• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

فتاویٰ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ۔ جلد1

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
فتاویٰ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ۔ جلد1


بسم اللہ الرحمان الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر

خدا تعالیٰ کی صفات ازلی ہیں
سوال: خدا کی صفات اس کے سا تھ ہی ازلی ہیں یا پیدا شدہ؟یعنی کیا آپ یہ خیا ل کرتے ہیں کہ اس کی صفات اس سے علیحدہ نہیںہوسکتیں یا یہ کہ وہ نئی صفت پیدا کر سکتا ہے اور جب چاہے موجود ہ صفات کو برباد کر سکتا ہے؟
جواب: صفات ِ الٰہیہ مخلوق نہیں ہیں بلکہ وہ ذات کے ساتھ ہی ازلی ابدی ہیں۔
(الفضل ۵ جولائی ۱۹۲۹؁ء جلد ۱۷ نمبر ۳)
قرآن ِکریم
سوال : کیا قرآن ِکریم گزشتہ زمانوں میں موجود یا کسی اور شکل میں موجود تھا ۔کیا اسلام ہی ان لوگوں کا مذہب تھا۔ان جہانوں میں کون کون انبیا ء تھے؟
جواب: قرآن کریم اس کتا ب کا نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔اگر پہلی مخلوق اس درجہ کمال تک پہنچی ہوئی تھی کہ وہ کسی کلام الٰہیہ کی محتاج تھی تو یقینا اس کے لئے کوئی نہ کوئی وحی الٰہی نازل ہوئی ہوگی لیکن اس کا نام ہم قرآن نہیں رکھ سکتے،ہاں ان لوگوں کے مذہب کا نام ہم اسلام ضرور رکھیں گے کیونکہ جو وحی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے گی اس کا ماننا ضروری ہوگا اور ہر اس مذہب کا نام اسلام ہے جس میں خدا تعالیٰ کی وحی کا ماننا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
آپ کے سوال کا آخری حصہ نہایت عجیب ہے۔آپ پوچھتے ہیں ان زمانوں کے نبیوں کے کیا نام تھے۔جب ان عالموں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں اور ان کی تفصیلی حقیقت سے ہمیں آگاہ نہیں کیا گیاتو ان کے نبیوں کے نام بتانے کی کیا ضرورت تھی اور بغیر بتائے ہم کس طرح آپ کو بتا سکتے ہیں۔
(الفضل ۲ جولائی ۱۹۲۹ ؁ئ)
مقام ِحدیث
سوال : قرآن مجید کے جن احکامات کی خود خدا تعالیٰ نے تفصیل نہیں بتائی تو کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے حالات پر اس کی دلیل چھوڑدی ہے خواہ رسول کریم ﷺنے اس کی جزئیات بتادی ہوں۔تو کیا رسول کریم ﷺ کی وضاحت محض وقتی سمجھی جائے گی نہ کہ دائمی ۔مثلا زکوۃ کا حکم خدا تعالیٰ نے دیالیکن اس کی شرح نہیں بتائی،رسول اللہ نے ڈھائی فیصد شرح مقرر فرمائی۔تو کیوں نہ اس کو وقتی سمجھا جائے؟
جواب: سوال یہ ہے کہ رسول کریم ﷺنے تفصیل تو بتا دی مگر یہ نہ بتایا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ وقتی ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے نعوذ باللہ یہ آیت قرآن کریم میں بلا وجہ نازل کر دی کہ ’’قُلْ إِن کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ‘‘گویا کہا تو یہ کہ محمد رسول اللہﷺ کی اتباع میں میری رضا مل سکتی ہے ۔مگر حقیقت یہ تھی کہ محمد رسول اللہﷺ نے جو کچھ بتایا وہ وقتی تھااور دائمی طور پر اس پر عمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس صورت میں تو اللہ تعالیٰ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺکی اتباع میں نہیں بلکہ غلام محمد پرویز کی اتباع میں تم میرے محبوب بن سکتے ہو۔ آخر سوچنا چاہئے کہ اگر رسول اللہﷺ کی تشریحات وقتی تھیں تو پھر اس آیت کے کیا معنی رہے؟
اسی طرح قرآن کریم کی اور بیسیوں آیات جو رسول اللہ ﷺ کی اتباع کو بنی نوع انسان کے لئے ضروری قرار دیتی ہیںاور اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں پھر یہ کس طرح جائز ہوسکتا ہے کہ ان احکام کو جو رسول کریم ﷺسے ثابت ہیں وقتی قرار دیںاور اس طرح آپ کی دائمی اتباع سے جس پر قرآن کریم نے زور دیا ہے انکار کر دیں۔آخر اتنا بڑا مسئلہ کہ رسول اللہﷺ کے احکام وقتی ہیں امت ِمحمدیہ کے اربوں افراد کی زندگی پر اثر رکھنے والا تھااور ضروری تھا کہ انہیں اس بارہ میں علم دیا جاتاتاکہ وہ غلط راستہ پرنہ چلتے مگر خدا تعالیٰ بھی اس بارہ میں خاموش رہا۔رسول کریم ﷺ بھی خاموش رہے اور صلحائے امت بھی خاموش رہے۔اور پھر خدا تعالیٰ نے یہ عقیدہ اپنے معمور کے ذریعہ بھی نہ کھولا۔اگر کھولا تو دفتر کے کلرکوں کے ذریعہ کھولا۔کیا کوئی عقلمند انسان اسے تسلیم کر سکتا ہے؟
حضرت عمرؓ کو ایک دفعہ کشفی طور پر جنگ کا ایک نظارہ دکھایا گیااور آپ نے با آ واز ِبلند فرمایا ــ’’ یَا سَارِیَۃَ الْجَبَل‘‘ اب دیکھو یہ کتنی چھوٹی سی چیز تھی جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی لیکن جس مسئلہ سے اربوں ارب آدمی امت ِمحمدیہ کا گمراہ ہوسکتا تھا،دین سے بے راہ ہو سکتا تھا اس کے لئے کسی کو الہام نہ کیا۔پھر لطف یہ ہے کہ غیر احمدیوں کے نزدیک خدا تعالیٰ کو حق نہیں کہ کسی الہام کے ذریعہ کسی شخص کو اپنا منشاء بتائے۔لیکن عربی زبان سے ناواقف اور قرآن کریم سے بے بہرہ افراد کوئی تشریح کر دیںاور بعد رسول اللہﷺ کی امت کو گمراہ کر دیںتو یہ ان کے نزدیک درست ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ تفصیل کو قرآن کریم نے کیوںچھوڑاسو اس تفصیل کو اسی لئے چھوڑا کہ قرآن کریم کو حفظ کرایا جانا تھا اگر ساری تفصیل قرآن کریم میں آ جاتی تو وہ حفظ نہ ہو سکتا اور اس کی حفاظت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتی۔اگر ساری تفصیل اس میں درج ہوتی تو رازی ،ابن جریر ،ابن محیط،روح المعانی ، روح البیان،کشاف ، بیضاوی اور خازن وغیرہ تفاسیر بھی تفصیلات میں آنی چاہئیں تھیں ۔پھر میری تفسیر کبیر بھی آنی چاہئے تھی۔ایسی صورت میں قرآن کریم کو کون حفظ کر سکتا تھا۔پھر ان اعتراض کرنے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ حدیثوںکا حجم قرآن کریم سے بیسیوںگنا زیادہ ہے۔
(فائل مسائل دینی نمبر ۱۱ DP 6269/15.1.51)
روح اور نفس میں فرق
سوال : روح اور نفس میں کیا فرق ہے۔روح ،نفس اور دماغ میں دماغ کی حیثیت اور کام کیا ہے؟
جواب: روح اور نفس میں نمایا ں فرق ہے۔روح ایک وجود ہے اور نفس ایک قوت فعلیہ کا نام ہے۔روح انسانی دماغ کے ذریعہ سے انسان سے کام لیتی ہے اور اس کے اثرات جس وقت دماغ میں ایک متعین صورت اختیار کرتے ہیںتو اس کا نام نفس ہوتا ہے جیسے تار دینے والا جب آلہ تار کو حرکت دیتا ہے تو دوسری طرف اس کے خیالات کا اظہار ہوتا چلا جاتا ہے۔روح جو ہے وہ تار دینے والا وجود ہے۔دماغ آلہ تار ہے اور اس کے حرکت دینے سے جو ایک متعین مفہوم پیدا ہوتاچلا جاتا ہے وہ گویا نفس ہے۔لیکن یہ خیا ل مکمل نہیں ہے اس سے کسی قدر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بعض نقائص اس میں ہیں۔
( الفضل ۹ جولائی ۱۹۲۹؁ ء جلد ۱۷ نمبر ۳)
مردوںکی روحیں زندوں کے پاس آ سکتی ہیں
سوال: کیا مردوں کی روحیں زندوں کے پاس آسکتی ہیں اور باتیں کر سکتی ہیں؟
جواب: ہاں روحیں آسکتی اور باتیں بھی کر سکتی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ۔خود بخود نہیں آسکتیںاور نہ زندہ انسان انہیں بلا سکتے ہیں۔جب تک دنیا کے لوگوںسے خدا تعالیٰ ان کا واسطہ پیدا نہ کرے روحیں نہیں آسکتیں اور نہ کلا م کر سکتی ہیں۔وہ لوگ جو روحیں بلانے کے دعوے کرتے ہیںان کا دعویٰ نہایت ہی مضحکہ خیز ہے۔
ولایت میں اس قسم کے لوگ میرے پاس آئے تو میں نے انہیں کہا کیا آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ کچھ آدمی علیحدہ علیحدہ بٹھا دیں اور ان سب پر ایک ہی روح کو بلائیں۔اگر سب کے سب یہ کہیں کہ ان پر روح آ گئی ہے تو یہ غلط ہوگا۔کیونکہ ایک روح ایک وقت میں ایک ہی جگہ مصروف ہو سکتی ہے نہ کہ مختلف جگہوں میںاور اگر کہو کہ روحیں مرنے کہ بعد اتنی طاقت حاصل کر لیتی ہیںکہ ایک ہی روح ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں میں جا سکتی ہے گو اس کا تجربہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک ہی روح کو مختلف آدمیوں پر بلا کر اس سے ایک ہی قسم کے سوالات کئے جائیں۔اگر ان کے سب ایک ہی جواب دیںتو ہم مان لیں گے کہ روحیں آ سکتی اور بلائی جاسکتی ہیںمگر اس بات کو کسی نے تسلیم نہ کیا۔
(الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۳۴؁ء جلد نمبر ۲۱ پرچہ نمبر ۸۵)
قدیم جہا نوں کی ارواح
سوال: کیا جز ا سزا اور قیامت ان لوگوں کے لئے بھی جو گزشتہ جہانوں سے تعلق رکھتے تھے قائم کی گئی اور ان کی روحیں اب اپنے اعمال کے مطابق دوزخ یا بہشت میںہونگی یا یہ کہ جب ایک نئی دنیا پیدا کی جاتی ہے تو گزشتہ جہانوں کی روحیں تباہ ہوجاتی ہیںکیونکہ خدا روحوں کوپیدا کرتا ہے اور ان کوبرباد بھی کر سکتا ہے۔تما م روحیں اس کی قدرت یا مرضی کے ماتحت ہیں؟
جواب: یہ بالکل صحیح ہے کہ وہ انسان جو ہماری دنیا سے پہلی دنیا میں گزر چکے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے انعامات اور اس کی جزا حاصل کر رہے ہوںیا وہ تباہ کر دیئے گئے ہوںاور ان کی جگہ ایک نئی دنیا پیدا ہوگئی ہو لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہم سے پہلے جو مخلوق گزر چکی ہے اس کی ارواح کس حد تک کمال کو پہنچ چکی تھیں اور نہ ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سزا دائمی تھی یا محدود۔اس لئے ہم با لجزم یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ آیا اس مخلوق کی ارواح دائمی انعامات پا رہی ہیں یا سزا حاصل کر رہی ہیں یا بوجہ اس کے کہ ان کی ارواح موجودہ انسانی ارواح سے نامکمل تھیں وہ تباہ کر دی گئیں۔اس سوال کا جواب چونکہ ہماری بہتری یا ہماری روحا نی ترقی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا اس لئے قرآن کریم اس بارہ میں خاموش ہے۔وہ خدا تعالیٰ کی صفت پر روشنی ڈالنے کے لئے صرف اتنا بتا تا ہے کہ ہم سے پہلے بھی مخلوق ہوا کرتی تھی اور یہ کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں تعطل نہیں ہوتا۔یہ بالکل صحیح ہے کہ ارواح خدا تعالیٰ کی مرضی کے ماتحت ہیںاور وہ تباہ کر سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ تباہ کر بھی دے۔ اگر وہ چاہے اور قائم رکھے تو کوئی اس کے راستے میں روک نہیں بن سکتا۔

( الفضل ۲ جولائی۱۹۲۹؁ ء جلد ۱۷ پرچہ ۱)
جنت ودوزخ کا مقام
سوال : جنت اور دوزخ کہاں ہیں؟
جواب: دوزخ اور جنت کا مقام ہم کوئی تجویز نہیں کر سکتے۔درحقیقت ان دونوں چیزوںکے لئے مقام تجویز کر نا بھی غلط ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں مادی مقامات سے بالا ہیں۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومنوں کا بدلہ تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہوگا اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں یہ بدلہ ادنیٰ مومن کا بدلہ ہے اگر کوئی مادی مقام جو کسی سہارے سے مخصوص ہوناجنت کے لئے قرار دیا جاتا تو ایک ادنیٰ مومن کا بدلہ آسمانوں اور زمین کے برابر کس طرح ہو سکتا تھا۔
(الفضل ۲ جولائی۱۹۲۹؁ء جلد ۱۷ نمبر ۱)
جنت کی حوریں
سوال : مردوں کو جنت میں حوریں ملیں گی۔عورتوں کو کیا ملے گا کیا انہیں بھی حوریں ملیں گی؟
جواب: غلطی اس سے لگی ہے کہ یہ سارے استعارے ہیں ۔ اگلے جہاں کی زندگی کے لئے بھی اور اس دنیا کے لئے بھی۔اور یہ بھی غلطی ہے کہ ساری آیتوں کو اگلی زندگی پر ہی لگا لیا گیا ہے ۔بلکہ اس دنیا میں مسلمانوں کو کامیابیوں کی خوشخبری ہیں کہ نہ صرف مرد نیک ہونگے بلکہ عورتیں بھی۔قرآن شریف میں حور کا لفظ ہے جس کے معنی کالی آنکھ والی کے ہیں۔سو ایران پہلے مسلمان ہوا اور ایرانیوں نے اسلام کے شوق میں اپنی بیٹیاں مسلمان سپاہیوں سے بیاہی ہیں۔چنانچہ خود حضرت حسنؓ وحسینؓ کے گھر میں بھی ایرانی بیویاں تھیں۔
پس جہاں تک قرآنی پیشگوئی کا سوال ہے مسلمان قوم اگر بحیثیت قوم مسلمان ہوگی تو ان کی بیویاں بھی نیک ہونگی اور بیویوں کے خاوند بھی نیک ہونگے۔کسی غیر عورت کا سوال ہی نہیں۔نہ کسی غیر مرد کا سوال ہے۔مرد و عورت دونوں انعام میں برابر ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں اس پر سیر کن بحث کی ہے۔
(فائل مسائل دینی32-A DP4/......)
نئی دنیا کا آدم
سوال: کیا موجودہ دنیا کی تباہی اور قیامت کے بعد ایک نئی دنیا پیدا ہوگی۔جس کے انسانوں کی شکل ابن آدم کی شکل پر ہوگی جو سب سے پہلے پیدا کیا جائے گا؟
جواب: قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کے تباہ کرنے کے بعد پھر ایک اور دنیا پیدا کرے گا ۔کیونکہ اعادہ صفاتِ الٰہی کمال الوہیت کے لئے ضروری ہے۔جب ایسا کرنا لازمی ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی کوئی آدم پیدا کرے گاجو اپنی آئندہ نسل کے لئے نمونہ ہوگا۔
(الفضل ۲ جولائی ۱۹۲۹؁ء جلد ۱۷)
مسلمان کی تعریف
سوال : ایک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن اس کے عقائد کافرانہ ہیں کیا ایسے شخص کو غیر مسلم سمجھنا جائز ہے؟
جواب: ہم ایسے لوگوں کو مسلمان ہی کہتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔جہاں تک نام کا سوال ہے ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ مسلمان نہیں۔البتہ جب ان کے بعض عقائد اسلام کے خلاف ہوتے ہیںتو ہم کہتے ہیں کہ یہ بگڑے ہوئے اسلامی عقائد ہیں مثلا اگر دودھ میں کیچڑ پڑا ہوا ہو تو آپ اس کو دودھ ہی کہیں گے مگر پئیں گے نہیں۔پھر یہ گند زیادہ بھی ہوسکتا ہے اور کم بھی۔لیکن ایسے شخص سے سوشل سلوک ویسا ہی کیا جائے گا جیسے دوسرے مسلمانوں سے کیا جاتا ہے۔ایسے شخص کو غیر مسلم سمجھنے کے تو معنی ہی میری سمجھ میں نہیں آتے۔چونکہ ایک شخص کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اس لئے ہم اسے مسلمان کہتے ہیںلیکن چونکہ بعض عقائد اس کے غیر اسلامی ہوتے ہیںاس لئے ہم ان عقائد کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ غیر اسلامی ہیںورنہ اسلام اور غیر مذاھب آپس میں بہت سی اصولی باتوں میں اشتراک رکھتے ہیں۔مثلاً اسلام کا بڑا عقیدہ خدا تعالیٰ کا ماننا ہے اور ہندو ،عیسائی اور یہودی سب خدا تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں۔اسی طرح عبادت مذھب کا ایک ضروری حصہ ہے اور ہندوؤں ،عیسائیوں اورسکھوں کی بھی یہی تعلیم ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے۔غرض کوئی ایسی چیز ان میں نہیں پائی جاتی جس کے مشابہ چیزیں اسلام میں نہ پا ئی جاتی ہوں۔لیکن کوئی مقررہ سٹینڈرڈ نہیں سب نسبتی امر ہیں۔اس لئے جن امور کا تقویٰ سے تعلق ہے یا دین کی حفاظت سے تعلق ہے ان میں ہم ان لوگوں سے اجتناب کرتے ہیںجن کے بعض عقائد یا اعمال غیر اسلامی ہوں۔اور سوشل تعلقات یا سیاسی تعلقات میں ہم ہر مسلمان کہلانے والے کومسلمان ہی کہتے ہیںاور وہی اس سے سلوک کرتے ہیںکیونکہ اس میں تقوی کا سوال یا حفاظت دین کا سوال پید انہیں ہوتا۔بلکہ اسلام تو سیاسی امور میں غیر مسلم کو بھی مسلم والے ہی حقوق دیتا ہے ۔مسلمان کہلانے والا تو بدرجہ اولیٰ اس مساوات کا مستحق ہے۔
خلفاء کی اطاعت
خلفائ۔ان کے لئے ضروری نہیں کہ اسوہ ہوں اور ان کی اطاعت ویسی نہیں ہوتی جیسی انبیاء کی ہوتی ہے۔نبی تو جو کہتا ہے وہ ماننا ضروری ہوتا ہے لیکن ایک خلیفہ اگر اپنے وقت میں کوئی مسئلہ بیان کرتا ہے اور کوئی اسے سمجھ نہیں سکتا تو اس میں اختلاف ہو سکتا ہے اور اس کی مثالیں موجود ہیں۔حضرت ابوبکر ؓ کے وقت آپ ایک مسئلہ ایک اور رنگ میں بیان فرماتے اور بعض اور صحابہ او ررنگ میں۔اور سوائے سیاسی اور انتظامی معاملات کے اس وقت خلیفہ جو کہتا اسی پر عمل ہوتا۔تو مسائل میں اختلاف کیا جاتا تھاچنانچہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جب لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیاتو حضرت ابوبکرؓنے کہا میں ان سے کافروں والا معاملہ کروںگا۔حضرت عمرؓ اور دوسرے صحابہؓ اس کے خلاف تھے مگر حضرت ابوبکر ؓ نے کسی کی نہ مانی اور ان لوگوں کو قید کیااور غلام بنائے گئے۔ اسی طرح اور خلفاء کے زمانے میں بھی بعض مسائل میں اختلاف ہوتا رہا ہے۔تو رسول کی اطاعت اور خلیفہ کی اطاعت میں فرق ہے۔رسول سے کسی بات میں اختلاف کرنا نادانی اور جہالت ہے اور یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسا کوئی کہے کہ خدا نے غلطی کی ہے کیونکہ رسول کا کلام خدا تعالیٰ کے کلام کی تفسیر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔انبیا ء کی ہر بات ماننی ضروری ہوتی ہے کیونکہ وہ خدا کے کلام کی تفسیر ہوتے ہیںمگر خلفا ء ایسے نہیں ہوتے۔اگر تو یہ ان کا ذاتی کمال ہوگا خلافت سے اس کا تعلق نہیں۔اس لئے ان کی اطاعت نبی کی اطاعت کے مقابلے میں محدود ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انتظامی معاملات جن میں جماعت کو جمع رکھنا ہوتا ہے ان میں ان کا حکم مانا جائے مثلا قاضیوں نے جو فیصلہ کرنا ہوگا وہ خلیفہ کے حکم کے ماتحت کرنا ہوگا۔تو خلفاء کی اطاعت محدود ہوتی ہے اور صرف چند باتوں میں ہوتی ہے جو انتظامی معاملات سے تعلق رکھتی ہوںمسائل فقہ سے تعلق نہیں رکھتیں۔
(خطبہ جمعہ ،الفضل ۲۴ اگست ۱۹۲۹؁ء جلد ۱۱ نمبر۱۵)
ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اسے سمجھنا چاہئے کہ خلفاء خدا مقرر کرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوںکی راہنمائی اوردینی مسائل میں غور و فکر ہوتا ہے۔اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے۔اور اس کی رائے سے اختلاف اسی وقت جائز ہو سکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہی درست ہے۔پھر بھی یہ شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے اور بتائے کہ فلاں بات کے متعلق مجھے یہ شبہ ہے اور خلیفہ سے وہ شبہ دور کروائے۔۔۔۔۔۔پس اختلاف کرنے والے کا فرض ہے کہ جس بات میں اسے اختلاف ہواسے خلیفہ کے سامنے پیش کرے نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کر دے ورنہ اگر یہ بات جائز قرار دی جائے کہ جو بات کسی کے دل میں آئے وہی بیان کرنی شروع کردے تو پھر اسلام کا کچھ بھی باقی نہ رہے۔۔۔۔اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دے کر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتاہے۔
(منہاج الطالبین صفحہ ۱۲تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۲۵؁ئ)

تمہیں امر بالمعروف میں میری اطاعت اور فرمانبرداری کرنی ہوگی۔اگر نعوذ باللہ کہوں کہ خدا ایک نہیں تو اسی خدا کی قسم دیتا ہوں جس کے قبضہء قدرت میں ہم سب کی جان ہے۔۔۔کہ میری ایسی بات ہرگز نہ ماننا۔اگر میںتمہیں نعوذ باللہ نبوت کا کوئی نقص بتاؤںتو مت مانیو۔۔۔۔ہاں میں پھر کہتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ امر معروف میں میری خلاف ورزی نہ کرنا۔
( الفضل کا غیر معمولی پرچہ ۲۱ مارچ ۱۹۱۴؁ئ)
خلیفہ اور انبیا ء کا منکر
سوال : کیا خلیفہ کا منکر کافر ہے؟
جواب: میرا اب تک یہی مذہب ہے کہ صرف انبیا ء اور رسل کا منکر کافر ہوتا ہے۔غیر مامور خلیفہ یا مامور خلیفہ کا منکر کافر نہیں ہوتا۔بلکہ فاسق ہوتا ہے۔ہاں اگر اس کا انکار شرارت سے ہوتاہے یا ایذا رسانی میں یہ شخص بڑھ جاتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ اس کا ایمان ضائع ہونے لگتاہے اور آخر یہ کافر ہو جاتا ہے۔
(الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۱۵؁ء جلد ۲ نمبر ۹۲)
مسائل فقہ میں خلیفہ سے اختلاف ہو سکتا ہے
سوال: کیا خلیفہ کے لئے سلطنت ضروری ہے؟
جواب: فرمایا:۔ خلافت کے معنے ایک بادشاہ کے ہیں اور ایک نیابت کے۔اور جو جس کا خلیفہ ہو گا وہ اسی بات میں ہوگا جو اس کے اصل میں ہوگی۔آنحضرت ﷺ کی بعثت کی غرض بھی روحانی اصلاح تھی۔اور خلیفہ عربی کے لحاظ سے بادشاہ کو کہنا بھی درست ہے۔ہر ایک سلطان بھی خلیفہ ہے ہاں مسلمانوں نے اس کو خاص کر لیا ہے۔
(الفضل ۲۸ نومبر۱۹۲۱؁جلد ۹ نمبر ۴۲)
سوال: کیا ایک شخص مسائل میں اختلاف رکھ کر خلیفہ سے بیعت کر سکتا ہے؟
جواب: مسائل فقہیہ میں سوائے نبی کے ہر ایک شخص سے اختلاف ہو سکتا ہے۔حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ سب سے اپنے اپنے صحابہ بعض باتوں میں اختلاف رکھتے تھے۔ہمیں کئی مسائل میں حضرت خلیفہ اول ؓ سے اختلاف تھامثلا حضرت خلیفہ اولؓ کا یہ اعتقاد تھا کہ نبی قتل نہیں ہو سکتا مگر ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ نبی قتل ہو سکتا ہے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لکھا ہے کہ حضرت یحیٰ ؑقتل کئے گئے۔گو یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ الزامی طور پر لکھا ہے مگر یہاں الزام کی کوئی بات نہیں۔پس اصولی بات میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔یہ نبی ہی ہوتا ہے جو کہتا ہے یہ بات یوں ہے پھر خواہ وہ سمجھ میں نہ آئے ماننی پڑتی ہے۔
( الفضل ۵ فروری ۱۹۲۴؁ء جلد ۱۱ نمبر ۶۱)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ سے چونکہ اختلاف جائز ہے اس لئے ہمیں ان سے فلاں فلاں بات میں اختلاف ہے۔میں نے ہی پہلے اس بات کو پیش کیا تھا اور میں اب بھی پیش کرتا ہوںکہ خلیفہ سے اختلاف جائز ہے مگر ہر بات کا ایک مفہوم ہوتا ہے اس سے بڑھنا دانائی اور عقلمندی کی علامت نہیںہے۔۔۔۔۔پس اختلاف کی بھی کوئی حد بندی ہونی چاہئے۔
ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اسے سمجھنا چاہئے کہ خلفاء خدا مقرر کرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوںکی راہنمائی اوردینی مسائل میں غور و فکر ہوتا ہے۔اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے۔اور اس کی رائے سے اختلاف اسی وقت جائز ہو سکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہی درست ہے۔پھر بھی یہ شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے اور بتائے کہ فلاں بات کے متعلق مجھے یہ شبہ ہے اور خلیفہ سے وہ شبہ دور کروائے۔۔۔۔۔۔پس اختلاف کرنے والے کا فرض ہے کہ جس بات میں اسے اختلاف ہواسے خلیفہ کے سامنے پیش کرے نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کر دے ورنہ اگر یہ بات جائز قرار دی جائے کہ جو بات کسی کے دل میں آئے وہی بیان کرنی شروع کردے تو پھر اسلام کا کچھ بھی باقی نہ رہے۔۔۔۔اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دے کر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتاہے۔اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔
(منہاج الطالبین صفحہ ۱۲،۱۱ شائع کردہ الشرکۃالاسلامیہ ، تقریر جلسہ سالانہ ۲۷دسمبر ۱۹۲۵؁ئ)
خلیفہ کی موجودگی میں مجدد
سوال: کیا خلیفہ کی موجودگی میں مجدد آ سکتا ہے؟
جواب: خلیفہ تو خود مجدد سے بڑ ا ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے پھر اس کی موجودگی میں مجدد کس طرح آ سکتا ہے۔مجدد تو اس وقت آیا کرتا ہے جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔
( الفضل ۸ اپریل ۱۹۴۷؁ء مجلس عرفان)
کفار کے نیک اعمال کی جزاء
بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کافر کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ میر ایہ مذھب نہیں کیونکہ قرآن مجید میں ’’ فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْْراً یَرَہُ ‘‘ آ یا ہے۔
کفر بغاوت کو کہتے ہیں جیسے ایک گورنمنٹ کی کوئی بغاوت کرے تو اور جرموں سے بچنا یا نیکیوں کا بجا لانا اسے اس بغا وت کی سزا سے بچا نہیں سکتا۔اسی طرح خدا کے فرستادہ کے انکار کی سزا ضرور ملے گی اور جب بخشش کا موقع آئے گا تو ایک غیر احمدی جو آنحضرت ﷺپر ایمان لایا ہے اس یہودی و عیسائی سے جو آنحضرت ﷺ کا منکر ہے پہلے دوزخ سے نکالا جائے گااوراس کے نماز ،روزہ،زکوۃ وغیرہ اعمال حسنہ کا بھی سزائے کفر کے بعد اس کی نیت کے خلوص کے مطابق لحاظ کیا جائے گا۔ہر مامور کے انکار سے انسان کافر ہو جاتا ہے مگر کفر کی سزا ابدی جھنم یا تمام اعمال حسنہ کا دنیا یا آخرت میں ضائع جانا نہیں۔
( الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۱۴؁ء جلد ۲ نمبر ۳)
اسلام کفر کے سارے گناہ مٹا دیتا ہے
یہا ں سے ایک اور مسئلہ کا بھی استنباط ہوتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مسلمان ہو جائے اس کے کفر کے سارے گناہ مٹ جاتے ہیں ۔یہ ایک عام مشہور مسئلہ ہے اور احادیث سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے۔مگر اس مسئلہ میں کچھ ترمیم کی ضرورت ہے خواہ وہ ترمیم اصلاحی نہ ہوبلکہ تکمیل کی ہو۔حدیثوں میں آتا ہے۔۔۔۔۔کہ قیس ابن عاصم رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ میں نے کچھ لڑکیاں جاہلیت میں زندہ دفن کی ہیں۔آپ نے فرمایا ہر مو ئودہ کے بدلے میں ایک غلام آزاد کر دو۔اس نے کہا یا رسول اللہ اِنِّی صَاحِبُ اْلِابِلِ میں تو صاحب الابل ہوں غلام کہاں سے لاؤں۔اونٹوں کے متعلق فرمائیں تو ان کو نحر کرنے کے لئے تیار ہوں ۔آپ نے فرمایافَانْحَرْ عَنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُنَّ بُدْنَۃً ( ابن کثیر)کہ ہر ایک کے بدلہ میں ایک اونٹ قربان کر دو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے گناہ جو انسان کی فطرت پر بھاری ہوںباوجود ان کی بخشش کے باوجود اسلام نصیب ہو جانے اور توبہ قبول ہوجانے کہ پھر بھی اگر انسان کفارہ ادا کرتا رہے تو تکمیل روحانیت کے لئے یہ بات بہت مفید ہوتی ہے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ التکویر صفحہ ۲۲۲)
مسیح موعود علیہ السلام کے منکر کی پوزیشن
سوال: وہ لوگ جو مرزا صاحب کو قبول کرنے کے بغیر مر جا تے ہیں ان کی پوزیشن کیا ہوگی؟
جواب: حضرت مرزا صاحب کو قبول نہ کرنے والے دو قسم کے ہیں ایک وہ جنھوں نے آپ کے متعلق پوری طرح سنا لیکن توجہ نہ کی اور ایک وہ جنھوں نے آ پ کی نسبت کچھ سنا ہی نہیں ۔ہم بلحاظ شریعت کے نام رکھنے کے دونوں کو کافر کہیں گے لیکن سزا کے متعلق ہمیں معلوم نہیں کہ کیا ہو گا۔البتہ یہ معلوم ہے کہ اسلام کا خدا ظالم نہیں ہے۔آپ کے نہ ماننے کی ان لوگوںکو سز انہیں دے گا جنھوں نے حضرت مرزا صاحب کانام ہی نہیں سنا اور انہیںکو دے گا جنھوں نے سنا اور توجہ نہ کی لیکن تفصیلا ًہم کچھ نہیں بتا سکتے۔ہاں احادیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں تک حق نہ پہنچ سکا ہوان کو پھر ایک اور موقع دیا جائے گا۔
(الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۱۶؁ء جلد ۳ نمبر ۸۰)
اظہار ایمان ہی بیعت ہے
سوال : اگر کوئی شخص مرزا صاحب کو دلی طور پر سچا جانتا ہو مگر آپ کی بیعت نہ کرے تو اس کی نجات بھی ہو گی یا نہیں ۔کیونکہ رسولوں پر تو ایمان لانا کافی ہے؟
جواب: اظہار ایمان کا نام ہی بیعت ہے۔رسول پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو وہ کہے گا میں مان لوں گا۔قرآن کریم میں آتا ہے ’’فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ۔۔۔۔۔۔وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْما‘‘
پس ایمان کے معنی کامل طور پر اطاعت کرنے کے ہیں ۔ایمان کی ہر تعریف اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر فرمائی ہے اور بیعت کے بھی یہی معنی ہیں کہ انسان کہتا ہے کہ میں سب کچھ آپ کے حوالے کر دیتا ہوں۔بیعت کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے۔
(الفضل ۸ مئی ۱۹۲۸؁ء جلد نمبر ۹ نمبر ۸۷)
انسان محض گناہ سے خارج ایمان نہیں ہوتا
ایک مسلمان اگر نماز نہیں پڑھتا مگر اند ر ہی اندر نادم ہوتا ہے اور نماز کا انکارتو نہیں کرتا بلکہ اپنی سستی اور غفلت کا اقبال کرتا ہے اور کسی کے پوچھنے پر شرمندگی سے سر نیچا کر لیتا ہے۔گردن ڈال دیتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے تو وہ مومن ہے اور مسلمان ہے۔لیکن اگر اِباء کرتاہے،استکبار دکھاتا اور اپنے گناہ پر مصر ہے اور اسے مستحسن سمجھتا ہے تو وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا ۔محض گناہ انسان کو ایمان سے خارج نہیںکرتاخواہ انسان اعمال ظاہری میں سست کیوں نہ ہو۔لیکن بظا ہر پابند شریعت ہو کر اِباء ،استکبار کرنے والا کبھی بھی مومن نہیں رہ سکتا۔
(الفضل ۶ ستمبر۱۹۲۰ ؁ء خطبات عیدین صفحہ ۱۸۲)
بعث بعد الموت
بعث بعد الموت پر ایما ن ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت پیدا کرتی ہے اور اس کے اعمال کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اگر آئندہ زندگی پر ایمان نہ رہے تو نہ صرف تمام کارخانہ عالم کاایک عبث اور لغو چیز ہونا تسلیم کرنا پڑتا ہے بلکہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی بھی ایک بیکا ر عمل قرار پاتا ہے۔مگر یہ خیا ل کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند ستاروں اور سیاروں اور آسمان اور زمین کے درمیان کی ہزار ہا چیزیں پیدا کر کے اور ان میں اپنی قدرت کے ہزارہا راز ودیعت کر کے ایک ایسے انسان کو پیدا کیاجس نے چند سال زندگی بسر کر کے ہمیشہ کے لئے فنا ہو جانا ہے اور اس کی زندگی کا کوئی اہم مقصد نہیں ۔ایک ایساخیا ل ہے جسے کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی ۔انسان کے لئے اس قدر وسیع کائنات کا پیدا کرنا اور اس پر عقل کے ذریعہ انسان کو حکومت بخشنا بتاتا ہے کہ اس کے لئے اس محدود زندگی کے علاوہ کوئی اور مقصد بھی مقرر کیا گیا ہے اور اسلام کہتا ہے کہ وہ مقصد یہی ہے کہ اسے ایک دائمی حیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور دائمی روحانی ترقیات کا راستہ اس کے لئے کھولا گیا ہے۔پس موت کے صرف اتنے معنے ہیں کہ انسانی روح جسم سے جدا ہوگئی ورنہ روح پر کوئی فنا نہیںاور وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے غیر متناہی مراتب حاصل کرتی رہتی ہے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ المومنون صفحہ ۱۷۲)
(زیر آیت أَیَعِدُکُمْ أَنَّکُمْ إِذَا مِتُّمْ وَکُنتُمْ تُرَاباً۔۔۔۔۔الآیۃ)
اجساد انبیاء
جو شخص مٹی کے نیچے دفن ہے وہ مٹی کا ایک ڈھیر ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔میں اس بات کا بھی قائل نہیں کہ انبیاء کے جسم محفوظ رہتے ہیں اور مٹی انہیں نہیں کھاتی ۔یہ بائبل سے صاف ثابت ہے کہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیھم السلام کی ہڈیا ں مصر سے کنعان لائی گئیں۔بعض احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔۔۔۔۔۔
پس یہ غلط خیال ہے کہ انبیاء کا جسم محفوظ رہتا ہے۔جو شخص مٹی کی قبر میں دفن ہے وہ مٹی ہے۔جس طرح انبیاء کھا نا کھاتے اور پاخانہ کرتے تھے ۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ پاخانہ کی بجائے مشک ان کے جسم سے نکلے۔اسی طرح انسان کے مادی جسم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو قوانین بنا ئے ہیں وہ ان کے جسم پر بھی عائد ہوتے ہیں۔باقی رہا بعض لوگوں کے جسموں کا محفوظ رہنااور ہمارے مشاہدے میں اس بات کا آنا سو اس کے متعلق یا د رکھنا چاہئے کہ بعض زمینیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں جسم گلتے نہیں بلکہ سلامت اور محفوظ رہتے ہیںلیکن اس میں نبی یا مومن کی کوئی شرط نہیں۔ایک کافر بھی وہاں دفن کیا جائے تو اس کا جسم محفوظ رہے گا۔
اس کے مقابلہ میں بعض زمینوں میں اس قسم کے کیمیاوی مادے ہوتے ہیں کہ وہاں جو شخص دفن ہو اس کا جسم تھوڑے دنوں میں مٹی ہو جا تا ہے ۔وہاں کا فر، مومن ،نبی اورغیرنبی جو بھی دفن ہوگا میرا یقین ہے کہ اس کا جسم تھوڑے عرصے کے بعد ضرور متغیر ہوجائے گا۔پس یہ خیا لا ت جو مشرکانہ ہیں ہم ان کے قریب بھی نہیں جاتے۔اگر کسی احمدی کے دل میں ایسا خیا ل ہو تو اسے اپنے دل سے اسے بالکل دور کر دینا چاہئے۔
اس میں شبہ نہیں کہ روح کو اس ظا ہری قبر کے ساتھ ایک لگاؤ اور تعلق ضرور ہوتا ہے اور گو مرنے والوںکی روحیں کسی جہان میں ہوں اللہ تعالیٰ ان ظا ہری قبروں سے بھی ان کی ایک رنگ میں وابستگی پیدا کر دیتا ہے۔جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ایک بزرگ کی قبر پر دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا کہ جب میں دعا کر رہا تھا تو صاحب قبر اپنی قبرمیں سے نکل کر میرے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا ۔مگر اس سے مراد یہ بھی نہیں کہ ان کی روح اس مٹی کی قبر سے باہر نکلی بلکہ ظا ہری تعلق کی وجہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مٹی کی قبر پر کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کو اپنی اصل قبر سے آ پ تک آنے کی اجا زت دے دی۔وہی قبر جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ثُمَّ أَمَاتَہُ فَأَقْبَرَہُ‘‘
اسی قبر میں مرنے کے بعد انسان کی روح رکھی جاتی ہے ورنہ یہ قبریں دنیا میںہمیشہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کھودی جاتی ہیں اور ان کے اندر سے کچھ بھی نہیں نکلتا ۔بلکہ ایک قبر کا اوپر کا نشان جب مٹ جاتا ہے تو اسی جگہ دوسر اشخص دفن کر دیا جا تا ہے۔پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسی جگہ تیسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک ایک قبر میں بعض دفعہ یکے بعد دیگرے سو سو آدمی دفن ہو جاتے ہیں۔
( الفضل ۷ مئی ۱۹۴۴؁ء )
(تابعینِ اصحاب احمد حصہ سوئم صفحہ ۹۸ تا ۱۰۰)
لاَیَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُون کا مطلب
سوال : کیا مومنوں پر قرآن کریم کے نئے نئے معارف کھلتے رہتے ہیں؟
جواب: فرمایا: ۔ اس بات پر تو خدا تعالیٰ نے خود بہت زور دیا ہے چنانچہ فرمایا لاَیَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُون۔اس کے یہ معنے تو ہونہیں سکتے کہ قرآ ن کریم کو ہاتھ میں صرف پاک لوگ ہی یعنی مومن ہی پکڑ سکتے ہیںاور کوئی شخص نہیں پکڑ سکتا ۔کیونکہ ہندو ،سکھ ، عیسائی وغیرہ ہر مذھب کے لوگ اس طرح قرآن کریم کو مس کر سکتے ہیں۔پھر یہ بھی نہیں کہ پہلے لوگ قرآن کریم کے جو معارف اور نکات لکھ گئے ہیں انھیں پاک لوگ ہی پڑھ سکتے ہیں کیو نکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ہندو یا عیسائی کا حافظہ ایک مسلمان کی نسبت زیادہ اچھا ہواور وہ تفسیروں کو پڑھ کر اس سے زیادہ باتوں کو یاد کر لے۔اس لئیلاَیَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُون کا یہی مطلب ہے کہ قرآ ن کریم کے نئے نئے معارف اور حقائق پاک لوگوں پر کھلتے رہتے ہیںاور یہ مومنوںکی خاص علامت ہے۔
(الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۱۹؁ء جلد ۷ نمبر ۲۴)
سوال : اگر کوئی چار پائی پر بیٹھا قرآن شریف پڑھ رہا ہوتو کیا سجدہ تلاوت وہیں پر کر سکتا ہے؟
جواب: فرمایا۔ چارپائی پر سجدہ جائز ہے۔
(الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵؁ء جلد ۲ نمبر۱۱۹)
عیب جوئی
َقَالُوا ہَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ۔۔۔۔الآیۃ (النور:۱۳)
شریعت کہتی ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی بری بات تمھارے سامنے بیان کی جائے تم ہمیشہ اس کے متعلق حسن ظن رکھواور بری بات کہنے والے کو جھوٹا سمجھوکیونکہ اس نے دوسرے کی عزت پر حملہ کیا ہے۔اگر زید تمھارے پاس ایک شخص کی برائی بیان کرتاہے اور تم زید کی بات سن کر فورا ًیقین کر لیتے ہواور جس کے متعلق کوئی بات کہی گئی ہواس کو مجرم سمجھنے لگ جاتے ہوتو تم بد ظنی کا ارتکاب کرتے ہو اور اگر وہ عیب ایسا ہے جس کے لئے شریعت نے گواہی کا خاص طریق مقرر کیا ہوا ہے تو نہ صرف عیب لگانے والا شریعت کا مجرم بنتا ہے بلکہ جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور اس کی تائید کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے ایسے مواقع پر شریعت کی یہی ہدایت ہے کہ جس کا جرم بیان کیا جاتا ہے اس کو بری سمجھواور جو کسی کا عیب بیان کرتا ہے اس کا جرم چونکہ ثابت ہے اسے کبھی سچا قرار نہ دو۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ نور صفحہ ۲۷۲)
بوقت ضرورت کسی شخص کا عیب بیان کرنا گناہ نہیں
ہر موقع پر کسی کا عیب بیان کرنا برا نہیں ہوتا ۔بلکہ بعض جگہ ضروری ہوتا ہے۔اس وقت اس کو غیبت نہیں کہا جائے گا۔غیبت ایک اصطلاح ہے اور یہ اسی وقت استعمال کی جائے گی جبکہ خواہ مخواہ کسی کے عیب بیان کئے جائیں۔لیکن اگر کوئی شخص کسی کا عیب بیان کرنے پر مجبور ہے یا اوروں کو اس کے بیان کرنے سے فائدہ پہنچتا ہے تو اس کا بیان کرنا نیکی اور ثواب کا کام ہو گا۔مثلاً ایک ایسا شخص ہے جو جماعت یا قوم کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے یا بری باتیں پھیلاتا ہے تو اس کے متعلق اطلاع دینا اور اس کی شرارتوں سے ذمہ دار لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔تو کسی با ت کے بیان کرنے اور بتانے میں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے بیان کرنے میں نفع ہے یا نقصان ۔اگر اس سے کوئی اچھا نتیجہ نکلتا ہو،کسی برائی کا سدّباب ہوتا ہو،کسی کو فائدہ پہنچتا ہو تو اس کا نہ بیان کرنا گناہ ہوگاجس طرح غیبت کر نا گناہ ہے۔
(الفضل ۴ نومبر ۱۹۲۰؁ء جلد ۶ نمبر ۳۴)
توبہ سے اخروی سزا معاف ہوتی ہے دنیاوی سزا نہیں
بعض فقہا ء کہتے ہیں کہ توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان کو فاسقوں میں سے نکا ل دے گا۔اور بعض کہتے ہیں کہ ساری سزا ہی معاف کر دی جائے گی اور بعض کہتے ہیں کہ جو سزا تھی اس سے انھیں بچا لیا جائے گا۔یعنی اگر قاضی فیصلہ کردے کہ فلاں شخص اپنی غلطی پر سچے طور پر نادم ہے اور آئندہ کے لئے اس نے اپنی اصلاح کرلی ہے تو اجازت ہے کہ اس کی شہادت قبول کر لی جائے۔اور خدا تعالیٰ بھی اسے فاسق ہونے سے بچا لے گا۔
میرے نزدیک یہی بات درست ہے بدنی سز ا سے تو اسے نہیں بچایا جائے گاالبتہ دوسری سزائیں اس کی اصلاح ثابت ہونے پر معاف ہو سکتی ہیں۔اس آیت ( إِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُواْ مِن بَعْدِ ذَلِکَ وَأَصْلَحُواْ فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْم)سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہوں کی سزا دی جانی ضروری ہوتی ہے کیونکہ تمدن کے قیام کے لئے سزا بھی ایک ضروری چیز ہے۔لیکن اگر بندہ اس سزا کو برداشت کر لے اور اپنے فعل پر نادم ہوتو اللہ تعالیٰ اس مقررہ سزا سے جو قیامت کے دن ملنے والی ہوتی ہے اسے محفوظ کر دیتا ہے اور اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔لیکن اس دنیا کی سزا کو معاف نہیں کرتا کیونکہ وہ بندوںکے اختیار میں ہے۔
( تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ نور صفحہ ۲۶۶)
کسی شخص کو مرتد یا یہودی کہنا جائز نہیں
سوال: کیا غیر مبایعین کو یہودی یا مرتد کے لفظ سے یا دکرنا درست ہے؟
جواب: گالی دینا خواہ کسی کو گالی دی جائے منع ہے ۔مرتد اگر کافر کے معنے میں استعمال نہ کیا جائے تو غیر مبایعین کے لئے یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔مگر ان الفاظ سے حتی الوسع مومن کو اجتناب کرنا چاہئے۔کیونکہ دوسرے کا دل دکھانا اسلامی طریق کے خلاف ہے۔
(الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲؁ء جلد ۹ نمبر ۹۱)
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنا خاندانی بت خانہ توڑا تھا
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے جس بت خانے کے بت توڑے تھے وہ کسی دوسرے کا نہیں تھا بلکہ ان کا اپنا خاندانی بت خانہ تھا۔اگر وہ دوسروں کا ہوتا تواس کا توڑنا ان کے لئے جائز نہ ہوتا۔یہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے خاندان کا اپنا بت خانہ تھا اور انھیںورثہ میں ملا تھا اور چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام بچپن سے ہی شرک سے سخت نفرت رکھتے تھے اس لئے انھوں نے اس بت خانے کو جو ان کی آمدنی کا ایک بڑا بھاری ذریعہ اور ملک میں ان کی عزت اور نیک نامی کا باعث تھا توڑ دیا۔جب انھوں نے بتوں کو توڑا تو سارے ملک میں ایک شور مچ گیا۔بادشاہ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا گیا۔ملک کے دستور اور بادشاہ کے قوانین کے مطابق اس فعل کی سزا جلا دینا تھا۔ایک پرانی رسم تھی جو بتوںکی ہتک کرتا اسے جلا دیا جاتاتھا۔کیونکہ بتوں کی ہتک کرنا ارتداد سمجھا جاتا تھااور ارتداد کی سزا پرانے زمانے میں یا تو جلانا تھی یا سنگسار کرنا۔چنانچہ یورپ میں جب پراٹسٹنٹ عقیدہ کے عیسائی پیدا ہوئے تو انھیں مرتد قرار دے کر آگ میں جلایا جاتا تھااس کے مقابل میں ایشیا میں سنگسار کرنے کا رواج تھا۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو معلوم تھا کہ بتوں کو توڑ نے کی وجہ سے یہ سزا تجویز ہو گی۔مگر خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ اپنا کوئی نشان دکھائے۔آخر ان لوگوں نے آگ جلائی اور اس کے اندر حضرت ابراھیم علیہ السلام کو ڈال دیا لیکن عین اس موقع پربادل آیا جس نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا۔
( تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ انبیاء صفحہ ۵۲۱۔زیر آیت قَالُوا حَرِّقُوہُ وَانْصُرُوا آلِہَتَکُمْ)
پھٹی ہوئی جراب پر مسح
خاص خاص مسائل پر چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ لکھے جائیں تاکہ عام لوگ ان کو پڑ ھ کر مسائل دین سے پوری طرح واقف ہو جائیںتا ایسا نہ ہو کہ بعض پاک ممبر کہلانے والوںکی طرح ان کی جرابیں ایڑیوں سے پھٹی ہوئی ہوںاور انھیں کوئی پرواہ نہ ہو۔
میں نے ایک کو دیکھا ہے کہ ایک ٹانگ پر بوجھ ڈالے اور دوسری کو ڈھیلا چھوڑے نماز پڑھتا تھا۔اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر پڑھا کرتا تھا۔وجہ یہ کہ اس نے حضرت صاحب کو اس طرح پڑھتے دیکھا تھا۔حالانکہ آپ بیمار تھے اور بعض دفعہ یک لخت آپ کو دوران سر کا دورہ ہو جاتا تھاجس سے گرنے کا خطرہ ہوتا تھااس لئے آپ ایسے وقت میں کبھی سہارا لے لیا کرتے تھے۔
(انوار خلافت صفحہ ۷۷،۷۸)
وضو کرتے وقت پیروں کو دھونا چاہئے یا مسح کرنا چاہئے
سوال: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاۃِ فاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَأَیْْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ ۔۔۔الایۃ (مائدۃ:۷) شیعہ اس سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ پیروں پر بھی مسح ہی کرنا چاہئے۔کیا یہ درست ہے؟
جواب: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم حدیث پر مقدم ہے اور اگر کسی حدیث کے متعلق یہ ثابت ہوجا ئے کہ وہ قرآن کریم کے خلاف ہے تو وہ قابل قبول نہیں ہو گی لیکن ایک اور چیز ہے جو تم تک اسی طرح پہنچی ہے جس طرح قر آن کریم پہنچاہے اور وہ سنت ہے۔
حدیث رسول کریم ﷺ کا قول ہے جور اویوںکے ذریعہ ہم تک پہنچا اور سنت رسول کریم ﷺکا فعل ہے جو تواتر کے ذریعہ ہم تک پہنچا ۔مثلا ًمیں نے ابھی جو باتیں بیان کی ہیں یہا ں جتنے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان کا کسی نے کچھ مفہوم سمجھا ہے اور کسی نے کچھ۔جب میں بات کر رہا تھا اس وقت کسی کو کھجلی ہو رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی توجہ اس طرف پھر گئی اور کسی کا دماغ کسی اور فکر میں منہمک تھااس لئے ایسے لوگ لازماً پوری طرح بات کونہیں سمجھ سکے ہونگے۔اور یو ں بھی انسانی دماغ ہر وقت ایک طرف توجہ نہیں رکھ سکتا ۔جب یہ لوگ میری مجلس سے اٹھکر باہر نکلیں اور ان سے پوچھا جائے کہ میں نے مجلس میں کیا بات بیان کی تھی تو کوئی کچھ بیان کرے گا اور کوئی کچھ۔لیکن اگر اسی مجلس سے اٹھنے والے سے یہ پوچھا جائے کہ میں نے نماز پڑھی تھی یا نہیں تو کوئی اختلاف ان میں پیدا نہیں ہوگا۔کیونکہ وہ ایک فعل تھا جو انھوں نے دیکھا۔پس بات قابل تعبیر ہو سکتی ہے لیکن فعل ایک ایسی چیز ہے جو رؤیت اور شہادت پر مبنی ہوتا ہے۔قرآن کریم کے متعلق ہمیں اس لئے یقین اور اطمینان ہے کہ رسول کریمﷺنے دوسروںکو قرآن کریم یاد کرایا ۔پھر ان سے دوبارہ سنا تا کہ کوئی غلطی باقی نہ رہے پھر ان لوگوں سے آگے دوسرے لوگوں نے یاد کیا ۔پھر ان سے اگلی نسل نے قرآن کریم پڑھا اور ایک ایک وقت میں ہزاروں کی تعداد میں حافظ موجود رہے۔بلکہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی مسلمانوں میں ہزاروں حافظ موجود ہیں۔اس لئے قرآن کریم میں کسی غلطی کا امکان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔پھر بھی قرآن کریم میں کسی غلطی کا امکان اس لئے بھی نہیں ہے کہ ہر روز نمازوں میں اس قدر تلاوت کی جاتی ہے۔پس ہمارے پاس قرآن کریم میں تغیر و تبدل نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں نے ایک وقت میں دوسرے لوگوں سے اسے سیکھا اور دوسروںکو سنایااس لئے اتنی بڑی تعداد کی موجودگی میں غلطی کا امکان نہیں ہو سکتا۔
یہی حال سنت کا ہے وہ بھی سینکڑوںسے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوںکی طرف منتقل ہوئی۔چنانچہ جب سینکڑوں صحابہ نے رسول کریم ﷺ کو وضو کے وقت پیر دھوتے دیکھا اور پھر لوگوں نے اسی سنت پر عمل کرنا شروع کر دیا تو اس میں کسی قسم کا شبہ نہ رہاکہ شرعی مسئلہ یہی ہے کہ وضو کے وقت پاؤں دھوئے جائیں ۔اس سنت کی موجودگی میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ پیر نہیں دھوتے تھے بلکہ پاؤں پر مسح کرتے تھے۔کیونکہ جس طرح ہم تک قرآن کریم پہنچا ہے اسی طرح ہم تک سنت بھی پہنچی ہے۔اگر آج کوئی شخص سنت پر اعتراض کرے تو پہلے اسے اس امر کا جواب دینا چاہئے کہ اس کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ قرآن کریم وہی ہے جو رسول کریمﷺ پر نازل ہوا تھا۔بلکہ بعض لحاظ سے تو سنت ہمیں زیادہ مستحکم نظر آتی ہے اور وہ اس طرح کہ قرآن کریم کو یاد کرنے والے تو تھوڑے لوگ تھے لیکن سنت پر عمل کرنے والے زیادہ تھے ۔اگر رسول کریمﷺ پاؤں پر مسح کرتے تھے تو چاہئے تھا کہ لاکھوں میں سے کم از کم ہزاروں کی تعداد میں ہی ایسے صحابہ نکل آتے جو پاؤں پر مسح کرنے کے قائل ہوتے۔لیکن ہمیں تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا ۔اور تو اور حضرت علیؓ اور حضرت امام حسین ؓ خود پیر دھوتے تھے۔حضرت علیؓ کے وضو کا جہا ں کہیں ذکر ہے وہاں ساتھ ہی پیر دھونے کا بھی ذکر ہے۔اگر مسح سے مراد صرف ہاتھ پھیرنا ہے تو پھر ان کا عمل قرآن کریم کے خلاف کیوں۔
( الفضل ۱۳ مئی ۱۹۶۱؁ئ)
نماز جمعہ یا عیدین کے وقت اگر وضو ٹوٹ جائے
سوال: بڑے ہجوم مثلاً جمعہ یا عیدین کے موقع پر اگر کسی شخص کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا وہ تیمم کر سکتا ہے؟
جواب: نہیں وضو کرے ۔تیمم جا ئز نہیں۔
(الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵؁ء نمبر ۱۱۹)
حیض و نفاس کی حالت میں ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن کریم
اس سے (یعنی آیت فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّیْ عَیْْناً فَإِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً۔۔۔۔الآیۃ (مریم:۲۷)یہ بھی پتالگ گیا کہ نفاس اور حیض کی حالت میں ذکر الہٰی منع نہیں ۔لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی حالت میں دل میں بھی ذکر الٰہی نہیں کیا جا سکتا ۔حالا نکہ اگر ذکر الٰہی منع ہو جائے تو روحانیت بالکل مر جائے۔بعض لوگ تو منہ سے بھی ذکر الٰہی کر نا جائز سمجھتے ہیں ۔حضرت خلیفۃ اول ؓ فرمایا کرتے تھے کہ عورت حیض کے دنوں میں بھی قرآن کو کسی کپڑے یا رومال سے پکڑ کر اور پھر صاف ستھرے کپڑے پر رکھ کر پڑھ سکتی ہے۔ہاتھ سے پکڑنا اس لئے منع ہے کہ ممکن ہے ہاتھ کو حیض کی نجاست لگی ہوئی ہو۔چنانچہ جن عورتوں نے حضرت خلیفہ اولؓ سے قرآن پڑھا ہے وہ اب بھی حیض کے ایام میں کپڑے پر قرآن رکھ کر پڑھ لیتی ہیں۔میرا عقیدہ نہیں ۔ لیکن اگر کوئی پڑھے تو ہم اسے کہتے کچھ نہیں۔کیونکہ قرآن بہر حال خدا تعالیٰ کا کلا م ہے۔اگر کسی کے نزدیک حیض کی حالت میں اسے دیکھ کر پڑھنا جائز ہو تو کیا حرج ہے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ مریم صفحہ ۱۸۷)
سوال: کیا حائضہ قرآن کریم کو ہاتھ لگا سکتی ہے؟
جواب: حا ئضہ عورت کو اجازت نہیں کہ قرآن شریف پڑھے یا ہاتھ لگائے۔
(الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۶؁ء جلد ۴ نمبر ۳)
سوال : قرآن مجید کی تلاوت بھی کسی وقت منع ہے مثلا ًسورج نکلتے وقت یا دوپہر کو یا قرآن مجید ہر وقت پڑھا جا سکتا ہے؟
جوا ب : تلا وت کسی وقت منع نہیں سوائے اس کے کہ انسان جنبی ہوگو بعض فقہا ء نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بھی پڑھ سکتے ہیں مگر زبانی۔
( فائل مسائل دینی 32-A)
جو عورتیں ایسی ہیں کہ ان پراِن ایام میں ایسی حالت ہے کہ وہ بلند آواز سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں ان کو چاہئے کہ وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں ۔اور جن عور توں کے لئے ان ایام میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہے وہ زبان سے بھی ان آیتوںکو دہرائیں ۔بہر حال جن عورتوںکے لئے ان ایام میں زبان سے پڑھنا جائز نہیں وہ زبان سے پڑھنے کی بجائے صرف دل میں ان آیتوںکو دہراتی رہیں ۔کیونکہ شریعت نے اپنے حکم کے مطابق جہاں مخصوص ایام میں تلاوت قرآن کریم سے عورتوں کو روکا ہے وہا ں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ دل میں بھی ایسے خیا لا ت نہ لائیںیا دل میں بھی نہ دہرائیں ۔بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک قرآن کریم کو صرف ہاتھ لگانا منع ہے ۔مگر احتیاط یہی ہے کہ کثرت سے جس بات پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے اسی پر عمل کیا جائے ۔پس بجائے زبان سے دہرانے کے وہ دل میں ان آیتوں کو دہراتی چلی جائیں۔
(الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۰؁ئ)
اگر بدن پلید ہونے کی وجہ سے غسل نہ کر سکتا ہو تو تیمم کر لے
سوال: ایک مجذوم غیر احمدی نے دریافت کیا کہ میر ابدن پلید رہتا ہے۔بار بار پاک نہیں کر سکتا نہ وضو ۔تو کیا بے وضو نماز پڑھ لوں؟
جواب: صرف تیمم کرلیں ۔ اگر ظاہری نجاست ہو تو بشرط امکان اس کا ازالہ کرلیں اور بس۔
(الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۱۵؁ئ)
اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو وہ گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے۔خصوصا وہم کی بناپر نماز کا ترک تو بالکل غیر معقول ہے۔جیسا کہ ہمارے ملک میں کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کر دیتی ہیں کہ بچوںکی وجہ سے کپڑے مشتبہ ہیں اور کئی مسا فر نماز ترک کر دیتے ہیںکہ سفر میں طہارت کامل نہیں ہو سکتی۔یہ سب شیطانی وساوس ہیں ’’لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا‘‘ الٰہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کر نا اختیار میں ہوان کے ترک میں گناہ ہے لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جا سکتی ہو ں تو ان کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا۔
( تفسیر سورۃ بقرۃ صفحہ ۱۰۴)
ناپاک ہونے کی صور ت میں نماز
فرمایا: کوئی ناپاک نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ با مر مجبوری ناپاک حالت میں بھی نماز پڑھے ۔نماز پھر بھی جائز ہے خواہ آپ لید سے بھرے ہوئے ہوں تب بھی نماز پڑھیے کیونکہ آپ اپنی خوشی سے تو ایسا نہیںکرتے ۔ہاں جتنی طہا رت ممکن ہو کریں باقی مجبوری امر ہے۔نماز پڑھیں نماز نہ چھوڑیں۔
(فائل مسائل دینی 32-A)
اگر نفاس سے چالیس روز سے قبل پاک ہو جائے
سوال: اگر عورت چالیس روز سے پہلے نفاس سے پاک ہو جائے تو کیا وہ صوم و صلوۃ کی پابند قرار دی جا سکتی ہے یا بہر صورت مدت مقررہ یعنی چالیس روز پورے کرنے ضروری ہیں ؟
جواب: چالیس روز سے پہلے اگر عورت نفاس سے پاک ہو جائے تو عبادت بجا لا سکتی ہے۔
(الفضل ۱۹ اگست ۱۹۱۶؁ئ)
اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے
شریعت کے جوموٹے موٹے احکام مثلا نما ز ،روزہ ،حج ،زکوۃ وغیرہ ہیں ان میں سب سے بڑا رکن نماز ہے۔جو شخص اس بڑے رکن یعنی نماز کا تارک ہے وہ درحقیقت اسلام کا تارک ہے اور جب تک وہ نماز نہیں پڑھتا وہ جھوٹا اور منافق ہے ۔اس کا اور کاموں میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔اس کا بخشیشیں کرنا۔اس کا چندہ دینا اور دینی کام کرنا خدا کے حضور کچھ حیثیت نہیں رکھتا ۔
میں نے تو جہاں تک غور کیا ہے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو شخص نماز پڑھتا ہے خواہ وہ عیبوں میں کہاں تک نکل جائے اس کے لئے پھر بھی بچاؤ اور نجات کی صورت ہے۔لیکن جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ خواہ کس قدر بھی اور نیکیاں بجا لائے اس کے لئے پھر بھی خطرہ ہے۔
میرے نزدیک تو جو شخص سال میں ایک نماز بھی چھوڑتا ہے اس کا وہ تارک ہے بلکہ پندرہ سال میں بھی اگر ایک دفعہ نماز چھوڑی ہے تو وہ تارک ہے کیونکہ نماز میں ایک ایسا لطف و سرور ہے کہ اس کی وجہ سے وہ کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑ سکتا۔جب سے وہ ایک دفعہ توبہ کر لیتا ہے پھر اس کے بعد اگر ایک بھی نماز چھوڑتا ہے تو وہ تارک کہلائے گا۔
نماز جو ہے وہ پہلا قدم ہے عبودیت کا ۔جو شخص کبھی کبھی نماز چھوڑ دیتا ہے وہ یہودیوں اور ضالّین میں شمار ہوگا۔
جو شخص نماز چھوڑتا ہے میں اس کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کو کبھی ایمان کی موت نصیب نہیں ہوگی۔موت سے پہلے کوئی ضرور ایسا حادثہ اسے پیش آجا ئے گا کہ جس کی وجہ سے وہ ایمان سے محروم ہو گا اور اس طرح بے ایما ن ہو کر مرے گا۔
(الفضل ۲۸ستمبر ۱۹۲۳؁ئ)
فلسفہ نماز
چونکہ نماز خدا تعالیٰ کی ملاقات کا ایک ذریعہ ہے اس لئے اسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ انسان تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد خدا تعالیٰ کا نام لے اور نماز کے لئے کھڑا ہو جائے خواہ جنگ ہو رہی ہو۔دشمن گولیاں برسا رہا ہو۔پانی کی طرح خون بہ رہا ہوپھر بھی اسلام نے یہ فرض قرار دیا ہے کہ جب نماز کا وقت آجائے تو اگر ممکن ہو تو مومن اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائے۔(نہایت خطرناک حملہ کی صورت میں وہ نمازیں جو جمع نہیں کی جاسکتیں ان کو بھی جمع کرنے کا حکم ہے۔خود رسول کریم ﷺنے ایک موقع پر چار نمازیں جمع کی ہیں۔)
بے شک جنگ کی وجہ سے نماز کی ظاہری شکل بدل جائے گی لیکن یہ جائز نہیں ہو گا کہ نماز میں ناغہ کیا جائے۔مگر آج کل مسلمانوں میں جہاں اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں وہاں ان میں ایک نقص یہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ریل میں آرام سے بیٹھے سفر کر رہے ہونگے مگر نماز نہیں پڑھیں گے اور جب پوچھا جائے کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے تو کہیں گے سفر میں کپڑوں کے پاک ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اس لئے ہم نماز نہیں پڑھتے حالانکہ سفر تو الگ رہا میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ اگر سر سے پیر تک کسی شخص کے کپڑے پیشاب میں ڈوبے ہوئے ہوں اور اس کے پاس اور کپڑے نہ ہوں جن کو بدل سکے اور نماز کا وقت آجائے تو وہ انہی پیشاب آلودہ کپڑوںکے ساتھ نماز پڑھ لے۔یا اگر پردہ ہو تو کپڑے اتار کر ننگے جسم کے ساتھ نماز پڑھ لے اور یہ پرواہ نہ کرے کہ اس کے کپڑے پاک نہیں ۔یا جسم پر کوئی کپڑا نہیں کیونکہ نماز کی اصل غرض یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد خدا تعالیٰ کا نام لیا جائے اور اس طرح اس کی یاد کو اپنے دل میں تازہ کیا جائے۔جس طرح گرمی کے موسم میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد انسان ایک ایک دو دو گھونٹ پانی پیتا رہتا ہے تاکہ اس کا گلا تر رہے اور اس کے جسم کو طراوت پہنچتی رہے۔اسی طرح کفر اور بے ایمانی کی گرمی میں انسانی روح کو حلاوت اور ترو تازگی پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد نما ز مقرر کی ہے تاکہ وہ گرمی اس کی روح کو جھلس نہ دے اوراس کی روحانی طاقتوںکو مضمحل نہ کردے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ عنکبوت صفحہ ۳۴۰)
مدارج نماز
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نماز کی پابندی کئی رنگ کی ہوتی ہے۔ سب سے پہلا درجہ جس سے اتر کراور کوئی درجہ نہیں یہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے۔جو مسلمان پانچوںوقت کی نمازیں پڑہتا ہے اور اس میں کبھی ناغہ نہیں کرتا وہ ایمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
دوسرا درجہ نماز کا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کی جائیں۔جب کوئی مسلمان پانچوں نماز وقت پر ادا کرتاہے تو وہ ایمان کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ لیتاہے۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ نما زباجماعت اداکی جائے۔باجماعت نماز کی ادائیگی سے انسان ایمان کی تیسری سیڑھی پر چڑھ جا تا ہے۔
چوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر ادا کرے۔جو شخص ترجمہ نہیں جانتا وہ ترجمہ سیکھ کر نماز پڑھے اور جو ترجمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کرنماز کو ادا کرے یہا ں تک کہ وہ سمجھ لے کہ میں نے نماز کو کما حقہ اداکیا ہے۔
پانچواں درجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان نماز میں پوری محویت حاصل کرے اور جس طرح غوطہ زن سمندر میں غوطہ لگاتے ہیںاسی طرح وہ بھی نماز کے اندر غوطے مارے یہاں تک کہ وہ دو میں سے ایک مقام حاصل کرلے۔یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ وہ اس یقین کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہوکہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔
چھٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ نوافل پڑھے جائیں۔یہ نوافل پڑھنے والا گویا خدا تعالیٰ کے حضور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں نے فرائض کو تو ادا کر دیا ہے مگر ان فرائض سے میری تسلی نہیں ہوتی اور وہ کہتا ہے کہ اے خدا میں یہ چاہتا ہوںکہ میں ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھی تیرے دربارمیں حاضر ہوا کروں۔
ساتواں درجہ ایمان کا یہ ہے کہ انسان نہ صرف پانچوں نما زیں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھی تہجد کی نماز پڑھے۔
یہ وہ سات درجے ہیں جن سے نماز مکمل ہوتی ہے۔اور ان درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیںجن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ رات کے وقت عرش سے اترتا ہے اور اس کے فرشتے پکارتے ہیں کہ اے میرے بندو خدا تعالیٰ تمھیں ملنے کے لئے آیا ہے۔اٹھو اور اس سے مل لو۔
(تفسیر سورۃ مومنون صفحہ ۱۳۵)
نماز کی اہمیت
اسلام کا پہلا رکن نماز ہے کوئی مسلمان نہیں جو اس حکم سے مستثنیٰ ہو۔جس وقت سے بچے کو ہوش آتی ہے یعنی سات برس کی عمر سے اس فرض کی ادائیگی کی تاکید شروع ہوتی ہے اور والدین کو حکم ہے کہ سات برس کی عمر سے بچہ کو تاکید کریں۔دس برس کی عمر میں تو پھر بہت تاکید ہے۔
بلوغت کے بعد بیماری ، تندرستی ، سفر ،حضر ہر حالت میں یہ فرض لازم رہتا ہے اورکسی پر ساقط نہیں ہوتا۔
(الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۱۴؁ئ)
۲: ۔
نما ز تو رکن اسلام ہے ۔جو نماز نہیں پڑہتا وہ خدا کے نزدیک مسلمان نہیں۔سینما اپنی ذات میں ناجائز نہیں ۔اس میں ناجائز بات ہو تو ناجائز ہے۔مگر جو دین کی خدمت نہیں کرتا اور سینما دیکھتا ہے وہ برا کرتا ہے۔
(الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲؁ئ)
نماز کی پابندی
نماز کی پابندی نہایت ضروری ہے۔عام طور پر عورتوںکی یہ حالت ہوتی ہے کہ چھوٹی عمر میں کہتی ہیں ابھی بچپن ہے جوان ہو کر نماز پڑھیں گی۔جب جوان ہوتی ہیں تو بچوں کے عذرکر دیتی ہیں اور جب بوڑھی ہو جاتی ہیں تو کہتی ہیں اب تو چلا نہیں جاتا نماز کیا پڑھیں؟ گویا ان کی ساری عمر یونہی گزر جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
نما ز کوئی ورزش نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہے اس لئے اسے سمجھ کر اور اچھی طرح جی لگاکر پڑھنا چاہئے۔اور کوئی نماز سوائے ان ایام کے جن میں نہ پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے نہیں چھوڑنی چاہئے۔کیونکہ نماز ایسی ضروری چیز ہے کہ اگر سال میں ایک دفعہ بھی جان بوجھ کر نہ پڑھی جائے تو انسان مسلمان نہیں رہتا۔پس جب تک ہر ایک مسلمان مرد اور عورت پانچوں وقت بلاناغہ نمازیں نہیں پڑھتے وہ مسلمان نہیں ہو سکتے۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۴۶)
۲:۔
نماز جس کا اداکرنا نہایت ضرور ی ہے مگر اس میں نہایت سستی کی جاتی ہے۔اور خاص کر عورتیں بہت سست نظر آتی ہیںجو کئی قسم کے عذر پیش کیا کرتی ہیںمثلا یہ کہ میں بچہ والی جو ہوئی کپڑے کس طرح پاک رکھوں کہ نماز پڑھوں لیکن کیا کپڑے پاک رکھنا کوئی ایسی مشکل بات ہے جو ہو ہی نہیں سکتی ۔ایسی تو نہیںہے ۔اگر احتیاط کی جائے تو کپڑے پاک رہ سکتے ہیں۔لیکن اگر احتیاط نہیں کی جا سکتی تو کیا یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک جوڑا ایسا بنا لیا جائے جو صرف نماز پڑھنے کے وقت پہن لیا جائے۔اور اگر کوئی عورت ایسی غریب ہے کہ دوسرا جوڑا نہیں بنا سکتی تو اسے بھی نماز معاف نہیں ہے۔وہ پلید کپڑوںمیں ہی پڑھ لے۔
اوّل تو انسانیت چاہتی ہے کہ انسان پاک و صاف رہے اس لئے اگر کپڑا ناپاک ہو جائے تو اسے صاف کر لینا چاہئے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی ایسی صورت ہے جس میں صاف نہیں کیا جا سکتا تو بھی نما زنہیں چھوٹ سکتی۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۲۵ ایڈیشن دوئم)
تارک نماز
’’قُل لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ آمَنُواْ یُقِیْمُواْ الصَّلاَۃَ‘‘(ابراھیم:۳۲) تو انھیں کہ دے کہ وہ نمازوں کو ہمیشہ اور باشرائط ادا کیا کریںاور اپنے مالوں کو چھپ چھپ کر اور ظاہرا بھی خرچ کیا کریں۔
اس حکم سے میرے نزدیک یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑتا ہے وہ نمازی نہیں کہلا سکتا۔
(تفسیر سورۃ ابراہیم صفحہ ۴۷۹)
نماز کا ترک گناہ ہے
یُقِیْمُونَ الصَّلاۃ۔۔۔۔۔۔
اقامۃ کے معنے اعتدال اور درستی کے ہیں ۔ان معنوںکی رو سییُقِیْمُونَ الصَّلاۃ کے یہ معنے ہیں کہ متقی نماز کو اس کی ظاہری شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے لئے جو قواعد مقرر ہیں ان کو توڑتے نہیں ۔مثلا تندرستی میں پانی کی موجودگی میں وضو ء کر کے نماز پڑھتے ہیںاور وضوء بھی ٹھیک طرح ان شرائط کے مطابق اد ا کرتے ہیں جو اس کے شریعت نے مقرر کی ہیں۔اسی طرح صحیح اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں ۔نماز میں قیام ،رکوع ،سجدہ، قعدہ کو عمدگی سے ادا کرتے ہیں ۔مقررہ عبادات اور دعائیں اور تلاوت اپنے اپنے موقع پر اچھی طرح اور عمدگی سے پڑھتے ہیں۔
اس جگہ یاد رکھنا چا ہئے کہ گو شریعت کا حکم ہے کہ نماز کو اس کی مقررہ شرائط کے ماتحت ادا کیا جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب مجبوری ہو اور شرائط پوری نہ ہوتی ہوں تو نماز کو ترک ہی کر دے۔نماز بہرحال شرائط سے مقدم ہے۔اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے۔خصوصا ًوہم کی بنا ء پر نماز کا ترک تو بالکل غیر معقول ہے۔جیسا کہ ہمارے ملک میں کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کردیتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے کپڑے مشتبہ اور کئی مسافر نماز ترک کردیتے ہیں کہ سفر میں طہارت کامل نہیں ہو سکتی۔یہ سب شیطانی وساوس ہیں ’’لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا‘‘ الٰہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کر نا اختیار میں ہوان کے ترک میں گناہ ہے لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جا سکتی ہو ں تو ان کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا۔
( تفسیر سورۃ بقرۃ صفحہ ۱۰۴)
جو لوگ درمیان میں نماز چھوڑتے رہتے ہیں ان کی سب نمازیں رد ّہو جاتی ہیں
اقامۃ الصلوۃ کے معنے باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے ہیں پس ’’یُقِیْمُونَ الصَّلاۃ ‘‘ کے یہ معنے ہوئے کہ نماز میں ناغہ نہیںکرتے ۔ایسی نماز جس میں ناغہ کیا جائے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں کیونکہ نماز وقتی اعمال سے نہیں بلکہ اسی وقت مکمل عمل سمجھا جا تا ہے جبکہ توبہ یا بلوغت کے بعد کی پہلی نماز سے لے کر وفات سے پہلے کی آخری نماز تک اس فرض میں ناغہ نہ کیا جائے۔ جو لوگ درمیان میں نمازیں چھوڑتے رہتے ہیں ان کی سب نمازیں ہی رد ہو جاتی ہیں۔پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ بالغ ہو یا جب اسے اللہ تعالیٰ توفیق دے اس وقت سے موت تک نماز کا ناغہ نہ کرے کیو نکہ نماز خدا تعالیٰ کی زیارت کا قائم مقام ہے اور جو شخص اپنے محبوب کی زیا رت سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عشق کے دعویٰ کے خلا ف خود ہی ڈگری دیتا ہے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ بقرۃ صفحہ ۱۰۴)
باجماعت نماز نہ پڑھنے والا منافق ہے
رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ساری نما زوں میں شامل نہ ہونے والا تو الگ رہا ۔صبح اور عشا ء کی نمازوں میں شامل نہ ہونے والا بھی منا فق ہے۔
(الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۲۵؁ ء خطبہ جمعہ)
نما ز سب سے مقدم ہے
دنیا میں نیکی کے اور بھی بہت سے کام ہیں۔لیکن نما ز کو خدا تعالیٰ نے سب سے مقدم قرار دیا ہے اور سوائے اس کے کہ کوئی معذوری ہو یا کوئی ہنگامی کا م پڑجائے نمازوں کے اوقات میں مسجد میں آنا نہایت ضروری ہے۔ہنگامی کاموںسے مراد یہ ہے کہ مثلا کسی جگہ آگ لگ گئی ہو تو اس وقت آگ بجھانا ضروری ہو گا ۔نما ز بعد میں ادا کر لی جائے گی ۔لیکن اس قسم کے استثنائی حالات کے بغیر جو شخص نماز باجماعت کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے وہ ایک بہت بڑے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔
( تفسیر کبیر ،سورۃ نمل صفحہ ۲۰)
با جماعت نماز نہ اداکرنے والے کو جماعت سے خارج کر دیا جائے
ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ جن احکام شرعی پر سزا دی جائے گی وہ ایسے ہوں گے جو نصوص سے ثابت ہوں۔ایسے نہیں جن کا اجتہاد سے تعلق ہو۔میں نے مناسب سمجھا ہے کہ پہلے ایک مسئلہ لیا جائے اور وہ مسئلہ نماز ہے۔اس کی سختی سے پابندی کرائی جائے۔جو پابندی نہ کر سکے ایک مدت معینہ کے بعد اس کو علیحدہ کر دیا جائے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہو گئی ہے جو نظر آتی ہے اور وہ نماز میں سست ہیں ۔بعض لوگ ایسے ہیں جو بالکل نماز پڑھتے ہی نہیں ،بعض سست ہیں ،بعض جماعت کے تارک ہیں ۔
اب میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ سب لوگ باقاعدہ ہو جائیں اور سستی کو چھوڑ دیں اور نماز باجماعت ادا کیا کریں ۔جو تعمیل نہ کر سکیں تین مہینہ تک ہم ان کا انتظارکریں گے اور اس کے بعد دو باتیں ہو ںگی۔اوّل یہ کہ وہ ہمیں قرآن و حدیث سے ثابت کر دیں کہ نماز باقاعدہ ادانہ کرنا ان کے لئے نہیں ہے۔اگر وہ ثابت نہ کر سکیں تو پھر ہم یہ کریں گے کہ ہم یہ اعلان کر دیں گے کہ فلا ں فلاں لوگ چونکہ ہم پر یہ ثابت نہیں کر سکے کہ نماز باجماعت ان کے لئے نہیں ۔نہ وہ اس کی پابندی کرتے ہیں اس لئے یہ لوگ جماعت سے خارج ہیں ۔
( الفضل ۶ فروری ۱۹۲۲؁ئ)
نماز نہ پڑھنے والوں پر مالی تاوان
سوال : نماز کی پابندی کرانے کے لئے یہ تجویز کی گئی ہے کہ جو مرد دانستہ نما زباجماعت میں غفلت کرے وہ ایک آنہ جرمانہ ادا کرے اور جو عورت دانستہ نما ز میں غفلت کرے وہ دو پیسے اور جو نماز جمعہ میںدانستہ غفلت کرے اس سے چار آنہ جرمانہ لئے جائیں؟
جواب: جوش تو اچھا ہے اور قابل قدر ہے مگر جرمانہ بدعت ہے۔وہی نما زمفید ہو سکتی ہے جس کے ادا کرنے میں اگر کسی قسم کی سستی ہو جائے تو خود دل اس پر جرمانہ کرے۔نماز کی غفلت روح کی قربانی سے دور ہو سکتی ہے پیسوں کی قربانی سے نہیں ۔آنحضرت ﷺ نے تارک نماز باجماعت کے متعلق یہی فرمایا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ایسے شخص کا گھر جلا دوں ۔کجا یہ کہ بکلی نماز کا تارک ہو۔جو شخص جما عت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتا اور ہر ایک نما زاس کی جماعت سے رہ جاتی ہے اور اس کے لئے سخت دکھ اور صدمہ کا باعث نہیں ہوتی اس شخص کے دل میں درحقیقت اسلام داخل ہی نہیں ۔اس کا ظاہری علاج نصیحت ہے اور وعظ ہے اور باطنی علاج دعا ہے۔جو اس سے بھی نہ سمجھے خلیفہ وقت سے اجازت لے کر اسے اپنی جماعت سے الگ سمجھنا چاہئے۔
نماز اسلام کا ایک رکن ہے ۔فوج میں لنگڑے آدمی نہیں رکھے جا سکتے۔
(الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۲۱؁ئ)
نما ز میں خیالات کا پیدا ہونا
سوال: ایک صاحب نے عرض کیا کہ نماز میں اگر مختلف خیالات پیدا ہوں تو کیا کیاجائے؟
جواب: خیا لات پیدا ہوں تو ان کامقابلہ کرو۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تم جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو یہ سمجھو کہ تم اپنا قرض ادا کر رہے ہو۔اگر تمھیں خشوع و خضوع نصیب ہو جائے تو یہ خدا تعالیٰ کا انعام ہو گا اور اگر خشوع و خضوع نصیب نہیں ہوتا اور تم بار بارکوشش کرتے ہوکہ تمھارے دل میں خیالات پیدا نہ ہوں تو پھر بھی تم ثواب کے مستحق ہوکیونکہ تمھاری شیطان سے لڑائی ہو رہی ہے اور جو شخص لڑائی کر رہا ہو۔۔۔۔۔نہیں ہوتا۔
جو شخص اپنے خیالات میں لذت محسوس کرے اور کہے کہ اگر خیالات پیدا ہوتے ہیں تو بیشک پیدا ہو ں وہ ضرور گناہ گار ہے لیکن جو شخص ان خیالا ت کا مقابلہ کرتا ہے وہ خدا کا سپاہی ہے اور ثواب کا مستحق ہے۔
(الفضل ۹ جون ۱۹۴۴؁ء نمبر ۱۳۴)
نماز میں خیالات کا انتشار
سوال: آ پ نے ایک موقع پر کہا ہے کہ سب سے آسان ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا نماز ہے لیکن اگر نماز میں خیالات ادھر ادھر منتشر رہیں اور توجہ قائم نہ ہو تو اس کا کیا علاج ہے؟
جواب: نماز میں توجہ قائم نہ ہونے کے کئی وجوہ ہوتے ہیں ہمیں پہلے ان وجوہ کو تلاش کرنا چاہئے اور پھر علاج کرنا چاہئے کیونکہ مرض کی تشخیص کے بغیر علاج نہیں کیا جاسکتا۔
۱:۔ ایک وجہ نماز میں توجہ قائم نہ ہونے کی یہ ہوتی ہے کہ نماز کی طرف رغبت ہی نہیں ہوتی اور جب رغبت نہ ہو تو توجہ کس طرح پیدا ہو سکتی ہے۔
۲: ۔ بعض دفعہ دماغی کمزوری کی وجہ سے توجہ قائم نہیں رکھی جا سکتی ۔
۳: ۔ اگر کسی امر کی طرف حد سے زیادہ توجہ کی جائے تو اس کے نتیجہ میں بھی بے توجہگی اور دماغی انتشار پیدا ہو جاتا ہے۔
غرض مختلف اسباب ہوتے ہیں کوئی ایک قانون نہیں بنایا جا سکتا ۔ان اسباب کی تشخیص کر کے پھر ان کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
( الفضل ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۶؁ء نمبر ۲۴۲)
سوال: نماز پڑھتا ہوں مگر تسلی نہیں ہوتی؟
جواب: تسلی کا یہ ذریعہ ہے کہ وضو ء اچھی طرح سے کرے پھر نماز کے بعد کچھ دیر استغفار پڑھے ۔سنتیں پہلی اور پچھلی اچھی طرح توجہ اور سنوار کر پڑھے ۔نماز اچھی طرح ٹھہر ٹھہر کر اور معنے سمجھ کر پڑھے پھر بھی اگر اپنے دل میں سکون اور اطمینان نہ پائے تو گھبرائے نہیں بلکہ بار بار ایسا ہی کرے کیو نکہ یہ ایک دو دن کا کام نہیں بلکہ تمام عمر کا کام ہے۔
(الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ ؁ئ)
اسلامی نماز اور مسجدیں
قرآن خد اتعالیٰ کی عبادت کے لئے زمین کے ہر ٹکڑے کومستحق عبادت سمجھتا ہے۔کوئی ٹکڑ ا اس بارہ میں دوسرے سے فضیلت نہیں رکھتا ۔رسول کریم ﷺنے اس قرآنی حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے’’جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِداً‘‘خدا تعالیٰ نے ساری زمین ہی میرے لئے مسجد بنا دی ہے۔آپ ؐکے اس فقرہ کے کئی معنے ہیںمگر ایک معنے یہ بھی ہیں کہ مسلمان دنیا کے ہر حصے میں اور ہر جگہ نماز پڑھ سکتا ہے۔اس کے لئے ضروری نہیں کہ جس طر ح ایک عیسائی یا ہندو گرجا یا مندر کے سوا کسی جگہ عبادت نہیں کر سکتا وہ بھی مسجد کے سوا کسی اور جگہ عبادت نہ کر سکے اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ جس طرح کسی عیسائی یا ہندوکو کوئی پادری یاپنڈت ہی عبادت کرا سکتا ہے اس کو بھی کوئی ملّا ہی نماز پڑھائے۔اسلام پادریوں ،پنڈتوں کا قائل نہیں ۔وہ ہر ایک نیک انسان کو خدا تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور ہر نیک انسان کو نماز میں راہنمائی کرنے کا حق دیتا ہے۔
بے شک اسلام میں مساجد بھی ہیںلیکن وہ مساجد اس لئے نہیں کہ وہ جگہیں نماز کے لئے زیادہ مناسب تھیں بلکہ مساجد صرف اس لئے ہیں کہ کسی نہ کسی جگہ پر لوگوں کو جمع ہو کر اجتماعی نماز بھی ادا کرنی چاہئے۔
(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۴۵۲)
مسجد کا دروازہ ہر مذھب و ملّت کے شرفاء کے لئے کھلا ہے
مسجد کسی خاص فرد کے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے۔اس میں غریب اور امیر اور مشرقی اور مغربی کا کوئی امتیاز نہیں ۔اس کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے۔اس کے لئے بھی جو اس میں بیٹھ کر خدا کی عبادت کرتا ہے اور اس کے لئے بھی جو جنگلوں میں رہتا ہے۔تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عیسائی قبیلہ رسول کریم ﷺ سے مذہبی تبادلہ خیالات کرنے کے لئے آیا۔۔۔۔۔جب ان کے نماز کا وقت آگیا تو۔۔۔۔۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا آپ لوگوں کو باہر جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ہماری مسجد میں ہی عبادت کر لیں۔یہ تاریخی واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے نزدیک مسجد کا دروازہ ہر مذھب وملت کے شرفاء کے لئے کھلا ہے اور وہ اپنے اپنے طریق کے مطابق اس میں عبادت بجا لاسکتے ہیں۔
اسلام نے امامت کے لئے بھی کسی خاندان یا کسی قوم کی خصوصیت نہیں رکھی۔عیسائیوں میں مقررہ پادری کے سوا کوئی دوسرا آدمی نماز نہیں پڑھا سکتا ۔سکھوں میں گرنتھی کے سوا کوئی دوسرا شخص گرنتھ صاحب کو پاٹھ نہیں کرا سکتا ۔لیکن اسلام پادریوں اور پنڈتوں کا قائل نہیں وہ ہر نیک انسان کو خدا تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور ہر نیک انسان کو نماز میں راہنمائی کا حق دیتا ہے۔
( تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ حج صفحہ ۲۴)
مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا
مساجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے مثلا ًاگر تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہاری بیٹی کی شادی کا کیا فیصلہ ہوا یا کہتے ہو کہ میری ترقی کا جھگڑا ہے افسر نہیں مانتے تو یہ باتیں مسجد میں جائز نہیں ہونگی۔سوائے امام کے کہ اس پر تمام قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کا حق ہے کہ وہ ضرورت محسوس ہونے پر ان امور کے متعلق لوگوں سے باتیں کر لے۔بہر حال مسجد میں خالص ذ اتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے مثلا رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے تو وہ اس کے متعلق مسجد میں اعلان نہ کرے۔(صحیح مسلم مع نووی صفحہ ۲۱۰)
پس مساجد صرف ذکر الٰہی کے لئے ہیں لیکن ذکر الٰہی ان تمام باتوں پر مشتمل ہے جو انسان کی ملی ،سیاسی، علمی اور قومی برتری اور ترقی کے لئے ہوں ۔لیکن وہ تمام باتیں جو لڑائی دنگہ ،فساد یا قانون شکنی سے تعلق رکھتی ہوں خواہ ان کا نام ملی رکھ لویا سیاسی ۔قومی رکھ لو یا دینی ،ان کا مساجد میں کرنا نا جائز ہے۔اسی طرح مساجد میں ذاتی امور کے متعلق کرنا بھی منع ہے کیونکہ اسلام مسجد کو بیت اللہ قرار دیتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص قرار دیتا ہے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ حج صفحہ ۲۸)
مسا جد کی تین اہم اغراض
مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ مسافر ان سے فائدہ اٹھا ئیں ۔دوئم ۔مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ شہر میں رہنے والے ان سے فائدہ اٹھائیں ۔سوئم ۔ مسا جد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ رکوع وسجود کرنے والے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے اور توحید کامل پر قائم لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں۔
مسافر تو مسجد سے اس رنگ میں فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ اگر اسے کوئی اور ٹھکانہ نہ ملے تو وہ اس میں چند روز قیام کر کے رہائش کی دقتوں سے بچ سکتا ہے اور مقیم اس رنگ میں فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ مسجد میں شور و شغب سے محفوظ مقام ہوتا ہے وہ اس میں بیٹھ کر اطمینان اور سکون سے دعائیں کر سکتا ہے اور اپنے رب سے منا جات کرسکتا ہے اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں ان کا اصل ٹھکا نہ تو مسجد ہی ہوتا ہے کیونکہ مسجد مومنوں کے اجتماع کا مقام ہوتی ہے اور دعاؤں اور ذکر الٰہی کی جگہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ذکر الٰہی کا قائم مقام وہ تمام کام بھی ہیںجو قومی فائدہ کے ہوں خواہ وہ قضا ء کے متعلق ہوں یا جھگڑوں اور فسادات کے متعلق ہوں یا تعلیم کے متعلق ہوں یا کسی اور رنگ میں مسلمانوں کی ترقی اور ان کے تنزل سے تعلق رکھتے ہوں ۔
چنا نچہ رسول کریم ﷺ کے زمانے کو اگر دیکھا جائے تو لڑائیوں کے فیصلے بھی مسجد میں ہوتے تھے۔قضا ء بھی وہیں ہوتی تھی تعلیم بھی وہیں ہوتی تھی ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد صرف اللہ اللہ کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے کام بھی جو قومی ضرورتوں سے تعلق رکھتے ہیں مساجد میں کئے جا سکتے ہیں۔
( تفسیر کبیر ۔تفیسر سورۃ حج صفحہ ۲۷۔زیر آیت وَطَہِّرْ بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْقَائِمِیْن ۔۔۔الایۃ)
مسجد کے ساتھ کا حجرہ مسجد کا حصہ نہیں ہوتا
میں جب عرب ممالک میں گیا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک مسجد کی چھت میں ایک حجرہ بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔اس کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہو ا کہ پرانے زمانے میں جب بادشاہ آتے تھے تو وہ اس حجرہ میں نماز پڑھا کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ایک دفعہ کوئی بادشاہ آیا اور اس کے ساتھ ایک جھاڑو دینے والا بیٹھ گیا ۔۔۔۔بادشاہ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے جگہ بدل کر پیچھے کی طرف اپنے لئے حجرہ بنوا لیا۔میں نے جب یہ واقعہ سنا تو اپنے دل میں کہا کہ اسلام کے ایک حکم کی بے حرمتی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے آئندہ اس سے مسجد میں نماز پڑھنے کی توفیق ہی چھین لی کیونکہ جس جگہ حجرہ بنایا گیا تھا وہ مسجد کا حصہ نہیں تھا۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ حج صفحہ ۲۴۔۲۵)
مسجد میں فلم دکھانا
سوال: کیا کوئی علمی فلم مسجد میں دیکھی جاسکتی ہے؟
جواب: مسجد میں ایسی فلم دیکھانے والابڑا خبیث اور دیّوث ہے۔علمی فلم کوئی نہیں ہوتی سب میں تھوڑا بہت گانا بھی شامل ہوتاہے۔یو ۔این ۔اے کی بعض علمی فلمیں ہیں وہ مفت دکھاتے ہیںمگر مسجدوں میں نہیں دکھاتے۔
(فا ئل مسائل دینی 32-A/12.3.57)
‏(DP1140/12.3.57)
گوردوارہ کی اینٹیں تعمیر مسجد کے لئے
سوال: ایک صاحب نے عرض کیا کہ گوردوارہ کی اینٹیں مسجد کی تعمیر میں استعمال کی جاسکتی ہیں جبکہ سکھوں نے ایسا کرنے کی اجازت دے دی ہے؟
جواب: فرمایا: ۔اگر سکھوں نے اجازت دے دی ہے تو بے شک یہ اینٹیں مسجد میں استعمال کی جاسکتی ہیں ۔لیکن اگر انھوں نے اجازت نہ دی ہوتو پھر انہیں استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کسی چیز کو بغیر اس کے مالکوں کی اجازت کے استعمال کرنا اسلام میں منع ہے۔
( الفضل یکم جنوری ۱۹۴۸؁ء لاہور)
غیر احمدی اگر اپنی مساجد میں نماز سے نہ روکیں
سوال: اگر ( کسی مسجد میں)غیر احمدی نما زپڑھ رہے ہوں تو ہم احمدی وہاںعلیحدہ نما ز پڑھ لیں؟
جواب: ہاں۔مگر ان کی نماز میں روک نہیں ہونی چاہئے۔
(الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۲۲؁ئ)
نیت نماز
انسان نماز کو خدا تعالیٰ کے لئے خاص کر دے ۔اور جب پڑھنے لگے تو اس کو یہی خیا ل ہوکہ میںیہ نماز خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے قرب اور وصال اور دیدار کی خاطر پڑھتا ہوں اور یہ اصل نیت ۔ورنہ نیت یہ نہیں کہ چار رکعت فرض نماز ظہر۔
( الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۴۱؁ء خطبہ جمعہ)
ترتیب نماز ضروری ہے
اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہواور ایک ایسا شخص مسجد میں آجائے جس نے ابھی ظہر کی نماز پڑھنی ہویا عشاء کی نماز ہو رہی ہو اور ایک ایسا شخص مسجد میں آجائے جس نے ابھی مغرب کی نماز پڑھنی ہو،اسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نما ز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔یا مغرب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔
جمع بین الصلوتین کی صورت میں بھی اگر کوئی شخص بعد میں مسجد میں آتا ہے جب کہ نماز ہو رہی ہوتو اس کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ ہے کہ اگر اسے پتا لگ جاتا ہے کہ امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے ظہر کی نماز علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔اسی طرح اگر اسے پتا لگ جاتا ہے کہ امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ پہلے مغرب کی نماز کو علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو سکے تو وہ جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے۔
ایسی صورت میں وہی نماز اس کی ہو جائے گی ۔بعد میں وہ اپنی پہلی نماز پڑھ لے۔مثلاً اگر عشاء کی نماز ہو رہی ہے اور ایک ایسا شخص مسجد میں آ جاتا ہے جس نے مغرب کی نماز پڑھنی ہے تو اگر اسے پتا لگ جاتا ہے کہ یہ عشاء کی نماز ہے تو وہ مغر ب کی نماز پہلے علیحدہ پڑھے اور پھر امام کے ساتھ شامل ہو۔لیکن اگر اسے معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کون سی نماز ہو رہی ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔اس صورت میں اس کی عشاء کی نماز ہو جائے گی ،مغرب کی نماز وہ بعد میں پڑھ لے یہی صورت عصرکے متعلق ہے۔
اس موقع پر عرض کیا گیا کہ عصر کے بعد تو کوئی نماز جائز ہی نہیں پھر اگر عدم علم کی صورت میں وہ عصر کی نماز میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کے لئے کس طرح جائز ہو سکتی ہے۔
حضور نے فرمایا: ۔یہ تو صحیح ہے کہ بطور قانون عصر کے بعد کوئی نماز جائز نہیںمگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اگر اتفاقی حادثہ کے طور پر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے تو پھر بھی وہ بعد میں ظہر کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ایسی صورت میں اس کے لئے ظہر کی نماز عصرکی نماز کے بعد جائز ہوگی۔
میں نے خود حضر ت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ مسئلہ سنا ہے اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ سنا ہے۔مجھے یا د ہے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام سے جب دوبارہ اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس کے متعلق وضاحت کر چکا ہوں کہ ترتیب نماز ضروری چیز ہے۔لیکن اگر کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ امام کونسی نماز پڑھا رہا ہے،عصر کی نماز پڑھا رہا ہے یا عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے،جو امام کی نماز ہو گی وہی اس کی نماز ہو جائے گی۔بعدمیں وہ اپنی پہلی نماز پڑھے۔
مولوی محمد الدین صاحب کی اس بارہ میں جو روایت شائع ہوئی ہے یا تو غلط فہمی پر مبنی ہے یا کسی اور سے انھوں نے سنا ہے اور ذہن میں رہ گیا کہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے۔
(۱: الفضل ۲۷ جون ۱۹۴۸؁ئ۔فرمودہ ۱۴ جون ۱۹۴۸ بمقام کوئٹہ)
(۲: سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب ؓ صفحہ ۱۶۰ تا ۱۶۳)
نماز میں صفیں سیدھی رکھو
بعض باتیں چھوٹی چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ہوتی بہت بڑی ہیںاور ان سے بڑے بڑے فوا ئد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔پس ان چیزوں کو چھوٹا سمجھ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے بلکہ ان کے فوائد کو مدنظر رکھ کر ان پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔میں یہ بات محبت الٰہی کے سلسلہ میں بیان کر رہا تھالیکن اس کے علاوہ دوسرے امور میں بھی یہی قاعدہ چلتا ہے مثلاً نماز کو ہی لے لو ۔اس میں بھی یہی قاعدہ چلتا ہے۔رسول کریم ﷺ فرماتے ہیںنماز میں صفیں سیدھی نہ رکھو گے تو تمھارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے۔اب صفوں کا سیدھا رکھنا بظاہر ایک غیر دینی چیز ہے یا محض نظام کا ایک حصہ ہے۔خود نماز کے مقصد اور اس کے مغز کے ساتھ اس کا زیا دہ تعلق نہیں۔لیکن باوجود اس کے کہ نمازمیں صفیں اپنی ذات میں مقصود نہیں ہوتیںرسول کریم ﷺ نے انھیں اتنی اہمیت دی کہ فرمایا کہ اگر تم نماز میں صفیں سیدھی نہیں کروگے تو تمھارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے کیونکہ بعض چیزیں اپنی ذات میں مقصود نہیں ہوتی لیکن ان کا اثر ایسا پڑتا ہے کہ وہ اپنے سے بڑی چیزوں کو بھی اپنی زد میں بہا لے جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے بعض علماء نے اپنے وقت میں قشر پر زیادہ زور دیا تھا لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے اس پر اتنا زور دیا کہ مغز جاتا رہا۔حقیقت یہ ہے کہ مغز ہی اصل مقصود ہوتا ہے اور اگر مغز کو نظر انداز کر دیا جا ئے تو چھلکا کسی کام کا نہیں ہوتا۔چنانچہ صوفیا ء نے یہ دیکھتے ہوئے کہ علماء اسلام چھلکے پر زیادہ زور دے رہے ہیںمغز پر زور دینا شروع کر دیا ۔مگر یہ بھی ان کی غلطی تھی کیونکہ مغز چھلکے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔غرض جن لوگوں نے قشر پر زیادہ زور دے دیا اور مغز کو نظر اندا ز کر دیا انھوں نے بھی غلطی کی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی چیز بلا وجہ پیدا نہیں کی ۔جس خدا نے چھلکا بنایا ہے اس نے مغز بھی بنایا ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے چھلکے اور مغز دونوں کو قیمت بخشی ہے۔
میں نے یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ میںنے بار بار توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت بعض اوقات چھلکے کو نظر انداز کردیتی ہے اور صرف مغز کو مدنظر رکھ لیتی ہے۔مثلا نماز میں صفوں کا سیدھا رکھنا ہے ہماری جماعت اس طرف توجہ نہیں کرتی یا پھر اذان ہے اس کی تصحیح کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔
(الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۶۲؁ئ) ؍ (الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۶۵؁ئ)
قبلہ کی طرف پاؤں کرنا
سوال: کیا قبلہ کی طرف مجبوری سے بھی پاؤں کرنا منع ہے ۔بعض لوگ اسے کفر قرار دیتے ہیں؟
جواب: قبلہ کی طرف پاؤں کرنا کفر تو نہیں البتہ ادب کے خلاف ہے۔رسول کریم ﷺنے پیشاب وغیرہ کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر آگے دیوار نہ ہو تو ادھر منہ کر کے پیشاب نہیں کرنا چاہئے۔مگر دوسری جگہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کو ایسا کرتے دیکھا گیا ۔اس کی یہی تشریح کی گئی ہے کہ سامنے دیوار تھی ۔قبلہ کی طرف پاؤں نہ کرنا ادب کا طریق ہے لیکن اگر کوئی کرے گا تو بد تہذیب کہلائے گا ۔آخر مومن کو کیا ضرورت ہے کہ بد تہذیب بنے۔پھر مجھے اس میں بھی کوئی مجبوری نظر نہیں آتی کہ قبلہ کی طرف پاؤں کرنے پڑیں۔
(الفضل ۲۹ جون ۱۹۴۶؁ئ)
بچے اگلی صف کی بجائے پچھلی صف پر بیٹھیں
سوال: مسجد میں چھوٹے بچے اگلی صف میں پہلے آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ بعدمیں بڑی عمر کے لوگ آ تے ہیں تو وہ بچوں کو اٹھا کر خود آگے بیٹھنا چاہتے ہیںاس طرح بچوں کی حق تلفی ہوتی ہے؟
جواب: رسول کریم ﷺ کا حکم یہی ہے کہ بچے پیچھے بیٹھیں اور جب رسول کریم ﷺکا حکم یہ ہے کہ وہ پیچھے بیٹھیں خواہ وہ پہلے آکر آگے بیٹھ جائیں ۔ثواب اسی بات میں ہے کہ رسول کریمﷺ کے حکم کی اطاعت کی جائے اور وہ بڑوں کے آنے پر پیچھے ہٹ جائیں۔مگر یہ حکم اسی وقت تک ہے جب تک نماز کھڑی نہیں ہوتی۔جب نماز کھڑی ہو جائے تو بچوں کو پیچھے ہٹایا نہیں جا سکتا۔
( الفضل ۱۰ مئی ۱۹۶۰؁ئ)
کیا اذان با جماعت نماز کے لئے ضروری ہے
سوال: کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے؟
جواب: ہاں اذان ہونی چاہئے لیکن اگر وہ لوگ جنھوں نے جماعت میں شامل ہو نا ہے وہیں موجود ہوںتو اذان نہ کہی جائے تو کچھ حرج نہیں ۔لوگوں نے اس کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے مگر میں ایک دفعہ حضرت صاحب کے ساتھ گورداسپور کو جارہا تھا۔راستہ میں نماز کا وقت آیا ۔عرض کیا گیا کہ اذان کہی جائے؟
فرمایا کہ احباب تو جمع ہیں ۔کیا ضرورت ہے۔اس لئے اگر ایسی صورت ہو تو نہ دی جائے ورنہ اذان دینا ضروری ہے کیونکہ اس سے کسی دوسرے کو بھی تحریک نماز ہوتی ہے۔
(الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۲۲؁ئ)
سوال: اگر غیر احمدیوں نے اذان کہی ہو تو اسی اذان کی بنا ء پر احمدی نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: اذان علیحدہ طور پر خود کہنی چاہئے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ اذان سے شیطان بھاگتا ہے ۔جس کی اذان نہیں اس سے شیطان نے کیا بھاگنا تھا۔
(الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۲۲؁ئ)
مقتدی سورۃ فاتحہ کب پڑھے
سوال: جن نمازوں میں امام بلند آواز سے قرأ ت ادا کرتا ہے ان میں مقتدیوں کو سورۃ فاتحہ کب پڑھنی چاہئے؟
جواب: مقتدی کو چاہئے کہ جب امام سورۃ فاتحہ پڑھ رہا ہو تو اس کے ساتھ ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھتا جائے یا جب ایک آیت پڑھ چکے تو اس کے بعد اسی آیت کو پڑھے۔
(الفضل یکم دسمبر ۱۹۴۴؁ئ)
مقتدی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری
سورۃ فاتحہ ہر نما ز میں اور ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے سوائے اس کے کہ مقتدی کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے امام رکوع میں جا چکا ہو۔اس صورت میں تکبیر کہہ کر بغیر کچھ پڑھے رکوع میں چلے جانا چاہئے۔امام کی قراء ت ہی اس کی قراء ت سمجھ لی جائے گی۔
سورۃ فاتحہ کی نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں آئی ہے۔صحیح مسلم میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے روایت کی ہے کہ
’’قَالَ مَن صَلَّی صَلٰوۃً لَم یَقرَء فِیھَا بِاُُمِّ القُرآنِ فَھِیَ خداج‘‘
(مسلم کتاب الصلوۃ ،باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ)
یعنی جس نے نما زادا کی لیکن اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے اور بخاری و مسلم میں عبادہ بن صامت ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ
’’لَاصَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقرَئْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘‘
( بخاری کتاب الصلوۃ ،باب قراء ۃ الامام و الماموم)
یعنی جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہ ہوئی ۔ایک جگہ حضرت عبادہ ؓ امام الصلوۃ تھے ۔ایک دفعہ وہ دیر سے پہنچے اور ابو نعیم نے نماز شروع کر ا دی ۔نماز شروع ہو چکی تھی کہ عبادہ ؓ بھی آ گئے میں بھی ان کے ساتھ تھا ہم صفوں میں کھڑے ہو گئے۔ابو نعیم نے جب سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کی تو میںنے سنا کہ عبادہ بھی آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھتے رہے ۔جب نماز ختم ہوئی تومیں نے ان سے پوچھا کہ جب ابو نعیم با لجہر نما ز پڑھا رہے تھے آپ بھی ساتھ ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھتے جا رہے تھے یہ کیا بات ہے؟انھوں نے جواب دیا کہ ہاں بالکل ٹھیک ہے ۔رسول کریم ﷺنے ایک دفعہ ہمیں نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر جب بیٹھے تو پوچھا کہ جب میں بلند آواز سے نماز میں تلاوت کرتا ہوں تو کیا تم بھی منہ میں پڑھتے رہتے ہو؟بعض نے کہا ہاں ،بعض نے کہا نہیں ۔اس پر آپ نے فرمایا
’’ لَا تَقْرَئُ وْا بِشَیْئٍ مِّنَ القُرْآنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّابِاُمِّ القُرْآن‘‘
( ابو داؤد کتا ب الصلوۃ ۔باب من ترک القراء ۃ فی صلوتہ)
یعنی جب میں بلند آواز سے قرآن کریم نماز میں پڑھوں تو سوائے سورۃ فاتحہ کے کسی اور سورۃ کی تلاوت تم ساتھ ساتھ نہ کیا کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے،خواہ وہ جہرا ًنما ز پڑھا رہا ہو۔سوائے اس کے کہ مقتدی رکوع میں آ کر ملے۔اس صورت میں وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں شامل ہو جائے اور امام کی قراء ت اس کی قراء ت سمجھی جائے گی۔یہ ایک استثنا ء ہے۔
استثناء سے قانون نہیں ٹوٹتا ۔اسی طرح یہ بھی استثناء ہے کہ کسی شخص کو سورۃ فاتحہ نہ آتی ہومثلا نو مسلم ہے جس نے ابھی نماز نہیں سیکھی یا بچہ ہو جسے ابھی قرآن نہیں آتا تو اس کی نما زفقط تسبیح و تکبیر سے ہو جائے گی۔خواہ وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھے ،سورۃ فاتحہ بھی نہ پڑھے۔
(تفسیر سورۃ فاتحہ صفحہ ۹۔۷)
ہر وہ مسلمان جو نماز پڑھتا ہے وہ نماز میں متعدد دفعہ سورۃ فاتحہ کی تلاورت بھی کرتا ہے جس کی اہمیت نماز کے لئے اتنی ہے کہ رسول کریم ﷺفرماتے ہیں
’’لا صلٰوۃَ اِلَّا بالفَاتِحۃِ‘‘
سورۃ فاتحہ کے پڑھے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔یہاں درحقیقت اکثریت مراد ہے ورنہ بعض حالتوں میں بغیر سورۃ فاتحہ کے بھی رکعت ہوجاتی ہے۔جیسے نماز ہو رہی ہواور کوئی شخص رکوع میں مل جائے تو اس کی رکعت ہو جائے گی حالانکہ اس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ہو گی لیکن عام قاعدہ یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
علاوہ ازیں رسول کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ لا صلوۃ الا بالفاتحۃ فی کُلِّ رَکْعَۃٍ۔جب تک ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے نماز نہیں ہوتی۔پس اگر ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ فوت ہو جاتی ہے تو ہم کہیں گے کہ ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ معاف ہو گئی گویا قلت کثرت کے تابع ہو گئی۔ورنہ نماز سورۃ فاتحہ کے بغیر نہیں ہوتی۔
فرض کرو ایک شخص آخر رکعت میں شامل ہوجاتا ہے تو کیا وہ دوسری رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ پڑھے گا ۔تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواہ اس نے ایک رکعت میںسورۃ فاتحہ نہیں پڑھی پھر بھی کوئی نماز بغیر سورۃ فاتحہ پڑھے نہیں ہوتی۔
جہرا ً بسم اللہ پڑھنا
سوال: بخاری اور مسلم کے علاوہ دوسری کتابوںمیں ہے کہ حضور ﷺ بسم اللہ الرحمن الرحیم جہرا ً پڑھا کرتے تھے۔امام شافعی ؒ کا مشہور مذھب یہی ہے’’ اِنَّھَا آیۃٌ فِی کُلِّ سُوْرَۃٍ ‘‘اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ بسم اللہ ہر سورۃ کی مستقل آیت ہے۔مولوی عبد الکریم ؓ بھی جہراً پڑھا کرتے تھے اس اختلاف کو دیکھتے ہوئے میں منا سب خیال کرتا ہوں کہ حضور سے استصواب کر لوں۔اگر حضور جہرا ً بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج خیال نہیں فرماتے ہوں تو جہراً پڑھوں ورنہ چھوڑ دوں۔
جواب: بخاری اور مسلم میں آیا ہے کہ بالجہر نہیں پڑھی تو کیا پھر یہ دوسری کتابیں بخاری مسلم سے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں۔
(فائل مسائل دینی 32-A/9.4.54)
کیا بسم اللہ ہر سورۃکا حصہ ہے
بسم اللہ کے متعلق بعض علماء نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ہر سورۃ کاحصہ بسم اللہ نہیںبلکہ صرف سورۃ فاتحہ کا حصہ بسم اللہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کسی سورۃ کا حصہ بھی نہیں ہے لیکن یہ خیال درست نہیں۔
بسم اللہ کو رسول کریم ﷺ نے سورتوں کا جزو قرار دیا ہے مثلا ًسورۃ فاتحہ کا حصہ ہونے کے متعلق دارقطنی نے مرفوعا ً ابو ہریرہ ؓ سے روایت کی ہے
’’قَا لَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺاِذَا قَرَاْتُمْ اَلحَمْدُلِلّٰہِ فَاقْرَئُ وْ ا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ۔اِنَّھَا اُمُّ القُرْآنِ وَ اُمُّ الْکِتَابِ وَ السَّبْعُ المَثَانِی وَ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم اِحْدٰی آیٰتھا‘‘
( دارقطنی جلد اول باب وجوب قراء ۃ بسم اللہ)
یعنی رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم الحمد للہ پڑھو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرو کیونکہ سورۃ فاتحہ ام القرآن ہے۔۔۔اور بسم اللہ اس کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے۔
اس حدیث میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دوسری سورتوں کا بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے بلکہ اس کے حصہ ہونے کی دلیل دی ہے اور وہ یہ کہ چونکہ یہ اُمّ الکتاب اور اُمّ القرآن ہے اس لئے بسم اللہ اس کے ساتھ ضرور پڑھنی چاہئے اور یہ دلیل اسی صورت میں ٹھیک ہوتی ہے جب یہ آیت باقی سورتوں کا بھی حصہ ہو۔اور دلیل بالاولیٰ کے طور پر کہا گیا ہو کہ جب باقی سورتوں کا بسم اللہ الرحمن الرحیم حصہ ہے تو سمجھ سکتے ہو کہ سورۃ فاتحہ جو اُمّ الکتاب اور اُمّ القرآن ہے اس کا حصہ بھی ضرور ہوگی پس اس کی تلاوت سے پہلے اس آیت کو ضرور پڑھا کرو۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ فاتحہ صفحہ ۱۳)
تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھی جائے
جب دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو پہلے تشہد کے بعد ایک یا دو رکعت جو وہ پڑھتا ہے ان میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتا ہے،قرآن کریم کی زائد آیا ت نہیں پڑھتا۔
(تفسیر سورۃ بقرۃ صفحہ ۱۱۰)
سنتیں اور ان کی رکعات کی تعداد
فرض نمازوں کے علاوہ کچھ سنتیں ہوتی ہیں یعنی ایسی زائد نماز جو رسول کریم ﷺ با لا لتزام ادا فرمایا کرتے تھے اور گو آپ ان کو فرض قرار نہ دیتے تھے لیکن ان کی تاکید کرتے رہتے تھے۔
صبح کی نما ز سے پہلے دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں ہیں اور بعد میں بھی چار رکعتیں ہیں ۔چارکی جگہ دو بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔عصر کے ساتھ کوئی ایسی سنتیں نہیں ہیں۔مغرب کے بعد دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔عشاء کے بعد دو یا چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں۔
(تفسیر سورۃ بقرۃ صفحہ ۱۱۴)
امام اور مقتدی ساتھ ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں
سوال: اگر امام اور مقتدی ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کررہے ہوں تو کیا امام صف میں تھوڑا سا آگے کھڑا ہو؟
جواب: اگر امام اور مقتدی ایک ہی صف میں ہوں تو کوئی ضرورت نہیں کہ مقتدی پیچھے ہو۔حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابن عباس ؓ کو اپنے ساتھ کھڑا کیا اور اگر امام یہ بتانے کے لئے کہ اصل مقام اس کا آگے ہے آگے کھڑا ہو جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
(فائل مسائل دینی نمبر ۱۱۔اگست ۱۹۵۱؁ئ۔الفضل ۱۰ اگست ۱۹۵۱؁ئ)
پانچوں نمازوںکے اوقات
أَقِمِ الصَّلاَۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ إِلَی غَسَقِ اللَّیْْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْر(بنی اسرائیل: ۷۹)
اس آیت میں پانچوں نمازوںکے اوقات بتائے گئے ہیں ۔دلوک کے تین معنے ہیںاور ہر ایک معنی کی رو سے ایک نماز کا وقت ظاہر کر دیا گیا۔
۱:۔ مَالَتْ وَزَالَتْ عَنْ کَبَدِ السَّمَائِ۔ یعنی زوال کو دلوک کہتے ہیں اس میں ظہر کی نما زآگئی۔
۲:۔ اَصْفَرَت۔جب سورج زرد پڑ جائے تو اس کو بھی دلوک کہتے ہیں۔اس میں نماز عصر کا وقت بتایا گیا۔
۳: ۔ غَرَبَتْ ۔یعنی غروب شمس کے ہیں ۔اس میں نماز مغرب کا وقت بتایا گیا۔
۴:۔ غَسَقِ اللَّیل کے معنی ہیں ظُلمَۃُ اَوَّلِ اللَّیل۔یعنی رات کے ابتدائی حصہ کی تاریکی۔اس میں نماز عشاء کا وقت مقرر کر دیا گیا۔
۵:۔ قرآن الفجرکہہ کر صبح کی نماز کا ارشاد فرمایا۔اس کے علاوہ کوئی اور تلاوت صبح کے وقت فرض نہیں ہے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ بنی اسرائیل صفحہ ۸۶۹)
نماز کے لئے اوقات مقرر کرنے کی حکمت
نماز مل کر پڑھنے کا حکم ہے یعنی یہ کہ اکٹھے ہو کر باجماعت پڑھو۔اب اگر امام کو آنے میں دیر ہو جائے اور کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ لے تو یہ اس کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے۔شریعت نے ہر نماز کے لئے وقت کا جو اندازہ مقرر کیا ہے کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک نماز ہو سکتی ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ اگر تھوڑی دیر آگا پیچھا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ۔اگر یہ مدنظرنہ ہوتاتو شریعت میں خاص وقت مقرر کر دیا جاتا کہ عین فلاں وقت پر فلاں نماز ادا کرو۔مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
(الفضل ۳ جولائی ۱۹۶۳؁ء ۔ فرمودہ ۲۶ فروری ۱۹۲۶؁ء )
اپنی رائے جماعت کی رائے پر قربان کر نا چاہئے
سوال: ساڑھے پانچ بجے صبح کی جماعت کھڑی ہو جاتی ہے اس وقت صبح صادق نہیں ہوتی ۔جماعت کے ساتھ شامل ہونے یا نہ ہونے کے بارہ میں کیا حکم ہے؟
جواب: مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًافَلَیْسَ مِنَّا
آخر دوسرے لوگ وقت سمجھ کر ہی نماز پڑھتے ہو نگے۔یونہی نما ز کو ضائع نہیں کرتے ہوںگے۔اس واسطے ایک شخص کو اپنی رائے باقی جماعت کی رائے پر قربان کردینی چاہئے اور علیحدگی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔
(الفضل ۴ مئی ۱۹۲۲ ؁ء )
نماز میں سوز و گداز کے لئے راگ کا استعمال
سوال: مجھ میں خود بخود یہ ملکہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کوئی گاتا ہوتواس کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں فوراً نقل اتار سکتا ہوں ۔اس ملکہ سے فائدہ اٹھا کرنما ز اور دعا میں سوزو گداز پیدا کرنے میں مدد لیتا ہوں اور دھیمی آواز سے اس کو استعمال کر لیتاہوں مگر اس وجہ سے کہیں صراط مستقیم کو نہ چھوڑ بیٹھوں۔استدعا کرتا ہوں کہ میں راگ و اشعار وغیرہ سے کہاں تک فائدہ اٹھا سکتا ہوں؟
جواب: راگ کا استعمال کرنا نماز اور دعا میں مکروہ ہے۔نماز کے علاوہ بھی راگ بد اثر ڈالتا ہے۔اس سے قوت فہم و فراست باطل ہو جاتی ہے۔مگر خوش الحانی منع نہیں ۔رسول کریم ﷺاور آپ کے خلفاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں میںسوز و گداز پیدا ہوتا تھا یا نہیں ؟اگر ان میں پیدا ہوتا تھا تو آپ میں بغیر راگ کیوں نہیں ہوسکتا۔
(الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۲۲؁ئ)
ادائیگی نماز بذریعہ ریڈیو
سوال: اگر قادیان کی مسجد مبارک میں ریڈیو لگادیا جائے تو کیا اس پر تمام دوسرے ممالک میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟
جواب: نہیں کیونکہ اس سے دو نقصان واقع ہوتے ہیں ۔
اوّل : اگر اس امر کی اجازت دے دی جائے تو لوگ گھروں میں ہی نماز پڑھ لیا کریںاور مسجدوںمیں نہ آئیںاور اس طرح جماعت سے جو اخوت اور اتحاد پیدا کرنے کی غرض ہے وہ مفقود ہو جاتی ہے۔
دوسرا نقص یہ واقع ہو سکتا ہے کہ لوگ قرآن کریم یا د کرنا چھوڑ دیں وہ یہی خیال کریں کہ ہمیں قرآن یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔جب قادیان کی مسجد میں قرآن پڑھا جائے گا تو ہم بھی سن لیں گے۔اس طرح چونکہ قرآن کے علم سے توجہ ہٹ جاتی ہے اس لئے اس طریق پر نمازیں پڑھنا جائز نہیں۔
(الفضل ۱۴ اپریل ۱۹۳۱؁ئ)
میدان جنگ میں نماز
سوال: میدان جنگ میں نماز کیسے پڑھیں؟
جواب: جس طرح بن پڑے ہر حال میں پڑھ لو۔چھوڑنا ہر گز نہیں چاہئے۔ایک سے زیادہ اوقات کی ملا کر ہی پڑھ سکو۔
(الفضل یکم جولائی ۱۹۱۵؁ئ)
سوال: میدان کارساز میں قصر صلوۃ اور روزہ کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب: نماز قصر پڑھیں اور روزہ نہ رکھیں۔
(الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۱۵؁ئ)
اندھیرے میں نماز پڑھنا
سوال: کیا اندھیرے میں نما زپڑھنا منع ہے؟
جواب: کوئی منع نہیں ۔احادیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺاندھیرے میں نماز پڑھتے تھے اور جب سجدے کو جاتے تو آگے حضرت عائشہ ؓ پڑی ہوتی تھیں۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں اپنے پیروں کو اکٹھے کر لیا کرتی تھی۔
(الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۲۲ٍ؁ئ)
چھوٹی ہوئی نمازیں
سوال: اگر کوئی شخص کسی وقت نما زپڑھنا بھول جائے تو پھر کیا کرے؟
جواب: جس وقت یاد آئے اس وقت پڑھ لے۔
(الفضل۱۰ جولائی ۱۹۳۴؁ئ)
سوال: اگر ایک نماز چھوٹ جائے تو کیا ساری پچھلی نمازیں جاتی رہتی ہیں؟
جواب: کوئی نماز چھوٹ جائے تو استغفار کرے اور دوبارہ پڑھے۔
(فائل مسائل دینی32-A/17.10.61)
سوال: اگر کوئی عام بھلائی کے سب کام کرتا ہے لیکن نماز باقاعدہ نہیں پڑھتا تو اس کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟
جواب: خدا تعالیٰ کے صریحاً حکم کی خلاف ورزی کرے گاتو خواہ وہ اور نیکیاں بھی کرے ان کا کوئی فائدہ نہیں۔
(فائل مسائل دینی32-A/17.10.61)
نماز قضا ء اد ا کرتے وقت سنتیں پڑھنی چاہئے
سوال: میرے آفس کا وقت 12:45ہے اور چونکہ نماز ظہر کا وقت 12:40پر ہوتا ہے اس لئے میں اکثر ظہر کی نماز کی چار سنتیں چار فرض اور دو سنتیں چھوڑ دیتا ہوںاورصرف عصر کی نماز سے پہلے ظہر کے چار فرض پڑھ لیتا ہوں ۔کیا یہ جائز ہے؟
جواب: سنتیں پڑھنی چاہئیں۔
(فائل مسا ئل دینی 32-A/3.6.61)
کفارہ نماز
سوال: ایک بیمار نے بارہ دن نما زنہ پڑھی تو اس کا بارہ ،تیرہ روپے کفارہ دیا ۔کیا یہ درست ہے؟
جواب: نماز جان بوجھ کر چھوڑی یا بیماری کی وجہ سے نہ پڑھ سکادونوں صورتوں میں کوئی کفارہ نہیں۔
( الفضل۶ مئی ۱۹۱۵؁ئ)
قبر کے بالمقابل نماز پڑھنا
سوال: بلا اعتقاد کے مزار یعنی قبر کے بالمقابل نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں؟
جواب: مزار یعنی قبر کو جانتے ہوئے اس کے بالمقابل نما زنہیں پڑھنی چاہئے خواہ اس کے خیال میں اس مزار اور قبر کی تعظیم نہ بھی ہو۔
( الفضل ۵ اگست ۱۹۱۵؁ئ)
سؤر کی کھال پر نماز پڑھنا
سوال: سؤر کی صاف کی ہوئی کھال پر حضور نے نماز پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔مگر ایک سائل کے جواب میںحضور نے فرمایا تھاکی سؤرکی ہر چیز حرام ہے اس کے بالوں کا برش بنانا حرام ہے کیونکہ یہ نجس العین ہے۔اس صورت میں کھال کیونکر جائز ہو سکتی ہے؟
جواب: مجھے یا د نہیں ۔کس جگہ سؤر کی کھال پر نمازپڑھنا میں نے جائز قرار دیا ہو گا ۔مگر یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ نے لحم الخنزیر کو حرام کیا ہے نہ کہ اس کی باقی چیزوں کو۔سؤر کی حرمت کی وجہ اس کی بے حیائی ہے۔سو اس کا اثر کھانے سے پیدا ہوتا ہے دوسرے استعمال سے نہیںاور بعض سابق اکابر سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔
(الفضل۲۳ اگست ۱۹۴۴؁ئ)
امام کی پوری اقتدا ء کرنی ضروری ہے
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کر رہے ہوں تو پوری اقتداء نہیں کرتے۔یہاں تک کہ امام اگر سجدہ سے سر اٹھا تا ہے تو وہ سجدے میں پڑے ہوتے ہیں اور جب امام دوسرے سجدے میں جانے کے لئے تکبیر کہتا ہے تو وہ پہلے سجدے سے سر اٹھاتے ہیں ۔ایسے سجدے سجدے نہیں ہوتے کیونکہ امام کی اقتداء میں نہیں ہوتے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔وہ سمجھتے ہونگے امام تو ایک منٹ سجدہ کر کے اٹھ کھڑا ہوتا ہے ہم دو منٹ سجدہ کریں گے تو زیادہ ثواب ملے گا ۔مگر یہ بات غلط ہے۔ایسے موقع پر امام کی اقتداء میں ہی ثواب اور نیکی ہے۔سجدہ وہی ہے جو امام کے ماتحت ہو۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو لوگ امام کے پیچھے بیٹھے رہتے ہیں یا امام سے آگے چلے جاتے ہیں ان کا سر گدھے کے سرکی طرح بنا دیا جائے گا۔پس اس سے بچنا چاہئے۔نادان اسے نیکی سمجھتے ہیں لیکن یہ نیکی نہیں۔نیکی اس میں ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے۔
(الفضل ۳ جولائی ۱۹۶۳؁ئ۔فرمودہ ۲۶ فروری ۱۹۲۶؁ئ)
اسلامی شریعت نے مسلمانوںکو بتایا کہ اگر امام بھول جائے اور بجائے دو رکعت کے چار رکعت پڑھ لے تو تم بھی اس کے ساتھ چار ہی رکعت ادا کرواور اگر وہ چار کی بجائے پانچ پڑھ لے تو تم بھی اس کی اتباع کرو۔
(الفضل۳۱ اگست۱۹۱۵ ؁ئ)
عورت عورتوںکی جماعت کرا سکتی ہے
سوال: کیا عورت جماعت کرا سکتی ہے؟
جواب: ہاں۔
(الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۲۲ ؁ئ)
۲: ۔
سوال: کیا عورتیں علیحدہ طور پر اکٹھی ہو کر جمعہ پڑھ سکتی ہیں؟
جواب: اگر کوئی خاص مجبوری ہو اس کی بنا ء پر عورتوں کو علیحدہ اکٹھے ہو کر جمعہ پڑھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے تاکہ ان میں دینی روح قائم رہے۔لیکن اگر عام حالات میں بھی ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے تو مردوں اور عورتوں میں اختلاف پیدا ہونے کا امکان ہے۔مردوں کے خیالات اور طرف جارہے ہونگے عورتوں کے اور طرف۔اس لئے عام حالات میں حکم یہی ہے کہ مرد اور عورتیں ایک مقام پر جمعہ کا فریضہ ادا کریں۔
(الفضل ۱۱ اکتوبر ۱۹۴۶؁ء ۔نمبر۲۳۸)
غیر مبایعین کے پیچھے نماز
ایک مستفسر کو لکھایا جس نے غیر مبایعین کو امام بنانے کے متعلق بعض مقامی مجبوریوں کا ذکر کیا تھا۔
’’ اگر اس شرط پر نماز اکٹھی ہو سکے کہ امام مبایعین میں سے ہواور خطبہ میں خلافت کا کوئی ذکر نہ ہوتو کرلیں۔میں یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ مستقل امام ان کا ہو۔ان کے پیچھے نماز کی اجازت کے یہ معنی ہیں کہ اگر کبھی اتفاق ہو جائے تو پڑھ لیں۔یعنی حرام نہیں۔‘‘
( الفضل ۲ مارچ ۱۹۱۵؁ء نمبر۱۱۱)
غیر مبائع کے پیچھے نماز
سوال: کیا غیر مبائع امام کے پیچھے نما زہو سکتی ہے یا نہیں ؟
جواب: جو غیر مبائع غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل نہیں اس کے پیچھے بوقت ضرورت نماز جائز ہے۔
(الفضل ۲۲ مئی۱۹۲۲ ؁ئ)
۲:۔
جو احمدی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
( الفضل ۱۳ جون ۱۹۱۵؁ئ)
۳:۔
سوال: جنھوں نے بیعت نہیں کی ( غیر مبائع) کیا ان کے پیچھے ہماری نماز جائز ہے؟
جواب: ہاں کچھ حرج نہیں ،ان کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو۔
( الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۱۴؁ئ)
۴:۔
متقی اور پر ہیز گا ر غیر مبائع ( جو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھتا ہو) کے جنازہ اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق فرمایا:
’’ جنازہ کا تو سوال ہی نہیں نماز بھی ایسے شخص کے پیچھے جائز ہے بشرطیکہ اپنا امام نہ ہو ۔نماز کا انتظام صرف حرمت ملت کی وجہ سے نہیں جیسا کہ غیر مبائع سمجھتے ہیںبلکہ جماعتی تنظیم کے لئے بھی اس مسئلہ کو اہمیت حاصل ہے۔
(فائل مسائل دینی 32-A/23.9.54۔DP 4523)
غیر احمدی کو لڑکی دینے والے کے پیچھے نماز
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کسی شخص سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کے خلاف ہوا مثلاً کسی نے اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے دی تو فوراً اس کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔لیکن ان کا یہ حق نہیں کہ خود بخود اس کا بائیکاٹ کریں۔ان کو چاہئے کہ ہم تک معاملہ پہنچائیں ۔پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ مجرم ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس نے کن اسباب کے ماتحت ایسا کیا ہے ۔آیا بے علمی سے اس سے یہ کام ہو گیا ہے یا کوئی اور وجہ ہے۔پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جب کوئی ایسی بات دیکھیں تو بجائے اس کے کہ خود بخود یہ فیصلہ کرلیں کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیںیا اس کو احمدی نہ سمجھیں ہمیں اطلاع دیں ۔اور جب تک یہاں سے کوئی فیصلہ نہ ہو اس وقت تک خود ہی کوئی فیصلہ نہ کریں۔اس سے فساد بڑھتا ہے۔
(الفضل ۲۰ فروری ۱۹۱۷؁ئ۔خطبہ جمعہ)
۲:۔
ایسا شخص جس نے باوجود علم کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمدی لڑکی کا رشتہ غیر احمدی سے کرنا منع فرمایا ہے اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے دی۔اگر وہ تائب نہیں ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی منع ہے۔
( الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۱۵ ؁ئ)
۳: ۔
سوال: ایک احمدی جو متقی اور پرہیز گار ہے چندہ بھی دیتا ہے مگر غیر احمدی کو رشتہ لڑکی کا دے دیا ہے اس کے بارہ میں کیا حکم ہے؟
جواب: جس نے حضرت اقدس ؑکا صریح حکم ٹال دیا وہ احمدی کہاں ہے۔جب تک وہ توبہ نہ کرے اور اپنی توبہ ثابت نہ کر دکھائے وہ احمدی نہیں۔حضرت اقدس ؑ نے تو یہاں تک فرمایا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنے والے کے پیچھے نماز نہ پڑھو ۔پھر جو غیر احمدی کو لڑکی دے وہ احمدی کس بات کا ہے۔
( الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵؁ئ)
سوال: جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب دعاوی کا مصدق ہو مگر بیعت نہ کی ہواس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟
جواب: غیر احمدی کے پیچھے جس نے اب تک سلسلہ میں باقاعدہ بیعت نہ کی ہوخواہ حضرت صاحب کے سب دعاوی کو بھی مانتا ہونماز جائز نہیں۔اور ایسا شخص سب دعاوی کو مان بھی کس طرح سکتا ہے جو حضرت صاحب بلکہ خدا کا صریح حکم ہو تے ہوئے بھی آپ کی بیعت نہیں کرتا۔
( الفضل ۵ اگست ۱۹۱۵؁ئ)
غیراحمدی کے پیچھے نماز پڑھنا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی احمدی کوغیراحمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔۔۔۔
ان لوگوںکو اپنا امام نہیں بنانا چاہئے جنھوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول نہیںکیاکیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور مغضوب ٹھہر چکے ہیںاور ہمیں اس وقت تک کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے جب تک کہ وہ بیعت میں داخل نہ ہو جائے اور ہم میں شامل نہ ہو۔خدا تعالیٰ کے معمور ایک بڑی چیز ہوتے ہیں ۔جو ان کو قبول نہیں کرتا وہ خدا کی نظر میں مقبول نہیں ہو سکتا۔اس میں شک نہیں کہ بعض غیراحمدی ایسے ہونگے جو سچے دل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صادق نہیں مانتے۔اس لئے قبول نہیں کرتے لیکن ہم بھی مجبور ہیں کہ ایسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھیںکیونکہ خواہ کسی وجہ سے سہی وہ حق کے منکر ہیں۔
غیراحمدی کا اس بات پر چڑنا کہ ہم ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ایک لغو امر ہے۔وہ غیراحمدی جو یہ سمجھتا ہے کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیںوہ ہم کو مسلمان کیونکر سمجھتا ہے اور کیوں اس بات کا خواہاں ہے کہ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں۔ہمارا اس کے پیچھے نماز پڑھ لینا اسے کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
( ہمار ایہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیںاوران کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔)
( انوار خلافت صفحہ ۹۰۔۸۹)
سودی کاروبار کرنے والے کے پیچھے نماز
سوال: ایک شخص جو سودی کاروبارکرتا ہے کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے؟
جواب: ایسا شخص جو سود پر روپیہ دیتا ہے اس کے پیچھے تو با لصر احت نماز جائز نہیں۔جو شخص روپیہ قرض لے کر سود ادا کرتا ہے احادیث میں اس کو اُس کے برابر قرار دیا گیا ہے جو سود لیتا ہے۔لیکن چونکہ قرآن کریم کے الفاظ کے معنوں میں اختلاف کیا گیا ہے اور اس لئے کہ ایک شخص مشکلا ت میں مبتلا ء ہو کر ایسا کرتا ہے گو کمزوری ایمان ہے مگر اس کا نقص اس حد تک نہیں پہنچا ہو ا ہے۔قرآن کریم کے ادب کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرا م نہ کہوں گا ۔اگر کسی صورت میں نماز پڑھ لی جائے تو میں مکروہ قرار دوں گا باطل نہیں۔بشرطیکہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو تو کوئی بات نہیں۔
(الفضل ۴ دسمبر ۱۹۲۳ ؁ئ)
ایسے امام کے پیچھے نماز جس سے لوگ نفرت کرتے ہوں
سوال: کیا ایسے شخص کو امام بنایا جا سکتا ہے جو لوگوں کو ذاتی مال منقولہ یا غیر منقولہ کا نقصان پہنچاتا ہے؟
جواب: امامت کثرت رائے پر ہوتی ہے۔اگر ایک جماعت کے لوگ کثرت رائے سے کسی کو امام بناتے ہیں تو پڑھی جائے۔
( الفضل ۴ دسمبر ۱۹۲۳ ؁ئ)
خلافت کے دعویدار کے پیچھے نماز
سوال: ایک شخص عابد علی نے خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔کیا ہم اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: اگر اس نے خلافت کا دعویٰ کیا ہے تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
( الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۶ ؁ئ)
حج کے ایام میں غیراحمدی امام کے پیچھے نماز
نانا صاحب جناب میر صاحب نے فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ؓکا حکم ہے کہ مکہ میں ان کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہئے۔۔۔۔
حکیم محمد عمر صاحب نے یہ ذکر حضرت خلیفۃ المسیح ؓکے پاس شروع کر دیا ۔آپ نے فرمایا ہم نے ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ہماری یہ اجازت تو ان لوگوں کے لئے ہے جو ڈرتے ہیںاور جن کے ابتلاء کا ڈرہے۔وہ ایسا کر سکتے ہیں کہ اگر کسی جگہ گھِر گئے ہوں تو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیں اور پھر آکر دہرا لیں۔
(آئینہ صداقت صفحہ ۹۲)
سوال: آپ نے فرمایا تھا کہ احمدی غیر احمدی کے پیچھے نماز وغیرہ نہ پڑھیں مگر جو لوگ حج کے لئے جاتے ہیں وہ تو وہاں پر حج کی نماز تو دوسرے لوگوں کے پیچھے ہی پڑھتے ہوںگے۔اگر احمدی لوگ وہاںپر ان کے پیچھے ہی نماز پڑھتے ہیں تو اس طرح تو آپ کا فرمان پورا نہیں ہوتا؟
جواب: نماز کے متعلق تو فقہا ء کا مسئلہ ہے کہ نیت سے نماز ہوتی ہے اگر آدمی نیت کر لے کہ میں اپنی الگ نماز پڑھ رہا ہوںتو وہاں ساتھ شامل ہونے میں کیا حرج ہے؟یہ اجازت صرف حج کے لئے ہے اور نمازوں کے لئے نہیں۔دوسری نمازیں تو انسان گھر پر ہی پڑھ سکتاہے۔حج صرف وہاں ہی ہوتا ہے۔
( فائل مسائل دینی۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری)
قراء ت بالجہر والسر کی حکمت
سوال: قراء ت بالجہر والسر میں کیا حکمت ہے۔دن کی نمازوں میںقراء ت مخفی اور رات کی نمازوں میں بالجہر کیوں پڑھی جاتی ہے؟
جواب: اس کا ظاہری جواب تو یہ ہے کہ دن کے وقت شور ہوتا ہے اور طبیعتوں میں سکون نہیں ہوتا ۔اس لئے خدا کے کلام سنانے سے جو غرض ہوتی ہے کہ دلوںمیں رقت پیدا ہو اور خدا کا جلال سامنے آجائے وہ اچھی طرح پوری نہیں ہو سکتی۔اس لئے دن کی نمازوں میں قراء ت بالجہر نہیں ہوتی۔
رات کی نمازوں میں قراء ت بالجہر کی یہی حکمت ہے کہ اس وقت خموشی کا عالم ہوتاہے۔طبیعتیں سکون اور اطمینان میںہوتی ہیں ۔خدا کا کلام سن کر رقت پیدا ہو جاتی ہے۔خدا کا کلام تو دن کو پڑھا جائے یا رات کو ہر وقت اثر پیدا کرتا ہے مگر انسانوں کے حالات مختلف ہوتے ہیںاس لئے ایک ہی بات ایک وقت کچھ اثر رکھتی ہے اور دوسرے وقت میں کچھ اور۔کسی نے سچ کہا ہے:
؎ ہر سخن وقتے و ہر نکتہ مقامے دارد
اس کے علاوہ اس کا روحا نی جواب بھی ہے اوروہ یہ کہ جب تاریکی کا زمانہ ہواس وقت خوب بلند آواز سے خدا تعالیٰ کے نام کی اشاعت ہونی چاہئے۔اور روشنی کے زمانے میں اگر کم بھی ہو تو بھی کام چل سکتا ہے۔
( الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۲۹ ؁ئ)
سوال: نمازوں میں سے تین باآواز بلند پڑھی جاتی ہیں۔دو کیوں خاموش پڑھی جاتی ہیں۔علاوہ ازیں چار رکعت والی میں دو با آواز بلند اور دو خاموش؟
جواب: بلند آواز سے پڑھی جانے والی رات کی نمازیں ہیںاور خاموشی سے پڑھی جانے والی دن کی ہیں۔دن کے وقت شور زیادہ ہوتا ہے۔امام اگر بلند آواز سے سنانا چاہے تو اس پر زیادہ بوجھ پڑتاہے۔یہ جسمانی حکمت ہے۔
روحانی حکمت یہ ہے کہ دن کے وقت نور ہوتا ہے ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔رات کو تاریکی ہوتی ہے کسی کو اندھیرے میں سوجھتا ہے کسی کو نہیں۔ان نمازوںمیں اس امرکی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب سب کو ہدایت مل جائے تو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے ہدایت پھیلاؤ اور جب دنیامیں تاریکی پھیل جائے تو ایک دوسرے کو بلند آواز سے خبردار کرتے رہو۔کیا آپ نے دن کے وقت اکٹھے چلنے والے اور رات کے وقت اکٹھے چلنے والے مسافروں کو نہیںدیکھا۔دن کے وقت چلنے والے مسافر ایک دوسرے کو آواز نہیں دیتے ۔رات کو چلنے والے آوازیں دیتے جاتے ہیں۔کوئی کہتا ہے دیکھنا گڑھا ہے کوئی کہتا ہے بچنا کیچڑ ہے پانی ہے۔پس ایک روحانی حکمت یہ ہے کہ سہولت اور آسانی اور نور کے وقت ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے چلیں اور جب تاریکی اور بدی پھیل جائے تو اس وقت صرف عمل ہی کافی نہیں بلکہ تلقین بھی ضروری ہے۔جسم کے ساتھ زبان بھی شامل ہونی چاہئے۔
رات کی نمازوں میں سے بعض حصہ کی قراء ت بلند کی جاتی ہے اور بعض حصہ کی خاموش۔اس میں کیا راز ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں ظاہری حکمتیں بھی ہیں اور ایک باطنی بھی۔
مغرب کی نماز میں دو رکعت بلند آواز سے ہیں اور ایک رکعت خاموشی سے ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کے وقت ایک طر ف خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور آواز سنائی جاسکتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ تاریکی کی ابتداء کا وقت ہوتا ہے اور ہر حالت سے دوسری حالت کی طرف گریز کرتے وقت اعصاب کو ایک صدمہ پہنچتا ہے اس لئے بلند آواز کا حصہ زیادہ رکھا اور خاموشی کا کم۔اور عشاء کے وقت اور بھی آواز پہنچانے میں سہولت ہوتی ہے لیکن انسان ابتدائی صدمہ سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے مخلّی بالطبع ہونے کا وقت آجاتا ہے اس لئے اس میں دونوں حالتوں کو برابر رکھاہے۔
صبح کے وقت انسان پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔اکثر لوگ قریب میں ہی سو کراٹھے ہوتے ہیں اور آواز بھی اچھی طرح سنائی جاسکتی ہے اس لئے دو رکعتوں میں قرا ء ت رکھی تاکہ لوگوںمیں سستی پیدا نہ ہو اور غنودگی دور ہو۔
ان جسمانی وجوہ کے علاوہ روحانی وجوہ بھی ہیں۔درحقیقت نماز میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے کہ انسانی روح کے کمال کے لئے دوسرے کے ساتھ تعاون ،وعظ و تذکیر اور مراقبہ یہ تین چیزیں ضروری ہیں۔مراقبہ کا قائم مقام خاموش نمازیں ہوجاتی ہیںجن میں انسان اپنے مطلب کے مطابق زور دیتا ہے۔
وعظ و تذکیر کا نشان قراء ت ہے جو انسان کو باہمی نصیحت کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے اور تعاون کا نشان جماعت ہے۔جماعت کے علاوہ جو سب اوقات میں مدنظر رکھی گئی ہے۔دوسری دونوں کیفیتوں کو مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ نے رکھ دیا ہے ان میں دن کے وقت خاموشی کی وجہ کومیں بیان کر چکا ہوں۔
دن کے وقت کی نمازوں میں جمعہ کی نماز مستثنیٰ ہے اس میں جو قرأ ت نماز میں بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے وہ اس لئے ہے کہ جمعہ اجتماع کا دن ہے اس لئے اس میں قرأت با لجہر ضروری تھی۔
اب یہ کہ رات کی نمازوں میں سے بعض میں قرأت اور خاموشی کو جمع کر دیاگیا ہے اور بعض میں صرف قرأت کو لے لیا گیا ہے جیسے صبح کی نماز ہے ۔اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب کسی تنزل کی ابتداء ہوتی ہے تو وعظ و تذکیر اور مراقبہ کے متفقہ نسخے سے قوم کی اصلاح ہوتی ہے ۔ابھی لوگ نور سے تازہ تازہ نکلے ہوتے ہیںاور قلب کی حالت پر غور کرنے کے لئے تیا ر ہوتے ہیں۔لیکن جس وقت تنزل انتہاء کو پہنچ جائے جیسے رات کی تاریکی ہوتی ہے تو اس وقت ’’فَذَکِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّکْرَی‘‘ (اعلیٰ:۱۰)کا زمانہ ہوتا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاکی ہو وہ لوگوں کو جگائیں اور یہ زمانہ انبیاء کا زمانہ ہے چنانچہ قرآن کریم میں بھی اسی زمانے کے متعلق فرمایا’’ وَاللَّیْْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ‘‘(تکویر:۱۸) ایسے زمانے میں تاریکی کی لمبائی کی وجہ سے اور نیند کے جمود کی وجہ سے لوگوں کے حواس معطل ہو جاتے ہیں۔ایسے زمانے میں لوگوں کو جگانے والا ہی جگا سکتا ہے ۔پس اس زمانے میں مراقبہ کا حصہ ہٹا دیا گیا ہے۔
(الفضل ۵ ستمبر ۱۹۳۶ ؁ء )
کیا امام اپنی زبان میں بلند آواز سے دعا کر سکتا ہے
سوال: ایک جماعت کا امام نماز میں بلند آواز سے اردو زبان میں دعائیں مانگتا ہے؟
جواب: اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو فتویٰ ہے وہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں ۔حال ہی میں الفضل میں بھی وہ شائع ہوا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی ارشاد ہے کہ نماز میں صرف ادعیہ ماثورہ بلند آواز سے پڑھنی چاہئیں۔ہاں اگر اپنی آوازمیں کوئی دعا کرنی ہو تو بجائے بلند آواز کے دل میں ہی کر لینی چاہئے۔میرا عمل اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ادعیہ ماثورہ کے پڑھتے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاما ت کو بھی شامل کر لیا کرتا ہوںکیونکہ جو حکمت قرآن مجید اور احا دیث کی دعائیں پڑھنے میں ہے وہی حکمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بھی موجودہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جہا ں تک ذاتی ضرورت اور خواہش کا سوال ہے انسان اپنی زبان میں ہی زیادہ موثر طریق اور عمدگی کے ساتھ دعا کر سکتا ہے۔جس زبان میں انسان سوچتا اور غور کرتا ہے اس میں اسے پوری مہارت ہوتی ہے۔اس لئے وہ صحیح رنگ میں اسی زبان میں اپنے دلی جذبات اور اندرونی کیفیا ت کا اظہا ر کر سکتا ہے۔اگر وہ کسی ایسی زبان میں دعا کرے گا جس پر اسے پورے طور پر تصرف حاصل نہیں تو وہ اپنے جذبات کا پورے طور پر اظہار نہیں کر سکے گا۔پس جہاں تک انفرادی طور پر خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا سوال ہے اپنی زبان میں دعا مانگنا ایک ضروری چیز ہے۔لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ایسی دعائیں بلند آواز سے کی جائیں یا اگر کوئی شخص امام ہو تو وہ اردو یا کسی اور زبان میں اونچی آواز سے دعائیں مانگنے لگ جائے۔وہ اپنے دل میں تو ایسی دعائیں مانگ سکتا ہے اور اسے ضرور مانگنی چاہئے مگر بلند آواز سے بالخصوص ایسی حالت میں جب کو ئی شخص امام ہو صرف ایسی دعائیں ہی مانگنی چاہئیںجو ادعیہ ماثورہ میں شامل ہوںاور جن کا قرآن وحدیث میں ذکر آتاہو۔اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر اپنی زبان میں دعا کی جائے تو یہ ضروری نہیںہوتا کہ انسان صحیح طور پر شریعت کے تقاضے کو پورا کر سکے مثلاًدعا کرتے وقت بعض دفعہ انسان خدا تعالیٰ کو اسکی صفات یا د دلاتا ہے ۔بعض دفعہ خدا کے بندے کے ساتھ جو تعلقات ہیں ان کا واسطہ دیتا ہے۔
(الفضل ۱۸ جون ۱۹۴۷ ؁ئ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات کو جائز سمجھتے تھے کہ نمازی مسنون دعاؤں کے بعد جو عربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اپنی زبان مثلاً اردو یا پنجابی میں بھی دعا کرے بلکہ تاکید فرمایا کرتے تھے کہ نماز کے اندر اپنی زبان میں بھی دعا کیا کروکیو نکہ اس میں انسان اپنے جذبات کو اچھی طرح ظاہر کر سکتا ہے۔ایک دفعہ کسی دوست نے عرض کی کہ حضور لوگ کہتے ہیںکہ نماز کے اندر اپنی زبان بولی جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔حضور نے ہنس کر فرمایا ان لوگوں کی نماز تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہے۔
(الفضل ۴ جنوری ۱۹۳۹ ؁ئ۔تقریر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ)
امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ نما ز میں بلند آواز سے قرآن ،حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعائیں بھی مانگے۔نماز میں بلند آواز سے اپنی زبان میں دعائیں مانگنا جائز نہیں۔اس میں مقتدیوں کے لئے شبہات اور وساوس کی گنجائش ہوتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ یہی ہے کہ نما زباجماعت میں امام کو ادعیہ ماثورہ ہی مانگنی چاہئیں۔ہاں اپنے طور پر کوئی شخص جب اکیلا نماز پڑھ رہاہوتو اپنی زبان میں دعائیں مانگ سکتا ہے۔۔میری اپنی رائے اور عمل یہ ہے کہ ایسے مواقع پر قرآن کریم اور احادیث کی دعاؤں کے علاوہ میں وہ دعائیں بھی مانگ لیا کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما ًبتائی ہیںکیونکہ قرآن کریم کی دعاؤں اور ماثورہ دعاؤں میںجو حکمت ہے وہی حکمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعاؤں میں بھی پائی جاتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان اگر اپنے طور پر اپنی تڑپ اور ذاتی خواہشات کے مطابق دعا ما نگنا چاہے تو اپنی زبان میں ہی دعا مانگنا اس کے لئے اچھا ہے کیونکہ جو شخص جس زبان کا ماہر ہوتا ہے وہ اسی زبان میں اپنے خیالات کا اچھی طرح اظہار کر سکتا ہے اور اپنے دعا کے جوش کو پورا کر سکتاہے۔پھر وہ کسی دعا کے متعلق سوچے گا بھی اسی زبان میں جو اس کی اپنی ہو گی مثلاً اردو زبان جاننے والا جب کسی امر کے متعلق سوچے گا تو وہ اردو میں ہی سوچے گا ۔اسی طرح عربی جاننے والا جب کسی امر کے متعلق سوچے گا تو وہ عربی زبان میں سوچے گا۔پس ہماری ضروریات کے متعلق جو خیالات ہمارے دلوںمیں آتے ہیں وہ اسی زبان میں آتے ہیں جو ہماری اپنی زبان ہوتی ہے اور جس کے ہم ماہر ہوتے ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک اردو جاننے والا انگریزی زبان میں سوچتا رہے اور ایک انگریزی دان فارسی میں سوچتا رہے۔پس چونکہ انسان کو اس کی حاجتوں اور خواہشات مخفی کا علم اس کی اپنی زبان میں ہوتا ہے۔۔۔۔اس لئے وہی اس کی خواہشات کی ادائیگی کے لئے بھی موزوں اور مناسب ہے۔
پس اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اپنی زبان میں دعائیں مانگتا ہے تو یہ اس کے لئے جائز ہے بلکہ یہی اس کے لئے بہتر ہے۔مگر ایک امام کے لئے ایسا کرنا درست نہیںکیونکہ بسا اوقات وہ ایسی دعا بھی مانگ جاتا ہے جو مقتدیوں کے لئے بار ہوتی ہے۔اس لئے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز میں اگر بلند آواز سے دعائیں مانگنا چاہے تو قرآن کریم اور احادیث کی دعائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعائیںمانگے ۔کیونکہ ان دعاؤںمیں غلطی کا امکان نہیںہے اور یہ سب دعائیں ایسی ہیں جو مقتدیوں کے لئے مسلمہ ہیں ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک شخص دعا مانگ رہا تھا اور وہ کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ اے خدا میں گناہ گار ہوں تو مجھ پر رحم کر لیکن جوش میں اس کے منہ سے یہ نکل گیا کہ اے خدا تو گناہ گار ہے میں تجھ پر رحم کر تا ہوں۔
آپ نے فرمایا جب وہ شخص یہ دعا مانگ رہا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی اس غلطی پر ہنس رہا تھاکہ میرا بندہ سمجھ نہیں سکا کہ وہ کہنا کیا چاہتا تھا اور کیا کہہ رہا ہے لیکن اگر کوئی امام یہی دعا غلطی سے مانگنا شروع کر دے اور بجائے’ اے اللہ رحم کر ‘کے ’اے اللہ میں تجھ پر رحم کرتا ہوں‘ کہتا چلا جائے تو مقتدی کیا کہیں گے۔
امام بننے کی صورت میں اس کے لئے اپنی زبان میں دعائیں مانگنا جائز نہیں ہے۔امام بننے کی صورت میں ضروری ہے کہ وہ ایسی دعائیں مانگے جو مقتدیوں کے نزدیک مسلمہ ہوں اور مقتدیوں کے نزدیک وہی دعائیں مسلمہ ہیںجو قرآن کریم ،احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعائیں ہیں۔
(الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۶۱ ؁ئ)
سوال: کیا امام اونچی آوازسے اردو میں دعا کرسکتا ہے؟
جواب: فرمایا :۔ اس طریق کو میری طبیعت نہیں مانتی ۔
اس موقع پر مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ؓ نے عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے کہ اس طرح دعا کرنا جائز نہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ حسب ذیل ہے:
’’سوال: امام اگر اپنی زبان میں با آواز بلند دعا مانگتا جائے اور پیچھے آمین کرتے جاویں تو کیا یہ جائز ہے جبکہ حضور کی تعلیم ہے کہ اپنی زبان میں دعائیں نماز میں کر لیاکرو؟
جواب: فرمایا:۔ دعا کو باآواز بلند پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔خدا تعالیٰ نے تو فرمایا ’تَضَرُّعاً و خُفْیَۃ‘ اور ’دُون الجَھر مِنَ القَول‘
سوال: قنوت تو پڑھ لیا کرتے ہیں ؟
جواب: فرمایا:۔ ہاں ادعیہ ماثورہ جو قرآن و حدیث میں آ چکی ہیںوہ بے شک پڑھ لی جاویں ۔باقی دعائیں جو اپنے ذوق وحال کے مطابق ہیں وہ دل ہی میں پڑھنی چاہئیں۔‘‘(بدر نمبر ۳۱ جلد ۶صفحہ ۱۲ ۱۹۰۷ ؁ئ)
( الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۳۴ ؁ئ)
سوال: کیا مسنونہ دعاؤں کے ساتھ غیر مسنونہ دعائیں اونچی آواز سے پڑھی جاسکتی ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ البدر یکم اگست ۱۹۰۷ ؁ء میں ہے کہ ادعیہ ماثورہ بے شک اونچی آواز سے پڑھ لی جاویں۔باقی دعائیں جو اپنے ذوق و حال کے مطابق ہوںوہ دل میں ہی پڑھنی چاہئیں۔
جواب: حضور نے فرمایا:۔ اس زمانے میں ناسخ و منسوخ کا سوال نہیں ۔وہ فتویٰ کب شائع ہو ا ہے اور کس نے کیا ہے۔یہ درست ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں دوسری دعائیں پڑھتے ہوئے خود سنا ہے۔
)فائل افتاء ۔رجسٹر اصلاح و ارشاد صفحہ (20/9/43 1
کیا امام کسی لفظ کی قرأت کو بار بار دہرا سکتا ہے
سوال: کیا امام الصلوۃ کا اس طرح سے قرأت بالجہر پڑھنا جائز ہے
۱: ۔ الحمد للہ کا باربار پڑھنا
۲:۔ سورۃ فاتحہ کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کسی سورۃ کا کوئی حصہ جو شروع سورۃ نہ ہو پڑھنا
۳:۔ معوذتین کو اس طرح پڑھنا قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقَِ۔بِرَبِّ الْفَلَق
جواب: یہ کلمات تمجید ہیں ۔بہتر ہیں کہ مخفی پڑھ لے کیونکہ یہ کلمات اس وقت پڑھے جاتے ہیں جس وقت طبیعت میں جوش آتا ہے۔ان کا پڑھنا قلب کی حالت پر ہوتی ہے۔اگر قلب کی حالت واقعی طور پر ایسی ہے کہ وہ کلمات تمجید پڑھنے پر مجبور ہے تو ثواب کا باعث ہو گا۔اگر ایسی طبیعت نہ ہو گی تو پھر بالجہر پڑھنا گنا ہ بن جائے گا ۔اس لئے یہ کلمات کہنے ہوں تو آہستہ کہہ لیں۔
۲:۔ اس کا حکم نہیں اعوذ کا حکم ہے۔شروع سورۃ پر بسم اللہ پڑھنی چاہئے ورنہ یہ بدعت ہے۔
۳:۔ یہ دعا ہے اس لئے یہ سمجھا جائے گا کہ دعاکے طور پر دہرا لیتا ہے۔قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقَِ والی تلاوت سمجھی جائے گی ،باقی دعا۔
(الفضل ۲ مئی ۱۹۵۱ ؁ئ)
سجدہ میں قرآنی دعائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعائیں پڑھنا
سوال: سجدہ میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا کیو ں ناجائز ہے حالا نکہ سجدہ انتہائی تذلّل کا مقام ہے؟
جواب: میرا تو یہی عقیدہ رہا ہے کہ سجدہ میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا جائز ہے لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسا حوالہ ملا جس میں آپ نے سجدہ کی حالت میں قرآنی دعاؤں کا پڑھنا ناجائز قرار دیا ہے۔
اسی طرح مسند احمد بن حنبل میں بھی اسی مضمون کی ایک حدیث مل گئی لیکن اگر میرے عقیدے کے خلاف یہ امور نہ ملتے تب بھی یہ دلیل میں معقول قرار نہ دیتا کہ سجدہ جب انتہائی تذلل کا مقام ہے تو قرآنی دعاؤں کا سجدہ کی حالت میں پڑھنا جائز ہونا چاہئے۔
امام مالک ؒ کا عقیدہ تھا کہ سمندر کی ہر چیز حلال ہے۔ایک دفعہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا سمندر میں سؤر بھی ہوتا ہے کیا اس کا کھانا بھی جائز ہے۔آپ نے فرمایا سمندر کی ہر چیز کھانی جائز ہے مگر سؤر حرام ہے۔اس نے بار بار یہی سوال کیا مگر آپ نے فرمایا میں اس سوال کا یہی جواب دے سکتا ہوںکہ سمندرکی ہر چیز حلال ہے مگر سؤر حرام ہے۔یہی جواب میں دیتاہوںکہ سجدہ بے شک تذلل کا مقام ہے مگر قرآن عزت کی چیز ہے اس کی دعائیں سجدہ کی حالت میں نہیں پڑھنی چاہئیں۔
دعا انسان کو نیچے کی طرف لے جاتی ہے اور قرآن انسان کو اوپر کی طرف لے جاتا ہے اس لئے قرآنی دعاؤں کا سجدہ کی حالت میں مانگنا ناجائز ہے۔جب رسول کریم ﷺ اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بات ثابت ہو گئی توپھراس کے خلاف طریق کاراختیار کرنا درست نہیں گو وہ ہماری عقل میں نہ آئے۔
اسی پر قیاس کر کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعائیں بھی سجدہ کی حالت میں پڑھنی ناجائز ہیں۔سوا ئے اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے اس کی اجازت ثابت ہو جائے۔
(الفضل ۱۶ اپریل ۱۹۴۴ ؁ء نمبر ۸۸)
سوال: کیا یہ جائز ہے کہ سجدہ میں دعا کرتے وقت کچھ قرآنی الفاظ اور کچھ اپنے الفاظ ہوں؟
جواب: سجدہ میں قرآنی دعائیں تو جائز نہیں ہیں لیکن اگر انسان کے اپنے الفاظ ہوں اور ان میں قرآن کی کسی آیت کا ٹکڑا آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: کیا بحالت سجدہ اردو میں دعا ما نگنا جائز ہے؟
جواب: جائز ہے۔
(الفضل یکم دسمبر ۱۹۴۴ ؁ء نمبر ۲۸۱)
ننگے سر نماز
سوال: کیا بلا ضرورت کوئی شخص ننگے سر نما ز ادا کر سکتا ہے؟
جواب: نماز میں یوں تو اچھا لباس پہننے کا حکم ہے جیسا کہ ’’خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِد‘‘(اعراف:۳۲) ۔باقی نوافل اور گھر کی نما زمیں بدوں ضرورت کے محض جواز کے طور پر ایک چادر میں بھی پڑھنا ثابت ہے۔
(بحسب حکم مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ؓ نے جواب لکھا۔ الفضل ۵ اگست ۱۹۱۵ ؁ئ)
سوال: مصری لوگ اکثر ننگے سر نما ز پڑھتے ہیںمگر ہم سر ڈھانپ کر نماز پڑھتے ہیں کیا اس کے متعلق کوئی حکم ہے؟
جواب: ہمارے ملک میں چونکہ احترام کا نشان سر ڈھانپنا ہے اس لئے ہمارے ملک میں یہی مناسب ہے کہ سر ڈھا نپا جائے مگر کئی صحابہ کے متعلق ذکر آتا ہے کہ ننگے سر پڑھتے تھے۔مگر ہم لوگ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ان کے پاس پورے کپڑے ہوتے ہی نہ تھے کیا کرتے مگر حافظ روشن علی صاحب ؓ کو اس روایت پر اتنا غلو تھا کہ وہ سر پر ٹوپی ہوتی بھی تو اس کو اتار لیتے تھے۔میں ان سے ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ حافظ صاحب جس حدیث پر آپ کو اتنا غلو ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جن کو کپڑا نصیب نہیں ہوتا تھا آپ کو نصیب ہے۔پس اتنا ثابت ہو گیا کہ ننگا سر رہنے سے نماز ٹوٹتی نہیں ہاں عورتوں کے متعلق فقہاء کا قطعی فیصلہ ہے کہ ان کو سر ڈھانک کر نماز پڑھنی چاہئے۔
(فائل مسائل دینی 32-B۔DP4/13.5.57)
اسلام نے یہ کہا ہے کہ نماز وغیرہ کے مواقع پر سر پر ٹوپی یا پگڑی رکھی جائے ۔سر ننگا نہ ہو۔عورتوںکے متعلق علماء میںیہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر ان کے سر کے اگلے بال ننگے ہوں تو آیا ان کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں۔اکثر کا یہی خیا ل ہے کہ اگر اگلے بال ننگے ہوں تو نماز نہیں ہوتی۔پرانے فقہاء کا خیا ل ہے کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی۔لیکن ہمارے ہاں مسائل کی بنیاد چونکہ احادیث پر ہے اور احادیث میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بعض صحابہ ؓ نے ننگے سر نمازپڑھی اس لئے ہم اس تشددکے قائل نہیں کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں۔ہمارے نزدیک اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہو اسی طرح سر ڈھانکنے کے لئے کو ئی رومال وغیرہ بھی اس کے پاس نہ ہوتو ننگے سر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
(الفضل ۹ فروری ۱۹۵۵ ؁ئ)
سوال: کیا ننگے سرنماز جائز ہے؟
جواب: ایسی صورت میں ننگے سر نماز پڑھنا غلطی ہے جبکہ سر ڈھانپنے کے لئے کوئی کپڑا وغیرہ موجود ہو۔منع نہیں۔کئی صحابہؓ پڑھتے تھے۔مگر میرا خیال ہے ان کے پاس سر ڈھانپنے کے لئے کپڑا نہیں ہوتا تھا۔حدیثوں میں آتا ہے کہ صحابہؓ کے پاس بسا اوقات تہہ بند کے لئے بھی پورا کپڑا نہیں ہو تا تھا۔
(الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۶ ؁ء نمبر ۲۴۳)
سوال: نکر پہن کر نماز پڑھنے کے بارہ میں کیا حکم ہے؟
جواب: اگرکسی کے پاس نکر ہے اور دوسرا کپڑا نہیں تو نکر پہن کر جائز ہے بلکہ اگر اس کے پاس کپڑا نہیں تو نکر چھوڑ لنگوٹی میں بھی نماز جائز ہے۔لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا جبکہ اور کپڑا موجود ہو ناجائز ہے۔
( الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۶ ؁ئ)
نمازیں جمع کرنا
بادل اور کیچڑکی وجہ سے مغرب و عشاء جمع ہوئیں بعض احباب نے اختلاف کیا کہ معمولی معمولی باتوں پر نماز جمع کر الی جاتیں ہیں۔
حضور نے فرمایا:۔ یہ فتویٰ درست ہے کہ معمولی اجتماعوں میں نماز جمع نہ ہونی چاہئے۔نماز جمع صرف قومی اجتماعات میں ہم کرتے ہیں اور اس کے بغیر جب انتظام میں تکلیف مالا یطاق ہویا سفر یا بارش ہو یا سخت کیچڑہو رات کو چلنا خطرناک ہو۔
(الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۴۴ ؁ء جلد نمبر ۳۱ نمبر ۲۲۰)
نمازیں جمع کرنا
سوال: اگر کوئی شخص مصروفیت کی وجہ سے ظہر وعصر اکٹھی اور مغرب و عشاء اکٹھی پڑھ لے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب: مجبوری اور غلطی سے پڑھی تو معاف ہے۔ارادتاً جمع نہیں کرنی چاہئے۔
(فائل مسائل دینی 32-A/17.10.1960)
سوال: نمازیں جمع کرنے کی صورت میں سنتیں پڑھنی چا ہئیں یا نہیں ؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے تو علما ء میں اس بات میں اختلاف تھالیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عمل سے جو کچھ ہم نے تواتر سے دیکھا ہے اور پوچھنے والوں کے جواب میں آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ نمازیں جمع کرنے کی صورت میں فرضوں سے پہلی سنتیں بھی اور بعدکی سنتیں بھی معاف ہو جاتی ہیں۔
سوال: اگر نماز جمعہ کے ساتھ عصرکی نماز جمع کی جائے تو کیا پھر بھی سنتیں معاف ہیں؟
جواب: نماز جمعہ سے قبل جو سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ دراصل جمعہ کے نفل ہیں اور جمعہ کے ساتھ مخصوص ہیں اس لئے نماز جمعہ سے قبل سنتیں بہر حال پڑھنی چاہئیں۔
(الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۴۶ ؁ء نمبر ۲۴۰)
جمع بین الصلو تین
اگر مقتدی کو معلوم نہ ہو کہ کونسی نماز ہے اس صورت میں مقتدی کی وہی نماز ہو گی جو امام کی تھی خواہ اس نے اس کے خلاف ہی نیت باندھی ہو۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے لیکن اگر مقتدی کو معلوم ہو جائے کہ یہ بعد کی نما زہے تو پہلے پہلی نماز الگ پڑھے پھر جماعت میں شامل ہو۔یہ فتویٰ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے میں نے سنا ہے۔
(الفضل ۷ دسمبر ۱۹۴۰ ؁ئ)
سوال: نمازیں جمع ہو رہی ہوں اور ایک شخص بعد میںآئے جسے معلوم نہ ہو کہ کونسی نماز پڑھی جارہی ہے ظہر یا عصر۔وہ ظہر سمجھ کر شامل ہو جاتا ہے مگر وہ عصر کی نماز ہو تو اس کی کونسی نماز ہوگی؟
جواب: ایسی صورت میں جو نیت امام کی ہوگی وہی اس کی سمجھی جائے گی لیکن اگر اسے معلوم ہو جائے کہ عصر کی نماز ہو رہی ہے تو پہلے اسے ظہر کے فرض پڑھنے چاہئیں اور پھر عصر کی نماز میں شریک ہونا چاہئے۔
(الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۳۴ ؁ئ)
غیر معمولی علاقوں میں نمازکے اوقات
۱:۔ غیر معمولی علاقوںمیں نماز کی فرضیت اور اس کے لئے وقت مقررکرنے کا اصول۔
الف:۔ نماز کی فرضیت دنیا کے ہر علاقے میں قائم ہے اور کسی علاقے کے غیر معمولی حالات کی وجہ سے یہ فرضیت ساقط نہیں ہوسکتی۔
ب:۔ غیر معمولی علاقوں میں نماز کے اوقات اندازہ سے ہونگے اور اوقات کی پابندی لفظاً نہیںہوگی۔
۲:۔ نماز کے اوقات کے لحاظ سے غیر معمولی علاقے
غیر معمولی علاقوں سے مراد وہ علاقے ہیں
الف:۔ جہاں دن رات چوبیس گھنٹوں سے زیادہ کے ہیں ۔
ب:۔ جہاں دن رات اگرچہ چوبیس گھنٹوں کے ہیں لیکن ان میں باہمی فرق اتنا زیادہ ہے کہ وہاں قرآن وسنت کی رو سے نمازوں کے پانچ معروف اوقات کی تفریق ممکن نہیں ۔یعنی وہ علاقے جہاں شفق شام اور شفق صبح کے درمیان امتیاز نہ ہو سکے ۔گویا درمیان میں غسق حائل نہ ہو۔
سال کے جن ایا م میں یہ حرج واقع نہ ہوان میں معروف شرعی اوقات کی پابندی ضروری ہو جائے گی اور ان ایام کے لئے وہ علاقے غیر معمولی قرار نہیں دیے جائیں گے۔
۳:۔ غیر معمولی علاقوں میں نماز کے اوقات اندازہ سے مقرر کرنے کے بارہ میں اصولی ھدایات
غیر معمولی علاقوں میں نما زکے اوقات مندرجہ ذیل اصولی ھدایات کی روشنی میں متعین کئے جائیں۔
الف:۔ مؤقتہ نمازوں کے اصل اوقات وہی ہیں جو طلوع و غروب اور سورج کے دوسرے افقی تغیرات کے مطابق عام معروف طریق سے متعین ہوتے ہیں۔اس لئے جن نمازوں میں ممکن ہو اسی طریق کی پابندی کی جائے۔
ب:۔ جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں مقامی حالات کو مدنظر رکھ کر نمازوںکے اوقات چوبیس گھنٹوں کے اندر اس طرح پھیلائے جائیں کہ وہ پانچوں نمازوںکے معروف اوقات سے حتی الوسع ملتے جلتے ہوں۔یہ نہ ہو کہ دن رات کے کسی حصہ میں وہ اکٹھے اور ایک دوسرے کے بالکل قریب واقع ہوں۔
(الفضل ۶ اگست ۱۹۶۳ ؁ء صفحہ ۳۔فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا،فیصلہ نمبر ۱۰)
تھوڑے دن ہوئے انگریزی اخبارات میں ایک تار چھپا تھا بعدمیں اس کاترجمہ اردو اخبارات میں بھی چھپ گیا تھا۔اس میں بتایا گیا تھا کہ فن لینڈ کے مسلمانوں نے مصر کی ازہر یونیورسٹی کے علماء سے ایک خط کے ذریعہ دریافت کیا ہے کہ آج کل ہمارے ملک کے لحاظ سے ۲۲ گھنٹوں کا ایک دن ہوتا ہے۔اس صورت میں ہم رمضان کے روزے کس طرح رکھیں۔
ہندو اور انگریزی اخبارات نے ایسے انداز میں اس پر تنقید کی تھی گویا یہ ایک ایسا مشکل سوال ہے جس کا اسلام میں کوئی حل موجود نہیں۔۔۔۔۔
بہرحال یہ اعتراض ان پر بھی پڑتا ہے کیونکہ بعض علاقوں میں چھ چھ مہینوں کا ایک دن بھی ہوتاہے اب ایسے علاقوں میں وہ کس طرح روزہ رکھ سکتے ہیں؟
پس یہ اعتراض ہم پر نہیں بلکہ دوسرے مذاھب پر پڑتا ہے کیونکہ عیسائیت کے نزدیک بھی گناہ کا دیو روزے کے بغیر نہیںنکلتا اور خود حضرت مسیح ؑروزے رکھتے رہے ہیںاور ہندوؤںمیں بھی روزے موجود ہیں۔اگر ایک روزہ بھی ہو پھر بھی جس علاقے میں چھ ماہ کا ایک دن ہے وہاںمتواتر چھ ماہ کا روزہ رکھنا پڑے گا۔اگر بارہ روزے رکھنے ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ چھ سال تک متواتر روزے رکھے جائیں۔ہمارے مذہب میں تو اس سوال کا جواب موجود ہے۔ایک صحابی ؓ نے رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ مسیح موعودؑکے زمانے میں جب چھ چھ ماہ کے دن ہونگے تو اس صورت میں روزہ کس طرح رکھا جائے اور نماز کس طرح ادا کی جائے۔آپ نے فرمایا ’ اقدروا لہ ٗ قدرہٗ ‘ (مشکوۃ کتاب الفتن)
یعنی ایسی صورت میں ایک اندازہ مقرر کرلیا کرو ۔چوبیس گھنٹے کا دن اور رات فرض کر کے اس میں سے اندازہ کے مطابق روزہ رکھ لیا کرو۔اسی طرح نماز کے متعلق بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔یہ اندازہ سورج کے حساب سے نہیں ہوگا ،بلکہ گھنٹوں کے حساب سے ہو گا۔یعنی یہ دیکھ لیا جائے گا کہ وسط دنیا میں نمازوں کے کیا اوقات ہیں ان سے اندازہ لگا کر نماز ادا کرلی جائے گی ۔یہ قانون ان ممالک کے لئے ہیں جہاں ۔۔۔۔لیل و نہارکے وقت یعنی چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا دن رات ہوتا ہے۔مثلاً تین تین ماہ کا دن ہے یا تین تین ماہ کی رات ہے۔باقی رہا جہاں ۲۲ گھنٹے کا دن ہو اور دو گھنٹے کی رات ہو وہاں کیا کیا جائے ،سو وہاں پر ۲۲ گھنٹے کا روزہ رکھنا چاہئے۔یہ آٹھ پہر کا روزہ ہو گا اور یہ کوئی ایسی مشکل بات نہیں ہے۔ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ ایسے روزے رکھتے ہیں ۔پھر فن لینڈ جیسے ملک میں تو یہ سہولت بھی ہے کہ اگر اٹھارہ سال تک ۲۲ گھنٹے کا روزہ رکھنا پڑتا ہے تو اس کے بعد متواتر اٹھارہ سال غیر معمولی طور پر چھوٹا یعنی صرف چار گھنٹے کا روزہ رکھنا پڑے گا۔گویا ۲۲ گھنٹے کے روزے کی کسر دوسری طرف نکل جائے گی ۔رسول کریم ﷺتو متواتر ایک مہینے تک وصال کے روزے بھی رکھا کرتے تھے یعنی افطاری کے وقت صرف روزہ کھول لیتے تھے لیکن کھانا نہ کھاتے تھے۔اور اسی حالت میں اگلے دن پھر روزہ رکھ لیتے ۔صحابہ ؓ کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کا اتنا شوق تھا کہ انہوں نے بھی ایسے روزے رکھنے کی اجازت چاہی لیکن آپ نے انہیں منع کرتے ہوئے فرمایامجھے تو اللہ تعالیٰ خود اپنے پاس سے غذا کھلا دیتا ہے۔
(الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۴۶ ؁ء جلد ۳۴ نمبر ۱۱۶)
سوال: قطبین میں جہاں چھ ماہ کے دن اور رات ہوتے وہا ں اسلامی نظام کے مطابق روزہ کس طرح ہو سکتا ہے۔اس سے تو ثابت ہوتا ہے اسلام عالمگیر مذھب نہیں؟
جواب: فرمایا:۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال درحقیقت اسلام کی فضیلت ثابت کرنے کا ذریعہ ہے اور ملائک کی تحریک سے ہوا ہے۔چونکہ روزہ اور عبادت تو سب مذاھب میں موجود ہیں اور یہ دونوں چیزیں نوعیت کے اختلاف کے باوجود دن اور رات کے اوقات سے تعلق رکھتی ہیں اسلام کے سوا کوئی اور مذہب ایسا نہیں جس میں اس کا حل موجود ہوکہ اگر کسی جگہ چھ ماہ کا دن ہو اور چھ ماہ کی رات ہو تو وہاں وہ عبادت کیسے اداکریں۔پس یہ اعتراض اگر اعتراض ہے تو سب مذاہب پر وارد ہوتا ہے۔
ہاں اتنا فرق ہے کہ اسلام میں اس سوال کا جواب آنحضرت ﷺ کی طرف سے موجود ہے مگر باقی کسی مذہب کے بانی کی طرف سے اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا ۔آنحضرت ﷺ نے ظہور دجال کے ذکر میں فرمایا کہ چھ چھ ماہ کا دن ہوگا۔حضور علیہ السلام کا یہی مطلب تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں جو قاتل دجال ہے ایسے علاقوں کا انکشاف بھی ہو گا جہاں چھ چھ ماہ کا دن ہوتا ہے۔صحابہ ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ پھر نمازوں کا کیا بنے گا وہ کس طرح ادا کی جائیں گی۔آپ نے فرمایا ’فاقدروا لہٗ‘ کہ اس کے لئے اوقا ت کا اندازہ کر لیا جائے گا۔اندازہ کر کے نماز ادا کرلیں۔
اسلامی تعلیما ت کا یہ مسئلہ بہت بڑی حکمت اپنے اندر رکھتا ہے۔ایک طرف تو اس میں پیشگوئی ہے کہ ایسے ایسے علاقوں کا پتا لگے گا جہاں معمول سے زیادہ لمبے دن ہوتے ہیں لیکن وہ علاقے ابھی دریافت نہ ہوئے تھے اس لئے براہ راست ان کا ذکر نہ کیا گیاورنہ ان کی دریافت تک صدہا لوگ اس ذکر کی وجہ سے اسلام پر حملے کرتے رہتے۔مگر دوسری طرف آنحضرت ﷺا ارشاد ’فاقدروا لہٗ ‘ سے پیش آنی والی ضرورت کا جواب بھی دیا گیا۔
اصل بات تو یہ ہے کہ قطبین کے لوگوں کے بارہ میں دوسرے تمام مذاہب پر حملہ کیا جاتا اور ان کے عجز کو ظاہر کیا جاتا۔مگر مسلما نوں کی ناواقفیت ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام پر خواہ مخواہ اعتراض کرتے ہیں۔
(الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۴۶ ؁ء جلد ۳۴ نمبر ۹۳)
سوال: سول ملٹری گزٹ ۶ ستمبر ۱۹۴۶ ؁ء کے پرچے میں صفحہ ۲ پر فن لینڈ کے مسلمانوں کا یہ سوال جو جامعہ ازہر کے مفتی سے پوچھا گیا ہے شائع ہوا ہے جو یہ ہے کہ ’’ اس دفعہ رمضان المبارک گرمیوںمیں آیا ہے اور یہاں پر بائیس گھنٹوں کا دن ہے اور صرف دو گھنٹے کی رات ہے ۔اس لئے روزہ کے بارہ میں کیا حکم ہے؟‘‘
جواب: حضور نے تحریر فرمایا :۔ یہ تو کوئی سوال نہیں ۔آٹھ پہر کا روزہ رکھنا تو عام طور پر مسلمانوں میں رائج ہے۔دوسرے یہ کہ اگر گرمیوں میں ان لوگوں کو بائیس گھنٹوں کا روزہ رکھنا ہو گا تو کیا سردیوں میں پانچ گھنٹوں کا روزہ نہ ہو گا۔
( الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۴۶ ؁ء جلد ۳۴ نمبر ۲۱۴)
سجدہ سہو
سوال: کیا نماز میں ہر غلطی پر سجدہ سہو ادا کرنا ضرور ی ہے؟
جواب: سجدہ سہو اس غلطی کی بنا ء پر ہوتا ہے جو قائم ہو جائے۔مثلا ایک شخص نے پہلی رکعت کے سجدوں کے بعد دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہونا تھا لیکن غلطی سے وہ بیٹھ گیا ۔اس صورت میں اگر تشہد شروع کرنے سے پہلے اسے اپنی غلطی کا علم ہو گیا اور وہ اٹھ کھڑا ہو اتو نماز کے بعد اسے سجدہ سہو ادا نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر اسے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہو ا جبکہ اس نے تشہد پڑھنا شروع کر دیا تو پھر اسے کھڑا نہیں ہو نا چاہئے بلکہ بیٹھے رہنا چاہئے۔اس صورت میں نماز کے بعد سجدہ سہو ادا کرنا ضروری ہوگا۔پس سجدہ سہو اسی صورت میں ہے جبکہ کوئی غلطی ہو جائے اور پھر وہ غلطی استحکام پکڑ جائے۔اگر استحکام نہیں پکڑتی اور اس غلطی کا احساس ہو جاتا ہے تو اس صورت میں اسے درست کر لینا چاہئے اور سجدہ سہو ادا نہیں کرنا چاہئے۔
(الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۴۶ ؁ ئ)
قبولیت دعا کے سات اصول
۱:۔ جس مقصد کے لئے دعا کی جائے وہ نیک ہو ۔یہ نہیں کہ چور چوری کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو وہ بھی قبول کرلی جائے گی۔خدا کا نام لے کر اور اس کی استعانت طلب کر کے جو دعا کی جائے گی لازماً ایسے ہی کام کے متعلق ہو گی جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات بندہ کے ساتھ شریک ہو سکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے وہ لوگوںکی تباہی اور بربادی کی دعائیں کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیںکہ ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔اسی طرح ناجائز مطالب کے لئے دعائیں کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔بعض لوگ جھوٹا جامہ زہد و اتقاء کا پہن رکھا ہے اور ناجائز امور کے لئے تعویز دیتے اور دعائیں کرتے ہیں۔حالانکہ یہ سب دعائیں اور تعویز عاملوں کے منہ پر مارے جاتے ہیں۔
۲:۔ دوسرا اصل الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن میں بتایا ہے یعنی دعا ایسی ہو کہ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے دوسرے بندوں کا بلکہ سب دنیا کا فائدہ ہویا کم سے کم ان کا نقصان نہ ہواور اس کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی حمد ثابت ہوتی ہواور اس پر کسی قسم کا الزام نہ آتا ہو۔
۳:۔ تیسرے یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو جنبش دی گئی ہو اور اس دعا کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ظاہر ہوتی ہو۔
۴:۔ چوتھے یہ کہ اس دعا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے بھی ہو یعنی وہ نیکی کی ایک ایسی بنیاڈالتی ہوجس کا اثر دنیا پر ایک لمبے عرصے تک رہے اور جس کی وجہ سے نیک اور شریف لوگ متواتر فوائد حاصل کریں۔یا کم سے کم ان کے راستے میں کوئی روک نہ پیدا ہوتی ہو۔
۵:۔ پانچویں یہ کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت مالک یوم الدین کا بھی خیال رکھا گیا ہویعنی دعا کرتے وقت ان ظاہری ذرائع کو نظر انداز نہ کر دیا گیاہوجو صحیح نتائج پید اکرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کئے ہیں کیونکہ وہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں اور اس کے بنائے ہوئے طریق کو چھوڑ کر اس سے مدد مانگنا ایک غیر معقول بات ہے ۔گویا جہاں تک وہ موجود ہوں یا ان کا مہیا کرنا دعا کرنے والے کے لئے ممکن ہو ان کا استعمال بھی دعا کے وقت ضروری ہے۔
۶:۔ چھٹا اصل یہ بتایا ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق ہو اور اس سے کامل اخلاص حاصل ہو اور وہ شرک اور مشرکانہ خیالات سے کلی طور پرپاک ہو۔
۷:۔ ساتویں بات یہ بتائی ہے کہ وہ خدا کا ہی ہو چکا ہواور اس کا کامل توکل اسے حاصل ہو اور غیراللہ سے اس کی نظر بالکل ہٹ جائے اور وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ خواہ کچھ ہو جائے اور کوئی بھی تکلیف ہو مانگوں گا تو خدا تعالیٰ سے ہی مانگوں گا۔
(تفسیر کبیر۔تفسیر سورۃ فاتحہ صفحہ ۵)
درس قرآن کریم کے بعد دعا
سوال: درس قرآن کریم کے بعد دعا کرنا بدعت تو نہیں؟
جواب: فرمایا:۔ ہر روز درس کے بعد دعا کرنا یہ کوئی مسنون طریق نہیں ۔ہاں اگر قرآن کریم ختم ہو یا کوئی اور خصو صیت ہو یا کوئی خاص موقع اور ضرورت ہو تو دعا کرنا جائز ہے۔
سوال: اس پر ایک صاحب نے عرض کیا کیا درس کے بعدہر روز دعا کرنا گناہ ہے؟
جواب: فرمایا:۔ جتنی بدعتیں ہوتی ہیں وہ نیکیا ں ہی سمجھی جاتی ہیں ۔کنچنیاں نچانا بدعت نہیں بلکہ بدی ہے۔مگر بدعت جو ہوتی ہے وہ بدی نہیں ہوتی۔وہ عبادات اوراعمال نیک ہی ہوتے ہیں مگر جب ان کو شریعت کا خاص حکم یا عمل قرار دیا جاتا ہے تو وہ گناہ ہو جاتے ہیں۔
میر امطلب یہ ہے کہ جتنی بدعتیں ہیں وہ ثواب ہی کی نیت سے کی جاتی ہیںمگر وہ نیکی نہیں ہوتیں مثلا خیرات کرنا نیکی ہے مگر ایسے طریق پر تقسیم کرنا کہ وہ ایک مسئلہ بن جائے اوروہ شریعت کا مسئلہ نہ ہو بدعت ہو جاتا ہے۔
جو کام نیکی کی غرض سے کیا جاتا ہے مگر شریعت اس کا حکم نہیں دیتی وہ بدعت ہے۔کھانا وقت مقررکر کے خاص طریقہ پر کھلا نا بدعت ہے مگر دوستوں کی دعوت بدعت نہیں۔کیونکہ بدعت وہی ہے جو ثواب کی نیت سے نیکی سمجھ کر کوئی کرتا ہے اور جس کام میںخواہ کوئی دنیاوی فائدہ ہو یا نہ ہوبلکہ یونہی اس کا کرنا لازمی سمجھتا ہے وہ رسم ہے اور رسموں کو بھی اسلام مٹانا چاہتاہے کیونکہ یہ ایسی قیدیں پیدا کرتی ہیں جو منع ہیں۔
(الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۲ ؁ء جلد ۱۰ نمبر ۳۲)
غیر احمدی والدین کے لئے دعائے مغفرت
سوال: ایک شخص نے دریافت کیا کہ اگر غیر احمدی ( جسے دعوت پہنچی اور اس نے قبول نہیں کیا ) والد کے لئے دعائے مغفرت نا جائز ہے تو میں رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ (ابراھیم:۴۲)چھوڑ دوں؟
جواب: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے جواب لکھایاکہ والد میں تو باپ دادا بھی آسکتے ہیں۔نام نہ لیا جائے اور یہ دعا نہ چھوڑی جائے۔
( الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۱۱۴)
سوال: کیا غیر احمدی متوفی والدین کے لئے نماز میں دعائے مغفرت جائز ہے؟
جواب: دعا تو جنازہ ہی ہے(اور جنازہ ناجائز) ان کو خدا کے حوالہ کر و۔
( الفضل ۲ مارچ ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۱۱۱)
نماز کے بعد دعا
سوال: نماز کے بعد امام کا مع مقتدیان دعا کرنا کیسا ہے؟
جواب: حضرت اقدس علیہ السلام اسے پسند نہیںفرماتے تھے۔
(الفضل ۱۱ فروری ۱۹۱۵ ؁ئ)
۲:۔
سوال: بعد نماز ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: نماز کے بعد دعا جائز ہے ۔ہاں دوام اور التزام نہیں چاہئے۔
(الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۶ ؁ئ)
نماز قصر کرنا
اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد خدا کا نام خود لیا کرے ۔سفر کی نمازوں کے متعلق قصر کا لفظ غلط طور پر استعمال ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں سفر کی نمازوں کے متعلق قصر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔یہ درحقیقت ایک غلط محا ورہ ہے جواستعمال ہو رہا ہے۔قصر کے معنی چھوٹا کرنے کے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سفر میں نماز قصر نہیں ہوتی بلکہ حضر میںجب انسان اپنے گھر پر موجود ہو نماز زیادہ پڑھی جاتی ہے۔
احا دیث اور تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلے نماز کی دو ہی رکعت نماز ہوتی تھی بعدمیں دو کی بجائے چار رکعتیں کر دی گئیں۔یعنی ظہر اور عشاء کی نمازوںمیں دو دو رکعتیں بڑھا دی گئیں۔صبح کی نماز اسی طرح رہی۔اسی طرح مغرب کی نما زبھی اسی طرح رہی۔پس قصر کا سوال درحقیقت سفر کے ساتھ پیدا ہی نہیں ہوتا۔کیونکہ جتنی نماز پہلے پڑھی جاتی تھی سفر میں اتنی ہی پڑھی جاتی ہے لیکن جو لوگ اپنے اپنے گھروں میں مقیم ہیں ان کو دوگنی پڑھنی پڑتی ہے۔
قرآن کریم میں جو قصرکا لفظ استعمال ہوا ہے وہ سفر کی نمازوں کے متعلق نہیں لیکن مسلمانوں نے اپنی غلطی سے اسے سفر کی نمازوں کے متعلق سمجھ لیں۔یہی وجہ ہے کہ انہیں قصر کے معاملے میں غلط فہمی ہوئی اور وہ غلط راستے پر جا پڑے۔قرآن کریم میں آتا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو تو تم نمازیں قصر کر سکتے ہو۔اس سے مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر امن ہو تو پھر مسافر کے لئے قصر کرنا جائز نہیں ۔حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ سفر میں اتنی ہی نماز پڑھی جاتی ہے جتنی پہلے پڑھی جاتی تھی ۔البتہ حضر میں وہ دوگنی کر دی گئی ہے۔
( الفضل ۶ مارچ ۱۹۵۱ ؁ئ۔ خطبہ جمعہ)
نماز قصر ۔سفر میں نماز
سوال: مجھے اپنے کام کے سلسلہ میں اکثر کئی کئی کوس پیدل چلنا پڑتا ہے ۔ کیا میں نما زقصر اور روزہ افطار کر سکتا ہوں؟
جواب: جس کا پیشہ اور ملازمت ہی ایسی ہو کہ اس میں سفر کرنا پڑتاہو اس کے لئے نماز میں قصر اور روزہ کا قضاء کرنا جائز نہیں۔
( الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۵ ؁ئ)
۲:۔
سوال: مبلغین نے پوچھاکہ ہم سفرمیں رہتے ہیں روزہ افطار اور نما زقصر کر سکتے ہیںیا نہیں؟
جواب: سفر چھوٹا کر دو ۔روزے برابر رکھو ۔یہ آپ لوگوں کا فرض منصبی ہے اس لئے آپ سفر پر نہیں سمجھے جا سکتے۔
( الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۱۴ ؁ئ)
۳:۔
سوال: طلباء کے نگران نے سوال کیا کہ امتحان دینے کے لئے جو طلباء بٹالہ جا رہے ہیں وہ نمازیں جمع اور قصر کریں یا نہیں۔پہلے ہم کرتے رہے ہیں؟
جواب: فرمایا:۔ چونکہ سفر کے کوسوں اور مدت رہائش ( تین روز سے پندرہ روز ) میں بھی اختلاف ہے اس لئے جو قصر کرتے ہیں وہ قصر کریں۔جو نہیں کرتے وہ نہ کریں۔ایک دوسرے پر اعتراض نہ ہو۔ہاں جمع کرنے کے سوا چارہ نہیں کیونکہ امتحان ہے۔
(الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۱۵ ؁ئ)
۴:۔
سوال: نماز کس وقت تک قصر کی جاوے؟
جواب: جب تک سفر ہو قصرکر سکتے ہیں اور اگر کہیں ٹھہر نا ہو اور پندرہ دن سے کم ٹھہرنا ہو تو بھی قصر کریں۔اور اگر پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنا ہو تو پوری پڑھیں۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۱۶ ؁ئ)
میں نماز قصرکر کے پڑھاؤں گا اور گو مجھے یہاں آئے چودہ دن ہو گئے ہیں مگر چونکہ علم نہیں کہ کب واپس جانا ہو گا اس لئے میں نماز قصر کر کے ہی پڑھاؤں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ گورداسپور میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک قصر نماز پڑھتے رہے کیونکہ آپ کو پتا نہیں تھا کہ کب واپس جانا ہو گا۔
(الفضل۲۵ مئی ۱۹۴۴ ؁ء نمبر ۱۲۱)
سوال: قادیان میں جو لوگ بطور مہمان آتے ہیں کیا انہیں نماز قصر کر نی چاہئیں؟
جواب: انہیں کوشش کرنی چا ہئے کہ وہ مسجدوںمیں جا کر باجماعت نماز ادا کریں ۔اگر وہ با جماعت نماز پڑھنے سے رہ جاتے ہیں تو قصر کر سکتے ہیں ۔وہ قادیان میں جو سنتیں پڑھیں گے وہ نفل ہو جائیں گی۔پس یہاں عبادت جتنی زیادہ سے زیادہ ہو سکے کرنی چاہئے۔
( الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۳۴ ؁ء نمبر ۵)
مقیم مسافر امام کے ساتھ دو رکعت پڑھے یا چار
سوال: اگر مسافر امام کے ساتھ نماز میں اس وقت شامل ہوجبکہ امام پہلی دو رکعتیں پڑھ چکا ہو تو کیا مسافر اپنی دو رکعت پڑھ کر امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے یا چار پڑھے؟
جواب: جب مسافر مقیم امام کے ساتھ شامل ہو تو اس کو چاروں رکعتیں ہی پڑھنی چاہئیں۔
( الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۲۲ ؁ئ)
نماز وتر
ایک نماز وتر کہلاتی ہے۔اس نما زکی بھی مغرب کی طرح تین رکعتیں ہیں مگر فرق یہ ہے کہ مغرب کی نماز میں پہلے تشہد کے بعد جو تیسری رکعت پڑھی جاتی ہے اس میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی زائد تلاوت نہیں کی جاتی لیکن وتر کی نماز میں تیسری رکعت میں بھی سورۃ فا تحہ کے بعد قرآن کریم کی چند آیا ت یا کوئی چھوٹی سورۃ پڑھی جاتی ہے۔
دوسرا فرق اس میںیہ ہے کہ نماز وتر کو مغرب کی نماز کے برخلاف دو حصوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔یعنی یہ بھی جائز ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک رکعت الگ پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے۔
( تفسیر سورۃ بقرۃ صفحہ ۱۱۳)
نماز وتر
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام وتر دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے تھے یا تین پڑھ کر ؟
جواب: فرمایا :۔ عموماً دو پڑھ کر ۔مولوی سید سرور شاہ صاحب ؓ نے کہا جس قدر واقف لوگوں سے اور روایتیں سنی ہیں ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ دو پڑھ کر سلام پھیرتے تھے پھر ایک پڑھتے۔
( الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۲ ؁ئ)
۲:۔
سوال: کیا وتر اس طرح پڑھے جاسکتے ہیں کہ تینوں رکعتیں اکٹھی پڑھی جائیں اور درمیان میں دو رکعتوں کے بعد تشہد نہ بیٹھا جائے؟
جواب: وتر کا صحیح طریق یہ ہے کہ دو رکعت پڑھ کر تشہد بیٹھے پھر سلام پھیر دے ۔پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت پڑھے اور التحیات کے بعد سلام پھیر ے۔یا دوسری رکعت کا تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت پڑھے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے۔
( الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ ؁ء نمبر ۶۶ جلد ۲۳)
دعائے قنوت پڑھنا ضروری نہیں
سوال: کیا حضور دعائے قنوت کے قائل ہیں ؟
جواب: دعائے قنوت کا تو میں قائل ہوں لیکن اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ اس کا پڑھنا ضروری اور فرض ہے۔ میرے نزدیک دعائے قنوت رسول کریم ﷺ کے ایک خاص زمانے کا فعل ہے۔جسے غلطی سے فرائض میں داخل کر لیا گیا ہے۔
(الفضل ۸ اپریل ۱۹۴۷ ؁ء ۔مجلس عرفان)
جمعہ کے لئے ضروری احکام
إِذَا نُودِیْ لِلصَّلَاۃِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَۃِ۔۔۔۔۔(جمعۃ: ۱۰)
جمعہ کے دن جس وقت نماز کے لئے آواز آوے تو بیع چھوڑ دیا کرو۔فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ۔ اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ نماز کے لئے بھاگتے ہوئے جائو بلکہ یہ ہیں کہ کوشش کرو۔سامان مہیا کرو۔جمعہ کی نماز کے سامان یہ ہیں۔
غسل کر نا واجب ہے۔کپڑے بدلنا ۔خوشبو لگانا۔
آنحضرت ﷺنے جمعہ میں دیکھا کہ بعض لوگوںکے میلے کپڑے ہیں تو فرمایا کہ ایسے لوگ جمعہ کے لئے کپڑے بنوا رکھیں جن کو جمعہ کے دن پہن لیا کریں اور پھر اتارکر رکھ دیا کریں۔
جمعہ کی نماز کے لئے وقت سے پہلے مسجد میں آنا چاہئے۔جتنا کوئی پہلے آتا ہے اتنا ہی ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔حدیث میں آیا ہے کہ جو ۔۔۔۔۔پہلے آوے اس کو ایک اونٹ کی قربانی کاثواب ملتا ہے اور جو اس کے بعد آوے اس کو گائے کا ۔اسی طرح پانچ درجے مقرر فرمائے ہیں۔
خطبے میں بالکل خاموش رہنا چاہئے۔بہت لوگ خطبہ میں بولتے ہیں حدیثوں میں سخت منع آیا ہے۔یہا ں تک کہ کوئی آدمی بول رہا ہوتو اس کو آواز سے منع بھی نہیں کرنا چاہئے بلکہ اشارہ سے روکنا چاہئے۔بولنا مکروہ لکھا ہے کیونکہ خطبہ میں حرج ہوتا ہے۔
( الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۱۴ ؁ئ)
ایک شہر میں دو جمعے
سوال: حلقہ شالامار ٹاؤن دارالذکر سے بہت دور ہے ۔خصوصاً گرمیوں کے موسم میں عورتوں اور بچوں کو دارالذکر جا کر جمعہ پڑھنا مشکل ہوتا ہے ۔اگر ہم جمعہ اپنی مسجد میں ادا کر لیں تو کوئی حرج تو نہیں؟
جواب: کئی جگہ جمعہ پڑھنا جائز نہیں۔
( فائل مسائل دینی32-A/15.5.61)
نماز جمعہ دو آدمیوں سے ہوسکتی ہے
فرمایا:۔ جمعہ گھر میں گھر کے آدمیوں کے ساتھ ہو سکتا ہے۔
(الفضل ۲۷ مئی ۱۹۱۵ ؁ئ)
۲:۔
سوال: کیا دو آدمیوں کا بھی جمعہ ہو سکتا ہے؟
جواب: ہو سکتا ہے۔
( الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۲۲ ؁ئ)
۳:۔
سوال: بعض وقت آفیسر عین جمعہ کے وقت آجاتے ہیں اس وجہ سے نماز جمعہ نہیں پڑھ سکتے۔اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب: ملازم اگر مجبوری سے جمعہ نہ پڑھ سکے تو معذور ہے۔
(الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۱۵ ؁ئ)
سفرمیں نماز جمعہ
سفرمیں جمعہ کی نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی جائز ہے۔میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر میں پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی دیکھا ہے۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ پر گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ آج جمعہ نہیں ہوگا کیونکہ ہم سفر پر ہیں۔
ایک صاحب جن کی طبیعت میں بے تکلفی تھی وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سنا ہے حضور نے فرمایا آج جمعہ نہیںہو گا ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ یوں تو ان دنوں گورداسپور میں ہی تھے مگر اس روز کسی کام کے لئے قادیان آئے تھے۔ان صاحب نے خیال کیا کہ شاید جمعہ نہ پڑھے جانے کا ارشاد آپ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب یہاں نہیں ہیں اس لئے کہا حضور مجھے بھی جمعہ پڑھانا آتا ہے۔آپ نے فرمایا ہاں آتا ہو گا مگر ہم تو سفر پر ہیں ۔ان صاحب نے کہا حضور مجھے اچھی طرح جمعہ پڑھانا آتا ہے اور میں نے بہت دفعہ جمعہ پڑھایا بھی ہے۔آپ نے جب دیکھا کہ ان صاحب کو جمعہ پڑھانے کی بہت خواہش ہے تو فرمایا اچھا آج جمعہ ہوگا ۔تومیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر کے موقع پر جمعہ پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی اور جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے تو میں پہلی سنتیں پڑھا کرتا ہوں اورمیری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیںکیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام کے طور پر ہیں۔
( الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۴۲ ؁ء نمبر ۲۱)
جمعہ کی سنتیں نماز جمعہ، نماز جمع کرنے کی صورت میں پڑھنی چاہئیں
مجھ سے ایک سوال کیا گیا ہے۔ابھی جمعہ کی نماز کے وقت بعض دوستوںمیں یہ اختلاف ہو ا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے کہ اگر نمازیں جمع کی جائیں تو پہلی پچھلی اور درمیانی سنتیں معاف ہو جاتی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ جب نماز ظہر اور عصر جمع ہوں تو پہلی اور درمیانی سنتیں معاف ہو جاتی ہیں۔یا اگر نماز مغرب اور عشاء جمع ہوں تو درمیانی اور آخری سنتیں معاف ہو جائیں گی ۔لیکن اختلاف یہ کیا گیا ہے کہ ایک دوست نے بیان کیا کہ وہ ایک سفر میں میرے ساتھ تھے ۔میں نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور جمعہ کی پہلی سنتیں پڑھیں۔
یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔نمازوں کے جمع ہونے کی صورت میں سنتیں معاف ہو جاتی ہیں ۔یہ بات بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح کہ رسول کریم ﷺجمعہ کی نماز سے قبل جو سنتیں پڑھا کرتے تھے میں نے وہ سفر میں پڑھیں اور پڑھتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کی نماز سے پہلے جو نوافل پڑھے جاتے ہیں ان کو دراصل رسول کریم ﷺ نے جمعہ کے اعزاز میں قائم فرمایا ہے۔
جب سفرمیں جمعہ پڑھا جائے تو میں پہلی سنتیں پڑھا کرتا ہوں اور میری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیںاور وہ جمعہ کے احترام کے طور پر ہیں۔
( الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۴۲ ؁ء نمبر ۲۱)
خطبہ مختصر ہو نا چاہئے
گو رسول کریم ﷺکے زمانے میں خطبہ کا یہی طریق تھا کہ جمعہ کی نماز جو دو رکعت ہو تی ہے اس کی نسبت مختصر ہو تا ہے مگر اس زمانے کی ضروریا ت کو مد نظر رکھ کر خطبہ لمبا کیا جاتا ہے۔مختصر خطبہ پڑھنا سنت یا فرض نہیں کیونکہ عرب میں رواج تھا کہ بڑی سے بڑی نصیحت کو چھوٹے سے چھوٹے فقرے میں ادا کرتے تھے اور لمبی سے لمبی بات کو ضرب المثل کے طور پر بیان کر دیتے تھے ۔ہمارے ملک میں لوگ لمبی گفتگو سے مطلب سمجھتے ہیں مگر عرب میں کوشش کی جاتی تھی کہ وسیع مضمون کو دو جملوں میںادا کیا جائے۔چونکہ خطبہ سے غرض اصلاح ہے اس لئے ملک کی حالت کو مدنظر رکھ کر لمبا خطبہ بیان کرنا پڑتا ہے۔مگر جس طرح چھوٹا خطبہ پڑھنا فرض نہیں اسی طرح لمبا خطبہ پڑھنا بھی فرض نہیں۔
(الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۲۴ ؁ء نمبر۔۔۔۔۔جلد ۱۱)
خطبہ کھڑے ہو کر دینا چاہئے
اسلامی سنت تو یہی ہے کہ خطبہ کھڑے ہو کر پڑھا جائے مگر کچھ دنوں سے بیما ر ہوں کھڑ ا نہیں ہو سکتا۔(حضور اس وقت کرسی پر بیٹھے تھے)
(الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵ ؁ئ)
۲:۔
چونکہ مجھے نقرس کا دورہ ہے اس لئے میں خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتا ۔رسول کریم ﷺکا ابتدا ء میں یہ حکم تھا کہ جب امام کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کریں لیکن بعدمیں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت آپ نے اس حکم کو بدل دیا اور فرمایا کہ اگر امام کسی معذوری کی وجہ سے بیٹھ کر نما زپڑھائے تو مقتدی نہ بیٹھیں بلکہ وہ کھڑے ہو کر ہی نما زادا کریں ۔پس چونکہ میں کھڑے ہو کر نما زنہیں پڑھا سکتا اس لئے میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں گا اور دوست کھڑے ہو کر نما زادا کریں۔
(الفضل ۳ جولائی ۱۹۵۱ ؁ئ)
خطبہ کوئی اور دے اور نماز کوئی اور پڑھائے
قادیان۲۷ نبوت ۱۳۲۱ ھش۔آج حضور نے خطبہ جمعہ پڑھا جس کے لئے حضور آرام کرسی پر بیٹھ کر جسے چند دوستوں نے اٹھا یا ہو ا تھا مسجدمیں تشریف لائے اور بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا۔
نماز حضور نے بیٹھ کر پڑھی جو حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ نے پڑھائی۔
(الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۴۲ ؁ء صفحہ ۱)
۲:۔
قادیان ۲۶ صلح ۱۳۲۴ ھش۔۔۔۔۔آج مختصر خطبہ جمعہ حضور نے خود پڑھا مگر نماز حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے پڑھائی۔
(الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۴۵ ؁ء صفحہ ۱)
خطبہ ثانیہ عربی کا پڑھنا ضروری ہے
سوال: نماز جمعہ کے وقت دو خطبے ہوتے ہیں ایک تو لمبا جو اردو یا جونسی زبان میں چاہیں پڑھیں ۔دوسرا جو عربی میں ہوتا ہے کیا دوسرا خطبہ پڑھنے کی بجائے ہم دعائیں یا صرف درود شریف پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب: دوسرا خطبہ وہی مسنون عربی کا ہی پڑھنا ضروری ہے ۔وہ خود رسول کریم ﷺکا بتایا ہوا ہے۔
(الفضل ۱۰ اگست ۱۹۵۱ ؁ئ)
خطبہ جمعہ کے دوران بولنا
فرمایا:۔ کوئی شخص خطبہ کے دوران بولا تھا ۔اسے جو کچھ کہنا تھا اب کہہ لے۔
عرض کیا گیا کہ کسی نے بلند آواز سے دعا کی تھی۔
فرمایا:۔ جب امام بلائے تو بولنا جائز ہے ورنہ خطبہ کے دوران بولنا سخت غلطی اور گناہ عظیم ہے۔اگر دعا کرنی ہو تو آہستگی سے کرنی چاہئے کہ دوسرے کو یہ دھوکہ نہ لگے کہ کوئی بول رہا ہے۔بعض جگہوں سے اطلاع آتی ہے کہ لوگ خطبہ کے دوران میں بول پڑتے ہیں۔یہ غلطی ہے اور گناہ ہے ۔اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
(الفضل ۲۶ ،۲۹ جون ۱۹۲۷ ؁ء جلد ۹ نمبر ۱۰۲۔۱۰۱ )
نماز کسوف
جمعہ کے روز ساڑھے چھ بجے کے قریب سورج گرہن ہو ا ۔نماز کسوف نہیں پڑھی گئی ۔استغفار اور صدقہ کے ارشاد کی تعمیل ہوئی۔
(الفضل ۲۳ اگست ۱۹۱۴ ؁ئ)
عید اور جمعہ اگر اکٹھے ہو جائیں
شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں ہی پڑھ لئے جائیں۔کیونکہ ہماری شریعت نے ہر امر میں سہولت کو مدنظر رکھا ہے ۔چونکہ عام نمازیں اپنے اپنے محلوں میں ہوتی ہیں لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔اسی طرح عید کی نماز میں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دور دور سے لوگ آ کر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لئے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں توجمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں۔بہرحال اصل غرض شریعت کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں زیادہ سے زیا دہ عرصہ کے لئے اکٹھے بیٹھ سکیں کیونکہ اسلام صرف دل کی صفائی کے لئے نہیں آیا ۔اسلام قومی ترقی اور معاشرت کے ارتقاء کے لئے بھی آیا ہے اور قوم اور معا شرت کا پتہ بغیر اجتماع میں شامل ہونے کے نہیں لگ سکتا۔
(المصلح کراچی ۲۰ اکتوبر ۱۹۵۳ ؁ئ)
۲:۔
رسول کریم ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا جب جمعہ اور عید جمع ہو جائیں تو اجازت ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کرلیں مگر فرمایا ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔
کل بھی میرے پاس ایک مفتی صاحب کا فتویٰ آیا تھا کہ بعض دوست کہتے ہیں اگر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہو جائے تو قربانیوں میںہم کو سہولت ہو جائے گی اور انہوں نے اس قسم کی حدیثیں لکھ کر ساتھ ہی بھجوا دی تھیں۔میں نے ان کو یہی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جمعہ اور عید جب جمع ہو جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر ہم تو وہی کریں گے جو رسول کریم ﷺنے کیا ۔رسول اللہﷺنے فرمایا تھا اگر کوئی جمعہ کی بجائے ظہر کی نما زپڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے مگر ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔
ہمارا رب کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دودو( عید)دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جمعہ بھی آیا اور عید الاضحیہ بھی آئی اور اس طرح دو عیدیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے جمع کر دیں۔اب جس کو دو دو چپڑی ہوئی چپاتیاں ملیں وہ ایک کو کیوں رد کرے گا۔وہ تو دونوں لے گا۔سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آ جائے اور اسی لئے رسول کریم ﷺنے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس پر طعن کرے اور بعض لوگ ایسے ہوں جنھیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا۔
( الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۳۸ ؁ئ)
میں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اگر عید جمعہ کے دن ہو تو اگرچہ نماز ظہر اد اکرنی بھی جائز ہے مگرمیں جمعہ ہی پڑھوں گا ۔جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دو سبق دئے گئے ہیں ۔ایک قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے تبلیغ کی طرف ۔خطبہ کے لئے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کردی۔
(خطبہ جمعہ ۱۱ فروری ۱۹۳۹ ؁ئ۔الفضل ۱۹ فروری ۱۹۳۹ ؁ئ)
عید اور جمعہ کا اجتماع
شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں پڑھ لیے جائیں کیونکہ ہماری شریعت نے ہر امر میںسہولت کو مدنظر رکھا ہے ۔چونکہ عام نمازیں اپنے اپنے محلوں میں ہوتی ہیں لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔اسی طرح عید کی نمازمیں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دور دور سے لوگ آ کر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لئے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں توجمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں۔
(فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا۔فیصلہ نمبر ۴ ، ۱۹۶۲۔۴۔۹)
قربانی کے مسائل
قربانی کے جانور کے لئے یہ شرط ہے کہ بکرے وغیرہ دو سال کے ہوں۔دنبہ اس سے چھوٹا بھی قربانی میں دیا جا سکتا ہے ۔قربانی کے جانور میں نقص نہیں ہونا چاہئے۔لنگڑا نہ ہو ،بیمار نہ ہو، سینگ ٹوٹا نہ ہویعنی سینگ بالکل ہی نہ ٹوٹ گیا ہو۔اگر خول اوپر سے ٹوٹ گیا ہو اور اس کا مغز سلامت ہو تو وہ ہو سکتا ہے ۔کان کٹا نہ ہو لیکن اگر کان زیادہ کٹا ہوا نہ ہو تو جائز ہے۔
قربانی آج اور کل اور پرسوںکے دن ہو سکتی ہے لیکن اگر سفر ہو یا کوئی اور مشکل ہو تو حضرت صاحب کا بھی اور بعض بزرگوں کا بھی خیال ہے کہ اس سارے مہینہ میں قربانی ہو سکتی ہے اور رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ان دنوںمیں تیسرے دن تک تکبیرو تحمید کیا کرتے تھے اور اس کے مختلف کلمات ہیں ۔اصل غرض تکبیر و تحمید ہے خواہ کسی طرح ہواور اس کے متعلق دستور تھا کہ جب مسلمانوں کی جماعتیںایک دوسری سے ملتی تھیں تو تکبیر کہتی تھیں۔مسلمان جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو تکبیر کہتے۔اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہتے۔کام میں لگتے تو تکبیر کہتے ۔لیکن ہمارے ملک میں جو یہ رائج ہے کہ محض نماز کے بعد کہتے ہیں اس خاص صورت میں کوئی ثابت نہیں اور یہ غلط طریق رائج ہو گیا ہے ۔باقی یہ کہ تکبیر کس طرح ہو یہ بات انسان کی اپنی حالت پر منحصر ہے۔جس کا دل زور سے تکبیر کہنے کو چاہے وہ زور سے کہے۔جس کا آہستہ وہ آہستہ مگر آواز نکلنی چاہئے۔
( الفضل ۱۷ اگست ۱۹۲۲ ؁ئ۔الفضل ۱۱ ستمبر ۱۹۵۱ ؁ئ)
قربانی ۔حکمت
لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا۔۔۔۔۔(الحج: ۳۸)
قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ ان کا گوشت یا ان کا خون خدا تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ ان میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے ۔بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ہندوؤں کے دیوتاؤں کی طرح خون کا پیاسا اور گوشت کا بھوکا ہے کہ وہ جانوروں کی قربانی کا حکم دیتا ہے اور ان کی جان کی قربانی کو شوق سے قبول فرماتا ہے اور قربانی کرنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتاہے۔اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دیا ہے کہ قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ ان کا گوشت یا ان کا خون خدا تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے انسانی قلب میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے۔پس وہ لوگ جو بکرے یا اونٹ یا گائے کی قربانی کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو پا لیا وہ غلطی کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتاہے کہ یہ کوئی چیز نہیں کہ خود ہی جانور ذبح کیا اور خود ہی کھا لیا ۔اس سے اللہ تعالیٰ کو کیا۔یہ تو تصویری زبان میں ایک حقیقت کا اظہار ہے جس کے اندر بڑی گہری حکمت پوشیدہ ہے ۔جیسے مصور ہمیشہ تصویریں بناتے ہیں مگر ان کی غرض صرف تصویر بنانا نہیں ہوتی بلکہ ان کے ذریعہ قوم کے سامنے بعض اہم مضامین رکھنے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح یہ ظاہری قربانی بھی ایک تصویری زبان ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جانور ذبح کرنے والا اپنے نفس کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہے۔پس جو شخص قربانی کرتا ہے وہ گویا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دوں گا ۔اس کے بعد دوسر اقدم یہ ہوتا ہے کہ انسان جس امر کا تصویری زبان میں اقرار کرے عملاً بھی اسے پورا کر کے دکھاوے کیونکہ محض نقل جس کے ساتھ حقیقت نہ ہوکسی عزت کا موجب نہیں ہو سکتی۔
(تفسیر کبیر۔تفسیر سورۃ الحج صفحہ نمبر ۵۷)
قربانی۔مسائل
مسائل متعلقہ ذی الحجہ
۱:۔ بعد نماز عید قربانی کرنی چاہئے۔قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور بارہویں تک اتفاقاً ختم ہوتا ہے لیکن بعض کے نزدیک تیرھویں تاریخ کے عصر تک ہے۔
۲:۔ قربانی سنت مؤکدہ ہے۔جس شخص میں قربانی دینے کی طاقت ہو وہ ضرور کرے۔
۳:۔ قربانی کا گوشت خواہ خود استعمال کرے چاہے صدقہ کرے اور اس کی کھال اگر گھر میں رکھے تو ایسی چیز تیا ر کرائے جس کو عام استعمال کر سکیں۔احمدیوں کو صدر انجمن احمدیہ قادیان میں کھال یا اس کی قیمت صدقات میں ارسال کرنا چاہئے۔
۴:۔ اگر دو سالہ مینڈھا یا بکرا نہ ملے تو ایک سالہ بھی ہو سکتا ہے اور دنبہ سال سے کم کا بھی ہو تب بھی جائز ہے۔
۵:۔ جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں ان کو چاہئے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں۔اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہئے کیونکہ عام لوگوںمیں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے۔
(الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۱۷ ؁ء جلد ۵ نمبر ۲۴)
عید کے احکام یہ ہیںکہ ہر ایک خاندان کی طرف سے ایک بکری کی قربانی ہو سکتی ہے۔اگر کسی میں وسعت ہو تو ہر ایک شخص بھی کر سکتا ہے ورنہ ایک خاندان کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے۔
یہاں خاندان سے تمام دور و نزدیک کے رشتہ دار مراد نہیںبلکہ خاندان کے معنے ایک شخص کے بیوی بچے ہیں ۔اگر کسی شخص کے لڑکے الگ الگ ہیں اور اپنا علیحدہ کماتے ہیں تو ان پر علیحدہ قربانی فرض ہے۔اگر بیویاں آسودہ ہوں اور اپنے خاوند سے علیحدہ ان کے ذرائع آمد ہو تو وہ علیحدہ قربانی کر سکتی ہیں ورنہ ایک قربانی کافی ہے۔
بکرے کی قربانی ایک آدمی کے لئے ہے اور گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمی شامل ہو سکتے ہیں۔ائمہ کا خیال ہے ایک گھر کے لئے ایک حصہ کافی ہے۔اگر گھر کے سارے آدمی سات حصہ ڈال لیں تو وہ بھی ہو سکتا ہے ورنہ ایک گھر کی طرف سے ایک حصہ بھی کافی ہے۔
( الفضل ۱۷ اگست ۱۹۲۲ ؁ء جلد ۱۰ نمبر ۱۳۔خطبہ عید الاضحیہ)
قربانیوں کے گوشت
قربانیوں کے گوشت کے متعلق یہ حکم ہے کہ یہ صدقہ نہیں ہوتا ۔چاہئے کہ خود کھائیں دوستوں کو دیں ۔چاہے سکھا بھی لیں۔امیر غریبوں کو دیں ۔غریب امیروں کو ۔اس سے محبت بڑھتی ہے لیکن محض امیروں کو دینااسلام کو قطع کرنا ہے اور محض غریبوں کو دینا اور امیروں کو نہ دینا اسلام میں درست نہیں ۔امیروں کے غریبوں اور غریبوں کے امیروں کو دینے سے محبت بڑھتی ہے اور مذھب کی غرض جو محبت پھیلانا ہے پوری ہوتی ہے۔
(الفضل ۱۷ اگست ۱۹۲۲ ؁ء جلد ۱۰ نمبر ۱۳ ۔ الفضل ۱۱ ستمبر ۱۹۵۱ ؁ئ)
سوال: کیا قربانی کا گوشت ہندو یا عیسائی یعنی غیر مذاھب کے دوستوں کو دینا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: خواہ کوئی ہندو ہو یا عیسائی تحفہ دینا جائز ہے۔
(الفضل یکم جولائی ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۴ جلد ۳)
سوال: ایک شخص نے قربانی کا گوشت گھرمیں رکھ کر اس کی بڑیاں بنا لیں کیا یہ جائز ہے؟
جواب: منع تو نہیں ۔حدیثوں میں اس کا ذکر آتا ہے مگر بہتر یہی ہے کہ مسکینوں کو دیا جائے۔
(الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۷۱جلد۳)
قربانی اور صدقہ میں فرق
ابر ا ھیمی سنت کے مطابق مسلمانوں کو بھی قربانی کا حکم ہے اور اس پر مسلمان ہمیشہ سے عمل کرتے چلے آئے ہیں مگر چونکہ اس رویاء کے دونوں پہلو ہیں منذر بھی اور مبشر بھی ۔اسی وجہ سے اس قربانی اور صدقہ میں فرق ہے۔
صدقہ کا گوشت انسان کو خود کھا نا جائز نہیں مگر اس قربانی کا گوشت انسان خود بھی استعما ل کر سکتا ہے اور اپنے دوستوں اور غرباء و مساکین میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔
(الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۱۹ ؁ء ۔ خطبات عیدین صفحہ ۱۷۲)
عقیقہ
عقیقہ کے واسطے تاریخ ساتویں مقرر ہے۔تاخیر کرنی ٹھیک نہیں ۔ہاں اگر کوئی عذر ضروری ہو تو جائز ہے۔
گوشت کے متعلق آدمی کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہے عمل میں لاوے۔اصل غرض خون بہانا ہے۔
(ا لفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۶ ؁ء )
سوال: عقیقہ کے بکرے کی عمر کتنی ہو؟
جواب: جو قربانی کے جانور کے لئے ہیں (یعنی دوندا)یہ بھی یاد رہے لَنْ تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ۔
(الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵ ؁ء جلد ۲ نمبر ۱۱۹)
۳:۔
سوال: کیا عقیقہ میں گائے جائز ہے؟
جواب: فرمایا اس کی ضرورت ہی کیا ہے ۔کیا بکرا مل نہیں سکتا ۔کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں رواج اور سنت کا رنگ رکھتی ہیں مثلا عقیقہ ہی ہے ۔اس میں لڑکے کے لئے دو بکرے اور لڑکی کے لئے ایک قربانی رکھی گئی ہے۔اس میں اس لحاظ سے کہ بکرے ذبح کیے جائیں کوئی خاص حکمت تو نظر نہیں آتی کیونکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی اس مال سے غرباء کو کپڑے لے دے یا نقد روپیہ ہی دے دے۔مگر شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی ۔یہ ایک رسم کی صورت اختیار کر چکی ہے اور شریعت ایسی رسموں کو برقرار رکھتی ہے۔اس لئے اسی پر تعامل چاہئے۔
(الفضل ۷ نومبر ۱۹۴۶ ؁ء نمبر ۲۵۹)
مسئلہ جنازہ
مجلس افتاء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خط بجواب جناب مولا بخش صاحب سیالکوٹی مورخہ 23.2.1902(جس کا متن آخر میں درج ہے) پر غور کیا ہے۔اس خط کے علاوہ باقی سب حوالہ جات مسئلہ جنازہ کی حقیقت مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب میں موجود ہیں۔ان کو بھی دوبارہ دیکھا گیا ۔
مجلس کے نزدیک اس خط میں مشتبہ الحال شخص سے مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ باقاعدہ طور پر جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکذب بھی نہ ہو بلکہ احمدیوں سے میل جول رکھتا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ان کی ہاں میں ہاں ملا کر ایک گونہ تصدیق کرتا ہو ۔ایسے شخص کے جنا زہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہرا ًکوئی حرج نہیں سمجھا ۔اگرچہ انقطاع کو بہتر قرار دیا ہے۔
جماعت احمدیہ کا عمل ایسے شخص کے بارہ میں بھی حضور کے ارشاد کے آخری حصہ پر ہے۔یعنی انقطاع کو بہر حال بہتر خیال کیا گیا ہے۔مناسب حالات میں پہلے حصہ پر بھی عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں (جس کی اجازت لی جا سکتی ہے)بشرطیکہ امام احمدیوں میں سے ہو۔اگر نماز جنازہ میں امام احمدی نہ ہو سکتا ہو تو پھر ایسے شخص کے جنازہ کا بھی سوال پید ا نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاخط مورخہ 23.8.1902
’’ جو شخص صریح گالیا ں دینے والا ۔کافر کہنے والا اور سخت مکذب ہے اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نہیںمگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے گویا منافقوں کے رنگ میں ہے۔اس کے لئے کچھ ظاہراً حرج نہیںکیونکہ جنازہ صرف دعا ہے اور انقطاع بہر حال بہتر ہے۔‘‘
(فیصلہ مجلس افتاء جسے حضور نے منظور فرمایا۔فیصلہ نمبر ۱۱ 22.7.63 )
بیعت کی اہمیت
ایک صاحب نے لکھا ’’لوگ مجھے کہتے ہیں اگر اس جماعت میں بیعت کی اور مر گیا تو یہاں پر کوئی نماز جنازہ بھی نہ پڑھے گا‘‘؟
جواب: فرمایا:۔ اسے لکھ دو جب حق مل گیا تو جنازہ نہ پڑھا جاوے( وہ بھی اہل باطل کی طرف سے)تو بھی کچھ حرج نہیں۔
(الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۵ ؁ء جلد نمبر ۱۱۸)
غیر مبائع کا جنازہ
سوال: غیر مبائع جس کا جنازہ غیر احمدی نہ پڑھیں تو کیا ہم احمدی اس کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: اگر کسی جگہ پر کوئی غیر مبائع حضر ت صاحب کی نبوت کا صاف لفظوں میں منکر نہ ہو بلکہ تاویل سے کام لیتا ہواور بدگو نہ ہو تو ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس کا جنازہ پڑھ دیا کریں ۔جبکہ اس کے ہم خیال جنازہ پڑھنے والے نہ ہوںیا نہ پڑھیں یا کسی کا رشتہ دار یا قریبی ہو۔
(الفضل ۱۹ جون ۱۹۱۷ ؁ء نمبر ۱۰۰)
سوال: کیا غیر مبایعین احمدی اصحاب کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جائز ہے بلکہ اگر کوئی اور جنازہ پڑھنے والا نہ ہو تو واجب ہے۔
(الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲ ؁ء نمبر ۹۱)
سوال: میرے بہنوئی ڈاکٹر ایس ایم عبداللہ انچارج ووکنگ مشن لنڈن گو غیر مبائع تھے مگر بے حد شریف الطبع اور حضور کا ذکر نہایت ادب اور احترام سے کرنے والے ۔کیا میں ان کا جنازہ غائبانہ مولوی صدر الدین صاحب یا کسی غیر مبائع کے پیچھے پڑھ لوں یا الگ پڑھ لوں؟
جواب: مولوی صدر الدین صاحب غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں اس لئے ان کے پیچھے نہ پڑھیں الگ بے شک پڑھ لیں۔میں نے بھی شیخ رحمت اللہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کا جنازہ پڑھا تھا۔
(فائل مسائل دینی 32-A/1.5.53to1.5.56
‏RP3684/26.5.56-RP957/28.5.56))
غیر مبائع بچے کا جنازہ
سوال: ایک صاحب نے عرض کیا کہ غیر مبائع کہتے ہیں غیر احمدی کے بچے کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے۔وہ تو معصوم ہوتا ہے اور کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ بچہ جوان ہو کر احمدی ہوتا؟
جواب: فرمایا:۔ جس طرح عیسائی کے بچے کا جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا اگرچہ وہ معصوم ہی ہوتا ہے اسی طرح ایک غیر احمدی کے بچے کا جنازہ بھی نہیں پڑھا جاسکتا جس طرح ایک غیر احمدی بچے کے متعلق امکان ظاہر کیا جاتاہے کہ وہ بڑا ہو کر احمدی ہوتا اسی طرح کا امکان ایک عیسائی کے بچے کے متعلق بھی ہو سکتا ہے۔
(الفضل ۲۳اکتوبر ۱۹۲۳ ؁ء نمبر ۳۲)
غیر احمدیوں کا جنازہ
کہا جاتا ہے کہ فلاں غیر احمدی کا جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پڑھایا تھا۔ممکن ہے آپ نے کسی کی درخواست پر پڑھایا ہو لیکن کوئی خدا کی قسم کھا کر کہہ دے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہو گیا ہے آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں۔اصل بات یہ ہے کہ آپ کو کہا گیا کہ فلاں کا جنازہ پڑھ دیں اور آپ نے یہ سمجھ کر کہ وہ احمدی ہوگا پڑھ دیا ۔اسی طرح ہوا ہوگا ۔میرے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ میں کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں سمجھتالیکن مجھے بھی اس طرح کی ایک بات پیش آئی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ایک طالب علم ہے اس نے مجھے کہا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اس کا جنازہ پڑھ دیں۔میںنے پڑھ دیا بعد میں معلوم ہو ا وہ غیر احمدی تھی۔وہ لڑکا مجھ سے اپنی والدہ کے لئے دعا بھی کرواتا رہا کہ وہ احمدی ہو جائے لیکن اس وقت مجھے یاد نہ رہا ۔اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی کا جنازہ پڑھ دیا تو وہ ہمارے لئے حجت نہیں ۔ہاں اگر چند معتبر آدمی حلفیہ بیان کریں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا تھاکہ فلاں غیر احمدی فوت ہو گیا ہے آپ اس کا جنازہ پڑھ دیںاور پھر آپ نے پڑھ دیا تو ہم مان لیں گے ۔کیا کوئی ایسے مشاہد ہیں۔
پس جب تک کوئی اس طرح نہ کرے یہ بات ثابت نہیں ہو سکتی کہ آپ نے کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔اور ہمارے پاس غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ایک بہت بڑا ثبوت ہے اور وہ یہ کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے بیٹے کی لاش لائی گئی اور آپ کو جنازہ پڑھنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے انکار کر دیا۔پھر سر سید کے جنا زہ پڑھنے کے متعلق مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا خط موجود ہے کہ آپ نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا ۔کیا وہ آپ کو کافر کہتے تھے ہر گز نہیں ۔ان کا تو مذہب ہی یہی تھا کہ کوئی کافر نہیں ہے۔جب ان کے جنا زہ کے متعلق خط لکھا گیا تو جیسا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مندرجہ ذیل خط میں ایک دوست کو تحریر فرماتے ہیں ۔آپ نے اس پر خفگی کا اظہا ر فرمایا۔
’’متوفی کی خبر وفات سن کر حضرت خاموش رہے ۔ہماری لاہور جماعت نے متفقانہ زور شور سے عرضداشت بھیجی کہ وہاں جنازہ پڑھا جائے اور پھر نوٹس دیا جائے کہ سب لوگ جماعت کے ہر شہر میں اس تقلید پر جنازہ پڑھیں اور اس سے نوجوانوں کو یقین ہو گا کہ ہمارا فرقہ صلح کل کا فرقہ ہے۔اس پر حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔فرمایا:اور لوگ نفاق سے کوئی کاروائی کریں تو بچ بھی جائیں مگر ہم پر تو ضرور غضب الٰہی نازل ہو ۔اور فرمایا ہم تو ایک محرک کے تحت میں ہیں ۔بے اس کی تحریک کے کچھ نہیں کر سکتے نہ ہم کوئی حکم بد اس کے حق میں کہتے ہیں تفویض الی اللّٰہ کرتے ہیں۔
فرمایا جس تبدیلی کے ہم منتظر بیٹھے ہیں اگر ساری دنیا خوش جائے اور ایک خدا خوش نہ ہو تو کبھی ہم مقصود حاصل نہیںکرسکتے۔‘‘۲۸ مارچ۔۔۔
پس ہم کس طرح کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز سمجھ سکتے ہیں۔
(ذکر الٰہی صفحہ ۲۶۔۲۵ ۔۔۔۔۔ایڈیشن)
۲:۔
ایک سوال غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے ۔اس میں ایک یہ مشکل پیش کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض صورتوںمیں جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اور ایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کی جائے گی۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاعمل اس کے برخلاف ہے۔چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے۔ایک دفعہ میں سخت بیمار ہو ااور شدت مرض میں مجھے غش آگیا جب مجھے ہوش آیا تو میںنے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رو رہا تھا ۔آپ یہ بھی فرماتے تھے یہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھالیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا ۔حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی نہ ہونگے۔۔۔۔۔۔۔
قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو بظاہر اسلام لے آیاہے لیکن یقینی طور پر اس کے دل کا کفر معلوم ہو گیا ہے تو اس کا جنازہ بھی جائز نہیں پھر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا کس طرح جائز ہو سکتاہے۔
(انوار خلافت صفحہ ۹۱ ۔۔۔۔ایڈیشن)
کسی غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھو
اگر یہ کہا جائے کہ کسی ایسی جگہ جہاں تبلیغ نہیں پہنچی کوئی مرا ہوا ہواور اس کے مر چکنے کے بعد وہاں کوئی احمدی پہنچے تو وہ جنازہ کے متعلق کیا کرے؟
اس کے متعلق یہ ہے کہ ہم تو ظاہر پر ہی نظر رکھتے ہیں۔چونکہ وہ ایسی حالت میں مرا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نبی اور رسول کی پہچان اسے نصیب نہیں ہوئی اس لئے ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔اگر وہ شخص خدا کے نزدیک بخشش کا مستحق ہے تو ہمارے جنا زہ پڑھنے کے بغیر ہی خدا اسے بخش دے گا۔اوراگر وہ بخشش کے لائق نہیں تو ہمارے جنازہ پڑھنے سے بھی نہیں بخشا جائے گا۔پس جہاں ہم ہیں وہاں احمدیت کی تبلیغ ہو گی ۔اس لئے کسی کے جنازہ کے متعلق صاف بات ہے اور جہاں ہم نہیں ہیں وہاں ہمیں جنازہ پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
(الفضل ۶ مئی ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۱۳۶)
کسی غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھو
ایسے لوگ جو جنازے پڑھتے ہیں یہ ایک خطرناک غلطی ہے۔میں کہتا ہوں اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ تمہارے جنازے پڑھنے سے مردہ بخشا جائے گاتو تمہیں معذور سمجھا جا سکتا ہے۔لیکن کیا تم خیال کرتے ہو کہ تمہارے جنازہ پڑھنے سے وہ غیر احمدی بخشا جاتا ہے؟یا تم اس بات کے ذمہ وار ہو کہ وہ جہنم سے بچ جائے؟ اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ تم کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھتے ہو۔کیا یہی نہیں کہ تم رشتہ داروں یا تعلق والوں کا منہ رکھتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر جنازہ نہ پڑھا تو کیا منہ دکھائیں گے؟
حالانکہ وہی منہ دکھانا قابل عزت و فخر ہو سکتا ہے جو بے عیب ہو مگر جو کافر کا جنازہ پڑھتا ہے اور خدا کے نبی کو گالیاں دینے اور جھٹلانے والے کا جنازہ پڑھتا ہے اس کا تو منہ چھپانے کے قابل ہے نہ کہ دکھانے کے قابل۔تم منہ دکھانے کے قابل اسی وقت ہو سکتے ہو جب خدا تعالیٰ کے دین کی محبت تمہارے اندر ہو۔اگر تمہاری ایسی حالت ہو اور میناروں پر چڑھ کر بھی اپنے منہ دکھاؤ تو، تو بھی جائز ہے۔مگر جب تم خدا کا کوئی حکم توڑتے ہو تو تمھیں غاروں میں گھس کر چھپنا چاہئے کیونکہ تم علی الاعلان سینکڑوں آدمیوںمیں جا کر عملی طور پر کہتے ہو کہ مرزا صاحب کے متعلق جو عقیدہ ہے وہ غلط ہے پس اس فعل سے بچو۔
(ملائکۃ اللہ صفحہ ۴۸)
غیر احمدی بچے کا جنازہ
سوال: کیا آپ نے انوار خلافت صفحہ ۹۳ پر کہاکہ ’’اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر ہوئے اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے۔لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو مسیح موعود کا مکفر نہیں۔
میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتاہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا؟‘‘
جواب: ہاں لیکن یہ بات میں نے اس لئے کہی تھی کہ غیر احمدی علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ احمدیوں کے بچوں کو بھی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا جائے۔واقعہ یہ ہے کہ احمدی عورتوں اور بچوں کی نعشیں قبروں سے اکھاڑ کر باہر پھینکی گئیں۔چونکہ ان کا فتویٰ اب تک قائم ہے اس لئے میرا فتویٰ بھی قائم ہے۔البتہ ہمیں اب بانئے سلسلہ کا ایک فتویٰ ملا ہے جس کے مطابق ممکن ہے کہ غور و خوض کے بعد پہلے فتویٰ میں ترمیم کر دی جائے۔
(۔۔۔۔صفحہ ۲۲)
ایک صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص حضرت اقدس کو بزرگ سمجھتا تھا مگر جماعت میں شامل نہ تھا کیا اس کا جنازہ پڑھ لیں؟
جواب: فرمایا:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بیٹے فضل احمد کی وفات پر آنسو بہائے اور فرمایا اس نے ہماری کبھی مخالفت نہیں کی تھی ہمیشہ فرمانبردار رہا ۔باوجود اس کے اس کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔
(الفضل ۱۴ فروری ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۱۰۴)
بیان عبد الحمید شاہ صاحب ابن میر حامد علی شاہ صاحب جو عدالت میں دیا۔
’’ میں غیر احمدی ہوں ۔احمدی نماز پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں ۔احمدی حج کرنے کے واسطے جاتے ہیں ،زکوٰۃ دیتے ہیں ،خدا کی وحدانیت کو مانتے ہیں اور رسول اکرم کو اس کا رسول مانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔قیامت کو مانتے ہیں ۔۔۔۔۔میں مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتا ان کو ریفارمر سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
اگر مکرم شاہ صاحب فوت ہو جائیں تو جماعت کو ان کے جنازہ کے متعلق کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟
جواب فرمایا:۔ چونکہ عدالتی گواہی تحریری ہے ۔ایسا شخص فوت ہو تو اس کا جنازہ اپنے امام کے پیچھے پڑھنے میں حرج نہیں۔
(دستخط مرزا محمود احمد13.11.54
(فائل مسائل دینی32-A)
عبد الکریم صاحب ڈار لکھتے ہیں کہ والد صاحب عموما ًبیمار رہتے ہیں۔ان کی عمر ۹۰ سال کے قریب ہے۔اگرچہ احمدی نہیں لیکن احمدیوں کو برا نہیں سمجھتے اور ہمارے کئی جلسوں میں بھی قادیان آتے رہتے ہیںان کے جنازہ کے متعلق استفسار ہے کہ ہم ان کی اولاد جو ساری کی ساری احمدی ہے اسے ایسے موقع پر کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟
فرمایا:۔ کہ ابھی یہ مسئلہ زیر غور آنا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر کے مطابق اگر ان کے بیٹے اپنے میں سے ایک کو امام بنا کر جنازہ پڑھ لیں تو جماعت کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔جماعت اس لئے نہیں پڑھ سکتی کہ اسے حالات کا علم نہیں ہو سکتا۔
(فائل مسائل دینی DP12059/15.2.54 32-A)
ایک خط کے جواب میں فرمایا:۔
ان کو لکھا جائے کہ خواب کا آنا اور پھر ان کی والدہ کا نذرانہ دینا کافی ہے جب اس نے مخالفت چھوڑدی اور چندہ دیا تو پھر حضرت خلیفہ اول ؓ کا فتویٰ ہے کہ جو مخالفت نہ کرے اس کا جنازہ جائز ہے۔
(ایضاً RP 13308/7.3.56 )
۱:۔
جنازہ ہم ایسے شخص کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک کرنے والا نہ ہو یا مکفرین کے پیچھے نماز پڑھنے والا نہ ہو جائز سمجھتے ہیں مگر ہر جائز کام ہر ایک نہیں کرتا۔شخصی ضرورتوں یا مجبوریوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
(فائل مسائل دینی 2.10.54 32-A)
۲:۔
میری دادی غیر احمدی ہیں اور احمدی کی بیوی ہیں ۔۔۔۔۔دو تین مرتبہ قادیان بھی اپنے خاوند کے ساتھ گئی تھیں ۔ربوہ بھی ایک دفعہ گئی ہیں اور ہمیشہ وہ قادیان کا نام قادیان شریف لیا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔ان کے منہ سے کبھی بھی کسی قسم کی بد کلامی یا نفرت والی بات نہیں سنی۔۔۔ان سے حضرت صاحب کی بابت پوچھتے تو ہمیشہ وہ یہی کہتی ہیں کہ وہ بہت چنگے بندے ہیں لوگ جو کچھ کہتے ہیں غلط کہتے ہیں ۔۔۔ان کی وفات کی صورت میں ان کا جنازہ پڑھا جائے یا نہیں؟
جواب: فرمایا:۔ آپ حالات سے باخبر ہیں آپ جنازہ پڑھ سکتے ہیں ۔الگ یا خود امامت کر ا کے۔دوسرے احمدی جو حالات سے واقف نہیں انہیں اس کے لئے نہ کہیں۔
(ایضاً RP 21253/18.1.55 )
ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکر ہوئے اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے۔لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو مسیح موعود کا مکفر نہیں۔
میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتاہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا اور کتنے لوگ ہیں جو ان کا جنازہ پڑھتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ جو ماں باپ کا مذھب ہو تا ہے شریعت وہی مذھب ان کے بچے کا قرار دیتی ہے۔
پس غیر احمدی کا بچہ بھی غیر احمدی ہوا ۔اس لئے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔پھر میں کہتا ہوں بچہ تو گنہگا ر نہیں ہوتااس کو جنازہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔بچہ کا جنازہ تو دعا ہوتی ہے اس کے پسماندگان کے لئے۔اورا س کے پسماندگان ہمارے نہیں بلکہ غیر احمدی ہوتے ہیں اس لئے بچہ کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔
باقی رہا کوئی ایسا شخص جو حضرت صاحب کو تو سچا مانتا ہے لیکن ابھی اس نے بیعت نہیں کی یا ابھی احمدیت کے متعلق غورکر رہا ہے اور اسی حالت میں مر گیا اس کو ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی سزا نہ دے لیکن شریعت کا فتویٰ ظاہری حالات کے مطابق ہوتا ہے اس لئے ہمیں اس کے متعلق بھی یہی کرنا چاہئے کہ اس کا جنازہ نہ پڑھیں۔
(انوار خلافت صفحہ ۹۳)
میراںبخش صاحب بوجہ غیر احمدی کو لڑکی دینے کے جماعت سے خارج شدہ ہیں مگر ان کی حالت روباصلاح ہے اور طلب معافی کے لئے تیار ہیں اگر اس حالت میں ان کے نابالغ بچے کا جنازہ جماعت بٹالہ نے پڑھ لیا ہے تو اس میں کوئی حرج تو نہیں؟
ھدایات حضور :۔ میراں بخش صاحب کو سزا ملی تھی نہ ان کے لڑکے کو ۔پس جنازہ جائز تھا ۔جو شخص اپنے آپ کو احمدی کہتا ہو اور اسے سزا کے طور پر الگ کیا گیا ہو۔اگر اس کا چھوٹا بچہ یا بیوی فوت ہو جسے سزا نہ ملی ہو تو اس کا جنازہ یقینا جائز ہے ۔ہاں جو جوان لڑکا ہو اور اپنے آپ کو غیر احمدی کہتا ہو تو پھر جائز نہیں۔
(فائل غیر احمدی سے رشتہ ناطہ۔دفتر اصلاح و ارشاد سے)
بیعت کے بعد فورا ًمر جانے والا کا جنازہ
سوال: ایک شخص نے بحالت بیماری بیعت کا خط لکھا اور اس کے بعد تین گھنٹہ کے اندر فوت ہو گیا۔وہاں کی احمدی جماعت نے اس کے جنازہ کے متعلق حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی سے دریافت کیا۔
جواب: حضور نے فرمایا:۔ جو شخص بیعت کر تا ہے خواہ ایک منٹ کے بعد فوت ہو جائے اس کا جنازہ پڑھ دینا چاہئے ہاں منصوبہ نہ ہو۔
(الفضل ۷ اگست ۹۲۳ا ؁ء نمبر ۹)
نظام جماعت سے خارج شدہ افراد کا جنازہ
سوال: ایک شخص جماعت کے ممبروں اور کارکنوں کے روبرو بیعت کا خط لکھتا ہے۔تندرستی کی حالت ہے اور ہوش و حواس قائم ہیں۔کسی کا خاص دباؤ وغیرہ نہیں ہے اور اپنی خوشی سے ۔۔۔۔۔بیعت کا خط لکھتا ہے۔۔۔جواب آنے سے قبل فوت ہو جاتا ہے کیا اس کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: جب کوئی بیعت کا اظہار کرے اگر وہ جماعت سے نکالا ہوا نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھنا چاہئے۔خواہ جواب آئے یا نہ آئے۔
(الفضل یکم جنوری ۱۹۴۷ ؁ء نمبر ۱ جلد ۳۵)
جو شخص اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اور ایسے کام جن کی وجہ سے انسان احمدیت سے خارج ہو جاتا ہے وہ نہیں کرتا تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں ہے۔خارج از احمدیت ہونے سے میری مراد ایسے امور ات ہیں کہ جس کی وجہ سے کفر کا فتویٰ لگ سکتا ہے چنانچہ غیر احمدی کو لڑکی کا رشتہ دینا بھی اسی قسم میں سے ہے۔
(الفضل ۴ مئی ۱۹۲۲ ؁ء نمبر ۸۶ جلد ۹)
سوال پیش ہوا کہ غیر احمدی کو لڑکی دینے والے آدمی کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟
جواب: فرمایا:۔ اس کی شادی میں کم از کم شامل نہ ہونا چاہئے اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے بلکہ اس کا چندہ بھی نہیں لینا چاہئے۔
(الفضل ۱۵ مئی ۱۹۲۲ ؁ء نمبر۔۔ جلد ۹)
جن کا مقاطعہ ہو اگر وہ فوت ہو جائیںتو کیا ان کا جنازہ پڑھا جائے یا نہ؟
جواب: حضور نے فرمایا:۔ ایسے لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں ۔بعض صورتوں میںان کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا اور بعض میں پڑھا جائے گا۔
(الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۴۶ ؁ء جلد ۳۴ نمبر ۹۳)
احمدیوں کے بچوں کا جنازہ
احمدیوں کے بچے احمدی ہیں اور جب تک کسی احمدی کا لڑ کا یا لڑکی بلوغت کو پہنچ کر احمدیت کا انکا ر نہ کرے وہ احمدی ہی سمجھا جائے گا اور اس سے احمدیوں کا سا ہی معاملہ ہو گا۔کیونکہ اولاد جب تک ان میں سے کوئی بالغ ہو کر باپ کے مذھب کی مخالفت کا اعلان نہ کرے باپ کے مذھب پر ہی شمار ہو گی ۔بلکہ احمدی ماں کے بچے بھی احمدی ہی سمجھے جائیں گے خواہ باپ غیر احمدی ہی کیوں نہ ہو۔پس ایسے تمام لڑکے لڑکیوں کا جنازہ جائز ہے۔
خاکسار مرزا محمود احمد
(الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۱۸ ؁ء نمبر ۲۸ جلد ۶)
ایک دوست نے لکھا متوفی بچے کے لئے دعا کرنے کو ازحد دل چاہتا ہے ۔دعا کس طرح کی جاوے؟
فرمایا:۔ بچے کے لئے کیا دعا کرنی ہے اس کے لئے تو یہی دعا ہو سکتی ہے کہ اس کو ہماری ترقیا ت اور ثواب کا موجب کرے۔
(الفضل ۷ دسمبر ۱۹۲۲ ؁ء نمبر ۴۵ جلد ۱۰)
خود کشی
خود کشی اسلام میں حرام ہے۔ایسی حرا م کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو خود کشی کرتا ہے وہ جہنمی ہے ۔اور جس کا انجام کسی جہنمی فعل پر ہو اس کے انجام کی نسبت شک نہیں ہو سکتا ۔اس لئے اس کا جنازہ جو دعائے بخشش ہے پڑھنا جائز نہیں اور نہ میں اور نہ میری جماعت کے لوگ اس کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں ۔مقبرہ بہشتی میں ایسا شخص کسی صورت میں دفن نہیں ہو سکتا ۔
خود کشی بہادری نہیں بلکہ جنون کا ایک شعبہ ہے۔سوائے عارضی جنون کے خود کشی کا فعل مکمل نہیں ہو سکتا ۔جو عارضی جنون میں مبتلا نہیں ہوتے عین وقت پر خود کشی سے باز آ جاتے ہیں ۔ڈاکٹروں نے ہزاروں تجارب کے بعد یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچا دی ہے۔
اگر جنون ہے تو سزا کیسی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فعل خود کشی باعانت جنون ہوتا ہے ۔لیکن ارادہ کے لئے جنون شرط نہیں وہ مایوسی سے پیدا ہوتا ہے۔اس لئے سزا ارادہ ناجا ئز کی ملتی ہے ۔اور اگر خود کشی نہ کرسکے اور بچ جائے تو پھر اس کی توبہ کی وجہ سے وہ سزا سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
(الفضل ۹ دسمبر ۱۹۱۶ ؁ء جلد ۴ نمبر ۴۵)
خود کشی کرنے والے کے لئے صدقے وغیرہ کرنا ناجائز ہے۔
(فائل مسائل دینی DP 5629/5.1.52 65-A)
خود کشی
سوال: میرا بھائی عمر بیس بائیس سال دینی و دنیاوی حالت میں قابل تعریف۔گلے میں رسی ڈال کر خود کشی کرلی۔کیا اس کا جنازہ غائب پڑھا جائے۔ماموں کے کہنے پر بغیر جنازہ سپرد خاک کیا۔کیا اس کی روح کی مغفرت کے لئے دعا کی جائے یا نہیں ۔وہ احمدی تھا ۔خود کشی کر کے بڑا مجرم بنا؟
جواب: اگر خود کشی ثابت ہو تو رسول کریم ﷺ نے اس کا جنازہ منع فرمایا ہے۔چنانچہ جب مولوی عبد السلام صاحب عمر کے لڑکے نے خود کشی کی تھی تو جماعت نے جنازہ نہیں پڑھا تھا۔
(فائل مسائل دینی 32-A)
امانتاً دفن شدہ میت کا چہرہ دیکھنا
میری والدہ کی وفا ت پر تقریبا چھ مہینے گزر چکے ہیں ۔اب تابوت ربوہ لانے کا ارادہ ہے۔وفات کے وقت میں گھر پر موجود نہیں تھا کیا اب تابوت کھول کر چہرہ دیکھ سکتا ہوں؟
جواب: فرمایا:۔ دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا ایوب بیگ کی نعش کودیکھنے کی اجازت دی تھی اور وہ تابوت میں بھی نہ تھی۔مگر لاش کی حالت کے متعلق تو ڈاکٹر بتا سکتا ہے مفتی نہیں بتا سکتا ۔اگر لاش کی حالت خراب ہو تواس سے برا اثر پڑتا ہے۔
(فائل مسائل دینی 32-A / 12.12.58)
تابوت یا میت پر کلمہ اور قرآنی آیا ت لکھی ہوئی چادر ڈالنا
سوال: ایک کپڑا ایسا ہے جس پر قرآن کریم کی آیات لکھی ہوئی ہیں جسے مردے پر ڈال کر قبرستان لے جایا جاتا ہے۔بعض احمدی بھی اس مرض میں مبتلاء ہیں۔ایسے کپڑے کے متعلق کیا ارشاد عالی ہے؟
جواب: احمدی غلطی کرتے ہیں۔یہ بدعت ہے۔رسول کریم ﷺ کا یہ طریق نہیں۔
(فائل مسائل دینی 32-A/12.6.61)
زیارت قبور
مزار کا بوسہ لینا
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو فرمایا:۔
یہ جائز نہیں ۔لغو بات ہے۔اس قسم کی حرکات سے شرک شروع ہوتا ہے۔اصل چیز نبی کی تعلیم پر عمل کرنا ہے مگر لوگ اسے چھوڑ کر لغو باتوںمیں جا پڑتے ہیں۔
(الفضل ۱۸مئی ۱۹۴۶ ؁ء جلد ۳۴ نمبر ۱۱۷)
مزار پر گنبد بنوانا ۔قبّہ بنوانا
سوال: بطور یادگار بزرگوں کی قبریں محفوظ کرنے کے لئے قبّے بنا لئے جائیںتو کیا حرج ہے؟
جواب: اگر قبر کی حفاظت کے لئے ضروری نہ ہو تو قبّہ وغیرہ کی ضرورت نہیں اور اگر یادگار کے خیال سے قبّہ بنایا جائے تو ایسی یادگار کا میں قائل نہیں کہ اس کے لئے قبّہ ضروری ہو ۔یہی خیال ہے جس سے آگے شرک پیدا ہوتا ہے۔
پس پروٹیکشن(حفاظت) تو ٹھیک ہے لیکن میموریل(یادگار) ٹھیک نہیںکیونکہ قبر کی اس رنگ میں یادگار ہی وہ چیز ہے جو آگے شرک تک پہنچا دیتی ہے۔بے شک ہم تو احترام کے طور پر قبّے بنائیں گے لیکن دوسرے لوگ اس احترام کو اس حد تک پہنچا دیں گے کہ جس سے شرک شروع ہو جائے گا ۔رسول کریم ﷺ کے مزار پر جو قبّہ بنایا گیا ہے وہ بھی حفاظت کے لئے ہے نہ کہ اس لئے کہ مزار کی عزت کی جائے۔
(الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷؁ء جلد ۱۴ نمبر ۶۹)
سوال: قبروں پر قبّہ بنانا کیوں جائز نہیں؟
جواب: انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے کہ جن وجودوں کے ساتھ اسے محبت ہوتی ہے ان کے مرنے کے بعد جہاں تک ہو سکے ان کا احترام کرنا چاہتا ہے ۔یوں تو جب کوئی شخص مر جاتا ہے اس کی لاش اگر کتے بھی کھا جائیں تو اسے کیا تکلیف ہو گی لیکن اس سے محبت رکھنے والے جو زندہ انسان ہوں ان کی فطرت گوارا نہیں کرتی کہ لاش کی یہ حالت ہو۔اس لئے وہ اپنے طور پر اس کا احترام کرتے ہیں مگر یہ کوئی شرعی احترام نہیں ہوتا کیونکہ شرعی طور پر احترام جائز نہیں کیونکہ اس سے شرک پھیلتا ہے۔
بچوں وغیرہ کی قبر پرکوئی قبّہ نہیں بنا تا مگر بزرگوں کی قبر پر قبّہ بناتے ہیںکیونکہ ان کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ ان سے کچھ حاصل ہوگا۔
(الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ ؁ء جلد ۱۴ نمبر ۶۹)
قبر پرستی
عورتوں میں بہت سی باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جو شرک ہیں ۔قبروں پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں ۔چراغ جلائے جاتے ہیں ۔منتیں مانی جاتی ہیں ۔یہ سب شرک ہے۔خدا تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کو کھڑا کر نا شرک ہے جو بہت ہی بڑا گناہ ہے اور اس سے خدا تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے ۔دیکھو اگر کوئی اپنے باپ کے سامنے ایک چوہڑے کو اپنا باپ کہے تو اس کے باپ کو کسقدر غصہ آئے گا اور وہ کس قدر ناراض ہوگا۔اسی طرح ایک ادنیٰ مخلوق کو جو خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کیڑے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی اپنا حاجت روا سمجھنا خدا تعالیٰ کی بہت بڑی ناراضگی کا موجب ہے۔ایک قبر میں دفن شدہ مردہ جس کی ہڈی بھی گل گئی ہوںاور جس کے جسم کو کیڑے کھا گئے ہوں اس کو جا کر کہنا کہ تو میری مرادپوری کر کتنی بڑی پاگلانہ بات ہے ۔خدا جب زندہ ہے اور مانگنے والوں کو دیتا ہے تو جو کچھ مانگنا ہو اس سے مانگنا چاہئے۔جو مٹی میں دفن ہو چکا ہواس کے متعلق کیا معلوم کہ نیک تھا یا کیسا تھا۔
(خطبہ نکاح فرمودہ مصلح موعود ؓ ۲۰ نومبر ۱۹۲۰ ؁ئ۔الازھار لذوات الخمار صفحہ ۴۲)
سوال: کیا زیارت کربلا جائز ہے؟
جواب: اگر اس خیال سے کوئی جائے کہ وہاں جا کر کوئی ان کے لئے دعا کرے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے احسانات کا دعا کے ذریعہ معاوضہ دینا چاہے تو جائز ہے اور اس کا اسے ثواب ملے گا لیکن اگراس لئے وہاں جاتا ہے کہ اپنے لئے وہاں دعاکرے اور جو بزرگ قبروں میں دفن ہیں ان سے مدد مانگے تو یہ ناجائز ہے۔
(الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ ؁ء جلد ۱۴ نمبر ۶۹)
قرآن خوانی، فاتحہ ،قل وغیرہ
سوال: ہمارے ملک میں یہ جو رواج ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو اس کے مرنے کے بعد فاتحہ پڑھتے ہیں پھر چہلم کرتے ہیں اس کے بارہ میں کیا حکم ہے؟
جواب: فاتحہ ،قل،یہ سب بدعات ہیں۔
(الفضل ۲ مارچ ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۱۱۱)
ایک شخص کے خط کے جواب میں حضور نے لکھوایا
۱: ۔ تلاوت قرآن کا ثواب مردہ کی روح کو نہیں پہنچتا ۔
۲:۔ قبر پر قرآن پڑھنا بروایت فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بے فائدہ ہے بلکہ ڈر ہے کہ بد نتیجہ پیدا کرے۔
۳:۔ غیر احمدی بچے کا جنازہ پڑھنا درست نہیں۔
(الفضل ۴ مئی ۱۹۲۲ ؁ء نمبر ۸۶)
میّت کے لئے قرآن خوانی
سوال: کیا مردہ کے لئے قرآن خوانی کرنی جائز ہے؟
جواب: فرمایا:۔ اسے قرآن کریم کا ثواب نہیں پہنچتا مگر صدقہ و خیرات کا ثواب مردے کو پہنچتا ہے کیونکہ قرآن کا پڑھنا عبادت ہے۔صدقہ بھی مردے کے اعمال میں نہیں لکھا جاتا بلکہ کسی اور رنگ میں اس کو ثواب ملتا ہے۔
عبادات۔حج بدل
سوال: جب مردے کی طرف سے حج میں قائم مقام ہو سکتا ہے تو قرآن کریم کا ثواب کیوں نہیں پہنچتا ؟
جواب: فرمایا:۔ حج ہر ایک مسلمان پر ہر ایک حال میں فرض نہیں اس لئے اگر کسی وجہ سے کسی شخص کو موقع نہ ملے تو اس کی طرف سے حج قائم مقام ہو سکتا ہے مگر نماز ہر مسلمان پر فرض ہے اس لئے کوئی دوسرا کسی کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا۔
(الفضل ۳ جولائی ۱۹۲۲ ؁ء جلد ۱۰ نمبر ۱)
قبر پر قرآن خوانی
سوال: کیا قبر پر قرآن پڑھنا جائز ہے؟
جواب: فرمایا:۔ بدعت ہے۔
(الفضل ۲۷ مئی ۱۹۱۵ ؁ء جلد ۲ نمبر ۱۴۵)
زیارت قبور ۔قبر پر دعا
سوال: کیا قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا جائز ہے؟
جواب: قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا جائز ہے۔
(الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۶ ؁ء )
فاتحہ خوانی
غیر احمدی فوت ہو جاتے ہیں تو عموماً اس کے متعلقین کے پاس اظہار افسوس کے لئے جانا پڑتا ہے۔اس موقع پر بعض غیر احمدی بھی آجاتے ہیں اور تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنے سے قبل کہتے ہیں اچھا دعائے خیر کرلیں۔یہ کہہ کر وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں ۔متوفی کے وارث بھی ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہئے
فرمایا:۔ اس کا نام فاتحہ نہ رکھیں تو یہ دعا جائز ہے۔میں نے کئی غیر احمدیوں کے لئے اس طرح دعا کی ہے۔بدگو مکفر نہ ہو۔
(فائل مسائل دینی DP 5842/16.3.54 32-A)
دسواں و چالیسواں وغیرہ
سوال: گاؤںمیں رسم ہے کہ جب کوئی بوڑھا مر جاتا ہے تو اس کے ورثاء چالیسویں کی رسم ادا کرتے ہیں اور گھر گھر کھانا بانٹتے ہیں ۔آیا اس کا کھانا جائز ہے؟
جواب: فرمایا:۔ بدعات کی روٹی کھانی جائز نہیں۔
(الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۷۱)
مصیبت کے دفعیہ کے لئے چلّہ
سوال: کیا مصیبت کے دفعیہ کے لئے قرآن کا چلّہ جائز ہے؟
جواب: فرمایا:۔ میں تو چلّہ کے طریقے سے ناواقف ہوں ۔قرآن شریف تو سارا ہی پڑھنے کے قابل ہے اور خاص سورتیں خاص مضامین کے انکشاف کے لئے پڑھی جاتی ہیں یا تلاوت کے لئے،مصائب کی دوری کے لئے تو اسمائے الٰہی ہیں اور خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ میرے اسماء کے ساتھ مجھ سے دعا کیا کرو۔پس جس طریقہ سے دینے والا کہے کہ اس طرح مجھ سے مانگا کرو وہی طریقہ درست ہے۔
(الفضل ۱۱ مئی ۱۹۲۲ ؁ء جلد ۹ نمبر ۸۸)
ٹونے ٹوٹکے
عورتیں ٹونے ٹوٹکے کرتی ہیں اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو کچا تاگا باندھتی ہیں کہ صحت ہو جائے حالانکہ جس کو ایک چھوٹا بچہ بھی توڑ کر پھینک سکتا ہے وہ کیا کر سکتا ہے۔اسی طرح عورتوں میں اور کئی قسم کی بدعتیں اور برے خیا لات پائے جاتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔اور جن سے سوائے اس کے کہ ان کی جہالت اور نادانی ثابت ہو اور کچھ نہیں ہوتا۔پس خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ ٹونے ٹوٹکے۔تعویز ۔گنڈے منتر جنتر سب فریب اور دھوکے ہیں جو پیسے کمانے کے لئے کسی نے بنائے ہوئے ہیں۔یہ سب لغو اور جھوٹی باتیں ہیں ۔ان کو ترک کرو۔ایسا کرنے والوں سے خدا تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔تم ان بیہودہ رسموں اور لغو چیزوں کو قطعاً چھوڑ دو اور اپنے گھروں سے نکال دو۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۴۳ ایڈیشن دوم)
زکوٰۃ
یُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃ۔۔۔الآیۃ (مائدۃ: ۵۶)
زکوٰۃکی ضرورت اور اس کی اہمیت درحقیقت غربت کے سوال سے پیدا ہوتی ہے اور غربت ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بھی بنی نوع انسان سے جد انہیں ہوتی۔عام طور پر لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ جب دنیا کی آبادی بڑھ جاتی ہے تو ایک حصہ غریب ہو جاتا ہے۔حالانکہ یہ بات درست نہیں ۔آبادی کی کمی کی صورت میں بھی ہمیں غربت ویسی ہی نظر آتی ہے جیسے اس کی کثرت کی صورت میں۔چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں باوجود اس کے کہ اس وقت صرف چند ہی افراد تھے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی بعض پر غربت کا زمانہ آیا تھاکیونکہ فرماتا ہے کہ اگر تو اس جنت میں رہے گا تو تو پیاسا نہیں رہے گا ۔تیرے ساتھی بھوکے نہیں رہیں گے۔۔۔الخ
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃالنمل صفحہ ۲۰)
زکوٰۃ
نماز کے علاوہ خدا تعالیٰ نے یہ بات مقرر فرمائی ہے کہ اگر انسان کے پاس چالیس روپے ہوں تو وہ ایک روپیہ اللہ کی راہ میں دیوے۔یہ زکوۃ ہے۔
زکوۃ کے معنے پاک کردینے کے ہیں۔پس یہ مرد عورتوں کا فرض ہے کہ وہ زکوۃ دیا کریں۔حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اس کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے۔حضرت ابو بکرؓ کے وقت میں بعض لوگ زکوۃ کے منکر ہو گئے ۔انھوں نے کہا کہ ہم زکوۃ نہیں دیتے حتیٰ کہ اتنا شور ہو گیا کہ مدینے اور ایک بستی کے سوا بہت مرتد ہو گئے۔اس وقت حضرت عمر ؓ نے جو بہت بہادر تھے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا کہ آپ اس وقت ان سے نرمی کریںپھر آہستہ آہستہ مان لیں گے۔مگر حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ دیکھو تم کو ڈر ہے کہ یہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے اس لئے میں اکیلا جاؤں گا اور زکوۃ کے واسطے ان سے لڑوں گا اور اگر یہ ایک رتی بھی کم کردیںگے تب بھی میں ان سے لڑائی کروں گا۔یہ خدا کا حکم ہے۔دیکھو ان لوگوں نے ایک حکم کی خلاف ورزی کی اور سب کام مسلمانوں جیسے کیا کرتے تھے پھر بھی ان کے ساتھ کافروں والا سلوک ہوا ۔جس سے معلوم ہوا کہ زکوۃ کیسی ضروری بات ہے ۔ہاں جو زیور پہنا جائے اس پر زکوۃ نہیں۔
(الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۲ ؁ئ۔ الازھار لذوات الخمار صفحہ ۵۶)
زکوٰۃ کب واجب ہوتی ہے
نماز کے بعد دوسرا حکم زکوٰۃ کا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جس مال پر ایک سال گزر جائے اس میں غریبوں اور مسکینوں کی امداد کے لئے چالیسواں حصہ نکالا جائے۔اگر اسلامی حکومت ہو تو اس کو وہ حصہ دے دیا جائے۔اگر نہ ہو تو جو انتظام ہو اس کو دیا جائے۔ہم احمدیوں کا ایک باقاعدہ انتظام ہے اس لئے احمدی عورتوں کو چاہئے کہ منتظمین کو زکوۃ کا مال دے دیا کریں۔
زیوروں کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر پہنے جاتے ہوں تو ان کی زکوۃ نہ دی جائے اور اگران کی بھی دی جائے تو اچھی بات ہے۔ہاں اگر ایسے زیور ہوں جو عام طور پر نہ پہنے جاتے ہوں کبھی بیاہ شادی کے موقع پر پہن لئے جاتے ہوں ان کی زکوۃ دینا ضروری ہے اور جو عام طور پر پہنے جاتے ہوں ان کی زکوۃ دی جائے تو جائز ہے اور نہ دی جائے تو گناہ نہیں۔ان کا گھسنا ہی زکوۃ ہے۔
ہمارے ملک میں عورتوں کو زیور بنوانے کی عادت ہے اس لئے تقریباً سب عورتوں پر زکوۃ فرض ہے۔وہ اس کا خیال نہیں رکھتیں حالانکہ یہ اتنا ضروری حکم ہے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جب کچھ لوگوں نے زکوۃ سے انکار کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا جب تک زکوۃ کی اونٹ باندھنے کی رسی تک نہ دیں گے میں ان سے جنگ کروں گا ۔اور یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو زکوۃ نہ دے وہ مسلمان نہیں ۔تم اپنی حالت پر غور کرو کہ تم میں سے بہت سی تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے مسلمان نہیں رہتیں اور جو اس سے بچ جاتی ہیں ان میں سے اکثر زکوۃ نہ دینے کی وجہ سے مسلمان نہیں کہلا سکتیں۔
(الازھار لذوات الخمارصفحہ نمبر ۴۷ ایڈیشن دوم)
وَأْمُرْ أَہْلَکَ بِالصَّلَاۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْْہَا لَا نَسْأَلُکَ رِزْقاً۔۔۔۔الآیۃ(طٰہٰ:۱۳۳)
یہ قانون قدرت ہے کہ بچے ماں باپ کے پیچھے چلتے ہیں ۔اس لئے عیسائیوں کی ترقی کے زمانے میں ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کرتا رہے اور خود بھی نمازوں کا پابند رہے تا کہ اس کی اولاد بھی اسی رنگ میں رنگین ہوکیونکہ جو شخص عبادت پر قائم رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور حلال ر زق دیتا ہے اور اس سے رزق مانگتا نہیں۔
بظاہر یہ بات غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ تمام انبیا ء دین کی خدمت کے لئے چندے مانگتے چلے آئے ہیں اور اسلام نے بھی زکوۃ اورصدقات پر خصوصیت سے زور دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ زکوۃ یا صدقہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ بڑھتا ہے اور اس کا فائدہ خود لوگوں کو ہی پہنچتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔ وَمَا آتَیْْتُم مِّن زَکَاۃٍ تُرِیْدُونَ وَجْہَ اللّٰہِ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُون(الروم:۴۰)۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں وہی اپنے مالوں کو بڑھانے والے ہوتے ہیں۔پس چندے لینا یا صدقہ و زکوۃ وغیرہ ا س آیت کے خلاف نہیں۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ طٰہٰ صفحہ ۴۸۳)
زکوۃ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ انھیں دیتا ہے وہ آگے لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں ۔پس نبیوں کا زکوۃ دینا درحقیقت ان کا اپنے مریدوں کو اس کی تلقین کرنا ہوتا ہے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ مریم صفحہ ۲۲۳)
زکوۃ تو ایسی ضروری چیز ہے کہ جو نہیں دیتا وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔مگر بہت سے لوگ ہیں جو زکوۃ نہیں دیتے ۔جب انہیں کہا جائے توکہتے ہیں اچھا یہ بھی فرض ہے۔پھر ایک سال یونہی گزار دیتے ہیں گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں ۔دوسرے سال پھر سنتے ہیں مگر ایسا ہی سنتے ہیں گویا نہیں سنا ۔مگر اس طرح وہ اس فرض کی ادائیگی سے بچ نہیں سکتے۔جو شخص زکوۃ کو چھوڑتا ہے اس سے وہی معاملہ جائز ہو جاتا ہے جو کفار سے کیا جاتا ہے۔چنانچہ حضرت عمر ؓ نے جب حضرت ابو بکر ؓ کو زکوۃ نہ دینے والوں کے متعلق کہا کہ یہ مسلمان ہیں ان سے کافروں والا معاملہ نہ کیا جائے تو حضر ت ابوبکر ؓ نے کہا نہیں ان سے کافر والا معاملہ ہی کیا جائے گا چنانچہ ان کو پکڑ کر غلام بنایا گیا۔۔۔۔۔
زکوۃ جس رنگ میں رکھی گئی ہے اس میں تو یہ حکمت ہے کہ اگر یونہی صدقہ کا حکم دیا جاتارقم اور وقت مقرر نہ ہوتا تو بہت لوگ نہ دیتے۔اس لئے تھوڑا سے تھوڑا چندہ شریعت نے خود مقرر کر دیا کہ اس قدر اپنے مال میں سے ضرور دیا جائے۔اس سے زائد جو دے وہ انعام کا مستحق سمجھا جائے۔اور جو اس حد تک بھی نہ دے وہ مجرم ہو پس اس حد کو پورا کرو۔
دوسرا اس کے مقرر کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ بعض لوگوں کو جو ضروریات آپڑتی ہیں ان کو فرداً فرداً پورا نہیں کیا جا سکتا مثلا ایک شخص غریب ہے اس کو لاکھ روپے کی ضرورت آپڑی ہے۔کوئی کہے غریب اور لاکھ روپے کی ضروت کا مطلب؟مگر ہوتی ہے۔مثلاً ایک تاجر ہے اس کو کاروبار میں گھاٹا پڑ گیا ہے اس کے چلانے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے ایسے لوگوں کی بھی زکوۃسے مدد کی جا سکتی ہے۔تو زکوۃ غرباء کو بھی دیا جاتا ہے تاکہ اپنی ضروریات پوری کریںمگر ان کو بھی دیا جاتا ہے جنہیں کاروبار چلانے کے لئے ضرورت ہو اور پیشہ ور ہوں۔پس زکوۃ کے فنڈ سے ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔افراد کے چندہ سے ان کا کام نہیں چل سکتا۔
پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جودوسرے کا احسان اٹھانا پسند نہیں کر سکتے وہ بھوکے مر جائیں گے مگر یہ گوارا نہیں کریں گے کہ زیدکے سامنے جائیں اور اپنی ضرویات کے لئے اس سے کچھ حاصل کریں ۔چونکہ ایسی طبیعت کئی لوگوں کی خدا نے بنائی ہوئی ہے اور ان کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے شریعت نے یہ رکھا ہے کہ حکومت امراء سے لے اور ایسے لوگوں کو دے تاکہ وہ طبائع جو کسی کاا حسان نہیں اٹھانا چاہیں وہ اس طرح مدد پائیں ۔
(ملائکۃ اللہ صفحہ ۶۰)
زکوٰۃ نہ دینے والا یقینا چور ہے
اگر کوئی شخص زکوۃ نہیں دیتا تو وہ یقینا چور ہے۔خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کر کے ۔۔۔روپیہ کمایا ہے۔۔۔۔اگر وہ بغیر اس ٹیکس کو ادا کرنے کے روپیہ اپنے گھر میں لے جاتا ہے تو اسلام اسے قطعاً مومن کہنے کو تیار نہیں۔
ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ اس زمانے میں چونکہ ٹیکس دوہرا ہو گیا ہے یعنی گورنمنٹ بھی ٹیکس لیتی ہے اورا سلام بھی ایک ٹیکس لیتا ہے ۔اس لئے جس چیز پر گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکس عائد ہوتا ہے اگر اس کے ٹیکس کی رقم زکوۃ کے برابر یا زکوۃ سے زیادہ ہو تو پھر زکوۃ دینا واجب نہیں ہوگا۔
مگر اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ گورنمنٹ جمع شدہ مال پر ٹیکس نہیں لیتی بلکہ آمد پر ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن اسلام اس مال سے زکوۃ وصول کرتا ہے جو انسان کے پاس جمع ہو اور جس پر ایک سال گزر گیا ہو ۔۔۔۔ہاں اس مال پر جس سے گورنمنٹ نے زکوۃ کے برابر یا اس سے زائد ٹیکس لے لیا ہو زکوۃ واجب نہیں ۔مگر کچھ نہ کچھ رقم ثواب میں شمولیت کے لئے اسے طوعی طور پر بھی دینی چاہئے۔ہاں مگر انکم ٹیکس یا ما بعد کم ہو اور زکوۃ یا عشر اس پر زیادہ عائد ہوتا ہو تو پھر جتنی کمی رہ جائے گی اس کو پورا کرنا اس کا فرض ہوگا۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ نور صفحہ ۳۴۰)
زکوۃ دینے کا رواج عورتوں میں کم ہے حالانکہ مردوں سے زیادہ عورتیں ہیں جن پر زکوۃ فرض ہے کیونکہ مرد تو وہی لوگ صاحب زکوۃ ہیں جو مال دار اور صاحب جائیداد ہیں اور یہ بہت کم ہوتے ہیںمگر عورتیں تو بہت کم ہونگی جن کے پاس کچھ بھی زیور نہ ہو۔عام طور پر عورتوں کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے مگر انہیں کوئی توجہ نہیں دلاتا کہ وہ اس کی زکوۃ ادا کریں۔
(الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۱۴ ؁ء جلد ۱ نمبر ۳۳)
سوال: ایک دوست نے دریافت کیا زکوۃ دارالامان بھیجوں یا یہیں کسی غریب کو دی جا سکتی ہے؟
جواب: فرمایا:۔ زکوۃ امام کے پاس جمع ہونی چاہئے۔اجازت سے وہاں خرچ ہو سکتی ہے۔

(الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۱۵ ؁ء جلد نمبر ۱۱۳)
حضور نے ایک شخص کو لکھوایا کہ زکوۃ کے زیادہ پسندیدہ امر یہی ہے کہ آپ وہاں کی انجمن میں جمع کرا کے ترقی اسلام میں بھجوا دیں ۔اگر کوئی شخص اس مقام میں مستحق زکوۃ ہو تو اس کا نام بذریعہ سیکرٹری انجمن مقامی بھیج دیں یہاں سے اس کو زکوۃ کا روپیہ بھیج دیا جائے گا۔اس طرح ایک نظام قائم رہتا ہے۔
(الفضل ۱۳ جون ۱۹۱۵ ؁ء جلد ۲ نمبر ۱۵۲)
ایک صاحب کولکھوایا کہ لڑکی زکوۃ دے سکتی ہے۔
(الفضل ۲۷ مئی ۱۹۱۵ ؁ء جلد ۲ نمبر ۱۴۵)
تجارتی اموال پر زکوٰۃ
زکوۃ ۔۔۔۔ہر امیر پر واجب ہے ۔ہر شخص جو کوئی روپیہ اپنے پاس جمع کرتا ہے یا جانور تجارت کے لئے پالتا ہے اس پر ایک رقم مقرر ہے۔اسی طرح ہر کھیتی کی پیداوار پر ایک رقم مقرر ہے۔کھیتی کی پیداوار پر دسواں حصہ اور تجارتی اموال پر اندازاً اڑھائی فیصد۔
یہ2 1/2 فیصد صرف نفع پر نہیں دیا جاتا بلکہ رأس المال اور نفع سب پر دیا جاتا ہے۔اس میں حکمت یہ ہے کہ اسلام اس ذریعہ سے روپیہ جمع کرنے کو روکنا چاہتا ہے۔
زمین کے لئے دسواں حصہ اور تجارتی مال کے اوپر اڑھائی فیصدی میں جو فرق ہے بظاہر غیر معقول نظر آتا ہے مگر درحقیقت اس میں بڑی بھاری حکمت ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ زمین کی پیداوار پر ٹیکس دیا جاتا ہے اور تجارتی مال میں رأس المال پر بھی ٹیکس ہوتا ہے ۔چونکہ زمین کے رأس المال پر ٹیکس نہیں لگا اس لئے پیداوار پر دسواں حصہ لیا گیا ۔اور تجارتی مال میں چونکہ رأس المال پر بھی ٹیکس لگ گیا اس لئے صرف اڑھائی فیصدی نسبت رکھی گئی ۔
(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۴۵۶)
مصارف زکوٰۃ
زکوۃ کے متعلق ایک دوست کو حضورنے لکھوایا :۔
زکوۃ صرف اس مال پر ہوتی ہے جس پر ایک سال گزر جاوے۔آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک سال نہیں گزرا اور نہ اس وقت تک گزرے گا جب تک آپ اس روپے کو دوسروں کے حوالے کر دیں گے۔اس لئے اس پر زکوۃ نہیں ۔
زیور کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر وہ پہنا جاتا ہے تو جائز ہے کہ اس کی زکوۃ نہ دی جاوے لیکن اگر وہ عام طور پر رکھا رہتا ہے صرف کسی خاص تقریب پر پہنا جاتا ہے تو اس پر زکوۃ ہے۔جس کے پاس مال نہ ہو وہ اس زیور میں سے زکوۃ ادا کرے۔یا کبھی کبھی غریبوں کو بھی استعمال کے لئے دے دیا کرے یہ بھی اس کی زکوۃ ہوتی ہے۔
(الفضل ۲۹ مئی ۱۹۲۲ ؁ء جلد ۹ نمبر ۹۳)
مصارف زکوۃ
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ۔۔۔۔ الآیۃ (توبہ رکوع ۸)
یعنی زکوۃ کے خرچ کرنے کی مندرجہ ذیل آٹھ مدّات ہیں ۔
۱:۔ فقراء
۲:۔ مساکین
۳:۔ زکوۃ کے کام پر مامور عملہ
۴:۔مؤلفۃالقلوب یعنی جن لوگوں کی تالیف قلب مدنظر ہو۔
۵:۔ فی الرقاب یعنی جو غلام ہوں یا مصائب میں پھنسے ہوئے ہوں ان کی گلو خلاصی کرانے میں
۶:۔ غارمین۔یعنی وہ لوگ جو اپنے کسی قصور کے بغیر مالی ابتلاء میں پھنس گئے ہوں۔
۷:۔ فی سبیل اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے یا اس کی رضا کے کاموںمیں۔
۸:۔ ابن السبیل یعنی مسافر
زکوۃ کا پہلا مصرف فقراء ہیں یعنی وہ لوگ جو کلی طور پر یا جزوی طور پر اپنا گزارہ چلانے کے لئے دوسروں کی مدد کے محتاج ہیں ۔مثلا اپاہج ہیں ،معذور ہیں ،یتامیٰ اور بیوگان ہیں ۔ایسے تمام لوگوں کی ذمہ داری قوم پر ہوتی ہے۔اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو قوم ذلیل ہو جاتی ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے ایسا حکم دے دیا جس سے دائمی طور پر قابل امداد لوگوں کی امداد ہوتی رہے اور قوم اور ملک میں ضعف پیدا نہ ہو۔
قرآنی آیت میں فقراء کا لفظ اللہ تعالیٰ نے پہلے رکھا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر حالت میں ا س کو تمام دوسرے اخراجات پر ترجیح دی جائے گی۔بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ عام حالات میں اس کو ترجیح دی جائے گی ورنہ ایسے حالات بھی آسکتے ہیں جبکہ حکومت کو خود اپنی ذات میں خطرہ ہو ۔ایسے وقت میں افراد خواہ کتنے ہی غریب ہوں انہیں ملت کے لئے قربانی کی دعوت دی جائے گی۔
رسول کریم ﷺ جہاد کے لئے غریبوں اور امیروں سب کو بلاتے تھے اور انہیں دیا کچھ نہیںجا تا تھا۔پس معلوم ہو ا کہ اگر قوم و ملک کی آزادی خطرے میں ہو تو اس وقت غربا ء کو بھی قربانی کے لئے بلایا جا سکتا ہے۔پس یہ ترتیب جو قرآنی آیت میں فقراء کو نمبر اول پر رکھ کر قائم کی گئی ہے فرض نہیں مرجّح ہے۔
آیت میں فقراء کے بعد مساکین کا لفظ ہے ۔لغت میں مسکین کے معنی بھی درحقیقت فقیر ہی کے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ مسکین ساکن فقیر کو کہتے ہیں ۔آنحضرت ﷺ نے ساکن فقیر کے یہ معنی کیے ہیں کہ وہ جو اپنے گھر میں بیٹھ جائے اور سوال کے ذریعے کسی کو اپنی غربت کا پتہ نہ لگنے دے۔یعنی صرف اس کے حالات سے علم ہو کہ وہ قابل امداد ہے۔
باوجود اس کے فقیر اور مسکین کے الفاظ ایک ہی قسم کی غربت پر دلالت کرتے ہیں انہیں الگ الگ بیان کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ صرف نادار لوگوں کا فکر نہ کرے بلکہ ایسے لوگوں کی بھی جستجو کرے جو نادار ہیں لیکن اپنی ناداری لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے اور تلاش کر کے ان کی مدد کرے۔
تیسری مد خرچ کی والعاملین علیھا کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے یعنی جولوگ زکوۃ کا انتظام کرنے پر مقرر ہوںان کی تنخواہیں وغیرہ بھی اس سے ادا کی جائیں۔درحقیقت والعاملین علیھا کے الفاظ میں وسعت ہے۔ملکی فوج بھی عاملین کی ذیل میں آجاتی ہے کیونکہ اگر فوج نہ ہوگی تو ملک کا امن برقرار نہ رہ سکے گا۔نہ تجارت ہو سکے گی نہ زمینداری۔اور اگر تجارت و زمینداری نہ ہو گی تو زکوۃ کہاں سے آئے گی۔پس زکوۃ کے جمع ہونے میں فوج کا بھی بڑا دخل ہے۔بہرحال زکوۃ کے نظم ونسق کے کارکن اول درجہ پر عاملین کی ذیل میں آتے ہیں۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ الکافرون صفحہ ۴۳)
مؤلفۃالقلوب
مؤلفۃالقلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل اسلام یا اسلامی حکومت کی طرف مائل ہو چکے ہوںلیکن کفار کے ملک میں ہونے کی وجہ سے اپنے اسلام یا اپنی ہمدردی کو پوری طرح ظاہر نہ کرسکتے ہوںان کو اسلامی ملک میں لانے یا ان کی دلی حالت کو قائم رکھنے میں مدد دینے کے لئے بھی زکوۃ کا روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے یا ایسے لوگ جن کے دل اسلام کی صداقت کے قائل ہو چکے ہیں لیکن اگر وہ اسلام کو ظاہر کر دیں تو غیر مما لک میں ان کی ملازمتیں خطرے میں پڑجاتی ہیںاور گزارے کی صورتیں ختم ہو جاتی ہیںان کی بھی مدد کی جاسکتی ہے۔
مؤلفۃالقلوب سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ کسی کو روپیہ دے کر اسلام کی طرف مائل کیا جائے کیونکہ اسلام روپیہ دے کر لوگوں کو مسلمان بنانے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔اس کی ذاتی خوبیاں ہی اس کے پھیلانے کے لئے کافی ہیں۔
پانچویں مدّ فی الرقاب بیان کی گئی ہے یعنی غلاموں کے آزاد کرانے میں بھی زکوۃ کا روپیہ خرچ کیا جاسکتا ہے۔ابتدائے اسلام میں عرب میں غلامی کا رواج تھا اس لئے ان کے آزاد کروانے کا حکم تھا کیونکہ اسلام بیع و شراء والی غلامی کو مطلقاً حرام کرتا ہے لیکن اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اگر کوئی جابر قوم ظالمانہ طور پر کسی کمزور قوم کو روند ڈالے اور ان کے ملک پر قبضہ کر لے اور ان کو غلام بنا لے تو کمزور قوم کی مدد کی جائے اور ان کو ظالموں کے ہاتھوں سے آزاد کرایا جائے ۔اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کا قرض ادا نہ کر سکنے کی صورت میںمصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی زکوۃ کے مال سے گلو خلاصی کرائی جائے ۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ الکافرون صفحہ ۴۴)
فرمایا :۔ تعجب ہے کہ ہماری انجمن میں زکوۃ کا بھی ایک بجٹ تیار ہوتا ہے۔زکوۃ کا مال جمع کرنے کے لئے نہیں وہ تو خرچ کرنے کے لئے ہے اور اس کے مصارف اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں بتا دئے ہیں۔
(الفضل ۲۲جون ۱۹۱۴ ؁ء جلد ۲ نمبر ۳)
دوسرا حکم زکوۃ کا ہے ۔اگر کسی کے پاس ۵۲ تولے چاندی یا ۴۰ روپے سال بھر جمع رہیں تو ان پر ایک روپیہ زکوۃ دے جو مسکینوں ،یتیموں اور غریبوں کے لئے ضروری ہے اور جہاں نماز کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں زکوۃ کے حکم سے بندوں کا حق ادا کرنے کی تاکید ہے ۔خدا تعالیٰ خود بھی براہ راست اپنے بندوں کو سب کچھ دے سکتا ہے لیکن اس نے آپ دینے کی بجائے بندوں کے ذریعہ دینا چاہاہے تاکہ دینے والے بھی ثواب اور اجر کے مستحق ہوں۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۳۴)
اگر کسی کے پاس ۵۲ تولے چاندی یا ۴۰ روپے سال بھرتک جمع رہیں تو ان پر ایک روپیہ زکوۃ دے۔
(الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۷ ؁ء جلد ۵ نمبر ۳۴)
رؤیت ھلال
اس دن مطلع ابر آلود تھا اس لئے چاند دکھا ئی نہ دیا ۔دوسرے دن ہائی سکول کے ایک لڑکے اور دو مستورات نے شہادت دی کہ ہم نے چاند دیکھا ہے لیکن شہادت میں اختلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہ سمجھی گئی ۔
حیدر آباد دکن سے بھی چاند دیکھنے کی تار آئی تھی لیکن اس پر بھی روزہ افطار کرنے کا فتویٰ دینا مناسب نہ سمجھا گیا۔
(الفضل ۲۴۔۲۱ جولائی ۱۹۱۷ ؁ء نمبر ۶۔۵)
ھلال عید بوجہ غبار جمعرات کو دکھائی نہ دیا لیکن بعض شہادتوں کی وجہ سے عید جمعہ کے روز کی گئی۔
(الفضل ۱۷ اگست ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۲۴)
سوال: رمضان کا روزہ پیر سے شروع ہے ۔ایک شخص نے اس خیال سے روزہ نہیں رکھا کہ چاند اتوار کو ابر کے باعث نظر نہیں آیا؟
جواب: اس کے عوض رمضان کے بعد رکھ لیوے۔
(الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۱۶ ؁ء نمبر۴)
رؤیت ھلال
محمد طاہر صاحب سیکرٹری جماعت احمدیہ ہا ڑانگ کے سوالوں کے جوابات جو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمائے۔
سوال: کیا اس ملک میں جہاں عموما ً چاند دکھا ئی نہیں دیتا روزہ اہل فلک کے حساب کے مطابق رکھا جا سکتا ہے؟
مثلاً سماٹرا و جاوا میں عام طور پر لوگ اہل فلک کے حساب کے مطابق روزہ رکھتے ہیں کیونکہ وہاں پہاڑ اور بادل کی وجہ سے عموماً چاند دکھا ئی نہیں دیتا ۔اور اس ملک میں جہاں پر چھ مہینہ دن اور چھ مہینہ رات ہوتے ہیں جیسا north poleمیں کس طرح روزہ رکھا جاتا ہے ۔اگر وہاں بھی روزہ رکھا جا سکتا ہے تو سحری اور افطار کا کیا حساب ہوگا؟
جواب: جہاں چاند نکلتا ہے وہاں یہ حساب ہوگا کہ چاند دیکھنے پر روزہ اور عید ہو ۔اگر ۲۹ دن کے بعد چاند نکلتا ہے اور اگر تیس دن ہو جائیں تو پھر بغیر دیکھے حساب پر روزہ رکھنا یا عید کرنا اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں۔
۲: جہاں چاند نہیں نکلتا وہاں روزہ ۱۲ گھنٹے کا دن فرض کر کے ہوگا۔
رؤیت ھلال
چونکہ بیرونجات سے یہ خبریں پہنچی ہیںکہ پہلا روزہ ہفتہ کاہے بلکہ ایک دوست جو الٰہ آباد کے علاقے سے آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ وہاں میں نے خود چاند دیکھا ہے اور لوگوں نے دیکھ کر ہفتہ کا روزہ رکھا ۔اس لئے حضور نے پسند فرمایا کہ جمعرات کا دن بیسویں تاریخ قرار دے کر اسی روز اعتکاف بیٹھ جاویں۔علاقہ نظام (حیدر آباد دکن ) میں تو جمعہ کے روز پہلا روزہ ہوا ۔
(الفضل ۱۶ اگست ۱۹۱۴ ؁ء نمبر ۲۶)
ماہ رمضان کی فضیلت۔مسافر کون؟
یہ زمانہ روحانی ترقیات کا ہے اور روحانی ترقیات میں روزے ضروری ہیںاس لئے ان کو مت چھوڑو ۔دعاؤں کے ذریعہ قرب تلاش کرو۔ہاں جو بیمار ہیں جن کو عرف میں بیمار کہتے ہیں اور جو سفر میں ہوں ان کے لئے بھی روزے معاف نہیں ۔وہ دوسرے ایام میں رکھیں ۔اگر تندرست سے تندرست شخص بھی طبیب کے پاس جائے تو وہ کوئی نہ کوئی مرض تلاش کرکے بتائے گا۔ایسا مرض مرض نہیں بلکہ عرف میں جس کو مرض کہتے ہیں وہ مرض ہوتا ہے اور اسی طرح سفر بھی وہ جو اتفاقی طور پر پیش آئے۔لیکن جو شخص تاجر ہے یا جو ملازم ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ دورہ کرے یہ سفر نہیں ۔
سفر اتفاقی سفر کو کہتے ہیں جس کو مستقل سفر پیش رہے وہ مسافر نہیں جیسے پھیر ی والا۔زمیندار کہتے ہیں کہ ہمیں کام سخت کرنا پڑتا ہے ہم نہیں روزہ رکھ سکتے ۔سو ان کو معلوم ہو کہ ان کا جو کام ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے لئے جسمانی تکلیف کم ہو گئی ہے ۔اس سخت کام کے باعث ان کے پٹھوں کی حس کم ہو گئی ہے ۔تم نے دیکھا ہو گا کہ ایک دماغی کام کرنے والا اگر آپریشن کرائے تو اس کے لئے کلورافارم کی ضرورت ہوتی ہے اور زمیندار کہہ دیتا ہے کہ کلورافارم کی ضرورت نہیں۔وجہ یہ ہے کہ دماغی کام کرنے والے کی حس تیز ہے اور اس کی کمزور۔پس دماغی کام کرنے والے جو ہیں وہ اس محنت کو برداشت نہیں کر سکتے اس لئے دھوپ سے بچ کر کام کرتے ہیں اور زمینداروں کو جسمانی کام کرنا پڑتا ہے اس لئے اگر وہ روزہ رکھیں تو ان کی سختی پسند حالت کے باعث ان کے لئے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔پڑھنے والا پڑھ کر کمزورہو گیا ہے اور زمیندار کو مضبوط بنایا گیا ہے اس لئے اس قدرت کے سامان کے ماتحت زمینداروں کے لئے روزہ کچھ مشکل نہیں
(الفضل۔۔۔۔۔۱۹۲۰ ؁ئ)
سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روزوں کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔
ادھر الفضل میں میرا اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو جلسہ سالانہ پر آئیں وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیںمگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر کوئی اعتراض نہیں۔
اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتویٰ الفضل میں شائع نہیں ہوا ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا میری روایت سے چھپا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایّام میں میں سفر میں روزہ رکھنے سے منع کیا کرتا تھا۔کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ مرزا یعقوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اور انہوں نے روزہ رکھا ہو ا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلا دیاکہ سفر میں روزہ رکھنا ناجائز ہے۔اس پر اتنی لمبی بحث اور گفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اول ؓ نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے اس لئے آپ ابن عربی ؒ کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کرکے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں۔
اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا ۔اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان مولوی عبد اللہ صاحب سنوری یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیںمگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے۔اس دوران میں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے۔گو مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم ؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اور اور لوگوںکی اس بارہ میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا۔
(الفضل ۴ جنوری ۱۹۳۴ ؁ء نمبر ۸۰)

اسلامی روزہ:۔
وہ علاقے جہاں دن رات چوبیس گھنٹے سے لمبے ہیں وہ وقت کا اندازہ کریں
اسلامی روزہ بھی دوسرے لوگوں کے روزوں سے مختلف ہے۔ہندو اپنے روزوں میں کئی چیزیں کھا بھی لیتے ہیںپھر بھی ان کا روزہ قائم رہتا ہے۔
عیسائیوں کے روزے بھی اسی قسم کے ہیں ۔کسی روزے میں گوشت نہیں کھانا کسی میں خمیری روٹی نہیں کھائی جاتی۔اسلامی روزہ نماز کی طرح انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔چنانچہ تمام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ وہ سال کے مختلف اوقات میں نفلی روزے رکھا کریں مگر رمضان کے مہینہ میںدنیا کے تمام مسلمانوں کو خواہ وہ کسی گوشہ میں رہتے ہوں ایک وقت میں روزے رکھنے کا حکم ہے۔وہ صبح کو پو پھٹنے سے پہلے کھانا کھا تے ہیں اور پھر سارا دن سورج کے ڈوبنے تک نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں ۔سورج ڈوبنے کے بعد صبح تک ان کو کھانے پینے کی اجازت ہوتی ہے ۔ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان دنوں میں جہاں کھانے سے پرہیز کریں وہاں اپنے نفس کو زیادہ سے زیادہ نیکی پر قائم کرنے کی کوشش کریں ۔کیونکہ روزہ انہیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب تم خدا کے لئے حلال چیزوں کو چھوڑ دیتے ہو تو حرام چیزوں کو چھوڑنا تمہارے لئے بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔یہ روزے تمام ایسے ممالک میں جہاں دن رات چوبیس گھنٹے سے کم ہے اور جہاں رات اور دن چوبیس گھنٹے کے اندر الگ الگ وقتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اس شکل میں ہیں جو اوپر بیان کی گئی ہے۔لیکن جن ملکوں میں رات اور دن چوبیس گھنٹوں سے لمبے ہو جاتے ہیں ان علاقوں میں رہنے والوں کے لئے صرف وقت کا اندازہ کرنے کا حکم ہے۔
(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۴۵۵)
مسائل رمضان
(بعد از اجازت و نظر ثانی خلیفہ ثانی ؓ)
۱:۔ چاند کے بارہ میں تار خبر معتبر ہے ۔اعتبارکی وہی صورت ہے جو عام معاملات میں ہوتی ہے۔ایک شہر والوں کا چاند دیکھنا دوسروں پر حجت ہے جب تک اختلاف مطالع نہ ہو۔
۲:۔ روزے کے لئے نیت ضروری ہے۔بغیر نیت روزے کا ثواب نہیں۔نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔
ب: ۔ افق مشرق پر سیا ہ دھاری سے سفید دھاری شمالاً جنوباً ظاہر ہونے تک کھانا پینا جائز ہے ۔اگر اپنی طرف سے احتیاط ہو اور بعد میں کوئی کہے کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی تو روزہ ہو جاتا ہے۔
ج:۔ نبی کریم ﷺ کے کھانا کھانے اور نماز فجر میں پچاس آیت پڑھنے تک کا وقفہ ہوتا تھا۔
د:۔ پو پھٹنے کے بعد تک جنبی رہنا منع نہیں۔
۳:۔ اپنی بیوی کے بوسے ،مباشرت بغیر جماع،احتلام،مسواک خشک یا تر،آنکھوں میں دوائی ڈالنے،خوشبو سونگھنے،بلغم حلق میں چلے جانے،گرد و غبار حلق میں پڑ جانے ، کلی کرنے ،بھول کر کھا پی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔سرمہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ دن کو لگانا مکروہ ہے۔
۴:۔ جماع (خواہ بغیر انزال ہو)، کلی کرتے ہوئے پانی اندر چلے جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔عمداً جماع سے ۶۰ روزے یا ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ضروری ہے۔جسے غروب آفتاب کے متعلق غلطی کا علم بعد میں معلوم ہو وہ اس روزہ کو پھر رکھے۔
۵:۔ بیہوشی ،حمل ،ارضاع(دودھ پلانا)،جیلخانہ عذر ایسے ہیں کہ بعد میں لازم ہے۔حاملہ،مرضعہ کو وقت نہ ملے تو فدیہ طعام مسکین دے ۔مسافر دوسرے وقت میں روزہ رکھے ۔سات کوس سفر ہے ۔مگر جس کا فرض منصبی یا پیشہ سفر ہو وہ مسافر نہیں ۔مریض صحت یاب ہو کر روزہ رکھے۔مرض کی تحدید نہیں۔دائم المریض ،شیخ فانی ہر روزہ پر ایک مسکین کو دونوں وقت کھانا کھلائے۔کھانا اپنی حیثیت کو مد نظر رکھ کر مہینے کے خرچ کا اوسط جو ایک دن پر پڑے۔جو کام بطور پیشہ کیے جاتے ہیں ان کے عذر سے روزہ چھوڑنے کا حکم نہیں۔عورت بحالت حیض روزہ نہ رکھے بعد میں قضاکرے۔استحاضہ والی روزہ رکھے۔
۶:۔ روزہ کھولتے وقت یہ دعا پڑھی جاوے۔اللھم لک صمت وعلیٰ رزقک افطرت ۔ذھب الظمأ وابتلت العروق۔
روزہ طاق کھجور سے اور پانی سے کھولنا مستحب ہے۔
(الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۱۴ ؁ء نمبر ۱۸)
کن لوگوں پر روزہ رکھنا فرض ہے
ان ایام میں ہم پر بعض ذمہ واریاں عائد ہوتی ہیں یعنی پو پھٹنے سے لے کر تمام وہ عاقل بالغ جو بیمار نہ ہوں ۔بچے ،کمزور اور بوڑھے نہ ہوں یا پھر حائضہ ،حاملہ یا دودھ پلانے والی عورتیں جو گو بیمار نہ ہوں لیکن روزہ کی برداشت نہ کرسکتی ہوں ۔عام طور پر اکثر عورتوں کو حمل یا دودھ پلانے کی حالت میں غیر معمولی تکلیف کا امکان ہوتا ہے یا پھر مسافر کے سوا باقی سب کے لئے غروب آفتاب تک روزہ رکھنا فرض ہے۔
(الفضل ۳۱۔۳۰؁ نمبر ۸۸)
مریض روزہ نہ رکھے۔فدیہ روزہ
رمضان کے لئے یہ شرط ہے کہ اگر انسان مریض ہو خواہ وہ مرض لاحق ہوا ہو یا ایسی حالت میں ہو جس میں روزہ رکھنا یقینا مریض بنا دے گا۔جیسے حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت یا ایسا بوڑھا شخص جس کے قویٰ میں انحطاط شروع ہو چکا ہو یا پھر اتنا چھوٹا بچہ جس کے قویٰ نشونما پا رہے ہیں تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور ایسے شخص کو اگر آسودگی حاصل ہو تو ایک تو ایک آدمی کا کھانا کسی کو دے دینا چاہئے اور اگر یہ طاقت نہ ہو تو نہ سہی ایسے شخص کی نیت ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے روزہ کے برابر ہے۔اگر مرض عارضی ہو اور بعد میں وہ دور ہو جائے تو خواہ فدیہ دیا ہو یا نہ دیا ہوروزہ بہر حال رکھنا ہوگا۔
فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہوتا بلکہ یہ تو محض اس بات کا بدلہ ہے کہ ان دنوں میں باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس عبادت کو ادا نہیں کر سکتا۔یا اس بات کا شکرانہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عبادت کے کرنے کی توفیق بخشی ہے۔کیونکہ روزہ رکھ کر بھی فدیہ دینا مسنون ہے اور نہ رکھ کر بھی۔روزہ رکھ کر جو فدیہ دیتا ہے وہ زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ روزہ رکھنے کی توفیق پانے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور جو روزہ رکھنے سے معذور ہو وہ اپنے اس عذر کی وجہ سے دیتا ہے ۔آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں ۔عارضی اورمستقل ۔ان دونوں میں فدیہ دینا بھی چاہئے ،پھر جب عذر دور ہو جائے تو روزہ بھی رکھنا چاہئے۔غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دیدے لیکن سال دو سال تین سال بعد جب بھی صحت اجازت دے اسے پھر روزہ رکھنا ہو گا۔سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اور صحت ہونے کے بعد وہ ارادہ ہی کرتا رہاکہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت مستقل طور پر خراب ہوجائے۔باقی جو بھی طاقت رکھتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے ایام میں روزے رکھے۔
(الفضل ۱۰ اگست ۱۹۴۵ ؁ئ)
روزہ رکھنے کی عمر
میں نے دیکھا ہے عام طور پر لوگ ایک پہلو کی طرف لگ جاتے ہیں ۔کئی ہیں جو نمازوں میں سست ہیں اور باقاعدہ وقت پر نمازیں ادا نہیں کرتے۔کئی ہیں جو نماز تو پڑھتے ہیں لیکن باجماعت نماز نہیں پڑھتے یا کم از کم باجماعت نماز ادا کرنے کا ان کو خیال نہیں ہوتا۔لیکن روزوں کے ایام میں وہ روزوں کی ایسی پابندی کریں گے کہ خوہ ڈاکٹر بھی ان کو کہہ دے کہ تمہارے حق میں روزہ اچھا نہیں اور تم خطرے میں پڑجاؤ گے تب بھی وہ روزہ ترک نہیں کر یں گے ۔۔۔حتی کہ۔۔۔بیماری میں روزہ رکھیں گے۔
روزہ رکھنے کی عمر:۔
پھر کئی ہیں جو چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھواتے ہیں حالانکہ ہر ایک فرض اور حکم کے لئے الگ الگ حدیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے۔ہمارے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمرسے شروع ہوجاتا ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ پندرہ یا اٹھارہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے ۔میرے نزدیک روزوں کا حکم پندرہ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہے اور یہی بلوغت کی حد ہے۔
بچوں کو روزہ رکھوانا:۔
میرے نزدیک اس سے پہلے بچوں سے روزے رکھوانا ان کی صحت پر بہت برا اثر ڈالتا ہے کیونکہ وہ زمانہ ان کے لئے ایسا ہوتا ہے جس میں وہ طاقت اور قوت حاصل کر رہے ہوتے ہیں پس اس زمانے میں کہ وہ طاقت اور قوت کے ذخیرہ کو جمع کر رہے ہوتے ہیں اس وقت ان کی طاقت کو دبانا اور بڑھنے نہ دینا ان کے لئے بہت مضر ہے۔
پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔
مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔
تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور ان کی قوت کو بڑھانے کے لئے روزہ رکھنے سے انہیں روکنا چاہئے۔اس کے بعد جب ان کا وہ زمانہ آجائے جب وہ اپنی قوت کو پہنچ جائیں جو پندرہ سال کی عمر کا زمانہ ہے تو پھر ان سے روزے رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ ۔پہلے سال جتنے رکھیں دوسرے سال اس سے کچھ زیادہ اور تیسرے سال اس سے زیادہ رکھوائے جائیں۔اس طرح بتدریج اس وقت ان کو روزہ کا عادی بنایا جائے۔
روزہ نہ رکھنے والے:۔
اس کے مقابل میں میرے نزدیک ایسے لوگ بھی ہیں جو روزہ کو بالکل معمولی حکم تصور کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی وجہ کی بناء پر روزہ ترک کردیتے ہیں بلکہ اس خیال سے بھی کہ ہم بیمار ہو جائیں گے روزہ چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ کوئی عذر نہیں کہ آدمی خیال کرے میں بیمار ہو جاؤں گا۔میں نے تو آج تک کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو یہ کہہ سکے کہ میں بیمار نہیں ہونگا۔پس بیماری کا خیال روزے ترک کرنے کی جائز وجہ نہیں ہو سکتا۔پھر بعض اسی عذر پر روزہ نہیں رکھتے کہ انہیں بہت بھوک لگتی ہے حالانکہ کون نہیں جانتا کہ روزہ رکھنے سے بھوک لگتی ہے ۔جو روزہ رکھے گا اس کو ضرور بھوک لگے گی۔روزہ تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ بھوک لگے اور انسان اس بھوک کو برداشت کرے۔جب روزہ کی یہ غرض ہے تو پھر بھوک کا سوال کیسا ۔
پھر کئی ہیں جو ضعف ہو جانے کے خیال سے روزہ نہیں رکھتے حالانکہ کوئی بھی ایسا آدمی نہیںجس کو روزہ رکھنے سے ضعف نہ ہوتا ہو۔جب وہ کھانا پینا چھوڑے گا تو ضرور ضعف بھی ہو گا اور ایسا آدمی کوئی نہیں ملے گا جو روزہ رکھے اور ضعف نہ ہو۔
(الفضل ۱۱ اپریل ۱۹۲۵ ؁ء نمبر ۱۱۳)
سوال: پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ بیمار رہتے تھے کیا روزہ رکھتے تھے؟
جواب: فرمایا:۔ حضرت صاحب خوب روزہ رکھتے تھے مگر چونکہ آخر میں کمزور زیادہ ہو گئے تھے اور مرض میں بھی زیادتی تھی اس لئے تین سال کے روزے نہیں رکھے۔
(الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۲ ؁ء نمبر ۹۷)
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
مسافر اور بیمار کے لئے روزہ رکھنا ایسا ہی بیہودہ ہے جیسا حائضہ کے لئے روزہ رکھنا۔اور کون نہیں جانتا کہ حائضہ کا روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بے وقوفی اور جہالت ہے اور بعض تو شاید اس بات پر ناراض ہی ہو جائیں کہ دین کا استخفاف کیا جارہا ہے۔بعینہٖ یہی حال بیمار اور مسافر کا ہے۔اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔اسی طرح بوڑھا جس کے قویٰ مضمحل ہو چکے ہیں اور روزہ اسے زندگی کے باقی اشغال سے محروم کر دیتا ہے اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔پھر وہ بچہ جس کے قویٰ نشونما پا رہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کے لئے طاقت کا ذخیرہ جمع کر رہے ہیں اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا۔مگر جس میں طاقت ہے اور جو رمضان کا مخاطب ہے وہ اگر روزہ نہیں رکھتا تو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
(الفضل ۲ فروری ۱۹۳۳ ؁ئ)
سوال: محمد الدین صاحب دیہاتی چٹھی رساں نے روزہ کے متعلق پوچھا کہ میں بوجہ سفر روزہ نہیں رکھ سکتا؟
جواب: فرمایا:۔ جن کی ملازمت سفر کی ہو ان کو روزہ معاف نہیں ہو سکتا ۔اگر بیمار ہو جائے تو اور بات ہے۔
(الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۱۰)
سوال: ایک صاحب نے لکھا کہ مجھے صبح سات بجے سے شام کے چار بجے تک پہاڑوں پر دورہ کرنا پڑتاہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے اس لئے کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ۔دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے کیا ملازمت چھوڑ دوں؟
جواب: حضور نے لکھوایا کہ روزہ رکھنا چاہئے۔آپ اتنے دنوں زیادہ خرچ برداشت کر کے سواری کا کوئی انتظام کر لیں۔روزہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔
(الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲ ؁ء نمبر ۹۱)
جو سمجھتا ہے کہ میںبیمار ہوں اور پھر روزہ رکھے وہ گناہ کرتا ہے اور خود کشی کا مرتکب ہوتا ہے۔اسی طرح مسافر کو بھی روزہ نہیں رکھنا چاہئے ۔مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عصر کے وقت جب افطاری میں بہت تھوڑا وقت باقی تھا مسافروں کے روزے افطار کروادیے تھے ۔ہاں نفلی روزہ مسافر بھی رکھ سکتا ہے اور رمضان کا روزہ بھی ۔اگر مسافر رکھے تو یہ اس کا نفلی روزہ سمجھا جائے گا ۔مگر یہ حرکت پسندیدہ نہیں ۔خدا تعالیٰ نے جو رخصت دی ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
(الفضل نمبر ۸۸ جلد ۱۸ ۔۳۱۔۱۹۳۰)
ایک خط کے جواب میں لکھوایا ۔جو شخص روزہ رکھنے سے بیمار ہو جاتا ہے خواہ وہ پہلے بیمار نہ ہو اس کے لئے روزہ معاف ہے ۔اگر اس کی حالت ہمیشہ ایسی رہتی ہے تو کبھی اس پر روزہ واجب نہ ہوگا اور اگر کسی موسم میں ایسی حالت ہو تو دوسرے وقت رکھ لے۔ہاں تقویٰ سے کام لے کر خود سوچ لے کہ صرف عذر نہ ہو بلکہ حقیقی بیماری ہو۔
(الفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۲ ؁ء نمبر ۹۱)
بیمار اگر کہتا ہے کہ میں روزہ رکھ سکتا ہوں اور رکھتا ہے تو برا کرتا ہے ۔اسی طرح جو شخص سفر کرتا ہے اور روزہ رکھتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعام کو ردّ کرتاہے۔
سفر کے متعلق میرا عقیدہ اور خیال یہی ہے ممکن ہے بعض فقہاء کو اس سے اختلاف ہو کہ جو سفر سحری کے بعد شروع ہو کر شام کو ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں۔سفر میں روزہ رکھنے سے شریعت روکتی ہے مگر روزہ میں سفر کرنے سے نہیں روکتی۔پس جو سفر روزہ رکھنے کے بعد سے شروع ہو کر افطاری سے پہلے ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں ۔روزہ میں سفر ہے سفر میں روزہ نہیں۔
(الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۴۲ ؁ء نمبر ۲۲۴)
جن بچوں کے سینے چھوٹے اور کمزور ہوں ان کو روزوں پر مجبور کرنا بلکہ ان کو روزے رکھنے دینا بھی درست نہیں۔ہاں پندرہ سال کی عمر سے ان کو عادت ڈلوانی اور مشق شروع کروانی چاہئے خواہ ان کے قویٰ شہوانی بارہ سال کی عمر سے ہی بلوغت کو پہنچ گئے ہوں۔
(الفضل ۱۴ اپریل ۱۹۲۵ ؁ئ)
نزلہ میں روزہ
میرے نزدیک نزلہ خواہ کتنا ہی خفیف کیوں نہ ہوایسی بیماری ہے جس کا روزہ سے تعلق ہے اور ایسے لوگوں کے لئے جنہیں نزلہ ہوتا ہے روزے رکھنے بہت مضر اور بڑے نقصان کا موجب ہوتے ہیں۔نزلہ کے نتیجہ میں انسان کو پیاس زیادہ لگتی ہے ۔اب روزے کے ساتھ جب وہ پیاس کو دبائے گا تو وہ اور بھی زیادہ بڑھے گی اور یہ نزلہ کے لئے بہت مضر ہے۔
پس بسا اوقات بعض بیماریاں دیکھنے میں تو معمولی ہونگی لیکن روزے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کا نقصان بہت بڑا ہو گا۔اس لئے ایسی بیماری میں روزہ نہ رکھنا چاہئے۔
(الفضل ۱۱ اپریل ۱۹۳۵ ؁ء ۔ الفضل ۱۱ اپریل ۱۹۲۵ ؁ء نمبر ۱۱۳ جلد ۱۲)
سوال: کیا ذیابیطس کا مریض روزہ رکھ سکتا ہے؟
جواب: بیماری میں روزہ جائز نہیں اور ذیابیطس کے لئے تو بہت ہی مضر ہے۔
(الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۱۵ ؁ء نمبر ۱۰ جلد ۳)
سوال: گزشتہ سال روزے رکھنے کے نتیجہ میں مجھے کچھ حرارت رہنے کی تکلیف ہو گئی تھی ۔ڈاکٹروں نے اسے روزے کی خشکی کی وجہ قرار دیا کہ جگر کو گرمی پہنچی ہے۔گرمیوں میں تکلیف زیادہ ہوگئی اگرچہ اب بھی پیشاب زردی مائل آتا ہے۔آنکھوں میں جلن کی سی کیفیت رہتی ہے۔ان حالات میں اس دفعہ روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟
جواب: نہ رکھیں اور فدیہ دے دیں۔
(فائل مسائل دینی 32-A/ 21.2.60)
امتحان دینے والے ،مرضعہ، حاملہ اور بچے روزہ نہ رکھیں
قرآن کریم میں صرف بیمار اور مسافر کے لئے روزہ نہ رکھنا جائز قرار دیا ہے۔دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ کے لئے کوئی ایسا حکم نہیں مگر رسول اللہ ﷺ نے انہیں بیمار کی حد میں رکھا ہے۔اسی طرح وہ بچے بھی بیمار کی حد میں ہیں جن کے اجسام ابھی نشونما پا رہے ہیںخصوصاً وہ جو امتحان کی تیاری میں مصروف ہوں ۔ان دنوں ان کے دماغ پر اس قدر بوجھ ہوتا ہے کہ بعض پاگل ہو جاتے ہیں ۔کئی ایک کی صحت خراب ہو جاتی ہے۔پس اس کا کیا فائدہ ہے کہ ایک بار روزہ رکھ لیا اور پھر ہمیشہ کے لئے محروم ہو گئے۔
(الفضل ۳۱۔۱۹۳۰ نمبر ۸۸ جلد ۱۸)
بیماروں کے لئے روزہ معاف ہے ۔یا عورت دودھ پلاتی ہو اور روزہ سے اس کے دودھ کو نقصان ہوتا ہوتو شریعت نے اس کے لئے آسانی رکھی ہے۔
(الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۱۴ ؁ء نمبر ۳۳)
بعض بیماریوں میں روزہ رکھا جا سکتا ہے
بعض بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں انسان سارے کام کر لیتا ہے مثلاً پرانی بیماریاں ہیں ان میں انسان سب کام کرتا رہتا ہے۔ایسا بیمار بیمار نہیں سمجھا جاتا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک دفعہ یہ فتویٰ پوچھا گیا کہ کیا اس ملازم کا سفر سفر شمار کیا جائے گا جو ملازم ہونے کی وجہ سے سفر کرتا ہے۔
آپ نے فرمایا:۔ اس کا سفر سفر نہیں گنا جا سکتا ۔اس کا سفر تو اس کی ملازمت کا حصہ ہے۔اسی طرح بعض ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جن میں انسان سارے کام کرتا رہتا ہے۔
فوجیوں میں بھی ایسے ہوتے ہیں جو ان بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیںمگر وہ سارے کام کرتے رہتے ہیں ۔چند دن پیچش ہو جاتی ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کا م کرنا چھوڑ نہیں دیتے۔پس اگر دوسرے کاموں کے لئے وقت نکل آتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایسا مریض روزے نہ رکھ سکے ۔اس قسم کے بہا نے محض اس وجہ سے ہوتے ہیںکہ ایسے لوگ در اصل روزہ رکھنے کے خلاف ہوتے ہیں ۔بے شک یہ قرآنی حکم ہے کہ سفر کی حالت میں اور اسی طرح بیماری کی حالت میں روزے نہیں رکھنے چاہئیںاور ہم اس پر زور دیتے ہیں تا قرآنی حکم کی ہتک نہ ہو مگر اس بہانہ سے فائدہ اٹھا کر جو لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں اور پھر وہ روزہ نہیں رکھتے یا ان سے کچھ روزے رہ گئے ہوں اور وہ کوشش کرتے تو انہیں پورا کر سکتے تھے لیکن وہ ان کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ ایسے ہی گنہگار ہیں جس طرح وہ شخص گنہگار ہے جو بلا عذر رمضان کے روزے نہیں رکھتا ۔اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ جتنے روزے اس نے کسی غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے نہیں رکھے وہ انہیں بعد میں پورا کرے یا اگر اس کے کچھ روزے غفلت یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے رہ پانچ چھ سال سے رہ گئے ہوں تو وہ انہیں بھی پورا کرے تا عذاب سے بچ جائے۔
یہ کوئی بڑی قربانی نہیں بلوغت کے زمانے کے بعدکے جتنے روزے رہ گئے ہوں وہ بڑھاپے سے پہلے پہلے پورے کرنے چاہئیں ۔محض اس قرضہ کے زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا اور نہ پچھلے روزے معاف ہو جاتے ہیں ۔اگر بیماری کی سہولت سے فائدہ اٹھایا تھا تو اسے چاہئے کہ اپنے چھوڑے ہوئے روزے پورے کرے۔سارا سال ہی اس کی یہ حالت نہیں رہتی کہ وہ روزے نہ رکھ سکے۔کوئی نہ کوئی زمانہ ایسا آتا ہے جب وہ روزے رکھ سکتا ہے ۔بڑھاپے میں بھی ایک زمانہ ایسا آتا ہے جب انسان روزے رکھ سکتا ہے۔اگر وہ گرمیوں میں روزے نہیں رکھ سکتا تو سردیوں میں رکھ لے۔
بعض فقہاء کا یہ خیال ہے کہ پچھلے سال کے چھوٹے ہوئے روزے دوسرے سال نہیں رکھ سکتے۔لیکن میرے نزدیک اگر کوئی لاعلمی کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکا تو لاعلمی معاف ہو سکتی ہے۔ہاں اگر اس نے دیدہ و دانستہ روزے نہ رکھے تو پھر اس پر قضاء نہیں ۔لیکن اگر بھول کر روزے نہیں رکھے یا اجتہادی غلطی کی بناء پر اس نے روزے نہیں رکھے تو میرے نزدیک وہ دوبارہ رکھ سکتا ہے۔
(الفضل ۸ مارچ ۱۹۶۱ ؁ئ)
روزہ کس حالت میں چھوڑا جا سکتا ہے
روزہ ایسی حالت میں ہی ترک کیا جاسکتا ہے کہ آدمی بیمار ہو اور وہ بیماری بھی اس قسم کی ہو کہ اس میں روزہ رکھنا مضر ہوکیونکہ شریعت کے احکام بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے ہوتے ہیںمثلاً ایک بیمار کے لئے اجازت ہے کہ وہ تیمم کرے لیکن کسی کی بیماری اس قسم کی ہو کہ وضو کرنا اسے کوئی نقصان نہ دیتا ہوبلکہ اگر اس بیماری میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرے تو اسے فائدہ ہوتا ہوتو باوجود بیمار ہونے کے اس کے لئے تیمم جائز نہیں ہوگا۔اسی طرح وہ بیماری کہ جس پر روزہ کا کوئی اثر نہیں پڑتااس کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز نہیں ہوگا۔
بیماری سے مراد وہی بیماری ہوگی جس کا روزہ سے تعلق بھی ہو اور ایسی حالت میں خواہ بیماری کتنی خفیف کیوں نہ ہواس میں مبتلا روزہ ترک کر سکتا ہے کیونکہ جب روزہ کا مضر اثر اس بیماری پر پڑتا ہے تو وہ بڑھ جائے گی۔
پس جس مرض پر کہ روزے کا برا اثر پڑتا ہو خواہ وہ نزلہ ہی ہو ایسے مرض میں خواہ وہ خفیف ہی ہو روزہ رکھنا جائز نہیں اور اگر کوئی روزہ رکھے تو اس کا روزہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے بدلے اس کو پھر روزہ رکھنا پڑے گا۔
(الفضل ۱۱ اپریل ۱۹۲۵ ؁ء نمبر ۱۱۳)
قیام رمضان
الف: ۔ قیام رمضان جسے عوام الناس تراویح کہتے ہیں کوئی الگ نما زنہیں وہی تہجد کی نما زہے جسے متقی مسلمان بارہ مہینے پڑھتے ہیں ہاں رمضان میں زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔اول طریق یہ ہے کہ تہجد اپنے اپنے گھروں میں پڑھیں۔
ب:۔ لیکن عام طور پر یہی مناسب ہے کہ اگر کوئی حافظ میسر ہوتو سحری کھانے سے پہلے پچھلی رات باجماعت ادا کرلیں۔کیونکہ بعض لوگ اکیلے اکیلے پڑھنے میں سستی کرتے ہیں ۔
ج:۔ اگر پچھلی رات نہیں پڑھی جا سکتی تو عشاء کی نما زکے بعد نما ز پڑھ لیا کریں۔حضرت عمر ؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں صحابہ ؓ کو ایک امام کے پیچھے جمع کردیا ۔
د:۔ مگر آج کل جو رسم کے طور پر تراویح پڑھی جاتی ہے اس سے حتی الوسع احتراز لازم ہے۔
ہ:۔ ۱۱ رکعت مع وتر
و:۔ تراویح اور تہجد ایک ہی چیز ہے بعض لوگ جو ان کو دو الگ عبادتیں خیال کر کے دونوں کو ادا کرتے ہیں یہ غلطی ہے۔
(الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۱۴ ؁ء نمبر ۱۸)
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
رمضان شریف میں تراویح کے لئے کسی غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق
دریافت کیا گیا تو حضور نے فرمایا:۔
میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا ۔اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہاحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائز قرار دیا ہے۔
فرمایا :۔ جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اور اس کے لئے یہ انتظام بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتا رہے بلکہ چار آدمی دو دو رکعت کے لئے سنیں۔اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی۔
عرض کیا گیا کیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟فرمایا:۔ اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ہے جیسے کوئی کھڑا ہوا نما زنہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اور بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے۔یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اور وہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے۔یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے۔
(الفضل ۲۱ فروری ۱۹۳۰ ؁ء نمبر ۶۶)
بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا
سوال: سحری کے وقت ایک شخص کی آنکھ نہیں کھلی اس روز اس نے روزہ ببا عث سحری نہ کھانے کے نہیں رکھا ۔اس کے متعلق کیا فتویٰ ہے؟
جواب: اگرآٹھ پہر روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس کے عوض رمضان کے بعد رکھ لیوے۔
(الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۱۶ ؁ئ)
جسے ماہ رمضان کا علم نہ ہو سکا
سوال: (امریکہ کے نومسلم بشیر الدین صاحب کا خط)
’’اس وقت میں روزے رکھ رہا ہوںگو مجھے صحیح علم نہیں کہ رمضان کس تاریخ کو شروع ہوا۔میں نے روزے گزشتہ ماہ کی ۲۱ تاریخ کو شروع کیے تھے اور اس ماہ کی ۲۰ تاریخ تک رکھوں گا۔؟‘‘
جواب: آپکا خط ملا ۔اس بات کو معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ آپ روزے رکھ رہے ہیں ۔رمضان المبارک ۵ مئی سے ۲ جون تک رہا اور ۳ جون کو عید ہوئی۔لیکن جس شخص کو علم نہ ہو وہ جس وقت بھی روزے رکھے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی مقبول ہیں۔کیونکہ ہمارا خدا ہمارے علم کے مطابق ہم سے معاملہ کرتا ہے۔اگر وہ اپنے علم کے مطابق ہم سے معاملہ کرے تو دنیا کا کوئی انسان بھی نجات نہ پاتا۔
(الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۵۴ ؁ء )
اعتکاف
اعتکاف کے لئے بیسویں کی صبح کو بیٹھتے ہیں کبھی دس دن ہو جاتے ہیں اور کبھی گیارہ۔۔۔۔۔ایک دفعہ رسول کریم ﷺدوسروں کو قبولیت دعا کا وقت بتانے کے لئے باہر نکلے تھے مگر اس وقت دو آدمی آپس میں لڑتے ہوئے آپ نے دیکھے تو فرمایا کہ تم کو دیکھ کر مجھے وہ وقت بھول گیا ہے مگر اتنا فرما دیا کہ ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں یہ وقت ہے۔
صوفیاء نے لکھا ہے کہ ان راتوں کے علاوہ بھی یہ وقت آتا ہے مگر رمضان کی آخری راتوں میں قبولیت دعا کا خاص وقت ہوتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے تجربہ کی بناء پر فرمایا ہے کہ ستائیسویں کی رات کو یہ وقت ہوتا ہے۔
(الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۱۴ ؁ء نمبر ۶۴)
سوال: کیا گھر میں اعتکاف ہو سکتا ہے ؟
جواب: مسجد کے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔
(فائل مسائل دینی 32-A DP1153/22.5.54)
فدیہ روزہ
سوال: میری بیوی دائم المریض ہے روزہ نہیں رکھ سکتی ۔اس کا فدیہ یہیں کسی کو کھلا دیں یا اسکی قیمت قادیان بھیج دیں ؟
جواب: فرمایا:۔ خواہ یہاں بھیج دیں خوہ وہیں مستحق مساکین کو کھلا دیں جن میں احمدی و غیر احمدی کی کوئی تخصیص نہیں۔
(الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۱۵ ؁ئ)
آپ نے فدیہ دے دیا ٹھیک کیا ۔اگر کسی وقت طاقت روزے کی ہو تو روزہ رکھنا مزید قربانی کہلائے گی فرض نہیں کہلائے گا ۔
اگر روزے کے ساتھ انسان فدیہ کی طاقت رکھتا ہے تو فدیہ بھی ساتھ ساتھ ضرور دے۔
(فائل مسائل دینی 32-A/10.2.58)
صدقہ الفطر
ہر عید کے موقع پر رمضان کے بعد عید کی نماز سے پہلے ہر مو من کے لئے فرض ہے کہ وہ کم از کم ڈھیر سیر گندم یا اور منا سب غلّہ خدا کے لئے غرباء کی امداد کی خاطر دے۔خواہ غریب ہو یا امیر۔غریب اس میں سے دیدے جو اس کو اس دن ملا ہو اور امیر اس میں سے دے جو اس نے پہلے سے کما چھوڑا ہو۔
(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۴۵۶)
صدقہ الفطر
سوال: کیا غیر احمدیوں کو صدقہ فطر نہیں دینا چاہئے خواہ کیسا ہی بے کس اور غریب ہو؟
جواب: دینا چاہئے ۔ہاں اگر جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا کوئی انتظام ہو تو اس میں شامل ہو نا چاہئے۔
(الفضل ۱۹ اگست ۱۹۱۶ ؁ئ)
صدقہ فطر غیروں کو دے سکتے ہیں ،سیّدوں کو نہیں
جہاں تک ہو سکے رمضان سے عملی سبق لینا چاہئے ۔یہاں کے لوگ یہاں صدقہ کر سکتے ہیں اور باہر کے باہر۔یہ شرط نہیں ہے کہ اپنے ہی ہاں دیا جائے ۔غیروں کو بھی دینا چاہئے غیروں کو بلکہ ضرور ہی دینا چاہئے تا خدا کی مخلوق سے ہمدردی عام ہو۔
میرے نزدیک کتے بلیاں اور چوہے بھی مستحق ہیں کہ ان کو بھی کھلانا پلانا چاہئے۔یہ تو صدقہ کے متعلق تھا مگر ایک بات اور بھی یاد رکھو ۔ایک جماعت اور ہے جو صدقہ نہیں کھا سکتی وہ محتاج ہے ،غریب ہے ،نادار ہے،اس کی بھی مدد کی صورت نکالنی چاہئے۔کیونکہ وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں ۔وہ سیدوں کی جماعت ہے۔
رسول کریم ﷺ نے اپنی نسل کو صدقہ سے منع فرمایا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ اب سیدوں کے لئے صدقہ لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ نادار ہیں مگر میرے نزدیک درست نہیں ۔جس بات سے رسول کریم ﷺنے منع فرمایا ہے اس کو جائز کیا جائے۔صدقہ کے علاوہ اور بھی طریق ہو سکتے ہیں جن سے ان کی مدد ہو سکتی ہے اور اس طرح محبت بھی بڑھ سکتی ہے وہ ھدایا کا طریق ہے۔
پس سیدوں کو آنحضرت ﷺسے تعلق نسبی ہے۔اس لئے جہاں میں آپ لوگوں کو صدقات کی طرف متوجہ کرتا ہوں وہاں یہ بھی بتاتاہوں کہ میں نہیں چاہتا کہ صدقہ کسی فتویٰ سے سیدوں کے لئے جائز کر دیا جائے۔
(الفضل ۲۴۔۲۱ جولائی ۱۹۱۷ ؁ء نمبر ۶،۵)
عیدی
سوال: جمعۃ الوداع میں عیدی کیوں نہیں دی جاتی اور عید پر عیدی کیوں دی جاتی ہے حالانکہ جمعۃ الوداع روزوں کے دنوں میں آخری جمعہ ہے اور سب دنوں سے پاک دن ہے۔اس میں بھی تو لوگ بڑی مستعدی سے نہا دھو کر مسجد میں جمع ہوتے ہیںاور اسی شان سے ہوتے ہیں جس شان سے کے عیدین؟
جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعۃ الوداع لوگوں کا خود ساختہ ہے۔خدا اور رسول نے اس دن کو ئی اہمیت نہیں دی اور عید کو خدا اور رسول نے اہمیت دی ہے اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا :۔ ’’یہ امت کے لئے خوشی کا دن ہے اور کھانے پینے کا دن ہے‘‘ چونکہ کھا نے پینے کا دن ہے اس لئے کھانے پینے کے لئے مسلمان عیدی دیتے ہیں جو خود ایک ایجاد ہے۔رسول کریم ﷺکا عیدی بچوں کو دینا ثابت نہیں۔
(الفضل ۸ جولائی ۱۹۵۱ ؁ئ)
عید کارڈ
عید الفطر کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے نام بھی رنگین عید کارڈ باہر سے آئے۔حضر ت امام نے فرمایا کہ یہ اسراف ہے اور بے ضرورت روپیہ ضائع کیا جاتا ہے۔بہتر ہو کہ لوگ اس کو دین کی تبلیغ میں خرچ کریں ۔ہم نے دیکھا ہے کہ نوجوانوں اور چھوٹے بچوں میں اس کا بہت رواج ہے۔بچے بلکہ بعض ادھیڑ حضرات بڑی بڑی قیمت کے کارڈ خرید کر پھر لفافوں میں بند کر کے دوستوں کو بھیجتے ہیں۔یہ بہت برا دستور ہے۔احباب کو چاہئے کہ اس رسم کو ترک کر دیں اور سب سے پہلے قادیان میں اس پر عمل ہو ۔اگر کوئی دکاندار لائے تو اس سے نہ خریدے جائیں۔لوکل سیکرٹری صاحب کی توجہ درکار ہے کیونکہ یہ فضول خرچی ہے اور اسلام فضول خرچی کو نہایت نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
(الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۱۷ ؁ء نمبر ۲۲)
شوال میں چھ روزے
آنحضرت ﷺ کا یہ طریق تھا کہ شوال کے مہینہ میں عیدکا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے اس طریق کا احیا ء ہماری جماعت کا فرض ہے۔
ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا ۔آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال بعد آپ نے روزے نہیں رکھے۔جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سن لیں اور جو غفلت میں ہوں ہوشیار ہو جائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں چھ روزے رکھیں۔اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کے بھی رکھ سکتے ہیں۔
۱:۔ (الفضل ۸ جون ۱۹۲۲ ؁ئ)
۲:۔( خطبات عیدین صفحہ ۲۱۶)
۳:۔ ( خطبات محمود جلد اوّل صفحہ ۷۱ ایڈیشن اوّل)
عید الاضحی اور عید الفطر میں فرق
اس عید میں اور اس سے پہلی عید میں جو عید الفطر کہلاتی ہے یہ فرق ہے کہ عید الفطر میں بوجہ اس کے کہ رمضان کا تمام مہینہ طاقت رکھنے والے مسلمان روزے رکھتے ہیں رسول کریم ﷺ کی اس عیدکے دن یہ سنت تھی کہ آپ صبح کچھ ناشتہ کر کے عید پڑھنے کے لئے جاتے تھے۔مگر آج کی عید کے دن کا پہلا حصہ نیم روزہ اور پچھلا حصہ قربانی کا ہوتا تھا۔اور آپ کی سنت تھی کہ عید پڑھنے سے پہلے کچھ تناول نہ فرماتے تھے ۔بعد میں جا کر قربانی کے گوشت سے کھاتے تھے۔اس لئے یہ عید اپنے اندر دو نمونے رکھتی ہے کیونکہ اس کا ایک حصہ روزے کا اور دوسرا حصہ کھانے کا ہے۔مگر پہلی عید ایک ہی رنگ رکھتی ہے کہ مہینہ بھر روزے رکھے جاتے ہیںاور اس دن کھایا پیا جاتا ہے۔
(الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۱۹ ؁ء ۔ خطبات عیدین صفحہ ۱۴۸)
حج
فرضیت حج
چوتھا حکم حج کا ہے ۔اگر سفر کرنے کے لئے مال ہو ،راستہ میں کوئی خطرہ نہ ہو ،بال بچوں کی نگرانی اور حفاظت کا سامان ہو سکتا ہو تو زندگی میں ایک دفعہ حج کرنے کا حکم ہے۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۳۵)
۲:۔
اگر خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے تو حج کرے۔ اس کے لئے کئی شرطیں ہیں مثلاً مال ہو ،راستہ میں امن ہو اور اگر عورت ہو تو اس کے ساتھ اس کا خاوند یا بیٹا یا بھتیجا یا ایسا ہی کوئی اور رشتہ دار محرم جانے والا ہو۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۶۴)
حج
اسلام کا ایک رکن حج ہے جو اجتماع قومی کا زبر دست ذریعہ ہے۔دنیا کے کسی مذہب میں حج فرض نہیں لیکن اسلام نے سا ل میں ایک دفعہ تمام صاحب استطاعت لوگوں کو ایک مرکز میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا ہے۔اس سے کئی قسم کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔جب امیر اور غریب ،حاکم اور محکوم،عالم اور جاہل سب ایک ہی جگہ اکٹھے ہو ںگے تو وہ قومی ضروریات پر غور کریں گے۔اپنی کمزوریوں پر نگاہ دوڑائیں گے۔اور ان کو دور کرنے کی کوشش کریں گے ۔اسی طرح حج کے ذریعہ اسلام نے مرکز کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے آگے قوم کی درستی ہوتی ہے اور وہ ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھا سکتی ہے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ الکوثر صفحہ ۴۱۹)
وَأَذِّن فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالاً۔۔۔الآیۃ(الحج:۲۸)
حج کی اصل غرض روحانی طور پر یہ ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو توڑ کر دل سے خدا کا ہو جائے مگر اس غرض کو پورا کرنے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہری حج بھی رکھ دیا اور صاحب استطاعت لوگوں پر یہ فرض قرار دے دیا کہ وہ گھر بار چھوڑکر مکہ مکرمہ میں جائیں اور اس طرح اپنے وطن عزیز و اقرباء کی قر بانی کا سبق سیکھیں ۔کیونکہ اسلام جسم اور روح دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے جس طرح دنیا میں ہر ایک انسان کا ایک مادی جسم ہوتا ہے اور اس جسم میں روح ہوتی ہے اسی طرح مذہب اور روحانیت کے بھی جسم ہوتے ہیں جن کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔مثلاً اسلام نے نماز کی ادائیگی کے لئے بعض خاص حرکات مقرر کی ہو ئی ہیں اب اصل غرض تو نماز کی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو۔اس کی صفات کو وہ اپنے ذہن میں لائے اور ان کے مطا بق وہ اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے۔ان باتوںکو بظاہر ہاتھ باندھنے یا سیدھا کھڑا ہونے یا زمین پر جھک جانے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔مگر چونکہ کوئی روح جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اس لئے خدا تعالیٰ نے جہاں نماز کا حکم دیا وہاں بعض خاص قسم کی حرکات کا بھی حکم دے دیا۔جن مذاہب نے اس حقیقت کو نہیں سمجھااور انہوں نے اپنے پیروؤں کے لئے عبادت کرتے وقت جسم کی حرکات کو ضروری قرار نہیں دیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے ہی غافل ہو گئے ہیںاور اگر ان میںکوئی نماز ہوتی بھی ہے تو ایک تمسخر سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔اسی طرح گو حقیقی حج یہی ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو منقطع کر کے خدا کا ہو جائے۔
(تفسیر کبیر ۔تفسیر سورۃ حج صفحہ ۳۰)
حج ۔ مسائل
سوال: موجودہ گرانی کے وقت صاحب استطاعت حج کرے یا نہ کرے؟
جواب: جو شخص خواہ تنگی مال یا راستہ کی خرابی یا ضعف و بیماری کی وجہ سے حج نہیں کر سکتا اور نیت رکھتا ہے کہ روک دور ہو تو حج کروں وہ ایسا ہی ہے گویا اس نے حج کیا ۔
(الفضل ۴ مئی ۱۹۲۲ ؁ئ)
حج عورت کے لئے تبھی فرض ہے جبکہ محرم ساتھ ہو ۔جن کے محرم ہوں اور وہ حج پر بھی جائیں ان پر فرض ہے ورنہ نہیں۔
(الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۱۴ ؁ء جلد ۱ نمبر ۳۳)
حج بدل
سوال: ڈار فیملی نے خواہش کی ہے اور کہا ہے کہ میں ان کی والدہ مرحومہ کی طرف سے حج بدل کروں۔اور یہ کہ وہ سب اخراجات اس غرض کے لئے دیں گے؟
جواب: حج بدل کے لئے شرط یہ ہے کہ پہلے خود حج کر چکا ہو۔کیا آپ حج کر چکے ہیں ؟اس صورت میں جائز ہے۔
۲:۔
سوال: کیا والدہ مرحومہ کی وصیت کے مطابق ان کی طرف سے حج بدل کرایا جائے یا اسی قدر رقم ان کی طرف سے یا دونوں والدین مرحومین کی طرف سے بطور صدقہ جاریہ کے چندہ وقف جدید میں ادا کر دی جائے؟
جواب: والدہ کی خواہش کو پورا کریں اور حج بدل کرانے کی کوشش کریں مگر حج بدل وہی کر سکتا ہے جس نے پہلے حج کیا ہوا ہو۔
۳:۔
سوال: میری خواہش حج کرنے کی ہے لیکن صحت اور عمر اجازت نہیں دیتی۔میرا بڑا لڑکا کہتا ہے کہ میری جگہ وہ حج پر چلا جائے اس کا خرچ حج کا سب میں ادا کروں۔کیا اس طرح میرا حج بھی ہو جائے گا؟
جواب: جائز ہے۔بیٹا ماں کی طرف سے (حج بدل )کر سکتا ہے۔غیر کے لئے شرط یہ ہے کہ اگر اس نے خود حج کیا ہوا ہو تو پھر وہ حج بدل کر سکتا ہے ورنہ نہیں۔
(فائل مسائل دینی ۔دفتر پرائیویٹ سیکرٹری)
حجر اسود
یہ غلط بات ہے کہ حجر اسود ٹوٹے ستارے کا پتھر ہے۔یہ پادریوں کی بنائی ہوئی بات ہے۔درحقیقت یہ پتھر وہ ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی ۔اس کی یاد میں اس کو بوسہ دیا جاتا ہے مگر وہ بوسہ شرکیہ نہیں ہے۔
چنانچہ حضرت عمر ؓ نے حجر اسود کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا تھا کہ میں اس لئے تجھے بوسہ دیتا ہوں کہ یہ ایک نیک یادگار ہے میں تجھے خدا کا شریک نہیں سمجھتا۔
(فائل مسائل دینی 32-A)
 
Top