روح و مادہ
حدوثِ روح اور مادہ کے اثبات پر ویدوں اور اپنشدوں سے
حدوثِ روح اور مادہ کے اثبات پر ویدوں اور اپنشدوں سے
نقلی دلائل
۱۔’’اے انسانو!میں ایشور سب سے پہلے موجود اور ساری دنیا کا مالک ہوں ۔میں جگت کی پیدائش کا قدیم باعث ہوں۔تمام مال و دولت پر غالب اور اس کا بخشنے والا ہوں۔‘‘
(رگوید منڈل نمبر۱۰سوکت نمبر۴۸منقول از ستیارتھ پرکاش باب ۷ دفعہ ۹ )
اِس سے معلوم ہوا کہ سب سے اوّل خداتعالےٰ تھا۔اُس نے سب کو پیدا کیا۔وہی سب کی پیدائش کا قدیم باعث ہے۔
۲۔’’جس وقت یہ ذروں سے مل کر دنیا پیدا نہیں ہوئی تھی اُس وقت یعنی کائنات سے پہلے است یعنی شونیا اکاش(فضا)بھی نہیں تھی۔کیونکہ اُس وقت اس کا کاروبار نہ تھا۔اُس وقت ست (پرکرتی)یعنی کائنات کی غیر محسوس علّت جس کو ست کہتے ہیں وہ بھی نہ تھی اور نہ پرمانو تھے اور وراٹ (کائنات)میں جو اکاش دوسرے درجے پر آتا ہے وہ بھی نہ تھا بلکہ اُس وقت صرف پربرہم کی سامرتھ (قدرت)جو نہایت لطیف اور اس تمام کائنات سے برترو بے علّت ہے موجود تھی۔‘‘ (بھاش بھومکا اردو صفحہ ۷۰)
۳۔ ’’اُس پُرش (پرمیشور)نے پرتھوی یعنی زمین کے بنانے کے لئے پانی سے رس کو لے کر مٹی کو بنایا۔اسی طرح آگ کے رس سے پانی کو پیدا کیا اور آگ کو ہوا سے اور ہوا کو اکاش سے اور اکاش کو پرکرتی سے اور پرکرتی کو اپنی قدرت سے پیدا کیا۔‘‘ (بھاش بھومکااردو صفحہ ۷۸پیدائش عالم کا بیان منتر ۱۷)
۴۔ ’’اُس پُرش(پرمیشور)کی غایت درجہ قدرت ہی اس دنیا کے بنانے کا مصالحہ و مواد ہے کہ جس سے یہ سب دنیا پیدا ہوئی۔سو پرمیشور سب کے چاہنے والا ہو کر اس دو قسم کی دنیا کو مرصّع و مسجّع کرتا ہے وہ ایشور اس کا(دنیا کا بنانے والا)دنیا میں محیط ہو کر دیکھ رہا ہے۔‘‘ (بھاشیہ بھومکاہندی صفحہ ۱۲۲بحوالہ یجر وید ۲؍۳۰)
۵۔ ’’دیوتاؤں کے پہلے یُگ میں نیستی سے ہستی پیدا ہوئی۔‘‘(یعنی دیوتاؤں سے پیشتر زمانہ میں نیستی سے ہستی پیدا ہوئی۔ (رگوید منڈل نمبر۱۰)
۶۔ ’’پرکرتی وغیرہ اعلیٰ و لطیف کائنات اور گھاس مٹی چھوٹے کیڑے مکوڑے وغیرہ ادنیٰ مخلوقات نیز انسان کے جسم سے لے کر اکاش تک متوسط درجہ کی کائنات یہ تینوں قسم کی دنیا پرش (پرمیشور)نے اپنی قدرت سے پیدا کیں۔‘‘ (اتھرون وید کانڈ نمبر۱۰ انوواک نمبر۴ منتر نمبر۷ منقول از بھومکا)
۷۔’’اس کائنات سے پہلے صرف ایک آتما(پرمیشور)ہی تھا اور کوئی دوسری(قابلِ تمیز) چیز نہ تھی۔‘‘ (رگ وید آدی بھاشیہ بھومکا صفحہ ۵۳منقول از نیک اُپنشدادھیائے نمبر۱۔کھنڈ نمبرا۔ اصلاح وید پر بحث)
۸۔ ’’اِس سے پہلے محیط کل پر پرمیشور ہی تھا۔‘‘ (شت پتھ برہمن کانڈ نمبر۱۱۔ادھیائے رگوید صفحہ ۵۳)
۹۔ ’’اس سے پہلے دنیا کچھ بھی نہ تھی۔‘‘ (شت پتھ برہمن کانڈ نمبر۱۱ادھیائے رگوید صفحہ ۵۳)
۱۰۔ ’’چونکہ وہ پرمیشور اَنّ یا مٹی وغیرہ کل کائنات فانی سے الگ اور جینے مرنے سے مبرّا ہے اس لئے وہ بذاتہٖ غیر مولود اور سب کو پیدا کرنے والا ہے۔وہی (خدا )اس کائنات کو اپنی قدرت سے بناتا ہے اس کی کوئی علّت نہیں ہے بلکہ سب کی علّت ِ اوّلین علّت فاعلی اِسی پرمیشور کو جاننا چاہیے۔‘‘ (رگوید بھاش بھومکاصفحہ ۷۳)
۱۱۔ ’’اے عزیزو!پرمیشور اس دنیا میں پیشتر موجود تھا۔وہ اپنی ذات سے ایک اوربے عدیل تھا۔‘‘(اس حوالہ سے صاف معلوم ہوگیا کہ سب سے اوّل صرف پرمیشور ہی اکیلا اور بے عدیل تھا ۔اگر روح و مادہ بھی اس کی طرح قدیم ہوتے تو ان کا ساتھ ہی ذکر ہوتا)۔ (رگ وید آدی بھومکا اردو صفحہ ۵۳ مترجم نہال سنگھ)
۱۲۔ ’’پرلے(قیامت)کے وقت یہ کائنات اسی کی قدرت میں سما جاتی ہے۔‘‘ (بھومکا اردو صفحہ ۷۳)
۱۳۔ ’’اور اُسی کی قدرت سے پھر یہ کائنات دوبارہ پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (ایضاً)
۱۴۔ ’’یہ تمام کاروبار عالم اور روئے زمین تیری قدرت میں اس طرح قائم ہے جیسے ماں کے پیٹ میں بچّہ ہوتا ہے۔‘‘ (بھومکا اردو صفحہ۱۸۷)
۱۵۔ ’’وہی تمام دنیا کا پیدا کرنے والا، قائم رکھنے والا،فنا کرنے والا۔‘‘ (ستیارتھ ب۷ دفعہ۳)
۱۶۔ ’’مجھ پرمیشور کو ہی ساری دنیا کا پیدا کرنے والا سمجھو۔‘‘ (ستیارتھ پرکاشب۷ دفعہ۸)
۱۷۔ ’’وہ بآسانی تمام بلا امداد غیرے تمام دنیا کو بناتا ہے تو پھر ساتھ ہی اس کو روح اور مادہ کا محتاج ٹھہرانا دو متضاد باتیں ہیں۔‘‘ (ستیارتھ پرکاش صفحہ ۲۰۴ باب۷ دفعہ ۹،۷)
۱۸۔ ’’اس جہان میں جو کچھ ہے اس تمام مخلوق کا بنانیوالا ہوں۔‘‘ (ستیارتھ پرکاش ب۷ دفعہ۸)
۱۹۔ ’’اس(خدا)کے دل میں خواہش ہوئی کہ اپنے بدن سے اس قسم کی خلقت پیدا کرنی چاہیے۔تو اُس نے پہلے پانی(رج)کو پیدا کیا پھر اس نے پانی میں بیج ڈالا۔‘‘
(منو ادھیائے ۱شلوک۸ منوسمرتی۹؍۱)
۲۰۔ ’’چونکہ وہ متحرک اور ساکن جہان کو زندہ اور قائم رکھتا ہے اس واسطے وہ تمام قادروں سے قادر ہے۔‘‘ (ستیارتھ صفحہ ۱۴۔ ۴۲۔۳۹؍۱)
ٍ ۲۱۔ ’’جو چیز ترکیب سے پیدا ہوتی ہے وہ ازلی ابدی کبھی نہیں ہوسکتی اور فعل بھی پیدائش اور فنا سے آزاد نہیں ہے۔‘‘ (ستیارتھ ب۸دفعہ ۲۸ )
۲۲۔ ’’رُوح میں ترکیب و تفریق ہے۔ (ستیارتھ پرکاش ب۷ دفعہ ۵۳ )
لہٰذا روح حادث ثابت ہوئی۔