سیرت صحابہ رضوان اللہ اجمعین ۔ حافظ مظفر احمد ۔ یونی کوڈ
حضرت ابوبکر صدیق ؓ
حلیہ و نام و نسب
قد لمبا، رنگ گورا ، چہرہ دبلا، خفیف جسم، آنکھیں دھنسی ہوئی اور پیشانی ابھری ہوئی۔ آپ کا نام عبداللہ تھا ۔ بعض روایات میں زمانہ جاہلیت میں نام عبدالکعبہ بھی آیا ہے۔ والد کا نام عثمان بن عامر اورکنیت ابو قحافہ تھی۔ شجرہ نسب آٹھویں پشت میں آنحضرتؐ سے جا ملتا ہے۔ والدہ کا نام سلمہ بنت صخر بن عامر تھا۔کنیت ام الخیر مشہور تھی۔حضرت ابوبکرؓ نبی کریمؐ کے دو سال بعد پیدا ہوئے۔ لقب عتیق تھا جس کے معنی آزاد کے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ آگ سے آزاد ہونابیان کی جاتی ہے۔ (1) اسی طرح صدیق بھی آپ کا لقب ہے جو آنحضرت ؐ کی بلا تردّد تصدیق کرنے پر عطا ہوا۔
ابتدائی حالات
حضرت ابوبکرؓ قبیلہ تیم بن مرہ بن کعب سے تعلق رکھتے تھے۔ عرب کے مختلف قبائل میں مختلف کام تقسیم تھے۔ اس قبیلہ کا کام خون بہا اور دیتیں جمع کرنا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ اپنے قبیلہ میں یہ اہم کام سرانجام دیتے ۔ خون بہا کی رقوم جمع کرنے کے علاوہ فیصلے وغیرہ کرنے کی ذمہ داری بھی ان کی تھی۔
عرب کے رواج کے مطابق آپ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار کیا۔کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک اور ایماندار تاجر تھے۔ جاہلیت کے زمانہ میں بھی جبکہ شراب عربوں میں پانی کی طرح استعمال ہوتی تھی، کبھی شراب نہ پی۔ علم انساب کے بڑے ماہر تھے۔ (2)
رسول ؐاللہ سے تعلق اور قبول اسلام
آنحضرتؐ حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے محلہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ اس دوران ان سے دوستانہ ہوا۔ تقریباً ایک ہی قسم کی پاکیزہ عادات نیک خیالات اور پاک و صاف دل رکھنے کے باعث یہ دوستی گہری ہوتی گئی اس زمانہ میں حضرت ابوبکرؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ مکہ میں چاند اترا ہے اور اس کی سب گھروں میں روشنی پھیل گئی ہے۔ پھر وہ حضرت ابوبکرؓ کی آغوش میں اکٹھا ہوگیا۔ انہوںنے یہ خواب بعض اہل کتاب کو سنائی توتعبیریہ بتائی گئی کہ نبی موعود کو ماننے کی سعادت نصیب ہوگی۔(3)جب آنحضرتؐ نے دعویٰ نبوت فرمایا۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ ان دنوں باہر سفر پر تھے۔ واپس مکہ پہنچے تو آنحضرت ؐ کے دعوی نبوت کی خبر ہوئی۔ فوراً حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعویٰ کے بارے میں استفسار کیا۔آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں ۔تم مجھ پر ایمان لائو۔ حضرت ابوبکرؓ نے فوراً بیعت کرلی اور یوں رسولؐ اللہ کو ان کے اسلام پر بے حد خوشی ہوئی۔(4) مولانا رومؒ کیا خوب فرماتے ہیں:۔
لیک آں صدیق حق معجز نخواست
گفت ایں روخود نہ گوید غیر راست
یعنی حضرت ابوبکرؓ نے کوئی معجزہ آپ کی صداقت پر طلب نہ کیا اور چہرہ دیکھ کر ہی بیعت کر لی کہ یہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ’’ میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اسے کچھ نہ کچھ تردّد ضرور ہوا۔سوائے ابوبکرؓ کے کہ جب میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے ذرہ برابر بھی تردّد نہیں کیا۔‘‘(5)
علامہ ابن عبدالبّر لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ مردوں میں سے سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں اور ان کی چار پشتوں کو صحابی رسولؐ ہونے کا شرف حاصل ہے۔(6)
حضرت ابن عباسؓ سے شعبی نے پوچھا کہ سب سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا؟ انہوں نے کہا آپ نے حسانؓ بن ثابت کے یہ شعر نہیںسنے۔
اِذَا تَذَکَّرتَ شَجوًا مِن اَخِی ثِقَۃٍ فَاذکُر اَخَاکَ اَبَا بَکرٍ بِمَا فَعَلَ
خَیرَ الَبرِیَّۃِ اَتقَاھَا وَاَعدَلَھَا بَعدَ النَّبِیِّ وَاَوفَاھَا بِمَا حَمَلَ
اَلثَّانِیُ التَّالِیُ المَحمُودُ مَشھَدُہٗ وَاَوَّلُ النَّاسِ مِنھُم صَدَّقَ الُّرسَلَ
وَثَانِیَ اثنَینِ فِی غَارِ الُمِنیفِ وَقَد طَافَ العَدُوُّ بِہٖ اِذ صَعِدَا الجَبَلَ
یعنی ’’ جب تمہارے دل میں کوئی درد آمیز یاد تمہارے کسی بھائی کے متعلق پیدا ہو تو اپنے بھائی ابو بکرؓ کو بھی یاد کر لیا کرو اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں ۔ وہ آنحضرؐت کے بعد سب لوگوں سے زیادہ متقی اور منصف مزاج تھا اور سب سے زیادہ اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے والا تھا جو اس نے اٹھائی تھیں ۔ وہی ابو بکرؓ جو غار ثور میں آنحضوؐر کے ساتھ دوسرا شخص تھا جس نے اپنے وجود کو آپ کی اتباع میں بالکل محو کر رکھا تھا اورجس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا اسے خوبصورت بنا دیتا تھا۔ اور وہ ان لوگوں میں سے پہلا تھا جو رسولؐ اللہ پر ایمان لائے تھے۔ ہاں وہ ابو بکر ؓجسے قرآن میں دو میں سے دوسرا کہہ کر یاد کیا گیا ہے ۔اس وقت جب وہ پہاڑی پر چڑھے تھے اور دشمن نے اس غار کا گھیرائو کر لیا تھا ۔‘‘(7)
تبلیغ اسلام
اسلام لانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ ہمہ تن اسلام کی تبلیغ اور دوسرے دینی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ ان کی تبلیغی کاوشوں اور دعائوں کے نتیجہ میںقریش مکہ کے مایہ ناز فرزند اسلام کی آغوش میں آگئے۔ جن میں حضرت عثمان ؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ سب اصحاب عشرہ مبشرہ میں شمار ہوئے۔ رسول کریمؐ نے ان کی زندگی میں ہی انہیںجنت کی بشارت دی۔
مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے جب مسلمان غلاموں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا تو انہیں خرید کر آزاد کرادیا۔ ان آزاد ہونے والے غلاموں میں حضرت بلالؓ، عامر بن فہیرہ، نذیریہ، نہدیہ اور جاریہ بن نوفل معروف ہیں۔ ان کے علاوہ بھی حضرت ابوبکرؓ نے بیسیوں غلاموں کو خرید کر آزاد کروایا اور اپنا مال بے دریغ خدا کی راہ میں خرچ کیا۔(8)
راہ خدا میں تکالیف
رسول کریمﷺنے فرمایا کہ ’’جب لوگوں نے انکار کیا ابو بکر ؓ نے میری تصدیق کی اور اپنے مال اور جان سے میری مدد کی۔‘‘حضرت ابو بکرؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد بہت تکالیف اٹھائیں۔ بعض دفعہ قریش مکہ نے اتنا مارا کہ سر کے بال گر گئے کیونکہ وہ آپ کے سر اور داڑھی کے بالوں کوپکڑ کر کھینچتے تھے۔حضرت ابو بکرؓ کے ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے۔ ابھی مسلمان چالیس افراد سے بھی کم تھے کہ انہوں نے آنحضرؐت سے بڑے اصرار کے ساتھ خانہ کعبہ میں اعلانیہ عبادت کرنے کی درخواست کی اورآپؐکو خانہ کعبہ لے گئے اور عبادت کے بعد خطبہ دیا۔کفار نے انہیں پائو ں اور جوتوں سے اتنامارا کہ چہرہ کا حلیہ بگڑ گیا۔پہچانے نہیں جاتے تھے ۔ یہاں تک کہ آپ کو کپڑے میں اٹھا کر گھر پہنچایا گیا۔اندیشہ تھا کہ جانبر نہ ہوسکیں گے۔ بے ہوشی میں کسی بات کا کوئی جواب نہ دیتے تھے۔شام کو جب ہوش آئی تو پہلا سوال یہ تھا’’ میرے آقاؐ کا کیا حال ہے؟ رسول اللہ ﷺکو تو کوئی تکلیف نہیں پہنچی؟‘‘(9)
بیعت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے پائے ثبات میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی وہ ہمیشہ دین کی اشاعت اور آنحضرت ﷺکی حفاظت کے لئے آپؐ کے آگے پیچھے اوردائیں بائیںکمر بستہ رہے اور آنحضور ﷺکی خاطر کبھی اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی۔
ایک دفعہ ایک کافر نے ایک کپڑا آنحضرتﷺ کے گلے میں ڈال کر بل دینے شروع کئے یہاں تک کہ آپ کا دم گھٹنے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے۔ آنحضوؐر کو ان ظالموں سے چھڑایا اور کہا ’’کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟‘‘ان ظالموں نے حضرت ابوبکرؓ کو پکڑ لیا اور مارمار کر بے حال کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓ کی زبان پر یہ الفاظ تھے ۔ پاک ہے اللہ جو جلال اورعزت والا ہے۔(10)
نوفل بن خویلد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحہؓ کوایک رسی سے باندھ دیا کرتا تھا تاکہ وہ نماز وغیرہ دینی کاموںسے رک جائیں ۔ مگر یہ مصائب ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکے۔ (11)
جب مکہ میں تکالیف انتہا تک پہنچ گئیں تو حضرت ابوبکرؓ کو دربارِ نبویﷺسے ہجرت حبشہ کی اجازت مرحمت فرمائی گئی۔ ابھی مکہ سے باہر نکلے ہی تھے کہ ایک کافر سردارابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کے پوچھنے پر سارا قصہ سنایا۔ اس نے کہاکہ آپ تو دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ ایسا مرنجاں مرنج انسان ہم مکہ سے نہیں جانے دیںگے۔ پھروہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امان دے کر واپس لایا۔ حضرت ابوبکرؓ صبح کے وقت قرآن شریف کی تلاوت بڑے دردوسوز اور خوش الحانی سے کرتے تو بچے بوڑھے سب جمع ہوجاتے۔ اہل مکہ نے اس پُرتاثیر کلام کا اثر دیکھا تو ابن الدغنہ کے ذریعہ آپ کو بلند آواز میں قرآن پڑھنے سے روکنا چاہا۔ انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ ـ’’ابن الدغنہ تم اپنی امان واپس لے لو۔ میرے لئے خدا کی پناہ اور حفاظت کافی ہے ۔(12)
ہجرت مدینہ اور مدینہ کے حالات:
حضرت ابوبکرؓ ہجرت حبشہ نہ کر سکے توکچھ عرصہ بعد آنحضرتﷺسے مدینہ ہجرت کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’ابوبکر! انتظار کرو، شاید اللہ تمہارا کوئی اور ساتھی پیدا کردے۔‘‘
چند دنوں کے بعدکفار مکہ نے دارالندوہ میں آنحضرتﷺکے قتل کا منصوبہ بنایا ۔ ادھر آنحضورﷺ کو بذریعہ وحی الٰہی ہجرت کی اجازت مل گئی۔ آپؐ فوراً حضرت ابو بکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ پہلے ہی تیار تھے۔ فوراًعرض کیا’’ الصحبۃ یا رسولؐ اللہ‘‘ کہ اے اللہ کے رسولﷺ!اپنے اس غلام کو ہمراہی کاشرف بخشیں۔ حضرت اسمائؓ کہتی ہیں کہ ہمارے اباحضرت ابوبکرؓ نے راہ خدا میں خرچ کرنے کے بعد ہجرت کے لئے جوکچھ بچا کر رکھا ہواتھاوہ بطورزادراہ ساتھ لے گئے۔یہ رقم پانچ ہزار درہم کے قریب تھی۔ ہجرت مدینہ کے مبارک سفر میں حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جس وفاداری اور جانثاری کا نمونہ دکھایا وہ عشق و وفا کی الگ داستان ہے۔انہوں نے اپنی دو اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی آنحضرتؐ کی خدمت میں بلامعاوضہ پیش کردی۔ رسولؐ اللہ نے قیمت ادا کرنے کی شرط پر قبول فرمائی۔ پھر غارثور میں جان خطرہ میں ڈال کر رسول ؐخدا کی معیت کی توفیق پائی جس کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا: ثَانِیَ اثنَینِ اِذھُمَافِی الغَارِ۔۔۔الخ(سورۃ التوبہ:40)’’یعنی وہ دو میں سے دوسرا جب کہ وہ غار میںتھے ۔جب وہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو۔اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور اس کی مدد سے ایسے لشکروں سے کی جو تم نہیں دیکھتے تھے۔‘‘حضرت ابوبکرؓ خود بیان کرتے تھے کہ جب تعاقب کرنے والے قریش کے سردار غار کے منہ پر پہنچ گئے تو میں نے عرض کیا کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے ہوکر نظر ڈالے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’اے ابوبکرؓ تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جس کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔‘‘(13)
سفر ہجرت میں جب قریش مکہ رسول اللہ ﷺکے قتل کے درپے اور تعاقب میں تھے ۔ حضرت ابوبکرؓ آپؐ کی حفاظت کی خاطر سراقہ کے تعاقب سے پریشان ہوکر رونے لگے فرمایا ’’کیوں روتے ہو؟‘‘ عرض کیا ’’خدا کی قسم اپنی جان کے خوف سے نہیں روتا آپؐ کی خاطر روتا ہوں کہ تعاقب والے پہنچ گئے ہیں ۔‘‘تب رسول کریم ﷺ نے دعا کی اور سراقہ کے گھوڑے کے پائوں زمین میں دھنس گئے۔ جب کئی بار ایسا ہوا تو خود سراقہ نے اپنے لئے دعا کی درخواست کی اورحضوؐر کی دعا سے نجات پاکر اورانعام و اکرام کے عہدوپیمان لے کر واپس لوٹا۔ اس طور پر آپؐ یثرب پہنچے۔(14)
ہجرت مدینہ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد جب رسول ؐ نے انصار و مہاجرین میں مؤاخات قائم فرمائی۔ صدیق اکبرؓ کے بھائی حضرت خارجہ ؓبن زید انصاری ٹھہرے اورحضرت ابو بکرؓنے مدینہ کے مضافات میں سخ مقام پر ان کے ساتھ قیام فرمایا۔ خاندانی مراسم بڑھے تو حضرت خارجہؓ کی لڑکی حبیبہ سے حضرت ابو بکرؓ نے شادی کی جن کے بطن سے اُمّ کلثوم ہوئیں۔ آپ کا دوسرا کنبہ جس میں حضرت عائشہ ؓاور حضرت ام رومانؓ شامل تھیں، حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔حضرت ابو بکرؓ باقاعدہ مدینہ ان کی خبرگیری کو جایا کرتے۔ مدینہ میں حضرت ابوبکرؓ آنحضرت ﷺ کے دست راست اور مشیر خاص بن کرتمام مہمات دینیہ اور دینی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔
غزوات میںشرکت
حضرت ابوبکرؓنے تمام غزوات میں بدر سے فتح مکہ تک رسول اللہﷺ کے ہمرکاب رہ کر عظیم الشان خدمات انجام دینے کی توفیق پائی۔
ہجرت مدینہ کے بعد سفر وحضراور امن و جنگ کی ہر حالت میں حضرت ابوبکرؓ رسول اللہﷺ کے معاون و مددگار اور’’ سلطان نصیر‘‘ رہے ۔ رسول اللہﷺ کو حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد نکاح کی ضرورت پیش آئی۔حضرت ابوبکرؓ نے عمروں میں تفاوت کے باوجودنہ صرف اپنی لخت جگر حضرت عائشہؓ کا رشتہ بخوشی پیش کر دیا تھا بلکہ حضوؐر کی ضرورت کے پیش نظر جلد رخصتی کی خاطر آپؐ کیلئے حق مہر کا انتظام بھی خود کیا۔(15)
غزوہ بدر میں رسول کریمﷺ کیلئے بغرض حفاظت ایک جھونپڑی تیار کی گئی ۔حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں’’ ہم سوچ ہی رہے تھے کہ اس نازک جگہ پر مشرکین کے حملہ سے حفاظت کیلئے کون ڈیوٹی دے کہ معاًحضرت ابوبکرؓ تلوار سونتے وہاں کھڑے ہوگئے کہ جو حملہ آور اس طرف بڑھے گاوہ اس کا کام تمام کردیں گے۔ بلاشبہ ابوبکرؓ سب سے زیادہ بہادر انسان تھے۔‘‘ (16)
جنگ سے پہلے رسول کریمﷺ بے چین ہوکر دعائیںکررہے تھے ۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ ہی آپؐ کو تسلی دے رہے تھے کہ ’’یا رسول اللہﷺ! بس کریں آپؐ نے تو اپنے رب سے دعا کرنے میں حد کردی۔‘‘(17)
غزوہ احد میں رسول کریم ﷺحضرت ابوبکرؓ کی شجاعت او ر بہادری دیکھ کر فرماتے تھے ’’آپ اپنی تلوار روک رکھیں ہمیں آپ کی ذات کا نقصان قبول نہیں۔‘‘(18)
احد کے بعد رسول کریمﷺ نے دشمن کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ ان جانثاروں میں تھے جنہوں نے آپؐ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے غزوہ حمراء الاسد میں شرکت کی۔(19)
غزوہ بنو مصطلق میں مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ میں تھا۔(20)
اسی غزوہ سے واپسی پر حضرت عائشہ ؓ کے ہار کی گمشدگی اور قافلہ سے پیچھے رہ جانے کے باعث ’’افک‘‘کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ جس میں آپ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت عائشہؓ پر منافقوں نے بہتان طرازی کی۔ اس ابتلاء میں حضرت ابوبکرؓ کی عجیب مومنانہ شان ظاہر ہوئی۔جب حضرت عائشہؓرسولؐ اللہ کے گھر سے اپنے والدین کے گھر آئیں تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ رسولؐ اللہ کی اجازت کے بغیر میں بیٹی کو بھی اپنے گھر میں نہیں رکھوںگا۔ پھر حضورؐ کی ہدایت پر انہیں گھر میں ٹھہرایا۔(21)
حضرت عائشہؓ کی براء ت نازل ہونے سے پہلے رسول کریمﷺ ان کے گھر آئے اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا’’ اگر تم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو توبہ کرو۔ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میںنے انتظار کیا کہ میرے والدین میری طرف سے کوئی جواب دیں۔ جب وہ خاموش رہے تو میں نے کہا کہ آپ لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا ’’ہم خداکے رسولﷺ کو کیا جواب دیں۔‘‘ تب حضرت عائشہؓ نے خود اپنا موقف خوب کھول کر بیان کیا اسی موقع پر حضوؐر پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۃ نور کی وہ آیات اتریں جن میں حضرت عائشہؓ کی براء ت کاذکرتھا۔ اس سارے عرصہ ابتلاء میں حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے کمال صبرو استقامت اور رسول اللہ ﷺکے لئے ایثا ر و فدائیت کا نمونہ ظاہر ہوا۔(22)
صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی حضرت ابوبکرؓرسول اللہ ﷺکے ہمرکاب تھے۔ کفار کا نمائندہ عروہ بن مسعو د مصالحت کیلئے آیا تو آپؐ سے کہنے لگا’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے گرد متفرق لوگ جمع ہیں جو مقابلہ کے وقت بھاگ جائیں گے۔ ‘‘حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر جوش و غیرت رسولؐ کے باعث خاموش نہ رہ سکے اوراسے سخت برا بھلا کہتے ہوئے جواب دیاکہ ’’ہمارے بارے میں یہ کہتے ہو کہ ہم بھاگ جائیں گے یا آپؐ کو چھوڑ دیں گے؟‘‘اس نے پوچھا یہ کون ہے؟ پتہ چلا ابوبکرؓ ہیں توکہنے لگا’’اگر ان کا مجھ پر احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ ابھی میں نے نہیں چکایا تو ضرور اس کا جواب دیتا۔‘‘ بہرحال حضرت ابوبکرؓ کی دینی غیرت اس موقع پر بھی خوب ظاہر ہوئی۔(23)
رسول اللہ ﷺکی ہجرت کے وفادار ساتھی حضرت ابوبکرؓ فتح مکہ کے موقع پربھی آپؐ کے دائیں جانب ہوتے ہوئے فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔ (24)
امارت و امامت ابوبکرؓ
9ہجری میں فتح مکہ کے اگلے سال وفود عرب کی مدینہ میں آمد اور دیگر اہم امور کے پیش نظر رسول خداﷺحج بیت اللہ کے لئے مکہ نہ جاسکے اور حضرت ابوبکرؓ کو امیر الحج مقرر فرماکر مسلمانوں کے کثیر التعداد گروہ کے ساتھ روانہ فرمایا۔ مسلمانان عالم کا یہ پہلا آزادانہ حج تھا جس کی قیادت حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسول اللہﷺکی نیابت میں فرما رہے تھے۔(25)
حجۃ الوداع کے اگلے سال دس ہجری میں رسول اللہﷺ بیمار ہوئے اور مسجد میں نماز پڑھانے تشریف نہ لاسکے تو امامت نماز کی سعادت حضرت صدیق اکبرؓ کے حصہ میں آئی۔
حضرت عائشہؓبیان کرتی ہیں کہ حضورؐ نے جب حضرت ابوبکر ؓ کو امامت کا ارشاد فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ’’ یارسول اللہ ﷺوہ رقیق القلب ہیں۔ حضرت عمرؓ کو ارشاد فرمادیجئے‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ابوبکر ؓ کو کہو کہ نماز پڑھائیں‘‘پھر میں نے حضرت حفصہ ؓکی وساطت سے یہی بات رسول اللہؐ کو کہلوائی۔ آپؐ نے پھر وہی جواب دیا۔ حضرت حفصہؓ نے دوبارہ عرض کیا تو فرمایا ’’تم وہ عورتیں ہو جنہوں نے یوسفؑ کو پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ ابوبکر ؓ کو کہو کہ نماز پڑھائیں۔‘‘ (26)
ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کی غیرموجودگی میںحضرت بلالؓ نے حضرت عمر ؓکو نماز پڑھانے کے لئے کہہ دیا۔ جب حجرہ میں رسول اللہ ﷺکو حضرت عمرؓ کی آواز پہنچی تو فرمایا ’’ابوبکر ؓ کہاں ہیں۔ اللہ اور مسلمان یہ بات پسند کرتے ہیں کہ ابوبکرؓ نماز پڑھائیں۔‘‘ (27)
دراصل ان ارشادات میں حضرت ابوبکرؓ کی امامت اور خلافت کی طرف اشارہ تھا جو آئندہ آپؓ کو عطاء ہونے والی تھی۔
وفات رسولؐ اور قیام خلافت راشدہ
آنحضرت ﷺ کی وفات پر جب صحابہ مارے غم کے دیوانے ہو گئے اور ہزاروں بادیہ نشین مرتد ہو گئے اور ایک عجیب خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ حضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر صحابی بھی رسولؐ اللہ کی محبت میں از خود رفتہ ہو کر یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ رسولؐ اللہ فوت ہوگئے ہیں۔وہ تلوار کھینچ کر یہ اعلان کرنے لگے کہ جو کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے ہیں، میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ اس اچانک صدمہ کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس موقعہ پر حضرت ابو بکر ؓ کو خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا اور آپ استحکام خلافت کا باعث بنے۔ وہ روحانی قیادت جس کی صلاحیت آپ کے وجود میں مخفی تھی حالات کے تقاضا پرباذن الہٰی سامنے آئی اور آپ آنحضرتﷺاور اسلام کی حمایت میں آگے بڑھے۔ حضرت ابو بکرؓ مدینے کے مضافات سخ نامی بستی میں رہائش پذیر تھے آپ مدینے تشریف لائے آنحضرتؐ کی پیشانی پر بوسہ دیااور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا۔پھر مسجد تشریف لے گئے وہاں حضرت عمر ؓ اس وقت تلوار لے کرکھڑے ہوئے تھے۔ ان سے آپؓ نے فرمایا ’’اے قسمیں اٹھا کر تقریر کرنے والے ٹھہرواور بیٹھ جائو۔‘‘پھر صحابہ سے یوں مخاطب ہوئے۔ مَن کَانَ مِنکُم یَعبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَد مَاتَ وَمَن کَانَ مِنکُم یَعبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّہ‘ حَیّ لَایَمُوتُکہ جوتم میں سے محمدﷺ کی عبادت کرتاتھاوہ یاد رکھے کہ محمدﷺفوت ہوچکے ہیں۔اور تم میں سے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ یاد رکھے کہ خدازندہ ہے اس پر کبھی موت نہ آئے گی پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ۔ وَمَامُحَمَّد اِلَّا رَسُول قَد خَلَت مِن قَبلِہِ الرُّسُلُ (آل عمران:145)
کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور آپؐ سے پہلے سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ جب انہیںاس حقیقت کا ادراک ہوا۔ وہ کھڑے نہ رہ سکے اور غم کے مارے نڈھال ہو کر بیٹھ رہے۔پھر تو مدینہ کے ہر شخص کی زبان پر یہ آیت تھی اور وہ رسول اللہؐ سے پہلے تمام انبیاء کی وفات کی دلیل سے رسول اللہﷺکی وفات کا اعلان کرنے کا حوصلہ پارہا تھا۔(28)
الغرض وہ وقت بہت ہی نازک اورمشکل تھا۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ ہماری زندگیوں میں جتنے موا قع آئے، ان میں اس سے زیادہ خطرناک موقع میں نے نہیں دیکھا۔ ‘‘ پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ کاوہ وعدہ خلافت پورا ہونے والا تھا اور پہلے ایسا تجربہ موجود نہیں تھا کہ انتخاب کیسے ہو؟ اورکون خلیفہ مقررہو؟جبحضرت ابو بکر ؓ نے وفات رسولﷺ کا اعلان کیا ہے۔ صحابہ صدمہ سے ایسے چور ہوئے کہ مسجد نبوی میں ایک آہ و بکا اور گریہ تھی بس! لوگوں کو کچھ سمجھ نہ آتی تھی کہ کیا کریں اس دوران انصار مدینہ اپنے سردار سعد بن عبادۃ کے پاس ان کے ڈیرہ سقیفہ بنو ساعدہ میں اکٹھے ہوئے۔ ادھر مہاجرین میں سے بزرگ صحابہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس حضرت عمر ؓاورحضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح اور مہاجرین اکٹھے ہوئے اور سوچنے لگے کہ اسلام کے اوپر بڑا خطرناک وقت ہے کیا کیاجائے ۔ حضرت علی ؓ ، حضرت زبیر ؓ اور اہل بیت کے افراد آنحضورﷺکے گھر میں تجہیز و تکفین کے کاموں میں مصروف تھے۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا’’ اے ابو بکرؓ آئیے ہم انصار کے پاس چلیں۔ راستے میں ہمیں دو انصاربزرگ ملے انہوں نے یہ معلوم کرکے کہ ہم اپنے انصار بھائیوںکے پاس جا رہے ہیں۔ ہمیں فتنہ کے ڈر سے وہاں جانے سے منع کیا اوربتایا کہ وہ لوگ کسی اور طرف مائل ہو چکے ہیں تم اپنا کوئی الگ فیصلہ کرلو۔وہاں جاناخطرناک ہے ۔ میں نے کہاخدا کی قسم! ہم توضرور وہاں جائیں گے۔‘‘پھر جب سقیفہ بنو ساعدہ پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کمبل اوڑھ کر بیٹھا ہے۔ پتہ چلا کہ سردارخزرج سعد بن عبادہ کو بخار ہے۔ گویا اس بخار کی کیفیت میں امیربنانے کے لئے اسے وہاں لایا گیا تھا۔اس موقع پر انصار کا خطیب کھڑا ہوااس نے اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے کہا
’’ ہم اللہ کے انصار اور اس کا لشکر ہیں‘‘پھر انصار کے مناقب بیان کرکے مہاجرین کو مخاطب کیا کہ’’آپ مہاجرین کی جماعت ہو۔ تمہار ی قوم کے چند بدو چاہتے ہیں کہ ہمارا استیصال کریں اور امارت و حکومت سے ہمیںمحروم کردیں۔‘‘ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں جب وہ خاموش ہوا تو میں نے اس کا جواب دینا چاہا اور میں نے اس موقع کیلئے ایک بہت خوبصورت نقشہ ذہن میں اپنی تقریر کا سجایا ہوا تھا لیکن حضرت ابو بکرؓ نے مجھے با ت کرنے سے روک دیا۔میں نے پسند نہ کیا کہ انہیں ناراض کروں کیونکہ مجھے حضرت ابو بکر ؓکا بہت لحاظ تھا۔ اوروہ مجھ سے کہیں زیادہ بردبار اور زیادہ با وقار تھے ۔
پھر انصار کا ایک اورخطیب کھڑا ہوا اور اس نے کہاکہ’’ اے مہاجرین کی جماعت!رسول کریمؐ کسی بھی مہم کیلئے تمہارے ایک آدمی کے ساتھ ہمارا بھی ایک آدمی چنتے تھے جس سے صاف ظاہر ہے کہ امارت و حکومت ہم دونوں کا حق ہے۔ ایک امیر ہم میں سے اور ایک تم میں سے ہونا چاہیے۔‘‘ اس پر حضرت زیدؓ بن ثابت انصاری نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ’’ رسولؐاللہ مہاجرین میں سے تھے اور ہمارا امام بھی مہاجرین میں سے ہوگا اور ہم اس کے انصار و مددگار ہونگے۔‘‘حضرت عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے میری سوچوں سے کہیں بڑھ کر ایسی شاندار فی البدیہہ تقریر کی کہ مجمع پر ایک سکوت طاری ہو گیا ۔ انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز انصار کے فضائل و مناقب سے کرتے ہوئے فرمایا کہ’’یہ سب ہمیں تسلیم! مگر امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ؐ کے ساتھ تعلق اور دینی و دنیوی وجاہت کے باعث قریش کا عرب میں ایک مقام ہے ۔اے انصار! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی خدمات کی بہترین جزا دے اور تمہارے اس خطیب زید ؓبن ثابت کی رائے کو قائم فرماوے۔ اس کے علاوہ کسی رائے پر اکٹھے ہونا ممکن نہیں ۔‘‘اس وقت حضرت ابو بکر ؓ کے دائیں حضرت عمر ؓ اوربائیں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ تھے ۔ جن کے ہاتھ پکڑ کرانہوں نے کہا کہ ان دونوں میں سے جس کی چاہو بیعت کر لو میں اس کے لئے تیار ہوں ۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ’’ اس آخری فقرہ کے علاوہ جو مجھے ناگوار ہوا حضرت ابوبکرؓ کی باقی تقریر انتہائی اعلیٰ درجہ کی تھی۔ خدا کی قسم ! اگرمجھے اختیار ہوکہ میری گردن کاٹ دی جائے گی یا مجھے ایسے لوگوں کا امیر بنایا جائے گا جس میں حضرت ابو بکر ؓ موجود ہیں تو میں اپنی گردن کٹوا دوں لیکن ایسے لوگوں کا امیر بننا گوارا نہ کروں جن میں حضرت ابو بکرؓ جیسا عظیم الشان انسان موجود ہو ۔‘‘ (29)
اس موقع پر حضرت عمر ؓ نے انصار کے نیک جذبات کو بہت خوبصورت انداز میں ابھارا کہ تمہیں معلوم ہے کہ آنحضرت ؐنے آخری بیماری میں امام کسے مقرر کیا؟تم میں سے کون گوارا کر ے گاکہ انہیں اس مقام سے ہٹائے جس پر خدا کے رسول نے انہیں کھڑا کیااور وہ حضرت ابو بکرؓ سے آگے بڑھ کر امامت کرائے۔ انصار میں خدا ترسی تھی انہوں نے کہا ہم میںسے کوئی بھی ایسا پسند نہیں کرے گا۔ ہم استغفار کرتے اور اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ابو بکرؓ سے آگے بڑھیں ۔(30)
اس پر انصار میں سے حضرت زیدؓ بن ثابت نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا لوگو! یہی تمہارے امام ہیں ان کی بیعت کرو۔’’ حضرت عمرؓ نے بھی حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا آپ ہاتھ بڑھائیں اور ہماری بیعت لیں۔‘‘چنانچہ سب مہاجرین و انصارنے بیعت کی۔ انصار میں حضرت زیدؓ کے علاوہ حضرت بشیر ؓ بن سعد اولین بیعت کرنے والوں میں سے تھے۔(31)
کارنامے اور فتوحات
رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعد مسلمانوں پر خوف اور خطرات کے مہیب بادل منڈلانے لگے تھے ۔کئی عرب قبائل نے(مرتد ہوکر)بغاوت کردی اور زکوۃ دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوںمیں وحدت قائم ہوجائے۔ دوسرا کام باغیوں اورمنکرین زکوٰۃ کا قلع قمع کیا۔ فرمایا کہ آنحضرت ؐکے زمانہ میں جو اونٹ کی نکیل بھی زکوٰۃ دیتا تھا وہ جب تک میںوصول نہ کرلوں اس سے جنگ کروں گا۔ ‘‘ ( 32) چنانچہ سارا عرب ایک بار پھر زکوٰۃ ادا کرنے لگا۔ مرتدین کے زبردست فتنہ کا انسداد حضرت ابوبکرؓ کا بڑا کارنامہ ہے۔ متعدد نومسلم قبائل نے آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد بغاوت و ارتداد کا اعلان کردیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جنگ کرکے ان کا بھی قلع قمع کیا۔ان خطرناک حالات میں رسول اللہ ؐ کے ارشاد کے مطابق اسامہؓ کی سرکردگی میں لشکر بھی روانہ فرمایا اس کے علاوہ جمع قرآن کے عظیم الشان کام کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔(33)ان کارناموں کی تفصیل آگے آرہی ہے
جب خلافت راشدہ کا خدائی وعدہ پورا ہوا تو قیام خلافت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام خوف دور کر دئے ۔خلافت کو بتدریج استحکام نصیب ہوا۔حضرت ابو بکر ؓ نے پہلا نہایت پر حکمت قدم یہ اٹھایا کہ قوم کی شیرازہ بند ی کی۔ اہل بیت جو مشورہ خلافت کے وقت شامل نہ ہوسکے تھے۔ ان کے بارہ میں یہ حقیقت واضح ہونی چاہیئے تھی کہ وہ دل سے خلافت کے وفادار اور مطیع ہیں۔ان میں حضرت علیؓ ، حضرت فاطمہ ؓ ، اورحضرت زبیر ؓقابل ذکر تھے ۔
پہلا خطاب
حضرت ابو بکر ؓ نے مسجد نبوی میں لوگوں کو اکٹھا کیا۔ حضرت علی ؓ اورحضرت زبیر ؓکے بارے میں پوچھا کہ وہ بھی موجود ہیں۔ پھربطور خاص انہیں بلوایا گیا۔حضرت ابو بکرؓ نے نہایت اثر انگیز خطاب کیا۔ آپؐ نے فرمایا:۔
وَاللّٰہِ مَا کُنتُ حَرِیصًا عَلَی الِامَارَۃِ یَومًا وَلَاَ لیلَۃً قَطُّ ۔۔۔الخ کہ ’’خدا کی قسم! مجھے کبھی بھی خلافت کے لئے خواہش یا رغبت پیدانہیں ہوئی۔ نہ ہی کبھی میں نے پوشیدہ یا اعلانیہ اس کا مطالبہ کیا ۔ہاں فتنہ سے ڈرتے ہوئے میں نے اسے قبول کر لیا ہے مگر یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے جس کی مجھے طاقت نہیں پھر بھی میں نے اٹھا لیا ہے۔ اب سوائے اس کے کہ اللہ مجھے طاقت دے مجھ میں تو اس کی ہمت نہیں اور میں تو اب بھی چاہتا ہوں کہ تم میں سے اگر کوئی اور طاقتور اور ہمت والا ہے جو اس بوجھ کو اٹھا سکتا ہے تواٹھالے ۔‘‘
یہ بہت ہی اثر انگیز خطاب تھا جس کے آخر میں آپؓ نے حضرت علی ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا ’’اے علی ! داماد رسول ! کیا آپ پسند کرو گے کہ مسلمانوں کی قوت پراگندہ ہو۔پھر حضرت زبیر ؓ سے بھی یہی سوال کیا۔ان دونوں نے کہا’’ ہمارے دل میں صرف اتنی بات تھی کہ جب یہ مشورہ (خلافت)ہوا تو ہمیں اس میں شریک نہیں کیا گیا ورنہ ہماری بھی یہی رائے تھی اورہے کہ حضرت ابوبکر ؓ ہی اس خلافت کے زیادہ اہل اور مستحق ہیںکہ آنحضرتؐ نے انہیں اپنی زندگی میں امام بنایا اور وہ غار حرا میں رسول ؐاللہ کے ساتھی تھے اور قرآن میں انہیں ’’دو میں سے دوسرے‘‘ کہہ کر یاد کیا گیا ہے۔ پھر ان دونوں بزرگان اہل بیت نے اعلانیہ بیعت کی۔(34)یوں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وحدت کی لڑی میں پرودیا۔
حضرت علیؓ کے اس موقع پر موجود نہ ہونے کی ایک وجہ رسول اللہ ﷺکی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کی علالت میں ان کی تیمارداری بھی تھی۔ نیزا س عرصہ میں انہوںنے گھر میں رہتے ہوئے جمع قرآن کا اہم کام بھی شروع کر رکھا تھا جس کے باعث سوائے نمازوں کے گھر سے کم نکلتے تھے۔(35)
فتنہ ارتدادو بغاوت و مدعیان نبوت
دیگر خطرات میں سے ایک بڑاخطرہ جو خلافت اولیٰ کے فوراًبعد پیدا ہوا وہ ا رتداد وبغاوت کافتنہ تھا ۔ عرب کے مختلف علاقوں میںکئی بادیہ نشین مرتد ہوکر زکوٰۃ سے منکر ہوگئے ۔ پھر بعض لوگوںنے نبوت کے دعوے کر کے بغاوت کردی۔ یمامہ کے مسیلمہ کذاب نے تو حضور ؐ کی زندگی ہی میں نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا ، اس کے بعد ایک عورت ’’سجاح ‘‘نے بھی یہ دعویٰ کرکے علم بغاوت بلند کیا اورمسیلمہ سے شادی رچا کر اتحاد کرلیا۔ کئی اورمدعیان نبوت بھی پیدا ہو گئے ۔انہوں نے بھی مرتدین وغیرہ کو اپنے ساتھ ملاکر بغاوت کردی۔یہ تھا اس وقت کے عرب کا نقشہ کہ ایک طرف مرتدین ہیں،دوسری طرف مدعیان نبوت ،تیسری طرف منکرین زکوٰۃ۔ اور مدینہ محض اسلام کا ایک جزیرہ بن کر رہ گیا ۔ ان حالات میں اسلام کو بچانا، مسلمانوں کی حفاظت کرنا اور خلافت کواستحکام عطا کرنا یہ حضرت ابو بکر ؓ کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن خلدون نے اس دور کی طوائف الملوکی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد تمام عرب مرتد ہو گیا۔ بعض قبیلے سارے کے سارے اور بعض جزوی حالت میں۔ نبی کریم ؐ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی حالت تعداد کی کمی اور دشمن کی کثرت کے باعث بکریوں کے اس ریوڑ جیسی ہوگئی جو برسات کی اندھیری رات میں بغیر چرواہے کے رہ جائے۔ عرب کے خاص وعام مرتد ہو کر طُلیحۃ اسدی مدعی نبوت کے ساتھ مل گئے قبیلہ طے اور اسد اور غطفان بھی مرتد ہو گئے۔‘‘
پھر لکھاہے :۔’’ قبیلہ ہوازن نے زکوٰۃ روک لی۔ قبیلہ بنو سلیم کے خواص نے ارتداد کا اعلان کر دیا اور قریباً ہر جگہ سب لوگوں نے یہی کیا۔ ہذیل ،بنو تغلب اور دیگر کئی قبائل نے سجاح کی پیروی کی اور ان تمام گروہوں نے مل کر مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا۔‘‘ (36)
ابن اثیر نے لکھا ہے’’ رسول اللہ ﷺکی وفات کی خبر جب مکہ پہنچی تو وہاں کا حاکم عتاّب کے مارے چھپ گیا اور مکہ لرز اٹھا۔قریب تھا کہ سارے کا سارا شہرمرتد ہو جاتا‘‘(37) باقی علاقے جہاں یہودی اور نصرانی تھے۔ ان کو الگ کُھل کھیلنے کا ایک موقع مل گیا۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعود اس صورتحال کا نقشہ یوں بیان کرتے تھے کہ’’ رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعد ہماری حالت ایسی ہوگئی’’ کِدنَا اَن نَّھلِکَ لَو لَااَن مَنَّ اللّٰہُ عَلَینَا بِاَبِی بکرٍ کہ قریب تھا ہم تباہ و برباد ہو جاتے اگر اللہ تعالیٰ حضرت ابو بکر ؓ کے ذریعہ ہم پر احسان نہ فرماتا‘‘
عین اس وقت جبکہ مرکزاسلام معاندین اور دشمنوں کے اندر گھرا ہواتھا لشکر اسامہؓ کی روانگی کا ایک اور بہت بڑا امتحان درپیش آیا۔ آنحضور ﷺ نے اپنی زندگی میں شامی سرحد سے فوج کشی کے خطرہ سے بچنے کیلئے ایک لشکر حضرت اسامہؓ کی سرکردگی میں تیار کیا تھا۔ جس میں حضرت عمر ؓاور دیگر بزرگ صحابہ بھی شامل تھے۔ صحابہ نے عرض کیا ’’اے امیر المومنین! اس وقت تمام عرب پراگندہ ہے ، کئی قبائل مرتد ہو گئے ، نبوت کے دعویدار وں کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ خدارا! کچھ عرصہ کے لئے آپ اسامہؓ کے لشکر کو روک لیں۔ پہلے ان قریبی دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ شامی سرحد تو دور ہے وہاں بعد میں لشکر بھجوایا جا سکتاہے‘‘خدا تعالیٰ اپنے خلفاء کو کیا عجیب عظمتِ شان اورعزم و استقامت عطا کرتا ہے ۔ وہی ابو بکرؓ جن کے بارہ میں کل تک کہا جارہاتھا کہ ان کو نماز پڑھانے کیلئے نہ کہا جائے کہیں رقّت سے رو نہ پڑیں ۔ آج حضرت عمرؓ جیسا دل گردے والاانسان بھی ان سے آکر عرض کرتا ہے : ’’یا حضرت ! اسامہ کے لشکر کو روک لیں ۔ ‘‘ مگر خدا کا وہ کوہ وقار خلیفہ شیر کی طرح گرجتے ہوئے فرماتا ہے ۔وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہٖ لَو ظَنَنتُ اَنَّ السِّبَاعَ تَخطُفُنِی لَاُنَفِّرَ جَیشَ اُسَامَۃَ کَمَا اَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ۔ (38)
’’خدا کی قسم! اگر مجھے یقین ہوکہ درندے مدینہ میں آکر میرا جسم نوچ لیں گے۔ تب بھی میں اسامہؓ کے اس لشکرکو ضرور روانہ کروں گا،جسے بھجوانے کیلئے خدا کے رسول محمد مصطفی ﷺنے ارشاد فرمایا تھا۔حضرت ابو بکرؓ نے اس لشکر کو خود شہر کے باہر جاکر روانہ فرمایا۔
پھر حضرت ابو بکر ؓ مرتدین کی شورش کی طرف متوجہ ہوئے۔پہلے تمام عرب کے مرتدین کے نام آپ نے خطوط لکھے ۔جن میں اطاعت قبول کرنے والوں سے صلح اور باغیوں سے جنگ کا اعلان تھا۔ آپؓ نے ہدایت فرمائی کہ ’’ہر مجمع میں میر ا یہ خط پڑھ کر سنایا جائے۔‘‘
مدینہ کی حفاظت
11ھ میں یہ حالات پید اہو گئے کہ مدینہ کو گردونواح کے قبائل سے سخت حملہ کا خطرہ ہوا۔ لشکر اسامہؓ کی روانگی کے بعد مدینہ میں لڑنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی اور مرکز اسلام کی حفاظت کا اہم مسئلہ درپیش تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے مدینہ کے ناکوں پر حضرت علی ؓ ، زبیرؓ طلحہؓ ، عبداللہ بن مسعود ؓ کو مقرر کیا اور اہل مدینہ کو مسجد نبوی میں اکٹھا کر کے تقریر کی اورمدینہ پر حملہ کی صورت میں ہنگامی تیاری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ’’یوں سمجھو دشمن صرف ایک دن کے فاصلے پر ہے۔‘‘
اس خطاب کے تیسرے ہی دن مرتدین نے مدینہ پر حملہ کر دیا ۔ حضرت ابو بکرؓ کو اطلاع ہوئی توخود مدینہ میں موجود نفری کو لے کر اونٹوں پر سوار ہو کر نکلے۔ وقتی طور پریہ جوابی کاروائی دیکھ کر دشمن منتشر ہو گئے۔پھر واپس جا کر ذو القصہ مقام پر یہ لوگ اکٹھے ہوئے۔ حضرت ابو بکر ؓ مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ خود ان کے تعاقب میں نکلے ۔صحابہ نے عرض کیا’’ امیر المومنین! آ پ مدینہ میں ٹھہریں آپ کو کوئی گزند پہنچی تو سارا نظام درہم برہم ہوگا ہم حاضر ہیں۔‘‘حضرت ابو بکرؓ نے کما ل جرأت اور حوصلہ سے فرمایا ’’میں خود اس فتنہ کو ختم کرنے میں تمہارے ساتھ شریک ہونگا۔‘‘اس طرح مدینہ کے گردو نواح میں جس قدر فتنے تھے آپ نے خود ان کوفرو کیا ۔
عرب کے دور دراز کے علاقوں میں الگ بغاوت ہو چکی تھی۔ اہل یمن نے مسلمان عاملوں کو واضح خط لکھے کہ تم ہمارے ملک میں گھس آئے ہو۔ اسے خالی کر دو اور جس قدر اموال وغیرہ لئے ہیں وہ ہمارے حوالے کر و ۔ یمامہ میں مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا راج تھا۔ جو دوسری دعویدار نبوت سجاح سے شادی کے بعدحق مہرمیں کئی نمازیں معاف کرکے شراب اور زنا کو حلال قرار دیتا اور زکوٰۃ سے روکتا تھا۔ وہ سجاح کے لشکر کے ساتھ مل کرمقابلہ کیلئے تیار تھا۔ایک اورمدعی نبوت طلیحہ بن خویلد بنی اسدمیںتھا۔یہ تمام دعویدار اپنے اپنے لشکروں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے تیارتھے۔ دیگر مرتدین ان کے علاوہ تھے۔ اس موقع پر صحابہ کے مابین بعض مرتدین کے ساتھ جہاد میں اختلاف رائے پیدا ہو اکیونکہ ان میں ایک طبقہ صرف زکوٰۃ سے انکار کر رہا تھا۔ حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ آنحضور ﷺنے فرمایا ہے ’’جو لا الٰہ الا اللہ کہتا ہے اس سے جنگ نہیں کرنی‘‘ اور یہ لوگ صرف زکوٰۃ کے انکاری ہیں۔ ان سے ہم کیوں جنگ کریں۔ اس پرحضرت ابوبکر ؓ نے کمال عزم سے فرمایا ۔
وَاللّٰہِ لَو مَنَعُونِی عِقَالًا کَانُواُ یَؤدُّوَنہٗ اِلٰی رَسُولِ اللّٰہ لَقَاتَلتُھُم عَلَیہِ
اگر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں یہ لوگ ایک اونٹنی کا بچہ یا ایک نکیل بھی زکوٰۃ دیتے تھے تو میں ان سے اس کے لئے لڑوں گااوررسول اللہ ﷺکی جانشینی میں وہی کروں گا جو وہ کرتے تھے ۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ بعد میں مجھے بھی شرح صدر ہو گئی کہ حضرت ابو بکر ؓ کا یہ فیصلہ بہت ہی درست تھا اور قرآن کریم میں بھی ان برحق خلفاء کی یہی تعریف ہے۔
اَلَّذِینَ اِن مَّکَّنّٰھُم فِی الاَرضِ اَقَا مُو االصَّلٰو ۃَ وَاٰ تَوُ االزَّکٰوۃَ(الحج 42)
کہ’’ اگر ہم ان کو زمین میں طاقت دیں تو یہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ کا اہتمام کریں گے۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے ان باغیوں کے مقابلہ کے لئے گیارہ مہمّاتی دستے تیار کئے اور اطراف مدینہ میں ان کو روانہ کیا۔ (39)
یمامہ کی طرف آپ نے حضرت خالدؓ بن ولید کے ساتھ اور حضرت ثابتؓ بن قیس کی معاونت میں لشکر بھجوایا۔جہاں بڑی شدید جنگ ہوئی اور پانچ صدصحابہ شہید ہو گئے جو قرآن شریف کے حفاظ تھے۔تاہم اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ مسیلمہ کذاب کے فتنہ سے مسلمانوں کو نجات ملی اوروہ ہلاک ہوا۔
جمع قرآن
حضرت ابو بکرؓکے دور کا ایک اور کارنامہ حفاظت قرآن ہے۔جب جنگ یمامہ میں پانچ صد حفاظ شہید ہو گئے اور یہ خطرہ پیدا ہو ا کہ قرآن شریف کی حفاظت کا کیا بنے گا۔ یہ ایک بہت اہم اور نازک امر تھاجس پر دین کی بنیاد تھی۔ چنانچہ خلیفہ وقت حضرت ابو بکرؓ نے اس کام کیلئے کاتب وحی حضرت زیدؓ بن ثابت کو مقرر کیا۔جنہوں نے قرآن شریف کوجو متفرق اجزاء کی شکل میں تھا،مختلف صحابہ سے اس کی تحریری شہادتیں اکٹھی کرکے اسے ایک نسخہ میں جمع کروانے کا اہتمام کیا۔پس حضرت ابو بکرؓ کے دور میں محض خطرناک فتنے ہی فرو نہیں ہوئے۔ بلکہ جمع قرآن جیسے عظیم الشان کام بھی ہوئے۔( 40)
وراثت رسولؐ کافیصلہ
حضرت ابوبکرؓ کا ایک زبردست کارنامہ وراثت رسولؐ کا فیصلہ تھا۔ یہ ایک بہت نازک مرحلہ تھا جب اہل بیت کی طرف سے رسول اللہ ﷺکے ورثہ کا سوال اٹھایا گیا۔ ایک طرف اہل بیت رسولؐ سے محبت اور جذباتی تعلق دوسری طرف منصب خلافت کی ذمہ داری سے قومی اموال کی تقسیم میں عدل کا تقاضا۔ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہؓ کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ ’’ہمارا ورثہ نہیں چلے گا اور ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔‘‘ نہایت درجہ انصاف کے ساتھ یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ’’ ان اموال میں سے اہل بیت فائدہ اٹھائیں گے۔ جس طرح نبی کریم ﷺ کی زندگی میں استفادہ کرتے تھے مگر یہ جائیداد بطور ورثہ تقسیم نہ ہوگی۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ سے تسلی دلاتے ہوئے فرمایا: ’’رسول اللہﷺ کی قرابت مجھے اپنی قرابتوں اور رشتہ داریوں سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میں ان اموال میں کوئی کوتاہی نہ کروںگا نہ کسی خلاف عدل فیصلہ کا مرتکب ہوں گا۔ بلکہ جیسے رسول اللہﷺان اموال میں تصرف فرماتے تھے وہی کروں گا۔‘‘ چنانچہ حضرت فاطمہؓ اس پر راضی ہوگئیں۔(41) الغرض نبی کریمؐ کی وراثت کا مسئلہ بھی حضرت ابوبکرؓ نے ہمیشہ کیلئے حل کردیا۔جسے بعد حضرت علیؓ نے بھی قائم رکھا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ابو بکرؓ کے مختصر سے دور میں فتوحات کا ایک عظیم سلسلہ شروع ہو گیا ۔
فتوحات کے اعتبار سے آپ کا زمانہ خلافت وہ مقدس دور ہے جس میں بعد میں بننے والی مستقل اسلامی حکومت کی داغ بیل پڑی۔ چنانچہ آپ کے مبارک دور میں ہی حضرت خالدؓ بن ولید(سیف اللہ) اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں عراق ایران اور شام فتح ہوئے۔
فتوحات ایران
آنحضورﷺ کے زمانہ سے ہی ایران سے کشمکش شروع ہوگئی تھی ۔ جب کسریٰ شاہ ایران نے رسول اللہ ﷺکا تبلیغی مراسلہ پھاڑ دیا اورکہامیرا غلام ہوکر مجھے ایسے خط لکھتا ہے۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا ’’خدا اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے ۔‘‘پھر کسریٰ نے یہودیوں کی سازش سے نبی کریمؐ کی گرفتاری کے احکام بھی جاری کئے تھے ۔اب خود اس کی حکومت کے ٹکڑے ہونے کا عمل شروع ہو چکا تھا ، کسریٰ کو اس کے بیٹے نے قتل کر دیا ،وہ چھ ماہ حاکم رہا پھر اس کی بیٹی پوران دخت حاکم بنی۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا کہ ’’یہ قوم کیسے کامیاب ہو گی جس نے ایک عورت کو حاکم بنالیا ہے ۔‘‘(42)
عراق کا علاقہ ایرانیوں کا باجگذار تھا اور ایرانی ان عربقبائل پر حکومت کرتے تھے ۔ ایرانیوںکی کمزوری کے بعدان علاقوں میں طوائف الملوکی کا سلسلہ شروع ہوگیاجس پر وہ قابو پانے کی کوشش میں تھے۔ عراق کے ایک سردار مثنی بن حارثہ جو مسلمان ہو چکے تھے اور ایرانیوں کا تختہ مشق رہ چکے تھے۔ انہوں نے حضرت ابو بکر ؓ سے مدد مانگی تا ایرانیوں کے حملے سے بچا جاسکے ۔ چنانچہ خالدؓبن ولید کوان کی مدد کیلئے بھیجا گیا اور یوں فتوحات ایران کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کہاں رسول ؐاللہ کی وفات پر مسلمانوں کی جان پر بن آئی تھی کہ اسلام اور مدینہ کا کیا بنے گا ؟ اور کہاں خلافت کی برکت سے دنیا کی دو بڑی حکومتوں کے ساتھ ٹکر کے بعد اسلام کی فتح کے سامان ہونے لگے۔ حضرت ابو بکر ؓ کے دور خلافت میں ان دونوں بڑے محاذوں پر کام شروع ہو گیا ۔ ایران میں حضرت خالدؓ نے پہلے حیرہ فتح کیا۔ پھرجنگ ذات السلاسل ہوئی جس میں ایرانی جرنیل ہر مز کو شکست فاش ہوئی اور اس کی وہ قیمتی ٹوپی مال غنیمت میں آئی جس کی مالیت ایک لاکھ درہم تھی۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اعزاز کے طور پر وہ ٹوپی حضرت خالدؓ کو دے دی۔اس کے علاوہ بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔ پھر جنگ مزار ہوئی۔ یہاںجو مال غنیمت ہاتھ آیا اس میں ہاتھی بھی شامل تھا جسے مدینہ بھجوایا گیا۔ مدینے کے لوگ بڑے تعجب سے اسے دیکھتے تھے کیونکہ انہوں نے پہلی دفعہ ہاتھی دیکھا تھا ۔پھر جنگ ولجہ ہوئی جس میںتیس ہزار ایرانی قتل یا غرق دریاہوئے ۔
پھر جنگ اُلیس ہوئی ۔جس میں نصرانیوں کا ایرانیوں کے ساتھ اتحاد تھا اور سب مل کر اسلام کے مٹانے کے لئے مسلمانوں پر حملہ آور تھے ۔اس میںستر ہزار ایرانی اور نصرانی کام آئے۔ مسلمانوں نے پہلی دفعہ وہاں سفید آٹے کی روٹیاں حیرانی سے دیکھیں کہ یہ’’ سفید کپڑوں کے ٹکڑے ہیں ۔‘‘ پھر امغیشیا کی فتح ہوئی جہاں سے اتنا مال غنیمت ملا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اس وقت فرمایا کہ ’’اے قریش ! تمہارے شیر نے ایک شیر پر حملہ کر کے اسے مغلوب کر دیا اور عورتیں خالدؓ جیسا بہادر پیدا نہیں کر سکتیں ۔ ‘‘اس کے بعد عین التمر فتح ہوا ، جنگ دومۃ الجندل ہوئی ۔ جنگ فراض ہوئی ۔ جہاں رومیوں اور ایرانیوں کی متحدہ فوج تھی۔ ایک لاکھ آدمی اس میں مارے گئے تھے ۔ الغرض ایران اور عراق کے محاذ پر یہ کامیابیاں ہوئیں۔(43)
فتوحات شام
دوسری طرف حضور ﷺکے آخری ایام میں رومیوں سے کشمکش کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ آنحضورﷺ خود اپنی زندگی میں رومی سرحد پرغزوہ تبوک کیلئے گئے تھے ۔پھر اسامہؓ کا لشکر رومی سرحدوں پر بھیجا گیاتھاجہاں آپؐ کے قاصد حارث بن عمیر کو بُصریٰ کے حاکم نے قتل کروا دیا تھا اور جنگ مُوتہ ہوئی تھی ۔شامی سرحد پر خطرے سے نمٹنے کیلئے حضرت ابو بکر ؓ نے بعض اسلامی جرنیلوں کو مقرر کیا۔ ایک طرف دنیاکی بہت بڑی طاقت ایران سے جنگ جاری ہے توادھر دوسری بڑی طاقت شام سے جنگ چھڑ رہی ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ کے ارشادپرحضرت خالدؓنے مختلف محاذوں کے امراء کی افواج اکٹھی کر کے جنگ یرموک میں دشمن کامقابلہ کیا۔جہاں دو لاکھ سے زیادہ ایرانی فوج جمع تھی اور مسلمان کل ملاکر بھی پینتالیس ہزارتھے۔ بڑے کانٹے دار مقابلہ کے بعدمسلمانوں کوفتح ہوئی ۔ اس دوران ہی حضرت ابو بکر ؓ کی وفات ہوگئی۔(44)
الغرض حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان استحکام عطاء کیا ۔جس کا آغاز حالت خوف سے ہواتھا۔ اللہ تعالیٰ نے قیام امن اور تمکنت دین کے وعدے پورے کرکے اڑھائی سالہ مختصر دور میں کتنی عظیم الشان فتوحات انہیںعطاکیں ۔
حضرت علی ؓ نے ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس دین کو فتح کبھی کثرت لشکر سے نہیں ہوئی اور نہ قلت لشکر سے شکست ہوئی بلکہ یہ اللہ کا دین ہے جسے اس نے خود غالب کیا اور یہ اسی کا لشکر ہے جسے اس نے عزت و قوت دی اور یہ دین وہاں پہنچا جہاں پہنچنا تھا ۔ خدا کا یہ وعدہ تھا پھر انہوں نے سورئہ نورکی آیت استخلاف( نمبر56)پڑھی کہ’’ اللہ نے مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو خلیفہ بنائے گا اور ان کو تمکنت عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ خوفوں کو امن میں بدل دے گا۔‘‘ (45)حضور ﷺکے مسلمانوں سے فتوحات کے جو وعدے تھے ان کا حضرت ابو بکرؓ کے دور میں پوراہونا بھی آپ کے استحکام خلافت کی ایک عظیم الشان دلیل ہے ۔
وفات
آنحضرتﷺ نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت ابوبکر ؓآپ سے اڑھائی قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کی وفات کے ٹھیک اڑھائی سال بعد وہ اپنے آقا سے جاملے۔ روایت ہے کہ کھانے میں زہرکے نتیجہ میں ایک سال بیمار رہ کرآپ کی وفات ہوئی۔
دوسری روایت میںآخری بیماری کا ایک فوری سبب یہ بھی درج ہے کہ سردی میں ٹھنڈے پانی کے غسل سے بخار ہوا جس کے دو ہفتے بعد آپ کی وفات ہوئی۔وفات کے دن پوچھا آج کونسا دن ہے؟ پیر کا دن تھا۔ فرمایا رسول کریمﷺ نے کب وفات پائی تھی۔ بتایا گیا ’’پیر‘‘ کو چنانچہ آپ بھی پیر کے روز ہی فوت ہوئے۔(46)آپ کی عمر رسول کریمﷺکی عمر کے مطابق 63برس ہوئی۔
فضائل و خصائل
نبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو جنت کے سرداروںمیں سے قرار دیا۔ جیسا کہ ایمان لانے والوں میں آپ سب سے اوّل ٹھہرے۔ نبی کریمﷺنے انہیں یہ مژدہ بھی سنایا کہ وہ آپ کی امت میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔(47)
حضرت ابوبکرؓ نے سفر ہجرت میں جان کو خطرے میں ڈال کر آنحضورؐ کا ساتھ دیا۔ قرآن شریف میں انہیں ’’ثانی اثنین‘‘ کا خطاب دیکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے معّیت کی نوید سنائی گئی ہے۔ یہ تاریخی معیت خدا کے حضور ایسی مقبول ٹھہری کہ آپ سعادت دارین اور نبی کریمؐکی دائمی معیت کے وارث بن گئے۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ’’ روز قیامت ابوبکرؓ کا حشر بھی میرے پہلو سے ہوگا۔‘‘(48)
نبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے بلند روحانی مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ ابوبکرؓ اس امت کے بہترین اور افضل فرد ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو۔‘‘(49)
حضرت بانی جماعت احمدیہ نے حضرت ابو بکرؓ کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا مل عارف ، اخلاق کے حلیم اور فطرت کے رحیم تھے۔ آپ نے انکساری اور تنہائی کا چولہ زیب تن کیا اور زندگی بسر کی ۔ آپ بہت عفو، شفقت اور رحمت کرنے والے تھے اور اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے ۔ محمد مصطفی ﷺسے تعلق بہت مضبوط تھا۔ آپ کی روح خیر الوریٰ کی روح سے ملی ہوئی تھی اور اس نور سے ڈھکی ہوئی تھی جس نور نے آپ کے پیشوا اور خدا تعالیٰ کے محبوب کو ڈھانپ رکھا تھا ۔ آپ آنحضور ﷺ کے نور اور آپ کے عظیم فیوض میں نہاں تھے اورآپ فہم قرآن اور سید الرسل ؐو فخر بنی نوع انسان کی محبت میں سب لوگوں پر فوقیت لے گئے تھے۔ جب آپ پر اخروی زندگی کا مضمون اور دیگر سر بستہ راز کھلے تو آپ نے تمام دنیوی تعلقات کو خیرباد کہہ دیا ۔ جسمانی رشتوں سے الگ ہو گئے اور محبوب کے رنگ میں رنگین ہو گئے ۔ آپ نے خدائے یگانہ کی خاطر جو زندگی کا مقصد حقیقی ہے اپنی ہر چاہت کو چھوڑ دیا ۔ آپ کی روح نفسانی آلائشوں سے ہر طرح مبرّا، ذاتِ حق کے رنگ میں رنگین اور رضائے رب العالمین میں محو ہو گئی ۔ جب سچی محبت الٰہی آپ کے نس نس میں ، آپ کے دل کی گہرائی اور روح کے ذرے ذرے میں گھر کر گئی اور اس محبت کے انوار اور آپ کے اقوال و افعال اور نشست و برخاست میں ظاہر ہوئے تو آپ کو صدیق کا خطاب ملا اور جناب خیرالواھبین کے دربار سے گہرا اور تازہ بتازہ علم عطا ہوا۔ چنانچہ سچ آپ کی ذات میں راسخ ملکہ اور فطرت اور عادت ہو گیا جس کے انوار آپ کی شخصیت کے ہر قول و فعل، ہر حرکت و سکون اور حواس و انفاس سے ظاہر ہوئے اور آپ کو آسمانوں اور زمین کے رب کی طرف سے منعم علیہم لوگوں میں شامل کیا گیا ۔ آپ کتاب نبوت کے کامل پرتو تھے اور اہل جودوسخا کے امام تھے اورآپ کا خمیر انبیاء کی بقیہ مٹی سے اٹھایا گیا تھا۔ ‘‘(50)
اخلاق وسیرت
حضرت ابوبکرؓ نہایت متواضع، منکسرالمزاج اور کم گو انسان تھے۔ آپ کی بہت کم روایات احادیث کی کتب میں آئی ہیں، تاہم جتنی روایات ہیں ان سے آپ کے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ سیرت پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ طبعاً کم گو ہونے اور ادب رسولؐ کے تقاضہ کے پیش نظر آپ شاذہی نبی کریمؐ سے کوئی سوال کرتے تھے۔ مگر جو سوال آپ نے کئے وہ بھی آپ کے بلند علمی مقام اور اعلیٰ سیرت وکردار کو ظاہر کرتے ہیں۔
توحید کا عرفان
حضرت ابوبکرؓ توحید کامل پر بڑی شان سے قائم تھے۔ ایک دفعہ حضرت عثمان ؓنے کہا ’’کاش! میںنے نبی کریمﷺسے یہ مشکل سوال دریافت کرلیا ہوتا کہ شیطانی وساوس کا کیا علاج ہے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا’’ میں نے نبی کریمؐسے یہ سوال پوچھا تھا اور آپؐ نے فرمایا تھا کہ کلمہ توحید پڑھ کر اس پر قائم ہوجانا ہی ایسے وساوس کا علاج ہے۔‘‘(51)
ایک اور موقع پر فرمایا کہ میں نے نبی کریمﷺسے سنا ہے ’’تمہیں کلمہ اخلاص(یعنی شہادت توحید) اور ایمان باللہ سے بڑھ کر کوئی چیز عطا نہیں کی گئی۔‘‘(52)
چنانچہ توحید کی عظیم الشان صداقت پر کامل یقین و ایمان کے باعث ہی آپؓ صدیق کہلائے۔ اور اس وصف کو نبیوں کے دل کی طرح پاک وصاف کردیا تھا اور دراصل یہی چیز منبع اور سرچشمہ ہے آپ کے تمام اخلاق عالیہ کا جن میں تعلق باللہ، خشیتّ، تواضع، صدق ،شجاعت انفاق فی سبیل اللہ اورخدمت خلق وغیرہ شامل ہیں۔
عبادت اور اخلاق فاضلہ کا حسین امتزاج
انسان کے تعلق باللہ کا سب سے بڑا معیار اس کی عبادات اور دعائیں ہیں۔ اپنے گھر میں چھوٹی سی مسجد بنا کر حضرت ابوبکرؓ کے قرآن پڑھنے اور عبادت کرنے کا ذکر گزر چکا ہے۔ بآواز بلند تلاوت کلام پاک کے جرم میں ہی آپ کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔قارہ قبیلہ کے رئیس ابن الدغنہ آپ کو یہ کہہ کر واپس لائے کہ ’’آپ جیسے بااخلاق آدمی کو ہمارے شہر سے کیسے نکالا جاسکتا ہے جو صلہ رحمی کرنے والے دوسروں کے بوجھ اٹھانے والے، مہمان نواز اور مصائب میں مدد کرنے والے ہیں۔‘‘ سیرت صدیقی پر یہ شاندار گواہی دے کر ابن الدغنہ آپ کو اپنی امان میں مکہ میں دوبارہ واپس لایا تھا۔ عجیب توارد ہے کہ ابن الدغنہ کے بیان کردہ اوصاف ابوبکرؓ وہی ہیں جو حضرت خدیجہؓ نے رسول کریمﷺ کے لئے پہلی وحی کے موقع پر بیان فرمائے تھے۔ (53)
حضرت ابوبکرؓ کو دعائوں سے بھی خاص رغبت اور شغف تھا اور اپنے اعلیٰ ذوق کے مطابق اس تلاش میں رہتے تھے کہ اپنے مولیٰ سے کیا مانگیں اور کیسے مانگیں اور بارہا نبی کریمﷺ سے اپنے اس ذوق کی تسکین کے لئے پوچھا۔ ایک دفعہ عرض کیا کہ مجھے اپنی نماز میں پڑھنے کے لئے کوئی عمدہ سی دعا بتادیں۔ آنحضور ﷺنے یہ دعا سکھائی:
اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمتُ نَفسِی ظُلماً کَثِیراً فَاغفِرلِی مَغفِرَۃً مِن عِندِکَ وَارحَمنِی اِنَّکَ اَنتَ الَغفُورُ الرَّحِیمُ(54)
کہ اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیاپس مجھے بخش دے۔ خاص اپنے پاس سے مغفرت عطاء کر اور مجھ پر رحم کر یقینا تو بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔
ایک اور موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعاسکھائی:
اَلّٰلھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ الَعفوَوَالعَافِیَۃَ فِی الدُّنیَا وَ الٓاخِرَۃِ(55)
کہ اے اللہ میں تجھ سے دنیا و آخرت میںمعافی اور حفاظت کا طلب گار ہوں۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکرؓ اس دعا کی طرف خاص توجہ دلاتے اور فرماتے کہ ایمان کے بعد عافیت کی دعا سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں یعنی ایمان کی سلامتی مانگنی چاہیے۔(56)
خشیّت
حضرت ابوبکرؓکی خشیّت کا یہ عالم تھا کہ جب 9ہجری میں رسول اللہﷺ نے آپ کو مسلمانوں کا امیر الحج مقرر کر کے روانہ فرمایا اس کے بعد سورۃ توبہ نازل ہوئی تو نبی کریمؐنے حضرت علیـ ؓکو اس کی متعلقہ آیات کا اعلان حج کے موقع پر کرنے کی ہدایت فرمائی۔حضرت ابوبکرؓ کو عجیب دھڑکا سا لگا کہ نامعلوم مجھ سے کیا کوتاہی ہوئی جو اس خدمت کے لائق نہیں سمجھا گیا۔چنانچہ جب آپ نبی کر یم ؐ کی خدمت حاضر ہوئے تو بے اختیار ہو کر رو پڑے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ!کیا مجھ سے کوئی ناروا بات سرزد ہوئی ہے؟آنحضرتﷺنے فرمایا ’’اے ابوبکرؓـ!تجھ سے تو خیروبھلائی کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوا مگر سورۃ توبہ کی ان آیات کے لئے مجھے یہی حکم الٰہی تھا کہ میں خود یا مجھ سے خونی رشتہ رکھنے والا قریب ترین عزیز اس کا اعلان کرے۔‘‘ تب حضرت ابوبکرؓکی تسلی ہوئی ۔ ( 57)
آپ کی خشیّت الٰہی اور انکسار کی شان کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے جب ایک دفعہ آپ کی حضرت عمرؓ کے ساتھ تکرار ہو گئی۔حضرت ابو بکرؓ نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ عرض کر کے بتایا کہ اس کے بعد مجھے ندامت ہوئی اور میں عمرؓ کے پاس حاضر ہو گیاتو انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا ۔ میں حضورﷺکی خدمت میںحاضر ہو گیا آپؐ نے فرمایا اللہ آپ کو معاف کرے۔ادھر حضرت عمرؓ کو بھی بعد میں احساس ندامت ہوا اور حضرت ابوبکرؓکے گھر آئے اور انہیں موجود نہ پا کر آنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐکا چہرہ ناراضگی سے سرخ ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوبکرؓگھٹنوں کے بل بیٹھ کر بار بار عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ! غلطی میری تھی(آپ ؐ عمرؓکو معاف کر دیں)۔ نبی کریمﷺنے حضرت عمرؓ سے فرمایا ’’ دیکھو جب تم لوگوں نے میرا انکار کیا تھا اس وقت ابو بکرؓ نے میری تصدیق کی اور جان ومال نچھاور کر دئیے۔ کیا تم میرے ساتھی کو میرے لئے چھوڑو گے کہ نہیں؟‘‘(58)
فہم اور علمی بصیرت
حضرت ابوبکرؓکوقرآن شریف کا خاص فہم عطا ہوا تھا۔بعض لوگوں نے سورۃ مائدہ کی آیت 6 سے(جس میں ذکر ہے کہ اے لوگو!تم اپنے ذمہ دار ہو کسی کی گمراہی تمہیں نقصان نہیںدے گی)یہ استدلال کیا کہ برائیوں کا قلع قمع ہماری ذمہ داری نہیں کیونکہ ہر فردکو اپنی ذاتی اصلاح کاحکم ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس خیال کی سختی سے تردید کی اور فرمایا کہیہ اس آیت کا درست مطلب نہیں۔ (کیونکہ آیت میں واحد کے بجائے جمع کے صیغے میں اصلاح معاشرہ کی قومی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے)اور نبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ ’’جو لوگ برائی کو دیکھ کر اس کا ازالہ نہیں کرتے تو اس کی سزا سارے معاشرہ کو دی جاتی ہے۔‘‘(59)اس لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر کماحقہــ توجہ دینی چاہئے۔
حضرت ابوبکرؓ نبی کریم ﷺکے ارشادات کی بنیاد قرآنی آیات میں تلاش کرتے اور انکو افادہ عام کیلئے بیان فرماتے۔حضرت علیؓ سے روایت ہیکہ رسول اللہ ﷺکی ہر بات سن کر ہمیشہ میں نے بہت ہی فائدہ اٹھایا ہے ۔ حضرت ابوبکرؓنے مجھے ایک حدیث سنائی اور آپؐ نے سچ فرمایا کہ ’’کوئی مسلمان جب کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کر کے دور کعت نماز پڑھے اور اللہ سے اس گناہ کی معافی مانگے تو اسے بخش دیا جاتا ہے۔‘‘یہ حدیث سنا کر بطور دلیل وہ دو آیات پیش کرتے تھے۔ ایک آل عمران کی آیت136جس میں ذکر ہے کہ مومنوں سے جب کوئی برائی سرزد ہوتی ہے تو وہ اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیںان کی جزا مغفرت ہے۔اور دوسری سورۃ نساء کی آیت111 جس میں بیان ہے کہ جو شخص بدی اور ظلم کر کے اللہ سے بخشش کا طلب گار ہو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت بخشنے والا اور مہربان پائیگا۔(60)
حضرت ابوبکرؓقرآن کریم پر غور وتدبر اور نبی کریم ﷺکی پاک صحبت کی برکت سے علمی عقدے حل کرتے رہتے تھے۔ایک دفعہ سورۃنساء کی آیت124کے بارہ میںدل میں سوال پیدا ہوا کہ اگرہر شخص کو اس کی ہر بدی پر سزا ملے گی تونجات کیسے ہوگی؟ سخت فکر مندی سے نبی کریم ﷺ سے یہ سوال پوچھا تو آپؐنے تسلی دلاتے ہوئے فرمایا’’اللہ تجھ پر رحم کرے اے ابوبکرؓ!تجھے اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے۔‘‘دوسرے پوری امت کے لئے تسلی کا یہ جواب بھی سنا یا کہ ’’یہ جو آپ لوگ بیمار ہوتے یا تکلیف اٹھاتے یا غمگین ہوتے ہیں۔یہ بھی بدی کی جزا ہے جواللہ تعالیٰ اس دنیا میں دیکر مومنوں کی کفایت فرما لیتا ہے۔‘‘(61)
سورہ نصر نازل ہوئی تورسول کریمؐنے صحابہ کی مجلس میں یہ آیات سنائیںجن میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح کے آنے اور فوج در فوج لوگوں کے دین اسلام میں داخل ہونے کا ذکر ہے حضرت ابوبکرؓرو پڑے۔ صحابہ حیران تھے کہ فتح کی خوشخبری پر رونا کیسا؟مگر حضرت ابوبکرؓکی بصیرت اور فراست بھانپ گئی تھی کہ یہ آیت جس میں رسول اللہﷺکے مشن کی تکمیل کا ذکر ہے، آپؐکی وفات کی خبر دے رہی ہے۔اور اپنے محبوب کی جدائی کے غم سے بے اختیار ہو کر رو پڑے۔اورپھر اس کے صرف دو سال بعد نبی کریمﷺ کی وفات ہوگئی۔
حضرت ابوبکرؓ کی اس خدادادبصیرت کا تذکرہ صحابہ میں عام تھا۔ایک اور موقع پر جب نبی کریمﷺنے مجلس میں ذکر فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اختیار دیا کہ دنیا میں رہنا ہے یا خدا کے پاس حاضر ہونا ہے تو اس نے خدا کو اختیار کیا۔‘‘حضرت ابوبکرؓ اس پر بھی رو پڑے۔ صحابہؓ نے پہلے تعجب کیا مگر بعد میں انہیں پتہ چلا کہ اس’’ بندئہ خدا‘‘ سے مراد ہمارے آقاومولا حضرت محمد ؐ تھے۔ جنہوں نے دنیا پر خدا کے پاس جانے کوترجیح دی ۔(62)
حضرت ابوبکر ؓکے علمی شغف کا اندازہ اس سوال سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے مسئلہ تقدیر کے بارہ میںنبی کریمﷺ سے پوچھا کہ انسان کی تقدیر خیروشر کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔تو پھر اعمال کی کیا ضرورت ہے؟نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اعمال میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو پابند نہیں رکھا۔ اختیار دیا ہے کہ جو عمل نیک یا بد چاہے کرے پھر وہ تقدیر کے مطابق انجام کو پہنچتا ہے۔(63)
استحکام خلافت
حضرت ابوبکرؓ کے ذریعہ تقررخلافت کے دونوںطریق یعنی انتخاب اور نامزدگی کھل کر واضح ہوگئے اور ا س سے بھی آئندہ نظام خلافت کوایک استحکام نصیب ہوا۔ حضرت ابو بکر ؓ کثرت رائے اور انتخاب کے ذریعہ خلیفہ مقررہوئے تھے جب انصار اور مہاجرین کے گروہ نے آپ کی بیعت کرکے خلیفہ تسلیم کر لیا۔پھر خودحضرت ابو بکر ؓ نے حضرت عمر ؓ کو اپنے بعد اہل رائے اصحاب کے مشورہ سے جانشین مقرر کر کے بتا دیا کہ تقرر خلافت کادوسرا طریق نامزدگی ہے ۔(64)
اطاعت رسولﷺ
حضرت ابوبکرؓمیں استغناء اور اطاعت رسولؐ کا نہایت اعلیٰ جذبہ تھا۔ایک دفعہ نبی کریمﷺ نے سوال کرنے سے منع فرمایا ۔اس ارشاد کی کامل اطاعت کر کے دکھائی صحابہؓبیان کرتے ہیں کہ بسااوقات حضرت ابوبکرؓ اونٹنی پر سوار ہوتے۔ اونٹ کی رسی ہاتھ سے چھوٹ جاتی اونٹ کوبٹھا کر خود نیچے اتر کر اپنے ہاتھ سے رسی اٹھاتے۔ صحابہؓ عرض کرتے کہ آپ ہمیں حکم فرماتے وہ جواب دیتے میرے حبیب رسول اللہ ؐ نے مجھے حکم دیا تھا کہ لوگوں سے سوال نہیں کرنا(65)سبحان اللہ!کیسا عجیب استغناء ہے اور کیسی شاندارانکساری۔
تواضع وانکساراورپہلی تقریر
حضرت ابوبکرؓمیںتواضع اور انکسار توجیسے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔انہوںنے غربت اور انکساری کا لباس اختیا رکر لیا تھا۔ان کی تواضع گفتگو سے صاف جھلکتی نظر آتی ہے ۔ خلافت کے پہلے انتخاب کے موقع پر آپ نے حضرت عمر ؓاور حضرت ابوعبیدہؓ کے نام لئے اور جب خلیفہ ہوئے تو اپنی پہلی تقریر میں اپنے انکسار کا یوں اظہارکیا کہ ’’میں تو چاہتا تھا کہ یہ ذمہ داری میرے علاوہ کوئی اور اٹھاتا۔ اب جبکہ میں نے یہ منصب قبول کر لیا ہے تو جتنی میری طاقت ہے میں اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرونگا۔مجھے نبی کریم ﷺ کے معیار پر رکھ کر گرفت نہ کرنا کہ آپؐ کو خدا تعالیٰ نے ایک خاص عصمت عطا فرمائی تھی اور آپ ؐمعصوم تھے۔‘‘(66)
حضرت ابوبکرؓ کی خشیّت اور مقام عجز کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے ایک دفعہ نبی کریمؐنے فرمایا’’ جو شخص تکبر سے اپناتہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر چلتا ہے اس کو آگ کا عذاب ہو گا۔‘‘ حضرت ابوبکرؓنے جو ڈھیلا تہبند باندھنے کے عادی تھے کمال انکسار سے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! تہبند تو میرا بھی لٹک جاتا ہے۔ نبی کریمؐنے انہیں یہ نوید سنائی کہ’’ اے ابوبکر‘‘ ! تو ان لوگوںمیں سے نہیں۔(67)
کیونکہ آپ تہبند تکبر سے نہیں لٹکاتے تھے اسطرح نبی کریم ﷺنے ہر ایسے شخص کے لئے جو طبعاًفروتنی اور عاجزی رکھتا ہے یہ فرما کر دین میں تشدد کرنے والوں کے خیال کی اصلاح فرمادی۔
ایک دفعہ کسی نے آپ کوخلیفۃ اللہ کہہ دیا یعنی خدا کے خلیفہ تو نہایت انکساری سے فرمایا دیکھو میں محمد ؐ کا خلیفہ ہوں۔مجھے خلیفئہ رسول کہو میں اسی پر راضی ہوں۔‘‘(68)
حضرت ابوبکرؓکے آخری سانس تھے آ پ کی صاحبزادی حضرت عائشہؓ نے جذباتی کیفیت میں یہ شعر پڑھا
وَاَبیَضُ یُستَسقَی الغَمَامُ بِوَجِہہٖ
ثِمَالُ الیَتَامٰی عِصمَۃٌ الِّلاَرَامِلٖ
کہ آپ وہ ہیں جن کے منہ کے صدقے بارش کی دعا کی جاتی ہے۔ آپ یتیموں کے والی اور بیوائوں کے سہارا ہیں۔حضرت ابوبکرؓنے جان کنی کے عالم میں بھی اپنی یہ تعریف گوارا نہ کی اور نہایت انکسار سے فرمایا’’ اے عائشہ!یہ مقام تو آنحضرت ؐ کا تھا۔‘‘(69) آپؓ کی انگوٹھی پر یہ الفاظ کندہ تھے’’عَبدٌذَلِیلٌ لِرَبٍّ جَلِیلٍ ۔خدائے بزرگ وبرتر کا ایک ادنیٰ بندہ‘‘(70)
حضرت ابوبکرؓ مقام صدیقیت پر قائم تھے اور صدق وراستی سے اپنی طبعی مناسبت کے باعث اس کی پر زور تلقین فرماتے۔ایک دفعہ خطبہ دیتے ہوئے گلوگیر ہو گئے۔روتے ہوئے فرمایا ’’ سچائی اختیار کرو اس کے نتیجہ میں نیکی حاصل ہوتی ہے اور یہ جنت میں لیجانے کا ذریعہ ہے۔‘‘(71)
یزید بن ابو سفیان کو شام کا امیر مقرر کر کے روانہ کیا تو ازراہ نصیحت واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ’’مجھے بڑا اندیشہ یہ ہے کہ تم کہیں اپنے عزیزو اقارب سے اپنی امارت کے نتیجہ میں ترجیحی سلوک نہ کرو۔یاد رکھو میں نے نبی کریم ؐ سے سنا ہے کہ جس شخص کو مسلمانوں کا امیر بنایا جائے اور وہ کسی کو ڈر کر کچھ دیدے تو اس پر اللہ کی *** ہے۔‘‘(72)
عشق رسولﷺ
حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺکے عاشق صادق تھے۔ابتداء میں رسولِؐ خدا کیلئے جانثاری کے زیر عنوان اور سفر ہجرت میںبھی اس کا ذکر ہوچکا ہے۔اسی سفر کے متعلق بیان فرماتے تھے کہ راستے میں ایک چرواہے سے دودھ لے کر حضور ﷺکو پلایاجب حضورﷺنے دودھ پی لیا تو میرا دل راضی ہو گیا۔(73)
یہ فقرہ آپؓ کی کمال محبت کو خوب ظاہر کرتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے خود آپ نے وہ دودھ پیا اوردل خوش ہوگیا۔ مرتے دم تک آقاؐسے اپنے عشق کا اظہارکرتے رہے ۔ بار بار پوچھتے آج کیا دن ہے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا سوموار کا دن۔ فرمایا دیکھو اگر میں مرجائوں تو کل کا انتظار نہ کرنا۔ مجھے وہ دن اور راتیں بھی محبوب ہیں، جو رسول اللہؐ سے کسی لحاظ سے مناسبت یا قربت رکھتی ہیں۔(74)
حضرت ابوبکرؓ کو اہل بیت رسولؐسے بھی بڑی محبت تھی۔ آنحضورﷺکی وفات سے چند روز بعد کا واقعہ ہے۔ حضرت علی ؓ آپ کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں حضرت حسنؓ کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت حسنؓ کو کندھوں پر اٹھالیا۔ فرمانے لگے ’’ خدا کی قسم نبی کریمﷺ پر اس کی شکل گئی ہے۔ علیؓ پرہرگز ان کی شباہت نہیں‘‘۔حضرت علیؓ اس لطیف مزاح اور اظہار محبت سے لطف اندوز ہو کر مسکرانے لگے۔(75)
شجاعت
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے عظیم سانحہ پرجب بڑے بڑے بہادروں کے پتّے پانی ہورہے تھے، آپ نے کیسی استقامت دکھائی اور کس طرح صحابہ رسولؐ کی ڈھارس بندھائی۔ اس کا ذکر بھی ہوچکا ہے۔
صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو میدان جنگ میںرسول اللہﷺکے ساتھ ہوا کرتاتھا کیونکہ سب سے زیادہ شدت سے حملہ وہیںہوتا تھا۔ یہ مقام شجاعت حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ جیسے اصحاب کو حاصل تھا۔ حضرت علیؓنے ایک دفعہ صحابہ سے پوچھا کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟انہوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم تو کہنے لگے ’’حضرت ابوبکرؓسب سے زیادہ بہادر تھے۔جنگ بدر میں ہم نے رسولؐ اللہ کیلئے ایک جھونپڑی یا خیمہ تیار کیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب رسول اللہ ﷺکا پہرہ کون دے گا تاکہ مشرک آپؐ پر حملہ نہ کرسکیں؟ خدا کی قسم! کسی شخص نے ادھر کا رخ نہیں کیا مگر ابوبکرؓ تلوار لیکر اس پر حملہ آور ہوئے۔ یہ تھے تمام لوگوں سے بڑھ کر بہادر۔میں نے انہیںمکہ میں اس حال میں بھی دیکھا کہ رسولؐ اللہ کو کفار قریش نے گھیر رکھا ہے اور کوئی استہزاء و تمسخر کرتا تھا تو کوئی آواز کستا۔ ہم میں سے کوئی آگے نہ بڑھا سوائے ابوبکرؓ کے۔ انہوں نے کسی کو ادھر دھکیلا تو کسی کو ادھرپرے ہٹایا۔‘‘(76)
حضرت ابوبکرؓنبی کریم ﷺ کے وزیر اور مشیر تھے۔ نازک لمحات میں آنحضورﷺکے لئے تسلی کا موجب ہوتے تھے۔ بدر کے موقع پر جب نبی کریم ﷺ جھونپڑی میں نہایت درد اور الحاح کے ساتھ دعا کررہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ سے اپنے آقا کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی حضورﷺکی خدمت میں کمال ادب سے عر ض کیا’’ یا رسول اللہ !ؐ اب بس کیجئے۔ اللہ تعالیٰ کی فتح کے وعدے ضرور پورے ہوکر رہیں گے۔‘‘(77)
انفاق فی سبیل اللہ
حضرت ابوبکرؓکے ایک ایک وصف اور فضلیت کو بیان کیا جائے تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا یہ حال تھا کہ قبول اسلام کے بعد چالیس ہزار درہم کے مالک تھے جو سب خدا کی راہ میں خرچ کر دئے۔غزوہ تبوک کے موقع پر تحریک کی گئی تو گھر کا سارا مال لاکر پیش کردیا۔ آنحضور ؐ نے فرمایا’’ جتنا فائدہ مجھے ابوبکرؓ کے مال نے دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا۔‘‘ (78)
محنت کی کمائی اوررزق حلال کا اتنا خیال تھا کہ خلافت کے دوسرے ہی روز کپڑوں کی گٹھڑی اٹھا کر روزی کمانے چلے تو راستہ میں بعض جلیل القدر صحابہ ملے۔ انہوں نے کہا اب آپ کا خرچ بیت المال ادا کرے گا۔ آپ قومی ذمہ داریوں کو سنبھالیں۔(79)
خدمت خلق
حضرت ابوبکرؓ میں خدمت خلق کا جذبہ بھی کما ل کاتھا۔ خلافت سے قبل آپ مدینہ میں اپنے محلہ کے گھروںکی بکریوں کا دودھ دوہ کر دیا کرتے تھے۔ جب خلیفہ ہوئے تو قبیلہ کی ایک کم سن لڑکی کہنے لگی اب ہماری بکریاں کون دوہا کرے گا؟ حضرت ابوبکرؓ کو پتہ چلا تو فرمایا’’ میں ہی تمہاری بکریاں دوہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو منصب مجھے عطافرمایا ہے اس سے میرے اخلاق تبدیل نہیں ہوں گے۔ بلکہ مزید خدمتوں کی توفیق پائوں گا۔‘‘چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد بھی آپ قبیلہ کی بکریاں دوہ دیا کرتے تھے اور وہ لونڈی جس طرح کہتی اس کے مطابق یہ خدمت بخوشی انجام دیتے ۔(80)
حضرت عمرؓ مدینہ کی ایک نابینا عورت کی خبر گیری فرمانے گئے وہاں آکر دیکھا کہ کوئی دوسرا آدمی پہلے آکر اس کے کام کر جاتا تھا۔ ایک دفعہ پہلے آکر چھپ کر بیٹھ گئے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ خلیفۃ الرسول ﷺپوشیدہ طور پر اس بڑھیا کی خدمت کرتے اور اس کے کام سرانجام دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں دیکھ کر کہا’’آپ ہی ایسے آدمی ہوسکتے تھے‘‘(81)
حضرت ابوبکرؓ حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر پہلو سے تمام نیکیوں کے جامع وجود تھے۔ ایک دن نبی کریم ؐ نے صحابہؓ کی تربیت کی خاطر ان کا محاسبہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آج اپنے کسی بیمار بھائی کی عیادت کس نے کی؟حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا انہیں اس کی توفیق ملی ہے۔پھر فرمایا آج نفلی روزہ کس نے رکھا ہے؟ پتہ چلا کہ حضرت ابوبکرؓ روزہ سے ہیں۔ پھر آپ نے صدقہ دینے اور مسکین کو کھانا کھلانے کے بارہ میں سوال کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ انہوں نے اس کی بھی توفیق پائی ہے۔ پھر حضورؐ نے کسی مسلمان بھائی کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابوبکرؓ نے بتایا کہ میں نے نماز جنازہ میں بھی شرکت کی ہے۔ اس پر نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جس شخص نے ایک دن میں یہ سب نیکیاں جمع کرنے کی توفیق پائی اس پر جنت واجب ہوگئی۔ (82)
یہی مضمون آنحضرت ﷺکی ایک اور مجلس میں اس طرح بھی ظاہر ہوا۔ آپﷺ نے فرمایا ’’قیامت کے دن جنت کے مختلف دروازے ہوں گے۔ کوئی نماز کا دروازہ ہوگا تو کوئی صدقہ کا اور کوئی روزے کا یہ نیکیاں بجالانے والے مومن ان دروازوں سے جنت میں داخل ہوں گے اور جنت کے دربان فرشتے ان کو آواز دے کر بلائیں گے کہ اے نمازیو! آئو اور نماز کے دروازے سے جنت میں داخل ہوجائو۔ اور اے صدقہ اور روزہ والو! تم اس دروازے سے جنت میں داخل ہوجائو‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی کیا لطیف سوال کیا کہ یا رسولؐ اللہ جس شخص کو ایک دروازے سے بھی جنت میں داخلہ کی ندا آئے اسے حاجت تو نہیں کہ دوسرے دروازوں سے بھی بلایا جائے۔ مگر کیا کوئی ایسا خوش نصیب بھی ہوگا جسے جنت کے تمام دروازوں سے دربان فرشتے پکاریں گے۔ حضورﷺنے فرمایاکہ ہاں! اے ابوبکرؓ میں اُمید کرتا ہوں کہ تو ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوگا جسے تمام دروازوں سے جنت کے دربان فرشتے جنت میں آنے کی دعوت دیں گے۔(83)
اس طرح آنحضرت ؐنے جہاں آپ کو تمام نیکیوں میں اعلیٰ ذوق اور کامل مقام کے حامل ہونے کی خوشخبری سنائی وہاں تمام مسلمانوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ اگر تم بھی چاہتے ہو کہ سب دروازوں سے جنت میں بلائے جانے کا اعزاز پائو تو سیرت صدیقی اختیار کرو۔ جو نام ہے کامل اطاعت اور سپرداری کا اور خدا کی رضا پر راضی ہوجانے کا۔
مقام ابوبکرؓ
حضرت ابوبکرؓ کے اس مقام بلندکی خبر حضرت جبرائیل ؑ نے ایک دفعہ آنحضرتﷺ کو ان الفاظ میں دی کہ’’ عتیق‘‘ یعنی آگ سے آزادابوبکرؓ کو کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے۔(84)
حضرت ابوبکرؓ طبعاً انکساری کے باعث اپنے الہامات و کشوف کا ذکر نہ کرتے تھے۔ بعض دفعہ کسی سوال کے جواب میںمجبوری سے ذکر کرناپڑاتو پتہ چلا آخری بیماری میں صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ کی عیادت کو آئے تو عرض کیا کہ ہم آپ کے لئے کوئی طبیب نہ بلائیں؟ فرمایا میں نے ایک فرشتہ دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا اس نے آپ کو کیا بتایا؟ آپ ؓنے فرمایا اس نے کہا ’’ہم(یعنی اللہ) جس بات کا ارادہ کریں وہ ضرور کردیتے ہیں۔‘‘(85)ظاہر ہے کہ اس میں آپ کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔
رسول کریمؐنے فرمایا’’مجھ پر سب سے زیادہ احسان اپنی دوستی اور مال سے ابوبکرؓ کا ہے۔‘‘ اور ’’اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو گہرا دوست بناتا تو ابوبکرؓ کو اختیار کرتا۔‘‘(86)حضرت حسانؓنے کیا خوب کہا
وَکَانَ حِبَّ رَسُولِ اللّٰہ قَد عَلِمُوا خَیرَالبَریَّۃِ لَم یَعدِلْ بِہٖ رَجُلاً
کہ دنیا جانتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ رسولؐ اللہ کے محبوب ترین فرد تھے۔ سب مخلوق سے بہتر وہ انسان جس کے مقابلہ کا کوئی شخص نہیں ہے۔(87)
اسی طرح رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’کسی قوم کے لئے جنمیں ابوبکرؓ موجود ہومناسب نہیں کہ ان کو کوئی اور(نماز کی) امامت کرائے ۔ (88)
ایک دفعہ ایک عورت رسول کریم ؐ کے پاس آئی۔ ملاقات کے بعد جاتے وقت کہنے لگی اگر میں آئندہ آئوں اور آپ کو نہ پائوں تو کیا کروں۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے نہ پائو، تو ابوبکرؓ کے پاس آنا۔‘‘(89)
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول ؐاللہ نے اپنی بیماری میں فرمایا:
’’میں نے ارادہ کیا کہ ابوبکرؓ اور اس کے بیٹے کو بلوا بھیجوں اور وصیت کردوں۔ مبادا کوئی اعتراض کرنے والا اعتراض کرے یا خواہش کرنے والا خواہش کرے۔پھر میں نے کہا کہ ابوبکرؓ کے سوا اللہ بھی انکار کردے گا اور مومن بھی ردّ کردیں گے۔‘‘ (90)
وفات ابو بکرؓ پر حضرت علی ؓکی تقریر
حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے موقع پران کے کامران و کامیاب عہد خلافت کے بارے میں حضرت علی ؓ کی ایک جامع تقریر کا ذکر کرنا نہایت مناسب ہوگا ۔’’ جب حضرت ابو بکرصدیقؓ نے انتقال فرمایا تو مدینہ (رونے والوں کی )آواز سے گونج اٹھا جیسا کہ رسولؐ اللہ کی وفات کے دن (رونے والوںکی آواز سے )گونج اٹھا تھا۔ پھرحضرت علیؓ تشریف لائے اس حال میں کہ آپ اِنَّا اللّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ پڑھتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ آج خلافت نبوت کا خاتمہ ہوگیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کے مکان پر پہنچ کر انہیں چادر اوڑھا کر پھر حضرت علی ؓنے یہ تاریخی خطبہ دیا ۔
’’اے ابو بکرؓ ! آپ رسول اللہ ؐ کے دوست تھے ، ان کے مونس تھے ، ان کے مرجع و معتمد تھے ، ان کے راز دار اور مشورہ دینے والے تھے ، آپ سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے زیادہ فائق الایمان تھے اور سب سے زیادہ مضبوط یقین کے تھے اور سب سے زیادہ خدا کا خوف رکھتے تھے۔ آپ اللہ کے دین کے نافع تھے اور رسول ؐاللہ کی نگہداشت میں سب سے زیادہ فائق تھے ، سب سے زیادہ اسلام پر شفقت کرنے والے تھے اور اصحاب رسول کے حق میں بہت بابرکت تھے اور سب سے زیادہ رسول اللہﷺ کا حق رفاقت ادا کرنے والے تھے اور سب سے زیادہ مناقب میں اور سب سے افضل اسلامی امتیازات میں۔ اور سب سے بلند مرتبہ میں ۔اور سب سے زیادہ مقرب بارگاہ رسالت میں۔ اور سب سے زیادہ روش اور عادت اور مہربانی اور بزرگی میں رسول اللہﷺ کے مشابہ اور سب سے زیادہ مرتبہ کے لحاظ سے اشرف اور سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺکے نزدیک با عزت اور سب سے زیادہ آپؐ کے نزدیک قابل وثوق تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام کی طرف سے اور اپنے رسول کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے ۔
اے ابو بکرؓ! آپ رسول اللہﷺ کے نزدیک بمنزلہ کان اور آنکھ کے تھے ۔ آپؓ نے رسول اللہ ﷺکی تصدیق اس وقت کی جب تمام لوگ آپ کی تکذیب کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام اپنی کتاب میں صدیق رکھا ۔چنانچہ فرمایا وَالَّذِی جَآء بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِہٖ۔اور وہ شخص جو سچ لایا او روہ شخص جس نے اس کی تصدیق کی سچ کو لانے واے محمدؐ ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے ابو بکرؓ ہیں۔ اے ابو بکر ؓ! آپ نے رسول اللہؐ کی غمخواری اپنے جان و مال سے اس وقت کی جب اور لوگ مال سے بخل کرتے تھے ۔ آپ نے ان کی رفاقت مصائب کے ایسے وقت میں کی جبکہ اور لوگ آپ کی اعانت سے بیٹھ رہے تھے ۔ آپ نے سختی کے زمانے میں ان کی صحبت اختیار کی۔ آپؓ صحابہؓ میں سب سے مکرم ثانی اثنین، غار میں رسو ل اللہ ﷺکے ساتھی تھے ۔ جس وقت خدا کی طرف سے سکینت اور وقار اتارا گیا ۔ آپ ہجرت میں رسول اللہﷺ کے رفیق اور دین میں اور امت میں ان کے خلیفہ تھے۔ آپ نے فرائض خلافت کو خوب ادا کیا اور اس وقت آپ نے وہ کام کیا جو کسی نبی کے خلیفہ نے نہ کیا تھا ۔ آپ مستعد رہے جبکہ آپ کے ساتھی سستی ظاہر کرتے تھے ۔ آپ میدان میں آگئے جبکہ وہ چھپ رہنا چاہتے تھے اور آپ قوی رہے جبکہ وہ ضعف ظاہر کرنے لگے ۔ اور آپ نے طریقۂ رسول ﷺ کو مضبوط پکڑا جبکہ وہ لوگ ادھر ادھر بھٹکنے لگے ۔ آپ کی خلافت منافقوں کی ذلت، کافروں کی ہلاکت ، حاسدوں کی ناگواری اور باغیوں کی ناخوشی کا سبب تھی اور آپ اس وقت امر حق کے اجراء میں قائم ہوئے جبکہ اور لوگوں نے ہمتیں پست کر دی تھیں اور آپ ثابت قدم رہے جبکہ اور لوگوں میں تردد پیدا ہو گیا اور آپ نور الٰہی کے ساتھ خطرناک راستوں سے گذر گئے جبکہ اور لوگ توقف پذیر ہو گئے ۔ پھر آپ کو راہ پر دیکھ کر سب نے آپ کی پیروی کی اور سب نے راہ پائی اور آپ آواز میں سب سے پست تھے اور فوقیت میں سب سے برتر۔ آپ کلام میں سب سے بہتر تھے ۔ آپ کی گفتگو سب سے ٹھیک اور آپ کی خاموشی سب سے بڑھی ہوئی ہوتی تھی ۔ آپ کا قول سب سے بلیغ ہوتا تھا اور آپ کا دل سب سے زیادہ شجاع تھااور سب سے زیادہ امور (دینی و دنیوی) کے پہچاننے والے تھے اور عمل کے لحاظ سے سب میں اشرف تھے (اے صدیقؓ)قسم خدا کی آپ دین کے سردار تھے، ابتدا میںبھی جب لوگ دین سے بھاگے تھے اور آخر میں بھی جبکہ لوگ (دین کی جانب)متوجہ ہوئے آپ مسلمانوں کے مہربان باپ تھے۔ یہاں تک کہ سب مسلمان آپ کے با ل بچے تھے اور جس بار کے اٹھانے سے وہ ضعیف تھے وہ بار آپؓ نے (اپنے سر پر)اٹھا لیا اور جو امور ان سے فرو گزاشت ہوئے تھے آپ نے ان کی نگہداشت کی اور جس کو انہوں نے ضائع کیا آپ نے اس کی حفاظت کی اور جس بات سے وہ جاہل رہے آپ نے اسے جان لیا اور جس وقت وہ (اجراء امور دین میں)سست ہوئے تو آپ (ان کاموں میں کمر باندھ کر) مستعد ہوگئے اور جب وہ لوگ گھبرائے تو آپ نے صبر (و استقلال)سے کام لیا۔ پس ان کے مطالب کے قصور کو معلوم کر لیا اور آپ کی رائے سے اپنے مقاصد کی طرف راہ یاب ہوئے تو انہوں نے اپنی مراد کو پایا اور آپ کے سبب سے (ان مدارج علیا کو) پہنچے کہ جس کا انہیں گمان ہی نہ تھا (اے ابو بکرؓ )آپ کافروں پر (تو)عذاب آسمانی اور (غضب الہٰی کی )آگ تھے اور ایمانداروں کیلئے (خدا کی ) رحمت اور انس اور (ایک مضبوط)قلعہ تھے پس (ان محامدو کمالات کے سبب) آپ اس خلافت (کے دریا) میں داخل ہوئے اور انتہا تک پہنچ گئے اور اس کے فضائل حاصل کر لئے اور اس کے سوابق پائے اور (باوجود یکہ یہ کام مشکل تھا مگر)آپ کی حجت نے کمی نہ کی اور آپ کی بصیرت ضعیف نہ ہوئی اور آپ کے دل نے بزدلی نہ کی اور آپ کا قلب نہ گھبرایا اور آپ (خلافت میں آکر) حیران نہیں ہوئے۔ آپ مثل پہاڑ کے تھے جسے بادل کا گرجنا اور تیز آندھیاں اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکیں اور (اے ابو بکرؓ درحقیقت) آپ موافق ارشاد رسولؐ اللہ کے اپنی رفاقت اور مال سے سب سے زیادہ رسولﷺ اللہ پر احسان کرنے والے تھے اور نیز حسب ارشاد نبویؐ آپ اپنے بدن میں ضعیف تھے مگر خد اکے کام میں قوی تھے۔ منکسر النفس تھے مگر خدا کے نزدیک باعظمت تھے۔ لوگوں کی نظروں میں جلیل(القدر) تھے ان کے دلوں میںبزرگ تھے۔ کسی شخص کو آپ پر موقع نہ ملتا تھا اور نہ کوئی گرفت کرنے والا آپ میں عیب نکال سکتا تھا اور نہ کوئی آپ سے (خلاف حق) کی طمع کر سکتا تھا اور نہ کسی کی آپ کے یہاں(ناجائز)رعایت تھی (جو)ضعیف و ذلیل تھا وہ آ پ کے نزدیک قوی غالب تھا ۔ یہاں تک کہ آپ اس سے حق دار کا حق لے لیتے تھے۔ اس بار ہ میں قریب و بعید آپ کے نزدیک یکساں تھے۔ سب سے زیادہ مقرب آپ کے یہاں وہ تھا جو اللہ کا بڑا مطیع اور اس سے بڑا ڈرنے والا تھا۔ آپ کی شان حق(کام کرنا)اورسچ بولنا اور نرمی کرنا تھی۔ آ پ کی بات (لوگوں کیلئے) حکم اور قطعی(حکم )تھی اور آپ کا کام سراسر حلم و ہوشیاری تھا۔ آپ کی رائے علم اورعزم تھی آپ نے جب مفارقت کی تو (ہم کو اس حال میں چھوڑا) کہ راہ صاف تھی اور دشواریاں آسان ہوگئی تھیں ۔اور (ظلم و تعدی کی )آگ بجھ گئی تھی اور آپ (کی ذات)سے ایمان قوی ہوگیا تھا اور اسلام مستحکم اور مسلمان ثابت قدم ہوگئے تھے اور خداکا حکم ظاہر ہوگیا تھا اگرچہ کافروں کوناگوار گزرا۔
پس خدا کی قسم (اے ابوبکرؓ)آپ (اوصاف حسنہ میں سب سے )بڑھ گئے اور بہت دور پہنچے اور آپ نے اپنے بعد کے لوگوں کو سخت تعب (و تکلیف) میں ڈالا(کیونکہ امور خلافت میں آپ کی جیسی کوئی شخص کو شش نہیں کر سکتا)اور واضح طورپر خیر تک پہنچے اب آپ نے (اپنی وفات کے صدمہ سے سب کو) رونے (اور غم کرنے )میں مبتلا کیا ۔ آپ کی مصیبت(وفات)آسمان میں بڑی باعظمت ہے اورآپ کے (فراق)کی مصیبت نے لوگوں کو شکستہ (دل اور ویران خاطر)کردیا۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ہم اللہ سے اس کے حکم پر راضی ہوئے اور اس کا کام اسی کے سپرد کیا ۔ قسم خدا کی رسول اللہ ؐ کے بعد کبھی مسلمان آپ کے جیسے شخص (کی وفات) کی مصیبت نہ اٹھائیں گے۔ آپ دین کی عزت اور دین کی حفاظت اور دین کی پناہ میں تھے اور مسلمانوں کے مرجع و ماوٰی اور ان کے فریاد رس تھے اور منافقوں پر سخت اور (ان کے )غصہ (کا سبب) تھے۔ اللہ آپ کو آپ کے نبی ؐ سے ملادے اور ہمیں آپ کے (غم میں صبر کرنے کے) اجر سے محروم نہ رکھے اور آپ کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ راوی کا بیان ہے کہ سب لوگ (اس تقریر کے وقت) خاموش رہے یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے اپنی تقریر ختم کی(اور جب آپ نے یہ تقریر ختم کی تو)پھر سب روئے یہاں تک کہ ان کے رونے کی آواز بلند ہوئی ۔پھر سب نے کہا اے رسولؐ اللہ کے داماد ! آ پ نے سچ فرمایا۔(91)
شادی اور اولاد
حضرت ابوبکرؓ کی چار شادیاں تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں قتیلہ بنت عبدالعزی سے نکاح کیا جس سے عبداللہ اور اسماء پیدا ہوئے۔ دوسرا نکاح ام رومان کنانیہ سے کیا جن سے عبدالرحمن اور عائشہؓ (ام المومنین)ہوئے۔
زمانہ اسلام میں پہلے حضرت جعفرؓ کی بیوہ حضرت اسمائؓ بنت عمیس سے شادی کی۔ جن سے محمد بن ابی بکر ہوئے۔ اسی طرح حبیبہ بنت خارجہ بن زید انصاریہ سے نکاح کیا جن سے آپ کی وفات کے بعد ام کلثوم پیدا ہوئیں۔(92)
امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ابو بکرؓ ایک عظیم بہادر ،جری، عبقری اور مرد خدا تھا ۔ اس نے ہر اس شخص سے مقابلہ کیا جس نے اسلام کو چھوڑ ا ۔ اس نے اسلام کی اشاعت کیلئے شدائد برداشت کیں ۔ اور ان لوگوں کو ہلاک کیا جنہوں نے جھوٹے نبوت کے دعوے کئے تھے۔۔ ۔ آغاز سے ہی ، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، ابو بکرؓ کے لئے میرے دل میں ایک محبت ڈالی گئی ہے اور میں نے اس کی رکاب کو پکڑ لیا اور اس کی پناہ میں آگیا اور تب اللہ نے مجھ پر اپنی رحمت نازل کی اور میری تائید فرمائی اور مجھے ان معزز لوگوں میں سے بنا دیا جو اس صدی کا مجدد ہے ۔ یہ سب کچھ جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا۔ آنحضوؐرکی برکت اور ان مقرب لوگوںکی محبت کی وجہ سے ہے ۔ خدا کی قسم ! ابو بکرؓ آنحضرتﷺ کا صاحب حرمین بھی تھا مکہ اور مدینہ میں اور دونوں قبروں قبرِ غار اور قبرِ مدینہ میں بھی وہ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کا ساتھی ہے۔ جس کی ذات اور خلافت کی قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے ۔
اگر صدیقؓ اکبر نہ ہوتا تو اسلام کے اندر ضعف داخل ہو جاتا اسلام کو جو اللہ تعالیٰ نے حسن و جمال اور سرسبزی و شادابی بخشی وہ ابوبکر ؓ کی وجہ سے ہی عطا فرمائی ۔ اس نے کوئی اجر نہیں مانگا اور رضائے باری کے لئے یہ سب کام کیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم پر بھی رحم کر۔پس اے نعمتوں والے تو سب رحم کرنے والوںسے بڑھ کر رحم کرنیوالا اور بہتر رحم کرنے والا ہے ۔ اے اللہ ! تو ہم پر رحم فرما۔ آمین‘‘(93)
حوالہ جات
1-
اصابہ جز 4صفحہ102
2-
ابن ہشام جلد 1صفحہ288
-3
روض الانف جلد 1ص 288
-4
سیرت الحلبیہ جلد 1ص 275،البدایہ جلد3ص 29
-5
ابن ہشام جلد 1ص 267
6-
استیعاب جلد 1صفحہ 341
-7
طبری جلد 2ص 314
8-
اصابہ جز 4صفحہ102و بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابی بکرؓ
-9
سیرت الحلبیہ جلد 1ص 295
10-
بخاری کتاب التفسیر(40)سورۃ المومن و سیرت الحلبیہ جلد 1ص 294
-11
بیھقی جلد 2ص 167
12-
بخاری کتاب مناقب الانصار باب ھجرۃ النبیؐ
13-
بخاری کتاب مناقب الانصار باب ھجرۃ النبیؐو سیرت الحلبیہ جلد 2ص 44،استیعاب جلد 3ص 95
14-
سیرت الحلبیہ جلد 2ص 45و مسند احمد جلد 1ص 5
-15
ابن سعد جلد 8ص 62
-16
مجمع الزوائد جلد 9ص 46
-17
بخاری کتاب التفسیر
-18
کنز العمال جلد 5ص 658
-19
بخاری کتاب المغازی
-20
بیھقی جلد 4ص 48
-21
مجمع الزوائد جلد 9ص237
-22
ابن ہشام جلد 3ص 346
-23
بخاری کتاب الشروط باب الشروط و المصالحہ
-24
بخاری کتاب المغازی باب دخول النبی ؐمن اعلیٰ مکہ
25-
ابن سعد جلد 3 صفحہ174
26-
بخاری کتاب المغازی
-27
مستدرک حاکم جلد3ص 477،استیعاب جلد 3ص 96
28-
بخاری کتاب المغازی
29-
بخاری کتاب الحدود،ابن سعد جلد 3ص 151،بیھقی جلد8ص 143
30-
اازالۃ الخفاء مترجم ص240،استیعاب جلد 3ص 97
-31
مجمع الزوائد جلد 5ص 183و کنزالعمال جلد 3ص 130،140
32-
بخاری کتاب الزکوٰۃ
33-
بخاری کتاب فضائل القرآن
-34
ازالۃ الخفاء ص 276
-35
استیعاب جلد 3ص 99
-36
تاریخ ابن خلدون جز 2ص 60تا65
-37
تاریخ ابن اثیر جلد1ص134
-38
تاریخ ابن اثیر جز 1 ص142
-39
بخاری کتاب الزکوۃ،طبری مترجم اردوجلد2ص63
-40
بخاری فضائل القرآن
-41
مسند احمدجلد 1ص 9
-42
بخاری کتاب المغازی
-43
ابن اثیرمترجم اردوجلد3ص 87 تا108
-44
ابن اثیرمترجم جلد3ص 115تا141
-45
نہج البلاغہ قسم سوم ص 383مطبوعہ مصر
-46
مسند احمد جلد 1صفحہ8،استیعاب جلد 3ص 101
47-
مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ73 مطبوعہ مصر
48-
مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ68
49-
جامع الصغیر صفحہ5
-50
سر الخلافہ روحانی خزائن جلد 8 ص355ترجمہ از عربی
51-
مسند احمد جلد 1صفحہ8
52-
مسند احمد جلد 1صفحہ8
53-
اصابہ جلد 4 صفحہ164
54-
مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ4
55-
ترمذی ابواب الدعوات
56-
مسند احمد جلد 1صفحہ5
57-
مسند احمد جلد 1صفحہ3
58-
بخاری کتاب المناقب
59-
مسند احمد جلد 1صفحہ5
60-
مسند احمد جلد 1صفحہ9
61-
مسند احمد جلد 1صفحہ11
62-
بخاری کتاب المناقب
63-
مسند احمد جلد 1صفحہ6
-64
بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف
65-
مسند احمد جلد 1صفحہ5
66-
مسند احمد جلد 1صفحہ5
67-
بخاری کتاب اللباس
68-
استیعاب جلد 3ص 98
69-
بخاری کتاب المغازی
70-
استیعاب جلد 3ص 101
-71
مسند احمد جلد 1صفحہ10
72-
مسند احمد جلد 1صفحہ7
73-
مسند احمد جلد 1صفحہ6
74-
مسند احمد جلد 1صفحہ3
75-
مسند احمد جلد 1صفحہ8
-76
مجمع الزوائد جلد 9ص 46
77-
بخاری کتاب المغازی
-78
استیعاب جلد 3ص 94، اسد الغابہ جلد3 صفحہ218
-79
ابن سعد جلد3 صفحہ184
80-
مسند احمد جلد 1صفحہ8،اسد الغابہ جلد3ص 219
-81
ابن اثیر مترجم جلد سوم ص 134
-82
مجمع الزوائد جلد 3ص164و اسد الغابہ جلد 3ص 217
83-
بخاری کتاب الصوم
84-
اسدالغابہ فی جلد 3صفحہ209
85-
حلیۃ الاولیاء جلد 1 صفحہ34
86-
مسند احمد جلد4صفحہ4
-87
استیعاب جلد 3ص 93
-88
ترمذی کتاب المناقب باب قولہ لَا یَنبَغِی لقوم فیھم ابوبکرؓ
-89
ترمذی کتاب المناقب باب قولہ لامرأۃِ
-90
بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف ومسلم کتاب المناقب ، باب مناقب ابی بکرؓ
-91
مجمع الزوائد جلد9ص 46،ازالہ الخفاء مترجم ص265تا268
-92
ابن اثیر جلد سوم ص 131
-93
سر الخلافہ روحانی خزائن جلد8ص393
حضرت علی ؓ
نام ونسب
درمیانہ قد،سیاہ آنکھیں،حسین چہرہ جیسے چودہویں کا چاند،لمبی گردن فربہ جسم ،چوڑے کندھے یہ تھے حضرت علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم۔خاندان بنی ہاشم کے چشم و چراغ۔والدکا اصل نام عبدمناف اور کنیت ابوطالب تھی۔ والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں۔ حضرت علیؓ کی کنیت ابوالحسن تھی۔ بعثت نبوی سے دس سال قبل پیدا ہوئے۔(1)
خاندان بنی ہاشم کو خانہ کعبہ کی خدمت کی سعادت حاصل تھی۔ اور اس لحاظ سے وہ تمام عرب میں مذہبی لیڈر سمجھے جاتے تھے۔
ابوطالب حضرت علیؓ کے والد رسول اللہ ﷺکے حقیقی چچاتھے۔ انہوں نے آنحضرتؐ کی پرورش کمال محبت اور شفقت سے کی بلکہ دعویٰ رسالت کے بعد جب کفار قریش کی مخالفت کا آغاز ہوا۔ ابو طالب نے رسول اکرمﷺکی حمایت کا بیڑا اُٹھایا اور ہمیشہ آپؐ کے سامنے سینہ سپر رہے۔ خاندان ابو طالب تین سال تک رسول اللہﷺکے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور رہ کردشمنان اسلام کا تختۂ مشق ستم بنتا رہا۔ عام روایات کے مطابق ابوطالب کو قبول اسلام کے برملااظہار کی توفیق نہیں ملی۔ مگر انہوںنے رسول اللہ ﷺکوہمیشہ سچا جانا اور آپؐ کا ساتھ دیا۔(2)
ابو طالب کا اظہار صداقت
ایک دفعہ ابوطالب نے اپنی بیماری میں رسول اللہ ﷺسے خواہش کی کہ اپنے اس رب سے دعا کریںکہ وہ مجھے اچھا کردے۔ رسول اللہﷺ نے دعا کی جس سے ان کو فوری افاقہ ہوا۔اس پر ابوطالب بے اختیار کہہ اُٹھے ’’اے محمدؐ واقعی تجھے تیرے رب نے بھیجا ہے اور وہ تیری بات بھی خوب مانتا ہے۔‘‘رسول اللہﷺنے فرمایا ’’اور آپ بھی اے چچا اللہ کی اطاعت کریں گے وہ بھی آپ کی مانے گا۔‘‘(3)
پھر ابوطالب نے جس جرأت جواں مردی اور استقلال سے رسول کریمﷺکی نصرت و حمایت کی اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ ان کا نام ہمیشہ احسان مندی کے جذبات کے ساتھ یادرکھا جائے گا۔
حضرت علیؓ کی والدہ حضرت فاطمہؓ بنت اسد نے شفیق ماں کی طرح رسول اکرمﷺکی پرورش فرمائی تھی۔ انہیں نہ صرف قبول اسلام بلکہ ہجرت مدینہ کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ مدینہ میں ہی انہوں نے وفات پائی۔ رسول اللہﷺنے اپنا قمیص مبارک ان کے کفن کے لئے عطاکیا اور فرمایا ’’میں ابوطالب کے بعد اس نیک سیرت خاتون کا ممنون احسان ہوں۔ ‘‘
قبول اسلام
حضرت علیؓ ابھی کم سن بچے تھے جب ان کے والد ابوطالب کو ایک بڑا کنبہ پالنے کا بوجھ اور تنگی اُٹھانی پڑی۔ آنحضرت ﷺنے اپنے پیارے چچا کا ہاتھ بٹانے کی خاطر حضرت علیؓ کی کفالت اپنے ذمّے لے لی۔ اور یوں حضرت علیؓ شروع ہی سے آنحضرت ﷺکے زیر تربیت آگئے۔وہ دس سال کے ہوئے تو رسول اکرمﷺنے دعوی نبوت فرمایا۔
ایک دفعہ حضرت علیؓ نے آپؐ کو حضرت خدیجہؓ کے ساتھ عبادت کرتے دیکھا تو پوچھا کہ آپؐ کیا کررہے تھے۔ آنحضرت ﷺنے اپنے منصب نبوت کا ذکر کرتے ہوئے کفروشرک کی تردید کی اور حضرت علیؓ کو دعوت اسلام دی۔حضرت علیؓ تو پہلے ہی آپؐ کے فیض تربیت اور صحبت سے منور ہوچکے تھے۔ فوراً اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی۔ یوں تبلیغ کے عام اعلان سے پہلے بچوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ کو قبولیت اسلام کا شرف حاصل ہوا۔اس وقت ان کی عمر 10سے 15برس تھی ۔ فرماتے تھے کہ میں پہلامرد ہوں جس نے رسولؐ اللہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔ (4)
تائید حق اور دعوت الی اللہ
چوتھے سال نبوت میں رسول کریمﷺ کورشتہ داروں کو ہوشیار کرنے کا حکم ہوا تو آپ ؐ نے حضرت علیؓ کو ارشاد فرمایا کہ اپنے خاندان تک پیغام اسلام پہنچانے کے لئے ایک دعوت طعام کا اہتمام کریں۔ حضرت علی ؓ نے بکری کے پایوں کے سالن اور دودھ کا انتظام کیااور خاندان کے چالیس افراد کو اس دعوت پر بلایا گیا۔ دعوت کے بعد آنحضرتﷺ نے خاندان بنی مطلب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’خدا کی قسم میں تمہارے سامنے دنیا وآخرت کی بہترین نعمت پیش کررہاہوں۔ کون ہے جو اس کام میں میرا معاون اور مددگار ہوگا؟‘‘
اس وقت خاندان میں سے کسی اور کوتو توفیق نہ ہوئی، مگر یہ کم سن بچہ کھڑا ہوا، جس کی آنکھوں سے آشوب چشم کی وجہ سے پانی بہ رہا تھا، مگر کمال ہمّت وعزم سے اس نے کہا ’’یا رسولؐاللہ ہر چند کہ میں کمزور اور ناتواں ہوں میں اس راہ میں آپؐ کی مدد کے لئے حاضر ہوں ۔ ‘‘ رسول ؐاللہ نے آپؓ کو بیٹھنے کا ارشاد فرمایا اور اپنے رشتہ داروں کے مجمع کے سامنے پھر یہی سوال دہرایا ، دوسری دفعہ پھر حضرت علی ؓ کے سوا کوئی اور نہ اُٹھا۔ تیسری مرتبہ بھی جب حضرت علی ؓ نے ہی نہایت دلیری اور جانبازی کے ساتھ اپنی خدمات اسلام کی تائید کے لئے پیش کردیں تو رسول اللہؐ بہت خوش ہوئے۔ (5)
حضرت علیؓ کی فدائیت اور جانثاری
حضرت علیؓ نے زندگی بھر اس تعلّق کا حق خوب ادا کیا ۔ چنانچہ اہل مکہ نے باہم مشورہ کرکے جب رسول اکرمؐ کے گھر پر حملہ آور ہوکرآپؐ کو قید کرنے یا قتل کا منصوبہ بنایا۔ تو وحی الہٰی سے آپؐ کو دشمنوں کے اس ارادے کی اطلاع ہوگئی۔ ہجرت مدینہ کا حکم ہوا تو حضورﷺنے احتیاطی تدبیر کے طور پر حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر استراحت کا حکم دیا۔حضرت علیؓ رسول اللہﷺ کی سرخ چادر اوڑھ کرلیٹ گئے۔(6) تاکہ دشمنوں کو آپؐ کے مکہ چھوڑنے کا علم نہ ہو۔
ساری رات مشرکین نے حضرت علی ؓ کو نبی کریمﷺسمجھ کرحراست میں لئے رکھا۔صبح وہ آپؐ کو گرفتار کرنے کے لئے لپکے تو آپؐ کی جگہ حضرت علی ؓ کودیکھ کر سخت مایوس ہوئے۔ (7)
اس دوران حضرت علی ؓ پر اسی طرح سنگ باری کی جاتی رہی جس طرح رسول اللہﷺپر سنگباری کی جاتی تھی۔ (8)
علی الصبح جب مشرکین نے رسول اللہﷺکی جگہ حضرت علی ؓ کو پایا تو پہلے ڈانٹ ڈپٹ کر آپ ؓ سے رسول اللہ ﷺکا اتہ پتہ پوچھتے رہے ۔انہیں زدوکوب بھی کیا۔پکڑ کر خانہ کعبہ میں لے گئے اور کچھ دیر محبوس رکھا۔ جب حضرت علیؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺپر نگران نہیں تھا۔ تم نے انہیں مکّہ سے نکل جانے کا کہا اور وہ چلے گئے تب کہیں آپؓ کی جان چھوٹی۔(9)
حضرت علیؓ کا بائیس سال کی عمر میں رسول کریمﷺکی خاطر اپنی جان کو یوں خطرے میں ڈالنا ان کے اخلاص و فدائیت کو خوب ظاہرکرتا ہے۔انہیںبجاطورپر حفاظت و خدمت رسول ؐ کی اپنی اس سعادت پرفخر تھا اپنے منظوم عربی کلام میں کیا خوب فرماتے ہیں:۔
وَقَیْتُ بِنَفْسِی خَیْرَمَنْ وَطِیَٔ الحَصَا
وَمَن طَافَ بِالبَیتِ العَتِیقِ وَبِالحَجَر
وَبَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ فِی الغَارِآمِنًا
مُوقی وَفِی حِفظِ الِالٰہِ وَفِی سِترِ
وَبِتُّ اُرَاعیھِم وَلَم یَتِّھِمُونِی
وَقَد وَطَّنتُ نَفسِی عَلَی القَتلِ وَالاَسرِ
یعنی میں نے اپنی جان فدا کرکے وادی بطحا پر قدم رنجافرمانیوالی بہترین ہستی کی حفاظت کی۔ ہاں اس وجود کی جو بیت اللہ اور حجر کا طواف کیا کرتاتھا۔
خدا کے رسول نے غار(ثور)میں بے خوف کفارسے بچ کراللہ کی حفاظت وامان میں رات بسرکی۔ اور میں نے دشمن کی نگرانی کرتے ہوئے رات گزاردی اس طرح(نڈرہوکر) کہ وہ مجھ پر کوئی تہمت نہیں لگاسکے۔دراں حالیکہ میں نے اپنے آپ کو قتل اور قید کے لئے تیارکرلیا تھا۔
رسول اللہﷺ کے ارشادکے مطابق حضرت علیؓ دوتین روز کے بعد اہل مکہ کی امانتیں لوٹاکر ہجرت کرکے مدینہ آئے اور نبی کریمؐ کے ساتھ فروکش ہوئے۔سفر ہجرت میں بھی بہت تکلیف اٹھائی راتوں کو سفر کرتے اور دن چھپ کر گزارتے ، پیدل چلنے سے پائوں زخمی ہوگئے مدینہ پہنچے تو رسول اللہﷺ انہیںدیکھ کر رو پڑے اور گلے لگالیا۔(10)
رسول کریمﷺ نے مکہ میں مہاجرین کے درمیان مؤاخات قائم کرتے ہوئے اور پھر ہجرت کے بعد مدینہ میں مواخات کے موقع پر حضرت علیؓ کو اپنا بھائی اورساتھی قرار دیتے ہوئے فرمایاتم دنیا اور آخر ت میں میرے بھائی ہو۔(11)
غزوہ بدر میں شرکت اور بہادری
بدر کا معرکہ پیش آیا تو رسول اکرمﷺ ۳۱۳ جاں نثاروں کے ساتھ مدینہ سے نکلے آگے آگے دو عَلَمْ تھے۔ ایک جھنڈا حضرت علیؓ کے ہاتھ میں تھا۔(12) بدر کے قریب پہنچے تو رسول اکرمﷺ نے حضرت علیؓ کی سرکردگی میں ایک دستہ دشمن کی نقل وحرکت معلوم کرنے کے لئے روانہ فرمایا۔ انہوں نے نہایت حکمت عملی کے ساتھ یہ خدمت سرانجام دی۔ ۱۷ رمضان المبارک کو مسلمان اورکفار میدان بدر میں آمنے سامنے ہوئے۔ سردارانِ قریش نے مبارزت طلب کی پہلے تین انصاری مقابلے کے لئے نکلے۔ قریش نے مطالبہ کیا کہ ہمارے ہم پلّہ قبیلہ قریش کے مردوں کو مدمقابل لایا جائے۔ تب رسول اللہ ﷺنے فرمایا’’کھڑے ہوجائو اے حمزہؓ او راے علیؓ تم مقابلہ پر نکلو۔‘‘
حضرت علیؓ سفیدپٹکے میں نمایاں تھے۔ ارشاد رسولؐ کی تعمیل میں یہ سربکف جوان میدان میں اترکراپنے شکارپر جھپٹا۔ اپنے حریف ولید کا ایک ہی وار میں خاتمہ کردیا پھر عبیدہ کی مدد کو بڑھے اور ان کے حریف شیبہ کو بھی ختم کرکے دم لیا۔ جب مشرکین نے اپنے سرداروں کو یوں قتل ہوتے دیکھا تو مسلمانوں پر عام حملہ کردیا۔ اس موقع پر شیر خدا حضرت علیؓ نے خوب بہادری کے جوہر دکھائے اور دشمنوں کی صفوں کی صفیں الٹ کررکھ دیں۔
روایت ہے کہ حضرت علیؓ بہادر سورما کی طرح دشمن کی صفوں پرٹوٹے پڑتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اب یہ واپس مکّہ جاکر وہاں کی کھجوریں کبھی نہ کھائیں گے۔
سرولیم میور نے حضرت علیؓ کی اس بہادرانہ شان کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے کہ’’ میدان بدر میں علیؓ اپنے لمبے اور سرخ پھُریرے کے ساتھ اور زبیرؓ اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زردپگڑی کے ساتھ بہادران الیڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے۔دشمن کے واسطے گویا موت و پریشانی کا سامان ساتھ لے جاتے تھے۔ یہ وہ نظارے تھے جہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیروتربیت پذیر ہوئے۔‘‘(13)
حضرت فاطمہؓ سے شادی
۲ہجری میں حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حضرت فاطمہؓ سے عقد کی درخواست کی جسے حضورﷺ نے بخوشی قبول فرمایا۔حضرت علیؓ نے حق مہر میں اپنی ایک اونٹنی مالیتی480درہم اور زرہ مالیتی 20درہم کل پانچ صد درہم پیش کی۔ نبی کریمؐ نے ہدایت فرمائی کہ اس رقم کا ایک حصّہ خوشبو وغیرہ کے لئے، دوسرا حصّہ کپڑوں کے لئے اور تیسرا حصّہ دیگر اخراجات میں صرف ہو۔(14)
اس بابرکت نکاح کا اعلان خودرسول کریمﷺنے فرمایاجس میں مہاجرین وانصار کے بزرگ شامل ہوئے۔ رسول کریمﷺنے خطبہ میں اللہ کی حمد کے بعدفرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح فرض قراردیا ہے اور اس کے ذریعہ رحمی رشتے قائم فرمائے ہیں ۔قضاء وقدرکے مضمون کی طرف اہم اشارے فرماکر آپؐ نے اعلان نکاح فرمایا۔ حضرت علی ؓ سے رضامندی لی پھر چھوہاروں کا ایک طشت تقسیم کروایا اورحضرت علی ؓ اورفاطمہؓ کونیک نسل کی دعا دی۔اور حضرت فاطمہؓ سے فرمایاتمہارا شوہر دنیا و آخرت میں سردار ہوگایہ میرے اولین صحابہ میں سے اور علم و حلم میں دوسروں سے بڑھ کر ہیں۔حضرت اسمائؓ بنت عمیس کہتی تھیں کہ مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب رسول کریمؐان دونوں کیلئے بوقت رخصتی خاص دعا کر رہے تھے۔(15)
رسول پاک ﷺنے دونوں میاں بیوی پر اپنے وضو کا پانی چھڑک کر دعائے خیردی۔حضرت فاطمہؓ کو آنحضرت ؐ نے نہایت سادگی سے رخصت فرمایا۔ گھریلو ضرورت کی چند چیزیں چارپائی بسترچادر آٹے کی چکی پیالہ اور چھاننی، مشکیزہ اوردوگھڑے ساتھ دئے۔ یہ تھی بوقت شادی سرکار دوعالم کی صاحبزادی کی کل کائنات ۔ حضرت علیؓ کی زندگی بھی درویشا نہ تھی۔ دعوت ولیمہ تک کے لئے پاس کچھ نہ تھا۔ چنانچہ جنگل سے گھاس کاٹ کر شہر میں بیچی اور ولیمے کے لئے رقم اکٹھی کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر جب یہ بھی ممکن نہ ہواتوخودرسول کریم ﷺ، حضرت سعدؓ اور بعض اور صحابہ کی اعانت سے پروقار ولیمہ کی تقریب ممکن ہوئی۔ جو کھجورمنقہ جَو کی روٹی پنیر اور شوربے کی دعوت تھی۔ اس زمانے کے اقتصادی حالات اور غربت و سادگی کا اندازہ حضرت اسماء ؓ کی اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے ۔آپؓ فرماتی تھیں کہ اس زمانے میں اس دعوت ولیمہ سے بہتر کوئی ولیمہ نہیں ہوا۔(16)
ایک دن حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے توسینے میں درد ہونے لگا ہے۔ آپ کے اباّ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں، جاکر درخواست کرو کہ ہمیں بھی ایک خادم عطاہو۔ فاطمہؓ کہنے لگیں خدا کی قسم! میرے تو خود چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں گَٹّے پڑگئے ہیں۔ چنانچہ وہ نبی کریمؐ کے پاس آئیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا کہ سلام عرض کرنے آئی ہوں۔پھر انہیں حضورﷺسے کچھ مانگتے ہوئی شرم آئی اور واپس چلی گئیں۔ حضرت علیؓ نے پوچھا کہ کیاکرکے آئی ہو؟وہ بولیں کہ میں شرم کے مارے کوئی سوال ہی نہیں کرسکی۔تب وہ دونوں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضورؐ کی خدمت میں اپنا حال زار بیان کر کے خادم کے لئے درخواست کی۔رسول کریمﷺنے فرمایا خدا کی قسم ! میں تمہیں دے دوں اوراہل صُفّہ (غریب صحابہ) کو چھوڑدوں؟جو فاقہ سے بے حال ہیں اور ان کے اخراجات کے لئے کوئی رقم میسر نہیں۔ان قیدیوں کو فروخت کر کے میں ان کی رقم اہل صفّہ پر خرچ کروں گا۔ یہ سن کر وہ دونوں واپس گھر چلے گئے۔ رات کو نبی کریمﷺان کے گھر تشریف لے گئے۔ وہ اپنے کمبل میں لیٹے ہوئے تھے۔ رسول اللہﷺکو دیکھ کر وہ اُٹھنے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔اپنی جگہ لیٹے رہو۔پھر فرمایا جو تم نے مجھ سے مانگاکیا میںاس سے بہتر چیز تمہیںنہ بتائوں؟انہوں نے کہا ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ چند کلمات ہیں جو جبریل ؑنے مجھے سکھائے ہیں کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمدللہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو۔ جب رات بستر پر جائو توتینتیس مرتبہ سبحان اللہ ،تینتیس مرتبہ الحمدللہ اورچونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھاکرو۔حضرت علیؓ فرماتے تھے جب سے رسول اللہﷺ نے مجھے یہ کلمات سکھائے میں انہیں آج تک پڑھنا نہیں بھولا۔کسی نے تعجب سے پوچھا کہ جنگ صفین کے ہنگاموں میں بھی نہیں بھولے؟ کہنے لگے ہاں جنگ صفین میں بھی یہ ذکر الہٰی کرنامیں نے یادرکھا تھا۔نبی کریمؐ نے ایک اور صحابی کو یہی تسبیحات سو کی تعداد میں پڑھنے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ اس تسبیح کی برکت تمہارے لئے سو غلاموں سے بڑھ کر ہے۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺرات کو ہمارے گھر تشریف لائے مجھے اور فاطمہؓ کو تہجد کے لئے بیدار کیا۔ پھر آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے کچھ دیر نوافل ادا کئے۔اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو نماز پڑھو۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں میں آنکھیں ملتاہوا اُٹھا اور بُڑبڑاتے ہوئے کہہ بیٹھا ’’خدا کی قسم ! جو نماز ہمارے لئے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں۔ ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اُٹھادے۔‘‘رسول کریمﷺواپس لوٹے۔ آپؐ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے میرا ہی فقرہ دہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لئے مقدر ہے پھر یہ آیت تلاوت کی ’’‘‘(الکہف:55)کہ انسان بہت بحث کرنے والا ہے۔
نبی کریمﷺنے حضرت علی ؓ اور ان کے خاندان کو اہل بیت میں سے قرار دیا،انکے لئے دعائیں کیں ان کی اعلیٰ تربیت کی اور نیک توقعات رکھیں۔
روایت ہے کہ نبی کریمﷺچھ ماہ تک فجر کی نما زکے وقت حضرت فاطمہؓ کے دروازے کے پاس گزرتے ہوئے فرماتے رہے۔’’اے اہل بیت! نماز کا وقت ہوگیا ہے‘‘ اور پھرسورۂ احزاب کی آیت:33 پڑھتے کہ’’ اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے۔‘‘
رسول کریمﷺنے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ میں تجھے ایسے دعائیہ کلمات نہ سکھائوں جو تم پڑھو تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت تمہیں نصیب ہو جائے ۔ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ کلمات’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الحَلِیُم العَلِیمُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ العَلِیُّ العَظِیُم لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَ رَبُّ العَرشِ العَظِیمِ‘‘(17)
یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ حلم والا اور جاننے والا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بہت بلند اورعظیم ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمانوں اور عظیم عرش کا رب ہے۔
غزوہ احد میں داد شجاعت
بدر کے بعد معرکہ احد میں بھی شیر خدا حضرت علیؓ نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ جب مشرکین نے دوبارہ مسلمانوں پر حملہ کیااور اسلام کے علمبردار مصعب بن عمیرؓ شہیدہوگئے اس بھگدڑ میں کئی اصحاب کے پائوں اکھڑگئے۔ حضرت علیؓ ان میں تھے جوثابت قدم رہے۔ آپؓ نے موت پر رسول ؐ اللہ کی بیعت کی اور آگے بڑھ کر اسلامی جھنڈا سنبھالا۔ اور نہایت بے جگری سے لڑے۔(18)
مشرکین کے علمبردار سعد بن ابو طلحہ نے حضرت علیؓ کو للکارا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ایساوار کیا کہ وہ زمین پر ڈھیر ہوکر تڑپنے لگا۔حضرت علیؓ نے یکے بعد دیگرے کفار کے علمبرداروں کو تہ تیغ کیا۔رسول ؐ اللہ نے کفار کی ایک جماعت دیکھ کر حضرت علیؓ کو ان پر حملہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت علیؓ نے عمرو بن عبداللہ جمحی کو قتل کرکے انہیں منتشرکردیا۔پھرکفار کے دوسرے دستہ پرحملہ کرنے کا حکم فرمایا اور علیؓ نے شیبہ بن مالک کو ہلاک کیا۔رسول اللہ ﷺے فرمایا ہاں علیؓ مجھ سے اور میں علیؓ سے ہوں۔ اس موقع پر بھی آوازسنی گئی کہ لَافَتٰی اِلَّاعَلِی لَاسَیفَ اِلَّا ذُوالفِقَارِ۔ کہ ذوالفقار کے سوا کوئی تلوارنہیںاورعلیؓ کے سوا کوئی جوان مرد نہیں۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ احد میں بھگڈر کے بعد مجھے رسول اللہﷺنظر نہ آئے۔ میں نے مقتولین کی نعشیں بھی دیکھ ڈالیں جب آپؐ کو نہ پایا تو دل میں کہا کہ خدا کی قسم!رسولؐاللہ بھاگنے والے تو نہیں اور نہ ہی مقتولین میں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے خدا نے ہم سے ناراض ہو کر انہیں اٹھا لیا ہے۔ اب تو بہتر یہی ہے کہ میں لڑ کر جان دے دوں۔چنانچہ میں نے لڑتے لڑتے تلوار کا اگلا سرا توڑ دیا۔ پھر حملہ کرکے آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺدشمن کے عین درمیان تھے۔
حضرت علیؓ نے غزوہ احدسے واپسی پر اپنی تلوار حضرت فاطمہؓ کے سپرد کی اسے سنبھال رکھیں آج یہ جنگ میں خوب کام آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے سن کر فرمایا ’’ہاں!اے علیؓ! آج آپ نے بھی خوب تلوار زنی کی ہے،مگر فلاں صحابہ نے بھی کمال کر دکھایا۔(19)
مشرکین کے حملے کا زور ٹوٹا تو حضرت علیؓ چند صحابہ کے ساتھ آنحضرت ﷺکو احد پہاڑ کے دامن میں لے گئے۔ حضورؐ کا چہرہ خون آلودہ تھا۔آپ اپنی زرہ میں پانی بھر بھرلاتے اور حضرت فاطمہؓ آنحضرت ﷺکے زخم مبارک دھوتیں پھر بھی خون بند نہ ہوا تو چٹائی جلا کراس کی راکھ حضرت فاطمہؓ نے زخم میں ڈالی اور تب جا کر کہیں خون بند ہوا۔
غزوہ خندق میں
۵ہجری میں غزوہ خندق پیش آیا ۔ اس دوران میں ایک بار دشمن کے سواروں نے عرب کے مشہور اور بہادر پہلوان عبدودّکی سرکردگی میں خندق پار کرکے حملے کی کوشش کی۔
عبدودّاسلحہ سے لیس اور زرہ بند ہوکر مسلمانوں کومقابلہ کے لئے للکارنے لگا کہ کوئی ہے جو میرے مقابلہ پر آئے۔ حضرت علیؓ اٹھے تو رسول اللہﷺنے روک لیا۔ اس نے دوبارہ اور سہ بارہ للکارا تو حضرت علیؓ پھر اٹھے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا علی !یہ عرب کا مشہور پہلوان عمروبن عبدودّ ہے۔حضرت علیؓ نے کہا پرواہ نہیں اور پھربہادرانہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ا س نے پوچھا تم کون ہو؟ کہا علی بن ابی طالب۔اس نے کہا تمہارے چچائوں میں سے کوئی تم سے بڑا مقابلہ پر آتاتو بہتر تھا۔حضرت علی ؓنے مقابلہ پر آکر اسے مخاطب کرکے فرمایا کہ سنا ہے تم نے عہد کررکھا ہے کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص تمہیں دوباتوں میں سے ایک قبول کرنے کے لئے کہے تو تم ضرور اسے قبول کرو گے۔ اس نے کہا ہاں۔حضرت علیؓ نے کہا تو پھر میں پہلے تمہیں قبول اسلام کی دعوت دیتاہوں۔ اس نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت علی ؓ نے کہاپھر آئو مقابلہ کرلو۔ وہ بولا۔بھتیجے! خدا کی قسم میں تمہیں قتل کرنا نہیں چاہتا۔حضرت علیؓ نے کہا مگر میں تمہیں قتل کرنا چاہتاہوں اس پر عمرو کو سخت طیش آیا وہ گھوڑے سے اُترکرحضرت علیؓ کے مقابلہ کے لئے بڑھا۔ اس کی تلوار سے جیسے آگ کے شعلے نکل رہے تھے ۔ وہ غضبناک ہوکرحضرت علیؓپر لپکا۔وہ اپنی ڈھال کے ساتھ آگے بڑھے۔ عمرو کی تلوارکا وارانہوںنے ڈھال سے روکا۔جو دوٹکڑے ہوکر رہ گئی ۔حضرت علیؓ کے سر میں کچھ زخم آیا۔انہوںنے عمروکو کندھے پر تلوارماری۔وہ بڑے زور سے کٹ کرزمین پرگرپڑاتوغبار اٹھی۔حضرت علیؓ نے نعرہ تکبیربلند کیا۔ رسول اللہ ﷺسمجھ گئے کہ انہوںنے دشمن کا کام تمام کردیا ہے۔ ان کی اس کامیابی پر رسول ؐ اللہ کا چہرہ خوشی سے دمک رہاتھا۔حضرت عمرؓ نے کہا اے علیؓ!اس پہلوان کی زرہ ہی اتار لیتے کہ وہ عرب کی بہترین زرہ استعمال کرتا تھا۔حضرت علیؓ نے کہا میرے مدمقابل کی پشت عریاں ہوگئی تھی جس کے بعد اس کی زرہ اتارتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوئی۔
معرکہ خندق میں عبدودّ کا قتل ہونا ایک بڑی زبردست کامیابی تھی جس کے نتیجے میں باقی حملہ آورمرعوب ہوئے اور بالآخرپسپاہوئے۔ قبائل یہود بنو نضیر اور بنوقریظہ کے اخراج اور ان کے حریف بنو سعد کی سرکوبی میں بھی حضرت علی ؓ نے نمایاں اور اہم کردار ادا کیا۔
غزوہ بنوقریظہ میں حضرت علیؓپہلے موقع پر پہنچ گئے تھے۔یہود نے رسول اللہﷺاور ازواج مطہرات کے خلاف نازیبا ہرزہ سرائی شروع کررکھی تھی۔ حضرت علی ؓ نے لوائے جنگ حضرت ابوقتادہؓ کے سپرد کرکے رسول اللہﷺ سے جاکر عرض کیا کہ آپؐ ان ناپاک لوگوں کے قریب نہ جائیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا ’’تمہیں خدشہ ہے کہ وہ بدزبانی کریں گے۔‘‘ عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا ’’مجھے دیکھ کر وہ یہ جرأت نہیں کرسکتے۔‘‘(20)
حدیبیہ میں شرکت
۶ہجری میں صلح حدیبیہ میں بھی حضرت علیؓرسول اللہ ﷺکے شانہ بشانہ اوربیعت رضوان میں بھی شریک تھے۔ صلح نامہ بھی آپ نے ہی تحریر فرمایا۔ اس موقع پر آپ کی ایمانی غیرت کا نظارہ قابل دید تھا۔ جب معاہدہ میں رسول اللہ ﷺکے الفاظ لکھے جانے پر کفار نے اعتراض کیا کہ ہم محمد رسول اللہﷺ کو رسول نہیں مانتے اس لیے یہ الفاظ معاہدہ سے حذف کیے جائیں۔ رسول اللہﷺ نے قیام صلح اور امن کی خاطر یہ شرط مان لی تو حضرت علیؓ نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ میںاپنے ہاتھ سے رسول اللہﷺکالفظ مٹانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ رسول اللہﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے لفظ رسول اللہﷺ معاہدہ سے حذف کیا۔(21)
فاتح خیبر
حضرت علیؓ شیرخدا کو فاتح خیبر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ خیبر کی طرف اچانک پیش قدمی سے یہود سراسیمہ ہوکر محصور ہوگئے۔ رسول اللہﷺ روزانہ ایک شخص کوقائد لشکر مقرر فرماتے اور یہودیوں پر بھرپور حملہ کیا جاتا۔ وہ قلعے سے باہر آکر لڑتے اور جب پسپا ہوتے تو قلعہ کے دروازے بند کرلیتے یوں خیبر کی فتح ایک معمہ بن گئی۔ محاصرہ خیبر کی ساتویں رات تھی رسول کریمﷺنے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اپنے صحابہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ کل میں جس شخص کو قائد مقررکرکے جھنڈا عطاکروں گا، خداتعالیٰ اس کے ہاتھ پر خیبر کو ضرورفتح کرائے گا۔وہ صحابہ جنہیں کبھی قیادت کی طلب نہیںہوئی تھی، اس رات یہ تمنا کررہے تھے کہ خیبر کی فتح کی سعادت انہیں عطا ہوجائے پھر اگلی صبح لوگوں نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ رسول اللہؐ نے علم لشکر حضرت علیؓ کو عطافرمایا وہ آشوب چشم کے مریض تھے۔ رسول کریمﷺنے اپنا لعاب دہن اُن کی آنکھوں پرلگایا اس سے وہ اچھے ہوگئے۔حضرت علیؓ فرماتے تھے اس کے بعد کبھی مجھے آشوب چشم کی تکلیف نہیں ہوئی۔حضرت علیؓ علم لے کر خیبر فتح کرنے کے لئے نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے بالآخر آپ کے ہاتھ پر خیبر کی فتح کی بنیاد رکھ دی۔ ہرچند کہ اس فتح میں رسول اللہ ﷺکی خاص توجہ دعائوں، قائدانہ صلاحیتیوں کو بنیادی اہمیت حاصل تھی جس کی بدولت فتح کی رات حضرت عمرؓ نے گشتی پہرے کے دوران یہود کے کچھ جاسوس پکڑے تھے۔ جن سے علاوہ جنگی رازوں کے درونِ خانہ دشمن کے کئی کمزور پہلوبھی سامنے آئے۔ مسلمانوں کے حوصلے اس سے بہت بڑھ گئے۔ اگلے روز حضرت علیؓ علم جنگ لے کرمیدان میں نکلے۔پہلے یہود خیبر کا سب سے بڑا پہلوان مرحب آپ کے مقابلہ کے لئے آیا۔ اس نے بڑے تکبر سے رجزیہ شعر پڑھے۔
عَلِمَت خَیبَرُ اَنِّی مَرحَبٗ شَاکِی السِّلاَحِ بَطَل مُجَرَّبٗ
کہ وادی خیبر کوعلم ہے کہ میں مرحب سردار ہوں اسلحہ سے لیس ایک تجربہ کار پہلوان۔جواب میں حضرت علیؓ نے بڑی شان کے ساتھ جواباً یہ شعر پڑھے۔
اَنَا الَّذِی سَمَّتنِی اُمِّی حَیدَرَہ ضِر غَامُ آ جَامٍ وَلَیثٍ قَسوَرَۃ
کہ میں بھی وہ ہوں جس کی ماں نے اس کا نام حیدر رکھا ہے اور میں نر شیرکی طرح حملہ آور ہوتا ہوں۔ یہ کہہ کرحضرت علیؓ آگے بڑھے اور مرحب کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کا کام تمام کردیا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ یہود کی صفیں پسپا کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کے آہنی دروازوں تک پہنچ گئے۔خطرہ تھا کہ یہود حسب معمول اپنے آہنی دروازے بندکرلیتے اور ایک دفعہ پھرمسلمانوں کو پسپا ہونا پڑتا لیکن حضرت علیؓ نے نہایت حکمت عملی سے آگے بڑھ کر بڑے گیٹ کو اپنے ایک ہاتھ سے پوری قوت سے پکڑے رکھا تاکہ یہود اسے بند نہ کر پائیں۔ دوسرے ہاتھ سے وہ دشمن کامقابلہ کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کے پیچھے آنے والے اسلامی لشکر کو قلعہ خیبر میں داخلے کا موقع مل گیا۔ یوں خیبر کی عظیم الشان فتح کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد باقی قلعے آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے۔
فتح مکہ کے موقع پر بھی مسلمانوں کی خاموش پیش قدمی کا راز افشاء ہونے کا اندیشہ ہوا تو نبی کریمﷺنے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اس قاصد عورت کو گرفتار کرنے کے لئے جو ایک خط لے کر کفار مکہ کی طرف جارہی تھی حضرت علیؓ کی سرکردگی میں ایک دستہ روانہ فرمایا۔ آپ اپنی اس مہم میں بھی نہایت کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے۔
غزوہ حنین ایک عظیم الشان معرکے کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی تو وہ مال غنیمت اکٹھاکرنے میں مصروف ہوگئے۔ دشمن کے تیرانداز مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔اس افراتفری کے عالم میں بارہ ہزار کے لشکر میں سے رسول اللہﷺکے ساتھ جو چند بہادر ثابت قدم رہے۔ ان میں حضرت علیؓ نمایاں تھے۔ جنہوں نے غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے امیر لشکر پر حملہ کرکے اس کاکام تمام کردیا۔ اور یوں دیگرمجاہدین اسلام کے ساتھ مل کر دشمن کے لئے شکست کے سامان پیدا کردیئے۔
۹ہجری میں رسول اللہﷺو نے غزوہ تبوک کا قصدفرمایا تو حضرت علیؓ کو امیرمدینہ مقررفرماکر اہل مدینہ کی حفاظت کی ذمہ داری آپؓ کے سپرد فرمائی۔حضرت علیؓ کو ایک طرف شرکت جہادکی محرومی کا غم تھا تو دوسری طرف منافقین کے طعنوں سے رنجیدہ خاطرتھے کہ آپ عورتوں اور بچوں کے ساتھ پیچھے چھوڑے جارہے ہیں۔ تب رسول پاکﷺنے ان خوبصورت الفاظ میں آپؓ کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا ۔اَمَاتَرضٰی اَن تَکُونَ مِنّی بِمَنزِلَۃِ ہَارُونَ مِن مُوسٰی ۔۔۔الخ
کہ اے علیؓ کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میری تجھ سے وہی نسبت اور قدرومنزلت ہو جو ہارونؑ کی موسیٰؑ کے نزدیک تھی۔ البتہ تم میرے بعد نبی نہیں ہوگے۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے بعدنبی کوئی نہیںہو سکتا۔اس سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ میری عدم موجودگی میں تم بطور امیر محض میرے جانشین ہوگے لیکن نبی نہیں ہوگے۔(22)
اعلان برأت
غزوہ تبوک سے واپسی پر ۹ ہجری میں رسول کریمﷺنے حضرت ابوبکرؓ صدیق کو امیر حج مقررفرمایا اس دوران سور ۃ برأت نازل ہوئی۔ جسے سورۃ توبہ بھی کہتے ہیں۔ رسول کریمؐ نے حضرت علیؓ کو ارشاد فرمایا کہ وہ حضورؐ کی نمائندگی میں مکے جاکر سورۃ سنائیں اور اس کے احکام کا اعلان عام کردیں۔حضرت علیؓ نے اس کی تعمیل کی اور یہ آپ کی عظیم الشان سعادت تھی جو رسول اللہﷺکی انتہائی قرابت کے علاوہ آپ کا دینی مرتبہ بھی خوب ظاہرکرتی ہے۔(23)
یمن میں خدمات
۹ہجری میں حج سے واپسی کے بعد نبی کریمﷺ نے مختلف اطرافِ عرب میں تبلیغی مہمات روانہ فرمائیں۔ حضرت برائؓبن عازب روایت کرتے ہیں کہ یمن کی طرف حضرت خالدؓ بن ولیدکو بھجوایاگیامیں انکے ہمراہ تھا۔چھ ماہ کی مسلسل کوشش کے بعدوہاں دعوت اسلام میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔ اس کے بعد حضرت علیؓ کو رسول اللہﷺنے روانہ فرمایااورخالدؓ کو واپس بلا لیا۔ حضرت براء ؓکہتے ہیں میں حضرت علیؓ کے ساتھ رہا۔ ہم یمن کے قریب پہنچے تو لوگ اکٹھے ہونے شروع ہوگئے۔حضرت علیؓ نے فجر کی نماز پڑھائی، خطاب فرمایا رسول اللہﷺکا پیغام پڑھ کر سنایا اور پورا قبیلہ ایک دن میں مسلمان ہوگیا۔ حضرت علی ؓ نے رسولؐاللہ کی خدمت میں یہ لکھاحضوؐر خوشی سے سجدہ میں گر گئے۔الغرض تھوڑے ہی عرصے میں رسول کریمﷺ کے اس تربیت یافتہ داعی الی اللہ نے اپنی تدابیر کے نتیجے میںپورے عمان قبیلے کو مسلمان کرلیا۔ یمن روانگی کے وقت حضرت علیؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ!مجھے قضا کے بارہ میں کچھ زیادہ علم نہیں۔ رسول کریمﷺنے آپؓ کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا اے اللہ!اس کے دل کو ہدایت اور زبان کو سداد عطا کر۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں اس کے بعد کبھی مجھے دو فریق کے تنازعہ میں کوئی شک پیدا نہیں ہوا۔(24)
حجۃ الوداع میں شرکت
حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علیؓ یمن ہی سے مکہ تشریف لائے۔ اوررسول اللہﷺکے ساتھ اس یادگار آخری حج میں شرکت کی سعادت پائی۔ احرام باندھتے ہوئے آپ نے نیت بھی کیسی باندھی کہ جو نیت رسول اللہ ﷺ کی ہے، اسی کے مطابق میں بھی احرام باندھتا ہوں۔ رسول اللہﷺی نیت حج اور عمرہ دونوں کی تھی۔حضرت علیؓ کو بھی حج وعمرہ کی توفیق ملی۔حجۃ الوداع سے واپسی کے چند ماہ بعد ربیع الاول ۱۱ہجری میں رسول اللہ ﷺبیمار ہوگئے۔حضرت علی ؓ کو تیمارداری اور خدمت کی توفیق ملی۔(25) وفات رسولؐپرحضورﷺکے قریب ترین عزیزہونے کے باعث تجہیزوتکفین کے سب کام حضرت علیؓ کے زیر انتظام سرانجام پائے۔
خلفائے راشدین کے دور میں خدمات
حضرت ابوبکرؓخلیفہ ہوئے تو ان کی بیعت کے بعد حضرت علیؓ نے ان کے انصار و اعوان میںشامل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ حضرت عمرؓاپنے دور خلافت میںاہم کام اور مہمات کے فیصلے حضرت علیؓ کے مشورے سے طے فرمایا کرتے تھے۔حضرت عمرؓ نے ایک مجنون عورت کے ہاں چھ ماہ بعد بچے کی ولادت کو ناجائز سمجھ کر رجم کا ارادہ کیا ۔ حضرت علیؓ نے مشورہ دیا کہ قرآن میں حمل اور دودھ چھڑانے کا عرصہ تیس ماہ اور دودھ پلانے کا دوسال یعنی چوبیس ماہ مذکور ہے اس لئے اصل مدت حمل چھ ماہ بھی ہوسکتی ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے مجنون کومکلف نہیں ٹھہرایا۔ اس پر حد جاری نہ ہوگی۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا’’ اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔‘‘ (26)
حضرت عمرؓ کو جب بیت المقدس کا تاریخی سفر پیش آیا تو مدینہ میں اپنا قائم مقام حضرت علیؓ کو مقرر فرمایا۔بعد میں یہ تعلق مضبوط ہوکرقرابت میں بدل گیا۔جب حضرت علیؓ کی صاحبزادی ام کلثوم حضرت عمرؓ سے بیاہی گئیں۔ حضرت عمرؓ نے بھی اس نکاح کا مقصد خاندان اہل بیت سے رشتہ مصاہرت کا اعزاز پانا ہی قراردیا۔
حضرت عثمانؓ غنی کے زمانہ خلافت میں حضرت علیؓ ان کے مشیر رہے اور فتنہ دور کرنے کے لئے مخلصانہ مشورے دئے۔حضرت عثمانؓ کے استفسار پر حضرت علیؓ نے نہایت ادب سے عرض کیاکہ ان فتنوں کا ایک اہم سبب اموال کی کثرت ہے جن پرحضرت عمرؓ کی طرح سخت گرفت ہونی چاہیے۔
حضرت عثمانؓ کے محاصرے کے وقت بھی حضرت علیؓ نے نہایت جرأت کے ساتھ محاصرین کو تنبیہ فرمائی کہ تمہارا یہ طریق نہ صرف اسلام بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے۔ مگر شرپسندوں نے آپ کی آوازپر کان نہ دھرا۔پھر حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺکا عمامہ پہنا اور تلوار ہاتھ میں لی۔ حضرت حسنؓ اور حضرت ابن عمرؓ آپ کے آگے تھے،مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کے ہمراہ انہوں نے محاصرین پر حملہ کرکے انہیں منتشر کردیا۔ پھر حضرت عثمانؓ سے عرض کیا کہ اس معاملہ کا حل ان محاصرین کے مسلح مقابلہ کے سوا کچھ نہیں جو خلیفہ وقت کے قتل کے در پے ہیں۔ مگرحضرت عثمانؓ نے قسم دے کر فرمایا کہ’’ میںاپنی خاطر کسی مسلمان کا سنگی برابر خون بہانے کی بھی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘حضرت علیؓ نے اپنی رائے پر اصرار کیاتو حضرت عثمانؓ پھر وہی جواب دیا ۔ حضرت شدادؓ بن اوس کہتے ہیں پھر میں نے حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓ کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھا وہ کہہ رہے تھے، ’’اے اللہ تو جانتا ہے کہ ہم نے اپنی تمام کوششیں صرف کر ڈالی ہیں۔‘‘پھر وہ نماز کیلئے مسجد نبوی تشریف لے گئے تو ان سے عرض کیا گیا کہ آپ نماز پڑھادیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ایسی حالت میں جبکہ ہمارا امام اور خلیفہ محصور ہے میں تمہیں نمازنہیں پڑھا سکتا۔میں اکیلے نماز پڑھ لوں گا۔‘‘ پھر آپ تنہا نماز پڑھ کر واپس گھر تشریف لے گئے تو صاحبزادے نے جاکر اطلاع دی کہ محاصرین نے قصر خلافت کی دیوار کود کر حملہ کردیا ہے۔ حضرت علیؓنے رنجیدہ خاطر ہوکر کہا’’خدا کی قسم! وہ انہیں قتل کرکے دم لیں گے۔‘‘انہوں نے پوچھاحضرت عثمانؓ کا یہ انجام کیسا ہے؟فرمایاوہ جنت میں خدا کا قرب پانے والے ہیں ۔ جب پوچھا گیا کہ محاصرین کا کیا انجام ہوگا تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا خدا کی قسم وہ آگ میں ہیں۔اس کے بعد اپنے دونوں صاحبزادوں حضرت حسنؓ اور حسینؓ کوبھجوادیا کہ خلیفہ وقت کے پہرے اور حفاظت کی ڈیوٹی انجام دیتے رہیں۔(27)
انتخاب خلافت
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے المناک واقعہ کے بعدموجود اصحاب رسولؐ اوردیگر سب لوگوں نے حضرت علیؓکی بیعت پراتفاق کااظہار کیا۔ آپؓ نے فرمایا یہ تمہارا حق نہیں ہے بلکہ بدر میں شامل ہونے والے بزرگ صحابہ کا حق ہے۔ وہ جس شخص کے بارے میں متفق ہونگے وہی خلیفہ ہونا چاہئے۔ چنانچہ تمام اصحاب بدرحاضرخدمت ہوئے اور عرض کیا کہ ہم سب آپ کو اس عہدہ کا زیادہ حقدارسمجھتے ہیں۔ہاتھ بڑھائیں اور ہماری بیعت لیں۔حضرت علیؓ نے پوچھا حضرت طلحہ ؓاورحضرت زبیرؓ کہاں ہیں؟ چنانچہ سب سے پہلے حضرت طلحہؓ نے آپ کی بیعت کی۔ پھر حضرت زبیرؓ اوردیگراصحاب نے بیعت کی۔(28)
دور خلافت
الغرض مہاجرین اور انصار کے اصرار پر آپ نے یہ ذمہ داری قبول کرلی۔ حضرت علیؓ کے دورخلافت پر نظر کرتے ہوئے خود حضرت علی ؓ کے اس تبصرے کونہیں بھولناچاہیے۔جب آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کا دور اتنا پرآشوب اور پرفتن کیوں ہے؟انہوں نے کمال حاضرجوابی سے کیسا مُسکت جواب دیا کہ اس سے پہلے محمد ؐ اورآپؐ کے رفقاء کو میرے جیسے خدام میسر تھے۔ مجھے تمہارے جیسے ساتھی حاصل ہیں۔ مگر ان ناموافق حالات کے باوجود حضرت علیؓ نے بھرپور کوشش کی کہ خلافت کواستحکام نصیب ہو۔ اور عدل فاروقی پھر قائم کیا جائے۔
ایک دفعہ یہودنجران نے( جن کو حضرت عمرؓ نے جلاوطن کیا تھا)حضرت علیؓ سے واپسی کی اجازت چاہی۔ آپ نے اجازت نہ دی اور فرمایا حضرت عمرؓ سے بہتررائے کس کی ہوسکتی ہے؟حضرت علیؓقومی اموال کی پوری حفاظت فرماتے اور اس میں کوتاہی پر گرفت کرتے۔ رعایا کے ساتھ شفقت سے پیش آتے۔ان کے لئے ہمیشہ آپ کے دروازے کھلے رہتے۔ حضرت علیؓ کی دینی خدمات میں سب سے اول دعوت الی اللہ اورمسلمانوں کی مذہبی اور دینی تعلیم ہے۔ ایک دفعہ ایک ایرانی نے آپ کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر کیا خوب کہا تھاکہ خدا کی قسم اس عربی نے تو نوشیرواں کی یاد تازہ کردی ہے۔
فضائل
حضرت علیؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے یعنی وہ دس صحابہ جنہیںرسول کریمﷺنے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی۔حضرت عمرؓفرماتے تھے کہ حضرت علیؓ کے تین فضائل ایسے ہیں کہ مجھے ان کا عطا ہونا سرخ اونٹوں کی دولت سے بھی زیادہ محبوب ہوتا۔ اول رسول اللہﷺ سے دامادی کا شرف دوسرے مسجد میں حضورؐ کے ساتھ ان کا گھر اور تیسرے خیبر میں فتح کا جھنڈا عطا ہونا۔(29)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حضرت علیؓ کے فضائل پر رسول اکرمﷺکے ساتھ آپ کی انتہائی قرابت اور آپ کے فیض صحبت میں تربیت و پرورش اور حضورﷺکی لخت جگر کے ان کے عقد کی اہمیت کا ذکر کرکے لکھا ہے کہ ان فضائل میں کوئی صحابی بھی حضرت علیؓ کا ہم پلّہ نہیں ہے۔رسول کریمﷺ نے فرمایا’’ جس شخص کو میں پیارا ہوں اسے علیؓ بھی پیارا ہے۔ اے اللہ! جوعلیؓکو دوست رکھے اسکا دوست اور اس کے دشمن کا دشمن ہوجا ۔اس کی مدد کرنے والے کی مدد کر ۔‘‘حضرت ام سلمہؓ فرماتی تھیں کہ رسول اللہﷺ کی ناراضگی کے وقت حضرت علیؓ کے سوا کسی کوآپؐ سے بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔(30)
علمی مقام
رسول کریمﷺنے فرمایا ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروزاہ ہے جو علم کا قصد کرے وہ اس کے دروازے پر آئے۔‘‘ایک دفعہ رسول کریمﷺسے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت کریں۔ آپؐنے فرمایا کہ کہو میرا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم ہوجائو۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا یارسول ؐ اللہ ! میں نے یہ تو کہہ دیا کہ اللہ میرا رب ہے باقی میری توفیق اللہ سے ہی ہے اسی پر میرا توکل ہے اور اس کی طرف میں جھکتا ہوں۔ رسول کریمﷺنے خوش ہو کر فرمایا اے ابوالحسن! علم تمہیں مبارک ہو۔ تمہیں علم کا شربت پلایا گیا ہے اور تم نے بھی خوب سیر ہوکر پیا ہے۔
حضرت علیؓ نے آنحضرت ﷺ سے قرآن سیکھا اور یادکیا تھا۔آپ معانی قرآن اورآیات کے شان نزول سے خوب واقف تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک ایک آیت کے بارے میں یہ بیان کرسکتا ہوں کہ کون سی آیت کب کہاں اور کس کے بارے میں اتری۔ وفات رسولؐ کے بعد آپ نے ایک عرصہ خدمت قرآن میں گزاردیا اور قرآنی سورتوں کو نزول کے لحاظ سے ترتیب دینے کی سعادت پائی۔آیات کی تفسیر و تاویل کے بارے میں ان سے اس کثرت سے روایات مروی ہیں کہ اگر ان کو جمع کیاجائے تو ایک جامع تفسیر قرآن بن جائے۔
ایک دفعہ کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ قرآن کے سوا بھی آپ کے پاس کچھ ہے۔ انہوں نے کیا خوب جواب دیا کہ ’’میرے پاس قرآن کے فہم اورا س کی قوت کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ درحقیقت دیکھا جائے تو تمام علوم فہم قرآن کریم کے ہی تو خادم ہیں۔ چنانچہ قرآن کے تابع دیگر علوم حدیث وفقہ اور قضا کے بارے میں آپ کو غیرمعمولی علم حاصل تھا۔علم تصوف اور فن خطابت میں بھی آپ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ کی طرف کئی اشعار بھی منسوب ہیںجیسے غزہ خیبر کے رجزیہ اشعار۔علم نحو یعنی عربی کلمات پر اعراب اور زیروزبر کے موجد بھی حضرت علی ؓ تھے۔(31)
شہادت
حضرت علی ؓکی شہادت بھی تقدیر الہٰی تھی جس کی خبر رسول کریمﷺ نے اپنی زندگی میں انہیں دی اور صبر کی تلقین فرمائی تھی۔ حضر ت علی ؓ جب مدینہ سے کوفہ جانے لگے تو حضرت عبداللہؓ بن سلام نے روکنا چاہا اور کہا’’ مجھے آپ کی جان کے بارہ میں خطرہ ہے اور رسولؐاللہ نے مجھے یہ خبر دی تھی۔‘‘ خود حضرت علیؓ نے بھی شہادت سے قبل اپنی داڑھی کے خون آلود ہونے کا ذکر کیا کہ رسول اللہﷺ نے اس کی پیشگوئی فرمائی تھی۔چنانچہ حضرت علیؓ کو بدبخت عبدالرحمان بن ملجم خارجی نے فجر کی نماز پر آتے ہوئے شہید کردیا۔ بعض روایات کے مطابق اس نے دوران نماز حضرت علی ؓپر حملہ کیا۔ یہ دردناک سانحہ دراصل گروہ خوارج کی اس گہری سازش کا نتیجہ تھا جو ایک ہی دن میںصبح کی نماز پر کوفہ میں حضرت علیؓ کو مصر میں حضرت عمرو ؓبن العاص اور شام میں حضرت معاویہؓپرقاتلانہ حملہ کے بارے میں تیار کی گئی۔کوفہ کی ایک خارجی عورت بھی اس میں شریک تھی۔ جس نے قاتل سے حضرت علیؓکے قتل کے شرط پر نکاح کا وعدہ کیا تھا۔قاتلوں نے اپنا منصوبہ بناتے ہوئے یہ جائزہ بھی لیا کہ حضرت علیؓ اکیلے نمازوں پر تشریف لاتے ہیں۔ ان کے لئے کسی حفاظتی پہرہ کا کوئی انتظام نہیں اس لئے نماز پر آتے ہوئے حملہ کیا جائے۔ قاتل نے اپنے معاون کومدد کیلئے تیار کرنے کی خاطر دنیامیں شہرت اور آخرت میں جنت کے خوب وعدے کئے ۔ پھر رمضان کے آخری عشرہ کی ایک فجر کو وہ حضرت علیؓ پر حملہ آور ہوگئے۔پہلے ا بن ملجم کے ساتھی نے حملہ کیا جو خطا گیا پھر اس نے تلوار سے حملہ کیا اور کہا حکومت اللہ کی ہے تیری اور تیرے ساتھیوں کی نہیں۔ حضرت علیؓ نے تلوارکا وارلگتے ہی فُزتُ وَرَبِّ الکَعبۃِ کا نعرہ بلند کیا کہ رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔پھر فرمایا یہ شخص جانے نہ پائے چنانچہ اسے پکڑ لیا گیا۔حضرت علیؓ نے فرمایا یہ قیدی ہے اس کی عزت کرو اور اچھی جگہ رکھو ۔اس کے تین دن بعد حضرت علیؓ کی وفات ہوگئی۔(32)حضرت امام حسنؓ نے حضر ت علیؓ کی شہادت پر تقریر کرتے ہوئے کہا ’’اے لوگو! ایک ایسا شخص تم سے جدا ہوا کہ پہلے اس سے سبقت نہ لے سکے اور بعد میں آنے والے اس کا مقام نہ پاسکیں گے۔ رسول اللہ ﷺاسے جھنڈا عطا کرتے تھے اور جبریل و میکائیل اس کے دائیں بائیں لڑتے تھے۔ وہ فتح کے بغیر واپس نہ لوٹتا تھا اور اللہ نے اس رات اس کی روح قبض کی جس رات حضرت عیسیٰ ؑکی روح قبض ہوئی اور جس میں قرآن اترا یعنی27رمضان المبارک۔یہ 40ھ کا سال تھا۔ جس میں حضرت علیؓ کی وفات قریباًساٹھ سے پینسٹھ سال کی عمر میں ہوئی ان کا دور خلافت چار سال نو ماہ رہا۔‘‘(32)
دراصل حضرت علیؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفر واپسی کا اشارہ ہو چکا تھا۔آپ ؓ قاتلانہ حملہ کے بعد تین روز تک زندہ رہے اگرچہ زخم بہت گہرا نہ تھا مگر زہر آلود تلوار کے اس وار سے آپ جانبر نہ ہوسکے۔علالت کے ان ایام میں عمروذی مر آپ کی عیادت کو آئے۔ آپؓ کا زخم دیکھ کر کہا کہ زخم بہت گہرا نہیں آپ اچھے ہوجائیں گے۔آپؓ نے فرمایا ’’نہیںمیں تم سے جدا ہونے والا ہوں۔‘‘ اس پر صاحبزادی ام کلثوم ؓ روپڑیں تو آپؓ نے فرمایا ’’بیٹی!جومیں دیکھ رہاہوں اگر تم دیکھ لیتیں تو نہ روتیں۔میں فرشتوں اور نبیوں کو دیکھ رہاہوں اور محمدؐ مجھے کہہ رہے ہیں اے علیؓ !تمہیں بشارت ہو کہ جہاں تم آتے ہو وہ اُس سے بہتر ہے جس میں تم ہو۔‘‘ آخری وقت میں حضرت علیؓ اپنی وصیت سے فارغ ہوئے تو سب موجود لوگوں کو الوداعی سلام فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! اس کے بعد کوئی بات نہیں کی سوائے لَااِلٰہ اِلَّااللّٰہُ کے کلمہ کے یہاں تک کہ آپکی روح قبض ہوگئی۔آپ کے صاحبزادوں نے آپ کو غسل دیا اور حضرت امام حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کے پاس رسول اللہﷺ کا تبرک ایک خوشبو تھی جو آپ کی وصیت کے مطابق میت کو لگائی گئی۔
حضرت علیؓ کی وصیت کا ماحصل یہی تھاکہ’’ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اور محمدؐ کی سنت کو ضائع نہ کرنا اور اسلام کے دونوں ستونوں نماز اور زکوٰۃ کو قائم کرنا۔‘‘
جب آپ سے عرض کی گئی کہ اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کر دیں تو فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے بھی کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں فرمایا تھا میں بھی نہیں کروں گا۔ عرض کیا گیا کہ اس بارہ میں آپ خدا کے حضور کیا جواب دیں گے؟فرمایا میںکہوں گا اے اللہ!تو نے مجھے جب تک چاہا ان لوگوں میں باقی رکھا پھر تو نے میری روح قبض کر لی اور تو خود ان میں موجود اور نگران تھا اگر تو چاہے تو انکی اصلاح فرمائے چاہے تو بگاڑ دے۔(33)
اولاد
حضرت فاطمہؓ الزہرہ بنت رسولؐ سے حضرت علیؓ کی اولاد دو صاحبزادے حضرت امام حسن ؓ ، امام حسینؓاور دو صاحبزادیاں حضرت زینبؓ کبریٰ اور ام کلثوم کبریٰؓ تھیں۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں آٹھ ازواج اور دیگر امہات الولد سے چودہ لڑکے اور انیس لڑکیاں ہوئیں۔ آپ کی نسل پانچ بیٹوں سے چلی جو حسن و حسین کے علاوہ محمدبن الحنفیہ عباس بن کلایبہ اور عمر بن تغلبیہ ہیں۔ازواج کے نام یہ ہیں۔(1) حضرت خولہ ؓ بنت جعفر حنفیہ (2) حضرت لیلیٰ بنت مسعود تمیمیہ(3 )حضرت ام البنینؓ بنت حرام کلابیہ(4 )حضرت اسمائؓ بنت عمیس خثعمیہ (5) حضرت صہباء ؓبنت ربیعہ تغلبیہ (6 ) رسولؐاللہ کی نواسی حضرت امامہ بنت ابی العاص قریشیہ (7) حضرت ام سعیدؓبنت عروہ ثقفیہ (8) حضرت محیاۃ بنت امر القیس کلبیہ(34)
اخلاق فاضلہ
حضرت علیؓ نے نہایت اعلیٰ اخلاق آنحضرت ﷺہی کی تربیت میں تو سیکھے تھے۔ حضور پاکؐ کی پاک سیرت ہی آپ کے اخلاق تھے۔سادگی کا یہ عالم تھا کہ خود بیان کرتے تھے میری شادی حضرت فاطمہؓ سے ہوئی تو ہمارا بستر ایک مینڈھے کی کھال کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسی پر ہم رات کو سوتے تھے اور دن کو اس پر اپنے جانور کو چارا ڈالتے تھے۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی خادم نہ تھا۔حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینہ کے شروع کی بات ہے ۔ مجھے سخت بھوک اورفاقہ کی تکلیف پہنچی،میں باہر نکلا تو ایک عورت نے مٹی جمع رکھی تھی وہ اسے گیلا کرکے گار بنانا چاہتی ہے میں نے اس سے ایک ڈول پانی کے عوض ایک کھجور لینے پر سولہ ڈول پانی نکال کر دئے ۔ جس سے میرے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے۔ پھر پانی سے ہاتھ دھو کر اس سے سولہ کھجوریں لیں اور رسول کریمﷺکے پاس لے کر آیا۔ آپ ؐ نے میرے ساتھ وہ کھجوریں تناول فرمائیں۔ فرماتے تھے کہ ایک زمانہ تھا مجھے بھوک اور فاقہ کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتا تھا اور آج میرے وقف اموال صدقہ وغیرہ کی آمد ہی چالیس ہزار درہم ہوتی ہے۔ جو خدا کی راہ میں خرچ کی توفیق ملتی ہے۔فراخی کے باوجود آپؓ کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ عام لباس موٹی چادر کا تھا ایک دفعہ وہ پہنی ہوئی تھی کہنے لگے یہ صرف چار درہم میں خریدی ہے۔سفید ہلکی ٹوپی بھی استعمال فرماتے تھے۔انگوٹھی پر ’’اللہ الملک‘‘کندہ تھا کہ اللہ ہی بادشاہ ہے۔ (35 )
حضرت علی ؓ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت سعی کرتے تھے۔کبھی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاتے۔انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ حضرت فاطمہؓ سے کچھ تکرار ہوئی تو مسجد نبوی میں جاکر زمین پر لیٹ رہے نبی کریمؐ نے آکر پوچھا اورخود ان کے پیچھے مسجد گئے اور ان کو زمین پر لیٹے پاکر’’ ابوتراب‘‘ کی کنیت سے یاد فرمایا کہ مٹی کا باپ۔(36)
حضرت علیؓ بیت المال میں حضرت ابوبکرؓ کی طرح معاملہ کرتے تھے ۔ کوئی بھی مال آتا تو فوراً تقسیم کردیتے اور کچھ بچا کر نہ رکھتے سوائے ا سکے کہ اس روز تقسیم میں کوئی دقت ہو۔ نہ تو خود بیت المال سے ترجیحاً کچھ لیتے اور نہ کسی دوست یا عزیز کو ا س میں سے دیتے۔نیک دیندار اور امانت دار لوگوں کو حاکم مقرر فرماتے۔ خیانت پر سخت تنبیہ فرماتے۔خدا کے حضور عرض کرتے ’’اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے انہیں تیری مخلوق پر ظلم کا حکم نہیں دیا تھا۔‘‘
کوفہ میں معمول تھا کہ دوچادروں کا مختصر لباس پہن کر درّہ ہاتھ میں لئے بازار میں گھوم رہے ہیں لوگوں کو اللہ کے تقویٰ اور سچائی کی تلقین کر رہے ہیں۔ اچھے سودے میں ماپ تول پورے کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ ایک دفعہ بیت المال میںجو کچھ تھا تقسیم کرکے ا س میں جھاڑو پھیر دیا۔ پھر دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ’’امید ہے کہ قیامت کے د ن یہ میری گواہ ہوگی۔‘‘(36)
امانت و دیانت اورقناعت آپ کا شیوہ تھاحضرت عائشہؓ آپ کے بارے میں فرماتی تھیں کہ وہ بہت روزے رکھنے والے اور عبادت گزار تھے۔(37) زبیرؓ بن سعید قریشی کہتے ہیں کہ میں نے کسی ہاشمی کو آپؓ سے زیادہ عبادت گزار نہیں دیکھا۔(38) خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بھی آپ کو بلند مقام حاصل تھا۔ کبھی کوئی سائل آپ کے گھر سے خالی ہاتھ نہ لوٹا ۔ ایک طرف تواضع میں کمال حاصل تھا تو دوسری طرف شجاعت میں انتہا تھی۔ میدان جنگ میں شجاعت اور دشمن کے ساتھ حسن سلوک میں بھی مردانگی کی ایک شان تھی۔ اپنے قاتل ابن ملجم کے بارہ میں بھی فرمایا کہ اسے اچھا کھانا کھلائو اور اچھا بستر دو۔ اگر میں زندہ رہا تو خودا س کی معافی یا سزا کا فیصلہ کروں گااور اگر میں مر گیا تو اسے میرے ساتھ ملا دینا مگر اس کے ناک کان نہ کاٹنا۔
حضرت علیؓ بلند پایہ خطیب تھے۔ نہایت فصیح وبلیغ مؤثر وعظ فرماتے۔ خوارج سے مقابلہ کے زمانہ میں آپ کے خطبات مشہور ہیں جو نہج البلاغہ میں آپ کی طرف منسوب ہیں ا سمیں شک نہیں کہ حضرت علی ؓکے فضائل کے بار ہ میں مبالغہ سے بھی کام لیا گیا ہے جسے پیش نظر رکھنا چاہیے۔رسول ؐاللہ نے آپؓ سے بجا فرمایا تھا کہ’’ آپ کی مثال حضر ت عیسیٰؑ کی ہے کہ جس سے یہودی ناراض ہوئے اور عیسائیوں نے انہیںاصل مقام سے کہیں زیادہ بڑھا کر پیش کیا۔‘‘ خود حضرت علیؓ فرماتے تھے کہ میرے بارہ میںدو آدمی ہلاک ہونگے ایک محبت سے غلو کرنے والا،دوسرا جھوٹا اور بہتان تراش۔
ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ سے کسی نے کہا بعض شیعہ جو(حبّ علیؓ کے دعویدار ہیں)یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ ’’دابّہ الارض‘‘ہیں جن کے خروج کی قرآن میںپیشگوئی ہے اور وہ قیامت سے پہلے پھر ظاہر ہونگے۔ اس پر حضرت امام حسنؓ نے فرمایا وہ جھوٹ کہتے ہیں یہ لوگ ہرگز حضرت علیؓ سے محبت کرنے والے نہیں بلکہ ان کے دشمن ہیں۔ اگر ان کی بات درست ہوتی اور حضرت علی ؓ نے دوبارہ ظاہر ہونا ہوتا تو ہم انکی میراث تقسیم نہ کرتے اور نہ ان کی بیوگان کا آگے نکاح کرتے۔(39)
امیر معاویہ نے ضرار صدائی سے کہا کہ حضرت علیؓ کے اوصاف بیان کرو۔ اس نے کہا اے امیرالمومنین مجھے اس سے معاف فرمائیں۔ انہوںنے کہا تمہیں یہ بیان کرنے ہوں گے۔ وہ کہنے لگے کہ اگر آپ ضرور سننا ہی چاہتے ہیں تو پھر سنیں کہ
’’خدا کی قسم وہ بلند حوصلہ اور مضبوط قویٰ کے مالک تھے۔ فیصلہ کن بات کہتے اور عدل سے فیصلہ کرتے تھے ان کی جانب سے علم کا چشمہ پھوٹتا تھا او رحکمت ان کے اطراف سے ٹپکتی تھی۔ وہ دنیا اور اس کی رونقوں سے وحشت محسوس کرتے اور رات اور اس کی تنہائی سے انس رکھتے تھے۔ وہ بہت رونے والے ، لمبا غور و فکر کرنے والے تھے۔ چھوٹا لباس او رموٹا سادہ کھانا پسند تھا۔ وہ ہم میں ہماری طرح رہتے تھے۔ ہم سوال کرتے تو وہ ہمیں جواب دیتے اور جب ہم کسی خبر کی بابت دریافت کرتے تو ہمیں بتاتے۔ اور خدا کی قسم ہم ان کے ساتھ محبت و قرب کے تعلق کے باوجود ان کے رعب کی وجہ سے بات کرنے سے رکتے تھے۔ وہ دین دار لوگوں کی تعظیم کرتے اور مساکین کو اپنے پاس جگہ دیتے تھے ۔ طاقتور کو اس کے باطل موقف میں طمع کا موقع نہ دیتے اور کمزور آپ کے عدل سے مایوس نہ ہوتا۔ اور خدا کی قسم! میں نے انہیں بعض مقامات پر دیکھا جبکہ رات ڈھل چکی تھی اور ستارے ڈوب چکے تھے وہ اپنی داڑھی کو پکڑے ایسے مضطرب ہیں جیسے وہ شخص جسے سانپ کاٹ جائے اور وہ غمگین انسان کے رونے کی طرح روتے اور کہتے تھے اے دنیا!تومیرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دے تو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے یا میری مشتاق ہوتی ہے ۔ تجھ پر افسوس صد افسوس۔ میں تو تمہیں تین طلاقیں دے چکا ہوں جو واپس نہیں ہوسکتیں پس تمہاری عمر بہت محدود ہے اور تمہار امقصد بہت حقیر ہے ۔ آہ! زاد راہ کتنی کم اورسفر کتنا لمبا ہے اور راستہ کتنا وحشت ناک ہے۔یہ سن کر امیر معاویہ رو پڑے اور کہااللہ ابوالحسن پر رحم کرے خدا کی قسم! وہ ایسے ہی تھے۔ اے ضرار! تمہار ا غم ان کی وفات پر کیسا ہے ؟ضرار نے کہا اس ماں کی مامتا کا غم جس کا بچہ اس کی گود میں ذبح کر دیا جائے۔‘‘(40)
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
’’ حضرت علیؓ پاکباز اور متقی انسان تھے اور رحمان خدا کے محبوب بندوں میں سے تھے۔ اور خدائے غالب کے شیرتھے۔ آپ وہ بے مثال بہادر تھے میدان جنگ میں خواہ دشمنوں کی فوج سے مقابلہ ہو اپنے مرکز سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ کئی معرکہ ہائے جنگ میں اپنی شجاعت کے حیرت انگیز جوہر دکھائے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ شیریں بیان او رمخلص انسان تھے۔ الغرض ہر ایک خوبی میں اور فصاحت وبلاغت میں کوئی آپ کا نظیر نہیں۔اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ علوم قرآنی میں آپ کو ایک سبقت حاصل تھی اور قرآنی نکات کے ادراک کا ایک خاص فہم آپ کو حاصل تھا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت علیؓ نے مجھے کتاب اللہ کی ایک تفسیر دی ہے اور کہا کہ یہ میری تفسیر ہے اور آپ کو اوّلیت کا شرف حاصل ہے۔ جو آپ کو دیا گیا اُس پر آپ کو مبارک ہو۔ چنانچہ میں نے وہ تفسیر لے لی اور میں نے حضرت علیؓ کو پختہ اخلاق کا مالک اور تواضع اور منکسرالمزاج اور روشن اور روحانی انسان دیکھا اور خدا کی قسم انہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ مجھے اور میرے عقیدے کے بارے میں خوب جانتے ہیں اور مجھے علیؓ حسینؓ سے ایک خاص مطابقت ہے جس کا بھید سوائے خداکے اور کسی کو معلوم نہیں اور مجھے علیؓ اور اُن کے دونوں صاحبزادوں سے محبت ہے اور جوان سے دشمنی کرتے ہیں میں ان کا دشمن ہوا۔‘‘(41)
حوالہ جات
-1
استیعاب جلد 3ص 218،اصابہ جز4 ص269،اسد الغابہ جلد4ص 16
-2
الوفا لابن جوزی ص198
-3
مستدرک حاکم جلد۱ ص542،مکتبہ النصرالحدیثہ الریاض
-4
ابن سعد جلد 3ص21،استیعاب جلد3ص 199
-5
تفسیرطبری سورۃ الشعراء زیر آیت وانذرعشیرتک الاقربین
-6
ابن سعد جلد 1ص228
-7
مسند احمد جلد1ص348
-8
مستدرک حاکم جلد3ص134
-9
تاریخ طبری جلد 2ص373
-10
مستدرک حاکم جلد 3ص 4،ابن سعد جلد3ص22،و ابن ہشام جلد 2ص 98،اسد الغابہ جلد 4ص 19
-11
الاصابہ جز4ص269، استیعاب جلد 3ص 203
-12
ابن سعد جلد3ص23
-13
مجمع الزوائد جلد6ص81،لائف آف محمدصفحہ251،252
-14
بیھقی دلائل جلد7ص235وجلد3ص160وابن سعد جلد3ص 21تا23
-15
استیعاب جلد 3ص 203، زرقانی جلد2ص4
-16
مسنداحمدجلد5ص359 ومجمع الزوائد جلد4ص50
-17
مسنداحمدجلد1ص104،91،153 وابن سعد جلد8ص24،ترمذی کتاب التفسیر سورۃ الاحزاب، مسند احمد جلد 6ص 344،مجمع الزوائد جلد 9ص 119،120
-18
ابن سعد جلد3ص23
-19
مجمع الزوائد جلد6ص114،112،طبری جلد2ص574،کنز العمال جلد 5ص 274
-20
ابن ہشام جلد3ص241،مستدرک جلد3ص32
-21
ابن ہشام جلد3ص253، واقدی جلد2ص499،بخاری کتاب الجہاد باب المصالحہ
-22
مجمع الزوائد جلد 9ص 122،123،سیرت الحلبیہ جلد 2ص 38تا 41،بخاری مغازی تبوک
-23
بخاری کتاب التفسیر سورۃ برائ۔ استیعاب جلد 3ص216
-24
استیعاب جلد3ص 203
-25
بخاری کتاب الحج باب من احل فی زمن النبیؐ
-26
استیعاب جلد3ص 206
-27
اسد الغابہ جلد 4ص 38،ریاض النضرہ فی مناقب لعشرہ جلد 2ص 128
-28
اسد الغابہ جلد4ص 31،32
-29
مجمع الزوائد جلد 9ص 121،104
-30
مجمع الزوائد جلد 9ص 104،116،ازالۃ الخفاء
-31
منتخب کنزالعمال برحاشیہ مسند جلد5ص 48،اسد الغابہ جلد4ص 33۔استیعاب جلد 3ص 208تا210،بخاری کتاب الدیات و مسند احمد جلد4ص 79،100۔فہرست ابن الندیم
-32
استیعاب جلد 3ص 218،219۔ابن سعد جلد 3ص 35۔اسد الغابہ جلد 4ص 34۔مجمع الزوائد جلد 9ص 146۔اصابہ جز 4ص 271
-33
اسد الغابہ جلد4ص 38،39۔مجمع الزوائد جلد 9ص137،139
-34
ابن سعد جلد 3ص 19،20
-35
کنز العمال جلد 7ص 133۔اسد الغابہ جلد 4ص 33،24و استیعاب جلد 3
-36
مسلم کتاب المناقب باب مناقب علیؓ و مجمع الزوائد جلد 9ص 121۔استیعاب جلد 3ص 211،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد5ص 55
-37
ترمذی کتاب المناقب فضل فاطمہ
-38
مستدرک حاکم جلد 3ص 108
-39
استیعاب جلد 3ص 219،204،مسند احمد جز1ص 160ابن سعد جلد 3ص 39،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد5ص 46
-40
استیعاب جلد 3ص 209
-41
سرالخلافہ روحانی خزائن جلد8ص 358(ترجمہ از عربی)
حضرت ابوعبیدہ ؓ بن الجراح
حلیہ و نام و نسب
لمبا قد، دبلا جسم، چھریرا بدن، روشن پیشانی، بارعب چہرہ، تیکھے نقش، خشخشی داڑھی۔ یہ ہیں عہدِ نبویﷺ کے نوجوان صحابی ابوعبیدہؓ بن الجراح۔ اصل نام عامر بن عبداللہ بن الجراح ہے۔ مگر دادا کی نسبت سے معروف ہیں اور نام سے زیادہ کنیت سے مشہور ہیں۔ سلسلہ نسب پانچویں پشت میں نبی کریمﷺسے مل جاتا ہے۔(1)
قبول اسلام و فضائل
حضرت ابوعبیدہؓ رسول اللہﷺکے دعویٰ نبوت کے بعد ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے ہیں۔ انہیں کو دارارقم کے تبلیغی مرکز بننے سے بھی پہلے قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ حضرت ابوبکرؓصدیق جیسے عظیم الشان داعی الی اللہ کی تبلیغی کوششوں کا شیریں پھل تھے ۔سیرتِ صدیقی کی گہری چھاپ ان کے اخلاق و شمائل میں نمایاں نظر آتی ہے۔ انہوں نے ایمان و اخلاص میں بہت جلد ترقی کی اور اصحاب رسول ؐمیں بہت بلند مقام پایا۔ آپؐ ان خوش نصیب دس صحابہ میں سے تھے جنہیں نبی کریمؐ نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی۔(2)
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو خوبصورت اخلاق اور کردار کے ساتھ قیادت کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آنحضرتؐ نے ایک دفعہ ان کی اس خوبی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ خاندان قریش میں سے تین ایسے مردان حق ہیں۔ جو نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل، انتہائی حیادار اور مقامِ سیادت پر فائز ہیں۔ اور وہ ہیں ابوبکرؓ و عثمانؓ اور ابوعبیدہؓ بن الجراح۔‘‘(3)
پاکیزہ اوصاف کی بناء پر آپؐ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بہت محبوب تھے، ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے رسول خداؐ سے بے تکلف گھریلوگفتگو کے دوران پوچھا کہ آپ کو اپنے اصحاب میں سے سب سے پیارے کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ابوبکرؓ، انہوں نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا عمرؓ، حضرت عائشہؓ نے تیسر ی مرتبہ پوچھا پھرکون رسول کریمﷺنے جواب دیا ابوعبیدہ بن الجراحؓ(4)
بلاشبہ ابوعبیدہؓ سے رسول ؐخدا کی یہ للّٰہی محبت ان کے اخلاص و فدائیت ایثار اور خدمات دینی کے باعث تھی۔ انہوں نے عین عالم شباب میں اسلام قبول کیا اور اپنی جوانی خدمت دین میں گزار دی۔
ہجرت کا ابتلاء
اسلام قبول کرتے ہی حضرت ابوعبیدہؓ کو جس ابتلاء کا سامنا کرنا پڑا وہ مال و اولاد اور وطن کی قربانی کا ابتلاء تھا۔ مگر خدا کی خاطراور دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے کمال جواں مردی سے وہ اپنا سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہوگئے اور مکہ کو خیرباد کہہ کر دور دراز کے اجنبی دیس حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ انہوں نے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، نئے ٹھکانے اور تلاش معاش کے دوران مشکلات اور خوف و ہراس کا سامنا کیا۔جب وہاںکچھ قدم جم گئے تو ہجرت مدینہ کا دوہرا امتحان پیش آیا۔ ان کی محبت رسول ؐ نے یہ گوارا نہ کیا کہ محبوب آقا تو مدینہ میں ہوں اور وہ حبشہ رہ کر آپؐ کے قرب اور پاک صحبت سے محروم رہیں۔ چنانچہ اس وطن ثانی حبشہ کو بھی خدا اور اس کے رسولؐ کی خاطر ترک کرکے مدینہ منورہ کی طرف دوسری ہجرت کی سعادت پائی اور دو ہجرتوں کے اجر اور ثواب کے حق دار ٹھہرے۔ جو بلاشبہ آپ کے لئے باعث اعزاز اور موجب فخر ہے۔ جس کااظہار دو ہجرتوں کا شرف پانے والے صحابہؓ بہت لطیف انداز میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت اسمائؓ بنت عمیس(جنہوں نے ہجرت حبشہ اورہجرت مدینہ دونوں کی سعادت پائی تھی) رسول اللہؐ سے ملاقات کے لئے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے گھر آئیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت عمرؓ بھی حضورؐ سے ملنے حاضر ہوئے اور یہ معلوم کرکے کہ حضرت اسمائؓ وہاں موجود ہیں ان سے مخاطب ہوکر از راہ التفات فرمانے لگے کہ ’’اے اسمائؓ! ہمیں تم مہاجرین حبشہ پر مدینہ ہجرت کرنے میں اوّلیت حاصل ہے اور نبی کریمﷺسے تعلق اور محبت کے ہم زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ حضرت اسمائؓ نے مہاجرین حبشہ کی نمائندگی کا حق خوب ادا کیا۔ کہنے لگیں ’’اے عمرؓ! آپ کا یہ دعویٰ ہرگز درست نہیں۔ آپ لوگ تو آنحضرتﷺکی معیت میں رہے۔ وہ آپ کے کمزوروں اور فاقہ زدوں کا خود خیال رکھتے اور حتی الوسع ان کی ضروریات خود پوری فرماتے تھے۔ جب کہ ہم اجنبی ملک حبشہ میں تھے جہاں کسی دل میں ہمارے لئے کوئی نرم گوشہ نہ تھا۔ ہم سخت اذیتوں سے گزرے اور خوف و ہراس سے دوچار ہوئے اور یہ سب کچھ خدا اور اس کے رسولؐ کی خاطر برداشت کیا(اور اب آپ ہمیں یہ طعنہ دینے لگے) خدا کی قسم! میرا کھانا پینا حرام ہے جب تک میں نبی کریم ؐ سے دریافت نہ کرلوں کہ حبشہ اور مدینہ ہجرت کرنے والوں میں کس کا درجہ زیادہ ہے۔‘‘ پھر واقعی حضرت اسمائؓ نے نبی کریمؐ کی خدمت میں حضرت عمرؓ کی بات کہہ سنائی۔ آنحضورؐ نے پوچھا کہ پھر تم نے عمرؓ کو کیا جواب دیا؟ حضرت اسمائؓ نے بلا کم و کاست اپنا فصیح و بلیغ جواب بھی عرض کردیا تو دربارِ رسالتؐ سے یہ فیصلہ جاری ہوا کہ ’’اے اسمائؓ! تم ٹھیک کہتی ہو۔ عمرؓ اور ان کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنے والے محض اس قربانی کی بناء پر مہاجرین حبشہ سے زیادہ میرے تعلق محبت کے مستحق نہیں۔ اگر ان کی ایک ہجرت ہے تو بلاشبہ تمہاری دو ہجرتیں ہیں۔‘‘(جس کی بناء پر گویا تم دوہرے اجر اور ثواب کے مستحق ہو)۔(5)
مقام امین
ہجرتوںکی اس دوہری قربانی کے علاوہ حضرت ابوعبیدہؓ کی جس خوبی نے صحابہؓ میں ممتاز کیا وہ یہ تھی کہ آپ ارشاد ِ ربانی (المومنون:9) (یعنی وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں)کے حقیقی مصداق تھے۔ حق یہ ہے کہ ایک مومن کامل کا یہی بلند و بالامقام ہے۔ چنانچہ بظاہر نحیف و ناتواں ابوعبیدہؓ اصحاب رسولؐ میں ’’القوی الامین ‘‘کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے۔ یہ گویا ان کے حق میں زمانے کی شہادت تھی کہ وہ اپنی تمام امانتوں کے حق ادا کرنے میں خوب قادر تھے۔(6)
خلق خدا کی اس گواہی پر رسول خدا ﷺنے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اس وقت مہر تصدیق ثبت فرمائی، 9ہجری میں جب نجران کی عیسائی ریاست سے ایک وفد مدینہ آیا اور سالانہ خراج کی ادائیگی پر ان سے مصالحت ہوئی۔ اس موقع پر وفد نے رسول اللہﷺسے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ خراج کی وصولی کے لئے ایک ایسا شخص بھجوائیں جو امانتوں کا حق خوب ادا کرنے والا ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں! فکر نہ کرو میںضرور تمہارے ساتھ ایک نہایت امین شخص روانہ کروں گا۔‘‘ اس وقت مجلس نبویؐ میں ایک عجب کیفیت تھی جب صحابہ رسولؐ سر اٹھا اٹھا کر وفور شوق سے یہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ دیکھیں اب یہ سعادت کس خوش بخت کے حصہ میں آتی ہے ۔ انتظار کے لمحے ختم ہوئے اور رسول خدا ﷺنے فرمایا ’’ابوعبیدہ کھڑے ہوں‘‘ جب وہ اپنی نشست پرسے اٹھے تو ہمارے آقا و مولاکی زبان فیض ترجمان سے ابوعبیدہؓ کو ایک دائمی اور تاریخی سند عطاء ہوئی آپؐ نے فرمایا:
’’یہ ہے اس امت کا امین‘‘ اور پھر صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا ’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے۔ اے میری امت کے لوگو! ہمارا امین ابوعبیدہؓ بن الجراح ہے۔‘‘(7)
حقیقت یہ ہے کہ امین الامت کا خطاب ابوعبیدہؓ کے لئے عظیم الشان اعزاز تھا جس میں دراصل ان کے پاکیزہ کردار کا خلاصہ بیان کردیا گیا۔ ان کے حق میں کیا خوب فرمایا’’کہ میں اپنے صحابہ میں سے ہر ایک کے کسی خلق پر گرفت کرسکتا ہوں سوائے ابوعبیدہؓ کے جو بہت عمدہ واعلیٰ اخلاق کے حامل ہیں۔‘‘(8)
ہر چند کہ امین الامت کا بلند پایہ خطاب پانے والے اس عظیم انسان کی سیرت و سوانح پر پہلے بھی اہل قلم نے خامہ فرسائی کی ہے۔ راقم الحروف نے’’ امین الامت‘‘ کی سیرت کا مطالعہ ادائیگی امانات کے اس اہم پہلو کے حوالہ سے کیا تو اس جوانِ رعنا کی سیرت ایک نئے حسین روپ میں جلوہ گر ہوئی۔ حضرت ابوعبیدہؓ بہت بھاری اموال کے بھی امین بنائے جاتے رہے، قومی امارت کی امانت بھی آپ کو سونپی گئی جس کے حق آپ نے خوب ادا کئے۔اس جگہ جملہ اخلاق فاضلہ کاحقِ امانت ادا کرنے کے لحاظ سے سیرت ابوعبیدہؓ کا تذکرہ کیا جارہاہے۔
بدر میں تاریخی شرکت
غزوہ بدر میں ایک سپاہی کی حیثیت سے آپ کی امانت کا امتحان یوں ہوا کہ مد مقابل لشکر کفار میں آپ کے بوڑھے والد عامر بھی برسرپیکار تھے۔ ابوعبیدہؓ ایک بہادر سپاہی کی طرح داد شجاعت دیتے ہوئے میدان کار زار میں آگے بڑھتے چلے جارہے تھے والد سے سامنا ہوگیا جو کئی بار تاک کر ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کرچکا تھا، ذرا سوچئے تو وہ کتنا کٹھن اور جذباتی مرحلہ ہوگا کہ ایک طرف باپ ہے اور دوسری طرف خدا اور اس کا رسولؐ ہیں۔ جن کے خلاف باپ تلوار سونپ کر نکلا ہے، مگر دنیا نے دیکھا کہ ابوعبیدہؓ جیسے قوی اور امین کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی کہ خدا کی خاطر سونتی ہوئی شمشیر برہنہ نہیں رکے گی جب تک دشمنان رسول کا قلع قمع نہ کرلے خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو ۔ اگلے لمحے میدان بدر میں ابوعبیدہؓ کا مشرک والد عامر اپنے موحّد بیٹے کے ہاتھوں ڈھیر ہوچکا تھا۔ آفرین تجھ پر اے امین الامت آفرین! تو نے کیسی شان سے حق امانت ادا کیا کہ باپ کا مقدس رشتہ بھی اس میں حائل نہ ہوسکا۔ صحابہ اس تاریخی واقعہ پر وہ آیت چسپاں کرتے تھے جس میں اللہ تعالیٰ ایسے کامل الایمان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو خدا کی خاطر اپنی رشتہ داریاں بھی قربان کردیتے ہیں۔(9) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(المجادلۃ: 23)
تو کوئی ایسی قوم نہ پائے گا جو اللہ اور یوم آخرت پر بھی ایمان لاتی ہو اور اللہ اور اس کے رسول کی شدید مخالفت کرنے والے سے بھی محبت رکھتی ہو خواہ ایسے لوگ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا ان کے خاندان میں سے ہوں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کردیا ہے اور اپنی طرف سے کلام بھیج کر ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں رہتے چلے جائیں گے اللہ ان سے راضی ہوگیا وہ اللہ سے راضی ہوگئے وہ اللہ کا گروہ ہیں اور سن رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہوا کرتا ہے۔
غزوۂ احدمیں فدائیت
بدر کے بعد احد کا معرکہ پیش آیا۔ جبل احد نے بھی حضرت ابوعبیدہؓ کے قوی اور امین ہونے کی گواہی دی جب اس امانت رسالت کی حفاظت کا سوال آیا جو رسولؐ خداکی ذات کی صورت میں موجود تھی، ابوعبیدہؓ احد میں نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ کمال مردانگی اور فدائیت کا نمونہ دکھایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’ احد میں سنگباری کے نتیجہ میں آنحضورؐ کے خود کی دونوں کڑیاں ٹوٹ کر جب آپ ؐکے رخساروں میں دھنس گئیں میں رسول کریمﷺ کی مدد کے لئے آپؐ کی طرف لپکا۔ دیکھا کہ سامنے کی طرف سے بھی ایک شخص دوڑا چلا آرہا ہے۔ میں نے دل میں دعا کی کہ خدا کرے اس نازک وقت میں یہ شخص میری مدد اور نصرت کا موجب ہو۔ آگے جا کر دیکھا تو وہ ابوعبیدہؓ تھے جو مجھ سے پہلے حضورؐ تک پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے صورتحال کا جائزہ لے کر کمال فدائیت کے جذبہ سے مجھے خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ’’ حضور کے رخساروں سے یہ لوہے کی شکستہ کڑیاں مجھے نکالنے دیں‘‘ پھر انہوں نے پہلے ایک کڑی کو دانتوں سے پکڑا اور پوری قوت سے کھینچا تو وہ باہر نکل آئی۔ مگر ابوعبیدہؓ خود پیٹھ کے بل جاگرے اور ساتھ ہی آپ کا اگلا دانت باہر آگیا۔ پھر انہوں نے دوسرے رخسار سے کڑی اسی طرح پوری ہمت سے کھینچی تو اس کے نکلنے کے ساتھ آپ کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا اور آپ دوبارہ پشت کے بل گرے۔ مگر آنحضرتﷺکو ایک سخت اذیت سے نجات دینے میں کامیاب ہوگئے اور آپ کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیا۔کہتے ہیں حضرت ابوعبیدہؓ کے سامنے کے دو دانٹ ٹوٹ جانے سے ان کا چہرہ اورخوبصورت ہوگیا اور لوگ کہا کرتے تھے کہ سامنے کے دو شکستہ دانتوں والا کبھی اتنا خوبصورت نظر نہیں آیا جتنے ابوعبیدہؓ۔(10)
احد کے بعد جملہ غزوات خندق، بنو قریظہ، خیبر، فتح مکہ حنین اور طائف وغیرہ کے معرکوں میں بھی حضرت ابوعبیدہؓ ایک مجاہد سپاہی کے طور پر خدمات بجالاتے ہوئے پیش پیش رہے۔(11)
امیر لشکر کی حیثیت سے بھی حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنی امانتوں کا حق خوب ادا کیا۔ 6ہجری میں وہ قبیلہ ثعلبہ و انمار کی سرکوبی پر مامور کئے گئے اور کامیاب و کامران واپس لوٹے۔ ( 12)
ذات السلاسل کی قیادت اور تعاون باہمی
7ہجری میں غزوۂ خیبر کے بعد رسولؐ خدا نے ملک شام کے مشرق میں ذات السلاسل کی مہم پر حضرت عمر و بن العاصؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ فرمایا ،جس میں کبار صحابہ کی نسبت اعراب اور بدّو وغیرہ زیادہ تھے۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لئے حضرت عمرؓ و بن العاص نے کمک طلب کی جس پر نبی کریمﷺنے حضرت ابوعبیدہؓ کی سرکردگی میں مہاجرین کا ایک دستہ ان کی مدد کے لئے بھجوایا، جس میں حضرت ابوبکرؓ و عمر ؓ بطور سپاہی شریک تھے۔رسول خداؐ نے خداداد بصیرت و فراست سے بوقت رخصت حضرت ابوعبیدہؓ کو نصیحت فرمائی کہ عمر وؓ بن العاص کے پاس پہنچ کر دونوں امراء باہم تعاون سے کام کرنا۔ مگر جب وہاں پہنچے تو حضرت عمر ؓوبن العاص نے اس خیال سے کہ ان کی امداد کے لئے بھجوائی گئی کمک ان کے تابع ہے حضرت ابوعبیدہؓ کے سپاہیوں کو ہدایت دے کر کام لینے لگے اور بزرگ مہاجرین صحابہ کی اس وضاحت کے باوجود کہ دونوں امراء اپنے دائرہ عمل میں بااختیار ہیں اور انہیں باہم مشورے اور تعاون سے کام کرنے کا حکم ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ کو اپنے حق امارت پر اصرار رہا۔ اس نازک موقع پر امانتوں کے سفیر حضرت ابوعبیدہؓ کا مؤقف کیساپاکیزہ اور متقیانہ تھا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ سے آپ نے فرمایا کہ’’ ہر چند کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد امیر کے طور پر بھجوایا ہے مگر ساتھ ہی باہم تعاون کا بھی ارشاد فرمایا۔ اس لئے آپ میری بات مانیں یا نہ مانیں میری طرف سے ہمیشہ آپ کو تعاون ہی ملے گا اور میں آپ کی ہر بات مانوں گا۔(13) دیکھئے ابوعبیدہؓ نے امارت کا حق امانت کس شان سے ادا کر دکھایا اور تعاون علی البر اور ایثار کا کیسا شاندارنمونہ دکھایا۔
8ہجری میں قریش کے بعض تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت کا پتہ چلانے کے لئے رسول کریمؐ نے آپ کو ایک اہم رازدارانہ کی مہم سونپی جس میں تین صدصحابہ آپ کی سرکردگی میں ساحل سمندر کی طرف روانہ کئے گئے۔
وہ زمانہ بہت تنگی کا تھا اور حسب دستور زادراہ کے لئے ہر سپاہی نے جو کچھ کھجوریں وغیرہ پاس رکھی تھیں وہ ختم ہونے کو آئیں تو فاقہ کشی کے ان ایام میں انصاری سردار قیس بن سعدؓ کی طرف سے جودوسخا کا زبردست مظاہرہ ہوا۔ انہوں نے لشکر میں شامل بعض لوگوں سے واپسی مدینہ تک سواری کے اونٹ ادھار لے کر ذبح کروائے ہمراہیوں کو کھانا کھلانا شروع کیا۔ چندروز کے بعد حضرت عمرؓ نے سوال اٹھایا کہ سواریوں کے ختم ہوجانے پر آئندہ سفر کیسے جاری رکھا جاسکے گا؟ چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ نے مزید اونٹ ذبح کرنے سے حکماً روک کر ایک مناسب حال فیصلہ فرمایا۔ دوسری طرف فاقہ کش لشکر کے لئے خوراک کاانتظام بھی آپ کی ذمہ داری تھی۔ آپ نے تمام سپاہیوں کے پاس باقی ماندہ زادراہ اکٹھی کر کے راشن کی دو بوریاں اکٹھی کرلیں اور آئندہ کے لئے راشن کی تقسیم کا ایسا نظام جاری کیا کہ ہر سپاہی کو زندہ رہنے کے لئے کچھ نہ کچھ خوراک ملنے لگی۔ صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ بعض ایسے دن بھی آئے جب روزانہ ایک شخص کو بمشکل ایک کھجور ملتی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک کھجور کی قدر بھی ہمیںاس وقت آئی جب یہ اجتماعی زادراہ بھی ختم ہوگئی تو ہم نے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کیا اور جانوروں کی مینگنوں جیسا پاخانہ کرتے رہے۔
تب ایسے معلوم ہوتا ہے کہ امین الامت ابوعبیدؓہ کی اس عادلانہ تقسیم اور دعائوں نے خدا کی رحمت کو جوش دیا اور مولیٰ کریم نے ان فاقہ کشوں کی دعوت کا خود اہتمام فرمایا اور سمندر کو حکم دیا کہ ایک بہت بڑی مچھلی راہ مولیٰ میں بھوک برداشت کرنے والوں کے لئے ساحل پر ڈال دے۔ چنانچہ اس مچھلی کا گوشت اور تیل مسلسل کئی روز استعمال کرنے سے صحابہ کی صحت خوب اچھی ہوگئی۔ تین صد افراد کے لئے کئی روز تک خوراک بننے والی اس مچھلی کے متعلق طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی جسامت کیا ہوگی۔ حضرت ابوعبیدہؓ جیسے زیرک قائد نے اس الٰہی نشان کو محفوظ کرنے کا عمدہ انتظام بھی کردیا۔ انہوں نے ساحل چھوڑنے سے قبل مچھلی کے ڈھانچے سے دو پسلیاں لے کر زمین میں گاڑ دیں اور پیمائش کی خاطر ایک شترسوار کو نیچے سے گزارا تو وہ بآسانی گزر گیا۔(14)
الغرض اس سفر میں حضرت ابوعبیدہؓ کی قائدانہ صلاحتیں خوب نکھر کر سامنے آئیں۔ عملی زندگی میں امانتوں کی ادائیگی میں یہ اہتمام ابوعبیدہؓ کے لئے مزید خدمات کے مواقع مہیا کرنے کا موجب ہوا۔ چنانچہ اس کے بعد رسول کریمﷺنے حضرت ابوعبیدہؓ کو بہت اہم مالی ذمہ داریاں بھی تفویض فرمائیں۔
اموال بحرین کی امانت
8ہجری میں حکومت کسریٰ ایران کی باجگزار ریاست بحرین سے مصالحت ہوئی۔ حضرت علائؓ بن حضرمی وہاںامیر مقرر ہوئے۔(15)
حضرت ابوعبیدہؓ جزیہ کی امانتیں وصول کرکے مرکز اسلام مدینہ لانے کے لئے مامور ہوئے۔ ان کے صدق و امانت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ وہ بحرین سے ڈھیروں ڈھیر مال لے کر مدینہ آئے۔ انصار مدینہ کو خبر ہوئی تو وہ اگلے روز فجر کی نماز میں کثیر تعداد میں حاضر ہوئے۔ نماز فجر کے بعد نبی کریمؐ نے صحابہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ معلوم ہوتا ہے تم لوگوں کو ابوعبیدہؓ کے آنے کی اطلاع ہوگئی ہے ۔سو تمہیں بشارت ہو کہ تمہاری مرادیں پوری ہوں گی۔ مگر یاد رکھو! مجھے تمہارے فقرو افلاس کا اندیشہ نہیں بلکہ دنیا تمہارے لئے اس طرح فراخ کر دی جائے گی۔ جس طرح پہلی قوموں کے لئے کی گئی۔ لیکن اس کے نتیجے میں بالآخر وہ ہلاک ہوگئے۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں تمہارا بھی وہ حال نہ ہو۔‘‘(16)
امین الامت نجران میں
اموال بحرین کی امانتوں کا حق ادا کرنے کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ کو نجران میں مالی امور کا امین بنایا گیا۔ چنانچہ 9ہجری میں جب نجران کا اعلیٰ سطحی وفد (جو حکومتی اور مذہبی نمائندوں پر مشتمل تھا) مدینہ آیا اور اہل نجران سے ان شرائط پر صلح ہوئی کہ
1- ’’دو ہزار حلّے(چادریں) وہ سالانہ دیا کریں گے ہر حلہ ایک اوقیہ مالیت کا ہوگا اور اوقیہ کا وزن چالیس درہم ہوگا۔
2- جو حلّے ایک اوقیہ سے زیادہ قیمت کے ہوں گے ان کی قیمت کی زیادتی حلّوں کی تعداد کی کمی سے اور جو کم قیمت ہوں گے ان کی قیمت کی کمی حلّوں کی تعداد کی زیادتی سے پوری کرائی جائے گی۔
3- اگر حلوں کی مالیت کے برابر اسلحہ، گھوڑے یا دیگر سامان دینا چاہیں تو قبول کرلیا جائے گا۔‘‘ (17)
اب ظاہر ہے ان شرائط پر عمل درآمد کروانا بھی ایک امانت دار شخص کا تقاضا کرتا تھا اور یہی سوال اہل نجران نے اٹھایا کہ اس معاہدے کی تعمیل کے لئے اپنا انتہائی امین شخص ہمارے ساتھ بھجوائیں۔ اس پر نبی کریم ؐ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو امین الامت کا خطاب دے کر اس وفد کے ساتھ نجران روانہ فرمایا اور حضرت ابوعبیدہؓ نے یہاں بھی خوب امانت کا حق ادا کرنے کی توفیق پائی۔
انتخاب خلافت اولیٰ
10ہجری میں حضرت ابوعبیدہؓ حجۃ الوداع کے سفر میں بھی رسول اللہﷺکے ہم رکاب تھے۔ جس کے بعد ہمارے آقا و مولا نے سفر آخرت اختیار فرمایا۔ رسول اللہﷺکی وفات نے مسلمانوں کی زندگی پر ایک زلزلہ برپا کردیا اپنے آقا کی المناک جدائی کے صدمے سے مغلوب صحابہ رسولؐ بے چین اور بے قرار تھے اور مارے غم کے دیوانے ہوئے جارہے تھے۔ چنانچہ سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار کے ایک سردار رسول اللہؐسے تعلق محبت کی بناء پر انصار میں سے امیر مقرر کئے جانے کا سوال اٹھا رہے تھے۔ اس موقع پر جب خلافت ایسی اہم امانت کی سپردداری کا مسئلہ زیر غور تھا۔ بزرگ صحابہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور ابوعبیدہؓ نے انصار کو سمجھایا اور ہر ایک نے نہایت عجز اور انکسار سے اپنے بزرگ مہاجر بھائی کا نام پیش کرکے صدق دل سے اپنی بیعت پیش کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: دیکھو تم میں عمرؓ موجود ہیں، جن کی ذات سے خدا نے دین کو معزز کیا اور تم میں ابوعبیدہؓ بھی ہیں جن کو امین الامت کا خطاب دیا گیا ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو، بیعت کرکے اکٹھے ہوجائو۔‘‘(18)
حضرت عمرؓ نے اپنی معذرت پیش کرتے ہوئے ان دونوں بزرگوں کے نام لئے اور حضرت ابوبکرؓ کے طبعی پس و پیش کو دیکھ کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے یہاں تک کہا کہ ابوعبیدہؓ آپ بیعت لینے کے لئے ہاتھ بڑھائیں۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امین ہیں۔ اس پر ابوعبیدہؓ نے اپنی رائے کا حق امانت یوں ادا کیا کہ’’ مجھے ہرگز ایسے شخص پر تقدم روا نہیں جنہیں آنحضرتﷺنے اپنی آخری بیماری میں ہمارا امام مقرر فرمایا اور حضورﷺی وفات تک انہوں نے ہمیں امامت کروائی۔‘‘(19)
پھر انصار صحابہؓ کو کیسی عمدگی سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو’’ اے انصار! تم رسول ؐاللہ کی نصرت کرنے والے اوّلین لوگ تھے۔ آج اس کو سب سے پہلے بدلنے والے نہ بن جانا۔‘‘(20)
الغرض خلافت اولیٰ کے انتخاب کے اہم اور نازک مرحلے پر بھی امین الامت حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنے خطاب کی خوب لاج رکھی اور امانت کا حق ادا کر دکھایا۔
حضرت عمرؓ کو حضرت ابوعبیدہؓ کی عملی زندگی میں کامل امین ہونے پر جو بھرپور اعتماد تھا اس کا اظہار انہوں نے اپنی وفات سے قبل اپنی ایک دلی تمنا کے رنگ میں یوں کیا کہ اگر آج ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں ان کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرجاتا اور اس کے بارہ میں کسی سے مشورہ کی بھی ضرورت نہ سمجھتا اور اگر مجھ سے جواب طلبی ہوتی تو میں یہ جواب دیتا کہ خدا اور اس کے رسولؐ کے امانت دار شخص کو اپنا جانشین مقرر کر آیا ہوں۔(21)
شاندار فتوحات اور مفتوحین سے حسن سلوک
خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنے دور خلافت میں حضرت ابوعبیدہؓ پر بھر پور اعتماد کرتے ہوئے ملک شام کے چاروں اطراف میں نبرد آزما تمام فوجوں کی کمان ان کے سپرد کی۔آپ کے ماتحت چاروں لشکروں کے امیر تھے۔متحدہ فوجوں نے فتح بصری و اجنادین کے بعد دمشق کا محاصرہ کیا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات ہو گئی۔
حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانہ خلافت تک یہ طویل محاصرہ جاری رہا ایک روز حضرت خالد بن ولیدؓکمال حکمت عملی سے منصوبہ بندی کر کے شہر کے ایک طرف سے فصیل پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے اور شہر کے اس حصہ کے دروازے کھول دئیے آپ کی سپہ اندر داخل ہو گئی اور شہر کی دوسری جانب ابوعبیدہؓدروازہ توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔عیسائیوں نے جب یہ دیکھا کہ ابوعبیدہؓ شہر فتح کر لیں گے تو انہوں نے حضرت خالد ؓ کے لئے مشرقی دروازہ کھول کر ان سے تحریری صلح کرلی۔ اگرچہ یہ ان کی واضح دھوکہ دہی تھی کیونکہ ایک تو حضرت خالد ؓامیر نہ تھے دوسرے ایک طرف سے شہر مفتوح ہونیکی حالت میں پورے شہر کی طرف سے مصالحت کی تحریر لاعلمی میں لی گئی ہرچند کہ دھوکہ کے ساتھ کئے گئے اس معاہدہ صلح کی کوئی اہمیت نہیںتھی مگر حضرت خالدؓعیسائیوں کو جو امان دے چکے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اسے واپس لینا پسند نہ فرمایا۔اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ بے شک خالدؓ امیر لشکر نہیں پھر بھی رسولؐاللہ کا ارشاد ہے کہ کسی ایک مسلمان کی طرف سے دی گئی امان تمام مسلمانوںکی طرف سے پناہ سمجھی جائے گی۔(22)چنانچہ نصف شہر دمشق کے مفتوح ہونے کے باوجود اہل شہر کو قیدی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی مال غنیمت لوٹا گیا بلکہ مصالحت کے احکام جاری کرتے ہوئے اہل شہر کو مکمل امان دی گئی۔ایک روایت میں خالدؓ کے فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہونے اور ابوعبیدہؓ کے صلح کرنے کا ذکر ہے جو صحیح نہیں۔
حضرت عمرؓ نے جب حضرت خالدؓ کی بجائے حضرت ابوعبیدہؓ کو امیر لشکر مقرر فرمایا تو حضرت خالدؓ نے کمال اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اے مسلمانو! تم پر اس امت کے امین امیر مقرر ہوئے ہیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ہے کہ خالد ؓخدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔
بااصول قائد
معرکہ فحل میں حضرت ابوعبیدہؓ کی خدمت میں جو رومی سفیر حاضر ہوا وہ رومی جرنیلوں کے مقابل پر اسلامی جرنیل کی سادگی دیکھ کر اول تو پہچان ہی نہ سکا۔ پھر ملاقات کر کے ان کی سادگی وقار اور رعب سے بہت متاثر ہوا۔
اسی موقع پر اس سفیر نے وہ تاریخی پیشکش بھی کی کہ آپ کے ہر سپاہی کو ہم دو اشرفیاں دیں گے اگر آپ لوگ یہیں سے واپس چلے جائو۔ حضرت ابوعبیدہؓ جیسے جری اورامین انسان اصولوں کا یہ سودا کیسے کر سکتے تھے؟چنانچہ اگلے روز دونوں فوجوںکے درمیان میدان جنگ میں بلا کارن پڑا ۔حضرت ابوعبیدہؓنے قلب لشکر میں رہ کر نہایت دانشمندی اور دلیری سے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے بہت بڑی رومی فوج کو شکست فاش دی۔
فتح حمص کے بعد لاذقیہ کا قلعہ بند شہر بھی ابوعبیدہؓ نے کمال دانشمندی سے اس طرح فتح کیا کہ مخفی طور پر کچھ خندقیں کھدوا کر اپنی فوج کا ایک حصہ وہاں چھوڑا اور باقی فوج کو کوچ کاحکم دیدیا۔ محصورین نے دیکھا کہ فوج پڑائو اٹھا چکی تو شہر پناہ کے دروازے کھول دیئے۔ ابوعبیدہؓ کی سپاہ خندقوں سے نکل کر شہر میں داخل ہو گئی۔(24 )
اسلامی عدل کا شاندار نمونہ
ان متواتر شکستوں کے بعد شہنشاہ روم نے ملک بھر سے فوجیں یر موک میں جمع کر لیں۔حضرت ابوعبیدہؓ نے مقابلہ کے لئے جرنیلوں سے مشورہ طلب کیا تو یہ تجویز پیش ہوئی کہ مفتوحہ علاقوں کی تمام فوجوں کو مقابلہ کے لئے اکٹھا کیا جائے مگر اس صورت میں مسلمان عورتوں اور بچوں کو مفتوح عیسائی باشندوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا خطرے سے خالی نہ تھا اوردوسری طرف مفتوحہ علاقوں کے لوگوں سے جزیہ وخراج لے کر ان کی حفاظت کے وعدے کئے تھے۔چنانچہ اس نازک موقع پر امین الامت حضرت ابوعبیدہؓ نے جو تاریخی فیصلہ فرمایا وہ آپ کی شان امانت کو خوب ظاہر کرتا ہے آپ نے فرمایا کہ’’ مفتوحہ علاقوں سے فوجیں دمشق جمع ہوں اور وہاں کے باشندوں کو ان سے وصول شدہ جزیہ واخراج آپ نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ فی الوقت ہم آپ کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرنے سے معزور ہیں اسلئے اپنی امانت واپس لے لو‘‘ چنانچہ حمص کے عیسائیوں اور دیگر مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کو کئی لاکھ کی رقم واپس دی گئی ،اس بے نظیر عدل وانصاف اور ادائیگی امانت کا ان پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے کہاتمہاری عادلانہ حکومت ہمارے لئے پہلے کی ظالمانہ حکومت سے بہت بہتر ہے۔اور مسلمان جب وہاں سے روانہ ہونے لگے تو مقامی عیسائی باشندے انہیں الوداع کرتے ہوئے روتے جاتے تھے اور دلی جوش سے یہ دعائیں کر رہے تھے کہ خدا تم کو پھر واپس لائے۔ یہودیوں نے تو یہاں تک کہا کہ تورات کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا ۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے اور ہر جگہ پہرہ بٹھا دیا۔(25)
میدان وغامیں دعوت الی اللہ
معرکہ یرموک سے پہلے فریقین میں سفارتوں کا تبادلہ ہوا تو جارج نامی رومی قاصد نے اسلامی لشکر گاہ میں آکر انہیں باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا پھر جب حضرت ابوعبیدہؓ نے اسلام کا پیغام اسے پہنچایا اور حضرت عیسیٰؑ کے بارہ میں سورہ نساء کی وہ آیات سنائیں جن میں آپ کو خدا کا رسول اور کلمۃ اللہ کہا گیا ہے تو جارج نے حق و صداقت کی گواہی دیتے ہوئے اسلام قبول کر لیا اور واپس جانے سے انکار کر دیا مگر امین الامت نے باصرار اسے اسلامی سفیر حضرت خالدؓکے ساتھ واپس جانے پر مجبور کیا اور یوں سفارت کے حق امانت پر بھی کوئی آنچ نہ آنے دی۔ان سفارتوں کے ناکام ہونے کے بعد ابوعبیدہ ؓ نے میدان یرموک میں اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے معرکہ کی قیادت کی جس میں تیس ہزار مسلمانوں نے کئی لاکھ رومی فوج کو شکست فاش دی اور تین ہزار مسلمانوں کے مقابل پر ستر ہزار رومی مارے گئے۔(26)
بیت المقدس کی تاریخی فتح
بیت المقدس کی تاریخی فتح میں حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اہم کردار کیا۔ حضرت عمروبن العاصؓکے محاصرہ بیت المقدس کے دوران عیسائیوں نے اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ خلیفۃُ المسلمین حضرت عمرؓخود آکر اس مقدس شہر سے معاہدہ صلح طے کریں چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ کی درخواست پر حضرت عمرؓ نے خود تشریف لا کر معاہدہ صلح فرمایا14ھ میں حضرت عمرؓ نے خالد بن ولیدؓ کی جگہ ابوعبیدہؓ کو والی دمشق مقرر فرمایا۔اسکے بعد ملک شام میں آپ ہی کے ذریعہ عہد فاروقی کی بہت ساری اصلاحات عمل میں آئیں۔ علاوہ ازیں حضرت ابوعبیدہؓ نے ایک عظیم الشان داعی الی اللہ کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک طرف شام میں آباد عیسائی عربی قبائل تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا انتظام کیا اور وہ آپ کی کوششوں سے مسلمان ہوئے۔ دوسری طرف شامی اور رومی عیسائی بھی آپ کے اخلاق و کردار اور عدل و انصاف سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوئے۔(27)
طاعون عمواس اور ابوعبیدہؓ کا مقام رضا بالقضاء
18ھجری میں حضرت ابوعبیدہؓ عمواس مقام پر پڑائو کئے ہوئے تھے کہ شام میں مہلک طاعون پھوٹ پڑی۔حضرت عمرؓ ملک شام کے دورہ پر نکلے تھے۔ سرغ کے مقام پر حضرت ابوعبیدہؓ نے آپؓکا استقبال کیا۔یہاں پر آکر پتہ چلا کہ طاعون اور شدت اختیار کر چکی ہے۔صحابہ کرام نے حضرت عمرؓ کو مشورہ دیا کہ وہ یہیں سے واپس چلے جائیں اور طاعون زدہ علاقے میں داخل نہ ہوں ورنہ وبالگ جانے کا خطرہ ہے۔(28)
حضرت عمرؓ خود رضا بالقضاء کے اعلیٰ مقام پر تھے ۔ آپ نے صحابہ کا مشورہ احتیاطی تدبیر کے طور پر بادل ناخواستہ قبول تو فرما لیا اور مدینہ واپس لوٹے لیکن برملا اظہار ضرور فرماتے رہے کہ عین ملک شام کے سر پر پہنچ کر ان لوگوں نے طاعون کی وجہ سے مجھے واپس آنے پر مجبور کیا حالانکہ میں خوب جانتا ہوں کہ نہ تو میرا وہاں سے واپس لوٹنا مجھے موت کے منہ سے بچا سکتا ہے اور نہ ہی میرا وہاں جانا مجھے میری موت کے مقررہ دن سے پہلے لقمہ اجل بنا سکتا تھا۔ مدینہ میں فرائض منصبی سے فارغ ہو کر جونہی مجھے موقع ملا میں جلد پھر شام کا قصد کرونگا۔(29)
مسئلہ تقدیر
سرغ میں انصار و مہاجرین سے حضرت عمرؓ کے مشورہ کے دوران یہ بحث چھڑی کہ حضرت عمرؓکو وباء زدہ علاقہ میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔صحابہ کا ایک گروہ اسکے خلاف تھا ان میں حضرت ابوعبیدہؓ بھی تھے(جنہیں حضرت عمرؓ نے طاعون زدہ علاقہ چھوڑ کر اپنے ساتھ مدینہ چلنے کی بھی دعوت دی تھی مگر انہوں نے اسلامی فوج کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی)حضرت ابوعبیدہؓ کی قلندرانہ رائے یہ تھی کہ حضرت عمرؓ کو دورہ مکمل کئے بغیر واپس نہیں جانا چاہئے۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ کیا ہم موت سے بچنے کے لئے تقدیر سے بھاگیں گے؟حضرت عمرؓ نے جو مسئلہ تقدیر پر گہری نظر رکھتے تھے فرمایا کہ ابوعبیدہؓ مجھے آپ سے یہ امید نہ تھی (آپ میرے بارے میں یہ خیال کریں کہ موت سے بچنے کی خاطر یہ اقدام کر رہا ہوں)اور پھر انہیں مسئلہ تقدیر سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جارہے ہیں اور ایک نہایت عمدہ مثال سے اسے یوں واضح فرمایا کہ اے ابوعبیدہ اگر آپ کو دو وادیوں میں اونٹ چرنے کا اختیار ہو جن میں ایک سر سبزو شاداب اور دوسری بنجر ہو اور آپ سر سبز وادی میں جانور چرائیں تو کیا یہ اللہ کی تقدیر سے نہیں ہو گا؟اسکے بعد حضرت عبدالرحمٰنؓبن عوف(جو موقع پر موجود نہیں تھے)نے آکر رسول اللہؐ کی ایک روایت سنا کر یہ مسئلہ واضح کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے رسول اللہﷺسے سنا ہے کہ اگر تمہیں کسی علاقہ میں وبا کا پتہ چلے تو اس سرزمین میں داخل نہ ہو اور اگر تم پہلے سے اس علاقہ میں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر مت نکلو۔اس پر حضرت عمرؓنے واپسی کے اپنے صائب فیصلہ پر اللہ کی حمد کی اور واپس روانہ ہوئے۔(30)
معلو م ہوتا ہے کہ حضرت ابوعبیدہؓ ،عبدالرحمان بن عوفؓ سے یہ حدیث سن کر اپنی اس رائے پر مزید پختہ ہو گئے کہ انہیں یہ وبا زدہ علاقہ چھوڑنا نہیں چاہئے۔ چنانچہ مدینہ واپس پہنچ کر حضرت عمرؓ نے جب آپ کو ایک خط کے ذریعہ کسی کام کے عذر سے مدینہ بلوا بھیجا ۔آپ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید طاعون سے بچانے کے لئے مجھے مدینہ بلوارہے ہیں عرض کیا کہ میں اسلامی لشکر کو چھوڑ کر آنا پسند نہیں کرتا حضرت عمرؓ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ اپنالشکر کسی پر فضا جگہ پر منتقل کریں۔ چنانچہ آپ نے اس کی تعمیل کی اور جابیہ منتقل ہو گئے۔( 31)
بیماری اور وفات
جابیہ میں خدا کی وہ تقدیر ظاہر ہو گئی جس کا ابوعبیدہؓ کو انتظار تھا۔ (عین ممکن ہے ان کا مدینہ نہ جانے پر اصرار بھی اس تقدیر الٰہی کا کوئی واضح اشارہ پانے کے نتیجہ میں ہو) حضرت ابوعبیدہؓ بیمار ہوئے تو معاذ بن جبلؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’اے لوگو طاعون کی وبا بھی فی الحقیقت تمہارے رب کی رحمت اور تمہارے نبیؓ کی دعوت ہے۔ بہت سے نیک لوگ اس میں جاں بحق ہوئے اور ابوعبیدہؓ بھی اپنے رب سے یہی دعا کرتا ہے کہ وہ مجھے اس شہادت سے حصہ عطاء فرمائے۔ پھر اسی طاعون سے آپ کی وفات ہوئی۔(31)
اس طرح ابوعبیدہؓ کی شہادت کی وہ سچی تمنّا جو میدان جنگ میں پوری نہ ہوسکی تھی 58سال کی عمر میں طاعون کے ذریعہ خدا نے پوری فرمادی۔(32)
آپ کا جنازہ وصیت کے مطابق حضرت معاذ بن جبلؓ نے پڑھایا اور اس موقع پر صحابہؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے لوگو آج تم سے ایک ایسا شخص رخصت ہوا ہے کہ خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ اس سے زیادہ صاف دل، پاک سینہ، سیر چشم، حیاء دار اور لوگوں کا بہی خواہ میں نے کوئی نہیں دیکھا۔ پس اٹھو اور اسکے لئے رحمت کی دعا مانگو۔‘‘(33)
واقعی حضرت ابوعبیدہؓ کی زندگی سادگی، عجزو انکسار، امانت و دیانت اور رعایا پروری کا خوبصورت نمونہ تھی۔
سادگی
آپ کی سادگی اور دنیا سے بے رغبتی کا ایک نظارہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب حضرت عمرؓ شام تشریف لے گئے۔ اسلامی فوجوں کے سالارِ اعلیٰ حضرت ابوعبیدہؓ سادہ کپڑوں میں ایک اونٹنی پر سوار ہو کر استقبال کے لئے نکلے۔ مگر جب حضرت عمرؓ نے دیگر مسلمان جرنیلوں کو شامی قبائیں پہنے دیکھا (جو انہوں نے خلیفہ وقت کے استقبال اور اعزاز کی خاطر زیب تن کی تھیں) تو اس اندیشہ سے کہ یہ لوگ امیرانہ ٹھاٹھ اور عجمی عادات اور اسراف کی عادات اختیار نہ کرلیں ان کو تنبیہہ فرمائی۔ مگر جب حضرت ابوعبیدہؓ کے ہاں فروکش ہوئے تو معاملہ برعکس تھا۔ وہاں ایک تلوار، ڈھال اور اونٹ کے پالان کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ابوعبیدہؓ کچھ گھر کا سامان ہی بنا لیا ہوتا۔ عرض کیا اے امیر المومنین ہمارے لئے بس یہی کافی ہے۔(34)
مجاہدین اسلام سے حسن سلوک
آپ اپنے اوپر کچھ خرچ کرنے کی بجائے اپنے مجاہدوں اور سپاہیوں کا بہت خیال رکھتے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے آپ کو چارسو دینار اور چار ہزار درہم بطور انعام بھجوائے۔ آپ نے تمام رقم اپنی فوج کے سپاہیوں میں تقسیم کردی اور اپنے لئے ایک حصہ بھی رکھنا پسند نہ کیا۔ حضرت عمرؓ کو پتہ چلا تو بے اختیار کہہ اٹھے کہ الحمدللہ ابھی مسلمانوں میں ابوعبیدہؓ جیسے لوگ موجود ہیں۔(35)
بے نفسی
اس زہد اور بے نفسی کے باوجود خشیّت کا یہ عالم تھا کہ آخری بیماری میں ایک صحابیٔ رسولﷺ آپ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ ابوعبیدہؓ رو رہے ہیں۔ پوچھا کیوں روتے ہیں؟ فرمایا اس لئے روتا ہوں کہ رسول کریم ﷺنے ایک دفعہ مسلمانوں کی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے ابوعبیدہ اگر تمہاری عمر وفا کرے اور فتوحات کے اموال آئیں تو تین خادم اور تین سواریاں تمہارے لئے کافی ہیں۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے زیادہ غلام اور سواریاں ہیں۔ سوچتا ہوں کہ کس منہ سے اپنے آقا سے ملوں گا۔ آپ نے ہمیں وصیت فرمائی تھی کہ تم میں سے زیادہ میرے قریب اور میرا پیارا وہ شخص ہے جو مجھے اس حال سے آکر ملے جس حال پر میں چھوڑ کر جارہا ہوں۔(36)
حضرت ثابتؓ بنانی بیان کرتے ہیں ابوعبیدہؓ شامی فوجوں کے کمانڈر انچیف تھے۔ ایک دن افواج سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’تم میں سے کوئی مجھے اپنے اوپر تقویٰ میں فضلیت نہ دے میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ سلامت رہوں۔‘‘(37)
حضرت ابوعبیدہؓ کی دانشمندی بے نفسی اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھنے کا وہ واقعہ بھی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا کہ حضرت ابوعبیدہؓ کو حضرت عمرؓ کا خط ملا۔ جس میں حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا ذکر تھا اور حضرت عمرؓ نے حضرت خالدؓ کو معزول کرتے ہوئے حضرت ابوعبیدہؓ کو امیرلشکر مقرر فرمایاتھا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے خالدؓ کو وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اس وقت تک اس کی اطلاع نہیں کی جب تک اہل دمشق کے ساتھ صلح نہ ہوگئی اور معاہدہ صلح پر آپ نے حضرت خالدؓ سے دستخط کروائے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو بعد میںپتہ چلا تو آپ سے شکوہ کیا مگر آپ ٹال گئے اور ان کے کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مطمئن کردیا۔اسلامی جرنیل حضرت خالدؓنے اس موقع پر اطاعت خلافت کا شاندار نمونہ دکھاتے ہوئے کہا لوگو! تم پراس امت کے امین امیر مقرر ہوئے ہیں۔حضرت ابوعبیدہؓ نے جواب میں کہا میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے سنا ہے کہ خالدؓ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے اور قبیلہ کا بہتریں نوجوان ہے۔(38)
رواداری
حضرت ابوعبیدہؓ کا حسن سلوک اپنوں سے ہی نہیں پرایوں اور بیگانوں سے بھی رواداری اور احسان کا تھا۔ چنانچہ شام کی عیسائی رعایا کو آپ نے مکمل مذہبی آزادی عطا فرمائی اور اسلامی فتوحات کے بعد مفتوحہ علاقوں میں عیسائیوں پر ناقوس بجانے اور صلیب نکالنے کی جو پابندیاں تھیں، آپ نے ان میں نرمی اور آزادی عطا فرمائی۔ جس کا عیسائیوں پر بہت نیک اثر ہوا۔
الغرض حضرت ابوعبیدہؓ کو رسول خدا ؐ نے امین الامت کاجو خطاب عطا فرمایا تھا انہوں نے اس کی خوب لاج رکھی۔ آپ کی ساری زندگی ادائیگی امانات کا خوبصورت مرقع اور بہترین تصویر نظرآتی ہے۔ تبھی تو حضرت عمرؓ آپ کو صحابہ رسول میں ایک ممتاز مقام کا حامل قرار دیتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اپنی مجلس میں ایک نہایت اچھوتے انداز میں حضرت ابوعبیدہؓ کے کمالات کا تذکرہ کیا۔ پہلے اپنے مصاحبوں سے فرمایا کہ اپنی اپنی خواہش اور تمنا بیان کرو کسی نے کہا میرا دل کرتا ہے کہ سونے چاندی سے بھرا ہوا میرا گھر ہو اور وہ راہ خدا میں صدقہ کردوں۔ کسی نے کچھ اور تمنا کا اظہار کیا۔ حضرت عمرؓ فرمانے لگے ’’میرا دل کرتا ہے کہ ایک وسیع گھر ہو جو ابوعبیدہؓ جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہو۔‘‘(39)
حوالہ جات
1-
اصابہ جز4صفحہ10-11
2-
اسد الغابہ جلد3 صفحہ84
3-
اصابہ جز4 صفحہ1-2
4-
اصابہ جز4 صفحہ12
5-
بخاری کتاب المغازی
6-
اسد الغابہ جلد3صفحہ85
7-
بخاری کتاب المغازی و کتاب المناقب
8-
فضائل الصحابہ جلد2 صفحہ741
9-
اصابہ جز 4 صفحہ11
10-
ابن سعد جلد3 صفحہ410و استیعاب جلد ص 342
11-
الاکمال ذکر ابوعبیدہؓ
12-
ابن سعد جلد3 صفحہ62
13-
اصابہ جز 4 صفحہ12
14-
بخاری کتاب المغازی
15-
فتوح البلدان
16-
بخاری کتاب الرقاق
17-
فتوح البلدان صفحہ70
18-
تاریخ یعقوبی جلد2 صفحہ123،استیعاب جلد 2ص 342
19-
فضائل الصحابہ جلد2 صفحہ741
20-
بخاری کتاب الرقاق
21-
الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ413
22-
فتوح البلدان صفحہ127 و مسند احمد بن جلد1صفحہ195
23-
الفاروق صفحہ122-123
24-
فتوح البلدان صفحہ138-139
25-
فتوح البلدان صفحہ143-144
26-
فتوح البلدان صفحہ141
27-
الفاروق شبلی نعمانی صفحہ132
28-
بخاری کتاب الطب باب مایذکر فی الطاعون
29-
مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ18-19
30-
بخاری کتاب الطب باب مایُذکرفی الطاعون
31-
مسند احمد بن حنبل جلد1صفحہ196
32-
اصابہ جز 4 صفحہ12
33-
اصابہ جز 4 صفحہ13
34-
اصابہ جز 4 صفحہ12
35-
ابن سعد جلد 3صفحہ413
36-
مسند احمد جلد 1صفحہ196
37-
اصابہ جز4 صفحہ12
38-
طبری جز 4 صفحہ254-255 بیروت،مسند احمد جلد 4ص 90
39-
ابن سعد جلد 3 صفحہ413
حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف
حلیہ و نام ونسب
لمبا قد،سرخی مائل سفیدرنگ،خوبصورت چہرہ،باریک بھوئیں،بھری ہتھیلیاں،موٹی انگلیاں، نرم جلد،داڑھی اورسر کے بال رنگتے نہیں تھے۔یہ تھے عبدالرحمن عوف۔جن کا اصل نام عبدالکعبہ یاعمروبن عوف تھا۔ایمان لائے توآنحضر تﷺ نے عبدالرحمن نام رکھا جو ناموں میںآپ کو سب سے زیادہ پسند تھا۔آپ ان دس خوش نصیب بزرگ اصحاب میں سے تھے جنہیں رسول اللہ ﷺے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی او رعشرہ مبشرہ میں شامل ہوئے ۔ ( 1 )
والد کا نام عوف اور والدہ کا نام صفیہ یا شفا تھا۔ دونوںزہرہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، کنیت ابو محمد تھی۔ نسب آٹھویں پشت میں رسول کریم ؐسے مل جاتا ہے۔ واقعہ فیل کے بعددسویں سال میںپیدا ہوئے۔(2)
قبول اسلام
رسول اکرم ﷺکے دعویٰ نبوت کے وقت آپ کی عمر تیس برس سے زائد تھی۔آپ ایک نیک مزاج اور پاک فطرت انسان تھے۔ زمانہ جاہلیت میں ہی شراب سے تائب ہو چکے تھے۔ نبی کریمﷺکے دعویٰ سے پہلے حضر ت عبدالرحمنؓ کی ملاقات اپنے تجارتی سفر کے دوران یمن میں ایک بوڑھے سے ہوا کرتی تھی ۔ وہ آپ سے پوچھا کرتا تھا کہ تمہارے اندر کوئی دعویدار نبوت تو ظاہر نہیں ہوا۔جس سال حضور کی بعثت ہوئی اسے میں نے بتایا تو اس نے کہا کہ میں تجھے تجارت سے بہتر بشارت دیتا ہوں کہ یہ شخص نبی ہے تم فوراً جائو،اس کی تصدیق کرو اور میرے یہ اشعار اسے جاکر سنائو۔ واپس آکر حضرت ابوبکرؓ سے ملاقات ہوئی اور اس واقعہ کا ذکر ہوا پھر رسول کریمؐ کو یہ واقعہ اور اشعار آکر حضرت خدیجہ کے گھر سنائے اور اسلام قبول کر لیا۔ عبدالرحمنؓبہت ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔قبول اسلام کے بعد آپ کو بھی وطن کی قربانی دینی پڑی۔ پہلے حبشہ ہجرت فرمائی پھر مدینہ رسول کی طرف دوسری ہجرت کی سعادت ملی۔ آپؓایک بہت اچھے تاجر تھے۔مگر ہجرت کے وقت مال جائیداد بیوی بچے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رسول خد اﷺکے قدموں میں حاضر ہو گئے۔
مؤاخات
حضورﷺنے حضرت سعدؓ بن ربیع انصاری کو آپ کا بھائی بنایا حضرت سعدؓ انصار میں بڑے مالدار اور فیاض انسان تھے۔انہوں نے اس دینی اور روحانی رشتہ کا اتنا پاس کیا جس کی مثال تاریخ عالم میںکہیں نہیں مل سکتی۔وہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف سے کہنے لگے ’’رسول اکرمﷺنے آپ کو میرا بھائی بنایا ہے۔ یہ میرا مال اور جائیداد حاضر ہے، میں اس کو نصف نصف بانٹ دیتا ہوں۔نصف آپ کی خدمت میں پیش ہے۔میری دو بیویاں ہیں۔ آپ جسے پسند کریں میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور آپ (عدت کے بعد) نکاح کر لینا۔‘‘حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف بھی نہایت غیور اور سیر چشم انسان تھے۔ آپ کی غیرت نے اپنے اسلامی بھائی سے کچھ لینا گوارا نہ کیا۔یہی کہا کہ’’ خدا آپ کے مال اور اہل وعیال میںبرکت ڈالے آپ مجھے صرف بازار کا راستہ بتا دیں۔‘‘ پھر آپؓبنو قنیقاع کے بازار میں چلے گئے اور معمولی پونجی سے آپؓ نے گھی ،پنیراورچمڑے کی تجارت شروع کر دی۔ پہلے ہی دن آپ کچھ گھی اور پنیر نفع میں کما کر لے آئے۔ چند دنوں میں اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ آپ نے نہایت سادگی سے عرب کے دستور کے مطابق ایک انصاری عورت کے ساتھ شادی کر لی۔ رسول کریم ؐکی خدمت میں حاضر ہوئے تو جسم پر مراسم شادی دیکھ کر رسول اکرم ؐپہچان گئے اور بہت محبت سے پوچھا عبد الرحمن یہ کیا ہے؟عرض کیا حضور شادی کر لی ہے ۔ آنحضرت ؐ نے مہر کے بارے میں استفسار کیا ۔حضرت عبدالرحمنؓبن عوف نے بتایا کہ گٹھلی برابر سونا میں پہلے ہی حق مہر کے طور پر ادا کر چکا ہوں۔حق مہر کی مالیت سے حضور کو اندازہ ہوا کہ مالی حالت بہتر ہونا شروع ہو چکی ہے تب فرمایا کہ اچھا اب اپنے دوستوں کے لئے دعوت ولیمہ کا بھی انتظام کرو خواہ ایک بکری ہی سہی۔(3) یوں حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے مدینے میںرسول اللہؐ کی دعائوں سے اپنی نئی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔
غزوات میں شرکت
غزوات النبیؐ کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو رسول اللہﷺکے شانہ بشانہ کمال استقامت اور شجاعت کے ساتھ خدمات بجا لانے کی سعادت نصیب ہوئی۔غزوہ بدر میں اپنی شرکت کا دلچسپ حال آپ یوں بیان فرمایا کرتے تھے کہ معرکہ بدر میں میں نے اپنے دائیں بائیںدونوں جانب نگاہ ڈالی۔جنگ میں جب تک دونوں پہلو صحیح طور پر مضبوط نہ ہوں انسان لڑائی کا حق ادا نہیں کر سکتا۔میں دیکھتا ہوں کہ دو نوجوان انصاری لڑکے میرے دائیں بائیں ہیں۔ ابھی میں ان کے بارہ میں سوچ ہی رہا تھا کہ دونوں نے آہستہ سے باری باری مجھ سے پوچھا کہ چچا ابو جہل کہاں ہے؟جو ہمارے آقا محمدﷺکے خلاف بد زبانی کرتا ہے۔میں نے کہاوہ سامنے سخت پہرہ میں ابو جہل موجود ہے۔کہتے ہیں کہ میرے اشارہ کی دیر تھی کہ وہ دونوں باز کی طرح اپنے شکار پر جھپٹے اور ایسا وار کیا کہ آن واحد میں ابو جہل کی گردن تن سے جدا کر کے رکھ دی۔(4)
خود حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف نے بھی غزوہ بدر میں اپنا حق خوب ادا کیا۔پھر غزوہ احد کا معرکہ پیش آیا تو اس جانبازی سے لڑے کہ بدن پر بیس سے زیادہ زخم آئے تھے۔پاؤں پر تو ایسے سخت زخم آئے تھے کہ اچھا ہونے کے بعد بھی لنگڑا کر چلا کرتے تھے۔اسی طرح آپ کے اگلے دو دانت بھی گر گئے تھے۔(5)
دیگر مہمات میں شرکت
چھ ہجری میں آنحضرتﷺ نے آپ کو دومۃ الجندل کی مہم پر روانہ فرمایا ۔اپنے دست مبارک سے حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے سر پر عمامہ باندھااور علم عطا کر کے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کرروانہ ہوںقبیلہ کلب کو جا کر اسلام کی دعوت دیں اور اگر وہ معاہدہ صلح کی طرف مائل نہ ہوں تو پھر راہ خدا میں ان سے جہاد کی نو بت آئے تو جہاد کریں۔مگر جنگ میں کسی کو دھوکہ نہ دینا بچوں کو نہ مارنا کسی پر زیادتی نہ کرنااور جب اللہ تعالیٰ ان پر فتح دے تو ان کے سردار کی بیٹی تماضہ بنت اصبغ سے نکاح کر لینا۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف دومۃ الجندل تشریف لے گئے۔توتین روز تک مسلسل تبلیغ کرتے رہے۔اور عیسائی قبیلہ کلب کے سردار اصبغ اور اس کی قوم کے بہت سے لوگ آپ کی دعوت الی اللہ کے نتیجے میں مسلمان ہو گئے۔جبکہ باقی لوگوں نے جزیہ دینا منظور کیا۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے آنحضرتؐ کے ارشاد کے مطابق قبیلہ کے سردار اصبغ کی بیٹی سے نکاح کیا اور انہیں بیاہ کر مدینہ لے آئے انہی کے بطن سے آپ کے صاحبزادہ ابو سلمہ پیدا ہوئے۔جو بڑے فقیہ بنے۔(6)
فتح مکہ کے سفر میں بھی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف شامل تھے۔فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی حضرت خالد ؓبن ولید سے کسی معاملے میں تکرار ہو گئی۔ نبی کریمﷺکو خبر ہوئی تو خالدؓ سے فرمایا کہ میرے اصحاب کو کچھ نہ کہو اگر تم خداکی راہ میں جبل احد کے برابر بھی سونا صرف کرو تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔فتح مکہ سے حجۃ الوداع تک مہمات میں حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف شریک رہے۔رسول کریمﷺنے انہیں سفرمیں کسی عذرکی وجہ سے ریشم کے استعمال کی اجازت فرمائی تھی۔
قیام خلافت اور مشاورت میں کردار
رسو ل اکرمﷺکی وفات کے سانحہ پر آپ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر اولین بیعت کرنے والوں میں سے تھے۔حضرت ابو بکر ؓ کو بھی آپ پر بہت اعتماد تھا۔ آپ نے ہمیشہ حضرت ابو بکرؓ کے مشیر اور معاون ہونے کا حق ادا کیا۔۱۳ھ میں حضرت ابو بکرؓ نے اپنی آخری بیماری میں حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کو بلا کر اپنے جانشین کے بارہ میں مشورہ کیا اور حضرت عمرؓ کا نام تجویز کیا۔انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت عمرؓ کی اہلیت میں تو کوئی شبہ نہیں مگر طبیعت ذرا سخت ہے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ خلافت کا بوجھ پڑے گا تو خود بخود ہی نرم ہو جائیں گے۔
حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے توانہوں نے مجلس شوریٰ قائم کی۔ عبدالرحمنؓ بن عوف اس کے اہم رکن تھے۔ کئی معاملات میں آخری فیصلہ حضر ت عبدالرحمن ؓبن عوف کی رائے کے مطابق ہوا۔ عراق پر فوج کشی کے لئے جب کئی صحابہ نے حضرت عمرؓ کو نہایت پر زور اصرار کے ساتھ اس لشکر کی کمان خود سنبھالنے کے لئے درخواست کی تو حضرت عمرؓ نے اس کا ارادہ کر لیا اور مدینہ پر حضرت علیؓ کو امیر مقرر کرکے جہاد کیلئے روانہ ہوئے۔ابھی مدینہ کے باہر پڑائو تھا کہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے اس سفرکی مخالفت کرتے ہوئے پھرعرض کیا کہ لڑائی میں دونوں امکان ہوتے ہیں اور خدا نخواستہ امیرالمومنین کو کوئی نقصان پہنچ گیا تو اسلام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی یہ رائے سن کر سب صحابہ اس کے قائل ہو گئے۔مگر اب مشکل یہ تھی کہ اب اس لشکر کی کمان کون کرے۔کیونکہ حضرت علیؓ بھی بوجہ بیماری عذر بیان کر چکے تھے۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی عمدہ رائے سے یہ مسٔلہ بھی حل ہوگیا۔آپ نے اس لشکر کی سپہ سالاری کے لئے حضرت سعد ؓبن ابی وقاص کا نام تجویز کیابعد کے واقعات نے بھی یہ ثابت کیا کہ حضرت سعدؓ ہی اس لشکر کی قیادت کے اہل تھے۔
23ہجری میں حضرت عمرؓ پر فجر کی نما زمیں قاتلانہ حملہ ہوا۔تو انہوں نے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر آگے مصلے پر کر دیا ۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے جلدی سے نماز مکمل کر لی ۔ حضرت عمرؓ کو اٹھا کر گھر لایا گیا۔حضرت عمرؓ نے خلافت کے انتخاب کے لئے جو چھ افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی اس کے فیصلہ کن رکن عبد الرحمنؓ بن عوف تھے۔(7)
وفات
۳۱ھ میں حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے بعمر75سال وفات پائی۔حضرت علیؓ نے آپ کے جنازے پر کھڑے ہو کر آپ کو داد تحسین دی ۔حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اس موقع پر کہا وائے افسوس! کہ آج ایک پہاڑ جیسی کوہ وقار شخصیت ہم سے جدا ہو گئی۔حضرت عثمانؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔(8)
علم وفراست
حضرت عبدالرحمنؓ کو آنحضرتﷺکے قدیمی صحابی ہونے کے باعث علم وفضل کی سعادت بھی حاصل رہی تھی۔رسول اللہﷺکی زندگی میں بھی لوگ آپ سے مسائل دریافت کرتے اور آپ مستند جواب دیتے تھے ۔بعد میں بھی کئی مشکل مقامات پر آپ کوقومی سطح پر نہایت مفید مشورے دینے کی توفیق بھی حاصل ہوئی۔حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ خلافت میں جب اہل بیت میں آنحضرتﷺکی وراثت کا سوال ہوا تو آپ نے اپنے ذاتی علم کی بنا پروضاحت کی کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا تھا کہ’’ آپؐ کے ترکے میں وراثت نہ چلے گی بلکہ وہ بیت المال کا حق ہو گا۔‘‘ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں جب ایران فتح ہوا تو آتش پرستوں سے معاملہ کرنے کا مسئلہ در پیش ہوا کیونکہ قرآن کے ظاہری الفاظ سے جزیہ صرف اہل کتاب سے ہی لینے کا حکم معلوم ہوتاتھا۔حضرت عبدالرحمن ؓنے اجتہادسے یہ عقدہ بھی حل کیا کہ آنحضورؐنے ان لوگوں کے ساتھ بھی اہل کتاب کا سلوک کیا اور انہیں ذمی قرار دیا تھا جیسے ہجر کے مجوسیوں سے سلوک ہوا۔طاعون عمواس کے موقع پر حضرت عمرؓ سرغ مقام سے حضرت عبدالرحمن ؓ کی روایت کی بناء پر ہی واپس لوٹ آئے تھے اور شام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ان کی رائے ایسی پختہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے بوقت وصال یہ وصیت فرمائی کہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نہایت صائب الرائے، صاحب عقل ودانش اور سلیم الطبع ہیں انکی رائے کو بہت اہمیت دینا۔اور اگر انتخاب خلافت میں کوئی مشکل پیدا ہو تو جس طرف حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف ہوں ان کا ساتھ دینا۔حضرت عمرؓ کی یہ رائے بلا شبہ ذاتی تجربے پر مشتمل تھی جو درست ثابت ہوئی۔(9)
اخلاق فاضلہ
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اعلی اخلاق کے مالک تھے۔خوف خدا،حب رسول، صدق و عفاف،امانت و دیانت،رحم وکرم،فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ آپ کی روشن صفات تھیں۔رسول کریمﷺنے فرمایا عبد الرحمن ؓ بن عوف مسلمانوں کے سرداروں میں سے سردار ہیں۔وہ آسمان میں بھی امین ہیں اور زمین میں بھی !خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ ایک دن روزے سے تھے۔دستر خوان لگایا گیا تو ان نعمتوں کو دیکھ کر بے اختیار رونے لگے آپ کو مسلمانوں کے ابتدائی زمانے کے فقر وفاقہ کے دن یاد آگئے۔کہنے لگے کہ میرا بھائی مصعبؓ بن عمیر مجھ سے بہتر تھا مگروہ جب شہید ہوا تو کفن کی چادر بھی نصیب نہ ہوئی سر ڈھانکتے تھے تو پیر ننگے ہو جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتے تھے تو منہ ننگا ہوجاتا تھا۔پھر پاؤں پر گھاس ڈالی گئی اور سر کو کفن سے ڈھانک کر دفن کیا گیا۔یہ تھا احد کے میدا ن کا شہید مصعبؓ بن عمیر۔ آج دنیا کی کتنی نعمتیں ہمیںحاصل ہیں یہ دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ نیکیوں کا بدلہ کہیں ہمیں دنیا میں ہی نہ عطاکردیاگیا ہو۔ یہ کہا اور اتنی رقت طاری ہوگئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔(10)
حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف وہ خوش قسمت صحابی ہیں جنہیں ایک وہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا جو امت میں کسی اور کو نصیب نہیں۔آپ نبی کریمﷺکے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ حضور ﷺ قافلے سے کچھ پیچھے رہ گئے۔ نماز فجر کا وقت ہوگیا۔ نماز میں تاخیر کے اندیشے سے حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے نماز فجر شروع کروادی۔ نبی کریمﷺبعد میں تشریف لائے اور آپؐ نے حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کی اقتداء میںنمازاداکی۔(11)
حضرت عبدالرحمانؓ کو آنحضرت ﷺکی وفات کے بعد اپنی عفت اور پاکدامنی کے باعث ایک اور اہم خدمت کی بھی توفیق ملی۔ اور وہ تھی ازواج مطہرات کی خدمت و حفاظت۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میری ازواج کی خدمت کی توفیق پانے والا بہت ہی صادق اور راستباز ہوگا۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو یہ خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ آپ سفر حج میں ازواج مطہرات کے ساتھ جاتے اوران کے لئے سواری اور پردے کا اہتمام کرتے۔ (12)
مالی قربانی
حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف بڑے مالدار تاجر تھے اورتجارت میں ایسی برکت پڑی کہ آپ عظیم الشان دولت کے مالک بنے۔ مگر کبھی حرص اوربخل کا خیال تک نہ آیا۔ ابوالھیاج راوی ہیں کہ میں نے ایک شخص کو طواف بیت اللہ میں یہ دعا کرتے سنا۔اَللّٰھُمَّ قِنِی شُحَّ نَفْسِی۔ اے اللہ مجھے اپنے نفس کے بخل سے محفوظ رکھنا۔میں نے پوچھا یہ کون ہے تو پتہ چلا کہ وہ عبدالرحمنؓبن عوف تھے۔ یہ دعا خوب مقبول ٹھہری ۔ایک دفعہ عبدالرحمنؓبن عوف کا تجارتی قافلہ مدینے آیاتو اس میں سات سو اونٹوں پر صرف گیہوں ، آٹا اوردوسری اشیاء لدی ہوئی تھیں۔ مدینے میں اتنے بڑے تجارتی قافلے کے چرچے ہورہے تھے کہ حضرت عائشہؓ تک بھی خبرپہنچی ۔انہوںنے حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول خداﷺسے سُنا ہے کہ عبدالرحمانؓ جنتی ہیں اوررینگتے ہوئے جنت میں جائیں گے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو اطلاع ہوئی تو دوڑتے ہوئے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں آپ کو گواہ کرکے یہ لدا ہوا قافلہ اونٹ اور کجاوے سمیت میں خدا کی راہ میں وقف کرتاہوں۔
اس کا پس منظر یہ تھا کہ رسول کریمﷺنے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف سے ایک دفعہ فرمایا آپ امیر آدمی ہو جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہوگے اسلئے اپنا مال خدا کو قرض دو۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ !سارا مال ؟فرمایا ہاں۔حضرت عبدالرحمنؓبن عوف اس پر آمادہ ہوگئے ۔پھر رسول کریمﷺنے فرمایا مجھے جبریلؑ نے ابھی خبر دی ہے کہ عبدالرحمنؓ کو کہہ دو کہ مہمان کی مہمان نوازی کرے ،مسکین کو کھانا کھلائے،سائل کو دے اوررشتہ داروں سے اس کا آغاز کرے تو مال پاک ہوجائے گا۔
سبحان اللہ! کیا بے نفسی ہے اور دنیا سے بے رغبتی کا کیا عالم ہے۔ یہ وہ انقلاب تھا جو نبی کریمﷺنے اپنے صحابہ میں پیداکردیا تھا۔ کہ مال کی کثرت نے ان کے دلوں میں مال کی محبت کی بجائے مال عطا کرنے والے کی محبت پیداکردی۔ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ نے ہمیشہ قومی اور مذہبی ضروریات کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ سورۂ توبہ نازل ہوئی اس میں صدقہ و خیرات کی ترغیب کا مضمون بھی ہے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے اپنا نصف مال کچھ چار ہزار کے قریب رقم پیش کردی۔ پھر دو دفعہ چالیس چالیس ہزار دینار پیش کئے۔ اسی طرح جہاد کے لئے ضرورت پیش آئی تو پانچصد گھوڑے اور پندرہ سو اونٹ پیش کردیئے۔ (13)
عام صدقہ و خیرات کا تو یہ عالم تھا کہ ایک ایک دن میں تیس،تیس غلام آزاد کردیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق اندازاً تیس ہزار غلام آزاد کئے۔ان تمام خدمتوں کے باوجود کوئی فخر کا شائبہ تھانہ غرور کا خیال بلکہ عجزو انکسار کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے یہ عرض کیا کہ مجھے خوف ہے کہ کثرتِ مال مجھے ہلاک نہ کردے۔ انہوں نے فرمایا کہ راہ خدا میں مال خرچ کیا کرو۔حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے جیسے یہ نصیحت پلے باندھ لی تھی۔وفات کے وقت بھی پچاس ہزار دینار اور ایک ہزار گھوڑے خدا کی راہ میں وقف کردیئے۔ بدر میں جو صحابہ شریک ہوئے تھے بوقت وفات ان کے حق میں یہ وصیت فرمائی کہ اب تک جتنے بدری صحابہ زندہ ہیں میرے ترکے میں سے ہرایک کوچارصد دینار عطاکئے جائیں ۔اس وقت سو بدری صحابہؓ موجود تھے۔ چنانچہ ان سب نے بشمول حضرت عثمانؓکی اس وصیت سے خوب فائدہ اُٹھایا۔
امہات المومنین کے لئے بوقت وفات ایک باغ کی وصیت کی جو چار لاکھ درہم میں فروخت ہوا۔حضرت عائشہؓ عبد الرحمانؓبن عوف کے بیٹے کوفرمایا کرتی تھیں کہ رسول ؐاللہ کو اپنے بعد ازواج کے معاملات کی فکر رہتی تھی اللہ تعالیٰ تمہارے باپ عبدالرحمانؓ کو جنت کے چشمہ سے سیراب کرے جنہوں نے ازواج رسولؐ کیلئے اس خدمت کی توفیق پائی۔ (14) الغرض حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت خوب عطاکیا اور آپ نے بھی دل کھول کر خد اکی راہ میں اپنا مال لٹایا مگر مال میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ خدا نے ایسی برکت ڈالی کہ خود فرماتے تھے کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو سونا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس قدر فیاضی کے باوجود اپنے ورثاء کے لئے بہت مال چھوڑا۔ چار بیویوں کو ترکہ کے آٹھویں حصے کے طور پراسی ، اسی ہزار دینار ملے۔مال میں سونے کی اتنی بڑی بڑی اینٹیں تھیں کہ کاٹ کاٹ کر تقسیم کی گئیں اور کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑگئے۔ جائیداد غیر منقولہ اور نقدی کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، سو گھوڑے اورتین سو بکریاں بھی ترکے میں چھوڑیں۔(15)
یہ اس مخلص مہاجر کا ترکہ تھا جو راہ خدا میں خالی ہاتھ مکّے سے مدینے ہجرت کرکے آگیا تھا۔ اورنصف مال و جائیداد کی پیش کش حضرت سعد ؓبن ربیع نے کی تو کمال استغناء کے ساتھ قبول نہیں کی تھی اور خدا پر کامل توکل کرتے ہوئے محنت کرنے کو ترجیح دی تھی۔ پھر خدا نے بھی اس متوکل انسان کو ایسا نوازا کہ دولت کے انبار اس کے سامنے لگا دیئے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کے پاس کیمیا گری کا نسخہ تھانہ جادو کی کوئی ایسی انگوٹھی کہ جس چیز کے ساتھ لگاتے تھے وہ سونا بن جاتی تھی۔ نہ ہی تجارت کا کوئی ایساگُرآپ کو ملا تھا کیونکہ محض دنیاوی تجارتیں ہرگز اتنے اموال عطانہیں کرسکتیں۔ اگر کوئی گُر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے سیکھا تھا تو وہ خد اسے تجارت کرنے کا گُر تھا جہاں سات سو گُنا سے بھی بڑھ کر منافع ملتا ہے اور اسی عرفان حاصل کرنے کے نتیجے میں آپ واقعی وہ پارس بن گئے تھے کہ جس چیز کے ساتھ وہ لگتا اسے سونا بنادیتاہے۔ یہ وہ کیمیا گری تھی جو آپ نے آنحضرتﷺ سے سیکھی تھی اور اس کیمیا گری میں یقینا آپ کی دعائوں مجاہدات اور عبادات کا بھی گہرا دخل تھا۔ آپ نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں ادا کیاکرتے تھے۔نماز ظہر سے قبل لمبی نفل نماز پڑھتے اذان کی آواز سن کر مسجد روانہ ہوجاتے۔ نوافل سے خاص شغف تھا،رسول اللہﷺسے آپ کی کئی روایات مروی ہیں۔حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺمسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہوکر سجدے میں گرگئے اور بہت لمبا سجدہ کیا۔یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپؐ کی روح قبض کرلی ہے۔میں آپؐ کے قریب ہوا تو آپؐ اُٹھ بیٹھے اور پوچھا کون ہے؟میں نے عرض کیا عبدالرحمن۔ فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ! آپؐ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہواکہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح تو قبض نہیں کرلی۔آپؐ نے فرمایا میرے پاس جبریل ؑ آئے تھے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے حق میں فرماتا ہے کہ جوآپ ؐ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کرونگا اور جو آپؐ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔یہ سُن کر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالایا ہوں۔اکثر روزے رکھتے تھے۔ بارہا حج کی توفیق پائی۔ حضرت عمرؓ جس سال خلیفہ ہوئے اس سال انہوں نے آپ کو امیر حج مقررفرمایا تھا۔(16)
آپ نہایت ذہن رسا انسان تھے۔ تجارت کے علاوہ زراعت کی طرف بھی توجہ فرمائی کیونکہ خیبر میں رسول اللہؐ نے ایک کثیر جاگیر آپ کو عطافرمائی تھی۔ آپ نے نہ صرف اسے سنبھالابلکہ بہت سی اور قابل زراعت زمین خرید کر اس میں بھی کاشت کروائی۔ صرف ’’جُرف‘‘ کی زمین میںبیس اونٹ آبپاشی کیا کرتے تھے۔
ازواج و اولاد
آپ ہجرت کے وقت بیوی بچے مکے میں چھوڑ آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے بارہ بیویاں عطاکیں جن سے ۲۱ بیٹے اور ۷ بیٹیاں اولاد عطاہوئی۔اسلام سے قبل ام کلثوم بنت ر بیعہ اور ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط سے نکاح کیا تھا۔ آپ کی بیویوں میں قبیلہ کلب کے سردار کی بیٹی کے علاوہ غزال بنت کسریٰ بھی تھیں جو ایران کے شاہی خاندان کسریٰ کی شہزادی تھی مگر ان تمام تر نعمتوں اور آسائشوں کے باوجود حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے اپنا دامن کبھی دنیا سے آلودہ نہ ہونے دیا۔وفات سے قبل بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو پوچھا کہ کیا مجھ پر غشی طاری ہوئی تھی بتایاگیا کہ ہاں تو فرمایا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے ان میں کچھ سختی پائی جاتی تھی وہ مجھے لے کر چلے پھر دو اور فرشتے آئے جو زیادہ نرم اوررحم دل تھے۔ انہوں نے پہلے دو سے پوچھا کہ اسے کہاں لے جاتے ہو انہوں نے کہا’’عزیزوامین‘‘کے پاس(فیصلہ کیلئے)وہ دونوں بولے اسے چھوڑ دویہ وہ شخص ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں تھا تب سے اس کے حق میں سعادت لکھی جاچکی ہے۔(17)31ھ میں75سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی آپ کی وصیت کے مطابق حضرت عثمانؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔(18)
ایک دفعہ رسول کریمﷺکے پاس ایک ایسے شخص نے قرآن کی تلاوت کی جس کی آواز میں بہت سوز تھا،سب لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے سوائے عبدالرحمن ؓبن عوف کے۔ رسول کریمﷺکے سامنے ذکر ہوا تو فرمایا کہ عبدالرحمنؓ کی آنکھ آنسو نہ بہائے تو اس کا دل روتا ہے۔
ایک اور موقع پر جب حضرت خالدؓ کی تکرار حضرت عبدالرحمنؓ سے ہوئی تو رسول کریمؐ نے فرمایا کہ اے خالد! میرے صحابہ کو کچھ نہ کہو تم میں سے کوئی اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو عبدالرحمنؓ بن عوف کی اس صبح یا شام کو بھی نہیں پہنچ سکتا جو اس نے خدا کی راہ میں جہاد کرکے گزارے۔
آپ ؓکی وفات پر حضرت علیؓ نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جااے عبدالرحمنؓ ! اپنے مولا کے حضور حاضر ہوجا کہ تو نے دنیا کا صاف پانی پیا اور گدلا چھوڑ دیا۔ (19) سلامت برتو اے مرد سلامت۔ اے سراج منیر کے روشن ستارے! تیری روشنی سے ایک دنیا نے ہدایت پائی اور ایک زمانہ روشنی پاتارہے گا۔ اے عبدالرحمنؓ بن عوف! تجھ پر سلام۔اے سلامتی کے شہزادے تجھ پر سلام۔
حوالہ جات
1-
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عبد الرحمان بن عوف،استیعاب جلد 1ص 388
2-
اصابہ جز 4ص 176
3-
اسد الغابہ جلد3ص 314,315،بخاری کتاب النکاح ،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 78
4-
بخاری کتاب المغازی
5-
اسد الغابہ جلد3ص 314
6-
اسد الغابہ جلد 3ص 314،استیعاب جلد3ص 387
-7
اصابہ جز4ص 177،ابن سعد جلد 3ص 130،طبری جلد 4ص 83، اسدالغابہ جلد 3ص 315
8-
اسد الغابہ جلد 3ص 317،استیعاب جلد 2ص 390
-9
اصابہ جز 4ص 177،مسند احمد جلد1ص 193
10-
اسد الغابہ جلد3ص 314،استیعاب جلد 3ص 388
-11
مسلم کتاب الصلوۃ و اسدالغابہ جلد 3ص 316
-12
اصابہ جز 4ص 177
-13
اسد الغابہ جلد 3ص 315-16،استیعاب جلد2ص 389،اصابہ جز 4ص 177،
البدایہ جلد 7ص 163،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 78
-14
اسد الغابہ جلد 3ص 314,315،ترمذی کتاب المناقب باب حکایۃ وصیۃ عبدالرحمنؓ
-15
اسد الغابہ جلد3ص 316,317
-16
اسد الغابہ جز 4ص 177
-17
ابن سعد جلد 3ص 134
-18
اصابہ جز 4ص 177،استیعاب جلد 3ص 387,390،ابن سعد جلد 3ص 134
-19
اسد الغابہ جلد 3ص 317،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 75
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ
نام ونسب
حضرت سعد ؓ کے والد مالک بن وھیب کا تعلق قریش کی شاخ بنو زہرہ سے تھا۔ اس لحاظ سے آپ رشتہ میں رسول اللہؐ کے ماموں تھے۔ کیونکہ رسول اللہﷺکی والدہ بھی بنو زہرہ قبیلہ سے اور حضرت سعدؓ کی چچا زاد تھیں۔ ایک دفعہ حضرت سعدؓ کے تشریف لانے پر رسول کریمﷺنے فرمایا یہ میرے ماموں ہیں کوئی اور شخص مجھے اپنا ایسا ماموں تو دکھائے۔ والدہ حمنہ بنت سفیان بن امیہ بھی قریش سے تھیں۔کنیت ابو اسحاق تھی۔(1)
قبول اسلام اور قربانی
حضرت سعدؓ نے چوتھے اور چھٹے سال نبوت کے درمیان اسلام قبول کیا۔ اس وقت آپ سترہ برس کے نوجوان تھے۔ خود بیان کرتے تھے کہ میںنے نماز فرض ہونے سے بھی پہلے اسلام قبول کیا تھا۔
آپ کا اسلام قبول کرنا بھی الہٰی تحریک کے نتیجہ میں تھا۔ آپؓ بیان کرتے تھے کہ اسلام سے قبل ’’میں نے رئویا میں دیکھا کہ گھپ اندھیرا ہے اور مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ اچانک ایک چاند روشن ہوتا ہے اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہوں۔کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ مجھ سے پہلے اس چاند تک پہنچے ہوئے ہیں۔ قریب جا کر معلوم ہوا کہ وہ زید بن حارثہؓ ، علی بن ابی طالبؓ اور ابوبکرؓ تھے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تم لوگ کب یہاں پہنچے؟ وہ کہتے ہیں بس ابھی پہنچے ہی ہیں۔‘‘اس خواب کے کچھ عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ رسول اللہﷺمخفی طور پر اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک روز میری آپ سے اجیاد گھاٹی میں ملاقات ہوئی۔ آپؐ نے اسی وقت نماز عصر ادا کی اور میں نے اسلام قبول کیا ۔مجھ سے پہلے سوائے ان تین مردوں کے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا۔ (2)
حضرت سعد ؓ فرماتے تھے کہ میںنے تیسرے نمبر پر اسلام قبول کیا اورسات دن تک مجھ پر ایسا وقت رہا کہ میں اسلام کا تیسرا حصہ تھا۔(3)
اسلام قبول کرنے پر ابتلاء
حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی والدہ سے نہایت نیکی اور احسان کا سلوک کرتا تھا۔ جب میںنے اسلام قبول کیا تو وہ کہنے لگی تم نے یہ نیا دین کیوں اختیار کرلیا ہے۔ تجھے بہرحال یہ دین چھوڑنا پڑے گا۔ ورنہ میں نہ کچھ کھائو ں گی نہ پیئوں گی یہاں تک کہ مر جائوں گی او رلوگ تمہیں ماں کے قتل کا طعنہ دیں گے۔ میں نے کہا اے میر ی ماں ایسا ہر گز نہ کرنا کیونکہ میں اپنا دین نہیں چھوڑ سکتا۔مگر وہ نہ مانی حتیٰ کہ تین دن اور رات گزر گئے اور والدہ نے کچھ کھایا نہ پیا صبح ہوئی تو وہ بھوک سے نڈھال تھیں۔ تب میں نے کہہ دیا کہ خدا کی قسم اگر آپ کی ہزار جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کرکے نکلیں تو بھی میں اپنا دین کسی چیزکی خاطر نہیں چھوڑوں گا۔ جب انہوں نے بیٹے کایہ عز م دیکھا تو کھاناپینا شروع کر دیا۔ اس موقع کی مناسبت سے یہ آیت اتری۔ (لقمان:16) یعنی اگر وہ (والدین)تجھ سے جھگڑا کریں کہ تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی بات نہ مان اور دنیا میںدستور کے مطابق رفاقت جاری رکھ۔(4)
شجاعت و مردانگی
ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں رسول اللہﷺکے صحابہ نماز ادا کرنے کیلئے مختلف گھاٹیوں میں چلے جاتے اور یوں اپنی قوم سے مخفی نماز باجماعت ادا کرتے۔ ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی کسی گھاٹی میں نماز اداکررہے تھے کہ اچانک مشرک ان پر چڑھ دوڑے اور پہلے تو انہیں نماز پڑھتے پاکر ناپسندیدگی کا اظہا رکرتے ہوئے بر ا بھلا کہنے لگے ۔ پھر ان پر حملہ آور ہوئے ۔ حضرت سعدؓ وہ شجاع اور بہادر مرد تھے جو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے دفاع کیلئے بڑی جرأت سے آگے بڑھے اور اونٹ کی ہڈی جو ہاتھ میں آئی وہ مد مقابل شخص کے سر میں دے ماری جس سے اس کا سر پھٹ گیا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجبوراً اپنے دفاع میں ایک مسلمان کے ہاتھوںکسی کافر کا خون بہا۔ ورنہ مسلمان ہمیشہ فساد سے بچتے اور امن کی راہیں تلاش کرتے رہے۔(5)
مکی دور میں رسول اللہﷺکے ساتھ ابتدائی زمانہ اور شعب ابی طالب میں حضرت سعدؓ کوبھی سخت تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور انتہائی صبر کا نمونہ دکھایا وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات رسولؐاللہ کے ساتھ پیشاب کرنے نکلا تو پائوں کے نیچے کوئی سخت چیز آئی۔ وہ اونٹ کی کھال کا ٹکڑا تھا میں نے اسے اٹھا کر دھویا پھر اسے جلا کر دو پتھروں سے باریک کرکے کھالیااور اوپر سے پانی پی لیا اور تین دن تک کیلئے اس سے قوت حاصل کی۔
ہجرت مدینہ
رسول کریمﷺکے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لانے کے بعد حضرت سعدؓ کو بھی مدینہ ہجرت کی توفیق ملی۔ اور وہ بنی عمر وبن عوف کے محلہ میں اپنے بھائی عتبہ کے گھر میں ٹھہرے جنہوں نے پہلے سے مکہ میں ذاتی دشمنی کے باعث یہاں آکر ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد رسول کریمﷺنے مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کو پہلے مبلغ اسلام حضرت مصعب ؓ بن عمیر اور اوس کے سردار حضرت سعدؓ بن معاذکا بھائی بنایا۔ دو سعدوں کا ملنا بھی گویا ایک روحانی قِران سعدین تھا۔
خدمات
مدینہ آتے ہی حضرت سعدؓ کی خدمات کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ شروع میں جب نبی کریمﷺمدینہ آئے تو مخدوش حالات کی وجہ سے رات آرام کی نیند نہ سو سکے تھے ۔ ایک رات آپؐ نے فرمایا کہ آج خدا کا کوئی نیک بندہ پہرہ دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔تب اچانک ہمیں ہتھیاروں کی آواز سنائی دی رسول کریمﷺنے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی میں سعد ہوں۔ فرمایا کیسے آئے عرض کیامجھے آپ کی حفاظت کے بارہ میں خطرہ ہوا اسلئے پہرہ دینے آیا ہوں۔چنانچہ انہوںنے پہرہ دیا اور رسول کریمﷺ آرام سے اس رات سوئے۔(6)
جب نبی کریمﷺکو اطراف مدینہ میں کچھ مہمات بھجوانے کی ضرورت پیش آئی ۔ پہلے حضرت حمزہؓ کے ساتھ ایک مہم میں شرکت کی سعادت عطا ہوئی۔ اس کے بعد حضرت عبیدہؓ بن حارث کے ساتھ بھجوائی گئی ساٹھ افراد پر مشتمل مہم میں بھی آپ شریک تھے۔ اس موقع دشمن نے تیر برسائے۔ حضرت سعدؓ کو بھی اپنی تیراندازی کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔فرمایا کرتے تھے کہ میں پہلا عرب شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا۔
غزوہ بدر سے قبل رسول کریمﷺ نے حضرت سعدؓ کوبیس سواروں پر مشتمل ایک دستہ پر نگران مقرر کرکے خرار مقام پر بھجوایا۔ آ پ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنا تھا ۔اس تجارتی قافلہ کا سارا منافع مسلمانوں کے خلاف خرچ کرنے کے عہد و پیمان تھے۔(7)
غزوات میں شرکت اور بہادری
کفر و اسلام کے پہلے معرکہ بدر میں حضرت سعدؓ کو رسول اللہ ﷺکے ساتھ شرکت کی توفیق ملی۔وہ بیان کرتے تھے میں بد رمیں شامل ہوا تو میرے چہرے میں ایک بال کے سواکچھ نہ تھا۔ (یعنی اس وقت حضرت سعدؓ کی صرف ایک بیٹی تھی)اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے گھنی داڑھی جیسے بال عطا کئے(یعنی کثرت سے اولاد سے نوازا)۔(8)
حضرت سعدؓ کو بجا طور پر بد رمیں شرکت پر فخر تھا۔ ان کے بیٹے عامر کہا کرتے تھے کہ حضرت سعدؓ مہاجرین میں سے فوت ہونے والے آخری صحابی تھے۔ وفات کے وقت انہوں نے اپنا نہایت بوسیدہ اونی جبہ منگوایا اور فرمایا ’’مجھے اس میں کفن دینا کہ بدر کے دن مشرکوں سے مٹھ بھیڑ کے وقت میں نے یہی جبہ پہن رکھا تھا اور اس مقصد کیلئے آج تک سنبھال کے رکھا ہوا تھا۔‘‘(9)
حضرت سعدؓ نے غزوہ بدر میں شجاعت و بہادری کے شاندار جوہر دکھائے۔ سردار قریش سعید بن العاص آپ کے ہاتھوں انجام کو پہنچا ، اس کی تلوار ذوالکتفہ آپ کو بہت پسند آئی ابھی تقسیم غنیمت کا کوئی حکم نہ اترا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺنے وہ تلوار آپ سے واپس لے لی۔ پھر جب سورۃ انفال کی آیات نازل ہوئیں تو آپؐ نے حضرت سعدؓ کو بلا کر وہ تلوار عطا فرمائی۔
حضرت سعدؓ نے احد میں رسول اللہﷺ کی حفاظت میں آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑنے کی سعادت پائی۔ ان کا بھائی عتبہ حالت کفر میں میدان احد میں مد مقابل تھا اس نے رسول اللہﷺ کو زخمی کیا تھا۔ حضرت سعدؓ کی غیرت ایمانی کا یہ حال تھا کہ فرمایا کرتے ’’ میں عتبہ سے زیادہ کسی شخص کے خون کا پیاسا نہیں ہوا۔‘‘
غزوہ احد میں خالی درے سے کفار کے اچانک حملہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کے پائوں اکھڑ گئے تھے اور وہ تتر بتر ہوگئے مگر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ان معدودے چند صحابہ میں سے تھے جو ثابت قدم رہے۔ آپؓ تیر اندازی کے ماہر تھے جب کفار نبی کریمﷺکو ہدف بنا کر ہجوم کرکے حملہ آور ہوئے تو آنحضرتؐ اپنے ترکش سے حضرت سعدؓ کو تیر عطا فرماتے اور کہتے اِرمِ َیا سَعدُ فِدَاکَ اَبِی وَ اُمِّی! یعنی اے سعدؓ تیر چلائو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ حضرت علیؓ فرمایاکرتے تھے کہ حضرت سعدؓ ہی وہ سعادت مند ہیں جن کے سوااور کسی کیلئے میں نے آنحضورؐ سے اس طرح فِدَاکَ اَبِی وَ اُمِّی کا جملہ نہیں سنا۔
معلوم ہوتا ہے حضرت علیؓ کی مراد غزوہ احد سے ہوگی ورنہ حضرت طلحہ ؓ و زبیرؓ کے بارہ میں بھی نبی کریمؐ نے بعض او رمواقع پر یہ کلمات استعمال فرمائے۔
غزوہ احدہی کا واقعہ ہے جب ایک مشرک حملہ آورناپسندیدہ نعرے لگاتا بلند بانگ دعاوی اور تعلّی کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ نبی کریمﷺنے اس سے نبٹنے کا اشارہ فرمایا ۔ حضرت سعدؓ کا ترکش تیروں سے خالی تھا آپ نے تعمیل ارشاد کی خاطر زمین پر سے ایک بے پھل کا تیر اٹھایااور تاک کر اس مشرک کا نشانہ لیا۔ تیر عین اس کی پیشانی میں اس زور سے لگا کہ وہ بدحواسی میں برہنہ ہو کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ چندلمحے قبل اس کی تعلّیوں کے مقابل پر قدر ت خداوندی سے اس کا یہ انجام دیکھ کر اور اس کے شر سے محفوظ ہو کر نبی کریمؐ خوش ہو کر مسکرانے لگے ۔ احد میں دشمن اسلام طلحہ بن ابی طلحہ بھی حضرت سعدؓ کے تیر کا نشانہ بنا۔ابوعثمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ ہونے والی بعض جنگوں میں آپؐ کے ساتھ بعض مواقع پر حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ کے سوا کوئی بھی موجود نہیں رہ سکا تھا۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ فتح مکہ ، حنین اور تبوک کے غزوات میں رسول اللہﷺکے ہمرکاب رہے اور انہیں اپنی بہادری کے جوہر کھل کر دکھانے کا موقع ملتا رہا۔ایک دفعہ رسول کریمﷺ نے حضرت سعدؓکو دشمن کی خبر لانے کیلئے بھجوایا وہ دوڑتے ہوئے گئے اور واپس آہستہ چلتے ہوئے آئے رسول کریمؐ نے وجہ دریافت کی تو حضرت سعدؓ نے عرض کیا کہ واپسی پر میں اس لئے نہیں بھاگا کہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ میں ڈر گیا ہوں اس پر نبی کریمﷺنے فرمایا کہ سعدؓ بڑا تجربہ کار آدمی ہے۔(10)
حضرت سعدؓ بجا طور پر اپنی ان خدمات کو ایک سعادت جانتے تھے ۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنے ان اشعار میں بھی کیا ہے۔
اَ لَا ھَلْ اَتیٰ رَسُولَ اللّٰہ أَنِّیْ حَمَیْتُ صَحَاَبِتِی بِصُدُوْرِنَبْلِیْ
اَذُوْدُ بِھَاعَدُوَّھُمٗ زِیَادًا بِکُلِّ حَزُونَۃٍ وَ بِکُلِّ سَھْلِ
فَمَا یَعتَدُّ رَامٍ مِنْ مَعَدٍّ بِسَھمٍ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ قَبلِیْ
(ترجمہ)سنو! رسول اللہﷺپر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا میں نے اپنے تیروں کی نوک سے اپنے ساتھیوں کا دفاع کیا۔ ان تیروں سے میں نے خوب خوب ان کے دشمن کو میدانوں اور پہاڑوں میں پسپا کیا۔ معدّقبیلہ کے کسی قابل ذکر تیر انداز کو مجھ سے پہلے رسول اللہﷺ کی معیت کی ایسی سعادت عطا نہیں ہوئی۔ (11)
رسول اللہﷺ کی دعا اور باعمر ہونے کی پیشگوئی
فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعدؓ شدید بیمار ہوگئے۔ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔آپ مالدار انسان تھے اور اولاد صرف ایک بیٹی تھی، آ پ نے آنحضرتﷺکی خدمت میں اپنا پورا مال خدا کی راہ وقف کرنے کی اجازت چاہی ۔ حضورﷺنے فرمایاکہ یہ بہت زیادہ ہے ۔ حضرت سعدؓ نے کہا نصف مال ہی قبول کرلیں۔ حضورنے وہ بھی قبول نہ فرمایا تو حضرت سعدؓ نے ایک تہائی کی وصیت کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ’’ ٹھیک ہے ایک تہائی مال کی وصیت کر دیں اگرچہ یہ بھی بہت ہے۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔‘‘اس موقع پر نبی کریمﷺان کی عیادت کیلئے تشریف لائے، اللہ تعالیٰ نے حضرت سعدؓ کیلئے رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کے نتیجہ میں عجب رحمت و برکت کے سامان پیدا فرما دئے۔انہوںنے نہایت حسرت بھری اشکبار آنکھوں کے ساتھ یہ عرض کیا ۔ یا رسولؐ اللہ اپنے وطن کی جس سرزمین کو خدا کی خاطر ہمیشہ کیلئے ترک کر دیا تھا اب میں اسی میں خاک ہوجائوں گا۔ کیا میری ہجرت ضائع ہوجائے گی؟ حضرت سعدؓ کے اس انداز نے رسول اللہﷺ کے دل میں دعا کی بے اختیار تڑپ پیدا کردی۔
آپ نے ا سی وقت بڑے اضطراب سے تکرار کے ساتھ یہ دعا کی اَللّٰھُمَّ اشْفِ سَعْداً!اے اللہ سعدؓ کو شفا عطا فرما یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ اس کی قبولیت کا علم پا کر نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ اے سعدؓ خدا تجھے لمبی عمر عطا کرے گا اور تجھ سے بڑے بڑے کام لے گا اور تجھ پر موت نہیں آئے گی جب تک کہ کچھ قومیں تجھ سے نقصان اور کچھ فائدہ نہ اٹھالیں‘‘ پھر آپ نے یہ دعا کی کہ’’ اے اللہ میرے صحابہ کی ہجرت ان کیلئے جاری کردے ۔‘‘(12)رسول ؐاللہ کی دعا اور پیشگوئی کی برکت سے حضرت سعدؓ نے لمبی عمر پائی اور عظیم الشان اسلامی فتوحات کے ہیرو ثابت ہوئے۔ عراق و ایران کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔
حضر ت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں آپ ہوازن کے عامل رہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایرانیوں سے جنگیں لڑیں اور ان کے اکثر علاقے فتح کئے۔ قادسیہ کے میدان میں ایرانیوں سے تاریخی جنگ میں سپہ سالار رستم اور ہاتھیوں کی زبردست فوج کا مقابلہ کیا۔ حضرت سعدؓ اس وقت عرق النساء کی تکلیف سے بیمار تھے مگر آپ میدان جنگ کے قریب ایک قصر کے بالا خانے پر رونق افروز ہو کر جنگ میں اپنے قائمقام خالد بن عرطفہ کی رہنمائی فرماتے رہے وہ کاغذ پر ضروری ہدایات لکھ کر بھجواتے ایک دفعہ ایرانی ہاتھیوں کا ریلہ حملہ آور ہوا تو قریب تھا کہ بجیلہ قبیلہ کے سواروں کے پائوں اکھڑ جائیں حضرت سعدؓ نے قبیلہ اسد کو پیغام بھجوایا کہ ان کی مدد کرو۔ جب قبیلہ اسدپر حملہ ہوا تو قبیلہ تمیم کوجونیزہ بازی میں کمال رکھتے تھے کہلا بھیجا کہ تمہاری موجودگی میں ہاتھی آگے نہ بڑھنے پائیں وہ اپنے لئے امیر لشکر کا یہ پیغام سن کر اس جوش سے لڑے کہ جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
جنگ قادسیہ کے دوسرے روز شام کی امدادی فوجوں کے پہنچنے سے مسلمانوں کا جوش و جذبہ اور بڑھ گیا۔ جنگ کے تیسرے روز حضرت سعدؓ نے اپنے چند بہادروں کو حکم دیاکہ اگر تم دشمن کے ہاتھیوں کو ختم کردو تو یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے چند بڑے بڑے ہاتھیوں کو مار ڈالا جس کے نتیجے میں باقی ہاتھی بھاگ نکلے۔ یوں بالآخر میدان حضرت سعد ؓکے ہاتھ رہا۔مشہور زمانہ پہلوان رستم میدان سے بھاگتا ہوا مارا گیا۔
جنگ قادسیہ کے بعد حضرت سعدؓ نے تما م عراقِ عرب کو زیر نگین کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس جنگ کے بعد ایرانیوں پر آپ کا اتنا رعب طار ی تھا کہ جس علاقے سے گزرے بڑے بڑے سرداروں نے خود آکر صلح کر لی ۔ حضرت سعدؓ نے بابل کو ایک ہی حملہ میں فتح کر لیا۔ پایہ تخت کے قریب بہر ہ شیر مقام پر کسریٰ کا شکاری شیر مقابلہ پر چھوڑا گیا جسے حضرت سعدؓ کے بھائی ہاشم نے تلوار سے کاٹ کر رکھ دیا۔ یہ قلعہ دوماہ کے محاصرہ کے بعد فتح ہوا۔ اب بہرہ شیر اور پایہ تخت مدائن کے درمیان صرف دریائے دجلہ حائل تھا۔ ایرانیوں نے سب پل توڑ کر بیکار کر دئے تب حضرت سعدؓاپنی فوج کو مخاطب ہوئے کہ ’’اے برادران اسلام دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے آئو اسے بھی عبور کر جائیں تو فتح ہماری ہے۔‘‘یہ کہا اوراپنا گھوڑا دریائے دجلہ میں ڈال دیا۔
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے
فوج نے اپنے سپہ سالار کی بہادری دیکھی تو سب نے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دئے اور دوسرے کنارے پرجاپہنچے۔ ایرانی یہ غیر متوقع حملہ کو دیکھ کر بھاگے اور معمولی مقابلے کے بعد مسلمانوں نے مدائن فتح کر لیا۔ مدائن کے ویران محلات دیکھ کر حضرت سعدؓ کی زبان پر یہ آیات جاری ہو گئیں۔(13)
۔(الد خَان:26،27)
فتح مدائن عراق عرب پر تسلط قائم ہونے کی آخری کڑی تھی بڑے بڑے سرداروں سے صلح کے بعد تمام ملک میں امن و امان کی منادی کروا دی گئی۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے جلولاء اور تکریت پر اسلامی جھنڈ ا لہرایا۔ اس سے آگے بڑھنے سے حضرت عمرؓ نے آپؓ کو رو ک دیا اور حکم دیا کہ پہلے مفتوح علاقوںکا نظم و نسق درست کیا جائے۔
حضر ت سعد ؓ نے اس کی تعمیل کی اور نہایت عمدگی سے انتظام سلطنت چلایا ۔ایرانیوں سے اس قدر محبت و الفت اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا کہ ان کے دلوں میں گھر کر لیا۔ بڑے بڑے امراء اس وجہ سے مسلمان ہوئے ۔ دیلم کی چار ہزار فوج جو شاہی رسالہ کے نام سے مشہور تھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئی۔
مدائن میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت سعدؓ نے فاتح فوج کیلئے حضرت عمرؓ کے حکم پر سرحدی علاقہ میں ایک نئے شہر کوفہ کی بنیاد رکھی ۔ جہاں مختلف قبائل کو الگ الگ محلوں میں آباد کیا۔ وسط شہر میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی جس میں چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی ۔ اب کوفہ ایک لاکھ مسلمان سپاہیوں سے ایک فوجی چھائونی میں تبدیل ہو چکا تھا، حضرت سعدؓ کے بارہ میں کچھ انتظامی شکایات پیدا ہونے لگیں۔ حضرت عمرؓ نے تحقیق کروائی۔حضرت جریرؓ بن عبداللہ نے حضرت عمرؓ کو آکر بتایا کہ حضرت سعدؓ اپنی رعایا سے شفیق ماں کی طرح سلوک کرتے ہیں اور عوام کو قریش میں سے سب سے زیادہ محبوب شخصیت ہے۔‘‘حضرت عمرؓ نے یہ معلوم کرلینے کے باوجود کہ الزام بے بنیاد ہے کوفہ کی امارت کی تبدیلی کرنا ہی مناسب سمجھی اور حضرت سعدؓ مدینہ آکر آباد ہوگئے۔حضرت عمرؓ نے دوبارہ انکووالی کوفہ مقرر کرنا چاہا تو انہوں نے اہل کوفہ کی ناروا شکایات کی وجہ سے معذوری ظاہرکی جو حضرت عمرؓ نے قبول کی اورفرمایا کہ’’ میں نے سعدؓ کو ان کی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا تھا اور آئندہ ان کو والی مقرر کرنے میں کوئی روک نہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ کو آخر عمر تک آپ کی خاطر ملحوظ رہی۔ چنانچہ آپ نے انتخاب خلافت کمیٹی مقرر کی جو چھ افراد پر مشتمل تھی۔ ان میں حضرت سعدؓ کو بھی نامزد کیا اورفرمایاکہ اگر سعدؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو ٹھیک ورنہ جو بھی خلیفہ ہوگا وہ بے شک ان سے خدمت لے۔(14)
حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو حضرت سعدؓ دوبارہ کوفہ کے والی مقرر ہوئے اور تین سال یہ خدمت انجام دی۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے مدینہ میں گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی ۔ حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی مگر امور مملکت سے بے تعلق رہے۔ اس زمانہ کی شورش اور جنگوں میں حصہ نہ لیا۔ اسی زمانے میں ایک دفعہ اونٹ چرا رہے تھے۔ بیٹے نے کہا کیا یہ مناسب ہے لوگ حکومت کیلئے زورآزمائی کریںاور آپ جنگل میں اونٹ چرائیں۔ آپؓ نے اسے یہ کہہ کر خامو ش کرا دیا کہ میں نے رسولؐ اللہ سے سنا ہے کہ’’ خدا مستغنی اورمتقی انسان سے محبت کرتا ہے۔‘‘
زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک آزمودہ کار جرنیل ہونے کے باوجود فتنے کے زمانہ میں کنج تنہائی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ کوئی پوچھتا تو فرماتے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا ’’میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا جس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا۔‘‘ امارت کی خواہش نہ تھی۔ حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد آپؓکے بیٹے عمرؓ اور بھائی نے کہاکہ اپنے لئے بیعت لیں۔اس وقت ایک لاکھ تلوار یں آپ کی منتظر اور ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ آپؓ نے فرمایا ’’مجھے ان میں سے صرف ایک ایسی تلوا رچاہیے جو مومن پر کوئی اثر نہ کرے صرف کافر کوکاٹے۔‘‘ آپ اس فتنہ کے زمانہ میں گھر بیٹھ رہے اور فرمایا ’’مجھے اس وقت کوئی خبر بتانا جب امت ایک امام پر اکٹھی ہوجائے۔‘‘ امیر معاویہ نے بھی انہیں مدد کو بلایا تو انہوں نے انکار کر دیا۔
حضر ت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کے بارے میںعمرو بن معدی کرب سے (جو انکے علاقہ سے آئے تھے) رائے لی تو انہوںنے بتایا کہ ’’سعدؓ اپنے خیمہ میں متواضع ہیں۔ اپنے لباس میں عربی ہیں، اپنی کھال میں شیر ہیں۔اپنے معاملات میں عدل کرتے ہیں ،تقسیم برابر کرتے ہیںاورلشکر میں دور رہتے ہیں،ہم پر مہربان والدہ کی طرح شفقت کرتے ہیں اور ہمارا حق ہم تک چیونٹی کی طرح(محنت سے) پہنچاتے ہیں۔‘‘
حضرت سعدؓ بیان کرتے تھے کہ ایک زمانہ تھا جب عسرت اور تنگی سے مجبور ہوکر ہمیں درختوں کے پتے بھی کھانے پڑے اور کوئی چیز کھانے کو میسر نہ ہوتی تھی ۔ اور ہم بکری کی طرح مینگنیاں کرتے تھے۔ (15)
جب حکومتوں کے مالک ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ان مخلص خدام دین کو خوب نوازا۔ مختلف وقتوں میں نو بیویاں کیںسترہ لڑکے اورسترہ لڑکیاں ہوئیں۔ غذا اور لباس کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ کبھی تکبر یا غرور پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ سپہ سالاری اورگورنری کے اہم مناصب سے سبکدوش ہو نے کے بعد بھی بکریاں چرانے میں تامل نہیںکیا۔
رسول کریمﷺنے آپ کے حق میں ایک اور دعا مستجاب الدعوات ہونے کیلئے کی تھی کہ ’’اے اللہ سعدؓ جب دعا کرے اس کی دعا کو قبول کرنا‘‘یہ دعا مقبول ٹھہری اور حضرت سعدؓ کی دعائیں بہت قبول ہوتی تھیں لوگ آپ سے قبولیت دعا کی امید رکھتے اور بددعا سے ڈرتے تھے ۔(16)
عامربن سعد سے روایت ہے ایک دفعہ حضرت سعدؓ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو حضرت علیؓ ،حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ حضرت سعدؓ نے اسے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو برابھلا کہہ رہے ہو جن کے ساتھ اللہ کا معاملہ گزرچکا۔ خدا کی قسم تم ان کی گالی گلوچ سے باز آئو ورنہ میں تمہارے خلاف بددعا کروں گا۔ وہ کہنے لگا یہ مجھے ایسے ڈراتا ہے جیسے نبی ہو۔ حضرت سعدؓ نے کہا ’’اے اللہ! اگریہ ایسے لوگوں کو برا بھلا کہتا ہے جن کے ساتھ تیرا معاملہ گزر چکا تو اسے آج عبرت ناک سزا دے۔‘‘ اچانک ایک بدکی ہوئی اونٹنی آئی لوگوں نے اسے راستہ دیا اور اس اونٹنی نے اس شخص کوروند ڈالا۔ راوی کہتے ہیں میں نے لوگوں کو دیکھا وہ سعدؓ کے پیچھے جا کر بتار ہے تھے کہ اے ابواسحاق! اللہ نے تیری دعا قبول کرلی۔
امارت کوفہ کے زمانہ میں جس شخص نے آپ پر جھوٹے الزام لگائے تھے اس کے بارے میں بھی آپ کی دعا قبول ہوئی اوروہ خدائی گرفت میں آیا۔(17)
وفات
آپ مدینہ سے دس میل دور عقیق مقام پرسترسال کی عمر میں 55ھ میں فوت ہوئے۔جنازہ مدینہ لایا گیا۔ ازواج مطہرات کی خواہش پر اس بزرگ صحابی کاجنازہ کندھوں پرمسجد نبوی میں لایا گیا اور امہات المومنین بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئیں۔ مروان بن حکم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔آپؓ جنت البقیع میں دفن ہوئے اور اپنے عظیم الشان کارناموں کی یادیں باقی چھوڑ گئے۔ آپ عشرہ مبشرہ میں سے تھے یعنی ان دس صحابہ میں سے جن کو رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت عطا فرمائی۔ رسول اللہﷺ کی دعا کی برکت سے لمبی عمر پائی اور عشرہ مبشرہ میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے۔آپ کا علمی پایہ بہت بلند تھا حضرت عمر ؓ بھی فرمایا کرتے تھے کہ’’ جب سعدؓ رسول اللہﷺ سے کوئی حدیث بیان کریں تو پھر اس بارہ میں کسی اور سے مت پوچھو۔‘‘
حضرت سعدؓ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ خوف خدا اور عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ رات کے آخری حصے میں مسجد نبوی میں آکر نمازیں ادا کرتے تھے ، طبیعت رہبانیت کی طرف مائل تھی۔ مگر فرماتے تھے کہ’’ رسول اللہﷺنے اگر اس سے روکا نہ ہوتا میں اسے ضرور اختیار کر لیتا۔‘‘ نظر بہت تیز تھی ایک دفعہ دور سے کچھ ھیولا سا نظر آیا تو ہمراہیوں سے پوچھا کیا ہے؟انہوں نے کہا پرندے جیسی کوئی چیز۔حضرت سعدؓ نے کہامجھے تو اونٹ پر سوار نظر آتا ہے، کچھ دیر بعدواقعی سعدؓ کے چچا اونٹ پر آئے۔
آ پ بہت نڈر اور جری انسان تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کا اظہار فرماتے۔ ایک دفعہ نبی کریمﷺنے کچھ لوگوںمیں مال تقسیم کیا اور ایک ایسے شخص کو کچھ عطا نہ فرمایا جو سعدؓ کے نزدیک مخلص مومن تھا۔ انہوں نے آنحضورﷺسے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے ٹال دیا جب دوسری یا تیسری مرتبہ سعدؓ نے باصرار اپنا سوال دہرایا کہ یہ شخص میرے نزدیک مخلص مومن ہے اور عطیہ کا حقدار ہے تو حضورؐ نے فرمایا کہ اے سعدؓ! بسااوقات میں ان کو عطا کرتا ہوں جن سے تالیف قلبی کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ۔ تب حضرت سعدؓ کی تسلی ہوئی۔
حضرت سعدؓ ان بزرگ صحابہ میں سے تھے جن سے بوقت وفات رسولؐاللہ راضی تھے۔ رسول کریمﷺنے حجۃ الوداع سے واپسی پر مدینہ میں ایک خطبہ میں عشرہ مبشرہ کے نام لے کر ذکر فرمایا کہ آپ ان سے راضی ہیں۔ ان کا مقام پہچانو اور ان سے حسن سلوک کرو۔ ان میں حضرت سعدؓ کابھی لیا ۔
کتنے خوش نصیب تھے سعدؓ اورا سم بامُسَمَّی بھی کہ خدا کے رسولؐ نے ان سے راضی ہونے کا اعلان کرکے رضائے الہٰی کی کلید ان کو عطا فر مادی۔(18)
حوالہ جات
1-
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب سعدؓ،اسد الغابہ جلد2ص 390
2-
بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعدؓ،اسد الغابہ جلد3ص 390تا 392
3-
ابن سعد جلد3ص 139
4-
مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعدؓ،اسد الغابہ جلد3ص 292
5-
اسد الغابہ جلد2ص 391
-6
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد5ص 71
7-
مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعدؓ،ابن سعد جلد3ص 140-141،اصابہ جز 3ص 84
8-
ابن سعد جلد3ص 142
9-
اسد الغابہ جلد 2ص 392
10-
بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعدؓ،ابن سعد جلد3ص 141
11-
مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعدؓ،ابن سعد جلد 3ص 142،مجمع الزوائد جلد 9ص 155
12-
بخاری کتاب المغازی و ابن سعد جلد 3ص 144
13-
بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعدؓ،استیعاب جلد 3ص 172،
کامل ابن اثیر مترجم جلد 3ص 198تا295و ص 251تاص254
-14
اصابہ جز3ص 84،استیعاب جلد 3ص 173
-15
ابن سعد جلد 3ص 140،اصابہ جز3ص 84،استیعاب جلد 3ص 173،اسد الغابہ ذکر سعدؓ
-16
مستدرک حاکم جلد 3ص 500،مجمع الزوائد جلد 9ص 154
-17
اصابہ جز 3ص 83،استیعاب جلد 3ص 172
-18
اصابہ جز 3ص 84،مجمع الزوائد جلد 9ص 157
حضرت سعید بن زیدؓ
نام ونسب
آپ کا نام سعید والدہ کا نام فاطمہ اور والد زید بن عمرو بن نُفیل تھے۔ قد لمبااور بال بڑے اور گھنے تھے۔ حضرت سعیدؓ کا نسب دسویں پشت میں نبی کریم ﷺسے اور تیسری پشت میں حضرت عمرؓ سے مل جاتا ہے۔(1)
ان کے والد زید وہ خوش قسمت انسان تھے جو جاہلیت کے تاریک دور میں بھی روشنی کا ایک چراغ تھے۔اُس زمانے میں بھی وہ خالص دینِ ابراہیمی اور توحید پرقائم اور جاہلیت کی تمام بدرسوم سے محفوظ تھے حتی کہ بتوں کے نام پر ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت بھی آپ نہیں کھایا کرتے تھے۔
توحیدپرست خاندان
ایک دفعہ آنحضرت ﷺکی اپنی بعثت سے قبل وادیٔ بلدح میں زید سے ملاقات ہوئی آنحضور ؐ کے سامنے کھانا پیش کیاگیا۔آپ نے مشرکین کا کھانا پسند نہیں فرمایا۔ حضرت زیدؓ کے سامنے بھی جب یہ کھانا پیش ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’میں تمہارے بتوں کا چڑھاوا اور ان کے نام کا ذبیحہ نہیں کھاتا۔‘‘(2)
حضرت سعیدؓ کے والد زید نے اپنے علاقہ میں شرک کی تاریکی سے نجات حاصل کرنے اور نورِ ہدایت کی تلاش میں دُوردراز کے سفر کئے۔ شام میں ایک یہودی خداترس عالم سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کہا کہ’’ خدا کے غضب سے حصہ لینا ہے تو ہمارا مذہب اختیارکرلو‘‘ زید نے کہا کہ خدا کے غضب ہی سے تو میں بھاگ کر آیاہوں۔ کوئی اور مذہب بتادو۔ اس نے کہا کہ’’ دین حنیف اختیار کرلو جو مؤحد ابراہیم کا مذہب تھا جو یہودی تھے نہ عیسائی۔‘‘ وہاں سے چلے تو تلاش حق میں وہ ایک خدا ترس عیسائی عالم سے جاکر ملے اس نے صاف کہہ دیا کہ’’ خدا کی *** کا طوق چاہتے ہوتو ہمارے مذہب میں آجائو۔‘‘زید نے کہا ’’پھر مجھے کوئی ایسا مذہب بتائو جس پر خدا کی *** نہ ہو۔‘‘ اس نے بھی مشورہ دیا کہ ’’دین ابراہیمی کی پیروی کرو۔‘‘انہوں نے کہا ’’اس کا مجھے علم ہے اور اسی دین پر میں قائم ہوں۔ رہی ان پتھروں اور لکڑی کی صلیب کی عبادت جن کوخود ہاتھ سے تراشا جائے ان کی کیاحقیقت ہوسکتی ہے؟‘‘(3)
تب زیدشام سے واپس لوٹے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ’’ خدایا! توگواہ رہ میں دین ابراہیمی کا پیروہوں‘‘اور زید کو بجا طور پر اپنی اس سعادت پر فخر تھا۔
حُجیربن ابی اھاب سے روایت ہے کہ سفر شام سے واپسی پرمیں نے زید بن عمرو کو بُوانہ بت کے پاس دیکھا کہ وہ غروب آفتاب کا انتظار کرتے رہے پھر انہوں نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے دورکعت نماز ادا کی۔ پھر کہا ’’یہ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑکا قبلہ ہے۔میں بتوں کی پرستش نہیں کرتا، نہ ان کی خاطر نماز پڑھتا ہوں نہ ہی ان کے لئے قربانی دیتا ہوں۔ نہ ان پر چڑھائی گئی قربانی کا گوشت کھاتا ہوں۔ نہ تیروں سے قسمت معلوم کرتاہوں۔‘‘ زیدحج میں عرفات میں ٹھہرتے اور یہ تلبیہ پڑھتے تھے لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ وَلَا نِدَّلَکَ۔ میں حاضرہوں تیراکوئی شریک نہیں نہ تیرا کوئی ہمسر ہے۔ پھر عرفہ سے واپس آتے ہوئے کہتے میں حاضرہوں تیری عبادت کرنے والا۔ تیر اغلام۔(4)
زید ہی تھے جنہوںنے جاہلیت اور شرک کے اس گہوارہ مکّہ میں یہ نعرہ بلند کیا تھا۔
اَرَبَّاً وَّاحِدً أَمْ اَلْفُ رَبٍّ
تَرَکْتُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰی جَمِیْعًا
أَدِیْنُ اِذَا تَقَسَّمَتِ الأُمُوْرُ
کَذَالِکَ یَفْعَلُ الرَّجَلُ الْبَصِیْرٗ
یعنی کیا میں ایک خدا پر ایمان لائوں یا ایک ہزار ایسے بتوں کو خدامانوں۔ جنہوں نے معاملات میں تقسیم کار کی ہوئی ہے ہرگز نہیں۔ میں نے لات و عزیٰ کو چھوڑ دیا ہے اور ہر صاحب بصیرت انسان ایساہی کرے گا۔
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے زید کو کعبہ کے پاس یہ کہتے سنا ۔ ’’اے گروہ قریش خدا کی قسم! میرے سوا تم میں سے کوئی بھی دینِ ابراہیمی پرقائم نہیں۔‘‘
عامربن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ زید شرک اور بت برستی کے برخلاف ہوکر اپنی قوم سے کنارہ کش تھے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ ’’میں بنی اسماعیل میں سے ایک نبی کا منتظر ہوں۔ نامعلوم مجھے اس کا زمانہ میسر آسکے گایا نہیں؟ مگر میں اس پر ایمان لاتاہوں کہ وہ نبی ہے۔ تمہاری زندگی میں اگر وہ آگیا تو تم اسے میراسلام پہنچانا۔‘‘عامرکہتے ہیں رسول اللہﷺ کے دعویٰ کے بعد میں مسلمان ہواتوحضوؐر کو زید کا سلام پہنچایا۔‘‘رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ اس پر بھی سلام ہو اوراللہ اس پر رحم کرے۔ ‘‘پھر فرمایا کہ’’ میں نے زید کو جنت میں اپنی چادر گھسیٹ کر چلتے دیکھا ہے۔‘‘(5)
بعض عربوں میںجاہلیت کی ایک بدرسم لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا تھی۔ زید نے معصوم بچیوں کے حق میں آواز بلند کی۔ آپ ایسی بچیوں کی کفالت اپنے ذمّہ میں لے کر ان کی جان کے لئے اَمان مہیا کیاکرتے تھے۔بچی کے جوان ہونے پر والدین سے کہتے کہ چاہوتو تمہیں واپس کردیتا ہوں کہو تو اس کے سارے انتظام (شادی بیاہ وغیرہ )خود کرتا ہوں۔(6)
زید کے بیٹے سعید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺمیرا باپ اگر آپ کا زمانہ پاتا تو ضرور ایمان لے آتا آپ اس کے لئے خداسے بخشش طلب کریں۔ نبی کریمﷺ نے زید کے لئے بخشش کی دعا کی اور فرمایا ’’وہ قیامت کے دن ایک امت ہوگا۔‘‘(7)
نبی کریمﷺ کے ارشاد کے بعد مسلمان جب بھی سعید کے والد کا ذکرکرتے تو ان کے لئے بخشش اور رحم کی دعا کرتے۔ (8)
قبول اسلام کے بعد استقامت اور اسکی برکت
حضرت سعیدؓ بن زیدایسے مؤحد انسان کی اولاد تھے۔ جب رسول اللہﷺ نے توحید کی آواز بلند کی تو حضرت سعیدؓ اوّلین لبیک کہنے والوںمیں سے ہوئے۔ ان کی بیوی فاطمہؓ جو حضرت عمرؓ کی سگی بہن تھیں ساتھ ہی مسلمان ہوگئیں۔ حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو سخت ردّعمل دکھایا انہیں قید وبند کی صعوبت دی۔ (9)حضرت عمرؓایک دفعہ غصے میں ان کے پاس پہنچے اور مارمار کر لہولہان کردیا۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا اے عمر جو چاہو کر لو اب اس دل سے اسلام تو نہیں نکل سکتا۔زخمی ہوکر ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ دیکھ کر حضرت عمرؓ کا دل پسیجا اور انہوں نے وہ کلام سننے کی خواہش کی جو یہ دونوں پڑھ رہے تھے۔ کلام پاک کی عظمت وشوکت کا ایسا اثر ہوا کہ حضرت عمرؓ کی کایا پلٹ گئی۔ اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔(10)
غزوات میں شرکت
ہجرت مدینہ کے وقت حضرت سعیدؓ ابتدائی مہاجرین کے ساتھ مدینہ پہنچے رسول اللہﷺ نے حضرت رافع بن مالک انصاریؓ کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم فرمائی۔
۲ ہجری میں حضرت سعیدؓ اور حضرت طلحہؓ کو آنحضرتﷺنے ایک مہم کے سلسلے میں شام کی طرف بھجوایا۔ان کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھیں۔ اس مہم سے واپسی تک غزوہ بدر کا معرکہ سَرہوچکا تھا۔ رسول اللہ ﷺفتح کے ساتھ بدر سے واپس لوٹ رہے تھے۔حضرت سعیدؓ کو چونکہ دینی خدمت پر مامور ہونے کے باعث بدر کی شرکت سے محروم رہنا پڑا تھا اس لئے آنحضرتﷺ نے انہیں بدر کی غنیمت سے حصّہ عطافرمایا اور جہاد کے ثواب کی نوید بھی سنائی۔ حضرت سعیدؓ کو تمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہنے کی توفیق نصیب ہوئی۔(11)
شوق جہاد
حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت ابوعبیدہؓ کے ذریعہ شام فتح ہوا۔ حضرت سعیدؓ ان کی پیدل فوج کے افسر تھے۔محاصرہ دمشق اور جنگ یرموک میں انہیں نمایاں شجاعت کے مواقع عطاہوئے۔ آپ کچھ عرصہ دمشق کے گورنر بھی رہے۔ مگر شوق جہاد کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابوعبیدہ ؓ کو لکھا کہ میں جہاد سے محروم رہنا نہیں چاہتا اس لئے میر ایہ خط پہنچتے ہی کسی کو میری جگہ دمشق میں بھجوانے کی ہدایت فرمائیںتاکہ میں جہاد کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکوں۔ چنانچہ ان کی جگہ یزید بن ابی سفیان کو دمشق کا گورنرمقررکیاگیا۔
حضرت سعیدؓ نہایت نیک طبع اور مستغنی مزاج انسان تھے۔ عقیق کی جاگیر پر گزربسر تھی۔ ایک عورت ارویٰ نے جس کی زمین آپ کے رقبہ کے ساتھ ملتی تھی ان کی زمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کردیاتو آپ اپنی جاگیر سے دستبردار ہوگئے اور کہا کہ یہ اس عورت کو دے دو۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص ناحق کسی کی زمین ایک بالشت بھی لیتا ہے اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا بوجھ اُٹھاناہوگا۔(12)
قبولیت دعا
حق وباطل میں فرق کی خاطر اس عورت کے بارہ میں حضرت سعیدؓ نے دعا کی کہ ’’اے اللہ اگریہ مظلوم نہیں ظالم ہے تو یہ اندھی ہوکر اپنے کنوئیں میں گرے اور میرا حق ظاہر کردے تامسلمانوں پرروشن ہوکہ میں ظالم نہیں ہوں۔‘‘ خدا کی شان کہ وادی عقیق میں سیلاب آنے سے زمین کی حدیں بھی ظاہر ہوگئیں اور وہ بڑھیا اسی طرح اندھی ہوکر ہلاک ہوئی اور عبرت کاایسا نشان بنی کہ مدینہ کے لوگوں میں ضرب المثل بن گئی ۔لوگ جس کوبددعا دیتے کہتے کہ خدا اُسے ارویٰ کی طرح اندھا کرے۔(13)
حضرت سعیدؓ اپنے زہدو ورع کے باعث فتنوں اورشورشوں سے محفوظ رہے۔وہ فتنوں کے بارے میں رسول کریمﷺکی یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ آپؐ نے فرمایا تاریک رات کی طرح فتنے ہونگے جن میں لوگ بہت تیزی سے داخل ہونگے۔ پوچھاگیا کیا وہ سب ہلاک ہونگے یا بعض۔ سعیدؓ کہنے لگے ان کے لئے قتل کافی ہے۔(14)
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت سعیدؓ مسجد کوفہ میں فرمایا کرتے کہ’’ خلیفۂ وقت کے ساتھ جو سلوک ہوا اُس سے اگر اُحد کا پہاڑ بھی لرزاُٹھے تو تعجب کی بات نہیں۔‘‘(15)
حضرت سعیدؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ یعنی اُن دس صحابہ میں جنہیں رسول کریم ﷺنے اُن کی زندگی میں جنت کی خوش خبری دی تھی۔ بلاشبہ یہ عظیم الشان اعزاز تھا۔
حق گوئی
آپ حق گو اور بے باک تھے۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ امیر معاویہؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے۔ ایک روز وہ جامع مسجد میں تشریف فرماتھے کہ حضرت سعیدؓ تشریف لائے۔ انہوں نے نہایت عزت وتکریم کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور اپنے پاس بٹھایا۔دریں اثناء اہل کوفہ میں سے ایک شخص آیا اور حضرت علیؓ کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔حضرت سعیدؓ اس پر سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں نے رسول کریمؐکو فرماتے سنااور مجھے ہرگزاس کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں وہ کہوں جو رسول ؐاللہ نے نہیں فرمایا اور کل جب میں آپؐ سے ملوں تو میری بازبُرس ہو۔ آپؐ نے فرمایا تھا۔ابوبکرؓ،عمرؓ، عثمانؓ ،علیؓ،طلحہؓ، زبیرؓ بن العوام، سعدؓ اور عبدالرحمانؓ بن عوف جنت میں ہونگے اور اگر میں چاہتاتو دسویں کا بھی نام لے دیتا۔پوچھا گیاوہ کون ہے آپ خاموش رہے پھر پوچھا گیاتوکہا میں یعنی سعیدؓ بن زید۔پھر کہنے لگے ان میں سے کسی ایک شخص کا رسول اللہﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں شامل ہونا جس میں آپؐ کاچہرہ غبارآلودہ ہوا تمہارے عمربھر کے اعمال سے بہتر ہے خواہ تمہیں عمرنوحؑ عطاکی جائے۔ (16)
روایات حدیث
حضرت سعید ؓ کی روایات حدیث اگرچہ بہت قلیل ہیں مگر ان سے آپ کے ذوق کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔یہ روایات وضو اوراس کے آداب ،ایمانیات اور حب انصار سے متعلق ہیں۔ حضرت سعیدؓبیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو وضوء نہیں کرتا اس کی نماز نہیںہوتی اور جو وضوء کرتے ہوئے اللہ کا نام نہیںلیتا اس کا وضوء نہیں ہوتا۔ اور وہ اللہ پر ایمان نہیں لاتا جو مجھ پر ایمان نہیںلاتا اور جو انصار سے محبت نہیں کرتا۔(17)
بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے بھی حضرت سعید ؓ اعلیٰ مقام پر تھے اور اکثر یہ حدیث سنایاکرتے تھے کی سب سے بڑا سودیعنی حرام چیزمسلمان کی عزت پر ناحق حملہ ہے۔اسی طرح بیان کیا کہ رِحم مادر کا لفظ اللہ کی صفت رحمان سے نکلا ہے جو قطع رحمی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردیتا ہے۔(18)
ایک اور روایت آپؓ سے مروی ہے کہ جو شخص اپنے مال و جان ،اہل وعیال اور دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔(19)
وفات
حضرت سعیدؓ خاموش طبع اورگوشہ نشین قسم کے بزرگ تھے۔ اس لئے ان کے بہت کم حالات کتابوں میں ملتے ہیں۔ بلاشبہ آپ کی زندگی جنتیوں کی طرح پر سکون زندگی تھی۔ تبھی تو خدا ذوا لعرش کی طرف سے آپ کو جنتی ہونے کی عظیم الشان بشارت آنحضرتؐ کے ذریعہ سے عطاہوئی۔ آپ کی وفات عقیق میں50یا 51ھ میں جمعہ کے روز ہوئی۔سترسال سے زائد عمر پائی۔ (20)
حضرت عبداللہ ؓبن عمر نے نماز جمعہ کی تیاری کرتے ہوئے جب یہ المناک خبر سنی تو فوراً عقیق روانہ ہوگئے۔ جہاں حضرت سعد ؓبن ابی وقاص نے حضرت سعیدؓ کو غسل دیا۔ حضرت عبداللہؓ بن عمر نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مدینہ لاکر حضرت سعیدؓ کو سپردِخاک کیاگیا۔(21)
حضرت سعیدؓ نے مختلف وقتوں میں نوشادیاں کیں۔ ان بیویوں اور لونڈیوں سے کثیر اولاد ہوئی۔ آپ کے تیرہ لڑکوں اورسولہلڑکیوں کے نام ملتے ہیں۔
حوالہ جات
1-
اسد الغابہ جلد2ص306
2-
بخاری کتاب مناقب الانصار باب حدیث زید بن عمرو
3-
ابن سعد جلد3ص379
4-
ابن سعدجلد3ص380
5-
ابن سعد جلد 3ص379
6-
ابن سعد جلد3ص381
7-
مسند احمد بن حنبل جلد1،مسند سعیدص
8-
ابن سعد جلد3ص381
9-
بخاری کتاب المناقب باب اسلام سعیدؓ بن زید
10-
ابن سعد جلد3ص268
-11
الاصابہ جز 3ص 97
12-
مسلم کتاب المساقاہ باب تحریم الظلم
13-
اصابہ جز3ص97
-14
مسنداحمد جلد1ص 189
-15
بخاری کتاب المناقب باب اسلام سعید ؓ بن زید
-16
ابودائود کتاب السنۃ فضائل العشرۃ
-17
مسند احمد جلد6ص 382
-18
مسند احمد جلد1ص 190
-19
مسند احمد جلد 1ص 187
-20
الاصابہ جلد3ص97و مسند احمد جز1ص 221
-21
ابن سعد جلد3ص384
حضرت زبیرؓ بن العوام
نام ونسب
آپ کا نام زبیرؓ والد کا نام عوام اور والدہ کا نام صفیہ تھاکنیت ابو عبداللہ تھی۔ نسب پانچویں پشت میں نبی کریمﷺسے مل جاتا ہے۔آپ کی والدہ حضرت صفیہؓ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں۔اور ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے آپ حقیقی بھتیجے تھے۔حضرت ابو بکر ؓ کے داماد ہونے کے لحاظ سے آنحضرتﷺسے ہم زلف ہونے کی نسبت بھی تھی۔
آپ ہجرت نبوی سے28سال قبل پیدا ہوئے۔والد بچپن میں انتقال کر گئے تھے۔ والدہ نے تربیت میں تادیب اور سختی سے کام لیا۔آپ کہا کرتی تھیں کہ اس کا مقصد زبیر کو ایک دانا اور بہادر انسان بنانا ہے۔لڑکپن کا واقعہ ہے مکہ میں ایک نوجوان کے ساتھ آپ کا جھگڑا ہو گیا۔ اس کو ایسا مُکہّ مارا کہ اس کاہاتھ ٹوٹ گیا۔حضرت صفیہّؓ کو خبر پہنچی تو اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے انہوں نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا۔شکایت کرنے والوں سے پوچھا پہلے بتاؤ کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا ۔بہادر یا بزدل؟(1)
حضرت زبیرؓ کا قد لمبا تھا سواری پر بیٹھتے تو پائوں زمین کو چھوتے اور رنگ سفید،جسم ہلکا پھرتیلا،رخسار ہلکے،داڑھی بھی ہلکی اور سرخی مائل تھی۔(2)
قبول اسلام اور تکالیف
حضرت زبیرؓ نے سولہ برس کی عمر میں پانچویں یا چھٹے نمبر پر اسلام قبول کیا۔اور قبول اسلام میں سبقت لینے والوں میں آپ کا ممتاز مقام تھا۔کم سن ہونے کے باوجودبہادری اور جانثاری آپ کا طرّہ امتیاز تھی۔ مکہ میںابتداء میںآپ کی مؤاخات حضرت عبداللہؓبن مسعودسے ہوئی۔قبول اسلام کے بعد کوئی ایسا غزوہ نہیں ہوا جس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ شرکت نہ کی ہو۔(3)
اسلام کے ابتدائی زمانہ مخالفت کی بات ہے کسی نے مشہورکردیا کہ نبی کریم ؐکو مشرکین نے گرفتار کرلیا ہے۔حضرت زبیرؓ نے سنتے ہی تلوار سونتی اور فوراً رسول اللہ ؐ کے پاس پہنچے۔ حضور نے دیکھ کر پوچھا یہ کیا۔ عرض کیا کہ حضورؐ میں توآپؐ کی گرفتاری کا سن کر دیوانہ وار آپ کی طرف چلا آیا ہوں۔ رسول اللہ ؐنے نہ صرف اس جانثار فدائی کیلئے دعا کی بلکہ آپ کی تلوار کیلئے بھی دعا کی۔(4)
ابتدائے اسلام میں حضرت زبیرؓ پربھی بہت سختیاں ہوئیں ان کا چچا ان کو چٹائی میں باندھ کر دھوئیں کی دھونی دیتا آپ کا دم گھٹنے لگتا۔ مگر آپ کلمۂ توحید کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔اور ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ جوچاہو کرلو میں اس دین سے انکار نہیں کرسکتا۔(5)
ظلم وستم انتہا کو پہنچا توحبشہ ہجرت کی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد مدینہ ہجرت کی سعادت پائی۔ مکّے میں قیام کے دوران بعد میںرسول اللہ ﷺنے حضرت طلحہؓ کوبھی آپ کا بھائی قراردیا۔
شجاعت
ہجرت مدینہ کے بعد حضرت سلمہ ؓبن سلامہ سے بھائی چارہ ہوا جو بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے انصار میں سے معزز بزرگ تھے۔آپ کی شجاعت و بہادری ضرب المثل تھی۔ غزوہ بدر میں زرد رنگ کا عمامہ سر پہ باندھ رکھا تھا۔مسلمانوں کے پاس کل دو گھوڑوں میں سے ایک پر وہ سوار تھے۔ اس جنگ میں وہ اس جانبازی اور دلیری سے لڑے کہ جس طرف نکل جاتے دشمن کی صفیں تہہ و بالا کرکے رکھ دیتے۔مشہور تھا کہ اس روز فرشتے بھی زبیر ؓ کی پگڑی جیسی زرد پگڑیاں پہنے نازل ہوئے تھے۔(6)
ایک مشرک نے بلند ٹیلے پر کھڑے ہوکر دعوتِ مبارزت دی حضرت زبیرؓ لپک کر اس پر حملہ آور ہوئے۔ مگر تھوڑی دیر میں قلابازیاں کھاتے ہوئے ٹیلے سے نیچے آنے لگے۔ آنحضرتﷺنے فرمایا کہ دونوں میں سے جو پہلے زمین پر آرہے گا وہی ہلاک ہوگا۔ اور ایساہی ہو اوہ مشرک پہلے زمین پر گرا اور مارا گیا۔
میدان بدر میں ایک اور سُورما عبیدہ بن سعید سر سے پائوں تک زرہ بند تھا اور صرف آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔حضرت زبیرؓ اس کے مقابلے میں بھی نکلے اور تاک کر اُس کی آنکھ میں ایسا نیزہ مارا کہ وہ دوسری طرف سے باہر نکل گیا۔ اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل کھینچ کر نیزہ نکالا گیا تو پھل ٹیڑھا ہوچکاتھا۔ آنحضرت ؐ نے زبیر کی بہادری کے نشان کے طور پر وہ نیزہ حضرت زبیرؓ سے مانگ کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ حضوؐر کی وفات کے بعد خلفائے راشدین میں یہ امانت بطور تبرک منتقل ہوتی رہی۔ یہاںتک کہ حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت زبیرؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ کے پاس یہ نیزہ پہنچا۔ جو ان کی وفات تک ان کے پاس رہا۔
حضرت زبیرؓ نے جس بے جگری سے میدان بدر میں داد شجاعت دی اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سارا بدن زخموں سے چھلنی تھا۔ ایک زخم تو اتنا گہرا تھا کہ ہمیشہ کے لئے بدن میں گڑھا پڑ گیا۔ آپؓ کی تلوار میں بدر کے دن گردنیں مارتے مارتے دندانے پڑگئے تھے۔ بلاشبہ آپ کی اس بہادری پر عرب کے شاعرکا یہ شعرصادق آتا ہے
وَلَا عَیبَ فِیھِم غَیرَ أنَّ سُیُوُفَھُم بِھِنَّ فُلُولٌ مِن کِرَ ا عِ الکَتَائِبٖ
کہ ان بہادروں میں کوئی عیب نہیں۔ اگر ہے تو بس یہ کہ ان کی تلواروں میں لڑائی اور جنگ آزمائی کے باعث بہت دندانے پڑچکے ہیں۔ اور یوں عرب شاعر نے بظاہر مذمت میں لپٹی ہوئی ان بہادروں کی مردانگی کی ایسی اعلیٰ درجہ کی تعریف کردی کہ اس سے بڑھ کر اور کیا تعریف ہوگی ۔(7)
غزوہ احد اور خندق میں جانثاری
غزوہ احد میں مشرکین کے اچانک حملے کے وقت جب بڑے بڑے غازیوں کے پائوں اکھڑ گئے اورجو چودہ صحابہؓ ثابت قدم رہے ان میں جانثارحواری رسول حضرت زبیرؓ بھی تھے۔
جنگ احد میں مشرکین کے واپس جانے کے بعدرسول کریمﷺنے جب بعض اطلاعات کی بناء پر یہ خطرہ محسوس کیا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تو آپؐ نے فرمایا ہم ان کا تعاقب کریں گے کون ساتھ دے گا۔تب ستر صحابہ آپ کے ساتھ اس تعاقب میں شریک ہوئے۔ حضرت عائشہ ؓ حضرت عروہؓ سے فرماتی تھیں ان میں تمہارے نانا ابوبکرؓ اور دادا حضرت زبیر ؓ بھی تھے۔(8)
غزوہ خندق میں حضرت زبیرؓ کی ڈیوٹی خواتین کی حفاظت پر تھی جس کا حق آپ نے خوب ادا کیا۔ مدینہ کے یہود بنو قریظہ کے ساتھ اگرچہ مسلمانوں کا معاہدہ تھالیکن مشرکین عرب کا چاروں طرف سے مدینہ پر ہجوم دیکھ کر وہ بھی بدعہدی پر اترآئے۔ یہ شدید سردی کے دن تھے۔ رسول اللہ ﷺنے صحابہ کو آواز دی کہ کوئی ہے جو بنو قریظہ کی خبر لائے؟ مارے سردی کے ان کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ تین مرتبہ حضورؐ کے آواز دینے پر ہر دفعہ ایک ہی آواز آئی اور یہ آواز جس بہادر اور جری پہلوان کی تھی وہ زبیرؓ تھے۔انہوں نے ہر دفعہ لبیک کہا اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺمیرے ماں باپ آپؐ پر قربان!میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں۔ پھر زبیرؓ جاکر دشمن کی خبریں لے آئے۔ جب آپ واپس لوٹے تو رسول اللہﷺ نے آپ کی فدائیت سے خوش ہوکر فرمایا ’’ہر نبی کا ایک حواری یعنی خاص مددگارہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔‘‘(9)اس طرح فرمایا ’’اے زبیرؓ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!‘‘حضرت زبیرؓ کو حدیبیہ میں بھی شرکت کی توفیق ملی اور رسول کریمؐ نے بدر اور حدیبیہ میں شرکت کرنے والوں کے بارہ میں فرمایا تھا کہ ان میں سے کوئی آگ میں داخل نہ ہوگا۔
غزوہ خیبر میں بہادری
پھرغزوۂ خیبر کا موقع آیا تو یہود خیبر کا رئیس اور بہادر مرحب حضرت علیؓ سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا۔ اس کا بھائی یاسر نہایت غضبناک ہوکر اپنے بھائی کا انتقام لینے کیلئے میدان میں نکلا۔ اور کہا کہ کوئی ہے جو میرے مقابلے پہ آئے حضرت زبیرؓ نے آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا۔ اور اس دیوہیکل انسان کے مقابلے پر حضرت زبیرؓ کو جاتے دیکھ کر ماں کی ممتا جاگی۔ آپ کی والدہ صفیہؓ پریشان ہوکر کہنے لگیں کہ آج زبیرؓ کی خیر نہیں۔ مگر رسول خداﷺنے فرمایا نہیں ایسانہیںہوگا۔ زبیرؓ اس پرلازماً غالب آئے گا۔ چنانچہ انہوںنے چند ہی لمحوں میں اس بہادر کو زیر کرلیا۔
فتح مکہ اور حنین میں خدمات
فتح مکہ کے موقع پر بھی حضرت زبیرؓ کو کلیدی خدمات کی توفیق ملی۔ پہلے آپ کو حضرت علی ؓ کے ساتھ اس مہم میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ جو ایک مخبری کرنے والی شُتر سوار عورت کو گرفتار کرنے کے لئے رسول خدا ﷺنے اللہ تعالیٰ سے علم پاکربھجوائی تھی۔ اور اس سے آپ کامیاب و کامران واپس لوٹے۔ مکّے میں داخلے کا وقت آیا دس ہزارقدوسیوں کے لشکر کے چھوٹے چھوٹے دستے بنائے گئے۔آخری دستہ وہ تھا جس میں خود آنحضرتﷺ موجود تھے اور اس دستہ کے علمبردار حضرت زبیرؓ تھے۔ مکہ میںفاتحانہ شان سے داخل ہونے کے بعد حضرت زبیرؓ اور حضرت مقداؓد گھوڑوں پر سوار آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورﷺ نے خود بڑی محبت کے ساتھ اپنے دست مبارک سے ان مجاہدوں کے چہروں سے گردو غبار صاف کی اور ان کے مالِ غنیمت کے حصے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ گھوڑسواروں کے لئے ہم نے عام مجاہدین سے دوگنے حصے مقرر کئے ہیں۔ یہ گویا حضرت زبیر ؓ کی شاندار خدمات پر حضورؐ کی طرف سے انعام کا اعلان تھا۔(10)
فتح مکہ کے بعد حنین کا معرکہ پیش آیا۔ حنین کی گھاٹیوں میں چھپے ہوئے تیر انداز مسلمان مجاہدین کی نقل و حرکت دیکھ رہے تھے۔ حضرت زبیرؓ کی بہادری اتنی زبان زد عام اور ضرب المثل تھی کہ کمین گاہوں میں چھپے ہوئے دشمنوں پر جب آپ نے حملے کا ارادہ کیا تو دشمنوں میں سے ایک شخص نے آپ کو پہچان لیا۔ وہ بے اختیار اپنے ساتھیوں کو پکا رکرکہنے لگا۔ لات و عُزّی کی قسم یہ طویل القامت شہ سوار یقینا زبیرؓ ہے۔ اس کا حملہ بڑاخطرناک ہوتا ہے تیا ر ہوجائو۔ اس اعلان کی دیرتھی کہ حضرت زبیرؓ پر ایک دستے نے تیروں کی بوچھاڑکردی۔ حضرت زبیرؓ نے نہایت جرأت اور دانشمندی کے ساتھ اس حملے کامقابلہ کیا اور یہ گھاٹی دشمنوں سے بالکل خالی کرواکردم لیا۔
جنگ یرموک میں شجاعت
جنگ یرموک میں بھی حضرت زبیرؓ کی غیر معمولی شجاعت دیکھنے میں آئی دورانِ جنگ ایک دفعہ چند نوجوانوں نے زبیرؓ سے کہا کہ اگر آپ دشمن کے قلب لشکر میں گھس کر حملہ کریں تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ حضرت زبیرؓ کو تائید الہٰی سے اپنی قوتِ بازوپر ایسا اعتماد تھا فرمانے لگے تم میرا ساتھ نہیں دے سکتے مگرجب ان سب نوجوانوں نے اصرار کیا تو آپؓ نے ان نوجوان بہادروں کے دستے کو ساتھ لیا اور دشمن کے قلب لشکر پر حملہ کردیا۔ رومی فوج کے قلب کو چیرتے ہوئے تنہا لشکر کے اس پار نکل گئے تمام ساتھی پیچھے رہ گئے تھے پھر آپؓ حملہ کرتے ہوئے واپس لوٹے تو رومیوں نے گھوڑے کی باگ پکڑلی اور گھیراڈال کر ہرطرف سے آپ پر حملہ آور ہوگئے او ر سخت زخمی کردیا۔ آپ کی گردن پرتلواروں کے اتنے کاری زخم آئے کہ اچھے ہونے کے بعد بھی اس میں گڑھے باقی رہ گئے۔
حضرت عروہ ؓکہا کرتے تھے حضرت زبیرؓ کی پشت پر بدر کے زخم کے بعد یرموک کے زخم کا گڑھا تھا جس میں انگلیاں داخل کرکے میں بچپن میں کھیلا کرتا تھا۔(11)
موصل کے ایک بزرگ کی روایت ہے کہ ایک سفر میں میں حضرت زبیرؓ کے ہمراہ تھا انہیں غسل کی ضرورت پیش آئی۔ میں نے ان کیلئے پردہ کیامیری نظر ان کے جسم پر پڑی تو وہ تلواروں کے نشانوں سے جگہ جگہ کٹا ہوا تھا ۔میں نے کہا کہ ایسے زخموں کے نشان میں نے کسی شخص پر نہیں دیکھے انہوں نے فرمایا ان میں ہر زخم رسول اللہﷺکے ساتھ خدا کی راہ میں لگا ۔ (12)
ایسے حیرت انگیز مجاہدوں کی شجاعت اور قربانیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ رومی فوج بھاگ گئی اور یرموک کے میدان میںمسلمانوں کو فتح ہوئی۔اوروہ ملک شام کے تاج وتخت کے وارث بنے۔
فتح شام کے بعد حضرت عمروبن العاص ؓ نے مصر کا قصد کیا۔حضرت عمرؓ نے ان کی مدد کے لئے دس ہزار کی فوج اور چارافسروں کی کمک بھیجی او رلکھا کہ ان افسروں میں سے ایک ایک ہزار سوار کے برابر ہے۔ ان میں سے ایک کمانڈرحضرت زبیرؓ بھی تھے۔ حضرت عمروبن العاصؓ نے محاصرہ فسطاط کے جملہ انتظامات ان کے سپرد فرمائے تھے۔ سات ماہ ہوگئے محاصرہ ٹوٹنے کو نہ آتا تھا۔ حضر ت زبیر ؓ نے ایک دن تنگ آکر کہا کہ آج میں مسلمانوں پر اپنی جان فدا کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر ننگی تلوار ہاتھ میں لئے اور قلعہ کی دیوار کے ساتھ سیڑھی لٹکائی اور اوپر چڑھ گئے تاکہ فصیل کو پھلانگ کر قلعے میں داخل ہوجائیں۔ چند اور صحابہ نے بھی ساتھ دیا۔ فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔ تمام فوج نے جواباً ساتھ دیا ۔فسطاط کی سرزمین نعرہ ہائے تکبیر سے دہل اُٹھی۔ عیسائی سمجھے کہ مسلمان قلعے کے اندر گُھس آئے ہیں وہ بدحواس ہوکر بھاگے۔ دریں اثناء حضرت زبیرؓ نے موقع پاکر قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ اسلامی فوج اندر داخل ہوگئی اور مقوقس شاہ مصر کی درخواست پر ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ طے پایا۔
خلفاء کا اعتماد
حضرت عمرؓ نے حضرت زبیرؓ کی ذہانت وفراست اور آپ کی خدمات کے باعث انتخاب خلافت کمیٹی میں آپ کا بھی نام مقررفرمایا تھا ۔ حضرت عثمان ؓکے زمانہ میںحضرت زبیرؓ بڑھاپے کی عمر میں داخل ہوچکے تھے، اس لئے خاموشی سے باقی زندگی بسرکردی۔ حضرت عثمان ؓ آپؓ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔چنانچہ اپنی خلافت کے زمانہ میں حضرت عثمانؓ جب شدیدنکسیر پھوٹنے سے بہت زیادہ بیمار ہوگئے۔ اس سال حج پر بھی نہیں جاسکے اور اپنی نازک حالت کی بناء پر ذاتی وصیت تک بھی کردی تو قریش کے بعض لوگوں نے عرض کیا کہ اپنے بعد جانشین مقرر کر دیں۔ آپؓ نے مشورہ کرتے ہوئے فرمایا کسے جانشین کروں؟ اس سلسلہ میں حضرت زبیرؓ کا نام آنے پر حضرت عثمانؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جہاں تک میرا علم ہے وہ سب سے بہتر ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کو بھی بہت زیادہ پیارے تھے۔(13)
۳۵ ہجری میں فتنہ پردازوں نے حضرت عثمان ؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ تو حضرت زبیرؓ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ کو خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے بھجوایا۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت زبیرؓ نے رات کے وقت نماز جنازہ ادا کرکے ان کی وصیت کے مطابق مضافاتِ مدینہ میں سپردخاک کیا۔
جنت کی بشارت
آپ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک انسان تھے حضرت زبیرؓ کو رسول اللہﷺ نے آپ کی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی اور وہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔
حضرت زبیرؓ نے ۳۶ ھ میں ۶۴ برس کی عمر میں جام شہادت نوش فرمایا۔ ایک دفعہ رسول کریمﷺ، ابو بکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ،طلحہؓ اور زبیرؓ کے ساتھ حراء پہاڑ پر تھے۔ اس میں حرکت پیدا ہوئی رسول اللہﷺ نے فرمایا اے حراء !تھم جا کہ تجھ پر سوائے نبی، صدیق اور شہید کے کوئی نہیں۔ (14)
حضرت زبیرؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے جسم کا کوئی عضوایسا نہیں جو رسول اللہﷺکی معیت میں زخمی نہ ہوا ہو۔ (15)
خشیّت الہٰی
حددرجہ احتیاط اور خشیّت الہٰی کا یہ عالم تھا کہ آپ آنحضرتﷺ کی روایات بھی کثرت سے بیان نہیں کرتے تھے۔ایک دفعہ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا کہ دیگر صحابہ کی طرح کثرت سے احادیث کیوں بیان نہیں کرتے فرمایا جب سے اسلام لایا ہوں رسول اللہﷺ سے جدا نہیں ہوا۔ مگررسول اللہﷺکی اس تنبیہہ سے ڈرتا ہوں۔ کہ’’ جس نے میری طرف غلط بات منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘(16)
خداخوفی، حق پسندی، بے نیازی، سخاوت اور ایثار حضرت زبیرؓ کے خاص اوصاف تھے۔آپ کی شجاعت اور مردانگی کا ذکر گزر چکا ہے۔ اسکندریہ کے محاصرہ نے طول کھینچا توآپ نے سیڑھی لگا کر قلعے کی فصیل پارکرنا چاہی ساتھیوں نے کہا کہ قلعے میں سخت طاعون کی وَبا ہے؟آپ نے بے دھڑک فرمایا کہ ہم بھی طعن و طاعون کے لئے ہی آئے ہیں۔ پھرموت کا کیا خوف یہ کہا اور سیڑھی لگا کر دیوار پر چڑھ گئے۔(17)
حضرت زبیر ؓ کو رسول اللہﷺنے جو حواری رسول کا لقب عطافرمایا تھا۔آپؐ کے اس ساتھی میں آنحضورﷺ کے پاکیزہ اخلاق جلوہ گر تھے۔ امانت ودیانت کا یہ عالم تھا کہ لوگ کثرت سے امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔
فیاضی و عطا
حضرت زبیرؓ مالدارانسان تھے۔ مگر اس سے کہیں بڑھ کر وہ فیاض تھے۔آپؓ کے ایک ہزار غلام تھے جو روزانہ اجرت پر کام کرکے خاص رقم لے کر آتے تھے مگرکبھی آپؓ نے یہ مال اپنے اوپر خرچ کرنا پسند نہ کیا بلکہ جو آتا وہ خدا کی راہ میں صدقہ کردیتے۔
اصل ذریعہ معاش تجارت تھا۔ مال غنیمت سے بھی اس بہادرمجاہد نے بہت حصّے پائے۔ آپ کے تمام اموال کا تخمینہ اس زمانے میں پانچ کروڑ دولاکھ درہم مکانات اور جائیداد غیرمنقولہ کی صورت میں تھا۔ رسول کریم ﷺنے بھی آپ کو مدینہ میں ایک وسیع قطعہ برائے مکان اور بنی نضیر کی اراضی میں سے بھی ایک قطعہ زمین عطا فرما یا تھا۔(18)مقام جُرف اور وادی عقیق میں بھی آپ کی جاگیر تھی۔جو حضرت ابوبکرؓ نے عطا کی تھی۔
تربیت اولاد
اولاد سے بہت محبت تھی۔ اور ان کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنے نو بیٹوں کے نام بدر اوراحدمیں شہید ہونے والے بزرگ صحابہ کے نام پر رکھے جیسے عبداللہ ؓ،حمزہؓ،جعفرؓ۔ اس تمنا کے اظہار کیلئے کہ خداکی راہ میں قربان ہوجائیں۔(19)اور ان میں بھی اپنی طرح شجاعانہ رنگ پیداکرنا چاہتے تھے۔ جنگ یرموک کے وقت حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی عمر صرف دس سال تھی۔ حضرت زبیرؓ انہیں جنگ بد رمیں ساتھ لے گئے اور گھوڑے پر سوار کرکے میدان جنگ میں ایک آدمی کے سپردکیا ۔ تاکہ جنگ کے ہولناک مناظر دیکھ کر ان میں جرأت پیدا ہو۔اسی تربیت کا اثرتھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اپنے وقت کے بہادر اورشجاع انسان ٹھہرے۔
آپ کی طبیعت میں سادگی تھی۔ مال ودولت کی فراوانی کے باوجود اسراف کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ البتہ آلاتِ حرب کا بہت شوق تھا۔ جو یقینا جہاد کی محبت کی وجہ سے تھا۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جو شورش ہوئی اس میں آپ کی رائے بھی قاتلین عثمانؓ سے قصاص کے حق میں تھی ۔ جبکہ بلوہ کی صورت میں ہونے والی اس شہادت کے قاتلوں کی تعیین اور بار ثبوت اپنی جگہ ایک مسئلہ تھی۔ اس اختلاف رائے میںہی حضرت عائشہؓ او رحضرت علیؓ کے مابین جنگ جمل میں آمنا سامنا ہوا۔ حضرت زبیر ؓ اور حضرت طلحہؓ حضرت عائشہؓ کے ہمراہ تھے۔حضرت علیؓ نے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دیتے تو ہمارے خلاف بھی کسی کی مدد نہ کریں حضرت زبیرؓ نے عرض کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں آپؓ کے مقابلہ سے دستبردار ہوجائوں۔حضرت علی ؓ نے کہا کہ میں کیسے نہ پسند کروں گا جبکہ آپ ؓ رسول اللہﷺکے پھوپھی زاد ہیں اور دیگر فضائل بیان کئے جس پر زبیرؓ راضی ہوگئے۔ (20)پھر حضرت ابن عباسؓ وغیرہ نے بھی توجہ دلائی تو آپ نے رائے بدل لی اور میدان جنگ سے واپس لوٹ آئے اس دوران ایک ظالم نے آپ پر حملہ کرکے شہید کر دیا۔ حضرت علیؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ زبیرؓ کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو۔
اس طرح حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ طلحہ ؓ اور زبیرؓ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ ۔وَ نَزَ عْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِینَ(الحجر:47) کہ ہم ان (جنتیوں) کے سینوں سے کینہ نکال باہر کریں گے۔ وہ آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے بھائی بھائی ہوں گے۔
جنگ جمل میں کنارہ کشی کے باوجود بعض فتنہ پردازوں نے آپ کو سازش سے شہید کیا۔ نیزہ کے پہلے حملہ کے بعد حضرت زبیرؓ نے دفاع کیا تو حملہ آور کو اندازہ ہوگیا کہ وہ بچ نہیں سکے گا تب اس نے اللہ کا واسطہ دے کر امان چاہی تو آپ نے تلوار روک لی۔اس نے پھر ساتھیوں کی مدد سے آپؓ کو شہید کیا۔(21)
حضرت زبیرؓ کی وفات پر حضرت حسانؓ بن ثابت نے اپنے اشعار میں ان کو خوب خراج تحسین پیش کیا ہے۔
اَقَامَ عَلیٰ عَھْد النَّبِیِّ وَھَدْیِہٖ حَوَارِیُّہ وَالقَولُ بِا لفِعْلِ یَعْدِلُ
ھُوَالفَارِسُ المََشھُورُ وَالبَطَلُ الَّذِی یَصُوْلُ اِذَا مَا کَانَ یَوْمٌ مُحَجَّلٗ
اِذَا کَشَفَتْ عَنْ سَا قِھَا الحَرْبُ حَشَّھَا بَاَ بیَضََ سَبَّا قٌ اِلَیْ الْمَوتِ یَر مُلٗ(22)
یعنی کہ حواری رسول ﷺحضرت زبیرؓ نے نبی کریمﷺکی سنت اور آپ کے عہد پر خوب قائم رہ کر دکھا دیا اور وہ قول کو فعل کے برابر کرتے تھے یعنی جو کہتے تھے اس پر عمل کرتے۔وہی مشہور شہ سوار اور بہادر انسان تھے کہ جب دن روشن ہوتا تو وہ حملہ آور ہوتے تھے۔(رات کو حملہ نہ کرتے)جب جنگ میں گھمسان کا رن ہوتا تو وہ اسے دہکا کر سفید کرتے اور دوڑتے ہوئے پہلے موت کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے۔
حضرت زبیرؓ بیان کرتے تھے کہ رسول کریمﷺنے میرے لئے اور میری اولاد کیلئے بھی دعا کی تھی ۔ رسولؐاللہ نے فرمایا’’تم میں سے جس کا واسطہ زبیرؓ سے پڑے تو زبیرؓاسلام کا ستون ہے۔(23)
حضرت عمرؓ فرماتے تھے اگر میں کوئی عہدکروں یا ترکہ کی وصیت کسی کے حق میں کروں تو پسند کروں گا کہ زیبرؓ کے حق میں کروں کہ وہ ارکان دین میں سے ہے۔
حوالہ جات
-1
اصابہ جز3ص 6
-2
ابن سعد جلد3ص107،مجمع الزوائد جلد 9ص 150،متنخب کنزالعمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 70
-3
ابن سعد جلد3ص102
-4
اسد الغابہ جلد2ص197
-5
مجمع الزوائد جلد9ص 151
-6
اسد الغابہ جلد2ص 197،ابن سعد جلد3ص 102
-7
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر
-8
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 69،بخاری کتاب المغازی
-9
بخاری کتاب المناقب باب مناقب زبیرؓ،استیعاب جلد 2ص 91
-10
ابن ہشام جلد 3ص 385
-11
ابن سعد جلد 3ص 104
-12
بخاری کتاب المناقب باب مناقب زبیرؓ
-13
مجمع الزوائد جلد 9ص 150
-14
فتوح البلدان ص 220
-15
بخاری کتاب المناقب باب مناقب الزبیرؓ
-16
مسلم کتاب الفضائل باب فضائل طلحہ و الزبیرؓو اسد الغابہ جلد 2ص 197
-17
ترمذی کتاب المناقب باب منی عضوا للہ الاو قد جرح
-18
ابن سعد جلد3ص 107
-19
ابن سعد جلد3ص 107
-20
استیعاب جلد 2ص 92،ابن سعد جلد 3ص 110
-21
ابن سعد جلد 3ص 110تا113
-22
مجمع الزوائد جلد 9ص 151
-23
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 68
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ
نام ونسب
طلحہؓ کے والد عبیدا للہ بن عثمان اور والدہ صعبہ بنت عبد اللہ تھیں ساتویں پشت میں مرہ بن کعب پر آپ کا نسب رسول کریمﷺسے مل جاتاہے۔آپ کے والد آپ کے قبول اسلام سے قبل ہی وفات پاگئے تھے۔ البتہ والد ہ صاحبہ نے اسلام قبول کیا اورلمبی عمر پائی۔ شہادت عثمانؓؓ کے وقت بھی وہ زندہ تھیں۔ چنانچہ محاصرہ کے وقت یہ غیور خاتون اپنے گھر سے باہر آئیں اور اپنے بیٹے طلحہؓ سے کہا کہ وہ اپنے اثر سے معاندوں کو دور کریں حضرت صعبہؓ قریباً ۸۰ سال تک زندہ رہیں۔ حضرت طلحہؓ دعویٰ نبوت سے کوئی ۲۵ برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کا رنگ گندمی اور چہرہ خوبصور ت تھا۔ بال زیادہ تھے مگر بہت گھنگھریالے نہ تھے۔بالوں کو خضاب نہیں لگاتے تھے۔
قبول اسلام اور تکالیف
عرب دستو رکے مطابق ہوش سنبھالتے ہی تجارتی مشاغل میں مصروف ہوئے۔ جوانی میں دور دراز کے تجارتی سفروں کے مواقع میسر آئے اپنے تجارتی سفروں کے دوران شام کے شہر بصرہ میں ایک راہب سے ان کی ملاقات ہوئی اس نے پوچھا کہ کیا’’احمد‘‘ظاہر ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کون احمد؟اس نے کہاابن عبد اللہ بن عبد المطلب۔’’ اس نے اسی مہینہ میں ظاہر ہونا تھااور وہ آخری نبی ہے اور اس نے حرم سے ظاہر ہو کر کھجوروں والی جگہ کی طرف ہجرت کرنی ہے۔پس تم اس سے محروم نہ رہنا۔‘‘حضرت طلحہؓ کہتے ہیں اسی وقت سے یہ بات میرے دل میں گڑ گئی۔ واپس مکہ آیا تو رسول کریمؐ کی بعثت کا علم ہوا۔ صدیق اکبرؓ کی صحبت اور دوستی کے ذریعہ سے ایک روز رسول کریم ﷺکی خدمت میں بازیابی کا موقع ملا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں آپؓ نے اسلام قبول کرلیا۔(1)انہیںآغاز اسلام میں ابتدائی آٹھ ایمان لانے والوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ قبولِ اسلام کے بعد آپ بھی دیگر مسلمانوں کی طرح کفار کے مظالم کا تختۂ مشق ستم بنتے رہے۔آپ کا بھائی عثمان آپ کو اور آپ کے مسلمان کرنے والے ساتھی حضرت ابوبکر ؓ کو ایک ہی رسی میں باندھ کر مارا کرتا مگر یہ ظلم و استبداد استقامت کے ان شہزادوں میں کوئی لغزش پیدا نہ کرسکا۔(2) مکہ میں قیام کے دوران رسول کریمﷺنے حضرت طلحہؓ کو حضرت زبیرؓ کا بھائی بناکر روحانی اخوت کا نیا رشتہ عطا کیا۔ذریعہ معاش تجارت تھا۔ ہجرت مدینہ کے وقت آپ ملک شام اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر رسول کریمﷺاور حضرت ابوبکرؓ سے ملاقات ہوئی اور حضرت طلحہ ؓ کو ان کی خدمت میں کچھ شامی لباسوں کا تحفہ پیش کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔آپ نے اہل مدینہ کے یہ احوال بھی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں عرض کئے کہ وہ کس طرح بے چینی سے سراپا انتظار ہیں۔ خود حضرت طلحہؓ نے مکہ پہنچ کر تجارتی امو رسمیٹے ،اور پروگرام کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کے اہل و عیال کو لے کر مدینہ روانہ ہوئے۔ مدینہ پہنچ کر آپ حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مہمان ٹھہرے اور رسول کریم ؐ نے حضرت ابیؓ بن کعب انصاری کے ساتھ آپ کا بھائی چارہ کروایا۔(3)
غزوات میں شرکت اور فدائیت
ہجرت کے دوسرے سال سے غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو غزوہ بدر میں حضرت طلحہؓ شامل نہ ہوسکے رسول اللہ ﷺنے آپ کو مدینہ میں شام کی طرف قافلہ قریش کی اطلاعات لینے کیلئے بھجوایا تھا۔ مگر رسول اللہﷺنے نہ صرف آپ کو بدر کے مال غنیمت سے حصہ عطافرمایا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ آپ جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ خدا کی خاطر جہاد کی نیت اور ارادے رکھتے تھے (4) ایک سال بعد میدان احد میں آپ کو اپنی دلی تمنائیں پوری کرنے کے خوب خوب مواقع ملے۔ چنانچہ احد کے میدان میں کفار کے دوسرے حملہ کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی صفوں میں بھگدڑ مچی تو صرف چند صحابہ ثابت قدم رہ سکے ۔حضرت طلحہؓ ان میں سرفہرست تھے جو رسول خداﷺ کے آگے وہاں سینہ سپر ہورہے تھے، جہاں بلا کارَن پڑ رہا تھا۔ کفار اپنی تمام تر قوت جمع کرکے بانی اسلام کو نشانہ بنارہے تھے۔ چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہورہی تھی۔ نیزے اور تلواریں چمک رہی تھیں ۔ بہادر اور جانباز طلحہ ؓنے جیسے عہد کررکھا تھا کہ خود قربان ہو جائیں گے مگر اپنے آقا پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے وہ تیروں کو اپنے ہاتھوں پہ لیتے تو نیزوں اورتلواروں کے سامنے اپنا سینہ تان لیتے ۔احد میں صحابہ کی ایک جماعت نے رسول کریمﷺکے ہاتھ پر موت پر بیعت کی تھی ان میں طلحہؓ بھی شامل تھے جنہوں نے اس عہدکا حق ادا کر دکھایا۔(5)
نبی کریمﷺ جنگ کا نقشہ ملاحظہ فرمانے کے لئے ذرا اونچا ہوکر حالات جنگ کو دیکھنا چاہتے تو حضرت طلحہؓ گھمسان کے اس رَن میں اپنے آقا کے لئے بے چین و بے قرار ہوجاتے اور عرض کرتے لَا تُشْرِفْ یُصِیْبُکَ سَھْمٌ مِنْ سِھَامِ الْقَوْمِ۔ رسول اللہﷺ آپ دشمن کی طرف جھانک کر بھی مت دیکھیے کہیں کوئی ناگہانی تیر آکے آپ کو لگ جائے نَحْرِی دُوْنَ نَحْرِکَ یَارَسُولَ اللّٰہِ۔ میرے آقا میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے سَپر ہے۔(6) کبھی دشمن ہجوم کرکے آپ پر حملہ آور ہوتے تو آپ شیروں کی طرح ایسے جھپٹتے کہ دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرکے آپ رسول ؐاللہ کو ان کے نرغے سے نکال لاتے۔ایک دفعہ ایک ظالم نے کسی ہلّہ میں موقع پاکر رسول کریمﷺپر تلوار کا بھرپور وار کیا۔ حضرت طلحہؓ نے اپنے ہاتھ پر لیا اور انگلیاں کٹ کر رہ گئیں تو زبان سے کوئی آہ نہیں نکلی بلکہ کہا کہ بہت خوب ہوا کہ طلحہؓ رسول خداﷺ کی حفاظت میں ’ٹنڈا ‘‘ہوگیا۔ ’’طلحۃ الشلائ‘‘ کے نام سے آپؓ مشہور تھے(7) یعنی ٹنڈا طلحہ اور بجاطور پر آپ کو حفاظت رسولؐ میں ٹنڈا ہونے پر فخر تھا۔الغرض حضرت طلحہؓ اسی جانبازی اور بہادری سے رسول اللہﷺ کی حفاظت پر کمر بستہ رہے۔یہاںتک کہ دیگر صحابہ بھی مدد کو آپہنچے تو مشرکین کے حملہ کی شدت میں کچھ کمی آئی۔ رسول خدا ؐ کو حضرت طلحہ ؓنے اپنی پشت پر سوار کیا اور اُحد پہاڑی کے دامن میں ایک محفوظ مقام پر پہنچادیا اس موقع پر رسولؐاللہ نے فرمایا کہ طلحہؓنے آج جنت واجب کرلی۔ حضرت طلحہؓ کا سار ا بدن زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ صدیق نے آپ کے بدن پر ستر سے زیادہ زخم شمارکئے آپ کہا کرتے تھے کہ احد کا دن تو طلحہؓ کا دن تھا۔ خود رسولؐ اللہ نے آپ کی جانبازی کو دیکھ کر آپ کو ’’طلحۃ الخیر‘‘ کا لقب عطافرمایا کہ طلحہؓ توسراسر خیروبھلائی کا پتلا نکلا اور یہ تو مجسم خیر ہے ۔ حضرت عمرؓ آپ کو صاحب احد کہہ کر خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے کیونکہ احد کے روز حفاظتِ رسولؐ کا سہرا آپ ہی کے سرتھا۔ نیزآپ کو خود اپنی اس غیرمعمولی خدمت پر بجاطور پر فخرتھا اور خاص انداز سے یہ واقعہ سنایا کرتے تھے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ احد میں ایسا وقت بھی آیا کہ دائیں جبریلؑ اوربائیںطلحہؓ کے سوا کوئی نہ تھا۔(8)غزوہ احد کے بعد کے غزوات میں بھی حضرت طلحہؓ نمایاں خدمات کی توفیق پاتے رہے۔
حدیبیہ فتح مکہ اور حنین میں بھی آپ شریک تھے اور غزوہ احد کی طرح حنین میں بھی جب لوگوں کے پائوں اکھڑگئے تو طلحہؓ ثابت قدم رہے۔ ۹ ہجری میں قیصر روم کے حملہ کی خبر سن کر رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو غزوہ تبوک کی تیاری کا حکم دیا۔حضرت طلحہ ؓ نے اس موقع پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر ایک بیش بہا رقم پیش کردی اور بار گاہِ رسالت سے فیاض کا لقب پایا۔ اسی دوران منافقین نے مسلمانوں کے خلاف ایک یہودی کے مکان پر جمع ہوکر ریشہ دوانیاں شروع کردیں تو رسول کریمﷺ نے حضرت طلحہؓ کو یہ فرض سونپا کہ وہ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جاکر ان لوگوں کا قلع قمع کریں۔ آپ کو کامیابی کے ساتھ یہ خدمت سَرانجام دینے کی توفیق ملی۔ (9)
وصال رسول ﷺاور خلافت ابوبکرؓ
حجۃ الوداع میں بھی حضرت طلحہؓ اپنے آقا کے ہمرکاب تھے۔حج سے واپسی پر مدینہ پہنچ کر رسول کریمﷺ کا وصال ہوا۔ دیگر صحابہ کی طرح اس عظیم سانحہ سے حضرت طلحہؓ کو جو صدمہ پہنچا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کیلئے مشورہ ہورہا تھا ،عاشق رسول ﷺحضرت طلحہؓ جیسا جری انسان اپنے آقا کی جدائی میں دل گرفتہ کسی گوشہ تنہائی میں آنسوئوں کا نذرانہ پیش کررہا تھا۔
خلافت سے اخلاص و وفا
حضرت ابوبکرؓ خلیفہ الرسول منتخب ہوئے تو طلحۃ الخیر ان کے دست وبازو ثابت ہوئے۔ آپؓ محض للہ جس بات کو حق سمجھتے بے لاگ اپنی رائے پیش کردیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت ابوبکرؓ نے اپنی آخری بیماری میں حضرت عمرؓکو خلیفہ منتخب کیا۔ تو یہ حضرت طلحہؓ ہی تھے جنہوں نے حضرت عمرؓ کی طبیعت کی سختی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ سے یہ عرض کی کہ آپ خدا کو کیا جوا ب دیں گے کہ اپنا جانشین کسے مقرر کرآئے ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ کا فیصلہ بھی چونکہ خالصتاً تقویٰ پر مبنی تھا آپؓ نے بھی کیاخوب جواب دیا فرمایا ’’میں خدا سے کہوں گا کہ میں تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر مقرر کرآیا ہوں جوان میں سب سے بہتر تھا۔‘‘ واقعات نے یہی فیصلہ درست ثابت کیا کہ حضرت عمرؓ ہی اس منصب کے لئے سب سے زیادہ اہل تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت طلحہؓ کو ان کی بھر پور اعانت اور نصرت کی توفیق عطافرمائی۔(10)
حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں مفتوح علاقوں کی زمینیں مجاہدین میں تقسیم کرنے کی بجائے بیت المال کی ملکیت قرارد ینے کی تجویزدی اور مفتوح لوگوں سے لگان وصول کرنے کی رائے سامنے آئی تاکہ اس کے ذریعہ مجاہدین کی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ بظاہر یہ ایک نئی رائے تھی اس لئے صحابہ کی ایک بڑی جماعت اس کے حق میں نہیں تھی اور انہوں نے زمینوں کی تقسیم کی تائید کی تھی۔ تین روز تک اس مسئلہ پر بحث ہوئی۔بالآخر حضرت طلحہ ؓ نے حضرت عمرؓ کے موقف کی بھر پور حمایت کی اور آخری فیصلہ یہی ہوا کہ زمینیں تقسیم نہ کی جائیں بلکہ بیت المال کی ہی ملکیت رہیں۔
معرکہ’’نہاوند‘‘ کے موقع پر حضرت عمر ؓ نے ا یرانی ٹڈی دل سے مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں سے مشورہ چاہا تو حضرت طلحہؓ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ’’ آپ امیر المؤمنین ہیںبہترجانتے ہیں ہم غلام تو آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔ جو حکم ہوگا ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ہم نے بار بار آزمایا کہ اللہ تعالیٰ انجام کار آپ کو کامیابی عطا فرماتا ہے۔‘‘
حضرت عمر ؓ بھی آپ کی اصابت رائے کے قائل تھے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے جن چھ اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی انتخاب خلافت کے لئے مقررفرمائی تھی کہ وہ اپنے میں جس پر اتفاق کریں اسے خلیفہ منتخب کرلیں۔ اس کمیٹی میں حضرت طلحہ ؓ بھی شامل تھے ۔ حضرت طلحہؓ کی بے نفسی، تواضع اور ایثار کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنی رائے حضرت عثمانؓ کے حق میں دے کر انہیں اپنے اوپر ترجیح دی اور اُن کا نام اس منصب کے لئے پیش کردیا۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمان ؓبن عوف کی رائے اور حضرت طلحہؓ کی تائید سے حضرت عثمانؓ ہی خلیفہ منتخب ہوئے۔
حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت کے آخری سالوں میں جب شورش عام ہوئی۔ تو حضرت طلحہؓ نے مشورہ دیا کہ اس فتنے کی تحقیق کے لئے پورے ملک میں وفود بھیجے جائیں۔ یہ رائے بہت صائب تھی۔ چنانچہ ۳۵ ھجری میں محمدؓ بن مسلمہ، اسامہ ؓبن زید، عمارؓ بن یاسر اور عبداللہؓ بن عمرو ملک کے مختلف حصوں میں تفتیش کے لئے روانہ کئے گئے۔ ان تحقیقات کا خلاصہ یہ تھا کہ کوئی قابل اعتراض بات انہوں نے نہیں پائی۔ (11)اس سلسلہ میں ابھی کچھ عمل درآمد نہ ہونے پایا تھا کہ مفسدین نے مدینہ آکر قصر خلافت کا محاصرہ کرلیا۔حضرت عثمانؓ ذاتی طور پر منافقین کے مقابلہ پر کوئی مدافعانہ کاروائی پہلے کرنے کے حق میں نہیں تھے۔البتہ وعظ و نصیحت کرتے رہے۔ اس موقع پر حضرت طلحہؓ خلیفہ وقت کی اخلاقی مدد کرسکتے تھے وہ انہوں نے کی۔ مثلاً ایک موقع پر حضرت عثمانؓ نے باغیوں کے سامنے اپنے فضائل و مناقب بیان کرکے طلحہؓ جیسے کبار صحابہ سے اس کی تائید چاہی تو محاصرین کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت طلحہؓ نے اعلانیہ اور کھلم کھلا محاصرین کے سامنے حضرت عثمان ؓ کی تائید کی۔جب محاصرہ زیادہ خطرناک ہوگیا تو حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کی طرح حضرت طلحہؓ نے بھی اپنے صاحبزادے محمدؐ کو خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے قصرِ خلافت بھجوایا۔جب مفسدین نے حملہ کرنے میں پہل کردی تو محمد بن طلحہؓ نے بھی اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق ان کا مقابلہ کیا۔(12)اور دوسرے معدد وچند محافظین کے ساتھ مل کر مفسدین کے سیلاب کو روکے رکھا مگر چند بدبخت دوسری طرف سے حضرت عثمانؓ کے گھر میں گُھس گئے اور خلیفہ راشد پر حملہ کرکے ان کی درد ناک شہادت کا واقعہ سامنے آیا۔ دیگر صحابہ کی طرح حضرت طلحہؓ کو بھی اس سانحہ سے سخت صدمہ پہنچا۔وہ جہاں حضرت عثمانؓ کے لئے عفوورحم کی دعائیں کرتے وہاں مفسدین کے مظالم دیکھ کر خدا کی بارگاہ میں ان کی گرفت کیلئے التجا کرتے۔
حضرت طلحہؓ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ خشیّت الہٰی اور محبت رسول سے آپ کا پیمانہ لبریز تھا۔ حضرت طلحہؓ نے اپنے مال و جان سے خدمت دین میں جس طرح سے اپنی دلی تمنائیں اور مرادیں پوری کیں اس پر خدائے ذوالعرش نے بھی گواہی دی۔ چنانچہ جب آیت رِجَالٌ صَدَقُوا مَاعٰہَدُواللّٰہَ عَلَیہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّنتَظِرُ ( الاحزاب :24) نازل ہوئی۔ اس میں ان مردان خدا کا تذکرہ تھا جنہوں نے اللہ سے اپنے عہد سچ کردکھائے اور اپنی منتیں پوری کیں اور کچھ ہیں جو انتظار میں ہیں۔رسول ِخداﷺنے حضرت طلحہؓ سے فرمایا کہ اے طلحہؓ! تم بھی ان خوش نصیب مردان وفامیں شامل ہو جو اپنی قربانی پوری کرنے کی انتظار میں ہیں۔(13) حضرت طلحہؓ بڑے مالدار تاجرتھے ۔اس کے ساتھ فراخ دل اورسخی انسان بھی تھے۔
انفاق فی سبیل اللہ
غزوہ تبوک کے موقع پر آپ کو دل کھول کر خرچ کرنے کی توفیق ملی تھی اور اسی موقع پر آنحضورﷺنے آپ کو فیاض کے لقب سے یادفرمایا تھا۔(14)آپ کے ہم عصر قیس بن ابی ہاضم کہا کرتے تھے کہ میں نے طلحہؓ سے زیادہ کسی کو خدا کی راہ میں بے لوث مال خرچ کرنے میں پیش پیش نہیں دیکھا۔غزوہ ذی القرد میں چشمۂ بیسان کے پاس سے مجاہدین کے ساتھ گزرتے ہوئے حضرت طلحہؓ نے اسے خرید کر خدا کی راہ میں وقف کردیا تھا۔ اپنی جائیداد سات لاکھ درہم میں حضرت عثمان ؓکو فروخت کی اور سب مال خدا کی راہ میں خرچ کردیا۔آپ کی بیوی سودہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ ایک دفعہ حضرت طلحہؓ کو اُداس دیکھ کر وجہ پوچھی کہ کہیں مجھ سے تو کوئی خطا سرزد نہیں ہوگئی تو فرمانے لگے نہیں ایسی توکوئی بات نہیں دراصل میرے پاس ایک بہت بڑی رقم جمع ہوگئی ہے اور میں اس فکر میں ہوں کہ اُسے کیا کروں۔ میں نے کہا اسے تقسیم کروادیجیئے۔آپ نے اسی وقت اپنی لونڈی کو بلایا اور چار لاکھ کی رقم اپنی قوم کے مستحقین میں تقسیم کرادی۔(15)حضرت طلحہؓ بنو تمیم کے تمام محتاجوں اور تنگ دست خاندانوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔ لڑکیوں اور بیوگان کی شادیوں میں ان کی مددکرتے ۔ مقروضوں کے قرض ادا کرے۔ ایک دفعہ حضرت علیؓ نے کسی کو یہ شعر پڑھتے سنا
فَتًی کَانَ یُدْنِیِْہِ الغِنْیٰ مِنْ صَدِیِقِہٖ اِذً امَّاھُوَا اسْتَغنٰی وَیُبْعِدُہُ الفَقْرٗ
یعنی میرا ممدوح ایسا شخص تھا کہ دولت و امارت اسے اپنے دوست کے اور قریب کر دیتی تھی جب بھی اسے دولت و فراخی نصیب ہوتی۔ اور غربت وفقر اسے اپنے دوستوں سے دور رکھتے یعنی کبھی تنگی میں بھی کسی سے سوال نہ کرتے۔ حضرت علیؓ نے یہ شعر سنا تو فرمایا ’’خدا کی قسم! یہ صفت حضرت طلحہؓ میںخوب پائی جاتی تھی۔‘‘(16)
ایثارو مہمان نوازی
مہمان نوازی حضرت طلحہؓ کا خاص وصف تھا۔ ایک دفعہ بنی عُذرہ کے تین مفلوک الحال افراد نے اسلام قبول کیا۔ رسول کریمﷺنے پوچھا کہ صحابہؓ میں سے کون ان کی کفالت اپنے ذمہ لیتا ہے۔حضرت طلحہؓ نے بخوشی حامی بھرلی اور ان تینوں نو مسلموں کو اپنے گھر میں لے گئے اور وہیں ٹھہرایا اور ان کی میزبانی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ موت نے انہیں آپ سے جدا کیا۔اُن میں سے دو ساتھی تویکے بعد دیگرے دوغزوات میں شہید ہوئے اور تیسرے طلحہؓ کے گھر میں ہی وفات پاگئے۔ طلحہؓ کو جو خدا کے رسولﷺ کے ان مہمانوں سے دلی محبت اور اخلاص پیداہوچکا تھااس کا نتیجہ تھا کہ مہمانوں کی وفات کے بعد بھی خواب میں آپ کی اُن سے ملاقاتیں ہوئی۔ ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ وہ تینوں آپ کے ساتھ ہی جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ مگر جو ساتھی جو سب سے آخر میں فوت ہوا وہ سب سے آگے ہے۔ اور سب سے پہلے مرنے والا سب سے پیچھے ہے۔انہوں نے تعجب سے رسول کریمؐ سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو حضورﷺنے فرمایا کہ جو بعد میں مرا اُسے زیادہ نیک اعمال کی توفیق ملی اس لئے وہ پہلوں سے بڑھ گیا۔اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت طلحہ ؓنے اپنی صحبت سے بھی ان نومسلموں کی تربیت اپنے روحانی دسترخوان کے علاوہ انہیں خوب فیض عطاکیااور وہ جنتی ٹھہرے۔ (17)
حضرت طلحہؓ دوستی اخوت کے رشتے میں بھی کمال رکھتے تھے۔ حضرت کعب بن مالک انصاریؓ کو غزوہ تبوک میں شامل نہ ہوسکنے کے باعث مقاطعہ کی سزاہوئی تھی۔ جب رسول اللہﷺنے ان کی معافی کا اعلان کیا اوروہ آنحضرت ؐ کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو مجلس میں سے حضرت طلحہؓ دیوانہ وار دوڑتے ہوئے ان کے استقبال کو آگے بڑھے اور مصافحہ کرکے انہیں مبارکباد عرض کی۔ حضرت کعبؓ انصاری نے بھی حضرت طلحہ ؓکا اس اعلیٰ خلق کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ یادکیا کرکے کہتے تھے کہ ا س موقع پر مہاجرین میں سے کسی صحابی نے اس والہانہ گرمجوشی کا میرے ساتھ مظاہرہ نہیں کیا جس طرح حضرت طلحہؓ وفورِ جذبات میں اُٹھ کر دوڑے آئے۔(18)
شادی اور اولاد
حضرت طلحہؓ کی پہلی شادی حضرت حمنہ بنت حجش سے دوسری حضرت ام کلثوم بنت ابی بکرسے تیسری شادی فارعہ بنت ابوسفیان سے اورچوتھی رقیہ بنت ابی امیہ سے ہوئی۔ان چاروں بیویوں کی بہنیں رسول اللہﷺ کی ازواج تھیں۔یوں آپ رسول اللہﷺ کے ہم زلف تھے۔ آپ کے اخلاق کا ایک خوب صورت نقشہ آپ کی اہلیہ اُم ابان نے کھینچا ہے۔ انہیں بہت رشتے آئے تھے مگر انہوں نے حضرت طلحہؓ کی کئی شادیوں کے باوجودان کے ساتھ نکاح کو ترجیح دی ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی وجہ حضرت طلحہؓ کے اخلاقِ فاضلہ ہیں۔ وہ فرماتی تھیں کہ میں طلحہؓ کے ان اوصاف کریمانہ سے واقف تھی کہ وہ ہنستے مسکراتے گھر واپس آتے ہیں اور خوش و خرم باہر جاتے ہیں۔ کچھ طلب کروتو بخل نہیں کرتے اورخاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے۔ نیکی کرو تو شکرگذار ہوتے ہیں اور غلطی ہوجائے تو معاف کردیتے ہیں۔(19) بلاشبہ یہی وہ اخلاق ہیں جن کے بارہ میں ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفی ﷺنے فرمایا تھا کہ خَیْرُکُم اَحْاَسِنُکُمْ اَخْلاَقاً کہ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہیں۔حضرت طلحہؓ کی کئی بیویوں سے اولاد تھی ۔ حضرت حمنہ بنت حجش سے ایک بیٹا محمد نامی بہت عبادت گزار تھا اور سجاد لقب سے مشہورتھا۔ ایک بیٹا یعقوب بہت زبردست شہ سوار تھا جو واقعہ حرّہ میں شہید ہوگیا۔ حضرت ام کلثوم ؓ بنت ابوبکرؓ سے دو بیٹے اور ایک بیٹی عائشہ تھی۔آپؓ کی ایک بیٹی ام اسحاق سے حضرت امام حسنؓ نے شادی کی جس سے طلحہ نامی بیٹاہوا۔ حضرت حسن ؓ کی وفات کے بعد حضرت امام حسین ؓنے ان سے شادی کی اور ایک بیٹی فاطمہ ان سے ہوئیں۔(20)
شہادت اورفضائل
حضرت طلحہؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے یعنی ا ن دس اصحاب رسولﷺمیں سے جن کو آپؐ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی اوربوقت وفات انہیں پروانہ خوشنودی عطا فرمایا۔رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کی شہادت کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا’’جو کوئی زمین پر چلتے پھرتے شہید کو دیکھنا چاہے وہ طلحہؓ کو دیکھ لے۔‘‘
شہاد ت عثمانؓ کے بعد حضرت طلحہؓ بھی ان اصحاب میں شامل تھے جو قتل عثمانؓ کا فوری انتقام لینے کے حق میں تھے۔ اسی جذباتی دور میں وہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ جنگ جمل میں بھی شامل ہوگئے۔ لیکن جب حضر ت علیؓ نے انہیں بلاکر ان کے فضائل اور سبقتوں کا ذکر کیا تو حضرت طلحہؓ بھی حضرت زبیرؓ کی طرح مقابلہ سے دستبردار ہوگئے۔لشکر سے جدا ہو کر پچھلی صفوں میں چلے گئے اس دوران کوئی تیر ٹانگ میں لگا جس سے عرق النساء کٹ گئی اور اس قدر خون جاری ہوا کہ وفات ہوگئی۔اس وقت آپ ؓکی عمر64برس تھی یہ 75ھ کا واقعہ ہے۔( 21)
غزوہ احد میں جب حضرت طلحہؓ رسول اللہﷺکو پشت پر اٹھاکر چٹان پر لے گئے تو رسول کریمؐ نے فرمایا اے طلحہؓ!جبریلؑ آئے ہیں وہ تمہیں سلام کہتے ہیں اور وہ یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ قیامت کے دن تمہیں کوئی خوف نہیں ہوگا اور ہر خوف سے تمہاری حفاظت ہوگی۔(22)
حوالہ جات
1-
اصابہ جز 3ص 290،اصابہ جز8ص 125،استیعاب جلد 2ص 320
2-
اسد الغابہ جلد3ص 59
3-
ابن سعد جلد3ص 216
4-
اسد الغابہ جلد3ص 59
5-
الاصابہ جز 3ص 290
6-
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
7-
اسد الغابہ جلد3ص 59
8-
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 65،اسد الغابہ جلد 3ص 59
9-
ابن ہشام جلد 4ص 171
-10
ابن سعد جلد3ص274
-11
کامل ابن اثیر مترجم جلد 3ص 233،طبری جلد 6ص 2930
-12
طبری جلد 6ص 3010
13-
اسد الغابہ جلد3ص 61
14-
اسد الغابہ جلد 3ص 59
15-
ابن سعد جلد 3ص 220
16-
اسد الغابہ جلد3ص 61
-17
ابن ماجہ کتاب تعبیر الرئویا باب تعبیر رئویا
-18
بخاری کتاب المغازی غزوہ تبوک
-19
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد5ص 66
20-
ابن سعد جلد 3ص 214،اصابہ جز3ص 292
-21
استیعاب جلد 2ص 319-20
-22
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد5ص67
حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ
نام ونسب
حضرت حمزہ ؓ خاندان قریش کے معزز اور صاحب وجاہت نوجوان تھے ۔ سردار قریش عبدالمطلب کے صاحبزادے اور رسول اللہ ﷺکے چچا تھے۔ آپ کی والدہ ہالہ بنت اُھیب بنو زھرہ قبیلہ سے تھیں اور رسول اللہ ﷺکی والدہ حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن تھیں۔ حضرت حمزہؓ رسول کریمؐ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ ثوُیبہ لونڈی نے دونوں کو دودھ پلایا تھا۔
حضرت حمزہ ؓ رسول اللہ ﷺسے دو یاچار سال قبل پید اہوئے۔ اور آنحضرتؐ کے دعویٰ نبوت کے بعد ابتدائی پانچ سالوں میں دارارقم کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی۔(1)
قبول اسلام
حضرت حمزہؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی دلچسپ ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کی بات ہے وہ زمانہ مسلمانوں کیلئے سخت ابتلائوں اور مصائب کا زمانہ تھا جس میںنبی کریمﷺ کی ذات بھی کفار کے مظالم سے محفوظ نہ تھی۔ ایک روز تو بدبخت ابو جہل نے حد ہی کردی۔کوہ صفا کے نزدیک آنحضرتؐ کو دیکھ کر سخت مشتعل ہوا اور گالی گلوچ کے بعدایذاء دہی پر اتر آیا۔ آپؐ کو ذلت اور کمزوری کے طعنے دیتا رہااور دست درازی کی۔ رسول کریمﷺنے یہ سب کچھ خاموشی اور صبر سے برداشت کیا اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ اتفاق سے عبد اللہ بن جدعان کی لونڈی یہ سارا واقعہ دیکھ رہی تھی۔ ابو جہل تو سیدھا خانہ کعبہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد حضرت حمزہ ؓ تیر کمان اٹھائے شکار سے واپس لوٹے۔ وہ بڑے ماہر تیر انداز اور شکار کے بہت شوقین تھے۔ بالعموم شکار سے واپس آکر وہ خانہ کعبہ کاطواف کرتے پھر کچھ دیر سرداران قریش کی مجلس میں بیٹھتے اور گھر واپس آتے۔ اس روز کوہ صفا کے پاس پہنچے ہی تھے کہ عبد اللہ بن جدعان کی لونڈی نے رسول کریمﷺکی مظلومیت کا یہ واقعہ بڑے درد سے سنایا اور کہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ کے بھتیجے محمدؐ کے ساتھ ابو الحکم بن ہشام نے جو ظالمانہ سلوک کیا کاش آپ اسے دیکھتے تو آپ کو ضروران پر ترس آتا۔ اس نے حضوؐر کو یہاں بیٹھے دیکھا تو آپؐ کو گالیاں دینی شروع کردیں اور جسمانی اذیت پہنچائی اور (حضرت)محمدؐ نے جواب میں کچھ بھی تو نہ کہا۔ یہ سن کر حضرت حمزہؓ کا خون کھولنے لگا وہ اسی وقت سیدھے خانہ کعبہ پہنچے اور طیش میں آکر اپنی کمان ابو جہل کے سر پر دے ماری اور اسے کہنے لگے کہ تم آنحضرؐت کو برا بھلا کہتے اور ان پر ظلم کرتے ہو تو سن لو آج سے میں بھی اس کے دین پر ہوں اور آپؐ کا مسلک میرا مسلک ہے اگر ہمت ہے تو مجھے اس دین سے لوٹا کر دکھائو۔ ابو جہل اس حملے سے کچھ زخمی بھی ہوگیا تھا، بنو مخزوم کے بعض لوگ اس کی مدد کیلئے اٹھے لیکن ابو جہل نے انہیں روک دیا کہ مبادا اس سے کوئی بڑا فتنہ پیداہو۔
حضرت حمزہؓ کے قبول اسلام کے بعد قریش نے سمجھ لیاکہ اب مسلمان مضبوط ہوگئے ہیں اور وہ کچھ عرصہ ایک حد تک مسلمانوں کی ایذاء رسانی سے رکے رہے۔(2)
ہجرت مدینہ اور پہلے اسلامی علم بردار
حضرت حمزہ ؓ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پہلے کلثومؓ بن ہدم کے مکان پر اور پھر سعدؓ بن خیثمہ کے ہاں قیام کیا۔ مکہ میں رسول اللہ ﷺنے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو حمزہؓ کا اسلامی بھائی بنایا تھا۔ مدینہ میں بھی یہ رشتہ اخوت قائم رہا ۔ غزوئہ احد پر جاتے ہوئے حضرت حمزہؓ نے حضرت زیدؓ کے حق میں وصیت فرمائی تھی۔(3)
مدینہ میں قریش کی نقل وحرکت اور ریشہ دوانیوں سے باخبر رہنے کیلئے نبی کریمﷺکو مہمات کی ضرورت پیش آئی جن میں حضرت حمزہؓ کو غیر معمولی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ چنانچہ اسلام کی پہلی مہم آپ کی سرکردگی میں ساحل سمندر کی طرف بھجوائی گئی تھی جس کا مقصد ابو جہل کی سرکردگی میں شام سے آنے والے قریش کے قافلہ کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا تھا جو تین صدسواروں پر مشتمل تھا۔ اس مہم میں تیسصحابہؓ حضرت حمزہؓ کی کمان میں تھے۔ اسی طرح اسلام کا پہلا جھنڈا بھی حضرت حمزہؓ کو ہی عطا کیا گیا۔ غزوئہ بنو قینقاع میں بھی اسلا م کے علمبردار حضرت حمزہؓ ہی تھے۔(4)
خود داری اور دعا کی برکت
ہجرت مدینہ کے بعد دیگر مسلمانوں کی طرححضرت حمزہؓ کے مالی حالات بھی دگرگوں تھے۔ حضرت عبد اللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک روز انہی ایام میں حضرت حمزہؓ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کوئی خدمت میرے سپرد فرما دیجئے تاکہ ذریعہ معاش کی کوئی صورت بھی پید اہو۔نبی کریمﷺنے یہ پسند نہ فرمایا کہ آپ کے اقارب اس تنگی کے زمانہ میں مسلمانوں پر بوجھ ہوں۔آپؐ نے حضرت حمزہؓ سے فرمایا کہ ’’اپنی عزت نفس قائم اور زندہ رکھنا زیادہ پسند ہے یا اسے مار دینا۔‘‘ حضرت حمزہؓ نے عرض کیا’’میں تو اسے زندہ رکھنا ہی پسند کرتا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’پھر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرو گویا محنت وغیرہ کے ذریعہ سے کام لو۔ ‘‘(5)
نبی کریمﷺنے اس دور میں آپ کو دعائوں پر زور دینے کی بھی تحریک فرمائی اور بعض خاص دعائیں سکھائیں۔ چنانچہ حضرت حمزہؓکی روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایاتھاکہ اس دعاکو لازم پکڑو۔اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَ سئَلُکَ بِاسْمِکَ الاَ عظَمِ وَرِاضْوَانِکَ الاَکبَرِ۔یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے اسم اعظم(سب سے بڑے نام)کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں اور تجھ سے تیری سب سے بڑی رضامندی چاہتا ہوں۔(6)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت حمزہؓ کو دعائوں پر کتنا ایمان اور یقین تھا اور کیوں نہ ہوتا جبکہ ان دعائوں ہی کی برکت سے بظاہر اس تہی دست اور تہی دامن مہاجر کو اللہ تعالیٰ نے گھر بار اور ضرورت کا سب کچھ عطافرمایا کچھ عرصہ بعد حضرت حمزہؓ نے بنی نجّار کی ایک انصاری خاتون خولہؓ بنت قیس کے ساتھ شادی کی۔ نبی کریمﷺان کے گھر میں حضرت حمزہؓ سے ملاقات کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرت خولہؓ بعد میں نبی کریمﷺ کی اس دور کی محبت بھر ی باتیں سنایا کرتی تھیں۔ فرماتی تھیں ایک دفعہ آنحضرتؐ ہمارے گھر تشریف لائے میں نے عرض کیا اے خدا کے رسولؐ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ ؐ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن آپ کو حوض کوثر عطا کیا جائے گا جو بہت وسعت رکھتا ہوگا۔ حضورﷺنے فرمایا ’’ہاں یہ سچ ہے ۔اور یہ بھی سن لو کہ مجھے عام لوگوں سے کہیں زیادہ تمہاری قوم انصار کا ا س حوض سے سیراب ہونا پسند ہے۔‘‘ خولہؓ کہتی تھیں میں نے حضورﷺکی تواضع کرتے ہوئے اپنا وہ برتن جس میں کھانا یا شائد کچھ میٹھا تیار کیا گیا تھا ۔حضورﷺکی خدمت میں گرم گرم پیش کردیا۔حضورؐنے اس برتن میں اپناہاتھ ڈالا تو گرم کھانے سے آپ کا ہاتھ جل گیا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ’’خوب !‘‘پھر فرمانے لگے کہ ’’انسان کا بھی عجیب حال ہے اگر اسے ٹھنڈک پہنچے تو بھی کہتا ہے خوب ہے اور اگر گرمی پہنچے تو بھی ایسا ہی اظہار کرتا ہے‘‘۔(7)
اس حدیث سے نبی کریمﷺکے صبرورضا کی وہ خاص کیفیت ظاہر ہوتی ہے جو عام لوگوں میں پائی نہیں جاتی۔
غزوہ بدر میں بہادری
حضرت حمزہؓ بڑے قدآور وجیہہ اور بہادر نوجوان تھے اور انہی صفات سے آپ اپنے ماحول میں پہچانے جاتے تھے۔حضرت حمزہؓ کی شجاعت اور بہادری کے جوہر اسلامی غزوات میں خوب کھل کر سامنے آئے۔ حضرت علیؓ غزوہ بدر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس میں کفار کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔ رات بھر رسو ل اللہ ﷺخدا کے حضور عاجزانہ دعائوں اور تضرعات میں مصروف رہے۔ جب کفار کا لشکر ہمارے قریب ہوا اورہم ان کے سامنے صف آرا ہوئے تو ناگاہ ایک شخص پر نظری پڑی جو سرخ اونٹ پر سوار تھا اور لوگوں کے درمیان اس کی سواری چل رہی تھی۔ رسو ل کریمﷺ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایااے علی ؓ حمزہؓجو کفار کے قریب کھڑے ہیں انہیں بلا کر پوچھو کہ یہ سرخ اونٹ والا ان سے کیا کہہ رہا ہے۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا اگر ان لوگوں میں کوئی شخص انہیں خیر بھلائی کی نصیحت کر سکتا ہے تو وہ سرخ اونٹ والاشخص ہے۔ اتنی دیر میں حضرت حمزہؓ بھی آگئے۔ انہوں نے آکر بتایا کہ وہ سرخ اونٹ والا شخص عتبہ بن ربیعہ تھا جو کفار کو لڑائی سے منع کر رہا تھا۔ جس کے جوا ب میں ابو جہل نے اسے کہا کہ تم تو بزدل ہو اور لڑائی سے ڈرتے ہو ۔ عتبہ نے جوش میں آکر کہا کہ آج دیکھتے ہیں بزدل کون ہے؟ پھر عتبہ نے مسلمانوں کو دعوت مبارزت دیتے ہوئے کہاکہ کوئی ہے جو دست بدست جنگ میں میرا مقابلہ کرے۔ اب انصار مدینہ کی وفا کا بھی امتحان تھا اور انہوں نے جو عہد اپنے پیارے آقا سے باندھا تھا آج اس کی خوب لاج رکھی اور سب سے پہلے انصار عتبہ کے مقابلہ کیلئے آگے بڑھے۔(8)
عتبہ کے ساتھ اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید بھی تھا جب انصار انکے مقابلے میں آئے تو عتبہ نے پوچھا تم کون لوگ ہو انہوں نے بتا یا ہم انصار مدینہ ہیں۔عتبہ کہنے لگا ہمیں تم سے کچھ غرض نہیں۔ ہم تو اپنے قبیلے کے لوگوں سے لڑنے کیلئے آئے ہیں۔ اس موقع پر ہمارے آقا مولیٰ حضرت محمدمصطفیؐ نے قائدانہ بصیرت،کمال دانش مندی اور عالی حوصلگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً اپنے عزیز و اقارب کو مقابلہ پر آنے کیلئے حکم فرمایا تو سب سے پہلے حضرت حمزہؓ اور حضرت علی ؓ کا نام لیا۔ آپؐ نے فرمایااے حمزہؓ کھڑے ہو جائو اور اے علیؓ! اٹھو ،اے عبیدہ! آپ مقابلے کیلئے نکلو۔ حضرت حمزہؓ ارشاد رسولﷺ کی تعمیل میںعتبہ کے مقابلے میں آگے بڑے اور اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔(9)
حضرت ابو ذؓر قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ حضرت حمزہؓ اور ان کے ساتھیوں نے جس شان کے ساتھ اس دعوت مبارزت کا جوا ب دیا تھا۔ اس کی طرف اشارہ کلام الٰہی میں بھی ہے کہ یہ دو قسم کے مد مقابل ہیں جو خد اتعالیٰ کی ذات کے بارہ میں برسرپیکار تھے۔ (10)
حضرت حمزہؓ کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ غزوہ بدر میں کفار میں دہشت ڈالنے کیلئے آپ نے شتر مرغ کا ایک پر کلغی کی طرح اپنی پگڑی میں سجا رکھا تھاجس کی وجہ سے وہ ہر جگہ نمایاں نظر آتے تھے۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف سے روایت ہے کہ امیہ بن خلف نے مجھ سے پوچھا کہ یہ شتر مرغ کی کلغی والا شخص بدر میں کون تھا میں نے کہا رسول اللہﷺکے چچا حمزہؓ بن عبدالمطلب۔ وہ بولے یہی وہ شخص ہے جو ہم پرعجیب طرح تباہی و بربادی لے کر ٹوٹ پڑا تھا۔(11)
چنانچہ سر ولیم میور نے بھی اپنی کتاب لائف آف محمد میں اس کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ کہ حضرت حمزہؓ نے اس روز خوب بہادری کے جوہر دکھائے۔ یہ بہادر سورما جدھر کا رخ کرتا ادھر موت کو بکھیرتا جاتا۔ بد ر میں قید ہونے والے مشرک قیدیوں نے بھی گواہی دی کہ ہمارے لشکر کا سب سے زیادہ نقصان اس شتر مرغ کی کلغی والے شخص یعنی حضرت حمزہؓ نے کیا ہے۔ (12)
غزوہ احد میں شجاعت
غزوہ احد میں بھی حضرت حمزہؓ نے شجاعت کے کمالات دکھائے۔ آپ کی یہ بہادری قریش مکہ کی آنکھوں میں سخت کھٹکی تھی ۔ یوں بھی غزوہ بدر میں حضرت حمزہؓ کے ہاتھوں قریش کا سردار طعیمہ بن عدی مارا گیا تھا۔ اس کے عزیزوں نے اپنے غلام وحشی سے یہ وعدہ کیا کہ اگر تم ہمارے چچا کے بدلے حمزہ کو قتل کردو تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا۔غزوہ احد میںسب سے پہلے مشرکین قریش کے نمائندے سباع بن عبد العزیٰ نے دست بدست جنگ کی دعو ت دی۔ سب سے پہلے خدا کا شیر حمزہؓ ہی اس کے مقابلے کیلئے آگے بڑھا اور اسے مخاطب کرکے کہا ’’اے سباع!ختنے کرنے والی ام انمار کے لڑکے!کیا تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا دشمن ہو کر آیاہے‘‘ اور پھر پوری قوت سے اس پر حملہ آور ہو کر اس کا کام تما م کردیا۔(13)
الغرض احد میں عام لوگ ایک ایک تلوار سے لڑ رہے تھے مگر حضرت حمزہؓ کے ہاتھ میں دو تلواریں تھیں اور وہ آنحضرتﷺکے سامنے کھڑے ہو کر آپؐ کا دفاع کر رہے تھے اور یہ نعرہ بلند کررہے تھے کہ میں خداکا شیر ہوں۔کبھی آپ دائیں اور بائیں حملہ آور ہوتے تو کبھی آگے اور پیچھے۔ اس حال میں آپ نے تیس کفار کو ہلاک کیا۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں جنگ احد میں جب اچانک حملہ سے لوگ پسپا ہوئے اور اس دوران میں نے حضرت حمزہؓ کو فلاں درخت کے پاس دیکھا۔ آپؓ کہہ رہے تھے میں اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر ہوں۔ اے اللہ!ان دشمنوں نے جو کچھ کیا میں اس سے براء ت کا اظہار کرتاہوںاور مسلمانوں کی پسپائی کیلئے معذرت خواہ ہوں۔اچانک ایک موقعہ پر آپ کو ٹھوکر لگی اور آپ پشت کے بل گر گئے۔ وحشی آپ کی تاک میں تھااسی وقت وہ آپ پر حملہ آور ہوا۔(14)وحشی کا اپنا بیان ہے کہ میں ایک چٹان کے پیچھے چھپ کر حمزہؓ پر حملہ کرنے کی تاک میں تھا جونہی وہ میرے قریب ہوئے میں نے تاک کر انہیں نیزہ مارہ جو ان کی ناف میں سے گزر تا ہوا پشت سے نکل گیا۔(15)
نعش کی بے حرمتی
عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ہند نے اپنے باپ کا انتقام لینے کیلئے (جو بدر میں حضرت حمزہؓ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا)یہ نذر مان رکھی تھی کہ مجھے موقع ملا تو میں حمزہ کا کلیجہ چبائوں گی۔ چنانچہ حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد اس نے واقعی ایسا کیا اور حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبا چباکر پھینک دیا۔(16)
حضرت عبد اللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے بعد ابو سفیان نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر بآواز بلند یہ اعلان کیا کہ ’’آج بدر کے دن کا بدلہ ہم نے لے لیا ہے اور تم کچھ نعشوں کا مثلہ کیا ہوا دیکھو گے، اگر چہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن یہ بات مجھے کوئی ایسی بری بھی نہیں لگی۔‘‘(17)
چنانچہ جب حضرت حمزہؓ کو دیکھا گیا تو ان کا کلیجہ نکال کر چبایا گیا تھا۔ نبی کریمؐ اس حال میں جب حضرت حمزہؓ کی نعش پر آکر کھڑے ہوئے تو فرمانے لگے ۔ ’’اے حمزہؓ! تیری اس مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھے کبھی نہیں پہنچے گی ۔ میں نے اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آج تک نہیں دیکھا ‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا ’’جبرائیل نے آکر مجھے خبر دی ہے حمزہؓ بن عبد المطلب کو سات آسمانوں میں ’اللہ اور اس کے رسول کا شیر‘لکھا گیا ہے۔‘‘(18)
آپؐ نے حضرت حمزہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اللہ کی رحمتیں تجھ پر ہوں جہاں تک میرا علم ہے آپ بہت ہی صلہ رحمی کرنے والے اور نیکیاں بجالانے والے تھے اور آج کے بعد تجھ پر کوئی غم نہیں۔‘‘(19)
یہ بھی فرمایا۔کہ قیامت کے دن حمزؓہ شہداء کے سردار ہوں گے۔میں نے فرشتوں کو حمزہؓ کو غسل دیتے دیکھا ہے۔(20)
حضرت علی ؓ اور زبیرؓ متذبذب تھے کہ حمزہؓ کی بہن صفیہؓ کو اس اندوہناک صدمے کی اطلاع کیسے کی جائے تب رسول کریمﷺنے حضرت صفیہؓ کے صبر کیلئے دعا کی چنانچہ انہوں نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا۔ (21)
حضرت حمزؓہ کاکفن
حضرت زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن جنگ کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک عورت بڑی تیزی سے شہداء کی نعشیں دیکھنے کیلئے جارہی ہے۔ نبی کریمﷺنے پسند نہ فرمایا کہ وہ عورت یہ وحشت ناک منظر دیکھے اور ارشاد فرمایا کہ اسے روکو۔ زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے غور سے دیکھا میری والدہ صفیہ تھیں۔ میں دوڑتے ہوئے انکے شہداء تک پہنچنے سے پہلے ان تک پہنچ گیا۔ وہ ایک تنومند بہادر خاتون تھیں مجھے دیکھتے ہی دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا اور کہا پیچھے ہٹو میں تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی۔ میں نے عرض کیا کہ خدا کے رسولﷺنے آپ کو روکنے کیلئے فرمایا ہے ۔ زبیر ؓکہتے ہیں تب وہ وہیں رک گئیں اور دو چادریں جو اپنے ساتھ لائیں تھیں نکال کر مجھے دیں اور کہنے لگیں یہ دو کپڑے میں اپنے بھائی حمزہؓ کے کفن کیلئے لائی ہوں، ان میں اسے کفن دینا۔ ہم ان چادروں میں حمزہؓ کو کفن دینے لگے۔ تو اچانک ہماری نظر حمزہؓ کے پہلو میں پڑے ہوئے اپنے ایک مسلمان انصاری بھائی پر پڑی جو جنگ میں شہید ہوا تھا اور اس کی نعش کا بھی مثلہ کیا ہوا تھا۔ ہمیں اس بات سے بہت حیاء آئی کہ ہم حمزہؓ کو تو دوچادروں کا کفن دیں اور انصار ی کو بے کفن ہی دفن کر دیں۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک چادر سے انصاری کو کفن دیتے ہیں۔ اب مشکل یہ آن پڑی کہ ایک چادر بڑی تھی اور ایک چھوٹی تھی چنانچہ ہم نے قرعہ ڈالا اور جس کے قرعہ میں جو چادر نکلی اس میں اس کو کفن دیا۔ (22)
کفن کے بعد نبی کریمؐ نے سب سے پہلے حضرت حمزہؓ کیلئے دعائے مغفرت کی۔(23)
حضرت حمزہؓ کے ساتھ ایک انصاری کا جنازہ رکھا گیا تھا۔ پھر ان کو اٹھا کر ایک اور میت کو ان کے پہلومیں رکھا گیا اور نبی کریمﷺ ان کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہے۔ پھر ان کو اٹھا کر ایک اور میت کو حمزہؓ کے پہلو میں رکھا گیا اور نبی کریمﷺان کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہے۔ اس طرح اس روز ستر مرتبہ رسول کریمﷺ نے دعائے مغفرت کی اور حضرت حمزہؓ کی میت ہر دفعہ حضورؐ کے سامنے رہی۔(24)
رسول اللہﷺ کے چچا اور مسلمانوں کے اس بہادر سردار حضرت حمزہؓ کی تدفین جس بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں ہوئی ۔ صحابہ بڑے دکھ کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے ۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جس چاد رمیں حمزہؓ کو کفن دیا گیا تھا وہ اتنی چھوٹی تھی کہ سر کو ڈھانکتے تھے تو ان کے پائوں ننگے ہوجاتے تھے جب پائوں پر ڈالتے تھے تو سر ننگا ہو جاتا تھا۔ بعد میں فراخی کے دور میںحضرت خبابؓ وہ تنگی کا زمانہ یاد کرکے کہا کرتے تھے کہ حضرت حمزہؓ کا کفن ایک چادر تھی وہ بھی پوری نہ ہوتی تھی چنانچہ سر کو ڈھانک کر پائوں پر گھاس ڈالی گئی تھی۔(25)
حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ کا بھی اسی قسم کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ روزہ سے تھے افطاری کے وقت پر تکلف کھانا پیش کیا گیا جسے دیکھ انہیں عسرت کا زمانہ یاد آگیا اور کہنے لگے حمزہؓ ہم سے بہتر تھے مگر انہیں کفن کی چادر بھی میسر نہ آسکی تھی، اب یہ آسائشیں دیکھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ہمارے اجر ہمیں اسی دنیا میں تو نہیں دے دئیے گئے۔ یہ کہہ کر رونے لگے اور کھانا ترک کردیا۔(26)
حضرت حمزہؓ کی شہادت کا غم اور دعائے رسولﷺ
حضرت حمزہؓ کی جدائی مسلمانوں کے لئے یقینا ایک بہت بڑا صدمہ تھا لیکن غزوئہ احد میں تو ستر انصاری اورمہاجر شہید ہوئے تھے۔(27) اور یوں انصا رمدینہ کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ آنحضرتﷺنے اس موقع پر کمال حکمت عملی اور علم النفس کے باریک نکتہ سے انصارمدینہ کو ان کے اپنے صدمے بھلا کر ان کے رخ حضرت حمزہؓ کی شہادت کے عظیم قومی صدمے کی طرف موڑ دئیے اور پھر اپنے صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے انہیں نہایت خوبصورت انداز میں صبر کی تلقین بھی فرمادی۔
حضرت عبد اللہؓ بن عمر کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺجب احد سے واپس لوٹے تو آپ نے سنا کہ انصار کی عورتیں اپنے خاوندوں پر روتی اور بین کرتی ہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ ’’کیا بات ہے؟حمزہؓ کو کوئی رونے والانہیں۔‘‘ انصار کی عورتوں کو پتہ چلا کہ وہ حضرت حمزہؓ کی شہادت پر بین کرنے کیلئے اکٹھی ہوگئیں۔ تب نبی کریمﷺنے ان کو ہدایت فرمائی کہ ’’وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے والے کا ماتم اور بین نہ کریں۔‘‘ (28)
اس طرح آنحضرتﷺنے نہایت پر حکمت طریق سے انصار کی عورتوں کے جذبات کا بھی خیال رکھا اور انہیں اپنے خاوندوں اور بھائیوں کی جدائی پر ماتم سے روکنے کی بجائے حضرت حمزہؓ کے عظیم اور قومی صدمہ کی طرف توجہ دلائی جس کاسب سے بڑھ کر غم آپؐ کو تھا اور پھر حمزہؓ پر ماتم اور بیننہ کرنے کی تلقین فرماکر اپنا نمونہ پیش کرکے انہیں صبر کی مؤثر تلقین فرمائی۔
جہاںتک حضرت حمزہؓ کی جدائی کے غم کا تعلق ہے وہ آنحضرتﷺکو آخر دم تک رہا۔ چنانچہ حضرت حمزہؓ کا قاتل وحشی جب طائف کے سفارتی وفد میں شامل ہوکر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا تو حضورؐ نے اس سے پوچھا کہ تمہارا نام وحشی ہے اس نے اثبات میں جواب دیا۔ آپ ؐنے فرمایا کیا’’ تم نے حضرت حمزہؓ کو قتل کیا تھا۔‘‘ وحشی نے عرض کیا کہ یہ بھی درست ہے۔ اس پر حضرت رسول اللہ ﷺنے صرف اتنا فرمایا کہ ’’کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو‘‘(کہ تمہیں دیکھ کر مجھے اپنے محبوب چچا کی یاد آئے گی)(29)
بوقت شہادت حضرت حمزؓہ کی عمرانسٹھ سال تھی(30)رسولؐ اللہ نے خدا اور اس کے رسول کے شیر کا خطاب دیا اور بلاشبہ وہ اس لائق تھے جیسا کہ کعب ؓ بن مالک نے ان کی شہادت پر اپنے مرثیہ میں کہا تھا۔’’میری آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور حمزہؓ کی موت پر انہیں رونے کا بجا طور پر حق بھی ہے مگر خدا کے شیر کی موت پر رونے دھونے اور چیخ و پکار سے کیا حاصل ہو سکتا ہے وہ خدا کا شیر حمزہؓ کہ جس صبح وہ شہید ہوا دنیا کہہ اٹھی کہ شہید تو یہ جواں مرد ہوا ہے۔‘‘ اورآج ہمارے دل کی یہ آواز ہے۔
شہید حق کی نعش پہ نہ سر جھکا کے روئیے
وہ آنسوؤں کو کیا کرے لہو سے منہ جو دھو چکا
اے خدا کے شیر!اے شہید حق و صداقت آپ پر سلام،ہزاروں سلام!
حوالہ جات
1-
الاصابہ جزنمبر 2ص 37
2-
مجمع الزوائد جلد 9ص 267، سیرت ابن ہشام جلد نمبر2ص 48
3-
ابن سعد جلد نمبر3ص 9
4-
ابن سعد جلدنمبر 3ص 9,10
5-
مسند احمد جلد نمبر 2ص 175
6-
اصابہ جز نمبر 2ص 37
7-
مسند احمد جلدنمبر2ص 410
8-
مسند احمد جلد نمبر 1ص 117
9-
ابو دائود کتا ب الجہاد باب فی المبارزہ
10-
بخاری کتاب المغازی باب قتل ابو جہل
11-
ابن سعدجلد 3ص 10،مجمع الزوائد جلد 6ص 81
-12
اسد الغابہ فی جلد2ص 46بیروت
-13
بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہؓ
-14
ابن سعد جلد نمبر3ص 12،مستدرک حاکم جلد 3ص 199
واصابہ جز نمبر 2ص 37
-15
بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہؓ
-16
ابن سعد جلد نمبر 3ص 12
-17
مسند احمد جلد نمبر 1ص 463بیروت
-18
ابن ہشام جلد نمبر 3ص 171
-19
منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد5ص 169ابن سعد جلد نمبر3ص 13
-20
منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد5ص 169ابن سعد جلد نمبر 3ص 16
-21
ابن سعد جلد نمبر 3ص 14
-22
مسند احمد جلد نمبر 1ص 117
-23
ابن سعد جلد نمبر 3ص 11
-24
مسند احمد جلد نمبر 1ص 3,4
-25
مسند احمد جلد 2ص 396
-26
بخاری کتاب الجنائز باب اذالم یوجد الثوب
-27
ابن سعد جلد3ص 17
-28
مسند احمد جلد 2ص 84
-29
بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہ
-30
ابن سعد جلد 3ص 10
حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب
نام ونسب
دراز قد خوبصورت شکل گورا رنگ ،یہ تھے رسول خداﷺکے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف، جوعمر میں آپؐ سے دو تین سال ہی زیادہ تھے۔ ان کی والدہ نتیلہ بنت خباب بن کلیب وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے خانہ کعبہ کو ریشمی غلاف چڑھایا۔ کنیت ابو الفضل تھی۔ زمانہ جاہلیت سے قریش کے رؤسأ میں سے تھے۔ بنو ہاشم کے سپرد بیت اللہ کی ’’خدمت سقایہ‘‘یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور’’عمارۃ المسجد الحرام‘‘یعنی بیت اللہ کی آبادی اور قیام امن انہوں نے ورثہ میں پائی۔ دیگر تمام سرداران قریش اس خدمت میں حسب معاہدہ ان کے معاون و مددگار ہوتے تھے۔ اس لحاظ سے مکہ میں ایک شرف کا مقام انہیں حاصل تھا۔(1)
قبول اسلام اور تائید ونصرت
بالعموم حضرت عباسؓ کا زمانہ اسلام ان کی ہجرت مدینہ کے وقت خیال کیا جاتا ہے جو فتح مکہ سے معاً پہلے ہوئی لیکن فی الواقعہ انہوں نے مکہ میں بہت ابتدائی زمانہ میں اپنی بیوی ام الفضلؓ کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ مگر بیت اللہ کی اہم خدمات کی سعادت اور مکہ میں مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت کیلئے حضرت عباسؓ کا مکہ رہنا ایک دینی ضرورت تھی۔چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق مکہ میں ہی رہ کر اہم خدمات بجالاتے رہے۔
حضرت عباسؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ؓ کی روایت ہے کہ ان کے والد حضرت عباسؓ ہجرت مدینہ سے قبل اسلام قبول کر چکے تھے دوسری روایت کے مطابق ام الفضل ؓکے ساتھ حضرت عباسؓ نے اسلام قبول کیا تھا۔
اس دوسری روایت کی تائیدرسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام ابور افعؓ نے بھی کی ہے میں حضرت عباسؓ کا غلام تھا اور ان کے سارے گھرانے بشمول حضرت عباسؓ ان کی بیوی ام الفضل ؓاور میں نے آغاز میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ مگر عباسؓ کو(اپنے منصب کی وجہ سے) قوم قریش سے خدشات تھے او روہ ان کی اعلانیہ مخالفت پسند نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں نے اپنا اسلام مخفی رکھا۔(2)
ام الفضلؓ مکہ میں حضرت خدیجہؓ کے معاً بعد اسلام لائی تھیں۔ رسول اللہﷺ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور آرام فرماتے تھے۔(3)
ابتدائی زمانہ میں حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کیلئے حضرت عمرؓ کی کوششوں کا بھی ذکر ملتا ہے جو بالآخر کامیاب ہوئیں۔ حضرت عمرؓان سے اپنی دوستی کی وجہ سے کہتے تھے کہ ’’آپ مسلمان ہوجائیں آپ کا قبول اسلام مجھے اپنے باپ خطاب کے اسلام سے بھی زیادہ محبوب ہے۔‘‘چنانچہ جب حضرت عباسؓ نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہﷺ بھی بہت خوش ہوئے۔ آپ کے آزاد کردہ غلام ابور افعؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کی خبردی جس پر خوش ہو کر رسول کریمﷺ نے انہیں آزاد کردیا۔(4)
پس رسول اللہ ﷺکی ہجرت مدینہ کے بعدمکہ میں حضرت عباسؓ کا قیام رسول کریمﷺ کی اجازت خاص کے ماتحت تھا۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ہجرت کے بعد مکہ میں کوئی خبر رسول اللہ ﷺپر مخفی نہیں رہتی تھی۔ حضرت عباسؓ سب حالات آپ کو لکھ کر بھجواتے تھے۔نیز ان کی موجودگی سے مکہ میں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کو مدد اور تقویت حاصل ہوتی تھی۔ حضرت عباسؓرسول اللہ ﷺسے مدینہ آنے کی اجازت طلب کرتے رہتے تھے۔ مگر رسول کریمﷺنے آپ کو یہی لکھا کہ ’’آپ کا وہاں ٹھہرنا عمدہ جہاد ہے‘‘ چنانچہ وہ رسولؐ اللہ کے ارشاد پر مکہ ٹھہرے رہے۔(5)
رسول اللہ ﷺکی ہجرت مدینہ سے قبل حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کی روایت دیگر تاریخی شواہد کی روشنی میں زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔
چنانچہ شعب ابی طالب کے زمانہ میں حضرت عباسؓ نے رسول کریمﷺ کا کھل کر ساتھ دیا اور آ پ کے ساتھ تین سال تک وہاںمحصور رہے جبکہ بنو ہاشم میں سے بعض دیگر ابو لہب وغیرہ کھل کر مخالفت کرتے رہے۔شعب ابی طالب کے دوران رسول کریمﷺ نے اپنی چچی ام الفضل ؓکو بیٹے کی بشارت دی انہوں نے حضرت عباسؓ کو جاکر بتایا تو وہ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐ نے ان کی پیشانی کا بوسہ لیا اپنے دائیں بٹھایا اورفرمایا ’’یہ میرے چچا ہیں جو چاہے وہ اپنا ایسا چچا مقابلہ پر لائے۔‘‘ حضرت عباسؓ نے جھینپتے ہوئے عرض کیایارسولؐاللہ! حضورؐ نے فرمایا ’’میں یہ کیوں نہ کہوں جبکہ آپ میرے چچا اور میرے والد کی نشانی ہیں اور چچا بھی والدہوتا ہے‘‘ پھر محاصرہ شعب ابی طالب کے دوران ہی ام الفضلؓ کے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا،اس کا نام آپؐ نے عبداللہ رکھا اور خود اسے گڑتی دی۔(6)
ابو طالب کی وفات کے بعد مدینہ ہجرت سے قبل رسول اللہ ﷺکا قابل اعتماد ٹھکانہ حضرت عباسؓ کا گھر تھا جہاں ذوالحجہ12ھ میںانصار کے نمائندوںنے آکر ملاقات کی اور حضرت عباسؓ کے مشورہ سے ہی حج کے بعد منیٰ کی رات ایک پہاڑی گھاٹی میںمخفی اورمحدود ملاقات طے ہوئی۔ عقبہ میں بارہ انصار کی اس پہلی بیعت سے قبل رسولؐ اللہ کے خیر خواہ اور نمائندہ کے طورپر حضرت عباسؓ ہی شریک ہوئے ۔ انہوں نے انصار سے کھل کر یہ بات کی کہ آپ لوگ رسول کریمؐ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے رہے ہیں، اور محمدؐ ہم میں سب سے معزز اور قابل احترام ہیں۔ قبیلہ ان کی مکمل حفاظت کرتا ہے۔ اب تمہارا ان کو مدینہ لے کر جانا پورے عرب سے کھلم کھلا اعلان جنگ ہوگا۔ کیا تم اس کی طاقت رکھتے ہو۔ جب انصارمدینہ نے اپنے دلی جذبات کا مخلصانہ اظہار کیااور رسولؐ اللہ کی اطاعت ووفا اور حفاظت کایقین دلایا تو نبی کریمؐ نے کچھ وعظ کرنے کے بعد ان کی بیعت لی ۔ اس بیعت میں بھی حضرت عباسؓنہ صرف شامل ہوئے بلکہ ابن سعد کی روایت ہے کہ انہوں نے اس تاریخی بیعت کے وقت رسولؐ اللہ کا ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنا عہدبیعت از سر نوتازہ کیا۔
بعد کے زمانہ میں جب انصار مدینہ میں یہ سوال اٹھا کہ اس موقع پرسب سے پہلے کس نے بیعت کی تھی؟تو سب کی رائے ہوئی کہ حضرت عباسؓ سے پوچھا جائے انہوںنے اپنے ساتھ جن انصار کے حق میں بالترتیب رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی گواہی دی وہ حضرت برائؓ، حضرت ابوالہیثمؓ اور حضرت اسعدؓ تھے۔ (7)
اگلے سال حج کے موقع پرپھر ستر انصارجب اسی گھاٹی میں اکٹھے ہوئے اور بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی تو صر ف حضرت عباسؓ رسول کریمﷺکے ہمراہ تھے ۔آپؐ نے انصار سے فرمایا کہ’’ مشرکین کے جاسوس تمہارے پیچھے ہیں۔ اس لئے تمہارے نمائندے مختصر بات کریں تاکہ مشرک تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکیں۔‘‘(8)
حضرت عباسؓ کے اخفائے اسلام کی حکمت عملی
ابن اسحاق کی کعب بن مالکؓ سے یہ روایت محل نظر ہے کہ بیعت عقبہ کے وقت حضرت عباسؓاپنے دین پر تھے اورمحض اپنے بھتیجے کی تائید کیلئے آئے تھے۔(9) امر واقعہ یہ ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی تائید کیلئے آئے تھے اور ابن اسحاق کی یہ رائے حضرت عباس ؓ کے اسلام مخفی رکھنے کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ اس شدید مخالفت کے زمانہ میں ان کی یہی حکمت عملی رہی، انہوں نے اہل مدینہ کو عقبہ کی رات بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آج رات مکے والوں نے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں تم اپنی سواریوں کی گھنٹیاں بھی اتار دینا اور بیعت کے بعد اپنا معاملہ مخفی رکھنا۔ورنہ مجھے تمہارے بارے میں خوف ہے۔‘‘ چنانچہ اہل مدینہ نے حضرت عباسؓ سے یہ سب کچھ مخفی رکھنے کا وعدہ کیا۔ (10)
عقبہ ثانیہ کے بعد کفار مکہ کے سخت رد عمل سے بھی حضرت عباسؓ کے اخفاء کی حکمت سمجھ آجاتی ہے۔ رسول کریم ؐ نے لیلۃالعقبہ میں حضرت عباسؓ کی مکمل تائید و حمایت کو ہمیشہ یاد رکھا۔آپؐ فرماتے تھے ’’اس رات میرے چچا عباسؓ کے ذریعہ میری تائیدو نصرت کی گئی۔‘‘(11)
حضرت عباسؓ اپنے مخفی اسلام کی وجہ سے ہی جنگ بدر میں پہلے پہل لشکر کفار میں شامل نہیں ہوئے جب لشکر مرّا لظہران مقام پر پہنچا تو ابو جہل نے کہا کہ بنو ہاشم کے لوگوں کا اس لشکر میں شامل نہ ہونا فتح یا شکست دونوں صورتوں میں تمہارے لئے نقصان دہ ہے۔پس جیسے بھی ہو ان کو اس جنگ میں ضرور شامل کروخواہ زبردستی نکال کر ساتھ لے آئو ۔چنانچہ اہل مکہ واپس جاکر حضرت عباسؓ اور دیگر افراد بنو ہاشم کو ساتھ لائے اور انہیں لشکر کفار میں شامل کیا۔(12)
ادھر رسول کریمﷺکوبھی اس کی اطلاع ہوگئی ۔ چنانچہ حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے بدر کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا’’مجھے خوب علم ہے کہ بنی ہاشم وغیرہ کے بعض لوگ مجبور اً جنگ کیلئے مکہ سے نکالے گئے ہیں۔ ہمیں ان سے جنگ کی ضرورت نہیں۔ اسلئے جو عباس،طالب،عقیل اور نوفل کو جنگ میں پائے انہیں قتل نہ کرے۔‘‘(13)
بنو ہاشم کے مجبوراً جنگ میں شامل ہونے کے باوجود قریش کو اندیشہ ہائے دورودراز تھے کہ وہ کہیں رسولؐ اللہ کی تائید کرتے ہوئے انہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔ چنانچہ انہوں نے دوران جنگ بنوہاشم کو حکیم بن حزام کے زیر نگرانی ایک الگ خیمہ میں رکھنے کا حتیاطی انتظام کیاتھا۔پھر جنگ کے دوران جب حضرت عباسؓ او رعقیلؓ کو عبیدؓ بن اوس انصاری نے گرفتار کیا تو رسول کریمﷺنے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی جانیں بچ گئیں اور عبیدؓکو فرمایا کہ ان دونوں کی(صحیح سالم)گرفتاری کیلئے فرشتے نے تمہاری مدد کی ہے۔ (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ ان کی حفاظت کیلئے دعائیں کر رہے تھے)۔
جنگ کے بعد حضرت عباسؓ نے پھرواپس مکہ جاکر اپنے مفوضہ فرائض انجام دینے تھے۔ اسلئے ضروری تھا کہ ان کے اخفائے اسلام کی حکمت عملی جاری رکھتے ہوئے ان سے دیگر کفار قیدیوں جیسا معاملہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عباسؓسے دیگر قیدیوں کا ساسلوک کرتے ہوئے رسیوں میں جکڑ کر باندھا گیا۔رسول کریمﷺکو اپنے مسلمان چچا کے قیدمیں جکڑے ہونے کی حالت میں کراہنے کی آواز سن کر بے چینی سے نیند نہیں آرہی تھی۔ صحابہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت عباسؓ کے بندھن ڈھیلے کر دئے۔ رسول کریمﷺکو پتہ چلا تو فرمایا کہ سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کردو۔رہائی کیلئے حضرت عباسؓسے فدیہ کا مطالبہ بھی اسی لئے تھا کہ انہیں دیگر قیدیوں جیسا ہی سمجھا جائے۔اس پر وہخود تعجب سے کہہ اٹھے’’یارسولؐ اللہ!میں تو دل سے مسلمان ہوں۔مجھے مجبوراًجنگ میں لایا گیا ہے۔‘‘ نبی کریمؐ نے کیا پرحکمت جواب دیافرمایا ’’اللہ آپ کے اسلام کو جانتا ہے اور اگر یہ سچ ہے تو اللہ تعالیٰ آپؓ کو ضرور اس کی جزا عطا کرے گا۔مگر ہم تو ظاہر پر فیصلہ کریں گے اسلئے آپ اپنا فدیہ ادا کریں۔‘‘ چنانچہ ان سے 20اوقیہ سونا فدیہ لیا گیا۔یہ ایک مضبوط حکمت عملی تھی تاکہ اس کے بعد بھی حضرت عباسؓ مکہ میں رہ کر رسول اللہ ﷺ کیلئے کام کر سکیں۔ بعض صحابہ نے اس حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے ، حضرت عباسؓ کے مسلمان ہونے کے ناطہ سے رسول کریمؐ سے درخواست بھی کی کہ حضرت عباسؓ کا فدیہ معاف کر دیا جائے لیکن رسول کریمؐنے بوجوہ یہ درخواست قبول نہیں فرمائی۔(14)
اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان کے مطابق اس کے بعد حضرت عباسؓ کو اس فدیہ سے کئی گنا زیادہ مال عطا کرنے کے سامان ہوئے ۔جیسا کہ اسیر ان بدر کے بارہ میں سورۃ انفال کی آیت71میں بھی وعدہ تھا۔حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت عباسؓ اور دیگر اسیران بدر کے بارہ میں اتری تھی کہ’’ اے نبی!تمہارے ہاتھ میں جو قیدی ہیں انہیں کہہ دے کہ اگر اللہ تمہارے دلوں میں ’’خیر ‘‘معلوم کرے گا تو جو (فدیہ) تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا کرے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
خود حضرت عباسؓ بیان کرتے تھے کہ مجھ سے بیس اوقیہ سونا فدیہ لیا گیا تھا اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیس غلام عطا کئے جن میں سے ہر ایک کی قیمت بیس اوقیہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے زمزم عطا کیا جو مکہ کے سب اموال سے بڑھ کرمجھے عزیز ہے۔(ابو لہب کی موت کے بعد یہ ذمہ داری براہ راست حضرت عباسؓ کے حصہ میں آئی تھی) اور اب میں اپنے رب سے اس آیت میں کئے گئے آخری وعدہ مغفرت کا امیدوار ہوں۔
فتح بحرین کے بعد جب اموال غنیمت آئے تو رسول کریمﷺ نے حضرت عباسؓ سے کہا کہ اس میں سے جتنا چاہیںلے لیں حضرت عباسؓ نے ایک گٹھڑی بنالی جو اتنی بھاری تھی کہ اکیلے اٹھا نہ سکے اور رسول کریمؐ سے کہا کہ اٹھواد یں۔ حضوؐر مسکرائے اور فرمایا کہ گٹھڑی کو ہلکا کرکے جتنی طاقت ہے اتنا خود ہی اٹھائیں۔ حضرت عباسؓ یہ مال لے کر کہتے جاتے تھے کہ اللہ کا وعدہ تھا جو پورا ہوا کہ ’’جو تم سے لیا اس سے بہتر دے گا۔‘‘(15)
غزوات میں شرکت
بدر کا بدلہ لینے کیلئے کفار مکہ نے اگلے سال پھر جنگ کی تیاری کی اور احد کا معرکہ پیش آیا۔جس کیلئے تین ہزار کا لشکر لے کر وہ مکہ سے نکلے جس میں تین ہزار اونٹ سات سو زرہ پوش اور دو سو گھڑ سوار تھے،حضرت عباسؓ نے یہ تیاریاں دیکھیں تو بنی غفار کا ایک شخص اس شرط سے اجرت پر لیا کہ وہ ان کاخط تین دن کے اندررسول کریمﷺکو مدینہ پہنچائے۔اس میں اطلاع تھی کہ قریش کا تین ہزار کا مسلح لشکرمدینہ کی طرف روانہ ہوچکا ہے آپ اپنا انتظام کرلیں قباء میں حضوؐر کو یہ خط ملاآپ نے فوری طور پر صحابہ ؓسے مشورہ کیا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺنے نواح مدینہ کے حالات معلوم کرنے کیلئے کچھ لوگ مقرر کر دئے جو آپؐ کو تازہ خبر پہنچاتے رہیں اورمدینہ کی حفاظت اور پہرہ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور بالآخر مسلمانوں کے مشورے سے مدینہ کے باہر جاکر دشمن کے مقابلہ کا فیصلہ کیا گیا اور احد میں یہ معرکہ پیش آیا۔اس طرح حضرت عباسؓ کی بروقت اطلاع سے مدینہ اچانک حملہ سے محفوظ رہا۔(16)
فتح خیبر کے موقع پر حضرت عباسؓ مکہ میں ہی تھے ۔ایک شخص حجاج نامی نے مسلمانوں کی شکست کی خبر اڑا دی۔حضرت عباسؓ سخت پریشان ہوئے۔ بعد میں خیبر کی فتح کا علم ہوا تو رسول کریمؐ سے ملاقات کیلئے مکہ سے روانہ ہوئے ۔چنانچہ رسول کریمﷺ سے جحفہ مقام پر ان کی ملاقات ہوئی۔ نبی کریمؐ نے حضرت عباسؓ کو غنیمت خیبر سے حصہ عطا فرمایا اور دو سو وسق (قریباً نو صد من) کھجور سالانہ بھی مقررفرمائی۔ اس کے بعد حضرت عباسؓ جملہ غزوات فتح مکہ،حنین،طائف اور تبوک میں رسول کریمؐ کے ساتھ شریک رہے۔(17)
سفر فتح مکہ میں جب حضرت عباسؓ کی جحفہ میں رسول کریمﷺ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا یَا عَمِّ اِنَّکَ خَاتَمُ المُھَاجِرِینَ فِی الھِجْرَۃِ کَمَا اَنَا خَاتَمُ النَّبِیٖنَ فِی النُّبُّوَۃِ(18)کہ اے میرے چچا! آپ ہجرت میں اسی طرح خاتم المہاجرین ہیں جس طرح میں نبوت میں خاتم النبین ہوں۔ گویا حضرت عباسؓ کا ارادہ ہجرت کے باوجود رسولؐ اللہ کے ارشاد پر مکہ میںرہ کر اہم ذمہ داریاں ادا کرنا آپ کی ہجرت کی شان بڑھا گیاکہ آپ سب مہاجرین میں ہجرت کے لحاظ سے بلند مرتبہ اور افضل ٹھہرے۔ اس موقع پر خاتم کے معنے بھی خوب کھل کر سامنے آگئے کہ اس سے محض زمانی لحاظ سے آخری فرد مراد نہیں ہوتا بلکہ فضیلت و مرتبت میں آخری کا مفہوم ہوتا ہے ورنہ حضرت عباسؓ کے بعد ہمیشہ کیلئے ہجرت کا خاتمہ اور مہاجر کا لقب ممنوع ماننا پڑے گا۔ جو خلاف واقعہ ہے۔
فتح مکہ کی رات جب حضرت عمرؓ گشت کے دوران ابو سفیان کو گرفتار کر لائے تو حضرت عباسؓ نے اسے پناہ دی اور یوں مکہ کی قیادت اس طرح ٹوٹ گئی کہ فتح مکہ کے موقع پر کفار کی طرف سے کوئی بڑی مزاحمت نہ ہوسکی۔
غزوہ حنین میں حضرت عباسؓ رسول اللہﷺ کے شانہ بشانہ ہوکر لڑے۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ ’’میں اور رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو سفیان بن حارث آپؐ کے ساتھ چمٹے رہے اور آپؐ سے کسی حال میں جدا نہیں ہوئے۔ حضوؐر سفید خچر پر سوار تھے۔ حضرت عباسؓ نے اس کی لگام تھام رکھی تھی ۔ بنوہوازن کے تیر اندازوں کے اچانک حملہ سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی ۔ حضرت عباسؓ جو بلند آواز تھے وہ کمال حکمت سے جوش دلا کر اصحاب رسولﷺ کو آواز دینے لگے کہ کہاں ہیں حدیبیہ کے موقع پر بیعت کرنے والے ؟حضرت عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میری اس آواز پر صحابہ میدان میں اس طرح واپس پلٹے جیسے گائے اپنے بچے کی آواز پرپلٹتی ہے۔وہ لبیک لبیک کہتے ہوئے آئے اور کفار سے ڈٹ کرمقابلہ کرنے لگے۔ پھر حضرت عباسؓ نے انصارکو آواز دی۔ پھر باری باری ان کے قبائل کے نام لے کر بلایا یہاں تک کہ میدان جم گیااور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’اب میدان جنگ خوب تپ گیا ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے کنکروں کی مٹھی لے کر کفار پر پھینکی اور فرمایا’’ محمدﷺکی قسم اب یہ پسپا ہوگئے ۔‘‘(19)
مقام وفضائل
رسول کریمﷺحضرت عباسؓ کی بہت عزت اور اکرام فرماتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا’’عباسؓ میرے بقیہ آبائواجدادمیں سے ہیں۔ جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور چچا بھی باپ کے قائمقام ہوتا ہے۔‘‘(20)
حضرت عباسؓ نہایت دانش مند اور صائب الرائے تھے اور خاندان قریش کے رحمی رشتوں کے نمائندہ اور انکے ساتھ احسان کا سلوک کرنے والے تھے۔
رسول کریمﷺ نے فرمایا عباسؓ قریش میں سے زیادہ سخی اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ستر غلام آزاد کئے۔(21)
رسول اللہ ﷺکے ہاں حضرت عباسؓ کاایک خاص مقام و مرتبہ تھا اور صحابہؓ ان کی یہ فضیلت خوب پہچانتے تھے ۔وہ ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے پر عمل کرتے تھے۔ (22)
ایک دفعہ حضرت عباسؓ بیمار ہوئے اور موت کی تمنا کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺتشریف لائے اور فرمایا ’’موت کی تمنا نہ کرو کیونکہ اگر تو تم نیک ہو اور تمہیں اور مہلت مل جائے تو مزید نیکیوں کی توفیق مل جائے گی اور اگر معاملہ برعکس ہے اور پھر تمہیں مہلت مل گئی تو شاید اپنی کوتاہیوں سے معافی کی توفیق مل جائے اس لئے موت کی خواہش نہ کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت عباسؓ رسول اللہ ﷺکی دعا سے صحت یاب ہوئے اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کا زمانہ پایا۔ صحبت رسولﷺ کے نتیجہ میں انہیںدین کی گہری سمجھ عطا ہوئی اور وہ راضی برضا ہوگئے تھے۔ ان سے مروی احادیث سے بھی یہ بات جھلکتی ہے کہ ان کے رجحانات اور احساسات و خیالات کیسے پاکیزہ تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ’’اس شخص نے ایمان کا مزا چکھ لیا جواللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمدﷺ کو رسول ماننے پر راضی ہوگیا۔‘‘(23)
حضرت عباسؓ نے ایک دفعہ رسول کریمﷺسے عرض کیا کہ’’ میں آپ کا چچا ہوں اور عمر رسیدہ موت قریب ہے آپ مجھے کوئی ایسی چیزسکھائیں جو اللہ کے ہاں مجھے فائدہ دے۔‘‘ رسول کریمﷺ نے فرمایا’’ اے عباسؓ! تو میرا چچا ہے اور میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا لیکن آپ اپنے رب سییہدعا کیاکرو۔اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ اے اللہ میں تجھ سے عفو وعافیت کا طلبگار ہوں۔یہ بات حضورؐ نے تین بار فرمائی۔ سال گزرنے پر انہوں نے پھر یہ سوال کیا توآپؐ نے انہیں یہی جواب دیا۔(24)
حضرت عباسؓ صاحب رؤیا و کشوف تھے۔ رسولؐ اللہ کی وفات کی پیشگی خبر انہیں بذریعہ رؤیا ہوئی جو انہوں نے خود رسول کریمﷺ سے بیان کی کہ میں نے سورج یا چاند کو دیکھا کہ شایداسے مضبوط رسیوں کے ساتھ زمین سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا ہے۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا’’ اس سے مراد تمھارا بھتیجا ہے۔‘‘(25)
خلفائے راشدین کا حسن سلوک
رسول کریمﷺ نے اپنے اہل بیت کے بارہ میں ارشاد فرمایا کہ’’ کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ میرے اہل بیت اور ان کے قرابت داروں سے میری وجہ سے محبت نہ کرے۔‘‘(26)
رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعدحضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے زمانہ میں جب حضرت عباسؓ اور دیگر اہل بیت کی طرف سے وراثت رسول کا سوال اٹھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ’’رسول کریم ؐ نے فرمایا تھا کہ ہمار ا ترکہ صدقہ ہوگا اور محمدؐ کے اہل بیت اس میں سے اپنے گزارے کے اخراجات لیا کریں گے۔میرا فیصلہ بھی یہی ہے باقی جہاں تک رسول اللہ ﷺکے قرابت داروں کا تعلق ہے خدا کی قسم رسول اللہ ﷺکے قرابت دار مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے بڑھ کر پیارے ہیں۔‘‘ (27) حضرت عباسؓ اور دیگر اہل بیت نے یہ فیصلہ بسروچشم قبول کیا۔
حضرت عمرؓ حضرت عباسؓ کی بہت قدرو منزلت فرماتے تھے۔جب مدینہ میںقحط ہوتا تو حضرت عمرؓ،حضرت عباسؓ کے نام کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے۔چنانچہ 17ھ میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں شدید قحط پڑا تو حضرت کعبؓنے کہا اے امیر المومنین بنی اسرائیل میں جب اس قسم کی مصیبت آتی تھی تو وہ انبیاؑء کے کسی قریبی رشتہ کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺکے چچا ان کے والد کے قائمقام اور بنی ہاشم کے سردار موجودہیں۔چنانچہ وہ حضرت عباسؓ کے پاس تشریف لے گئے اور قحط کی شکایت کی، پھر حضرت عباسؓ کو ساتھ لے کر منبر رسولﷺپر آئے اور یہ دعا کی۔
’’اے اللہ ہم اپنے نبیﷺ کے چچا( جو اس کے با پ جیسے ہیں) کا واسطہ لے کر تیرے دربار میں حاضر ہیں تو ہم پر رحمت کی بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس نہ کر۔ پھرحضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سے کہا اے ابوالفضلؓ! اب آپ کھڑے ہوکر دعا کریں،چنانچہ حضرت عباسؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کے بعد بڑی درد بھری دعا کی۔ اے اللہ! تیرے پاس بادل بھی ہیں اور پانی بھی،پس بادلوں کو بھیج اور ان سے ہم پر پانی نازل فرما اور اس کے ذریعہ جڑوں کو مضبوط کر اورجانوروں کے تھنوں سے دودھ بھردے۔اے اللہ!تو کوئی مصیبت کسی گناہ کے بغیر نازل نہیں فرماتا اور سوائے توبہ کے اسے دور نہیں کرتا اور پوری قوم تیری طرف رخ کرکے آئی ہے پس ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہمارے نفوس اور گھروں کے حق میں ہماری شفاعت قبول فرمالے، اے اللہ! ہم تجھے اپنے جانوروں اور چارپایوں میں سے ان کا بھی واسطہ دیتے ہیںجو بولنے کی طاقت نہیں رکھتے،اے اللہ!ہمیں خوب اطمینان بخش اور نفع رساں برسنے والے اور عام موسلا دھاربادل سے سیراب کر۔اے اللہ !ہم سوائے تیرے کسی سے امید نہیں کرتے ،نہ تیرے سوا کسی سے دعا کرتے ہیں اور نہ ہی تیرے سوا کسی سے رغبت رکھتے ہیں۔اے اللہ! ہم ہر بھوکے کی بھوک کا شکوہ اور ہرننگے کے ننگ کی شکایت تجھ سے کرتے ہیں۔ ہر خوف زدہ کے خوف اورہر کمزور کی کمزوری تیرے حضور پیش کرتے ہیں۔
الغرض حضرت عباسؓ نے خدا کے رحم کو جوش دلانے والی ایسی دعائیں کیں جن کا مختلف احادیث میں ذکر ہے کہ اس کے نتیجہ میں پہاڑوں جیسے بادل امڈ آئے اور آسمان برسا اور خوب برسا۔زمین کی زرخیزی لوٹ آئی اور لوگوں کو نئی زندگی نصیب ہوئی۔(28)
حضرت حسان ؓبن ثابت نے اس تاریخی واقعہ کا ذکر یوں فرمایا۔
سَاَ لَ الاِمَامُ وَ قَدْ تَتَابَعَ جَدْبُنَا فَسَقَی الغَمَا مُ بِغُرَّ ۃِ العَبّاسٖ
عَمُّ النّبِیِّ وَضَوئُ وَالِدِ ہِ الَّذیْ وَرِثَ النَّبیَّ بِذَ اکَ دُوْنَ النَّاسٖ
اَحیْیَ الاِلٰہُ بِہِ الْبِلاَ دَ فَاَ صْبَحَت مُخضَرَّۃَ الاَ جْنَابِ بَعْدَالَیْاسٖ
(ترجمہ)امام نے مسلسل قحط سالی کے بعد حضرت عباسؓ کی پیشانی کا واسطہ دے کر دعا کی تو باران رحمت کا نزول ہوگیا ہاں وہ عباسؓ جو رسول اللہ ﷺکے چچا اور اپنے اس والد کی روشنی ہیں جو نبی کریمؐ کا باقی لوگوں سے بڑھ کروارث ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس بارش سے شہروں کو زندہ کردیا اور ایک مایوسی کے بعد ان کی اطراف سرسبز ہوگئیں۔بارش ہونے کے بعد لوگ حضرت عباسؓ سے ملتے اور کہتے اے مکہ اور مدینہ کو بارش سے سیراب کرنے والے !تجھے مبار ک ہو۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پریہ اصولی وضاحت بھی فرمائی کہ’’ خدا کی قسم!یہ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ چاہنے اوراس کے ہاں مقام و مرتبہ کا معاملہ ہے۔‘‘(29)
ایک دفعہ حضر ت عمرؓ جمعہ پڑھانے کیلئے تشریف لارہے تھے۔ حضرت عباسؓ کے گھر کے پرنالے کے پاس سے گزر ہوا۔ جہاں دو چوزے ذبح کرکے ان کا خون پانی سے بہایا جارہاتھا۔ اس کے چھینٹے حضرت عمرؓ پر بھی پڑے۔ انہوں نے گزرگاہ کے بیچ اس پرنالے کے اکھیڑنے کی ہدایت فرمائی۔ گھر واپس جاکر جمعہ کیلئے لباس بدل کر تشریف لائے اور جمعہ پڑھایا۔ حضرت عباسؓ آئے اورعرض کیا کہ اس جگہ پر یہ پرنالہ خود نبی کریمؐ نے لگایا تھا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سے کہا اب میرا آپ کو حکم ہے کہ میری پشت پر سوار ہو کر وہ پرنالہ دوبارہ اسی جگہ رکھیں جہاں رسول کریمؐ نے رکھا تھا۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا۔(30)
حضرت عباسؓ آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔ حضر ت عمرؓ اورحضرت عثمانؓ ان کا خاص احترام کرتے تھے۔ آپ کو دیکھ کر وہ گھوڑے سے اتر آتے اور کہتے رسول اللہﷺ کے چچا ہیں۔ (31)
32ھ میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے دو سال قبل88سال کی عمر میں حضرت عباسؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت عثمانؓ نے جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
آ پ کی تین شادیوں سے کئی بیٹیوں کے علاوہ دس بیٹے تھے۔ جن میں سے حضرت عبداللہؓ بن عباس معروف عالم باعمل بزرگ ہوئے ۔ آپ کے اخلاق فاضلہ میں شجاعت ، بہادری، صلہ رحمی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔(32)
حوالہ جات
1-
اسد الغابہ جلد 3ص 109
2-
ابن سعد جلد4ص 31،ابن سعد جلد4ص 10
3-
ابن سعد جلد 8ص 277
4-
مجمع الزوائد جلد 9ص 268
5-
ابن سعد جلد4ص 31
-6
مجمع الزوائدجلد 9ص 275
7-
ابن سعد جلد4ص 8
8-
ابن سعد جلد1ص 221و ابن سعد جلد 4ص 7تا۔۔۔
9-
ابن ہشام جلد 2ص 49
10-
ابن سعد جلد 4ص 8
11-
ابن سعد جلد 4ص 31
12-
ابن سعد جلد4ص 9
13-
ابن سعد جلد4ص 10
14-
ابن سعد جلد 4ص 9تا 14
15-
ابن سعد جلد4ص 14تا16
-16
الواقدی جلد 1ص 203
17-
ابن سعد جلد4ص18
18-
سیرۃ الحلبیہ جلد 3ص 90
19-
مسلم کتاب الجہاد باب غزوہ حنین
20-
اسد الغابہ جلد 3ص 110
21-
اسد الغابہ جلد 3ص 110،استیعاب جلد2ص 360
22-
الاصابہ جز4ص 30
23-
مسلم کتا ب الایمان
24-
مسند احمد جلد1ص 210
25-
دارمی کتاب الرؤیا باب فی القمص و البر
-26
ابن ماجہ المقدمہ باب فضل العباس
-27
بخاری کتاب المغازی باب حدیث النضیر
-28
استیعاب جلد2ص 260
-29
اسد الغابہ جلد3ص 111
-30
مسند احمد جلد 1ص 206
-31
الاستیعاب جلد 2ص 360
-32
اسد الغابہ جلد 3ص 112
حضرت جعفرؓ بن ابی طالب
نام ونسب
خاندان بنی ہاشم کے چشم وچراغ حضرت جعفرؓرسول کریمﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت علیؓ کے برادر حقیقی اور عمر میں ان سے دس سال بڑے تھے۔ مگر حضرت علیؓ کو رسول اللہﷺ کی تربیت کی برکت اور خود اپنی فطری سعادت کے طفیل قبول اسلام میں اولیت عطا ہوئی۔
قبول اسلام
حضرت جعفرؓ کے اسلام قبول کرنے کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ ایک روز نبی کریمﷺمحو عبادت تھے۔ حضرت علیؓ بھی آپ کے ساتھ عبادت میں شریک تھے کہ رسول اللہﷺکے چچا ابوطالبؓ اپنے بیٹے جعفرکے ساتھ تشریف لائے اور اپنے بیٹے علیؓ کو رسول ؐاللہ کے ساتھ مصروف عبادت دیکھ کر جعفرؓ سے بھی فرمایا کہ تم بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ عبادت میں شریک ہوجائو۔ حضرت علیؓ رسول اللہﷺ کے دائیں جانب تھے۔ جعفرؓ نے بائیں جانب کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور یوں یہ دونوں بھائی اسلام کے ابتدائی کمزوری کے زمانہ میں رسول اللہﷺ کے مضبوط دست و بازوبن گئے۔ آنحضرتؐ کو اس سے بہت تقویت پہنچی۔ آپ بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے علم پا کر حضرت جعفرؓ کو یہ خوشخبری سنائی کہ جس طرح تم نے آج اپنے اس بھائی کے پہلو اور ہاتھ مضبوط کئے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی جزا کے طور پر آپ کو جنت میں پرواز کیلئے دو پر عطا فرمائے گا۔ تب سے حضرت جعفر ــــ’’طیّار‘‘ اور’’ ذوالجناحین‘‘ کے لقب سے ملقّب ہوئے۔ (1) جس کا مطلب ہے دونوں پروں کے ساتھ پرواز کرنے والا (روحانی) پرندہ۔
مقام و مرتبہ
حضرت جعفرؓ کیلئے رسول ؐاللہ کی اس خوشخبری میں دراصل اس روحانی مقام کی طرف بھی اشارہ تھا جو آئندہ شہادت کے بلند مرتبہ سے انہیں کو حاصل ہونیوالا تھا۔ جس کاذکر کرتے ہوئے ایک اور موقع پر آپؐنے فرمایا کہ میں نے حضرت جعفرؓکو جنت میں فرشتوں کے ساتھ محو پرواز دیکھا ہے۔ (2)
حضرت جعفرؓاپنی بعض منفرد خصوصیات کے لحاظ سے یگانہ روز گار تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰﷺکے بہت ہی پیاروں حضرت زیدؓ،حضرت علیؓ اور حضرت جعفرؓکے مابین یہ سوال پیدا ہو گیا کہ حضوؐرکو زیادہ پیار کس سے ہے؟ کیونکہ حضوؐر کے کمال لطف و کرم کی بدولت ہر ایک ان میں سے اپنے آپ کو حضوؐرکی محبتوں کا مورد اور زیادہ پیارا جانتا تھا۔حضوؐرسے پوچھا گیا تو آپؐ نے کمال شفقت سے سب پیاروں سے ہی دلداری فرمائی کہ سب ہی آپؐ کو محبوب تھے۔ مگر حضرت جعفرؓ سے جو فرمایا اسے سن کر بے محابا حضرت جعفرؓ پر پیار آتا ہے۔ آپ نے فرمایا:۔
’’اے جعفرؓ تو تو خَلق و خُلق یعنی صورت و سیرت میں میرے سب سے زیادہ مشابہ اور قریب ہے‘‘ (3)
ہجرت حبشہ
بلاشبہ یہ ارشاد رسولﷺحضرت جعفرؓکیلئے دین ودنیا میں سندامتیاز سے کم نہیں۔ حضرت جعفرؓ نے ابتدائی زمانہ میں قبول اسلام کی سعادت پائی تھی۔ مسلمانوں کیلئے مکہ میں حالات ناموافق تھے۔ ان کو مصائب و آلام کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ حضرت جعفرؓ نے بھی دیگر مسلمان مہاجرین کے ساتھ ملک حبشہ کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اس سفر ہجرت میں آپؐ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتیں ظاہر ہوئیں۔ انہوں نے شاہ حبشہ کے شاہی دربار میں اسلامی وفد کی نمائندگی کا حق خوب ادا کیا۔
حضرت ام المومنین ام سلمہؓبیان فرماتی ہیں کہ ’’جب ہم نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور شاہ حبشہ نجاشی کی پناہ حاصل کی تو یہ بہت خیرو برکت کی پناہ ثابت ہوئی۔ ہمیں مکمل مذہبی آزادی نصیب تھی اور ہم بلا روک ٹوک عبادت کرتے تھے۔ کسی قسم کی ناپسندیدہ زبانی یا جسمانی ایذارسانی کا سوال تک نہیں تھا۔ جب قریش کو اس صورتحال کا علم ہوا تو انہوں نے دو معتبر قریشی سرداروں عبداللہ ؓبن ربیعہ اور عمروؓ بن العاص کو سفیر بنا کر مکہ کی عمدہ چیزوں کے تحائف کے ساتھ حبشہ بھجوایا۔
اس زمانہ میں اہل حبشہ مکہ سے چمڑا منگوایا کرتے تھے۔ چنانچہ مکہ والوں نے چمڑے کی کئی عمدہ مصنوعات حاصل کر کے حبشہ کے تمام بڑے بڑے سرداروں اور جرنیلوں کیلئے تحائف بھجوائے۔ اپنے سفراء کو ہدایت کی کہ نجاشی سے ملاقات سے پہلے ہر بڑے سردار اور جرنیل کو یہ تحائف پیش کر کے انہیں بتائیں کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان اپنا دین چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کر چکے ہیں اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے اور ایک بالکل نئے دین کے ساتھ جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ یہ لوگ آپ کے ملک میں آکر پناہ گزیں ہو گئے ہیں اور ہم جو اپنی قوم کے فہمیدہ اور دانا سردارہیں،شاہ حبشہ سے ملاقات کر کے انہیں واپس لے جانے کیلئے درخواست کرنا چاہتے ہیں اس لئے جب بادشاہ آپ حضرات سے مشورہ کرے تو آپ لوگ بھی یہی سفارش کریں کہ وہ ان کا موقف سنے بغیر ہمارے سپرد کر دے۔ ہم لوگ ان کے عیوب ونقائص کو خوب جانتے ہیں۔ جرنیلوں نے بالاتفاق ان سفیروں سے یہی کہا کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔
سفرائے مکہ نے شاہ نجاشی کو بھی تحائف پیش کئے اور اپنا موقف پیش کر کے یہ کہا کہ یہ ناسمجھ نوجوان ہمارے عزیزو اقارب میں سے ہیں۔ انہیں ہمارے سپرد کر دیں تاکہ ہم انہیں مناسب سرزنش کر سکیں۔ ان سفیروں کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ کسی طرح نجاشی سے مسلمانوں کی بات سنے بغیر یہ فیصلہ کروالیا جائے۔ بادشاہ نے جب اپنے جرنیلوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ’’اہل مکہ کے سفیر سچ کہتے ہیں۔ یہ واقعی عقلمند اور صاحب بصیرت لوگ ہیں اور ان نوجوانوں کے نقص و عیب کو خوب جانتے ہیں۔ انہیں ان کے ملک میں واپس لوٹا دینا چاہئے۔‘‘
منصف مزاج شاہ نجاشی اس پر سخت غضبناک ہوکر کہنے لگا۔’’ خدا کی قسم !ہر گز ہر گز ایسا نہیں ہو گا کہ وہ لوگ جو میرے ملک میں آکر میرے پاس پناہ گزیں ہوئے اور خاص میری پناہ حاصل کرنے کیلئے آئے۔ میں اُن کی بات سنے بغیر کیسے ان کے حوالے کردوں۔‘‘
مسلمانوں کو نجاشی کے دربار میں بلایا گیا۔ وہ سخت مضطرب اور پریشان تھے کہ نہ جانے ان کے ساتھ کیا سلوک ہو۔ مگر وہ خدا تعالیٰ پر کامل توکل کرتے ہوئے شاہی دربار میں پیش ہوئے۔ درباری پادری اپنے صحائف کے ساتھ موجود تھے۔ نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا۔ نہ ہی پہلی کسی امت کا دین اختیار کیا نہ ہمارا دین۔‘‘
اس موقع پر بادشاہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے ان کی نمائندگی کا حق حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے خوب ادا کیا۔ انہوںنے اس موقع پر نہایت مدلّل اور عمدہ اور خوبصورت تقریر کی اور کہا ’’ اے بادشاہ!ہم ایک جاہل قوم تھے۔ بتوں کی پرستش کرتے اور مردار کھاتے تھے۔ بدکاری اور رشتہ داروں سے بدسلوکی ہمارا معمول تھا۔ ہم میں سے طاقتور کمزور کو دبا لیتا تھا۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ایک رسول ہماری طرف مبعوث فرمایا جس کی خاندانی شرافت اور صدق و امانت اور پاکدامنی سے ہم خوب واقف تھے۔ اس نے ہمیں خدا کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا اور یہ تعلیم دی کہ اس کے ساتھ ہم کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ نہ ہی پتھروں اور بتوں کی پرستش کریں اس نے ہمیں صدق وامانت،صلہ رحمی،پڑوسیوں سے حسن سلوک اور کشت وخون سے بچنے کی تعلیم دی بے حیائیوں ، جھوٹ، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامنوں پر الزام لگانے سے منع کیا۔ ہمیں حکم دیا کہ ہم خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کریں۔ ہمیں نماز روزہ اور زکوۃ کی تعلیم دی۔‘‘
حضرت جعفرؓ نے نجاشی کے سامنے اسلامی تعلیم کا خلاصہ نہایت عمدہ اور خوبصورت رنگ میں پیش کیا اور کہا ’’ہم اس نبی پر ایمان لائے ہیں۔ اس کی تصدیق کی ہے ۔ اس کی تعلیم کو مانا اور قبول کیا ہے۔ہم خدائے وحدہٗ لاشریک کی عبادت کرتے ہیں ۔جن چیزوں سے اس نے روکا ہے اس سے رکتے ہیں اور جو چیزیں اس نے ہمارے لئے جائز قرار دی ہیں ان کو جائز سمجھتے ہیں۔ بس یہی ہماراجرم ہے جس کی بناء پر ہماری قوم نے ہم پر زیادتیاں کیں اور ہمیں سخت اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا کرکے ہمارے دین سے برگشتہ کرنا چاہا تاکہ ہم خدائے واحد کی عبادت کی بجائے بتوں کی پوجا کریں اورگندی اور ناپاک چیزوں کو حلال جانیں۔ جب ان کے ظلم اور زیادتیاں انتہا کو پہنچ گئیں۔ انہوں نے ہمیں اپنے دین پر آزادی سے عمل کرنے سے روک دیا تو ہم اپنا وطن چھوڑ کر آپ کے ملک میں پناہ لینے چلے آئے ۔ہم آپ کے عدل و انصاف کی شہرت کی وجہ سے کسی اور کی بجائے آپ کی پناہ حاصل کرنے کی اُمید پر یہاںچلے آئے۔ اے بادشاہ! ہمیں پوری اُمید ہے کہ اس ملک میں ہم پر کوئی ظلم یا زیادتی روا نہیں رکھی جائے گی۔‘‘
نجاشی حضرت جعفرؓ کی اس تقریر سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ وہ دعویدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کلام لے کر آیا ہے، اس میں سے کچھ تمہارے پاس موجود ہے؟ حضرت جعفرؓ نے اثبات میں جواب دیا نجاشی نے کہا کہ ’’اچھا مجھے اس میں سے کچھ کلام پڑھ کر سنائو۔‘‘ حضرت جعفرؓ کی ذہانت و فطانت پر رشک آتا ہے کہ انہوں نے فوری طور پر عین موقع کے محل اور مناسبت سے سورۃ مریم کی آیات کی تلاوت ایسی دلآویزی اور خوش الحانی سے کی کہ خدا ترس نجاشی بے اختیار رونے لگا۔ وہ رویااور اتنا رویا کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے ترہوگئی ۔ ساری محفل پر قرآن شریف کے اس پرتاثیر اور برحق کلام کا ایسا اثر ہوا کہ درباری پادری بھی رونے لگے ۔ ان کے صحیفے ان کے آنسوؤں سے تر ہوگئے۔
نجاشی یہ کلام الٰہی سن کر بے اختیار یہ کہہ اٹھا ’’ خدا کی قسم ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام اور موسیٰ کا کلام ایک ہی منبع اور سرچشمہ سے پھوٹے ہیں۔‘‘ پھر اس منصف مزاج بادشاہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا’’ اے مکہ کے سفیرو! تم واپس لوٹ جائو۔ خدا کی قسم میں ان لوگوں کو ہر گز تمہارے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘ مکہ کے ان سفراء نے مزید مشورے کئے اور کہا کہ وہ بادشاہ کے سامنے مسلمانوں کے خراب عقائد اور عیوب بیان کرکے اس نیک اثر کو زائل کرکے ہی دم لیں گے اور اسے بتائیں گے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو یہ عیسائیوں کے اعتقادکے برخلاف محض ایک انسان مانتے اور اس کی تنقیص اور توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگلے روز انہوں نے بادشاہ کے سامنے یہ مؤقف رکھا تو بادشاہ نے پھر مسلمانوں کو بلوا بھیجا۔ بلاشبہ ان کے لئے یہ سخت پریشانی کی بات تھی۔
حضرت ام سلمہؓ کا بیان ہے کہ’’ اس نئی مصیبت سے ہم بہت فکر مند ہوئے۔ ایسی مصیبت سے اس سے پہلے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا۔ مسلمانوں نے باہم اکٹھے ہوکر مشورے کئے اور کہا کہ اگر بادشاہ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے مقام کے بارہ میں دریافت کیا تو ہم وہی بیان کریں گے جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے۔‘‘ چنانچہ جب بادشاہ نے ان سے سوال کیا کہ عیسیٰ ؑبن مریم کے بارہ میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ تو حضرت جعفرؓ نے کہا کہ ’’اس بارہ میں ہمارے نبیؐ پر یہ کلام اترا ہے کہ عیسیٰ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول روح اللہ اور اس کا کلمہ ہے جواس نے کنواری مریم کو عطا فرمایا۔‘‘
نجاشی نے زمین پر ہاتھ مارا اور ایک تنکا اٹھا کر کہنے لگا کہ ’’حضرت عیسیٰ ؑکا مقام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں جو تم نے بیان کیا ہے۔‘‘ اس پر اس کے سردار اور جرنیل بڑبڑائے۔ مگر نجاشی نے کمال جلالت شان کے ساتھ یہ عادلانہ فیصلہ صادر فرمایا کہ’’ جائو اے مسلمانو! تمہیں میری سرزمین میں مکمل امان ہے اگر تمہیں کوئی برابھلا کہے گا تو اسے سزادی جائے گی۔مجھے یہ ہرگز پسند نہیں کہ مال ودولت کے عوض میں تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچائوں ‘‘
پھر شاہ حبشہ نے حکم دیا ’’عرب سفراء کے تحائف واپس لوٹا دیئے جائیں۔ ان کی ہمیں کوئی حاجت نہیں۔ خدا کی قسم! جب اللہ نے میرا ملک مجھے عطا فرمایا تو اس نے مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی جو میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے رشوت لوں۔‘‘
الغرض یوں حضرت جعفرؓ نے ایک زمانہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ اپنے ملک و وطن اوراپنے آقاو مولا حضرت محمد مصطفی ﷺسے دور حبشہ کی سرزمین میں گزارا۔
ہجرت مدینہ
جب حالات سازگار ہوئے تو حضرت جعفرؓ کوحبشہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ فتح خیبر کے موقع پر مہاجرین حبشہ کا قافلہ حضرت جعفرؓ کے ساتھ واپس آیا۔ اس وقت حضور ؐ خیبر میں تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت جعفرؓ کی آمد پر آپؐ نے خود آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ انہیں گلے لگایا،وفور محبت سے ان کی پیشانی چوم لی اور فرمایا کہ ’’آج میں اتنا خوش ہوں کہ نہیں کہہ سکتا کہ فتح خیبر کی خوشی زیادہ ہے یا جعفرؓ کی ملاقات کی خوشی بڑھ کر ہے۔‘‘ (4)
مدینہ آنے پر رسول اللہﷺ نے حضرت معاذ ؓبن جبل انصاری سے حضرت جعفرؓ کی مواخات قائم فرمائی ۔ جہاندیدہ اورگرم و سرد چشیدہ حضرت جعفرؓ رسول اللہ ﷺ کے مشیروں اور وزیروں میں شامل ہو گئے۔ حضرت علیؓکی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ ہر نبی کو کچھ معزز ساتھی عطا فرماتا ہے مجھے چودہ ایسے ساتھی عطا ہوئے ان میں آپؐنے حضرت جعفرؓ کا نام بھی لیا کہ وہ بھی میرے معزز وزراء میں شامل ہیں۔ ‘‘ (5)
غزوہ مُوتہ میں شرکت
الٰہی تقدیر میں حضرت جعفرؓ کیلئے اس سے بھی بڑا مقام یعنی شہادت کا بلندمرتبہ مقدر تھا۔انہیں حبشہ سے واپسی کو ابھی ایک سال بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ رومی سرحدوں پرشورش ہوئی۔ غسانی ریاست کے سردار شرجیل بن عمرو نے مسلمان سفیر کو قتل کروا دیاجو شاہ بصرٰی کی طرف رسول اللہﷺ کا مکتوب گرامی لے کر جارہے تھے یہ مسلمانوں کے ساتھ کھلا اعلان جنگ تھا۔
نبی کریمﷺ نے اس کے لئے اسلامی لشکر کو تیاری کا حکم دیا۔ تین ہزار سپاہ کا لشکر تیار ہوا۔اب اس کے امیر کے تقرر کا سوال تھا۔ اس لشکر میں بزرگ صحابی حضرت عبداللہؓبن رواحہ انصاری، مشہور جنگی کمانڈر حضرت خالدؓ بن ولیدکے علاوہ رسول اللہ ﷺکے عم زاد اور مشیر خاص حضرت جعفرؓ بن ابی طالب بھی شامل تھے جو شاہ حبشہ کے دربار میں بھی اسلامی وفد کی شاندار قیادت کر چکے تھے اور خاندانی وجاہت بھی رکھتے تھے۔ مگر رسول کریم ﷺ جہاں ان کی اعلیٰ روحانی قدروں کو مزید صیقل فر مانا چاہتے تھے وہاں خواص و عوام کو شرف انسانی کا عملی سبق دینے اور کئی حکمتوں کے پیش نظر آپؐ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ کو اس لشکر کا سالار اول مقرر کیا۔ حضرت جعفرؓ کو نائب مقرر کرتے ہوئے فرمایا’’زیدؓبن حارثہ کی شہادت کی صورت میں حضرت جعفرؓ قائد لشکر ہوں گے اور ان کے بعد عبداللہؓ بن رواحہ علمِ امارت سنبھالیں گے۔‘‘
حضرت جعفرؓ نے کمال اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے اس فیصلہ پر سر تسلیم خم تو کرنا ہی تھا۔ صرف اتنا عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں مجھے اپنے اوپر زیدؓ کے امیر بنائے جانے کا ہر گز خیال نہ تھا۔‘‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’خدا کے نا م کے ساتھ روانہ ہو جائو تمہیں کیا معلوم کہ بہتر کیا ہے؟۔‘‘ (6)
لشکر روانہ ہوا۔ موتہ کے مقام پر ایک لاکھ رومی فوج سے سخت مقابلہ ہوا، جس میں تینوں اسلامی سالار یکے بعد دیگر شہید ہوئے ۔ بالآخر حضرت خالدبن ولیدؓنے قیادت سنبھالی ۔ عین اس روز اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺکو اس لشکر کے سارے احوال کی اطلاع فرمادی۔(7)
داد شجاعت اورشہادت
رسول کریمﷺنے اہل مدینہ کو اکٹھا کرنے کیلئے منادی کروائی۔ پھر آپ منبر پر چڑھے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔آپؐنے اس کشف کاذکر کرتے ہوئے جس میں آپ کو غزوہ موتہ کا نظارہ کرایا گیا تھا، ارشاد فرمایا’’ ایک بہت تکلیف دہ خبر آئی ہے۔ کیا میں تمہیں اس غزوہ پر جانے والے تمہارے لشکر کے بارہ میں خبر دوں؟ان مجاہدین نے میدان جنگ میں دشمن سے خوب مقابلہ کیا ۔ سب سے پہلے امیر لشکر حضرت زیدؓ شہید ہوگئے۔ آپ سب ان کی بخشش کی دعا کرو۔‘‘ اس پر صحابہ نے ان کی بخشش کی دعا کی۔ آپؐ نے فرمایا۔’’ پھر علم لشکر حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب نے سنبھالا اور دشمن پر ٹوٹ پڑے اور بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ میں ان کی عظیم الشان شہادت کا گواہ ہوں۔ پس ان کی بھی بخشش کی دعا کرو۔‘‘تمام اصحاب رسولﷺنے حضرت جعفرؓکی بخشش کی بھی دعا کی۔رسول کریمﷺ نے ان امراء لشکر کے نیک انجام کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ’’ مجھے جعفرؓ،زیدؓ اورعبداللہؓ کے بارہ میں یہ نظارہ بھی دکھایا گیا کہ وہ ایک موتی کے خیمہ میں ہیں ۔ان میں سے ہر ایک الگ پلنگ پر ہے۔‘‘ (8)
غزوہ موتہ میں اسلامی لشکر اور امرائے لشکر کی شہادتوں سے جو حالات ظاہر ہوئے اس سے ہمارے آقاومولا کے فیصلہ کی حکمت بھی کھل جاتی ہے۔ اس جنگ میںپہلی مرتبہ آپ نے بالترتیب تین امراء کا تقرر فرمایا۔ بعد میں غزوہ موتہ سے واپس لوٹنے والے مجاہدین کی بیان کردہ تفاصیل سے بھی رسول اللہ ﷺکی ان پیشگی بیان فرمودہ خبروں کی تائید وتصدیق ہوئی۔ چنانچہ قبیلہ بنی مرہ بن عوف کے ایک شخص عباد کے والد عبداللہ غزوہ موتہ میں شامل تھے۔ وہ حضرت جعفرؓ کے لمحات شہادت کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں ’’خدا کی قسم حضرت جعفرؓ کی بہادری کا وہ نظارہ اب بھی میری نظروں کے سامنے ہے جب وہ گہری سرخ رنگ کی گھوڑی سے چھلانگ لگا کر نیچے اترے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کرکے دشمن کی صفوں میںگھس گئے اور پھر واپس نہیں آئے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔‘‘جعفرؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی ٹانگیں اس عزم سے کاٹ دیں کہ اب خود بھی لڑکر جان قربان کرنی ہے ۔اس وقت ان کی زبان پر یہ اشعار تھے ۔ ’’اے جنت پاکیزہ! تجھے اور تیرے اتنے قریب آجانے کو خوش آمدید۔ رومیوں کا عذاب قریب آچکا ہے۔ جو کافر ہیں اورہم سے دور کا رشتہ رکھتے ہیں۔ اب میرا یہی کام ہے کہ ان سے تلوار زنی کرکے مقابلہ کروں۔‘‘رسول کریمﷺ نے حضرت جعفرؓ کی بیوی حضرت اسمائؓ سے فرمایا کہ’’ جعفرؓ ابھی جبرائیل،میکائیل اوراسرافیل کے ساتھ میرے سامنے سے گزرے ہیں۔ انہوںنے نے مجھے سلام کے بعد بتایا کہ فلاں دن میرا مشرکوں سے مقابلہ ہوا تھا اور مجھے تہتر کے قریب زخم جسم کے اگلے حصے میں تیر ،تلوار اور نیزے کے آئے۔جھنڈا میرے دائیں ہاتھ میں تھا وہ کٹ گیا تو میں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا لے لیا وہ بھی کٹ گیا ۔اس کے عوض اللہ نے مجھے دو پر عطا کئے ہیں جن سے میں فرشتوں کے ساتھ محو پرواز ہوں۔(9)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ (جو اس غزوہ میںشریک تھے )کی روایت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت جعفرؓ نے کس بے جگری سے داد شجاعت دیتے ہوئے عظیم الشان شہادت پائی انکا بیان ہے ’’جنگ کے بعد میدان موتہ میں ہم نے اپنے امیر حضرت جعفرؓ کی نعش تلاش کی تو دیگر شہداء میں ان کو اس حال میں پایا کہ ان کے جسم میں تلواروں اور نیزوں کے ستر سے بھی زائد زخم تھے اور ان میںسے کوئی ایک زخم بھی پشت پر نہ تھا‘‘ مسلمانوں کے اس بہادر جرنیل نے ہروار اپنے سینہ پر لیا تھا۔(10)
یوں اپنی سپاہ کی طرف سے حق امارت ادا کردکھایا تھا۔ اس طرح رسول اللہﷺ کی وہ بات بھی پوری ہوگئی جو آپ نے انہیں امیر مقرر کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ کیا معلوم کس کی امارت کب اورکہاں مناسب ہے؟
شہید کے خاندان سے حسن سلوک
نبی کریم ﷺکے حضرت جعفرؓ سے تعلق محبت اور ان کے جذبہ فدائیت کی قدردانی کا اندازہ ان واقعات سے بخوبی ہوتا ہے جو ان کے اہل و عیال کے ساتھ حضورؐ کی شفقتوں کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ آپ بنفس نفیس حضرت جعفرؓ کے گھر ان کی شہادت کی خبر دینے تشریف لے گئے۔
حضرت جعفرؓ کی بیوہ اسمائؓ بنت عمیس کا بیان ہے ’’ جب حضرت جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر آئی تو رسول کریم ؐ ہمارے گھر تشریف لائے۔ میں گھر کے کام کاج آٹا وغیرہ گوندھنے کے بعد بچوں کو نہلا دھلا کر فارغ ہوئی ہی تھی۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جعفرؓ کے بچوں کو میرے پاس لائو۔ میں انہیںحضورؐ کے پاس لے آئی ۔ آپؐ نے ان کو گلے لگایا اور پیار کیاآپؐ کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ اسمائؓ کہتی ہیںمیں نے گھبرا کر عرض کیا یا رسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ کس وجہ سے روتے ہیں؟ کیا جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارہ میں کوئی خبر آئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ آج شہید ہوگئے۔ اسمائؓ کہتی ہیں میں اس اچانک خبر کو سن کر چیخنے لگی۔ دیگر عورتیںبھی افسوس کے لئے ہمارے گھر اکٹھی ہوگئیں۔ رسول کریمﷺاپنے گھر تشریف لے گئے اور ہدایت فرمائی کہ’’ جعفرؓ کے گھر والوں کا خیال رکھنا اور انہیں کھانا وغیرہ بناکر بھجوانا کیونکہ اس صدمہ کی وجہ سے انہیں مصروفیت ہوگئی ہے۔‘‘حضرت شعبیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺحضرت اسمائؓ کو شہادت جعفرؓ کی اطلاع دے کر ان کے حال پر چھوڑ دیا تاکہ وہ آنسو بہا کر غم غلط کرلیں پھر آپ دوبارہ ان کے ہاں تشریف لائے اور تعزیت فرمائی اوربچوں کیلئے دعا کی۔ (11)
بلاشبہ چالیس سالہ حضرت جعفرؓ کی جوانی کی ناگہانی موت کا صدمہ بہت بھاری تھا اور ہمارے آقا ومولا پر سب سے گراں تھا کہ جعفرؓ انہیں بہت عزیز تھے۔ آپؐ نے کمال صبر و ضبط کا نمونہ دکھاتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرمایا’’ جو مقام شہادت ان شہداء کو مل چکا ہے اس کی بناء پر خود ان کو بھی آج ہمارے پاس موجود ہونے سے زیادہ اُس مقام بلند کی خوشی حاصل ہے۔ ‘‘(12)
صبرورضا
حضرت جعفرؓ اور دیگر شہداء کی اچانک شہادتوں پر مدینہ میں رنج و الم کا جو فوری طبعی و جذباتی رد عمل ہوسکتا تھا اسے ممکنہ حد تک ہی روکا جا سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ’’ شہدائے غزوئہ موتہ کی اطلاع ملنے پر خودنبی کریم ﷺمجلس میں تشریف فرما ہوئے۔ آپؐکے چہرے سے حزن وملال کے آثار صاف ظاہر تھے۔ ایک شخص نے آکر خاندان جعفرؓ کی خواتین کی آہ و بکا کی شکایت کی۔ ( اب ظاہر ہے زبردستی تو خواتین کو اس سے روکا نہیں جا سکتا تھا وعظ و تلقین ہی کی جا سکتی تھی) آپؐنے اس شخص سے یہی فرمایا کہ ’’واپس جا کر ان عورتوں کو سمجھائو کہ آہ وبکا سے باز رہیں۔‘‘ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد پھر واپس لوٹا اور کہنے لگا میں نے انہیں رو کا تو ہے مگروہ بات نہیں مانتیں۔ حضورؐ خود سخت صدمہ کی حالت میں تھے۔ آپؐ نے پھر فرمایا ’’پھر انہیں جا کر سمجھائو۔ ‘‘وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر کہنے لگا کہ وہ کسی طرح بھی باز نہیں آتیں۔ آپؐنے بیزاری سے فرمایا ’’تو پھر ان کے منہ میں مٹی ڈالو‘‘ یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں میں یہ سارا نظارہ دیکھ کر دل ہی دل میں کہہ رہی تھی کہ یہ بھی عجیب شخص ہے نہ تو عورتوں کو سمجھاسکتا ہے اور نہ ہی نبی کریمؐکو صدمہ کی حالت میں بار بار تکلیف دینے سے ہی رکتا ہے۔ (13)
بہر حال نبی کریمﷺ نے حضرت جعفرؓ کے اہل خانہ کے جذبات کا مناسب خیال رکھا جو آہ وبکا اضطراری حالت میں ان سے ظاہر ہوئی اس پر انہیں کچھ مہلت بھی دی۔ تیسرے روز آپ پھر حضرت جعفرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ’’ بس اب آج کے بعد میرے بھائی پر مزیدنہیں رونا۔‘‘ پھر ان کے یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام وانصرام اپنے ذمہ لیا اور فرمایا کہ میرے بھائی کے بیٹے میرے پاس لائو۔ حضرت جعفرؓ کے بیٹے عبداللہ کا بیان ہے کہ ’’ہمیں حضوؐر کے پاس اس طرح لایا گیا جیسے مرغی کے چوزے پکڑ کر لائے جاتے ہیں۔ آپؐ نے حجام کو بلوایا ہمارے بال وغیرہ کٹوائے اور ہمیں تیار کروایا۔ بڑی محبت وپیار کا سلوک کیا اور فرمایاطیارؓ کا بیٹا محمد تو ہمارے چچا ابو طالب سے خوب مشابہ ہے اور دوسر ا بیٹا اپنے باپ کی طرح شکل اور رنگ ڈھنگ میں مجھ سے مشابہ ہے۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور گویا خدا تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے درد دل سے یہ دعا کی۔ ’’اے اللہ جعفرؓ کے اہل و عیال کا خود حافظ و ناصر ہو‘‘ اور میری (عبد اللہ ) تجارت کی برکت کیلئے بھی دعا کی۔
ہماری والدہ اسمائؓ نے آکر ہماری یتیمی کا ذکر کیا تو آپؐنے انہیں تسلی دلاتے ہوئے فرمایا ان بچوں کے فقروفاقہ کا خوف مت کرنا میں نہ صرف اس دنیا میں ان کا ذمہ دار ہوں بلکہ اگلے جہاں میں بھی ان کا دوست اور ولی ہوں گا۔‘‘ (14)
نبی کریم ﷺنے جو اپنے پاکیزہ اخلاق و عادات سے حضرت جعفرؓکی مشابہت کا ذکر فرمایا ہے اس کی ایک عمدہ مثال حضرت جعفرؓکی ہمدردی بنی نوع انسان اور خدمت خلق میں نظر آتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ غریب الوطنی اور مسافرت کے آرام و مصائب نے ان کے خلق میں او ر بھی چمک پیدا کردی تھی۔ حضرت جعفرؓ مساکین و غرباء سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔ وہ نہ صرف ان کی ضروریات بلکہ ان کے جذبات کا بھی خیال رکھتے ۔ان کی مجالس میں تشریف فرما ہو کر ان کے مسائل سنتے۔ الغرض ان کا یہ خلق ایسا نمایاں تھا کہ نبی کریم ؐ نے ان کی کنیت بیٹوں کی بجائے غرباء کی نسبت سے ’’ابوالمساکین‘‘ رکھ دی یعنی مساکین کا باپ۔ (15)
حضرت ابوہریرہؓ فتح خیبر کے زمانہ میں یمن سے ہجرت کر کے مدینہ آئے۔وہ بھی ان غرباء و مساکین اصحاب صفہ میں شامل تھے جو دین کی تعلیم تربیت کی غرض سے مسجد نبویؐسے گویاچمٹے رہتے تھے۔ حضرت جعفرؓ کو ان مسکینوں کا کتنا خیال ہوتا تھا اس کا انداز ہ حضرت ابوہریرہؓ کی بپتا سے بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں ’’ان دنوں میں بھوکا پیاسا در رسولﷺ سے چمٹا رہتا تھا اور بھوک اور فاقہ کی شدت سے نڈھال ہو تا۔بسا اوقات خالی پیٹ ہونے کے باعث کنکریوں کے اوپر اوندھے منہ لیٹ کر اس تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرتا تھا گاہے کسی صحابی رسولؐ سے کسی خاص آیت کے بارہ میں استفسار کرتا (جو غرباء کو کھانا وغیرہ کھلانے کے مضمون پر مشتمل ہوتی) حالانکہ وہ آیت مجھے یاد ہوتی تھی۔ مگر میری غرض احسن رنگ میں توجہ دلانا ہوتی تھی کہ شاید اس طرح وہ مجھے کھانا کھلا دیں۔ میں نے اس زمانہ میں دیکھا کہ مسکینوں کے حق میں سب لوگوں سے بہتر اگر کوئی شخص تھا تو وہ حضرت جعفرؓ تھے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے۔ گھر میں جو موجود ہوتا ہمیں کھلاتے تھے۔بعض اوقات تو وہ چمڑے کا مشکیزہ نما برتن جس میں شہد یا گھی ہوتا تھا اٹھا کر لے آتے اور ہم بھوک کے مارے اسے چیر پھاڑ کر اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی چاٹ لیتے تھے۔‘‘ (16)
غالباً یہی وجہ تھی کہ ابو ھریرہؓ بر ملا اپنی اس رائے کا اظہار کیا کرتے تھے کہ’’ رسول کریمؐ کے بعد حضرت جعفر طیارؓسے بہتر اور افضل انسان ہم نے کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ (17)
شاعر درباد نبویؐحضرت حسانؓ بن ثابت نے حضرت جعفرؓ کی شہادت کے موقع پر کیاخوب مرثیہ کہا:۔
وَکُنَّا نَرْیٰ فِیْ جَعْفَرٍ مِنْ مُحَمَّدٍ
وَفَائً وَاَمرًا صَارَ مَاحَیْثُ یُؤمَرٗ
فَلاَ زَالَ فِی الْاِسلاَمِ مِنْ آلِ ہَاشِمٍ
دَعَائِمُ عِزٍّ لَا یَزُولُ و مُفْخَرٗ
یعنی ہم حضرت جعفر طیارؓ کے نمونے میں وفا کا عظیم الشان نمونہ دیکھتے ہیں کہ جہاں جو فرمان ملا انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور آل ہاشم تو ہمیشہ ہی عزت کے ستون بن کر قابل فخر اسلامی خدمات بجا لاتے رہے ہیں۔(18)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگ اسلاف کی اعلیٰ صفات و اقدار زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
حوالہ جات
1۔
الاکمال مع مشکوۃ:صفحہ:1589
2۔
ترمذی ابواب المناقب
3۔
مسند احمد جلد5صفحہ 204
4۔
ابن سعدجلد4صفحہ123،استیعاب جلد ص313
5۔
مسند احمد جلد1صفحہ148
6۔
مسند احمد جلد5صفحہ229
7۔
بخاری کتاب المغازی
8۔
مسند احمد جلد5صفحہ229،استیعاب جلد1ص 314
9۔
ابودائود کتاب الجہاد،استیعاب جلد1ص 314،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 155
10۔
بخاری کتاب المغازی
11۔
مسند احمد جلد6 صفحہ372 ،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 156
12۔
بخاری کتاب المغازی
13۔
بخاری کتاب المغازی
14۔
مسند احمدجلد1ص204
15۔
اصابہ جز2 ص218
16۔
بخاری کتاب المناقب باب جعفرؓ
17۔
ترمذی ابواب المناقب
18۔
الا صابہ جز2ص 249
حضرت مصعب بن عمیرؓ
حلیہ و خاندان
درمیانہ قد، حسین نقش، گورا رنگ، روشن چہرہ، دراز زلفیں، چہرہ سے ملاحت اور ملائمت عیاں۔ یہ نوجوان رعنا خاندان قریش کے خوبرو چشم و چراغ مصعب بن عمیرؓ ہیں۔ نسب تیسری پشت میں نبی کریمﷺسے جاملتا ہے۔ والدہ حناس بنت مالک مکہ کی مالدار خاتون تھیں۔ انہوں نے مصعبؓ کی پرورش بہت نازونعمت سے کی۔ آپ بہترین پوشاک اور اعلیٰ لباس پہنتے۔ مکہ کی اعلیٰ درجہ کی خوشبو استعمال کرتے اور حضرم کے علاقہ کا بنا ہوا مشہور جوتا منگواکر پہنتے تھے۔(1)
آنحضرتﷺ مصعبؓ بن عمیرکو دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مصعبؓ سے زیادہ حسین و جمیل اور نازونعمت اور آسائش میں پروردہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔(2)
اسلام میں سبقت لے جانے کے لحاظ سے آپ کا شمار صاحب فضلیت صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ مدینہ میں پہلی بار اسلام کا پیغام پہنچانے اور وہاں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ انصار مدینہ کو منظم کرنے کی تاریخی سعادت آپ کے حصہ میں آئی۔ حبشہ و مدینہ دو ہجرتوں کی توفیق پائی۔ بدر و احد میں اسلام کے علم بردار ہونے کا اعزاز پایا۔(3)
قبول اسلام اور آزمائش
آغاز اسلام میں جب آنحضرتﷺدارارقم میں تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے عین عالم جوانی میں بعمر27سال اسلام قبول کیا۔ مگر ابتدائً اپنی والدہ اور قوم کی مخالفت کے اندیشہ سے اسے مخفی رکھا۔(4) چھپ چھپا کر نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ایک دفعہ عثمان بن طلحہ(کلید بردار کعبہ) نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کے گھر والوں کوخبر کردی۔ والدین نے ان کو قید کردیا۔ بڑی مشکل سے بھاگ کر قید سے چھٹکارا حاصل کیا اور ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد جب بعض مہاجرین حبشہ سے مکے میں بہتر حالات کی افواہیں سن کر واپس آئے تو ان میں مصعب بن عمیرؓ بھی تھے۔ اگرچہ غریب الوطنی، سفر کی صعوبتوں اور مصائب و آلام نے نازو نعم کے پروردہ اس حسین و جمیل شہزادے کی رعنائیاں چھین لی تھیں۔پھر بھی صبر و استقامت کے پیکر مصعبؓ اسلام پر پختگی سے قائم تھے۔ ماں نے لخت جگر کی حالت زار دیکھی تو مامتا تڑپ اٹھی۔ اس نے آئندہ سے مخالفت ترک کردی اور بیٹے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔(5)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ مصعب بن عمیرؓ کو میں نے آسائش کے زمانہ میں بھی دیکھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی، راہ مولیٰ میں آپ نے اتنے سارے دکھ جھیلے کہ میں نے دیکھا آپ کے جسم سے جلد اس طرح اترنے لگی تھی جیسے سانپ کی کینچلی اترتی اور نئی جلد آتی ہے۔(6)
ایک دن ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ؐ نے دیکھا مصعبؓ بن عمیراس حال زار میں آپ کی مجلس میں آئے کہ پیوند شدہ کپڑوں میں ٹاکیاں بھی چمڑے کی لگی ہیں۔ صحابہؓ نے دیکھا تو سر جھکا لئے کہ وہ بھی مصعبؓ کی کوئی مدد کرنے سے معذور تھے۔ مصعبؓ نے آکر سلام کیا۔ آنحضرتؐنے دلی محبت سے وعلیکم السلام کہا اور اس امیر کبیر نوجوان کی آسائش کا زمانہ یاد کرکے آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پھر مصعبؓ کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا’’الحمدللہ دنیاداروں کو ان کی دنیا نصیب ہو۔ میں نے مصعبؓ کو اس زمانے میں بھی دیکھا ہے جب شہر مکہ میں ان سے بڑھ کر صاحب ثروت و نعمت کوئی نہ تھا۔یہ ماں باپ کی عزیز ترین اولاد تھی اسے کھانے پینے کی ہر اعلیٰ نعمت وافر میسر تھی۔ مگر خدا اور اس کے رسول ؐ کی محبت و نصرت نے اسے آج اس حال تک پہنچایا ہے اور اس نے وہ سب کچھ خدا اور اس کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا۔ پھر خدا نے اس کے چہرہ کو نور عطا کیا ہے۔‘‘(7)
پھر حضور ؐ نے صحابہؓ سے فرمایا’’ تمہارا کیا حال ہوگا جب صبح و شام تمہیں نئی پوشاک عطا ہوگی اور تمہارے سامنے ایک کے بعد کھانے کا دوسرا طشت رکھا جائیگا اور گھروں میں پردے لٹکے ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا حضورؐ وہ کیا ہی خوش وقت ہوگا۔ ہم عبادت کے لئے تو فارغ ہوں گے۔ حضورؐ نے فرمایا’’ نہیں تم آج جس حال پر ہو وہ زیادہ بہتر ہے اور زیادہ اجر و ثواب کا موجب ہے۔‘‘ (8)
مدینہ میں کامیاب دعوت الی اللہ
11نبوی کے موسم حج میں رسول خداﷺ کا تعارف دعوت الی اللہ کے دوران مدینہ کے قبائل اوس و خزرج سے ہوا اور عقبہ مقام پر ان میں سے بارہ افراد نے آپ کی بیعت بھی کی جو بیعت اولیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ جب یہ لوگ مدینہ واپس جانے لگے تو ان کی تعلیم و تربیت اور مدینہ میں دعوت اسلام کی مہم جاری کرنے کے لئے نبی کریمﷺنے مصعب بن عمیرؓ کو ساتھ بھجوایا۔(9)
ابن سعد کے مطابق اہل مدینہ کے نو مسلموں کے مطالبہ پر دینی تعلیم کے لئے حضرت مصعبؓ کو بعد میں بھجوایا گیا۔ بہرحال حضرت مصعبؓ وہاں پہنچ کر مدینہ کے سردارا سعد بن زرارہؓ کے گھر قیام کیا۔ مدینہ جاتے ہی تعلیم القرآن کا سلسلہ شروع کیا اور مقری یعنی استاد کے نام سے مشہور ہوئے۔آپ نمازوں میں امامت کے فرائض بھی انجام دینے لگے۔(10)
مدینہ میں باقاعدہ نماز جمعہ جاری کرنے کی تاریخی سعادت بھی حضرت مصعبؓ کے حصے میں آئی۔ آپ نے نبی کریمؐ کی خدمت میں لکھا کہ اگر حضورﷺ اجازت عطا فرمائیں تو مدینہ میں نماز جمعہ شروع کردی جائے۔ حضورﷺنے اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس روز یہودی اپنے سبت کا اعلان کرتے ہیں۔اس روز سورج کے ڈھلنے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرکے خطبہ جمعہ دیا کرو۔حضرت مصعب بن عمیرؓنے مدینہ میں نماز جمعہ کا آغاز کردیا۔
حضرت سعد بن خیثمہؓ کے گھر جو پہلا جمعہ پڑھا گیا۔ اس میں مدینہ کے بارہ افراد شامل ہوئے۔ اسلام کے اس پہلے جمعہ کے موقعہ پر مسلمانوں نے خوشی میں ایک بکری ذبح کی۔ اور یوں جمعہ میں شامل اپنے بھائیوں کی ضیافت کا بھی اہتمام کیا۔(11)
حضرت مصعبؓ نے اسلام کے پہلے مبلغ کے طور پر بھی تبلیغ کا حق خوب ادا کیا۔ آپ نے دعوت الی اللہ کے جذبہ سے سرشار ہو کر کمال محنت، اخلاص اور حکمت و محبت کے ساتھ مدینہ کے اجنبی لوگوں سے رابطہ اور اثرورسوخ پیدا کرکے انہیں اسلام سے روشناس کرایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ کے ہر گھر میں اسلام کا بیج بودیا۔ ایک کامیاب داعی الی اللہ کے طور پر ان کا کردار یقینا آج بھی ہمارے لئے عمدہ نمونہ ہے۔ آپ نے بالکل اجنبی شہر مدینہ میں تبلیغ کا آغاز اس طرح کیا کہ اپنے میزبان حضرت اسعد بن زرارہؓ کو ساتھ لے کر انصار کے مختلف محلوں میں جانے لگے۔ وہاں وہ مسلمانوں اور ان کے عزیزوں کے ساتھ مجلس کرتے انہیں تعلیم دین دیتے اور وہاں آنے والوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ مگر جب لوگوں میں اسلام کا چرچا ہونے لگا تو ایک محلہ کے سردار سعد بن معاذؓ اور اسید بن حضیرؓ نے ان دونوں داعیان الی اللہ کو اس نئے دین سے باز رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد اسید بن حضیرؓ مصعبؓ کی مجلس میں نیزہ تھامے داخل ہوئے۔ اسعد بن زرارہؓ نے یہ دیکھتے ہی مصعبؓ سے سرگوشی کی کہ یہ اپنی قوم کا سردار آتا ہے اسے آج خوب تبلیغ کرنا۔ مصعبؓ بولے کہ اگر یہ چند لمحے بیٹھ کر بات سننے پر آمادہ ہوجائے تو میں ضرور اس سے بات کروں گا۔ ادھراسیدؓ بن حضیرسخت کلامی کرتے ہوئے آگے بڑھے اور کہا کہ جان کی امان چاہتے ہو تو آئندہ سے ہمارے کمزوروں کو آکر بے وقوف بنانے کا یہ طریقہ واردات ختم کرو۔
حضرت مصعبؓ نے نہایت محبت سے کہا کیا آپ ذرا بیٹھ کر ہماری بات سنیں گے؟ اگر تو آپ کو بات بھلی لگے تو مان لیجئے اور بری لگے تو بے شک اس سے گریز کریں۔ اُسیدمنصف مزاج آدمی تھے،بولے بات تو تمہاری درست ہے۔ اور پھر نیزہ وہیں گاڑ کر بیٹھ گئے۔حضرت مصعبؓ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اوران تک پیغام حق پہنچایا۔ قران کی سچی تعلیم سن کر اُسید بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ کیسا خوبصورت کلام ہے! اچھا یہ بتائو اس دین میں داخل ہونے کے لئے کیا کرنا پڑتا ہے؟ اسعدؓ اور مصعبؓ نے انہیں بتایا کہ نہادھو کر اورصاف لباس پہن کر حق کی گواہی دو پھر نماز پڑھو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اُسید خود ہی کہنے لگے کہ میرا ایک اور بھی ساتھی ہے۔ یعنی سعد بن معاذ، اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اس کی ساری قوم سے ایک شخص بھی قبول اسلام سے پیچھے نہیں رہے گا۔ اور میں ابھی اسے تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔ اور انہوں نے سعد کو نہایت حکمت کے ساتھ مصعبؓ کے پاس بھیجا۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے ان کو بھی نہایت محبت اور شیریںگفتگو سے رام کر لیا۔ انہیں قرآن سناکر اسلام کا پیغام پہنچایا۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ بلاشبہ یہ دن مدینہ میں اسلام کی فتح کے بنیاد رکھنے والا دن تھا۔ جس روز ایسے عظیم الشان بااثر سرداروں نے اسلام قبول کیا جنہوں نے اپنی قوم کو یہ کہہ دیا میرا کلام کرنا تم سے حرام ہے جب تک مسلمان نہ ہوجائو۔ اس طرح عبدالاشہل کا سارا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔(12) اور یوں مدینہ کے گھرانوں میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔
حضرت مصعبؓ نے ایک سال تک مدینہ میں اشاعت اسلام کے لئے خوب سرگرمی سے کام کیا اور دعوت الی اللہ کے شیریں پھل آپ کو عطا ہوئے چنانچہ اگلے سال سن ۱۲نبوی میں حج کے موقع پر آپ مدینہ سے ۷۵انصار کا وفد لے کر مکہ روانہ ہوئے۔حضرت اسعدؓ بن زرارہ بھی ساتھ تھے۔اس وفد کی رسول اللہﷺسے ملاقات کا انتظام بھی عقبہ مقام پر کیا گیا۔جہاں اس وفد نے آپؐ کی بیعت کی جو بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔
محبت رسولﷺاور استقامت
اس سفر میں حضرت مصعب ؓکی محبت رسولؐکا ایک عجب نمونہ دیکھنے میں آیا۔ آپؓ مکہ پہنچتے ہی اپنی والدہ کے گھر(جو مخالفت چھوڑ چکی تھیں)جانے کی بجائے سیدھے نبی کریمﷺکے پاس پہنچے۔حضورﷺکی خدمت میں وہاں کے حالات عرض کئے اور مدینہ میں سرعت کے ساتھ اسلام پھیلنے کی تفصیلی مساعی کی رپورٹ دی۔حضورؐان کی خوشکن مساعی کی تفاصیل سن کر بہت خوش ہوئے۔
ادھر مصعبؓ کی والدہ کو پتہ چلا کہ مصعبؓ مکہ آئے ہیںاور پہلے انہیں آکر ملنے کے بجائے رسول اللہﷺکے پاس چلے گئے ہیں تو انہوں نے بیٹے کو پیغام بھیجا کہ او بے وفا!تو میرے شہر میں آکر پہلے مجھے نہیں ملا۔عاشق رسولﷺحضرت مصعبؓ کا جواب بھی کیسا خوبصورت تھا کہ اے میری ماں!میں مکہ میں نبی کریمﷺسے پہلے کسی کو ملنا گوارا نہیں کر سکتا۔(13)
حضورﷺسے ملاقات کے بعد والدہ کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے پھرمصعبؓکو صابی مذہب کا طعنہ دے کر راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کی۔ حضرت مصعب ؓنے سمجھایاکہ میں خدا اوررسول کے دین پر ہوں جسے خدا نے اپنے اور اپنے رسول کیلئے پسند کیا ہے ۔والدہ نے محبت وپیار کے واسطے دیکر کہا کہ’’ تمھیں کیا معلوم کہ میں نے تمہاری جدائی میں کتنے دکھ اٹھائے۔ جب تم حبشہ گئے تو ایک دفعہ اس وقت میں نے تمہاری خاطر بین کئے اور دوسری مرتبہ تمہارے یثرب جانے پر ماتم کیا مگر تم ذراا حسان شناسی سے کام نہیں لیتے۔‘‘مصعبؓ نے کہا کہ ’’ماں!میں اپنے دین کو تو کسی حالت میں نہیں چھوڑ سکتا۔جتنا مرضی مجھے آزما لو۔‘‘والدہ نے قیدوبند کی دھمکی دی تو اب کے مصعبؓ نے بھی ذرا سختی سے جواب دیا کہ ’’وہ کسی دھمکی میں نہیں آئیں گے‘‘ مجبور ہو کر والدہ رونے لگیں اور کہا جائو بچے تمہاری مرضی!مصعبؓ کا دل بھی پسیج گیا انہوں نے بہت پیار سے سمجھایا کہ’’ اے میری ماں!میں آپ کا سچا ہمدرد ہوں اور مجھے آپ سے بے حد محبت ہے۔میری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ آپ اسلام قبول کر لیں میری یہ آرزو پوری کر دیں اور خدا کے ایک ہونے اور محمد رسول اللہﷺ کو اس کا رسول ہونے کی گواہی دے دیں۔‘‘
مصعبؓ کی ماں نے کہا’’ ستاروں کی قسم میں تمہارے دین میں ہر گز داخل نہ ہونگی۔ کیا آبائو اجداد کا دین چھوڑدوں؟اور سب لوگ مجھے پاگل کہیں؟پس جائو تمہیں تمہارے حال پر چھوڑا اور میں اپنے دین پر قائم ہوں۔‘‘(14)آہ!مصعبؓ کے لئے کتنی کڑی تھی یہ آزمائش مگر انہوں نے بھی خوب استقامت دکھائی آخر چند ماہ حضورﷺ کی صحبت میں گزارنے کے بعد حضرت مصعبؓ12ربیع الاول کو مدینہ واپس لوٹے۔مدینہ پہنچ کر آپ پھر اپنی دینی اور تبلیغی سرگرمیو ں میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔آپ ہی ہیں جنہوں نے مدینہ کو دارالہجرت کے طور پر رسولؐ خدا کے لئے تیار کیا۔ یہاں تک کہ اگلے سال نبی کریمؐ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے۔ تو مصعبؓکی دلی تمنائیں پوری ہوئیں۔
بہادری اور شجاعت
دشمنان اسلام نے مدینہ میں بھی مسلمانوں کوچین کا سانس نہ لینے دیا اور جلد ہی بدر کا معرکہ پیش آیا۔اس موقع پر نبی کریمﷺنے حضرت مصعب بن عمیرؓکو یہ شاندار اور اعلی اعزاز بخشاکہ مہاجرین کا بڑا جھنڈا انہیں کو عطا فرمایا۔(15)
غزوہ احد میں بھی نہ صرف صاحب لوائ(علمبردار اسلام)ہونیکی سعادت ان کے حصے میں آئی بلکہ نہایت دلیری اور بہادری سے جان کی بازی لگا کر انہوں نے اسلامی جھنڈے اورنبی کریمﷺ کی حفاظت کی شاندار مثال قائم کر دکھائی جو تاریخ اسلام میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جاتی رہے گی۔ جب احد میں کفار مکہ کے دوبارہ غیر متوقع حملہ کے دوران مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑاتو اسلامی علمبردار مصعب بن عمیرؓدشمن کے تا بڑتوڑحملوں کے مقابل پر میدان جنگ میں اسلامی علم تھامے ہوئے ڈٹ گئے۔ابن اسحاق کے بیان کے مطابق وہ، رسول اللہﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے آپؐ کے آگے پیچھے لڑ رہے تھے کہ عبداللہؓ بن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ابن قمیہ کے حملہ سے آنحضورﷺبھی گر گئے تو وہ سمجھا کہ آنحضرتﷺکو شہید کر دیا گیاہے اور اس کا اعلان کر کے اس نے یہ خبر میدان احد میں مشہور کر دی۔(16)
علم اسلام کی حفاظت
ابن سعد نے مصعبؓکی شہادت کی مزید تفصیل اس طرح دی ہے کہ عبداللہ بن قمیہ نے جو گھوڑے پر سوار تھا حملہ آور ہو کر آپ کے بازو پر (جس سے آپ نے جھنڈا تھام رکھاتھا)ایساوار کیا کہ اسے کاٹ کر رکھ دیا۔مصعبؓ نے بازو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جھنڈا بائیں ہاتھ سے تھام لیا۔ابن قمیئہ نے بائیں ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا تو اس شیر خدا نے دونوں ٹنڈے بازوئوں سے اسلامی پرچم کو اپنے سینے سے لگا لیا۔اور اسے سر نگوں نہیں ہونے دیااور بآوازِبلند اس آیت کی تلاوت کرنے لگے
وَمَا مُحَمَّدٌاِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ اْنْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنقَلِبْ عَلٰی عَقَبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا ط
(آل عمران145)
(ترجمہ)محمدؐ ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو گئے ہیں۔ اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جائو گے اور جو تم میں سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔
آنحضرت ﷺکی شہادت کی خبرمشہور ہو جانے کے بعد جب مسلمان سراسیمگی کے عالم میں تھے اور مارے غم کے انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا ۔ بعض گھبرا کر اور بد دل ہو کر پیچھے بھی ہٹے۔ اس وقت مصعب ؓکا یہ آیت پڑھتے ہوئے جان قربان کر دینا آپ کی کمال بہادری اور شجاعت ظاہر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اپنے آخری سانسوں میں بھی انس بن نضرؓجیسے صحابہ کی طرح مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ اگر نبی کریم ؐ شہید بھی ہو گئے ہیںتو محض گھبرانے یا پیچھے ہٹنے سے کیا حاصل؟آگے بڑھو اور اسی راہ میں اپنی جانیں نچھاور کر دو جس راہ میں ہمارا آقا اپنی جان قربان کر گیا۔خود مصعبؓ نے اپنی جان کی قربانی پیش کر کے اس پیغام کو عملاًبھی سچا کر دکھایا۔
مصعبؓ کے دونوں ہاتھ قلم دیکھ کر اورانہیں مقابلہ سے عاجز پا کر عبداللہ بن قمیہ گھوڑے سے اتر آیا۔ تیسری مرتبہ اپنے نیزہ کے ساتھ آپؓ پر پوری قوت سے حملہ آور ہوا۔نیزہ آپؓ کے بدن کے پار ہو کر ٹوٹ گیا ساتھ ہی مصعبؓ بھی گر پڑے اسلامی جھنڈا گرنے کو تھا کہ لپک کر آپ کے بھائی ابوالروم بن عمیرؓ اور سویبط بن سعدؓ نے پکڑ لیا اور یوں حضرت مصعبؓنے میدان احد میں آخری دم تک اسلامی جھنڈا کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے دی۔(17)
ابن اسحاق میں یہ روایت بھی ہے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓکی شہادت پر نبی کریم ﷺ نے جھنڈا حضرت علیؓکو دیا۔بوقت شہادت حضرت مصعبؓکی عمر چالیسسال تھی۔(18)
وفاء عہد
اسلامی جھنڈے کا حق ادا کرنیوالا اور اپنے مسلمان ساتھیوں کو استقامت اور ثبات قدم کی آخری وصیت کر نیوالا یہ مجاہد اپنی شہادت کے وقت بھی پشت کے بل نہیں بلکہ چہرہ کے بل گرا۔اور رسول ؐاللہ جب ان کی نعش کے پاس پہنچے تو وہ چہرہ کے بل پڑے تھے۔گویا دم واپسیں بھی اپنے مولیٰ کی رضاء پر راضی اور سجدہ ریز۔حضوؐر نے ان کی نعش کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی:۔
(الاحزاب24)
ان مومنوں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نیت کو پورا کر دیا(یعنی لڑتے لڑتے مارے گئے)اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہے ہیں اور اپنے ارادہ میں کوئی تزلزل انہوں نے نہیںآنے دیا۔
اس کے بعدنبی کریمﷺنے اپنے اس عاشق صادق کو مخاطب کر کے فرمایا’’اے مصعبؓ!خدا کا رسول تم پر گواہ ہے (کہ واقعی تم اس آیت کے مصداق اور ان مردان وفا میں سے ہو جنہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے)اور روز قیامت تم دوسروں پر گواہ بنائے جائو گے‘‘۔پھر آپؐ نے اپنے علمبردار حضرت مصعبؓ کو اس آخری ملاقات میں ایک اور اعزاز بھی بخشا۔ صحابہؓکو مخاطب کر کے فرمایاکہ:۔
’’اے میرے صحابہؓ ! مصعبؓکی نعش کے پاس آکر اس کی زیارت کر لو اور اس پر سلام بھیجو۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا یہ اس کے سلام کا جواب دیں گے‘‘۔(19)
اے مصعب بن عمیرؓ!تجھ پر سلام اے مبلغ اسلام اور اسلامی جھنڈے کے وفا شعار محافظ تجھ پر ہزاروں سلام۔
شہید احد،ماںباپ کے نازو نعم کے پالے مصعبؓ کا اس عالم بے ثبات سے رخصتی کا منظر بھی دیدنی تھا۔ مکہ میں بہترین لباس زیب تن کرنیوالے مصعبؓ کو آخری دم پورا کفن بھی میسر نہیں آیا۔
فتوحات کے بعد جب مسلمانوں کو مالی کشائش اور فراخی عطا ہوئی صحابہؓ رسولؐ مصعبؓکی قربانیوں اور اپنی اس بے چارگی کا عالم یاد کر کے اکثر رو پڑتے تھے کہ ہم اپنے بھائی مصعبؓکو پورا کفن بھی مہیا نہ کر سکے تھے۔چنانچہ حضرت خبابؓ کہا کرتے تھے کہ ہم نے نبی کریمؐ کے ساتھ محض رضائے الہٰی کی خاطر ہجرت کی اور ہمارا اجر اللہ کے ذمہ ہو گیا۔مگر ہم میں سے بعض فوت ہو گئے اور انہوں نے اس اجر سے دنیا میں کوئی حصہ نہیں پایا ۔ان میں ایک مصعب بن عمیرؓ بھی تھے جو احد کے دن شہید ہوئے اور ہمیں ان کے کفن کے لئے سوائے ایک چادر کے کچھ میسر نہ آیا۔اورچادر بھی اتنی مختصر کہ اس سے مصعبؓ کا سر ڈھانکتے تو پائوں نظر آنے لگتے اور پائوں ڈھانکتے تو چہرہ ننگا رہتا۔چنانچہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ سر ڈھانک دو اور پائوں پر اذخر گھاس ڈال کر انہیں دفن کیا۔(20)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓکے سامنے ایک دفعہ جب روزہ کی افطاری کے وقت اعلیٰ قسم کا کھانا پیش کیا گیا۔(شاید انہیں مسلمانوں کی کم مائیگی کا وہی وقت یاد آگیا)۔تو کہنے لگے مصعب بن عمیرؓشہید ہوئے وہ مجھ سے بدرجہا بہتر تھے۔مگرانکے کفن کیلئے صرف ایک چادر میسر آئی۔مگر ہمارے لئے دنیا اتنی فراخ کر دی گئی کہ ڈر لگتا ہے کہیں ہماری نیکیوں کے بدلے اسی دنیا میں ہی نہ دے دیئے جائیں۔پھر آپؓ رونے لگ پڑے اور کھانا نہیں کھایا۔(21)
جب میں ان پوشاکوں اور خلعتوں کا سوچتا ہوں جو اس شہید احد کو رب العزت کے دربار میں عطا ہوئی ہونگی تو بے اختیار دل سے پھر یہ صدابلند ہوتی ہے کہ آفرین صد آفرین۔ اے اسلام کے عظیم الشان بطل جلیل مصعبؓ بن عمیر تجھ پر آفرین! کہ تو نے خصوصاًنوجوانوں کے لئے اپنے خوبصورت نمونے سے، ماں باپ کی قربانی، مال و دولت کی قربانی، سادگی، وفا ایثار اور کامیاب دعوت الی اللہ کے شاندار سبق رقم کرکے دکھا دیئے۔
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
حوالہ جات
1-
اسد الغابہ جلد4 صفحہ368
2-
ابن سعد جلد3صفحہ116
3-
اسد الغابہ جلد4 صفحہ368
4-
الاصابہ جز6صفحہ101
5-
ابن سعد جلد3صفحہ116
6-
اسدالغابہ جلد4صفحہ370
7-
ابن سعد جلد3صفحہ117و منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد5ص 267
8-
اصابہ جلد3صفحہ315
9-
ا بن ہشام جلد2 صفحہ186-187 مع الروض الانف
10-
ابن سعد جلد 3 صفحہ118،ابن ہشام جلد1صفحہ185،اسد الغابہ جلد4 صفحہ370
11-
ابن سعدجلد3صفحہ118
12-
ابن ہشام جلد3صفحہ153
13-
ابن سعد جلد3صفحہ120
14-
ابن سعد جلد3صفحہ120
15-
ابن سعد جلد3صفحہ120
16-
ابن ہشام جلد3صفحہ 153
17-
ابن سعد جلد3صفحہ120
18-
ابن ہشام مع الروض الانف جلد3 صفحہ153،اکمال فی اسماء الرجال ذکر مصعب بن عمیرؓ
19-
اسد الغابہ جلد4 صفحہ370
20-
بخاری کتاب الجنائزو کتاب المغازی
21-
بخاری کتاب الجنائز
حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد ؓ
نام ونسب
آپ کا تعلق قبیلہ بنی مخزوم سے تھااصل نام عبد اللہ بن عبدالاسداورکنیت ابو سلمہ تھی۔ والدہ برّہ بنت عبد المطلب آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں ۔اس لحاظ سے حضرت ابو سلمہؓ آنحضرت ﷺکے پھوپھی زاد تھے ۔آنحضرت ﷺ ، حضرت حمزہ ؓ اور ابوسلمہؓ نے ابو لہب کی لونڈی ثویبہ کا دودھ پیا تھا اسلئے ابو سلمہؓ حضورﷺکے رضاعی بھائی بھی تھے اورقریباًہم عمرتھے ۔
آپ کی بیوی ھند بنت ابی امیہ قبیلہ بنی مخزوم میں سے تھیں اور ام سلمہؓ کے نام سے معروف تھیں جو احد میں حضرت ابو سلمہ ؓ کی شہادت کے بعد آنحضرتﷺکے عقد میں آئیں اور اُم المومنین کا مرتبہ پایا ۔ (1)
قبول اسلام اور صبرواستقامت
حضرت ابو سلمہ ؓ نے بہت ابتدائی زمانے میں گیارہویں نمبر پراسلام قبول کیا تھا۔ اس وقت آنحضرتﷺ ابھی دارا رقم میں نہیں گئے تھے اور وہاں تبلیغ کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ قبول اسلام کے بعد مکہ میں جس طرح دیگر تما م صحابہ کو دکھوں اور اذیتوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا کچھ یہی حال حضرت ابو سلمہ ؓ کا ہوا۔آپ نے اپنے ماموں حضرت ابو طالب ؓ کی پناہ لی۔ قبیلہ بنی مخزوم کے لوگ حضرت ابو طالب ؓ کے پاس آئے کہ آپ نے ان کو کیوں پناہ دی ؟جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو ابو لہب نے (باوجودیکہ ساری عمر اسلام کی مخالفت میں ہی گذاری) پہلی دفعہ کسی مسلمان کی طرف داری کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابو طالب ان کو پناہ دیتا ہے تو اسے کچھ نہ کہو ورنہ میں بھی اس کا ساتھ دوں گا ۔(2)چنانچہ ابو سلمہ ؓابو طالب کی پناہ میں ایک عرصے تک رہے۔ اس کے بعد جب ہجرت حبشہ کا موقعہ آیا تو ابو سلمہ ؓابتدائی مہاجرین میں شامل تھے۔ اپنی بیوی حضرت ام سلمہؓ کو ساتھ لے کر انہوں نے حبشہ ہجرت فرمائی۔ وہاں سے واپسی ہوئی تو آنحضرتﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے ہی ابوسلمہؓ نے مدینہ ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔آپ اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھے(3) ان کی ہجرت کا واقعہ نہایت دردناک ہے ۔
داستان ہجرت
حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ’’ مکہ میں جب اذیتوں کا سامنا کرنا پڑاتوابو سلمہ ؓ نے اور میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا ۔اپنی سواری کا اونٹ تیار کیا ،ابو سلمہ ؓ نے مجھے اور میرے بیٹے سلمہ کو جو میری گود میں تھا سوار کروایا اور یوں یہ چھوٹا سا قافلہ ہجرت کیلئے روانہ ہوا ۔جب بنو مغیرہ کے قبیلے نے دیکھا کہ یہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ جاتے ہیں تو وہ اور بنو مخزوم کے لوگ کہنے لگے کہ اے ابو سلمہ ؓ اپنی جان کے تو تم خود مالک ہو لیکن ہمارے قبیلے کی عورت ام سلمہؓ کو تم کیوں کر اپنے ساتھ لے کر جاتے ہو کہ یہ دنیا کاسفر کرکے خاک چھانتی پھرے اور ذلیل و رسوا ہو ہم تواپنی اس بیٹی کو تمہارے ساتھ جانے نہ دیں گے ۔ خودجاتے ہو توجائو۔‘‘ اس طرح ام سلمہؓ کے گھر والوں نے انہیں ابو سلمہؓ سے الگ کرلیا اورابو سلمہ ؓ مدینہ روانہ ہوگئے ۔
ام سلمہؓ کہتی ہیں’’ان کے پیچھے میرا برا حال ہوا ابو سلمہ ؓ کے قبیلہ کے لوگ آگئے ۔ انہوںنے کہا کہ سلمہ ہمارا بیٹا اور ہمارا خون ہے۔یہ ہمارے حوالے کردو۔ الغرض اس خاندان کے بکھرنے کی عجیب صورت پیدا ہوئی۔ ابو سلمہ ؓپہلے ہی مدینہ جا چکے تھے ،ام سلمہؓ کووالدین اپنے ہاں لے گئے اور ان کے معصوم کم سن بچے سلمہ کو ددھیال والے چھین کر لے گئے ۔حضرت ابراہیمؑ،حضرت ہاجرہؑ اور اسماعیلؑ کی قربانی کی یاد ایک دفعہ پھرتازہ ہوگئی۔حضرت ام سلمہؓ کا بیان ہے کہ’’ عجیب پریشانی کی کیفیت میرے لئے پید اہوئی۔ میرے بیٹے اور خاوند کے درمیان ایسی جدائی پڑی کہ میں تنہاسخت بے چین ہوکر ہر صبح باہر میدان میں نکل جایا کرتی اور وہاں بے اختیار رویاکرتی تھی۔ ایک سال تک میر ا یہ حال رہا جسے دیکھ کر لوگوں کو بھی ترس اور رحم آنے لگا یہاں تک کہ ایک سال کے بعد میرے ایک چچا زاد بھائی نے میرے قبیلے کے لوگوں سے کہا خدا کے بندو ! تم کیوں اس عاجز مسکین عورت کو آزاد نہیں کرتے ،تب انہیں کچھ رحم آیا انہوں نے کہا اگر تم چاہتی ہو تو اپنے خاوند کے پاس مدینہ چلی جائو ۔ اسی دوران ددھیال کو بھی کچھ احساس ہوا اور انہوں نے میرا بیٹا بھی میرے حوالے کردیا اور میں مدینے جانے کیلئے تیار ہوگئی مگر میںتنہا تھی میرے ساتھ مدینہ جانے والا کوئی بھی نہ تھا ،تنہا عورت معصوم بچے کے ساتھ تین سو میل کا سفر کرکے مدینہ کیسے جاتی ؟لیکن اللہ نے ایک عجب عزم حوصلہ اورہمت حضرت ام سلمہؓ کو عطا کیا وہ فرماتی ہیں کہ میں ہجرت کا عز م کرکے سواری پر بیٹھی اور مکے سے کوئی دومیل کے فاصلے پر تنعیم پہنچی ہونگی ،کہ عثمانؓ بن ابی طلحہ کلید بردار کعبہ سے سامنا ہوا جو نہایت شریف النفس انسا ن تھے۔ کہنے لگے کہ بنت ابو امیہ کہاںکا قصد ہے؟ میں نے کہا اپنے شوہر کے پاس مدینے جاتی ہوں اس نے کہا کہ تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے میں نے کہا ’’تنہا ہوں یا میرا یہ کم سن بچہ ہے‘‘ وہ کہنے لگے خد اکی قسم ! تمہاری جیسی عورت کو تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا ۔تین چار دن بیابان کا سفر ہے ۔پھر انہوںنے میرے اونٹ کی مہار تھام لی اور میرے ساتھ مدینہ روانہ ہوگئے۔ خد اکی قسم میں نے عربوں میں کوئی شریف النفس عثمان بن ابی طلحہؓ جیسا نہیں پایا ۔وہ میرے اونٹ کی مہار پکڑ کر روانہ ہوئے جب پہلے پڑائو پر پہنچے جہاں رات قیام کرنا تھا تو انہوں نے اونٹ بٹھایااورپھر خودایک طرف ہٹ کر کھڑے ہوئے میں نے ایک درخت کے نیچے آرام کیا اور وہ ذرا فاصلے پر دوسرے درخت کے نیچے آرام کرنے کیلئے چلے گئے۔
پھرصبح ہوئی تو وہ آئے ،اونٹ کوتیار کیا۔ میں سوارہوگئی انہوں نے اونٹ کی مہار تھامی اور پھراس قافلے کو لے کر روانہ ہوئے۔ اس طرح تین دن رات میں انہوں نے مجھے بنی عمرو بن عوف کی بستی قباء میں پہنچایا۔ جب دور سے آبادی کے آثار نظر آئے تو کہنے لگے تمہاراشوہر اسی بستی میں رہتا ہے ۔یہ کہہ کر وہیں سے واپس مکہ روانہ ہوگئے۔ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی تھیں کہ اس وقت عثمان بن ابی طلحہؓ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے مگرمیں نے ان سے زیادہ معزز شریف النفس انسان نہیں دیکھا(4)
حضرت ام سلمہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ خدا کی قسم! جتنی تکلیفیں اور اذیتیں اسلام قبول کرنے کے بعد ابو سلمہ ؓ کے خاندان نے اٹھائی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں میں نے ایسا کوئی اور خاندان نہیں دیکھا کہ جس نے ایک سال تک ایسی اذیتیں اور دکھ برداشت کئے ہوں کہ میاں بیوی اور بچے کو آپس میں جدا کرکے ایک سخت اذیت میں مبتلا رکھا گیا ہو ۔
حضرت ابو سلمہ ؓ نے مدینہ آنے کے بعد قبامیں حضرت مبشرؓ بن منذر کے پاس قیام کیا۔ آنحضرتﷺ نے ابو سلمہ ؓ کی مواخات حضرت سعد بن خیثمہؓ کے ساتھ فرمائی تھی ۔اور ابو سلمہؓ کوان کا اسلامی بھائی بنایا تھا بعد میںنبی کریم ﷺنے ان کو ایک مکان بھی مدینہ میں عطا فرمایا ۔
غزوات میں شرکت اور قربانی
رسول کریمﷺنے 2ہجری میں غزوہ عشیرہ کے موقع پرحضرت ابو سلمہ ؓ کومدینہ کا امیر مقرر فرمایا تھا ۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے تھے کہ ابو سلمہ ؓ کے حق میں قرآن کی یہ آیت ہے(الحاقہ :20) گویا ابو سلمہؓ ان لوگوںمیں سے ہیں جن کو اس آیت کے مطابق دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیاجائے گا اور کہاجائے گا یہ تمہارا نیکیوں کا اعمال نامہ ہے اس کو پڑھو!اور ان کا بھائی سفیان بن عبد الاسدجو اسلام کی دشمنی میںپیش پیش تھا اس کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیاجائے گا (5)
حضرت ابو سلمہ ؓ بڑی بہادری کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے ،احد میں بہادری سے لڑے اور زخمی ہوگئے بازو میں شدید قسم کا زخم آیا جس کا علاج مہینہ بھر جاری رہا بظاہر زخم مندمل ہوتا ہوا نظر آیا لیکن ہجرت کے قریباًپندرہ ماہ بعد آپ کو بنی اسد کی طرف ایک اور مہم پرقطن مقام کی طرف جانا پڑا۔(6)اس سفر سے چند دن کے بعد جب واپس لوٹے تو زخم دوبارہ ہرا ہوچکا تھا اس کے چند ماہ بعد ہی آپ کی وفات ہوگئی ۔آنحضر ت ﷺ کو ان سے بہت دلی محبت اور پیارتھاان کی بیمار ی میں ان کی عیادت کیلئے حضور ﷺ ان کے پاس تشریف لے جاتے رہے بلکہ ان کے آخری وقت بھی آنحضرت ﷺعیادت کیلئے ان کے ہاں تشریف لے کر گئے ہوئے تھے۔
شفقت رسولؐ اور تلقین صبر
روایات میں ذکر ہے کہ ابوسلمہؓ کے گھر موجود خواتین اور حضور ؐ کے مابین پردہ حائل تھا ،بعض عورتوں کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’اے عورتو! کیوں روتی ہو اور کیوں نامناسب کلمے اپنی زبان سے نکالتی ہو ،یاد رکھوایسے وقت میں فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں اور تم لوگ جو کچھ اپنی زبان سے کہتے ہو اس پر وہ آمین کہتے ہیں اس لئے بے صبری کی کوئی بات یا کلمہ زبان سے نکالنا مناسب نہیں۔‘‘
آنحضرت ﷺابو سلمہ ؓ کے آخری لمحات میں اپنی محبت اور پیار کااس طرح اظہارکیا کہ جب ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر رہی تھی اور آنکھیں پھٹی پھٹی نظر آرہی تھیں۔ آپ ؐ نے آگے بڑھ کر خوداپنے دست مبارک سے اپنے اس رضاعی بھائی اور ساتھی کی آنکھیں بند کیںاور دعا کی کہ اے اللہ ابو سلمہؓ کو بخش دے اور اس کا درجہ ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر اور بعد میں اس کے اچھے جانشین پیدا فرما اور اے رب العالمین اسے اور ہم سب کو بخش دے۔حضرت ابو سلمہ ؓکی تدفین مدینہ میں ہوئی۔ان کی وفات کا سانحہ احد کے بعد 4ہجری میں بیان کیا جاتا ہے۔ آپ کی اولاد میں سلمہ کے علاوہ عمر ،زینب اور درہ تھیں زینب آپ کی وہ بیٹی ہے جو حبشہ کی ہجرت کے زما نہ میں پیدا ہوئی ۔(7)
حضرت ام سلمہ ؓ بیان کیا کرتی تھیں کہ ایک دفعہ ابو سلمہؓ آنحضورﷺ کی مجلس سے لوٹے تو بہت خوش تھے کہنے لگے میں نے آنحضرت ﷺ سے ایک حدیث سنی ہے کہ کسی بھی شخص کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ !اس مصیبت کا اجر اور بہترین بدلہ مجھے عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اس کا بہترین بدلہ اسے عطا کرتا ہے ۔اور حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ یہ دعا میںنے حضرت ابو سلمہ ؓ سے سنی ہوئی تھی۔ جب حضرت ابو سلمہؓ فوت ہوگئے تو مجھے ان کی یہ بات یاد آئی ۔دوسری طرف آنحضرت ؐ نے بھی تشریف لاکر مجھے تحریک کی کہ اس موقع پر یہ دعا کرو کہ’’ اے اللہ ! اس مصیبت میں مجھے صبر کی توفیق دے اور اس کا بہتر بدلہ مجھے عطا کر ۔‘‘مگر ابو سلمہ ؓ مجھ سے ایسا حسن سلوک کرنے والے تھے کہ یہ دعاکرتے ہوئے میںنے دل میں سوچا کہ کیا ابو سلمہ ؓ سے بہتر بھی کوئی شخص ہوسکتا ہے ؟لیکن آنحضرت ﷺکے ارشاد کی تعمیل میں میں نے یہ دعا کی اور پھر واقعۃً اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے ان سے کہیں بہتر وجودیعنی آنحضرت ﷺمجھے عطا فرمادئے۔ جب آنحضرتﷺ کی طرف سے ام سلمہؓ کو نکاح کاپیغامگیا تو انہوں نے کچھ تردّد کے ساتھ بعض عذر پیش کئے کہ میں ایک غیور اور عمر رسیدہ عورت ہوں مجھے سوکن کو برداشت کرنا مشکل ہوگا۔دوسرے میری اولاد زیر کفالت ہے حضورﷺ نے فرمایاکہ عمر آپ کی زیادہ ہے تو میری بھی زیادہ ہے ۔اور غیور ہونے کی جہاں تک بات ہے تو اللہ تعالیٰ وہ ناواجب غیرت دعاسے دور کردے گا ۔باقی رہی آپ کی اولاد تو وہ ہماری بھی اولاد ہوگی آنحضورﷺ نے جب انہیں ہر پہلو سے تسلی کرا دی تو بالآخر حضور ﷺکے ساتھ ان کی شادی ہوگئی ۔(8)
اور ان کے چاروں بچے رسول کریمﷺکے ربیب بن کر آپ کے زیر سایہ پرورش پانے لگے۔(9)
حوالہ جات
1-
اسد الغابہ جلد3ص195
2-
ابن ہشام جلد 2صفحہ 121
3-
ابن سعد جلد 3صفحہ 24
4-
ابن ہشام جلد 3صفحہ 112
5-
اسد الغابہ جلد 3صفحہ 196،اصابہ جز4ص95،استیعاب جلد3ص71
6-
ابن سعد جلد 3صفحہ 240
-7
اسد الغابہ جلد 3ص 196-197
-8
مسند احمد وابن ماجہ
-9
استیعاب جلد3ص71،اسد الغابہ جلد3ص196-197
حضرت شماس بن عثمان قریشیؓ
نام ونسب
حضرت شماسؓ کا اصل نام تواپنے والد کے نام پر عثمان تھا ۔مگر سرخ و سفید رنگ میں اتنے حسین اور خوبصورت تھے کہ چہرہ سورج کی طرح دمکتا تھا ۔یہاں تک کہ ان کا لقب ہی شمس اور پھر شماس پڑ گیا یعنی سورج کی طرح روشن چہر ہ والے۔آپ قبیلہ بنی مخزوم میں سے تھے۔ والدہ صفیہ بنت ربیعہ بنو عبد شمس میں سے تھیں۔ اہلیہ اُم حبیب ابتدائی ہجرت کرنے والی مسلمان خواتین میں سے تھیں ۔ انہوں نے ابتدائی زمانے میں ہی قبول اسلام کی سعادت حاصل کی ہے ۔(1)اہل مکہ کی مخالفت کاسامنا کرنے کے بعد بالآخر حبشہ ہجرت کرنا پڑی۔حبشہ ہجرت کرنے والے دوسرے گروہ میںحضرت شماسؓ بھی شامل تھے۔(2)بعد میں انہوں نے مدینہ ہجرت کی بھی توفیق پائی۔یہاں آکر محلہ بنی عمرو بن عوف میں ٹھہرے اور حضرت مبشر ؓبن عبدالمنذرکے پاس قیام کیا ۔ غزوہ بدرکا موقع آیا تو اس میں شامل ہوئے ،پھرغزوہ اُحد میں شرکت کی اور جام شہادت نوش کیا۔آخر وقت تک بنی عمرو بن عوف میں ہی قیام رہا۔آنحضرت ﷺ نے حنظلہؓ بن ابی عامر کے ساتھ ان کی مواخات قائم کرکے اسلامی اخوت کے رشتے میں منسلک فرمایا تھا۔
حفاظت رسول ؐ میں جان کی قربانی
حضرت شماسؓ بدر اور احد میں نہایت دلیری اور بہادری کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ مگران کی غیر معمولی خدمت جو ان کے روشن چہرے کی طرح انکے سیرت اورکردار کو چار چاند لگا گئی اور ہمیشہ کے لئے تاریخ میںان کا نام زندہ کر نے والی بن گئی وہ ان کا احد کے میدان میں آنحضرتﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے قربان ہو جانا ہے۔میدان احد میں آنحضرت ﷺ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑنے والوں میں جہاںمشہور تیر اندازحضرت ابو طلحہؓ انصاری تھے اورحضرت طلحہؓ بن عبید اﷲ ہاشمی بھی تھے جنہوں نے اپنا ہاتھ بطورڈھال آنحضرت ﷺکے چہرے کے سامنے کررکھا تھااور ہر آنے والا تیر اپنے ہاتھ پر لیتے تھے ۔وہاں حضرت شماس ؓ بھی ہیں جو آنحضرت ﷺ کے آگے اس طرح سینہ سپر ہوگئے کہخود حضور ؐ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔آپؐنے فرمایا کہ’’ شماسؓ کو اگر میں کسی چیز سے تشبیہ دوںتو اسے ڈھال سے تشبیہ دے سکتا ہوں کہ وہ احد کے میدان میں میرے لیے ایک ڈھال ہی توبن گیا تھا اور میرے آگے پیچھے دائیں اور بائیں ہوکر حفاظت کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتا رہا ۔‘‘ آنحضرتﷺ جدھر نظر ڈالتے شماس ؓ آپ کو نہایت بہادری اور دلیری سے لڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔ آپ ؐ نے دیکھا کہ جو حملہ آور بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا شماس ؓ اپنی تلوار کے ساتھ مقابلہ کرکے ان کو پیچھے ہٹاتا ہے۔
ظاہر ہے دشمن کا ہدف رسول کریمﷺ کی ذات تھی۔ جب وہ آنحضور ﷺپرحملہ میں کامیاب ہوئے اور زخمی ہونے کے بعدرسول کریم ﷺپر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی ،تب بھی شماسؓ آگے ڈھال بن کر کھڑے رہے یہاں تک کہ خود شدید زخمی ہو گئے ۔اس حا لت میں ان کو مدینے لا یا گیا اور حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں تیمارداری کے لئے رکھا گیا۔حضرت اُم سلمہ ؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ میرے چچا کے بیٹے ہیں میرے گھر میں ان کی تیمارداری ہونی چاہیے۔چنانچہ وہیں ان کی تیمارداری ہوئی۔اس شدید زخمی حالت میں ایک دن اورایک رات اس طرح گذارا کہ وہ کچھ کھا پی نہ سکتے تھے ۔اسی حال میں ان کی وفات ہوگئی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شماسؓ کوبھی اس کے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے، جس طرح دوسرے شہداء کو بھی انکے لباس میں دفن کیا گیا۔ نیز فرمایا کہ شہداء کی طرح ان کی کوئی الگ نماز جنازہ بھی نہیں ہو گی۔اور تدفین بھی میدان اُحد میں کی جائے جہاں دیگر شہداء اُحد کی تدفین ہوئی ۔گویا حضورﷺ نے انکو ہرپہلوسے شہداء اُحد کے زمرے میں شامل فرمایا ۔ اس خوش بخت حسین و جمیل جوان ر عناکی عمر صرف چونتیسبرس تھی جب وہ اپنے آقا و مولا حضرت محمد رسول اﷲﷺپر فدا ہو گیا ۔(3)
اس جوان موت سے حضرت شماس ؓکے اہل و عیال اور بہن بھایئوں کو صدمہ ہونا طبعی امر تھا ۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس پر مرثیہ کہا جس میں ان کی بہن کو تعزیت کرتے ہوئے وہ یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ’’ اے شماس ؓ کی بہن!صبر کرو ،دیکھو شماسؓ بھی تو ایک انسان تھا ۔وہ بھی حضرت حمزہ ؓکی طرح آنحضرت ﷺپرفدا ہوگیا ہے ۔پس یہ ایک صبر کا معاملہ ہے تم بھی اس پر صبر کرو ۔‘‘یہ تھے حضرت شماس ؓ کہ بظاہر جن کا نام روایات میںبہت معروف نہیں ہے مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے آگے اور پیچھے، حفاظت کرنے والوں میںانکو بطور ڈھال قرار دے کر انہیں وفا کی سند عطا فرما دی اور اُحد کے میدان میں شہادت پاکر اللہ تعالیٰ کے حضورانہوںنے شہادت کا بلند مرتبہ پایا۔ـ
یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
حوالہ جات
-1
اسد الغابہ جلد 3صفحہ3
ابن سعد جلد3صفحہ 245
-2
ابن سعد جلد نمبر 3 صفحہ 246
حضرت ابوبکر صدیق ؓ
حلیہ و نام و نسب
قد لمبا، رنگ گورا ، چہرہ دبلا، خفیف جسم، آنکھیں دھنسی ہوئی اور پیشانی ابھری ہوئی۔ آپ کا نام عبداللہ تھا ۔ بعض روایات میں زمانہ جاہلیت میں نام عبدالکعبہ بھی آیا ہے۔ والد کا نام عثمان بن عامر اورکنیت ابو قحافہ تھی۔ شجرہ نسب آٹھویں پشت میں آنحضرتؐ سے جا ملتا ہے۔ والدہ کا نام سلمہ بنت صخر بن عامر تھا۔کنیت ام الخیر مشہور تھی۔حضرت ابوبکرؓ نبی کریمؐ کے دو سال بعد پیدا ہوئے۔ لقب عتیق تھا جس کے معنی آزاد کے ہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ آگ سے آزاد ہونابیان کی جاتی ہے۔ (1) اسی طرح صدیق بھی آپ کا لقب ہے جو آنحضرت ؐ کی بلا تردّد تصدیق کرنے پر عطا ہوا۔
ابتدائی حالات
حضرت ابوبکرؓ قبیلہ تیم بن مرہ بن کعب سے تعلق رکھتے تھے۔ عرب کے مختلف قبائل میں مختلف کام تقسیم تھے۔ اس قبیلہ کا کام خون بہا اور دیتیں جمع کرنا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ اپنے قبیلہ میں یہ اہم کام سرانجام دیتے ۔ خون بہا کی رقوم جمع کرنے کے علاوہ فیصلے وغیرہ کرنے کی ذمہ داری بھی ان کی تھی۔
عرب کے رواج کے مطابق آپ نے بھی تجارت کا پیشہ اختیار کیا۔کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک اور ایماندار تاجر تھے۔ جاہلیت کے زمانہ میں بھی جبکہ شراب عربوں میں پانی کی طرح استعمال ہوتی تھی، کبھی شراب نہ پی۔ علم انساب کے بڑے ماہر تھے۔ (2)
رسول ؐاللہ سے تعلق اور قبول اسلام
آنحضرتؐ حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے محلہ میں سکونت پذیر ہوئے۔ اس دوران ان سے دوستانہ ہوا۔ تقریباً ایک ہی قسم کی پاکیزہ عادات نیک خیالات اور پاک و صاف دل رکھنے کے باعث یہ دوستی گہری ہوتی گئی اس زمانہ میں حضرت ابوبکرؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ مکہ میں چاند اترا ہے اور اس کی سب گھروں میں روشنی پھیل گئی ہے۔ پھر وہ حضرت ابوبکرؓ کی آغوش میں اکٹھا ہوگیا۔ انہوںنے یہ خواب بعض اہل کتاب کو سنائی توتعبیریہ بتائی گئی کہ نبی موعود کو ماننے کی سعادت نصیب ہوگی۔(3)جب آنحضرتؐ نے دعویٰ نبوت فرمایا۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ ان دنوں باہر سفر پر تھے۔ واپس مکہ پہنچے تو آنحضرت ؐ کے دعوی نبوت کی خبر ہوئی۔ فوراً حضور ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعویٰ کے بارے میں استفسار کیا۔آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں ۔تم مجھ پر ایمان لائو۔ حضرت ابوبکرؓ نے فوراً بیعت کرلی اور یوں رسولؐ اللہ کو ان کے اسلام پر بے حد خوشی ہوئی۔(4) مولانا رومؒ کیا خوب فرماتے ہیں:۔
لیک آں صدیق حق معجز نخواست
گفت ایں روخود نہ گوید غیر راست
یعنی حضرت ابوبکرؓ نے کوئی معجزہ آپ کی صداقت پر طلب نہ کیا اور چہرہ دیکھ کر ہی بیعت کر لی کہ یہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ’’ میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اسے کچھ نہ کچھ تردّد ضرور ہوا۔سوائے ابوبکرؓ کے کہ جب میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے ذرہ برابر بھی تردّد نہیں کیا۔‘‘(5)
علامہ ابن عبدالبّر لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ مردوں میں سے سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں اور ان کی چار پشتوں کو صحابی رسولؐ ہونے کا شرف حاصل ہے۔(6)
حضرت ابن عباسؓ سے شعبی نے پوچھا کہ سب سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا؟ انہوں نے کہا آپ نے حسانؓ بن ثابت کے یہ شعر نہیںسنے۔
اِذَا تَذَکَّرتَ شَجوًا مِن اَخِی ثِقَۃٍ فَاذکُر اَخَاکَ اَبَا بَکرٍ بِمَا فَعَلَ
خَیرَ الَبرِیَّۃِ اَتقَاھَا وَاَعدَلَھَا بَعدَ النَّبِیِّ وَاَوفَاھَا بِمَا حَمَلَ
اَلثَّانِیُ التَّالِیُ المَحمُودُ مَشھَدُہٗ وَاَوَّلُ النَّاسِ مِنھُم صَدَّقَ الُّرسَلَ
وَثَانِیَ اثنَینِ فِی غَارِ الُمِنیفِ وَقَد طَافَ العَدُوُّ بِہٖ اِذ صَعِدَا الجَبَلَ
یعنی ’’ جب تمہارے دل میں کوئی درد آمیز یاد تمہارے کسی بھائی کے متعلق پیدا ہو تو اپنے بھائی ابو بکرؓ کو بھی یاد کر لیا کرو اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں ۔ وہ آنحضرؐت کے بعد سب لوگوں سے زیادہ متقی اور منصف مزاج تھا اور سب سے زیادہ اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے والا تھا جو اس نے اٹھائی تھیں ۔ وہی ابو بکرؓ جو غار ثور میں آنحضوؐر کے ساتھ دوسرا شخص تھا جس نے اپنے وجود کو آپ کی اتباع میں بالکل محو کر رکھا تھا اورجس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا اسے خوبصورت بنا دیتا تھا۔ اور وہ ان لوگوں میں سے پہلا تھا جو رسولؐ اللہ پر ایمان لائے تھے۔ ہاں وہ ابو بکر ؓجسے قرآن میں دو میں سے دوسرا کہہ کر یاد کیا گیا ہے ۔اس وقت جب وہ پہاڑی پر چڑھے تھے اور دشمن نے اس غار کا گھیرائو کر لیا تھا ۔‘‘(7)
تبلیغ اسلام
اسلام لانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ ہمہ تن اسلام کی تبلیغ اور دوسرے دینی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ ان کی تبلیغی کاوشوں اور دعائوں کے نتیجہ میںقریش مکہ کے مایہ ناز فرزند اسلام کی آغوش میں آگئے۔ جن میں حضرت عثمان ؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ سب اصحاب عشرہ مبشرہ میں شمار ہوئے۔ رسول کریمؐ نے ان کی زندگی میں ہی انہیںجنت کی بشارت دی۔
مسلمان ہونے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے جب مسلمان غلاموں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا تو انہیں خرید کر آزاد کرادیا۔ ان آزاد ہونے والے غلاموں میں حضرت بلالؓ، عامر بن فہیرہ، نذیریہ، نہدیہ اور جاریہ بن نوفل معروف ہیں۔ ان کے علاوہ بھی حضرت ابوبکرؓ نے بیسیوں غلاموں کو خرید کر آزاد کروایا اور اپنا مال بے دریغ خدا کی راہ میں خرچ کیا۔(8)
راہ خدا میں تکالیف
رسول کریمﷺنے فرمایا کہ ’’جب لوگوں نے انکار کیا ابو بکر ؓ نے میری تصدیق کی اور اپنے مال اور جان سے میری مدد کی۔‘‘حضرت ابو بکرؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد بہت تکالیف اٹھائیں۔ بعض دفعہ قریش مکہ نے اتنا مارا کہ سر کے بال گر گئے کیونکہ وہ آپ کے سر اور داڑھی کے بالوں کوپکڑ کر کھینچتے تھے۔حضرت ابو بکرؓ کے ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے۔ ابھی مسلمان چالیس افراد سے بھی کم تھے کہ انہوں نے آنحضرؐت سے بڑے اصرار کے ساتھ خانہ کعبہ میں اعلانیہ عبادت کرنے کی درخواست کی اورآپؐکو خانہ کعبہ لے گئے اور عبادت کے بعد خطبہ دیا۔کفار نے انہیں پائو ں اور جوتوں سے اتنامارا کہ چہرہ کا حلیہ بگڑ گیا۔پہچانے نہیں جاتے تھے ۔ یہاں تک کہ آپ کو کپڑے میں اٹھا کر گھر پہنچایا گیا۔اندیشہ تھا کہ جانبر نہ ہوسکیں گے۔ بے ہوشی میں کسی بات کا کوئی جواب نہ دیتے تھے۔شام کو جب ہوش آئی تو پہلا سوال یہ تھا’’ میرے آقاؐ کا کیا حال ہے؟ رسول اللہ ﷺکو تو کوئی تکلیف نہیں پہنچی؟‘‘(9)
بیعت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے پائے ثبات میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی وہ ہمیشہ دین کی اشاعت اور آنحضرت ﷺکی حفاظت کے لئے آپؐ کے آگے پیچھے اوردائیں بائیںکمر بستہ رہے اور آنحضور ﷺکی خاطر کبھی اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی۔
ایک دفعہ ایک کافر نے ایک کپڑا آنحضرتﷺ کے گلے میں ڈال کر بل دینے شروع کئے یہاں تک کہ آپ کا دم گھٹنے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے۔ آنحضوؐر کو ان ظالموں سے چھڑایا اور کہا ’’کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟‘‘ان ظالموں نے حضرت ابوبکرؓ کو پکڑ لیا اور مارمار کر بے حال کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓ کی زبان پر یہ الفاظ تھے ۔ پاک ہے اللہ جو جلال اورعزت والا ہے۔(10)
نوفل بن خویلد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحہؓ کوایک رسی سے باندھ دیا کرتا تھا تاکہ وہ نماز وغیرہ دینی کاموںسے رک جائیں ۔ مگر یہ مصائب ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکے۔ (11)
جب مکہ میں تکالیف انتہا تک پہنچ گئیں تو حضرت ابوبکرؓ کو دربارِ نبویﷺسے ہجرت حبشہ کی اجازت مرحمت فرمائی گئی۔ ابھی مکہ سے باہر نکلے ہی تھے کہ ایک کافر سردارابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کے پوچھنے پر سارا قصہ سنایا۔ اس نے کہاکہ آپ تو دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ ایسا مرنجاں مرنج انسان ہم مکہ سے نہیں جانے دیںگے۔ پھروہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امان دے کر واپس لایا۔ حضرت ابوبکرؓ صبح کے وقت قرآن شریف کی تلاوت بڑے دردوسوز اور خوش الحانی سے کرتے تو بچے بوڑھے سب جمع ہوجاتے۔ اہل مکہ نے اس پُرتاثیر کلام کا اثر دیکھا تو ابن الدغنہ کے ذریعہ آپ کو بلند آواز میں قرآن پڑھنے سے روکنا چاہا۔ انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ ـ’’ابن الدغنہ تم اپنی امان واپس لے لو۔ میرے لئے خدا کی پناہ اور حفاظت کافی ہے ۔(12)
ہجرت مدینہ اور مدینہ کے حالات:
حضرت ابوبکرؓ ہجرت حبشہ نہ کر سکے توکچھ عرصہ بعد آنحضرتﷺسے مدینہ ہجرت کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’ابوبکر! انتظار کرو، شاید اللہ تمہارا کوئی اور ساتھی پیدا کردے۔‘‘
چند دنوں کے بعدکفار مکہ نے دارالندوہ میں آنحضرتﷺکے قتل کا منصوبہ بنایا ۔ ادھر آنحضورﷺ کو بذریعہ وحی الٰہی ہجرت کی اجازت مل گئی۔ آپؐ فوراً حضرت ابو بکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ پہلے ہی تیار تھے۔ فوراًعرض کیا’’ الصحبۃ یا رسولؐ اللہ‘‘ کہ اے اللہ کے رسولﷺ!اپنے اس غلام کو ہمراہی کاشرف بخشیں۔ حضرت اسمائؓ کہتی ہیں کہ ہمارے اباحضرت ابوبکرؓ نے راہ خدا میں خرچ کرنے کے بعد ہجرت کے لئے جوکچھ بچا کر رکھا ہواتھاوہ بطورزادراہ ساتھ لے گئے۔یہ رقم پانچ ہزار درہم کے قریب تھی۔ ہجرت مدینہ کے مبارک سفر میں حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جس وفاداری اور جانثاری کا نمونہ دکھایا وہ عشق و وفا کی الگ داستان ہے۔انہوں نے اپنی دو اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی آنحضرتؐ کی خدمت میں بلامعاوضہ پیش کردی۔ رسولؐ اللہ نے قیمت ادا کرنے کی شرط پر قبول فرمائی۔ پھر غارثور میں جان خطرہ میں ڈال کر رسول ؐخدا کی معیت کی توفیق پائی جس کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا: ثَانِیَ اثنَینِ اِذھُمَافِی الغَارِ۔۔۔الخ(سورۃ التوبہ:40)’’یعنی وہ دو میں سے دوسرا جب کہ وہ غار میںتھے ۔جب وہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو۔اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور اس کی مدد سے ایسے لشکروں سے کی جو تم نہیں دیکھتے تھے۔‘‘حضرت ابوبکرؓ خود بیان کرتے تھے کہ جب تعاقب کرنے والے قریش کے سردار غار کے منہ پر پہنچ گئے تو میں نے عرض کیا کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے ہوکر نظر ڈالے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’اے ابوبکرؓ تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جس کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔‘‘(13)
سفر ہجرت میں جب قریش مکہ رسول اللہ ﷺکے قتل کے درپے اور تعاقب میں تھے ۔ حضرت ابوبکرؓ آپؐ کی حفاظت کی خاطر سراقہ کے تعاقب سے پریشان ہوکر رونے لگے فرمایا ’’کیوں روتے ہو؟‘‘ عرض کیا ’’خدا کی قسم اپنی جان کے خوف سے نہیں روتا آپؐ کی خاطر روتا ہوں کہ تعاقب والے پہنچ گئے ہیں ۔‘‘تب رسول کریم ﷺ نے دعا کی اور سراقہ کے گھوڑے کے پائوں زمین میں دھنس گئے۔ جب کئی بار ایسا ہوا تو خود سراقہ نے اپنے لئے دعا کی درخواست کی اورحضوؐر کی دعا سے نجات پاکر اورانعام و اکرام کے عہدوپیمان لے کر واپس لوٹا۔ اس طور پر آپؐ یثرب پہنچے۔(14)
ہجرت مدینہ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد جب رسول ؐ نے انصار و مہاجرین میں مؤاخات قائم فرمائی۔ صدیق اکبرؓ کے بھائی حضرت خارجہ ؓبن زید انصاری ٹھہرے اورحضرت ابو بکرؓنے مدینہ کے مضافات میں سخ مقام پر ان کے ساتھ قیام فرمایا۔ خاندانی مراسم بڑھے تو حضرت خارجہؓ کی لڑکی حبیبہ سے حضرت ابو بکرؓ نے شادی کی جن کے بطن سے اُمّ کلثوم ہوئیں۔ آپ کا دوسرا کنبہ جس میں حضرت عائشہ ؓاور حضرت ام رومانؓ شامل تھیں، حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔حضرت ابو بکرؓ باقاعدہ مدینہ ان کی خبرگیری کو جایا کرتے۔ مدینہ میں حضرت ابوبکرؓ آنحضرت ﷺ کے دست راست اور مشیر خاص بن کرتمام مہمات دینیہ اور دینی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔
غزوات میںشرکت
حضرت ابوبکرؓنے تمام غزوات میں بدر سے فتح مکہ تک رسول اللہﷺ کے ہمرکاب رہ کر عظیم الشان خدمات انجام دینے کی توفیق پائی۔
ہجرت مدینہ کے بعد سفر وحضراور امن و جنگ کی ہر حالت میں حضرت ابوبکرؓ رسول اللہﷺ کے معاون و مددگار اور’’ سلطان نصیر‘‘ رہے ۔ رسول اللہﷺ کو حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد نکاح کی ضرورت پیش آئی۔حضرت ابوبکرؓ نے عمروں میں تفاوت کے باوجودنہ صرف اپنی لخت جگر حضرت عائشہؓ کا رشتہ بخوشی پیش کر دیا تھا بلکہ حضوؐر کی ضرورت کے پیش نظر جلد رخصتی کی خاطر آپؐ کیلئے حق مہر کا انتظام بھی خود کیا۔(15)
غزوہ بدر میں رسول کریمﷺ کیلئے بغرض حفاظت ایک جھونپڑی تیار کی گئی ۔حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں’’ ہم سوچ ہی رہے تھے کہ اس نازک جگہ پر مشرکین کے حملہ سے حفاظت کیلئے کون ڈیوٹی دے کہ معاًحضرت ابوبکرؓ تلوار سونتے وہاں کھڑے ہوگئے کہ جو حملہ آور اس طرف بڑھے گاوہ اس کا کام تمام کردیں گے۔ بلاشبہ ابوبکرؓ سب سے زیادہ بہادر انسان تھے۔‘‘ (16)
جنگ سے پہلے رسول کریمﷺ بے چین ہوکر دعائیںکررہے تھے ۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ ہی آپؐ کو تسلی دے رہے تھے کہ ’’یا رسول اللہﷺ! بس کریں آپؐ نے تو اپنے رب سے دعا کرنے میں حد کردی۔‘‘(17)
غزوہ احد میں رسول کریم ﷺحضرت ابوبکرؓ کی شجاعت او ر بہادری دیکھ کر فرماتے تھے ’’آپ اپنی تلوار روک رکھیں ہمیں آپ کی ذات کا نقصان قبول نہیں۔‘‘(18)
احد کے بعد رسول کریمﷺ نے دشمن کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ ان جانثاروں میں تھے جنہوں نے آپؐ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے غزوہ حمراء الاسد میں شرکت کی۔(19)
غزوہ بنو مصطلق میں مہاجرین کا جھنڈا حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ میں تھا۔(20)
اسی غزوہ سے واپسی پر حضرت عائشہ ؓ کے ہار کی گمشدگی اور قافلہ سے پیچھے رہ جانے کے باعث ’’افک‘‘کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ جس میں آپ کی صاحبزادی ام المومنین حضرت عائشہؓ پر منافقوں نے بہتان طرازی کی۔ اس ابتلاء میں حضرت ابوبکرؓ کی عجیب مومنانہ شان ظاہر ہوئی۔جب حضرت عائشہؓرسولؐ اللہ کے گھر سے اپنے والدین کے گھر آئیں تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ رسولؐ اللہ کی اجازت کے بغیر میں بیٹی کو بھی اپنے گھر میں نہیں رکھوںگا۔ پھر حضورؐ کی ہدایت پر انہیں گھر میں ٹھہرایا۔(21)
حضرت عائشہؓ کی براء ت نازل ہونے سے پہلے رسول کریمﷺ ان کے گھر آئے اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا’’ اگر تم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو توبہ کرو۔ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میںنے انتظار کیا کہ میرے والدین میری طرف سے کوئی جواب دیں۔ جب وہ خاموش رہے تو میں نے کہا کہ آپ لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا ’’ہم خداکے رسولﷺ کو کیا جواب دیں۔‘‘ تب حضرت عائشہؓ نے خود اپنا موقف خوب کھول کر بیان کیا اسی موقع پر حضوؐر پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۃ نور کی وہ آیات اتریں جن میں حضرت عائشہؓ کی براء ت کاذکرتھا۔ اس سارے عرصہ ابتلاء میں حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے کمال صبرو استقامت اور رسول اللہ ﷺکے لئے ایثا ر و فدائیت کا نمونہ ظاہر ہوا۔(22)
صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی حضرت ابوبکرؓرسول اللہ ﷺکے ہمرکاب تھے۔ کفار کا نمائندہ عروہ بن مسعو د مصالحت کیلئے آیا تو آپؐ سے کہنے لگا’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے گرد متفرق لوگ جمع ہیں جو مقابلہ کے وقت بھاگ جائیں گے۔ ‘‘حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر جوش و غیرت رسولؐ کے باعث خاموش نہ رہ سکے اوراسے سخت برا بھلا کہتے ہوئے جواب دیاکہ ’’ہمارے بارے میں یہ کہتے ہو کہ ہم بھاگ جائیں گے یا آپؐ کو چھوڑ دیں گے؟‘‘اس نے پوچھا یہ کون ہے؟ پتہ چلا ابوبکرؓ ہیں توکہنے لگا’’اگر ان کا مجھ پر احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ ابھی میں نے نہیں چکایا تو ضرور اس کا جواب دیتا۔‘‘ بہرحال حضرت ابوبکرؓ کی دینی غیرت اس موقع پر بھی خوب ظاہر ہوئی۔(23)
رسول اللہ ﷺکی ہجرت کے وفادار ساتھی حضرت ابوبکرؓ فتح مکہ کے موقع پربھی آپؐ کے دائیں جانب ہوتے ہوئے فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔ (24)
امارت و امامت ابوبکرؓ
9ہجری میں فتح مکہ کے اگلے سال وفود عرب کی مدینہ میں آمد اور دیگر اہم امور کے پیش نظر رسول خداﷺحج بیت اللہ کے لئے مکہ نہ جاسکے اور حضرت ابوبکرؓ کو امیر الحج مقرر فرماکر مسلمانوں کے کثیر التعداد گروہ کے ساتھ روانہ فرمایا۔ مسلمانان عالم کا یہ پہلا آزادانہ حج تھا جس کی قیادت حضرت ابوبکر صدیق ؓ رسول اللہﷺکی نیابت میں فرما رہے تھے۔(25)
حجۃ الوداع کے اگلے سال دس ہجری میں رسول اللہﷺ بیمار ہوئے اور مسجد میں نماز پڑھانے تشریف نہ لاسکے تو امامت نماز کی سعادت حضرت صدیق اکبرؓ کے حصہ میں آئی۔
حضرت عائشہؓبیان کرتی ہیں کہ حضورؐ نے جب حضرت ابوبکر ؓ کو امامت کا ارشاد فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ’’ یارسول اللہ ﷺوہ رقیق القلب ہیں۔ حضرت عمرؓ کو ارشاد فرمادیجئے‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ابوبکر ؓ کو کہو کہ نماز پڑھائیں‘‘پھر میں نے حضرت حفصہ ؓکی وساطت سے یہی بات رسول اللہؐ کو کہلوائی۔ آپؐ نے پھر وہی جواب دیا۔ حضرت حفصہؓ نے دوبارہ عرض کیا تو فرمایا ’’تم وہ عورتیں ہو جنہوں نے یوسفؑ کو پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ ابوبکر ؓ کو کہو کہ نماز پڑھائیں۔‘‘ (26)
ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کی غیرموجودگی میںحضرت بلالؓ نے حضرت عمر ؓکو نماز پڑھانے کے لئے کہہ دیا۔ جب حجرہ میں رسول اللہ ﷺکو حضرت عمرؓ کی آواز پہنچی تو فرمایا ’’ابوبکر ؓ کہاں ہیں۔ اللہ اور مسلمان یہ بات پسند کرتے ہیں کہ ابوبکرؓ نماز پڑھائیں۔‘‘ (27)
دراصل ان ارشادات میں حضرت ابوبکرؓ کی امامت اور خلافت کی طرف اشارہ تھا جو آئندہ آپؓ کو عطاء ہونے والی تھی۔
وفات رسولؐ اور قیام خلافت راشدہ
آنحضرت ﷺ کی وفات پر جب صحابہ مارے غم کے دیوانے ہو گئے اور ہزاروں بادیہ نشین مرتد ہو گئے اور ایک عجیب خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ حضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر صحابی بھی رسولؐ اللہ کی محبت میں از خود رفتہ ہو کر یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ رسولؐ اللہ فوت ہوگئے ہیں۔وہ تلوار کھینچ کر یہ اعلان کرنے لگے کہ جو کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے ہیں، میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ اس اچانک صدمہ کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس موقعہ پر حضرت ابو بکر ؓ کو خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا اور آپ استحکام خلافت کا باعث بنے۔ وہ روحانی قیادت جس کی صلاحیت آپ کے وجود میں مخفی تھی حالات کے تقاضا پرباذن الہٰی سامنے آئی اور آپ آنحضرتﷺاور اسلام کی حمایت میں آگے بڑھے۔ حضرت ابو بکرؓ مدینے کے مضافات سخ نامی بستی میں رہائش پذیر تھے آپ مدینے تشریف لائے آنحضرتؐ کی پیشانی پر بوسہ دیااور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا۔پھر مسجد تشریف لے گئے وہاں حضرت عمر ؓ اس وقت تلوار لے کرکھڑے ہوئے تھے۔ ان سے آپؓ نے فرمایا ’’اے قسمیں اٹھا کر تقریر کرنے والے ٹھہرواور بیٹھ جائو۔‘‘پھر صحابہ سے یوں مخاطب ہوئے۔ مَن کَانَ مِنکُم یَعبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَد مَاتَ وَمَن کَانَ مِنکُم یَعبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّہ‘ حَیّ لَایَمُوتُکہ جوتم میں سے محمدﷺ کی عبادت کرتاتھاوہ یاد رکھے کہ محمدﷺفوت ہوچکے ہیں۔اور تم میں سے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ یاد رکھے کہ خدازندہ ہے اس پر کبھی موت نہ آئے گی پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ۔ وَمَامُحَمَّد اِلَّا رَسُول قَد خَلَت مِن قَبلِہِ الرُّسُلُ (آل عمران:145)
کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور آپؐ سے پہلے سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ جب انہیںاس حقیقت کا ادراک ہوا۔ وہ کھڑے نہ رہ سکے اور غم کے مارے نڈھال ہو کر بیٹھ رہے۔پھر تو مدینہ کے ہر شخص کی زبان پر یہ آیت تھی اور وہ رسول اللہؐ سے پہلے تمام انبیاء کی وفات کی دلیل سے رسول اللہﷺکی وفات کا اعلان کرنے کا حوصلہ پارہا تھا۔(28)
الغرض وہ وقت بہت ہی نازک اورمشکل تھا۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ ہماری زندگیوں میں جتنے موا قع آئے، ان میں اس سے زیادہ خطرناک موقع میں نے نہیں دیکھا۔ ‘‘ پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ کاوہ وعدہ خلافت پورا ہونے والا تھا اور پہلے ایسا تجربہ موجود نہیں تھا کہ انتخاب کیسے ہو؟ اورکون خلیفہ مقررہو؟جبحضرت ابو بکر ؓ نے وفات رسولﷺ کا اعلان کیا ہے۔ صحابہ صدمہ سے ایسے چور ہوئے کہ مسجد نبوی میں ایک آہ و بکا اور گریہ تھی بس! لوگوں کو کچھ سمجھ نہ آتی تھی کہ کیا کریں اس دوران انصار مدینہ اپنے سردار سعد بن عبادۃ کے پاس ان کے ڈیرہ سقیفہ بنو ساعدہ میں اکٹھے ہوئے۔ ادھر مہاجرین میں سے بزرگ صحابہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس حضرت عمر ؓاورحضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح اور مہاجرین اکٹھے ہوئے اور سوچنے لگے کہ اسلام کے اوپر بڑا خطرناک وقت ہے کیا کیاجائے ۔ حضرت علی ؓ ، حضرت زبیر ؓ اور اہل بیت کے افراد آنحضورﷺکے گھر میں تجہیز و تکفین کے کاموں میں مصروف تھے۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا’’ اے ابو بکرؓ آئیے ہم انصار کے پاس چلیں۔ راستے میں ہمیں دو انصاربزرگ ملے انہوں نے یہ معلوم کرکے کہ ہم اپنے انصار بھائیوںکے پاس جا رہے ہیں۔ ہمیں فتنہ کے ڈر سے وہاں جانے سے منع کیا اوربتایا کہ وہ لوگ کسی اور طرف مائل ہو چکے ہیں تم اپنا کوئی الگ فیصلہ کرلو۔وہاں جاناخطرناک ہے ۔ میں نے کہاخدا کی قسم! ہم توضرور وہاں جائیں گے۔‘‘پھر جب سقیفہ بنو ساعدہ پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کمبل اوڑھ کر بیٹھا ہے۔ پتہ چلا کہ سردارخزرج سعد بن عبادہ کو بخار ہے۔ گویا اس بخار کی کیفیت میں امیربنانے کے لئے اسے وہاں لایا گیا تھا۔اس موقع پر انصار کا خطیب کھڑا ہوااس نے اپنی تقریر شروع کرتے ہوئے کہا
’’ ہم اللہ کے انصار اور اس کا لشکر ہیں‘‘پھر انصار کے مناقب بیان کرکے مہاجرین کو مخاطب کیا کہ’’آپ مہاجرین کی جماعت ہو۔ تمہار ی قوم کے چند بدو چاہتے ہیں کہ ہمارا استیصال کریں اور امارت و حکومت سے ہمیںمحروم کردیں۔‘‘ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں جب وہ خاموش ہوا تو میں نے اس کا جواب دینا چاہا اور میں نے اس موقع کیلئے ایک بہت خوبصورت نقشہ ذہن میں اپنی تقریر کا سجایا ہوا تھا لیکن حضرت ابو بکرؓ نے مجھے با ت کرنے سے روک دیا۔میں نے پسند نہ کیا کہ انہیں ناراض کروں کیونکہ مجھے حضرت ابو بکر ؓکا بہت لحاظ تھا۔ اوروہ مجھ سے کہیں زیادہ بردبار اور زیادہ با وقار تھے ۔
پھر انصار کا ایک اورخطیب کھڑا ہوا اور اس نے کہاکہ’’ اے مہاجرین کی جماعت!رسول کریمؐ کسی بھی مہم کیلئے تمہارے ایک آدمی کے ساتھ ہمارا بھی ایک آدمی چنتے تھے جس سے صاف ظاہر ہے کہ امارت و حکومت ہم دونوں کا حق ہے۔ ایک امیر ہم میں سے اور ایک تم میں سے ہونا چاہیے۔‘‘ اس پر حضرت زیدؓ بن ثابت انصاری نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ’’ رسولؐاللہ مہاجرین میں سے تھے اور ہمارا امام بھی مہاجرین میں سے ہوگا اور ہم اس کے انصار و مددگار ہونگے۔‘‘حضرت عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے میری سوچوں سے کہیں بڑھ کر ایسی شاندار فی البدیہہ تقریر کی کہ مجمع پر ایک سکوت طاری ہو گیا ۔ انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز انصار کے فضائل و مناقب سے کرتے ہوئے فرمایا کہ’’یہ سب ہمیں تسلیم! مگر امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ؐ کے ساتھ تعلق اور دینی و دنیوی وجاہت کے باعث قریش کا عرب میں ایک مقام ہے ۔اے انصار! اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی خدمات کی بہترین جزا دے اور تمہارے اس خطیب زید ؓبن ثابت کی رائے کو قائم فرماوے۔ اس کے علاوہ کسی رائے پر اکٹھے ہونا ممکن نہیں ۔‘‘اس وقت حضرت ابو بکر ؓ کے دائیں حضرت عمر ؓ اوربائیں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ تھے ۔ جن کے ہاتھ پکڑ کرانہوں نے کہا کہ ان دونوں میں سے جس کی چاہو بیعت کر لو میں اس کے لئے تیار ہوں ۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ’’ اس آخری فقرہ کے علاوہ جو مجھے ناگوار ہوا حضرت ابوبکرؓ کی باقی تقریر انتہائی اعلیٰ درجہ کی تھی۔ خدا کی قسم ! اگرمجھے اختیار ہوکہ میری گردن کاٹ دی جائے گی یا مجھے ایسے لوگوں کا امیر بنایا جائے گا جس میں حضرت ابو بکر ؓ موجود ہیں تو میں اپنی گردن کٹوا دوں لیکن ایسے لوگوں کا امیر بننا گوارا نہ کروں جن میں حضرت ابو بکرؓ جیسا عظیم الشان انسان موجود ہو ۔‘‘ (29)
اس موقع پر حضرت عمر ؓ نے انصار کے نیک جذبات کو بہت خوبصورت انداز میں ابھارا کہ تمہیں معلوم ہے کہ آنحضرت ؐنے آخری بیماری میں امام کسے مقرر کیا؟تم میں سے کون گوارا کر ے گاکہ انہیں اس مقام سے ہٹائے جس پر خدا کے رسول نے انہیں کھڑا کیااور وہ حضرت ابو بکرؓ سے آگے بڑھ کر امامت کرائے۔ انصار میں خدا ترسی تھی انہوں نے کہا ہم میںسے کوئی بھی ایسا پسند نہیں کرے گا۔ ہم استغفار کرتے اور اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ابو بکرؓ سے آگے بڑھیں ۔(30)
اس پر انصار میں سے حضرت زیدؓ بن ثابت نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا لوگو! یہی تمہارے امام ہیں ان کی بیعت کرو۔’’ حضرت عمرؓ نے بھی حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا آپ ہاتھ بڑھائیں اور ہماری بیعت لیں۔‘‘چنانچہ سب مہاجرین و انصارنے بیعت کی۔ انصار میں حضرت زیدؓ کے علاوہ حضرت بشیر ؓ بن سعد اولین بیعت کرنے والوں میں سے تھے۔(31)
کارنامے اور فتوحات
رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعد مسلمانوں پر خوف اور خطرات کے مہیب بادل منڈلانے لگے تھے ۔کئی عرب قبائل نے(مرتد ہوکر)بغاوت کردی اور زکوۃ دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوںمیں وحدت قائم ہوجائے۔ دوسرا کام باغیوں اورمنکرین زکوٰۃ کا قلع قمع کیا۔ فرمایا کہ آنحضرت ؐکے زمانہ میں جو اونٹ کی نکیل بھی زکوٰۃ دیتا تھا وہ جب تک میںوصول نہ کرلوں اس سے جنگ کروں گا۔ ‘‘ ( 32) چنانچہ سارا عرب ایک بار پھر زکوٰۃ ادا کرنے لگا۔ مرتدین کے زبردست فتنہ کا انسداد حضرت ابوبکرؓ کا بڑا کارنامہ ہے۔ متعدد نومسلم قبائل نے آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد بغاوت و ارتداد کا اعلان کردیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جنگ کرکے ان کا بھی قلع قمع کیا۔ان خطرناک حالات میں رسول اللہ ؐ کے ارشاد کے مطابق اسامہؓ کی سرکردگی میں لشکر بھی روانہ فرمایا اس کے علاوہ جمع قرآن کے عظیم الشان کام کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔(33)ان کارناموں کی تفصیل آگے آرہی ہے
جب خلافت راشدہ کا خدائی وعدہ پورا ہوا تو قیام خلافت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام خوف دور کر دئے ۔خلافت کو بتدریج استحکام نصیب ہوا۔حضرت ابو بکر ؓ نے پہلا نہایت پر حکمت قدم یہ اٹھایا کہ قوم کی شیرازہ بند ی کی۔ اہل بیت جو مشورہ خلافت کے وقت شامل نہ ہوسکے تھے۔ ان کے بارہ میں یہ حقیقت واضح ہونی چاہیئے تھی کہ وہ دل سے خلافت کے وفادار اور مطیع ہیں۔ان میں حضرت علیؓ ، حضرت فاطمہ ؓ ، اورحضرت زبیر ؓقابل ذکر تھے ۔
پہلا خطاب
حضرت ابو بکر ؓ نے مسجد نبوی میں لوگوں کو اکٹھا کیا۔ حضرت علی ؓ اورحضرت زبیر ؓکے بارے میں پوچھا کہ وہ بھی موجود ہیں۔ پھربطور خاص انہیں بلوایا گیا۔حضرت ابو بکرؓ نے نہایت اثر انگیز خطاب کیا۔ آپؐ نے فرمایا:۔
وَاللّٰہِ مَا کُنتُ حَرِیصًا عَلَی الِامَارَۃِ یَومًا وَلَاَ لیلَۃً قَطُّ ۔۔۔الخ کہ ’’خدا کی قسم! مجھے کبھی بھی خلافت کے لئے خواہش یا رغبت پیدانہیں ہوئی۔ نہ ہی کبھی میں نے پوشیدہ یا اعلانیہ اس کا مطالبہ کیا ۔ہاں فتنہ سے ڈرتے ہوئے میں نے اسے قبول کر لیا ہے مگر یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے جس کی مجھے طاقت نہیں پھر بھی میں نے اٹھا لیا ہے۔ اب سوائے اس کے کہ اللہ مجھے طاقت دے مجھ میں تو اس کی ہمت نہیں اور میں تو اب بھی چاہتا ہوں کہ تم میں سے اگر کوئی اور طاقتور اور ہمت والا ہے جو اس بوجھ کو اٹھا سکتا ہے تواٹھالے ۔‘‘
یہ بہت ہی اثر انگیز خطاب تھا جس کے آخر میں آپؓ نے حضرت علی ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا ’’اے علی ! داماد رسول ! کیا آپ پسند کرو گے کہ مسلمانوں کی قوت پراگندہ ہو۔پھر حضرت زبیر ؓ سے بھی یہی سوال کیا۔ان دونوں نے کہا’’ ہمارے دل میں صرف اتنی بات تھی کہ جب یہ مشورہ (خلافت)ہوا تو ہمیں اس میں شریک نہیں کیا گیا ورنہ ہماری بھی یہی رائے تھی اورہے کہ حضرت ابوبکر ؓ ہی اس خلافت کے زیادہ اہل اور مستحق ہیںکہ آنحضرتؐ نے انہیں اپنی زندگی میں امام بنایا اور وہ غار حرا میں رسول ؐاللہ کے ساتھی تھے اور قرآن میں انہیں ’’دو میں سے دوسرے‘‘ کہہ کر یاد کیا گیا ہے۔ پھر ان دونوں بزرگان اہل بیت نے اعلانیہ بیعت کی۔(34)یوں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وحدت کی لڑی میں پرودیا۔
حضرت علیؓ کے اس موقع پر موجود نہ ہونے کی ایک وجہ رسول اللہ ﷺکی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کی علالت میں ان کی تیمارداری بھی تھی۔ نیزا س عرصہ میں انہوںنے گھر میں رہتے ہوئے جمع قرآن کا اہم کام بھی شروع کر رکھا تھا جس کے باعث سوائے نمازوں کے گھر سے کم نکلتے تھے۔(35)
فتنہ ارتدادو بغاوت و مدعیان نبوت
دیگر خطرات میں سے ایک بڑاخطرہ جو خلافت اولیٰ کے فوراًبعد پیدا ہوا وہ ا رتداد وبغاوت کافتنہ تھا ۔ عرب کے مختلف علاقوں میںکئی بادیہ نشین مرتد ہوکر زکوٰۃ سے منکر ہوگئے ۔ پھر بعض لوگوںنے نبوت کے دعوے کر کے بغاوت کردی۔ یمامہ کے مسیلمہ کذاب نے تو حضور ؐ کی زندگی ہی میں نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا ، اس کے بعد ایک عورت ’’سجاح ‘‘نے بھی یہ دعویٰ کرکے علم بغاوت بلند کیا اورمسیلمہ سے شادی رچا کر اتحاد کرلیا۔ کئی اورمدعیان نبوت بھی پیدا ہو گئے ۔انہوں نے بھی مرتدین وغیرہ کو اپنے ساتھ ملاکر بغاوت کردی۔یہ تھا اس وقت کے عرب کا نقشہ کہ ایک طرف مرتدین ہیں،دوسری طرف مدعیان نبوت ،تیسری طرف منکرین زکوٰۃ۔ اور مدینہ محض اسلام کا ایک جزیرہ بن کر رہ گیا ۔ ان حالات میں اسلام کو بچانا، مسلمانوں کی حفاظت کرنا اور خلافت کواستحکام عطا کرنا یہ حضرت ابو بکر ؓ کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن خلدون نے اس دور کی طوائف الملوکی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد تمام عرب مرتد ہو گیا۔ بعض قبیلے سارے کے سارے اور بعض جزوی حالت میں۔ نبی کریم ؐ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی حالت تعداد کی کمی اور دشمن کی کثرت کے باعث بکریوں کے اس ریوڑ جیسی ہوگئی جو برسات کی اندھیری رات میں بغیر چرواہے کے رہ جائے۔ عرب کے خاص وعام مرتد ہو کر طُلیحۃ اسدی مدعی نبوت کے ساتھ مل گئے قبیلہ طے اور اسد اور غطفان بھی مرتد ہو گئے۔‘‘
پھر لکھاہے :۔’’ قبیلہ ہوازن نے زکوٰۃ روک لی۔ قبیلہ بنو سلیم کے خواص نے ارتداد کا اعلان کر دیا اور قریباً ہر جگہ سب لوگوں نے یہی کیا۔ ہذیل ،بنو تغلب اور دیگر کئی قبائل نے سجاح کی پیروی کی اور ان تمام گروہوں نے مل کر مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا۔‘‘ (36)
ابن اثیر نے لکھا ہے’’ رسول اللہ ﷺکی وفات کی خبر جب مکہ پہنچی تو وہاں کا حاکم عتاّب کے مارے چھپ گیا اور مکہ لرز اٹھا۔قریب تھا کہ سارے کا سارا شہرمرتد ہو جاتا‘‘(37) باقی علاقے جہاں یہودی اور نصرانی تھے۔ ان کو الگ کُھل کھیلنے کا ایک موقع مل گیا۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعود اس صورتحال کا نقشہ یوں بیان کرتے تھے کہ’’ رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعد ہماری حالت ایسی ہوگئی’’ کِدنَا اَن نَّھلِکَ لَو لَااَن مَنَّ اللّٰہُ عَلَینَا بِاَبِی بکرٍ کہ قریب تھا ہم تباہ و برباد ہو جاتے اگر اللہ تعالیٰ حضرت ابو بکر ؓ کے ذریعہ ہم پر احسان نہ فرماتا‘‘
عین اس وقت جبکہ مرکزاسلام معاندین اور دشمنوں کے اندر گھرا ہواتھا لشکر اسامہؓ کی روانگی کا ایک اور بہت بڑا امتحان درپیش آیا۔ آنحضور ﷺ نے اپنی زندگی میں شامی سرحد سے فوج کشی کے خطرہ سے بچنے کیلئے ایک لشکر حضرت اسامہؓ کی سرکردگی میں تیار کیا تھا۔ جس میں حضرت عمر ؓاور دیگر بزرگ صحابہ بھی شامل تھے۔ صحابہ نے عرض کیا ’’اے امیر المومنین! اس وقت تمام عرب پراگندہ ہے ، کئی قبائل مرتد ہو گئے ، نبوت کے دعویدار وں کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ خدارا! کچھ عرصہ کے لئے آپ اسامہؓ کے لشکر کو روک لیں۔ پہلے ان قریبی دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ شامی سرحد تو دور ہے وہاں بعد میں لشکر بھجوایا جا سکتاہے‘‘خدا تعالیٰ اپنے خلفاء کو کیا عجیب عظمتِ شان اورعزم و استقامت عطا کرتا ہے ۔ وہی ابو بکرؓ جن کے بارہ میں کل تک کہا جارہاتھا کہ ان کو نماز پڑھانے کیلئے نہ کہا جائے کہیں رقّت سے رو نہ پڑیں ۔ آج حضرت عمرؓ جیسا دل گردے والاانسان بھی ان سے آکر عرض کرتا ہے : ’’یا حضرت ! اسامہ کے لشکر کو روک لیں ۔ ‘‘ مگر خدا کا وہ کوہ وقار خلیفہ شیر کی طرح گرجتے ہوئے فرماتا ہے ۔وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہٖ لَو ظَنَنتُ اَنَّ السِّبَاعَ تَخطُفُنِی لَاُنَفِّرَ جَیشَ اُسَامَۃَ کَمَا اَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ۔ (38)
’’خدا کی قسم! اگر مجھے یقین ہوکہ درندے مدینہ میں آکر میرا جسم نوچ لیں گے۔ تب بھی میں اسامہؓ کے اس لشکرکو ضرور روانہ کروں گا،جسے بھجوانے کیلئے خدا کے رسول محمد مصطفی ﷺنے ارشاد فرمایا تھا۔حضرت ابو بکرؓ نے اس لشکر کو خود شہر کے باہر جاکر روانہ فرمایا۔
پھر حضرت ابو بکر ؓ مرتدین کی شورش کی طرف متوجہ ہوئے۔پہلے تمام عرب کے مرتدین کے نام آپ نے خطوط لکھے ۔جن میں اطاعت قبول کرنے والوں سے صلح اور باغیوں سے جنگ کا اعلان تھا۔ آپؓ نے ہدایت فرمائی کہ ’’ہر مجمع میں میر ا یہ خط پڑھ کر سنایا جائے۔‘‘
مدینہ کی حفاظت
11ھ میں یہ حالات پید اہو گئے کہ مدینہ کو گردونواح کے قبائل سے سخت حملہ کا خطرہ ہوا۔ لشکر اسامہؓ کی روانگی کے بعد مدینہ میں لڑنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی اور مرکز اسلام کی حفاظت کا اہم مسئلہ درپیش تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے مدینہ کے ناکوں پر حضرت علی ؓ ، زبیرؓ طلحہؓ ، عبداللہ بن مسعود ؓ کو مقرر کیا اور اہل مدینہ کو مسجد نبوی میں اکٹھا کر کے تقریر کی اورمدینہ پر حملہ کی صورت میں ہنگامی تیاری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ’’یوں سمجھو دشمن صرف ایک دن کے فاصلے پر ہے۔‘‘
اس خطاب کے تیسرے ہی دن مرتدین نے مدینہ پر حملہ کر دیا ۔ حضرت ابو بکرؓ کو اطلاع ہوئی توخود مدینہ میں موجود نفری کو لے کر اونٹوں پر سوار ہو کر نکلے۔ وقتی طور پریہ جوابی کاروائی دیکھ کر دشمن منتشر ہو گئے۔پھر واپس جا کر ذو القصہ مقام پر یہ لوگ اکٹھے ہوئے۔ حضرت ابو بکر ؓ مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ خود ان کے تعاقب میں نکلے ۔صحابہ نے عرض کیا’’ امیر المومنین! آ پ مدینہ میں ٹھہریں آپ کو کوئی گزند پہنچی تو سارا نظام درہم برہم ہوگا ہم حاضر ہیں۔‘‘حضرت ابو بکرؓ نے کما ل جرأت اور حوصلہ سے فرمایا ’’میں خود اس فتنہ کو ختم کرنے میں تمہارے ساتھ شریک ہونگا۔‘‘اس طرح مدینہ کے گردو نواح میں جس قدر فتنے تھے آپ نے خود ان کوفرو کیا ۔
عرب کے دور دراز کے علاقوں میں الگ بغاوت ہو چکی تھی۔ اہل یمن نے مسلمان عاملوں کو واضح خط لکھے کہ تم ہمارے ملک میں گھس آئے ہو۔ اسے خالی کر دو اور جس قدر اموال وغیرہ لئے ہیں وہ ہمارے حوالے کر و ۔ یمامہ میں مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا راج تھا۔ جو دوسری دعویدار نبوت سجاح سے شادی کے بعدحق مہرمیں کئی نمازیں معاف کرکے شراب اور زنا کو حلال قرار دیتا اور زکوٰۃ سے روکتا تھا۔ وہ سجاح کے لشکر کے ساتھ مل کرمقابلہ کیلئے تیار تھا۔ایک اورمدعی نبوت طلیحہ بن خویلد بنی اسدمیںتھا۔یہ تمام دعویدار اپنے اپنے لشکروں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے تیارتھے۔ دیگر مرتدین ان کے علاوہ تھے۔ اس موقع پر صحابہ کے مابین بعض مرتدین کے ساتھ جہاد میں اختلاف رائے پیدا ہو اکیونکہ ان میں ایک طبقہ صرف زکوٰۃ سے انکار کر رہا تھا۔ حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ آنحضور ﷺنے فرمایا ہے ’’جو لا الٰہ الا اللہ کہتا ہے اس سے جنگ نہیں کرنی‘‘ اور یہ لوگ صرف زکوٰۃ کے انکاری ہیں۔ ان سے ہم کیوں جنگ کریں۔ اس پرحضرت ابوبکر ؓ نے کمال عزم سے فرمایا ۔
وَاللّٰہِ لَو مَنَعُونِی عِقَالًا کَانُواُ یَؤدُّوَنہٗ اِلٰی رَسُولِ اللّٰہ لَقَاتَلتُھُم عَلَیہِ
اگر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں یہ لوگ ایک اونٹنی کا بچہ یا ایک نکیل بھی زکوٰۃ دیتے تھے تو میں ان سے اس کے لئے لڑوں گااوررسول اللہ ﷺکی جانشینی میں وہی کروں گا جو وہ کرتے تھے ۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ بعد میں مجھے بھی شرح صدر ہو گئی کہ حضرت ابو بکر ؓ کا یہ فیصلہ بہت ہی درست تھا اور قرآن کریم میں بھی ان برحق خلفاء کی یہی تعریف ہے۔
اَلَّذِینَ اِن مَّکَّنّٰھُم فِی الاَرضِ اَقَا مُو االصَّلٰو ۃَ وَاٰ تَوُ االزَّکٰوۃَ(الحج 42)
کہ’’ اگر ہم ان کو زمین میں طاقت دیں تو یہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ کا اہتمام کریں گے۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے ان باغیوں کے مقابلہ کے لئے گیارہ مہمّاتی دستے تیار کئے اور اطراف مدینہ میں ان کو روانہ کیا۔ (39)
یمامہ کی طرف آپ نے حضرت خالدؓ بن ولید کے ساتھ اور حضرت ثابتؓ بن قیس کی معاونت میں لشکر بھجوایا۔جہاں بڑی شدید جنگ ہوئی اور پانچ صدصحابہ شہید ہو گئے جو قرآن شریف کے حفاظ تھے۔تاہم اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ مسیلمہ کذاب کے فتنہ سے مسلمانوں کو نجات ملی اوروہ ہلاک ہوا۔
جمع قرآن
حضرت ابو بکرؓکے دور کا ایک اور کارنامہ حفاظت قرآن ہے۔جب جنگ یمامہ میں پانچ صد حفاظ شہید ہو گئے اور یہ خطرہ پیدا ہو ا کہ قرآن شریف کی حفاظت کا کیا بنے گا۔ یہ ایک بہت اہم اور نازک امر تھاجس پر دین کی بنیاد تھی۔ چنانچہ خلیفہ وقت حضرت ابو بکرؓ نے اس کام کیلئے کاتب وحی حضرت زیدؓ بن ثابت کو مقرر کیا۔جنہوں نے قرآن شریف کوجو متفرق اجزاء کی شکل میں تھا،مختلف صحابہ سے اس کی تحریری شہادتیں اکٹھی کرکے اسے ایک نسخہ میں جمع کروانے کا اہتمام کیا۔پس حضرت ابو بکرؓ کے دور میں محض خطرناک فتنے ہی فرو نہیں ہوئے۔ بلکہ جمع قرآن جیسے عظیم الشان کام بھی ہوئے۔( 40)
وراثت رسولؐ کافیصلہ
حضرت ابوبکرؓ کا ایک زبردست کارنامہ وراثت رسولؐ کا فیصلہ تھا۔ یہ ایک بہت نازک مرحلہ تھا جب اہل بیت کی طرف سے رسول اللہ ﷺکے ورثہ کا سوال اٹھایا گیا۔ ایک طرف اہل بیت رسولؐ سے محبت اور جذباتی تعلق دوسری طرف منصب خلافت کی ذمہ داری سے قومی اموال کی تقسیم میں عدل کا تقاضا۔ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہؓ کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ ’’ہمارا ورثہ نہیں چلے گا اور ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔‘‘ نہایت درجہ انصاف کے ساتھ یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ’’ ان اموال میں سے اہل بیت فائدہ اٹھائیں گے۔ جس طرح نبی کریم ﷺ کی زندگی میں استفادہ کرتے تھے مگر یہ جائیداد بطور ورثہ تقسیم نہ ہوگی۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ سے تسلی دلاتے ہوئے فرمایا: ’’رسول اللہﷺ کی قرابت مجھے اپنی قرابتوں اور رشتہ داریوں سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میں ان اموال میں کوئی کوتاہی نہ کروںگا نہ کسی خلاف عدل فیصلہ کا مرتکب ہوں گا۔ بلکہ جیسے رسول اللہﷺان اموال میں تصرف فرماتے تھے وہی کروں گا۔‘‘ چنانچہ حضرت فاطمہؓ اس پر راضی ہوگئیں۔(41) الغرض نبی کریمؐ کی وراثت کا مسئلہ بھی حضرت ابوبکرؓ نے ہمیشہ کیلئے حل کردیا۔جسے بعد حضرت علیؓ نے بھی قائم رکھا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ابو بکرؓ کے مختصر سے دور میں فتوحات کا ایک عظیم سلسلہ شروع ہو گیا ۔
فتوحات کے اعتبار سے آپ کا زمانہ خلافت وہ مقدس دور ہے جس میں بعد میں بننے والی مستقل اسلامی حکومت کی داغ بیل پڑی۔ چنانچہ آپ کے مبارک دور میں ہی حضرت خالدؓ بن ولید(سیف اللہ) اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں عراق ایران اور شام فتح ہوئے۔
فتوحات ایران
آنحضورﷺ کے زمانہ سے ہی ایران سے کشمکش شروع ہوگئی تھی ۔ جب کسریٰ شاہ ایران نے رسول اللہ ﷺکا تبلیغی مراسلہ پھاڑ دیا اورکہامیرا غلام ہوکر مجھے ایسے خط لکھتا ہے۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا ’’خدا اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے ۔‘‘پھر کسریٰ نے یہودیوں کی سازش سے نبی کریمؐ کی گرفتاری کے احکام بھی جاری کئے تھے ۔اب خود اس کی حکومت کے ٹکڑے ہونے کا عمل شروع ہو چکا تھا ، کسریٰ کو اس کے بیٹے نے قتل کر دیا ،وہ چھ ماہ حاکم رہا پھر اس کی بیٹی پوران دخت حاکم بنی۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا کہ ’’یہ قوم کیسے کامیاب ہو گی جس نے ایک عورت کو حاکم بنالیا ہے ۔‘‘(42)
عراق کا علاقہ ایرانیوں کا باجگذار تھا اور ایرانی ان عربقبائل پر حکومت کرتے تھے ۔ ایرانیوںکی کمزوری کے بعدان علاقوں میں طوائف الملوکی کا سلسلہ شروع ہوگیاجس پر وہ قابو پانے کی کوشش میں تھے۔ عراق کے ایک سردار مثنی بن حارثہ جو مسلمان ہو چکے تھے اور ایرانیوں کا تختہ مشق رہ چکے تھے۔ انہوں نے حضرت ابو بکر ؓ سے مدد مانگی تا ایرانیوں کے حملے سے بچا جاسکے ۔ چنانچہ خالدؓبن ولید کوان کی مدد کیلئے بھیجا گیا اور یوں فتوحات ایران کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کہاں رسول ؐاللہ کی وفات پر مسلمانوں کی جان پر بن آئی تھی کہ اسلام اور مدینہ کا کیا بنے گا ؟ اور کہاں خلافت کی برکت سے دنیا کی دو بڑی حکومتوں کے ساتھ ٹکر کے بعد اسلام کی فتح کے سامان ہونے لگے۔ حضرت ابو بکر ؓ کے دور خلافت میں ان دونوں بڑے محاذوں پر کام شروع ہو گیا ۔ ایران میں حضرت خالدؓ نے پہلے حیرہ فتح کیا۔ پھرجنگ ذات السلاسل ہوئی جس میں ایرانی جرنیل ہر مز کو شکست فاش ہوئی اور اس کی وہ قیمتی ٹوپی مال غنیمت میں آئی جس کی مالیت ایک لاکھ درہم تھی۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اعزاز کے طور پر وہ ٹوپی حضرت خالدؓ کو دے دی۔اس کے علاوہ بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔ پھر جنگ مزار ہوئی۔ یہاںجو مال غنیمت ہاتھ آیا اس میں ہاتھی بھی شامل تھا جسے مدینہ بھجوایا گیا۔ مدینے کے لوگ بڑے تعجب سے اسے دیکھتے تھے کیونکہ انہوں نے پہلی دفعہ ہاتھی دیکھا تھا ۔پھر جنگ ولجہ ہوئی جس میںتیس ہزار ایرانی قتل یا غرق دریاہوئے ۔
پھر جنگ اُلیس ہوئی ۔جس میں نصرانیوں کا ایرانیوں کے ساتھ اتحاد تھا اور سب مل کر اسلام کے مٹانے کے لئے مسلمانوں پر حملہ آور تھے ۔اس میںستر ہزار ایرانی اور نصرانی کام آئے۔ مسلمانوں نے پہلی دفعہ وہاں سفید آٹے کی روٹیاں حیرانی سے دیکھیں کہ یہ’’ سفید کپڑوں کے ٹکڑے ہیں ۔‘‘ پھر امغیشیا کی فتح ہوئی جہاں سے اتنا مال غنیمت ملا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اس وقت فرمایا کہ ’’اے قریش ! تمہارے شیر نے ایک شیر پر حملہ کر کے اسے مغلوب کر دیا اور عورتیں خالدؓ جیسا بہادر پیدا نہیں کر سکتیں ۔ ‘‘اس کے بعد عین التمر فتح ہوا ، جنگ دومۃ الجندل ہوئی ۔ جنگ فراض ہوئی ۔ جہاں رومیوں اور ایرانیوں کی متحدہ فوج تھی۔ ایک لاکھ آدمی اس میں مارے گئے تھے ۔ الغرض ایران اور عراق کے محاذ پر یہ کامیابیاں ہوئیں۔(43)
فتوحات شام
دوسری طرف حضور ﷺکے آخری ایام میں رومیوں سے کشمکش کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ آنحضورﷺ خود اپنی زندگی میں رومی سرحد پرغزوہ تبوک کیلئے گئے تھے ۔پھر اسامہؓ کا لشکر رومی سرحدوں پر بھیجا گیاتھاجہاں آپؐ کے قاصد حارث بن عمیر کو بُصریٰ کے حاکم نے قتل کروا دیا تھا اور جنگ مُوتہ ہوئی تھی ۔شامی سرحد پر خطرے سے نمٹنے کیلئے حضرت ابو بکر ؓ نے بعض اسلامی جرنیلوں کو مقرر کیا۔ ایک طرف دنیاکی بہت بڑی طاقت ایران سے جنگ جاری ہے توادھر دوسری بڑی طاقت شام سے جنگ چھڑ رہی ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ کے ارشادپرحضرت خالدؓنے مختلف محاذوں کے امراء کی افواج اکٹھی کر کے جنگ یرموک میں دشمن کامقابلہ کیا۔جہاں دو لاکھ سے زیادہ ایرانی فوج جمع تھی اور مسلمان کل ملاکر بھی پینتالیس ہزارتھے۔ بڑے کانٹے دار مقابلہ کے بعدمسلمانوں کوفتح ہوئی ۔ اس دوران ہی حضرت ابو بکر ؓ کی وفات ہوگئی۔(44)
الغرض حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان استحکام عطاء کیا ۔جس کا آغاز حالت خوف سے ہواتھا۔ اللہ تعالیٰ نے قیام امن اور تمکنت دین کے وعدے پورے کرکے اڑھائی سالہ مختصر دور میں کتنی عظیم الشان فتوحات انہیںعطاکیں ۔
حضرت علی ؓ نے ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس دین کو فتح کبھی کثرت لشکر سے نہیں ہوئی اور نہ قلت لشکر سے شکست ہوئی بلکہ یہ اللہ کا دین ہے جسے اس نے خود غالب کیا اور یہ اسی کا لشکر ہے جسے اس نے عزت و قوت دی اور یہ دین وہاں پہنچا جہاں پہنچنا تھا ۔ خدا کا یہ وعدہ تھا پھر انہوں نے سورئہ نورکی آیت استخلاف( نمبر56)پڑھی کہ’’ اللہ نے مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو خلیفہ بنائے گا اور ان کو تمکنت عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ خوفوں کو امن میں بدل دے گا۔‘‘ (45)حضور ﷺکے مسلمانوں سے فتوحات کے جو وعدے تھے ان کا حضرت ابو بکرؓ کے دور میں پوراہونا بھی آپ کے استحکام خلافت کی ایک عظیم الشان دلیل ہے ۔
وفات
آنحضرتﷺ نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت ابوبکر ؓآپ سے اڑھائی قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کی وفات کے ٹھیک اڑھائی سال بعد وہ اپنے آقا سے جاملے۔ روایت ہے کہ کھانے میں زہرکے نتیجہ میں ایک سال بیمار رہ کرآپ کی وفات ہوئی۔
دوسری روایت میںآخری بیماری کا ایک فوری سبب یہ بھی درج ہے کہ سردی میں ٹھنڈے پانی کے غسل سے بخار ہوا جس کے دو ہفتے بعد آپ کی وفات ہوئی۔وفات کے دن پوچھا آج کونسا دن ہے؟ پیر کا دن تھا۔ فرمایا رسول کریمﷺ نے کب وفات پائی تھی۔ بتایا گیا ’’پیر‘‘ کو چنانچہ آپ بھی پیر کے روز ہی فوت ہوئے۔(46)آپ کی عمر رسول کریمﷺکی عمر کے مطابق 63برس ہوئی۔
فضائل و خصائل
نبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو جنت کے سرداروںمیں سے قرار دیا۔ جیسا کہ ایمان لانے والوں میں آپ سب سے اوّل ٹھہرے۔ نبی کریمﷺنے انہیں یہ مژدہ بھی سنایا کہ وہ آپ کی امت میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔(47)
حضرت ابوبکرؓ نے سفر ہجرت میں جان کو خطرے میں ڈال کر آنحضورؐ کا ساتھ دیا۔ قرآن شریف میں انہیں ’’ثانی اثنین‘‘ کا خطاب دیکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے معّیت کی نوید سنائی گئی ہے۔ یہ تاریخی معیت خدا کے حضور ایسی مقبول ٹھہری کہ آپ سعادت دارین اور نبی کریمؐکی دائمی معیت کے وارث بن گئے۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ’’ روز قیامت ابوبکرؓ کا حشر بھی میرے پہلو سے ہوگا۔‘‘(48)
نبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے بلند روحانی مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ ابوبکرؓ اس امت کے بہترین اور افضل فرد ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو۔‘‘(49)
حضرت بانی جماعت احمدیہ نے حضرت ابو بکرؓ کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا مل عارف ، اخلاق کے حلیم اور فطرت کے رحیم تھے۔ آپ نے انکساری اور تنہائی کا چولہ زیب تن کیا اور زندگی بسر کی ۔ آپ بہت عفو، شفقت اور رحمت کرنے والے تھے اور اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے ۔ محمد مصطفی ﷺسے تعلق بہت مضبوط تھا۔ آپ کی روح خیر الوریٰ کی روح سے ملی ہوئی تھی اور اس نور سے ڈھکی ہوئی تھی جس نور نے آپ کے پیشوا اور خدا تعالیٰ کے محبوب کو ڈھانپ رکھا تھا ۔ آپ آنحضور ﷺ کے نور اور آپ کے عظیم فیوض میں نہاں تھے اورآپ فہم قرآن اور سید الرسل ؐو فخر بنی نوع انسان کی محبت میں سب لوگوں پر فوقیت لے گئے تھے۔ جب آپ پر اخروی زندگی کا مضمون اور دیگر سر بستہ راز کھلے تو آپ نے تمام دنیوی تعلقات کو خیرباد کہہ دیا ۔ جسمانی رشتوں سے الگ ہو گئے اور محبوب کے رنگ میں رنگین ہو گئے ۔ آپ نے خدائے یگانہ کی خاطر جو زندگی کا مقصد حقیقی ہے اپنی ہر چاہت کو چھوڑ دیا ۔ آپ کی روح نفسانی آلائشوں سے ہر طرح مبرّا، ذاتِ حق کے رنگ میں رنگین اور رضائے رب العالمین میں محو ہو گئی ۔ جب سچی محبت الٰہی آپ کے نس نس میں ، آپ کے دل کی گہرائی اور روح کے ذرے ذرے میں گھر کر گئی اور اس محبت کے انوار اور آپ کے اقوال و افعال اور نشست و برخاست میں ظاہر ہوئے تو آپ کو صدیق کا خطاب ملا اور جناب خیرالواھبین کے دربار سے گہرا اور تازہ بتازہ علم عطا ہوا۔ چنانچہ سچ آپ کی ذات میں راسخ ملکہ اور فطرت اور عادت ہو گیا جس کے انوار آپ کی شخصیت کے ہر قول و فعل، ہر حرکت و سکون اور حواس و انفاس سے ظاہر ہوئے اور آپ کو آسمانوں اور زمین کے رب کی طرف سے منعم علیہم لوگوں میں شامل کیا گیا ۔ آپ کتاب نبوت کے کامل پرتو تھے اور اہل جودوسخا کے امام تھے اورآپ کا خمیر انبیاء کی بقیہ مٹی سے اٹھایا گیا تھا۔ ‘‘(50)
اخلاق وسیرت
حضرت ابوبکرؓ نہایت متواضع، منکسرالمزاج اور کم گو انسان تھے۔ آپ کی بہت کم روایات احادیث کی کتب میں آئی ہیں، تاہم جتنی روایات ہیں ان سے آپ کے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ سیرت پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ طبعاً کم گو ہونے اور ادب رسولؐ کے تقاضہ کے پیش نظر آپ شاذہی نبی کریمؐ سے کوئی سوال کرتے تھے۔ مگر جو سوال آپ نے کئے وہ بھی آپ کے بلند علمی مقام اور اعلیٰ سیرت وکردار کو ظاہر کرتے ہیں۔
توحید کا عرفان
حضرت ابوبکرؓ توحید کامل پر بڑی شان سے قائم تھے۔ ایک دفعہ حضرت عثمان ؓنے کہا ’’کاش! میںنے نبی کریمﷺسے یہ مشکل سوال دریافت کرلیا ہوتا کہ شیطانی وساوس کا کیا علاج ہے۔‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا’’ میں نے نبی کریمؐسے یہ سوال پوچھا تھا اور آپؐ نے فرمایا تھا کہ کلمہ توحید پڑھ کر اس پر قائم ہوجانا ہی ایسے وساوس کا علاج ہے۔‘‘(51)
ایک اور موقع پر فرمایا کہ میں نے نبی کریمﷺسے سنا ہے ’’تمہیں کلمہ اخلاص(یعنی شہادت توحید) اور ایمان باللہ سے بڑھ کر کوئی چیز عطا نہیں کی گئی۔‘‘(52)
چنانچہ توحید کی عظیم الشان صداقت پر کامل یقین و ایمان کے باعث ہی آپؓ صدیق کہلائے۔ اور اس وصف کو نبیوں کے دل کی طرح پاک وصاف کردیا تھا اور دراصل یہی چیز منبع اور سرچشمہ ہے آپ کے تمام اخلاق عالیہ کا جن میں تعلق باللہ، خشیتّ، تواضع، صدق ،شجاعت انفاق فی سبیل اللہ اورخدمت خلق وغیرہ شامل ہیں۔
عبادت اور اخلاق فاضلہ کا حسین امتزاج
انسان کے تعلق باللہ کا سب سے بڑا معیار اس کی عبادات اور دعائیں ہیں۔ اپنے گھر میں چھوٹی سی مسجد بنا کر حضرت ابوبکرؓ کے قرآن پڑھنے اور عبادت کرنے کا ذکر گزر چکا ہے۔ بآواز بلند تلاوت کلام پاک کے جرم میں ہی آپ کو ہجرت پر مجبور کیا گیا۔قارہ قبیلہ کے رئیس ابن الدغنہ آپ کو یہ کہہ کر واپس لائے کہ ’’آپ جیسے بااخلاق آدمی کو ہمارے شہر سے کیسے نکالا جاسکتا ہے جو صلہ رحمی کرنے والے دوسروں کے بوجھ اٹھانے والے، مہمان نواز اور مصائب میں مدد کرنے والے ہیں۔‘‘ سیرت صدیقی پر یہ شاندار گواہی دے کر ابن الدغنہ آپ کو اپنی امان میں مکہ میں دوبارہ واپس لایا تھا۔ عجیب توارد ہے کہ ابن الدغنہ کے بیان کردہ اوصاف ابوبکرؓ وہی ہیں جو حضرت خدیجہؓ نے رسول کریمﷺ کے لئے پہلی وحی کے موقع پر بیان فرمائے تھے۔ (53)
حضرت ابوبکرؓ کو دعائوں سے بھی خاص رغبت اور شغف تھا اور اپنے اعلیٰ ذوق کے مطابق اس تلاش میں رہتے تھے کہ اپنے مولیٰ سے کیا مانگیں اور کیسے مانگیں اور بارہا نبی کریمﷺ سے اپنے اس ذوق کی تسکین کے لئے پوچھا۔ ایک دفعہ عرض کیا کہ مجھے اپنی نماز میں پڑھنے کے لئے کوئی عمدہ سی دعا بتادیں۔ آنحضور ﷺنے یہ دعا سکھائی:
اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمتُ نَفسِی ظُلماً کَثِیراً فَاغفِرلِی مَغفِرَۃً مِن عِندِکَ وَارحَمنِی اِنَّکَ اَنتَ الَغفُورُ الرَّحِیمُ(54)
کہ اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیاپس مجھے بخش دے۔ خاص اپنے پاس سے مغفرت عطاء کر اور مجھ پر رحم کر یقینا تو بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔
ایک اور موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعاسکھائی:
اَلّٰلھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ الَعفوَوَالعَافِیَۃَ فِی الدُّنیَا وَ الٓاخِرَۃِ(55)
کہ اے اللہ میں تجھ سے دنیا و آخرت میںمعافی اور حفاظت کا طلب گار ہوں۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکرؓ اس دعا کی طرف خاص توجہ دلاتے اور فرماتے کہ ایمان کے بعد عافیت کی دعا سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں یعنی ایمان کی سلامتی مانگنی چاہیے۔(56)
خشیّت
حضرت ابوبکرؓکی خشیّت کا یہ عالم تھا کہ جب 9ہجری میں رسول اللہﷺ نے آپ کو مسلمانوں کا امیر الحج مقرر کر کے روانہ فرمایا اس کے بعد سورۃ توبہ نازل ہوئی تو نبی کریمؐنے حضرت علیـ ؓکو اس کی متعلقہ آیات کا اعلان حج کے موقع پر کرنے کی ہدایت فرمائی۔حضرت ابوبکرؓ کو عجیب دھڑکا سا لگا کہ نامعلوم مجھ سے کیا کوتاہی ہوئی جو اس خدمت کے لائق نہیں سمجھا گیا۔چنانچہ جب آپ نبی کر یم ؐ کی خدمت حاضر ہوئے تو بے اختیار ہو کر رو پڑے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ!کیا مجھ سے کوئی ناروا بات سرزد ہوئی ہے؟آنحضرتﷺنے فرمایا ’’اے ابوبکرؓـ!تجھ سے تو خیروبھلائی کے سوا کچھ ظاہر نہیں ہوا مگر سورۃ توبہ کی ان آیات کے لئے مجھے یہی حکم الٰہی تھا کہ میں خود یا مجھ سے خونی رشتہ رکھنے والا قریب ترین عزیز اس کا اعلان کرے۔‘‘ تب حضرت ابوبکرؓکی تسلی ہوئی ۔ ( 57)
آپ کی خشیّت الٰہی اور انکسار کی شان کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے جب ایک دفعہ آپ کی حضرت عمرؓ کے ساتھ تکرار ہو گئی۔حضرت ابو بکرؓ نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ عرض کر کے بتایا کہ اس کے بعد مجھے ندامت ہوئی اور میں عمرؓ کے پاس حاضر ہو گیاتو انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا ۔ میں حضورﷺکی خدمت میںحاضر ہو گیا آپؐ نے فرمایا اللہ آپ کو معاف کرے۔ادھر حضرت عمرؓ کو بھی بعد میں احساس ندامت ہوا اور حضرت ابوبکرؓکے گھر آئے اور انہیں موجود نہ پا کر آنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐکا چہرہ ناراضگی سے سرخ ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوبکرؓگھٹنوں کے بل بیٹھ کر بار بار عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ! غلطی میری تھی(آپ ؐ عمرؓکو معاف کر دیں)۔ نبی کریمﷺنے حضرت عمرؓ سے فرمایا ’’ دیکھو جب تم لوگوں نے میرا انکار کیا تھا اس وقت ابو بکرؓ نے میری تصدیق کی اور جان ومال نچھاور کر دئیے۔ کیا تم میرے ساتھی کو میرے لئے چھوڑو گے کہ نہیں؟‘‘(58)
فہم اور علمی بصیرت
حضرت ابوبکرؓکوقرآن شریف کا خاص فہم عطا ہوا تھا۔بعض لوگوں نے سورۃ مائدہ کی آیت 6 سے(جس میں ذکر ہے کہ اے لوگو!تم اپنے ذمہ دار ہو کسی کی گمراہی تمہیں نقصان نہیںدے گی)یہ استدلال کیا کہ برائیوں کا قلع قمع ہماری ذمہ داری نہیں کیونکہ ہر فردکو اپنی ذاتی اصلاح کاحکم ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس خیال کی سختی سے تردید کی اور فرمایا کہیہ اس آیت کا درست مطلب نہیں۔ (کیونکہ آیت میں واحد کے بجائے جمع کے صیغے میں اصلاح معاشرہ کی قومی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے)اور نبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ ’’جو لوگ برائی کو دیکھ کر اس کا ازالہ نہیں کرتے تو اس کی سزا سارے معاشرہ کو دی جاتی ہے۔‘‘(59)اس لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ پر کماحقہــ توجہ دینی چاہئے۔
حضرت ابوبکرؓ نبی کریم ﷺکے ارشادات کی بنیاد قرآنی آیات میں تلاش کرتے اور انکو افادہ عام کیلئے بیان فرماتے۔حضرت علیؓ سے روایت ہیکہ رسول اللہ ﷺکی ہر بات سن کر ہمیشہ میں نے بہت ہی فائدہ اٹھایا ہے ۔ حضرت ابوبکرؓنے مجھے ایک حدیث سنائی اور آپؐ نے سچ فرمایا کہ ’’کوئی مسلمان جب کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کر کے دور کعت نماز پڑھے اور اللہ سے اس گناہ کی معافی مانگے تو اسے بخش دیا جاتا ہے۔‘‘یہ حدیث سنا کر بطور دلیل وہ دو آیات پیش کرتے تھے۔ ایک آل عمران کی آیت136جس میں ذکر ہے کہ مومنوں سے جب کوئی برائی سرزد ہوتی ہے تو وہ اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیںان کی جزا مغفرت ہے۔اور دوسری سورۃ نساء کی آیت111 جس میں بیان ہے کہ جو شخص بدی اور ظلم کر کے اللہ سے بخشش کا طلب گار ہو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت بخشنے والا اور مہربان پائیگا۔(60)
حضرت ابوبکرؓقرآن کریم پر غور وتدبر اور نبی کریم ﷺکی پاک صحبت کی برکت سے علمی عقدے حل کرتے رہتے تھے۔ایک دفعہ سورۃنساء کی آیت124کے بارہ میںدل میں سوال پیدا ہوا کہ اگرہر شخص کو اس کی ہر بدی پر سزا ملے گی تونجات کیسے ہوگی؟ سخت فکر مندی سے نبی کریم ﷺ سے یہ سوال پوچھا تو آپؐنے تسلی دلاتے ہوئے فرمایا’’اللہ تجھ پر رحم کرے اے ابوبکرؓ!تجھے اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہے۔‘‘دوسرے پوری امت کے لئے تسلی کا یہ جواب بھی سنا یا کہ ’’یہ جو آپ لوگ بیمار ہوتے یا تکلیف اٹھاتے یا غمگین ہوتے ہیں۔یہ بھی بدی کی جزا ہے جواللہ تعالیٰ اس دنیا میں دیکر مومنوں کی کفایت فرما لیتا ہے۔‘‘(61)
سورہ نصر نازل ہوئی تورسول کریمؐنے صحابہ کی مجلس میں یہ آیات سنائیںجن میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح کے آنے اور فوج در فوج لوگوں کے دین اسلام میں داخل ہونے کا ذکر ہے حضرت ابوبکرؓرو پڑے۔ صحابہ حیران تھے کہ فتح کی خوشخبری پر رونا کیسا؟مگر حضرت ابوبکرؓکی بصیرت اور فراست بھانپ گئی تھی کہ یہ آیت جس میں رسول اللہﷺکے مشن کی تکمیل کا ذکر ہے، آپؐکی وفات کی خبر دے رہی ہے۔اور اپنے محبوب کی جدائی کے غم سے بے اختیار ہو کر رو پڑے۔اورپھر اس کے صرف دو سال بعد نبی کریمﷺ کی وفات ہوگئی۔
حضرت ابوبکرؓ کی اس خدادادبصیرت کا تذکرہ صحابہ میں عام تھا۔ایک اور موقع پر جب نبی کریمﷺنے مجلس میں ذکر فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اختیار دیا کہ دنیا میں رہنا ہے یا خدا کے پاس حاضر ہونا ہے تو اس نے خدا کو اختیار کیا۔‘‘حضرت ابوبکرؓ اس پر بھی رو پڑے۔ صحابہؓ نے پہلے تعجب کیا مگر بعد میں انہیں پتہ چلا کہ اس’’ بندئہ خدا‘‘ سے مراد ہمارے آقاومولا حضرت محمد ؐ تھے۔ جنہوں نے دنیا پر خدا کے پاس جانے کوترجیح دی ۔(62)
حضرت ابوبکر ؓکے علمی شغف کا اندازہ اس سوال سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے مسئلہ تقدیر کے بارہ میںنبی کریمﷺ سے پوچھا کہ انسان کی تقدیر خیروشر کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔تو پھر اعمال کی کیا ضرورت ہے؟نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اعمال میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو پابند نہیں رکھا۔ اختیار دیا ہے کہ جو عمل نیک یا بد چاہے کرے پھر وہ تقدیر کے مطابق انجام کو پہنچتا ہے۔(63)
استحکام خلافت
حضرت ابوبکرؓ کے ذریعہ تقررخلافت کے دونوںطریق یعنی انتخاب اور نامزدگی کھل کر واضح ہوگئے اور ا س سے بھی آئندہ نظام خلافت کوایک استحکام نصیب ہوا۔ حضرت ابو بکر ؓ کثرت رائے اور انتخاب کے ذریعہ خلیفہ مقررہوئے تھے جب انصار اور مہاجرین کے گروہ نے آپ کی بیعت کرکے خلیفہ تسلیم کر لیا۔پھر خودحضرت ابو بکر ؓ نے حضرت عمر ؓ کو اپنے بعد اہل رائے اصحاب کے مشورہ سے جانشین مقرر کر کے بتا دیا کہ تقرر خلافت کادوسرا طریق نامزدگی ہے ۔(64)
اطاعت رسولﷺ
حضرت ابوبکرؓمیں استغناء اور اطاعت رسولؐ کا نہایت اعلیٰ جذبہ تھا۔ایک دفعہ نبی کریمﷺ نے سوال کرنے سے منع فرمایا ۔اس ارشاد کی کامل اطاعت کر کے دکھائی صحابہؓبیان کرتے ہیں کہ بسااوقات حضرت ابوبکرؓ اونٹنی پر سوار ہوتے۔ اونٹ کی رسی ہاتھ سے چھوٹ جاتی اونٹ کوبٹھا کر خود نیچے اتر کر اپنے ہاتھ سے رسی اٹھاتے۔ صحابہؓ عرض کرتے کہ آپ ہمیں حکم فرماتے وہ جواب دیتے میرے حبیب رسول اللہ ؐ نے مجھے حکم دیا تھا کہ لوگوں سے سوال نہیں کرنا(65)سبحان اللہ!کیسا عجیب استغناء ہے اور کیسی شاندارانکساری۔
تواضع وانکساراورپہلی تقریر
حضرت ابوبکرؓمیںتواضع اور انکسار توجیسے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔انہوںنے غربت اور انکساری کا لباس اختیا رکر لیا تھا۔ان کی تواضع گفتگو سے صاف جھلکتی نظر آتی ہے ۔ خلافت کے پہلے انتخاب کے موقع پر آپ نے حضرت عمر ؓاور حضرت ابوعبیدہؓ کے نام لئے اور جب خلیفہ ہوئے تو اپنی پہلی تقریر میں اپنے انکسار کا یوں اظہارکیا کہ ’’میں تو چاہتا تھا کہ یہ ذمہ داری میرے علاوہ کوئی اور اٹھاتا۔ اب جبکہ میں نے یہ منصب قبول کر لیا ہے تو جتنی میری طاقت ہے میں اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرونگا۔مجھے نبی کریم ﷺ کے معیار پر رکھ کر گرفت نہ کرنا کہ آپؐ کو خدا تعالیٰ نے ایک خاص عصمت عطا فرمائی تھی اور آپ ؐمعصوم تھے۔‘‘(66)
حضرت ابوبکرؓ کی خشیّت اور مقام عجز کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے ایک دفعہ نبی کریمؐنے فرمایا’’ جو شخص تکبر سے اپناتہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر چلتا ہے اس کو آگ کا عذاب ہو گا۔‘‘ حضرت ابوبکرؓنے جو ڈھیلا تہبند باندھنے کے عادی تھے کمال انکسار سے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! تہبند تو میرا بھی لٹک جاتا ہے۔ نبی کریمؐنے انہیں یہ نوید سنائی کہ’’ اے ابوبکر‘‘ ! تو ان لوگوںمیں سے نہیں۔(67)
کیونکہ آپ تہبند تکبر سے نہیں لٹکاتے تھے اسطرح نبی کریم ﷺنے ہر ایسے شخص کے لئے جو طبعاًفروتنی اور عاجزی رکھتا ہے یہ فرما کر دین میں تشدد کرنے والوں کے خیال کی اصلاح فرمادی۔
ایک دفعہ کسی نے آپ کوخلیفۃ اللہ کہہ دیا یعنی خدا کے خلیفہ تو نہایت انکساری سے فرمایا دیکھو میں محمد ؐ کا خلیفہ ہوں۔مجھے خلیفئہ رسول کہو میں اسی پر راضی ہوں۔‘‘(68)
حضرت ابوبکرؓکے آخری سانس تھے آ پ کی صاحبزادی حضرت عائشہؓ نے جذباتی کیفیت میں یہ شعر پڑھا
وَاَبیَضُ یُستَسقَی الغَمَامُ بِوَجِہہٖ
ثِمَالُ الیَتَامٰی عِصمَۃٌ الِّلاَرَامِلٖ
کہ آپ وہ ہیں جن کے منہ کے صدقے بارش کی دعا کی جاتی ہے۔ آپ یتیموں کے والی اور بیوائوں کے سہارا ہیں۔حضرت ابوبکرؓنے جان کنی کے عالم میں بھی اپنی یہ تعریف گوارا نہ کی اور نہایت انکسار سے فرمایا’’ اے عائشہ!یہ مقام تو آنحضرت ؐ کا تھا۔‘‘(69) آپؓ کی انگوٹھی پر یہ الفاظ کندہ تھے’’عَبدٌذَلِیلٌ لِرَبٍّ جَلِیلٍ ۔خدائے بزرگ وبرتر کا ایک ادنیٰ بندہ‘‘(70)
حضرت ابوبکرؓ مقام صدیقیت پر قائم تھے اور صدق وراستی سے اپنی طبعی مناسبت کے باعث اس کی پر زور تلقین فرماتے۔ایک دفعہ خطبہ دیتے ہوئے گلوگیر ہو گئے۔روتے ہوئے فرمایا ’’ سچائی اختیار کرو اس کے نتیجہ میں نیکی حاصل ہوتی ہے اور یہ جنت میں لیجانے کا ذریعہ ہے۔‘‘(71)
یزید بن ابو سفیان کو شام کا امیر مقرر کر کے روانہ کیا تو ازراہ نصیحت واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ’’مجھے بڑا اندیشہ یہ ہے کہ تم کہیں اپنے عزیزو اقارب سے اپنی امارت کے نتیجہ میں ترجیحی سلوک نہ کرو۔یاد رکھو میں نے نبی کریم ؐ سے سنا ہے کہ جس شخص کو مسلمانوں کا امیر بنایا جائے اور وہ کسی کو ڈر کر کچھ دیدے تو اس پر اللہ کی *** ہے۔‘‘(72)
عشق رسولﷺ
حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺکے عاشق صادق تھے۔ابتداء میں رسولِؐ خدا کیلئے جانثاری کے زیر عنوان اور سفر ہجرت میںبھی اس کا ذکر ہوچکا ہے۔اسی سفر کے متعلق بیان فرماتے تھے کہ راستے میں ایک چرواہے سے دودھ لے کر حضور ﷺکو پلایاجب حضورﷺنے دودھ پی لیا تو میرا دل راضی ہو گیا۔(73)
یہ فقرہ آپؓ کی کمال محبت کو خوب ظاہر کرتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے خود آپ نے وہ دودھ پیا اوردل خوش ہوگیا۔ مرتے دم تک آقاؐسے اپنے عشق کا اظہارکرتے رہے ۔ بار بار پوچھتے آج کیا دن ہے؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا سوموار کا دن۔ فرمایا دیکھو اگر میں مرجائوں تو کل کا انتظار نہ کرنا۔ مجھے وہ دن اور راتیں بھی محبوب ہیں، جو رسول اللہؐ سے کسی لحاظ سے مناسبت یا قربت رکھتی ہیں۔(74)
حضرت ابوبکرؓ کو اہل بیت رسولؐسے بھی بڑی محبت تھی۔ آنحضورﷺکی وفات سے چند روز بعد کا واقعہ ہے۔ حضرت علی ؓ آپ کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں حضرت حسنؓ کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت حسنؓ کو کندھوں پر اٹھالیا۔ فرمانے لگے ’’ خدا کی قسم نبی کریمﷺ پر اس کی شکل گئی ہے۔ علیؓ پرہرگز ان کی شباہت نہیں‘‘۔حضرت علیؓ اس لطیف مزاح اور اظہار محبت سے لطف اندوز ہو کر مسکرانے لگے۔(75)
شجاعت
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے عظیم سانحہ پرجب بڑے بڑے بہادروں کے پتّے پانی ہورہے تھے، آپ نے کیسی استقامت دکھائی اور کس طرح صحابہ رسولؐ کی ڈھارس بندھائی۔ اس کا ذکر بھی ہوچکا ہے۔
صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو میدان جنگ میںرسول اللہﷺکے ساتھ ہوا کرتاتھا کیونکہ سب سے زیادہ شدت سے حملہ وہیںہوتا تھا۔ یہ مقام شجاعت حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ جیسے اصحاب کو حاصل تھا۔ حضرت علیؓنے ایک دفعہ صحابہ سے پوچھا کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟انہوں نے کہا ہمیں نہیں معلوم تو کہنے لگے ’’حضرت ابوبکرؓسب سے زیادہ بہادر تھے۔جنگ بدر میں ہم نے رسولؐ اللہ کیلئے ایک جھونپڑی یا خیمہ تیار کیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب رسول اللہ ﷺکا پہرہ کون دے گا تاکہ مشرک آپؐ پر حملہ نہ کرسکیں؟ خدا کی قسم! کسی شخص نے ادھر کا رخ نہیں کیا مگر ابوبکرؓ تلوار لیکر اس پر حملہ آور ہوئے۔ یہ تھے تمام لوگوں سے بڑھ کر بہادر۔میں نے انہیںمکہ میں اس حال میں بھی دیکھا کہ رسولؐ اللہ کو کفار قریش نے گھیر رکھا ہے اور کوئی استہزاء و تمسخر کرتا تھا تو کوئی آواز کستا۔ ہم میں سے کوئی آگے نہ بڑھا سوائے ابوبکرؓ کے۔ انہوں نے کسی کو ادھر دھکیلا تو کسی کو ادھرپرے ہٹایا۔‘‘(76)
حضرت ابوبکرؓنبی کریم ﷺ کے وزیر اور مشیر تھے۔ نازک لمحات میں آنحضورﷺکے لئے تسلی کا موجب ہوتے تھے۔ بدر کے موقع پر جب نبی کریم ﷺ جھونپڑی میں نہایت درد اور الحاح کے ساتھ دعا کررہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ سے اپنے آقا کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی حضورﷺکی خدمت میں کمال ادب سے عر ض کیا’’ یا رسول اللہ !ؐ اب بس کیجئے۔ اللہ تعالیٰ کی فتح کے وعدے ضرور پورے ہوکر رہیں گے۔‘‘(77)
انفاق فی سبیل اللہ
حضرت ابوبکرؓکے ایک ایک وصف اور فضلیت کو بیان کیا جائے تو کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا یہ حال تھا کہ قبول اسلام کے بعد چالیس ہزار درہم کے مالک تھے جو سب خدا کی راہ میں خرچ کر دئے۔غزوہ تبوک کے موقع پر تحریک کی گئی تو گھر کا سارا مال لاکر پیش کردیا۔ آنحضور ؐ نے فرمایا’’ جتنا فائدہ مجھے ابوبکرؓ کے مال نے دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا۔‘‘ (78)
محنت کی کمائی اوررزق حلال کا اتنا خیال تھا کہ خلافت کے دوسرے ہی روز کپڑوں کی گٹھڑی اٹھا کر روزی کمانے چلے تو راستہ میں بعض جلیل القدر صحابہ ملے۔ انہوں نے کہا اب آپ کا خرچ بیت المال ادا کرے گا۔ آپ قومی ذمہ داریوں کو سنبھالیں۔(79)
خدمت خلق
حضرت ابوبکرؓ میں خدمت خلق کا جذبہ بھی کما ل کاتھا۔ خلافت سے قبل آپ مدینہ میں اپنے محلہ کے گھروںکی بکریوں کا دودھ دوہ کر دیا کرتے تھے۔ جب خلیفہ ہوئے تو قبیلہ کی ایک کم سن لڑکی کہنے لگی اب ہماری بکریاں کون دوہا کرے گا؟ حضرت ابوبکرؓ کو پتہ چلا تو فرمایا’’ میں ہی تمہاری بکریاں دوہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو منصب مجھے عطافرمایا ہے اس سے میرے اخلاق تبدیل نہیں ہوں گے۔ بلکہ مزید خدمتوں کی توفیق پائوں گا۔‘‘چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد بھی آپ قبیلہ کی بکریاں دوہ دیا کرتے تھے اور وہ لونڈی جس طرح کہتی اس کے مطابق یہ خدمت بخوشی انجام دیتے ۔(80)
حضرت عمرؓ مدینہ کی ایک نابینا عورت کی خبر گیری فرمانے گئے وہاں آکر دیکھا کہ کوئی دوسرا آدمی پہلے آکر اس کے کام کر جاتا تھا۔ ایک دفعہ پہلے آکر چھپ کر بیٹھ گئے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ خلیفۃ الرسول ﷺپوشیدہ طور پر اس بڑھیا کی خدمت کرتے اور اس کے کام سرانجام دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں دیکھ کر کہا’’آپ ہی ایسے آدمی ہوسکتے تھے‘‘(81)
حضرت ابوبکرؓ حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر پہلو سے تمام نیکیوں کے جامع وجود تھے۔ ایک دن نبی کریم ؐ نے صحابہؓ کی تربیت کی خاطر ان کا محاسبہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آج اپنے کسی بیمار بھائی کی عیادت کس نے کی؟حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا انہیں اس کی توفیق ملی ہے۔پھر فرمایا آج نفلی روزہ کس نے رکھا ہے؟ پتہ چلا کہ حضرت ابوبکرؓ روزہ سے ہیں۔ پھر آپ نے صدقہ دینے اور مسکین کو کھانا کھلانے کے بارہ میں سوال کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ انہوں نے اس کی بھی توفیق پائی ہے۔ پھر حضورؐ نے کسی مسلمان بھائی کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابوبکرؓ نے بتایا کہ میں نے نماز جنازہ میں بھی شرکت کی ہے۔ اس پر نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جس شخص نے ایک دن میں یہ سب نیکیاں جمع کرنے کی توفیق پائی اس پر جنت واجب ہوگئی۔ (82)
یہی مضمون آنحضرت ﷺکی ایک اور مجلس میں اس طرح بھی ظاہر ہوا۔ آپﷺ نے فرمایا ’’قیامت کے دن جنت کے مختلف دروازے ہوں گے۔ کوئی نماز کا دروازہ ہوگا تو کوئی صدقہ کا اور کوئی روزے کا یہ نیکیاں بجالانے والے مومن ان دروازوں سے جنت میں داخل ہوں گے اور جنت کے دربان فرشتے ان کو آواز دے کر بلائیں گے کہ اے نمازیو! آئو اور نماز کے دروازے سے جنت میں داخل ہوجائو۔ اور اے صدقہ اور روزہ والو! تم اس دروازے سے جنت میں داخل ہوجائو‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی کیا لطیف سوال کیا کہ یا رسولؐ اللہ جس شخص کو ایک دروازے سے بھی جنت میں داخلہ کی ندا آئے اسے حاجت تو نہیں کہ دوسرے دروازوں سے بھی بلایا جائے۔ مگر کیا کوئی ایسا خوش نصیب بھی ہوگا جسے جنت کے تمام دروازوں سے دربان فرشتے پکاریں گے۔ حضورﷺنے فرمایاکہ ہاں! اے ابوبکرؓ میں اُمید کرتا ہوں کہ تو ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوگا جسے تمام دروازوں سے جنت کے دربان فرشتے جنت میں آنے کی دعوت دیں گے۔(83)
اس طرح آنحضرت ؐنے جہاں آپ کو تمام نیکیوں میں اعلیٰ ذوق اور کامل مقام کے حامل ہونے کی خوشخبری سنائی وہاں تمام مسلمانوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ اگر تم بھی چاہتے ہو کہ سب دروازوں سے جنت میں بلائے جانے کا اعزاز پائو تو سیرت صدیقی اختیار کرو۔ جو نام ہے کامل اطاعت اور سپرداری کا اور خدا کی رضا پر راضی ہوجانے کا۔
مقام ابوبکرؓ
حضرت ابوبکرؓ کے اس مقام بلندکی خبر حضرت جبرائیل ؑ نے ایک دفعہ آنحضرتﷺ کو ان الفاظ میں دی کہ’’ عتیق‘‘ یعنی آگ سے آزادابوبکرؓ کو کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے۔(84)
حضرت ابوبکرؓ طبعاً انکساری کے باعث اپنے الہامات و کشوف کا ذکر نہ کرتے تھے۔ بعض دفعہ کسی سوال کے جواب میںمجبوری سے ذکر کرناپڑاتو پتہ چلا آخری بیماری میں صحابہؓ حضرت ابوبکرؓ کی عیادت کو آئے تو عرض کیا کہ ہم آپ کے لئے کوئی طبیب نہ بلائیں؟ فرمایا میں نے ایک فرشتہ دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا اس نے آپ کو کیا بتایا؟ آپ ؓنے فرمایا اس نے کہا ’’ہم(یعنی اللہ) جس بات کا ارادہ کریں وہ ضرور کردیتے ہیں۔‘‘(85)ظاہر ہے کہ اس میں آپ کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔
رسول کریمؐنے فرمایا’’مجھ پر سب سے زیادہ احسان اپنی دوستی اور مال سے ابوبکرؓ کا ہے۔‘‘ اور ’’اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو گہرا دوست بناتا تو ابوبکرؓ کو اختیار کرتا۔‘‘(86)حضرت حسانؓنے کیا خوب کہا
وَکَانَ حِبَّ رَسُولِ اللّٰہ قَد عَلِمُوا خَیرَالبَریَّۃِ لَم یَعدِلْ بِہٖ رَجُلاً
کہ دنیا جانتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ رسولؐ اللہ کے محبوب ترین فرد تھے۔ سب مخلوق سے بہتر وہ انسان جس کے مقابلہ کا کوئی شخص نہیں ہے۔(87)
اسی طرح رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’کسی قوم کے لئے جنمیں ابوبکرؓ موجود ہومناسب نہیں کہ ان کو کوئی اور(نماز کی) امامت کرائے ۔ (88)
ایک دفعہ ایک عورت رسول کریم ؐ کے پاس آئی۔ ملاقات کے بعد جاتے وقت کہنے لگی اگر میں آئندہ آئوں اور آپ کو نہ پائوں تو کیا کروں۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے نہ پائو، تو ابوبکرؓ کے پاس آنا۔‘‘(89)
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول ؐاللہ نے اپنی بیماری میں فرمایا:
’’میں نے ارادہ کیا کہ ابوبکرؓ اور اس کے بیٹے کو بلوا بھیجوں اور وصیت کردوں۔ مبادا کوئی اعتراض کرنے والا اعتراض کرے یا خواہش کرنے والا خواہش کرے۔پھر میں نے کہا کہ ابوبکرؓ کے سوا اللہ بھی انکار کردے گا اور مومن بھی ردّ کردیں گے۔‘‘ (90)
وفات ابو بکرؓ پر حضرت علی ؓکی تقریر
حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے موقع پران کے کامران و کامیاب عہد خلافت کے بارے میں حضرت علی ؓ کی ایک جامع تقریر کا ذکر کرنا نہایت مناسب ہوگا ۔’’ جب حضرت ابو بکرصدیقؓ نے انتقال فرمایا تو مدینہ (رونے والوں کی )آواز سے گونج اٹھا جیسا کہ رسولؐ اللہ کی وفات کے دن (رونے والوںکی آواز سے )گونج اٹھا تھا۔ پھرحضرت علیؓ تشریف لائے اس حال میں کہ آپ اِنَّا اللّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ پڑھتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ آج خلافت نبوت کا خاتمہ ہوگیا۔ حضرت ابو بکر ؓ کے مکان پر پہنچ کر انہیں چادر اوڑھا کر پھر حضرت علی ؓنے یہ تاریخی خطبہ دیا ۔
’’اے ابو بکرؓ ! آپ رسول اللہ ؐ کے دوست تھے ، ان کے مونس تھے ، ان کے مرجع و معتمد تھے ، ان کے راز دار اور مشورہ دینے والے تھے ، آپ سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے زیادہ فائق الایمان تھے اور سب سے زیادہ مضبوط یقین کے تھے اور سب سے زیادہ خدا کا خوف رکھتے تھے۔ آپ اللہ کے دین کے نافع تھے اور رسول ؐاللہ کی نگہداشت میں سب سے زیادہ فائق تھے ، سب سے زیادہ اسلام پر شفقت کرنے والے تھے اور اصحاب رسول کے حق میں بہت بابرکت تھے اور سب سے زیادہ رسول اللہﷺ کا حق رفاقت ادا کرنے والے تھے اور سب سے زیادہ مناقب میں اور سب سے افضل اسلامی امتیازات میں۔ اور سب سے بلند مرتبہ میں ۔اور سب سے زیادہ مقرب بارگاہ رسالت میں۔ اور سب سے زیادہ روش اور عادت اور مہربانی اور بزرگی میں رسول اللہﷺ کے مشابہ اور سب سے زیادہ مرتبہ کے لحاظ سے اشرف اور سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺکے نزدیک با عزت اور سب سے زیادہ آپؐ کے نزدیک قابل وثوق تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام کی طرف سے اور اپنے رسول کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے ۔
اے ابو بکرؓ! آپ رسول اللہﷺ کے نزدیک بمنزلہ کان اور آنکھ کے تھے ۔ آپؓ نے رسول اللہ ﷺکی تصدیق اس وقت کی جب تمام لوگ آپ کی تکذیب کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام اپنی کتاب میں صدیق رکھا ۔چنانچہ فرمایا وَالَّذِی جَآء بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِہٖ۔اور وہ شخص جو سچ لایا او روہ شخص جس نے اس کی تصدیق کی سچ کو لانے واے محمدؐ ہیں اور اس کی تصدیق کرنے والے ابو بکرؓ ہیں۔ اے ابو بکر ؓ! آپ نے رسول اللہؐ کی غمخواری اپنے جان و مال سے اس وقت کی جب اور لوگ مال سے بخل کرتے تھے ۔ آپ نے ان کی رفاقت مصائب کے ایسے وقت میں کی جبکہ اور لوگ آپ کی اعانت سے بیٹھ رہے تھے ۔ آپ نے سختی کے زمانے میں ان کی صحبت اختیار کی۔ آپؓ صحابہؓ میں سب سے مکرم ثانی اثنین، غار میں رسو ل اللہ ﷺکے ساتھی تھے ۔ جس وقت خدا کی طرف سے سکینت اور وقار اتارا گیا ۔ آپ ہجرت میں رسول اللہﷺ کے رفیق اور دین میں اور امت میں ان کے خلیفہ تھے۔ آپ نے فرائض خلافت کو خوب ادا کیا اور اس وقت آپ نے وہ کام کیا جو کسی نبی کے خلیفہ نے نہ کیا تھا ۔ آپ مستعد رہے جبکہ آپ کے ساتھی سستی ظاہر کرتے تھے ۔ آپ میدان میں آگئے جبکہ وہ چھپ رہنا چاہتے تھے اور آپ قوی رہے جبکہ وہ ضعف ظاہر کرنے لگے ۔ اور آپ نے طریقۂ رسول ﷺ کو مضبوط پکڑا جبکہ وہ لوگ ادھر ادھر بھٹکنے لگے ۔ آپ کی خلافت منافقوں کی ذلت، کافروں کی ہلاکت ، حاسدوں کی ناگواری اور باغیوں کی ناخوشی کا سبب تھی اور آپ اس وقت امر حق کے اجراء میں قائم ہوئے جبکہ اور لوگوں نے ہمتیں پست کر دی تھیں اور آپ ثابت قدم رہے جبکہ اور لوگوں میں تردد پیدا ہو گیا اور آپ نور الٰہی کے ساتھ خطرناک راستوں سے گذر گئے جبکہ اور لوگ توقف پذیر ہو گئے ۔ پھر آپ کو راہ پر دیکھ کر سب نے آپ کی پیروی کی اور سب نے راہ پائی اور آپ آواز میں سب سے پست تھے اور فوقیت میں سب سے برتر۔ آپ کلام میں سب سے بہتر تھے ۔ آپ کی گفتگو سب سے ٹھیک اور آپ کی خاموشی سب سے بڑھی ہوئی ہوتی تھی ۔ آپ کا قول سب سے بلیغ ہوتا تھا اور آپ کا دل سب سے زیادہ شجاع تھااور سب سے زیادہ امور (دینی و دنیوی) کے پہچاننے والے تھے اور عمل کے لحاظ سے سب میں اشرف تھے (اے صدیقؓ)قسم خدا کی آپ دین کے سردار تھے، ابتدا میںبھی جب لوگ دین سے بھاگے تھے اور آخر میں بھی جبکہ لوگ (دین کی جانب)متوجہ ہوئے آپ مسلمانوں کے مہربان باپ تھے۔ یہاں تک کہ سب مسلمان آپ کے با ل بچے تھے اور جس بار کے اٹھانے سے وہ ضعیف تھے وہ بار آپؓ نے (اپنے سر پر)اٹھا لیا اور جو امور ان سے فرو گزاشت ہوئے تھے آپ نے ان کی نگہداشت کی اور جس کو انہوں نے ضائع کیا آپ نے اس کی حفاظت کی اور جس بات سے وہ جاہل رہے آپ نے اسے جان لیا اور جس وقت وہ (اجراء امور دین میں)سست ہوئے تو آپ (ان کاموں میں کمر باندھ کر) مستعد ہوگئے اور جب وہ لوگ گھبرائے تو آپ نے صبر (و استقلال)سے کام لیا۔ پس ان کے مطالب کے قصور کو معلوم کر لیا اور آپ کی رائے سے اپنے مقاصد کی طرف راہ یاب ہوئے تو انہوں نے اپنی مراد کو پایا اور آپ کے سبب سے (ان مدارج علیا کو) پہنچے کہ جس کا انہیں گمان ہی نہ تھا (اے ابو بکرؓ )آپ کافروں پر (تو)عذاب آسمانی اور (غضب الہٰی کی )آگ تھے اور ایمانداروں کیلئے (خدا کی ) رحمت اور انس اور (ایک مضبوط)قلعہ تھے پس (ان محامدو کمالات کے سبب) آپ اس خلافت (کے دریا) میں داخل ہوئے اور انتہا تک پہنچ گئے اور اس کے فضائل حاصل کر لئے اور اس کے سوابق پائے اور (باوجود یکہ یہ کام مشکل تھا مگر)آپ کی حجت نے کمی نہ کی اور آپ کی بصیرت ضعیف نہ ہوئی اور آپ کے دل نے بزدلی نہ کی اور آپ کا قلب نہ گھبرایا اور آپ (خلافت میں آکر) حیران نہیں ہوئے۔ آپ مثل پہاڑ کے تھے جسے بادل کا گرجنا اور تیز آندھیاں اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکیں اور (اے ابو بکرؓ درحقیقت) آپ موافق ارشاد رسولؐ اللہ کے اپنی رفاقت اور مال سے سب سے زیادہ رسولﷺ اللہ پر احسان کرنے والے تھے اور نیز حسب ارشاد نبویؐ آپ اپنے بدن میں ضعیف تھے مگر خد اکے کام میں قوی تھے۔ منکسر النفس تھے مگر خدا کے نزدیک باعظمت تھے۔ لوگوں کی نظروں میں جلیل(القدر) تھے ان کے دلوں میںبزرگ تھے۔ کسی شخص کو آپ پر موقع نہ ملتا تھا اور نہ کوئی گرفت کرنے والا آپ میں عیب نکال سکتا تھا اور نہ کوئی آپ سے (خلاف حق) کی طمع کر سکتا تھا اور نہ کسی کی آپ کے یہاں(ناجائز)رعایت تھی (جو)ضعیف و ذلیل تھا وہ آ پ کے نزدیک قوی غالب تھا ۔ یہاں تک کہ آپ اس سے حق دار کا حق لے لیتے تھے۔ اس بار ہ میں قریب و بعید آپ کے نزدیک یکساں تھے۔ سب سے زیادہ مقرب آپ کے یہاں وہ تھا جو اللہ کا بڑا مطیع اور اس سے بڑا ڈرنے والا تھا۔ آپ کی شان حق(کام کرنا)اورسچ بولنا اور نرمی کرنا تھی۔ آ پ کی بات (لوگوں کیلئے) حکم اور قطعی(حکم )تھی اور آپ کا کام سراسر حلم و ہوشیاری تھا۔ آپ کی رائے علم اورعزم تھی آپ نے جب مفارقت کی تو (ہم کو اس حال میں چھوڑا) کہ راہ صاف تھی اور دشواریاں آسان ہوگئی تھیں ۔اور (ظلم و تعدی کی )آگ بجھ گئی تھی اور آپ (کی ذات)سے ایمان قوی ہوگیا تھا اور اسلام مستحکم اور مسلمان ثابت قدم ہوگئے تھے اور خداکا حکم ظاہر ہوگیا تھا اگرچہ کافروں کوناگوار گزرا۔
پس خدا کی قسم (اے ابوبکرؓ)آپ (اوصاف حسنہ میں سب سے )بڑھ گئے اور بہت دور پہنچے اور آپ نے اپنے بعد کے لوگوں کو سخت تعب (و تکلیف) میں ڈالا(کیونکہ امور خلافت میں آپ کی جیسی کوئی شخص کو شش نہیں کر سکتا)اور واضح طورپر خیر تک پہنچے اب آپ نے (اپنی وفات کے صدمہ سے سب کو) رونے (اور غم کرنے )میں مبتلا کیا ۔ آپ کی مصیبت(وفات)آسمان میں بڑی باعظمت ہے اورآپ کے (فراق)کی مصیبت نے لوگوں کو شکستہ (دل اور ویران خاطر)کردیا۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ہم اللہ سے اس کے حکم پر راضی ہوئے اور اس کا کام اسی کے سپرد کیا ۔ قسم خدا کی رسول اللہ ؐ کے بعد کبھی مسلمان آپ کے جیسے شخص (کی وفات) کی مصیبت نہ اٹھائیں گے۔ آپ دین کی عزت اور دین کی حفاظت اور دین کی پناہ میں تھے اور مسلمانوں کے مرجع و ماوٰی اور ان کے فریاد رس تھے اور منافقوں پر سخت اور (ان کے )غصہ (کا سبب) تھے۔ اللہ آپ کو آپ کے نبی ؐ سے ملادے اور ہمیں آپ کے (غم میں صبر کرنے کے) اجر سے محروم نہ رکھے اور آپ کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ راوی کا بیان ہے کہ سب لوگ (اس تقریر کے وقت) خاموش رہے یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے اپنی تقریر ختم کی(اور جب آپ نے یہ تقریر ختم کی تو)پھر سب روئے یہاں تک کہ ان کے رونے کی آواز بلند ہوئی ۔پھر سب نے کہا اے رسولؐ اللہ کے داماد ! آ پ نے سچ فرمایا۔(91)
شادی اور اولاد
حضرت ابوبکرؓ کی چار شادیاں تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں قتیلہ بنت عبدالعزی سے نکاح کیا جس سے عبداللہ اور اسماء پیدا ہوئے۔ دوسرا نکاح ام رومان کنانیہ سے کیا جن سے عبدالرحمن اور عائشہؓ (ام المومنین)ہوئے۔
زمانہ اسلام میں پہلے حضرت جعفرؓ کی بیوہ حضرت اسمائؓ بنت عمیس سے شادی کی۔ جن سے محمد بن ابی بکر ہوئے۔ اسی طرح حبیبہ بنت خارجہ بن زید انصاریہ سے نکاح کیا جن سے آپ کی وفات کے بعد ام کلثوم پیدا ہوئیں۔(92)
امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ابو بکرؓ ایک عظیم بہادر ،جری، عبقری اور مرد خدا تھا ۔ اس نے ہر اس شخص سے مقابلہ کیا جس نے اسلام کو چھوڑ ا ۔ اس نے اسلام کی اشاعت کیلئے شدائد برداشت کیں ۔ اور ان لوگوں کو ہلاک کیا جنہوں نے جھوٹے نبوت کے دعوے کئے تھے۔۔ ۔ آغاز سے ہی ، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، ابو بکرؓ کے لئے میرے دل میں ایک محبت ڈالی گئی ہے اور میں نے اس کی رکاب کو پکڑ لیا اور اس کی پناہ میں آگیا اور تب اللہ نے مجھ پر اپنی رحمت نازل کی اور میری تائید فرمائی اور مجھے ان معزز لوگوں میں سے بنا دیا جو اس صدی کا مجدد ہے ۔ یہ سب کچھ جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا۔ آنحضوؐرکی برکت اور ان مقرب لوگوںکی محبت کی وجہ سے ہے ۔ خدا کی قسم ! ابو بکرؓ آنحضرتﷺ کا صاحب حرمین بھی تھا مکہ اور مدینہ میں اور دونوں قبروں قبرِ غار اور قبرِ مدینہ میں بھی وہ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کا ساتھی ہے۔ جس کی ذات اور خلافت کی قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے ۔
اگر صدیقؓ اکبر نہ ہوتا تو اسلام کے اندر ضعف داخل ہو جاتا اسلام کو جو اللہ تعالیٰ نے حسن و جمال اور سرسبزی و شادابی بخشی وہ ابوبکر ؓ کی وجہ سے ہی عطا فرمائی ۔ اس نے کوئی اجر نہیں مانگا اور رضائے باری کے لئے یہ سب کام کیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم پر بھی رحم کر۔پس اے نعمتوں والے تو سب رحم کرنے والوںسے بڑھ کر رحم کرنیوالا اور بہتر رحم کرنے والا ہے ۔ اے اللہ ! تو ہم پر رحم فرما۔ آمین‘‘(93)
حوالہ جات
1-
اصابہ جز 4صفحہ102
2-
ابن ہشام جلد 1صفحہ288
-3
روض الانف جلد 1ص 288
-4
سیرت الحلبیہ جلد 1ص 275،البدایہ جلد3ص 29
-5
ابن ہشام جلد 1ص 267
6-
استیعاب جلد 1صفحہ 341
-7
طبری جلد 2ص 314
8-
اصابہ جز 4صفحہ102و بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابی بکرؓ
-9
سیرت الحلبیہ جلد 1ص 295
10-
بخاری کتاب التفسیر(40)سورۃ المومن و سیرت الحلبیہ جلد 1ص 294
-11
بیھقی جلد 2ص 167
12-
بخاری کتاب مناقب الانصار باب ھجرۃ النبیؐ
13-
بخاری کتاب مناقب الانصار باب ھجرۃ النبیؐو سیرت الحلبیہ جلد 2ص 44،استیعاب جلد 3ص 95
14-
سیرت الحلبیہ جلد 2ص 45و مسند احمد جلد 1ص 5
-15
ابن سعد جلد 8ص 62
-16
مجمع الزوائد جلد 9ص 46
-17
بخاری کتاب التفسیر
-18
کنز العمال جلد 5ص 658
-19
بخاری کتاب المغازی
-20
بیھقی جلد 4ص 48
-21
مجمع الزوائد جلد 9ص237
-22
ابن ہشام جلد 3ص 346
-23
بخاری کتاب الشروط باب الشروط و المصالحہ
-24
بخاری کتاب المغازی باب دخول النبی ؐمن اعلیٰ مکہ
25-
ابن سعد جلد 3 صفحہ174
26-
بخاری کتاب المغازی
-27
مستدرک حاکم جلد3ص 477،استیعاب جلد 3ص 96
28-
بخاری کتاب المغازی
29-
بخاری کتاب الحدود،ابن سعد جلد 3ص 151،بیھقی جلد8ص 143
30-
اازالۃ الخفاء مترجم ص240،استیعاب جلد 3ص 97
-31
مجمع الزوائد جلد 5ص 183و کنزالعمال جلد 3ص 130،140
32-
بخاری کتاب الزکوٰۃ
33-
بخاری کتاب فضائل القرآن
-34
ازالۃ الخفاء ص 276
-35
استیعاب جلد 3ص 99
-36
تاریخ ابن خلدون جز 2ص 60تا65
-37
تاریخ ابن اثیر جلد1ص134
-38
تاریخ ابن اثیر جز 1 ص142
-39
بخاری کتاب الزکوۃ،طبری مترجم اردوجلد2ص63
-40
بخاری فضائل القرآن
-41
مسند احمدجلد 1ص 9
-42
بخاری کتاب المغازی
-43
ابن اثیرمترجم اردوجلد3ص 87 تا108
-44
ابن اثیرمترجم جلد3ص 115تا141
-45
نہج البلاغہ قسم سوم ص 383مطبوعہ مصر
-46
مسند احمد جلد 1صفحہ8،استیعاب جلد 3ص 101
47-
مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ73 مطبوعہ مصر
48-
مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ68
49-
جامع الصغیر صفحہ5
-50
سر الخلافہ روحانی خزائن جلد 8 ص355ترجمہ از عربی
51-
مسند احمد جلد 1صفحہ8
52-
مسند احمد جلد 1صفحہ8
53-
اصابہ جلد 4 صفحہ164
54-
مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ4
55-
ترمذی ابواب الدعوات
56-
مسند احمد جلد 1صفحہ5
57-
مسند احمد جلد 1صفحہ3
58-
بخاری کتاب المناقب
59-
مسند احمد جلد 1صفحہ5
60-
مسند احمد جلد 1صفحہ9
61-
مسند احمد جلد 1صفحہ11
62-
بخاری کتاب المناقب
63-
مسند احمد جلد 1صفحہ6
-64
بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف
65-
مسند احمد جلد 1صفحہ5
66-
مسند احمد جلد 1صفحہ5
67-
بخاری کتاب اللباس
68-
استیعاب جلد 3ص 98
69-
بخاری کتاب المغازی
70-
استیعاب جلد 3ص 101
-71
مسند احمد جلد 1صفحہ10
72-
مسند احمد جلد 1صفحہ7
73-
مسند احمد جلد 1صفحہ6
74-
مسند احمد جلد 1صفحہ3
75-
مسند احمد جلد 1صفحہ8
-76
مجمع الزوائد جلد 9ص 46
77-
بخاری کتاب المغازی
-78
استیعاب جلد 3ص 94، اسد الغابہ جلد3 صفحہ218
-79
ابن سعد جلد3 صفحہ184
80-
مسند احمد جلد 1صفحہ8،اسد الغابہ جلد3ص 219
-81
ابن اثیر مترجم جلد سوم ص 134
-82
مجمع الزوائد جلد 3ص164و اسد الغابہ جلد 3ص 217
83-
بخاری کتاب الصوم
84-
اسدالغابہ فی جلد 3صفحہ209
85-
حلیۃ الاولیاء جلد 1 صفحہ34
86-
مسند احمد جلد4صفحہ4
-87
استیعاب جلد 3ص 93
-88
ترمذی کتاب المناقب باب قولہ لَا یَنبَغِی لقوم فیھم ابوبکرؓ
-89
ترمذی کتاب المناقب باب قولہ لامرأۃِ
-90
بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف ومسلم کتاب المناقب ، باب مناقب ابی بکرؓ
-91
مجمع الزوائد جلد9ص 46،ازالہ الخفاء مترجم ص265تا268
-92
ابن اثیر جلد سوم ص 131
-93
سر الخلافہ روحانی خزائن جلد8ص393
حضرت علی ؓ
نام ونسب
درمیانہ قد،سیاہ آنکھیں،حسین چہرہ جیسے چودہویں کا چاند،لمبی گردن فربہ جسم ،چوڑے کندھے یہ تھے حضرت علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم۔خاندان بنی ہاشم کے چشم و چراغ۔والدکا اصل نام عبدمناف اور کنیت ابوطالب تھی۔ والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں۔ حضرت علیؓ کی کنیت ابوالحسن تھی۔ بعثت نبوی سے دس سال قبل پیدا ہوئے۔(1)
خاندان بنی ہاشم کو خانہ کعبہ کی خدمت کی سعادت حاصل تھی۔ اور اس لحاظ سے وہ تمام عرب میں مذہبی لیڈر سمجھے جاتے تھے۔
ابوطالب حضرت علیؓ کے والد رسول اللہ ﷺکے حقیقی چچاتھے۔ انہوں نے آنحضرتؐ کی پرورش کمال محبت اور شفقت سے کی بلکہ دعویٰ رسالت کے بعد جب کفار قریش کی مخالفت کا آغاز ہوا۔ ابو طالب نے رسول اکرمﷺکی حمایت کا بیڑا اُٹھایا اور ہمیشہ آپؐ کے سامنے سینہ سپر رہے۔ خاندان ابو طالب تین سال تک رسول اللہﷺکے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور رہ کردشمنان اسلام کا تختۂ مشق ستم بنتا رہا۔ عام روایات کے مطابق ابوطالب کو قبول اسلام کے برملااظہار کی توفیق نہیں ملی۔ مگر انہوںنے رسول اللہ ﷺکوہمیشہ سچا جانا اور آپؐ کا ساتھ دیا۔(2)
ابو طالب کا اظہار صداقت
ایک دفعہ ابوطالب نے اپنی بیماری میں رسول اللہ ﷺسے خواہش کی کہ اپنے اس رب سے دعا کریںکہ وہ مجھے اچھا کردے۔ رسول اللہﷺ نے دعا کی جس سے ان کو فوری افاقہ ہوا۔اس پر ابوطالب بے اختیار کہہ اُٹھے ’’اے محمدؐ واقعی تجھے تیرے رب نے بھیجا ہے اور وہ تیری بات بھی خوب مانتا ہے۔‘‘رسول اللہﷺنے فرمایا ’’اور آپ بھی اے چچا اللہ کی اطاعت کریں گے وہ بھی آپ کی مانے گا۔‘‘(3)
پھر ابوطالب نے جس جرأت جواں مردی اور استقلال سے رسول کریمﷺکی نصرت و حمایت کی اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ ان کا نام ہمیشہ احسان مندی کے جذبات کے ساتھ یادرکھا جائے گا۔
حضرت علیؓ کی والدہ حضرت فاطمہؓ بنت اسد نے شفیق ماں کی طرح رسول اکرمﷺکی پرورش فرمائی تھی۔ انہیں نہ صرف قبول اسلام بلکہ ہجرت مدینہ کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ مدینہ میں ہی انہوں نے وفات پائی۔ رسول اللہﷺنے اپنا قمیص مبارک ان کے کفن کے لئے عطاکیا اور فرمایا ’’میں ابوطالب کے بعد اس نیک سیرت خاتون کا ممنون احسان ہوں۔ ‘‘
قبول اسلام
حضرت علیؓ ابھی کم سن بچے تھے جب ان کے والد ابوطالب کو ایک بڑا کنبہ پالنے کا بوجھ اور تنگی اُٹھانی پڑی۔ آنحضرت ﷺنے اپنے پیارے چچا کا ہاتھ بٹانے کی خاطر حضرت علیؓ کی کفالت اپنے ذمّے لے لی۔ اور یوں حضرت علیؓ شروع ہی سے آنحضرت ﷺکے زیر تربیت آگئے۔وہ دس سال کے ہوئے تو رسول اکرمﷺنے دعوی نبوت فرمایا۔
ایک دفعہ حضرت علیؓ نے آپؐ کو حضرت خدیجہؓ کے ساتھ عبادت کرتے دیکھا تو پوچھا کہ آپؐ کیا کررہے تھے۔ آنحضرت ﷺنے اپنے منصب نبوت کا ذکر کرتے ہوئے کفروشرک کی تردید کی اور حضرت علیؓ کو دعوت اسلام دی۔حضرت علیؓ تو پہلے ہی آپؐ کے فیض تربیت اور صحبت سے منور ہوچکے تھے۔ فوراً اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی۔ یوں تبلیغ کے عام اعلان سے پہلے بچوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ کو قبولیت اسلام کا شرف حاصل ہوا۔اس وقت ان کی عمر 10سے 15برس تھی ۔ فرماتے تھے کہ میں پہلامرد ہوں جس نے رسولؐ اللہ کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔ (4)
تائید حق اور دعوت الی اللہ
چوتھے سال نبوت میں رسول کریمﷺ کورشتہ داروں کو ہوشیار کرنے کا حکم ہوا تو آپ ؐ نے حضرت علیؓ کو ارشاد فرمایا کہ اپنے خاندان تک پیغام اسلام پہنچانے کے لئے ایک دعوت طعام کا اہتمام کریں۔ حضرت علی ؓ نے بکری کے پایوں کے سالن اور دودھ کا انتظام کیااور خاندان کے چالیس افراد کو اس دعوت پر بلایا گیا۔ دعوت کے بعد آنحضرتﷺ نے خاندان بنی مطلب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’خدا کی قسم میں تمہارے سامنے دنیا وآخرت کی بہترین نعمت پیش کررہاہوں۔ کون ہے جو اس کام میں میرا معاون اور مددگار ہوگا؟‘‘
اس وقت خاندان میں سے کسی اور کوتو توفیق نہ ہوئی، مگر یہ کم سن بچہ کھڑا ہوا، جس کی آنکھوں سے آشوب چشم کی وجہ سے پانی بہ رہا تھا، مگر کمال ہمّت وعزم سے اس نے کہا ’’یا رسولؐاللہ ہر چند کہ میں کمزور اور ناتواں ہوں میں اس راہ میں آپؐ کی مدد کے لئے حاضر ہوں ۔ ‘‘ رسول ؐاللہ نے آپؓ کو بیٹھنے کا ارشاد فرمایا اور اپنے رشتہ داروں کے مجمع کے سامنے پھر یہی سوال دہرایا ، دوسری دفعہ پھر حضرت علی ؓ کے سوا کوئی اور نہ اُٹھا۔ تیسری مرتبہ بھی جب حضرت علی ؓ نے ہی نہایت دلیری اور جانبازی کے ساتھ اپنی خدمات اسلام کی تائید کے لئے پیش کردیں تو رسول اللہؐ بہت خوش ہوئے۔ (5)
حضرت علیؓ کی فدائیت اور جانثاری
حضرت علیؓ نے زندگی بھر اس تعلّق کا حق خوب ادا کیا ۔ چنانچہ اہل مکہ نے باہم مشورہ کرکے جب رسول اکرمؐ کے گھر پر حملہ آور ہوکرآپؐ کو قید کرنے یا قتل کا منصوبہ بنایا۔ تو وحی الہٰی سے آپؐ کو دشمنوں کے اس ارادے کی اطلاع ہوگئی۔ ہجرت مدینہ کا حکم ہوا تو حضورﷺنے احتیاطی تدبیر کے طور پر حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر استراحت کا حکم دیا۔حضرت علیؓ رسول اللہﷺ کی سرخ چادر اوڑھ کرلیٹ گئے۔(6) تاکہ دشمنوں کو آپؐ کے مکہ چھوڑنے کا علم نہ ہو۔
ساری رات مشرکین نے حضرت علی ؓ کو نبی کریمﷺسمجھ کرحراست میں لئے رکھا۔صبح وہ آپؐ کو گرفتار کرنے کے لئے لپکے تو آپؐ کی جگہ حضرت علی ؓ کودیکھ کر سخت مایوس ہوئے۔ (7)
اس دوران حضرت علی ؓ پر اسی طرح سنگ باری کی جاتی رہی جس طرح رسول اللہﷺپر سنگباری کی جاتی تھی۔ (8)
علی الصبح جب مشرکین نے رسول اللہﷺکی جگہ حضرت علی ؓ کو پایا تو پہلے ڈانٹ ڈپٹ کر آپ ؓ سے رسول اللہ ﷺکا اتہ پتہ پوچھتے رہے ۔انہیں زدوکوب بھی کیا۔پکڑ کر خانہ کعبہ میں لے گئے اور کچھ دیر محبوس رکھا۔ جب حضرت علیؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺپر نگران نہیں تھا۔ تم نے انہیں مکّہ سے نکل جانے کا کہا اور وہ چلے گئے تب کہیں آپؓ کی جان چھوٹی۔(9)
حضرت علیؓ کا بائیس سال کی عمر میں رسول کریمﷺکی خاطر اپنی جان کو یوں خطرے میں ڈالنا ان کے اخلاص و فدائیت کو خوب ظاہرکرتا ہے۔انہیںبجاطورپر حفاظت و خدمت رسول ؐ کی اپنی اس سعادت پرفخر تھا اپنے منظوم عربی کلام میں کیا خوب فرماتے ہیں:۔
وَقَیْتُ بِنَفْسِی خَیْرَمَنْ وَطِیَٔ الحَصَا
وَمَن طَافَ بِالبَیتِ العَتِیقِ وَبِالحَجَر
وَبَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ فِی الغَارِآمِنًا
مُوقی وَفِی حِفظِ الِالٰہِ وَفِی سِترِ
وَبِتُّ اُرَاعیھِم وَلَم یَتِّھِمُونِی
وَقَد وَطَّنتُ نَفسِی عَلَی القَتلِ وَالاَسرِ
یعنی میں نے اپنی جان فدا کرکے وادی بطحا پر قدم رنجافرمانیوالی بہترین ہستی کی حفاظت کی۔ ہاں اس وجود کی جو بیت اللہ اور حجر کا طواف کیا کرتاتھا۔
خدا کے رسول نے غار(ثور)میں بے خوف کفارسے بچ کراللہ کی حفاظت وامان میں رات بسرکی۔ اور میں نے دشمن کی نگرانی کرتے ہوئے رات گزاردی اس طرح(نڈرہوکر) کہ وہ مجھ پر کوئی تہمت نہیں لگاسکے۔دراں حالیکہ میں نے اپنے آپ کو قتل اور قید کے لئے تیارکرلیا تھا۔
رسول اللہﷺ کے ارشادکے مطابق حضرت علیؓ دوتین روز کے بعد اہل مکہ کی امانتیں لوٹاکر ہجرت کرکے مدینہ آئے اور نبی کریمؐ کے ساتھ فروکش ہوئے۔سفر ہجرت میں بھی بہت تکلیف اٹھائی راتوں کو سفر کرتے اور دن چھپ کر گزارتے ، پیدل چلنے سے پائوں زخمی ہوگئے مدینہ پہنچے تو رسول اللہﷺ انہیںدیکھ کر رو پڑے اور گلے لگالیا۔(10)
رسول کریمﷺ نے مکہ میں مہاجرین کے درمیان مؤاخات قائم کرتے ہوئے اور پھر ہجرت کے بعد مدینہ میں مواخات کے موقع پر حضرت علیؓ کو اپنا بھائی اورساتھی قرار دیتے ہوئے فرمایاتم دنیا اور آخر ت میں میرے بھائی ہو۔(11)
غزوہ بدر میں شرکت اور بہادری
بدر کا معرکہ پیش آیا تو رسول اکرمﷺ ۳۱۳ جاں نثاروں کے ساتھ مدینہ سے نکلے آگے آگے دو عَلَمْ تھے۔ ایک جھنڈا حضرت علیؓ کے ہاتھ میں تھا۔(12) بدر کے قریب پہنچے تو رسول اکرمﷺ نے حضرت علیؓ کی سرکردگی میں ایک دستہ دشمن کی نقل وحرکت معلوم کرنے کے لئے روانہ فرمایا۔ انہوں نے نہایت حکمت عملی کے ساتھ یہ خدمت سرانجام دی۔ ۱۷ رمضان المبارک کو مسلمان اورکفار میدان بدر میں آمنے سامنے ہوئے۔ سردارانِ قریش نے مبارزت طلب کی پہلے تین انصاری مقابلے کے لئے نکلے۔ قریش نے مطالبہ کیا کہ ہمارے ہم پلّہ قبیلہ قریش کے مردوں کو مدمقابل لایا جائے۔ تب رسول اللہ ﷺنے فرمایا’’کھڑے ہوجائو اے حمزہؓ او راے علیؓ تم مقابلہ پر نکلو۔‘‘
حضرت علیؓ سفیدپٹکے میں نمایاں تھے۔ ارشاد رسولؐ کی تعمیل میں یہ سربکف جوان میدان میں اترکراپنے شکارپر جھپٹا۔ اپنے حریف ولید کا ایک ہی وار میں خاتمہ کردیا پھر عبیدہ کی مدد کو بڑھے اور ان کے حریف شیبہ کو بھی ختم کرکے دم لیا۔ جب مشرکین نے اپنے سرداروں کو یوں قتل ہوتے دیکھا تو مسلمانوں پر عام حملہ کردیا۔ اس موقع پر شیر خدا حضرت علیؓ نے خوب بہادری کے جوہر دکھائے اور دشمنوں کی صفوں کی صفیں الٹ کررکھ دیں۔
روایت ہے کہ حضرت علیؓ بہادر سورما کی طرح دشمن کی صفوں پرٹوٹے پڑتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اب یہ واپس مکّہ جاکر وہاں کی کھجوریں کبھی نہ کھائیں گے۔
سرولیم میور نے حضرت علیؓ کی اس بہادرانہ شان کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے کہ’’ میدان بدر میں علیؓ اپنے لمبے اور سرخ پھُریرے کے ساتھ اور زبیرؓ اپنی شوخ رنگ کی چمکتی ہوئی زردپگڑی کے ساتھ بہادران الیڈ کی طرح جہاں بھی جاتے تھے۔دشمن کے واسطے گویا موت و پریشانی کا سامان ساتھ لے جاتے تھے۔ یہ وہ نظارے تھے جہاں بعد کی اسلامی فتوحات کے ہیروتربیت پذیر ہوئے۔‘‘(13)
حضرت فاطمہؓ سے شادی
۲ہجری میں حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حضرت فاطمہؓ سے عقد کی درخواست کی جسے حضورﷺ نے بخوشی قبول فرمایا۔حضرت علیؓ نے حق مہر میں اپنی ایک اونٹنی مالیتی480درہم اور زرہ مالیتی 20درہم کل پانچ صد درہم پیش کی۔ نبی کریمؐ نے ہدایت فرمائی کہ اس رقم کا ایک حصّہ خوشبو وغیرہ کے لئے، دوسرا حصّہ کپڑوں کے لئے اور تیسرا حصّہ دیگر اخراجات میں صرف ہو۔(14)
اس بابرکت نکاح کا اعلان خودرسول کریمﷺنے فرمایاجس میں مہاجرین وانصار کے بزرگ شامل ہوئے۔ رسول کریمﷺنے خطبہ میں اللہ کی حمد کے بعدفرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح فرض قراردیا ہے اور اس کے ذریعہ رحمی رشتے قائم فرمائے ہیں ۔قضاء وقدرکے مضمون کی طرف اہم اشارے فرماکر آپؐ نے اعلان نکاح فرمایا۔ حضرت علی ؓ سے رضامندی لی پھر چھوہاروں کا ایک طشت تقسیم کروایا اورحضرت علی ؓ اورفاطمہؓ کونیک نسل کی دعا دی۔اور حضرت فاطمہؓ سے فرمایاتمہارا شوہر دنیا و آخرت میں سردار ہوگایہ میرے اولین صحابہ میں سے اور علم و حلم میں دوسروں سے بڑھ کر ہیں۔حضرت اسمائؓ بنت عمیس کہتی تھیں کہ مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب رسول کریمؐان دونوں کیلئے بوقت رخصتی خاص دعا کر رہے تھے۔(15)
رسول پاک ﷺنے دونوں میاں بیوی پر اپنے وضو کا پانی چھڑک کر دعائے خیردی۔حضرت فاطمہؓ کو آنحضرت ؐ نے نہایت سادگی سے رخصت فرمایا۔ گھریلو ضرورت کی چند چیزیں چارپائی بسترچادر آٹے کی چکی پیالہ اور چھاننی، مشکیزہ اوردوگھڑے ساتھ دئے۔ یہ تھی بوقت شادی سرکار دوعالم کی صاحبزادی کی کل کائنات ۔ حضرت علیؓ کی زندگی بھی درویشا نہ تھی۔ دعوت ولیمہ تک کے لئے پاس کچھ نہ تھا۔ چنانچہ جنگل سے گھاس کاٹ کر شہر میں بیچی اور ولیمے کے لئے رقم اکٹھی کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر جب یہ بھی ممکن نہ ہواتوخودرسول کریم ﷺ، حضرت سعدؓ اور بعض اور صحابہ کی اعانت سے پروقار ولیمہ کی تقریب ممکن ہوئی۔ جو کھجورمنقہ جَو کی روٹی پنیر اور شوربے کی دعوت تھی۔ اس زمانے کے اقتصادی حالات اور غربت و سادگی کا اندازہ حضرت اسماء ؓ کی اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے ۔آپؓ فرماتی تھیں کہ اس زمانے میں اس دعوت ولیمہ سے بہتر کوئی ولیمہ نہیں ہوا۔(16)
ایک دن حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے توسینے میں درد ہونے لگا ہے۔ آپ کے اباّ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں، جاکر درخواست کرو کہ ہمیں بھی ایک خادم عطاہو۔ فاطمہؓ کہنے لگیں خدا کی قسم! میرے تو خود چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں گَٹّے پڑگئے ہیں۔ چنانچہ وہ نبی کریمؐ کے پاس آئیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا کہ سلام عرض کرنے آئی ہوں۔پھر انہیں حضورﷺسے کچھ مانگتے ہوئی شرم آئی اور واپس چلی گئیں۔ حضرت علیؓ نے پوچھا کہ کیاکرکے آئی ہو؟وہ بولیں کہ میں شرم کے مارے کوئی سوال ہی نہیں کرسکی۔تب وہ دونوں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضورؐ کی خدمت میں اپنا حال زار بیان کر کے خادم کے لئے درخواست کی۔رسول کریمﷺنے فرمایا خدا کی قسم ! میں تمہیں دے دوں اوراہل صُفّہ (غریب صحابہ) کو چھوڑدوں؟جو فاقہ سے بے حال ہیں اور ان کے اخراجات کے لئے کوئی رقم میسر نہیں۔ان قیدیوں کو فروخت کر کے میں ان کی رقم اہل صفّہ پر خرچ کروں گا۔ یہ سن کر وہ دونوں واپس گھر چلے گئے۔ رات کو نبی کریمﷺان کے گھر تشریف لے گئے۔ وہ اپنے کمبل میں لیٹے ہوئے تھے۔ رسول اللہﷺکو دیکھ کر وہ اُٹھنے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔اپنی جگہ لیٹے رہو۔پھر فرمایا جو تم نے مجھ سے مانگاکیا میںاس سے بہتر چیز تمہیںنہ بتائوں؟انہوں نے کہا ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ چند کلمات ہیں جو جبریل ؑنے مجھے سکھائے ہیں کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمدللہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو۔ جب رات بستر پر جائو توتینتیس مرتبہ سبحان اللہ ،تینتیس مرتبہ الحمدللہ اورچونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھاکرو۔حضرت علیؓ فرماتے تھے جب سے رسول اللہﷺ نے مجھے یہ کلمات سکھائے میں انہیں آج تک پڑھنا نہیں بھولا۔کسی نے تعجب سے پوچھا کہ جنگ صفین کے ہنگاموں میں بھی نہیں بھولے؟ کہنے لگے ہاں جنگ صفین میں بھی یہ ذکر الہٰی کرنامیں نے یادرکھا تھا۔نبی کریمؐ نے ایک اور صحابی کو یہی تسبیحات سو کی تعداد میں پڑھنے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ اس تسبیح کی برکت تمہارے لئے سو غلاموں سے بڑھ کر ہے۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺرات کو ہمارے گھر تشریف لائے مجھے اور فاطمہؓ کو تہجد کے لئے بیدار کیا۔ پھر آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے کچھ دیر نوافل ادا کئے۔اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو نماز پڑھو۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں میں آنکھیں ملتاہوا اُٹھا اور بُڑبڑاتے ہوئے کہہ بیٹھا ’’خدا کی قسم ! جو نماز ہمارے لئے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں۔ ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اُٹھادے۔‘‘رسول کریمﷺواپس لوٹے۔ آپؐ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے میرا ہی فقرہ دہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لئے مقدر ہے پھر یہ آیت تلاوت کی ’’‘‘(الکہف:55)کہ انسان بہت بحث کرنے والا ہے۔
نبی کریمﷺنے حضرت علی ؓ اور ان کے خاندان کو اہل بیت میں سے قرار دیا،انکے لئے دعائیں کیں ان کی اعلیٰ تربیت کی اور نیک توقعات رکھیں۔
روایت ہے کہ نبی کریمﷺچھ ماہ تک فجر کی نما زکے وقت حضرت فاطمہؓ کے دروازے کے پاس گزرتے ہوئے فرماتے رہے۔’’اے اہل بیت! نماز کا وقت ہوگیا ہے‘‘ اور پھرسورۂ احزاب کی آیت:33 پڑھتے کہ’’ اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے۔‘‘
رسول کریمﷺنے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ میں تجھے ایسے دعائیہ کلمات نہ سکھائوں جو تم پڑھو تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت تمہیں نصیب ہو جائے ۔ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ کلمات’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الحَلِیُم العَلِیمُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ العَلِیُّ العَظِیُم لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَ رَبُّ العَرشِ العَظِیمِ‘‘(17)
یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ حلم والا اور جاننے والا ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بہت بلند اورعظیم ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمانوں اور عظیم عرش کا رب ہے۔
غزوہ احد میں داد شجاعت
بدر کے بعد معرکہ احد میں بھی شیر خدا حضرت علیؓ نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ جب مشرکین نے دوبارہ مسلمانوں پر حملہ کیااور اسلام کے علمبردار مصعب بن عمیرؓ شہیدہوگئے اس بھگدڑ میں کئی اصحاب کے پائوں اکھڑگئے۔ حضرت علیؓ ان میں تھے جوثابت قدم رہے۔ آپؓ نے موت پر رسول ؐ اللہ کی بیعت کی اور آگے بڑھ کر اسلامی جھنڈا سنبھالا۔ اور نہایت بے جگری سے لڑے۔(18)
مشرکین کے علمبردار سعد بن ابو طلحہ نے حضرت علیؓ کو للکارا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ایساوار کیا کہ وہ زمین پر ڈھیر ہوکر تڑپنے لگا۔حضرت علیؓ نے یکے بعد دیگرے کفار کے علمبرداروں کو تہ تیغ کیا۔رسول ؐ اللہ نے کفار کی ایک جماعت دیکھ کر حضرت علیؓ کو ان پر حملہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت علیؓ نے عمرو بن عبداللہ جمحی کو قتل کرکے انہیں منتشرکردیا۔پھرکفار کے دوسرے دستہ پرحملہ کرنے کا حکم فرمایا اور علیؓ نے شیبہ بن مالک کو ہلاک کیا۔رسول اللہ ﷺے فرمایا ہاں علیؓ مجھ سے اور میں علیؓ سے ہوں۔ اس موقع پر بھی آوازسنی گئی کہ لَافَتٰی اِلَّاعَلِی لَاسَیفَ اِلَّا ذُوالفِقَارِ۔ کہ ذوالفقار کے سوا کوئی تلوارنہیںاورعلیؓ کے سوا کوئی جوان مرد نہیں۔
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ احد میں بھگڈر کے بعد مجھے رسول اللہﷺنظر نہ آئے۔ میں نے مقتولین کی نعشیں بھی دیکھ ڈالیں جب آپؐ کو نہ پایا تو دل میں کہا کہ خدا کی قسم!رسولؐاللہ بھاگنے والے تو نہیں اور نہ ہی مقتولین میں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے خدا نے ہم سے ناراض ہو کر انہیں اٹھا لیا ہے۔ اب تو بہتر یہی ہے کہ میں لڑ کر جان دے دوں۔چنانچہ میں نے لڑتے لڑتے تلوار کا اگلا سرا توڑ دیا۔ پھر حملہ کرکے آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺدشمن کے عین درمیان تھے۔
حضرت علیؓ نے غزوہ احدسے واپسی پر اپنی تلوار حضرت فاطمہؓ کے سپرد کی اسے سنبھال رکھیں آج یہ جنگ میں خوب کام آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے سن کر فرمایا ’’ہاں!اے علیؓ! آج آپ نے بھی خوب تلوار زنی کی ہے،مگر فلاں صحابہ نے بھی کمال کر دکھایا۔(19)
مشرکین کے حملے کا زور ٹوٹا تو حضرت علیؓ چند صحابہ کے ساتھ آنحضرت ﷺکو احد پہاڑ کے دامن میں لے گئے۔ حضورؐ کا چہرہ خون آلودہ تھا۔آپ اپنی زرہ میں پانی بھر بھرلاتے اور حضرت فاطمہؓ آنحضرت ﷺکے زخم مبارک دھوتیں پھر بھی خون بند نہ ہوا تو چٹائی جلا کراس کی راکھ حضرت فاطمہؓ نے زخم میں ڈالی اور تب جا کر کہیں خون بند ہوا۔
غزوہ خندق میں
۵ہجری میں غزوہ خندق پیش آیا ۔ اس دوران میں ایک بار دشمن کے سواروں نے عرب کے مشہور اور بہادر پہلوان عبدودّکی سرکردگی میں خندق پار کرکے حملے کی کوشش کی۔
عبدودّاسلحہ سے لیس اور زرہ بند ہوکر مسلمانوں کومقابلہ کے لئے للکارنے لگا کہ کوئی ہے جو میرے مقابلہ پر آئے۔ حضرت علیؓ اٹھے تو رسول اللہﷺنے روک لیا۔ اس نے دوبارہ اور سہ بارہ للکارا تو حضرت علیؓ پھر اٹھے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا علی !یہ عرب کا مشہور پہلوان عمروبن عبدودّ ہے۔حضرت علیؓ نے کہا پرواہ نہیں اور پھربہادرانہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ ا س نے پوچھا تم کون ہو؟ کہا علی بن ابی طالب۔اس نے کہا تمہارے چچائوں میں سے کوئی تم سے بڑا مقابلہ پر آتاتو بہتر تھا۔حضرت علی ؓنے مقابلہ پر آکر اسے مخاطب کرکے فرمایا کہ سنا ہے تم نے عہد کررکھا ہے کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص تمہیں دوباتوں میں سے ایک قبول کرنے کے لئے کہے تو تم ضرور اسے قبول کرو گے۔ اس نے کہا ہاں۔حضرت علیؓ نے کہا تو پھر میں پہلے تمہیں قبول اسلام کی دعوت دیتاہوں۔ اس نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت علی ؓ نے کہاپھر آئو مقابلہ کرلو۔ وہ بولا۔بھتیجے! خدا کی قسم میں تمہیں قتل کرنا نہیں چاہتا۔حضرت علیؓ نے کہا مگر میں تمہیں قتل کرنا چاہتاہوں اس پر عمرو کو سخت طیش آیا وہ گھوڑے سے اُترکرحضرت علیؓ کے مقابلہ کے لئے بڑھا۔ اس کی تلوار سے جیسے آگ کے شعلے نکل رہے تھے ۔ وہ غضبناک ہوکرحضرت علیؓپر لپکا۔وہ اپنی ڈھال کے ساتھ آگے بڑھے۔ عمرو کی تلوارکا وارانہوںنے ڈھال سے روکا۔جو دوٹکڑے ہوکر رہ گئی ۔حضرت علیؓ کے سر میں کچھ زخم آیا۔انہوںنے عمروکو کندھے پر تلوارماری۔وہ بڑے زور سے کٹ کرزمین پرگرپڑاتوغبار اٹھی۔حضرت علیؓ نے نعرہ تکبیربلند کیا۔ رسول اللہ ﷺسمجھ گئے کہ انہوںنے دشمن کا کام تمام کردیا ہے۔ ان کی اس کامیابی پر رسول ؐ اللہ کا چہرہ خوشی سے دمک رہاتھا۔حضرت عمرؓ نے کہا اے علیؓ!اس پہلوان کی زرہ ہی اتار لیتے کہ وہ عرب کی بہترین زرہ استعمال کرتا تھا۔حضرت علیؓ نے کہا میرے مدمقابل کی پشت عریاں ہوگئی تھی جس کے بعد اس کی زرہ اتارتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوئی۔
معرکہ خندق میں عبدودّ کا قتل ہونا ایک بڑی زبردست کامیابی تھی جس کے نتیجے میں باقی حملہ آورمرعوب ہوئے اور بالآخرپسپاہوئے۔ قبائل یہود بنو نضیر اور بنوقریظہ کے اخراج اور ان کے حریف بنو سعد کی سرکوبی میں بھی حضرت علی ؓ نے نمایاں اور اہم کردار ادا کیا۔
غزوہ بنوقریظہ میں حضرت علیؓپہلے موقع پر پہنچ گئے تھے۔یہود نے رسول اللہﷺاور ازواج مطہرات کے خلاف نازیبا ہرزہ سرائی شروع کررکھی تھی۔ حضرت علی ؓ نے لوائے جنگ حضرت ابوقتادہؓ کے سپرد کرکے رسول اللہﷺ سے جاکر عرض کیا کہ آپؐ ان ناپاک لوگوں کے قریب نہ جائیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا ’’تمہیں خدشہ ہے کہ وہ بدزبانی کریں گے۔‘‘ عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا ’’مجھے دیکھ کر وہ یہ جرأت نہیں کرسکتے۔‘‘(20)
حدیبیہ میں شرکت
۶ہجری میں صلح حدیبیہ میں بھی حضرت علیؓرسول اللہ ﷺکے شانہ بشانہ اوربیعت رضوان میں بھی شریک تھے۔ صلح نامہ بھی آپ نے ہی تحریر فرمایا۔ اس موقع پر آپ کی ایمانی غیرت کا نظارہ قابل دید تھا۔ جب معاہدہ میں رسول اللہ ﷺکے الفاظ لکھے جانے پر کفار نے اعتراض کیا کہ ہم محمد رسول اللہﷺ کو رسول نہیں مانتے اس لیے یہ الفاظ معاہدہ سے حذف کیے جائیں۔ رسول اللہﷺ نے قیام صلح اور امن کی خاطر یہ شرط مان لی تو حضرت علیؓ نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ میںاپنے ہاتھ سے رسول اللہﷺکالفظ مٹانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ رسول اللہﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے لفظ رسول اللہﷺ معاہدہ سے حذف کیا۔(21)
فاتح خیبر
حضرت علیؓ شیرخدا کو فاتح خیبر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ خیبر کی طرف اچانک پیش قدمی سے یہود سراسیمہ ہوکر محصور ہوگئے۔ رسول اللہﷺ روزانہ ایک شخص کوقائد لشکر مقرر فرماتے اور یہودیوں پر بھرپور حملہ کیا جاتا۔ وہ قلعے سے باہر آکر لڑتے اور جب پسپا ہوتے تو قلعہ کے دروازے بند کرلیتے یوں خیبر کی فتح ایک معمہ بن گئی۔ محاصرہ خیبر کی ساتویں رات تھی رسول کریمﷺنے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اپنے صحابہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ کل میں جس شخص کو قائد مقررکرکے جھنڈا عطاکروں گا، خداتعالیٰ اس کے ہاتھ پر خیبر کو ضرورفتح کرائے گا۔وہ صحابہ جنہیں کبھی قیادت کی طلب نہیںہوئی تھی، اس رات یہ تمنا کررہے تھے کہ خیبر کی فتح کی سعادت انہیں عطا ہوجائے پھر اگلی صبح لوگوں نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ رسول اللہؐ نے علم لشکر حضرت علیؓ کو عطافرمایا وہ آشوب چشم کے مریض تھے۔ رسول کریمﷺنے اپنا لعاب دہن اُن کی آنکھوں پرلگایا اس سے وہ اچھے ہوگئے۔حضرت علیؓ فرماتے تھے اس کے بعد کبھی مجھے آشوب چشم کی تکلیف نہیں ہوئی۔حضرت علیؓ علم لے کر خیبر فتح کرنے کے لئے نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے بالآخر آپ کے ہاتھ پر خیبر کی فتح کی بنیاد رکھ دی۔ ہرچند کہ اس فتح میں رسول اللہ ﷺکی خاص توجہ دعائوں، قائدانہ صلاحیتیوں کو بنیادی اہمیت حاصل تھی جس کی بدولت فتح کی رات حضرت عمرؓ نے گشتی پہرے کے دوران یہود کے کچھ جاسوس پکڑے تھے۔ جن سے علاوہ جنگی رازوں کے درونِ خانہ دشمن کے کئی کمزور پہلوبھی سامنے آئے۔ مسلمانوں کے حوصلے اس سے بہت بڑھ گئے۔ اگلے روز حضرت علیؓ علم جنگ لے کرمیدان میں نکلے۔پہلے یہود خیبر کا سب سے بڑا پہلوان مرحب آپ کے مقابلہ کے لئے آیا۔ اس نے بڑے تکبر سے رجزیہ شعر پڑھے۔
عَلِمَت خَیبَرُ اَنِّی مَرحَبٗ شَاکِی السِّلاَحِ بَطَل مُجَرَّبٗ
کہ وادی خیبر کوعلم ہے کہ میں مرحب سردار ہوں اسلحہ سے لیس ایک تجربہ کار پہلوان۔جواب میں حضرت علیؓ نے بڑی شان کے ساتھ جواباً یہ شعر پڑھے۔
اَنَا الَّذِی سَمَّتنِی اُمِّی حَیدَرَہ ضِر غَامُ آ جَامٍ وَلَیثٍ قَسوَرَۃ
کہ میں بھی وہ ہوں جس کی ماں نے اس کا نام حیدر رکھا ہے اور میں نر شیرکی طرح حملہ آور ہوتا ہوں۔ یہ کہہ کرحضرت علیؓ آگے بڑھے اور مرحب کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کا کام تمام کردیا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ یہود کی صفیں پسپا کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کے آہنی دروازوں تک پہنچ گئے۔خطرہ تھا کہ یہود حسب معمول اپنے آہنی دروازے بندکرلیتے اور ایک دفعہ پھرمسلمانوں کو پسپا ہونا پڑتا لیکن حضرت علیؓ نے نہایت حکمت عملی سے آگے بڑھ کر بڑے گیٹ کو اپنے ایک ہاتھ سے پوری قوت سے پکڑے رکھا تاکہ یہود اسے بند نہ کر پائیں۔ دوسرے ہاتھ سے وہ دشمن کامقابلہ کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کے پیچھے آنے والے اسلامی لشکر کو قلعہ خیبر میں داخلے کا موقع مل گیا۔ یوں خیبر کی عظیم الشان فتح کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد باقی قلعے آسانی سے فتح ہوتے چلے گئے۔
فتح مکہ کے موقع پر بھی مسلمانوں کی خاموش پیش قدمی کا راز افشاء ہونے کا اندیشہ ہوا تو نبی کریمﷺنے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر اس قاصد عورت کو گرفتار کرنے کے لئے جو ایک خط لے کر کفار مکہ کی طرف جارہی تھی حضرت علیؓ کی سرکردگی میں ایک دستہ روانہ فرمایا۔ آپ اپنی اس مہم میں بھی نہایت کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے۔
غزوہ حنین ایک عظیم الشان معرکے کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی تو وہ مال غنیمت اکٹھاکرنے میں مصروف ہوگئے۔ دشمن کے تیرانداز مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔اس افراتفری کے عالم میں بارہ ہزار کے لشکر میں سے رسول اللہﷺکے ساتھ جو چند بہادر ثابت قدم رہے۔ ان میں حضرت علیؓ نمایاں تھے۔ جنہوں نے غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے امیر لشکر پر حملہ کرکے اس کاکام تمام کردیا۔ اور یوں دیگرمجاہدین اسلام کے ساتھ مل کر دشمن کے لئے شکست کے سامان پیدا کردیئے۔
۹ہجری میں رسول اللہﷺو نے غزوہ تبوک کا قصدفرمایا تو حضرت علیؓ کو امیرمدینہ مقررفرماکر اہل مدینہ کی حفاظت کی ذمہ داری آپؓ کے سپرد فرمائی۔حضرت علیؓ کو ایک طرف شرکت جہادکی محرومی کا غم تھا تو دوسری طرف منافقین کے طعنوں سے رنجیدہ خاطرتھے کہ آپ عورتوں اور بچوں کے ساتھ پیچھے چھوڑے جارہے ہیں۔ تب رسول پاکﷺنے ان خوبصورت الفاظ میں آپؓ کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا ۔اَمَاتَرضٰی اَن تَکُونَ مِنّی بِمَنزِلَۃِ ہَارُونَ مِن مُوسٰی ۔۔۔الخ
کہ اے علیؓ کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میری تجھ سے وہی نسبت اور قدرومنزلت ہو جو ہارونؑ کی موسیٰؑ کے نزدیک تھی۔ البتہ تم میرے بعد نبی نہیں ہوگے۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے بعدنبی کوئی نہیںہو سکتا۔اس سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ میری عدم موجودگی میں تم بطور امیر محض میرے جانشین ہوگے لیکن نبی نہیں ہوگے۔(22)
اعلان برأت
غزوہ تبوک سے واپسی پر ۹ ہجری میں رسول کریمﷺنے حضرت ابوبکرؓ صدیق کو امیر حج مقررفرمایا اس دوران سور ۃ برأت نازل ہوئی۔ جسے سورۃ توبہ بھی کہتے ہیں۔ رسول کریمؐ نے حضرت علیؓ کو ارشاد فرمایا کہ وہ حضورؐ کی نمائندگی میں مکے جاکر سورۃ سنائیں اور اس کے احکام کا اعلان عام کردیں۔حضرت علیؓ نے اس کی تعمیل کی اور یہ آپ کی عظیم الشان سعادت تھی جو رسول اللہﷺکی انتہائی قرابت کے علاوہ آپ کا دینی مرتبہ بھی خوب ظاہرکرتی ہے۔(23)
یمن میں خدمات
۹ہجری میں حج سے واپسی کے بعد نبی کریمﷺ نے مختلف اطرافِ عرب میں تبلیغی مہمات روانہ فرمائیں۔ حضرت برائؓبن عازب روایت کرتے ہیں کہ یمن کی طرف حضرت خالدؓ بن ولیدکو بھجوایاگیامیں انکے ہمراہ تھا۔چھ ماہ کی مسلسل کوشش کے بعدوہاں دعوت اسلام میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی ۔ اس کے بعد حضرت علیؓ کو رسول اللہﷺنے روانہ فرمایااورخالدؓ کو واپس بلا لیا۔ حضرت براء ؓکہتے ہیں میں حضرت علیؓ کے ساتھ رہا۔ ہم یمن کے قریب پہنچے تو لوگ اکٹھے ہونے شروع ہوگئے۔حضرت علیؓ نے فجر کی نماز پڑھائی، خطاب فرمایا رسول اللہﷺکا پیغام پڑھ کر سنایا اور پورا قبیلہ ایک دن میں مسلمان ہوگیا۔ حضرت علی ؓ نے رسولؐاللہ کی خدمت میں یہ لکھاحضوؐر خوشی سے سجدہ میں گر گئے۔الغرض تھوڑے ہی عرصے میں رسول کریمﷺ کے اس تربیت یافتہ داعی الی اللہ نے اپنی تدابیر کے نتیجے میںپورے عمان قبیلے کو مسلمان کرلیا۔ یمن روانگی کے وقت حضرت علیؓ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ!مجھے قضا کے بارہ میں کچھ زیادہ علم نہیں۔ رسول کریمﷺنے آپؓ کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا اے اللہ!اس کے دل کو ہدایت اور زبان کو سداد عطا کر۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں اس کے بعد کبھی مجھے دو فریق کے تنازعہ میں کوئی شک پیدا نہیں ہوا۔(24)
حجۃ الوداع میں شرکت
حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علیؓ یمن ہی سے مکہ تشریف لائے۔ اوررسول اللہﷺکے ساتھ اس یادگار آخری حج میں شرکت کی سعادت پائی۔ احرام باندھتے ہوئے آپ نے نیت بھی کیسی باندھی کہ جو نیت رسول اللہ ﷺ کی ہے، اسی کے مطابق میں بھی احرام باندھتا ہوں۔ رسول اللہﷺی نیت حج اور عمرہ دونوں کی تھی۔حضرت علیؓ کو بھی حج وعمرہ کی توفیق ملی۔حجۃ الوداع سے واپسی کے چند ماہ بعد ربیع الاول ۱۱ہجری میں رسول اللہ ﷺبیمار ہوگئے۔حضرت علی ؓ کو تیمارداری اور خدمت کی توفیق ملی۔(25) وفات رسولؐپرحضورﷺکے قریب ترین عزیزہونے کے باعث تجہیزوتکفین کے سب کام حضرت علیؓ کے زیر انتظام سرانجام پائے۔
خلفائے راشدین کے دور میں خدمات
حضرت ابوبکرؓخلیفہ ہوئے تو ان کی بیعت کے بعد حضرت علیؓ نے ان کے انصار و اعوان میںشامل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ حضرت عمرؓاپنے دور خلافت میںاہم کام اور مہمات کے فیصلے حضرت علیؓ کے مشورے سے طے فرمایا کرتے تھے۔حضرت عمرؓ نے ایک مجنون عورت کے ہاں چھ ماہ بعد بچے کی ولادت کو ناجائز سمجھ کر رجم کا ارادہ کیا ۔ حضرت علیؓ نے مشورہ دیا کہ قرآن میں حمل اور دودھ چھڑانے کا عرصہ تیس ماہ اور دودھ پلانے کا دوسال یعنی چوبیس ماہ مذکور ہے اس لئے اصل مدت حمل چھ ماہ بھی ہوسکتی ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے مجنون کومکلف نہیں ٹھہرایا۔ اس پر حد جاری نہ ہوگی۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا’’ اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔‘‘ (26)
حضرت عمرؓ کو جب بیت المقدس کا تاریخی سفر پیش آیا تو مدینہ میں اپنا قائم مقام حضرت علیؓ کو مقرر فرمایا۔بعد میں یہ تعلق مضبوط ہوکرقرابت میں بدل گیا۔جب حضرت علیؓ کی صاحبزادی ام کلثوم حضرت عمرؓ سے بیاہی گئیں۔ حضرت عمرؓ نے بھی اس نکاح کا مقصد خاندان اہل بیت سے رشتہ مصاہرت کا اعزاز پانا ہی قراردیا۔
حضرت عثمانؓ غنی کے زمانہ خلافت میں حضرت علیؓ ان کے مشیر رہے اور فتنہ دور کرنے کے لئے مخلصانہ مشورے دئے۔حضرت عثمانؓ کے استفسار پر حضرت علیؓ نے نہایت ادب سے عرض کیاکہ ان فتنوں کا ایک اہم سبب اموال کی کثرت ہے جن پرحضرت عمرؓ کی طرح سخت گرفت ہونی چاہیے۔
حضرت عثمانؓ کے محاصرے کے وقت بھی حضرت علیؓ نے نہایت جرأت کے ساتھ محاصرین کو تنبیہ فرمائی کہ تمہارا یہ طریق نہ صرف اسلام بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے۔ مگر شرپسندوں نے آپ کی آوازپر کان نہ دھرا۔پھر حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺکا عمامہ پہنا اور تلوار ہاتھ میں لی۔ حضرت حسنؓ اور حضرت ابن عمرؓ آپ کے آگے تھے،مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کے ہمراہ انہوں نے محاصرین پر حملہ کرکے انہیں منتشر کردیا۔ پھر حضرت عثمانؓ سے عرض کیا کہ اس معاملہ کا حل ان محاصرین کے مسلح مقابلہ کے سوا کچھ نہیں جو خلیفہ وقت کے قتل کے در پے ہیں۔ مگرحضرت عثمانؓ نے قسم دے کر فرمایا کہ’’ میںاپنی خاطر کسی مسلمان کا سنگی برابر خون بہانے کی بھی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘حضرت علیؓ نے اپنی رائے پر اصرار کیاتو حضرت عثمانؓ پھر وہی جواب دیا ۔ حضرت شدادؓ بن اوس کہتے ہیں پھر میں نے حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓ کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھا وہ کہہ رہے تھے، ’’اے اللہ تو جانتا ہے کہ ہم نے اپنی تمام کوششیں صرف کر ڈالی ہیں۔‘‘پھر وہ نماز کیلئے مسجد نبوی تشریف لے گئے تو ان سے عرض کیا گیا کہ آپ نماز پڑھادیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ایسی حالت میں جبکہ ہمارا امام اور خلیفہ محصور ہے میں تمہیں نمازنہیں پڑھا سکتا۔میں اکیلے نماز پڑھ لوں گا۔‘‘ پھر آپ تنہا نماز پڑھ کر واپس گھر تشریف لے گئے تو صاحبزادے نے جاکر اطلاع دی کہ محاصرین نے قصر خلافت کی دیوار کود کر حملہ کردیا ہے۔ حضرت علیؓنے رنجیدہ خاطر ہوکر کہا’’خدا کی قسم! وہ انہیں قتل کرکے دم لیں گے۔‘‘انہوں نے پوچھاحضرت عثمانؓ کا یہ انجام کیسا ہے؟فرمایاوہ جنت میں خدا کا قرب پانے والے ہیں ۔ جب پوچھا گیا کہ محاصرین کا کیا انجام ہوگا تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا خدا کی قسم وہ آگ میں ہیں۔اس کے بعد اپنے دونوں صاحبزادوں حضرت حسنؓ اور حسینؓ کوبھجوادیا کہ خلیفہ وقت کے پہرے اور حفاظت کی ڈیوٹی انجام دیتے رہیں۔(27)
انتخاب خلافت
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے المناک واقعہ کے بعدموجود اصحاب رسولؐ اوردیگر سب لوگوں نے حضرت علیؓکی بیعت پراتفاق کااظہار کیا۔ آپؓ نے فرمایا یہ تمہارا حق نہیں ہے بلکہ بدر میں شامل ہونے والے بزرگ صحابہ کا حق ہے۔ وہ جس شخص کے بارے میں متفق ہونگے وہی خلیفہ ہونا چاہئے۔ چنانچہ تمام اصحاب بدرحاضرخدمت ہوئے اور عرض کیا کہ ہم سب آپ کو اس عہدہ کا زیادہ حقدارسمجھتے ہیں۔ہاتھ بڑھائیں اور ہماری بیعت لیں۔حضرت علیؓ نے پوچھا حضرت طلحہ ؓاورحضرت زبیرؓ کہاں ہیں؟ چنانچہ سب سے پہلے حضرت طلحہؓ نے آپ کی بیعت کی۔ پھر حضرت زبیرؓ اوردیگراصحاب نے بیعت کی۔(28)
دور خلافت
الغرض مہاجرین اور انصار کے اصرار پر آپ نے یہ ذمہ داری قبول کرلی۔ حضرت علیؓ کے دورخلافت پر نظر کرتے ہوئے خود حضرت علی ؓ کے اس تبصرے کونہیں بھولناچاہیے۔جب آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کا دور اتنا پرآشوب اور پرفتن کیوں ہے؟انہوں نے کمال حاضرجوابی سے کیسا مُسکت جواب دیا کہ اس سے پہلے محمد ؐ اورآپؐ کے رفقاء کو میرے جیسے خدام میسر تھے۔ مجھے تمہارے جیسے ساتھی حاصل ہیں۔ مگر ان ناموافق حالات کے باوجود حضرت علیؓ نے بھرپور کوشش کی کہ خلافت کواستحکام نصیب ہو۔ اور عدل فاروقی پھر قائم کیا جائے۔
ایک دفعہ یہودنجران نے( جن کو حضرت عمرؓ نے جلاوطن کیا تھا)حضرت علیؓ سے واپسی کی اجازت چاہی۔ آپ نے اجازت نہ دی اور فرمایا حضرت عمرؓ سے بہتررائے کس کی ہوسکتی ہے؟حضرت علیؓقومی اموال کی پوری حفاظت فرماتے اور اس میں کوتاہی پر گرفت کرتے۔ رعایا کے ساتھ شفقت سے پیش آتے۔ان کے لئے ہمیشہ آپ کے دروازے کھلے رہتے۔ حضرت علیؓ کی دینی خدمات میں سب سے اول دعوت الی اللہ اورمسلمانوں کی مذہبی اور دینی تعلیم ہے۔ ایک دفعہ ایک ایرانی نے آپ کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر کیا خوب کہا تھاکہ خدا کی قسم اس عربی نے تو نوشیرواں کی یاد تازہ کردی ہے۔
فضائل
حضرت علیؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے یعنی وہ دس صحابہ جنہیںرسول کریمﷺنے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی۔حضرت عمرؓفرماتے تھے کہ حضرت علیؓ کے تین فضائل ایسے ہیں کہ مجھے ان کا عطا ہونا سرخ اونٹوں کی دولت سے بھی زیادہ محبوب ہوتا۔ اول رسول اللہﷺ سے دامادی کا شرف دوسرے مسجد میں حضورؐ کے ساتھ ان کا گھر اور تیسرے خیبر میں فتح کا جھنڈا عطا ہونا۔(29)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حضرت علیؓ کے فضائل پر رسول اکرمﷺکے ساتھ آپ کی انتہائی قرابت اور آپ کے فیض صحبت میں تربیت و پرورش اور حضورﷺکی لخت جگر کے ان کے عقد کی اہمیت کا ذکر کرکے لکھا ہے کہ ان فضائل میں کوئی صحابی بھی حضرت علیؓ کا ہم پلّہ نہیں ہے۔رسول کریمﷺ نے فرمایا’’ جس شخص کو میں پیارا ہوں اسے علیؓ بھی پیارا ہے۔ اے اللہ! جوعلیؓکو دوست رکھے اسکا دوست اور اس کے دشمن کا دشمن ہوجا ۔اس کی مدد کرنے والے کی مدد کر ۔‘‘حضرت ام سلمہؓ فرماتی تھیں کہ رسول اللہﷺ کی ناراضگی کے وقت حضرت علیؓ کے سوا کسی کوآپؐ سے بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔(30)
علمی مقام
رسول کریمﷺنے فرمایا ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروزاہ ہے جو علم کا قصد کرے وہ اس کے دروازے پر آئے۔‘‘ایک دفعہ رسول کریمﷺسے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت کریں۔ آپؐنے فرمایا کہ کہو میرا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم ہوجائو۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا یارسول ؐ اللہ ! میں نے یہ تو کہہ دیا کہ اللہ میرا رب ہے باقی میری توفیق اللہ سے ہی ہے اسی پر میرا توکل ہے اور اس کی طرف میں جھکتا ہوں۔ رسول کریمﷺنے خوش ہو کر فرمایا اے ابوالحسن! علم تمہیں مبارک ہو۔ تمہیں علم کا شربت پلایا گیا ہے اور تم نے بھی خوب سیر ہوکر پیا ہے۔
حضرت علیؓ نے آنحضرت ﷺ سے قرآن سیکھا اور یادکیا تھا۔آپ معانی قرآن اورآیات کے شان نزول سے خوب واقف تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک ایک آیت کے بارے میں یہ بیان کرسکتا ہوں کہ کون سی آیت کب کہاں اور کس کے بارے میں اتری۔ وفات رسولؐ کے بعد آپ نے ایک عرصہ خدمت قرآن میں گزاردیا اور قرآنی سورتوں کو نزول کے لحاظ سے ترتیب دینے کی سعادت پائی۔آیات کی تفسیر و تاویل کے بارے میں ان سے اس کثرت سے روایات مروی ہیں کہ اگر ان کو جمع کیاجائے تو ایک جامع تفسیر قرآن بن جائے۔
ایک دفعہ کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ قرآن کے سوا بھی آپ کے پاس کچھ ہے۔ انہوں نے کیا خوب جواب دیا کہ ’’میرے پاس قرآن کے فہم اورا س کی قوت کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ درحقیقت دیکھا جائے تو تمام علوم فہم قرآن کریم کے ہی تو خادم ہیں۔ چنانچہ قرآن کے تابع دیگر علوم حدیث وفقہ اور قضا کے بارے میں آپ کو غیرمعمولی علم حاصل تھا۔علم تصوف اور فن خطابت میں بھی آپ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ کی طرف کئی اشعار بھی منسوب ہیںجیسے غزہ خیبر کے رجزیہ اشعار۔علم نحو یعنی عربی کلمات پر اعراب اور زیروزبر کے موجد بھی حضرت علی ؓ تھے۔(31)
شہادت
حضرت علی ؓکی شہادت بھی تقدیر الہٰی تھی جس کی خبر رسول کریمﷺ نے اپنی زندگی میں انہیں دی اور صبر کی تلقین فرمائی تھی۔ حضر ت علی ؓ جب مدینہ سے کوفہ جانے لگے تو حضرت عبداللہؓ بن سلام نے روکنا چاہا اور کہا’’ مجھے آپ کی جان کے بارہ میں خطرہ ہے اور رسولؐاللہ نے مجھے یہ خبر دی تھی۔‘‘ خود حضرت علیؓ نے بھی شہادت سے قبل اپنی داڑھی کے خون آلود ہونے کا ذکر کیا کہ رسول اللہﷺ نے اس کی پیشگوئی فرمائی تھی۔چنانچہ حضرت علیؓ کو بدبخت عبدالرحمان بن ملجم خارجی نے فجر کی نماز پر آتے ہوئے شہید کردیا۔ بعض روایات کے مطابق اس نے دوران نماز حضرت علی ؓپر حملہ کیا۔ یہ دردناک سانحہ دراصل گروہ خوارج کی اس گہری سازش کا نتیجہ تھا جو ایک ہی دن میںصبح کی نماز پر کوفہ میں حضرت علیؓ کو مصر میں حضرت عمرو ؓبن العاص اور شام میں حضرت معاویہؓپرقاتلانہ حملہ کے بارے میں تیار کی گئی۔کوفہ کی ایک خارجی عورت بھی اس میں شریک تھی۔ جس نے قاتل سے حضرت علیؓکے قتل کے شرط پر نکاح کا وعدہ کیا تھا۔قاتلوں نے اپنا منصوبہ بناتے ہوئے یہ جائزہ بھی لیا کہ حضرت علیؓ اکیلے نمازوں پر تشریف لاتے ہیں۔ ان کے لئے کسی حفاظتی پہرہ کا کوئی انتظام نہیں اس لئے نماز پر آتے ہوئے حملہ کیا جائے۔ قاتل نے اپنے معاون کومدد کیلئے تیار کرنے کی خاطر دنیامیں شہرت اور آخرت میں جنت کے خوب وعدے کئے ۔ پھر رمضان کے آخری عشرہ کی ایک فجر کو وہ حضرت علیؓ پر حملہ آور ہوگئے۔پہلے ا بن ملجم کے ساتھی نے حملہ کیا جو خطا گیا پھر اس نے تلوار سے حملہ کیا اور کہا حکومت اللہ کی ہے تیری اور تیرے ساتھیوں کی نہیں۔ حضرت علیؓ نے تلوارکا وارلگتے ہی فُزتُ وَرَبِّ الکَعبۃِ کا نعرہ بلند کیا کہ رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔پھر فرمایا یہ شخص جانے نہ پائے چنانچہ اسے پکڑ لیا گیا۔حضرت علیؓ نے فرمایا یہ قیدی ہے اس کی عزت کرو اور اچھی جگہ رکھو ۔اس کے تین دن بعد حضرت علیؓ کی وفات ہوگئی۔(32)حضرت امام حسنؓ نے حضر ت علیؓ کی شہادت پر تقریر کرتے ہوئے کہا ’’اے لوگو! ایک ایسا شخص تم سے جدا ہوا کہ پہلے اس سے سبقت نہ لے سکے اور بعد میں آنے والے اس کا مقام نہ پاسکیں گے۔ رسول اللہ ﷺاسے جھنڈا عطا کرتے تھے اور جبریل و میکائیل اس کے دائیں بائیں لڑتے تھے۔ وہ فتح کے بغیر واپس نہ لوٹتا تھا اور اللہ نے اس رات اس کی روح قبض کی جس رات حضرت عیسیٰ ؑکی روح قبض ہوئی اور جس میں قرآن اترا یعنی27رمضان المبارک۔یہ 40ھ کا سال تھا۔ جس میں حضرت علیؓ کی وفات قریباًساٹھ سے پینسٹھ سال کی عمر میں ہوئی ان کا دور خلافت چار سال نو ماہ رہا۔‘‘(32)
دراصل حضرت علیؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفر واپسی کا اشارہ ہو چکا تھا۔آپ ؓ قاتلانہ حملہ کے بعد تین روز تک زندہ رہے اگرچہ زخم بہت گہرا نہ تھا مگر زہر آلود تلوار کے اس وار سے آپ جانبر نہ ہوسکے۔علالت کے ان ایام میں عمروذی مر آپ کی عیادت کو آئے۔ آپؓ کا زخم دیکھ کر کہا کہ زخم بہت گہرا نہیں آپ اچھے ہوجائیں گے۔آپؓ نے فرمایا ’’نہیںمیں تم سے جدا ہونے والا ہوں۔‘‘ اس پر صاحبزادی ام کلثوم ؓ روپڑیں تو آپؓ نے فرمایا ’’بیٹی!جومیں دیکھ رہاہوں اگر تم دیکھ لیتیں تو نہ روتیں۔میں فرشتوں اور نبیوں کو دیکھ رہاہوں اور محمدؐ مجھے کہہ رہے ہیں اے علیؓ !تمہیں بشارت ہو کہ جہاں تم آتے ہو وہ اُس سے بہتر ہے جس میں تم ہو۔‘‘ آخری وقت میں حضرت علیؓ اپنی وصیت سے فارغ ہوئے تو سب موجود لوگوں کو الوداعی سلام فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! اس کے بعد کوئی بات نہیں کی سوائے لَااِلٰہ اِلَّااللّٰہُ کے کلمہ کے یہاں تک کہ آپکی روح قبض ہوگئی۔آپ کے صاحبزادوں نے آپ کو غسل دیا اور حضرت امام حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کے پاس رسول اللہﷺ کا تبرک ایک خوشبو تھی جو آپ کی وصیت کے مطابق میت کو لگائی گئی۔
حضرت علیؓ کی وصیت کا ماحصل یہی تھاکہ’’ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اور محمدؐ کی سنت کو ضائع نہ کرنا اور اسلام کے دونوں ستونوں نماز اور زکوٰۃ کو قائم کرنا۔‘‘
جب آپ سے عرض کی گئی کہ اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کر دیں تو فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے بھی کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں فرمایا تھا میں بھی نہیں کروں گا۔ عرض کیا گیا کہ اس بارہ میں آپ خدا کے حضور کیا جواب دیں گے؟فرمایا میںکہوں گا اے اللہ!تو نے مجھے جب تک چاہا ان لوگوں میں باقی رکھا پھر تو نے میری روح قبض کر لی اور تو خود ان میں موجود اور نگران تھا اگر تو چاہے تو انکی اصلاح فرمائے چاہے تو بگاڑ دے۔(33)
اولاد
حضرت فاطمہؓ الزہرہ بنت رسولؐ سے حضرت علیؓ کی اولاد دو صاحبزادے حضرت امام حسن ؓ ، امام حسینؓاور دو صاحبزادیاں حضرت زینبؓ کبریٰ اور ام کلثوم کبریٰؓ تھیں۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں آٹھ ازواج اور دیگر امہات الولد سے چودہ لڑکے اور انیس لڑکیاں ہوئیں۔ آپ کی نسل پانچ بیٹوں سے چلی جو حسن و حسین کے علاوہ محمدبن الحنفیہ عباس بن کلایبہ اور عمر بن تغلبیہ ہیں۔ازواج کے نام یہ ہیں۔(1) حضرت خولہ ؓ بنت جعفر حنفیہ (2) حضرت لیلیٰ بنت مسعود تمیمیہ(3 )حضرت ام البنینؓ بنت حرام کلابیہ(4 )حضرت اسمائؓ بنت عمیس خثعمیہ (5) حضرت صہباء ؓبنت ربیعہ تغلبیہ (6 ) رسولؐاللہ کی نواسی حضرت امامہ بنت ابی العاص قریشیہ (7) حضرت ام سعیدؓبنت عروہ ثقفیہ (8) حضرت محیاۃ بنت امر القیس کلبیہ(34)
اخلاق فاضلہ
حضرت علیؓ نے نہایت اعلیٰ اخلاق آنحضرت ﷺہی کی تربیت میں تو سیکھے تھے۔ حضور پاکؐ کی پاک سیرت ہی آپ کے اخلاق تھے۔سادگی کا یہ عالم تھا کہ خود بیان کرتے تھے میری شادی حضرت فاطمہؓ سے ہوئی تو ہمارا بستر ایک مینڈھے کی کھال کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسی پر ہم رات کو سوتے تھے اور دن کو اس پر اپنے جانور کو چارا ڈالتے تھے۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی خادم نہ تھا۔حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینہ کے شروع کی بات ہے ۔ مجھے سخت بھوک اورفاقہ کی تکلیف پہنچی،میں باہر نکلا تو ایک عورت نے مٹی جمع رکھی تھی وہ اسے گیلا کرکے گار بنانا چاہتی ہے میں نے اس سے ایک ڈول پانی کے عوض ایک کھجور لینے پر سولہ ڈول پانی نکال کر دئے ۔ جس سے میرے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے۔ پھر پانی سے ہاتھ دھو کر اس سے سولہ کھجوریں لیں اور رسول کریمﷺکے پاس لے کر آیا۔ آپ ؐ نے میرے ساتھ وہ کھجوریں تناول فرمائیں۔ فرماتے تھے کہ ایک زمانہ تھا مجھے بھوک اور فاقہ کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتا تھا اور آج میرے وقف اموال صدقہ وغیرہ کی آمد ہی چالیس ہزار درہم ہوتی ہے۔ جو خدا کی راہ میں خرچ کی توفیق ملتی ہے۔فراخی کے باوجود آپؓ کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ عام لباس موٹی چادر کا تھا ایک دفعہ وہ پہنی ہوئی تھی کہنے لگے یہ صرف چار درہم میں خریدی ہے۔سفید ہلکی ٹوپی بھی استعمال فرماتے تھے۔انگوٹھی پر ’’اللہ الملک‘‘کندہ تھا کہ اللہ ہی بادشاہ ہے۔ (35 )
حضرت علی ؓ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت سعی کرتے تھے۔کبھی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاتے۔انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ حضرت فاطمہؓ سے کچھ تکرار ہوئی تو مسجد نبوی میں جاکر زمین پر لیٹ رہے نبی کریمؐ نے آکر پوچھا اورخود ان کے پیچھے مسجد گئے اور ان کو زمین پر لیٹے پاکر’’ ابوتراب‘‘ کی کنیت سے یاد فرمایا کہ مٹی کا باپ۔(36)
حضرت علیؓ بیت المال میں حضرت ابوبکرؓ کی طرح معاملہ کرتے تھے ۔ کوئی بھی مال آتا تو فوراً تقسیم کردیتے اور کچھ بچا کر نہ رکھتے سوائے ا سکے کہ اس روز تقسیم میں کوئی دقت ہو۔ نہ تو خود بیت المال سے ترجیحاً کچھ لیتے اور نہ کسی دوست یا عزیز کو ا س میں سے دیتے۔نیک دیندار اور امانت دار لوگوں کو حاکم مقرر فرماتے۔ خیانت پر سخت تنبیہ فرماتے۔خدا کے حضور عرض کرتے ’’اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے انہیں تیری مخلوق پر ظلم کا حکم نہیں دیا تھا۔‘‘
کوفہ میں معمول تھا کہ دوچادروں کا مختصر لباس پہن کر درّہ ہاتھ میں لئے بازار میں گھوم رہے ہیں لوگوں کو اللہ کے تقویٰ اور سچائی کی تلقین کر رہے ہیں۔ اچھے سودے میں ماپ تول پورے کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ ایک دفعہ بیت المال میںجو کچھ تھا تقسیم کرکے ا س میں جھاڑو پھیر دیا۔ پھر دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ’’امید ہے کہ قیامت کے د ن یہ میری گواہ ہوگی۔‘‘(36)
امانت و دیانت اورقناعت آپ کا شیوہ تھاحضرت عائشہؓ آپ کے بارے میں فرماتی تھیں کہ وہ بہت روزے رکھنے والے اور عبادت گزار تھے۔(37) زبیرؓ بن سعید قریشی کہتے ہیں کہ میں نے کسی ہاشمی کو آپؓ سے زیادہ عبادت گزار نہیں دیکھا۔(38) خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بھی آپ کو بلند مقام حاصل تھا۔ کبھی کوئی سائل آپ کے گھر سے خالی ہاتھ نہ لوٹا ۔ ایک طرف تواضع میں کمال حاصل تھا تو دوسری طرف شجاعت میں انتہا تھی۔ میدان جنگ میں شجاعت اور دشمن کے ساتھ حسن سلوک میں بھی مردانگی کی ایک شان تھی۔ اپنے قاتل ابن ملجم کے بارہ میں بھی فرمایا کہ اسے اچھا کھانا کھلائو اور اچھا بستر دو۔ اگر میں زندہ رہا تو خودا س کی معافی یا سزا کا فیصلہ کروں گااور اگر میں مر گیا تو اسے میرے ساتھ ملا دینا مگر اس کے ناک کان نہ کاٹنا۔
حضرت علیؓ بلند پایہ خطیب تھے۔ نہایت فصیح وبلیغ مؤثر وعظ فرماتے۔ خوارج سے مقابلہ کے زمانہ میں آپ کے خطبات مشہور ہیں جو نہج البلاغہ میں آپ کی طرف منسوب ہیں ا سمیں شک نہیں کہ حضرت علی ؓکے فضائل کے بار ہ میں مبالغہ سے بھی کام لیا گیا ہے جسے پیش نظر رکھنا چاہیے۔رسول ؐاللہ نے آپؓ سے بجا فرمایا تھا کہ’’ آپ کی مثال حضر ت عیسیٰؑ کی ہے کہ جس سے یہودی ناراض ہوئے اور عیسائیوں نے انہیںاصل مقام سے کہیں زیادہ بڑھا کر پیش کیا۔‘‘ خود حضرت علیؓ فرماتے تھے کہ میرے بارہ میںدو آدمی ہلاک ہونگے ایک محبت سے غلو کرنے والا،دوسرا جھوٹا اور بہتان تراش۔
ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ سے کسی نے کہا بعض شیعہ جو(حبّ علیؓ کے دعویدار ہیں)یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ ’’دابّہ الارض‘‘ہیں جن کے خروج کی قرآن میںپیشگوئی ہے اور وہ قیامت سے پہلے پھر ظاہر ہونگے۔ اس پر حضرت امام حسنؓ نے فرمایا وہ جھوٹ کہتے ہیں یہ لوگ ہرگز حضرت علیؓ سے محبت کرنے والے نہیں بلکہ ان کے دشمن ہیں۔ اگر ان کی بات درست ہوتی اور حضرت علی ؓ نے دوبارہ ظاہر ہونا ہوتا تو ہم انکی میراث تقسیم نہ کرتے اور نہ ان کی بیوگان کا آگے نکاح کرتے۔(39)
امیر معاویہ نے ضرار صدائی سے کہا کہ حضرت علیؓ کے اوصاف بیان کرو۔ اس نے کہا اے امیرالمومنین مجھے اس سے معاف فرمائیں۔ انہوںنے کہا تمہیں یہ بیان کرنے ہوں گے۔ وہ کہنے لگے کہ اگر آپ ضرور سننا ہی چاہتے ہیں تو پھر سنیں کہ
’’خدا کی قسم وہ بلند حوصلہ اور مضبوط قویٰ کے مالک تھے۔ فیصلہ کن بات کہتے اور عدل سے فیصلہ کرتے تھے ان کی جانب سے علم کا چشمہ پھوٹتا تھا او رحکمت ان کے اطراف سے ٹپکتی تھی۔ وہ دنیا اور اس کی رونقوں سے وحشت محسوس کرتے اور رات اور اس کی تنہائی سے انس رکھتے تھے۔ وہ بہت رونے والے ، لمبا غور و فکر کرنے والے تھے۔ چھوٹا لباس او رموٹا سادہ کھانا پسند تھا۔ وہ ہم میں ہماری طرح رہتے تھے۔ ہم سوال کرتے تو وہ ہمیں جواب دیتے اور جب ہم کسی خبر کی بابت دریافت کرتے تو ہمیں بتاتے۔ اور خدا کی قسم ہم ان کے ساتھ محبت و قرب کے تعلق کے باوجود ان کے رعب کی وجہ سے بات کرنے سے رکتے تھے۔ وہ دین دار لوگوں کی تعظیم کرتے اور مساکین کو اپنے پاس جگہ دیتے تھے ۔ طاقتور کو اس کے باطل موقف میں طمع کا موقع نہ دیتے اور کمزور آپ کے عدل سے مایوس نہ ہوتا۔ اور خدا کی قسم! میں نے انہیں بعض مقامات پر دیکھا جبکہ رات ڈھل چکی تھی اور ستارے ڈوب چکے تھے وہ اپنی داڑھی کو پکڑے ایسے مضطرب ہیں جیسے وہ شخص جسے سانپ کاٹ جائے اور وہ غمگین انسان کے رونے کی طرح روتے اور کہتے تھے اے دنیا!تومیرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دے تو مجھ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے یا میری مشتاق ہوتی ہے ۔ تجھ پر افسوس صد افسوس۔ میں تو تمہیں تین طلاقیں دے چکا ہوں جو واپس نہیں ہوسکتیں پس تمہاری عمر بہت محدود ہے اور تمہار امقصد بہت حقیر ہے ۔ آہ! زاد راہ کتنی کم اورسفر کتنا لمبا ہے اور راستہ کتنا وحشت ناک ہے۔یہ سن کر امیر معاویہ رو پڑے اور کہااللہ ابوالحسن پر رحم کرے خدا کی قسم! وہ ایسے ہی تھے۔ اے ضرار! تمہار ا غم ان کی وفات پر کیسا ہے ؟ضرار نے کہا اس ماں کی مامتا کا غم جس کا بچہ اس کی گود میں ذبح کر دیا جائے۔‘‘(40)
حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
’’ حضرت علیؓ پاکباز اور متقی انسان تھے اور رحمان خدا کے محبوب بندوں میں سے تھے۔ اور خدائے غالب کے شیرتھے۔ آپ وہ بے مثال بہادر تھے میدان جنگ میں خواہ دشمنوں کی فوج سے مقابلہ ہو اپنے مرکز سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ کئی معرکہ ہائے جنگ میں اپنی شجاعت کے حیرت انگیز جوہر دکھائے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ شیریں بیان او رمخلص انسان تھے۔ الغرض ہر ایک خوبی میں اور فصاحت وبلاغت میں کوئی آپ کا نظیر نہیں۔اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ علوم قرآنی میں آپ کو ایک سبقت حاصل تھی اور قرآنی نکات کے ادراک کا ایک خاص فہم آپ کو حاصل تھا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت علیؓ نے مجھے کتاب اللہ کی ایک تفسیر دی ہے اور کہا کہ یہ میری تفسیر ہے اور آپ کو اوّلیت کا شرف حاصل ہے۔ جو آپ کو دیا گیا اُس پر آپ کو مبارک ہو۔ چنانچہ میں نے وہ تفسیر لے لی اور میں نے حضرت علیؓ کو پختہ اخلاق کا مالک اور تواضع اور منکسرالمزاج اور روشن اور روحانی انسان دیکھا اور خدا کی قسم انہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ مجھے اور میرے عقیدے کے بارے میں خوب جانتے ہیں اور مجھے علیؓ حسینؓ سے ایک خاص مطابقت ہے جس کا بھید سوائے خداکے اور کسی کو معلوم نہیں اور مجھے علیؓ اور اُن کے دونوں صاحبزادوں سے محبت ہے اور جوان سے دشمنی کرتے ہیں میں ان کا دشمن ہوا۔‘‘(41)
حوالہ جات
-1
استیعاب جلد 3ص 218،اصابہ جز4 ص269،اسد الغابہ جلد4ص 16
-2
الوفا لابن جوزی ص198
-3
مستدرک حاکم جلد۱ ص542،مکتبہ النصرالحدیثہ الریاض
-4
ابن سعد جلد 3ص21،استیعاب جلد3ص 199
-5
تفسیرطبری سورۃ الشعراء زیر آیت وانذرعشیرتک الاقربین
-6
ابن سعد جلد 1ص228
-7
مسند احمد جلد1ص348
-8
مستدرک حاکم جلد3ص134
-9
تاریخ طبری جلد 2ص373
-10
مستدرک حاکم جلد 3ص 4،ابن سعد جلد3ص22،و ابن ہشام جلد 2ص 98،اسد الغابہ جلد 4ص 19
-11
الاصابہ جز4ص269، استیعاب جلد 3ص 203
-12
ابن سعد جلد3ص23
-13
مجمع الزوائد جلد6ص81،لائف آف محمدصفحہ251،252
-14
بیھقی دلائل جلد7ص235وجلد3ص160وابن سعد جلد3ص 21تا23
-15
استیعاب جلد 3ص 203، زرقانی جلد2ص4
-16
مسنداحمدجلد5ص359 ومجمع الزوائد جلد4ص50
-17
مسنداحمدجلد1ص104،91،153 وابن سعد جلد8ص24،ترمذی کتاب التفسیر سورۃ الاحزاب، مسند احمد جلد 6ص 344،مجمع الزوائد جلد 9ص 119،120
-18
ابن سعد جلد3ص23
-19
مجمع الزوائد جلد6ص114،112،طبری جلد2ص574،کنز العمال جلد 5ص 274
-20
ابن ہشام جلد3ص241،مستدرک جلد3ص32
-21
ابن ہشام جلد3ص253، واقدی جلد2ص499،بخاری کتاب الجہاد باب المصالحہ
-22
مجمع الزوائد جلد 9ص 122،123،سیرت الحلبیہ جلد 2ص 38تا 41،بخاری مغازی تبوک
-23
بخاری کتاب التفسیر سورۃ برائ۔ استیعاب جلد 3ص216
-24
استیعاب جلد3ص 203
-25
بخاری کتاب الحج باب من احل فی زمن النبیؐ
-26
استیعاب جلد3ص 206
-27
اسد الغابہ جلد 4ص 38،ریاض النضرہ فی مناقب لعشرہ جلد 2ص 128
-28
اسد الغابہ جلد4ص 31،32
-29
مجمع الزوائد جلد 9ص 121،104
-30
مجمع الزوائد جلد 9ص 104،116،ازالۃ الخفاء
-31
منتخب کنزالعمال برحاشیہ مسند جلد5ص 48،اسد الغابہ جلد4ص 33۔استیعاب جلد 3ص 208تا210،بخاری کتاب الدیات و مسند احمد جلد4ص 79،100۔فہرست ابن الندیم
-32
استیعاب جلد 3ص 218،219۔ابن سعد جلد 3ص 35۔اسد الغابہ جلد 4ص 34۔مجمع الزوائد جلد 9ص 146۔اصابہ جز 4ص 271
-33
اسد الغابہ جلد4ص 38،39۔مجمع الزوائد جلد 9ص137،139
-34
ابن سعد جلد 3ص 19،20
-35
کنز العمال جلد 7ص 133۔اسد الغابہ جلد 4ص 33،24و استیعاب جلد 3
-36
مسلم کتاب المناقب باب مناقب علیؓ و مجمع الزوائد جلد 9ص 121۔استیعاب جلد 3ص 211،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد5ص 55
-37
ترمذی کتاب المناقب فضل فاطمہ
-38
مستدرک حاکم جلد 3ص 108
-39
استیعاب جلد 3ص 219،204،مسند احمد جز1ص 160ابن سعد جلد 3ص 39،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد5ص 46
-40
استیعاب جلد 3ص 209
-41
سرالخلافہ روحانی خزائن جلد8ص 358(ترجمہ از عربی)
حضرت ابوعبیدہ ؓ بن الجراح
حلیہ و نام و نسب
لمبا قد، دبلا جسم، چھریرا بدن، روشن پیشانی، بارعب چہرہ، تیکھے نقش، خشخشی داڑھی۔ یہ ہیں عہدِ نبویﷺ کے نوجوان صحابی ابوعبیدہؓ بن الجراح۔ اصل نام عامر بن عبداللہ بن الجراح ہے۔ مگر دادا کی نسبت سے معروف ہیں اور نام سے زیادہ کنیت سے مشہور ہیں۔ سلسلہ نسب پانچویں پشت میں نبی کریمﷺسے مل جاتا ہے۔(1)
قبول اسلام و فضائل
حضرت ابوعبیدہؓ رسول اللہﷺکے دعویٰ نبوت کے بعد ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے ہیں۔ انہیں کو دارارقم کے تبلیغی مرکز بننے سے بھی پہلے قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ حضرت ابوبکرؓصدیق جیسے عظیم الشان داعی الی اللہ کی تبلیغی کوششوں کا شیریں پھل تھے ۔سیرتِ صدیقی کی گہری چھاپ ان کے اخلاق و شمائل میں نمایاں نظر آتی ہے۔ انہوں نے ایمان و اخلاص میں بہت جلد ترقی کی اور اصحاب رسول ؐمیں بہت بلند مقام پایا۔ آپؐ ان خوش نصیب دس صحابہ میں سے تھے جنہیں نبی کریمؐ نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی۔(2)
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو خوبصورت اخلاق اور کردار کے ساتھ قیادت کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آنحضرتؐ نے ایک دفعہ ان کی اس خوبی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ خاندان قریش میں سے تین ایسے مردان حق ہیں۔ جو نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل، انتہائی حیادار اور مقامِ سیادت پر فائز ہیں۔ اور وہ ہیں ابوبکرؓ و عثمانؓ اور ابوعبیدہؓ بن الجراح۔‘‘(3)
پاکیزہ اوصاف کی بناء پر آپؐ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بہت محبوب تھے، ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے رسول خداؐ سے بے تکلف گھریلوگفتگو کے دوران پوچھا کہ آپ کو اپنے اصحاب میں سے سب سے پیارے کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ابوبکرؓ، انہوں نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا عمرؓ، حضرت عائشہؓ نے تیسر ی مرتبہ پوچھا پھرکون رسول کریمﷺنے جواب دیا ابوعبیدہ بن الجراحؓ(4)
بلاشبہ ابوعبیدہؓ سے رسول ؐخدا کی یہ للّٰہی محبت ان کے اخلاص و فدائیت ایثار اور خدمات دینی کے باعث تھی۔ انہوں نے عین عالم شباب میں اسلام قبول کیا اور اپنی جوانی خدمت دین میں گزار دی۔
ہجرت کا ابتلاء
اسلام قبول کرتے ہی حضرت ابوعبیدہؓ کو جس ابتلاء کا سامنا کرنا پڑا وہ مال و اولاد اور وطن کی قربانی کا ابتلاء تھا۔ مگر خدا کی خاطراور دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے کمال جواں مردی سے وہ اپنا سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہوگئے اور مکہ کو خیرباد کہہ کر دور دراز کے اجنبی دیس حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ انہوں نے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، نئے ٹھکانے اور تلاش معاش کے دوران مشکلات اور خوف و ہراس کا سامنا کیا۔جب وہاںکچھ قدم جم گئے تو ہجرت مدینہ کا دوہرا امتحان پیش آیا۔ ان کی محبت رسول ؐ نے یہ گوارا نہ کیا کہ محبوب آقا تو مدینہ میں ہوں اور وہ حبشہ رہ کر آپؐ کے قرب اور پاک صحبت سے محروم رہیں۔ چنانچہ اس وطن ثانی حبشہ کو بھی خدا اور اس کے رسولؐ کی خاطر ترک کرکے مدینہ منورہ کی طرف دوسری ہجرت کی سعادت پائی اور دو ہجرتوں کے اجر اور ثواب کے حق دار ٹھہرے۔ جو بلاشبہ آپ کے لئے باعث اعزاز اور موجب فخر ہے۔ جس کااظہار دو ہجرتوں کا شرف پانے والے صحابہؓ بہت لطیف انداز میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت اسمائؓ بنت عمیس(جنہوں نے ہجرت حبشہ اورہجرت مدینہ دونوں کی سعادت پائی تھی) رسول اللہؐ سے ملاقات کے لئے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے گھر آئیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت عمرؓ بھی حضورؐ سے ملنے حاضر ہوئے اور یہ معلوم کرکے کہ حضرت اسمائؓ وہاں موجود ہیں ان سے مخاطب ہوکر از راہ التفات فرمانے لگے کہ ’’اے اسمائؓ! ہمیں تم مہاجرین حبشہ پر مدینہ ہجرت کرنے میں اوّلیت حاصل ہے اور نبی کریمﷺسے تعلق اور محبت کے ہم زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ حضرت اسمائؓ نے مہاجرین حبشہ کی نمائندگی کا حق خوب ادا کیا۔ کہنے لگیں ’’اے عمرؓ! آپ کا یہ دعویٰ ہرگز درست نہیں۔ آپ لوگ تو آنحضرتﷺکی معیت میں رہے۔ وہ آپ کے کمزوروں اور فاقہ زدوں کا خود خیال رکھتے اور حتی الوسع ان کی ضروریات خود پوری فرماتے تھے۔ جب کہ ہم اجنبی ملک حبشہ میں تھے جہاں کسی دل میں ہمارے لئے کوئی نرم گوشہ نہ تھا۔ ہم سخت اذیتوں سے گزرے اور خوف و ہراس سے دوچار ہوئے اور یہ سب کچھ خدا اور اس کے رسولؐ کی خاطر برداشت کیا(اور اب آپ ہمیں یہ طعنہ دینے لگے) خدا کی قسم! میرا کھانا پینا حرام ہے جب تک میں نبی کریم ؐ سے دریافت نہ کرلوں کہ حبشہ اور مدینہ ہجرت کرنے والوں میں کس کا درجہ زیادہ ہے۔‘‘ پھر واقعی حضرت اسمائؓ نے نبی کریمؐ کی خدمت میں حضرت عمرؓ کی بات کہہ سنائی۔ آنحضورؐ نے پوچھا کہ پھر تم نے عمرؓ کو کیا جواب دیا؟ حضرت اسمائؓ نے بلا کم و کاست اپنا فصیح و بلیغ جواب بھی عرض کردیا تو دربارِ رسالتؐ سے یہ فیصلہ جاری ہوا کہ ’’اے اسمائؓ! تم ٹھیک کہتی ہو۔ عمرؓ اور ان کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنے والے محض اس قربانی کی بناء پر مہاجرین حبشہ سے زیادہ میرے تعلق محبت کے مستحق نہیں۔ اگر ان کی ایک ہجرت ہے تو بلاشبہ تمہاری دو ہجرتیں ہیں۔‘‘(جس کی بناء پر گویا تم دوہرے اجر اور ثواب کے مستحق ہو)۔(5)
مقام امین
ہجرتوںکی اس دوہری قربانی کے علاوہ حضرت ابوعبیدہؓ کی جس خوبی نے صحابہؓ میں ممتاز کیا وہ یہ تھی کہ آپ ارشاد ِ ربانی (المومنون:9) (یعنی وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں)کے حقیقی مصداق تھے۔ حق یہ ہے کہ ایک مومن کامل کا یہی بلند و بالامقام ہے۔ چنانچہ بظاہر نحیف و ناتواں ابوعبیدہؓ اصحاب رسولؐ میں ’’القوی الامین ‘‘کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے۔ یہ گویا ان کے حق میں زمانے کی شہادت تھی کہ وہ اپنی تمام امانتوں کے حق ادا کرنے میں خوب قادر تھے۔(6)
خلق خدا کی اس گواہی پر رسول خدا ﷺنے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اس وقت مہر تصدیق ثبت فرمائی، 9ہجری میں جب نجران کی عیسائی ریاست سے ایک وفد مدینہ آیا اور سالانہ خراج کی ادائیگی پر ان سے مصالحت ہوئی۔ اس موقع پر وفد نے رسول اللہﷺسے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ خراج کی وصولی کے لئے ایک ایسا شخص بھجوائیں جو امانتوں کا حق خوب ادا کرنے والا ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں! فکر نہ کرو میںضرور تمہارے ساتھ ایک نہایت امین شخص روانہ کروں گا۔‘‘ اس وقت مجلس نبویؐ میں ایک عجب کیفیت تھی جب صحابہ رسولؐ سر اٹھا اٹھا کر وفور شوق سے یہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ دیکھیں اب یہ سعادت کس خوش بخت کے حصہ میں آتی ہے ۔ انتظار کے لمحے ختم ہوئے اور رسول خدا ﷺنے فرمایا ’’ابوعبیدہ کھڑے ہوں‘‘ جب وہ اپنی نشست پرسے اٹھے تو ہمارے آقا و مولاکی زبان فیض ترجمان سے ابوعبیدہؓ کو ایک دائمی اور تاریخی سند عطاء ہوئی آپؐ نے فرمایا:
’’یہ ہے اس امت کا امین‘‘ اور پھر صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا ’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے۔ اے میری امت کے لوگو! ہمارا امین ابوعبیدہؓ بن الجراح ہے۔‘‘(7)
حقیقت یہ ہے کہ امین الامت کا خطاب ابوعبیدہؓ کے لئے عظیم الشان اعزاز تھا جس میں دراصل ان کے پاکیزہ کردار کا خلاصہ بیان کردیا گیا۔ ان کے حق میں کیا خوب فرمایا’’کہ میں اپنے صحابہ میں سے ہر ایک کے کسی خلق پر گرفت کرسکتا ہوں سوائے ابوعبیدہؓ کے جو بہت عمدہ واعلیٰ اخلاق کے حامل ہیں۔‘‘(8)
ہر چند کہ امین الامت کا بلند پایہ خطاب پانے والے اس عظیم انسان کی سیرت و سوانح پر پہلے بھی اہل قلم نے خامہ فرسائی کی ہے۔ راقم الحروف نے’’ امین الامت‘‘ کی سیرت کا مطالعہ ادائیگی امانات کے اس اہم پہلو کے حوالہ سے کیا تو اس جوانِ رعنا کی سیرت ایک نئے حسین روپ میں جلوہ گر ہوئی۔ حضرت ابوعبیدہؓ بہت بھاری اموال کے بھی امین بنائے جاتے رہے، قومی امارت کی امانت بھی آپ کو سونپی گئی جس کے حق آپ نے خوب ادا کئے۔اس جگہ جملہ اخلاق فاضلہ کاحقِ امانت ادا کرنے کے لحاظ سے سیرت ابوعبیدہؓ کا تذکرہ کیا جارہاہے۔
بدر میں تاریخی شرکت
غزوہ بدر میں ایک سپاہی کی حیثیت سے آپ کی امانت کا امتحان یوں ہوا کہ مد مقابل لشکر کفار میں آپ کے بوڑھے والد عامر بھی برسرپیکار تھے۔ ابوعبیدہؓ ایک بہادر سپاہی کی طرح داد شجاعت دیتے ہوئے میدان کار زار میں آگے بڑھتے چلے جارہے تھے والد سے سامنا ہوگیا جو کئی بار تاک کر ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کرچکا تھا، ذرا سوچئے تو وہ کتنا کٹھن اور جذباتی مرحلہ ہوگا کہ ایک طرف باپ ہے اور دوسری طرف خدا اور اس کا رسولؐ ہیں۔ جن کے خلاف باپ تلوار سونپ کر نکلا ہے، مگر دنیا نے دیکھا کہ ابوعبیدہؓ جیسے قوی اور امین کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی کہ خدا کی خاطر سونتی ہوئی شمشیر برہنہ نہیں رکے گی جب تک دشمنان رسول کا قلع قمع نہ کرلے خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو ۔ اگلے لمحے میدان بدر میں ابوعبیدہؓ کا مشرک والد عامر اپنے موحّد بیٹے کے ہاتھوں ڈھیر ہوچکا تھا۔ آفرین تجھ پر اے امین الامت آفرین! تو نے کیسی شان سے حق امانت ادا کیا کہ باپ کا مقدس رشتہ بھی اس میں حائل نہ ہوسکا۔ صحابہ اس تاریخی واقعہ پر وہ آیت چسپاں کرتے تھے جس میں اللہ تعالیٰ ایسے کامل الایمان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو خدا کی خاطر اپنی رشتہ داریاں بھی قربان کردیتے ہیں۔(9) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(المجادلۃ: 23)
تو کوئی ایسی قوم نہ پائے گا جو اللہ اور یوم آخرت پر بھی ایمان لاتی ہو اور اللہ اور اس کے رسول کی شدید مخالفت کرنے والے سے بھی محبت رکھتی ہو خواہ ایسے لوگ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا ان کے خاندان میں سے ہوں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش کردیا ہے اور اپنی طرف سے کلام بھیج کر ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں رہتے چلے جائیں گے اللہ ان سے راضی ہوگیا وہ اللہ سے راضی ہوگئے وہ اللہ کا گروہ ہیں اور سن رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہوا کرتا ہے۔
غزوۂ احدمیں فدائیت
بدر کے بعد احد کا معرکہ پیش آیا۔ جبل احد نے بھی حضرت ابوعبیدہؓ کے قوی اور امین ہونے کی گواہی دی جب اس امانت رسالت کی حفاظت کا سوال آیا جو رسولؐ خداکی ذات کی صورت میں موجود تھی، ابوعبیدہؓ احد میں نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ کمال مردانگی اور فدائیت کا نمونہ دکھایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’ احد میں سنگباری کے نتیجہ میں آنحضورؐ کے خود کی دونوں کڑیاں ٹوٹ کر جب آپ ؐکے رخساروں میں دھنس گئیں میں رسول کریمﷺ کی مدد کے لئے آپؐ کی طرف لپکا۔ دیکھا کہ سامنے کی طرف سے بھی ایک شخص دوڑا چلا آرہا ہے۔ میں نے دل میں دعا کی کہ خدا کرے اس نازک وقت میں یہ شخص میری مدد اور نصرت کا موجب ہو۔ آگے جا کر دیکھا تو وہ ابوعبیدہؓ تھے جو مجھ سے پہلے حضورؐ تک پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے صورتحال کا جائزہ لے کر کمال فدائیت کے جذبہ سے مجھے خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ’’ حضور کے رخساروں سے یہ لوہے کی شکستہ کڑیاں مجھے نکالنے دیں‘‘ پھر انہوں نے پہلے ایک کڑی کو دانتوں سے پکڑا اور پوری قوت سے کھینچا تو وہ باہر نکل آئی۔ مگر ابوعبیدہؓ خود پیٹھ کے بل جاگرے اور ساتھ ہی آپ کا اگلا دانت باہر آگیا۔ پھر انہوں نے دوسرے رخسار سے کڑی اسی طرح پوری ہمت سے کھینچی تو اس کے نکلنے کے ساتھ آپ کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا اور آپ دوبارہ پشت کے بل گرے۔ مگر آنحضرتﷺکو ایک سخت اذیت سے نجات دینے میں کامیاب ہوگئے اور آپ کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیا۔کہتے ہیں حضرت ابوعبیدہؓ کے سامنے کے دو دانٹ ٹوٹ جانے سے ان کا چہرہ اورخوبصورت ہوگیا اور لوگ کہا کرتے تھے کہ سامنے کے دو شکستہ دانتوں والا کبھی اتنا خوبصورت نظر نہیں آیا جتنے ابوعبیدہؓ۔(10)
احد کے بعد جملہ غزوات خندق، بنو قریظہ، خیبر، فتح مکہ حنین اور طائف وغیرہ کے معرکوں میں بھی حضرت ابوعبیدہؓ ایک مجاہد سپاہی کے طور پر خدمات بجالاتے ہوئے پیش پیش رہے۔(11)
امیر لشکر کی حیثیت سے بھی حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنی امانتوں کا حق خوب ادا کیا۔ 6ہجری میں وہ قبیلہ ثعلبہ و انمار کی سرکوبی پر مامور کئے گئے اور کامیاب و کامران واپس لوٹے۔ ( 12)
ذات السلاسل کی قیادت اور تعاون باہمی
7ہجری میں غزوۂ خیبر کے بعد رسولؐ خدا نے ملک شام کے مشرق میں ذات السلاسل کی مہم پر حضرت عمر و بن العاصؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ فرمایا ،جس میں کبار صحابہ کی نسبت اعراب اور بدّو وغیرہ زیادہ تھے۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لئے حضرت عمرؓ و بن العاص نے کمک طلب کی جس پر نبی کریمﷺنے حضرت ابوعبیدہؓ کی سرکردگی میں مہاجرین کا ایک دستہ ان کی مدد کے لئے بھجوایا، جس میں حضرت ابوبکرؓ و عمر ؓ بطور سپاہی شریک تھے۔رسول خداؐ نے خداداد بصیرت و فراست سے بوقت رخصت حضرت ابوعبیدہؓ کو نصیحت فرمائی کہ عمر وؓ بن العاص کے پاس پہنچ کر دونوں امراء باہم تعاون سے کام کرنا۔ مگر جب وہاں پہنچے تو حضرت عمر ؓوبن العاص نے اس خیال سے کہ ان کی امداد کے لئے بھجوائی گئی کمک ان کے تابع ہے حضرت ابوعبیدہؓ کے سپاہیوں کو ہدایت دے کر کام لینے لگے اور بزرگ مہاجرین صحابہ کی اس وضاحت کے باوجود کہ دونوں امراء اپنے دائرہ عمل میں بااختیار ہیں اور انہیں باہم مشورے اور تعاون سے کام کرنے کا حکم ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ کو اپنے حق امارت پر اصرار رہا۔ اس نازک موقع پر امانتوں کے سفیر حضرت ابوعبیدہؓ کا مؤقف کیساپاکیزہ اور متقیانہ تھا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ سے آپ نے فرمایا کہ’’ ہر چند کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد امیر کے طور پر بھجوایا ہے مگر ساتھ ہی باہم تعاون کا بھی ارشاد فرمایا۔ اس لئے آپ میری بات مانیں یا نہ مانیں میری طرف سے ہمیشہ آپ کو تعاون ہی ملے گا اور میں آپ کی ہر بات مانوں گا۔(13) دیکھئے ابوعبیدہؓ نے امارت کا حق امانت کس شان سے ادا کر دکھایا اور تعاون علی البر اور ایثار کا کیسا شاندارنمونہ دکھایا۔
8ہجری میں قریش کے بعض تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت کا پتہ چلانے کے لئے رسول کریمؐ نے آپ کو ایک اہم رازدارانہ کی مہم سونپی جس میں تین صدصحابہ آپ کی سرکردگی میں ساحل سمندر کی طرف روانہ کئے گئے۔
وہ زمانہ بہت تنگی کا تھا اور حسب دستور زادراہ کے لئے ہر سپاہی نے جو کچھ کھجوریں وغیرہ پاس رکھی تھیں وہ ختم ہونے کو آئیں تو فاقہ کشی کے ان ایام میں انصاری سردار قیس بن سعدؓ کی طرف سے جودوسخا کا زبردست مظاہرہ ہوا۔ انہوں نے لشکر میں شامل بعض لوگوں سے واپسی مدینہ تک سواری کے اونٹ ادھار لے کر ذبح کروائے ہمراہیوں کو کھانا کھلانا شروع کیا۔ چندروز کے بعد حضرت عمرؓ نے سوال اٹھایا کہ سواریوں کے ختم ہوجانے پر آئندہ سفر کیسے جاری رکھا جاسکے گا؟ چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ نے مزید اونٹ ذبح کرنے سے حکماً روک کر ایک مناسب حال فیصلہ فرمایا۔ دوسری طرف فاقہ کش لشکر کے لئے خوراک کاانتظام بھی آپ کی ذمہ داری تھی۔ آپ نے تمام سپاہیوں کے پاس باقی ماندہ زادراہ اکٹھی کر کے راشن کی دو بوریاں اکٹھی کرلیں اور آئندہ کے لئے راشن کی تقسیم کا ایسا نظام جاری کیا کہ ہر سپاہی کو زندہ رہنے کے لئے کچھ نہ کچھ خوراک ملنے لگی۔ صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ بعض ایسے دن بھی آئے جب روزانہ ایک شخص کو بمشکل ایک کھجور ملتی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک کھجور کی قدر بھی ہمیںاس وقت آئی جب یہ اجتماعی زادراہ بھی ختم ہوگئی تو ہم نے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کیا اور جانوروں کی مینگنوں جیسا پاخانہ کرتے رہے۔
تب ایسے معلوم ہوتا ہے کہ امین الامت ابوعبیدؓہ کی اس عادلانہ تقسیم اور دعائوں نے خدا کی رحمت کو جوش دیا اور مولیٰ کریم نے ان فاقہ کشوں کی دعوت کا خود اہتمام فرمایا اور سمندر کو حکم دیا کہ ایک بہت بڑی مچھلی راہ مولیٰ میں بھوک برداشت کرنے والوں کے لئے ساحل پر ڈال دے۔ چنانچہ اس مچھلی کا گوشت اور تیل مسلسل کئی روز استعمال کرنے سے صحابہ کی صحت خوب اچھی ہوگئی۔ تین صد افراد کے لئے کئی روز تک خوراک بننے والی اس مچھلی کے متعلق طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی جسامت کیا ہوگی۔ حضرت ابوعبیدہؓ جیسے زیرک قائد نے اس الٰہی نشان کو محفوظ کرنے کا عمدہ انتظام بھی کردیا۔ انہوں نے ساحل چھوڑنے سے قبل مچھلی کے ڈھانچے سے دو پسلیاں لے کر زمین میں گاڑ دیں اور پیمائش کی خاطر ایک شترسوار کو نیچے سے گزارا تو وہ بآسانی گزر گیا۔(14)
الغرض اس سفر میں حضرت ابوعبیدہؓ کی قائدانہ صلاحتیں خوب نکھر کر سامنے آئیں۔ عملی زندگی میں امانتوں کی ادائیگی میں یہ اہتمام ابوعبیدہؓ کے لئے مزید خدمات کے مواقع مہیا کرنے کا موجب ہوا۔ چنانچہ اس کے بعد رسول کریمﷺنے حضرت ابوعبیدہؓ کو بہت اہم مالی ذمہ داریاں بھی تفویض فرمائیں۔
اموال بحرین کی امانت
8ہجری میں حکومت کسریٰ ایران کی باجگزار ریاست بحرین سے مصالحت ہوئی۔ حضرت علائؓ بن حضرمی وہاںامیر مقرر ہوئے۔(15)
حضرت ابوعبیدہؓ جزیہ کی امانتیں وصول کرکے مرکز اسلام مدینہ لانے کے لئے مامور ہوئے۔ ان کے صدق و امانت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ وہ بحرین سے ڈھیروں ڈھیر مال لے کر مدینہ آئے۔ انصار مدینہ کو خبر ہوئی تو وہ اگلے روز فجر کی نماز میں کثیر تعداد میں حاضر ہوئے۔ نماز فجر کے بعد نبی کریمؐ نے صحابہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ معلوم ہوتا ہے تم لوگوں کو ابوعبیدہؓ کے آنے کی اطلاع ہوگئی ہے ۔سو تمہیں بشارت ہو کہ تمہاری مرادیں پوری ہوں گی۔ مگر یاد رکھو! مجھے تمہارے فقرو افلاس کا اندیشہ نہیں بلکہ دنیا تمہارے لئے اس طرح فراخ کر دی جائے گی۔ جس طرح پہلی قوموں کے لئے کی گئی۔ لیکن اس کے نتیجے میں بالآخر وہ ہلاک ہوگئے۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں تمہارا بھی وہ حال نہ ہو۔‘‘(16)
امین الامت نجران میں
اموال بحرین کی امانتوں کا حق ادا کرنے کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ کو نجران میں مالی امور کا امین بنایا گیا۔ چنانچہ 9ہجری میں جب نجران کا اعلیٰ سطحی وفد (جو حکومتی اور مذہبی نمائندوں پر مشتمل تھا) مدینہ آیا اور اہل نجران سے ان شرائط پر صلح ہوئی کہ
1- ’’دو ہزار حلّے(چادریں) وہ سالانہ دیا کریں گے ہر حلہ ایک اوقیہ مالیت کا ہوگا اور اوقیہ کا وزن چالیس درہم ہوگا۔
2- جو حلّے ایک اوقیہ سے زیادہ قیمت کے ہوں گے ان کی قیمت کی زیادتی حلّوں کی تعداد کی کمی سے اور جو کم قیمت ہوں گے ان کی قیمت کی کمی حلّوں کی تعداد کی زیادتی سے پوری کرائی جائے گی۔
3- اگر حلوں کی مالیت کے برابر اسلحہ، گھوڑے یا دیگر سامان دینا چاہیں تو قبول کرلیا جائے گا۔‘‘ (17)
اب ظاہر ہے ان شرائط پر عمل درآمد کروانا بھی ایک امانت دار شخص کا تقاضا کرتا تھا اور یہی سوال اہل نجران نے اٹھایا کہ اس معاہدے کی تعمیل کے لئے اپنا انتہائی امین شخص ہمارے ساتھ بھجوائیں۔ اس پر نبی کریم ؐ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو امین الامت کا خطاب دے کر اس وفد کے ساتھ نجران روانہ فرمایا اور حضرت ابوعبیدہؓ نے یہاں بھی خوب امانت کا حق ادا کرنے کی توفیق پائی۔
انتخاب خلافت اولیٰ
10ہجری میں حضرت ابوعبیدہؓ حجۃ الوداع کے سفر میں بھی رسول اللہﷺکے ہم رکاب تھے۔ جس کے بعد ہمارے آقا و مولا نے سفر آخرت اختیار فرمایا۔ رسول اللہﷺکی وفات نے مسلمانوں کی زندگی پر ایک زلزلہ برپا کردیا اپنے آقا کی المناک جدائی کے صدمے سے مغلوب صحابہ رسولؐ بے چین اور بے قرار تھے اور مارے غم کے دیوانے ہوئے جارہے تھے۔ چنانچہ سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار کے ایک سردار رسول اللہؐسے تعلق محبت کی بناء پر انصار میں سے امیر مقرر کئے جانے کا سوال اٹھا رہے تھے۔ اس موقع پر جب خلافت ایسی اہم امانت کی سپردداری کا مسئلہ زیر غور تھا۔ بزرگ صحابہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور ابوعبیدہؓ نے انصار کو سمجھایا اور ہر ایک نے نہایت عجز اور انکسار سے اپنے بزرگ مہاجر بھائی کا نام پیش کرکے صدق دل سے اپنی بیعت پیش کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: دیکھو تم میں عمرؓ موجود ہیں، جن کی ذات سے خدا نے دین کو معزز کیا اور تم میں ابوعبیدہؓ بھی ہیں جن کو امین الامت کا خطاب دیا گیا ان میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو، بیعت کرکے اکٹھے ہوجائو۔‘‘(18)
حضرت عمرؓ نے اپنی معذرت پیش کرتے ہوئے ان دونوں بزرگوں کے نام لئے اور حضرت ابوبکرؓ کے طبعی پس و پیش کو دیکھ کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے یہاں تک کہا کہ ابوعبیدہؓ آپ بیعت لینے کے لئے ہاتھ بڑھائیں۔ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امین ہیں۔ اس پر ابوعبیدہؓ نے اپنی رائے کا حق امانت یوں ادا کیا کہ’’ مجھے ہرگز ایسے شخص پر تقدم روا نہیں جنہیں آنحضرتﷺنے اپنی آخری بیماری میں ہمارا امام مقرر فرمایا اور حضورﷺی وفات تک انہوں نے ہمیں امامت کروائی۔‘‘(19)
پھر انصار صحابہؓ کو کیسی عمدگی سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو’’ اے انصار! تم رسول ؐاللہ کی نصرت کرنے والے اوّلین لوگ تھے۔ آج اس کو سب سے پہلے بدلنے والے نہ بن جانا۔‘‘(20)
الغرض خلافت اولیٰ کے انتخاب کے اہم اور نازک مرحلے پر بھی امین الامت حضرت ابوعبیدہؓ نے اپنے خطاب کی خوب لاج رکھی اور امانت کا حق ادا کر دکھایا۔
حضرت عمرؓ کو حضرت ابوعبیدہؓ کی عملی زندگی میں کامل امین ہونے پر جو بھرپور اعتماد تھا اس کا اظہار انہوں نے اپنی وفات سے قبل اپنی ایک دلی تمنا کے رنگ میں یوں کیا کہ اگر آج ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں ان کو اپنے بعد خلیفہ مقرر کرجاتا اور اس کے بارہ میں کسی سے مشورہ کی بھی ضرورت نہ سمجھتا اور اگر مجھ سے جواب طلبی ہوتی تو میں یہ جواب دیتا کہ خدا اور اس کے رسولؐ کے امانت دار شخص کو اپنا جانشین مقرر کر آیا ہوں۔(21)
شاندار فتوحات اور مفتوحین سے حسن سلوک
خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنے دور خلافت میں حضرت ابوعبیدہؓ پر بھر پور اعتماد کرتے ہوئے ملک شام کے چاروں اطراف میں نبرد آزما تمام فوجوں کی کمان ان کے سپرد کی۔آپ کے ماتحت چاروں لشکروں کے امیر تھے۔متحدہ فوجوں نے فتح بصری و اجنادین کے بعد دمشق کا محاصرہ کیا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات ہو گئی۔
حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانہ خلافت تک یہ طویل محاصرہ جاری رہا ایک روز حضرت خالد بن ولیدؓکمال حکمت عملی سے منصوبہ بندی کر کے شہر کے ایک طرف سے فصیل پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے اور شہر کے اس حصہ کے دروازے کھول دئیے آپ کی سپہ اندر داخل ہو گئی اور شہر کی دوسری جانب ابوعبیدہؓدروازہ توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔عیسائیوں نے جب یہ دیکھا کہ ابوعبیدہؓ شہر فتح کر لیں گے تو انہوں نے حضرت خالد ؓ کے لئے مشرقی دروازہ کھول کر ان سے تحریری صلح کرلی۔ اگرچہ یہ ان کی واضح دھوکہ دہی تھی کیونکہ ایک تو حضرت خالد ؓامیر نہ تھے دوسرے ایک طرف سے شہر مفتوح ہونیکی حالت میں پورے شہر کی طرف سے مصالحت کی تحریر لاعلمی میں لی گئی ہرچند کہ دھوکہ کے ساتھ کئے گئے اس معاہدہ صلح کی کوئی اہمیت نہیںتھی مگر حضرت خالدؓعیسائیوں کو جو امان دے چکے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اسے واپس لینا پسند نہ فرمایا۔اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ بے شک خالدؓ امیر لشکر نہیں پھر بھی رسولؐاللہ کا ارشاد ہے کہ کسی ایک مسلمان کی طرف سے دی گئی امان تمام مسلمانوںکی طرف سے پناہ سمجھی جائے گی۔(22)چنانچہ نصف شہر دمشق کے مفتوح ہونے کے باوجود اہل شہر کو قیدی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی مال غنیمت لوٹا گیا بلکہ مصالحت کے احکام جاری کرتے ہوئے اہل شہر کو مکمل امان دی گئی۔ایک روایت میں خالدؓ کے فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہونے اور ابوعبیدہؓ کے صلح کرنے کا ذکر ہے جو صحیح نہیں۔
حضرت عمرؓ نے جب حضرت خالدؓ کی بجائے حضرت ابوعبیدہؓ کو امیر لشکر مقرر فرمایا تو حضرت خالدؓ نے کمال اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اے مسلمانو! تم پر اس امت کے امین امیر مقرر ہوئے ہیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ہے کہ خالد ؓخدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔
بااصول قائد
معرکہ فحل میں حضرت ابوعبیدہؓ کی خدمت میں جو رومی سفیر حاضر ہوا وہ رومی جرنیلوں کے مقابل پر اسلامی جرنیل کی سادگی دیکھ کر اول تو پہچان ہی نہ سکا۔ پھر ملاقات کر کے ان کی سادگی وقار اور رعب سے بہت متاثر ہوا۔
اسی موقع پر اس سفیر نے وہ تاریخی پیشکش بھی کی کہ آپ کے ہر سپاہی کو ہم دو اشرفیاں دیں گے اگر آپ لوگ یہیں سے واپس چلے جائو۔ حضرت ابوعبیدہؓ جیسے جری اورامین انسان اصولوں کا یہ سودا کیسے کر سکتے تھے؟چنانچہ اگلے روز دونوں فوجوںکے درمیان میدان جنگ میں بلا کارن پڑا ۔حضرت ابوعبیدہؓنے قلب لشکر میں رہ کر نہایت دانشمندی اور دلیری سے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے بہت بڑی رومی فوج کو شکست فاش دی۔
فتح حمص کے بعد لاذقیہ کا قلعہ بند شہر بھی ابوعبیدہؓ نے کمال دانشمندی سے اس طرح فتح کیا کہ مخفی طور پر کچھ خندقیں کھدوا کر اپنی فوج کا ایک حصہ وہاں چھوڑا اور باقی فوج کو کوچ کاحکم دیدیا۔ محصورین نے دیکھا کہ فوج پڑائو اٹھا چکی تو شہر پناہ کے دروازے کھول دیئے۔ ابوعبیدہؓ کی سپاہ خندقوں سے نکل کر شہر میں داخل ہو گئی۔(24 )
اسلامی عدل کا شاندار نمونہ
ان متواتر شکستوں کے بعد شہنشاہ روم نے ملک بھر سے فوجیں یر موک میں جمع کر لیں۔حضرت ابوعبیدہؓ نے مقابلہ کے لئے جرنیلوں سے مشورہ طلب کیا تو یہ تجویز پیش ہوئی کہ مفتوحہ علاقوں کی تمام فوجوں کو مقابلہ کے لئے اکٹھا کیا جائے مگر اس صورت میں مسلمان عورتوں اور بچوں کو مفتوح عیسائی باشندوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا خطرے سے خالی نہ تھا اوردوسری طرف مفتوحہ علاقوں کے لوگوں سے جزیہ وخراج لے کر ان کی حفاظت کے وعدے کئے تھے۔چنانچہ اس نازک موقع پر امین الامت حضرت ابوعبیدہؓ نے جو تاریخی فیصلہ فرمایا وہ آپ کی شان امانت کو خوب ظاہر کرتا ہے آپ نے فرمایا کہ’’ مفتوحہ علاقوں سے فوجیں دمشق جمع ہوں اور وہاں کے باشندوں کو ان سے وصول شدہ جزیہ واخراج آپ نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ فی الوقت ہم آپ کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرنے سے معزور ہیں اسلئے اپنی امانت واپس لے لو‘‘ چنانچہ حمص کے عیسائیوں اور دیگر مفتوحہ علاقوں کے لوگوں کو کئی لاکھ کی رقم واپس دی گئی ،اس بے نظیر عدل وانصاف اور ادائیگی امانت کا ان پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے کہاتمہاری عادلانہ حکومت ہمارے لئے پہلے کی ظالمانہ حکومت سے بہت بہتر ہے۔اور مسلمان جب وہاں سے روانہ ہونے لگے تو مقامی عیسائی باشندے انہیں الوداع کرتے ہوئے روتے جاتے تھے اور دلی جوش سے یہ دعائیں کر رہے تھے کہ خدا تم کو پھر واپس لائے۔ یہودیوں نے تو یہاں تک کہا کہ تورات کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا ۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے اور ہر جگہ پہرہ بٹھا دیا۔(25)
میدان وغامیں دعوت الی اللہ
معرکہ یرموک سے پہلے فریقین میں سفارتوں کا تبادلہ ہوا تو جارج نامی رومی قاصد نے اسلامی لشکر گاہ میں آکر انہیں باجماعت نماز ادا کرتے دیکھا تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا پھر جب حضرت ابوعبیدہؓ نے اسلام کا پیغام اسے پہنچایا اور حضرت عیسیٰؑ کے بارہ میں سورہ نساء کی وہ آیات سنائیں جن میں آپ کو خدا کا رسول اور کلمۃ اللہ کہا گیا ہے تو جارج نے حق و صداقت کی گواہی دیتے ہوئے اسلام قبول کر لیا اور واپس جانے سے انکار کر دیا مگر امین الامت نے باصرار اسے اسلامی سفیر حضرت خالدؓکے ساتھ واپس جانے پر مجبور کیا اور یوں سفارت کے حق امانت پر بھی کوئی آنچ نہ آنے دی۔ان سفارتوں کے ناکام ہونے کے بعد ابوعبیدہ ؓ نے میدان یرموک میں اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے معرکہ کی قیادت کی جس میں تیس ہزار مسلمانوں نے کئی لاکھ رومی فوج کو شکست فاش دی اور تین ہزار مسلمانوں کے مقابل پر ستر ہزار رومی مارے گئے۔(26)
بیت المقدس کی تاریخی فتح
بیت المقدس کی تاریخی فتح میں حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اہم کردار کیا۔ حضرت عمروبن العاصؓکے محاصرہ بیت المقدس کے دوران عیسائیوں نے اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ خلیفۃُ المسلمین حضرت عمرؓخود آکر اس مقدس شہر سے معاہدہ صلح طے کریں چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ کی درخواست پر حضرت عمرؓ نے خود تشریف لا کر معاہدہ صلح فرمایا14ھ میں حضرت عمرؓ نے خالد بن ولیدؓ کی جگہ ابوعبیدہؓ کو والی دمشق مقرر فرمایا۔اسکے بعد ملک شام میں آپ ہی کے ذریعہ عہد فاروقی کی بہت ساری اصلاحات عمل میں آئیں۔ علاوہ ازیں حضرت ابوعبیدہؓ نے ایک عظیم الشان داعی الی اللہ کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک طرف شام میں آباد عیسائی عربی قبائل تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا انتظام کیا اور وہ آپ کی کوششوں سے مسلمان ہوئے۔ دوسری طرف شامی اور رومی عیسائی بھی آپ کے اخلاق و کردار اور عدل و انصاف سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوئے۔(27)
طاعون عمواس اور ابوعبیدہؓ کا مقام رضا بالقضاء
18ھجری میں حضرت ابوعبیدہؓ عمواس مقام پر پڑائو کئے ہوئے تھے کہ شام میں مہلک طاعون پھوٹ پڑی۔حضرت عمرؓ ملک شام کے دورہ پر نکلے تھے۔ سرغ کے مقام پر حضرت ابوعبیدہؓ نے آپؓکا استقبال کیا۔یہاں پر آکر پتہ چلا کہ طاعون اور شدت اختیار کر چکی ہے۔صحابہ کرام نے حضرت عمرؓ کو مشورہ دیا کہ وہ یہیں سے واپس چلے جائیں اور طاعون زدہ علاقے میں داخل نہ ہوں ورنہ وبالگ جانے کا خطرہ ہے۔(28)
حضرت عمرؓ خود رضا بالقضاء کے اعلیٰ مقام پر تھے ۔ آپ نے صحابہ کا مشورہ احتیاطی تدبیر کے طور پر بادل ناخواستہ قبول تو فرما لیا اور مدینہ واپس لوٹے لیکن برملا اظہار ضرور فرماتے رہے کہ عین ملک شام کے سر پر پہنچ کر ان لوگوں نے طاعون کی وجہ سے مجھے واپس آنے پر مجبور کیا حالانکہ میں خوب جانتا ہوں کہ نہ تو میرا وہاں سے واپس لوٹنا مجھے موت کے منہ سے بچا سکتا ہے اور نہ ہی میرا وہاں جانا مجھے میری موت کے مقررہ دن سے پہلے لقمہ اجل بنا سکتا تھا۔ مدینہ میں فرائض منصبی سے فارغ ہو کر جونہی مجھے موقع ملا میں جلد پھر شام کا قصد کرونگا۔(29)
مسئلہ تقدیر
سرغ میں انصار و مہاجرین سے حضرت عمرؓ کے مشورہ کے دوران یہ بحث چھڑی کہ حضرت عمرؓکو وباء زدہ علاقہ میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔صحابہ کا ایک گروہ اسکے خلاف تھا ان میں حضرت ابوعبیدہؓ بھی تھے(جنہیں حضرت عمرؓ نے طاعون زدہ علاقہ چھوڑ کر اپنے ساتھ مدینہ چلنے کی بھی دعوت دی تھی مگر انہوں نے اسلامی فوج کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی)حضرت ابوعبیدہؓ کی قلندرانہ رائے یہ تھی کہ حضرت عمرؓ کو دورہ مکمل کئے بغیر واپس نہیں جانا چاہئے۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ کیا ہم موت سے بچنے کے لئے تقدیر سے بھاگیں گے؟حضرت عمرؓ نے جو مسئلہ تقدیر پر گہری نظر رکھتے تھے فرمایا کہ ابوعبیدہؓ مجھے آپ سے یہ امید نہ تھی (آپ میرے بارے میں یہ خیال کریں کہ موت سے بچنے کی خاطر یہ اقدام کر رہا ہوں)اور پھر انہیں مسئلہ تقدیر سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جارہے ہیں اور ایک نہایت عمدہ مثال سے اسے یوں واضح فرمایا کہ اے ابوعبیدہ اگر آپ کو دو وادیوں میں اونٹ چرنے کا اختیار ہو جن میں ایک سر سبزو شاداب اور دوسری بنجر ہو اور آپ سر سبز وادی میں جانور چرائیں تو کیا یہ اللہ کی تقدیر سے نہیں ہو گا؟اسکے بعد حضرت عبدالرحمٰنؓبن عوف(جو موقع پر موجود نہیں تھے)نے آکر رسول اللہؐ کی ایک روایت سنا کر یہ مسئلہ واضح کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے رسول اللہﷺسے سنا ہے کہ اگر تمہیں کسی علاقہ میں وبا کا پتہ چلے تو اس سرزمین میں داخل نہ ہو اور اگر تم پہلے سے اس علاقہ میں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر مت نکلو۔اس پر حضرت عمرؓنے واپسی کے اپنے صائب فیصلہ پر اللہ کی حمد کی اور واپس روانہ ہوئے۔(30)
معلو م ہوتا ہے کہ حضرت ابوعبیدہؓ ،عبدالرحمان بن عوفؓ سے یہ حدیث سن کر اپنی اس رائے پر مزید پختہ ہو گئے کہ انہیں یہ وبا زدہ علاقہ چھوڑنا نہیں چاہئے۔ چنانچہ مدینہ واپس پہنچ کر حضرت عمرؓ نے جب آپ کو ایک خط کے ذریعہ کسی کام کے عذر سے مدینہ بلوا بھیجا ۔آپ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید طاعون سے بچانے کے لئے مجھے مدینہ بلوارہے ہیں عرض کیا کہ میں اسلامی لشکر کو چھوڑ کر آنا پسند نہیں کرتا حضرت عمرؓ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ اپنالشکر کسی پر فضا جگہ پر منتقل کریں۔ چنانچہ آپ نے اس کی تعمیل کی اور جابیہ منتقل ہو گئے۔( 31)
بیماری اور وفات
جابیہ میں خدا کی وہ تقدیر ظاہر ہو گئی جس کا ابوعبیدہؓ کو انتظار تھا۔ (عین ممکن ہے ان کا مدینہ نہ جانے پر اصرار بھی اس تقدیر الٰہی کا کوئی واضح اشارہ پانے کے نتیجہ میں ہو) حضرت ابوعبیدہؓ بیمار ہوئے تو معاذ بن جبلؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’اے لوگو طاعون کی وبا بھی فی الحقیقت تمہارے رب کی رحمت اور تمہارے نبیؓ کی دعوت ہے۔ بہت سے نیک لوگ اس میں جاں بحق ہوئے اور ابوعبیدہؓ بھی اپنے رب سے یہی دعا کرتا ہے کہ وہ مجھے اس شہادت سے حصہ عطاء فرمائے۔ پھر اسی طاعون سے آپ کی وفات ہوئی۔(31)
اس طرح ابوعبیدہؓ کی شہادت کی وہ سچی تمنّا جو میدان جنگ میں پوری نہ ہوسکی تھی 58سال کی عمر میں طاعون کے ذریعہ خدا نے پوری فرمادی۔(32)
آپ کا جنازہ وصیت کے مطابق حضرت معاذ بن جبلؓ نے پڑھایا اور اس موقع پر صحابہؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے لوگو آج تم سے ایک ایسا شخص رخصت ہوا ہے کہ خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ اس سے زیادہ صاف دل، پاک سینہ، سیر چشم، حیاء دار اور لوگوں کا بہی خواہ میں نے کوئی نہیں دیکھا۔ پس اٹھو اور اسکے لئے رحمت کی دعا مانگو۔‘‘(33)
واقعی حضرت ابوعبیدہؓ کی زندگی سادگی، عجزو انکسار، امانت و دیانت اور رعایا پروری کا خوبصورت نمونہ تھی۔
سادگی
آپ کی سادگی اور دنیا سے بے رغبتی کا ایک نظارہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب حضرت عمرؓ شام تشریف لے گئے۔ اسلامی فوجوں کے سالارِ اعلیٰ حضرت ابوعبیدہؓ سادہ کپڑوں میں ایک اونٹنی پر سوار ہو کر استقبال کے لئے نکلے۔ مگر جب حضرت عمرؓ نے دیگر مسلمان جرنیلوں کو شامی قبائیں پہنے دیکھا (جو انہوں نے خلیفہ وقت کے استقبال اور اعزاز کی خاطر زیب تن کی تھیں) تو اس اندیشہ سے کہ یہ لوگ امیرانہ ٹھاٹھ اور عجمی عادات اور اسراف کی عادات اختیار نہ کرلیں ان کو تنبیہہ فرمائی۔ مگر جب حضرت ابوعبیدہؓ کے ہاں فروکش ہوئے تو معاملہ برعکس تھا۔ وہاں ایک تلوار، ڈھال اور اونٹ کے پالان کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ابوعبیدہؓ کچھ گھر کا سامان ہی بنا لیا ہوتا۔ عرض کیا اے امیر المومنین ہمارے لئے بس یہی کافی ہے۔(34)
مجاہدین اسلام سے حسن سلوک
آپ اپنے اوپر کچھ خرچ کرنے کی بجائے اپنے مجاہدوں اور سپاہیوں کا بہت خیال رکھتے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے آپ کو چارسو دینار اور چار ہزار درہم بطور انعام بھجوائے۔ آپ نے تمام رقم اپنی فوج کے سپاہیوں میں تقسیم کردی اور اپنے لئے ایک حصہ بھی رکھنا پسند نہ کیا۔ حضرت عمرؓ کو پتہ چلا تو بے اختیار کہہ اٹھے کہ الحمدللہ ابھی مسلمانوں میں ابوعبیدہؓ جیسے لوگ موجود ہیں۔(35)
بے نفسی
اس زہد اور بے نفسی کے باوجود خشیّت کا یہ عالم تھا کہ آخری بیماری میں ایک صحابیٔ رسولﷺ آپ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ ابوعبیدہؓ رو رہے ہیں۔ پوچھا کیوں روتے ہیں؟ فرمایا اس لئے روتا ہوں کہ رسول کریم ﷺنے ایک دفعہ مسلمانوں کی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے ابوعبیدہ اگر تمہاری عمر وفا کرے اور فتوحات کے اموال آئیں تو تین خادم اور تین سواریاں تمہارے لئے کافی ہیں۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے زیادہ غلام اور سواریاں ہیں۔ سوچتا ہوں کہ کس منہ سے اپنے آقا سے ملوں گا۔ آپ نے ہمیں وصیت فرمائی تھی کہ تم میں سے زیادہ میرے قریب اور میرا پیارا وہ شخص ہے جو مجھے اس حال سے آکر ملے جس حال پر میں چھوڑ کر جارہا ہوں۔(36)
حضرت ثابتؓ بنانی بیان کرتے ہیں ابوعبیدہؓ شامی فوجوں کے کمانڈر انچیف تھے۔ ایک دن افواج سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’تم میں سے کوئی مجھے اپنے اوپر تقویٰ میں فضلیت نہ دے میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ سلامت رہوں۔‘‘(37)
حضرت ابوعبیدہؓ کی دانشمندی بے نفسی اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھنے کا وہ واقعہ بھی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا کہ حضرت ابوعبیدہؓ کو حضرت عمرؓ کا خط ملا۔ جس میں حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا ذکر تھا اور حضرت عمرؓ نے حضرت خالدؓ کو معزول کرتے ہوئے حضرت ابوعبیدہؓ کو امیرلشکر مقرر فرمایاتھا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے خالدؓ کو وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اس وقت تک اس کی اطلاع نہیں کی جب تک اہل دمشق کے ساتھ صلح نہ ہوگئی اور معاہدہ صلح پر آپ نے حضرت خالدؓ سے دستخط کروائے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو بعد میںپتہ چلا تو آپ سے شکوہ کیا مگر آپ ٹال گئے اور ان کے کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مطمئن کردیا۔اسلامی جرنیل حضرت خالدؓنے اس موقع پر اطاعت خلافت کا شاندار نمونہ دکھاتے ہوئے کہا لوگو! تم پراس امت کے امین امیر مقرر ہوئے ہیں۔حضرت ابوعبیدہؓ نے جواب میں کہا میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے سنا ہے کہ خالدؓ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے اور قبیلہ کا بہتریں نوجوان ہے۔(38)
رواداری
حضرت ابوعبیدہؓ کا حسن سلوک اپنوں سے ہی نہیں پرایوں اور بیگانوں سے بھی رواداری اور احسان کا تھا۔ چنانچہ شام کی عیسائی رعایا کو آپ نے مکمل مذہبی آزادی عطا فرمائی اور اسلامی فتوحات کے بعد مفتوحہ علاقوں میں عیسائیوں پر ناقوس بجانے اور صلیب نکالنے کی جو پابندیاں تھیں، آپ نے ان میں نرمی اور آزادی عطا فرمائی۔ جس کا عیسائیوں پر بہت نیک اثر ہوا۔
الغرض حضرت ابوعبیدہؓ کو رسول خدا ؐ نے امین الامت کاجو خطاب عطا فرمایا تھا انہوں نے اس کی خوب لاج رکھی۔ آپ کی ساری زندگی ادائیگی امانات کا خوبصورت مرقع اور بہترین تصویر نظرآتی ہے۔ تبھی تو حضرت عمرؓ آپ کو صحابہ رسول میں ایک ممتاز مقام کا حامل قرار دیتے تھے۔
ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اپنی مجلس میں ایک نہایت اچھوتے انداز میں حضرت ابوعبیدہؓ کے کمالات کا تذکرہ کیا۔ پہلے اپنے مصاحبوں سے فرمایا کہ اپنی اپنی خواہش اور تمنا بیان کرو کسی نے کہا میرا دل کرتا ہے کہ سونے چاندی سے بھرا ہوا میرا گھر ہو اور وہ راہ خدا میں صدقہ کردوں۔ کسی نے کچھ اور تمنا کا اظہار کیا۔ حضرت عمرؓ فرمانے لگے ’’میرا دل کرتا ہے کہ ایک وسیع گھر ہو جو ابوعبیدہؓ جیسے لوگوں سے بھرا ہوا ہو۔‘‘(39)
حوالہ جات
1-
اصابہ جز4صفحہ10-11
2-
اسد الغابہ جلد3 صفحہ84
3-
اصابہ جز4 صفحہ1-2
4-
اصابہ جز4 صفحہ12
5-
بخاری کتاب المغازی
6-
اسد الغابہ جلد3صفحہ85
7-
بخاری کتاب المغازی و کتاب المناقب
8-
فضائل الصحابہ جلد2 صفحہ741
9-
اصابہ جز 4 صفحہ11
10-
ابن سعد جلد3 صفحہ410و استیعاب جلد ص 342
11-
الاکمال ذکر ابوعبیدہؓ
12-
ابن سعد جلد3 صفحہ62
13-
اصابہ جز 4 صفحہ12
14-
بخاری کتاب المغازی
15-
فتوح البلدان
16-
بخاری کتاب الرقاق
17-
فتوح البلدان صفحہ70
18-
تاریخ یعقوبی جلد2 صفحہ123،استیعاب جلد 2ص 342
19-
فضائل الصحابہ جلد2 صفحہ741
20-
بخاری کتاب الرقاق
21-
الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ413
22-
فتوح البلدان صفحہ127 و مسند احمد بن جلد1صفحہ195
23-
الفاروق صفحہ122-123
24-
فتوح البلدان صفحہ138-139
25-
فتوح البلدان صفحہ143-144
26-
فتوح البلدان صفحہ141
27-
الفاروق شبلی نعمانی صفحہ132
28-
بخاری کتاب الطب باب مایذکر فی الطاعون
29-
مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ18-19
30-
بخاری کتاب الطب باب مایُذکرفی الطاعون
31-
مسند احمد بن حنبل جلد1صفحہ196
32-
اصابہ جز 4 صفحہ12
33-
اصابہ جز 4 صفحہ13
34-
اصابہ جز 4 صفحہ12
35-
ابن سعد جلد 3صفحہ413
36-
مسند احمد جلد 1صفحہ196
37-
اصابہ جز4 صفحہ12
38-
طبری جز 4 صفحہ254-255 بیروت،مسند احمد جلد 4ص 90
39-
ابن سعد جلد 3 صفحہ413
حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف
حلیہ و نام ونسب
لمبا قد،سرخی مائل سفیدرنگ،خوبصورت چہرہ،باریک بھوئیں،بھری ہتھیلیاں،موٹی انگلیاں، نرم جلد،داڑھی اورسر کے بال رنگتے نہیں تھے۔یہ تھے عبدالرحمن عوف۔جن کا اصل نام عبدالکعبہ یاعمروبن عوف تھا۔ایمان لائے توآنحضر تﷺ نے عبدالرحمن نام رکھا جو ناموں میںآپ کو سب سے زیادہ پسند تھا۔آپ ان دس خوش نصیب بزرگ اصحاب میں سے تھے جنہیں رسول اللہ ﷺے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی او رعشرہ مبشرہ میں شامل ہوئے ۔ ( 1 )
والد کا نام عوف اور والدہ کا نام صفیہ یا شفا تھا۔ دونوںزہرہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، کنیت ابو محمد تھی۔ نسب آٹھویں پشت میں رسول کریم ؐسے مل جاتا ہے۔ واقعہ فیل کے بعددسویں سال میںپیدا ہوئے۔(2)
قبول اسلام
رسول اکرم ﷺکے دعویٰ نبوت کے وقت آپ کی عمر تیس برس سے زائد تھی۔آپ ایک نیک مزاج اور پاک فطرت انسان تھے۔ زمانہ جاہلیت میں ہی شراب سے تائب ہو چکے تھے۔ نبی کریمﷺکے دعویٰ سے پہلے حضر ت عبدالرحمنؓ کی ملاقات اپنے تجارتی سفر کے دوران یمن میں ایک بوڑھے سے ہوا کرتی تھی ۔ وہ آپ سے پوچھا کرتا تھا کہ تمہارے اندر کوئی دعویدار نبوت تو ظاہر نہیں ہوا۔جس سال حضور کی بعثت ہوئی اسے میں نے بتایا تو اس نے کہا کہ میں تجھے تجارت سے بہتر بشارت دیتا ہوں کہ یہ شخص نبی ہے تم فوراً جائو،اس کی تصدیق کرو اور میرے یہ اشعار اسے جاکر سنائو۔ واپس آکر حضرت ابوبکرؓ سے ملاقات ہوئی اور اس واقعہ کا ذکر ہوا پھر رسول کریمؐ کو یہ واقعہ اور اشعار آکر حضرت خدیجہ کے گھر سنائے اور اسلام قبول کر لیا۔ عبدالرحمنؓبہت ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔قبول اسلام کے بعد آپ کو بھی وطن کی قربانی دینی پڑی۔ پہلے حبشہ ہجرت فرمائی پھر مدینہ رسول کی طرف دوسری ہجرت کی سعادت ملی۔ آپؓایک بہت اچھے تاجر تھے۔مگر ہجرت کے وقت مال جائیداد بیوی بچے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رسول خد اﷺکے قدموں میں حاضر ہو گئے۔
مؤاخات
حضورﷺنے حضرت سعدؓ بن ربیع انصاری کو آپ کا بھائی بنایا حضرت سعدؓ انصار میں بڑے مالدار اور فیاض انسان تھے۔انہوں نے اس دینی اور روحانی رشتہ کا اتنا پاس کیا جس کی مثال تاریخ عالم میںکہیں نہیں مل سکتی۔وہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف سے کہنے لگے ’’رسول اکرمﷺنے آپ کو میرا بھائی بنایا ہے۔ یہ میرا مال اور جائیداد حاضر ہے، میں اس کو نصف نصف بانٹ دیتا ہوں۔نصف آپ کی خدمت میں پیش ہے۔میری دو بیویاں ہیں۔ آپ جسے پسند کریں میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور آپ (عدت کے بعد) نکاح کر لینا۔‘‘حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف بھی نہایت غیور اور سیر چشم انسان تھے۔ آپ کی غیرت نے اپنے اسلامی بھائی سے کچھ لینا گوارا نہ کیا۔یہی کہا کہ’’ خدا آپ کے مال اور اہل وعیال میںبرکت ڈالے آپ مجھے صرف بازار کا راستہ بتا دیں۔‘‘ پھر آپؓبنو قنیقاع کے بازار میں چلے گئے اور معمولی پونجی سے آپؓ نے گھی ،پنیراورچمڑے کی تجارت شروع کر دی۔ پہلے ہی دن آپ کچھ گھی اور پنیر نفع میں کما کر لے آئے۔ چند دنوں میں اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ آپ نے نہایت سادگی سے عرب کے دستور کے مطابق ایک انصاری عورت کے ساتھ شادی کر لی۔ رسول کریم ؐکی خدمت میں حاضر ہوئے تو جسم پر مراسم شادی دیکھ کر رسول اکرم ؐپہچان گئے اور بہت محبت سے پوچھا عبد الرحمن یہ کیا ہے؟عرض کیا حضور شادی کر لی ہے ۔ آنحضرت ؐ نے مہر کے بارے میں استفسار کیا ۔حضرت عبدالرحمنؓبن عوف نے بتایا کہ گٹھلی برابر سونا میں پہلے ہی حق مہر کے طور پر ادا کر چکا ہوں۔حق مہر کی مالیت سے حضور کو اندازہ ہوا کہ مالی حالت بہتر ہونا شروع ہو چکی ہے تب فرمایا کہ اچھا اب اپنے دوستوں کے لئے دعوت ولیمہ کا بھی انتظام کرو خواہ ایک بکری ہی سہی۔(3) یوں حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے مدینے میںرسول اللہؐ کی دعائوں سے اپنی نئی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔
غزوات میں شرکت
غزوات النبیؐ کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو رسول اللہﷺکے شانہ بشانہ کمال استقامت اور شجاعت کے ساتھ خدمات بجا لانے کی سعادت نصیب ہوئی۔غزوہ بدر میں اپنی شرکت کا دلچسپ حال آپ یوں بیان فرمایا کرتے تھے کہ معرکہ بدر میں میں نے اپنے دائیں بائیںدونوں جانب نگاہ ڈالی۔جنگ میں جب تک دونوں پہلو صحیح طور پر مضبوط نہ ہوں انسان لڑائی کا حق ادا نہیں کر سکتا۔میں دیکھتا ہوں کہ دو نوجوان انصاری لڑکے میرے دائیں بائیں ہیں۔ ابھی میں ان کے بارہ میں سوچ ہی رہا تھا کہ دونوں نے آہستہ سے باری باری مجھ سے پوچھا کہ چچا ابو جہل کہاں ہے؟جو ہمارے آقا محمدﷺکے خلاف بد زبانی کرتا ہے۔میں نے کہاوہ سامنے سخت پہرہ میں ابو جہل موجود ہے۔کہتے ہیں کہ میرے اشارہ کی دیر تھی کہ وہ دونوں باز کی طرح اپنے شکار پر جھپٹے اور ایسا وار کیا کہ آن واحد میں ابو جہل کی گردن تن سے جدا کر کے رکھ دی۔(4)
خود حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف نے بھی غزوہ بدر میں اپنا حق خوب ادا کیا۔پھر غزوہ احد کا معرکہ پیش آیا تو اس جانبازی سے لڑے کہ بدن پر بیس سے زیادہ زخم آئے تھے۔پاؤں پر تو ایسے سخت زخم آئے تھے کہ اچھا ہونے کے بعد بھی لنگڑا کر چلا کرتے تھے۔اسی طرح آپ کے اگلے دو دانت بھی گر گئے تھے۔(5)
دیگر مہمات میں شرکت
چھ ہجری میں آنحضرتﷺ نے آپ کو دومۃ الجندل کی مہم پر روانہ فرمایا ۔اپنے دست مبارک سے حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کے سر پر عمامہ باندھااور علم عطا کر کے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کرروانہ ہوںقبیلہ کلب کو جا کر اسلام کی دعوت دیں اور اگر وہ معاہدہ صلح کی طرف مائل نہ ہوں تو پھر راہ خدا میں ان سے جہاد کی نو بت آئے تو جہاد کریں۔مگر جنگ میں کسی کو دھوکہ نہ دینا بچوں کو نہ مارنا کسی پر زیادتی نہ کرنااور جب اللہ تعالیٰ ان پر فتح دے تو ان کے سردار کی بیٹی تماضہ بنت اصبغ سے نکاح کر لینا۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف دومۃ الجندل تشریف لے گئے۔توتین روز تک مسلسل تبلیغ کرتے رہے۔اور عیسائی قبیلہ کلب کے سردار اصبغ اور اس کی قوم کے بہت سے لوگ آپ کی دعوت الی اللہ کے نتیجے میں مسلمان ہو گئے۔جبکہ باقی لوگوں نے جزیہ دینا منظور کیا۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے آنحضرتؐ کے ارشاد کے مطابق قبیلہ کے سردار اصبغ کی بیٹی سے نکاح کیا اور انہیں بیاہ کر مدینہ لے آئے انہی کے بطن سے آپ کے صاحبزادہ ابو سلمہ پیدا ہوئے۔جو بڑے فقیہ بنے۔(6)
فتح مکہ کے سفر میں بھی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف شامل تھے۔فتح مکہ کے بعد ایک موقع پر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی حضرت خالد ؓبن ولید سے کسی معاملے میں تکرار ہو گئی۔ نبی کریمﷺکو خبر ہوئی تو خالدؓ سے فرمایا کہ میرے اصحاب کو کچھ نہ کہو اگر تم خداکی راہ میں جبل احد کے برابر بھی سونا صرف کرو تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔فتح مکہ سے حجۃ الوداع تک مہمات میں حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف شریک رہے۔رسول کریمﷺنے انہیں سفرمیں کسی عذرکی وجہ سے ریشم کے استعمال کی اجازت فرمائی تھی۔
قیام خلافت اور مشاورت میں کردار
رسو ل اکرمﷺکی وفات کے سانحہ پر آپ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر اولین بیعت کرنے والوں میں سے تھے۔حضرت ابو بکر ؓ کو بھی آپ پر بہت اعتماد تھا۔ آپ نے ہمیشہ حضرت ابو بکرؓ کے مشیر اور معاون ہونے کا حق ادا کیا۔۱۳ھ میں حضرت ابو بکرؓ نے اپنی آخری بیماری میں حضرت عبدالرحمن ؓبن عوف کو بلا کر اپنے جانشین کے بارہ میں مشورہ کیا اور حضرت عمرؓ کا نام تجویز کیا۔انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت عمرؓ کی اہلیت میں تو کوئی شبہ نہیں مگر طبیعت ذرا سخت ہے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ خلافت کا بوجھ پڑے گا تو خود بخود ہی نرم ہو جائیں گے۔
حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے توانہوں نے مجلس شوریٰ قائم کی۔ عبدالرحمنؓ بن عوف اس کے اہم رکن تھے۔ کئی معاملات میں آخری فیصلہ حضر ت عبدالرحمن ؓبن عوف کی رائے کے مطابق ہوا۔ عراق پر فوج کشی کے لئے جب کئی صحابہ نے حضرت عمرؓ کو نہایت پر زور اصرار کے ساتھ اس لشکر کی کمان خود سنبھالنے کے لئے درخواست کی تو حضرت عمرؓ نے اس کا ارادہ کر لیا اور مدینہ پر حضرت علیؓ کو امیر مقرر کرکے جہاد کیلئے روانہ ہوئے۔ابھی مدینہ کے باہر پڑائو تھا کہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے اس سفرکی مخالفت کرتے ہوئے پھرعرض کیا کہ لڑائی میں دونوں امکان ہوتے ہیں اور خدا نخواستہ امیرالمومنین کو کوئی نقصان پہنچ گیا تو اسلام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی یہ رائے سن کر سب صحابہ اس کے قائل ہو گئے۔مگر اب مشکل یہ تھی کہ اب اس لشکر کی کمان کون کرے۔کیونکہ حضرت علیؓ بھی بوجہ بیماری عذر بیان کر چکے تھے۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی عمدہ رائے سے یہ مسٔلہ بھی حل ہوگیا۔آپ نے اس لشکر کی سپہ سالاری کے لئے حضرت سعد ؓبن ابی وقاص کا نام تجویز کیابعد کے واقعات نے بھی یہ ثابت کیا کہ حضرت سعدؓ ہی اس لشکر کی قیادت کے اہل تھے۔
23ہجری میں حضرت عمرؓ پر فجر کی نما زمیں قاتلانہ حملہ ہوا۔تو انہوں نے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر آگے مصلے پر کر دیا ۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے جلدی سے نماز مکمل کر لی ۔ حضرت عمرؓ کو اٹھا کر گھر لایا گیا۔حضرت عمرؓ نے خلافت کے انتخاب کے لئے جو چھ افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی اس کے فیصلہ کن رکن عبد الرحمنؓ بن عوف تھے۔(7)
وفات
۳۱ھ میں حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے بعمر75سال وفات پائی۔حضرت علیؓ نے آپ کے جنازے پر کھڑے ہو کر آپ کو داد تحسین دی ۔حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اس موقع پر کہا وائے افسوس! کہ آج ایک پہاڑ جیسی کوہ وقار شخصیت ہم سے جدا ہو گئی۔حضرت عثمانؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔(8)
علم وفراست
حضرت عبدالرحمنؓ کو آنحضرتﷺکے قدیمی صحابی ہونے کے باعث علم وفضل کی سعادت بھی حاصل رہی تھی۔رسول اللہﷺکی زندگی میں بھی لوگ آپ سے مسائل دریافت کرتے اور آپ مستند جواب دیتے تھے ۔بعد میں بھی کئی مشکل مقامات پر آپ کوقومی سطح پر نہایت مفید مشورے دینے کی توفیق بھی حاصل ہوئی۔حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ خلافت میں جب اہل بیت میں آنحضرتﷺکی وراثت کا سوال ہوا تو آپ نے اپنے ذاتی علم کی بنا پروضاحت کی کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا تھا کہ’’ آپؐ کے ترکے میں وراثت نہ چلے گی بلکہ وہ بیت المال کا حق ہو گا۔‘‘ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں جب ایران فتح ہوا تو آتش پرستوں سے معاملہ کرنے کا مسئلہ در پیش ہوا کیونکہ قرآن کے ظاہری الفاظ سے جزیہ صرف اہل کتاب سے ہی لینے کا حکم معلوم ہوتاتھا۔حضرت عبدالرحمن ؓنے اجتہادسے یہ عقدہ بھی حل کیا کہ آنحضورؐنے ان لوگوں کے ساتھ بھی اہل کتاب کا سلوک کیا اور انہیں ذمی قرار دیا تھا جیسے ہجر کے مجوسیوں سے سلوک ہوا۔طاعون عمواس کے موقع پر حضرت عمرؓ سرغ مقام سے حضرت عبدالرحمن ؓ کی روایت کی بناء پر ہی واپس لوٹ آئے تھے اور شام میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ان کی رائے ایسی پختہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے بوقت وصال یہ وصیت فرمائی کہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نہایت صائب الرائے، صاحب عقل ودانش اور سلیم الطبع ہیں انکی رائے کو بہت اہمیت دینا۔اور اگر انتخاب خلافت میں کوئی مشکل پیدا ہو تو جس طرف حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف ہوں ان کا ساتھ دینا۔حضرت عمرؓ کی یہ رائے بلا شبہ ذاتی تجربے پر مشتمل تھی جو درست ثابت ہوئی۔(9)
اخلاق فاضلہ
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اعلی اخلاق کے مالک تھے۔خوف خدا،حب رسول، صدق و عفاف،امانت و دیانت،رحم وکرم،فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ آپ کی روشن صفات تھیں۔رسول کریمﷺنے فرمایا عبد الرحمن ؓ بن عوف مسلمانوں کے سرداروں میں سے سردار ہیں۔وہ آسمان میں بھی امین ہیں اور زمین میں بھی !خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ ایک دن روزے سے تھے۔دستر خوان لگایا گیا تو ان نعمتوں کو دیکھ کر بے اختیار رونے لگے آپ کو مسلمانوں کے ابتدائی زمانے کے فقر وفاقہ کے دن یاد آگئے۔کہنے لگے کہ میرا بھائی مصعبؓ بن عمیر مجھ سے بہتر تھا مگروہ جب شہید ہوا تو کفن کی چادر بھی نصیب نہ ہوئی سر ڈھانکتے تھے تو پیر ننگے ہو جاتے تھے اور پاؤں ڈھانکتے تھے تو منہ ننگا ہوجاتا تھا۔پھر پاؤں پر گھاس ڈالی گئی اور سر کو کفن سے ڈھانک کر دفن کیا گیا۔یہ تھا احد کے میدا ن کا شہید مصعبؓ بن عمیر۔ آج دنیا کی کتنی نعمتیں ہمیںحاصل ہیں یہ دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ نیکیوں کا بدلہ کہیں ہمیں دنیا میں ہی نہ عطاکردیاگیا ہو۔ یہ کہا اور اتنی رقت طاری ہوگئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔(10)
حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف وہ خوش قسمت صحابی ہیں جنہیں ایک وہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا جو امت میں کسی اور کو نصیب نہیں۔آپ نبی کریمﷺکے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ حضور ﷺ قافلے سے کچھ پیچھے رہ گئے۔ نماز فجر کا وقت ہوگیا۔ نماز میں تاخیر کے اندیشے سے حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے نماز فجر شروع کروادی۔ نبی کریمﷺبعد میں تشریف لائے اور آپؐ نے حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کی اقتداء میںنمازاداکی۔(11)
حضرت عبدالرحمانؓ کو آنحضرت ﷺکی وفات کے بعد اپنی عفت اور پاکدامنی کے باعث ایک اور اہم خدمت کی بھی توفیق ملی۔ اور وہ تھی ازواج مطہرات کی خدمت و حفاظت۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میری ازواج کی خدمت کی توفیق پانے والا بہت ہی صادق اور راستباز ہوگا۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو یہ خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ آپ سفر حج میں ازواج مطہرات کے ساتھ جاتے اوران کے لئے سواری اور پردے کا اہتمام کرتے۔ (12)
مالی قربانی
حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف بڑے مالدار تاجر تھے اورتجارت میں ایسی برکت پڑی کہ آپ عظیم الشان دولت کے مالک بنے۔ مگر کبھی حرص اوربخل کا خیال تک نہ آیا۔ ابوالھیاج راوی ہیں کہ میں نے ایک شخص کو طواف بیت اللہ میں یہ دعا کرتے سنا۔اَللّٰھُمَّ قِنِی شُحَّ نَفْسِی۔ اے اللہ مجھے اپنے نفس کے بخل سے محفوظ رکھنا۔میں نے پوچھا یہ کون ہے تو پتہ چلا کہ وہ عبدالرحمنؓبن عوف تھے۔ یہ دعا خوب مقبول ٹھہری ۔ایک دفعہ عبدالرحمنؓبن عوف کا تجارتی قافلہ مدینے آیاتو اس میں سات سو اونٹوں پر صرف گیہوں ، آٹا اوردوسری اشیاء لدی ہوئی تھیں۔ مدینے میں اتنے بڑے تجارتی قافلے کے چرچے ہورہے تھے کہ حضرت عائشہؓ تک بھی خبرپہنچی ۔انہوںنے حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف کے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول خداﷺسے سُنا ہے کہ عبدالرحمانؓ جنتی ہیں اوررینگتے ہوئے جنت میں جائیں گے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو اطلاع ہوئی تو دوڑتے ہوئے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں آپ کو گواہ کرکے یہ لدا ہوا قافلہ اونٹ اور کجاوے سمیت میں خدا کی راہ میں وقف کرتاہوں۔
اس کا پس منظر یہ تھا کہ رسول کریمﷺنے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف سے ایک دفعہ فرمایا آپ امیر آدمی ہو جنت میں گھٹنوں کے بل داخل ہوگے اسلئے اپنا مال خدا کو قرض دو۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ !سارا مال ؟فرمایا ہاں۔حضرت عبدالرحمنؓبن عوف اس پر آمادہ ہوگئے ۔پھر رسول کریمﷺنے فرمایا مجھے جبریلؑ نے ابھی خبر دی ہے کہ عبدالرحمنؓ کو کہہ دو کہ مہمان کی مہمان نوازی کرے ،مسکین کو کھانا کھلائے،سائل کو دے اوررشتہ داروں سے اس کا آغاز کرے تو مال پاک ہوجائے گا۔
سبحان اللہ! کیا بے نفسی ہے اور دنیا سے بے رغبتی کا کیا عالم ہے۔ یہ وہ انقلاب تھا جو نبی کریمﷺنے اپنے صحابہ میں پیداکردیا تھا۔ کہ مال کی کثرت نے ان کے دلوں میں مال کی محبت کی بجائے مال عطا کرنے والے کی محبت پیداکردی۔ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ نے ہمیشہ قومی اور مذہبی ضروریات کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ سورۂ توبہ نازل ہوئی اس میں صدقہ و خیرات کی ترغیب کا مضمون بھی ہے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے اپنا نصف مال کچھ چار ہزار کے قریب رقم پیش کردی۔ پھر دو دفعہ چالیس چالیس ہزار دینار پیش کئے۔ اسی طرح جہاد کے لئے ضرورت پیش آئی تو پانچصد گھوڑے اور پندرہ سو اونٹ پیش کردیئے۔ (13)
عام صدقہ و خیرات کا تو یہ عالم تھا کہ ایک ایک دن میں تیس،تیس غلام آزاد کردیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق اندازاً تیس ہزار غلام آزاد کئے۔ان تمام خدمتوں کے باوجود کوئی فخر کا شائبہ تھانہ غرور کا خیال بلکہ عجزو انکسار کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے یہ عرض کیا کہ مجھے خوف ہے کہ کثرتِ مال مجھے ہلاک نہ کردے۔ انہوں نے فرمایا کہ راہ خدا میں مال خرچ کیا کرو۔حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے جیسے یہ نصیحت پلے باندھ لی تھی۔وفات کے وقت بھی پچاس ہزار دینار اور ایک ہزار گھوڑے خدا کی راہ میں وقف کردیئے۔ بدر میں جو صحابہ شریک ہوئے تھے بوقت وفات ان کے حق میں یہ وصیت فرمائی کہ اب تک جتنے بدری صحابہ زندہ ہیں میرے ترکے میں سے ہرایک کوچارصد دینار عطاکئے جائیں ۔اس وقت سو بدری صحابہؓ موجود تھے۔ چنانچہ ان سب نے بشمول حضرت عثمانؓکی اس وصیت سے خوب فائدہ اُٹھایا۔
امہات المومنین کے لئے بوقت وفات ایک باغ کی وصیت کی جو چار لاکھ درہم میں فروخت ہوا۔حضرت عائشہؓ عبد الرحمانؓبن عوف کے بیٹے کوفرمایا کرتی تھیں کہ رسول ؐاللہ کو اپنے بعد ازواج کے معاملات کی فکر رہتی تھی اللہ تعالیٰ تمہارے باپ عبدالرحمانؓ کو جنت کے چشمہ سے سیراب کرے جنہوں نے ازواج رسولؐ کیلئے اس خدمت کی توفیق پائی۔ (14) الغرض حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت خوب عطاکیا اور آپ نے بھی دل کھول کر خد اکی راہ میں اپنا مال لٹایا مگر مال میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ خدا نے ایسی برکت ڈالی کہ خود فرماتے تھے کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو سونا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس قدر فیاضی کے باوجود اپنے ورثاء کے لئے بہت مال چھوڑا۔ چار بیویوں کو ترکہ کے آٹھویں حصے کے طور پراسی ، اسی ہزار دینار ملے۔مال میں سونے کی اتنی بڑی بڑی اینٹیں تھیں کہ کاٹ کاٹ کر تقسیم کی گئیں اور کاٹنے والوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑگئے۔ جائیداد غیر منقولہ اور نقدی کے علاوہ ایک ہزار اونٹ، سو گھوڑے اورتین سو بکریاں بھی ترکے میں چھوڑیں۔(15)
یہ اس مخلص مہاجر کا ترکہ تھا جو راہ خدا میں خالی ہاتھ مکّے سے مدینے ہجرت کرکے آگیا تھا۔ اورنصف مال و جائیداد کی پیش کش حضرت سعد ؓبن ربیع نے کی تو کمال استغناء کے ساتھ قبول نہیں کی تھی اور خدا پر کامل توکل کرتے ہوئے محنت کرنے کو ترجیح دی تھی۔ پھر خدا نے بھی اس متوکل انسان کو ایسا نوازا کہ دولت کے انبار اس کے سامنے لگا دیئے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کے پاس کیمیا گری کا نسخہ تھانہ جادو کی کوئی ایسی انگوٹھی کہ جس چیز کے ساتھ لگاتے تھے وہ سونا بن جاتی تھی۔ نہ ہی تجارت کا کوئی ایساگُرآپ کو ملا تھا کیونکہ محض دنیاوی تجارتیں ہرگز اتنے اموال عطانہیں کرسکتیں۔ اگر کوئی گُر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے سیکھا تھا تو وہ خد اسے تجارت کرنے کا گُر تھا جہاں سات سو گُنا سے بھی بڑھ کر منافع ملتا ہے اور اسی عرفان حاصل کرنے کے نتیجے میں آپ واقعی وہ پارس بن گئے تھے کہ جس چیز کے ساتھ وہ لگتا اسے سونا بنادیتاہے۔ یہ وہ کیمیا گری تھی جو آپ نے آنحضرتﷺ سے سیکھی تھی اور اس کیمیا گری میں یقینا آپ کی دعائوں مجاہدات اور عبادات کا بھی گہرا دخل تھا۔ آپ نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں ادا کیاکرتے تھے۔نماز ظہر سے قبل لمبی نفل نماز پڑھتے اذان کی آواز سن کر مسجد روانہ ہوجاتے۔ نوافل سے خاص شغف تھا،رسول اللہﷺسے آپ کی کئی روایات مروی ہیں۔حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺمسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہوکر سجدے میں گرگئے اور بہت لمبا سجدہ کیا۔یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپؐ کی روح قبض کرلی ہے۔میں آپؐ کے قریب ہوا تو آپؐ اُٹھ بیٹھے اور پوچھا کون ہے؟میں نے عرض کیا عبدالرحمن۔ فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ؐ! آپؐ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہواکہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح تو قبض نہیں کرلی۔آپؐ نے فرمایا میرے پاس جبریل ؑ آئے تھے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے حق میں فرماتا ہے کہ جوآپ ؐ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کرونگا اور جو آپؐ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔یہ سُن کر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالایا ہوں۔اکثر روزے رکھتے تھے۔ بارہا حج کی توفیق پائی۔ حضرت عمرؓ جس سال خلیفہ ہوئے اس سال انہوں نے آپ کو امیر حج مقررفرمایا تھا۔(16)
آپ نہایت ذہن رسا انسان تھے۔ تجارت کے علاوہ زراعت کی طرف بھی توجہ فرمائی کیونکہ خیبر میں رسول اللہؐ نے ایک کثیر جاگیر آپ کو عطافرمائی تھی۔ آپ نے نہ صرف اسے سنبھالابلکہ بہت سی اور قابل زراعت زمین خرید کر اس میں بھی کاشت کروائی۔ صرف ’’جُرف‘‘ کی زمین میںبیس اونٹ آبپاشی کیا کرتے تھے۔
ازواج و اولاد
آپ ہجرت کے وقت بیوی بچے مکے میں چھوڑ آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے بارہ بیویاں عطاکیں جن سے ۲۱ بیٹے اور ۷ بیٹیاں اولاد عطاہوئی۔اسلام سے قبل ام کلثوم بنت ر بیعہ اور ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط سے نکاح کیا تھا۔ آپ کی بیویوں میں قبیلہ کلب کے سردار کی بیٹی کے علاوہ غزال بنت کسریٰ بھی تھیں جو ایران کے شاہی خاندان کسریٰ کی شہزادی تھی مگر ان تمام تر نعمتوں اور آسائشوں کے باوجود حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے اپنا دامن کبھی دنیا سے آلودہ نہ ہونے دیا۔وفات سے قبل بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو پوچھا کہ کیا مجھ پر غشی طاری ہوئی تھی بتایاگیا کہ ہاں تو فرمایا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے ان میں کچھ سختی پائی جاتی تھی وہ مجھے لے کر چلے پھر دو اور فرشتے آئے جو زیادہ نرم اوررحم دل تھے۔ انہوں نے پہلے دو سے پوچھا کہ اسے کہاں لے جاتے ہو انہوں نے کہا’’عزیزوامین‘‘کے پاس(فیصلہ کیلئے)وہ دونوں بولے اسے چھوڑ دویہ وہ شخص ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں تھا تب سے اس کے حق میں سعادت لکھی جاچکی ہے۔(17)31ھ میں75سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی آپ کی وصیت کے مطابق حضرت عثمانؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔(18)
ایک دفعہ رسول کریمﷺکے پاس ایک ایسے شخص نے قرآن کی تلاوت کی جس کی آواز میں بہت سوز تھا،سب لوگوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے سوائے عبدالرحمن ؓبن عوف کے۔ رسول کریمﷺکے سامنے ذکر ہوا تو فرمایا کہ عبدالرحمنؓ کی آنکھ آنسو نہ بہائے تو اس کا دل روتا ہے۔
ایک اور موقع پر جب حضرت خالدؓ کی تکرار حضرت عبدالرحمنؓ سے ہوئی تو رسول کریمؐ نے فرمایا کہ اے خالد! میرے صحابہ کو کچھ نہ کہو تم میں سے کوئی اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو عبدالرحمنؓ بن عوف کی اس صبح یا شام کو بھی نہیں پہنچ سکتا جو اس نے خدا کی راہ میں جہاد کرکے گزارے۔
آپ ؓکی وفات پر حضرت علیؓ نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جااے عبدالرحمنؓ ! اپنے مولا کے حضور حاضر ہوجا کہ تو نے دنیا کا صاف پانی پیا اور گدلا چھوڑ دیا۔ (19) سلامت برتو اے مرد سلامت۔ اے سراج منیر کے روشن ستارے! تیری روشنی سے ایک دنیا نے ہدایت پائی اور ایک زمانہ روشنی پاتارہے گا۔ اے عبدالرحمنؓ بن عوف! تجھ پر سلام۔اے سلامتی کے شہزادے تجھ پر سلام۔
حوالہ جات
1-
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عبد الرحمان بن عوف،استیعاب جلد 1ص 388
2-
اصابہ جز 4ص 176
3-
اسد الغابہ جلد3ص 314,315،بخاری کتاب النکاح ،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 78
4-
بخاری کتاب المغازی
5-
اسد الغابہ جلد3ص 314
6-
اسد الغابہ جلد 3ص 314،استیعاب جلد3ص 387
-7
اصابہ جز4ص 177،ابن سعد جلد 3ص 130،طبری جلد 4ص 83، اسدالغابہ جلد 3ص 315
8-
اسد الغابہ جلد 3ص 317،استیعاب جلد 2ص 390
-9
اصابہ جز 4ص 177،مسند احمد جلد1ص 193
10-
اسد الغابہ جلد3ص 314،استیعاب جلد 3ص 388
-11
مسلم کتاب الصلوۃ و اسدالغابہ جلد 3ص 316
-12
اصابہ جز 4ص 177
-13
اسد الغابہ جلد 3ص 315-16،استیعاب جلد2ص 389،اصابہ جز 4ص 177،
البدایہ جلد 7ص 163،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 78
-14
اسد الغابہ جلد 3ص 314,315،ترمذی کتاب المناقب باب حکایۃ وصیۃ عبدالرحمنؓ
-15
اسد الغابہ جلد3ص 316,317
-16
اسد الغابہ جز 4ص 177
-17
ابن سعد جلد 3ص 134
-18
اصابہ جز 4ص 177،استیعاب جلد 3ص 387,390،ابن سعد جلد 3ص 134
-19
اسد الغابہ جلد 3ص 317،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 75
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ
نام ونسب
حضرت سعد ؓ کے والد مالک بن وھیب کا تعلق قریش کی شاخ بنو زہرہ سے تھا۔ اس لحاظ سے آپ رشتہ میں رسول اللہؐ کے ماموں تھے۔ کیونکہ رسول اللہﷺکی والدہ بھی بنو زہرہ قبیلہ سے اور حضرت سعدؓ کی چچا زاد تھیں۔ ایک دفعہ حضرت سعدؓ کے تشریف لانے پر رسول کریمﷺنے فرمایا یہ میرے ماموں ہیں کوئی اور شخص مجھے اپنا ایسا ماموں تو دکھائے۔ والدہ حمنہ بنت سفیان بن امیہ بھی قریش سے تھیں۔کنیت ابو اسحاق تھی۔(1)
قبول اسلام اور قربانی
حضرت سعدؓ نے چوتھے اور چھٹے سال نبوت کے درمیان اسلام قبول کیا۔ اس وقت آپ سترہ برس کے نوجوان تھے۔ خود بیان کرتے تھے کہ میںنے نماز فرض ہونے سے بھی پہلے اسلام قبول کیا تھا۔
آپ کا اسلام قبول کرنا بھی الہٰی تحریک کے نتیجہ میں تھا۔ آپؓ بیان کرتے تھے کہ اسلام سے قبل ’’میں نے رئویا میں دیکھا کہ گھپ اندھیرا ہے اور مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ اچانک ایک چاند روشن ہوتا ہے اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہوں۔کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ مجھ سے پہلے اس چاند تک پہنچے ہوئے ہیں۔ قریب جا کر معلوم ہوا کہ وہ زید بن حارثہؓ ، علی بن ابی طالبؓ اور ابوبکرؓ تھے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تم لوگ کب یہاں پہنچے؟ وہ کہتے ہیں بس ابھی پہنچے ہی ہیں۔‘‘اس خواب کے کچھ عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ رسول اللہﷺمخفی طور پر اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک روز میری آپ سے اجیاد گھاٹی میں ملاقات ہوئی۔ آپؐ نے اسی وقت نماز عصر ادا کی اور میں نے اسلام قبول کیا ۔مجھ سے پہلے سوائے ان تین مردوں کے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا۔ (2)
حضرت سعد ؓ فرماتے تھے کہ میںنے تیسرے نمبر پر اسلام قبول کیا اورسات دن تک مجھ پر ایسا وقت رہا کہ میں اسلام کا تیسرا حصہ تھا۔(3)
اسلام قبول کرنے پر ابتلاء
حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی والدہ سے نہایت نیکی اور احسان کا سلوک کرتا تھا۔ جب میںنے اسلام قبول کیا تو وہ کہنے لگی تم نے یہ نیا دین کیوں اختیار کرلیا ہے۔ تجھے بہرحال یہ دین چھوڑنا پڑے گا۔ ورنہ میں نہ کچھ کھائو ں گی نہ پیئوں گی یہاں تک کہ مر جائوں گی او رلوگ تمہیں ماں کے قتل کا طعنہ دیں گے۔ میں نے کہا اے میر ی ماں ایسا ہر گز نہ کرنا کیونکہ میں اپنا دین نہیں چھوڑ سکتا۔مگر وہ نہ مانی حتیٰ کہ تین دن اور رات گزر گئے اور والدہ نے کچھ کھایا نہ پیا صبح ہوئی تو وہ بھوک سے نڈھال تھیں۔ تب میں نے کہہ دیا کہ خدا کی قسم اگر آپ کی ہزار جانیں ہوں اور وہ ایک ایک کرکے نکلیں تو بھی میں اپنا دین کسی چیزکی خاطر نہیں چھوڑوں گا۔ جب انہوں نے بیٹے کایہ عز م دیکھا تو کھاناپینا شروع کر دیا۔ اس موقع کی مناسبت سے یہ آیت اتری۔ (لقمان:16) یعنی اگر وہ (والدین)تجھ سے جھگڑا کریں کہ تو میرے ساتھ شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی بات نہ مان اور دنیا میںدستور کے مطابق رفاقت جاری رکھ۔(4)
شجاعت و مردانگی
ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں رسول اللہﷺکے صحابہ نماز ادا کرنے کیلئے مختلف گھاٹیوں میں چلے جاتے اور یوں اپنی قوم سے مخفی نماز باجماعت ادا کرتے۔ ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی کسی گھاٹی میں نماز اداکررہے تھے کہ اچانک مشرک ان پر چڑھ دوڑے اور پہلے تو انہیں نماز پڑھتے پاکر ناپسندیدگی کا اظہا رکرتے ہوئے بر ا بھلا کہنے لگے ۔ پھر ان پر حملہ آور ہوئے ۔ حضرت سعدؓ وہ شجاع اور بہادر مرد تھے جو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے دفاع کیلئے بڑی جرأت سے آگے بڑھے اور اونٹ کی ہڈی جو ہاتھ میں آئی وہ مد مقابل شخص کے سر میں دے ماری جس سے اس کا سر پھٹ گیا ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجبوراً اپنے دفاع میں ایک مسلمان کے ہاتھوںکسی کافر کا خون بہا۔ ورنہ مسلمان ہمیشہ فساد سے بچتے اور امن کی راہیں تلاش کرتے رہے۔(5)
مکی دور میں رسول اللہﷺکے ساتھ ابتدائی زمانہ اور شعب ابی طالب میں حضرت سعدؓ کوبھی سخت تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور انتہائی صبر کا نمونہ دکھایا وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات رسولؐاللہ کے ساتھ پیشاب کرنے نکلا تو پائوں کے نیچے کوئی سخت چیز آئی۔ وہ اونٹ کی کھال کا ٹکڑا تھا میں نے اسے اٹھا کر دھویا پھر اسے جلا کر دو پتھروں سے باریک کرکے کھالیااور اوپر سے پانی پی لیا اور تین دن تک کیلئے اس سے قوت حاصل کی۔
ہجرت مدینہ
رسول کریمﷺکے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لانے کے بعد حضرت سعدؓ کو بھی مدینہ ہجرت کی توفیق ملی۔ اور وہ بنی عمر وبن عوف کے محلہ میں اپنے بھائی عتبہ کے گھر میں ٹھہرے جنہوں نے پہلے سے مکہ میں ذاتی دشمنی کے باعث یہاں آکر ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد رسول کریمﷺنے مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کو پہلے مبلغ اسلام حضرت مصعب ؓ بن عمیر اور اوس کے سردار حضرت سعدؓ بن معاذکا بھائی بنایا۔ دو سعدوں کا ملنا بھی گویا ایک روحانی قِران سعدین تھا۔
خدمات
مدینہ آتے ہی حضرت سعدؓ کی خدمات کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ شروع میں جب نبی کریمﷺمدینہ آئے تو مخدوش حالات کی وجہ سے رات آرام کی نیند نہ سو سکے تھے ۔ ایک رات آپؐ نے فرمایا کہ آج خدا کا کوئی نیک بندہ پہرہ دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔تب اچانک ہمیں ہتھیاروں کی آواز سنائی دی رسول کریمﷺنے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی میں سعد ہوں۔ فرمایا کیسے آئے عرض کیامجھے آپ کی حفاظت کے بارہ میں خطرہ ہوا اسلئے پہرہ دینے آیا ہوں۔چنانچہ انہوںنے پہرہ دیا اور رسول کریمﷺ آرام سے اس رات سوئے۔(6)
جب نبی کریمﷺکو اطراف مدینہ میں کچھ مہمات بھجوانے کی ضرورت پیش آئی ۔ پہلے حضرت حمزہؓ کے ساتھ ایک مہم میں شرکت کی سعادت عطا ہوئی۔ اس کے بعد حضرت عبیدہؓ بن حارث کے ساتھ بھجوائی گئی ساٹھ افراد پر مشتمل مہم میں بھی آپ شریک تھے۔ اس موقع دشمن نے تیر برسائے۔ حضرت سعدؓ کو بھی اپنی تیراندازی کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔فرمایا کرتے تھے کہ میں پہلا عرب شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا۔
غزوہ بدر سے قبل رسول کریمﷺ نے حضرت سعدؓ کوبیس سواروں پر مشتمل ایک دستہ پر نگران مقرر کرکے خرار مقام پر بھجوایا۔ آ پ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنا تھا ۔اس تجارتی قافلہ کا سارا منافع مسلمانوں کے خلاف خرچ کرنے کے عہد و پیمان تھے۔(7)
غزوات میں شرکت اور بہادری
کفر و اسلام کے پہلے معرکہ بدر میں حضرت سعدؓ کو رسول اللہ ﷺکے ساتھ شرکت کی توفیق ملی۔وہ بیان کرتے تھے میں بد رمیں شامل ہوا تو میرے چہرے میں ایک بال کے سواکچھ نہ تھا۔ (یعنی اس وقت حضرت سعدؓ کی صرف ایک بیٹی تھی)اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے گھنی داڑھی جیسے بال عطا کئے(یعنی کثرت سے اولاد سے نوازا)۔(8)
حضرت سعدؓ کو بجا طور پر بد رمیں شرکت پر فخر تھا۔ ان کے بیٹے عامر کہا کرتے تھے کہ حضرت سعدؓ مہاجرین میں سے فوت ہونے والے آخری صحابی تھے۔ وفات کے وقت انہوں نے اپنا نہایت بوسیدہ اونی جبہ منگوایا اور فرمایا ’’مجھے اس میں کفن دینا کہ بدر کے دن مشرکوں سے مٹھ بھیڑ کے وقت میں نے یہی جبہ پہن رکھا تھا اور اس مقصد کیلئے آج تک سنبھال کے رکھا ہوا تھا۔‘‘(9)
حضرت سعدؓ نے غزوہ بدر میں شجاعت و بہادری کے شاندار جوہر دکھائے۔ سردار قریش سعید بن العاص آپ کے ہاتھوں انجام کو پہنچا ، اس کی تلوار ذوالکتفہ آپ کو بہت پسند آئی ابھی تقسیم غنیمت کا کوئی حکم نہ اترا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺنے وہ تلوار آپ سے واپس لے لی۔ پھر جب سورۃ انفال کی آیات نازل ہوئیں تو آپؐ نے حضرت سعدؓ کو بلا کر وہ تلوار عطا فرمائی۔
حضرت سعدؓ نے احد میں رسول اللہﷺ کی حفاظت میں آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑنے کی سعادت پائی۔ ان کا بھائی عتبہ حالت کفر میں میدان احد میں مد مقابل تھا اس نے رسول اللہﷺ کو زخمی کیا تھا۔ حضرت سعدؓ کی غیرت ایمانی کا یہ حال تھا کہ فرمایا کرتے ’’ میں عتبہ سے زیادہ کسی شخص کے خون کا پیاسا نہیں ہوا۔‘‘
غزوہ احد میں خالی درے سے کفار کے اچانک حملہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کے پائوں اکھڑ گئے تھے اور وہ تتر بتر ہوگئے مگر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ان معدودے چند صحابہ میں سے تھے جو ثابت قدم رہے۔ آپؓ تیر اندازی کے ماہر تھے جب کفار نبی کریمﷺکو ہدف بنا کر ہجوم کرکے حملہ آور ہوئے تو آنحضرتؐ اپنے ترکش سے حضرت سعدؓ کو تیر عطا فرماتے اور کہتے اِرمِ َیا سَعدُ فِدَاکَ اَبِی وَ اُمِّی! یعنی اے سعدؓ تیر چلائو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ حضرت علیؓ فرمایاکرتے تھے کہ حضرت سعدؓ ہی وہ سعادت مند ہیں جن کے سوااور کسی کیلئے میں نے آنحضورؐ سے اس طرح فِدَاکَ اَبِی وَ اُمِّی کا جملہ نہیں سنا۔
معلوم ہوتا ہے حضرت علیؓ کی مراد غزوہ احد سے ہوگی ورنہ حضرت طلحہ ؓ و زبیرؓ کے بارہ میں بھی نبی کریمؐ نے بعض او رمواقع پر یہ کلمات استعمال فرمائے۔
غزوہ احدہی کا واقعہ ہے جب ایک مشرک حملہ آورناپسندیدہ نعرے لگاتا بلند بانگ دعاوی اور تعلّی کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ نبی کریمﷺنے اس سے نبٹنے کا اشارہ فرمایا ۔ حضرت سعدؓ کا ترکش تیروں سے خالی تھا آپ نے تعمیل ارشاد کی خاطر زمین پر سے ایک بے پھل کا تیر اٹھایااور تاک کر اس مشرک کا نشانہ لیا۔ تیر عین اس کی پیشانی میں اس زور سے لگا کہ وہ بدحواسی میں برہنہ ہو کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ چندلمحے قبل اس کی تعلّیوں کے مقابل پر قدر ت خداوندی سے اس کا یہ انجام دیکھ کر اور اس کے شر سے محفوظ ہو کر نبی کریمؐ خوش ہو کر مسکرانے لگے ۔ احد میں دشمن اسلام طلحہ بن ابی طلحہ بھی حضرت سعدؓ کے تیر کا نشانہ بنا۔ابوعثمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ ہونے والی بعض جنگوں میں آپؐ کے ساتھ بعض مواقع پر حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ کے سوا کوئی بھی موجود نہیں رہ سکا تھا۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ فتح مکہ ، حنین اور تبوک کے غزوات میں رسول اللہﷺکے ہمرکاب رہے اور انہیں اپنی بہادری کے جوہر کھل کر دکھانے کا موقع ملتا رہا۔ایک دفعہ رسول کریمﷺ نے حضرت سعدؓکو دشمن کی خبر لانے کیلئے بھجوایا وہ دوڑتے ہوئے گئے اور واپس آہستہ چلتے ہوئے آئے رسول کریمؐ نے وجہ دریافت کی تو حضرت سعدؓ نے عرض کیا کہ واپسی پر میں اس لئے نہیں بھاگا کہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ میں ڈر گیا ہوں اس پر نبی کریمﷺنے فرمایا کہ سعدؓ بڑا تجربہ کار آدمی ہے۔(10)
حضرت سعدؓ بجا طور پر اپنی ان خدمات کو ایک سعادت جانتے تھے ۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنے ان اشعار میں بھی کیا ہے۔
اَ لَا ھَلْ اَتیٰ رَسُولَ اللّٰہ أَنِّیْ حَمَیْتُ صَحَاَبِتِی بِصُدُوْرِنَبْلِیْ
اَذُوْدُ بِھَاعَدُوَّھُمٗ زِیَادًا بِکُلِّ حَزُونَۃٍ وَ بِکُلِّ سَھْلِ
فَمَا یَعتَدُّ رَامٍ مِنْ مَعَدٍّ بِسَھمٍ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ قَبلِیْ
(ترجمہ)سنو! رسول اللہﷺپر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا میں نے اپنے تیروں کی نوک سے اپنے ساتھیوں کا دفاع کیا۔ ان تیروں سے میں نے خوب خوب ان کے دشمن کو میدانوں اور پہاڑوں میں پسپا کیا۔ معدّقبیلہ کے کسی قابل ذکر تیر انداز کو مجھ سے پہلے رسول اللہﷺ کی معیت کی ایسی سعادت عطا نہیں ہوئی۔ (11)
رسول اللہﷺ کی دعا اور باعمر ہونے کی پیشگوئی
فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعدؓ شدید بیمار ہوگئے۔ بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔آپ مالدار انسان تھے اور اولاد صرف ایک بیٹی تھی، آ پ نے آنحضرتﷺکی خدمت میں اپنا پورا مال خدا کی راہ وقف کرنے کی اجازت چاہی ۔ حضورﷺنے فرمایاکہ یہ بہت زیادہ ہے ۔ حضرت سعدؓ نے کہا نصف مال ہی قبول کرلیں۔ حضورنے وہ بھی قبول نہ فرمایا تو حضرت سعدؓ نے ایک تہائی کی وصیت کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ’’ ٹھیک ہے ایک تہائی مال کی وصیت کر دیں اگرچہ یہ بھی بہت ہے۔ اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔‘‘اس موقع پر نبی کریمﷺان کی عیادت کیلئے تشریف لائے، اللہ تعالیٰ نے حضرت سعدؓ کیلئے رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کے نتیجہ میں عجب رحمت و برکت کے سامان پیدا فرما دئے۔انہوںنے نہایت حسرت بھری اشکبار آنکھوں کے ساتھ یہ عرض کیا ۔ یا رسولؐ اللہ اپنے وطن کی جس سرزمین کو خدا کی خاطر ہمیشہ کیلئے ترک کر دیا تھا اب میں اسی میں خاک ہوجائوں گا۔ کیا میری ہجرت ضائع ہوجائے گی؟ حضرت سعدؓ کے اس انداز نے رسول اللہﷺ کے دل میں دعا کی بے اختیار تڑپ پیدا کردی۔
آپ نے ا سی وقت بڑے اضطراب سے تکرار کے ساتھ یہ دعا کی اَللّٰھُمَّ اشْفِ سَعْداً!اے اللہ سعدؓ کو شفا عطا فرما یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ اس کی قبولیت کا علم پا کر نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ اے سعدؓ خدا تجھے لمبی عمر عطا کرے گا اور تجھ سے بڑے بڑے کام لے گا اور تجھ پر موت نہیں آئے گی جب تک کہ کچھ قومیں تجھ سے نقصان اور کچھ فائدہ نہ اٹھالیں‘‘ پھر آپ نے یہ دعا کی کہ’’ اے اللہ میرے صحابہ کی ہجرت ان کیلئے جاری کردے ۔‘‘(12)رسول ؐاللہ کی دعا اور پیشگوئی کی برکت سے حضرت سعدؓ نے لمبی عمر پائی اور عظیم الشان اسلامی فتوحات کے ہیرو ثابت ہوئے۔ عراق و ایران کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔
حضر ت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں آپ ہوازن کے عامل رہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایرانیوں سے جنگیں لڑیں اور ان کے اکثر علاقے فتح کئے۔ قادسیہ کے میدان میں ایرانیوں سے تاریخی جنگ میں سپہ سالار رستم اور ہاتھیوں کی زبردست فوج کا مقابلہ کیا۔ حضرت سعدؓ اس وقت عرق النساء کی تکلیف سے بیمار تھے مگر آپ میدان جنگ کے قریب ایک قصر کے بالا خانے پر رونق افروز ہو کر جنگ میں اپنے قائمقام خالد بن عرطفہ کی رہنمائی فرماتے رہے وہ کاغذ پر ضروری ہدایات لکھ کر بھجواتے ایک دفعہ ایرانی ہاتھیوں کا ریلہ حملہ آور ہوا تو قریب تھا کہ بجیلہ قبیلہ کے سواروں کے پائوں اکھڑ جائیں حضرت سعدؓ نے قبیلہ اسد کو پیغام بھجوایا کہ ان کی مدد کرو۔ جب قبیلہ اسدپر حملہ ہوا تو قبیلہ تمیم کوجونیزہ بازی میں کمال رکھتے تھے کہلا بھیجا کہ تمہاری موجودگی میں ہاتھی آگے نہ بڑھنے پائیں وہ اپنے لئے امیر لشکر کا یہ پیغام سن کر اس جوش سے لڑے کہ جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
جنگ قادسیہ کے دوسرے روز شام کی امدادی فوجوں کے پہنچنے سے مسلمانوں کا جوش و جذبہ اور بڑھ گیا۔ جنگ کے تیسرے روز حضرت سعدؓ نے اپنے چند بہادروں کو حکم دیاکہ اگر تم دشمن کے ہاتھیوں کو ختم کردو تو یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے چند بڑے بڑے ہاتھیوں کو مار ڈالا جس کے نتیجے میں باقی ہاتھی بھاگ نکلے۔ یوں بالآخر میدان حضرت سعد ؓکے ہاتھ رہا۔مشہور زمانہ پہلوان رستم میدان سے بھاگتا ہوا مارا گیا۔
جنگ قادسیہ کے بعد حضرت سعدؓ نے تما م عراقِ عرب کو زیر نگین کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس جنگ کے بعد ایرانیوں پر آپ کا اتنا رعب طار ی تھا کہ جس علاقے سے گزرے بڑے بڑے سرداروں نے خود آکر صلح کر لی ۔ حضرت سعدؓ نے بابل کو ایک ہی حملہ میں فتح کر لیا۔ پایہ تخت کے قریب بہر ہ شیر مقام پر کسریٰ کا شکاری شیر مقابلہ پر چھوڑا گیا جسے حضرت سعدؓ کے بھائی ہاشم نے تلوار سے کاٹ کر رکھ دیا۔ یہ قلعہ دوماہ کے محاصرہ کے بعد فتح ہوا۔ اب بہرہ شیر اور پایہ تخت مدائن کے درمیان صرف دریائے دجلہ حائل تھا۔ ایرانیوں نے سب پل توڑ کر بیکار کر دئے تب حضرت سعدؓاپنی فوج کو مخاطب ہوئے کہ ’’اے برادران اسلام دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے آئو اسے بھی عبور کر جائیں تو فتح ہماری ہے۔‘‘یہ کہا اوراپنا گھوڑا دریائے دجلہ میں ڈال دیا۔
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے
فوج نے اپنے سپہ سالار کی بہادری دیکھی تو سب نے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دئے اور دوسرے کنارے پرجاپہنچے۔ ایرانی یہ غیر متوقع حملہ کو دیکھ کر بھاگے اور معمولی مقابلے کے بعد مسلمانوں نے مدائن فتح کر لیا۔ مدائن کے ویران محلات دیکھ کر حضرت سعدؓ کی زبان پر یہ آیات جاری ہو گئیں۔(13)
۔(الد خَان:26،27)
فتح مدائن عراق عرب پر تسلط قائم ہونے کی آخری کڑی تھی بڑے بڑے سرداروں سے صلح کے بعد تمام ملک میں امن و امان کی منادی کروا دی گئی۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے جلولاء اور تکریت پر اسلامی جھنڈ ا لہرایا۔ اس سے آگے بڑھنے سے حضرت عمرؓ نے آپؓ کو رو ک دیا اور حکم دیا کہ پہلے مفتوح علاقوںکا نظم و نسق درست کیا جائے۔
حضر ت سعد ؓ نے اس کی تعمیل کی اور نہایت عمدگی سے انتظام سلطنت چلایا ۔ایرانیوں سے اس قدر محبت و الفت اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا کہ ان کے دلوں میں گھر کر لیا۔ بڑے بڑے امراء اس وجہ سے مسلمان ہوئے ۔ دیلم کی چار ہزار فوج جو شاہی رسالہ کے نام سے مشہور تھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئی۔
مدائن میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت سعدؓ نے فاتح فوج کیلئے حضرت عمرؓ کے حکم پر سرحدی علاقہ میں ایک نئے شہر کوفہ کی بنیاد رکھی ۔ جہاں مختلف قبائل کو الگ الگ محلوں میں آباد کیا۔ وسط شہر میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی جس میں چالیس ہزار نمازیوں کی گنجائش تھی ۔ اب کوفہ ایک لاکھ مسلمان سپاہیوں سے ایک فوجی چھائونی میں تبدیل ہو چکا تھا، حضرت سعدؓ کے بارہ میں کچھ انتظامی شکایات پیدا ہونے لگیں۔ حضرت عمرؓ نے تحقیق کروائی۔حضرت جریرؓ بن عبداللہ نے حضرت عمرؓ کو آکر بتایا کہ حضرت سعدؓ اپنی رعایا سے شفیق ماں کی طرح سلوک کرتے ہیں اور عوام کو قریش میں سے سب سے زیادہ محبوب شخصیت ہے۔‘‘حضرت عمرؓ نے یہ معلوم کرلینے کے باوجود کہ الزام بے بنیاد ہے کوفہ کی امارت کی تبدیلی کرنا ہی مناسب سمجھی اور حضرت سعدؓ مدینہ آکر آباد ہوگئے۔حضرت عمرؓ نے دوبارہ انکووالی کوفہ مقرر کرنا چاہا تو انہوں نے اہل کوفہ کی ناروا شکایات کی وجہ سے معذوری ظاہرکی جو حضرت عمرؓ نے قبول کی اورفرمایا کہ’’ میں نے سعدؓ کو ان کی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا تھا اور آئندہ ان کو والی مقرر کرنے میں کوئی روک نہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ کو آخر عمر تک آپ کی خاطر ملحوظ رہی۔ چنانچہ آپ نے انتخاب خلافت کمیٹی مقرر کی جو چھ افراد پر مشتمل تھی۔ ان میں حضرت سعدؓ کو بھی نامزد کیا اورفرمایاکہ اگر سعدؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو ٹھیک ورنہ جو بھی خلیفہ ہوگا وہ بے شک ان سے خدمت لے۔(14)
حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو حضرت سعدؓ دوبارہ کوفہ کے والی مقرر ہوئے اور تین سال یہ خدمت انجام دی۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے مدینہ میں گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی ۔ حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی مگر امور مملکت سے بے تعلق رہے۔ اس زمانہ کی شورش اور جنگوں میں حصہ نہ لیا۔ اسی زمانے میں ایک دفعہ اونٹ چرا رہے تھے۔ بیٹے نے کہا کیا یہ مناسب ہے لوگ حکومت کیلئے زورآزمائی کریںاور آپ جنگل میں اونٹ چرائیں۔ آپؓ نے اسے یہ کہہ کر خامو ش کرا دیا کہ میں نے رسولؐ اللہ سے سنا ہے کہ’’ خدا مستغنی اورمتقی انسان سے محبت کرتا ہے۔‘‘
زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک آزمودہ کار جرنیل ہونے کے باوجود فتنے کے زمانہ میں کنج تنہائی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ کوئی پوچھتا تو فرماتے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا ’’میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا جس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا۔‘‘ امارت کی خواہش نہ تھی۔ حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد آپؓکے بیٹے عمرؓ اور بھائی نے کہاکہ اپنے لئے بیعت لیں۔اس وقت ایک لاکھ تلوار یں آپ کی منتظر اور ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ آپؓ نے فرمایا ’’مجھے ان میں سے صرف ایک ایسی تلوا رچاہیے جو مومن پر کوئی اثر نہ کرے صرف کافر کوکاٹے۔‘‘ آپ اس فتنہ کے زمانہ میں گھر بیٹھ رہے اور فرمایا ’’مجھے اس وقت کوئی خبر بتانا جب امت ایک امام پر اکٹھی ہوجائے۔‘‘ امیر معاویہ نے بھی انہیں مدد کو بلایا تو انہوں نے انکار کر دیا۔
حضر ت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کے بارے میںعمرو بن معدی کرب سے (جو انکے علاقہ سے آئے تھے) رائے لی تو انہوںنے بتایا کہ ’’سعدؓ اپنے خیمہ میں متواضع ہیں۔ اپنے لباس میں عربی ہیں، اپنی کھال میں شیر ہیں۔اپنے معاملات میں عدل کرتے ہیں ،تقسیم برابر کرتے ہیںاورلشکر میں دور رہتے ہیں،ہم پر مہربان والدہ کی طرح شفقت کرتے ہیں اور ہمارا حق ہم تک چیونٹی کی طرح(محنت سے) پہنچاتے ہیں۔‘‘
حضرت سعدؓ بیان کرتے تھے کہ ایک زمانہ تھا جب عسرت اور تنگی سے مجبور ہوکر ہمیں درختوں کے پتے بھی کھانے پڑے اور کوئی چیز کھانے کو میسر نہ ہوتی تھی ۔ اور ہم بکری کی طرح مینگنیاں کرتے تھے۔ (15)
جب حکومتوں کے مالک ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ان مخلص خدام دین کو خوب نوازا۔ مختلف وقتوں میں نو بیویاں کیںسترہ لڑکے اورسترہ لڑکیاں ہوئیں۔ غذا اور لباس کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ کبھی تکبر یا غرور پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ سپہ سالاری اورگورنری کے اہم مناصب سے سبکدوش ہو نے کے بعد بھی بکریاں چرانے میں تامل نہیںکیا۔
رسول کریمﷺنے آپ کے حق میں ایک اور دعا مستجاب الدعوات ہونے کیلئے کی تھی کہ ’’اے اللہ سعدؓ جب دعا کرے اس کی دعا کو قبول کرنا‘‘یہ دعا مقبول ٹھہری اور حضرت سعدؓ کی دعائیں بہت قبول ہوتی تھیں لوگ آپ سے قبولیت دعا کی امید رکھتے اور بددعا سے ڈرتے تھے ۔(16)
عامربن سعد سے روایت ہے ایک دفعہ حضرت سعدؓ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو حضرت علیؓ ،حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ حضرت سعدؓ نے اسے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو برابھلا کہہ رہے ہو جن کے ساتھ اللہ کا معاملہ گزرچکا۔ خدا کی قسم تم ان کی گالی گلوچ سے باز آئو ورنہ میں تمہارے خلاف بددعا کروں گا۔ وہ کہنے لگا یہ مجھے ایسے ڈراتا ہے جیسے نبی ہو۔ حضرت سعدؓ نے کہا ’’اے اللہ! اگریہ ایسے لوگوں کو برا بھلا کہتا ہے جن کے ساتھ تیرا معاملہ گزر چکا تو اسے آج عبرت ناک سزا دے۔‘‘ اچانک ایک بدکی ہوئی اونٹنی آئی لوگوں نے اسے راستہ دیا اور اس اونٹنی نے اس شخص کوروند ڈالا۔ راوی کہتے ہیں میں نے لوگوں کو دیکھا وہ سعدؓ کے پیچھے جا کر بتار ہے تھے کہ اے ابواسحاق! اللہ نے تیری دعا قبول کرلی۔
امارت کوفہ کے زمانہ میں جس شخص نے آپ پر جھوٹے الزام لگائے تھے اس کے بارے میں بھی آپ کی دعا قبول ہوئی اوروہ خدائی گرفت میں آیا۔(17)
وفات
آپ مدینہ سے دس میل دور عقیق مقام پرسترسال کی عمر میں 55ھ میں فوت ہوئے۔جنازہ مدینہ لایا گیا۔ ازواج مطہرات کی خواہش پر اس بزرگ صحابی کاجنازہ کندھوں پرمسجد نبوی میں لایا گیا اور امہات المومنین بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئیں۔ مروان بن حکم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔آپؓ جنت البقیع میں دفن ہوئے اور اپنے عظیم الشان کارناموں کی یادیں باقی چھوڑ گئے۔ آپ عشرہ مبشرہ میں سے تھے یعنی ان دس صحابہ میں سے جن کو رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت عطا فرمائی۔ رسول اللہﷺ کی دعا کی برکت سے لمبی عمر پائی اور عشرہ مبشرہ میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے۔آپ کا علمی پایہ بہت بلند تھا حضرت عمر ؓ بھی فرمایا کرتے تھے کہ’’ جب سعدؓ رسول اللہﷺ سے کوئی حدیث بیان کریں تو پھر اس بارہ میں کسی اور سے مت پوچھو۔‘‘
حضرت سعدؓ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ خوف خدا اور عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ رات کے آخری حصے میں مسجد نبوی میں آکر نمازیں ادا کرتے تھے ، طبیعت رہبانیت کی طرف مائل تھی۔ مگر فرماتے تھے کہ’’ رسول اللہﷺنے اگر اس سے روکا نہ ہوتا میں اسے ضرور اختیار کر لیتا۔‘‘ نظر بہت تیز تھی ایک دفعہ دور سے کچھ ھیولا سا نظر آیا تو ہمراہیوں سے پوچھا کیا ہے؟انہوں نے کہا پرندے جیسی کوئی چیز۔حضرت سعدؓ نے کہامجھے تو اونٹ پر سوار نظر آتا ہے، کچھ دیر بعدواقعی سعدؓ کے چچا اونٹ پر آئے۔
آ پ بہت نڈر اور جری انسان تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کا اظہار فرماتے۔ ایک دفعہ نبی کریمﷺنے کچھ لوگوںمیں مال تقسیم کیا اور ایک ایسے شخص کو کچھ عطا نہ فرمایا جو سعدؓ کے نزدیک مخلص مومن تھا۔ انہوں نے آنحضورﷺسے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے ٹال دیا جب دوسری یا تیسری مرتبہ سعدؓ نے باصرار اپنا سوال دہرایا کہ یہ شخص میرے نزدیک مخلص مومن ہے اور عطیہ کا حقدار ہے تو حضورؐ نے فرمایا کہ اے سعدؓ! بسااوقات میں ان کو عطا کرتا ہوں جن سے تالیف قلبی کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ۔ تب حضرت سعدؓ کی تسلی ہوئی۔
حضرت سعدؓ ان بزرگ صحابہ میں سے تھے جن سے بوقت وفات رسولؐاللہ راضی تھے۔ رسول کریمﷺنے حجۃ الوداع سے واپسی پر مدینہ میں ایک خطبہ میں عشرہ مبشرہ کے نام لے کر ذکر فرمایا کہ آپ ان سے راضی ہیں۔ ان کا مقام پہچانو اور ان سے حسن سلوک کرو۔ ان میں حضرت سعدؓ کابھی لیا ۔
کتنے خوش نصیب تھے سعدؓ اورا سم بامُسَمَّی بھی کہ خدا کے رسولؐ نے ان سے راضی ہونے کا اعلان کرکے رضائے الہٰی کی کلید ان کو عطا فر مادی۔(18)
حوالہ جات
1-
ترمذی کتاب المناقب باب مناقب سعدؓ،اسد الغابہ جلد2ص 390
2-
بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعدؓ،اسد الغابہ جلد3ص 390تا 392
3-
ابن سعد جلد3ص 139
4-
مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعدؓ،اسد الغابہ جلد3ص 292
5-
اسد الغابہ جلد2ص 391
-6
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد5ص 71
7-
مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعدؓ،ابن سعد جلد3ص 140-141،اصابہ جز 3ص 84
8-
ابن سعد جلد3ص 142
9-
اسد الغابہ جلد 2ص 392
10-
بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعدؓ،ابن سعد جلد3ص 141
11-
مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعدؓ،ابن سعد جلد 3ص 142،مجمع الزوائد جلد 9ص 155
12-
بخاری کتاب المغازی و ابن سعد جلد 3ص 144
13-
بخاری کتاب المناقب باب مناقب سعدؓ،استیعاب جلد 3ص 172،
کامل ابن اثیر مترجم جلد 3ص 198تا295و ص 251تاص254
-14
اصابہ جز3ص 84،استیعاب جلد 3ص 173
-15
ابن سعد جلد 3ص 140،اصابہ جز3ص 84،استیعاب جلد 3ص 173،اسد الغابہ ذکر سعدؓ
-16
مستدرک حاکم جلد 3ص 500،مجمع الزوائد جلد 9ص 154
-17
اصابہ جز 3ص 83،استیعاب جلد 3ص 172
-18
اصابہ جز 3ص 84،مجمع الزوائد جلد 9ص 157
حضرت سعید بن زیدؓ
نام ونسب
آپ کا نام سعید والدہ کا نام فاطمہ اور والد زید بن عمرو بن نُفیل تھے۔ قد لمبااور بال بڑے اور گھنے تھے۔ حضرت سعیدؓ کا نسب دسویں پشت میں نبی کریم ﷺسے اور تیسری پشت میں حضرت عمرؓ سے مل جاتا ہے۔(1)
ان کے والد زید وہ خوش قسمت انسان تھے جو جاہلیت کے تاریک دور میں بھی روشنی کا ایک چراغ تھے۔اُس زمانے میں بھی وہ خالص دینِ ابراہیمی اور توحید پرقائم اور جاہلیت کی تمام بدرسوم سے محفوظ تھے حتی کہ بتوں کے نام پر ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت بھی آپ نہیں کھایا کرتے تھے۔
توحیدپرست خاندان
ایک دفعہ آنحضرت ﷺکی اپنی بعثت سے قبل وادیٔ بلدح میں زید سے ملاقات ہوئی آنحضور ؐ کے سامنے کھانا پیش کیاگیا۔آپ نے مشرکین کا کھانا پسند نہیں فرمایا۔ حضرت زیدؓ کے سامنے بھی جب یہ کھانا پیش ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’میں تمہارے بتوں کا چڑھاوا اور ان کے نام کا ذبیحہ نہیں کھاتا۔‘‘(2)
حضرت سعیدؓ کے والد زید نے اپنے علاقہ میں شرک کی تاریکی سے نجات حاصل کرنے اور نورِ ہدایت کی تلاش میں دُوردراز کے سفر کئے۔ شام میں ایک یہودی خداترس عالم سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کہا کہ’’ خدا کے غضب سے حصہ لینا ہے تو ہمارا مذہب اختیارکرلو‘‘ زید نے کہا کہ خدا کے غضب ہی سے تو میں بھاگ کر آیاہوں۔ کوئی اور مذہب بتادو۔ اس نے کہا کہ’’ دین حنیف اختیار کرلو جو مؤحد ابراہیم کا مذہب تھا جو یہودی تھے نہ عیسائی۔‘‘ وہاں سے چلے تو تلاش حق میں وہ ایک خدا ترس عیسائی عالم سے جاکر ملے اس نے صاف کہہ دیا کہ’’ خدا کی *** کا طوق چاہتے ہوتو ہمارے مذہب میں آجائو۔‘‘زید نے کہا ’’پھر مجھے کوئی ایسا مذہب بتائو جس پر خدا کی *** نہ ہو۔‘‘ اس نے بھی مشورہ دیا کہ ’’دین ابراہیمی کی پیروی کرو۔‘‘انہوں نے کہا ’’اس کا مجھے علم ہے اور اسی دین پر میں قائم ہوں۔ رہی ان پتھروں اور لکڑی کی صلیب کی عبادت جن کوخود ہاتھ سے تراشا جائے ان کی کیاحقیقت ہوسکتی ہے؟‘‘(3)
تب زیدشام سے واپس لوٹے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ’’ خدایا! توگواہ رہ میں دین ابراہیمی کا پیروہوں‘‘اور زید کو بجا طور پر اپنی اس سعادت پر فخر تھا۔
حُجیربن ابی اھاب سے روایت ہے کہ سفر شام سے واپسی پرمیں نے زید بن عمرو کو بُوانہ بت کے پاس دیکھا کہ وہ غروب آفتاب کا انتظار کرتے رہے پھر انہوں نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے دورکعت نماز ادا کی۔ پھر کہا ’’یہ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑکا قبلہ ہے۔میں بتوں کی پرستش نہیں کرتا، نہ ان کی خاطر نماز پڑھتا ہوں نہ ہی ان کے لئے قربانی دیتا ہوں۔ نہ ان پر چڑھائی گئی قربانی کا گوشت کھاتا ہوں۔ نہ تیروں سے قسمت معلوم کرتاہوں۔‘‘ زیدحج میں عرفات میں ٹھہرتے اور یہ تلبیہ پڑھتے تھے لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ وَلَا نِدَّلَکَ۔ میں حاضرہوں تیراکوئی شریک نہیں نہ تیرا کوئی ہمسر ہے۔ پھر عرفہ سے واپس آتے ہوئے کہتے میں حاضرہوں تیری عبادت کرنے والا۔ تیر اغلام۔(4)
زید ہی تھے جنہوںنے جاہلیت اور شرک کے اس گہوارہ مکّہ میں یہ نعرہ بلند کیا تھا۔
اَرَبَّاً وَّاحِدً أَمْ اَلْفُ رَبٍّ
تَرَکْتُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰی جَمِیْعًا
أَدِیْنُ اِذَا تَقَسَّمَتِ الأُمُوْرُ
کَذَالِکَ یَفْعَلُ الرَّجَلُ الْبَصِیْرٗ
یعنی کیا میں ایک خدا پر ایمان لائوں یا ایک ہزار ایسے بتوں کو خدامانوں۔ جنہوں نے معاملات میں تقسیم کار کی ہوئی ہے ہرگز نہیں۔ میں نے لات و عزیٰ کو چھوڑ دیا ہے اور ہر صاحب بصیرت انسان ایساہی کرے گا۔
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے زید کو کعبہ کے پاس یہ کہتے سنا ۔ ’’اے گروہ قریش خدا کی قسم! میرے سوا تم میں سے کوئی بھی دینِ ابراہیمی پرقائم نہیں۔‘‘
عامربن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ زید شرک اور بت برستی کے برخلاف ہوکر اپنی قوم سے کنارہ کش تھے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ ’’میں بنی اسماعیل میں سے ایک نبی کا منتظر ہوں۔ نامعلوم مجھے اس کا زمانہ میسر آسکے گایا نہیں؟ مگر میں اس پر ایمان لاتاہوں کہ وہ نبی ہے۔ تمہاری زندگی میں اگر وہ آگیا تو تم اسے میراسلام پہنچانا۔‘‘عامرکہتے ہیں رسول اللہﷺ کے دعویٰ کے بعد میں مسلمان ہواتوحضوؐر کو زید کا سلام پہنچایا۔‘‘رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ اس پر بھی سلام ہو اوراللہ اس پر رحم کرے۔ ‘‘پھر فرمایا کہ’’ میں نے زید کو جنت میں اپنی چادر گھسیٹ کر چلتے دیکھا ہے۔‘‘(5)
بعض عربوں میںجاہلیت کی ایک بدرسم لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا تھی۔ زید نے معصوم بچیوں کے حق میں آواز بلند کی۔ آپ ایسی بچیوں کی کفالت اپنے ذمّہ میں لے کر ان کی جان کے لئے اَمان مہیا کیاکرتے تھے۔بچی کے جوان ہونے پر والدین سے کہتے کہ چاہوتو تمہیں واپس کردیتا ہوں کہو تو اس کے سارے انتظام (شادی بیاہ وغیرہ )خود کرتا ہوں۔(6)
زید کے بیٹے سعید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺمیرا باپ اگر آپ کا زمانہ پاتا تو ضرور ایمان لے آتا آپ اس کے لئے خداسے بخشش طلب کریں۔ نبی کریمﷺ نے زید کے لئے بخشش کی دعا کی اور فرمایا ’’وہ قیامت کے دن ایک امت ہوگا۔‘‘(7)
نبی کریمﷺ کے ارشاد کے بعد مسلمان جب بھی سعید کے والد کا ذکرکرتے تو ان کے لئے بخشش اور رحم کی دعا کرتے۔ (8)
قبول اسلام کے بعد استقامت اور اسکی برکت
حضرت سعیدؓ بن زیدایسے مؤحد انسان کی اولاد تھے۔ جب رسول اللہﷺ نے توحید کی آواز بلند کی تو حضرت سعیدؓ اوّلین لبیک کہنے والوںمیں سے ہوئے۔ ان کی بیوی فاطمہؓ جو حضرت عمرؓ کی سگی بہن تھیں ساتھ ہی مسلمان ہوگئیں۔ حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو سخت ردّعمل دکھایا انہیں قید وبند کی صعوبت دی۔ (9)حضرت عمرؓایک دفعہ غصے میں ان کے پاس پہنچے اور مارمار کر لہولہان کردیا۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا اے عمر جو چاہو کر لو اب اس دل سے اسلام تو نہیں نکل سکتا۔زخمی ہوکر ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ دیکھ کر حضرت عمرؓ کا دل پسیجا اور انہوں نے وہ کلام سننے کی خواہش کی جو یہ دونوں پڑھ رہے تھے۔ کلام پاک کی عظمت وشوکت کا ایسا اثر ہوا کہ حضرت عمرؓ کی کایا پلٹ گئی۔ اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔(10)
غزوات میں شرکت
ہجرت مدینہ کے وقت حضرت سعیدؓ ابتدائی مہاجرین کے ساتھ مدینہ پہنچے رسول اللہﷺ نے حضرت رافع بن مالک انصاریؓ کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم فرمائی۔
۲ ہجری میں حضرت سعیدؓ اور حضرت طلحہؓ کو آنحضرتﷺنے ایک مہم کے سلسلے میں شام کی طرف بھجوایا۔ان کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھیں۔ اس مہم سے واپسی تک غزوہ بدر کا معرکہ سَرہوچکا تھا۔ رسول اللہ ﷺفتح کے ساتھ بدر سے واپس لوٹ رہے تھے۔حضرت سعیدؓ کو چونکہ دینی خدمت پر مامور ہونے کے باعث بدر کی شرکت سے محروم رہنا پڑا تھا اس لئے آنحضرتﷺ نے انہیں بدر کی غنیمت سے حصّہ عطافرمایا اور جہاد کے ثواب کی نوید بھی سنائی۔ حضرت سعیدؓ کو تمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب رہنے کی توفیق نصیب ہوئی۔(11)
شوق جہاد
حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں حضرت ابوعبیدہؓ کے ذریعہ شام فتح ہوا۔ حضرت سعیدؓ ان کی پیدل فوج کے افسر تھے۔محاصرہ دمشق اور جنگ یرموک میں انہیں نمایاں شجاعت کے مواقع عطاہوئے۔ آپ کچھ عرصہ دمشق کے گورنر بھی رہے۔ مگر شوق جہاد کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابوعبیدہ ؓ کو لکھا کہ میں جہاد سے محروم رہنا نہیں چاہتا اس لئے میر ایہ خط پہنچتے ہی کسی کو میری جگہ دمشق میں بھجوانے کی ہدایت فرمائیںتاکہ میں جہاد کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکوں۔ چنانچہ ان کی جگہ یزید بن ابی سفیان کو دمشق کا گورنرمقررکیاگیا۔
حضرت سعیدؓ نہایت نیک طبع اور مستغنی مزاج انسان تھے۔ عقیق کی جاگیر پر گزربسر تھی۔ ایک عورت ارویٰ نے جس کی زمین آپ کے رقبہ کے ساتھ ملتی تھی ان کی زمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کردیاتو آپ اپنی جاگیر سے دستبردار ہوگئے اور کہا کہ یہ اس عورت کو دے دو۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص ناحق کسی کی زمین ایک بالشت بھی لیتا ہے اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا بوجھ اُٹھاناہوگا۔(12)
قبولیت دعا
حق وباطل میں فرق کی خاطر اس عورت کے بارہ میں حضرت سعیدؓ نے دعا کی کہ ’’اے اللہ اگریہ مظلوم نہیں ظالم ہے تو یہ اندھی ہوکر اپنے کنوئیں میں گرے اور میرا حق ظاہر کردے تامسلمانوں پرروشن ہوکہ میں ظالم نہیں ہوں۔‘‘ خدا کی شان کہ وادی عقیق میں سیلاب آنے سے زمین کی حدیں بھی ظاہر ہوگئیں اور وہ بڑھیا اسی طرح اندھی ہوکر ہلاک ہوئی اور عبرت کاایسا نشان بنی کہ مدینہ کے لوگوں میں ضرب المثل بن گئی ۔لوگ جس کوبددعا دیتے کہتے کہ خدا اُسے ارویٰ کی طرح اندھا کرے۔(13)
حضرت سعیدؓ اپنے زہدو ورع کے باعث فتنوں اورشورشوں سے محفوظ رہے۔وہ فتنوں کے بارے میں رسول کریمﷺکی یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ آپؐ نے فرمایا تاریک رات کی طرح فتنے ہونگے جن میں لوگ بہت تیزی سے داخل ہونگے۔ پوچھاگیا کیا وہ سب ہلاک ہونگے یا بعض۔ سعیدؓ کہنے لگے ان کے لئے قتل کافی ہے۔(14)
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت سعیدؓ مسجد کوفہ میں فرمایا کرتے کہ’’ خلیفۂ وقت کے ساتھ جو سلوک ہوا اُس سے اگر اُحد کا پہاڑ بھی لرزاُٹھے تو تعجب کی بات نہیں۔‘‘(15)
حضرت سعیدؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ یعنی اُن دس صحابہ میں جنہیں رسول کریم ﷺنے اُن کی زندگی میں جنت کی خوش خبری دی تھی۔ بلاشبہ یہ عظیم الشان اعزاز تھا۔
حق گوئی
آپ حق گو اور بے باک تھے۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ امیر معاویہؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے۔ ایک روز وہ جامع مسجد میں تشریف فرماتھے کہ حضرت سعیدؓ تشریف لائے۔ انہوں نے نہایت عزت وتکریم کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور اپنے پاس بٹھایا۔دریں اثناء اہل کوفہ میں سے ایک شخص آیا اور حضرت علیؓ کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔حضرت سعیدؓ اس پر سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں نے رسول کریمؐکو فرماتے سنااور مجھے ہرگزاس کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں وہ کہوں جو رسول ؐاللہ نے نہیں فرمایا اور کل جب میں آپؐ سے ملوں تو میری بازبُرس ہو۔ آپؐ نے فرمایا تھا۔ابوبکرؓ،عمرؓ، عثمانؓ ،علیؓ،طلحہؓ، زبیرؓ بن العوام، سعدؓ اور عبدالرحمانؓ بن عوف جنت میں ہونگے اور اگر میں چاہتاتو دسویں کا بھی نام لے دیتا۔پوچھا گیاوہ کون ہے آپ خاموش رہے پھر پوچھا گیاتوکہا میں یعنی سعیدؓ بن زید۔پھر کہنے لگے ان میں سے کسی ایک شخص کا رسول اللہﷺ کے ساتھ کسی غزوہ میں شامل ہونا جس میں آپؐ کاچہرہ غبارآلودہ ہوا تمہارے عمربھر کے اعمال سے بہتر ہے خواہ تمہیں عمرنوحؑ عطاکی جائے۔ (16)
روایات حدیث
حضرت سعید ؓ کی روایات حدیث اگرچہ بہت قلیل ہیں مگر ان سے آپ کے ذوق کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔یہ روایات وضو اوراس کے آداب ،ایمانیات اور حب انصار سے متعلق ہیں۔ حضرت سعیدؓبیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو وضوء نہیں کرتا اس کی نماز نہیںہوتی اور جو وضوء کرتے ہوئے اللہ کا نام نہیںلیتا اس کا وضوء نہیں ہوتا۔ اور وہ اللہ پر ایمان نہیں لاتا جو مجھ پر ایمان نہیںلاتا اور جو انصار سے محبت نہیں کرتا۔(17)
بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے بھی حضرت سعید ؓ اعلیٰ مقام پر تھے اور اکثر یہ حدیث سنایاکرتے تھے کی سب سے بڑا سودیعنی حرام چیزمسلمان کی عزت پر ناحق حملہ ہے۔اسی طرح بیان کیا کہ رِحم مادر کا لفظ اللہ کی صفت رحمان سے نکلا ہے جو قطع رحمی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردیتا ہے۔(18)
ایک اور روایت آپؓ سے مروی ہے کہ جو شخص اپنے مال و جان ،اہل وعیال اور دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔(19)
وفات
حضرت سعیدؓ خاموش طبع اورگوشہ نشین قسم کے بزرگ تھے۔ اس لئے ان کے بہت کم حالات کتابوں میں ملتے ہیں۔ بلاشبہ آپ کی زندگی جنتیوں کی طرح پر سکون زندگی تھی۔ تبھی تو خدا ذوا لعرش کی طرف سے آپ کو جنتی ہونے کی عظیم الشان بشارت آنحضرتؐ کے ذریعہ سے عطاہوئی۔ آپ کی وفات عقیق میں50یا 51ھ میں جمعہ کے روز ہوئی۔سترسال سے زائد عمر پائی۔ (20)
حضرت عبداللہ ؓبن عمر نے نماز جمعہ کی تیاری کرتے ہوئے جب یہ المناک خبر سنی تو فوراً عقیق روانہ ہوگئے۔ جہاں حضرت سعد ؓبن ابی وقاص نے حضرت سعیدؓ کو غسل دیا۔ حضرت عبداللہؓ بن عمر نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مدینہ لاکر حضرت سعیدؓ کو سپردِخاک کیاگیا۔(21)
حضرت سعیدؓ نے مختلف وقتوں میں نوشادیاں کیں۔ ان بیویوں اور لونڈیوں سے کثیر اولاد ہوئی۔ آپ کے تیرہ لڑکوں اورسولہلڑکیوں کے نام ملتے ہیں۔
حوالہ جات
1-
اسد الغابہ جلد2ص306
2-
بخاری کتاب مناقب الانصار باب حدیث زید بن عمرو
3-
ابن سعد جلد3ص379
4-
ابن سعدجلد3ص380
5-
ابن سعد جلد 3ص379
6-
ابن سعد جلد3ص381
7-
مسند احمد بن حنبل جلد1،مسند سعیدص
8-
ابن سعد جلد3ص381
9-
بخاری کتاب المناقب باب اسلام سعیدؓ بن زید
10-
ابن سعد جلد3ص268
-11
الاصابہ جز 3ص 97
12-
مسلم کتاب المساقاہ باب تحریم الظلم
13-
اصابہ جز3ص97
-14
مسنداحمد جلد1ص 189
-15
بخاری کتاب المناقب باب اسلام سعید ؓ بن زید
-16
ابودائود کتاب السنۃ فضائل العشرۃ
-17
مسند احمد جلد6ص 382
-18
مسند احمد جلد1ص 190
-19
مسند احمد جلد 1ص 187
-20
الاصابہ جلد3ص97و مسند احمد جز1ص 221
-21
ابن سعد جلد3ص384
حضرت زبیرؓ بن العوام
نام ونسب
آپ کا نام زبیرؓ والد کا نام عوام اور والدہ کا نام صفیہ تھاکنیت ابو عبداللہ تھی۔ نسب پانچویں پشت میں نبی کریمﷺسے مل جاتا ہے۔آپ کی والدہ حضرت صفیہؓ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں۔اور ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے آپ حقیقی بھتیجے تھے۔حضرت ابو بکر ؓ کے داماد ہونے کے لحاظ سے آنحضرتﷺسے ہم زلف ہونے کی نسبت بھی تھی۔
آپ ہجرت نبوی سے28سال قبل پیدا ہوئے۔والد بچپن میں انتقال کر گئے تھے۔ والدہ نے تربیت میں تادیب اور سختی سے کام لیا۔آپ کہا کرتی تھیں کہ اس کا مقصد زبیر کو ایک دانا اور بہادر انسان بنانا ہے۔لڑکپن کا واقعہ ہے مکہ میں ایک نوجوان کے ساتھ آپ کا جھگڑا ہو گیا۔ اس کو ایسا مُکہّ مارا کہ اس کاہاتھ ٹوٹ گیا۔حضرت صفیہّؓ کو خبر پہنچی تو اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے انہوں نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا۔شکایت کرنے والوں سے پوچھا پہلے بتاؤ کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا ۔بہادر یا بزدل؟(1)
حضرت زبیرؓ کا قد لمبا تھا سواری پر بیٹھتے تو پائوں زمین کو چھوتے اور رنگ سفید،جسم ہلکا پھرتیلا،رخسار ہلکے،داڑھی بھی ہلکی اور سرخی مائل تھی۔(2)
قبول اسلام اور تکالیف
حضرت زبیرؓ نے سولہ برس کی عمر میں پانچویں یا چھٹے نمبر پر اسلام قبول کیا۔اور قبول اسلام میں سبقت لینے والوں میں آپ کا ممتاز مقام تھا۔کم سن ہونے کے باوجودبہادری اور جانثاری آپ کا طرّہ امتیاز تھی۔ مکہ میںابتداء میںآپ کی مؤاخات حضرت عبداللہؓبن مسعودسے ہوئی۔قبول اسلام کے بعد کوئی ایسا غزوہ نہیں ہوا جس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ شرکت نہ کی ہو۔(3)
اسلام کے ابتدائی زمانہ مخالفت کی بات ہے کسی نے مشہورکردیا کہ نبی کریم ؐکو مشرکین نے گرفتار کرلیا ہے۔حضرت زبیرؓ نے سنتے ہی تلوار سونتی اور فوراً رسول اللہ ؐ کے پاس پہنچے۔ حضور نے دیکھ کر پوچھا یہ کیا۔ عرض کیا کہ حضورؐ میں توآپؐ کی گرفتاری کا سن کر دیوانہ وار آپ کی طرف چلا آیا ہوں۔ رسول اللہ ؐنے نہ صرف اس جانثار فدائی کیلئے دعا کی بلکہ آپ کی تلوار کیلئے بھی دعا کی۔(4)
ابتدائے اسلام میں حضرت زبیرؓ پربھی بہت سختیاں ہوئیں ان کا چچا ان کو چٹائی میں باندھ کر دھوئیں کی دھونی دیتا آپ کا دم گھٹنے لگتا۔ مگر آپ کلمۂ توحید کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔اور ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ جوچاہو کرلو میں اس دین سے انکار نہیں کرسکتا۔(5)
ظلم وستم انتہا کو پہنچا توحبشہ ہجرت کی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد مدینہ ہجرت کی سعادت پائی۔ مکّے میں قیام کے دوران بعد میںرسول اللہ ﷺنے حضرت طلحہؓ کوبھی آپ کا بھائی قراردیا۔
شجاعت
ہجرت مدینہ کے بعد حضرت سلمہ ؓبن سلامہ سے بھائی چارہ ہوا جو بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے انصار میں سے معزز بزرگ تھے۔آپ کی شجاعت و بہادری ضرب المثل تھی۔ غزوہ بدر میں زرد رنگ کا عمامہ سر پہ باندھ رکھا تھا۔مسلمانوں کے پاس کل دو گھوڑوں میں سے ایک پر وہ سوار تھے۔ اس جنگ میں وہ اس جانبازی اور دلیری سے لڑے کہ جس طرف نکل جاتے دشمن کی صفیں تہہ و بالا کرکے رکھ دیتے۔مشہور تھا کہ اس روز فرشتے بھی زبیر ؓ کی پگڑی جیسی زرد پگڑیاں پہنے نازل ہوئے تھے۔(6)
ایک مشرک نے بلند ٹیلے پر کھڑے ہوکر دعوتِ مبارزت دی حضرت زبیرؓ لپک کر اس پر حملہ آور ہوئے۔ مگر تھوڑی دیر میں قلابازیاں کھاتے ہوئے ٹیلے سے نیچے آنے لگے۔ آنحضرتﷺنے فرمایا کہ دونوں میں سے جو پہلے زمین پر آرہے گا وہی ہلاک ہوگا۔ اور ایساہی ہو اوہ مشرک پہلے زمین پر گرا اور مارا گیا۔
میدان بدر میں ایک اور سُورما عبیدہ بن سعید سر سے پائوں تک زرہ بند تھا اور صرف آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔حضرت زبیرؓ اس کے مقابلے میں بھی نکلے اور تاک کر اُس کی آنکھ میں ایسا نیزہ مارا کہ وہ دوسری طرف سے باہر نکل گیا۔ اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل کھینچ کر نیزہ نکالا گیا تو پھل ٹیڑھا ہوچکاتھا۔ آنحضرت ؐ نے زبیر کی بہادری کے نشان کے طور پر وہ نیزہ حضرت زبیرؓ سے مانگ کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ حضوؐر کی وفات کے بعد خلفائے راشدین میں یہ امانت بطور تبرک منتقل ہوتی رہی۔ یہاںتک کہ حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت زبیرؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ کے پاس یہ نیزہ پہنچا۔ جو ان کی وفات تک ان کے پاس رہا۔
حضرت زبیرؓ نے جس بے جگری سے میدان بدر میں داد شجاعت دی اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سارا بدن زخموں سے چھلنی تھا۔ ایک زخم تو اتنا گہرا تھا کہ ہمیشہ کے لئے بدن میں گڑھا پڑ گیا۔ آپؓ کی تلوار میں بدر کے دن گردنیں مارتے مارتے دندانے پڑگئے تھے۔ بلاشبہ آپ کی اس بہادری پر عرب کے شاعرکا یہ شعرصادق آتا ہے
وَلَا عَیبَ فِیھِم غَیرَ أنَّ سُیُوُفَھُم بِھِنَّ فُلُولٌ مِن کِرَ ا عِ الکَتَائِبٖ
کہ ان بہادروں میں کوئی عیب نہیں۔ اگر ہے تو بس یہ کہ ان کی تلواروں میں لڑائی اور جنگ آزمائی کے باعث بہت دندانے پڑچکے ہیں۔ اور یوں عرب شاعر نے بظاہر مذمت میں لپٹی ہوئی ان بہادروں کی مردانگی کی ایسی اعلیٰ درجہ کی تعریف کردی کہ اس سے بڑھ کر اور کیا تعریف ہوگی ۔(7)
غزوہ احد اور خندق میں جانثاری
غزوہ احد میں مشرکین کے اچانک حملے کے وقت جب بڑے بڑے غازیوں کے پائوں اکھڑ گئے اورجو چودہ صحابہؓ ثابت قدم رہے ان میں جانثارحواری رسول حضرت زبیرؓ بھی تھے۔
جنگ احد میں مشرکین کے واپس جانے کے بعدرسول کریمﷺنے جب بعض اطلاعات کی بناء پر یہ خطرہ محسوس کیا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تو آپؐ نے فرمایا ہم ان کا تعاقب کریں گے کون ساتھ دے گا۔تب ستر صحابہ آپ کے ساتھ اس تعاقب میں شریک ہوئے۔ حضرت عائشہ ؓ حضرت عروہؓ سے فرماتی تھیں ان میں تمہارے نانا ابوبکرؓ اور دادا حضرت زبیر ؓ بھی تھے۔(8)
غزوہ خندق میں حضرت زبیرؓ کی ڈیوٹی خواتین کی حفاظت پر تھی جس کا حق آپ نے خوب ادا کیا۔ مدینہ کے یہود بنو قریظہ کے ساتھ اگرچہ مسلمانوں کا معاہدہ تھالیکن مشرکین عرب کا چاروں طرف سے مدینہ پر ہجوم دیکھ کر وہ بھی بدعہدی پر اترآئے۔ یہ شدید سردی کے دن تھے۔ رسول اللہ ﷺنے صحابہ کو آواز دی کہ کوئی ہے جو بنو قریظہ کی خبر لائے؟ مارے سردی کے ان کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ تین مرتبہ حضورؐ کے آواز دینے پر ہر دفعہ ایک ہی آواز آئی اور یہ آواز جس بہادر اور جری پہلوان کی تھی وہ زبیرؓ تھے۔انہوں نے ہر دفعہ لبیک کہا اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺمیرے ماں باپ آپؐ پر قربان!میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں۔ پھر زبیرؓ جاکر دشمن کی خبریں لے آئے۔ جب آپ واپس لوٹے تو رسول اللہﷺ نے آپ کی فدائیت سے خوش ہوکر فرمایا ’’ہر نبی کا ایک حواری یعنی خاص مددگارہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔‘‘(9)اس طرح فرمایا ’’اے زبیرؓ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!‘‘حضرت زبیرؓ کو حدیبیہ میں بھی شرکت کی توفیق ملی اور رسول کریمؐ نے بدر اور حدیبیہ میں شرکت کرنے والوں کے بارہ میں فرمایا تھا کہ ان میں سے کوئی آگ میں داخل نہ ہوگا۔
غزوہ خیبر میں بہادری
پھرغزوۂ خیبر کا موقع آیا تو یہود خیبر کا رئیس اور بہادر مرحب حضرت علیؓ سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا۔ اس کا بھائی یاسر نہایت غضبناک ہوکر اپنے بھائی کا انتقام لینے کیلئے میدان میں نکلا۔ اور کہا کہ کوئی ہے جو میرے مقابلے پہ آئے حضرت زبیرؓ نے آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا۔ اور اس دیوہیکل انسان کے مقابلے پر حضرت زبیرؓ کو جاتے دیکھ کر ماں کی ممتا جاگی۔ آپ کی والدہ صفیہؓ پریشان ہوکر کہنے لگیں کہ آج زبیرؓ کی خیر نہیں۔ مگر رسول خداﷺنے فرمایا نہیں ایسانہیںہوگا۔ زبیرؓ اس پرلازماً غالب آئے گا۔ چنانچہ انہوںنے چند ہی لمحوں میں اس بہادر کو زیر کرلیا۔
فتح مکہ اور حنین میں خدمات
فتح مکہ کے موقع پر بھی حضرت زبیرؓ کو کلیدی خدمات کی توفیق ملی۔ پہلے آپ کو حضرت علی ؓ کے ساتھ اس مہم میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ جو ایک مخبری کرنے والی شُتر سوار عورت کو گرفتار کرنے کے لئے رسول خدا ﷺنے اللہ تعالیٰ سے علم پاکربھجوائی تھی۔ اور اس سے آپ کامیاب و کامران واپس لوٹے۔ مکّے میں داخلے کا وقت آیا دس ہزارقدوسیوں کے لشکر کے چھوٹے چھوٹے دستے بنائے گئے۔آخری دستہ وہ تھا جس میں خود آنحضرتﷺ موجود تھے اور اس دستہ کے علمبردار حضرت زبیرؓ تھے۔ مکہ میںفاتحانہ شان سے داخل ہونے کے بعد حضرت زبیرؓ اور حضرت مقداؓد گھوڑوں پر سوار آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورﷺ نے خود بڑی محبت کے ساتھ اپنے دست مبارک سے ان مجاہدوں کے چہروں سے گردو غبار صاف کی اور ان کے مالِ غنیمت کے حصے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ گھوڑسواروں کے لئے ہم نے عام مجاہدین سے دوگنے حصے مقرر کئے ہیں۔ یہ گویا حضرت زبیر ؓ کی شاندار خدمات پر حضورؐ کی طرف سے انعام کا اعلان تھا۔(10)
فتح مکہ کے بعد حنین کا معرکہ پیش آیا۔ حنین کی گھاٹیوں میں چھپے ہوئے تیر انداز مسلمان مجاہدین کی نقل و حرکت دیکھ رہے تھے۔ حضرت زبیرؓ کی بہادری اتنی زبان زد عام اور ضرب المثل تھی کہ کمین گاہوں میں چھپے ہوئے دشمنوں پر جب آپ نے حملے کا ارادہ کیا تو دشمنوں میں سے ایک شخص نے آپ کو پہچان لیا۔ وہ بے اختیار اپنے ساتھیوں کو پکا رکرکہنے لگا۔ لات و عُزّی کی قسم یہ طویل القامت شہ سوار یقینا زبیرؓ ہے۔ اس کا حملہ بڑاخطرناک ہوتا ہے تیا ر ہوجائو۔ اس اعلان کی دیرتھی کہ حضرت زبیرؓ پر ایک دستے نے تیروں کی بوچھاڑکردی۔ حضرت زبیرؓ نے نہایت جرأت اور دانشمندی کے ساتھ اس حملے کامقابلہ کیا اور یہ گھاٹی دشمنوں سے بالکل خالی کرواکردم لیا۔
جنگ یرموک میں شجاعت
جنگ یرموک میں بھی حضرت زبیرؓ کی غیر معمولی شجاعت دیکھنے میں آئی دورانِ جنگ ایک دفعہ چند نوجوانوں نے زبیرؓ سے کہا کہ اگر آپ دشمن کے قلب لشکر میں گھس کر حملہ کریں تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ حضرت زبیرؓ کو تائید الہٰی سے اپنی قوتِ بازوپر ایسا اعتماد تھا فرمانے لگے تم میرا ساتھ نہیں دے سکتے مگرجب ان سب نوجوانوں نے اصرار کیا تو آپؓ نے ان نوجوان بہادروں کے دستے کو ساتھ لیا اور دشمن کے قلب لشکر پر حملہ کردیا۔ رومی فوج کے قلب کو چیرتے ہوئے تنہا لشکر کے اس پار نکل گئے تمام ساتھی پیچھے رہ گئے تھے پھر آپؓ حملہ کرتے ہوئے واپس لوٹے تو رومیوں نے گھوڑے کی باگ پکڑلی اور گھیراڈال کر ہرطرف سے آپ پر حملہ آور ہوگئے او ر سخت زخمی کردیا۔ آپ کی گردن پرتلواروں کے اتنے کاری زخم آئے کہ اچھے ہونے کے بعد بھی اس میں گڑھے باقی رہ گئے۔
حضرت عروہ ؓکہا کرتے تھے حضرت زبیرؓ کی پشت پر بدر کے زخم کے بعد یرموک کے زخم کا گڑھا تھا جس میں انگلیاں داخل کرکے میں بچپن میں کھیلا کرتا تھا۔(11)
موصل کے ایک بزرگ کی روایت ہے کہ ایک سفر میں میں حضرت زبیرؓ کے ہمراہ تھا انہیں غسل کی ضرورت پیش آئی۔ میں نے ان کیلئے پردہ کیامیری نظر ان کے جسم پر پڑی تو وہ تلواروں کے نشانوں سے جگہ جگہ کٹا ہوا تھا ۔میں نے کہا کہ ایسے زخموں کے نشان میں نے کسی شخص پر نہیں دیکھے انہوں نے فرمایا ان میں ہر زخم رسول اللہﷺکے ساتھ خدا کی راہ میں لگا ۔ (12)
ایسے حیرت انگیز مجاہدوں کی شجاعت اور قربانیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ رومی فوج بھاگ گئی اور یرموک کے میدان میںمسلمانوں کو فتح ہوئی۔اوروہ ملک شام کے تاج وتخت کے وارث بنے۔
فتح شام کے بعد حضرت عمروبن العاص ؓ نے مصر کا قصد کیا۔حضرت عمرؓ نے ان کی مدد کے لئے دس ہزار کی فوج اور چارافسروں کی کمک بھیجی او رلکھا کہ ان افسروں میں سے ایک ایک ہزار سوار کے برابر ہے۔ ان میں سے ایک کمانڈرحضرت زبیرؓ بھی تھے۔ حضرت عمروبن العاصؓ نے محاصرہ فسطاط کے جملہ انتظامات ان کے سپرد فرمائے تھے۔ سات ماہ ہوگئے محاصرہ ٹوٹنے کو نہ آتا تھا۔ حضر ت زبیر ؓ نے ایک دن تنگ آکر کہا کہ آج میں مسلمانوں پر اپنی جان فدا کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر ننگی تلوار ہاتھ میں لئے اور قلعہ کی دیوار کے ساتھ سیڑھی لٹکائی اور اوپر چڑھ گئے تاکہ فصیل کو پھلانگ کر قلعے میں داخل ہوجائیں۔ چند اور صحابہ نے بھی ساتھ دیا۔ فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔ تمام فوج نے جواباً ساتھ دیا ۔فسطاط کی سرزمین نعرہ ہائے تکبیر سے دہل اُٹھی۔ عیسائی سمجھے کہ مسلمان قلعے کے اندر گُھس آئے ہیں وہ بدحواس ہوکر بھاگے۔ دریں اثناء حضرت زبیرؓ نے موقع پاکر قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ اسلامی فوج اندر داخل ہوگئی اور مقوقس شاہ مصر کی درخواست پر ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ طے پایا۔
خلفاء کا اعتماد
حضرت عمرؓ نے حضرت زبیرؓ کی ذہانت وفراست اور آپ کی خدمات کے باعث انتخاب خلافت کمیٹی میں آپ کا بھی نام مقررفرمایا تھا ۔ حضرت عثمان ؓکے زمانہ میںحضرت زبیرؓ بڑھاپے کی عمر میں داخل ہوچکے تھے، اس لئے خاموشی سے باقی زندگی بسرکردی۔ حضرت عثمان ؓ آپؓ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔چنانچہ اپنی خلافت کے زمانہ میں حضرت عثمانؓ جب شدیدنکسیر پھوٹنے سے بہت زیادہ بیمار ہوگئے۔ اس سال حج پر بھی نہیں جاسکے اور اپنی نازک حالت کی بناء پر ذاتی وصیت تک بھی کردی تو قریش کے بعض لوگوں نے عرض کیا کہ اپنے بعد جانشین مقرر کر دیں۔ آپؓ نے مشورہ کرتے ہوئے فرمایا کسے جانشین کروں؟ اس سلسلہ میں حضرت زبیرؓ کا نام آنے پر حضرت عثمانؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جہاں تک میرا علم ہے وہ سب سے بہتر ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کو بھی بہت زیادہ پیارے تھے۔(13)
۳۵ ہجری میں فتنہ پردازوں نے حضرت عثمان ؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ تو حضرت زبیرؓ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ کو خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے بھجوایا۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت زبیرؓ نے رات کے وقت نماز جنازہ ادا کرکے ان کی وصیت کے مطابق مضافاتِ مدینہ میں سپردخاک کیا۔
جنت کی بشارت
آپ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک انسان تھے حضرت زبیرؓ کو رسول اللہﷺ نے آپ کی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی اور وہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔
حضرت زبیرؓ نے ۳۶ ھ میں ۶۴ برس کی عمر میں جام شہادت نوش فرمایا۔ ایک دفعہ رسول کریمﷺ، ابو بکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ،طلحہؓ اور زبیرؓ کے ساتھ حراء پہاڑ پر تھے۔ اس میں حرکت پیدا ہوئی رسول اللہﷺ نے فرمایا اے حراء !تھم جا کہ تجھ پر سوائے نبی، صدیق اور شہید کے کوئی نہیں۔ (14)
حضرت زبیرؓ فرمایا کرتے تھے کہ میرے جسم کا کوئی عضوایسا نہیں جو رسول اللہﷺکی معیت میں زخمی نہ ہوا ہو۔ (15)
خشیّت الہٰی
حددرجہ احتیاط اور خشیّت الہٰی کا یہ عالم تھا کہ آپ آنحضرتﷺ کی روایات بھی کثرت سے بیان نہیں کرتے تھے۔ایک دفعہ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا کہ دیگر صحابہ کی طرح کثرت سے احادیث کیوں بیان نہیں کرتے فرمایا جب سے اسلام لایا ہوں رسول اللہﷺ سے جدا نہیں ہوا۔ مگررسول اللہﷺکی اس تنبیہہ سے ڈرتا ہوں۔ کہ’’ جس نے میری طرف غلط بات منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘(16)
خداخوفی، حق پسندی، بے نیازی، سخاوت اور ایثار حضرت زبیرؓ کے خاص اوصاف تھے۔آپ کی شجاعت اور مردانگی کا ذکر گزر چکا ہے۔ اسکندریہ کے محاصرہ نے طول کھینچا توآپ نے سیڑھی لگا کر قلعے کی فصیل پارکرنا چاہی ساتھیوں نے کہا کہ قلعے میں سخت طاعون کی وَبا ہے؟آپ نے بے دھڑک فرمایا کہ ہم بھی طعن و طاعون کے لئے ہی آئے ہیں۔ پھرموت کا کیا خوف یہ کہا اور سیڑھی لگا کر دیوار پر چڑھ گئے۔(17)
حضرت زبیر ؓ کو رسول اللہﷺنے جو حواری رسول کا لقب عطافرمایا تھا۔آپؐ کے اس ساتھی میں آنحضورﷺ کے پاکیزہ اخلاق جلوہ گر تھے۔ امانت ودیانت کا یہ عالم تھا کہ لوگ کثرت سے امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔
فیاضی و عطا
حضرت زبیرؓ مالدارانسان تھے۔ مگر اس سے کہیں بڑھ کر وہ فیاض تھے۔آپؓ کے ایک ہزار غلام تھے جو روزانہ اجرت پر کام کرکے خاص رقم لے کر آتے تھے مگرکبھی آپؓ نے یہ مال اپنے اوپر خرچ کرنا پسند نہ کیا بلکہ جو آتا وہ خدا کی راہ میں صدقہ کردیتے۔
اصل ذریعہ معاش تجارت تھا۔ مال غنیمت سے بھی اس بہادرمجاہد نے بہت حصّے پائے۔ آپ کے تمام اموال کا تخمینہ اس زمانے میں پانچ کروڑ دولاکھ درہم مکانات اور جائیداد غیرمنقولہ کی صورت میں تھا۔ رسول کریم ﷺنے بھی آپ کو مدینہ میں ایک وسیع قطعہ برائے مکان اور بنی نضیر کی اراضی میں سے بھی ایک قطعہ زمین عطا فرما یا تھا۔(18)مقام جُرف اور وادی عقیق میں بھی آپ کی جاگیر تھی۔جو حضرت ابوبکرؓ نے عطا کی تھی۔
تربیت اولاد
اولاد سے بہت محبت تھی۔ اور ان کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنے نو بیٹوں کے نام بدر اوراحدمیں شہید ہونے والے بزرگ صحابہ کے نام پر رکھے جیسے عبداللہ ؓ،حمزہؓ،جعفرؓ۔ اس تمنا کے اظہار کیلئے کہ خداکی راہ میں قربان ہوجائیں۔(19)اور ان میں بھی اپنی طرح شجاعانہ رنگ پیداکرنا چاہتے تھے۔ جنگ یرموک کے وقت حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی عمر صرف دس سال تھی۔ حضرت زبیرؓ انہیں جنگ بد رمیں ساتھ لے گئے اور گھوڑے پر سوار کرکے میدان جنگ میں ایک آدمی کے سپردکیا ۔ تاکہ جنگ کے ہولناک مناظر دیکھ کر ان میں جرأت پیدا ہو۔اسی تربیت کا اثرتھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اپنے وقت کے بہادر اورشجاع انسان ٹھہرے۔
آپ کی طبیعت میں سادگی تھی۔ مال ودولت کی فراوانی کے باوجود اسراف کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ البتہ آلاتِ حرب کا بہت شوق تھا۔ جو یقینا جہاد کی محبت کی وجہ سے تھا۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جو شورش ہوئی اس میں آپ کی رائے بھی قاتلین عثمانؓ سے قصاص کے حق میں تھی ۔ جبکہ بلوہ کی صورت میں ہونے والی اس شہادت کے قاتلوں کی تعیین اور بار ثبوت اپنی جگہ ایک مسئلہ تھی۔ اس اختلاف رائے میںہی حضرت عائشہؓ او رحضرت علیؓ کے مابین جنگ جمل میں آمنا سامنا ہوا۔ حضرت زبیر ؓ اور حضرت طلحہؓ حضرت عائشہؓ کے ہمراہ تھے۔حضرت علیؓ نے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ اگر آپ ہمارا ساتھ نہیں دیتے تو ہمارے خلاف بھی کسی کی مدد نہ کریں حضرت زبیرؓ نے عرض کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں آپؓ کے مقابلہ سے دستبردار ہوجائوں۔حضرت علی ؓ نے کہا کہ میں کیسے نہ پسند کروں گا جبکہ آپ ؓ رسول اللہﷺکے پھوپھی زاد ہیں اور دیگر فضائل بیان کئے جس پر زبیرؓ راضی ہوگئے۔ (20)پھر حضرت ابن عباسؓ وغیرہ نے بھی توجہ دلائی تو آپ نے رائے بدل لی اور میدان جنگ سے واپس لوٹ آئے اس دوران ایک ظالم نے آپ پر حملہ کرکے شہید کر دیا۔ حضرت علیؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ زبیرؓ کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو۔
اس طرح حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ طلحہ ؓ اور زبیرؓ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ ۔وَ نَزَ عْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِینَ(الحجر:47) کہ ہم ان (جنتیوں) کے سینوں سے کینہ نکال باہر کریں گے۔ وہ آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے بھائی بھائی ہوں گے۔
جنگ جمل میں کنارہ کشی کے باوجود بعض فتنہ پردازوں نے آپ کو سازش سے شہید کیا۔ نیزہ کے پہلے حملہ کے بعد حضرت زبیرؓ نے دفاع کیا تو حملہ آور کو اندازہ ہوگیا کہ وہ بچ نہیں سکے گا تب اس نے اللہ کا واسطہ دے کر امان چاہی تو آپ نے تلوار روک لی۔اس نے پھر ساتھیوں کی مدد سے آپؓ کو شہید کیا۔(21)
حضرت زبیرؓ کی وفات پر حضرت حسانؓ بن ثابت نے اپنے اشعار میں ان کو خوب خراج تحسین پیش کیا ہے۔
اَقَامَ عَلیٰ عَھْد النَّبِیِّ وَھَدْیِہٖ حَوَارِیُّہ وَالقَولُ بِا لفِعْلِ یَعْدِلُ
ھُوَالفَارِسُ المََشھُورُ وَالبَطَلُ الَّذِی یَصُوْلُ اِذَا مَا کَانَ یَوْمٌ مُحَجَّلٗ
اِذَا کَشَفَتْ عَنْ سَا قِھَا الحَرْبُ حَشَّھَا بَاَ بیَضََ سَبَّا قٌ اِلَیْ الْمَوتِ یَر مُلٗ(22)
یعنی کہ حواری رسول ﷺحضرت زبیرؓ نے نبی کریمﷺکی سنت اور آپ کے عہد پر خوب قائم رہ کر دکھا دیا اور وہ قول کو فعل کے برابر کرتے تھے یعنی جو کہتے تھے اس پر عمل کرتے۔وہی مشہور شہ سوار اور بہادر انسان تھے کہ جب دن روشن ہوتا تو وہ حملہ آور ہوتے تھے۔(رات کو حملہ نہ کرتے)جب جنگ میں گھمسان کا رن ہوتا تو وہ اسے دہکا کر سفید کرتے اور دوڑتے ہوئے پہلے موت کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے۔
حضرت زبیرؓ بیان کرتے تھے کہ رسول کریمﷺنے میرے لئے اور میری اولاد کیلئے بھی دعا کی تھی ۔ رسولؐاللہ نے فرمایا’’تم میں سے جس کا واسطہ زبیرؓ سے پڑے تو زبیرؓاسلام کا ستون ہے۔(23)
حضرت عمرؓ فرماتے تھے اگر میں کوئی عہدکروں یا ترکہ کی وصیت کسی کے حق میں کروں تو پسند کروں گا کہ زیبرؓ کے حق میں کروں کہ وہ ارکان دین میں سے ہے۔
حوالہ جات
-1
اصابہ جز3ص 6
-2
ابن سعد جلد3ص107،مجمع الزوائد جلد 9ص 150،متنخب کنزالعمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 70
-3
ابن سعد جلد3ص102
-4
اسد الغابہ جلد2ص197
-5
مجمع الزوائد جلد9ص 151
-6
اسد الغابہ جلد2ص 197،ابن سعد جلد3ص 102
-7
بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر
-8
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 69،بخاری کتاب المغازی
-9
بخاری کتاب المناقب باب مناقب زبیرؓ،استیعاب جلد 2ص 91
-10
ابن ہشام جلد 3ص 385
-11
ابن سعد جلد 3ص 104
-12
بخاری کتاب المناقب باب مناقب زبیرؓ
-13
مجمع الزوائد جلد 9ص 150
-14
فتوح البلدان ص 220
-15
بخاری کتاب المناقب باب مناقب الزبیرؓ
-16
مسلم کتاب الفضائل باب فضائل طلحہ و الزبیرؓو اسد الغابہ جلد 2ص 197
-17
ترمذی کتاب المناقب باب منی عضوا للہ الاو قد جرح
-18
ابن سعد جلد3ص 107
-19
ابن سعد جلد3ص 107
-20
استیعاب جلد 2ص 92،ابن سعد جلد 3ص 110
-21
ابن سعد جلد 3ص 110تا113
-22
مجمع الزوائد جلد 9ص 151
-23
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 68
حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ
نام ونسب
طلحہؓ کے والد عبیدا للہ بن عثمان اور والدہ صعبہ بنت عبد اللہ تھیں ساتویں پشت میں مرہ بن کعب پر آپ کا نسب رسول کریمﷺسے مل جاتاہے۔آپ کے والد آپ کے قبول اسلام سے قبل ہی وفات پاگئے تھے۔ البتہ والد ہ صاحبہ نے اسلام قبول کیا اورلمبی عمر پائی۔ شہادت عثمانؓؓ کے وقت بھی وہ زندہ تھیں۔ چنانچہ محاصرہ کے وقت یہ غیور خاتون اپنے گھر سے باہر آئیں اور اپنے بیٹے طلحہؓ سے کہا کہ وہ اپنے اثر سے معاندوں کو دور کریں حضرت صعبہؓ قریباً ۸۰ سال تک زندہ رہیں۔ حضرت طلحہؓ دعویٰ نبوت سے کوئی ۲۵ برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کا رنگ گندمی اور چہرہ خوبصور ت تھا۔ بال زیادہ تھے مگر بہت گھنگھریالے نہ تھے۔بالوں کو خضاب نہیں لگاتے تھے۔
قبول اسلام اور تکالیف
عرب دستو رکے مطابق ہوش سنبھالتے ہی تجارتی مشاغل میں مصروف ہوئے۔ جوانی میں دور دراز کے تجارتی سفروں کے مواقع میسر آئے اپنے تجارتی سفروں کے دوران شام کے شہر بصرہ میں ایک راہب سے ان کی ملاقات ہوئی اس نے پوچھا کہ کیا’’احمد‘‘ظاہر ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کون احمد؟اس نے کہاابن عبد اللہ بن عبد المطلب۔’’ اس نے اسی مہینہ میں ظاہر ہونا تھااور وہ آخری نبی ہے اور اس نے حرم سے ظاہر ہو کر کھجوروں والی جگہ کی طرف ہجرت کرنی ہے۔پس تم اس سے محروم نہ رہنا۔‘‘حضرت طلحہؓ کہتے ہیں اسی وقت سے یہ بات میرے دل میں گڑ گئی۔ واپس مکہ آیا تو رسول کریمؐ کی بعثت کا علم ہوا۔ صدیق اکبرؓ کی صحبت اور دوستی کے ذریعہ سے ایک روز رسول کریم ﷺکی خدمت میں بازیابی کا موقع ملا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں آپؓ نے اسلام قبول کرلیا۔(1)انہیںآغاز اسلام میں ابتدائی آٹھ ایمان لانے والوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ قبولِ اسلام کے بعد آپ بھی دیگر مسلمانوں کی طرح کفار کے مظالم کا تختۂ مشق ستم بنتے رہے۔آپ کا بھائی عثمان آپ کو اور آپ کے مسلمان کرنے والے ساتھی حضرت ابوبکر ؓ کو ایک ہی رسی میں باندھ کر مارا کرتا مگر یہ ظلم و استبداد استقامت کے ان شہزادوں میں کوئی لغزش پیدا نہ کرسکا۔(2) مکہ میں قیام کے دوران رسول کریمﷺنے حضرت طلحہؓ کو حضرت زبیرؓ کا بھائی بناکر روحانی اخوت کا نیا رشتہ عطا کیا۔ذریعہ معاش تجارت تھا۔ ہجرت مدینہ کے وقت آپ ملک شام اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر رسول کریمﷺاور حضرت ابوبکرؓ سے ملاقات ہوئی اور حضرت طلحہ ؓ کو ان کی خدمت میں کچھ شامی لباسوں کا تحفہ پیش کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔آپ نے اہل مدینہ کے یہ احوال بھی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں عرض کئے کہ وہ کس طرح بے چینی سے سراپا انتظار ہیں۔ خود حضرت طلحہؓ نے مکہ پہنچ کر تجارتی امو رسمیٹے ،اور پروگرام کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کے اہل و عیال کو لے کر مدینہ روانہ ہوئے۔ مدینہ پہنچ کر آپ حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے مہمان ٹھہرے اور رسول کریم ؐ نے حضرت ابیؓ بن کعب انصاری کے ساتھ آپ کا بھائی چارہ کروایا۔(3)
غزوات میں شرکت اور فدائیت
ہجرت کے دوسرے سال سے غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو غزوہ بدر میں حضرت طلحہؓ شامل نہ ہوسکے رسول اللہ ﷺنے آپ کو مدینہ میں شام کی طرف قافلہ قریش کی اطلاعات لینے کیلئے بھجوایا تھا۔ مگر رسول اللہﷺنے نہ صرف آپ کو بدر کے مال غنیمت سے حصہ عطافرمایا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ آپ جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ خدا کی خاطر جہاد کی نیت اور ارادے رکھتے تھے (4) ایک سال بعد میدان احد میں آپ کو اپنی دلی تمنائیں پوری کرنے کے خوب خوب مواقع ملے۔ چنانچہ احد کے میدان میں کفار کے دوسرے حملہ کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی صفوں میں بھگدڑ مچی تو صرف چند صحابہ ثابت قدم رہ سکے ۔حضرت طلحہؓ ان میں سرفہرست تھے جو رسول خداﷺ کے آگے وہاں سینہ سپر ہورہے تھے، جہاں بلا کارَن پڑ رہا تھا۔ کفار اپنی تمام تر قوت جمع کرکے بانی اسلام کو نشانہ بنارہے تھے۔ چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہورہی تھی۔ نیزے اور تلواریں چمک رہی تھیں ۔ بہادر اور جانباز طلحہ ؓنے جیسے عہد کررکھا تھا کہ خود قربان ہو جائیں گے مگر اپنے آقا پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے وہ تیروں کو اپنے ہاتھوں پہ لیتے تو نیزوں اورتلواروں کے سامنے اپنا سینہ تان لیتے ۔احد میں صحابہ کی ایک جماعت نے رسول کریمﷺکے ہاتھ پر موت پر بیعت کی تھی ان میں طلحہؓ بھی شامل تھے جنہوں نے اس عہدکا حق ادا کر دکھایا۔(5)
نبی کریمﷺ جنگ کا نقشہ ملاحظہ فرمانے کے لئے ذرا اونچا ہوکر حالات جنگ کو دیکھنا چاہتے تو حضرت طلحہؓ گھمسان کے اس رَن میں اپنے آقا کے لئے بے چین و بے قرار ہوجاتے اور عرض کرتے لَا تُشْرِفْ یُصِیْبُکَ سَھْمٌ مِنْ سِھَامِ الْقَوْمِ۔ رسول اللہﷺ آپ دشمن کی طرف جھانک کر بھی مت دیکھیے کہیں کوئی ناگہانی تیر آکے آپ کو لگ جائے نَحْرِی دُوْنَ نَحْرِکَ یَارَسُولَ اللّٰہِ۔ میرے آقا میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے سَپر ہے۔(6) کبھی دشمن ہجوم کرکے آپ پر حملہ آور ہوتے تو آپ شیروں کی طرح ایسے جھپٹتے کہ دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرکے آپ رسول ؐاللہ کو ان کے نرغے سے نکال لاتے۔ایک دفعہ ایک ظالم نے کسی ہلّہ میں موقع پاکر رسول کریمﷺپر تلوار کا بھرپور وار کیا۔ حضرت طلحہؓ نے اپنے ہاتھ پر لیا اور انگلیاں کٹ کر رہ گئیں تو زبان سے کوئی آہ نہیں نکلی بلکہ کہا کہ بہت خوب ہوا کہ طلحہؓ رسول خداﷺ کی حفاظت میں ’ٹنڈا ‘‘ہوگیا۔ ’’طلحۃ الشلائ‘‘ کے نام سے آپؓ مشہور تھے(7) یعنی ٹنڈا طلحہ اور بجاطور پر آپ کو حفاظت رسولؐ میں ٹنڈا ہونے پر فخر تھا۔الغرض حضرت طلحہؓ اسی جانبازی اور بہادری سے رسول اللہﷺ کی حفاظت پر کمر بستہ رہے۔یہاںتک کہ دیگر صحابہ بھی مدد کو آپہنچے تو مشرکین کے حملہ کی شدت میں کچھ کمی آئی۔ رسول خدا ؐ کو حضرت طلحہ ؓنے اپنی پشت پر سوار کیا اور اُحد پہاڑی کے دامن میں ایک محفوظ مقام پر پہنچادیا اس موقع پر رسولؐاللہ نے فرمایا کہ طلحہؓنے آج جنت واجب کرلی۔ حضرت طلحہؓ کا سار ا بدن زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ صدیق نے آپ کے بدن پر ستر سے زیادہ زخم شمارکئے آپ کہا کرتے تھے کہ احد کا دن تو طلحہؓ کا دن تھا۔ خود رسولؐ اللہ نے آپ کی جانبازی کو دیکھ کر آپ کو ’’طلحۃ الخیر‘‘ کا لقب عطافرمایا کہ طلحہؓ توسراسر خیروبھلائی کا پتلا نکلا اور یہ تو مجسم خیر ہے ۔ حضرت عمرؓ آپ کو صاحب احد کہہ کر خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے کیونکہ احد کے روز حفاظتِ رسولؐ کا سہرا آپ ہی کے سرتھا۔ نیزآپ کو خود اپنی اس غیرمعمولی خدمت پر بجاطور پر فخرتھا اور خاص انداز سے یہ واقعہ سنایا کرتے تھے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ احد میں ایسا وقت بھی آیا کہ دائیں جبریلؑ اوربائیںطلحہؓ کے سوا کوئی نہ تھا۔(8)غزوہ احد کے بعد کے غزوات میں بھی حضرت طلحہؓ نمایاں خدمات کی توفیق پاتے رہے۔
حدیبیہ فتح مکہ اور حنین میں بھی آپ شریک تھے اور غزوہ احد کی طرح حنین میں بھی جب لوگوں کے پائوں اکھڑگئے تو طلحہؓ ثابت قدم رہے۔ ۹ ہجری میں قیصر روم کے حملہ کی خبر سن کر رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو غزوہ تبوک کی تیاری کا حکم دیا۔حضرت طلحہ ؓ نے اس موقع پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر ایک بیش بہا رقم پیش کردی اور بار گاہِ رسالت سے فیاض کا لقب پایا۔ اسی دوران منافقین نے مسلمانوں کے خلاف ایک یہودی کے مکان پر جمع ہوکر ریشہ دوانیاں شروع کردیں تو رسول کریمﷺ نے حضرت طلحہؓ کو یہ فرض سونپا کہ وہ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جاکر ان لوگوں کا قلع قمع کریں۔ آپ کو کامیابی کے ساتھ یہ خدمت سَرانجام دینے کی توفیق ملی۔ (9)
وصال رسول ﷺاور خلافت ابوبکرؓ
حجۃ الوداع میں بھی حضرت طلحہؓ اپنے آقا کے ہمرکاب تھے۔حج سے واپسی پر مدینہ پہنچ کر رسول کریمﷺ کا وصال ہوا۔ دیگر صحابہ کی طرح اس عظیم سانحہ سے حضرت طلحہؓ کو جو صدمہ پہنچا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کیلئے مشورہ ہورہا تھا ،عاشق رسول ﷺحضرت طلحہؓ جیسا جری انسان اپنے آقا کی جدائی میں دل گرفتہ کسی گوشہ تنہائی میں آنسوئوں کا نذرانہ پیش کررہا تھا۔
خلافت سے اخلاص و وفا
حضرت ابوبکرؓ خلیفہ الرسول منتخب ہوئے تو طلحۃ الخیر ان کے دست وبازو ثابت ہوئے۔ آپؓ محض للہ جس بات کو حق سمجھتے بے لاگ اپنی رائے پیش کردیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت ابوبکرؓ نے اپنی آخری بیماری میں حضرت عمرؓکو خلیفہ منتخب کیا۔ تو یہ حضرت طلحہؓ ہی تھے جنہوں نے حضرت عمرؓ کی طبیعت کی سختی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ سے یہ عرض کی کہ آپ خدا کو کیا جوا ب دیں گے کہ اپنا جانشین کسے مقرر کرآئے ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ کا فیصلہ بھی چونکہ خالصتاً تقویٰ پر مبنی تھا آپؓ نے بھی کیاخوب جواب دیا فرمایا ’’میں خدا سے کہوں گا کہ میں تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر مقرر کرآیا ہوں جوان میں سب سے بہتر تھا۔‘‘ واقعات نے یہی فیصلہ درست ثابت کیا کہ حضرت عمرؓ ہی اس منصب کے لئے سب سے زیادہ اہل تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت طلحہؓ کو ان کی بھر پور اعانت اور نصرت کی توفیق عطافرمائی۔(10)
حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں مفتوح علاقوں کی زمینیں مجاہدین میں تقسیم کرنے کی بجائے بیت المال کی ملکیت قرارد ینے کی تجویزدی اور مفتوح لوگوں سے لگان وصول کرنے کی رائے سامنے آئی تاکہ اس کے ذریعہ مجاہدین کی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ بظاہر یہ ایک نئی رائے تھی اس لئے صحابہ کی ایک بڑی جماعت اس کے حق میں نہیں تھی اور انہوں نے زمینوں کی تقسیم کی تائید کی تھی۔ تین روز تک اس مسئلہ پر بحث ہوئی۔بالآخر حضرت طلحہ ؓ نے حضرت عمرؓ کے موقف کی بھر پور حمایت کی اور آخری فیصلہ یہی ہوا کہ زمینیں تقسیم نہ کی جائیں بلکہ بیت المال کی ہی ملکیت رہیں۔
معرکہ’’نہاوند‘‘ کے موقع پر حضرت عمر ؓ نے ا یرانی ٹڈی دل سے مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں سے مشورہ چاہا تو حضرت طلحہؓ نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ’’ آپ امیر المؤمنین ہیںبہترجانتے ہیں ہم غلام تو آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔ جو حکم ہوگا ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ہم نے بار بار آزمایا کہ اللہ تعالیٰ انجام کار آپ کو کامیابی عطا فرماتا ہے۔‘‘
حضرت عمر ؓ بھی آپ کی اصابت رائے کے قائل تھے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے جن چھ اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی انتخاب خلافت کے لئے مقررفرمائی تھی کہ وہ اپنے میں جس پر اتفاق کریں اسے خلیفہ منتخب کرلیں۔ اس کمیٹی میں حضرت طلحہ ؓ بھی شامل تھے ۔ حضرت طلحہؓ کی بے نفسی، تواضع اور ایثار کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنی رائے حضرت عثمانؓ کے حق میں دے کر انہیں اپنے اوپر ترجیح دی اور اُن کا نام اس منصب کے لئے پیش کردیا۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمان ؓبن عوف کی رائے اور حضرت طلحہؓ کی تائید سے حضرت عثمانؓ ہی خلیفہ منتخب ہوئے۔
حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت کے آخری سالوں میں جب شورش عام ہوئی۔ تو حضرت طلحہؓ نے مشورہ دیا کہ اس فتنے کی تحقیق کے لئے پورے ملک میں وفود بھیجے جائیں۔ یہ رائے بہت صائب تھی۔ چنانچہ ۳۵ ھجری میں محمدؓ بن مسلمہ، اسامہ ؓبن زید، عمارؓ بن یاسر اور عبداللہؓ بن عمرو ملک کے مختلف حصوں میں تفتیش کے لئے روانہ کئے گئے۔ ان تحقیقات کا خلاصہ یہ تھا کہ کوئی قابل اعتراض بات انہوں نے نہیں پائی۔ (11)اس سلسلہ میں ابھی کچھ عمل درآمد نہ ہونے پایا تھا کہ مفسدین نے مدینہ آکر قصر خلافت کا محاصرہ کرلیا۔حضرت عثمانؓ ذاتی طور پر منافقین کے مقابلہ پر کوئی مدافعانہ کاروائی پہلے کرنے کے حق میں نہیں تھے۔البتہ وعظ و نصیحت کرتے رہے۔ اس موقع پر حضرت طلحہؓ خلیفہ وقت کی اخلاقی مدد کرسکتے تھے وہ انہوں نے کی۔ مثلاً ایک موقع پر حضرت عثمانؓ نے باغیوں کے سامنے اپنے فضائل و مناقب بیان کرکے طلحہؓ جیسے کبار صحابہ سے اس کی تائید چاہی تو محاصرین کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت طلحہؓ نے اعلانیہ اور کھلم کھلا محاصرین کے سامنے حضرت عثمان ؓ کی تائید کی۔جب محاصرہ زیادہ خطرناک ہوگیا تو حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کی طرح حضرت طلحہؓ نے بھی اپنے صاحبزادے محمدؐ کو خلیفہ وقت کی حفاظت کے لئے قصرِ خلافت بھجوایا۔جب مفسدین نے حملہ کرنے میں پہل کردی تو محمد بن طلحہؓ نے بھی اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق ان کا مقابلہ کیا۔(12)اور دوسرے معدد وچند محافظین کے ساتھ مل کر مفسدین کے سیلاب کو روکے رکھا مگر چند بدبخت دوسری طرف سے حضرت عثمانؓ کے گھر میں گُھس گئے اور خلیفہ راشد پر حملہ کرکے ان کی درد ناک شہادت کا واقعہ سامنے آیا۔ دیگر صحابہ کی طرح حضرت طلحہؓ کو بھی اس سانحہ سے سخت صدمہ پہنچا۔وہ جہاں حضرت عثمانؓ کے لئے عفوورحم کی دعائیں کرتے وہاں مفسدین کے مظالم دیکھ کر خدا کی بارگاہ میں ان کی گرفت کیلئے التجا کرتے۔
حضرت طلحہؓ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ خشیّت الہٰی اور محبت رسول سے آپ کا پیمانہ لبریز تھا۔ حضرت طلحہؓ نے اپنے مال و جان سے خدمت دین میں جس طرح سے اپنی دلی تمنائیں اور مرادیں پوری کیں اس پر خدائے ذوالعرش نے بھی گواہی دی۔ چنانچہ جب آیت رِجَالٌ صَدَقُوا مَاعٰہَدُواللّٰہَ عَلَیہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّنتَظِرُ ( الاحزاب :24) نازل ہوئی۔ اس میں ان مردان خدا کا تذکرہ تھا جنہوں نے اللہ سے اپنے عہد سچ کردکھائے اور اپنی منتیں پوری کیں اور کچھ ہیں جو انتظار میں ہیں۔رسول ِخداﷺنے حضرت طلحہؓ سے فرمایا کہ اے طلحہؓ! تم بھی ان خوش نصیب مردان وفامیں شامل ہو جو اپنی قربانی پوری کرنے کی انتظار میں ہیں۔(13) حضرت طلحہؓ بڑے مالدار تاجرتھے ۔اس کے ساتھ فراخ دل اورسخی انسان بھی تھے۔
انفاق فی سبیل اللہ
غزوہ تبوک کے موقع پر آپ کو دل کھول کر خرچ کرنے کی توفیق ملی تھی اور اسی موقع پر آنحضورﷺنے آپ کو فیاض کے لقب سے یادفرمایا تھا۔(14)آپ کے ہم عصر قیس بن ابی ہاضم کہا کرتے تھے کہ میں نے طلحہؓ سے زیادہ کسی کو خدا کی راہ میں بے لوث مال خرچ کرنے میں پیش پیش نہیں دیکھا۔غزوہ ذی القرد میں چشمۂ بیسان کے پاس سے مجاہدین کے ساتھ گزرتے ہوئے حضرت طلحہؓ نے اسے خرید کر خدا کی راہ میں وقف کردیا تھا۔ اپنی جائیداد سات لاکھ درہم میں حضرت عثمان ؓکو فروخت کی اور سب مال خدا کی راہ میں خرچ کردیا۔آپ کی بیوی سودہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ ایک دفعہ حضرت طلحہؓ کو اُداس دیکھ کر وجہ پوچھی کہ کہیں مجھ سے تو کوئی خطا سرزد نہیں ہوگئی تو فرمانے لگے نہیں ایسی توکوئی بات نہیں دراصل میرے پاس ایک بہت بڑی رقم جمع ہوگئی ہے اور میں اس فکر میں ہوں کہ اُسے کیا کروں۔ میں نے کہا اسے تقسیم کروادیجیئے۔آپ نے اسی وقت اپنی لونڈی کو بلایا اور چار لاکھ کی رقم اپنی قوم کے مستحقین میں تقسیم کرادی۔(15)حضرت طلحہؓ بنو تمیم کے تمام محتاجوں اور تنگ دست خاندانوں کی کفالت کیا کرتے تھے۔ لڑکیوں اور بیوگان کی شادیوں میں ان کی مددکرتے ۔ مقروضوں کے قرض ادا کرے۔ ایک دفعہ حضرت علیؓ نے کسی کو یہ شعر پڑھتے سنا
فَتًی کَانَ یُدْنِیِْہِ الغِنْیٰ مِنْ صَدِیِقِہٖ اِذً امَّاھُوَا اسْتَغنٰی وَیُبْعِدُہُ الفَقْرٗ
یعنی میرا ممدوح ایسا شخص تھا کہ دولت و امارت اسے اپنے دوست کے اور قریب کر دیتی تھی جب بھی اسے دولت و فراخی نصیب ہوتی۔ اور غربت وفقر اسے اپنے دوستوں سے دور رکھتے یعنی کبھی تنگی میں بھی کسی سے سوال نہ کرتے۔ حضرت علیؓ نے یہ شعر سنا تو فرمایا ’’خدا کی قسم! یہ صفت حضرت طلحہؓ میںخوب پائی جاتی تھی۔‘‘(16)
ایثارو مہمان نوازی
مہمان نوازی حضرت طلحہؓ کا خاص وصف تھا۔ ایک دفعہ بنی عُذرہ کے تین مفلوک الحال افراد نے اسلام قبول کیا۔ رسول کریمﷺنے پوچھا کہ صحابہؓ میں سے کون ان کی کفالت اپنے ذمہ لیتا ہے۔حضرت طلحہؓ نے بخوشی حامی بھرلی اور ان تینوں نو مسلموں کو اپنے گھر میں لے گئے اور وہیں ٹھہرایا اور ان کی میزبانی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ موت نے انہیں آپ سے جدا کیا۔اُن میں سے دو ساتھی تویکے بعد دیگرے دوغزوات میں شہید ہوئے اور تیسرے طلحہؓ کے گھر میں ہی وفات پاگئے۔ طلحہؓ کو جو خدا کے رسولﷺ کے ان مہمانوں سے دلی محبت اور اخلاص پیداہوچکا تھااس کا نتیجہ تھا کہ مہمانوں کی وفات کے بعد بھی خواب میں آپ کی اُن سے ملاقاتیں ہوئی۔ ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ وہ تینوں آپ کے ساتھ ہی جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ مگر جو ساتھی جو سب سے آخر میں فوت ہوا وہ سب سے آگے ہے۔ اور سب سے پہلے مرنے والا سب سے پیچھے ہے۔انہوں نے تعجب سے رسول کریمؐ سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو حضورﷺنے فرمایا کہ جو بعد میں مرا اُسے زیادہ نیک اعمال کی توفیق ملی اس لئے وہ پہلوں سے بڑھ گیا۔اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت طلحہ ؓنے اپنی صحبت سے بھی ان نومسلموں کی تربیت اپنے روحانی دسترخوان کے علاوہ انہیں خوب فیض عطاکیااور وہ جنتی ٹھہرے۔ (17)
حضرت طلحہؓ دوستی اخوت کے رشتے میں بھی کمال رکھتے تھے۔ حضرت کعب بن مالک انصاریؓ کو غزوہ تبوک میں شامل نہ ہوسکنے کے باعث مقاطعہ کی سزاہوئی تھی۔ جب رسول اللہﷺنے ان کی معافی کا اعلان کیا اوروہ آنحضرت ؐ کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو مجلس میں سے حضرت طلحہؓ دیوانہ وار دوڑتے ہوئے ان کے استقبال کو آگے بڑھے اور مصافحہ کرکے انہیں مبارکباد عرض کی۔ حضرت کعبؓ انصاری نے بھی حضرت طلحہ ؓکا اس اعلیٰ خلق کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ یادکیا کرکے کہتے تھے کہ ا س موقع پر مہاجرین میں سے کسی صحابی نے اس والہانہ گرمجوشی کا میرے ساتھ مظاہرہ نہیں کیا جس طرح حضرت طلحہؓ وفورِ جذبات میں اُٹھ کر دوڑے آئے۔(18)
شادی اور اولاد
حضرت طلحہؓ کی پہلی شادی حضرت حمنہ بنت حجش سے دوسری حضرت ام کلثوم بنت ابی بکرسے تیسری شادی فارعہ بنت ابوسفیان سے اورچوتھی رقیہ بنت ابی امیہ سے ہوئی۔ان چاروں بیویوں کی بہنیں رسول اللہﷺ کی ازواج تھیں۔یوں آپ رسول اللہﷺ کے ہم زلف تھے۔ آپ کے اخلاق کا ایک خوب صورت نقشہ آپ کی اہلیہ اُم ابان نے کھینچا ہے۔ انہیں بہت رشتے آئے تھے مگر انہوں نے حضرت طلحہؓ کی کئی شادیوں کے باوجودان کے ساتھ نکاح کو ترجیح دی ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی وجہ حضرت طلحہؓ کے اخلاقِ فاضلہ ہیں۔ وہ فرماتی تھیں کہ میں طلحہؓ کے ان اوصاف کریمانہ سے واقف تھی کہ وہ ہنستے مسکراتے گھر واپس آتے ہیں اور خوش و خرم باہر جاتے ہیں۔ کچھ طلب کروتو بخل نہیں کرتے اورخاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے۔ نیکی کرو تو شکرگذار ہوتے ہیں اور غلطی ہوجائے تو معاف کردیتے ہیں۔(19) بلاشبہ یہی وہ اخلاق ہیں جن کے بارہ میں ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفی ﷺنے فرمایا تھا کہ خَیْرُکُم اَحْاَسِنُکُمْ اَخْلاَقاً کہ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہیں۔حضرت طلحہؓ کی کئی بیویوں سے اولاد تھی ۔ حضرت حمنہ بنت حجش سے ایک بیٹا محمد نامی بہت عبادت گزار تھا اور سجاد لقب سے مشہورتھا۔ ایک بیٹا یعقوب بہت زبردست شہ سوار تھا جو واقعہ حرّہ میں شہید ہوگیا۔ حضرت ام کلثوم ؓ بنت ابوبکرؓ سے دو بیٹے اور ایک بیٹی عائشہ تھی۔آپؓ کی ایک بیٹی ام اسحاق سے حضرت امام حسنؓ نے شادی کی جس سے طلحہ نامی بیٹاہوا۔ حضرت حسن ؓ کی وفات کے بعد حضرت امام حسین ؓنے ان سے شادی کی اور ایک بیٹی فاطمہ ان سے ہوئیں۔(20)
شہادت اورفضائل
حضرت طلحہؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے یعنی ا ن دس اصحاب رسولﷺمیں سے جن کو آپؐ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی اوربوقت وفات انہیں پروانہ خوشنودی عطا فرمایا۔رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کی شہادت کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا’’جو کوئی زمین پر چلتے پھرتے شہید کو دیکھنا چاہے وہ طلحہؓ کو دیکھ لے۔‘‘
شہاد ت عثمانؓ کے بعد حضرت طلحہؓ بھی ان اصحاب میں شامل تھے جو قتل عثمانؓ کا فوری انتقام لینے کے حق میں تھے۔ اسی جذباتی دور میں وہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ جنگ جمل میں بھی شامل ہوگئے۔ لیکن جب حضر ت علیؓ نے انہیں بلاکر ان کے فضائل اور سبقتوں کا ذکر کیا تو حضرت طلحہؓ بھی حضرت زبیرؓ کی طرح مقابلہ سے دستبردار ہوگئے۔لشکر سے جدا ہو کر پچھلی صفوں میں چلے گئے اس دوران کوئی تیر ٹانگ میں لگا جس سے عرق النساء کٹ گئی اور اس قدر خون جاری ہوا کہ وفات ہوگئی۔اس وقت آپ ؓکی عمر64برس تھی یہ 75ھ کا واقعہ ہے۔( 21)
غزوہ احد میں جب حضرت طلحہؓ رسول اللہﷺکو پشت پر اٹھاکر چٹان پر لے گئے تو رسول کریمؐ نے فرمایا اے طلحہؓ!جبریلؑ آئے ہیں وہ تمہیں سلام کہتے ہیں اور وہ یہ خوشخبری دے رہے ہیں کہ قیامت کے دن تمہیں کوئی خوف نہیں ہوگا اور ہر خوف سے تمہاری حفاظت ہوگی۔(22)
حوالہ جات
1-
اصابہ جز 3ص 290،اصابہ جز8ص 125،استیعاب جلد 2ص 320
2-
اسد الغابہ جلد3ص 59
3-
ابن سعد جلد3ص 216
4-
اسد الغابہ جلد3ص 59
5-
الاصابہ جز 3ص 290
6-
بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ احد
7-
اسد الغابہ جلد3ص 59
8-
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 65،اسد الغابہ جلد 3ص 59
9-
ابن ہشام جلد 4ص 171
-10
ابن سعد جلد3ص274
-11
کامل ابن اثیر مترجم جلد 3ص 233،طبری جلد 6ص 2930
-12
طبری جلد 6ص 3010
13-
اسد الغابہ جلد3ص 61
14-
اسد الغابہ جلد 3ص 59
15-
ابن سعد جلد 3ص 220
16-
اسد الغابہ جلد3ص 61
-17
ابن ماجہ کتاب تعبیر الرئویا باب تعبیر رئویا
-18
بخاری کتاب المغازی غزوہ تبوک
-19
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد5ص 66
20-
ابن سعد جلد 3ص 214،اصابہ جز3ص 292
-21
استیعاب جلد 2ص 319-20
-22
منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد5ص67
حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ
نام ونسب
حضرت حمزہ ؓ خاندان قریش کے معزز اور صاحب وجاہت نوجوان تھے ۔ سردار قریش عبدالمطلب کے صاحبزادے اور رسول اللہ ﷺکے چچا تھے۔ آپ کی والدہ ہالہ بنت اُھیب بنو زھرہ قبیلہ سے تھیں اور رسول اللہ ﷺکی والدہ حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن تھیں۔ حضرت حمزہؓ رسول کریمؐ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ ثوُیبہ لونڈی نے دونوں کو دودھ پلایا تھا۔
حضرت حمزہ ؓ رسول اللہ ﷺسے دو یاچار سال قبل پید اہوئے۔ اور آنحضرتؐ کے دعویٰ نبوت کے بعد ابتدائی پانچ سالوں میں دارارقم کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی۔(1)
قبول اسلام
حضرت حمزہؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی دلچسپ ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کی بات ہے وہ زمانہ مسلمانوں کیلئے سخت ابتلائوں اور مصائب کا زمانہ تھا جس میںنبی کریمﷺ کی ذات بھی کفار کے مظالم سے محفوظ نہ تھی۔ ایک روز تو بدبخت ابو جہل نے حد ہی کردی۔کوہ صفا کے نزدیک آنحضرتؐ کو دیکھ کر سخت مشتعل ہوا اور گالی گلوچ کے بعدایذاء دہی پر اتر آیا۔ آپؐ کو ذلت اور کمزوری کے طعنے دیتا رہااور دست درازی کی۔ رسول کریمﷺنے یہ سب کچھ خاموشی اور صبر سے برداشت کیا اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ اتفاق سے عبد اللہ بن جدعان کی لونڈی یہ سارا واقعہ دیکھ رہی تھی۔ ابو جہل تو سیدھا خانہ کعبہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد حضرت حمزہ ؓ تیر کمان اٹھائے شکار سے واپس لوٹے۔ وہ بڑے ماہر تیر انداز اور شکار کے بہت شوقین تھے۔ بالعموم شکار سے واپس آکر وہ خانہ کعبہ کاطواف کرتے پھر کچھ دیر سرداران قریش کی مجلس میں بیٹھتے اور گھر واپس آتے۔ اس روز کوہ صفا کے پاس پہنچے ہی تھے کہ عبد اللہ بن جدعان کی لونڈی نے رسول کریمﷺکی مظلومیت کا یہ واقعہ بڑے درد سے سنایا اور کہا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ کے بھتیجے محمدؐ کے ساتھ ابو الحکم بن ہشام نے جو ظالمانہ سلوک کیا کاش آپ اسے دیکھتے تو آپ کو ضروران پر ترس آتا۔ اس نے حضوؐر کو یہاں بیٹھے دیکھا تو آپؐ کو گالیاں دینی شروع کردیں اور جسمانی اذیت پہنچائی اور (حضرت)محمدؐ نے جواب میں کچھ بھی تو نہ کہا۔ یہ سن کر حضرت حمزہؓ کا خون کھولنے لگا وہ اسی وقت سیدھے خانہ کعبہ پہنچے اور طیش میں آکر اپنی کمان ابو جہل کے سر پر دے ماری اور اسے کہنے لگے کہ تم آنحضرؐت کو برا بھلا کہتے اور ان پر ظلم کرتے ہو تو سن لو آج سے میں بھی اس کے دین پر ہوں اور آپؐ کا مسلک میرا مسلک ہے اگر ہمت ہے تو مجھے اس دین سے لوٹا کر دکھائو۔ ابو جہل اس حملے سے کچھ زخمی بھی ہوگیا تھا، بنو مخزوم کے بعض لوگ اس کی مدد کیلئے اٹھے لیکن ابو جہل نے انہیں روک دیا کہ مبادا اس سے کوئی بڑا فتنہ پیداہو۔
حضرت حمزہؓ کے قبول اسلام کے بعد قریش نے سمجھ لیاکہ اب مسلمان مضبوط ہوگئے ہیں اور وہ کچھ عرصہ ایک حد تک مسلمانوں کی ایذاء رسانی سے رکے رہے۔(2)
ہجرت مدینہ اور پہلے اسلامی علم بردار
حضرت حمزہ ؓ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پہلے کلثومؓ بن ہدم کے مکان پر اور پھر سعدؓ بن خیثمہ کے ہاں قیام کیا۔ مکہ میں رسول اللہ ﷺنے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو حمزہؓ کا اسلامی بھائی بنایا تھا۔ مدینہ میں بھی یہ رشتہ اخوت قائم رہا ۔ غزوئہ احد پر جاتے ہوئے حضرت حمزہؓ نے حضرت زیدؓ کے حق میں وصیت فرمائی تھی۔(3)
مدینہ میں قریش کی نقل وحرکت اور ریشہ دوانیوں سے باخبر رہنے کیلئے نبی کریمﷺکو مہمات کی ضرورت پیش آئی جن میں حضرت حمزہؓ کو غیر معمولی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ چنانچہ اسلام کی پہلی مہم آپ کی سرکردگی میں ساحل سمندر کی طرف بھجوائی گئی تھی جس کا مقصد ابو جہل کی سرکردگی میں شام سے آنے والے قریش کے قافلہ کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا تھا جو تین صدسواروں پر مشتمل تھا۔ اس مہم میں تیسصحابہؓ حضرت حمزہؓ کی کمان میں تھے۔ اسی طرح اسلام کا پہلا جھنڈا بھی حضرت حمزہؓ کو ہی عطا کیا گیا۔ غزوئہ بنو قینقاع میں بھی اسلا م کے علمبردار حضرت حمزہؓ ہی تھے۔(4)
خود داری اور دعا کی برکت
ہجرت مدینہ کے بعد دیگر مسلمانوں کی طرححضرت حمزہؓ کے مالی حالات بھی دگرگوں تھے۔ حضرت عبد اللہؓ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک روز انہی ایام میں حضرت حمزہؓ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کوئی خدمت میرے سپرد فرما دیجئے تاکہ ذریعہ معاش کی کوئی صورت بھی پید اہو۔نبی کریمﷺنے یہ پسند نہ فرمایا کہ آپ کے اقارب اس تنگی کے زمانہ میں مسلمانوں پر بوجھ ہوں۔آپؐ نے حضرت حمزہؓ سے فرمایا کہ ’’اپنی عزت نفس قائم اور زندہ رکھنا زیادہ پسند ہے یا اسے مار دینا۔‘‘ حضرت حمزہؓ نے عرض کیا’’میں تو اسے زندہ رکھنا ہی پسند کرتا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’پھر اپنی عزت نفس کی حفاظت کرو گویا محنت وغیرہ کے ذریعہ سے کام لو۔ ‘‘(5)
نبی کریمﷺنے اس دور میں آپ کو دعائوں پر زور دینے کی بھی تحریک فرمائی اور بعض خاص دعائیں سکھائیں۔ چنانچہ حضرت حمزہؓکی روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایاتھاکہ اس دعاکو لازم پکڑو۔اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَ سئَلُکَ بِاسْمِکَ الاَ عظَمِ وَرِاضْوَانِکَ الاَکبَرِ۔یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے اسم اعظم(سب سے بڑے نام)کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں اور تجھ سے تیری سب سے بڑی رضامندی چاہتا ہوں۔(6)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت حمزہؓ کو دعائوں پر کتنا ایمان اور یقین تھا اور کیوں نہ ہوتا جبکہ ان دعائوں ہی کی برکت سے بظاہر اس تہی دست اور تہی دامن مہاجر کو اللہ تعالیٰ نے گھر بار اور ضرورت کا سب کچھ عطافرمایا کچھ عرصہ بعد حضرت حمزہؓ نے بنی نجّار کی ایک انصاری خاتون خولہؓ بنت قیس کے ساتھ شادی کی۔ نبی کریمﷺان کے گھر میں حضرت حمزہؓ سے ملاقات کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرت خولہؓ بعد میں نبی کریمﷺ کی اس دور کی محبت بھر ی باتیں سنایا کرتی تھیں۔ فرماتی تھیں ایک دفعہ آنحضرتؐ ہمارے گھر تشریف لائے میں نے عرض کیا اے خدا کے رسولؐ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ ؐ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن آپ کو حوض کوثر عطا کیا جائے گا جو بہت وسعت رکھتا ہوگا۔ حضورﷺنے فرمایا ’’ہاں یہ سچ ہے ۔اور یہ بھی سن لو کہ مجھے عام لوگوں سے کہیں زیادہ تمہاری قوم انصار کا ا س حوض سے سیراب ہونا پسند ہے۔‘‘ خولہؓ کہتی تھیں میں نے حضورﷺکی تواضع کرتے ہوئے اپنا وہ برتن جس میں کھانا یا شائد کچھ میٹھا تیار کیا گیا تھا ۔حضورﷺکی خدمت میں گرم گرم پیش کردیا۔حضورؐنے اس برتن میں اپناہاتھ ڈالا تو گرم کھانے سے آپ کا ہاتھ جل گیا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ’’خوب !‘‘پھر فرمانے لگے کہ ’’انسان کا بھی عجیب حال ہے اگر اسے ٹھنڈک پہنچے تو بھی کہتا ہے خوب ہے اور اگر گرمی پہنچے تو بھی ایسا ہی اظہار کرتا ہے‘‘۔(7)
اس حدیث سے نبی کریمﷺکے صبرورضا کی وہ خاص کیفیت ظاہر ہوتی ہے جو عام لوگوں میں پائی نہیں جاتی۔
غزوہ بدر میں بہادری
حضرت حمزہؓ بڑے قدآور وجیہہ اور بہادر نوجوان تھے اور انہی صفات سے آپ اپنے ماحول میں پہچانے جاتے تھے۔حضرت حمزہؓ کی شجاعت اور بہادری کے جوہر اسلامی غزوات میں خوب کھل کر سامنے آئے۔ حضرت علیؓ غزوہ بدر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس میں کفار کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔ رات بھر رسو ل اللہ ﷺخدا کے حضور عاجزانہ دعائوں اور تضرعات میں مصروف رہے۔ جب کفار کا لشکر ہمارے قریب ہوا اورہم ان کے سامنے صف آرا ہوئے تو ناگاہ ایک شخص پر نظری پڑی جو سرخ اونٹ پر سوار تھا اور لوگوں کے درمیان اس کی سواری چل رہی تھی۔ رسو ل کریمﷺ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایااے علی ؓ حمزہؓجو کفار کے قریب کھڑے ہیں انہیں بلا کر پوچھو کہ یہ سرخ اونٹ والا ان سے کیا کہہ رہا ہے۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا اگر ان لوگوں میں کوئی شخص انہیں خیر بھلائی کی نصیحت کر سکتا ہے تو وہ سرخ اونٹ والاشخص ہے۔ اتنی دیر میں حضرت حمزہؓ بھی آگئے۔ انہوں نے آکر بتایا کہ وہ سرخ اونٹ والا شخص عتبہ بن ربیعہ تھا جو کفار کو لڑائی سے منع کر رہا تھا۔ جس کے جوا ب میں ابو جہل نے اسے کہا کہ تم تو بزدل ہو اور لڑائی سے ڈرتے ہو ۔ عتبہ نے جوش میں آکر کہا کہ آج دیکھتے ہیں بزدل کون ہے؟ پھر عتبہ نے مسلمانوں کو دعوت مبارزت دیتے ہوئے کہاکہ کوئی ہے جو دست بدست جنگ میں میرا مقابلہ کرے۔ اب انصار مدینہ کی وفا کا بھی امتحان تھا اور انہوں نے جو عہد اپنے پیارے آقا سے باندھا تھا آج اس کی خوب لاج رکھی اور سب سے پہلے انصار عتبہ کے مقابلہ کیلئے آگے بڑھے۔(8)
عتبہ کے ساتھ اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید بھی تھا جب انصار انکے مقابلے میں آئے تو عتبہ نے پوچھا تم کون لوگ ہو انہوں نے بتا یا ہم انصار مدینہ ہیں۔عتبہ کہنے لگا ہمیں تم سے کچھ غرض نہیں۔ ہم تو اپنے قبیلے کے لوگوں سے لڑنے کیلئے آئے ہیں۔ اس موقع پر ہمارے آقا مولیٰ حضرت محمدمصطفیؐ نے قائدانہ بصیرت،کمال دانش مندی اور عالی حوصلگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً اپنے عزیز و اقارب کو مقابلہ پر آنے کیلئے حکم فرمایا تو سب سے پہلے حضرت حمزہؓ اور حضرت علی ؓ کا نام لیا۔ آپؐ نے فرمایااے حمزہؓ کھڑے ہو جائو اور اے علیؓ! اٹھو ،اے عبیدہ! آپ مقابلے کیلئے نکلو۔ حضرت حمزہؓ ارشاد رسولﷺ کی تعمیل میںعتبہ کے مقابلے میں آگے بڑے اور اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔(9)
حضرت ابو ذؓر قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ حضرت حمزہؓ اور ان کے ساتھیوں نے جس شان کے ساتھ اس دعوت مبارزت کا جوا ب دیا تھا۔ اس کی طرف اشارہ کلام الٰہی میں بھی ہے کہ یہ دو قسم کے مد مقابل ہیں جو خد اتعالیٰ کی ذات کے بارہ میں برسرپیکار تھے۔ (10)
حضرت حمزہؓ کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ غزوہ بدر میں کفار میں دہشت ڈالنے کیلئے آپ نے شتر مرغ کا ایک پر کلغی کی طرح اپنی پگڑی میں سجا رکھا تھاجس کی وجہ سے وہ ہر جگہ نمایاں نظر آتے تھے۔حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف سے روایت ہے کہ امیہ بن خلف نے مجھ سے پوچھا کہ یہ شتر مرغ کی کلغی والا شخص بدر میں کون تھا میں نے کہا رسول اللہﷺکے چچا حمزہؓ بن عبدالمطلب۔ وہ بولے یہی وہ شخص ہے جو ہم پرعجیب طرح تباہی و بربادی لے کر ٹوٹ پڑا تھا۔(11)
چنانچہ سر ولیم میور نے بھی اپنی کتاب لائف آف محمد میں اس کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ کہ حضرت حمزہؓ نے اس روز خوب بہادری کے جوہر دکھائے۔ یہ بہادر سورما جدھر کا رخ کرتا ادھر موت کو بکھیرتا جاتا۔ بد ر میں قید ہونے والے مشرک قیدیوں نے بھی گواہی دی کہ ہمارے لشکر کا سب سے زیادہ نقصان اس شتر مرغ کی کلغی والے شخص یعنی حضرت حمزہؓ نے کیا ہے۔ (12)
غزوہ احد میں شجاعت
غزوہ احد میں بھی حضرت حمزہؓ نے شجاعت کے کمالات دکھائے۔ آپ کی یہ بہادری قریش مکہ کی آنکھوں میں سخت کھٹکی تھی ۔ یوں بھی غزوہ بدر میں حضرت حمزہؓ کے ہاتھوں قریش کا سردار طعیمہ بن عدی مارا گیا تھا۔ اس کے عزیزوں نے اپنے غلام وحشی سے یہ وعدہ کیا کہ اگر تم ہمارے چچا کے بدلے حمزہ کو قتل کردو تو تمہیں آزاد کر دیا جائے گا۔غزوہ احد میںسب سے پہلے مشرکین قریش کے نمائندے سباع بن عبد العزیٰ نے دست بدست جنگ کی دعو ت دی۔ سب سے پہلے خدا کا شیر حمزہؓ ہی اس کے مقابلے کیلئے آگے بڑھا اور اسے مخاطب کرکے کہا ’’اے سباع!ختنے کرنے والی ام انمار کے لڑکے!کیا تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا دشمن ہو کر آیاہے‘‘ اور پھر پوری قوت سے اس پر حملہ آور ہو کر اس کا کام تما م کردیا۔(13)
الغرض احد میں عام لوگ ایک ایک تلوار سے لڑ رہے تھے مگر حضرت حمزہؓ کے ہاتھ میں دو تلواریں تھیں اور وہ آنحضرتﷺکے سامنے کھڑے ہو کر آپؐ کا دفاع کر رہے تھے اور یہ نعرہ بلند کررہے تھے کہ میں خداکا شیر ہوں۔کبھی آپ دائیں اور بائیں حملہ آور ہوتے تو کبھی آگے اور پیچھے۔ اس حال میں آپ نے تیس کفار کو ہلاک کیا۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں جنگ احد میں جب اچانک حملہ سے لوگ پسپا ہوئے اور اس دوران میں نے حضرت حمزہؓ کو فلاں درخت کے پاس دیکھا۔ آپؓ کہہ رہے تھے میں اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر ہوں۔ اے اللہ!ان دشمنوں نے جو کچھ کیا میں اس سے براء ت کا اظہار کرتاہوںاور مسلمانوں کی پسپائی کیلئے معذرت خواہ ہوں۔اچانک ایک موقعہ پر آپ کو ٹھوکر لگی اور آپ پشت کے بل گر گئے۔ وحشی آپ کی تاک میں تھااسی وقت وہ آپ پر حملہ آور ہوا۔(14)وحشی کا اپنا بیان ہے کہ میں ایک چٹان کے پیچھے چھپ کر حمزہؓ پر حملہ کرنے کی تاک میں تھا جونہی وہ میرے قریب ہوئے میں نے تاک کر انہیں نیزہ مارہ جو ان کی ناف میں سے گزر تا ہوا پشت سے نکل گیا۔(15)
نعش کی بے حرمتی
عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ہند نے اپنے باپ کا انتقام لینے کیلئے (جو بدر میں حضرت حمزہؓ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا)یہ نذر مان رکھی تھی کہ مجھے موقع ملا تو میں حمزہ کا کلیجہ چبائوں گی۔ چنانچہ حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد اس نے واقعی ایسا کیا اور حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبا چباکر پھینک دیا۔(16)
حضرت عبد اللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے بعد ابو سفیان نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر بآواز بلند یہ اعلان کیا کہ ’’آج بدر کے دن کا بدلہ ہم نے لے لیا ہے اور تم کچھ نعشوں کا مثلہ کیا ہوا دیکھو گے، اگر چہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن یہ بات مجھے کوئی ایسی بری بھی نہیں لگی۔‘‘(17)
چنانچہ جب حضرت حمزہؓ کو دیکھا گیا تو ان کا کلیجہ نکال کر چبایا گیا تھا۔ نبی کریمؐ اس حال میں جب حضرت حمزہؓ کی نعش پر آکر کھڑے ہوئے تو فرمانے لگے ۔ ’’اے حمزہؓ! تیری اس مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھے کبھی نہیں پہنچے گی ۔ میں نے اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آج تک نہیں دیکھا ‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا ’’جبرائیل نے آکر مجھے خبر دی ہے حمزہؓ بن عبد المطلب کو سات آسمانوں میں ’اللہ اور اس کے رسول کا شیر‘لکھا گیا ہے۔‘‘(18)
آپؐ نے حضرت حمزہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اللہ کی رحمتیں تجھ پر ہوں جہاں تک میرا علم ہے آپ بہت ہی صلہ رحمی کرنے والے اور نیکیاں بجالانے والے تھے اور آج کے بعد تجھ پر کوئی غم نہیں۔‘‘(19)
یہ بھی فرمایا۔کہ قیامت کے دن حمزؓہ شہداء کے سردار ہوں گے۔میں نے فرشتوں کو حمزہؓ کو غسل دیتے دیکھا ہے۔(20)
حضرت علی ؓ اور زبیرؓ متذبذب تھے کہ حمزہؓ کی بہن صفیہؓ کو اس اندوہناک صدمے کی اطلاع کیسے کی جائے تب رسول کریمﷺنے حضرت صفیہؓ کے صبر کیلئے دعا کی چنانچہ انہوں نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا۔ (21)
حضرت حمزؓہ کاکفن
حضرت زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن جنگ کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک عورت بڑی تیزی سے شہداء کی نعشیں دیکھنے کیلئے جارہی ہے۔ نبی کریمﷺنے پسند نہ فرمایا کہ وہ عورت یہ وحشت ناک منظر دیکھے اور ارشاد فرمایا کہ اسے روکو۔ زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے غور سے دیکھا میری والدہ صفیہ تھیں۔ میں دوڑتے ہوئے انکے شہداء تک پہنچنے سے پہلے ان تک پہنچ گیا۔ وہ ایک تنومند بہادر خاتون تھیں مجھے دیکھتے ہی دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا اور کہا پیچھے ہٹو میں تمہاری کوئی بات نہیں مانوں گی۔ میں نے عرض کیا کہ خدا کے رسولﷺنے آپ کو روکنے کیلئے فرمایا ہے ۔ زبیر ؓکہتے ہیں تب وہ وہیں رک گئیں اور دو چادریں جو اپنے ساتھ لائیں تھیں نکال کر مجھے دیں اور کہنے لگیں یہ دو کپڑے میں اپنے بھائی حمزہؓ کے کفن کیلئے لائی ہوں، ان میں اسے کفن دینا۔ ہم ان چادروں میں حمزہؓ کو کفن دینے لگے۔ تو اچانک ہماری نظر حمزہؓ کے پہلو میں پڑے ہوئے اپنے ایک مسلمان انصاری بھائی پر پڑی جو جنگ میں شہید ہوا تھا اور اس کی نعش کا بھی مثلہ کیا ہوا تھا۔ ہمیں اس بات سے بہت حیاء آئی کہ ہم حمزہؓ کو تو دوچادروں کا کفن دیں اور انصار ی کو بے کفن ہی دفن کر دیں۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک چادر سے انصاری کو کفن دیتے ہیں۔ اب مشکل یہ آن پڑی کہ ایک چادر بڑی تھی اور ایک چھوٹی تھی چنانچہ ہم نے قرعہ ڈالا اور جس کے قرعہ میں جو چادر نکلی اس میں اس کو کفن دیا۔ (22)
کفن کے بعد نبی کریمؐ نے سب سے پہلے حضرت حمزہؓ کیلئے دعائے مغفرت کی۔(23)
حضرت حمزہؓ کے ساتھ ایک انصاری کا جنازہ رکھا گیا تھا۔ پھر ان کو اٹھا کر ایک اور میت کو ان کے پہلومیں رکھا گیا اور نبی کریمﷺ ان کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہے۔ پھر ان کو اٹھا کر ایک اور میت کو حمزہؓ کے پہلو میں رکھا گیا اور نبی کریمﷺان کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہے۔ اس طرح اس روز ستر مرتبہ رسول کریمﷺ نے دعائے مغفرت کی اور حضرت حمزہؓ کی میت ہر دفعہ حضورؐ کے سامنے رہی۔(24)
رسول اللہﷺ کے چچا اور مسلمانوں کے اس بہادر سردار حضرت حمزہؓ کی تدفین جس بے کسی اور کسمپرسی کے عالم میں ہوئی ۔ صحابہ بڑے دکھ کے ساتھ اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے ۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جس چاد رمیں حمزہؓ کو کفن دیا گیا تھا وہ اتنی چھوٹی تھی کہ سر کو ڈھانکتے تھے تو ان کے پائوں ننگے ہوجاتے تھے جب پائوں پر ڈالتے تھے تو سر ننگا ہو جاتا تھا۔ بعد میں فراخی کے دور میںحضرت خبابؓ وہ تنگی کا زمانہ یاد کرکے کہا کرتے تھے کہ حضرت حمزہؓ کا کفن ایک چادر تھی وہ بھی پوری نہ ہوتی تھی چنانچہ سر کو ڈھانک کر پائوں پر گھاس ڈالی گئی تھی۔(25)
حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ کا بھی اسی قسم کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ روزہ سے تھے افطاری کے وقت پر تکلف کھانا پیش کیا گیا جسے دیکھ انہیں عسرت کا زمانہ یاد آگیا اور کہنے لگے حمزہؓ ہم سے بہتر تھے مگر انہیں کفن کی چادر بھی میسر نہ آسکی تھی، اب یہ آسائشیں دیکھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ہمارے اجر ہمیں اسی دنیا میں تو نہیں دے دئیے گئے۔ یہ کہہ کر رونے لگے اور کھانا ترک کردیا۔(26)
حضرت حمزہؓ کی شہادت کا غم اور دعائے رسولﷺ
حضرت حمزہؓ کی جدائی مسلمانوں کے لئے یقینا ایک بہت بڑا صدمہ تھا لیکن غزوئہ احد میں تو ستر انصاری اورمہاجر شہید ہوئے تھے۔(27) اور یوں انصا رمدینہ کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ آنحضرتﷺنے اس موقع پر کمال حکمت عملی اور علم النفس کے باریک نکتہ سے انصارمدینہ کو ان کے اپنے صدمے بھلا کر ان کے رخ حضرت حمزہؓ کی شہادت کے عظیم قومی صدمے کی طرف موڑ دئیے اور پھر اپنے صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے انہیں نہایت خوبصورت انداز میں صبر کی تلقین بھی فرمادی۔
حضرت عبد اللہؓ بن عمر کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺجب احد سے واپس لوٹے تو آپ نے سنا کہ انصار کی عورتیں اپنے خاوندوں پر روتی اور بین کرتی ہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ ’’کیا بات ہے؟حمزہؓ کو کوئی رونے والانہیں۔‘‘ انصار کی عورتوں کو پتہ چلا کہ وہ حضرت حمزہؓ کی شہادت پر بین کرنے کیلئے اکٹھی ہوگئیں۔ تب نبی کریمﷺنے ان کو ہدایت فرمائی کہ ’’وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے والے کا ماتم اور بین نہ کریں۔‘‘ (28)
اس طرح آنحضرتﷺنے نہایت پر حکمت طریق سے انصار کی عورتوں کے جذبات کا بھی خیال رکھا اور انہیں اپنے خاوندوں اور بھائیوں کی جدائی پر ماتم سے روکنے کی بجائے حضرت حمزہؓ کے عظیم اور قومی صدمہ کی طرف توجہ دلائی جس کاسب سے بڑھ کر غم آپؐ کو تھا اور پھر حمزہؓ پر ماتم اور بیننہ کرنے کی تلقین فرماکر اپنا نمونہ پیش کرکے انہیں صبر کی مؤثر تلقین فرمائی۔
جہاںتک حضرت حمزہؓ کی جدائی کے غم کا تعلق ہے وہ آنحضرتﷺکو آخر دم تک رہا۔ چنانچہ حضرت حمزہؓ کا قاتل وحشی جب طائف کے سفارتی وفد میں شامل ہوکر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا تو حضورؐ نے اس سے پوچھا کہ تمہارا نام وحشی ہے اس نے اثبات میں جواب دیا۔ آپ ؐنے فرمایا کیا’’ تم نے حضرت حمزہؓ کو قتل کیا تھا۔‘‘ وحشی نے عرض کیا کہ یہ بھی درست ہے۔ اس پر حضرت رسول اللہ ﷺنے صرف اتنا فرمایا کہ ’’کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو‘‘(کہ تمہیں دیکھ کر مجھے اپنے محبوب چچا کی یاد آئے گی)(29)
بوقت شہادت حضرت حمزؓہ کی عمرانسٹھ سال تھی(30)رسولؐ اللہ نے خدا اور اس کے رسول کے شیر کا خطاب دیا اور بلاشبہ وہ اس لائق تھے جیسا کہ کعب ؓ بن مالک نے ان کی شہادت پر اپنے مرثیہ میں کہا تھا۔’’میری آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور حمزہؓ کی موت پر انہیں رونے کا بجا طور پر حق بھی ہے مگر خدا کے شیر کی موت پر رونے دھونے اور چیخ و پکار سے کیا حاصل ہو سکتا ہے وہ خدا کا شیر حمزہؓ کہ جس صبح وہ شہید ہوا دنیا کہہ اٹھی کہ شہید تو یہ جواں مرد ہوا ہے۔‘‘ اورآج ہمارے دل کی یہ آواز ہے۔
شہید حق کی نعش پہ نہ سر جھکا کے روئیے
وہ آنسوؤں کو کیا کرے لہو سے منہ جو دھو چکا
اے خدا کے شیر!اے شہید حق و صداقت آپ پر سلام،ہزاروں سلام!
حوالہ جات
1-
الاصابہ جزنمبر 2ص 37
2-
مجمع الزوائد جلد 9ص 267، سیرت ابن ہشام جلد نمبر2ص 48
3-
ابن سعد جلد نمبر3ص 9
4-
ابن سعد جلدنمبر 3ص 9,10
5-
مسند احمد جلد نمبر 2ص 175
6-
اصابہ جز نمبر 2ص 37
7-
مسند احمد جلدنمبر2ص 410
8-
مسند احمد جلد نمبر 1ص 117
9-
ابو دائود کتا ب الجہاد باب فی المبارزہ
10-
بخاری کتاب المغازی باب قتل ابو جہل
11-
ابن سعدجلد 3ص 10،مجمع الزوائد جلد 6ص 81
-12
اسد الغابہ فی جلد2ص 46بیروت
-13
بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہؓ
-14
ابن سعد جلد نمبر3ص 12،مستدرک حاکم جلد 3ص 199
واصابہ جز نمبر 2ص 37
-15
بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہؓ
-16
ابن سعد جلد نمبر 3ص 12
-17
مسند احمد جلد نمبر 1ص 463بیروت
-18
ابن ہشام جلد نمبر 3ص 171
-19
منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد5ص 169ابن سعد جلد نمبر3ص 13
-20
منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد5ص 169ابن سعد جلد نمبر 3ص 16
-21
ابن سعد جلد نمبر 3ص 14
-22
مسند احمد جلد نمبر 1ص 117
-23
ابن سعد جلد نمبر 3ص 11
-24
مسند احمد جلد نمبر 1ص 3,4
-25
مسند احمد جلد 2ص 396
-26
بخاری کتاب الجنائز باب اذالم یوجد الثوب
-27
ابن سعد جلد3ص 17
-28
مسند احمد جلد 2ص 84
-29
بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہ
-30
ابن سعد جلد 3ص 10
حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب
نام ونسب
دراز قد خوبصورت شکل گورا رنگ ،یہ تھے رسول خداﷺکے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف، جوعمر میں آپؐ سے دو تین سال ہی زیادہ تھے۔ ان کی والدہ نتیلہ بنت خباب بن کلیب وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے خانہ کعبہ کو ریشمی غلاف چڑھایا۔ کنیت ابو الفضل تھی۔ زمانہ جاہلیت سے قریش کے رؤسأ میں سے تھے۔ بنو ہاشم کے سپرد بیت اللہ کی ’’خدمت سقایہ‘‘یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور’’عمارۃ المسجد الحرام‘‘یعنی بیت اللہ کی آبادی اور قیام امن انہوں نے ورثہ میں پائی۔ دیگر تمام سرداران قریش اس خدمت میں حسب معاہدہ ان کے معاون و مددگار ہوتے تھے۔ اس لحاظ سے مکہ میں ایک شرف کا مقام انہیں حاصل تھا۔(1)
قبول اسلام اور تائید ونصرت
بالعموم حضرت عباسؓ کا زمانہ اسلام ان کی ہجرت مدینہ کے وقت خیال کیا جاتا ہے جو فتح مکہ سے معاً پہلے ہوئی لیکن فی الواقعہ انہوں نے مکہ میں بہت ابتدائی زمانہ میں اپنی بیوی ام الفضلؓ کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ مگر بیت اللہ کی اہم خدمات کی سعادت اور مکہ میں مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت کیلئے حضرت عباسؓ کا مکہ رہنا ایک دینی ضرورت تھی۔چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق مکہ میں ہی رہ کر اہم خدمات بجالاتے رہے۔
حضرت عباسؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ؓ کی روایت ہے کہ ان کے والد حضرت عباسؓ ہجرت مدینہ سے قبل اسلام قبول کر چکے تھے دوسری روایت کے مطابق ام الفضل ؓکے ساتھ حضرت عباسؓ نے اسلام قبول کیا تھا۔
اس دوسری روایت کی تائیدرسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام ابور افعؓ نے بھی کی ہے میں حضرت عباسؓ کا غلام تھا اور ان کے سارے گھرانے بشمول حضرت عباسؓ ان کی بیوی ام الفضل ؓاور میں نے آغاز میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ مگر عباسؓ کو(اپنے منصب کی وجہ سے) قوم قریش سے خدشات تھے او روہ ان کی اعلانیہ مخالفت پسند نہیں کرتے تھے اس لئے انہوں نے اپنا اسلام مخفی رکھا۔(2)
ام الفضلؓ مکہ میں حضرت خدیجہؓ کے معاً بعد اسلام لائی تھیں۔ رسول اللہﷺ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور آرام فرماتے تھے۔(3)
ابتدائی زمانہ میں حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کیلئے حضرت عمرؓ کی کوششوں کا بھی ذکر ملتا ہے جو بالآخر کامیاب ہوئیں۔ حضرت عمرؓان سے اپنی دوستی کی وجہ سے کہتے تھے کہ ’’آپ مسلمان ہوجائیں آپ کا قبول اسلام مجھے اپنے باپ خطاب کے اسلام سے بھی زیادہ محبوب ہے۔‘‘چنانچہ جب حضرت عباسؓ نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہﷺ بھی بہت خوش ہوئے۔ آپ کے آزاد کردہ غلام ابور افعؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کی خبردی جس پر خوش ہو کر رسول کریمﷺ نے انہیں آزاد کردیا۔(4)
پس رسول اللہ ﷺکی ہجرت مدینہ کے بعدمکہ میں حضرت عباسؓ کا قیام رسول کریمﷺ کی اجازت خاص کے ماتحت تھا۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ہجرت کے بعد مکہ میں کوئی خبر رسول اللہ ﷺپر مخفی نہیں رہتی تھی۔ حضرت عباسؓ سب حالات آپ کو لکھ کر بھجواتے تھے۔نیز ان کی موجودگی سے مکہ میں پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کو مدد اور تقویت حاصل ہوتی تھی۔ حضرت عباسؓرسول اللہ ﷺسے مدینہ آنے کی اجازت طلب کرتے رہتے تھے۔ مگر رسول کریمﷺنے آپ کو یہی لکھا کہ ’’آپ کا وہاں ٹھہرنا عمدہ جہاد ہے‘‘ چنانچہ وہ رسولؐ اللہ کے ارشاد پر مکہ ٹھہرے رہے۔(5)
رسول اللہ ﷺکی ہجرت مدینہ سے قبل حضرت عباسؓ کے قبول اسلام کی روایت دیگر تاریخی شواہد کی روشنی میں زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔
چنانچہ شعب ابی طالب کے زمانہ میں حضرت عباسؓ نے رسول کریمﷺ کا کھل کر ساتھ دیا اور آ پ کے ساتھ تین سال تک وہاںمحصور رہے جبکہ بنو ہاشم میں سے بعض دیگر ابو لہب وغیرہ کھل کر مخالفت کرتے رہے۔شعب ابی طالب کے دوران رسول کریمﷺ نے اپنی چچی ام الفضل ؓکو بیٹے کی بشارت دی انہوں نے حضرت عباسؓ کو جاکر بتایا تو وہ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐ نے ان کی پیشانی کا بوسہ لیا اپنے دائیں بٹھایا اورفرمایا ’’یہ میرے چچا ہیں جو چاہے وہ اپنا ایسا چچا مقابلہ پر لائے۔‘‘ حضرت عباسؓ نے جھینپتے ہوئے عرض کیایارسولؐاللہ! حضورؐ نے فرمایا ’’میں یہ کیوں نہ کہوں جبکہ آپ میرے چچا اور میرے والد کی نشانی ہیں اور چچا بھی والدہوتا ہے‘‘ پھر محاصرہ شعب ابی طالب کے دوران ہی ام الفضلؓ کے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا،اس کا نام آپؐ نے عبداللہ رکھا اور خود اسے گڑتی دی۔(6)
ابو طالب کی وفات کے بعد مدینہ ہجرت سے قبل رسول اللہ ﷺکا قابل اعتماد ٹھکانہ حضرت عباسؓ کا گھر تھا جہاں ذوالحجہ12ھ میںانصار کے نمائندوںنے آکر ملاقات کی اور حضرت عباسؓ کے مشورہ سے ہی حج کے بعد منیٰ کی رات ایک پہاڑی گھاٹی میںمخفی اورمحدود ملاقات طے ہوئی۔ عقبہ میں بارہ انصار کی اس پہلی بیعت سے قبل رسولؐ اللہ کے خیر خواہ اور نمائندہ کے طورپر حضرت عباسؓ ہی شریک ہوئے ۔ انہوں نے انصار سے کھل کر یہ بات کی کہ آپ لوگ رسول کریمؐ کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے رہے ہیں، اور محمدؐ ہم میں سب سے معزز اور قابل احترام ہیں۔ قبیلہ ان کی مکمل حفاظت کرتا ہے۔ اب تمہارا ان کو مدینہ لے کر جانا پورے عرب سے کھلم کھلا اعلان جنگ ہوگا۔ کیا تم اس کی طاقت رکھتے ہو۔ جب انصارمدینہ نے اپنے دلی جذبات کا مخلصانہ اظہار کیااور رسولؐ اللہ کی اطاعت ووفا اور حفاظت کایقین دلایا تو نبی کریمؐ نے کچھ وعظ کرنے کے بعد ان کی بیعت لی ۔ اس بیعت میں بھی حضرت عباسؓنہ صرف شامل ہوئے بلکہ ابن سعد کی روایت ہے کہ انہوں نے اس تاریخی بیعت کے وقت رسولؐ اللہ کا ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنا عہدبیعت از سر نوتازہ کیا۔
بعد کے زمانہ میں جب انصار مدینہ میں یہ سوال اٹھا کہ اس موقع پرسب سے پہلے کس نے بیعت کی تھی؟تو سب کی رائے ہوئی کہ حضرت عباسؓ سے پوچھا جائے انہوںنے اپنے ساتھ جن انصار کے حق میں بالترتیب رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی گواہی دی وہ حضرت برائؓ، حضرت ابوالہیثمؓ اور حضرت اسعدؓ تھے۔ (7)
اگلے سال حج کے موقع پرپھر ستر انصارجب اسی گھاٹی میں اکٹھے ہوئے اور بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی تو صر ف حضرت عباسؓ رسول کریمﷺکے ہمراہ تھے ۔آپؐ نے انصار سے فرمایا کہ’’ مشرکین کے جاسوس تمہارے پیچھے ہیں۔ اس لئے تمہارے نمائندے مختصر بات کریں تاکہ مشرک تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکیں۔‘‘(8)
حضرت عباسؓ کے اخفائے اسلام کی حکمت عملی
ابن اسحاق کی کعب بن مالکؓ سے یہ روایت محل نظر ہے کہ بیعت عقبہ کے وقت حضرت عباسؓاپنے دین پر تھے اورمحض اپنے بھتیجے کی تائید کیلئے آئے تھے۔(9) امر واقعہ یہ ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی تائید کیلئے آئے تھے اور ابن اسحاق کی یہ رائے حضرت عباس ؓ کے اسلام مخفی رکھنے کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ اس شدید مخالفت کے زمانہ میں ان کی یہی حکمت عملی رہی، انہوں نے اہل مدینہ کو عقبہ کی رات بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آج رات مکے والوں نے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں تم اپنی سواریوں کی گھنٹیاں بھی اتار دینا اور بیعت کے بعد اپنا معاملہ مخفی رکھنا۔ورنہ مجھے تمہارے بارے میں خوف ہے۔‘‘ چنانچہ اہل مدینہ نے حضرت عباسؓ سے یہ سب کچھ مخفی رکھنے کا وعدہ کیا۔ (10)
عقبہ ثانیہ کے بعد کفار مکہ کے سخت رد عمل سے بھی حضرت عباسؓ کے اخفاء کی حکمت سمجھ آجاتی ہے۔ رسول کریم ؐ نے لیلۃالعقبہ میں حضرت عباسؓ کی مکمل تائید و حمایت کو ہمیشہ یاد رکھا۔آپؐ فرماتے تھے ’’اس رات میرے چچا عباسؓ کے ذریعہ میری تائیدو نصرت کی گئی۔‘‘(11)
حضرت عباسؓ اپنے مخفی اسلام کی وجہ سے ہی جنگ بدر میں پہلے پہل لشکر کفار میں شامل نہیں ہوئے جب لشکر مرّا لظہران مقام پر پہنچا تو ابو جہل نے کہا کہ بنو ہاشم کے لوگوں کا اس لشکر میں شامل نہ ہونا فتح یا شکست دونوں صورتوں میں تمہارے لئے نقصان دہ ہے۔پس جیسے بھی ہو ان کو اس جنگ میں ضرور شامل کروخواہ زبردستی نکال کر ساتھ لے آئو ۔چنانچہ اہل مکہ واپس جاکر حضرت عباسؓ اور دیگر افراد بنو ہاشم کو ساتھ لائے اور انہیں لشکر کفار میں شامل کیا۔(12)
ادھر رسول کریمﷺکوبھی اس کی اطلاع ہوگئی ۔ چنانچہ حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے بدر کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا’’مجھے خوب علم ہے کہ بنی ہاشم وغیرہ کے بعض لوگ مجبور اً جنگ کیلئے مکہ سے نکالے گئے ہیں۔ ہمیں ان سے جنگ کی ضرورت نہیں۔ اسلئے جو عباس،طالب،عقیل اور نوفل کو جنگ میں پائے انہیں قتل نہ کرے۔‘‘(13)
بنو ہاشم کے مجبوراً جنگ میں شامل ہونے کے باوجود قریش کو اندیشہ ہائے دورودراز تھے کہ وہ کہیں رسولؐ اللہ کی تائید کرتے ہوئے انہیں نقصان نہ پہنچا دیں۔ چنانچہ انہوں نے دوران جنگ بنوہاشم کو حکیم بن حزام کے زیر نگرانی ایک الگ خیمہ میں رکھنے کا حتیاطی انتظام کیاتھا۔پھر جنگ کے دوران جب حضرت عباسؓ او رعقیلؓ کو عبیدؓ بن اوس انصاری نے گرفتار کیا تو رسول کریمﷺنے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ ان کی جانیں بچ گئیں اور عبیدؓکو فرمایا کہ ان دونوں کی(صحیح سالم)گرفتاری کیلئے فرشتے نے تمہاری مدد کی ہے۔ (اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ ان کی حفاظت کیلئے دعائیں کر رہے تھے)۔
جنگ کے بعد حضرت عباسؓ نے پھرواپس مکہ جاکر اپنے مفوضہ فرائض انجام دینے تھے۔ اسلئے ضروری تھا کہ ان کے اخفائے اسلام کی حکمت عملی جاری رکھتے ہوئے ان سے دیگر کفار قیدیوں جیسا معاملہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عباسؓسے دیگر قیدیوں کا ساسلوک کرتے ہوئے رسیوں میں جکڑ کر باندھا گیا۔رسول کریمﷺکو اپنے مسلمان چچا کے قیدمیں جکڑے ہونے کی حالت میں کراہنے کی آواز سن کر بے چینی سے نیند نہیں آرہی تھی۔ صحابہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے حضرت عباسؓ کے بندھن ڈھیلے کر دئے۔ رسول کریمﷺکو پتہ چلا تو فرمایا کہ سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کردو۔رہائی کیلئے حضرت عباسؓسے فدیہ کا مطالبہ بھی اسی لئے تھا کہ انہیں دیگر قیدیوں جیسا ہی سمجھا جائے۔اس پر وہخود تعجب سے کہہ اٹھے’’یارسولؐ اللہ!میں تو دل سے مسلمان ہوں۔مجھے مجبوراًجنگ میں لایا گیا ہے۔‘‘ نبی کریمؐ نے کیا پرحکمت جواب دیافرمایا ’’اللہ آپ کے اسلام کو جانتا ہے اور اگر یہ سچ ہے تو اللہ تعالیٰ آپؓ کو ضرور اس کی جزا عطا کرے گا۔مگر ہم تو ظاہر پر فیصلہ کریں گے اسلئے آپ اپنا فدیہ ادا کریں۔‘‘ چنانچہ ان سے 20اوقیہ سونا فدیہ لیا گیا۔یہ ایک مضبوط حکمت عملی تھی تاکہ اس کے بعد بھی حضرت عباسؓ مکہ میں رہ کر رسول اللہ ﷺ کیلئے کام کر سکیں۔ بعض صحابہ نے اس حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے ، حضرت عباسؓ کے مسلمان ہونے کے ناطہ سے رسول کریمؐ سے درخواست بھی کی کہ حضرت عباسؓ کا فدیہ معاف کر دیا جائے لیکن رسول کریمؐنے بوجوہ یہ درخواست قبول نہیں فرمائی۔(14)
اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان کے مطابق اس کے بعد حضرت عباسؓ کو اس فدیہ سے کئی گنا زیادہ مال عطا کرنے کے سامان ہوئے ۔جیسا کہ اسیر ان بدر کے بارہ میں سورۃ انفال کی آیت71میں بھی وعدہ تھا۔حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت عباسؓ اور دیگر اسیران بدر کے بارہ میں اتری تھی کہ’’ اے نبی!تمہارے ہاتھ میں جو قیدی ہیں انہیں کہہ دے کہ اگر اللہ تمہارے دلوں میں ’’خیر ‘‘معلوم کرے گا تو جو (فدیہ) تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا کرے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
خود حضرت عباسؓ بیان کرتے تھے کہ مجھ سے بیس اوقیہ سونا فدیہ لیا گیا تھا اس کی جگہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیس غلام عطا کئے جن میں سے ہر ایک کی قیمت بیس اوقیہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے زمزم عطا کیا جو مکہ کے سب اموال سے بڑھ کرمجھے عزیز ہے۔(ابو لہب کی موت کے بعد یہ ذمہ داری براہ راست حضرت عباسؓ کے حصہ میں آئی تھی) اور اب میں اپنے رب سے اس آیت میں کئے گئے آخری وعدہ مغفرت کا امیدوار ہوں۔
فتح بحرین کے بعد جب اموال غنیمت آئے تو رسول کریمﷺ نے حضرت عباسؓ سے کہا کہ اس میں سے جتنا چاہیںلے لیں حضرت عباسؓ نے ایک گٹھڑی بنالی جو اتنی بھاری تھی کہ اکیلے اٹھا نہ سکے اور رسول کریمؐ سے کہا کہ اٹھواد یں۔ حضوؐر مسکرائے اور فرمایا کہ گٹھڑی کو ہلکا کرکے جتنی طاقت ہے اتنا خود ہی اٹھائیں۔ حضرت عباسؓ یہ مال لے کر کہتے جاتے تھے کہ اللہ کا وعدہ تھا جو پورا ہوا کہ ’’جو تم سے لیا اس سے بہتر دے گا۔‘‘(15)
غزوات میں شرکت
بدر کا بدلہ لینے کیلئے کفار مکہ نے اگلے سال پھر جنگ کی تیاری کی اور احد کا معرکہ پیش آیا۔جس کیلئے تین ہزار کا لشکر لے کر وہ مکہ سے نکلے جس میں تین ہزار اونٹ سات سو زرہ پوش اور دو سو گھڑ سوار تھے،حضرت عباسؓ نے یہ تیاریاں دیکھیں تو بنی غفار کا ایک شخص اس شرط سے اجرت پر لیا کہ وہ ان کاخط تین دن کے اندررسول کریمﷺکو مدینہ پہنچائے۔اس میں اطلاع تھی کہ قریش کا تین ہزار کا مسلح لشکرمدینہ کی طرف روانہ ہوچکا ہے آپ اپنا انتظام کرلیں قباء میں حضوؐر کو یہ خط ملاآپ نے فوری طور پر صحابہ ؓسے مشورہ کیا۔چنانچہ رسول اللہ ﷺنے نواح مدینہ کے حالات معلوم کرنے کیلئے کچھ لوگ مقرر کر دئے جو آپؐ کو تازہ خبر پہنچاتے رہیں اورمدینہ کی حفاظت اور پہرہ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور بالآخر مسلمانوں کے مشورے سے مدینہ کے باہر جاکر دشمن کے مقابلہ کا فیصلہ کیا گیا اور احد میں یہ معرکہ پیش آیا۔اس طرح حضرت عباسؓ کی بروقت اطلاع سے مدینہ اچانک حملہ سے محفوظ رہا۔(16)
فتح خیبر کے موقع پر حضرت عباسؓ مکہ میں ہی تھے ۔ایک شخص حجاج نامی نے مسلمانوں کی شکست کی خبر اڑا دی۔حضرت عباسؓ سخت پریشان ہوئے۔ بعد میں خیبر کی فتح کا علم ہوا تو رسول کریمؐ سے ملاقات کیلئے مکہ سے روانہ ہوئے ۔چنانچہ رسول کریمﷺ سے جحفہ مقام پر ان کی ملاقات ہوئی۔ نبی کریمؐ نے حضرت عباسؓ کو غنیمت خیبر سے حصہ عطا فرمایا اور دو سو وسق (قریباً نو صد من) کھجور سالانہ بھی مقررفرمائی۔ اس کے بعد حضرت عباسؓ جملہ غزوات فتح مکہ،حنین،طائف اور تبوک میں رسول کریمؐ کے ساتھ شریک رہے۔(17)
سفر فتح مکہ میں جب حضرت عباسؓ کی جحفہ میں رسول کریمﷺ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا یَا عَمِّ اِنَّکَ خَاتَمُ المُھَاجِرِینَ فِی الھِجْرَۃِ کَمَا اَنَا خَاتَمُ النَّبِیٖنَ فِی النُّبُّوَۃِ(18)کہ اے میرے چچا! آپ ہجرت میں اسی طرح خاتم المہاجرین ہیں جس طرح میں نبوت میں خاتم النبین ہوں۔ گویا حضرت عباسؓ کا ارادہ ہجرت کے باوجود رسولؐ اللہ کے ارشاد پر مکہ میںرہ کر اہم ذمہ داریاں ادا کرنا آپ کی ہجرت کی شان بڑھا گیاکہ آپ سب مہاجرین میں ہجرت کے لحاظ سے بلند مرتبہ اور افضل ٹھہرے۔ اس موقع پر خاتم کے معنے بھی خوب کھل کر سامنے آگئے کہ اس سے محض زمانی لحاظ سے آخری فرد مراد نہیں ہوتا بلکہ فضیلت و مرتبت میں آخری کا مفہوم ہوتا ہے ورنہ حضرت عباسؓ کے بعد ہمیشہ کیلئے ہجرت کا خاتمہ اور مہاجر کا لقب ممنوع ماننا پڑے گا۔ جو خلاف واقعہ ہے۔
فتح مکہ کی رات جب حضرت عمرؓ گشت کے دوران ابو سفیان کو گرفتار کر لائے تو حضرت عباسؓ نے اسے پناہ دی اور یوں مکہ کی قیادت اس طرح ٹوٹ گئی کہ فتح مکہ کے موقع پر کفار کی طرف سے کوئی بڑی مزاحمت نہ ہوسکی۔
غزوہ حنین میں حضرت عباسؓ رسول اللہﷺ کے شانہ بشانہ ہوکر لڑے۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ ’’میں اور رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو سفیان بن حارث آپؐ کے ساتھ چمٹے رہے اور آپؐ سے کسی حال میں جدا نہیں ہوئے۔ حضوؐر سفید خچر پر سوار تھے۔ حضرت عباسؓ نے اس کی لگام تھام رکھی تھی ۔ بنوہوازن کے تیر اندازوں کے اچانک حملہ سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی ۔ حضرت عباسؓ جو بلند آواز تھے وہ کمال حکمت سے جوش دلا کر اصحاب رسولﷺ کو آواز دینے لگے کہ کہاں ہیں حدیبیہ کے موقع پر بیعت کرنے والے ؟حضرت عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میری اس آواز پر صحابہ میدان میں اس طرح واپس پلٹے جیسے گائے اپنے بچے کی آواز پرپلٹتی ہے۔وہ لبیک لبیک کہتے ہوئے آئے اور کفار سے ڈٹ کرمقابلہ کرنے لگے۔ پھر حضرت عباسؓ نے انصارکو آواز دی۔ پھر باری باری ان کے قبائل کے نام لے کر بلایا یہاں تک کہ میدان جم گیااور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’اب میدان جنگ خوب تپ گیا ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے کنکروں کی مٹھی لے کر کفار پر پھینکی اور فرمایا’’ محمدﷺکی قسم اب یہ پسپا ہوگئے ۔‘‘(19)
مقام وفضائل
رسول کریمﷺحضرت عباسؓ کی بہت عزت اور اکرام فرماتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا’’عباسؓ میرے بقیہ آبائواجدادمیں سے ہیں۔ جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور چچا بھی باپ کے قائمقام ہوتا ہے۔‘‘(20)
حضرت عباسؓ نہایت دانش مند اور صائب الرائے تھے اور خاندان قریش کے رحمی رشتوں کے نمائندہ اور انکے ساتھ احسان کا سلوک کرنے والے تھے۔
رسول کریمﷺ نے فرمایا عباسؓ قریش میں سے زیادہ سخی اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ستر غلام آزاد کئے۔(21)
رسول اللہ ﷺکے ہاں حضرت عباسؓ کاایک خاص مقام و مرتبہ تھا اور صحابہؓ ان کی یہ فضیلت خوب پہچانتے تھے ۔وہ ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے پر عمل کرتے تھے۔ (22)
ایک دفعہ حضرت عباسؓ بیمار ہوئے اور موت کی تمنا کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺتشریف لائے اور فرمایا ’’موت کی تمنا نہ کرو کیونکہ اگر تو تم نیک ہو اور تمہیں اور مہلت مل جائے تو مزید نیکیوں کی توفیق مل جائے گی اور اگر معاملہ برعکس ہے اور پھر تمہیں مہلت مل گئی تو شاید اپنی کوتاہیوں سے معافی کی توفیق مل جائے اس لئے موت کی خواہش نہ کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت عباسؓ رسول اللہ ﷺکی دعا سے صحت یاب ہوئے اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کا زمانہ پایا۔ صحبت رسولﷺ کے نتیجہ میں انہیںدین کی گہری سمجھ عطا ہوئی اور وہ راضی برضا ہوگئے تھے۔ ان سے مروی احادیث سے بھی یہ بات جھلکتی ہے کہ ان کے رجحانات اور احساسات و خیالات کیسے پاکیزہ تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ’’اس شخص نے ایمان کا مزا چکھ لیا جواللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمدﷺ کو رسول ماننے پر راضی ہوگیا۔‘‘(23)
حضرت عباسؓ نے ایک دفعہ رسول کریمﷺسے عرض کیا کہ’’ میں آپ کا چچا ہوں اور عمر رسیدہ موت قریب ہے آپ مجھے کوئی ایسی چیزسکھائیں جو اللہ کے ہاں مجھے فائدہ دے۔‘‘ رسول کریمﷺ نے فرمایا’’ اے عباسؓ! تو میرا چچا ہے اور میں اللہ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا لیکن آپ اپنے رب سییہدعا کیاکرو۔اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ اے اللہ میں تجھ سے عفو وعافیت کا طلبگار ہوں۔یہ بات حضورؐ نے تین بار فرمائی۔ سال گزرنے پر انہوں نے پھر یہ سوال کیا توآپؐ نے انہیں یہی جواب دیا۔(24)
حضرت عباسؓ صاحب رؤیا و کشوف تھے۔ رسولؐ اللہ کی وفات کی پیشگی خبر انہیں بذریعہ رؤیا ہوئی جو انہوں نے خود رسول کریمﷺ سے بیان کی کہ میں نے سورج یا چاند کو دیکھا کہ شایداسے مضبوط رسیوں کے ساتھ زمین سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا ہے۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا’’ اس سے مراد تمھارا بھتیجا ہے۔‘‘(25)
خلفائے راشدین کا حسن سلوک
رسول کریمﷺ نے اپنے اہل بیت کے بارہ میں ارشاد فرمایا کہ’’ کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ میرے اہل بیت اور ان کے قرابت داروں سے میری وجہ سے محبت نہ کرے۔‘‘(26)
رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعدحضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے زمانہ میں جب حضرت عباسؓ اور دیگر اہل بیت کی طرف سے وراثت رسول کا سوال اٹھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ’’رسول کریم ؐ نے فرمایا تھا کہ ہمار ا ترکہ صدقہ ہوگا اور محمدؐ کے اہل بیت اس میں سے اپنے گزارے کے اخراجات لیا کریں گے۔میرا فیصلہ بھی یہی ہے باقی جہاں تک رسول اللہ ﷺکے قرابت داروں کا تعلق ہے خدا کی قسم رسول اللہ ﷺکے قرابت دار مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں سے بڑھ کر پیارے ہیں۔‘‘ (27) حضرت عباسؓ اور دیگر اہل بیت نے یہ فیصلہ بسروچشم قبول کیا۔
حضرت عمرؓ حضرت عباسؓ کی بہت قدرو منزلت فرماتے تھے۔جب مدینہ میںقحط ہوتا تو حضرت عمرؓ،حضرت عباسؓ کے نام کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے۔چنانچہ 17ھ میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں شدید قحط پڑا تو حضرت کعبؓنے کہا اے امیر المومنین بنی اسرائیل میں جب اس قسم کی مصیبت آتی تھی تو وہ انبیاؑء کے کسی قریبی رشتہ کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺکے چچا ان کے والد کے قائمقام اور بنی ہاشم کے سردار موجودہیں۔چنانچہ وہ حضرت عباسؓ کے پاس تشریف لے گئے اور قحط کی شکایت کی، پھر حضرت عباسؓ کو ساتھ لے کر منبر رسولﷺپر آئے اور یہ دعا کی۔
’’اے اللہ ہم اپنے نبیﷺ کے چچا( جو اس کے با پ جیسے ہیں) کا واسطہ لے کر تیرے دربار میں حاضر ہیں تو ہم پر رحمت کی بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس نہ کر۔ پھرحضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سے کہا اے ابوالفضلؓ! اب آپ کھڑے ہوکر دعا کریں،چنانچہ حضرت عباسؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کے بعد بڑی درد بھری دعا کی۔ اے اللہ! تیرے پاس بادل بھی ہیں اور پانی بھی،پس بادلوں کو بھیج اور ان سے ہم پر پانی نازل فرما اور اس کے ذریعہ جڑوں کو مضبوط کر اورجانوروں کے تھنوں سے دودھ بھردے۔اے اللہ!تو کوئی مصیبت کسی گناہ کے بغیر نازل نہیں فرماتا اور سوائے توبہ کے اسے دور نہیں کرتا اور پوری قوم تیری طرف رخ کرکے آئی ہے پس ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہمارے نفوس اور گھروں کے حق میں ہماری شفاعت قبول فرمالے، اے اللہ! ہم تجھے اپنے جانوروں اور چارپایوں میں سے ان کا بھی واسطہ دیتے ہیںجو بولنے کی طاقت نہیں رکھتے،اے اللہ!ہمیں خوب اطمینان بخش اور نفع رساں برسنے والے اور عام موسلا دھاربادل سے سیراب کر۔اے اللہ !ہم سوائے تیرے کسی سے امید نہیں کرتے ،نہ تیرے سوا کسی سے دعا کرتے ہیں اور نہ ہی تیرے سوا کسی سے رغبت رکھتے ہیں۔اے اللہ! ہم ہر بھوکے کی بھوک کا شکوہ اور ہرننگے کے ننگ کی شکایت تجھ سے کرتے ہیں۔ ہر خوف زدہ کے خوف اورہر کمزور کی کمزوری تیرے حضور پیش کرتے ہیں۔
الغرض حضرت عباسؓ نے خدا کے رحم کو جوش دلانے والی ایسی دعائیں کیں جن کا مختلف احادیث میں ذکر ہے کہ اس کے نتیجہ میں پہاڑوں جیسے بادل امڈ آئے اور آسمان برسا اور خوب برسا۔زمین کی زرخیزی لوٹ آئی اور لوگوں کو نئی زندگی نصیب ہوئی۔(28)
حضرت حسان ؓبن ثابت نے اس تاریخی واقعہ کا ذکر یوں فرمایا۔
سَاَ لَ الاِمَامُ وَ قَدْ تَتَابَعَ جَدْبُنَا فَسَقَی الغَمَا مُ بِغُرَّ ۃِ العَبّاسٖ
عَمُّ النّبِیِّ وَضَوئُ وَالِدِ ہِ الَّذیْ وَرِثَ النَّبیَّ بِذَ اکَ دُوْنَ النَّاسٖ
اَحیْیَ الاِلٰہُ بِہِ الْبِلاَ دَ فَاَ صْبَحَت مُخضَرَّۃَ الاَ جْنَابِ بَعْدَالَیْاسٖ
(ترجمہ)امام نے مسلسل قحط سالی کے بعد حضرت عباسؓ کی پیشانی کا واسطہ دے کر دعا کی تو باران رحمت کا نزول ہوگیا ہاں وہ عباسؓ جو رسول اللہ ﷺکے چچا اور اپنے اس والد کی روشنی ہیں جو نبی کریمؐ کا باقی لوگوں سے بڑھ کروارث ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس بارش سے شہروں کو زندہ کردیا اور ایک مایوسی کے بعد ان کی اطراف سرسبز ہوگئیں۔بارش ہونے کے بعد لوگ حضرت عباسؓ سے ملتے اور کہتے اے مکہ اور مدینہ کو بارش سے سیراب کرنے والے !تجھے مبار ک ہو۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پریہ اصولی وضاحت بھی فرمائی کہ’’ خدا کی قسم!یہ اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ چاہنے اوراس کے ہاں مقام و مرتبہ کا معاملہ ہے۔‘‘(29)
ایک دفعہ حضر ت عمرؓ جمعہ پڑھانے کیلئے تشریف لارہے تھے۔ حضرت عباسؓ کے گھر کے پرنالے کے پاس سے گزر ہوا۔ جہاں دو چوزے ذبح کرکے ان کا خون پانی سے بہایا جارہاتھا۔ اس کے چھینٹے حضرت عمرؓ پر بھی پڑے۔ انہوں نے گزرگاہ کے بیچ اس پرنالے کے اکھیڑنے کی ہدایت فرمائی۔ گھر واپس جاکر جمعہ کیلئے لباس بدل کر تشریف لائے اور جمعہ پڑھایا۔ حضرت عباسؓ آئے اورعرض کیا کہ اس جگہ پر یہ پرنالہ خود نبی کریمؐ نے لگایا تھا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ سے کہا اب میرا آپ کو حکم ہے کہ میری پشت پر سوار ہو کر وہ پرنالہ دوبارہ اسی جگہ رکھیں جہاں رسول کریمؐ نے رکھا تھا۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا۔(30)
حضرت عباسؓ آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔ حضر ت عمرؓ اورحضرت عثمانؓ ان کا خاص احترام کرتے تھے۔ آپ کو دیکھ کر وہ گھوڑے سے اتر آتے اور کہتے رسول اللہﷺ کے چچا ہیں۔ (31)
32ھ میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے دو سال قبل88سال کی عمر میں حضرت عباسؓ کی وفات ہوئی۔ حضرت عثمانؓ نے جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
آ پ کی تین شادیوں سے کئی بیٹیوں کے علاوہ دس بیٹے تھے۔ جن میں سے حضرت عبداللہؓ بن عباس معروف عالم باعمل بزرگ ہوئے ۔ آپ کے اخلاق فاضلہ میں شجاعت ، بہادری، صلہ رحمی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔(32)
حوالہ جات
1-
اسد الغابہ جلد 3ص 109
2-
ابن سعد جلد4ص 31،ابن سعد جلد4ص 10
3-
ابن سعد جلد 8ص 277
4-
مجمع الزوائد جلد 9ص 268
5-
ابن سعد جلد4ص 31
-6
مجمع الزوائدجلد 9ص 275
7-
ابن سعد جلد4ص 8
8-
ابن سعد جلد1ص 221و ابن سعد جلد 4ص 7تا۔۔۔
9-
ابن ہشام جلد 2ص 49
10-
ابن سعد جلد 4ص 8
11-
ابن سعد جلد 4ص 31
12-
ابن سعد جلد4ص 9
13-
ابن سعد جلد4ص 10
14-
ابن سعد جلد 4ص 9تا 14
15-
ابن سعد جلد4ص 14تا16
-16
الواقدی جلد 1ص 203
17-
ابن سعد جلد4ص18
18-
سیرۃ الحلبیہ جلد 3ص 90
19-
مسلم کتاب الجہاد باب غزوہ حنین
20-
اسد الغابہ جلد 3ص 110
21-
اسد الغابہ جلد 3ص 110،استیعاب جلد2ص 360
22-
الاصابہ جز4ص 30
23-
مسلم کتا ب الایمان
24-
مسند احمد جلد1ص 210
25-
دارمی کتاب الرؤیا باب فی القمص و البر
-26
ابن ماجہ المقدمہ باب فضل العباس
-27
بخاری کتاب المغازی باب حدیث النضیر
-28
استیعاب جلد2ص 260
-29
اسد الغابہ جلد3ص 111
-30
مسند احمد جلد 1ص 206
-31
الاستیعاب جلد 2ص 360
-32
اسد الغابہ جلد 3ص 112
حضرت جعفرؓ بن ابی طالب
نام ونسب
خاندان بنی ہاشم کے چشم وچراغ حضرت جعفرؓرسول کریمﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت علیؓ کے برادر حقیقی اور عمر میں ان سے دس سال بڑے تھے۔ مگر حضرت علیؓ کو رسول اللہﷺ کی تربیت کی برکت اور خود اپنی فطری سعادت کے طفیل قبول اسلام میں اولیت عطا ہوئی۔
قبول اسلام
حضرت جعفرؓ کے اسلام قبول کرنے کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ ایک روز نبی کریمﷺمحو عبادت تھے۔ حضرت علیؓ بھی آپ کے ساتھ عبادت میں شریک تھے کہ رسول اللہﷺکے چچا ابوطالبؓ اپنے بیٹے جعفرکے ساتھ تشریف لائے اور اپنے بیٹے علیؓ کو رسول ؐاللہ کے ساتھ مصروف عبادت دیکھ کر جعفرؓ سے بھی فرمایا کہ تم بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ عبادت میں شریک ہوجائو۔ حضرت علیؓ رسول اللہﷺ کے دائیں جانب تھے۔ جعفرؓ نے بائیں جانب کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور یوں یہ دونوں بھائی اسلام کے ابتدائی کمزوری کے زمانہ میں رسول اللہﷺ کے مضبوط دست و بازوبن گئے۔ آنحضرتؐ کو اس سے بہت تقویت پہنچی۔ آپ بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے علم پا کر حضرت جعفرؓ کو یہ خوشخبری سنائی کہ جس طرح تم نے آج اپنے اس بھائی کے پہلو اور ہاتھ مضبوط کئے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کی جزا کے طور پر آپ کو جنت میں پرواز کیلئے دو پر عطا فرمائے گا۔ تب سے حضرت جعفر ــــ’’طیّار‘‘ اور’’ ذوالجناحین‘‘ کے لقب سے ملقّب ہوئے۔ (1) جس کا مطلب ہے دونوں پروں کے ساتھ پرواز کرنے والا (روحانی) پرندہ۔
مقام و مرتبہ
حضرت جعفرؓ کیلئے رسول ؐاللہ کی اس خوشخبری میں دراصل اس روحانی مقام کی طرف بھی اشارہ تھا جو آئندہ شہادت کے بلند مرتبہ سے انہیں کو حاصل ہونیوالا تھا۔ جس کاذکر کرتے ہوئے ایک اور موقع پر آپؐنے فرمایا کہ میں نے حضرت جعفرؓکو جنت میں فرشتوں کے ساتھ محو پرواز دیکھا ہے۔ (2)
حضرت جعفرؓاپنی بعض منفرد خصوصیات کے لحاظ سے یگانہ روز گار تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰﷺکے بہت ہی پیاروں حضرت زیدؓ،حضرت علیؓ اور حضرت جعفرؓکے مابین یہ سوال پیدا ہو گیا کہ حضوؐرکو زیادہ پیار کس سے ہے؟ کیونکہ حضوؐر کے کمال لطف و کرم کی بدولت ہر ایک ان میں سے اپنے آپ کو حضوؐرکی محبتوں کا مورد اور زیادہ پیارا جانتا تھا۔حضوؐرسے پوچھا گیا تو آپؐ نے کمال شفقت سے سب پیاروں سے ہی دلداری فرمائی کہ سب ہی آپؐ کو محبوب تھے۔ مگر حضرت جعفرؓ سے جو فرمایا اسے سن کر بے محابا حضرت جعفرؓ پر پیار آتا ہے۔ آپ نے فرمایا:۔
’’اے جعفرؓ تو تو خَلق و خُلق یعنی صورت و سیرت میں میرے سب سے زیادہ مشابہ اور قریب ہے‘‘ (3)
ہجرت حبشہ
بلاشبہ یہ ارشاد رسولﷺحضرت جعفرؓکیلئے دین ودنیا میں سندامتیاز سے کم نہیں۔ حضرت جعفرؓ نے ابتدائی زمانہ میں قبول اسلام کی سعادت پائی تھی۔ مسلمانوں کیلئے مکہ میں حالات ناموافق تھے۔ ان کو مصائب و آلام کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ حضرت جعفرؓ نے بھی دیگر مسلمان مہاجرین کے ساتھ ملک حبشہ کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اس سفر ہجرت میں آپؐ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتیں ظاہر ہوئیں۔ انہوں نے شاہ حبشہ کے شاہی دربار میں اسلامی وفد کی نمائندگی کا حق خوب ادا کیا۔
حضرت ام المومنین ام سلمہؓبیان فرماتی ہیں کہ ’’جب ہم نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور شاہ حبشہ نجاشی کی پناہ حاصل کی تو یہ بہت خیرو برکت کی پناہ ثابت ہوئی۔ ہمیں مکمل مذہبی آزادی نصیب تھی اور ہم بلا روک ٹوک عبادت کرتے تھے۔ کسی قسم کی ناپسندیدہ زبانی یا جسمانی ایذارسانی کا سوال تک نہیں تھا۔ جب قریش کو اس صورتحال کا علم ہوا تو انہوں نے دو معتبر قریشی سرداروں عبداللہ ؓبن ربیعہ اور عمروؓ بن العاص کو سفیر بنا کر مکہ کی عمدہ چیزوں کے تحائف کے ساتھ حبشہ بھجوایا۔
اس زمانہ میں اہل حبشہ مکہ سے چمڑا منگوایا کرتے تھے۔ چنانچہ مکہ والوں نے چمڑے کی کئی عمدہ مصنوعات حاصل کر کے حبشہ کے تمام بڑے بڑے سرداروں اور جرنیلوں کیلئے تحائف بھجوائے۔ اپنے سفراء کو ہدایت کی کہ نجاشی سے ملاقات سے پہلے ہر بڑے سردار اور جرنیل کو یہ تحائف پیش کر کے انہیں بتائیں کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان اپنا دین چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کر چکے ہیں اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے اور ایک بالکل نئے دین کے ساتھ جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ یہ لوگ آپ کے ملک میں آکر پناہ گزیں ہو گئے ہیں اور ہم جو اپنی قوم کے فہمیدہ اور دانا سردارہیں،شاہ حبشہ سے ملاقات کر کے انہیں واپس لے جانے کیلئے درخواست کرنا چاہتے ہیں اس لئے جب بادشاہ آپ حضرات سے مشورہ کرے تو آپ لوگ بھی یہی سفارش کریں کہ وہ ان کا موقف سنے بغیر ہمارے سپرد کر دے۔ ہم لوگ ان کے عیوب ونقائص کو خوب جانتے ہیں۔ جرنیلوں نے بالاتفاق ان سفیروں سے یہی کہا کہ ہم ایسا ہی کریں گے۔
سفرائے مکہ نے شاہ نجاشی کو بھی تحائف پیش کئے اور اپنا موقف پیش کر کے یہ کہا کہ یہ ناسمجھ نوجوان ہمارے عزیزو اقارب میں سے ہیں۔ انہیں ہمارے سپرد کر دیں تاکہ ہم انہیں مناسب سرزنش کر سکیں۔ ان سفیروں کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ کسی طرح نجاشی سے مسلمانوں کی بات سنے بغیر یہ فیصلہ کروالیا جائے۔ بادشاہ نے جب اپنے جرنیلوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ’’اہل مکہ کے سفیر سچ کہتے ہیں۔ یہ واقعی عقلمند اور صاحب بصیرت لوگ ہیں اور ان نوجوانوں کے نقص و عیب کو خوب جانتے ہیں۔ انہیں ان کے ملک میں واپس لوٹا دینا چاہئے۔‘‘
منصف مزاج شاہ نجاشی اس پر سخت غضبناک ہوکر کہنے لگا۔’’ خدا کی قسم !ہر گز ہر گز ایسا نہیں ہو گا کہ وہ لوگ جو میرے ملک میں آکر میرے پاس پناہ گزیں ہوئے اور خاص میری پناہ حاصل کرنے کیلئے آئے۔ میں اُن کی بات سنے بغیر کیسے ان کے حوالے کردوں۔‘‘
مسلمانوں کو نجاشی کے دربار میں بلایا گیا۔ وہ سخت مضطرب اور پریشان تھے کہ نہ جانے ان کے ساتھ کیا سلوک ہو۔ مگر وہ خدا تعالیٰ پر کامل توکل کرتے ہوئے شاہی دربار میں پیش ہوئے۔ درباری پادری اپنے صحائف کے ساتھ موجود تھے۔ نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا۔ نہ ہی پہلی کسی امت کا دین اختیار کیا نہ ہمارا دین۔‘‘
اس موقع پر بادشاہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے ان کی نمائندگی کا حق حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے خوب ادا کیا۔ انہوںنے اس موقع پر نہایت مدلّل اور عمدہ اور خوبصورت تقریر کی اور کہا ’’ اے بادشاہ!ہم ایک جاہل قوم تھے۔ بتوں کی پرستش کرتے اور مردار کھاتے تھے۔ بدکاری اور رشتہ داروں سے بدسلوکی ہمارا معمول تھا۔ ہم میں سے طاقتور کمزور کو دبا لیتا تھا۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ایک رسول ہماری طرف مبعوث فرمایا جس کی خاندانی شرافت اور صدق و امانت اور پاکدامنی سے ہم خوب واقف تھے۔ اس نے ہمیں خدا کی توحید اور عبادت کی طرف بلایا اور یہ تعلیم دی کہ اس کے ساتھ ہم کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ نہ ہی پتھروں اور بتوں کی پرستش کریں اس نے ہمیں صدق وامانت،صلہ رحمی،پڑوسیوں سے حسن سلوک اور کشت وخون سے بچنے کی تعلیم دی بے حیائیوں ، جھوٹ، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامنوں پر الزام لگانے سے منع کیا۔ ہمیں حکم دیا کہ ہم خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت کریں۔ ہمیں نماز روزہ اور زکوۃ کی تعلیم دی۔‘‘
حضرت جعفرؓ نے نجاشی کے سامنے اسلامی تعلیم کا خلاصہ نہایت عمدہ اور خوبصورت رنگ میں پیش کیا اور کہا ’’ہم اس نبی پر ایمان لائے ہیں۔ اس کی تصدیق کی ہے ۔ اس کی تعلیم کو مانا اور قبول کیا ہے۔ہم خدائے وحدہٗ لاشریک کی عبادت کرتے ہیں ۔جن چیزوں سے اس نے روکا ہے اس سے رکتے ہیں اور جو چیزیں اس نے ہمارے لئے جائز قرار دی ہیں ان کو جائز سمجھتے ہیں۔ بس یہی ہماراجرم ہے جس کی بناء پر ہماری قوم نے ہم پر زیادتیاں کیں اور ہمیں سخت اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا کرکے ہمارے دین سے برگشتہ کرنا چاہا تاکہ ہم خدائے واحد کی عبادت کی بجائے بتوں کی پوجا کریں اورگندی اور ناپاک چیزوں کو حلال جانیں۔ جب ان کے ظلم اور زیادتیاں انتہا کو پہنچ گئیں۔ انہوں نے ہمیں اپنے دین پر آزادی سے عمل کرنے سے روک دیا تو ہم اپنا وطن چھوڑ کر آپ کے ملک میں پناہ لینے چلے آئے ۔ہم آپ کے عدل و انصاف کی شہرت کی وجہ سے کسی اور کی بجائے آپ کی پناہ حاصل کرنے کی اُمید پر یہاںچلے آئے۔ اے بادشاہ! ہمیں پوری اُمید ہے کہ اس ملک میں ہم پر کوئی ظلم یا زیادتی روا نہیں رکھی جائے گی۔‘‘
نجاشی حضرت جعفرؓ کی اس تقریر سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ وہ دعویدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کلام لے کر آیا ہے، اس میں سے کچھ تمہارے پاس موجود ہے؟ حضرت جعفرؓ نے اثبات میں جواب دیا نجاشی نے کہا کہ ’’اچھا مجھے اس میں سے کچھ کلام پڑھ کر سنائو۔‘‘ حضرت جعفرؓ کی ذہانت و فطانت پر رشک آتا ہے کہ انہوں نے فوری طور پر عین موقع کے محل اور مناسبت سے سورۃ مریم کی آیات کی تلاوت ایسی دلآویزی اور خوش الحانی سے کی کہ خدا ترس نجاشی بے اختیار رونے لگا۔ وہ رویااور اتنا رویا کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے ترہوگئی ۔ ساری محفل پر قرآن شریف کے اس پرتاثیر اور برحق کلام کا ایسا اثر ہوا کہ درباری پادری بھی رونے لگے ۔ ان کے صحیفے ان کے آنسوؤں سے تر ہوگئے۔
نجاشی یہ کلام الٰہی سن کر بے اختیار یہ کہہ اٹھا ’’ خدا کی قسم ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام اور موسیٰ کا کلام ایک ہی منبع اور سرچشمہ سے پھوٹے ہیں۔‘‘ پھر اس منصف مزاج بادشاہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا’’ اے مکہ کے سفیرو! تم واپس لوٹ جائو۔ خدا کی قسم میں ان لوگوں کو ہر گز تمہارے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘ مکہ کے ان سفراء نے مزید مشورے کئے اور کہا کہ وہ بادشاہ کے سامنے مسلمانوں کے خراب عقائد اور عیوب بیان کرکے اس نیک اثر کو زائل کرکے ہی دم لیں گے اور اسے بتائیں گے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو یہ عیسائیوں کے اعتقادکے برخلاف محض ایک انسان مانتے اور اس کی تنقیص اور توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگلے روز انہوں نے بادشاہ کے سامنے یہ مؤقف رکھا تو بادشاہ نے پھر مسلمانوں کو بلوا بھیجا۔ بلاشبہ ان کے لئے یہ سخت پریشانی کی بات تھی۔
حضرت ام سلمہؓ کا بیان ہے کہ’’ اس نئی مصیبت سے ہم بہت فکر مند ہوئے۔ ایسی مصیبت سے اس سے پہلے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا۔ مسلمانوں نے باہم اکٹھے ہوکر مشورے کئے اور کہا کہ اگر بادشاہ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے مقام کے بارہ میں دریافت کیا تو ہم وہی بیان کریں گے جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے۔‘‘ چنانچہ جب بادشاہ نے ان سے سوال کیا کہ عیسیٰ ؑبن مریم کے بارہ میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ تو حضرت جعفرؓ نے کہا کہ ’’اس بارہ میں ہمارے نبیؐ پر یہ کلام اترا ہے کہ عیسیٰ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول روح اللہ اور اس کا کلمہ ہے جواس نے کنواری مریم کو عطا فرمایا۔‘‘
نجاشی نے زمین پر ہاتھ مارا اور ایک تنکا اٹھا کر کہنے لگا کہ ’’حضرت عیسیٰ ؑکا مقام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں جو تم نے بیان کیا ہے۔‘‘ اس پر اس کے سردار اور جرنیل بڑبڑائے۔ مگر نجاشی نے کمال جلالت شان کے ساتھ یہ عادلانہ فیصلہ صادر فرمایا کہ’’ جائو اے مسلمانو! تمہیں میری سرزمین میں مکمل امان ہے اگر تمہیں کوئی برابھلا کہے گا تو اسے سزادی جائے گی۔مجھے یہ ہرگز پسند نہیں کہ مال ودولت کے عوض میں تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچائوں ‘‘
پھر شاہ حبشہ نے حکم دیا ’’عرب سفراء کے تحائف واپس لوٹا دیئے جائیں۔ ان کی ہمیں کوئی حاجت نہیں۔ خدا کی قسم! جب اللہ نے میرا ملک مجھے عطا فرمایا تو اس نے مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی جو میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے رشوت لوں۔‘‘
الغرض یوں حضرت جعفرؓ نے ایک زمانہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ اپنے ملک و وطن اوراپنے آقاو مولا حضرت محمد مصطفی ﷺسے دور حبشہ کی سرزمین میں گزارا۔
ہجرت مدینہ
جب حالات سازگار ہوئے تو حضرت جعفرؓ کوحبشہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ فتح خیبر کے موقع پر مہاجرین حبشہ کا قافلہ حضرت جعفرؓ کے ساتھ واپس آیا۔ اس وقت حضور ؐ خیبر میں تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت جعفرؓ کی آمد پر آپؐ نے خود آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ انہیں گلے لگایا،وفور محبت سے ان کی پیشانی چوم لی اور فرمایا کہ ’’آج میں اتنا خوش ہوں کہ نہیں کہہ سکتا کہ فتح خیبر کی خوشی زیادہ ہے یا جعفرؓ کی ملاقات کی خوشی بڑھ کر ہے۔‘‘ (4)
مدینہ آنے پر رسول اللہﷺ نے حضرت معاذ ؓبن جبل انصاری سے حضرت جعفرؓ کی مواخات قائم فرمائی ۔ جہاندیدہ اورگرم و سرد چشیدہ حضرت جعفرؓ رسول اللہ ﷺ کے مشیروں اور وزیروں میں شامل ہو گئے۔ حضرت علیؓکی روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ ہر نبی کو کچھ معزز ساتھی عطا فرماتا ہے مجھے چودہ ایسے ساتھی عطا ہوئے ان میں آپؐنے حضرت جعفرؓ کا نام بھی لیا کہ وہ بھی میرے معزز وزراء میں شامل ہیں۔ ‘‘ (5)
غزوہ مُوتہ میں شرکت
الٰہی تقدیر میں حضرت جعفرؓ کیلئے اس سے بھی بڑا مقام یعنی شہادت کا بلندمرتبہ مقدر تھا۔انہیں حبشہ سے واپسی کو ابھی ایک سال بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ رومی سرحدوں پرشورش ہوئی۔ غسانی ریاست کے سردار شرجیل بن عمرو نے مسلمان سفیر کو قتل کروا دیاجو شاہ بصرٰی کی طرف رسول اللہﷺ کا مکتوب گرامی لے کر جارہے تھے یہ مسلمانوں کے ساتھ کھلا اعلان جنگ تھا۔
نبی کریمﷺ نے اس کے لئے اسلامی لشکر کو تیاری کا حکم دیا۔ تین ہزار سپاہ کا لشکر تیار ہوا۔اب اس کے امیر کے تقرر کا سوال تھا۔ اس لشکر میں بزرگ صحابی حضرت عبداللہؓبن رواحہ انصاری، مشہور جنگی کمانڈر حضرت خالدؓ بن ولیدکے علاوہ رسول اللہ ﷺکے عم زاد اور مشیر خاص حضرت جعفرؓ بن ابی طالب بھی شامل تھے جو شاہ حبشہ کے دربار میں بھی اسلامی وفد کی شاندار قیادت کر چکے تھے اور خاندانی وجاہت بھی رکھتے تھے۔ مگر رسول کریم ﷺ جہاں ان کی اعلیٰ روحانی قدروں کو مزید صیقل فر مانا چاہتے تھے وہاں خواص و عوام کو شرف انسانی کا عملی سبق دینے اور کئی حکمتوں کے پیش نظر آپؐ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ کو اس لشکر کا سالار اول مقرر کیا۔ حضرت جعفرؓ کو نائب مقرر کرتے ہوئے فرمایا’’زیدؓبن حارثہ کی شہادت کی صورت میں حضرت جعفرؓ قائد لشکر ہوں گے اور ان کے بعد عبداللہؓ بن رواحہ علمِ امارت سنبھالیں گے۔‘‘
حضرت جعفرؓ نے کمال اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے اس فیصلہ پر سر تسلیم خم تو کرنا ہی تھا۔ صرف اتنا عرض کیا کہ ’’اے اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں مجھے اپنے اوپر زیدؓ کے امیر بنائے جانے کا ہر گز خیال نہ تھا۔‘‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا ’’خدا کے نا م کے ساتھ روانہ ہو جائو تمہیں کیا معلوم کہ بہتر کیا ہے؟۔‘‘ (6)
لشکر روانہ ہوا۔ موتہ کے مقام پر ایک لاکھ رومی فوج سے سخت مقابلہ ہوا، جس میں تینوں اسلامی سالار یکے بعد دیگر شہید ہوئے ۔ بالآخر حضرت خالدبن ولیدؓنے قیادت سنبھالی ۔ عین اس روز اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺکو اس لشکر کے سارے احوال کی اطلاع فرمادی۔(7)
داد شجاعت اورشہادت
رسول کریمﷺنے اہل مدینہ کو اکٹھا کرنے کیلئے منادی کروائی۔ پھر آپ منبر پر چڑھے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔آپؐنے اس کشف کاذکر کرتے ہوئے جس میں آپ کو غزوہ موتہ کا نظارہ کرایا گیا تھا، ارشاد فرمایا’’ ایک بہت تکلیف دہ خبر آئی ہے۔ کیا میں تمہیں اس غزوہ پر جانے والے تمہارے لشکر کے بارہ میں خبر دوں؟ان مجاہدین نے میدان جنگ میں دشمن سے خوب مقابلہ کیا ۔ سب سے پہلے امیر لشکر حضرت زیدؓ شہید ہوگئے۔ آپ سب ان کی بخشش کی دعا کرو۔‘‘ اس پر صحابہ نے ان کی بخشش کی دعا کی۔ آپؐ نے فرمایا۔’’ پھر علم لشکر حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب نے سنبھالا اور دشمن پر ٹوٹ پڑے اور بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ میں ان کی عظیم الشان شہادت کا گواہ ہوں۔ پس ان کی بھی بخشش کی دعا کرو۔‘‘تمام اصحاب رسولﷺنے حضرت جعفرؓکی بخشش کی بھی دعا کی۔رسول کریمﷺ نے ان امراء لشکر کے نیک انجام کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ’’ مجھے جعفرؓ،زیدؓ اورعبداللہؓ کے بارہ میں یہ نظارہ بھی دکھایا گیا کہ وہ ایک موتی کے خیمہ میں ہیں ۔ان میں سے ہر ایک الگ پلنگ پر ہے۔‘‘ (8)
غزوہ موتہ میں اسلامی لشکر اور امرائے لشکر کی شہادتوں سے جو حالات ظاہر ہوئے اس سے ہمارے آقاومولا کے فیصلہ کی حکمت بھی کھل جاتی ہے۔ اس جنگ میںپہلی مرتبہ آپ نے بالترتیب تین امراء کا تقرر فرمایا۔ بعد میں غزوہ موتہ سے واپس لوٹنے والے مجاہدین کی بیان کردہ تفاصیل سے بھی رسول اللہ ﷺکی ان پیشگی بیان فرمودہ خبروں کی تائید وتصدیق ہوئی۔ چنانچہ قبیلہ بنی مرہ بن عوف کے ایک شخص عباد کے والد عبداللہ غزوہ موتہ میں شامل تھے۔ وہ حضرت جعفرؓ کے لمحات شہادت کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں ’’خدا کی قسم حضرت جعفرؓ کی بہادری کا وہ نظارہ اب بھی میری نظروں کے سامنے ہے جب وہ گہری سرخ رنگ کی گھوڑی سے چھلانگ لگا کر نیچے اترے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کرکے دشمن کی صفوں میںگھس گئے اور پھر واپس نہیں آئے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔‘‘جعفرؓ پہلے شخص تھے جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی ٹانگیں اس عزم سے کاٹ دیں کہ اب خود بھی لڑکر جان قربان کرنی ہے ۔اس وقت ان کی زبان پر یہ اشعار تھے ۔ ’’اے جنت پاکیزہ! تجھے اور تیرے اتنے قریب آجانے کو خوش آمدید۔ رومیوں کا عذاب قریب آچکا ہے۔ جو کافر ہیں اورہم سے دور کا رشتہ رکھتے ہیں۔ اب میرا یہی کام ہے کہ ان سے تلوار زنی کرکے مقابلہ کروں۔‘‘رسول کریمﷺ نے حضرت جعفرؓ کی بیوی حضرت اسمائؓ سے فرمایا کہ’’ جعفرؓ ابھی جبرائیل،میکائیل اوراسرافیل کے ساتھ میرے سامنے سے گزرے ہیں۔ انہوںنے نے مجھے سلام کے بعد بتایا کہ فلاں دن میرا مشرکوں سے مقابلہ ہوا تھا اور مجھے تہتر کے قریب زخم جسم کے اگلے حصے میں تیر ،تلوار اور نیزے کے آئے۔جھنڈا میرے دائیں ہاتھ میں تھا وہ کٹ گیا تو میں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا لے لیا وہ بھی کٹ گیا ۔اس کے عوض اللہ نے مجھے دو پر عطا کئے ہیں جن سے میں فرشتوں کے ساتھ محو پرواز ہوں۔(9)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ (جو اس غزوہ میںشریک تھے )کی روایت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت جعفرؓ نے کس بے جگری سے داد شجاعت دیتے ہوئے عظیم الشان شہادت پائی انکا بیان ہے ’’جنگ کے بعد میدان موتہ میں ہم نے اپنے امیر حضرت جعفرؓ کی نعش تلاش کی تو دیگر شہداء میں ان کو اس حال میں پایا کہ ان کے جسم میں تلواروں اور نیزوں کے ستر سے بھی زائد زخم تھے اور ان میںسے کوئی ایک زخم بھی پشت پر نہ تھا‘‘ مسلمانوں کے اس بہادر جرنیل نے ہروار اپنے سینہ پر لیا تھا۔(10)
یوں اپنی سپاہ کی طرف سے حق امارت ادا کردکھایا تھا۔ اس طرح رسول اللہﷺ کی وہ بات بھی پوری ہوگئی جو آپ نے انہیں امیر مقرر کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ کیا معلوم کس کی امارت کب اورکہاں مناسب ہے؟
شہید کے خاندان سے حسن سلوک
نبی کریم ﷺکے حضرت جعفرؓ سے تعلق محبت اور ان کے جذبہ فدائیت کی قدردانی کا اندازہ ان واقعات سے بخوبی ہوتا ہے جو ان کے اہل و عیال کے ساتھ حضورؐ کی شفقتوں کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ آپ بنفس نفیس حضرت جعفرؓ کے گھر ان کی شہادت کی خبر دینے تشریف لے گئے۔
حضرت جعفرؓ کی بیوہ اسمائؓ بنت عمیس کا بیان ہے ’’ جب حضرت جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر آئی تو رسول کریم ؐ ہمارے گھر تشریف لائے۔ میں گھر کے کام کاج آٹا وغیرہ گوندھنے کے بعد بچوں کو نہلا دھلا کر فارغ ہوئی ہی تھی۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جعفرؓ کے بچوں کو میرے پاس لائو۔ میں انہیںحضورؐ کے پاس لے آئی ۔ آپؐ نے ان کو گلے لگایا اور پیار کیاآپؐ کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ اسمائؓ کہتی ہیںمیں نے گھبرا کر عرض کیا یا رسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ کس وجہ سے روتے ہیں؟ کیا جعفرؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارہ میں کوئی خبر آئی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ آج شہید ہوگئے۔ اسمائؓ کہتی ہیں میں اس اچانک خبر کو سن کر چیخنے لگی۔ دیگر عورتیںبھی افسوس کے لئے ہمارے گھر اکٹھی ہوگئیں۔ رسول کریمﷺاپنے گھر تشریف لے گئے اور ہدایت فرمائی کہ’’ جعفرؓ کے گھر والوں کا خیال رکھنا اور انہیں کھانا وغیرہ بناکر بھجوانا کیونکہ اس صدمہ کی وجہ سے انہیں مصروفیت ہوگئی ہے۔‘‘حضرت شعبیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺحضرت اسمائؓ کو شہادت جعفرؓ کی اطلاع دے کر ان کے حال پر چھوڑ دیا تاکہ وہ آنسو بہا کر غم غلط کرلیں پھر آپ دوبارہ ان کے ہاں تشریف لائے اور تعزیت فرمائی اوربچوں کیلئے دعا کی۔ (11)
بلاشبہ چالیس سالہ حضرت جعفرؓ کی جوانی کی ناگہانی موت کا صدمہ بہت بھاری تھا اور ہمارے آقا ومولا پر سب سے گراں تھا کہ جعفرؓ انہیں بہت عزیز تھے۔ آپؐ نے کمال صبر و ضبط کا نمونہ دکھاتے ہوئے اپنے اصحاب سے فرمایا’’ جو مقام شہادت ان شہداء کو مل چکا ہے اس کی بناء پر خود ان کو بھی آج ہمارے پاس موجود ہونے سے زیادہ اُس مقام بلند کی خوشی حاصل ہے۔ ‘‘(12)
صبرورضا
حضرت جعفرؓ اور دیگر شہداء کی اچانک شہادتوں پر مدینہ میں رنج و الم کا جو فوری طبعی و جذباتی رد عمل ہوسکتا تھا اسے ممکنہ حد تک ہی روکا جا سکتا تھا۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ’’ شہدائے غزوئہ موتہ کی اطلاع ملنے پر خودنبی کریم ﷺمجلس میں تشریف فرما ہوئے۔ آپؐکے چہرے سے حزن وملال کے آثار صاف ظاہر تھے۔ ایک شخص نے آکر خاندان جعفرؓ کی خواتین کی آہ و بکا کی شکایت کی۔ ( اب ظاہر ہے زبردستی تو خواتین کو اس سے روکا نہیں جا سکتا تھا وعظ و تلقین ہی کی جا سکتی تھی) آپؐنے اس شخص سے یہی فرمایا کہ ’’واپس جا کر ان عورتوں کو سمجھائو کہ آہ وبکا سے باز رہیں۔‘‘ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد پھر واپس لوٹا اور کہنے لگا میں نے انہیں رو کا تو ہے مگروہ بات نہیں مانتیں۔ حضورؐ خود سخت صدمہ کی حالت میں تھے۔ آپؐ نے پھر فرمایا ’’پھر انہیں جا کر سمجھائو۔ ‘‘وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر کہنے لگا کہ وہ کسی طرح بھی باز نہیں آتیں۔ آپؐنے بیزاری سے فرمایا ’’تو پھر ان کے منہ میں مٹی ڈالو‘‘ یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں میں یہ سارا نظارہ دیکھ کر دل ہی دل میں کہہ رہی تھی کہ یہ بھی عجیب شخص ہے نہ تو عورتوں کو سمجھاسکتا ہے اور نہ ہی نبی کریمؐکو صدمہ کی حالت میں بار بار تکلیف دینے سے ہی رکتا ہے۔ (13)
بہر حال نبی کریمﷺ نے حضرت جعفرؓ کے اہل خانہ کے جذبات کا مناسب خیال رکھا جو آہ وبکا اضطراری حالت میں ان سے ظاہر ہوئی اس پر انہیں کچھ مہلت بھی دی۔ تیسرے روز آپ پھر حضرت جعفرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ’’ بس اب آج کے بعد میرے بھائی پر مزیدنہیں رونا۔‘‘ پھر ان کے یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام وانصرام اپنے ذمہ لیا اور فرمایا کہ میرے بھائی کے بیٹے میرے پاس لائو۔ حضرت جعفرؓ کے بیٹے عبداللہ کا بیان ہے کہ ’’ہمیں حضوؐر کے پاس اس طرح لایا گیا جیسے مرغی کے چوزے پکڑ کر لائے جاتے ہیں۔ آپؐ نے حجام کو بلوایا ہمارے بال وغیرہ کٹوائے اور ہمیں تیار کروایا۔ بڑی محبت وپیار کا سلوک کیا اور فرمایاطیارؓ کا بیٹا محمد تو ہمارے چچا ابو طالب سے خوب مشابہ ہے اور دوسر ا بیٹا اپنے باپ کی طرح شکل اور رنگ ڈھنگ میں مجھ سے مشابہ ہے۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور گویا خدا تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے درد دل سے یہ دعا کی۔ ’’اے اللہ جعفرؓ کے اہل و عیال کا خود حافظ و ناصر ہو‘‘ اور میری (عبد اللہ ) تجارت کی برکت کیلئے بھی دعا کی۔
ہماری والدہ اسمائؓ نے آکر ہماری یتیمی کا ذکر کیا تو آپؐنے انہیں تسلی دلاتے ہوئے فرمایا ان بچوں کے فقروفاقہ کا خوف مت کرنا میں نہ صرف اس دنیا میں ان کا ذمہ دار ہوں بلکہ اگلے جہاں میں بھی ان کا دوست اور ولی ہوں گا۔‘‘ (14)
نبی کریم ﷺنے جو اپنے پاکیزہ اخلاق و عادات سے حضرت جعفرؓکی مشابہت کا ذکر فرمایا ہے اس کی ایک عمدہ مثال حضرت جعفرؓکی ہمدردی بنی نوع انسان اور خدمت خلق میں نظر آتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ غریب الوطنی اور مسافرت کے آرام و مصائب نے ان کے خلق میں او ر بھی چمک پیدا کردی تھی۔ حضرت جعفرؓ مساکین و غرباء سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔ وہ نہ صرف ان کی ضروریات بلکہ ان کے جذبات کا بھی خیال رکھتے ۔ان کی مجالس میں تشریف فرما ہو کر ان کے مسائل سنتے۔ الغرض ان کا یہ خلق ایسا نمایاں تھا کہ نبی کریم ؐ نے ان کی کنیت بیٹوں کی بجائے غرباء کی نسبت سے ’’ابوالمساکین‘‘ رکھ دی یعنی مساکین کا باپ۔ (15)
حضرت ابوہریرہؓ فتح خیبر کے زمانہ میں یمن سے ہجرت کر کے مدینہ آئے۔وہ بھی ان غرباء و مساکین اصحاب صفہ میں شامل تھے جو دین کی تعلیم تربیت کی غرض سے مسجد نبویؐسے گویاچمٹے رہتے تھے۔ حضرت جعفرؓ کو ان مسکینوں کا کتنا خیال ہوتا تھا اس کا انداز ہ حضرت ابوہریرہؓ کی بپتا سے بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں ’’ان دنوں میں بھوکا پیاسا در رسولﷺ سے چمٹا رہتا تھا اور بھوک اور فاقہ کی شدت سے نڈھال ہو تا۔بسا اوقات خالی پیٹ ہونے کے باعث کنکریوں کے اوپر اوندھے منہ لیٹ کر اس تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرتا تھا گاہے کسی صحابی رسولؐ سے کسی خاص آیت کے بارہ میں استفسار کرتا (جو غرباء کو کھانا وغیرہ کھلانے کے مضمون پر مشتمل ہوتی) حالانکہ وہ آیت مجھے یاد ہوتی تھی۔ مگر میری غرض احسن رنگ میں توجہ دلانا ہوتی تھی کہ شاید اس طرح وہ مجھے کھانا کھلا دیں۔ میں نے اس زمانہ میں دیکھا کہ مسکینوں کے حق میں سب لوگوں سے بہتر اگر کوئی شخص تھا تو وہ حضرت جعفرؓ تھے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے۔ گھر میں جو موجود ہوتا ہمیں کھلاتے تھے۔بعض اوقات تو وہ چمڑے کا مشکیزہ نما برتن جس میں شہد یا گھی ہوتا تھا اٹھا کر لے آتے اور ہم بھوک کے مارے اسے چیر پھاڑ کر اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی چاٹ لیتے تھے۔‘‘ (16)
غالباً یہی وجہ تھی کہ ابو ھریرہؓ بر ملا اپنی اس رائے کا اظہار کیا کرتے تھے کہ’’ رسول کریمؐ کے بعد حضرت جعفر طیارؓسے بہتر اور افضل انسان ہم نے کوئی نہیں دیکھا۔‘‘ (17)
شاعر درباد نبویؐحضرت حسانؓ بن ثابت نے حضرت جعفرؓ کی شہادت کے موقع پر کیاخوب مرثیہ کہا:۔
وَکُنَّا نَرْیٰ فِیْ جَعْفَرٍ مِنْ مُحَمَّدٍ
وَفَائً وَاَمرًا صَارَ مَاحَیْثُ یُؤمَرٗ
فَلاَ زَالَ فِی الْاِسلاَمِ مِنْ آلِ ہَاشِمٍ
دَعَائِمُ عِزٍّ لَا یَزُولُ و مُفْخَرٗ
یعنی ہم حضرت جعفر طیارؓ کے نمونے میں وفا کا عظیم الشان نمونہ دیکھتے ہیں کہ جہاں جو فرمان ملا انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور آل ہاشم تو ہمیشہ ہی عزت کے ستون بن کر قابل فخر اسلامی خدمات بجا لاتے رہے ہیں۔(18)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگ اسلاف کی اعلیٰ صفات و اقدار زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
حوالہ جات
1۔
الاکمال مع مشکوۃ:صفحہ:1589
2۔
ترمذی ابواب المناقب
3۔
مسند احمد جلد5صفحہ 204
4۔
ابن سعدجلد4صفحہ123،استیعاب جلد ص313
5۔
مسند احمد جلد1صفحہ148
6۔
مسند احمد جلد5صفحہ229
7۔
بخاری کتاب المغازی
8۔
مسند احمد جلد5صفحہ229،استیعاب جلد1ص 314
9۔
ابودائود کتاب الجہاد،استیعاب جلد1ص 314،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 155
10۔
بخاری کتاب المغازی
11۔
مسند احمد جلد6 صفحہ372 ،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد 5ص 156
12۔
بخاری کتاب المغازی
13۔
بخاری کتاب المغازی
14۔
مسند احمدجلد1ص204
15۔
اصابہ جز2 ص218
16۔
بخاری کتاب المناقب باب جعفرؓ
17۔
ترمذی ابواب المناقب
18۔
الا صابہ جز2ص 249
حضرت مصعب بن عمیرؓ
حلیہ و خاندان
درمیانہ قد، حسین نقش، گورا رنگ، روشن چہرہ، دراز زلفیں، چہرہ سے ملاحت اور ملائمت عیاں۔ یہ نوجوان رعنا خاندان قریش کے خوبرو چشم و چراغ مصعب بن عمیرؓ ہیں۔ نسب تیسری پشت میں نبی کریمﷺسے جاملتا ہے۔ والدہ حناس بنت مالک مکہ کی مالدار خاتون تھیں۔ انہوں نے مصعبؓ کی پرورش بہت نازونعمت سے کی۔ آپ بہترین پوشاک اور اعلیٰ لباس پہنتے۔ مکہ کی اعلیٰ درجہ کی خوشبو استعمال کرتے اور حضرم کے علاقہ کا بنا ہوا مشہور جوتا منگواکر پہنتے تھے۔(1)
آنحضرتﷺ مصعبؓ بن عمیرکو دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مصعبؓ سے زیادہ حسین و جمیل اور نازونعمت اور آسائش میں پروردہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔(2)
اسلام میں سبقت لے جانے کے لحاظ سے آپ کا شمار صاحب فضلیت صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ مدینہ میں پہلی بار اسلام کا پیغام پہنچانے اور وہاں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ انصار مدینہ کو منظم کرنے کی تاریخی سعادت آپ کے حصہ میں آئی۔ حبشہ و مدینہ دو ہجرتوں کی توفیق پائی۔ بدر و احد میں اسلام کے علم بردار ہونے کا اعزاز پایا۔(3)
قبول اسلام اور آزمائش
آغاز اسلام میں جب آنحضرتﷺدارارقم میں تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے عین عالم جوانی میں بعمر27سال اسلام قبول کیا۔ مگر ابتدائً اپنی والدہ اور قوم کی مخالفت کے اندیشہ سے اسے مخفی رکھا۔(4) چھپ چھپا کر نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ایک دفعہ عثمان بن طلحہ(کلید بردار کعبہ) نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کے گھر والوں کوخبر کردی۔ والدین نے ان کو قید کردیا۔ بڑی مشکل سے بھاگ کر قید سے چھٹکارا حاصل کیا اور ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد جب بعض مہاجرین حبشہ سے مکے میں بہتر حالات کی افواہیں سن کر واپس آئے تو ان میں مصعب بن عمیرؓ بھی تھے۔ اگرچہ غریب الوطنی، سفر کی صعوبتوں اور مصائب و آلام نے نازو نعم کے پروردہ اس حسین و جمیل شہزادے کی رعنائیاں چھین لی تھیں۔پھر بھی صبر و استقامت کے پیکر مصعبؓ اسلام پر پختگی سے قائم تھے۔ ماں نے لخت جگر کی حالت زار دیکھی تو مامتا تڑپ اٹھی۔ اس نے آئندہ سے مخالفت ترک کردی اور بیٹے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔(5)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ مصعب بن عمیرؓ کو میں نے آسائش کے زمانہ میں بھی دیکھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی، راہ مولیٰ میں آپ نے اتنے سارے دکھ جھیلے کہ میں نے دیکھا آپ کے جسم سے جلد اس طرح اترنے لگی تھی جیسے سانپ کی کینچلی اترتی اور نئی جلد آتی ہے۔(6)
ایک دن ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ؐ نے دیکھا مصعبؓ بن عمیراس حال زار میں آپ کی مجلس میں آئے کہ پیوند شدہ کپڑوں میں ٹاکیاں بھی چمڑے کی لگی ہیں۔ صحابہؓ نے دیکھا تو سر جھکا لئے کہ وہ بھی مصعبؓ کی کوئی مدد کرنے سے معذور تھے۔ مصعبؓ نے آکر سلام کیا۔ آنحضرتؐنے دلی محبت سے وعلیکم السلام کہا اور اس امیر کبیر نوجوان کی آسائش کا زمانہ یاد کرکے آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پھر مصعبؓ کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا’’الحمدللہ دنیاداروں کو ان کی دنیا نصیب ہو۔ میں نے مصعبؓ کو اس زمانے میں بھی دیکھا ہے جب شہر مکہ میں ان سے بڑھ کر صاحب ثروت و نعمت کوئی نہ تھا۔یہ ماں باپ کی عزیز ترین اولاد تھی اسے کھانے پینے کی ہر اعلیٰ نعمت وافر میسر تھی۔ مگر خدا اور اس کے رسول ؐ کی محبت و نصرت نے اسے آج اس حال تک پہنچایا ہے اور اس نے وہ سب کچھ خدا اور اس کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا۔ پھر خدا نے اس کے چہرہ کو نور عطا کیا ہے۔‘‘(7)
پھر حضور ؐ نے صحابہؓ سے فرمایا’’ تمہارا کیا حال ہوگا جب صبح و شام تمہیں نئی پوشاک عطا ہوگی اور تمہارے سامنے ایک کے بعد کھانے کا دوسرا طشت رکھا جائیگا اور گھروں میں پردے لٹکے ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا حضورؐ وہ کیا ہی خوش وقت ہوگا۔ ہم عبادت کے لئے تو فارغ ہوں گے۔ حضورؐ نے فرمایا’’ نہیں تم آج جس حال پر ہو وہ زیادہ بہتر ہے اور زیادہ اجر و ثواب کا موجب ہے۔‘‘ (8)
مدینہ میں کامیاب دعوت الی اللہ
11نبوی کے موسم حج میں رسول خداﷺ کا تعارف دعوت الی اللہ کے دوران مدینہ کے قبائل اوس و خزرج سے ہوا اور عقبہ مقام پر ان میں سے بارہ افراد نے آپ کی بیعت بھی کی جو بیعت اولیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ جب یہ لوگ مدینہ واپس جانے لگے تو ان کی تعلیم و تربیت اور مدینہ میں دعوت اسلام کی مہم جاری کرنے کے لئے نبی کریمﷺنے مصعب بن عمیرؓ کو ساتھ بھجوایا۔(9)
ابن سعد کے مطابق اہل مدینہ کے نو مسلموں کے مطالبہ پر دینی تعلیم کے لئے حضرت مصعبؓ کو بعد میں بھجوایا گیا۔ بہرحال حضرت مصعبؓ وہاں پہنچ کر مدینہ کے سردارا سعد بن زرارہؓ کے گھر قیام کیا۔ مدینہ جاتے ہی تعلیم القرآن کا سلسلہ شروع کیا اور مقری یعنی استاد کے نام سے مشہور ہوئے۔آپ نمازوں میں امامت کے فرائض بھی انجام دینے لگے۔(10)
مدینہ میں باقاعدہ نماز جمعہ جاری کرنے کی تاریخی سعادت بھی حضرت مصعبؓ کے حصے میں آئی۔ آپ نے نبی کریمؐ کی خدمت میں لکھا کہ اگر حضورﷺ اجازت عطا فرمائیں تو مدینہ میں نماز جمعہ شروع کردی جائے۔ حضورﷺنے اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جس روز یہودی اپنے سبت کا اعلان کرتے ہیں۔اس روز سورج کے ڈھلنے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرکے خطبہ جمعہ دیا کرو۔حضرت مصعب بن عمیرؓنے مدینہ میں نماز جمعہ کا آغاز کردیا۔
حضرت سعد بن خیثمہؓ کے گھر جو پہلا جمعہ پڑھا گیا۔ اس میں مدینہ کے بارہ افراد شامل ہوئے۔ اسلام کے اس پہلے جمعہ کے موقعہ پر مسلمانوں نے خوشی میں ایک بکری ذبح کی۔ اور یوں جمعہ میں شامل اپنے بھائیوں کی ضیافت کا بھی اہتمام کیا۔(11)
حضرت مصعبؓ نے اسلام کے پہلے مبلغ کے طور پر بھی تبلیغ کا حق خوب ادا کیا۔ آپ نے دعوت الی اللہ کے جذبہ سے سرشار ہو کر کمال محنت، اخلاص اور حکمت و محبت کے ساتھ مدینہ کے اجنبی لوگوں سے رابطہ اور اثرورسوخ پیدا کرکے انہیں اسلام سے روشناس کرایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ کے ہر گھر میں اسلام کا بیج بودیا۔ ایک کامیاب داعی الی اللہ کے طور پر ان کا کردار یقینا آج بھی ہمارے لئے عمدہ نمونہ ہے۔ آپ نے بالکل اجنبی شہر مدینہ میں تبلیغ کا آغاز اس طرح کیا کہ اپنے میزبان حضرت اسعد بن زرارہؓ کو ساتھ لے کر انصار کے مختلف محلوں میں جانے لگے۔ وہاں وہ مسلمانوں اور ان کے عزیزوں کے ساتھ مجلس کرتے انہیں تعلیم دین دیتے اور وہاں آنے والوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ مگر جب لوگوں میں اسلام کا چرچا ہونے لگا تو ایک محلہ کے سردار سعد بن معاذؓ اور اسید بن حضیرؓ نے ان دونوں داعیان الی اللہ کو اس نئے دین سے باز رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد اسید بن حضیرؓ مصعبؓ کی مجلس میں نیزہ تھامے داخل ہوئے۔ اسعد بن زرارہؓ نے یہ دیکھتے ہی مصعبؓ سے سرگوشی کی کہ یہ اپنی قوم کا سردار آتا ہے اسے آج خوب تبلیغ کرنا۔ مصعبؓ بولے کہ اگر یہ چند لمحے بیٹھ کر بات سننے پر آمادہ ہوجائے تو میں ضرور اس سے بات کروں گا۔ ادھراسیدؓ بن حضیرسخت کلامی کرتے ہوئے آگے بڑھے اور کہا کہ جان کی امان چاہتے ہو تو آئندہ سے ہمارے کمزوروں کو آکر بے وقوف بنانے کا یہ طریقہ واردات ختم کرو۔
حضرت مصعبؓ نے نہایت محبت سے کہا کیا آپ ذرا بیٹھ کر ہماری بات سنیں گے؟ اگر تو آپ کو بات بھلی لگے تو مان لیجئے اور بری لگے تو بے شک اس سے گریز کریں۔ اُسیدمنصف مزاج آدمی تھے،بولے بات تو تمہاری درست ہے۔ اور پھر نیزہ وہیں گاڑ کر بیٹھ گئے۔حضرت مصعبؓ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اوران تک پیغام حق پہنچایا۔ قران کی سچی تعلیم سن کر اُسید بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ کیسا خوبصورت کلام ہے! اچھا یہ بتائو اس دین میں داخل ہونے کے لئے کیا کرنا پڑتا ہے؟ اسعدؓ اور مصعبؓ نے انہیں بتایا کہ نہادھو کر اورصاف لباس پہن کر حق کی گواہی دو پھر نماز پڑھو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اُسید خود ہی کہنے لگے کہ میرا ایک اور بھی ساتھی ہے۔ یعنی سعد بن معاذ، اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اس کی ساری قوم سے ایک شخص بھی قبول اسلام سے پیچھے نہیں رہے گا۔ اور میں ابھی اسے تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔ اور انہوں نے سعد کو نہایت حکمت کے ساتھ مصعبؓ کے پاس بھیجا۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے ان کو بھی نہایت محبت اور شیریںگفتگو سے رام کر لیا۔ انہیں قرآن سناکر اسلام کا پیغام پہنچایا۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ بلاشبہ یہ دن مدینہ میں اسلام کی فتح کے بنیاد رکھنے والا دن تھا۔ جس روز ایسے عظیم الشان بااثر سرداروں نے اسلام قبول کیا جنہوں نے اپنی قوم کو یہ کہہ دیا میرا کلام کرنا تم سے حرام ہے جب تک مسلمان نہ ہوجائو۔ اس طرح عبدالاشہل کا سارا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔(12) اور یوں مدینہ کے گھرانوں میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔
حضرت مصعبؓ نے ایک سال تک مدینہ میں اشاعت اسلام کے لئے خوب سرگرمی سے کام کیا اور دعوت الی اللہ کے شیریں پھل آپ کو عطا ہوئے چنانچہ اگلے سال سن ۱۲نبوی میں حج کے موقع پر آپ مدینہ سے ۷۵انصار کا وفد لے کر مکہ روانہ ہوئے۔حضرت اسعدؓ بن زرارہ بھی ساتھ تھے۔اس وفد کی رسول اللہﷺسے ملاقات کا انتظام بھی عقبہ مقام پر کیا گیا۔جہاں اس وفد نے آپؐ کی بیعت کی جو بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔
محبت رسولﷺاور استقامت
اس سفر میں حضرت مصعب ؓکی محبت رسولؐکا ایک عجب نمونہ دیکھنے میں آیا۔ آپؓ مکہ پہنچتے ہی اپنی والدہ کے گھر(جو مخالفت چھوڑ چکی تھیں)جانے کی بجائے سیدھے نبی کریمﷺکے پاس پہنچے۔حضورﷺکی خدمت میں وہاں کے حالات عرض کئے اور مدینہ میں سرعت کے ساتھ اسلام پھیلنے کی تفصیلی مساعی کی رپورٹ دی۔حضورؐان کی خوشکن مساعی کی تفاصیل سن کر بہت خوش ہوئے۔
ادھر مصعبؓ کی والدہ کو پتہ چلا کہ مصعبؓ مکہ آئے ہیںاور پہلے انہیں آکر ملنے کے بجائے رسول اللہﷺکے پاس چلے گئے ہیں تو انہوں نے بیٹے کو پیغام بھیجا کہ او بے وفا!تو میرے شہر میں آکر پہلے مجھے نہیں ملا۔عاشق رسولﷺحضرت مصعبؓ کا جواب بھی کیسا خوبصورت تھا کہ اے میری ماں!میں مکہ میں نبی کریمﷺسے پہلے کسی کو ملنا گوارا نہیں کر سکتا۔(13)
حضورﷺسے ملاقات کے بعد والدہ کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے پھرمصعبؓکو صابی مذہب کا طعنہ دے کر راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کی۔ حضرت مصعب ؓنے سمجھایاکہ میں خدا اوررسول کے دین پر ہوں جسے خدا نے اپنے اور اپنے رسول کیلئے پسند کیا ہے ۔والدہ نے محبت وپیار کے واسطے دیکر کہا کہ’’ تمھیں کیا معلوم کہ میں نے تمہاری جدائی میں کتنے دکھ اٹھائے۔ جب تم حبشہ گئے تو ایک دفعہ اس وقت میں نے تمہاری خاطر بین کئے اور دوسری مرتبہ تمہارے یثرب جانے پر ماتم کیا مگر تم ذراا حسان شناسی سے کام نہیں لیتے۔‘‘مصعبؓ نے کہا کہ ’’ماں!میں اپنے دین کو تو کسی حالت میں نہیں چھوڑ سکتا۔جتنا مرضی مجھے آزما لو۔‘‘والدہ نے قیدوبند کی دھمکی دی تو اب کے مصعبؓ نے بھی ذرا سختی سے جواب دیا کہ ’’وہ کسی دھمکی میں نہیں آئیں گے‘‘ مجبور ہو کر والدہ رونے لگیں اور کہا جائو بچے تمہاری مرضی!مصعبؓ کا دل بھی پسیج گیا انہوں نے بہت پیار سے سمجھایا کہ’’ اے میری ماں!میں آپ کا سچا ہمدرد ہوں اور مجھے آپ سے بے حد محبت ہے۔میری دلی خواہش اور تمنا ہے کہ آپ اسلام قبول کر لیں میری یہ آرزو پوری کر دیں اور خدا کے ایک ہونے اور محمد رسول اللہﷺ کو اس کا رسول ہونے کی گواہی دے دیں۔‘‘
مصعبؓ کی ماں نے کہا’’ ستاروں کی قسم میں تمہارے دین میں ہر گز داخل نہ ہونگی۔ کیا آبائو اجداد کا دین چھوڑدوں؟اور سب لوگ مجھے پاگل کہیں؟پس جائو تمہیں تمہارے حال پر چھوڑا اور میں اپنے دین پر قائم ہوں۔‘‘(14)آہ!مصعبؓ کے لئے کتنی کڑی تھی یہ آزمائش مگر انہوں نے بھی خوب استقامت دکھائی آخر چند ماہ حضورﷺ کی صحبت میں گزارنے کے بعد حضرت مصعبؓ12ربیع الاول کو مدینہ واپس لوٹے۔مدینہ پہنچ کر آپ پھر اپنی دینی اور تبلیغی سرگرمیو ں میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔آپ ہی ہیں جنہوں نے مدینہ کو دارالہجرت کے طور پر رسولؐ خدا کے لئے تیار کیا۔ یہاں تک کہ اگلے سال نبی کریمؐ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے۔ تو مصعبؓکی دلی تمنائیں پوری ہوئیں۔
بہادری اور شجاعت
دشمنان اسلام نے مدینہ میں بھی مسلمانوں کوچین کا سانس نہ لینے دیا اور جلد ہی بدر کا معرکہ پیش آیا۔اس موقع پر نبی کریمﷺنے حضرت مصعب بن عمیرؓکو یہ شاندار اور اعلی اعزاز بخشاکہ مہاجرین کا بڑا جھنڈا انہیں کو عطا فرمایا۔(15)
غزوہ احد میں بھی نہ صرف صاحب لوائ(علمبردار اسلام)ہونیکی سعادت ان کے حصے میں آئی بلکہ نہایت دلیری اور بہادری سے جان کی بازی لگا کر انہوں نے اسلامی جھنڈے اورنبی کریمﷺ کی حفاظت کی شاندار مثال قائم کر دکھائی جو تاریخ اسلام میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جاتی رہے گی۔ جب احد میں کفار مکہ کے دوبارہ غیر متوقع حملہ کے دوران مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑاتو اسلامی علمبردار مصعب بن عمیرؓدشمن کے تا بڑتوڑحملوں کے مقابل پر میدان جنگ میں اسلامی علم تھامے ہوئے ڈٹ گئے۔ابن اسحاق کے بیان کے مطابق وہ، رسول اللہﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے آپؐ کے آگے پیچھے لڑ رہے تھے کہ عبداللہؓ بن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ابن قمیہ کے حملہ سے آنحضورﷺبھی گر گئے تو وہ سمجھا کہ آنحضرتﷺکو شہید کر دیا گیاہے اور اس کا اعلان کر کے اس نے یہ خبر میدان احد میں مشہور کر دی۔(16)
علم اسلام کی حفاظت
ابن سعد نے مصعبؓکی شہادت کی مزید تفصیل اس طرح دی ہے کہ عبداللہ بن قمیہ نے جو گھوڑے پر سوار تھا حملہ آور ہو کر آپ کے بازو پر (جس سے آپ نے جھنڈا تھام رکھاتھا)ایساوار کیا کہ اسے کاٹ کر رکھ دیا۔مصعبؓ نے بازو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جھنڈا بائیں ہاتھ سے تھام لیا۔ابن قمیئہ نے بائیں ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا تو اس شیر خدا نے دونوں ٹنڈے بازوئوں سے اسلامی پرچم کو اپنے سینے سے لگا لیا۔اور اسے سر نگوں نہیں ہونے دیااور بآوازِبلند اس آیت کی تلاوت کرنے لگے
وَمَا مُحَمَّدٌاِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ اْنْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنقَلِبْ عَلٰی عَقَبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا ط
(آل عمران145)
(ترجمہ)محمدؐ ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو گئے ہیں۔ اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل پھر جائو گے اور جو تم میں سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔
آنحضرت ﷺکی شہادت کی خبرمشہور ہو جانے کے بعد جب مسلمان سراسیمگی کے عالم میں تھے اور مارے غم کے انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا ۔ بعض گھبرا کر اور بد دل ہو کر پیچھے بھی ہٹے۔ اس وقت مصعب ؓکا یہ آیت پڑھتے ہوئے جان قربان کر دینا آپ کی کمال بہادری اور شجاعت ظاہر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اپنے آخری سانسوں میں بھی انس بن نضرؓجیسے صحابہ کی طرح مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ اگر نبی کریم ؐ شہید بھی ہو گئے ہیںتو محض گھبرانے یا پیچھے ہٹنے سے کیا حاصل؟آگے بڑھو اور اسی راہ میں اپنی جانیں نچھاور کر دو جس راہ میں ہمارا آقا اپنی جان قربان کر گیا۔خود مصعبؓ نے اپنی جان کی قربانی پیش کر کے اس پیغام کو عملاًبھی سچا کر دکھایا۔
مصعبؓ کے دونوں ہاتھ قلم دیکھ کر اورانہیں مقابلہ سے عاجز پا کر عبداللہ بن قمیہ گھوڑے سے اتر آیا۔ تیسری مرتبہ اپنے نیزہ کے ساتھ آپؓ پر پوری قوت سے حملہ آور ہوا۔نیزہ آپؓ کے بدن کے پار ہو کر ٹوٹ گیا ساتھ ہی مصعبؓ بھی گر پڑے اسلامی جھنڈا گرنے کو تھا کہ لپک کر آپ کے بھائی ابوالروم بن عمیرؓ اور سویبط بن سعدؓ نے پکڑ لیا اور یوں حضرت مصعبؓنے میدان احد میں آخری دم تک اسلامی جھنڈا کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے دی۔(17)
ابن اسحاق میں یہ روایت بھی ہے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓکی شہادت پر نبی کریم ﷺ نے جھنڈا حضرت علیؓکو دیا۔بوقت شہادت حضرت مصعبؓکی عمر چالیسسال تھی۔(18)
وفاء عہد
اسلامی جھنڈے کا حق ادا کرنیوالا اور اپنے مسلمان ساتھیوں کو استقامت اور ثبات قدم کی آخری وصیت کر نیوالا یہ مجاہد اپنی شہادت کے وقت بھی پشت کے بل نہیں بلکہ چہرہ کے بل گرا۔اور رسول ؐاللہ جب ان کی نعش کے پاس پہنچے تو وہ چہرہ کے بل پڑے تھے۔گویا دم واپسیں بھی اپنے مولیٰ کی رضاء پر راضی اور سجدہ ریز۔حضوؐر نے ان کی نعش کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی:۔
(الاحزاب24)
ان مومنوں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نیت کو پورا کر دیا(یعنی لڑتے لڑتے مارے گئے)اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہے ہیں اور اپنے ارادہ میں کوئی تزلزل انہوں نے نہیںآنے دیا۔
اس کے بعدنبی کریمﷺنے اپنے اس عاشق صادق کو مخاطب کر کے فرمایا’’اے مصعبؓ!خدا کا رسول تم پر گواہ ہے (کہ واقعی تم اس آیت کے مصداق اور ان مردان وفا میں سے ہو جنہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے)اور روز قیامت تم دوسروں پر گواہ بنائے جائو گے‘‘۔پھر آپؐ نے اپنے علمبردار حضرت مصعبؓ کو اس آخری ملاقات میں ایک اور اعزاز بھی بخشا۔ صحابہؓکو مخاطب کر کے فرمایاکہ:۔
’’اے میرے صحابہؓ ! مصعبؓکی نعش کے پاس آکر اس کی زیارت کر لو اور اس پر سلام بھیجو۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا یہ اس کے سلام کا جواب دیں گے‘‘۔(19)
اے مصعب بن عمیرؓ!تجھ پر سلام اے مبلغ اسلام اور اسلامی جھنڈے کے وفا شعار محافظ تجھ پر ہزاروں سلام۔
شہید احد،ماںباپ کے نازو نعم کے پالے مصعبؓ کا اس عالم بے ثبات سے رخصتی کا منظر بھی دیدنی تھا۔ مکہ میں بہترین لباس زیب تن کرنیوالے مصعبؓ کو آخری دم پورا کفن بھی میسر نہیں آیا۔
فتوحات کے بعد جب مسلمانوں کو مالی کشائش اور فراخی عطا ہوئی صحابہؓ رسولؐ مصعبؓکی قربانیوں اور اپنی اس بے چارگی کا عالم یاد کر کے اکثر رو پڑتے تھے کہ ہم اپنے بھائی مصعبؓکو پورا کفن بھی مہیا نہ کر سکے تھے۔چنانچہ حضرت خبابؓ کہا کرتے تھے کہ ہم نے نبی کریمؐ کے ساتھ محض رضائے الہٰی کی خاطر ہجرت کی اور ہمارا اجر اللہ کے ذمہ ہو گیا۔مگر ہم میں سے بعض فوت ہو گئے اور انہوں نے اس اجر سے دنیا میں کوئی حصہ نہیں پایا ۔ان میں ایک مصعب بن عمیرؓ بھی تھے جو احد کے دن شہید ہوئے اور ہمیں ان کے کفن کے لئے سوائے ایک چادر کے کچھ میسر نہ آیا۔اورچادر بھی اتنی مختصر کہ اس سے مصعبؓ کا سر ڈھانکتے تو پائوں نظر آنے لگتے اور پائوں ڈھانکتے تو چہرہ ننگا رہتا۔چنانچہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ سر ڈھانک دو اور پائوں پر اذخر گھاس ڈال کر انہیں دفن کیا۔(20)
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓکے سامنے ایک دفعہ جب روزہ کی افطاری کے وقت اعلیٰ قسم کا کھانا پیش کیا گیا۔(شاید انہیں مسلمانوں کی کم مائیگی کا وہی وقت یاد آگیا)۔تو کہنے لگے مصعب بن عمیرؓشہید ہوئے وہ مجھ سے بدرجہا بہتر تھے۔مگرانکے کفن کیلئے صرف ایک چادر میسر آئی۔مگر ہمارے لئے دنیا اتنی فراخ کر دی گئی کہ ڈر لگتا ہے کہیں ہماری نیکیوں کے بدلے اسی دنیا میں ہی نہ دے دیئے جائیں۔پھر آپؓ رونے لگ پڑے اور کھانا نہیں کھایا۔(21)
جب میں ان پوشاکوں اور خلعتوں کا سوچتا ہوں جو اس شہید احد کو رب العزت کے دربار میں عطا ہوئی ہونگی تو بے اختیار دل سے پھر یہ صدابلند ہوتی ہے کہ آفرین صد آفرین۔ اے اسلام کے عظیم الشان بطل جلیل مصعبؓ بن عمیر تجھ پر آفرین! کہ تو نے خصوصاًنوجوانوں کے لئے اپنے خوبصورت نمونے سے، ماں باپ کی قربانی، مال و دولت کی قربانی، سادگی، وفا ایثار اور کامیاب دعوت الی اللہ کے شاندار سبق رقم کرکے دکھا دیئے۔
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
حوالہ جات
1-
اسد الغابہ جلد4 صفحہ368
2-
ابن سعد جلد3صفحہ116
3-
اسد الغابہ جلد4 صفحہ368
4-
الاصابہ جز6صفحہ101
5-
ابن سعد جلد3صفحہ116
6-
اسدالغابہ جلد4صفحہ370
7-
ابن سعد جلد3صفحہ117و منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند جلد5ص 267
8-
اصابہ جلد3صفحہ315
9-
ا بن ہشام جلد2 صفحہ186-187 مع الروض الانف
10-
ابن سعد جلد 3 صفحہ118،ابن ہشام جلد1صفحہ185،اسد الغابہ جلد4 صفحہ370
11-
ابن سعدجلد3صفحہ118
12-
ابن ہشام جلد3صفحہ153
13-
ابن سعد جلد3صفحہ120
14-
ابن سعد جلد3صفحہ120
15-
ابن سعد جلد3صفحہ120
16-
ابن ہشام جلد3صفحہ 153
17-
ابن سعد جلد3صفحہ120
18-
ابن ہشام مع الروض الانف جلد3 صفحہ153،اکمال فی اسماء الرجال ذکر مصعب بن عمیرؓ
19-
اسد الغابہ جلد4 صفحہ370
20-
بخاری کتاب الجنائزو کتاب المغازی
21-
بخاری کتاب الجنائز
حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد ؓ
نام ونسب
آپ کا تعلق قبیلہ بنی مخزوم سے تھااصل نام عبد اللہ بن عبدالاسداورکنیت ابو سلمہ تھی۔ والدہ برّہ بنت عبد المطلب آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں ۔اس لحاظ سے حضرت ابو سلمہؓ آنحضرت ﷺکے پھوپھی زاد تھے ۔آنحضرت ﷺ ، حضرت حمزہ ؓ اور ابوسلمہؓ نے ابو لہب کی لونڈی ثویبہ کا دودھ پیا تھا اسلئے ابو سلمہؓ حضورﷺکے رضاعی بھائی بھی تھے اورقریباًہم عمرتھے ۔
آپ کی بیوی ھند بنت ابی امیہ قبیلہ بنی مخزوم میں سے تھیں اور ام سلمہؓ کے نام سے معروف تھیں جو احد میں حضرت ابو سلمہ ؓ کی شہادت کے بعد آنحضرتﷺکے عقد میں آئیں اور اُم المومنین کا مرتبہ پایا ۔ (1)
قبول اسلام اور صبرواستقامت
حضرت ابو سلمہ ؓ نے بہت ابتدائی زمانے میں گیارہویں نمبر پراسلام قبول کیا تھا۔ اس وقت آنحضرتﷺ ابھی دارا رقم میں نہیں گئے تھے اور وہاں تبلیغ کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ قبول اسلام کے بعد مکہ میں جس طرح دیگر تما م صحابہ کو دکھوں اور اذیتوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا کچھ یہی حال حضرت ابو سلمہ ؓ کا ہوا۔آپ نے اپنے ماموں حضرت ابو طالب ؓ کی پناہ لی۔ قبیلہ بنی مخزوم کے لوگ حضرت ابو طالب ؓ کے پاس آئے کہ آپ نے ان کو کیوں پناہ دی ؟جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو ابو لہب نے (باوجودیکہ ساری عمر اسلام کی مخالفت میں ہی گذاری) پہلی دفعہ کسی مسلمان کی طرف داری کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابو طالب ان کو پناہ دیتا ہے تو اسے کچھ نہ کہو ورنہ میں بھی اس کا ساتھ دوں گا ۔(2)چنانچہ ابو سلمہ ؓابو طالب کی پناہ میں ایک عرصے تک رہے۔ اس کے بعد جب ہجرت حبشہ کا موقعہ آیا تو ابو سلمہ ؓابتدائی مہاجرین میں شامل تھے۔ اپنی بیوی حضرت ام سلمہؓ کو ساتھ لے کر انہوں نے حبشہ ہجرت فرمائی۔ وہاں سے واپسی ہوئی تو آنحضرتﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے ہی ابوسلمہؓ نے مدینہ ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی ۔آپ اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھے(3) ان کی ہجرت کا واقعہ نہایت دردناک ہے ۔
داستان ہجرت
حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ’’ مکہ میں جب اذیتوں کا سامنا کرنا پڑاتوابو سلمہ ؓ نے اور میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا ۔اپنی سواری کا اونٹ تیار کیا ،ابو سلمہ ؓ نے مجھے اور میرے بیٹے سلمہ کو جو میری گود میں تھا سوار کروایا اور یوں یہ چھوٹا سا قافلہ ہجرت کیلئے روانہ ہوا ۔جب بنو مغیرہ کے قبیلے نے دیکھا کہ یہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ جاتے ہیں تو وہ اور بنو مخزوم کے لوگ کہنے لگے کہ اے ابو سلمہ ؓ اپنی جان کے تو تم خود مالک ہو لیکن ہمارے قبیلے کی عورت ام سلمہؓ کو تم کیوں کر اپنے ساتھ لے کر جاتے ہو کہ یہ دنیا کاسفر کرکے خاک چھانتی پھرے اور ذلیل و رسوا ہو ہم تواپنی اس بیٹی کو تمہارے ساتھ جانے نہ دیں گے ۔ خودجاتے ہو توجائو۔‘‘ اس طرح ام سلمہؓ کے گھر والوں نے انہیں ابو سلمہؓ سے الگ کرلیا اورابو سلمہ ؓ مدینہ روانہ ہوگئے ۔
ام سلمہؓ کہتی ہیں’’ان کے پیچھے میرا برا حال ہوا ابو سلمہ ؓ کے قبیلہ کے لوگ آگئے ۔ انہوںنے کہا کہ سلمہ ہمارا بیٹا اور ہمارا خون ہے۔یہ ہمارے حوالے کردو۔ الغرض اس خاندان کے بکھرنے کی عجیب صورت پیدا ہوئی۔ ابو سلمہ ؓپہلے ہی مدینہ جا چکے تھے ،ام سلمہؓ کووالدین اپنے ہاں لے گئے اور ان کے معصوم کم سن بچے سلمہ کو ددھیال والے چھین کر لے گئے ۔حضرت ابراہیمؑ،حضرت ہاجرہؑ اور اسماعیلؑ کی قربانی کی یاد ایک دفعہ پھرتازہ ہوگئی۔حضرت ام سلمہؓ کا بیان ہے کہ’’ عجیب پریشانی کی کیفیت میرے لئے پید اہوئی۔ میرے بیٹے اور خاوند کے درمیان ایسی جدائی پڑی کہ میں تنہاسخت بے چین ہوکر ہر صبح باہر میدان میں نکل جایا کرتی اور وہاں بے اختیار رویاکرتی تھی۔ ایک سال تک میر ا یہ حال رہا جسے دیکھ کر لوگوں کو بھی ترس اور رحم آنے لگا یہاں تک کہ ایک سال کے بعد میرے ایک چچا زاد بھائی نے میرے قبیلے کے لوگوں سے کہا خدا کے بندو ! تم کیوں اس عاجز مسکین عورت کو آزاد نہیں کرتے ،تب انہیں کچھ رحم آیا انہوں نے کہا اگر تم چاہتی ہو تو اپنے خاوند کے پاس مدینہ چلی جائو ۔ اسی دوران ددھیال کو بھی کچھ احساس ہوا اور انہوں نے میرا بیٹا بھی میرے حوالے کردیا اور میں مدینے جانے کیلئے تیار ہوگئی مگر میںتنہا تھی میرے ساتھ مدینہ جانے والا کوئی بھی نہ تھا ،تنہا عورت معصوم بچے کے ساتھ تین سو میل کا سفر کرکے مدینہ کیسے جاتی ؟لیکن اللہ نے ایک عجب عزم حوصلہ اورہمت حضرت ام سلمہؓ کو عطا کیا وہ فرماتی ہیں کہ میں ہجرت کا عز م کرکے سواری پر بیٹھی اور مکے سے کوئی دومیل کے فاصلے پر تنعیم پہنچی ہونگی ،کہ عثمانؓ بن ابی طلحہ کلید بردار کعبہ سے سامنا ہوا جو نہایت شریف النفس انسا ن تھے۔ کہنے لگے کہ بنت ابو امیہ کہاںکا قصد ہے؟ میں نے کہا اپنے شوہر کے پاس مدینے جاتی ہوں اس نے کہا کہ تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے میں نے کہا ’’تنہا ہوں یا میرا یہ کم سن بچہ ہے‘‘ وہ کہنے لگے خد اکی قسم ! تمہاری جیسی عورت کو تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا ۔تین چار دن بیابان کا سفر ہے ۔پھر انہوںنے میرے اونٹ کی مہار تھام لی اور میرے ساتھ مدینہ روانہ ہوگئے۔ خد اکی قسم میں نے عربوں میں کوئی شریف النفس عثمان بن ابی طلحہؓ جیسا نہیں پایا ۔وہ میرے اونٹ کی مہار پکڑ کر روانہ ہوئے جب پہلے پڑائو پر پہنچے جہاں رات قیام کرنا تھا تو انہوں نے اونٹ بٹھایااورپھر خودایک طرف ہٹ کر کھڑے ہوئے میں نے ایک درخت کے نیچے آرام کیا اور وہ ذرا فاصلے پر دوسرے درخت کے نیچے آرام کرنے کیلئے چلے گئے۔
پھرصبح ہوئی تو وہ آئے ،اونٹ کوتیار کیا۔ میں سوارہوگئی انہوں نے اونٹ کی مہار تھامی اور پھراس قافلے کو لے کر روانہ ہوئے۔ اس طرح تین دن رات میں انہوں نے مجھے بنی عمرو بن عوف کی بستی قباء میں پہنچایا۔ جب دور سے آبادی کے آثار نظر آئے تو کہنے لگے تمہاراشوہر اسی بستی میں رہتا ہے ۔یہ کہہ کر وہیں سے واپس مکہ روانہ ہوگئے۔ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی تھیں کہ اس وقت عثمان بن ابی طلحہؓ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے مگرمیں نے ان سے زیادہ معزز شریف النفس انسان نہیں دیکھا(4)
حضرت ام سلمہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ خدا کی قسم! جتنی تکلیفیں اور اذیتیں اسلام قبول کرنے کے بعد ابو سلمہ ؓ کے خاندان نے اٹھائی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی راہ میں میں نے ایسا کوئی اور خاندان نہیں دیکھا کہ جس نے ایک سال تک ایسی اذیتیں اور دکھ برداشت کئے ہوں کہ میاں بیوی اور بچے کو آپس میں جدا کرکے ایک سخت اذیت میں مبتلا رکھا گیا ہو ۔
حضرت ابو سلمہ ؓ نے مدینہ آنے کے بعد قبامیں حضرت مبشرؓ بن منذر کے پاس قیام کیا۔ آنحضرتﷺ نے ابو سلمہ ؓ کی مواخات حضرت سعد بن خیثمہؓ کے ساتھ فرمائی تھی ۔اور ابو سلمہؓ کوان کا اسلامی بھائی بنایا تھا بعد میںنبی کریم ﷺنے ان کو ایک مکان بھی مدینہ میں عطا فرمایا ۔
غزوات میں شرکت اور قربانی
رسول کریمﷺنے 2ہجری میں غزوہ عشیرہ کے موقع پرحضرت ابو سلمہ ؓ کومدینہ کا امیر مقرر فرمایا تھا ۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے تھے کہ ابو سلمہ ؓ کے حق میں قرآن کی یہ آیت ہے(الحاقہ :20) گویا ابو سلمہؓ ان لوگوںمیں سے ہیں جن کو اس آیت کے مطابق دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیاجائے گا اور کہاجائے گا یہ تمہارا نیکیوں کا اعمال نامہ ہے اس کو پڑھو!اور ان کا بھائی سفیان بن عبد الاسدجو اسلام کی دشمنی میںپیش پیش تھا اس کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیاجائے گا (5)
حضرت ابو سلمہ ؓ بڑی بہادری کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے ،احد میں بہادری سے لڑے اور زخمی ہوگئے بازو میں شدید قسم کا زخم آیا جس کا علاج مہینہ بھر جاری رہا بظاہر زخم مندمل ہوتا ہوا نظر آیا لیکن ہجرت کے قریباًپندرہ ماہ بعد آپ کو بنی اسد کی طرف ایک اور مہم پرقطن مقام کی طرف جانا پڑا۔(6)اس سفر سے چند دن کے بعد جب واپس لوٹے تو زخم دوبارہ ہرا ہوچکا تھا اس کے چند ماہ بعد ہی آپ کی وفات ہوگئی ۔آنحضر ت ﷺ کو ان سے بہت دلی محبت اور پیارتھاان کی بیمار ی میں ان کی عیادت کیلئے حضور ﷺ ان کے پاس تشریف لے جاتے رہے بلکہ ان کے آخری وقت بھی آنحضرت ﷺعیادت کیلئے ان کے ہاں تشریف لے کر گئے ہوئے تھے۔
شفقت رسولؐ اور تلقین صبر
روایات میں ذکر ہے کہ ابوسلمہؓ کے گھر موجود خواتین اور حضور ؐ کے مابین پردہ حائل تھا ،بعض عورتوں کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’اے عورتو! کیوں روتی ہو اور کیوں نامناسب کلمے اپنی زبان سے نکالتی ہو ،یاد رکھوایسے وقت میں فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں اور تم لوگ جو کچھ اپنی زبان سے کہتے ہو اس پر وہ آمین کہتے ہیں اس لئے بے صبری کی کوئی بات یا کلمہ زبان سے نکالنا مناسب نہیں۔‘‘
آنحضرت ﷺابو سلمہ ؓ کے آخری لمحات میں اپنی محبت اور پیار کااس طرح اظہارکیا کہ جب ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر رہی تھی اور آنکھیں پھٹی پھٹی نظر آرہی تھیں۔ آپ ؐ نے آگے بڑھ کر خوداپنے دست مبارک سے اپنے اس رضاعی بھائی اور ساتھی کی آنکھیں بند کیںاور دعا کی کہ اے اللہ ابو سلمہؓ کو بخش دے اور اس کا درجہ ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر اور بعد میں اس کے اچھے جانشین پیدا فرما اور اے رب العالمین اسے اور ہم سب کو بخش دے۔حضرت ابو سلمہ ؓکی تدفین مدینہ میں ہوئی۔ان کی وفات کا سانحہ احد کے بعد 4ہجری میں بیان کیا جاتا ہے۔ آپ کی اولاد میں سلمہ کے علاوہ عمر ،زینب اور درہ تھیں زینب آپ کی وہ بیٹی ہے جو حبشہ کی ہجرت کے زما نہ میں پیدا ہوئی ۔(7)
حضرت ام سلمہ ؓ بیان کیا کرتی تھیں کہ ایک دفعہ ابو سلمہؓ آنحضورﷺ کی مجلس سے لوٹے تو بہت خوش تھے کہنے لگے میں نے آنحضرت ﷺ سے ایک حدیث سنی ہے کہ کسی بھی شخص کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ !اس مصیبت کا اجر اور بہترین بدلہ مجھے عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اس کا بہترین بدلہ اسے عطا کرتا ہے ۔اور حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ یہ دعا میںنے حضرت ابو سلمہ ؓ سے سنی ہوئی تھی۔ جب حضرت ابو سلمہؓ فوت ہوگئے تو مجھے ان کی یہ بات یاد آئی ۔دوسری طرف آنحضرت ؐ نے بھی تشریف لاکر مجھے تحریک کی کہ اس موقع پر یہ دعا کرو کہ’’ اے اللہ ! اس مصیبت میں مجھے صبر کی توفیق دے اور اس کا بہتر بدلہ مجھے عطا کر ۔‘‘مگر ابو سلمہ ؓ مجھ سے ایسا حسن سلوک کرنے والے تھے کہ یہ دعاکرتے ہوئے میںنے دل میں سوچا کہ کیا ابو سلمہ ؓ سے بہتر بھی کوئی شخص ہوسکتا ہے ؟لیکن آنحضرت ﷺکے ارشاد کی تعمیل میں میں نے یہ دعا کی اور پھر واقعۃً اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے ان سے کہیں بہتر وجودیعنی آنحضرت ﷺمجھے عطا فرمادئے۔ جب آنحضرتﷺ کی طرف سے ام سلمہؓ کو نکاح کاپیغامگیا تو انہوں نے کچھ تردّد کے ساتھ بعض عذر پیش کئے کہ میں ایک غیور اور عمر رسیدہ عورت ہوں مجھے سوکن کو برداشت کرنا مشکل ہوگا۔دوسرے میری اولاد زیر کفالت ہے حضورﷺ نے فرمایاکہ عمر آپ کی زیادہ ہے تو میری بھی زیادہ ہے ۔اور غیور ہونے کی جہاں تک بات ہے تو اللہ تعالیٰ وہ ناواجب غیرت دعاسے دور کردے گا ۔باقی رہی آپ کی اولاد تو وہ ہماری بھی اولاد ہوگی آنحضورﷺ نے جب انہیں ہر پہلو سے تسلی کرا دی تو بالآخر حضور ﷺکے ساتھ ان کی شادی ہوگئی ۔(8)
اور ان کے چاروں بچے رسول کریمﷺکے ربیب بن کر آپ کے زیر سایہ پرورش پانے لگے۔(9)
حوالہ جات
1-
اسد الغابہ جلد3ص195
2-
ابن ہشام جلد 2صفحہ 121
3-
ابن سعد جلد 3صفحہ 24
4-
ابن ہشام جلد 3صفحہ 112
5-
اسد الغابہ جلد 3صفحہ 196،اصابہ جز4ص95،استیعاب جلد3ص71
6-
ابن سعد جلد 3صفحہ 240
-7
اسد الغابہ جلد 3ص 196-197
-8
مسند احمد وابن ماجہ
-9
استیعاب جلد3ص71،اسد الغابہ جلد3ص196-197
حضرت شماس بن عثمان قریشیؓ
نام ونسب
حضرت شماسؓ کا اصل نام تواپنے والد کے نام پر عثمان تھا ۔مگر سرخ و سفید رنگ میں اتنے حسین اور خوبصورت تھے کہ چہرہ سورج کی طرح دمکتا تھا ۔یہاں تک کہ ان کا لقب ہی شمس اور پھر شماس پڑ گیا یعنی سورج کی طرح روشن چہر ہ والے۔آپ قبیلہ بنی مخزوم میں سے تھے۔ والدہ صفیہ بنت ربیعہ بنو عبد شمس میں سے تھیں۔ اہلیہ اُم حبیب ابتدائی ہجرت کرنے والی مسلمان خواتین میں سے تھیں ۔ انہوں نے ابتدائی زمانے میں ہی قبول اسلام کی سعادت حاصل کی ہے ۔(1)اہل مکہ کی مخالفت کاسامنا کرنے کے بعد بالآخر حبشہ ہجرت کرنا پڑی۔حبشہ ہجرت کرنے والے دوسرے گروہ میںحضرت شماسؓ بھی شامل تھے۔(2)بعد میں انہوں نے مدینہ ہجرت کی بھی توفیق پائی۔یہاں آکر محلہ بنی عمرو بن عوف میں ٹھہرے اور حضرت مبشر ؓبن عبدالمنذرکے پاس قیام کیا ۔ غزوہ بدرکا موقع آیا تو اس میں شامل ہوئے ،پھرغزوہ اُحد میں شرکت کی اور جام شہادت نوش کیا۔آخر وقت تک بنی عمرو بن عوف میں ہی قیام رہا۔آنحضرت ﷺ نے حنظلہؓ بن ابی عامر کے ساتھ ان کی مواخات قائم کرکے اسلامی اخوت کے رشتے میں منسلک فرمایا تھا۔
حفاظت رسول ؐ میں جان کی قربانی
حضرت شماسؓ بدر اور احد میں نہایت دلیری اور بہادری کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ مگران کی غیر معمولی خدمت جو ان کے روشن چہرے کی طرح انکے سیرت اورکردار کو چار چاند لگا گئی اور ہمیشہ کے لئے تاریخ میںان کا نام زندہ کر نے والی بن گئی وہ ان کا احد کے میدان میں آنحضرتﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے قربان ہو جانا ہے۔میدان احد میں آنحضرت ﷺ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑنے والوں میں جہاںمشہور تیر اندازحضرت ابو طلحہؓ انصاری تھے اورحضرت طلحہؓ بن عبید اﷲ ہاشمی بھی تھے جنہوں نے اپنا ہاتھ بطورڈھال آنحضرت ﷺکے چہرے کے سامنے کررکھا تھااور ہر آنے والا تیر اپنے ہاتھ پر لیتے تھے ۔وہاں حضرت شماس ؓ بھی ہیں جو آنحضرت ﷺ کے آگے اس طرح سینہ سپر ہوگئے کہخود حضور ؐ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔آپؐنے فرمایا کہ’’ شماسؓ کو اگر میں کسی چیز سے تشبیہ دوںتو اسے ڈھال سے تشبیہ دے سکتا ہوں کہ وہ احد کے میدان میں میرے لیے ایک ڈھال ہی توبن گیا تھا اور میرے آگے پیچھے دائیں اور بائیں ہوکر حفاظت کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتا رہا ۔‘‘ آنحضرتﷺ جدھر نظر ڈالتے شماس ؓ آپ کو نہایت بہادری اور دلیری سے لڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔ آپ ؐ نے دیکھا کہ جو حملہ آور بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتا شماس ؓ اپنی تلوار کے ساتھ مقابلہ کرکے ان کو پیچھے ہٹاتا ہے۔
ظاہر ہے دشمن کا ہدف رسول کریمﷺ کی ذات تھی۔ جب وہ آنحضور ﷺپرحملہ میں کامیاب ہوئے اور زخمی ہونے کے بعدرسول کریم ﷺپر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی ،تب بھی شماسؓ آگے ڈھال بن کر کھڑے رہے یہاں تک کہ خود شدید زخمی ہو گئے ۔اس حا لت میں ان کو مدینے لا یا گیا اور حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں تیمارداری کے لئے رکھا گیا۔حضرت اُم سلمہ ؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ میرے چچا کے بیٹے ہیں میرے گھر میں ان کی تیمارداری ہونی چاہیے۔چنانچہ وہیں ان کی تیمارداری ہوئی۔اس شدید زخمی حالت میں ایک دن اورایک رات اس طرح گذارا کہ وہ کچھ کھا پی نہ سکتے تھے ۔اسی حال میں ان کی وفات ہوگئی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شماسؓ کوبھی اس کے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے، جس طرح دوسرے شہداء کو بھی انکے لباس میں دفن کیا گیا۔ نیز فرمایا کہ شہداء کی طرح ان کی کوئی الگ نماز جنازہ بھی نہیں ہو گی۔اور تدفین بھی میدان اُحد میں کی جائے جہاں دیگر شہداء اُحد کی تدفین ہوئی ۔گویا حضورﷺ نے انکو ہرپہلوسے شہداء اُحد کے زمرے میں شامل فرمایا ۔ اس خوش بخت حسین و جمیل جوان ر عناکی عمر صرف چونتیسبرس تھی جب وہ اپنے آقا و مولا حضرت محمد رسول اﷲﷺپر فدا ہو گیا ۔(3)
اس جوان موت سے حضرت شماس ؓکے اہل و عیال اور بہن بھایئوں کو صدمہ ہونا طبعی امر تھا ۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس پر مرثیہ کہا جس میں ان کی بہن کو تعزیت کرتے ہوئے وہ یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ’’ اے شماس ؓ کی بہن!صبر کرو ،دیکھو شماسؓ بھی تو ایک انسان تھا ۔وہ بھی حضرت حمزہ ؓکی طرح آنحضرت ﷺپرفدا ہوگیا ہے ۔پس یہ ایک صبر کا معاملہ ہے تم بھی اس پر صبر کرو ۔‘‘یہ تھے حضرت شماس ؓ کہ بظاہر جن کا نام روایات میںبہت معروف نہیں ہے مگر آنحضرت ﷺ نے اپنے آگے اور پیچھے، حفاظت کرنے والوں میںانکو بطور ڈھال قرار دے کر انہیں وفا کی سند عطا فرما دی اور اُحد کے میدان میں شہادت پاکر اللہ تعالیٰ کے حضورانہوںنے شہادت کا بلند مرتبہ پایا۔ـ
یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
حوالہ جات
-1
اسد الغابہ جلد 3صفحہ3
ابن سعد جلد3صفحہ 245
-2
ابن سعد جلد نمبر 3 صفحہ 246