکھا ہے کہ فطرتی ایمان ایک *** چیز ہے اِس کا مطلب بھی سمجھنے میں نہیں آیا۔

الجواب:۔ خلاصہ اور مد عامیری تحریر کا یہ ہے کہ جو ایمان خدا تعالیٰ کے رسول کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوتا اور محض انسانی فطرت خدا تعالیٰ کے وجود کی ضرورت محسوس کرتی ہے جیسا کہ فلسفیوں کا ایمان ہے اس کا آخری نتیجہ اکثر *** ہی ہوتا ہے کیونکہ ایسا ایمان تاریکی سے خالی نہیں ہوتا اِس لئے وہ لوگ جلدی اپنے ایمان سے پھسل کر دہریہ بن جاتے ہیں پہلے تو صحیفہء فطرت اور قانونِ قدرت پر زور دیتے ہیں مگر چونکہ شمع رسالت کی روشنی ساتھ نہیں ہوتی جلد تاریکی میں پڑ کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔ مبارک اور بے خطر وہ ایمان ہے جو خدا کے رسول کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ ایمان صرف اس حد تک نہیں ہوتا کہ خدا کے وجود کی ایک ضرورت ہے بلکہ صدہا آسمانی نشان اُس کو اِس حد تک پہنچا دیتے ہیں کہ درحقیقت وہ خدا موجود ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ خدا پر ایمان مستحکم کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا مثل میخوں کے ہے اور خدا پر اُسی وقت تک ایمان قائم رہ سکتا ہے جب تک کہ رسول پر ایمان ہو اور جب رسول پرایمان نہ رہے تو خدا پر ایمان لانے میں بھی کوئی آفت آجاتی ہے اور خشک توحید انسان کو جلد گمراہی میں ڈالتی ہے اِسی واسطے مَیں نے کہا کہ فطرتی ایمان *** ہے یعنی جس کی بنیاد صرف صحیفۂ فطرت ہے اور جس کی بنا مجرد فطرت پر ہے اور رسول کی روشنی سے حاصل نہیں آخروہ *** خیال تک پہنچا دیتا ہے۔ غرض خدا کے رسول کو چھوڑ کر اور رسول کے معجزات کو چھوڑ کر محض فطرت کے لحاظ سے جس کا ایمان ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 163

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 163

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/163/mode/1up


وہ اؔ یک دیوارِ ریگ ہے وہ آج بھی تباہ ہوا اور کل بھی۔ ایمان درحقیقت وہی ایمان ہے جو خدا کے رسول کو شناخت کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اس ایمان کو زوال نہیں ہوتا اور اس کا انجام بد نہیں ہوتا۔ ہاں جو شخص سر سری طور پر رسول کا تابع ہو گیا اور اُس کو شناخت نہیں کیا اور اُس کے انوار سے مطلع نہیں ہوا اُس کا ایمان بھی کچھ چیز نہیں اور آخر ضرور وہ مُرتد ہوگا جیسا کہ مسیلمہ کذّاب اور عبد اللہ ابن ابی سرح اور عبیدہ اللہ بن جحش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودا اسکریوطی اورپانسو اور عیسائی مرتد حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں اور جموں والا چراغدین اور عبدالحکیم خان ہمارے اِس زمانہ میں مُرتد ہوئے۔

(۴)سوال

پہلی کتابوں ازالہ اوہام وغیرہ میں لکھا ہے کہ یہ بھی کچھ کوئی پیشگوئیاں ہیں کہ زلزلے آئیں گے۔ مری پڑے گی۔ لڑائیاں ہوں گی قحط پڑیں گے لیکن اب کئی تحریروں میں دیکھا گیا ہے کہ انہیں پیشگوئیوں کو جناب والا نے عظیم الشان پیشگوئیاں قرار دیا ہے۔

الجواب:۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ میں نے انہیں پیشگوئیوں کو عظیم الشان قرار دیا ہے ہر ایک چیز کی عظمت یا عدم عظمت اس کی مقدار اور کیفیت سے اور نیز اُس کے حالات خاصہ یامعمولی حالات سے ظاہر ہوتی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس مُلک میں طاعون اور زلزلوں کی خبر دی تھی وہ ملک ایسا ہے کہ اکثر اس میں طاعون کا دورہ رہتا ہے اور کشمیر کی طرح اس میں زلزلے بھی آتے رہتے ہیں اور قحط بھی پڑتے ہیں اور لڑائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے اور حضرت مسیح کی پیشگوئی میں نہ کسی خارق عادت زلزلہ کا ذکر ہے اور نہ کسی خارق عادت مری یا طاعون کا۔ اِس صورت میں کوئی عقلمند ایسی پیشگوئیوں کو عظمت اور وقعت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ مگر جس ملک کے لئے


ہاں ممکن ہے کہ اصل پیشگوئیوں میں تحریف ہو گئی ہو جبکہ ایک انجیل کی بیسیوں انجیلیں بن گئی ہیں تو کسی عبارت

میں تحریف ہونا کونسا ایسا امر ہے جو بعید از عقل ہو سکتا ہے مگر ہمارا موجودہ انجیلوں پر اعتراض ہے اور خدا نے ان

انجیلوں کو محرف مبدل قرار دیکر ہمیں ان اعتراضوں کا موقعہ دیا ہے۔ منہ


* یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح کی پیشگوئیوں میں جو انجیلوں میں پائی جاتی ہیں صرف معمولی اور نرم لفظ ہیں کسی شدید اور ہیبت ناک زلزلہ یا ہیبت ناک طاعون کا ان میں ذکر نہیں ہے مگر میری پیشگوئیوں میں ان دونوں واقعات کی نسبت ایسے لفظ ہیں جو ان کو خارق عادت قرار دیتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 164

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 164

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/164/mode/1up

*

میں ؔ نے طاعون کی خبردی اور شدید زلزلوں سے اطلاع دی ہے وہ اس ملک کی حالت کے لحاظ سے درحقیقت عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔ کیونکہ اگر اس ملک کے صدہا سال کی تاریخ دیکھی جائے تب بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کبھی اس ملک میں طاعون پڑی ہے چہ جائیکہ ایسی طاعون جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر دیا چنانچہ طاعون کی نسبت میری پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں کہ ملک کا کوئی حصہ طاعون سے خالی نہیں رہے گا اور سخت تباہی آئے گی اور وہ تباہی زمانہ دراز تک رہے گی۔ اب کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ جیسا کہ اب پیشگوئی کے مطابق یہ سخت تباہیاں طاعون سے ظہور میں آئیں پہلے اس ملک میں کبھی ظہور میں آیا تھا۔ ہر گز نہیں۔ رہا زلزلہ وہ بھی میری طرف سے کوئی معمولی پیشگوئی نہیں تھی بلکہ پیشگوئی میں یہ الفاظ تھے کہ ایک حصہ ملک کا اس سے تباہ ہو جائے گا جیسا کہ ظاہر ہے کہ وہ تباہی جو اس زلزلہ سے کانگڑہ اور بھاگسو خاص جوالا مُکھی پر آئی۔ د۲۰۰۰وہزار برس تک اس کی نظیر نہیں ملتی کہ کبھی زلزلہ سے ایسا نقصان ہوا چنانچہ انگریز محققوں نے بھی یہی گواہی دی ہے۔ پس اِس صُورت میں میرے پر اعتراض کرنا محض جلدبازی ہے۔

(۵)سوال

جناب عالی نے متفرق طور پر بہت سے اشتہارات میں لکھا ہے کہ مذہب کی خرابی کی وجہ سے دنیا میں عذاب نازل نہیں ہوتا بلکہ شوخی اور شرارت اور مرسلین کے ساتھ استہزا کرنے سے عذاب آتا ہے۔ اب سان فرانسسکو وغیرہ میں جو زلزلے آئے ہیں جناب عالی نے اپنی تصدیق کا اُن کو نشان قرار دیا ہے۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ زلزلے آپ کی تکذیب کی وجہ سے آئے ہیں۔

الجواب:۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ یہ تمام زلزلے جو سان فرانسسکو وغیرہ مقامات میں آئے ہیں یہ محض میری تکذیب کی وجہ سے آئے ہیں کسی اور امر کا اِس میں دخل نہیں۔ ہاں میں کہتا ہوں کہ میری تکذیب اِن زلزلوں کے ظہور کا باعث ہوئی ہے۔ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام نبی اِس بات پر متفق ہیں کہ عادت اللہ ہمیشہ سے اِس طرح پر جاری ہے کہ جب دنیا ہر ایک قسم کے گناہ کرتی ہے اور بہت سے گناہ ان کے جمع ہو جاتے ہیں تب اس زمانہ میں خدا اپنی طرف سے کسی کو مبعوث فرماتا ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 165

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 165

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/165/mode/1up


اورؔ کوئی حصہ دنیا کا اس کی تکذیب کرتا ہے تب اُس کا مبعوث ہونا دو سرے شریر لوگوں کی سزا دینے کے لئے بھی جو پہلے مجرم ہو چکے ہیں ایک محرک ہو جاتا ہے اور جو شخص اپنے گذشتہ گناہوں کی سزا پاتا ہے اُ س کے لئے اِس بات کا علم ضروری نہیں کہ اس زمانہ میں خدا کی طرف سے کوئی نبی یا رسول بھی موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 3 ۱؂ پس اس سے زیادہ میرا مطلب نہ تھا کہ ان زلزلوں کا موجب میری تکذیب ہو سکتی ہے۔ یہی قدیم سے سُنت اللہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا سو سان فرانسسکو وغیرہ مقامات کے رہنے والے جو زلزلہ اور دوسری آفات سے ہلاک ہو گئے ہیں اگرچہ اصل سبب اُن پر عذاب نازل ہونے کا اُن کے گذشتہ گناہ تھے مگر یہ زلزلے اُن کو ہلاک کرنے والے میری سچائی کا ایک نشان تھے کیونکہ قدیم سنت اللہ کے موافق شریر لوگ کسی رسول کے آنے کے وقت ہلاک کئے جاتے ہیں اور نیز اِس وجہ سے کہ میں نے براہین احمدیہ اور بہت سی اپنی کتابوں میں یہ خبر دی تھی کہ میرے زمانہ میں دنیا میں بہت سے غیر معمولی زلزلے آئیں گے اور دوسری آفات بھی آئیں گی اور ایک دنیا اُن سے ہلاک ہو جائے گی۔ پس اِس میں کیا شک ہے کہ میری پیشگوئیوں کے بعد دُنیا میں زلزلوں اور دوسری آفات کا سلسلہ شروع ہو جانا میری سچائی کے لئے ایک نشان ہے۔ یاد رہے کہ خدا کے رسول کی خواہ کسی حصہ زمین میں تکذیب ہو مگر اس تکذیب کے وقت دوسرے مجرم بھی پکڑے جاتے ہیں جو اور ملکوں کے رہنے والے ہیں جن کو اس رسول کی خبر بھی نہیں۔ جیسا کہ نوح کے وقت میں ہوا کہ ایک قوم کی تکذیب سے ایک دنیا پر عذاب آیا بلکہ پرند چرند بھی اس عذاب سے باہر نہ رہے۔

غرض عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کسی صادق کی حد سے زیادہ تکذیب کی جائے یا اُس کو ستایا جائے تو دنیا میں طرح طرح کی بلائیں آتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں یہی بیان فرماتی ہیں اور قرآن شریف یہی* فرماتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ کی تکذیب کی وجہ سے مصر کے ملک پر طرح طرح کی آفات نازل ہوئیں۔ جوئیں برسیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 166

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 166

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/166/mode/1up


مینڈؔ کیں برسیں خون برسا اور عام قحط پڑا۔ حالانکہ مُلک مصر کے دور دور کے باشندوں کو حضرت موسیٰ کی خبر بھی نہ تھی اور نہ اُن کا اس میں کچھ گناہ تھا اور نہ صرف یہ بلکہ تمام مصریوں کے پلوٹھے بچے مارے گئے اور فرعون ایک مدت تک ان آفت سے محفوظ تھا اور جو محض بے خبر تھے وہ پہلے مارے گئے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کو صلیب سے قتل کرنا چاہا تھا اُن کا تو بال بیکا بھی نہ ہوا اور وہ آرام سے زندگی بسر کرتے رہے۔ لیکن چالیس برس بعد جب وہ صدی گذرنے پر تھی تو طیطوس رومی کے ہاتھ سے ہزاروں یہودی قتل کئے گئے اور طاعون بھی پڑی۔ اور قرآن شریف سے ثابت ہے کہ یہ عذاب محض حضرت عیسیٰ کی وجہ سے تھا۔

ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں سات برس کا قحط پڑا اور اکثر اس قحط میں غریب ہی مارے گئے اور بڑے بڑے سردار فتنہ انگیز جو دُکھ دینے والے تھے مُدت تک عذاب سے بچے رہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ سُنّت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اُس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا ا س تکذیب سے کچھ تعلق نہیں پھر رفتہ رفتہ ائمۃ الکفر پکڑے جاتے ہیں اور سب سے آخر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے33 ۱؂ یعنی ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں۔ اِس میرے بیان میں اُن بعض نادانوں کے اعتراضات کا جواب آگیا ہے جو کہتے ہیں کہ تکفیر تو مولویوں نے کی تھی اور غریب آدمی طاعون سے مارے گئے۔ اور کانگڑہ اور بھاگسو کے پہاڑ کے صدہا آدمی زلزلہ سے ہلاک ہو گئے۔ اُن کا کیا قصور تھا۔ اُنہوں نے کونسی تکذیب کی تھی۔ سو یاد رہے کہ جب خدا کے کسی مُرسل کی تکذیب کی جاتی ہے خواہ وہ تکذیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہو مگر خدا تعالیٰ کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے اور آسمان سے عام طور پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 167

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 167

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/167/mode/1up


کہ اؔ صل شریر پیچھے سے پکڑے جاتے ہیں جو اصل مبدء فساد ہوتے ہیں جیسا کہ اُن قہری نشانوں سے جو حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے۔ فرعون کا کچھ نقصان نہ ہوا صرف غریب مارے گئے لیکن آخر کار خدا نے فرعون کو مع اُس کے لشکر کے غرق کیا۔ یہ سُنّت اللہ ہے جس سے کوئی واقف کار انکار نہیں کر سکتا۔

(۶)سوال

حضور عالی نے ہزاروں جگہ تحریر فرمایا ہے کہ کلمہ گو اور اہل قبلہ کو کافر کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاوہ اُن مومنوں کے جو آپ کی تکفیر کرکے کافربن جائیں صرف آپ کے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا۔ لیکن عبد الحکیم خان کو آپ لکھتے ہیں کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اُس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔ اِس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے۔ یعنی پہلے آپ تریاق القلوب وغیرہ میں لکھ چکے ہیں کہ میرے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہوتا اور اب آپ لکھتے ہیں کہ میرے انکار سے کافر ہو جاتا ہے۔

الجواب:۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اِسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مُفتری قرار دیتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افترا کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے جیسا کہ فرماتا ہے 3 3 ۱؂ یعنی بڑے کافر دو ہی ہیں ایک خدا پر افترا کرنے والا ۔* دوسرا خدا کی کلام کی تکذیب کرنے والا۔ پس جبکہ میں نے ایک مکذب کے نزدیک خدا پر افترا کیا ہے۔ اس صورت میں نہ میں صرف کافر بلکہ بڑا کافر ہوا، اور اگر میں مُفتری نہیں تو بلا شُبہ وہ کفر اُس پر پڑے گا جیسا کہ

* ظالم سے مُراد اِس جگہ کافر ہے۔ اِس پر قرینہ یہ ہے کہ مُفتری کے مقابل پر مکذّب کتاب اللہ کو ظالم ٹھہرایاہے اور بلا شبہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کافر ہے۔ سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے۔ اِس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے۔ منہ

* ظالم سے مُراد اِس جگہ کافر ہے۔ اِس پر قرینہ یہ ہے کہ مُفتری کے مقابل پر مکذّب کتاب اللہ کو ظالم ٹھہرایاہے اور بلا شبہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کافر ہے۔ سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے۔ اِس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے۔ منہ


* ظالم سے مُراد اِس جگہ کافر ہے۔ اِس پر قرینہ یہ ہے کہ مُفتری کے مقابل پر مکذّب کتاب اللہ کو ظالم ٹھہرایاہے اور بلا شبہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کافر ہے۔ سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے۔ اِس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 168

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 168

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/168/mode/1up


اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں خود فرمایا ہے۔ علاوہ اِس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجود ہے۔ یعنی رسوؔ ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں میری اُمت میں سے ہی مسیح موعود آئے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی خبر دی تھی کہ میں معراج کی رات میں مسیح ابن مریم کو اُن نبیوں میں دیکھ آیا ہوں جو اِس دنیا سے گذر گئے ہیں اور یحیٰی شہید کے پاس دوسرے آسمان میں اُن کو دیکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں خبر دی کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا۔ اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمدًا خدا تعالیٰ کے نشانوں کو رد کرتا ہے اور مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مُفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مومن کیونکر ہو سکتا ہے اور اگر وہ مومن ہے تو میں بوجہ افترا کرنے کے کافر ٹھہرا کیونکہ میں اُن کی نظر میں مفتری ہوں اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ 3 3 3 ۱؂ یعنی عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ اُن سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے۔ ہاں یوں کہو کہ ہم نے اطاعت اختیار کر لی ہے اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ پس جبکہ خدا اطاعت کرنے والوں کا نام مومن نہیں رکھتا۔ پھروہ لوگ خدا کے نزدیک کیونکر مومن ہو سکتے ہیں جو کھلے کھلے طور پر خدا کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہزار ہانشان دیکھ کر جو زمین اور آسمان میں ظاہر ہوئے پھر بھی میری تکذیب سے باز نہیں آتے۔ وہ خود اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ اگر میں مفتری نہیں اور مومن ہوں تو اس صورت میں وہ میری تکذیب اور تکفیر کے بعد کافر ہوئے اور مجھے کافر ٹھہراکر اپنے کفر پر مہر لگا دی۔ یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا آخر کافر ہو جاتا ہے۔ پھر جب کہ قریبًا دوسو مولوی نے مجھے کافر ٹھہرایا اور میرے پر کُفر کا فتویٰ لکھا گیا اور انہیں کے فتویٰ سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مومن کہنے والا بھی کافر ہو جاتا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 169

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 169

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/169/mode/1up


ہے۔ تو اب اِس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اورؔ ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو اُن کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا۔ تب میں اُن کو مسلمان سمجھ لوں گا۔ بشرطیکہ اُن میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جاوے اور خدا کے کُھلے کُھلے معجزات کے مکذب نہ ہوں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 3 ۱؂ یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ ما زنا زانٍ و ھو مؤمن وما سرق سارق وھو مؤمن یعنی کوئی زانی زنا کی حالت میں اور کوئی چور چوری کی حالت میں مومن نہیں ہوگا۔ پھر منافق نفاق کی حالت میں کیونکر مومن ہو سکتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ صحیح نہیں ہے کہ کسی کو کافر کہنے سے انسان خود کافر ہو جاتا ہے تو اپنے مولویوں کا فتویٰ مجھے دکھلادیں میں قبول کر لوں گا اور اگر کافر ہو جاتا ہے تو دو سو مولوی کے کفر کی نسبت نام بنام ایک اشتہار شائع کر دیں۔ بعد اس کے حرام ہوگا کہ میں اُن کے اسلام میں شک کروں بشرطیکہ کوئی نفاق کی سیرت اُن میں نہ پائی جائے۔*

(۷)سوال

دعوت پہنچ جانے سے کیا مراد ہے۔

الجواب:۔ دعوت پہنچا دینے میں دو امر ضروری ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ وہ شخص جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے وہ لوگوں کو اطلاع دیدے کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور اُن کو اُن کی


* جیسا کہ میں نے بیان کیا کافر کو مومن قرار دینے سے انسان کافر ہو جاتا ہے کیونکہ جو شخص درحقیقت کافر ہے وہ اُس کے کفر کی نفی کرتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ جس قدر لوگ میرے پر ایمان نہیں لاتے وہ سب کے سب ایسے ہیں کہ اُن تمام لوگوں کو وہ مومن جانتے ہیں جنہوں نے مجھ کو کافر ٹھہرایا ہے پس میں اب بھی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتا لیکن جن میں خود اُنہیں کے ہاتھ سے ان کی وجہ کفر کی پیدا ہو گئی ہے۔ ان کو کیونکر مومن کہہ سکتا ہوں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 170

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 170

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/170/mode/1up


غلطیوں پر متنبہ کر دے کہ فلاں فلاں اعتقاد میں تم خطا پر ہو۔ یا فلاں فلاں عملی حالت میں تم سُست ہو۔ دوسرے یہ کہ آسمانی نشانوں اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے اپنا سچا ہونا ثابت کرے اور عادت اللہ اِس طرح پر ہے کہ اوّل اپنے نبیوں اور مُرسلوں کو اس قدر مہلت دیتا ہے کہ دنیا کے بہت سے حصہ میں اُنکا نام پھیل جاتا ہے اور اُن کے دعوےٰ سے لوگ مطلع ہو جاتے ہیں اور پھر آسمانی نشانوں اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ کے ساتھ لوگوں پر اتمام حُجت کر دیتا ہے اورؔ دنیا میں خارق عادت طور پر شہرت دینا اورروشن نشانوں کے ساتھ اتمام حجت کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک غیر ممکن نہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ ایک دم میں آسمان کے ایک کنارہ سے بجلی چمکتی اور دوسرے کنارہ تک پھیل جاتی ہے۔ اِسی طرح خدا کے حکم سے خدا کے رسولوں کو شہرت دی جاتی ہے اور خدا کے فرشتے زمین پر اُترتے اور سعید لوگوں کے دِلوں میں ڈالتے ہیں کہ جن راہوں کو تم نے اختیار کر رکھا ہے وہ صحیح نہیں ہیں تب ایسے لوگ راہ راست کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے امام وقت کی خبر ان لوگوں کو پہنچ جاتی ہے۔ بالخصوص یہ زمانہ تو ایسا زمانہ ہے کہ چند دنوں میں ایک نامی ڈاکو کی بھی بد نامی کے ساتھ تمام دنیا میں شہرت ہو سکتی ہے تو کیا خدا تعالیٰ کے بندے جن کے ساتھ ہر وقت خدا ہے وہ اِس دنیا میں شہرت نہیں پا سکتے اور مخفی رہتے ہیں اور خدا اُن کی شہرت پر قادر نہیں ہوتا * ۔ میں


* آج سے پچیس ۲۵ برس پہلے براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کا یہ الہام میری نسبت موجود ہے۔ یہ اُس زمانہ کا الہام ہے کہ جبکہ میں ایک پوشیدہ زندگی بسر کرتا تھا اور بجز میرے والد صاحب کے چند تعارف رکھنے والوں کے کوئی مجھ کو جانتا بھی نہیں تھا اور وہ الہام یہ ہے انت منّی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی۔ فحان ان تعان و تعرف بین الناس یعنی تو مجھ سے بمنزلہ میری توحید و تفرید کے ہے۔ پس وہ وقت آگیا ہے کہ تجھے ہر ایک قسم کی مدد دی جائے گی۔ اوردنیا میں تو عزت کے ساتھ شہرت دیا جائے گا۔ اور شہر ت دینے کے وعدہ کو توحید اور تفرید کے ساتھ ذکر کرنا اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ جلال اور عزّت کے ساتھ شہرت پانا اصل حق خدائے واحد لا شریک کا ہے۔ پھرجس پر خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہووہ اپنی نہایت محویت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی توحید کے قائم مقام ہو جاتا ہے اور رنگ دُوئی اس سے جاتا رہتا ہے تب خدا تعالیٰ اسی طرح اس کو عزّت اور جلال اور عظمت کے ساتھ شہرت دیتا ہے جیسا کہ وہ اپنے تئیں شہرت دیتا ہے کیونکہ توحیداور تفرید یہ حق پیدا کرتی ہے کہ وہ ایسی ہی عزت حاصل کرے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 171

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 171

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/171/mode/1up


دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا فضل ایسے طور سے میرے شامل حال ہے کہ میری اتمام حجت کے لئے اور اپنے نبی کریم کی اشاعت دین کے لئے خدا تعالیٰ نے وہ سامان مقرر کر رکھے ہیں کہ پہلے اِس سے کسی نبی کو میسر نہیں آئے تھے چنانچہ میرے وقت میں ممالک مختلفہ کے باہمی تعلقات بباعث سواری ریل اور تار اور انتظام ڈاک اور انتظام سفر بحری اور بَرّی اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ گویا اب تمام ممالک ایک ہی ملک کا حکم رکھتے ہیں بلکہ ایک ہی شہر کا حکم رکھتے ہیں اور ایک شخص اگر سیر کرنا چاہے تو تھوڑی مدت میں تمام دنیا کا سیر کرکے آسکتا ہے۔ ماسوا اس کے کتابوں کا لکھنا ایسا سہل اور آسان ہو گیا ہے کہ ایسی ایسی چھاپوں کی کلیں ایجاد ہو گئی ہیں کہ جس کسی ضخیم کتاب کے چند مجلد سو برس میں بھی نہیں لکھ سکتے تھے اس کے کئی لاکھ نسخے ایک دو برس میں لکھ سکتے ہیں اور تمام مُلک میں شائع ہو سکتے ہیں اور ہر ایک پہلو سے تبلیغ کے لئے بھی اِس قدر آسانیاں ہو گئی ہیں کہ ہمارے مُلک میں آج سے سو برس پہلے اُن کا نام و نشان نہ تھا اور آج سے پہلے اگر پچاس برس پر نظر ڈالی جائے تو ثابت ہوگا کہ اکثر لوگ نا خواندہ اور جاہل تھے مگر اب بباعث کثرت مدارس کے جو دیہات میں بھی قائم کئے گئے ہیں اس قدر استعداد علمیّت لوگوں کو حاصل ہو گئی ہےؔ کہ وہ دینی کتابوں کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور میری طرف سے تبلیغ کی کارروائی یہ ہوئی ہے کہ میں نے پنجاب اور ہندوستان کے بعض شہروں جیسے امرتسر، لاہور، جالندھر، سیالکوٹ اور دہلی اور لدھیانہ وغیرہ میں بڑے بڑے مجمعوں میں خود جاکر خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچایا ہے اور ہزار ہا انسانوں کے رُوبرو اسلامی تعلیم کی خوبیاں پیش کی ہیں اور ستر ۰۷ کے قریب کتابیں عربی اور فارسی اوراُردو اور انگریزی میں حقّانیت اسلام کے بارہ میں جن کی جلدیں ایک لاکھ کے قریب ہونگی تالیف کرکے ممالک اسلام میں شائع کی ہیں اور اسی مقصد کے لئے کئی لاکھ اشتہار شائع * کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کی ہدایت سے تین لاکھ


* ایک دفعہ ۱۶۰۰۰ سولہ ہزار اشتہار حقّانیت اسلام کے بارے میں انگریزی میں ترجمہ کرا کر ممالک یورپ اور امریکہ میں مَیں نے شائع کیا تھا جو کئی انگریزی اخباروں میں بھی شائع ہو گیا تھااور وہ اشتہارات ان مقامات یورپ اور امریکہ میں پہنچائے گئے تھے جہاں لوگ اسلامی خوبیوں سے بے خبر تھے اور ایک انگریز امریکہ کا رہنے والا وب نام جو ابھی اُن دِنوں میں مسلمان نہیں ہوا تھا اس کو بھی وہ اشتہار پہنچے تھے جن کے بعد وہ مسلمان ہو گیا اور اب تک مسلمان ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 172

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 172

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/172/mode/1up


سے زیادہ لوگ میرے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے آج تک توبہ کر چکے ہیں اور اس قدر سرعت سے یہ کارروائی جاری ہے کہ ہر ایک ماہ میں صدہا آدمی بیعت میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور ہمارے سلسلہ سے غیر ملکوں کے لوگ بے خبر نہیں ہیں بلکہ ممالک امریکہ اور یورپ کے دُور دراز مُلکوں تک ہماری دعوت پہنچ گئی ہے یہاں تک کہ امریکہ میں کئی لوگ ہماری جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اور خود انہوں نے غیر معمولی زلزلوں کی پیشگوئیوں کو ہمارے نشانوں کا ثبوت دینے کے لئے امریکہ کے نامی اخباروں میں شائع کرایا ہے اور یورپ کے بعض لوگ بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں اور اسلامی بلاد کا تو کیا ذکر کریں کہ اب تک جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کچھ زیادہ تین لاکھ سے اس جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اور ہزار ہا نشانوں سے لوگ اطلاع پا چکے ہیں اور اکثران میں صالح اور نیک بخت ہیں۔*

(۸)سواؔ ل

اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ نری خشک توحید مدار نجات نہیں ہو سکتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے علیحدہ ہو کر کوئی عمل کرنا انسان کو ناجی نہیں بنا سکتا۔ لیکن طمانیت قلب کے لئے عرض پر داز ہیں کہ عبد الحکیم خان نے جو آیات لکھی ہیں ان کا کیا مطلب ہے۔مثلاً


افسوس کہ ہماری جماعت کی ایمانداری اور اخلاص پر اعتراض کرنے والے دیانت اور راستبازی سے کام نہیں لیتے۔ اس جماعت میں بعض لوگوں نے اپنی استقامت کے وہ نمونے دکھائے ہیں جن کی اس زمانہ میں نظیر ملنا مشکل ہے مثلاً ایک خدا ترس اور منصف مزاج کومولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی استقامت پر نظر انصاف ڈالنی چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ کیا اس سے بڑھ کر کوئی شخص دنیا میں استقامت کا نمونہ دکھا سکتا ہے۔ مولوی صاحب موصوف ایک جلیل الشان فاضل علوم عربیہ میں تھے اور تمام عمر حدیث اور تفسیر کے درس میں بسر کی تھی اور ان کو الہام بھی ہوتا تھا اور پچاس ہزار کے قریب اُن کے پیرو اور شاگرد تھے اور دنیویؔ عزت بھی بہت رکھتے تھے یہاں تک کہ ریاست کابل کے امیروں کی نظر میں ایک بزرگوار اور شیخ الوقت تسلیم کئے گئے تھے اور گورنمنٹ انگریزی اور ریاست میں جاگیر رکھتے تھے انہوں نے میری سچائی ماننے پر اپنی جان دیدی۔ اُن کو بہت سمجھایاگیا کہ مُجھ سے انکار کریں پر انہوں نے کہا کہ میں نادان نہیں۔ میں بصیرت کی راہ سے ایمان لایا ہوں میں ان کو ترک نہیں کر سکتا مگر جان کو ترک کروں گا۔ امیر نے کئی دفعہ ان کو سمجھایا کہ آپ بزرگوار ہیں لوگ شورش کرتے ہیں مصلحتِ وقت سمجھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ میں دین کو دُنیا پر مقدم رکھتا ہوں میں اپنا ایمان ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ میں جانتا ہوں جس سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 173

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 173

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/173/mode/1up


3 ۱؂ اور جیسا کہ یہ آیت 3 3 ۲؂۔ اور جیسا کہ یہ آیت 3 33 ۳؂۔

الجواب:۔ واضح ہو کہ قرآن شریف میں ان آیات کے ذکر کرنے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر اس کے جو رسول پر ایمان لایا جائے نجات ہو سکتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ خدائے واحد لاشرؔ یک اور یوم آخرت پر ایمان لایا جاوے نجات نہیں ہو سکتی۔* اور اللہ پر پور اایمان تبھی ہو سکتا ہے کہ اُسکے رسولوں پر ایمان لاوے۔ وجہ یہ کہ وہ اس کی صفات کے مظہر ہیں اور کسی چیز کا وجود بغیر وجود اُس کی صفات کے بپایۂ ثبوت نہیں پہنچتا۔ لہٰذا بغیر علم صفات باری تعالیٰ کے معرفت باری تعالیٰ ناقص رہ جاتی ہے کیونکہ مثلاً یہ صفات اللہ تعالیٰ کے


میں نے بیعت کی ہے وہ حق پر ہے اور تمام دنیا سے بہتر ہے اور آنے والا مسیح یہی ہے اور عیسیٰ مر گیا تب مولویوں نے شور مچایا کہ کافر ہو گیا کیوں قتل نہ کیا جاوے مگر امیر نے پھر بھی قتل کرنے میں تاخیر کی۔ آخر یہ حجت پیش کی گئی کہ یہ لوگ جہاد کے منکر ہیں کہ اب غیر قوموں سے تلوار کے ساتھ دین کے لئے لڑنا نہیں چاہئے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اس الزام سے انکار نہ کیا اور کہا کہ یہی وعدہ ہے کہ مسیح کو خدا آسمان سے مدد دے گا۔ اب جہاد حرام ہے اورپھر وہ نہایت بے رحمی سے سنگسار کئے گئے اور اُن کے عیال گرفتار کرکے کسی دُور دراز گوشۂ ریاست کابل میں پہنچائے گئے اور اُن کی جماعت کے آدمی اس سلسلہ میں داخل ہو گئے۔ اب حیا اور شرم سے سوچنا چاہئے کہ ایک فاضل جلیل سے جو دنیا اور دین میں عزت رکھتا تھا جس نے میرے لئے جان دی عبد الحکیم کو کیانسبت ہے اگر وہ مرتد ہو گیا تو ایسے آدمی کے ارتداد سے جو علوم عربیہ سے بالکل محروم ہے دین کو کیا نقصان پہنچا ایسا ہی عمادالدین جو مولوی کہلاتا تھا مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا تھا اس نے اسلام کا کیا بگاڑا تھا۔ تایہ خیال کریں کہ یہ بھی کچھ بگاڑے گا۔ اِسی طرح دھرمپال جو انہیں دنوں میں اسلام سے مُرتد ہو گیا اس نے کیا بگاڑا*۔ ؂

درکارخانۂ عشق از کفر ناگزیر است آتش کرابسو زد گر بولہب نباشد منہ


* قرآن شریف میں عادت اللہ ہے کہ بعض جگہ تفصیل ہوتی ہے اور بعض جگہ اجمال سے کام لیا جاتا ہے اور پڑھنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مجمل آیتوں کے ایسے طور سے معنی کرے کہ آیات مفصلہ سے مخالف نہ ہو جائیں۔ مثلاً خدا تعالیٰ نے تصریح سے فرما دیا کہ شرک نہیں بخشا جائے گا مگر قرآن شریف کی یہ آیت کہ3 ۴ ؂ اس آیت سے مخالف معلوم ہوتی ہے جس میں لکھا ہے کہ شرک نہیں بخشا جائے گا۔ پس یہ الحاد ہوگا کہ اس آیت کے وہ معنی کئے جائیں کہ جو آیات محکمات بیّنات کے مخالف ہیں۔منہ




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 174

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 174

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/174/mode/1up


کہ وہ بولتا ہے سنتا ہے پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ رحمت یا عذاب کرنے پر قدرت رکھتا ہے بغیر اس کے کہ رسول کے ذریعہ سے اُن کا پتہ لگے کیونکر اُن پر یقین آسکتا ہے اور اگر یہ صفات مشاہدہ کے رنگ میں ثابت نہ ہوں تو خدا تعالیٰ کا وجود ہی ثابت نہیں ہوتا تو اِس صورت میں اس پر ایمان لانے کے کیا معنی ہوں گے اور جو شخص خداپر ایمان لاوے ضرور ہے کہ اُس کے صفات پر بھی ایمان لاوے اور یہ ایمان اُس کو نبیوں پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرے گا۔ کیونکہ مثلاً خدا کا کلام کرنا اور بولنا بغیر ثبوت خدا کی کلام کے کیوں کر سمجھ آسکتا ہے اور اس کلام کو پیش کرنے والے مع اس کے ثبوت کے صرف نبی ہیں۔

پھر یہ بھی واضح ہو کہ قرآن شریف میں دو قسم کی آیات ہیں ایک محکمات اور بیّنات جیسا کہ یہ آیت33 33۔3 3 ۱؂ یعنی جولوگ ایسا ایمان لانا نہیں چاہتے جو خدا پر بھی ایمان لاویں اور اس کے رسولوں پر بھی اور چاہتے ہیں کہ خدا کو اس کے رسولوں سے علیحدہ کر دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں یعنی خدا پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں پر نہیںیا بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں اور ارادہ کرتے ہیں کہ بین بین راہ اختیار کر لیں یہی لوگ واقعی طور پر کافر اور پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ یہ تو آیات محکمات ہیں جن کی ہم ایک بڑی تفصیل ابھی لکھ چکے ہیں۔

دوسرؔ ی قسم کی آیات متشابہات ہیں جن کے معنی باریک ہوتے ہیں اور جو لوگ راسخ فی العلم ہیں اُن لوگوں کو اُن کا علم دیا جاتا ہے اور جن لوگوں کے دِلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ آیات محکمات کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور محکمات کی علامت یہ ہے کہ محکمات آیات خدا تعالیٰ کے کلام میں بکثرت موجود ہیں اور خدا تعالیٰ کا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 175

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 175

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/175/mode/1up


کلام اُن سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اُن کے معنی کھلے کھلے ہوتے ہیں اور اُن کے نہ ماننے سے فساد لازم آتا ہے مثلاً اسی جگہ دیکھ لو کہ جو شخص محض خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اُس کے رسولوں پر ایمان نہیں لاتا اُس کو خدا تعالیٰ کی صفات سے منکر ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً ہمارے زمانہ میں برہمو جو ایک نیا فرقہ ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر نبیوں کو نہیں مانتے وہ خدا تعالیٰ کے کلام سے منکر ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ سنتا ہے تو بولتا بھی ہے۔ پس اگر اس کا بولنا ثابت نہیں تو سُننا بھی ثابت نہیں۔ اس طرح پر ایسے لوگ صفات باری سے انکار کرکے دہریوں کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور صفاتِ باری جیسے ازلی ہیں ویسے ابدی بھی ہیں اور ان کو مشاہدہ کے طور پر دکھلانے والے محض انبیاء علیہم السلام ہیں اور نفی صفات باری نفی وجود باری کو مستلزم ہے۔ اِس تحقیق سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لئے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا کس قدر ضروری ہے کہ بغیر اُن کے خدا پر ایمان لانا ناقص اور نا تمام رہ جاتا ہے اور نیز آیات محکمات کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ اُن کی شہادت نہ محض کثرت آیات سے بلکہ عملی طور پر بھی ملتی ہے۔ یعنی خدا کے نبیوں کی متواتر شہادت اُن کے بارہ میں پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف اور دوسرے نبیوں کی کتابوں کو دیکھے گا۔ اُس کو معلوم ہوگا کہ نبیوں کی کتابوں میں جس طرح خدا پر ایمان لانے کی تاکید ہے ایسا ہے اُس کے رسولوں پر بھی ایمان لانے کی تاکید ہے اور متشابہات کی یہ علامت ہے کہ اُن کے ایسے معنی ماننے سے جو مخالف محکمات کے ہیں فساد لازم آتا ہے اور نیز دوسری آیات سے جو کثر ت کے ساتھ ہیں مخالف پڑتی ہیں خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض ممکنؔ نہیں اِس لئے جو قلیل ہے بہرحال کثیر کے تابع کرنا پڑتا ہے اور میں لکھ چکا ہوں کہ اللہ کے لفظ پر غور کرنا اس وسوسہ کو مٹا دیتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اس کے اپنے بیان میں اللہ کے لفظ کی یہ تصریح ہے کہ اللہ وہ خدا ہے جس نے کتابیں بھیجی ہیں اور نبی بھیجے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا کہ وہ ان مدارج اور مراتب کو پالیں جو رسول کریم کی پیروی سے لوگوں کو ملیں گے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 176

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 176

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/176/mode/1up


کیونکہ جن منازل تک بباعث پیروی نور رسالت پیروی کرنے والے پہنچ سکتے ہیں محض اندھے نہیں پہنچ سکتے اور یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے۔ اور جبکہ خدا تعالیٰ نے اسم اللہ کو اپنے تمام صفات اور افعال کا موصوف ٹھہرایا ہے تو اللہ کے لفظ کے معنے کرنے کے وقت کیوں اس ضروری امر کو ملحوظ نہ رکھا جاوے۔ ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ قرآن شریف سے پہلے عرب کے لوگ اللہ کے لفظ کو کن معنوں پر استعمال کرتے تھے۔ مگر ہمیں اِس بات کی پابندی کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں اول سے آخر تک اللہ کے لفظ کو انہیں معنوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ وہ رسولوں اور نبیوں اور کتابوں کا بھیجنے والا اور زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والااور فلاں فلاں صفت سے متصف اور واحد لا شریک ہے۔ ہاں جن لوگوں کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں پہنچا اور وہ بالکل بے خبر ہیں اُن سے اُن کے علم اور عقل اور فہم کے موافق مواخذہ ہوگا۔ لیکن یہ ہر گز ممکن نہیں کہ وہ ان مدارج اورمراتب کو پالیں جو رسول کریم کی پیروی سے لوگوں کو ملیں گے۔ کیونکہ جن منازل تک بباعث پیروی نور رسالت پیروی کرنے والے پہنچ سکتے ہیں محض اندھے نہیں پہنچ سکتے اور یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے۔*

پھر اس ظلم کو تو دیکھو کہ باوجود اس کے کہ قرآن شریف کی صدہا آیتیں بلند آواز سے کہہ رہی ہیں کہ نری توحید موجب نجات نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے ساتھ رسول کریم پر ایمان لاناشرط ہے پھر بھی میاں عبد الحکیم خان ان آیات کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے اور یہودیوں کی طرح ایک دو آیت جو مجمل طور پر واقع ہیں اُن کے اُلٹے معنے کرکے بار بار پیش کرتے ہیں۔ ہر ایک عقلمندسمجھ سکتا ہے کہ اگر ان آیات کے یہی معنے ہیں جو عبد الحکیم پیش کرتا ہے تب اسلام دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اورؔ جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام مثل نماز روزہ وغیرہ کے سکھلائے ہیں وہ سب کچھ بیہودہ اور لغو اور عبث ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ اگر یہی بات ہے کہ ہر ایک شخص اپنی خیالی توحید سے


* اگر اس مجمل آیت کے یہ معنی کئے جائیں تو کیا وجہ کہ اس دوسری مجمل آیت یعنی 3 3 ۱؂ کی رو سے اعتقاد یہ رکھا جائے کہ شرک بھی بخشا جائے گا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 177

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 177

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/177/mode/1up


نجات پا سکتا ہے تو پھر نبی کی تکذیب کچھ بھی گناہ نہیں اور نہ مرتد ہونا کسی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ پس یاد رہے کہ قرآن شریف میں کوئی بھی ایسی آیت نہیں کہ جو نبی کریم کی اطاعت سے لاپروا کرتی ہو اور اگر بالفرض وہ دو تین آیتیں ان صدہا آیتوں کے مخالف ہوتیں تب بھی چاہئے تھا کہ قلیل کو کثیر کے تابع کیا جاتا نہ کہ کثیر کو بالکل نظر انداز کرکے ارتداد کا جامہ پہن لیں۔ اور اس جگہ آیات کلام اللہ میں کوئی تناقض بھی نہیں صرف اپنے فہم کا فرق اور اپنی طبیعت کی تارکی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اللہ کے لفظ کے وہ معنی کریں جو خدا تعالیٰ نے خود کئے ہیں نہ کہ اپنی طرف سے یہودیوں کی طرح اور معنی بناویں۔

ماسوا اس کے خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے رسولوں کی قدیم سے یہ سُنّت ہے کہ وہ ہر ایک سرکش اور سخت منکر کو اس پیرایہ سے بھی ہدایت کیا کرتے ہیں کہ تم صحیح اور خالص طور پر خدا پر ایمان لاؤ۔ اُس سے محبت کرو۔ اُس کو واحد لاشریک سمجھو تب تمہاری نجات ہو جائے گی اور اس کلام سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ پورے طور سے خدا پر ایمان لائیں گے تو خدا اُن کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دے گا۔ قرآن شریف کو یہ لوگ نہیں پڑھتے۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ خدا پر سچا ایمان لانا اُس کے رسول پر ایمان لانے کیلئے موجب ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کا سینہ اسلام کو قبول کرنے کیلئے کھولا جاتا ہے اِس لئے میرا بھی یہی دستور ہے کہ جب کوئی آریہ یابرہمو یا عیسائی یا یہودی یا سکھ یا اور منکر اسلام کج بحثی کرتا ہے اور کسی طرح باز نہیں آتا تو آخر کہہ دیا کرتاہوں کہ تمہاری اس بحث سے تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا تم خدا پر پورے اخلاص سے ایمان لاؤ اس سے وہ تمہیں نجات دے گا۔ مگر اس کلمہ سے میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بغیر متابعت نبی کریم کے نجات مل سکتی ہے بلکہ میرا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو شخص پورے صدق سے خدا پر ایمان لائے گا خدا اُس کو توفیق بخش دے گا اور اپنے رسول پر ایمان لانے کے لئے اُس کا سینہ کھول دے گا۔ ایسا ہی میں نے تجربہ سے دیکھا ہے کہؔ ایک نیکی دوسری نیکی کی توفیق بخشتی ہے اور ایک نیک عمل دوسرے نیک عمل کی طاقت دے دیتا ہے۔ تذکرۃ الاولیاء میںیہ ایک عجیب حکایت لکھی ہے کہ ایک بزرگ اہل اللہ فرماتے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 178

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 178

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/178/mode/1up


ہیں کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند دن بارش رہی اور بہت مینہ برسا۔ مینہ تھم جانے کے بعد میں اپنے کوٹھے پر کسی کام کے لئے چڑھا اور میرا ہمسایہ ایک بڈھا آتش پرست تھا وہ اُس وقت اپنے کوٹھے پر بہت سے دانے ڈال رہا تھا۔ مَیں نے سبب پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ چند روز سے بباعث بارش پرندے بھوکے ہیں مجھے اُن پر رحم آیا اس لئے میںیہ دانے اُن کے لئے ڈال رہا ہوں تا مجھے ثواب ہو۔ میں نے جواب دیا کہ اے بڈھے تیرا یہ خیال غلط ہے۔ تو مُشرک ہے اور مُشرک کو کوئی ثواب نہیں ملتاکیونکہ تو آتش پرست ہے۔ یہ کہہ کر میں نیچے اُتر آیا۔ کچھ مُدت کے بعد مجھے حج کرنے کا اتفاق ہوا اور میں مکہ معظمہ پہنچا اور جب میں طواف کر رہا تھا تو میرے پیچھے سے ایک طواف کرنے والے نے مجھے میرا نام لے کر آواز دی۔ جب میں نے پیچھے کی طرف دیکھا تو وہی بڈھا تھا جو مشرف باسلام ہو کرطواف کر رہا تھا۔ اُس نے مجھے کہا کہ کیا اُن دانوں کا جو میں نے پرندوں کو ڈالے تھے مجھے ثواب ملایا نہ ملا؟ پس جبکہ پرندوں کو دانہ ڈالناآخر کھینچ کر اسلام کی طرف لے آتا ہے تو پھرجو شخص اس سچے بادشاہ قادر حقیقی پر ایمان لاوے تو کیا وہ اسلام سے محروم رہے گا۔ ہر گز نہیں ؂

عاشق کہ شدکہ یار بحالش نظر نہ کرد

اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست

یاد رہے کہ اول تو توحید بغیر پیروی نبی کریم کے کامل طور پر حاصل نہیں ہو سکتی جیسا کہ ابھی ہم بیان کر آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات جو اس کی ذات سے الگ نہیں ہو سکتیں بغیر آئینہء وحی نبوت کے مشاہدہ میںآ نہیں سکتیں۔ اُن صفات کو مشاہدہ کے رنگ میں دکھلانے والا محض نبی ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے اگر بفرض محال حصول اُن کا ناقص طور پر ہو جائے تو وہ شرک کی آلائش سے خالی نہیں جب تک کہ خدا اسی مغشوش متاع کو قبول کرکے اسلام میں داخل نہ کرے کیونکہ جو کچھ انسان کو خدا تعالیٰ سے اُس کے رسول کی معرفت ملتا ہے وہ ایک آسمانی پانی ہے اس میں اپنےؔ فخر اور عُجب کو کچھ دخل نہیں لیکن انسان اپنی کوشش سے جو کچھ حاصل کرتا ہے۔ اس میں ضرور کوئی شرک کی آلائش پیدا ہو جاتی ہے۔ پس یہی حکمت تھی کہ توحیدکو سکھلانے کے لئے رسول بھیجے گئے اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 179

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 179

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/179/mode/1up


انسانوں کی محض عقل پر نہیں چھوڑا گیا تا توحید خالص رہے اورانسانی عُجب کا شرک اس میں مخلوط نہ ہو جائے اور اسی وجہ سے فلاسفہ ضالہ کو توحید خالص نصیب نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ رعونت اور تکبر اور عُجب میں گرفتار رہے اور توحید خالص نیستی کو چاہتی ہے اور وہ نیستی جب تک انسان سچے دل سے یہ نہ سمجھے کہ میری کوشش کا کچھ دخل نہیں یہ محض انعام الٰہی ہے حاصل نہیں ہو سکتی۔ مثلاً ایک شخص تمام رات جاگ کر اور اپنے نفس کو مصیبت میں ڈال کر اپنے کھیت کی آبپاشی کر رہا ہے اور دوسرا شخص تمام رات سوتا رہا اور ایک بادل آیا اور اُس کے کھیت کو پانی سے بھر دیا۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا وہ دونوں خدا کا شکر کرنے میں برابر ہوں گے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ وہ زیادہ شکر کرے گا جس کے کھیت کو بغیر اُس کی محنت کے پانی دیا گیا۔ اسی لئے خدا تعالیٰ کے کلام میں بار بار آیا ہے کہ اس خدا کا شکر کرو جس نے رسول بھیجے اور تمہیں توحیدسکھائی۔

(۹)سوال

جن لوگوں نے نیک نیتی کے ساتھ آنحضرتؐ کا خلاف کیا یاکرتے ہیں یعنی آنجناب کی رسالت سے منکر ہیں اور توحید الٰہی کے قائل ہیں نیک عمل بجا لاتے ہیں اوربد عملوں سے پرہیز کرتے ہیں اُن کی نسبت کیا عقیدہ رکھا جائے۔

الجواب:۔ انسان کی نیک نیتی تسلی پانے پر ثابت ہوتی ہے پس جبکہ بجز اسلام کے کسی مذہب میں تسلی نہیں مل سکتی تو نیک نیتی کا ثبوت کیا ہوا۔ مثلاً عیسائی مذہب کا یہ حال ہے کہ وہ کُھلے کُھلے طور پر ایک انسان کو خدا بنا رہے ہیں اور انسان بھی وہ کہ جو تختہ مشق مصائب ہے*


* کیا کوئی کانشنس یا نورقلب اِس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ ایک عاجز انسان جو گذشتہ نبیوں سے بڑھ کر ایک ذرّہ بھر کوئی کام دکھلا نہیں سکا بلکہ ذلیل یہودیوں سے ماریں کھاتا رہا۔ وہی خدا اور وہی زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور مجرموں کو سزا دینے والا ہے اور کیا کوئی عقل قبول کر سکتی ہے کہ خدائے قادر باوجود اپنی بے انتہا طاقتوں کے کسی دوسرے کی مدد کا محتاج رہے۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ عیسیٰ کیسا خدا تھا کہ جو اپنی مخلصی کیلئے تمام رات رو رو کر دعا کرتا رہا تعجب کہ جبکہ تینوں خدا اس کے اندر تھے تو وہ چو ۴ تھا خدا کون تھاجس کی جناب میں اُس نے رو رو کر ساری رات دُعا کی اور پھر وہ دُعا قبول بھی نہ ہوئی۔ ایسے خدا پر کیا امید رکھی جائے جس پر ذلیل یہودی غالب آئے اور اُس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک سُولی پر نہ چڑھا دیا۔ آریوں کا تو گویا کوئی خدا ہی نہیں انادی جو ہوئے۔ کیا یہ ہدایت انسان کو کچھ تسلی دے سکتی ہے۔ مگر اسلام وہ خدا پیش کرتا ہے جس پر انسانی فطرت اور تمام انبیاؑ ء کا اتفاق ہے جو اسلام کے کامل پرستاروں پر اپنی طاقتیں ظاہر کرتا ہے۔منہ

* اسلام ایک ایسا فطرت کے موافق مذہب ہے کہ اسکی سچائی ایک جاہل اور ناخواندہ ہندوکو بھی دو منٹ میں سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ جو کچھ اسکے مقابل پر دوسری قوموں نے قبول کیا ہوا ہے وہ تمام عقائد قابل شرم اورایک غمگین کے ہنسانے کا ذریعہ ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 180

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 180

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/180/mode/1up


اور آریہ سماج والے اپنے پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل نہیں لائے کیونکہ اُن کے نزدیک وہ خالق نہیں تا مخلوق پر نظر کرکے خالق کی شناخت ہو اور اُن کے مذہب کی رو سے خدا تعالیٰ معجزات نہیں دکھلاتا اور نہ ویدکے زمانہ میں دکھلائے تا معجزوں کے ذریعہ سے پرمیشر کا ثبوت ملے اورؔ اُن کے پاس اِس بات پر کوئی دلیل نہیں کہ وہ صفات جو پرمیشر کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں فی الحقیقت اُس میں موجود ہیں جیسے علم غیب اور سننا اور بولنا اور قدرت رکھنا اور دیالوہونا۔ پس اُن کا پرمیشر صرف فرضی پرمیشر ہے۔ یہی عیسائیوں کا حال ہے۔ اُن کے خدا کے الہام پر بھی مہر لگ گئی ہے۔ پس ایسے پرمیشر یا خدا پر ایمان لانے سے تسلی کیونکر ہو اور جو شخص اپنے خدا پر کامل یقین نہیں رکھتا وہ کیونکر کامل طور پر خدا کی محبت کر سکے اور کیونکر شرک سے خالی ہو سکے خدا نے اپنے رسول نبی کریم کی اتمام حجت میں کسر نہیں رکھی وہ ایک آفتاب کی طرح آیا اورہر ایک پہلو سے اپنی روشنی ظاہر کی۔ پس جو شخص اس آفتاب حقیقی سے مُنہ پھیرتا ہے اُس کی خیر نہیں ہم اُس کو نیک نیت نہیں کہہ سکتے۔ کیا جو شخص مجذوم ہے اور جذام نے اُس کے اعضاء کھا لئے ہیں وہ کہہ سکتا ہے کہ میں مجذوم نہیں یا مجھے علاج کی حاجت نہیں اور اگر کہے تو کیا ہم اس کو نیک نیت کہہ سکتے ہیں۔ ماسواء اس کے اگر فرض کے طورپر کوئی ایسا شخص دنیامیں ہو کہ وہ باوجود پوری نیک نیتی اورایسی پوری پوری کوشش کے کہ جیسا کہ وہ دنیاکے حصول کے لئے کرتا ہے اسلام کی سچائی تک پہنچ نہیں سکا تو اس کاحساب خدا کے پاس ہے مگر ہم نے اپنی تمام عمر میں ایسا کوئی آدمی دیکھا نہیں۔* اس لئے ہم اس بات کو قطعاً محال جانتے ہیں کہ کوئی شخص عقل اور انصاف کی رو سے کسی دوسرے مذہب کو اسلام پر ترجیح دے سکے۔ نادان اور جاہل لوگ نفس امارہ کی تعلیم سے ایک بات سیکھ لیتے ہیں کہ صرف توحید کافی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ضرورت نہیں۔ مگر یاد رہے کہ توحید کی ماں نبی ہی ہوتاہے جس سے توحیدپیدا ہوتی ہے اور خدا کے وجود کا اُسی سے پتہ لگتا ہے اور خدا تعالیٰ سے زیادہ


* اسلام ایک ایسا فطرت کے موافق مذہب ہے کہ اس کی سچائی ایک جاہل اور ناخواندہ ہندوکو بھی د۲و منٹ میں سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ جو کچھ اس کے مقابل پر دوسری قوموں نے قبول کیا ہوا ہے وہ تمام عقائد قابل شرم اورایک غمگین کے ہنسانے کا ذریعہ ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 181

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 181

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/181/mode/1up


اتمام حجت کو کون جانتا ہے اُس نے اپنے نبی کریم کی سچائی ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان نشانوں سے بھر دیا ہے اور اب اس زمانہ میں بھی خدا نے اس ناچیز خادم کو بھیج کر ہزارہا نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے لئے ظاہر فرمائے ہیں جو بارش کی طرح برس رہے ہیں تو پھر اتمام حجت میں کونسی کسر باقی ہے۔ جس شخص کو مخالفت کرنے کی عقل ہے وہ کیوں موافقت کی راہ کو سوچ نہیں سکتا اور جورات کو دیکھتا ہے کیوں اُس کو روز روشن میں نظر نہیں آتا۔ حالاؔ نکہ تکذیب کی راہوں کی نسبت تصدیق کی راہ بہت سہل ہے ہاں جو شخص مسلوب العقل کی طرح ہے اور انسانی قوتوں سے کم حصہ رکھتا ہے اس کا حساب خدا کے سپرد کرنا چاہئے اس کے بارہ میں ہم کلام نہیں کر سکتے۔ وہ اُن انسانوں کی طرح ہے جو خورد سالی اور بچپن میں مر جاتے ہیں مگر ایک شریر مکذب یہ عذر نہیں کر سکتا کہ میں نیک نیتی سے تکذیب کرتا ہوں۔ دیکھنا چاہئے کہ اس کے حواس اس لائق ہیں یا نہیں کہ مسئلہ تو حید اور رسالت کو سمجھ سکے۔ اگر معلوم ہوتا ہے کہ سمجھ سکتا ہے مگر شرارت سے تکذیب کرتا ہے تو وہ کیونکر معذور رہ سکتا ہے۔ اگر کوئی آفتاب کی روشنی کو دیکھ کر یہ کہے کہ دن نہیں بلکہ رات ہے تو کیا ہم اُس کو معذور سمجھ سکتے ہیں۔ اِسی طرح جو لوگ دانستہ کج بحثی کرتے ہیں اور اسلام کے دلائل کو توڑ نہیں سکتے کیا ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ معذور ہیں۔ اور اسلام تو ایک زندہ مذہب ہے جو شخص زندہ اور مُردہ میں فرق کر سکتا ہے وہ کیوں اسلام کو ترک کرتا اور مُردہ مذہب کو قبول کرتا ہے۔* خداتعالیٰ اس زمانہ میں بھی اسلام کی تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کرتا ہے اور جیسا کہ اس بارہ میں مَیں خود صاحب تجربہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اگر میرے مقابل پر تمام دنیا کی قومیں جمع ہو جائیں اور اس بات کا بالمقابل امتحان ہو کہ کس کو خدا غیب کی خبریں دیتا ہے اور کس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور کِس کی مدد کرتا ہے اور کس کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے تو میں خدا


* جو شخص بے دلیل ایک انسان کو خدا بناتا ہے یا بے دلیل خدا کو خالق ہونے سے جواب دیتا ہے کیا وہ اسلام کی سچائی کے صاف صاف دلائل سمجھ نہیں سکتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 182

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 182

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/182/mode/1up


کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی غالب رہوں گا۔ کیا کوئی ہے؟!! کہ اس امتحان میں میرے مقابل پر آوے۔ ہزار ہا نشان خدا نے محض اس لئے مجھے دئے ہیں کہ تا دشمن معلوم کرے کہ دین اسلام سچا ہے۔ میں اپنی کوئی عزت نہیں چاہتا بلکہ اُس کی عزت چاہتا ہوں جس کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ فلاں فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور اپنی جہالت سے ایک دو پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ شریر آدمی پہلے نبیوں کے وقت میں ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ مگر وہ آفتاب پر تھوکنا چاہتے ہیں اور اپنے جھوٹ اورؔ افترا سے اپنی بات کو رنگ دے کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اُن کو خدا تعالیٰ کی سنت کی خبر نہیں۔ ان کو خدا تعالیٰ کی کتابوں کا علم نہیں یا کسی کو علم ہے اور محض شرارت سے ایسا کہتا ہے۔ اُن کے نزدیک تو گویا یونس نبی بھی جھوٹا تھا جس کی قطعی پیشگوئی جس کے ساتھ کوئی شرط نہ تھی پوری نہ ہوئی۔ مگر میری دو پیشگوئیاں جن کو وہ بار بار پیش کرتے ہیں یعنی آتھم اور احمد بیگ کے داماد کی نسبت وہ اپنے شرائط کے لحاظ سے پوری ہو گئی ہیں کیونکہ اُن کے ساتھ شرطیں تھیں۔ ان شرطوں کے لحاظ سے تاخیر ہوئی۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ وعید کی پیشگوئیوں میں ضروری نہیں ہوتا کہ وہ پوری ہو جائیں۔ اس پر تمام انبیاء کا اتفاق ہے اور میں اس بارہ میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ اس کی تفصیل میں میری کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آتھم تو بموجب پیشگوئی کے فوت ہو گیا اور احمد بیگ بھی بموجب پیشگوئی کے فوت ہو گیا۔ اب اُس کے داماد کی نسبت روتے ہیں اور وعید کی پیشگوئیوں کی نسبت جو سنت اللہ ہے اُس کو بھول جاتے ہیں۔ اگر شرم اور حیا اور انصاف ہے تو دو۲ فردیں بنا کر ایک فرد میں وہ پیشگوئیاں لکھیں جو اُن کی دانست میں پوری نہیں ہوئیں اور دوسری فرد میں وہ پیشگوئیاں ہم تحریر کریں گے جن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ تب ان کو معلوم ہوگا کہ وہ ایک دریا کے مقابل پر جو نہایت مصفّا ہے ایک قطرہ پیش کرتے ہیں جو اُن کے نزدیک مصفّا نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 183

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 183

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/183/mode/1up


غرض یہ امر سوچنے کے لائق ہے کہ صرف دو پیشگوئیوں پر اُن کا اتنا ماتم اور سیاپا ہے۔ مگر اس جگہ ہزار ہا پیشگوئیاں پوری ہو گئی ہیں اور کئی لاکھ انسان ان کے گواہ ہیں۔ اگر ان کو خدا کا خوف ہے تو کیوں اُن سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ اس طرح تو یہودی بھی اب تک لکھتے ہیں کہ اکثر پیشگوئیاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ بار ہ ۲۱ حواریوں کے ۱۲با رہ تختوں کی پیشگوئی اور اُسی زمانہ میں اُن کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی وغیرہ ۔*

خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حجت تمام دنیا پر پوری ہو چکی ہے اور آپ کے انوار سورج سے زیادہ چمک رہے ہیں۔ پھر انکار کے ساتھ نیک نیتی کیونکر جمع ہو سکتی ہے اور جس شخص سے یہ بد عملی ظہور میں آئے کہ ایک کھلی کھلی سچائی کو رد کیا اُس کی نسبت ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ ؔ نیک اعمال بجا لاتا ہے۔ تیرہ سو برس سے یہ منادی ہو رہی ہے اور ہزار ہا اہل کرامات و خوارق اپنے اپنے زمانہ میں حجت پوری کر گئے ہیں۔ پس کیا اب تک حجت پوری نہیں ہوئی۔ آخر منکر کسی حد تک معذور ہونے کے لائق ہوتا ہے نہ کہ ہزارہا معجزات اور خوارق اور خدا کے نشان دیکھ کر اور تعلیم کو عمدہ پاکر اور خالص توحید اسلام میں ژ دیکھ کر پھر کہتا جائے کہ’’ ابھی میری تسلی نہیں ہوئی‘‘۔ء


حضرت موسیٰ کی توریت میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو ملک شام میں جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں پہنچائیں گے مگر یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی حضرت موسیٰ بھی راہ میں فوت ہوئے اور بنی اسرائیل بھی راہ میں ہی مر گئے صرف اولاد اُ ن کی وہاں گئی۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی کہ بارہ ۲۱ تخت اُن کے حواریوں کو ملیں گے وہ پیشگوئی بھی غلط نکلی۔ اب موسیٰ اور عیسیٰ دونوں کی نبوت سے دستبردار ہو جاؤ۔ سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں قد یوعد ولا یوفٰی یعنی کبھی وعدہ دیا جاتا ہے اور اُس کا ایفا نہیں ہوتا۔ پھر وعید کی شرطی پیشگوئیوں پر اس قدر شور مچا ناکس قدر بے علمی پر دلالت کرتا ہے۔ منہ


ژ افسوس عبد الحکیم خان ایک اور کھلی کھلی ضلالت میں پھنسا ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اسلام کے مفہوم میں یہ امر داخل نہیں ہے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے حالانکہ تمام مسلمانوں کے اتفاق سے اسلام تمام نہیں ہوتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لایا جائے۔ اسی وجہ سے قرآن شریف فرماتا ہے کہ


ء اہل یورپ کو کیونکر ہم بے خبر کہہ سکتے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کے ترجمے کرکے شائع کئے اور آپ تفسیریں لکھیں اور حدیث کی بڑی بڑی کتابوں کے ترجمے کئے اور لغت عرب کی بڑی بڑی کتابیں تالیف کیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اسلام کے کتب خانے یورپ میں موجود ہیں اس قدر مسلمانوں کے ہاتھ میں وہ کتابیں موجود نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 184

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 184

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/184/mode/1up


بالآخر ہم اس خاتمہ میں چند امور ضرور یہ بیان کرکے اس رسالہ کو ختم کرتے ہیں۔ از انجملہ ایک یہ کہ ڈاکٹر عبد الحکیم خان اپنے رسالہ المسیح الدجال وغیرہ میں میرے پر یہ الزام لگاتا ہے کہ گویا میں نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص میرے پر ایمان نہیں لائے گا گو وہ میرے نام سے بھی بے خبر ہوگا اور گو وہ ایسے ملک میں ہوگا جہاں تک میری دعوت نہیں پہنچی تب بھی وہ کافر ہو جائے گا اور دوزخ میں پڑے گا۔ یہ ڈاکٹر مذکور کا سراسر افترا ہے میں نے کسی کتاب یا کسی اشتہار میں ایسا نہیں لکھا۔ اُس پر فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی میری کتاب پیش کرے جس میں یہ لکھا ہے۔ یاد رہے کہ اُس نے محض چالاکی سے جیسا کہ اُس کی عادت ہے یہ افترا میرے پر کیا ہے۔ یہ تو ایسا امر ہے کہ ببداہت کوئی عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی جو شخص بکلّی نام سے بھی بے خبر ہے اُس پر مؤاخذہ کیونکر ہوسکتا ہے۔ ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ میں مسیح موعود ہوں اور خدا نے عام طورپر میرے لئے آسمان سے نشان ظاہر کئے ہیں۔ پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا ہے اور میرے دعوے پر وہ اطلاع پا چکا ہے وہ قابل مؤاخذہ ہوگا کیونکہ خدا کے فرستادوں سے دانستہ مُنہ پھیرنا ایسا امر نہیں ہے کہ اُس پر کوئی گرفت نہ ہو۔ اس گناہ کا داد خواہ میں نہیں ہوں بلکہ ایک ہی ہے جس کی تائید کے لئے میں بھیجا گیا یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ میرا نہیں بلکہ اس کا نافرمان ہے جس نے میرے آنے کی پیشگوئی کی۔

ایسا ہی عقیدہ میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بارہ میں بھی یہی ہے کہ


ہر ایک اُمت سے بذریعہ اُن کے نبی کے یہ عہد لیا گیا تھا کہ جب حضرت خاتم الانبیاءؑ پیدا ہوں تو اُن پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا اور پھر اس پر ایک اور دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعوت اسلام کے خط اس وقت کے عیسائی بادشاہوں کی طرف لکھے تھے یعنی قیصر اور مقوقسؔ اور حبش کے بادشاہ کی طرف اس میں اَسْلِم8 تَسْلِم کا لفظ تھا۔ یعنی اسلام لا۔ اس سے تو سلامت رہے گا۔ حالانکہ بعض اُن عیسائی بادشاہوں میں سے موحد تھے۔ تثلیث کے قائل نہ تھے اور یہ ثابت شدہ امر ہے اور یہودی بھی تثلیث کے قائل نہ تھے پھر ان کو اسلام کی دعوت کیا معنے رکھتی تھی۔ وہ تو پہلے ہی اسلام میں داخل تھے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 185

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 185

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/185/mode/1up


جس شخص کو آنحضرؔ ت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچ چکی ہے اور وہ آپ کی بعثت سے مطلع ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارہ میں اس پر اتمام حجت ہو چکا ہے وہ اگر کفر پر مر گیا تو ہمیشہ کی جہنم کا سزاوار ہوگا۔

اور اتمام حجت کا علم محض خدا تعالیٰ کو ہے۔ ہاں عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ چونکہ لوگ مختلف استعداد اور مختلف فہم پر مجبول ہیں اس لئے اتمام حجت بھی صرف ایک ہی طرز سے نہیں ہوگا۔ پس جو لوگ بوجہ علمی استعداد کے خدا کی براہین اور نشانوں اور دین کی خوبیوں کو بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور شناخت کر سکتے ہیں وہ اگر خدا کے رسول سے انکار کریں تو وہ کفر کے اول درجہ پرہوں گے اور جو لوگ اس قدر فہم اور علم نہیں رکھتے مگر خدا کے نزدیک اُن پر بھی اُن کے فہم کے مطابق حجت پوری ہو چکی ہے اُن سے بھی رسول کے انکار کا مواخذہ ہوگا مگر بہ نسبت پہلے منکرین کے کم۔ بہر حال کسی کے کفر اور اس پر اتمام حجت کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے یہ اُس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے۔ ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور خدا کے نزدیک جو منکر ٹھہر چکا ہے وہ مؤاخذہ کے لائق ہوگا۔ ہاں چونکہ شریعت کی بنیاد ظاہر پر ہے اس لئے ہم منکر کو مومن نہیں کہہ سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مواخذہ سے بری ہے اور کافر منکر کو ہی کہتے ہیں کیونکہ کافر کا لفظ مومن کے مقابل پر ہے اور کفر دو قسم پر ہے۔

(اول) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہی کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کر لینے کے خدا اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 186

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 186

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/186/mode/1up


رسولؔ کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذّب اور منکر ہے تو گو شریعت نے (جس کی بنا ظاہرپر ہے) اُس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اُس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھربھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت3 ۱؂ قابل مواخذہ نہیں ہوگا۔ ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم اُس کی نسبت نجات کا حکم دیں اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوںیہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اس کے نزدیک باوجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمام حجت نہیں ہوا۔ ہمیں دعوےٰ سے کہنا نہیں چاہئے کہ فلاں شخص پر اتمام حجت نہیں ہوا ہمیں کسی کے باطن کا علم نہیں ہے اور چونکہ ہر ایک پہلو کے دلائل پیش کرنے اور نشانوں کے دکھلانے سے خدا تعالیٰ کے ہر ایک رسول کا یہی ارادہ رہا ہے کہ وہ اپنی حجت لوگوں پر پوری کرے اور اس بارے میں خدا بھی اس کا موید رہاہے اس لئے جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھ پر حجت پوری نہیں ہوئی* وہ اپنے انکارکا ذمہ وار آپ ہے اور اس بات کا بار ثبوت اُسی کی گردن پر ہے اور وہی اس بات کا جواب دِہ ہوگا کہ باوجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اورآسمانی

* اس مقام میں یہ بھی تو دیکھناچاہئے کہ جس دین کو ایسا شخص اختیار کر رہا ہے وہ دین بمقابلہ اسلام کس قسم کی توحیداورعظمت حضرت باری پیش کرتاہے عجیب بات ہے کہ ایسے لوگ جن کے دین میں نہ خدا کی عظمت ہے نہ خدا کی توحیدنہ خدا کی شناخت کی کوئی راہ، وہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر دین اسلام کی حجت پوری نہیں ہوئی ایک عیسائی جوصرف ایک عاجز انسان کو خدا مانتا ہے یا ایک آریہ جس کے نزدیک نہ خدا خالق ہے نہ تازہ نشانوں سے اپناثبوت دے سکتا ہے وہ کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ بہ نسبت اسلام میرا دین اچھا ہے کیا وہ اپنے مذہب کی خوبی دکھلانے کے لئے نیوگ کو پیش کرے گا جس میں باوجود زندہ ہونے ایک عورت کے خاوند کے دوسراشخص اُس سے ہم بستر ہو سکتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 187

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 187

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/187/mode/1up


نشانوں اور ہر ایک قسم کی رہنمائی کے کیوں اُس پر حجت پوری نہیں ہوئی یہ بحث محض فضول اورفرضی بکواس ہے کہ جس پر حجت پوری نہیں ہوئی وہ باوجود اس کے کہ اُس نے اسلام پر اطلاع پائی انکار کی حالت میں نجات پا جائے گا بلکہ ایسے تذکرہ میں خدا تعالیٰ کی ہتک ہے کیونکہ جس قادر توانا نے اپنے رسول کو بھیجا اُس کی اس میں کسر شان ہے اور نیز تخلف وعدہ لازم آتا ہے کہ باوجود اس کے کہ اُس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ میں اپنی حجت پوری کروں گا۔ پھرؔ بھی وہ مکذّبین پر اپنی حجت پوری نہیں کر سکا اور اُنہوں نے اُس کے رسول کی تکذیب بھی کی اورپھر نجات بھی پا گئے اور ہم جب خدا تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھتے ہیں جو اُس نے دین اسلام کے لئے ظاہر کئے اورپھر ہم دلائل عقلیہ اور نقلیہ کو دیکھتے اور ہزارہا خوبیاں اسلام میں پاتے ہیں جو غیر قوموں کے مذاہب میں نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف ترقی کرنے کا دروازہ محض اسلام میں ہی کھلا دیکھتے ہیں اور دوسرے مذاہب کو ایسی حالت میں پاتے ہیں کہ وہ یا تو مخلوق پرستی میں گرفتار ہیں اور یا خدا تعالیٰ کو خالق الکل اور مبدء الکل اور سرچشمہ کل فیوض کا نہیں مانتے تو ہمیں ایسے لوگوں پر افسوس آتا ہے جو ان بیہودہ باتوں کو دنیا میں پھیلاتے ہیں کہ جو شخص اسلام پر اطلاع تو رکھتا ہو مگر اس پر اتمام حجت نہ ہو وہ نجات پائے گا یہ ظاہر ہے کہ صحیح واقعات کو نہ ماننا گو عمداً نہ ہو تب بھی وہ نقصان رساں ہوتا ہے۔ مثلاً طبیبوں نے یہ اشتہار دیا ہے کہ آتشک زدہ عورت کے نزدیک مت جاؤ اور ایک شخص نے ایسی عورت سے صحبت کی اب اُس کا یہ کہنا بے فائدہ ہوگا کہ میں طبیبوں کے اس اشتہار سے بے خبر تھا مجھے کیوں آتشک ہو گئی۔ باوانا نک صاحب نے سچ کہا ہے۔ ع مند*ے کمیں نانکا جد کد منداہو۔

اے نادانو! جبکہ خدا نے اپنی سنت کے موافق اپنے دین قویم کی حجت پوری کر دی تو اب اس میں شبہات کو دخل دینا اور باوجود خدا کے اتمام حجت کے بیہودہ باتوں کو پیش کرنا کیا ضرورت ہے۔ اگر درحقیقت خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی ایسا ہوگا کہ اُس پر اتمام حجت


* یعنی اے نانک بُرے کاموں سے آخر برائی پیش آتی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 188

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 188

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/188/mode/1up


نہیں ہوا تو اُس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اِس بحث کی ضرورت نہیں ہاں جو اسلام سے محض بے خبر ہے اگر بے خبری میں مر جاوے جیسے نابالغ بچے اور مجانین یا کسی ایسے ملک کے رہنے والے جہاں اسلام نہیں پہنچا وہ معذور ہیں۔

از انجملہ یہ امر قابل تذکرہ ہے کہ عبد الحکیم خان نے اپنے دوسرے ہم جنسوں کی پیروی کرکے میرے پر یہ الزام لگائے ہیں کہ میں جھوٹ بولتا رہا ہوں اور میں دجال ہوں اور حرامخور ہوں اور خائن ہوں اور اپنے رسالہ المسیح الدجال میں طرح طرح کی میری عیب شماری کی ہے چنانچہ میرؔ ا نام شکم پرست نفس پرست متکبر دجال شیطان جاہل مجنون کذّاب سُست حرامخور عہد شکن خائن رکھا ہے اور دوسرے کئی عیب لگائے ہیں جو اُس کی کتاب المسیح الدجال میں لکھے ہوئے ہیں اور یہی تمام عیب ہیں جو اب تک یہودی حضرت عیسیٰ پر لگاتے ہیں۔ پس یہ خوشی کی بات ہے کہ اس اُمت کے یہودیوں نے بھی وہی عیب میرے پر لگائے مگر میں نہیں چاہتا کہ ان تمام الزاموں اور گالیوں کاجواب دوں بلکہ میں ان تمام باتوں کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کرتا ہوں اگر میں ایسا ہی ہوں جیسا کہ عبد الحکیم اور اُس کے ہم جنسوں نے مجھے سمجھا ہے تو پھر خدا تعالیٰ سے بڑھ کر میرا دشمن اور کون ہوگا اور اگر میں خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسا نہیں ہوں تو پھر میں یہی بہتر طریق سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کاجواب خدا تعالیٰ پر چھوڑ دوں۔ ہمیشہ اسی طرح پر سنت اللہ ہے کہ جب کوئی فیصلہ زمین پر ہو نہیں سکتا تو اس مقدمہ کو جو اُس کے کسی رسول کی نسبت ہوتا ہے خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور آپ فیصلہ کرتا ہے اور اگر مخالفوں میں سے کوئی غور کرے تو اُن کے الزاموں سے بھی میری ایک کرامت ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ جبکہ میں ایک ایسا ظالم اور شریر آدمی ہوں کہ ایک طرف تو عرصہ پچیس ۵۲ سال سے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بول رہا ہوں اور رات کو اپنی طرف سے دو چار باتیں بناتا ہوں اور صبح کہتا ہوں کہ خدا کا یہ الہام ہے اور پھر دوسری طرف خدا تعالیٰ کی مخلوق پر یہ ظلم کرتا ہوں کہ ہزارہا روپیہ اُن کا بد دیانتی سے کھا لیا ہے۔ عہد شکنی کرتا ہوں۔ جھوٹ بولتا ہوں اوراپنی نفس پرستی کے لئے اُن کا نقصان کر رہا ہوں اور تمام دنیا کے عیب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 189

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 189

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/189/mode/1up


اپنے اندر رکھتا ہوں۔ پھر بجائے غضب کے خدا کی رحمت مجھ پر نازل ہوتی ہے۔ ہر ایک منصوبہ جو میرے لئے کیا جاتا ہے خدا دشمنوں کو اس میں نامراد رکھتا ہے اور اُن ہزارہا گناہوں اور افتراؤں اور ظلم اور حرامخوریوں کی وجہ سے نہ میرے پرکوئی بجلی گرتی ہے اورنہ مَیں زمین میں دھنسایا جاتا ہوں بلکہ تمام دشمنوں کے مقابل پر مجھے مدد ملتی ہے۔ چنانچہ باوجود کئی اُن کے حملوں کے میں بچایا گیا ۔* اور باوجود ہزاروں روکوں کے کئی لاکھ تک میری جماعت خدا نے کر دی۔ پس اگر یہ کرامت نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر اس کی نظیر مخالفوں کے پاس موجود ہے تو وہ پیش کریں ورنہ بجز اسکے کیا کہیں کہ *** اللہ علی الکاذبین۔ کیا اُن کے پاس پچیس سال کے مفتری کی کوئی نظیرؔ ہے جس کو باوجود اس مدت کے افترا کے صدہا نشان تائید اور نصرت الٰہی کے دئے گئے ہوں اور وہ دشمنوں کے ہر ایک حملہ سے بچایا گیا ہو۔ فاْتوا بھا ان کنتم صادقین۔


ہ کلام یہ کہ اب ہمارا اور مخالفوں کا جھگڑا انتہا تک پہنچ گیا ہے اور اب یہ مقدمہ وہ خود فیصلہ کرے گا جس نے مجھے بھیجا ہے۔ اگر میں صادق ہوں تو ضرور ہے کہ آسمان میرے لئے ایک زبردست گواہی دے جس سے بدن کانپ جائیں اور اگر میں پچیس سالہ مجرم ہوں جس نے اس مدت دراز تک خدا پر افترا کیا تو میں کیونکر بچ سکتا ہوں۔ اس صورت میں اگر تم سب میرے دوست بھی بن جاؤ تب بھی میں ہلاک شدہ ہوں کیونکہ خدا کا ہاتھ میرے مخالف ہے


* کپتان ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنرکی عدالت میں میرے پر خون کا مقدمہ دائر کیا گیا میں اُس سے بچایا گیا بلکہ بریّت کی خبر پہلے سے مجھے دیدی گئی۔ اور قانون ڈاک کے خلاف ورزی کا مقدمہ میرے پر چلایا گیا۔ جس کی سزا چھ ماہ قید تھی اس سے بھی میں بچایا گیا اور بریّت کی خبر پہلے سے مجھے دے دی گئی۔ اسی طرح مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں ایک فوجداری مقدمہ میرے پر چلایا گیا آخر اس میں بھی خدا نے مجھے رہائی بخشی اور دشمن اپنے مقصد میں نامراد رہے اور اس رہائی کی پہلے مجھے خبر دی گئی۔ پھر ایک مقدمہ فوجداری جہلم کے ایک مجسٹریٹ سنسار چند نام کی عدالت میں کرم دین نام ایک شخص نے مجھ پر دائر کیا اس سے بھی میں بَری کیا گیا اور بریّت کی خبر پہلے سے خدا نے مجھے دے دی۔ پھر ایک مقدمہ گورداسپور میں اسی کرم دین نے فوجداری میں میرے نام دائر کیا اس میں بھی میں بَری کیا گیا اور بریّت کی خبر پہلے سے خدا نے مجھے دی اسی طرح میرے دشمنوں نے آٹھ حملے میرے پر کئے اور آٹھ میں ہی نامراد رہے اور خدا کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آج سے پچیس ۵۲ سال پہلے براہین احمدیہ میں درج ہے یعنی یہ کہ ینصرک اللّٰہ فی مواطن۔ کیا یہ کرامت نہیں؟۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 190

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 190

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/190/mode/1up


اے لوگو! تمہیں یاد رہے کہ میں کاذب نہیں بلکہ مظلوم ہوں اور مفتری نہیں بلکہ صاد ق ہوں۔ میرے مظلوم ہونے پر ایک زمانہ گذر گیا ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ آج سے ۲۵ برس پہلے خدا نے فرمائی جو براہین احمدیہ میں شائع ہوئی یعنی خدا کا یہ الہام کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اسکی سچائی ظاہر کر دے گا۔ یہ اُس وقت کا الہام ہے جبکہ میری طرف سے نہ کوئی دعوت تھی اور نہ کوئی منکر تھا صرف پیشگوئی کے رنگ میں یہ الفاظ تھے جو مخالف مولویوں نے پورے کئے۔ سو اُنہوں نے جو چاہا کیا۔ اب اِس پیشگوئی کے دوسرے فقرے کے ظہور کا وقت ہے یعنی یہ فقرہ کہ لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔

افسوس کہ جو خداتعالیٰ کے نشان کھلے طورپر ظاہر ہوئے اُن سے اُنہوں نے کچھ فائدہ نہیں اُٹھایا اور جو بعض نشان سمجھ میں نہیں آئے اُن کو ذریعۂ اعتراض بنا دیا۔ اِس لئے میں جانتا ہوں کہ اب اِس فیصلہ میں دیر نہیں آسمان کے نیچے یہ بڑا ظلم ہوا کہ ایک خدا کے مامور سے جو چاہا ان لوگوں نے کیا اور جو چاہا لکھا اور یہ عجیب بات ہے کہ عبد الحکیم خان اپنے رسالہ ذکر الحکیم کے ۴۵پینتالیس صفحہ میں میری نسبت یہ لکھتا ہے ’’مجھے آپ کی طرف سے کوئی لغزش نہیں۔ وہی ایمان ہے کہ آپ مثیل مسیح ہیں۔ مسیح ہیں مثیل انبیاء ہیں۔‘‘ پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۲ میںؔ سطر ۱۵ سے لے کر سطر ۲۰ تک میری تصدیق میں اُس کی اپنی عبارت یہ ہے جو جلی قلم سے لکھی جاتی ہے۔ ’’ایک مولوی محمد حسن بیگ میرے خالہ زاد بھائی تھے حضور کے سخت مخالف تھے اُن کی نسبت خواب میں مجھے معلوم ہوا کہ اگر وہ مسیح الزمان کی مخالفت پر اڑا رہا تو پلیگ سے ہلاک ہو جائے گا اُس کی سکونت بھی شہر سے باہر ایک ہوادار کشادہ مکان میں تھی یہ خواب میں نے اُس کے حقیقی بھائی اور چچا اور دیگر عزیزوں کو سُنا دیا تھا۔ ایک سال بعد وہ پلیگ سے ہی فوت ہوا۔‘‘ دیکھو عبد الحکیم خان کا رسالہ ذکر الحکیم صفحہ ۱۲۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 191

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 191

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/191/mode/1up


اب دیکھو کہ ایک طرف تو یہ شخص میرے مسیح موعود ہونے کا اقرار کرتا ہے اور نہ صرف اقرار بلکہ میری تصدیق کے بارہ میں ایک خواب بھی پیش کرتا ہے جو سچی نکلی۔

پھر اسی کتاب کے آخر میں اور نیز اپنے رسالہ المسیح الدجال میں میرا نام دجال اور شیطان بھی رکھتا ہے اور مجھے خائن اور حرامخوار اور کذّاب ٹھہراتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ عبدالحکیم خان نے اپنے ان دونوں متناقض بیانوں میں چند روز کا بھی فرق نہیں رکھا۔ ایک طرف تو مجھے مسیح موعود کہا اور اپنے خواب کے ساتھ میری تصدیق کی اور پھر ساتھ ہی دجّال اورکذّاب بھی کہہ دیا۔ مجھے اِس بات کی پروا نہیں کہ ایسا کیوں کیا۔ مگر ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ اس شخص کی حالت ایک مخبط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔ ایک طرف تو مجھے سچا مسیح قرار دیتا ہے بلکہ میری تصدیق میں ایک سچی خواب پیش کرتا ہے جو پوری ہو گئی اور دوسری طرف مجھے سب کافروں سے بد تر سمجھتا ہے کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور تناقض ہوگا اور جن عیبوں کو وہ میری طرف منسوب کرتا ہے اُس کو خود سوچنا چاہئے تھا کہ جب خواب کی رُو سے میری سچائی کی اُس کو تصدیق ہو چکی تھی بلکہ میری تصدیق کے لئے خدا نے حسن بیگ کو طاعون سے ہلاک بھی کر دیا تھا ۔* تو کیا ایک دجّال کے لئے خدا نے اس کو مارا اور کیا خدا کو وہ عیب معلوم نہ تھے جو بیس۰۲ سال کے بعد اُس کومعلوم ہو گئیژ اور یہ عذر اُس کا قابلِ قبول نہ ہوگا کہ مجھ کو شیطانی خوابیں آتی ہوں گی اور یہ بھی ایک شیطانی خواب تھی۔ کیونکہ یہ تو ہم قبول کر سکتے ہیں کہ اُس کو بوجہ فطرتی مناسبت کے شیطانی خوابیں آتی ہوں گی اور شیطانی الہام


اب عبد الحکیم کے لئے لازم ہے کہ محمد حسن بیگ کی قبر پر جاکر رو وے کہ اے بھائی تو تکذیب میں سچا تھا اور میں جھوٹا۔ میرا گناہ معاف کر اور خدا سے معلوم کرکے مجھے بتلا کہ ایک کذّاب اور دجال کے لئے کیوں اُس نے تجھے ہلاک کر دیا۔ منہ

ژ یہ بات بھی غور کے لائق ہے کہ جو شخص بیس ۰۲ سال تک تحریر اور تقریر میں میری تائید کرتارہا اور مخالفوں کے ساتھ جھگڑتا رہا۔ اب بیس سال کے بعد کونسی نئی بات اُس کو معلوم ہوئی جو عیب اُس نے لکھے ہیں وہ تو وہی ہیں جن کا جواب وہ آپ دیاکرتا تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 192

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 192

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/192/mode/1up


بھی ہوتے ہوں گے ۔ * مگر یہ ہم قبول نہیںؔ کر سکتے کہ یہ شیطانی خواب ہے کیونکہ شیطان کو کسی کے ہلاک کرنے کے لئے قدرت نہیں دی گئی۔ ہاں شیطانی خوابیں اور شیطانی الہام وہ ہیں جو اَب میری مخالفت کی حالت میں اُس کو ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے ساتھ کوئی نمونہ خدائی طاقت کا نہیں سو اُس کو کوشش کرنی چاہئے کہ شیطان اُس سے دور ہو جائے۔

اور منجملہ امور قابلِ تذکرہ کے ایک یہ ہے کہ عبد الحکیم خان نے اپنے رسالہ المسیح الدجّال میں دوسرے مخالفوں کی طرح عوام کو یہ دھوکہ دینا چاہا ہے کہ گویا میری پیشگوئیاں غلط نکلتی رہی ہیں۔ چنانچہ جو پیشگوئی عبد اللہ آتھم کی نسبت تھی اور جو پیشگوئی احمد بیگ کے داماد کی نسبت تھی اور جو ایک پیشگوئی مولوی محمد حسین بٹالوی اوراُن کے بعض رفیقوں کی نسبت تھی۔ ان سب کو بیان کرکے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مگر میں ان پیشگوئیوں کی نسبت بارہا لکھ چکا ہوں کہ وہ سنت اللہ کے موافق پوری ہو چکی ہیں۔ عبد اللہ آتھم کی نسبت اور نیز احمد بیگ اور اُس کے داماد کی نسبت صدہا مرتبہ بیان کر چکا ہوں کہ یہ دونوں پیشگوئیاں شرطی تھیں۔ عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی کے یہ لفظ تھے کہ وہ پندرہ مہینے میں ہلاک ہوگا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ یہ لفظ نہیں تھے کہ بشرطیکہ ظاہری طور پر مسلمان


* یہ بھی عبد الحکیم کی مخبط الحواس ہونے کی نشانی ہے کہ اس اپنی خواب کو جس میں محمد حسن بیگ کی موت بتلائی گئی تھی اور اس کے موافق حسن بیگ مر بھی گیا تھا ایک شیطانی خواب قرار دیتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ جوش مخالفت نے اس شخص کی عقل مار دی ہے جس خواب کو واقعات نے سچی کرکے دکھلا دیا اور اُس نے منجانب اللہ ہونے پر مہر لگا دی وہ کیونکر جھوٹی ہو سکتی ہے جھوٹی اور نفسانی خوابیں تو وہ ہیں جو اب اس کے مخالف آتی ہیں جن پر کوئی سچائی کی مہر نہیں مگر اس خواب میں شیطان کا ایک ذرہ دخل نہیں کیونکہ یہ ایک ہیبت ناک واقعہ کے ساتھ پوری ہو گئی اور محیی ممیت تو خداکا نام ہے شیطان کا نام نہیں۔ ہاں اس سچی خواب سے میاں عبد الحکیم کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت یوسف کے وقت میں فرعون کو بھی سچی خواب آگئی تھی اور بڑے بڑے کافروں کو بعض وقف سچی خوابیں آجاتی ہیں۔ اور خدا کے مقبول علم غیب کی کثرت اور ایک خاص نصرت سے شناخت کئے جاتے ہیں نہ محض ایک دو خواب سے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 193

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 193

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/193/mode/1up


بھی ہو جائے۔ رجوع ایک ایسا لفظ ہے جو دل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔* سو اُس نے اُسی مجلس میں جس میں ساٹھ یا ستر یا کچھ کم و بیش آدمی موجود تھے پیشگوئی سُننے کے بعد آثار رجوع ظاہر کئے یعنی جب میں نے پیشگوئی سُنا کر اُس کو یہ کہا کہ تم نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کتاب میں دجّال کہا ہے اُس کی سزا میں یہ پیشگوئی ہے کہ پندرہ مہینے کے اندر تمہاری زندگی کا خاتمہ ہوگا تب اُس کا رنگ زرد ہو گیا اور اُس نے اپنی زبان باہر نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور بلند آواز سے کہا کہ میں نے ہر گز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دجّال نہیں رکھاز۔ اِس مجلس میں مسلمانوں میں سے ایک رئیس امرتسر کے بھی موجود تھے جن کا نام شاید یوسف شاہ تھا اور بہت سے عیسائی اور مسلمان تھے بالخصوص عیساؔ ئیوں میں سے ڈاکٹر مارٹن کلارک بھی تھا جس نے بعد میں میرے پر خون کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان سب کو حلف کے ساتھ پوچھنا چاہئے کہ کیا یہ امر وقوع میں آیا تھا یا نہیں۔ اور اگر درحقیقت یہ الفاظ عبد اللہ آتھم کے منہ سے نکلے تھے تو اب خودسوچنا چاہئے کہ کیا یہ شوخی اور شرارت کے الفاظ تھے یا عجز و نیاز اور رجوع کے الفاظ تھے میں نے تو اس قسم کے عجز و نیاز کے الفاظ اپنی تمام عمر میں کسی عیسائی کے منہ سے نہیں سنے بلکہ اکثر اُن کی کتابیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت گالیوں سے بھری ہوئی دیکھی ہیں پھر جبکہ ایک مخالف شخص نے عین مباحثہ کے وقت میں اس قدر تذلّل اور انکسار کے ساتھ دجّال کہنے سے انکار کیا اور بعد میں وہ پندرہ مہینہ تک خاموش رہا بلکہ روتا رہا تو پھر کیا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس بات کا حق نہ رکھتا تھا کہ خدا تعالیٰ شرط کے موافق اُس کو فائدہ پہنچاتا ؤ۔ پھر بہت


اگر کسی کی نسبت یہ پیشگوئی ہو کہ وہ پندرہ مہینہ تک مجذوم ہو جائیگا پس اگر وہ بجائے پندرہ کے بیسویں مہینہ میں مجذوم ہو جائے اور ناک اور تمام اعضاگر جائیں تو کیا وہ مجاز ہوگا کہ یہ کہے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی نفس واقعہ پر نظر چاہئے۔ منہ

ز ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ عبداللہ آتھم نے دجال کہنے سے رجوع کرلیا تھا اور پیشگوئی کا اصل موجب یہی لفظ تھا۔ منہ

یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ عبد اللہ آتھم کی نسبت بھی موت کی پیشگوئی تھی اور لیکھرام کی نسبت بھی موت کی پیشگوئی تھی مگر عبد اللہ آتھم نے عجز و نیاز دکھلا دیا اس لئے اس کی موت میں اصل میعاد سے چند ماہ کی تاخیر واقع ہوئی اور لیکھرام نے پیشگوئی سُننے کے بعد شوخی ظاہر کی اور بازاروں اور مجمعوں میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا رہا اس لئے قبل اس کے کہ اس کی اصل میعاد بھی پوری ہوتی وہ پکڑا گیا اور ابھی ایک سال باقی رہتا تھا کہ وہ مارا گیا۔ عبد اللہ آتھم سے خدا تعالیٰ نے اپنی جمالی صفت کو ظاہر کیا اور لیکھرام سے جلالی صفت کو وہ قادر ہے کم بھی کر سکتا ہے اور زیادہ بھی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 194

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 194

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/194/mode/1up


مدت تک بھی اُس کی زندگی نہیں ہوئی بلکہ چند ماہ کے بعد فوت ہو گیا۔ اُس نے بعد اس کے کوئی شوخی نہیں دکھلائی اور جو کچھ اُس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ عیسائیوں کا اپنا کرتب ہے غرض نفس پیشگوئی تو اُس کی موت تھی اس کے موافق وہ میری زندگی میں ہی مر گیا خدا نے میری عمر بڑھا دی اور اُس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ اب اِسی بات پر زور دینا کہ وہ میعاد کے اندر نہیں مرا کس قدر ظلم اور تعصب ہے۔ اے نادان کیا تو یونس کے قصہ سے بھی بے خبر ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے یونسؑ کی پیشگوئی میں کوئی شرط بھی نہیں تھی تب بھی توبہ و استغفار سے اُس کی قوم بچ گئی حالانکہ اس کی قوم کی نسبت خدا تعالیٰ کا قطعی وعدہ تھا کہ وہ ضرور چالیس دن کے اندر ہلاک ہو جائے گی مگر کیا وہ اِس ؔ پیشگوئی کے مطابق چالیس دن کے اندر ہلاک ہو گئی۔ اگر چاہو تو دُرِّ منثور میں اُن کا قصہ دیکھ لو یا یونہ نبی کی کتاب بھی ملاحظہ کرو۔ حد سے زیادہ کیوں شرارت دکھلاتے ہو کیا ایک دن مرنا نہیں۔ شوخی اور بد دیانتی ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔

اوراحمد بیگ کے داماد کی نسبت بھی ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ یہ پیشگوئی بھی شرطی تھی۔ اور شرط کے الفاظ جو ہم اشتہارات میں پہلے سے شائع کر چکے ہیں یہ تھے ایّھا المرأۃ توبی توبی فان البلاء علٰی عقبکِ یہ الہامی الفاظ ہیں اور اس میں مخاطب اس عورت کی نانی ہے جس کی نسبت یہ پیشگوئی ہے۔ اور ایک مرتبہ میں نے یہ الہام مولوی عبد اللہ صاحب کی اولاد میں سے ایک شخص کو بمقام ہوشیارپور قبل از وقت سنایا تھا شائد اُن کا نام عبدالرحیم تھا یا عبد الواحد تھا۔ اِس الہامی عبارت کا ترجمہ یہ ہے۔ اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ تیری لڑکی اور لڑکی کی لڑکی پر ایک بلا آنے والی ہے اور اس پیشگوئی میں احمد بیگ اور اس کے داماد کی خبر دی گئی تھی چنانچہ احمد بیگ میعاد کے اندر مر گیا۔* اور اُس عورت کی لڑکی پر بلا


تعجب ہے کہ جو لوگ احمد بیگ کے داماد کا بار بار ذکر کرتے ہیں کبھی وہ یہ زبان پر نہیں لاتے کہ اس پیشگوئی کا ایک حصہ پورا ہو چکا ہے کیونکہ احمد بیگ میعاد کے اندر مر گیا ہے اگر ان میں کچھ دیانت ہوتی تو یوں بیان کرنا چاہئے تھا کہ اس پیشگوئی کے دو حصوں میں سے ایک حصہ پورا ہو چکا ہے اور دو ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے مگر تعصب بھی ایک عجیب بلا ہے کہ انصاف کے لفظ کو زبان پر نہیں آنے دیتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 195

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 195

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/195/mode/1up


آگئی کیونکہ وہ احمد بیگ کی بیوی تھی اور احمد بیگ کے مرنے سے بڑا خوف اُس کے اقارب پر غالب آگیا یہاں تک کہ بعض نے اُن میں سے میری طرف عجز و نیاز کے ساتھ خط بھی لکھے کہ دعا کرو پس خدا نے اُن کے اس خوف اور اس قدر عجز و نیاز کی وجہ سے پیشگوئی کے وقوع میں تاخیر ڈال دی اور جو کچھ مولوی محمد حسین اور اُن کے رفقاء کی نسبت پیشگوئی خدا تعالیٰ کے الہام میں لکھی گئی تھی اس کی نسبت کوئی تاریخ مقرر نہ تھی صرف میری دعا میں اپنے الفاظ تھے الہامی الفاظ نہ تھے۔ اورؔ صرف میری طرف سے دعا تھی کہ اتنی مدّت میں ایسا ہو۔ سو خداوند تعالیٰ اپنی وحی کا پابند ہوتا ہے اس پر فرض نہیں ہے کہ جو اپنی طرف سے التجا کی جائے بعینہٖ اُس کو ملحوظ رکھے۔ اِس لئے پیشگوئی میں جوعربی میں شائع ہو چکی ہے کوئی مدّت مقرر نہیں ہے کہ فلاں مہینہ یا برس میں رُسوا کیا جائے گا اور یہ تو معلوم ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں خدا تعالیٰ اختیار رکھتا ہے کہ اُن کو کسی کے عجز و نیاز سے یا اپنی طرف سے ملتوی کر دے۔ تمام اہل سنت بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام کا اس پر اتفاق ہے کیونکہ وعید کی پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بلا کسی کے لئے مقدر ہوتی ہے جو صدقات خیرات اور توبہ و استغفار سے ٹل سکتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اس بلا کو صرف اپنے علم میں رکھے اور اپنی وحی کے ذریعہ سے کسی اپنے مرسل پر ظاہر نہ کرے تب تو وہ صرف بلائے مقدر کہلاتی ہے کہ جو خداتعالیٰ کے ارادہ میں مخفی ہوتی ہے اور اگر اپنی وحی کے ذریعہ سے کسی اپنے رسول کو اس بلا کا علم دیدے تب وہ پیشگوئی ہو جاتی ہے اوردنیا کی تمام قومیں اس بات پر اتفاق رکھتی ہیں کہ آنے والی بلائیں خواہ وہ پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر کی جائیں اور خواہ صرف خدا تعالیٰ کے ارادہ میں مخفی ہوں وہ صدقہ خیرات اور توبہ و استغفار سے ٹل سکتی ہیں تبھی تو لوگ مصیبت کے وقت میں صدقہ خیرات دیا کرتے ہیں ورنہ بے فائدہ کام کون کرتا ہے۔ اور تمام نبیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ، خیرات اور توبہ و استغفار سے ردّ بلا ہوتا ہے اور میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بسا اوقات خدا تعالیٰ میری نسبت یا میری اولاد کی نسبت یا میرے کسی دوست کی نسبت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 196

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 196

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/196/mode/1up


ایک آنے والی بلا کی خبر دیتا ہے اور جب اس کے دفع کے لئے دعا کی جاتی ہے تو پھر دوسرا الہام ہوتا ہے کہ ہم نے اس بلا کو دفع کر دیا۔ پس اگر اس طرح پر وعید کی پیشگوئی ضروری الوقوع ہے تو میں بیسیوں دفعہ جھوٹا بن سکتا ہوں اور اگر ہمارے مخالفوں اور بد اندیشوں کو اس قسم کی تکذیب کا شوق ہے اگر چاہیں تو میں اس قسم کی کئی پیشگوئیاں اور پھر ان کی منسوخی کی ان کو اطلاع دیدیا کروں۔ ہماری اسلامی تفسیروں میں اور نیز بائیبل میں بھی لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کی نسبت وقتؔ کے نبی نے پیشگوئی کی تھی کہ اُس کی عمر پندرہ دن رہ گئی ہے مگر وہ بادشاہ تمام رات روتا رہا تب اُس نبی کو دوبارہ الہام ہوا کہ ہم نے پندرہ دن کو پندرہ سال کے ساتھ بدل دیا ہے۔ یہ قصہ جیسا کہ میں نے لکھا ہے ہماری کتابوں اور یہود اور نصاریٰ کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب کیا تم یہ کہو گے کہ وہ نبی جس نے بادشاہ کی عمر کے بارے میں صرف پندرہ دن بتلائے تھے اور پندرہ دن کے بعد موت بتلائی تھی وہ اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلا۔ یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں منسوخی کا سلسلہ اس کی طرف سے جاری ہے یہاں تک کہ جو جہنم میں ہمیشہ رہنے کا وعید قرآن شریف میں کافروں کے لئے ہے وہاں بھی یہ آیت موجود ہے 3 3 ۱؂ یعنی کافر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے لیکن اگر تیرا رب چاہے کیونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اُس کے کرنے پر وہ قادر ہے لیکن بہشتیوں کے لئے ایسا نہیں فرمایا کیونکہ وہ وعدہ ہے وعید نہیں ہے۔*

اخیر پر میں بڑے زور سے اور بڑے دعوے سے اور بڑی بصیرت سے یہ کہتا ہوں کہ


* قرآن شریف میں کفّار اور مشرکین کی سزا کے لئے بار بار ابدی جہنم کا ذکر ہے اور بار بار فرمایا ہے 3۔۲؂ اور پھر باوجود اس کے قرآن شریف میں دوزخیوں کے حق میں3 3َ۳؂ بھی موجود ہے اور حدیث میں بھی ہے کہ یاتی علٰی جھنم زمان لیس فیھا احدٌ ونسیم الصبا تحرّک ابوابھا یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی بھی نہ ہوگا اور نسیم صبا اس کے کواڑوں کو ہلائے گی اور بعض کتب میں زبانِ پارسی میں یہ حدیث لکھی ہے۔ ایں مُشتِ خاک راگرنہ بخشم چہ کنم۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 197

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 197

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/197/mode/1up


جو جواعتراض میری پیشگوئیوں پر ڈاکٹر عبدالحکیم خان اور اُس کے ہم جنس مولویوں نے کئے ہیں میں دکھلا سکتا ہوں کہ اولوالعزم نبیوں میں سے کوئی ایسا نبی نہیں جس کی کسی پیشگوئی پر انہیں اعتراضات کے مشابہ کوئی اعتراض نہ ہو اور صرف یونسؑ کا قصہ مَیں پیش نہیں کروں گا۔ بلکہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح اور حضرت سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں میں یا خدا کی کلام میں اُس کی نظیر دکھلاؤں گا مگر میں یہ سنناچاہتا ہوں کہ کیا اس وقت یہ تمام لوگ ان تمام نبیوں کو چھوڑنے کے لئے طیار ہیں اور کیا وہ اس بات کے لئے مستعد بیٹھے ہیں کہ اس ثبوت کے پیش کرنے کے بعد جیسا کہ وہ مجھے گالیاں دیتے ہیں ان کو بھی گالیاں دیں گے اور جیسا کہ مجھے کاذب ٹھہرایا ہے انہیں بھی کاذب ٹھہرا ویں گے۔ اے نادانو! اور آنکھوں کے اندھو! کیوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہو۔ ہائے افسوس کیوں تم دانستہ آگ میں پڑتے ہو اور کیوں تم اس قدر ایمان اورتقویٰ سے دور چلےؔ گئے کہ تمہارے دل میںیہ خوف بھی نہیں رہا کہ یہ اعتراض کس کس پاک اور مقدس پروارد ہوں گے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 3333 ۔۱؂ یعنی اگر یہ نبی جھوٹا ہے تو خود تباہ ہو جائے گا کیونکہ خدا کذّاب کے کام کو انجام تک نہیں پہنچاتا وجہ یہ کہ اِس سے صادق اور کاذب کا معاملہ باہم مشتبہ ہو جائے گا۔ اور اگر یہ رسول سچا ہے تو اس کی بعض وعید کی پیشگوئیاں ضرور وقوع میں آئیں گی۔ پس اِس آیت میں جو بعض کا لفظ ہے صریح طور پر اس میں یہ اشارہ ہے کہ سچا رسول جو وعید کی پیشگوئیاں یعنی عذاب کی پیشگوئیاں کرتا ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ سب کی سب ظہور میں آجائیں ہاں یہ ضروری ہے کہ بعض اُن میں سے ظہور میں آجائیں جیسا کہ یہ آیت فرما رہی ہے یصبکم بعض الذی یعدکم اب آنکھ کھو ل کر دیکھو کہ وہ وعید کی چند پیشگوئیاں جو میری طرف سے شائع ہوئی تھیں اُن میں سے کس قوت اور شان کے ساتھ لیکھرام کی نسبت پیشگوئی پوری ہوئی جس کی نسبت یہ بھی بتلایا گیا تھا کہ وہ معمولی موت سے نہیں مرے گا بلکہ خدا کا غضب کسی حربہ سے اُس کا کام تمام کرے گا اوریہ بھی بتلایا گیا تھا کہ عید کے متصل اُس کی موت کا واقعہ ہوگا اور یہ بھی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 198

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 198

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/198/mode/1up


اشارہ کیا گیا تھا کہ اُس کے واقعہ کے بعد ملک میں طاعون پڑے گی اور یہ بھی ظاہرکیا گیا تھا کہ یہ صرف پیشگوئی نہیں بلکہ یہ واقعہ میری بد دعا کا ایک نتیجہ ہوگا کیونکہ اس کی زبان درازیاں انتہا تک پہنچ گئی تھیں۔ پس وہ خدا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو برباد کرنانہیں چاہتا اُس کا غضب لیکھرام پر نازل ہوا اور اُس کو درد ناک عذاب کے ساتھ ہلاک کیا۔

پھر سوچنا چاہئے کہ احمد بیگ کی نسبت جو میری تکذیب کے لئے کمر بستہ تھا اور دن رات ہنسی ٹھٹھا کرتا تھا کس صفائی سے پیشگوئی نے اپنا ظہور کیا اور وہ میعاد کے اندر مُحرقہ تپ سے ہوشیارپور کے شفاخانہ میں فوت ہو گیا اور اس کے اقارب میں اس کی موت سے تہلکہ برپا ہوا یہ وہی احمد بیگ ہے جس کے داماد کی نسبت اب تک ہمارے مخالف ماتم اور سیاپاکر رہے ہیں کہ کیوں نہیں مرتا اور نہیں جانتے کہ دائیں ٹانگ تو اس پیشگوئی کی احمد بیگ ہی تھا جس نے اچانک اپنی جواناں مرگ مرنےؔ سے ثابت کر دیا کہ پیشگوئی سچی ہے اور پھر جیسا کہ پیشگوئی میں لکھا تھا کہ احمد بیگ کی موت کے قریب اور موتیں بھی اُس کے عزیزوں کی ہوں گی وہ امر بھی وقوع میں آگیا اور احمد بیگ کا ایک لڑکا اور دو ہمشیرہ انہیں ایام میں فوت ہو گئے۔ تو اب ہمارے مخالف بتلاویں کہ فقرہ آیت یُصِبْکُم بَعْضُ الَّذِی یَعِدُکُم اس پر صادق آیا یا نہیں۔ پس جبکہ میری بعض وعید کی پیشگوئیوں کی نسبت خود ان کو اقرار کرناپڑتا ہے کہ کمال صفائی سے پوری ہو گئیں تو پھر باوجود اسلام کے دعوے کے کیوںیہ آیت ممدوحہ اُن کے مد نظر نہیں رہتی یعنی یصبکم بعضالذی یعدکمکیاپوشیدہ طور پر ارتداد کے لئے طیاری تو نہیں۔ اور یہ کہنا کہ پیشگوئی کے بعد احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کے لئے کوشش کی گئی اور طمع دی گئی اور خط لکھے گئے یہ عجیب اعتراض ہیں۔ سچ ہے انسان شدت تعصب کی وجہ سے اندھا ہو جاتا ہے۔ کوئی مولوی اِس بات سے بے خبر نہ ہوگا کہ اگر وحی الٰہی کوئی بات بطور پیشگوئی ظاہر فرماوے اور ممکن ہو کہ انسان بغیر کسی فتنہ اور ناجائز طریق کے اس کو پورا کر سکے تو اپنے ہاتھ سے اس پیشگوئی کا پورا کرنا نہ صرف جائز بلکہ مسنون ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خود اپنا فعل اس کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور پھر حضرت عمر کا ایک صحابی کو کڑے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 199

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 199

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/199/mode/1up


پہنانا دوسری دلیل ہے اور اسلام کی ترقی کے لئے بھی قرآن شریف میں ایک پیشگوئی تھی پھر کیوں اسلام کی ترقی کے لئے جان توڑ کر کوشش کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ مؤلفۃ القلوب کے لئے کئی لاکھ روپیہ دیا گیا اور اس جگہ تو زمین وغیرہ کے لئے اصل تحریک خود احمد بیگ کی طرف سے تھی۔

پھر سوچنے کا مقام ہے کہ ایک طرف تو یہ دو تین پیشگوئیاں ہیں جو ہمارے مخالف اپنی نابینائی کی وجہ سے بار بار پیش کرتے ہیں جن کا پلید پَس خوردہ عبد الحکیم کو بھی کھانا پڑا اور دوسری طرف میری تائید میں خدا تعالیٰ کے نشانوں کا ایک دریا بہہ رہا ہے جس سے یہ لوگ بے خبر نہیں ہیں اور کوئی مہینہ شاذو نادر ایسا گذرتا ہوگا جس میں کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔ ان نشانوں پر کوئی نظر نہیں ڈالتا۔ نہیں دیکھتے کہ خدا کیا کہہ رہا ہے۔ ایک طرف طاعون بزبانِ حال کہہ رہی ہے کہ قیامت کے دن نزدیک ہیں اور دوسری طرف خارق عادت زلزلے جو کبھی اس ؔ طور سے اِس ملک میں نہیں آئے تھے خبر دے رہے ہیں کہ خدا کا غضب زمین پر بھڑک رہا ہے اور آئے دن ایسی نئی نئی آفات نازل ہوتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے طور بدل گئے ہیں اور ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی بڑی آفت دکھلانی چاہتا ہے اور ہر ایک آفت جو ظاہر ہوتی ہے پہلے سے اس کی مجھے خبر دیجاتی ہے اور میں بذریعہ اخبار یا رسائل یا اشتہار کے اس کو شائع کر دیتا ہوں۔ چنانچہ میں بار بار کہتا ہوں کہ توبہ کرو کہ زمین پر اس قدر آفات آنے والی ہیں کہ جیسا کہ ناگہانی طور پر ایک سیاہ آندھی آتی ہے اور جیسا کہ فرعون کے زمانہ میں ہوا کہ پہلے تھوڑے نشان دِکھلائے گئے اور آخر وہ نشان دکھلایا گیا جس کو دیکھ کر فرعون کو بھی کہنا پڑا کہ 3 ۱؂ خدا عناصر اربعہ میں سے ہر ایک عنصر میں نشان کے طور پر ایک طوفان پیدا کرے گا اور دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے یہاں تک کہ وہ زلزلہ آجائے گا جو قیامت کا نمونہ ہے تب ہر قوم میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے اپنے وقت کو شناخت نہ کیا یہی معنی خدا کے اِس الہام کے ہیں کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 200

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 200

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/200/mode/1up


اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ یہ پچیس ۲۵ برس کا الہام ہے جو براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور ان دنوں میں پوراہوگا۔ جس کے کان سُننے کے ہیں وہ سنے ۔*

یہ تو ہم نے وہ دو تین پیشگوئیاں لکھی ہیں جن پر ہمارے مخالف مولوی اور انہیں کا نیا چیلا عبد الحکیم خان بار بار اعتراض کرتے ہیں۔ اب ہم اُن کے مقابل یہ دکھلانا چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے آسمانی نشان ہماری شہادت کے لئے کسی قدر ہیں لیکن افسوس کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جائیں تو ہزار جزو کی کتاب میں بھی ان کی گنجائش نہیں ہو سکتی اس لئے ہم محض بطور نمونہ کے ایک سو چالیس نشان اُن میں سے لکھتے ہیں۔ اُن میں سے بعض وہ پہلے نبیوں کی پیشگوئیاں ہیں جو میرے حق میں پوری ہوئیں۔ اور بعض اس اُمت کے اکابر کی پیشگوئیاں ہیں اور بعض وہ نشان خدؔ ا تعالیٰ کے ہیں جو میرے ہاتھ پر ظہور ہیں آئے اور چونکہ میری پیشگوئیوں پر اُن پیشگوئیوں کو تقدّم زمانی ہے اِس لئے مناسب سمجھا گیا کہ تحریری طور پر بھی اُنہیں کو مقدم رکھا جائے اور یہ تمام پیشگوئیاں ایک ہی سلسلہ میں نمبروار لکھی جائیں گی۔ اور وہ یہ ہیں۔

۱ ۔ پہلا نشان۔ قال رسُول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم انّ اللّٰہ یبعث لھٰذہ الامۃ علٰی رأس کُلّ ماءۃ سنۃ من یجدّ د لھا دینھا۔ رواہ ابو دا ؤد یعنی خدا ہر ایک صدی کے سر پر اِس اُمّت کے لئے ایک شخص مبعوث فرمائے گا جو اُس کے لئے دین کو تازہ کرے گا اور اب اِس صدی کا چوبیسواں سال جاتا ہے اورممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ میں تخلّف ہو۔ اگر کوئی کہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو بارہ صدیوں کے مجددوں کے نام بتلاویں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث


* خدا تعالیٰ نے مجھے صرف یہی خبر نہیں دی کہ پنجاب میں زلزلے وغیرہ آفات آئیں گی کیونکہ میں صرف پنجاب کے لئے مبعوث نہیں ہوا بلکہ جہاں تک دنیا کی آبادی ہے ان سب کی اصلاح کے لئے مامور ہوں پس میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ آفتیں اور یہ زلزلے صرف پنجاب سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام دنیا ان آفات سے حصہ لے گی اور جیسا کہ امریکہ وغیرہ کے بہت حصے تباہ ہو چکے ہیں یہی گھڑی کسی دن یورپ کے لئے درپیش ہے اور پھر یہ ہولناک دن پنجاب اور ہندوستان اور ہر ایک حصہ ایشیا کے لئے مقدرہے جو شخص زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 201

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 201

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/201/mode/1up


علماء اُمت میں مسلّم چلی آئی ہے اب اگر میرے دعوے کے وقت اس حدیث کو وضعی بھی قرار دیا جائے تو ان مولوی صاحبوں سے یہ بھی سچ ہے بعض اکابر محدثین نے اپنے اپنے زمانہ میں خود مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بعض نے کسی دوسرے کے مجدد بنانے کی کوشش کی ہے۔ پس اگر یہ حدیث صحیح نہیں تو انہوں نے دیانت سے کام نہیں لیا اور ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ تمام مجددین کے نام ہمیں یاد ہوں یہ علم محیط تو خاصہ خدا تعالیٰ کا ہے ہمیں عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں مگر اُسی قدر جو خدا بتلاوے ماسوا اسکے یہ اُمت ایک بڑے حصہ دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور خدا کی مصلحت کبھی کسی ملک میں مجدّد پیدا کرتی ہے اور کبھی کسی ملک میں پس خدا کے کاموں کا کون پورا علم رکھ سکتا ہے اور کون اُس کے غیب پرا حاطہ کر سکتا ہے۔ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ایک قوم میں نبی کتنے گذرے ہیں۔ اگر تم یہ بتلا دو گے تو ہم مجدّد بھی بتلا دیں گے۔ ظاہر ہے کہ عدم علم سے عدم شئے لازم نہیں آتا اور یہ بھی اہل سنت میں متفق علیہ امر ہے کہ آخری مجدد اِس اُمت کا مسیح موعود ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ یہ آخری زمانہ ہے یا نہیں یہود و نصاریٰ دونوں قومیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں کہ یہ آخری زمانہ ہے اگر چاہو تو پوچھ کر دیکھ لو۔ مَری پڑ رہی ہے زلزلے آرہے ہیں۔ ہر اؔ یک قسم کی خارق عادت تباہیاں شروع ہیں پھر کیا یہ آخری زمانہ نہیں؟ اور صلحاء اسلام نے بھی اس زمانہ کو آخری زمانہ قرار دیا ہے اور چودھویں صدی میں سے بھی تیئیس ۳۲ سال گذر گئے ہیں۔ پس یہ قوی دلیل اِس بات پر ہے کہ یہی وقت مسیح موعود کے ظہور کا وقت ہے اور مَیں ہی وہ ایک شخص ہوں جس نے اِس صدی کے شروع ہونے سے پہلے دعویٰ کیا۔ اور مَیں ہی وہ ایک شخص ہوں جس کے دعوے پر پچیس ۵۲ برس گذر گئے اور اب تک زندہ موجود ہوں اور مَیں ہی وہ ایک ہوں جس نے عیسائیوں اور دوسری قوموں کو خدا کے نشانوں کے ساتھ ملزم کیا۔ پس جب تک میرے اِس دعوے کے مقابل پر انہیں صفات کے ساتھ کوئی دوسرا مدعی پیش نہ کیا جائے تب تک میرا یہ دعویٰ ثابت ہے کہ وہ مسیح موعود جو آخری زمانہ کا مجدّد ہے وہ میں ہی ہوں۔ زمانہ میں خدا نے نوبتیں رکھی ہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 202

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 202

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/202/mode/1up


۔ ایک وہ وقت تھا کہ خدا کے سچے مسیح کو صلیب نے توڑا اور اس کو زخمی کیاتھا اور آخری زمانہ میں یہ مقدر تھا کہ مسیح صلیب کو توڑے گا یعنی آسمانی نشانوں سے کفارہ کے عقیدہ کو دُنیا سے اُٹھا وے گا۔ عوض معاوضہ گلہ ندارد۔

۲۔ نشان۔ صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں انّ لمھدینا اٰیتین لم تکونا منذ خلق السماوات والارض ینکسف القمر لاوّل لیلۃٍ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ۔ ترجمہ یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اُس کی اوّل رات میں ہوگا یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اُس کے دِنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا۔ یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا صرف مہدی معہود کے وقت اُس کا ہونا مقدر ہے۔ اب تمام انگریزی اور اُردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اِس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً با ۱۲ رہ سال کا گذر چکا ہے اِسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے اورؔ جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے۔ اول اِس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے اور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دیکر صدہا اشتہار اور رسالے اُردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے اِس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعین ہوا۔ دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ با۱۲ رہ برس پہلے اِس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اِس نشان کے بارے میں مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا۔ اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 203

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 203

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/203/mode/1up


اور بڑا افسوس ہے کہ ہمارے مخالف سراسر تعصب سے یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اوّل یہ کہ حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ چاند گرہن پہلی رات میں ہوگا اور سُورج گرہن بیچ کے دن میں مگر ایسا نہیں ہوا یعنی اُن کے زعم کے موافق ’’چاند گرہن شبِ ہلال کو ہونا چاہئے تھا جو قمری مہینہ کی پہلی رات ہے اور سُورج گرہن قمری مہینہ کے پندرھویں دن کو ہونا چاہئے تھا جو مہینہ کا بیچواں دن ہے۔‘‘ مگر اس خیال میں سراسر ان لوگوں کی نا سمجھی ہے کیونکہ دنیا جب سے پیدا ہوئی ہے چاند گرہن کے لئے تین راتیں خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں مقرر ہیں یعنی تیرھویں چودھویں پندرھویں اور چاند گرہن کی پہلی رات جو خدا کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے وہ قمری مہینے کی تیرھویں رات ہے اور سورج کے گرہن کے لئے تین دن خدا کے قانون قدرت میں مقرر ہیں۔ یعنی قمری مہینے کا ستائیسواں اٹھائیسواں اور انتیسواں دن۔ اور سورج کے تین دن گرہن میں سے قمری مہینہ کے رُو سے اٹھائیسواں دن بیچ کا دن ہے۔ سو ا نہیں تاریخوں میں عین حدیث کے منشاء کے موافق سورج اور چاند کا رمضان میں گرہن ہوا۔ یعنی چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات میں ہوا اور سورج گرہن اسی رمضان کے اٹھائیسویں دن ہوا۔

اور عرب کے محاورہ میں پہلی رات کا چاند قمر کبھی نہیں کہلاتا بلکہ تین دن تک اُس کا نامؔ ہلال ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال کہلاتا ہے۔ دوسرا یہ اعتراض ہے کہ اگر ہم قبول کر لیں کہ چاند کی پہلی رات سے مُراد تیرھویں رات ہے اور سورج کے بیچ کے دن سے مُراد اٹھائیسواں دن ہے تو اس میں خارق عادت کونسا امر ہوا کیا رمضان کے مہینہ میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن نہیں ہوا تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مُدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اِسی پر دلالت کر رہے ہیں۔ اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی کسی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔ خاص کر یہ امر کس کو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 204

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 204

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/204/mode/1up


معلوم نہیں کہ اسلامی سن یعنی تیرہ سو برس میں کئی لوگوں نے محض افترا کے طور پر مہدی موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا بلکہ لڑائیاں بھی کیں۔ مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ اُن کے وقت میں چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں دونوں جمع ہوئے تھے۔ اور جب تک یہ ثبوت پیش نہ کیا جائے تب تک بلا شبہ یہ واقعہ خارق عادت ہے کیونکہ خارق عادت اسی کو توکہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے اور صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھو آیت وَخَسَفَ الْقَمَرُۙ ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُۙ ۱؂ *

32تیسرا یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث مرفوع متصل نہیں ہے صرف امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت کا یہی طریق تھا کہ وہ بوجہ اپنی وجاہت ذاتی کے سلسلہ حدیث کو نام بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے ان کی یہ عادت شائع متعارف ہے چنانچہ شیعہ مذہب میں صدہا اسی قسم کی حدیثیں موجود ہیں اور خودامام دارقطنی نے اس کو احادیث کے سلسلہ میں لکھا ہے ماسوا اس کے یہ حدیث ایک غیبی امر پر مشتمل ہے جو تیرہ سو برس کے بعد ظہور میں آگیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مہدیؔ موعود ظاہر ہوگا اُس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن تیرھویں رات کو ہوگا اور اسی مہینہ میں سورج گرہن اٹھائیسویں دن ہوگا اور ایسا واقعہ کسی مدعی کے زمانہ میں بجز مہدی معہود کے زمانہ کے پیش نہیں آئیگا اور ظاہر ہے کہ ایسی کھلی کھی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 333۔۲؂ یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا پس جبکہ یہ پیشگوئی اپنے معنوں کے رو سے کامل طور پر پوری ہو چکی تو اب یہ کچے بہانے ہیں کہ


* خدا تعالیٰ نے مختصر لفظوں میں فرما دیا کہ آخری زمانہ کی نشانی یہ ہے کہ ایک ہی مہینہ میں شمس اور قمر کے کسوف خسوف کا اجتماع ہوگا اور اسی آیت کے اگلے حصہ میں فرمایا کہ اس وقت مکذب کو فرار کی جگہ نہیں رہے گی جس سے ظاہر ہے کہ وہ کسوف خسوف مہدی معہود کے زمانہ میں ہوگا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ وہ کسوف خسوف خدا کی پیشگوئی کے مطابق واقع ہوگا اس لئے مکذبوں پر حجت پوری ہو جائے گی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 205

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 205

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/205/mode/1up


حدیث ضعیف ہے یا امام محمد باقر کا قول ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہر گز نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو یا کوئی قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو۔ دنیا ختم ہونے تک پہنچ گئی مگر بقول اُن کے اب تک آخری زمانہ کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اور اس حدیث سے بڑھ کر اور کونسی حدیث صحیح ہوگی جس کے سر پر محدثین کی تنقید کا بھی احسان نہیں بلکہ اُس نے اپنی صحت کو آپ ظاہر کرکے دکھلا دیا کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے۔* خدا کے نشانوں کو قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے ورنہ یہ عظیم الشان نشان ہے جو مجھ سے پہلے ہزاروں علماء اور محدثین اس کے وقوع کے اُمید وار تھے اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر اور رو رو کر اس کو یاد دلایا کرتے تھے چنانچہ سب سے آخر مولوی محمد لکھوکے والے اسی زمانہ میں اسی گرہن کی نسبت اپنی کتاب احوال الآخرت میں ایک شعر لکھ گئے ہیں جس میں مہدی موعود کا وقت بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے:

تیرھویں چند ستیہویں ژ سورج گرہن ہو سی اُس سالے

اندر ماہ رمضانے لِکھیا ہک روایت والے

پھر دوسرے بزرگ جن کا شعر صدہا سال سے مشہور چلا آتا ہے۔ یہ لکھتے ہیں:

در۱۳۱۱سنِ غاشی ہجری دو قِران خواہدبود

از پئے مہدی و دجّال نشان خواہدبود

یعنی چو۱۳۱۱ دھویں صدی میں جب چاند اور سُورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہوگا تب وہ مہدی معہود اوردجّال کے ظہور کا ایک نشان ہوگا۔ اِس شعر میں ٹھیک سن کسوف و خسوف درج ہوا ہے۔

۳۔ؔ تیسرا نشان۔ ذوالسنین ستارہ کا نکلنا ہے جس کے طلوع ہونے کا زمانہ مسیح موعود کا وقت مقرر تھا اور مدّت ہوئی کہ وہ طلوع ہو چکا ہے اسی کو دیکھ کر عیسائیوں کے بعض انگریزی اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ اب مسیح کے آنے کا وقت آگیا۔

۴۔ چوتھا نشان۔ ایک نئی سواری کانکلناہے جو مسیح موعود کے ظہور کی خاص نشانی ہے


۔۱ ؂ منہ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰـكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِىْ فِىْ الصُّدُوْرِ *

ژ شعر میں ستائیسویں کا لفظ سہو کا تب ہے یا خود مولوی صاحب سے بباعث بشریت سہو ہو گیاہے ورنہ جس حدیث کا یہ شعر ترجمہ ہے اُس میں بجائے ستائیس کے اٹھائیسویں تاریخ ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 206

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 206

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/206/mode/1up


جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے3۱؂ یعنی آخری زمانہ وہ ہے جب اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی۔ اور ایسا ہی حدیث مسلم میں ہے ولیترکن القلاص فلا یسعٰی علیھا۔ یعنی اس زمانہ میں اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور کوئی اُن پر سفر نہیں کرے گا۔ ایامِ حج میں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف اونٹنیوں پر سفر ہوتا ہے۔ اب وہ دن بہت قریب ہے کہ اس سفر کے لئے ریل تیار ہو جائے گی تب اس سفر پر یہ صادق آئے گا کہ لیترکن القلاص فلا یسعٰی علیھا۔

۵ ۔پانچواں۔ نشان ۔حج کا بند ہونا ہے جو صحیح حدیث میں آچکا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں حج کرناکسی مُدت تک بندہو جا ئے گا۔ سو بباعث طاعون ۱۸۹۹ء و۱۹۰۰ء وغیرہ میں یہ نشان بھی ظہور میں آگیا۔

۶۔ چھٹا نشان۔ کتابوں اور نوشتوں کا بکثرت شائع ہونا جیسا کہ آیت 33 ۲؂ سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرت اشاعت کتابوں کی ہوئی ہے اِس کے بیان کی ضرورت نہیں۔

۷ ۔ساتواں نشان۔ کثرت سے نہریں جاری کئے جانا جیسا کہ آیت 3 3 ۳؂ سے ظاہر ہوتا ہے پس اس میں کیا شک ہے کہ اس زمانہ میں اس کثرت سے نہریں جاری ہوئی ہیں۔جن کی کثرت سے دریا خشک ہوئے جاتے ہیں۔

۸۔ آٹھواں نشان۔ نوع انسان کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اور ملاقاتوں کا طریق سہل ہو جانا ہے۔ جیسا کہ آیت 3 ۴؂سے ظاہر ہے سو بذریعہ ریل اور تار کے یہ امر ایسا ظہور میں آیا ہے کہ گویا دنیا بدل گئی ہے۔

۹۔ نواں نشان۔ زلزلوں کا متواتر آنا اور سخت ہونا ہے جیسا کہ آیت 33۔3۔ ۵؂ سے ظاہر ہے سو غیر معمولی زلزلے دنیا میں آرہے ہیں۔

۱۰۔ دسواں نشان۔ طرح طرح کی آفات سے اس زمانہ میں انسانوں کا کثرت سے ہلاک ہونا ہے جیسا کہ قرآن شریف کی اس آیت کا مطلب ہے333۶؂ ترجمہ۔ کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے کچھ مدّت پہلے ہلاک نہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 207

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 207

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/207/mode/1up


کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے۔ سو یہی وہ زمانہ ہے کیونکہ طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔

۱۱۔ گیارھواں نشان۔ دانیال نبی کی کتاب میں مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ وہی لکھا ہے جس میں خدا نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ اس وقت بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور سفید کئے جائیں گے اور آزمائے جائیں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہیں سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور مکر وہ چیز جو خراب کرتی ہے قائم کی جائے گی ایک ہزار۱۲۹۰ دو سو نوے دن ہوں گے۔* مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار۱۳۳۵ تین سو پینتیس روز تک آتاہے۔‘‘ اس پیشگوئی میں مسیح موعود کی خبر ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا۔ سو دانیال نبی نے اس کا یہ نشان دیا ہے کہ اس وقت سے جو یہود اپنی رسم قربانیژ سوختنی کو چھوڑ دیں گے اور


دن سے مراد دانیال کی کتاب میں سال ہے اور اس جگہ وہ نبی ہجری سال کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اسلامی فتح اور غلبہ کا پہلا سال ہے۔ منہ

ژ حاشیہ۔ یہود اپنی کتابوں کی تعلیم کے موافق قربانی سوختنی کے پابند تھے جو ہیکل کے آگے بکرے ذبح کرکے آگ میں جلاتے تھے۔ اس میں شریعت کا راز یہ تھا کہ اسی طرح انسان کو خدا تعالیٰ کے آگے اپنے نفس کی قربانی دینی چاہئے اور نفسانی جذبات اور سر کشیوں کو ؔ جلا دینا چاہئے۔ اس قربانی کا عملدرآمد کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہود نے ترک کر دیا تھا اور دوسری مکروہات میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے پس جب حقیقی سوختنی قربانی یہود نے ترک کر دی جس سے مراد خدا کی راہ میں اپنا نفس قربان کرنا اورجذبات نفسانیہ کو جلا دینا ہے تب خدا تعالیٰ کے قہری عذاب نے جسمانی قربانی سے بھی اُن کو محروم کر دیا۔ پس یہود کی پوری بد چلنی کا وہ زمانہ تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے۔ اسی زمانہ میں یہود کا پورا استیصال ہوا اور اسلامی قربانیاں جو حج بیت اللہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کی جاتی ہیں یہ دراصل انہیں قربانیوں کے قائم مقام ہیں جو یہودبیت المقدس کے سامنے کرتے تھے۔ صرف فرق یہ ہے کہ اسلام میں سوختنی قربانی نہیں۔ یہود ایک سرکش قوم تھی۔ اُن کے لئے نفسانی جذبات کو جلا دینا ضروری سمجھ کر یہ نشان ظاہری قربانی میں رکھا گیا تھا۔ اسلام کے لئے اس نشان کی ضرورت نہیں صرف اپنے تئیں خدا کی راہ میں قربان کر دینا کافی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 208

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 208

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/208/mode/1up


بد چلنیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ایک ہزار دو سو نوے سال ہونگے جب مسیح موعود ظاہر ہوگا سو اِس عاجز کے ظہور کا یہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چند سال بعد میرے مامور اور مبعوث ہونے کے چھپ کر شائع ہوئی ہے اور یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک با۱۲۹۰رہ سو نوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاؔ طبہ پا چکا تھا۔ پھر سات سال بعد کتاب براہین احمدیہ جس میں میرا دعویٰ مسطور ہے تالیف ہو کر شائع کی گئی جیسا کہ میری کتاب براہین احمدیہ کے سرورق پر یہ شعر لکھا ہوا ہے:

از بس کہ یہ مغفرت کا دِکھلاتی ہے راہ

تاریخ بھی یا غفو۱۲۹۷ ر نکلی واہ واہ

سو دانیال نبی کی کتاب میں جو ظہور مسیح موعود کے لئے با۱۲۹۰رہ سو نوے برس لکھے ہیں۔ اِس کتاب براہین احمدیہ میں جس میں میری طرف سے مامور اور منجانب اللہ ہونے کا اعلان ہے صرف سات برس اِس تاریخ سے زیادہ ہیں جن کی نسبت میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ اِن سات برس سے پہلے کا ہے یعنی با۱۲۹۰رہ سو نوے کا۔ پھر آخری زمانہ اس مسیح موعود کا دانیال ۱۳۳۵تیرہ سو پینتیس برس لکھتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے اس الہام سے مشابہ ہے جو میری عمر کی نسبت بیان فرمایا ہے اور یہ پیشگوئی ظنی نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی جو مسیح موعود کے بارہ میں انجیل میں ہے اُس کا اِس سے توارد ہو گیا ہے اور وہ بھی یہی زمانہ مسیح موعود کا قرار دیتی ہے چنانچہ اس میں مسیح موعود کے زمانہ کی یہ علامتیں لکھی ہیں کہ اُن دنوں میں طاعون پڑے گی زلزلے آئیں گے لڑائیاں ہوں گی اور چاند اور سورج کا کسوف خسوف ہوگا۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ جس زمانہ کے آثار انجیل ظاہر کرتی ہے اُسی زمانہ کی دانیال بھی خبر دیتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے کیونکہ وہ سب باتیں اس زمانہ میں وقوع میں آگئیں ہیں اور ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی وہ پیشگوئی جو بائیبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی مؤید ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سےؔ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ قمری حساب کے رُو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادۂِ الٰہی میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 209

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 209

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/209/mode/1up


مقرر تھا۔ کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اوّل سے مناسبت چاہئے۔ اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اِس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو۔ وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے۔33 ۔۱؂ اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا*۔ اِسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے اور زیادہ سے زیادہ اُس کے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھا ہےؤ۔ اور اہل اسلام کے اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہے صرف اِس بات میں ہی آدم سے مشابہ قرار نہیں دیا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا اور مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا بلکہ اس بات میں بھی مشابہ قرار دیا ہے کہ آدم کی طرح وہ بھی جمعہ کے دن پیدا ہوگا اور اسکی پیدائش بھی توَام کے طور پر ہوگی یعنی جیسا کہ آدم توَام کے طور پر پیدا ہوا تھا پہلے آدم اور بعد میں حوّا۔ ایسا ہی مسیح موعود بھی توَام کے طور پر پیدا ہوگا۔ سو الحمدللّٰہ والمنۃ کہ متصوفین کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں میں بھی جمعہ کے روز بوقت صبح توام پیدا ہوا تھا صرف یہ فرق ہوا کہ پہلے لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا۔ وہ چند روز کے بعد جنت میں چلی گئی اور بعد اس کے میں پیدا ہوا۔ اور اس پیشگوئی کو شیخ محی الدین ابن عربی نے بھی اپنی کتاب فصوص میں لکھا ہے اور لکھا ہے کہ وہ صینی الاصل ہوگا۔بہر حال


خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا ہے کہ سورۃ والعصر کے حروف حساب جمل کے رو سے ابتدائے آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جس قدر برس گزرے ہیں ان کی تعداد ظاہر کرتے ہیں۔ سورۃ ممد و حہ کی رو سے جب اس زمانہ تک حساب لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ اب ساتواں ہزار لگ گیا ہے اور اسی حساب کے رو سے میری پیدائش چھٹے ہزار میں ہوئی ہے کیونکہ میری عمر اس وقت قریباً ۶۸ سال کی ہے۔ منہ


ؤ دیکھو حجج الکرامہ تالیف نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپال۔ منہ


ژ اس سے مطلب یہ ہے کہ اس کے خاندان میں تُرک کا خون ملا ہوا ہوگا ہمارا خاندان جو اپنی شہرت کے لحاظ سے مغلیہ خاندان کہلاتا ہے اس پیشگوئی کا مصداق ہے کیونکہ اگرچہ سچ وہی ہے کہ جو خدا نے فرمایا کہ یہ خاندان فارسی الاصل ہے مگر یہ تو یقینی اور مشہود و محسوس ہے کہ اکثر مائیں اور دادیاں ہماری مغلیہ خاندان سے ہیں اور وہ صینی الاصل ہیں یعنی چین کی رہنے والی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 210

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 210

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/210/mode/1up


یہ تینوں پیشگوئیاں ایک دوسری کو قوت دیتی ہیں اور بباعث تظاہر کے یقین کی حدتک پہنچ گئی ہیں جن سے کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا۔

۱۲۔ ؔ نشان۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی زلزلوں اور طاعون کی جیسا کہ ابھی لکھا گیا ہے کہ مسیح* موعود کا اُس وقت ظاہر ہونا ضروری ہے۔

۱۳۔ نشان۔ چھ ہزار برس کے آخر پر مسیح موعود کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی جو بیبل سے استنباط کی گئی ہے۔

۱۴۔ نشان۔ میری نسبت نعمت اللہ ولی کی پیشگوئی جس کے اشعار میں نے اپنی کتاب نشان آسمانی میں نقل کئے ہیں۔

۱۵۔ نشان۔ میری نسبت گلاب شاہ جمالپوری کی پیشگوئی جس کو میں نے ازالہ اوہام میں مفصل لکھ دیا ہے۔

۱۶۔ نشان۔ میری نسبت پیر صاحب العلَم سندھی نے جس کے ایک لاکھ مُرید تھے اور وہ اپنی نواح میں مشہور بزرگ تھے خواب میں دیکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سچا ہے اور ہماری طرف سے ہے۔ اِس خواب کو میں تحفہ گولڑویہ میں شائع کر چکا ہوں اس لئے تفصیل کی ضرورت نہیں۔

۱۷۔ نشان۔ مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کا الہام کہ یہ شخص حق پر ہے اور مسیح موعود بھی ہے۔ اور اسکے ساتھ کئی متواتر خوابیں تھیں جنہوں نے مولوی صاحب موصوف کو وہ استقامت بخشی کہ آخر انہوں نے میری تصدیق کے لئے کابل کی سر زمین میں امیر کابل کے حکم سے جان دی اُن کو


* ایک پادری صاحب لکھتے ہیں کہ طاعون اور زلزلوں کا آنا مسیح موعود ہونے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ ایسے زلزلے اور ایسی طاعون ہمیشہ دنیا میں ظاہر ہو تے رہے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ زلزلے اور یہ طاعون بلا شبہ پنجاب اور ہندوستان میں غیر معمولی ہیں۔ صدہا برس تک بھی اس کا پتہ نہیں لگتا۔ اور کیا باعتبار کمیّت اور کیا باعتبارکیفیت یہ طاعون اور زلزلے خارق عادت ہیں۔ اگر پادری صاحب کو انکار ہے تو اس کی کوئی نظیر پیش کریں ماسوا اس کے اگر پہلے دنیا میں طاعون ہوتی رہی ہے اور زلزلے آتے رہے ہیں اور لڑائیاں ہوتی رہی ہیں تو اُس وقت مسیح موعود ہونے کا کوئی مدعی موجود نہ تھا۔ پس جبکہ ایسے غیر معمولی زلزلوں اور طاعون سے پہلے ایک مدعی مسیحیت موجود ہو گیا۔ اور بعد اس کے یہ سب علامتیں انجیل کے موافق ظہور میں آئیں تو کیوں اس سے انکار کیا جاوے۔ ہاں آسمان کے ستارے زمین پر نہیں گرے۔ سو اس کا جواب ہیئت دانوں سے پوچھ لو کہ کیا ستاروں کے گرنے سے انسان اور حیوان زندہ رہ سکتے ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 211

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 211

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/211/mode/1up


کئی مرتبہ امیر نے فہمائش کی کہ اُس شخص کی بیعت اگر چھوڑ دو تو پہلے سے بھی زیادہ آپ کی عزّت کی جائے گی۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں جان کو ایمان پرمقدم نہیں رکھ سکتا۔ آخر انہوں نے اِس راہ میں جان دی اور کہا کہ اِس راہ میں خدا کی رضامندی کے لئے جان دینا پسند کرتا ہوں۔ تب وہ پتھروں سے سنگسار کئے گئے اور ایسی استقامت دکھلائی کہ ایک آہ بھی ان کے مُنہ سے نہ نکلی اورچالیس دن تک ان کی نعش پتھروں میں پڑی رہی اورپھرایک مُرید احمد نور نام نے اُن کی لاش دفن کی اور بیان کیا گیا ہے کہ اُن کی قبر سے اب تک مُشک کی خوشبو آتی ہے۔ اور ایک بال اُن کا اس جگہ پہنچایا گیاجس سے اب تک مُشک کی خوشبو آتی ہے اور ہمارے بیت الدعاء کے ایک گوشہ میں ایک شیشہ میں آویزاں ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر یہ کاروبار محض ایک مفتری کا فریب تھا تو شہید مرحوم کو اتنے دور دراز فاصلہ پر سے کیوں میری سچائی کے بارہ میں الہام ہوئے اور کیوں متواتر خوابیں آئیں وہ تو میرے نام سے بھی بے خبر تھے محض خدا نے ان کو میری خبر دی کہ پنچاب میں مسیح موعود پیدا ہو گیا تب اُنہوں نے پنجاب کی خبروں کی تفتیش شروع کیؔ اور جب یہ پتہ مل گیا کہ درحقیقت ایک شخص قادیان متعلقہ پنجاب ضلع گورداسپور میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تب سب کچھ چھوڑ کر میری طرف بھاگے اور قریباً دو ماہ یہاں رہے اور پھر واپسی پر شریر مخبروں کی مخبری سے گرفتار کئے گئے اور جب گرفتاری کے بعد کہا گیا کہ اپنی بیوی اور بچوں سے ملاقات کر لو تو کہا کہ اب مجھ کو اُن کی ملاقات کی ضرورت نہیں میں اُن کو خدا کے حوالہ کرتا ہوں اور جب حکم سنایا گیا کہ آپ سنگسار کئے جاؤ گے تو کہا میں چالیس دن سے زیادہ مردہ نہیں رہوں گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو خدا کی کتابوں میں لکھا گیا کہ مومن مرنے سے چند روز بعد یا نہایت چالیس دن تک زندہ کیا جاتا اور آسمان کی طرف اُٹھایا جاتا ہے۔ یہ وہی جھگڑا ہے جو اب تک ہم میں اور ہمارے مخالفوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کی نسبت چلا آتا ہے۔ ہم موافق کتاب اللہ کے ان کے رفع روحانی ہونے کے قائل ہیں اور وہ کتاب اللہ کی مخالفت کرکے اور خدا کے حکم 3



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 212

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 212

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/212/mode/1up


3 ۱؂ کو پیروں کے نیچے رکھ کر رفع جسمانی ہونے کے قائل ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ یہ دجّال ہے کیونکہ لکھا ہے کہ تیس دجّال آئیں گے وہ نہیں سوچتے کہ اگر تیس دجّال آنے والے تھے تو اِس حساب کی رُو سے ہر ایک دجّال کے مقابل پر تیس مسیح بھی تو چاہئے تھے یہ کیا غضب ہے کہ دجّال تو تیس آگئے مگر مسیح ایک بھی نہ آیا۔ یہ اُمت کیسی بد قسمت ہے کہ اس کے حصہ میں دجّال ہی رہ گئے اور سچے مسیح کا منہ دیکھنا اب تک نصیب نہ ہوا حالانکہ اسرائیلی سلسلہ میں تو صد ہا نبی آئے تھے۔

غرض جس سلسلہ میں عبد اللطیف شہیدجیسے صادق اور ملہم خدا نے پیدا کئے جنہوں نے جان بھی اِس راہ میں قربان کر دی اور خدا سے الہام پاکر میری تصدیق کی ایسے سلسلہ پر اعتراض کرنا کیا یہ تقویٰ میں داخل ہے ایک پارسا طبع صالح اہل علم کا ایک جھوٹے انسان کے لئے اِس قدر عاشقانہ جوش کب ہو سکتا ہے۔

کس بہر کسے سرندہد جان نفشاند

عشق است کہ ایں کاربصد صدق کناند

عشقؔ است کہ در آتش سوزاں بنشاند

عشق است کہ بر خاکِ مذلّت غلطاند

بے عشق دلے پاک شود من نپذیرم

عشق است کزیں دام بیکدم برہاند

صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف شہید نے اپنے خون کے ساتھ سچائی کی گواہی دی الاستقامت فوق الکرامت۔ مگر آج کل کے اکثر علماء کا یہ قاعدہ ہے کہ دو دو روپیہ سے اُن کے فتوے بدل جاتے ہیں اور اُن کی باتیں خدا کے خوف سے نہیں بلکہ نفس کے جوش سے ہوتی ہیں لیکن عبد اللطیف شہید مرحوم وہ صادق اور متقی خدا کا بندہ تھا جس نے خدا کی راہ میں نہ اپنی بیوی کی پروا کی نہ بچوں کی نہ اپنی جان عزیز کی۔ یہ لوگ ہیں جو حقّانی علماء ہیں جن کے اقوال و اعمال پیروی کے لائق ہیں۔ جنہوں نے اخیر تک خدا کی راہ میں اپنا صدق نباہ دیا۔

از بند گانِ نفس رہِ آں یگان مپرس

ہر جاکہ گرد خاست سوارے دران بجو

آں کس کہ ہست از پأ آن یار بے قرار

رو صحبتش گزین و قرارے دران بجو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 213

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 213

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/213/mode/1up


بر آستان آنکہ زخود رفت بہر یار

چُون خاک باش و مرضی ء یارے دران بجو

مردان بتلخ کامی و حرقت بدورسند

حرقت گزین وفتح حصارے دران بجو

بر مسند غرور نشستن طریق نیست

این نفس دون بسوزونگارے دران بجو

۱۸۔ اٹھارھواں نشان۔ خدا تعالیٰ کا یہ قول ہے 3۔ 3۔3 ۱؂ یعنی اگریہ نبی ہمارے پر افترا کرتا تو ہم اس کو دہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر اس کی وہ رگ کاٹ دیتے جو جان کی رگ ہے یہ آیت اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے معنوں میں عموم ہے جیسا کہ تمام قرآن شریف میں یہی محاورہ ہے کہ بظاہر اکثر امرو نہی کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں لیکن اُن احکام میں دوسرے بھی شریک ہوتے ہیں یا وہ احکام دوسروں کے لئے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ یہ آیت33۲؂ یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اورایسی باتیں اُن سے نہ کر جن میں اُن کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو۔ اِس آیت کے مخاطب توآنحضرؔ ت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن در اصل مرجع کلام اُمت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ آپ کی خورد سالی میں ہی فوت ہو چکے تھے اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بُزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے اور اسی کی طرف یہ دوسری آیت اشارہ کرتی ہے۔ 33۳؂ یعنی تیرے ربّ نے چاہا ہے کہ تو فقط اُسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر۔ اِس آیت میں بُت پرستوں کو جو بُت کی پوجا کرتے ہیں سمجھایا گیا ہے کہ بُت کچھ چیز نہیں ہیں اور بُتوں کا تم پر کچھ احسان نہیں ہے۔ انہوں نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور تمہاری خورد سالی میں وہ تمہارے متکفل نہیں تھے اور اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 214

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 214

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/214/mode/1up


والدین کی بھی پرستش کرو کیونکہ وہ بھی مجازی ربّ ہیں اورہر ایک شخص طبعًا یہاں تک کہ درند چرند بھی اپنی اولاد کو اُن کی خوردسالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ پس خدا کی ربوبیت کے بعد اُن کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

جملہ معترضہ کے بعد پھر ہم اصل کلام کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو فرمایا کہ اگر وہ ہمارے پرکچھ افترا کرتا تو ہم اُس کو ہلاک کر دیتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ غیرت اپنی ظاہر کرتا ہے کہ آپ اگر مفتری ہوتے تو آپ کو ہلاک کردیتا مگر دوسروں کی نسبت یہ غیرت نہیں ہے اور دُوسرے خواہ کیسا ہی خدا پر افتراء کریں اور جھوٹے الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کر دیا کریں اُن کی نسبت خدا کی غیرت جوش نہیں مارتی۔ یہ خیال جیسا کہ غیر معقول ہے۔ ایسا ہی خدا کی تمام کتابوں کے بر خلاف بھی ہے اور اب تک توریت میں بھی یہ فقرہ موجود ہے کہ جو ؔ شخص خدا پر افتراکرے گا اورجھوٹا دعویٰ نبوت کا کرے گا وہ ہلاک کیاجاوے گا۔ علاوہ اس کے قدیم سے علماء اسلام آیت لَوْ تَقَولَّ عَلَینَا کوعیسائیوں اور یہودیوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لئے بطور دلیل پیش کرتے رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک کسی بات میں عموم نہ ہو وہ دلیل کا کام نہیں دے سکتی۔ بھلا یہ کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر افترا کرتے تو ہلاک کئے جاتے اور تمام کام بگڑ جاتا لیکن اگر کوئی دوسرا افترا کرے تو خدا ناراض نہیں ہوتا بلکہ اس سے پیار کرتا ہے اور اُس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ مُہلت دیتا ہے اور اُس کی نصرت اور تائید کرتا ہے اِس کا نام تو دلیل نہیں رکھنا چاہئے بلکہ یہ تو ایک دعویٰ ہے کہ جو خود دلیل کا محتاج ہے۔ افسوس میری عداوت کے لئے اِن لوگوں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے نشانوں پر بھی حملے کرنے لگے۔ چونکہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ میرے اِس دعویٰ وحی اورالہام پر پچیس۲۵ سال سے زیادہ گذر چکے ہیں جو آنحضرت ؐکے ایام بعثت سے بھی زیادہ ہیں کیونکہ وہ تیئیس برس

تھے اور یہ تیس۳۰ سال کے قریب اور ابھی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 215

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 215

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/215/mode/1up


معلوم نہیں کہ کہاں تک خدا تعالیٰ کے علم میں میرے ایام دعوت کا سلسلہ ہے اسلئے یہ لوگ باوجود مولوی کہلانے کے یہ کہتے ہیں کہ ایک خدا پر افترا کرنیوالا اور جھوٹا ملہم بننے والا اپنے ابتدائے افترا سے تیس سال تک بھی زندہ رہ سکتاہے اور خدا اس کی نصرت اور تائید کر سکتا ہے اور اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرتے۔ اے بیباک لوگو! جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔ جو کچھ خدا نے اپنے لطف و کرم سے میرے ساتھ معاملہ کیا یہاں تک کہ اِس مُدّت دراز* میں ہر ایک دن میرے لئے ترقی کا دن تھا اور ہر ایک مقدمہ جو میرے تباہ کرنے کے لئے اُٹھا یا گیا خدا نے دشمنوں کو رسوا کیا۔ اگر اس مُدّت اور اُس تائید اور نصرت کی تمہارے پاس کوئی نظیر ہے تو پیش کرو۔ ورنہ بموجب آیت3 ۱؂ یہ نشان بھی ثابت ہو گیا اور تم اِس سے پوچھے جاؤگے۔

۱۹۔ انیسواں نشان یہ ہے کہ خواجہ غلام فرید صاحب نے جو نواب بہاولپور کے پیر تھے میری تصدیق کے لئے ایک خواب دیکھا جس کی بنا پر میری محبت خدا تعالیٰ نے اُن کے دل میں ڈال دی اور اسی بنا پر کتابؔ اشارات فریدی میں جو خواجہ صاحب موصوف کے ملفوظات ہیں جا بجا خواجہ صاحب موصوف میری تصدیق فرماتے ہیں۔ اہل فقر کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ظاہری جھگڑوں میں بہت کم پڑتے ہیں اور جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کو بذریعہ خواب یا کشف یا الہام پتہ ملتا ہے اسپر ایما ن لاتے ہیں۔ پس چونکہ خواجہ غلام فرید صاحب پیر صاحب العلم کی طرح پاک باطن تھے اس لئے خدا نے اُن پر میری سچائی کی حقیقت کھول دی اور کئی مولوی جیسے مولوی غلام دستگیر خواجہ صاحب کو میرا مکذب بنانے کے لئے آپ کے گاؤں میں پہنچے جیسا کہ کتاب اشارات فریدی میں خواجہ

صاحب نے خود یہ حالات بیان کئے ہیں اور بعض غزنویوں کا بھی خواجہ صاحب موصوف کے پاس خط پہنچا مگر آپ نے


* یہ یاد رہے کہ اگر میرے زمانہ الہام کو اس تاریخ سے لیا جائے جب اول حصہ براہین احمدیہ کا لکھا گیا تھا تب تو اس سال سے میرے الہام کے زمانہ کو ستائیس سال کے قریب ہوتے ہیں اور جب براہین احمدیہ کے چہارم حصہ سے شمار کیا جائے تو تب پچیس سال گذر گئے ہیں اور جب وہ زمانہ لیا جائے کہ جب پہلے الہام شروع ہوا تب تیس ۳۰ سال ہوتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 216

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 216

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/216/mode/1up


کسی کی بھی پروا نہیں کی اور ان خشک مُلّاؤں کو ایسے دندان شکن جواب دئے کہ وہ ساکت ہو گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کا خاتمہ مصدق ہونے کی حالت میں ہوا چنانچہ وہ خطوط جو آپ نے میری طرف لکھے اُن سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کس قدرمیری محبت اُن کے دل میں ڈال دی تھی اور کس قدر اپنے فضل سے میرے بارہ میں اُن کو معرفت بخش دی تھی۔ خواجہ صاحب نے اپنی کتاب اشارات فریدی میں مخالفوں کے حملوں کا جا بجا جواب دیا ہے جیسا کہ ایک جگہ اشارات فریدی میں لکھا ہے کہ کسی نے خواجہ صاحب موصوف کی خدمت میں عرض کی کہ آتھم میعاد کے بعد مرا انہوں نے میرا نام لے کر فرمایا کہ اس بات کی کیا پروا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آتھم اُنہیں کے نفس سے مرا ہے یعنی انہیں کی توجہ اور عقد ہمت نے آتھم کا خاتمہ کر دیا۔* اور کسی نے میری نسبت آپ کو کہا کہ ہم اُن کو مہدی معہود کیونکر مان لیں کیونکہ مہدی موعود کی ساری علامتیں جو حدیثوں میں لکھی ہیں اُن میں پائی نہیں جاتیں۔ تب خواجہ صاحب اس کلمہ پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ تو کہو کہ تمام قرار دادہ نشان جو لوگوں نے پہلے سے سمجھ رکھے تھے کس نبی یا رسول میں سب کے سب پائے گئے اگر ایسا وقوع میں آتا تو کیوں بعض کافر رہتے اور بعض ایمان لاتے۔ یہی

سنّت اللہ ہے کہ جو جو علامتیں پیشگوئیوں میں کسی آنے والے نبی


* میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ آتھم کی نسبت جو پیشگوئی تھی وہ اپنے مفہوم کے مطابق پوری ہو گئی۔ اگر آتھم لوگوں کے رو برو جو ساٹھ ۶۰ یا ستر ۷۰ تھے دجّال کہنے سے رجوع نہ کرتا تو اس وقت کہہ سکتے تھے کہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی مگر جبکہ آتھم نے رجوع کر لیا تھا۔ تو ضرور تھا کہ وہ شرط کا فائدہ اُٹھاتا بلکہ اگر آتھم باوجود اس قدر رجوع کے جو اس نے اپنی عزّت اور حشمت کی کچھ پروا نہ کرکے عیسائیوں کے مجمع میں ہی رجوع کیا پھر بھی پندرہ مہینہ کے اندر مر جاتا تو خدا تعالیٰ کے وعدہ پر اعتراض ہوتا۔ تب کہہ سکتے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی مگر اب باوجود رجوع کے پھر اعتراض کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جن کو دین اور دیانت سے کچھ سروکار نہیں۔ ہاں جب آتھم پندرہ مہینہ کے گذرنے کے بعد شوخ چشم ہو گیا اور خدا تعالیٰ کے احسان کا شکر گذار نہ رہا تب ایک دوسری پیشگوئی کے مطابق میرے آخری اشتہار سے پندرہ مہینہ کے اندر مر گیا۔ بہر حال اس کی موت پندرہ مہینہ سے باہر نہ نکل سکی۔ چنانچہ ایک عقلمند نے باوجود عیسائی ہونے کے اقرار کیا ہے کہ آتھم کی نسبت جو پیشگوئی تھی وہ نہایت صفائی سے پوری ہو گئی اور انکار ہٹ دھرمی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 217

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 217

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/217/mode/1up


کے بارہ میں لکھی جاتی ہیں وہ تمام باتیں اپنے ظاہری الفاظ کے ساتھ ہر گز پوری نہیں ہوتیں بعضؔ جگہ استعارات ہوتے ہیں بعض جگہ خود اپنی سمجھ میں فرق پڑ جاتا ہے اور بعض جگہ پرانی باتوں میں کچھ تحریف ہو جاتی ہے اس لئے تقویٰ کا طریق یہ ہے کہ جو باتیں پوری ہو جائیں اُن سے فائدہ اُٹھائیں اور وقت اور ضرورت کو مد نظر رکھیں اور اگر تمام مقرر کردہ علامتوں کو اپنی سمجھ سے مطابق کرنا ضروری ہوتا تو تمام نبیوں سے دستبردار ہونا پڑتا اور انجام اس کا بجز محرومی اور بے ایمانی کے کچھ نہ ہوتا کیونکہ کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس پر تمام قرار داد ہ علامتیں ظاہری طور پر صادق آگئی ہوں۔ کوئی نہ کوئی کسر رہ گئی ہے۔ یہودی پہلے مسیح کی نسبت یعنی حضرت عیسیٰ کی نسبت کہتے تھے کہ وہ اُس وقت آئے گا کہ جب پہلے اس سے الیاس نبی دوبارہ زمین پر آجائے گا۔ پس کیا الیاس آگیا؟ ایسا ہی یہودیوں کا اِس بات پر اصرار تھا کہ آنے والا خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے ہوگا پس کیا وہ بنی اسرائیل میں سے ظاہر ہوا؟ پھر جبکہ یہودیوں کے خیال کے موافق جس پر ان کے تمام نبیوں کا اتفاق تھا خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا۔ پھر اگر مہدی موعود فاطمی یا عباسی خاندان سے ظاہر نہ ہوا تو اس میں کونسی تعجب کی جگہ ہے۔ خدا کی پیشگوئی میں کئی اسرار مخفی ہوتے ہیں اور امتحان بھی منظور ہوتا ہے۔*

پس جبکہ یہودی اپنے خیالات پر زور دینے سے ایمان سے محروم رہے تو مسلمانوں کے لئے یہ عبرت پکڑنے کا مقام ہے کیونکہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں میں سے بعض یہودی ہو جائیں گے یعنی یہودیوں کی عادت اختیار کریں گے اور اُن کے قدم پر چلیں گے جیسا کہ لکھا ہے کہ اگر کسی یہودی نے اپنی ماں سے بھی زنا کیا ہوگا تو وہ بھی کرینگے۔ پس کس قدر


. * حدیثوں کو خوب غور کرکے پڑھو وہ مہدی معہود کی نسبت اس قدر اختلاف رکھتی ہیں کہ گویا تناقضات کا مجموعہ ہے بعض حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی فاطمی ہوگا اور بعض میں لکھا ہے کہ عباسی ہوگا اور بعض میں لکھا ہے کہ رجل من اُمّتی یعنی میری اُمّت سے ایک شخص ہوگا اور ابن ماجہ کی حدیث نے ان سب روایات پر پانی پھیر دیا ہے کیونکہ اس حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ لا مھدی اِلّا عیسٰی یعنی عیسٰی ہی مہدی ہے اسکے سوا اور کوئی مہدی نہیں۔ پھر مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے۔ پس جس رنگ پر پیشگوئی ظہور میں آئی اور جو کچھ حَکَمِ موعود نے فیصلہ کیا وہی صحیح ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 218

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 218

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/218/mode/1up


خوف کا مقام ہے اکثر یہودیوں نے صرف اِس سبب سے حضرت عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہیں کیا کہ اس بات کو انہوں نے اپنا فرض سمجھا کہ جب تک ساری علامتیں اور ساری نشانیاں اُن میں اپنے خیال کے موافق پوری ہوتی نہ دیکھ لیں تب تک ماننا ناجائزہے اور آخر کفر کے گڑھے میں گر گئے اور اس بات پر اب تک اڑے رہے کہ پہلے الیاس آنا چاہئے پھر مسیح اور خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے چاہئے۔ غرض خواجہ غلام فرید صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہؔ نور باطن عطا کیا تھا کہ وہ ایک ہی نظر میں صادق اور کاذب میں فرق کر لیتے تھے خدا اُن کو غریق رحمت کرے اور اپنے قرب میں جگہ دے۔ آمین

۲۰۔ بیسواں نشان۔ قریباً تیس برس کا عرصہ ہوا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا تھا کہ تو ایک نسل بعید کو دیکھے گا۔ اِس الہام کے صدہا آدمی گواہ ہیں اور کئی مرتبہ چھپ چکا ہے اب اس کے موافق ظہور میں آیا کہ میں نے وہ اولاد دیکھی جو پیشگوئی کے وقت موجود نہ تھی اور پھر اولاد کی اولاد دیکھی اور نہ معلوم ابھی کہاں تک اس پیشگوئی کا اثر ہے۔

۲۱۔ اکیسواں نشان۔ یہ کہ عرصہ تخمیناً تیس برس کا ہوا ہے کہ جب میرے والد صاحب خدا اُن کو غریق رحمت کرے اپنی آخری عمر میں بیمار ہوئے تو جس روز اُن کی وفات مقدر تھی دوپہر کے وقت مجھ کو الہام ہوا۔ وَالسّماءِ وَالطّارق اور ساتھ ہی دل میں ڈالا گیا کہ یہ اُن کی وفات کی طرف اشارہ ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آفتاب کے غروب کے بعد پڑے گا۔ اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندہ کو عزا پُرسی تھی۔ تب میں نے سمجھ لیا کہ میرے والد صاحب غروب آفتاب کے بعد فوت ہو جائیں گے اور کئی اور لوگوں کو اس الہام کی خبر دی گئی اور مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس پر جھوٹ بولنا ایک شیطان اور *** کا کام ہے کہ ایسا ہی ظہور میں آیا اور اس دن میرے والد صاحب کی اصل مرض جو درد گردہ تھی دور ہو چکی تھی صرف تھوڑی سی زحیر باقی تھی اور اپنی طاقت سے بغیر کسی سہارے کے پاخانہ میں جاتے تھے جب سورج غروب ہوا اور وہ پاخانہ سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 219

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 219

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/219/mode/1up


آکر چارپائی پر بیٹھے تو بیٹھتے ہی جان کندن کا غرغرہ شروع ہوا۔ اُسی غر غرہ کی حالت میں اُنہوں نے مجھے کہا کہ دیکھا یہ کیا ہے اور پھر لیٹ گئے اور پہلے اس سے مجھے کبھی اِس بات کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا کہ کوئی شخص غر غرہ کے وقت میں بول سکے اور غر غرہ کی حالت میں صفائی اور استقامت سے کلام کر سکے۔ بعد اس کے عین اس وقت جب کہ آفتاب غروب ہوا وہ اس جہان فانی سے انتقال فرماگئے اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔اور یہ اُن سب الہاموں سے پہلاؔ الہام اور پہلی پیشگوئی تھی جو خدا نے مجھ پر ظاہر کی دوپہر کے وقت خدا نے مجھے اِس کی اطلاع دی کہ ایسا ہونے والا ہے اور غروب کے بعد یہ خبر پوری ہو گئی اور مجھے فخر کی جگہ ہے اور میں اِس بات کو فراموش نہیں کروں گا کہ میرے والد صاحب کی وفات کے وقت خدا تعالیٰ نے میری عزا پُرسی کی اور میرے والد کی وفات کی قسم کھائی جیسا کہ آسمان کی قسم کھائی۔ جن لوگوں میں شیطانی روح جوش زن ہے وہ تعجب کریں گے کہ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے کہ خدا کسی کو اس قدر عظمت دے کہ اُس کے والد کی وفات کو ایک عظیم الشان صدمہ قرار دے کر اُس کی قسم کھاوے مگر میں پھر دوبارہ خدائے عزّوجَلّکی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ واقعہ حق ہے اور وہ خدا ہی تھا جس نے عزا پُرسی کے طور پر مجھے خبر دی اور کہا کہ والسماء والطارق اور اسی کے موافق ظہور میں آیا۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔

۲۲۔ بائیسواں نشان۔ یہ ہے کہ جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اِس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ اُنہیں کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے۔ جو اُن کی حیات سے مشروط تھی۔ اِس لئے یہ خیال گذرا کہ اُن کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شائد تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گذر گیا تب اُسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 220

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 220

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/220/mode/1up


اِس الہام الٰہی کے ساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے۔ درحقیقت یہ امر بار ہا آزمایا گیا ہے کہ وحی الٰہی میں دلی تسلی دینے کے لئے ایک ذاتی خاصیت ہے اور جڑھ اِس خاصیت کی وہ یقین ہے جو وحی الٰہی پر ہو جاتا ہے۔ افسوس ان لوگوں کے کیسے الہام ہیں کہ باوجود دعویٰ الہام کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے الہام ظنّی امور ہیں نہ معلوم یہ شیطانی ہیں یا رحمانی ایسے الہاموں کا ضررؔ اُن کے نفع سے زیادہ ہے مگر مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اِن الہامات پر اُسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اُسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں کیونکہ اس کے ساتھ الٰہی چمک اور نور دیکھتا ہوں اور اسکے ساتھ خدا کی قدرتوں کے نمونے پاتا ہوں۔ غرض جب مجھ کو الہام ہوا کہ الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ تو میں نے اُسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا تب میں نے ایک ہندو کھتری ملاوا مل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ اُس کو سُنایا اور اُس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے اور میں نے اس ہندو کو اس کام کے لئے محض اِس غرض سے اختیار کیا کہ تا وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جائے اور تامولوی محمد شریف بھی گواہ ہو جاوے۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ 3روپیہ طیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جو اَب تک میرے پاس موجود ہے جس کا نشان یہ ہے 3 یہ اُس زمانہ میں الہام ہوا تھا جبکہ ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور میں ایک گمنام انسان تھاجو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویۂ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔ پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیشگوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 221

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 221

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/221/mode/1up


مالی مدد کی کہ جس کا شکریہ بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں مجھے اپنی حالت پر خیال کرکے اس قدر بھی اُمید نہ تھی کہ3 دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے مگر خدا تعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اُٹھاتا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے اُس نے ایسی میری دستگیری کی کہ میں یقیناًکہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے۔* اور شائد اس سے زیادہ ہو اور اس آمدنی کو اس سے خیال کر لینا چاہئے کہ سالہا سال سے صرف لنگر خانہ کا ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تک خرچ ہو جاتا ہے یعنی ؔ اوسط کے حساب سے اور دوسری شاخیں مصارف کی یعنی مدرسہ وغیرہ اور کتابوں کی چھپوائی اس سے الگ ہے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی یعنی الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ کس صفائی اور قوت اور شان سے پوری ہوئی۔ کیا یہ کسی مفتری کا کام ہے یا شیطانی وساوس ہیں۔ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کے ہاتھ میں عزت اور ذلت اور ادبار اور اقبال ہے۔ اگر اس میرے بیان کا اعتبار نہ ہو تو بیس برس کی ڈاک کے سرکاری رجسٹروں کو دیکھو تا معلوم ہو کہ کس قدر آمدنی کا دروازہ اِس تمام مدّت میں کھولا گیا ہے حالانکہ یہ آمدنی صرف ڈاک کے ذریعہ تک محدود نہیں رہی بلکہ ہزار ہا روپیہ کی آمدنی اس طرح ہی ہوتی ہے کہ لوگ خود قادیان میں آکر دیتے ہیں اور نیز ایسی آمدنی جو لفافوں میں نوٹ بھیجے جاتے ہیں۔

۲۳۔ تیئیسواں نشان۔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی ہے جو بہت صفائی سے پوری ہو گئی ہے اور یہ دراصل دو پیشگوئیاں تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ پندرہ مہینے کے اندر مر جائے گا دوسری یہ کہ اگر وہ اپنے اس کلام سے باز آجائے گا جو اُس نے شائع کیا کہ نعوذ باللہ آنحضرت


اگرچہ منی آرڈروں کے ذریعہ ہزارہا روپے آچکے ہیں مگر اُس سے زیادہ وہ ہیں جو خود مخلص لوگوں نے آکر دئے اور جو خطوط کے اندر نوٹ آئے اور بعض مخلصوں نے نوٹ یا سونا اس طرح بھیجا جو اپنا نام بھی ظاہر نہیں کیا اور مجھے اب تک معلوم نہیں کہ اُن کے نام کیا کیا ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 222

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 222

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/222/mode/1up


صلی اللہ علیہ وسلم دجّال تھے تو پندرہ* مہینے کے اندر نہیں مرے گا۔ اور جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں۔ موت کی پیشگوئی اس بنا پرتھی کہ آتھم نے اپنی ایک کتاب اندرونہ بیبل نام میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجّال کہا تھا اور یہ سچ ہے کہ پیشگوئی میں آتھم کے مَرنے کے لئے پندرہ مہینے کی میعاد تھی مگر ساتھ ہی یہ شرط تھی جس کے یہ الفاظ تھے کہ ’’بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘ مگر آتھم نے اُسی مجلس میں رجوع کر لیا اور نہایت عاجزی سے زبان نکال کر اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر دجّال کہنے سے ندامت ظاہر کی۔ اِس بات کے گواہ نہ ایک نہ دو بلکہ ساٹھ۶۰ یا ستر۷۰ آدمی ہیں۔ جن میں سے نصف کے قریب عیسائی ہیں اور نصف کے قریب مسلمان اور میں خیال کرتاہوں کہ پچا۵۰س کے قریب اب تک اُن میں سے زندہ ہوں گے جن کے روبرو آتھم نے دجّال کہنے سے رجوع کیا اور پھر مرتے وقت تک ایسا لفظ مُنہ پر نہیں لایا۔ اب سوچنا چاہئے کہ کیسی بد ذاتی اور بدمعاشی اور بے ایمانی ہے کہ باوجود اِس کھلے کھلے رجوع کے جو آتھم نے ساٹھ۶۰ یا ستر ۷۰ آدمیوں کے رو برو کیا پھر بھی کہا جائے کہ اُس نے رجوعؔ نہیں کیا تمام مدارغضب الٰہی کا تو دجّال کے لفظ پر تھااور اسی بناء پر پیشگوئی تھی اوراُسی لفظ سے رجوع کرنا شرط تھا۔ مسلمان ہونے کا پیشگوئی میں کوئی ذکر نہیں پس جب اُس نے نہایت انکساری سے رجوع کیا تو خدا نے بھی رحمت کے ساتھ رجوع کیا۔ الہام الٰہی کا تو یہ مدعا نہیں تھا کہ جب تک آتھم اسلام نہ لاوے ہلاکت سے نہیں بچے گا۔ کیونکہ اسلام کے انکار میں تو سارے


* اس بات کی ہزاروں آدمیوں کو خبر ہوگی کہ جب آتھم کو بموجب شرط الہام کے تاخیر دی گئی تو اُس نے اس تاخیر کا کوئی شکر ادا نہ کیا بلکہ یہ سمجھ کر کہ بلا سر سے ٹل گئی حق پوشی اختیار کی اور کہا کہ میں نہیں ڈرا اور قسم کھانے سے بھی انکار کیا۔ حالانکہ عیسائی مذہب کے سارے بزرگ قسم کھاتے آئے ہیں اور انجیل سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح نے خود قسم کھائی۔ پولوس نے قسم کھائی پطرس نے قسم کھائی لہٰذا اُس کی اِس حق پوشی کے بعد خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ اب جلد فوت ہو جائے گا۔ تب میں نے اس بارہ میں ایک اشتہار شائع کیا پس عجیب بات ہے کہ اس اشتہار کی تاریخ سے جو میں نے اس دوسرے الہام کی رو سے اُسکی موت کے بارہ میں شائع کیا تھا وہ پندرہ۱۵ مہینے کے اندر مر گیا۔ سو خدا نے آتھم کے لئے جبکہ اُس نے سچائی کی راہ چھوڑ دی اور حق پوشی کی وہی پندرہ ۱۵ مہینے قائم رکھے جس کے بارہ میں ہمارے مخالفوں کے گھروں میں ماتم اور سیاپا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 223

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 223

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/223/mode/1up


عیسائی شریک ہیں خدا اسلام کے لئے کسی پر جبر نہیں کرتا اور ایسی پیشگوئی بالکل غیرمعقول ہے کہ فلاں شخص اگر اسلام نہ لاوے تو فلاں مدّت تک مر جاوے گا دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو منکر اسلام ہیں۔ اور جیسا کہ میں بار بار لکھ چکا ہوں محض انکار اسلام سے کوئی عذاب کسی پر دنیا میں نہیں آسکتا بلکہ اس گناہ کی باز پُرس صرف قیامت کو ہوگی۔ پھر آتھم کی اِس میں کونسی خصوصیت تھی کہ بوجہ انکار اسلام اُس کی موت کی پیشگوئی کی گئی اور دوسروں کے لئے نہیں کی گئی بلکہ پیشگوئی کی وجہ صرف یہ تھی کہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مقدس کی نسبت دجّال کا لفظ استعمال کیا تھا جس قول سے اس نے ساٹھ۶۰ یا ستر۷۰ انسانوں کے رُوبرو رجوع کیا جن میں سے بہت سے شریف اور معزز تھے جو اس مجلس میں موجود تھے۔ پھر جبکہ اُس نے اِس لفظ سے رجوع کر لیا بلکہ بعد اس کے رو تا رہا تو خداتعالیٰ کی جناب میں رحم کے قابل ہو گیا۔ مگر صرف اِسی قدر کہ اُس کی موت میں چند ماہ کی تاخیر ہو گئی اور میری زندگی میں ہی مر گیا اور وہ بحث جو ایک مباہلہ کے رنگ میں تھی اس کی رو سے وہ بوجہ اپنی موت کے جھوٹا ثابت ہوا توکیا اب تک وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بے شک پوری ہو گئی اور نہایت صفائی سے پوری ہو ئی۔ ایسے دلوں پر خدا کی *** ہے کہ ایسے صریح نشانوں پر اعتراض کرنے سے بازنہیں آتے اگر وہ چاہیں تو آتھم کے رجوع پر میں چالیس ۴۰ آدمی کے قریب گواہ پیش کر سکتا ہوں اور اسی وجہ سے اُس نے قسم بھی نہ کھائی حالانکہ تمام عیسائی قسم کھاتے آئے ہیں اور حضرت مسیح نے خود قسم کھائی اور ہمیں اِس بحث کو طول دینے کی ضرورت نہیں۔ آتھم اب زندہ موجود نہیں گیا۱۱رہ برس سے زیادہ عرصہ گذرا کہ وہ مر چکا ہے۔

۲۴۔نشان۔ ۳۰؍جون ۱۸۹۹ء میں مجھے یہ الہام ہوا۔ پہلے بیہوشی ،پھر غشی، پھر موت، ساتھ ہی اسکے یہ تفہیم ہوئی کہ یہ الہام ایک مخلص دوست کی نسبت ہے جس کی موت سے ہمیں رنج پہنچے گا۔ چنانچہ اپنی جماعت کے بہت سے لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا اور الحکم ۳۰؍جون ۱۸۹۹ء میں درج ہو کر شائع کیا گیا پھر آخر جولائی ۱۸۹۹ء میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست یعنی ڈاکٹر محمد بوڑے خاں اسسٹنٹ سرجن



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 224

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 224

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/224/mode/1up


ایک ناگہانی موت سے قصور میں گذر گئے۔ اوّل بے ہوش رہے پھر یک دفعہ غشی طاری ہو گئی۔ پھر اس ناپائدار دُنیا سے کوچ کیا اور اُن کی موت اور اس الہام میں صرف بیس۲۰ بائیس۲۲ دن کا فرق تھا۔

۲۵ ۔پچیسواں نشان۔ کرم دین جہلمی کے اُس مقدمہ فوجداری کی نسبت پیشگوئی ہے جو اُس نے جہلم میں مجھ پر دائر کیا تھا جس پیشگوئی کے یہ الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُک۔ رَبِّ فَاحفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اور دوسرے الہامات بھی تھے جن میں بریت کا وعدہ تھا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اِس مقدمہ سے مجھ کو بَری کر دیا۔

۲۶ ۔چھبیسواں نشان۔ کرم دین جہلمی کے اس مقدمہ فوجداری میں میری بریت ہے جو گورداسپور میں چند ولال اور آتما رام مجسٹریٹ کی عدالت میں میرے پر دائر تھا اور پیشگوئی میں بتلایا گیا تھا کہ آخر بریّت ہوگی۔ چنانچہ میں بَری ہوا۔

۲۷ ۔ستائیسواں نشان-کرم دین جہلمی کی سزایابی کی نسبت پیشگوئی ہے جس کی رو سے آخر وہ سزا پاگیا دیکھو میری کتاب مواھب الرحمان صفحہ ۱۲۹ سطر ۸ یہ تینوں پیشگوئیاں بڑی تفصیل کے ساتھ مواہب الرحمان میں درج ہیں اور یہ کتاب مواہب الرحمان اُس وقت تالیف ہو کر شائع کی گئی تھی جبکہ پیشگوئی کا کوئی انجام معلوم نہ تھا پیشگوئی کی عبارت یہ ہے جو کتاب موصوف میں شائع ہوئی۔ ومن اٰیاتی ما انبأنی العلیم الحکیم فی امر رجل لئیم ۔ وبھتانہ العظیم واوحی الیّ انہ یرید ان یتخطف عرضک۔ ثم یجعل نفسہ غرضک۔ وارانی فیہ رؤیا ثلٰث مرات۔ وارانی ان العدوّ اعد لذالک ثلا ثۃ حُماۃٍ لتوھین و اعناتٍ ورئیت کأنّی احضرت محاکمۃ کالماخوذین ورئیت انّ اٰخر امری نجات بفضل ربّ العٰلمین۔ ولو بعد حین۔ و بُشّرتُ انّ البلاء یرد علٰی عدوی الکذاب المھین۔ فاشعت کلّما رأیت والھمت قبل ظھورہ فی جریدۃٍ یسمّی الحکم وفیؔ جریدۃ اخری یُسمّی البدر۔ ثم قعدت کالمنتظرین۔ وما مرّ علٰی مارئیت الّا سنۃ فاذا اظھر قدراللّٰہ علٰی ید عدوّ مبین اسمہ کرم الدین...



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 225

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 225

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/225/mode/1up


وقد ظھر بعض انبآء ہ تعالٰی من اجزآءِ ھٰذہ القضیۃ فیظھر بقیتھا کما وعد من غیر الشکّ والشبھۃ ترجمہ اور منجملہ میرے نشانوں کے ایک یہ ہے کہ جو خدائے علیم و حکیم نے ایک لئیم شخص کی نسبت اور اس کے بہتان عظیم کی نسبت مجھے خبر دی۔ اور مجھے اپنی وحی سے اطلاع دی کہ یہ شخص میری عزت دور کرنے کے لئے حملہ کرے گا اور انجام کار میرا نشانہ آپ بن جائے گا۔ اور خدا نے تین خوابوں میں یہ حقیقت میرے پر ظاہر کی اور خواب میں میرے پر ظاہر کیا کہ یہ دشمن تین حمایت کرنے والے اپنی کامیابی کے لئے مقرر کرے گا تاکہ کسی طرح اہانت کرے اور رنج پہنچاوے اور مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ گویا میں کسی عدالت میں گرفتاروں کی طرح حاضر کیا گیا ہوں اور مجھے دکھلایا گیا کہ انجام ان حالات کا میری نجات ہے اگرچہ کچھ مُدت کے بعد ہو۔ اور مجھے بشارت دی گئی کہ اس دشمن کذاب مہین پر بَلاردّ کی جائے گی پس ان تمام خوابوں اور الہامات کو میں نے قبل از وقت شائع کر دیا اور جن اخباروں میں شائع کیا ایک کا نام ان میں سے الحکم ہے اور دوسری کا نام البدر۔ پھر میں انتظار کرتا رہا کہ کب یہ پیشگوئی کی باتیں ظہور میں آئیں گی پس جب ایک برس گذرا تو یہ مقدر باتیں کرم دین کے ہاتھ سے ظہور میں آگئیں (یعنی اُس نے ناحق میرے پر فوجداری مقدمات دائر کئے) پس اُس کے مقدمات دائر کرنے سے پیشگوئی کا ایک حصہ تو پورا ہوگیا اور جو باقی حصہ ہے یعنی میرااُس کے مقدمات سے نجات پانا۔اور آخر اُسی کا سزا یاب ہونا یہ بھی عنقریب پورا ہو جائے گا اس حصہ عبارت سے ظاہر ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت تک نہ مجھے کرم دین کے مقدمات سے نجات اور رہائی ملی تھی اور نہ وہ سزایاب ہوا تھا بلکہ یہ سب کچھ پیشگوئی کے طورپر لکھا گیا تھا۔* یہ ترجمہ ہے اس پیشگوئی کا جو عربی میں اوپر لکھی گئی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ کرم دین میرے سزا دلانے کے لئے فوجداری میں مقدمات دائر کرے گا اور کئی حمایتی اُس کو مدد دیں گے آخر وہ خود سزا پائے گا اور خدا مجھے اس کے شر سے نجات دیگا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 226

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 226

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/226/mode/1up


سو ا ؔ یسا ہی ظہور میں آیا۔اب سوچناچاہئے کہ یہ پیشگوئی کس قدر غیب پر مشتمل ہے کیاکسی انسان یا شیطان کا کام ہے کہ ایسی پیشگوئی کرے جو میری عزت اور دشمن کی ذلّت کا حکم دیتی ہے۔

۲۸ ۔اٹھائیسواں نشان۔ آتما رام کی اولاد کی موت کی نسبت پیشگوئی۔ چنانچہ بیس۲۰ دن میں دولڑکے اس کے مر گئے۔ اِس پیشگوئی کے گواہ وہ جماعت کے لوگ ہیں جو گورداسپور میں میرے ساتھ مقدمہ میں حاضر تھے۔

۲۹ ۔انتیسواں نشان۔ لالہ چندو لال مجسٹریٹ اکسٹرا اسسٹنٹ گورداسپورہ کے تنزل کی نسبت پیشگوئی۔ چنانچہ وہ گورداسپورہ سے تبدیل ہو کر ملتان منصفی پر چلا گیا۔

۳۰ ۔تیسواں نشان۔ ایک شخص ڈوئی نام امریکہ کا رہنے والا تھا اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور اسلام کا سخت دشمن تھا اُس کا خیال تھا کہ میں اسلام کی بیخ کنی کروں گا۔ حضرت عیسیٰ کو خدا مانتا تھا میں نے اُس کی طرف لکھا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرے اور ساتھ اس کے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ مباہلہ نہیں کرے گا تب بھی خدااُس کو تباہ کر دے گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی امریکہ کے کئی اخباروں میں شائع کی گئی اور اپنے انگریزی رسالہ میں بھی شائع کی گئی۔ آخر اس پیشگوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی لاکھ روپیہ کی ملکیت سے اُس کو جواب مل گیا اوربڑی ذلّت پیش آئی اور آپ مرضِ فالج میں گرفتار ہو گیا ایساکہ اب وہ ایک قدم بھی آپ چل نہیں سکتا۔ہر ایک جگہ اُٹھاکر لے جاتے ہیں اور امریکہ کے ڈاکٹروں نے رائے دی ہے کہ اب یہ قابل علاج نہیں شائد چند ماہ تک مر جائے گا۔

۳۱ ۔اکتیسواں نشان ۔میری بریت کے بارہ میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں پیشگوئی تھی جو اُس نے میرے پر خون کا مقدمہ کیا تھا چنانچہ اس پیشگوئی کے موافق میں بری ہو گیا۔

۳۲ ۔بتیسواں نشان ٹیکس کے مقدمہ میں پیشگوئی ہے جو بعض شریر لوگوں نے سرکار انگریزی میں میری نسبت یہ مخبری کی تھی کہ ہزارہا روپیہ کی ان کو آمدنی ہے ٹیکس لگاناچاہئے اور خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ اس میں وہ لوگ نامراد رہیں گے چنانچہ ایساہی ظہورمیںآیا۔

۳۳ ۔ تینتیسواں نشان۔ مسٹر ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے پاس میری نسبت بہ نیت سزا دلانے کے فوجداری میں ایک مقدمہ پولیس نے بنایا تھا اور اُس کی نسبت خدا تعالیٰ نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 227

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 227

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/227/mode/1up


مجھےؔ بتلایا کہ ایسی کوشش کرنے والے نا مراد رہیں گے چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا اِس بارہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا انا تجالدنا فانقطع العدوواسبابہیعنی ہم نے تلوار کے ساتھ جنگ کیا پس نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن ہلاک ہو گیا اور اس کے اسباب بھی ہلاک ہوئے۔ اِس جگہ دشمن سے مراد ایک ڈپٹی انسپکٹر ہے جس نے ناحق عداوت سے مقدمہ بنایا تھا آخر طاعون سے ہلاک ہوا۔

۳۴ ۔چونتیسواں نشان یہ ہے کہ میرا ایک لڑکا فوت ہو گیا تھا اور مخالفوں نے جیسا کہ اُن کی عادت ہے اس لڑکے کے مَرنے پر بڑی خوشی ظاہر کی تھی تب خدا نے مجھے بشارت دے کر فرمایا کہ اس کے عوض میں جلد ایک اور لڑکا پیدا ہوگا جس کا نام محمود ہوگا اور اُس کا نام ایک دیوار پر لکھا ہوا مجھے دکھایا گیا تب میں نے ایک سبز رنگ اشتہار میں ہزارہا موافقوں اور مخالفوں میں یہ پیشگوئی شائع کی اور ابھی ستر ۷۰دن پہلے لڑکے کی موت پر نہیں گزرے تھے کہ یہ لڑکا پیدا ہو گیا اور اس کا نام محمود احمد رکھا گیا۔

۳۵ ۔پینتیسواں نشان یہ ہے کہ پہلا لڑکا محمود احمد پیدا ہونے کے بعد میرے گھر میں ایک اور لڑکا پیداہونے کی خدا نے مجھے بشارت دی اور اس کا اشتہار بھی لوگوں میں شائع کیا گیا چنانچہ دوسرا لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔

۳۶ ۔چھتیسواں نشان یہ ہے کہ بشیر احمد کے بعد ایک اور لڑکا پیداہونے کی خدا نے مجھے بشارت دی چنانچہ وہ بشارت بھی بذریعہ اشتہار لوگوں میں شائع کی گئی بعد اس کے تیسرا لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام شریف احمد رکھا گیا۔

۳۷۔ سینتیسواں نشان یہ ہے کہ بعد اس کے خدا تعالیٰ نے حمل کے ایام میں ایک لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت فرمایا تُنَشَّأُ فِی الحِلیۃ یعنی زیور میں نشو و نما پائے گی یعنی نہ خورد سالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی۔ چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا اور اس کی پیدائش سے جب سات روز گذرے تو عین عقیقہ کے دن یہ خبر آئی کہ پنڈت لیکھرام پیشگوئی کے مطابق کسی کے ہاتھ سے مارا گیا تب ایک ہی وقت میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 228

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 228

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/228/mode/1up


دونشا ن پورے ہوئے۔

۳۸ ۔اٹھتیسواں نشان یہ ہے کہ لڑکی کے بعد مجھے ایک اور پسر کی بشارت دی گئی چنانچہ وہ بشارت قدیم دستور کے موافق شائع کی گئی اور پھر لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام مبارک احمدرکھا گیا۔

۳۹ ۔اُنتالیسواں نشان یہ ہے کہ مجھے وحی الٰہی سے بتلایا گیا کہ ایک اور لڑکی پیدا ہوگی مگر وہ فوت ہو جائے گی چنانچہ وہ الہام قبل از وقت بہتوں کو بتلایا گیا بعد اس کے وہ لڑکی پیداہوئی اور چندماہ بعد فوت ہو گئی۔

۴۰ ۔چالیسواں نشان یہ ہے کہ اس لڑکی کے بعد ایک اور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ دُخت کرام چنانچہ وہ الہام الحکم اور البدر اخباروں میں اورشاید ان دونوں میں سے ایک میں شائع کیا گیا اور پھر اس کے بعد لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امۃ الحفیظ رکھا گیا اور وہ اب تک زندہ ہے۔

۴۱ ۔ اکتالیسواں نشان یہ ہے کہ عرصہ بیس ۲۰یا اکیس۲۱ برس کا گذرگیا ہے کہ میں نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں چار لڑکے دوں گا جو عمر پاویں گے اسی پیشگوئی کی طرف مواھب الرحمٰن صفحہ ۱۳۹ میں اشارہ ہے یعنی اس عبارت میں الحمد للّٰہ الذی وھب لی علی الکبر اربعۃً من البنین و انجز وعدہ من الاحسان یعنی اللہ تعالیٰ کو حمد و ثنا ہے جس نے پیرا نہ سالی میں چار لڑکے مجھے دیئے اور اپنا وعدہ پورا کیا (جو میں چار لڑکے دوں گا) چنانچہ وہ چار لڑکے یہ ہیں: محمود۱ احمد،

بشیر۲ احمد، شریف ۳احمد، مبارک۴ احمد جو زندہ موجود ہیں۔

۴۲۔بیالیسواں نشان یہ ہے کہ خدا نے نافلہ کے طور پر پانچویں لڑکے کا وعدہ کیا تھا۔ جیساکہ اسی کتاب مواہب الرحمن کے صفحہ ۱۳۹ میں اس طرح پر یہ پیشگوئی لکھی ہے:

و بشّرنی بخامسٍ فی حین من الاحیان یعنی پانچواں لڑکا جو چار سے علاوہ بطور نافلہ پیدا ہونے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 229

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 229

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/229/mode/1up


والاؔ تھا اُس کی خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ کسی وقت ضرور پیدا ہوگا اور اس کے بارہ میں ایک اور الہام بھی ہوا کہ جو اخبار البدر اور الحکم میں مدت ہوئی کہ شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے کہ انّا نبشّرک بغلامٍ نافلۃً لک نا فلۃً من عندی۔ یعنی ہم ایک اور لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں کہ جو نافلہ ہوگا یعنی لڑکے کا لڑکا یہ نافلہ ہماری طرف سے ہے چنانچہ قریباً تین ماہ کا عرصہ گذرا ہے کہ میرے لڑکے محمود احمد کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام نصیر احمد رکھا گیا۔ سو یہ پیشگوئی ساڑھے چار برس کے بعد پوری ہوئی۔

۴۳ ۔تینتالیسواں نشان یہ ہے کہ میں نے اپنی کتاب کشتی نوح میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ طاعون کے زمانہ میں ہمیں ٹیکہ کی ضرورت نہیں ہوگی خدا ہماری اور اُن سب کی جو ہمارے گھر میں ہیں آپ حفاظت کرے گا اور بالمقابل عافیت ہمارے ساتھ رہے گی لیکن بعض ٹیکہ لگوانے والے جان کا نقصان اُٹھائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بعض لوگوں نے ٹیکہ سے اس قدر نقصان اٹھایا کہ اُن کی بینائی جاتی رہی اور بعض کے اور اعضا میں خلل پیدا ہو گیا اور سب سے زیادہ یہ کہ ملکوال ضلع گجرات میں ایک ہی دفعہ انیس آدمی ٹیکہ سے مر گئے۔

۴۴۔ چوالیسواں نشان یہ ہے کہ سردار نواب محمد علی خان صاحب* رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبد الرحیم خاں ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا تھا اور کوئی صورت جان بری کی دکھائی نہیں دیتی تھی گویا مردہ کے حکم میں تھا۔ اُس وقت میں نے اُس کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے تب میں نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ یاالٰہی میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا من ذا الذی یشفع عندہ الّا باذنہٖ یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کے کسی کی شفاعت کر سکے تب میں خاموش ہو گیا بعد اس کے بغیر توقف کے یہ الہام ہوا انک انت المجاز۔ یعنی تجھے شفاعت کر نے کی اجازت دی گئی تب میں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی۔ تو خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا


*نواب صاحب موصوف عرصہ پانچ سال سے اپنی ریاست گاہ سے ہجرت کر کے قادیان میں مقیم ہیں اور سابقین میں سے ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 230

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 230

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/230/mode/1up


اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیاتھا کہ مدّت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن پرآیاؔ اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے۔

۴۵ ۔پینتالیسواں نشان یہ ہے کہ میرے مخلص دوست مولوی نور دین صاحب کا ایک لڑکا فوت ہو گیا تھااور وہی ایک لڑکا تھا اُس کے فوت ہونے پر بعض نادان دشمنوں نے بہت خوشی ظاہر کی اِس خیال سے کہ مولوی صاحب لاولد رہ گئے تب میں نے اُن کے لئے بہت دعا کی اور دعا کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی کہ تمہاری دعا سے ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اِس بات کا نشان کہ وہ محض دعا کے ذریعہ سے پیدا کیا گیا ہے یہ بتایا گیا کہ اُس کے بدن پر بہت سے پھوڑے نکل آئیں گے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبد الحیّ رکھا گیا اور اُس کے بدن پر غیر معمولی پھوڑے بہت سے نکلے جن کے داغ اب تک موجود ہیں۔ اور یہ پھوڑوں کا نشان لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے بذریعہ اشتہار شائع کیا گیا تھا۔

۴۶ ۔چھیالیسواں نشان یہ ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ بجز ایک مقام کے پنجاب کے تمام اضلاع میں طاعون کا نام و نشان نہ تھا خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تمام پنجاب میں طاعون پھیل جائے گی اور ہر ایک مقام طاعون سے آلودہ ہو جائے گا اور بہت مَری پڑے گی اور ہزار ہا لوگ طاعون کا شکار ہو جائیں گے اور کئی گاؤں ویران ہو جائیں گے۔ اور مجھے دکھایا گیا کہ ہر ایک جگہ اور ہر ایک ضلع میں طاعون کے سیاہ درخت لگائے گئے ہیں چنانچہ یہ پیشگوئی کئی ہزار اشتہار اور رسالوں کے ذریعہ سے میں نے اس ملک میں شائع کی۔ پھر تھوڑی مدت کے بعد ہر ایک ضلع میں طاعون پھوٹ پڑی چنانچہ تین لاکھ کے قریب اب تک جانوں کا نقصان ہوا اور ہو رہا ہے اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اب اس ملک سے کبھی طاعون دور نہیں ہوگی جب تک یہ لوگ اپنی تبدیلی نہ کریں۔

۴۷ ۔سینتالیسواں نشان یہ ہے کہ ایک شخص مسمّی چراغ دین ساکن جموں میرے مُریدوں میں داخل ہوا تھا پھر مُرتد ہو گیا اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ میں عیسیٰ کا رسول ہوں اور اُس نے میرا نام دجّال رکھا اور کہا کہ حضرت عیسیٰ نے مجھے عصا دیا ہے تا اس دجّال کو اس عصا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 231

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 231

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/231/mode/1up


کے ساتھ قتل کروں۔ اور میں نے اُس کی نسبت* یہ پیشگوئی کی کہ وہ غضب اللہ کی بیماری سے یعنی طاعون سے ہلاک ہوگا اور خدا اُس کو غارت کرے گا۔ چنانچہ وہ ۴؍اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا۔

۴۸ ؔ ۔اٹھتالیسواں نشان یہ ہے کہ میں نے مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کی نسبت پیشگوئی کی تھی کہ وہ تین سال کے عرصہ میں فوت ہو جائے گا چنانچہ وہ تین سال کی مدت کے اندر فوت ہو گیا۔

۴۹ ۔انچاسواں نشان یہ ہے کہ میں نے زلزلہ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جو اخبار الحکم اور البدر میں چھپ گئی تھی کہ ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے جو بعض حصہ پنجاب میں ایک سخت تبا ہی کا موجب ہوگا اور پیشگوئی کی تمام عبارت یہ ہے: زلزلہ کا دھکا۔ عفت الدیار محلہاو مقامہا چنانچہ وہ پیشگوئی ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو پوری ہوئی۔

۵۰۔ پچاسواں نشان یہ ہے کہ میں نے پھر ایک پیشگوئی کی تھی کہ اس زلزلہ کے بعد بہار کے دنوں میں پھر ایک اور زلزلہ آئے گا۔ اس الہامی پیشگوئی کی ایک عبارت یہ تھی۔ ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔‘‘ چنانچہ ۲۸؍فروری۱۹۰۶ء کو وہ زلزلہ آیا اور کوہستانی جگہوں میں بہت سا نقصان جانوں اور مالوں کے تلف ہونے سے ہوا۔

۵۱۔ اکاونواں نشان یہ ہے کہ پھر میں نے ایک اور پیشگوئی کی تھی کہ کچھ مدت تک زلزلے متواتر آتے رہیں گے۔ ان میں سے چار زلزلے بڑے ہوں گے اور پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا چنانچہ زلزلے اب تک آتے ہیں اور ایسے دو مہینے کم گذرتے ہیں جن میں کوئی زلزلہ نہیں آجاتا اور یقیناًیاد رکھنا چاہئے کہ بعد اس کے سخت زلزلے آنے والے ہیں خاص کر پانچواں زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہوگا اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ یہ سب تیری سچائی کے لئے نشان ہیں۔

۵۲۔ باونواں نشان یہ کہ پنڈت دیانند جو آریوں کے لئے بطور گُروکے تھا جب اُس کا فتنہ حد سے


* دیکھو رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 232

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 232

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/232/mode/1up


بڑھ گیا تو مجھے دکھلایا گیا کہ اب اُس کی زندگی کا خاتمہ ہے۔چنانچہ اُسی سال میں وہ فوت ہوگیا۔ میں نے یہ پیشگوئی ایک آریہ شرمپت نام کو جو ساکن قادیان ہے قبل از وقوع بتلا دی تھی اور وہ ابتک زندہ ہے۔

۵۳۔تریپن واں نشان۔ یہ ہے کہ اسی شرمپت کا ایک بھائی بسمبرداس نام ایک فوجداری مقدمہ میں شائد ڈیڑھ سال کے لئے قید ہو گیا تھا تب شرمپت نے اپنی اضطراب کی حالت میں مجھ سے دعا کی درخواست کی۔ چنا ؔ نچہ میں نے اس کی نسبت دُعاکی تو میں نے بعد اس کے خواب میں دیکھا کہ میں اُس دفتر میں گیا ہوں جس جگہ قیدیوں کے ناموں کے رجسٹر تھے اور اُن رجسٹروں میں ہر ایک قیدی کی میعاد قید لکھی تھی تب میں نے وہ رجسٹر کھولا جس میں بسمبرداس کی قید کی نسبت لکھا تھا کہ اتنی قید ہے اور میں نے اپنے ہاتھ سے اُس کی نصف قید کاٹ دی اور جب اس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل کیا گیا تو مجھے دکھلایا گیا کہ انجام مقدمہ کا یہ ہوگا کہ مثل مقدمہ ضلع میں واپس آئے گی اور نصف قید بسمبرداس کی تخفیف کی جائے گی مگر بری نہیں ہوگا۔ اور میں نے وہ تمام حالات اُس کے بھائی لالہ شرمپت کو قبل از ظہور انجام مقدمہ بتلا دئے تھے اور انجام کار ایسا ہی ہوا جو میں نے کہا تھا۔

۵۴۔چونواں نشان۔ مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کے قتل ہونے کی نسبت پیشگوئی ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے۔

۵۵۔ پچپنواں نشان۔ میاں عبد اللہ سنوری کی ایک ناکامی کی نسبت پیشگوئی ہے اِس پیشگوئی کے پورے ہونے کا گواہ خود میاں عبد اللہ سنوری ہے۔

۵۶۔ چھپنواں نشان ۔یہ کہ میں نے دہلی میں اپنی شادی کی نسبت پیشگوئی تھی یہ الہام میں نے بہتوں کو بتایا تھا جو اب تک زندہ موجود ہیں اور اس کی نسبت براہین میں ایک یہ الہام ہے جس سے ظاہر ہوتا تھاکہ سادات میں وہ رشتہ ہوگا۔ اذکرنعمتی رئیت خدیجتی*

۵۷ ۔مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی کی نسبت براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ وہ میری نسبت


* حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سادات کی نانی ہے پس اس الہام میں ایک تو یہ اشارہ تھا کہ تمہاری بیوی قوم کی سید ہو گی اور دوسری یہ پیشگوئی تھی کہ اس کی اولاد سے ایک بڑی نسل پیدا ہو گی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 233

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 233

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/233/mode/1up


تکفیر کے لئے کوشش کرے گا اور کافر ٹھہرانے کے لئے استفتاء لکھے گا۔

۵۸۔ اٹھاونواں نشان۔ مولوی نذیر حسین دہلوی کی نسبت براہین احمدیہ میںیہ پیشگوئی ہے کہ وہ فتوائے تکفیر دے گا۔

۵۹۔ انسٹھواں نشان۔ شیخ مہر علی ہوشیارپوری کی نسبت پیشگوئی۔ یعنی خواب میں میں نے دیکھا کہ اُس کے گھر میں آگ لگ گئی اور پھر میں نے اُس کو بجھایا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر میری دعا سے رہائی ہوگی یہ تمام پیشگوئی میں نے خط میں لکھ کر شیخ مہر علی کو اس سے اطلاع دی بعد اس کے پیشگوئی کےؔ مطابق اس پر قید کی مصیبت آئی۔ اور پھر قید کے بعد پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق اُس نے رہائی پائی۔

۶۰۔ساٹھواں نشان۔ بعد میں شیخ مہر علی کی نسبت ایک اور پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ ایک اور سخت بلا میں مبتلا ہوگا چنانچہ بعد اس کے وہ مرض فالج میں مبتلا ہو گیا اور پھر حال معلوم نہیں۔

۶۱ ۔اکسٹھواں نشان۔ اپنے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغیر مجھے یہ الہام ہوا اے عمّی بازئ خویش کر دی و مرا افسوس بسیار دادی۔ یہ پیشگوئی بھی اسی شرمپت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی اور اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بے وقت اور ناگہانی موت ہوگی جو موجب صدمہ ہوگی جب یہ الہام ہوا تو اس دن یا اس سے ایک دن پہلے شرمپت مذکور کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا اُس نے امین چند نام رکھا اور مجھے آکر اُس نے بتلایا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جس کا نام میں نے امین چند رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی مجھے الہام ہوا ہے کہ اے عمی بازئ خویش کر دی و مراافسوس بسیار دادی۔ اور ہنوز اس الہام کے میرے پر معنی نہیں کھلے میں ڈرتا ہوں کہ اس سے مُراد تیرا لڑکا امین چند ہی نہ ہو کیونکہ تیری میرے پاس آمد و رفت بہت ہے اور الہامات میں کبھی ایسا اتفاق ہو جاتا ہے کہ کسی تعلق رکھنے والے کی نسبت الہام ہوتا ہے۔ وہ یہ بات سن کر ڈر گیا اور اس نے گھر میں جاتے ہی اپنے لڑکے کا نام بد لا دیا یعنی بجائے امین چند کے گوکل چند نام رکھ دیا۔ وہ لڑکا اب تک زندہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 234

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 234

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/234/mode/1up


ہے اور ان دنوں میں کسی ضلع کے بندوبست میں مثل خواں ہے اور بعد اس کے میرے پر کھولا گیا کہ یہ الہام میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے چنانچہ میرا بھائی دو تین دن کے بعد ایک ناگہانی طورپر فوت ہو گیا اورمیرے اُس لڑکے کو اُس کی موت کا صدمہ پہنچا اور اس پیچ میں آکر شرمپت مذکور جو سخت متعصب آریہ ہے گواہ بن گیا اگرکہو کہ خدا کے الہام کے اُسی وقت کیوں معنے نہ کھولے گئے تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ مقطعات قرآنی کے اب تک معنے نہیں کھولے گئے کون جانتا ہے کہ 3۱؂ کیا چیز ہے اور 3۲؂کیا چیز ہے اور 3۳؂کیا چیز ہے۔او۱رآیت 3۴؂ کی نسبت حدیث میں ہے کہؔ آنحضرت نے فرمایا کہ اب تک مجھے اس کے معنی معلوم نہیں او۲ر نیز آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک خوشہ بہشتی انگور کا دیا گیا کہ یہ ابو جہل کے لئے ہے اور میں اس کی تاویل سمجھ نہ سکا جب تک کہ عکرمہ اُس کا بیٹا مسلمان ہوا اور ۳ مجھے ہجرت کی زمین بتلائی گئی اور میں نہ سمجھ سکا کہ وہ مدینہ ہے۔ غرض ایسے اعتراض بوجہ بے خبری سنت اللہ کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

۶۲۔ باسٹھواں نشان ۔قنصل رومی کی تباہی کی نسبت پیشگوئی ہے اس کا مفصل حال میری کتابوں میں مذکور ہے۔

۶۳ ۔تریسٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی ہے کہ قتل وغیرہ منصوبوں سے میں بچایا جاؤں گا چنانچہ آج تک باوجود متعدد حملوں کے خدا تعالیٰ نے دشمنوں کے شر سے مجھے بچایا۔

۶۴ ۔چوسٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ جس قدر میرے پر مقدمات کئے جائیں گے مجھے فتح ہوگی۔ چنانچہ ہر ایک مقدمہ میں مجھے فتح ہوتی رہی۔

۶۵۔ پینسٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ اس قدر لوگ میرے پاس آئیں گے کہ قریب ہوگا کہ میں ان کی کثرت ملاقات سے تھک جاؤں۔ چنانچہ کئی لاکھ آدمی میرے پاس آیا۔

۶۶۔ چھیاسٹھواں نشان ۔براہین احمدیہ میں اصحاب الصفہ کی نسبت پیشگوئی ہے چنانچہ کئی مخلص لوگ اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے میرے مکان کے بعض حصوں میں مع عیال مقیم ہیں جن میں سے سب سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 235

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 235

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/235/mode/1up


اول اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب ہیں۔

۶۷۔ ست سٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ تجھے عربی زبان میں فصاحت و بلاغت عطا کی جائے گی۔* جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ اب تک کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔

۶۸۔ اڑسٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں شاہد نزاغ کی پیشگوئی جس کا پورا ہونا براہین احمدیہ میں مفصل لکھا ہے۔

۶۹۔ انہترواں نشان۔ حمامۃ البشریٰ میں جو کئی سال طاعون پیدا ہونے سے پہلے شائع کی تھی میں نے یہ لکھا تھا کہ میں نے طاعون پھیلنے کے لئے دعا کی ہے سو وہ دعا قبول ہو کر ملک میں طاعون پھیل گئی۔

۷۰۔ سترواں نشان۔ براہین احمدیہ میں بباعث تکذیب طاعون پیدا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی سو پچیس ۲۵برس بعد پنجاب میں طاعون پھیل گئی۔

۷۱۔ اکہترواں نشان جو کتاب سرالخلافہ کے صفحہ۶۲میں مَیں نے لکھا ہے یہ ہے کہ مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے مَیں نے دُعا کی تھی یعنی ایسے مخالف جن کی قسمت میں ہدایت نہیں سو اس دُعا سے کئی سال بعد اس مُلک میں طاعون کا غلبہ ہوا اور بعض سخت مخالف اس دنیا سے گذر گئے اور وہ دُعا یہ تھی:

وخذرب من عادی الصلاح و مفسدًا

و نزّل علیہ الرجز حقًا و دمّرٖ

و فرج کروبی یا کریمی و نجِّنی

ومزّق خصیمی یا الٰھی و عفّرٖ


اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا۔ کلام افصحت من لدن رب کریم۔ اور جو میں نے اب تک عربی میں کتابیں بنائی ہیں جن میں سے بعض نثر میں ہیں اور بعض نظم میں جس کی نظیر علماء مخالف پیش نہیں کر سکے ان کی تفصیل یہ ہے:۔

رسالہ ملحقہ انجام آتھم صفحہ۷۳ سے صفحہ ۲۸۲ تک۔ التبلیغ ملحقہ آئینہ کمالات اسلام۔ کرامات الصادقین۔ حمامۃ البشریٰ۔ سیرت الابدال۔ نور الحق حصہ اول۔ نور الحق حصہ دوم۔ تحفہ بغداد۔ اعجاز المسیح۔ اتمام الحجۃ۔ حجۃ اللہ۔ سر الخلافہ۔ مواہب الرحمٰن۔ اعجاز احمدی۔ خطبہ الہامیہ۔ الہدیٰ۔ علامات المقربین۔ملحقہ تذکرۃ الشہادتین اور وہ کتابیں جو عربی میں تالیف ہو چکی ہیں مگر ابھی شائع نہیں ہوئیں یہ ہیں۔ ترغیب المومنین۔ لجۃ النور۔ نجم الہدیٰ۔ منہ


ترجمہ:(۱)اے میرے خدا جو شخص نیک راہ اور نیک کام کا دشمن ہے اور فساد کرتا ہے اس کو پکڑ اور اس پر طاعون کا عذاب نازل کراور اس کو ہلاک کر دے۔(۲) اور میری بے قراریاں دور کر اور مجھے غموں سے نجات دے اے میرے کریم۔ اور میرے دشمن کو ٹکڑے ٹکڑے کر اور خاک میں ملا دے۔ یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی کہ جبکہ اس ملک کے کسی حصہ میں*



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 236

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 236

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/236/mode/1up


اورؔ پھر کتاب اعجاز احمدی میں یہ پیشگوئی تھی۔

اذا ما غضبنا غاضب اللّٰہ صاءِلًا

علٰی معتدٍ یؤذی و بالسّوء یجھر

جب ہم غضبناک ہوں تو خدا اُس شخص پر غضب کرتا ہے

جو حد سے بڑھ جاتا ہے اور کھلی کھلی بدی پر آمادہ ہوتا ہے

ویأتی زمان کاسرٌ کُلّ ظالم

وھل یھلکنّ الیوم الا المدَمّرٗ

اور وہ زمانہ آرہا ہے کہ ہر ایک ظالم کو توڑے گا اور وہی

ہلاک ہوں گے جو اپنے گناہوں کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں

وانّی لشرّ النّاس ان لم یکن لھم

جزاء اھانتھم صغارٌ یصغّرٗ

اور میں سب بد لوگوں سے بدتر ہوں گا

اگر اُن کے لئے ان کی اہانت کی جزا اہانت نہ ہو

قضی اللّٰہ انّ الطعن بالطعن بیننا

فذالک طاعون اتاھم لیبصروا

خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ طعن کا بدلہ طعن ہے

پس وہی طاعون ہے جو اُن کو پکڑے گی

ولمّا طغی الفسق المبید بسیلہ

تمنّیت لو کان الو باء* المتبّرٗ

اور جب فسق ہلاک کرنے والا حد سے بڑھ گیا

تو میں نے آرزو کی کہ اب ہلاک کرنے والی طاعون چاہئے

اور اس کے بعد یہ الہام ہوا۔ ع اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویران کر دی۔ اور یہ الحکم اور البدر میں شائع کیا گیا اور پھر مذکورہ بالا دُعائیں جو دشمنوں کی سخت ایذا کے بعد کی گئیں جناب الٰہی میں قبول ہو کر پیشگوئیوں کے مطابق طاعون کا عذاب اُن پر آگ کی طرح برسا اور کئی ہزار دشمن جو میری تکذیب کرتا اور بدی سے نام لیتا تھا ہلاک ہو گیا۔ لیکن اس جگہ ہم نمونہ کے طور پر چند سخت مخالفوں کا ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے مولوی رسل بابا باشندۂ امرتسر ذکر کے لائق ہے جس نے میرے رد میں کتاب لکھی اور بہت سخت زبانی دکھائی اور چند روزہ زندگی سے پیار کرکے جھوٹ بولا آخر خدا کے وعدہ کے موافق طاعون سے ہلاک ہوا۔ پھر بعد اس کے ایک شخص محمد بخش نام جو ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ تھا عداوت اور ایذا پر کمر بستہ ہوا وہ بھی طاعون سے ہلاک ہوا۔ پھر بعد اس کے ایک شخص چراغ دین نام ساکن جموں اٹھا جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا تھا جس نے


* یہ پیشگوئی حمامۃ البشریٰ میں ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 237

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 237

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/237/mode/1up


میرا نام دجّال رکھا تھا اور کہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ نے مجھے خواب میں عصادیا ہے تا میں عیسیٰ کے عصاؔ سے اس دجال کو ہلاک کروں سو وہ بھی میری اس پیشگوئی کے مطابق جو خاص اُس کے حق میں رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں اُس کی زندگی میں ہی شائع کی گئی تھی ۴؍اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا۔ کہاں گیا عیسیٰ کا عصا جس کے ساتھ مجھے قتل کرتا تھا؟ اور کہاں گیا اُس کا الہام انّی لمن المرسلین؟ افسوس اکثرلوگ قبل تزکیہ نفس کے حدیث النفس کو ہی الہام قرار دیتے ہیں اِس لئے آخر کار ذلّت اور رسوائی سے ان کی موت ہوتی ہے اور ان کے سوا اور بھی کئی لوگ ہیں جو ایذا اور اہانت میں حد سے بڑھ گئے تھے اور خدا تعالیٰ کے قہر سے نہیں ڈرتے تھے اور دن رات ہنسی اور ٹھٹھا اور گالیاں دینا اُن کا کام تھا آخر کار طاعون کا شکار ہو گئے جیسا کہ منشی محبوب عالم صاحب احمدی لاہور سے لکھتے ہیں کہ ایک میرا چچا تھا جس کا نام نور احمد تھا وہ موضع بھڑی چٹھہ تحصیل حافظ آباد کا باشندہ تھا اُس نے ایک دن مجھے کہا کہ مرزا صاحب اپنی مسیحیت کے دعوے پر کیوں کوئی نشان نہیں دکھلاتے۔ میں نے کہا کہ اُن کے نشانوں میں سے ایک نشان طاعون ہے جو پیشگوئی کے بعد آئی جو دنیا کو کھاتی جاتی ہے تو اس بات پر وہ بول اُٹھا کہ طاعون ہمیں نہیں چھوئے گی بلکہ یہ طاعون مرزا صاحب کو ہی ہلاک کرنے کے لئے آئی ہے۔* اور اس کا اثر ہم پر ہر گز نہیں ہوگا مرزا صاحب پر ہی ہوگا اسی قدر گفتگو پر بات ختم ہو گئی۔ جب میں لاہور پہنچا تو ایک ہفتہ کے بعد مجھے خبر ملی کہ چچا نور احمد طاعون سے مر گئے اور اس گاؤں کے بہت سے لوگ اس گفتگو کے گواہ ہیں اور یہ ایسا واقعہ ہے کہ چھپ نہیں سکتا۔

اور میاں معراج الدین صاحب لاہور سے لکھتے ہیں کہ مولوی زین العابدین جو مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کردہ تھا اور مولوی غلام رسول قلعہ والے کے رشتہ داروں میں سے تھا اور دینی تعلیم سے فارغ التحصیل تھااور انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک مقرب مدرس تھا اُس نے حضور کے صدق کے بارہ میں مولوی محمد علی سیالکوٹی سے کشمیری بازار میں ایک دو کان پر کھڑے ہو کر مباہلہ کیا۔ پھر تھوڑے دنوں کے بعد بمرض طاعون مر گیا اور نہ صرف وہ بلکہ اُس کی بیوی بھ


* یہ الفاظ خدا تعالیٰ کی نظر میں بطور مباہلہ کے تھے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 238

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 238

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/238/mode/1up


طاعون سے مر گئی اور اُس کا داماد بھی جو محکمہ اکاؤنٹنٹ جنرل میں ملازم تھا طاعون سے مر گیا۔ اِسی طرح اُس کے گھر کے ستر۱۷ہ آدمی مباہلہ کے بعد طاعون سے ہلاک ہو گئے۔

یہ ؔ عجیب بات ہے کیا کوئی اِس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب اور مفتری اور دجّال تو میں ٹھہرا مگر مباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں کیا نعوذ باللہ خدا سے بھی کوئی غلط فہمی ہو جاتی ہے؟ ایسے نیک لوگوں پر کیوں یہ قہر الٰہی نازل ہے جو موت بھی ہوتی ہے اور پھر ذلّت اور رسوائی بھی اور میاں معراج دین لکھتے ہیں کہ ایسا ہی کریم بخش نام لاہور میں ایک ٹھیکہ دار تھا وہ سخت بے ادبی اور گستاخی حضور کے حق میں کرتا تھا اور اکثر کرتا ہی رہتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ اُس کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔ آخر جوانی کی عمر میں ہی شکار موت ہوا۔

سیّد حامد شاہ صاحب سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ حافظ سلطان سیالکوٹی حضور کا سخت مخالف تھا یہ وہی شخص تھا جس نے ارادہ کیا تھا کہ سیالکوٹ میں آپ کی سواری گذرنے پر آپ پر راکھ ڈالے آخر وہ سخت طاعون سے اسی ۱۹۰۶ء میں ہلاک ہوا اور اُس کے گھر کے نو ۹یا دس۱۰ آدمی بھی طاعون سے ہلاک ہوئے۔ ایسا ہی شہر سیالکوٹ میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حکیم محمد شفیع جو بیعت کرکے مرتد ہو گیا تھا جس نے مدرسۃ القرآن کی بنیاد ڈالی تھی آپ کا سخت مخالف تھا یہ بد قسمت اپنی اغراضِ نفسانی کی وجہ سے بیعت پر قائم نہ رہ سکا اور سیالکوٹ کے محلہ لوہاراں کے لوگ جو سخت مخالف تھے عداوت اور مخالفت میں اُن کا شریک ہو گیا۔ آخر وہ بھی طاعون کا شکار ہوا اور اُس کی بیوی اور اُس کی والدہ اور اُس کا بھائی سب یکے بعد دیگرے طاعون سے مرے اور اُس کے مدرسہ کو جو لوگ امداد دیتے تھے وہ بھی ہلاک ہو گئے۔

ایسا ہی مرزا سردار بیگ سیالکوٹی جو اپنی گندہ زبانی اور شوخی میں بہت بڑھ گیا تھا اور ہر وقت استہزا اور ٹھٹھا اس کا کام تھا اور ہر ایک بات طنز اور شوخی سے کرتا تھا وہ بھی سخت طاعون میں گرفتار ہو کرہلاک ہوا اور ایک دن اُس نے شوخی سے جماعت احمدیہ کے ایک فرد کو کہا کہ کیوں طاعون طاعون کرتے ہو ہم تو تب جانیں کہ ہمیں طاعون ہو پس اس سے دو دن بعد طاعون سے مر گیا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 239

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 239

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/239/mode/1up


۷۲۔بہترواں نشان۔ بعض سخت مخالف جنہوں نے مباہلہ کے طور پر *** اللّٰہ علی الکاذبین کہا تھا وہ خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہو کر مَرے جیسا کہ مولوی رشید احمد گنگوہی پہلے اندھا ہوا اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مر گیا۔ اور بعض دیوانہ ہو کر مر گئے جیسا کہ مولوی شاہؔ دین لدھیانوی اور مولوی عبد العزیز اور مولوی محمد اور مولوی عبد اللہ لودھانوی جو اوّل درجہ کے مخالف تھے تینوں فوت ہو گئے۔ ایسا ہی عبد الرحمن محی الدین لکھوکے والے اپنے اس الہام کے بعد کہ کاذب پر خدا کا عذاب نازل ہوگا فوت ہو گئے۔

۷۳۔ تہترواں نشان۔ ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنے طور پر مجھ سے مباہلہ کیا اور اپنی کتاب میں دعا کی کہ جو کاذب ہے خدا اُس کو ہلاک کرے پھر اس دعا سے چند دن بعد آپ ہی ہلاک ہو گیا۔ یہ کس قدر مخالف مولویوں کے لئے نشان تھا اگر وہ سمجھتے۔

۷۴۔ چوہترواں نشان۔ ایسا ہی مولوی محمد حسن بھیں والامیری پیشگوئی کے مطابق مرا جیسا کہ میں نے مفصل اپنی کتاب مواہب الرحمن میں لکھا ہے۔

۷۵۔ پچھترواں نشان۔ میں نے اپنی کتاب نور الحق کے صفحہ ۳۵ سے صفحہ ۳۸ تک یہ پیشگوئی لکھی ہے کہ خدا نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ رمضان میں جو خسوف کسوف ہوا یہ آنے والے عذاب کا ایک مقدمہ ہے چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق ملک میں ایسی طاعون پھیلی کہ اب تک تین لاکھ کے قریب لوگ مر گئے۔

۷۶۔ چھہترواں نشان۔ براہین احمدیہ میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی ہے القیت علیک محبَّۃً منّی ولتصنع علٰی عینی یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا۔ اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کروں گا۔ یہ اُس وقت کا الہام ہے کہ جب ایک شخص بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا۔ پھر ایک مدت کے بعد یہ الہام پورا ہوا اور ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی بعض نے میرے لئے جان دے دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دیئے گئے اور ستائے گئے اور ہزارہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 240

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 240

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/240/mode/1up


نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں۔* اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے دل محبت سے پُر ہیں اورؔ بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلی دست بردار ہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ تیار ہیں۔ جب میں اس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا !درحقیقت ذرّہ ذرّہ پر تیرا تصرف ہے تو نے ان دلوں کو ایسے پر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی یہ تیری قدرت کا نشان عظیم الشان ہے۔

۷۷۔ ستترھواں نشان۔ بشیر احمد میرا لڑکا آنکھوں کی بیماری سے ایسا بیمار ہو گیا تھا کہ کوئی دوا فائدہ نہیں کر سکتی تھی اور بینائی جاتے رہنے کا اندیشہ تھا۔ جب شدت مرض انتہا تک پہنچ گئی تب میں نے دُعا کی تو الہام ہوا بَرّق طفلی بشیر۔ یعنی میرا لڑکا بشیر دیکھنے لگا۔تب اسی دن یا دوسرے دن وہ شفا یاب ہو گیا۔ یہ واقعہ بھی قریباً سو آدمی کو معلوم ہو گا۔

۷۸ ۔ اٹھترواں نشان۔ جب چھوٹی مسجد میں نے تعمیر کی جو ہمارے گھر کے ساتھ ایک کوچہ پر ہے تب مجھے خیال آیا کہ اس کی کوئی تاریخ چاہئے تب خدا تعالیٰ کی طرف سے القا ہوا مبارک ومبارک و کل امرٍ مبارک یجعل فیہ یہ ایک پیشگوئی تھی اور اسی سے مادہ تاریخ بنائے مسجد نکلتا ہے۔


* حاشیہ: میں اپنی تحریر میں اس جگہ تک پہنچا تھا اور یہ فقرہ لکھ چکا تھا کہ اسی وقت ایک مخلص صادق کا خط آیا جو میرے سلسلہ میں داخل ہے اور چونکہ وہ خط اس فقرہ کے عین لکھنے کے وقت آیا اور اس کے مناسب حال تھا اس لئے ذیل میں اس کو لکھتا ہوں اور وہ یہ ہے۔

میری بڑی تمنا یہ ہے کہ قیامت میں حضور والا کے زیر سایہ جماعت بابرکت میں شامل ہوں جیسا کہ اب ہوں۔ آمین۔ حضور عالی اللہ تعالیٰ بہترجانتا ہے کہ خاکسار کو اس قدر محبت ذات والا صفات کی ہے کہ میرا تمام مال و جان آپ پر قربان ہے اور میں ہزار جان سے آپ پر قربان ہوں۔ میرے بھائی اور والدین آپ پر نثار ہوں۔ خدا میرا خاتمہ آپ کی محبت اور اطاعت میں کرے۔ آمین۔ می پریدم سوئے کوئے تو مدام۔ من اگر میداشتم بال وپرے۔ خاکسار سید ناصر شاہ اورسیئر از مقام بارہ مولا کشمیر۱۵؍اگست۱۹۰۶ء ۔در حقیقت یہ نوجوان مخلص نہایت درجہ اخلاص رکھتا ہے اور قریب دو ہزار روپیہ کے یا زیادہ اس سے اپنی محبت کے جوش سے دے چکا ہے اس خط کے ساتھ بھی پہنچے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 241

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 241

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/241/mode/1up


۷۹ ۷۹۔اُناسی واں نشان۔ براہین احمدیہ میں اس جماعت کی ترقی کی نسبت یہ پیشگوئی ہے کزرع اٰخرج شطأہٗ فاٰزرہ فاستغلظ فاستویٰ علٰی سُوْقہٖ۔ یعنی پہلے ایک بیج ہوگا کہ جو اپنا سبزہ نکالے گا پھر موٹاہوگا پھر اپنی ساقوں پر قائم ہوگا۔ یہ ایک بڑی پیشگوئی تھی جو اِس جماعت کے پیدا ہونے سے پہلے اور اُس کے نشو و نما کے بارہ میں آج سے پچیس برس پہلے کی گئی تھی ایسے وقت میں کہ نہ اُس وقت جماعت تھی اور نہ کسی کو مجھ سے تعلق بیعت تھا بلکہ کوئی اُن میں سے میرے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے یہ جماعت پیدا کر دی جو اَب تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ مَیں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح تھا جوخدا تعالیٰ کے ہاتھ سے بویا گیا۔ پھر میں ایک مدت تک مخفی رہا پھر میرا ظہور ہوا اور بہت سی شاخوؔ ں نے میرے ساتھ تعلق پکڑا۔ سو یہ پیشگوئی محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پوری ہوئی۔

۸۰ ۔ اسی واں نشان۔ براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے۔ یُریدون ان یطفؤْا نور اللّٰہ بافواھھم واللّٰہ متمّ نورہٖ ولو کرہ الکافرون۔ یعنی مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نور خدا کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں مگر خدا اپنے نور کو پورا کرے گا اگرچہ منکر لوگ کراہت ہی کریں۔ یہ اُس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ کوئی مخالف نہ تھا بلکہ کوئی میرے نام سے بھی واقف نہ تھا پھر بعداس کے حسب بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی اور ہزاروں نے مجھے قبول کیا تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہل مکہ کے پاس خلاف واقعہ باتیں بیان کرکے میرے لئے کفر کے فتوے منگوائے گئے اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالا گیا قتل کے فتوے دئے گئے حُکّام کو اُکسایا گیا۔ عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بیزار کیا گیا۔ غرض ہر ایک طرح سے میرے نابود کرنے کے لئے کوشش کی گئی مگر خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور اُن کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نا مراد اور نا کام رہے افسوس کس قدر مخالف اندھے ہیں ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانہ کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوری ہوئیں کیا بجز خدا تعالیٰ کے یہ کسی اور کا کام ہے؟ اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو نہیں سوچتے کہ اگر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 242

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 242

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/242/mode/1up


یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نا مراد نہ رہتے۔ کس نے اُن کو نا مراد رکھا؟ اُسی خدا نے جو میرے ساتھ ہے۔

۸۱۔ اکاسی واں نشان۔ براہین حمدیہ میں ایک یہ بھی پیشگوئی ہے یعصمک اللّٰہ من عندہ ولو لم یعصمک النّاس۔ یعنی خدا تجھے آپ تمام آفات سے بچائے گا اگرچہ لوگ نہیں چاہیں گے کہ تو آفات سے بچ جائے یہ اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ میں ایک زاویۂ گمنامی میں پوشیدہ تھا اور کوئی مجھ سے نہ تعلق بیعت رکھتا تھا نہ عداوت۔ بعد اس کے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مَیں نے کیا تو سب مولوی اور اُن کے ہم جنس آگ کی طرح ہو گئے اُن دنوں میں میرے پر ایک پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک نام نے خون کا مقدمہ کیا اس مقدمہ میں مجھے یہ تجربہ ہو گیا کہ پنجاب کے مولوؔ ی میرے خون کے پیاسے ہیں اور مجھے ایک عیسائی سے بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے اور گالیاں نکالتا ہے بد تر سمجھتے ہیں کیونکہ بعض مولویوں نے اس مقدمہ میں میرے مخالف عدالت میں حاضر ہو کر اس پادری کے گواہ بن کر گواہیاں دیں اور بعض اس دعا میں لگے رہے کہ پادری لوگ فتح پاویں۔ میں نے معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ وہ مسجدوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا اس پادری کی مدد کر اُس کو فتح دے مگر خدائے علیم نے اُن کی ایک نہ سنی۔ نہ گواہی دینے والے اپنی گواہی میں کامیاب ہوئے اور نہ دعا کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ یہ علماء ہیں دین کے حامی اور یہ قوم ہے جس کے لئے لوگ قوم قوم پکارتے ہیں۔ ان لوگوں نے میرے پھانسی دلانے کے لئے اپنے تمام منصوبوں سے زور لگایا اور ایک دشمن خدا اور رسول کی مدد کی۔ اور اس جگہ طبعاً دلوں میں گذرتا ہے کہ جب یہ قوم کے تمام مولوی اور اُن کے پیرو میرے جانی دشمن ہو گئے تھے پھر کس نے مجھے اُس بھڑکتی ہوئی آگ سے بچایا حالانکہ آ۸ٹھ ،نو۹ گواہ میرے مجرم بنانے کے لئے گذر چکے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اُسی نے بچایا جس نے پچیس۲۵ برس پہلے یہ وعدہ دیا تھا کہ تیری قوم تو تجھے نہیں بچائے گی اور کوشش کرے گی کہ تو ہلاک ہو جائے مگر میں تجھے بچاؤں گا جیسا کہ اُس نے پہلے سے فرمایا تھا جو براہین احمدیہ میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 243

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 243

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/243/mode/1up


آج سے پچیس برس پہلے درج ہے اور وہ یہ ہے فَبَرَّأہُ اللّٰہ ممّا قالوا وکان عند اللّٰہ وجیھا یعنی خدا نے اُس الزام سے اُس کو بری کیا جو اُس پر لگایا گیا تھا اور وہ خدا کے نزدیک وجیہ ہے۔

۸۲۔ بیاسی واں نشان۔ یہ پیشگوئی ہے جو بار ہا میرے رسالوں میں درج ہو چکی ہے انّ اللّٰہ لا یغیّر ما بقومٍ حتّٰی یغیّروا ما بانفسھم انّہٗ اوی القریۃ۔ یعنی خدا اس طاعون کو اس قوم سے دور نہیں کرے گا اور اپنا ارادہ نہیں بدلائے گا جب تک لوگ اپنے دلوں کی حالت نہ بدلا لیں اور خدا انجام کار اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا۔ اور فرمایا کہ لو لا الاکرام لھلک المقام۔ یعنی اگر میں تمہاری عزت کا پاس نہ کرتا تو میں اِس تمام گاؤں کو ہلاک کر دیتا اور اُن میں سے ایک بھی نہ چھوڑتا اور فرمایا وما کان اللّٰہ لیعذبھم وانت فیھم اور خدا ایسا نہیں ہے کہؔ ان سب کو عذاب سے ہلاک کر دیتا حالانکہ تو انہیں میں رہتا ہے یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ فقرہ کہ انّہٗ اوی القریۃ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر گز اس میں طاعون نہیں آئے گی۔ اٰویٰ کا لفظ عربی زبان میں اُس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی حد تک مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن میں آجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 3۔۱؂ یعنی خدا نے تجھے یتیم پایا اور یتیمی کے مصائب میں تجھے مبتلا دیکھا پھر پناہ دی۔ اور جیسا کہ فرماتا ہے3۲؂ یعنی ہم نے عیسیٰ اور اُس کی ماں کو بعد اس کے جو یہودیوں نے اُن پر ظلم کیا اور حضرت عیسیٰ کو سُولی دینا چاہا ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو پناہ دی اور دونوں کو ایک ایسے پہاڑ پر پہنچا دیا جو سب پہاڑوں سے اونچا تھا یعنی کشمیر کا پہاڑ جس میں خوش گوار پانی تھا اور بڑی آسائش اور آرام کی جگہ تھی اور جیسا کہ سورۃالکہف میں یہ آیت ہے 3۳؂ الجزو نمبر ۱۵ سورہ کہف یعنی غار کی پناہ میں آجاؤ اِس طرح پر خدا اپنی رحمت تم پر پھیلائے گا ۔یعنی تم ظالم بادشاہ کی ایذا سے نجات پاؤگے۔ غرض اٰویٰ کا لفظ ہمیشہ اُس موقعہ پر آتا ہے جب ایک شخص کسی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 244

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 244

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/244/mode/1up


حد تک کوئی مصیبت اُٹھا کر پھر امن میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہی پیشگوئی قادیان کی نسبت ہے چنانچہ صرف ایک دفعہ کسی قدر شدت سے طاعون قادیان میں ہوئی۔ بعد اس کے کم ہوتی گئی یہاں تک کہ اب کے سال میں ایک شخص بھی قادیان میں طاعون سے نہیں مرا۔ حالانکہ اردگرد صدہا آدمی طاعون سے فوت ہو گئے۔

۸۳۔تراسی واں نشان۔ ایک دفعہ میں اپنے اُس چوبارہ میں بیٹھا ہوا تھا جو چھوٹی مسجد سے ملحق ہے جس کا نام خدا تعالیٰ نے بیت الفکر رکھا ہے اور میرے پاس میرا ایک خدمتگار حامد علی نام پیر د بارہا تھا اتنے میں مجھے الہام ہوا تریٰ فخذًا اَلیمًا یعنی تو ایک درد ناک ران دیکھے گا ۔میں نے حامد علی کو کہا کہ اس وقت مجھے یہ الہام ہوا ہے اُس نے مجھے یہ جواب دیاکہؔ آپ کے ہاتھ پر ایک پُھنسی ہے شائد اسی کی طرف اشارہ ہو میں نے اُس کو کہا کہ کُجا ہاتھ اور کُجا ران یہ خیال بیہودہ اور غیر معقول ہے اور پُھنسی تو درد بھی نہیں کرتی اور نیز الہام کے یہ معنی ہیں کہ تو دیکھے گا نہ کہ اب دیکھ رہا ہے۔ بعد اس کے ہم دونوں چوبارہ پر سے اُترے۔ تابڑی مسجد میں جاکر نماز پڑھیں اور نیچے اُتر کر میں نے دیکھا کہ دو شخص گھوڑے پر سوار میری طرف آرہے ہیں دونوں بغیر کاٹھی کے دو گھوڑوں پر سوار تھے اور دونوں کی عمر بیس ۲۰برس سے کم تھی وہ مجھے دیکھ کر وہیں ٹھہر گئے اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ میرا بھائی جو دوسرے گھوڑے پر سوار ہے درد ران سے سخت بیمار ہے اور سخت لاچار ہے اس لئے ہم آئے ہیں کہ آپ اِن کے لئے کوئی دوا تجویز کریں۔ تب میں نے حامد علی کو کہا کہ الحمد للہ کہ میرا الہام اس قدر جلد پورا ہوا کہ صرف اسی قدر دیر لگی کہ جس قدر زینہ پر سے اُترنے میں دیر لگی ہے ۔شیخ حامد علی اب تک موجود ہے جو موضع تھہ غلام نبی کا باشندہ ہے اور ان دنوں میرے پاس ہے۔ کوئی شخص دوسرے کے لئے اپنے ایمان کو ضائع نہیں کر سکتابلکہ اگر درمیان تعلق مریدی کا ہو اور کوئی شخص اپنے مرید کو یہ کہے کہ میں نے اپنے لئے ایک جھوٹی کرامت بنائی ہے تو میرے لئے گواہی دے۔ تب وہ اپنے دل میں ضرور کہے گا کہ یہ تو ایک مکار اور بد آدمی ہے میں نے ناحق



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 245

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 245

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/245/mode/1up


اِس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے اِسی طرح جس قدر میں نے اِس رسالہ میں پیشگوئیاں لکھی ہیں ہزار ہا مرید میرے اُن کی سچائی کے گواہ ہیں۔ ایک جاہل کہے گا کہ مرید کی گواہی کا کیا اعتبار ہے میں کہتا ہوں کہ اس گواہی جیسی اور کوئی گواہی ہی نہیں کیونکہ یہ تعلق محض دین کے لئے ہوتا ہے اور انسان اُسی کا مرید بنتا ہے جس کو اپنی دانست میں تمام دنیا سے زیادہ پارسا طبع اور متقی اور راست گو خیال کرتا ہے پھر جب مرشد کا یہ حال ہو کہ صدہا جھوٹی پیشگوئیاں اپنی طرف سے تراش کر مریدوں کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے کہ میرے لئے جھوٹ بولو اور کسی طرح جھوٹ بول کر مجھے ولی بنا دو اُس کو کیونکر اُس کے مرید نیک آدمی کہہ سکتے ہیں اور کیونکر دل و جان سے اُس کی خدمت کر سکتے ہیں بلکہ اُس کو تو ایک شیطان کہیں گے اور اُس سے بیزار ہو جائیں گے اور میں تو ایسے مرید پر *** بھیجتاؔ ہوں جو میری طرف جھوٹی کرامتیں منسوب کرے اور ایسا مرشد بھی *** ہے جو جھوٹی کرامتیں بنا وے۔

۸۴۔ نشان۔ ۵؍اگست ۱۹۰۶ء کو ایک دفعہ نصف حصہ اسفل بدن کا میرا بے حس ہو گیا اور ایک قدم چلنے کی طاقت نہ رہی اور چونکہ میں نے یونانی طبابت کی کتابیں سبقًا سبقًا پڑھی تھیں اس لئے مجھے خیال گذرا کہ یہ فالج کی علامات ہیں ساتھ ہی سخت درد تھی ۔دل میں گھبراہٹ تھی کروٹ بدلنا مشکل تھا۔ر ات کو جب میں بہت تکلیف میں تھا تو مجھے شماتت اعداء کا خیال آیا مگر محض دین کے لئے نہ کسی اور امر کے لئے۔ تب میں نے جناب الٰہی میں دُعا کی کہ موت تو ایک امر ضروری ہے مگر تو جانتا ہے کہ ایسی موت اور بے وقت موت میں شماتتِ اعداء ہے تب مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا اِنَّ اللّٰہ علٰی کلّ شیءٍ قدیر۔ اِنّ اللّٰہ لا یخزی المؤمنین۔ یعنی خدا ہر چیز پر قادر ہے اور خدا مومنوں کو رُسوا نہیں کیا کرتا۔ پس اُسی خدائے کریم کی مجھے قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو اس وقت بھی دیکھ رہا ہے کہ میں اُس پر افتراکرتا ہوں یا سچ بولتا ہوں کہ اس الہام کے ساتھ ہی شاید آدھ گھنٹہ تک مجھے نیند آگئی اور پھر یک دفعہ جب آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ مرض کا نام و نشان نہیں رہا تمام لوگ سوئے ہوئے تھے اور میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 246

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 246

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/246/mode/1up


اُٹھا اور امتحان کے لئے چلنا شروع کیا تو ثابت ہوا کہ میں کہ بالکل تندرست ہوں تب مجھے اپنے قادر خدا کی قدرت عظیم کودیکھ کر رونا آیا کہ کیسا قادر ہمارا خدا ہے اور ہم کیسے خوش نصیب ہیں کہ اُس کی کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور اس کے رسول کی پیروی کی اور کیا بد نصیب وہ لوگ ہیں جو اس ذوالعجائب خدا پر ایمان نہیں لائے۔

۸۵۔نشان۔ ایک مرتبہ میں قولنج زحیری سے سخت بیمار ہوا اور سو۱۶لہ دن پاخانہ کی راہ سے خون آتا رہا اور سخت درد تھا جو بیان سے باہر ہے انہیں دنوں میں شیخ رحیم بخش صاحب مرحوم مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کے والد ماجد بٹالہ سے میری عیادت کے لئے آئے اور میری نازک حالت انہوں نے دیکھی اور میں نے سنا کہ وہ بعض لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ آج کل یہ مرض وباکی طرح پھیل رہی ہے بٹالہ میں ابھی میں ایک جنازہ پڑھ کر آیا ہوں جو اسی مرض سے فوت ہوا ہے اور ایسا اتفاق ہوا کہؔ محمد بخش نام ایک حجام قادیان کا رہنے والا اُسی دن اسی مرض سے بیمار ہوا اور آٹھویں دن مر گیا اور جب سولہ۱۶ دن میری مرض پر گذرے تو آثار نومیدی کے ظاہر ہو گئے اور میں نے دیکھا کہ بعض عزیز میرے دیوار کے پیچھے روتے تھے اور مسنون طور پر تین مرتبہ سورہ یٰسٓ سنائی گئی۔ جب میری مرض اس نوبت پر پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے میرے دل پر القا کیا کہ اور علاج چھوڑ و اور دریا کی ریت جس کے ساتھ پانی بھی ہو تسبیح اوردرود کے ساتھ اپنے بدن پر ملو۔ تب بہت جلدی دریا سے ایسی ریت منگوائی گئی اور میں نے اِس کلمہ کے ساتھ کہ سبحان اللّٰہ و بحمدہٖ سبحان اللّٰہ العظیم اور درود شریف کے ساتھ اُس ریت کو بدن پر ملنا شروع کیا۔ ہر ایک دفعہ جو جسم پر وہ ریت پہنچتی تھی تو گویا میرا بدن آگ میں سے نجات پاتا تھا صبح تک وہ تمام مرض دور ہو گئی اور صبح کے وقت الہام ہوا وان کنتم فی ریبٍ ممّا نزّلنا علٰی عبدنا فأْتوا بشفآءٍ من مثلہٖ۔

۸۶۔ نشان۔ ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی ایک دم قرار نہ تھا کسی شخص سے میں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ اس نے کہا کہ علاج دندان اخراج دندان۔ اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا تب اُس وقت مجھے غنودگی آگئی اور میں زمین پر بیتابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چارپائی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 247

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 247

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/247/mode/1up


پاس بچھی تھی۔ میں نے بیتابی کی حالت میں اُس چار پائی کی پائینتی پر اپنا سر رکھ دیا اور تھوڑی سی نیند آگئی۔ جب میں بیدار ہوا تو درد کا نام و نشان نہ تھا اور زبان پر یہ الہام جاری تھا: اذا مرضت فھو یشفی یعنی جب تو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔

۸۷۔ستاسیواں نشان۔ یہ پیشگوئی ہے کہ میری اس شادی کے بارہ میں جو دہلی میں ہوئی تھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ الہام ہوا تھا۔ الحمدللہ الذی جعل لکم الصھر والنسب۔ یعنی اُس خدا کو تعریف ہے جس نے تمہیں دامادی اور نسب دونوں طرف سے عزت دی یعنی تمہاری نسب کو بھی شریف بنایا اور تمہاری بیوی بھی سادات میں سے آئے گی۔ یہ الہام شادی کے لئے ایک پیشگوئی تھی جس سے مجھے یہ فکر پیدا ہوا کہ شادی کے اخراجات کو کیونکر میں انجام دوں گا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں اور نیز کیونکر میں ہمیشہ کے لئے اس بوجھ کا متحمل ہو سکوں گا تو میں نے جناب الٰہی میں دُعا کی کہ ان اخرؔ اجات کی مجھ میں طاقت نہیں۔ تب یہ الہام ہوا کہ :

ہر چہ باید نو عروسی را ہمہ ساماں کنم

و آنچہ درکار شما باشد عطائے آں کنم

یعنی جو کچھ تمہیں شادی کے لئے درکار ہوگا تمام سامان اس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتاً فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا شادی کے لئے جو کسی قدر مجھے روپیہ درکار تھا اُن ضروری اخراجات کے لئے منشی عبد الحق صاحب اکاوئنٹنٹلاہور نے پانچ سو روپیہ مجھے قرضہ دیا اور ایک اور صاحب حکیم محمد شریف نام ساکن کلانور نے جو امرتسر میں طبابت کرتے تھے دو سو روپیہ یا تین سو روپیہ مجھے بطور قرضہ دیا۔ اُس وقت منشی عبد الحق صاحب اکاوئنٹنٹنے مجھے کہا کہ ہندوستان میں شادی کرنا ایسا ہے جیسا کہ ہاتھی کو اپنے دروازہ پر باندھنا میں نے اُن کو جواب دیا کہ ان اخراجات کا خدا نے خود وعدہ فرما دیا ہے پھر شادی کرنے کے بعد سلسلہ فتوحات کا شروع ہو گیا اور یا وہ زمانہ تھا کہ بباعث تفرقہ وجوہ معاش پانچ سات آدمی کا خرچ بھی میرے پر ایک بوجھ تھا اور یا اب وہ وقت آگیا کہ بحساب اوسط تین سو۳۰۰ آدمی ہر روز مع عیال و اطفال اور ساتھ اس کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 248

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 248

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/248/mode/1up


کئی غربا اور درویش اس لنگر خانہ میں روٹی کھاتے ہیں اور یہ پیشگوئی لالہ شرمپت آریہ اور ملاوامل آریہ ساکنان قادیان کو بھی قبل از وقت سُنائی گئی تھی اور شیخ حامد علی اور چند اور واقف کاروں کو اِس سے اطلاع دی گئی تھی اور منشی عبد الحق اکاونٹنٹ لاہوری اگرچہ اس وقت مخالفین کے زمرہ میں ہیں مگر میں اُمید نہیں رکھتا کہ وہ اِس سچی شہادت کا اخفاء کریں۔ واللّٰہ اعلم۔

۸۸۔ اٹھاسی واں نشان۔ جب دلیپ سنگھ کی نسبت اخباروں میں بار بار بیان کیا گیا تھا کہ وہ پنجاب میں آئے گا۔ تب مجھے دکھایا گیا کہ وہ ہر گز نہیں آئے گا بلکہ روکا جائے گا اور میں نے قریباً پانچ سو آدمیوں کو اِس پیشگوئی سے مطلع کیا تھا اور ایک اشتہار میں بھی جو دو ورقہ تھا اجمالاً اس پیشگوئی کو لکھا تھا چنانچہ آخر کار ایسا ہی ظہور میں آیا۔

۸۹۔نواسی واں نشان۔ میں نے سید احمد خان کی نسبت پیشگوئی کی تھی کہ آخر عمر میں اُن کو کچھ تکالیف پیش آئیں گی اور اُن کی عمر کے دن تھوڑے باقی ہیں اور یہ مضمون اشتہارات میں شائع کرؔ دیا تھا چنانچہ اس کے بعد ایک شریر ہندو کے غبن مال کی وجہ سے سید احمد خان کو آخری عمر میں بہت غم اور صدمہ اُٹھانا پڑا اور بعد اس کے تھوڑے دن تک ہی زندہ رہے اور اِسی غم اور صدمہ سے اُن کا انتقال ہو گیا۔

۹۰۔نوے واں نشان۔ ایک دفعہ قانون ڈاک کی خلاف ورزی کا مقدمہ میرے پر چلایا گیا جس کی سزا پانچ 3سو روپیہ جرمانہ یا چھ۶ ماہ قید تھی اور بظاہر سبیل رہائی معلوم نہیں ہوتی تھی تب بعد دعا خواب میں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ مقدمہ رفع دفع کر دیا جائے گا اس مقدمہ کا مخبر ایک عیسائی رلیا رام نام تھا جو امرتسر میں وکیل تھا اور میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ اُس نے میری طرف ایک سانپ بھیجا ہے اور میں نے اُس سانپ کو مچھلی کی طرح تل کر اُس کی طرف واپس بھیج دیا ہے۔ چونکہ وہ وکیل تھا اس لئے میرے مقدمہ کی نظیر گویا اُس کے لئے کار آمدتھی اور تلی ہوئی مچھلی کا کام دیتی تھی چنانچہ وہ مقدمہ پہلی پیشی میں ہی خارج ہو گیا۔

۹۱۔ اکانواں نشان۔ براہین احمدیہ میں جو آج سے پچیس برس پہلے تمام ممالک میں شائع ہو چکی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 249

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 249

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/249/mode/1up


ہے یعنی ہر حصہ پنجاب اور ہندوستان اور بلاد عرب اور شام اورکابل اور بخارا غرض تمام بلاد اسلامیہ میں پہنچائی گئی ہے اس میں یہ ایک پیشگوئی ہے ربّ لا تذرنی فردًا و انت خیر الوارثین۔ یعنی خدا کی وحی میں میری طرف سے یہ دعا تھی کہ اے میرے خدا مجھے اکیلا مت چھوڑ جیسا کہ اب میں اکیلا ہوں اور تجھ سے بہتر کون وارث ہے یعنی اگرچہ میں اس وقت اولاد بھی رکھتا ہوں اور والد بھی اور بھائی بھی لیکن روحانی طور پر ابھی میں اکیلا ہی ہوں اور تجھ سے ایسے لوگ چاہتا ہوں جو روحانی طور پر میرے وارث ہوں یہ دعا اس آئندہ امر کے لئے پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ روحانی تعلق والوں کی ایک جماعت میرے ساتھ کر دے گاجو میرے ہاتھ پر توبہ کریں گے سو خدا کا شکر ہے کہ یہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی ۔پنجاب اور ہندوستان سے ہزار ہا سعید لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ایسا ہی سرزمین ریاست امیر کابل سے بہت سے لوگ میری بیعت میں داخل ہوئے ہیں اور میرے لئے ؔ یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزار ہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہر گز ایسا صاف نہیں ہو سکتا اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد اُن میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے اگرچہ یہ درست ہے کہ اُن کی فطرت میں پہلے ہی سے ایک مادہ رُشد اور سعادت کا مخفی تھا مگر وہ کھلے طور پر ظاہر نہیں ہوا جب تک انہوں نے بیعت نہیں کی غرض خدا کی شہادت سے ثابت ہے کہ پہلے میں اکیلا تھا اور میرے ساتھ کوئی جماعت نہ تھی اور اب کوئی مخالف اِس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ اب ہزارہا لوگ میرے ساتھ ہیں۔ پس خدا کی پیشگوئیاں اِس قسم کی ہوتی ہیں جن کے ساتھ نصرت اور تائید الٰہی ہوتی ہے۔ کون اِس بات میں مجھے جھٹلا سکتا ہے کہ جب یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ نے فرمائی اور براہین احمدیہ میں درج کرکے شائع کی گئی اُس وقت جیسا کہ خدا نے فرمایا میں اکیلا تھا اور بجُز خدا کے میرے ساتھ کوئی نہ تھا میں اپنے خویشوں کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 250

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 250

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/250/mode/1up


نگاہ میں بھی حقیر تھا کیونکہ اُن کی راہیں اور تھیں اور میری راہ اور تھی اور قادیان کے تمام ہندو بھی باوجود سخت مخالفت کے اس گواہی کے دینے کے لئے مجبور ہوں گے کہ میں درحقیقت اُس زمانہ میں ایک گمنامی کی حالت میں بسر کرتا تھااورکوئی نشان اس بات کا موجود نہ تھا کہ اس قدر ارادت اور محبت اورجانفشانی کا تعلق رکھنے والے میرے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ اب کہو کہ کیا یہ پیشگوئی کرامت نہیں ہے۔ کیا انسان اس پر قادر ہے اور اگر قادر ہے تو زمانہ حال یا سابق زمانہ میں سے اس کی کوئی نظیر پیش کرو۔ 3 33 ا؂۔

۹۲۔ بانواں نشان۔ وہ مباہلہ ہے جو عبد الحق غزنوی کے ساتھ بمقام امرتسر کیا گیا تھا جس کو آج گیارہ سال گذر گئے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے۔عبد الحق نے مباہلہ کے لئے بہت اصرار کیا تھااور مجھے اس کے ساتھ مباہلہ کرنے میں تأمل تھا کیونکہ جس شخص کی شاگردی کی طرؔ ف وہ اپنے تئیں منسوب کرتا تھا وہ میرے خیال میں ایک صالح آدمی تھا یعنی مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم غزنوی اور اگر میرے زمانہ کو وہ پاتا تو میں یقین کرتا ہوں کہ وہ مجھے میرے دعوے کے ساتھ قبول کرتا اورردّ نہ کرتا مگروہ مرد صالح میری دعوت سے پہلے ہی وفات پاگیا اور جو کچھ عقیدہ میں غلطی تھی وہ قابل مؤاخذہ نہیں کیونکہ اجتہادی غلطی معاف ہے۔ مؤاخذہ دعوت اور اتمام حجت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ وہ متقی اورر استباز تھا اور تبتل اور انقطاع اس پر غالب تھا اور عباد صالحین میں سے تھا۔ میں نے اُس کی وفات کے بعد ایک دفعہ اُس کو خواب میں دیکھا اور میں نے اُس کو کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے ہاتھ میں اور نوک آسمان میں ہے اور میں یمین ویسار میں اُس تلوار کو چلاتاہوں اور ہر ایک ضرب سے ہزار ہا مخالف مرتے ہیں اِس کی تعبیر کیا ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ یہ اتمام حجت کی تلوار ہے ایسی حجت کہ جو زمین سے آسمان تک پہنچے گی اور کوئی اُس کو روک نہیں سکے گا۔ اور یہ جو دیکھا کہ کبھی دہنی طرف تلوار چلائی جاتی ہے اور کبھی بائیں طرف اِس سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 251

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 251

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/251/mode/1up


مراد دونوں قسم کے دلائل ہیں جو آپ کو دئے جائیں گے یعنی ایک عقل اور نقل کے دلائل دوسرے خدا تعالیٰ کے تازہ نشانوں کے دلائل۔ سو اِن دونوں طریق سے دنیا پر حجت پوری ہوگی اور مخالف لوگ ان دلائل کے سامنے انجام کار ساکت ہو جائیں گے گویا مر جائیں گے۔ اور پھر فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں اُمیدوار تھا کہ ایسا کوئی انسان پیدا ہوگا یہ الفاظ ہیں جو اُن کے مُنہ سے نکلے۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیردی میں اور دوسری دفعہ مقام امرتسر میں اُن سے میری ملاقات ہوئی میں نے اُنہیں کہا کہ آپ ملہم ہیں ہمارا ایک مدعا ہے اِس کے لئے آپ دُعا کرو مگر میں آپ کو نہیں بتلاؤنگا کہ کیا مُدعا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درپوشیدہ داشتن برکت است و من انشاء اللہ دعا خواہم کردو الہام امراختیاری نیست۔ اور میرا مدعا یہ تھاکہ دین محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام روز بروز تنزل میں ہے خدا اُس کا مددگار ہو۔ بعد اس کے میں قادیان میں چلا آیا تھوڑے دنوں کے بعد بذرؔ یعہ ڈاک اُن کا خط مجھے ملا جس میں یہ لکھا تھا کہ ’’ایں عاجز برائے شما دعا کردہ بود القاشد۔ وَانْصُرنا علی القوم الکافرین۔ فقیرراکم اتفاق مے افتدکہ بدیں جلدی القاشود ایں از اخلاص شمامے بینم۔‘‘

غرض عبد الحق کے بہت اصرار کے بعد میں نے اُس کی طرف لکھا کہ میں کسی مسلمان کلمہ گو سے مباہلہ کرنا نہیں چاہتا اُس نے جواب میں لکھاکہ جب ہم نے تم پر کفرکا فتویٰ دے دیا تو اب تمہارے نزدیک ہم کافر ہو گئے تو پھر مباہلہ میں کیا مضائقہ۔ غرض اس کے سخت اصرار کے بعد میں مباہلہ کے لئے امرتسر میں آیا اور چونکہ مجھے مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم سے دِلی محبت تھی اور میں اُن کو اپنے اس منصب کے لئے بطور ارہاص کے سمجھتا تھا یا جیسا کہ یحیٰی عیسیٰ کے پہلے ظاہر ہوا اس لئے میرے دل نے عبد الحق کے لئے کسی بد دُعا کو پسند نہیں کیا بلکہ میری نظر میں وہ قابل رحم تھا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ کس کو بُرا کہتا ہے۔ وہ اپنے خیال میں اسلام کے

لئے ایک غیرت دکھلاتا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ اسلام کی تائید میں خدا کا کیا ارادہ ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 252

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 252

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/252/mode/1up


بہر حال مباہلہ میں جو اُس نے چاہا کہا مگر میری دعا کا مرجع میرا ہی نفس تھا اور میں جنابِ الٰہی میں یہی التجا کر رہا تھا کہ اگر میں کاذب ہوں تو کاذبوں کی طرح تباہ کیا جاؤں اور اگر میں صادق ہوں تو خدا میری مدد اور نصرت کرے اِس بات کو گیارہ برس گذر گئے جب یہ مباہلہ ہوا تھا بعد اس کے جو کچھ خدا نے میری نصرت اور مدد کی میں اس مختصر رسالہ میں اُس کو بیان نہیں کر سکتا یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ جب مباہلہ کیا گیا تو میرے ساتھ صرف چند آدمی تھے جو انگلیوں پر شمار ہو سکتے تھے اور اب تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ میری بیعت کر چکے ہیں اور مالی مشکلات اس قدر تھے کہ بیس روپیہ ماہوار بھی نہیں آتے تھے اور قرضہ لینا پڑتا تھا اور اب میرے سلسلہ کی تمام شاخوں سے قریباً تین ہزار روپیہ ماہواری آمدنی ہے۔ اور خدا نے اس کے بعد بڑے بڑے قوی نشان دکھلائے جس نے مقابلہ کیا آخر وہ تباہ ہوا۔ جیسا کہ ان نشانوں کے دیکھنے سے جو محض بطور نمونہ اس جگہ لکھے گئے ہیں ظاہر ہوگا کہ خدا نے کیسی کیسی میری مدد کی۔ایسے ہی ہزار ہا نشاؔ ن نصرت الٰہی کے ظاہر ہو چکے ہیں جو صرف اُن میں سے اس قدر بطور نمونہ اس جگہ لکھے گئے اگر کسی شخص میں حیا اور انصاف ہو تو اُس کے لئے یہ نشان میری تصدیق کے لئے کافی ہیں۔

اور یہ حجت اُٹھانا کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا اور یہ کہ عیسائیوں نے بہت گالیاں دیں اور بہت شوخی کی تو سمجھنا چاہئے کہ کیا عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دیتے ٹھٹھا نہیں کرتے اور کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کتابیں اب تک لکھ نہیں چکے اور ہنسی ٹھٹھے کو انتہا تک نہیں پہنچا دیا تو کیا ان بد قسمت لوگوں کی ان حرکات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت مشتبہ ہو گئی یا آپ کی اِس سے کچھ رُسوائی ہوئی؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3333۔۱؂ یعنی کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس سے جاہل آدمیوں نے ٹھٹھا نہیں کیا۔ دیکھنا تو یہ چاہئیے کہ کیا ٹھٹھا کرنے میں وہ حق بجانب تھے۔ یا محض شیطنت اور شرارت تھی۔ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ آتھم پیشگوئی کے مطابق چند روز



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 253

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 253

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/253/mode/1up


زندہ رہا اورپھر پیشگوئی کے مطابق پندرہ مہینے کے اندرمر گیا اور اس کی موت کی تاخیر بوجہ اُس کے رجوع کے تھی۔ اِس بات کو دُنیا جانتی ہے کہ آتھم نے قریباً ستر۷۰ آدمی کے رو برو دجّال کہنے سے رجوع کیا۔ لہٰذا خدا نے چند ماہ تک اُس کی موت میں تاخیر ڈال دی اور پھر تھوڑے دنوں کے بعد اُس کو اِس دُنیا سے اُٹھا بھی لیا کیونکہ دوسری پیشگوئی میں یہ بھی تھا کہ گو تاخیر کی گئی مگر پھر بھی آتھم پندرہ مہینے کے اندر فوت ہو جائے گا۔ چنانچہ گیارہ سال گذر گئے کہ وہ مر گیا اور میں اب تک زندہ ہوں کیا آتھم نے قریباًستر۷۰آدمیوں کے رو برودجّال کہنے سے رجوع نہیں کیا؟ پھر کیاضرور نہ تھا کہ اُس کو کسی قدر تاخیر دی جاتی؟ میں اس خیال سے حیرت کے دریا میں ڈوب جاتا ہوں کہ اس صاف اور صریح پیشگوئی کاکیوں انکار کرتے ہیں۔ آخر کہنا پڑتا ہے کہ جن دلوں پر پردے ہیں وہ سیدھی بات کو بھی نہیں سمجھتے اور مسلمان کہلا کر پھر عیسائیوں کو مدد دیتے ہیں اور وعید *** اللّٰہ علیالکاذبین سے نہیں ڈرتے۔ کوئی انسان دروغ اور افتراسے فتح یاب نہیں ہو سکتا۔ دروغ گو کا انجام ذلّت اور ؔ رسوائی ہے اور سچائی کی آخر فتح ہے۔

عبد الحق کے ساتھ مباہلہ کرنے کے بعد جس قدر تائید اور نصرت الٰہی کے مجھے الہام ہوئے اور جس طرح عظمت اور شوکت سے وہ پورے ہوئے وہ تمام حال میری اُن تمام کتابوں میں بھراپڑا ہے جو مباہلہ کے بعد لکھی گئی ہیں جو چاہے دیکھ لے مجھے بار بار اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں میں صرف مختصرطور پر کہتا ہوں کہ بمجرداس کے کہ میں مباہلہ کرکے اپنے مکان پر آیا اُسی وقت تائید اور نصرت الٰہی کے الہام شروع ہو گئے۔* اور خدا نے متواتر بشارتیں مجھے دیں اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں دنیا میں تجھے ایک بڑی عزّت دوں گا۔ تجھے ایک بڑی جماعت بناؤں گا اور بڑے بڑے نشان تیرے لئے دکھلاؤں گا اور تمام برکات کا تیرے پر دروازہ کھولوں گا۔ چنانچہ ان پیشگوئیوں کے مطابق کئی لاکھ آدمی میری جماعت میں داخل ہوا جو اس راہ میں اپنی جان قربان کرتے ہیں اور اُس وقت سے آج تک دو لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ آیا۔ اور اس قدر ہر ایک


* اگر کسی کو شک ہو تو مباہلہ کے بعد جو الہام میں نے شائع کئے ان کو میری کتابوں اور اخباروں میں دیکھ لے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 254

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 254

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/254/mode/1up


طرف سے تحائف آئے کہ اگر وہ سب جمع کئے جاتے تو کئی کوٹھے اُن سے بھر جاتے اورمخالف لوگوں نے میرے پر مقدمے اُٹھائے اور مجھے ہلاک کرنا چاہا لیکن سب کے مُنہ کالے ہوئے اور ہر ایک مقدمہ میں انجام کار میری عزت اور اُن کی نامرادی تھی اور مباہلہ کے بعد تین لڑکے بھی میرے پیدا ہوئے اور مجھے خدا نے عزت کے ساتھ اسی دنیا میں شہرت دی کہ ہزارہا لوگ ذی عزت میری جماعت میں داخل ہوئے۔ یقینایاد رکھو کہ ہر ایک شخص جس کو اِس بات پر اطلاع ہو گی کہ مباہلہ کے پہلے میری عزت کیا تھی اور کس قدرمیری جماعت تھی اورکیا میری آمدنی تھی اور اولاد میری کس قدر تھی پھر بعد اس کے کیا ترقی ہوئی اُس کو گو کیسا ہی دشمن ہو ماننا پڑے گا کہ مباہلہ کے بعد خدا نے برکت پر برکت دینے سے میری سچائی کی گواہی دی۔ اب عبد الحق سے پوچھنا چاہئے کہ اُس کو مباہلہ کے بعد کونسی برکت ملی۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک کھلاکھلا معجزہ ہے اور قریب ہے کہ اندھا بھی اُس کو دیکھ لے مگر افسوس اُن لوگوں پر کہ جو رات کو دیکھتے ہیں اور دن کو اندھے ہو جاتے ہیں۔ مباہلہ کے دن سے آج تک مجھ پر فضل کی بارشیں ہو رہی ہیں اور جیسا کہ خدا ؔ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ دیکھ میں تیرے لئے آسمان سے برساؤں گا اور زمین سے نکالوں گا۔ سو اُس نے ایسا ہی میرے ساتھ معاملہ کیا اوروہ نعمتیں دیں اور وہ نشان دکھلائے جو میں شمار نہیں کر سکتا۔ اور وہ عزت دی کہ کئی لاکھ انسان میرے پاؤں پر گر رہے ہیں۔

۹۳۔ترانواں نشان۔ اپنے امور وراثت کے متعلق ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض غیر قابض جدّی شرکاء نے جو قادیان کی ملکیت میں ہمارے شریک تھے دخل یابی کا دعویٰ عدالت گورداسپور میں کیا تب میں نے دعا کی کہ وہ اپنے مقدمہ میں ناکام رہیں۔ اِس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا اجیب کُلّ دُعائک الّافی شرکاء ک یعنی میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارہ میں نہیں*۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ اسی عدالت میں یا انجام کار


* اردو میں بھی الہام ہوا تھا جو یہی فقرہ ہے اس الہام میں جس قدر خدا نے اپنے اس عاجز بندہ کوعزت دی ہے وہ ظاہر ہے ایسا فقرہ مقامِ محبت میں استعمال ہوتا ہے اور خاص شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہر ایک کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 255

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 255

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/255/mode/1up


کسی اورعدالت میں مدعی فتح پا جائیں گے یہ الہام اِس قدر زور سے ہوا تھا کہ میں نے سمجھا کہ شاید قریب محلہ کے لوگوں تک آواز پہنچی ہوگی اور میں جناب الٰہی کے اس منشاء سے مطلع ہو کر گھر میں گیا اور میرے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم اُس وقت زندہ تھے میں نے رو برو تمام گھر کے لوگوں کے سب حال اُن کو کہہ دیا۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ اب ہم مقدمہ میں بہت کچھ خرچ کر چکے ہیں اگر پہلے سے کہتے تو ہم مقدمہ نہ کرتے مگر یہ عذر اُن کا محض سر سری تھا اور اُن کو اپنی کامیابی اور فتح پر یقین تھا چنانچہ پہلی عدالت میں تو اُن کی فتح ہو گئی۔ مگر چیف کورٹ میں مدعی کامیاب ہو گئے اور تمام عدالتوں کا خرچہ ہمارے ذمہ پڑا اور علاوہ اس کے وہ روپیہ جو پیروی مقدمہ کے لئے آپ قرضہ اُٹھایا تھا وہ بھی دینا پڑا اس طرح پر کئی ہزار روپیہ کا نقصان ہوا اور میرے بھائی کو اِس سے بڑا صدمہ پہنچا کیونکہ میں نے اُن کو کئی مرتبہ کہا تھا کہ شرکاء نے اپنا حصہ میرزا اعظم بیگ لاہوری کے پاس بیچا ہے آپکا حق شفعہ ہے روپیہ دے کرلے لو۔ مگر انہوں نے اِس بات کو قبول نہ کیا اور وقت ہاتھ سے نکل گیا اس لئے اس بات پر پچھتاتے رہے کہ کیوں ہم نے الہام الٰہی پر عمل نہ کیا یہ واقعہ اس قدر مشہور ہے کہ پچاس آدمی کے قریب اس واقعہ کو جانتے ہیں کیونکہ یہ الہام بہت سے لوگوں کو سُنایا گیا تھا جن میں سے بعض ہندو بھی ہیں۔

۹۴ؔ ۔ چورانواں نشان۔ ایک دفعہ میں لدھیانہ کی طرف سے قادیان کی طرف ریل گاڑی میں چلا آتا تھا اور میرے ساتھ شیخ حامد علی میرا خدمتگار اور چند اور آدمی بھی تھے جب ہم کسی قدر مسافت طے کر چکے تو تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا نصف ترانصف عمالیق را اور ساتھ ہی دل میں ڈالا گیا کہ یہ وراثت کا حصہ ہے کہ کسی وارث کی موت سے ہمیں ملے گا اور نیز دل میں ڈالا گیا کہ عمالیق سے مراد میرے چچا زاد بھائی ہیں جو مخالفت بھی رکھتے تھے اور قد کے بھی لمبے تھے گویا خدا نے مجھ کو موسیٰ ٹھہرایا اور اُن کو مخالفِ موسیٰ جب میں قادیان میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ہمارے شرکاء میں سے ایک عورت امام بی بی نام مرض اسہال کبدی سے بیمار ہے چنانچہ وہ چند دن کے بعد مر گئی اور ہم دونوں گروہ کے سوا اُ س کا کوئی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 256

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 256

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/256/mode/1up


وارث نہیں تھا اس لئے اُس کی زمین میں سے آدھی تو ہمارے حصہ میں آئی اور آدھی زمین ہمارے چچازاد بھائیوں کے حصہ میں گئی اور اس طرح پر وہ پیشگوئی پوری ہو گئی جس کے پورے ہونے اور بیان کرنے پر ایک جماعت گواہ ہے اور نیز شیخ حامد علی بھی جو زندہ موجود ہے۔

۹۵۔پچانواں نشان۔ ایک دفعہ مجھے لدھیانہ سے پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا اور میرے ساتھ وہی شیخ حامد علی اور دوسرا شخص فتح خان نام ساکن ایک گاؤں متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیارپور کا اور تیسرا شخص عبد الرحیم نام ساکن انبالہ چھاؤنی تھا اور بعض اور بھی تھے جو یاد نہیں رہے۔ جس صبح ہم نے ریل پر سوار ہونا تھا مجھے الہام کے ذریعہ سے بتایا گیا تھا کہ اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ حرج بھی۔ میں نے اپنے ان تمام ہمراہیوں کو کہا کہ نماز پڑھ کر دعا کر لو کیونکہ مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ چنانچہ سب نے دعا کی اور پھر ہم ریل پر سوار ہو کر ہر ایک طور کی عافیت سے پٹیالہ میں پہنچ گئے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو وزیر اعظم ریاست کا خلیفہ محمد حسن مع اپنے تمام ارکان ریاست کے جو شاید اٹھارہ گاڑیوں پر سوار ہوں گے پیشوائی کے لئے موجود دیکھے اور جب آگے بڑھے تو شاید سات ہزار کے قریب دوسرے عام و خاص شہر کے رہنے والے ملاقات کے لئے موجود تھے اِس حد تک تو خیر گذری نہ کوئی نقصان ہوا اور نہ کوئی حرج۔ لیکن جب واپس آنے کا ارادہ ہوا تو وہیؔ وزیر صاحب مع اپنے بھائی سید محمد حسین صاحب کے جو شاید ان دنوں میں ممبر کونسل ہیں مجھے ریل پر سوار کرنے کے لئے اسٹیشن پر میرے ہمراہ گئے اور اُن کے ساتھ نواب علی محمد خان صاحب مرحوم جھجروالے بھی تھے جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو ریل کے چلنے میں کچھ دیر تھی میں نے ارادہ کیا کہ عصر کی نماز یہیں پڑھ لوں اس لئے میں نے چوغہ اتار کر وضو کرنا چاہا اور چوغہ وزیر صاحب کے ایک ملازم کو پکڑا دیا اور پھر چوغہ پہن کر نماز پڑھ لی اور اس چوغہ میں زادِ راہ کے طور پر کچھ روپیہ تھے اور اسی میں ریل کا کرایہ بھی دینا تھاجب ٹکٹ لینے کا وقت آیا تو میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا کہ تا ٹکٹ کے لئے روپیہ دوں تو معلوم ہوا کہ وہ رومال جس میں روپیہ تھا گم ہو گیا ۔معلوم ہوتا ہے کہ چوغہ اُتارنے کے وقت کہیں گر پڑا مگر مجھے بجائے غم کے خوشی ہوئی کہ ایک



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 257

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 257

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/257/mode/1up


حصہ پیشگوئی کا پوا ہو گیا۔ پھر ہم ٹکٹ کا انتظام کرکے ریل پر سوار ہو گئے جب ہم دوراہہ کے اسٹیشن پر پہنچے تو شاید اُس وقت دس بجے رات کا وقت تھا اور وہاں صرف پانچ منٹ کے لئے ریل ٹھہرتی تھی میرے ایک ہمراہی شیخ عبد الرحیم نے ایک انگریز سے پوچھا کہ کیا لودہانہ آگیا؟ اُس نے شرارت سے یا کسی اپنی خود غرضی سے جواب دیا کہ ہاں آگیا تب ہم مع اپنے تمام اسباب کے جلد جلد اُتر آئے۔ اتنے میں ریل روانہ ہو گئی۔ اُترنے کے ساتھ ہی ایک ویرانہ سا اسٹیشن دیکھ کر پتہ لگ گیا کہ ہمیں دھوکہ دیا گیا وہ ایسا ویرانہ اسٹیشن تھا کہ بیٹھنے کے لئے چارپائی بھی نہیں ملتی تھی اور نہ روٹی کا سامان ہو سکتا تھا مگر اس امر کے خیال سے کہ اس حرجہ کے پیش آنے سے دوسرا حصہ پیشگوئی کا بھی پورا ہو گیا اس قدر مجھے خوشی ہوئی کہ گویا اس مقام میں کسی نے ہمیں بھاری دعوت دی اور گویا ہر ایک قسم کا خوش مزہ کھانا ہمیں مل گیا۔ بعد اس کے اسٹیشن ماسٹر اپنے کمرہ سے نکلا۔ اُس نے افسوس کیا کہ کسی نے ناحق شرارت سے آپ کو حرج پہنچایا اور کہا کہ آدھی رات کو ایک مال گاڑی آئے گی اگر گنجائش ہوئی تو میں اس میں بٹھا دوں گا۔ تب اُس نے اس امر کے دریافت کے لئے تار دی اور جواب آیا گنجائش ہے تب ہم آدھی رات کو سوار ہو کر لودہانہ میں پہنچ گئے گویا یہ سفر اسی پیشگوئی کے لئے تھا۔

۹۶۔چھیانواں نشان۔ ایک دفعہ نواب علی محمد خان مرحوم رئیس لدھیانہ نے میری طرف خط لکھا کہ میرے بعض امور معاش بندہو گئے ہیں آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں۔ جب میں نے دعا کی تو مجھے الہام ہوا کہ کھل جائیں گے۔ میں نے بذریعہ خط اُن کو اطلاع دے دی۔ پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کھل گئے اور اُن کو بشدت اعتقاد ہو گیا۔ پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض اپنے پوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا اور جس گھڑی اُنہوں نے خط ڈاک میں ڈالا اُسی گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس

مضمون کا خط اُن کی طرف سے آنے والا ہے تب میں نے بلا توقف اُن کی طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط آپ روانہ کریں گے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 258

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 258

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/258/mode/1up


دوسرے دن وہ خط آگیا اور جب میرا خط اُن کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی کیونکہ میرے اِس راز کی خبر کسی کو نہ تھی۔ اور اُن کا اعتقاد اِس قدر بڑھاکہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہو گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یاد داشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان متذکرہ بالا درج کر دئے اور ہمیشہ اُن کو پاس رکھتے تھے جب میں پٹیالہ میں گیا اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے۔جب وزیر سید محمد حسن صاحب کی ملاقات ہوئی تو اتفاقاً سلسلہ گفتگو میں وزیر صاحب اور نواب صاحب کا میرے خوارق اور نشانوں کے بارہ میں کچھ تذکرہ ہوا تب نواب صاحب مرحوم نے ایک چھوٹی سی کتاب اپنی جیب میں سے نکال کر وزیر صاحب کے سامنے پیش کر دی اور کہا کہ میرے ایمان اور ارادت کا باعث تو یہ دو پیشگوئیاں ہیں جو اس کتاب میں درج ہیں اور جب کچھ مدت کے بعد اُن کی موت سے ایک دن پہلے میں اُن کی عیادت کے لئے لدھیانہ میں اُن کے مکان پر گیا تو وہ بواسیر کے مرض سے بہت کمزور ہو رہے تھے اور بہت خون آرہا تھا اس حالت میں وہ اُٹھ بیٹھے اور اپنے اندر کے کمرہ میں چلے گئے اور وہی چھوٹی کتاب لے آئے اور کہا کہ یہ میں نے بطور حرزِ جان رکھی ہے اور اس کے دیکھنے سے میں تسلی پاتا ہوں اور وہ مقام دکھلائے جہاں دونوں پیشگوئیاں لکھی ہوئی تھیں۔ پھر جب قریب نصف ؔ کے یا زیادہ رات گذری تو وہ فوت ہو گئے انّاللّٰہ و انّا الیہ راجعون میں یقین رکھتا ہوں کہ اب تک اُن کے کتب خانہ میں وہ کتاب ہوگی۔

215۹۔ستانواں نشان۔ یہ ایک پیشگوئی اخبار الحکم اور البدر میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے کہ تخرج الصدور الی القبور۔ اس کے معنوں کی تفہیم خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ہوئی تھی کہ پنجاب کے صدر نشین مولوی جو اپنی اپنی جگہ مفتی سمجھے جاتے ہیں جو ماتحت مولویوں کے استاد اور شیخ ہیں وہ بعد اس الہام کے قبروں کی طرف انتقال کریں گے سو بعد اس کے تمام مولویوں کے شیخ المشائخ مولوی نذیر حسین دہلوی اس دنیا کو چھوڑ گئے وہی میری نسبت سب سے پہلے فتویٰ دینے والے تھے جنہوں نے میرے کُفر کا فتویٰ دیا تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی کے اُستاد تھے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 259

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 259

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/259/mode/1up


اور انہوں نے مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے استفتاء پر یہ کلمات میری نسبت لکھے تھے کہ ایسا شخص ضال مضل اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ایسے لوگوں کو مسلمانوں کی قبروں میں دفن نہیں کرنا چاہئے۔ اور اس مولوی نے یہ فتوے دیکر تمام پنجاب میں آگ لگا دی تھی اور لوگ اس قدر ڈر گئے تھے کہ ہم سے مصافحہ کرنے سے بھی بیزار ہو گئے تھے کہ شاید اس قدر تعلق سے بھی ہم کافر ہو جائیں گے پھر مولوی غلام دستگیر قصوری وہ بزرگ تھے جنہوں نے میرے کفر کے لئے مکہ معظمہ سے کفر کے فتوے منگوائے تھے وہ بھی اپنے یکطرفہ مباہلہ کے بعد انتقال کر گئے افسوس کہ مکہ والوں کو اُن کی اس موت کی خبر نہیں ہوئی تا اپنے فتوے واپس لیتے۔ پھر لودھیانہ کے مفتی مولوی محمد مولوی عبد اللہ مولوی عبد العزیز جنہوں نے کئی دفعہ مباہلہ کے رنگ میں *** اللّٰہ علی الکاذبین کہا تھا۔ وہ بھی اس الہام کے بعد گذر گئے۔ پھر امرتسر کے مفتی مولوی رسل بابا تھے وہ بھی کوچ کر گئے۔ اسی طرح بہت سے پنجاب کے مولوی اور بعض ہندوستان کے مولوی اس الہام کے بعد اس جہان کو چھوڑ گئے اگر ان سب کی اس جگہ فہرست لکھی جاوے تو وہ بھی ایک رسالہ بنے گا اور اس قدر جو لکھا گیا۔ وہ پیشگوئی کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ اور اگر کوئی اس قدر پر سیر نہ ہو تو ایکؔ لمبی فہرست ہم دے سکتے ہیں۔

۹۸۔اٹھانواں نشان۔ چند سال ہوئے ہیں کہ سیٹھ عبد الرحمن صاحب تاجر مدراس جو اول درجہ کے مخلص جماعت میں سے ہیں قادیان میں آئے تھے اور اُن کی تجارت کے امور میں کوئی تفرقہ اور پریشانی واقع ہو گئی تھی اُنہوں نے دعا کے لئے درخواست کی۔ تب یہ الہام ہوا جو ذیل میں درج ہے۔ قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے۔ بنا بنایا توڑ دے کوئی اُس کا بھید نہ پاوے۔ اس الہامی عبارت کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ ٹوٹاہوا کام بنا دے گا۔ مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد بنا بنایا توڑ دے گا۔چنانچہ یہ الہام قادیان میں ہی سیٹھ صاحب کو سنایا گیا اور تھوڑے دن ہی گذرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کے تجارتی امور میں رونق پیدا کر دی اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 260

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 260

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/260/mode/1up


ایسے اسباب غیب سے پیدا ہوئے کہ فتوحات مالی شروع ہو گئیں اور پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ بنا بنایا کام ٹوٹ گیا۔

۹۹۔ ننانواں نشان۔ ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کاروپیہ آتا ہے۔ چنانچہ میں نے دو آریہ شرمپت اور ملاوامل ساکنان قادیان کو صبح کے وقت یعنی ڈاک آنے کے وقت سے بہت پہلے یہ پیشگوئی بتلادی مگر ان دونوں آریوں نے بوجہ مخالفت مذہبی کے اس بات پر ضد کی کہ ہم تب مانیں گے کہ جب ہم میں سے کوئی ڈاکخانہ میں جاوے اور اتفاقاً ڈاکخانہ کا سب پوسٹ ماسٹر بھی ہندو ہی تھا تب میں نے اُن کی اس کی درخواست کو منظور کیا اور جب ڈاک آنے کا وقت ہوا تو اُن دونوں میں سے ملاوامل آریہ ڈاک لینے کے لئے گیا اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ سرور خان نے مبلغ 3 بھیجے ہیں۔ اب یہ نیاجھگڑاپیش آیا کہ سرور خان کون ہے کیا وہ محمد لشکر خان کا کوئی قرابتی ہے یا نہیں۔ اور آریوں کا حق تھا کہ اس کا فیصلہ کیا جاوے تا اصل حقیقت معلوم ہو تب منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤ نٹنٹ مصنف عصائے موسیٰ کی طرف جو اُس وقت ہوتی مردان میں تھے اور ابھی مخالف نہیں تھے خط لکھا گیا کہ اس جگہ یہ بحث درپیش ہے اور دریافت طلب یہ امر ہے کہ سرور خان کی محمد لشکر خان سے کچھ قرابت ہے یا نہیں چند روز کے بعد منشی الٰہی بخش صاحب کا ہوتی مردان سے جواب آیا جس میں لکھا تھا کہ سرور خان ارباب لشکر خان کا بیٹا ہے۔ تب دونوں آریہ لا جواب رہ گئے۔ اب دیکھو یہ اس قسم کا علم غیب ہے کہ عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ بجز خدا کے کوئی اس پر قادر ہو سکے۔ اس پیشگوئی میں دونوں طرف مخالفوں کی گواہی ہے۔ یعنی ایک طرف تو دو آریہ ہیں جن کی نسبت میرا بیان ہے کہ ان کو یہ پیشگوئی میں نے سُنائی تھی اور ان میں سے ایک خط لانے کے لئے ڈاک خانہ میں گیا تھا اور دوسری طرف منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ ہیں جو ان دنوں لاہور میں ہیں جنہوں نے میری مخالفت میں اپنی کتاب عصائے موسیٰ شائع کی ہے اور جو کچھ چاہا میری نسبت لکھا۔ ہاں میں اس قدر کہتا ہوں کہ اس پیشگوئی کی تصدیق کے لئے ان دو طرفہ گواہوں سے حلفاً پوچھنا چاہئے نہ محض معمولی بیان سے کیونکہ ملاوامل



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 261

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 261

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/261/mode/1up


اور شرمپت وہ متعصب آریہ ہیں جنہوں نے میری مخالفت میں اشتہار دےئے اور منشی الٰہی بخش صاحب وہی منشی صاحب ہیں جنہوں نے میری مخالفت میں عصائے موسیٰ تالیف کرکے بہتوں کو دھوکا دیاہے پس بجز قسم کے چارہ نہیں۔ اوریہ پیشگوئی بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی معلوم ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ منشی صاحب کی خدمت میں خط بھیجا گیاتھا اوراُن کا مذکورہ بالا جواب آیا تھا۔ اس لئے کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ ہر دوآریہ اس پیشگوئی سے انکار کریں۔ یا منشی الٰہی بخش صاحب خط کے بھیجنے سے انکار کریں اور اگر انکار بھی کریں تو یہ امر تو اب بھی فیصلہ ہو سکتا ہے کہ سرور خان کا ارباب لشکر خان سے کوئی رشتہ ہے یا نہیں۔

۱۰۰۔سوواں نشان۔ براہین احمدیہ کی وہ پیشگوئی ہے جو اُس کے صفحہ ۲۴۱ میں درج ہے اور پیشگوئی کی عبارت یہ ہے لا تیئس من روح اللّٰہ۔ الآ انّ روح اللّٰہ قریب۔ الآ انّ نصر اللّٰہ قریب۔ یاْتیک من کُلّ فجٍّ عمیق۔ یاْتون من کلّ فجٍّ عمیق۔ ینصرک اللّٰہ من عندہٖ۔ ینصرک رجالٌ نوحی الیھم من السّمآء۔ ولا تصعّرلخلق اللّٰہ وَلا تسئم من النّاس۔ دیکھو صفحہ ۲۴۱ براہین احمدیہ مطبوعہ ۱۸۸۱ء و ۱۸۸۲ء مطبع سفیر ہند پریس امرتسر۔ (ترجمہ) خدا کے فضلؔ سے نومید مت ہو اور یہ بات سُن رکھ کہ خدا کا فضل قریب ہے۔ خبردار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے۔ وہ مدد ہر ایک راہ سے تجھے پہنچے گی اور ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور اِس کثرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں جن پر وہ چلیں گے عمیق ہو جائیں گی۔ خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ القا کریں گے مگر چاہئیے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گے بد خلقی نہ کرے اور چاہئیے کہ تو اُن کی کثرت دیکھ کر ملاقاتوں سے تھک نہ جائے۔ اس پیشگوئی کو آج تک پچیس برس گذر گئے جب یہ براہین احمدیہ میں شائع ہوئی تھی۔ اور یہ اُس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ میں زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا اور ان سب میں سے جو آج میرے ساتھ ہیں مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا اور میں اُن لوگوں میں سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 262

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 262

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/262/mode/1up


نہیں تھا جن کا کسی وجاہت کی وجہ سے دنیا میں ذکر کیا جاتا ہے۔ غرض کچھ بھی نہیں تھا اور میں صرف ایک احد من الناس تھا اور محض گمنام تھا اور ایک فرد بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا مگر شاذو نادر ایسے چند آدمی جو میرے خاندان سے پہلے ہی سے تعارف رکھتے تھے۔ اور یہ وہ واقعہ ہے کہ قادیان کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی اس کے برخلاف شہادت نہیں دے سکتا۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے پوراکرنے کے لئے اپنے بندوں کو میری طرف رجوع دلایا اور فوج در فوج لوگ قادیان میں آئے اور آرہے ہیں اور نقد اور جنس اورہر ایک قسم کے تحائف اس کثرت سے لوگوں نے دیئے اور دے رہے ہیں جن کا میں شمار نہیں کر سکتا اور ہر چند مولویوں کی طرف سے روکیں ہوئیں اور انہوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ رجوع خلائق نہ ہو یہاں تک کہ مکہ تک سے بھی فتوے منگوائے گئے اور قریباً دو سو۲۰۰ مولویوں نے میرے پر کفر کے فتوے دئے بلکہ واجب القتل ہونے کے بھی فتوے شائع کئے گئے لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں نامراد رہے اور انجام یہ ہوا کہ میری جماعت پنجاب کے تمام شہروں اور دیہات میں پھیل گئی اور ہندوستان میں بھی جا بجا یہ تخم ریزی ہو گئی۔ بلکہ یورپ اور امریکہ کے بعض انگریز بھی مشرف باسلام ہو کر اس جماعت میں داخل ہوئے اور اس قدر فوج در فوج قادیان میںؔ لوگ آئے کہ یکوں کی کثرت سے کئی جگہ سے قادیان کی سڑک ٹوٹ گئی اس پیشگوئی کو خوب سوچنا چاہئے اور خوب غور سے سوچنا چاہئے کہ اگر یہ خدا کی طرف سے پیشگوئی نہ ہوتی تو یہ طوفان مخالفت جو اُٹھا تھا اورتمام پنجاب اور ہندوستان کے لوگ مجھ سے ایسے بگڑ گئے تھے جو مجھے پیروں کے نیچے کچلنا چاہتے تھے ضرور تھا کہ وہ لوگ اپنی جان توڑ کوششوں میں کامیاب ہو جاتے اور مجھے تباہ کر دیتے لیکن وہ سب کے سب نا مراد رہے اور میں جانتا ہوں کہ اُن کا اس قدر شور اور میرے تباہ کرنے کے لئے اس قدر کوشش اور یہ پُر زور طوفان جو میری مخالفت میں پیدا ہوا یہ اس لئے نہیں تھا کہ خدا نے میرے

تباہ کرنے کا ارادہ کیا تھا بلکہ اس لئے تھا کہ تا خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوں اور تا خدائے قادر جو کسی سے مغلوب نہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 263

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 263

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/263/mode/1up


ہو سکتا اُن لوگوں کے مقابل پر اپنی طاقت اور قوت دکھلاوے اور اپنی قدرت کا نشان ظاہر کرے چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا۔ کون جانتا تھا اور کس کے علم میں یہ بات تھی کہ جب میں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح بویا گیا اور بعد اس کے ہزاروں پیروں کے نیچے کچلا گیا۔ اور آندھیاں چلیں اور طوفان آئے اور ایک سیلاب کی طرح شور بغاوت میرے اِس چھوٹے سے تخم پر پھر گیا پھر بھی میں اِن صدمات سے بچ جاؤں گا سو وہ تخم خدا کے فضل سے ضائع نہ ہوا بلکہ بڑھا اور پھولا اور آج وہ ایک بڑا درخت ہے جس کے سایہ کے نیچے تین لاکھ انسان آرام کر رہا ہے یہ خدائی کام ہیں جن کے ادراک سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں۔ وہ کسی سے مغلوب نہیں ہو سکتا۔ اے لوگو! کبھی تو خدا سے شرم کرو! کیا اس کی نظیر کسی مفتری کی سوانح میں پیش کر سکتے ہو؟ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو کچھ بھی ضرورت نہ تھی کہ تم مخالفت کرتے اور میرے ہلاک کرنے کے لئے اس قدر تکلیف اُٹھاتے بلکہ میرے مارنے کے لئے خدا ہی کافی تھا جب ملک میں طاعون پھیلی تو کئی لوگوں نے دعویٰ کرکے کہا کہ یہ شخص طاعون سے ہلاک کیا جائے گا مگر عجیب قدرتِ حق ہے کہ وہ سب لوگ آپ ہی طاعون سے ہلاک ہو گئے اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تیری حفاظت کروں گا اور طاعون تیرے نزدیک نہیں آئے گی بلکہ یہ بھی مجھے فرمایا کہ میں لوگوؔ ں کو یہ کہوں کہ آگ سے (یعنی طاعون سے) ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے اور نیز مجھے فرمایا کہ میں اِس تیرے گھر کی حفاظت کروں گا اور ہر ایک جو اِس چاردیوار کے اندر ہے وہ طاعون سے بچا رہے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اِس نواح میں سب کو معلوم ہے کہ طاعون کے حملہ سے گاؤں کے گاؤں ہلاک ہو گئے اور ہمارے اِرد گرد قیامت کا نمونہ رہا مگر خدانے ہمیں محفوظ رکھا۔

۱۰۱۔ ایک سو ایک نشان۔ جب میں ۱۹۰۴ء میں کرم دین کے فوجداری مقدمہ کی وجہ سے جہلم میں جا رہا تھا تو راہ میں مجھے الہام ہوا اُریک برکاتٍ من کلّ طرفٍ یعنی میں ہر ایک پہلو سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا۔ اور یہ الہام اُسی وقت تمام جماعت کو سُنا دیا گیا۔ بلکہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 264

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 264

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/264/mode/1up


اخبار الحکم میں درج کرکے شائع کیا گیا اور یہ پیشگوئی اِس طرح پر پوری ہوئی *کہ جب میں جہلم کے قریب پہنچا تو تخمیناً دس ہزار سے زیادہ آدمی ہوگا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے۔ اور پھر ضلع کی کچہری کے اِرد گرد اِس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑ گئے۔ گیارہ ۱۱۰۰سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دو سو ۲۰۰کے عورت بیعت کرکے اِس سلسلہ میں داخل ہوئی۔ اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پر تھا خارج کیا گیا۔ اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دئے اور تحفے پیش کئے اور اس طرح ہم ہر ایک طرف سے برکتوں سے مالا مال ہو کر قادیان میں واپس آئے اور خدا تعالیٰ نے نہایت صفائی سے وہ پیشگوئی پوری کی۔

۱۰۲ ۔نشان ۔براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی ہے سبحان اللّٰہ تبارک و تعالٰی زاد مجدک۔ ینقطع اٰباء ک ویبدء منک دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۰۔ (ترجمہ) خدا ہر ایک عیب سے پاک اور بہت برکتوں والا ہے وہ تیری بزرگی زیادہ کرے گا تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائیگا* اور خدا اس خاندان کی بزرگی کی تجھ سے بنیاد ڈالے گا۔ یہ اُس وقت کی پیشگوئی ہے کہ جب کسی قسم کی عظمت میری طرف منسوب نہیں ہوتی تھی اور میں ایسے گمنام کی طرح تھا


* راستہ میں لاہور سے آگے گوجرانوالہ اور وزیر آباد اور گجرات وغیرہ اسٹیشنوں پر اس قدر لوگ ملاقات کے لئے آئے کہ اسٹیشنوں پر انتظام رکھنا مشکل ہو گیا۔ ٹکٹ پلیٹ فارم ختم ہونے کی وجہ سے لوگ بلا ٹکٹ پلیٹ فارم پر چلے گئے اور بعض مقامات پر گاڑی کو کثرت ہجوم کی وجہ سے زیادہ دیر تک ٹھہرایا گیا اور نہایت نرمی سے زائروں کو ملازمین ریل نے گاڑی سے علیحدہ کیا بعض جگہ کچھ دور تک لوگ گاڑی کو پکڑے ہوئے ساتھ چلے گئے خوف تھا کہ کوئی آدمی نہ مر جاوے۔ ان واقعات کو مخالف اخباروں نے بھی مثل پنجۂ فولاد کے شائع کیا تھا۔ منہ

* اس الہام میں یہ بھی اشارہ تھا کہ آبائی وجوہ معاش سب بند ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ نئی برکتیں عطا کرے گا چنانچہ ہمارے والد صاحب کی وجوہ معاش کچھ تو گورنمنٹ میں ضبط ہو گئے اور کچھ شرکاء کو مل گئے اور ہم خالی ہاتھ رہ گئے۔ پھر خدا نے اپنی طرف سے سب کچھ مہیا کیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 265

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 265

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/265/mode/1up


جو ؔ گویا دنیا میں نہیں تھا۔ اور وہ زمانہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اُس پر اب قریباً تیس برس گذر گئے اب دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی کس صفائی سے پوری ہوئی جو اس وقت ہزار ہا آدمی میری جماعت کے حلقہ میں داخل ہیں اور اس سے پہلے کون جانتا تھا کہ اس قدر میری عظمت دنیا میں پھیلے گی پس افسوس اُن پر جو خدا کے نشانوں پر غور نہیں کرتے۔ پھر اس پیشگوئی میں جس کثرتِ نسل کا وعدہ تھا اُس کی بنیاد بھی ڈالی گئی کیونکہ اس پیشگوئی کے بعد چار فرزند نرینہ اور ایک پوتا اور دو لڑکیاں میرے گھر میں پیدا ہوئیں جو اُس وقت موجود نہ تھیں۔

۱۰۳ ۔ایک سو تین نشان ۔ایک دفعہ طاعون کے زور کے دنوں میں جب قادیان میں بھی طاعون تھی مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو سخت بخار ہو گیا اور اُن کو ظن غالب ہو گیا کہ یہ طاعون ہے اور انہوں نے مرنے والوں کی طرح وصیّت کر دی اور مفتی محمد صادق صاحب کو سب کچھ سمجھا دیا اور وہ میرے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے جس گھر کی نسبت خدا تعالیٰ کا یہ الہام ہے۔ انّی احافظ کلّ من فی الدار۔ تب میں اُن کی عیادت کے لئے گیا اور اُن کو پریشان اور گھبراہٹ میں پاکر میں نے اُن کوکہا کہ اگر آپ کو طاعون ہو گئی ہے تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰء الہام غلط ہے یہ کہہ کر میں نے ان کی نبض پر ہاتھ لگایا۔ یہ عجیب نمونہ قدرت الٰہی دیکھا کہ ہاتھ لگانے کے ساتھ ہی ایسا بدن سردپایا کہ تپ کا نام و نشان نہ تھا۔

۱۰۴ ۔ایک سو چار نشان۔ ایک دفعہ میرا چھوٹا لڑکا مبارک احمد بیمار ہو گیاغشی پر غشی پڑتی تھی اور میں اُس کے قریب مکان میں دعا میں مشغول تھا اور کئی عورتیں اُس کے پاس بیٹھی تھیں کہ یک دفعہ ایک عورت نے پکار کر کہا کہ اب بس کرو کیونکہ لڑکا فوت ہو گیاتب میں اُس کے پاس آیا اور اُس کے بدن پر ہاتھ رکھا اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی تو دو تین منٹ کے بعد لڑکے کو سانس آنا شروع ہو گیا اور نبض بھی محسوس ہوئی اور لڑکا زندہ ہو گیا۔ تب مجھے خیال آیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا احیاء موتٰی بھی اسی قسم کا تھا اور پھر نادانوں نے اس پر حاشیے چڑھادئے۔

۱۰۵ ۔ ایک سو پانچواں نشان۔ ایک دفعہ میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 266

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 266

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/266/mode/1up


نسبت مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ان کی زندگی کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہیں بعد میں وہ یک دفعہ سخت بیمار ہو گئے یہاں تک کہ صرف استخوان باقی رہ گئیں اور اس قدر دُبلے ہو گئے کہ چارپائی پر بیٹھے ہوئے نہیں معلوم ہوتے تھے کہ کوئی اس پر بیٹھا ہوا ہے یا خالی چارپائی ہے پاخانہ اور پیشاب اوپر ہی نکل جاتا تھا اوربیہوشی کا عالم رہتا تھا۔ میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضیٰ مرحوم بڑے حاذق طبیب تھے انہوں نے کہہ دیا کہ اب یہ حالت یاس اور نو میدی کی ہے صرف چند روز کی بات ہے مجھ میں اس وقت جوانی کی قوت موجود تھی اور مجاہدات کی طاقت تھی اور میری فطرت ایسی واقع ہے کہ میں ہر ایک بات پر خدا کو قادر جانتا ہوں اور درحقیقت اس کی قدرتوں کا کون انتہا پا سکتا ہے اور اُس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں بجز اُن امور کے جو اس کے وعدہ کے برخلاف یا اُس کی پاک شان کے منافی اور اُس کی توحید کی ضدّ ہیں۔ اسلئے میں نے اس حالت میں بھی اُن کے لئے دعا کرنی شروع کی اور مَیں نے دل میں یہ مقرر کر لیا کہ اس دُعا میں مَیں تین باتوں میں اپنی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہوں۔

ا164ک ۱ یہ کہ مَیں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا میں حضرت عزت میں اس لائق ہوں کہ میری دعا قبول ہو جائے دو۲ سری یہ کہ کیا خواب اور الہام جو وعید کے رنگ میں آتے ہیں اُن کی تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ تیسر۳ی یہ کہ کیا اس درجہ کا بیمار جس کے صرف استخوان باقی ہیں دعا کے ذریعہ سے اچھا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ غرض میں نے اِس بناء پر دعا کرنی شروع کی پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ دعا کے ساتھ ہی تغیر شروع ہو گیا اور اس اثنامیں ایک دوسرے خواب میں مَیں نے دیکھا کہ وہ گویا اپنے دالان میں اپنے قدموں سے چل رہے ہیں اور حالت یہ تھی کہ دوسرا شخص کروٹ بدلتا تھا جب دعا کرتے کرتے پندرہ دن گذر ے تو اُن میں صحت کے ایک ظاہری آثار پیدا ہو گئے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چندقدم چلوں چنانچہ وہ کسی قدر سہارے سے اُٹھے اور سوٹے کے سہارے سے چلنا شروع کیا اور پھر سوٹا بھی چھوڑ دیا چند روز تک پورے تندرست ہو گئے اور بعد اس کے پندرہ برس تک زندہ رہے اور پھر فوت ہو گئے جس سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 267

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 267

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/267/mode/1up


معلوؔ م ہوا کہ خدا نے اُن کی زندگی کے پند۱۵رہ دن پندرہ سال سے بدل دئے ہیں یہ ہے ہماراخدا جو اپنی پیشگوئیوں کے بدلانے پر بھی قادر ہے مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ قادر نہیں۔

نشان ۱۰۶۔ ایک دفعہ تمثلی طور پر مجھے خدا تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور میں نے اپنے ہاتھ سے کئی پیشگوئیاں لکھیں جن کا یہ مطلب تھا کہ ایسے واقعات ہونے چاہئیں تب میں نے وہ کاغذ دستخط کرانے کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا اور اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی تامل کے سرخی کے قلم سے اُس پر دستخط کئے اور دستخط کرنے کے وقت قلم کو چھڑکا جیسا کہ جب قلم پر زیادہ سیاہی آجاتی ہے تو اسی طرح پر جھاڑ دیتے ہیں اور پھر دستخط کر دئے اور میرے پر اُس وقت نہایت رِقّت کا عالم تھا اِس خیال سے کہ کس قدر خدا تعالیٰ کا میرے پر فضل اور کرم ہے کہ جو کچھ میں نے چاہا بلا توقف اللہ تعالیٰ نے اُس پر دستخط کر دئے اور اُسی وقت میری آنکھ کُھل گئی اور اُس وقت میاں عبد اللہ سنوری مسجد کے حجرہ میں میرے پیر دبا رہا تھا کہ اُس کے رُوبرو غیب سے سُرخی کے قطرے میرے کُرتے اور اُس کی ٹوپی پر بھی گرے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس سُرخی کے قطرے گرنے اور قلم کے جھاڑنے کا ایک ہی وقت تھا ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہ تھا ایک غیر آدمی اِس راز کو نہیں سمجھے گا اور شک کرے گا کہ کیونکر اس کو صرف ایک خواب کا معاملہ محسوس ہوگامگر جس کو روحانی امور کا علم ہو وہ ا س میں شک نہیں کر سکتااسی طرح خدا نیست سے ہست کر سکتا ہے۔ غرض میں نے یہ سارا قصہ میاں عبد اللہ کو سنایا اور اُس وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عبد اللہ جو ایک رویت کا گواہ ہے اس پر بہت اثر ہوا اور اُس نے میرا کرتہ بطور تبرک اپنے پاس رکھ لیا جو اب تک اُس کے پاس موجود ہے۔

۱۰۷۔کئی مرتبہ زلزلوں سے پہلے اخباروں میں میری طرف سے شائع ہو چکا ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے یہاں تک کہ زمین زیر و زبر ہو جائے گی۔ پس وہ زلزلے جو سان فرانسسکو اور فارموسا وغیرہ میں میری پیشگوئی کے مطابق آئے وہ تو سب کو معلوم ہیں لیکن حال میں ۱۶؍اگست ۱۹۰۶ء کو جو جنوبی حصہ امریکہ یعنی چِلی کے صوبہ میں ایک سخت زلزلہ آیا۔ وہ پہلے زلزلوں سے کم نہ تھا۔ جس سے پند۱۵ رہ چھوٹے بڑے شہر اور قصبے برباد ہو گئے اور ہزارہا جانیں تلف ہوئیں اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 268

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 268

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/268/mode/1up


دسؔ لاکھ آدمی اب تک بے خانمان ہیں۔ شاید نادان لوگ کہیں گے کہ یہ کیونکر نشان ہو سکتا ہے یہ زلزلے تو پنجاب میں نہیں آئے مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا تمام دنیا کا خدا ہے نہ صرف پنجاب کا اور اس نے تمام دنیا کے لئے یہ خبریں دی ہیں نہ صرف پنجاب کے لئے یہ بد قسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کو ناحق ٹال دینا اور خدا کے کلام کو غور سے نہ پڑھنا اور کوشش کرتے رہنا کہ کسی طرح حق چھپ جائے مگر ایسی تکذیب سے سچائی چھپ نہیں سکتی۔

یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناًسمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گاتب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا۔3

3۔۱؂ اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 269

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 269

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/269/mode/1up


اپنیؔ تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگایہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھو گے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔

۱۰۸ ۔نشان۔ جو براہین احمدیہ میں درج ہے یہ ہے اردت ان استخلف فخلقتُ اٰدم یعنی میں نے ارادہ کیا کہ خلیفہ بناؤں پس میں نے آدم کو خلیفہ بنایا۔ یہ الہام مدت پچیس۲۵ برس سے براہین احمدیہ میں درج ہے اِس جگہ براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام آدم رکھا اور یہ ایک پیشگوئی ہے جو اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جیسا کہ فرشتوں نے آدم کی عیب جوئی کی تھی اور اُس کو ردّ کر دیا تھا مگر آخر خدا نے اُسی آدم کو خلیفہ بنایا اور سب کو اُس کے آگے سر جھکانا پڑا۔ سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ چنانچہ میرے مخالف علماء اور اُن کے ہم جنسوں نے عیب جوئی میں کمی نہ کی اور تباہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ مکر کا اٹھا نہیں رکھا۔ مگر آخر کار خدا نے مجھے غالب کیا اور خدا بس نہیں کرے گاجب تک جھوٹ کو اپنے پیروں کے نیچے نہ کچلے۔

۱۰۹ ۔نشان۔ جو براہین احمدیہ میں درج ہو کر شائع ہو چکا ہے یہ ہے۔ و کذالک مننّا علٰی یوسف



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 270

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 270

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/270/mode/1up


لنصرف عنہ السوٓء والفحشآء۔ ولتُنذر قومًا ما انذر اٰبآء ھم فھم غافلون۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ۵۵۵ (ترجمہ) اور اسی طرح ہم نے اپنے نشانوں کے ساتھ اِس یوسف پراحسان کیا تاکہ جو بدی اور عیب اُس کی طرف منسوب کئے جائیں گے اُن سے ہم اس کو بچا لیں اور تاکہ تو اُن نشانوں کی عظمت کی وجہ سے اس لائق ہوکہ غافلوں کو ڈراوے کیونکہ درحقیقت انہیں لوگوں کا وعظ دلوں پر اثر کرتا ہے جن کو خدا اپنی طرف سے عظمت اور امتیاز بخشتا ہے۔ اِس جگہ خدا تعالیٰ نے میرا نام یوسف رکھا اور یہ ایک پیشگوئی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح یوسف کے بھائیوں نے اپنی جہالت سے یوسف کو بہت دُکھ دیا تھا اور اس کے ہلاک کرنے میں کسر نہیں رکھی تھی خدا فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوگا اور اشارہ فرماتا ہے کہ یہ لوگ بھی جو قومی اخوت رکھتے ہیں ہلاک اور تباہ کرنے کے لئے بڑے بڑے فریب کریں گے مگر آخر کاروہ نا مراد رہیں گے اور خدا اُن پر کھول دے گاکہ جس شخص کو تم نے ذلیل کرنا چاہا تھا میں نے اُس کو عزت کا تاج پہنایا۔ تب بہتوں پر کھل جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے جیسا کہ وہ ایک دوسرے الہام میں فرماتا ہے:

یخرّون علی الاذقان سجّدًا۔ ربّنااغفرلنا انّا کنّا خاطئین۔ تَاللّٰہِ لَقَدْ اٰثرک اللّٰہ علینا وان کنّا لخاطئین۔ لا تثریب علیکم الیوم۔ یغفر اللّٰہ لکم۔ وھوارحم الراحمین۔ یعنی وہ لوگ اپنی ٹھوڈیوں پر سجدہ کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے گریں گے کہ اے ہمارے خدا ہمیں بخش ہم خطا پر تھے۔ اور تجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ بخدا خدا نے ہم سب میں سے تجھے چُن لیا اور ہم خطا پر تھے۔ تب خدا رجوع کرنے والوں کو کہے گا کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں کیونکہ تم ایمان لائے۔ خدا تمہیں تمہاری پہلی لغزشیں بخش دے گا کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔

غرض اس پیشگوئی میں دو امر غیب کا بیان ہے (۱) اوّل یہ کہ آئیندہ زمانہ میں قوم میں سخت مخالف پیدا ہو جائیں گے اور حسد کا شعلہ ایسا اُن میں جوش مارے گا جیسا کہ یوسف ؑ کے بھائیوں میں جوش مارا تھا تب وہ سخت دشمن بن جائیں گے اور تباہ اور ہلاک کرنے کے لئے طرح طرح کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 271

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 271

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/271/mode/1up


منصوبے کریں گے اور یہ امر کہ قوم میں سے مخالف پیدا ہو جائیں گے اور بڑی بڑی شرارت کریں گے یہ ایک پیشگوئی ہے کیونکہ یہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہے جس کو پچیس برس کا عرصہ گذر گیا ہے اور اُس وقت قوم میں سے میرا کوئی مخالف نہ تھا کیونکہ ابھی تو براہین احمدیہ بھی شائع نہ ہوئی تھی پھر مخالفت کی کیا وجہ تھی۔ پس بلا شبہ یہ خبر کہ کسی زمانہ میں ایسے دشمن جانی پیدا ہو جائیں گے جو پہلے اخوت اسلامی کی وجہ سے بھائیوں کے طور پر تھے یہ ایک امر غیب ہے جو خدا نے قبل از وقوع ظاہر کیا اور براہین احمدیہ میں لکھا گیا

(۲) دوسرا امر غیب اس پیشگوئی میں یہ ہے کہ اس مخالفت کا یہ انجام بتا دیا ہے کہ آخر کار وہ دشمن خائب و خاسرر ہیں گے اور بہتیرے اُن میں سے یوسف ؑ کے بھائیوں کی طرح رجوع کریں گے اور اُس وقت خدا اس عاجز کو یوسف کی طرح تاج عزت پہنائے گا اور وہ عظمت اور بزرگی بخشے گا جس کی کسی کو توقع نہ تھی چنانچہ بہت سا حصہ اس پیشگوئی کا پورا ہو چکا ہے کیونکہ ایسے دشمن پیدا ہو گئے جو میرا استیصال چاہتے ہیں اور درحقیقت یہ لوگ اپنے بد ارادے میں یوسف کے بھائیوں سے بھی بُرے ہیں۔ سو خدا نے کئی لاکھ انسان میرے تابع کرکے اور مجھے ایک خاص عزت اور عظمت بخش کر اُن کو ذلیل کیا اور وہ وقت آتا ہے کہ اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ میری شان ظاہر کرے گااور بڑے بڑے مخالفوں میں سے جو سعید ہیں اُن کو کہنا پڑے گا کہ ربّنا اغفرلنا انّا کنّا خاطئین۔ اور کہنا پڑے گا کہ تاللّٰہ لقد اٰثرک اللّٰہ علینا۔

۱۱۰۔نشان۔براہین احمدیہ کی یہ پیشگوئی انّا اعطینا ک الکوثر۔ ثُلّۃٌ من الاوّلین و ثُلّۃٌ من الاٰخرین دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۶ ۔(ترجمہ) ہم ایک کثیر جماعت تجھے عطا کریں گے اوّل ایک پہلا گروہ جو آفات کے نزول سے پہلے ایمان لائیں گے۔ دوم دوسرا گروہ جو قہری نشانوں کے بعد ایمان لائیں گے ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ جس قدر براہین احمدیہ میں پیشگوئیاں ہیں اُن پر پچیس برس گذر گئے ہیں اور وہ اُس زمانہ کی پیشگوئیاں ہیں جبکہ میرے ساتھ ایک انسان بھی نہ تھا اگر یہ بیان غلط ہے تو گویا میرا تمام دعویٰ باطل ہے۔ پس واضح ہو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 272

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 272

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/272/mode/1up


کہ ؔ یہ پیشگوئی بھی براہین احمدیہ میں درج ہے جو اس تنہائی اور بے کسی کے زمانہ میں ایک ایسے زمانہ کی خبر دیتی ہے جبکہ ہزار ہا آدمی میری بیعت میں داخل ہو جائیں گے۔ سو اس زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ غیب کی خبر دینابجُز خدا کے کسی کی طاقت میں نہیں۔ عِلم غیب خاصّہ خدا ہے مگر اب تو ہمارے مخالفوں کی نظر میں علم غیب بھی خاصہ خدا نہیں دیکھئے کہاں تک ترقی کریں گے۔

۱۱۱۔ نشان۔ براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی ہے۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قُدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دیگا۔ اس پیشگوئی پر پچیس ۲۵برس گذر گئے یہ اُس زمانہ کی ہے جبکہ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ بباعث سخت مخالفت بیرونی اور اندرونی کے کوئی ظاہری امید نہیں ہوگی کہ یہ سلسلہ قائم ہو سکے۔ لیکن خدا اپنے چمک دار نشانوں سے دنیا کو اِس طرف کھینچ لے گا اور میری تصدیق کے لئے زور آور حملے دکھائے گا۔ چنانچہ اُنہیں حملوں میں سے ایک طاعون ہے جس کی ایک مدّت پہلے خبر دی گئی تھی۔ اور اُنہیں حملوں میں زلزلے ہیں جو دنیا میں آرہے ہیں اور نہ معلوم اور کیا کیا حملے ہوں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ جیسا کہ اس پیشگوئی میں