رُوح و مادہ ۔زمانہ و خلا کے غیر حادث ہونے پر نو اعتراضات منطقی و علمی
آریہ عقیدہ ۔ ہم صرف صانع کو قدیم اور غیر حادث مانتے ہیں مگر آریہ لوگ صانع کے علاوہ رُوح و مادہ زمانہ اور مکان یعنی خلا کو بھی قدیم مانتے ہیں۔دیکھو!
(عقائد آریہ منتویہ۱ ۱نادی پدارتھ صفحہ ۷۴۶۔)
اعتراضات:۔(۱) کہ سوائے صانع کے دوسروں کو قدیم ماننے سے صانع کی ضرورت نہیں رہتی۔جب یہ مان لیا جائے کہ علاوہ صانع کے روح و مادہ مع اپنے خواص کے قدیم ہیں تو اتّصال و انفصال بھی منجملہ خواص کے ہے۔پس ترکیب کے لئے حاجت صانع کی نہیں؟
(۲) جو چیز قدیم ہواس کی ذات ہی اس کی علّت ہے اور جس کی ذات اس کے وجود کی علّت ہو اُس میں کوئی نقص نہیں ہوسکتا کیونکہ وجود نقصِ علّت ِ قاصرہ کا مستلزم ہے اور قدیم میں علّتِ قاصرہ ناممکن ہے۔
(۳) یہ کہ استحقاق صانع کے لئے روح و مادہ پر تصرف ثابت نہیں۔کیونکہ یہ دونوں اپنے وجود اور خواص میں اس کے محتاج نہیں تو یہ اُن پر تصرّف کیوں کرے گا۔کیونکہ استحقاقِ تصرّف کا باعث مِلک ہے۔اورمِلک یا خَلق سے یا ورثہ سے یا بیع سے یا ہبہ سے یا کسی پر غلبہ پانے سے پیدا ہوتا ہے۔ خَلق کا عدم معروض ہے اور ورثہ اور بیع اور ہبہ کی شقوق جانب واجب ہیں۔خود ساقط ہیں۔باقی رہ گیا غلبہ سے مالک بن جانا ،سو اس سے لازمی طور پر ماننا پڑے گا کہ خدا اور انسان کا مفہوم ایک ہے۔جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر چڑھائی کرکے ایک مُلک چھین کر اپنی ملکیت میں کرے۔اسی طرح خدا بھی کرتا ہے۔حالانکہ انسان اس کے صفات میں قطعاً کسی طرح بھی شریک نہیں۔پس اس طریق سے کسی چیز کو اپنی مِلک میں لانا گویا انسان کے برابر خدا کو ٹھہرانا ہے اور وہ محال ہے۔
(۴) اگر ایسا ہی مان لیا جائے تو علم ذات باری تعالیٰ ناقص رہے گا۔اگر خالق کُل اسے تسلیم نہ کیا جائے اس لئے کہ کسی چیز کی خَلق سے وہ اسی لئے قاصر ہوگا کہ اسے اس چیز کی خلقی ترکیب معلوم نہیں اور جس چیز کا وہ خالق نہیں اس کے اصلاح و فساد سے بھی وہ باہر نہیں ہوسکتا۔علیٰ الخصوص جب علمِ ذاتِ باری کو نظری مانا جائے پھر تو ذات ِ باری کو ہر روح اور ذرّہ مادہ کی شاگردی کرنی پڑے گی۔
(۵) اگر باعث بعض اشیاء کے عدمِ خلق کا عدم قدرت ہے تو قادر ِ مطلق سرب شکتیمان صانع نہ رہا۔اس پر یہ سوال کہ وہ اپنی مثل پیدا نہیں کرسکتا صحیح نہیں ہے۔اس لئے کہ مخلوق کو خالق کی مثل قرار دینا محال ہے اور صانع کا اپنے آپ کو فنا کرنا۔علاوہ ازیں اور عیوب میں مبتلا کرنا قدرت نہیں کہلا سکتا بلکہ خلافِ قدرت ہے۔
(۶) رُوح اور مخلوق کے عدمِ مخلوق فرض کرنے سے ان کو بطش شدید کرنا ظلم ہے کیونکہ جس کو استحقاق ہے ہی نہیں اس کو استحقاق بطش کیسے حاصل ہوا۔
(۷) سوائے واجب کے اور کوئی قدیم نہیں اور ماسوائے اُس کی قدرت سے وجود پذیر ہوئے۔آریوں کی مسلمہ کتب سے ثابت ہے دیکھو حوالہ’’پرکرتی کو اپنی قدرت سے پیدا کیا۔‘‘
(رگوید بھاش بھومکا صفحہ ۷۸طبع سوم و منوسمرتی ادھیائے نمبر۱شلوک ۸)
(۸) زمانہ اگر مقدار فعل کا نام ہے تب زمانہ فعل کی عرض ہوا اور فعل فاعل کا عرض ہوا۔ پس زمانہ مخلوق ہوا ۔اِسی طرح خلا سے مراد اگر وہ محل ہے جس میں کچھ نہیں تو موجود نہیں۔اور اگر خلا اس محل کا نام ہو جس میں کچھ ہو تو وہ حال کی عرض ہے۔پس حال کے مخلوق ہونے سے محل مخلوق ہوا۔اور اگر خلا محض فرض کیا جائے تو وہ وجودی چیز نہیں بلکہ عدمی ہے ہماری کلام وجود میں ہے کہ سوائے واجب اور کوئی قدیم نہیں۔نہ عدم میں ۔کیونکہ عدم اصلی پر موجود کا قدیم ہے۔الّا الواجب تعالیٰ۔کیونکہ اس کا کوئی عدم نہیں۔
(۹) قرآن شریف جو آخری الہامی کتاب ہے وہ ماسوائے اﷲ سب کومخلوق قرار دیتا ہے جیسے فرمایا:
(۱) (الرعد:۱۷)
قُلۡ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ قُلِ ٱللَّهُۚ قُلۡ أَفَٱتَّخَذۡتُم مِّن دُونِهِۦۤ أَوۡلِيَآءَ لَا يَمۡلِكُونَ لِأَنفُسِهِمۡ نَفۡعً۬ا وَلَا ضَرًّ۬اۚ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى ٱلۡأَعۡمَىٰ وَٱلۡبَصِيرُ أَمۡ هَلۡ تَسۡتَوِى ٱلظُّلُمَـٰتُ وَٱلنُّورُۗ أَمۡ جَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ خَلَقُواْ كَخَلۡقِهِۦ فَتَشَـٰبَهَ ٱلۡخَلۡقُ عَلَيۡہِمۡۚ قُلِ ٱللَّهُ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىۡءٍ۬ وَهُوَ ٱلۡوَٲحِدُ ٱلۡقَهَّـٰرُ (١٦) (الرعد:۱۷)
(۲) (الفرقان:۳)
ٱلَّذِى لَهُ ۥ مُلۡكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَلَمۡ يَتَّخِذۡ وَلَدً۬ا وَلَمۡ يَكُن لَّهُ ۥ شَرِيكٌ۬ فِى ٱلۡمُلۡكِ وَخَلَقَ ڪُلَّ شَىۡءٍ۬ فَقَدَّرَهُ ۥ تَقۡدِيرً۬ا (٢) (الفرقان:۳)
(۳) (طٰہٰ:۵۱)
قَالَ رَبُّنَا ٱلَّذِىٓ أَعۡطَىٰ كُلَّ شَىۡءٍ خَلۡقَهُ ۥ ثُمَّ هَدَىٰ (٥٠)
(۴) (قٓ:۳۹)
إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَذِڪۡرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ ۥ قَلۡبٌ أَوۡ أَلۡقَى ٱلسَّمۡعَ وَهُوَ شَهِيدٌ۬ (٣٧)
ان آیات میں روح و مادہ وغیرہ ماسوائے اﷲ تمام چیزیں آگئیں۔